FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               ڈاکٹر بلند اقبال


 

پہلا پیار

                   کہتے ہیں جس دن پہلی بار رحیم داد کو ماسٹر شریف نے چمکار کر گود میں بٹھایا تھا اُسی دن رحیم داد سات سے سترہ سال کا ہو گیا تھا ، اُسی رات اُس کے خواب میں ایک ساتھ بہت سے اژدھے اُسے ڈسنے چلے آئے تھے۔ ہر اژدھا لمحے بھر میں ماسٹر شریف کی شکل جیسا بن جاتا تھا۔ ۔ ۔ وہی بجھتے دیوں جیسی آنکھوں پر موٹے موٹے شیشے کی عینک ، وہی بے ہنگم سی ناک کے نیچے بالوں کے سفید کالے گچھے ، وہی دو دن کی بڑھی شیو میں چھپے ہوئے پتلے پتلے جھری جیسے گال اور وہی ماسٹر شریف کے بدن کی گندی بِساند جو رحیم داد کی سات سالہ معصوم روح کو زندگی بھر کے لیے متلا گئی تھی۔ ۔ ۔ سات سے سترہ سال تک رحیم داد ہر رات ماسٹر شریف کی شکل کے اژدہوں سے ڈسا جاتا رہا ، ہر رات اُس سے لپٹے ہوئے سانپ اُس کے بدن میں چھید کرتے رہے ،وہ اُس کے بدن میں اس طرح رینگتے رہے جیسے وہ اُس کا بدن نہیں بلکہ اُن سانپوں کا  بِل ہے ،وہ اُس کے بدن سے اس طرح اُگلتے رہے جیسے وہ اُسی کے خون میں پل رہے تھے۔ ۔ ماسٹر شریف تو دو سال بعد اسکول چھوڑ گئے مگر رحیم داد کی روح کو عمر بھر ڈسنے کے لیے رینگتے سانپ چھوڑ گئے۔

            کچھ سالوں کے لیے تو رحیم داد کی ہر ایک رات جیسے عذاب بن گئی تھی مگر پھر رفتہ رفتہ ایک عجیب سی تبدیلی آنے لگی۔ رحیم داد کو لگنے لگا جیسے اُس کے بدن پر لپٹے سانپ اُس کے لیے راحت کا سبب بنتے جا رہے ہیں۔ ۔ وہ جو اُس کو ڈستے ہیں تو اُس کا سارا بدن بجائے سانپوں کے زہر سے نیلا ہونے کے کسی نئی نویلی دلہن کے رخساروں کی سرخی کی طرح شرم سے لال ہو جاتا ہے۔ ۔ وہ جو کسی رات اُس کے بدن کو چھید کر اُس میں نہ رینگتے تو ساری رات اُس کی کروٹیں لیتے گزر جاتی اور اگلے روز اُسے لگتا جیسے اُس کے سر کے نیچے دھڑ کی جگہ سانپوں کا خالی بِل لگا ہوا ہے جو اپنے مکینوں کے بغیر اداس ہے ، ایسے میں تمام دن اُس کا دل بھاری بھاری رہتا اور تنہائی میں خوب ہی رونے کو چاہتا۔ اسی طرح ایک دن رحیم داد سات سے سترہ برس کا ہو گیا اور پھر پہلی بار۔ ۔ ۔ اُس کے خواب ٹوٹنے لگے۔

          اُس لڑکی کا نام زہرہ تھا۔ ۔ ڈری ڈری نینوں والی ، سانولے تیکھے سے نقوش والی اور سر و جیسے قد والی زہر ہ۔ ۔ جسکے ساتھ پہلی بار خالو نظام الدین کی بیٹی کی شادی میں رحیم داد کی نظریں چار ہوئیں اور پھر دوسری بار آپا نصیبن کے بچے کی روز ہ کشائی میں بھی وہ نظر آئی۔ پہلی بار تو زہرہ نے رحیم داد کو سرسری نظروں سے دیکھ کر نظر انداز کر دیا تھا مگر دوسری بار اُس کا دل رحیم داد کی نظروں کے متواتر تیروں سے  گھائل ہوتا چلا گیا اور جب رحیم داد نے اُسے اپنے اور اُس کے گھر کے بیچ ریلو ے جنکشن پر ملنے کے لیے کہا تو کچھ دیر ہچکچانے کے بعد وہ ملنے کو راضی ہو گئی۔

           اُس شام ریلوے جنکشن پر ڈوبتے دل اور کانپتے بدن کے ساتھ زہر ہ اپنے چھوٹے بھائی کی انگلی تھامے لکڑی کی بینچ پر بیٹھی سہمی سہمی نظروں سے رحیم داد کو تک رہی تھی۔ رحیم داد بوجھل نگاہوں سے کبھی زہرہ کو دیکھتا تو کبھی ریلوے جنکشن پر پڑی آڑی ترچھی ریل کی پٹریوں کو دیکھتا تھا۔ ۔ ۔ دونوں کی نظریں لمحے بھر کے لیے ٹکراتی اور پھر کسی ان دیکھی ٹرین پر سوار ہو کر اُن آڑی ترچھی پٹریوں پر بے تحاشہ دوڑنے لگتی۔ ۔ زہرہ پہلے پیار کے نشے میں چُور پسینے سے شرابور تھی، دل حلق میں دھڑک رہا تھا اور کان کی جلتی ہوئی روؤں سے رخسار دہک رہے تھے۔ رحیم داد بوجھل قدموں اور نیم مردہ بدن کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن  پر زہرہ کا ہاتھ تھامے اپنی منزل کی تلاش میں دوڑ رہا تھا۔ ۔ مگر ماسٹر شریف کی شکل کے اژدہے ہر اسٹیشن پر اُسکے پہلے پیار کو نگلنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ ۔ آہستہ آہستہ راستے کی مسافت بڑھتی چلی گئی ، رحیم داد کی سا نسیں ٹوٹنے لگیں ،اُس کے بوجھل قدم اُس کا چھوڑنے لگے ،نیم مردہ بدن کی روئیں کانپنے لگیں ، گردن کی نسیں پھولنے لگیں اور اس سے پہلے کہ اُس کے سترہ سال تک پلنے والے سارے خواب ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جاتے۔ ۔ ۔

رحیم داد نے زہرہ کے چھوٹے بھائی کو چمکار کر گود میں بیٹھا لیا۔

***

 

میوٹیشن(Mutation)

                    کوئی کچھ بھی کہے مگر سچ تو یہی تھا کہ اس میں علی بخش کا کچھ بھی قصور نہیں تھا وہ تو اور مردوں کی طرح اپنے باپ کے Y کر وموسوم اور ماں کے X کروموسوم سے مل کر ہی بنا تھا۔ خلیوں کی تقسیم بھی درست تھی اور نیوکلیس کے ملاپ بھی۔ جینز(Genes) کی    ترتیب بھی سہی تھی اور الیلز(Alleles)کی ساخت بھی۔ بس کوئی آوارہ کوانزائیم(Co-Enzyme )تھا جو عین وقت پرمیٹا بولزم (Metabolism)میں حصہ نہ لے سکا اور بنا آواز کے اپنے ارتقاء سے ہی خارج ( Delete) ہو گیا اور علی بخش کے سیکس ہارمونز کے  رسپٹرز (Receptors )کی شکل بدل گیا۔ اس قیامت کا نہ تو علی بخش کو ہی پتہ چلا اور نہ ہی اُس کے باپ مولوی کریم بخش کو۔

                     پھر محلے میں علی بخش کی پیدائش پر خوب ہی لڈو بٹے ، کان میں اذان ہوئی اور پھر رسمِ مُسلمانی۔ مولوی کریم بخش نے دونوں ہاتھ جوڑ کر خداوندِ کریم سے رحمتوں کی گڑگڑا کر بھیک مانگی اور پوری عاجزی سے اپنے پیارے بیٹے کو دین کی بھلائی اور خلقِ   کرٍ  تر خدائی کی خدمت کے لیے وقف کرنے کی ٹھانی۔ دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلے۔ مولوی کریم بخش نے بیٹے کی تربیت میں کوئی بھی کسر نہ چھوڑی۔ پاکیزہ مذہبی ماحول اور اعلیٰ مشرقی تربیت کے اثرات علی بخش کے جملہ کردار میں جھلکتے تھے۔ کردار کے اثرات چہرے مہرے پر بھی جیسے چاند سورج بن کر چمکتے تھے۔ ابھی وہ گیارہ سال ہی کے تھے کہ قرآن پاک حفظ کر لیا اور پھر تبلیغ الٰہی کہ اصرارو رموز سے واقفیت کی غرض سے کبھی باپ کے ساتھ اور کبھی اُن کے رفقاء کار  کے دامن کو تھام کر دور دراز کے شہروں اور گاؤوں کے چکر لگانے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ارد گرد کے ماحول اور تر بیت نے کچھ ایسا رنگ جمایا کہ تحریر و تقریر میں بلاغت آتی چلی گئی۔ا لفاظ بے تکان لبوں سے نکلتے اور اثرات اس قدر جذباتی شدت اور مذہبی حدت سے بھرے ہوتے کہ سُننے والوں پر رقت سا طاری ہو جاتا ، دیکھتے ہی دیکھتے اُن کے دل تصور وحدانیت سے ملول ہو جاتے ، آنکھیں عشقِ رسول سے نم ہو جاتیں اور سر رکوع میں خم ہو جاتے۔ جب جب رفقاء کرام نجی محفلوں میں کم عمر بیٹے کی امامت و بلاغت کا تذکرہ مولوی کریم بخش سے کرتے تو اُن کی پیشانی خداوندِ پاک کی بارگاہ میں شکرانے کے لیے سجدہ ریز ہو جاتی اور گڑ گڑا کر اُس کی رحمتوں پر شکر گزار ہو جا تی۔ ۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے علی بخش کا بچپن جوانی کی دہلیز کو چھونے لگا اور پھر ایک رات اُن کے   قدو کاٹھ نے جوانی کی جو بھرپور انگڑائی لی تو جیسے ادھ موئی کلیوں میں ٹوٹ کر بہار سیا گئی۔ ۔ا گلی صبح علی بخش حیران نگاہوں سے اپنے بدلتے بدن کے زاویوں کو مسوس دل سے تک رہے تھے۔ ۔ فجر کی اذان میں اُن کی آواز میں وہ کرب تھا کہ کچھ لمحوں کے لیے تو نمازی خداوند کریم سے خود اپنی آوازوں کے لیے بھی کچھ ایسے ہی لطف و کرم کی فریاد کرنے لگے۔

                       ظہر اور عصر کی نمازیں علی بخش نے گھر پر ہی ادا کیں۔ مولوی کریم بخش نے حیران نگاہوں سے بیٹے کو دیکھا تو باپ سے نظریں بچا کر اپنی زندگی کا پہلا جھوٹ کہا اور طبعیت کی ناسازی کا بہانہ کیا۔ آہستہ آہستہ محفلوں اور مذاکروں میں شرکت کم ہونے لگی اگر مجبوراً  آنا بھی پڑتا تو آخری قطار میں بیٹھ جاتے اور پھر جلد ہی نظریں بچا کر نکل جاتے۔ ۔ خود کو محض اپنے کمرے تک محدود کرنے لگے۔   اپنا زیادہ وقت قران شریف کی تلاوت میں گزارتے اور نہیں تو ایک انجانے خوف میں مبتلا رہتے اور چپ چاپ آسمان کو تکتے رہتے۔

                   پھر کچھ ہی دنوں میں سخت نہ چاہتے ہوئے بھی علی بخش کی چال نسوانی ہوتی چلی گئی اور جسم بے ادبی کی حد تک لباس سے نمایاں ہونے لگا۔ مولوی کریم بخش نے بیٹے کے جسم کے بدلتے ہوئے تیور دیکھے تو آنکھیں حیرانگی سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور شرم سے زمین میں گڑتی چلی گئیں۔ بہت دنوں تک گفتگو میں دوری برداشت نہ ہوئی اور بالآخر ایک روز بیٹے کے کمرے میں آئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ا خر بہت صبر و تحمل کے بعد ایک جملہ ادا کیا۔ ۔ ’’ وہ بڑا رب الجلیل ہے اُس کے ہر کام میں مصلحت چھپی ہوتی ہے ، مگر کیا تم نے حکیم و طبیب سے بھی کچھ دریافت کیا ؟علی بخش باپ کے سوال پر شرم کے مارے زمین میں گڑ گئے اور پھر اُن سے نظریں ملائے بغیر ہی زمین کو تکتے ہوئے کہنے لگے۔ ۔ ’’ جی ڈاکٹر ز کہتے ہیں پیدائش سے قبل ہی خلیوں کی تقسیم میں کچھ بگاڑ پیدا ہو گیا تھا ، کوئی چیز شائد میوٹیشن    (Mutation)ہوتی ہے ، اُسی کی وجہ سے۔ ۔ اور اب علاج ممکن نہیں ‘‘۔ یہ کہہ کر باپ کے پیروں سے لپٹ کر پھو ٹ پھوٹ کر رونے لگے اور سسک سسک کر کہنے لگے۔ ۔ ’’ ابا جی ! اب میں کیا کروں ؟ اب کیسے لوگوں سے نظریں ملاؤں ؟ کیسے عبادت کے کیے گھر سے نکلوں ؟  مجھ سے سہہ نہیں جاتا ، خود کشی حرام نہ ہوتی تو کب کہ جان دے چکا ہوتا۔ ‘‘ باپ نے روتی سرخ خشمگیں آنکھوں سے بیٹے کو دیکھا اور آہستہ سے کہا۔ ۔ ۔ ’’ بیٹے اب شائد تمہارے لیے تبلیغ الٰہی اور امامتِ مسلمہ کے تمام در بند ہو گئے ہیں ، عوام الناس تمھاری بلاغت کو سنجیدگی سے نہیں لینگے۔ ۔ مگر ہاں۔ ۔ ایک دروازہ شائد ابھی بھی کھلا ہوا ہے۔ ۔ مراقبہ۔ ۔ کہتے ہیں کہ یہ سکون کا ذریعہ ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر مولوی کریم بخش نے روتے ہوئے بیٹے کے کمرے کا دروازہ بند کیا اور آنسو پو چھتے ہوئے مسجد چلے گئے۔

               لفظ ’’میوٹیشن ‘‘کسی چمگاڈر کی طرح علی بخش کے دماغ سے چپک گیا تھا۔ وہ جب جب آنکھیں بند کرتے اور مرا قبے میں جانے کی ٹھانتے تو بہت سی چمگادڑیں اُن کے خیالوں میں اُتر آتی اور پھر چاروں جانب سے اُنہیں گھیر لیتی۔ ۔ کبھی کبھی تو یہ یلغار اس قدر شدید ہو جاتی کہ وہ گھبرا کر آنکھیں کھول دیتے اور پھر گہرے گہرے سانس لیتے۔ ۔ اُنہیں لگتا جیسے سچ مچ کی چمگادڑیں اُن کے بدن پر چپک گئی ہیں اور اُن کی بوٹیاں نوچ رہی ہیں۔

               با لا خر آہستہ آہستہ مراقبے میں وقفہ بڑھنے لگا۔ چمگادڑیں تو اب بھی نظر آتی تھیں مگر اب اُن کی شکلیں بدلنے لگی تھیں۔ اب کبھی کبھی وہ جو مراقبے کی نیت سے آنکھیں بند کرتے تو کینسر اور پولیو کے آدھ مرے مریض اور بچے نظر آنے لگتے جو کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین پر رینگتے ہوتے اور اُن کے جسموں پر کہیں کہیں چمگادڑیں چمپٹی ہوئی اُنہیں چاٹ رہی ہوتیں۔ کبھی کبھار جو آنکھیں بند ہوتیں تو اُنہیں سرسبز و شاداب میدانوں میں بنجر زمینیں نظر آنے لگتیں جن سے لپٹی ہوئی چمگادڑیں زمین کا رس چوس رہی ہوتیں۔ اور کبھی جو آنکھیں بند کرتے تو خیالوں میں طوفانوں کے جھکڑ اور زلزلوں سے ہلتی ہوئی زمین نظر آنے لگتی، جیسے بہت سی چمگادڑیں زمین میں دانت گاڑ کر اُسے ہلا رہی ہوتیں۔ ۔ اور جب بالکل ہی خالی الذہن ہو جاتے تو اچانک بہت سارے ہجڑے اُنہیں ایک ساتھ روتے اور بین کرتے دکھائی دیتے اور اُنہیں ایسا لگتا جیسے چمگادڑیں اُن کے بدن پر چپکی ہوئی اُن کا خون چوس رہی ہو۔ ۔ ۔ شائد ہی کوئی ایسا مراقبہ ہوتا جو اُن کو سکون بخشتا۔ ۔ ہر بار ہی اُن کی روح زخمی ہوتی ، ہر بار ہی اُنہیں دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا۔

              آخر کار ایک رات تھک ہار کر مراقبے کا خیال چھوڑنے کا ارادہ کر لیا اور ایک آخری مراقبے کی نیت سے جائے نماز پر وضو کے بعد بیٹھے۔ پہلے قران شریف کی تلاوت کی اور پھر آنکھیں بند کر کے پوری یکسوئی سے اپنے رب الجلیل کو یاد کرنے لگے۔ اچانک آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے اور روتے روتے سسکیاں بھرنے لگے۔ اور پھر خود کے جسمانی کرب کے بجائے ساری دنیا کے روحانی کرب کو یاد کرنے لگے۔ اچانک انہیں لگا کہ جیسے اُن کے جسم اور روح کا رشتہ کچھ لمحوں کے لیے ٹوٹ سا گیا ہو۔ اور پھر اُن کی روح جیسے کائنات کے چاروں اوٹ پھیلے ہوئے آسمانی رنگوں میں تحلیل ہونے لگی۔ کچھ ہی دیر میں اُن کی نظروں نے ایک عجیب ہی منظر دیکھا جیسے بہت سارے ستارے اور سیارے اُن کے گرد ناچ رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ، آپس میں ملتے اور دور ہو جاتے۔ نئے ستاروں کی تقسیم ہوتی چلی جاتی اور کہکشاں نت نئے خوشنما رنگوں سے سجتی چلی جاتی۔ پھر سیارے تقسیم ہونے لگتے اور اُن کے نیوکلیس آپس میں جڑ تے چلے جاتے اور پھر نئی ترتیب بنتی اور پھر روشنی کے جھماکے ہوتے اور نئی نئی ساخت کے سیارے بنتے چلے جاتے۔ اچانک علی بخش کو لگا جیسے کوئی آوارہ عنصر ( Element )اپنی تبدیلیوں میں حصہ نہ لے سکا اور بنا آواز کے اپنے ارتقائی عمل سے خارج ( Delete ) ہو گیا۔ علی بخش کو یوں لگا جیسے وہ سیارہ روشن ہوتے ہوتے اچانک تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا اور پھر اُس تاریک سیارے سے سیاہی روشن کرنوں کی طرح پھوٹنے لگی اور اس شدت سے چاروں طرف پھیلی کہ لمحے بھر کے لیے علی بخش کو سوائے تاریکی کہ کچھ نہ نظر آیا اور پھر۔ ۔ کچھ چمگادڑوں کے پروں کے پھڑ پھڑا نے کی آوازیں گونجنے لگی۔ پسینے سے شرابور علی بخش نے ڈوبتے ہوئے دل کے ساتھ گھبرا کر آنکھیں کھول دی۔ ۔ ۔ دور چھت کے اک کونے میں ایک چمگادڑ اُلٹی لٹکی ہوئی اپنے پروں کو پھڑ پھڑا کر چپکنے کی کوشش کر رہی تھی۔

                  علی بخش نے اپنی بے چین دھڑکنوں پر قابو پایا اور آہستہ سے ا  ٹھنے کی کو شش کی مگر لڑ کھڑا کر دوبارہ جائے نماز پر بیٹھ گئے اور پھر سجدے میں گر گئے اور روتے ہوئے بڑبڑانے لگے۔ ۔ تو کیا۔ ۔ تو کیا رب الکریم یہ زمین بھی ؟ کائنات میں میوٹیشن کا نتیجہ ہی ہے ؟

جب غربت ولا چارگی، بھوک اور قتل و غارت گری انسانیت کا مقدر بن جائے اور دنیا معصوم لوگوں کے لیے محض قتل گاہ کا روپ دھار لے تو لہو ٹپکتے ہوئے آنسو خدا کے عکس میں بھی اپنی ہی جیسی ذات تراشنے لگتے ہیں۔ ۔ ۔ یقین کی آخری منزل جہاں انسان لاچار ہو کر اپنے پیدا کرنے والے سے احتجاج کرنے لگتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

Mutation: The way in which genes change and produce permanent differences.

Gene:A part of the DNA in a cell which contains information in a special pattern received by each animal or plant from its parents, and which controls its physical development, behaviour, etc

Allele: One member of a pair or series of genes that occupy a specific position  on a specific chromosome.

DNA(Deoxyribonucleic acid):The chemical of cell holds the genetic code of life.

 

 

 

خدا کا بُت

                            اور جب آگ کے شعلے ہوا میں ا  ٹھنے لگے اور سیاہ دھوئیں کے مرغولے آزر کے جلتے ہوئے بدن کے گرد ناچنے لگے تو نہ جانے کیوں آسمان بلک بلک کر رونے لگا اور پھر وہ مینہ برسا کہ جلتے ہوئے آزر کی لاش پانی سے بھیگ گئی۔ آگ تو بُجھ گئی مگر پھر دھُواں    اُٹھنے لگا۔ ۔ دھُواں تو اٹھنا ہی تھا۔ ۔ دھُواں۔ ۔ جو جلے ہوئے دل کی راکھ سے اُٹھے تو پھر مٹی کی جگہ راکھ ہی سے  بُت بنتے ہیں اور پھر۔ ۔ آزر جیسے  بُت تراش زندہ جلا کرتے ہیں۔

                   ہاں۔ ۔ آزر بُت تراش تھا۔ ایک ایسا  بُت تراش جو زندگی کے  بُت بناتا تھا۔ اُس کے خیالات کی گیلی مٹی جب  بُت کا روپ ڈھالتی تو زندگی اپنی بدنما شکل دیکھ کر رونے لگتی۔ آزر کی گوندھی ہوئی مٹی جب خشک ہوتی تو اُس کے بنائے ہوئے ۔ ’ماں ‘ کے بُت کی جگہ اُس کو کھ  کا  بُت بنتا  جس میں  ایک  بلبلاتا  بچہ  دُنیا کے جہنم میں آنے سے پہلے خوفزدہ ہوتا۔ ۔ اور جب آزر  ’ باپ‘  کا  بُت بناتا  تو ایسے ہاتھ بن جاتے جو  خود  سہارا بننے کے بجائے محض کشکول  ہاتھ  میں  تھامے ہوئے ہوتے۔ اور  یونہی  ہوتا  رہتا  اور  اُس کے بنائے ہوئے بتوں کی شکلیں زندگی کی کرب ناک علامتوں میں  ڈھلتی  رہتیں۔ پھر اُس نے  ’ انسان‘  کا   بُت  بنانے کے لیے مٹی گوندھی۔ ۔ مگر  یہ ہوا کہ جب مٹی خشک ہوئی تو جنگلی بھیڑیے کا  بُت  بن گیا اور  پھر۔ ۔ ۔  اچانک ایک دن اُسے یہ عجیب خیال آیا کہ کیوں  نہ  خدا  کا  بُت  بنایا  جائے۔

     اور پھر کتنے مہینے ، کتنے سال گزر گئے اور آزر مٹی گوندھتا رہا۔ ایک عالم وجدان تھا جو اُس پہ طاری تھا۔ وہ اپنے تحت  الشعور کی ساری ہی منزلوں کو جانچنے نکلا تھا، وہ خلیوں میں چھُپی توانائیوں کو ناپنے نکلا تھا۔ وہ کائنات کے ذرے ذرے کو حیرانگی سے سوچتا تھا۔ کبھی تو اُفق کے پار طلوعِ آفتاب کے منظر کو دیکھتا، تو کبھی سمندروں میں چھُپے موتیوں کی سچائی کو سوچتا۔ کبھی رنگوں کی کہکشاؤں میں اُلجھتا تو کبھی تاریکیوں میں روشنیوں کے خواب دیکھتا۔ مگر تحت الشعور کے تمام تر دروازے وا ہو کر بھی اُسے لاعلمی کے گھور اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہ دے سکے۔ ۔ تو وہ تھک ہار کر پھر سے زندگی کے سائے ہی میں سمٹ گیا۔ کچھ دیر کے لیے تو اُسے لگا کہ خدا کہیں نہیں بس یہ زندگی ہی سب کچھ ہے اور پھر ایک دن اُس نے زندگی کے ارتقا ء کو خدا کے تصور سے جوڑ دیا۔ ۔ ۔ تو اُسے یہ انہونا مگر تلخ خیال آیا اور پھر اس خیال کے آتے ہی وہ بلک بلک کر رونے لگا اور اُس نے  اپنے آنسوؤں سے اپنے دل کی مٹی گوندھی اور خدا کا بُت تراش دیا۔

                     اور پھر جب سب لوگوں کو پتہ چلا کہ اس بار آزر نے خدا کا بُت تراشا ہے تو وہ بہت چیخے چلائے ، بہت غصہ ہوئے۔

اُن  میں  سے کچھ  عبادت گاہوں میں جا کر گھنٹیاں بجانے لگے۔ ۔ مارو، مارو۔ ۔ اس بُت تراش کو مارو۔ ۔ کہ اس نے ہمارے خدا کی  بے ادبی کی ہے۔ ۔ اسے زندہ جلادو کہ اس نے آج ہمارے خدا کا بُت بنایا ہے۔ تو پھر یہ ہوا کہ آزر کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور پھر اُسے بھی زندہ جلا دیا گیا۔ وہ جلتا رہا اور لوگ تماشا دیکھتے رہے۔ مگر کسی نے نہ دیکھا کہ اُس کے راکھ ہوئے گھر میں ایک کچی مٹی کا بُت بھی پک کر کُندن ہو چکا تھا۔ ۔ آزر کا بنایا ہوا خدا کا  بُت۔ ۔ ایک چھوٹے سے معصوم بچے کا بُت۔ ۔ جو لاغر ، کمزور اور ننگا تھا، جس کے ہاتھوں ، پیروں کی ہڈیاں اور سینے کی پسلیاں سوکھی ہوئی تھیں ، جس کی بھوکی آنکھوں میں آنسو تھے اور جس کے ہاتھ میں خالی پیالا تھا۔

****

 

 

فرشتے کے آنسو

                            چھت کے کونے پہ مکڑی کے جال میں پھنسی ہوئی ایک مکھی اپنی زندگی کی آخری لڑائی لڑ رہی تھی اور فرش پر بیٹھا ہوا ایک فرشتہ جس کا کل وجود محض ایک قلم اور دوات تھا ،اُسے تک رہا تھا۔ میز کے کونے پہ پڑی دوات اور اُس میں ڈوبا ہوا قلم۔ ۔ کمرے کے کسی مکیں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک فرشتہ کسی استعارے کی شکل میں وہاں موجود انسانوں کی سر نوشت کو پڑھ رہا ہے اور اپنے  رب الجلیل کے لیے قرطاس کی جبیں پہ اُن کی تقدیر لکھ رہا ہے۔ ۔ کچھ دیر بعد فرشتے  نے اُکتا کر چھت سے نظر ہٹائی اور پھر خالی خالی نظروں سے کمرے کو تکنے لگا۔

                     کمرے میں دوائیوں کی گھُٹی گھُٹی بساند بو پھیلی ہوئی تھی ، دیواروں کا چونا پپڑیاں بن کر اُتر رہا تھا، دروازے کھڑکیوں کے باریک جال دار پھٹے ہوئے پردے ہوا کے جھوکوں سے اٹکھیلیاں کر رہے تھے ، کمرے کے کو نے میں ایک پُرانی سنگھار میز رکھی تھی جس میں جڑا زنگ آلود آئینہ گُزرے ہوئے وقت کی چغلی کھا رہا تھا۔ کمرے کے ایک کونے میں ایک لکڑی کی الماری تھی جس کا آدھا ٹوٹا ہوا پٹ الماری کے اندر کا کچھ کچھ حال دکھا رہے تھے۔ ۔ دواؤں کی نئی پُرانی بوتلیں ، سرنجوں کی تھیلیاں ، گرم پانی کا مرتبان ، چھوٹے بڑے تولیے اور سفید سوتی چادریں۔ کمرے کے بیچوں بیچ ایک پُرانی وضع کی مسہری تھی جس کے اصل نقش و نگار محض دیمک کی غذا بن کر رہ گئے تھے۔ مسہری پر لیٹی ہوئی ایک آدھ مری لڑکی بے بس نگاہوں سے مکڑی کے جال میں پھنسی مکھی کو آہستہ آہستہ مرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

                  فرشتے نے خالی خالی نظروں سے اُس لڑکی کو دیکھا جو پچھلے اکیس سال سے جان کنی کی حالت میں بستر پہ پڑی تھی۔ ۔ ۔ لمحے بھر میں فرشتے کو لگا جیسے ہوا کا ایک تیز جھونکا، کھڑکی کے پردے کو اُڑاتا ہوا آیا اور لڑکی کی نوشت کو ماضی میں دھکیل گیا۔ ۔ قرطاس کے پنے پلٹتے چلے گئے ، کمرے کی نگارش بدلتی چلی گئی۔

                  ایک خوبصورت سی چھ سال کی بچی اپنی ماں کی گود میں سر رکھے بخار میں پھُنک رہی تھی۔ اُس کی رنگ برنگی مسہری پہ کھُدے خوشنما پھول اُداس نظروں سے اُسے تک رہے تھے۔ وہ ڈری ڈری خوفزدہ نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھ رہی تھی اور تتلا تتلا کر منتیں کر رہی تھی۔ ۔ ’ اماں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ، مجھے اکیلا نہ چھوڑنا‘۔ ۔ اور اُس کی سہمی ہوئی ماں اُسے روتے ہوئے گلے سے لگا کر کہہ رہی تھی۔ ۔ ’نہیں میری بچی۔ ۔ کبھی نہیں ‘۔ ۔ اور پھر فرشتے نے دیکھا کہ جان کنی کی حالت میں پڑی بیٹی جیسے وہی ٹھیر سی گئی۔ ۔ جن سانسوں کو اُکھڑنا تھا وہ نہیں اُکھڑی۔ ۔ وہ زندہ تو رہی مگر چُپ چاپ آنکھیں موندے ایک انجان گہری نیند میں چلے گئی۔ ۔ ماں نے روتے ہوئے اپنی پیاری  بیٹی کے کانوں میں کتنا ہی چیخا تھا مگر آوازیں جیسے بازگشت بن گئی اور پھر ہر آواز اُسی گونج سے لوٹ کر اسے واپس آنے لگی۔ ۔ ۔ اُس کے آس پاس کھڑے ہوئے طبیب اُسے سمجھاتے تھے۔ ۔ تمھاری بیٹی Locked-in syndromeمیں ہے کہ وہ زندہ تو ہے مگر اُسکا دماغ مر چکا ہے۔ ۔ ۔ عجیب موت تھی وہ جس میں دل بھی دھڑکتا تھا ، سانس بھی چلتی تھی،آنکھیں دیکھتی بھی تھی، روتی بھی تھی اور ہنستیں بھی تھیں مگر۔ ۔ ہونٹ چُپ تھے اور جسم بے جان تھا۔ ۔ فرشتے نے خالی خالی نظروں سے اپنے اندر کو ٹٹولا مگر وہاں سوائے  قلم و دوات کہ کچھ بھی نہیں تھا۔ ۔ ۔ اُس نے چُپکے سے مصلحتِ رب الکریم کے آگے سر  نگوں کر لیا اور سر نوشت کے پنے پلٹنے لگا۔

                 دن مہینوں میں بدلنے لگے اور اور مہینے سالوں میں۔ ۔ ماں روز صبح اُٹھتی، اپنی بیٹی کا منہ گرم پانی کے تولیے سے صاف کرتی، اُس کے بال سنوارتی ، پیٹ میں لگی مصنوعی نالی سے اُس کے جسم میں غذا اُتارتی ،انسولین کے ٹیکے لگاتی، ہر دو دو گھنٹے بعد اُس کی کروٹ بدلتی ، روزانہ اُس کا بدن دھُلاتی۔ کپڑے بدلتی، بستر ٹھیک کرتی۔ اکیس سال سے وہ اسی طرح روزانہ صبح سے شام کرتی مگر جب رات ہو جاتی تو کھڑکی میں کھڑے ہو کر نہ جانے اندھیرے میں کیا ڈھونڈتی رہتی اور  جب اُس کے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو خود سے بڑبڑانے لگتی۔ ۔ ’وعدہ تو وعدہ ہے۔ ۔ وعدہ تو وعدہ ہے ‘۔ ۔ پچھلے اکیس سال سے فرشتہ ماں کے انہی لفظوں کا کاتبِ تقدیر بننا ہوا تھا۔

                 مگر سرنوشت کا حال تو سوائے رب الجلیل کے کسی کے بھی علم میں نہ تھا تو اچانک ایک دن۔ ۔ فرشتے کے ہاتھ کانپ سے گئے۔ ۔ عجیب صبح تھی وہ کہ ماں جو روز صبح اُٹھتی تھی ،اُس دن صبح نہ اُٹھی۔ ۔ ہوائیں کھڑکیوں کے پر دوں سے چھن چھن کرا رہی تھی، قرطاس کے پنے ایک کہ بعد ایک پلٹ رہے تھے مگر۔ ۔ صفحے سادہ تھے ، لفظ گم ہو گئے تھے۔ فرشتے نے حیران نگاہوں سے قلم کو دیکھا مگر سیاہی خشک تھی۔ اُس نے بے چینی سے نظر گھما کر بیٹی کی طرف دیکھا جو بے بس آنکھوں سے مکھی کو مکڑی کا شکار ہوتے دیکھ رہی تھی مگر ابھی تک اپنی  ماں کا انتظار کر رہی تھی جو اکیس سال کی طویل تھکن کے بعد اچانک گہری ابدی نیند میں سو گئی تھی۔

               فرشتے نے  لرزتے ہاتھوں سے دوبارہ قلم اُٹھایا اور لکھنے کی کوشش کی مگر اُسے لگا جیسے اُس کا بنایا ہوا ہر لفظ اُس کے آنسووں میں بھیگ کر اُس کے روتے ہوئے دل کی تصویر بنتا جا رہا ہے۔ آہ۔ ۔ کیا فرشتے رو نہیں سکتے۔ ۔ اُس نے خداوند تعالی کے آگے سر نگوں کیا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

 

 

PLEDGE OF ALLEGIANCE

                  ایک جھٹکے سے اُس کا سکون تحلیل ہو گیا ، دل جیسے حلق میں دھڑک رہا تھا۔ ۔ ۔ اُس نے گھبرا کر فون اٹھا یا  ! ’  ہیلو  ہیلو ، کون ؟‘  دوسری طرف اُس کا چھوٹا بھائی رو رہا تھا ،۔ ’ بھیا ! اباجی کا انتقال ہو گیا ‘۔ ۔ ’کیا ‘  ؟ اور پھر ایک گہری خاموشی۔ ۔ ۔ وہ نیند کے گہرے سکون سے نکل کر ایک بار پھر دنیا کے تکلیف دہ بکھیڑوں میں شامل ہو گیا تھا۔ ۔ کچھ ہی دیر میں اُس کا دل حلق سے نکل کر پھر سے سینے میں اپنی جگہ پہ آنے لگا۔ اُس نے نائٹ بلب کی اندھیری روشنی میں گھڑی کی طرف دیکھا ، صبح کے پانچ بج ر ہے تھے۔ فون کو کان پہ لگائے ہوئے ہی اُس نے  ایک گہری سا نس لی اور حواس کو قا بو میں کر نے لگا۔ ۔ ’ کب ‘ ؟اُس نے آہستہ سے کہا اور پھر جواب سُنے بغیر ہی ایک زور سے ا  ہ بھری اور  زمین کو تکنے لگا۔ ’ تم پا کستا نا ر ہے ہو‘ ؟ اُس کے بھا ئی نے پو چھا۔ کچھ دیر خاموش رہ کہ اُس نے آہستہ سے کہا۔ ۔ ۔ ’ نہیں ، اب یہ اتنا  ضروری نہیں ر ہا ‘۔ ۔ ۔ کچھ وقفے کے بعد اس نے پوچھا ’ کیا انہوں نے میرے لیے کچھ کہا تھا ‘ ؟۔ ۔ ۔ جانے سے پہلے !۔ ۔ ۔ ’ہاں ایک  خط دیا تھا ، تین چار دن پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ میل کر دوں۔ لیکن مجھے معلوم نہیں تھا یہ سب اتنی جلدی ہو جائے گا ‘۔ اُس کا بھائی دوبارہ  رونے لگا۔ ۔ ۔ ’ اب کیا ہو سکتا ہے ‘ ، اُس نے ڈوبتی ہوئی آواز سے کہا ’ اچھا مجھے وہ خط فیکس کر دینا ‘۔ خدا حافظ کہہ کرا س نے فون بند کر دیا  کچھ دیر تک وہ یوں ہی ٹیلی فون کو تکتا رہا ، اور پھر گردن گھما کر بیڈ روم کی دیواروں کو خالی نظروں سے گھورنے لگا۔ ۔ ۔ ’ کس قدر حبس ہے ‘ ، وہ  بڑبڑاتے ہوئے کچن کی طرف آ  گیا۔ فریج میں سوائے اسکائچ کے کوئی بھی خاص شے نہیں تھی وہ گلاس لے کر بالکنی میں کھڑا ہو گیا۔ اٹھارویں   منزل سے آس پاس کی تمام ہی عمارتیں اُسے کھلونوں کی طرح نظر آ رہی تھیں۔ آسمان تاروں سے بھرا ہوا تھا ، سڑکوں پہ دور دور کہیں کچھ  گاڑیاں نظر آ رہی تھی ورنہ ہر طرف ایک تاریک سناٹا تھا۔ ۔ ۔ اُس نے گہری سی سانس لی اور آسمان کو تکنے لگا ، کچھ ہی دیر میں اُسے ایسے  لگنے لگا جیسے اسکائچ اُس کے منہ سے جسم میں جانے کے بجائے آنکھوں سے باہر آ رہی ہے اور پھر اُس کے گال بھیگنے لگے۔ وہ آہستہ سے  بڑبڑایا ’  Pledge of allegiance ۔ ۔ میں تیرہ سال کا تھا۔ ۔ ۔ یاد ہے نہ ابا جی ؟ جب تیرا میرا پہلا جھگڑا ہوا تھا ، کسی پرائمری  اسکول کے استاد کی طرح تو نے مجھے اپنے رٹے ہوئے سبق یاد کرانے کی کوشش کی تھی۔ ۔ ۔ پر تو بھی کیا کر تا ، پرائمری اسکول کا اُستاد ہی تو  تھا۔ ۔ ۔ میں کب بیٹا تھا۔ ۔ ۔ میں تو ہمیشہ سے تیرا ناکارہ شاگرد تھا ‘۔ ۔ ۔ مجھے یاد ہے کس قدر خشمگیں نگاہوں سے مُٹھیاں بھینچ کر مجھے  دیکھتے ہوئے تو اسکول کے بچوں کو قومی ترانہ یاد کرا رہا تھا۔ ۔ ۔ اور میں شوخ نگاہوں سے تجھے چڑا رہا تھا۔ ۔ ۔ میں نے یہ ہی تو کہا تھا نا کہ  میں ہر چوبیس گھنٹے کے بعد وفاداری کا یہ گا نا نہیں گا سکتا ۔ ۔ ۔ ماں سے محبت تو پیٹ سے ہی بچے میں اتر آتی ہے ، پھر یہ   pledge of allegiance  کا گردان کیوں ؟  پر تو نے میری بات کب سمجھی تھی تو نے تو میرے گال لال کر دیے تھے۔ اور پھر ہماری سرد جنگ بڑھتی   ہی رہی۔ ۔  مجھے یاد ہے تو نے توا س دن بھی میرا ساتھ نہیں دیا تھا جب گلی کے سات آٹھ لڑکوں سے بقول تیرے میں دھنگا مشتی کر کے گھر  میں گھُسا تھا۔ ۔ تجھے یاد ہے نا۔ ۔ ۔ میرے تو گھٹنے بھی ز خموں سے چھل گئے تھے۔ ۔ ۔ صرف یہ ہی تو میں نے کہا تھا کہ ایمان تو خون میں شامل ہو تا ہے پھر ہر چار چھ گھنٹے کے وقفے سے  pledge  اور  repledge  کی کیا ضرورت ہے ؟  patriotism  اور  religion  ، دونوں  ہی  تو  فطری عمل ہیں ، پھر یہ بار بار کا     pledge  کیوں  ؟۔ ۔ ۔ کیا   ’خود ‘  پر ذرا ایمان نہیں۔ ۔ ۔ پر تو نے  مجھے معاف کہاں کیا تھا ؟ ہاں گھر سے نکال دیا تھا۔ ۔ ۔ کتنے ہی سال تو میں پاکستان میں آوارہ پھر تا رہا تھا اور اب پچھلے چودہ سال کا بَن باس ۔ ۔ یہاں امریکا میں۔ ۔ ۔ پر سوال تو اب بھی وہی ہے۔ ۔ ۔ا چھا ! ایک دن۔ ۔ ۔ کیا ایک دن بھی میں تجھے ان چودہ سالوں میں بھُلا پایا؟۔ ۔ نہیں نا۔ ۔ پھر ؟۔ ۔ اچانک فون کی گھنٹی زور زور سے بجنے لگی۔ ۔ ۔ سوچ کے سارے ہی سلسلے ٹوٹ گئے ، تھوڑی ہی دیر میں   fax machine  سے ایک کاغذ نکل کر زمین پر گر گیا۔ اُس نے ڈوبتی ہوئی نظروں سے کاغذ کو دیکھا۔ اور پھر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ  پھیل گئی۔ ۔ ۔ پھر وہی  pledge of allegiance

       ’۔ ۔ ۔ ۔ میرے بیٹے مجھے معلوم ہے میری زندگی بہت تھوڑی رہ گئی ہے اس قدر تھوڑی کہ تمھارے او ر میرے درمیان کے راستے    اب اس سے طے نہیں ہو پائیں گے پر باپ ہونے کے ناطے میری خواہش ہے کہ تم سال میں ایک بار ، صرف ایک بار میری قبر پہ پھول  ضرور چڑھا دینا۔ ۔ ‘

***

 

یہ کیسی بے وفائی ہے

                ’اللہ مارے تمھارے ابا پرائی عورتوں کے بہت شوقین تھے ،جہاں کو ئی لال پیلی چھپن چھُری دیکھی ، چل پڑے پیچھے پیچھے ، پھر نہ گھر کا پتہ نہ باہر کا، میں کہے دے رہی ہوں ذ را نظر دبا کر رکھیو ، یہ مرد ذات بڑی بے وفا ہوئے ہے ، شادی کے کچھ سال تو ہر کوئی دُم دبا کہ چلے ہے پر جہاں دو چار لونڈے لونڈیاں ہوئے وہی آس پاس کی عورتوں کو دیکھ کہ دُم کھڑی کر لی‘۔ ۔ ۔

             ادھر اماں جی تو جو منہ میں آئے بکے جا رہی تھیں پر عفت بی بی گھٹنوں گھٹنوں شرم سے پانی ہوئے جا رہی تھی ،وہ کبھی دوپٹہ سر پہ پھیلاتی تو کبھی سینے پہ کھینچ لیتی ،جب اور برداشت نہ ہوا تو گھاگرا سنبھالا ، کھڑاؤں میں پاؤں گھُسایا اور گھسر گھسر کرتی ہوئی رسوئی میں جا کر لکڑی کے تختے پہ گھٹنوں کے بیچ سردے کر بیٹھ گئی ، پر اماں جی بھی کب چُپ ہو کر بیٹھنے والی تھیں ۔ ۔ ۔

 ’ اری نوج ماری شرما کیا رہی ہے ، یہ بات دھیان میں رکھ لے ورنہ پھر بعد میں پچھتاوے گی‘۔ ۔ ۔

’ اونہہ اماں جی بھی تو بس، اب جب بیاہ میں صرف چار دن ہی رہ گئے ہیں تو ایسے وقت یہ بک بک جھک جھک، جب دیکھو بس یہی راگ الاپے جا رہی ہیں ، نہ جانے ابا نے اماں جی کو کیسے کیسے دھوکے دیے کہ اُنہیں ساری دنیا کے مرد بس ایک جیسے ہی لگے ہیں ‘۔

 عفت نے  بیزاری سے سوچا۔ اونہہ ۔ ۔  اچانک ہی اُسے اپنے ہونے والے میاں کا خیال آ گیا۔ ۔ ’  میرے منان ایسے تھوڑی ہونگے جیسے ابا تھے۔ وہ اور مردوں کی طرح ہر طرف آنکھیں مٹکانے وا لے نہیں ہونگے۔ وہ تو صرف میرے ہونگے۔ صرف میرے ، مجھ سے تھوڑی بے وفائی کریں گے ، وہ تو مجھ سے سچا پیار کریں گے ‘۔ ۔ یہ خیال آتے ہی عفت کو لگا جیسے اُس کے سارے بدن میں بجلیاں سی رینگنے لگی ہوں۔ اُس نے جلدی سے دوپٹے کے پلو سے پیشانی اور گردن کا پسینہ صاف کیا اور سامنے چولہے پہ چڑھی دیگچی کے ڈھکن کو سرکا کر بھا پ کو نکلتے دیکھنے لگی۔

                  اور پھر یہی ہوا ، شادی کی رات منان نے جو اُسے دیکھا تو عفت کو ایسا لگا کہ جیسے اُس کے دہکتے حُسن کو دیکھ اُن کی سٹی ہی گم ہو گئی ہو، ایسے کانپتے ہاتھوں سے اُسے ہاتھ لگایا جیسے وہ موم کی گڑیا ہو، ہاتھ لگے اور پگھل جائے۔ اماں جی کے پیدا کردہ سارے اندیشے بس ہوائی ثابت ہوئے۔ منان تو سر سے پاؤں تک سچے من سے اُسے چاہتے تھے۔ کتنا بڑا تو کاروبار تھا ، دن رات کا دفتری عورتوں میں اُٹھنا بیٹھنا ، مگر مجال ہے جو خاندانی رکھ رکھاؤ میں کو ئی فرق آنے دیں ، پوری متانت سے لوگوں سے ملتے ، کبھی ضرورت سے زیادہ میل جول نہ بڑھاتے ، ہر چیز کا وقت پہ دھیان رکھتے ، خود عفت کا تو چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال کرتے ، کپڑے لتے زیور بس زبان ہلنے کی دیر ہوتی اور انبار لگ جاتا۔ جو دھن برس رہا تھا وہ اُس پر روپ بن کر چمکتا ، بس دلہن ہی بنی رہتی، شادی کو دو سال ہو گئے مگر اولاد  اب تک نہ ہوئی تھی پر  مجال ہے جو منان شکایت کا کوئی لفظ بھی زبان پہ لائے ہوں ، پورے خاندانی وقار سے رہتے تھے ، نہ  تو کبھی پریشانی کا اظہار کرتے اور نہ ہی کبھی اپنے روزمرہ کے معمولات میں فرق آنے دیتے ، وہ تو اُس کو اب بھی ایسے ہی چھوتے تھے کہ جیسے وہ پہلے ہی دن کی دلہن ہو، ہاتھ لگے اور میلی ہو جائے۔ اُن کے دن رات ویسے ہی تو تھے جو شادی سے پہلے تھے ، صبح ہوتی اور دفتر چلے جاتے ، شام  پانچ بجتے ہی گھڑی کی چڑیا جو پانچ بار کو کو کرتی ٹھیک اُسی وقت منان کی موٹر کی ہارن کی آواز پی پی کرتی گھر میں گھُستی، شام کی چائے وہ بلا ناغہ عفت کے ساتھ پیتے پھر اُن کے بچپن کے دوست شرافت بھا ئی آ جاتے اور دونوں میں کیرم کی بازی لگ جاتی۔ کبھی ان کے گھر اور کبھی منان بھائی کے گھر۔

               شرافت بھائی ہی تو منان کے اکلوتے دوست تھے ، بچپن کا یارانہ تھا، دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔ پڑوس میں ہی رہتے تھے ، ماں باپ مر چکے تھے ، منان ایک بار کہہ  رہے تھے کبھی نوجوانی میں جو کسی نے دل توڑ دیاتو پھر شادی ہی نہیں کی۔ اُن کے گھر دن رات کا آنا جانا تھا، خود عفت کی زبان شرافت بھائی شرافت بھائی کہتے نہ تھکتی تھی۔ شرافت بھائی بھی نام کی طرح بے انتہا شریف ، منان کے بچپن کے دوست ہونے کے باوجود مجال ہے جو کبھی عفت سے نظر ملا کر بھی بات کی ہو۔ شکل پہ بھول پن برستا تھا ، بس لے دے کر ایک اُن کی گھنی مونچھیں تھیں جو اُن کے چہرے پہ کچھ اجنبی اجنبی سی لگتی تھیں ، جب بھی ہنستے تو کچھ عجیب طرح سے منہ کو سُکیڑتے کہ لگتا جیسے ہونٹ خود مونچھ بن گئے ہو۔ عفت کو اُن کو ہنستا دیکھ کر بڑی ہی اُلجھن ہوتی تھی۔

              اُس رات بجلی کڑاکے سے گرج رہی تھی ، منان دفتر سے آئے ، عفت کے ساتھ چائے پی اور پھر شرافت بھائی کے گھر کیرم کی بازی جمانے چلے گئے۔ عفت کو نہ جانے کیوں صبح ہی سے عجیب عجیب سے ہول سے اُٹھ رہے تھے ، کئی بار سوچا آج منان کو گھر پہ ہی روک لیں ، بچپن ہی سے اُس کا بجلی کے کڑاکوں سے دل دہلنے لگتا تھا۔ دو سے جب تین گھنٹے ہو گئے تو چھاتا لیا اور شرافت بھائی کے گھر کے لیے نکل کھڑی ہوئی ، گیٹ بجانے سے پہلے ہی کیا دیکھتی ہے کہ محلے کے دو چار بچے ایک دوسرے کے کندھوں پہ چڑھے ، شرافت بھائی کے کمرے کی کھڑکی سے کمرے کے اندر جمی کیرم کی بازی دیکھنے میں مگن تھے ، اُس کو اچانک دیکھا تو ایک دوسرے کے پیچھے کودتے پھلانگتے ہوئے بھاگ گئے۔ اُس نے جو پیروں کے بل کھڑے ہو کر کمرے میں جھانکا  تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

             شرافت بھائی اور منان کچھ اس طرح سے ایک دوسرے میں مشغول تھے کہ کیا کوئی نو بہاتا شادی شدہ جوڑا آپس میں مصروف ہو۔ ۔ ۔ اُسے ایسا لگا کہ جیسے آسمان کی ساری ہی گرجتی ہوئی بجلیاں اُس پہ ایک ساتھ گر رہی ہوں اور ہر کڑکڑاہٹ میں اماں جی کی آواز گونج رہی ہو۔ ۔ ’یہ مرد ذات بڑی بے وفا ہوئے ہے ‘۔ ۔

ہائے اماں جی۔ ۔ مگر یہ کیا۔ ۔ اچانک عفت کے منہ سے نکلا۔ ۔ یہ کیسی بے وفائی ہے ؟

****

پردے جو نفرتوں کے تھے

                                       ہارمونیم کے پردوں کے پیچھے چھُپا ہوا میٹھا سُر جنم جنم سے ان دیکھی مشتاق انگلیوں کا منتظر تھا۔ ۔ ۔ انگلیاں جو بولتی ہو ، انگلیاں جو دیکھتی ہو ، انگلیاں جو ہنستی ہو ، انگلیاں جو روتی ہو۔ ۔ ۔ انگلیاں جو ڈھولک کی تھاپ ، سارنگی کے سُر اور بانسری کی لے  کے ساتھ ہارمونیم کے اُس میٹھے سُر کو کچھ اس طرح سے ملا دے کہ ایک ایسا سنگیت جنم لے جس کی ہر تان ایک دیپک ہو۔

                         مگر۔ ۔ ۔ بادل گزرتے رہے ، سورج ڈوبتا اُبھرتا رہا اور موسم بدلتے رہے۔ ۔ ۔ سارنگی ہارمونیم کے میٹھے سُر کے  لیے ترستی رہی ، بانسری کی لے ڈھولک کی تھاپ کے انتظار میں روتی رہی۔ ۔ ۔ ہارمونیم کا سچا سُر کہیں کھو گیا تھا۔ سنگیت بنا جنم لیے مر رہا تھا۔

                          بالآخر تھک ہار کر اِک رات کے پچھلے پہر کچھ انگلیاں ہارمونیم کے پردوں پر سر سرائی۔ ہارمونیم کے سوئے   ہوئے میٹھے سُر نے نیند کی آغوش میں کروٹ لی اور پھر دھیمے سے ڈھولک کی تھاپ کے کان میں کچھ ایسی بات کہی کہ ڈھولک کی تھاپ اک  دم شرما سی گئی اور پھر بانسری کی لے کے ساتھ کسی ناچتی ناگن کی طرح بل کھا کر اُٹھی۔

                       مگر اِس سے پہلے کہ سنگیت کی جل ترنگ فضاؤں میں گُنگنا تی ، ہارمونیم کا میٹھا سُر معصوم روتے ہوئے بچوں کی  آوازوں میں کراہنے لگا۔ ڈھولک کی تھاپ ماؤں کے سینے کوٹتے ہوئے بے ہنگم شور میں بدلنے لگی۔ سارنگی سے نکلتے ہوئے سُر ہوائی  جہازوں کی بے سُری چنگھاڑتی ہوئی آوازوں سے کانپنے لگے۔ بانسری کی لے روتے ہوئے گیدڑوں کی آوازوں میں ڈھلنے لگی۔ سنگیت  نوحہ بننے لگا۔ ہر طرف دھواں دھواں ہونے لگا۔ ۔ ۔ سُر رو رہا تھا اور  سنگیت مر رہا تھا۔

                          اور پھر سُر نے روتے ہوئے اُن مشتاق انگلیوں کو دیکھا جو ہارمونیم پر ناچ رہی تھیں۔ انگلیاں۔ ۔ ۔ جو خون میں  ڈوبی ہوئی تھی۔ انگلیاں جو درد کے قصے بانٹتی تھی۔ انگلیاں جو زندگیوں میں عذاب بن کر ناچتی تھی۔ انگلیاں جو عزتیں بھنبھوڑتی تھی۔       انگلیاں جو گولیاں چلاتی تھی۔ انگلیاں جو بم گراتی تھی۔ انگلیاں جو آشیانے جلاتی تھی۔ انگلیاں جو زیست کے نوالے بناتی تھی۔ انگلیاں   جو خون چاٹتی تھی۔ ۔ ۔ انگلیاں جو خون میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ انگلیاں جو خون میں ڈوبی ہوئی تھی۔

                         اور پھر تھک ہار کر ڈھولک نے ہارمونیم کے سُر کا ساتھ چھوڑ دیا۔ سارنگی روتے روتے سو گئی۔ سُر پھر سے   ہارمونیم کے پردوں میں چھپ گیا۔ اُس چاندنی رات کے پچھلے پہر ہر سو موت کی سی خاموشی تھی۔ ۔ ۔ کچھ لمحوں کے بعد ہارمونیم پر جمی   انگلیاں دھیمے سے سر سرائی اور آہستگی سے ہارمونیم کے پردوں کو تکنے لگی۔ ۔ ۔ پردے۔ ۔ ۔ جو نفرتوں کے تھے۔

****

 

بے زمینی نسل کشی ہے

                    یہ بد نصیبی ہی تو تھی کہ وہ ایسے گھر میں پیدا ہو گئی تھی جس کی بنیادیں زمین کے بجائے ہواؤں میں تھیں ، شروع شروع  میں تو اُسے ایسا لگا تھا جیسے سب ٹھیک ہے ، مگر کچھ ہی دنوں میں اُس کا گھر ہواؤں میں ڈولنے لگا اور اس سے پہلے کے سب ادڑھاڈھم زمین پہ آ گرتا، وہ گھر سے نکل کر کھلے آسماں تلے آ کر بیٹھ گئی اور اب۔ ۔ جیسے بے زمینی کا رونا اُس کا مقدر بن گیا تھا۔

                 تیس سال، چھوٹا عرصہ نہیں ہوتا ،ایک نسل جوان ہو جاتی ہے ، سو ہو گئی اور ایسی ہوئی جیسی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ وہ حیران نگاہوں سے اپنے بچوں کو دیکھتی اور اندر ہی اندر سوچتی۔ ۔ ۔ ’ہم  بنا ء  ماں کے پلے ہوئے بچے ہیں ، اسی لیے تو آدھے پکے اور آدھے کچے ہیں۔ ہماری کھاد میں زبان، تہذیب اور تاریخ کے بیچ نمو  نہ پا سکے اسی لیے تو ہمارے پھولوں میں خوشبو نہیں۔ ہم نے وقت کے ساتھ موسموں کی سختیاں نہیں سہی اسی لیے تو ہمارے قد ٹھٹھر گئے ہیں۔ اب ہمیں زمین ہی کی ممتا سے ایک آس ہے شاید کبھی اپنے دامن میں سمیٹ لے ، شاید ہمارے پھولوں کے بھی رنگ قوس و قزح کی طرح نکھر جائے۔ ‘

                    پچھلے سال جب وہ پاکستان گئی تو ساری پُرانی کتابیں سمیٹ کر لے آئی۔ ہر کتاب برسوں کی گرد سمیٹی، دیمک کی خوراک بن کر محض جال بن گئی تھی اور پھر وہ اُن جالوں سے ماضی کے جھروکوں میں جھانک جھانک کر وقت کو ڈھونڈنے لگی۔ وقت  تو عفریت کا روپ دھار چکا تھا،جس کی زبان شاخدار اور دانت خون آلود تھے۔ جس کا پھولا ہوا پیٹ تاریخ کے سارے گھناؤنے راز سمیٹے   بے ہنگم انداز میں ،آنے والی نسل انسانی کو پھر سے ڈکارنے تیار بیٹھا تھا۔ کتابوں کے ہر صفحے پر لفظ روتے تھے ، دیومالائی کہانیاں ہو، یا آسمانی صحیفے ،پیغمبروں کے قصے ہو یا زماں و مکاں کے جھگڑے ہر لفظ آنسووں کی شکل بن بن کر بہتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اُن آنسووں کو ایک لڑی میں پرو نے لگی مگر جو مالا بنی وہ تاریخ کے ایک ہی لفظ کو بار بار ہراتی تھی۔ ۔ بے زمینی نسل کُشی ہے۔

                    مگر وہ تو اپنی نسل کُشی نہیں چاہتی تھی۔ ۔ تو پھر وہ ایک دن اپنے پھولوں کو سمیٹ کر آئنے کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اور جب اُس نے بجائے خود کے ، محض ایک عکس کو  دیکھا تو اُسے احساس ہوا جیسے بے زمینی نے اُسے بے وجود بھی کر دیا ہے۔ وہ اُن ہی ہواؤں میں تحلیل ہو گئی تھی جن سے کبھی اُس نے خود کو بچا نے کے لیے ہجرت کی تھی۔ ۔ ۔  تو کیا پھر ایک نئی ہجرت ؟ اُس نے سوچا۔ مگر نہیں۔ ایسا ہوتا تو آج میرا وجود ہوتا۔ ۔ ۔ پھر وقت کے دامن سے میرا ساتھ کب چھوٹا اور کیوں ؟ وہ خود کو ٹٹولنے لگی۔ ۔ ۔ میں نے دوران پرواز وقت کی اُس آہٹ کو نہ سنا جو صدیوں کی تاریخ خود میں سمیٹے ہوئے بادلوں کی طرح مرے اردگرد اُڑ رہے تھے۔

                   اور پھر اُسے یاد آیا اپنا پہلا سفر۔ ۔ ۔ وہ کہنے کو بائیس گھنٹے کا ہوائی سفر تھا مگر جس نے اُسے تیسری  دُنیا سے پہلی دنیا میں پہنچا دیا تھا۔ ۔ ۔ وہ آنکھیں پھاڑے حیران نگاہوں سے پچھلے دو سو سال کی سائنسی بنیادوں پہ کھڑے انسانی معاشرے کو ، دو ہزار سال پُرانے مذہبی بنیادوں کے ڈھانچے پہ کھڑی، ناپ رہی تھی۔ اُسے نہیں پتہ تھا کہ وقت درجہ بدرجہ پہلی دنیا میں پہنچا ہے اور وہ، پہلے درجے پہ سمٹی ہوئی

تیسری دنیا سے ، تاریخ کے ارتقاء کو جاننے اور اُس کا حصہ بنے بغیر،گھنٹوں کے ہوائی سفر کے بعد یہاں نمودار ہو گئی تھی۔ وہ  تو یہ بھی بھول گئی تھی کہ اُس کی ہجرت ہی نے اُسے بے زمین کے ساتھ ساتھ بے و زن بھی کر دیا تھا، تبھی تو وہ ہواؤں کے ہاتھوں جھولا بن کر پہلی دنیا میں اُڑتی ہوئی چلی آئی تھی۔ اور پھر۔ ۔ ۔ وقت کی تبدیلیوں کو تاریخ کے آئینے میں دیکھنے کے بجائے محض اپنی خود اطمینانی کے خاطر اپنے پھولوں کو وہ لوریاں سُنانے لگی، جن کی دھُنوں میں اپنی چھوڑی  ہوئی دُنیا کے سر تو تھے مگر آنے والے بدلتے وقت کے ساز نہ تھے۔ اُس کے پھول اپنی بے زمین ماں کا نوحہ سر پہ اُٹھائے ، ایسی دو کشتیوں میں سوار مسافر نکلے ، جو بیچ  بھنور میں پھنسے ،دو ہزار سال کی چاہ میں دو سو سال کے کنارے تک نہ پہنچ پائے۔ اور آج جب وہ بے وزن ،بے وجود ہو کر آئینے میں خود کو ڈھونڈنے لگی تو اُس کے اپنے عکس نے اُس سے دھیمے سے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’بے زمینی نسل کشی ہے جو تم زمین کو جغرافیے سے بانٹ دو۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ تاریخ سے نہیں ‘ اور پھر وہ ا پنے کھوئے ہوئے وجود سے مل کر ، خوشی کے مارے رونے لگی۔

***

 

انتظار

            سگنل سرخ ہوتے ہی میرین نے کچھ لمحوں کے لیے گردن گھما کر دائیں طرف دیکھا اور جیسے اُس کی نظریں کچھ دیر کے لیے پتھرا سی گئی، کچھ عجیب دل بیٹھا دینے والا منظر تھا۔ ۔ ۔ سڑک کے اُس پار ایک خزاں رسیدہ تنہا درخت اور اس سے بھی زیادہ تنہا سر جھکائے بیٹھا ہوا سفید کھچڑی بالوں والا  بوڑھا ، جیسے دونوں ہی زندگی کے سارے عذاب سہہ کر خود کے جانے کا انتظار کر رہے ہو۔ ۔ ۔ ’  وقت پوری جوانی کی شدت سے اُن دونوں کے لیے بڑھاپا لایا تھا ، دونوں کا ایک ہی کرب تھا ، آنے وا لی سیاہ رات کا انتظار ‘۔ میرین نے ڈوبتے  ہوئے دل سے سوچا ’ موت کا انتظار موت سے بدتر ہے ‘ ۔

          سگنل کے سبز ہوتے ہی میرین نے گاڑی آگے بڑھائی اور ہسپتال کے سائین کی طرف گاڑی موڑ دی۔ اگلے تین دن کس طرح سے گزرے اُسے پتہ ہی نہ چلے۔ آج میڈیکل رپورٹس ہاتھ میں لیے ڈاکٹر فنلیسن اُس کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اور وہ سر جھکائے اپنی جلد کے مساموں کو گھور رہی تھی ، کچھ دیر بعد جب اُس نے نظر اُٹھا کر ڈاکٹر فنلیسن کی طرف دیکھا تو اُس کی آنسوؤں میں ڈوبی سرخ آنکھیں جیسے اُس کے دل کا سارا حال بتا رہی تھیں۔ نہ جانے قدرت اس قدر با ذوق کیوں ہے کہ آنسووں کا مزا بھی نمکین ہے ، ایسا نمکین جو زخموں پہ پڑ کر درد نہیں دیتا مگر شفاء بن جاتا ہے۔ کیا واقعی جذبات کی شدت جسمانی اظہار کے ذائقوں کا بھی سبب ہے ، اُس نے سوچا۔    ’ اچھا تو پھر کتنے اور دن ؟‘ یہ کہہ کر وہ ایک بار پھر ڈاکٹر فنلیسن کی شکست خوردہ  نظروں کا تاب نہ لاتے ہوئے کمر ے کی انجانی دیواروں کو تکنے لگی۔ چند ہی لمحوں میں اُس کی دنیا میں بقیہ موجودگی کا وقت طے ہونا تھا ’ آہ ۔ کیا موت ان انتظار کے لمحات سے زیادہ ہولناک ہو گی ‘۔ اُس نے پھر سے سوچا۔ ’ ممکن ہے ڈاکٹر فنلیسن کا جواب اُس کا نروس بریک  ڈاؤن ہی کر دے ’ مگر جواب سُن کر اُسے کچھ بھی تو نہ ہوا ، بس دماغ جیسے تھوڑی دیر کے لیے سُن سا  ہو گیا ہو، مگر ڈاکٹر فنلیسن کو ایسا لگا جیسے  شاید اُس نے سُنا نہیں۔ ایک بار پھر اُس نے ذرا زور سے دہرایا ’ شاید دو سے تین مہینے ‘ ، لیکن پھر اچانک ہی ایک شرمندگی کا احساس اُس پہ  غالب آ  گیا ، ’ شاید مجھے دوبارہ نہیں کہنا چاہیے تھا،ا سے لگا کہ جیسے اس خبر کو جذب کر نے کے لیے دماغ کے ایسی سو یشین ایریاز ، کسی اونچی  تھرشولڈ پر جا کر ، قطرہ بہ قطرہ ٹپکتے آنسوؤں کی شکل میں اس خبر کو اپنے سینے میں اُتار رہے ہیں ، آہ۔ کچھ خبریں قبر سے بھی زیادہ تاریک ہوتی ہیں ‘۔ ڈاکٹر فنلیسن پھر دوبارہ آہستہ سے شرمندہ لہجے میں بڑبڑایا ’ مجھے دُکھ ہے میں آپ کی بیماری میں آپ کے لیے مددگار ثابت  نہیں ہو سکا ‘۔ ’ ان سب باتوں کی ضرورت نہیں ‘ اُس نے ڈاکٹر فنلیسن کی طرف دیکھ کر کہا ’ تم خدا نہیں تھے ‘ اچانک ایک لمحے کے لیے اُسے  اپنے کہے لفظ پہ حیرت ہوئی۔ ’تھے ‘ اس قدر جلدی۔ ۔ ۔ ابھی تو میں مر ی نہیں۔ ’ میں گھر جاؤں گی، آپ میرا ڈیسچارج آرڈر بنا دیں ‘۔ اُس نے الوداعی نظروں سے اُسے دیکھ کر کہا۔

              ہسپتال سے بوجھل قدموں سے نکلتے ہوئے اُس نے  سوچا ’ آج سے چند روز پہلے جب میں اسی راستے ہسپتال آ رہی تھی تو مجھے معلوم نہ تھا کہ جسے میں محض معمولی کمزوری سے بے ہوش ہونا سمجھ  رہی تھی وہ کم بخت دماغ کا کینسر نکلے گا اور کینسر بھی جلیو بلاسٹوما ، کسی بلا کی مانند چپکے سے آئے گا اور مجھے کھا جائے گا۔ محض انتالیس سال،  پورے چالیس بھی نہیں۔ کہتے ہیں چالیس سال میں کہیں جا کر انسان ذہنی طور پہ بالغ ہوتا ہے اور پھر جو چالیس پہ بھی نہیں ہو پائے ، تو شاید پھر کبھی بھی بالغ نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر فنلیسن نے تو محض دماغ کے سی ٹی اسکینز اور ایم آر آئی کی رپورٹ دیکھ کر میری قسمت کا فیصلہ مجھے  سُنا دیا ، نہ بہت سارے ٹیسٹ ہوئے نہ ڈاکٹروں کا پینل بیٹھا۔ اُسے اپنے ڈایگنوسس پہ یقین تھا اور اب۔ ۔ ۔ مجھے اپنی موت کا ‘۔ کینسر ایسی  جگہ تھا کہ سرجری ممکن نہیں تھی اور ر یڈیشن اور کیمو تھراپی کے بعد کی ذرا سی بچی ہوئی کیڑوں مکوڑوں والی زندگی اُسے چاہیے نہیں تھی،  وہ  ڈاکٹروں کے ہاتھوں گوانا پگ نہیں بننا چاہتی تھی۔ اُسے بستر پہ لیٹ کر کراہنا اور ہیلپ ہیلپ پکارنا برا لگتا تھا۔

          گاڑی کب ہاسپٹل کی پارکنگ سے نکلی اور کب سڑک پہ آئی اُسے پتہ ہی نہ لگا۔ وہ اپنے خیالات میں ڈوبی ، آنسوں کو پیتی اچانک اُسی سرخ سگنل پہ دو بار رُکی۔ نظر اُٹھا کہ دیکھا تو ایک دم ششدر سی رہ گئی۔ سڑک کے اُس پار کا خزاں رسیدہ تنہا درخت اب او ر بھی تنہا ہو چکا تھا۔ گاڑی ایک طرف کھڑی کر کے میرین روتے ہوئے ، بوڑھے کی خالی کی ہوئی جگہ پہ ، درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اور۔ ۔ ۔ آنے والی سیاہ رات کا انتظار کر نے لگی ۔

***

شکوہ

          کچھ نہیں ،بس یونہی خیال آیا تھا اور برش کینوس پر چلتا چلا گیا۔ رنگ پر رنگ چڑھنے لگا اور خالی خولی لکیریں زندگی کا مزا چکھنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں بے جان کینوس جیسے زندگی کا روپ پا نے لگا۔ ایک لکیر جو ترچھی پڑی تو اُجاڑ شاخوں پر پھول کھل گئے ، ایک لکیر جو آڑی پڑ ی تو انجان راستوں پر قدموں کے نشاں بن گئے۔ کہیں دہکتا ہوا سورج جلنے لگا اور کہیں چاند شرما نے لگا۔ وقت بھی اپنے حصے کا برش پھیر گیا اور کینوس صبح و شام کے رنگوں سے سجنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسی تصویر بنی کہ خود برش بھی کینوس سے شرمانے لگا۔

               آرٹ گیلری میں وہ چپ چاپ کھڑا ہوا سفید بالوں والا بوڑھا آرٹسٹ پہلے تو اُس تصویر کو تکتا رہا جیسے خود کے بنائے ہوئے شہکار کو نظروں ہی نظروں میں تول رہا ہو مگر جلد ہی اُسے یوں لگا جیسے اُس کا دل کسی انجانے خیال سے بھر آیا ہو۔ کچھ ہی دیر میں اُسکی نظروں میں تصویر دھندلانے سی لگی۔ ۔ اور پھر جیسے تصویر کا ہر ایک رنگ اُس کی ذات میں جذب ہوتا چلا گیا۔ ۔ یہی وہ چند لمحے تھے کہ جب وہ بوڑھا آرٹسٹ اپنے آپ سے بے گانہ ہو گیا۔ ۔ تصویر اُس میں شامل ہو گئی اور وہ تصویر میں شامل ہو گیا۔

              اور پھر اُس بوڑھے آرٹسٹ کو یوں لگنے لگا جیسے کینوس پر اُس کی کھینچی ہوئی آڑی تر چھی لکیریں ، اس کی بنائی ہوئی رنگوں کی بہاریں اور زندگی کی صبح و شامیں ،سب ہی اُس سے غم ناک فغاؤں سے فریاد کر رہی ہیں۔ ۔ اُسے یوں لگا کہ جیسے وہ بلک بلک کر رو رہی ہیں اور اُس سے پوچھ رہی ہیں۔ ۔

             ’’کیوں ایسی بھی کیا ضرورت تھی۔ ۔ ؟ تم نے ہمیں بے جان رنگوں سے ایک ہستی کی شکل دے دی۔ ۔ تمہیں پتہ ہے نہ۔ ۔ یہ جو تمہارا برش رنگوں کی بہاریں لایا ہے۔ ۔ وہ تخلیق سے پہلے بہت سے جنموں کی آزمائشوں سے بھی گزرا ہے۔ ۔ وہ ہر ایک رنگ میں جل  کر تم جیسے تخلیق کار کے ہاتھوں میں ابھرا ہے۔ تمہیں پتہ ہے نہ اِن ہر ایک آڑی تر چھی لکیروں کے پیچھے کھوئی ہوئی رُتوں کے الم ناک فسانے بھی ہیں۔ ۔ تبھی تو ان اُجاڑ شاخوں میں کہیں پھول کھلے ہیں اور کہیں قدموں کے نشاں۔ ۔ یہ دہکتا ہوا سورج ،یہ شرماتا ہوا چاند، یہ شریر تارے ،یہ افق کی تمتماتی ہو ئی سُرخی، یہ شام کا ملگجا اندھیرا۔ ۔ یہ گزرتے ہوئے وقت کی علامتیں۔ ۔ یہ سارے ہی رنگ تمہارے خیالوں میں بس کر ہم گم نام لکیروں کو زندگی دے گئے۔ ۔ ۔ مگر کیوں۔ ۔ ۔ کیا محض بازار میں بیچنے کے لیے۔ ۔ ؟ ‘‘

              اچانک آرٹ گیلری میں چپ چاپ کھڑا ہوا بوڑھا آر ٹسٹ اپنی بنائی ہوئی تصویر کو تکتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ دھُندلائی ہوئی تصویر پھر سے رنگوں کا روپ پانے لگی، پھر سے اُس کے نقوش نمایاں ہونے لگے اُسے لگا جیسے اُس کی بنائی ہوئی تصویر کسی روتے ہوئے بچے کا آنسووں سے دھُلا ہوا چہرا بن گئی ہو۔

               اُس رات وہ سفید بالوں والا بوڑھا آرٹسٹ اپنی جائے نماز پر دیر تک روتا رہا اور کسی بلبلاتے ہوئے بچے کی طرح اپنے

خداوند تعالی سے گڑ گڑا کر فریاد کرتا رہا۔ ۔ ۔

             ’’کیوں ایسی بھی کیا ضرورت تھی۔ ۔ ؟تم نے ہمیں بے جان رنگوں سے ایک ہستی کی شکل دیدی۔ ۔ تمہیں پتہ ہے نہ تمہاری اِن ہر ایک آڑی تر چھی لکیروں کے پیچھے بہت کربناک فسانے ہیں۔ ۔ بھوک ، غربت ،بیماری افلاس و لاچارگی کے صدیوں پُرانے زمانے ہیں۔ ۔ تمہاری تصویر کے رنگوں میں انسانی لہو سے بنے ہوئے آشیانے ہیں۔ ۔ تمہارا  برش جو ر نگوں کی بہاریں لایا ہے ،وہ جو خیال کی صورت میں تم میں سمایا ہے۔ ۔ اُسے وہیں بسے رہنے دیتے۔ ۔ ہمیں اپنی ہی ذات کا حصہ بنے رہنے دیتے۔ ۔ ہماری ہستی کی ایسی بھی کیا ضرورت تھی۔ ۔ کیا محض اپنی ذات کو جاننے کے لیے۔ ۔ ؟ کیا محض اپنی تخلیق کو ناپنے کے لیے۔ ؟ تمہیں تو پتہ ہے نہ۔ ۔

                    ’’ میری تخلیق تو آرٹ گیلری میں محض ایک بار بکتی ہے اور تمہاری تخلیق یہاں دنیا میں بار بار۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ‘

***

 

تمغۂ جُرأت

                   پھر ایک کرب ناک خاموشی کچھ لمحوں کے لیے اُن سفید پوش بیواؤں اور یتیم بچوں کے اندر ماتم کی طرح گونجنے لگی۔ سسکیاں اُن کی ناکوں کے سروں پر قطار در قطار آنسووں کی شکل میں ٹھیرنے لگیں ، آہیں سانسوں کی شکل میں اُن کے سینوں کے زیر و بم میں بسنے لگیں۔ یکایک ایک فوجی آواز فضا کا سینہ چیرنے لگی اور شہیدوں کے ناموں سے بیواؤں کو طلائی تمغے اور سلائی مشینیں نوازی جانے لگیں۔

            لانس نائیک شفقت رسول شہید کی بیوہ نے اپنی کرسی کے دونوں داہنوں کو اور بھی مضبوطی سے تھام لیا ،پل بھر میں اُسے لگا جیسے اگر اُس کی کرسی پر گرفت ذرا بھی دھیمی پڑی تو وہ سیدھی زمین پر ڈھہ جائے گی اور کرسی کے نیچے بچھی ہوئی یہ بے درد زمین اُسے بھی اُسی طرح درندگی سے نگل جائے گی جس طرح اُسکے جوان جہان شوہر کو زندہ چبا گئی۔ ۔ زمین۔ ۔ ماں جائی۔ ۔ اُس نے حقارت سے سوچا۔ ۔ اونہہ۔ ۔ اُس کا اندر ہی اندر جلنے لگا۔ ۔ آگ تھی جو اُس میں پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی۔ ۔ اور پھر لمحے بھر میں شعلے آسمانوں سے باتیں کرنے لگے۔ پل بھر میں آگ کے شعلوں میں اُس کے ارد گرد پھیلی ہوئی ساری ہی روشنیاں راکھ ہو گئی اور پھر یکا یک وہ گھُپ اندھیرا پھیلا کہ وہ خود کو آس پاس نہ پا کر بلک بلک کر رونے لگی۔ ذرا سی دیر میں آنسو جو پلکوں سے گرے تو دھوئیں کا ایک بادل سا اُٹھا اور اُس کے   ارد گرد کا نظارہ ایک نئے ہی منظر میں ڈھلنے لگا۔ ۔

            زمین۔ ۔ ایک بھیانک عفریت کا روپ دھارے خلاؤں میں گھوم رہی تھی۔ انسانی ہڈیوں سے بھرا قبرستان زمین کے دہانے سے دھیرے دھیرے اُتر کر اُس کی آنتوں کو بھر رہا تھا۔ گرم گرم خون کی لہریں اُس کی رگوں میں موج در موج اُبل رہی تھیں اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اُس کی شہِ رگ کو سیراب کر رہی تھیں۔ ۔ ۔ یہ خون ہی تھا جو پگھلتا تھا تو اُس کے بدن کے سیاہ بدبو دار تیل کے ندی نالے بن جاتا تھا اور جو جمتا تھا تو سونے ، چاندی اور پیتل کی دھاتوں کی شکل میں ڈھل کر اُس کے پیٹ میں جمع ہو جاتا تھا۔ ۔ مگر پھر بھی وہ بھاری بھرکم بدنما سا پھولا ہوا پیٹ، اپنی بھوکی نظروں سے خود پر پھیلے ہوئے انسانی زندگیوں کے بے کداں سمندر کو للچائی نظروں سے تک رہا تھا۔ دور خلا میں پھیلے ہوئے اُس کے انت گنت بازوں انسانی گردنوں کو دبوچنے کے لیے بے تابی سے خود کو مسل رہے تھے۔ ۔ ۔ وہ خوفناک عفریت ہر ایک لمحے میں سیکڑوں بار اپنی شکل بد لتا تھا۔ ۔ ۔ کبھی بھیانک زلزلہ بن کر ہزاروں ، لاکھوں بے بس لوگوں کا زندہ نوالہ بنا لیتا ،تو کبھی لمحے بھر میں اُنہیں آندھی و طوفان میں سمیٹ کر اپنے بھوکے معدے کا حصہ بنا دیتا، کبھی گل گلزار میں ڈھل کر معصوم انسانوں کو للچاتا اور پھر اُن کی لاشوں کے تر نوالے چباتا تو کبھی مادر وطن اور دھرتی ماتا کا تلنگا بن کر جنگ کے دلدل میں اُنہیں جھونک دیتا اور  پھر اُن کی لاشوں پر لپٹ کر بے رحمی سے اُنہیں اپنے سینے میں اُتار لیتا۔ ۔ ۔

           ا چانک فوجی بینڈ اور توپوں کی بھونڈی آوازوں سے فضا کا سینہ پھر سے شہید ہونے لگا۔

            لاس نائیک شفقت رسول کی بیوہ جھر جھری لے کر اپنی جگہ پر کانپنے لگی۔ اُس نے سہمی سہمی نظروں سے ارد گرد دیکھا۔ ہر ایک بیوہ طلائی تمغے ہاتھوں میں لیے ،سر جھکائے اپنی اپنی سلائی مشینوں کو، کھو ئی کھوئی نظروں سے تک رہی تھی۔ پل بھر میں اُسے لگا جیسے اُس کے  ارد گرد پھیلی ہوئی بے رحم زمین نے ان عورتوں کے شوہروں کو چبا کر سلائی مشینوں سے بدل دیا ہو اور پھر اُنہیں کے لہو کے رنگوں سے سجے دھجے طلائی تمغوں سے نواز دیا ہو۔ ایک شدید نفرت کا طوفان اُس کے اندر سے اٹھا اور اُس نے غصے سے اپنے پاؤں زمین پر رکھ دیے جیسے اُس کے سینے پر جوتے رکھ کر اپنے سینے میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی ہو اور جب اُس سے مزید برداشت نہ ہوا تو اچانک کھڑی ہو کر اپنے پیروں سے زمین کو بار بار روند نے لگی اور منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگی۔ ۔  مائیں اپنے بچوں کا خون نہیں پیتی ، مائیں اپنے بچوں کا خون نہیں پیتی۔

          کچھ ہی دیر میں فوجی بینڈ پھر سے چپ ہو گیا اور ایک بار پھر شہیدوں کے نام پکارے جانے لگے۔

           اس بار پہلا نام لاس نائیک شفقت رسول شہید کا تھا۔

          لاس نائیک شفقت رسول شہید۔ ۔ رجمنٹ ۲۱۲ ، مادر وطن کے لیے جان کا نذرانہ دے کے تمغہ جرأت کے حق دار قرار پائے۔

          یہ سنتے ہی لانس نائیک شفقت رسول کی بیوہ دوڑتی ہوئی فوجی افسروں کے پاس پہنچی۔ ۔ ۔ اور اپنی پوری جُرأت سے اُن سے چیخ چیخ کر کہنے لگی۔ ۔ یہ دھات کا ٹکڑا اور لوہے کی مشین اس کلموہی زمین کو واپس کر دو اور میرے شوہر کا خون اِس سے واپس لے لو۔

***

 

بُو

           دین محمد نے پیٹی کھولی اور مال پر نظر ڈالی۔ ۔

          بھیڑوں اور دنبوں کی سوکھی ہو ئی رنگ دار کھالیں تہہ در تہہ ایک دوسرے پر قرینے سے رکھی ہوئی تھیں۔ ہر ایک کھال اپنے زخم خوردہ ماضی سے بے نیاز ، ایک دوسرے سے بنا بدن ہی جڑی ،درد کے رشتے بانٹ رہی تھی اور چپکے چپکے آپس میں مل کر اپنے اور انسانوں کے درمیان اِس بھیانک رشتے پر قدرت سے شِکوہ کر رہی تھی۔ دین محمد نے ایک اُچٹتی سی نظر تمام کھالوں پر ڈالی اور پھر نہ جانے کس خیال سے سب سے اوپر رکھی کھال پیٹی سے نکال کر اُس کو قریب پڑے لکڑی کے تختے پر بچھا دیا ’’اُونہہ۔ ۔ اس قدر چھوٹی کھال۔ ۔ آج کل لگتا ہے سالوں کو بڑی بھیڑیں بھی دستیاب نہیں۔ ۔ دیکھو تو ،لگتا ہے کوئی میمنا ہی ذبح کر دیا۔ ۔ اب اس سے کیا خاک جیکٹ بنے گی۔ ۔ ہاں شاید سر کی ٹوپی بن جائے ‘‘۔ دین محمد خود سے بڑبڑایا  ،’’خیر مجھے کیا۔ ۔ کارخانے والوں کے دھندے وہ ہی جانے۔ ۔ سالا میں نے کوئی ٹھیکہ لیا ہے۔ ۔ جیسا مال آئے گا ویسا ہی سپلائی کرونگا نہ‘‘،یہ کہہ کر دین محمد نے لکڑی کے تختے سے کھال اُٹھا کر پیٹی کے اوپر ہی پٹخ دی، اچانک اُسے لگا جیسے ایک تیز چبھتی ہوئی بو اُس کھال سے نکل کر اُس کے نتھنوں کے راستے مغز کی نچلی تہہ کو چیرتی چلی گئی۔ لمحے بھر کے لیے تو جیسے وہ اپنے سارے ہوش ہی کھو بیٹھا ،اُسے لگا جیسے ایک ننھا مُنا ریشم کے گو لے جیسا بھیڑ کا بچہ اُس کی گود میں پڑا درد سے کراہ رہا ہے۔ ۔ اور پھر کچھ ہی دیر میں پھر اُس کے حواس بہتر ہوتے چلے گئے۔ چند دنوں میں دین محمد کو لگا  جیسے وہ بو نہ صرف اُس کی ناک میں بُری طرح سے بس گئی ہے بلکہ اُس کے چاروں طرف پھیل سی گئی ہے۔ ۔ ۔ دوکان کے ہر ایک کونے سے دیواروں اور چھتوں کی کواڑوں تک ، کھڑکیوں اور دروازوں سے گلیوں اور محلوں تک ، کھانے اور پانی سے دوستوں اور رشتے داروں تک۔ ۔ سوتے جاگتے ، اُٹھتے  بیٹھتے بس یہی بو اُس کو متلائے رکھتی تھی۔

            دین محمد پچھلے پچیس سالوں سے چمڑے کی جیکٹس اور جوتوں کے کارخانوں کو سوکھی ہوئی رنگ دار کھالوں کی سپلائی کا دھندہ کر رہا تھا۔ وہ قریب و جواد کے ذبح خانوں سے ہر ہفتے تازہ کٹی ہوئی دنبوں اور بھیڑوں کی کھالوں کو پیٹیوں میں اُٹھاتا ، اپنے ٹوٹے پھوٹے ٹرک پر لاد تا اور اڑھائی تین میل کے فاصلے پر شیر زمان رنگ ریز کی دوکان پر پھینک آتا۔ ۔ شیر زمان رنگ ریز پچھلے کسی زمانے میں دوپٹوں اور قمیص شلواروں کو کچے پکے رنگوں سے رنگا کرتا تھا مگر پھر جب اُس نے کپڑوں کے ساتھ ساتھ چمڑے رنگنے کا دھندہ بھی شروع کر دیا تو اُس کے کپڑے رنگوانے والے گاہک ایک ایک کر کے غائب ہو گئے ، کم و بیش ہر ایک گاہک نے رنگے ہوئے کپڑوں میں مرے ہوئے جانوروں کی بو کی شکایت کی تھی حالانکہ اُس نے گاہکوں کو کتنا ہی جتایا تھا کہ کپڑے رنگنے کے برتن اور کھالیں رنگنے کی کڑھائیوں میں زمین آسماں کا فرق ہے مگر شک کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا ،وہ تو محض ایک معمولی رنگ ریز تھا۔ اور پھر کچھ عرصے میں خود شیر زمان کو بھی صرف چمڑے رنگنے میں ہی مزا آنے لگا۔ وہ پہلے پہل کھالوں کو کئی گھنٹوں تک نمک ملے گرم پانی میں خوب ہی اُبالتا ، پھر اُنہیں دیر تک کافور کی دھونی دیتا اور پھر مچھلی کے تیل کے ڈبے میں ڈبکی دے کر لکڑی کیِسل پر بچھا دیتا اور ڈنڈوں سے خوب ہی پیٹتا اور پھر اُنہیں رنگنے کے لیے کڑاہی میں چھوڑ دیتا ،اُس کو پورا یقین تھا کہ اس ساری ورزش کے بعد چمڑے سے مرے جانور کی بو ایسے ہی نکل جاتی ہے جیسے قصاب کی چھری پھرنے سے جانور کی روح۔ ۔

                       آخرکار تھک ہار کر دین محمد نے حکیموں ، طبیبوں کے مطب خانوں سے لے کر پیروں فقیروں کے آشیانوں تک کے چکر لگانے شروع کر دیے مگر اُس کی مایوسی میں اُس وقت اور بھی اضافہ ہو گیا جب اُسے وہاں بھی علاج کے بجائے اِسی بو سے سابقہ پڑنے لگا۔ تھک ہار کر ایک شام وہ شیر زمان کی دوکان پہنچا ، اُسے خیال آیا کہ ہو نہ ہو اُس کی اِس حالت کا ذمہ دار شیر زمان ہی ہے۔ اُسے یقین ہو چلا تھا کہ شیر زمان کے گاہکوں کا کہنا بجا تھا۔ ۔ وہ کھالوں کو اچھی طرح دھوتا ہی نہ ہو گا اسی لیے تو اُن کے کپڑوں سے بھی مرے ہوئے جانوروں کی بو آتی تھی۔

                  اور پھر اِس سے قبل کہ وہ غصے میں شیر زماں کی دوکان کا دروازہ زور زور سے بجاتا اُسے لگا جیسے بند دوکان کے اندر کوئی گھٹی گھٹی سسکیوں کے ساتھ رو رہا ہے۔ دین محمد نے اپنے سارے غصے کو ایک ہی سانس میں اپنے سینے میں گھونٹ دیا اور دھیمے سے دروازے کا ایک پٹ سرکا کر دوکان کے اندر جھانکا۔ ۔ اُسے لگا جیسے دوکان کے باہر کی روشنی دروازے کی کھلتی دراڑ سے یکا یک نکل کر دوکان کو اندر سے روشن کر گئی اور شیر زمان کے روتے ہوئے سایے کو زمین سے کھینچ کر چھت تک لگا گئی۔ دین محمد نے حیرت و استعجاب سے روتے ہوئے شیر زمان کو دیکھا جو دوکان کے ایک کونے میں اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ سر دیے بلک بلک کر رو رہا تھا  ’’ابے سالے تجھے کیا ہو گیا ، کیوں بلک بلک کر رو رہا ہے ، تیرے بیوی نہ بچے ، سگے نہ سوتیلے۔ ۔ مرے ہوئے بھیڑوں کی سڑی ہوئی کھالوں کی بو سے میرے نتھنے پھٹے جا رہے ہیں اور تو ہے کہ بچوں کی طرح یہاں بلک رہا ہے ،‘‘دین محمد نے شیر زماں کو چمکار کر کہا۔

              شیر زمان نے اپنی روتی ہوئی ڈبڈباتی آنکھوں سے دین محمد کو دیکھا اور کہا  ’’ پگلے جب بو بہت تیز ہو تو وہ آنکھ کا آنسو بن جاتی ہے۔ تو نے تو صرف پیٹی کی ایک کھال سونگھی تھی ،میں نے تو اُس کی ساری ہی کھالیں رنگیں تھیں۔ ۔ ۔ جس شہر میں لوگ بھیڑوں کے ریشم جیسے بچوں کی کھالوں کی ٹوپیاں اور جیکٹس فیشن کے طور پر پہنتے ہوں وہاں آنکھوں میں آنسو اور ناکوں میں مرے ہوئے بچوں کی بو ہی بستی ہے۔ ‘‘

***

 

آوارہ خیال

وہ ا یک آوارہ خیال تھا جسے ایک دن اوروں کی طرح ایک جسم میں بو دیا گیا۔ شروع شروع میں تو اُسے کچھ نہ پتہ چلا مگر پھر کچھ دنوں میں وہ نمو پانے لگا ،اُس کے ہاتھ پاؤں اُگنے لگے اور ایک دن وہ پورا ثابت ثا لم دھڑ بن گیا۔ ایسا دھڑ۔ ۔ جسے وقت کا عذاب سہنا تھا۔ ایسا دھڑ۔ ۔ جسے دُنیا میں رہنا تھا۔

عجیب جگہ تھی وہ دُنیا۔ ۔ ایسا بازار۔ ۔ جہاں اُس جیسے دھڑوں کے رنگ بکتے تھے۔ جہاں اُن کی نسلوں کے لحاظ سے قحبہ خانے تھے۔ جہاں عقیدوں کے الگ الگ ڈربے تھے جن میں بھانت بھانت کے دھڑ،ادھ مری سہمی ہوئی مرغیوں کی طرح ،خود کے کٹنے کا انتظار کر رہے تھے۔ تو وہ بھی ایک دن اُس بازار میں اور دھڑوں کی طرح شامل ہو گیا۔ ، وقت کے عذاب کو سہنے لگا اور اپنے رنگ،نسل اور عقیدے کے لحاظ سے بکنے لگا مگر پھر وہ دنا یا۔ ۔ جب کسی بوٹیاں نچڑی طوائف کی طرح اُس کے بھی سب گاہک اُس پر اچٹتی ہوئی نظریں ڈال کر اُسے تنہا چھوڑ گئے۔ تو وہ تنہا ، چُپ چاپ اور اُداس اپنے دھڑ کی کھولی میں پڑا اُس کے مرنے کا انتظار کرنے لگا کہ اُس کی موت میں ہی اُس آوارہ خیال کی آزادی تھی۔

شاید اُس کا دھڑ مر بھی جاتا اور وہ پھر کسی آزاد گمنام خیال کی طرح ایک بار اور کسی نئے جسم میں بو دیا جاتا ، وقت کے عذاب کو سہتا ، بار بار بکتا، بوڑھا ہوتا اور مرتا۔ ۔ ۔ مگر یہ ہوا کہ اُس نے جسم کے عذاب سے مُکتی پانے کی ٹھانی کہ۔ ۔ یہ جسم ہی تو تھا جو جو وقت اور جگہ کا مارا ہوا تھا۔

تو اُس صبح اُس نے اپنے جسم کو سورج کی کرنوں سے دھویا۔ وہ سب رنگ نوچ نوچ کر نکالے جو کچے اور جھوٹے تھے۔ اور پھر اُن رنگوں سے خود کے بدن کو سجایا جو پکے اور سچے تھے۔ اُسے لگا۔ ۔ سچ ہی تو وہ رنگ ہے جو دُنیا کے بازاری رنگوں پہ بھاری ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے۔

تو اُس شام وہ دیر تک چاند کے عکس سے باتیں کرتا رہا۔ اُس کی ٹھنڈک سے اپنے جسم کی نسلی آگ کو بُجھاتا رہا کہ یہ تقسیم سکون کی مُتلاشی تھی۔ سکون۔ ۔ جو اُس کے جسم کو وقت کے عذاب سے بچا سکتا تھا۔ سکون۔ ۔ جو موت جیسا ہو مگر زندگی میں ہی اُس کے بوڑھے دھڑ کو مل جائے۔

تو جب ساری ہی ادھ مری مُرغیاں ایک ایک کر کے دم توڑنے لگی تو اُس نے پیار کے پانی میں اشنان کیا اور محبت و پیار کی طاقت سے عقیدوں کے سارے ہی پنجرے تو ڑ ڈالے اور ایک ایک کر کے سب دھڑوں کو آزاد کرنے لگا۔

وہ دن اُس کے گیان کا تھا۔ وہ دن۔ ۔ جب سچ، سکون اور محبت اُس آوارہ خیال سے روشن کرنوں کی طرح پھوٹ رہے تھے اور اُس کے بوڑھے دھڑ کو وقت کے عذاب سے مُکتی دے رہے تھے۔

٭٭٭

اجازت اور فائل کے حصول کے لئے مصنف سے تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید