FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

حج اور عمرہ: چند توجہ طلب اُمور

عبیداللہ طاہر فلاحی

اسلام کی عمارت جن بنیادی ارکان پر قائم ہے ان میں حجِ بیت اللہ بھی ایک اہم رکن ہے۔ صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔ حج میں مالی و بدنی دونوں طرح کی عبادات پائی جاتی ہیں، چنانچہ اس کی فرضیت کے لیے مالی اور بدنی، دونوں قدرتیں ضروری ہیں۔ ارشادِ باری ہے: (ترجمہ) ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے‘‘(آل عمران3:97)۔ حج اپنے اندر عالم گیر اخوت و محبت اور انسانی مساوات کا عملی پیغام رکھتا ہے۔ تمام حجاج کا ایک وقت میں ایک جگہ جمع ہو کر ایک ہی طرح کے اعمال و شعائر انجام دینا جہاں ایک طرف: ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘ (الحجرات49:10) کے احساس کو پختگی دیتا ہے، وہیں دوسری طرف ربِ واحد کے حضور انسانی مساوات کا نادر نمونہ پیش کرتا ہے۔

 اس عبادت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صرف ایک بار حج کیا اور فرمایا: ’’مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو، اس لیے کہ مجھے نہیں معلوم، شاید کہ میں اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں‘‘ (مسلم، 3197)۔ ہر اسلامی عبادت میں دو شرائط کا پایا جانا ضروری ہے: اخلاص اور پیروی شریعت۔ چونکہ یہ عبادت عموماً انسان زندگی میں صرف ایک بار ادا کرتا ہے، اس لیے اس میں خطاؤں اور لغزشوں کے ارتکاب کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ حج کی تمام جزئیات کا کتابی مطالعہ اور نظری علم الگ چیز ہے، اور عملی حج کرنا الگ۔ اسی لیے کثیر مطالعہ کے باوجود حجاجِ کرام سے لغزشیں سرزد ہوجاتی ہیں۔ لغزشیں تو خیر بشریت کا خاصہ ہیں، تاہم اس بات کی کوشش کرنا کہ ہمارا حج خطاؤں سے پاک صاف ہو، ہر مومن کے لیے ضروری ہے۔ اس مضمون میں چند خطاؤں پر متنبہ کیا گیا ہے جو عموماً حجاجِ کرام سے سرزد ہو جاتی ہیں۔ اِن خطاؤں کا سبب ناواقفیت ہے یا اندھی تقلید۔ مومنانہ کردار یہ ہے کہ جب صحیح علم حاصل ہو جائے تو اس پر عمل کیا جائے۔ اسی لیے یہ کوشش کی گئی ہے کہ دلائل کی روشنی میں صحیح بات سامنے لائی جائے۔

 اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت ادائیگی حج کے وقت کی تعیین کو حاصل ہے۔ فقہائے کرامؒ کے درمیان اس امر میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا فرضیتِ حج کے بعد فوراً حج کرنا ضروری ہے یا اس میں تاخیر کی گنجائش ہے۔ احناف کے نزدیک فوراً حج کرنا ضروری نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ رخصت ایک وبا کی طرح پھیل گئی ہے، اور حج کے لیے عملاً بڑھاپے کا وقت مخصوص مان لیا گیا ہے۔ حالانکہ شرعی لحاظ سے بھی اور موجودہ حالات کے لحاظ سے بھی جوانی میں حج کر لینا ہی بہتر ہوتا ہے، کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔

 اگر کسی شخص پر حج فرض ہو جائے اور وہ اسے بڑھاپے پر اٹھا رکھے اور پھر حج کیے بغیر ہی مر جائے تو سخت گناہ گار ہو گا۔ نیز حج ایک پُر مشقت عبادت ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کا جہاد حج اور عمرہ کو قرار دیا۔ موجودہ دور میں کثرتِ حجاج کی وجہ سے اس میں مزید مشقتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بوڑھے حجاج خواتین و حضرات ارکانِ حج کیسے اور کس قدر ادا کر  پاتے ہیں۔ بڑھاپے میں حج کا وتیرہ بر عظیم پاک و ہند کے ساتھ خاص نظر آتا ہے، ورنہ دنیا بھرکے بیشتر ممالک سے آنے والے حجاجِ کرام کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہمارے علمائے کرام کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے سامنے حج کی اہمیت اجاگر کرنا اور انھیں جوانی میں حج کرنے پر اُبھارنا چاہیے۔

احرام کے سلسلے میں سرزد ہونے والی خطائیں

 1۔ میقات سے حج اور عمرہ کی نیت کرنا لازم ہے۔ میقاتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے متعین کردہ ہیں۔ حاجی و معتمر کے لیے بغیر احرام کے میقات سے گزرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ زمین کے راستے سفر کر رہا ہو یا بحری یا ہوائی راستے سے۔ بعض حجاج ہوائی سفر میں بغیر احرام کے میقات سے گزر جاتے ہیں اور جدہ ایئر پورٹ پہنچ کر احرام باندھتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔ ان کو چاہیے کہ جہاز میں سوار ہونے سے قبل احرام باندھ لیں اور میقات سے پہلے جہاز ہی میں نیت کر لیں۔ اگر بغیر احرام کے وہ جدہ پہنچ جاتے ہیں تو واپس میقات تک جائیں اور وہاں سے احرام باندھیں۔ اگر ایسا نہیں کرتے اور جدہ ہی سے احرام باندھتے ہیں تو اکثر علما کے نزدیک اُن پر ایک جانور کے ذبح کرنے کا فدیہ واجب ہے، جو مکہ میں ذبح کیا جائے گا اور فقرا میں تقسیم ہو گا۔

 2۔ احرام کی حالت میں حاجی و معتمر دو چادریں استعمال کرتا ہے۔ ایک تہبند کی طرح باندھ لیتا ہے اور دوسری کندھے پر ڈال لیتا ہے۔ بعض حجاج کرام کی چادر ناف سے نیچے سرک جاتی ہے اور وہ اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے، حالانکہ ناف ستر میں داخل ہے۔ اس کو ڈھکنے کا خصوصی التزام ہونا چاہیے۔

 طواف میں سرزد ہونے والی خطائیں

 1۔ احتیاطاً حجرِ اسود اور رکن یمانی کے درمیان سے طواف شروع کرنا، غلو فی الدین ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔

 2۔ زیادہ بھیڑ کی صورت میں حجرِ اسماعیلؑ (حطیم)کے اندر سے طواف کرنا۔ ایسی صورت میں طواف درست نہیں ہو گا، کیونکہ حطیم خانہ کعبہ کا حصہ ہے۔

 3۔ ساتوں چکر میں رمل کرنا (دلکی چال چلنا)۔ رمل صرف ابتدائی تین چکروں میں ہے۔

 4۔ حجرِ اسود کے بوسے کے لیے شدید دھکا مکی کرنا۔ کبھی کبھی نوبت گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے، حالانکہ یہ چیز حج میں خصوصیت کے ساتھ ممنوع ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو‘‘۔ (البقرہ2:197)

 5۔ حجرِ اسود کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ بذاتِ خود نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض حضرات اس کا استلام کر کے اپنے پورے بدن پر اور بچوں کے بدن پر ہاتھ پھیرتے ہیں۔ یہ سراسر جہالت اور ناسمجھی کی بات ہے۔ نفع و نقصان کی قدرت صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ حضرت عمرؓ کا واقعہ ہے: ’’آپؓ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا: مجھے علم ہے کہ تُو صرف ایک پتھر ہے، تُو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع، اور اگر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا‘‘۔ (بخاری، 1579، مسلم، 3126۔3128)

 6۔ پورے خانہ کعبہ کا استلام کرنا۔ ایسا کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ استلام ایک عبادت ہے، اور ہر عبادت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ضروری ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حجرِاسود اور رکنِ یمانی کا استلام کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے مروی ہے کہ: ’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت معاویہؓ طواف کر رہے تھے۔ حضرت معاویہؓ تمام ارکانِ کعبہ کا استلام کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے پوچھا کہ آپؓ ان دونوں ارکان کا استلام کیوں کر رہے ہیں، جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا استلام نہیں کیا ہے؟ حضرت معاویہؓ نے فرمایا: خانہ کعبہ کا کوئی حصہ متروک نہیں ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہی تمھارے لیے اسوۂ حسنہ ہے، تو حضرت معاویہؓ نے فرمایا: آپؓ نے درست فرمایا‘‘۔ (مسند احمد، 1877)

 7۔ ہر طواف کے لیے مخصوص دعا کا التزام کرنا: بایں طور کہ اس کے علاوہ کوئی دعا نہ کرنا، بلکہ بسا اوقات اگر دعا پوری ہونے سے قبل طواف مکمل ہو جاتا ہے تو دعا بیچ ہی میں منقطع کر کے اگلے طواف میں پڑھی جانے والی دوسری دعا شروع کر دی جاتی ہے، اور اگر طواف مکمل ہونے سے قبل دعا پوری ہو جاتی ہے تو بقیہ طواف میں خاموش رہا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔

 8۔ کچھ لکھی ہوئی دعاؤں کو ان کا معنی و مطلب سمجھے بغیر پڑھتے رہنا۔ حالانکہ طواف کرنے والے کو معنی و مطلب سمجھ کر دعا کرنی چاہیے خواہ اپنی مادری زبان میں ہی دعا کرے۔

 9۔ بعض حجاج کا ایک گروپ کی شکل میں طواف کرنا… بایں صورت کہ ان میں سے ایک شخص بلند آواز سے دعا پڑھے اور بقیہ بلند آواز میں اسے دُہرائیں۔ یہ چیز دیگر افراد کے خشوع و خضوع میں مخل اور ان کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ: ’’ایک بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز میں بلند آواز سے تلاوت کر رہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا: نمازی اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے، تو وہ دیکھے کہ اپنے رب سے کیا کہہ رہا ہے، اور قرآن کی تلاوت میں ایک دوسرے سے آوازیں بلند کرنے کا مقابلہ نہ کرو‘‘۔ (موطا امام مالک، 177)

10۔ بعض حجاج یہ سمجھتے ہیں کہ طواف کے بعد کی دو رکعتیں لازماً مقامِ ابراہیمؑ کے پاس پڑھنی چاہئیں، چنانچہ اس کے لیے دھکا مکی کرتے اور طواف کرنے والوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں، حالانکہ یہ خیال صحیح نہیں۔ یہ دو رکعتیں بیت اللہ میں کسی بھی مقام پر پڑھی جا سکتی ہیں۔

11۔ بعض حضرات مقامِ ابراہیم ؑ کے پاس بلاسبب کئی کئی رکعات پڑھتے ہیں، جب کہ دیگر حضرات طواف سے فراغت کے بعد وہاں نماز کے منتظر ہوتے ہیں۔

 12۔ بسا اوقات نماز سے فراغت کے بعد گروپ کا رہنما پوری جماعت کے ساتھ بلند آواز سے دعا کرتا ہے اور دیگر نمازیوں کی نماز میں مخل ہوتا ہے۔

 سعی کے دوران سرزد ہونے والی خطائیں

 1۔ بعض حجاج صفا اور مروہ پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے تین بار تکبیرِ تحریمہ کی طرح تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔

 آپؐ کے حج کے طریقے میں مروی ہے کہ: ’’جب آپؐ صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: ’’یقیناً صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں‘‘(البقرہ2:158)۔ اور فرمایا: میں اس سے شروع کرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، چنانچہ آپؐ نے صفا سے سعی کا آغاز کیا اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ نظر آگیا، پھر آپؐ نے قبلہ رو ہو کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی اور اس کی کبریائی بیان کی اور یہ دعا پڑھی:(ترجمہ)’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے، اور سارے شکریہ کا مستحق بھی وہی ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی، اور تن تنہا تمام گروہوں کو شکست دی‘‘۔ پھر اس کے درمیان دعا کی۔ اسی طرح تین بار کیا۔ پھر اتر کر مروہ کی جانب چلے، یہاں تک کہ جب وادی کے بیچ میں پہنچے تو تیز رفتاری سے چلے، اور جب اوپر چڑھ گئے تو عام رفتار سے چلے، یہاں تک کہ مروہ پر پہنچ گئے، اور وہاں بھی ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا‘‘۔(مسلم، 3009)

 2۔ پوری سعی کے دوران تیز رفتاری سے چلنا سنت کے خلاف ہے۔ تیز رفتاری سے صرف دونوں سبز لائٹوں کے درمیان چلنا ہے، بقیہ سعی میں عام چال چلنا ہے۔

 3۔ بعض خواتین دونوں سبز لائٹوں کے درمیان مردوں کی طرح تیز رفتاری سے چلتی ہیں، حالانکہ عورتوں کو تیزی سے نہیں بلکہ عام رفتار سے چلنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ارشاد ہے: ’’طواف میں رمل اور سعی میں تیز رفتاری عورتوں کے لیے نہیں ہے‘‘۔(سنن دارقطنی، 2766، سنن کبری للبیہقی، 9321)

 4۔ بعض حجاج جب صفا یا مروہ کے قریب پہنچتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں: ان الصفا والمروۃ من شعآئر اللہ، حالانکہ سنت یہ ہے کہ صرف پہلی سعی میں جب صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت پڑھے۔

 5۔ بعض حجاج ہر چکر میں مخصوص دعا پڑھتے ہیں۔ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

 6۔ بعض حجاج سعی کے دوران اضطباع کرتے ہیں، یعنی دایاں کندھا کھلا رکھتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ اضطباع صرف طوافِ قدوم میں مسنون ہے۔

 وقوفِ عرفہ میں سرزد ہونے والی خطائیں

 1۔ بعض حجاج حدودِ عرفہ سے پہلے ہی قیام کر لیتے ہیں، اور سورج غروب ہونے تک وہیں رہتے ہیں، پھر وہیں سے مزدلفہ چلے جاتے ہیں، اور عرفہ میں قیام ہی نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے اور اس کی وجہ سے حج فوت ہو جاتا ہے، کیونکہ وقوفِ عرفہ حج کا بنیادی رکن ہے۔ اس کے بغیر حج درست نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ جو وقوف کے وقت میں یہاں وقوف نہ کرے اس کا حج نہیں ہوا۔ ارشادِ نبویؐ ہے: ’’حج وقوفِ عرفہ کا نام ہے، چنانچہ جو شخص مزدلفہ کی رات فجر طلوع ہونے سے قبل بھی عرفہ آگیا تو اس نے حج پا لیا‘‘(سنن ترمذی، 889، سنن نسائی، 3044، سنن ابن ماجہ، 3015)۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ بعض حضرات عرفہ سے قبل ہی قیام کر لیتے ہیں اور دوسرے انھیں دیکھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ اس لیے حجاجِ کرام کو چاہیے کہ وہ حدودِ عرفہ کی اچھی طرح تحقیق کر کے ہی قیام کریں۔ حدود کا تعین کرنے والے بورڈوں اور وہاں کام کرنے والے افراد سے رہنمائی لینا مناسب ہو گا۔

2۔ بڑی بڑی کنکریوں، جوتے، چپلوں اور لکڑیوں سے رمی کرنا… یہ سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ آپؐ نے چنے کے برابر کنکریوں سے رمی کی اور بصراحت فرمایا کہ: ’’اور دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک کر دیا‘‘۔

3۔ جمرات کی طرف انتہائی شدت کے ساتھ بڑھنا، بایں طور کہ نہ دل میں اللہ کا خوف ہو اور نہ بندوں پر رحم کا جذبہ۔ چنانچہ لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ اور کبھی کبھی بات گالم گلوچ اور مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے بچنا چاہیے اور اطمینان وسکون کے ساتھ رمی کرنی چاہیے۔

 4۔ ایامِ تشریق (11، 12، 13ذی الحجہ) میں پہلے اور دوسرے جمرہ کی رمی کے بعد دعا نہ کرنا، جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ حج میں یہ دعا ثابت ہے۔ ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد منیٰ کے قریب والے جمرہ کو کنکریاں مارتے تو سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر آگے بڑھ کر کھڑے ہو جاتے اور قبلہ رو ہو کر ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا کرتے۔ پھر دوسرے جمرہ کے پاس آتے اور اسے بھی سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر بائیں جانب وادی سے قریب اُتر کر کھڑے ہو جاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے۔ پھر عقبہ کے قریب والے جمرہ کے پاس آتے اور اسے سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر واپس چلے جاتے اور اس کے بعد کھڑے نہیں ہوتے‘‘۔ (بخاری، 1753)

5۔ ساری کنکریاں ایک بار میں مار دینا… یہ بہت بڑی غلطی ہے، اور ایسی صورت میں یہ صرف ایک کنکری شمار ہو گی۔ ہر کنکری الگ الگ مارنی ضروری ہے۔

 6۔ رمی کرتے وقت غیر منقول دعائیں پڑھنا، جیسے اللھم اجعلھا رضًا للرحمٰن، وغضبًا للشیطانِ۔ بسااوقات اس دعا کو پڑھنے کے چکر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول تکبیر تک چھوڑ دی جاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپؐ سے جتنا ثابت ہے بلا کمی بیشی کے اس پر عمل کیا جائے۔ آپؐ صرف تکبیر کہتے ہوئے ہر کنکری مارتے تھے۔

 7۔ رمی جمار میں سستی کرنا اور بلا عذر، قدرت کے باوجود دوسروں کو رمی کے لیے وکیل بناکر بھیجنا۔ ارشادِ باری ہے: واتموا الحج والعمرۃ للہ (البقرہ2:196) ’’اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرہ کی نیت کرو تو اسے پورا کرو‘‘۔ اس لیے جو شخص رمی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اُسے خود رمی کرنی چاہیے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں اور پریشانیوں پر صبر کرنا چاہیے، کیونکہ حج ایک قسم کا جہاد ہے اور اس میں پریشانیوں کا وجود لازم ہے۔

 8۔ رمی جمرات کے وقت کی تعیین کے سلسلے میں علمائے کرام کی دو رائیں ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ 10ذی الحجہ کی رمی کا وقت طلوعِ آفتاب کے بعد شروع ہوتا ہے اور 11، 12، 13ذی الحجہ کو اس کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے، اس سے قبل رمی کرنا جائز نہیں ہے۔ بعض دیگر علمائے کرام نے حالات کے لحاظ سے یہ فتویٰ دیا کہ طلوعِ فجر کے بعد بھی رمی کی جا سکتی ہے۔ اس مسئلے میں ایک معتدل رائے یہ نظر آتی ہے کہ وقت کی تعیین کا امر حاجی کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:’’جہاں تک تمھارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو‘‘(التغابن64:16)۔ نیز آپؐ نے فرمایا: ’’میں نے جس سے تمھیں منع کیا ہے اس سے باز رہو اور جس کا حکم دیتا ہوں اسے حسبِ استطاعت بجا لاؤ‘‘۔(بخاری:7288، مسلم: 6259)

 آیتِ کریمہ اور حدیثِ نبویؐ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر حاجی خود یہ فیصلہ کرے کہ حالات کے مطابق اس کے لیے کس طریقے پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے، مثلاً جن حجاج کرام کو منیٰ میں خیمے میسر ہوں انھیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ زوال کے بعد رمی کریں۔ البتہ جن حجاج کو منیٰ میں خیمے میسر نہیں ہوتے اور انتظامیہ کے افراد انھیں ہمہ وقت شارع پیمائی پر مجبور رکھتے ہیں، ان کے لیے رخصت پر عمل کرتے ہوئے طلوعِ فجر کے بعد سے ہی رمی کی اجازت ہونی چاہیے۔

ماخذ:

http://fridayspecial.com.pk/19463

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید