FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

جہانِ گم گشتہ

 

حصہ دوم

 

اسی نام کے مجموعے کا ایک ناولٹ

 

 

 

نگہت سلیم

 

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

عجائب و غرائب سے بھری یہ دنیا کہ جس میں انسانی زندگی اک شتابی میں پڑی ہے وہیں کرنل جلال احمد نے کئی برس خود ساختہ قید تنہائی میں بسر کئے اور بیرونی دنیا سے واجبی سا تعلق رکھا لیکن بعد مدّت ایک صبح ایسی آئی کہ جب شہرِ فراموش کی تاریخ و تعمیر کا دھندلا خاکہ اس کے ذہن میں بننے بگڑنے کے عمل سے گزرنے لگا، یہی نہیں بلکہ کھوئے ہوؤں کی جستجو نے ایسے اضطراب میں مبتلا کیا جیسے طرفین سے بیک وقت کئی آوازیں اسے پکار رہی ہوں۔  بہت باتیں تھیں جنہیں سنے سنائے مدّتیں ہو گئی تھیں وہ لوگ جو وقت کے ہاتھوں گنوائے جا چکے تھے اب یادِ تازہ کی طرح درِ دل پہ بعد مدّت دستک دے رہے تھے گرچہ مظہری دنیا میں اب کوئی دروازہ کھلنے کے لئے نہ رہا تھا، پھر بھی اس کے لاشعور میں معدوم شناسائیوں کی مہک اسے آمادۂ جستجو کر رہی تھی کہ وہ قدیمی رستوں پر پہلے کی طرح گزرے اور اپنے مَن کی دنیا کو ایک بار آواز دے کے دیکھے۔۔ ۔۔

دن کے آغاز سے سرشام تک وہ اپنے بے آباد وسیع و عریض اور سرسبز گھر کے کونے کونے کو یوں تجسّس و بے تابی سے گھوم گھوم کے دیکھتا رہا تھا جیسے سالوں بعد گھر لوٹا ہو اور اپنے گھر کے ہر قرینے کو دیرینہ رفاقتوں کے حوالے سے دیکھ رہا ہو۔  بے حساب سال اپنا شمار رکھے بغیر اس کے گھر کے دیوار و در میں یوں گم ہو چکے تھے جیسے ان کا مقدر اس ویران عمارت میں اینٹ اور سریے کے ہمراہ پیوست ہو جانا لکھا تھا، اس کے گھر کے فرش کو اُس کے تنہا قدموں کی چاپ اَزبر ہو گئی تھی عجب قید تنہائی تھی جو آزادی کے تمام رموز جانتی تھی لیکن اُن سے بے بہرہ ہونے کا ڈھونگ کئے بیٹھی تھی کیا انسان خود سے بھی سوانگ رچاتا ہے؟ کیا یہ بھی دنیا سے بظاہر روٹھنے اور بہ باطن اس کی طلب کرنے کا ایک انداز ہے؟ یہ سب اور بہت سے سوال اس کی اُس گٹھری میں بندھے تھے جو نظر نہیں آتی تھی لیکن اس کی پشت پر لدی رہتی اور کبھی اس بوجھ سے اسے فراغت نہیں ملتی تھی۔

شام ہوتے ہوتے عہد گزشتہ کی بازگشت بڑھنے لگی بالآخر اس نے فیصلہ کر لیا کہ اسے شہر کی اُن گلیوں سے ایک بار ضرور گزرنا ہو گا جو نوجوانی کی رفاقتوں میں ہم راز و مہرباں رہ چکی تھیں اب انہیں پھر سے نوجوانی کے دنوں کی نگاہ سے دیکھ لینا چاہیے۔  اُس نے شام ڈھلے جلنے والی روشنیوں میں گھر کی فروزاں یادوں کو ٹھہرایا اور باہر نکلنے کے لئے گاڑی کی چابی اٹھائی۔  چابی اٹھاتے ہوئے اسے اپنے ہاتھوں کی رگیں اور وریدیں زیادہ نمایاں لگیں، گھر کے چوکیدار نے بیرونی دروازہ کھولتے ہوئے واپسی کا پوچھنا چاہا لے کن وہ گاڑی باہر نکال چکا تھا۔  چوڑی سڑکوں کے اطراف بنے شاندار رے ستورانوں کے قرب سے گزرتا ہوا وہ گرجا گھر سے متصل سڑک کے اُس پار کھیل کے میدان کو رک کے دیکھنے لگا جو فوجیوں کے لیے مختص تھا۔  گاڑی کھڑی کر کے وہ اترا کچھ قدم بڑھا پھر پلٹا اب اس نے میدان کی چاردیواری اور سڑک کے درمیانی حصے میں بنے ایک مستطہل باغیچے کو غور سے دیکھا، کبھی کبھی وہ یہاں بیٹھا کرتا تھا۔  اُس زمانے میں کون کون سے ساتھی اس کے ساتھ ہوتے تھے؟ کرنل نے ذہن پر زور دیا پھر ایک سنگی نشست پر بے آرامی سے یوں بیٹھا جے سے اِس احساس میں ہو کہ کسی کے انتظار کی کیفیت کے بغیر یہاں بیٹھنا ممنوع ہے اور عجلت سے اٹھ کھڑا ہوا۔  اس کے خالی دماغ میں ایک آسیب نے گھونسلا بنا لیا تھا اور اسے گزرے برسوں کے چکر میں گھمائے پھرتا تھا، اسے محسوس ہوتا تھا جیسے اس کا ماضی اس کے کندھے پر سوالوں کی گٹھری رکھ کے اسے زور کی ٹھوکر مار کے گزر گیا ہے چاہنے کے باوجود وہ گٹھری کو نہیں کھول سکا تھا حالانکہ اپنے رفیقوں کی گٹھریوں کو کھلتا دیکھ کے ان میں تاکنے جھانکنے لگتا جن کے پاس بھی ایسے ہی بہت سوالوں کے بوجھ تھے، پھر یوں ہوا کہ اس کے رفیق کار اور احباب ایک ایک کر کے جہاں سے گزرتے گئے، کرنل ان کی میّت کو کندھا دہتے ہوئے ان کی قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے صرف یہی سوچتا ….لو …. یہ بھی چلا گیا …. میں کم از کم اسی کے سامنے اپنی گٹھری کھول لیتا۔

جب وہ شیشم اور سرس کے گھنیرے درختوں والی ٹھنڈی سڑک پر آیا تو یکلخت اسے اپنی نوجوانی کے دن یاد آ گئے، جب یہاں گھوڑے جتے تانگے چلتے تھے، شہر کا پھیلاؤ اسے مضطرب کرنے لگا اس نے گاڑی موڑی اور اندرونِ شہر کی جانب بڑھنے لگا۔  کرنل کے ذہن میں تماثیل بناتا یہ شہر، چودھویں صدی عیسوی میں منگولوں کے ہاتھوں تاخت و تاراج ہونے والا فتح پور بواری تھا جو عرصۂ دراز تاریخ کے صفحات میں گم رہنے کے بعد ایک نواحی موضع راول کی نسبت راولپنڈی کہلانے لگا تھا۔  بعد مدّت کرنل کے اندر تحیرّ کی لہر اٹھی تھی اب وہ ایک قدیمی بازار کو دیکھ رہا تھا جو کبھی پرانے کوٹوں کی فروخت کی وجہ سے مشہور تھا، چھوٹی بڑی دکانوں اور راہ گزر پر رکھے برائے فروخت سامان کو دیکھ کر اسے لو گوں کے جوش و خروش کا اندازہ ہو ا، آج شبِ برا ¿ت تھی۔  پھُلجھڑیاں، ریٹھے، انار، ماہ تابیاں اور نظر کو گرفت میں لینے والی رنگ برنگی اشیائے بے شمار گرمیِ بازار کا سبب تھیں۔  اس کے اندر کا جمود پگھلنے لگا اسے یاد آیا ایک زمانہ تھا کہ جب بھابڑ خانے میں مشہدی جلالی بزرگ شاہ چن چراغؒ کے آستانے پر محفل سماع ہوتی تھی اور طوائفوں کا مجرا طلوعِ سحر تک ہوتا۔  وہ نوجوانی کے دن تھے سب اچھا لگتا تھا۔  اب پکی ّ اونچی سنگ و خشت سے ٹھسی دیواروں کو دیکھ کر کرنل کو بھرے بازار میں خاموشی سے سرجھکائے گھومنے والے پردیسی اللہ والے یاد آنے لگے۔  اس کا دل رتہّ امرال کے قبرستان کی جانب رجوع ہوا ہی تھا کہ عقب سے ایک نسوانی آواز پکار بن کے لپکی۔  اطراف و اکناف میں کسی غیر متوقع شناسائی نے اس کے اندر تحیرّ کی ایک اور لہر کو برَما دیا۔  کرنل نے گھوم کے دیکھا ایک عورت سن وسال میں کبَر لیکن سراپے اور چھاپ میں جوانی جیسی طرحداری لیے کھڑی تھی اس کے ہاتھ میں انار و ماہ تابیاں تھیں اور کوئی تابعداری سے سرجھکائے سودے کے تھیلے اٹھائے اس کے پیچھے تھا۔  قمیض اور لنگی میں ملبوس سر پر انگوچھا لپیٹے ہوئے۔  اس کی حسیّات اور بدنی لفظیات غلاموں سے مماثل تھیں۔

"دیکھا …………میں نے پہچان لیا ……..تم وہی ہو نا ……..”

عورت چہک کے بولی۔

"کون ….؟ ” کرنل نے جیسے اپنے ہی بارے میں پو چھا ….

"اتنے سالوں بعد بھی تمہیں پہچان لینا مشکل ثابت نہیں ہوا۔  البتہ لگتا ہے کہ گزرے وقت نے اپنی تپش سے تمہیں جھلسایا بہت ہے۔ ”

"کون ہو تم ……..”؟ وہ تجسس سے لیکن سپاٹ لہجے میں بولا۔

"کیا تمہیں وہ بارہ عورتیں یاد ہیں ……..؟ وہی بارہ عورتیں ……..!” عورت کا لہجہ دب سا گیا تھا….

کرنل نے اس پر نگاہ مرکوز کی اور باور کیا کہ وہ اپنی یادداشت کے انمٹ حصّوں کو جبراً  کہیں کہیں سے مٹاتا چلا آ رہا ہے۔  پھر اسے اندازہ ہوا کہ اس جبری تغافل نے بھی کچھ بھولنے نہیں دیا ….

"کیا نام ہے کہ ……..تم شب افروز تو نہیں ہو ….”؟؟ کرنل نے اپنے اُس وتیرے کو جانے کیسے ایک طرف رکھا جو اسے شناسائیوں سے اک زمانے سے منکر کئے ہوئے تھا۔

"ہاں ….بالکل وہی”  ……..شب افروز اپنا نام اس کی زبان سے سن کے ایسی شاداب ہو گئی جیسے کسی مرجھائے پھول پر ابرِ کرم برس پڑے۔

"میں تم سے اور کسی سے بھی غافل نہیں رہی ……..گزرے سالوں میں کچھ ایسا نہیں تھا جسے یاد کر کے خوش ہو سکتی لیکن پھر بھی عہدِ پارینہ کو طاقِ نسیاں پر نہ دھر سکی شاید اب بھی گزرے وقت کے تانے بانے سلجھاتی رہتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ ……..”

"ہاں ……..کچھ ایسا ہی ہے "……..کرنل نے مضطرب ہوکے بات کاٹی اور عجلت کی سی کیفیت خود پر طاری کرتے ہوئے بولا "….اچھا …. تو اب چلتا ہوں ….”

"ارے نہیں کرنل” ……..وہ بے تاب سی ہو کے سامنے آئی۔

کرنل نے ٹھٹھک کے اسے دیکھا۔  یکبارگی اتنے سالوں کی دوری بھول کے وہ ہنس پڑی۔  اور بولی……..

"اب دیکھو حیران نہ ہونا …. تمہاری زندگی میں دخل دیئے بغیر میں تمہارے حالات سے باخبر رہی ہوں ….جانتی ہوں کہ تم جیسوں کے لیے ایک خاص مرحلے میں آ کے یہ دنیا بے رنگ و بے معنی ہو جاتی ہے اور پھر تم پر اُن دو سالوں کا ردّ عمل ….!جو ہوا اس سے بھی میں آگاہ ہوں۔ ”

"اگر کھوجنے کا ڈھنگ اور ٹوہ لینے کا شیوہ تم میں نہ ہوتا تو کیا بارہ عورتوں کی شمار و قطار میں تم ہوتیں "….؟ کرنل نے وقت کی بند کوٹھڑی سے مٹھی بھر بارود نکال کر اس پر اچھال دیا۔

شب افروز کے چہرے پر جھلسنے کی سی کیفیت پیدا ہوئی لیکن وہ فوراً  سنبھل گئی اور تّحمل سے بولی !

"کرنل کون کیا کر سکتا تھا لیکن کیا کر گیا یہی سوال تو میرے اور تمہارے جیسے لوگوں کے حصّے میں آیا ہے بہت سے بہت تو کھُل کھیل کے میدان سے گئے۔ ”

کچھ دیر ایسی خاموشی رہی کہ دماغوں میں صرف جھپا کے ہوتے رہے ماضی کے منظر رجعت قہقری میں مبتلا و ابتلا ہوئے ….

"وہ کیا مدھر سُر تھے جنہیں یہ اٹھاتی تھی تو عالم وجد میں آ جاتا تھا۔ "کرنل نے شب افروز کی بجھی ہوئی آنکھوں کے اندر قدیمی چراغوں کی روشنی تلاشی۔

"اُس ہجوم میں یہ سب سے الگ لگتا تھا جیسے بختِ سکندر اور تختِ دارا کا وارث ہو۔ ” شب افروز نے نگاہ بھر کے اسے دیکھا اور سوچا کیا یہ وہی ہے جس کی تمنا میں اُس مقامِ رنگ و بو میں کرتی تھی جہاں میرے فرائضِ منصبی میرے خوابوں سے نبرد آزما رہتے تھے۔

رتہّ امرال کے قبرستان جانے اور ایک پردیسی بزرگ کے مزار پر حاضری دینے کا خیال کرنل کے ذہن کے گرد دائرے بناتا بناتا مفقود ہو گیا اب وہ نئے دائروں کے گھیرے میں تھا، شب افروز بہت سالوں کی دوری سے اسے پکار رہی تھی نہ معلوم کیا کیا کہہ رہی تھی کرنل چپ کھڑا تھا لے کن شب افروز نے اس کے ماضی کا جو دَر کھولا تو عہد پارینہ کے کئی دیرینہ ساتھی ملک عدم سے اٹھے اور بے تابانہ اس کے گرد جمع ہو گئے، کچھ ایسا منظر بنا کہ شب افروز کی سریلی تانوں نے کرنل کی خاموشی کے طلسم خانوں کو بعد مدت بے قفل کر دیا، تال میل کھاتے گزرے وقت کے منظروں نے برباد صحبتوں کو بھولے رازوں کی طرح مجتمع کرنا شروع کیا۔  کرنل نے خود کو اک حالتِ تنویم سے نکلتا پایا۔  رجعتِ عمری اب اُس بصیرت کی خواہاں تھی جو اسے پانچوں حواسِ خمسہ سمیت حالیہ بیداری کے دور میں لے آئے، شاید قدرت یہ کام شب افروز سے کروانا چاہتی تھی وہی گزرے موسموں کے راز ان کے تناظر میں سمجھ سکتی تھی اور اب رہا ہی کون تھا؟ جو اسے اِس متجاوز گہرائی سے نکال پاتا جس نے اس سے بیداری کی ہر لذت کو چھین لیا تھا۔  پتہ نہیں چند لمحے گزرے یا بہت سے سال۔  کرنل کو یوں لگا جیسے شب افروز اس کے ماضی میں نقب لگا چکی ہے۔  یکدم چونک کے اس نے اردگرد دیکھا اور باور کیا کہ کئی زمانے بادلوں کی طرح اُڑتے ہوئے اس کی نظروں سے گزر گئے ہیں اور شب افروز اس سے بحث و تکرار کر رہی ہے وہ کس طرح اس دوران جواب دے پا رہا تھا اسے ہرگز اندازہ نہ ہو پایا ہاں مگر چونکنے کے عمل کیساتھ ہی اس نے خود کو پس و پیش اور انکار و اثبات کے مرحلوں سے گزرتا پایا شب افروز اس کی تہ در تہ اثر انداز ہوتی کیفیات سے بے خبر تھی اور شادماں بھی کہ وہ اسے قائل کر چکی ہے کرنل کے حواسوں میں بس یہی تصدیق آئی کہ اب اسے شب افروز کی مہمانی کا شرف حا صل کرنا ہو گا۔

ان کی گاڑیاں آگے پیچھے دوڑ رہی تھیں۔  کرنل رجعتی مناظر سے نکل کر ایک وقتی بیداری کے دور میں آ چکا تھا اور اب اطراف کی بستیوں کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اسے نوجوانی کے وہ دن پھر یاد آئے جب وقت ملنے یا چھٹیاں ہونے پر وہ شہر کے گلی کوچوں میں گھومتا رہتا تھا بے سبب بے ارادہ۔  اُن دنوں اسے شہر کا کونہ کونہ چھاننا اچھا لگتا تھا وہ قصباتی اور شہری زندگی کا موازنہ کرتا، شہر کہ جہاں طبقاتی درجہ بندی نے سماجیات کے نظریات ہی بدل دیئے تھے انسانی زندگی پر معاشی تفریق یوں حاوی ہوتی گئی کہ شہری باشندے اب علاقوں کی معاشی وقعت کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے اپنی اصل نسل سے نہیں اور شہر کے متمول علاقے بسا اوقات ایسی شہری تاریخ کے گواہ بنتے جو گھوڑوں کے اصطبل میں بندھے گدھوں کی حکایت سناتی اور گدھوں پر گھوڑوں کی زین کسنے کو سماجی حقیقت سے تعبیر کرتی تھی ….کرنل زمانے کے اِس تغیّر پر دوستوں کے ساتھ ہنسا کرتا تھا۔

اب وہ مضافات، ڈھوکوں، کچی آبادیوں سے گزرتے گزرتے ٹنچ بھاٹہ کے پہلو سے لگی ٹاہلی موری جا پہنچے تھے کرنل نے یاد کیا کبھی ٹاہلی موری میں شیشم کے پیڑوں کا گھنا جنگل تھا اور اب ہر سو چھوٹے مکان، تنگ کچی گلیاں اس کے احاطۂ نگاہ میں تھیں، دونوں گاڑیاں محلے سے ذرا ہٹ کے بنی دکانوں کے آس پاس ٹھہر گئیں پھر وہ پیدل نشیبی اور ناہموار راستے سے گزرنے لگے، گلی کے آخری سرے پر شب افروز رک گئی یہی اس کی قیام گاہ تھی جو باہر سے سرائے نما اور اندرون خانہ صاف ستھری رہائش تھی۔

"تو اب تم یہاں رہتی ہو ….” کرنل نے گھر کے معمولی طرز تعمیر پر اچٹتی نگاہ ڈالی، وہ عجیب طرح سے ہنسی اور جواب نہیں دیا ….

کرنل نے دیکھا اندر کی طرف ایک خوابگاہ تھی اور اس کے آگے برآمدہ نما مستطیل رقبہ جو اپنی لمبائی میں پورے مکان کو سمیٹے ہوئے تھا برآمدے کے ایک کونے میں پتھر کی طویل مسطح سل نصب تھی جس کے درمیان چولہا ایستادہ تھا یہی گھر کا مطبخ تھا اس سے ذرا ہٹ کے ایک میز اور بید کی چارکرسیاں پڑی تھیں جو قدیم طرز کی بنُت رکھنے کے باوجود دیدہ زیب اور کشادہ تھیں محدود رقبے کے دالان کی لمبا ئی میں تنگ کچی کیاری تھی جس کے کونے میں پان کی سبز بیل اگی ہوئی تھی اور چاردیواری پر اٹکی ڈوری میں جھول رہی تھی اس کے چوڑے بیضوی پتے چمکدار تھے پان کی بیل اس خطے میں شاذو نادر ہی نظر آتی تھی لیکن اس کا تال میل اُس تیسرے شخص سے مل رہا تھا جو تازہ لائے ہوئے سودے کے تھیلے کھول رہا تھا۔

شب افروز نے کرنل کو بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ کرسی گھسیٹ کے بیٹھ گیا کرنل اپنے وقت کی حسین و شوخ مُطربہ کو یوں زندگی بسر کرتا دیکھ کر حیران تھا اور شب افروز اس کا چہرہ پڑھ چکنے کے بعد چاہتی تھی کہ اس کی سوچ کا رخ پھیر دے اس نے بلاوجہ ہی مڑ کے مطبخ میں کھڑے اکہرے بدن کے منحنی مرد کو دیکھا اور بولی ….

"اس کا نام نہ معلوم کیا تھا لیکن میں اسے خادم کہہ کے پکارتی ہوں تابعدار اور محنتی ہے بہت برس پہلے میں کراچی کی ایک نواحی بستی سے اسے اپنے ساتھ لے آئی تھی یہ تنہا ہے اس کا خاندان باقی نہیں رہا” ۔

کرنل نے دیکھا وہ اسمِ بامسمیٰ بنا سرجھکائے اپنے کام میں منہمک تھا اس نے ایک تھیلے سے آتش بازی کی پھلجھڑیاں، پٹاخے، ریٹھے، انار نکال کے دالان کے پختہ فرش پر ڈھیر کر دیئے اور دوسرے تھیلے کو کھولنے لگا۔

"خادم ….ہمارے مہمان کے لیے بنگالی ترکیب سے ماچھ بھات بناؤ ….”  شب افروز بولی۔

"ارے نہیں ….تمہارے اصرار پر آ تو گیا ہوں لیکن ….!” کرنل اس غیر متوقع دعوت پر کچھ جھینپا۔

"کچھ نہ کہنا ….مجھے خو شی ہو گی اگر تم ….”  پھر وہ بات ادھوری چھوڑ کے خادم کو ہدایت دینے لگی۔

کرنل نے دیکھا اب خادم دوسرے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک چمکتی جسیم مچھلی نکال رہا تھا شب افروز مدھم آواز میں ہنسی اور بولی ….” خادم ہمیشہ سالم مچھلی لاتا ہے اور اپنے طریقے سے بناتا ہے یہ مہا شیر ہے جو بنگلہ دیش میں بھی بہت کھائی جاتی ہے۔ ”

"ہاں” ….کرنل دلچسپی سے بولا "ایک وقت تھا کہ جب دریائے جہلم اور پونچھ کا سنگم مہاشیر کے شکار کے لیے دنیا بھر میں مشہور تھا اب یہ جگہ منگلا جھیل میں آ گئی ہے ….”

متوازن جسم والی مچھلی کی کھال پر بڑے بڑے سفنے آئینے کی طرح چمک رہے تھے سنہری سبزی مائل گلابی سا دمی مہیپر دو شاخہ تھا۔

"خادم صاحب کے لیے مرغ بھی بھونو…. سالم مرغ سرد خانے سے نکال لو….”

وہ بولی….

خادم نے جواب دیئے بغیر منجمد مرغ نکال کے پتھر کی سل پر رکھ دیا ….

کرنل نے بے اختیار نگاہ بھر کے پتھر کی سل کو دیکھا۔  یاد کی ایک گرم لہر اس کے قلب سے ٹکرائی اور گزر گئی۔  انسانی بے اعتباری کے ہاتھوں بربادیوں کا جو طوفان گزر چکا تھا مگر کرنل اور کئی اُس جیسوں کے اندر ٹھہرا ہوا تھا اس طوفان نے یک لمحہ جوش مارا اور اپنے عفریت جیسے وجود کی چھب دکھائی کرنل نے زنداں کی ٹھنڈی سل کو سامنے بنی مطبخ کی سل سے مماثل کرنے کی جو لاشعوری کوشش کی تھی اس نے ایک بار پھر اس پر ماحول سے غفلت طاری کر دی۔  ہر رات اس کے بستر پر آ کے بچھ جانے والی ٹھنڈی سل …. پوری رات نیند سے جگا جگا کے اپنی یخ بستگی کا احساس دلانے والی سل پھر سے اس کے وجود میں چبھن ڈالنے لگی….

شب افروز نے کرنل کو غور سے دیکھا اور محسوس کیا کہ جینے کی دبی خواہش جو کچھ دیر پہلے ایک لہر کی طرح اس کے چہرے پر اٹھتی نظر آئی تھی پھر معدوم ہو گئی۔  کئی سال پہلے شب افروز کرنل کے کسی دوست سے اتفاقیہ ملی تھی اور اُس نے بیتابی سے کرنل کا حال پوچھا تھا کہنے والے نے بس اتنا کہا تھا کہ وہ شخص جسے دنیا کرنل جلال احمد کے نام سے جانتی ہے اپنے اندر برسوں سے کوئی گڑھا کھود  رہا تھا اور اب اس مدفن میں اتر چکا ہے اس کا ظاہری جسم فقط ایک سائے کی طرح ہے۔

شب افروز نے خود پر ارتکاز کیا اور باور کیا کہ وہ خود بھی کبھی حال کے لمحوں میں پہلے کی طرح نہ جی سکی ہے ماضی کی زنجیر بار بار اس کے پاؤں کھینچ کے گزرے وقت کی عدالت میں کھڑا کر دیتی ہے اور وہ ایک مجرم کی طرح سر نیہوڑائے سوچتی رہتی ہے کہ یوں ہوتا تو یوں ہو جاتا۔  کیا ہوتا اور کیا نہ ہوتا اس گورکھ دھندے نے اس کی زندگی کو کبھی سکون سے آگے بڑھنے نہ دیا۔

گلی سے ایک منھیاری کی صدا آنے لگی شب افروز کے دل میں ہیرے کی کنی کی طرح کچھ چبھا لیکن کسی پر قوت لہر نے اسے سنبھال لیا وہ بولی۔

"آؤ کرنل ……..اُس وقت کو یاد کریں ……..جو ہمارے اندر اِس انتظار میں ٹھہرا ہوا ہے کہ کب ہم اسے راستہ دیں ……..گزر جانے کا ….” ۔

"گزر جانے کا ….؟ ‘کرنل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ……..

"ہاں ….کچھ لوگ گزرے وقت کو گزرنے نہیں دیتے خود بھی اس کے ساتھ ٹھٹھکے رہتے ہیں اور گزرا وقت بھی ٹھہرے پانی کی طرح اندر ہی اندر تعّفن بن کے روح گدلا کرتا رہتا ہے ….کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ ہم زندگی کو رّب کے تقسیم کردہ زمانے کے مطابق گزاریں "۔

کرنل اور شب افروز اب ایک سمت میں آ چکے تھے۔

"ایسا ہونا آسان ہوتا تو انسان ایک اضافی اصلاح شدہ حیات کی تمّنا نہ کرتا” وہ خفّت سے ہنس کے بولا "کاش زندگی کا کچھ حصہ ایسا اختیاری بھی ہوتا کہ انسان جس کی مرمّت اپنے تجربے اور احساس زیاں کے اوزاروں سے کر سکتا” ……..اب جیسے وہ خود کلامی کر رہا تھا۔

"نظام کائنات میں ایسا تو ممکن نہیں ……..ہاں یہ ممکن ہے کہ ہم سو چیں ہم کہاں غلط تھے انسان کے لیے بس اتنا ہی کافی ہوتا ہے۔ ”

شب افروز کے لہجے کی زیرکی اور ذکاوت نے کرنل کو چونکا یا وہ اس کی شخصیت کی تبدیلی اور پختگی پر حیران ہوا ….بیتے سالوں میں وہ ایسی ہر گز نہیں تھی۔  خود میں مست الست۔  اپنے ہی حسن اور آواز کے سحر میں گرفتار مطربہ ….کرنل نے اُس کی بود و باش پر ایک بار پھر توجہ مرکوز کی اور سوچا یقیناً  کسی بڑی تبدیلی نے اسے ان حالات میں جینا سکھا دیا ہے شب افروز کو محسوس ہوا کہ بظاہر تغافل برتنے والا، خود کو فاصلے پر رکھنے اور گزرے دنوں میں بے اختیاری کے لمحوں سے انجان دکھائی دینے والا اب پھر اس کی ذات و صفات پرکھنے لگا ہے وہ کرنل کو پہلے جیسا دیکھنا چاہتی تھی لیکن اپنی ہر پردہ پوشی کے ساتھ۔  اچانک ہی اس نے وقت کی طناب کھینچی اور مدتوں سے بند اُس کتاب کو کھولا جس کے بریدہ اوراق میں اُن دونوں کی کہانی بھی بین السطور چلتی رہی تھی۔  وہ بولی اور یوں کہ جیسے کسی اور ہی زمانے میں کھڑی بول رہی ہو ……..

"اُس وقت شام کے پانچ بجے تھے …. میں نے خبروں میں سنا کہ ایک سمجھوتے کے بعد لڑائی بند ہو گئی ہے اور دشمن کی فوجیں ہمارے علاقے میں داخل ہو گئی ہیں ….”

کرنل نے چونک کے اسے دیکھا اسے انسانی سروں کا بڑھتا دریا یاد آیا اس کے دماغ میں بنتی بگڑتی تصویروں میں شمال کی سمت سے دشمن فوج کی لدی گاڑیاں دکھائی دیں جن کا استقبال ان کے تربیت یافتہ گماشتے کر رہے تھے اپنی وفاداری کے اظہار کے لیے اُنھوں نے ہاتھوں میں نیزے اور ہونٹوں پر دشنام طرازی کا طوفان اٹھا رکھا تھا وہ انسان تھے لیکن اپنی سرمستی میں عفریتوں میں مُبدّل ہو گئے تھے کہ اس طرح اقدارِ حسن و خیر کو ملحوظ رکھنا لازم نہیں رہ جاتا اور جو محب تھے وہ کمزور تھے خود کو بچانے چھپانے کی سعی میں مبتلا۔

بے رحمی سے تاریخ کے اوراق میں ڈھلنے والے منظر تھے ….سرخ سبز سنہری پرچموں کے لہرانے کا سماں اور آتشیں اسلحے سے نکلنے والی دھڑ دھڑ کرتی آوازیں اُن دلوں کو حزن و ملال سے بھر رہی تھیں جو تمنائے سر فروشی میں یہ بھول گئے تھے کہ جنگیں و سائل اور حکمتِ عملی کی متقاضی ہوتی ہیں ….

کرنل نے اپنی موجودگی کو ایک خواب کی طرح محسوس کیا اور بولا ….

” ہاں ایسا ہی تھا ….مراجعت کا حکم ہم سب نے بے یقینی سے سنا تھا ….ایک فوجی کا خواب فتح سے کم پر منتج نہیں ہوتا۔  کشود و بست کی حقیقت اپنی جگہ لیکن یہ سودا جان کا سودا ہے اس میں ایمان کی فروخت کہاں سے آ گئی….؟؟

ہم سب نے کہا تھا ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے ہم اندر سے مضبوط تھے بظاہر بھی ہم نڈھال نہیں تھے لیکن حیرت و تاسف نے ہمیں یوں تھاما ہوا تھا جیسے کسی نامی پہلوان کو اکھاڑے سے اتار لیا جائے اور سبب کسی اور کی ناتوانی ہو …. میں زندہ تھا …. آہ ….اس وقت میں کیوں زندہ تھا؟ اور جو تھا تو بے دست و پاکیوں تھا؟ یہ سوال میری زندگی سے مٹ کیوں نہیں جاتا۔  دم گھونٹنے والے اژدہے کی طرح مجھ سے کیوں لپٹا رہتا ہے؟ اس اژدہے کی جھلسا دینے والی سانسیں میرے اندر آخر کس نظام کے تحت چل رہی ہیں اور …. کب تک چلیں گی ….؟؟ ”

شب افروز سر جھکائے بیٹھی تھی ایک عذاب بھرا عہد اپنی دیو قامتی کے ساتھ روبرو تھا وہ دیکھ رہی تھی کہ کرنل کی عارضی توجہ کی ڈور اب اس کے ہاتھ سے چھوٹ چکی ہے وہ ادراک کر رہی تھی کہ قلب و روح کی سکنیت میں مبتلا کرنل زمانۂ حال سے واجبی سا تعلق رکھے ہوئے ہے ورنہ اس کے دماغ کی کائنات کسی گزرے لمحے میں ساکت ہو گئی ہے وہ جانتی تھی کہ جینے کے لیے فقط طبّی حوالے ناکافی ہوتے ہیں۔  جذبات کے نقطۂ  انجماد میں برسوں رہنا اس کا اپنا المیہ بھی تھا وہ کرنل کو اس کیفیت سے نکالنا چاہتی تھی یا خود نکلنا چاہتی تھی یہ تجزیہ کئے بغیر وہ بولی….

” کرنل ….جنگوں کی تباہ کاریاں انسان کو آج تک کیوں یہ نہیں سکھا سکیں کہ جنگ کرنے کی لامحدود مشقّت سے بہت کم مشقّت کر کے انسان امن و آشتی سے رہ سکتا ہے۔ ”

شب افروز کے اپنے تئیں اٹھائے گئے دانشمندانہ نکتے پر کرنل دھیمے سے مسکرایا اور بولا۔

” جنگیں صرف تباہی کے لیے نہیں بقا کے لیے بھی لڑی جاتی ہیں۔  ہمارا مقصد اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا تھا ہم ایک دوسرے کے بہادر جنگی بھائی تھے اور باہم ہو کے ٹوٹے دل لیکن مضبوط اعصاب کے ساتھ تاریخ کے اوراق پڑھ رہے تھے ہم خوب جان رہے تھے کہ ہمارے سیاست دان، حکمران اور دنیا کے کتنے ممالک شطرنج کے اس کھیل میں شامل ہیں ….”

ایسا کہتے کہتے اس کے چہرے کے خطوط ایک ناقابل بیان کرب جھیلنے لگے شب افروز نے چاہا کہ وہ بولتا رہے اپنے اندر جمی کائی دھو ڈالے مبتلائے ماضی رہنے کی بجائے فقط ایک مبّصر جیسی روانی سے اپنے بیان کی وہ سطح چھولے کہ جہاں اس کے اندر ایک بھی ان کہا ایسا لفظ باقی نہ رہے جو اُس کی روح کو کھر چتا ہو …. اس نے سراٹھا یا اور کرنل کو یوں دیکھا جیسے اسے کسی ان دیکھی دلدل سے نکالنے کے لیے ہاتھ بڑھا رہی ہو پھر بولی۔

” کیا تمہیں نہیں لگتا کرنل….کہ بندر بانٹ کرنے والے حکمران اور ان کی نسلیں زندگی، عزت اور تحفظ سے آہستہ آہستہ محروم ہوتی چلی گئیں۔  ان سنے ان لکھے فیصلے اس طرح وارد ہوتے گئے کہ مکافات کے عمل نے اپنا پھندا ایک کے بعد ایک کے گلے میں ڈالنا شروع کر دیا….”

” ہاں ….بالکل ایسا ہی ہے۔ ” وہ بولا ….”  اس خطے کی سیاسی قیادتیں ارفع تاریخ رقم کر سکتی تھیں انھوں نے وہ موقع گنوا دیئے پھر خود کو بھی گنوا دیا …. ایک تھا بد عہد سیاست دان دوسرا تھا اقتدار کی خواہش میں مضطرب سیاست دان اور تیسرا تھا ان سب کا سردار انگشتِ ابلیس پر ناچتا ہوا وہ کرتا دھرتا ….جو اُس منصب پر فائز تھا جس کے لائق وہ ہر گز نہ تھا …. یہ تھے تاریخ کے وہ قزاق جنھوں نے اس ملک کے سفینے کو لوٹا….سیاسی شعور سے بے بہرہ، اخلاقی گراوٹ اور بدترین جرائم میں مبتلا شرمناک مشاغل والے وہ سب لوگ جو بعد میں خود کو بے قصور اور محب الوطن ثابت کرتے رہے در اصل انہوں نے ہی اپنی نا اہلی سے کفار کے مرحلے آسان کیے۔  دنیا کی عظیم ترین فوج کی ذلّت آمیز شکست کے لیے کیسے کیسے شیاطین اس خطۂ سر سبز پر اپنے مفادات کی شطرنج کھے لتے رہے۔

کاش کہ کوئی ہوتا جو اپنی حکمتِ عملی اور درد مندی سے کچھ ایسا کرتا کہ اس خطّے کا بدلتا جغرافیہ اپنی ہولناکی سے تاریخ کو داغدار نہ کرتا انسانی شرف کی بدترین تذلیل نہ ہوتی قتل و غارت گری کی شرمناک داستان رقم نہ ہوتی اِدھر ہم اُدھر تم کی خود غرضانہ منطق اتنے بھیانک نتائج مرتب نہ کرتی” ……..

خادم کے ہاتھ سے بے دھیانی میں فرش پر کچھ گرا عجیب سی آواز تھی جس نے دونوں کو چونکا دیا انھوں نے ایک ہی وقت میں گرتی شے پر نظریں مرکوز کیں یہ ایک لمبے دستے والا چاقو تھا جو عمودی زاویے سے گرا تھا اس کی دھار پر چمک یوں کوندی جیسے ابھی اسے پتھر پر گھسا گیا ہو خادم کچھ ہراساں سا ہوا جس کی بظاہر کوئی وجہ نہ تھی پھر اس نے فرش پر جھک کر چاقو کو کچھ ایسے اٹھایا جیسے اس کے اٹھانے میں اسے دقّت ہو رہی ہو کرنل نے محسوس کیا تھوڑی دیر پہلے تک وہ ہشاش بشاش تھا مگر اب نہیں ……..

شب افروز نے ماحول میں تناؤ سا محسوس کیا پھر اپنی آواز میں پرسکون ٹھہراؤ لاتے ہوئے بولی ……..” خادم ……..بھولنا مت ہی ……..آج شبِ برأت ہے یہ تیوہار صرف پٹاخوں کے لیے نہیں ہے ہمیں عبادت اور نذر و نیاز بھی کرنا ہو گی۔ ”

"ہم جانتا ہے بیگم صاب” وہ دھیمے سے بولا۔

کرنل نے پہلی بار اس کی آواز سنی جس میں خفی سے لرزش تھی۔

"تو پھر حلوہ بھی بناؤ ……..مسجد کے مولوی صاحب سے نیاز دلوا کے حلوہ محلے کے بچوں میں بانٹ دینا ……..”

وہ مطمئن سی ہو کے کرنل کی طرف متوجہ ہوئی اس نے دیکھا کرنل خادم کو بغور دیکھ رہا تھا پھر وہ اس کے چہرے سے نظر ہٹا کے تقریباً سرگوشی میں بولا !

"تمہارا یہ خادم ……..تمہارے بارے میں کیا کچھ جانتا ہے؟ ”

"کچھ خاص نہیں "۔  شب افروز نے لاپروائی سے کہا۔

"میرا مطلب ہے کیا یہ جانتا ہے کہ تم اُن بارہ عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے اِس ملک کو ذلّت کے کنوئیں میں دھکیلنے میں تاریخی کردار ادا کیا ……..؟ ”

شب افروز نے اپنے بدن میں نا معلوم احساس کی جھر جھری محسوس کی اور نشست کا رخ تبدیل کیے بغیر کرنل اور خادم کے درمیان ایک آڑ سی بنا نے کی کوشش کی لیکن پھر اک مجرمانہ شکستگی کے ساتھ سر جھکا لیا۔  کرنل کی جائزہ لیتی نگاہوں نے اس کے متغیر چہرے کو دیکھا پھر اس کی میزبانی اور تَلطّف کا احساس کر کے نرمی سے کہنے لگا ……..

"میرا مطلب ہے کہ ہو سکتا ہے خادم پر کچھ برا گزرا ہو ….اور میرا مطلب ہے کہ ….”

"محبت اور نفرت کا تعلق کیا ہمارے ماضی کے چلن سے ہوتا ہے؟ یا وقت بدل جائے تو احساسات بھی بدل جاتے ہیں؟ ”

شب افروز کا یہ سوال کس کے لیے تھا؟ خادم کے لیے یا کرنل کے لیے۔؟ شاید کرنل سوال کے اجزائے ترکیبی کی جانچ نہیں کر پایا لیکن اسے ایک قدیم روایت یاد آ گئی وہ بولا۔  "مختلف انسانوں کی فطرت میں مختلف جانوروں کی فطرت سے مماثل اوصاف ہوتے ہیں جن کا اظہار عمومی حالات میں نہیں ہو پاتا لیکن انسان کی فطرت میں ایسی بو قلمونی ہے کہ اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ……..”

کرنل کے یہاں آنے سے شب افروز کے چہرے پر جو دمک عود آئی تھی اب اس کے اظہارِ نفرت سے معدوم ہو گئی تھی۔  احساسِ توہین نے اس کی ظاہری و باطنی ساختیات کو اتھل پتھل کر دیا تھا۔  اس نے خود کو بلا وجہ مصروف ظاہر کرتے ہوئے مڑ کے دیکھا پتھر کی سل پر سرد خانے سے نکلا ہوا مرغ رکھا تھا اور خادم پیالے میں بھرے مسالے کو تیز دار چھری کی مدد سے سالم مرغ میں گُود رہا تھا لیکن اس کی انگلیوں کی جنبش میں کچھ ایسا جارحانہ پن تھا گویا وہ اپنی چھری سے مرغ میں شگاف نہیں ڈال رہا بلکہ کسی ان دیکھی شے پر وار کر رہا ہے۔

شب افروز نے اپنی حیرت چھپائی کرنل کی موجودگی میں اسے یکایک تنہائی کا احساس ہونے لگا ماضی کے گناہِ بے لذّت کے اِتمامِ حجّت کی اب گنجائش نہ تھی۔

شب افروز نے جب اس محدود قطعہ ارضی پر تعمیر، مکان خریدا تھا تو اسے بتایا گیا تھا کہ اس مکان تلے شیشم کے پیڑوں کی جڑیں ہیں اور ایک سوکھا کنواں بھی، جسے پاٹ دیا گیا تھا کبھی کبھی تنہائی کی شدت سے گھبرا کے وہ فرش پر ننگے پاؤں کھڑے ہو جا یا کرتی تھی اور آنکھیں بند کر کے شیشم کے پیڑوں کی دفن جڑوں کو محسوس کرتی تھی ایسا کرتے ہوئے حیرت انگیز طور پر اسے محسوس ہوتا جیسے جڑیں ہری تازہ شاخوں سے لد گئی ہیں اور دالان کا پختہ فرش پھاڑ کے اس کے پاؤں تلے آ گئی ہیں وہ کونپلوں کی بالیدگی اپنے اندر اترتا محسوس کرتی لیکن کبھی نہ سمجھ پاتی کہ ایسا کرنے سے اسے سکون کیوں ملتا ہے کبھی وہ خواب میں دیکھتی کہ سوکھا کنواں اب بھی گہرے اندھیرے کی طرح منہ پھاڑے اس کے گھر میں موجود ہے اور یہ کہ در اصل اسے پاٹا ہی نہیں گیا وہ خواب میں خود کو اس کنوئیں میں گرتا محسوس کرتی تو ڈر کے اٹھ بیٹھتی۔

گزرے وقت کے دیہات کے یہ زمین شہر میں بدل گئی تھی اس کو بدلنے والوں نے خود کو بھی بدل دیا تھا اور کاشتکار سے کاروباری بن گئے تھے تقریباً  دو ڈھائی دہائی قبل یہ شہر ایک طویل کشادہ سڑک کے ایک حصّے سے دوسرے حصّے تک تھا باقی ڈھوکیں اور مضافاتی علاقے تھے لیکن اب وسعت کے لیے سرگرداں یہ شہر ٹیکسلا اور روات کو چھوتا ہوا اُس نہج پر آ گیا تھا کہ جہاں شخصی تنہائی کی خُو بانٹنا اس کے نوشتے میں شامل ہوتا جا رہا تھا۔  یا شاید شب افروز اس شہر کو اِس تناظر میں دیکھنے لگی تھی ویسے بھی یہ دنیا ہر کسی کے لیے ایک جیسی تو نہیں ہے اور نہ ہی ہر جگہ تنہائی یا محفل آرائی ہمیشہ خود اختیاری ہو تی ہے ……..

وہ تو سمجھی تھی مضافات میں رہنے سے اس کا ماضی پھنیرے سانپ کی طرح سر نہیں اٹھائے گا۔  وہاں ایسی کوئی آنکھ نہیں ہو گی جس میں پارینہ رت جگوں کی شناسائی جاگ اٹھے لیکن اس کی چال ڈھال اور طور طریق ہز ار احتیاط کے باوجود خود کو منکشف کرنے کی غلطی کر بیٹھتے تھے یا شاید گنجان آبادیوں میں نسلوں سے پلنے بڑھنے والے لوگ اتنے مردم شناس ہوتے ہیں کہ انسان کی اُٹھک بیٹھک ہی سے اس کا شجرہ نکال لیتے ہیں اس مضافات کی آبادی میں وہ گارے مٹی سے بنی دیوار کے بیچ سنگ مرمر کا ٹکڑا نظر آتی۔  کسی محل کے گنبد پر لگے چاند کی طرح اکیلی اور جدا۔  خادم نہ ملتا تو تنہائی کا کابوس اسے مار ہی ڈالتا ……..لیکن اُس نے خادم کو جاننے کی کبھی کوشش نہ کی تھی وہ خوش تھی کہ خادم نے خود کو نور الٰہی رہنے نہیں دیا تھا اور غلاموں جیسی تابعداری اور خدمت گاری کو حیاتِ کل سمجھ لیا تھا لیکن اس قناعت کے باوجود کبھی کبھی پَر کٹے پرندے جیسی بیچارگی اس پر سایہ فگن ہوتی تو وہ کچھ بدلا ہوا سا لگتا اور شب افروز کو نہ چاہنے کے باوجود بھی سوچنا پڑتا کہ پرندے کے پَر اگر کٹ جائیں تو وہ زمین پر کتنی دیر رینگ رینگ کر چل سکتا ہے کیونکہ کائنات کی ہر شے اپنی فطرت پر قائم ہے فطرت حالات اور ماحول کے رنگ میں ڈھلتی نہیں بس خود کو مناسب ڈھنگ سے غیر نمایاں کر لیتی ہے۔

خادم نے کالے پتھر سے بنی طویل مسطح سل پر مہاشیر کو پھیلا دیا تھا اب وہ مچھلی کے پیٹ کی آلائشیں نکالنے لگا یکدم اس نے اپنے جسم میں جھٹکاسا محسوس کیا اور اپنے ہاتھ میں آئی آلائش کو دہشت بھری نظروں سے دیکھا اسے محسوس ہوا جیسے سانس لیتا ایک انسانی وجود اس سے چھو گیا ہے پھر جیسے کسی نے اس کی سماعت کی ڈور پوری قوت سے کھینچی اور چیخ کے پکارا ……..” نور الٰہی” …………….خادم نے اپنی حسّیات اُس پکار پر مرتکز کیں اپنا انگوچھا کانوں سے سرکایا اور خود سے تصدیق چاہی ……..

"کیا یہ آپا کی آواز تھی”؟؟ ؟

اس کی بڑی بہن نارائن گنج کے ایک ہرے بھرے گاؤں میں بانسوں سے بنی جھونپڑی میں رہتی تھی جس کے اطراف تاڑ، ناریل اور سپاری کے ان گنت درخت تھے وہاں کی جھیلیں سرخ کنول سے بھری رہتیں۔  اُس روز نور الٰہی اپنی ماں کے کہنے پر اپنی آپا کو میکے لانے کے لیے نکلا تھا۔

آپا نے اس سے کہا تھا پہلے وہ شاہ جلالؒ کی درگاہ پر جائے گی اور منّت مانے گی کہ اس کا آنے والا بچہ بیٹا ہو۔

وہ اپنے ساتھ درگاہ کے صحن کے کبوتروں کیلئے دانہ بھی لائی تھی۔  جب مکتی باہنیوں نے اس کا پیٹ چیرا تھا تو….!!!

"نور الٰہی ……..بھاگ ……..بھاگ……..”

"نہیں آپا ……..تجھے چھوڑ کے ……..نہیں "……..وہ سسکنے لگا۔

"میں نہیں بھاگ سکتی ……..تجھے ماں کا واسطہ ……..تو بھاگ …….. بھاگ ……..”

چھرے، ٹوکے، بانس کی لاٹھیاں لوہے کی سلاخیں ……..نفرت کے الاؤ اور اس کا پڑوسی جو اس کے باپ سے عیدین میں گلے ملتا تو اس کا ما تھا بھی چومتا اور آپا کو بیٹا کہہ کے اس کی خیریت پوچھتا تھا۔  بس اسی نے آپا کا بازو پکڑ کر کھینچا تھا اور چمکتی دھار والے چھرے سے پیٹ چیر دیا تھا پھر اس کے تڑپتے لہولہان جسم کو ٹوکے کی مدد سے کھدیڑا تو زور سے چّلایا۔

"لو ……..دیکھو تو ……..یہ تو سپولیا نکلا ……..بچ جاتا تو آج سے سترہ اٹھارہ برس بعد ہمارے سامنے کھڑا ہوتا ……..”

شاہ جلالؒ کی درگاہ دور تھی ……..ان گھنے جنگلوں کی کوئی سمت نہیں تھی بھٹکنے کو ہر پگڈنڈی تھی۔  باگھ بگھیلے چھپ گئے تھے انسان ان سے زیادہ وحشی تھا ایک ملک کی کھلی سرحد سے دوسرے ملک کی کھلی سرحد تک دونوں اطراف سے دھکیلی جانے والی بے خانماں مہجور و مقہور مخلوق تھی ……..جو کسی شہریت کی حقدار نہیں تھی ملکوں کی وسعتیں جس کے لیے ہمیشہ سے تنگ تھیں ……..انسانی حقوق کا کوئی نظریہ اس مخلوق پر لاگو نہیں آتا تھا۔  یہ ہجر زدہ لوگ جن سے افلاک کے سائے بھی بچ کے گزرتے۔  مہاجرت کا کلنک ہی جن کا قومی نشان تھا یہ وہ تھے جنہیں صوبہ بہار سے مشرقی بنگال آئے ہوئے چوبیس برس گزر چکے تھے لیکن ارضِ بنگال نے ایک نسل انتظار کی دوری پر رکھنے کے بعد بھی انہیں مہاجر ہی گنا تھا۔  یہ دوسرے درجے کے شہری مہاجرت کی ردا اوڑھے قومیت کا خواب دیکھتے تھے۔  یہ بے گھر بے خانماں یہ زمین کے سوتیلے بیٹے ان کی ایک نسل نے اپنوں کے تین قتل عام دیکھے تھے اُنھیں پاکستان بنا بنایا نہیں ملا تھا یہ تو وہ تھے جو تحریک پاکستان میں اپنا تن دھن لگا کے اپنے عزیزوں کی لاشوں پر تیرتے ہوئے اُس خطۂ سرسبز میں پہنچے تھے جہاں وہ پناہ گزیں نہیں بلکہ اپنے استحقاق پر شہری بن کے رہنے آئے تھے لیکن یہ زمین زادے نہ کہلائے جا سکے۔  ان ہجر زدوں کے لیے اتنی قربانیوں کا حاصل اِستحقار تھا کیونکہ جغرافیے کی ترتیب ان کے موافق نہیں تھی۔

نور الٰہی کو بس اتنا یاد تھا کہ ایک جانب اونچی پہاڑیاں تھیں دوسری جانب مٹیالے ٹیلے اور تیسری جانب گھنا جنگل جس کے درمیان نہ دکھا ئی دینے والا رستہ تھا۔  استوائی جنگلی پگڈنڈیوں میں سہما سسکتا نور الٰہی بے ہنگم خاردار گھانس اور پتوں کے درمیان چھپ کے بہن کی پیٹ حِپری لاش اور اس کے منّت مانے بغیر بیٹے کے ادھورے نقش کو حسرت ویاس سے تکتا رہا کبوتروں کا دانہ زمین پر بکھر گیا تھا جنگل کے پرندے آپا کی لاش کے گرد آہستہ آہستہ جمع ہو کے دانہ چگنے لگے انسانی بھیڑئیے نور الٰہی کی بُو سونگھتے اور جنگلی جھاڑیوں کو بھنبھوڑتے بلا آخر دور نکل گئے کئی پہر گزر گئے اندھیرا ڈیرہ ڈالنے لگا اب کم درجہ بے رحم درندوں کی باری تھی باگھ بگھیلے تیندوے جھاڑیوں سے نکلے اور لاش پر جھپٹ پڑے پھر کچھ بھی نہ تھا جنگل کے قدیمی درختوں میں بس ایک گونج رہ گئی ……..نور الٰہی ……..بھاگ ……..بھاگ ……..بھاگ

٭٭٭

خادم کا جسم پسینے سے شرابور ہو چکا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ نارائن گنج کی کسی ندی میں چلنے والے نوکے سے گر گیا ہو اور پل بھر میں سوسن کے پھول اس کے گرد جمع ہو کے سرگوشیاں کرنے لگے ہوں کہ اب تمام ندیاں سفید بگلوں کے خون سے سرخ ہیں اب شفافیت تا حّد نظر نہیں ہے۔

خادم نے انگوچھے سے پسینہ اِس وحشت سے پونچھا جیسے خون پونچھ رہا ہو پھر اس کی نظر کرنل اور شب افروز پر گئی اس نے اپنے ہاتھوں کی لرزش پر قابو پانے کی کوشش کی اور لو ہے کی کیلوں کے دندانے دار برش سے مچھلی کے سفنے اتارنے لگا۔

کرنل نے غیر ارادی طور پر مڑ کر خادم کو دیکھا اور محسوس کیا کہ بظاہر اپنے کام میں منہمک خادم اپنی ہر جنبش کا ایک خاص اثر کرنل کی حسّیات پر مرتب کر رہا ہے ……..ایسا کیوں؟ اس نے اپنی طویل عمر میں ہزاروں لو گوں کو دیکھا تھا اور انسانی کیفیات و حسّیات کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن خادم کو پہلی بار دیکھ کر کرنل کو محسوس ہوا تھا جیسے کسی نہ کسی بہانے ایک دن اس شخص کو اس سے ملنا ہی تھا۔  خادم کے چہرے پر اس کی عمر کے آثار دیکھنے والے کو مغالطے میں ڈالتے تھے اس کی چال ڈھال زر خرید غلام جیسی تھی اس کی جفا کشی ہر حرکت سے نمایاں تھی وہ کوئی ایسا نہیں تھا جس کا ظاہر باطن کسی بھی طرح قابلِ توجہ معلوم ہو ….پھر بھی کچھ تو تھا ….کرنل نے سرجھٹکا ….” کچھ نہ کچھ تو ہر کسی میں ہوتا ہے ….”

خادم لمبے دستے کے چمکدار چاقو سے مہاشیر کے گول گول ٹکڑے مہارت سے کر رہا تھا جلد ہی یہ کام ختم کر کے اس نے مچھلی کے قتلوں پر نمک برک دیا پھر تلپٹ کر کے انہیں ہاتھوں سے ملَنے لگا اور ایک بڑی چھلنی میں ان قتلوں کو پانی نچڑنے کے لیے رکھ دیا ……..مچھلی کا سرخ پانی آہستہ آہستہ پتھر کی سل پر ٹپک رہا تھا بالکل ایسے جیسے ٹوکے سے کٹی ہوئی انسانی گردنوں سے خون ٹپکتا ہے وہی خون جو اس کے ددھیالی رشتہ داروں کا تھا جن میں بیلا بھی شامل تھی اس کے چچا کی بیٹی اور اس کے بچپن کی منگیتر ……..بیلے کے پھول کی طرح نازک اور پاکیزہ۔  اس کے پڑوسی نے بتایا تھا کہ مکتی باہنی بہت سے مردوں عورتوں اور بچوں کو ہنکالتے ہوئے جنگل میں بنی بانس کی جھونپڑیوں کی طرف لے آئے تھے وہ باری باری ان کے سرد و لکڑیوں کے بیچ رکھ کے ٹوکے سے کاٹ دیتے عورتوں کو اسی کھلی جگہ پر بے آبرو کر کے چاقو گھونپ دیتے۔  خادم نے لمبے دستے والے چاقو کو غور سے دیکھا اور تصور کیا اُس چاقو کا، جو بیلا کے پیٹ میں گھونپا گیا ہو گا۔  اس نے سوچا آپا کو مارنے سے پہلے انہوں نے اس کے گرد گھیرا ڈالا تھا جیسے بھیڑئیے اپنے شکار کو نوچنے سے پہلے اسے گھیرتے ہیں کیا اسی طرح بیلا کے گرد بھی انہوں نے گھیرا ڈالا ہو گا؟؟

اچانک خادم کو محسوس ہوا جیسے آس پاس بھیڑیوں کے ہُوکنے کی آوازیں آ رہی ہیں لہسن کو سل بٹے پر کوٹتے پیستے اس نے سر اٹھا کے دیکھا شب افروز کہہ رہی تھی "میں اُس سرکاری قحبہ خانے کی کامیاب عورتوں میں سے تھی جو سربراہِ مملکت کے بہت قریب تھیں۔  در اصل میں تو فقط ایک آلۂ کار تھی اور جن کے اشاروں کی غلام تھی وہ مجھے سب کچھ نہیں بتاتے تھے کہ در حقیقت وہ مجھ سے ملنے والی معلومات کی ترسیل کہاں کر رہے ہیں میں تو بس اتنا جانتی تھی کہ مجھے اپنے نخچیر کو مد ہوش رکھنا ہے اپنے حسن، اپنی گائیکی اور نشے سے۔ ”

"نہیں ……..تم اتنی بھی معصوم نہیں تھیں تم خوب جانتی تھیں کہ تم کس کے لیے کام کر رہی ہو ……..تمہیں دی گئی سرکاری مراعات ……..رقوم اور تعیشات کا اندازہ لگانا مشکل تھا تمہارے اور تمہاری جیسی عورتوں کے لیے ریاست کے خزانوں کے منہ کھلے ہوئے تھے حیرت ہے تمہاری وہ دولت کہاں گئی؟؟ ”

"تم کچھ نہیں جانتے کرنل” ……..شب افروز روہانسی ہو کے بولی۔  "وہ سب معاملات ہم جیسی عورتوں کے کاروبار کا حصّہ تھے ہمیں تو یہی کچھ کرنا تھا ……..لیکن تم نے کیا کیا؟ تم تو ہمارے ماحول کے نہیں تھے تم دنیا کی بہترین فوج کے افسر تھے تمہاری تربیت تمہارا منصب اور تھا کیا تم اور تمہارے ساتھی کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھا سکتے تھے ……..”؟

پھر وہ طنز سے ہنسی …. اور بولی۔  ” صاف ستھری بھیڑوں کے درمیان ایک بھی کالی بھیڑ گھس جائے تو بھیڑیئے کی درندگی اپنا راستہ نکال لیتی ہے۔  لاہور کے ایک قحبہ خانے کو چلانے والی وہ عورت کئی جاسوس قطّا ماؤں پر بھاری تھی اس کے سامنے حالتِ مد ہوشی میں اہم ترین فوجی راز اگلنے والا کون غدّارِ وطن تھا اور کس اہم منصب پر فائز تھا …. تمہیں یاد تو ہو گا ….”!

کرنل نے سرجھکا یا۔  پہلو بدلا پھر جیسے کسی قدیم بازگشت کی لپیٹ میں آ کے اپنی سانس میں گونجتے کہرام کو گویائی تک لے آیا ……..” کاش ……..اُس وقت مجھے اور میرے ساتھیوں کو یہ ادراک ہو تاکہ شیاطین کے اُس غول میں ہم کس طرح استعمال ہو رہے تھے ہماری حمیّت اشیائے ارزاں کی طرح ہاتھوں سے نکلی جا رہی تھی ہماری پاک زمین پر ٹڈّی دل کی طرح جو عفریت پھیل گئے تھے وہ تو در اصل خود غرضی اور ہوس کے کینچوے تھے جنہیں چند ہمت والے آگے آ کے کچل سکتے تھے۔  کسی ملک کو ہڑپ کرنے کی حکمتِ عملی یہ ہو تی ہے کہ وہاں خائین گماشتے بٹھا دیئے جائیں اسوقت سازشوں اور مفاداتی گھمن گھیریوں میں گھرا ہمارا ملک ایک جوا خانہ بن چکا تھا ہر شخص جوا جیتنے کے لیے اپنے ضمیر کی بولی لگا رہا تھا۔  کسی عظیم رہنما کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ اس وقت محسوس ہو رہی تھی۔  دونوں سَرکردہ سیاست دانوں کی فرعونیت اور خود غرضانہ سیاست اور سربراہ مملکت کی نا اہلیت یکجا ہو گئی تھیں اُن تینوں میں سے کسی ایک میں عظیم رہنما بننے کی صلاحیت نہیں تھی تینوں اپنے مفادات اور حلقۂ اثر میں گرفتار تھے تاریخ اُس بدترین مثلث کو کبھی معاف نہیں کرے گی مورخین آج تک فیصلہ نہیں کر پائے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کلیدی کردار کس کا تھا سربراہ مملکت اور اس کے ساتھیوں کا یا بھارت سے ساز باز کرنے والے سیاست دان کا یا پھر اُس سیاست دان کا جو ہر حال میں اقتدار کا خواہش مند تھا۔

شب افروز نے ماضی کی چلمن اٹھائی اور لب بستہ ہو کے اس میں جھانکنے لگی جہاں اُس کے جادوئی سُروں کی گونج اسے اپنا ہی دیوانہ بنا دیتی تھی سلطنت کا وہ معتبر مقام جو تفکّر اور ہوش مندی کا متقاضی تھا جہاں ہونے والے فیصلے تاریخ کے صفحوں پر رقم ہو رہے تھے وہاں غافلوں کے درمیان غیر ملکی خفیہ اداروں کی آلہ کارحسین عورتوں کا جمگھٹا تھا ایسی حسینائیں بھی تھیں جو بیک وقت دو دو ملکوں کے خفیہ اداروں کی گماشتائیں تھیں یہ زر خرید لونڈیاں اپنے حسن اور بے حیائی کو پروانۂ راہداری بنا کے ہر محفل میں پہنچ جاتی تھیں اور اپنے اصل فرائضِ منصبی سے چشم پوشی کرنے والے حاشیہ نشین، صدر کو خوش کرنے کے لیے اُن قطاماؤں کی چاکری میں مصروف ہو جاتے تھے۔  بارہ عورتوں کے اشارۂ ابرو سے اہم ریاستی امور طے پانے لگے تھے۔  عیاشی، ملک کی سماجیات کا ایک حصّہ بن چکی تھی۔  قحبہ خانے کھلے عام چل رہے تھے ملکی اخبارات سربراہ مملکت کے مشاغل سے رنگین ہوتے۔  غیرملکی اخبارات بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے اہم سرکاری غلام گردشیں قیمتی فوجی اور قومی رازوں کی دشمن تک ترسیل کا ذریعہ بن چکی تھیں۔

دنیا انگشت بدنداں تھی….

بدنام گلیوں پر جب دھول پڑی اورسرکاری محّلات کی غلام گردشوں میں سنّاٹا بولنے لگا تب شب افروز کے سامنے ایک اور دنیا آئی جہاں رنگیلے شاہ، اس کے احباب اور طالع آزماؤں کا جھمگٹ اڑن چھو ہو چکا تھا۔  اب نہ کوئی مُغنیہ باقی رہی نہ فلمی ستارہ اور نہ ہی بارہ عورتوں کی جلوہ گری۔  مُخنث کی طرح مٹکتے تھرکتے مرد اور اپنے اپنے حصّے بٹورتے گدھ ان راہداریوں سے ایسے بھاگے کہ خدّام ان کے منڈلانے کا سماں ہی بھول گئے رنگیلے شاہ کے مصاحبوں میں شامل سرکاری عہدے دار جو اپنی مکروہ صورتوں اور نیتّوں کو قیمتی پوشاک میں چھپاتے تھے کود کر اپنے دفاتر کی کرسیوں پر یوں جا بیٹھے جیسے اصل فرائضِ منصبی کی بھرپور ادائیگی نے انہیں کبھی سر کھجانے کی مہلت نہ دی ہو ……..

شب افروز بھی اپنے سُروں کے جادو اور اپنے حسن کے مغالطے سے بیدار ہوئی تو دنیا اپنا حقیقی مکروہ چہرہ لیے اس پر ہنس رہی تھی اسے استعمال کرنے والے اس کی خطیر رقوم لے کر روپوش ہو چکے تھے وہ بے فیض کمائی تو گئی عشّاق کے کار رواں بھی کسی اور موڑ مڑ گئے ……..اُس کار رواں میں شامل ایک نوجوان جلال احمد بھی تھا جو آج تھکی عمر کا بوجھ لیے سابق کرنل کا لاحقّہ سنبھالے اس کے روبرو تھا…. اب اس کا ملنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی کسی بھولی ہوئی گلی کو مڑ کے ذرا کی ذرا دیکھ لے وگرنہ شب افروز پر ایک طویل دور ایسا گزرا جس میں وہ یہی سوچتی تھی کہ کاش وہ ایک بدصورت اور بھّدی آواز والی عورت ہوتی مگر اس کے اندر روح کھدیڑنے والا کا بوس نہ ہو تا۔

کرنل اور شب افروز گزرے زمانے کی طنابیں کھینچنے کی سعئی میں کارہائے رائے گاں کی پشیمانی سے الجھنے لگے۔  یہ کیسا ملنا تھا جو ملنے کی خوشی لے کر نہ آیا تھا یہ کیسی گھڑی تھی کہ جس میں ماضی کی الجھی گرہوں کے ڈھیر ان کے سامنے آ پڑے تھے اور ہر گرہ کو کھلنے کی عجلت سی تھی…. گزرے وقت کے شیریں خواب، شکلیں بدلنے والی غیر مرئی مخلوق بن کے ڈرا رہے تھے اور کوئی تھا جو غیر محسوس طور پر اُن پر حاوی ہو کے گزرے حقائق باور کرانے پر مصر تھا جن کی جزئیات کو یاد رکھنے کے باوجود کرنل ان کے اعترافات اور بیان کی تلخی سے آج تک بچنے ٹالنے کی کوشش میں رہا شاید آج کی شام بہت کچھ دہرانے کے لیے مختص تھی۔

قید کے دنوں میں جب وقت نہیں کٹتا تھا تب بے معنی گفتگو بھی لطف دے جاتی تھی۔  انہی دنوں اس کے ایک قیدی ساتھی نے بتایا تھا کہ وہ ایسے ایک شخص کو جانتا ہے جو علمِ سیمیا سے واقف ہے یہ وہ علم ہے جس کے ذریعے ان لوگوں اور اشیاء کو دیکھا جا سکتا ہے جنہیں انسان فقط اپنے پانچ حواسوں میں مقید رہ کے نہیں دیکھ سکتا اس یاد کے ساتھ ہی کرنل نے بے اختیار اپنی گردن موڑی اور خادم کو دیکھا اور غور کیا کہ سر پر انگوچھا لپیٹے تہمد باندھے مشّاقی سے کام کرتا یہ شخص ویسا تو نہیں جیسا دکھائی دے رہا ہے کیا یہ کوئی عامل یا چھلیا ہے جو کسی چھَل فریب سے اسے اور شب افروز کو کسی انجان تماشا گاہ میں لے آیا ہے یہ مختصر سا دالان جس میں اس نے آتش بازی کے سامان کو ڈھیر کیا ہے شاید اسی کو اس نے اپنے عمل سے ایسے پردۂ سیمیں میں بدل دیا ہے جس پر گزرے وقت کے مناظر واضح ہونے اور ان دونوں کو بیان پر مائل کرنے لگے ہیں۔  آخر یہ چاہتا کیا ہے؟

برسوں سے ہمارے اندر گھٹن بن کے جمع ہونے والے سوالات سے اس کا کیا تعلق ہے۔  ہمارے جوابات ہمارے اعترافات……..ان سب سے اس چھلیا کو کیا فرق پڑے گا……..؟ ۔

شب افروز نے کرنل کو خادم پر نگاہ مرکوز کرتے دیکھا تو بولی۔  "خادم ……..کھا نا تیار ہونے میں ابھی کتنی دیر ہے ……..؟ ”

"نہیں ……..کوئی جلدی تو نہیں "……..خادم کی بجائے کرنل نے جواب دیا اور گردن سیدھی کر لی۔  پھر کچھ دیر پہلے کہے ہوئے اپنے الفاظ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے بولا۔

"میں بہت تلخ ہو گیا ہوں اسی لیے لوگوں سے نہیں ملتا ……..مجھے معاف کر دینا نجانے کیا کیا کہہ جاتا ہوں ……..ایک رجعت قہقری ہے جو مجھے الٹے پاؤں پھراتی رہتی ہے اور تھکاتی رہتی ہے میں نہ آگے بڑھ پاتا ہوں نہ ہی اس رجعت کے تکلیف دہ احساس کو کسی سے بانٹ پاتا ہوں بس جیسے اندر ہی اندر واپسی کا نہ ختم ہونے والا سفر کرتا رہتا ہوں "۔

"واپسی کے اس عمل میں کیا کوئی ایسا پڑاؤ بھی ہے جہاں میرا وجود منعکس ہوتا ہو ….؟ ”

شب افروز کے اس سوال پر کرنل چونکا جیسے کوئی غیر متوقع صورتحال پیش آ گئی ہو پھر تحّمل سے بولا ……..” بعض اعتراف اپنے مقر رہ وقت کے گزر جانے پر قدر و قیمت کھو دیتے ہیں۔ ”

وہ پھر اداسی کے گھیراؤ میں آ چکا تھا اب کے شب افروز نادم تھی کہ اس نے ایسا سوال ہی کیوں کیا۔  کچھ ٹھہر کے وہ پھر بولا۔  "میں اب عہدِ رفتہ والا جلال احمد نہیں، میں کوئی بدلا ہوا آدمی بھی نہیں ہوں بس ایسا ہے جیسے اب کچھ بھی نہیں ہوں اس لیے تم مجھے پرانے منظروں میں رکھ کے مت دیکھو۔ ”

شب افروز خاموشی سے اسے دیکھتی رہی پھر بولی "اُس شاہ وقت کے طلسم کدے کی راتیں ایسی ہو شربا تھیں کہ وہاں موجود چہروں کو دیکھ کے لگتا نہیں تھا کہ اتنا کچھ بدل جائے گا سب کچھ دیکھتے ہی دیکھتے پانی کے بلبلوں کی طرح فنا ہو جائے گا” ۔

"ہاں ایسا ہی ہے ……..” کرنل نے قصداً  دبے جذبات واحساسات کی راکھ کو پھلانگا اور ان تلخ حقائق کی طرف آنا چاہا جو گرچہ طشت از بام تھے لیکن کرنل کو ہمیشہ ذاتی واردات کی طرح اندر سے کھرچتے رہے وہ بولا۔

” میرا مقّدر اُس المیے سے تبھی جڑ گیا تھا جب مجھے مشرقی پاکستان کے محاذ پر بھیجا گیا تھا وہ ایسا سفر تھا جس سے میں آج بھی نہیں لوٹا ……..وہ اسیری کی راتیں تھیں جن میں سوتے سوتے میں جاگ اٹھتا تھا اور لاشعوری طور پر اُن نکات پر غور کرنے لگتا جو زوالِ ڈھاکہ کا باعث بنے پھر شروع سے تمام واقعات کی بُنت کرتا ایک ایک نکتہ موتی کی طرح درد کی مالا میں پُروتا صبح تک درد کی یہ مالا بکھر جاتی میرے ذہن میں واقعات و حالات کی ترتیب منتشر ہو جاتی واپس آنے کے بعد میں نے تاریخ کے اوراق پلٹے وجوہات پر غور کیا ایسا ہوتا ……..تو پھر کیا ہوتا ……..نہیں یوں ہو جاتا تو یہ نہ ہوتا۔  اسی ادھیڑ بُن میں زندگی ہاتھوں سے نکلتی چلی گئی …….. حقائق ایک تلاطم کی صورت میرے دماغ سے آج بھی ٹکراتے رہتے ہیں میں سوچتا ہوں کہ سلامتی کونسل میں جوش بھری تقریر اور پاک بھارت جنگ کے مسئلے پر بحث کے دوران سلامتی کونسل کے کاغذات کو پھاڑ دینا ہی وہ لمحہ تھا کہ جب دنیا کے منظر نامے میں مشرقی پاکستان خون میں نہا گیا تھا اس وقت دور اندیشی اور تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا تو ممکن ہے عالمی دباؤ سے اقوام متحدہ جنگ بندی پر متفق ہو جاتی اور اتنی خوں ریزی نہ ہوتی دنیا کا جغرافیہ بدلتا رہتا ہے لیکن حکمتِ عملی سے جنگیں ٹالی بھی جا سکتی ہیں "۔

"ٹھیک کہتے ہو کرنل ……..دونوں طرف کے ہوش و خرد سے وراء سیاست داں جذباتی ادکاری کرتے رہے اور مستقبل کے اندیشے سے بے خبر نتائج سے بے پروا ہو کے قوم کو جنگ اور تباہی کی بھّٹی میں جھونکتے رہے۔  ایک سیاست دان کی ظاہری خوبصورتی اور ذہانت کو بڑھا چڑھا کے سحر انگیز شخصیت کے طور پر مشتہر کیا گیا تاکہ پاکستانی عوام کو مغالطے میں مبتلا کر کے ان کا جذباتی استحصال کیا جا سکے ……..

"آخری کیل ٹھونکنے والا بہر طور تمام خرابیوں کا ذمہ دار نہیں ہوتا” ۔  کرنل نے کہا بنگالی مسلمانوں نے قیام پاکستان کی جد و جہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا لیکن مغربی پاکستان نے بنگالیوں پر کبھی اعتماد نہیں کیا انہیں تمسخر کا نشانہ بنا یا جاتا ان کے رنگ، قد پر پھبتی کسی جاتی انہیں فوج میں بھرتی ہونے کے لائق نہیں سمجھا جاتا تھا۔  بنگالیوں کی ذہانت و فطانت کو کبھی مغربی پاکستان میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا وہ محنت کے خوگر تھے مصائب و آلام جھیلنے کے باوجود با ہمت تھے لیکن مغربی پاکستان نے انہیں مساوی درجہ دینے کی بجائے ان پر حاوی ہونے کی کوشش کی وہ ہمارے تھے مگر ہم ان کے نہیں بن سکے بالا آخر اپنی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی سعی میں وہ بھارت کے بچھائے پھندے میں پھنس گئے۔  بھارت نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان حائل ایک ہزار میل کے فاصلے کو جغرافیائی حربے کے طور پر استعمال کیا ہم چاہتے تو اس فاصلے کو ذہنی فاصلہ نہ بننے دیتے لیکن بھارت نے ان کے ہر زخم پر انگشت نمائی کی بالآخر وہ بنگلہ قومیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوا بھارت کے سرحدی علاقوں میں ہجرت کرنے والے بنگالیوں کو بھارت نے سہارا دیا عسکری تربیت اور اسلحہ دیا یہ وہی باغی تھے جو پاکستان کی فوجی کار روائیوں کے بعد سرحد پار کر گئے تھے یا دیہی علاقوں میں چھپ گئے تھے ہمارے پاس انصاف کی طاقت نہیں تھی اسلیے انہوں نے نفرت کی سیاست اپنا لی پھر وہ مکتی باہنی کا روپ لے کر پلٹے تب انہوں نے وہاں ہجرت کر کے آنے والے غیر بنگالیوں اور پاکستان سے محبت کرنے والے بنگالیوں کی دنیا ہی تلپٹ کر دی ……..مغربی پاکستان ان کٹتے مٹتے محب الوطن لوگوں کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ ”

کرنل نے کرسی کی گہری نشست پر خود کو جھکا کے دونوں ہاتھوں میں اپنا سر تھام لیا۔

شب افروز نے اقتدار کے ایوانوں میں رنگ و نور کی چکا چوند محفلوں کے درمیان سیاست کی مکروہات سے پردہ اٹھتا دیکھا تھا عیش و نشاط کے گنگناتے لمحات میں حالاتِ حاضرہ کے کڑوے کسیلے حقائق جب دھم سے آ گرتے تھے تو پرستان جیسی محفل میں کھلبلی مچ جاتی تھی۔  یہی وہ موقع ہوتا تھا کہ جب غیر ملکی خفیہ اداروں کی گماشتائیں اپنا قبلہ درست کرتیں اور گماشتہ گری پر متوجہ ہوتیں۔

کرنل نے سراٹھا کے شب افروز کو دیکھا اور بولا۔

” کیا تمہیں گزرے دنوں کی یاد پشے ماں کرتی ہے ….”؟

شب افروز نے ایک آہ بھری ….”  ہاں …. میں اپنی قوم کی مجرم ہوں اگر میں کچھ بہتر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی تو کم از کم وہ کچھ بھی نہ کرتی جو کر گزری ہوں۔  مجھے یہ بات بہت تکلیف دیتی ہے کہ میں بھی غیر ملکی خفیہ اداروں سے وابستہ جاسوس عورتوں جیسی ہی تھی جنھوں نے اس قوم اور اس کے عوام کا استحصال کیا …. میں خود کو معاف نہیں کر پاتی ہوں ….” اس نے ندامت سے سر جھکایا۔

” اور میں ایسے اعترافِ گناہ کی تلاش میں ہوں جو مجھ سے براہ راست سرزد ہی نہیں ہوا۔ ” کرنل بولا …. اس جنگ نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ عوام اپنے ملک کے ہوں یا دشمن ملک کے، جنگ صرف انہی کو متاثر کرتی ہے۔  حکومتیں اپنا کھیل کھیل کے ہٹ جاتی ہیں۔  ہمارے منتقم المزاج دشمن کا ذہنی انتشار ایک تباہ کن طوفان کی طرح سامنے آیا تھا اُس نے پاکستان کی تقسیم کے منصوبے پر دیگر ممالک کے خفیہ اداروں کے اشتراک سے کامیابی تو حاصل کر لی تھی لیکن اپنے ملک کے عوام کو غربت کی آخری لکیر سے نیچے گرا دیا تھا۔  ان کے منہ کے لقمے چھین کے اسلحہ خانوں کو اسلحے سے بھر دیا تھا۔ ”

” تم ٹھیک کہتے ہو کرنل….جنگیں بھوک اور بے گھری دیتی ہیں "…. وہ بولی

” اب اتنی باتیں ہوئی ہیں تو سنو …. دشمن قوتوں نے باہم یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم پاکستانی جنگی قیدیوں کو بنگلہ دیش کی حکومت کے حوالے کیا جائے اور وہی ہمیں سزا سنائے ….”  کرنل نے شبِ افروز کے سامنے ایک انکشاف کیا۔

"اچھا…. تو کیا ہمارے جنگی قیدیوں کو زیادہ سختیوں سے گزرنا پڑتا؟ ” شب افروز نے پوچھا۔

"اگر ایسا ہو جاتا تو بنگلہ دیش کی حکومت ‘بھارت کے اشارے پر پاکستان کے اعلیٰ فوجی افسروں پر جنگی جرائم، زنا، قتل عام کے الزامات لگا کر مقدمات چلاتی اور بالآخر ڈھاکہ کی گلیوں میں انہیں سرعام پھانسی گھاٹ پر چڑھایا جاتا۔ ”

"وہ ایسا کیوں نہیں کر سکے؟ ” شب افروز نے وضاحت چاہی۔

"ان کی مجبوری تھی ….” کرنل بولا "اسوقت بنگلہ دیش با قاعدہ مملکت کے طور پر خود کو تسلیم کروانے کے مرحلے سے نہیں گزرا تھا ….”

"کرنل ….تم نے ایک جنگی قیدی ہونے کی حیثیت سے بہت تکالیف اٹھائی ہوں گی ……..” وہ تاسف سے بولی۔

کرنل نے مڑ کے پھر خادم کو دیکھا اور اُس سل کو بھی جس پر خادم مطبخ میں کئے جانے والے کاموں کا انحصار کر رہا تھا ….

گردن واپس مو ڑتے ہوئے اس کے چہرے پر ایسے تغیرات آئے جیسے وہ مزیدکسی عذاب سے دوچار ہو رہا ہو۔  اب وہ ایک مبّصر کی بجائے مفتوح کی طرح سرنگوں ہو کے بولا….

"جسمانی تکالیف کوئی معنی نہیں رکھتیں لیکن اُن دو سالوں نے میری زندگی بدل دی ……..میں پہلے جیسا تو نہیں رہا یعنی زندگی سے لبالب بھرا ہوا ……..لیکن در حقیقت میں وہ بھی نہ بن سکا جو ذہنی اور روحانی مصائب جھیلنے کے بعد مجھے بن جانا چاہیے تھا یعنی پہلے سے زیادہ با شعور اور زندگی سے آشنا ……..میں معمول کے فرائض تو ادا کرتا رہا مگر اُن اثرات سے نہیں نکل پایا جو اُس دور میں مجھ پر مرتب ہوئے آج بھی دھوئیں اور بارود کی بُو میرا پیچھا کرتی ہے کہ جب اَجل ڈھاکہ، چٹا گانگ اور راجشاہی میں باغیوں کی بڑی تعداد کے ہمراہ نّہتے معصوم غیر بنگالیوں اور محب الوطن بنگالیوں کو نگلنے کے لیے گلی کوچوں میں بے محابا پھر رہی تھی۔  پڑوسیوں کی محلہ داری، دوستوں کی دوستی بے معنی ہو چکی تھی ایسا لگتا تھا جیسے سماجیات کا ہر نظریہ غلط ہے "۔

"مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تمہاری حسّاسیت تم پر اتنی غالب آ جائے گی” شب افروز بولی۔

"ہو سکتا ہے میری طویل پژمردگی کا سبب کچھ اور بھی ہو” ۔  وہ زیر لب بولا۔

"کیا مطلب؟ ” شب افروز نے اسے چونک کے دیکھا۔

"شاید میں ان لو گوں میں سے ہوں جو دنیا کو معاف کر سکتے ہیں لیکن اپنے لیے فقط سزائیں تجویز کرتے ہیں۔  میں ایک سپاہی ہوں سپاہی کو غفلت نہیں شہادت سرخرو کرتی ہے اور میں چند ایسی غلطیوں کا مرتکب ہوا جن کا بوجھ میرے کندھے پر ہمیشہ کے لیے ایستادہ ہو گیا” ۔

"مثلاً  کیا ……..؟ ” شب افروز تجسس سے آگے کو جھکی۔

خادم مسالہ بھوننے کے دوران بار بار پانی کا چھینٹا مار رہا تھا تا کہ وہ سوختہ نہ ہو جائے لیکن اس کی سماعت ان دونوں کے مکالمے کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تھی اس نے ہانڈی کے نیچے آنچ دھیمی کی اور کرنل کی آواز پر سماعت مرکوز کی۔  یہ حد سے بڑھا ارتکاز تھا یا خادم کے دماغ میں گونجتی آوازوں کا اژدحام ……..کہ اسے کرنل کی آواز کسی غیر انسانی صوت میں متبّدل ہوتی محسوس ہوئی کرنل کہہ رہا تھا۔

"جب حالات بگڑنے شروع ہوئے تو میں نے محب الوطن بنگالیوں اور بہاریوں کو یقین دلایا کہ ہم ان کے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دیں گے اور یہ بھی کہ میں ذاتی طور پر ان کے اطراف رہنے اور ان کی حفاظت کرنے کی کوشش کروں گا لیکن جب انہیں مدد کی ضرورت ہوئی تو میں انہیں نہّتا چھوڑ کے چلا گیا بعد میں پتہ چلا کہ ان کے گھر جلا دیئے گئے عورتیں اٹھا لی گئیں مردوں اور بچوں کو کاٹ چیر کے پھینک دیا گیا” ۔

"تم نے ان سے جھوٹا وعدہ کیوں کیا کرنل……..اگر وہ تمہارے آسرے پر نہ بیٹھتے تو اپنی مدد کے لیے کچھ اقدامات کر سکتے تھے ……..”؟ شب افروز نے رنجور ہو کے کہا۔

"میں در اصل نہیں چاہتا تھا کہ وہ مشتعل ہوں اور حالات میں مزید بد تری پیدا ہو یا پھر وہ پناہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھاگیں اور افراتفری پھیلے میں اقرار کرتا ہوں کہ میں ان کے لیے کسی بھی طرح کے حفاظتی اقدامات کے منصوبے اپنے ذہن میں نہیں رکھتا تھا ایسا کرنا میرے لیے قابلِ عمل بھی نہیں تھا نہ ہی میں نے اپنے دستے سے اس سلسلے میں کوئی بات کی تھی میں ذاتی طور پر ایسی کوشش میں تھا جو ہر طرح سے تصادم اور بھگدڑ کو روک سکے لیکن اتنا کچھ بگڑ جائے گا یہ میرے تّصور میں نہ تھا” ۔  اُس نے خفت سے کہا۔

"اور جب مکتی باہنی وہاں آ گئے تو تم وہاں نہیں تھے بے بس نہتّے لوگوں نے تمہاری راہ دیکھی ہو گی ایک مسلح دستے کے نمو دار ہونے کی دعا کی ہو گی تم نے انہیں امید کی کھونٹی پر لٹکا کے بے بس کر دیا آخری لمحوں میں انہوں نے پتہ نہیں کیا کیا سوچا ہو گا ……..شاید یہی کہ وہ تم پر اعتبار نہ کرتے اور مکتی باہنیوں کے آنے سے پہلے وہاں سے بھاگنے اور چھپنے کا سامان کرتے ……..” شب افروز دکھ سے بولی۔

وہ دونوں اذیت ناک خاموشی میں ڈوب گئے۔

کچھ توقف کے بعد کرنل نے سر اٹھایا اور بولا ……..” مہربان قدرت میری سزا کا کچھ حصّہ اسی دنیا میں دینا چاہتی تھی سو اس نے دیا ……..”

"کیسے؟ ” شب افروز نے پوچھا جیسے وہ کرنل کو ان سنی آہوں سے بچانا چاہتی ہو۔

"قید کے دوران جب قیدیوں کے خطوط کے جواب آتے تو میں بھی اپنے گھر بھیجے گئے خطوط کے جواب کا منتظر رہتا پھر مجھے محسوس ہونے لگا کہ اب خط لکھنا بے سود ہے میں قیدیوں میں تقسیم ہونے والے اپنے حصّے کے لفافے وصول کر لیتا تھا اور انہیں اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیتا تھا۔  جب وہ اپنے گھر والوں کو خط لکھتے تو میں وفورِ شوق سے ان کے چہرے تکتا جب ماہ ڈیڑھ ماہ بعد ان کے خطوط کے جواب آتے تو میں ان بٹتے ہوئے جوابی خطوں کو حسرت و یاس سے دیکھتا اور ان ہاتھوں کو بھی جو انہیں وصول کرتے تھے۔  ۱۶دسمبر ۱۹۷۱کے بعد معاہدۂ جنگ بندی کے تحت ہمیں قید کیا گیا تھا اور یہ اسیری ۳۰ اپریل ۱۹۷۴ کی صبح ختم ہوئی واپسی پر جب لاہور چھاؤنی کے استقبالیہ کیمپ ہم پہنچے تو ہر کسی کے گھر والے انہیں ملنے آئے ہوئے تھے میرے چند دوست تو موجود تھے لیکن گھر سے کوئی نہیں آیا تھا” ۔

"تمہاری بیوی بھی نہیں "؟ ……..شب افروز نے بیتابی سے پوچھا۔

"نہیں ……..کوئی بھی نہیں ……..البتہ گھر پہنچنے کے بعد گھر کے چوکیدار نے مجھے گھر کی چابیوں کے ساتھ بیوی کا آخری خط دیا وہ ہماری اکلوتی بیٹی کو لے کر بیرونِ ملک اپنے میکے جا چکی تھی اور خط کو قطع تعلق کی رسید کے طور پر چھوڑ گئی تھی ……..”

وہ دونوں چپ تھے اور اپنے گزرے وقت کے حساب کتاب میں الجھے ہوئے تھے۔

لیکن خادم ……..وہ ایسے اژدحام میں گھر چکا تھا جس سے نکلنے کا رستہ کوئی نہیں تھا اسے بے بس کراہتی مدد کے لیے پکارتی آوازوں کی گونج حواس باختہ کر چکی تھی…….. دہکتے کوئلوں کی آنچ جلتے گھروں سے جا ملی تھی پاک دامن بیبیوں کے لیر لیر ہوتے لباس فضا میں تیر رہے تھے مذبح خانوں میں ذبیح ہوتے جانوروں کی طرح گردن کٹاتے مرد اور معصوم بچے جن کی ٹانگیں چیر کے ہلاک کیا جا رہا تھا اس کے روبرو بلک رہے تھے نور الٰہی نے خود کو پیچ دار راستوں اور جنگل کی اندھیری پگڈنڈیوں میں ہراساں افتاں و خیزاں بھاگتے دیکھا اور خود کو مڑ مڑ کے اسی مقام کی طرف دیکھتا پایا جہاں اس نے اپنی پیاری آپا کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔  اتنے برس بعد وہ ایک بار پھر جنگل کے تہ در تہ بنے خفیہ و آشکار رستوں پر بھٹک رہا تھا پھر اس نے خود کو اپنے گھر کے قرب و جوار میں پایا تب ایک بار پھر اس پروہ منظر واضح ہوا کہ اس کا نحیف اور اپنی زندگی سے پشیمان باپ، اس کا فاقہ کش ملّاح باپ پھٹی پرانی لوئی اوڑھے سڑک کنارے اکڑوں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا ہے۔  باپ نے نور الٰہی کی ہراسانی دیکھی تو بن پوچھے جان گیا کہ نور الٰہی تنہا واپس کیوں آیا ہے۔

باپ نے اس کے کمزور لرزتے کانپتے کندھے پر اپنے ہاتھ رکھے جو صدمے سے یخ اور حرارتِ حیات سے عاری تھے وہ شدتِ غم سے ہکلا کے بولا ……..” گھر نہ جا ……..وہاں اب کوئی نہیں بچا ہے اور جو میں بھی نہ رہوں تو …….. تُو مغربی پاکستان چلے جانا ……..اب وہی ہمارا وطن ہے ……..”

نور الٰہی نے منہ اوپر کر کے باپ کے چہرے کو بغور دیکھا تھا۔  اس کی چھدری داڑھی آنسوؤں سے تر تھی اور نحیف جسم ہولے ہولے لرز رہا تھا دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کی بپتا کہے سنے بغیر سب جان گئے تھے۔

پھر ایک دن اس کے باپ کی گردن رام داؤ سے اُڑا دی گئی وہ کب تک بچ سکتا تھا وہ تو غّدار تھا کیونکہ پاکستانی ہونے کا دعویٰ کرتا تھا پھر اس کا انجام جدا کیوں کر ہوتا ……..اور جب نور الٰہی ایک قافلے کے ساتھ مغربی پاکستان میں داخل ہوا اور اس نے کشادہ سڑکوں پر بڑی بڑی گاڑیوں میں شاہانہ انداز دکھاتے جتاتے لوگوں کو دیکھا تب اس نے بہت یکسوئی سے سوچا تھا "نعمتوں بھری یہ دنیا ہم جیسے در بدروں کے لیے تو ہرگز نہیں بنا ئی گئی ہو گی پھر وہ کون لوگ ہیں جن کے لیے یہ تام جھام ہے "……..؟

٭٭٭

بوجھل سکوت کو شب افروز کی سوچتی الجھتی آواز نے توڑا….

"کرنل ……..کیا تم نے غور کیا؟ بالآخر ظالموں اور خود غرض سیاست کرنے والوں کا انجام ایک ساہوا اور جو مکافات کے عمل سے یہاں بچ گئے وہاں ان کے حصے کے عذاب نجانے جہنم کے کس درجے تک انہیں لے جائیں گے۔ ”

"درست ……..بالکل درست ……..جب مجھے اپنی غفلت اور جھوٹ کی یہ سزا ملی کہ بقیہ حیات بے برکت ہو گئی اور وقت بس اُنہی دوسالوں میں ٹھہر گیا تو ان کی سزا کی حد کا سوچو جن کے ہاتھوں میں قدرت نے اتنی طاقت دی تھی کہ وہ حالات کو سنبھال سکتے تھے لیکن اُن سیاسی مدبّروں کی مدبّرانہ صلاحیتیں اپنی مفاد پرستی اور حصولِ اقتدار کی کوششوں میں صرف ہوتی رہیں ….ظلم کیا گیا یا پھر کروایا گیا۔ ”

"مگر کرنل……..اُن مقتدر شخصیات نے اپنا گوہرِ مراد پانے کے بعد کیا واقعی حسبِ خواہش یہ دنیا برت لی۔ "؟

کرنل اس کے سوال پر زیر لب مسکرایا !

"ٹھیک کہتی ہو …….. ان کے گوہر مراد ان کے لیے ہیرے کی کنی ثابت ہوئے جسے نگل کر انسان مر جاتا ہے ……..” ۔

"ذرا سوچو کرنل ……..سب کے انجام قدرے فرق کے ساتھ ایک سے ہوئے، پڑوسی سربراہِ مملکت کا اندوہناک قتل دنیا بھر کو حیران کر گیا تھا ……..”

شب افروز بولی……..

” اور ہاں …. اس سے ملتا جلتا انجام اُس نحوست و یبوست کی ماری مثلث کا بھی ہوا۔  وہ تینوں ایک ایک کر کے تاریخ کے دھارے میں پھنستے چلے گئے اور اُس شکار گاہ کی طرف بڑھتے گئے جو مسندِ شاہی کے پائے تلے بچھی تھی ….سربراہِ مملکت کی پانچ سالہ

تکلیف دہ ماحول میں کی گئی نظر بندی اور پھر تنہائی و بے بسی کی گمنام موت….”

کرنل نے بتایا……..

"آہ ……..وہ جلوؤں اور محفلوں کا دلدادہ” ……..!شب افروز نے بے اختیار کہا۔

کرنل کے لہجے کی تلخی بڑھنے لگی وہ بولا۔  ” اور ….وہ غافل ….اِدھر ہم اُدھر تم کا خود غرضانہ نعرہ لگانے والا…. اگر زندہ رہتا تو کتنے ہاتھ اس کے گریبان تک جا پہنچتے اس کا اندازہ اسے اور اس کے چاہنے والوں کو نہیں تھا” ۔

بولتے بولتے کرنل جیسے خود سے الجھنے لگا ڈوبی ابھری آواز میں اس نے پھر کہنا شروع کیا۔  "کونسی غفلت تخت کو تختہ بنا دیتی ہے اس کی گواہی میں دئیے گئے تاریخی دلائل بسا اوقات محض فسانہ لگتے ہیں۔  زمانہ در زمانہ کار فرما لیکن مستور حقیقت نے لباسِ مجاز اوڑھ کے وہ کچھ تاخت و تاراج کیا ہے کہ دنیا ان دیکھے، جہاں سے وارد فیصلوں پر انگشت بدنداں ہوتی رہی ہے۔  یہی کچھ اس کے ساتھ ہوا جو تختۂ دار پر چڑھنے والا متنازعہ سیاست داں تھا۔  ذہانت……..بصیرت کے بغیر ایک شیطانی کھیل ہے اور بصیرت کا رابطہ انسان کے ضمیر سے ہونا ضروری ہے۔  ۲۰دسمبر ۱۹۷۱سے ۵ جولائی ۱۹۷۷کا دورانیہ قوم کے لیے ایک امتحان تھا مزدوروں اور طالبعلموں کو ساتھ لے کر اٹھنے والے اس رہنما کے دور میں مزدور اور طالبعلم ہی بے موت نہیں مارے گئے بلکہ اس کے نظرئیے کو لے کر چلنے والی لاکھوں آنکھوں کے خواب بھی چکنا چور ہوئے۔  اُس دور میں بھی گذشتہ دور کی طرح عورت کا حسن سب سے مہنگا بکاؤ مال ٹھہرا تھا۔  اس کے زمانۂ  اقتدار میں قوم کی دولت لٹنے کا سماں عبرت ناک تھا اور جو دولت اس نے غیر ملکی بینکوں میں جمع کی وہ اس مزدور رہنما اور اس کی اولاد کے کام نہ آ سکی۔  اُس نے اپنے ہی مقرر کردہ کمیشن کے حقائق سامنے نہ آنے دیئے تاکہ قوم ہمیشہ مغالطے میں رہے اور یہ نہ جان سکے کہ سانحۂ  مشرقی پاکستان میں اس کی اپنی کمزوریاں بھی شامل تھیں۔ ”

"کرنل ……..میں اُن پر تعیش محفلوں کو دیکھتی اور ان سے لطف اندوز ہوتی تھی لیکن جب اپنی گاڑی میں سڑکوں سے گزرتے ہوئے قحط زدہ پریشان حال عوام کو دیکھتی تھی تو ایسا لگتا تھا جیسے کسی اور خطّۂ زمین پر آ گئی ہوں۔  حکمرانوں کے عیش اور عوام کی زبوں حالی…. یہ تضاد کبھی ختم نہیں ہوا ……..شاید ختم ہو گا بھی نہیں "….شب افروز نے کہا۔

"جو سیاست دان بازیچہ گرہوں اور عوام کے مفادات کا استحصال کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہوں وہ عوام کا مقدر نہیں بدلتے ….” کرنل نے جواب دیا۔

"کرنل تم نے اُس مثلث کے تیسرے کردار کے بارے میں کوئی بات نہیں کی؟ ”  شب افروز نے کہا ….

"ہاں ….”  کرنل نے گہرا سانس لیا اور بولا۔  ” جمہوریت کا وہ نعرہ باز ……..وہ فسطائیت کا علمبردار کہ اس کے جانثار ڈھاکہ کی چند گلیوں تک محدود تھے۔  اپنی کمزور سرشت کی بنا پر غلطیاں کرنے پر انہیں بھگتنے کے لیے دس سالہ جیل کاٹنے والا وہ سیاست دان ……..اتنا خوش فہم تھا کہ اُن دس سالوں کو بھی سیاسی قید سمجھتا رہا اور اسے سیاست کے خانے میں ڈالتا رہا جبکہ اسے یہ سزا کسی بڑے مقصد یا آدرش کے لیے نہیں دی گئی تھی اس کا منفی کردار اس کا سبب تھا در اصل وہ اس مثلث کا سب سے بڑا ڈرامہ باز تھا۔  برماتی تقاریر، جذباتی ہتھیار، اور آواز کے زیر و بم کے استعمال ہی پر اس کا انحصار نہیں تھا بلکہ تقریریں کرتے ہوئے اور عوامی اجتماع کو گھیرتے ہوئے وہ ایک مداری کی طرح جسمانی اچھل کود سے بھی باز نہیں آتا تھا” ۔

"ہاں مگر ……..اس کی موت کسطرح واقع ہوئی”؟

کرنل کے غبار خاطر کو یوں نکلتا دیکھ کے شب افروز مسرور تھی کہ شاید اب برسوں سے دل میں جمے رنج و محن کے اظہار کے بعد اس کے اندر کا جمود پگھلے گا۔  کرنل کے لہجے میں کچھ ٹھہراؤ آ گیا تھا وہ بولا۔

” وہ زیادہ دن اپنی فرعونیت کے بل بوتے پر زندہ نہ رہ سکا۔  بنگلہ دیشی فوج میں بغاوت کی گرم لہر یکایک اٹھی پھر اسے اور اس کے خاندان کو تہس نہس کر گئی۔  ۱۵ اگست۱۹۷۵ کو بنگلہ دیشی فوج کے کم درجے پر متعین افسروں نے اسے اہل و عیال سمیت ہلاک کر دیا کہنے والے کہتے ہیں کہ اُن بے گور و کفن لاشوں کو اٹھانے والا کوئی نہ تھا لاشوں کے تعفّن سے اٹھنے والی بدبو نے دور دور تک رہنے والے لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ ظلم کی کھیتی بونے والا اسی کھیت میں بے گور و کفن پڑا ہے اور کسی کو ملال نہیں۔ ”

کرنل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایک اور باب کھولا……..

"تاریخ کی آنکھ نے صرف یہی عبرت ناک انجام نہیں دیکھے بلکہ مکتی باہنیوں اور بنگلہ دیشی فوج کے کئی اعلیٰ عہدہ داران بھی ایسی خاموشی سے خاک کے سپرد ہوئے کہ ان کی اموات ایک معّمہ بن گئیں مکتی باہنی جو سفاکی اور درندہ صفتی میں تاریخ میں اندراج زمانوں میں آنے والے، بربّریت کی شہرت رکھنے والے ملعون کرداروں کے طریقۂ ظلم و ستم سے بہت آگے نکل گئے تھے مکتی باہنیوں کی درندگی کی تفصیل انسانیت کے سرشرم سے جھکا دیتی ہے ان کا انجام ایساہوا کہ تاریخ بھی انگشت بدنداں رہ گئی مکتی باہنیوں اورسیاسی کارندوں کی ہلاکتیں راز در راز بن گئیں اور کبھی افشاں نہ ہو سکیں وہ معمولاتِ زندگی طے کرتے ہوئے اگلے لمحے سے بے خبر راہ چلتے، کھاتے پیتے ہنستے بولتے یوں موت کے کنوئیں میں جا گرتے جیسے نہ دکھائی دینے والا عفریت یکایک انہیں اپنی سمت کھینچ لیتا ہو۔  قاتلوں کی نشاندہی ہو پاتی تھی نہ ہی موت کا نقارہ بجتا تھا…….. کون تھا؟ جو انہیں خفیہ طور پر ہلاک کرتا تھا کس کے کہنے پر یہ ہلاکتیں ہوتی تھیں؟؟ یہ کوئی نہ جان سکا ان کے قاتل کون تھے …….. ان کے دوست؟ ان کے راز دار یا پھر ان کے گرو مہاراج افواج کے خفیہ کارندے؟ یا پھر وہ آپس ہی میں بھِڑ گئے تھے اور مکافاتِ عمل کی دلدل میں دھنس کے نیست و نابود ہو گئے۔ ”

"عجب داستان ہے کرنل”  ……..شب افروز حق حیران سن رہی تھی……..

…….. "یہ داستان لہو لہو تو ہے لیکن ہر سطر عبرت سے لبریز ہے پھر بھی دونوں قوموں نے نہ پہلے کچھ سیکھا تھا نہ اب سیکھنے کے آثار ہیں۔ ”

"ہاں ……..بالکل ایسا ہی ہے "کرنل بولا ……..” انسانیت کی تذلیل کرنے والی مہمات در اصل اُن شاطر دماغوں کی ایجاد ہوتی ہیں جن کا مقصد اسلحے کی فروخت اور سیاسی برتری کا حصول ہوتا ہے۔  افسوس تو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی اشرافیہ بہری اندھی لولی لنگڑی ہے یہی سبب ہے کہ جعلی اور دو نمبری اشرافیہ سامنے آ گئی ہے جو اپنی جہالت پر متکبّر ہے ادھورے علم والے لوگ بلند آہنگ ہو گئے ہیں اور اہلِ علم لب بستہ ہیں نتیجتاً  بڑے اذہان پیدا ہونا بند ہو گئے ہیں۔ ”

٭٭٭

ہلکی آنچ پر کھدر بدر پکتی دیگچی میں خادم نے جھانکا یکلخت جیسے پانی کے بلبلے ایک طوفان کی طرح اوپر اٹھنے لگے گھبراہٹ میں اس نے تانبے کی زرد سینی اٹھائی اور سل پر رکھ دی اس کے ہاتھوں کی جنبش اس کے ذہن کا ساتھ نہیں دے رہی تھی پہلی بار ایسا ہوا کہ مسلسل کام کے دوران اسے ٹھہر کے سوچنا پڑا کہ اب اسے کیا کرنا ہے خود پر جبر کر کے اس نے کام جاری رکھنے کی کوشش میں سینگڑے میں بھرے کوئلوں پرمٹی کا تیل ڈالا اور ایک گتّے کے ٹکڑے سے ہوا دیکے انہیں دہکانے لگا تاکہ مرغِ مسلم کو کوئلوں پر سینک کر بہتر ملذّذ تیار کر سکے ساتھ ہی اس نے سیخچہ صاف کیا تا کہ مرغِ کو اس میں پُرو کے انگاروں پر رکھ سکے۔  کوئلے دھواں دینے کے بعد دہکنے لگے تھے خادم نے مسالہ بھرے مرغِ مسلم کو اٹھایا ہی تھا کہ وہ پھسل کر تانبے کی سینی میں جا گرا خادم نے غور سے اسے دیکھا اسے محسوس ہوا جیسے مرغ کا جسم پھیلتا جا رہا ہے اور اس پر اگنے والے پروں کی رفتار اتنی تیز ہے کہ لمحے بھر میں وہ پروں سے بھر گیا صرف اس کی گردن چھلے ہوئے زخم کی طرح رہ گئی دیکھتے ہی دیکھتے وہ مرغ خلیج بنگال کے ساحلوں پر منڈلانے والا گدھ بن گیا بالکل اُس گدھ کی طرح جو اپنی مڑی ہوئی چونچ سے سواحل پر پڑی انسانی لاشوں سے انتڑیاں کھینچ کھینچ کر نکالتا اور مست ہو کے کھاتا تھا۔  خادم نے کوشش کی کہ گزرے وقت کے ساحلوں کی ہوا اس کے سلے ہوئے زخم نہ کھولے خود کو بہلاتے ہوئے اس نے اپنی توجہ بٹانے کی خاطر گھی کی پیالی اور کپڑے کی کوچی نکال کے آگے کو رکھی کہ بوقتِ ضرورت مرغ کو خستہ اور نرم رکھنے کے لیے مکمل سَک کر تیار ہونے تک گھی میں ڈوبی کوچی اس پر مَل مَل کر لگاتا رہے لیکن اس کا انتظام و انصرام بالآخر دھرا رہ گیا اس کے دماغ سے اٹھتی طوفانی لہروں نے اسے بے محابا گزرتے وقت سے اٹھا کے گزر جانے والے وقت کے اُس ساحل پر پٹخ دیا جہاں بے موسم کا طوفانِ نوح اَجل کی انگلی تھامے بڑھا چلا آ رہا تھا نجانے کہاں سے بھوکے گدھ غول کی صورت جمع ہو گئے تھے اور رزق کے لیے سسکتے فاقہ زدہ انسانوں کو اپنا رزق بنانے کے منتظر تھے یہ سن و سال ۱۹۷۰ء تھا کہ یکا یک ایک اور سمندری طوفان ہلچل مچاتا ہوا اسی سیلاب سے آن ملا جو افتادگانِ آب کو پہلے ہی ہر اساں کئے ہوئے تھا۔

بس ……..طرفۃ العین میں یہ طغیانی بیس لاکھ انسانوں کو نگل گئی……..ننگے بھوکے بے بس لوگ بے رحم پانیوں کے اُس پارسے آنے والی رحم بھری کشتیوں کا انتظار کرتے رہے جہاں مغربی پاکستان کی سرحدیں تھیں اور جہاں سے امداد آنی تھی لیکن نہ کھلنے والے بادبان بے حسی کی مو ٹی رسیوں سے بندھے ہوئے تھے اُس دو آتشہ طوفان کی دیو ہیکل موجوں نے اور طوفانی آندھیوں نے ساحلی ضلعوں پر تباہی کی مہر ثبت کر دی۔  بے گھری بے سر و سامانی فاقہ کشی بیماری بیچارگی ہم جولیاں بن کے ایک دوسرے کی رفقِ مدارا میں سبقت لے جانے کو تھیں۔  مورخِ وقت نے اپنے اوراق بریدہ میں تحریر کیا کہ حکومتوں کا کام مجبوری کا راگ الاپنا نہیں ہے وسائل و انصرام کو قبل از اندیشۂ زوال مکمل کر لینا ہوتا ہے۔

مغربی پاکستان نے جس سیلاب کو امداد میں رابطے کی رکاوٹ قرار دیا اسی سیلاب نے ساڑھے سات کروڑ بنگالیوں کے دلوں میں متحدہ پاکستان کی آرزو غرق کر دی۔

موت کی اشکال ان کے اور ان کے معصوم بچوں کے ذہنوں میں نقش ہو گئیں اور وہ بے بسی سے اپنے پیاروں کی لاشوں کو خلیج بنگال کے نمکین سیاہ پانیوں میں تیرتے ہوئے دیکھتے رہ گئے۔  نور الٰہی اپنی کم سنی کے باوجود ان تمام مناظر کو اپنے حافظے میں محفوظ کرتا چلا گیا وہ زندگی بھر نہیں بھول پایا طوفانی آندھیوں میں اڑتی جھونپڑیوں کو، لاچاری سے ہاتھ پاؤں مارتے ڈوبتے غرقاب لوگوں کو اور مدد کے لیے پکارتے ان کے گھر والوں کو۔  کئی دن تک اس نے یہی سوچا تھا کہ دنیا میں اور کتنی ایسی جگہیں ہوں گی جہاں اتنی کثرت سے لاشیں پانی میں تیرتی ملیں گی۔  جب آس پاس بلکتے روتے لوگوں کی فریاد احتجاج کی طرح بلند ہوتی۔

……..

"مغربی پاکستان سے امداد آخر کب آئے گی”؟

تب نور الٰہی تصور کرتا خوراک سے بھری اُن کشتیوں کی جو آن کی آن پانیوں کی طغیانی چیرتی ہوئی ان کے ساحلوں پر آ رکیں گی اور محبت و شفقت سے گرماتے بازو ان کے گرد حمائل ہو جائیں گے وہ کہیں گے ہم پاک زمین کے مغربی نصف سے آئے ہیں تم ہمارے ہو ہم تمہارے …………پھر وہ نعمتوں کے ڈھیر ان کے قدموں میں لگا دیں گے۔  نور الٰہی سوچتا رہتا لیکن اس کی نظر کے سامنے لا شوں بھرا ساحل اور رزق کی ہوس میں پاگل ہوتے گدھ ہی رہتے اور سماعت میں آس پاس موجود بچ جانے والوں کی دہائیاں گونجتی رہتیں جو کہتے تھے کہ۔

"وہ مغربی پاکستانی ……..وہ ہماری پٹ سن، سمیٹ کے لے جانے والے اور ہمیں طوفان میں تنہا چھوڑ دینے والے ……..کیا وہ ہمارے دردمند ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کونسا رشتہ ہے جو ہمیں ان سے جوڑ کے رکھ سکے۔ "؟؟

نور الٰہی کے سارے تعلق دار ایک ایک کر کے اَجل کی انگلی تھام چکے تھے بس یہی ان کے لیے بہتر تھا۔

نور الٰہی سے خادم بننے کے بعد وہ اکثر سوچتا کہ انسانی تعلق میں وہ کیا چیز ہے جو اسے قائم رکھتی ہے؟؟ شب افروز سے اتنی وفاداری کیا صرف اس لیے ہے کہ وہ بھی اس کی طرح تنہا ہے اور بے چارگی سے زمانے کو تکتی ہے، یا پھر اس لیے کہ وہ خود اپنی زندگی کو سکون سے گزارنے اور نان و نفقے کی فکر سے آزاد رہنے کے لیے اس سے بہتر اور آسان راستہ تلاش نہیں کر پایا تھا ……..

جب وہ شہر کراچی کی بہاری بستی میں مقیم تھا اس وقت سلہٹ کا نور الٰہی کہلاتا تھا۔  بہاریوں کی جمی محفل جہاں پان بیڑی چلتی اور ایک جہانِ گم گشتہ کی یاد اُن سب کے دلوں کو برماتی تھی، باہم گفتگو کرتے کرتے گمشدہ سواحل کی لہریں ان کے اندر موجزن ہو جاتیں۔  سرحد پار سے انناس اور دھان کے کھیتوں کو چوم کر آتی ہوا ان کے گرد دائرے بناتی۔

شفاف ندیوں میں رواں نوکوں اور کشتیوں کے چپو چلاتے ملاحوں کے سوز بھرے گیت ان تک پہنچتے۔  جنگل کی خو شبو سے مست تتلیاں پیلے، اودے، نارنجی پھولوں پر منڈلاتی منڈلاتی ان تک پہنچ جاتیں وہ مل کے کوئی بھولا بسرا نغمہ بے سرے پن سے الاپنے لگتے اور اچانک ہی ان میں سے کوئی ایک رو پڑتا پھر ایک ایک کر کے سبھی اپنے آنسوؤں کا نذرانہ اپنی اپنی یادوں کو پیش کرتے ……..جو جتنا فہم و ادراک کا مارا ہوا ہوتا اتنا ہی عہد گزشتہ کی یادوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہوتا۔  سلہٹ کا نور الٰہی بت بنا ان کی باتیں سنتا وہ کہتے تھے ہمارا گمشدہ وطن قدرت کے کتنے خزانوں سے مالا مال تھا ہم چاول، پٹ سن، چینی، چائے اپنی سرکار یعنی مغربی پاکستان کو دیتے تھے لیکن جب سیلاب ہم سے سب کچھ چھین لیتا تو ہماری منتظر آنکھیں ان کی طرف دیکھتی رہ جاتیں ہم بھکاری تو نہیں تھے ان کا حصّہ تھے ہم کاغذ کی صنعتوں میں، چائے کے باغوں میں کام کر کے بہت کچھ دے سکتے تھے ہمیں ذرا کی ذرا سنبھالا چاہیے ہوتا تھا اور بہتر انتظام و حفاظت بھی …….. کاش مغربی پاکستان کی سرکار چوکس رہتی کہ ہمارے شمال مشرق اور مغرب میں بھارت، جنوب میں خلیج بنگال اور برما۔  ہم تو خطروں اور غیروں میں گھرے ہوئے تھے …. پدما، میگھنا، جمنا اور برھم پتر کے پانیوں نے ہمیں صرف طغیانیاں ہی نہیں دیں نعمتیں بھی بہت دیں ان نعمتوں میں ہم نے اپنوں کو شریک کیا۔  آخر آخر ہمارے ہاتھ کیا آیا….؟”

ہجرت در ہجرت اور بے سروسامانی۔

یہ باتیں سنتے ہوئے نور الٰہی اپنی ماں کو یاد کرتا جو اس کے باپ سے لڑتے جھگڑتے ہوئے کہتی تھی….”  کب تک ہم ایک سرحد سے دوسری سرحد تک دھکیلے جاتے رہیں گے، کوئی ہمیں کچھ نہ مانے انسان تو مانے …. ہماری چھوٹی سی زندگی کے لیے بسے ہی بہت ہے "۔

اس کا باپ اس کی ماں سے بہت مختلف سوچتا تھا، وہ دکھ سے کہتا!

” وہ ہمیں غدّار سمجھتے ہیں، مہاجر کہتے ہیں ….آخر ہم بھی پاکستانی ہیں۔ ”

لے کن ماں کی تو بسے ہی ضد تھی کہ اسے اور اس کے خاندان کو انسان کی طرح جینے کا حق دیا جائے وہ اس کے باپ کو سمجھاتی تھی….”  ہماری نسل کے ا؟ …. ہماری قوم کے ا؟ …. کون سا مذہب ہمارا ہے؟ ….ہم سہلٹ کے ہیں آسام کے یا بہار کے …. اس سے ہمیں یا کسی اور کو کیا لینا دینا ہے …. ہمیں تو بس بانس کا ایک چھوٹا سا جھونپڑا اور پیٹ کی آگ بجھانے کا ایندھن چاہئے "۔

جب دونوں میں بحث بڑھنے لگتی تو اُس کا باپ اپنی لیر لیر ہوتی لنگی سنبھالتا ہوا باہر جانے کو اٹھ کھڑا ہوتا اور بڑبڑاتا ہوا نکل جاتا….

"یہ کچھ نہیں سمجھے گی…. جینے کے لیے شناخت نہ ملے تو کچھ بھی نہیں ملتا ہے "۔

٭٭٭

"کیا شناخت ہی حاصل حصول ہے ….؟ ”

کراچی آنے کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شناختی دستاویز بنوانے کی قطار میں کھڑا سوچتا رہتا…. اور جب کسی کے توسط سے وہ شب افروز سے ملا اور اس نے اسے اپنا خدمت گار بنا کے راولپنڈی چلنے کو کہا تو نور الٰہی بھول گیا کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے وہ تو بس خادم بن کے رہ گیا۔  شب افروز اسے یہی پکارنا پسند کرتی تھی۔

شہر راولپنڈی آ کے اسے ایک مختلف ماحول ملا۔  ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنے اندر ہمہ وقت پکارتی اُس اجڑی پجڑی دنیا کو بھول جاتا جو ساتھیوں کی قربت میں اپنی  یادوں کو ہرا بھرا رکھتی تھی اور کابوس بن کے سالوں سے اس کے ہمراہ بسیرا کئے ہوئے تھی اور گہری نیندوں میں عہدِ پارینہ کا بوسیدہ سامان الٹا کے پھر سب کچھ سیدھا کرنے کا حکم صادر کرتی تھی لے کن انسانی زندگی میں جو کچھ ایک دفعہ الٹ جاتا ہے وہ پھر سیدھا کہاں ہوتا ہے ،ے ہ مجبوری انسان کو کتنی اذیت دے تی ہے اس کا اندازہ کائنات کی کسی ذی روح کو نہیں ہو سکتا….۔

جب اِس شہر کے چھاجوں برستے مِینہ کا جھُمکا لگتا تو خادم……..خادم نہ رہتا نور الٰہی بن جاتا اسے اس جھڑی میں عجب عجب اشکال دکھا ئی دینے لگتیں سلہٹ کی سڑکوں اور ساحلوں پر بے گور و کفن لاشے نظر آنے لگتے وہ خود کو سلہٹ کی بارشوں کے درمیان پاتا اور عقب میں کوئی ہاتِف اس سے ہمکلام رہتا اسے بتاتا کہ تاریخ کے صفحات میں ان لا شوں کی کوئی قومیت درج نہیں ہے انہیں کہیں غیر بنگالی اور کہیں بہاری لکھا گیا ہے یہ غیر تھے ہر جگہ غیر ہی رہے۔

سلہٹ میں اپنے پرانے پڑوس کے بڑے سمجھ دار لڑکوں کے مکالمے جو اسے اُس عمر میں سمجھ میں نہیں آتے تھے لیکن ان کی جوش بھری آوازیں اسے بھولی نہیں تھیں اسے یاد تھا ان میں وہ بنگالی لڑکا جو سب سے بڑا تھا اور شاید کسی درسگاہ میں بھی جاتا تھا۔  مجمع گیری اس کا شغل تھا خاص کر ایسے بچوں کا اجتماع اسے پسند تھا جو صرف اس کی سنتے تھے بولتے نہیں تھے وہ ان سب کے سامنے کسی سوا نگ بھرے کردار کی طرح آتا اور انہیں مخاطب کرتا ……..” سنو ……..تمام لڑکوں سنو ……..ہمارے رہنما نے ہمیں آزادی کا منشور دیا ہے ……..اب وہی شخص ہمارے لیے راہِ نجات ہے ……..مل کے نعرہ لگاؤ آزادی ……..”  ……..اس وقت کا معصوم کم سن نور الٰہی نعرہ لگاتا "آزادی” اور پھر بڑے لڑکے کے قریب جا کے پوچھتا ……..

"کیا اب ہم آزاد نہیں ہیں؟؟ قید ہیں کیا”؟؟

بڑا لڑکا اسے دیکھ کے ہنستا ہوا گزر جاتا۔

شہر راولپنڈی کا برستا پانی اس کے اُس جیسے اور کئی سوالوں کو بہاتا بہاتا محصورینِ بنگلہ دیش کے متعّفن ماحول میں پہنچا دیتا جہاں سوالوں کی پٹاری وہاں انتظار کی سولی پر چڑھنے والے ہر شخص کے گلے میں لٹک رہی ہے اور گھڑیوں کی سوئیاں نہ ختم ہونے والے وقت کی طولانی ناپنے سے قاصر ہو گئی ہیں وہاں کے تنگ و تاریک کمروں میں فی کمرہ دس دس افراد ٹھنسے گھٹی گھٹی سانسوں سے کوئی ایسا قرض اتار رہے ہیں جو انہوں نے کبھی نہیں لیا۔  بنگلہ دیش کی سرحدوں پر موجود مخدوش ٹھکانے خانہ بدوشوں کے نہیں ہیں یہ ان اجڑے پجڑے فقط نام کے انسانوں کے ہیں جو جانوروں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں یہ محبت کے مارے لوگ دنیا کو محبت کی تصویر ایک الگ رخ سے دکھا رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے قیام پاکستان کی تحریک میں اپنے پیاروں کی جانیں پیش کیں اپنے گھر بار برباد کئے اور مشرقی پاکستان آ گئے لیکن جلد ہی یہ سرزمین بھی ان کے لیے پرائی ہو گئی۔  متحدہ پاکستان بچانے کے لیے افواجِ پاکستان کا ساتھ دینے کی پاداش میں ان کے گھر بار پھر جلائے گئے ان کے پیاروں کو ذبیح کیا گیا لیکن یہ خود کو پھر بھی بنگلہ دیشی نہیں پاکستانی کہتے رہے بالآخر انہیں قانونی اجازت دی گئی کہ وہ پاکستان جانا چاہتے ہیں تو جا سکتے ہیں۔  پاکستانی حکومت نے ان کی ذمہ داری لینے کا اعلان کیا لیکن ان حرماں نصیبوں کی محض ایک قلیل تعداد سرکاری مدد سے پاکستان پہنچ سکی تھی۔  اب برسوں سے یہ اِس انتظار میں ہیں کہ کب ان کی باری آتی ہے۔  ان کا صبر تو صبر ایوبی کی حدیں بھی پھلانگ گیا اپنی خستہ حال جھونپڑیوں میں دبکے سہمے فاقہ زدہ بیمار لا غر یہ لوگ پاکستان کا جھنڈا لہرانا نہیں بھولتے دنیا کے نام نہاد نظریاتی سطح کے لوگ کیا ان کی نظریاتی پختگی کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟

سماجی اقدار کے ٹھیکے دار اور انسانی حقوق کے بہروپئے علمبردار دنیا بھر کے مسائل پر لکھتے بولتے ہیں لیکن ایسی بصیرت و بصارت اور حقانیت ان میں کہاں کہ نام و دام سے وراء ہو کے ان کے لیے تسلسل و تحریک سے کچھ کر سکیں۔  ادھر زمینوں پر نا جائز قبضہ کرنے والے ان کی خستہ جھونپڑیوں میں انہیں بند کر کے آگ لگا دیتے ہیں اُدھر برسوں سے ان مسافر خانوں کے گرد اَجل پھیرے پہ پھیرا ڈال رہی ہے۔

کراچی کی بہاری بستی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے رین بسیرا کرنے والا نور الٰہی ان بخت آوروں میں سے تھا جو پہلے قافلے میں پاکستان آ گئے تھے یہ ۱۹۷۴ء کا سن تھا کہ جب پاکستان ہندوستان اور بنگلہ دیش کے مابین معاہدہ ہوا تھا اور پاکستانی حکومت پھنسے ہوئے ان بے بس پاکستانیوں کو پاکستان لے جانے کی پا بند ٹھہرائی گئی تھی لیکن صرف ایک لاکھ بہاریوں کے پاکستان آنے کا انتظام کیا گیا پھر یہ سلسلہ رک گیا۔  ایسے میں نور الٰہی اور اس کے ساتھیوں نے سنا کہ بقیہ ڈھا ئی لاکھ بے بس منتظر محصورینِ بنگلہ دیش کی آمد کے معطل سلسلہ کو جاری کرنے اور فلاکت و فاقہ زدگی سے انہیں بچانے کے لیے چندہ اکھٹا کیا جا رہا ہے۔  پھر سنا گیا کہ چندے کی مَد میں کروڑوں ڈالرز جمع ہو چکے ہیں اور پھر بے بس انسانوں کے نام پر سیاست چمکانے والے اللہ کے نام پر سمیٹی یہ خطیر رقوم لے کر منظر سے غائب ہو گئے یہ چندہ نہ تو محصورین کو یہاں لانے میں استعمال ہوا اور نہ ہی وہاں ان کی خیمہ بستیوں میں ان کی حالتِ زار بہتر بنانے کے لیے منتقل ہوا۔

نور الٰہی کے ساتھی راتوں کو جاگتے رہتے آسمان تکتے رہتے اور اپنوں کو یاد کر کے روتے رہتے۔  ان ہی میں سے ایک جو ہمیشہ کچھ کر گزرنے کی حرارت اپنے اندر رکھتا تھا اس کی بے مایہ سوچیں اسے بے قرار رکھتیں وہ سب کو جمع کر کے نت نئی ترکیبیں بتاتا تھا وہ کہتا تھا کہ اگر…….. ہماری سرکار صرف چند کروڑ روپے خرچ کر کے ہمارے پیاروں کو اُن حبّ الوطن پاکستانی محصورینِ بنگلہ دیش کو یہاں لے آئے اپنے بڑے شہروں میں نہیں بلکہ بے آباد علاقوں میں انہیں بسا دے دور افتادہ مقامات میں ……..تو وہ سب حالات کے مارے انہی بنجر بے آباد زمینوں کو اپنا لیں گے اور محنت مزدوری کر کے کسی نہ کسی طرح اپنے رہن سہن کا انتظام کر لیں گے ……..

٭٭٭

بظاہر پرسکون رہنے والا راولپنڈی میں مقیم خادم ہمہ وقت کسی نہ کسی کام میں جتّا ہوا نظر آتا اسے دیکھ کے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ یادوں کا ایک ناقابلِ برداشت بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے۔  ان یادوں نے اسے سلہٹ شہر سے کبھی باہر نہ آنے دیا زندگی کے طویل سفر سے تھکنے والا خادم اب بھی نور الٰہی بن کے انسانی خون میں لتھڑی گمشدہ گلیوں میں پھرتا رہتا تھا گرچہ اس کی کم سخنی مقابل کو باور کراتی تھی کہ اس کے پاس بولنے کو کچھ بھی نہیں ہے اس کے ماتھے کی بے شکنی اس کی ایسی شخصیت کا بھرم بناتی تھی کہ اس کے اندر غم و غصّے کی کوئی لہر نہیں ہے کوئی نہیں جانتا تھا اس کی جھکی آنکھوں میں دھان کے کھیت آج بھی لہراتے تھے بانس کی جھونپڑیوں کی قطاریں، ندیوں کی گنگناہٹ کے منظر ہمہ وقت تیزی سے تغیر و تبدیلی کی جانب مائل رہتے جلد ہی بدلتے منظروں میں اسے ایک سرحد سے دوسری سرحد دھکیلے جانے والے بے نشان بے زمین لوگ دکھا ئی دینے لگے سوختہ و بریدہ لاشوں کی آنکھیں زندہ ہو کے اسے گھورنے لگیں جیسے اس کے زندہ ہونے پر طنز کر رہی ہوں ……..کراچی کی بہاری بستی سے آنے کے بعد اس کی زندگی گوں گی بہری ہو گئی تھی نور الٰہی سے خادم بن جانے کا سودا مہنگا لگنے لگا تھا وہ خود سے پشیماں سارہتا کہ اس نے فقط اپنے لیے سہل رستہ چنتے ہوئے ان مخلصین کو چھوڑ دیا جو اسے اس کی جڑوں سے وابستہ رکھے ہوئے تھے باہم نوحہ سرائی میں کیسے کیسے بھید اس پر آشکار ہوتے تھے لیکن ……..آج عجب ہی ہوا تھا اتنے برس بعد کسی اجنبی نے عہدِ پارینہ کے ورق بے دردی سے کھول کھول کے یوں سنا دئیے تھے جیسے وہ سب چپکے چپکے رستے زخم نہ ہوں بلکہ فقط تاریخ کے صفحے ہوں۔

کرنل اُس کابوس کی طرح نمودار ہوا تھا جو اس کی راتوں کی نیندیں برباد کرتا تھا شب افروز جو اپنے ماضی کی یادوں کو لیے زندگی گھسیٹتی دکھائی دیتی تھی یک بیک کرنل کی ہم زبان ہو کے اس کے زخموں کو ادھیڑ رہی تھی۔  خادم کے دماغ میں ایسا نَسا جال بچھنے لگا جس کی ہر گرہ میں اس کے پیاروں کا کہرام بندھا تھا اک عمر مبتلائے رنج و محُن رہنے والے دل نے جو درد کشید کیا تھا وہ زہر کی طرح جسم کو متاثر کرنے لگا شاید کراچی کی بہاری بستی چھوڑنے کی ایک وجہ اس درد سے فرار تھا اسے خوف آنے لگا تھا کہ بچپن کے صدمات پوری حیات پر محیط نہ ہو جائیں اور پھر دل و دماغ میں کسی پھپھو ندی کی طرح بڑھتے بڑھتے ایسے مظاہر میں متغیر نہ ہو جائیں کہ اس کے ہاتھ سے اپنی ہی لگام چھوٹ جائے اور اس کی بچی کھچی ہستی بھی تہس نہس ہو جائے۔  کرنل اور شب افروز کی باتیں اس کے اندر دبی آوازوں کو بلند آہنگ کر رہی تھیں اور خادم محسوس کر رہا تھا جیسے وہ سلہٹ سے نہیں سندر بن کے جنگلات سے آیا ہوا کوئی باگھ بگھیلا ہے جسے بھرے شہر کے اطوار اپنانے کے لیے اپنے پنجے چھپانے پڑے ہوں لیکن درندگی کی سرشت اسے ورغلا رہی ہو۔

وہ ڈوبتی شام کرنل اور شب افروز کے اعترافات اور عہدِ زوال پر کئے گئے اعتراضات ہی کے لیے اتری تھی یا پھر کچھ اور بھی تھا جسے اُس شام کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا۔  نور الٰہی نے مطبخ کے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے خود کو باور کرایا کہ اب وہ فقط خادم ہے شب افروز کا تابعدار خادم…. اور یہ بھی کہ شب افروز اور کرنل جن سانحات اور اُن کی توجیحات پر محو گفتگو  ہیں ان کا تعلق اُس کی کم سنی کے اُس عہد سے ہے کہ جب وہ ان تشریحات و توضیحات کو سمجھنے کا اہل نہ تھا تو اب یہ سب سمجھ کے کیا کرے گا ……..لیکن بار بار اس کا بے وسیلہ باپ قومی شناخت کی خواہش میں سلگتا اپنے بے شناخت چہرے کے ساتھ اس کے تصور میں نمودار ہوتا رہا فقط یہی نہیں بلکہ شب افروز جس کی آنکھیں کبھی کبھی سوچ میں اسطرح ڈوب جاتی تھیں کہ ان میں ماضی کے کھنڈرات صاف نظر آنے لگے تھے وہ بھی خادم کے درد کو سمجھنے میں غافل نکلی کرنل کے ساتھ مل کے طلسماتی دنیا کا بھوت بن گئی اور اسے جہنم سے مماثل کسی ایسی جگہ گھسیٹ لائی جہاں آنے کے بعد وہ اس کا خادم نہ رہ سکا فقط نور الٰہی بن گیا۔

خادم نے پہلی مرتبہ نور الٰہی کی نظر سے کرنل اور شب افروز کو بغور دیکھا اپنی باتوں کے درمیان ان دونوں نے شاید ایک بار بھی یہ نہیں سوچا کہ وہاں کوئی ایسا بھی موجود ہے جس کا خاندان ان تاریخی سانحات کا ایندھن بن چکا ہے۔

کرنل جو تمام وقت کسی نامعلوم دباؤ کے تحت مڑ مڑ کے اسے دیکھتا رہا تھا اب کچھ بے پروا سا ہو گیا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی اور ہی دھن میں بول رہا ہو اس نے کہا۔

"ہمارے اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک وسیع ثقافتی خلیج تھی یہ درست ہے کہ ہم میں سے کسی نے اسے پا ٹنا چاہا ہی نہیں۔  اصل میں وہ تیئس برسوں سے محکوم تھے اور ہم انہیں محکوم ہی دیکھنا چاہتے تھے اگر اسمبلی میں بنگالی آ جاتے تو اپنی اکثریت کی بنیاد پر وہ حکمران بن جاتے ہمارے حکمران ……..اب یہ امر تو قابلِ قبول نہ تھا۔  ظاہر ہے دونوں طرف سے زور آوری ہوتی ……..ہم بس یہی درست سمجھتے تھے کہ دستور سازی کا حق مغربی پاکستان کے پاس رہنا چاہیے ……..” ۔

"لیکن کرنل ……..اسوقت مشرقی پاکستان کا کسان مزدور طالبعلم ہر طبقۂ فکر یکجا تھا اگر ان کا رہنما نیک نیت ہوتا تو انقلاب لا سکتا تھا جیسا کہ وہاں کے لوگ چاہتے تھے۔ ”

"ہاں ……..بالکل ……..مشرقی پاکستان کے لوگ تیئس برسوں میں کئے جانے والے امتیازی سلوک کا بدلہ لینا چاہتے تھے اور اس کے لیے ان کے پاس اپنے رہنما کا سہارا بھی تھا لیکن اُس شخص میں ایک سچے رہنما جیسی شان نہ تھی ……..اِدھر ہم قومی اسمبلی میں بنگالیوں کی اکثریت نہیں دیکھ سکتے تھے ……..”  کرنل بولا……..

"اور پھر ہم نے یہی سوچا کہ کہیں وہ قومی سطح پر جڑ نہ پکڑ لیں ……..؟ ایسا ہی تھا نا کرنل ……..؟ ” شب افروز نے پوچھا۔

کچھ دیر دونوں سرجھکائے خاموش بیٹھے رہے شب افروز نے اپنی بات کی تائید پھر حاصل کرنا چاہی وہ بولی۔

"ابھی کچھ دیر پہلے تم نے کہا تھا وہ ذہین تھے محنتی تھے ……..کیا یہ صحیح ہے کہ ہم نے اُن سے انصاف نہیں کیا ……..”؟؟ ۔

"میں نے یہی کہا تھا….”  کرنل بولا….”  لیکن اس حقیقت کا دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ جب مظلوم شہ نشین بن جائے تو اس سے بڑا ظالم اور کوئی نہیں ہوتا” ۔

٭٭٭

وہ شعبان کی پندرھویں رات تھی مسلمانوں کا قابلِ قدر تیوہار ……..اُس شبانگاہ میں زمین والوں کی عمروں کے حساب اور سال بھر کے تقسیمِ رزق کے معاملات طے ہو رہے تھے آسمانوں میں حیرت و استعجاب کے مناظر تھے۔  گلیوں چوباروں میں متبرک رات کے استقبال کے لیے آتش بازی چھڑائی جا رہی تھی اور شب افروز کے گھر کے صحن میں آتش بازی کا وہ سامان پڑا تھا جو شام سے پہلے اس نے خادم کے ساتھ مل کے خریدا تھا خادم جواُس مختصر برآمدے میں بنے مطبخ میں کھڑا تھا شب افروز جو اسی برآمدے میں کرنل کے روبرو بیٹھی تھی ……..گلی کے نکّڑ پر مّحلے کے بچے بالے پٹاخوں کے شور میں اپنی آوازوں کی لپک گھول رہے تھے اور یہ محلّے کی گلی کا آخری گھر تھا اس کی بند گلی سے کسی کا گزر نہیں تھا۔

کچھ دیر پہلے ڈھلے دن کی نقیض بننے والی رات نے تقسیم رزق کے فرمان پر اپنی ساعتیں مرکوز کر دی تھیں اِس فرمان میں مطبخ میں پکتے تلذّذ آمیز خوشبو سے بھر پور رزق کی تقسیم کا ادھورا بیان اپنے مکمل ہونے کے انتظار میں تھا ……..

قریبی کوچے میں پھوٹتی آتش بازی کی آوازوں میں نا معلوم کن آوازوں کی پکار تھی کہ دور کی زمینوں کے اندھیرے غاروں سے چمگادڑوں کے غول خادم کی سمت لپکتے آئے اور اس کے اطراف چکّر کاٹنے لگے اور ماورائے صوتی آوازوں سے پورا ماحول گونجنے لگا عام انسانی سماعت کی بالاتر حد پر گونجتی چیخیں ایک انتہائی ترقی یافتہ حسِ لامسہ کی صورت اس کے بدن سے ٹکرانے لگیں اور خادم کے جسم کی پور پور میں چبھتی سوئیوں کی تعداد بڑھنے لگی بے بصارت چمگادڑوں کے غول نے اسے گھسیٹ کے اُس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں سے وہ ایک بار پھر واضح طور پر اپنے اہل خانہ کی بربادی دیکھنے لگا ان کی چیخوں کی گونج کے ماخذ کی سمعی مقام بندی سے ان کی شناخت کا عمل واضح ہونے لگا۔  تمام تر جسمانی عملیوں پر ہیجانی میکانیتیں حاوی ہونے لگیں دماغ کے عرشی اور زیرِ عرشی علاقوں پر محیط عصبی نظام پر ایک ایسے ڈراؤنے کا بوس نے حملہ کر دیا جو چمگادڑوں کے غول کے ساتھ زمین دوز غاروں میں برسوں سے نیم غنودہ اور نیم مردہ حالت میں پڑا رہا تھا۔

شب افروز کا چھوٹا سا دالان کسی نے کسی سے پوچھے بغیر علمِ سیمیا کے زور سے ایسی تماشا گاہ میں بدل دیا جہاں کسی غیبی ہاتھ نے خادم کا رجَا پچا خاندان لا کھڑا کیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دالان مذبح خانے میں تبدیل ہوا۔  اب خادم ان سب کے سوختہ و بریدہ اجسام دیکھ رہا تھا جن کی آنکھوں میں مردنی کے باوجود حیرت و خوف تھا جبراً واقع ہونے والی جدائی کا غم تھا ایسی کوئی پر اسرارمخلوق یا کوئی چھلیا ان کے درمیان تھا جس نے اپنے چھل فریب سے ان بے گور و کفن لاشوں کو گویائی دے دی تھی وہ سب خود پر گزرے ظلم خادم کو سنا رہے تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک انبوہ نوحہ خوانی میں مصروف ہے گذشتتگان قدیم منظروں کے ساتھ یوں نمودار ہوئے جیسے دفن شدہ کوئی خزانہ کسی آفاقی جھٹکے سے زمین کا منہ پھاڑ کے ابل پڑے۔

خادم کے جسم کے بظاہر پر سکون تفاعل نے اپنا فرضِ منصبی فراموش کیا اور اسے مطبخ کی آگ سے، برآمدے میں جلتی روشنی اور گلی میں پھوٹتے پٹاخوں سے کچھ ایسی حرارت کا انعکاس ہوتا محسوس ہوا جو اس کے بظاہر منحنی اور ناتواں جسم میں ارتکاز کرتا اور انجذاب ہوتا ہوا اس کے دماغ کی برقی رو سے ٹکراتا ہوا دور کسی کھوئے ہوئے مقام پر نصب فضاؤں میں تیرتی نہ ختم ہونے والی آوازوں سے جا ملا جو ایسے ان دیکھے نصب آلاتِ ترسیل اور برقناطیسی لہروں میں قید تھیں کہ اگر کسی کو سنائیدے جاتیں تو وہ بھی ان لہروں کی زد میں آ کے مظاہر سے کٹ جاتا۔  خادم کے ساتھ یہی ہوا اس کے جسم کی نسوں میں کیمیاوی رد عمل کے وہ تغیرات پیدا ہوئے کہ شب افروز اور کرنل کی آوازیں اس کے اعصاب کو مرتعش کرنے لگیں اور ایسی انگیزش پیدا ہوئی جس کی پیچیدگی سے وہ ناواقف تھا ……..

٭٭٭

اپنے لوگوں پر گزرے جانے والے سانحات کی تشریحات و حوالہ جات اب اس کے سامنے آئے تھے پہلے کبھی کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ اس کی محرومیاں تو تاریخ کے ابو اب میں درج ہیں لیکن انہیں دور کرنے والا کوئی نہیں ہے ……..وہ تو سمجھا تھا کہ سب کچھ بس یونہی چھن جانا غریب کا مقدر ہوتا ہے اب اس کی سمجھ میں آیا کہ ایسے مظالم کے پیچھے طاقتور ہاتھ ہوتے ہیں دشمن کی چال اور اپنوں کی غفلت ہوتی ہے …….. ماضی میں لپٹے منظر کھلے تو ایسے کھلے کہ انہوں نے خادم کو خادم نہ رہنے دیا شب افروز کے دالان کو ایک نو دریافت شدہ قبرستان بنا دیا جس کی ہر قبر پھٹ گئی تھی اور ان سے جھانکتے مضطرب رنجور و مہجور مقتولین اسے پکار رہے تھے ……..

"نور الٰہی ……..نور الٰہی ……..سن ذرا سن ……..ہمارے خون کے چھینٹے تلاش کر ……..پوچھ ……..کسی سے تو پوچھ ……..ہمارا کیا قصور تھا؟ موت سے پہلے ہم کیوں مار دیئے گئے ……..جا ……..اُن محصورینِ بنگلہ دیش کے پاس جا ……..ان کا حال پوچھ ……..وہ سسک سسک کے مریں گے تو کوئی نہیں کہے گا پاکستانی مر گئے۔ ”

خلیج بنگال سے اٹھتے بگولے شب افروز کے مکان کے دالان میں ٹھہر گئے اور دیواروں سے سرپٹخنے لگے …. گنگا، برہم پتر اور میگھنا کے ڈیلٹا سے سیلابی بہاؤ نہ تھمنے کی نیّت سے بڑھا چلا آ رہا تھا سارے آبی راستوں پر بحری جہاز اور ان گنت کشتیاں قطار اندر قطار جمع ہوتی گئیں خادم کے گھر والے رشتہ دار محلے دار ہزاروں منظروں میں منقسم ہونے لگے کبھی بحری جہاز اور کشتیاں ان سے بھر جاتیں کبھی قبروں کے تختے اٹھا کے وہ جھانکنے لگے۔

پھر یوں ہوا کہ شہر سلہٹ کی ٹوٹی جھونپڑیوں کے اُڑتے تنکے شہر راولپنڈی میں شب افروز کے دالان میں جمع ہونے لگے سلہٹ اور آسام کے درمیان گہرے جنگلوں میں مسافروں کو بھٹکانے والی پر اسرار آوازیں گھمبیر ہونے لگیں۔

سرحدوں کی غیر مرئی لکیروں کے اِدھر اُدھر خطرات کے ہُوکتے بھیڑئیے شکار کی بُو سونگھتے ہوئے آگے بڑھنے لگے اور سہمے بیکسی کے مارے لوگ جو نہ محب الوطن تھے نہ غدّار فقط انسان تھے اور جینے کا حق چاہتے تھے ایک سرحد سے دوسری سرحد اور دوسری سے پہلی سرحد کی طرف مسلسل دھکیلے جا رہے تھے کوئی نہیں تھا جو بے وطنی کے کرب کو جھیلتے ان بے زمین لوگوں کے پاؤں تلے تھوڑی سی زمین رکھ دیتا ان کا احساسِ ہتک شرفِ انسانی کے منہ پر طمانچوں کی طرح پڑنے لگا خادم نے سراسیمہ سا ہو کے اپنا دھیان ان سے ہٹانا چاہا لیکن اس کے ذہن میں تیزی سے بدلتے منظروں میں پھٹ کے لیر لیر ہوتی خون آلود ساڑھیوں کا ڈھیر آ گیا جس سے پاک و معصوم عورتیں جھانک رہی تھیں اور اب تک اپنے کفن کی منتظر تھیں انہی میں بیلا بھی تھی اس کے بچپن کی منگیتر ……..وہ سرنگوں تھی اور حیرانی تھی کہ اس کے بدن سے پھوٹی پڑ رہی تھی ……..منظروں پر منظر وارد ہوتے گئے خادم نے اپنی ماں کو دیکھا ماچھ بھات کی ایک پلیٹ کو ترستی ماں ……..پھٹی لنگی میں خود کو بچا بچا کے چلتا اس کا فاقہ کش ملّاح باپ ……..چند ٹکّوں کے عوض خون پسینہ بہاتے ذّلت اٹھاتے اس کے نامراد دھتکارے لوگ ……..موسلادھار بارشوں طوفانی بگولوں کے خوف سے لرزتے روتے معصوم بچے اور گرنے کو بیتاب ان کی بوسیدہ جھونپڑیاں۔  پھر اس کے ذہن کے منظر نامے اسے شاہ جلالؒ کی سفید درگاہ دکھانے لگے جہاں جلانے کو اس کی پیاری آپا دیئے بھی لائی تھی اور ان بھیڑیوں میں گھر گئی تھی جو برسوں انسانی شکل میں ان کے آس پاس رہتے آئے تھے۔  تیر کھائے غزال کی چیخ جیسی آپا کی چیخ گونجی ……..” بھاگ ……..نور الٰہی بھاگ” ۔

یک بیک خادم نے ہراساں ہو کے شب افروز کے دالان کو نظر بھر کے دیکھا اور باور کیا کہ اب وہاں نہ خلیج بنگال کا طوفان ہے نہ اس کے پیاروں کے بریدہ اجسام ……..اگر ہے تو فقط آتش بازی کا وہ سامان جو اس کا واحد مددگار ہے۔  اُس نے ہاتھ میں تھمے لمبے دستے کے چاقو کے چمکتے پھل پر انگلی پھیری اور اس کی بے رحم کاٹ کا اندازہ لگایا یک بیک مدّتوں سے منتظر ایک تیندوا، جو سلہٹ اور آسام کے درمیان پھیلے بے رحم جنگلات میں چھپا بیٹھا تھا، زغند بھر کے خادم کی گردن پر آ بیٹھا اور ساعت بھی نہ لگی کہ اس کے باطن میں حلول کر گیا ……..

مرغِ مسلم کو سینکنے کے لیے مستطیل سنے گڑے میں انگارے دہک چکے تھے اب اُن سے شعلے نکل رہے تھے خادم نے جھک کر چوبی دستے والی آہنی رکابی اٹھائی اور اُن میں دہکتے انگاروں کو بھر لیا پھر دالان میں ڈھیر سامان آتش بازی کے عین اوپر انہیں اچھال دیا، انار، مہتابیاں، ریٹھے، پھلجھڑیاں قرمزی رنگوں میں نہا گئیں۔  ایک بے محابا طوفان سا اٹھا اور فضا شو رو غل سے بھر گئی۔  ان کے پھٹنے بکھرنے کے عمل نے گلی میں تیوہار کے لیے آتش بازی چھڑاتے بچوں میں جوش و خروش بھر دیا اور وہ آواز سے آواز ملانے کے لیے اپنے اپنے حصّے کے پٹاخے چھوڑنے لگے …….. دو چند ہوتی آوازوں کے ہنگام میں شب افروز اور کرنل نے چونک کے دالان کی طرف دیکھا یہی وہ گھڑی تھی کہ جب خادم نے پھرتی سے اچھل کر گہری نشست والی بید کی کرسی میں دھنسے کرنل کو پیچھے سے دبوچ لیا۔

خادم کو تمام وقت کسی انجانی ساعت کی دھمک پر مڑ مڑ کے تکنے والا کرنل کچھ وقت ہی کو غافل ہوا تھا اب اپنی دھند بھری آنکھوں سے بھو چّکا سا ہو کے اسے دیکھ رہا تھا آتش بازی کی خیرہ کرتی چنگاریوں میں خادم کا چہرہ پہچانا نہیں جار ہا تھا اچانک حملے نے کرنل کو حواس باختہ کر دیا خادم کا ایک بازو کرنل کی گردن میں سختی سے حمائل ہو گیا اور دوسرے ہاتھ میں تھما ہوا لمبے دستے کا چاقو وار کے لیے آگے بڑھا چاقو کے چمکدار پھل پر آتش بازی کے پھوٹتے سامان کی شعاعیں پڑ رہی تھیں کرنل نے فوری رد عمل میں اپنی گردن چھڑانے کے لیے خادم کے بازو پر اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط کی اس سے پہلے کہ وہ خادم کو پیچھے دھکیلتا خادم نے چاقو کے پے در پے وار کرنے شروع کر دئیے زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے کرنل کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے خادم کو پوری طاقت سے پیچھے دھکیلا لیکن بدقسمتی سے دھکّے کا زور پلٹ کے کرنل کی سمت آیا اور فرش پر اپنے ہی بہتے خون کی چپچپاہٹ میں اس کے پاؤں پھسل گئے وہ زمین پر گر پڑا۔  خادم کے لیے اب کچھ مشکل نہ تھا وہ تیندوے جیسی پھرتی سے اس پر چڑھ دوڑا ……..

حیرت و خوف سے ساکت و جامد شب افروز کی شربتی رنگ آنکھوں میں موت کی دہشت کوندی خادم کی ہمیشہ جھکی رہنے والی نظریں جب اس کی جانب اٹھیں تواب وہاں ایک اور ہی خادم تھا نا مانوس سا۔  وہ اٹھ کے باہر لپکنے کو تھی مگر بے سود۔

دالان میں پھوٹتے اناروں اور ماہتابیوں کے شوخ رنگوں نے ہر منظر گہنا دیا تھا اور شور کا پھیلاؤ ایسا جیسے زمین چٹخ رہی ہو۔  اصل منظر پس منظر میں جا چکا تھا۔

کرنل نے آنکھیں مندنے سے پہلے اپنی قتل گاہ کو غور سے دیکھنے سمجھنے کی کوشش کی اور ذہن سے غفلت کے پردے کو سرکتے پایا اسے محسوس ہوا جیسے شب افروز کا گھر پٹاخوں کی کوئی خانہ ساز صنعت ہے جس میں اچانک ہی کوئی جلتی بجھتی دیا سلائی گر گئی ہے اور پوری صنعت دیکھتے ہی دیکھتے خاک بننے کے نا مختتم عمل میں ڈھل گئی ہے۔  چند لمحوں پہلے تک کرنل دالان میں ڈھیر ہوئی آتش بازی کی مقدار و تعداد پر حیران نہیں تھا لیکن موت کی ہچکیوں کے درمیان اسے یہ سامان آتش اتنا کثیر لگا جیسے راجہ بازار سے لے کر بانسانوالہ تک بکنے والی تمام تر آتش بازی بس اسی دالان میں جمع ہو گئی ہو۔  اسے محسوس ہوا جیسے حضرت شاہ چن چراغؒ کے آستانے کی محفلِ سماع ہوا کی لہروں پر سفر سفر کرتے کرتے اس کی سماعت تک آ پہنچی ہے جس میں جھومتے گاتے مست الست فقیروں کی تانیں، پٹاخوں کی آوازوں میں شامل ہو کے دو آتشہ ہوتی جار ہی ہیں بس یہی آخری آوازیں تھیں جو کرنل کی سماعت کا حصّہ بننے کے لیے اس کے ماضی سے سفر کرتی ہوئی اس تک آ گئی تھیں۔

بریدہ جسم میں پھنسی روح دھیرے دھیرے باہر نکلتے ہوئے تاسف سے نیست و نابود ہوتی ہوئی حیاتِ رائے گاں کو دیکھنے لگی لیکن ابھی کچھ اور منظر بھی تھے جو حیات و ممّات کے دورا ہے پر کھڑے کرنل کو سانس کی آخری گنتی تک دیکھنے تھے غیر واضح سمتوں سے سفرکر کے آتے ہوئے ان مناظر نے افروختہ دالان کی وسعت کو قصائی گلی کے بالا خانوں تک پھیلا دیا یہ وہی جگہ تھی جہاں کرنل نے شب افروز کو اس کے ابتدائی دنوں میں دیکھا تھا پھر اس نے اسے بالا خانے کے زینے سے اتر کرشاہِ وقت کی محفلوں کے شاہانہ ماحول میں پایا تھا جہاں کی رنگین راتوں نے شب افروز کے حسن کی تابناکی بڑھا دی تھی وہ ایسی مُغنّیہ تھی جو سرتاپا قدرت کی فیاضیوں سے مالا مال تھی تبھی کرنل اس کی فقط ایک جھلک کے انتظار میں گھنٹوں بے تاب رہتا تھا۔

زنداں کی سیاہ راتیں جنہوں نے اس کی زندگی بدل دی تھی اور شب افروز کو لایعنی ماضی بنا دیا تھا پھر کیوں ایسا ہوا کہ آج شام وہ اس کے بہکاوے میں آ کے اس کے ساتھ چل پڑا۔  وہ تو اَجل کا بہکاوا بن کے اسے بازار میں ملی تھی اور حسین بہانوں میں الجھا کے مقامِ آخر تک لے آئی تھی۔  کرنل بہت زمانے سے واقف تھا کہ رنگین محفلوں میں شب افروز کا فقط جسم دکھائی دیتا ہے وگرنہ روح جلال احمد نام کے ایک بے نامی کے اطراف دھمال ڈالتی ہے۔  روایت کے مطابق مرنے والے کو اس کے پہلے سے گزر جانے والے اقارب لینے آتے ہیں لیکن دنیا کے آخری منظر سے آنکھیں موند نے والے کرنل نے اگلے سفر کا یہ منظر بھی دیکھا کہ زینۂ ہستی سے عجلت میں پھسلنے والی شب افروز اس کے قریب آ گئی ہے اور اسے اپنے ہمراہ چلنے کے لیے اُسی دلداری سے کہہ رہی ہے جیسے آج شام بازار کی گہما گہمی میں اسے اپنے گھر چلنے کا کہہ رہی تھی۔

٭٭٭

بند گلی کے آخری گھر میں سرکاری تفتیش کار موجود تھے اور گلی کے مختتم سرے تک اہلِ محلہ کا ہجوم تھا۔  عینی شاہد کوئی نہیں تھا اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔  ملزم نے پہلے سوال ہی پر اقرار کر لیا تھا۔  تفتیش کاروں نے مردہ اجسام دیکھے اور اپنی تربیت شدہ معلومات کے مطابق زخموں کا معائنہ کرنے لگے ……..

"گھونپا ہوا زخم ہے جو ایک طرف سے لگ کر اندر تک دھنس گیا ہے "……..ایک نے کرنل کے جسم کو ٹٹولتے ہوئے کہا۔

"آلۂ قتل تیز دھار چاقو ہے جو دستیاب ہے "……..دوسرا بولا

"زخم کی زد میں آئے رگ و ریشے پھٹ چکے ہیں ….موت کا سبب صرف قاتلانہ حملہ نہیں ہے در اصل خون کا کثرت سے بہہ جانا اصل وجہ ہے جسے بروقت روک دیا جاتا تو جان بچنے کا امکان تھا ….شریانوں سے نکلنے والے خون کی سرخی مائل رنگت، مضروب کے جسم و پارچہ جات پر اور جسم کے اردگرد خون، فوارہ کی مانند یعنی زور سے بہنے کی علامات واضح ہیں "۔

تفتیش کار موقعۂ واردات کی جزئیات رقم کر رہا تھا۔

"غالباً عورت بہت جلد خوفزدہ ہو کے نڈھال ہو گئی تھی” ……..ایک نے رائے دی۔

"نہیں ……..آثار بتاتے ہیں کہ اس نے اٹھنے اور بھاگنے کی کوشش کی تھی لیکن غالباً  وہ اپنے اعصاب کھو چکی تھی اور چیخنے کے قابل نہیں رہی تھی ……..طبّی تجزیے کی تفصیل آنے کے بعد ہی حتمی طور پر کہا جا سکے گا کہ عورت مجروح ہونے کے سبب مری یاوار سے پہلے ہی خوف سے اس کی حرکتِ قلب بند ہو گئی۔  یا پھر جریانِ خون موت کا باعث تھا ……..؟؟ ”  یہ دوسرے تفتیش کار کا تجزیہ تھا۔

"اس کی گردن پر کوئی وار نہیں ہے۔ "ایک نے بلند آواز میں مطلع کیا جو شب افروز کے جسدِ مردہ کے سب سے قریب تھا۔

"غالباً عورت بھاگنے کے لیے اٹھی ہو گی ……..قاتل نے اسی لمحے تیزی سے اس کے پیٹ کے نچلے حصّے پر وار کیا جس کے سبب رگیں پھٹیں سیلانِ خون باہر بھی جاری ہوا اور جسم کے اندر بھی خون اخراج پاتا رہا۔  اس کے جسم پر ایک سے زیادہ گھاؤ ہیں ….”

جائے واردات کی تفصیلات تیزی سے قلمبند ہو رہی تھیں معمولی سے معمولی شواہد و آثار کو محفوظ کیا جا رہا تھا۔  مقتول کرنل کے ہاتھوں میں سر کے بالوں کا گچھا تھا جو قاتل کے بالوں سے مشابہ تھا۔  تفتیش کاروں نے اسے احتیاط سے محفوظ کیا۔  صفحے کے صفحے سیاہ ہو رہے تھے اور چھوٹی سی چھوٹی بات بھی اہم تھی۔

"پہلا نشانہ مرد تھا ……..جیسا کہ عموماً دوہرے قتل کی واردات میں ہوتا ہے کہ پہلا نشانہ طاقتور کو بنا یا جائے ……..اس موقع پر بھی پہلا نشانہ قاتل کے لیے مشکل اور تھکا دینے والا شکار ثابت ہوا ……..” یہ تجزیہ اس تفتیش کار کا تھا جو غالباً  ان سب کی سربراہی کر رہا تھا دوسرے نے معاونت کے طور پر لکھوایا……..” مرد نے مقابلے کی کوشش کی تھی لیکن زمین پر بہتے خون پر پھسلنے کے نشان واضح کر رہے ہیں کہ وہ اتفاقیہ طور پر پھسل گیا اور انتہائی تنزلی کی حالت میں گر پڑا اس اتفاق کا فائدہ قاتل نے بروقت اٹھا یا اور مرد کے گرنے کے بعد تیز دھار آلے سے اس کے عقب میں آ کے گردن پر وار کئے غالباً قاتل نے مقتول کے حرام مغز پر بھی وار کرنے کی کوشش کہ جو زیادہ کاری ثابت نہ ہوا۔  البتہ قاتل نے مقتول کے اعضائے رئیسہ کو بھی نشانہ بنایا غالباً اسی سبب مقتول تا دیر مزاحمت نہ کر سکا حملہ آور کے ہاتھوں لگے زخموں میں گلے پر لگا یا زخم بھی ہے جو افقی ہے دیگر زخم مختلف اعضاء خصوصاً ہاتھوں کلائیوں بازوؤں پر بھی موجود ہیں جن سے واضح ہے کہ قاتل نے مقتولین کو نڈھال اور خوفزدہ کرنے اور بچاؤ کے قابل نہ چھوڑنے کے لیے انتہائی پھرتی سے گھاؤ لگائے ……..یہاں تک کہ دونوں مضروب بے بس ہوتے چلے گئے ……..قتل کی تفصیلات مرتب ہو چکی تھیں۔

لیکن محرکات ……..؟ وجوہات؟؟ متعدد تفتیشی مراحل گزرے سوال بہت تھے۔  اور جواب گم ……..

کیا اس دوہرے قتل کا محرک اتنا شدید تھا کہ جس نے قاتل کو جنونی بنا دیا ….؟؟

کیا اُس نے کسی انتقام کے تحت قتل کیا ……..؟

کوئی وقتی اشتعال اس جرم کا سبب بنا ……..؟

روپے پیسے کی خاطر ……..؟ تنخواہ نہ ملنے پر ……..؟ توہین کرنے پر؟؟ یا پھر وہ کرائے کا قاتل ہے ……..؟

کیا قاتل نشے میں تھا ……..؟ یا پاگل پن کا دورہ پڑا تھا؟

اس کی طبّی تجزیات کی تفصیلات کو بغور دیکھا گیا ……..

دن پہ دن گزرتے گئے وہ لب بستہ رہا۔

تفتیشی تفصیلات و تجزیات ادھورے تھے۔

محرکات کیا تھے؟ ……..قاتل دہرے قتل کا اعتراف کرنے کے باوجود وجہ کیوں بتا نہیں پا رہا تھا۔

تفتیش کار حیران تھے۔  قاتل پختہ عمر ہونے کے باوجود ایک چودہ سالہ لڑکے جیسی حیرت اور معصومیت میں ڈھلا ہوا تھا اس کا چہرہ دیکھ کے اس کی عمر کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔  اس کے جسم پر زائد چربی نہ ہونے کی وجہ سے جسم پھولا یا ڈھیلا نہیں تھا چہرے پر ریاکاری کی کوئی سطر نہیں تھی۔  قاتلوں، مجرموں یا منتقم المزاج لوگوں جیسی وحشت یا بے آرامی کے آثار بھی نہیں تھے۔  اس سب کے برعکس وہ مرنجان مرنج آدمی لگتا تھا، ایسا بے نیاز اور خود میں گم شدہ جیسے دنیا میں رہتے ہوئے اس نے دنیا سے پیٹھ موڑ کے زندگی گزاری ہو اور اسے اِس دنیا سے کچھ بھی نہ چاہیے ہو۔

٭٭٭

جرح کے کئی مرحلوں سے گزرنے کے باوجود اس کے چہرے پر کندہ سکون، معصومیت، بے نیازی اور سب سے بڑھ کر دوہرے قتل کے اعتراف کے باوجود اسی واردات سے لاتعلقی جیسے تاثرات و کیفیات عجب پیچیدگی پیدا کر رہے تھے۔  ہر استفسار پر اقرار جرم وہ یوں کرتا جیسے وہ ملزم ہو نہ مجرم، نہ گواہ نہ شاہد نہ مشہود۔  بلکہ کوئی سنیاسی ہو بھٹک کے آ نکلا ہو اور خواہ مخواہ ہی جرم کو اپنے سرباندھ رہا ہو اور اس احساس سے ہی ماورا ہو چکا ہو کہ یہ اس کی اپنی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔

بالآخر علمِ نفسیات کے ماہرین سے مدد لے گئی۔

جنہوں نے کئی پہلوؤں پر غور و خوض کیا ……..

کیا کسی انگیخت پیدا کرنے والے واقعہ نے قاتل کو ایسے ہیجان میں مبتلا تو نہیں کر دیا تھا جس نے اس کے احساسات کو ورائے عقل و حواس گرفت میں لے لیا ہو ……..؟

کیا وہ کسی ایسے فریبِ نگاہ واقعات کا شکار تو نہیں ہوا جو در اصل ہوئے ہی نہ ہوں ……..یعنی کوئی بیرونی چیز ……..جو در حقیقت سامنے نہ ہو لیکن اس کی موجودگی تصّور کر کے وہ کسی شدید نفسیاتی دباؤ میں مبتلا ہو گیا ہو؟ کہیں یہ تو نہیں کہ قاتل ایسے کسی نفسیاتی مرض کا شکار ہو جس میں مبتلا مریض ایسی رغبت اور تحریک کی زد میں ہوتا ہے کہ وہ کسی خاص شخص کو خاص موقع پر قتل کئے بغیر نہیں رہ پاتا ہے یعنی اس کے دماغ میں آہستہ آہستہ قتل کا خیال پیدا ہوتا ہے وہ اسے نظرانداز کرتا اور جھٹکتا رہتا ہے پھر اچانک ہی وہ خود کو اپنے ہی سامنے بے بس پاتا ہے اور بے قابو ہو جاتا ہے۔  بظاہر ایسا مریض تندرست ہوتا ہے اسے خود نہیں معلوم ہوتا کہ اس کے اندر اس نوعیت کے خیالات کب سے پروان چڑھ رہے تھے ……..؟

٭٭٭

ہر مرحلے کی جرح میں وہ جرح کرنے والے کا منہ بے تکے پن سے تکتا رہا۔

جرح کے طویل عمل نے سب کو تھکا دیا تھا سوائے خادم کے اُس کے سپاٹ اور بے تاثیر چہرے پر کوئی حیرانی پریشانی نہ تھی۔

حوالات میں جرح، وکیل کی جرح، عدالت میں پیشیاں سب خادم کے لیے طُرفہ تماشہ ثابت ہوئیں۔

"آخر تم بتاتے کیوں نہیں ……..؟ تم نے ایسا کیوں کیا ……..آخر کیوں "؟؟

وکیل نے عدالت میں کھڑے خادم کے سامنے استادہ چوبی تختے پر زور سے اپنا ہاتھ پٹخا آخر کار خادم کے سپاٹ چہرے پر پہلی بار نا معلوم تاثرات کی لہر گزری اور جیسے اس نے کچھ بتانے، کہنے کی خواہش سی کی۔  سب کی نگاہیں اس پر مر کوز ہو گئیں۔

بالآخر وہ بے حد قطعیت لیکن بے نیازی سے بولا….

"پتہ نئیں صاب……..”

٭٭٭

ماخذ:

https: //www.deedbanmagazine.com/blog/jhni-gm-gshth

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل