FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

 

 

 

 استنبول کہ عالم میں منتخب

 

 

سلمیٰ اعوان

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

 

انتساب

 

کس کے نام یہ کتاب معنون کروں ؟

تمہارے خوبصورت شاعروں، ادیبوں،

تمہارے خوبصورت ثقافتی ورثے، تمہارے جی دار لوگوں

یا

پھر اپنی اُس محبت کے نام لکھوں جو مجھے تم سے ہے

استنبول تم بھی تو کچھ بتاؤ نا

میں کیا کروں

 

 

 

خوبصورت ترکی شاعری

 

میری آنکھیں بند ہیں

اور میں استنبول کو سُن رہا ہوں

ایک دلکش سی پیاری لڑکی چلی جا رہی ہے

تعاقب میں فحش فقرے اور طعنے ہیں

میرے ہاتھ سے کچھ گر جاتا ہے

یقیناً ایک گلاب

پرندہ تمہارے سکرٹ میں پھڑپھڑایا

تمہاری بھنووں میں خفگی سی بھر گئی ہے

میں جانتا ہوں

تمہارے ہونٹ نم سے ہو گئے ہیں

مجھے معلوم ہے

نقرئی چاند پستے کے درختوں کے عقب سے جھانکتا ہے

میں تمہارے دل کی دھک دھک سمجھتا ہوں

میں استنبول کو سُن رہا ہوں

اور میری آنکھیں بند ہیں

 

اورہن ولی کینک

٭٭

 

 

 

 تنہائی

 

وہ جو اکیلے نہیں رہتے کب جانتے ہیں

خاموشی بندے کو کتنا خوف زدہ کرتی ہے

خود سے کوئی کتنی دیر باتیں کرتا ہے

کتنی بار شیشوں کی طرف دوڑا جاتا ہے

کسی ذی روح کی تمنا اور خواہش کرنا

وہ اسے کب جانتے ہیں

………………………………

خواہشیں اور یادیں

خواہشیں عجیب ہیں

یادیں بھی عجیب ہیں

کوئی کیسے رہ سکتا ہے

مجھے بتاؤ

ایک ایسے شہر میں

جہاں سورج ہی نہ چمکتا ہو

یہ تو ممکن ہی نہیں

کہ نظمیں نہ لکھی جائیں

اگر آپ محبت کرتے ہیں

اور وہ بھی اپریل کے مہینے میں

اورہن ولی

٭٭

 

 

 

میں تم سے پیار کرتا ہوں

 

اُسی طرح جیسے روٹی کھانے کے لئے نمک میں ڈبوئی جاتی ہے

اسی طرح جیسے کوئی تیز بخار میں رات کو اٹھ جائے

میں تم سے محبت کرتا ہوں

ایسی ہی جیسی پہلی بار سمندر پر کسی ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہوئے ہوتی ہے

جب استنبول میں دھیرے دھیرے اندھیرا اُترتا ہے

میرے اندر کوئی چیز حرکت کرنے لگتی ہے

میں محبت کرتا ہوں تم سے

اسی طرح جیسے زندگی کی عنایت کے لئے خدا کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے

ناظم حکمت

٭٭

 

 

 

تمہارا خیال بہت خوش کن اور امید افزا ہے

یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی خوبصورت گیت سنا جائے

ایک ایسی زبان سے

جو دنیا کی خوبصورت ترین ہو

لیکن میں گیت کو اب مزید نہیں سننا چاہتا

میں تو خود گانا چاہتا ہوں

ناظم حکمت

٭٭

 

 

 

 

جیل کے اندر گلاب کے پھولوں بارے سوچنا تو ٹھیک نہیں

ہاں سمندر اور پہاڑوں بارے سوچنا اچھا ہے

گھڑی دو گھڑی آرام کئیے بغیر پڑھتے لکھتے رہو

اب ایسی بھی بات نہیں کہ تم

دس پندرہ سال جیل میں گزار نہ سکو

گزار سکتے ہو جب تک کہ وہ موتی

جو تمہارے سینے کے بائیں جانب ہے

اپنی چمک نہیں کھو بیٹھتا

ناظم حکمت

٭٭

 

 

 

باب نمبر: ۱استنبول میں وارد ہونا

 

۱۔ دنیا کے چند مشہور شہروں کی طرح استنبول بھی سات پہاڑیوں پر آباد ہے۔

۲۔ تیسری صدی کی یادگار ویلنس ایکوڈکValens Aqueduct کے محرابی راستے سے گزرنا اور تاریخ جاننا دلچسپ عمل تھا۔

۳۔ سلطان احمت کا علاقہ بازنطینی دور سے عثمانی سلاطین تک تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا۔

 

تُرکی کے لئے فراوانی شوق کا کُچھ ویسا ہی عالم تھاجیسا کہ نئی نویلی دُلہن کو مکلاوے کا کہ جو سُسرال گھر جانے سے قبل اپنے گھاگھرے کو دائیں بائیں اوپر نیچے سے سیٹ کرتے ہوئے گُنگناتی ہے۔

میرا کگھرا سُوت نہ آوے

نی چاہ مکلاوے دا

کہنے دیجئیے کہ ہم تخلیقِ پاکستان کے بعد پیدا ہونے یا یہاں آ کر ہوش سنبھالنے والی نسل بھی حد درجہ جذباتی اور اندھی عقیدتوں کی ماری ہوئی ہے۔ لا کھ اپنی روشن خیالی اور ماڈرن ہونے کا دعویٰ کرے۔ سچ یہی ہے کہ جڑیں تو برّ صغیر کی اُسی تاریخ اور روایات سے جڑی ہیں جن کے حامل ہمارے آباء و اجداد تھے۔ اُن کے لئے مکّہ و مدینہ کے بعد عقیدتوں کا مرکز استنبول کی خلافت تھی۔ ترکی کے ہیرو سلطان محمد فاتح، سلیمان ذیشان اور آتا ترک سے ہمارا پیار ترکی کے لوگوں سے کیا ہی کم ہو گا۔ ایسے میں تُرکی جانے کے لئے دل کا مچلنا فطری امر تھا اور کچھ جاننے کے لئے لاہور میں ایک ہی آدمی جان پڑتا تھا جو زمانوں سے ترکی کے عشق میں مبتلا ہے۔

اور وہ کون ہے ؟یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے۔

پس فرّخ سہیل گوئندی کے دروازے پر سیما اور میں نے دستک دے دی۔ اندر تو تُرکی ہی تُرکی تھا۔ کہیں ترکی کی اعلیٰ قیادتیں بلند ایجوت، شریک زندگی راشان ایجوت، طیب اُردو آن صاحب خانہ کے ساتھ محبتیں بگھارتے تھے۔

سچی بات ہے بڑے مرعوب ہوئے۔

ابتدائی سبق فرّخ سے ہی پڑھے۔ اسلام آباد جا کر ساری کار روائی بھی بھگتائی۔ ہمارا تو خیال تھا کہ ترکی برادر ملک ہماری خواہش کی پذیرائی کے لئے ہمیں فوراً جہاز میں چڑھا دے گا۔ مگر احساس ہوا کہ بھئی بڑی عملی قوم ہے۔ جون کی تپتی لُو برساتی دوپہروں میں خجل خواری کروائی اور قواعد کے مطابق ہی کوئی ڈھائی ماہ بعد اذن دیا۔

جس سہ پہر روانگی تھی اُس صُبح نور پیر کے ویلے سے ہی موسلا دھار بارش کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے بھادوں بھی لوگوں کی لعن طعن اور کوسنوں سے بھری بیٹھی تھی۔ لوگ بھی بیچارے سچے تھے۔ مجال تھی جو یہ نا ہنجار جلتی، بلتی، سڑتی خلق خدا پر دو بوند کی صورت ہی مہربان ہوئی ہو۔ اب جب رخصت ہونے والی تھی تو سوچا ہو گا کہ اس آبی ذخیرے کو کہاں اٹھائے پھروں گی۔ رجاتی ہوں انہیں، چاہے مریں، چاہے ڈوبیں، میری بلا سے۔

اب اِس نامراد کو یوں پاگلوں کی طرح برستے دیکھ کر میں تو بوکھلائے پھرتی تھی کہ فلائٹ تو کمبخت لیٹ ہی ہو گی۔ عصر کے بعد جب میں نے سیما کو اس کے گھر سے پک کیا اُس وقت بھی یہ اِسی طرح پاگل ہوئی پھر رہی تھی۔ درختوں سے ٹکراتی، عمارتوں کے دروازوں اور شیشوں کو بجاتی۔

چلو شکر جہاز والوں نے بھی یقیناً کہا ہو گا۔ ’’ہم کونسا تجھ سے کم ہیں۔ تیرے سینے کو چیر کر اوپر چلے جائیں گے اور تو دیکھتی رہ جائے گی۔

اور بھئی میں تو سچی بات ہے کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔ نہ بوندوں کی لڑیاں، نہ بادلوں کے چنگاڑتے، شور مچاتے ہاتھی گھوڑے۔ ایک نیا جہاں وا ہو رہا ہے۔ اقبال کی نمود صُبح جیسا۔

پروردگار کتنی دنیائیں ہیں تیری۔ میں نے کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے اُسے مخاطب کیا۔ ایک وہ نیچے والی جو بادلوں سے ڈھنپی اور پانیوں میں نہاتی ہے اور جس کی میں رہنے والی ہوں۔ ایک یہ جو اب میرے سامنے ہے جس کا گھر آنگن وہ بادل بنے ہوئے ہیں جنہوں نے دھرتی کے اوپر چھت تانی ہوئی ہے۔

اور اب میں یہاں دُور جھیلیں دیکھتی ہوں۔ مجھے تو دریا اور سمندر بھی نظر آتے ہیں۔ جزیروں پر بھی گمان پڑتا ہے۔ اور ہاں ذرا دیکھو توسورج کی کرنیں کیسے خوبصورت زر فشاں سے راستے بنا رہی ہیں۔ یہ سمندر، یہ جھیلیں، یہ دریا کیا میری آنکھوں کے سراب ہیں۔ پر تیری سات آسمانی دنیائیں اُن کی بھی تو کوئی حقیقت ہے۔ یہ تیری دوسری دنیا بھی ہو سکتی ہے۔ چلو میں چھوڑتی ہوں اِس سارے قضیئے کو۔ اور وقت کی ساعتوں سے لطف اندوز ہوتی ہوں۔

صُبح کی روشنی میں زمین پر چٹانیں سی نظر آتی تھیں۔ کونسی جگہ تھی یہ ؟بستیاں کہاں ہیں ؟ پھر جہاز نیچے جھُکا۔ پھر جھکتا چلا گیا۔ باسفورس نے اپنی جھلک دکھائی۔ فلک بوس عمارتیں نظروں سے ٹکرائیں، نیلے پانیوں کے اندر دھنسے دلفریب سے کٹاؤ والے اِس تاریخی جزیرہ نما استنبول پر طائرانہ سی نگاہیں اِس کے حُسن و دلکشی کو جمال و کمال کا رنگ دیتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ کیا منظر تھے ؟ ہائے کتنے موہ لینے والے۔

اتاترک ایرپورٹ خاصا وسیع و عریض تھا۔ پر خالی خالی سا تھا۔ صبح کا وقت تھا شاید۔ چلو کچھ مرحلے طے ہوئے۔ کچھ بھولے۔ 8نمبر کی بجائے کسی اور جگہ چلے گئے۔ کھڑے سامان کا انتظار کرتے رہے۔ وہ بیچارہ کہیں اور چکریاں کاٹ رہا تھا۔ پھر کسی کو ٹرکش ایر لائن کا حوالہ دیا۔ راہنمائی پر فوراً بھاگے اور اُسے جا کر قابو کیا۔ اور جب میری متجس آنکھوں نے دائیں بائیں اور مضطرب قدموں نے منی چینج آفس کی تلاش میں آگے پیچھے ہلنے کی کوشش کی۔ سیماپیروز نے کسی قدر خشمگیں نگاہوں سے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔

’’کمبخت ذرا دم تو لے لے۔ چھُری تلے گردن آ گئی ہے تیری کیا؟رات بھر کے سفر نے ادھ موا کر دیا ہے۔ ہوٹل والوں کا کوئی بندہ بھی باہر انتظار میں ہو گا۔ چھوڑ گیا تو اور سیاپا پڑ جائے گا۔ پہلے ٹھکانے پہنچو۔ صورت حال کو واضح ہونے دو۔ یورو(یورپین کرنسی)ڈالر کا پتہ تو چلے ریٹ کیا ہیں ؟ناواقفیت میں کہیں ہاتھ ہی نہ ہو جائے۔ کاہلیوں (جلدی جلدی)میں کہیں تھک ہی نہ لگوا بیٹھیں۔

بات تو ٹھیک ہی تھی۔ سوٹھک سے دل کو لگی۔ ’’چلو اچھا‘‘ کہتے ہوئے میں نے ٹرالی کا رُخ باہر جانے والے راستے کی طرف موڑ دیا۔

دیکھا کہ ہمارے ناموں کا پلے کارڈ ڈنڈے پر چڑھا ہمیں آواز دیتا تھا۔ فوراً اسی جانب لپکے۔ مستعد ڈرائیور نے ہمارا سامان قابو کیا اور گاڑی تک ہماری رہنمائی کی۔ بڑی خوبصورت سڑکیں تھیں۔ جاذب نظر منظر تھے۔

استنبول پر پڑھا ہوا کچھ یاد آیا تھا۔ یہ شہر بھی روم، لزبن، ٹوکیو، ماس کو اور شملہ کی طرح اونچی نیچی کہیں کچھ ہموار، کہیں ناہموار سات پہاڑیوں پر ایستادہ ہے۔ صفائی ستھرائی میں کیسا شاندار کہیں بحیرہ مرمرا اور کہیں گولڈن ہارن کے نیلے پانیوں کے سنگ سنگ دلکش رنگوں میں لپٹا کنارے کنارے بہتا تھا۔ تیز سراٹے مارتی ہواؤں کی طرح شُوں شُوں کرتی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ بھاگتے جب انڈر پاس سے ویلنس ایکوڈکValens Aqueduct کے محرابی راستوں سے گزرے تو ڈرائیور نے فوراً اس کی تاریخی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔

’’آپ رومن شہنشاہ ویلنس کی بنائی ہوئی تیسری صدی کی یادگار میں سے گزری ہیں۔ ‘‘

ہم نے ’’ اچھا‘‘ کہتے ہوئے اِس محراب در محراب شگافوں والے پل کو حیرت سے دیکھا تھا مگر بتانے پر جانا کہ زمانہ قدیم میں ایسی تعمیرات آبی ذخائر سے پانی لانے کے لئے بنائی جاتی تھیں۔ یہ ایکو ڈکت بیازت چوک کو پانی مہیا کرتی تھی۔

ایسے ایسے خوبصورت منظر آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے کہ دل بے اختیار ہی تقابلی جائزوں میں اُلجھ رہا تھا۔ ہائے کاش ہمیں بھی ترکی جیسی قیادت نصیب ہو جائے۔ ہم سے تو اپنا گند نہیں سمیٹا جاتا۔ لاہور کے کوڑا کرکٹ کو بھی سمیٹنے کے لئے ترکی کی BMCہی آگے بڑھی ہے۔

جامع سلطان احمد ایریا کے آر بوائے ہوٹل کے ریسپشن پر کھڑی لڑکی بڑی چھمک چھلّو قسم کی چیز تھی۔ آنکھیں تو گویا ماتھے پر رکھی ہوئی تھیں۔ چھوٹتے ہی بڑے منہ پھٹ انداز میں ہمارے ’’ناشتے اور کمرے ‘‘کا پوچھنے پر بولی تھی۔ ’’ناشتہ تو کل سے ملے گا۔ اور ہاں ذرا صبر سے بیٹھیں۔

بھونچکی سے ہو کر میں نے سیما کو اور سیما نے مجھے دیکھا تھا۔

’’اُلّو کی پٹھی دیکھو تو ذرا کیسے ٹر ٹر بولی ہے۔ کل شام سے گھر سے چلے ہوئے ہیں۔ ساری رات آنکھوں میں کٹی ہے۔ ذرا سی مسکراہٹ، چند شیرینی میں ڈوبے جملے، پاکستانیوں کے لئے شہد جیسی نہ سہی کھٹی میٹھی گولیوں جیسا چاہت بھرا اظہار ہی ہو جاتا۔ جی چاہتا ہے ایک جھانپڑ رسید کروں۔ ‘‘سیما کورے برتن کی طرح تڑخ اٹھی تھی۔

میں ہنس پڑی تھی۔

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرہ خون نکلا

خاطر جمع رکھو وہ بھی نہیں نکلے گا۔ ہم نری جذباتی قوم یونہی ٹلّے پر چڑھنے اور چڑھانے کی عادی۔ اُسے تو بزنس ایٹی کیٹس کا بھی خیال نہیں۔

اب منہ اُٹھائے دیکھتے ہیں کہ کب مہربانی ہوتی ہے ؟کب وہ کمرے کی چابی پکڑاتی ہے ؟ڈھیٹ بن کر ایک بار پھر اُس کے حضور جا کھڑی ہوئی۔ ’’پلیز کمرے کا کچھ کر دیں۔ بہت تھکے ہوئے ہیں ہم۔ ‘‘چلو خیر جلدی سُنی گئی۔

کمرہ چھوٹا سا تھا مگر اچھا تھا۔ نہانا دھونا ہوا۔ پھر نیچے آئے۔ ریسپشن پر اب نوجوان سا لڑکا کھڑا تھا۔ کرنسی کا پوچھا۔ اُس نے کسی لگی لپٹی کے بغیر واضح کیا۔ ایک یورو 1.74اور ایک ڈالر1.35 ملنے کا امکان ہے۔۔ لیکن دنا توار کا تھا اور بینک بند۔ سیما نے سو یورو بدلوایا اور کھاتہ مشترکہ کر دیا۔

صدیوں کی یہ ایمپائر کبھی کی قسطنطنیہ، عثمانی سلاطین کا دار الخلافہ، یورپ اور ایشیا کے دہانے پر کھڑا دنیا کا ایک بڑا میٹرو پولیسنر۔ رخ روشن پر پڑے گھونگھٹ کو ابھی اٹھایا نہیں تھا پر شہر سے ہماری مرعوبیت تھی کہ اپنی انتہاؤں کو چھو رہی تھی۔

جس جگہ رہائش پذیر ہوئے تھے یہ سلطان احمت Sultan Ahmetکا علاقہ بازنطینی دور سے عثمانی خلفاء تک تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا۔ پرانا شہر، استنبول کا ڈاؤن ٹاؤن جو نہ صرف سیاحت بلکہ ہر حوالے سے اہم اور بہترین سمجھا جاتا ہے۔ چلو شکر سیما کی عقلمند بیٹی عینی نے یہاں کی بکنگ کروا دی۔

پیٹ میں بھوک نے ایک ہا ہا کار مچا رکھی تھی۔ باہر آئے تو سٹریٹ میں ایک بڑی سی دوکان نظر آئی۔ جنرل سٹور سا تھا۔ شوہر، بیوی، بیٹی سبھی دوکان میں موجود چیزوں کی اٹھا پٹخی میں لگے ہوئے تھے۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں باتیں ہوئیں۔ مہنگائی کا رونا تھا۔ افراد خانہ کے ہاتھ بٹانے کا فخریہ تذکرہ تھا۔

سیاسی حوالے سے میری کچھ جاننے کی خواہش پر مرد نے طیّب ایردوان کے بارے ہنستے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھتے ہوئے مذہبی ہونے کا تاثر دیا مگر ساتھ ہی آنکھیں نچاتے ہوئے یہ بھی کہا۔ ’’اچھا کام کرتا ہے۔ مہنگائی تو ہے پر عوام کو سہولتیں بھی حاصل ہیں۔ استنبول کا جب مئیر بنا تھا تو اس کی حالت بدل دی۔ ارے استنبول تو اتنا گندا تھا۔ اِدھر مسئلے ہی مسئلے تھے۔ پینے کا پانی نہیں۔ اسپتالوں میں غریب کا علاج نہیں۔ صفائی ستھرائی نہیں۔ اُس نے بڑا کام کیا۔ لوگوں نے اِسے حکومت دے دی۔

مزے کے لوگ تھے باتونی اور ایکشن سے بھرے ہوئے۔

مجھے تو سب نے آنے (ماں )کی معتبر کرسی پر فی الفور بٹھا دیا۔ شوخ و شنگ اور دلبر سی سیما کے بارے متذبذب سے تھے۔ بیچاروں کی پریشانی بھانپتے ہوئے میں نے فوراً کہا تھا۔

’’ آپ کے ہمسائے ہوئے ہیں۔ آتے جاتے ملاقات رہے گی۔ دوسرے رشتے کا انتخاب اطمینان سے کر لینا۔ کوئی جلدی نہیں۔ ‘‘

وہیں سے آئرن (لسّی)لی۔ ساتھ بسکٹ لیے۔ چلو کچھ گیلا کچھ سوکھا سا ناشتہ بھی زہر مار کیا۔ ٹرام پر بیٹھے۔ جس سٹیشن سے سوار ہوئے اُس کا نام گل ہانہ کاغذ پر لکھوا کر تعویذ کی طرح سنبھال لیا۔ ہوٹل کا کارڈ پہلے ہی پرس کی محفوظ جیب میں تھا۔

سڑک تو کچھ اتنی زیادہ کشادہ نہ تھی۔ مگر بیچوں بیچ ٹرام کِس مزے سے رواں دواں تھی۔ کھڑکی کے شیشوں سے دائیں بائیں کی خلقت خدا کو بھاگتے دوڑتے، چلتے پھرتے، دوکانوں کے دروازے کھولتے اندر داخل ہوتے، باہر نکلتے دیکھنا کسقدر دلچسپ تجربہ تھا۔ ناموس سے اسٹیشنوں کے نام تھوڑی تھوڑی دیر بعد گونجتے۔ خودکار دروازوں کا کھلنا لوگوں کا چڑھنا اُترنا۔ سامنے مشہور گلاتا پل نظر آتا تھا۔

’’ایمی نو نو مرکزی جگہ ہے۔ ‘‘یہیں سے سب جگہوں کو راستے نکلتے ہیں۔ لاہور سے فرخ سہیل گوئندی کی ہدایات یاد آئی تھیں۔ یہیں اُترے تھے۔ ایک اژدہام تھا۔ انسانوں، دوکانوں، سٹیمرلانچوں، گاڑیوں بسوں، بھاگتے دوڑتے مردوں، عورتوں اور رنگا رنگ نظاروں کا۔ کچھ دیر اردگرد کو دیکھتے رہے۔ نظریں حیرت کے رنگ لئیے اڑی پھرتی تھیں۔ پھر وہیں فٹ پاتھ پر چنار کے درخت تلے دھرے بینچ پر بیٹھ گئے۔

تبھی سامنے سڑک پار ایمی نونو کی مسجد سے ظہر کی آواز بلند ہوئی۔ اذان کی دلکش آواز نے میرے سارے سریر میں وہ لطیف اور گداز سا ارتعاش پیدا کیا تھاجس نے مجھے وحدت ملّتِ اسلامیہ میں پروئے ہونے کا احساس دیا جو رنگ، نسل اور جغرافیائی حدوں سے بالا ہے۔ اُس وقت میرا مُومُو عدنان میندریس کا شکر گزار ہواجس نے اقتدار میں آنے کے بعد عصمت انونو کے ترکی زبان میں دی جانے والی اذان کے حکم کو ختم کیا۔ اب اگر یہ اس وقت ترکی زبان میں ہوتی تو میرے پلّے کیا خاک پڑنی تھی۔ اس اجنبی سرزمین پر اپنائیت کی یہ میٹھی سی جذباتی کیفیت بھلا کیوں کر پیدا ہو سکتی تھی۔

"اللہ اکبر اللہ اکبر”

میری آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔ مجھے اپنے بچپن کے وہ دن یاد آئے تھے جب میرے سب سے چھوٹے ماموں ایف ایس سی کے طالب علم اخبار ہاتھ میں پکڑے نچلی منزل کی دو دو سیڑھیاں الانگھتے پھلانگتے اوپر والی انگنائی میں داخل ہوئے تھے۔ اُن کی آواز جذبات کے ارتعاش سے رُندھی ہوئی تھی۔

’’ترکی کی مساجد سے عربی میں اذان کا دوبارہ آغاز۔ ‘‘

وہ منظر آج بھی حافظے میں کہیں محفوظ ہے۔ میری نانی، میری خالائیں سب ہاتھ اٹھائے نم آنکھوں سے شکر گزاری کی کیفیت میں تھیں۔ بڑے ہو کر سمجھ آیا تھا کہ وہ سادہ، پڑھی لکھی، گھریلو سی عورتیں جنہوں نے کبھی ترکی نہیں دیکھا تھاکِس رشتے میں گندھی اِس عنایت پر اشک بار تھیں۔ انہیں اتاترک سے محبت تھی مگر انہیں اُس سے گلہ بھی تھا۔

عدنان میندرس کا نام بھی تبھی کہیں میرے حافظے میں محفوظ ہوا تھا۔ اتاترک کا ساتھی جس نے اپنے لوگوں کے اندر کے دُکھ اور کرب کو محسوس کیا تھا۔ سادہ اور معصوم سے وہ لوگ جو اپنے باپ دادا سے اُن کہانیوں کو سُنتے اور اُن اونٹوں پر رشک کرتے تھے جو اہل ترکی کی جانب سے مکّہ اور مدینہ کے لئے نذرانوں کے تحائف اپنے کوہانوں پر لاد کر اسکدار کی بندرگاہ سے چلنے والے بحری جہازوں سے عرب کے لئے روانہ ہوا کرتے تھے۔ اور یہ تفصیل بھی کہ مسجدوں سے اللہ اکبر کی صدا فضاؤں میں کیا گونجی کہ گلی کوچوں میں جذبات کا طوفان بہہ نکلا۔ حج اور عمرے سے پابندی کیا اٹھی کہ پورا ترکی گویا احرام باندھے تیار کھڑا تھا۔

میں نے اٹھتے ہوئے سیما سے کہا۔

’’آؤ سجدہ کریں۔ قسطُنطُنیہ (موجودہ استنبول)کی اُس سرزمین پر جس کی فتح کی بشارت میرے پیارے نبیؐ نے دی تھی۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 باب نمبر: ۲ حضرت ابو ایوب انصاری کے حضور حاضری

 

۱۔ حضرت ابو ایوب انصاری کا کا علاقہ "ایوپ”ترکوں کے لئے بہت محترم اور مقدس ہے۔

۲۔ ہر نئے عثمانی سلطان کی رسم تاج پوشی جامع ایوب میں "سیف عثمانی”کمر میں حمائل کرنے سے ہوتی۔

۳۔ پرانے شہر کے گرداگرد صدیوں پرانی بلند و بالا فصیل شہر کے لئے تاریخ کا ایک خوبصورت تحفہ ہے۔

۴۔ ترکی کے سیاسی معاملات ہوں یا دینی امریکہ کی مداخلت ضروری ہے۔

 

نماز کے بعد ہم ایمی نونو ینّی جامع (مسجد) کے اندر اُس کے طرز تعمیر اور مسجد کی تزئین کاری کے حسن سے سحرزدہ سے باہر نکلے تو ہجوم میں دو نوجوان لڑکوں سے ٹکرائے۔ پکے پکے پاکستانی لگے تھے۔ فوراً تفتیشی مراحل سے گزارے گئے۔ چلو خیر جانکاری ہونے پر ہم نے پوچھا۔

’’حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار اقدس پر حاضری دینی ہے۔ کچھ رہنمائی کرو گے کہ کونسا راستہ اور کون سی سواری بہتر رہے گی۔ ‘‘

ان کے معصومانہ جواب پر میرے منہ سے بے اختیار ہی نکل گیا۔

’’لو انہیں دیکھو ذرا ماشاء اللہ سے کہنے کو مسلمان ہیں پر نِرے بونگے ہیں۔ ارے چار دنوں سے استنبول میں کھے (خاک) کھا رہے ہیں اور ابھی تک زیارت کے لئے نہیں گئے۔ جہاں سب سے پہلے جانا چاہیے تھا۔ ‘‘

’’ہمیں بھی ساتھ لے چلئیے۔ ‘‘دونوں بول اُٹھے۔

میں تو انہیں ٹرخانے کے موڈ میں تھی، سیما لپٹا نے کے اور دونوں لڑکے امّاں امّاں کہتے ہوئے لپٹنے کی ترنگ میں نظر آئے۔

سیما نے گھُرکا۔

’’کمبخت اتنی آپ پھُدری نہ بن۔ نئی جگہ ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ چلو لڑکے ہیں۔ تھوڑاسا سہارا رہے گا۔ ‘‘

اس کی ڈانٹ ڈپٹ پر میں نے بھی سوچا ’’ ارے دبئی کے کماؤ پوت ہمیں ماں جیسے اُونچے سنگھاسن پر بٹھانے کے لئے مرے جا رہے ہیں تو وہاں بیٹھنے میں ہرج ہی کیا ہے ؟آخر ہم اپنی نک چڑھی، بدتمیز اور نا شُکری اولادوں کی بھی تو مائیں ہیں۔ ‘‘

دو ٹیکسی والوں کو تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہم کہہ کیا رہے ہیں ؟تیسرے والے کو ایوب سلطان کہا تو دروازے آناً فاناً کھُل گئے۔

اور جب میری نظریں گولڈن ہارنGolden Horn کے سبزی مائل پانیوں پر تیرتی کشتیوں اور لانچوں کو دیکھتی تھیں اور جب میں دو تہذیبوں، دو برّ اعظموں کے حامل اور تین اطراف سے سمندر سے گھِرے ہوئے اِس خوبصورت شہر استنبول کے جلوے دیکھتی تھی۔ علامّہ کے خوبصورت اشعار ذہن کے کواڑوں پر دستک دیتے ہوئے کہنے لگے۔ مہربانی کرو اور ہمیں گُنگُنا کر دُنیا کے اِس بیحد خوبصورت اور منفرد شہر کو خراج پیش کرو۔

گو آواز بڑی مدھم تھی پر میرا سارا وجود جیسے جذبات کی پھوار میں بھیگ سا رہا تھا۔

خطّہ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار

مہدی اُمت کی سطوت کا نشان پائیدار

صورتِ خاکِ حرم یہ سر زمین بھی پاک ہے

آستانِ مسند آرائے شِہ لَولَاک ہے

نکہت گُل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہَوا

تُربت ایوب انصاری سے آتی ہے صدا

اے مسلمان ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر

سینکڑوں صدیوں کی کشت و خون کا حاصل ہے یہ شہر

پُختہ ہلکے ہلکے خموں والی سڑک جس پر ٹیکسی بھاگی جا رہی تھی شاخ زریں یا Golden Horn کے ساتھ ساتھ شمال کی جانب رواں دواں ہے۔ گولڈن ہارن جو یہاں خلیج کہلاتی ہے استنبول کے یورپی حصّے کو دو حصّوں میں تقسیم کرتے ہوئے شہر کے مرکز میں گھُستی چلی گئی ہے جس کا آخری سِرا حضرت ابو ایوب انصاری کا مزار ہے۔

’’کاش ہمیں علم ہوتا کہ یہاں کشتیوں اور لانچوں سے بھی آیا جا سکتا ہے۔ ‘‘سیما کے لہجے میں تاسف تھا۔ ٹیکسی کے کھُلے شیشوں سے آتی ہوا سے گُتھم گُتھا ہوتے ہوئے میں بھی اُس کے ساتھ اِس افسوس میں شامل ہوئی کہ لانچ سے آنے کا تو ایک اپنا مزہ ہے۔

ایک جانب شاخ زریں کے دلفریب نظارے تھے تو دوسری جانب پُرانی کِسی حد تک خستہ عمارتوں کا اپنا حُسن تھا۔ گھنے سرسبز درخت، پہاڑوں کی ڈھلانیں، کِسی گھر کی بالکونی سے جھانکتی کوئی عورت، کناروں پر کھیلتے بچے اورسڑک کے کنارے مکئی کے اُبلے سِٹے بیچتا ہوا کوئی بوڑھا سا آدمی سب ستمبر کی چمکتی دھوپ میں آنکھوں کو بھلے لگتے تھے۔

ٹیکسی نے جائے مقر رہ کا اعلان داہنی جانب اُسے روکتے ہوئے کیا۔

دل دھڑکا اور آنکھیں نم ہوئیں۔ گویا ہم اپنے نبی کے میزبان کے گھر آ گئے ہیں۔ اللہ ایسا تو صرف کبھی خیالوں میں ہی سوچا تھا۔

لڑکوں نے حق فرزندگی ماؤں کے مِنتوں اور طرلوں کے باوجود ادا کیا۔ میں احسان لینے کے حق میں نہ تھی پر کرتے کیا؟ لڑکے زیر بار کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔

حضرت ایوب کا علاقہ بہت محترم اور مقدس خیال کیا جاتا ہے۔ داخلی گزرگاہ کا ماحول بڑا مخصوص سا تھا۔ دوکانوں کا سلسلہ جن میں بکتی ہمارے تہذیبی ورثے کی نمائندہ چیزیں سبز چادریں، ٹوپیاں، تسبیحاں، دینی کتابیں وغیرہ۔ لوگوں کے دیکھنے اور بُلانے کے انداز میں بھی بڑی مماثلت تھی۔

استنبول کی مسجدوں کے میناروں کے سِرے سچی بات ہے ہمارے غوری اور شاہین میزائلوں جیسے ہیں۔ مسجدایوب کے سفید سنگِ مرمر کے نوکیلے مینار بھی بس یوں لگتے تھے جیسے ابھی اُڑیں گے اور پتہ نہیں کِس کِس کا دامن خاکستر کر دیں گے۔ مسجد بہت خوبصورت تھی پر مسجد اور مزار سے پہلے وسیع و عریض قبرستان ہے۔

مسلمانوں کے لئے صحابی رسول کے قریب دفن ہونا بھی تو اعزاز سے کم نہیں۔ اسی لئیے یہاں شاہی قبریں بھی کثرت سے ہیں۔ سلطان سلیم سوئم کی ماں اور اس کی دو بہنیں یہیں احاطے میں سلطان عبدالمجید اور عبدالعزیز کے بچے بھی یہیں دفن ہیں۔ بہت سے درباری، اُمراء، وُزراء، خواجہ سراؤں کی قبریں جن پر سبز چادریں اور چادروں پر قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں پڑی تھیں۔

اِن قبروں کے گِرد طلائی کٹہرے بنے ہوئے تھے۔ کہیں بڑے بڑے شمعدان بھی نصب تھے۔ شاہی مقبرے خوب ہوادار اور روشن تھے۔ اُن کی کھڑکیوں کے دودھیا شیشے اور دروازوں کی بناوٹ انتہائی خوب صورت اور نفیس تھی۔ اُن کے فرش بھی قالینوں سے سجے ہوئے تھے۔ سلطان محمد دوم کا مقبرہ آرائش و زیبائش کے اعتبار سے ایک ننھا مُنا سا تاج محل نظر آتا تھا۔

مسجد کے سامنے ایک کشادہ صحن تھا۔ مسجد کی طرف جانے کی بجائے ہم لوگ صحابی رسولؐ کے مرقد کی طرف بڑھے۔ صحن میں چنار کا قدیم گھنا درخت جس کے بکھرے پتوں نے گند سا مچایا ہوا تھا طبیعت پر ایک بوجھ کی صورت میں گِرا۔ ہم لائن میں کھڑے ہو گئے۔ اپنے جوتے شاپروں میں ڈال کر بغلوں میں داب لئیے اور دُرود پڑھتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔

سبز روشنیوں میں جھلملاتا نیلی ٹائیلوں سے سجا یہ کمرہ جس میں وہ عاشق رسول استراحت فرماتے تھے۔ تعویذ کی کُرسی زمین سے بلند تھی اور درجہ بندی کے لئے سنہری جنگلے غالباً طلائی تھے۔ چھت سے لٹکتے قیمتی فانوسوں سے نکلتی روشنی کی شعاعیں ماحول میں تقدس کے رچاؤ کو گہرا کرتی تھیں۔ اور جب میں ہاتھ اُٹھائے فاتحہ پڑھتی تھی تو میری بکھری ہتھیلیوں پر وہ حروف پھیلنے لگے جو میری یادداشتوں میں کہیں محفوظ تھے۔

اِس استنبول کا پرانا رومن اور بازنطینی نام قسطنطنیہ تھا۔ اسی قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت میرے پیارے نبیؐ نے دی تھی۔ اِسے فتح کرنے کے لئے پہلا حملہ امیر معاویہ کے دور خلافت میں ہوا۔ حضرت ابو ایوب انصاری اس وقت زندہ تھے اور انہیں یہ علم تھا کہ حضورؐ پاک نے قسطنطنیہ فتح کرنے والوں کو جنت کی بشارت فرمائی تھی۔ چنانچہ 670ء میں عربوں نے اِس شہر کا جو پہلا محاصرہ کیا اس میں حضرت ایوب انصاری بہ نفسِ نفیس شامل تھے۔ اِس معرکے میں آپ شہید ہوئے۔ وصیت یہی تھی کہ مجھے یہیں دفنانا ہے۔ آپ کو قسطنطنیہ کی فصیل کے نیچے دفن کر دیا گیا۔

اِس محاصرے میں معاویہ کا بیٹا یزید بھی تھا۔ قیصر قسطنطنیہ کے اِس پیغام میں کہ دفنا جاؤ تم ہم تو قبر کھول کر ہڈیوں کا سرمہ بنا دیں گے۔ مسلمانوں نے قیصر کو کہلوا بھیجا کہ یاد رکھنا اِس قبر کو اگر کوئی گزند پہنچایا گیا تو پھر شام کا کوئی گرجا اور معبد سلامت نہیں رہے گا۔

شام و عراق اور ایران و مصر کی فتح کے بعد سلطنت اسلامیہ کا ہدف یہ علاقہ تھا۔ امیر معاویہ کے عہد سے مہمات کا سلسلہ آگے عباسی خلفاء سلجوقی اور پھر عثمانی سلاطین کے زمانے تک جاری رہا۔

یہ 1453ہجری تھی۔ ایدر نے کا جواں سال سلطان محمد قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا مصمم ارادہ کئیے ہوئے تھا۔ پہلا حملہ ناکام ہوا۔ وہ بے چین تھا، بیتاب تھا، مضطرب تھا، نا امید تھا۔ شہر جغرافیائی محل و وقوع کے اعتبار سے ناقابل تسخیر لگتا تھا۔ خواب میں زیارت رسولؐ ہوئی۔ بشارت کی نوید تھی۔ ابو ایوب انصاری کی قبر ڈھونڈنے کی بھی تلقین تھی۔ بس تو جنگی تیاریوں، جدید جنگی سازو سامان، حربی چالوں سے اُس نے بالآخر قسطنطنیہ فتح کر کے بشارت رسولؐ کی سچائی پر مہر ثبت کر دی تھی اور اب اکیس سالہ فاتح سلطان محمد اپنے سات زاہد و عابد دلیر اور جنگجو سالاروں کے ساتھ پورا ہفتہ اس جلیل القدر صحابی کی قبر کی تلاش میں گزارتا ہے۔ اور صحابی رسول ابو ایوب جو یہیں کہیں دفن تھے کو پانے کے لئے بے چین تھا۔

سا تویں دن دفعتاً مُلّا شمس الدین جو سلطان کا روحانی اُستاد تھا اور اس مہم جوئی میں جوش و جذبے سے شامل تھا نے بلند آواز میں چِلّا کر کہا۔

’’شہزادے مبارک ہو میں نے مزار ڈھونڈ لیا ہے۔ ‘‘

سلطان نے بمعہ اپنے رُفقاء فوراً کھُدائی شروع کر دی۔ نو فٹ نیچے ایک مربع سل ملی جس کے نیچے انہوں نے زعفرانی رنگ کے کفن میں لپٹا ہوا بدن پایا جس کے ایک ہاتھ میں صحیح سلامت ایک گیند تھی۔ سبحان اللہ۔

اور یہی وہ مزار کی جگہ تھی جہاں اس وقت کھڑی میں انہیں دیکھتی تھی۔ ٹَپ سے چند آنسو میری ہتھیلیوں پر گِر گئے۔

علّامہ پھر سامنے تھے۔

نکہتِ گُل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا

تُربت ایوب انصاری سے آتی ہے صدا۔

لوگوں کا ایک اژدہام تھا۔ سرخ و سفید چہروں والے نگران گو بڑے مستعد تھے۔ کِسی کو زیادہ دیر ٹھہرنے نہیں دیتے تھے مگر لوگ بھی بڑے پیاسے تھے وہ تو چاہتے تھے پھسکڑا مار کر بیٹھ جائیں اور نظروں اور جذبات کے رُوح افزا شربت سے اپنی پیاس بُجھاتے رہیں۔ سیما آنکھیں بند کئیے دعاؤں کے لامتناہی سلسلے میں کہیں گُم تھی۔ اور وہ ہمارے دو فرزند بھی ہتھیلیوں کو آنکھوں پر رکھے خضوع و خشوع سے دعاؤں میں مصروف تھے۔

مزار کے سامنے ہی جامع ایّوب اور ایوب مسجد ہے۔

اب ہم مسجد ابو ایوب کی طرف بڑھے۔ مسجد کے سامنے لمبا چوڑا خوبصورت صحن بکھرا ہوا تھا۔ یہاں سینکڑوں کبوتروں کی موجودگی، اُن کے پَروں کی پھڑپھڑاہٹ اور غٹرغوں ایک انوکھی سی موسیقی کو جنم دے رہی تھی۔

وضو کے لئے بنے گئے فوارے سے وضو کیا اور مسجد میں دعا پڑھتے ہوئے داخل ہوئے۔ مسجد کی تزئین نیلی ٹائیلوں اور لکڑی کے خوبصورت کام سے کی گئی تھی۔ جو فی الواقع بہت خوبصورت نظر آتی تھی۔ مسجد میں خواتین کے لئے مخصوص حصّے میں دو نفل شُکرانے کے ادا کئیے کہ اُس نے ہمیں یہ دیکھنے کی سعادت نصیب کی۔ آپؐ سے متعلق کچھ مقدس چیزیں بھی موجود ہیں۔ موئے مبارک، نعلین مبارک یہیں ایک کمرے میں سبز چادر میں لپیٹا ہوا وہ علم بھی ہے جو حضور اکرمؐ نے کِسی غزوہ میں حضرت ایوب انصاری کو عنایت کیا تھا۔

کوئی ہجوم تھا لوگوں کا۔ بالعموم یہ حصّہ عام دنوں میں کھولا نہیں جاتا مگر اُس دن کھُلا تھا۔ یقیناً ہم قسمت والے تھے۔ یہیں جامع میں عثمانیہ سلطنت کے بانی سلطان عثمان اول کی تلوار رکھی ہوئی ہے۔ ایک خوبصورت سی رسم بھی اِس سے جوڑ دی گئی کہ ہر نئے عثمانی سلطان کے لئے لازم ہوا کہ وہ سب سے پہلے جامع ایوب انصاریؓ میں حاضری دے۔ شکرانے کے نفل پڑھے اور امام مسجد تلوار اُس کی کمر سے مزین کرے۔ یہ تقریب مولو یہ درویش انجام دیتے تھے۔ یہ ایک طرح رسم تاجپوشی تھی۔ کَسی جنگی مہم پر روانگی سے قبل بھی سالار لشکر اور معتبر جرنیل یہاں حاضری دینا ضروری سمجھتے۔

نئے شادی شدہ جوڑے یہاں سلام کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ ایک ایسے ہی جوڑے کی ہم نے تصویر بھی بنائی۔

چند ایسے بچے بھی نظر آئے جو بے حد زرق برق لباس پہنے سرپر کلاہ اور کمر میں چھوٹی سی مصنوعی تلوار سجائے اپنی ماؤں کے ساتھ گھوم پھر رہے تھے۔ ایک ماں سے بات کی تو اشاروں کی زبان نے سمجھا دیا کہ بچے کی رسم ختنہ سے صحت یابی کے بعد اُسے دعا کے لئے لائی ہے۔

ہمارے دونوں فرزند اب ہمیں لے کر ایک ریسٹورنٹ میں آ گئے۔ کھانا تو ہم بھی چاہتے تھے پر تھوڑی سی کفایت کے ساتھ۔ لیکن لڑکوں نے مار دھاڑ مچادی۔ ٹھونس ٹھونس کر ماؤں کو کھِلانے لگے۔ لاکھ کہا اللہ کے بندو اُلٹی گنگا مت بہاؤ۔ پر کماؤ پوتوں نے ایک نہ سُنی۔

پھر ٹیکسی میں بٹھا کر ایمی نونو بھی چھوڑ گئے کہ پانچ بجے ان کی واپسی کی فلائٹ تھی۔

ایمی نو نو میں درختوں کے نیچے دھرے بینچوں پر بیٹھ کر ہواؤں کے جھُلار میں باسفورس کے پانیوں پر بکھری سنہری شام کی الوداعی دھوپ کا حسن، اس میں تیرتے سٹیمر لانچیں، کشتیاں، جہازوں میں لوگوں کی لدلدائی، اُترائی اور اُس کے دونوں کناروں پر پھیلے ایشیا اور یورپ کے عالیشان گھروں کے سلسلوں کی قطاریں اوپر اتنا نیلا کچور آسمان کِسی خوبصورت پینٹگ کا حصّہ معلوم ہوتا تھا۔ اِن خوبصورتیوں سے اپنی آنکھیں سینکتے اور اپنے اردگرد پھیلی مچھلی، برگر، اُبلے بھٹوں اور بہت سی ایسی دوسری چیزوں جن کے ذائقوں اور ناموں سے شناسائی نہ تھی کی خوشبوئیں سونگھتے اور خریدتے ہوئے مجھے احساس ہوا تھا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی خریداری کے لیے بیگ میں سے نوٹ نکالنے، دینے، لینے، ہتھیلی پر رکھی غیر ملکی ریزگاری گننے اور حساب کتاب کرنے میں تھوڑا سا بھیجا لڑانے کا تو ایک اپنا چارم ہے۔

شاخ زریں جسے دیکھتے ہوئے ابھی واپسی ہوئی تھی کسی ضدی بچے کی طرح دھرتی ماں کے سینے میں اندر تک گھسی ہوئی اس وقت اپنی ایک الگ شناخت کے ساتھ بھی سامنے تھی۔

ٹرام پر چڑھنے، اس کے ہوٹے لینے اور استنبول کے نظری تعارف کے لئے بھی بے قراری سی تھی۔ خواہش کے اظہار پر سیما نے اسے فوراً رد کرتے ہوئے کہا۔

’’چھوڑو اب۔ ہوٹل چلتے ہیں۔ ‘‘

’’سیما استنبول سے سرسری سا متعارف ہونا ہے اور تعارف کے لئے یہ سب سے سہل اورآسان طریقہ ہے۔ ‘‘

سیما اس کے قطعی حق میں نہ تھی۔ ساری زندگی اپنے میاں کی محفوظ گود میں گزارنے والی کِسی خطرے کو مول لینے کے لئے تیار نہ تھی۔ مگر ایسا کرنا ضروری تھا اور مجھ جیسی جنّی کے سامنے اُس کی کیسے چلتی؟پچکار کر ٹرام میں چڑھا دیا۔

سیٹیں مل گئیں۔ نظارے بصارتوں کو آواز دینے لگے۔ اجنبی آوازیں سماعتوں سے ٹکرانے لگیں۔ اسٹیشنوں کے نامانوس سے ناموں کا اعلان ہوتا۔ بیازت، یونیورسٹی، کیپاہ، لوگ اُترتے چڑھتے ماڈرن حجاب پہنے عورتیں اور لڑکیاں۔ دو رویہ فلک بوس عمارتوں کی رنگا رنگی، شاندار دوکانیں کہیں شام کے ڈوبتے سورج کی لالی کے رنگ اُن میں تیرتا پارکوں کا سبزہ۔ کہیں ڈھلانوں پر سرو کے بوٹوں کے زر نگاری میں ڈوبے سر۔

صدیوں پرانی حفاظتی خستہ حال دیوار کو دیکھنا بھی بہت خوبصورت تھا۔ قسطنطنیہ کے قدیم بادشاہتوں کا استنبول کے لئے یہ ایک عظیم اور خوبصورت تحفہ ہے۔ شہر کو عظمت کا رنگ دینے میں اس فصیل کا اپنا ایک کردار ہے۔ پرانے شہر کی تین اطراف اگر مرمرا اور باسفورس سے گھری ہوئی ہیں تو چوتھی جانب سنہری خلیج اُسے اپنی پناہ میں لئیے ہوئے ہے۔

مرکز آفندی پہنچ کر اُترے۔ قہوہ کیفے بڑا خوبصورت تھا۔ کرسُیوں پر بیٹھے لوگ زور و شور سے گپیں لگا رہے تھے۔ ہم جب قہوے سے بھری گلاسیاں ہاتھوں میں پکڑے، چُسکیاں لیتے، گرد و پیش کو دیکھتے اور لُطف اٹھاتے تھے ہمیں احساس ہوا تھا کہ کوئی اہم مسئلہ زیر بحث ہے کہ باتوں کے ساتھ ساتھ اخبار بھی لہرایا جا رہا تھا۔ میرے لئیے زبان یار من نمی دانم والی بات تھی۔ ایک دو سے پُوچھا بھی مگر وہ انگریزی میں کورے تھے۔ مجھے جاننے کے لئے جیسے اُچھل پیڑے لگے ہوئے تھے مگر بات نہ بنی۔ کِسی کو انگریزی آتی تو کچھ پتہ چلتا۔ ٹرام میں دوبارہ بیٹھے۔ ساتھ بیٹھنے والوں کو گل ہانہ کا بتایا۔ اور گل ہانہ آنے تک اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو لوگوں کی جان کھا لی کہ وہ گل ہانہ آنے پر ہمیں بتا ضرور دیں۔

یقیناً واپسی لوگوں کے بے پایاں تعاون سے خیر و عافیت کے ساتھ ہوئی۔ گل ہانہ سے ہمارا ہوٹل تو جیسے دو قدم کی چھلانگ پر تھا۔ کمرے میں اُس وقت تک آرام فرمایا جب تک بھوک نے نہ ستایا۔ سوچاکہ اٹھیں اور باہر نکلیں۔

ہمارا ہوٹل جس گلی میں تھا، وہ گلی کم اور ایک درّے کا سا تصور زیادہ ابھارتی تھی۔ عمارات کی دیواریں اپنی قامت کے اعتبار سے اتنی اونچی تھیں کہ دو پہاڑوں کے درمیان تنگ سے راستے کو درّہ کہتے ہیں کی تعریف پر بلند قامت پہاڑوں کی مکمل نمائندہ تھیں۔ یہیں ہمیں ایک ریسٹورنٹ نظر آیا۔ اند جا گھُسے۔ چھوٹا سا تھا۔ لوگ بھی زیادہ نہ تھے۔ مگر تھا بڑا اچھا۔ عملہ بھی بڑا مستعد اور انگریزی میں رواں دواں نظر آیا۔ ہوٹل والوں کی طرف سے فوراً توجہ ملی۔

بڑے دلکش سے نوجوان نے آ کر اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ وہ استنبول کے ایشیائی حصّے سے ہے۔ نام حکمت احمد تھا۔ پہلی ہی ملاقات میں کھُل گیا۔ مہنگائی کا چھوٹتے ہی اُس نے بھی رونا رویا۔ اُس رونے میں بہت سے دکھڑوں کے منہ کھُل گئے۔ بیوی کی سگریٹ نوشی کہ اُس نے دن بھر میں دو ڈبیاں ضرور پھونکنی ہیں۔ اب لاکھ سمجھا تا ہوں کہ دو سے ایک پر آ جاؤ مگر سُنتی نہیں۔ دو بچے اور دونوں کو مہنگے سکول میں پڑھا رہی ہے۔ ایک بجے سے پہلے گھر جانا نصیب نہیں۔ گھنٹہ تو جانے میں لگتا ہے۔ ابھی اُس ارادہ مزید تفصیل میں جانے کا تھا مگر چند گاہکوں کے آ جانے سے اٹھنا پڑا۔

چونکہ حکمت احمد اپنی غریبی کے رنڈی رونے رو بیٹھا تھا۔ اس لئیے اُسے یہ کہنے میں کہ کھانا اچھا بھی ہو اور سستا بھی ہم نے کوئی عار نہیں سمجھا۔ کھانے سے پہلے چھوٹی سی ڈش میں سلاد آیا۔ سلاد کیا تھا؟موٹا موٹا کٹا ہوا پیاز، ٹماٹر، کھیرا اور چقندر کے قتلے۔ دوسری ڈش میں اُبلے ہوئے چاول، کباب اور دال تھی۔

ہماری ہی طرح کی دو بوڑھی عورتیں تھیں۔ میرا خیال ہے مجھے کہنا چاہیے اُدھیڑ عمر کہ سیما بُرا مانے گی۔ آسڑیلیا سے تھیں۔ دونوں گہری دوست سیر سپاٹے کی شوقین جنہوں نے ہمیں دیکھتے ہی مسکراہٹیں بکھیری تھیں۔ ہم نے بھی لپک کر محبت سے ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔

اور جب ہم جانے کے لئے رخصت ہونے لگیں۔ شام والے واقعے کی یاد گھسیٹ کر مجھے حکمت احمد کے پاس لے گئی۔ میں نے اُس سے اِن دنوں کے کِسی اہم واقعہ کا پُوچھا۔ چند لمحوں تک وہ جیسے آنکھیں جھپکتا رہا اور پھر جیسے اُسے کچھ یاد آیا۔

’’اوہو۔ اچھا اچھا ‘‘کہتے ہوئے اُس نے بتایا۔

ترکی کے دینی امور کے ادارے کو حکومت کی طرف سے حکم ملا ہے کہ جمعے کے خطبے میں سورۃ ال عمران کی آیت۔ ’’بے شک اللہ کے نزدیک دین تو اسلام ہے ‘‘ کو نہ پڑھا جائے بلکہ اس کی جگہ اس حدیث کی تلاوت ہو۔ ’’گناہوں سے معافی مانگنے والا ایسے ہی ہے جیسے اُس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ ‘‘اِس حکومتی فیصلے پر مذہبی لوگوں نے شور مچا رکھا ہے۔ دائیں بازو کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا امریکہ کے دباؤ پر ہو رہا ہے کہ ترکی کا اسلامی تشخص متاثر ہو۔

’’تم کیا کہتے ہو۔ ‘‘ میں نے یونہی ٹوہ لی۔

’’میں تو نماز ہی نہیں پڑھتا ہوں۔ مجھے کیا۔ یہ جو سورتوں کے حوالوں سے معلومات ہیں یہ سب تو سیاحتی ڈیوٹی ہے کہ آپ جیسا کوئی سیاح پوچھ سکتا ہے۔ حالات حاضرہ سے واقف ہونا ضروری ہے۔ ‘‘

ہم تو سمجھتے تھے کہ امریکہ ہم جیسے ماٹھے ملکوں کے مونڈھوں پر ہی سوار ہے پر وہ تو ترکی میں بھی گھُسا ہوا ہے۔

حکمت احمد کھلکھلا کر ہنسا اور بولا۔

’’ارے بھئی ساری دُنیا اس کی رعایا ہے۔ بادشاہ کا کام کیا ہے، رعیت کی ٹانگیں کھینچنا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

باب نمبر: ۳ایا صوفیہ

 

۱۔ ایا صوفیہ” ڈیوائن وزڈم” کا تمغہ سینے پر سجائے، عثمانی سلاطین کی روا داری کی خوشبو اپنے اندر بسائے، پُر وقار ہیبت اور انوکھے طلسم سے بھری نظر آتی ہے۔

۲۔ سلطان احمت استنبول کا ڈاؤن ٹاؤن، اس کا حُسن اور تاریخ کا دل ہے۔

۳۔ یورپی طاقتیں تُرکی کے لئے معاندانہ جذبات رکھتی ہیں۔

 

پیٹ پوجا اور یاری دوستیاں نپٹا کر جب ہم واپس ہوٹل پہنچے۔ ریسپشن پر کھڑے لڑکے نے ایک برو شر ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا۔ یہ شہر کی خوبصورت جگہوں کی سیر کا پیکج تھا۔ میں نے بے اعتنائی سے اُسے دیکھا۔ چھوٹتے ہی انکار کر دیا اور آگے بڑھ گئی۔

کسی بھی جگہ کی سیر کے لئے میرا طریق کار ہمیشہ بڑا مختلف رہا۔ لیکن مجھے مڑ کر دیکھنا پڑا تھا۔ سیما اپنی جگہ جمی کھڑی تھی۔ حسین تھی۔ چہرے پر غصے اور رعُونت کے آڑھے ترچھے عکس بکھرے ہونے کے باوجود بڑی دلکش لگ رہی تھی۔ کہیں میرے جیسی صورت ہوتی تو نری چمارن لگتی۔

وہ غرّائی تھی۔

’’نہ تمہیں خجل خوار ہونے کا بڑا چاؤ ہے ناں۔ تو وہ بھی ہو لیں گے، بلکہ بسم اللہ تو ہو گئی ہے۔ دیکھو پلیز۔ شُتر بے مہاروں کی طرح ادھر اُدھر بھٹکنے کی بجائے چلو کسی گروپ کے ساتھ نتھی ہو جائیں اور قاعدے طریقے سے کچھ دیکھ لیں۔ ‘‘

اُس کے پاس باتوں اور دلائل کا ایک ڈھیر تھا۔ یہ اور بات تھی کہ وہ سب میرے نزدیک فضول تھے۔

’’دیکھو نہ کتنے لوگ دھڑا دھڑ بکنگ کروا رہے ہیں۔ یہ سب پاگل تو نہیں۔ ‘‘

بہرحال میں نے اُس کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے 50یورو فی کس کے حساب سے ایک دن کے پروگرام پر ٹک لگا دی۔ اب پھڈا تو ڈالنا نہیں تھا۔

ڈائننگ روم شاندار ہی نہ تھا۔ زمانے بھر کی چیزوں سے بھی ناکوں ناک بھرا پڑا تھا۔ مغربی گوشہ، ترکی کی سپیشل ڈشوں سے سجا، مشرقی کونہ مغربی لوازمات سے آراستہ۔ میرے جیسی ازلی حریص سبھوں پر ہاتھ صاف کرنا چاہتی تھی۔ ہر ذائقہ سے زبان کی خاطر مدارت اور اس کی شناسائی کی خواہش مند تھی۔ اُس بھونرے کی طرح جو پھول پھول اور ڈالی ڈالی پر منڈلاتا ہے۔ میں بھی ڈھکن اٹھا اٹھا کر کھانوں کے رنگوں، شکلوں، اُن کے اندر سے اٹھتی خوشبوؤں کا معائنہ کرتی جاتی تھی۔ جوسز کی اقسام کا کوئی شمار نہ تھا۔ دودھ دہی، سریل پھر جیسے میری نظر ایک بڑی سی ہنڈیا نما برتن پر پڑی۔ ڈھکن اٹھایا تو خوشبوؤں نے جیسے استقبال کیا۔ پاس سے گزرتے ویٹر سے پوچھا۔

’’یہ سپیشل ترکی ڈش گوکGuvecہے۔ اناطولیہ کے ہر گھر میں ہفتے کے تین دن پکنی ضروری ہے۔ ‘‘

پلیٹ میں ڈالی اور کھائی۔ کیا شاندار ڈش تھی۔ آلوؤں، گاجروں، پھلیوں اور گوشت کے قتلوں سے سجی۔ کسقدر چٹخارے سے بھری تھی۔

میٹھے میں بقلاوہ بھی چکھا۔ مگر بادام اور پستہ سے بھرا ہوا حلوہ تو بڑا منفرد سفید براق ٹکیوں کی سی صورت والاجیسے ہمارے ہاں کا سوہن حلوہ ہو۔ مگر نہیں جی اِس کی تو بات ہی نرالی تھی۔ گورا چٹا اور ذائقے سے لبالب بھرا پڑا۔ فوراً اس کی دو ٹکیاں ٹشو پیپر میں لپیٹ کر بیگ میں رکھیں کہ دوپہر میں میٹھے کا کوٹہ پورا ہو۔

اپنی طرف سے دوپہر کے کھانے کی گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔ تیار ہو کر نیچے آئے تو بس آ چکی تھی۔ ساری بس میں دیسی تو بس ہم دو عورتیں ہی تھیں۔ باقی پر تو میموں اور صاحب لوگوں کا ہی قبضہ تھا۔

یہ گائیڈ لوگ بھی بڑے کائیاں ہوتے ہیں۔ ٹورسٹوں کو اپنی مرضی سے پٹخنیاں دیتے ہیں۔ پہلے دو ڈھائی گھنٹے تو اُس نے کارپٹ اور ہینڈی کرافٹ کی اُن دوکانوں میں دستی کاریگری دکھانے میں لگائے جن سے یقیناً اُن کا کمیشن طے تھا۔

ترکی قالین یقیناً بے مثال تھے پر اسے کمال تک پہچانے میں پہلے نمبر پر سیلز مینوں کی معلوماتی چرب زبانی تھی۔ کِس خوبصورت میٹھے اور شیرینی سے بھرے لہجے میں کہتے۔

’’یہ قالین قونیہ کے نواحی قصبے قرہ مان کا ہے۔ آپ تو قونیہ کی تاریخ سے بخوبی واقف ہو گی۔ ‘‘

مجھے ہنسی آئی تھی۔ بھلا اُس کی روحانی فضاؤں کے ذکر کا قالین بافی سے کیا تعلق؟ہاں انہیں دیکھیں ذرا۔ اُس نے دو بڑے قالین لہرا کر ہمارے سامنے بچھا دئیے۔ یہ اسپارٹا کے ہیں۔ ‘‘

واقعی گہرے عنابی اور اف وائٹ رنگوں کا دلکش امتزاج، ڈیزائن اور بنت لاجواب۔ انہیں بنانے میں بہت دیر لگتی ہے۔ توصیفی جذبات بھی آنکھوں میں گھول لئیے تھے۔ اب وہ ہمارے سامنے سمرنا کے قالین کھول رہا تھا۔ سمرنا ازمیر کا پرانا نام ہے۔ لیجیے صاحب آدھا تُرکی تو کسی نہ کسی صورت میں سامنے آ گیا تھا۔

یہ بھی رنگوں اور نمونوں کے اعتبار سے لاجواب تھے۔ جی چاہتا تھا سب اٹھا کر لے جائیں۔ تاہم یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان کے تمثیلی مظاہروں میں جو جدت سٹائل اور مہارت تھی وہ اُن کے حسن کو دوچند کرتی تھی۔

کس سٹائل سے وہ بھاری بھرکم قالین کو زمین پر گراتے تھے۔ مجھے بے اختیار وسطی پنجاب کے گاؤں کی وہ الہڑ مٹیاریں یاد آئی تھیں جو گندم کے آٹے کے پیڑوں کو منڈے (پھلکے )بنانے کے لئے ہاتھوں میں لہراتے گھماتے ہوئے اسی دلربایانہ انداز میں توی پر پکنے کے لئے ڈالتی ہیں۔

مٹی سے ظروف سازی اور اس پر تزئین کاری کا عمل بھی ہمارے ہاں کے کمہاروں جیسا ہی تھا۔ وہی چاک پر مٹی کے لوتھڑے کو گھمانے اوراُسے شکل دینے کا عمل۔ تاہم یہاں کام میں جدت اور ماڈرن ازم تھا۔

ہینڈی کرافٹ کی دوکان میں لڑکوں نے ڈانگریاں پہن رکھی تھیں۔ رنگوں سے یوں لُتھڑی ہوئی جسے فوجیوں کی کیموفلاج والی وردیاں ہوں۔ بڑے لڑکے نے اپنے بارے اور اِس آرٹ بارے بتایا کہ وہ ترکی کے ایک چھوٹے سے قصبے کوتاہیہ سے ہے۔ جو اس فن کا گھر ہے۔ یہاں یہ پیشہ آباء و اجداد سے ورثے میں ملتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ہم نئی نسل نے تعلیم حاصل کی اور اس میں روایت کے ساتھ ساتھ جدت کے استعمال نے اسے قابل فخر بنا دیا۔ ہماری یہ چیزیں سجاوٹی زیادہ ہیں۔ کمرے میں رکھی گئی نمائشی اشیا نے رنگ و نور کی بارش برسا رکھی تھی۔

پون گھنٹہ نہ ہو گا تو گھنٹہ سوالگا لیجیے۔ جب ہمیں سلطان احمت سکوائر کے عین وسط میں بنے ات میدان میں لا کھڑا کیا۔ بازنطینی اسے ہپو ڈرومHipodrome کہتے تھے۔ بس سے اُترنے سے قبل کمال کا دلکش منظر میری بصارتوں سے ٹکرایا تھا۔ ایک طرف ایا صوفیہ اپنے میناروں اور منفرد گنبد کے ساتھ، دوسری طرف نیلی مسجد اپنے اوپر نیچے کے گنبدوں اور چھ میناروں کے ساتھ۔ ذرا دور وہ عظیم الشان فصیل توجہ کھینچتی تھی۔

بس سے نیچے اُتر کر نئے منظر، نئی رعنائیوں کے ساتھ سامنے آئے تھے۔ اس وقت دھوپ تیز تھی اور اِس تیزی میں اس کے سرسبز لانوں، ان میں اُگے گل بوٹوں، شاہ بلوط اور چناروں کے درختوں کی ہریالیوں، اس کے چمکتے میدان، ان میں سربلند زمانوں کی تاریخ اٹھائے چوکور بلند و بالا کالموں کو دیکھنا کسقدر فسوں خیز تھا۔ غیرملکیوں کے پُرے گائیڈوں کو دائروں میں سمیٹے بے چاروں کو تاریخ سے ہلکان ہوتے دیکھتے اور سنتے تھے۔

میں زمان و مکان سے بالا کہیں اُس عظیم بازنطینی شہنشاہ کونسٹینن کی دنیا میں سانس لیتی تھی۔ جب وہ اس شہر کو رومن سلطنت کا دوسرا دار الخلافہ بنانے کے لئے اِسے اُسی معیار کا بنانا چاہتا تھا۔ اس میں تعمیراتی کام کا آغاز تو شہر فتح ہونے کے فوراً بعد septimus severus کے زمانے میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ تاہم اسے عروج تک پہچانے میں کونسٹینین کو ہی خراج پیش کرنا ہو گا۔

سچ تو یہ ہے کہ اُس نے ہپوڈروم کو بھی ویسے ہی بنایا سجایا۔ ریس ٹریکوں میں بنے بمپروں کو آرٹ کے نمونوں سے حسن دیا۔ یہ رتھ ڈور کاہی نہیں جو بازنطینوں کی زندگیوں میں کھانے پینے جیسی اہم ضرورت جیسا جز تھا، بلکہ ہر نوع کی کھیلوں، ثقافتی سرگرمیوں اور میلوں ٹھیلوں کا مرکز بھی تھا۔ شاہی شادیوں کا اگر جنج گھر تھا تو عوام کا ا توار بازار یا جمعہ بازار بھی تھا۔ جو جی چاہتا ہے کہہ لیجئیے۔ اُس دور کی ہر قسم کی ایجی ٹیشن سرگرمیوں کے لئے بھی اِسے ہی چنا جاتا۔ یہیں خوفناک قسم کے جھگڑے ہوتے۔ مار کٹائیاں ہی نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر قتل و غارت بھی ہوتا۔

وہ دلچسپ واقعہ بھی اِسی ہپو ڈروم سے ہی متعلق ہے کہ سلطان ابراہیم کا وزیر اعظم جو حد درجہ فربہی جسامت کا مالک تھا۔ اُس کی معز ولی اور پھانسی کے بعد اس کی لاش کو اسی میدان میں پھینک دیا گیا۔ صُبح سویرے ایک ینی چری(عثمانی فوج کا خاص سپاہی) نے لاش کو دیکھا۔ اب یہ تو اللہ جانے کہ اس نے یہ سُن رکھا تھا یا یہ اس کی ذہنی اختراع تھی کہ موٹے شخص کا گوشت جوڑوں کے درد کا موثر علاج ہے۔ اُس نے فوراً لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں بیچنا شروع کر دیا۔ دس پیاستر کا ایک ٹکڑا۔

سیما کِس انہماک سے گلا پھاڑتے گائیڈسے یہ کہانی سُن رہی تھی۔ میں نالائق دائیں بائیں دیکھتی تھی۔ خوبصورت آہنی جنگلوں میں مقید مصری obelisk، سرفنٹائن اور کانسٹنٹائن کالم دیکھنے اور ان کی تاریخ سے تھوڑی سی جانکاری کرنا بھی بڑے مزے کا کام تھا۔

ایک تو وقت کے بادشاہوں کو اپنے ناموں کے جھنڈے گاڑنے کا بڑا چسکا اور بڑا ارمان ہوتا ہے۔ چیزوں کی اکھاڑ پچھاڑ۔ یہاں سے پُٹو وہاں لگا دو۔ ان کے لئے ایسے کام بڑے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ اب یہ گلابی گرینائٹ والی ابیلسیکobeliskجسے فرعون تھوتھمس سوم نے دریائے نیل کی ایک چٹان سے کٹوا کر بنوائی اور مصر کے جنوبی شہر لکسر کے کرنک ٹمپل میں گاڑھی۔ اس پر اس وقت کی رائج تحریری رسم الخط ہیرو گلیفکسHieroglyphics میں کندہ کاری بھی کروائی۔ میں نے لکسر شہر کے کرنک ٹمپل میں ایسے کئی نمونے دیکھے تھے۔ اب بازنطینی شہنشاہ تھیوڈوسTheodosiusاوّل نے اسے وہاں سے اکھاڑا اور لا یہاں نصب کیا۔

تمغہ کس کے گلے میں ڈالا جائے۔ تھوتھمس کے یا تھیوڈوس کے۔ اُس وقت میں بھی وقت کی ٹنل میں کھڑی تھی۔ میں نے ہنستے ہوئے اِسے دونوں کے گلوں میں ڈال دیا۔

کانسٹنٹائن کالم Constantine کانسٹنٹائن ہفتم نے پیتل اور تانبے سے بنوایا تھا۔ بیچارے کی زلزلوں، برفانی ہواؤں اور طوفانوں نے مت مار دی۔ مگر شیر کا بچہ ابھی بھی کھڑا ہے۔ چیلنج کرتا ہوا۔

سب سے دلچسپ پر اس کے ساتھ ساتھ خوفناک اور ڈراؤنے تاثر کو ابھارتا سرفنٹائن serfentineکالم ہے۔ یہ ات میدانی کا دوسرا بڑا کالم ہے۔ جسے کانسٹنٹائن ڈیلفی (Dephi) کے اپالونApollonٹمپل سے لایا تھا۔ یہ یونانیوں کی اُس فتح کی یاد میں ہے۔ جو انہیں فارسیوں پر نصیب ہوئی تھی۔ گائیڈ بتا تا تھا کہ کبھی یہ تین سروں والا اژدہا تھا۔ مگر اب سر ور غائب تھے۔ ایک کنڈل سا باقی تھا۔ یوں دیکھنے میں بڑا ہی ڈراؤنا سا تھا۔ سب سے زیادہ سیاحوں کا رش اسی کے گرد تھا۔

’’ہائے یہ ات میدان تو ڈاؤن ٹاؤن کا دل ہے۔ ‘‘میں نے گرد و پیش پر ایک بھرپور نظر ڈالتے ہوئے خود سے کہا۔

اتنا حسین، اتنا تاریخی۔ جرمن قیصر ولیم کا فوارہ بھی دیکھنے کی چیز تھی۔ استنبول آیا تو سلطان عبدالحمید ثانی نے دیدہ و دل اس کی راہوں میں بچھائے۔ یروشلم گیا تو باب جیفہ تک اُس کی بگھی کے لئے پکّی سڑک بنوائی۔ قیصر میزبانی سے ایسا متاثر ہوا کہ واپس جا کر یہ بنوایا اور ٹرین سے بھجوایا جو یہاں نصب ہوا۔

بھئی جرمنی اور ترکی میں بڑی محبت تھی۔ سیما اور میرے درمیان مکالمہ ہوا۔ مفادات بھی ایک دوسرے سے جوڑے رکھتے تھے۔ اِس دوستی نے ہی تو ترکی کو بُرے دن دکھائے۔ وہ جو کہتے ہیں ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھے بھی لے ڈوبیں گے۔ تو جب جنگ عظیم کا طبل بجا تو سیاسی بصیرت اور وژن نہیں تھا کہیں۔ دوستی اور ماضی کے تعلقات پیش نظر تھے۔

چلو گھنٹہ بھر میں اس کی سیر سے بھی نپٹے۔ حالانکہ ضرورت تھی کہ یہاں کچھ وقت مزید گزارا جاتا۔ بہت خوبصورت ماحول تھا۔ مگر نہیں جی ہوا کے گھوڑے پر سوار والی بات تھی۔ چل سوچل۔

میرے صبر کا پیمانہ اُس وقت لبریز ہو گیا جب ایا صوفیہ کو دیکھنے کے لئے صرف آدھ گھنٹہ ملا۔ ایاصوفیہ سے میری جذباتی وابستگی زمانوں سے تھی۔ اس کی فینٹسی نے ہمیشہ مجھے مسحور رکھا۔ ساتویں جماعت میں پڑھنے والی وہ لڑکی ہمیشہ میری یادداشتوں میں محفوظ رہی جو اپنی اردو کی کتاب میں ایا صوفیہ کی کہانی پڑھ کر اپنی کلاس میں ہی بیٹھی اس کی تصویر کو دیکھتی اور سر عبدالقادر کا لکھا ہوا احوال پڑھتی رہی تھی۔ سکول خالی ہو گیا تھا۔ وہ لڑکی میں تھی اور ایا صوفیہ آج میرے سامنے مجسم تھی۔

ایک پر وقار ہیبت، ایک انوکھے طلسم قدم قدم پر منجمد کرنے والے سحر سے بھری ایا صوفیہ بہت سے ادوار کی کہانیاں سُناتی ہے۔ وہ کہانیاں جنہیں سُننے کی مجھے شدید تمنا تھی۔ بازنطینی طرز تعمیر اور مشرقی رومن ایمپائر کے دبدبے اور عظمت کی مظہریہ جسے چرچ آف ڈیوائن وزڈمChurch of Divine Wisdomکہا گیا ہے۔ یہ جس کی فضاؤں میں عثمانی سلاطین کی مذہبی رواداری کی خوشبو ہے۔ اس خوشبو کو محسوس کرنے اور سونگھنے کے لئے وقت درکار تھا۔

میں ہجوم سے الگ ہو گئی تھی۔ میں تھی، ایا صوفیہ تھی اور اندر باہر پاکستانی پاکستانی کی سارے میں ڈھنڈ یا پڑی تھی۔ گائیڈ مجھے تلاش کرتے کرتے بے حال تھا۔ سیما میرے یوں گواچی گاں کی طرح منہ ماری پر تلملا رہی تھی۔

’’تمہارے ہمیشہ سے ہی ایسے لچّھن رہے ہیں۔ سوات میں بھی تم نے مجھے اور نیلم کو یوں ہی ذلیل کیا۔ دریا سے جھپیاں ڈالنے بیٹھ گئیں اور ہم روتی رہیں کہ ہائے ہماری پیاری سہیلی کو لہروں نے نگل لیا۔ ‘‘

’’لعنت ہے تمہارے اوپر۔ مجھے بھی تپ چڑھی ہوئی تھی۔ تاریخ سے کچھ واقفیت ہو تو جانو کہ استنبول کی جگہیں ٹھنڈے میٹھے روح افزا کے وہ گلاس ہیں جنہیں مزے لے لے کر گھونٹ گھونٹ پینے کی ضرورت ہے۔ یہ الّو کے پٹھے پورا گلاس سانس لئیے بغیر ہمارے حلق میں انڈیل دینا چاہتے ہیں۔ مجھے اچھّو نہیں لگوانا اور ہاں سُنو مجھے اپھارہ بھی کروانا۔ ‘‘

’’لو وڈی امّاں بنی پھرتی ہے تاریخ کی اور سُنا بھی مجھے رہی ہے جو تاریخ اور سیاست پڑھنے والے شوہر سے صُبح شام لیکچر سُن سن کر اِس تاریخ سے ناکوں ناک آئی پڑی ہے۔ ‘‘

اس وقت میں ایا صوفیہ کے سحر میں گُم تھی۔ جوابی حملہ کر ہی نہیں سکی۔ مگر میں نے بس میں چڑھنے کے ساتھ ہی گائیڈ کو دیکھتے ہی زور  دجھ ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیددار آواز میں اعلان کر دیا تھا۔

’’ ہم آپ کا پیکج ہاف ڈے کا کر رہے ہیں۔ ہوٹل والوں کو مطلع کر دیجئیے۔ ‘‘

ہاف پیکج کا آخری آیٹم گرینڈ بازار کی سیر تھی۔

گاڑی گرینڈ بازار کے قریب ایک پارکنگ میں آ کر رُک گئی تھی۔

پہلے ایک عظیم الشان مسجد نظروں میں آئی۔ نور عثمانیہ مسجد۔ بائیں ہاتھ منی چینج آفس کی عمارت دکھائی دی۔

’’ چلو اچھا ہے کرنسی بدلوانے کی کوئی صورت تو نکلے گی۔ ‘‘ میں نے خود سے کہا۔

گرینڈ بازار کے بیرونی دروازے کے ساتھ ہی منی چینج آفس تھا۔ میں اور سیماں فوراً اس میں گھس گئیں۔ جگہ تنگ اور لوگ زیادہ۔ میں آخری کونے میں جا کر کھڑی ہو گئی۔ شیشے کی چھوٹی سی دیوار میں بنے قوس نما کٹ میں سے سر کو جھکا تے ہوئے سیٹ پر بیٹھے با ئیس ’22‘تیئس ’23‘سالہ خوش شکل سے لڑ کے سے میں نے ڈالر اور یورو کا ریٹ پوچھا۔

’’ 1.42اور 1.82 ‘‘ جواب ملا۔

’’پر یہ تو کم ہے۔ 1.46اور 1.85ریٹ ہے۔

پھر کچھ سوچتے ہوئے اپنایت کے اظہار کے طور پر میں نے پاکستانی ہونے کا بتایا۔ لڑکا کھلکھلا کر ہنسا اور بولا۔

’’پھر تو 1.40ہونا چاہیے۔ ‘‘

میں کچھ حیرت زدہ سی ہوئی۔ ترک پاکستان اور پاکستانیوں سے بہت محبت کر تے ہیں۔ سُنی سنائی اور پڑھی پڑھائی باتوں کے بر عکس ہمارا ڈیڑھ دن کا تجربہ اگر زیادہ حوصلہ افزا  نہیں تو مایوس کن بھی نہ تھا۔ پر یہ تو خاصی دل شکنی والی بات تھی۔ تاہم میں نے سر جھٹکا اور نوٹ گننے لگی جو 1.42کے حساب سے 284لیرا ہی تھے۔

284لیرے جو پرس کی اندرونی جیب میں آسانی سے کھڈے لائن لگ گئے تھے۔ دوسو ڈالر کی تو میرے ملک میں نوٹوں کی اچھی خاصی تھدی بنتی ہے۔ بیرون ملک بیشتر پاکستانیوں کی طرح میرے سینے سے بھی لمبی لمبی آہیں نکلتی ہیں۔ مقابلوں اور موازنوں میں ’’ کاش‘‘ کی ہُوک کلیجہ تڑپاتی ہے۔

سب سے پہلے تو جس چیز نے نگاہ و دل کو قابو کیا وہ بازار کا کشادہ محرابی داخلی دروازہ تھا۔ پیشانی پر کیپلی کارسیKapalicarsi سنہ1461 ؁ء درج تھا۔ زمانوں کی تاریخ اور ورثہ سنبھالنے والا یہ بازار۔

اُف مرعوبیت انتہاؤں پر تھی۔

عربی رسم الخط میں دو لمبی قطاروں میں خلافت اسلامیہ، سلطنت فلاں ابن فلاں کی تفصیل چمکتی تھی۔ اندر الف لیلوی کہانیوں کی طرح تھا۔ بیضوی چھتوں کے ساتھ آگے اور دائیں بائیں، اطراف سے محراب در محراب پھیلتا ہلکے زردئی رنگ میں ڈوبا ہوا جسپر شوخ رنگوں کی نقش و نگاری اسے بازاروں کی دنیا میں ایک انفرادیت دیتی تھی۔ برقی قمقموں کی تیز جگمگاتی روشنیوں میں اس کی سجی ہوئی دوکانیں سیاحوں کے دلوں پر برق بن کر گر رہی تھیں۔

شاپنگ کبھی میرا کریز نہیں رہا۔ پر سیما کی یہ کمزوری ہے۔ ابھی ہمیں استنبول وارد ہوئے دوسرا دن ہے اور اُسے ہوٹل والی گلی میں جیولری کی دوکان نظر آ گئی ہے اور اُس کا دل ہیرے کی انگوٹھی پر بھی آ گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ابھی بھاؤ نہیں بنا۔ مگر مجھے امید ہے کہ بارہ دن جب ہماری واپسی ہو گی وہ اس کی انگلی میں لشکارے مار رہی ہو گی۔

اُس نے بُسرا نامی کوئی سپیشل کپڑا بھی خریدنا ہے جس کی فرمائش اس کی لاڈلی بیٹی عروج نے کی ہے۔

’’دیکھو میں یہ فضول کام ہرگز نہیں کر سکتی۔ ‘‘واشگاف الفاظ میں میرا اعلان تھا۔

کپڑے کی چند دوکانوں کے سامنے اُسے کھڑا کرتے ہوئے کہا۔ ’’چلو اپنا شوق پورا کرو۔ میں کوئی پون گھنٹے بعد تمہارے پاس ہوں گی۔ ‘‘

’’اب گُم نہ ہو جانا۔ ‘‘اُس نے تنبیہی نظروں سے مجھے گھورا۔ اُس سے زیادہ میری منہ ماری کی عادت سے بھلا کون واقف تھا۔

بازار بھُول بھُلّیوں، پیچ در پیچ سلسلوں اور رنگ و بو کے طلسم سے بھری ایسی دنیا تھی جہاں بھٹکنے کا ننانوے نہیں سو فیصد چانس تھا۔ میں نے احتیاط برتی۔ ہر خم میں داخل ہوتے ہوئے اُس کی خصوصیات ذہن نشین کیں۔ تھوڑا سا آگے جا کر واپس پلٹی۔ پھر اِس عمل کو دہراتے ہوتے ہوئے کِسی اور طرف بڑھی۔ زیادہ مہم جوئی سے گریز کیا کہ سیما کا خیال اور اس کی ناراضگی پیروں کی بیٹری بن گئی تھی۔ قریبی کیفے میں بیٹھ کر شیشے کے چھوٹے سے گلاس میں بغیر دودھ کے کسیلا قہوہ جسے میں نے پانچ چھ چینی کی کیوبز سے میٹھا کر لیا تھا پیتے ہوئے غیر ملکی سیاحوں کے پُرے دیکھتی تھی۔ اتنا سیاح کہ دل سے بار بار ہوک اٹھتی تھی۔ میرے مولا میرا وطن کب اِن نظاروں سے بھرے گا۔

نور عثمانیہ مسجد بہت شاندار اور خوبصورت تھی۔ ظہر کی نماز پڑھنے اندر گئیں۔ اِس کے اندر کے حُسن کو سراہا ضرور مگر تفصیلی ملاقات پھر کِسی وقت کے لئے اٹھا رکھی۔

پچھلی جانب کے کشادہ کھلے میدان میں بنی فوڈ سٹریٹ کے ایک کھوکھے سے پُرتکال (مالٹا) کا جوس پیا اور ایا صوفیہ دیکھنے کے لئے روانہ ہوئیں۔

بازار سے باہر ایک ریڑھی والے سے مکئی کے بھٹے خریدے۔ یا اللہ 80 اسّی لیرے کا سُن کر اپنے ملک کو دعائیں دیں۔ بے چارہ ماٹھا سا ہمارا دیس جسے ہر کوئی گالیوں اور کوسنوں کی سان پر چڑھائے رکھتا ہے۔ دیکھو تو کتنا سستا ہے۔ یہی چھلّی دس پندرہ روپے کی مل جاتی ہے۔ گرما گرم نمک مرچوں کے کرارے آمیزے اور کھٹے میں لتھڑی ہوئی۔

ہم اب پھر ایا صوفیہ کے سامنے کھڑے تھے۔ ٹکٹ دوبارہ لیئے۔ یہ کبھی کا یونانی آرتھو ڈوکس چرچ، عثمانی سلاطین کی مسجد، حال کا عجائب گھرسیما نے لاکھ کہا۔

’’دیکھ تو لی ہے اب کیا اِسے چاٹنا ہے ؟‘‘

’’ہائے سیما میرے زمانوں کا رومانس۔ ‘‘

نظروں کے والہانہ پن سے میں اس کے مرکزی گنبد کو دیکھتی تھی۔ زعفرانی رنگ میں ڈوبے دوسرے گنبدوں کو تکتی تھی۔ تیز روشن کرنوں میں اس پر چمکتے سنہری جھلکیاں مارتے اس کے طلائی نشان کے ہوائی بوسے لیتی تھی۔ اس کے چاروں کھونٹ گڑے میزائلوں جیسے میناروں پر میری چاہت بھری نظریں تھیں۔

مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی عظیم الشان گنبد نے گردن اٹھانے کے لئے کہا۔ ماں بیٹے کی تصویریں۔ بازنطینی دور کی پینٹینگ کیسی خوبصورت اور باکمال۔ آنکھوں میں جلتی عقیدت اور محبت کی مشعلوں کی روشنی اُن تک پہنچائی اور آگے بڑھی۔ وسیع عریض ہال میں داخل ہوتے ہی جیسے ایک طلسم کدہ آنکھوں کے سامنے وا ہوتا ہے۔ آنکھیں حیرت زدہ سی چکرا چکرا کر کہیں اس کی بلند و بالا محرابوں سے ٹکراتی کہیں اُن میں ستونوں سے سجی بالکونیوں پر رُکتی ہیں۔ پھر گردن سر کو اوپر اٹھا دیتی ہے اور چھت اپنی فسوں خیزی کے ساتھ آنکھوں میں اُتر آتی ہے۔ اس کی ہیبت نے دیر تک جکڑے رکھا۔ پھر محراب و منبر نے متوجہ کیا۔ پھر وہ واحد، رشتوں سے بے نیاز میرا رب میرا پیارا آقاؐ اور وہ میری چاروں عزیز ہستیاں۔ ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی۔ ابو بکر، عمر، عثمان و علی‘‘ نظر آئی تھیں۔ آنکھوں میں مشعلیں سی جلیں۔ دل کا کنول کھلا۔

سوچوں نے ایک منظر کھولا۔

وہ منظر جب وہ اکیس سالہ جیالا یہاں داخل ہوا تھا۔ عفو و درگزر کا پیکر بن کر جس نے یہاں پناہ لینے والوں کوتحفظّ دیا تھا۔ اذان گونجی اور نماز ادا کی گئی۔ گویا بشارت رسولؐ کی تکمیل ہوئی۔ سبحان اللہ دل تو میرا بھی چاہتا تھا کہ میں یہاں سجدہ دوں۔ مگر یہ اب میوزیم ہے دنیا کے دو بڑے مذاہب کا ورثہ سنبھالنے والا۔

دیواروں اور ستونوں پر محرابی صورت گیلریاں، بلند و بالا کھڑکیوں سے آتی روشنی فرش پر بتاشے سے بناتی، انتہائی قیمتی اور جہازی سائز شیلنڈلیئرز کی روشنیوں کے باوجود اندھیرا ٹھنڈک اور ایک با وقار سا طلسم اس کی رگ رگ میں پھیلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پورے دو گھنٹے ہم نے وہاں گزارے۔ منظروں کو اپنی آنکھوں میں سموتے بالا ئی حصّہ بھی دیکھا۔ جو عورتوں کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ دروازوں پر کندہ کاری بے مثل محراب در محراب ساخت والی چھتیں، کھڑکیوں پر دلکش نقاشی اور مقدس ہستیوں کی تصویر کشی صدیاں گزر جانے پر بھی آب و تاب کی لو دیتی ہوئی۔ سیڑھیاں بہت زیادہ، اندھیرا اور پر اسراریت کا طلسم یہاں بھی کار فرما تھا۔

میرے لئیے وہ سب پینٹنگ بہت دلچسپی لئیے ہوئے تھیں۔ جہاں شہنشاہComnenos II اور ملکہ آئرن تھیں۔ کہیں شہنشاہ کونسٹینن منومیکبس اور ملکہ زوئے بیٹے کے ساتھ کھڑی تھیں۔ کہیں وہ پیاری سی ورجن میری جسٹینن اور کونسیٹنن کے ساتھ تھیں۔ بازنطینی دور کے آرٹ اور عقیدے کے شاہکار۔

تعمیر کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ اور معجزاتی ہے۔ شہنشاہ کے خواب میں فرشتے نے آ کر اس کا نقشہ پیش کیا۔ کام کے طریق کار کی وضاحت کی اور ہدایت کی کہ پانچ ہزار مستری اور مزدور دائیں طرف اور اتنے ہی بائیں طرف کام کریں۔ ایک مرحلے پر جب پیسے کی کمی آئی اور تعمیر رُک گئی۔ فرشتہ کِسی ہیجڑے کے روپ میں آیا اور اُس غار تک رہنمائی کی جہاں سے ٹنوں کے حساب سے سونا ملا۔ معجزوں کی تفصیل بھی بڑی لمبی چوڑی ہے۔ عیسائیوں کی ہی نہیں، مسلمانوں کی بھی۔

میرا خیال ہے مجھے سچائی کے ساتھ یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ میرے اندر اس کے مسجد بننے کے عمل کی پسندیدگی کہیں نہیں تھی۔ بعینہٰ اسی طرح جیسے مجھے مسجد قرطبہ میں گرجا گھر بنانا کبھی اچھا نہیں لگا۔ آخر آپ تاریخ کے ساتھ کھیل تماشے کرنے کا کیا حق رکھتے ہیں۔ گو اس میں بھی کوئی شک نہیں تھا کہ اس کی فضاؤں و ہواؤں میں اذانوں کے دلکش سحر کی بازگشت مجھے ہانٹ کر رہی تھی۔ میرے اندر کی جذباتی وارفتگی میں میری مسلمانیت کا بھی کچھ دخل ضرور تھا۔ اور مجھے یہ لکھتے ہوئے بھی کوئی عار نہیں کہ میں نے اپنی دونوں مختصرسی ملاقاتوں میں چند سیاحوں کی عیسائی ذہنیت کا بھی کچھ ایسا ہی مظاہرہ دیکھا کہ ان کے کیمروں کے فوکس حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ اور اُن سے متعلق دیگر ہستیاں اور واقعات ہی تھے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ سیاحوں میں اُس وقت اتفاقیہ طور پر زیادہ تعداد آرتھوڈوکس کیتھڈرل کے ماننے والوں کی ہو۔

چلئیے اس بحث کو چھوڑیں۔ اب پانچ سو برس سے مسجد کا چولا پہننے والی ایا صوفیہ کو ترکی کی جدید حکومت نے میوزیم کا درجہ دیتے ہوئے اسے مسجد اور گرجے کے جھنجٹ سے نکال کر اپنی روشن خیالی اور سیکولر پالیسی پر گامزن ہونے کا عندیہ دے دیا۔ یہ اچھا ہی ہے۔ جس کا جی چاہے وہ آئے اور اپنے دل کا رانجھا راضی کر لے۔

ہمارا ہوٹل وہاں سے قریب ہی تھا۔ سوچا چلتے ہیں۔ ایک دو گھنٹے کے آرام کے بعد پھر نکلیں گے۔ مگر بھوک زوروں پر تھی۔ کیا کھایا جائے ؟ ایک سوالیہ نشان۔ شکر ہے وہاں قریب ہی کنٹین تھی۔ دو ڈونر کباب سینڈوچ بنوائے۔ آئرن (لسی) کو ترجیح دی۔

بھوک آداب نہیں جانتی۔ بڑی کڑوی حقیقت۔ کِس والہانہ بیتابی و شتابی سے منہ ماری کی۔ پہلا لقمہ اندر گیا۔ ہری مرچ کا کوئی ٹکڑا دانتوں تلے آ گیا تھا۔ سی سی کے ساتھ جو لطف آیا وہ بھی بے مثال تھا۔ سوچا اِسے کھول کر تو دیکھوں۔ نان کے ٹکڑے پر پہلی تہہ کریم کی تھی یا دہی کی۔ پتہ نہیں چلتا تھا۔ ٹماٹر کی چٹنی اپنا پتہ بتاتی تھی۔ اِن سب پر ڈونر کباب اپنے پہلو میں ہری مرچیں لئیے قابض تھا۔ ہم نے لپیٹ لیا۔

’’ہائے میں صدقے کتنا مزیدار ہے۔ ‘‘کہتے ہوئے دوسری بائٹ لی اور لسی کا گھونٹ بھرا۔

دفعتاً مجھے پڑھی ہوئی ایک بات یاد آئی تھی۔

’’ارے سیما۔ ایا صوفیہ کے بیرونی حصّے کی ایک دیوار میں ایک سوراخ ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ حضرت خضر ؑ نے اس میں اُنگلی ڈال کر اس عمارت کا رُخ قبلہ کی جانب کر دیا تھا۔ بھئی وہ تو دیکھنا تھا۔ ‘‘

سیما نے اٹھتے ہوئے بے نیازی سے کہا۔

’’عمارت قبلہ رُخ ہو گئی۔ یہ بات کافی نہیں دل کی تسکین کیلئے۔ مزید اس میں نمازیں اور اذانیں بھی گونجیں۔ ماشاء اللہ سونے پر سہاگہ۔ تجھے رج ہی نہیں آنا۔ چل ہوٹل ٹانگیں ٹوٹنے والی ہو رہی ہیں۔ اُس کی ایسی شاندار لتاڑ مجھے مُوت کی جھاگ کی طرح بٹھانے کو کافی تھی۔

میری غرض تو کمر سیدھی کرنے سے تھی۔ ہاں سیماتھوڑی سی اُونگھ بھی چاہتی تھی کہ تازہ دم ہو جائے کہ پھر بس، ٹرام یا میٹرو کِسی پر چڑھ کر تھوڑی سی اور آوارہ گردی کا پروگرام تھا۔ میری بُری عادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دن میں سونے یا آرام کرنے سے میں بڑی الرجک سی ہوں۔ سیما تو لیٹتے ہی کَسی دوسری دنیا میں پہنچ گئی۔ میں نے تھوڑی دیر پلسیٹے (کروٹیں ) مارے پھر اٹھ کر لفٹ سے نیچے لاؤنج میں آ گئی۔ تپائیوں پر دو تین اخبار پڑے تھے۔ چند چینی جاپانی بھی دکھتے تھے۔ میں نے ان کی طرف توجہ دینے کی بجائے اخبارات کی پھولا پھرولی کے لئے ایک کو اٹھایا ہی تھا جب میرے عین سامنے آ کر بیٹھنے والے فربہی سے ایک مرد نے مجھ سے اُردو میں "پاکستان سے ہیں۔ "کا پوچھا۔

ظاہر ہے اب اخبار کا چھٹنا فطری بات تھی۔ گورا چٹا اونچا لمبا احسن کلیم جو پاکستانی نژاد ضرور تھا پر جرمن شہری تھا۔ بزنس میں تھا۔ پاکستان کے لئے اس کے پاس دُکھ اور غُصے بھرے جذبات تھے۔

’’سیاستدانوں کے پاس وژن نہیں۔ جرنیلوں نے ملک کے مشرقی ہمسائے کو دشمن اور مغربی کوسٹریٹیجک strategic نگاہ سے اپنا حلیف بنا کر رکھنے پر زور دیا۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان تیسری دنیا کے تیز ترین ترقی کرنے والے ملکوں کی قطار میں سب سے آگے تھا۔ یہی چیز اس کے بد خواہوں اور دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتی تھی۔ کولڈ وار میں گھسیٹ کر ایسا الجھایا کہ پرائی جنگ کو اپنے گھر میں ڈال بیٹھا۔

میں اُس وقت سیاسی اور فوجی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں جس نے مذہبی جنونیت، گروہی اور لسانی تعصبات، معاشرے میں بڑھتی ہوئی خون ریزی اور تشّدد کو جنم دے کر پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے دنیا میں بدنام کر دیا پر کچھ سُننے کی خواہشمند نہیں تھی کہ یہ جی کو نہیں خون کو جلانے والی باتیں تھیں اور ہم وطن میں یہی کام کرتے تھے۔

اُس کی اگلی بات اور بھی ڈرامائی انداز کی تھی۔

یہ ترکی جسے پاکستان اپنا رول ماڈل سمجھتا ہے اسے بھی بڑی طاقتیں اب اسی ڈگر پر چلانے کا پروگرام رکھتی ہیں۔ اسے بھی انہی اندھیروں میں دھکیلنے کے لئے کام ہو رہا ہے جو پاکستان کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ طیب اردوآن نے نورسی تحریک یا فتح اللہ گولین سے وابستگی کے باوجود ابھی تک اپنے آپ کو ایک اعتدال پسند لیڈر کے طور پر پیش کیا ہے اور ملک کو معاشرتی اور اصلاحی حوالوں سے مضبوط کرنے کے پروگرام پر سرگرمی سے عمل پیرا ہے۔ مگر کہیں اُس کے اندر عالم اسلام کا لیڈر بننے کا ارمان ضرور ہے۔ اپنے ہمسایہ ملک شام کے بہت سے معاملات میں مداخلت کرنے، مشرق وسطیٰ میں اٹھی عرب بہار کی فضا میں اُس کا بشارالاسد سے اقتدار میں عوام کی شرکت کے لئے اصرار اور بشار کے مخالفین کی درپردہ حمایت یہ سب خوش آئند نہیں ہیں۔

لمبی چوڑی بحث مباحثے میں پڑنے کی بجائے میں نے مختصراً اتنا ضرور کہا۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ ایسا سب ہونا شاید اس کے مقدر میں لکھا گیا تھا۔ روس افغانستان میں آ کر بیٹھ جاتا تو دفاعی نظر سے یہ بھی ایک عذاب سے کم نہ تھا۔ تاریخ گواہ ہے برّصغیر کو جتنی بار روندا گیا وہ سب افغانستان کے راستے سے ہوا۔ پاکستانیوں کو ابھی ایک قوم بننے کے لئے مدّت اور لیڈر درکار ہیں۔

ترک تو ایک سکہ بند قوم ہے جو بڑے بڑے بحرانوں سے سرخرو ہو کر نکلی ہے۔

رہا ترکی تو یہ بھی تاریخ بتاتی ہے کہ قومیں ایک وقت کے بعد اپنے اصل مرکز کی طرف لوٹتی ہیں۔ روس کو دیکھ لیئجیے۔ چین کی واپسی بھی بہت آہستہ آہستہ شروع ہو گئی ہے اور ترکی بھی اگر اپنے مرکز کی طرف مراجعت کرے گا تو کیا نئی بات ہو گی؟

ویسے تو یہ وقت عالم اسلام پر زوال کا ہے۔ مدت کتنی ہے ؟اس کا انحصار اوپر والے کی مرضی پر ہے۔

اٹھنے میں عافیت سمجھی۔ کمرے میں آئی تو سیما اب باقاعدہ خراٹے لے رہی تھی۔ اُسے بے آرام کرنے کی بجائے میں خود بھی بستر پر لیٹ گئی۔ اور پھر ہوا یہ کہ آنکھیں جو بند ہوئیں وہ اُس وقت کھلیں جب دس بج رہے تھے۔

سیما بھی جاگ چکی تھی۔ تھوڑی دیر اِس بحث مباحثے میں گزاری کہ استنبول کی راتیں جوان ہیں۔ یہاں کوئی ڈر ڈکر نہیں۔ چلتے ہیں ٹرام میں بیٹھ کر ایک لمبے روٹ پر اور اُترتے ہیں یدی کولے yedikuleجس کے بارے ریسپشن والے لڑکے نے بتایا تھا کہ وہاں کی زیادہ آبادی آرمینیائی ہے۔ اس کے ہوٹلوں میں ایسی خوبصورت موسیقی سُننے کو ملتی ہے کہ بندے کا جی اسی میں غرق ہو جانے کو چاہتا ہے۔ مچھلی کھائیے۔ ایک خوبصورت رات سے بھرپور انداز میں ملئیے۔

جتنے حربے استعمال کر سکتی تھی سب کئیے۔ حُسن و خوبصورتی کے جتنے باغ دکھا سکتی تھی دکھائے مگر وہاں انکار تھا۔ ایک پکا انکار۔ پرائے دیس میں بھول جانے کا، کِسی انہونی کے ہو جانے کا، ایک لمبی قطار خدشات کی۔ میں نے لعنت بھیجتے ہوئے منہ پر چادر ڈال دی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب نمبر: ۴ توپ کپی سرائے

 

۱۔ میوزیم کے در و دیوار پر سلاطین عثمانیہ کی شان و شوکت اور جاہ و جلال کے بھرپور اظہار کے ساتھ ساتھ جائے عبرت کا رنگ بھی بڑا نمایاں نظر آتا ہے۔

۲۔ مقدس پویلین کی زیارت آنکھوں کو بھگوتی اور دل کو رقیق کرتی ہے۔

۳۔ احمد سوئم کو کتابوں، خطاطی اور گل لالہ کے پھولوں سے عشق تھا۔

 

 

 

سچ تو یہ تھا کہ نئی اور اجنبی سرزمینوں پر اپنے وجود کو عجز کے جذبوں میں لپیٹ کر عبودیت کے گہرے احساس کے تحت جھکانا اور پیشانی کو زمین پر رکھنا ایک ایسا مسرورکن اور لطیف عمل ہے جس کی لذت کی وضاحت ممکن ہی نہیں۔ شوق کی فراوانیوں نے بڑھاپے کو پچھاڑ دیا تھا پر گھُٹنوں کی تکلیف نے ان لذتوں کے حصول کو کسی قدر مشکل بنا دیا تھا۔ سجدے تو ضرور دئیے پر وہ میاں مدن کی سی بات کہاں ؟جسم و جان میں بھری بجلیاں تو قصہ پارینہ معلوم ہوئیں۔ شاید اسی لیے صبح اُٹھتے ہی میرا نزلہ خود پر اور اوپر والے پر گِلے کی صورت میں گرتا۔

میں بڑی کمبخت ہوں۔ گلے شکووں کی ایک پٹاری۔ جو ملا اُس پر شکر کم کم۔ جو نہیں ملا بس سارا سیاپا اور سارا رولا اسی کا۔ وجود کے اندر جتنی بھی طاقتیں ہیں۔ دل، دماغ اور ضمیر سب ہی بڑے تیز اور چلتر باز ہیں۔ ایک دوسرے کے مقابل بڑی جی داری سے صف آرا ہوتے ہیں اور تیا پانچہ کر دیتے ہیں۔

اُس صبح بھی ایسا ہی گھمسان کا رن پڑا تھا۔

’’کچھ تجھے تکلیف تھی جو تو جوانی میں میرا یہاں آنا نصیب کرتا۔ ‘‘اوپر والے سے گلہ شکوہ شروع ہوا۔

’’ارے روپیہ پیسہ تو تیرے پاس اگر جوانی میں نہیں، اُدھیڑی عمری میں تو آ ہی گیا تھا۔ پھر تجھے موت پڑتی تھی ارادے باندھتے ہوئے۔ ‘‘اللہ کی محبت میں لُتھڑا کوئی جذبہ آگے بڑھا تھا۔

’’ لعنت ہے تجھ پر۔ اپنے آپ ہی تبرّوں کے گولے برساتی رہتی ہو۔ اوپر والا تیرا دانہ پانی سمے کی گھڑیوں میں گوندھ کر تیرے نصیبوں میں لکھتا تب آتی نا۔ چل اب صبر شکر کراُس کا۔ اب بھی اگر وہ یہ مہربانی نہ کرتا تو تو نے اُس کا کیا کر لینا تھا۔ ‘‘

اب لمبی سی سانس کا اندر سے نکلنا بھی ضروری۔ وہ نکلی اور ساتھ ہی ایک عدد مزید مکالمہ۔

’’ہاں بھئی ہم مجبور بے بس بندے۔ زور تھوڑی ہے کوئی اس پر۔ ‘‘

اب جب سب ایک دوسرے کو لتاڑ بیٹھے تو قدرے سکون ہو گیا۔

چلو طاقت و توانائی کی وہ والی کیفیت تو باقی نہ تھی کہ جہاں میلوں پیدل چل کر بھی تھکن نہ چہرے کا حصّہ بنتی نہ ٹانگوں کی پر وہ جو کہتے ہیں گوشت سڑ بھی جائے تو چنے کی دال سے نپٹ نہیں ہوتا۔ میرا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔

دیسی گھی اور دیسی گندم کی پروردہ ابھی بھی گولیوں کے بغیر چل رہی تھی اور اچھی ہی چل رہی تھی۔ ہاں البتہ دودھ دہی پر زور کچھ بڑھ گیا تھا۔ شاید اسی لیے ڈائننگ ہال میں کیلشیم سے بھری چیزیں دہی، دودھ، زیتون کے پھل، اُبلے انڈوں کی سفیدی، پنیر سبھوں پر جی کھول کر ہاتھ پھیرنا میرا روز کا معمول تھا۔ سیمابھی کم و بیش اسی اصول پر عمل پیرا تھی۔

توپ کپی پیلس جانا تھا۔ کمرے میں آتے ہی میرے ’’چلو چلو ‘‘کا شور مچانے نے اُس کا تفصیلی میک اپ کرنا دشوار کر دیا تھا۔

’’سُنو ‘‘

اُس نے قدرے غصیلی، قدرے ترحم آ میزسی نگاہ میرے اوپر ڈالتے ہوئے کہا۔

’’ یہ میں تمہاری طرح منگتوں جیسے حُلیے میں اُٹھ کر باہر نہیں جا سکتی ہوں۔ ‘‘

اس میں اگر خوبصورتی تھی تو دلربائی بھی تھی۔ یونہی تو ترک لوگ اکثر اُسے ڈارلنگ اور مجھے آنے (ماں ) بنانے کی فی الفور پیشکش نہیں کرتے تھے۔ یوں ہمارے درمیان عمری چھوٹائی بڑائی تو بس برائے نام ہی تھی۔

توپ کپی جانے کے لیے ہم لوگ بلند و بالا کائی زدہ فصیل کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس کی بھاری بھرکم تاریخی حیثیت کو یاد کرتے کہ بنانے والے تو صدیاں گزریں رزق خاک ہوئے مگر یادگاریں ابھی بھی کسی نہ کسی صورت باقی مالکوں کو اتا پتہ دیتی ہیں۔ پہلی تعمیر طیودوس Theodosius اور ہرقل کے زمانوں میں ہوئی۔ نئے بادشاہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافے کرتے گئے۔

گل ہانہ پارک میں سے اُس راستے کی طرف مڑے جو قدرے بلندی کی طرف مائل تھا۔ پہلی ٹرن پر آرکیالوجی میوزیم کے سیاہ آہنی گیٹ سے آگے بڑھتے ہوئے ہم مسلسل اونچائی کی جانب گامزن رہے۔ پھر ایک وسیع و عریض قطعے کے سامنے گیٹ نظر آیا۔

گزشتہ رات کے اولین پہر میں توپ کپی پر لٹریچر پڑھتے ہوئے مجھے اس کے اندر جانے کے لیے چار دروازوں اور ان کے آگے پڑی توپوں کی وجہ سے اس کا نام توپ کپی مشہور ہونے کا علم ہوا تھا۔

ٹکٹوں کی خریداری کے بعد ہم نے چند لمحوں کے لیے رُک کر گیٹ کو دیکھا تھا۔ ہمارے ایک طرف وسیع و عریض پارک تھا۔ انتہائی خوبصورت، دلکش جس کے راستے درختوں سے سجے تھے۔ سبزے سے چمکتے لانوں میں رنگا رنگ پھولوں سے بھری کیاریاں تھیں۔ چنار اور شاہ بلوط کے درختوں کی بہتات تھی۔ حماقت کہہ لیجیے کہ کسی سے پوچھنے کی بجائے آگے بڑھنے لگیں۔ میں کون سی بہت ذہین، بہت فطین یا سقراط بقراط ٹائپ کی عورت تھی۔ گو میں اپنے طور پر رات کو اگلے روز دیکھی جانے والی جگہ کے بارے کچھ نہ کچھ پیشگی ضرور پڑھنے کی عادی ہوں۔ مگر ایک نیا شہر ہمیشہ ایک معمہ کی طرح ہوتا ہے جو آنکھوں اور دماغ سوزی کے بعد آپ پر دھیرے دھیرے کھُلتا ہے۔

سیما آنکھیں بند کر کے میرے پیچھے چلتی مگر جہاں میں بھولتی وہ میرے لتے بھی لیتی۔ اُس کا لیکچر ’’ اسی لئیے کسی گروپ کے نتھی ہو جانا ہمیشہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ وقت کا ضیاع نہیں ہوتا۔ ‘‘اِن الفاظ کے ساتھ شروع ہو جاتا۔ ‘‘

آج بھی یہی ہوا جب باغ باغیچوں کے سوا کوئی قابل ذکر چیز نظر نہ آئی سوائے قدرے فاصلے سے توجہ کھینچتی ملگجے سے زنگاری رنگی اُس عمارت کے جو ضرور اپنی قدامت کا پتہ دیتی تھی۔ چلو شکر تھا کہ چند لوگ ہماری طرف آ رہے تھے۔ انگریزی بول سکتے تھے۔ انہوں نے آئرین چرچ کے بارے میں بتاتے ہوئے ہماری رہنمائی کی کہ ادھر کی بجائے آگے جائیے۔

اچھا تو یہ آئرین ireneچرچ ہے۔ رات ہی اِس کے بارے پڑھا تھا۔ قدیم استنبول کی ایا صوفیہ کے بعد دوسری بڑی اہم یادگار۔ بازنطینیوں کا چرچ، عثمانیوں کا اسلحہ خانہ، اُنسیویں صدی میں آرکیالوجی میوزیم بننے والا اور آج کل کا کلاسیکل میوزک کنسرٹ۔

مڑنے سے قبل بلند و بالا فصیل بھی نظروں تلے آئی۔ کِسی جن دیوجیسی اتنی چوڑی کہ محل کا حفاظتی عملہ اس پر دو پہیوں والی چوبی گاڑی میں گشت کرتا تھا۔ اور اِس باغ کی ایک دلچسپ تاریخ بھی کہ انہی چناروں کے درختوں تلے وہ ینی چری(عثمانیوں کی خصوصی فوج)بغاوتوں کے مشورے کیا کرتی۔ جس سلطنت کا تختہ الٹانا ہوتا۔ اپنی کیتلیاں الٹی کر کے انہی درختوں کی شاخوں سے لٹکا دیتی تھیں۔ یہ گویا بغاوت کا اعلان ہوتا۔

تو واپسی ہوئی سیما کی بڑبڑاہٹ کے ساتھ۔ جی تو چاہا تھا ایک کرارا سا جھانپڑ دوں یوں کہ اس کی بولتی بند ہو جائے۔ کمبخت جانتی ہی نہیں کہ بھولنے کا بھی اپنا ایک مزہ ہے۔ پر اب میرے اس مزے کے منہ میں روڑ آنا شروع ہو گئے تھے۔

یہ مڈل گیٹ تھا۔ جس کی نصف قوسی صورت کے اندر چوبی دروازے کی پیشانی طلائی کلمے اور سلطان محمد فاتح دوم کے طلائی طغرے سے سجی ہوئی تھی۔ سلاطین کے دور میں آمدورفت کے لیے باب ہمایوں یا امپیریل گیٹ استعمال ہوتا تھا۔ جو حرم سرا کی تیس فٹ اونچی دیوار میں ہے۔ نماز کے لیے ایا صوفیہ کی مسجد میں جانے کا یہ نزدیک ترین راستہ تھا۔

ساتھ جڑے دونوں میناروں کی بالائی بناوٹ ہمارے غوری اور شاہین میزائلوں جیسی تھی۔ جن کی ساخت کے بارے میں تاریخ دانوں کی رائے تُرک کی بجائے بازنطینی سٹائل کی ہے۔ چیکنگ کے بے حد سخت کڑے اور خود کار عمل سے گزر کر ہم قدیم شاہوں کے اندازو اطوار اور موجودہ حکمرانوں کے بارے بحث مباحثے کرتے ہوئے باب سلام یا مڈل گیٹ سے اندر داخل ہوئیں۔

رسٹ، سبزاور سنہری رنگوں کے امتزاج سے اُبھری ہوئی نقش و نگاری سے مزین چھتیں نگاہ و دل کو کھینچتی تھیں۔ شیشوں میں مقید استنبول کے نقشے سے نظر ہٹی تو آنکھوں کے سامنے وسیع و عریض پارک سرو کے درختوں سے سجا تھا۔

باغ سے آگے دائیں طرف کے برآمدے مختلف وقتوں میں مختلف سلاطین حرم کی خواتین کے زیر استعمال بگھیوں اور گاڑیوں سے بھرے نظر آئے۔ یہ بگھیاں اور گاڑیاں کل کی طرح آج بھی خاموش کھڑی تھیں۔ کسی ذی روح کی مجال تھی کہ کوئی ان آنگنوں میں کھانس بھی سکتا۔ جانور بھی آداب سلطانی سے آگاہ تھے۔ ذرا آگے عربی فارسی کی تحریروں سے سجے بے شمار سنگ مر مر کے کتبے دھرے نظر آئے تھے۔

عثمانی سلاطین اچھے کھانوں کے کسقدر شوقین تھے اس کا اندازہ توپ کپی سرائے کے باورچی خانوں کو دیکھ کر ہو سکتا ہے یہ محراب دار برآمدوں اور رومن طرز تعمیر کے بڑے بڑے ہالوں جن کی ہشت پہلو چھتیں مرکز میں پہنچ کر گول دائروں میں بدل جاتی تھیں۔ جن میں نصب گول سوراخوں والے بڑے بڑے روشن دان جو کسی حد تک ہمارے لاہور کی قدیم عمارتوں کی چھتوں کے حفاظتی پردوں جیسے نظر آتے تھے۔ حرم نما بالائی ڈھانچہ اور اُن کی چمنیوں سے نکلتا ہمہ وقت دھواں سلطان کی فیاضانہ فطرت کا غماز تھا کہ بحیرہ مرمرا کے سمندروں میں دور دراز جگہوں سے آنے والے لوگ جان لیں کہ آٹھ سو باورچیوں اور ان کے بیشمار مددگاروں کے ساتھ چھ ہزار لوگوں کے لئے تیار ہونے والے شاہی دسترخوان سے انہیں کھانا ملے گا اور وہ بھوکے نہیں رہیں گے۔

چینی مٹی، شیشے، سلور، زہر مہرہ، پتھر کے برتنوں کی خوبصورتی ان کا سبک پن اور کہیں کہیں اُن کا جہازی سائز بھی حیران کرتا تھا۔ ہر روز بیس ہزار انواع و اقسام کے کھانے تیار ہوتے جنہیں چھ ہزار لوگ کھاتے۔ یہ سارا راستہ چھوٹے چھوٹے قدرے ناہموار پتھروں سے بنا ہوا تھا۔ یہیں سے ہمارا داخلہ Gate of facilityمیں ہوا۔

اس عمارت کا رنگ ڈھنگ آغاز سے ہی قد رے منفرد نظر آیا۔ سبز قطہ پر بسم اللہ اور حسبنا اللہ ونعم الوکیل کے سنہری حروف دروازے کی پیشانی پر سجے تھے۔

سلطان کے ذاتی کمروں اور شاہی ملازموں کی اقامت گاہوں کی طرف جانے کا یہی راستہ تھا۔ گیٹ میں سے گزرتے ہوئے ہم دونوں رُکی تھیں۔ ایک چھوٹی سی سنگ مر مر کی توپ جو مقدس جھنڈے کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھی۔ وہی جھنڈا جو آقائے دو جہاں کے مبارک ہاتھوں نے تھاما تھا اور جسے مصر کی فتح کے بعد سلیم اول نے وہاں سے لا کر عالم اسلام کے خلیفہ کا تاج اپنے سر پر سجا لیا تھا۔

سچ ہے عہدے، مرتبے، جاہ و عزت سبھی طاقت ور کو ہی سجتے ہیں۔

1914؁ میں اس کا آخری دیدار تُرک عوام کو اس وقت کرایا گیا جب عثمانیہ فوج پہلی جنگ عظیم میں لڑنے کے لیے گئی تھی۔

یہاں سے کونسل ہال کی طرف بڑھتے ہوئے میں نے سوچا تھا کچھ جگہیں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ہمیشہ ایک سی رہتی ہیں۔ Gate of facility اگر آج نیوی اور سکائی بلیو یونیفارم والے کرخت اور سپاٹ چہروں والے گارڈز کے کنٹرول میں ہے تو گزرے ہوئے کل میں یہ گول لمبی ٹوپیوں اور ٹخنوں کو چھوتی عباؤں والے متکبر، ظالم اور انتہائی طاقتور سفید فام خواجہ سراؤں کے قبضے میں تھا۔ اس حصے میں سب سے اہم عمارت چیمبر آف پیٹیشن ہی تھی۔ اسے دیوان یا کونسل ہال کہا جا سکتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کا مشاوراتی چیمبر۔

وزراء امرا ور عمائدین مملکت کے ریاستی اور خارجی امور سے متعلق معاملات لوگوں کی عرضداشتیں، عدالتی فیصلے ان کا اطلاق، غیر ملکی سربراہان اور سفیروں سے ملاقاتیں سبھی سرگرمیوں کا یہ مرکز تھا۔

آرائش و زیبائش میں کمال کی بلندیوں کو چھوتا یہ کمرہ۔ جس کے مرصع دروازے، عنابی مخملین دیوان پر دھرا ہیرے جواہرات سے سجا تخت جس پر سایہ فگن کنوپی جس کی سنہری زنجیروں سے لٹکتا فانوس حیرت زدہ کرتا ہے۔

ہمارے سامنے یہ تیسرے صحن کا پھلوں، پھولوں، درختوں، سبزے اور سیاحوں کے لیے جا بجا دھری آرام دہ بینچوں سے سجا خفیف سی چڑھائی والا لان ہے۔ پر بینچوں کا حال زار خاصا مخدوش تھا۔ ایک تو کوئی خالی نہیں تھا۔ دوسرے اُن پر بیٹھے چند جوڑوں کا تو بس نہیں چلتا تھا کہ وہ کیسے ایک دوسرے کی بغلوں میں گھُستے گھُستے پسلیوں میں اُتر جائیں۔

سیما ان کی ان او چھی حر کتوں پر تلملا تے ہوئے چیں بچیں تھی۔ پر میں مزے سے یہ سب دیکھتے ہوئے لُطف اُٹھا رہی تھی۔ کبھی کبھی سرور آتا ہے بغیر ٹکٹ کے ایسے تماشے دیکھنے میں۔

شریفانہ سی صورت والے ایک جوڑے نے پورے بینچ پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ اُسی سے درخواست کرتے ہوئے ایک کونے میں تھوڑی سی جگہ بناتے ہوئے پہلے میں خود ٹکی پھر سیما کو ٹکایا۔

جوڑا فلسطینی تھا۔ ہنی مون پر آیا تھا۔ ہم تو بہت سی باتیں اُن کے ساتھ کرنا چاہتے تھے پر مسئلہ وہی زبان کا تھا۔ چند ہی لمحوں بعد وہ لوگ بھی اُٹھ گئے۔ جگہ کشادہ ہوئی تو ٹانگیں پسار لیں۔ رُوح تک کو ٹھنڈا کرتی ہوا دھیرے دھیرے درختوں اور بوٹوں کے پتوں پر سے پھسلتے ہوئے بہہ رہی تھی۔ کتنا چمکتا ہوا آسمان، کتنی چمکتی ہوئی دھوپ، کیسا خوبصورت ماحول، میں نے بے اختیار دائیں بائیں اور اپنے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔

اس توپ کپی سرائے میوزیم کے درو دیوار پر پھیلے رنگوں میں سلاطین عثمانیہ کی شان و شوکت، جاہ و جلال اور ہیبت و دبدبے کا کتنا بھرپور اظہار ہے۔ آنکھیں جہاں ہر سمت بکھرے ہوئے اس اظہار سے لُطف اندوز ہوئی ہیں تو وہیں اسوقت سینے سے اُٹھتی ہوئی دکھ اور افسوس میں لپٹی یاس کی لمبی سی لہر آنکھوں کو نیلگوں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے یہ بھی بتا رہی ہے کہ دیکھو، انہیں غور سے دیکھو، یہ سب جائے عبرت ہیں، اور دنیا میں باقی رہ جانے والا سچ صرف وحدت ہے۔

تبھی ایک تیز گونجتی آواز مجھے میرے خیالوں سے باہر کھینچ لائی تھی۔ میں نے آواز کی سمت دیکھا تھا۔ شمال کی طرف تھوڑی سی بلندی پر لائبریری کے چھوٹے سے ٹیرس پر کھڑے گارڈ نے فلسطینی لڑکے کو ڈپٹا تھا۔ لڑکے نے سیب توڑا تھا۔

’’چلو اچھا ہوا۔ میری بھی طبیعت یہ کام کرنے پر مچل رہی تھی۔ اب ڈانٹ ڈپٹ کے ڈر سے چپکی ہو گئی ہوں۔ ‘‘

سامنے کونے میں اُگے ہوئے کوتاہ قامت کسی حد تک گنجے سے سیبوں کے سبز پھل سے لدے پھندے پیڑ جنہیں میں نے شوق و رغبت سے دیکھا تھا اور مجھے بے اختیار سکر دو، گلگت، ہنزہ کے سیبوں کے پیڑ یاد آئے تھے۔ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے سے قد بت اور پھل پھلواری سے لدے پھندے جن کی کیفیت اُن کمزور لاغر اور نا تواں لڑکیوں کی مانند ہی تھی جو بیچاریاں سینے کی تباہ خیز جوانی کے ہاتھوں زچ سی رہتی ہیں۔

سامنے والے بینچ پر ایک خاندان بیٹھا ہوا تھا۔ میاں بیوی اور دو بچے۔ عورت حسین تھی۔ کھڑی ناک اور سرخ و سفید رنگت والی۔ مرد تانبے کی سی رنگت والا خاصا دلکش تھا۔

دفعتاً زور و شور کی آوازیں اُس قطعہ میں گونجیں۔ دو عورتیں اور ایک مرد ہمارے سامنے بیٹھے اُس جوڑے کی طرف بڑے والہانہ انداز میں بڑھے۔ بڑا پر تپاک سا منظر تھا۔ پرانے ملاقاتی یا رشتہ دار معلوم ہوتے تھے، جو بھی تھے اُن کا خوش ہونا اور باچھیں کھلانا اُن کے خوشگوار تعلقات کا غمّاز تھا۔ تانبے کے سے رنگ والے مرد نے کھڑے ہو کر سب سے پہلے مرد کے دونوں رخساروں پر بوسے دئیے۔ پھر عمر رسیدہ عورت اور جوان عورت کے گالوں پر۔ ایسا ہی عمل آنے والے مرد نے کیا۔ پھر خواتین نے ہنستی آنکھوں اور چہروں کے ساتھ ایک دوسرے کے گالوں کو چُوما۔ بچے پاس کھڑے یہ سب دیکھتے ہوئے شاید اپنی باری کے منتظر تھے۔ واقعی اب سب ان کی طرف متوجہ تھے۔ بچوں نے پہلے مرد کی ہاتھ کی پشت پر اپنا ما تھا رکھا پھر ہاتھ چوما۔ اور یہی عمل دونوں عورتوں کے ساتھ بھی کیا۔ یہ سب دیکھنا بہت دلچسپ لگا۔ ترکی معاشرت کا یہ بڑا خوبصورت پہلو لگا۔

جب دیس میں تھی تو جانکاری بس اتنی سی تھی کہ حضورؐ پاک کی ذات مقدس سے متعلقہ چند اشیاء استنبول میں ہیں۔ یہاں آ کر جانا کہ یہ توپ کپی میوزیم میں ہیں۔ ہم پہلے اور دوسرے کورٹ یا رڈ سے تیسرے میں آ گئے تھے اور مجھے ابھی تک وہ مقدس پویلین نظر نہیں آیا تھا اور میں تھوڑی سی بے چین بھی تھی۔

تبھی ایک احمقانہ اور جذباتی سی یاد نے میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ ایک بار اخبار میں ڈاکٹر جاوید اقبال کی تصویر ان مقدس اشیاء کی زیارت کرتے ہوئے چھپی تھی۔ مجھ جیسی تھڑ دلی اسے دیکھتے ہی مارے حسد کے اپنے رب سے گلے شکووں پر اُتر آئی تھی۔

’’ہاں ہاں ملکوں ملکوں کی سیریں تو تُو نے ان بڑے بڑے لوگوں کے مقدروں میں لکھ دی ہیں۔ ہم نے تو یونہی ترستے ہی دنیا سے چلے جانا ہے۔ ‘‘

اُس سمے روشن نیلگوں آسمان تلے میرا ایک ایک مُو شکر گزاری کی بارش میں بھیگا۔

یہاں چند ہی دنوں کے قیام نے مجھے باڈی لینگوئج میں خاصا ماہر کر دیا تھا۔ سکیورٹی گارڈ کے انگریزی سے پیدل ہونے پر میں نے با آواز بلند حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ و سلم پڑھتے ہوئے پوری بتیسی کی نمائش کے ساتھ ایک دانت پر انگلی رکھ دی اور دوسرے ہاتھ سے چند بالوں کو پکڑ کر دکھایا۔

مقدس پویلین

اُس نے فوراً ذرا آگے شہ نشینوں والی عمارت کی طرف انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے Holy Relics chamberکہا۔ سروں کو ڈھانپتے اور منہ میں درُود کی تسبیح رکھتے ہوئے کم بلندی والے دروازے جس کی پیشانی لا الہ الا اللہ کے سنہرے طُغرے سے سجی ہوئی تھی اُس کے پہلے کمرے میں داخل ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق مقدس چیمبر کی راہداری میں سجے بہت سے طُغرے سلطان سوئم کے اپنے ہاتھوں سے لکھے گئے ہیں۔

بلند و بالا محراب دار نیلے اور ہلکے براؤن منقشْ ٹائیلوں والے در و دیوار قرآنی آیات، اللہ، اس کے رسولؐ اور صحابہ کے مقدس ناموں سے سجے رُوح پرور نظارہ پیش کرتے تھے۔ مسجد نبوی کا ماڈل عمار بن یاسر، خالد بن ولید، جعفر طیار، سعد بن ابی وقاص چاروں خلفاء کی تلواریں۔ کعبے کی چابیاں اور حجر اسود کا خول۔

میرے وجود کی باطنی آنکھ ایک جھٹکے سے کھُل گئی تھی۔ جس نے سر پٹ بھاگتے گھوڑوں کے سُموں سے اُڑتی گرد، اُن کی ننگی پیٹھوں پر شہ سواروں کے ہاتھوں میں لہراتی تلواروں اور فتح کے شادیانے بجاتے اُن کے پُر نور چہروں کا پل بھر میں دیدار کر لیا۔ بڑی میٹھی سی آواز میں کوئی کانوں میں گُنگُنا یا تھا۔

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

ہاں وہ ایسے ہی تھے۔ صاحب کردار و صاحب سیف۔

بھیگی آنکھوں سے میں درمیانی دروازے کے راستے آگے بڑھ گئی تھی۔ سیما ابھی پہلے محراب والے حصے میں تھی۔

محض خوش شکل کہنا زیادتی ہو گی۔ حُسن و جمال کا وہی حال تھا کہ جس کی وضاحت کے لیے محاورے وجود میں آتے ہیں۔ عورتوں کی انگلیاں کٹتی ہیں۔ شیشے کے چھوٹے سے کیبن میں بیٹھا قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا۔ آواز کی نغمگی پر بھی خدا کی نظرِ عنایت تھی۔

کتنی دیر تک تو کھڑی اُس ترک بچے کو دیکھتی اور اُس کے حُسن کو سراہتی رہی۔ کمرے میں دبی دبی سسکیوں کی خفیف سی آوازیں تھیں۔ کہیں رخساروں پر آنسوؤں کی بھی قطاریں تھیں۔ کہیں متانت و سنجیدگی کی دلآویزیاں تھیں۔

شیشے کے دروازے کے پیچھے مرصع تلوار اور کمان نظر آئی تھی جو آقائے دو جہان سے منسوب ہے۔ یہی وہ تلوار ہے جو ہجرت مدینہ کے وقت آپ کے ساتھ تھی۔ جب اُن درویشانہ ہاتھوں میں تھی تو سادہ تھی جب بادشاہوں کے پاس آئی سونے سے مرصع ہو گئی۔

میں ذرا آگے بڑھ کر شیشے کے بکس میں پا ؤں مبارک کا نشان دیکھنے لگی۔ اُن کے پاؤں کا نشان۔ کیسے راستے تھے جو معتبر اور مقدس ہوئے ان کے تلے آ کر۔ مٹی سُرمہ شفا ہوئی۔ کاش کہیں تب جنم ہوتا۔

پھر وہ قیمتی مہر آنکھوں کے سامنے تھی۔ وہی مہر جس نے قیصر وکسریٰ کو لرز ہ بر اندام کیا۔ اُن کے بے حد پیارے اور مقدس ہا لرباعتھوں سے لکھا ہوا وہ خط بھی تھا جو شاہ مصر کے نام تھا۔

موئے مبارک اور دانت دونوں سر بند۔ لباس مقدس اور جھنڈا مبارک سونے اور چاندی کے بکسوں میں بند۔ لباس مقدس کے پس منظر میں ایک خوبصورت سا واقعہ ہے۔ کعب بن زہیر نے حضورؐ کی شان میں لکھی گئی ایک نعت کے ذریعے حضورؐ سے فوری طور پر اسلام قبول نہ کرنے کی معذرت کی۔ نعت کا ایک مصرع کچھ یوں ہے۔

یہ دنیا ہمارے نبی کے نور سے منور ہے۔

تا جدا رِ دو جہاں نے خوش ہو کر اپنا عبائے مبارک عنایت فر ما یا۔

کعب جب تک جیئے کلیجے سے لگائے رکھا۔ بعد از مرگ خلفاء نے حِرزِ جان بنایا۔ بنی اُمیہ سے عباسیوں اور اُن سے مصر کے مُلوک تک پہنچا۔ 1517؁ میں فتح مصر کے بعد عثمانی سُلطان سلیم دوم نے ان مقدس تبرکات سے استنبول کو سجایا اور اسے اپنے سا تھ رکھا۔

خِرقہ مقدس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ باہر سے کالی اُون اور اندر سے بادامی رنگ کا ہے۔ تو یہ وہی کالی کملی ہے جس کے عشق میں دُنیا مبتلا ہے۔ میں سامنے شیشے کے دروازے کے پیچھے رکھے گئے سونے کے صندوق کو حیرت و یاس سے تکتی تھی۔ کاش کہیں سلیمانی ٹوپی ہوتی تو اندر گھُس جاتی۔ آنکھوں کو لگا کر بصارت تیز کرتی۔ ہاتھوں کو چھو کر انہیں پارس کرتی۔ ہونٹوں سے بوسہ دیتے ہوئے سانسوں کو عطر بیز کرتی۔

بظاہر میں سونے کے صندوق کو دیکھتی تھی پر ذہن تاریخ میں اُلجھا ہوا تھا۔ اور تصور نے اُڑا کر مجھے وہاں کھڑا کر دیا تھا جہاں تُرکیہ کا سلطان وقت، عمائدین سلطنت اور خاص الخاص اہل خانہ کے ہمراہ پندرہ رمضان المبارک کو اپنے ہاتھوں سے اِس مبارک لبادے کو عرقِ گلاب کے پانیوں میں غسل دینے کے لیے نکالتا۔ غسل کے بعد اس پر ململ کا کپڑا رکھا جاتا۔ حاضرین صرف ململ کے کپڑے کو چھوتے۔ عرق گلاب تو ٹانک بن کر کہیں ایک جُرعہ یا ایک گھونٹ کسی نصیب والے کو ملتا۔ یہ بھی روایت ہے کہ چند سلاطین نے جنگ میں فتح کی ضمانت کے طور پر بھی اسے پہنا۔ ان میں محمد سوئم کا نام زیادہ مشہور ہوا۔

ادھر اُدھر گھومتے پھرتے دفعتاً داخلی حصے کے بائیں طرف ایک لمبی سی روڈ پر نظر پڑی۔

’’ارے ‘‘ بے اختیار ہی زبان سے نکلا تھا۔

’’تو یہ عصائے موسیٰ ہے۔ سبحان اللہ۔ ‘‘

ساتھ ہی اس عصا سے متعلق بے شمار معجزے یادداشتوں میں دوڑتے چلے آئے تھے۔

یہ حضرت موسیٰ کا وہی عصا ہے جس کا ذکر بازنطینی بادشاہ ہفتم نے اپنی کتاب Book of Ceremonies میں کیا ہے۔ کتاب کے مطابق عصا کو اصلی مقدس صلیب کے ہمراہ عظیم Constantine the great یروشلم سے قسطنطنیہ لائے۔ یہاں اِسے بازنطینی بادشاہ کے عظیم محل سے ملحق ایک خصوصی گرجا میں رکھا گیا۔ اس کے عصا والے خانے میں ایک تلوار بھی رکھی گئی۔ اس کے متعلق یہ بھی روایت ہے کہ یہ وہی تلوار ہے جس سے شاہ ڈیوڈ نے Goliath کو قتل کیا تھا۔ اس کے ایک طرف عربی اور دوسری طرفAssyrian زبان میں تحریر بھی ہے۔ اس کی دریافت بھی 1696میں معجزانہ طور پر مصطفیٰ دوم کے دور میں اندرونی خزانے سے ہوئی۔ اس نے بلقان میں اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لیے اسے اپنے ساتھ رکھا۔

دیوار میں بنی محراب کے فرش پر بیٹھتے ہوئے میں نے انتہا درجہ رشک بھرے جذبوں سے استنبول کے بارے میں سوچا تھا اور سیماں سے کہا تھا جو میرے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔

’’تو یہ عصائے موسیٰ ہے۔ سبحان اللہ ‘‘ بے اختیار ہی زبان سے نکلا تھا۔

ساتھ ہی اس عصا سے متعلق بے شمار معجزے یادداشتوں میں دوڑتے چلے آئے تھے۔

یہ حضرت موسیٰ کا وہی عصا ہے جس کا ذکر بازنطینی بادشاہ ہفتم نے اپنی کتاب Book of Ceremoniesمیں کیا ہے۔ کتاب کے مطابق عصا کو اصلی مقدس صلیب کے ہمراہ عظیم Constantine the great یروشلم سے قسطنطنیہ لائے۔ یہاں اِسے بازنطینی بادشاہ کے عظیم محل سے ملحق ایک خصوصی گرجا میں رکھا گیا۔ اس کے عصا والے خانے میں ایک تلوار بھی رکھی گئی۔ اس کے متعلق یہ بھی روایت ہے کہ یہ وہی تلوار ہے جس سے شاد ڈیوڈنے Goliath کو قتل کیا تھا۔ اس کے ایک طرف عربی اور دوسری طرف Assyrian زبان میں تحریر بھی ہے۔ اس کی دریافت 1696میں معجزانہ طور پر مصطفیٰ دوم کے دور میں اندرونی خزانے سے ہوئی۔ اس نے بلقان میں اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لیے اسے اپنے ساتھ رکھا۔

دیوار میں بنی محراب کے فرش پر بیٹھتے ہوئے میں نے انتہا درجہ رشک بھرے جذبوں سے استنبول کے بارے میں سوچا تھا اور سیما سے کہا تھا جو میرے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔

’’کیسا مالا مال ہے یہ‘‘

طاقت کتنا بڑا ہتھیار ہے۔ عثمانی سلاطین نے خدا اور اس کے رسول کے گھروں کی اضافی تعمیر و مرمت طلب کام اور اُن کی آرائش و زیبائش کے کام ہمیشہ اپنے ذمے لیے۔ پر معاوضہ بھی خوب وصول کیا۔ بے شمار مقدس تبّرکات وہاں سے اُٹھائے اور استنبول میں لا سجائے۔ مصر کو فتح کیا تو قاہرہ کو خالی کر دیا۔ طاقت اور زمینی پھیلاؤ کا ہما سر پر بیٹھا۔ دولت کی دیوی چرنوں میں ڈھیر ہوئی تو خلیفہ یعنی عالم اسلام کے لیڈر ہونے کا کلاہ بھی اپنے سر پر رکھا۔

’’زبردست کا ٹھینگا سر پر۔

سیما دھیمے لہجے میں گائیڈ کو کسی یورپی وفد کے ساتھ بو لتے سن کر سرگوشیانہ انداز میں مجھ سے مخاطب ہوئی۔

ہم امر یکہ کو گالیاں نکالتے ہیں۔ اس سے انسانیت کی توقع کرتے ہیں۔ کتنے احمق ہیں ہم لوگ؟طاقت کا ایک اپنا چلن اور اپنا قانون ہے۔ طاقت ور کا جو جی چاہے وہ کرے۔ کمزور کو گلہ کا اختیار نہیں۔ راستہ صرف ایک ہے طاقت ور بنو۔ ‘‘

بات تو سولہ آنے سچ تھی۔

’’واقعی اب جب سعو دی عرب خود امیر کبیر ملک ہے۔ اپنے مقدس نوادرات کی واپسی کا تقاضا کر بیٹھا ہے۔ ‘‘

گارڈ ہمارے سر پر آ کر کھڑا ہو گیا۔ اشارے سے اُس نے اُٹھنے کو کہا اور اشارے سے ہی یہ بھی واضح کیا کہ یہاں بیٹھنا منع ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اُٹھنے میں مدد دینے کے لیے اپنے بازو کا سہارا بھی دیا۔ پر اٹھتے اٹھتے میں پنجابی میں بہت بڑبڑائی تھی۔

’’ارے تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے مالا مال ایک ترقی یافتہ ملک جہاں سیاحت اس کا ایک بڑا کماؤ پوت بن گئی ہے۔ ادھر ویک اینڈ ہوا ادھر اس کے یورپی اور عرب ہمسا ئیوں کے شوقین، من چلوں اور جوانوں، بوڑھوں کے ٹولے سلطان احمت سکوائر میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ استنبول کے ہوٹلوں میں کمرہ ملنا مشکل ہوتا ہے۔ کیا ہے جو ان کے آرام کے لئے چوبی بینچوں کا اہتمام کر دیا جائے۔ بیچارے ہم جیسے دعائیں ہی دیں گے۔ جیسے میں ماس کو اور پیٹرز برگ والوں کو دیتی تھی۔

 

لائبریری

کتابیں اُن سے محبت اور لائبریریوں کے سیٹ اپ ہمیشہ شاہوں اور عمائدین سلطنت کے ذوق کے عکاس ہوتے ہیں۔ احمد سوئم ماہر اور مشتاق خطاط اور کتب ناقہ لکھنے والا تھا۔ لائبریری کی تعمیر اُس نے اپنے اور شاہی ملازموں کے لیے کروائی۔ مقدس چیمبر کی راہداری کے عین اوپر عربی میں اُس نے خود خطاطی کی۔

اس کی تعمیر کردہ لائبریری حُسن و جمال کا مرقع تھی۔ احمد سوئم کے دور کو تو ٹیولپ پیریڈ بھی کہا جا سکتا ہے کہ گل لالہ میں اُس کی حد درجہ دلچسپی نے نہ صرف باغوں کو زینت بخشی بلکہ اُس کی یہ جمالیاتی حس کپڑوں اور ٹائلوں کے ڈیزائنوں میں بھی اُبھر کر سامنے آئی۔

لائبریری کا ڈھانچہ اُوپر تلے کی بڑی بڑی کھڑکیوں اور مطالعہ کے لیے آرام دہ نچلے دیوان کے ساتھ بڑا پُر وقار نظر آتا ہے۔ ذیلی ڈھانچہ کھڑکیوں کے ساتھ بلند ہے کہ تازہ ہوا کی باقاعدگی اور تواتر سے آمد و رفت الماریوں میں رکھی گئی قیمتی کتابوں اور مسودات کو نمی سے محفوظ رکھے۔

’’اللہ کیسے میرا جی چاہا تھا کہ میں اُس دیوان پر بیٹھوں، لیٹ جاؤں، الماریاں کھولوں، عربی فارسی اور ترکی میں لکھے گئے قلمی نسخوں کو دیکھوں۔ بلا سے میرے پلّے کچھ پڑے نہ پڑے۔ آئینہ دیکھے بغیر مجھے اپنی آنکھوں سے گرتی حسرت نظر آتی تھی۔ کاش میں وی آئی پی ہوتی تب شاید ان الماریوں کے پٹ کھل جاتے اور میں اُن شہ پاروں سے آنکھوں اور روح کی پیاس بُجھا سکتی۔

کچھ ایسے ہی حسرت بھرے الفاظ کا سیمانے اظہار کیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب نمبر: ۵ افطار کنوپی پر ترک پاکستان بحث مباحثہ

 

۱۔ سیکاریا کا نوجوان حمزہ پاشا ہندی مسلمانوں کی تُرکوں سے محبت کی پوری تفصیل سے آگاہ تھا۔

۲۔ افطار کنوپی کے ٹیرس پر دونوں ملکوں کی فوج اور لیڈر زیر بحث آئے۔

۳۔ بلند ایجوت جیسا درویش وزیر اعظم تین کمروں کے فلیٹ اور ترگتاوزال کھٹارہ سی گاڑی میں سفر کرتا تھا۔

 

 

تھکن تو ہم دونوں کو محسوس ہو رہی تھی۔ مگر اب اس کا علاج کیا تھا یہی کہ تھوڑی دیر بیٹھو، پھر اٹھو اور چل پڑو۔ تو یہی کچھ اس تیسرے صحن کے باغیچے میں پہنچ کر کرنے کا سوچا کہ تھوڑا سا سستا لیا جائے۔ بیگ میں رکھے خشک میووں کے پھکے مار لئیے جائیں۔ حلوے کے ٹوٹوں سے منہ میٹھا کر لیں۔ کچھ اردگرد گھومتے پھرتے لوگوں کو دیکھ دیکھ کر دل پشوری ہو جائے۔

بغداد، مصطفیٰ، مجید اور صوفہ کوشک کی خوبصورتیاں

ذرا تھم اے راہرو کہ پھر خوبصورت مقام آئے۔

یہاں قدم جامد اور آنکھیں منجمد ہوئی تھیں۔ ماربل ٹیرس پر افطار کنوپی سے باسفورس کا نظارہ آپ کی ساری حسیّات کو سحر زدہ کرتا ہے۔ نیلے شفاف آسمان پر چمکتے سورج کی تیز کرنوں میں باسفورس کا دھیرے دھیرے ہلکورے لیتا پانی حُسن و جمال کے کتنے رنگوں کا اظہار کرتا ہے۔ آبنائے کے دونوں کناروں پر قدم بہ قدم نیچے اُترتی خوبصورت عالیشان عمارتوں کا طویل سلسلہ، ہرے بھرے درختوں کی ہریالیوں سے جگمگاتا اس منظر کو انفرادیت دیتا ہے۔ گلاتا ٹاور اس سین میں بے حد نمایاں اپنے نوکیلے سرے سے جیسے آسمان کے سینے میں بس چھید کرنے والا ہو۔

میں افطار کنوپی کی ایک قدم اونچی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے کی دیکھی گئی بغداد کوشک کی ساری جزئیات میری آنکھوں میں پھر نے لگی تھیں۔ کو شک Kioskدرا صل تر کی طرز تعمیر کی ایک اصطلاح ہے جس میں عمارت کے ساتھ باغ اور تمام اطراف سے اس باغ کے نظارے کی دید شامل ہو تی ہے۔

بغداد کو شک کے رنگ مشرق کا سارا حُسن لیے ہوئے ہیں۔ مراد چہارم جیا لا اور شہ زور سلطان تھا۔ بغداد اور آرمینیا 1635-38 میں فتح کیے تو بغداد کا شاہی محل جیسے اس کی آنکھوں میں کھُب گیا۔ بادشاہوں کے لیے اپنی خواہشات کو عملی شکل دینا کس قدر آسان ہے۔

اس بات کا اعتراف کرنے میں بھی مُجھے کوئی عار نہیں کہ ہم جیسے چھوٹے لوگوں کے لیے ان خوبصورت چیزوں کو دیکھنا اور بار بار یہ سوچنا کہ کوشک کے وسطی کمرے کے گنبد کی ٹی پنک چھت اور اس کے ملحقہ محراب نما حصوں کی چھتیں واقعی سونے کی ہیں اور یہ کس قدر فضول خرچی ہے ؟

کانسی کے آتش دان انوکھی ساخت کے۔ براؤن، نیلی اور سفید دلکش نقشین ٹائیلوں کی دیواریں جن کے عین درمیان میں قُرآنی آیات سے سجی ایک نیلی پٹی سارے میں گردش کرتی تھی۔ کمرے کے عین وسط میں قالین پر ڈل تانبے کا فوارہ اور دودھیا شیشوں والی اوپر تلے کی دوہری رنگین نقش و نگار والی کھڑکیوں سے روشنی کے انعکاس کی جادوگری تحیّر آفرین تھی۔

باہر نکلنے سے قبل دروازے پر تحریر فارسی کے اِس شعر نے لُطف دیا۔ دل نے بے ساختہ (امین)بھی کہا۔

کشادہ باد بہ دولت ہمیشہ ایں درگاہ

بحق اشہدُ ان لا الہ الا اللہ

میری ٹانگوں میں شدید اینٹھن تھی۔ مقدس چیمبر کے بعد ہم لوگوں نے ایک ہی ہلّے میں ٹیرسڈ گارڈن پر بنے ہوئے سارے کوشک دیکھ ڈالے تھے۔ ٹانگیں میں نے لمبی پسارلی تھیں اس احساس سے بالا ہو کر کہ کوئی کیا کہے گا؟ پشت کو سلیب کی ریلنگ کے ساتھ ٹکاتے ہوئے شاہانہ حُسن و جمال اور خوبصورتیوں کے خمار سے بوجھل ماحول پر ایک بھرپور نظر ڈالی تھی۔

سیما بھی پاس آ کر بیٹھ گئی۔ پستہ اور بادام کے ساتھ حلوے کا ٹکڑا منہ میں ڈالا اور بولی۔

یہ بقلاوے اور حلوے والا کام بڑا مزے کا ہے۔ تھوڑی سی مٹھاس سے توانائی بحال ہو جاتی ہے۔

ہم کھانے، باتیں کرنے اور لوگوں کو دیکھنے جیسے دلچسپ شغل میں مصروف تھیں جب ہم نے اُسے دیکھا۔ گلاب کی سی رنگت اور قدرے نیلی مائل چمکتی چھوٹی چھوٹی بھوری آنکھوں والا دلکش لڑکا ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ میٹھی سی مسکراہٹ بکھیری تو میں نے ہتھیلی پر دھرے بادام اُس کی طرف بڑھائے۔ شکریے کے ساتھ اٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوئے تعارف کروانے لگا۔

یہ سکاریا Sakarya کا حمزہ پاشا تھا۔ ہمارے بارے میں جاننے پر کہ پاکستانی ہیں۔ اُس نے پاکستان اور ترکی کے درمیان پیار بھرے رشتوں کا ذکرجس محبت اور اشتیاق سے کیا۔ اُس نے ہم دونوں کو اس کی طرف پوری طرح متوجہ کیا۔

پہلی بات تو ہم نے اُس سے سکاریا کے متعلق کی۔ معلوم ہوا کہ ازمیر سے آگے کا شہر ہے۔

وہ اُس کہانی کی تفصیلی جزئیات سے آگاہ تھا جو ہندی مسلمانوں کی ترکی سے محبت کی غمّاز تھی۔

ہمیں بھی ہندی مسلمانوں کی خلافت بارے جذباتیت کا اچھا اندازہ تھا۔ ہند کے علمائے دین، صاحب علم اور عام لوگوں کے لئے استنبول قبلہ و کعبہ سے کم عزیز نہ تھا۔ معتبر ترین ہندی لوگوں کو دربار خلافت میں ہمیشہ پذیرائی ملتی۔ برّصغیر کی تحریک آزادی کے جیالے مولانا محمد علی اور شوکت علی کی والدہ بی امّاں کا وہ مشہور زمانہ شعر خلافت پہ جان دے دو بیٹا اور ہندوستان کے مسلمانوں کی تڑپ اور اُسے بچانے کی کاوشیں اپنے محدود وسائل کے باوجود اُن کا گاؤں گاؤں، قریہ قریہ پھرنا، نعرے لگانا اور پیسہ اکٹھا کرنے کی تھوڑی بہت جزئیات سبھوں سے آگاہی اور شناسائی تھی۔

مگر اُس سمے حمزہ پاشا سے سب سُننے کا اپنا مزہ تھا۔

حمزہ پاشا کا دادا اُس وقت ملّت بینک میں ملازم تھا۔ ملّت بینک اپنے تاسیسی مراحل سے گزر رہا تھا۔ ہندی مسلمانوں کا وفد سونا اور لاکھوں کی رقم لے کر جب ترکی پہنچا۔ خلافت کی بساط اُلٹ چکی تھی۔ اتاترک نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ اتاترک وفد سے ملا۔ ان کے جذبۂ محبت اور خلوص کا تہہ دل سے شکرگزار ہوا۔ اُس کے حکم دینے پر ملّت بینک نے اُس عطیہ کو تاسیسی فنڈ میں جمع کر لیا۔

اب ظاہر ہے حمزہ پاشا ہمیں بہت پیارا اور اپنا سا لگا۔ اُس کے دادا کے بارے بھی ہم نے پوچھا۔ وہ دنیا میں نہیں تھے۔

’’خدا اُنہیں اپنی رحمتوں کے جوار میں رکھے۔ ‘‘

میں نے محبت بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر بکھیری۔

حمزہ پاشا بڑی خوبصورت انگریزی بولتا تھا۔ حالات حاضرہ سے آگاہی رکھتا تھا۔ تاریخ سے دلچسپی تھی۔

’’محبت کے رشتوں کے علاوہ کچھ خرابیوں میں بھی ہماری اقدار مشترک ہیں۔ ‘‘

سیما ہنستے ہوئے گفتگو میں شامل ہوئی۔ مثلاً ہماری فوجوں کو سیاست سے بہت پیار ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں اپنے اپنے لُچ تلنے بیٹھ جاتی ہیں۔ ترکی میں چار مرتبہ فوج اقتدار پر قابض ہوئی۔ پاکستانی ترکی کو ہمیشہ سے رول ماڈل بنانے، سمجھنے اور آئیڈیلائز کرنے والے ہیں۔ انہوں نے اِس معاملہ میں بھی پیچھے رہنا پسند نہیں کیا۔ چوکے والا کوٹہ ہمارا بھی پورا ہوا۔ مقابلے اور موازنے تھے۔ نواز شریف بمقابلہ نجم الدین اربکان تھے۔

ایک ہُوک سی میرے دل سے اُٹھی تھی۔ ہمارے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ترکی کے اس منتخب وزیر اعظم عدنان میندرس کا بھی فوج کے ہاتھوں عدالتی قتل ہوا تھا۔

سیما اور میں تیز رفتاری سے مقابلوں اور موازنوں کے گھوڑے سرپٹ دوڑا رہی تھیں جب حمزہ پاشا نے ہماری بات کاٹی۔

میرے خیال میں یہاں مجھے اُس فرق کو واضح کرنے کی ضرورت ہے جو ترک فوج کو بہرحال ایک قابل فخر امتیاز دیتی ہے۔ پہلی بات جو بہت اہم ہے کہ ترک ایک عسکری مزاج قوم ہے۔ ہر مرد شہری کے لئے فوجی تربیت لازمی ہے۔ ترک فوج معاشرے کا ایک حصّہ ہے۔ اور فوج چھاونیوں میں نہیں رہتی۔ جبکہ پاکستانی آرمی کا پس منظر بالکل مختلف ہے۔ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ اسے دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک کہا گیا ہے۔ مگر اس کا مزاج کلونیل ہے۔ یقیناً اس کی وجہ ایک طویل مدت انگریزوں کا برصغّیر پر قابض رہنے سے ہے۔

ترک فوج یا ا س کے کسی ذیلی ادارے نے کبھی سول گروہوں کو مذہبی یا غیر مذہبی بنیادوں پر منظم نہیں کیا اور نہ کبھی کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کی۔

اُس پچیس چھبیس سالہ ترک نوجوان کو یوں اپنی فوج کی تعریف میں قلابے ملاتے دیکھا۔ سچی بات ہے بہت سی باتیں تو اُس کی درست تھیں۔ مگر کہیں وہ غلط بھی تھا۔ میں تھوڑی سی بے قابو ہوئی۔ منہ پھاڑ کر بول اٹھی۔

’’ارے حمزہ پاشا میرے بچے تم نے اِن دو عورتوں کو کیا گاؤ دی سمجھا ہے۔ میرے چندا تاریخ سے انہیں بھی بڑی دلچسپی ہے۔ یہ جو تم اپنی فوج کے اتنے قصیدے پڑھ رہے ہو تو مت پڑھو کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ فوج تھی جس نے 1960 سے 1995 تک پورے پینتیس سال میں چار بار اِس ملک کے جمہوری نظام کا تیا پانچہ کیا۔

اور ہاں سُنو دائیں بازو کے مذہبی رجحان رکھنے والے انتہائی شریف النفس سے وزیر اعظم نجم الدین اربکان کو چلتا کیا۔ فوجی جرنیلوں نے اپنی مرضی سے تنسو چلر کو وزیر اعظم بنا دیا۔ تمہیں یقیناً علم ہو گا اس وقت پاکستان میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں۔

میرا سنگھ(گلا) کِسی کھلے مُنہ کے پتیلے جیسا ہے۔ اطمینان اور تسلی سے بات کرنی آتی ہی نہیں۔ گھر میں بولتی ہوں تو تین گھر پرے لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ بی بی بیگم گھر میں ہیں۔ یہ خوبی خاندانی ورثے میں پائی ہے۔ سُسرالی لتھاڑ بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ میاں کی لعن طعن بھی اصلاح کرنے میں ناکام رہی۔ اس وقت جوش و جذبات یقیناً عروج پر ہوں گے کہ سیما کو پہلو دبانا پڑا”کہ آپے میں رہو۔ یہاں کوئی تقریری مقابلہ ہے کیا؟”

ویسے مجھے خود بھی محسوس ہوا تھا کہ جیسے میرے انداز میں ہلکا سا جارحانہ پن ہے۔ اسی لیے آواز کو لہجے کو پست کیا۔ اور جب بات کا سلسلہ پھر جوڑا مجھے اپنی آواز کا دھیما پن خود محسوس ہوا تھا۔

مت بھُولو اپنے بلند ایجوت جیسے سوشلسٹ وزیر اعظم جنہوں نے اِن فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے کو ترجیح دی مگر اپنے نظریات پر کوئی سودا نہیں کیا۔ صدر سلیمان دیمرل سے بھی اچھی طرح آگاہ ہوں گے کہ کیسے کیسے ہتھکنڈے ان کے خلاف استعمال ہوئے۔

 

پھر ایک یاس بھری آہ میرے اندر سے نکلی تھی شاید اسی لئیے میں خاموش ہو گئی۔ مجھے اپنی محرومیوں کا احساس ہوا تھا۔ میرا ملک جہاں امن نہیں۔ صاف پینے کا پانی نہیں۔ طبّی سہولتیں نہیں۔ تعلیم نہیں۔

’’ہائے ‘‘ میں نے دل میں کہا کتنے اور کِس کِس چیز کے رونے روؤں۔ کچھ دیر بعد جب بولی آواز میں بھراہٹ تھی۔

پاکستان اور ترکی میں بہرحال مقابلے والی کوئی بات نہیں۔ پاکستان تو بیچارہ اپنی سالمیت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کہیں فوج درمیان میں نہ آتی اور جمہوری عمل کو چلنے دیا جاتا۔ جاگیر داری نظام کی بساط اول دن سے لپیٹ دی جاتی تو حالات یقیناً بہتر ہوتے۔ اب تو جاگیر دار، وڈیرے اور نواب اسے جونکوں کی طرح چمٹ کر اس کا خون چوس رہے ہیں۔

ترکی تو بہرحال خوش قسمت ہے کہ اسے اچھے اور مخلص لیڈر ملے۔ فوج نے من مانیاں ضرور کیں۔ سیاسی نظام کو معطّل کرتے رہے۔ تاہم ڈیفنس کالونیاں نہیں بنائیں۔ مال نہیں سمیٹا۔

بلند ایجوت کو سلام جس نے تین بار وزارتِ عظمیٰ کا تاج سر پر سجایا مگر درویش رہا۔ تین کمروں کے فلیٹ میں وزارتِ عظمیٰ کا وقت گزارا۔ کھٹارہ سی فیٹ چلائی۔ ایسا ہی وہ تیسرا بڑا لیڈر طورغت اوزال Turget ozal تھا۔ در اصل جمہوری عمل میں تعطل اور اچھے لیڈروں کا فقدان قوم کو بہت پیچھے لے جاتا ہے۔ تُرکی یوں بھی عظیم ترین سلطنتوں والا ماضی رکھتا ہے۔ کتنے بڑے تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے مالا مال ہے۔ رشک آتا ہے اس پر۔ خدا اسے سدا سلامت رکھے۔

حمزہ پاشا نے کچھ کہنا چاہا۔ جب میں نے اُسے روکتے ہوئے کہا۔ ہاں ہمیں اِس بات کا اعتراف بھی ہے اور دُکھ بھی کہ ہماری فوج کچھ اُلٹے پلٹے کاموں میں اُلجھ گئی ہے۔ اس کے ذیلی اداروں نے مذہبی گروپوں کو تقویت دی۔ کچھ ہماری بدقسمتی کولڈ وار کا لاوہ بھی ہمارے خطے میں پھوٹا۔ بڑی طاقتوں نے ہمیں استعمال کیا اور پھر ہمیں دھتکار دیا۔ اب اُن کے پالے ہوئے قاتل، مذہبی اور لسانی گروہ جن کی بہیمانہ دہشت گرد کاروائیوں نے ہمارے ماتھوں پر کلنک کے ٹیکے لگا دئیے ہیں۔ اور ہم اپنے ہی زخموں کو نوچ کھوسٹ رہے ہیں۔

حمزہ پاشا نے اُلجھنے سے گریز کرتے ہوئے کہا بہر حال اب ہمارے عوام بالغ ہو گئے ہیں۔ سیاست دانوں سے مل کر فوج کے خلاف صف آرا ہیں۔

’’دعا کرو کہ ہمارے عوام بھی بالغ ہو جائیں۔ سیاست دان بھی پاک صاف ہو جائیں۔ پھر ستئے خیراں۔ ‘‘

سکارایا آنے کی دعوت پر شکریہ ادا کیا کارڈ لے کر پرس میں رکھا۔ سوچا چلو استنبول سے تو فارغ ہوں پہلے۔ چار دن ہو گئے ہیں آدھا بھی نہیں دیکھ پائے۔

تھوڑی سی منہ ماری، تھوڑے سے آرام اور تھوڑی سی بحث مباحثہ نے تازہ دم کر دیا تھا۔

مصطفیٰ کوشک بھی کیا لا جواب چیز تھی۔ دیواریں گلابی، نیلی اور سبز۔ سنہرے نقش و نگار سے مزّین چھت اور اطراف آرام دہ صوفوں سے سجی ہوئیں۔

میں نے چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کر کے اُن تمام رنگوں کو گرفت میں لینے کی کوشش کی۔ جو میں ابھی ابھی دیکھ کر آئی تھی۔

ٹیرسڈ گارڈن در اصل تیسرے کورٹ یارڈ کی آگے بڑھی ہوئی صورت ہے۔ مجید کوشک 1850؁ میں عبدالمجید نے تعمیر کروایا۔ یہ آرمینیائی اور بلقانی طرز تعمیر کی انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب عمارت ہے۔ جسے اب میوزیم اور ریسٹورنٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ اُنیسویں صدی کے آغاز تک یہ عمارت سلطان کے معزز مہمانوں کی خاطر مدارت اور خود سلطان کی استراحت کے لیے استعمال ہوتی رہی تھی۔

ریسٹورنٹ میں تُرکی قہوے نے ہمیں تازگی دی۔ کافی پینے کو جی تو بہت چاہا مگر بلڈ پریشر کا خوف مانع تھا۔ قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے یونہی میں نے نوٹس والی کاپی کھول کر دیکھی۔

صوفہ کوشک بھی بغداد کوشک کی طرح سلطان کی متعدد مصروفیات مثلاً اس کے مطالعہ کرنے، موسیقی سننے اور آرام کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ میں نے اس کوشک کی خصوصیات پر غور کیا۔

مجھے ہنسی آ گئی تھی سب کچھ گڈ مڈ سا ہو رہا تھا۔

’’ایک چکر اور نہ لگائیں۔ ‘‘ سیما کی جانب میں نے دیکھا۔

سیما چلنے میں شیر کی بچی ہے۔ فوراً کھڑی ہو گئی۔

مجید کوشک کا یہ رخ جو اب دیکھنے میں آیا تھا بہت منفرد تھا۔ مرمرا سمندر کا نظارہ، اندرونی سنگ تراشانہ حُسن، مرمرا کو سلامی دیتا اس کا ما تھا سب کا حُسن لاجواب تھا۔ بغداد پویلین میں ایک بار پھر گھُسے۔ ٹائیلوں میں پھولوں کے متعدد ڈیزائنوں کو دیکھا اور سراہا۔ بالکونیوں سے نیچے پھیلے ہوئے جھاڑ جھنکار کے جنگلوں کے گردا گرد فصیلوں اور بُرجوں کا سلسلہ بھی تاریخ کے بہت سے باب کھول رہا تھا۔ شاہان بازنطینوں کے محلات بھی یہیں تھے۔ 1261؁ میں بنی ہوئی موجودہ دیوار پالیوموکوس نے تب بنوائی تھی جب اُس نے لاطینیوں سے یہ پایہ تخت چھینا تھا۔

میرے عقب میں کھڑا گائیڈ کسی ٹورسٹ ٹولے کو بتا رہا تھا۔ میں نے سُنا اور دیوار کو گہری تنقیدی نظروں سے دیکھا۔

وہ بھی کیا لوگ تھے۔ جن کے تعمیراتی سامان بھی فولادی عناصر رکھتے تھے۔ جذبوں میں بھی فولاد کی آمیزش تھی کہ اُن کی بنائی ہوئی چیزیں صدیاں گزر جانے اور موسموں کی تلخیاں سہنے پر آج بھی اپنے ہونے کا اظہار شدّ و مد سے کرتی ہیں۔

یہیں عین بغداد کوشک کے بالمقابل sunset کا دیدہ زیب چیمبر تھا۔ ایک بڑے کمرے اور اس میں چھوٹے سے باتھ روم کی تعمیر سولہویں صدی میں اور اس کی بیرونی تزئین و آرائش حبیب نامی ایرانی ماہر سرامکس کے ہاتھوں ہوئی۔ سلیم اول نے جب تبریز فتح کیا تو اُس نے حبیب جیسے کئی ماہرین آرٹسٹ استنبول بھیجے جنہوں نے اس کی خوبصورتی کو اور چار چاند لگائے۔

’’اللہ کتنے جیالے تھے یہ عثمانی بھی۔ ایسے تو بلقانی ماؤں نے اپنے بچوں کو ڈرانے کے لئے کہاوتیں نہیں گھڑی تھیں۔ ایسے تو نہیں کہا جاتا تھا۔ ترکوں کے گھوڑے جس زمین پر اپنے سم دھر دیں وہاں گھاس نہیں اُگتی۔

یہ چیمبر جتنا خوبصورت تھا اس کی تاریخ اتنی ہی خونی تھی۔ یہاں محمد سوئم نے اپنے اُنیس بھائیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا تھا۔ در اصل اسی چیمبر میں شہزادوں کی رسم ختنہ ہوتی تھی۔ بیچارے اُن معصوموں کی بھی پہلے رسم ختنہ ہوئی پھر گلے گھونٹے گئے۔

تو یہی وہ چیمبر ہے۔ رات کو جس کے بارے میں پڑھتے ہوئے میرے سارے سریر میں خوف کی لہروں نے گردش کی تھی۔

یہ بادشاہوں کی تاریخ اتنی گھناؤنی کیوں ہے ؟ ان کے سینوں میں دل کی بجائے شاید پتھر ہوتے ہیں۔

ٹیرس گارڈنز کے وسط میں ہیڈ فزیشن ٹاور میں جہاں سلطانوں کی جنسی قوت بڑھانے کے لیے کشتے اور مربع جات تیار ہوتے تھے وہیں سلطان کے ناپسندیدہ افراد کے لیے زہر کی بھی تیاری ہوتی۔

’’پروردگار اِن شاہوں کو بھی کیا کیا نفسیات ہے۔ ‘‘سیما نے جھرجھری لی تھی۔

’’شاہوں کی نہیں۔ طاقت اور اقتدار کی کہو۔ ‘‘میں نے کہا۔

بیچارے سلطان ابراہیم کا تو بچ بچاؤ شاید اسی لیے ہو گیا تھا کہ وہ ذہنی طور پر بیمار تھا وگرنہ تو مراد چہارم نے اُس کا بھی یونہی بیڑہ پار کرنا تھا۔

 

افطار کنوپی

ماربل ٹیرس پر آ کر ٹیولپ گارڈن کی خوبصورتی سے آنکھوں کو تسکین دینا بھی تو ایک عیاشی تھی۔ سلیم سوئم گل لالہ کا دیوانہ تھا۔ اُس نے اپنے دور میں محل کو ٹیولپ سے سجا دیا تھا۔ ماربل ٹیرس پر بڑی مذہبی، رنگین اور رومانوی محفلیں سجتی تھیں۔ رمضان کے مہینے میں اسی ٹیرس پر شاہی خاندان افطاری کرتا۔

بہار کے دنوں میں جب گل لالہ کے پھول اپنے جوبن پر ہوتے۔ باسفورس اور مرمرا کے نیلے پانیوں پر چمکتے چاند کی دودھیا اور طاقچوں میں لو دیتی زردئی روشنیاں بکھرتیں۔ ٹیرس پر موسیقاروں کی دلنواز دھُنوں کی تانیں اُڑتی۔ گل لالہ کے پھولوں پر تیرتی بہار کی ہواؤں میں نشہ سا گھل جاتا۔ تب حرم سرا کی پری چہرہ کنیزیں اطلس و  کمبخواب کے پہناووں میں لپٹی سولہ سنگھار کیے یہاں وہاں ادائیں دکھاتی رقص کرتی خود کی نمائش کرتی پھرتی تھیں۔ ایسے میں اگر کسی پری زاد کی کسی ادا نے دنیا کی اس عظیم سلطنت کے فر ما نروا کے دل کے کسی تار کو چھو لیا۔ تو گویا خوش نصیبی کا ہما اس کے سر پر بیٹھ گیا۔

نیلے شفاف آسمان کے نیچے بہتے باسفورس کے پانیوں کو دیکھتے ہوئے کتنی کہانیاں یاد آئی تھیں۔ خواجہ سراؤں کے چٹخارے دار قصّے۔ دودھیا رنگے خواجہ سرا توے کی کالک جیسے رنگوں والے خواجہ سرا۔ سلامیلیک اور حرمیلیک میں ان کے کردارآختہ (خصّی) کرنے کے طریقے۔ رات توپ کپی پر claire karazکی خریدی ہوئی کتاب پڑھتے ہوئے حرم کی عورتوں کی نیم برہنہ حالتِ استراحت۔ تالاب کے اندر اور باہر نہانے اور موج میلوں کے منظر اور جا بجا پتھروں کی طرح ساکت کھڑے ہوئے سیاہ فام خواجہ سراؤں کی تصویریں اندر کی کتنی کہانیاں سنا رہی تھیں۔ ایک منظر دنیا کے شہرہ آفاق موسیقار بیتھووین Beethovenکا تھا جہاں وہ حرم کی عورتوں کو موسیقی کا سبق دے رہا تھا۔ فصیل کی اِن دیواروں کے اندر کہاں کہاں کا حُسن نہیں آتا تھا۔ روسی، یوکرائنی، کاکیشیائی، مشرقی یورپ کے مفتوح علاقوں سے ہر اچھا چہرہ چھانٹ لیا جاتا تھا۔ سازشوں اور محلاتی توڑ جوڑ کی داستانیں۔ بے وفائی کے کِسی معمولی سے جرم پر باسفورس کے پانیوں کو اُن کا مقدر بنا دینا۔

ہائے کیسے کیسے قصے اور کیسی کیسی کہانیاں یاد آئی تھیں۔

 

کونسل ہال یا چیمبر آف پٹیشن

یہ تحفہ ہم نے واپسی پر دیکھا۔ تھا تو وہیں تیسرے صحن میں۔ مگر دیکھنے سے رہ گیا۔ یوں تو بے شمار چیزیں رہ گئی تھیں۔ سیاحوں کی کثرت جس انداز میں یہاں وہاں گھوم پھر رہی تھی وہ اس کی کچھ خصوصیت کو نمایاں کرتی تھی۔ اور واقعی سچ یہی تھا کہ نظر یں جدھر اُٹھتیں واپسی کا راستہ بھول جاتیں۔ پھر بہت سے منظروں سے لڑھکتی لڑھکا تی طلا ئی مینا کا ری سے سجے دروازے پر رک گئیں جو اس وسیع و  عریض مستطیل نما کمرے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے جو چیمبر آف پٹیشن یا کونسل ہال کہلاتا ہے۔ بائیں طرف کا کمرا وزراء کے لیے اور دائیں طرف کا کمرا ان کے لیے جو انصاف کے خواہاں ہوتے۔ بائیں طرف کی گزر گاہ کے عین اُوپر جس کے نیچے وزیر کی نشست ہو تی۔ سلطان دیوار میں بنی شیشے کی جڑاؤ کھڑکی میں بیٹھا ساری کاروائی کو دیکھتا اور جہاں ضرو ری سمجھتا مداخلت کرتا۔ اکثر ڈاج والے انداز اپنائے جاتے۔ بعض اوقات اُس کی موجو دگی کا علم اُس وقت ہوتا جب وہ کسی متنازع معاملے پر مداخلت کرتا۔

دنیا کے سر کر دہ لو گوں اور سفیروں کو اس کمرے میں آ نے، یہاں رکھے گئے صوفوں پر بیٹھنے اور سلطان کی جانب سے اذن ملاقات پانے کے لیے گھنٹوں انتظار کے کرب سے گزرنا پڑتا تھا۔ خاص الخاص خادم انھیں بازوؤں سے تھام کر دروازے میں سے گزارتے جہاں قریب قریب دہری کمر کے ساتھ اُن کا پہلا جھکا ؤ ہوتا۔ کمرے کے وسط میں دوسرا، اور ہیرے جواہرات سے جگمگا تے تخت پر آلتی پالتی مارے بے حس و حرکت بیٹھے سلطان کے حضور پیش ہونے پر گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے اُس کی عبا کو بوسہ دینا اور عین اس کے قدموں میں سر کو جھکانا تیسرا عمل تھا۔ شرف بار یابی کے بعد واپسی اُلٹے قدموں ہوتی۔ سلطان کی جانب پشت کیے بغیر۔ ٰؓ

سلطنت عثمانیہ کے مسلمان ترک سلاطین کو ایسا کرنے کا حق حا صل تھا۔ اُن کی بادشاہت سترھویں صدی کے آخر تک یورپ میں دریائے ڈینیوب کے کنارے ہنگری، رومانیہ، پولینڈ سے لے کر یونان تک سارا مشرقی یورپ، روس میں یوکرین، کریمیا، قفقاز، آذربائیجان، ایشیا میں ایشیا کو چک کے بعد عراق، شام اور جزیرہ نما عرب تک سارے علاقے، افریقہ میں مصر، سوڈان، لیبیا، تیونس، الجزائر، مراکش تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ہندوستان میں یہ اورنگ زیب کا زمانہ تھا۔ اُن کے اقتدار اکا سورج نصف النہار پر تھا۔ کسی یورپی طاقت کی مجال نہیں تھی کہ وہ اس کے مقابلے پرٹھہر سکے۔

تسکین دینے والی روح تک کو فرحاں و شاداں کرنے والی تفصیلات کتنی دلچسپ تھیں۔ کبھی کے دن بڑے، کبھی کی راتیں۔ کم از کم تاریخ کے صفحات تو گواہ ہیں کہ کبھی ہمارے بھی دن روشن اور بڑے تھے۔ ہم بھی کسی گنتی شمار میں تھے۔

بڑا لمبا سا نس تھا جو ہم دونوں کے اندر سے اوپر آیا تھا۔

کا نسی کے آتش دان ان کی ساخت اور کٹا ؤ کا کام چھت کے گنبد میں لٹکتا سونے کا پینڈل اس میں جھولتا پھُندنا۔ اُوپر سے تاریخ کا بوجھ۔ اب بھلا دماغ نے گھومنا نہیں تھا اور کیا ہونا تھا۔ مجھے تو لگتا تھا جیسے ابھی چکرا کر گر پڑیں گے۔ میں سیماں کا ہا تھ پکڑ کر با ہر نکل آئی تھی۔

کو نسل ہال کے ساتھ ہی ٹاور آف جسٹس تھا۔ طویل قامت والا جس کے شیشے کی کھڑکیوں والے کیبن میں بیٹھ کر کبھی کبھی سلطان کا اپنے محل اپنی سلطنت کو دیکھنا بھی ایک مشغلہ تھا۔

اور جب ہما سی یارڈ میں امپیریل ) Treasury ( کی طرف بڑھ رہے تھے۔ میں نے سیما سے اس حد درجہ نالائق طالب علم کی طرح کہا تھا کہ جس نے شا ہوں کو لعن طعن کرتے ہوئے جملہ کسا تھا۔

خود تو مر گئے اور ہمیں سیا پے میں ڈال گئے۔

’’یہ شاہ بھی کیسے انسان تھے خسروانہ شان و شو کت کے نو سٹلجیا میں گرفتار۔ ‘‘

’’ارے میری جان وہ تو خیر شاہ تھے یہاں تو ماڑے موٹے نہیں مان۔ کسی کے پاس چار پیسے آ جائیں تو پھر اس کی اترا ہٹیں دیکھو۔ چلو یہ تو کل اگر خود شان سے جیئے تو آج ملک کے لیے بھی بہت کچھ چھوڑ گئے کسقدر سیاح ہے یہاں اور کتنی آ مدنی ہے انہیں۔

سیما ٹھیک کہتی تھی ابھی جب ہم رات کو لٹریچر دیکھ رہے تھے تو اندازہ ہوا کہ تقریباً چھ ہز ار لوگ ہر روز اس کی سیاحت کے لئے آ تے ہیں۔

تھکاوٹ شدید تھی۔ میں ہرگز ہیروں جواہرات کے اِس چیمبر میں داخل ہونا نہیں چاہتی تھی۔ سیما ہیرے پہنے والی ہیروں کی شوقین تھی۔ تھکن سے مر رہی تھی مگر اس کے لئے اندر جانا ضروری تھا۔ اس کا تعاقب کرنا پڑا۔ پہلے حصے میں ملبوسات کی نمائش تھی۔ کلر سکیم، ڈیزا ئننگ، کپڑا، سبھی کھلم کھلا اپنی عالی نسبی کا اعلان کرتے تھے۔ شلواریں اور کفستان تو ہما رے ہاں 60ء کی دہا ئی میں رواج پانے والی اے لائن شرٹس جیسی ہی تھیں۔ پر ہیروں سے مرصع سلا طین کے لباس فاخرانہ سے بند ہے خنجر تو فی الواقع ایک عجوبہ تھے۔

جب آگے بڑھے تو تخت دیکھ کر گنگ ہو گئے۔ خدا جانے کون کون سے نادر ہیرے اور جواہرات شاہ اسمعیل صفوی کے اس تخت میں جڑے ہوئے تھے جو سلیم اول کے عہد میں ایران سے آ یا تھا۔ ہم نے تو کہانیوں میں ہی پڑھا تھا۔ باد شاہ تخت پر بیٹھا تھا۔ دائیں بائیں درباری ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ تو اب جان پائے کہ تخت ایسے ہوتے ہیں جن سے پھوٹتی جواہرات کی روشنی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ شہزادوں کے جھو لے اور تاج۔ اللہ جانے کیا کیا چیزیں تھیں ؟مجھ جیسی ننگی بُچھی عورت کو اختلاج ہونے لگا تھا۔

سیما میرا تو جی چاہتا ہے تمہیں دھکا دے دوں۔ شیشے توڑتی ہو ئی تم سید ہی جا کر اُس تخت پر بیٹھ جاؤ جو آبنوس و صندل کی لکڑی کا ہے اور جس کے بارے میں تم پڑھ رہی ہو کہ یہ ایرانی نہیں عثمانی ہے۔ قیمتی ہیرے موتی اس میں جڑے ہیں۔ مٹھی بھر اُتار کر اپنی جیب میں ڈال لینا۔ تسکین ہو جائے گی تمہاری۔

کمبخت سیما پیچھے مڑتے ہو ئی ہنسی۔

’’مجھے تو تخت پر بٹھا دو گی پر خود تختے پر لٹک جاؤ گی۔ تر کی کی سیکولر حکو مت کے ہا تھ ایک دہشت گرد آ جائے گا۔ اچھی نا مو ری ہو جائے گی تمھاری تو۔ ‘‘

حرم اُس دن بند تھا۔ لٹریچر پڑھنے سے ہمیں پتہ چل گیا تھا کہ وہ بھی ایک پرسرار دنیا ہے۔ جسے دیکھنے کے لئے پورا ایک دن چاہیے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب نمبر: ۶ لُٹنا میرا استنبول کے کیپلی کارسی میں

 

۱۔ چار گھنٹے ہم کریمینل اور ٹورزم پولیس کی گھمن گھیریوں میں گیند کی طرح لڑھکتی پھریں۔

۲۔ استنبول میں بسنے والے یہودیوں اور عیسائیوں کے ذہن کیا اُس عالمی پروپیگنڈے سے متاثر ہیں جو اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دنیا میں جاری ہے۔

 

 

 

دوسو چوراسی لیرے تین دن چلے تھے۔ چوتھے دن توپ کپی سرائے میوزیم کی آرمینیائی طرز تعمیر کی خوبصورتیوں، پچی کاری و تزئین کاری کی ہوش رُبا رنگینیوں سے طلسم زدہ سے باہر آئے تو ٹانگیں ٹوٹنے کے قریب تھیں اور کسی بینک کو کھوجنے کی ہمت نہ تھی۔ یوں بھی ترک انگریزی بولنا پسند نہیں کرتے۔ آتی بھی ہو تو غُچّہ دے جاتے ہیں۔ مونڈھے مار کر چہرے پر ایسے تاثرات بکھیرتے ہیں کہ بندہ حیران سا ہو جاتا ہے۔

اُس وقت (body language) کے استعمال پر میری طبیعت قطعی آمادہ نہ تھی۔ اور گرینڈ بازار سے ملحقہ منی چینج آفس کا لڑکا انگریزی سمجھتا تھا۔ ا س لیئے وہیں پہنچے۔

پیارا سا خوش شکل لڑکا دیکھ کر ہنسا۔ سو ڈالر کا نوٹ سوراخ سے اندر گیا۔ پیسے لئیے اور ٹیکسی میں بیٹھ کر ہو ٹل آ گئے۔

ہوٹل کے سامنے رُک کر جب ادائیگی کے لئے میں نے پرس کھولا تو تہہ کیے ہوئے سارے لیرے ہاتھ میں آ گئے۔ میں نے انہیں کھولا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ہلکے نیلے رنگ کے ایک نوٹ کو چھونا چا ہا تو میں نے بھی اس کا نوٹس لیا۔ یہ نا مانوس سا نوٹ تھا۔ میں نے نوٹوں کو مُٹھی میں بند کر لیا۔ سیماں کو ادائیگی کے لئے کہا اور بد حواس سی دروازہ کھول کر باہر آ گئی۔ خوشگوار ٹھنڈی ہوا نے میرے اڑتے حواسوں کو ذرا معتدل کیا۔ ہوٹل کے ریسپشن پر کھڑے لڑکے کو نوٹ دکھائے۔ اس نے نیلے نوٹ کی طرف اشارہ کیا۔

’’یہ تو متروک ہو چکا ہے۔ ‘‘

’’ہیں ‘‘

میں نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں اور یہ سوچنا چاہا کہ کاونٹر پر پیسے لیتے وقت میں نے انہیں دیکھا تھا کیا؟

اور یہ کس قدر حیرت انگیز بات تھی کہ مجھے اپنی ذہنی سکرین پر اپنے چیسٹ بینک سے سو ڈالر کا نوٹ نکالنے کا عمل اپنی پوری جزئیات کے ساتھ یاد تھا۔ منی چینج آفس سے ملحقہ وہ چھوٹی سی خالی جگہ، کیش کاونٹر تک جانے، لڑکے کے ہنسنے، نوٹ دینے اور لینے کے سب مراحل متحرک تصویروں کی مانند سامنے تھے۔

پراگلے منظر پر دبیز دھُند تھی۔

اب بہت سے سوال تھے جو میرے ذہن میں اُبھرے۔

میں نے نوٹوں کو ہاتھ میں پکڑا۔ کیا گنا تھا؟ کیا مجھے اُن میں کوئی خاص چیز نظر آئی؟ لیروں سے تو میں پہلے ہی دن شناسا ہو گئی تھی۔

عجیب بات تھی میری ذہنی سلیٹ صاف تھی اور اُس پر ان میں سے کسی کا جواب نہیں تھا۔ میں گُم سُم سی کھڑی تھی۔ ایک سو تیس لیروں کے ساتھ ہاتھ ہو گیا تھا۔ گویا تقریباً پانچ ہزار پاکستانی روپے کو تھُک لگ گیا تھا۔ جاپان اور تائیوان کے سیاح لاؤنج میں میرے قریب ہی کھڑے اس مسئلہ کو خاصی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ اُن میں سے کسی نے کہا۔ ’’ فوراً پولیس اسٹیشن رپورٹ کریں۔ ‘‘

’’میں اگر لڑکے کے پاس جاؤں تو‘‘۔۔ ۔۔ ۔ میں نے ریسپشنسٹ کی رائے لی۔ اس کا بڑا حتمی جواب تھا۔

’’یہ زیادہ مناسب ہے پولیس کو رپورٹ کریں۔ ‘‘

اس استفسار پر کہ پولیس اسٹیشن کہاں ہے ؟ تائیوانی نے چھوٹا سا بازو پھیلا کر لاؤنج کے کونے کی طرف یوں اشارہ دیا جیسے پولیس اسٹیشن تو یہیں اِسی کونے میں ہی ڈیرے ڈالے بیٹھا ہے۔ میں بھی حد درجہ احمق اور گھامڑ عورت کہ ساتھ چلنے کی درخواست کر بیٹھی۔ اُس نے تو بھڑا سا چہرہ فی الفور نفی میں ہلا دیا۔

میں اور سیما اب اس نئی مہم پر نکلیں۔ پوچھتے پُوچھاتے جب جائے مقر رہ پر پہنچیں۔ اس وقت ایا صوفیہ اور جامع (مسجد) سلطان احمد کے نوکیلے مینار زر فشاں کرنوں میں چمک رہے تھے اور دونوں تاریخی جگہوں کے درمیان پارکوں میں ٹورسٹوں کے پُرے مست خرام تھے۔ پولیس اسٹیشن میں سناٹا تھا اور ایک بے حد خوبصورت نوجوان ایک کمرے میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔

سلام کے جواب میں تپاک تھا۔ پاکستان کا جان کر لہجے میں محبت کا اظہار تھا۔ میں نے مسئلہ گوش گزار کیا تو سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔

’’کیا وصولی کی کوئی رسید لی تھی۔ ‘‘ میں نے ہونقوں کی طرح دیکھا اور سر نفی میں ہلایا۔

دوسرا سوال ہوا۔ ’’ جگہ پہچانتی ہیں۔ آدمی کو شناخت کر لیں گی؟ دونوں سوال ظاہر ہے ایسے تھے کہ میرا جواب جوشیلی قسم کی ’’ہاں ‘‘ میں تھا۔

’’گھبرائیے نہیں آپ کے پیسے ضرور آپ کو ملیں گے۔ ‘‘

پُر یقین لہجے سے چھلکتی اُمید کی آس نے مجھے تازہ دم کر دیا تھا۔

’’مگر‘‘

میں نے گھبرا کر اُسے دیکھا۔

’’چوں کہ یہcriminal case ہے۔ آپ کو کرمینل پولیس اسٹیشن جانا ہو گا۔ یہ تو ٹورزم پولیس اسٹیشن ہے۔ بیازت یہاں سے زیادہ دور نہیں۔ قریب ہی ہے۔ ‘‘

اور جب وہ واکی ٹاکی پر غالباً بیازت والوں کو میرے بارے میں بتا رہا تھا میں نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔

’’ارے میں کون ہوں ؟ٹورسٹ نہیں۔ ‘‘

اس وقت مجھے یہ بھی احساس ہوا تھا کہ جیسے میں لاہور کے نولکھا پولیس اسٹیشن میں بیٹھی ہوں اور مجھے یہ کہا جا رہا ہے کہ محترمہ یہ کیس تو رنگ محل پولیس کا ہے۔ وہاں جائیے۔

گاڑی کے لیے معذرت ہوئی۔ ٹیکسی منگوا دی گئی اور یہ بھی تاکید ہوئی کہ اسے صرف پانچ لیرے دینے ہیں۔ اس وقت مجھے پھر اپنی پولیس اس گمان کے ساتھ یاد آئی تھی کہ وہ یقیناً ایک غیر ملکی خاتون کو ٹیکسی میں رولنے کی بجائے گاڑی میں بھیجتی۔

ماشاء اللہ سے ٹیکسی ڈرائیور نے ہیرا پھیری میں پاکستانیوں کو بھی مات کر دیا تھا۔ اللہ جانے کن کن راستوں پر بگٹٹ بھاگا اور میٹر بڑھائے چلا جاتا تھا۔ جونہی ایک چوک پر گاڑی رُکی۔ ’’تاکسیمTaksim‘‘ پر نظر پڑی۔ سیماں نے بے اختیار اپنے گھٹنے پر دو ہتڑ مارا۔

’’دیکھو تو ذرا تاکسیم پر لے آیا ہے۔ یہاں بیازت کہاں ؟‘‘وہ غُصے سے چلائی تھی۔

تاکسیم بیاگلوBeyoglu کا مرکزی چوک ہے جہاں سے مختلف جگہوں کو راستے نکلتے ہیں۔ ہاتھوں میں نقشے پکڑ کر صبح سے شام تک بسوں اور ٹراموں میں خجل خواریوں سے ہمیں شہر کے چہرے مہرے سے خاصی جان پہچان ہو گئی تھی۔ میٹر پچیس لیروں کی نشاندہی کر رہا تھا۔

پر اس کا فائدہ۔ وہ انگریزی نہیں جانتا تھا۔ ہماری بکواس کا اس پر کچھ اثر نہیں تھا۔ باہر رات تاریک اور بتیاں روشن تھیں۔

پھر ایک جگہ گاڑی روک کر اُس نے سامنے بلڈنگ کی طرف اشارہ کیا۔ اس وقت 34لیرے روز روشن کی طرح میٹر پر جگمگا رہے تھے۔ ہم ٹیکسی سے اُترے۔ پانچ لیرے کا نوٹ میں نے فرنٹ سیٹ پر پھینکا اور جی داری سے کہا۔

تم ہم پاکستانی عورتوں کو ہرگز بیوقوف نہیں بنا سکتے ہو۔ ہمیں یہی دینے کو کہا گیا تھا۔ ‘‘

بعد کے سالوں میں جب میں کہیں پیٹرزبرگ میں روسی بوڑھی عورتوں کے ہاتھوں لٹی۔ جنہوں نے میرا ایک طرح مل کر گھیراؤ کر لیا تھا۔ اُس دن مجھے بے اختیار وہ ترک ڈرائیور یاد آیا تھا۔ شریف تھا بے چارہ۔ اُتر کر ہمیں گاٹے سے پکڑ لیتا تو چونتیس 34لیرے کیا سو لیرے دے کر جان چھُڑاتے۔

سیما کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے میں نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔

سیڑھیاں شیطان کی آنت کی طرح لمبی تھیں۔ استنبول کا سارا شہر کم بلندی والی ڈھلانی پہاڑیوں پر ایک مربوط اور خوبصورت ترتیبی صورت میں بکھرا ہوا ہے۔

برآمدوں اور راہداریوں کے چکر کاٹتے ہوئے مطلوبہ جگہ پہنچے۔

پولیس افسر نوجوان تھا۔ خوبصورت تھا۔ اب میری داستانِ امیر حمزہ پھر شروع ہوئی۔ یہ بھی مقام شکر تھا کہ اُس کے پاس انگریزی کا تھوڑا سا دال دلیہ تھا۔ تفتیشی سوالات ہوئے۔ ماشاء اللہ سے ہاتھ، آنکھیں، زبان سب چلیں۔ یوں معاملے نے فہم وفراست کی منزلیں طے کیں۔ نتیجہ جو سُنایا گیا وہ کچھ یوں تھا کہ چونکہ اب رات کے آٹھ بج رہے ہیں اور آفس بند ہو گیا ہے۔ لہٰذا کل نو بجے تشریف لائیے۔ ہر طرح کی مدد کی جائے گی۔

اُترائی کی مشقت اور ٹرام اسٹیشن تک پیدل چلنے کی صعوبت جھیل کر ہوٹل پہنچنے تک کے وقفے میں مجھے دو تین بار یہ خیال آیا کہ دفع کرو۔ گولی مارو اس قضیے کو۔

پر بستر پر لیٹنے اور تھوڑا سا سستا لینے کے بعد میرے اندر کا کہانی کار اور سیاح اسے حتمی انجام تک پہچانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔

’’بھئی دیکھو تو ہوتا کیا ہے ؟‘‘

صبح ناشتے کے بعد میں نے بالوں میں کنگھا چلایا۔ جُوتا پہنا۔ رات کے پہنے ہوئے کپڑوں کی سلوٹوں اور شکنوں کو ہاتھوں سے قدرے صاف کیا۔ بیگ کندھے سے لٹکایا اور سیما سے یہ کہتے ہوئے ’’کہ میں ذرا پولیس اسٹیشن بھگتا آؤں تب تک تم تیار ہو جانا۔ ‘‘

سیما پوری بیگم ہے۔ نِک سک سے آراستہ ہوئے بغیر باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔

نو بجے جب میں مطلوبہ جگہ پہنچی۔ ماشاء اللہ سے سیٹ پر ایک نیا چہرہ بیٹھا تھا۔ دو نوجوان لڑکے کسی بات پر زور زور سے بول رہے تھے۔ تھانے والا تو ماحول ہی نہیں تھا۔ اُن سے فارغ ہو کر وہ میری طرف متوجہ ہوا۔

اب میرا بیان شروع ہوا۔ حفظِ ما تقدم کے طور پر ممکنہ سوالوں کے جواب بھی اس میں شامل کر دئیے کہ فضول کی تفتیشی تکرار سے جان چھُٹے۔

پر جونہی خطابت کے عمل سے فارغ ہو کر میں نے اُسے گہری نظروں سے دیکھا۔ میرا جی اپنا سر پیٹ لینے کو چاہا کہ میں اتنی دیر سے بھینس کے آگے بین بجا رہی تھی۔ وہ چہرے کے بائیں رُخ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر ٹکائے بٹر بٹر میرا منہ دیکھتا تھا۔ ’’ہائے وے میریا ربّا‘‘ اس وقت جی تو چاہا کہ یا تو اُسے ایک تگڑی قسم کا جھانپڑ دوں یا پھر ایک زور دار اپنے سر پر ماروں۔ اور میں نے مارا پر سر پر نہیں پاؤں پر۔ اٹینشن والے انداز میں پاؤں نے فرش بجایا اور گلے سے نکلتی کرخت آواز نے چھت پھاڑی۔

’’ہے یہاں کوئی جو میری بات سُنے۔ ‘‘

فوراً ہی سامنے والے بند دروازوں میں سے ایک دروازہ قدرے زوردار آواز میں کھُلا اور ایک لڑکی بھاگنے کے سے انداز میں میرے سامنے آ کر بہت شُستہ انگریزی میں بولی۔

’’بتائیے کیا بات ہے ؟‘‘

میری بولتی کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ آنکھیں، ناک، ہونٹ، صراحی دار گردن سے نیچے لشکارے مارتا اُس کا قدرے عریاں سینہ، ننگے سڈول بازو اور سرو جیسا قد میری آنکھوں میں فٹ ایکسرے مشین میں سے ہو کر گزرا۔

’’اللہ یہ کمبخت اِس حُسنِ جہاں سوز کے ساتھ پولیس اسٹیشن پر کیا کر رہی ہے۔ اسے تو کہیں کسی بغداد کوشک، کسی مجید کوشک میں ہونا چاہیے تھا۔ ‘‘ میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔

لڑکی پھر بولی۔

’’بتائیے کیا مسئلہ ہے ؟‘‘

’’مسئلہ تو بعد میں بتاؤں گی پہلے تمہارے حُسن کو سراہ تو لوں۔ ‘‘

لڑکی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اور مجھے یوں لگا جیسے بند کلیوں نے چٹک کر اپنے منہ کھول لیے ہوں۔

حُسن کی فسوں خیزی سے نکلی تو اصل مسئلے کی طرف متوجہ ہوئی۔ چلیے جناب کہانی پھر دہرا دی گئی۔

اُس نے یوں چٹکی بجائی جیسے انگلیوں کی پوروں میں طلسماتی جن مقید ہو۔

’’ابھی یہ پولیس مین آپ کے ساتھ جائے گا اور سارا مسئلہ حل کر آئے گا۔ ذرا بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘

میں نے پولیس مین کو دیکھا جو ہمارے پاس ہی کھڑا تھا اور جس کی طرف اشارہ ہوا تھا۔ چُوچہ سا، میرے سکول کے دسویں جماعت میں پڑھنے والے لڑکوں جیسا جن کی مسیں ابھی بھیگتی ہی ہیں کہ وہ جوان دکھنے کے چکر میں گالوں اور ہونٹوں کے بالائی حصوں کو بلیڈ سے چھیل ڈالتے ہیں۔

میں نے بہت لمبی سانس بھری تھی جس میں میری کل شام سے لے کر اب تک کی مشقت کا درد رچا ہوا تھا۔

قہر درویش بر جان درویش اس کے ساتھ چلنے کے سوا کوئی اور چارہ کار تھا کیا؟سو چلی۔ بلڈنگ کی سیڑھیاں اُترنے کے بعد جب وہ مجھے اُس کھُلی جگہ پر لایا جہاں گاڑیاں کھڑی تھیں مجھے سو فیصد یقین تھا کہ وہ مجھے گاڑی میں بٹھائے گا اور گاڑی شور مچاتی، ہوٹر بجاتی، ہٹو ترکوں راستہ دو، کا عملی مظاہرہ کرتی گرینڈ بازار میں داخل ہو کر منی چینج آفس کے سامنے رُکے گی۔

’’واللہ کس قدر مسرُور کُن نظارہ ہو گا۔ ‘‘ میں نے تصور میں اس منظر سے حظ اُٹھاتے ہوئے آنکھیں نچائیں۔

پر جب بڑا سا پُختہ میدان کراس کرنے کے بعد وہ اگلے ڈھلانی راستے پر اُترنے  لگا تو بے اختیار میں رُک گئی۔

’’گاڑی کدھر ہے ؟‘‘ میں نے ہوا میں ہاتھ لہرائے۔

وہ ہونقوں کی طرح میری صورت دیکھتا تھا اور میں اپنے آپ سے کہتی تھی۔

’’میرے ملک کی پولیس کبھی ایسی بے مروّتی کا اظہار نہ کرتی۔ ‘‘

میں نے اپنے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا۔ اپنے پاؤں کو چھُوا اور اشاروں سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ان میں درد ہے اور چلنا دُشوار ہے۔

اُس نے اشاروں کی اس زبان کو سمجھا اور اچھے بیٹے کی طرح مجھے بازو سے تھام کر چلانا چاہا۔

مجھے ہنسی آ گئی تھی۔

’’چلو میاں چلو ‘‘ میں نے خود کو تھپکی دی بلا وجہ ہی گاڑی کی آس میں پاؤں بھاری کر لیے تھے۔ بھگاؤ دردوں وردوں کو اور بندوں کی طرح قدم اُٹھاؤ۔

استنبول کے سلطان احمت ایریا کی گلیاں تھیں۔ چھوٹے چھوٹے بازار تھے۔ پھر وہ ایک جگہ آ کر رُک گیا۔ میں خوابیدہ سی گلیوں کو دیکھتی تھی۔ بازار ابھی انگڑائیاں لے رہے تھے۔

گرینڈ بازار۔ اُس نے سامنے بازار کی طرف اشارہ کیا۔

بازار چہرے مہرے سے تو ویسا ہی تھا۔ پر میں نے بھونچکی سی ہو کر اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ نہ وہاں کوئی منی چینج آفس، نہ دوسری سمت خوبصورت مسجد جس میں ہم نے عصر کی نماز پڑھی تھی۔

میں نے نفی میں سر ہلایا۔ اشاروں سے منی چینج آفس کی بائیں رُخ پر جائے وقوع کی وضاحت کی اور نور عثمانیہ مسجد دائیں ہاتھ۔ خوب اشارے بھی دئیے اور زبان بھی چلائی۔ چلو خیر کسی نے رہنمائی کی اور پھر چل پڑے۔

ہو بہو گرینڈ بازار جیسے ایک اور بڑی سی سرنگ نما دروازے کے نمودار ہونے پر بھی یہی صورت حال پیش آئی۔ پر اب اُس سُن وٹے کی بجائے میں خود بھاگی۔ نور عثمانیہ جامع (مسجد) چلّا چلّا کر کہا۔ پھر کسی نے اُسے سمجھایا۔

ٹانگیں پھر چلیں۔ اب جس بازار میں داخلہ ہوا۔ تھوڑا سا ہی چلنے کے بعد مجھے اندازہ ہو گیا کہ ہم صحیح راستے پر ہیں۔ اور جائے وقوعہ بس آنے ہی والی ہے۔

میرا قیافہ درست تھا۔ جونہی بازار کا اختتام ہوا۔ نور عثمانیہ مسجد اور منی چینج آفس دونوں نظر آ گئے تھے۔ میں نے فوراً اُسے بازو سے تھاما۔ اندر لے گئی اور لڑکے کی سمت اشارہ کر دیا اور خود کونے میں بنے چھوٹے سے زینے کے دوسرے پوڈے پر کھڑی ہو کر کاروائی کے جائزے میں مصروف ہو گئی۔

ایک عجیب سی بات مجھے محسوس ہوئی۔ لڑکے نے صرف ایک چھچھلتی نگاہ سے مجھے دیکھا اور چہرہ جھُکا لیا۔

اور جب پولیس میں اُس سے بات کرنے لگا تو وہیں کونے سے ایک اونچا لمبا خوش شکل تیس کے ہیر پھیر میں نوجوان کھڑا ہو کر اُس سے اُلجھنے لگا۔ یقیناً وہ آفس کا انچارج ہو گا۔ اونچائی پر کھڑے ہونے سے ایک اور بات میرے مشاہدے میں آئی۔ اس کی گردن میں صلیبی کراس والی چین تھی۔ مجھے تھوڑا سا ذہنی جھٹکا لگا۔ یہ عیسائی ہے اور دوسرا لڑکا بھی یقیناً یا عیسائی ہو گا یا یہودی۔

استنبول میں یونانی عیسائیوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی بھی خاصی تعداد ہے۔ سپین پر کیتھولک عیسائی غلبے کے بعد جب یہودیوں اور مسلمانوں کو دیس نکالا دیا گیا تو عثمانی ترکوں نے کھُلے دل سے یہودیوں پر اپنی مملکت کے دروازے وا کیے۔ تب سے آج تک وہ یہیں آباد ہیں۔

ذاتی طور پر میں بنی نوع انسان کے بشری تقاضوں، اُس کی فطری کمزوریوں اور بلند ظرفیوں کو مذہبی، لسانی اور تہذیبی خانوں میں بٹے ہوئے نہیں دیکھتی ہوں۔ ہر قوم، ہر مذہب ہر فرقے اور ہر گروہ میں اچھے بُرے عناصر ازل سے موجود ہیں اور ابد تک رہیں گے

کہ کائنات ہستی کا توازن اسی اصول میں مُضمر ہے۔ دھوکہ دہی کے اس کیس میں انہیں اس حوالے سے دیکھنا مناسب ہی نہیں تھا پر جو بات مجھے اُس لمحے کلِک ہوئی تھی وہ لڑکے کے وہ الفاظ تھے جب میں نے اُسے اپنے پاکستان سے تعلق کا حوالہ دیا تھا۔ اس کی طنزیہ ہنسی بھی مجھے یاد آئی تھی۔

’’تو کیا ان کے ذہن اُس عالمی پروپیگنڈے سے متاثر ہیں جو اسلامی، عیسائی اور یہودی دنیا میں اس وقت جاری ہے ؟‘‘

میرے پاسا س سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔

تھوڑی سی گرما گرمی اور تُو تُو میں میں کے بعد پولیس میں مجھے باہر لے آیا۔ گرینڈ بازار کے باہر ڈیوٹی دیتے وردی والے سپاہی اکٹھے ہو گئے تھے۔ انہیں وہ مختصراً کچھ بتا کر سامنے والی دوکان سے مترجم لے کر آیا جس نے مجھے بتایا کہ وہ یکسر انکاری ہیں۔

اپنے دفاع میں میں نے دلیل دی کہ میں تین ستمبر کو استنبول میں داخل ہوئی ہوں۔ میرے پاس یہ متروک شدہ اتنا بڑا نوٹ کہاں سے آ سکتا ہے ؟‘‘

یہ بات پولیس میں کو سمجھائی گئی۔ وہ پھر اندر گیا۔ میں بھی ساتھ تھی۔ اب پھر زوردار گفتگو شروع ہو گئی۔ مزے کی بات کہ لڑکے نے اس بار بھی مجھ سے آنکھ نہیں ملائی۔ چپ چاپ کھڑا سب دیکھتا تھا۔ پولیس میں بے چارہ بھیگی بلی اوراُس کا باس بُل ٹیرئیر۔

پھر ہم دونوں باہر آ گئے۔ مترجم آیا جس نے مجھے کہا کہ میں پولیس اسٹیشن جا کر تحریری درخواست دوں تاکہ اس پر ایکشن ہو۔

اتنی مشقت بھری خجل خواری کے باوجود میری ہنسی چھوٹ گئی تھی۔ ہونٹوں اور آنکھوں میں بکھری اس ہنسی میں میں نے بہت دور تک گرینڈ بازار کے نقش و نگار کی شوخیاں دیکھیں اور پھر دونوں ہاتھ مترجم کے سامنے جوڑتے ہوئے گویا ہوئی۔

’’جناب میں کیس کو ڈراپ کرتی ہوں۔ استنبول پولیس کی شاندار کار کردگی کو سیلوٹ مارتی ہوں۔ جو کچھ جاننے کی خواہش مند تھی وہ جان گئی ہوں اور مزید جان کاری کی ہر گز متمنی نہیں۔ ہماری پنجابی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ پنڈ کا پتہ روڑیوں سے لگ جاتا ہے۔ ‘‘

میں نے پولیس مین کے سینے پر محبت بھرا ہاتھ پھیرا اور کہا۔

’’جاؤ بیٹا۔ ‘‘

اور جب مجمع بکھر گیا پھر پتہ نہیں مجھے کیا ہوا اور میں کیوں منی چینج آفس میں چلی گئی۔ اُسی جگہ جا کر کھڑی ہو ئی۔ اِس بار دونوں نے مجھے دیکھا پر میں صرف لڑکے سے مخاطب ہوئی۔

’’تم تو بالکل مجھے اپنے بیٹے جیسے لگے تھے۔ پیارے سے، چمکتی آنکھوں والے۔ عورتیں جو مائیں ہوتی ہیں انہیں تو دنیا بھر کے بچے اپنے بچوں جیسے ہی لگتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہیرا پھیری نہیں کرتے اور جو کرنے کو دل مچلے تو پھر تمہارے آفس کے باہر کھڑے یہ بانکی سجیلی لڑکیوں کے پُرے کیا کم ہیں اس کام کے لیے۔

اپنی کسی بھی بات کا ردّ عمل دیکھنے کے لیے میں رُکی نہیں تیزی سے باہر آ گئی۔ سُورج کی آب و تاب ابھی اپنے جوبن پر نہیں آئی تھی۔ بازار کی رونقیں ابھی پہلو بدل بدل کر بیدار ہو رہی تھیں۔ ملحقہ سڑک پر چلتی میں گرینڈ بازار کے دوسرے دروازے کیپلی کارسی کے سامنے نفیس اور شاندار سے ریسٹورنٹ کے سامنے دھری کُرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ کر پُرتکال (مالٹوں ) کا جوس گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے اپنے آپ سے کہتی تھی۔

چلو اچھی ایکٹویٹی رہی۔ 5200 پاکستانی روپوں میں پڑنے والی یہ کہانی کچھ ایسی بُری بھی نہیں۔

پھر دفعتاً ایک خیال آیا۔ میری آنکھیں چمکنے لگیں۔ ہونٹ مسکرانے لگے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب نمبر: ۷ تھوڑی سی آوارہ گردی اور تھوڑی سی دل پشوری

 

۱۔ نور عثمانیہ مسجد کے ساتھ بازاروں کے لمبے سلسلوں میں بکھری عظمت رفتہ کی جھلک دامن دل کو کھینچتی ہے۔

۲۔ بیازت سکوائر میں استنبول یونیورسٹی کو دیر تک ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کا بھی اپنا مزہ تھا۔

۳۔ سلطان عبدالحمید ثانی کے مزار پر خراج تحسین پیش کرنے کے لئے میرے ہونٹوں نے بے اختیار کہا تھا۔ تم شریف مکہ نہیں بنے۔

 

 

یہ بڑا سنہری موقع تھا مجھ جیسی آپ پھُدری عورت کیلئے۔ میں سیماکے تسلّط سے آزاد تھی اور خود کو بے حد ہلکی پھلکی سی محسوس کر رہی تھی۔ جی چاہ رہا تھا وہ گیت گاؤں۔

پنچھی بنوں، اڑتی پھروں نیل گگن میں

آج میں آزاد ہوں دُنیا کے چمن میں

در اصل اس میں سیما بیچاری کا بھی کچھ قصور نہ تھا۔ اٹھارہ اُنیس سال کی لڑکی بتیس سالہ ڈبل ایم اے پاس نوجوان کے لڑ لگی تو اُس کی چھتر چھاؤں میں اُنگلی پکڑ کر چلنے کی عادی ہو گئی۔ میرے جیسی آواگون ان پڑھ والدین کی ریت، روایت اور رواج سے بہت نہیں تو کسی حد تک باغی لڑکی جس نے اُن حفاظتی بیساکھیوں کو جو والدین اپنے بچوں کے گرد گھمانے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں ہائی سکول پہنچنے کے ساتھ ہی ٹوٹے ٹوٹے کر کے رکھ دیا تھا۔

خود انحصاری کی یہ عادت اس درجہ مزاج کا حصّہ بن گئی تھی کہ تیس سال کی عمر میں جا کر اٹھائیس سال کے جس لڑکے سے بیاہ ہوا وہ بڑا خوش شکل اور پڑھا لکھا افسر تھا۔ پورے خاندان نے کہا۔

’’ لو یہ کالی مراثن تو بڑی بخت والی نکلی۔ پر ہے بڑی منہ پھٹ۔ وسیبہ تو مشکل دِکھتا ہے۔ ‘‘

یہ تو بڑا کھلا چیلنج تھا۔ کچھ کوشش میری، کچھ اس کی اور کچھ اللہ میاں کی کہ بس بات بن گئی اور اب تک بنی ہوئی ہے۔

نور عثمانیہ مسجد کے سامنے اک ذرا رُک کر میں نے اُس کے منفرد یورپی باروقBaroqueاور کلاسیکل عثمانی سٹائل کی تعریف کی۔ یہ اُن سات پہاڑیوں، جن پر استنبول تعمیر ہوا اور پھیلا، میں سے ایک پر قائم ہے۔ اس کے گرد و نواح میں بازاروں اور گلیوں کے پھیلے ہوئے تانوں بانوں میں مجھے کِس سمت جانا ہے۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔

بے اختیار ہی نظریں نیلے آسمان کی طرف اٹھیں پھر محبت پاش نظروں نے اپنے اردگرد کو دیکھتے ہوئے خود سے کہا۔ کسی بھی طرف، کسی بھی سمت، بس تھوڑی دیر کے لئے زمانے پہلے کے اِن بازاروں، ان گلیوں کے کِسی گھر کے دروازے سے اندر جھانک کر دیکھوں۔ کسی تھڑے پر چند لمحوں کے لئے بیٹھ کر سولہویں اور سترھویں صدی کی اُس خوشبو کو سونگھوں جو کیپلی کار سی آنے والی شہزادیوں کے اجسام سے اٹھ کر اِن راستوں پر بکھرا کرتی تھی۔

مسجد کے ساتھ ساتھ بازاروں کے سلسلے ہیں۔ لمبی، بل کھاتی مڑتی۔ ایک سے دوسری میں ضم ہوتی گلیاں اور بازار جو کبھی ڈھلان میں اُترنے اور کبھی چڑھائی میں چڑھنے لگتے۔ ان بازاروں میں اگر عظمت رفتہ کی جھلک دامن دل کو کھینچتی تھی تو وہیں ان کو ممکنہ حد تک جدید رنگوں میں رنگنے کا اثر بھی نظر آتا تھا۔ پتھر کی اینٹوں سے بنے کشادہ چوک جہاں چنار اور میپل کے بوڑھے درختوں کی چھاؤں، سرسبز گھاس، پھولوں، صنوبر کی چھوٹی قامت والے بوٹوں سے سجے آہنی جنگلوں کی باڑھوں سے گھرے لان جنکے سامنے پتھر کی اینٹوں سے بنے کشادہ میدان جن کے کناروں پر کافی، ڈرنکس، برگروں کے دیدہ زیب کھوکھے۔ میرے لئیے یہ منظر پرانی اطالوی فلموں جیسے تھے جنہیں میں مسرور نظروں سے دیکھتی تھی۔

دو منزلہ، کہیں کہیں سہ منزلہ مکانوں کے نیچے بنے بازاروں میں دنیا بھرکی رنگا رنگ قوموں کا ایک ہجوم گردش میں تھا۔ بازار کیا تھے جیسے رنگوں کی قوس قزح فضا میں بکھری ہو۔ دوکانوں پر تنے سائبان شوخ سُرخ رنگوں میں کثرت سے تھے۔ ہاں البتہ نیلے پیلے بھی نظر آتے تھے۔

بیازت مسجد کے سامنے رُک کر میں نے قدیم تہذیبی ورثے اور کلچر کے اِس گڑھ کو محبت و شوق سے دیکھا تھا۔ 1936کی تعمیر جس پر بیازت کیمی قران کرسی لکھا ہوا تھا۔

مسجد کے سامنے میدان میں پتھر کی بڑی سلوں والے فرش پر کبوتروں کی ڈاریں بیٹھی دانہ دُنکا چگنے میں مصروف تھیں۔ عورتیں اور بچے دانہ ڈال رہے تھے۔ غٹرغوں غٹرغوں کی آوازیں، ان کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹیں فضا میں ایک نغمہ بار موسیقی پیدا کرتی تھیں۔ جو سماعتوں کو بھی بھلی لگ رہی تھی۔ مائیں اپنے بچوں کی کبوتروں کے ساتھ تصویریں بناتی تھیں۔ معصوم چہروں پر مسرت و شادمانی کے جو رنگ بکھرے ہوئے تھے اُن کا بھی دیکھنے سے تعلق تھا۔

یہاں ایک جانب چنار کا صدیوں پرانا درخت اپنے پر پھیلائے کھڑا تھا۔ اس کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں میں کافی اور قہوہ خانے تھے۔ ایک پُر رونق سماں تھا۔ میں ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ پیاس سے ہونٹ خشک ہو رہے تھے۔ لسی کا پیکٹ لیا۔ مکئی کے دانے آراستہ پیراستہ چوبی ریڑھیوں پر بک رہے تھے۔ بوٹ پالش کرنے والے دو لڑکے اپنا پٹارہ کھولے جوتے پالش کرنے میں مگن تھے۔ بچے شور مچا رہے تھے۔ میں نے لسی کا گھونٹ بھرتے ہوئے اُن نوجوان جوڑوں کو شوق و رغبت سے دیکھا جو ایک دوسرے میں گھسے جانے کیا کیا قصے کہانیاں سُن اور سُنا رہے تھے۔

استنبول یونیورسٹی، بیازت سکوائرمیں ہی ہے۔

میرے سامنے قدامتوں کا رنگ لئیے استنبول یونیورسٹی کے داخلی دروازے کی ڈیوڑھی تھی۔ کُرسی اونچی تھی اور آرام دہ سیڑھیاں چڑھائی کے لئے موجود تھیں۔ لڑکیاں اور لڑکے بالے اُن پر ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے۔ عشق و محبت کے مظاہرے سرعام تھے۔ سگریٹ نوشی بھی زوروں پر تھی۔ جی تو چاہا تھا جا کر کہوں۔

’’ اے میرے پیارے ترک بچو کیوں جان کے بیری بنتے ہو۔ یہ نامراد بڑی بد بخت شے ہے۔ پھر اپنی استانی پنے کو لگام ڈالی لعن طعن کرتے ہوئے کہ یہ سارے جہاں کا درد تمہارے جگر میں ہی کیوں ہے ؟کسی دن اس کے ہاتھوں بے عزتی نہ کروا لینا۔ ‘‘

آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں ترکی کا سُرخ جھنڈا لہراتا تھا۔ میرے لبوں پر اس کی مزید ترقی اور خوشحالی کے لئے دعا تھی میں نے تھوڑا سا سستا لیا تھا۔ حُسن و عشق کے نظاروں سے کچھ آنکھیں سینک لی تھیں۔ کام و دہن کی تھوڑی سی تواضع بھی ہو گئی تھی۔ ذرا سی تازگی نے اٹھنے کے لئے کہہ دیا تھا۔

مگر ہوا یوں کہ اٹھتے اٹھتے رہ گئی تھی کہ ایک نوجوان جوڑا آ کر میرے قریب دھری کُرسیوں پر بیٹھ گیا۔ چہرے مہرے سے بڑے سُلجھے متین سے نظر آتے تھے۔ شاید یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ میں نے سوچا۔ واقعی میرا قیافہ درست تھا۔ دونوں اُستاد تھے۔ ایک ریاضی اور دوسرا معاشیات کا۔ تعارف سے مجھے اُن کے میٹھے سے جذبات کا اندازہ ہوا تھا۔ انگریزی میں بھی ٹھیک تھے۔ شاید اسی لئیے میری کچھ جاننے کچھ باتیں کرنے کی خواہش سب پر غالب آ گئی تھی۔ بات چیت سے اُن کے خیالات سے بھی آگاہی ہوئی۔ ایسے ہی باتوں باتوں میں تُرکی کے یورپی یونین میں شامل ہونے کا مسئلہ زیر بحث آ گیا۔ خاتون نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔

’’یورپی یونین میں صرف برطانیہ حکومتی سطح پر محض امریکہ کی خوشنودی کے لئے ترکی کے حق میں آواز اٹھاتا ہے مگر عوام اس کی بھی 40% مخالف ہے۔ آسٹریا، یونان، ہنگری اور مشرقی یورپ تو زمانے گزر جانے پر بھی عثمانیوں کے ہاتھوں اپنی شکست کو نہیں بھلا سکے۔ ان کے زخم شاید ابھی بھی تازے ہیں۔ رہے جرمنی اور فرانس بھی مخالفت میں سرفہرست ہیں۔ خائف ہیں اس کی آبادی کے تناسب اور اسلامی تشخص سے جسے ترکی کی طاقتور فوج بھی ختم نہ کر سکی۔ ابھی اسی ضمن میں یورپی یونین کے ملکوں کا ایک سروے مخالفت اور حمایت میں سامنے آیا ہے۔ مجموعی طور پر 65% آبادی مخالفت اور 35%حمایت میں سامنے آئی ہے۔

بڑی کھل کر باتیں ہوئیں۔

’’کیا ترکی کے لوگ یورپی یونین کے اِن معاندانہ رویوں سے آگاہی رکھتے ہیں۔ ‘‘میں نے پوچھا۔

’’بالکل جانتے ہیں۔ ‘‘

’’در اصل اِن سب ملکوں کی آبادی مسلسل کم ہو رہی ہے۔ ترکی تو اپنی آبادی کے بل بوتے پر یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں اکثریت کے ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔ تجارتی کوٹے میں اُس کا حصّہ زیادہ ہو گاجو انہیں دینا پڑے گا۔ اسلام کے حوالے سے بھی خدشات علیحدہ ہیں۔

بڑی دلچسپ نشست رہی۔ انہیں کہیں جانا تھا۔ کھڑے ہوئے تو میں بھی خدا حافظ کہتے ہوئے چل پڑی۔

بہت اندر کی جانب کہیں بڑے بڑے چوبی اور آہنی دوپٹوں والے دروازے، کِسی میں موٹی سروں والی میخیں جڑی۔ کہیں دو منزلہ اور کہیں سہ منزلہ عمارتیں۔ چوبی بالکونیاں، آہنی شیشوں والی کھڑکیاں، کہیں خستگی اور کہنگی کا رنگ دور سے لشکارے مارتا۔ ہاں ایک بات بڑی واضح تھی۔ یہ پیچ در پیچ سلسلے میرے پرانے لاہور جیسے تو تھے کہ وہاں بھی اندرون گلیوں میں بڑے بڑے تہہ خانے سٹوروں کا کام دیتے ہیں مگر اِن کی تو شان نرالی تھی۔ انہیں دیکھ کر ایک قوم کی ترقی کا احساس ملتا تھا۔ دروازوں کے کھلے پٹ دیکھ کر دو گھروں میں داخل ہوئی یہ بڑے بڑے سٹور تھے۔ تاجروں نے کرایہ پر یا خرید کر انہیں گوداموں کی صورت دے دی تھی۔ کہیں کام بھی ہو رہا تھا۔ اِن گلیوں میں مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ گورے بھی بے شمار تھے۔ ایک بڑے سے گھر کے صحن میں کھڑے میں نے انہیں تصویریں بناتے دیکھا تو اندر چلی گئی۔ کمبخت مارے فرانس سے تھے اور انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولے۔ وہاں ایک مقامی نے ہی بتایا تھا کہ یہاں مصنوعی جیولری کی ورکشاپ ہے۔

ماضی میں عثمانی سلاطین کے وقتوں میں یہ شاید سرائیں ہوں، ملازموں کے رہائشی گھر ہوں یا یہاں گرجے اور اصطبل ہوں۔ یقیناً کچھ نہ کچھ اہم ہی ہو گا۔

اور انہی میں گھومتے پھرتے، آگے بڑھتے، چلتے دائیں بائیں مڑتے ایک سے بڑھ کر ایک نظّارہ سامنے آتا تھا۔ ہینڈ بیگوں کی دوکانیں جیسے رنگوں میں لُتھڑی پڑی تھیں۔ قالین آنکھیں پھاڑتے تھے۔ میں نے دو ایسی جگہیں دیکھیں کہ مجھے لگا جیسے انہیں دیکھنا بھی میرے لئیے ایک نادر تحفے کے برابر تھا۔ ایک تو ہمارے صرافے بازار جیسا بازار تھا۔ اُف زیورات کی چکا چوند روشنیوں کے بکھرے طوفان میں لشکارے۔ آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔

دوسرا کسیرا بازار تھا۔ رنگ محل کے کسیرے بازار جیسا مگر قدامت اور جدّت کا دلکش عکاس۔ وہ مانوس آوازیں۔ ٹھک ٹھک ٹن ٹن جن سے سارا بچپن مانوس۔ تانبے کے چمکتے رنگ، آرائشی پلیٹیں جن میں مختلف رنگوں کی نقاشی اپنے منہ سے بول رہی تھی۔ اُن پر کندہ قرآنی آیات اللہ اور محمدؐ کے نام سجے تھے۔ بڑے بڑے تھال، سماوار نظریں ہٹانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ فنکار لوگوں کے فن کا نگار خانہ۔

یونہی چلی جاتی تھی کبھی کِسی طرف نکل جاتی، کبھی کِسی طرف۔ علی پاشا بازار سے آگے ایک موڑ پر قبرستان نظر آیا۔ استنبول کے قبرستان بہت خوبصورت اور شاندار ہوتے ہیں۔ چناروں، صنوبر اور دیوداروں کے درختوں اور پھول بوٹوں سے سجے۔ یہ تو کچھ زیادہ ہی خوبصورت تھا شاید شاہی ہونے کی وجہ تھی۔

یقیناً یہ میری خوش قسمتی تھی کہ ایک عمر رسیدہ شخص جو فاتحہ پڑھ کر باہر آ رہا تھا جس سے میں نے پوچھا اور اُس نے اشاروں اور زبان سے بہت کچھ بتانا چاہا تاہم میرے لئیے اتنا ہی کافی تھا کہ سلطان عبدالحمید ثانی یہاں دفن ہیں۔ میں والہانہ انداز میں جھپٹی تھی۔

ترکی کی تاریخ میں وہ ایک ناکام خلیفہ تھا۔ اُس نے دُستوری حکومت بنانے کا وعدہ کیا۔ مگر اُس نے خود کو مستحکم کرنے کے بعد دستور معطل کر دیا۔ پارلیمنٹ برطرف کر دی تھی۔ اُس نے تعلیمی اصلاحات پر توجہ نہیں کی تھی۔ اُس کے دور میں ترکی کو زار روس نے بیمار مرد کہا تھا۔ اِن سب کے باوجود اُس نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا تھا جو آج بھی اُس کی ذات کو جگمگاتا ہے۔ اُس نے تھیوڈور ہرزل بابائے صہیونیت کے ہاتھ فلسطین کی زمین بیچنے سے انکار کر دیا تھا۔

’’وہ مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ میں اِسے بیچنے کا مجاز ہی نہیں۔ ‘‘

ہر بار کی بھاری پیشکش کے باوجود وہ ٹس سے مس نہیں ہوا وہ شریف مکّہ نہیں بنا۔

فاتحہ پڑھی تو آنکھیں جل تھل ہو گئیں۔

یہاں وہ شاہانہ کرّ و فر نہیں تھا۔ بہت سادگی تھی۔ سلطان عبدالعزیز بھی یہیں دفن ہیں۔

میرا جی چاہتا تھا میں سارا دن اِن گلیوں میں چلتی رہوں۔ جگہ جگہ بنے ڈھابوں اور قہوہ خانوں سے کھاتی پیتی رہوں۔ تھک جاؤں۔ کہیں بیٹھ جاؤں۔ لوگوں کو دیکھوں۔ اٹھوں پھر چل پڑوں۔ مگر ایساکرنابہت مشکل تھا۔ دن تو میں نے کم و بیش آدھے سے زیادہ اپنے منہ زور جذبوں کی نذر کر ہی دیا تھا۔ اب سیما کا مجھے ڈر تھا۔ واپسی کا کوئی مسئلہ نہ ہوا۔ میں نے گل ہانہ کہا۔ کارڈ دکھایا۔ میٹرو اسٹیشن کی رہنمائی لی اور جب میں کمرے میں داخل ہوئی۔ سیما کی گونج دار آواز نے میرا استقبال کیا۔

’’ساری دیہاڑی گل کر دی نا تم نے۔ رات کہا بھی تھا کہ گولی مارو جو ہوا سو ہوا۔ تو مل گئے پیسے تمہیں۔ ‘‘

میں نے اپنی خجل خواری اور مظلومیت کی وہ داستان سنائی کہ سیما کو چچ چچ کرتے ہی بنی۔

اف میرے خدایا اگر میں اُسے کہیں صرافہ بازار کا بتا دیتی تو اُس نے فی الفور جوتے پہن کر اٹھتے ہوئے کہنا تھا۔

’’چل ابھی چل۔ ہائے نوشی کے لئے کچھ خرید لوں گی۔ کوئی چھوٹی موٹی سی چیز آشی کے لئے لے لوں گی۔ ثمینہ کے لئے بھی کچھ لینا ہے۔ اکلوتی بہو ہے میری۔ ‘‘

اف دوکان در دکان پھرنا چیزوں کو خریداری کے نقطہ نظر سے دیکھنا اور بھاؤ تاؤ میں اُلجھنا کتنا جان جوکھوں والا کام تھا۔ میری تو جان جاتی ہے ایسے کتوں کاموں سے۔ میں تو ماں اور ساس کے روپ میں پڑ کر بھی داج اور بریوں کے چکر میں نہیں پڑی۔ دونوں بہوؤں کو 2006 اور 2007 میں دو دو لاکھ روپیہ دے کر کہہ دیا تھا۔ بس یہی کچھ دینا ہے میں نے۔ زیور بنوا لو، کپڑے خرید لو، جوتے لے لو، بینک میں جمع کرالو میری بلا سے۔

کیسی مزے کی ساس اور ماں ہوں نا میں بھی۔ ہے نا اپنے منہ میاں مٹھو والی بات۔ پنجابی میں اسے کہتے ہیں۔ آپے میں رُجّی پُجّی آپے میرے بچے جین۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب نمبر: ۸ نیلی مسجد اور آراستہ بازار

 

۱۔ نیلی مسجد استنبول کا لینڈ مارک، مسجدوں کی دنیا کا ایک منفرد اور انوکھا شاہکار۔

۲۔ پیچ در پیچ گلیوں، گلیاروں کے سلسلے آپ کو کسی طلسمی دنیا میں لے جاتے ہیں۔

۳۔ ترک کُردوں سے کُردمسئلے، دہشت گرد تنظیم پی کے کے اور موجودہ صورت حال پر گفتگو۔

 

 

نیلی مسجد۔ چند بار زیر لب اِس نام کو دہرایا۔ جی نہیں چاہتا تھا اِس آرمینیائی، بلقانی، بازنطینی اور اسلامی فن تعمیر کی آمیزش سے بننے والے عظیم الشان ورثے کو اِس عام سے نام سے یاد کروں۔ یہ سلطان احمد کی مسجد ہے۔ یہ سلطان احمت سکوائر کا لینڈ مارک ہے۔ استنبول مسجدوں کا گھر ہے۔ باسفورس اور مرمرا کے سنگم کے پہاڑ پر یہ اپنی مثال آپ، سب سے منفرد اور عظمتوں کی امین ہے۔

ہم باہر کھڑی تھیں۔ گُم سُم مبہوت شام کی سنہری کرنوں، فواروں کی ہیروں جیسی بل کھاتی لڑیوں اور اس کے نوکیلے میناروں میں گھری اس کی عظیم الشان عمارت کے گنبدوں کو دیکھتی اور انہیں سراہتی۔

کیسی دلچسپ بات کہ اس کے چھ میناروں نے اِسے مسجدوں کی دنیا میں منفرد مقام عطا کر دیا ہے۔ یہ غلطی سے ہوا۔ غلط فہمی ہوئی۔ جو بھی ہوا بہت خوبصورت اور انفرادیت والا ہے۔ سلطان احمد نے اس کے معمار محمد آغا سے سونے کا مینار بنانے کا کہا تھا۔ ترکی زبان میں لفظ سونا ڈائکDike ہے جو چھ کے معنی دیتا ہے۔ محمد آغا نے چھ مینار بنا دئیے تو علما کے اعتراضات شروع ہو گئے کہ مسجد الحرام کے چھ مینار ہیں اور دنیا کی کسی مسجد کو اس کی ہم سری کا حق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ خواہ وہ کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو۔

بات تو درست تھی۔ تو کیا کیا جائے ؟سلطان سوچ میں ڈوب گیا۔ چند لمحوں بعد سر اٹھایا مُسکرایا۔ سلطان تھا نا۔ اللہ کے گھر کو ایک اضافی مینار دے دیا۔

ایک جانب کے فٹ پاتھ پر ایک بوڑھا آدمی تسبیحیں، نیلی مسجد کے ویو کارڈ اور سونیئرز بیچ رہا تھا۔ لوگوں کے جتھے تھے جو اندر آ جا رہے تھے۔ یہ بھی پرانے ہپو ڈروم Hippodromeمیں ہی تعمیر ہوئی۔ وجہ توپ کاپی محل میں سلطان کی رہائش تھی اور مسجد قریب ہونے کی ضرورت تھی۔ اِسے خوبصورتی اور کشادگی دینے کے لئے کچھ بازنطینی محل مینارے اور کچھ عثمانی امراء وزرا کے چوبارے بھی دان ہوئے۔

کشادہ صحن میں کبوتروں کی ڈاروں کا اڑنا، نیچے اترنا اور دانہ دُنکا چگنے کا منظر بھی بڑا خوبصورت تھا۔ صحن کے اطراف میں کشادہ برآمدے ہیں۔ یہیں وضو کرنے کا حوض ہے۔

اندر داخلہ ہوا۔ اس کے حُسن و رعنائی کو الفاظ کا جامہ پہنانا زیادتی تھی۔ بیچارے ہاتھ باندھے ملتجی سے کھڑے تھے کہ بس معاف کر دیں۔ مرکزی گنبد اتنا بڑا کہ آنکھیں پھاڑتا، مبہوت کرتا، ہمراہ چاروں اور گنبد ہی گنبد اُن میں کی گئی نقاشی، براؤن اور ہلکے رنگوں کے دلکش امتزاج سے آنکھوں میں اُتر رہی تھی۔ یہ چار بڑے ستونوں پر کھڑی ہے۔ جن کا پتھر دیواروں کی ٹائلیں اور نقاشی سب میں نیلا رنگ نمایاں ہے۔ نیلی جالیوں کی فسوں خیزی اور تحیر سب سے انوکھا اور نرالا تھا۔ مقناطیس کی طرح توجہ کھینچتا تھا اور آنکھوں کو ہلنے نہیں دیتا تھا۔ عورتوں کا الگ حصّہ ہے۔ ماڈرن عورتوں نے سر اور ٹانگوں کو ڈھانپا ہوا تھا۔ جبکہ ایک اکثریت حجاب والیوں کی بھی تھی۔

ایک تو مصیبت زبان کی تھی۔ اشاروں سے باتیں ہوتیں۔ کیا پلّے پڑتا۔ بس اتنا جانا کہ کچھ اسکدار یعنی استنبول کے ایشیائی حصّے سے آئی تھیں۔ بہت مہذب اور با وقار سی عورتیں لگتی تھیں اور کچھ ازمیر سے اپنے رشتہ داروں سے ملنے آئی تھیں۔ پاکستان کا سن کر خوش ہوئیں۔ عصر کی نماز پڑھی۔

اس کے ساتھ ایک مدرسہ، لنگر خانہ، شفا خانہ اور بازار بھی بنائے گئے۔ ہم نے مدرسے اور شفا خانے کی طرف تو توجہ نہ کی ہاں مگر بازار کی طرف ضرور لپکے۔ اصل میں سیما کی خوشنودی بھی مطلوب تھی کہ اس کا موڈ ابھی بھی پوری طرح درست نہ ہوا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ آراستہ بازار قریب ہی ہے۔

پیچ در پیچ گلیوں کے سلسلوں میں چلنے کا ایک اپنا لطف تھا۔ کہیں دائیں بائیں پر شکوہ عظمتوں کے رنگ چہروں پر سجائے تمکنت سے کھڑی عمارتیں، کہیں چھتے ہوئے اور کہیں کھُلے درّے جیسے گلیارے۔ اِدھر مڑو اُدھر مڑو۔

آراستہ بازار کس قدر شاندار تھا۔ دو رویہ دکانیں، یہ چھتا ہوا نہیں تھا۔ مگر اس کی دکانیں اتنی شاندار اور خوبصورت کہ بندہ دیکھتا جائے اور جی نہ بھرے۔ سازوسامان سے بھری رنگا رنگ سٹولوں اور کرسیوں پر بیٹھے دوکاندار اور کہیں ملازم لڑکے گاہکوں کو متوجہ کرتے، انہیں آوازیں دیتے۔

ایسی ہی ڈیکوریشن کی ایک دُکان میں مجھے آرٹ کے دو ایسے شاہکار نظر آئے۔ جنہوں نے مجھے دیر تک ہلنے نہیں دیا۔ یہ دو پینٹنگز تھیں۔ ایک استنبول پر قبضے کے پانچ سو سال پورے ہونے کے جشن کی تھی۔ لوگوں کے خوشی سے نہال چہرے اور قدیم لباس۔ کہیں کوئی سلطان کا روپ دھارے، کہیں کوئی سلطان کی خاص فوج ینی چری کا یونیفارم پہنے، کوئی خواجہ سرا کے پہناوے میں، کوئی گل بانو ملکہ بنی ہوئی اور کوئی کنیز کھلکھلاتے چہرے اور دیدہ زیب لباس میں ملبوس۔ ڈریس فینسی شو لگتا تھا۔ سچی بات تھی مصور نے ایک عہد کو قید کر لیا تھا۔

دوسری اناطولیہ کے کِسی قدیمی بازار کی تھی۔ کھلے میدان میں کہیں کپڑوں کے سائبانوں کے نیچے اور کہیں چھوٹی چھوٹی کوٹھٹریوں میں چوغوں میں ملبوس اشیائے کو چک کے لوگ پھل، سبزیاں اور دیگر ضروریات زندگی کو ڈھیروں کی صورت بکھرائے اور کہیں سلیقے سے سجائے بیچنے میں مصروف ہیں۔ گدھے گھوڑے سب نظر آتے تھے۔ بھاؤ تاؤ کا منظر بھی تھا۔

لڑکے نے میری دلچسپی اور محویت بھانپ لی تھی۔ لسوڑے کی لیس کی طرح چپک گیا تھا۔ دل تو میرا بھی بے طرح دونوں تصویروں پر آیا ہوا تھا مگر لے جانا کوئی خالہ جی کا گھر تھا۔

میں نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اُس کے لکچر سے تصویروں کا پس منظر جانا اور باہر نکل آئی۔ سیما قالینوں کی دوکان میں تھی۔ وہ باہر نکلی تو ہم دونوں اکٹھی سونیئرز کی ایک دوکان میں جا گھسیں۔ یہاں ایک مزیدار تجربے سے ہم کنار ہوئے۔ جب ہم نظر بنجو اور دیگر اشیاء کا جائزہ لے رہے تھے۔ دوکاندار نے ٹیبل میٹس کا سیٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’یہ لاجواب سا تحفہ میں اپنی پاکستانی ماں کو پیش کرتا ہوں۔ ‘‘

سیما نے فوراً رُخ پھیرا اور بولی۔ ’’عجیب احمق ہو۔ دوسری ماں کو بھول رہے ہو۔ اُسے کیا عنایت کرو گے۔ ‘‘

’’ارے ‘‘۔ نوجوان لڑکا کھلکھلا کر ہنسا۔

’’آپ آنے (ماں )کب ہیں ؟آپ تو ڈارلنگ ہیں۔ ڈارلنگ، مائی ڈارلنگ۔

سیما تو لال بھونچکی ہو گئی۔ ہاتھ میں پکڑا نظر بنجو اُس نے پٹخ کر پھینکا اور بے اختیار پہلے پنجابی پھر انگریزی میں برسی۔

اُلّو کا پٹھا کیا بکواس کر رہا ہے ؟

سیما کے اِس اندازِ بر افروختگی پر وہ نہال ہوتے ہوئے بولا۔

’’غصہ، غصہ نہیں۔ آج رات میرے ساتھ ڈنر کریں۔ ‘‘

سیما میرا ہاتھ پکڑ کر تقریباً مجھے گھسیٹتی دکان سے باہر کھینچ لائی۔

’’ذلیل وہ تمہیں کھانے کی دعوت دے رہا ہے اور تم کفران نعمت کر رہی ہو۔ ‘‘

’’بند کرو بکواس۔ ‘‘وہ چلائی۔

’’بڑی مارکیٹ ویلیو ہے بھئی تمہاری۔ مجھے تو رشک آ رہا ہے۔ ‘‘

قریبی ریسٹورنٹ میں کرسی پر بیٹھتے ہوئے میں ہنسے چلی جا رہی تھی۔ وہ ریسٹورنٹ میں گئی یقیناً کھانے کا کچھ آرڈر کرنے۔ جب اُبلے چاول، بینگن کی ڈش اور سلاد آیا۔ میں نے سلاد کی پلیٹ سے ٹماٹر کا قتلہ اٹھا کر منہ میں ڈالا اور کہا۔

’’لے کھا ڈپ یہ غریبڑا سا کھانا۔ تجھے بھی ڈنر قبول نہیں تھا۔ ‘‘

بدمزہ سے اِس کھانے کا سیاپا ہی ختم ہونے میں نہ آ رہا تھا۔ سیما نے ہاتھ جوڑ دئیے۔ ہنسی مذاق اور ٹھٹھول بازی میں ہی تھوڑی سی منہ ماری ہوئی۔ پھر سوچا کہ استقلال سٹریٹ کی سیر کی جائے۔ وہاں کی آئس کریم کی بڑی شہرت تھی۔ یا تقسیم میدان چلیں اور رات کا پہلا پہر وہاں گزاریں۔

ابھی ہم یہیں اِس پرانے روایتی کلاسیکل قسم کے منظروں والے ماحول کی کبھی دائیں ہاتھ اور کبھی بائیں ہاتھ کی گلیوں گلیاروں میں پھر رہی تھیں جب ہم نے ایک سٹائلش اور منفرد سی عمارت کو دیکھا۔ سلطان ریسٹورنٹ۔ اندر جا گھُسے۔

بلّے بھئی بلّے۔ یہ تو رنگ و مستی اور موج میلے کی ایک اپنی ہی دنیا تھی۔ شیشہ کیفے تھا کہہ لیجیے حُقہ گھر تھا۔ وسیع و عریض کشادہ ہال نما کمرے کی آرائش و زیبائش پر آنکھیں جمی جاتی تھی۔ دیواریں آرٹ کے شاہکاروں سے سجی ہوئی تھیں۔ ایک جانب حُقوں کی ایسی رنگ رنگیلی ورائٹی تھی کہ لگتا تھا جیسے قوس قزح تو یہیں اُتر آئی ہے۔

واہ ری کاروباری دنیا تیرے صدقے کھیسہ خالی کرنے کے کیا کیا رنگ ڈھنگ نکالے ہیں تو نے۔ ہم متوسط پاکستانی عورتوں کو اپنے ہاں کی برکتے جنتے ٹائپ مٹی کی چلمیں دیکھنے والوں کو یہاں کی وکھری ٹائپ چلموں میں مارلن منرو اور الزبتھ ٹیلر کے سٹائل اور رنگ روپ ہی دِکھے تھے۔ کیا بات تھی ان کی نٹریوں کی۔ ہر نٹری اپنی ساخت اور حسن میں منفرد اور یکتا۔

کہیں چوبی ڈیزائن دار صوفوں، کہیں دیوان، کہیں میز کے گرد دھری کرسیوں، کہیں تپائیوں کے گرد بیٹھے نیم برہنہ حسین چہرے ہونٹوں سے دھواں نکالتے اپنے سامنے شطرنج کی بساط بچھائے چالیں چلنے میں مگن تھے۔ کہیں عشق و عاشقی کی سرمستیاں تھیں۔ مے نوشی بھی جاری تھی۔ بڑی کیف آور سی ڈوبتی اُبھرتی موسیقی کی دھُنیں سینوں میں تلاطم کی سی کیفیت پیدا کرتے ہوئے ماحول کی رنگینی کو کچھ اور بھی بڑھا رہی تھیں۔ گو فضا دھُواں دھواں سی تھی پر اس میں نشیلی سی مہک کا بھی رچاؤ تھا۔

سیما کو شاید گھٹن کا احساس ہوا تھا۔

’’دفع ہو جاؤ نکلو باہر۔ ‘‘ وہ دروازے کی طرف بڑھی۔

’’ہائے کیا دنیا ہے ‘‘میں تو ابھی اِن نظاروں کے اور مزے لوٹنا چاہتی تھی۔

’’لعنت نہیں بھیجتیں۔ ‘‘

’’ایسا تو نہ کہو سیما۔ جنت بھی تو ایسی ہی ہو گی۔ آخر آدم و حوا کی دل پشوری کا بھی تو کچھ سامان ہو گا وہاں۔ ‘‘

سیما کوئی تند سا جواب دینے کی بجائے باہر کی طرف لپکی۔ میں نے بھی تعاقب میں قدم اٹھائے۔ باہر کی کھلی فضا میں شام کا حسن بکھرا ہوا تھا۔ جسے اُس نے اپنی آنکھوں اور سانسوں میں کشید کرتے ہوئے میری تواضع” ملعون اور ملحد "کہتے ہوئے کی۔

میں سیما کی لعن طعن سے حظ اٹھا رہی تھی جب ہم نے سامنے سے آتے تین سوٹڈبوٹڈ مردوں کو دیکھا۔ ساتھ ساتھ چلنے والوں میں دو اپنی دراز قامتی اور رنگت کی سرخی و سفیدی میں بڑے نمایاں تھے۔ بقیہ ایک رنگت کے ساتھ ساتھ قد کاٹھ میں بھی ذرا ماٹھا سا تھا۔ اسی ذرا پست قامت اور دبتی رنگت والے نے ہمیں توجہ سے دیکھا اور ہم سے چند قدم پر رُک کر پوچھا کہ کہ ہم کیا پاکستانی ہیں ؟اردو میں یہ استفسار رُوح تک میں سرشاری سی دوڑا گیا۔

سچ تو یہ ہے کہ وطن سے محبت کے احساس کو وطن میں رہتے ہوئے محسوس ہی نہیں کیا جا سکتا۔ جونہی کہیں آپ اس کی سرحدوں سے باہر نکلتے ہیں محبت دریا کے طغیانی زدہ پانیوں کا روپ دھار لیتی ہے کہ اپنی حدوں میں سماتی ہی نہیں۔ اُچھلتے، کُودتے اس کے کناروں سے باہر اُبل اُبل پڑتی ہے۔

پتہ چلا کہ صاحب عزیز الرحمن پکے لاہوری ہیں۔ یہاں حبیب بینک میں وی پی ہیں۔ ساتھی بھی بینکار تھے۔ ایک انقرہ سے اور ایک سرنک سے۔

انہوں نے رخصت ہونا چاہا مگر میں انہیں کیسے رُخصت ہونے دیتی؟میرے ہاتھ تو بٹیرے آ گئے تھے۔ گھر کی تو صورت جو نظر آئی تھی اُس کی چاہت اپنی جگہ پر مجھے تو اب کچھ جاننے کے اُچھل پیڑے لگ گئے تھے کہ عزیز الرحمن کے تینوں ساتھی کُرد تھے۔ تعارف نے میرے دماغ میں برق کے کِسی کوندے کی طرح ایک یاد کو روشن کر دیا تھا۔ بہت عرصہ پہلے ترکی کے کُردوں بارے پڑھا ہوا ایک ناول یاد آیا تھا۔ اتنا دلچسپ اور حیرت انگیز تھا کہ ابھی تک ٹوٹی پھوٹی کیفیت میں ذہن کے کسی کونے کھدرے میں اپنے انوکھے پن کی وجہ سے پڑا ہوا تھا۔ ناول دہشت گردی کے حوالے سے تھا۔ ہم جیسے لوگ جو اب پور پور اِس کے ہاتھوں زخمی ہیں تب اس کے مفہوم سے بھی اتنے آشنا نہ تھے۔ استحصال شدہ طبقات کے جذبات و احساسات کی خوبصورت نمائندگی تھی۔ امن اور محبت کے نظرئیے کو اپنانے اور فروغ دینے کی ضرورت پر زور تھا۔ کسقدر شوق و تجّس سے پڑھا تھا۔ ہاں البتہ تفصیلات کچھ اتنی زیادہ ذہن میں نہ تھیں۔

اب جو اتفاق سے موقع نصیب ہوا تو سوچا ان کے بارے کچھ معلوم تو ہو۔ اسی لئیے میری خاموش ملتجی آنکھوں نے سیما کے حضور درخواست پیش کی کہ مجھے اُس کا تعاون چاہیے۔ سیما بھی کسی حد تک حق بجانب تھی کہ عزیز الرحمن نے بتایا تھا کہ وہ اپنے مہمانوں کو شیشہ پلانے کے لئے لے جا رہا ہے۔

میری درخواست پر کہ ہمیں تھوڑا سا وقت دیں۔ اور یہ کہ شیشہ کیفے کی فضا بڑی مست ہلّے غلّے کی سی ہو گی جہاں کوئی سنجیدہ سوال نہیں ہو سکے گا۔ اور خدا کا شکر انہوں نے میری درخواست کو پذیرائی دی۔ قریبی قہوہ کیفے کے اوپن میں بیٹھنے کے لئے جب ہم چلنے لگے میں بے صبروں کی طرح جھپٹی اور مدعّا بیان کر دیا۔

’’شاید کردستان لیبر پارٹی جسے PKK (ترکی کی دہشت گرد تنظیم) کہتے ہیں پر لکھا گیا ہو۔ مصنف کا نام نہیں یاد؟‘‘

سرنک سے تعلق رکھنے والے عثمان گوران نے میری بات سُنتے ہوئے مجھ سے پوچھا تھا۔

میرے لہجے میں تاسف سا گھُل گیا تھا۔ ” ہائے وہی تو یاد نہیں آ رہا ہے۔ ”

در اصل یہ کُردستان کا بھی بڑا ٹیڑھا مسئلہ ہے۔ چنار کے صدیوں پرانے درخت کے نیچے بیٹھتے ہوئے عثمان گوران نے بات کا جونہی آغاز کیا۔ مجھے احساس ہوا کہ بس بڑی واجبی سی انگریزی ہے۔

پہلے تھوڑا سا پس منظر جان لیں۔ ترکی کی اقلیتوں کا یہ سب سے بڑا لسانی گروپ ہے جو انڈو یورپین زبان بولتے ہیں۔ شام اور عراق کے شمالی حصّوں، ایران کے مغربی اور ترکی کے جنوب مشرقی حصّوں میں ان کی اکثریت ہے۔ ترکی کی آبادی کا 20%ہیں۔ کہہ لیجیے کوئی بارہ ملین کی آبادی ہے۔ شام، ایران اور عراق میں ملا جلا کر کوئی 20, 25 ملین بنتی ہے۔

یہ بھی مقام شکر تھا کہ شربتی آنکھوں والے فاروق حلمی نے بولنا شروع کر دیا۔ اتنا خوبصورت، پُر مزاح اور رواں لہجہ سچ تو یہ تھا کہ مزہ آ گیا۔

’’ارے بھئی کہتے ہیں بڑی لائی لگ سی قوم ہے۔ اب میں اِسے اپنی پنجابی میں کہوں تو یہی مفہوم ہو گا کہ جنہیں لایا گلیں تے اوہدے نال اٹھ چلی۔ کسی تھالی کا ڈھکن نہیں۔ کِسی سینی کا پیندا نہیں۔ لڑھکتی پھرتی رہتی ہے۔ یار لوگ تو فصلی اور موسمی بیٹروں جیسی بھی کہتے ہیں۔

عزیز الرحمن نے مینو کارڈ ہمارے سامنے رکھتے ہوئے عثمان اور فاروق کی گفتگو کا سلسلہ توڑتے ہوئے کہا۔

’’آپ کو جو پسند ہے اُسے بتائیں۔ ‘‘عزیز الرحمن کوئی پینتیس چالیس کے پیٹے میں ہو گا بیٹوں جیسا۔ میں نے بے تکلفی سے کہا۔

’’ ہمیں تو کِسی شے کی طلب نہیں ہمارے لئیے سب سے اہم تو ان کی باتیں سُننا ہیں۔ ‘‘

فاروق نے عزیز الرحمن سے قہوہ منگوانے کا کہتے ہوئے بات کو آگے بڑھایا۔  ’’آپ نے شاید کُردوں بابت بہت سی مشہور زمانہ عربی کہاوتیں پڑھی ہوں گی۔ یوں کُرد بھی بڑے تیز ہیں انہوں نے بھی عربوں اور ترکوں کے لئے بڑے لطیفے گھڑ رکھے ہیں۔ کچھ سنانے والے ہیں اور کچھ نہیں۔

بڑا زور دار قہقہہ پڑا تھا۔ کُردوں پر ایک کُرد کا سچا اور بے لاگ تبصرہ۔

مگر ہوا کیا اِس زندہ دلی کے مظاہرے کے ساتھ ہی جیسے عثمان حلمی کی آواز میں دُکھ سا گھل گیا تھا۔ پر کیا کریں جی۔ بیچارے زمانوں سے بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں صرف اس امید پر کہ شاید یہ انہیں آزاد کُردستان کا شہری بنا دیں۔ مگر نہیں جی یہ طاقتیں بڑی ہی بدمعاش ہیں وہ کوئی کام اپنے مفاد کے بغیر نہیں کرتی ہیں۔ انہوں نے جب بھی مشرق وسطیٰ کے کِسی ملک کا ٹینٹوا دبانا چاہا ان احمقوں کو استعمال کیا۔

در اصل کِسی بھی ملک میں لسانی یا مذہبی گروہوں میں حقوق کی پامالی نہ ہو۔ سلطنتوں اور مملکتوں میں سیاسی اور سماجی سطح پر حصّہ داری ملتی رہے۔ ہونے کے احساس کی تسکین ہوتی رہے تو شاید مسائل جنم نہ لیں۔ عثمانی دور میں بھی یہ لوگ نظرانداز ہوتے رہے۔ گلے شکوے شکایتیں تو تقریباً زمانوں سے تھیں۔ تاہم تحریک کا باقاعدہ آغاز ترکوں کی جنگ آزادی کی جد و جہد کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔

عثمان حلمی کی باتوں نے جیسے میری یاد داشتوں کے کوڑے کباڑ سے بہت سی چیزوں کو نکال کرتا زہ کر دیا تھا۔ مجھے عبداللہ او جلان کا نام یاد آیا تھا۔ اسی کے بارے پوچھنے پر پتہ چلا تھا پیدائش ترکی کے ایک گاؤں جو شامی سرحد کے قریب ہے۔ بچپن ہی سے خودسر اور باغی سا تھا۔ بڑا کٹٹرکیمونسِٹ، لینن کا پرستار، شادی ناکام، بچہ بھی کوئی نہیں۔ کُردش ورکس پارٹی اُس نے لگ بھگ 1978میں بنائی تھی۔ ابتدا میں تو کُرد کلچر محفوظ رکھنے، اور کُردوں کے لئے آزاد کُردستان کے حصول کا مقصد پیش نظر تھا۔ آہستہ آہستہ قباحتیں بھی شامل ہوتی گئیں۔

پارٹی کبھی یورپی یونین، کبھی امریکہ اور فرانس کے ہاتھوں کھلونا بنتی رہی۔ صدر متراں اور اُس کی بیوی کے تو کچھ زیادہ ہی محبوب تھے۔ دنیالہ متراں تو باقاعدہ کھُلے بندوں PKK کو مالی وسائل مہیا کرنے میں بڑی پیش پیش رہی۔ کچھ ایسا ہی حال برطانیہ اور جرمنی کا تھا۔

اب بیچاروں کی بھی مجبوریاں، ملکوں میں بٹے، قوموں میں گھرے اپنی شناخت اور اپنی پہچان کی انفرادیت قائم رکھنے کے لئے مرتے کبھی ترکوں سے جوتے کھاتے اور انہیں کھلاتے، کبھی ایرانیوں سے پھڈے بازیاں کرتے، کبھی عراقیوں اور شامیوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتے، ان کی گولیوں سے بھُنتے اور زہریلی گیسوں سے مرتے۔

سچی بات یہ ہے کہ اُن کے مسائل کو ہمدردانہ نظر سے دیکھا ہی نہیں گیا۔ ترک فوج کی بھی بڑی زیادتیاں تھیں۔

اصل سیاپا جنرل کنعان ایورن کے مارشل لانے ڈالا۔ دہشت گردی کا پھیلاؤ ہی تب سے شروع ہوا۔ ضرورت تھی کہ ان کے ساتھ مذاکرات کئیے جاتے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جاتا۔ ترگت اوزال کی کاوشیں شاید ثمر بار ہو جاتیں اگر ترک قوم پرست تھوڑی سی لچک کا مظاہرہ کرتے تو یقیناً صورت حال نے گرفت میں آ جانا تھا۔ یہ بھی ایک نمبر کے ذلیل ہیں اور یورپی یونین بھی ذلیل ترین۔

عبداللہ او جلان کو امریکہ نے 15فروری 1999کو کینیا سے پکڑ کر ترکی حکومت کے حوالے کیا۔ اُسے پھانسی پر چڑھا دینا چاہیے تھا۔ مگر یہ بھی یورپی یونین کی بدمعاشی کہ پھانسی نہیں دینی جی۔ اور پھر اِس پھانسی والے ٹنٹنے کو بھی ہمیشہ کے لئے ختم بھی کروا دیا۔

دہشت گردی تو جاری رہی۔ لوگوں کے ساتھ کیا کیا ظلم ہوئے اس کی تفصیلات قطعاً خوشگوار نہیں۔ بگلیو میں رہنے والے چند خاندانوں سے مل لیں اگر وقت ہو۔ بہت دردناک کہانیاں سُننے کو ملیں گی۔

لوگ بہت مضطرب رہے۔ ملک کا جنوب مشرقی حصّہ یقیناً بہت متاثر ہوا۔ سیاسی طور پر بہت غلطیاں ہوئیں۔ بہرحال اب موجودہ حکومت اپنی کوششوں میں خاصی سنجیدہ نظر آتی ہے۔ انکی پارٹی میں کُرد ترک تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور پارلیمنٹ میں ان کی رکنیت بھی زیادہ ہے۔ کر دوں کی نمائندہ جماعت HDPاب اِس ضمن میں خاصا کام کر رہی ہے۔ بہرحال دعا ہے کہ حالات بہتر ہوتے جائیں۔

امین کہنے میں اگر ہماری آواز زور دار تھی تو اپنے ملک کے لئے بھی دل ہی دل میں دعا گو ہوئے۔

ہم قہوہ نہیں پینا چاہتے تھے۔ گاڑھا کسیلا قہوہ ترکوں کی زندگی میں گھُلا ہوا۔ سنتے ہیں کہ دنیا میں قہوے کی دریافت بھی استنبول میں ہوئی۔ ترکوں کے لئے یہ ہاضم ہے۔ چُست رکھنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ ہو گا ہم تو دو بار سے زیادہ اِسے پی نہیں سکتے تھے کہ معدے کی جلن کا شکار ہونے لگتے۔ ہمارے لئیے تو آئرن(لسی) بہترین مشروب ہے۔ اب شرما شرمی چند گھونٹ بھرے۔ شکریہ ادا کیا۔ اجازت لی اور رخصت ہوئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب نمبر: ۹ سلطان محمد فاتح

 

۱۔ سلطان محمد فاتح خدا کے منتخب لوگوں میں سے ایک تھا۔

۲۔ مسجد کے گرد و نواح کا علاقہ بڑا کلاسیکل قسم کے مناظر کا حامل تھا۔

۳۔ جانشینی سے متعلق سلطان محمد فاتح کا قانون میکیا ولین جیسے ہتھکنڈوں کی بھونڈی شکل تھی یا کہیں سربراہ مملکت بارے حدیث سے متعلق اُسے کوئی ذہنی ابہام سا تھا۔

 

 

اُس جیالے سلطان محمد فاتح کا مقبرہ، اس کی یادگار "مسجد فاتح” دیکھنے کی بڑی خواہش تھی۔ یوں مسجدیں تو کم و بیش تھوڑے بہت فرق سے ایک جیسی ہی تھیں۔ استنبول تو ویسے بھی مسجدوں کا گھر ہے۔ مگر بات اُس قلبی تعلق اور ناطے کی ہے جو آپ کو اُس ہستی سے کہیں گوندھ دیتی ہے۔ سیما بھی ایسی ہی خواہش کی اسیر تھی۔

بس تو نکل پڑیں۔ آقسرائے Aksaray سکوائر تک میٹرو کا سفر کیا۔ سڑک کے کنارے خوبصورت پر چھوٹی سی مسجد کو ہم نے توجہ سے دیکھا۔ نفل پڑھنے کی نیت سے اندر گئے تو معلوم ہوا ولادیvalide مسجد ہے جو مادر ملکہ کے نام سے ہے۔ نفل پڑھے۔ دعائے خیر مانگی۔ یہ آقسرائے کا علاقہ تھا۔ اتنا خوبصورت جتنا جھوٹ بولا جائے۔ مصروف ترین ہوٹلوں، موٹلوں، بسوں، گاڑیوں، میٹرو اور رنگا رنگ لوگوں، پارکوں اور عمارتوں سے بھرا پُرا۔

اب جو چلنا شروع کیا تو بس چل سو چل والا معاملہ ہوا۔ جس نے جدھر چاہا اُدھر دھکیل دیا۔ منسٹری اف ملٹری آفئیرز کی عمارت نظر آئی۔ جس چیز نے توجہ کو فوراً کھینچا وہ چمکتے سنہرے حروف کے ساتھ دائیں بائیں لکھی ہوئی قرآنی آیات تھیں۔ ’’انا فتحنا لک فتحا مبینا‘‘ ’’و ینصرک نصراً اللہ عزیزاً ‘‘اس کے مرکزی گیٹ پر استنبول یونیورسٹی لکھے دیکھا تو رک گئیں۔ لاطینی کے ساتھ ساتھ عربی میں بھی سال اور نام لکھے گئے تھے۔ اِس یونیورسٹی کی بنیاد سلطان محمد فاتح نے شہر فتح کرنے کے ساتھ ہی رکھ دی تھی۔

شکر ہے یہ بر صغّیر کے غزنویوں سے مختلف نکلا جو ہندوستان کو فتح کرنے نہیں لوٹنے آتے تھے۔ ابتدا میں نام کچھ اور تھا درمیانی وقفوں میں بھی نام بدلتے رہے مگر اب یہ استنبول یونیورسٹی ہے۔

گیٹ پر روک لیا گیا۔ تعارف کروایا۔ پاسپورٹ دکھائے۔ تب داخلہ ہوا۔ اندر داخل ہونے پر کیا خوبصورت نظارہ تھا۔ کشادہ راستے اور اطراف میں سبزے سے دمکتے باغات کا سلسلہ، چنار کے درخت، سدا بہار پستہ قامت دیوداروں کی قطاریں، پھولوں کے قطعے، فضا میں فطرت کا حسن اور رنگینی بکھری ہوئی تھی۔

متاثر کن عالیشان عمارتیں تھیں جن میں یقیناً مختلف ڈپارٹمنٹ اور فیکلٹیز ہوں گی۔ اس وقت شام تھی اور یونیورسٹی تو تقریباً اف ہی تھی۔ گیٹ کیپر بڑے خوش مزاج تھے۔ مگر انگریزی سے نابلد تھے۔ مسکراہٹیں ضرور بکھریں۔ کچھ ہماری کچھ اُن کی۔ ہاں البتہ کتابوں نے ضرور بتایا تھا کہ یہاں فاتح سلطان محمد نے کچھ وقت اُس محل میں گزارا جو بازنطینی شاہوں کا تھا۔ اور اس سے بھی پہلے پانچویں چھٹی صدی میں یہاں روم کے سینٹ پیٹرز کی طرز کا چرچ تھا جس کی تعمیرات ہوئیں۔

ہاں البتہ جب جمہوریت کا آغاز ہوا۔ دار الخلافہ انقرہ چلا گیا تو بہت سی وزارتوں کے جانے سے اِسے یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا۔

گیٹ کے دربانوں نے رہنمائی ضرور کی مگر منزل تک پہنچے میں ہم نے مزید کسی سے پوچھنے کا تکلف نہیں کیا۔ در اصل پرانے استنبول کے گلی کوچوں میں پھرنا اور بھٹکنا بہت مزے کا کام تھا۔ کافی دیر تو ہم یونیورسٹی کی ڈیوڑھی سے باہر اُس پارک میں بیٹھے رہے جو سڑک تک پھیلا ہوا تھا۔ یہاں لوگوں کو دیکھنا بڑا دلچسپ شغل تھا۔ خوانچے والے سے سمط لے کر کھائے۔ قہوہ پیا۔ جوڑوں پر تبصرے کئیے جو سگرٹوں کے دھوئیں اڑاتے عشق و محبت کی پینگوں میں جھُولے لے رہے تھے۔ چلنا شروع کیا تو کچھ ہی دیر بعد مسجد کے سامنے تھے اور خود سے کہتے تھے تو یہ ہے استنبول کی پہلی شاہی مسجد۔ سڑک پر ٹریفک سگنل کے سامنے اِسے بہت دیر دیکھتے رہے۔ دروازے پر کھڑے کھڑے یہی سوچتے رہے کہ اِس نے کتنے رنگ و روپ بدلے ہیں۔ پہلے یہاں کیا کیا تھا؟بازنطینی دور میں سینٹ آپاسٹولی چرچApostoliتھا۔ فتح کو دس سال گزر گئے تو سلطان محمد فاتح کو یہاں ایک ثقافتی کمپلیکس اور نماز کے لئے مسجد بنانے کا خیال آیا۔ جس کو وہ اپنا نام دینا چاہتا تھا۔ شاید کہیں اس دل میں بازنطینی دور کی عظیم الشان عمارتوں اور گرجا گھروں جیسی خوبصورت یادگاریں بنانے اور مقابلے کی ایک ترنگ بھی ہو۔ فاتح مسجد اور فاتح کمپلیکس جو پرائمری مدرسوں، لائبریریوں، شفا خانوں، خیراتی اداروں پر مشتمل تھا۔ فاتح کمپلیکس ایک طرح کی پہلی فاتح یونیورسٹی تھی۔

معماروں کے متعلق دو رائیں ہیں۔ ایک یونانی نژاد عاتک سنان اور دوسرا یونانی کرسٹوڈولس Christodoulos۔ پر تعمیر سے وابستہ جو کہانی ہے وہ کرسٹوڈولس کو نمایاں کرتی ہے۔ کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ ایک روایت تو یہ ہے کہ کرسٹوڈولس نے مسجد بناتے ہوئے یہ خیال رکھا کہ مسجد کے ستون ایا صوفیہ کے ستونوں سے ہرگز بلند نہ ہوں کہ ایسا کرنا اُس کی ایا صوفیہ سے محبت کا تقاضا تھا۔ مگر یہی بات سلطان کی ناراضگی کا باعث بن گئی اور اس نے معمار کے دونوں ہاتھ کٹوا دئیے۔

دوسری روایت کچھ یوں ہے کہ مسجد اور کمپلیکس اتنے خوبصورت تھے کہ سلطان نہیں چاہتا تھا کہ کوئی دوسری مسجد اس کی برابری کرے۔ یوں اُس نے ہاتھ کٹوا دئیے۔

تاہم معمار اس زیادتی پر خاموش نہ رہا اور کیس قاضی کے پاس لے گیا۔ بڑا سنگین معاملہ تھا۔ قاضی نے مدعی اور مدعی الیہ دونوں کو عدالت میں طلب کر لیا۔ دونوں حاضر ہوئے۔ سلطان ابھی بیٹھنے کی کوشش کر رہا تھا جب قاضی نے اُسے کھڑا رہنے کا حکم دیا۔ فوراً تعمیل کی گئی۔ مقدمے کی سماعت کے دوران اُسے بتایا گیا کہ اُس نے سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ اُسے سخت ترین سزا سنائی گئی۔ سلطان نے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ واقعی مجرم ہے اور ہر سزا بھگتنے کے لئے تیار ہے۔

عدالت برخّاست ہونے پر قاضی سلطان کے قدموں میں گرا اور بولا کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور تھا کہ یہ اس کے فرض کا تقاضا تھا۔ جب وہ جھکا ہوا تھا اس کی آستین سے ایک زہریلا سانپ پھسل کر فرش پر گر پڑا۔ سلطان نے حیرت سے پوچھا۔ یہ کیا؟بتایا گیا سلطان معظم اگر آپ قانون کی اطاعت نہ کرتے تو اِس سانپ سے آپ کو ڈسوا کر ہلاک کر دینے کا پروگرام تھا۔ سلطان نے بھی اپنی پوشاک سے تلوار نکالی اور اُسے لہراتے ہوئے بولا۔

’’اگر تم بھی مجھے بری الذمہ قرار دیتے تو میں اس سے تمہارا سر کچل دیتا۔ ‘‘

معمار کو معاوضہ دیا گیا۔ یہ بڑا انوکھا معاوضہ تھا۔ مسجد سے متصل ایک پوری گلی۔

مسجد سادگی و پُرکاری کا نمونہ تھی۔ در اصل اصلی مسجد تو ترکی کے 1766کے بدترین زلزلے میں تباہ ہو گئی۔ نئی فاتح مسجد1771میں سلطان مصطفیٰ سوم نے بنائی۔ مسجد کا رنگ ڈھنگ تو استنبول کی باقی مسجدوں جیسا ہی ہے۔ ہاں البتہ مسجد کے اندر پینے کے پانی کا فوارہ ایک خوبصورت تحفہ ہے کہ گرمی سے پیاسے ہونٹوں اور اندر کو کو اس کے پانی سے جو راحت نصیب ہوئی اُس کا کوئی بدل نہ تھا۔ عربی خطاطی خوبصورت تھی۔

ڈیوڑھی سے گزر کر ہم اُس جیالے کی آخری گاہ میں داخل ہوئے۔ ہم دونوں عجیب سے محسوسات کی زد میں تھیں۔ محبت اور عقیدت کے جذبات نے پلکیں بھگو دی تھیں۔ انھیں ضرور بھیگنا چاہیے تھا کہ میرے آقا نے بشارت دی تھی۔

ترجمہ: تم فتح کرو گے قسطنطیہ کو۔ مبارک ہے وہ امیر جو اِس شہر کا امیر ہو گا اور مبارک ہے وہ لشکر جو اس کا لشکر ہو گا۔

ماحول میں فسوں سا تھا۔ ہشت پہلو گنبد والی چھوٹی سی عمارت جس کی بلند و بالا دیواری کھڑکیوں پر تنا شیڈ یا سائبان بڑی انوکھی وضع کا تھا۔ خوبصورت چوبی دروازوں کی دیواریں قرآنی آیات اور طلائی و رنگین نقاشی سے سجی تھیں۔ بلند و بالا دیواروں کے اوپری حصّے میں بنی کھڑکیوں سے آتی روشنی اور مزار کے اوپر کِسی پاسبان کی طرح تنے شیلنڈئیر سے پھوٹتی شعاعیں سب مل جل کر کمرے میں دودھیا روشنی پھیلا رہی تھیں۔ آہنی جنگلے کی موتی جڑی باڑھ نے مرقد کو محبت سے جیسے سمیٹا ہوا تھا۔ سرہانے اُس کا سفید بل دار کلاہ ٹنگا ہوا تھا۔ سُرخ قالین پر چلتے ہوئے ہم نے پورا چکر کاٹا۔ فاتحہ پڑھی۔ ملحقہ تربت میں اس کی شریکِ زندگی گل بہار مٹی کا ڈھیر بنی پڑی تھی۔

یہیں اُس جیالے غازی عثمان پاشا کی بھی قبر تھی جو 1877کی روس ترکی جنگ کا ہیرو تھا۔ رُوس بھی بڑا بدبخت ہے۔ ہمیشہ ترکی سے پنگے ہی لیتا رہا۔ بہت دیر تک یہاں رہے۔ دعائیں مانگتے کہ ایسے جیالے بطن اسلام سے پھر کب پیدا ہوں گے ؟

کس قدر تاریخی اور کلاسیکل منظر مسجد سے باہر ہمارے منتظر تھے۔ بلند و بالا دروازوں والے بازار دکانوں، رنگوں، حسین چہروں سے بھرے پرے رعنائیاں بکھیرتے نظر آتے تھے۔ چلتے چلتے نظاروں سے آنکھیں لڑاتے اور ساتھ ساتھ مختلف اوقات میں سلطان محمد فاتح کے بارے میں پڑھی گئی باتوں کو ذہن میں لالا کر اس کے مختلف گوشوں پر بحث کا بازار بھی گرم کرتے رہے۔

وہ بہت دلیر، خداداد صلاحیتوں کا حامل، بہترین منتظم، عادل، بہترین فوجی اور جنگی ماہر تھا۔

دو پینٹنگز یاد آئی تھیں جنہیں دولما باشی پیلس میں دیکھا تھا اور جن کے سامنے دیر تک کھڑے بھی رہے تھے۔ سفید براق گھوڑے پر سوار اپنے لوگوں کے ہمراہ ایا صوفیہ میں داخل ہو رہا تھا۔ دوسری 1473 کی جنگ اتلوک بیلی Otlukbeli کی تھی جس کے بارے تاریخ دانوں کا کہنا تھا کہ یہ پندرھویں صدی کی ٹیکنالوجی، میں پاور اور جنگی حربوں کے لحاظ سے سب سے بڑی لڑائی تھی۔ جو اس نے لڑی اور فتح یاب ہوا۔ اپنی وفات تک وہ اٹلی کے کچھ حصّوں پر قابض ہو چکا تھا۔

حافظ قرآن تھا۔ احادیث میں بڑا مستند، ریاضی اور علم نجوم میں ماہر، عربی، فارسی، لاطینی اور یونانی زبانوں کا ماہر، اور فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والا خاص طور پر شاعری سے۔

ایسے شاندار انسان نے اپنے سوتیلے چھوٹے بھائی کو مروا دیا تھا۔ شاید تخت و تاج کی تاریخ میں ایسا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ شاید لوح محفوظ میں یہ لکھا جاتا ہے۔ شاید حکمرانوں کے لئے ایسی سوچ رکھنا منفی اور ظالمانہ نہیں سمجھا جاتا۔ تاہم اُس نے اپنی اس سوچ کو قانون بنایا کہ سلطان کے جانشین بیٹوں کو اپنی حیثیت مضبوط اور مستحکم بنانے، سلطنت کو ریشہ دوانیوں، سازشوں اور رقابتوں سے بچانے کے لئے اپنے بھائیوں کو مار دینے کا اختیار ہو گا۔

کیا کہیں اس کے دماغ میں حضور اکرمؐ کی اُس حدیث سے متعلق کوئی ابہام تھا کہ جس کے بارے روایت ہے کہ ایک بار آپؐ نے فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل پر نبی حکومت کرتے تھے۔ ایک دنیا سے رُخصت ہوتا تو دوسرا اُس کی جگہ لے لیتا تھا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ہاں البتہ حکمران ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ یہاں آپؐ سے سوال ہوا کہ اِس ضمن میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا پہلے کے ساتھ عہد اطاعت کو پورا کرو۔ پھر اس کے ساتھ جو اُس کے بعد پہلا ہو۔

یہاں ایک دوسری روایت کا حوالہ بھی ملتا ہے کہ جب دو حکمرانوں کی بیعت کا مسئلہ کھڑا ہو جائے اور مملکت میں فساد اور انتشار پھیلنے کا ڈر ہو تو دوسرے کو قتل کر دینا واجب ہے۔

ایسا حکم تو معاشرے کو انتشار سے بچانے کے سلسلے میں تھا۔ وہ بھی کہ اِس صورت میں کہ اگر فریق ثانی کے ساتھ کچھ لوگ کھڑے ہو جائیں اور وہ فتنہ وفساد برپا کریں۔

یہاں صورت یقیناً مختلف بھی ہو سکتی تھی۔ سلطان کو ایک لحظہ کے لئے یہ خیال نہ آیا کہ جانشین بیٹے کے علاوہ اُس کے بقیہ بچوں میں سے کوئی اور بھی بہت ارفع صلاحیتوں کا حامل ہو سکتا ہے جو توڑ جوڑ اور سازشوں کی سیاست سے تخت نشین ہو کر نامزد سے زیادہ بہتر حکمران ثابت ہو سکتا ہے۔

ایک اور خدشے نے بھی ہمارے اندر سے سراٹھایا تھا۔ وہ شہرہ آفاق بدنام زمانہ اطالوی مفکّر میکاولی بھی تو کہیں آگے پیچھے اسی دور کی پیداوار تھا۔ اُس کی وہ شہرہ آفاق کتاب”The Prince” تو کہیں اُس نے نہیں پڑھی؟اور یہ میکیا ولین ہتھکنڈے اُس نے وہاں سے تو نہیں سیکھے تھے کہ جس کے مطابق سیاست کا کوئی مذہب نہیں، اس کی کوئی اخلاقیات نہیں، اُس کے کوئی اصول نہیں۔

اب ہم دونوں نے تاریخ سے ڈھیروں ڈھیر مثالیں نکال کر اُسے بری تو کر دیا تھا۔ مگر یہ وہ قبیح برائیاں تھیں جنہوں نے آگے چل کر سلطنت کو بہت نقصان پہنچایا۔ اب ہمارے پاس کہنے کے لئے بس صرف ایک جملہ تھا۔

رموزِ مملکت داند خسران

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب نمبر: ۱۰ مولانا رومی اور رقصِ درویشاں

 

 

۱۔ شمس تبریز جیسے مجذوب کا مولانا رومی کی زندگی میں داخل ہونا گویا مثنوی معنوی کو وجود میں لانے کا ایک خدائی اظہار تھا۔

۲۔ رقص درویشاں در اصل اپنے ہر عمل، اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی حرکت سے خدائی محبت اور اس تک پہنچنے کے روحانی سفر کی ایک دلآویز تمثیل ہے۔

۳۔ مولانا رومی نے تلاش کرنے والوں کو دل کی خوبصورتی، سچ کی خوبصورتی اور انسانیت کی خوبصورتی کی نوید دی۔

 

 

برو شر ریسپشن پر پڑے تھے۔ آتے جاتے ہماری بھی عادت تھی لڑکے لڑکیوں سے گپ شپ کرنے، معلومات لینے، کچھ اپنے تجربات سُنانے، کچھ اُن کے سُننے، تھوڑا سا ہنسی مخول، ترکوں اور استنبول کی تعریف میں تعریفی کلمات سے خوش کرنے کی کوششیں سب چل رہا تھا۔

برو شر ٹرکش میسٹکMystic میوزک اور ڈانس کا تھا۔

’’اچھا تو یہ وہ درویشوں کا رقص ہے۔ جسے سیماSemaکہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہہ لیجیے کہ روحانیت کے سفر کا بیان ہے۔ ‘‘ میں نے سیماکو دیکھا۔ میری آنکھوں نے اُسے یہ بھی کہا ہاں تو کیا کہتی ہو؟‘‘

’’چلو قوینہ جانا شاید مقدر میں نہیں پر اِسے تو دیکھ لیں۔ ‘‘

اُس کی آواز میں قونیہ نہ جا سکنے کا قلق بڑا نمایاں ہوا تھا۔

ا توار، بدھ اور جمعہ۔ وقت دیکھا۔ جگہ پر نظر ڈالی۔ سر کیجی ٹرین سٹیشن۔ یورپ کا پہلا ریلوے اسٹیشن۔

’’لو بھئی یہ تو نرا گوانڈ میں ہے۔ بیچ بیچ میں سے بھی چل کر وہاں جا سکتے ہیں۔ میٹرو سے تو پانچ منٹ کا فاصلہ ہے اور وقت بھی موزوں ہے۔

بس تو جہاں ہے اور جیسا ہے کی بنیاد پر نکل پڑے۔ بوڑھی ٹانگوں پر ترس کھایا اور میٹرو پر جا چڑھیں۔

ایونٹ ہالEvent Hall میں پروگرام تھا۔ ہال بھی بڑا شاہانہ انداز کا تھا۔ دیواریں دیکھوں، دروازوں کو سراہوں۔ گردن کو عقبی سمت نوّے کے زاویے پر جھُکا کر چھتوں کی مدح سرائی کروں۔ کوئی تو بتائے آخر کروں تو کروں کیا۔ آنکھوں نے کہا۔

’’عجب بونگیاں ہانک رہی ہو۔ معماروں کو سراہو۔ بس تو ڈھیر سارا خراج عقیدت انہیں پیش کر دیا۔

کرسیوں پر سارے غیر ملکی تھے سوائے ہم دو دیسی عورتوں کے۔ سازندوں کی پوری ٹیم بمعہ گانے والوں کے جنہیں مٹرپMutrip کہتے ہیں ساتھ ساتھ نشستوں پر بیٹھی حکم کی منتظر تھی۔ کچھ آلات موسیقی تو ہماری شناخت میں آئے۔ جن میں بنسری، رباب، ستار، دف، ڈرم، فلیوٹ وغیرہ تھے۔ کچھ سے ہماری شناسائی نہیں تھی۔ مٹرپ سے آگے درویشوں کی ٹولی بیٹھی تھی۔

اب تک کی زندگی میں درود شریف کوئی ہزار بار پڑھا ہو گا، ہزار بار سُنا ہو گا مگر اُس نے کبھی وہ تاثر نہیں چھوڑا تھا جو اُس لحن داؤدی رکھنے والے شخص نے اُس فضا میں پیدا کیا۔ "سبحان اللہ” کہتے زبان خشک ہوئی جاتی تھی۔

دفعتاً ڈرم کی آواز نے ایک ڈرامائی تاثر کی فضا کو جنم دیا، جیسے خدا نے کہا ہو، پس ہو جا۔

پھر فلیوٹ پر ایک مختصر سی نغمہ سرائی ہوئی۔ یہ نغمہ جس نے رُوح کو دنیا کے حوالے کرنے کا پیغام دیا۔ جونہی یہ نغمہ سرائی ختم ہوئی درویشوں نے اپنے سروں کو جھکایا اور اپنے چوغوں کو اتارتے، اپنی ایڑیوں پر گھومتے، نیم وا آنکھوں سے دائرے میں داخل ہونا شروع کیا۔ پہلا درویش جونہی اندر آ کر رقص میں خود کو گم کر لیتا۔ دوسرا رقص کرتا کرتا داخل ہوتا، تیسرا، پھر چوتھا۔ یہ قدم انسانیت کی پیدائش کا عکاس تھا۔

درویشوں کے بازو اُن کے سینوں پر بندھے تھے۔ رقص میں یہ کھُلتے گئے۔ دائیں ہاتھ اوپر اٹھتے گئے اور بائیں نیچے ہوتے گئے۔ یقیناً یہ اس خیال کا غمّاز تھا کہ ہم خدا سے لیتے ہیں اور انسانوں کو دیتے ہیں۔ ہمارے پاس کچھ نہیں۔

اور جب ہم اُس نیم روشن ہلکی سی خنکی والے ماحول میں نوجوان لڑکوں کے سفید فراکوں کے پھولے ہوئے گھیروں کو سراہتے اور انہیں ایک وجد کی سی کیفیت میں والہانہ گھومتے دیکھتے اور نہ سمجھ آنے والی زبان میں ایک مترنم آواز کو سنتے اِس سحر میں گم تھے۔ تو کہیں یادوں کے دریچوں میں مولانا رومی کی جھلکیاں تھیں۔ علامہ اقبال کی عقیدتوں کے قصّے تھے۔ ان کی شاعری میں اُن کا اثر، کہیں شمس تبریز کے حوالے، کہیں ان کی ذات سے وابستہ معجزے سب ذہنی دنیا میں سب قطار در قطار چلے آ رہے تھے۔

سلیمانیہ لائبریری استنبول کی نوجوان انچارج مسز ایمل چیتن جو مولانا جلال الدین رومی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بڑی واضح تھیں۔ اُس کا کہنا تھا ہم اُن سے صرف اُن تراجم کے ذریعے متعارف ہوئے ہیں جو ہماری مختلف یونیورسٹیوں اور ذاتی طور پر لوگوں نے کئیے۔ اُن کا کام فارسی میں ہے جو عثمانی دور میں حکومت اور اشرافیہ کی زبان تھی۔ ترکی کے تمام دیہی علاقوں کے لوگوں کے لئے یہ زبان مشکل تھی اور وہ یہ زبان زیادہ بولتے بھی نہیں تھے۔

در اصل اُن کی بہت زیادہ ہر دل عزیزی وسط ایشیا، ایران اور برّصغیر کے علاقوں میں ہے۔ گو اب وہ انگریزی، جرمن، فرانسیسی زبانوں میں تراجم کے ذریعے باہر کی دنیا میں بہت مقبول ہوئے ہیں۔

تا ہم ہم تو یہ دیکھ رہے تھے کہ ترکی کے شہروں میں مولانا رومی کا رقص درویشاں، خدائی محبت اوراُس تک پہنچنے کے روحانی سفر کی دلآویز تمثیل اور لحن داؤدی جیسے آہنگ میں اُن کا کلام پڑھا جانا وہ خوبصورت چیز ہے جس کے لئیے دُنیا بھر کے سیاحوں کے پُرے باقاعدہ بُکنگ کے مرحلوں سے گزرتے ہیں اور جم کر شوق و ذوق سے سب کچھ دیکھتے ہیں۔ بلا سے کچھ سمجھ آئے یا نہ۔ ہاں البتہ مختلف بین الاقوامی زبانوں میں چھپے بروشرز اپنا کردار عمدگی سے ادا کر رہے ہیں۔

تو وہ شاعر کیسے بنے ؟ اُن کی شاعری اور اُن کے کلام میں سوزودرد، جلنے، تڑپنے اور آہ و فغاں کی کیفیات کیسے پیدا ہوئیں ؟وہ تو اِس منزل کے مسافر ہی نہیں تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شمس تبریز جیسے مجذوب کا ان کی زندگی میں داخل ہونا گویا دیوانِ شمس تبریز اور مثنوی معنوی کو وجود میں لانے کا ایک خدائی اظہار تھا۔ وہ نہ ہوتے تو مولانا سب کچھ ہوتے جیسا کہ وہ تھے۔ قرآن کو سینے میں سمونے والے حافظ، فقہ و حدیث، شریعت، طریقت میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے۔ اور استاد ایسے کہ چلتے چلتے بھی حکمت و دانائی کے موتی راستوں میں بکھیرتے جائیں پر شاعری کا تو کہیں دور دور تک سان و گمان تک نہ تھا۔

یقیناً وہ وقت کا منتخب لمحہ تھا جب قونیہ کی وہ عظیم صاحب علم ہستی جو اپنے آراستہ پیراستہ دیوان خانے میں شاہانہ کرّوفر کے انداز میں اپنے طالب علموں کے ساتھ درس و تدریس میں مگن رہتی تھی۔ لمحے بھر میں ہی اُس پھٹے پرانے ملبوس میں وہ کہ جس کے گرد آلود پاؤں ننگے تھے۔ بالوں کی اُلجھی ہوئی لٹوں میں مٹی تھی۔ چہرے پر دھول تھی کے دام گرفت میں آ گئی۔ اُس مجذوب نے انہیں اُس مسند سے اٹھا کر ایک ایسے راستے پر ڈال دیا جو راگ و رنگ، ناچ گانے اور موج و مستی والا تھا۔ قونیہ کے لوگ پہلے حیرت زدہ ہوئے پھر کراہت اور نفرت کا اظہار کرنے لگے نہ صرف عام لوگ بلکہ عزیز رشتہ دار حتیٰ کہ سگی اولاد بھی۔

اب زندگی کا ایک بالکل نیا رُخ جو معاشرے کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ تھا سامنے آیا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ یہی مقصود خداوندی تھا۔ یہ شمس تبریز ہی تھے کہ جس نے اپنے مرید کو اسرارورموز اور طریقت کی تعلیم دی۔ روحانیت کی گھمن گھیریوں میں ہر طرح اُلجھا کر اس کی منزلیں طے کروائیں۔ عشق حقیقی کے آداب سکھائے۔ قرب الٰہی سے آشنا کیا۔ آزمائش کی کسوٹیوں پر پر کھا۔

ظاہر بین لوگ جن کی ذہنی سطح بہت آگے کی چیزیں نہیں دیکھتی ہیں۔ وہ اِس تعلق کو سفلی سطح پر دیکھنے لگے تھے۔ جب کہ یہ سب خدائی منشاء کے تابع ہو رہا تھا۔ اس کی وضاحت ان دو واقعات سے ہوتی ہے جو شمس تبریز اور مولانا رومی کو پیش آئے۔

پہلا واقعہ اُس برگزیدہ شخصیت شمس تبریزی کے حوالے سے ہے کہ جس نے خدا کے حضور دُعا کی کہ اے پروردگار عالم تو نے مجھے مسند ولایت دی۔ اب میں تیرے عطا کردہ علم کو کِسی ایسے انسان کو دینا چاہتا ہوں جسے تو پسند کرتا ہے۔ یہ دعا قبول ہوئی اور غیب سے آواز آئی کہ ایسا شخص تجھے تیرے شہر میں نہیں قونیہ میں ملے گا۔ تجھے اس کے پاس جانا ہو گا۔ اسی طرح مولانا روم کو بھی زمانوں پہلے ایک خواب میں ہی بشارت ہوئی کہ کوئی اُن سے کہتا ہے تم نے دینی اور دنیاوی علوم میں کمال حاصل کر لیا۔ تمہاری زندگی قابل تعریف ہے مگر تم معرفت اور طریقت کی منزل سے نا آشنا ہو۔ تمہاری روحانی تربیت کے لئے ایک ایسا آدمی تمہارے پاس آئے گا جو معرفت میں کمال کے درجے کو پہنچا ہوا ہے اور ہمارا بہت پسندیدہ ہے۔ نام شمس تبریزی ہے۔

بیدار ہونے کے بعد انہیں اطمینان قلب ہوا۔ کیونکہ وہ خود بھی اس راستے کے مسافر بننے کے متمنی تھے۔ فرید الدین عطار سے سرسری سی ملاقات اور ان کے "اسرارنامہ”نے ان کے اندر اِس جذبے کو ابھارا تھا مگر پھر درس و تدریس کی دنیا میں مصروفیت نے وہ خواب ایک طرح بھلا سا دیا تھا۔

اور جب وہ تاریخی ملاقات ہوئی۔ اس وقت ایک دنیا دار صاحب علم انسان اپنے کروّفر شاہانہ کے ساتھ ایک دلفریب ماحول میں تدریس میں محو تھا۔ تبھی ایک مجذوب نے قریب آ کر کتابوں کو چھوتے ہوئے کچھ پوچھا۔ آپ کو ایک خستہ حال انسان کا یوں آنا پسند نہ آیا۔ رکھائی سے۔ چیز یست کہ تو نمی دانی (یہ وہ چیز ہے جسے تو نہیں جانتا)کہا اور اندر چلے گئے۔

مجذوب نے کتابیں حوض کے پانی میں پھینک دیں۔ واپس آ کر دیکھا اور ناراضگی کا اظہار کیا۔ فقیر نے ہاتھ سے کتابیں نکال کر منڈیر پر رکھ دیں۔ خشک کتابیں دیکھ مولانا نے حیرت بھرے انداز میں استفسار کیا۔ مجذوب نے وہی جواب دہرایا۔ چیز یست کہ تو نمی دانی۔ (یہ وہ چیز ہے جسے تو نہیں جانتا)

خواب یاد آیا۔ پوچھا۔ شمس تبریزی ہیں آپ۔ اثبات میں جواب دیا۔ یہ وہ واقعہ تھا جس نے کایا کلپ کی۔ یہ شمس تھے جنہوں نے انہیں سخن کا شہنشاہ بنا دیا۔

یہ بھی خدائی منشا تھی کہ انہیں دنیاوی جاہ و حشمت سے نکال کر اُن میں عجز و فقر پیدا کیا جاتا اور ان کی ہستی کو عجز و فقر میں گوندھا جاتا۔

ایک دن وہ غائب ہو گئے۔ یقیناً یہی وہ مقام تھا جو قدرت کے نزدیک منتہائے مقصود تھا۔ اس جدا ئی نے اُن کے اندر وہ آگ بھڑکائی کہ فریادو نالہ شعروں میں ڈھل گئی۔ مولانا کی آفاقی شاعری کا آغاز ہو گیا تھا۔ دل کا درد شعروں کی صورت ڈھلنے لگا۔ مولانا روم شاعر بن گئے۔ انہوں نے خود اس کا اظہار کیا۔

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم

تا غلامِ شمس و تبریزی نشد

مولوی یعنی میں ہر گز مولانا روم نہ بنتا اگر مجھے شمس تبریز کی غلامی نصیب نہ ہوتی۔

اب جب ہجر اور فراق کی آگ اندر جل اٹھی تھی۔ ضبط کا یارا نہ رہا تو زبان اِس جلن کو اُگلنے لگی۔

میں نے سنا ہے آپ سفر کا ارادہ رکھتے ہیں

بخدا یہ سفر نہ کریں

آپ میرے ایک رقیب سے محبت کرنے والے ہیں

بخدا ایسا نہ کریں

آپ نے دنیا میں کبھی دُکھ، تکلیف اور رنجش نہیں دیکھی

پھر آپ دل کو تکلیف دینے والا عمل کیوں کرتے ہیں۔ ایسا نہ کریں

ایسا نہ کریں

تصوف کی اِس بلندی نے اُن میں عجز اور خاکساری پیدا کی کہ جلال والی کیفیت ہی نہ رہی۔ گالیوں، کوسنوں، لعن طعن سب چیزیں ان کے لئیے بے معنی ہو گئیں۔

در اصل مولانا رومی کے اندر شاعرانہ جذبات کی جو حس قدرت کی طرف سے عنایت تھی وہ مخفی تھی۔ تبریز کی جدائی نے گویا ان سربند جذبات کا منہ کھول دیا اور لاوہ یوں پھٹ کر باہر آنے لگا کہ صدیاں گزر جانے پر بھی اِن اشعار کا کوئی بدل نہیں۔

ذرا دیکھئیے اِن اشعار کو۔

اے دوستو تم جاؤ اور میرے محبوب کو لے کر آؤ

میرے بہانے باز محبوب کو ساتھ لے کر آؤ

اگر وہ وعدہ کرے کہ وہ پھر کسی وقت آئے گا

تو اس کے حیلے بہانوں پر مت جانا

یہ اشعار جن کی پور پور میں عشق مجازی کی جولانیاں نظر آتی ہیں۔ در اصل یہی عشق حقیقی کی حشر سامانیاں ہیں۔ شاعر کی ابتدائی شاعری کا آغاز جس دلآویز رنگ میں سامنے آیا۔ اُس نے اُسے دنیا کی شاعری میں ایک منفرد انداز سے نمایاں کیا۔ غزل کی بنیاد ہی عشق و محبت پر اٹھائی گئی ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا کا ہر شعر جذبوں کی گہرائی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اپنے اندر معنویت لئیے، صوتی اعتبار سے نغمگی لئیے، حُسن خیال کی فراوانی لئیے اور فکر کی بلندی لئیے اور یہی وہ خوبیاں ہیں جنہوں نے تغزل کو اوج کمال تک پہنچا دیا۔

ذرا دیکھئیے

ماخستگانیم و توی صد مرہم بیمار ما

مابس خرابیم و توی ہم از کرم معمار ما

ترجمہ: ہم تھک کر خستہ حال ہو گئے ہیں تو ہی ہماری بیماری کا علاج یا مرہم ہے

ہم شکستہ حال ہیں اور تو ہی ہمارا بنانے والا ہے

مولانا روم کی شاعری میں موضوعات کا تنوع ہے۔ 1207میں بلخ جیسی سرزمین جو علم و دانش، فکر و فن اور تہذیب و تمدن کا مرکز تھی۔ جہاں خود ان کا خاندان ان کے والد بہاؤ الدین ولدعلم و دانائی، زہد و پارسائی میں یکتا پورے علاقے میں معزز و محترم شمار ہوتے تھے۔ درس و تدریس جن کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ علم کا دریا تھے۔ اُن سے ملنے کے لئے دور درازسے آنے والے بھانت بھانت کے لوگوں کا آنا، اپنے مسائل پر راہنمائی چاہنا، کم سنی میں ہی سمرقند جیسے تاریخی شہر میں جانا اور وہاں قیام کرنا، اس قیام میں اُن کا وقت صاحب علم لوگوں کے ساتھ ہی نہیں گزارا بلکہ خوازم شاہ کو شہر تاراج کرتے دیکھنا، لوگوں کا خوف و ہراس، واپسی کا سفر اور پھر اپنے شہر کے دیگر گوں حالات۔ ایک بار پھر ہجرت۔ نیشا پور، بغداد، شام، مکہ۔ اِن شہروں میں قیام کے ساتھ ساتھ یہاں کی مقتدر ہستیوں سے ملاقاتیں، باتیں بحث مباحثے یہ سب وہ تجربات تھے جن سے وہ اوائل عمری سے آشنا ہوئے۔ یہ اُن کی یادوں میں محفوظ ہوئے اور ا نہوں نے ان کی فکر کو جلادی۔ یہ چیزیں ان کی شاعری کا حصّہ بنیں تو لازمی بات ہے اظہار میں طغیانی جیسی شدت کا آنا عین فطری تھا۔

قونیہ آنا بھی زندگی کا ایک سنگ میل تھا۔

سلجوقی سلطنت کا پایہ تخت قونیہ جس نے اُن کا والہانہ استقبال کیا۔ والد کی وفات کے بعد آپ نے علم بانٹنے کے عظیم سلسلے کو آگے بڑھایا۔ تاہم اُس وقت تک مولانا رومی شاہانہ انداز زندگی کے خوگر تھے۔ طلائی اور نقرئی تاروں سے کاڑھا گیا لباس پہنتے، بدن کو خوشبو میں بساتے، اونچی مسند پر بیٹھتے اور ماحول میں کروّ فرکا رچاؤ ہوتا۔ وہ وقت کے مفتی تھے۔ شیخ تھے۔ امام تھے۔

شمس تبریز جیسے مجذوب کا آپ کی زندگی میں آنا ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ یقیناً خدا اُن سے وہ عظیم کام لینا چاہتا تھا جو مثنوی معنوی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اُن کی قربت نے اُن میں صوفیانہ فکر کا وہ رنگ بھرا کہ وہ سب کروّ فر رخصت ہوئے۔ شب و روز رقص میں رہنے لگے۔ دنیا حیران تھی اور نہیں جانتی تھی کہ انہوں نے باطنی دنیا کے اوج کمال کی معراج پالی۔

حقیقت یہ ہے کہ دیوان شمس تبریز غزلوں کا وہ خوبصورت مرقع ہے جسے فارسی ادب کا نگینہ کہنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے جو کہا وہ گویا ان کے اندر کی کہیں گہرائیوں سے اٹھ کر سامنے آیا۔ اس میں تصوف کا ایسا کونسا پہلو ہے جو زیر مشق نہیں آیا۔

حسن و عشق کے موضوع کو جیسی پذیرائی مولانا کے کلام نے دی ہے۔ اُس کی مثال ملنی بے حد مشکل ہے۔ ذرا دیکھئیے تو۔

اے یار مار دلدار ما، اے عالم اسرار ما

اے یوسف دیدار ما اے رونق بازار ما

ایک اور جگہ کہتے ہیں۔

اے شاد کہ ماہستم اندر غم تو جاناں

ہم محرمِ عشق تو ہم محرم تو جاناں

ترجمہ: میں اس بات پر خوش ہوں کہ تیرے غم میں مبتلا ہوں

میں تیرے عشق کا راز دار ہوں اور میں اے میرے محبوب تیرا بھی راز دار ہوں

محبت، اُخوّت، امن و بھائی چارہ، صبر برداشت ان کی بنیادی تعلیمات تھیں۔ اُن کی ذات کے گرد سنہرا ہالہ بننے اور ان کی شاعری کو زمانوں کے لئے اثاثہ بنا دینے والی۔

وہ کہتے ہیں محبت کرنے والے بن جاؤ۔ اپنی ذات کی نفی کر دو۔ دل کو تخلیق کرنے والے سے بھر لو۔ بس یہی اُس تک پہنچے کا مختصر ترین راستہ ہے۔ جس کسی نے اپنا دل خدا کو سونپ دیا۔ حقیقت میں اُس نے اپنی ذات کی مہار اُس کے ہاتھوں میں پکڑا دی۔ ان کی باتوں میں، اُن کی مثنوی معنوی میں زندگی جو بذات خود ایک متنوع اور لامحدود موضوع ہے۔ اُس کا ہر ہر پہلو نہ صرف بولا بلکہ نمایاں ہوا۔ عشق حقیقی کی رومانیت نے شعروں میں گھُل کر ان کا حُسن بڑھایا۔

تو برائے وصل کر دن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

خدا سے اٹوٹ تعلق کی شیرینی نے لوگوں میں مٹھاس بانٹی۔ وہ خدا کی آواز بنے اور انہوں نے تلاش کرنے والوں کو خوبصورتی تحفے میں دی۔ دل کی خوبصورتی، سچ کی خوبصورتی، انسانیت کی خوبصورتی۔

لڑکے اپنے اپنے مدار کے اندر بے خودی کی کیفیت میں مبتلا گھوم رہے تھے، گھوم رہے تھے اور لگتا تھا جیسے وہ ایسے ہی گھومتے گھومتے فضا میں تحلیل ہو جائیں گے اور ساتھ میں ہم لوگ بھی۔

انہوں نے دل مسخر کرنے کو کہا۔ انسان تو ساری تخلیق میں سب سے حسین اور قابل فخر ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ اگر تم سمندر سے ایک جگ پانی کا بھرتے ہو تو جگ کتنا پانی اپنے اندر سمیٹ سکتا ہے۔ ایک دن کے گزارے کا۔ تو جیسے سمندر جگ کی گنجائش کے مطابق اُسے بھرتا ہے تو ہماری رسائی بھی اوپر والے تک ہماری استعداد کے مطابق ہی ہے۔

رقص میں بے خودی اور مسلسل گھومنا بھی اُس حقیقت کی عکاسی ہے کہ جیسے چاند اور سیارے اپنے اپنے مدار پر گھومتے ہیں۔ اسی طرح چکروں میں خدائی تعلق کے احساس کا عنصر کارفرما ہے۔

درویشوں کا نگاہیں اور گردن اٹھا کر اُوپر دیکھنا گویا خدا کی کائنات اور اُس کی دنیاؤں کی عظمتوں اور بڑائیوں کا اعتراف ہے۔ رقص کے چکروں میں تیزی اور والہانہ پن اُس خدائے واحد کی لامتناہی کائنات کے درمیان اس کی ہستی میں خود کو گم کر دینے، مٹا دینے اور محبت کی معراج کو چھو لینے کا تصور ہے۔

اور پھر قرآن کی ایک سورت کے ساتھ یہ رقص ختم ہو جاتا ہے۔

ہم ایک ماورائی دنیا میں سانس لے رہی تھیں۔ وہ دنیا جو زاہدوں اور عابدوں کی ہے۔ خدا کی پسندیدہ ہستیوں کی ہے جس تک ہم گنہگاروں کی رسائی نہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ روحانی سفر میں ہستی کو فنا کر دینا ہی منتہائے مقصود ہے۔ اُن سب کے لئے جو محبت کے راستے کے راہی بنتے ہیں اور جو اپنے اندر خدا کی تلاش کرتے ہیں۔ خدا بھی انہیں نوازتا ہے۔ آج دنیا کی کم و بیش ہر بڑی زبان میں مثنوی معنوی ترجمہ ہو چکی ہے۔ اِس ترجمے نے لوگوں کو روشنی دکھائی ہے۔ اس کے بندوں کو بھٹکنے سے بچایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔

ایں جلالت در دلالت صادق است

جملہ ادراکات پس اوسابق است

ترجمہ: خدا کی بڑائی اور شان اس کے ہونے کی سچی گواہی ہے

ہر شعور اور ادراک پیچھے رہ جاتا ہے

ہم بے شک قونیہ نہ جا سکے مگر یہ وقت ہم نے مولانا رومی کے ساتھ گزارا۔

واپسی میں جب میٹرو پر چڑھے تو ایک دلچسپ سا منظر دیکھنے کو ملا۔ ایک نیا نویلا جوڑا اگلے سٹاپ سے سوار ہوا۔ کیسی معصوم سی دُلہن اور دلہا بھی ایسا ہی۔ ہمیں تو دیکھتے ہی کھد بُد ہونے لگی۔ جوڑا شادی کے روایتی لباس میں ملبوس تھا۔ کمپارٹمنٹ میں خاصا رش تھا۔ ہم کھڑے تھے۔ لڑکی کو میں نے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے قریب کر لیا۔ انگریزی تو بڑی بات اُسے تو اپنی زبان میں بولنے کی ہچکچاہٹ تھی۔

اناطولیہ کے ایک دورافتادہ قصبے سے اپنے عزیزوں کے پاس آئی تھی۔ ساتھ جو رشتہ دار عورتیں تھیں وہ کسی سٹوڈیو سے ان کی تصویر اُتروا کر آئی تھیں۔ انگریزی میں وہ بھی کوری تھیں۔ تاہم اُن میں سے ایک تھوڑا سا دال دلیہ کر لیتی تھی۔

جھلمل جھلمل کرتا لباس جو ایک فراک اور تنگ پائینچوں کی پھُولی ہوئی بیگی نما شلوار کی صورت میں تھا۔ سر پر ریشمی سکارف سا۔ معلوم ہوا تھا کہ ترکی میں شادی کی تقریب پلاؤ زردے کی تقریب کہلاتی ہے۔ دیہی علاقوں کی شادی کا دیکھنے سے تعلق ہے۔ روایتی لباس، ناچ گانے اور روایتی کھانے جن میں ترکی پلاؤ کے ساتھ ساتھ زعفران ڈلا زردہ اس تقریب کی خاص ڈش ہے۔

ہمارا اسٹیشن آ گیا تھا۔ اُترنا پڑا۔ جی چاہتا تھا اُس من موہنی سی لڑکی کو تھوڑا اور دیکھتے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب نمبر: ۱۱ استنبول کا قیمتی موتی مسجد سلیمانیہ، شاہی قبرستان

 

۱۔ پرانے استنبول کی گلیوں، بازاروں میں پھرنا اور پرانے وقتوں کی خوشبو میں چند لمحے گزارنا بڑا خوبصورت تجربہ تھا۔

۲۔ سلیمان ذی شان بچپن ہی سے ہمارے لئیے دیومالائی کہانیوں کے کرداروں جیسا تھا۔

۳۔ تین برّاعظموں پر پھیلی ہوئی سلطنت کا فرماں نروا چھوٹے سے مزار میں سکڑا پڑا تھا۔

 

 

تاریخ ماضی قریب کے ملکوں کی ہو، ماضی بعید کے پتھر زمانوں کی یا مختلف ادوار کا ذکر ہو۔ مطالعہ کرتے کرتے آپ کو کہیں نہ کہیں، کِسی نہ کسی مقام پر کوئی نہ کوئی شخصیت ضرور موہ لیتی ہے۔ آپ کے دل کے اندر اُتر جاتی ہے۔ آپ کو اپنی شخصیت کے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔

خلافت عثمانیہ کی تاریخ پڑھتے ہوئے دو ہستیوں نے دل و دماغ میں ہلچل مچا دی تھی۔ ایدر نے کا وہ بیس اکیّس سالہ نوجوان سلطان محمد فاتح اور وہ سولہویں صدی کا اعلیٰ و ارفع سلیمان ذی شان جس کے گھوڑے کے سموں نے سارا مشرقی یورپ روند ڈالا تھا۔ عثمانی سلطنت دنیا کی عظیم ترین، مضبوط ترین اپنے انتہائے عروج کو پہنچی ہوئی۔

اوائل ستمبر کی اِس ڈھلتی شام میں ہم دونوں یعنی سیما اور میں جزیرہ نما استنبول کے بحیرہ مرمرا، آبنائے باسفورس اور سنہری خلیج کے پانیوں پر سے تیر کر آتی ہوئی ہواؤں کے جھُلار سے لُطف اندوز ہوتی اُسی ذی و قارسلطان سلیمان کی مسجد سلیمانیہ، اُس کا مقبرہ اور لائبریری دیکھنے جا رہی تھیں۔ یہ استنبول کی تیسری پہاڑی پر جو قدرے ڈھلانی صورت میں ہے پر واقع ہے۔ اکثر جب ہم استنبول کے ایشیائی حصّے سے اس کے یورپی حصّے کی طرف آتے۔ کِسی سٹیمریا لانچ کے عرشے پر کھڑے جونہی گولڈن ہارن کے پانیوں کی طرف دیکھتے۔ یہ اپنے بے شمار خاکستری پُر وقار گنبدوں کے ساتھ کِسی ملکہ عالیہ کی طرح ہمیں نظر آتی جو اپنے دربار کی سب سے اونچی مسند پر تمکنت سے بیٹھی ہوئی جیسے کہتی ہو۔

’’ تم لوگوں نے مجھے کب دیکھنے آنا ہے ؟میں تمہاری منتظر ہوں۔ ‘‘

میں محبت پاش نظروں سے اُس کے مرکزی گنبد کو دیکھتے اور زیر لب سرگوشی کے سے انداز میں اُسے مخاطب کرتی۔

’’تم تو بہت خاص چیز ہو۔ تمہارے پہلو میں لیٹی ہوئی اُس عظیم ہستی کی محبت میں تو میں جکڑی ہوئی ہوں۔ بس آتی ہوں۔ ‘‘

گذشتہ تین دنوں سے دوپہر کے بعد ہوٹل کے ریسپشن پر ایک پیاری سی، ہنس مکھ اور دوستانہ سے رویّے والی لڑکی نظر آتی تھی جو مسکراہٹوں کی اُچھال کود میں بڑی ہی فیاض تھی۔ انگریزی کی بھی اچھی خاصی شد  بُد رکھتی تھی۔ مشورے لینے میں اُسی کے دروازے پر جا کھڑے ہوتے تھے۔ اُسی نے راستہ دکھا دیا تھا۔

’’ٹرام سے ایمی نونو تک جائیے۔ ینّی مسجد کی عقبی گلیوں سے اندر ہی اندر سلیمانیہ مسجد تک زیادہ فاصلہ نہیں۔ کسی سے پوچھنا ہو تو سلیمان ینّی کہئے۔ لوگ بتا دیں گے۔ ہاں مگر اس کی لائبریری کمپلیکس ضرور دیکھیں۔

استنبول کی دنیا کے کتنے رنگ تھے۔ ہر روز اس کا ایک نیا منفرد انداز سامنے آتا۔ مصری بازار راستے میں پڑا تو کیسے ممکن تھا اِسے دیکھے بغیر آگے بڑھ جاتے۔ چھتا ہوا، آراستہ پیراستہ دوکانیں مگر بورے اور بوریاں بھی بڑھاوے والے پھٹوں کے ساتھ دھری تھیں۔ چہروں مہروں کی آرائش و زیبائش بھی کمال کی تھی۔ بازاروں کی مخصوص باس نتھنوں میں گھُسی جاتی تھی۔ ایک ہجوم تھا۔

آنکھوں کے سامنے تاریخ رقص کرنے لگی تھی۔ صدیوں پرانا بازار کوئی سولہویں صدی کے وسط کا جہاں وینس اور دوسرے شہروں کے ڈھیلے ڈھالے گھٹنوں اور ٹخنوں کو چھوتے لباسوں والے تاجر آ کر منڈیاں لگاتے۔ جہاں مصر کے مصالحے بکتے۔

مجھے تو چیزیں یہاں سستی لگیں۔ بادام خریدے۔ پستہ لیا۔ پھولوں اور پھلوں کی منڈی بھی راستے میں دیکھی۔ پھلوں اور سبزیوں کی دنیا مالٹے، انجیر، انار، چکوترے ڈھیروں ڈھیر پڑے تھے۔ زورو شور کی آوازیں تھیں۔ سیب خریدے تو پتہ چلا کہ قونیہ کے ہیں۔

’’ارے قونیہ جانا تو مقدر سے ہو گا۔ چلو پہلے اس کے سیب تو کھائیں۔ ‘‘

تربوز بھی کیا جہازی سائز کے تھے۔ ہماری حیرت پر کِسی نے کہا تھا۔

’’ارے دیار بکر کے ہیں۔ شہد جیسے میٹھے اور کر کرے سے۔ کھائیں گی تو جنت کے پھل کا گمان ہو گا۔ ‘‘

جی تو بڑا چاہا اوڑھنی اتاریں۔ بازو اوپر کریں اور کِسی سے چاقو چھری مانگ کر ابھی یہیں جُت جائیں۔ آسمانی جنت کے پھل تو اوپر والے کی مرضی اور نظر عنایت ہو گی تو منہ میں جائیں گے پر اِس ارضی جنت کے مزے تو لوٹیں۔

پر یہ سیما جو ہے نا نری بیگم اِس فورکلاس عوامی مظاہرے پر رضامند ہی نہ ہوئی۔ اُس کے میرے چپڑ قناتیوں جیسے رنگ ڈھنگ اور سڑکوں گلیوں میں چلتے پھرتے منہ ماری سے ایٹی کیٹس کی الرجی شروع ہو جاتی تھی۔ ایک طرف سبزیوں کے ڈھیر تھے۔ سلاد کے پتے، چقندر، آلو، پیاز اور خوش رنگ چمکیلے بیگن۔

رات کا کھانا جس ریسٹورنٹ میں ہم کھاتی تھیں۔ اُس کا ویٹر ہمیں ہر روز ترکوں کے کھانے پینے کے ذوق و شوق اور پسندیدہ ڈشوں پر چلتے پھرتے چار لفظ بتاتا رہتا۔ بیگن ترکوں کی ہی نہیں ہمارے سلطانوں کی بھی محبوب و مرغوب سبزی رہی ہے۔ پتلیکن ( بیگن ) سے بیسیوؤں قسم کے کھانے بنتے ہیں۔

ہکا بکّاسی میں اپنے ہاں کی اس راندہ درگاہ جامنی رنگی سبزی کی عزت افزائی کے قصیدوں پر یہی کہہ سکتی تھی نا کہ بھئی دل آئے گدھی پر تو پری کیا چیز ہے۔

گھوڑا گاڑیاں، کھوتے، ریڑیاں سروں پر اٹھائے بڑے بڑے چھابے سب کچھ یہاں نظر آتا تھا۔ ایک بدنظمی اور الجھی پھنسی مانوس سی دنیا جسے دیکھ کر اپنایت محسوس ہوئی تھی۔ ازمیر کی انجیر اور کشمش کا بھی بڑا شہرہ تھا۔ تھوڑی سی وہ بھی خریدی۔ یہیں قریب ہی پالتو پرندوں کی مارکیٹ بھی تھی۔

ایک چھوٹی سی ڈھلانی گلی سے گزرے۔ کیا خوبصورت پرانے تاریخی گھر بلند و بالا بالکونیوں والے چوبی اور آہنی جنگلوں والے۔ کہیں کسی میں کوئی عورت اور کہیں بچے کھڑے تھے۔ کہیں پھول نظروں کو لبھاتے تھے۔ کہیں خستگی در و دیوار پر جھلکتی تھی۔ کہیں دھُلے ہوئے کپڑے اڑے ترچھے رُخ پر لگی تاروں پر سُوکھتے تھے۔ کہیں تنگ گول پتھروں والی ڈھلانی سڑکیں تھیں، کہیں مڑتے کونے اور کہیں کشادہ راستے، کہیں کشادہ چوباروں کی بناوٹ اور کھڑکیاں بھی مختلف وضع کی جدید اور کہیں قدامت کا رنگ لئیے۔ کہیں رنگ و روغن نیا نیا تھا اور کہیں سال خوردہ۔

پھر ایک خوبصورت منظر ہماری آنکھوں کے سامنے نمودار ہوا۔ ایک عظیم الشان تعمیراتی حسن مسجد کی صورت میں جاہ و جلال کی کرنیں پھینکتا پہلی بار دیکھنے والوں کے پاؤں ساکت کرتا تھا۔ ہم ایک بڑے سے پختہ میدان میں کھڑی ہونٹوں پر چپ اور آنکھوں میں حیرتیں لئیے ہوئے اُسے دیکھتی تھیں۔ وسیع و عریض گراونڈ میں اترتی شام کی نرم دھوپ میں بچے فٹبال کھیل رہے تھے اور شور مچاتے تھے۔

شام کے سورج کی زرنگار کرنیں درختوں اور بوٹوں میں گھُس کر انہیں عجیب سی زرنگار رعنائی بخش رہی تھیں۔ آگے بڑھنے سے ہماری آنکھوں کے سامنے اپنے بڑے اور

اطراف میں چھوٹے چھوٹے مٹیالے رنگوں والے گنبدوں کے ساتھ وسیع و عریض باغ کے وسط میں تمکنت سے کھڑی مسجد اپنے بقیہ خدوخال کھولنے لگی تھی۔ اس کے چار مینار اس کے کونوں میں پاسبانوں کی طرح ایستادہ تھے۔ کسقدر مرعوب کن عمارت تھی۔

داخلہ مغربی جانب کے مرکزی صحن سے ہوا۔ صحن کو گھیرے میں لینے والے پورٹیکو کے گرینائٹ اور سنگ مر مر کے ستونوں کی خوبصورتی اور شان بڑی نرالی تھی۔ اندر جا کر تو اس کی گھمبیرتا، اس کا جلال و جمال اس کی متاثر کن رعنائیاں اور زیبائیاں یوں سامنے آئیں کہ بہت دیر تک ششدر سے کھڑے رہے۔ محرابی صورت لئیے دودھیا شیشوں والی کھڑکیوں سے روشنیاں اندر آ رہی تھیں۔ فرشوں پر بچھے شوخ و شنگ قالینوں کی خوش نمائیوں نے براؤن ہلکے اور اف وائٹ رنگوں سے مل کر انتہائی دلکش تاثر ابھارا ہوا تھا۔

مسجد گرینائٹ اور سنگ مرمر کے ستونوں پر تعمیر ہے جس میں محرابی صورت والے راستے شگافوں کی صورت نکل کر اس کی خوبصورتی دو چند کرتے ہیں۔ نقش و نگاری اور قرآنی آیات کی کندہ کاری بھی دلکشی بڑھاتی تھی۔ طاق اور دو محرابیں سفید پتھر کی ہیں۔ رنگین شیشے اور کھڑکیاں سولہویں صدی کے آرٹ کے نمائندہ ہیں۔ اس کے خالق سنان نے ایک بار کہا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر نے اُسے بہت سارے تعمیراتی رموز سکھائے۔ کتنا بڑا اور عظیم کام۔

مسجد کے بارے میں دو باتوں کا انکشاف ہمارے لئیے حیران کن تھا۔ ایک نوجوان جوڑا بھی اسے دیکھنے آیا ہوا تھا۔ بڑی دلکش لڑکی اور لڑکا بھی کچھ ایسا ہی اُس کے پلّے کا۔ استبول کی جدید مضافاتی آبادی اور تا کوئے سے تھے۔ انگریزی میں اچھے رواں تھے۔ یہ دلچسپ بات انہی سے پتہ چلی کہ اس مسجد کی ایک اہم خصوصیت اس کے اندر بولے جانے والی آوازیں نغمگی کا سا تاثر رکھتی ہیں۔ عصر کی نماز پڑھی۔ سجدوں میں کیسی عبودیت تھی۔ آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں۔

مسجد کے پہلو میں سے ہی گزر کر ہم اُس عظیم شہنشاہ، اس عظیم ہستی کا چھوٹا سا گھر دیکھنے چلے گئے۔ وہ ہستی جس کا رعب و دبدبہ تین براعظموں پر پھیلا ہوا تھا۔ جس کی شجاعت اور دلیری کی داستانوں نے مغرب کو گنگ کیے رکھا۔ محراب سے ملحقہ دیوار سے ملے ہوئے آیات قرآنی سے سجے کمرے میں سبز چادروں سے ڈھنپا خاک کی ڈھیری بنا پڑا تھا۔

دل بوجھل سا تھا انسانی عظمتوں اور معرکوں کا انجام بس یہی دو گز زمین کا ٹکڑہ۔ کوئی سمجھے تو۔ بس ساری بات سرخروئی کی ہے۔ کون صدیاں گزر جانے پر بھی زندہ ہے اور دلوں میں بستا ہے۔ قریب ہی اُس کی محبوب بیوی حورم محو خواب ہے۔ جو ایک روسی کسان کی بیٹی اور سلیم دوم کی والدہ تھیں۔ ایک ذہین اور زبردست عورت جس کی مملکت کے کاموں میں مداخلت اور اثر اندازی نے عثمانی تاریخ کو متاثر کیا۔

سلیمانیہ مسجد کے شمالی جانب شاہی قبرستان میں اِس اتنی شاندار تعمیر کا خالق بھی سو رہا تھا۔ یہاں شاہی گھرانوں کے دیگر افراد بھی مدفون تھے۔ قبریں تھیں یا آرٹ کے شاہکار تھے۔ جو اسی کے دماغ اور ہاتھوں نے بنائے۔ فاتحہ پڑھی۔ سب کے لئے دعائے خیر کی۔ عمارات کی دنیا کا ایک عظیم نام سنان جو کہ Kayseri کے غیر مسلم گھرانے کا بیٹا تھا۔ اس کی تعمیر سلیمان ذی شان سے پہلے کے سلطانوں کے پرانے محلوں کو مسمار کر کے ہوئی۔ جوڑا ہمارے ساتھ ہی تھا۔ لڑکے نے میرے تاسف کو محسوس کرتے ہوئے کہا تھا۔ آپ کو اس کے غریبانہ سے مقبرے کو دیکھ کر شاید دُکھ ہو رہا ہے۔ جانتی ہیں اُس نے کیا کہا تھا۔

’’اب ایک لکھنے والے یعنی ایک لکھاری اور بنانے والے یعنی معمار کے درمیان ایک خیال مشترکہ ہوتا ہے۔ میرا وجود فانی ہے۔ مگر میرا کام نہیں۔ لوگوں کو مجھے دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ میرا کام جو ہے۔ ‘‘

میں نے عظیم الشان مسجد کو دیکھا۔ کیسی دانا بات۔ حکمت کے موتیوں سے بھری ہوئی۔ ٹپ سے میری آنکھوں سے آنسو گرے۔ ہاتھ دعا کے لئے اٹھے۔ سنان کیلئے۔ ایک عظیم انسان، ایک عظیم فنکار کیلئے۔ فاتحہ پڑھی۔ دعائے خیر کی۔ اور یہ بھی سوچا کہ اسلامی فن تعمیر میں نئے رنگوں اور نئی تہذیبوں کا حُسن شامل کرنے والے نے ایک جاندار روایت ورثے میں چھوڑی کہ میرے وطن کے دو بڑے شہروں کے لینڈ مارک مینار پاکستان اور فیصل مسجد ترک ماہر تعمیرات کے مرہون منت ہیں۔

پھر باغ کی سیر کی۔ اس سڑک کو دیکھا جو معمار سنان کے نام سے منسوب ہے۔ شام کیسے اپنا حسن وہاں لٹا رہی تھی۔ یہاں کتنی طمانیت اورسکون تھا۔ بلند و بالا درختوں کی نازک ٹہنیوں اور پتوں سے زوردار ہواؤں کی چھیڑ چھاڑ زروں پر تھی۔ اب لائبریری دیکھنے کی بھی جلدی تھی کہ وہ کہیں بند نہ ہو جائے۔

٭٭٭

تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل