FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

عکس ریز

 

(طویل نظم)

۱۹۶۴ء ۱۹۶۵ء

 

 

مظفرؔ حنفی

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

 

 

آئیے اُس دور کی جھلکی دکھاؤں

جس طرف دیکھو، وہیں اک ٹیڑھ ہے

کوئی پونا ہے تو کوئی ڈیڑھ ہے

فلسفی یہ ہے، وہ پاگل آدمی

کم ہی نکلیں گے مکمل آدمی

میں نے برتا ہے انھیں نزدیک سے

سب کی تعریفیں کروں گا ٹھیک سے

آپ کو دلچسپ لوگوں سے ملاؤں

آئیے اس دور کی جھلکی دکھاؤں

 

 

یہ ہمارے بیچ کے لوگوں کے گھر

عورتیں مدقوق، لڑکے زرد سے

مردمی روٹھی ہوئی ہر مرد سے

آج آٹا ختم ہے، کل دال کم

بیشتر قلاش ہیں، خوشحال کم

آرزوؤں کے چمن سوکھے ہوئے

نونہالوں کے بدن سوکھے ہوئے

گندگی کی باڑھ سے ’’روگوں کے گھر‘‘

یہ ہمارے بیچ کے لوگوں کے گھر

 

 

ڈھیر سے بچوں کی یہ بیمار ماں

چپ ہوا منجھلا تو چھوٹا اُٹھ گیا

روٹھ کر کھانے سے ’’موٹا‘‘ اُٹھ گیا

’’قبض ہے منّی کو‘‘ دوں جلّاب پھر

ہائے منّے ! کر دیا پیشاب پھر

پوتڑے کب تک بھلا دھوتی رہوں

کام کر لوں، یا ابھی روتی رہوں

اک نفر ہر سال بڑھتا ہے یہاں

ڈھیر سے بچوں کی یہ بیمار ماں

 

 

 

ان کے شوہر ہیں بڑے ہی بدمزاج

کیوں تری آنکھوں کا پانی مر گیا

کم ہے سالن میں نمک او بے حیا!

پھاڑ دی پتلون! ٹوٹا ہے بٹن

ہے خطا تیری، بہت بھولی نہ بن

ہوش کی لے، سر پہ آنچل کو سنبھال

پھوڑ دوں گا آنکھ، دیدے مت نکال

سر ہی پھر جائے تو اس کا کیا علاج

ان کے شوہر ہیں بڑے ہی بدمزاج

 

اور یہ بچّے، جنھیں فتنے کہیں

صبح دم وہ ان کے رونے کا ریاض

یاد آ جاتی ہے فانیؔ کی بیاض

کوٹ پر پیشاب، پتلونوں پہ دال

ریشمی رو مال میں ناک اور رال

جا چھپے چشمے کے شیشے توڑ کر

پرس کے نوٹ اُڑ گئے پر جوڑ کر

کم پڑیں گے، شعر ہم کتنے کہیں

اور یہ بچّے، جنھیں فتنے کہیں

 

 

آپ سے ڈریے کہ ہیں مالک مکاں

کیا تمہارے ساتھ گھر والی نہیں

تب تو پھر کھولی کوئی خالی نہیں

کم نہ لوں گا ایک روپیہ ساٹھ سے

غسل خانے ہی میں رہیے ٹھاٹھ سے

’’چھت ٹپکتی ہے ؟‘‘ تو پھر میں کیا کروں

سب ہی شاکی ہوں تو کس کس کی سنوں

پھر فلاں کی وہ فلانے کی فلاں

آپ سے ڈریے کہ ہیں مالک مکاں

 

 

 

ان کو پہچانا، نصیبن بی ہیں یہ

مت کرو بِٹیا کی شادی، اے بوا!

وہ گھسیٹے خاں نکھٹّو ہے — مُوا

تم کو بیٹے کی قسم، کہنا نہیں

ایک کی ہو کر اُسے رہنا نہیں

کچھ خبر بھی ہے تجھے او ریشماں

رات کس کے گھر میں تھا تیرا میاں

’’بی جمالو‘‘ اس محلّے کے ہیں یہ

ان کو پہچانا، نصیبن بی ہیں یہ

 

 

یہ پرانے وقت کے بوڑھے میاں

اک صدی گزری ہے دلّی صدر میں

آپ سولہ سال کے تھے غدر میں

ہم نے ہی آنے میں کچھ تاخیر کی

ورنہ یہ باتیں سناتے میرؔ کی

کہہ رہے ہیں قصۂ کوتاہ یوں

عیش کرتا تھا بہادر شاہ یوں

عقل پر بھی پڑ گئی ہیں جھرّیاں

یہ پرانے وقت کے بوڑھے میاں

 

 

بن بلائی میہماں آتی ہیں یہ

آپ کے بچے کی چھَٹی ہے اگر

یہ کھرا کر لیں گی اپنا ماحضر

مان لو ہمسائیوں کو مت بلاؤ

چٹ نہ کر جائیں وہی سارا پلاؤ

کب کیا ختنہ، عقیقہ کب ہوا

آپ نے ہم کو نہ پوچھا، اے بوا!

ہر جگہ احسان فرماتی ہیں یہ

بن بلائی میہماں آتی ہیں یہ

 

 

ان کی گھر والی بڑی ڈرپوک ہے

کاٹ لے گی اک نہ اک دن منہ جلی

گھورتی رہتی ہے مجھ کو چھپکلی

ہائے اس لوٹے میں مینڈک! مر گئی

رات، ان سے میں نگوڑی ڈر گئی

نَوج، بچے کو میں سمجھی، چور تھا

دیکھ تو منّا! یہ کیسا شور تھا

تھا جو بچھو! بال پن کی نوک ہے

ان کی گھر والی بڑی ڈرپوک ہے

 

 

اس جواں بیوی کے یہ بوڑھے میاں

اس نے سر جھٹکا، تو یہ پھر جائیں گے

اس نے دھر ٹپکا، تو یہ گر جائیں گے

پاؤں تک اس کے دبا دیتے ہیں یہ

سب، محبت کے سوا دیتے ہیں یہ

اس کے نخرے، ان کے جھک جانے کی بات

پھر قلم کا سانس رک جانے کی بات

کیا کریں طاقت کی مہنگی گولیاں

اس جواں بیوی کے یہ بوڑھے میاں

 

 

 

ان کا پڑھنا ہے کہ اک طوفان ہے

رات بھر پڑھنے سے کیا تھکتے نہیں

آج ہم بازار جا سکتے نہیں

کچھ کتابیں لائیں گے، دس دیجیے

خوب سختی ہو چکی بس کیجیے

ہو گا ان پر منحصر کل خاندان

یہ، جو پڑھتے ہیں ’’جوانی کی اٹھان‘‘

گیارہویں میں ہیں مگر کیا شان ہے

ان کا پڑھنا ہے کہ اک طوفان ہے

 

 

بے تکلف دوستوں میں آپ ہیں

مرغ کھلوا یار! اپنا موڈ ہے

بوتلیں دو چار، اپنا موڈ ہے

تین دن کو ریڈیو دینا ذرا

چل، ضمانت اس کی لے لے نا ذرا!

پَرس کیا اُن کے بنا پھولا نہیں

آٹھ سو کو تُو ابھی بھولا نہیں

کون صاحب؟ ہم تمہارے باپ ہیں

بے تکلف دوستوں میں آپ ہیں

 

 

لوگ کہتے ہیں ’’سگھڑ بی بی‘‘ انھیں

چوں کہ ہے ان کا میاں آفت زدہ

ایک ہی جوڑا پہنتی ہیں سدا

مائیکے کا دم نہیں بھرتیں کبھی

مار کھا کر اُف نہیں کرتیں کبھی

کثرتِ اطفال سے دل چور ہے

ایک فاقہ روز کا دستور ہے

دیکھیے ہوتی ہے کب ٹی۔ بی۔ انھیں

لوگ کہتے ہیں سگھڑ بی بی انھیں

 

 

آپ کے بارے میں کہنے دیجیے

میرے ہمسائے میاں دلشاد ہیں

شیخ جی کے سابقہ داماد ہیں

مدتوں کھائی دوا ہمدرد کی

ہو گئی تشہیر طبع سرد کی

مانگ لی بیوی نے تنگ آ کر طلاق

الفراق و الفراق و الفراق

ان اشاروں تک ہی رہنے دیجیے

آپ کے بارے میں کہنے دیجیے

 

 

 

یہ شریف ابنِ شریف ابنِ شریف

جامہ زیب و خوش دل و شیریں بیاں

ان کے چہرے سے شرافت ہے عیاں

چوں کہ ہے تشویش بیٹی کے لیے

اک قیامت ہیں پڑوسی کے لیے

کھانستے رہتے ہیں غم میں رات بھر

ڈھونڈھ کر لا دو انھیں بیٹی کا بَر

جان دے دیں گے بہ ایں حال نحیف

یہ شریف ابنِ شریف ابنِ شریف

 

 

آپ سے ملیے، ہمارے باس ہیں

حال ہی میں جرمنی سے آئے ہیں

شکل سے بے سینگ والی گائے ہیں

سیرتاً کوئی بھی کل سیدھی نہیں

آدمیت پاس سے نکلی نہیں

کہہ رہے ہیں ان کی پیشانی کے بَل

روپیے کی فکر میں ہیں آج کل

اختیارِ خاص ان کے پاس ہیں

آپ سے ملیے، ہمارے باس ہیں

 

 

میر منشی سے بھی ملتے جائیے

دیکھیے رنگین عینک آپ کی

کیسے یک چشمی کا پردہ بن گئی

روز آتے ہیں گلابی سوٹ میں

نوٹ رکھتے ہیں چھپا کر بوٹ میں

لیتے ہیں حصہ ہر اک بابو سے آپ

چھیلتے ہیں کاغذی چاقو سے آپ

خیریت اس میں ہے، چھلتے جایئے

میرِ منشی سے بھی ملتے جائیے

 

 

 

افسرِ اعلیٰ کے ہیں یہ پیشکار

ہے جو سیم و زر کی آمد آپ پر

ختم ہے رسم خوشامد آپ پر

بی جمالو سے بھی کچھ بڑھ کر ہیں یہ

سچ تو یہ ہے ’’مخبرِ دفتر‘‘ ہیں یہ

اک بلائے بد ہیں یہ سب کے لیے

سبزیاں لاتے ہیں صاحب کے لیے

یہ، جو بیٹھے ہیں بہ ایں عز و وقار

افسرِ اعلیٰ کے ہیں یہ پیشکار

 

آپ ہیں جنگل کے دفتر میں کلرک

آپ کی تحریر استادانہ ہے

افسروں سے آپ کا یارانہ ہے

باس کے رشتے میں کچھ ہوتے ہیں یہ

یوں بہادر شاہ کے پوتے ہیں یہ

چونکہ ہیں ننّانوے کے پھیر میں

فائلیں جاری کریں گے دیر میں

کر چکے انسانیت مدت سے ترک

آپ ہیں جنگل کے دفتر میں کلرک

 

 

یہ بڑے صاحب کے شوفر ہی تو ہیں

کس طرح وردی پہ اتراتے ہیں آپ

جیپ پر بیت الخلاء جاتے ہیں آپ

کار کی رفتار کم لکھوائیں گے

بیچ کر پٹرول وہسکی لائیں گے

روز کچھ پرزے بدل دیں گے وہاں

اور پھر مونچھوں پہ بل دیں گے یہاں

تاش کی گڈی کے جو کر ہی تو ہیں

یہ بڑے صاحب کے شوفر ہی تو ہیں

 

 

 

آپ صورت سے تو چپراسی نہیں

چونکہ سالے آپ کے آفس میں ہیں

اس لیے کچھ دن سے اس سروس میں ہیں

تاؤ دے کر مونچھ کے ہتھیار کو

سرد کر دیتے ہیں ٹھیکیدار کو

بیس روپیے خوش کلامی کے لیے

ساٹھ صاحب کی سلامی کے لیے

بھاؤ کہتا ہے کڑھی باسی نہیں

آپ صورت سے تو چپراسی نہیں

 

 

یہ برائے نام جو ہیں اردلی

زیب دیتا ہے انھیں تن کر چلیں

خوب مکھن کھائیں چہرے پر ملیں

چونکہ افسر آپ کے کہنے میں ہے

خیریت ان سے بنی رہنے میں ہے

اس لیے گھی میں ہیں پانچوں انگلیاں

کل فراہم کر چکے ہیں۔۔ ۔ لڑکیاں

سیرتاً ابلیس، چہرے سے ولی

یہ برائے نام جو ہیں اردلی

 

 

دیکھیے ان کو ضرورت مند ہیں

یہ کبھی جنگل کے ٹھیکیدار تھے

آج کل قسمت مگر گردش میں ہے

روز کر جاتے ہیں دفتر کا طواف

آپ ہی ان کو بتا دیں صاف صاف

اردلی سے افسرِ اعلیٰ تلک

پار کرنے ہیں انھیں سا توں فلک

ورنہ بابِ کامیابی بند ہیں

دیکھیے ان کو ضرورت مند ہیں

 

 

کج کلاہوں میں نہیں ان کی مثال

زعم یہ ہے قتل کچھ فرمائے ہیں

جیل کی تفریح بھی کر آئے ہیں

لوٹتے پھرتے ہیں سب کی آبرو

’’اُس کی ماں، اِس کی بہن، اُس کی بہو‘‘

اینڈتے پھرتے ہیں بازاروں میں یہ

خود کو گنتے ہیں طرحداروں میں یہ

یہ نہ پوچھو اُڑ گئے کیوں سر کے بال؟

کج کلاہوں میں نہیں ان کی مثال

 

 

مل چکی ہے ان کو ایم اے کی سند

ان کے ملٹن پر مقالے خوب ہیں

جن میں غالبؔ کے حوالے خوب ہیں

کوٹ کے تمغے پہ یہ تحریر ہے

آپ کالج یونین کے صدر تھے

ہے جو اِن کے سَر میں ڈگری کا بخار

ہیں مجسم نوکری کا اشتہار

حال ہے فی الحال تو نامستند

مل چکی ہے ان کو ایم اے کی سند

 

 

 

آپ ہی کابل سے منگواتے تھے پھل

آپ کا درزی تھا دریا پور کا

خانساماں اور بھی کچھ دُور کا

عام لوگوں سے کبھی ملتے نہ تھے

آپ ٹم ٹم کے سوا ہلتے نہ تھے

عطر منگواتے تھے یہ قنّوج سے

انقلابِ وقت کی اک موج سے

چاٹ چھولے بیچتے ہیں آج کل

آپ ہی کابل سے منگواتے تھے پھل

 

 

 

آپ تو پہچانتے ہوں گے انھیں

یہ کبھی تھے شہر کے نامی رئیس

بلڈنگیں تھیں آپ کی پچّیس تیس

ذائقہ افلاس کا چکھا نہ تھا

ٹھوس دھرتی پر قدم رکھا نہ تھا

لُٹ چکے ہیں حسن کے بازار میں

اور کچھ سٹّے کے کاروبار میں

شہر میں سب جانتے ہوں گے انھیں

آپ تو پہچانتے ہوں گے انھیں

 

ہر طرف سے رہبر ملت ہیں آپ

’’دیکھیے ووٹوں کی قیمت سوچیے ‘‘

’’ہارنے کی بات ہی مت سوچیے ‘‘

ختم ہیں اِن پر سیاسی جوڑ توڑ

پانچ سالوں میں کمائے نو کروڑ

قوم کا غم آپ سے منسوب ہے

اور اس میں فائدہ بھی خوب ہے

مخلصانِ قوم کی عِلّت ہیں آپ

ہر طرف سے رہبرِ ملّت ہیں آپ

 

اِن سے ملیے کوتوالِ شہر میں

چور اُچکّے آپ سے خوش ہیں سبھی

رشوتوں سے منہ نہیں موڑا کبھی

جرم ایسا ہو نہیں سکتا یہاں

جو نہ ہو پہلے سے حضرت پر عیاں

امن پرور آپ کا پیشہ نہیں

شہر کا ان کو کچھ اندیشہ نہیں

قوم کے حق میں خدا کا قہر ہیں

ان سے ملیے کوتوالِ شہر ہیں

 

 

 

آپ کالج میں کبھی تھے لکچر ر

چال سنجیدہ، طبیعت ’’باغ باغ‘‘

شخصیت مرعوب کن، کورا دماغ

قابلیت جائے چولھے بھاڑ میں

یہ پڑھاتے تھے لغت کی آڑ میں

جی رہے ہیں با دلِ ناخواستہ

اب نہیں اڑتی ’’خلیلی فاختہ‘‘

یادِ ماضی سے پھٹا جاتا ہے سَر

آپ کالج میں کبھی تھے لکچر ر

 

 

 

یہ بزعمِ خود ہیں افسانہ نگار

چھپ چکے ہیں ان کے مجموعے کئی

باپ کی چھوڑی ہوئی پونجی؟ گئی

دوستی ہے ان کی ہر نقاد سے

ہے قلم آزاد ان کا اس لیے

کھوکھلا رومان، فرسودہ خیال

ہر کہانی مہملیت کی مثال

کر کے، دو سو ساٹھ افسانے، شکار

یہ بزعمِ خود ہیں افسانہ نگار

 

 

آپ ہیں اک روزنامے کے مدیر

چونکہ بے پَر کی اڑا لیتے ہیں آپ

اس لیے اچھا کما لیتے ہیں آپ

سنسنی پھیلا نہ پائے جو خبر

آپ کے نزدیک وہ نا معتبر

کام لے کر ’’گردشِ حالات‘‘ سے

کھیلتے ہیں قوم کے جذبات سے

چھوڑ آئے ہیں بہت پیچھے ضمیر

آپ ہیں اک روزنامے کے مدیر

 

 

یہ رہے اردو کے بابائے سخن

جس کے سر سے یہ اٹھا لیتے ہیں ہات

وہ بڑا فنکار کھا جاتا ہے مات

تبصرے، تنقید، دیباچہ، غزل

نظم و افسانہ پہ حکم ان کا اٹل

بات جو ہے، مستند ہے آپ کی

پوچھیے تو کوئی حد ہے آپ کی

سیکھنا چاہو جو گٹ بندی کا فن

یہ رہے اردو کے بابائے سخن

 

 

یہ بڑے استاد کے شاگرد ہیں

مات کھا جاؤ گے، ان کے منہ نہ آؤ

یہ بڑے حضرت ہیں، صورت پر نہ جاؤ

صفر ہیں طبعِ رواں کے نام پر

چل پڑے آزاد خاں کے نام پر

میرؔ کے مصرعے ہڑپ لیتے ہیں یہ

سیکڑوں پرچوں میں چھپ لیتے ہیں یہ

حضرتِ آزاد کے شاگرد ہیں

یہ بڑے استاد کے شاگرد ہیں

 

 

آپ اک نقّاد ہیں مانے ہوئے

دال سے کمزور ہے ادبِ لطیف

قافیہ بیکار ہے، مہمل ردیف

آہ، اس مصرعے میں ایطائے جَلی

’’مخملیں ‘‘ لکھنا تھا، لکھا ’’مخملی‘‘

رات ناول کی، غزل کا ناشتہ

کاٹ کرتے ہیں قلم برداشتہ

نفسِ مضمون پر بھنویں تانے ہوئے

آپ اک نقّاد ہیں مانے ہوئے

 

 

 

آپ رشکِ مانیِ و بہزاد ہیں

چوکھٹے میں کیکڑہ مت جانیے

حضرتِ غالبؔ ہیں یہ پہچانیے

صاف تصویروں کے یہ جلّاد ہیں

جی۔ پکاسُو کے یہی اُستاد ہیں

جو سمجھ میں آئے، وہ فن ہی نہیں

ناف ہے تصویر میں، تن ہی نہیں

چھوڑیے، ہم لوگ کیا نقّاد ہیں !

آپ رشکِ مانی و بہزاد ہیں

 

 

’’تان سینِ وقت‘‘ سے مل لیجیے

آپ تنبورے کی دھن پر جھوم کر

مرکیاں لیتے ہیں پیچھے گھوم کر

چھیلتی ہے تان گھنگرو کی جھنک

یہ ہتھوڑا ہے کہ طبلے کی ٹھنک

بھاگیے، ورنہ ہمیں دے کر ستار

تال و سُر میں یہ کہیں گے بار بار

’’تا دھِنا دھِن تا دھِنا دھِن کیجیے ‘‘

’’تان سینِ وقت‘‘ سے مل لیجیے

 

 

یہ فلاں صاحب، یہ حضرت، یہ جناب

اک نمائش ہے اکڑفوں آپ کی

ورنہ حالت ہے دگر گوں آپ کی

قیمتی پوشاک پر مت جائیے

جیب خالی ہے یقیں فرمائیے

اس لیے ہیں آپ دل برداشتہ

صبح غائب تھا ’’چنے کا ناشتہ‘‘

دیکھتے ہیں دن میں خوشحالی کے خواب

یہ فلاں صاحب، یہ حضرت، یہ جناب

 

 

آپ، اس روضے کے سجادہ نشیں

’’دیکھ اِس مرقد پہ جھاڑو مت لگا‘‘

’’ہاتھ اِس چادر کو جھاڑو مت لگا‘‘

ساٹھ ستّر ہار بکرے چر گئے !

’’کیا سبھی قوّال سالے مَر گئے ‘‘

پان بنوا لا، مریدوں کے لیے

کچھ مٹھائی بھی ندیدوں کے لیے

مانگ لے، اس در سے کیا ملتا نہیں !

آپ، اس روضے کے سجادہ نشیں

 

 

 

ایک نامی باپ کے بیٹے ہیں یہ

اسم اقدس آپ کا؟ عبدالکریم

بیچتے ہیں آپ ناجائز افیم

آپ سے پردہ نہیں ہے ایں جناب

کھنچتے تھے غیر قانونی شراب

اتفاقاً ایک دن پکڑے گئے

ساٹھ من افیون کے چھکڑے گئے

جیل میں کس ٹھاٹ سے لیٹے ہیں یہ

ایک نامی باپ کے بیٹے ہیں یہ

 

 

آپ فلموں کے بڑے دلدادہ ہیں

یہ کہانی کار، سالے چور ہیں

خان کی فلموں کے گانے بور ہیں

اس نئی لڑکی کو چلنا چاہیے

اب اُسے ہیرو بدلنا چاہیے

سادھنا، شمّی کے ساتھ آئی تو کیوں

پدمنی نے اُس سے شادی کی تو کیوں

پدمنی کے خون پر آمادہ ہیں

آپ فلموں کے بڑے دلدادہ ہیں

 

 

 

سیپ مسجد کے مؤذّن ہیں یہی

فاتحہ خوانی کے سو روپے ہوئے

پھونک ڈالی ہے تو ’نو روپے ہوئے

پائینچے ٹخنوں سے اوپر کیجیے

اور کچھ ڈاڑھی کو بڑھنے دیجیے

دیکھیے صاحب! عشاء پھر گول ہے

اُس کے ایماں میں یقیناً جھول ہے

’گھوم پھر کر مردِ مومن ہیں یہی

’سیپ مسجد کے مؤذّن ہیں یہی

 

 

آپ ہی چنگی کے ناکیدار ہیں

دال پر دو، پاپڑوں پر پانچ دے

’’گھی؟‘‘ نہیں یہ موم ہو گا، آنچ دے

کیا کہا؟ گیہوں پہ چنگی ہے معاف؟

بارہ سو گننے پڑیں گے صاف صاف

ایک پیپا تیل کا رکھ دے اِدھر

ڈھائی سو لا اور جاتا ہے کدھر

تاجروں کے واسطے سرکار ہیں

آپ ہی چنگی کے ناکیدار ہیں

 

کون کہہ سکتا ہے پٹواری ہیں آپ

پڑ گئے جس کھیت میں ان کے قدم

ہو گیا دو چار بِسوے بیش و کم

اس طرف خسرے کھتونی کی پکار

اس طرح منہ پھاڑتا ہے جنس وار

کچھ تقادی مار دی تھوڑا لگان

ان سے ہٹ کر جی نہیں سکتے کسان

اس کے اَن داتا ہیں، اس کے مائی باپ

کون کہہ سکتا ہے پٹواری ہیں آپ

 

 

 

یہ محلّے کے معزّز آدمی

چونکہ ہر موضوع پر چالو ہیں یہ

اس رعایت سے ’’جگت خالو‘‘ ہیں یہ

چغلیاں کھانے میں حاصل ہے کمال

جوتیوں میں بانٹتے پھرتے ہیں دال

ان کا دھندا ہے دغا، تو کیا ہوا

آپ کو کیا کھیلتے ہوں گے جوا

رہ گئی بس آدمیت کی کمی

یہ محلّے کے معزّز آدمی

 

 

چند جملے آپ کی تعریف میں

تھے کبھی افسر محکمہ مال میں

ایک بلڈنگ تان لی دو سال میں

آپ غصّے کے نہایت تیز تھے

یوں سمجھیے فطرتاً انگریز تھے

رشوتوں پر فائلیں ٹٹخار کر

آپ نے وہ گل کھلائے، الحذر!

وائے قسمت، آ گئے تخفیف میں

چند جملے آپ کی تعریف میں

 

 

آپ جو حلیے سے ہیں اک مولوی

ملک کے مانے ہوئے قوّال ہیں

شاعروں کی جان کا جنجال ہیں

معجزہ کہہ دو کرامت شاہ کا

اک قصیدہ پیرِ ظلِّ اللہ کا

جھومتے ہیں لوگ ان کی تان پر

’’آہے واکی بے تکی گردان پر

ہیں قیامت خان آسنسولوی

آپ جو حلیے سے ہیں اک مولوی

 

 

یہ مسلماں ہیں، یہ ہندو ہیں، یہ سکھ

باہمی اخلاص چیزے دیگر است

قوم پرور یہ ہیں وہ فرقہ پرست

جن میں تھے مذہب کے اخلاقی سبق

پھاڑ ڈالے چھانٹ کر ایسے ورق

مذہباً، یہ سب نہایت نیک ہیں

پاک باطن فیصدی دو ایک ہیں

ان کو انسانوں کے خانے میں نہ لکھ

یہ مسلماں ہیں، یہ ہندو ہیں، یہ سکھ

 

 

ان سے ملیے حسن کے بازار میں

گرم ہر محفل انھیں کے دم سے تھی

آرزوئے دل انھیں کے دم سے تھی

دام اونچے تھے جو اِن کے جسم کے

اُن کے عاشق بھی تھے اونچے قسم کے

چھوڑئیے سب قصۂ ماضی ہیں یہ

آجکل ہر بھاؤ پر راضی ہیں یہ

عمر ان کو کھینچ لائی غار میں

ان سے ملیے حسن کے بازار میں

 

 

یہ جو صندل کا لگاتے ہیں تِلک

پُنّ میں ان کا کوئی ثانی نہیں

شہر میں ان سے بڑا دانی نہیں

یاد، رامائن کی اک اک ماترا

سال میں دو بار تیرتھ یاترا

باندھتے ہیں تین گانٹھوں کا جَنیوا

ہونٹ پر بھگوان، من میں کامدیو

شادیاں چھے کر چکے ہیں آج تک

یہ جو صندل کا لگاتے ہیں تِلک

 

 

 

محترم ہیں فوجداری کے وکیل

پیشیاں پچیس سو سے کم نہیں

قتل کا مجرم بھی ہو تو غم نہیں

آپ پھانسی کے لیے تیار ہیں

یہ بچا لینے کے دعوے دار ہیں

کس میں ہمت ہے گواہی کے لیے

یہ جو آئیں سربراہی کے لیے

بھول کر ان سے نہ کِیجے گا دلیل

محترم ہیں فوجداری کے وکیل

 

 

آپ گُم رہتے ہیں اپنی توند میں

آٹھ دوکانیں ہیں گاندھی چوک پر

یہ نہ پوچھو آپ تھے کیا پیشتر

چونکہ چندوں میں نہیں کرتے کمی

دیں گے اِنکم ٹیکس کا دس فیصدی

خرچ کرنا آپ کو آتا نہیں

ہاتھ آ کر روپیہ جاتا نہیں

جس طرح مکھی پھنسی ہو گوند میں

آپ گُم رہتے ہیں اپنی توند میں

 

 

ہاں ذرا پہچاننا تو آپ کو

آپ کے اسٹور تھے کیا شان دار

بن گئے لیکن میاں ایمان دار

نوکروں پر فرض تھا ’’سچ بولنا‘‘

جرم ٹھہرایا گیا — کم تولنا

طے یہ فرمایا کہ کم لیں گے نفع

ہو گئے گاہک رفع نوکر دفع

چپّلیں سیتے ہوئے بیٹھے ہیں جو

ہاں ذرا پہچاننا تو آپ کو

 

 

رات دن چلتا ہے ہوٹل آپ کا

چھوکرے ! کپڑا لگا اس میز پر

اے ! ذرا چٹنی میں مرچیں تیز کر

دیکھ! شیرینی میں تھوڑا گُڑ ملا

ورنہ یہ بابو ہے بیحد ’’تھڑ دِلا‘‘

دودھ میں پانی ملائیں گے تو خود

اور بالائی نہ کھائیں گے تو خود

آنکڑے منشی کے، ٹوٹل آپ کا

رات دن چلتا ہے ہوٹل آپ کا

 

 

 

ہر محلّے میں کلاری ان کی ہے

دیکھ بے ! کھڑکی پہ ہُلّڑ مت مچا

پھوٹنے کو ہے ذرا کُلّہڑ بچا!

شیخ صاحب! یہ رہی بوتل—مگر

اک ذرا کھاتے پہ کر لیتے نظر

ناظمہ! دینا تو بابو کو گلاس

بیٹھ جا سیتا! ذرا دادا کے پاس

ملکیت بے شک یہ ساری ان کی ہے

ہر محلّے میں کلاری ان کی ہے

 

 

اب جمعدارن سے ملوا دیں تمھیں ؟

بات کیا ہے اس طرف آتی ہو کم

ایک روپیہ فی نفر دیتے ہیں ہم

دیکھ بابو! آنکھ مت دکھلائیو

اے دروگا جی! ادھر تو آئیو

’’ہاں جمعدارن! بتاؤ کیا ہوا‘‘

’’مارتا ہے آنکھ مجھ کو یہ مُوا!‘‘

ساٹھ روپے دیجیے گا پھر انھیں ؟

اب جمعدارن سے ملوا دیں تمھیں ؟

 

 

 

فیس لے کر آپ بنتے ہیں گواہ

’’جی انھیں صاحب نے مارا تھا انھیں ‘‘

میں —؟ وہیں تھا سامنے دوکان میں

’’ناک پر چشمہ؟‘‘ نہیں تب تو نہ تھا

’’اور یہ سامان؟‘‘ یہ سب تو نہ تھا

ان کے پردادا کی ہے یہ جائیداد

سامنے کی بات ہے، ہو کیوں نہ یاد

آج کل ہے ان پہ خفیہ کی نگاہ

فیس لے کر آپ بنتے ہیں گواہ

 

ہیں یہ منشی، سیٹھ دولت رام کے

’’تین، دو، پانچ، آٹھ، تیرہ‘‘ کیا کہا؟

تین، دو،۔۔ جی گڑ؟ ’’نہیں باقی رہا‘‘

تین، دو، پاں ،۔۔ ’ہینگ‘؟ لڑکے ہینگ دے

’’آٹھ، تیرہ، نو۔۔ ۔۔ ‘‘ ہلا کر تول بے !

’’پانچ، نو، بائیس۔۔ ۔ میدہ؟‘‘ کَے کلو

’’تین دو، پاں۔۔ ۔۔ ‘‘ اے نکمّو! کاہلو!

’’جوڑنے دو آنکڑے ‘‘ کل شام کے

ہیں یہ منشی، سیٹھ دولت رام کے

 

 

سیکڑوں کے پیر و مرشد آپ ہیں

کل مقدمہ ہے، دعا فرمائیے

بانجھ ہوں، لڑکا عطا فرمائیے

’’عشق تو بے ربط کر دیجے حضور!‘‘

عقل اس کی خبط کر دیجے حضور!

’’پھر گئی ہے ہم سے کیوں چشمِ کرم؟‘‘

’’آج کل غیبی رقم ملتی ہے کم‘‘

سب مریدوں کے ’’خدائی باپ‘‘ ہیں

سیکڑوں کے پیر و مرشد آپ ہیں

 

 

 

 

یہ پرانے وقت کے جاگیردار

سیکڑوں نوکر تھے سب کم ہو گئے

گاؤں، بندوبست میں ضم ہو گئے

تیسری بیوی تھی، زیور کھا گئی

اس طرح فاقوں پہ نوبت آ گئی

مونچھ باقی ہے مگر ڈھلکی ہوئی

توند بھاری تھی مگر ہلکی ہوئی

مانگتے پھرتے ہیں لوگوں سے اُدھار

یہ پرانے وقت کے جاگیردار

 

 

 

ان کو لاحق ہے زمانے بھر کا غم

چِین والا جم گیا مرّیخ پر

سر چھپائیں گے یہ امریکن کدھر

مصر سے جھگڑا ہے پاکستان کا

دیکھیے کیا حشر ہو جاپان کا

پھر بغاوت ہو گئی انگلینڈ میں

وہ جو ملکہ ہیں، انھیں اب کیا کہیں

نیند کم آنے لگی، کھاتے ہیں کم

ان کو لاحق ہے زمانے بھر کا غم

 

 

 

ہر بڑے شاعر سے ان کا ربط ہے

خوب کھینچا ہے تعلّق کا حصار

ہیں فراقؔ و جوشؔ اُن کے یارِ غار

روز اُن کے ساتھ پیتا تھا مجازؔ

فاش کر سکتے ہیں یہ ساحرؔ کے راز

دانت کاٹی تھی جگرؔ سے آپ کی

فیضؔ تو رشتے میں لگتے ہیں کوئی

چھوڑئیے بھی، اپنا اپنا خبط ہے

ہر بڑے شاعر سے ان کا ربط ہے

 

 

 

ہیں بیک وقت آپ شاعر اور حکیم

درج فرماتے ہیں نسخے بحر میں

شعر کہتے ہیں ڈبو کر زہر میں

نظم، لاغر کو پنپنے کے لیے

دافعِ تبخیر، چھپنے کے لیے

بعد میں ہو گا مریضوں کا علاج

پوچھ لیں پہلے مدیروں کا مزاج

سیکڑوں بچوں کو فرما کر یتیم

ہیں بیک وقت آپ شاعر اور حکیم

 

 

آپ کرتے ہیں ملاوٹ اس طرح

بیٹ چوہے کی سیہ مرچوں میں ہے

قند ہے تو کانچ کی کرچوں میں ہے

’’پاؤڈر میں ہے سنگھاڑے کا سفوف؟‘‘

جیسے سستا ہو سنگھاڑا۔۔ ۔ ’’بے وقوف!‘‘

’’موم تھا؟‘‘ کیسی سمجھ ہے آپ کی؟

کہہ کے بیچا تھا ’’نخالص ہے یہ گھی!‘‘

ہم پریشاں ہیں، جئیں گے کس طرح

آپ کرتے ہیں ملاوٹ اِس طرح

 

 

 

ان کی رسم و راہ کا کیا پوچھنا

ڈالیاں اس کے یہاں لگوائیں گے

ڈاکٹر کو اُس کے گھر پہنچائیں گے

ڈھونڈھ دیں گے ماسٹر اس کے لیے

اور ’’اک اچھا سا گھر‘‘ اس کے لیے

ہر بڑے لیڈر پہ ’’فرماتے ہیں وار‘‘

ہر نئے افسر کو کرتے ہیں شکار

آج کل یہ ہر مرض کی ہیں دوا

ان کی رسم و راہ کا کیا پوچھنا

 

 

 

محترم کو ہے بچانے کی سَنک

’’سروری کی ماں ! اسے گُڑ مت کھلا‘‘

ہاضمہ کمزور ہے منظور کا!

روٹیاں بچوں کو گن کر دیجیو

ایک جوڑے میں بسر کر لیجیو

’’دال۔۔ ۔ ؟‘‘ ہمسائی سے بھی کچھ کام لے

’’فیس منّے کی؟‘‘ خدا کا نام لے

چپ رہو، ان کو نہ لگ جائے بھَنک

محترم کو ہے بچانے کی سَنک

 

 

 

ایک بیوی چاہیے ایسی انھیں

پاس بی اے ہو جو ایم اے تک نہ ہو

پاک ہو ایسی کہ ان کو شک نہ ہو

چائے تو پی لے مگر کھائے نہ دال

خوب سیرت ہو مگر روشن خیال

خوبصورت ہو مگر سیّد بھی ہو

باپ اس کا عالمِ جیّد بھی ہو

یہ کنوارے ہی مریں گے، کیا کریں

ایک بیوی چاہیے ایسی انھیں

 

 

ان کو بیٹی کے لیے بَر چاہیے

طنز کرتا ہو نہ جو سرکار پر

بیاہنے آئے جو موٹر کار پر

کم نہ ہو چھ فٹ سے، دولتمند ہو

’’پیروِ سوامی وِویکانند ہو‘‘

صاف ستھرا من کا ہونا چاہیے

خاص بندرا بن کا ہونا چاہیے

ورنہ لڑکی عمر بھر بیٹھی رہے

ان کو بیٹی کے لیے بَر چاہیے

 

 

جی حضوری میں نہیں ان کا جواب

’’ہاں ملاتے ہیں ‘‘ یہ سب کی بات میں

’’جی یقیناً دھوپ تھی کل رات میں ‘‘

’’بات ہے سو فیصدی سچ آپ کی‘‘

’’تین آنکھیں تھیں رجب کے باپ کی‘‘

’’کل یہاں بارش ہوئی تھی‘‘ ہاں حضور!

’’جی نہیں، بھونچال تھا‘‘ جی ہاں حضور!

راز دانِ ایں جناب و آں جناب

جی حضوری میں نہیں اُن کا جواب

 

 

آپ نے کر لی ہیں دو دو شادیاں

اُس کی فرمائش کہ ’’اِسنو چاہیے ‘‘

پاؤڈر فی الفور اس کو چاہیے

’’مالکن اِس گھر کی میں ہوں وہ نہیں ‘‘

’’ہے خطا اس کی، بوا موجود تھیں ‘‘

آٹھ بیٹے، بیٹیاں نو، تین یہ

ہیں انھیں حالات سے غمگین یہ

کوستے رہتے ہیں قسمت کو میاں

آپ نے کر لی ہیں دو دو شادیاں

 

 

ثانیِ فرہاد ہیں آں محترم

ریڈیو لٹکا ہوا ہے ہاتھ میں

جی حضوری لوگ ہیں کچھ ساتھ میں

ہوٹلوں پر ’’چائے کھینچی جائے گی‘‘

عشق میں کچھ ہائے کھینچی جائے گی

ہوش میں پی کر نہ آیا جائے گا

رات بھر ہلّڑ مچایا جائے گا

ناخلف اولاد ہیں آں محترم

ثانیِ فرہاد ہیں آں محترم

 

 

شیخ مولا دین ہیں ہر فن میں طاق

بانس پر کرتب دکھا سکتے ہیں آپ

راگ بھینسوں کو سکھا سکتے ہیں آپ

فِیل بانی؟ کھیل بائیں ہات کا

کوہ پیمائی میں غم کس بات کا

ہوں اگر لنگڑے بہ ظاہر آپ ہیں

شہسواری میں بھی ماہر آپ ہیں

سچ بھی کہتے ہیں تو اڑتا ہے مذاق

شیخ مولا دین ہیں ہر فن میں طاق

 

 

 

اب ذرا تعریفِ باورچی کروں

روز کچھ چینی کے برتن توڑنا

پھر نئے لا کر ’’کمیشن جوڑنا‘‘

تین گھنٹوں کی ’’ذرا سی‘‘ دیر ہو

مرغ چکنا ہو تو گھی دو سیر ہو

اُف سنبوسے رات بھر میں سڑ گئے

آہ! بالائی میں کیڑے پڑ گئے

کس طرح ’’تلقینِ کم خرچی‘‘ کروں

اب ذرا تعریف باورچی کروں

 

 

آپ اس قصبے کے ٹیلر ماسٹر

گاہکوں کو دیکھتے ہی بَرملا

سوچتے ہیں ’’جیب کاٹیں یا گلا‘‘

ان کا دعویٰ ہے کہ دن میں بیش و کم

’’آٹھ گز کپڑا‘‘ کما لیتے ہیں ہم

کوٹ لمبا، تنگ سینہ ہو گیا

’’چار دن کو‘‘ اک مہینہ ہو گیا

اب کوئی گاہک نہیں آتا اِدھر

آپ اس قصبے کے ٹیلر ماسٹر

 

 

ان کو کس بِرتے پہ ہم دھوبی کہیں

پھاڑ کر لاتے ہیں ململ ہو کہ زین

ظلم کی شاہد ہے ’’چھلنی آستین‘‘

یہ کبھی فل پینٹ تھی ’’اب ہاف ہے ‘‘

کوٹ کا دامن ’’سِرے سے صاف ہے ‘‘

جا بجا دھبّے، بٹن ٹوٹے ہوئے

کم پڑیں کپڑے تو ہم جھوٹے ہوئے

’’کارچوبی‘‘ کو جو یہ ’’چوبی‘‘ کہیں

اِن کو کس بِرتے پہ ہم دھوبی کہیں

 

 

آپ موچی ہیں، مگر موچی نہیں

ورنہ ہے اِن کے بگڑ جانے کا ڈر

احتیاطاً مان لو ’’شُو ماسٹر‘‘

یہ نہ ہوں تو سوچیے ’’کیسے چلیں ‘‘

پمپ، لوفر، سینڈل، شو، چپّلیں

واپسی میں اس لیے تاخیر ہے

ٹانکنا جوتوں کا ٹیڑھی کھیر ہے

واقعی یہ بات تو سوچی نہیں

آپ موچی ہیں، مگر موچی نہیں

 

 

یہ ہمارے گاؤں کے بھِشتی میاں

خواہ پانی کے بِنا مَر جائیں ہم

یہ نہ لیں فی مشک دس روپیے سے کم

’’کل کہاں تھے ؟‘‘ چھوکرا بیمار تھا

’’اور پرسوں بھی؟‘‘ نہیں تیوہار تھا

روز کی دو روٹیاں رمضان میں

مشک سے موٹا خلل ایمان میں

نام رکھ چھوڑا ہے بالشتی میاں

یہ ہمارے گاؤں کے بھِشتی میاں

 

 

 

واقعی پیدائشی بابو ہیں آپ

کام ہے دفتر میں سگریٹ پھونکنا

پان کھا کر فائلوں پر تھوکنا

ہو اگر سامع میں سننے کی سکت

آپ ہیں اپنے محکمے کے لغت

کس لیے، کب، کون، پھٹکارا گیا

کون سا افسر کہاں مارا گیا

چھڑ چکی ہے بحث، بے قابو ہیں آپ

واقعی پیدائشی بابو ہیں آپ

 

 

خود کو بے حد پوز کرتے ہیں جناب

جھرجھری لے کر ٹھٹکنا بار بار

بے طرح کاندھے جھٹکنا بار بار

مسکراہٹ، منہ چڑانے کی طرح

قہقہہ، نعرہ لگانے کی طرح

چال جیسے سانپ لہرا کر چلے

’’ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مَر چلے ‘‘

بور ہم کو روز کرتے ہیں جناب

خود کو بے حد پوز کرتے ہیں جناب

 

 

یہ ہمارے شہر کے انجینئر

ریت سے تعمیر کرتے ہیں محل

’’فردِ تخمینہ‘‘ میں نیت کا خلل

باندھ بنتا ہے تو ’’بن جاتے ہیں یہ‘‘

بلڈنگوں کے ساتھ ’’تن جاتے ہیں یہ‘‘

باڑھ میں دیہات جب ڈوبے کئی

بن گئے حضرت کے منصوبے کئی

دیکھنا اک دن پھریں گے در بدر

یہ ہمارے شہر کے انجینئر

 

 

 

 

یہ ہیں سرکاری شفا خانے میں نرس

لاکھ بچتی ہیں مریضوں سے وَلے

چھیڑتے رہتے ہیں ان کو من چلے

’’کشتیِ ہستی ہے ساحل کے قریب‘‘

’’ایک انجکشن یہاں دل کے قریب‘‘

ناز و غمزہ ہے علاجِ عاشقاں

مرنے والوں سے انھیں فرصت کہاں

ورنہ دے سکتی ہیں لقمانوں کو درس

یہ ہیں سرکاری شفا خانے میں نرس

 

 

محترم ہیں علم و فن کے سرپرست

بیت بازی ہو تو منگل ٹھیک ہے

پانچویں کو رام دنگل ٹھیک ہے

چھوڑئیے ترمیم یا تنسیخ کو

میرؔ کی برسی ہے دو تاریخ کو

جنوری کی پانچ کیوں خالی رہے

محفل میلاد و قوالی رہے

صَرف کچھ ہو، صدر بن کر ہیں یہ مست

محترم ہیں علم و فن کے سرپرست

 

 

 

کیشیئر ہیں آپ ’’دینا بینک‘‘ میں

’’اس طرف کلدار ’’چھوٹوں کی اُدھر

گڈیاں سو سو کے نوٹوں کی اُدھر

سامنے اربوں کے لمبے چارٹ ہیں

فکر یہ ہے پانچ کے نو شارٹ ہیں

بینک میں لاکھوں کروروں کا حساب

گھر کے اخراجات سے حالت خراب

کم نہیں جنرل سے بیوی رینک میں

کیشیئر ہیں آپ ’’دینا بینک‘‘ میں

 

 

 

شومیِ قسمت سے ہیں یہ ٹائپسٹ

درد ہے سر میں نظر، ’’کی بورڈ‘‘ پر

ہاتھ کہتے ہیں کہ اب آرام کر

سرد ہو کر گَل رہی ہیں انگلیاں

پھر بھی کھٹ پٹ چل رہی ہیں انگلیاں

ریڑھ کی ہڈی میں خم آ ہی چکا

ناک میں حضرت کی دم آ ہی چکا

کب مکمل ہو گی سو کالم کی لسٹ

شومیِ قسمت سے ہیں یہ ٹائپسٹ

 

 

 

ان کو ہے محتاط رہنے کا مرض

گیت مت گاؤ، پڑوسی سن نہ لیں

کان دیواروں کے ہیں، سن گن نہ لیں

تیل کچھ نیلا ہے، زہریلا نہ ہو

دیکھنا، موزہ کہیں گیلا نہ ہو

ٹھہرنا منّے ! کمر خم کھا نہ جائے

دیکھنا بیگم! نصیبن آ نہ جائے

بلبلوں کو پھوٹ بہنے کا مرض

ان کو ہے محتاط رہنے کا مرض

 

 

محترم کے پاس ٹھیکے ہیں کئی

دال، آٹا، جَو، چنا، گیہوں، مٹر

ڈالڈا، گڑ، تیل، میدہ، گھی، شکر

خیر سے ہر چیز ہے دوکان میں

ہو، اگر ہے فرق، ہر میزان میں

آجکل بازار میں مندی نہیں

بھاؤ پر بھی کوئی پابندی نہیں

پھول کر کپّا ہوئے ہیں سیٹھ جی

محترم کے پاس ٹھیکے ہیں کئی

 

 

 

دیکھیے ان کو سول سرجن ہیں یہ

آپریشن فیل تو ’’کمزور تھا‘‘

’’مر گیا؟‘‘ تو کیا ہوا، وہ چور تھا!

دیکھنے سے قبل ’’لے کر آ پچاس‘‘

بعد از تشخیص ’’کم بچنے کی آس‘‘

جس کو بھی دیکھا، مرض بڑھتا گیا

ان کا شہرہ الغرض بڑھتا گیا

دیکھنے کی شے ہیں، ننگِ فن ہیں یہ

دیکھیے ان کو، سول سرجن ہیں یہ

 

 

ان سے ملیے، جیوتشی ہیں ایں جناب

حالِ دل کہتے ہیں پتری بانچ کر

پانچ سو لیں گے ہتھیلی جانچ کر

’’ان دنوں ناراض ہے تجھ سے شَنی

لے انگوٹھی، آٹھ دھا توں کی بنی

آپ کے منگل پہ کیتو چڑھ گیا

قرض تب ہی تو بَلا کا بڑھ گیا

حال پوچھے، جس کی قسمت ہو خراب

اِن سے ملیے جیوتشی ہیں ایں جناب

 

 

چوک پر مجمع لگاتے ہیں یہی

بے تکلف جھاڑ کر کچھ گالیاں

’’زور سے بچّو، بجاؤ تالیاں ‘‘

جیب سے ہشیار رہنا، بھائیو!

پانچ کے دس اس طرح ہوتے ہیں لو!

یہ سب اس تعویذ کا تھا معجزہ

’’نرخ فی تعویذ؟‘‘ بَس سَو روپیہ

جیب سب کی جھاڑ لاتے ہیں یہی

چوک پر مجمع لگاتے ہیں یہی

 

 

 

 

اس گداگر پر بھی سُنیے ایک بند

ریشمی تہہ بند، لچھے دار بال

شیر کی آواز پر گینڈے کی چال

کام کرنے کی حماقت کیوں کرے

مفت ملتی ہے تو محنت کیوں کرے

رزق پہچانا ہے کام اللہ کا

بیچیے، بکتا ہے نام اللہ کا

روٹیاں ’’چپڑی نہ ہوں تو‘‘ ناپسند

اس گداگر پر بھی سنیے ایک بند

 

 

آپ کو ایجنٹ کہیے یا دلال

سیٹھ کو حاجت ہے ’’کمسن مال کی‘‘

گھر پہ لا سکتے ہیں گیارہ سال کی

اس کی رانیں، اس کے بازو دیکھیے

(یعنی، اب لا کر ترازو دیکھیے )

’’اس قدر سستی، کہ میری جان مفت

میرے سَو، اس کے پچھتّر، پان مفت!‘‘

’’دیکھ کر منہ چل دیا، پیسے نکال‘‘

آپ کو ایجنٹ کہیے یا دلال

 

 

یہ پہلوان آج تک ہارا نہیں

جسم کی سختی میں لوہے کی مثال

چٹکیوں میں کھال کا آنا محال

شیر کا سینہ ہے، چیتے کی کمر

چیر سکتا ہے یہ ہیرے کا جگر!

یاد ہیں سب دانْوں معہ دھوبی پچھاڑ

داب لے تو اُٹھ نہیں سکتا پہاڑ

چیونٹی تک کو تو للکارا نہیں

یہ پہلوان آج تک ہارا نہیں

 

 

بیچتے ہیں یہ دوا فٹ پاتھ پر

’’آپ کو ٹی بی ہے گھِس کر پیجیے

کوڑھ میں زخموں سے مَس کر لیجیے ‘‘

’’دانت ٹوٹا ہے ‘‘ نکل آئے گا اور

’’ہو گیا اسقاط‘‘ پھل آئے گا اور

مِثل شیرِ نَر بناتی ہے دَوا

ہر مرض میں کام آتی ہے دوا

دو منٹ ہی میں دکھاتی ہے اثر!

بیچتے ہیں یہ دوا فٹ پاتھ پر

 

 

محترم کو ایک ٹیوٹر چاہیے

پانچ بچوں کو پڑھا سکتا ہو، وہ

کم ہوں نمبر تو بڑھا سکتا ہو، وہ

’’سبزیاں لادے ‘‘ اگر درکار ہوں

ڈاکٹر، بی بی اگر بیمار ہوں

کرسیاں گاہے بگاہے جھاڑ دے

وقت پر جو لکڑیاں بھی پھاڑ دے

اور یہ سب تین سَو پر چاہیے

محترم کو ایک ٹیوٹر چاہیے

 

 

 

یہ بکر ہیں، وہ عمر ہیں، یہ زید ہیں

دانت کاٹی اس طرح تینوں میں ہے

’’دوستی کا دَم‘‘ بھرا سینوں میں ہے

سامنے، ’’وعدے کا سچا ہے بکر‘‘

پیٹھ پیچھے ’’دل کا کچا ہے بکر‘‘

’’یہ عمر تو چور ہے ‘‘ کیوں یار زید!

اور عمر کے سامنے ’’مکّار زید!‘‘

آپ ہی صیّاد، خود ہی صید ہیں

یہ بکر ہیں، وہ عمر، یہ زید ہیں

 

 

آپ وہ چالاک راشی ہیں کہ بَس

بات کرنی ہے تو سَو کے پانچ لا

ورنہ عرضی کو دکھاؤں آنچ، لا

یہ مِسِل تو ’’درج دفتر‘‘ ہو گئی

فیس، پندرہ سے پچھتّر ہو گئی

دستخط کرنے ہیں لا چھَے سو پچاس

پوچھ لے، بیٹھا تو ہے بھگوان داس

ان کی ذہنیت پہ آتا ہے ترس

آپ وہ چالاک راشی ہیں کہ بَس

 

 

ان کا رکشا کھینچنا تو دیکھیے

’’تین مَن کی لاش‘‘ پچھلی سیٹ پر

اور رکشا چل رہا ہے کیٹ پر

دوپہر کا وقت، گرمی کا پڑاؤ

یہ گلی کے موڑ، یہ پیہم چڑھاؤ

حلق میں کانٹے سے، چمڑا سی زبان

پسلیاں ؟ جیسے کہ اب ٹوٹی کمان

یہ ’’لہو کا سینچنا‘‘ تو دیکھیے

ان کا رکشا کھینچنا تو دیکھیے

 

 

آپ بے پَر کی اڑاتے ہیں خبر

’’روس کی گن‘‘ کام اپنا کر گئی

چاند کے چرخے کی بڑھیا مر گئی

آکسیجن کی کمی جاپان میں

لڑکیاں سستی ہیں پاکستان میں

اپنے محور سے زمیں ہٹ جائے گی

شرطیہ پرسوں قیامت آئے گی

روٹھ جاتے ہیں غلط کہہ دو اگر

آپ بے پَر کی اڑاتے ہیں خبر

 

 

 

’’آنریبل معدلت گستر‘‘ ہیں آپ

آنکھ پر پٹّی، ترازو ہاتھ میں

عدل کا ماڈل کھڑا ہے ساتھ میں

ڈھانپ کر آنکھیں، پپوٹوں میں جناب

تول دیں انصاف، نوٹوں میں جناب

’’یہ منسٹر کا بھتیجہ ہے ؟‘‘ معاف!

’’جرم غفلت کا نتیجہ ہے ؟‘‘ معاف

مفلسی ہو جرم تو حد بھر ہیں آپ

’’آنریبل معدلت گستر‘‘ ہیں آپ

 

 

آپ اک نوّاب کے حجام تھے

’’چونکہ نوّابی زمانہ‘‘ لد گیا

’’نائیوں سے فنِّ کار آمد گیا‘‘

استرے سے تیز، ’’قینچی سی زبان‘‘

کھینچتے ہیں کان، کھا لیتے ہیں جان

اَن سنی کر کے اگر توہین کی

سَر پہ فوٹو کھینچ دیں گے چین کی

تھے کبھی، اب تو نہیں ہیں کام کے

آپ اک نوّاب کے حجام تھے

 

 

ان کا تانگہ ہے نہایت شاندار

’’تھُو! سواری کو جو آسائش نہیں ‘‘

’’نو بہت، دسویں کی گنجائش نہیں ‘‘

نام گھوڑے کا ’’صبا رفتار‘‘ ہے

’’جو بھی پیدل جائے وہ غدار‘‘ ہے

’’حسن گھر پر چاہیے ؟‘‘ لادیں گے یہ

’’جائے گی افیون؟‘‘ پہنچا دیں گے یہ

پھر لطیفہ یہ، کہ ہیں ایماندار

ان کا تانگہ ہے نہایت شاندار

 

 

آپ کا شطرنج میں ثانی نہیں

صرف نو چالوں میں دو گھوڑوں سے مات

شرط یہ ’’فرزیں پہ ڈالیں گے نہ بات‘‘

فیل پر قابو، شتر پر اختیار

شاہ پر کرتے ہیں پیدل کو سوار

حال یہ ’’شطرنج کی توفیق میں ‘‘

بال بچے آ چکے ہیں ضیق میں

ہار لیکن آپ نے مانی نہیں

آپ کا شطرنج میں ثانی نہیں

 

 

یہ تو چوکیدار ہے، پاگل نہیں

رات کے بارہ بجے۔۔ ۔ ’’ہشیار باش‘‘

خوابِ غفلت ہو چکا ہے پاش پاش

’’جاگتے رہنا‘‘ کی ہیبت ناک چیخ

چھینکنا سنیے تو جیسے ’’ہاک چیخ‘‘

اس کے دروازے پہ لٹھ ’’کیا سو گئے !‘‘

’’نیند میں بھیّا، ابھی سے کھو گئے ‘‘

رات بھر پیروں میں جیسے کَل نہیں

یہ تو چوکیدار ہے پاگل نہیں

 

 

آپ کا غصّہ بہت مشہور ہے

’’بات کرنا میں سکھاؤں گا تجھے

پانچ سو جوتے لگاؤں گا تجھے ‘‘

ہٹ بے نتھو! چھوڑ دیجے بھائی جان

کھینچ لوں گا اس کی گُدّی سے زبان

پھر بکی گالی؟ ذرا نزدیک آ

پھوڑ دوں گا پیٹ، سالے بھاگ جَا

جانتے ہیں سب کہ ’’دِلّی دُور ہے ‘‘

آپ کا غصّہ بہت مشہور ہے

 

 

 

یہ ہیں سب چھوٹے بڑے کاموں میں طاق

ریڈیو بگڑے تو ہم ’’کرتے ہیں ٹھیک‘‘

حل معموں کے تو ’’ہم بھرتے ہیں ٹھیک‘‘

بیچنا ہو گھی تو ’’گھی لیتے ہیں ہم‘‘

پھٹ گئے جوتے تو سِی لیتے ہیں ہم

شعر کہہ سکتے ہیں، نسخے یاد ہیں

پوچھیے، ’’جن ہیں کہ آدم زاد ہیں ‘‘

کام کو کہیے تو یہ سب تھا مذاق

یہ ہیں سب چھوٹے بڑے کاموں میں طاق

 

 

آپ کی باریک بینی دیکھیے

محترم لکھّوں انھیں یا بھائی جان

اُف خدایا کھیت بیچوں یا مکان

ڈاکٹر اچھا رہے گا یا حکیم

نام بچّے کا قمر ہو یا نسیم

فیس اپنی ساٹھ مانگوں یا پچاس

خوش نظر آؤں چمن میں یا اُداس

ہر جگہ ’’ڈھلمل یقینی‘‘ دیکھیے

آپ کی باریک بینی دیکھیے

 

 

ریڈیو سننے کا ان کو شوق ہے

پانچ بج کر تیس پر، دِلّی سے گیت

نو بجے ’’کچھ لیڈروں سے بات چیت‘‘

دوپہر میں ’’کچھ دھنیں سیلون پر‘‘

پھر کوئی مضمون ’’ٹیلی فون پر‘‘

سابقہ فلموں کے گانے رات میں

اور پھر تمثیل ’’اس برسات میں ‘‘

ہاں مگر خبروں سے کم کم ذوق ہے

ریڈیو سننے کا ان کو شوق ہے

 

 

پان والے سیٹھ جی سے بھی ملو

یہ سلیقہ، یہ قرینہ، یہ نظام

پان، چونا، چھالیہ، کتھا، قوام

لونگ یہ حاضر ہے، گولی یہ رہی

گاہکوں کی دین ’’ساری فربہی‘‘

دس روپے کا یہ ہے وہ ہے تین کا

یہ رہا افیون، یہ کوکین کا

غور سے دیکھو‘‘ کسی سے بھی ملو

پان والے سیٹھ جی سے بھی ملو

 

 

علم مجلس میں نہیں ان کا جواب

’’شیخ صاحب! بے تکلف پیجیے

شُدھ ہے پنڈت جی! یہ تو لیجیے

مسکرا کر ہم سے ’’کیسے ہیں جناب؟‘‘

آپ سے، ’’بے شک! زمانہ ہے خراب‘‘

’’کیوں عقیقہ کب ہے ؟‘‘ ان سے پوچھ کر

اِن سے ’’کیوں کچھ آئی امّی کی خبر؟‘‘

یوں بدل کر پینترے، سب سے خطاب

عِلم مجلس میں نہیں ان کا جواب

 

 

 

عرضیاں لکھتے ہیں یہ تحصیل میں

ایک ’’تعمیری اجازت کے لیے ‘‘

دس ’’فقط عرضِ حقیقت کے لیے ‘‘

’’کچھ تقاوی چاہیے ‘‘ اکیس میں

’’مدعائے نقلِ خسرہ‘‘ تیس میں

بانوے، گندم کا کوٹہ چاہیے

ایک سو پچپن کو دھندا چاہیے

قوم لٹتی ہے ذرا سی ڈھیل میں

عرضیاں لکھتے ہیں یہ تحصیل میں

 

 

مانتے ہیں آپ نیک و بد شگون

’’چھپکلی ٹپکی تھی‘‘ غم ہونے کو ہے

آنکھ پھڑکی ہے تو نم ہونے کو ہے

راہ میں بلّی کا آنا ہے برا

بُدھ کے دن مشرق کو جانا ہے بُرا

صبح دم، ’’یک چشم‘‘ کو مت دیکھیے

ورنہ بن جائے گی دُرگت دیکھیے

لوٹتے ہیں اس طرح سب کا سکون

مانتے ہیں آپ نیک و بَد شگون

 

 

اس ٹریفک کے سپاہی سے بچو

موٹریں ہوں تو سلامی جھاڑنا

ہاتھ ٹھیلا آئے تو منھ پھاڑنا

کار پر کیا لکھ پتی کل کی خطا

حادثے میں ہو گی پیدل کی خطا

دیکھنا وہ لال سگنل دے دیا

اس نے اپنی مونچھ کو بَل دے دیا

مان لو میری، تباہی سے بچو

اس ٹریفک کے سپاہی سے بچو

 

 

باپ خوش ہے پڑھ رہی ہیں لڑکیاں

’’ایملیؔ زولا کا فن‘‘ ازبر انھیں

دسترس کالج کے ہیرو پر انھیں

وسمہ و غازہ بہ ایں ٹیڈی لباس

خود چلی آتی ہیں پروانوں کے پاس

اُف! یہ چہرے سے نقاب اُلٹا ہوا

جیسے اک جامِ شراب اُلٹا ہوا

حد سے آگے بڑھ رہی ہیں لڑکیاں

باپ خوش ہے پڑھ رہی ہیں لڑکیاں

 

 

 

ان کو لاحق ہے نصیحت کا مرض

ساتھ کھانے میں فضیحت ہو گئی

نصف لقمہ فی نصیحت ہو گئی

جَو کی روٹی کھا کے جینا چاہیے

بیچ میں پانی نہ پینا چاہیے

سر پہ ٹوپی، ہاتھ میں رو مال لو

پہلے چاول، پھر دَہی، پھر دال لو

ہم کبابوں تک نہ پہنچے الغرض

ان کو لاحق ہے نصیحت کا مرض

 

 

 

دیکھیے بقراطِ ثانی آپ ہیں

کیا کہا؟ کیسا خدا، کس کا خدا

روپیہ ہے صرف، مفلس کا خدا

فلسفے میں گم کیا ایمان کو

ضیق میں ڈالا ہے سب کی جان کو

پیروی نیوٹن کی فرماتے ہیں آپ

بھول کر کھانا نہیں کھاتے ہیں آپ

ہر نئی بدعت کے بانی آپ ہیں

دیکھیے بقراطِ ثانی آپ ہیں

 

 

آپ ہیرو تھے کبھی اسٹیج کے

گفتگو میں چارلی چپلن کا رنگ

یوں چلیں گے، جس طرح تیمور لنگ

مونچھیں آغا حشرؔ و ہٹلر کی طرح

سر قلوپطرہ کے شوہر کی طرح

شان اکبر کی، سکندر کا لباس

انفرادیت نہیں ہے ان کے پاس

لوگ پچھتائے کرایہ بھیج کے

آپ ہیرو تھے کبھی اسٹیج کے

 

 

 

ان کی مہمانی پہ ہوتی ہے بسر

تین ہفتے بھائی کی سسرال میں

آٹھ دن داماد کی ننہال میں

کچھ دنوں بیوہ بہن کے میہماں

اور باقی مختلف لوگوں کے ہاں

آپ کے نزدیک اچھے دن کٹے

دال ہی جب تک نہ جوتی میں بٹے

یوں گزارا کر چکے ہیں سال بھر

ان کی مہمانی پہ ہوتی ہے بسر

 

 

حد سے دوبالا ہے ان کی احتیاط

پھانس لگتی ہے تو انجکشن کے ساتھ

پان کھاتے ہیں مگر منجن کے ساتھ

ایک پھُنسی ہو تو مرہم سات سات

کیا پتہ بڑھ جائے کب چھوٹی سی بات

’’ناس لے کر‘‘ چھینکنے کے بعد ہی

حلق میں نزلے کی گولی ٹھونس لی

ان کو سمجھائے، کسی کی کیا بساط

حد سے دوبالا ہے ان کی احتیاط

 

 

 

استخارہ دیکھ کر جیتی ہیں یہ

’’میرے جی لگتی نہ تھی یہ جوتیاں ‘‘

استخارے میں مگر آیا کہ ’’ہاں ‘‘

کیا کہا ’’چولہے میں کپڑا جھونک دوں ‘‘

استخارے میں منع ہے میں نہ لوں

اور کچھ لے آئیں ’’ان کو‘‘ پھر بلاؤ

ہائے پھر نکلا کہ ’’گو بھی مت پکاؤ‘‘

کیسے کھاتی، کس طرح پیتی ہیں یہ

استخارہ دیکھ کر جیتی ہیں یہ

 

 

 

یہ زمانے کے تغیر کا شکار

کھائیں کیا مولی کے پتے بھی نہیں

ڈھانکنے کو تن پہ لتّے بھی نہیں

’’رات پالی میں نہ مزدوری ملی‘‘

موت، لے دے کر تمنائے دلی

کھیلتے تھے سیکڑوں کی جان سے

لد گئے پوچھو اگر ایمان سے

بن چکے ہیں اپنے ماضی کا مزار

یہ زمانے کے تغیر کا شکار

 

 

لوگ کہتے ہیں انھیں بھی ٹیکسی

عشق کرتی ہیں مگر اونچی جگہ

ان سے ہے منسوب ہر اونچی جگہ

’’داشتہ اچھی‘‘ کہ شادی قید ہے

کل بکر تھا، آج عمر، پھر زید ہے

’’تیس کی ہو کر‘‘ بھی کیا انداز ہیں

’’بج رہی ہیں اور بے آواز ہیں ‘‘

عمر کے میدان میں ’’فل بیک‘‘ سی

لوگ کہتے ہیں انھیں بھی ٹیکسی

 

 

آپ کا ہر دو جگہ ہے سلسلہ

دیکھ لی پتلی کمر تو ’’مر گئے ‘‘

’’چھوکری سے چھوکرے کے گھر گئے ‘‘

’’کم نہیں دلہن سے دولھے کی اٹھان‘‘

’’اُف یہ سینہ، اُف یہ کولھے کی اٹھان‘‘

’’اس نئی چولی کو مَسکا چاہیے ‘‘

’’اس حسیں لڑکے کو دس کا چاہیے ‘‘

غم نہیں تذکیر یا تانیث کا

آپ کا ہر دو جگہ ہے سلسلہ

 

 

 

’’ناصحِ مشفق‘‘ یہ کہنے آئے ہیں

زندگی میں حسن بھی موجود ہے

شاعری کیوں میری زہر آلود ہے

کیوں نہیں کرتا مسرت کو شمار

طنز کیوں کرتا ہوں میں دیوانہ وار

میرا نفسِ مدعا ہے کامیاب

ان کی خدمت میں ہے یہ کورا جواب

’’آپ نے کَے زخم دل پر کھائے ہیں ‘‘

’’ناصحِ مشفق‘‘ یہ کہنے آئے ہیں

٭٭٭

تشکر: شاعر اور ان کے صاحبزادے پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل
ای پب فائل