FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

چہل احادیث متعلقہ رمضان و صیام

               مولانا محمد عاشق الٰہی

جمع  و ترتیب: اعجاز عبید

            (١)  فرمایا نبی الرحمتﷺ   نے کہ انسان کے ہر عمل کا ثواب دس گنے سے سات سو گنے تک بڑھا دیا جاتا ہے۔اللہ تعالی فرماتے ہیں روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے،کیونکہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا۔بندہ اپنی خواہش اور اپنے کھانے کو میرے لیے چھوڑ تا ہے۔پھر فرمایا کہ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری اس وقت ہو گی جب خداسے ملاقات کرے گا اور روزہ دار کے منہ کی بُو خدا کے نزدیک مشک کی خوشبو سے عمدہ ہے اور روز ے ڈھال ہیں (جو گناہوں سے اور دوزخ سے بچاتے ہیں )جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو گندی باتیں نہ کرے اور شور نہ مچائے، پس اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرنے لگے یا لڑنے لگے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں (لڑنا جھگڑنا گالی کا جواب دینا میرا کام نہیں )۔(بخاری و مسلم عن ابی ہریرہ)

            (٢)  فرمایا رحمہ للعالمینﷺ  نے کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اورسرکش جنات جکڑ دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں ۔ان میں سے کوئی دروازہ رمضان ختم ہونے تک نہیں کھولا جاتا ہے اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں جن میں سے کوئی دروازہ (ختم رمضان تک) بند نہیں کیا جاتا ہے اور خدا کی طرف سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ اے خیر کے طلب کرنے والے آگے بڑھ اور اے شر کے تلاش کرنے والے رُک جا اور بہت سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ سے آزاد کرتے ہیں اورہر رات ایسا ہی ہوتا ہے۔(ترمذی عن ابی ہریرہ ) اور ایک روایت میں ہے کہ جب رمضان داخل ہوتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔ (بخاری و مسلم )

            (٣)  فرمایا رحمۃللعالمینﷺ   نے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں ،جن میں سے ایک کا نام رےّان ہے۔اس سے صرف روز ے دار ہی داخل ہوں گے۔(بخاری، مسلم عن سہل ) رےّان بمعنی سیرابی والا۔

            (٤)  فرمایا رسول مقبولﷺ   نے کہ جس نے ایک دن خدا کی راہ میں روز رکھ لیا اللہ تعالی اسے دوزخ سے اس قدر دور کر دیں گے کہ ستر سال میں جتنی دور پہنچا جائے۔ (بخاری عن ابی سعید )

            (٥)  فرمایا سرکارِدو عالمﷺ  نے کہ جس نے بِلا کسی شرعی رخصت اور بِلا کسی مرض کے (جس میں روزہ چھوڑنا جائز ہو)رمضان کا روزہ چھوڑ دیا تو اگرچہ (بعد میں )اس کو رکھ لے  تب بھی سای عمر کے روزوں سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ (احمد عن ابی ہریرہ)

ف  :  مطلب یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی فضیلت اور برتری اس قدر ہے کہ اگر رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دیا تو عمر بھر روزے رکھنے سے بھی وہ فضیلت اور اجر اور ثواب نہ پائے گا جو رمضان میں روزے رکھنے سے ملتا ہے گو قضا کا ایک روزہ رکھنے سے حکم کی تعمیل ہو جائیگی۔

               روزہ کی حفاظت

            (٦)  فرمایا فخر بنی آدمﷺ  نے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کے لیے (حرام کھانے یا حرام کام کرنے یا غیبت وغیرہ کرنے کی وجہ سے )پیاس کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور بہت سے تہجد گزار ایسے ہیں جن کے لیے( ریا کاری کی وجہ سے ) جاگنے کے سوا کچھ نہیں ۔(دارمی عن ابی ہریرہ )

            (٧)  فرمایا سرکارِ دو عالمﷺ  نے کہ روزہ (شیطان کی شرارت سے بچنے کے لیے )ڈھال ہے جب تک کہ روزہ دار (جھوٹ بول کر یا غیبت وغیرہ کر کے )اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔(نسائی عن ابی عبیدہ)

            (٨)  فرمایا سرورِ کونینﷺ  نے کہ جس نے روزہ رکھ کر بُری بات اور بُرے عمل کو نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی کچھ حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ ( بخاری عن ابی ہریرہ)

               قیامِ رمضان

            (٩)  فرمایا رسول اکرمﷺ  نے کہ جس نے ایمان کے ساتھ( اور )ثواب سمجھتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور جس نے ایمان کے ساتھ (اور)ثواب سمجھتے ہوئے رمضان میں قیام کیا (تراویح وغیرہ پڑھی ) تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے او ر جس نے شبِ قدر میں قیام کیا ایمان کے ساتھ اور ثواب سمجھ کر اس کے اب تک کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔(بخاری و مسلم عن ابی ہریرہ)

            (١٠)  فرمایا فخر دو عالمﷺ  نے کہ روزے اور قرآن بندہ کے لیے سفارش کریں گے۔ روزے کہیں گے اے رب ہم نے اس کو دن میں کھانے سے اور دیگر خواہشات سے روک دیا لہٰذا س کے حق میں ہماری سفارش قبول فرما لیجیے۔ قرآن عرض کرے گا کہ میں نے رات کو اسے سونے نہ دیا لہذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما لیجیے چنانچہ دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔(بیہقی فی شعب عن عبداللہ بن عمر)

               رمضان اور قرآن

            (١١)  فرمایا حضرت ابو ہریرہ رضی ا للہ عنہ نے کہ رسولِ خداﷺ   سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے رمضان میں آپ کی سخاوت بہت ہی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ رمضان کی ہر رات میں جبریل (علیہ السلام ) آپ سے ملاقات کرتے تھے اور آپ اُن کو قرآن مجید سُناتے تھے۔جب جبریل (علیہ ا لسلام)آپ سے ملاقات کرتے تھے تو آپ اُس ہوا سے بھی  زیادہ سخی ہو جاتے تھے جو بارش لے کر بھیجی جاتی ہے۔(بخاری و مسلم)

               رمضان میں سخاوت

            (١٢)  فرمایا حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہ جب رمضان داخل ہوتا تھا تو حضور اقدسﷺ   ہر قیدی کو چھوڑ دیتے تھے اور ہر سائل کو عطا فرماتے تھے (بیہقی فی شعب ) مطلب یہ ہے کہ آپ یوں ہی کسی سائل کو محروم نہ فرماتے تھے مگر رمضان میں اس کا اہتمام مزید ہو جاتا تھا۔

               روزہ افطار کرانا

            (١٣)  فرمایا خاتم الانبیاءﷺ  نے کہ جس نے روزہ دار کا روزہ کھُلوایا یا مجاہد کو سامان دیدیا تو اس کو روزہ دارجیسا اجر ملے گا۔ (بیہقی فی شعب عن زید بن خالد) اور غازی اور روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی جیسا کہ دوسری احادیث سے ثابت ہے۔

               روزہ میں بھُول کر کھا پی لینا

            (١٤)  فرمایا رحمۃللعالمینﷺ  نے کہ جو شخص روزہ میں بھُول کر کھا پی لے تو روزہ پورا کر لے کیونکہ (اس کا کچھ قصور نہیں )اسے اللہ نے کھلایا اور پلایا۔(بخاری و مسلم عن ابی ہریرہ)

سحری کھانا  :

            (١٥)  فرمایا نبیِ مکرمﷺ  نے کہ سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔(بخاری و مسلم عن انس )

            (١٦)  فرمایا بنیِ مکرمﷺ   نے کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روز وں میں سحری کھانے کا فرق ہے (مسلم عن عمر و بن العاص)

            (١٧)  فرمایا نبی اکرمﷺ  نے کہ سحری کھانے والوں پرخدا او ر اس کے فرشتے رحمت بھجتے ہیں ۔(طبرانی عن ابن عمر)

               افطار کرنا

            (١٨ )  فرمایا نبی الرحمتﷺ  نے کہ لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے یعنی غروبِ آفتاب ہوتے ہی فوراً روزہ کھول لیا کریں گے۔(بخاری ومسلم عن سہل)

            (١٩)  فرمایا رحمتِ کائناتﷺ  نے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بندوں میں مجھے سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو افطار میں سب سے زیادہ جلدی کرنے والا ہے یعنی غروب ہوتے ہی فوراً افطار کرتا ہے اور اسے اس میں جلدی کا خوب اہتمام رہتا ہے۔ (ترمذی عن ابی ہریرہ)

            (٢٠)  فرمایا سید الکونینﷺ   نے کہ جب اِدھر سے (یعنی مشرق سے) رات آ گئی اور اُدھر سے (یعنی مغرب سے )دن چلا گیا تو روزہ افطار کرنے کا وقت ہو گیا (آگے انتظار کرنا فضول ہے بلکہ مکروہ ہے)۔ (مسلم عن عمرو بن العاص)

            (٢١)  فرمایا رسول اکرمﷺ  نے کہ جب تم روزہ کھولنے لگو تو کھجوروں سے افطار کرو،کیونکہ کھجور سراپا برکت ہے۔اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے روزہ کھول لے کیونکہ وہ (ظاہر و باطن) کو پاک کرنے والا ہے۔(ترمذی عن سلمان بن عامر)

               روزہ جسم کی زکٰوۃ ہے

            (٢٢)   فرمایا خاتم الانبیاءﷺ  نے کہ ہر چیز کی زکٰوۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکٰوۃ روزہ ہے۔(ابن ماجہ عن ابی ہریرہ )

               سردی میں روزہ

            (٢٣)  فرمایا سرورِ عالمﷺ  نے کہ موسم سرما میں روزہ رکھنا مفت کا ثواب ہے۔(ترمذی عن عامر ) مفت کا ثواب اس لیے فرمایا کہ اس میں پیاس نہیں لگتی اور دن جلدی سے گزر جاتا ہے۔ افسوس ہے کہ بہت سے لوگ اس پر بھی  روزہ سے گریز کرتے ہیں ۔

               جنابت روزہ کے منافی نہیں

            (٢٤)  فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہ رمضان المبارک میں حضورِ اقدسﷺ   کو بحالتِ جنابت صبح ہو جاتی تھی اور یہ جنابت احتلام کی نہیں (بلکہ بیویوں کے ساتھ مباشرت کرنے کی وجہ سے ہوتی تھی )پھر غسل فرما کر روزہ رکھ لیتے تھے۔(بخاری و مسلم)  مطلب یہ ہے کہ صبح صادق سے قبل غسل نہیں فرمایا اور روزہ کی نیت فرما لی، پھر طلوعِ آفتاب سے قبل غسل فرما کر نماز پڑھ لی۔اس طرح سے روزہ کا کچھ حصہ حالتِ جنابت میں گزرا اس لیے کہ روزہ بالکل ابتدائے صبح صادق سے شروع ہو جاتا ہے۔اسی طرح اگر روزہ میں احتلام ہو جائے تو بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا،کیونکہ جنابت روزہ کے منافی نہیں ہے۔ہاں اگر عورت کے ماہواری کے دن ہوں تو روزہ نہ ہو گا۔ان دنوں کی قضا بعد میں فرض ہے،یہی مسئلہ نفاس کے ایام کا ہے۔نفاس وہ خون ہے جو بچہ پیدا ہونے کے بعد آتا ہے۔

               روزہ میں مسواک

            (٢٥)  فرمایا حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ رسولِ خداﷺ   کو بحالتِ روزہ اتنی بار مسواک کرتے ہوئے دیکھا کہ جس کا میں شمار نہیں کرسکتا۔(ترمذی)

            مسواک تر ہو یا خشک روزہ میں ہر وقت کر سکتے ہیں ۔البتہ منجن، ٹوتھ پاؤڈر، ٹوتھ پیسٹ، یا کوئلہ وغیرہ سے روزہ میں دانت صاف کرنا مکروہ ہے۔

               روزہ میں سُرمہ

            (٢٦)  فرمایا حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ   میری آنکھ میں تکلیف ہے کیا میں روزہ میں سُرمہ لگا لوں ؟ فرمایا لگا لو۔(ترمذی )

               اگر روزہ دار کے پاس کھایا جائے

            (٢٧)  فرمایا فخر بنی آدمﷺ  نے کہ جب تک روزہ دار کے پاس کھایا جاتا رہے ا س کی ہڈیاں تسبیح پڑھتی ہیں اور اس کے لیے فرشتے استغفار کرتے ہیں ۔(بیہقی فی الشعب عن ابی ہریرہ)

               آخر عشرہ میں عبادت کا خاص اہتمام

            (٢٨)  فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہ نبی ٔاکرمﷺ   رمضان کے آخری د س دنوں میں جس قدر عبادت میں محنت فرماتے تھے دوسرے ایام میں اس قدر محنت نہیں فرماتے تھے۔ (مسلم)

            (٢٩)  فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہ جب آخری عشرہ آتا تھا تو سرورِ عالمﷺ   تہبند کس لیتے تھے (تاکہ خوب عبادت کریں )اور پوری رات عبادت کرتے تھے اور گھر والوں کو عبادت کے لیے جگاتے تھے۔(بخاری ومسلم)

               شبِ قدر

            (٣٠)  فرمایا رحمۃ للعالمینﷺ  نے کہ بلا شبہہ یہ مہینہ آ چکا ہے اس میں ایک رات ہے (شبِ قدر جو عبادت کی قدر و قیمت کے اعتبار سے )ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس رات سے محروم ہو گیا کُل خیر سے محروم ہو گیا۔اور اس شب کی خیر سے وہی محروم ہو گا جو پورا پورا محروم ہو (جسے ذوق عبادت بالکل نہیں اور جو فکرسعادت سے خالی ہے )۔(ابن ماجہ عن انس )

            (٣١) فرمایا سرورِ کونینﷺ  نے کہ شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔(بخاری عن عائشہ)

            (٣٢)  فرمایا محبوبِ رب العالمینﷺ  نے (اعتکاف کرنے والے کے متعلق ) کہ وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اُسے وہ ثواب بھی ملتا ہے جو (اعتکاف سے باہر )تمام نیکیاں کرنے والے کو ملتا ہے۔(ابن ماجہ عن ابن عباس ) یعنی اعتکاف میں بیٹھ کر اعتکاف والا خارجِ مسجد جو نیکیاں کرنے سے عاجز ہے تو وہ ثواب کے اعتبار سے محروم نہیں ہے۔اگر اعتکاف نہ کرتا تو مسجد سے باہر جو نیکیاں کرتا اُن کا ثواب بھی پاتا ہے۔

               آخری رات میں بخششیں

            (٣٣)  فرمایا رسول اکرمﷺ  نے کہ رمضان کی آخری رات میں اُمتِ  محمدیہ کی مغفرت کر دی جاتی ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! کیا اس سے شبِ قدر مراد ہے ؟فرمایا نہیں ! (یہ فضیلت آخری رات کی ہے شبِ قدر کی فضیلتیں اس کے علاوہ ہیں )۔بات یہ ہے کہ عمل کرنے والے کا اَجر اُس وقت پورا دے دیا جاتا ہے جب کام پورا کر دیتا ہے اور آخری شب میں عمل پورا ہو جاتا ہے لہٰذا بخشش ہو جاتی ہے۔ (احمد عن ابی ہریرہ)

               عید کا دن

            (٣٤)  فرمایا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ رسولﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ جب شب قدر ہوتی ہے تو جبریل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں جو ہراس بندۂ خدا کے لیے دُعا کرتے ہیں جو اللہ عز  و جل کا ذکر کر رہا ہو۔ پھر جب عید کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں کہ دیکھو ان لوگوں نے ایک ماہ کے روزے رکھے اور حکم مانا۔ اور فرماتے ہیں کہ اے میرے فرشتو ! بتاؤ اس مزدور ی کی کیا جزا ء ہے جس نے عمل پورا کر دیا ہو۔ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے رب ! اس کی جزا ء یہ ہے کہ اس کا بدلہ پورا دے دیا جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! میرے بندو اور بندیوں نے میرا فریضہ پورا کر دیا جو ان پر لازم تھا اور اب دعا میں گڑگڑانے کے لیے نکلے ہیں ۔قسم ہے میرے عزت و جلا ل اور کرم کی اور میرے علو و ارتفاع کی میں ضرور ان کی دعا قبول کروں گا۔پھر (بندوں کو) ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ میں نے تم کو بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا لہٰذا اس کے بعد (عید گاہ سے ) بخشے بخشائے واپس ہوتے ہیں ۔ (بیہقی فی الشعب)

               رمضان کے بعد دو اہم کام

صدقہ فطر

            (٣٥)  فرمایا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ مقرر فرمایا رسولِ اکرمﷺ نے صدقۂ فطر روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے او رمساکین کی روزی کے لیے۔(ابو داؤد شریف )

شش عید کے روزے

            (٣٦)  فرمایا فخر کونینﷺ  نے کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ (نفل روزے )یعنی عید کے مہینہ میں رکھے تو (پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ہو گا۔اگر ہمیشہ ایسا ہی کیا کرے تو) گویااس نے ساری عمر روزے رکھے۔(مسلم عن ا بی ایوب)

               چند مسنون دُعائیں

            (٣٧)    فرمایا معاذ بن زہر ہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہﷺ   افطار کے وقت یہ دُعا پڑھتے تھے  :                        اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ  (ابوداود)

            ترجمہ  :  اے اللہ میں نے تیرے ہی لیے روز رکھا اور تیرے ہی دئیے ہوئے رزق پر کھولا۔

            (٣٨)  فرمایا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ افطار کے وقت (یعنی بعد افطار) رسول کریمﷺ  یہ دعا پڑھتے  :                        ذَھَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ۔(ابوداود عن ابن عمر)

            ترجمہ  :  پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور ان شاء اللہ اجر ثابت ہو گیا

               افطار کی ایک اور دُعاء

            اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ اَنْ تَغْفِرَلِیْ ذُ نُوْبِیْ۔

            ترجمہ  :  اے اللہ ! میں آپ کی اس رحمت کے ذریعہ سوال کرتا ہوں جو ہر چیز کو سمائے ہوئے ہے کہ آپ میرے گناہ معاف فرما دیں ۔

            یہ دُعا حضرت عبداللہ بن عمر  سے منقول ہے۔(ابنِ ماجہ )

            (٣٩)  جب کسی کے یہاں افطار کرے تو اہل خانہ کو یہ دعا دے  :

            اَفْطَرَ عِنْدَکُمُ الصَّآئِمُوْنَ وَاَکَلَ طَعَامَکُمُ الْاَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمُ الْمَلٰئِکَۃُ

            ترجمہ: روزہ دار تمہارے یہاں افطار کیا کریں اور نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں اور فرشتے تمہارے لیے دعا کریں

(ایک جگہ افطار کر کے رسولِ اکرمﷺ  نے یہ دُعا پڑھی تھی)۔ (ابن ماجہ)

               شبِ قدر کی دُعا

            (٤٠)  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ شبِ قدر کون سی ہے تو(اس رات ) میں کیا دُعا کروں ؟

            فرمایا (دُعا میں )یوں کہنا۔

            اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ   (ترمذی )

            ترجمہ  :  اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے،معافی کو پسند فرماتا ہے لہٰذا مجھے معاف فرما دے۔

               رمضان المبارک کے چار اہم کام

(١)  لاالہ الا اللہ کی کثرت

 (٢)  استغفار میں لگے رہنا۔

 (٣)  جنت نصیب ہونے کا سوال

 (٤)  دوزخ سے پناہ میں رہنے کی دُعا کرنا۔

٭٭٭

ماخذ: جریدہ انوارِ مدینہ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید