FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

زکوٰۃ ۔۔ احکام اور مسائل

(بحوالہ صحیح ابن خزیمہ)

               سید محمد میاں

            تم خدا کے فضل سے نمازی ہو، جماعت سے نماز ادا کرتے ہو، نماز میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اُس کا ترجمہ او ر مطلب بھی سمجھ لیتے ہو۔تم پوری طرح سمجھ چکے ہو کہ نماز اللہ کی یاد کا ایک طریقہ ہے جس میں بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں زیادہ سے زیاد ہ عاجزی اور نیاز مندی پیش کرتا ہے، اپنے دکھ درد کی فریاد کرتا ہے اور جماعت میں شریک ہو کر جماعتی نظم، اتحاد، اتفاق اور مساوات کا سبق لیتا ہے اور تمام دُنیا کے لیے نمونہ پیش کرتا ہے

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

            خدا کے فضل سے تم روزوں کے بھی عادی ہو، تمام دن بھُوکے پیاسے رہ کر ثابت کرتے ہو کہ ہمارا کھانا پینا اور ہمارے دل کی چاہ ”حکمِ رب”کے تابع ہے۔اس نے اجازت دی تو ہم نے کھایا پیا،دل کی چاہ پوری کی۔اس نے منع کر دیا تو ہم رُک گئے۔ اس سے اپنے اوپر قابو پانے کے مشق بھی ہوتی ہے اور بھوکے پیاسے،ضرورت مندوں کے دُکھ درد کا احساس بھی بیدار ہوتا ہے جس سے خلقِ خدا کے ساتھ ہمدردی بڑھتی ہے۔ لیکن تمہارا ایمان یہ بھی ہے کہ جس طرح ہماری جان خدا کی دی ہوئی ہے جب اس نے چاہا ہمیں پیدا کیا۔ گوشت کے لو تھڑے میں جان ڈالی، جب چاہے گا یہ بخشی ہوئی جان لے لے گا۔اسی طرح ہمارا مال بھی خدا کا دیا ہوا ہے ہماری جس کوشش کو چاہتا ہے وہ کامیاب کر دیتا ہے جس سے ہمارے ہاتھ کھُل جاتے ہیں ، جیب بھر جاتی ہے گھر میں رونق  آ جاتی ہے اور جب چاہتا ہے اپنی دی ہوئی دولت سمیٹ لیتا ہے۔چنانچہ فارسی کا یہ شعر جو عام طور پر زبانوں پر ہوتا ہے،ہمارا عقیدہ ہے  :

درحقیقت مالک ہر شے خدا است

ایں امانتِ چند روزہ نزدِ ماست

            یعنی در حقیقت ہر ایک چیز کا مالک اللہ تعالی ہے جو کچھ ہمارے پاس ہے اللہ کی دی ہوئی چند روزہ امانت ہے۔

            اچھا جب یہ سب مال و دولت،اللہ تعالی کی عطا اور اُس کی دی ہوئی نعمت ہے تو انصاف کی بات تو یہ ہے کہ حصہ رسدی تمہارے پاس رہے۔ باقی سب اللہ کی مخلوق پر خرچ ہو۔ دیکھو دریا کا پانی نالی کے راستے سے تمہارے کھیت میں پہنچتا ہے۔یہ نالی حصہ رسدی یا اس سے کچھ زیادہ خود چُوس لیتی ہے باقی سارا پانی جُوں کا تُوں کھیتوں اور باغیچوں کو پہنچا دیتی ہے جو تشنہ لب ضرور ت مند ہوتے ہیں ۔اسی طرح تم بھی اگر دولت مند ہو تو ایک چشمہ ہو، ایک نہر ہو۔ اپنی پیاس بھر اپنے پاس رکھو باقی سب اللہ کی مخلوق پر صرف کر دو۔ جس کی زندگی کا چمن مُرجھا رہا ہے کیونکہ یہ مخلوق ”عیال اللہ ” ہے۔ مالک کی دی ہوئی نعمت اس کی عیال پر صرف ہونی چاہئے۔ایمان کا تقاضا یہی ہے۔کھیت سُوکھ رہا ہوا ور تم چشمہ کے دہانہ پر پتھر کی چٹان رکھ دو یہ ایمان کی بات نہیں ہے۔ بلکہ بہت بڑا ظلم ہے اور پرلے درجے کی سنگدلی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے  :

            الذین یکنزون الذہب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللّٰہ فبشر ھم بعذاب الیم۔                                                                    (سورۃ توبہ آیت :٣٤  پارہ :١٠)

ُُُُ” جو لوگ کنز کرتے ہیں (جوڑ جوڑ کر رکھتے ہیں ) سونے اور چاندی کو اور راہِ خدا میں اس کو خرچ نہیں کرتے۔ اُن کو سُنا دو خبر درد ناک عذاب کی۔ جس دن تاپا جائیگا اس خزانے کو نارِ جہنم میں پھر اُس سے داغا جائے گا ان کی پیشانیوں اور پہلوؤں کو اور کہا جائے گا یہ ہے وہ جس کو تم نے اپنے لیے جمع کر کے اور جوڑ کر رکھا تھا۔پس چکھو اپنے جوڑ ے ہوئے کو۔”

آنحضرتﷺ  نے فرمایا  :

            لیس بالمؤمن الذی یشبع وجارہ جائع (ترمذی شریف)

            وہ مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر لے اور پڑوسی بھوکا رہے۔

ایک دفعہ ایک شخص نے سوال کیا۔ یا رسول اللہ ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا  :

            افشا ء السّلام واطعام الطعام والصلوۃ والناس نیام

            سلام کا رواج عام کرنا،کھانا کھلانا اور اس وقت نماز پڑھنا کہ لوگ سو رہے ہوں (یعنی تہجد کی نماز پڑھنا )

            مگر اللہ تعالی کا فضل و کرم اور اُ س کا احسان ہے کہ اُس نے یہ حکم نہیں دیا کہ تمہارے جچے تلے خرچ سے جو فاضل بچے،وہ سب راہ خدا میں خرچ کر دو، وجہ یہ ہے کہ جس خدائے ذوالجلال نے دین اسلام سے ہمیں نوازا، وہ صرف حاکم ہی نہیں ہے بلکہ وہ رب او ر پروردگار بھی ہے۔وہ ہماری فطرت او ر اس کی صلاحیتوں یا کمزوریوں سے واقف ہی نہیں ہے بلکہ وہ خالق اور صانع ہے جس نے انسان کو انسان بنایا۔ اس کی فطرت خاص طرح کی رکھی اُس میں خاص خاص صلاحیتیں پیدا کیں ۔وہ خوب جانتا ہے کہ دولت کی محبت انسانی فطرت ہے۔یہی سبب ہے کہ انسان ہر طرح کی مصیبتیں جھیلتا ہے۔راحت و آرام قربان کر دیتا ہے او ر اپنی تمام صلاحیتیں اور قاقبلیتیں کام میں لا کر دولت حاصل کر تا ہے۔

            وہ یہ بھی جانتا ہے کہ بال بچوں کی محبت تقاضا ء فطرت ہے۔ انسان اپنے آپ سے زیادہ اپنی اولاد کی رفاہیت اور خوشحالی چاہتا ہے۔ اس کی تمنا ہوتی ہے کہ جتنی ترقی اُ س نے کی ہے۔اس سے بڑھ چڑھ کر اُ س کی اولاد ترقی کرے۔ اس تمنا سے خود باپ کو کوئی فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے،البتہ ملک اور قوم کو ضرور فائدہ پہنچتا ہے، کیونکہ نوجوانوں کی ترقی ملک اور قوم کی ترقی ہوتی ہے اور اس طرح پورے عالم کی ترقی کار استہ کھلتا ہے۔

            وہ خالق اور رب جس طرح غریبوں اور ضرورت مندوں کا پروردگار ہے ایسے ہی وہ امیروں اور دولت مندوں کا بھی رب اور پروردگار ہے۔جس طرح غریب اور کمزور انسان اس کی عیال ہیں ایسے ہی دولت مند اور ان کے اہل و عیال بھی اس کی عیال ہیں ۔

            بیشک نہر، نالے اور چشمے تمام پانی تقسیم کر دیتے ہیں ، مگر اُن کے جگر قدرتی طور پر کھیت کی زمین سے زیادہ تر رہتے ہیں ۔ جو درخت نالی کی ڈول،نہر کی پٹری یا چشمہ کے آس پاس ہوتے ہیں وہ زیادہ سر سبز و شاداب رہتے ہیں ۔

            اسلام دین فطرت ہے وہ غیر فطری باتوں کو حرام اور ناجائز قرار دے کر ختم کرتا ہے۔اُس نے صرف چالیسواں حصہ تو ایسا رکھا کہ وہ اس دولت مند کا نہیں ہے بلکہ اللہ کا ہے۔ یہ حصہ اس کی ضرورت مند عیال پر صرف ہونا چاہیے۔ا س کو اگر تم اپنے صرف میں لاتے ہو تو ضرورت مند فقیروں کا حصہ غصب کرتے ہو اس طرح اپنے تمام مال کو ناپاک کر لیتے ہو کیونکہ تمہاری پاک کمائی میں اگر غصب کا مال مل جائے تو ساری کمائی ناپاک ہو جاتی ہے۔

             اس چالیسویں حصے کے علاوہ باقی ٣٩ حصے تمہارے ہیں ۔ ان کو اپنے پاس جمع بھی رکھ سکتے ہو،کاروبار کو ترقی دینے،جائیداد اور املاک کو بڑھانے میں بھی صرف کر سکتے ہو،اپنی اولاد کے لیے پس انداز بھی کر سکتے ہو کہ وہ تمہارے پیچھے ضرورت مند محتاج نہ رہیں ۔ آنحضرتﷺ  نے ارشاد فرمایا  :  تم اپنی اولاد کو دولت مند خوش حال چھوڑ و یہ اس سے بہتر ہے کہ ان کو فقیر چھوڑ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔

            مگر یہ کبھی مت بھولو کہ اللہ تعالی کا حق اُن اُنتالیس حصوں پر بھی قائم ہے۔اگر جہادِ عام جیسا معاملہ پیش آئے یا قحط جیسی کوئی عام مصیبت افرادِ ملت کو گھیر لے یا آنے والی نسل کی تعلیم کا مسئلہ پیش ہو یا مثلاً کسی ایسی تیاری کا مسئلہ پیش ہو کہ مقابلے کے وقت آپ کی قوم دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہے۔ایسے تمام موقعوں پر خود آپ کا اپنا فرض ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی اپنی دو لت راہِ خدا میں صرف کرو کیونکہ اگر ایسا نہیں کرتے تو اپنی قوم اور ملک و ملت کی تباہی مول لیتے ہو اور خود اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کاسامان کرتے ہو۔

            اللہ تعالی کا ارشاد ہے  :

            وانفقوا فی سبیل اللّٰہ ولا تلقوا با یدیکم الی التہلکۃ واحسنواان اللّٰہ یحب المحسنین۔(سورۃ بقرۃ آیت:١٩٥ پارہ:٢)

             اے ایمان والو ! خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنے آپ کو ہلاکت میں ۔

            غزوۂ عسرت کا واقعہ مشہور ہے کہ آنحضرتﷺ   نے امداد کی اپیل فرمائی تو حضرت عثمان نے تین سواُونٹ، دس ہزار دینار،چار ہزار درہم پیش کیے۔ فاروق اعظم  کے یہاں جو کچھ تھا اُسکا آدھا لے آئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تو یہ کمال کیا کہ جو کچھ تھا سب ہی لا کر بارگاہِ رسالت میں پیش کر دیا۔ یہ ہے قومی اور ملی احساس جو ہر مسلمان میں ہونا                چاہیے جس کی بنا پر وہ خود آگے بڑھ کر اپنی دولت خرچ کرے۔ جتنے زیادہ ولولہ اور شوق سے دولت خرچ کرے گا اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب کامستحق ہو گا۔اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے  :

مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللّٰہ کمثل حبۃ انبتت سبع سنا بل فی کل سنبلۃ مائۃ حبہ واللّٰہ یضاعف لمن یشاء۔(سورۃ البقرہ۔آیت  :  ٢٦١  پارہ  :  ٣)

”وہ لوگ جو اپنا مال راہِ  خدا میں خرچ کرتے ہیں ۔ اس خرچ کی مثال اس دانہ کی ہے جس میں سات خوشے نمود ار ہوئے،ہر خوشے میں سودا نے اور اللہ جس کو چاہتا ہے بڑھاتا ہے۔”

            بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ملکی ضرورتوں کے لیے حکومتیں پبلک سے قرض لیا کرتیں ہیں ۔دینی اور ملی ضرورتوں کے لیے جو رقم صرف کی جاتی ہے۔اللہ تعالی فرماتے ہیں وہ ہمارے اوپر قرض ہے ہم اس کا انعام بہت بڑھا چڑھا کر دیں گے۔

            اللہ تعالی کا ارشاد ہے  :

من ذاالذی یقرض اللّٰہ قرضا حسنا فیضاعفہ لہ اضعا فا کثیرۃ۔واللّٰہ یقبض و یبصط والیہ ترجعون۔  (سورۃ بقرۃ : آیت ٢٤٥  پ: ٢)

”کون ہے جو اللہ کو اچھا قرضہ قرض دے کہ اللہ تعالیٰ اسے بڑھا چڑھا کر کئی گنا کر دے اوراللہ ہی تنگی کرتااور       فراخی دیتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔”

            یعنی جو کچھ ہے اسی کا ہے،تم خود بھی اُسی کے ہو۔چند روزہ زندگی کے بعد اُسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے پھر دل تنگی اور بخل کیسا۔اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرو۔

               تعریف،حکم اور شرطیں

تعریف

              زکوٰۃ مال کے اُس خاص حصے کو کہتے ہیں جس کو خدا کے حکم کے موافق فقیروں ، محتاجوں وغیرہ کو دے کر انہیں مالک بنا دیا جائے۔

حکم

             زکوٰۃ دینا فرض ہے۔قرآن مجید کی آیتوں اور آنحضرتﷺ   کی حدیثوں سے اس کی فرضیت ثابت ہے جو شخص زکوٰۃ فرض ہونے سے انکار کرے وہ کافر ہے۔

شرطیں

              مسلمان،آزاد، عاقل، بالغ ہونا، نصاب کا مالک ہونا، نصاب کا اپنی حاجتوں سے زیادہ او ر قرض سے بچا ہوا ہونا اور مالک ہونے کے بعد نصاب پر ایک سال گزر جانا زکوٰۃ فرض ہونے کی شرطیں ہیں ۔

            پس کافر،غلام، مجنوں اور نابالغ کے مال میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ اسی طرح جس کے پاس نصاب سے کم مال ہو یا مال تو نصاب کے برابر ہے لیکن وہ قرض دار بھی ہے یا مال سال بھر تک باقی نہیں رہا، تو ان حالتوں میں بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

               مال،زکوٰۃ او ر نصاب

کس کس مال میں زکوٰۃ فرض ہے

            (١)  مالِ تجارت میں  (٢)  سونے اور چاندی میں  (٣)  سونے چاندی سے بنی ہوئی تمام چیزوں میں ، جیسے اشرفی، روپے،زیور، برتن، گوٹہ،ٹھپہ،آرائشی سامان وغیرہ،ان سب میں زکوٰۃ فرض ہے۔

سرکاری نوٹ

            سرکاری نوٹ رسید کی حیثیت رکھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جتنے کے نوٹ ہیں اتنی رقم آپ کی سرکاری بنک میں جمع ہے۔پس اگر یہ رقم بقدر نصاب ہے تو زکوٰۃ واجب ہو گی۔

جواہرات

            سچے موتی یا جواہرات پر زکوٰۃ فرض نہیں چاہے کتنی ہی مالیت کے ہوں البتہ اگر تجارت کے لیے ہوں تو زکوٰۃ فرض ہے۔

برتن اور مکانات وغیرہ

            تانبے وغیرہ کے برتن،کپڑے،مکان، دکان،کارخانہ، کتابیں ،آرائشی سامان (جو سونے چاندی کانہ ہو ) دستکاریوں کے اوزار،خواہ وہ کسی قیمت کے ہوں ،خواہ ا ن سے کرایہ آتا ہو، ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے البتہ اگر اُن میں سے کوئی چیز بھی تجارت کی ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔

مالِ تجارت

            جو مال بیچنے اور نفع کمانے کے لیے ہو وہ مال تجارت ہے خواہ کسی قسم کا مال ہو، یہاں تک کہ اینٹیں پتھر،مٹی کے برتن گھاس پھونس،اگر اُن کی تجارت کی جاتی ہے تو اُن پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔

نصاب کسے کہتے ہیں

            جن مالوں میں زکوٰۃ فرض ہے اُن کی شریعت نے خاص خاص مقدار مقرر کردی ہے جب اتنی مقدار کسی کے پاس پوری ہو جائے تو زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے۔ پس نصاب مال کی اُس خاص مقدار کو کہتے ہیں جس پر شریعت نے زکوٰۃ فرض کی ہے۔

چاندی کا نصاب اور اس کی زکوٰۃ

            چاندی کا نصاب باون تولہ چھ ماشہ ہے  ١  اور انگریزی روپیہ کے وزن سے جو ساڑھے گیارہ ماشے کا ہوتا ہے ٥٤ تولہ ٢ ماشہ اور جبکہ زکوٰۃ میں چالیسواں حصہ (١٤٠) دینا فرض ہوتا ہے تو ٥٤ تولہ ٢ ماشہ کی زکوٰۃ ایک تولہ چار ماشہ دو رتی چاندی ہو گی۔

سونے کا نصاب اور اس کی زکوٰۃ

            سونے کا نصاب سات تولے چھ ماشے سونا ہوتا ہے۔اس کی زکوٰۃ دو ماشے دو رتی سونا ہوئی۔

تجارتی مال کا نصاب

            سونے چاندی سے تجارتی مال کی قیمت لگاؤ پھر اگر اس کی مالیت نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو تو چاندی یا سونے کا نصاب قائم کر کے اُس کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرو۔

 اصل کے بجائے قیمت

            (١)  اصل فرض تو یہ ہے کہ جس مال پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اسی کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دو۔ مثلاً اگر غلہ کی تجارت ہے تو تجارتی غلہ کا جس قدر اسٹاک ہے اُ س کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دے دو۔ باقی یہ بھی جائز ہے اور ضرورت

   ١    وزن کے لحاظ سے ١٠ در ہم سات مثقال کے ہوتے ہیں ۔دوسو درہم ١٤٠ مثقال کے۔ ایک مثقال ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے تو ایک سو چالیس مثقال کا وزن چھ سوتیس ماشہ ہو گاجس کے ساڑھے باون تولے ہوتے ہیں ۔

مندوں کی سہولت اگر اسی میں ہے تو یہی بہتر ہے کہ اس کی قیمت دے دو۔

            (٢)  اسی طرح اگر تمہارے پاس چاندی کے زیور یا برتن ہیں جن کا وزن مثلاً سو تولہ ہے تو فرض تو یہ ہے کہ ڈھائی تولہ چاندی دے دو۔ لیکن اگر ڈھائی تولہ چاندی کی قیمت کا کپڑا یا غلہ خرید کر دے دو وہ بھی جائز ہے۔

            (٣)  اس موقع پر آنحضرتﷺ   کا یہ ارشاد یاد رکھو کہ آپﷺ   نے فرمایا ہے کہ بہتر اور افضل وہ ہے جو ضرورت مند کی ضرورت کے مطابق ہو اور جس میں اُس کا نفع زیادہ ہو۔ مثلاً جو بھوکا ہے اس کو غلہ دو،ننگے کو کپڑا دو۔ اگر بھوکے ننگے کو کسی تاجر نے کتابیں دے دیں تو اس کی زکوٰۃ تو ادا ہو جائے گی مگر ضرورت مند کی ضرورت پوری نہ ہو گی وہ اپنی ضرورت پوری کرنا چاہے گا تو ان کتابوں کو آدھی تہائی قیمت پر بیچے گا،اس سے اس کا نقصان ہو گا۔

            (٤)  یہ بھی یاد رکھو کہ چاندی کی زکوٰۃ اگر چاندی سے ادا کی جائے گی تو قیمت کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ وزن کا اعتبار ہو گا۔مثلًاکسی کے پاس خالص چاندی کے سو روپے ہیں ۔سال گزرنے کے بعد اُسے ڈھائی تولہ چاندی دینی چاہیے اب اسے اختیار ہے کہ وہ خالص چاندی کے دو روپے اور ایک خالص چاندی کی اٹھنی دے دے یا چاندی کا ٹکڑا ڈھائی تولہ کا دے دے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ لیکن اگر چاندی کا ٹکڑا ڈھائی تولہ کا قیمت میں دو روپے کا ہو تو دو روپے دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہو گی اور اگر ڈھائی تولہ خالص چاندی تین روپے کی ہو تو زکوٰۃ میں تین روپے دینے ہوں گے۔ہاں اگر روپے بھی خالص چاندی کے ہوں تو ڈھائی روپے یعنی دو روپے خالص چاندی کے اور ایک اٹھنی خالص چاندی کے زکوٰۃ میں دی جائے گی۔

ادھُورے نصاب

            (١)   کسی کے پاس تھوڑی سی چاندی ہے اور تھوڑا ساسونا، دونوں میں سے نصاب کسی کا پورا نہیں ہے تو اس صورت میں سونے کی قیمت چاندی سے یا چاندی کی قیمت سونے سے لگا کر دیکھو کہ دونوں میں سے کسی کا نصاب پورا ہوتا ہے یا نہیں ۔ اگر کسی کا نصاب پورا ہو جائے تو اُسی کی زکوٰۃ دو  ٢   اور دونوں میں سے کسی کا نصاب پورا نہ ہو تو زکوٰۃ فرض نہیں ۔

            (٢)  اگر کسی کے پاس صرف تین چار تولہ سونا ہے۔ اُس کی قیمت چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ  ہے لیکن چاندی یا چاندی کی کوئی بھی چیز اس کے پاس نہیں ہے تو اس صورت میں اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

٢   مثلاً چالیس تولے چاندی ہے اور دو ماشہ سونا جس کی قیمت دس تولہ چاندی ہوتی ہے۔اس صورت میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی کیونکہ دونوں کی مجموعی قیمت پچاس تولہ چاندی ہوتی ہے جو نصاب سے کم ہے۔ ہاں اگر چالیس تولہ چاندی کے ساتھ تین ماشہ سونا ہو جس کی قیمت پندرہ تولہ چاندی ہو تو زکوٰۃ فرض ہو جائے گی کیونکہ چاندی کا نصاب ٥٢ تولے ٦ ماشے ہے جو پورا ہو گیا یا مثلاً چھ تولہ سونا اور سو تولہ چاندی ہے جس کی قیمت ایک تولہ اور چھ ماشہ سونا ہوتی ہے تو سونے کا نصاب سات تولہ چھ ماشہ پورا ہو گیا۔اس میں اختیار ہے کہ سونے کا چالیسواں حصہ یا اس کی قیمت دو،یا چھ تولہ سونے کی بھی چاندی سے قیمت لگا لو اور جو مجموعی رقم چاندی کی ہوتی ہے ا س کا چالیسواں حصہ دے دو۔

            (٣)  کسی کے پاس کچھ تجارتی مال ہے جو نصاب کے برابر نہیں ہے لیکن اس کے علاوہ کچھ سونا یا چاندی بھی  اس کے پاس ہے تو اگر سب کے ملانے سے نصاب پورا ہو جاتا ہے تو اس مجموعہ پرزکٰوۃ واجب ہو گی ورنہ نہیں ۔

               زکوٰۃ کب ادا کی جائے

            (١)  جب بقدر نصاب مال پر جو تمہاری ملک میں آیا ہے چاند کے حساب سے سال پورا ہو جائے تو زکوٰۃ ادا کر دو،دیر لگانا اچھا نہیں ہے۔

            (٢)  ہاں اگر بقدرِ نصاب مال کے مالک ہونے کے بعد اگر سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ ادا کر دو تو یہ بھی جائز ہے۔

               نیت

            جب زکوٰۃ کی رقم کسی کو دویا کم از کم زکوٰۃ کی رقم علیحدہ کر کے رکھو،اُس وقت یہ نیت کرنا ضروری ہے کہ یہ مال میں زکوٰۃ میں دیتا ہوں یا زکوٰۃ کے لیے علیحدہ کرتا ہوں ۔ اگر زکوٰۃ کا خیال نہیں تھا اور کسی کو روپیہ دے دیا، دینے کے بعد اُس کو زکوٰۃ کے حساب میں لگا لیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہو گی۔ اسی طرح کسی کو قرض دیا تھا اب اس کو زکوٰۃ کے حساب میں لگا کر معاف کرنا چاہتے ہو تب بھی زکوٰۃ ادا نہ ہو گی اگر اداء قرض میں اس کی امداد کرنی ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ اتنی رقم اس کو زکوٰۃ کی نیت سے دے دو پھر اُس سے اپنے قرض میں یہ رقم وصول کر لو۔

               کیا بتانا ضروری ہے ؟

            جس کو زکوٰۃ دی جائے اس کو یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے بلکہ اگر زکوٰۃ کی نیت کر کے کسی غریب کو انعام کے طور پر یا کسی مفلس کے بچوں کو عید ی کے نام سے رقم دے دی جائے تب بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔

               پوری یا تھوڑی زکوٰۃ کب ساقط ہو جاتی ہے

            (١)  سال گزرنے کے بعد ابھی زکوٰۃ نہیں دی تھی کہ سارا مال ضائع ہو گیا یا سارا مال راہِ خدا میں صرف کر دیا تو  اُس کی زکوٰۃ بھی ساقط ہو گئی۔

            (٢)  لیکن اگر سارا مال ضائع نہیں ہوا،تھوڑا مال ضائع ہوا یا تھوڑا مال خیرات کیا باقی، باقی ہے تو جس قدر مال ضائع ہوا یا خیرات کیا اس کی زکوٰۃ ساقط ہو گئی۔باقی مال کی زکوٰۃ ادا کرے۔

               مصارفِ زکوٰۃ

تشریح  :          مصارف جمع مصرف کی ہے۔ جس شخص کو زکوٰۃ دینے کی اجازت ہے اُسے مصرفِ زکوٰۃ کہتے ہیں ۔مصارف زکوٰۃ سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔

مصارفِ زکوٰۃ کون کون ہیں ؟

            (١)  فقیر یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا سامال و اسباب ہے لیکن نصاب کے برابر نہیں ۔

            (٢)  مسکین یعنی جس شخص کے پاس کچھ بھی نہیں ۔

            (٣)  قرضدار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اس کے پاس قرض سے بچا ہو ا بقدرِ نصاب کوئی مال نہ ہو۔

            (٤)  مسافر جو حالت سفر میں تنگ دست رہ گیا ہو اسے بقدر حاجت زکوٰۃ دے دینا جائز ہے۔

کن لوگوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں

            (١)  مالدار کو یعنی اس شخص کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے جس پر خود زکوٰۃ فرض ہے۔ یا اس کے پاس نصاب کے برابر قیمت کا کوئی اور مال موجود ہے اور اس کی حاجت اصلیہ سے فاضل ہے۔ جیسے کسی کے پاس تانبے کے برتن روز مرہ کی ضرورت سے زائد رکھے ہوئے ہیں اور اُن کی قیمت بقدرِ نصاب ہے۔اس پر اگرچہ ان برتنوں کی زکٰوۃ دینی واجب نہیں ہے مگر اس کو زکوٰۃ کا مال لینا بھی حلا ل نہیں ہے۔

            (٢)  سیّد اور بنی ہاشم کو زکوٰۃ دینی جائز نہیں ہے۔اُن کی اگر خدمت کرنی ہے تو زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور رقم بطور ہدیہ پیش کیجئے۔ آنحضرتﷺ   سے ان کو جو خاندانی نسبت ہے اس کے احترام کا یہی تقاضا ہے۔

تشریح  :          بنی ہاشم سے حضرت حارث بن عبدالمطلب، حضرت جعفر، حضرت عقیل، حضرت عباس اور حضرت علی  کی اولاد  مراد ہے۔(رضوان اللہ علیھم اجمعین)

            (٣)  اپنے ماں باپ،دادا دادی، نانا نانی وغیرہ جو ان سے اُوپر کے ہوں ۔

            (٤)  بیٹا،بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی وغیرہ جو ان سے نیچے ہوں ۔

            (٥)  خاوند اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے خاوند کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتی۔

            (٦)  غیر مسلم

            (٧)  مالدار آدمی کی نابالغ اولاد۔ان تمام لوگوں کو زکوٰۃ دینی جائز نہیں ہے۔

کن کاموں میں زکوٰۃ کا مال خرچ کرنا جائز نہیں ہے

            جن کاموں میں کسی مستحق کو مالک نہ بنایا جائے۔اُن میں مال زکوٰۃ خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ جیسے میت کے گور و کفن میں لگا دینا یا میت کا قرض ادا کرنا یا مسجد کی تعمیر یا مدرسہ کی تعمیر، مسجد یا مدرسہ کا فرش، لوٹوں یا پانی یا چٹائی وغیرہ یا کتب خانہ کے لیے خرید کتب پر زکوٰۃ کا مال خرچ کرنا جائز نہیں ۔

طلبہ علوم

            ہاں ضرور ت مند طالب علموں کو زکوٰۃ کا مال دینا جائز ہے اور مدرسوں کے مہتمم صاحبان کو اس غرض سے کہ وہ طالب علموں پر خرچ کریں ،زکوٰۃ دینے میں مضائقہ نہیں ہے۔

زکوٰۃ کن کو دینا افضل ہے

            اوّل اپنے ایسے رشتہ داروں کو جن کا نفقہ خرچہ آپ کے ذمہ نہیں ہے جیسے بھائی،بہن، بھتیجے، بھتیجیاں ،چچا، پھوپی، خالہ، ماموں ، ساس، سُسر،داماد وغیرہ میں سے جو حاجت مند اور مستحق ہوں ، انہیں دینے میں بہت زیادہ ثواب ہے۔ ان کے بعد اپنے پڑوسیوں یا اپنے شہر کے لوگوں میں سے جو زیادہ حاجت مند ہو اُسے دینا افضل ہے۔پھر جس کے دینے میں دین کا زیادہ نفع ہو جیسے علم دین کے طالبِ علم۔

ادا ء زکوٰۃ کا طریقہ

            (١)  جس قدر زکوٰۃ واجب ہوئی ہے وہ مستحق لوگوں کو خاص خدا کے واسطے زکوٰۃ کی نیت سے دے دو اور اُسے مالک بنا دو۔

            (٢)  مالِ زکوٰۃ سے فقیروں کے لیے کوئی چیز خرید کر اُن کو تقسیم کر دو تو یہ بھی جائز ہے۔

            (٣)  کسی شخص کو اپنی طرف سے وکیل بنا کر زکوٰۃ کی رقم دے دو تاکہ وہ مستحق لوگوں پر خرچ کر دے۔یہ بھی جائز ہے۔

مگر کسی خدمت یا کسی کام کی اُجرت میں زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ البتہ عامل زکوٰۃ یعنی جو شخص زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہوتا ہے،قرآن شریف میں اُس کو بھی مستحق لوگوں میں شمار کرایا ہے لہٰذا اس کی تنخواہ مال زکوٰۃ میں سے ادا کرنی جائز ہے۔

مالک مکان کب زکوٰۃ لے سکتا ہے کب نہیں لے سکتا

            کسی شخص کے پاس ہزار دو ہزار روپیہ کا مکان ہے جس سے وہ رہتا ہے یا اُس کے کرایہ سے اپنی گزر کرتا ہے۔اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی مال نہیں بلکہ تنگ دست ہے، اُس کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔کیونکہ یہ مکان اُس کی حاجت اصلیہ میں داخل ہے۔البتہ جب حاجتِ اصلیہ سے کوئی مال زائد ہو اور وہ بقدرِ نصاب ہو تو اُسے زکوٰۃ لینی جائز نہیں ۔

اداء زکوٰۃ میں غلطی

            اگر کسی کو مستحق سمجھ کر زکوٰۃ دے دی،بعد میں معلوم ہوا کہ وہ سیّد تھا یا مالدار تھا یا اپنے ماں باپ یا اولاد میں سے تھا تو زکوٰۃ ادا ہو گئی پھر سے زکوٰۃ دینی واجب نہیں ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

ماہنامہ انوارِ مدینہ

تدوین اور ای بک  کی تشکیل: اعجاز عبید