FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

ٹی وی سیرئل

(اسکرپٹ اور اسکرین پلے)

 

فہرست مضامین

ماہ پارہ نور

 

حصہ اول

               غیاث الرحمان

 

 

 

 

 Episode 8

 

               سین :1

 

 اندرونی(Interior )

شجاعت حسین کی حویلی۔ اندر کا منظر

وقت  :                         دن

 

کردار

 

شجاعت حسین ، ان کی بیگم امّ ہانی ، ان کی والدہ، دلاور رحیم میاں اور دو سپاہی

سب لوگ گھر میں موجود ہیں۔ تبھی دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ دلاور دوڑ کے دروازہ کھولتا ہے۔ سامنے دو سپاہی کھڑے ہیں۔

دلاور سے وہ کچھ کہتے ہیں۔ ان سے باتیں کرنے کے بعد دلاور دروازہ بند کر دیتا ہے۔ اور واپس آتا ہے۔

شجاعت :۔         کیا بات ہے دلاور ، وہ سپاہی کیوں آئے تھے۔؟

دلاور :              حضور آپ کو حاکم اعلیٰ ، رابرٹ ولیم نے یاد کیا ہے۔

شجاعت  :۔         (تشویش کرتے ہوئے)  اس وقت ، رابرٹ ولیم صاحب نے مجھے کیوں بلایا۔

حاکم اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار انہوں نے یاد کیا ہے۔خیر ہو گا کوئی کام چلتے ہیں۔

دلاور :۔                        جی حضور ، میرا خیال ہے رابرٹ صاحب کو کسی اور دعوت پر بلا لیجئے۔ سناہے کہ انہیں ہندوستانی کھانے بہت پسند ہیں۔

شجاعت :۔         ہاں سوچ تو میں بھی یہی رہا تھا۔ کسی روز کیوں ، آج ہی بلا لیتے ہیں ، آج میں نے اپنے گولف کلب سے کچھ افسروں کو مدعو کیا ہے۔

ان سے بھی درخواست کر لیتے ہیں ، اگر وہ مناسب سمجھیں گے تو آج ہی آ جائیں گے۔ (پھر اپنی بیگم سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔)

بیگم کھانے مین کچھ پکوان اور بڑھا لیجئے۔ ممکن ہے ، حاکم اعلیٰ رابرٹ ولیم بھی تشریف لے آئیں۔ ان کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان کی اچھی دعوت کریں۔ موقع بھی ہے اور دستور بھی۔

بیگم امّ ہانی :۔     ٹھیک ہے کوئی خاص پکوان چاہتے ہیں آپ۔؟

شجاعت :۔          ہاں۔ رحیم میاں کو بھیج کر بازار سے تیتر بٹیریں منگوا لیجئے۔ ان کا سوپ اور قورمہ بنا لیجئے گا۔ اور مرغ مسلّم خاصی مقدار میں تیار کر لیجئے گا۔ پچھلی دعوت میں دیکھا تھا۔ ؟ آپ کے ہاتھ کا بنا ہوا مرغ مسلّم کافی پسند کیا گیا تھا۔ اور ماشاء اللہ آپ کو تو مرغ مسلّم بنا نے میں بڑی مہارت حاصل ہے ( مسکرا تے ہیں )

والدہ :۔                        ایسا نہ کہو میاں شجاعت۔ اللہ نظر بد سے بچائے ہماری بہو کو تو سبھی پکوان میں مہارت ہے۔ اور خدا نے ہاتھوں میں وہ ذائقہ عطا کیا ہے۔کہ کھانے والا انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ انگریزی پکوان ایسے بناتی ہے کہ خود فرنگنیں دنگ رہ جائیں۔ ( سب ہنستے ہیں )

شجاعت :۔         اچھا بیگم ہم ہیڈ کواٹر جا رہے ہیں۔ رابرٹ ولیم صاحب کے ساتھ پہلی ملاقات ہے۔ پتہ نہیں کیا مسئلہ در پیش ہے۔

ویسے تو ان کی تنک مزاجی ، سخت گیری اور ظلم کے بڑے چرچے ہیں۔ اب اور بھی بڑا عہدہ مل گیا۔

دلاور :۔                        کریلا اور نیم چڑھا۔

شجاعت :۔         خبر دار ، دلاور ، ابھی تو نے کہ دیا، آئندہ ایسے الفاظ منہ سے مت نکالنا۔ ورنہ شامت آ جائے گی۔

دلاور :۔                        (کان پکڑتے ہوئے )  غلطی ہو گئی جناب ، آئندہ خیال رکھوں گا

شجاعت :                       چلو دلاور   ،،

دلاور :۔                         چلئے حضور  ،،

شجاعت اور دلاور دونوں باہر نکل جاتے ہیں۔

Cut to Next scene

 

 

 

               سین  2

 

بیرونی :۔Exterior

شجاعت حسین کی حویلی کا باہری منظر

وقت :۔                         دن

 

کردار

 

شجاعت حسین ،   دلاور   اور ڈرائیور

( کیمرہ دور سے حویلی اور اس کے آس پاس کے منظر کو کور کرتا ہے۔ باہر کار کھڑی ہے ، اور ڈرائیور سفید وردی پہنے کار کے پاس کھڑا ہے۔حویلی کا دروازہ کھلتا ہے۔ اس میں سے شجاعت حسین کے ساتھ دلاور باہر آتے ہیں ، ڈرائیور کار کا دروازہ کھولتا ہے۔شجاعت پچھلی سیٹ پر ، اور دلاور اگلی سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں ، کار روانہ ہو جاتی ہے۔ کیمرہ دور تک کار کو Follow   کرتا ہے۔

( سین تحلیل ہو جاتا ہے )

Over to Next Scene

 

 

 

               سین   3

 

بیرونی :۔ (Exterior)

نور محمد بیگ کے گھر کا باہری منظر

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

ماہ پارہ ، ان کی ماں ( روشن آرا)

 

دونوں ماں بیٹی اپنے گھر سے نکلتے ہیں ،  دروازہ باہر سے بند کرتے ہیں۔ پیدل ہی قصبے کی گلی میں چل دیتے ہیں ،اور آپس میں باتیں کرتے ہیں۔

 

ماں (روشن آرا ) :۔ ہمیں کافی دیر ہو گئی۔  اور پہلے نکلنا چاہئے تھا۔ چوک سے پھولوں کی چادر بھی خریدنی ہے۔

اور بشیرا حلوائی کے یہاں سے شیرینی بھی لینی ہے۔گھر کے کاموں میں وقت کیسے گزر تا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔

ماہ پارہ :۔                         ہاں ، امی جان ، کافی دیر ہو گئی۔ دمّو خالہ اور ان کی بیٹیاں ، پیر با با کے مزار پر کب کی پہنچ چکی ہوں گی اور واپسی میں ہمیں کھیتوں سے سبزیاں بھی لینی ہیں۔ شام ہو جائے گی۔

وہ دونوں باتیں کرتی ہوئی گلی میں بڑھ جاتی ہیں۔کیمرہ انہیں کچھ دور تک Follow   کرتا ہے۔

( منظر تحلیل ہو جاتا ہے )

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               Scene No.3/B

 

بیرونی:       Exterior

وقت    :           دن ، دوپہر

 

کردار

 

ماہ پارہ اس کی والدہ روشن آرا۔ دمّو خالہ ان کی دو بیٹیاں (شہناز اور صبیحہ ) مزار کا مجاور کچھ لوگ قوّال وغیرہ۔

دور سے مزار دکھائی دیتی ہے ، وہاں پر آنے والے زائرین کی بھیڑ ہے دور سے قوالی کی آواز آ رہی ہے ماہ پارہ اپنی ماں کے ساتھ مزار کے قریب آتی ہیں قوال جھوم جھوم کر گا رہے ہیں۔ مزار پر عقیدت مند پھولوں کی چادر چڑھا رہے ہیں ، مجاور مور پنکھ سے ان کو جھاڑ تا ہے اور دھونی کا دھواں ان کی طرف پھونکتا رہتا ہے۔ زائرین بہت ہی احترام سے چادر چڑھا کر پیچھے پیچھے لوٹتے ہیں تبھی ماہ پارہ اور بیگم روشن آرا مزار پر پھول چڑھاتی ہیں اور اپنے ہاتھوں سے شیرینی کا دوہنا مجاور کی طرف بڑھا دیتی ہے مجاور اس میں سی تھوڑی سے شیرینی مزار کے پاس رکھے بڑے سے تھال میں ڈال دیتا ہے اور باقی انھیں لوٹا دیتا ہے پھر دھونی ان کی طرف کر کے مورپنکھ سے ان کے سر اور ماتھے کو جھاڑ دیتا ہے۔دونوں پیچھے پیچھے ہٹتی ہوئی مزار کے احاطے سے باہر نکل جاتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ احاطے سے باہر ایک پیٹر کی چھاؤں میں دری بچھی ہے اس پر دمّو خالہ اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ بیٹھی ہیں ان کے آس پاس ناشتے دان اور کچھ برتن رکھے ہوئے ہیں ،وہ ماہ پارہ اور روشن آرا کو دیکھ کر خوش ہو جاتی ہیں۔

شہناز    :           لیجیے وہ خالہ جان اور ماہ پارہ اپی آ گئیں

صبیحہ     :           (خوشی سے کھڑی ہو کر) اوہو ، ماہ پارہ۔ آ گئیں تم اتنی دیر سے ہم لوگ تمھارا انتظار کر رہے تھے۔

(روشن آرا کو دیکھ کر آداب کرتی )

آداب خالہ جان

شہناز    :           خالہ جان آداب ، اپّی آداب ۔ ۔ ۔ ۔

(سب ایک دوسرے کے گلے ملتی ہیں )

بیگم روشن آرا:   بھئی آپ لوگوں کی شکایت بجا ہے ، صبح سے نکلتے نکلتے یہ وقت آ گیا۔ گھر کے کاموں میں وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔

دمّو خالہ            :           سچ کہا بہن ، ہم عورتوں کو تو گھر کے کام اتنے گھیرے رہتے ہیں کہ بس نجات ملنا مشکل ہے۔

شہناز    :           اب چلیے امی! کھانا نکالیے۔مجھے تو بہت دیر سے بھوک لگ رہی ہے

دمّو خالہ            :           ہاں ہاں چلو بھئی کافی دیر ہو گئی پہلے کھانا کھالیں …….

(سب لوگ دری پر بیٹھ جاتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں )

پس منظر میں (Back ground)میں مزار کی چہل پہل اور قوالی کی آواز سمائی ہوئی ہے……کھانا ختم کر کے برتن وغیرہ تھیلے میں بھر دیے جاتے ہیں ، سب اٹھ کھڑے ہوتے ہیں دری طے کر کے دوسرے تھیلے میں رکھ دیتے ہیں آپس میں باتیں چل رہی ہیں لیکن قوالی کی آواز super imposeہونے کی وجہ سے ان کی باتیں سنی نہیں جا رہی ہیں پھر سب اٹھ کر چلنے لگتے ہیں۔

دمو خالہ:           اچھا بھئی روشن آرا۔ بہت مزہ آیا کتنے عرسے کے بعد آج موقع ملا اچھا لگا اور ماہ پارہ بیٹی آپ کو اللہ نظر بد سے بچائے دن بدن آپ کا حسن اور زیادہ نکھر آ رہا ہے ہمیں تو بس اس دن کا  انتظار ہے جب آپ دلہن کے جوڑے میں سج کر حوروں کو شرمانے پر مجبور کر دیں گی۔

(سب خوشی سے ہنس دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گلے مل کر الگ الگ سمتوں میں چلنے لگتے ہیں )

منظر تحلیل ہو جاتا ہے

Cut to over to next scene

 

 

 

               سین   4

 

اندرونی :۔ (Interior )

افسر اعلیٰ رابرٹ ولیم کا آفس

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

رابرٹ ولیم، سپاہی، شجاعت حسین، دلاور وغیرہ

 

رابرٹ ولیم اپنے آفس کے کمرہ میں وردی پہنے کھڑا ہے۔ ہاتھ میں چھڑی اور منہ میں پائپ ہے۔ کیمرہ کی طرف انکی پیٹھ ہے۔ اور وہ ایک شیشے کے بڑے سے برتن میں تیرتی ہوئی رنگ برنگی مچھلیوں کو دیکھ رہا ہے۔

( تبھی اس کے دروازے پر دستک ہوتی ہے )

 

رابرٹ ولیم :۔    ( بغیر مڑے ، رعب دار آواز میں کہتا ہے )  Come In

( ایک سپاہی اندر آتا ہے سلیوٹ کرتا ہے اور کہتا ہے )

سپاہی :۔                        حاکمِ اعلیٰ کا اقبال بلند ہو ،  چودھری شجاعت حسین خان بہادر صاحب تشریف لائے ہیں

اور آپ سے ملاقات کی اجازت چاہتے ہیں۔

رابرٹ ولیم :۔    خان بہادر صاحب کو عزت کے ساتھ اندر لے آؤ۔

( سپاہی واپس جاتا ہے۔ رابرٹ مچھلیوں سے ہٹ کر اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔

پھر سپاہی دروازہ کھول کر شجاعت حسین اور دلاور کو اندر لے آتا ہے )

شجاعت حسین:۔( جھک کر تسلیم کرتا ہے اور کہتا ہے ) حضور کا اقبال بلند ہو

رابرٹ :۔                     Well Come   مسٹر چودھری خان بہادر ،  آئیے تشریف لائیے

( شجاعت حسین سامنے کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں ،  دلاور ان کے پاس کھڑا ہے )

شجاعت :۔         حضور کی خدمت میں بندہ پہلے ہی حاضری دینا چاہتا تھا۔ لیکن آپ کی مصروفیت کو دیکھتے ہوئے جسارت نہ کر سکا۔ تاخیر کی معافی چاہتا ہوں۔

رابرٹ :۔                     Don’t Worry  کوئی بات نہیں۔ برٹش گورنمنٹ سے آپ کی دوستی اور جارج رابن پر آپ کے احسانات ہمیں یاد ہیں۔ آپ کو ہم پہلے سے جانتے ہیں۔

شجاعت :۔         یہ حضور کی اعلیٰ ظرفی ،  اور بندہ نوازی ہے۔ حضور اجازت دیں اور ناگوار نہ گزرے تو ایک التجا کرنا چاہتا ہوں۔

رابرٹ :۔                     اجازت ہے۔

شجاعت :۔         حضور  اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے ، اور طبیعت پر ملال نہ ہو تو عرض کرنا چاہوں گا کہ بندے نے آپ کے اعزاز میں آج ایک مختصر سی دعوت کا انتظام کیا ہے۔ اگر آج رات آپ غریب خانہ پر تشریف لائیں تو اس ناچیز کی بڑی عزت افزائی اور بندہ پروری ہو گی۔ ہم جانتے ہیں کہ حضور کو ہندوستانی خاص طور پر مغلئی کھانے بہت پسند ہیں۔

رابرٹ :۔                     Well ہمیں Indian Food ،اور مغلئی کھانے پسند ہیں۔ اب ہم کو انڈین بیوٹی بھی پسند ہیں۔ ہم آپ کی دعوت ضرور قبو ل کرے گا لیکن آج نہیں۔ پہلے آپ کو ہمارا ایک کام کرنا ہو گا۔

شجاعت :۔         حضور کا حکم سر آنکھوں پر۔ بندہ جان کی بازی لگا دے گا۔ فرمائیے میرے لائق کیا حکم ہے۔

رابرٹ :۔                    مسٹر خان بہادر۔ہم جانتا ہے کہ آپ Village   مالیر پورہ کا رہنے والا ہے۔وہیں آپ نے جارج روہن کو بچایا تھا  وہاں آپ کا پراپرٹی بھی ہے۔

شجاعت :۔         جی حضور۔ لیکن مالیر پورہ چھوڑے ہوئے مجھے کئی سال ہو گئے۔ وہاں سے نکلنے کے بعد میں کبھی لوٹ کر نہیں گیا۔

رابرٹ :۔                     ہم چاہتا کہ اب تم ما لیر پورہ جاؤ۔  ہم وہ قصبہ آپ کو جاگیر میں دیتا ہے۔

( شجاعت حیرت زدہ ہو کر دلاور کو دیکھتا ہے )

شجاعت :۔         لیکن حضور۔۔۔۔۔

( اس کی بات کاٹتے ہوئے رابرٹ کہتا ہے )

رابرٹ :۔                     No If and But   ہمارا فوج کا سپاہی آپ کی حفاظت کرے گا۔

شجاعت :۔         جی حضور۔۔۔۔۔

رابرٹ :۔                     لیکن آپ کو ہمارا کام کرنا ہے۔

شجاعت :۔         حضور ، میں آپ کا کام تو ملیر پورہ جائے بنا بھی کرنے کو تیار ہوں

رابرٹ :۔                     No ۔کام وہیں رہ کر ہوسکتا ہے۔

شجاعت :۔         حضور  کام کیا ہے۔ یہ تو فرمائیے

رابرٹ :۔                     Well ہم کو وہاں کا ایک لڑکی پسند آ گیا۔  ہم اس سے شادی کرنے کو مانگتا۔ہمارے جاسوس نے پتہ لگایا ہے کہ وہاں کے ایک مغل آدمی نور محمد بیگ کی لڑکی ماہ پارہ ہی وہ لڑکی ہے۔ اور نور محمد آپ کے بچپن کا دوست ہے۔ آپ کی بات وہ ضرور مانے گا۔

( شجاعت اور دلاور  ہکّا بکّا   ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں )

شجاعت :۔         ( مصنوعی ہنسی ہنستا ہے )  ارے حضور۔ وہ جاہل ، گنوار لڑکی آپ کے قابل نہیں آپ کا اقبال بلند ہو ، آپ کو تواس سے لا کھ گنا اچھی لڑکیاں مل جائیں گی۔ آپ کہیں تومیں یہاں کے جاگیرداروں اور راجاؤں کی لڑکیاں آپ کے سامنے پیش کر دوں جسے پسند فرمائیں آپ کی شادی ہو جائے گی۔

رابرٹ  :۔          (خفا ہو کر )   No  ہم کو اسی لڑکی سے شادی کرنے کو مانگتا۔  اور یہ ہمارا کام آپ ہی کریں گے۔

شجاعت :۔         حضور ایک بار اور سوچ لیں۔

رابرٹ :۔                     (اپنی کرسی سے کھڑا ہو جاتا ہے،  شجاعت بھی کھڑا  ہو جاتا ہے،  رابرٹ  ان کی طرف سے منہ پھیر کر مچھلیوں کو دیکھنے لگتا ہے)You may go now

(شجاعت اور دلاور تسلیم کرتے ہوئے کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں )

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے )

Cut to Next scene

 

 

 

 

               سین   5

 

بیرونی۔ Exterior

(مالیر پورہ کی گلی ،نور محمد کے مکان کا باہری حصہ)

وقت :۔                        شام ،ڈھلتا ہوا سورج

 

کردار

 

ماہ پارہ اور اس کی ماں  (روشن آرا)

 

کیمرہ دور سے گلی میں آتی ہوئی ماہ پارہ اور ان کی ماں کو فوکس کرتا ہے۔

وہ دونوں کچھ باتیں کرتی ہوئی گھر کے پاس آتی ہیں۔

 

ماں روشن آرا :    اف کافی دیر ہو گئی اور تھکن بھی کافی ہو گئی

ماہ پارہ :۔                        لیکن خوب مزہ آیا۔ دمّو خالہ اور انکی بیٹیوں سے ایک عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی اچھا لگا۔ اور پیر با با کی مزار پر جا کے دل کو بڑا سکون ملا

ماں :۔               ہاں بیٹی ، ان کی دعاؤں کے طفیل آج تم صحیح سلامت ہو ،  ورنہ تمہاری حالت دیکھ کر تو ہم آس کھو بیٹھے تھے۔پیر با با کی مزار پر چادر چڑھا کے دل ہلکا ہوا ، میں نے تو بابا سے تمہاری سلامتی اور گھر کی خوشحالی کی دعا مانگی۔بیٹی تم نے کیا مانگا ، با با سے۔

ماہ پارہ :۔                        امّی جان۔ آپ ہی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ دعا کا ذکر کسی سے نہیں کرتے۔

ماں :۔               (مسکراتی ہوئی )  ہاں کسی غیر سے نہیں کرتے۔ لیکن میں تمہاری ماں ہوں بیٹی۔

ماہ پارہ :۔                        میں نے تو صرف طاہر میاں کی سلامتی مانگی ہے۔ اتنی تو خبر ملی ہے کہ وہ ولایت چلے گئے ہیں پتہ نہیں اس پردیس میں ان پر کیا گزر رہی ہو گی۔ خدا کرے وہ خیریت سے ہوں اور اپنی تعلیم پوری کر کے جلدی سے اپنے وطن لوٹ آئیں۔

(دونوں ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں۔ اور اداس ہو جاتی ہیں۔ پھر گھر کا دروازہ کھول کر اندر چلی جاتی ہیں۔

دروازہ بند ہو جاتا ہے۔

Cut to Next Scene

 

 

 

               سین  6

 

اندرونی :۔ Interior 

شجاعت کی حویلی کا اندرونی حصہ

وقت :۔                        رات

 

کردار

 

شجاعت حسین اور ان کی بیگم ( امّ ہانی)

 

شجاعت اپنا سلیپنگ گاؤن پہنے کمرے میں ٹہل رہے ہیں ، اور بے چین نظر آرہے ہیں  تھوڑی دیر بعد دوسرے کمرے سے انکی بیگم نکل کر ان کے پاس آتی ہے۔

 

بیگم :۔              ارے کیا بات ہے چودھری صاحب۔ اتنی رات ہو گئی اور ابھی تک آپ سوئے نہیں کیا کچھ طبیعت ناساز ہے آپ کی ؟

شجاعت :۔         نہیں بیگم ،طبیعت تو بلکل ٹھیک ہے۔بس یونہی نیند نہیں آ ہی تھی تو ادھر ٹہلنے آ گیا۔

بیگم :۔              کچھ بات ضرور ہے کئی دن سے میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ کچھ بدلے بدلے سے ہیں۔اس روز دعوت میں بھی آپ نے مہمانوں کے ساتھ کچھ خاص گرم جوشی نہیں دکھائی۔تب میں سمجھی تھی کہ رابرٹ ولیم کے دعوت میں نہ آ نے کا اٖفسوس ہے ، لیکن اس کے بعد سے میں روز دیکھ رہی ہوں کہ آپ کافی پریشان سے ہیں۔ میں نے دلاور بھائی سے بھی جاننا چاہا کہ کیا باہر کسی سے تلخی ہو گئی۔ انہوں نے بھی بات ٹال دی۔ آپ مجھے بتائیے کہ آخر آپ کی بے چینی کی وجہ کیا ہے۔

شجاعت:۔          ارے کوئی بات نہیں ہے بیگم۔  آپ جائیے اپنی آرام گاہ میں سوجائیے میں تھوڑی دیر میں آ جاؤں گا۔

بیگم :۔              جی نہیں۔میں آپ کی شریک حیات ہوں۔ مجھ سے آپ کوئی بات چھپا نہیں سکتے۔میں آپ کے چہرے سے آپ کی خوشی۔ناراضگی اور بے چینی ، کا اندازہ اچھی طرح لگا سکتی ہوں۔دعوت کے بعد سے آپ کہیں باہر بھی نہیں نکلے۔

شجاعت :۔         ( بیگم کو کچھ دیر غورسے دیکھتے ہیں )کیا بتاؤں بیگم،ان دنوں میں واقعی بہت پریشان ہوں۔کسی سے ملنے کہیں جانے یا کسی کو بلانے کا دل ہی نہی ہوتا۔ مسئلہ ہی کچھ ایسا ہے کہ اس کا حل سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔

بیگم :۔              وہی میں جاننا چاہتی ہوں کہ آخر مسئلہ کیا ہے۔؟آپ کو دیکھ کر امّی جان بھی بہت پریشان ہیں۔وہ مجھ سے روز پوچھتی ہیں کہ شجاعت کو ہوا کیا ہے۔آپ ایک دم بجھ سے گئے ہیں۔

شجاعت :۔         مسئلہ یہ ہے کہ رابرٹ ولیم مجھے مالیر پورہ قصبہ جاگیر میں دینا چاہتا ہے۔

بیگم :۔              (خوش ہو کر )ارے یہ تو بڑی اچھی خبر ہے۔ اس میں خوش ہونا چاہئے۔ آپ اس پر بے چین کیوں ہیں۔

شجاعت:۔          اس انعام کے بدلے میں وہ مجھ سے بہت بڑی قیمت وصول کرنا چاہتا ہے۔

بیگم:۔               قیمت۔ کیسی قیمت۔؟

شجاعت :۔         وہ میرے ذریعہ وہاں کے لوگوں پر ظلم کرنا چاہتا ہے۔ وہاں کے کسانوں پر لگان بڑھانا چاہتا ہے۔وہاں کے باشندوں پر بھاری ٹیکس لگانا چاہتا ہے۔ وہاں کے لوگ جن میں بہت سے میرے رشتہ دار ہیں ، بہت سے دوست و احباب ہیں۔ میں ان پر ظلم کیسے کر سکتاہوں۔یہی سوچ کر میں پریشان ہوں۔ایسے تو جن حالات میں ہم وہاں سے نکلے ہیں ،  اس واقعے کے بعد تو کوئی بھی مجھے پسند نہیں کرتا۔نہ جانے کتنی لعنتیں مجھ پر پڑی ہوں گی۔ اب جب میں وہاں کا جاگیر دار بن بیٹھوں گا ،  تو میرے لئے ان کی بد دعائیں بھی نکلیں گی۔

بیگم :۔              آپ ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے،رابرٹ ولیم کی ظلم و زیادتیاں کیا پہلے ہی کچھ کم ہیں۔ما لیر پورہ کی جاگیر آپ نہیں لیں گے تو وہ کسی اور کو جاگیر دار بنا دے گا۔اور پھر وہ نیا جاگیر دار کتنا ظالم ثابت ہو ، یہ کون جانتا ہے۔آپ پھر بھی وہاں سب کو جانتے ہیں ،  کچھ تو رحم کریں گے۔

شجاعت:۔          یہی بات تو ہمیں بے چین کئے دے رہی ہے۔ظلم رابرٹ ولیم کرے گا۔اور بد نا م ہم ہوں گے۔خدا گواہ ہے ، ہم نے انگریزوں سے دوستی صرف اس لئے کی ہے کہ ہماری زندگی آسودہ ہو جائے۔اور ان کے ظلم و زیادتیوں سے ہمارا خاندان محفوظ رہے۔ ہم نے کبھی نہیں چاہا کہ اپنے برادران وطن پر مسلط ہو کر ظلم کریں۔

بیگم :۔              اچھا۔اب بہت رات ہو گئی ہے،چلئے سوجائے،ورنہ طبیعت خراب ہو جائے گی۔کچھ روز آرام سے سوچ کر فیصلہ کیجئے گا۔

(دونوں دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں )

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے۔)

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین  ۷

 

بیرونی  :۔ Exterior

(نور محمد بیگ کے گھر کا باہری حصہ )

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

ماہ پارہ ، نور محمد بیگ ، ان کی بیگم روشن آرا ، رابرٹ ولیم

(ماہ پارہ اپنے گھر کے سامنے پھولوں کی کیاریوں میں پودوں کو پانی دے رہی ہے۔ بال کھلے ہوئے ہیں۔دوپٹہ ڈھلکا ہوا ہے ،  وہ دل ہی دل میں کچھ بو ل رہی ہے ، کبھی جھک کر کسی پھول کو چھوتی ہے ، کبھی کسی پودے کو سیدھا کرتی ہے۔)

ماہ پارہ :۔                        طاہر میاں۔ آپ جہاں ہیں کیا وہاں بھی ایسے ہی پھول کھلتے ہوں گے ، کیا وہاں بھی ایسی ہی رنگ برنگی تتلیاں اڑتی ہوں گی؟ کیا وہاں بھی روز سورج نکلتا ہو گا ، کیا وہاں بھی ایسی ہی شام ڈھلتی ہو گی۔؟  کیا وہاں بھی ہر رات چاند ستاروں کی محفل سجتی ہو گی میں روز چاند دیکھتی ہوں ،  اور بہت دیر تک دیکھتی ہوں ، اس امید سے کہ شاید آپ بھی چاند دیکھ رہے ہوں گے۔اور شاید چاند کے ذریعہ ہی ہماری نظریں مل جائیں ، اور کاش مجھے آپ کے دیدار ہو جائیں۔ میرے شب و روز کا کوئی لمحہ ایسا نہیں کہ آپ کی یاد سے بیگانہ ہو جاؤں ، اب جلدی آ جایئے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی ماہ پارہ پر کسی جن کا سایہ پڑ جائے اور وہ قابض ہو جائے ، تبھی اس کی نظریں باہر گھوڑے پر بیٹھے رابرٹ ولیم پر پڑتی ہیں وہ چونک جاتی ہے ، رابرٹ اسے دیکھ کر مسکرا رہا ہے ، وہ اپنے ہاتھ سے پانی کا ہزارا پھینک کر چلاتی ہوئی اندر کی طرف بھاکتی ہے ،( امی جان ،ابّو ابّو)

 

اس کی آواز سن کر نور محمد اور ان کی بیگم گھر سے باہر آتے ہیں ، ماہ پارہ دونوں سے چپٹ جاتی ہے ، ماں اس کو گلے سے لگاتی ہے۔

 

نور محمد:۔                       کیا ہوا بیٹی ؟

بیگم روشن آرا :۔  ہاں بیٹی کیا ہوا ، تم اتنی پریشان کیوں ہو ؟

(ماہ پارہ :۔          اشارے سے باہر کی طرف انگلی اٹھاتی ہے رابرٹ گلی میں گھوڑا دوڑا تا ہوا غائب ہو جاتا ہے )

نور محمد:۔                       کیا بیٹی وہ کون تھا ؟

ماہ پارہ:۔                        وہی انگریز افسر تھا جس نے ایک مرتبہ میرا راستہ روکا تھا ،  وہ مجھے کئی بار چھپ چھپ کے دیکھتا ہے۔

بیگم :۔              کیا اس نے تم سے کوئی بد تمیزی کی ؟

ماہ پارہ :۔                        نہیں امی بولا تو کچھ نہیں ، میں  پودوں کو پانی دینے میں مصروف تھی وہ نہ جانے کب سے گھور رہا ہو گا۔جیسے ہی میری اس پر نظر پڑی اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی ،

نور محمد:۔                       تم فکر مت کرو بیٹی میں افسر اعلیٰ سے شکایت کرو ں گا ، کہ یہ حرکتیں بند ہوں ، میں ابھی اسی وقت کیمپ جاتا ہوں تم لوگ اندر جاؤ   ( دونوں ماں بیٹی گھر کے اندر چلی جاتی ہیں ، اور نور محمد بیگ گھر سے باہر قصبہ کی گلی میں جاتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔

 

 

 

               سین ۸

 

اندرونی۔ Interior

شجاعت حسین کی حویلی

وقت:۔             دن

 

کردار

 

شجاعت حسین ، انکی بیگم ( امّ ہانی) والدہ، دلاور، رحیم میاں ، (نوکر)

 

(شجاعت اپنی والدہ اور بیگم کے ساتھ بیٹھے چائے ناشتہ چل رہا ہے ، تبھی دلاور اندر آتا ہے۔

 

دلاور:۔             اسلام علیکم چودھری صاحب آداب امی جان ، بھابھی صاحبہ

شجاعت :۔         وعلیکم السلام آؤ بھئی دلاور

والدہ :۔                        جیتے رہو ، خوش رہو

بیگم :۔              دلاور بھائی۔اچھے موقع پر آئے۔آئیے ناشتہ تیار ہے

دلاور:               شکریہ بھابھی صاحبہ۔  ناشتہ تو میں کر کے آیا ہوں ، چودھری صاحب آپ فارغ ہو جائیں تو ذرا آپ سے کچھ ضروری گفتگو کرنی ہے

بیگم :۔              کیا بات ہے سب خیر تو ہے نا ؟

( سب دلاور کو غور سے دیکھتے ہیں )

دلاور:۔             ( پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ )  ہاں۔ہاں  بھابھی صاحبہ، سب ٹھیک ہے ذرا سا ، چودھری صاحب سے ان باغات کے سلسلے میں بات کرنی تھی جہاں سے پچھلے سال ڈال تو آ گئی تھی لیکن لگان موصول نہیں ہوا تھا۔

(شجاعت اس کو دیکھتا ہے تو دلاور اس کو چپ رہنے کا اشارہ کرتا ہے )   اور اس سال تو ان باغوں سے ڈال بھی موصول ہونا مشکل لگ رہا ہے۔چودھری صاحب اتنے رحم دل ہیں کہ اپنی رعایا پر ظلم تو درکنار ذراسی سختی بھی نہیں کرتے    ( پھر شجاست کو دیکھ کر)چودھری صاحب۔وہ مغربی جھیل کے کناروں کے باغات کی پیمائش بھی ہونی ہے ان کے کاغذات ذرا دیکھ لیجئے تاکہ میں آج ہی مزدوروں کو کام پر لگا دوں۔

(شجاعت کو اٹھنے کا اشارہ کرتا ہے ، تب تک شجاعت کی والدہ اور بیگم اٹھ کر اپنے اپنے کمروں میں چلی جاتی ہیں ،)

نوکر (رحیم میاں ) برتن وغیرہ سمیٹ کر کچن میں چلا جاتا ہے، تب دلاور شجاعت کے پاس آ کر بیٹھ جا تا ہے۔

شجاعت :۔         کیا باغات،لگان،کاغذات واغذات۔ کیا بکواس کر رہے ہو؟

دلاور :۔                        حضور ایسی ہی کچھ بات ہے اب سب کے سامنے کیا بتا تا یہ گفتگو گھر میں نہیں ہوسکتی

شجاعت :۔         تو چلو کوٹھی کے پچھلے حصہ میں چلتے ہیں ، ہم لوگ وہیں ٹہلتے ہوئے گفتگو کریں گے

دلاور :۔                        جی حضور چلیئے

( دونوں اٹھ کر باہر نکل جاتے ہیں )

سین تحلیل ہو جاتا ہے

End of Episode 8

 

 

 

 

Episode  9

 

               سین  1

 

بیرونی۔ Exterior

(کوٹھی  کے پیچھے ،  باغ کا منظر )

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

شجاعت اور دلاور

 

دونوں ٹہل رہے ہیں ،کیمرہ انہیں پیچھے سے Follow   کرتا ہے۔کچھ دور جا کر وہ پلٹتے ہیں کیمرہ انکے چہروں کو فوکس کرتا ہے ، دونوں پریشان اور فکر مند نظر آرہے ہیں ٹہلتے ہوئے آ کر ایک جگہ رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔

 

شجاعت:۔          کیا یہ بات تمہیں خود رابرٹ ولیم صاحب نے بتا ئی؟

دلاور:۔             جی ہاں حضور میں نے عرض کیا نا ، کہ ان کا مخصوص سپاہی ، صبح فجر کے وقت ہی مجھے بلانے آ گیا ، جب اس نے کہا کہ رابرٹ صاحب نے بلا یا ہے ، تو بس یوں سمجھئے کہ میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ، میں اس قدر گھبرا گیا تھا کہ چلتے ہوئے میرے قدم تھر تھرا رہے تھے ، پاؤں کہیں رکھتا تھا ، اور کہیں پڑ رہے تھے ، جب میں انکی آرام گاہ پر پہنچا توسپاہی نے کہا ، تم یہیں کھڑے رہو ، میں حاکم کو خبر کر دیتا ہوں ، میاں وہاں مسلسل دو گھنٹے کھڑا رہا اور دل ہی دل میں جتنی دعائیں یاد تھیں سب پڑھ ڈالیں تب جا کے کہیں رابرٹ صاحب نے مجھے اندر بلا لیا۔

شجاعت :۔         تمہارے ساتھ تو سختی سے پیش نہیں آئے

دلاور :۔                        کیا بتاؤں حضور بالکل خبیث ہے یہ ، انسان نما جانور ، اس کی  تو ہر بات تیر کی طرح چبھتی ہے۔ ہندوستانیوں کو دیکھ کر اس کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے نکلتے ہیں

شجاعت:۔          عجیب انسان ہے یہ ، ہندوستانیوں سے اتنی نفرت اور ہندوستانی کی ایک بیٹی پر دل آ گیا ، دیوانہ، پاگل ہے شخص

دلاور:۔             حضور گستاخی معاف ، ماہ پارہ بیٹی کو ، اللہ نے حسن ہی ایسا عطا کیا ہے ،وہ ہندوستان کی کیا ، اس زمین کی ہی نہیں ،کسی اور دنیا کی مخلوق دکھائی دیتی ہے ، جنت سے اتری ہوئی کوئی حور چاند سے آئی ہوئی ایک پری ہے،ہماری ماہ پارہ ، اپنے نام کی معنوی تصویر، ماہ پارہ نور یعنی چاند کا ٹکرا، جس سے نور بکھرتا ہو۔

(شجاعت کی آنکھوں میں ماہ پارہ کی بچپن کی تصویریں ابھر تی ہیں ،ننھّی سی ماہ پارہ ، طاہر کے ساتھ کھیلتی ہوئی باغ میں پھولوں کے بیچ دوڑتی ہوئی ، کبھی تتلی کا پیچھا کرتی ہوئی،کبھی اپنے ماں باپ کی گود میں ،کبھی خود شجاعت حسین کی گود میں ، کبھی انکی بیگم کی گود میں )

(پھر دلاور کی آواز سے چونک جاتے ہیں )

دلاور :۔                        کیا ہوا چودھری صاحب ، کہاں کھو گئے

شجاعت :۔         چونک کر،کچھ نہیں ، ذرا ایسے ہی اپنے آبائی قصبہ مالیر پورہ کا خیال آ گیا ، ماہ پارہ اب تو کافی بڑی ہو گئی ہو گی میں نے تو اسے برسوں سے دیکھا بھی نہیں ،  مجھے تو وہی بچپن کی بھولی بھالی ننھّی سی ماہ پارہ یاد ہے۔

دلاور:۔             جی حضور،دیکھا میں نے بھی نہیں ، بس آخری بار اسی وقت دیکھا تھا ، جب آپ نے مجھے نور محمد بیگ صاحب کو لے کر آنے کے لئے بھیجا تھا  ، لیکن ماہ پارہ کی خوبصورتی کے چرچے دور دور تک پھیل چکے ہیں ،  اور سنا ہے کہ بہت سے نوابوں اور راجاؤں کے پیغام آ رہے ہیں ، حضور گستاخی معاف ہو ، آپ طاہر میاں کے لئے انہیں قبول کر لیں دونوں بچوں میں بچپن کی محبت ہے ، اور محبت کرنے والوں کو ملا دینا کار ثواب ہے۔

شجاعت:۔          وہ ٹھیک ہے دلاور ،  لیکن نہ تو طاہر میاں یہاں موجود ہیں ،  اور نہ ہی اب حالات ایسے ہیں۔ مجھے تو نور محمد بیگ پر بہت غصہ آتا ہے ،  اگر وہ اس وقت میرا کہا مان لیتا اور انگریزوں سے دوستی کر کے یہاں چلا آتا تو آج یہ نوبت نہ آتی ، سبھی خوشحال رہتے۔ خیر یہ تو بتاؤ، کہ رابرٹ صاحب نے اور کیا کیا پوچھا۔

دلاور:۔             انہوں نے مجھ سے مالیر پورہ قصبہ کی پوری تاریخ اور جغرافیہ پوچھ ڈالا ، ساتھ ہی وہاں کے قابل ذکر باشندوں کے شجرے پوچھ ڈالے ، خاص طور پر نور محمد بیگ صاحب کے بارے میں تو بہت سے سوال کر ڈالے۔انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ پہلے وہ آپ کے دوست تھے ، لیکن اب آپ دونوں میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔انہیں ماہ پارہ اور طاہر میاں کی محبت کے بارے میں بھی معلوم ہے،اور آخر میں یہ بھی دھمکی دے ڈالی۔

( دلاور کچھ کہتے کہتے رک گیا )

شجاعت :۔         ( اس کو غور سے دیکھتے ہوئے )  کیسی دھمکی۔

دلاور:۔             حضور ، میری زبان سے وہ الفاظ ادا نہیں ہوسکتے۔

شجاعت :۔         بتا ؤ دلاور، تم تو میرے خیر خواہ ہونا،پھر آنے والے طوفان سے مجھے آگاہ کر دو تاکہ ہم اس کے حل کا کوئی طریقہ سوچیں۔

دلاور:۔             حضور رابرٹ نے دھمکی دی ہے کہ اگر آپ اس کا کام نہیں کریں گے تو طاہر میاں کو وہاں نقصان پہنچا سکتا ہے۔اور آپ کو جیل میں ڈال کر ذلیل کر دے گا ،  آپ کی تمام جاگیریں چھین لے گا ، اور آپ پر انگریز حکومت سے بغاوت کا مقدمہ چلائے گا۔

( شجاعت کے چہرے پر غصے اور فکر مندی کے آثار دکھائی دیتے ہیں )  ( پھر وہ جھٹکے سے اٹھتے ہیں )

شجاعت :۔         اس شیطان نے ہمیں عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے ،  ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ہم کیا کریں ایک طرف کنواں اور دوسری طرف کھائی۔

دلاور :۔                        حضور کوئی بھی فیصلہ جلد بازی میں نہ لیجئے گا ،  بہت سوچ سمجھ کر کسی نتیجہ پر پہنچئے۔

شجاعت:۔          سوچنے سمجھنے کا وقت کہاں ہے ،صرف تین دن کی مہلت دی ہے،فیصلہ تو جلدی ہی کرنا پڑے گا۔

دلاور:۔             حضور میرا خیال ہے کہ آپ بھابھی بیگم اور امّی جان سے بھی اس کا ذکر کر دیجئے ، ان سے مشورہ کیجئے ،  ممکن ہے کوئی حل نکل آئے۔۔

( دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں )

منظر تحلیل ہو جاتا ہے

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین  2

 

اندرونی۔  Interior

( رابرٹ ولیم کے آفس کا کمرہ )

وقت:۔             دن

 

کردار

 

رابرٹ ولیم ،  سپاہی

 

رابرٹ اپنے کمرے میں کرسی پر بیٹھا ہے،اور ایک فائل کے کچھ کاغذات غور سے دیکھ رہا ہے۔ پھر ٹیبل پر رکھی گھنٹی بجاتا ہے،تبھی ایک سپاہی اندر آ تا ہے،سلیوٹ کر کے سیدھا کھڑا رہتا ہے۔رابرٹ اس کو بغیر دیکھے ہی کہتا ہے ،

 

رابرٹ :۔                     شجاعت حسین کی جائداد اور جاگیروں کے یہ سارے کاغذات ہم دیکھ چکے ہیں۔کل ہونے والی میٹنگ میں انہیں شامل کیا جائے۔ اور ہاں کیا سبھی کیمپس سے ڈاک آ گئی ہے۔

سپاہی:۔             یس سر۔سبھی ڈاک دیکھ لی گئی ہیں ،سب ٹھیک ہے۔صرف مالیر پورہ کیمپ سے ایک درخواست آئی ہے۔

رابرٹ :۔                     What application?

سپاہی :۔                        سر مالیرپورہ قصبے کے ایک باشندے،نور محمد بیگ،کی درخواست ہے۔

رابرٹ :۔                     (نور محمد کا نام سن کر سنبھل کر بیٹھ جاتا ہے) وہ کیا چاہتا ہے۔

سپاہی :۔                        سر نور محمد بیگ پر مقدمہ چل رہا ہے،انہیں نظربند رکھا گیا ہے۔ انہیں اپنا قصبہ چھوڑ کر کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے انہوں نے آپ سے ذاتی طور پر ملاقات کرنے کی درخواست کی ہے۔

رابرٹ ؛۔                      (دل ہی دل میں بڑ بڑا تا ہے ) Wonderful کنواں خود پیاسے کے پاس آ رہا ہے۔

( پھر سپاہی سے کہتا ہے ) Well  کل میٹنگ کے بعدDecide  کریں گے۔

( سپاہی سلیوٹ کر کے باہر چلا جاتا ہے )

( رابرٹ کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگتا ہے ،  پھر کچھ سوچ کر مسکراتا ہے )

سین تحلیل ہو جاتا ہے۔

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین   3

 

 اندرونی ۔  شجاعت کی حویلی

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

شجاعت، ان کی بیگم ، دلاور  ، ایک سپاہی۔

شجاعت اور انکی بیگم اپنے کمرے میں بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔

 

شجاعت:۔          بیگم۔آپ جاننا چاہتی تھیں نا کہ ہماری پریشانی کی وجہ کیا ہے۔

بیگم (امّ ہانی ) :۔           جی ، لیکن آپ نے تو بتا دیا تھا کہ مالیر پورہ کی جاگیر آپ لینا  نہیں چاہتے۔میرا خیال ہے کہ آپ وہ جاگیر قبول کر لیجئے۔ اس طرح آپ اپنے قصبے والوں کی کچھ مدد کرنے کی حیثیت بھی حاصل کر لیں گے۔ اور وہاں کے لوگوں کی خوشنودی بھی حاصل کر سکیں گے۔

شجاعت:۔          نہیں بیگم،صرف جاگیر کا مسئلہ نہیں ہے،اس جاگیر کے بدلے میں ،رابرٹ ہم سے ایک ایسا گناہ کروانا چاہتا ہے ، کہ جسے نہ تو ہمارا ضمیر گوارا کر رہا ہے،اور نہ ہمارا دل و دماغ قبو ل کر رہا ہے۔

بیگم :۔              تو ٹھکرا دیجئے اس کی جاگیر،ہمیں اب کسی جاگیر کی ضرورت نہیں ،اللہ نے ہمیں بہت نوازا ہے۔

شجاعت:۔          نہیں بیگم ،جاگیر ٹھکرانا بھی ممکن نہیں ہے ،ہمیں تواس کو ہر حال میں انجام دینا ہے۔

بیگم :۔              ایسا کیا کام ہے۔جو وہ کمبخت آپ سے کروانا چاہ رہا ہے۔

شجاعت:۔          (کچھ دیر خاموش رہ کر)بیگم اس کام کا ذکر کرتے ہوئے بھی ہماری روح کانپ رہی ہے۔

بیگم:۔               واللہ ایسا کیا کام ہے۔آپ اتنی پہیلیاں کیوں بجھا رہے ہیں ؟  صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے۔؟

شجاعت:۔          کوشش تو کر رہا ہوں ،لیکن آپ کے سامنے زبان نہیں کھل رہی ہے۔

( تبھی دروازے سے دلاور ایک سپاہی کے ساتھ آتا ہے۔)

دلاور:۔             چودھری خان بہادر صاحب۔

(دونوں چونک کر ادھر دیکھتے ہیں )

شجاعت:۔          ہاں  آؤ دلاور

دلاور:۔             حضور میرے ساتھ حاکم اعلیٰ کے سپاہی بھی ہیں۔ یہ آپ کے لئے کوئی پیغام لے کر آئے ہیں۔

شجاعت :۔         کیا پیغام لائے ہو۔

سپاہی:۔             حضور۔ آپ کو حاکم اعلیٰ نے ابھی طلب کیا ہے۔ اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں خود آپ کو اپنے ساتھ لے کر آؤں۔

شجاعت :۔         کیا مطلب،ہم اپنے آپ آ جائیں گے۔ تم جا سکتے ہو۔

سپاہی:۔             گستاخی معاف حضور،باہرسرکاری لاری کھڑی ہے،اور سپاہیوں کی ایک خاص تعداد بھی موجود ہے۔

شجاعت:۔          تمہارا دماغ خراب ہے۔کیا تم ہماری حیثیت نہیں جانتے ہو۔ ہم کون ہیں۔کیا یہ تمہیں معلوم نہیں۔؟ہم کسی سرکاری لاری میں نہیں جائیں گے۔

سپاہی:۔             معافی چاہوں گا حضور۔مجھے حکم ملا ہے کہ اگر آپ آسانی سے ہمارے ساتھ نہیں چلیں گے تو مجبوراًََ آپ کو گرفتار کر کے لے جانا ہو گا۔

( سب حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں )

بیگم:۔               خبردار،سپاہی تمہاری اوقات کیا ہے،میرے شوہر چودھری خان بہادر ہیں اس شہر کے نہایت با عزت اور با وقار جاگیر دار ہیں۔

سپاہی:۔             چودھری صاحب۔آپ ہمارے ساتھ چلتے ہیں یا پھر میں۔۔۔۔۔۔

شجاعت:۔          ( موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس کی بات کاٹ کر بولتے ہیں )  ٹھیک ہے میں چل رہا ہوں۔ذرا لباس بدل لوں۔

سپاہی:۔             ٹھیک ہے جناب۔میں یہیں انتظار کرتا ہوں۔

( شجاعت دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں ان کے پیچھے ان کی بیگم بھی چلی جاتی ہیں )

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین  4

 

اندرونی :۔  Interior

شجاعت کی حویلی ، شجاعت کی خواب گاہ

( دوسر ا کمرہ )

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

شجاعت اور انکی بیگم ( امّ ہانی )

 

(شجاعت اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہیں ،ان کے پیچھے ان کی بیگم بھی داخل ہوتی ہے)

شجاعت مڑ کر اپنی بیگم کی طرف دیکھتے ہیں ، انکی آنکھیں بھری ہوئی ہیں۔

 

بیگم :۔              اللہ۔یہ آخر کیا مصیبت آ گئی ہے،اس سے پہلے کبھی آپ کی آنکھیں نم ہوتے ہوئے نہیں دیکھیں۔آخر ایسا کیا مسئلہ ہے۔

(شجاعت اپنی بیگم کو گلے لگاتے ہیں ،اور بھرا ئی ہوئی آواز میں کہتے ہیں )

شجاعت :۔         بیگم۔ہمیں معاف کر دیجئے۔ہم اب اور برداشت نہیں کر سکتے ہم سے یہ ذلت برداشت نہیں ہو گی۔ خدا حافظ

(شجاعت حسین اپنے ہاتھ کی ہیرے کی انگوٹھی چاٹ لیتے ہیں ،ان کے منہ سے خون بہہ نکلتا ہے اور بدن ڈھیلا پڑنے لگتا ہے ، وہ  لڑ کھڑا کر پلنگ پر گر جاتے ہیں۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر بیگم گھبرا کے چلّا نے لگتی ہے۔)

بیگم:۔               چودھری صاحب۔ یہ آپ نے کیا کر لیا۔ امّی جان۔۔۔

دلاور بھائی۔ دیکھئے۔ چودھری صاحب نے کیا کر لیا۔

( وہ دوڑتی ہوئی باہر بڑے کمرہ میں جاتی ہے۔)

Cut to Next Scene

 

 

 

               سین   5

 

اندرونی۔  شجاعت کی حویلی کے اندر کا منظر

 

کردار

 

بیگم امّ ہانی۔شجاعت کی والدہ ، دلاور ، سپاہی

 

( بیگم امّ ہانی چلاتی ہوئی دوڑ کر شجاعت کے کمرہ سے باہر آتی ہے۔

اس کی آواز سن کر سب حیرت سے اس کو دیکھ رہے ہیں ،  شجاعت کی والدہ بھی دوسرے کمرہ سے نکل کر وہاں آ جاتی ہے۔

 

بیگم :۔              امی جان۔۔۔۔ دلاور بھائی۔۔۔۔۔۔۔جلدی چلئے

امّی:۔                ارے کیا ہو گیا بہو۔؟

دلاور:۔             بھابھی۔ خیریت تو ہے۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔؟

بیگم:۔               چودھری صاحب نے ہیرا چاٹ لیا۔ جلدی چلئے۔

( دلاور ،  امّی جان ،  بیگم  اور سپاہی سب دوڑتے ہوئے شجاعت کے کمرے کی طرف چلے جاتے ہیں )

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین   6

 

اندرونی۔ ٰ  Interior

( شجاعت کی خواب گاہ )

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

شجاعت ، انکی بیگم ،والدہ ، دلاور اور سپاہی

 

سب لوگ شجاعت کے کمرہ میں داخل ہوتے ہیں ،وہاں شجاعت بے جان پڑے ہیں ان کے منہ سے خون بہہ نکلا ہے،تکیہ اور چادر پر خون بکھرا ہوا ہے۔ان کی یہ حالت دیکھ کر امّی اور بیگم ان سے لپٹ جاتے ہیں۔اور زار و قطار روتے ہیں۔دلاور ان کی نبض دیکھتا ہے۔ پھر سپاہی سے کہتا ہے۔

دلاور:۔             جاؤ۔حاکم اعلیٰ کو خبر کر دو کہ ایک عزت دار انسان کا انہوں نے قتل کیا ہے۔ خدا انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔

( سپاہی باہر چلا جاتا ہے۔ پورے گھر کا ماحول غمگین ہے۔امی اور بیگم بین کر کر کے رو رہی ہیں )

منظر تحلیل ہو جاتا ہے۔

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               Scene No.6/B

 

اندرونی       :       Interior

وقت    :           رات

 

کردار

 

بیگم اُمِّ ہانی، بیگم ناصرہ دلاور اور رحیم میاں

 

گھر کے بڑے کمرے میں سب لوگ سفید کپڑے پہنے ہوئے غمگین دکھائی دے رہے ہیں اور خاموش ہیں

 

بیگم ناصرہ          :           شجاعت حسین کے انتقال کو اتنے دن ہو گئے لیکن طاہر میاں ابھی تک ولایت سے نہیں لوٹے اور نہ ہی ان کا کوئی خط آیا دلاور تم نے وہاں خبر تو  بھجوا دی تھی نا؟

دلاور    :           جی امّی جان ایک نہیں کئی بار میں نے حاکم اعلیٰ کے علاوہ دوسرے افسران سے بھی درخواست کی ہے کہ طاہر میاں کو ان کے والد شجاعت حسین خان بہادر صاحب کے انتقال کی اطلاع کر دیجیے۔ اور اس ہفتہ وار ڈاک میں طاہر میاں کے نام سے ایک خط بھی روانہ کر دیا۔

بیگم اُمِّ ہانی:                     (روتے ہوئے) ہائے میرے لال پر کیا گزاری ہو گی جب انھیں اپنے والد کے انتقال کی خبر ہوئی ہو گی۔

دلاور    :           بھابھی صاحبہ میں نے تو حکومت برطانیہ سے یہ درخواست کی ہے کہ طاہر میاں کو ہندوستان واپس بلا لیا جائے لیکن لگتا ہے کہ طاہر میاں تک نہ کوئی خط پہنچ رہا ہے اور نہ ہی کوئی خبر۔

بیگم اُمِّ ہانی:                     طاہر میاں کا ایک خط کے بعد آج تک کوئی خط بھی نہیں آیا۔پتہ نہیں میرا بچہ وہاں کس حال میں ہو گا۔

بیگم ناصرہ          :           بہو، ہم ان کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں۔بس اللہ ان کی حفاظت کرے اور انھیں ہر حال میں خوش رکھے

بیگم اُمِّ ہانی:                     حیدر آباد سے بھی ابھی تک بھائی جان نہیں آئے اور یہاں کم بخت اس فرنگی افسر نے ہم پر اتنی پابندیاں بڑھا دیں کہ ہمارے یہاں آنے جانے والے ہر شخص پر نظر رکھی جا رہی ہے۔

دلاور    :           صرف نظر ہی نہیں بھابی صاحبہ ، یہاں آنے والے ہر شخص سے پوچھ تاچھ بھی ہو رہی ہے خود میرے پیچھے بھی جاسوس لگا دیے ہیں۔ میری تو آپ سے یہی التجا ہے کہ جیسے ہی آپ کے بھائی جان یہاں آئیں آپ ان کے ساتھ حیدرآباد منتقل ہو جائیے ، یہاں حالات بہت بگڑ گئے ہیں۔ نہ جانے کب مجھے بھی کسی جرم میں پھنسا کر گرفتار کر ڈالیں۔اس ظالم فرنگی افسر اعلیٰ کا کوئی بھروسہ نہیں۔

بیگم ناصرہ          :           ہاں بی بی، ہم لوگ یہاں سے حیدرآباد ہی چلے جائیں اسی میں عافیت ہے۔یہاں تو کوئی ہمارا پر سان حال بھی نہیں۔ یا خدا اس بڑھاپے میں یہ دن دکھلانا تھا تو اس سے پہلے موت ہی کیوں نہ آ گئی اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ ایک بوڑھی بیوہ ماں کے سامنے اس کے بیٹے کا جنازہ اٹھے۔ہائے میں کیسے جی رہی ہوں تعجّب ہے۔

(دونوں ساس بہو ایک دوسرے کے گلے مل کر رونے لگتی ہیں )

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے۔)

 

 

 

 

               سین    ۷  ( Dream Sequence )

 

بیرونی :۔            Exterior 

پرانی عمارتوں ، تاریخی کھنڈروں کا منظر

وقت:۔             دن

 

کردار

 

ماہ پارہ،طاہر حسین

 

دور سے کچھ تاریخی عمارتیں ،اور کھنڈر دکھائی دیتے ہیں کیمرہ نزدیک آ جاتا ہے۔عمارتیں صاف دکھائی دینے لگتی ہیں۔ ایک ٹوٹی ہوئی عمارت کے ایک پتھر پر ماہ پارہ بیٹھی ہوئی ہے۔ اور کچھ سوچ رہی ہے۔ کیمرہ اس کو ہر زاویئے سے دکھا تا ہے۔ آخر میں ماہ پارہ کو سامنے سے کور کرتا ہوا اس کے چہرے کو فوکس کرتا ہے۔ وہ بہت دور دیکھتی ہوئی گہری سوچ میں ہے۔تبھی پیچھے سے دو ہاتھ اس کے چہرے کی طرف بڑھتے ہیں ،  اور اس کی آنکھیں بند کر دیتے ہیں۔ماہ پارہ اپنے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے ان ہاتھوں کو چھوتی ہے۔ اس کی زبان سے ایک دم نکلتا ہے۔

 

ماہ پارہ :۔                        طاہر حسین۔۔۔

( آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر وہ پلٹتی ہے۔ سامنے طاہر حسین ماڈرن لباس پہنے کھڑا مسکرا رہا ہے۔ ماہ پارہ خوشی سے اس سے لپٹ جاتی ہے۔)

ماہ پارہ :۔                        اور طاہر حسین،آخر تم آ گئے۔ بہت انتظار کروایا۔

طاہر حسین منہ سے کچھ نہیں کہتا ،اسے لپٹا کے پیار کرتا ہے۔اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے پیٹھ پر ہاتھ پھیر تا ہے۔پھر دونوں ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے۔کیمرے سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اور ایک پرانی عمارت میں کہیں غائب ہو جاتے ہیں۔

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین   8

 

اندرونی  :۔Interior

( نور محمد بیگ کے گھر کا کچن )

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

ماہ پارہ ۔  اور اس کی ماں ( روشن آرا)

 

چولہے میں لکڑیاں جل رہی ہیں۔ اور اس پر ایک برتن میں دودھ ابل رہا ہے۔ اس کے سامنے ایک چوکی پر ماہ پارہ بیٹھی ہوئی ہے۔دودھ ابل کے برتن سے باہر نکلنے لگتا ہے۔ تبھی ماہ پارہ کی ماں روشن آرا کچن میں آتی ہے ،  اور دودھ دیکھ کر زور سے کہتی ہے۔

 

ماں   (  روشن آرا سے ):   ارے بیٹی   دودھ نکلا ؟

( ماہ پارہ چونک جاتی ہے۔ اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھتی ہے ، تب تک اس کی ماں دوڑ کے آتی ہے اور ایک کپڑے سے پکڑ کر دودھ کا برتن چولہے سے اتار کر ایک طرف رکھ دیتی ہے،اور بیٹی سے کہتی ہے۔)

ماں :۔               ماہ پارہ،آپ کس سوچ میں ڈوبی تھیں ،بیٹی چولہے کے سامنے جب کام کیا کرو تو بہت دھیان رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ورنہ کوئی بڑا حادثہ بھی ہوسکتا ہے۔کیا سوچ رہی تھیں آپ۔  آپ اب فکر مند مت ہوئے

اس شیطان فرنگی کی شکایت کر دی گئی ہے۔ اس علاقے کے افسر اعلیٰ سے شکایت کے بعد اس فرنگی کو سزا دی جائے گی۔

پھر وہ آپ کو ستانے کی یا آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی ہمت نہیں کرے گا۔ انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

ماہ پارہ :۔                        ( کہیں اور دیکھتی ہوئی ، اپنے خیالوں میں گم ) امی۔طاہر حسین۔۔۔

ماں :۔               ( چونک کراس کی صورت دیکھتی ہے)ماہ پارہ۔طاہر حسین کہاں ہے؟بیٹی وہ تو ولایت سے اپنی تعلیم مکمل کر کے ہی لوٹیں گے۔اتنا عرصہ بیت گیا۔ ان کی کوئی خبر نہیں۔ تم ہمت مت ہارو۔طاہر میاں ضرور آئیں گے۔

ماہ پارہ :۔                        جی امی جان (دل ہی دل میں بڑ بڑاتی ہے)میرے طاہر حسین ضرور آئیں گے۔ مجھے تو دن رات،ہر لمحہ انہیں کا انتظار ہے۔

ماں ( روشن آرا ):۔         بیٹی اب آپ جائیے  ، نماز کا وقت ہو گیا ہے ،آپ نماز پڑھ کے آرام کیجئے، میں باقی کام سنبھا ل لوں گی۔

( ماہ پارہ نظریں نیچی کئے چپ چاپ وہاں سے باہر چلی جاتی ہے۔

اس کی ماں اس کو جاتے ہوئے غور سے دیکھتی ہے۔اور دل ہی دل میں بڑ بڑاتی ہے۔)

ماں :۔               یا اللہ میری بیٹی کی تو حفاظت کر  اسے ہر بلا، ہر مصیبت سے بچا لے مولیٰ

( پھر وہ دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہے )

Cut to Next Scene

 

 

 

 

 

               Scene No. 8/B

 

بیرونی:       (Exterior)

شہر کی سڑکیں

 

کردار

 

باغی ہندوستانیوں کا ہجوم

 

شہر کی سڑکوں پر لوگوں کا ہجوم نعرے لگاتا ہوا جوش میں چلاتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے ہاتھوں میں تختیاں اور ڈنڈے ہیں۔

ایک آواز         :           انقلاب…….

ہجوم     :           زندہ باد

بہت سی آوازیں :           انقلاب۔ ۔ ۔ ۔ زندہ باد

ایک آواز         :           ظالم حکومت …….

بہت سی آوازیں :           ’’مردہ باد، مردہ باد

ایک آواز         :           ’’ہمارا اتّحاد…..‘‘

بہت سی آوازیں :           ’’پائندہ باد‘‘

ایک آواز         :           ’’سائمن کمیشن ……‘‘

بہت سی آوازیں :           واپس جاؤ ، واپس جاؤ

کئی لوگوں کے ہاتھوں میں ترنگے جھنڈے لہرا رہے ہیں بہت سے لوگوں کے ہاتھوں میں تختیاں ہیں جن پر اردو اور ہندی میں نعرے لکھے ہوئے ہیں۔لوگوں کا ہجوم شہر کی مختلف گلیوں میں سے ہوتا ہوا ایک میدان کی طرف بڑھتا ہے۔کچھ لوگ آپس میں باتیں بھی کر رہے ہیں۔سڑک کے کنارے تین چار لوگ ایک پیڑ کے نیچے کھڑے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے ہیں

ایک آدمی         :           ’’بھئی آج کا ہجوم تو سیلا ب کی طرح بڑھ رہا ہے‘‘

دوسراآدمی:       سیلاب نہیں طوفان کہو میاں طوفان ،یہی طوفان تو ان ظالم انگریزوں کی جڑیں اکھاڑ پھینکے گا۔

تیسرا آدمی:       ہاں ، ایسا ہی ہم ہندوستانیوں کا اتحاد قائم رہے تو یہ مٹھّی بھر انگریزوں کی کیا بساط۔ ۔ ۔ ۔ ان کی تو بنیادیں تک ہل جائیں گی۔

ایک آدمی:                   سنا ہے آج کے اس جلسے کو خطاب کرنے کے لیے بڑے بڑے لیڈر آرہے ہیں۔

دوسراآدمی        :           ہاں ، جناب ، آج تو مہاتما گاندھی جی کے آنے کی پوری امید ہے اور ساتھ ہی دوسرے بڑے لیڈر ان بھی آرہے ہیں۔

تیسرا آدمی:       میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ جلیاں والا باغ میں جو قتل عام ہوا۔ان شہیدوں کے کچھ رشتہ دار بھی آنے والے ہیں۔ ان کے رونگٹے کھڑے کر دینے والی روداد جب عوام سنے گی تو سب کا خون جوش مارنے لگے گا۔

ایک آدمی         :           ہاں پہلے ہی یہاں کے لوگوں میں چودھری شجاعت حسین کے قتل سے غم و غصّہ بھر ہوا ہے۔

(Back groundمیں جلوس کی آوازیں اور نعرے سنائی دیتے ہیں )

دوسرا آدمی:      چلو بھئی ، جلدی چلیں ،ہمارے پہنچنے سے پہلے کہیں جلسہ نہ شروع ہو جائے۔

تیسرا آدمی:       ہاں ، چلو، ایسے موقع کو ہرگز گنوانا نہیں چاہیے، اب تو عوام میں اتنا جوش بھر گیا ہے کہ آج ہندوستان کا بچہ بچہ اپنے وطن پر قربان ہونے کو تیار ہے۔

(سب لوگ جوش سے نعرے لگاتے ہوئے بھیڑ کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ کیمرہ دور سے لوگوں کو آگے بڑھتے ہوئے فوکس کرتا ہے۔

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے۔)

 

 

 

               سین  9

 

اندرونی۔Interior

( نور محمد کا گھر )

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

ماہ پارہ  ،  نور محمد بیگ  ،   بیگم ( روشن آرا)

 

ماہ پارہ کچن سے نکل کر دوسرے کمرے میں آتی ہے ، اور جانماز بچھا کر نماز پڑھتی ہے۔ تبھی نور محمد بیگ گھر میں داخل ہوتے ہیں۔بیٹی کو نماز پڑھتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ماہ پارہ نماز ختم کر کے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتی ہے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر اٹھتی ہے اور جا نماز طے کرتی ہے تبھی اس کی نظریں اپنے والد پر پڑھتی ہیں۔

 

ماہ پارہ:۔                        ارے ابّو جان،آپ کب آئے۔؟امّی تو کہہ رہی تھیں کہ آج آپ دیر سے گھر لو ٹیں گے۔

نور محمد بیگ :۔   ہاں بیٹی کہہ کے یہی گیا تھا کہ میں دیر سے گھر آؤں گا۔۔۔

( تبھی بیگم روشن آرا بھی کمرے میں داخل ہوتی ہے۔)

بیگم :۔              ارے آپ بہت جلدی آ گئے۔؟

نور محمد:۔                       ہاں بیگم یہی میں ماہ پارہ سے کہہ رہا تھا،کہ بارہ گاؤں کے امن پرست نمائندوں کی جو میٹنگ ہونے والی تھی فرنگیوں نے اس کو بھی باغیوں کی میٹنگ تصور کیا۔ اور پابندی لگا دی ، اسلئے وہ میٹنگ نہیں ہوئی۔

بیگم :۔              آپ نے تو انگریز افسر اعلیٰ سے ملنے کا وقت مانگا تھا،اس کا کیا ہوا، آپ کی درخواست تو منظور ہو گئی تھی نا۔کیا انہوں نے آپ سے ملنے کا کوئی وقت مقرر کیا یا نہیں۔؟

نور محمد:۔                       ابھی وقت تو مقرر نہیں ہوا۔ قصبے میں افواہوں کا بازار گرم ہے۔سنا ہے کہ شہر میں کسی بڑے جاگیر دار کی موت ہو جانے پر وہاں کافی انتشار پھیل گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ انہوں نے خود کشی کی ہے ، کوئی کہتا کہ ان کا قتل ہوا ہے۔واللہ اعلم۔ اس جاگیر دار کا فرنگیوں سے بہت ربط و ضبط تھا۔اسلئے اس کے قتل کا الزام باغی نوجوانوں پر لگایا جا رہا ہے،اس لیے سختی بہت بڑھا دی گئی ہے۔

بیگم:۔               خدا خیر کرے،روز کوئی نہ کوئی نئی مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے۔  وہ جاگیر دار کون تھے۔ کیا ان کا نام معلوم ہوسکا۔؟

نور محمد:۔                       نہیں بیگم۔لیکن یہی کیا کم ہے کہ وہ ایک ہندوستانی تھا۔اس لیے تمام ہندوستانیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔

بیگم:۔               جو بھی ہو۔آپ محتاط رہئے گا۔بہت زیادہ میٹنگ ویٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں اور بہت زیادہ آگے آ گے بھی مت رہئے گا۔پہلے ہی آپ پر فرنگیوں نے شکنجہ کس رکھا ہے۔ آپ کو ستانے کا تو بس انہیں بہانا چاہیئے۔  ۔میری مانیے تو کچھ روز آپ گھر سے باہر نکلئے ہی نہیں۔

(نور محمد مسکراتے ہیں۔اس بیچ ماہ پارہ کچھ اور سوچ رہی ہوتی ہے،اسے ماں باپ کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں )

نور محمد:۔                       نہیں بیگم اس قدر ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ موت تو ایک دن آنی ہے۔اگر اپنے وطن کی خاطر موت آ جائے تو زندگی کا حق ادا ہو جائے

بیگم :۔              ( بات کاٹتے ہوئے ) موت آئے کمبخت ان فرنگیوں کو جنھوں نے ہندوستانیوں کا جینا مشکل کر رکھا ہے۔

( پھر دونوں کی نظریں ماہ پارہ پر پڑتی ہیں۔جوہر چیزسے بے نیاز کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ پھر نور محمد بات کا موضوع بدل کر کہتے ہیں )

ارے ہاں ،بیگم، آپ کو ماہ پارہ کے لئے کپڑے اور کچھ چیزیں خریدنی تھیں نا۔آج ہفتہ وار بازار لگا ہے۔میں ادھر ہی سے دیکھتا ہوا آیا ہوں۔اس بار بہت دور دور سے بزاز اور دیگر تاجر آئے ہیں ان کے پاس بہت اچھا ساما ن ہے۔ ماہ پارہ کو ساتھ لے جائیں۔ بیٹی اپنی پسند کی چیزیں بھی دیکھ لے گی۔

بیگم :۔              ارے ہاں ، اچھا یا دلایا۔ ماہ پارہ چلو بیٹی۔۔۔

ماہ پارہ :۔                        کہاں امّی۔۔؟

بیگم:۔               ارے ابھی تو تمہارے ابّو نے کہا ہے کہ آج ہفتہ روزہ بازار میں بہت دور دور سے بہت اچھا سامان آیا ہے۔تم اپنی پسند کا اپنی ضرورت کا ساما ن خرید لینا۔

ماہ پارہ :۔                        ٹھیک ہے امّی۔

بیگم :۔              تو چلو۔ تیار ہو جاؤ

ماہ پارہ :۔                        تیا ر کیوں ، میں ٹھیک تو ہوں۔

بیگم :۔              ارے بیٹی تمہیں کیا ہوتا جا رہا ہے۔ان کپڑوں میں بازار چلو گی۔؟

چلو دوسرا جوڑا بدل لو۔۔

ماہ پارہ :۔                        (ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ )  ٹھیک ہے امی ،  میں تیار ہو جاتی ہوں

( منظر تحلیل ہو جاتا ہے )

 

 

End Of Episode

 

 

 Episode  10

 

               سین  1

 

بیرونی :۔ Exterior

( مالیر پورہ فوجی کیمپ کا باہری منظر )

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

فوجی سپاہی ،  اور قصبے کے کچھ لوگ ،

 

کیمپ کے تنبو ، سپاہی ادھر ادھر چلتے پھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ایک خوبصورت تنبو کے سامنے کچھ سپاہی مستعد کھڑے ہیں ، ایک طرف قصبے کے کچھ معتبر لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ آپس میں باتیں کر رہے ہیں ،  کیمرہ ایک سپاہی پر آ کر رکتا ہے۔  وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا ہے۔

 

سپاہی :۔ (۱)      اتنا دن چڑھ آیا ہے۔ صبح سے ان لوگوں کو بلا کر بٹھا لیا۔ ابھی تک حاکم اعلیٰ کا کچھ پتہ نہیں۔

سپاہی :۔( ۲)    ہاں بھئی،ان افسروں کا مزاج ہی الگ ہوتا ہے،اور پھر رابرٹ صاحب تو سب سے نرالے ہیں۔ہندوستانیوں کو طرح طرح سے ستا نے میں انہیں بڑا مزہ آتا ہے۔

سپاہی :۔(۱)      رابرٹ ولیم نے جب سے افسر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے ، ان کا اس کیمپ میں پہلا دورہ ہے۔ اسلئے کچھ زیادہ ہی تیاریاں چل رہی ہیں۔

سپاہی:۔(۲)      ہاں سرکاری طور پر اس کیمپ میں ان کا پہلا دورہ ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ چھپتے چھپاتے کئی بار اس قصبے میں آ چکے ہیں۔

سپاہی :۔(۱)      اے ، خبر دار،اپنے منہ سے اس کا ذکر بھی مت کرنا،تمہیں معلوم نہیں ، پچھلی مرتبہ جب وہ یہاں آئے تھے تو ایک سپاہی نے اس کی خبر کیمپ میں دے دی تھی، اس کا کیا حشر ہوا۔مار مار کے چمڑی ادھیڑ دی تھی۔اس سپاہی کا پتہ ہی نہیں ، تبھی انہوں نے کہہ دیا تھا کہ ان کے آنے جانے کی کسی کو خبر نہ ہو،جانتے سب ہیں لیکن کوئی زبان کھولنے کی ہمت بھی نہیں کرتا۔

سپاہی :۔( ۲)    ہاں ، سب یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ یہاں کیوں آتے ہیں۔ ماہ پارہ کو چھپ چھپ کے دیکھنے کیلئے

سپاہی :۔(۱)      آج تو انہوں نے نور محمد بیگ صاحب کو بھی بلوایا ہے۔پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے۔

سپاہی :۔(۲)     نور محمد صاحب کی درخواست تھی کہ وہ افسر اعلیٰ سے ملنا چاہتے ہیں ،  اسلئے خاص طور پر ان سے ملاقات کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔

سپاہی :۔(۱)      ہاں بے چارے ، نور محمد صاحب ،  وہ جانتے ہی نہیں کہ جو فرنگی ان کی بیٹی پر بری نظر رکھتا ہے۔وہی افسر اعلیٰ بن بیٹھا ہے۔ اب اسی سے اس کی شکایت کریں گے۔

( تبھی کیمپ میں ہلچل شروع ہو جاتی ہیں ،دور سے ایک جیپ آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔قصبے کے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اس سے رابرٹ ولیم  اتر تا ہے۔اور خاص انداز میں اپنے تنبو کی طرف بڑھتا ہے۔سارے سپاہی اس کو سلیوٹ کرتے ہیں۔قصبے کے لوگ بھی اس کو جھک کرسلام کرتے ہیں ، وہ سپاہیوں کی بیچ سے گزرتا ہوا تنبو میں داخل ہو جاتا ہے۔

Cut to Next Scene

 

 

 

 

 

 

 

               سین  2

 

 اندرونی  :Interior

( فوجی کیمپ ،  تنبو کے اندر کا منظر )

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

رابرٹ ولیم ، کچھ  سپاہی۔

 

خوبصورت تنبو کے اندر شاندار صوفہ اور کرسیاں سجی ہوئی ہیں تنبو کے اندر رابرٹ ولیم داخل ہو جاتا ہے۔

اس کے ساتھ دو سپاہی ہیں۔رابرٹ بیچ میں رکھے ہوئے صوفہ پر جا بیٹھتا ہے،سینٹرل ٹیبل پر،سیب،انار، سنترے انگور وغیرہ پھل رکھے ہوئے ہیں۔ساتھ ہی ایک بڑے سے تھال میں ،کاجو ، بادام،کشمش،اخروٹ وغیرہ رکھے ہیں ،ایک جگ میں پانی اور ایک جگ میں شربت اور کچھ گلاس دکھائی دے رہے ہیں۔ رابرٹ ولیم کے سامنے ایک سپاہی اپنے ساتھ لائی ہوئی فائل رکھ دیتا ہے۔ اور دونوں سپاہی تن کے کھڑے ہو جاتے ہیں رابرٹ ولیم فائل کھولتا ہے۔ کاغذات الٹ پلٹ کرتا ہے پھر کہتا ہے۔

 

رابرٹ ولیم :۔   کیا مسٹر نور محمد بیگ آیا ہے۔ ؟

سپاہی:۔             Sorry Sir  ہم نے انہیں خبر کر دی تھی۔ صبح ایک سپاہی کو بھی بلانے بھیجا تھا۔ لیکن ان کی بہت طبیعت خراب ہے۔درد سے تڑپ رہے ہیں۔ بستر سے اٹھا نہیں جا رہا ہے۔

رابرٹ :۔                     باہر قصبے کے کتنے لوگ ہیں۔؟

سپاہی  :۔                       حاکم۔ کل سات لوگ ہیں ،جنہیں آپ نے ملنے کا وقت دیا ہے۔یہ لوگ صبح سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔

رابرٹ :۔                     Well  ان سے کہہ دو کہ ہم ان سے کل ملیں گے۔ ابھی وہ جا سکتے ہیں۔

دونوں سپاہی سلیوٹ کر کے باہر چلے جاتے ہیں۔رابرٹ ولیم صوفے سے اٹھ کر تنبو کے اندر ٹہلنے لگتا ہے۔اپنے ہاتھ کے ڈنڈے کو ہوا میں گھماتا ہے۔ کچھ سوچتا ہے۔ پھر دل ہی دل میں بڑبڑاتا ہے۔

رابرٹ :۔                     ماہ پارہ۔a piece of moon   چاند کا ٹکڑا۔

Really she is a beauty queen ۔  ہم اس کو ضرور حاصل کرے گا۔

۔۔۔ But  ۔ نور محمد بیگ کیسے راضی ہو گا۔ وہ ایک عزت دار مغل ہے۔ اور سچا  ہندوستانی۔۔۔۔۔

Don’t Worry   ہم اس کو راضی کر لے گا۔

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین  3

 

 بیرونی  :۔ Exterior

( کیمپ کا باہری منظر )

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

سپاہی اور قصبے کے لوگ

 

سپاہی رابرٹ ولیم کے تنبو سے باہر نکلتے ہیں۔ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس جاتے ہیں۔ان سے کچھ کہتے ہیں۔ سبھی لوگ کرسیوں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ،  سپاہیوں سے کچھ دیر گفتگو ہوتی ہے۔پھر وہ سب لوگ آہستہ آہستہ کیمپ سے نکل کر قصبے کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ سپاہی واپس آ کر رابرٹ کے تنبو کے باہر مستعدی سے پہرا دینے لگتے ہیں۔

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین  4

 

 اندرونی :۔ Interior

( رابرٹ ولیم کے تنبو کا اندرونی منظر )

وقت :۔                         دن

 

کردار

 

رابرٹ ولیم

 

رابرٹ اپنے تنبو میں بے چینی سے ٹہل رہا ہے ، اور دل ہی دل میں کچھ بڑ بڑا رہا ہے۔

 

رابرٹ :۔                     کیا ماہ پارہ ہم کو مل سکتا ہے۔؟ Off course why not۔ہم یہاں کا حاکم اعلیٰ ہے۔ہم Powerful   ہے۔نور محمد بیگ ایک سیدھا سادہ،چھوٹا سا زمیندار ،  Not Zameendar   وہ تو ایک کسان ہے۔Poor Fellow   ہم جو کہے گا اس کو مان نا پڑے گا۔  but   ماہ پارہ

Will she agree?    ہاں پہلے ماہ پارہ کو راضی کرنے کو مانگتا۔۔۔۔

( وہ کچھ سوچنے لگتا ہے۔ اور خیالوں میں کھو جاتا ہے )

Cut to Next Scene

 

 

 

               سین:  5              Dream Sequence

 

بیرونی :۔            Exterior

( خوبصورت باغ )

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

رابرٹ ولیم اور ماہ پارہ

 

ایک خوبصورت ہرے بھرے باغ کا منظر۔ ماہ پارہ اپنا دوپٹہ ہوا میں  لہراتی ہوئی خوشی سے ناچ رہی ہے۔ ادھر ادھر دوڑ رہی ہے۔رابرٹ ولیم سادے لبا س میں دوڑ تا ہوا اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں۔ ماہ پارہ اس کو دیکھ کر شرم سے ،  دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپا لیتی ہے۔

اس کا دوپٹہ ہوا میں  اڑ کر تھوڑ ی دور گر جاتا ہے۔ رابرٹ آہستہ سے اس کا ہاتھ پکڑتا ہے۔ اور کلائیاں پکڑ کر اس کے چہرے سے ہٹاتا ہے ماہ پارہ آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ رابرٹ اس کے ماتھے پر آئی ہوئی بالوں کی لٹ کو اپنی انگلی سے ہٹاتا ہے۔اس کے چہرے پر شرم کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ رابرٹ اپنی انگلی سے اس کی پیشانی ، گال ، آنکھیں ، گردن،اور ہونٹوں کو چھوتا ہے۔

Romantic Scene

کیمرہ مختلف زاویوں سے ان کو دکھاتا ہے۔ دونوں محبت کے جذبات میں ڈوبے ہوئے ہیں پھر رابرٹ ولیم ،  ماہ پارہ کو اپنی بانہوں میں جکڑ کر سینے سے لگاتا ہے۔ تبھی ایک دم سے سین کٹ جاتا ہے۔

Cut to Next Scene

 

 

 

               سین   6

 

اندرونی :۔  Interior

(رابرٹ ولیم کا تنبو )

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

رابرٹ ولیم  ، سپاہی،  نور محمد بیگ

 

رابرٹ ایک کشن کو سینے سے لگائے ہوئے بھینچ رہا ہے۔ایک دم خیالوں سے چونک کر کشن کو صوفے پر پھینک دیتا ہے ، اور ادھر ادھر دیکھتا ہے کہ کسی نے دیکھا تو نہیں تنبو میں اس کے علاوہ کوئی نہیں۔  وہ ہلکا سا مسکرا تا ہے۔ اور دل ہی دل میں کچھ کہتا ہے۔

رابرٹ ولیم :۔    اوہ ، ماہ پارہ۔ تمارا خیال ہی اتنا خوبصورت،اتنا مزے دار ہے۔ تو۔ جب تم میریReal Life میں آ جائے گا تو کتنا اچھا ہو گاWonderful

( پھر تھوڑا رک کر سامنے لٹکتے ہوئے پیتل کے گھنٹے پر ڈنڈا مارتا ہے۔ گھنٹے کی آواز سن کر سپاہی اندر آتا ہے۔ سلیوٹ کرتا ہے۔)

رابرٹ ولیم :۔    سپاہی۔ مسٹر نور محمد کو خبر کر دو کہ ہم ان سے ملنے ان کے گھر ابھی آتا ہے

( سپاہی چونک کر اس کو دیکھتا ہے )

سپاہی :۔                        yes sir  ( کہہ کر باہر چلا جاتا ہے )

تھوڑی دیر میں سپاہی دوبارہ واپس اندر آتا ہے

سپاہی :۔                        ( سلیوٹ کر کے ) حضور۔ نور محمد بیگ صاحب آ گئے ہیں ،  اور آپ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔

رابرٹ :۔         ارے۔ وہ تو۔۔۔ اچھا اندر لے آؤ

سپاہی :۔                        Yes sir۔( واپس جاتا ہے )

پھر نور محمد بیگ کو سہارا دے کر اندر لاتا ہے۔نور محمد بیگ رابرٹ کو سلام کرتے ہیں۔

نور محمد بیگ :۔    آداب عرض ہے۔ حاکم اعلیٰ کا اقبال بلند ہو۔

رابرٹ :۔                    Well   مسٹر نور محمد بیگ ، ٹم ٹو بیمار تھا۔؟

نور محمد بیگ :۔    جی حضور،کبھی کبھی سینے میں شدید درد ہو جاتا ہے،اسی وجہ سے تاخیر ہوئی۔ گستاخی کی معافی چاہتا ہوں۔

رابرٹ :۔                     ok.   ہم خود آپ کے گھر آ رہا تھا  any way   بتایئے تم ہم سے کیوں ملنا چاہتا تھا

نور محمد :۔                       حضور کا وقار بلند رہے،بندہ ایک التجا لے کر آیا ہے ، اگر اجازت ہو تو عرض کروں۔؟

رابرٹ :۔                     اجازت ہے۔

نور محمد :۔                       حضور میری ایک معصوم لڑکی ہے،اسے کوئی انگریز افسر پریشان کر رہا ہے،آپ کی مہربانی ہو جائے تو وہ شخص اپنی اس حرکت سے باز رہے گا۔اور ہمارے خاندان کو سکون میسر ہو گا۔

رابرٹ ولیم:۔     کیا تم اس افسر کو جانتا ہے۔؟

نو رمحمد :۔                       نہیں سر کار۔ میں نے تو کبھی ان کو نہیں دیکھا۔لیکن میری بیٹی بہت خوفزدہ ہے۔

رابرٹ ولیم :۔    مسٹر بیگ،اپنی بیٹی سے کہو کہ اس سے خوفزدہ نہ ہوں ،آپ کی بیٹی کا ہم حفاظت کرے گا۔تمہاری فیملی کو کوئی پریشان نہیں کرے گا۔

نور محمد:۔                       شکریہ حضور، آپ سے اس اعلیٰ ظرفی کی امید تھی۔

رابرٹ :۔                     مسٹر بیگ۔ وہ انگریز افسر تمہاری بیٹی سے محبت کرتا ہے ،  اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔

نور محمد:۔                       لیکن حضور۔ وہ انگریز ہم ہندوستانی۔

رابرٹ ( قہقہہ لگاتے ہوئے ) اس میں کوئی حرج نہیں۔ شادی ایک مرد اور ایک عورت کے بیچ ہوتا ہے۔ انگریز اور ہندوستانی کے بیچ نہیں۔ اور وہ انگریز افسر کوئی اور نہیں ، ہم خود ہیں۔

( نور محمد دنگ رہ جاتے ہیں ، اور حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہیں )

ہم ماہ پارہ، آپ کی بیٹی سے بہت محبت کرتا ہے،اس سے شادی کرنا مانگتا ہے۔

( نور محمد کی آنکھوں میں غصہ نظر آتا ہے ، اس کا جسم تھر تھرا نے لگتا ہے )

نور محمد:۔                       (غصے سے اٹھتے ہوئے ) حضور یہ ممکن نہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔

رابرٹ :۔                     Well   ہم تم کو سوچنے کا موقع دیتا ہے۔

(نور محمد جانے کے لئے مڑتا ہے)

نور محمد :۔                       اجازت چاہوں گا حضور۔

رابرٹ :۔                     ٹھیک ہے ابھی ٹم جاؤ۔لیکن یہ یاد رکھنا۔تم نظر بند چل رہے ہو تم پر باغی ہونے کا شک بھی ہے،تم پر بغاوت کرنے کا مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے۔You Know   تم جیل بھی جا سکٹاہے۔

( اس کی باتیں سنکر نور محمد کے سینے میں درد اٹھتا ہے۔ وہ تکلیف سے کراہتے ہوئے جھک جاتے ہیں۔

تبھی رابرٹ سپاہی کو آواز لگاتا ہے۔

رابرٹ :۔                     سپاہی۔۔ سپاہی

( سپاہی اندر آ تا ہے )

سپاہی ، مسٹر بیگ کا طبیعت خراب ہو رہا ہے ،ان کو سہارا دے کر ان کے گھر پہنچا دو۔

( سپاہی نور محمد کو سہارا دے کر باہر لے جاتا ہے )

Cut to Next Scene

 

 

 

               سین    ۷

 

اندرونی :۔  Interior

نور محمد کا گھر۔ اندرونی حصہ

وقت :۔                        دن

 

کردار

 

نور محمد بیگ،  ان کی بیگم روشن آرا ،  ماہ پارہ ، سپاہی

 

روشن آرا دروازہ کھولتی ہیں ، سامنے نور محمد بیگ کو سہارا دیتے ہوئے سپاہی کو دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہے۔

 

بیگم روشن آرا :۔  ارے کیا طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔ ( انہیں سہارا دے کر اندر لینے کی کوشش کرتی ہے۔تبھی اندر سے ماہ پارہ بھی دوڑتی ہوئی آتی ہے )

ماہ پارہ :۔                        ابّو۔کیا طبیعت اور زیادہ خراب ہو گئی۔؟

(سپاہی انہیں چھوڑ کرواپس جاتا ہے،ماہ پارہ دروازہ بند کر دیتی ہے ،  دونوں ماں بیٹی نور محمد کو سہارا دے کر اندر لے آتی ہیں ،اور پلنگ پر لٹا دیتی ہیں )

بیگم :۔              بیٹی پانی لے آؤ۔ اور ہاں چولھے پر پانی گرم کرنے کے لئے بھی رکھ دو۔اور وہ حکیم صاحب کی بھیجی ہوئی دوائیں اور تیل بھی لے آؤ۔

ماہ پارہ :۔                        ٹھیک ہے امّی جان ( ماہ پارہ اندر چلی جاتی ہے)

بیگم :۔              میں نے آپ کو کتنا منع کیا کہ ابھی طبیعت ٹھیک نہیں۔ آج نہ جانے حاکم سے ملنے پھر کبھی چلے جاتے۔

(نور محمد بیگ لیٹے ہی لیٹے انہیں دیکھتے ہیں ، لیکن زبان سے کچھ نہیں کہتے)

بیگم بڑبڑاتی رہتی ہیں۔ماہ پارہ پانی اور دواؤں کی پوٹلی اٹھا لاتی ہے۔اور نور محمد کو دوا پلا کر لٹا دیتی،اور ان کا سردبانے لگ جاتی ہے۔تبھی نور محمد بیٹی ہاتھ پکڑ کر اس کی صورت دیکھتے ہیں ،پھر محبت سے اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہیں ،ان کی آنکھوں سے آنسو ں نکل پڑتے ہیں۔لیکن فوراََ ہی وہ اپنی آنکھیں پوچھ لیتے ہیں )

بیگم:۔               کیا ہوا۔اتنی طبیعت خراب کیسے ہو گئی۔؟کیا وہاں جا کے درد زیادہ بڑھ گیا۔؟

(نور محمد بیگ بس ان کی صورت دیکھتے رہتے ہیں )

آپ کچھ بولتے کیوں نہیں۔ کیا افسر اعلیٰ سے ملاقات ہوئی۔؟ آپ کی شکایت تو غور سے سنی ہو گی نا۔اس نے کیا دلاسہ دیا۔ ہماری ماہ پارہ کو اس درندے سے تو اب چھٹکارہ مل جائے گا نا۔؟

( نور محمد اشارے سے انہیں روکتے ہیں ، اور کہتے ہیں )

نور محمد:۔                       بیگم،یہ تفصیل بعد میں بتائیں گے ،ابھی ہمیں نیند آ رہی ہے ، تھوڑی دیر ہمیں سونے دیجئے۔

بیگم :۔              ٹھیک ہے،آپ آرام کیجئے،میں حکیم صاحب کو بلاتی ہوں۔

(بیگم اور ماہ پارہ،نور محمد کو چادر اڑھا کر کمرے سے نکل جاتی ہیں۔اور دوسرے کمرے میں جا کر آپس میں باتیں کرتی ہیں )

بیگم:۔               پتہ نہیں وہاں کیا ہوا ہو گا ،تمہارے ابو کو میں نے اس سے پہلے ایسی حالت میں نہیں دیکھا۔

ماہ پارہ :۔                        امی جان،میں حکیم صاحب کو بلا لاؤں ،

بیگم :۔              ہاں بیٹی ، تم حکیم صاحب کو بلا لے آؤ،تب تک میں تمہارے ابو کا خیال رکھتی ہوں۔

(ماہ پارہ گھر سے باہر چلی جاتی ہے۔)

Cut to Next Scene

 

 

 

               سین   8

 

اندرونی

نور محمد بیگ کا گھر۔  اندرونی حصہ

وقت :۔                        رات

 

کردار

 

نور محمد ،  بیگم روشن آرا ،  ماہ پارہ ،  حکیم صاحب

 

رات کا وقت،حکیم صاحب نور محمد کی نبض دیکھ رہے ہیں ،بیگم اور ماہ پارہ ان کے سراہنے کھڑی ہیں۔

 

حکیم صاحب:۔   بیگ صاحب ،  آپ کی نبض سے تو یہ اندازہ لگ رہا ہے کہ آپ کی یہ حالت پرانے مرض سے نہیں بلکہ نئی کوئی مصیبت کو آپ نے دعوت دی ہے۔دل کی دھڑکنیں معمول پر نہیں ہیں لگتا ہے آپ کو کوئی اچانک صدمہ لگا ہے۔

نور محمد:۔                       نہیں حکیم صاحب،آج چونکہ زیادہ دوڑ بھاگ ہو گئی،اسلئے تھوڑی سی تھکن کا احساس ہے یہ لوگ خواہ مخواہ ہی پریشان ہو جاتی ہیں۔ میں ٹھیک ہوں۔

حکیم صاحب:۔   میاں۔ حکمت کرتے ہوئے عمر گزری ہے۔یہ معمولی تھکن نہیں ، بلکہ آپ کو کوئی شدید صدمہ پہنچا ہے۔خیر آپ نہ بتانا چاہیں تو کوئی بات نہیں ،میں دوائیں ،دے دیتا ہوں ،(پھر بیگم سے مخاطب ہو کر)

بیگم صاحبہ یہ دوائیں شہد کے ساتھ رات میں تین مرتبہ دیجئے ، اللہ نے چاہا تو افاقہ ہو گا۔ کل صبح پھر مجھے ان کی کیفیت بتائے گا ،زیادہ طبیعت پر گرانی محسوس کریں تو مجھے بلوا لیجئے گا،میں آ جاؤں گا۔اب چلتا ہوں۔

نور محمد:۔                       شکریہ حکیم صاحب،آپ کو زحمت ہوئی

( حکیم صاحب جانے لگتے ہیں ) ماہ پارہ انہیں دروازے تک چھوڑ نے جاتی ہے۔ جیسے ہی دروازہ کھلتا ہے۔ سامنے رابرٹ ولیم کھڑا ہوا دکھائی دیتا ہے )

End of  Episode

 

 

 

 

Episode No.11

 

               سین نمبر 1

 

 بیرونی:       (Exterior)

وقت:               رات

 

کردار

 

ماہ پارہ، رابرٹ  ولیم، حکیم صاحب

 

(نور محمد بیگ کے مکان کے باہر کا حصہ۔ )

بند دروازہ کھلتا ہے اس میں سے حکیم صاحب نکلتے ہیں ، ماہ پارہ انہیں چھوڑنے باہر آتی ہیں ، سامنے ہی رابرٹ ولیم کھڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ماہ پارہ وہیں ، حیرت زدہ کھڑی رہ جاتی ہے۔ حکیم صاحب فرنگی افسر کو دیکھ کر پوچھتے ہیں۔

 

حکیم صاحب:۔   جی حضور، آپ نے کیسے زحمت فرمائی ، کیا نور محمد صاحب سے ملنا ہے۔؟

رابرٹ:۔                      جی نہیں۔۔۔۔۔ ہم ان کا حال جاننے آئے ہیں ، اب کیسے ہیں وہ ؟ ، دن میں کیمپ میں آئے تھے تب ان کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔

حکیم صاحب:۔   اب ٹھیک ہیں ،میں نے دوائیں دے دی ہیں۔ابھی وہ سوگئے ہیں۔

رابرٹ:۔                      اوکے۔ ہم ان کو ڈسٹرب نہیں کریں گے۔

(حکیم صاحب چلے جاتے ہیں ، ماہ پارہ بت بنی ہوئی کھڑی ہیں۔ رابرٹ اس سے کہتا ہے)

رابرٹ:۔                      ہیلو ماہ پارہ

(ماہ پارہ چونک جاتی ہے اور جلد ہی واپس مڑنا چاہتی ہے۔تبھی رابرٹ آگے بڑھ کر دروازے میں اس کا راستہ روک لیتا ہے )

رابرٹ:۔                      ماہ پارہ۔۔۔۔ ہم تم سے محبت کرتا ہے، آئی لو یو تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ پلیز ایکسیپٹ مائی پرپوزل۔(Please accept my proposal)

(ماہ پارہ  اس کو نفرت سے دیکھتی ہے، اور اس سے بچتی ہوئی دروازے میں گھس کر دروازہ اندر سے بند کر لیتی ہے۔ کچھ دیر رابرٹ وہیں رکتا ہے، آگے بڑھ کر دروازہ کھٹکھٹانا چاہتا ہے ، لیکن پھر ارادہ بدل کر واپس چلا جاتا ہے۔)

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے)

Cut to Next Scene

 

 

 

 

سین نمبر2 ۔      (Dream sequence)

 

بیرونی

(جنگل کا منظر ، کھنڈر اور پرانی عمارتیں )

وقت:۔             شام (ڈھلتا ہوا سورج)

 

کردار

 

ماہ پارہ، رابرٹ ولیم، طاہر حسین

 

(ڈھلتا ہوا سورج، پیڑوں کے لمبے لمبے سائے،پرانی عمارتیں اور کھنڈر، کیمرہ وائڈ رینج سے یہ سب منظر کور کرتا ہے۔بہت دور سے ماہ پارہ دکھائی دیتی ہے جو ایک پتھر پر یا ٹوٹی ہوئی دیوار پر بیٹھی ہے،کیمرہ آہستہ آہستہ اس کو فوکس کرتا ہے اس کا چہرہ اداس ہے، آنکھوں میں کسی کا انتظار ہے،تبھی اس کو ایک دیوار کے پیچھے سے ایک سایہ دکھائی دیتا ہے، وہ غور سے اس سائے کو دیکھتی ہے۔ وہ سایہ اس کی طرف بڑھتا ہے،وہ گھبرا کر کھڑی ہو جاتی ہے پھر دیوار کے پیچھے سے رابرٹ ولیم نکلتا ہے اور اس کی طرف بڑھتا ہے۔ماہ پارہ وہاں سے بھاگنے لگتی ہے۔ جنگلوں ، اور پیڑ پودوں کے بیچ بھاگتی رہتی ہے۔رابرٹ اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ )

(بالکل اس طرح جس طرح کوئی چیتا ہرنی کا پیچھا کرتا ہے۔)

(Stock scene of deer and cheetah)

یہ منظر کبھیnormalاورکبھی slow motionمیں دکھایا جائے گا کبھی دونوں کے بیچ فاصلہ بہت کم ہو جاتا ہے، ماہ پارہ کا ڈوپٹہ رابرٹ کے ہاتھوں میں آ جاتا ہے۔ وہ بغیر دوپٹے کے ہی جنگلوں میں بھاگ رہی ہے۔ کبھی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ پھر ایک جگہ آ کر رابرٹ کے ہاتھوں میں ماہ پارہ کے کھلے بال آ جاتے ہیں ، لیکن وہ اس کو دھکا دے کر گرا دیتی ہے اور تیزی سے بھاگنے لگتی ہے۔ بھاگتے بھاگتے وہ بہت تھک چکی ہے۔ نڈھال پریشان ، پیر ڈگمگانے لگتے ہیں۔ بس وہ گرنے ہی والی ہوتی ہے کہ سامنے سے اسے کوئی تھام لیتا ہے۔ وہ اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ طاہر حسین اسے تھام کر سینے سے چپٹا لیتا ہے۔ طاہر حسین کو دیکھ کر رابرٹ ولیم، دور کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور پھر واپس چلا جاتا ہے۔ ماہ پارہ گھٹی گھٹی آواز سے کہتی ہے۔

ماہ پارہ:۔                        اوہ ، طاہر حسین آپ آ گئے۔

(طاہر حسین اس کو دیکھ کر مسکراتا ہے، اور وہ طاہر کا نام بار بار لے کر پکارتی ہے۔

ماہ پارہ:۔                        طاہر حسین۔۔۔۔۔۔۔ طاہر۔۔۔۔۔۔ حسین۔۔۔۔۔۔۔

End of Dream

Cut over to next scene

 

 

 

 

               سین نمبر3

 

 اندرونی منظر :        (Interior)

(نور محمد کے گھر کا منظر)

وقت:۔             رات

 

کردار

 

ماہ پارہ، نور محمد بیگ اور ان کی بیگم روشن آرا

(ماہ پارہ سوتے ہوئے گھٹی گھٹی آواز میں چلا رہی ہے۔)

 

ماہ پارہ:۔                        طاہر حسین۔۔۔۔۔۔ طاہر۔۔۔۔ حسین۔۔۔۔۔

(دوسرے پلنگ پر سوئی ہوئی ان کی ماں ، بیگم روشن آرا نیند سے جاگ جاتی ہے اور دوسرے کمرے سے نور محمد بھی اس کی آواز سن کر وہاں آ جاتے ہیں ، ماں اس کو ہلا ہلا کر اٹھاتی ہے۔

بیگم روشن:۔      ماہ پارہ۔۔۔۔۔ ماہ پارہ۔۔۔۔۔ کیا ہوا بیٹی، ماہ پارہ۔۔۔۔۔

(ماہ پارہ گھبرا کر نیند سے جاگ اٹھتی ہے)

نور محمد بیگ ماہ پارہ کے پاس بیٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں ، کیا ہوا بیٹی۔ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے۔۔۔؟

ماں اس کو گلے لگا لیتی ہے، وہ پٹھی پھٹی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھتی ہے، پھر نور محمد اسے گلاس سے پانی پلاتے ہیں۔

نور محمد:۔                       گھبرا ؤ نہیں بیٹی۔۔۔۔۔ تم خواب دیکھ رہی تھیں۔۔۔کوئی بات نہیں ہے،

بیگم:۔               بیٹی کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کرو۔

(ماہ پارہ کروٹ بدل کر لیٹ جاتی ہے، نور محمد اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں ، ماں ، اس پر دعائیں پڑھ پڑھ کر دم کرتی ہیں۔)

Cut to Next Scene

 

 

 

               سین نمبر4

 

 بیرونی:۔     Exterior

وقت:۔             دن

 

کردار

 

نور محمد، سپاہی، قصبے کے کچھ لوگ (Extras)

 

ظہر کی نماز کے بعد ، نمازی مسجد سے باہر آتے ہوئے ، دور سے نور محمد بیگ بھی مسجد کے دروازے سے باہر نکلتے ہیں ، باہر ایک سپاہی کھڑا ان کا انتظار کر رہا ہے۔ نور محمد کے پاس آنے پر سپاہی ان سے کہتا ہے۔

 

سپاہی:۔             اسلام علیکم ، بیگ صاحب۔

نور محمد:۔                       وعلیکم السلام (اس کو غور سے دیکھتے ہیں )

سپاہی:۔             حضرت میں پہلے آپ کے دولت خانے پر گیا تھا، پتہ چلا کہ آپ نماز پڑھنے مسجد گئے ہیں ، سویہاں چلا آیا۔

نور محمد:۔                       کیوں ، خیریت تو ہے۔؟

سپاہی:۔             جی ہاں جناب، کچھ روز پہلے جب آپ کیمپ تشریف لائے تب آپ کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی تھی ، اب کیسے ہیں آپ۔۔؟

نور محمد:۔                       شکریہ اب میں ٹھیک ہوں۔

سپاہی:۔             تو جناب آپ کو حاکم اعلیٰ رابرٹ ولیم صاحب نے یاد کیا ہے،وہ آج پھر کیمپ کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی طبیعت ٹھیک ہو تو کیمپ تشریف لے چلئے۔             ورنہ تو خود آپ کے گھر آپ سے ملنے آ جائیں گے۔

نور محمد:۔                       (کچھ سوچتے ہوئے) چلو، ہم کیمپ چلتے ہیں۔

(دونوں گلی میں چلے جاتے ہیں۔)

Cut to Next scene

 

 

 

 

               سین نمبر5

 

اندرونی:۔    (Interior)

کیمپ ، رابرٹ کا تنبو

وقت:۔                         دن

 

کردار

 

رابرٹ ولیم، نور محمد، سپاہی

 

(تنبو کے اندر رابرٹ ولیم بیٹھا ہوا ہے، تبھی سپاہی اندر آتا ہے۔ )

 

سپاہی:۔             (سیلوٹ کر کے) حضور، نور محمد بیگ صاحب آئے ہیں۔

رابرٹ:۔                      ٹھیک ہے انہیں اندر لے آؤ۔

(سپاہی واپس جاتا ہے، تھوڑی دیر میں نور محمد کو ساتھ لے کر آتا ہے۔)

(نور محمد بیگ جھک کر سلام کرتا ہے، سپاہی واپس چلا جاتا ہے۔)

نور محمد:۔                       حضور کا اقبال بلند ہو۔۔۔۔۔۔

رابرٹ ولیم:۔     آئیے، مسٹر بیگ، تشریف رکھئے، (سامنے کرسی کی طرف اشارہ کرتا ہے)

نور محمد:۔                       (کرسی پر بیٹھتے ہوئے ) عزت افزائی کا شکریہ۔

(کچھ دیر دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں ، خاموشی رہتی ہے۔)

رابرٹ:۔                      Well۔۔۔۔۔ مسٹر بیگ، ہم نے آپ کو کیوں بلایا۔۔۔؟

نور محمد:۔                       فرمائیے حضور۔۔۔۔

رابرٹ:۔                      ہم نے آپ کو سوچنے اور Decideکرنے کے لیے کچھ دنوں کا ٹائم دیا تھا۔

نور محمد:۔                       حضور، میرا جواب آج بھی وہی ہے، یہ رشتہ ہمیں منظور نہیں۔

رابرٹ:۔                      ہم آپ کا جواب سننا نہیں چاہتے، صرف آپ کو بتانا چاہتے ہیں یہ رشتہ خوشی سے منظور کرو گے تو اس قصبے مالیر پورہ کی جاگیر آپ کو عطا کی جائے گی۔ ماہ پارہ سے ہماری شادی جب تک منظور نہیں کرو گے۔۔۔ آپ پر سختی بڑھ جائے گی، وہ سزادی جائے گی جو باغیوں کو دی جاتی ہے، جیل میں جانا پڑ سکتا ہے۔

نور محمد بیگ:۔     حضور گستاخی کی معافی چاہوں گا، میں ایک ہندوستانی مغل ہوں ، ہم اپنی بیٹیوں کا سودا نہیں کرتے، اور نہ ہی کسی ظلم سے تنگ آ کر بیٹیوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔

رابرٹ ولیم:۔     مسٹربیگ۔۔۔۔ میں جانتا ہوں ، آپ ایک اچھے اور سچے ہندوستانی ہیں لیکن آپ کی بیٹی کو مجھ سے بہتر ، مجھ سے زیادہ محبت کرنے والا Husbandنہیں مل سکتا۔ میں اس کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ آپ بتائے مجھ میں کیا کمی ہے۔ میں اپنی وہ کمی دور کرنے کو تیار ہوں۔۔۔۔ بتایئے

(نور محمد کچھ دیر سوچنے لگتے ہیں پھر کہتے ہیں )

نور محمد:۔                       ماہ پارہ کی شادی آپ سے نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ آپ وہ چیزیں کھاتے ہیں اور پیتے ہیں جو ہمارے مذہب میں حرام ہیں۔

رابرٹ:۔                      Wellہم promiseکرتا ہے، آج سے ہم نہ شراب پئیں گے اور نہ ہی حرام گوشت کھائیں گے۔۔۔ اور بتائیے ، ہم اور کیا چھوڑ دیں۔

(نور محمد اس کی باتیں سن کر حیرت زدہ رہ گئے ہیں۔ انہیں امید تھی کہ وہ شراب نوشی، اور حرام خوری نہیں ترک کر سکتا، وہ سوچنے لگے انہیں ایک ترکیب سمجھ میں آئی۔ وہ دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہنے لگے)

نور محمد:۔                       عجیب آدمی ہے یہ، میں نے تو یہ سوچ کر کہا تھا کہ یہ اپنی شراب نوشی اور حرام گوشت کھانے کی عادت نہیں چھوڑ سکتا ، اس نے ایک لمحہ بھی گنوائے بغیر ، یہ چھوڑ دیا۔ اب اس سے کوئی ایسی چیز چھوڑنے کو کہیں جو وہ کبھی نہیں کر سکتا۔

رابرٹ:۔                      Yes، بولئے مسٹر بیگ، میں اور کیا کر سکتا ہوں۔

نور محمد:۔                       دیکھئے حضور، میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں ، میں ایک پکا اور سچا ہندوستانی ہوں ، اور انگریزی حکومت سے نفرت کرتا ہوں ، مجھے آپ کا نظام حکومت اور ہم ہندوستانیوں پر بلاوجہ ظلم و زیادتیاں سخت ناپسند ہیں اور آپ اس حکومت کے ایک افسر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہیں۔ اب مجھے اجازت دیجئے۔۔۔۔ ماہ پارہ کی شادی ہرگز ہرگز آپ سے نہیں ہوسکتی۔۔۔۔

(نور محمد اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ، رابرٹ ولیم سوچ میں ڈوب جاتا ہے)

رابرٹ ولیم:۔     Well۔۔۔مسٹر بیگ، کچھ روز کی مہلت میں آپ کو دیتا ہوں آپ مجھے دیجئے۔۔۔ جلد ہی میرا Decisionآپ کو پتہ چل جائے گا۔ اب آپ جا سکتے ہیں۔ ہماری اگلی ملاقات آپ کے گھر پر ہو گی۔ میں جلد ہی آپ کے گھر آؤں گا۔

(نور محمد ، تنبو سے باہر نکل جاتے ہیں )

(رابرٹ ولیم کچھ سوچ میں ڈوب جاتا ہے، پھر فائل سے ایک کاغذ نکال کر اس پر کچھ لکھنے لگتا ہے۔)

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے۔)

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین نمبر6

 

 اندرونی:۔    Interior

نور محمد کا گھر

وقت:۔             دن

 

کردار

 

نور محمد، ان کی بیگم روشن آرا، ماہ پارہ

 

(بیگم روشن آرا گھر میں کام کر رہی ہیں ، ماہ پارہ جانماز پر بیٹھی ہوئی تلاوت کر رہی ہیں۔ تبھی نور محمد بیگ دروازے سے اندر آتے ہیں۔ بیگم انہیں دیکھ کر اپنا کام چھوڑ کر ان کی مزاج پرسی کرنے لگتی ہے)

 

بیگم روشن آرا:۔  کیا ہوا۔۔۔۔۔ اتنی دیر کیسے لگ گئی، آپ کو ایک سپاہی اپنے ساتھ لے گیا، ہمارے تو ہوش ہی اڑ گئے تھے۔ ماہ پارہ تو سنتے ہی جانماز پر بیٹھ گئی، قرآن شریف پڑھ پڑھ کر آپ کی سلامتی کی دعائیں کر رہی ہیں۔۔۔۔ کیا سب خیریت تو ہے نا۔۔۔۔؟

نور محمد:۔                       (ماہ پارہ کو دیکھتے ہیں ، وہ ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہی ہیں۔ پھر چپکے سے اپنی بیگم سے کہتے ہیں) نہیں بیگم خیریت نہیں۔

بیگم روشن آرا:۔  یا اللہ۔۔۔۔۔ (اس کے ہاتھ سے کوئی چیز چھوٹ جاتی ہے)کیوں کیا بات ہے،

نور محمد:۔                       (ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کرتا ہے) سب تفصیل سے بتاؤں گا۔، لیکن کسی بھی طرح ماہ پارہ کو اس کی خبر نہ ہو۔۔۔۔

بیگم:۔               ایسی کیا بات ہو گئی۔۔۔۔؟

(نور محمد اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں ، ماہ پارہ نماز ختم کر کے قرآن شریف جزدان میں رکھ دیتی ہے اور جانماز طے کر کے الگ رکھ دیتی ہے، پھر ماں کے پاس آ کر کہتی ہے)

ماہ پارہ:۔                        کیا ابو آ گئے ہیں ، امی جان۔۔۔۔؟

بیگم:۔               ہاں اپنے کمرے میں ہیں ، جاؤ انہیں پانی پلا دو۔۔

ماہ پارہ:۔                        (خوش ہو کر ) جی امی جان ، ابھی پلاتی ہوں۔

(ماہ پارہ صراحی سے گلاس میں پانی ڈال کر نور محمد کے کمرے میں چلی جاتی ہے، اس کے پیچھے پیچھے بیگم بھی جاتی ہے، کیمرہ ان کو فالو کرتا ہے۔)

ماہ پارہ:۔                        ابو۔۔۔۔۔ لیجئے پانی۔۔۔۔۔ ظہر کی نماز کے بعد آپ کہاں چلے گئے تھے؟ کسی سپاہی وپاہی کے ساتھ جانے سے امی کو تشویش ہو جاتی ہے۔

نور محمد:۔                       کہیں نہیں بیٹی، بس ذرا کیمپ تک گیا تھا۔ وہاں ہمیں کچھ کام تھا۔

بیگم:۔               ماہ پارہ۔۔۔۔ اب آپ تیار ہو جائے۔

ماہ پارہ:۔                        کیوں ، امی۔۔۔؟

بیگم:۔               ارے بھول گئیں ، آج تمہاری بچپن کی سہیلی نورجہاں کے مانجھے کی رسم ہے، کتنے ہی دن پہلے انہوں نے دعوت دے دی تھی۔

ماہ پارہ:۔                        ہاں امی مجھے یاد ہے، لیکن وہ تو رات میں ہے، ابھی تو بہت دیر ہے۔

بیگم:۔               اے، ہے، بیٹی وہ تمہاری اتنی قریبی سہیلی ہے، کیا تم عین وقت پر ہی جاؤگی۔

ماہ پارہ:۔                        ٹھیک  ہے امی، لیکن انہوں نے تو آپ کو بھی مدعو کیا تھا۔

بیگم:۔               بیٹی تم پہلے چلی جاؤ۔ تمہارے ابو صبح سے اب لوٹے ہیں ، کچھ کھایا پیا بھی نہیں ہو گا۔میں انہیں ناشتہ وغیرہ کرا دوں ، کچھ دیر بعد میں بھی وہاں آ جاؤں گی۔

ماہ پارہ:۔                        ٹھیک امی جان، میں ٹھیک ہی تو لگ رہی ہوں ، اور پھر پڑوس میں ہی تو جانا ہے، ایسی ہی چلی جاتی ہوں۔

بیگم:۔               ٹھیک ہے، بیٹی لیکن اب دیر نہ کرو۔

ماہ پارہ:۔                        اچھا امی، ابو۔۔۔۔۔ خدا حافظ

(ماہ پارہ چلی جاتی ہے)

(اس کے چلے جانے کے بعد بیگم روشن آرا، نور محمد کے پاس بیٹھ کر ، رازدارانہ انداز سے پوچھتی ہے۔)

بیگم:۔               جی اب بتائے، میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے، کیا ہوا؟

نور محمد:۔                       بیگم، ہمیں جلد ہی ماہ پارہ کا رشتہ کسی بھی معقول نوجوان سے کر دینا ہے، اور اس کا م میں جتنی جلدی ہوسکے کرنا ہے۔

بیگم:۔               ارے توبہ، یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ کیا آپ بھول گئے کہ ماہ پارہ بچپن سے ہی طاہر حسین سے منسوب ہے، نہ صرف منسوب ہے ، بلکہ ان دونوں بچوں میں روحانی پیار بھی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہیں۔

نور محمد:۔                       میں جانتا ہوں ، اور خوب اچھی طرح جانتا ہوں ، شجاعت سے لاکھ اختلاف سہی لیکن امید ہے کہ ان بچوں کی وجہ سے تعلقات پھر سے استوار ہو جائیں گے۔ لیکن اب حالات ہی ایسے بن گئے ہیں کہ ماہ پارہ کی جلدی سے شادی کر دینا ہی ایک حل نظر آ رہا ہے۔

بیگم:۔               آخر کیا افتاد پڑی ہے ایسی کہ آپ یہ گناہ کرنے پر آمادہ ہیں۔۔۔؟

نور محمد:۔                       بیگم اگر ایسا نہیں کیا تو اس سے بڑا گناہ سرزد ہو جائے گا،میں نے ابھی تک آپ کو اس لیے نہیں بتایا کہ آپ بہت جلد خوفزدہ ہو جاتی ہیں۔ ہماری بیٹی کو جو فرنگی پریشان کر رہا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ خود رابرٹ ولیم ہے۔ جارج روبن کے گزر جانے کے بعد حاکم اعلیٰ بن بیٹھا ہے۔

Flash Back

(بیگم کو روداد سناتے ہوئے ان کی آنکھوں میں رابرٹ ولیم سے تمام ملاقاتوں اور اس سے ہوئی باتوں کا منظر ایک کے بعد ایک آتا چلا جاتا ہے)

اب آپ ہی بتائے کہ ان حالات میں کیا کیا جا سکتا ہے۔؟

بیگم:۔               (ٹھنڈی آہ بھر کر رونے لگتی ہیں ) یا پروردگار تو رحم کر ، تو ہمیں اس مصیبت سے بچا لے یارب۔

نور محمد:۔                       ہماری ماہ پارہ کی خوبصورتی ہی اس کی دشمن بن گئی۔ ابھی تک جتنے بھی نوابوں اور جاگیرداروں کے رشتے آئے ہیں ان سب کو ٹھکرا دیا۔ انکار کیے جانے پر ان سبھی سے تعلقات بھی خراب ہو گئے، ہماری اس مصیبت کی گھڑی میں کوئی بھی ہماراساتھ نہ دے گا اور چودھری شجاعت ایسا منہ چھپائے بھاگا کہ اس کا ہمیں کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔

بیگم:۔               بس، اللہ سے مدد مانگیں ، وہ ہی کوئی صورت پیدا کرے گا۔

نور محمد:۔                       ٹھیک ہے بیگم، آپ بالکل اپنے معمولات سے یہ اندازہ نہ ہونے دیجئے ، جس سے ماہ پارہ کو لگے کہ ہم پر کوئی مصیبت ہے، وہ بچی ویسے ہی بہت پریشان ہے، اب آپ بھی نورجہاں کے مانجھے کی رسم میں چلے جائیے۔ ماہ پارہ آپ کا انتظار کر رہی ہو گی۔

بیگم:۔               اب تو میرا بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا ہے وہاں جانے کو۔

نور محمد:۔                       نہیں بیگم ، آپ نہیں گئیں تو سب سوالات کریں گے، اور ماہ پارہ کو بھی کچھ شبہ ہوسکتا ہے۔

بیگم:۔               ٹھیک ہے، بے دلی سے ہی سہی، میں چلی جاتی ہوں ، آپ آرام کیجئے۔

(بیگم اپنا لباس ٹھیک ٹھاک کر کے جانے لگی ہے، نور محمد نڈھال ہو کر پلنگ پر لیٹ جاتے ہیں ، اور چھت کو غور سے دیکھنے لگتے ہیں۔)

End Of Episode ۔ 11

 

 

 

 

Episode ۔ 12

 

               سین نمبر1

 

بیرونی: Exterior

پکی سڑک ، قصبے کی گلیاں

وقت:۔             رات

 

کردار

 

دلاور، کچھ سپاہی

 

شہر سے قصبے کو آنے والی سنسان سڑک پر ایک آدمی دلاور چادر لپٹے ہوئے بھاگ رہا ہے، اس کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے پیچھے کچھ سپاہی لگے ہیں۔ دور سے وہ بھی بھاگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں دلاور اور سپاہیوں کی دوری کم ہوتی جا رہی ہے، دلاور بھاگتے بھاگتے تھک چکا ہے، ایک جگہ وہ سڑک کے کنارے اتر کے ایک پیڑ کے پیچھے چھپ جاتا ہے، سپاہی بھاگتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں ، انکے قدموں کی آواز ، دور جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، جب وہ بہت آگے نکل جاتے ہیں تب دلاور پیڑ کے پیچھے سے نکل کر پھر سڑک پر سپاہیوں کے پیچھے آہستہ آہستہ بھاگنے لگتا ہے، تھوڑی دور جانے کے بعد وہ پکی سڑک چھوڑ کر کچی پگڈنڈی پر اتر جاتا ہے اور کھیتوں میں چھپتے چھپاتے قصبے کی طرف بڑھتا ہے، سپاہی تھک ہار کے واپس لوٹ جاتے ہیں۔ دلاور قصبے کی گلیوں میں چھپ چھپ کے چل رہا ہے، پھر وہ ایک گھر کی دیوار پھلانگ کر غائب ہو جاتا ہے۔

Cut to Next Scene

 

 

               سین نمبر2

 

اندرونی:۔    Interior

(نور محمد کا گھر)

وقت:۔             دن

 

کردار

 

نور محمد ، بیگم روشن آرا، ماہ پارہ، رابرٹ ولیم

گھر کے اندر نور محمد اپنی بیگم اور بیٹی کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں ، تبھی دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ ماہ پارہ اٹھ کر دروازے کی طرف جانا چاہتی ہے تبھی نور محمد اسے روک دیتے ہیں اور وہ خود اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھتے ہیں۔ دروازہ کھولتے ہی سامنے سادے لباس میں رابرٹ ولیم کھڑا ہے۔

 

رابرٹ ولیم:۔     مسٹر نور محمد بیگ۔۔۔۔ میں نے اپنا وعدہ پورا کیا، میں نے آپ سے کہا تھا کہ اگلی ملاقات آپ کے گھر پر ہی ہو گی۔ سو میں آ گیا۔۔۔۔ کیا مجھے اندر نہیں بلائیں گے۔۔۔۔؟

(نور محمد اس کو کچھ دیر دیکھتے ہیں ، پھر مڑ کر واپس آتے ہیں اپنی بیگم اور بیٹی سے اشارہ کر کے دوسرے کمرے میں جانے کو کہتے ہیں ) پھر دروازہ پر جا کر رابرٹ کو اندر بلا لاتے ہیں ، اور اپنے کمرے میں لے جاتے ہیں۔)

نور محمد:۔                       کہئے جناب! یہاں کیوں زحمت فرمائی۔

رابرٹ:۔          مسٹر بیگ! آپ نے کہا ، میں نے شراب پینا اور حرام کھانا چھوڑ دیا۔ پھر آپ نے کہا تو میں نے انگریز حکومت کے اتنے بڑے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ میرا Resignation منظور نہیں ہوا اور میرے خلاف وارنٹ Issueہو گیا ہے، ہوسکتا ہے ، گورنمنٹ مجھ سے ناراض ہو جائے۔ میرا کورٹ مارشل بھی ہوسکتا ہے، مجھے سزا بھی ہوسکتی ہے۔ مجھے واپس انگلینڈ بلایا جا سکتا ہے، وہاں مجھے جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔ ماہ پارہ کو حاصل کرنے کے لیے میں یہ سب برداشت کر لوں گا۔بس آپ مجھے ماہ پارہ دے دیجئے۔

نور محمد:۔                       ہمیں سوچنے کا موقع دیجئے۔ابھی میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔

رابرٹ:۔          No problem، آپ اپنا وقت لیجئے، میں پھر لوٹ کے آؤں گا۔ ابھی اجازت چاہتا ہوں۔

(رابرٹ باہر کی طرف جانے لگتا ہے، نور محمد اس کو دروازے تک چھوڑنے جاتے ہیں ، رابرٹ باہر نکل جاتا ہے، دروازہ بند کر کے نور محمد واپس آتے ہیں۔ بیگم اور ماہ پارہ بھی دسترخوان پر واپس آ جاتی ہیں اور سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتی ہیں )

بیگم:۔               کون تھا۔۔۔؟

نور محمد:۔                       (بہانہ بنا کر کہتے ہیں ) ایک انگریز ملازم تھا۔

بیگم:۔               کیوں آیا تھا۔

نور محمد:۔                       دراصل کل ہمیں ایک میٹنگ میں جانا تھا جس میں ایک انگریز افسر کو بھی مدعو کیا گیا تھا، وہی بتانے آیا تھا کہ وہ افسر نہیں آ سکیں گے۔

(بیگم ، نور محمد کی آنکھوں میں دیکھتی ہیں ، اور سمجھ جاتی ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے، بات کچھ اور ہی ہے)

(نور محمد بنا بتائے کچھ کھائے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔)

Cut to Next Scene

 

 

 

               سین نمبر3

 

بیرونی:۔Exterior

کھیتوں اور سبزی و پھولوں کے باغ

وقت:۔             دن

 

کردار

 

نور محمد، بیگم روشن آرا، ماہ پارہ، دلاور

 

ہرے بھرے کھیتوں کے بیچ تینوں چل رہے ہیں ، ایک گھنے پیڑ کے نیچے جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

 

بیگم روشن آرا:۔  فطرت کے اس ماحول میں کتنا سکون ہے، قدرتی نظاروں میں کتنی تازگی ہے۔

نور محمد:۔                       جی ہاں بیگم، اسی لیے تو میں آپ کو اپنے کھیتوں اور باغوں کے اس ماحول میں لے آیا، کافی عرصے سے آپ گھر سے نہیں نکلیں ، ماہ پارہ تو خوب ان کھیتوں میں دوڑتی پھرتی ہیں۔

بیگم:۔               ماہ پارہ کو تو بچپن سے ہی ان کی عادت ہے، گھر میں سکون کہاں ملتا ہے اس کو جب دیکھو کھیتوں کی طرفت بھاگنا چاہتی ہے۔

مارہ پارہ:۔          اب دیکھئے امی جان۔۔۔ آپ خود محسوس کیجئے، گھر میں اور ان کھیتوں میں کتنا فرق ہے، ابو میں وہاں ان پیڑ پودوں تک چلی جاؤں

(ماہ پارہ دور اشارہ کرتی ہے)

نور محمد:۔                       ہاں ، بیٹی تم چاہے جہاں جاؤ، خوب گھومو، دوڑ لگاؤ۔

ماہ پارہ دونوں ہاتھ پھیلائے دوپٹہ ہوا میں اڑاتی ہوئی کھیتوں اور باغوں میں دوڑ جاتی ہے، کیمرہ اس کو دور تک Followکرتا ہے، پھر پیڑ کے نیچے بیٹھے نور محمد اور بیگم کو فوکس کرتا ہے)

بیگم:۔               دیکھئے ہماری بیٹی کتنی خوش ہے۔

نور محمد:۔                       خدا اس کی خوشی برقرار رکھے۔۔۔۔ بیگم میں آپ کو یہاں اس لیے لے کر آیا ہوں کہ تفصیل سے بات کر سکوں ، گھر پر تو ہمیشہ ماہ پارہ موجود رہتی ہے، اور اس کے سامنے بات کرنا مناسب نہیں ہے۔

بیگم:۔               جی بتائیے۔۔۔۔ مجھے احساس ہے کہ آپ اکیلے سارے دکھ برداشت کر رہے ہیں۔

نور محمد:۔                       ہمارا اب اس قصبے میں رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ رابرٹ ولیم بڑا ضدی قسم کا انسان ہے، جو وہ ٹھان لیتا ہے وہ کر گزرتا ہے، ماہ پارہ کو حاصل کرنے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، میں نے تو اس سے یوں ہی کہا تھا کہ وہ انگریزوں کا ملازم ہے اور ہمیں انگریزوں سے نفرت ہے میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنا اتنا بڑا عہدہ چھوڑ دے گا اس نے استعفیٰ دے دیا اور اب وہ پیچھے پڑا ہے کہ ماہ پارہ سے اس کی شادی کر دی جائے۔

بیگم:۔               میں تو کہتی ہوں ، شجاعت بھائی کو تلاش کیجئے اور آخر وہ آپ کے بچپن کے دوست ہیں ، طاہر اور ماہ پارہ کے رشتے کی نزاکت بھی سمجھتے ہیں وہ ضرور کوئی حل نکالیں گے۔

(کیمرے میں دور ماہ پارہ، دوڑتی ہوئی ، اٹھکھیلیاں کرتی، کبھی پھول توڑتی ، کبھی تتلی کو پکڑنے لپکتی دکھائی دیتی ہے، دوسری طرف دور ایک کسان چادر اوڑھے ، کھیتوں میں گھاس کاٹتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھ رہا ہے)

بیگم::۔             وہ آدمی کون ہے، اور ہمارے کھیتوں میں کیا کر رہا ہے۔

نور محمد:۔                       ارے ہو گا کوئی کسان، جو اپنے مویشیوں کے لیے چارہ اکٹھا کر رہا ہو گا۔

(وہ کسان ان کے نزدیک آ جاتا ہے، ڈاڑھی بڑھی ہوئی وہ اس کو پہچان نہیں پاتے)

دلاور:۔             السلام علیکم بیگ صاحب، بھابھی صاحبہ آداب

(دونوں اس کو غور سے دیکھتے ہیں )

وہ اپنے چہرے سے چادر ہٹاتا ہے ، دونوں اس کو پہچان لیتے ہیں دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلتا ہے۔

بیگم و نور محمد:۔   دلاور۔۔۔۔۔

(دلاور کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں ، وہ بھی ان کے پاس بیٹھ جاتا ہے)

نور محمد:۔                       دلاور۔۔۔۔۔۔ تم یہاں ، اور اس حال میں۔۔۔۔؟

بیگم:۔               دلاور بھائی، آپ نے کیا حال بنا رکھا ہے۔۔۔۔۔ شجاعت بھائی، بھابھی اور امی سب لوگ کیسے ہیں اور کہاں ہیں۔۔۔۔؟

دلاور:۔             میں سب بتاؤں گا بھابھی۔۔۔ بہت دنوں سے مارا مارا پھر رہا ہوں ، کئی دنوں سے آپ سے ملنا چاہتا تھا لیکن آپ کے گھر پر نہیں آج جب مجھے پتہ چلا کہ آپ اپنے کھیتوں کی طرف جا رہے ہیں تو میں سب سے چھپ کر آپ سے ملنے چلا آیا۔ ایک زمانے کے بعد ماہ پارہ بیٹی کو دیکھا تو سکون ملا۔

نور محمد:۔                       دلاور۔۔۔۔ تم اس طرح جنگلوں میں کیوں بھٹک رہے ہو۔۔۔۔؟

دلاور:۔             حضور کیا بتاؤں۔۔۔۔۔ ایک قیامت گزر گئی۔۔۔۔ میرے پیچھے جاسوس لگے ہوئے ہیں ، میں جیل سے بھاگا ہوا مجرم ہوں۔۔۔۔ باغی جماعت کا ممبر ہوں۔۔۔

نور محمد:۔                       (حیرت زدہ ہو کر) کیا تمہیں جیل ہو گئی تھی۔۔۔۔ لیکن کیوں ، تم تو انگریزوں کے نوکر ہو گئے تھے۔

دلاور:۔             وہ ایک طویل داستان ہے ، کبھی گھر آؤں گا تو بتاؤں گا، ابھی مجھے یہاں سے چلنا چاہیے، ورنہ آپ کو بھی خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

(دلاور چادر لپیٹ کر گھاس کا گھٹا اٹھا کر چلا جاتا ہے)

(نور محمد اور بیگم آپس میں باتیں کر رہے ہیں )

بیگم:۔               یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔

نور محمد:۔                       شاید شجاعت حسین کے بھی حالات اچھے نہیں ہوں گے، ان پر بھی کوئی مصیبت آئی ہوئی ہو گی۔۔۔ بیگم میں تو کہتا ہوں کہ ہمیں بھی اب یہ قصبہ چھوڑ دینا چاہیے۔

بیگم:۔               لیکن جائیں گے کہاں ، ہر جگہ تو ان فرنگیوں کا قہر برپا ہے۔

نور محمد:۔                       وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہاں ، اس رابرٹ شیطان سے اپنی بیٹی کو بچانا مشکل ہو گیا ہے۔

بیگم:۔               یہ اپنا قصبہ ہے، یہاں سب ہمارے خیر خواہ ہیں ، دوسری جگہ تو ہم اور زیادہ غیر محفوظ ہو جائیں گے۔

(دن ڈھلنے لگتا ہے، پیڑوں کے سائے لمبے لمبے ہونے لگتے ہیں نور محمد اور بیگم اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ، ماہ پارہ ابھی بھی بچوں کی طرح تتلیوں کے پیچھے بھاگ رہی ہے، نور محمد اس کو آواز دیتے ہیں )

ماہ پارہ دوڑ کے ان کے پاس آتی ہے، پھر تینوں قصبے کی طرف چل دیتے ہیں۔)

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے)

Cut to Next Scene

 

 

 

               Scene No.3/B

 

اندرونی       :       Interior

وقت    :           دن

 

کردار

 

رابرٹ ولیم، چار پانچ انگریز افسر

 

انگریز فوجی عدالت میں رابرٹ ولیم سادہ لباس میں کٹھ گھرے میں کھڑا ہے سامنے الگ الگ کرسیوں پر چار پانچ بڑے افسر اور جج بیٹھے ہوئے ہیں اور رابرٹ ولیم کو ڈانٹ رہے ہیں اس کو ذلیل کر رہے ہیں۔

رابرٹ ولیم منہ جھکائے کھڑا ہے، بہت دیر کی بحث کے بعد جج اپنا فیصلہ سناتا ہے

 

جج        :

"Mr. Robert William, your resignation is being turned down. Now you are dismissed from your post. Since your activities are observed against the rules and your negligence towards the duty is established, so the court is punishing you an imprisonment of six months Now the court is adjourned.

جج میز پر رکھے کاغذ پر دستخط کرتا ہے سب لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں دوسیاہی رابرٹ ولیم کو ہتھکڑی پہنا کر باہر لے جاتے ہیں۔

منظر تحلیل ہو جاتا ہے

 

 

 

               سین نمبر4

 

اندرونی:۔          Interior(نور محمد کا گھر)

وقت:۔                         رات

 

کردار

 

نور محمد، بیگم روشن، ماہ پارہ، اور دلاور

 

(مارہ پارہ پلنگ پر گہری نیند سورہی ہے، اس کے برابر دوسرے پلنگ پر بیگم سورہی ہیں ، دوسرے کمرے میں نور محمد پلنگ پر لیٹے ہوئے ہیں کبھی چھت کو دیکھتے ہیں ، کبھی کروٹ بدلتے ہیں ، اور کبھی اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگتے ہیں ، ٹہلتے ٹہلتے ، دوسرے کمرے میں  سوتی ہوئی اپنی بیٹی کو پیار سے دیکھتے ہیں تبھی دروازہ پر ہلکی سی دستک ہوتی ہے، وہ چونک جاتے ہیں ، تھوڑی دیر بعد پھر سے دستک ہوتی ہے، نور محمد دبے قدم دروازے تک پہنچتے ہیں ، آہستہ سے پوچھتے ہیں۔

 

نور محمد:۔                       کون۔۔۔۔ کون ہے۔۔۔؟

(باہر سے ہلکی سی آواز آتی ہے)

دلاور:۔             میں ہوں ، دلاور۔۔۔۔۔۔

(نور محمد آہستہ سے دروازہ کھولتا ہے، دلاور چادر اوڑھے ہوئے اندر آتا ہے، اور جلدی سے دروازہ بند کر لیتا ہے، نور محمد اس کو ساتھ لے کر اپنے کمرے میں آتے ہیں )

نور محمد:۔                       ارے، دلاور، تم اس وقت ، اتنی رات گئے۔۔۔؟

دلاور:۔             ہاں۔۔۔ بیگ صاحب ، اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

(ان کی آہٹ سن کر بیگم بھی اٹھ کر نور محمد کے کمرے میں آ جاتی ہیں )

بیگم:۔               ارے دلاور بھائی آپ۔۔۔۔۔۔؟

(نور محمد انہیں چپ رہنے کا اشارہ کرتے ہیں ، اور جا کر ماہ پارہ کا دروازہ بند کر دیتے ہیں تاکہ ادھر آواز نہ جائے)

دلاور:۔             کیا بتاؤں بھابھی صاحبہ بہت دنوں سے آپ سے ملنا چاہ رہا تھا، لیکن ہر طرف خطرہ ہی خطرہ ہے۔

نور محمد:۔                       اب بتاؤ کہ شجاعت  اور اس کی بیگم، والدہ سب لوگ کیسے ہیں۔

دلاور:۔             بہت افسوسناک خبر ہے، اور آپ کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ آپ تک وہ خبر نہیں پہنچی۔

نور محمد:۔                       کیسی افسوس ناک خبر۔۔۔۔؟

دلاور:۔             چودھری شجاعت حسین اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

(حیرت سے دونوں میاں بیوی کے چہرے فق ہو جاتے ہیں )

نور محمد:۔                       یہ کیا کہہ رہے ہو، یہ کب ہوا۔

دلاور:۔             چار مہینے پہلے چودھری صاحب نے خودکشی کر لی۔ جس کی وجہ سے پورے علاقے میں افراتفری مچ گئی تھی۔

نور محمد:۔                       اوہ۔۔۔۔ ہاں ہم نے سنا تھا کہ کسی جاگیر نے خود کشی کر لی یا اس کا قتل ہو گیا۔ تو وہ میرا دوست شجاعت حسین تھا۔

بیگم:۔               یا خدا۔۔۔۔ یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔ (دونوں بہت افسوس ظاہر کرتے ہیں )

دلاور:۔             دراصل وہ ان کا قتل ہی تھا، کیونکہ انہیں خودکشی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور یہ قدم انہوں نے ماہ پارہ بٹیا کی وجہ سے اٹھایا تھا۔

(دونوں حیرت زدہ ہو کر دیکھتے ہیں )

نور محمد:۔                       ہماری ماہ پارہ کی وجہ سے۔۔۔۔؟ وہ کیسے۔۔۔۔؟

دلاور:۔             رابرٹ ولیم چاہتا تھا کہ وہ ماہ پارہ کی شادی اس سے کرانے کے لیے آپ کو مجبور کریں ، اور اس کے بدلے میں انہیں مالیر پورہ کی جاگیر دی جائے گی لیکن انہوں نے ٹھکرا دیا۔ بس پھر کیا تھا، رابرٹ کے ظلم بڑھتے چلے گئے۔۔۔۔(دلاور کی آنکھوں میں ایک کے بعد ایک وہ منظر آتے چلے جاتے ہیں جو شجاعت حسین اور رابرٹ ولیم کی ملاقاتوں اور باتوں کے بیچ ہوئے تھے)

Flash Back

 

(شجاعت حسین کی خودکشی کا منظر)

دلاور:۔             پھر اس کے بعد رابرٹ ولیم کی نظر مجھ پر پڑی، اور مجھ پر بھی عتاب نازل ہوا، چودھری صاحب کی والدہ اور بیگم کو تو ان کے بھائی حیدرآباد لے کر چلے گئے اور مجھے رابرٹ ولیم نے جھوٹے الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا۔ جیل میں میرے ساتھ جانوروں کی طرح سلوک کیا جاتا تھا۔ ایک روز موقع پا کر میں جیل سے بھاگ نکلا اور سیدھا میرٹھ شہر جا کر باغیوں میں شامل ہو گیا، تبھی سے میں روپوش ہوں۔

(وہ ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے)

اب میں اور میرے ساتھیوں کا ایک ہی مقصد ہے ، رابرٹ ولیم کی موت۔۔۔۔ اسی مقصد سے میں یہاں آیا ہوں ، تاکہ چودھری صاحب کی موت کا بدلے لے سکوں اور ماہ پارہ بیٹا کو اس بھیڑئیے سے بچا سکوں۔

نور محمد:۔                       لیکن یہ تو بہت خطرناک کام ہے، ایسا مت کرنا، ورنہ ہندوستانیوں پر اور بھی مصیبت بڑھ جائے گی۔

دلاور:۔             بیگ صاحب، مصیبتیں کیا پہلے ہی کچھ کم ہیں ان فرنگیوں کی ہمتیں تو اسی لیے بڑھی ہیں کہ مجھ جیسے لالچی لوگ ان کی چاپلوسی کر کے سمجھتے ہیں کہ عافیت میں ہیں۔ ایسا نہیں اب وقت آ گیا ہے کہ ان کو سبق سکھایا جائے گا۔

بیگم:۔               دلاور بھائی۔۔۔۔ کیا اس بیچ طاہر میاں کی کوئی خبر خیر ملی۔

دلاور:۔             بس ایک خط آیا تھا۔ اس کے بعد تو رابرٹ نے ان کی ڈاک بھی ضبط کرنا شروع کر دی۔ اس رابرٹ کے مظالم دیکھ دیکھ کر سبھی کا خون کھول جاتا ہے وہ اگر یہاں ہوتا تو ابھی تک فی النار جہنم ہو چکا ہوتا ، یہاں آنے کے بعد پتہ چلا کہ رابرٹ ولیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اور کوئی معقول وجہ نہ بتا سکا اس لیے انگریز حکومت نے اس کا کورٹ مارشل کر دیا اور واپس انگلینڈ بلا کر جیل میں ڈال دیا۔

بیگم:۔               چلو شکر ہے، خدا، اس شیطان سے پیچھا تو چھوٹا۔

نور محمد:۔                       نہیں بیگم۔۔۔۔۔۔ وہ نامعقول جیل سے چھوٹ کر پھر یہاں ضرور آئے گا۔

بیگم:۔               تب کی تب دیکھا جائے گا۔

دلاور:۔             بیگ صاحب، اب مجھے اجازت دیجئے، میں پھر کبھی آؤں گا، میرے ساتھی باہر میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔

(سب اٹھتے ہیں اور دروازے تک جاتے ہیں )

بیگم:۔               دلاور بھائی، آپ اپنا خیال رکھیے گا، اور طاہر میاں کی کوئی خبر ملے تو ضرور بتائے گا، ماہ پارہ بڑی اداس رہتی ہے۔

دلاور:۔             جی بھابھی ضرور بتاؤں گا، بلکہ ان بچوں کو ملانا اب ہماری ذمہ داری ہے۔

اچھا۔خدا حافظ۔

نور محمد:۔                       خدا حافظ۔۔۔۔

(دروازے کھول کر دلاور چلا جاتا ہے، نور محمد کچھ دیر یوں ہی باہر اندھیرے میں گھورتے رہتے ہیں ، پھر دروازے بند کر کے لوٹتے ہیں تو ان کے پیچھے ماہ پارہ کھڑی ہوتی ہیں ، اس کو دیکھ کر دونوں کے چہرے فق ہو جاتے ہیں۔

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے)

End of Episode ۔ 12

 

 

 

Episode No  ۔ 13

 

               سین نمبر1

 

اندرونی:۔    Interior

(نور محمد کا گھر)

وقت:۔             دن

 

کردار

نور محمد، بیگم روشن آرا، ماہ پارہ

 

ماہ پارہ کچن میں کام کر رہی ہے، بیگم روشن آرا، نماز سے فارغ ہو کر مصلیٰ پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی ہے، نور محمد تیار ہو کر اپنے کمرے سے نکلتے ہیں۔

 

نور محمد:۔                       بیگم۔۔۔۔۔۔ کیا ناشتہ تیار ہے۔

(کچن سے ماہ پارہ آواز لگاتی ہے)

ماہ پارہ:۔                        جی ابو۔۔۔۔۔۔ ابھی لاتی ہوں

(وہ ایک بڑے سے تھال میں بہت سا ناشتے کا سامان لے کر آتی ہے، اور دسترخوان پر رکھ دیتی ہے، بیگم دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیر کر اٹھتی ہے، جانماز لپیٹ کر رکھتی ہے، اور وہیں آ جاتی ہے، تینوں مل کر دسترخوان پر بیٹھ جاتے ہیں۔)

بیگم روشن آرا:۔  آج کتنے دنوں بعد ذرا خوشی کا احساس ہوا ہے۔

نور محمد:۔           ہاں۔۔۔بڑا سکون ہے، بڑا اطمینان ملا۔۔۔۔ اس خبر سے کہ وہ کم بخت رابرٹ جیل چلا گیا۔

بیگم:۔               ہاں ، اب ماشاء اللہ ہماری بیٹی آزادی سے نکل تو سکے گی۔ ورنہ اس کا کہیں آنا جانا دوبھر ہو گیا تھا۔

نور محمد:۔                       لیکن بیٹی پھر بھی بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس دنیا میں انسان کی شکل میں بھیڑیوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔

ماہ پارہ:              جی ابو۔۔۔۔۔

نور محمد:۔                       اچھا بیگم، ہم نکلتے ہیں ، پہلے تحصیل جانا ہے، ہم نے جو پچھلے دنوں کھیت کا ایک ٹکڑا بیچا تھا اسی سلسلے میں وہاں کچھ کام ہے، پھر واپسی میں چودھری سراج الدین کے گھر بھی چلا جاؤں گا، اگلے ہفتے ان کی بیٹی کی شادی ہے ان سے میں نے وعدہ کیا تھا کہ کھیت بکتے ہی ان کا قرض چکا دوں گا۔ وہ ہمارے وقت پر کام آئے تھے تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ان کی ضرورت کا خیال رکھیں۔

بیگم:۔               جی ٹھیک ہے۔

نور محمد:۔                       اور کوئی آپ کی یا ماہ پارہ کی ضرورت کا سامان تو نہیں آنا ہے، اگر ہو تو بتا دیجئے بازار سے لے آؤں گا۔

بیگم:۔               نہیں اور تو کچھ نہیں ، لیکن میں نے منت مانگی تھی کہ ہمیں مصیبت سے چھٹکارہ ملے گا تو ہم نذر دلائیں گے۔ بس اسی کا سامان آنا ہے وہ میں بشیرہ کو بھیج کر منگوا لوں گی۔

نور محمد:۔                       تو ٹھیک ہے، واپسی میں مجھے کچھ دیر اور ہوسکتی ہے۔ خدا حافظ

بیگم:۔               خدا حافظ

(نور محمد دروازہ کھول کر باہر نکل جاتے ہیں۔)

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین نمبر2

 

بیرونی

قصبے کی گلیاں ، بازار تحصیل وغیرہ

وقت:               دن

 

کردار

 

نور محمد،ماہ پارہ، قصبے کے لوگ

 

(نور محمد قصبے کی گلیوں سے گزرتے ہوئے تحصیل یا گرام پنچایت جاتے ہیں ، کیمرہ انہیں Followکرتا ہے، کسی دروازے میں گھستے ہیں ، کچھ دیر بعد وہاں سے نکلتے ہیں ، ان کے پاس ایک بیگ ہے، اس میں بکے ہوئے کھیت کی رقم ہے، وہ لوگوں سے ملتے ہیں باتیں کرتے ہیں ، بہت خوش نظر آرہے ہیں ، وہ جلدی جلد چل رہے ہیں۔ پھر کسی کے گھر پر دستک دیتے ہیں۔ دروازہ کھلنے پر اندر چلے جاتے ہیں ، تھوڑی دیر میں باہر نکلتے ہیں ، بازار سے گزر رہے ہیں۔

سین بدلتے جاتے ہیں ، وقت گزرتا جاتا ہے، پھر شام کے وقت اپنے گھر کی طرف آتے ہیں ، گھر کی چھت پر دور سے ماہ پارہ دکھائی دیتی ہے، اس کی آنکھوں میں انتظار ہے ، کیمرہ اس کو فوکس کرتا ہے، سورج ڈھلنے لگتا ہے، نور محمد اپنے گھر کے اندر چلے  جاتے ہیں ، دور سے مغرب کی اذان کی آواز سنائی دیتی ہے، ماہ پارہ ڈوپٹے سے سر ڈھانکتی ہے، اور نیچے اتر آتی ہے۔

Cut to Next Scene

 

 

 

 

(چھ مہینے بعد(After six months)

 

               سین نمبر3

 

اندرونی:۔    Interior

(نور محمد کا گھر)

وقت:۔             شام

 

کردار

 

نور محمد ، بیگم روشن آرا، رابرٹ ولیم

 

(بیگم روشن آرا اپنے گھر میں بیٹھی کچھ کام کر رہی ہے، تبھی نور محمد باہر سے گھر کے اندر آتے ہیں۔

 

بیگم:۔               چلو آ گئے  آپ، بڑی دیر لگ گئی۔

نور محمد:۔                       ہاں بیگم۔۔۔۔۔ کیا بتائیں۔۔۔۔۔ شجاعت حسین کی یہاں جو کچھ جائداد تھی اس کو فرنگیوں نے ضبط کر لینے کا منصوبہ بنایا ہے اور چونکہ یہاں کوئی ان کا وارث نہیں اس لیے یہ کام اور بھی آسان ہو گیا۔ کوئی ڈر کے مارے منہ نہیں کھولتا، لوگوں نے مجھ سے کہا کہ آپ ان کے قریبی دوست رہے ہیں ، آپ آواز اٹھائیے، لیکن میں یہ سوچ کر چپ رہا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ مجھے کوئی لالچ ہے، ان کی جائداد میں ہڑپنا چاہتا ہوں ، میں نے لعنت کی۔۔۔۔ اب جو انجام ہو۔۔۔ طاہر حسین نہ جانے کب آئیں گے اور پھر اس قصبے میں وہ آئیں یا نہیں کسے پتہ۔۔۔۔

بیگم:۔               طاہر میاں کیسے نہیں آئیں گے۔۔۔۔ ہماری ماہ پارہ جو بچپن سے انتظار کر رہی ہے ان کا وہ ضرور آئیں گے۔

نور محمد:۔                       انشاء اللہ۔۔۔ہمیں بھی امید تو ہے۔۔۔۔ لیکن یقین کچھ کم ہے۔

بیگم:۔               اجی تو بہ کیجئے۔۔۔ ایسے الفاظ اپنی زبان سے نہ نکالئے،ہماری ماہ پارہ تو جیتے جی مر جائے گی۔

نور محمد:۔                       لیکن ماہ پارہ ہے کہاں۔۔۔۔ گھر بڑا سونا سا لگ رہا ہے۔

بیگم:۔               ارے اس کی سہلی نورجہاں ، شادی کے بعد پہلی بار گھر آئی ہے، پورے چھ ماہ بعد لوٹی ہے، اس نے کئی بار ماہ پارہ کو بلوا بھیجا۔ اب ظاہر ہے اتنی دور سے اتنے عرصے بعد اپنے مائیکے آئی ہے تو اپنی بچپن کی سہیلی سے ملنے کے لیے بے چین تھی اس لیے میں نے ہی ماہ پارہ کو اس کے گھر بھیج دیا۔ آج رات وہ وہیں رکے گی۔

نور محمد:۔                       رات میں بھی وہ وہیں رکے گی۔ ماہ پارہ ہمارے گھر کی رونق ہے، ذرا سی دیر کے لیے بھی وہ کہیں جاتی ہے تو گھر میں سناٹا پسر جاتا ہے۔

بیگم:۔               بیٹیاں گھر کی رونق ہی تو ہوتی ہیں لیکن آخر کار انہیں پرائے گھر جانا ہی پڑتا ہے، اب آپ بھی اس کی عادت ڈال لیجیے۔ جیسے ہی طاہر حسین ولایت سے واپس آئیں گے، اس چڑیا کو اڑا لے جائیں گے۔

(تبھی دروازے پر دستک ہوتی ہے۔)

(نور محمد جاکے دروازہ کھولتے ہیں ، سامنے رابرٹ ولیم کو دیکھ کر ٹھٹھک جاتے ہیں ، رابرٹ ولیم مقامی لباس پہنے ان کے سامنے کھڑا ہے۔)

رابرٹ:۔                      گڈ ایوننگ مسٹر بیگ۔۔۔۔

نور محمد:۔                       (حیران ہوتے ہوئے) جی، آداب عرض ہے۔۔۔۔

رابرٹ:۔                      کیا آپ ہمیں اندر نہیں بلائیں گے۔۔۔۔؟

نور محمد:۔                       جی۔۔۔جی۔۔۔۔آئیے

(بیگم کو اشارہ کرتے ہیں ، وہ دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہیں ، )

نور محمد:۔                       آئیے تشریف رکھیے۔

رابرٹ:۔                      تھینک یو مسٹر بیگ۔۔۔۔ میں لوٹ کر آ گیا ہوں ، میں نے اپنا وعدہ پورا کیا، اب آپ اپنا وعدہ پورا کیجئے۔

نور محمد:۔                       میں نے تو آپ سے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔

رابرٹ:۔                      No۔۔۔۔ مسٹر بیگ۔۔۔۔ آپ نے کہا، میں نے انگریز سرکار کی نوکری چھوڑی دی، آپ نے کہا، میں نے شراب پینا اور حرام گوشت کھانا چھوڑ دیا۔ میرا کورٹ مارشل ہوا، مجھے جیل میں ڈال دیا گیا، چھ مہینے قید با مشقت کی سزا پوری کر کے آیا ہوں ، اب آپ کو ماہ پارہ کی شادی مجھ سے کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

نور محمد:۔                       جناب رابرٹ۔۔۔ آپ کو کیسے سمجھاؤ، ماہ پارہ کی شادی آپ کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔

رابرٹ:۔                      Why not Possibleممکن کیوں نہیں ہے۔۔۔۔؟

نور محمد:۔                       دیکھئے مسٹر رابرٹ، میں آپ سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میں ایک سچا مسلمان ہوں ، اپنے دین کا پابند ہوں ، میں اپنا ایمان خراب نہیں کروں گا۔۔۔۔ آپ یہاں سے چلے جائیے۔۔۔ یہ شادی نہیں ہوسکتی۔

(رابرٹ ولیم وہاں سے چلا جاتا ہے)

(اس کے چلے جانے کے بعد بیگم فورا ً ان کے پاس آتی ہے۔)

بیگم:۔               یہ وہی بدمعاش فرنگی، بھیڑیا تھا نا۔۔۔۔

نور محمد:۔                       ہاں۔۔۔ وہ کہہ رہا تھا۔۔۔۔

بیگم:۔               (بات کاٹتے ہوئے) میں نے سب باتیں سن لی ہیں ، آپ نے ٹھیک کیا، اسے نکال دیا، کیا ہی اچھا ہو، اگر دلاور بھائی کو خبر ہو جائے کہ وہ کمبخت پھر سے لوٹ آیا ہے، باغی نوجوان اس کی تکا بوٹی کر ڈالیں۔

نور محمد:۔                       نہیں بیگم، ایسا سوچئے گا بھی نہیں ، آپ جانتی ہیں ، ایک انگریز مارا جائے گا تو سینکڑوں بے گناہ ہندوستانیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

بیگم:۔               پھر اب اس مسئلے کا حل کیا ہو۔

نور محمد:۔                       حل ہو گیا۔۔۔۔ اب وہ یہاں کبھی نہیں آئے گا، میں نے شرط ہی ایسی رکھی، نہ وہ اپنا مذہب چھوڑئے گا، نہ اسلام قبول کرے گا اور نہ ہی ہمارے گھر کا رخ کرے گا۔

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے)

Cut to Next Scene

 

 

 

               سین نمبر4

 

 بیرونی:  قصبے کی گلیاں

وقت:۔             رات

 

کردار

 

دلاور، اور باغیوں کی ٹولی

 

(رات کے اندھیرے میں ایک پرانے مکان کی دیوار کے پیچھے دلاور اور کچھ باغی نوجوان اپنے منہ پر کپڑا باندھے ہوئے ہاتھوں میں لاٹھیاں ، تلواریں اور خنجر لیے ہوئے بیٹھے ہیں۔

 

دلاور:۔             ساتھیوں۔۔۔۔۔ ہمیں خبر ملی ہے کہ کچھ فرنگی لوگ مقامی لباس پہنے ہوئے اس قصبے میں دیکھے گئے ہیں ، اور اس مالیر پورہ فوجی کیمپ میں بہت جلد کوئی افسر بھی تعینات ہونے والا ہے، ہمیں میرٹھ کی اعلیٰ کمان نے یہ کام سونپا ہے کہ اس افسر کو اغوا کر لیں۔ اور دوسرے فرنگیوں کو بھی کوشش کریں کہ ان کو قتل نہ کیا جائے۔ ان کو صرف قید کر لیں تاکہ ان کے بدلے ہم اپنے ساتھیوں کو چھڑا سکیں ، لیکن اگر اپنی جان پر بن آئے تو انہیں موت کے گھاٹ اتارنے میں بھی کوئی تکلف نہ کریں۔ اب ہم سب الگ الگ بکھر جائیں۔ اور کل رات اسی وقت اسی جگہ ملاقات کریں گے۔

(سب دبی ہوئی آواز میں نعرہ لگاتے ہیں۔)

ہندوستان زندہ آباد

ہمارا اتحاد، پائندہ باد

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               Scene No.4/B

 

اندرونی       :       Interior

(مسجد کے اندر کا منظر)

وقت    :           دن

 

کردار

 

رابرٹ ولیم ، مسجد کے امام صاحب کچھ اور نمازی لوگ

کیمرہ دور سے مسجد کے اندر کا منظر کور کرتا ہے۔

مسجد کے ایک کونے میں امام صاحب کے سامنے رابرٹ ولیم اور کچھ اور لوگ بیٹھے ہوئے ہیں آپس میں باتیں کر رہے ہیں کیمرہ نزدیک آ کر امام صاحب اور رابرٹ کو فوکس کرتا ہے۔

امام صاحب:       حضرات ! یہ مسٹر رابرٹ ولیم ہیں ایک انگریز ، افسر اعلیٰ کے عہدے پر فائز تھے، اب یہ اس عہدے سے بر طرف ہو گئے ہیں ،کئی روز سے یہ بضد ہیں اور اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں میں پہلے بھی انھیں کی بار ٹال چکا ہوں۔لیکن یہ اپنی خواہش پر پابند ہیں۔رابرٹ صاحب ! آپ بتائیے ان لوگوں کو کہ آپ اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام کیوں قبول کرنا چاہتے ہیں۔

رابرٹ ولیم:       السلام و علیکم بھائیوں ! میں اپنی مرضی سے بغیر کسی لالچ کے ،بغیر کسی کی زور زبردستی کے، اپنے پورے ہوش و حواس کے ساتھ اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں ، امید ہے آپ کو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

(سب لوگ ایک دوسرے سے کھُسر پھُسر کرتے ہیں ، پھر ایک صاحب کہتے ہیں )

ایک آدمی         :           اما م صاحب، جب ایک شخص خود اپنی مرضی سے ایمان لانا چاہ رہا ہے تو ہمیں اس کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔مسٹر رابرٹ کے اسلام قبول کرنے سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ہم سب انھیں دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ وہ ضروری ارکان ادا کیجیے۔

پھر امام صاحب عربی میں آہستہ آہستہ کچھ پڑھتے ہیں اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں دعا کے بعد سب لوگ اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور کھڑے ہو کر رابرٹ ولیم سے ہاتھ ملاتے ہیں اور مبارکباد دیتے ہیں۔

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے۔)

 

 

 

               سین نمبر5

 

بیرونی :۔   Exterior

(مسجد کے سامنے کا منظر)

وقت:۔             دن

 

کردار

 

نور محمد ، رابرٹ ولیم، (مسجد کے امام صاحب)

 

نور محمد اپنے گھر سے نکل کر قصبے کی طرف جاتے ہوئے مسجد کے سامنے سے گزرتے ہیں ، تبھی مسجد کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے امام صاحب کے ساتھ رابرٹ ولیم نظر آتے ہیں ، نور محمد انہیں نہیں دیکھتے، لیکن امام صاحب انہیں دیکھ کر دور سے سلام کرتے ہیں۔

 

امام صاحب:۔    اسلام علیکم نور محمد بیگ صاحب

امام صاحب:۔    بھئی عجیب اتفاق ہے۔ ہم لوگ آپ کی طرف ہی آرہے تھے۔ چلو اچھا ہوا، یہیں ملاقات ہو گئی، آپ انہیں جانتے ہی ہیں یہ پہلے فرنگی ہیڈ کوارٹر میں افسر اعلیٰ کے عہدے پر فائز تھے۔ ان سے بہت سارے مظالم سرزد ہوئے، اب یہ اپنے کئے پر پچھتاوا کر رہے ہیں اب صدق دل سے ، اپنے ہوش وحواس کے ساتھ، اپنی مرضی سے بغیر کسی کے زور زبردستی کے ایمان قبول کر چکے ہیں ، میں اس کی تصدیق کرتا ہوں ، اور ساتھ ہی یہ ہم سب ہندوستانیوں سے معافی کے خواستگار ہیں ، ہمارا بھی ایمانی تقاضہ ہے کہ ہم انہیں معاف کر دیں۔ اللہ غفور الرحیم ہے، اس کی مصلحت وہی جانیں۔

(اور امام صاحب تسبیح کے دانے  پھیرتے ہوئے دعائیں دیتے ہوئے ایک طرف چلے جاتے ہیں ، نور محمد اور رابرٹ وہیں رکے رہتے ہی ، کچھ دیر کے بعد نور محمد کہتے ہیں۔)

 

نور محمد :۔                      مسٹر رابرٹ۔۔۔۔

(ان کی بات کاٹتے ہوئے کہتا ہے)

رابرٹ:۔                      ایکسکیوز می۔۔۔ میرا نام رحیم الدین ہے۔

نور محمد:۔                       کب تک کے لیے۔

رابرٹ :۔                     ہمیشہ کے لیے۔۔۔ اب آپ کے پاس انکار کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

نور محمد:۔                       ہمیں سوچنے کی مہلت چاہیے۔

رابرٹ:۔                      ٹھیک ہے، لیکن فیصلہ جلدی کیجئے گا۔۔۔ خدا حافظ۔

(رابرٹ واپس مسجد کی طرف چل دیتا ہے، نور محمد بہت دیر تک اس کو دیکھتے رہتے ہیں ، پھر واپس مڑ کر اپنے گھر کی طرف چلے جاتے ہیں۔)

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے۔)

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین نمبر6

 

 بیرونی منظر

مسجد کے سامنے کا حصہ، قصبے کی گلیاں ، نور محمد کے گھر کا باہری منظر

وقت:               دن، صبح

 

کردار

 

رابرٹ ولیم، قصبے کے کچھ لوگ

 

رابرٹ مسجد کی سیڑھیوں سے اترتا ہوا، قصبے کی گلیوں سے گزرتا ہوا، نور محمد کے مکان تک پہنچتا ہے، وہاں جا کے دیکھتا ہے، دروازہ باہر سے بند ہے، اور اس میں بڑا ساتالا پڑا ہوا ہے(Montaz)،وہ آس پاس کے کئی گھروں کا دروازہ کھٹکھٹا کے ان سے پوچھتا ہے، لیکن کسی بھی پڑوسی کو نور محمد کا خاندان کہاں گیا ہے، یہ پتہ نہیں۔

(دن بدلتے جا رہے ہیں ، وقت بدلتا جاتا ہے، رابرٹ دیوانوں کی طرح مختلف اوقات میں نور محمد کے گھر آتا ہے، اور تالا بند دیکھ کر چلا جاتا ہے۔)

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے)

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین نمبر7 ۔ (Montaz)

 

بیرونی منظر

مختلف شہروں کا منظر

وقت:۔             دن کے مختلف اوقات

 

کردار

 

رابرٹ، نور محمد ، ماہ پارہ

 

رابرٹ دیوانہ وار، مختلف شہروں میں نور محمد اور اس کے خاندان کو ڈھونڈھتا پھر رہا ہے، وقت بدلتا جاتا ہے، دن گزرتے جاتے ہیں ، لیکن نور محمد کا کہیں پتہ نہیں چل پا رہا ہے، رابرٹ نڈھال ، پریشان حال، بال اور ڈاڑھی بڑھی ہوئی ، گلیوں ، سڑکوں پر مارا مارا پھرتا دکھائی دیتا ہے۔

کئی دن گزر جانے کے بعد ایک شہر میں ایک جگہ نور محمد اسے دکھائی دیتے ہیں ، وہ دور سے انہیں دیکھتا ہے اور ان کا پیچھا کرتا ہوا اس مکان تک چلا جاتا ہے، جس میں نور محمد جاتے ہیں ، اندر سے دروازہ ماہ پارہ کھولتی ہے، رابرٹ ماہ پارہ کو دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے، لیکن  اس وقت وہ وہاں سے چلا جاتا ہے۔

Cut to Next Scene

 

 

 

 

               سین نمبر8

 

 بیرونی

نور محمد کا نیا مکان

وقت:۔             دن ؍شام

 

کردار

 

نور محمد؍رابرٹ

 

نور محمد کے نئے مکان کا باہری حصہ ، خوبصورت دروازہ دور سے دیکھائی دیتا ہے، رابرٹ پھولوں کا گلدستہ لے کر آتا ہے، اور دستک دیتا ہے، تھوڑی دیر کے بعد دروازہ نور محمد کھولتے ہیں ، سامنے رابرٹ کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔

 

نور محمد:۔                       تم۔۔۔۔یہاں بھی پہنچ گئے۔۔۔۔۔

رابرٹ:۔                      جی ہاں جناب۔۔۔۔۔ ماہ پارہ میری زندگی ہے، میں نے بے شمار شہروں کی خاک چھانی اس کے لیے یہاں تو کیا مجھے قبرستان بھی جانا پڑے تو منظور ہے، کیا مجھے اندر نہیں بلائیں گے۔

نور محمد:۔                       ٹھیک ہے، اندر آ جاؤ۔

رابرٹ:۔                      شکریہ جناب

Cut to Next Scene

 

 

 

               سین نمبر9

 

اندرونی منظر

(نور محمد کے نئے مکان کا منظر)

وقت:۔             دن؍شام

 

کردار

 

نور محمد، بیگم روشن آرا، ماہ پارہ اور رابرٹ ولیم

 

(نور محمد دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں ، ماہ پارہ اور بیگم کو اشارہ کرتے ہیں دونوں اندر سے دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہیں۔) نور محمد کے پیچھے رابرٹ داخل ہوتے ہیں۔ بڑے سے ہال نما کمرے میں پرانے انداز کی خوبصورت کرسیاں اور صوفے سلیقے سے لگی ہوئی ہیں۔ ان پر رابرٹ اور نور محمد بیٹھتے ہیں۔

رابرٹ:۔                      مسٹر بیگ میں نے آپ کو کہاں کہاں نہ ڈھونڈا۔

نور محمد:۔                       رابرٹ۔۔۔۔۔

(ان کی بات کاٹتے ہوئے )

رابرٹ:۔                      No, Sirمیرا نام رحیم الدین ہے۔

نور محمد:۔                       ٹھیک ہے۔۔۔ رحیم الدین۔۔۔۔ تم نے ماہ پارہ کو حاصل کرنے کے لیے واقعی بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں ، اور ہم بھی دربدر پھرتے رہے، اب میں بہت کمزور ہو گیا ہوں ، مجھ میں اب طاقت نہیں کہ کہیں اور جا سکوں ، آخر کار تم جیت گئے۔۔۔ کل نیک تاریخ ہے اور جمعہ کا مبارک دن بھی جاؤ کل آنا۔۔۔ تمہارا مدعا پورا ہو گا۔

(رابرٹ خوشی خوشی چلا جاتا ہے)

 

 

 

 

               سین نمبر10

 

اندرونی

(نور محمد کے نئے مکان کا اندرونی حصہ)

وقت:۔             دن؍صبح

 

کردار

 

نور محمد، بیگم روشن آرا، رابرٹ

 

(گھر کے خوبصورت ہال میں نور محمد اور بیگم روشن آرا غمگین بیٹھے ہوئے ہیں ، میز پر پھل اور ناشتے کی چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ تبھی دروازے پر دستک ہوتی ہے، بیگم سنبھل کے بیٹھ جاتی ہے، نور محمد اٹھ کے دروازہ کھولتے ہیں ، رابرٹ شیروانی پاجامہ پہنے ہوئے ہیں نور محمد اسے اندر لے کر آتے ہیں ، وہ مسکراتا ہوا، بیگم روشن آرا کو ادب سے آداب کرتا ہے، بیگم بھی مسکراتی ہوئی جواب دیتی ہے، کچھ دیر آپس میں باتیں کرتے ہیں ، تھوڑی دیر بعد نور محمد اور رابرٹ ناشتہ کرتے ہیں۔۔۔۔ ناشتہ کرنے کے بعد نور محمد کہتے ہیں۔

 

نور محمد:۔                       آؤ۔۔۔ رابرٹ

(ان کی بات کاٹتے ہوئے)

رابرٹ:۔                      Sorry Sirمیرا نام رحیم الدین ہے۔

نور محمد:۔                       (پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہاں۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔آؤ، تمہیں ماہ پارہ سے ملادوں۔

(دونوں اٹھ کر مکان کے پچھلے دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں۔)

Cut to Next Scene

 

 

 

               سین نمبر 11

 

بیرونی

(نور محمد کے نئے مکان کا پچھلا منظر خوبصورت باغ)

وقت:۔             دن

 

کردار

 

نور محمد، رابرٹ ولیم، طاہر حسین

 

نور محمد مکان کے پچھلے دروازے سے نکلتا ہے، اس کے پیچھے رابرٹ ہے، نور محمد رابرٹ کو لے کر پورے باغ کا چکر کاٹ کر باغ کے ایک کونے میں بنی ہوئی ایک تازہ قبر جس پر تازہ پھول پڑے ہیں ، کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں۔

نور محمد:۔                       اس میں ماہ پارہ سورہی ہے۔

(رابرٹ کا چہرہ فق ہو جاتا ہے، اور وہ تھرتھراتا ہوا قبر پر گر جاتا ہے)

(اسی وقت طاہر حسین دکھائی دیتے ہیں جو شہر سے مالیر پورہ کو آنے والی پکی سڑک پر اپنا بڑا سا سوٹ کیس اٹھائے ہوئے قصبے کی طرف آرہے ہیں۔)

(منظر تحلیل ہو جاتا ہے۔)

End of Episode ۔ 13

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید