FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

علی احمد فاطمی

(قومی فروغ اردو کونسل، ہند کی شائع کردہ کتاب ” عبد الحلیم شرر بحیثیت ناول نگار‘ کا تیسراباب)

 

 

 

حیات اور ناول

لا نا عبد الحلیم شرر ہاشمی وعباسی نسل کے تھے اور اُ ن کا یہ سلسلۂ نسب امین الرشید سے ملتا ہے۔  ان کا خاندان دولت عباسیہ کے دورِ حکومت میں سرزمین عرب سے عراق میں آباد ہوا۔ عراق کی آب و ہوا ساز گار نہ تھی۔ اس وجہ سے یہ خاندان اِ دھر اُدھر ہوتا ہوا سلطان محمد تغلق کے عہد (51۔ 1325) میں ہندستان آیا اور دہلی کے دربار سے اس کا تعلق ہو گیا۔ سلطان نے بے حد عزت دی اور ان کا خاندان سلطنت مغلیہ کے آخری دَور تک دہلی میں رہا۔ سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں جب ایرانیوں کا دور دورہ ہونے لگا، تو شرر  کے آبا و اجداد کو یہ بات نہ بھائی۔ ابتدا ہی سے شرر  کے خاندان نے بڑے بڑے علماء پیدا کیے تھے اور یہ سلسلہ اب بھی چلا آ رہا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خاندان وادیِ گنگا کی جا نب مُڑ گیا۔ جونپور اور اعظم گڑھ جیسی جگہوں پر سکونت اختیار کی۔ یہاں کے سلاطین نے اس خاندان کو جا گیریں بھی عطا کیں۔ اس خاندان کے بزرگوں میں ایک بزرگ مولانا معز الدین تھے۔ عِلمیت و مذہبیت سے لبریز صاحب علم اور مقتدائے طریقت تھے۔ ان کے کئی اولادیں ہوئیں جن میں بڑے لڑکے کا نام نظام الدین تھا، یہ شرر  کے پردادا تھے۔ مولوی نظام الدین حصولِ علم میں اپنے اجداد سے آگے نکل گئے، وطن کو خیرباد کیا اور دہلی کی راہ لی۔ ان دنوں دہلی میں حضرت شاہ ولی اللہ کی بڑی دھوم تھی۔ مولوی نظام الدین انھیں کے حلقۂ درس میں شامل ہو گئے۔ ایسی تعلیم حاصل کی کہ مثال قائم کر دی۔ اگرچہ گھر سے بہت کم تعلق رکھتے تھے لیکن والد کی وفات پر واپس وطن آئے۔ یہاں جائداد سے متعلق بھائیوں میں جھگڑا دیکھا  تو سب چھوڑ کر مغرب کی طرف نکل پڑے اور لکھنؤ میں وارد ہوئے۔ علمائے فرنگی محل سے تعلق پیدا ہوا۔ اس زمانے میں قصبۂ کرسی میں مولانا شاہ نجابت اللہ موجود تھے۔ فرنگی محل کے علماء کا ان سے تعلق تھا۔ مولوی نظام الدین کی خدمت میں گئے۔ شاہ صاحب نے ان کا بہت خیال کیا۔ اس وقت قصبہ کرسی کے خطیب اپنی شرافت کے سلسلے میں بہت مشہور تھے۔ سارا قصبہ ان کی بہت عزت کرتا تھا۔ شاہ صاحب نے دختر نیک اختر سے مولوی نظام الدین کا عقد کرا دیا اور وہیں بس گئے۔ شاہ صاحب کے انتقال کے بعد جائداد کے کچھ جھگڑے کھڑے ہوئے اور مولوی نظام الدین صاحب ان جھگڑوں سے بچ کر لکھنؤ چلے آئے۔ لکھنؤ میں مسڑمارٹن کی تعلیم کا بار مولوی نظام الدین کے کاندھوں پر آ گیا۔ مسٹرمارٹن ان دنوں لکھنؤ میں بڑی شہرت رکھتے تھے۔ عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ان کو اپنا استاد بنا لیا اور بے حد احترام کرنے لگے۔ مارٹن کے سلوک سے مولانا مع اہل و عیال کے لکھنؤ آ گئے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی اور دو بیٹے محمد اور احمد تھے، یہیں پر محمد کی ایک اولاد ہوئی جس کا نام عبد ا لرحیم رکھا گیا۔ بقول شرر  :

"یہیں مارکین کی کوٹھی میں مولوی نظام الدین کے بڑے فرزند مولوی محمد کے ایک فرزند ہوا۔ اس فرزند کا نام عبد الرحیم رکھا گیا۔ مگر ماں نے اپنے مذاق کے مطابق تفضّل حسین کے نام سے یاد کیا۔ چنانچہ اسی نام سے شہرت ہوئی۔ اور یہی میرے والد محترم تھے۔”

مارٹن کے انتقال کے بعد سلسلۂ ملازمت ٹوٹا اور یہ چھوٹا سا خاندان لکھنؤ سے منتقل ہو کر پھر واپس کرسی آ گیا۔ اسی درمیان کرسی میں زبردست ہیضہ کی بیماری پھیلی کہ موت کے بادل منڈلانے لگے۔ صدہا آدمی موت کی وادی میں پہنچ گئے۔ اس تباہی میں مولوی نظام الدین کا خاندان بھی تباہ ہو گیا۔ مولوی نظام الدین کا انتقال ہوا۔ بڑے بیٹے مولوی محمد کا انتقال ہوا اور دوسرے اعزّا بھی یکے بعد دیگرے رخصت ہونے لگے۔ اس وقت تک مولوی محمد کے تین بچّے ہو چکے تھے۔ چنانچہ ان کے چھوٹے بھائی مولوی احمد نے اپنی بھاوج اور بچّوں کو سمیٹ کر لکھنؤ آ کر پناہ لی۔ مولوی احمد نے تو اپنی بھابی کے یہاں کاکوری میں پناہ لی اور مولوی محمد کی بیوی اور بچّے رشتے کے ایک ماموں محمد رضا کے یہاں پناہ گزیں ہوئے۔ تین بچّو ں میں جلد ہی دو بچّے داغِ مفارقت دے گئے۔ صرف ایک بچّہ رہ گیا جو اپنے خاندان کی حیثیت سے اُکھڑی اُکھڑی سانسیں لے رہا تھا۔ یہ بچّہ بڑا ہوتے ہی اپنے چچا کے ساتھ تجارت میں لگ گیا۔ چچا نے تفضل حسین کو تجارت کے آداب کے ساتھ عربی وفارسی کی زبردست تعلیم دی۔ نتیجہ کے طور پر دبی ہوئی خاندانی صلاحیت نے اپنا کام دکھایا اور جلد ہی کئی زبانوں پر قابو پا لیا۔ تجارت کے سلسلے میں پنجاب جانا ہوتا، جس کی وجہ سے پنجابی بے تکلّف ہو کر بولتے۔ ان کی صلاحیت نے ان کا رشتہ منشی قمرا  لدین کی صاحبزادی سے ٹھہرا دیا اور شادی ہو گئی :

منشی قمر الدین ( جو شرر کے نانا تھے ) کا تعلق اودھ کے شاہی دربارسے تھا۔ مولانا شرر  کے والد حکیم تفضل حسین صاحب کا عقد ایک قریبی رشتہ کے ماموں منشی قمر ا لدین صاحب کی صاحبزادی سے ہو گیا جو رؤسائے و شرفائے قصبہ کرسی میں سے تھے۔ لیکن امجد علی شاہ اور واجد علی شاہ کے عہد میں ایک بڑی معز ز خدمت پر مامور تھے اور دربار شاہی میں بہت اثر رکھتے تھے۔

پھر جب انگریزوں کا دور دورہ ہوا اور اُس کی زہریلی فضا لکھنؤ کے خوبصورت ماحول پر چھا گئی تو واجد علی شاہ کے دور کا خاتمہ ہوا اور اودھ کا الحاق ہو گیا (3جنوری1856ء ) اور واجد علی شاہ لکھنؤ سے کلکتہ روانہ ہوئے تو اُن کے ساتھ منشی قمر ا لدین بھی گئے۔ ۔ ۔ علالت کی وجہ سے بادشاہ لندن نہ جا سکے۔ لیکن ایک وفد کو بھیجا جس میں شاہ کی والدہ، بھائی اور ولی عہد تھے۔ ایک دوسرا وفد مولوی مسیح الدین خاں کی نگرانی میں بھیجا گیا تو اس کے ساتھ منشی قمر الدین بھی انگلستان گئے۔ ادھر واجد علی شاہ کے قیام کے لیے انگریزوں نے مٹیا برج دے دیا تھا۔ بادشاہ نے اسی کوٹھی میں قیام فرمایا۔ انگلستان سے واپسی کے بعد منشی قمر الدین بھی باد شاہ کے ساتھ مٹیا برج میں رہنے لگے۔ منشی قمر الدین کے انگلستان میں قیام کے دوران مولوی تفضل حسین کے دن بہت اچھے نہیں گزرے اور اسی پریشانی کے عالم میں شرر  پیدا ہوئے۔ بقول شرر  ـ:

 "جس زمانے میں منشی قمر الدین صاحب انگلستان میں تھے اور مولوی تفضل حسین صاحب لکھنؤ میں پریشان حال تھے۔ بروز پنجشنبہ17 ؍ جمادی آخر 1276ھ مطابق 10؍جنوری 1860ء کو میں پیدا ہوا۔ میری ولادت لکھنؤ کے جھنوائی ٹولہ کے متعلق تکیہ پر غیب کے مشرقی جانب ایک مکان میں ہوئی جو اس تکیئے کی مسجد کے مقابل ایک چھوٹے چار پانچ مکانوں کے احاطے کے اندر تھا اور تاجو جی کا پھاٹک کہلاتا تھا۔”

مصنف سیرا لمصنفین محمد یحییٰ تنہا سنِ ولادت 1860ء بتا کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ مرزا محمدعسکری متر جم و مؤلف تاریخ ادبِ اُردو نے تر جمہ کے دوران شرر  کے حالات درج کیے اور ولادتِ شرر  20؍جِمادی الثانی 1276ھ تحریر کیا ہے اور عشرت لکھنوی نے (زمانہ فروری1928ء ) پیدائش 17؍جمادی الثانی 1275ھ لکھی ہے، لیکن حقیقت وہ ہے جو شرر  نے خود لکھا ہے۔

ابھی شرر  کی عمر چھ سال کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ ان کے نانا منشی قمر ا لدین نے اپنے بڑے بھائی مولوی حفیظ الدین کے پاس مکتب میں بٹھا دیا اور یہیں سے تعلیمی دور کی ابتدا ہوئی۔ پڑھنے لکھنے کا شوق شرر  میں ابتدا ہی سے تھا، پھر اس پر گھر کا خاص تعلیمی ماحول۔ ددیہال اور ننیہال دونوں جانب سے اپنے خاندان کی اس خصوصیت کو یوں بیان کرتے ہیں :

مجھے خدا کا شکر گذار ہونا چاہئے کہ میرے تمام اعزاء شریف اور متقی و پرہیز گار تھے اور گھرانہ اہل علم و فضل لوگوں کا تھا، جن کو پڑھنے پڑھانے کے سوا اور کسی کام سے سروکارنہ تھا۔ ان میں اکثر کا پیشہ اور ذریعہ معاش تعلیم دینا تھا۔

شر ر نے بعض جگہوں پر اپنی کُند ذہنی اور تعلیم سے عدم دلچسپی کا بھی اظہار کیا ہے، لیکن ابتدا سے ہی باپ دادا سے چلے آئے پیشے اور تعلیم و تربیت کو اکدم سے کیسے الگ کر سکتے تھے۔ عمر کا تقاضا یہ تھا کہ ذہن کھیل کی طرف رجوع ہو، لیکن ورثہ میں چلی آئی تعلیمی روایت اس کھیل میں بھی علم کی پیاس بجھانے پر مجبور ہو جا تی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :

"گھر کے اندر میرا کھیل یہ تھا کہ ایک چھوٹے سے کھٹولے پر بیٹھ کر کاغذ پر لکیریں کھینچا کرتا، جس سے میں اندازہ کرتا ہوں کہ لکھنا میرا فطری اور ابتدائی شوق تھا۔

ابھی شرر اپنی عمر کی نویں منزل پر تھے کہ بچپن کی لا اُبالی طبیعت نے اور لکھنؤ کے ماحول نے رنگ دکھا نا شروع کیا اور صحبت بگڑنے لگی۔ اس وقت تک وہ بھی اپنے سسر منشی قمر ا لدین کی وجہ سے کلکتہ پہنچ کر واجد علی شاہ کے خاص ملازموں میں سے ہو چکے تھے۔ ان لوگوں نے ان کی صحبت بگڑتے دیکھی تو فوراً کلکتہ بُلوا لیا۔ لکھنؤ کی دُنیا اور کلکتہ کی دُنیا میں بہت فرق نہ تھا، دونوں کے ماحول کی خوبیاں الگ الگ ضرور تھیں۔ وہ ماحول جو واجد علی شاہ کی وجہ سے لکھنؤ میں قائم ہوا تھا، رفتہ رفتہ وہاں بھی پنپ رہا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہاں وہ محلے، گلی، کوچے اور وہاں کے لڑکوں کی صحبت میں پل رہے تھے۔ یہاں درباری ماحول ملا۔ حکومت ہو جانے کے بعد عیش و عشرت کی وہی شکل دیکھنے کو ملی جو اس سے قبل لکھنؤ میں تھی۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ اس کا دائرہ محدود تھا۔ شرر  جب نو برس کی عمر میں مٹیا برج پہنچے تو اُ س وقت نانا اور والد دونوں کو واجد علی شاہ سے بڑی قربت حاصل تھی۔ شرر  نو عمر تھے۔ شہزادوں کی صحبت ملی۔ خوبصورت و رنگین ماحول ملا۔ ہر طرف تکلّف و تصنّع کی دنیا نظر آئی۔ عیش و عشرت کے سامان نظر آئے۔ آرام طلبی اور بے فکری کا دریا بہتا ملا۔ بس پھر کیا تھا۔ شرر  بھی بہنے لگے۔ اور وہ رنگینیاں جن سے الگ کر کے وہ یہاں بُلائے گئے تھے، دوگنی تعداد میں یہاں نظر آئیں۔ شرر  اس میں ڈوبنے لگے اور اس انداز سے ڈوبے کہ اس کے اثرات ان کی زندگی پر ایسے اثر انداز ہوئے جس کے نقوش ہم اُن کی عمر کے آخری حصّوں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مٹیا برج میں ان کی رسائی ذہنی اعتبار سے ان کی زندگی کا سب سے ہنگامی اور انقلاب انگیز واقعہ ہے، جس نے بعد میں ان کے فن اور ان کی فکر پر بھی خوشگوار اثر ڈالا، جس کا تذکرہ آگے کیا جائے گا۔ فی الحال ان کی تحریروں سے مٹیا برج کے ماحول کا اندازہ لگاتے چلیں :

” اب میں کلکتہ مٹیا برج پہنچا تو گویا ایک عالم سے نکل کر دوسرے عالم میں چلا گیا اور میری زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا۔ 1286ھ (1869ء ) میں جب کہ نوسال کی عمر تھی مٹیا برج میں میرے والد منشی تفضل حسین جدا گانہ مقامات پر رہتے تھے۔ نانا کا تعلق بخشی گری کے دفتر سے تھا۔ لہٰذا بخشی گری کے ایک ملا زم ذوا لفقار علی کے مکان پر رہتے تھے۔ ذوا لفقار علی خاں ایک سن رسیدہ، خوش عقیدہ اور دین دار بزرگ تھے۔ تسبیح ہر وقت ہاتھ میں رہتی اور اگرچہ جاہل تھے مگر اکثر علماء و اتقیا ان کے گھر میں آ کر ٹھہرا کرتے تھے۔ یہ مکان ایک تالاب کے بالکل کنارے واقع تھا، ایسا کہ لوگ اسی کے کنارے بیٹھ کر وضو کر لیا کرتے۔ پندرہ سولہ گز کے فاصلے پر داروغہ غلام عباس داروغہ کبوتر خانہ کا بنگلہ تھا، جو پانی کے اوپر تختہ بندی کر کے بنا یا گیا تھا۔ اس میں ہمیشہ افیونیوں اور چانڈو بازوں کا کافی گروہ جمع رہتا تھا۔ داستان گوئی اور بٹیر بازی کی صحبتیں ہوتیں۔ سچ پوچھئے تو بڑا دلچسپ مقام تھا۔

والد منشی السلطان مرزا رمضان علی بیگ کے مکان پر مقیم تھے۔ اس لیے ان کا تعلق منشی السلطان بہادر کے دفتر میں تھا اور خوش نویس ہونے کے باعث عرض داشتیں جو بادشاہ کے ملاحظہ میں جاتیں انھیں کے ہاتھ کی لکھی ہوتیں۔

اس ماحول میں شرر  کی تعلیم کی ابتدا ہوئی اور عربی وفارسی کی تعلیم دی جانے لگی۔ یہیں پر شرر  کے اندر یہ احساس جاگا کہ وہ اتنے کند ذہن نہیں ہیں جتنا کہ اپنے آپ کوسمجھتے ہیں۔ رفتہ رفتہ ان کا ذہن پڑھائی کی جانب کھچنے لگا۔ شرر  اچھا ذہن لے کر آئے تھے۔ بہترین تعلیم و تربیت کی جو بوچھار ہوئی تو ذہن کے دریچے کھلنے لگے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے ماحول نے بھی ان کے ذہن اور آنکھوں کو اک نور بخشا۔ کبھی کبھی تواس حد تک کہ بجلی کوند نے لگی اور ان کے قدم ڈگمگانے لگے۔ لیکن قدرت کی جانب سے وہ ایک بلند فکر اور پختہ شعور لے کر آئے تھے، لہٰذا مٹیا برج کے اس ماحول سے بھی انھوں نے نقصان تو کم اٹھایا کچھ سیکھاہی زیادہ۔ آیئے اس ماحول کی رنگینیوں پر غور کریں جس کے اثرات شرر  نے قبول کیے اور جس کی وجہ سے شرر  کے ذہن میں دبی دبی سی شوخی ہمیشہ ہمیش کے لیے پیوست ہو گئی۔ لکھتے ہیں :

"مٹیا برج کی ابتدائی زندگی یوں گزرتی تھی کہ تعلیم کے علاوہ میرا سارا وقت منشی السلطان بہادر کے گھر میں اور ان کی ایک لڑکی اور نواسی کے ساتھ کھیلنے میں صرف ہوتا اور رات کو منشی السلطان بہادر کے ساتھ دسترخوان پر کھانا کھا تا تھا، جس کے گرد ان کے خاندان کے بیس پچیس چھوٹے بڑے ہوتے اور جہاں تک مجھے یاد ہے یہ نہایت مہذّب اور دلچسپ صحبت ہوتی جس کا مزا مجھے آج تک نہیں بھولا۔”

اپنی تعلیم کے بارے میں لکھتے ہیں :

"والد نے میری تعلیم میں ایسی غیر معمولی کوشش کی کہ دوہی سال کے اندر فارسی کی چند کتابیں ختم ہونے پائی تھیں کہ میزان الصرف اور منشعب شروع کروا دیں۔ صرف یہ کتابیں ختم نہ ہوئی تھیں کہ منطق میں صغریٰ اور کبریٰ اور نحو میں میرا اور مشرح قائد عامل پڑھا دیں۔ اس درمیان میں ایک بنگالی ماسٹر جو سردار مرزا کو پڑھانے آتے تھے، ان سے میں نے انگریزی شروع کی، لیکن وہ تعلیم ایسی ناقص تھی کہ اُس کو پڑھنا نہیں کہہ سکتا۔

اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ مٹیا برج میں شرر اس بے فکری کے ماحول میں عیش ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ اس کے ساتھ ان کی تعلیمی رفتار بہت تیز اور ٹھوس تھی۔ شرر  نے اپنی پڑھائی کی جانب انہماک کا ثبوت دیا کہ ان کے والد بے حد مطمئن رہتے اور شرر  کا آزادانہ جن لوگوں سے ربط ضبط تھا، وہاں آتے جاتے رہتے۔ نانا کی وجہ سے ان کی آمدو رفت بخشی گری میں ہوتی رہتی۔ بخشی گری کے افسراعلیٰ دبیرا  لدولہ بہادر کے پوتے امانت ا لدولہ بہادر تھے اور مٹیا برج کے ابتدائی دور میں یہی دو عہدے دار یعنی منشی ا لسلطان اور امانت الدولہ سُنّی عقیدہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں حضرات کا بادشاہ کے یہاں بڑا دخل تھا۔ بخشی صاحب سے تعلقات تو لکھنؤ سے چلے ہی آ رہے تھے۔ بخشی صاحب کے مکان اور دفتر میں شرر  کے ابتدائی ایاّم نئے انداز سے گزرے۔ ان کے بیٹے عبدا  لخالق اخلاص ا لدولہ سے ان کی دوستی ہو گئی۔ ان کی والدہ ان پر خاص شفقت فرماتی تھیں۔ مٹیا برج کی دلچسپیاں روز بروز بڑھتی رہیں اور اس حد تک کہ شرر  نے با ضابطہ طور پر اس عنوان سے ان دنوں کے حالات کا تفصیل سے تذکرہ کیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے حصولِ علم کا بھی تذکرہ کیا جو اِن رنگینیوں ودلچسپیوں کے ساتھ پروان چڑھتا رہا۔ شرر  کا ذہن تعلیم حاصل کرنے کی طرف پورے طور پر متوجہ ہو چکا تھا۔ مٹیا برج میں بھی جن لوگوں کے یہاں روزانہ آمدورفت تھی، ان کے یہاں بھی تعلیم کا زور و شور تھا۔ منشی السلطان کی مسجد میں ایک حافظ باب اشد تھے۔ بزرگ اور شریف آدمی جو اس مسجد میں نماز پڑھا یا کرتے تھے۔ ان سے بھی شرر کی صحبت بڑھی۔ ان کے ساتھ پانچوں وقت کی نماز پڑھتے اور ان سے مذہب و دین کی باتیں سنتے رہتے۔ غرض کہ اسی طرح دیگر علماء کی صحبت میں بیٹھتے۔ نیکی وسعادت مندی کا ثبوت دیتے اور ان سب سے کچھ نہ کچھ حاصل کرتے۔ ان کے والد ان کی تعلیمی رفتار کو دیکھ کر خوش ہوئے اور ان کو مٹیا برج میں اس وقت تک رکھا جب تک ان کی زندگی کا دوسرا رُخ اُن کے سامنے نہیں آ گیا۔ اس میں شک نہیں کہ شرر  کو مذہبی تعلیم سے دلچسپی، پڑھنے لکھنے کی صلاحیت اور کشادہ ذہن ورثے میں ملا تھا۔ لیکن چند خوبیاں تنہا اُن کی ذات سے وابستہ تھیں، جو اس سے قبل ان کے خاندان میں کسی کو نصیب نہ ہوئیں اور شاید اسی وجہ سے اُن کے خاندان کا کوئی فرد کسی میدان میں وہ مقام نہ بنا سکا جو شرر  نے ادب، تاریخ اور مذہب کے میدان میں بنا لیا، جس کا تفصیلی تذکرہ آگے کیا جائے گا۔ فی الحال شرر  کے عہد کی ان دلچسپیوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو انھوں نے مٹیا برج کے ماحول سے حاصل کیں۔ اپنے ابتدائی ماحول کے دوسرے رُخ کے بارے میں وہ اس طر ح لکھتے ہیں :

"مگر اس دینداری کے رُخ کے ساتھ اس زمانے میں میری زندگی کا دوسرا رُخ یہ تھا کہ منشی السلطان کے بیٹے سردار مرزا کو جو والد کے شاگرد تھے، بٹیربازی کا بے حد شوق تھا۔ بادشاہ کے بڑے بیٹے مرزا ولی عہد بہادر کا انتقال ہوا تو ان کے سب بٹیر انھوں نے نیلام میں خرید لیے۔ چار پانچ بٹیر باز جو جانور بازوں میں نوکر تھے، ہر وقت ان کی صحبت میں رہتے، جب دیکھئے بٹیر بازی کا چرچا ہو رہا ہے۔ ہر جمعہ کو داروغہ عباس علی خاں کے مکان پر بٹیر بازیوں پر بٹیر لڑاتے۔ میں جب سبق پڑھ کے آتا تو اس صحبت میں شریک ہو جاتا۔ خود بٹیر پالتا۔ بالا لتزام پالیوں میں جاتا جس میں بٹیر بازوں کی حالت کا بازی بدنے والوں کے جوش و خروش سے وہ ہنگامہ مچتا جو مجھے زندگی بھر کبھی نہ بھولے گا۔ سردار مرزا کے بٹیر بازوں میں چھوٹے خان نام کے ایک بوڑھے شخص جو افیونی تھے اور بٹیروں کے پالنے، ان کا علاج کرنے اور ان کو تیار کرنے میں استاد زمانہ سمجھے جاتے تھے، مجھ سے ان سے بہت ربط ضبط تھا۔ جہاں جاتے میں ان کے ساتھ ہو جاتا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ میرے بٹیروں کو تیار کر دیا کرتے اور بتاتے کہ ان کی کیوں کر داشت کی جائے۔ چنانچہ انھیں کے ساتھ پالی کے علاوہ اور دنوں میں بھی داستان سننے کے لیے داروغہ غلام عباس کے مکان پر جاتا، جس میں علی العموم افیونیوں کا ہی مجمع رہتا اور یہ سچ ہے کہ عجب لطف کی صحبت ہوتی۔ ستر (70) اسی(80) چار چار پانچ پانچ کی ٹکڑیوں میں تقسیم ہو کر بیٹھ جاتے۔ پونڈے چھلتے۔ با لائی اور شیرمالیں اُڑتیں۔ افیون گھلتی اور دور جاری رہتا۔”

یہ تھے وہ عناصر جو اس وقت مٹیا برج کے ماحول میں پنپ رہے تھے۔ بے فکری۔ دلچسپی اور قہقہوں کی وہ دُنیا جو لکھنؤ میں ختم ہو رہی تھی، اپنی دوسری شکل میں مٹیا برج کے محدود اور مختصر ماحول میں انگڑائیاں لے رہی تھی اور شرر کا ذہن ایسے ماحول میں کہیں سے شوخی و لطافت، کہیں سے سنجیدگی اور کہیں سے تعلیمی عناصر سمیٹتا ہوا اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا۔ ان کی شخصیت بنتی رہی۔ ان کے ذہن کی تعمیر ہو تی رہی۔ لیکن اس تعمیر میں مختلف رنگوں کی آمیزش تھی۔ مختلف خیالات تھے۔ ایک طرف تو بٹیربازی اور دوسری دلچسپیاں، اسی کے ساتھ داستان گوئی بھی۔ کھیل کود اور تمام دلچسپیوں سے فارغ ہو کر سب اکٹھا ہو کر بیٹھ جاتے تو ان سب کے درمیان بے فکروں اور بدمستوں کی محفل سے ایک شخص اُٹھتا اور دلچسپ و رنگین داستانیں سُناتا۔ دیو پریوں کے قصّے دہراتا۔ مافوق الفطرت عناصر درمیان میں آتے۔ دلچسپیوں میں اضافہ ہوتا۔ لیکن ان تمام دلچسپیوں کے پس پردہ پوشیدہ طور پر اس کے اثرات شرر پر دوسرے انداز سے اثر کر رہے تھے۔ داستان گوئی سے متعلق ان کے یہ چند جملے اہم ہیں۔ ملاحظہ کیجئے :

"ایک داستان گو جو لکھنؤ سے گئے ہوئے تھے، درمیان میں بیٹھ کر داستان کہتے اور اس خوبی و فصاحت کے ساتھ کہ میں حیرت سے ان کی صورت دیکھا کرتا۔ داستان کے چار فن رزم، بزم، حسن و عشق اور عیّاری۔ ان میں دو پچھلے فنوں کے یہ داستان گو صاحب بادشاہ تھے۔ حسن کا نقشہ کھینچتے تو اس کی تصویر ان کے چہرے پر پھرنے لگتی اور چند لمحوں کے لیے وہ نہایت ہی خوبصورت بن جاتے۔ اسی طرح عیّاری ایسے عمدہ عنوان سے بیان کرتے کہ چالاکیوں اور عیّاریوں کے مجسم پتلے بنا کے آنکھوں کے سامنے کھڑے کر دیتے۔ سچ تو یہ ہے کہ انھیں داستان گو صاحب کی فصاحت بیانی نے مجھ میں فصاحت زبانی کا شوق پیدا کر دیا، جس پر شاہزادوں اور محلات کی صحبت نے جِلا دی۔ اپنے ان لٹریری مکتبوں سے اس درجہ متاثر ہوا کہ اسی زمانے میں والد محترم سے کہہ کر نثر نویسی میں لائق الدولہ بہادر کی شاگردی اختیار کر لی، جو بادشاہ کے وابستگانِ دامن میں فارسی کے ایک بہت اچھے نثّارسمجھے جاتے تھے۔”

داستان گوئی سے متعلق شرر  کی یہ تحریریں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ شرر  مٹیا برج میں شاہی ماحول سے وابستہ تھے۔ شاہی ماحول ہونے کی وجہ اس دربار کے ہر شعبہ کا استاد اپنے زمانے کا یکتا ہوتا۔ چاہے وہ بٹیربازی ہو، کبوتر بازی، داستان گوئی، منشی گیری یا اس طرح کے دوسرے شعبے۔ غرض ان سب کی فن کاری شرر  کے ذہن پر اثر ڈالتی، ہوسکتا ہے اسی داستان گوئی نے شرر  کے ذہن کونثر کی طرف موڑا ہو۔ اس نثر نویسی میں لائق الدولہ کی شاگردی حاصل ہوئی، جو اپنے وقت کے ماہر نثّار تھے۔ یہ باتیں چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن جس طرح سے شرر  کا خمیر بن رہا تھا اور ذہنی تعمیر ہو رہی تھی، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی ان کے مستقبل کے لیے مفید اور خوشگوار ثابت ہوتی رہیں۔ اس درمیان کا ایک اور بڑا واقعہ شرر کی ہی زبانی ملا خطہ ہو۔ ان کی بڑھتی ہوئی بے فکریوں کو دیکھ کر شرر  کے والد نے حکم دیا کہ منشی السلطان کے دفتر میں جایا کریں اور وہاں کا تھوڑا بہت کام سنبھال لیا کریں۔ اگر چہ شرر وہاں بڑی بے دلی سے کام کرتے تھے، لیکن ذیل کے واقعہ نے ان کے اوپر بڑا اثر ڈالا، جس کو انھوں نے خود تسلیم کیا ہے۔ لکھتے ہیں :

"مثل مشہور ہے کہ خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے۔ ویسے ہی مجھے فارسی عاشقانہ عبارت آرائی کے شوق میں یہاں حسن و عشق کا ایک نہایت ہی دلچسپ مشغلہ ہاتھ آ گیا۔ بادشاہ کے نام محلات، عالیات اور بیگمات جو خطوط بھیجا کرتیں وہ خطوط بادشاہ کے ملاحظہ کے بعد اسی دفتر بیت الاجرا میں محفوظ رکھے جاتے۔ یہ خط جو تودّد نامے کہلاتے علی العموم سُرخ اور پُر افشاں کاغذ پر ہوتے اور عموماً عاشقانہ انداز سے رنگین عبارت میں لکھے جاتے۔ ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہو گی، جن کو میں نے پڑھنا شروع کیا۔ مجھے ان میں بڑا لطف آتا۔ افسوس کہ اب وہ نایاب ذخیرہ خدا جانے کہاں گّم ہو گیا۔ آج موجود ہو تا تو شائع کرنے کے قابل تھا، اس لیے کہ اس میں جتنے خطوط تھے، سب کسی اچھے انشاپرداز کے لکھے ہوئے تھے اور نہایت زور قلم دے کر رنگین عبارتوں میں لکھے ہوئے تھے۔ لہٰذا ہر ایک میں جدا گانہ جدّت طرازی اور تازگی تھی۔ بہر حال میری انشا پردازی کا پہلا نصاب تودّد نامے تھے جو ظاہری صورت اور باطنی رنگِ عبارت دونوں حیثیتوں سے بہت ہی دلکش تھے۔”

یہ اہم واقعہ یقینَاً شرر کے ذہنی موڑ کے لیے کار آمد ثابت ہوا۔ وہ ذہن جو خالص مذہبی تعلیم حاصل کر رہا تھا عربی وفارسی کے مطالعہ میں محو تھا۔ اس واقعہ نے اس میں شوخ عناصر بھر دئے۔ ان کے ذہن و مزاج میں تبدیلی آنے لگی۔ عمر کا تقاضا ان کو شہزادوں کی صحبت میں لے گیا۔ شہزادوں کی صحبت اور وہاں کا ماحول بھی شرر  کے ان اہم واقعات میں سے ہے جو شرر کی شخصیت پر بُری طرح سے اثر انداز ہوئے۔ شہزادوں کی صحبت اور محفلوں کے بارے میں لکھتے ہیں :

"شہزادوں کی صحبت اور شب و روز ان کی محفلِ عیش میں رہنے سے مجھے اپنی زبان کی اصلاح میں بڑی مدد ملی۔ اتنا ہی نہ تھا کہ میں صرف باہر ہی سے مل کر چلا آتا، بلکہ محل کی خواصیں اور محلدار بار بار آ کے ملتیں۔ گھنٹوں پاس بیٹھ کر باتیں کرتیں اور میں ان سے اندازِ گفتگو اور الفاظ دونوں کو سُنتا اور لطف اٹھاتا۔ میرے ہم سبق دوست شہزادے جلال بہادر کی والدہ نواب صدر محل نہایت شائستہ اور تعلیم یافتہ بیگم تھیں۔ شعرو سخن میں اس وقت کے نامی شاعر گلشن ا لدولہ بہار کی شاگرد تھیں، ان کا دیوان چھپ گیا تھا، جس کے اشعار بہت سے لوگوں کی زبان پر تھے۔ اسی تعلیم اور شائستگی کے لحاظ سے ان کے مزاج میں نہایت نفاست اور نزاکت تھی۔ ستار خوب بجاتی تھیں اور مو سیقی کا اچھّا ذوق تھا۔ وہ اپنے بیٹے کادوست سمجھ کر میرے حال پر شفقت مادرانہ فرماتیں۔ اکثر اوقات ایسا اتفاق ہوتا کہ میرزا محمد جلال کی طبیعت کچھ ناساز ہوتی تو مجھے بلا تکلّف بلوا لیتں۔ ان کی محلدار جو ایک خوش اور رنگین مزاج بوڑھی عورت تھی اور میرا نکاح ٹھہرایا کرتی تھی۔ میں اگرچہ دل سے چاہتا تھا، لیکن والد کے خوف سے ہمیشہ ٹال دیا کرتا تھا۔ لیکن ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ ان باتوں کا میرے مذاق اور زبان پر کیا اثر پڑا ہو گا۔

ان ہی باتوں کی وجہ سے ان دنوں میری اخلاقی حالت میں عجیب متضاد باتیں پیدا ہو گئی تھیں۔ گھر میں جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، نہایت متّقی اور پرہیز گار تھا۔ یہاں تک کہ بعض زمانوں میں تہجد بھی کم ناغہ ہوتی۔ اس کے مقابل شہزادوں اور محل کی صحبت سے انتہا درجے کا رند مشرب اور بدکار۔ ان کی محفل عیش میں رہتا اور شاہی باغوں کی سیر کیا کرتا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ جیسے نزہت بخش مناظر اور پُر فضا مقامات اسد منزل، مرصع منزل، آسمانی اور بادامی کوٹھیوں کے باغ، دریائے بھاگرتی کے کنارے میری آنکھوں نے دیکھے شاید پھر کہیں نہ نظر آئیں گے۔ الغرض میں ہر قسم کے گناہوں اور ریاکا ریوں میں مبتلا تھا اور کوئی بے شرمی اور معصیت کا کام نہ تھا جو مجھ سے اُٹھ رہا ہو۔ عقائد کی یہ حالت تھی کہ اگرچہ آبائی مذہب حنفی المذہب تھا مگر خیالات کسی ایک مرکز پر ٹھہرنے نہ دیتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرسیدکا نام ان دنوں میں نے سُنا اور اس عنوان سے کہ وہ مسلمانوں کو عیسائی بنانا چا ہتے ہیں۔ یہ سُن کر میرے خیالات نے یہ مسودہ تیار کیا کہ میں دینداری اور بے دینی کو ملا کر ایک کر دوں گا۔”

یہ تھے وہ ایّام جو شرر  نے اپنے بچپن میں گزارے، لیکن جیوں جیوں وہ بلوغیت کی منزل کی جانب بڑھتے گئے ماحول کے اثرات میں تبدیلی آتی گئی۔ اب تو عمر تقریباً سولہ یا سترہ کو پہنچ رہی تھی کہ دنگل اور کشتی کا بھی زور ہوا اور دیگر اشیاء کا بھی۔ بہر حال وہ اس عمر کے آنے تک جن جن صحبتوں سے دوچار ہو رہے تھے اس کا تذکرہ ایک جگہ پراس طرح کرتے ہیں :

"اب میراسِن 16یا 17سال کا تھا اور میرے لیے تین صحبتیں تھیں۔ ایک منشی السلطان بہادر کے یہاں کی صحبت، جو بالکل دینی اور علمی صحبت تھی۔ دوسری امانت الدولہ کے یہاں کی صحبت جو نہایت مہذب، شائستہ، پر لطف و پر مذاق تھی۔ اور تیسری شہزادوں کی صحبت جس میں بے فکری، رندانہ۔ شربی۔ شاعری۔ بذلہ سنجی۔ دل لگی۔ مذاق کی باتیں۔ بے باک آوارہ عورتوں کی صحبتیں اور مدہوشی کی رنگینیاں تھیں۔”

والد اور نانا نے شرر کی ان صحبتوں پر زیادہ توجہ نہ کی۔ اگرچہ شہزادوں کی محفلوں میں اس قدر پابندی سے شرکت کرنا، رات گئے ڈیوڑھیوں پر رہنا ان کو زیادہ اچھا نہ لگتا تھا لیکن کم عمر ی میں پابندی سے سبق یاد کرنے اور عربی وفارسی میں غیر معمولی دلچسپی لینے کی وجہ سے ان کے سرپرست ان کی طرف سے پورے طور پر مطمئن تھے۔ لیکن یہ سارے کارنامے آخر کب تک پوشیدہ رہتے۔ عمر بڑھتی رہی اور اس کے ساتھ ساتھ ان صحبتوں کے اثرات میں بھی تبدیلیاں آتی رہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ بدنامی دامن کے قریب آتی گئی اور اس نے آہستہ سے یہ خبر ان کے والد تک پہنچا دی۔ بس والد کو جیوں ہی ان صحبتوں کی اطلاع ملی ان کو لکھنؤ بھیج دیا، یہ کہہ کر کہ والدہ نے بلوایا ہے۔ اور 1876ء میں سترہ سال کی عمر میں یہ مٹیا برج کی تمام خوشیاں، مدہوشیاں سب کو ایک کنارے کر کے لکھنؤ سدھارگئے۔

اس میں شک نہیں کہ مٹیا برج کے قیام کے دوران شرر  کے ابتدائی ایّام جتنے بھی گزرے سب کے سب ایک خاص رنگ، شوخی اور شہدے پن میں ڈوبے ہوئے تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے رنگین ماحول جہاں ذہن بہکنے پر تلا ہوا ہو، عقل مختلف قسم کی دلچسپیوں میں مشغول ہو، شرر اپنی تعلیم پر توجہ دیتے رہے اور ہر طرح کی تعلیم جو ان کے والد نے چاہی، حاصل کرتے رہے۔ اپنی اس تعلیم کے سلسلہ میں مناظرہ کے عنوان سے چند وہ حادثات جو مذہب سے متعلق تھے شرر نے تحریر کیے ہیں۔ جو بہت زیادہ اہم تو نہیں لیکن اس نقطۂ نظر سے اہم ضرور ہیں کہ ایک طرف دل تو دریائے لطافت و شوخی میں غوطے کھا رہا تھا لیکن ذہن تعلیم حاصل کرنے میں لگا ہوا تھا۔ دل اور ذہن کی اس آمیزش نے شرر  کی شخصیت کو پُر کشش بنا دیا۔ اور اپنی اسی شخصیت کی بنا پر وہ ایک طرف تو مذہب اور اسلامی تاریخ کا دیا روشن کرنے لگے تو دوسری جانب عشق و محبت کی ایسی دل فریب تصویر یں کھینچیں جو اس سے قبل ادب میں نظر نہ آتی تھیں۔ مختلف صحبتوں اور مختلف علوم نے اُنھیں جس حیثیت کا آدمی بنا دیا تھا، اس کو وہ خود لکھتے ہیں :

"ان واقعات سے میں کیسی کیسی صحبتوں اور متضاد مذاقوں کے کش مکش میں پڑا تھا۔ مذہبیت کے ساتھ ساتھ لا مذہبی تھی اور زہدو تقویٰ کے ساتھ ریا کاری بھی۔”

مٹیا برج کے قیام کے دوران ایسا نہیں تھا کہ لکھنؤ ان کے لیے اکدم سے چھوٹ گیا ہو۔ وہ درمیان میں کبھی کبھی لکھنؤ آیا کرتے۔ لکھنؤ میں مولوی عبد الحئی اور مولوی عبد الباری صاحب اور دیگر لوگوں سے ربط ضبط بڑھتا رہا۔ ان حضرات سے علمی اور مذہبی باتوں کا دور چلتا۔ نتیجہ کے طور پر برج کی اوباشی دور دور تک نہ آتی۔ پھر لکھنؤ ہی نہیں کلکتہ میں بھی وہاں کے مجتہد العصر جناب محمد تقی صاحب جو اس وقت اس خطہ کے بہت بڑے عالم و بزرگ تھے ان سے تعلیم حاصل کی۔ لیکن لکھنؤ واپس آ جانے کے بعد خالص پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

 لکھنؤ میں قدم رکھتے ہی شرر  مولانا عبد الحئی کے حلقۂ درس میں شامل ہو گئے اور درس سے متعلق بے پناہ کتابوں کا مطالعہ کیا، جن میں زوائد نفیس، حیات قانون اہم ہیں۔ مولانا عبد الحئی نے شرر  کی دلچسپی اور ان کے اندر سے جھانکتے ہوئے مذہبی و تاریخی شعور کو پڑھ لیا اور ایک خاص شفقت ان پر فرمانے لگے۔ اسی زمانے میں شیعہ اور سنّی عقائدسے متعلق چند اہم بحثیں اٹھیں۔ خصوصاً مقلّد اور غیر مقلد کی بحث تو زور و شور سے اٹھی۔ مولانا عبد الحئی کی درس گاہ میں ان بحثوں کا بڑا چرچا تھا۔ مولانا کی شخصیت اتنی جامع اور بھر پور تھی کہ دونوں خیالات و عقائد کے لوگ جمع رہتے۔ شرر بنیاد تو کلکتہ سے ڈال کر آئے۔ یہاں اس قسم کا ماحول ملا تو مذہبی جو ہر نکھرنے لگے۔ تمام علماء سے صحبت بڑھائی۔ والد ہ ایک دوسرے مولانا سے بیعت تھیں۔ چنانچہ وہ مولانا کے سخت مخالف ہو گئے۔ نتیجہ کے طور پر شرر  اور ان مولانا کے درمیان مختصر سا مناظرہ ہو گیا اور شرر  نے خوب مذاق اُڑایا۔ شرر  کی ان حرکتوں پر ان کے والد اور نانا کچھ نہ بولتے تھے۔ مولوی نور محمد صاحب شیعہ عقائد ے کے تھے اور لکھنؤ آ کر اس وقت کے شیعہ عالم مولوی حامدحسین صاحب کی قربت میں آئے۔ لیکن مولوی نور محمد پر ان کی قربت کا ذرا بھی اثر نہ ہوا اور وہ اپنے انداز میں سوچتے رہے۔ مولوی نور محمد نے بہت سی ایسی کتابیں شرر  کو پڑھنے کو دیں جو اس سے قبل شرر  نے نہیں پڑھی تھیں۔ مولوی نور محمد کے ساتھ شرر  اکثر مولوی حامدحسین کے یہاں جایا کرتے تھے۔ اور اس طرح ایک دوسرے عقیدے کے مولانا سے بھی شرر کی قربت ہوئی۔ مفتی میر محمد عباس صاحب نے ان دنوں اپنی علمیت کی بڑی شہرت مچا رکھی تھی۔ شرر  اور مولوی نور محمد صاحب ان کی خدمت میں گئے۔ مفتی میرعباس صاحب عالم کے ساتھ ساتھ ایک ادب پرست انسان تھے۔ ادب سے خاص لگاؤ تھا۔ بڑاستھراہواذوق رکھتے تھے۔ باتوں میں لطافت اور بذلہ سنجی بھری ہوئی تھی۔ ہر وقت خندہ جبیں رہتے۔ شرر  ان سے بھی مل کر خاصا متاثر ہوئے۔ ان کے لطیفے ان کے دلچسپ فقرے شرر  کے ذہن میں پیوست ہوتے چلے گئے۔

مولوی حامد حسین بے انتہا مطالعہ فرماتے اور تمام کتابوں میں شیعہ وسنی کے اختلاف سے متعلق تمام باتوں کو ایک الگ جگہ دیتے۔ پھر وہ باتیں الگ جگہوں پر لکھی جاتیں۔ اس طرح ایک گروپ تھا جو یہ سارے کام انجام دیتا۔ مولوی نور محمد اور شرر  نے کچھ دنوں کے لیے اس گروپ میں ملازمت کر لی۔ اور اس ذریعہ ان دونوں حضرات کی رسائی مولانا حامد حسین کے ذاتی کتب خانے تک ہوئی، جس میں رکھی ہوئی نادر کتابوں کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا، جوشایداس کتب خانے کے علاوہ کہیں اور نصیب نہ تھیں۔ بلکہ دونوں حضرات کی نوکری کرنے کا مقصد بھی یہی تھا۔

 ان حالات کے علاوہ شرر  نے مناظرہ سے متعلق ایک اہم واقعہ بتایا ہے۔ اس درمیان شرر  اور ان کے دوست مولوی نور محمد نے خاصی شہرت حاصل کر لی تھی۔ جہاں بھی مناظرہ ہوتا یہ لوگ بلائے جاتے۔ ایک دن شہر کے ایک عطر فروش جو اہل حدیث بھی تھے، انھوں نے آ کر بتایا کہ ایک معزز شہزادے متعہ کو حرام قرار دیتے ہیں۔ یہ دونوں اس شہزادے کے پاس پہنچے اور اپنی دلیلوں سے ان کو زیر کیا۔ زوردار بحث رہی لیکن یہ لوگ سرخرو ہو کر لوٹے۔ غرض اس واقعہ کے بیان کرنے کاجو مقصد ہے وہ انھوں نے خود لکھا ہے:

"میرا مقصد اس واقعہ کے بیان کرنے سے صرف یہ ہے کہ میں جو شہزادوں کی صحبت میں دن رات رہا کرتا تھا، اب ان کی طرف سے کسی قدر بے پروا تھا اور میرے موجودہ مذاق نے مجھے ان صحبتوں سے کس قدر دور کر دیا تھا۔”

ابھی سلسلہ نہ ٹوٹا تھا۔ مولوی نور محمد صاحب کی صحبت اور لکھنؤ کے اس مذہبی ماحول نے شرر  کی روح میں پاکیزگی اور دل و دماغ میں مذہبیت کے ایسے چراغ روشن کیے، جس کی تابناکی آج بھی ان کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔ اس جگمگاہٹ نے ہی ان کو زندہ رکھا۔ اب دیکھتے ہیں مزید ان کاسلسلہ کہاں جا کر جڑتا ہے۔

مولوی نور محمد صاحب نے حدیث کا شوق پیدا کر دیا اور شرر  نے حدیث کا مطالعہ شروع کیا اور حدیث سے متعلق تمام بنیادی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ کر ڈالا۔ ان کتابوں کے مطالعہ کے بعد مولوی نور محمد صاحب نے دہلی کے سفر کے لیے راغب کیا۔ کیونکہ ان دنو ں مولانا محمد نذیر حسین محدث دہلوی کا بڑا زور شور تھا۔ دور دور تک اپنی علمیت و بزرگیت کے لیے مشہور تھے۔ شرر  پر ان دنوں مطالعہ کا بھوت سوارتھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوراً تیار ہو گئے اور دہلی کاسفر کرنے ہی کو تھے کہ اچانک شادی طے ہو گئی اور ماموں زاد بہن کے ساتھ ان کا عقد ہو گیا۔ جیساکہ وہ خود لکھے ہیں :

"اسی زمانے میں اپنے حقیقی ماموں حکیم سعدالدین مرحوم کی صاحبزادی کے ساتھ میرا عقد ہو گیا۔ یعنی1297ھ( 1879ء )میں جب کہ میری عمر 18 سال تھی۔”

شر رکے والد تفضل حسین صاحب شادی میں شرکت کی غرض سے کلکتہ سے لکھنؤ واپس آئے اور پھر نہ گئے۔ ہردوئی میں چھوٹی سی ملازمت کر لی۔

 علم کی پیاس شرر  میں اتنی شدت سے بڑھی کہ نئی نئی شادی کی بھی اتنی فکر نہ کی اور اچانک بغیر کسی کو خبر کیے شادی کے کچھ مہینے بعد گھر سے غائب ہو گئے اور سیدھے دہلی پہنچے۔ ساتھ میں مولانا نور محمد صاحب کا خط جومولاناسیدنذیر حسین صاحب کے نام تھا، ان کی خدمت میں پیش کیا اور انھوں نے شاگردی میں لے لیا اور ان کے لیے مدرسے میں پڑھنے اور رہنے کا انتظام کر دیا۔

 مولانانذیرحسین صاحب کی شاگردی شرر  کی زندگی کا ایک بے حد اہم موڑ ہے، جس نے ان کی زندگی، ان کے ذہن اور ان کے رجحان کو ایک دم سے روشن اور مضبوط کر دیا۔

 شرر  کی اس مدرسے میں تعلیم کی ابتدا بخاری شریف سے ہوئی۔ انھوں نے اس کا بھر پور مطالعہ کیا۔ بخاری شریف ختم کرنے میں سوا سال لگ گئے۔ شرر  نے بھر پور انہماک کے ساتھ اس کو ختم کیا اور ڈھائی سال تک اس مدرسے سے منسلک رہے۔ بخاری شریف کے علاوہ صحیح مسلم، ابوداؤد، نسائی اور امام مالک جیسی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ تفسیر جلالین پڑھی۔ ان سب کے علاوہ وہاں کا ماحول جہاں دن رات مناظرہ ہوتا رہتا تھا، احادیث وغیرہ پر بحثیں ہوتی رہتیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شرر  کا وہ مزاج جو مٹیا برج میں بنا تھا ختم تو نہیں ہوا، لیکن بڑی حد تک دب گیا۔ دہلی کی زندگی کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں :

"میری دہلی کی زندگی پارسانہ اور بالکل بے نفسی کی تھی۔ پانچوں وقت کی نماز مسجد میں پڑھتا۔ شب و روز مطالعۂ کتب میں مشغول رہتا۔ یہاں صاحب کے ایک داماد تھے۔ وہ کہنہ مشق شاعر تھے اور اچھا کہتے تھے۔ مجھے لکھنؤ کا خیال کر کے وہ اپنی صحبت میں کھینچنا چاہتے تھے۔ مگر مجھے اس صحبت سے وحشت ہوتی۔ لمبا کرتا اور شرعی اونچا پائجامہ پہنتا اور اکثر تہبند باندھے رہتا۔ یہاں تک کہ تہبند پہنے بازار جانے میں تامل نہ ہوتا۔ معمولی دوپلڑی ٹوپی سر پر رہتی۔”

دہلی میں امامِ فنِ مناظر ہ مولوی منصور علی خاں صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان سے بھی شرر نے بہت کچھ سیکھا۔ حالانکہ اُن سے بہت زیادہ اثر نہیں لیا۔ لیکن مولانا کو مناظرہ میں ملکہ حاصل تھا اور قرآن سے ثابت کرتے کہ مناظرہ و تبلیغ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اسی طرح دہلی کی مشغول زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں :

"اس زمانے میں ہمیں نہ کسی سے ملنے کی فرصت تھی نہ دہلی کے ادبیوں اور شاعروں سے ملنے کا کبھی اتفاق ہوا۔ حنفیوں اور اہل حدیث کے ما بہ النّزاع مسائل پر جھگڑے اور بحث کرنے کے علاوہ ہمیں دُنیا و ما فیہا سے کچھ سرو کار نہ تھا۔”

اسی زمانے میں حالی کا مسدس شائع ہو کر منظر عام پر آ چکا تھا۔ شرر کے ہاتھوں میں بھی پڑا۔ بے پناہ اثر لیا۔ لکھتے ہیں :

"اسی اثنا میں پہلے پہل مولانا الطاف حسین حالی کا مسدّس جس کو ابھی زیادہ شہرت نہیں ہوئی تھی، اتفاقاً میرے ہاتھ آ گیا۔ میں نے اس کو اوّل سے آخر تک پڑھا اور ایسا لطف آیا کہ کئی بار پڑھا۔ اگر چہ میرے مذاق اور طرزِ زندگی میں اس سے کوئی تغیّر نہیں ہوا، مگر میرے دل پر مسلمانوں کے عروج و زوال کی ایسی سچی تصویر دکھانے والی نظم کا بڑا اثر پڑا۔ "

اسی درمیان میں ا یک بار وطن آ گئے اور واپسی میں دہلی میں جاتے ہوئے علی گڑھ ایک دوست کے یہاں رُکے۔ ان کے دوست مولوی محمد اسمعٰیل صاحب اسرائیلی کے ساتھ رہتے تھے۔ اس سلسلے میں مولوی اسمٰعیل صاحب سے ملاقات ہوئی۔ علی گڑھ کا قیام اس سلسلے میں زیادہ اہم ہے۔ انھوں نے سر سیداحمد خاں سے بھی ملاقات کی۔ سرسید سے ملاقات کے بارے میں شرر کی تحریر ملاحظہ کیجیے :

"سید صاحب نے میرا حال پوچھا اور میں نے کہا لکھنؤ کا ایک طالب علم ہوں۔ دہلی میں مولوی نذیرحسین صاحب سے حدیث پڑھتا ہوں اور معقولات کی کتابیں مولوی عبدا لحئی صاحب سے پڑھ چکا ہوں۔ سُن کر خوش ہوئے اور کہا دہلی میں جا کر مولوی نذیرحسین صاحب سے میرا سلام کہنا۔ میں ان کا احترام کرتا ہوں اور قدیم سے ان کی خدمت میں نیاز حاصل ہے۔ میں نے سلام پہنچانے کا وعدہ کر کے کہا سید صاحب ! آپ نے ایک مقام پر تصویروں کے رکھنے کو جائز بتایا ہے۔ میں اس کو آپ سے سمجھنا چاہتا ہوں۔ فقہی فتویٰ سے قطع نظر کر کے میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح معمول ہے کہ ہر مذہب اور عاقلانہ طرز مروج زمانے سے رسم بن جاتا ہے اور اس کے صالح اغراض فوت ہو جاتے ہیں، اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ یہی تصویریں جو آج کسی دنیوی مقصد سے رکھی جاتی ہیں، چند روز بعد پوجی نہ جانے لگیں، جیسا کہ بت پرست اقوام میں ہوتا آیا ہے۔ اس پرسیدصاحب نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا، اور فرمایا کہ آئندہ زمانے میں لوگ خدا کو تو پوجتے نظر آتے نہیں، تصویروں کو کون پوچھتا ہے۔ یہ جواب میرے لیے تسکین بخش تو نہ تھا، مگر سید صاحب کی بزرگی و عقل کے خیال سے خاموش رہا۔”

شر ر پھر دہلی واپس آ گئے۔ یہاں کی زندگی نے مٹیا برج والے شرر  کو بدل دیا۔ تن بدن کا ہوش نہ رہتا۔ کپڑے لتوں کا دھیان نہ رہتا۔ صحبتوں سے دلچسپی اٹھ گئی۔ یہاں تک کہ کبھی فاتحہ یا خیرات وغیرہ کی تقریب ہوتی تو یہ نہ شریک ہوتے لیکن مولانا انھیں زبردستی بھیجا کرتے۔

اس مدرسہ میں نجد کے دو طالب علم تھے۔ شرر  رفتہ رفتہ ان دونوں طالب علموں کے بہت قریب آ گئے۔ انھیں میں سے ایک طالب علم کے پاس علامہ محمد بن عبد الوہاب کی کتاب التوحید دیکھی اور اس کا مطالعہ کیا۔ اس کتاب میں اعتقادی مسائل پر آیات قرآنی اور صحیح احادیث پر نہایت عمدگی کے ساتھ بحث کی گئی تھی۔ لیکن اس زمانے میں ایک دوسرے مولوی صاحب تھے جن کا نام فضل رسول بدایونی تھا، جو اہل حدیث کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھے اور انھیں بدنام کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں شرر  لکھتے ہیں :

"یہاں تک کہ انھوں نے شاہ ولی اللہ صاحب کے خاندانوں کو نہایت بدنام کر رکھا تھا۔ مولوی شاہ اسمٰعیل غازی پوری شہید کی نسبت کہتے تھے کہ ان کی کتاب تقویۃ الایمان محمد عبد الوہاب کی کتاب التوحید کا ترجمہ ہے، جو حج کے موقعہ پر مولوی اسمٰعیل کے ہاتھ لگ گئی تھی۔ یوں کہ مجھے رسالہ التوحید اور تقویۃ الایمان جداگانہ نظر آئیں اور دونوں کا بیان اور ترتیب ابواب بالکل الگ الگ تھے۔ لہٰذا یہ دیکھ کر مجھے مولوی رسول کی جرأت پر حیرت ہوئی۔ میں فوراً آمادہ ہو گیا کہ رسالہ التوحید کا اپنی زبان میں ترجمہ کر ڈالوں اور مولوی تلطف حسین اس کے چھاپنے کو تیار ہو گئے۔  چنانچہ میں نے ترجمہ کیا اور وہ چھپ گئی۔ اور میری یہی پہلی کتاب ہے جو شائع ہوئی اور شاید دہلی میں کئی بار چھپ چکی ہے۔”

 یہیں سے دہلی سے سلسلہ ٹوٹ گیا اور شرر  واپس لکھنؤ چلے آئے اور مولانا عبد الحئی کی صحبت میں رہنے لگے۔ خاکی قزلباش نے اپنے مضمون مولانا عبد الحلیم شرر  میں ایک جگہ لکھا تھا کہ "کلکتہ کے دوران قیام ہی میں مولانا کو اخبارات کا ذوق پیدا ہو گیا تھا اور وہ اودھ اخبار میں بحیثیت نامہ نگار خبریں لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔”

لیکن اس کی کہیں سند نہیں ملتی۔ خود شرر نے "آپ بیتی” میں کہیں اس کا تذکرہ نہیں کیا کہ وہ کلکتہ میں اس طرح کا کوئی کام کرتے رہے۔ رسالہ التوحید کا ترجمہ ان کی پہلی کتاب تھی۔ مضمون نگاری کا شوق انھیں دہلی میں پیدا ہوا جب مولانا نذیر حسین صاحب کی شاگردی میں تھے اور اسی درمیان منشی احمد علی کسمنڈوی سے ا ن کا تعلق پیدا ہوا، وہ اخبارات میں مضامین بھیجتے تھے۔ شرر  بھی راغب ہوئے کچھ شاعری بھی کی اور منشی صاحب کی تجویز سے ہی شرر  تخلص رکھا۔ اس کے بارے میں صاحب سیرالمصنفین لکھتے ہیں :

"مولانا نے اس سے پیشتر مختلف اخباروں میں مضامین لکھے تھے۔ اور منشی احمد علی کسمنڈوی کی صحبت میں اکثر مضمون نگاری کی تھی۔ انھیں کی تجویز سے شرر  کا تخلص بھی اختیار کیا تھا۔ دو چار غزلیں بھی کہی تھیں۔ "

 اگر چہ شاعری کے سلسلہ میں وہ زیادہ تر حیدرآباد بھیج کر اپنے پرانے استاد مولوی علی حیدر نظم طباطبائی سے اصلاح لیتے تھے لیکن، مضمون نگاری کی طرف ان کی توجہ منشی احمد علی کسمنڈوی کی وجہ سے ہوئی۔ لکھنؤ واپس آتے ہی انھیں فکر معاش ہوئی اور ادھر ادھر کی تلاش میں لگ گئے۔ مولوی عبد الحئی صاحب سے ایک سفارشی خط لکھوایا اور منشی نول کشور کے پاس گئے۔ منشی نول کشور ایک جہاں دیدہ اور تجربہ کار شخص تھے۔ باتوں باتوں میں ان کی ذہانت اور رجحان کا اندازہ لگا لیا۔ اور بڑی ایمان داری سے کہہ دیا کہ صیغۂ تصحیح، آپ کے لیے مناسب نہیں (جس کی سفارش مولوی عبد الحئی صاحب نے کی تھی)اس میں رہ کر آپ کسی قسم کی ترقی نہ کرسکیں گے۔ اگر ممکن ہو تو آپ اودھ اخبار میں مضامین لکھا کیجئے۔

 اس طرح شرر  کی توجہ اودھ اخبار کی طرف گئی اور وہ اس میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے ملازم ہو گئے۔ خاکی قزلباش نے اودھ اخبار میں ان کی ملازمت کاسن1880ء لکھا ہے اور یہی تاریخ ادب اردو میں بھی لکھی گئی۔ شرر  کی شادی879 1ء میں ہوئی اور شادی کے فوراً بعد وہ دہلی چلے گئے۔ ڈھائی سال کا وقفہ دہلی گزارا۔ اس کا مطلب 1882ء کے کسی حصہ میں وہ لکھنؤ واپس آئے۔ کچھ دن یہاں بھی گذرے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی (1879ء )کے بعد دہلی اور لکھنؤ میں انھوں نے کم از کم تین سال گزارے اور اودھ اخبار میں ملازمت کاسن 1883ء بتایا جاتا ہے اور یہی زیادہ قرین قیاس ہے۔ سرعبد القادر اپنے مقالے شرر  لکھنوی میں لکھتے ہیں :

"In1883 Sharar Began his journalistic career by making literary contributions to the columns of Ouadh Akhbar.”

اودھ اخبار کی وابستگی نے مولانا کے جوہر نکھار دئے۔ منشی نول کشور سے جب ان کی ملاقات ہوئی تو وہ ان کی مضمون نگاری سے نا آشنا تھے۔ اس وقت شرر  نے کہا کہ آپ کوئی سبجکٹ بتائیں میں اس پر مضمون لکھ کر پیش کرتا ہوں۔ منشی صاحب نے ایک سیاسی مضمون بتا دیا اور مولانا شرر  نے دوسرے ہی دن اخبار کے دو صفحوں کا ایک مضمون لکھ کر پیش کیا، جسے منشی صاحب نے بیحد پسند کیا۔ اب ان کے مضامین اودھ اخبار میں شائع ہونے لگے جو زیادہ تر علمی مذہبی اور فلسفیانہ مذاق کے ہوتے۔ اسلوب میں اچھوتا پن ہونے کی وجہ سے ان کے مضامین بیحد پسند کیے جانے لگے۔ چاروں طرف ان کے مضامین اور اسلوب نگارش کی مہک پھیلنے لگی اور تمام ملک میں دھوم مچ گئی۔ سرسید نے ان کے ایک مضمون "روح” کی بہت تعریف کی اور اس مضمون میں سے خیالات لینے کی اجازت چاہی اور منشی نول کشور کو لکھا:

"میں اپنی تفسیر میں اس کے چند خیالات لینا چاہتا ہوں، لہٰذا ان صاحب سے جن کا وہ مضمون ہے، مجھے اخذ کرنے کی اجازت دلوا دیجئے۔”

منشی جی نے مولاناسے دریافت کر کے اجازت دے دی۔ یہاں پر یہ بات ذرا کھٹکتی ہے کہ کیا سرسید شرر سے براہ راست واقف نہیں تھے، جب کہ شرر ان سے ایک بار مل بھی چکے تھے۔ ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں وہ ملاقات نہ رہ گئی ہو۔

 اسی زمانے میں شرر  نے مولانا عبد الباسط صاحب کے نام سے ایک رسالہ نکالا جس کا نام محشر رکھا۔ اس کے مضامین کے سلسلے میں مولفِ سیرالمصنفین لکھتے ہیں :

"اس میں اول سے آخر تک کل مضامین مولانا ہی کے قلم کے ہوتے تھے۔ محشر رنگین اور شاعرانہ مذاق کا پر چہ تھا۔ جس میں بہت سی نازک قسم کی خیال آرائیاں ہوتی تھیں۔ ایک زمانہ تک اس میں "زمانہ کا جائزہ”کے عنوان سے ایک نرالے مضمون کا سلسلہ جاری رہا۔ اُردو میں یہ نیا اور اچھوتا رنگ تھا۔ سب لوگوں نے عموماً انگریزی خوانوں نے خصوصاً ان مضامین کو بہت پسند کیا۔

دو سال بعد منشی نول کشور نے خاص نامہ نگار بنا کر حیدرآباد بھیج دیا۔ جس کی وجہ سے محشر بند ہو گیا۔ حیدرآباد میں نواب محسن الملک نے ان کا پُر جوش استقبال کیا اور ملازمت کی پیش کش کی۔ لیکن شرر  نے اس کو خلاف وضع داری محسوس کیا۔ اتفاق سے انھیں دنوں اخبار ہزار داستان کے ایڈیٹر کو ایک سب ایڈیٹر کی ضرورت تھی۔ انھوں نے اس عہدے کے لیے شرر کو دعوت دی۔ شرر اس شرط پر راضی ہوئے کہ پہلے وہ لکھنؤ واپس جائیں گے اور وہاں سے اودھ اخبار سے اپنا تعلق ختم کر کے ہی اس نوکری کو حاصل کر سکتے ہیں۔ ایڈیٹر نے ان کی یہ شرط منظور کر لی اور اُن کو آمد د رفت کا کرایہ دیا۔

 اب شرر  حیدرآباد سے لکھنؤ چل پڑے اور درمیان میں بمبئی، بڑودہ اور اجمیر ہوتے ہوئے لکھنؤ پہنچے اور منشی نول کشور سے اپنے ترکِ ملازمت کی درخواست کی۔ منشی جی نے اُن کی درخواست کو ناگواری کے ساتھ منظور کر لیا، لیکن حساب صاف نہیں کیا۔ شرر کو روپیوں کی سخت ضرورت تھی، کیونکہ وہ جلد از جلد حیدرآباد واپس جانا چاہتے تھے تاکہ ہزار داستان سے تعلق پیدا ہو۔ کافی دوڑ دھوپ کے بعد کئی دنوں میں منشی جی نے روپئے دئے، لیکن اچانک حیدرآباد سے خط آ گیا کہ "میں نے اخبار اور پریس کو ایک صاحب کے ہاتھ فروخت کر ڈالا۔ اب آپ آنے کی زحمت نہ کریں۔”

اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شرر اخبار کی ملازمت سے بھی گئے اور جس کے لیے ملازمت سے ہاتھ دھویا وہ بھی ہاتھ نہ آئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ادھر سے بھی گئے اور اُدھر سے بھی۔ یہ واقعہ 1884ء کا ہے۔ اس بیکاری نے انھیں منشی نثار حسین کی دوکان میں جو چوک میں تھی پہنچا دیا۔ منشی نثار حسین کی کتابوں کی دوکان تھی۔ اور ایک رسالہ پیام یار بھی نکالتے تھے۔ اپنا ذاتی پریس بھی تھا۔ شرر بغرض تفریح وہاں بیٹھے رہتے اور تعلقات کی بنا پر کچھ کام کر دیا کرتے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ شرر کو کوئی ملازمت نہ ملی۔ پھر ایک دن دونوں میں بات چیت ہوئی اور کچھ طے پایا۔ شرر لکھتے ہیں :

"اسی دوران انھوں نے مشورہ دیا کہ میں کوئی ناول لکھوں، جس کو وہ اپنے مطبع میں چھپوائیں اور پیام یار میں اشتہار دیں۔ فروخت میں جتنا روپیہ وصول ہو، نصف میرا اور نصف اُن کا۔ میں نے اس کو قبول کیا اور ناول دلچسپ کا پہلا حصّہ لکھا جو میری پہلی تصنیف ہے۔”

ناول مقبول ہوا اور خوب فروخت ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے ایڈیشن کے ساتھ اس کا دوسرا حصہ بھی شرر  نے لکھ ڈالا اور اس طرح اپنا پہلا ناول مکمل کیا۔ شرر  نے اس ناول کی تصنیف کی صحیح تاریخ نہیں دی، لیکن جس زمانے میں وہ بیکار تھے وہ سن1884ء تھا۔ اس کے بعد ان دونوں نے مل کر ناول کو شائع کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ناول( 1884ء۔ 1885)کے درمیان لکھا گیا۔ اپنے اس ناول سے متعلق شرر لکھتے ہیں :

"میرا یہ ابتدائی ناول شاعرانہ سخن آفرینی کا پہلا نمونہ ہے۔ میری عربی اور فارسی تعلیم نے فارسی انشا پردازوں کے رنگ کو جدید انگریزی مذاق کے سانچے میں ڈھالا تو انگریزی کے مطالعے نے عاشقانہ جذبات بھر دئے۔ اس میں شک نہیں کہ انگریزی طرز پر یہ اُردو کی شاعرانہ و عاشقانہ انشا پردازی کا پہلا نمونہ ہونے کی وجہ سے اس ناول کی عبارت میں خیال آفرینی کا جس قدر زیادہ زور ہے اسی قدر جملے بڑے ہو گئے ہیں۔ اور اس قدر پیچیدہ ہو گئے ہیں کہ عام ناظرین باوجود بے حد لطف اُٹھانے کے پوری طرح سمجھ نہ سکے ہوں گے۔ اس امر کو اب میں محسوس کرتا ہوں۔ مگر ان دنوں جس قدر زیادہ مدح سرائی کرتا اُسی قدر مجھے بھی اپنی اس پیچیدہ رنگ میں ڈوبی ہوئی عبارت پر زیادہ ناز ہوتا۔ لیکن قاعدہ یہ ہے کہ مشق خود ہی عیوب کو دور کرتی ہے۔ چنانچہ دلچسپ کے پہلے حصے کی عبارت میں جس قدر اُلجھاؤ ہے، دوسر ے میں نہیں۔ لیکن یہ محض فطری اصلاح تھی جس میں میرے اس ارادے کو بہت کم دخل تھا۔ اس لیے کہ اس وقت میں نے اپنے اس عیب کو محسوس بھی نہیں کیا تھا۔”

اس وقت تک شرر نے انگریزی بہت کم پڑھی تھی۔ اس وجہ سے ان کی انگریزی استعداد کمزور تھی، لیکن ناول کی اس قدر مقبولیت نے ان کو انگریزی کی طرف راغب کیا۔ کیونکہ ان دنوں انگریزی کے بہت سے ناول دھڑادھڑ مقبولیت کی منزلوں پر پہنچ رہے تھے۔ ناول کو اعلیٰ پیمانے پر پیش کرنے کے لیے انگریزی کا مطالعہ بے حد لازمی تھا۔ ایساہی کچھ شرر  نے محسوس کیا۔ مطالعہ ان کی گھٹی میں سمایا ہوا تھا۔ اب یہ حملہ انگریزی ادب کی طرف ہوا۔ اپنے انگریزی ادب کے مطالعے کے بارے میں لکھتے ہیں :

"اس زمانے میں میں بطور خود اپنی انگریزی استعدادکوبڑھاناچاہتا تھا۔ انگریزی کی جتنی تعلیم پائی وہ اتنی ناقص تھی کہ میں کسی کتاب کے ایک جملے کو بھی سمجھ نہ سکتا۔ لہٰذا اکثر درسی کتابوں کو لیتا اور بغیر کسی استاد کی مدد کے ڈکشنری کی مدد سے خود ہی مطلب نکالنے کی کوشش کرتا اور انگریزی گرامر سے بھی اس طرح معنی نکالنے کی کوشش کرتا کہ اس کے قواعد کو عربی نحو و صرف کے قواعد سے مدد لے کرسمجھوں۔”

ابھی انگریزی کی تعلیم حاصل کر ہی رہے تھے کہ بنگال کے مشہور  و معروف ناول نگار بنکم چند چٹرجی کے بنگالی ناول  "درگیش نندنی” کا انگریزی ترجمہ شرر  کے ہاتھوں لگا۔ شرر  نے بغور مطالعہ کیا۔ بس اس کا ترجمہ کرنے بیٹھ گئے اور زمیندار کی بیٹی کے نام سے اس کا ترجمہ کیا اور منشی نثارحسین صاحب اس کو چھاپنے کے لیے تیار بھی ہو گئے۔ پیام یار میں اس کے اشتہار آنے لگے۔ یہ ناول بھی عوام میں پسند کیا گیا اور خوب فروخت ہوا۔ اودھ کے مضامین اور دلچسپ کی اشاعت سے اب شرر  محتاج تعارف نہ رہے۔ اس کے علاوہ پیام یار میں کبھی کبھی لکھتے رہتے تھے۔ ان کے اس ترجمہ کیے ہوئے ناول کا بھی اچھی طرح سے استقبال کیا گیا۔ اپنے ان دونوں ناولوں کے درمیان کی زندگی کے بارے میں شرر  یوں لکھتے ہیں :

"غرض 1884ء سے 1886ء کے آخر تک میری یوں ہی بسر ہوئی کہ مذکورہ ناولوں کی اشاعت سے مجھے بسر کرنے کے لیے تھوڑا بہت مل جاتا اور مجھے نوکری کی تلاش پر مجبور نہیں ہونا پڑا۔ منشی نثار حسین صاحب سے واقعہ یہ ہے کہ مجھے مالی امداد اور اشتہاری مدد اچھی ملی اور میں نے ان کی ان کے پریس اور ادبی اشاعتوں میں کافی مدد کی۔”

 مولوی بشیر الدین کا تعلق اٹاوہ سے تھا اور وہ وہیں سے البشیر نکالتے تھے۔ شرر  سے خاصہ ربط تھا۔ اکثر لکھنؤ آتے تو شرر اور منشی نثارحسین سے ملاقات کیے بغیر نہ جاتے۔ انھیں دنوں وہ ایک بار لکھنؤ تشریف لائے۔ شرر  کی صحافت اور انشاء پردازی سے پہلے ہی واقف تھے۔ درمیان گفتگو یہ مشورہ دیا کہ شرر  ایک ماہنامہ نکالیں اور ساتھ ہی اس کے سارے نشیب و فراز سے آگاہ کرنے کے بعد چند خریدار بنوانے کی بات کی۔ شرر  کی ہمت بڑھ گئی۔ انھوں نے مزید مشورہ دیا کہ ایک ایسارسالہ نکالو جس کی ضخامت سولہ صفحات سے زیادہ نہ ہو۔ اس کی سالانہ قیمت ایک روپیہ ہو۔ اسی وقت پانچ خریداروں کاسالانہ چندہ پانچ روپیہ شرر  کے حوالے کیا۔ اور انھیں پانچ روپیوں سے شرر  نے پہلا دلگداز رسالہ نکالا:

"انھیں پانچ روپیوں سے میں نے دلگداز کا پہلا اشتہار چھپوا کے پیام یار میں شائع کرا دیا۔ خوش نصیبی سے پندرہ ہی روز کے اندرتیس چالیس درخواستیں قیمت کے ساتھ آ گئیں اور انھیں روپیوں سے دلگداز کا پہلا نمبر جنوری 1887ء میں چھپا۔ غرض دلگداز کی اشاعت میں میرا ایک پیسہ بھی نہیں لگا اور تین ہی چار مہینوں میں اس کی اشاعت ہزار سے زیادہ ہو گئی۔”

دلگداز کے مضامین کے بارے میں لکھتے ہیں :

"دلگداز کے مضامین اس خاص رنگ کے تھے جواب میں نے مذاق و خیال سے مغربی و مشرقی رنگ عبارت ملا کے پیدا کیا تھا۔ اورجس طرح دو مختلف و متضاد عناصر کی آمیزش سے ایک نیا مزاج پیدا ہوتا ہے، اسی طرح یہ رنگ عبارت مشرقی و مغربی آمیزش سے پیدا ہوا اور اتنے دنوں میں میں نے ایسی شان پیدا کر لی تھی کہ ہندستان کے ہر حصّے سے داد مل رہی تھی۔ "

 اس درمیان میں دلگداز سے الگ ہٹ کر 1887ء میں شرر  نے ایک ناول لکھا جس کا نام انھوں نے دلکش رکھا۔ مولوی سراج الدین جو ریاست ناہن میں ملازم تھے انھیں دنوں انھوں نے وہاں سے سر مور گزٹ نکالا اور شرر  سے درخواست کی کہ وہ ان کے گزٹ کی شہرت اور دلچسپی کے لیے ایک ناول لکھ دیں، لہٰذا شرر  نے یہ ناول محض ان کے لیے لکھا جو بعد میں مقبول ہوا۔ اس ناول کو بھی شرر  نے دو حصّوں میں لکھا تھا۔

 دلگداز کی اشاعت و مقبولیت کے لحاظ سے 1887ء کا سال کامیابی کے ساتھ ختم ہوا اور 1888ء کی آمد ہوئی۔ اس وقت تک دلگداز کی شہرت اس منزل پر پہنچ گئی تھی کہ شرر نے اس کی آمدنی سے باقاعدہ دلگداز پریس قائم کیا۔ اور اس کے ہر پرچے کے ساتھ قسط وار ناول چھاپنے کا بھی اعلان کیا۔

 جن دنوں شرر انگریزی پڑھ رہے تھے انھیں دنوں والٹراسکاٹ کا ناول طلسمان (TALISMAN) بھی پڑھا، جس میں بیت المقدس سے متعلق شاہ رچرڈاورسلطان صلاح الدین کے درمیان جنگوں کا تفصیلی تذکرہ ملتا ہے۔ انھیں دونوں جنگوں کے پلاٹ پر ہی یہ ناول بنی ہے۔ اس ناول میں مسلمان قوم کی تضحیک کی گئی تھی اور انھیں عیسائیوں کے مقابلے میں نیچا دکھایا گیا تھا۔ بس شرر کو جوش آ گیا کہ اس کے جواب میں ناول لکھنا چاہئے۔ شرر  لکھتے ہیں :

"مجھے یہ بھی بتا دینے کی ضرورت ہے کہ انگریزی میں ترقی کے سلسلے میں میں نے والٹر اسکاٹ کا ناول ٹے لِس مین پڑھا جو تیسری صلیبی لڑائی کو پیش نظر رکھ کے تصنیف کیا گیا تھا اور اس میں مسلمانوں کی اہانت کو دیکھ کر مجھے ایسا جوش آیا کہ اسی عنوان سے ایک ناول میں بھی لکھوں۔ چنانچہ یہی جوش نکالنے کے لیے میں نے ناول ملک العزیز ور جنا شائع کرنا شروع کیا۔ جو دلگداز کا پہلا ناول ہے۔ اس میں شاعرانہ خیال آفرینی اور زبان کی سادگی کے ساتھ تیسری صلیبی معرکہ آرائی اور اس کے نا موران سلطان صلاح الدین اور رچرڈ شیردل کے کارنامے جو عربی تاریخوں سے مدد لے کر دکھائے گئے تو مسلمانوں کے جوش قدردانی کی انتہا نہ رہی۔ یہ ناول ایک سال میں پورا ہو گیا اور اس قدر مقبول ہوا کہ اس وقت اس کے صدہا ایڈیشن ہندستان کے تمام شہروں میں شائع ہو چکے ہیں۔”

 اس ناول نے اتنی شہرت حاصل کی کہ شرر شہرت و مقبولیت کی بلندی پر پہنچ گئے۔ انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ دلگداز میں قسط وار ناول شائع ہوتے رہے۔ چنانچہ 1889ء میں شرر  کادوسراناول حسن انجلینا شائع ہوا اور 1890ء میں منصور موہنا شائع ہوا۔ ان ناولوں کی کامیابی کا نتیجہ یہ ہوا کہ دلگداز کے قاری بے چینی و اضطراب کے ساتھ اگلے شمارے کا انتظار کرتے رہتے۔ اور وہ حضرات جو مذہبی اعتبار سے ناول کے عشقیہ حصّے کونا جائز قرار دیتے تھے، وہ بھی پورے انہماک اور دلچسپی کے ساتھ پڑھتے جبکہ ناول کے حصے کے علاوہ دیگر مضامین بھی معیاری ہوتے جن میں گہرائی ہوتی۔

1890ء میں ناول منصور موہنا کے ساتھ ایک ڈرامہ شہید وفا بھی شائع ہوا۔ یہ ایک تاریخی ڈرامہ تھا جو اپنے طرز کا منفرد تھا۔ اسی سال انھوں نے ایک اور ہفتہ وار رسالہ مہذب نکالا۔ اس رسالے میں صرف اسلام کے مشاہیر کی سوانح عمریا ں شائع ہوتی تھیں لیکن اس کا اداریہ سیاست سے تعلق رکھتا تھا۔ وقتاً فوقتاً اس میں ایسے مضامین شائع ہوتے تھے جو ملک کی سیا ست سے بھی تعلق رکھتے تھے۔ ادھر مہذب نکلتا رہا اور ادھر دلگداز بھی شائع ہوتا رہا۔ دونوں اخبار لکھنؤ کے اس ماحول میں بے حد مقبول رہے۔ دلگداز میں ان کے اگلے دو ناول قیس و لبنیٰ اور یوسف و نجمہ تھے۔ اسی درمیان ان کو اچانک معاشی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا حل تلاش کرنے کے لیے انھوں نے حیدرآباد کی جانب رُخ کیا۔ حیدرآباد جانے سے اس وقت کے دونوں مشہور رسالے دلگداز اور مہذّب بند ہو گئے۔ اور یہ دونوں ناول مکمل نہ ہوسکے۔

 1891ء میں شرر  نے حیدرآباد کا دوسرا سفر کیا۔ اسی درمیان ایک دوسرے ناول زید و  حلاوہ میں ہاتھ لگا دیا۔ لیکن یہ بھی نا مکمل رہا۔ جب حیدرآباد پہنچے تو ان دنوں نواب وقار الامرا  بہادرمعین المہام تھے۔ ان کے چھوٹے لڑکے انگلینڈ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ چونکہ بچپن ہی سے وہ انگلینڈ میں رہے، اس وجہ سے ان کی مذہبی تعلیم نہ ہوسکی تھی۔ اب نواب کواس کی تعلیم کے لیے اچھے استاد کی ضرورت محسوس ہوئی، تاکہ وہ اپنے لڑکے کا اُستاد بنا کر اس کو بھیج دیں۔ اتفاق سے نواب کی ملاقات شرر سے ہو گئی۔ اُن کے اور شرر کے درمیان جو بات چیت ہوئی اس روداد کو محمد یحیٰ تنہا، نے اس طرح بیان کیا ہے :

"میں آپ کو اپنے بیٹے کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے انگلستان بھیجنا چاہتا ہوں۔ آپ جائیں گے۔ "

مولانا نے جواب دینے کے لیے تین دن کی مہلت مانگی اور کل احباب نے قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ اس لیے تیسرے دن وہاں جا کر رضامندی ظاہر کی۔ نواب صاحب نے خوش ہو کر فرمایا۔ "تو آپ لکھنؤ جا کر اپنے مطبع اور کارو بار کا انتظام کر آیئے۔”مولانا فوراً لکھنؤ آئے۔ مطبع اور کارخانے کو بند کیا اور انگلستان کے شوق میں پندرہ روز کے اندر ہی حیدرآباد واپس گئے اور جب وہاں پہنچے تو نواب وقار الامراء نے غالباً اپنے کسی ایسے مشیر کے مشورہ سے جو نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اور شخص بھیجا جائے، ٹالنا شروع کیا اور مولانا کو دوسوروپییہ ماہوار تنخواہ اپنے خزانہ پائیگاہ سے مقر ر کر دی۔

 شرر  کو مایوسی ہوئی۔ اس درمیان انھوں نے تاریخ سندھ جوان کی تمام تاریخی کتابوں میں سے بہتر اور مستحکم سمجھی جاتی ہے، نواب کی نظر سے گذری۔ اس قدر پسند کیا کہ اسی وقت خزانۂ ریاست سے پانچ ہزار روپیہ انعام کے طور پر دیا۔ یہ سب کچھ رہا لیکن انگلینڈ جس کے لیے شرر  لکھنؤ میں سب کچھ بند کر کے چلے آئے تھے، وہاں جانانہ ہوا۔ بیکاری میں حیدرآباد کے اپنے ایک دوست سے ملے اور ان کے مطبع سے دلگداز پھر جاری کیا اور ایک نئے ناول کا آغاز کیا۔ یوسف و نجمہ، زید و حلاوہ وغیرہ ابھی تک نامکمل رہے۔ اسی درمیان اچانک نواب کا حکم ملا کہ وہ ان کے بیٹے کے ہمراہ ایک ہفتہ کے اندر انگلینڈ جانے کی تیاری کریں۔ دلگداز پھر بند ہو گیا اور اُن کے بیٹے کے ہمراہ 1893ء میں سفرانگلستان کیا۔ شرر  اگرچہ انگلستان چلے گئے، لیکن یہاں اُن کے ناولوں کی مانگ بڑھتی گئی، اس حد تک کہ ان کے ادھورے ناولوں کو ہی لوگ ذوق و شوق سے پڑھتے رہے۔

 شرر  انگلستان میں تین سال رہے۔ 1893ء سے 1896ء تک  وہاں انھوں نے فرنچ سیکھی، اور اس حد تک کہ اس کا ترجمہ کرنے لگے۔ فرحت شاہ جہاں پوری نے لکھا کہ مولانا نے قیام کے دنوں میں زیدو  حلاوہ کو مکمل کیا اور واپسی پر فلورا فلورنڈا کے نام سے شائع کیا۔ لیکن مولّف سیرالمصنفین نے بیان فرمایا کہ:

"انگلستان سے واپس آ کر مولانا نے 1896ء میں زید  وحلاوہ کے تمام ناول کو مکمل کیا اور فلورا فلورنڈا کے نام سے شائع کیا۔

 نقوش کے شخصیات نمبر میں فلورا فلورنڈا کی اشاعت کا سن 1896ء درج ہے۔ اس کا مطلب ان کا خیال قرین قیاس ہے کیونکہ شرر  نے اس سلسلے میں کچھ نہیں لکھا اور انگلینڈ سے واپس آتے ہی انھوں نے تنہا دلگداز کو پھر سے جاری کیا اور عرب کے عہد جا ہلیت سے متعلق ایک ہنگامہ خیز ناول ایامِ  عرب شائع کرنا شروع کر دیا، جو 1898ء میں شائع ہو کر منظر عام پر آ گیا۔ فلورا فلورنڈا کو مکمل کہیں بھی کیا ہو لیکن اس کی اشاعت انگلینڈسے واپسی کے فوراً بعد ہوئی، کیونکہ اس کی اشاعت کے بعد ہی شرر ایام عرب میں لگ گئے۔ دوسرا نا مکمل ناول یوسف و نجمہ 1905ء میں مکمل ہوا اور قیس و لبنیٰ 1908ء میں مکمل ہوا۔ ایام عرب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اسی سال کے آخر میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت سیکنہ سے متعلق ایک سوانح عمری بھی لکھی، لیکن حضرت سیکنہ سے متعلق جو تحقیق و جواز انھوں نے اس کتاب میں پیش کیے وہ عام خیالات کے بالکل مخالف تھے۔ اسی وجہ سے اہلِ تشیع کا طبقہ ان سے ناراض ہو گیا اور اس حد تک کہ اس کے خلاف ہنگامہ ہونے لگا کہ مجبور ہو کر شہر کو تو ال نے ان سے مل کر کہا :

"اگرچہ جو کچھ آپ نے لکھا ہے صحیح ہے، مگر بہتر ہو گا کہ دلگداز میں اس سوانح عمری کا سلسلہ روک دیا جائے۔”

لیکن شرر نے اس سلسلہ کو روکا نہیں اور مکمل کتاب شائع کی، جس کا ردِّ عمل یہ ہوا کہ حیدرآباد اور لکھنؤ کا ایک بڑا طبقہ ان کے خلاف ہو گیا اور اس کتاب کا جواب جو جواب شرر کے نام سے موسوم ہے شائع کیا۔ چھ مہینے بعد نواب صاحب سے اجازت سے لے کر واپس شرر لکھنؤ آ گئے۔ یہاں آ کر انھوں نے ایامِ عرب کا دوسرا حصّہ شائع کیا اور ایک نئے ناول فردوس بریں کا آغاز کیا۔ (1899ء ) جس کا پلاٹ انھوں نے حیدرآباد میں ہی تیار کر لیا تھا۔ محمد یحییٰ تنہا لکھتے ہیں :

"قیام حیدرآباد کے زمانے میں ناول فردوس بریں تیار کر دیا تھا۔ اور ایک ضخیم تاریخ ارض مقدس لکھنا شروع کی تھی۔ ابھی وہ مکمل نہ ہوئی تھی کہ مولانا کو فلورا فلورنڈاخود ہی شائع کرنی پڑی اور فردوس بریں کے پہلے ایڈیشن کے شائع کرنے کا حق منشی نثارحسین مہتمم پیام یار کے ہاتھ فروخت کر ڈالا۔ ان دونوں ناولوں کا ملک پر بہت اچھا اثر پڑا اور غیر معمولی ذوق و شوق سے پڑھے گئے۔ 1925ء کے دلگداز میں ناول ایام عرب کی دوسری جلد ختم کی گئی۔ پھر ناول مقدس نازنین بعد ازاں تاریخ حروب صلیبیہ کا ترجمہ اور انگریزی ناول ڈاکو کی دولھن کا ترجمہ شائع کرنا شروع کیا۔

اس زمانے میں 1900ء میں پندرہ روزہ پر دۂ غفلت انھوں نے اپنے دوست سیدحسن شاہ کے نام سے نکالا لیکن ساری ذمہّ داری وہ خود ہی سنبھالتے رہے۔ شرر  پردے کے خلاف اگرچہ نہیں تھے لیکن اس معاملے میں شدّت پسندی ان کو ذرا بھی نہ بھاتی تھی اور اسی وجہ سے انھوں نے ایسے پردے کے خلاف ایک ناول بدرالنساء کی مصیبت اسی رسالے میں 1901ء میں شائع کی۔ اور ایک ڈراما میوہ تلخ بھی اسی موضوع سے متعلق تھا۔ پردہ سے متعلق ان خیالات کو تنہا اس طرح بیان کرتے ہیں :

"اس وقت مولانا شرر  کو یہ اعتقاد ہو گیا تھا اور آج تک ہے کہ شروع اسلام میں پردہ صرف مہذّب اور ساتر لباس کا نام ہے۔ اور اس کے حدود یہ ہیں کہ چہرہ اور ہاتھ داخل ستر نہیں۔ رہی خانہ نشینی جو مروّج ہے، اس پر عورتوں کو مجبور کرنا شرعاً جائز نہیں اور اخلاقی خرابیاں اسی خانہ نشینی سے پیدا ہوئی ہیں۔”

 اب شرر  حیدرآباد پہنچے تو وہاں کا رنگ ہی بدل چکا تھا۔ نواب وقار الامراء اچانک انتقال کر گئے اور ان کی جگہ پر مہا راجہ کِشن پرشاد مدار المہام بنے۔ مولانا عزیز مرزا کا تبادلہ کسی اور ضلع میں ہو گیا تھا اور جو نئے لوگ تھے ان کو شرر  کی خدمات کی نہ تو کوئی اطلاع تھی اور نہ کوئی دلچسپی اور شرر  کا جو سلسلۂ ملازمت تھا وہ ان نئے لوگوں کی وجہ سے ٹوٹ گیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 1904ء میں لکھنؤ واپس آ کر پھر سے دلگداز شائع کرنا شروع کر دیا۔

 حیدرآباد سے واپسی پر شرر  ایک نیا ذہن اور نئے خیالات لے کر آئے اور دلگداز کے ساتھ ہی ایک رسالہ اتحاد بھی نکالا، جس میں ہندومسلمان اتحاد پر بہت زور دیا لیکن اس میں ناکامی ہوئی۔ اس ناکامی کے بارے میں لکھتے ہیں :

"چنانچہ آتے ہی دلگداز سے پہلے اتحاد نام کا ایک پندرہ روزہ رسالہ نکالا، جس کی خاص کوشش یہ تھی کہ ان دونوں گروہوں میں اتفاق پیدا کر دیا جائے۔ مگر مولانا کا خیال ہے کہ زندگی بھر انھوں نے جتنے کام کیے ان سب میں کامیابی ضرور ہوئی مگر نہ ہوئی تو اس بارے میں اور آخر میں ڈیڑھ سال اس رسالہ کو جاری رکھ کر بند کر دیا۔ "

 اب دلگداز میں ایک نیا ناول شوقین ملکہ شائع ہونا شروع ہوا اور اس کے ساتھ تاریخ سندھ اور تاریخ حروف صلیبیہ بھی 1905ء میں شائع ہوئی۔

 جلد ہی ایک رسالہ العرفان جاری کیا، جس کو انھوں نے اپنے ایک دوست سعید الحق کے نام سے جاری کیا اور اس رسالے میں الہٰیات اور تصوّف پر کھل کر اظہار خیال کیا اور اس رسالے میں مولانا نے مشاہیر اسلام کی سوانح عمری کا سلسلہ شروع کیا۔ 1906ء میں حضرت جنید بغدادی کی سوانح حیات، 1907ء میں حضرت ابوبکر شبلی کی سوانح حیات اور شوقین ملکہ کے بعد ایک نیا ناول فتح اندلس لکھا۔ ابھی اسی سلسلے میں مشغول تھے کہ مولوی عزیز مرزا نے جن کی شرر پر خاص نظر عنایت تھی1908ء میں شرر  کو پھر حیدرآباد میں یاد کیا۔ اس وقت عزیز مرزا نے محکمۂ تعلیم میں اسسٹنٹ ڈائرکٹر کی پوسٹ کے لیے شرر  کو بلوایا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شرر مع دلگداز کے حیدرآباد چلے گئے اور دلگداز کو وہیں سے جاری کیا اور 1908ء کے قریب دو ناول آغا صادق کی شادی اور ماہ ملک لکھے اور اسی سال ایک نامکمل ناول قیس و لبنیٰ کو پائیہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہاں کی فضا کو ابھی شرر  ہموار کر ہی رہے تھے کہ حالات نے پھر ایک بار رُخ بدلا اور نظام حیدرآباد کسی بات پر شرر سے ناراض ہو گئے۔ ان کی ملازمت جاتی رہی اور حیدرآباد سے چلے جانے کا حکم ملا۔ شرر لاچار و مجبور پھر ایک بار لکھنؤ آئے اور دلگداز کی اشاعت میں لگ گئے، لیکن اس وقت ان کے اوپر کچھ معاشی پیچیدگیاں ایسی ٹوٹ پڑیں جس کی وجہ سے دلگداز کی اشاعت میں تھوڑی تاخیر ہوئی لیکن جلد ہی 1910ء میں دلگداز پھر شائع ہوا۔ بقول فرحت شاہ جہاں پوری :

"1910ء میں لکھنؤ کے افق سے دلگداز اپنی سابقہ تابانیاں لیے جلوہ گر ہوا۔ اور عوام نے معمول کے مطابق اسے پھر گرم جوشی سے خوش آمدید کہا۔”

 اور پھر دلگداز میں ناولوں کی اشاعت کا  تانتا بندھ گیا۔ دو تین سال تک شرر لکھنؤ میں رہے اور کہیں بھی باہر نہ نکلے۔ نتیجہ کے طور پر 1910ء میں نیا ناول فلپانا اور 1911ء میں غیب داں دُلہن اور 1912ء میں زوال بغداد شائع ہوئے۔

 اسی عہد میں مولانا محمد علی جو ہر دہلی سے ہمدرد نکالنا چاہتے تھے اور خواہش مند تھے کہ شرر  ان کے رسالے میں آجائیں۔ اس سلسلے میں شبہہ ہے کہ شرر ان کی دعوت پر دہلی گئے یا نہیں۔ سیرالمصنفین کے خالق محم دیحییٰ تنہا نے لکھا کہ 1913ء کے شروع میں دہلی چلے گئے اور وہاں ہمدرد روزانہ اخبار کی ترتیب و اشاعت کا کام محمد علی کی نگرانی میں شروع کرنے والے تھے کہ چلے آئے۔ لیکن خاکی قز لباش نے اس کے بر خلاف یہ لکھا کہ 1912ء میں مولانا محمد علی جوہر مرحوم نے مولانا کو ہمدرد کی ادارت کے لیے مبلغ دوسو روپیہ ماہوار پر دعوت دی، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر مولانا وہاں نہ جا سکے۔

لکھنؤ سے دلگداز اسی رفتار سے نکلتا رہا۔ 1913ء میں رومۃ الکبریٰ ناول شائع کیا۔ اسی سال انھوں نے دو نا ول اور شائع کیے جس کا تعلق رام پور کے نواب سے تھا۔ کسی بات پر وہ رام پور کے نواب سے ناراض ہو گئے۔ دراصل ان دنوں نواب رام پور کی عّیاشی اور اس کے ظلم کا دور دور چرچا تھا۔ مولانا شرر  کا ذہن اسی طرف منتقل ہو گیا اور پے درپے دو ناول نواب کی شخصیت کے خلاف لکھ ڈالے اور اسی سال 1913ء میں حُسن کا ڈاکو اور دربار حرام پور کی اشاعت ہوئی، جن میں انھوں نے نواب کی سیاہ کاریوں کو ایسا بے نقاب کیا کہ اس کی ذلّت سارے ہندستان میں ہو گئی۔

 1915ء میں خوفناک محبت نام کا ناول شائع ہوا اور اسی سال انھوں نے ایک اور ماہنامہ دل افر و ز جاری کیا اور اس میں بالا قساط ناولیں شائع کرنے لگے۔ الفانسواسی رسا لے میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔

 1916ء میں فاتح مفتوح کی اشاعت ہوئی۔

1917ء میں بابک خرمی کا پہلا حصّہ اور جویائے حق کا پہلا حصّہ، اس کے علاوہ دو ایک سوانحی اور تاریخی کتابیں بھی شائع کیں۔ جن میں سوانح قرۃالعین، تاریخ عزیز مصر اور تاریخ مسیح اور مسیحیت اہم ہیں۔

 1918ء میں بابک خرمی کا دوسراحصّہ شائع کیا۔

1919ء میں جویائے حق کا دوسرا حصّہ شائع کر دیا اور اس کے علاوہ لعبت چین نام کا ایک اور ناول اور تاریخوں میں تاریخ ارض مقدّس بھی اسی سال شائع کیا۔

1920ء میں عزیزۂ مصر ناول کے علاوہ ایک منظوم تاریخ اسیربابل شائع کی۔

1921ء میں جویائے حق کا تیسراحصّہ شائع کیا۔

1923ء میں طاہرہ نام کا ایک گھریلو ناول شائع کیا۔

 1924ء میں نیکی کا پھل شائع ہوا۔

 1925ء میں مینا بازار شائع کیا۔ انھیں دو ایک برسوں کے اندر انھوں نے دو ایک ڈرامے لکھے۔

چونکہ اس مقالے کا تعلق صرف ان کے ناولوں سے ہے، اس لیے یہاں صرف ان کے ناولوں کی تعداد و اشاعت پرہی توجہ دی گئی ہے۔ اتنی بات صاف طور پر عیاں ہو چکی ہے کہ مولانا بے انتہا پڑھنے اور لکھنے والے آدمی تھے۔ جو ملتا پڑھنے لگتے اور فوراً لکھنے بیٹھ جاتے اور اسی زودنویسی کی وجہ سے ان کی تخلیقات کے ڈھیر لگ گئے۔ انھوں نے تحریر کے انبار لگا دئے۔ اس میں شک نہیں کہ شرر  نے اس دور میں لکھنا شروع کیا جب اُردو نثر اپنے ابتدائی دور میں تھی، جس کو سرسید، حالی اور شبلی، نذیر احمد اور سرشار نے ابھی ابھی سجا کر ادب و قوم کے سامنے پیش کیا تھا۔ شرر  بھی اپنے پیش روؤں کی صف میں کھڑے ہو گئے اور نثر کے اس پودے کو جس میں نئی نئی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں، اپنے خون اور پسینے سے سینچنے لگے۔ انھوں نے زندگی کا اہم مقصد صرف پڑھنا اور لکھنا بنا لیا۔ وہ اسی سے اپنے ذہن اور پیٹ دونوں کی خوراک کا انتظام کرتے۔ شرر  بہت بڑے مضمون نگار تھے اور شاید وہ مضمون نگار ہی رہتے۔ لیکن وقت کی ضرورت، اپنی بات کو عوام تک پہنچانے، اپنی تحریر کو ہر دلعزیز بنانے اور ذریعہ معاش کو مستحکم بنانے کے لیے ناول سے بہتر اور کوئی ذریعہ نظر نہ آیا۔ پھر نذیر احمد اور سر شار کے ناولوں کی مقبولیت ان کے سامنے تھی اور شاید اس کے باوجود وہ ناولوں کی طرف اتنی شدّت سے راغب نہ ہوتے، اگر منشی نثار حسین ایڈیٹر پیام یار سے نہ ٹکراتے۔ ان کا ذوق مطالعہ درگیش نندنی نہ پڑھتا اور سب سے بڑاحادثہ طلسمان پڑھنے کے بعد ہوا۔ اس سے ان کا جذبۂ ایمانی بھڑک اُٹھا۔ سب نے مل کر ایسی صورت اختیار کر لی جو صنف ناول کے لیے ہموار ثابت ہوئی۔ انھوں نے ناول لکھنے شروع کر دئے۔ خوب ناول لکھے۔ دلگداز ناولو ں کی اشاعت میں اور مددگار ثابت ہوا۔ ہر ماہ کوئی نہ کوئی ناول بالا قساط اس میں چھپتا اور سال کے آخر میں کتابی شکل میں دلگداز پریس سے شائع ہوتا۔ شرر  نے اپنی پوری زندگی قوم کی خدمت میں گزار دی اور یہی ان کا ذریعہ معاش بھی تھا، جس کی وجہ سے وہ دربدر بھٹکتے رہے۔ دلگداز درمیان میں بند ہوتا پھر شروع ہوتا۔ کبھی لکھنؤ سے شائع ہوتا اور کبھی حیدرآباد سے۔ اسی درمیان میں وہ انگلینڈبھی گئے۔ ان کے پاؤں کہیں ٹکتے ہی نہ تھے، جس کی وجہ سے دلگداز کی اشاعت میں گڑبڑی ہوتی رہتی۔ اس کے باوجود وہ اپنے امکان بھر اس کی اشاعت میں لگے رہتے اور ناولوں کو شائع کرتے رہتے۔ اگر دلگداز ایک ہی مقام سے اور پابندی سے نکلتا رہتا تو یقینا ان کے ناولوں کی تعداد اور زیادہ ہوتی۔ ادھر ادھر بھٹکنے کی وجہ سے اتنا زیادہ لکھنے سے مختلف مقامات، مختلف اخبارات اور مختلف پریس میں اشاعت کی وجہ سے بعض کتابوں کے متعلق بڑی غلط فہمیاں پیداہو گئی ہیں۔ بعض ایسے ناول جو انھوں نے نہیں لکھے، اُن کے نام سے مشہور ہو گئے ہیں۔ بعض جس پر شرر  نے صرف دیباچہ یا پیش لفظ لکھ دیا، وہ تخلیقات بھی انھیں کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ یا اس طرح اور دوسری غلط فہمیاں بھی ان کے درمیان حائل ہو گئی ہیں۔ ہم ابھی ان معاملات میں تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ لیکن دو ایک مثالیں ایسی ضرور پیش کر دی جائیں گی جس سے اوپر کی کہی ہوئی بات واضح ہو جائے۔ لیکن اس سے قبل شرر کے ناولوں کی تعداد پر نظر ڈالی جائے۔ شرر  کے ناولوں کی تعداد کے بارے میں آج تک کسی نے کوئی مکمل بات نہیں رقم کی۔ یہاں مناسب ہے کہ خاکی قز لباش کے ان جملوں کو دُہرایا جائے:

��میں نے مولانا شرر  کے تاریخی ناولوں پر تحقیقی کام کیا ہے۔ اس لیے ان کی دوسری تصانیف و تالیفات سے قطع نظر صرف ناولوں سے متعلق یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ مذکورہ بالا خاکہ میں ناولوں کی تعداد 42 بتائی گئی ہے۔ گراہم بیلی اپنی کتاب ((HISTORY OF URDU LITمیں شرر  کے ناولوں کی مجموعی تعداد صرف 30بتاتا ہے۔ رام بابو سکینہ کی تصنیف بزبانِ انگریزی(HISTORY OF URDU LIT) میں شرر  کے ناولوں کی تعداد نہیں بتائی گئی، لیکن انھوں نے 31ناولوں کے نام گنائے ہیں۔ ایم۔ ایچ۔ جعفری ایم۔ اے (علیگ)نے مولانا شرر  کے ناولوں پر اپنے مقالے جو”علیگ”  ہفتہ وار لاہور کی 18، نومبر 1951ء کی اشاعت میں شامل ہے، شرر کے ناولوں کی تعداد 37بتائی ہے اور ناولوں کی فہرست بھی درج ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جعفری صاحب نے ان تمام تصنیفات کا مطالعہ نہیں کیا۔ کیوں کہ انھوں نے حسن بن صباح۔ نیکی کا پھل۔ شب غم اور ملکہ زنوبیہ کو بھی تاریخی ناول بتایا ہے۔ حالانکہ ان میں شب غم اور نیکی کا پھل ڈرامے ہیں اور حسن بن صباح اور ملکہ زنوبیہ سوانح عمریاں ہیں۔ میری تحقیقات کے متعلق شرر  کے ناولوں کی مجموعی تعداد 33ہے اور اس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں بیان کی جاچکی ہے۔ یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا ناقدین اور مورخین ادب کے علاوہ کسی نے مولانا شرر  کے ناولوں کی تعداد بتانی ضروری نہیں سمجھی۔ اور ان کے ناولوں کے لیے صرف بے شمار، لفظ پر اکتفا کی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ شرر  جیسے بے انتہا لکھنے والے ادیب کی تخلیقات کا ڈھیر دیکھ کر کسی ادیب یا محقق نے ان کی تخلیقات کو با  ضابطہ طور پر کھنگالنے اور ان کی تعداد وسنِ اشاعت کو تلاش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

 موصوف کے اس بیان سے سوفصیدی اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ جس نے شرر  پر قلم اُٹھا یا، ان کے ناولوں کے بارے میں صرف "بے شمار”کا لفظ استعمال کیا۔ اس بے توجہی کی چھوٹی سی مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ رام بابو سکسینہ سے لے کر شرر  پر قلم اُٹھانے والے بعد کے تمام ادیبوں نے طلسمان کے واقعہ کے بارے میں لکھا ہے کہ اسکاٹ کا یہ ناول انھوں نے سفرانگلستان کے دوران پڑھا اور وہاں سے آنے کے بعداس کے جواب کا ناول ملک العزیز ورجنا لکھا۔ مستندا دیب و محقق محمد احسن فاروقی لکھتے ہیں :

” جب وہ انگلستان اور ممالک یوروپ کی سیا حت کر رہے تھے تو ان کے ہاتھ اسکاٹ SCOTTکی تاریخی ناول ٹیلسمان (TALISMAN)لگی، جس میں اسکاٹ نے کچھ سطحی نقوش عرب کی اسلامی زندگی کے نمایاں کیے ہیں۔ مولانا کو یہ کتاب پڑھ کر محسوس ہوا کہ اس میں اسلام کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ مذہبی جوش میں آ کر انھوں نے اس ناول کی رو میں ایسی ناولیں لکھنے کی ٹھان لی جن میں اسلامی تاریخ کو زندہ کیا جائے اور عیسائیت کی بُرائیاں دکھائی جائیں۔

علی عباس حسینی کے یہ جملے ملا خطہ ہوں :

"آپ نے انگلستان اور ممالک یورپ کی سیاحت بھی کی تھی۔ اس سفر کے سلسلے میں آپ نے وہ آثار الصنادید بھی دیکھے تھے، جن سے ان ایام گذشتہ کی یا د تازہ ہوتی تھی۔ جب عرب کا پرچم صیقلیہ واندلس میں لہراتا تھا۔ آپ نے اسی دوران والٹر اسکاٹ کے وہ نام نہاد تاریخی ناول بھی دیکھے جن میں اسلام کا مضحکہ اُڑایا گیا ہے اور عیسائیت کا فروغ دکھا یا گیا ہے۔ غرض مورخانہ ذوق، قبولیت عام کی خواہش، مذہبی جوش اور مسلمانوں کے احیاء کا خیال تاریخی ناول لکھنے کا محرک بنا۔”

اب ذرا غور کرنے کی بات ہے۔ اتنی بات تو حقیقت ہے کہ ملک العزیز ورجنا طلسمان کے مطالعے کے بعد لکھا گیا۔ جن لوگوں نے ان دونوں ناولوں کو پڑھا ہے وہ اس بات کو پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک العزیز ورجنا 1888ء میں لکھا گیا۔ یہ خود شرر  کا بیان ہے اور انگلینڈ کا سفر 1893ء میں کیا، اس بات کاثبوت بھی ملتا ہے۔ تب یہ کیسے ممکن ہے کہ سفر 1893ء میں کیا ہو۔ اور طلسمان کا مطالعہ بھی دورانِ سفر کیا ہو اور اس کا جواب وہ 1888ء میں دے چکے ہوں۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اسکاٹ کے اس ناول کا مطالعہ ان ایاّم میں کیا جب وہ انگریزی زبان سیکھنے اور اس کے مطالعے میں لگے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ دلچسپ کی اشاعت کے بعد (1885ء )پیش آیا۔ دلچسپ جب مقبول ہوا کہ ان کا دھیان صنف ناول کی طرف مُڑا۔ اس وقت تک انگریزی ناولوں کی دھوم مچ چکی تھی۔ ناولوں کو اچھی طرح سمجھنے اور ان کو اعلیٰ معیار سے پیش کرنے کے لیے انگریزی کے مطالعے کی سخت ضرورت تھی۔ درگیش نندنی کا انگریزی ترجمہ ان کے ہاتھ لگ چکا تھا اور وہ اس کا اُردو میں ترجمہ بھی کر چکے تھے۔ اسی درمیان حیدرآباد کے کسی سفر کے دوران یہ ناول انھوں نے پڑھا۔ شرر  نے طلسمان کے مطالعہ سے متعلق یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ انھوں نے اس کو کب اور کہاں پڑھا، لیکن اتنی بات ہے کہ اس کا مطالعہ انھوں نے 1886ء اور 1887ء کے درمیان کیا، جس کی چند باتیں ان کے مذہبی و جذباتی دل پر ناگوار گزریں اور اس کے جواب میں 1888ء میں ملک العزیز ورجنا شائع ہو کر منظر عام پر آ گیا، اس لیے یہ کہنا کہ اسکاٹ کا ناول انھوں نے سفر انگلستان کے دوران پڑھا، سراسر غلط ہے۔ حیرت ہے کہ احسن فاروقی اور علی عباس حسینی جیسے مستندادیبوں نے یہ بات کیسے لکھ دی۔ بعد کے تمام ادیب بھی انھیں دونوں کی باتوں کو آنکھ بند کر کے دُہراتے چلے گئے۔ سہیل بخاری، آدم شیخ اور سلام سندیلوی وغیرہ نے تو بعض مقامات پر جملے کے جملے نقل کر دئے ہیں اور ان ہی باتوں کو دُہراتے گئے، جو بہت پہلے کہی جا چکی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی ادیب و محقق نے شرر  کے ناولوں کے بارے میں گہرائی میں جانے کی کوشش نہیں کی اور شرر  کو محض سرسری نظر سے دیکھ کر پرانا راگ الاپ دیا۔

 چھوٹی چھوٹی باتوں پر اور بحث ہو سکتی ہے، لیکن مناسب یہ ہے کہ پہلے شرر  کے ناولوں کی تعداد پر بات کر لی جائے۔ خاکی قزلباش نے تفصیلی طور پر ان کے ناولوں کی تعداد وسن اشاعت پر روشنی ڈالی ہے جو تقریباً صحیح ہے۔ لیکن دو ایک باتیں میری اب تک کی تحقیق و تلاش کے بعد غلط ثابت ہوتی ہیں۔ میری تلاش کی فہرست ذیل ہے:

1۔ دلچسپ اور

2۔ درگیش نندی :یہ دونوں ناول 1884 اور 1886 کے درمیان لکھے گئے۔

3۔ دلکش :(1887) اس کے بارے میں یہ کہنا کہ ناول نامکمل رہ گیا تھا،غلط ہے۔ اس کو شرر نے اپنے ایک دوست کے لیے پہلا حصہ لکھا۔ جلد ہی دوسرا حصہ بھی لکھ کر دے دیا۔

4۔ ملک العزیزورجنا :1888ء

5۔ حسن انجلینا :1889ء

6۔ منصور موہنا :1890ء

7۔ قیس و لبنیٰ :1891ء جو نا مکمل رہا۔

8۔ یوسف و نجمہ :ابتدا اسی سال ہوئی لیکن یہ بھی نامکمل رہا۔

9۔ زید و حلاوہ : ابتدا1892ء میں ہوئی۔ یہ ناول بھی مکمل نہ ہوسکا، کیونکہ شرر  کو اچانک انگلینڈ جانا پڑا۔ وہاں سے آتے ہی زید و حلاوہ کو مکمل کر کے اس کو1896ء میں شائع کیا۔ زید و حلاوہ کا نام بعد میں فلورا فلورانڈا رکھا۔

10۔ ایام عرب کا پہلا حصہ :99۔ 1898ء کے قریب شائع ہوا۔

11۔ فردوس بریں :1899ء میں شائع ہوا۔  اسی درمیان 1900ء میں ایام عرب کادوسراحصہ بھی شائع ہوا۔

12۔ مقدس نازنین :1900ء میں شائع ہوا۔

13۔ بدرالنساء کی مصیبت :1901ء

14۔ شوقین ملکہ :1904ء میں شروع ہوا۔ ۔ ۔ 1907ء میں مکمل ہوا۔ اسی درمیان 1905ء میں یوسف و نجمہ بھی مکمل ہوا۔

15۔ فتح اندلس :1906ء

16۔ آغا صادق کی شادی  :1908ء

17۔ ماہ ملک :1908ء اسی سال قیس و لبنیٰ بھی پایۂ تکمیل کو پہنچا

18۔فلپانا:1910ء

19۔ غیب داں دلہن :1911ء

20۔ زوال بغداد :13۔ 1912ء کے درمیان لکھا گیا۔

21۔ رومۃ الکبریٰ :1913ء

22۔ حسن کا ڈاکو :14۔ 1913ء کے درمیان لکھے گئے۔

23۔ دربار حرام پور :14۔ 1913ء کے درمیان لکھے گئے۔

24۔ الفانسو:1915ء

25۔ خوفناک محبت :1915ء

26۔ فاتح مفتوح :1916ء

27۔ بابک خرمی۔ پہلا حصہ :1917ء

28۔ جویائے حق :1917ءبابک خرمی کادوسراحصہ شائع ہوا۔

جویائے حق کادوسراحصہ شائع ہوا۔:1918ء

29۔ لعبت چین : 1919ء

30۔ عزیزۂ مصر: 1919ء

31۔ طاہرہ: 1920ء

32۔ نیکی کا پھل : 1923ء

33۔ مینا بازار : 1924ء

34۔ شہزادہ حبش : 1925ء

خاکی قز لباش نے 31 ناولوں کے نام گنائے اور سنِ اشاعت کی تفصیلات بیان کیں اور اس کے علاوہ دو نام اور گنا دئے ہیں۔ پہلا افسانہ قیس اور دوسرا ماہ دخت۔ دوسرے ناول کے بارے میں یہ لکھا کہ دستیاب نہ ہو سکا۔ اس سلسلے میں فرحت شاہ جہاں پوری نے بھی اس ناول کا نام لیا تھا، لیکن وہ بھی صرف نام لے کر رہ گئے۔ انھوں نے تو اس کے علاوہ ملکۂ زنومیہ اور جانِ عالم کو بھی ناول قرار دیا ہے جب کہ یہ دونوں ناول نہیں بلکہ سوانح عمریاں ہیں۔ ماہ دخت ابھی تک مجھے نہ مل سکا۔ پتہ نہیں اس نام کا شرر  کا کوئی ناول ہے بھی یا نہیں۔ جہاں تک افسانہء قیس کا تعلق ہے، یہ محض مختصر سی ایک کہانی ہے۔ قیس و لبنیٰ کے نام سے ایک ناول الگ ہے۔ یہ مختصر سی کہانی جس کو بعد میں مکتبۂ اُردو والوں نے شائع کر دیا۔ مختصر سائزمیں صرف 48صفحات پر مبنی ہے، جو ناول کے تقاضوں پر قطعی نہیں اُترتی۔ افسانہ قیس کو ناول قطعی نہیں کہا جا سکتا۔ اس لحاظ سے خاکی قز لباش نے شرر  کے ناولوں کی تعداد صحیح طور پر 31 تلاش کی ہے۔

 مہر محمد خان شہاب مالیر کوٹلوی نے اپنے ایک مضمون میں شرر  کی تصنیفات کے بارے میں کچھ یوں اشارے کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

” اور تصانیف کے علاوہ ناولوں کے لحاظ سے 35، اور جلدوں کے لحاظ سے 40 ناول آپ کی یاد گار ہیں۔ یہ سب ناول مضمون کے لحاظ سے تاریخی اور سماجی اصلاح، اور تصنیف کے لحاظ سے طبع زاد اور ترجموں پر مشتمل ہیں۔ مثلاً درگیش نندنی بنگالی سے اور مقدس نازنین انگریزی سے ترجمہ کیے گئے ہیں۔ آٹھ نو ناول معاشرتی ہیں، جن میں ہندستانی امیر اور متوسط طبقوں اور بعض درباروں کے حالات اور ان کے سماجی مسائل سے بغرض اصلاح بحث کی گئی ہے۔”

 اس میں انھوں نے ناولوں کی تعداد ضرور بتائی ہے لیکن ترتیب وار گنایا نہیں، جس سے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کس کو ناول مانا اور کس کو ڈراما۔ درگیش نندنی یقینا بنگالی ناول ہے، جس کو شرر  نے زمیندار کی بیٹی کے نام سے ترجمہ کیا۔ لیکن مقدس نازنین کس انگریزی ناول کا ترجمہ ہے، اس کا ثبوت کہیں نہیں ملتا۔ موصوف نے اسے ترجمہ لکھ تو دیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ انگریزی کے کس ناول کا ترجمہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ناول شرر  کی اپنی ذاتی تخلیق ہے۔ اتنی بات تو سبھی جانتے ہیں کہ شرر  کے زیادہ تر تاریخی ناولوں میں انگریزی کرداروں کی بھیڑ ہے۔ اس سے شبہہ ہو جاتا ہے کہ یہ کسی انگریزی ناول کا ترجمہ ہے۔ لیکن مقدس نازنین کے سلسلے میں آج تک کسی نے نہ لکھا کہ یہ کسی انگریزی ناول کا ترجمہ ہے۔ اس میں خالص شرر  کا اپنا رنگ و مزاج ہے۔” حاصل مطالعہ”کے مصنف الطاف علی بریلوی اپنے مضمون ” شرر  کے تاریخی ناولوں کا ایک جائزہ” میں لکھتے ہیں :

"مولانا عبدا لحلیم شرر  نے مشہور رسالہ دلگداز کے علاوہ جس کو انھوں نے پورے پچاس سال تن تنہا مرتب کر کے شائع کیا، ایک سو دو کتابیں بھی اپنی یاد گار چھوڑیں۔ ان کتابوں میں 15تاریخیں، 21سوانح عمریاں، 6 نظم و ڈرامے، اور 18متفرق کتابیں ہیں۔ 14خیالی ناول اور 28تاریخی ناول ہیں۔”

انھوں نے بھی صرف تعداد گنا دی، نام نہیں گنائے۔ انھوں نے ناول کی تعداد 42بتائی۔ دراصل شرر  کے بعض ناول ڈرامے، سوانح عمریاں یہ سب ایک دوسرے سے اتنے ملتے جُلتے ہیں کہ کہیں ناول پر ڈرامے کا شبہ ہونے لگتا ہے، تو کبھی کوئی ڈرامہ ناول سمجھ لیا جا تا ہے۔ موصوف کی فہرست شاید انھیں غلطیوں سے طویل ہو گئی ہو۔ ورنہ شرر نے اتنے ناول قطعی طور پر نہیں لکھے۔ ناگپور یونیورسٹی میں ڈاکٹر رفیع ا لدین صاحب کی نگرانی میں جناب عبیدا اللہ خطیب نے "شر ر حیات و خدمات” کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا اور جو 57 19ء میں (THESIS) کی شکل میں جمع ہوا۔ میں نے بڑی اُمیدوں کے ساتھ پورے مقالے کو کھنگال ڈالا لیکن افسوس کہ اس میں پرانے مضامین سے بھی کم معلوماتی باتیں لکھی گئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شرر  سے متعلق لکھے گئے تمام تحقیقی و تنقید ی مضامین موصوف کی نظر سے گذرے ہی نہیں۔ ناولوں کی تعداد سے متعلق موصوف کی یہ تحریر ملاحظہ ہو:

"مذکورہ بالا مضمون میں ان ناولوں کی (دیگر تصانیف کے ساتھ ) اسم نویسی کر کے ان کے موضوعات کے بارے میں اجمالاً تحریر کیا ہے۔ خاکی قزلباش کے اس بیان میں "میری تحقیقات کے مطابق” کے الفاظ میں ایک احتیاط کا پہلو ہے اور یہ الفاظ بیان بالا کے سلسلے میں ان کے ذہنی تحفّظ کا پتہ دیتے ہیں اور اس میں وہ حق بجانب ہیں۔ کیونکہ صورت حال جب یہ ہو کہ بقول خود ان کے کہ شرر  کی تصانیف میں بیشتر کے نام بھی نہیں ملتے اور نہ وہ تصانیف ہی کہیں دستیاب ہوتی ہیں۔ کوئی محقق انتہائی عرق ریزی سے تحقیق کرنے کے باوجود اپنی رائے کی صحت کا دعویٰ کیونکر کرسکتا ہے۔”

انھوں نے ناولوں کی جو فہرست گنائی ہے ان میں ان ناولوں کے نام بھی نہیں ملتے جو آسانی سے مل جاتے ہیں۔ بہر حال یہ بات حقیقت کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ شرر  کو کسی نے بھی گہری نظر سے نہیں دیکھا۔

میری اپنی تلاش کے مطابق شرر  کے ناولوں کی تعداد 4 3ہے۔ جب کہ افسانۂ قیس اور ماہ دخت اس میں شامل نہیں ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شرر  کے ایک مشہور و معروف ناول فتح اندلس کا خاکی قز لباش نے اپنی تعداد میں تذکرہ ہی نہیں کیا، جب کہ شرر  نے زمانہ کے انٹرویو میں اس ناول کو اپنے اچھے ناولوں میں شمار کیا ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ خاکی قزلباش اپنے مضمون میں اس انٹر ویو کو تو چھا پتے ہیں اور فتح اندلس کے نام کو بھی چھاپتے ہیں، لیکن اپنے تلاش کیے ہوئے ناولوں میں اس کو شامل نہیں کرتے۔

 شہزادۂ حبش ان کا دوسرا ناول، جس کی سنِ اشاعت کا اب تک پتہ نہ چل سکا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ناول شرر  کا ہے جس پر لکھا ہوا ہے۔”سرزمین حبش کی دل نشین ودلچسپ سر گذشت۔؟بار اوّل۔ ملنے کا پتہ : جہاں گیر بُک ڈپو، کھاری باؤلی۔ دہلی۔ محبوب المطابع برقی پریس۔ جامع مسجد دہلی۔

یہ ہے شرر  کے ناولوں کی اب تک کی تلاش کی ہوئی صحیح تعداد۔ کل کو اس میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ دو ایک باتیں اور شرر  کے ناولوں سے متعلق واضح کر دینے کی ضرورت ہے جو غلط فہمی کا سبب بنی ہوئی ہیں، ڈاکو کی دلہن۔ اکثر اس ناول کو شرر  کا ناول کہا گیا اور اب تک یہی سمجھا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دلگداز کی کا پیوں کے پچھلے کور پر اشتہار کے طور پر اس ناول کا نام شرر  نے اپنے ناولوں کے ساتھ چھا پا۔ محمد یحییٰ تنہا اس ناول سے متعلق لکھتے ہیں :

"1900ء کے دلگداز میں ناول ایام عرب کی دوسری جلد ختم ہو گئی۔ پھر ناول مقدّس نازنین کو تصنیف کیا۔ بعد ازاں تاریخ حروب صلیبیہ کا ترجمہ اور انگریزی ناول ڈاکو کی دُلہن کا ترجمہ شائع کرنا شروع کیا۔”

اوپر کی تحریر سے یہ واضح تو ہو جاتا ہے کہ ڈاکو کی دلہن شرر  کی خود اپنی تخلیق تو نہ تھی، لیکن یہ کہیں ظاہر تو نہیں ہوتا کہ انھوں نے اس کا ترجمہ بھی نہیں کیا۔ میں نے مظہر عالم لائبریری، نادان محل روڈ لکھنؤ سے اس ناول کو تلاش کیا، جس پر یہ لکھا ہوا ہے :

"ناول ڈاکو کی دلہن ایک نہایت دلچسپ انگریزی ناول کا ترجمہ جس میں صاف نظر آتا ہے، انسان عمدہ اخلاق اور شجاعت کی بدولت کس قدر جلد اور کتنے بڑے مرتبے پر پہنچ سکتا ہے، جسے منشی محمد امیر مرزا صاحب نے ترجمہ اور مولوی عبد ا لحلیم شرر  نے اس کی عبارت درست کر کے جنوری 1901ء سے جون 1901ء تک دلگداز میں شائع کیا۔ بعد حصولِ اجازت از مولیٰنا شرر  صاحب خواجہ بخش محسن نے اپنے ابوالعلائی پریس آگرہ میں چھپوا کر شائع کیا۔”

اس میں ناول کا نام تو نہیں دیا گیا لیکن اس کے کردار، اس کا ماحول، اس کی کہانی صاف طور پر بتاتی ہے کہ یہ انگریزی ناول کا ترجمہ ہے۔ شرر  نے صرف اس ناول کی تصحیح فرمائی اور اپنے دلگداز پریس سے شائع کر دیا اور اپنے ناولوں کے اشتہار میں اس کا نام بھی دینے لگے۔ اور شاید اسی وجہ سے یہ ناول بھی شرر  کا سمجھا جانے لگا۔

 زوال بغداد اور بغداد کی حسینہ شرر  کے یہ دونوں ناول الگ الگ سمجھے جاتے ہیں۔ ابتدا میں میں نے جب شرر  کے ناولوں کی فہرست دیکھی، یہ دونوں نام الگ الگ پائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ہی ناول کے دو نام ہیں۔ زوال بغداد جو 13۔ 1912ء میں شائع ہوا، شر ر کے اچھے تاریخی ناولوں میں سے ایک ہے۔ بعد میں چمن بک ڈپو اُردو بازار جامع مسجد، دہلی والوں نے اس ناول کو بغداد کی حسینہ کے نام سے شائع کر دیا۔ ہو سکتا ہے یہ ناول اس سے پہلے اسی نام سے شائع ہوا ہو، لیکن جامعہ ملّیہ یونی ورسٹی لائبر یری دہلی اور شفیق میموریل لائبریری جو نپور سے اس ناول کو تلاش کیا جو 256 صفحات پر مبنی ہے اور جو ہو بہو زوال بغداد کی نقل ہے۔ دراصل یہ دونوں ایک ہی ناول کے نام ہیں۔

 زود پشیماں کے سلسلے میں بعض بزرگوں نے یہ فرمایا کہ اس نام کا بھی شرر  کا ناول ہے۔ یہ مجھے ٹیگور لائبریری لکھنؤ یونی ورسٹی میں ملا۔ دراصل یہ مولانا عبد الماجد دریابادی کا ڈرامہ ہے، جس پر شرر  نے صرف دیبا چہ لکھا ہے۔ ہو سکتا ہے صرف اسی وجہ سے یہ ڈرامہ شرر  کی تخلیق سمجھ لی گئی ہو۔

 شرر  نے اتنا لکھا کہ سچ تو یہ ہے کہ نہ تو وہ اپنی تمام تخلیقات کو سلیقے سے یکجا کر سکے اور نہ ہی انھیں اپنی تخلیقات کا شمار رہ گیا اور شاید اسی وجہ سے ان کی تمام تخلیقات کا تذکرہ ہمیں دلگداز کے پرچوں میں بھی نہیں ملتا۔

 تحقیق کا دھارا کبھی رک نہیں سکتا۔ اس کے سوتے ہمیشہ جاری وساری رہیں گے۔ شرر  سے متعلق یہ تلاش قطعی حرف آخر نہیں ہے۔ امید ہے کہ اس سلسلے میں کام کرنے والے شرر  کے مطالعہ کے لیے آئندہ اور بہتر امکانات کی نشان دہی کرسکیں گے۔

 

وفات

 مولانا شرر کی وفات کے بارے میں خواجہ عبد الرؤف عشرت نے زمانہ کانپور 1927ء کے صفحات پراس طرح کی تحریریں رقم کی ہیں :

"آخر عمر میں مولانا کا رجحان تصوف کی طرف ہوا اور وہ پکے حنفی صوفی پابند صوم و صلوٰۃ ہو گئے تھے۔ نماز تو مولانا ہمیشہ پڑھتے تھے، مگر جو خشوع و خضوع آخر وقت میں ہو گیا تھا اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ چالیس پچاس سال کی عمر تک ترکی ٹوپی پہنی اور فرنچ داڑھی رکھی۔ خضاب کا استعمال کیا، مگر اس وقت میں ان کا حلیہ دوسرا تھا۔ جوگیہ ٹوپی، پوری ریش مبارک، سفید گداز بدن، میانہ قد، گول چہرہ، نورانی شکل، اسلام اور تاریخ اسلام کا ہر وقت تذکرہ ان کی زبان پرتھا۔ باتوں باتوں میں خدا اور رسول کے تذکرے کا پہلو نکال لیتے تھے۔

آخر وقت میں ان کاسفر گھرسے جھنوائی ٹولہ تک رہ گیا تھا۔ دس بجے سے قلم لے کر بیٹھتے اور دو بجے تک برابر لکھا کرتے۔ دو بجے سے چار بجے تک کمرے میں سوتے رہتے یا آرام سے لیٹے رہتے۔ شام کو دوست احباب سے ملنے چلے جاتے تھے اور وہاں سے آٹھ نو بجے رات کو گھر میں آتے تھے۔ جیسا طرز تحریر معلومات سے لبریز تھا ویسی تقریر نہ تھی، مگر تقریر شروع کرنے کے بعد رفتہ رفتہ اس میں بھی دلچسپی پیدا کر لیتے تھے۔ اور خاتمۂ تقریر بہت پرلطف ہوتا تھا۔ فن شعرسے خوب واقف تھے اور اصول فن پر تقریر کیا کرتے تھے۔

جمادی الثانی کی 13؍ تاریخ دو شنبہ کے روز شام کو مولانا عبد المجید صاحب کے مکان پر تشریف فرما تھے کہ دفعتاً سردی معلوم ہوئی اور غش آنے لگا۔ بہت مشکل سے گھر تک تشریف لائے۔ حکماء کا علاج شروع کیا، روز بروز حالت ردّی ہوتی گئی۔ جمعہ کے روز صبح چھ بجے جمادی الثانی 1345 ھ کو انتقال فرمایا۔ شام کو آٹھ بجے جھنوائی ٹولہ میں دفن ہوئے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جس روز جس تاریخ، جس وقت مولانا کتم عدم سے عالم وجود میں تشریف لائے تھے، ستربرس کی عمر میں اسی روز اسی تاریخ اور اسی وقت انتقال فرمایا۔

انتقال کی تاریخ عشرت صاحب نے درست نہیں لکھی۔ زمانہ کانپور نے شرر  کے انتقال کے بعد اپنے رسالہ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جو تاریخ دی وہ ذیل ہے:

"آپ 17؍جمادی الآخر 1275ھ جمعہ کے دن صبح کواس بزم میں آئے اور 17 ؍ جمادی الآخر ہجری بروز جمعہ صبح کے اس محفل سے اٹھ گئے۔”

شر ر کے انتقال کے سلسلے میں دلگداز کی سوانح عمری میں جو لکھا ہے اس کی بھی تاریخ17؍ جمادی لآخر بمطابق10؍جنوری 1926ء لکھی ہے اور یہی درست ہے۔ ادارہ اردو نے مولانا کو یوں خراج عقیدت پیش کیا:

"یہ ایک قومی حادثہ ہے۔ مولانا نے تمام عمر علم و ادب کی خدمت کی اور آخر وقت تک اس کی خدمت میں مصروف رہے۔ اردو زبان پران کا بہت بڑا احسان ہے۔ افسوس کہ ہم میں سے ایک ایسا جامع اور وسیع النظر شخص اٹھ گیا ہے جس کا اس وقت کوئی بدل نہیں۔  "

فرحت شاہ جہاں پوری نے ان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا:

"اور یہ سچ ہے کہ مولانا اپنا بدل آپ تھے۔ ادب و تاریخ کے میدان میں ان کی حکمرانی تھی۔ وہ ادبیات اردو کاسرمایۂ فخر تھے۔ بلکہ ایک حد تک یہ کہنا بھی درست ہے انھوں نے انشا پردازی کے قالب میں ایک نئی روح پھونکی اور اپنے طرز تحریرسے میدان انشاء میں ایک نیاراستہ قائم کیا، جس کی وجہ سے اردو کے شیدائیوں کو منزل مقصود تک پہنچنا آسان ہو گیا۔ مولا نا سرسید احمد خاں کے عظیم مشن کے پیرو تھے۔ سرسید احمد خاں نے اسلامی تہذیب و ثقافت کا احیاء چاہا تھا اور وہ مسلمانوں کے لیے علوم و فنون کے دروازے کھولنا چاہتے تھے۔ مولانا براہ راست تو ان کے رفقائے کار میں نہ تھے، لیکن سرسید نے خود قومی تعلیم، قومی برتری اور اسلامی روایات کے فروغ کے لیے جو کام کیا اور اپنے رفقائے کارسے جو کام لیا شرر اس سے کاملاً متاثر ہوئے۔ وہ مولانا حالی کے مسدس سے بھی متاثر ہوئے۔ ان کے پیش نظر ہم عصر علامہ شبلی کی تاریخی کاوشیں بھی تھیں انھوں نے تاریخ نویسی کو خصوصی توجہ کا مرکز بنایا اور بہت سی تاریخی ناولیں لکھیں۔ مدعا یہی تھا کہ مسلمان اپنے درخشاں ماضی کی عظمتوں کا مشاہدہ کریں۔ اپنے حال کے روزن سے زمانہ سلف کے شاندار فرائض کا نظارہ کریں اور ان کے احساس کی دنیا میں ایک ایسی دل پذیر حدت پیدا ہو جائے کہ عمل کی بہت سی راہوں سے پسماندگی و قنوطیت کی جمی ہوئی برف کو پگھلا سکیں اور وہ اجتماعی فکر و عمل سے آسودگی کی منزل حاصل کریں۔”

اورسچ بات یہ ہے کہ شرر کو صحیح مقام دینے کے لیے ہمیں نئی روشنی اور آج کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھنا پڑے گا۔ اس دور میں پہنچنا پڑے گاجس نے ان کو تاریخی ناول لکھنے پر مجبور کیا۔ اس وقت کا ماحول، اس وقت کے حالات کو اچھی طرح سمجھنا پڑے گا۔ حال کی عینک سے ماضی کو دیکھنا غلط ہے۔ اس میں جو نظر آئے گا وہ دھندلا اور گرد آلود ہو گا۔ کسی بھی دور کی تحریر کوسمجھنے کے لیے اس دور میں پہنچنا لازمی ہوتا ہے۔

٭٭٭

ماخذ”

http://urducouncil.nic.in/ebooks/AbdulAleemSharar.htm

تدوین ار ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید