FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

انور سہیل کی منتخب کہانیاں

 

 

 

انتخاب و ترجمہ : عامر صدیقی

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

پرانی رسی

 

سلیمان کے ہاتھوں میں ایک معمولی سی پٹ سن کی رسی ہے۔  اینٹھی ہوئی، گندی سی، چیکٹ، بد رنگ رسی، جس میں جگہ جگہ سخت سی گانٹھیں ہیں۔  انگریزی کے ’’وائی‘‘ کی شکل والی رسی، جس سے پالتو مویشیوں کو باندھا جاتا ہے۔

بقر عید میں قربانی کیلئے لائے گئے بکرے شیرو کے گلے میں بندھی تھی یہ رسی۔  سلیمان نے یاما کے محنتی ہاتھوں کی انگلیاں یاد کیں۔  ایسی ہی تو ہوا کرتی تھیں، سخت، گٹھیلی، مضبوط گرفت والی انگلیاں! ساتھ ہی یاد کی یاما کی وہ بات، ’’گھاٹا سہنا کرنا تو ہم گریب گربا کی کسمت ہے ساب!‘‘

یعنی یاما کے عمرانی نظرئیے کے مطابق، انسانی رشتے میں مٹھاس بچائے رکھنے کیلئے، کسی ایک پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔  سلیمان اور یاما کے درمیان پیدا ہوئے تعلق کی بنیاد کی پہلی اینٹ پر، یاما کا نام درج ہے۔  اس بنیاد پر بننے والی عمارت پھر کبھی پوری بن نہیں پائی۔

آج سلیمان تنہا بیٹھے، ماضی کی گلیوں میں بھٹک رہے ہیں، تو انہیں یاما کی بات صحیح لگ رہی تھی۔  واقعی نقصان سہے یاما نے اور ہر بار فائدے میں وہ ہی رہے۔

چھتیس گڑھ کے ’’سر گجی ہا آدی واسی‘‘ اپنے جوان نر جانوروں کی گردن پر منتر پڑھی رسی باندھا کرتے ہیں، تاکہ ان کے جانور بری نظر اور بری آتماؤں کے حملے سے بچے رہ سکیں۔  جانوروں کے لئے دُلار کی علامت ہیں یہ رسیاں۔  جانور بک جاتا ہے، تو سپردگی سے پہلے وہ اس جانور کے گلے میں بندھی اپنی منتر پڑھی رسی کھول کر، اپنے پاس رکھ لیا کرتے ہیں۔  پھر یہ رسی دوسرے تیار ہونے والے جانور کے گلے میں باندھی جاتی ہے۔  یاما نے غلطی سے اپنے بکرے شیرو کو رخصت کرتے وقت، اس کے ساتھ منتر پڑھی رسی بھی سلیمان کے حوالے کر دی تھی۔  اسی رسی کے لئے صبح سویرے بیکنٹ پور سے نصرت آپی کا فون آیا تھا۔  انہوں نے تاکید کی تھی کہ اس رسی کو پھینکا نہ جائے۔  بلکہ اسے سنبھال کر رکھ لیا جائے۔  وہ تو اچھا تھا کہ قصائی چھٹن میاں نے رسی پھینکی نہ تھی۔  چھت پر جہاں بکرے کو باندھا گیا تھا، وہیں سبزچارے کے ڈھیر کے پاس وہ رسی پڑی مل گئی۔  سوسلیمان نے فوراً فون پر نصرت آپی کو خبر کر دی کہ آپی رسی مل گئی ہے۔  اب اسے پہلی فرصت میں کسی کے ہاتھ آپ کے پاس بھجوا دوں گا۔  نصرت آپی نے پھر یاد دلایا۔

’’دیکھنا سلیمان، وہ رسی گم نہ ہونے پائے۔  یاما بے چاری بہت پریشان ہے۔ ‘‘

یاما پریشان ہوتی بھی تو کیوں نہ؟ شیرو، یاما کا سب سے زیادہ پیارا بکرا تھا۔  بھورے رنگ کا، صحت مند، یک سالہ بکرا۔  بقر عید میں قربانی کے لئے کم سے کم ایک سال کا بکرا ذبح کیا جانا چاہئے۔  یاما بکرا فروخت نہیں کرنا چاہتی تھی۔  لہذا یاما نے دلیل گڑھی تھی کہ شیرو کو ایک سال کا ہونے میں، ابھی آٹھ دن باقی ہے۔  سلیمان کے ساتھ رجب بھائی تھے۔  حق و نا حق، حرام و حلال وغیرہ جیسے دینی مسائل کے وہ اچھے جانکار تھے۔  اسلامی معاشرے میں ان باتوں پر بڑی توجہ دی جاتی ہے۔  اب چونکہ سلیمان صرف نام کے مسلمان تھے، اس وجہ سے وہ باریکیوں سے انجان تھے۔  رجب بھائی نے کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جانور ایک سال کا نہ ہو، پھر بھی اگر اس کی جسامت اور صحت ایک سال کے جانور جیسی ہو، تو ایسے جانور کی قربانی شرعاً جائز ہے۔  تو، شیرو کی اچھی صحت اور قد کاٹھ وغیرہ، اس کے ایک سال کی عمر والی کمی میں حائل نہ تھی۔  یاما شیرو کو قطعی نہیں بیچتی، اس نے بتایا بھی تھا کہ کئی گاہکوں کو وہ لوٹا چکی ہے۔  شیرو اس کی جان ہے۔  شیرو چلا گیا تو اس کا گھر ویران ہو جائے گا، لیکن سلیمان کو وہ منع کرے بھی تو کیسے کرے؟ سلیمان، جو اس کی جوانی کے بھرپور دنوں میں ایک بسنت کی طرح ملا تھا۔  سلیمان، جسے پہلی بار دیکھنے کے بعد، اس کے دل کے آنگن میں ملن کے پھول کھل اٹھے تھے۔  سلیمان، جس سے اس نے تب کہا تھا، ’’ہمارے سماج میں سمجھا جاتا ہے کہ جس پر دل آ جائے، اُسے پا لینے میں کوئی برائی نہیں۔  ہم آدی واسی آپ لوگوں کی طرح پیار پانے کے لئے تڑپتے نہیں رہتے۔ ‘‘

نوجوان سلیمان، جو اب تک پیار اور جسم کی لذت سے محروم تھا، اس کی تو جیسے من چاہی مراد پوری ہو گئی ہو۔  یاما سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی، جب سلیمان نے نیا نیا جوانی کی دہلیز میں قدم رکھا تھا۔  ’’انگڑائی‘‘ اور ’’اِندرلوک‘‘جیسی نشیلی کتابیں کورس کی کتابوں کے بیچ جگہ پا رہی تھیں۔  ’’جیمز ہیڈلی چیز‘‘ کے جاسوسی ناول اور ’’لیڈی چیٹرلیز لور‘‘ کے اردو تراجم کے آگے منشی پریم چند بڑے پھیکے لگتے۔  امرتا پریتم کی ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ اور ’’منٹو کی کہانیاں ‘‘ ٹائم پاس کا بہترین ذریعہ تھیں۔  گھسّا اور گلّو جیسے نالائق لڑکوں کی صحبت میں مزہ آتا تھا، کیونکہ ان کے پاس عجیب و غریب جنسی تجربات اور رنگین قصوں کا چٹ پٹا خزانہ تھا۔  لونڈیا پٹانے اور چکر چلانے کے ہزاروں آزمائے ہوئے ’’شیور شاٹ‘‘ نسخے تھے ان کے پاس۔  سلیمان پڑھنے میں تیز تو تھا، مگر فطرتاً ڈرپوک۔  گھسّا اور گلّو اسے دیکھ کر طعنہ مارتے کہ پڑھاکو لڑکے کتاب میں دن رات آنکھیں پھوڑا کرتے ہیں۔  سلیمان عقلمند تھا۔  سو وہ محلے کی لڑکیوں، دیدیوں، آنٹیوں اور یہاں تک استانیوں تک سے دل ہی دل میں عشق لڑایا کرتا تھا۔  حقیقت میں اس کی کوئی گرل فرینڈ نہ تھی۔  اپنی حدود کو جانتے ہوئے بھی سلیمان اس علاقے میں ہاتھ پاؤں مارنے سے باز نہ آیا کرتا۔  ایسے ہی کسی روز نصرت آپی کی سرکاری رہائش گاہ میں کام کرنے والی، سیمنٹ ریتی ڈھوتی مزدور، یاما سے سلیمان کی آنکھیں چار ہوئی تھیں۔

اس طرح آنکھ لڑانے کے اس کے پاس اور بھی کئی زوردار تجربے تھے، لیکن اس دن جو آنکھ لڑی، وہ سلیمان کی زندگی کا ناقابلِ فراموش باب بن گئی۔  اس دن پہلی بار آنکھیں چار ہونے کے فوراً بعد کوئی رد عمل میں مسکرائی تھی۔  جھٹ سے سلیمان کوگھسّا اور گلّو کے بھوتوں کا فارمولا یاد آیا۔  ’’ہنسی سو پھنسی۔ ‘‘

پھر سلیمان کسی نہ کسی بہانے یاما کے آس پاس منڈراتا رہا۔  دل ہی دل میں کئی طرح کے ڈائیلاگ تیار کرتا، ان کی ایڈیٹنگ کرتا، پھر کئی کئی بار لہجہ بدل بدل کر اسے دہراتا، مگر یاما کے پاس پہنچ کر اس کے دل میں بیٹھی اس کی ہچکچاہٹ، اس کی بولتی بند کر دیتی۔ تِگاری سر پر ڈھوتے ہوئے، آتے جاتے یاما پھسپھسائی، تو جیسے اسے چار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ لگا، ’’آج یہاں رکنا ہے نا؟‘‘

سلیمان کو اسی دن واپس لوٹنا تھا۔  نصرت آپی کے گھر وہ کبھی رکتا نہ تھا۔  صبح آتا تو شام تک واپس لوٹ جایا کرتا تھا۔  یاما کے سوال کے جواب میں اس نے ’’ہاں ‘‘ کے انداز میں سر ہلا دیا تھا۔  یاما نے چپکے سے بتایا کہ وہ بنگلے کے پیچھے پرانے گیراج میں رہتی ہے۔

سلیمان نے جب نصرت آپی کے یہاں ایک دن مزید رک جانے کی بات نہیں ٹالی تو آپی بہت خوش ہوئیں، کیونکہ سلیمان کے دولہا بھائی آفیشل کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ آپی گھر میں اکیلی تھیں۔

نصرت آپی نے بیٹھک میں اس کے سونے کا انتظام کیا تھا۔

رات کو سونے سے پہلے سلیمان گھر سے باہر نکلا۔  پیچھے نوکروں کی رہائش گاہ سے کسی عورت کے ہنسنے کی آواز سنائی دی۔  وہ چونک پڑا۔  دیکھا کہ آنگن میں سوہانجے کے درخت کے نیچے چولہے میں آگ جلائے یاما بیٹھی ہے۔  ستمبر کے مہینے کے ابتدائی دن تھے۔  انتہائی خوشگوار موسم۔  سوہانجے کی ڈالیوں کے پیچھے سے جھانکتا ہوا پر تجسس چاند۔  چاند کی سفید کرنوں کے ساتھ بنگلے کے باہر لگے مرکری لیمپ کی پیلے رنگ کی روشنی کی سحرانگیزی۔  سلیمان کو یاما کا تانبے کی رنگت والا چہرہ، ایک انوکھی روشنی سے منور نظر آیا۔  اسے گھسّا اور گلّو کی بات یاد آ گئی کہ ’’ابے سالے، جوانی میں تو گدھیا بھی سندرنظر آتی ہے۔ ‘‘لیکن نہیں، یاما کے پاس واقعی قدرتی خوبصورتی ہے۔  ماحول کے سحر میں گرفتار سلیمان یاما کے پاس پہنچا۔  اس وقت اس کے دل میں، نصرت آپی کا خیال تک نہ تھا، اور نہ دولہا بھائی کا ڈر۔  مٹی کے چولہے پر توا چڑھا تھا۔  یاما کا چہرہ پسینے سے تر تھا، جس پر چولہے کی سرخ آنچ کی گرمائش کا اثر تھا۔  اپنے پاس سلیمان کو دیکھ کر یاما مسکرائی۔

’’روٹی بنا لوں؟‘‘

سلیمان ہنسا، ڈر کم ہوا۔

’’آپی کو پتہ چل گیا تو؟‘‘

سلیمان وہیں اس کے پاس زمین پر اکڑوں بیٹھ گیا۔

’’لاؤ، کھلاؤ۔ ‘‘

یاما کو کیا معلوم کہ شرمیلا سا صاحب زادہ ایسی حرکت کر بیٹھے گا۔  وہ گھبرائی، ’’نہیں، کسی نے دیکھ لیا تو نوکری چلی جائے گی۔ ‘‘

سلیمان ہنسا۔

’’بس، ہوا نکل گئی۔ ‘‘

پھر ایک طویل خاموشی۔  چاردیواری کے باہر جھاڑیوں سے ٹٹہیری کی آواز گونجی۔  سلیمان نے یاما سے اس کا نام پوچھا تو یاما نے اسے گھور کر دیکھا۔

’’نام میں کی دھرا ہے؟‘‘

پھر چولہے کی روشنی میں اپنا داہنا ہاتھ اس نے آگے بڑھایا۔  اس کی کلائی میں پھول پتیوں کے بیچ گدا ہوا تھا، ’’شیاما۔ ‘‘

سانولی رنگت، تیکھے نین، پتلے پتلے ہونٹ، گھنگھرالے سیاہ بال اور سانچے میں ڈھلی دیوی یاما۔  یاما نے پوچھا تو سلیمان نے بتایا کہ آپی کی جانب سے وہ مطمئن رہے۔  وہ ٹی وی دیکھ رہی ہیں۔  روٹی بنا کر یاما نے فرصت پائی پھر چولہے سے بچی لکڑیاں نکال کر انہیں بجھانے لگی۔  سلیمان نے یاما سے اجازت لی اور اپنے کمرے میں واپس لوٹ آیا۔

اس کا دل اب کہاں لگتا! وہ بستر پر نڈھال سا لیٹ گیا۔

آپی ٹی وی پر ساس بہو والے سیریل سے لطف لے رہی تھیں۔  دولہا بھائی بی ڈی او ہیں۔  اکثر دورے پر رہتے ہیں۔  اس دن بھی وہ گھر پر نہ تھے۔  نصرت آپی کے دونوں بچے یعنی سلیمان کے بھانجے رائے پور کے ایک بورڈنگ اسکول میں تھے۔  نصرت آپی سرکاری رہائش میں اکثر اکیلے دن گزارا کرتیں۔  رات جب آپی کے خراٹے گونجنے لگے، تب سلیمان اٹھا۔  وال کلاک پر اس وقت بارہ بج رہے تھے۔  سلیمان چپکے سے مین گیٹ کھول کر سیدھا پیچھے گیراج کی طرف پہنچا۔  گیراج سے لگے کمرے کے اندر سے جلتی ڈھِبری کی پیلی مٹمیلی روشنی دروازے کی جھریوں سے باہر جھانک رہی تھی۔  سلیمان نے بے خوف ہو کر دروازے پر دستک دی۔  اندر آہٹ ہوئی اور دروازے کے پاس یاما کی آواز آئی۔

’’کون؟‘‘

سلیمان ہکلایا، ’’میں۔ ‘‘

دروازہ کھلا، یاما بلاؤز اور لہنگے میں تھی۔  اس نے جلدی سے سلیمان کو کمرے کے اندر کر لیا۔

’’اے بھگوان، کسی نے دیکھا تو نہیں؟‘‘

’’مجھے کچھ نہیں معلوم، سمجھ لو میری مت ماری گئی ہے۔ ‘‘

کمرے میں زمین پر ایک طرف گدڑی بچھی ہوئی تھی۔  دوسری طرف گرہستی کا دیگر سامان اور پانی کا مٹکا رکھا تھا۔  یاما نے گدڑی پر اسے بٹھایا۔  سلیمان نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔  یاما جھجکتے ہوئے پاس آ بیٹھی۔  سلیمان نے ڈرتے ڈرتے اس کا ہاتھ پکڑا۔  باپ رے باپ، اس محنت کش ہاتھ کی انگلیاں کتنی سخت تھیں۔  ہتھیلیوں پر گانٹھیں تھیں۔  انتہائی سخت کھردرا ہاتھ۔  جیسے کہ کسی درخت کی چھال ہو۔

یاما نے اس رات قدرت کے کئی پوشیدہ رازوں پر سے پردہ اٹھایا تھا۔

وہ ایک ایسی رات تھی، جس میں سلیمان اپنی سدھ بدھ کھو چکا تھا۔  وہ ایک ایسی رات تھی، جس کی ’’صبح کبھی نہ ہو‘‘ ایسا وہ چاہتا تھا۔  وہ ایک ایسی رات تھی جسے پھر ساری عمر دہرایا نہ جا سکا۔  وہ ایک ایسی رات تھی، جب دو پیاسی روحیں شرارتی ہوئی تھیں۔  بس، اس رات کی یادیں اس کی زندگی بھر کا سرمایہ تھیں۔  یاما کی خود سپردگی کی قیمت اس نے ادا کرنی چاہی، مگر خوددار یاما ناراض ہو گئی۔  اس نے دلیل دی کہ یہ رشتہ اکیلے کا تو نہیں۔  دونوں نے ہی ان قیمتی لمحات کو ساتھ ساتھ جیا ہے، پھر کوئی ایک اس کی قیمت کیوں لے؟ یاما لالچی نہیں تھی، جبکہ نئی نویلی دلہن منہ دکھائی میں شوہر کو اچھا خاصا چونا لگا دیتی ہے۔  یہی ادا تو یاما کو کچھ خاص بناتی ہے۔

سید گھرانے کی خوبصورت، دبلی پتلی لڑکی ثریا سے سلیمان کا نکاح ہوا، لیکن اس کے ساتھ سلیمان کا تجربہ بہت کچھ مشینی سا رہا۔  جیسے بنا بگھار کی دال، بن بھونی سبزی۔  رشتے میں رومانیت کے لئے سلیمان اکثر یاما کی خود سپردگی کو یاد کیا کرتا۔  وہ آدی واسی لڑکی اس کی نوجوانی کا خوبصورت ’’ انکاؤنٹر‘‘ تھی۔  جوانی کی دہلیز میں قدم رکھتے نوجوان کے جنسی تجسس کا قابلِ رسائی حل تھی یاما۔  سلیمان اپنے ارد گرد کی دیگر عورتوں سے یاما کا تقابل کرتا تو پاتا کہ خالی پیلی کے خیالات سے کتنا آزاد تھا اس کا وجود۔  بِن داس، لا پرواہ، سیدھاسادہ، آزاد، تر و تازہ، خود انحصاری کی بنیاد پر پنپتی، ایک مطمئن زندگی۔  جدید دنیا میں اسٹریس فری زندگی اور قدرتی حسن پانے کے لئے خواتین ماہرین سے انہیں طریقوں کے استعمال کا مشورہ لیا کرتی ہیں۔  یہاں تو نصرت آپی میک اپ کرنے کے بعد نقاب پہن لیں گی، تب امی کا حکم ہو گا، ’’بیٹا سلیمان، نصرت کے ساتھ ہسپتال چلے جاؤ، اکیلے کس طرح جائے گی وہ!‘‘ یا، ’’ بیٹا، ذرا نصرت کے ساتھ یونیورسٹی تو چلے جاؤ۔ ‘‘یا۔  ’’ بیٹا سلیمان، نصرت آپی کو جا کر گھر لے آؤ۔ ‘‘

سلیمان نوکری کے سلسلے میں جبل پور، منڈلا، شہڈول وغیرہ جیسے مقامات میں دس بارہ برس گزار کر اپنی جب واپس لوٹے، تو ایک دن نصرت آپی کے گھر انہیں بڑی شدت سے یاما کی یاد آئی۔  اشاروں کنایوں میں انہوں نے پوچھا کہ پہلے سرونٹ کوارٹر میں کتنے نوکر رہا کرتے تھے۔  بہت سے وفادار نوکروں کو یاد کر کے نصرت آپی نے بتایا کہ سب سے زیادہ چہیتی نوکرانی یاما اب بھی ان کے گھر میں آتی ہے۔  یہاں سے پندرہ بیس کلومیٹر دور ایک گاؤں میں رہتی ہے۔  آج کل وہ بکریاں پالتی ہے۔  بلاس پور، رِیوا سے مویشیوں کے تاجر ادھر آتے ہیں اور بکریاں خرید کر لے جاتے ہیں۔

سلیمان ہندوستانی معاشرے میں پلے بڑھے ایک پریکٹیکل مسلمان ہیں۔  اسلام کی مذہبی رواداری انہیں پسند ہے۔  مذہبی لوگوں میں موجود احساسِ برتری اور تکبر کے وہ شکار نہیں ہیں۔  ان کا ماننا ہے کہ ہر وہ مذہبی شخص جو کسی نہ کسی بہانے خدا کا نام لیتا ہے، وہ صحیح راستہ پر ہے۔  وہ چاہے اللہ کا نام لیتا ہے ہو، بھگوان کا یا پھر یسوع مسیح کا۔  کسی کے عقیدے کا مذاق اڑانا یا پھر اس پر شک کرنا، انہیں ناپسند تھا۔  ہاں، وہ امی ابو کی زندگی میں ضرور کچھ پابندی میں رہے۔  پھر گھر سے باہر نوکری میں ایسے مصروف ہوئے کہ مذہب اور اس کے طور طریقے ان کے لئے محض رسمی سے بن کر رہ گئے تھے۔  وہ عید کے دن دوستوں کو گھر بلا کر سیویاں کھلاتے۔  ان کے مانساہاری دوستوں کے لئے بیگم ثریا کباب، ٹکیہ اور پلاؤ، پراٹھے بنایا کرتیں۔ بقر عید پر انہوں نے کبھی قربانی نہیں کری تھی۔  انہیں عجیب لگتا تھا کہ تہوار کے دن بکرے کی قربانی کی جائے۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے چلی آ رہی اس رسم کو، اب پیروی کے طور پر منانے کے لئے کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہئے تھا۔  ویسے ان کے مانسا ہاری دوست انہیں قربانی کرنے کے لئے بڑھاوا دیا کرتے، لیکن شاکا ہاری دوستوں کی تعداد زیادہ تھی۔  لہذا عید کی طرح بقر عید بھی ان کے گھر سیویوں کا ہی دور رہتا۔  ہر صاحبِ نصاب، بالغ، با شعور کو قربانی کرنے کا حکم ہے۔  یہ سنتِ ابراہیمی ہے۔  چنانچہ وہ دوسرا راستہ اختیار کرتے ہوئے قربانی کی متوقع رقم، وہ شہر کے ایک یتیم خانے میں بھیج دیا کرتے۔  یتیم خانے میں ان کے نام سے بکرے کی قربانی ہوتی۔  وہاں یتیم بچے اور ان کا طفیلیہ مولوی، اس قربانی کے گوشت کا ذائقہ سال بھر یاد رکھتے۔  یاما سے ملنے کا بہانا حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اس بار کی بقر عید میں خود قربانی کرنے کا فیصلہ کیا۔  قربانی کے لئے بکرا لینے وہ یاما کے گاؤں جانا چاہتے تھے۔  نصرت آپی اپنے شوہر کے ماتحت رجب بھائی کو ان کے ساتھ یاما کے گاؤں بھیجنا چاہتی تھیں، کیونکہ رجب بھائی ایک تو مقامی تھے اور ساتھ ہی مذہبی امور کے ماہر بھی۔۔ ۔

دوپہر کا کھانا کھا کر وہ لوگ اسکوٹر لے کر نکلے۔  سلیمان اسکوٹر چلا رہے تھے۔  رجب بھائی راستہ بتاتے جاتے۔  ہولی ابھی ابھی بیتی تھی۔  ماحول میں پھاگن کی مستی برقرار تھی۔  پلاش کے لال لال پھول جنگل کا شرنگار بنے تھے۔  ارد گرد کہیں بارش ہوئی تھی شاید، تبھی ہوا میں نمی تھی۔  آسمان پر آوارہ کالے سیاہ بادل دھما چوکڑی مچا رہے تھے۔  راستے میں دس پندرہ گھروں والے چھوٹے چھوٹے گاؤں آتے رہے۔  رجب بھائی کسی گاؤں کا نام ’’ بھالوگڈار‘‘ بتاتے تو کسی کا ’’ مُہوآ ٹولا‘‘۔  کسی کا ’’ پرسا ٹولا‘‘ تو کسی گاؤں کا نام ’’ اماکھیروا‘‘۔  چھوٹے چھوٹے کھیت دھان کی اگلی روپائی لگنے تک کیلئے خالی پڑے تھے۔  یہ ایک بارانی علاقہ ہے۔  دھان کی کٹائی کے بعد گرام واسی یا تو ٹھیکیداروں کے پاس کام تلاش کرنے چلے جاتے ہیں یا ارد گرد کی کانوں میں کھپ جاتے یا پھر مہوا بینا کرتے۔  یہاں آبپاشی کا ذریعہ ’’ پھر پانی دے مولا‘‘ کی التجا بھر ہے۔  بہترین بارش کے بعد ہی ’’چڑیوں کو دھانی‘‘ اور ’’بچوں کو گُڑ دھانی‘‘ مل پاتا ہے۔

سلیمان کا من کہاں بہل پا رہا تھا گاؤں کھیتوں کی پگڈنڈیوں میں۔  وہ تو بس اپنی یاما کے دیدار کے لیے بے چین تھے۔  رجب بھائی نے کہا، ’’سنبھل کر جناب، آگے ایک بڑی نالی ہے، اس کے پار جو گاؤں دکھائی دے رہا ہے، وہیں رہتی ہے بکری والی شیاما۔۔!‘‘

سلیمان نے اسکوٹر کے ہینڈل کو مضبوطی سے تھام لیا۔  امیر کسانوں کے گھروں کو پار کر کے ان کا ا سکوٹر گاؤں کے باہر نکلنے لگا، تو ان سے رہا نہیں گیا، ’’گاؤں تو اب ختم ہو گیا، رجب بھائی؟‘‘

جواب ملا، ’’ اطمینان رکھیں جناب۔۔ ۔  بس آ ہی گئے سمجھئے۔ ‘‘

بیشرم کی جھاڑیوں سے گھری ایک گندی سی کٹیا کے آگے اسکوٹر رکا۔  گاؤں کا آخری گھر تھا وہ۔  آگے پتھریلی چٹان والی زمین کے بعد ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی۔  تیندُو، مہوا اور آم کے اکا دکا درخت گاؤں کی نشانی کے طور پر موجود تھے۔  رجب بھائی اسکوٹر اسٹینڈ پر کھڑا کر کے دور پہاڑی کی مغربی سمت دیکھنے لگے۔  وہاں ڈھلان پر ایک عورت ڈھیر ساری بکریوں کو ہنکا کر لا رہی تھی۔

افق پر سورج کے آخری دیدار کے نشانات موجود تھے۔

رجب بھائی نے سلیمان سے کہا، ’’اچھے وقت پر آ گئے ہیں، بکرا دیکھنے آدمی یا تو صبح آئے یا پھر شام کے وقت۔ دن میں بکریاں چرنے چلی جاتی ہیں۔  اور ہاں، آپ تھوڑا سا اسکوٹر کے پیچھے چلے جائیں۔  یاما کا ایک بکرا بڑا لڑاکا ہے۔ ‘‘

سلیمان اسکوٹر کے پیچھے کھڑے ہو کر، جدھر رجب بھائی کی نگاہیں تھیں، ادھر دیکھنے لگے۔

ٹیلے کے نیچے کھیتوں کے کنارے کنارے بنی پگڈنڈی پر، ایک دبلی پتلی ادھیڑسی عورت چھڑی سے بکریوں کو ہنکاتے ہوئے اب پاس آ رہی تھی۔  رجب بھائی نے اس عورت کو ہی یاما کہا ہے، کیا وہ عورت ان کی یاما ہی ہے؟ اس کی وہ بے مثال خوبصورتی کیا وقت کے ہاتھوں مار کھا گئی؟ جس روپ کے سلیمان دیوانے ہوا کرتے تھے۔  یاما کی خوبصورتی کوئی ’’شہناز بیوٹی مارکہ‘‘ کی ادھار دی ہوئی تھوڑی تھی۔  انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ ہوا۔

بکریوں کے ریوڑ کی قیادت ایک بڑا سا مضبوط بکرا کر رہا تھا۔  تو یہی ہے مرکھنا بکرا۔  سلیمانا سکوٹر کے پیچھے کھڑے رہے۔  بکرا زبردست تھا۔  بچھڑے کے سائز کا ہو گا۔  سینگیں مضبوط نکیلی۔  ٹھڈی پر رجب بھائی جیسی داڑھی۔  بکرا سیدھا اندر چلا گیا۔  اس کے پیچھے نیکر پہنے ایک سوکھا سڑامریل سا آدمی نظر آیا۔  رجب بھائی نے بتایا کہ یہ آدمی یاما کا شوہر رام پرساد ہے۔  پھر ڈھیر ساری بکریوں کے پیچھے موجود عورت قریب آئی۔  سلیمان نے ہڈیوں کی ڈھانچہ بنی اس عورت کو پہچانا نہیں۔

رجب بھائی نے اشارہ کیا کہ یہی یاما ہے۔

عورت بکریاں ہنکاتی قریب آئی اور سلیمان کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگی۔

ابھی چالیس ہی لگا تھا سلیمان کو، لیکن ان کے سر پر اب بہت کم بال بچے ہیں۔  جو بچے بھی ہیں ان میں بھی زیادہ تر سفید ہو چکے ہیں۔  چہرے پر معصومیت کی جگہ کھردرا ہٹ آ بیٹھی ہے۔  ہاں، اپنی بڑی بڑی چمکدار آنکھوں پر انہیں اب بھی بھروسہ تھا۔  دونوں آنکھیں ٹناٹن چھ بائی چھ ہیں۔  عینک کی ضرورت نہیں پڑی ابھی تک، جبکہ کام لکھنے پڑھنے والا رہا ہے۔  یاما کے چہرے پر سلیمان وہ چنچل آدی واسی حسن تلاش کرنے لگے، جس نے ان کی زندگی میں رنگوں کے باب جوڑے تھے۔  لیکن یہ کیا، یاما کے چہرے کی خشک چمڑی پر جھریوں نے بسیرا بنا لیا ہے۔  اس کا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی تو ہے۔  ہاں، ہونٹوں پر جب نگاہیں پڑیں، تب وہ جان گئے کہ یہ یاما ہی ہے۔  ویسے ہی پتلے پتلے ہونٹ۔  یاما کو ہونٹ چوما جانا قطعی پسند نہیں تھا۔  ایسا کرنے پروہ گدگدانے لگتی یا پھر چٹکیاں کاٹتی۔

’’یہ کیا شہری بابو والی حرکت کرتے ہیں؟‘‘

وہ چڑایا کرتے، ’’ پینڈو لوگ کیسی حرکت کرتے ہیں؟‘‘

یاما روٹھنے کی اداکاری کرتی، ’’ہٹ گنوار کہیں کے!‘‘

لذت کے حسین لمحات میں یاما تھوڑی فری ہو جاتی تھی۔

رجب بھائی نے مرکھنے بکرے سے آدھے سائز کے ایک بکرے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہی ہے وہ بکرا جسے یاما ابھی فروخت کرنا نہیں چاہتی ہے۔  یاما کے موجودہ حالات نے انہیں اندر تک ہلا کر رکھ دیا۔  سلیمان کی طبیعت بوجھل ہو چلی تھی۔  وہ بھول گئے تھے کہ یہاں کس مقصد سے آئے ہیں؟ یاما کا شوہر رام پرساد کھیس لپیٹتے پاس آیا، ’’گریبوں کا محل دیکھ رہے ہیں ساب؟‘‘

رجب بھائی کے ساتھ سلیمان آنگن کے بیچ بچھی چارپائی کے پاس آ گئے۔  اب اکا دکا کالے سیاہ بادلوں کی جگہ، آسمان پر کالے سیاہ بادل پوری طرح چھا گئے تھے۔  ادھر آج کل موسم ایسے ہی چھبی دکھا رہا ہے۔  سورج صحیح طریقے سے ابھی اپنا کمال نہیں دکھا پاتا کہ بادل اپنی سیاہ چادر سے اسے ڈھک لیتے ہیں۔

رجب بھائی فکر مند ہو گئے، ’’رین کوٹ بھی نہیں ساتھ لائے ہیں ہم!‘‘

سلیمان نے اندازہ لگایا، ’’زیادہ نہیں برسیں گے یہ بادل، ہوا تیز ہے، اڑا کر لے جائے گی۔ ‘‘

کٹیا کے باہر ایک چھپرا تھا، جس پر مرکھنا بکرا باندھا گیا تھا۔  بہت تگڑا بکرا تھا۔  اس جسم سے عجیب بدبو پھوٹ رہی تھی۔  ایسی بو تو ریلوے اسٹیشن پر آوارہ گھومنے والے بڑھے سانڈنما بکرے کے بدن سے پھوٹتی ہے کہ متلی ہو جائے۔

مرکھنا بکرا ممیا رہا تھا۔

یاما کی کٹیا میں صرف ایک ہی کمرہ ہے۔  اسی کمرے میں یاما ایک ایک کر کے بکریوں کو گھسانے لگی۔  کٹیا کے سامنے آنگن کی دوسری طرف ایک چھوٹا سا چھپرا تھا، جس کے نیچے چولہا تھا۔  دوسری طرف ایک پتھر کی سل رکھی تھی، جس پر ایک نکٹی دیگچی میں پانی اور کچھ جوٹھے برتن رکھے تھے۔

رام پرساد نے چارپائی بچھائی، اسے گمچھے سے جھاڑ کر سلیمان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

سلیمان جھلنگی سی چارپائی پر بیٹھے تو، ٹھیک پنجابی ڈھابے کی طرح کا کچھ آرام ملا۔  بادل آسمان پر اپنا اثر دکھانے لگے۔

ہلکی بوندا باندی شروع ہوئی۔

رام پرساد اور رجب بھائی کے بیچ کچھ باتیں ہوئیں، پھر رجب بھائی نے کہا، ’’آپ آرام سے بیٹھیں، ہم ایک اور جگہ سے آتے ہیں، سنا ہے وہاں بھی اچھا مال ہے۔ ‘‘

سلیمان یہی تو چاہتے تھے کہ یاما کے ساتھ تنہائی کے کچھ لمحات ملیں۔  رام پرساد، یاما کو چائے بنا کر رکھنے کا حکم دے کر چلا گیا۔

یاما بکریوں کو مار پیٹ سے، پچکار دلار سے اڈے سے باندھ رہی تھی۔  ان لوگوں کے جاتے ہی بارش ہونے لگی۔

یاما نے کہا، ’’چھپر کے نیچے چلے آئیے، بھیگ جائیں گے۔ ‘‘

سلیمان نے سوچا کہ جواب دے کہ اپنی یاما کو اس حالت میں دیکھ کر وہ اندر تک بھیگے ہوئے ہیں۔  لیکن پانی تیز ہوا تو سلیمان کو چھپر میں سر چھپانے جانا پڑا۔  مرکھنا بکرا انہیں تاکا ہوا تھا جیسے، سینگ مارنے کے لئے لپکا۔

یاما چلائی تو بکرا ٹھنڈا ہوا، ’’نیا آدمی دیکھ کر ایسے ہی گساتا ہے بدماش۔ ‘‘

سلیمان نے بات کا سرا پکڑا، ’’تو اب میں نیا آدمی ہو گیا یاما۔۔ ۔؟‘‘

”اگر پرانے آدمی ہیں، تو اتّے دن بعد کیوں یاد کیا، وہ بھی متلب پڑنے پر!‘‘

یاما کا غصہ جائز تھا۔  کٹیا کے اندر پانی کے چھینٹوں سے بچتے ہوئے، سلیمان نے بگڑی بات کو سنبھالنا چاہا، ’’یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے یاما؟‘‘

’’ہر چیز کا انت ہوتا ہے صاحب، جوانی کا بھی آخر ہونا ہی تھا۔  اب جن کے دن ہیں وہ مجا اٹھائیں، ہمارے دن تو کھتم ہوئے۔ ‘‘

اتنی تیکھی باتیں تو نہیں کرتی تھی یاما۔  زمانے کی ٹھوکر نے تلخ بنایا ہے شاید اسے۔  یاما بکریوں کو پانی سے بچانے کی کوشش کرتی بڑبڑاتی جاتی،

’’ہم گریب مجدوروں کو یہ دن دیکھنا ہوتا ہے ساب، جوانی میں روپ کے دیوانوں کی کمی نہیں ہوتی۔  بڑھاپا ڈھونے کے لئے صحیح ساتھی نہیں ملتا۔ ‘‘

بارش کی بوندیں چھپر پر آنے لگی تو گبرو چھٹپٹانے لگا۔

سلیمان کٹیا کے اندر جا گھسے۔

بارہ بائی دس کا ایک اندھیرا کمرہ۔  جس میں جگہ جگہ پانی ٹپک رہا تھا۔  بکریاں ٹپکتے ہوئے پانی سے بچنے کیلئے ممیا رہی تھیں۔  کمرے کے ایک کونے میں گرہستی کا سامان پھیلا تھا۔  یاما بکریوں کو بارش کے پانی سے بچانے کے لئے پھٹی پرانی بوریوں سے ڈھکنے کی کوشش کرنے لگی۔  گھر آئے مہمان سلیمان کو مناسب خاطرداری نہ دے پانے پر وہ شرمندہ بھی تھی۔  انہوں نے یاما کو مشورہ دیا کہ کھپریل بچھانے سے پہلے چھپر پر پولیتھین کی شیٹ کیوں نہیں بچھوا دی تھی؟ اس سے کم سے کم پانی تو گھر کے اندر نہیں آتا۔

یاما کیا جواب دیتی۔  اس کے چہرے پر چپکی ہوئی تھی سنجیدگی میں لپٹی ایک معصوم مسکراہٹ۔  سلیمان نے محسوس کیا کہ یہ کہیں فرانس کی ملکہ کی طرح کا کوئی معصوم مشورہ تو نہیں تھا کہ اگر روٹی نہ مل رہی ہو تو کیک کیوں نہیں کھاتی یہ بھوکی عوام۔  سلیمان دل سے چاہنے لگے کہ وہ یاما کے کچھ کام آ سکیں۔  لیکن ہمیشہ کی طرح انہیں لگا کہ وہ یاما کے دروازے بھکاری یا گاہک بن کر آئے ہیں۔  کبھی اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کیلئے آئے تھے اور آج بکرے کے لئے آئیں ہیں، جسے وہ فروخت کرنا نہیں چاہتی ہے۔

یاما کو انہوں نے اکثر روپے دینے چاہے، مگر خوددار یاما نے غربت کے باوجود روپے لینے سے انکار کر دیا۔  ساڑی یا زیور کے تحفے دینے کی خواہش تو سلیمان کے دل میں ہوا کرتی تھی، لیکن نہ جانے کس وجہ سے، وہ یہ بھی کر نہ پائے۔

انہیں یاما کے الفاظ یاد آئے، ’’ گھاٹا سہنا کرنا تو ہم گریب گربا کی کسمت ہے ساب!‘‘

جھماجھم برستے آسمان کے پانی کا اسٹاک کم ہوتا لگ رہا تھا، جبھی بارش مدھم ہونے لگی تھی۔

کالے سیاہ آسمان پر سرمئی روشنی کہیں کہیں جھانکنے لگی تھی۔  سلیمان نے گہری سانس بھر کر کہا، ’’اس سال بارش نے بہت ستایا۔ ‘‘

موسم کے بارے میں ایسے رواں تبصرے، دو اجنبیوں کے درمیان بات چیت شروع کرنے کا ایک بہانہ ہوتے ہیں۔  تو کیا یاما اب اجنبی ہو گئی، جو سلیمان اس طرح کے چالو ہتھکنڈے اپنا کر، بات چیت کی گاڑی کو آگے بڑھانا چاہتے تھے۔  سلیمان کے جذباتی دل اور دنیا دار دماغ کے درمیان ایک جنگ چل رہی تھی۔

تبھی یاما نے اپنے دلارے بکرے کو پچکارا، ’’شیرو بیٹا، جادا بھیگ گئے کا؟‘‘

شیرو چھینکنے لگا۔

کتنی چمکدار کھال اور صحت مند جسم ہے شیرو کا۔

سلیمان اسی شیرو کو خریدنے آئے تھے۔

’’میرا شیرو تو میری جان ہے۔ ‘‘

یاما نے بکرے کو پیار سے سہلایا۔

’’میں اسے گھر سے جانے نہیں دوں گی۔  گبرو کے لئے شہر سے میاں سیٹھ لوگ دوڑ رہے ہیں۔  رام پرساد کہتا ہے بیچ دو، لیکن میں اپنے گبرو کو نہیں بیچوں گی۔  شیرو تو ابھی بچہ ہے۔  سال چھ مہینہ رہ لے گھر میں، تب سوچا جائے گا۔ ‘‘

سلیمان کیا کہتے؟

جس عورت نے ان کی خوشی کے لئے اپنا تن من یوں ہی ان کے حوالے کر دیا ہو، وہ ایک بکرا دینے میں اتنی آنا کانی کیوں کر رہی ہے؟ یہ بات ان کی عقل میں گھس نہیں رہی تھی۔

بولے، ’’دیکھو، رجب بھائی کہیں اور گئے ہیں بکرا دیکھنے۔  وہ تو نصرت آپی نے کہا تھا کہ یاما کے گھر سال بھر کا ایک بکرا مل جائے گا۔  میں نے سوچا کہ بکرا تو لینا ہی ہے تو کیوں نہ تم سے خرید لوں۔  قیمت جو تم کہو۔  اور یہاں آنے کی ایک اور وجہ تم سے ملنا بھی تھا۔ تم ہو سکتا ہے کہ مجھے بھول گئی ہو، لیکن تمہارے ساتھ گزارے وقت کو میں کبھی بھول نہ پایا ہوں۔ ‘‘

ان کی آواز میں درد تھا۔

انہیں لگا کہ یاما کے چھوارے سے سوکھے منہ پر طنزیہ مسکراہٹ آئی ہے۔  وہ اپنی ہی دھن میں تھے، ’’تم تو ٹھیک ٹھاک تھیں یاما، پھر تمہاری یہ حالت؟‘‘

’’نہ پوچھئے ساب، ہم مجدوروں کی جندگی کس طرح گزرتی ہے۔  کہاں کہاں نہیں بھٹکی میں؟‘‘

بکریوں کو پانی کی بوندوں سے بچاتی یاما، اپنی رام کہانی سنانے لگی۔

’’ہاں، ایک ٹھیکیدار اپنے ساتھ امرکنٹک کی کانوں میں لے گیا۔  اچھا آدمی تھا وہ۔  ایک ایکسیڈنٹ میں مارا گیا۔  سکھ میرے نصیب میں اور نہ تھا۔  میں وہاں سے سنگرولی چلی گئی۔  وہاں کولیری میں نئی نئی کالونیاں بن رہی تھیں۔  بہت کام تھا۔  چند سال وہاں گجارے۔  پھر وہاں اس بھڑوے رام پرساد سے جان پہچان ہوئی۔  یہ بہت اچھا آدمی ہے، اسے ٹی بی ہو گئی تھی۔ توہم اس گاؤں میں آ گئے۔  شہر جاتی ہوں، تو آپ کی دیدی میم ساب سے مل لیتی ہوں۔  کبھی کبھار وہ دو چار روپے کی مدد بھی کر دیا کرتی ہیں۔  وہیں آپ کے بارے میں کچھ جانکاری مل جاتی ہے۔  اسی دن دیدی میم ساب نے بتایا کہ آپ اس علاقے میں آ گئے ہیں۔ ‘‘

بارش رکی دیکھ کر یاما ایک جھاڑو لے کر جھونپڑی کے اندر جمع شدہ پانی کو باہر نکالنے لگی۔  سلیمان گھر سے باہر نکل آئے اور آنگن میں پلنگ بچھا کر بیٹھ گئے۔

یاما کونے پر پڑی گیلی لکڑیاں لے کر چولہے کے پاس آئی۔

چولہا سلگا تو ایلومنیم کی ایک نکٹی ہنڈیا میں، چائے کا پانی چڑھا کر کٹیا کے اندر سے چینی وغیرہ لانے چلی گئی۔

سلیمان کیا کرتے؟

وہ سوچ رہے تھے کہ خوددار اور بے غرض یاما کی، وہ کس طرح مدد کریں۔  بکرا خریدنے کے بہانے وہ اسے منہ مانگی قیمت دینا چاہتے تھے، لیکن یہ پاگل اپنا شیرو نامی بکرا بیچنے کو تیار نہیں۔  بِنا دودھ کی چائے کھولتے کھولتے، رجب بھائی اور رام پرساد بھی لوٹ آئے تھے۔

رجب بھائی نے بتایا کہ وقت ٹھیک نہیں ہے۔  کسی سے ملاقات نہیں ہوئی۔  اب اس شیرو کوہی خرید نا ہو گا، لیکن مصیبت یہ ہے کہ یاما اسے بیچنے کو تیار نہیں ہے۔  رام پرساد کو تو رجب بھائی نے روپے کا لالچ دے کر پٹا لیا تھا، لیکن رام پرساد، یاما سے ڈرتا بہت ہے۔  کہہ رہا تھا کہ صاحب سے کہنا کہ وہ خود یاما سے بات کریں۔  شاید یاما مان جائے۔

سلیمان نے رجب بھائی کو کہنی سے دبا کر چپ رہنے کا اشارہ کیا۔  چائے تیار ہوئی۔  لال لال رنگت کی گرم چائے۔  موسم میں اب ٹھنڈک گھل رہی تھی۔  لہذا چائے کی طلب ہونا قدرتی عمل تھا۔

سلیمان کوا سٹیل کے گلاس میں ڈھیر ساری چائے ملی تھی۔

اس کا مطلب یاما بھولی نہ تھی کہ سلیمان چائے پیتے ہیں تو ’’ پٹیالہ پیگ‘‘ برابر!

گرم چائے کی وجہ سے گلاس گرم تھا، لہذا سلیمان نے جیب سے رو مال نکال کر گلاس پکڑا۔  یاما دیگچی میں چائے لے کر گبرو اور شیرو کے پاس جا بیٹھی۔

وہ ایلومنیم کے ٹوٹے کٹورے میں دونوں کو باری باری سے چائے دینے لگی۔  گبرو اور شیرو کو اس طرح چائے پیتے دیکھ کر رجب بھائی ہنسنے لگے۔

سلیمان نے سوچا کہ اپنے جانوروں کو کتنا پیار کرتی ہے یاما! اسی طرح یاما انہیں بھی تو ٹوٹ کر چاہتی تھی۔

رام پرساد نے بتایا کہ بڑے تنک مزاج ہیں یہ بکرے۔  زمین پر پھینکا اناج یا پتے نہیں کھاتے۔  جب تک ہاتھ پر رکھ کر پیار سے انہیں نہ کھلایا جائے، یہ بھوکے مر جانا پسند کرتے ہیں۔  چائے ختم ہوئی تو سلیمان نے بڑی آس سے یاما کی طرف دیکھا۔

اس نگاہ میں وہی التجا بھری ہوئی تھی، جو جوانی کی پہلی ملاقات میں سلیمان کی آنکھوں میں یاما نے دیکھی تھی۔  یاما کیا کرتی!

رجب بھائی نے رام پرساد کو اشارہ کیا۔

رام پرساد، یاما کو لے کر کٹیا کے اندر چلا گیا۔

باہر آیا تو رجب بھائی کو کنارے لے گیا۔

رجب بھائی پھر سلیمان کے پاس آئے اور کہا، ’’چلئے، بارش تھم گئی ہے، نکل لیا جائے۔ ‘‘

سلیمان اس کے ساتھ باہر آئے۔

اسکوٹرا سٹارٹ کیا۔

یاما اور رام پرساد انہیں رخصت کرنے باہر نکل آئے۔

سلیمان نے یاما کو ایک نظر جی بھر کر دیکھا۔

دیکھا کہ یاما کے چہرے پر اسی طمانیت کا احساس ہے، جیسے مکمل خود سپردگی کی حالت میں اس کے چہرے پر آتا تھا۔  رام پرساد نے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا۔  یاما بت بنی کھڑی رہی۔  سلیمان نے بھاری دل سے اسکوٹر آگے بڑھایا۔  موڑ پر پہنچ کر انہوں نے اتفاقاً دیکھا، یاما ویسی ہی کھڑی ہوئی تھی۔  آگے جا کر انہوں نے اسکوٹر روکا اور کہا، ’’رجب بھائی، استنجا کر لیا جائے!‘‘

ایک گڑھے میں پانی تھا۔

وہیں بیٹھ کر استنجا کیا گیا۔

پھر چلتی اسکوٹر میں رجب بھائی نے بتایا، ’’بکرا بیچنے کرنے کے لئے یاما تو بالکل تیار نہیں تھی۔  لیکن زیادہ پیسے کی لالچ میں رام پرساد تیار ہو گیا۔  چودہ پندرہ کلو سے رتی بھر گوشت کم نہیں ہے شیرو میں۔  اس حساب سے دو ہزار کا مال ہے۔  میں نے پندرہ سو میں بات پکی ہے۔ ‘‘

سلیمان جانتے تھے کہ قربانی کے زمانے میں بکرے کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔  سو انہوں نے کہا، ’’سودو سو روپے چاہیں تو اور بڑھا دیجئے رجب بھائی، لیکن کل کسی حالت میں بکرا گھر پہنچ جانا چاہئے۔ ‘‘

رجب بھائی نے کہا، ’’وہ آپ کو رام پرساد کو دارو گانجا کے لئے سو روپے الگ سے دینے ہوں گے، بس!‘‘

رجب بھائی ایک آنکھ دبا کر ہنسے تھے، مگر سلیمان ان کا ساتھ نہیں دے پائے۔

سلیمان کے ہاتھ میں ایک رسی ہے۔  منتر پڑھی رسی۔

سلیمان سوچ رہے ہیں کہ خود یاما کے گاؤں چلے جائیں اور اس کی رسی واپس لوٹا دیں۔

یاما کو آج تک کچھ نہیں دے پائے، لیکن اس معمولی سی رسی کے روپ میں، اس انمول تحفے کو کیا وہ رد کرے گی؟

***

 

 

 

 

گہری جڑیں

 

 

اصغر بھائی بڑی بے چینی سے ظفر کا انتظار کر رہے ہیں۔

ظفر ان کا چھوٹا بھائی ہے۔

انہوں نے سوچ رکھا ہے کہ وہ آ جائے تو پھر فیصلہ لے ہی لیا جائے، یہ روز روز کی فکروں سے چھٹکارا تو ملے!

اس معاملے کو زیادہ دن ٹالنا اب مناسب نہیں۔

کل فون پر ظفر سے بہت دیر تک باتیں تو ہوئی تھیں۔

اس نے کہا تھا کہ، ’’بھائی جان آپ پریشان نہ ہوں، میں آ رہا ہوں۔ ‘‘

اصغر بھائی ’’ہائپر ٹینشن‘‘ اور ’’ذیابیطس‘‘ کے مریض ٹھہرے۔  چھوٹی چھوٹی بات سے پریشان ہو جاتے ہیں۔

دل بہلانے کے لئے بیٹھک میں آئے۔

منیرہ ٹی وی دیکھ رہی تھی۔  جب سے ’’گودھرا کیس‘‘ شروع ہوا، گھر میں اسی طرح ’’آج تک‘‘ اور ’’اسٹار پلس‘‘جیسے چینلز کو باری باری بدل بدل کر گھنٹوں سے دیکھا جا رہا تھا۔  پھر بھی چین نہ پڑتا تھا، تو اصغر بھائی ریڈیو ٹرانزسٹر پر بی بی سی کی خبروں سے دیسی میڈیا کی خبروں کا تقابلی جائزہ لینے لگتے۔

تمام چینلوں میں ننگی تلخ حقیقتوں کو ناظرین تک پہچانے کی گویا ایک دوڑ سی لگی ہوئی تھی۔

منیرہ کے ہاتھوں سے اصغر نے ریموٹ لے کر چینل تبدیل کر دیا۔

’’ڈسکوری چینل‘‘ میں ہرنوں کے جھنڈ کا شکار کرتے شیر کو دکھایا جا رہا تھا۔  شیر دھاڑتا ہوا، ہرنوں کو دوڑا رہا تھا۔  اپنی جان کی حفاظت کرتے ہرن، اندھا دھند بھاگ رہے تھے۔

اصغر بھائی سوچنے لگے کہ اسی طرح ہی تو آج ڈرے سہمے لوگ، گجرات میں جان بچانے کے لئے بھاگ رہے ہیں۔

انہوں نے پھر چینل تبدیل کر دیا۔  نجی نیوز چینل کا ایک منظر کیمرے میں تھا۔  کانچ کی بوتلوں سے پٹرول بم کا کام لیتے احمد آباد کے اکثریتی لوگ اور ویران ہوتی اقلیتی آبادیاں۔ ہجوم کے مظالم کو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ’’ رد عمل‘‘ بتاتا ایک صاحبِ اقتدار مرد۔  ٹیلی ویژن پر چلتی ایک شرمناک بحث کہ ریاستی پولیس کو موقع دیا جائے یا کہ فوج ’’ڈپلائی‘‘ کی جائے۔

حکمران پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان مرنے والوں کی تعداد کے اعداد و شمار پر ابھرتی کشمکش۔  حکمران پارٹی کی دلیل کہ سن چوراسی کے قتل عام سے یہ اعداد و شمار کافی کم ہیں۔  اس وقت آج کی اپوزیشن تب مرکز میں تھی اور کتنی معصومیت سے یہ دلیل دی گئی تھی، ’’ایک بڑا پیڑ گرنے سے بھونچال آنا فطری عمل ہے۔ ‘‘

اس بار بھونچال تو نہیں آیا لیکن نیوٹن کے رفتار کے تیسرے اصول کی دھجیاں ضرور بکھیری گئیں۔

’’عمل کے برعکس رد عمل۔۔ ۔ ‘‘

اصغر بھائی کو ہنسی آ گئی۔

انہوں نے دیکھا کہ ٹی وی میں وہی رپورٹر دکھائی دے رہے تھے جو کہ کچھ دنوں قبل جھلسا دینے والی گرمی میں افغانستان کے پتھریلے غاروں، پہاڑوں اور جنگ کے میدانوں سے طالبانوں کو کھدیڑ کر آئے تھے اور بمشکل تمام اپنے رشتہ داروں کے ساتھ چار چھ دن کی چھٹیاں ہی گزار پائے ہوں گے کہ انہیں دوبارہ ایک نیا ’’ٹاسک‘‘ مل گیا۔

امریکہ کا رچایا خونی تماشا، لاشوں کے ڈھیر، سیاسی ہلچل، اور اپنے چینل کے ناظرین کی ذہنیت کو ’’کیش‘‘ کرنے کی پیشہ ورانہ صلاحیت، ان صحافیوں نے حاصل جو کر لی تھی۔

اصغر بھائی نے یہ ستم ظریفی بھی دیکھی کہ کس طرح محروم اقلیتی طبقے کی، دہشت گرد اسامہ بن لادن کے ساتھ ہمدردی بڑھتی جا رہی تھی۔

جبکہ ’’ ورلڈ ٹریڈ سینٹر‘‘ کی عمارت صرف امریکہ کا ترکہ نہیں تھی۔  وہ عمارت تو انسان کی ذہانت اور ترقی کی زندہ علامت تھی۔  جس طرح سے بامیان کے بدھا ایک قدیمی ورثہ تھے۔

’’ورلڈ ٹریڈ سینٹر‘‘ کی عمارت میں کام کرنے کا خواب صرف امریکی ہی نہیں، بلکہ سبھی ممالک کے نوجوان شہری دیکھا کرتے ہیں۔  بامیان کیس ہو یا کہ گیارہ ستمبرکا واقعہ، اصغر بھائی جانتے ہیں کہ یہ سب غیر اسلامی کار روائیوں ہیں، جس کی دنیا بھر کے تمام امن پسند مسلمانوں نے سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔

لیکن پھر بھی اسلام کے دشمنوں کو، دنیا میں یہ پروپیگنڈہ پھیلانے کا موقع مل گیا کہ اسلام اور دہشت گردی میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اصغر بھائی کو اکثریت کی جانب سے بربریت کا یکطرفہ ننگا ناچ اور انتظامیہ کی خاموشی دیکھ اور بھی مایوسی ہوئی تھی۔

ایسا ہی تو ہوا تھا، اس وقت بھی جب اندرا گاندھی کا قتل ہوا تھا۔

اصغر تب بیس اکیس کے رہے ہوں گے۔

اس دن وہ جبل پور میں ایک لاج میں ٹھہرے تھے۔

ایک کام کے لئے انٹرویو کے سلسلے میں انہیں بلایا گیا تھا۔

وہ لاج ایک سکھ کا تھا۔

انہیں تو خبر تک نہ تھی کہ ملک میں کوئی خوفناک حادثہ ہوا ہے۔  وہ تو مقابلے اور انٹرویو سے متعلق کتابوں میں الجھے ہوئے تھے۔

شام کے پانچ بجے انہیں کمرے میں توڑ پھوڑ کی آوازیں سنائی دیں۔

وہ کمرے سے باہر آئے تو دیکھا کہ لاج کے استقبالیہ کاؤنٹر کو لاٹھی ڈنڈے سے لیس ہجوم نے گھیر رکھا تھا۔  وہ تمام لاج کے سکھ مینیجر کرنیل سنگھ سے بول رہے تھے کہ وہ جلد از جلد لاج کو خالی کروائے، ورنہ انجام ٹھیک نہ ہو گا۔

مینیجر کرنیل سنگھ گھگھیا رہا تھا کہ اسٹیشن کے قریب واقع یہ لاج، مدتوں سے پردیسیوں کی مدد کرتا آ رہا ہے۔

وہ بتا رہا تھا کہ وہ سکھ ضرور ہے، مگر خالصتان کا حامی نہیں۔  اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک پرانا کانگریسی ہے۔  وہ ایک ذمہ دار ہندوستانی شہری ہے۔  اس کے پرکھے ضرور پاکستانی تھے، لیکن اس بات میں ان بے چاروں کا قصور کہاں تھا۔  وہ تو زمین کے اس علاقہ میں رہ رہے تھے، جو متحدہ بھارت کا ایک حصہ تھا۔  اگر اس وقت کے رہنماؤں کی سیاسی بھوک کنٹرول رہتی، تو بٹوارا کیوں ہوتا؟

کتنی تکلیفیں برداشت کر کے اس کے پرکھے ہندوستان آئے۔  کچھ قرول باغ دہلی میں اور کچھ جبل پور میں آ بسے۔ اپنے بکھرتے وجود کو سمیٹنے کی پہاڑ بھر کوشش کی تھی ان بزرگوں نے۔  مہاجر مرد، عورتیں اور بچے مل جل کر، تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بنا رہے تھے۔

کرنیل سنگھ رو رو کر بتا رہا تھا کہ اس کی تو پیدائش بھی اسی جبل پور کی سرزمین میں ہوئی ہے۔

بھیڑ میں سے کئی چلائے، ’’مارو سالے کو۔۔ ۔  جھوٹ بول رہا ہے۔  یہ تو پکا دہشت گرد ہے۔ ‘‘

اس کی پگڑی اچھال دی گئی۔

اسے کاؤنٹر سے باہر کھینچ لیا گیا۔

جبل پور ویسے بھی مار دھاڑ، لوٹ پاٹ جیسے ’’مارشل آرٹ‘‘ کے لئے بدنام ہے۔ اصغر کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ سردارجی کو، کا ہے اس طرح ستایا جا رہا ہے۔

تبھی وہاں ایک نعرہ گونجا۔

’’پکڑو ماروں سالوں کو

اندرا میّا کے ہتیاروں کو!‘‘

اصغر بھائی کا ما تھا ٹھنکا۔

یعنی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل ہو گیا ہے!

اسے تو فزکس، کیمسٹری، میتھس کے علاوہ اور کوئی سدھ نہ تھی۔

یعنی کہ لاج کا نوکر جو ناشتا چائے دینے آیا تھا، سچ کہہ رہا تھا۔

دیر کرنا مناسب نہ سمجھ، لاج سے اپنا سامان لے کر وہ فوری طور پر باہر نکل آئے۔

نیچے بے قابو بھیڑ متحرک تھی۔

سکھوں کی دکانوں کے شیشے توڑے جا رہے تھے۔  سامان کو لوٹا جا رہا تھا۔  ان کی گاڑیوں کو، مکانوں کو آگ لگائی جا رہی تھی۔

اصغر بھائی نے یہ بھی دیکھا کہ پولیس کے مٹھی بھر سپاہی تماشائی بنے، غیر فعال کھڑے تھے۔

جلدی سے وہ ایک رکشہ پکڑ کر، ایک مسلم اکثریتی علاقے میں آ گئے۔

اب وہ محفوظ تھے۔

اس کے پاس پیسے زیادہ نہ تھے۔

انہیں امتحان میں بیٹھنا بھی تھا۔

پاس کی مسجد میں وہ گئے تو وہاں نمازیوں کی باتیں سن کر دنگ رہ گئے۔

کچھ لوگ پیش امام کے حجرے میں بی بی سی سن رہے تھے۔

باتیں ہو رہی تھیں کہ پاکستان کے صدر کو اس قتل کی خبر اسی وقت مل گئی تھی، جبکہ بھارت میں اس بات کی تشہیر کچھ دیر بعد ہوئی۔

یہ بھی بحث ہو رہی تھی کہ فسادات کی آندھی، اب شہروں سے ہوتی گاؤں گلی کوچوں تک بھی پہنچنے جا رہی ہے۔

ان لوگوں سے جب انہوں نے دریافت کیا تو یہی مشورہ ملا، ’’برخوردار! ابھی پڑھائی اور امتحان وغیرہ سب کچھ بھول کر گھر کی راہ پکڑ لو، کیونکہ یہ فسادات خدا جانے جب تک چلیں۔ ‘‘

بات ان کی سمجھ میں آئی۔

وہ اسی دن گھر کے لئے چل دئے۔  راستے بھر انہوں نے دیکھا کہ جس پلیٹ فارم پر گاڑی رکی، سکھوں پر ظلم و بربریت کے نشانات صاف دکھائی دے رہے تھے۔

ان کے اپنے شہر میں بھی حالات کہاں ٹھیک تھے۔

وہاں بھی سکھوں کے جان و مال کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

ٹی وی اور ریڈیو سے صرف اندرا کے قتل اور خالصتان تحریک کے دہشت گردوں کی ہی باتیں بتائی جا رہی تھیں۔

لاکھوں جذبات بھڑک رہے تھے۔

خبریں اٹھتیں کہ گرودوارہ میں سکھوں نے اندرا گاندھی کے قتل کی خبر سن کر پٹاخے پھوڑے اور مٹھائیاں بانٹی ہیں۔

افواہوں کا بازار گرم تھا۔

فسادیوں، بلوائیوں کو ڈیڑھ دو دن کی کھلی چھوٹ دینے کے بعد انتظامیہ بیدار ہوئی اور پھر اس کے بعد شہر میں کرفیو لگایا گیا۔

اگر یہ گھناؤنی حرکت کہیں مسلمان دہشت گردوں نے کی ہوتی تو؟

اُس دفعہ تو سکھوں کو سبق سکھایا گیا تھا۔

اس بار۔۔ ۔

ظفر آ جائیں تو فیصلہ کر لیا جائے گا۔

جیسے ہی اصغر بھائی کچھ قابل ہوئے، انہوں نے اپنا مکان مسلم اکثریتی علاقے میں بنوا لیا تھا۔

ظفر تو کام کر رہا ہے، لیکن اس نے بھی کہہ رکھا ہے کہ بھائی جان میرے لئے بھی کوئی اچھا سا سستا پلاٹ تلاش کر تے رہئے گا۔

ابھی ابا کو سمجھانا باقی ہے کہ وہ اس ماضی کی یادوں سے جڑے بنگلے کی چاہت ترک کر کے چلے آئیں اسی ابراہیم پورہ میں۔

ابراہیم پورہ ’’منی پاکستان‘‘ کہلاتا ہے۔

اصغر بھائی کو یہ تو پسند نہیں کہ کوئی انہیں ’’پاکستانی‘‘ کہے مگر ابراہیم پورہ میں آ کر انہیں واقعی سکون حاصل ہوا تھا۔  یہاں اپنی حکومت ہے۔  غیر دب کے رہتے ہیں۔  آرام سے ہر ایک مذہبی تہوار کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔  رمضان کے مہینے میں کیا رونق نظر آتی ہے یہاں۔  پورے مہینے جشن کا ساماحول رہتا ہے۔  چاند دیکھا نہیں کہ ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔  ’’تراویح‘‘ کی نماز میں بھیڑ امنڈ پڑتی ہے۔

لوگ یہاں سبزی ترکاری کم ہی کھاتے ہیں، کیونکہ سستی قیمت میں بڑے کا گوشت جو آسانی سے مل جاتا ہے۔

فضا میں صبح و شام اذان اور درود و  سلام کی صدائیں اٹھتی رہتی ہے۔

’’شب برات‘‘ کے موقع پر مقامی مزار شریف میں غضب کی رونق ہوتی ہے۔  میلے، مینا بازار لگتا ہے اور قوالی کے شاندار مقابلے ہوا کرتے ہیں۔

محرم کے دس دن شہیدانِ کربلا کے غم میں ڈوب جاتا ہے ابراہیم پورہ!

صرف میاں لوگوں کی توتی بولتی ہے یہاں۔

کس کی مجال کہ آنکھ دکھا سکے۔  آنکھیں نکال کر ہاتھ میں دھر دی جائیں گی۔

ایک سے ایک ’’ہسٹری شیٹر‘‘ ہے یہاں۔

ارے، خالو کا جو تیسرے نمبر کا بیٹا ہے یوسف، وہ تو زعفرانی زردے کے ڈبے میں بم بنا لیتا ہے۔

بڑی بڑی سیاسی شخصیات بھی ہیں، جن کا تحفظ، علاقے کے بے روزگار نوجوانوں کو ملا ہوا ہے۔

اصغر بھائی کو فکر میں ڈوبا دیکھ کر منیرہ نے ٹی وی آف کر دیا۔

اصغر بھائی نے اسے گھورا۔

’’کا ہے کی فکر کرتے ہیں آپ۔۔ ۔  اللہ نے زندگی دی ہے، تو وہی پار لگائے گا۔  آپ کے اس طرح سوچنے سے کیا دنگا فساد بند ہو جائیں گے؟ ‘‘

اصغر بھائی نے کہا، ’’یہ بات نہیں، میں تو ابا کے بارے میں ہی سوچا کرتا ہوں۔  کتنے ضدی ہیں وہ۔  چھوڑیں نہیں پرکھوں کی جگہ۔۔ ۔  بھلے جان چلی جائے۔ ‘‘

’’کچھ نہیں ہو گا انہیں، آپ خواہ مخواہ کی فکر کیا کرتے ہیں۔  سب ٹھیک ہو جائے گا۔  ‘‘

’’خاک ٹھیک ہو جائے گا۔  کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں؟ بُوڑھا ہو کر  سٹھیا گئے ہیں اور کچھ نہیں۔  سوچتے ہیں کہ وہ لوگ جو انہیں سلام کیا کرتے ہیں، موقع آنے پر انہیں بخش دیں گے۔  ایسا ہوا ہے کبھی۔  جب تک اماں تھیں تب تک ٹھیک تھا، اب وہاں کیا رکھا ہے کہ اسے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔  ‘‘

منیرہ کیا بولتی۔  وہ چپ ہی رہی۔ اصغر بھائی یادوں کے سمندر میں ڈوب، اتر رہے تھے۔

اماں بتایا کرتی تھیں کہ سن اکہتر کی لڑائی میں ایسا ماحول بنا کہ لگا اجاڑ پھینکیں گے لوگ۔  منہ کے سامنے کہا کرتے تھے کہ ہمارے محلے میں تو ایک ہی پاکستانی گھر ہے۔  چیونٹی کی طرح مسل دیں گے۔

’’چیونٹی کی طرح۔۔ ۔۔؟؟‘‘ اصغر بھائی بڑبڑائے۔

تب وہ کتنا گھبرا گئی تھیں۔  چار بچوں کو سینے سے چپکائے رکھا کرتی تھیں۔

اماں گھبراتی بھی کیوں نہ، ارے اسی سیاست نے تو ان کے ایک بھائی کی تقسیم کے وقت جان لے لی تھی۔

’’جانتی ہو گزشتہ ماہ جب میں گھر گیا، تو وہاں دیکھا کہ ہمارے گھر کی چاردیواری پر سواستیکا نشان بنایا گیا ہے۔  بابری مسجد کے بعد ان لوگوں کے حوصلوں میں اضافہ ہوا ہے۔  میں نے جب ابا سے اس بارے میں بات کی، تو وہ زور زور سے ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سب لڑکوں کی شیطانی ہے۔  ایسی ویسی کوئی بات نہیں۔  ابھی تم ہی بتاؤ کہ میں فکر کیوں نہ کروں؟‘‘

’’ابا تو ہنستے ہنستے یہ بھی بتاتے کہ جب ’’ انتھریکس ‘‘کا شور مچا تھا، تب اسکول کے چند بچوں نے چاک مٹی کو لفافے میں بھر کر، پرنسپل کے پاس بھیج دیا تھا۔  بڑا واویلا مچا تھا۔  ابا توہر بات کو ’’نارمل‘‘ سمجھتے ہیں۔  ‘‘

’’ابا تو وہاں کے سب سے پرانے رہائیشیوں میں سے ایک ہیں۔  صبح شام اپنے بچوں کو ’’دم کروانے‘‘ سیٹھائینیں آیا کرتی ہیں۔  ابا کے ساتھ کہیں جاؤ، تو انہیں کتنے اجنبی لوگ بھی سلام آداب کیا کرتے ہیں۔  انہیں تو سب جانتے مانتے ہیں۔ ‘‘ منیرہ نے ابا کی طرفداری کی۔

’’خاک جانتے مانتے ہیں۔  آج کے نوجوان تو انہیں جانتے بھی نہیں اور بڑی عمر کے لوگوں کی آج کل چلتی کہاں ہے؟ تم بھی خوب بتاتی ہو۔  سن چوراسی کے فسادات میں کہاں تھے پرانے لوگ؟ سب من کا بہلاوا ہے۔  بھیڑ کے ہاتھ میں جب حکومت آ جاتی ہے، تب قانون گوں گا بہرا ہو جاتا ہے۔ ‘‘

منیرہ کو لگا کہ وہ بحث میں ٹک نہیں پائے گی، اس لئے اس نے موضوع تبدیل کرنا چاہا۔

’’چھوٹو کی ’’ ریاضی ‘‘کے لئے ٹیوشن لگانی ہو گی۔  آپ اسے لے کر بیٹھتے نہیں اور ’’ریاضی‘‘ میرے بس کا روگ نہیں۔ ‘‘

’’وہ سب تم سوچو۔  جس سے پڑھوانا ہو پڑھواؤ۔  میرا ذہن ٹھیک نہیں۔  ظفر آ جائے، تو ابا سے آر یا پار کی بات کر ہی لینی ہے۔ ‘‘

تبھی فون کی گھنٹی گنگنائی۔

منیرہ فون کی طرف جھپٹی۔  وہ فون گنگنانے پر اسی طرح ہڑبڑا جاتی ہے۔

فون ظفر کا تھا، منیرہ نے رسیور اصغر بھائی کی طرف بڑھا دیا۔

اصغر بھائی رسیور لے لیا۔

’’و علیکم السلام! ظفر۔۔ ۔! کہاں سے؟ یہاں میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ ‘‘

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

’’ابا پاس میں ہی ہیں کیا؟ ذرا بات تو کراؤ۔ ‘‘

پھر منیرہ کی طرف مخاطب ہو کر بولے، ’’ظفر بھائی کا فون ہے۔  یہاں چھوڑ کر وہ سیدھا ابا کے پاس چلا گیا ہے۔ ‘‘

’’السلام و علیکم ابا۔۔ ۔  میں آپ کی ایک نہ سنوں گا۔  آپ چھوڑیئے وہ سب اور ظفر کو لے کر سیدھے میرے پاس چلے آئیے۔ ‘‘

پتہ نہیں اِدھر سے کیا جواب ملا کہ اصغر بھائی نے رسیور پٹخ دیا۔

منیرہ چڑچڑا اٹھی۔

’’اسی لیے کہتی ہوں کہ آپ سے زیادہ ہوشیار تو ظفر بھائی ہیں۔  آپ خواہ مخواہ کی ’’ٹینشن‘‘ میں آ جاتے ہے۔  ڈاکٹر نے ویسے بھی آپ کو بیکار کی فکر سے منع کیا ہے۔ ‘‘

بس اتنا سننا تھا کہ اصغر بھائی ہتھے سے اکھڑ گئے۔

’’تمہاری اسی سوچ پر میری سلگ جاتی ہے۔  میرے والد تمہارے لئے ’’فالتو کی فکر‘‘ بن گئے۔  اپنے ابا کے بارے میں فکر نہیں کروں گا، تو کیا تمہارا بھائی کرے گا؟‘‘

ایسے موقعوں پر منیرہ خاموش اختیار کر لے تو بات نہ بڑھے۔  اپنے اکلوتے بھائی کے بارے میں برا بھلا، وہ برداشت نہیں کر پاتی ہے، مگر جانے کیوں منیرہ نے آج جواب نہ دیا۔

اصغر بھائی نے چھیڑا تو تھا، مگر منیرہ کو خاموش پا کر ان کا ما تھا ٹھنکا، لہذا مفاہمتی انداز میں وہ بولے،

’’لگتا ہے کہ ابا نہیں مانیں گے، وہیں رہیں گے۔۔ ۔! ’’

***

 

 

 

 

گیارہ ستمبر کے بعد

 

گیارہ ستمبر کے بعد کریم پورہ میں ایک ہی دن، ایک ساتھ دو باتیں ایسی اُڑیں، جس سے چپکو تیواری جیسے لوگوں کو بتنگڑ کا مسالا مل گیا۔

پہلی یہ کہ حنیف نے اپنی خاص مولانا کٹ داڑھی کٹوا لی۔  دوسری خبر احمد نے جٹائی۔۔ ۔  جانے اسے کیا ہوا کہ وہ دندان سازی چھوڑ کر، پکا نمازی بن گیا اور اس نے چکنے چہرے پر بے ترتیب داڑھی بڑھانی شروع کر دی۔

دونوں ہی مقامی پوسٹ آفس کے ملازم۔

احمد، ایک ماڈرن نوجوان اچانک پکا نمازی کیسے بنا؟

حنیف نے داڑھی کیوں کٹوائی؟

سن چوراسی کے فسادات کے بعد سکھوں نے اپنے بالوں کیوں کتروائے۔۔ ۔

احمد آج ان سوالوں سے نبرد آزما ہے۔

احمد کے خدشات کو کمار سمجھ نہیں پا رہا تھا۔  کل تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا۔

آج اچانک احمد کو کیا ہو گیا؟

وہ دونوں ڈھابے پر بیٹھے چائے کا انتظار کر رہے تھے۔

کمار اسے سمجھانا چاہ رہا تھا، ’’چھوڑ یار احمد دنیاداری کو۔۔ ۔  بس ’’ ویٹ ایڈ واچ‘‘۔۔ ۔  جو ہو گا ٹھیک ہی ہو گا۔ ‘‘

’’وہ بات نہیں ہے یار۔۔ ۔  کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جائے؟’۔۔ ۔  احمد اسی طرح کشیدگی کا شکار تھا، ’’جانے کب تک ہم لوگوں کو وطن پرستی کا ثبوت دینے کے لئے مجبور کیا جاتا رہے گا۔ ‘‘

کمار خاموش ہی رہا۔

وہ دونوں چونتیس پینتیس سال کے نوجوان تھے۔

کریم پورہ سے دونوں ایک ساتھ پوسٹ آفس، کام پر آتے۔

آفس میں اکثر لوگ انہیں ایک ساتھ دیکھ کر مذاق کرتے، ’’ اکھنڈ بھارت کی ایکتا کے نمونے۔۔ ۔ ‘‘

احمد کا دماغی توازن گڑبڑانے لگا۔

’’اب مجھے لگنے لگا ہے کہ میں اس ملک میں ایک کرائے دار کے حیثیت سے رہ رہا ہوں، سمجھے کمار۔۔ ۔  ایک کرایہ دار کی طرح۔۔ ۔!‘‘

یہی تو باتیں ہوئی تھیں ان کے درمیان۔۔ ۔  پھر جانے کیوں احمد کی زندگی میں اچانک تبدیلی آ گئی؟

حنیف کے بارے میں احمد سوچنے لگا۔

پوسٹ آفس کی ڈاک کے تھیلوں کو بس اسٹینڈ اور ریلوے اسٹیشن پہچانے والا رکشہ ڈرائیور حنیف۔  پابندی سے پنجگانہ نماز ادا کرنا اور لوگوں سے بے انتہا خلوص کے ساتھ پیش آنا، اس کی شناخت ہے۔  پیر بابا کے مزار پر، ہر جمعرات وہ فاتحہ درود پڑھنے جاتا ہے۔  احمد کو اکثر مذہبی معاملات میں وہی صلاح مشورہ دیا کرتا۔

یقین مانئے کہ حنیف ایک سیدھا سادہ، نیک بخت، دیندار یا یوں کہیں کہ مذہبی قسم کا انسان ہے۔  وہ خواہ مخواہ کسی سے مذہبی مسئلے مسائل یا کسی سیاسی اتھل پتھل پر چھڑی بحث میں کبھی حصہ نہیں لیتا۔  ہاں، اپنی صوابدید کے مطابق آڑے وقت اپنے دفاع میں، ایک مشہور شعر کا پہلا مصرعہ وہ اکثر سنایا کرتا۔  ’’اُن کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانے۔۔ ۔ ‘‘

ہوا یہ کہ گیارہ ستمبر کے بعد دنیا کے حالات ایسے بدلے کہ کوئی بھی اپنے کو مطلقاً ثابت نہیں کر پا رہا تھا۔  صرف دو ہی راستے! امریکہ کے دہشت گردی مخالف پروگرام کی حمایت یا مخالفت۔۔ ۔  درمیان کا کوئی راستہ نہیں۔  یہ تو ایک بات ہوئی۔  ٹھیک اسی کے ساتھ دو باتیں گونجی کہ دنیا میں دہشت گردی کو فروغ دینے والے لوگ اسلامی شدت پسند ہیں، دوسرا یہ کہ اسلام دہشت گرد مذہب نہیں۔  وہی مثال کہ سرد اور گرم ایک ساتھ۔۔ ۔  منطق کی کوئی گنجائش نہیں۔

بہت جلدی میں یہ بات مقرر کر دی گئی کہ ساری دنیا میں دہشت گردی کے بیج بونے والے اور دنیا کو چودھویں صدی میں لے جانے والے لوگ مسلمان ہی ہیں۔

عربوں، افغانیوں کی طرح داڑھی کی وجہ سے دھوکے میں سکھوں پر بھی امریکہ میں تشدد ہوئے۔  بڑے معصوم ہوتے ہیں امریکی!

وہ مسلمانوں اور سکھوں میں تمیز نہیں کر پاتے۔  بڑے امن پسند ہیں وہ۔  آج انہیں کسی نے للکارا ہے۔  امریکیوں کو دنیا میں کوئی بھی للکار نہیں سکتا۔  وہ بہت غصے میں ہیں۔  اسی لیے ان سے ’’مسٹیک‘‘ہو سکتی ہے۔  ’’مسٹیک‘‘پر حنیف کو یاد آیا۔۔ ۔

اردو میں منٹو نام کا ایک سرپھرا افسانہ نگار ہوا ہے۔  جس نے فسادیوں کی ذہنیت پر ایک نایاب کہانی لکھی تھی۔  ’’مسٹیک ہو گیا‘‘۔۔ ۔  جس میں فسادی دھوکے میں اپنی ہی برادری کے ایک شخص کا قتل کر دیتے ہیں۔  اصلیت جاننے پر انہوں نے تاسف کا اظہار یوں کیا کہ ’’ سالا مسٹیک ہو گیا۔۔ ۔ ‘‘

حنیف نے شاید اسی لئے اپنی داڑھی کٹوا لی ہو، کہ کہیں وہ کسی ’’مسٹیک‘‘کا شکار نہ ہو جائے۔

اور اس طرح چپکو تیواری جیسے لوگوں کو بتنگڑ کا مسالا مل گیا۔۔ ۔

چپکو تیواری ہے بھی اونچی چیز۔۔ ۔  ’’گپولوجی‘‘ کا پروفیسر۔۔ ۔

پوسٹ ماسٹر شری واستو صاحب بھی خوب چٹکی لیتے ہیں۔  ہیں بھی روم کے نیرو۔  اپنی دھن میں مگن۔۔ ۔ چمچوں کی ایک بڑی فوج کے تنہا مالک۔  کریم پورہ اس علاقے کا ایسا پوسٹ آفس، جس کی سالانہ ایک ڈیڑھ کروڑ کی این ایس سی بیچی جاتی ہے۔  سیونگ اکاؤنٹ اسکیم میں ضلع کا یہ سب سے بڑا یونٹ ہے۔  ایسے مثالی شہر میں گزشتہ کئی سالوں سے جمے ہیں شری واستو صاحب۔  اگر کبھی ان کا کہیں تبادلہ ہوا بھی، تو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ٹرانسفر رکوا لیا۔  شری واستو صاحب اکثر کہا کرتے، ’’کریم پورہ زیادہ دودھ دینے والی گائے جگہ ہے۔۔ ۔ ‘‘

صبح صبح پوسٹ آفس میں چپکو تیواری اور شری واستو صاحب کی منڈلی نے احمد کا موڈ آف کر دیا۔

چپکو تیواری پہلے بی بی سی چینل کہلایا کرتا تھا۔  لیکن گیارہ ستمبر کے بعد وہ ’’الجزیرہ‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔

ہوا یہ کہ صبح جیسے ہی احمد پوسٹ آفس میں گھسا، اسے چپکو تیواری کی آواز سنائی دی۔  وہ بھاشن دے رہا تھا، ’’امریکہ میں سکھوں کے ساتھ غلط ہو رہا ہے۔  امریکی سسرے، کٹُووے اور سکھ میں فرق نہیں کر پاتے۔ ‘‘

پھر کسی سازش کی بھنک سے احمد کے قدم ٹھٹھک گئے!

وہ تھوڑی دیر ٹھہر گیا، اور رک کر ان کی باتیں سننے لگا۔

شری واستو صاحب نے فقرا کسا، ’’چلو جو ہوا ٹھیک ہوا۔۔ ۔  اب جا کر ان میاں لوگوں کو اپنی ٹکّر کا آدمی ٹکرایا ہے۔ ‘‘

’’ ہاں صاحب، اب لڑیں یہ سالے میاں لوگ اور عیسائی۔۔ ۔  ادھر اسرائیل میں یہودی بھی ان میاں لوگوں کو چھاپے ہوئے ہیں۔ ‘‘

’’وہ حنیفوا والی بات جو تم بتا رہے تھے؟‘‘ شری واستو صاحب کا سوال آیا۔

احمد کے کان کھڑے ہوئے۔  تو حنیف بھائی والی بات یہاں بھی آ پہنچی۔

’’ارے وہ حنیفوا۔۔ ۔  اِدھر امریکہ نے جیسے ہی ڈکلیئر کیا کہ لادن ہی اس کا اصل دشمن ہے، حنیفوا نے فوراً اپنی داڑھی بنوا لی۔  آج وہ مجھے صفا چٹ ملا، تو میں نے اسے خوب رگڑا۔  اس سے پوچھا کہ کا حنیف بھائی، ابھی تو پٹاخہ پھوٹنا چالو ہوا ہے۔۔ ۔  بس اِتنے میں ہی گھبرا گئے؟حنیفوا کچھّو جواب نہیں دے پایا۔ ‘‘

بھگوان داس تار بابو کی دھڑے دار آواز سنائی دی۔

’’سن چوراسی کے فسادات کے بعد، سکھوں نے بھی تو اپنے بالوں کتروا لئے تھے۔  جب بھاری اتھل پتھل ہو، تب یہی تو ہوتا ہے۔ ‘‘

اپنے پیچھے کچھ آوازیں سن احمد دفتر میں داخل ہوا۔

اسے دیکھ بات کا بتنگڑ بند ہوا۔

احمد اسی بات سے بڑا پریشان رہتا ہے۔  جانے کیوں اپنی کھلی بحثوں میں لوگ اسے شامل نہیں کرتے۔  اسی بات سے اس کی بڑی کوفت ہوتی۔  اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ لوگ اسے غیر سمجھتے ہیں۔

تبھی تو اسے دیکھ کر یا تو بات کا موضوع تبدیل کر دیا جائے گا یا یہ کہ گپ بازی بند ہو جائے گی۔  اکثر اسے دیکھ چپکو تیواری، اسلامی تہذیب یا دھرم شاستروں کے بارے میں الٹے سیدھے سوالات پوچھنے لگتا ہے۔

آج کل کے درپیش مسائل سے پیدا ہوئے چند الفاظ، جنہیں میڈیا بار بار اچھالتا تھا، اس میں امریکہ، القاعدہ، اسامہ بن لادن، افغان، پاکستان، جہاد، اور اسلامی فنڈامنٹلزم سے جڑے کتنے ہی الفاظ ہیں۔  انہی الفاظ کی دن رات جگالی کرتا ہے یہ میڈیا۔

احمد سے چپکو تیواری اپنے تمام خدشات کا اظہار کیا کرتا۔  احمد جانتا ہے کہ اس کا ارادہ اپنے خدشات کو رفع کرنا نہیں بلکہ احمد کو پریشان کرنا ہے۔

کل ہی اس نے پوچھا تھا، ’’احمد بھائی یہ جہاد کیا ہوتا ہے؟‘‘

احمد ان سوالوں سے پریشان ہو گیا۔

چپکو تیواری سوال اس وقت پوچھتا، جب شری واستو صاحب فرصت میں ہوتے۔

شری واستو صاحب ان سوالات سے بہت خوش ہوا کرتے۔

اِدھر احمد ان سوالات سے جھنجھلا جاتا۔

وہ کہتا بھی کہ اس نے اسلامی دھرم شاستروں کا پورا مطالعہ نہیں کیا۔  ممی پاپا نے اسے مدرسے میں کہاں پڑھایا تھا۔  اس نے انگریزی اور ہندی میڈیم تعلیم حاصل کی تھی۔  وہ تو اگر پاپا کی ذرا بھی چلتی، تو اس کا ختنہ بھی نہ ہوا ہوتا۔

بڑے عجیب و غریب تھے پاپا۔

ممی اور ماموں کے کہنے پر اس کا ختنہ ہوا۔

پاپا کتنے ناراض ہوئے تھے۔  وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا پیدائشی مسلمان بنے۔  وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا اسلام کے بارے میں خود جانے اور پھر اس کے مطابق فیصلہ کرے۔

اسلامی ماحول سے احمد بہت کم واقف تھا۔  پاپا سرکاری محکمے میں ’’اے ‘‘ کلاس آفیسر تھے۔۔ ۔  ان کا اٹھنا بیٹھنا سب کچھ غیروں کے درمیان تھا۔  مذہبی طور پر وہ فقط عید، بقر عید میں سرگرم رہتے تھے۔  اس کی وجہ یہ تھی کہ محکمے کے اعلی افسروں اور چہیتے ماتحتوں کے لئے دعوت وغیرہ کا بندوبست کرنا پڑتا تھا۔  ’’فرینڈز‘‘ بھی ایسے کہ عید، بقر عید وغیرہ کے ساتھ وہ نادانستہ طور پر محرم کی بھی مبارکباد دے دیا کرتے۔  انہیں یہ بھی پتہ نہ ہوتا کہ محرم ایک غم کا موقعہ ہوتا ہے۔

ممی کو پاپا کی یہ آزاد خیالی پھوٹی آنکھ نہ بھاتی۔  ممی انہیں سمجھایا کرتیں۔  پاپا ہنس دیتے، ’’اب آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے۔ ‘‘

واقعی وہ مرنے کوتو مر گئے، مگر عید، بقر عید کے علاوہ کسی تیسری نماز کے لئے انہیں وقت نہ ملنا تھا، نہ ملا۔  اس لحاظ سے احمد کچھ ٹھیک تھا۔  وہ جمعہ کی نماز ضرور ادا کیا کرتا۔  ممی کے مسلسل ٹوکنے کے بعد، رفتہ رفتہ اس نے اپنی زندگی میں، یہ عادت ڈالی۔  نکاح کے بعد کلثوم کی خوشی کے لئے پورے روزے بھی اب وہ رکھنے لگا تھا۔

احمد کے پاپا ایک آزاد خیال مسلمان تھے۔  وہ اکثر علامہ اقبال کا ایک مشہور شعر دہرایا کرتے۔

’’قوم کیا ہے قوموں کی امامت کیا ہے

اسے کیا جانیں یہ دو رکعت کے امام!‘‘

چونکہ ممی ایک پکے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، اس لیے پاپا کی دال نہ گل پاتی۔  کہتے ہیں کہ دادا جان کو پاپا کے بارے میں علم تھا کہ ان کا یہ بیٹا مذہبی نہیں ہے۔  لہذا بہت سوچ بچار کر کے وہ ایک مذہبی گھرانے سے بہو لائے تھے، تاکہ خاندان میں اسلامی روایات زندہ بچی رہیں۔  احمد کے پاپا وکیل تھے۔  وہ ایک کامیاب وکیل تھے۔  کافی دولت کمائی انہوں نے۔  کہتے بھی تھے کہ اگر کہیں جنت ہے تو وہ جھوٹوں کے لئے نہیں۔  تو وہاں کے عیش و آرام کا کیا لالچ پالیں۔  سارے وکیل سنگی ساتھی تو وہاں جہنم میں مل ہی جائیں گے۔  اچھی کمپنی رہے گی۔

اس دلیل کے ساتھ وہ ایک زوردار قہقہہ لگایا کرتے۔

ایک ٹریفک حادثے میں ان کا انتقال ہوا تھا۔  تب احمد گریجویشن کر رہا تھا۔ زندگی انتشار کا شکار ہو گئی تھی۔۔  اس برے وقت میں ماموں نے ممی اور احمد کو سنبھال لیا تھا۔

ایسے آزاد خیالات والے باپ کا بیٹا تھا احمد اور اُسے چپکو تیواری وغیرہ ایک کٹھ ملا مسلمان مان کر اذیت دینا چاہتے تھے۔

اسی لیے اکثر احمد کا دماغ خراب رہا کرتا۔

وہ کمار سے کہا بھی کرتا، ’’کمار بھائی، میں کیا کروں؟ تم نے دیکھا ہی ہے کہ میری کوئی بھی ادا ایسی نہیں کہ لوگ مجھے ایک مسلمان سمجھیں۔  تم میں اور مجھ میں کوئی فرق کر سکتا ہے؟ میں نہ تو داڑھی رکھتا ہوں اور نہ ہی دن رات نمازیں ہی پڑھا کرتا ہوں۔  تم نے دیکھا ہو گا کہ میں نے کبھی حکومت یا ہندوؤں کو نہیں کوسا کہ اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے۔  جب کے اس سے برعکس یہی پایا کہ مسلمانوں کی بدحالی کا سبب، ان کی اپنی پیدا شدہ ناخواندگی اور دقیانوسی پن ہے۔  چار پیسے پاس آئے نہیں کہ خود کو نوابوں، شہنشاہوں کا وارث سمجھنے لگیں گے۔  بچوں کے پاس کپڑے ہوں یا نہ ہوں۔  اسکول سے انہیں نکال دیے جانے کے نوٹس ملے ہوں، اس کی کوئی فکر نہیں۔  تمام ترجیحات درکنار۔۔ ۔  گھر میں بریانی بننی چاہیے، ورنہ اس کمائی کا کیا مطلب! تعلیم کے نام پر وہی مدرسے اور کام کے نام پر تمام ہنر والے کام! کم عمری میں شادی اور پھر وہی زندگی کے مسئلے۔  پھر بھی لوگ مجھے اپنی طرح کا کیوں نہیں مانتے۔۔ ۔؟‘‘

کمار، احمد کے سوالوں کو سن کر خاموش ہو گیا۔  وہ کیا جواب دیتا؟

ٹھیک اسی طرح احمد، چپکو تیواری کے سوالوں کا کیا جواب دیتا؟وہ ہندو متھکوں، پُران کتھاؤں، اور دھرم شاستروں کے بارے میں تو پر اعتماد طریقے سے تو باتیں کر سکتا تھا، لیکن اسلامی دنیا کے بارے میں اس کی معلومات تقریباً صفر تھیں۔

’’مجھے ایک مسلمان کیوں سمجھا جاتا ہے، جبکہ میں نے کبھی بھی تجھے ہندو وغیرہ نہیں مانا۔  مجھے ایک عام ہندوستانی شہری کب سمجھا جائے گا؟ ‘‘

احمد کی آواز میں درد تھا۔

کل کی ہی تو بات ہے۔

وہ دونوں عادتاً بس اسٹینڈ کے ڈھابے میں بیٹھے، چائے کے انتظار میں تھے۔  دفتر سے چرائے چند فرصت کے لمحات۔۔ ۔  یہی تو وہ جگہ ہے جہاں وہ دونوں اپنے دل کی بات کیا کرتے۔

چائے والا چائے لے کر آ گیا۔

احمد کی آلکسی تحلیل ہوئی۔

امبیکا پور سے بس آ گئی تھی۔  بس اسٹینڈ میں چہل پہل بڑھ گئی۔ بس سے کافی سواریاں اترتی ہیں۔

کریم پورہ چونکہ علاقے کا تجارتی مرکز بھی ہے، لہذا یہاں ہمیشہ چہل پہل رہتی ہے۔

کمار نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے احمد کو ٹوکا۔

’’تم اتنی جلدی مایوس کیوں ہو جاتے ہو؟ کیا یہی وہ اقلیتی سوچ ہے، جس سے ملک کے تمام اقلیتی متاثر ہیں؟‘‘

’’کس طرح بتاؤں کہ بچپن سے لے کر اب تک، میں کتنا پریشان ہوتا رہا ہوں۔ ‘‘ احمد سوچ کے سمندر میں غوطے مارنے لگا۔

’’جب میں چھوٹا تھا، تب ہم جماعتوں نے جلد ہی مجھے احساس کرا دیا کہ میں ان کی طرح ایک عام بچہ نہیں، بلکہ ایک ’’کٹُووا‘‘ ہوں! وہ اکثر میری نیکر کھینچتے اور کہتے کہ ’’ابے سالے، اپنا کٹا۔۔ ۔  دکھا نا! پورا اڑا دیتے ہیں کہ کچھ بچتا بھی ہے؟‘‘ اسکول کے قریب مسجد سے ظہر کی اذان کی آواز گونجتی، تو پوری کلاس میری طرف دیکھ کر ہنستی۔  جتنی دیر اذان کی آواز آتی رہتی میں عجوبہ بنا رہتا۔  تاریخ کا پیریڈ اُپادھیائے سر لیا کرتے۔  جانے کیوں انہیں مسلمانوں سے چڑ تھی کہ وہ مغل بادشاہوں کا ذکر کرتے ہوئے، جارحانہ ہو جاتے۔  ان کی آواز میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی۔  ان لیکچرز کا یہ اثر ہوتا کہ آخر میں پوری کلاس کے بچے، مجھے ہی اس دور کے سیاہ کارناموں کا مجرم مان بیٹھتے۔ ‘‘

کمار نے گہری سانس لی، ’’چھوڑو یار۔۔ ۔  دنیا میں جو الٹ پھیر چل رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ انسانوں کے بیچ خلیج اب بڑھتی ہی جائے گی۔  آج دیکھو نہ، افغانیوں کے پاس روٹی کوئی مسئلہ نہیں۔  نئی صدی میں مذہبی شدت پسندی، ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھری ہے۔ ‘‘

احمد بے انتہا دکھی ہو رہا تھا۔

کمار نے ماحول نرم بنانے کے لئے چٹکی لی، ’’احمد، بس سے آج پونچھ والی میڈم نہیں اتریں۔  لگتا ہے انہیں ہر ماہ آنے والے تکلیف بھرے تین دنوں کا چکر تو نہیں؟ ‘‘

پونچھ والی یعنی پونی ٹیل والی ماڈرن میڈم۔۔ ۔

کمار کی اس بات پر پہلے کتنے زور کا قہقہہ اٹھتا تھا۔

احمد کی دل جوئی کے لئے کیا جتن کرے کمار!

چائے کب ختم ہو گئی پتہ ہی نہ چلا۔

ڈھابے کے باہر پان کی دکان کے پاس، وہ کچھ دیر رکے۔  احمد نے سگریٹ پی۔  کمار نے پان کھایا۔  احمد جب تناؤ میں ہوتا، تب وہ سگریٹ پینا پسند کرتا۔  اس کا سگریٹ پینے کا ا سٹائل بھی بڑا جارحانہ ہوا کرتا۔

وہ مٹھی بندھ کر کے انگلیوں کے درمیان سگریٹ پھنسا کر، مٹھی کو ہونٹوں کے درمیان مضبوطی سے ملا دیتا۔  پھر پوری طاقت سے منہ سے بھرپور طریقے سے دھواں اندر کھینچتا۔  کچھ دیر سانس اندر رکھ کر کے، دھواں سبھی گلی کوچوں میں بھٹکنے دیتا۔  پھر بڑی بے رحمی سے ہونٹوں کو گھما کر، جو دھواں پھیپھڑے لے نہ پائے ہوں، اسے باہر نکال دیتا۔

کمار نے اس کے سگریٹ پینے کے انداز سے جان لیا کہ آج احمد بہت ’’ٹینشن‘‘ میں ہے۔

وہ دونوں خاموشی سے پوسٹ آفس میں آ کر، اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔

احمد کو کہاں پتہ تھا کہ اس کی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی آئے گی۔

وہ تیرہ ستمبر کی شام تھی۔

احمد گھر پہنچا۔۔ ۔  دیکھا کہ کلثوم ٹی وی سے چپکی ہوئی ہے۔

کلثوم ٹی وی پر خبریں سن رہی ہے۔

تعجب ہے! حیرت!! ایسا کیسے ہو گیا۔۔ ۔

احمد نے سوچا، کلثوم کو تو نیوز چینلز سے بے پناہ نفرت ہے۔

وہ اکثر احمد کو ٹوکا کرتی، ’’جب آپ اخبار پڑھتے ہی ہیں، پھر آپ کو خبریں سننے کی کیا ضرورت ہے۔۔ ۔  اس سے اچھا ہے کہ آپ کوئی سیریل ہی دیکھ لیا کریں۔ سارا دن ایک ہی خبر کو گھسیٹتے ہیں یہ نیوز چینل والے۔۔ ۔  جس طرح ایک بار کھانے کے بعد بھینس جگالی کرتی ہے۔  جانے کہاں سے ان کو بھی، آج کل اتنے ڈھیر سارے اسپانسر مل جا تے ہیں۔ ‘‘

احمد کیا بتاتا۔  اسے معلوم ہے کہ کھاتے پیتے لوگوں کے لئے آج کل خبروں کی کیا اہمیت ہے۔  احمد جانتا ہے کہ عصر حاضر کے واقعات اور اتھل پتھل سے کٹ کر نہیں رہا جا سکتا۔  یہ میڈیا کے عروج کا دور ہے۔  کریم پورہ کے دیگر مسلمانوں کی طرح، اسے اپنی زندگی نہیں گزارنی۔  وہ نئے زمانے کا ایک با شعور اور سمجھدارنوجوان ہے۔  اس بے شعور نہیں بنے رہنا ہے۔  اسی لئے وہ ہندی اخبار پڑھتا ہے۔  ہندی میں تھوڑا بہت لکھ لکھا بھی لیتا۔

احمد جانتا ہے کہ میڈیا آج کل نئی سے نئی خبریں جمع کرنے میں کیسی بھی ’’ایکسرسائز‘‘کر سکتا ہے۔  چاہے وہ ڈیانا کی موت سے منسلکہ واقعہ ہو، نیپال کے شاہی خاندان کے گھناؤنے قتل کا معاملہ ہو، تہلکہ ٹیپس ہوں یا کہ موجودہ امریکی بحران۔۔ ۔  اچار، تیل، صابن، جوتے موزے، گہنا زیور، مردانہ کار کردگی بڑھانے والی یا برتھ کنٹرول کی ادویات ہوں، غرض کے ہر قسم کے اشتہارات نیوز چینلز کو  حاصل ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ نیوز چینل آج کل دوسرے چینلز سے زیادہ منافع کما رہے ہیں۔

کلثوم نیوز سننے میں اتنی مگن تھی کہ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ احمد کام سے واپس آ گیا ہے۔

کلثوم بی بی سی کا نیوز بلیٹن سن رہی تھی۔  اسکرین پر اسامہ بن لادن کی تصویر اٹھائے پاکستانی نوجوانوں کے جلوس پر، پولیس تابڑ توڑ لاٹھی چارج کر رہی ہے۔  امریکی پریسیڈنٹ بش اور لادن کے چہروں کا ملا جلا کولاج اس طرح بنایا گیا تھا کہ یہ جو جنگ افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانی ہے، وہ دو آدمیوں کے بیچ کی لڑائی ہو۔

سنسنی خیز خبروں سے بھرپور، وہ ایک بڑا ہی خطرناک دن تھا۔

احمد کلثوم کے برابر جا بیٹھا۔ کلثوم گھبرائی ہوئی تھی۔

ٹھیک ایسے ہی بابری مسجد کی شہادت کے وقت کلثوم گھبرا گئی تھی۔

آج بھی اس کا چہرہ سیاہ تھا۔  کلثوم کسی شدید تشویش میں ڈوبی ہوئی تھی۔

احمد نے ٹی وی کی اسکرین پر نظریں گڑائیں۔  وہاں اسے بش، لادن کی تصاویر کے ساتھ چپکو تیواری اور شری واستو صاحب کے کھلیاں اڑاتے چہرے نظر آنے لگے۔  اسے محسوس ہوا کہ چاروں طرف چپکو تیواری کی سرگوشیاں اور قہقہے گونج رہے ہیں۔

احمد کا دماغ چکرانے لگا۔

جب کلثوم نے احمد کی طرف دیکھا، تو وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

اس نے فوری طور پر احمد کو بانہوں کا سہارا دے کر کرسی پر بٹھایا۔  پھر وہ پانی لینے کچن چلی گئی۔  پانی پی کر احمد کو کچھ سکون ملا۔

اس نے کلثوم سے کہا، ’’جانتی ہو۔۔ ۔  سن چوراسی کے فسادات کے بعد اپنے پرانے مکان کے سامنے رہنے والے سکھ خاندان کے تمام مردوں نے اپنے بالوں کتروا لئے تھے۔ ‘‘

کلثوم کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔  پھر بھی اس نے شوہر کی ہاں میں ہاں ملائی، ’’ہاں، ہاں، مجیتے کے بھائی اور باپ داڑھی بال بن جانے کے بعد پہچان ہی میں نہ آتے تھے۔ ‘‘

’’بڑی تھو تھو مچی ہے کلثوم چاروں طرف۔۔ ۔  ہر آدمی ہمیں لادن کا حمایتی سمجھتا ہے۔  ہم اس کی لاکھ مذمت کریں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ‘‘ احمد کی آواز مایوسی سے لبریز تھی۔

اچانک احمد نے کلثوم سے کہا، ’’مغرب کی نماز کا وقت ہو رہا ہے۔  میرا کرتا پاجامہ اور ٹوپی تو نکال دو۔ ‘‘

کلثوم چونک پڑی۔

آج اسے اپنا احمد ڈرا سہما اور کمزور سا نظر آ رہا تھا۔

***

 

 

 

 

کنجڑا، قصائی

 

’’کنجڑے قصائیوں کو تمیز کہاں۔۔ ۔  تمیز کا ٹھیکا تمہارے سیدوں نے جو لے رکھا ہے۔ ‘‘ محمد لطیف قریشی عرف ایم ایل قریشی بہت دھیرے بولا کرتے۔  مگر جب کبھی بولتے بھی تو کفن پھاڑ کر بولتے۔  ایسے کہ سامنے والا خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔

زلیخا نے گھور کر ان کو دیکھا۔  ہر کڑوی بات اگلنے سے پہلے، اس کے شوہر لطیف صاحب کا چہرہ تن جاتا ہے۔  دکھ، تکلیف یا خوشی کا کوئی جذبہ نظر نہیں آتا۔  آنکھیں پھیل جاتی ہیں اور زلیخا اپنے لئے ڈھال تلاش کرنے لگ جاتی ہے۔  وہ جان جاتی ہے کہ میاں کی جلی کٹی باتوں کے تیر چلنے والے ہیں۔

محمد لطیف قریشی صاحب کا چہرہ اب پرسکون ہو گیا تھا۔  اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ تیر چلا کر، مخالف کو زخمی کر کے، وہ مطمئن ہو گئے ہیں۔

زلیخا چڑ گئی۔  ’’سیدوں کو کا ہے درمیان میں گھسیٹ رہے ہیں، ہمارے یاں ذات برادری پر یقین نہیں کیا جاتا۔ ‘‘

لطیف قریشی نے اگلا تیر نشانے پر پھینکا۔  ’’جب ذات پات پر یقین نہیں، تو تمہارے ابو امی اپنے اکلوتے بیٹے کیلئے بہو تلاش کرنے کیلئے، اپنی برادری میں صوبہ بہار کیوں بھاگے پھر رہے ہیں؟ کیا اِدھر کی لڑکیاں بے شعور ہوتی ہیں یا اِدھر کی لڑکیوں کی ہڈی، خون، تہذیب بدل گئی ہے؟ ‘ ‘

زلیخا صفائی دینے لگی ہے۔  ’’وہ بہار سے بہو کا ہے لائیں گے، جب پتہ ہی ہے آپ کو، تو کا ہے طعنہ مارتے ہیں۔  ارے۔۔ ۔  مما، ننّا اور چچا لوگوں کا دباؤ بھی تو ہے کہ بہو بہار سے لے جانا ہے۔ ‘‘

’’واہ بھئی واہ، خوب کہی۔  لڑکے بیاہنا ہے تو مما، چچا کا دباؤ پڑ رہا ہے، شادی خاندان میں کرنی ہے۔  اگر لڑکی کی شادی نپٹانی ہو تو نوکری والا لڑکا کھوجو۔  ذات چاہے جولاہا ہو یا کنجڑا ہو، یا قصائی۔  جو بھی ہو سب چلے گا۔  واہ بھئی واہ۔۔ ۔  مان گئے سیدوں کا لوہا!‘‘

زلیخا روہانسی ہو گئی۔  عورتوں کا سب سے بڑا ہتھیار اس کے پاس وافر مقدار میں ہے، جسے ’’آنسوؤں کا ہتھیار ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔  مرد ان آنسوؤں سے گھبرا جاتے ہیں۔  لطیف قریشی بھی اس کے عاری نہ تھے۔  زلیخا کے اس ہتھیارسے وہ گھبرائے۔  سوچا، مگر ہار ماننا کچھ زیادہ ہی برا لگتا ہے۔  معاملہ رفع دفع کرنے کی غرض سے، انہوں نے کچھ فارمولا جملے بدبدائے۔

’’بات تم ہی چھیڑتی ہو اور پھر ہار مان کر رونے لگ جاتی ہو۔  تمہیں یہ کیا کہنے کی ضرورت تھی کہ ادھر مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ کی لڑکیاں، بیچ کھانے والی ہوتی ہیں۔  کنگال بنا دیتی ہیں۔  تمہارا بھائی کنگلا ہو جائے گا۔  مانا کہ تمہارے ننہیال ددھیال کا دباؤ ہے، جس کی بدولت تم لوگوں کو یہ شادی اپنے ہی خاندان میں کرنی پڑ رہی ہے۔  بڑی معمولی بات ٹھہری۔  چلو چائے بنا لاؤ جلدی سے۔۔ ۔! ‘‘

زلیخا نے آنسو پی کر ہتھیار ڈال دیئے۔ ‘‘ہر ماں باپ کے دل میں خواہش رہتی ہے کہ ان کی لڑکی جہاں جائے، راج کرے۔  اس کے لئے کیسا بھی سمجھوتہ ہو، کرنا ہی پڑتا ہے۔ ‘‘

’’سمجھوتہ!‘‘ لطیف ایک ایک لفظ چبا کر بولے۔

بات دوبارہ بگڑ گئی۔

’’وہی تو۔۔ ۔  وہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔  اور جانتی ہو، سمجھوتہ مجبوری میں کیا جاتا ہے۔  جب انسان اپنی قوت اور طاقت سے مجبور ہوتا ہے، تو سمجھوتہ کرتا ہے۔  جیسے۔۔ ۔! ‘‘

زلیخا سمجھ گئی۔ کڑواہٹ کی آگ ابھی اور بھڑکے گی۔

’’ہمارا رشتہ بھی اسی نامراد ’’ سمجھوتے ‘‘کی بنیاد پر ٹکا ہوا ہے۔  ایک طرف بینک میں نوکری کرتا کماؤ کنجڑے قصائی برادری کا داماد، دوسری طرف خاندان اور ہڈی، خون، ناک کا سوال۔  معاملہ لڑکی کا تھا، پرایا دھن تھا، اس لئے کماؤ داماد کیلئے تمہارے گھر والوں نے خاندان کے نام کی قربانی دے ہی دی۔ ‘‘

زلیخا رو پڑی اور کچن کی طرف چلی گئی۔  محمد لطیف قریشی صاحب بید کی آرام کرسی پر نڈھال سے ڈھے گئے۔  انہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا، جیسے جنگ جیت کر آئے ہوں اور تھکن دور کر رہے ہوں۔  سید زادی بیوی زلیخا کو دکھ پہنچا کر، وہ اسی طرح کا ’’رلیکس‘‘ محسوس کیا کرتے ہیں۔  اکلوتے سالے صاحب کی شادی کی خبر پا کر اتنا ’’ڈرامہ‘‘ کرنا انہیں مناسب لگا تھا۔

زلیخا کے چھوٹے بھائی جاوید کے لئے ان کے اپنے رشتہ داروں نے بھی منصوبے بنائے تھے۔  اکلوتا لڑکے، لاکھوں کی زمین جائداد۔  جاوید کے لئے لطیف کے چچا نے بھی کوشش کی تھی۔  لطیف کے چچا، شہڈول میں سب انسپکٹر ہیں اور وہیں گاؤں میں کافی زمین بنا چکے ہیں۔  ایک لڑکی اور ایک لڑکے۔  کل مل ملا کر دو اولادیں۔  چچا چاہتے تھے کہ لڑکی کی شادی جہاں تک ممکن ہو سکے، اچھی جگہ کریں۔  لڑکی بھی ان کی ہیرا ٹھہری۔  بی ایس سی تک تعلیم۔  نیک سیرت، بھلی صورت، فنِ خانہ داری میں ماہر، صوم و صلاۃ کی پابند، لمبی، دبلی، پاکیزہ خیالات والی اور بیوٹیشن کا کورس کی ہوئی لڑکی کے لئے، چچا کئی چکر زلیخا کے والد سید عبدالستار کے گھر کے کاٹ چکے تھے۔  ہر بار یہی جواب ملتا کہ لڑکے کا ابھی شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

ایک بار محمد لطیف قریشی صاحب، جب اپنی سسرال میں موجود تھے، تب اپنے کانوں سے انہوں نے خودسنا تھا۔  ’’یہ سالے کنجڑے قصائی کیاسمجھ بیٹھے ہیں ہمیں؟ لڑکی کیا دی، عزت بھی دے دی کیا؟ انگلی پکڑائی تو لگے ہاتھ پکڑنے۔  بھلا ان دلَدّروں کی لڑکی ہماری بہو بنے گی؟ حد ہو گئی بھئی۔ ‘‘

یہ بات زلیخا کے ماما کہہ رہے تھے۔  لطیف صاحب اس وقت بیڈروم میں لیٹے تھے۔  لوگوں نے سمجھا کہ وہ سو گئے ہیں، لہذا اونچی آواز میں بحث کر رہے تھے۔  زلیخا کے والد نے ماما کو ڈانٹ کر خاموش کرایا تھا۔

لطیف توہین کا گھونٹ پی کر رہ گئے۔

تبھی تو اس بات کا بدلہ، وہ اس خاندان کی بیٹی، یعنی اپنی بیوی زلیخا سے لینا چاہ رہے تھے۔  لے دے کر آج توا گرمایا تو کر بیٹھے حملہ! زلیخا کو دکھ پہ پہنچا کر، ہندوستانی اسلامی معاشرے میں پھیلی اونچ نیچ کی برائی پر مہلک  وار کرنے کی، ان کی یہ کوشش کتنی اوچھی، کتنی شرمناک تھی، اس سے ان کا کیا مقصد تھا؟ ان کا مقصد تھا کہ جیسے ان کا دل دُکھا، ویسے ہی کسی اور کا دکھے۔  دوسرے کا دکھ، ان کے اپنے دکھ کے لئے مرہم بن گیا تھا۔

زلیخا کی سسکیاں کچن کے پردے کو چیر کر باہر نکل رہی تھیں۔  بیٹا بیٹی شاپنگ کے لئے سپر مارکیٹ تک گئے ہوئے تھے۔  گھر میں شانتی بکھری ہوئی تھی۔  اسی شانتی کو تحلیل کرتی سسکیاں، لطیف صاحب کے تھکے جسم کے لئے لوری بنی جا رہی تھیں۔

محمد لطیف قریشی صاحب کو یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے سیدوں، شیخوں جیسی تمام متکبر ذاتیں رو رہی ہوں، توبہ کر رہی ہوں۔

ارے! انہیں بھی تھوڑا بڑے ہو کر ہی، کہیں پتہ چل پایا تھا کہ وہ قصائیوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔  وہ تو صرف اتنا جانتے تھے کہ ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘‘ والا دنیا کا واحد مذہب ہے اسلام۔  ایک ایسانیا انوکھاسماجی نظام ہے اسلام، جہاں اونچ نیچ، گورے کالے، مرد عورت، چھوٹے بڑے، ذات پات کا کوئی جھمیلا نہیں ہے۔ کہاں محمود جیسا بادشاہِ وقت، اور کہاں ایاز جیسا معمولی سپاہی، لیکن نماز کے وقت ایک ہی صف میں کھڑا کیا، تو صرف اسلام ہی نے دونوں کو۔

ان کے خاندان میں کوئی بھی گوشت کا کام نہیں کرتا۔  سب ہی سرکاری ملازمت میں ہیں۔  سرگوجا ضلع کے علاوہ باہری رشتہ داروں سے لطیف کے والد صاحب نے کوئی تعلق نہیں رکھا تھا۔  لطیف کے والد کا ایک ہی نعرہ تھا، تعلیم حاصل کرو۔  کسی بھی طرح علم حاصل کرو۔  سو لطیف علم حاصل کرتے کرتے بینک میں افسر بن گئے۔  ان کے والد صاحب بھی سرکاری ملازم تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اپنے خاندانی رشتہ داروں سے کٹے ہی رہے۔

لطیف، کلاس کے دیگر قریشی لڑکوں سے کوئی تعلق نہیں بنا پائے تھے۔  یہ قریشی لڑکے پچھلی بینچ میں بیٹھنے والے بچے تھے، جن کی دکانوں سے گوشت خریدنے کبھی کبھار وہ بھی جایا کرتے تھے۔  تقریباً تمام قریشی ہم جماعت مڈل اسکول کی پڑھائی کے بعد آگے نہ پڑھ پائے۔

تب انہیں کہاں پتہ تھا کہ قریشی ایک ایسا لاحقہ ہے۔  جو ان کے نام کے ساتھ ان کی سماجی حیثیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔  وہ وعظ، میلاد وغیرہ میں بیٹھتے تو یہی سنتے تھے کہ نبی کریمﷺ کا تعلق عرب کے قریش قبیلہ سے تھا۔  ان کا بچکانہ ذہن یہی حساب لگایا کرتا تھا کہ اسی قریشی خاندان کے لوگ ماضی میں جب ہندوستان آئے ہوں گے، تو انہیں قریشی کہا جانے لگا ہو گا۔  ٹھیک اسی طرح جیسے پڑوس کے ہندو گھروں کی بہوؤں کو ان کے نام سے نہیں، بلکہ ان کے آبائی شہر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔  جیسے کہ بِلاس پورہِن، رائے پورہِن، سرگج ہِن، کوتماوالی، پینڈراوالی، کٹن ہِن وغیرہ۔

کچھ بڑے کاروباری مسلم گھرانوں کے لوگ نام کے ساتھ عراقی لفظ شامل کرتے، جس کا مطلب لطیف نے یہ لگایا کہ ہو نہ ہو ان مسلمانوں کا تعلق عراق کے مسلمانوں سے ہو گا۔  کچھ مسلمان خان، انصاری، چھیپا، رضا وغیرہ سے اپنا نام سجایا کرتے۔  بچپن میں اپنے نام کے ساتھ لگے قریشی لاحقے کو سن کر وہ خوش ہوا کرتے۔  انہیں اچھا لگتا کہ ان کا نام بھی، ان کے جسم کی طرح مکمل ہے۔  کہیں کوئی عیب نہیں۔  کتنا نامکمل سا لگتا، اگر ان کا نام صرف محمد لطیف ہوتا۔  جیسے بغیر دم کا کتا، جیسے بغیر ٹانگ کا آدمی، جیسے بغیر سونڈ کا ہاتھی۔

بچپن میں جب بھی کوئی ان سے ان کا نام پوچھتا تو وہ اترا کر بتایا کرتے۔ ‘‘جی میرا نام محمد لطیف قریشی ہے۔  ’’

یہی قریشی لفظ کا لاحقہ ان کی شادی کا سب سے بڑا دشمن ثابت ہوا۔  جب ان کی بینک میں نوکری لگی تو قصائی گھرانوں سے دھڑا دھڑ رشتے آنے لگے۔  اچھے پیسے والے، شان شوکت والے، حج کر آئے قریشی خاندانوں سے رشتے ہی رشتے۔  لطیف کے والد ان لوگوں میں اپنا لڑکا دینا نہیں چاہتے تھے، کیونکہ سبھی روپیوں پیسوں میں کھیلتے، دولت مند قریشی لوگ تعلیم و تہذیب کے معاملے میں صفر تھے۔  پیسے سے ماروتی کار آ سکتی ہے، پر سلیقہ نہیں۔

اس دوران شہڈول کے ایک اجاڑ سے سید مسلم خاندان سے لطیف صاحب کے لئے پیغام آیا۔  اجاڑ ان معنوں میں کہ یوپی بہار سے آ کر مدھیہ پردیش کے اس بگھیل کھنڈ میں آ بسے۔  زلیخا کے والد کسی زمانے میں اچھے کھاتے پیتے ٹھیکیدار ہوا کرتے تھے۔  آزادی سے پہلے اور اس کے بعد کے ایک دو پنج سالہ منصوبوں تک زلیخا کے والد اور دادا وغیرہ کی جنگل کی ٹھیکیداری ہوا کرتی تھی۔  جنگل میں درخت کاٹنے کا مقابلہ چلتا۔  سرکاری ملازم اور ٹھیکیداروں کے مزدوروں میں ہوڑ مچی رہتی۔  کون کتنے درخت کاٹ گراتا ہے۔  ٹرکوں لکڑیاں بین الصوبائی اسمگلنگ کے ذریعے اِدھر اُدھر کی جاتیں۔  خوب نوٹ چھاپے تھے ان دنوں۔  اسی کمائی سے شہڈول کے قلب میں پہلی تین منزلہ عمارت کھڑی ہوئی۔  جس کا نام کرن ہوا تھا ’’سیدنا ‘‘۔  یہ عمارت زلیخا کے دادا کی تھی۔  آج تو کئی فلک بوس عمارتیں ہیں، لیکن اس زمانے میں زلیخا کا آبائی مکان مشہور ہوا کرتا تھا۔  آس پاس کے لوگ اس عمارت ’’سیدنا‘‘ کا استعمال اپنے گھر کے پتے کے ساتھ کیا کرتے تھے۔  مقامی اور علاقائی سطح کی سیاست میں بھی اس عمارت کی اہمیت تھی۔  پھر یہاں مارواڑی آئے، سکھ آئے، مقابلہ بڑھا۔  منافع کئی ہاتھوں میں منقسم ہو۔  زلیخا کے خاندان والوں کی اجارہ داری ختم ہوئی۔  مشروموں کی طرح شہر میں خوبصورت عمارتیں اگنے لگیں۔

زلیخا کے والد یعنی سید عبدالستار یا یوں کہیں کہ حاجی سید عبدالستار صاحب کی ترقی کا گراف اچانک تیزی سے نیچے گرنے لگا۔  جنگلات کی ٹھیکیداری میں مافیا راج آ گیا۔  دولت، طاقت اور بازوؤں کی زور آزمائی کے بعد حاجی صاحب فالج کا شکار ہوئے۔  چچاؤں اور چچازاد بھائیوں میں دادا کی جائیداد کو لے کر تنازعات ہوئے۔  جھوٹی شان کو برقرار رکھنے میں، حاجی عبدالستار صاحب کی جمع پونجھی خرچ ہونے لگی۔  جسم کمزور ہوا۔  بولتے تو سر لڑکھڑا جاتا۔  کاروبار کی نئی ٹیکنالوجی آ جانے سے، پرانے تجارتی طور طریقوں سے چلنے والے کاروباریوں کا عموماً جو حشر ہوتا ہے، وہی حاجی صاحب کا ہوا۔

ڈوبتی کشتی میں اب زلیخا تھی، اس کی ایک چھوٹی بہن تھی اور ایک چھوٹا بھائی۔  بڑی بہن کی شادی ہوئی، توسیدوں میں ہی۔  لیکن پارٹی مالدار نہ تھی۔  داماد تھوک کپڑے کا تاجر تھا اور رنڈوا تھا۔  زلیخا کی بڑی بہن وہاں بہت خوش تھی۔  زلیخا جب سیاسیات میں ایم اے کر چکی، تو اس کے والد حاجی صاحب فکر مند ہوئے۔  خاندان میں زیادہ پڑھی لکھی لڑکی کی اتنی ڈیمانڈ نہ تھی۔  لڑکے زیادہ تر کاروباری تھے۔  زلیخا کو جلد بیاہنا نہایت ضروری تھا، کیونکہ چھوٹی سی لڑکی قمرن بھی جوان ہوئی جا رہی تھی۔  جوان کیا وہ تو زلیخا سے بھی زیادہ بھرے بدن کی تھی۔  ان کی عمروں میں فرق محض دو سال کا تھا۔  دو دو نوجوان لڑکیوں کا بوجھ حاجی صاحب کا مفلوج بدن برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔

ان کے ایک دوست ہوا کرتے تھے اگروال صاحب۔  جو فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے ملازم تھے۔  حاجی صاحب کے سیاہ سفید کے امین!۔  انہی اگروال صاحب نے، دور سرگوجا میں ایک بہترین رشتہ بتایا۔  اس پر حاجی صاحب ان پر بگڑے۔  زمین پر تھوکتے ہوئے بولے۔  ’’لعنت ہے آپ پر اگروال صاحب۔  کنجڑے قصائیوں کو لڑکی تھوڑے ہی دوں گا۔  گھاس کھا کر جی لوں گا۔  لیکن خدا ایسا دن دکھانے سے پہلے اٹھا لے تو بہتر۔۔ ۔ ‘‘

پھر کچھ رک کر کہا تھا انہوں نے۔  ’’ارے بھائی، سیدوں میں کیا لڑکوں کی مہاماری ہو گئی ہے؟‘‘

اگروال صاحب بات سنبھالنے لگے۔  ’’میں یہ کب کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنی لڑکی کی شادی وہیں کریں۔  ہاں، تھوڑا ٹھنڈے دماغ سے سوچئے ضرور۔  میں ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔  پڑھا لکھا، مہذب گھرانہ ہے۔  لڑکا بینک میں افسر ہے۔  کل کو اور بڑا افسر بنے گا۔  بڑے شہروں میں رہے گا۔ ‘‘

اگروال صاحب کسی ٹیپ ریکارڈر کی طرح، تفصیلات بتانے لگے۔  انہیں حاجی صاحب نامی عمارت کی خستہ حال دیواروں، ٹوٹی چھتوں اور ہلتی بنیادوں کا حال خوب معلوم تھا۔  وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ شادی کے لائق بیٹیوں کی، شادی کی فکر میں، حاجی صاحب بے خوابی کے مریض بھی ہوئے جا رہے ہیں۔  معاشی حالات کی مار نے انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔  ان کا علاج بھی چل رہا تھا۔  ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی، جھاڑ پھونک، تعویذ گنڈا، پیری فقیری اور حج زیارت جیسے تمام نسخے آزمائے جا چکے تھے۔  پر مرض اپنی جگہ اور مریض اپنی جگہ۔  گھٹ رہی تھی تو صرف جمع کی ہوئی دھن دولت اور بڑھ رہی تھیں تو صرف مشکلیں۔

ایک دو روز کے بعد اگروال صاحب کی بات پر حاجی صاحب غور و فکر کرنے لگے۔  حاجی صاحب کی چند شرائط تھیں، جو رسی کے جل جانے کے بعد بچے بلوں کی طرح تھیں۔

ان شرائط میں اول تو یہ تھی کہ شادی کے دعوت ناموں میں دلہن اور دلہا والوں کی ذات برادری کا لاحقہ نہ لگایا جائے۔  نہ تو حاجی سید عبدالستار اپنے نام کے آگے سید لگائیں اور نہ ہی لڑکے والے اپنا ’’قریشی‘‘ ٹائٹل زمانے کے آگے ظاہر کریں۔  شادی ’’ شرعی‘‘ رواج سے ہو۔  کوئی دھوم دھام، بینڈ باجا نہیں۔  دس بارہ براتی آئیں۔  دن میں شادی ہو، دوپہر میں کھانا اور شام ہونے تک رخصتی۔

ایک اور خاص شرط یہ تھی کہ نکاح کے موقعہ پر لوگ کتنا ہی پوچھیں، کسی سے بھی قریشی ہونے کی بات نہ بتائی جائے۔

لطیف اور اس کے والد کو یہ تمام شرائط توہین آمیز لگیں، لیکن اعلی درجے کے خاندان کی تعلیم یافتہ، نیک سیرت لڑکی کے لئے، ان لوگوں نے بالآخر یہ توہین آمیز سمجھوتہ قبول کر ہی لیا۔  اگروال صاحب کے بہنوئی سرگوجا میں ہوتے تھے اور لطیف کے والد سے ان کا قریبی تعلق تھا۔  ان کا بھی دباؤ انہیں مجبور کر رہا تھا۔

ہوا وہی، جو زلیخا کے والد صاحب کی پسند تھا۔  لڑکے والے، لڑکی والوں کی طرح بیاہنے آئے۔  اس طرح سے سیدوں کی لڑکی، کنجڑے قصائیوں کے گھر بیاہی گئی۔

ایک دن زلیخا کے ایک رشتہ دار بینک میں کسی کام سے آئے۔  لطیف صاحب کو پہچان لیا انہوں نے۔  کیبن کے باہر ان کے نام کی تختی پر صاف صاف لکھا تھا۔  ‘ ‘ایم۔  ایل۔  قریشی، برانچ منیجر‘‘

لطیف صاحب نے آنے والے رشتے دار کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔  اور گھنٹی بجا کر چپراسی کو چائے لانے کا حکم دیا۔

یہ رشتے دار بلاشبہ مال دار پارٹی تھے اور سرمایہ کاری کے سلسلے میں بینک آئے تھے۔

لطیف صاحب نے سوالیہ نظروں سے ان کو دیکھا۔

وہ دنگ رہ گئے۔  گلا کھنکھار کر پوچھا۔  ’’آپ حاجی’ سید‘ عبدالستار صاحب کے داماد ہوئے نہ؟‘‘

’’جی ہاں، کہیے۔ ‘‘ لطیف صاحب کا ما تھا ٹھنکا۔

سید لفظ پر اضافی زور دیے جانے کو وہ خوب سمجھ رہے تھے۔

’’ ہاں، میں ان کا رشتہ دار ہوں۔  پہلے گجرات میں سیٹل تھا، آج کل ادھر ہی قسمت آزمانا چاہ رہا ہوں۔  آپ کو نکاح کے وقت دیکھا تھا۔  نیم پلیٹ دیکھ کر گھبرایا، لیکن آپ کے بڑے بابو تیواری نے بتایا کہ آپ کی شادی شہڈول کے حاجی صاحب کے یہاں ہوئی تو مطمئن ہوا۔ ‘‘وہ صفائی دے رہے تھے۔

پھر دانت نکالتے ہوئے انہوں نے کہا۔  ’’آپ تو اپنے ہی ہوئے! ‘‘ان کے لہجے میں عزت، تعلق داری اور ڈرامائی انداز کی ملاوٹ تھی۔

محمد لطیف قریشی صاحب کا سارا وجود روئی کی طرح جلنے لگا۔  پلک جھپکتے ہی راکھ کا ڈھیر بن جاتے کہ اس سے قبل خود کو سنبھالا اور آنے والے رشتے دار کا کام سہولت سے نمٹا دیا۔

ایم ایل لطیف صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ محمد لطیف قریشی کے مردہ جسم کو دفنایا تو جا سکتا ہے، لیکن ان کے نام کے ساتھ لگے ’’قریشی ‘‘ کو وہ کبھی نہیں دفنا سکتے ہیں۔

(مطبوعہ ’’ تسطیر‘‘ اگست، ۲۰۱۷ء)

***

 

 

 

 

نصیبن

 

شہڈول جانے والی بس آج لیٹ ہے۔

نصیبن بس اسٹینڈ کی انتظار گاہ میں بیٹھی، بس کا انتظار کر رہی تھی۔  اس کا چار سالہ بیٹا بار بار مونگ پھلی کھانے کی ضد کر رہا تھا۔  صبح تھوڑا سا رات کا باسی ٹوں گا ہے، بھوکا ہو گیا ہو گا اب تک!

لیکن کیا کیا جائے؟ نصیبن اسے ڈانٹنے لگی۔

وہ جانتی ہے کہ بس کا یہی عالم رہا تو شہڈول پہنچتے پہنچتے شام ہو جائے گی۔

موسیٰ صبح اٹھا تو شہڈول جانے کی لگن میں جھٹ پٹ تیار ہو گیا۔  ہاں، اتنی صبح اسے پا خانہ کہاں سے آتا۔  رات نانا کے گھر دعوت ہوئی، تو جم کر ’’گوشت کا پلاؤ‘‘ کھایا گیا تھا۔  پھر ٹی وی پر ’’نکاح‘‘ نامی فلم دیکھی جانے لگی، تو سبھی بیٹھ گئے۔  پاکستانی اداکارہ سلمی آغا کا اس میں زبردست رول تھا۔

نصیبن کو ’’نکاح‘‘ کا وہ گانا کبھی نہیں بھولتا، جسے سلمی آغا نے اپنی پر سوز آواز میں گایا تھا۔  ’’دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے ‘‘

کتنی دلکش آواز ہے سلمی آغا کی۔۔ ۔

اسی گانے کی وجہ نصیبن ’’نکاح‘‘ کو خاص طور پر دیکھنا چاہتی تھی۔

ابا کو فلموں میں کوئی دلچسپی نہیں۔  وہ عشاء کی نماز ادا کرنے مسجد گئے، تو پھر کافی رات گئے واپس آئے۔  اماں نے کہہ بھی دیا تھا کہ چونکہ آج گوشت کے پلاؤ کا پروگرام ہے، تو مغرب کے فوراً بعد کھانا ملنے کا سوال ہی نہیں۔

آرام سے عشاء کے بعد کھانا ملے گا۔

نصیبن کے دو نکاح ہوئے، مگر اس نے اس سے پہلے کبھی ’’نکاح‘‘ نامی فلم دیکھی نہ تھی۔  نصیبن نے ’’طلاق‘‘ کا درد جھیلا تھا۔  نصیبن سسکیاں لے لے کر فلم دیکھتی رہی۔

بیچ بیچ میں آنے والے اشتہارات، تھوڑا خلل ضرور ڈالتے، لیکن اس سے نصیبن کو کوئی فرق نہ پڑتا۔  نصیبن کی اماں نے سمجھایا کہ اس مردود پر نہ رو بیٹی، اس کے جسم میں تو کیڑے پڑیں گے۔  ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا جمن، سمجھیں! اس نے میری پھول سی بیٹی کو بہت تکلیفیں دی ہیں۔  خدا اسے کبھی معاف نہ کرے گا۔

نصیبن کو فلم میں تب جا کر سکون ملا، جب دولہا میاں قاضی کے پاس جا کر روتے گڑگڑاتے ہیں۔  طلاق کے بعد سلمی آغا سے دوبارہ نکاح کیسے ہو سکتا ہے، اس کے لئے مسئلہ جاننا چاہتے ہیں۔

قاضی صاحب سمجھاتے ہیں، ’’اسی لیے کہا گیا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے طلاق کا لفظ نہ بولا جائے۔  قرآن شریف میں طلاق کی مذمت کی گئی ہے۔  ‘‘

تب تک ابا بھی آ گئے تھے۔  وہ مسئلے مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو وہ بھی بیٹھ کر فلم دیکھنے لگے۔

اسی سب میں کافی رات گزر گئی۔

اسے صبح پہلی بس سے جانا بھی تھا۔  اماں نے کہا کہ رات بہت ہو گئی ہے، اس لئے اب نصیبن چاہے تو دوسری بس سے شہڈول چلی جائے۔  دوسری بس آٹھ بجے صبح جاتی ہے۔  لیکن نصیبن نے کہا کہ وہ پہلی بس سے ہی جائے گی۔  ورنہ شہڈول پہنچنے میں بہت دیر ہو جائے گی۔  ادھر پنچایت کا الیکشن ہونے والا ہے اور دوسرے منیندرگڑھ سے شہڈول کے بیچ سڑک کی حالت بہت زیادہ خستہ ہو چکی ہے۔  ایک سو تیس کلومیٹر کے سفر میں پورے آٹھ سے نو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔  سڑک پر ایسے بڑے بڑے گڑھے ہیں کہ بسوں کا کمانی پٹہ جواب دے جاتا ہے۔  پوری ’’باڈی‘‘ جھنجھنا جاتی۔  بہت سی بسیں تو کباڑ ہو گئی ہیں۔  وہ توسواریاں مل جاتی ہیں، ورنہ بس کے مالک بس کھڑی رکھتے۔  اس روٹ پر بس چلانا، ایک نرا خسارے کا سودا ہے۔

اسی لیے نصیبن چاہتی تھی کہ دن رہتے وہ گھر چھوڑ دے۔

موسیٰ کی ضد سے پریشان ہو کر، وہ اسٹینڈپر بھنی مونگ پھلی کے ٹھیلے پر گئی اور پچاس گرام مونگ پھلی خریدی۔  مونگ پھلی والے نے ڈھائی روپے مانگے۔

’’ایک چھٹانک مونگ پھلی کے ڈھائی روپے؟‘‘ وہ چیخی۔

’’چلاتی کا ہے ہیں، پورے منیندرگڑھ میں یہی بھاؤ ہے۔  لینا ہو تو لیجئے؟ ‘‘ ٹھیلے والا بگڑ کر بھوت ہو گیا۔

’’دو روپیہ دیں گے، لینا ہو تو لو، ورنہ سامان واپس۔۔ ۔ ‘‘کہنے کو تو کہہ دیا اس نے مگرموسیٰ کی ضد کے آگے ہار مان کر وہ بولی، ’’اچھا ایسا کر کہ مجھے دو روپے کی مونگ پھلی ہی دے دو۔  تھوڑا کم کر لو اور کیا؟‘‘

مونگ پھلی پا کر موسیٰ جھوم اٹھا۔  وہ اپنی تتلائی آواز میں گانا گانے لگا۔

’’کہو نہ پیال ہے۔۔ ۔ ‘‘

نصیبن دل و جاں سے اس پر نثار ہو اٹھی۔  ممتا اس کی آنکھوں سے چھلکنے لگی۔  وہ موسیٰ کو مونگ پھلی چھیل چھیل کر دینے لگی۔  نصیبن، موسیٰ کو جان سے بھی زیادہ چاہتی ہے۔  اپنے محدود ذرائع کے درمیان رہتے، وہ موسیٰ کی ہر ضد پوری کرنے کی کوشش کرتی۔  اور ہمیشہ اللہ پاک پروردگار کا شکریہ ادا کیا کرتی۔

موسیٰ کے ابا بھی موسیٰ کو بہت پیار کرتے۔  آخر ادھیڑ عمری میں باپ بننے کا ایک الگ ہی مزہ ہے۔ موسیٰ کے ابا کا خیال کیا آیا کہ وہ بے چین ہو اٹھی۔

نصیبن کا دوسرا شوہر گلزار خان، فورمین۔۔ ۔  عمر پچپن سال۔۔ ۔  ڈھیر ساری خاندانی اور ذاتی جائیداد کے مالک۔۔ ۔  مگر آل اولاد کی خوشی سے محروم! جب تک پہلی بیوی زندہ رہی، دوسری شادی کا خیال بھی ذہن میں نہ آیا۔  گلزار خان کی پہلی بیوی کو ملیریا ہوا تھا۔  ملیریا کب ٹائیفائیڈ میں تبدیل اور کب اسے پیلیا بھی ہو گیا، کچھ پتہ نہ چلا۔  اس علاقے میں خون چیک اپ کی اچھی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔  گلزار خان نے اپنی بیوی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن اسے بچا نہ پایا۔

چونکہ گلزار خان بے اولاد تھے، لہذا گھر والوں کے دباؤ نے اس کا دوسرا نکاح نصیبن سے کرایا۔  گلزار خان نے بھی اپنی طرف سے یہی کہا کہ کسی کنواری لڑکی کی زندگی تباہ نہ کی جائے۔  نصیبن کی خالہ نے یہ رشتہ لگایا تھا۔  اس نے ہی ان لوگوں کو قائل کیا۔  گلزار خان کوئلے کی کان میں میکنک فورمین تھے۔  عزت دار کام، بی ٹائپ کوارٹر، بنی بنائی گر ہستی۔  گھر میں فرج، ٹی وی، واشنگ مشین،ا سکوٹر سب کچھ تھا۔  کمی تھی تو صرف اولاد کی۔

وہ کمی اس نے دور کر دی۔

نصیبن بانجھ نہ تھی۔

وہ کس سے بتاتی کہ اس نم زرخیز کوکھ کی زمین پر، بیج پڑا ہی نہ تھا۔

بس اسٹینڈ کے مشرق میں بنے شیڈ پر بیٹھے اناؤنسر کی آواز لاؤڈ اسپیکرز پر گونجی۔

’’ شہڈول جانے والے مسافر دھیان دیں۔۔ ۔  منیندرگڑھ سے بجروئی، کوتما، انوپ پور، املا، بُڑھار سے ہو کر شہڈول جانے والی بس آنے والی ہے۔  آپ لوگ اپنے سیٹ نمبر اور ٹکٹ کاؤنٹر پر بیٹھے ایجنٹ سے لے لیں۔ ‘‘

نصیبن کی سستی ختم ہوئی۔  اس نے موسیٰ سے کہا کہ وہ خاموشی سے سامان کے پاس بیٹھے، تو وہ ٹکٹ خرید کر لے آئے۔ موسی نہیں مانا۔  نصیبن نے جھنجھلا کر اسے آہستہ سے چپت لگائی۔  موسیٰ رونے لگا۔  وہ ایکدم ڈھیٹ ہے۔  ماں باپ کے بے انتہا دلار پیار سے وہ ضدی بھی ہو گیا ہے۔  نصیبن اس کا رونا برداشت نہیں کر سکتی۔  اس نے اسے گود میں اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے پلاسٹک کی ڈولچی اٹھا لی۔

ٹکٹ لے کر وہ دوبارہ انتظار گاہ میں آ گئی۔  وہ جہاں بیٹھی تھی وہیں ایک اور عورت بھی بیٹھی تھی۔  وہ گوری رنگت کی حامل ایک نوجوان خاتون تھی۔  مانگ پر سندور کی جگہ سفید چمکیلی سی ایک لکیر۔۔ ۔  ’’ا فشاں ‘‘ کی لکیر۔  یعنی یہ عورت بھی مسلمان ہی ہے۔

اس کے ساتھ تین بچے تھے۔  دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔  چھوٹی بیٹی ابھی گود میں ہے۔  وہ ماں کا دودھ پینے کو بے چین ہے۔  خاتون نے شلوار سوٹ پہن رکھا ہے۔  سفر میں شلوار سوٹ میں بچے کو دودھ پلانے میں دقت ہوتی ہے۔  بچی کی چیخ و پکار سے تنگ آ کر خاتون نے اُسے دو چپت جما دئیے۔  بچی اور زور زور سے رونے لگی۔

موسیٰ کو مونگ پھلی کھاتا دیکھ کر، اس خاتون کا چار سالہ بیٹا بھی کچھ کھانے کی ضد کرنے لگا۔  خاتون نے لاچار ہو کر پہلے تو گود کی بٹیا کا منہ زبردستی دوپٹے کے اندر کر کے تنگ سے کرتے کا دامن اس طرح اٹھانا چاہا کہ بدن بھی نہ جھلکے اور بچی دودھ بھی پی لے۔

اس کوشش میں اس کی دودھ بھری گوری چھاتیوں کی ایک جھلک نصیبن دیکھ پائی۔  نصیبن مسکرا اٹھی۔  اس خاتون نے سینے میں بچی کا منہ ٹھونس کر بیٹے کی طرف گھور کر دیکھا۔  بیٹا بدستور مونگ پھلی کھانے کی ضد مچائے ہوئے تھا۔

نصیبن سے اب خاموش نہ رہا گیا۔  اس نے موسیٰ سے کہا کہ وہ مونگ پھلی کے دوچار دانے اس روتے بچے کو بھی دے دے۔  وہ مان گیا۔  اس خاتون نے شکریہ ادا کیا۔ پھر دونوں خواتین مسکرا اٹھیں۔

کچھ لحاظ سے موسیٰ، باپ پر گیا ہے۔  گلزار بھی اسی طرح کے ہیں۔  اگرچہ وہ خود بھوکے رہ جائیں، لیکن مہمان کی خدمت میں کوئی کمی نہ کریں گے۔  بڑے دریا دل ہیں گلزار۔۔ ۔  عید ملنے اسے میکے آنا پڑ گیا، ورنہ وہ میاں کو ایک دن بھی تنہا نہیں چھوڑتی۔  اتنی زندگی گزارنے کے بعد تو وہ میاں والی ہوئی ہے۔  پہلا میاں تو صرف نام کا میاں تھا۔  نصیبن کے منہ میں کچھ کسیلا پن سا محسوس ہوا۔  پہلے شوہر جمن کا تصور اسے خوفزدہ کر دیتا ہے۔  جانے کیا کیا چاہتا تھا جمن اپنی بیوی سے۔

وہ چاہتا تھا کہ اس کی نامردی کی بات کسی بھی طرح سے ظاہر نہ ہونے پائے۔

وہ چاہتا تھا کہ چاہے جیسے بھی ہو نصیبن اس کے لئے اولادوں کی لائن لگا دے۔

وہ چاہتا تھا کہ نصیبن اس کی اندھی ماں اور اس کے بھائی کی خدمت میں رائی رتی کی کمی نہ کرے۔  ٹھیک اسی طرح جمن کی ماں اپنی بانجھ بہو کو رات دن طعنے مارا کرتی۔

بیٹے سے جھوٹی شکایتیں کرتی کہ بہو نے طریقے سے کھانا دیا نہ پانی۔۔ ۔  دن بھر صرف مجھ سے لڑتی رہتی ہے۔  بانجھ رانڈیں سبھی ایسی ہی ہوتی ہیں۔  میرے بیٹے پر ’’ٹوناہِن‘‘ نے جانے کیسا جادو کر دیا ہے کہ یہ کسی کی سنتا ہی نہیں۔

دیور الگ اپنا راگ الاپتا۔  وہ ایک سیٹھ کا ڈمپر چلاتا تھا۔  ریت مٹی وغیرہ کی نقل و حمل میں وہ ڈمپر لگا ہوا تھا۔  ریت مٹی کی لوڈنگ، ان لوڈنگ میں گاؤں کی ریجائیں اور مزدور لگا کرتے ہیں۔  اس کا چال چلن بھی ٹھیک نہ تھا۔  کئی ریجاؤں سے اس کے تعلقات تھے۔  وہ پورے سماج میں بدنام ہو چکا تھا۔  اسی لیے کوئی اپنی بیٹی کو اسے دینے کو تیار نہ ہوتا۔  ایک جگہ بات چل رہی تھی۔  لڑکی والے ذرا دب کر آئے تھے، کیونکہ ان کی بیٹی میں بہت سے عیوب تھے۔  لڑکی بھینگی اور کالی کلوٹی تھی۔  بدصورت کہیں تو کوئی حرج نہیں۔  اسی وقت ایسا ہوا کہ ریجاؤں کی بستی میں مار پیٹ اور شراب پی کر ہڑبونگ مچانے کے جرم میں دیور کو جیل ہو گئی۔  لڑکی والوں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وقت رہتے ان کی آنکھیں کھل گئیں۔  اور ان کی بیٹی برباد ہونے سے بچ گئی۔  کیا ہوا کہ بیٹی بدصورت ہے، مگر بد کردار تو نہیں۔

دیور اکثر اپنی بھاوج کو چھیڑتا، ’’بھیا سے کچھ نہ ہو پائے گا بھابھی۔  ایک بار اس بندے کو آزما کر دیکھو تو۔۔ ۔  شرطیہ لڑ کا ہو گا۔  جانے کتنی جگہ میں نے آزمایا ہے۔  ایک موقع خدمت کا ہمیں بھی تو دے کر دیکھو۔ ‘‘

وہ بدتمیزی سے ہنستا۔  ایک انتہائی فحش ہنسی۔۔ ۔  جس میں نگاہوں سے کپڑے اتارنے کی طاقت ہو۔  نصیبن اپنا دکھ کس سے کہتی؟ اس کا دل کرتا کہ وہ آگے بڑھ کر دیور کا منہ اپنے تیز ناخنوں سے نوچ لے یا یہ کہ اپنی بدنصیبی پر دہاڑیں مار مار کر روئے۔

معاشرے میں دیور بھاوج کے بیچ مذاق کو برا نہیں سمجھا جاتا۔  جمن سے کہے تو اس کی مار کھائے۔  ساس ٹھہری اندھی بہری، بیٹے کی محبت سے اس میں اچھائی برائی سمجھنے کا جذبہ بھی ختم ہو گیا تھا۔  وہ کسی بھی طریقے سے اس گھر میں بچے کی کلکاری سننا چاہتی تھی۔  اس معاملے میں وہ حق ناحق، بھلا برا، شرم حیا کچھ بھی نہیں مانتی تھی۔  بس پانی پی پی کر وہ بہو کو کوستی اور بیٹے کو اکساتی کہ وہ ایک اور نکاح کر لے۔  ورنہ اس کی نسل کا کیا ہو گا؟

اناؤنسر نے دوبارہ آواز لگائی، ’’ شہڈول جانے والی بس اب آنے ہی والی ہے۔  آپ لوگ اپنے اپنے ٹکٹ اور سیٹ نمبر لے لیں۔ ‘‘

نصیبن اپنی سوچوں سے باہر آئی۔

اس نے موسی کے ہاتھ سے مونگ پھلی کا لفافہ چھین کر ڈولچی میں رکھ لیا۔  وہ انتظار گاہ سے باہر نکل آئی۔  اس نے دیکھا کہ وہ عورت بھی اٹھ گئی ہے۔  شاید اسے بھی یہی بس پکڑنی ہو۔  دور کہیں بس کی گھرگھراہٹ سنائی دی۔

ایجنٹ اور اناؤنسر چوکنا ہو گئے۔  دیکھتے ہی دیکھتے بس آ گئی۔  نصیبن کو کھڑکی کے پاس والی لیڈیز سیٹ کا نمبر ملا تھا۔  نصیبن بس کے سفر میں کھڑکی کے پاس سیٹ چاہتی ہے۔  اسے ہمیشہ تازہ ہوا چاہئے۔  بس میں سواریاں بیڑی سگریٹ کا استعمال کرتی ہیں، تو اس بدبو سے اسے متلی آنے لگتی ہے۔  جاڑے میں بھی سفر کے دوران وہ کھڑکی کھلا رکھنا چاہتی۔ اگر دوسرے لوگ مخالفت کرتے ہیں تو وہ کھڑکی بند کرتی۔  تھوڑی سی جھری وہ پھر بھی کھلی رکھتی۔  تازہ ہوا سے تعلق جڑا رہے بس!ابھی وہ بس میں بیٹھی ہی تھی کہ اس کی بغل میں وہی عورت آ کر بیٹھ گئی۔ اپنے تینوں بچوں کے ساتھ۔  اسے کوئی آدمی بٹھانے آیا تھا۔  وہ آدمی جانے لگا تو عورت نے بچوں سے کہا، ’’ماموں کو سلام کرو!‘‘

نصیبن نے اب جانا کہ یہ بھی اپنے میکے سے آئی لگتی ہے۔  شاید عید ملنے آئی ہو۔  ویسے اسے کیا؟

نصیبن نے مسکرا کر اسے دیکھا۔  وہ بھی جواباً مسکرائی۔  اس کا بیٹا اب بھی رو رہا تھا۔  لڑکیاں بیچاری خاموش تھیں۔  نصیبن نے سوچا کہ لڑکیاں عموماً خاموش ہی رہتی ہیں۔  اگر یہ کہیں کہ بے زبان ہوتی ہیں، تو اس میں کوئی تعجب نہیں۔  یہی بے زبانی انہیں ظلم سہنے اور سسکنے کیلئے مجبور کرتی ہے۔  نصیبن بھی تو اسی بے زبانی کا شکار تھی۔  اگر وہ زبان والی ہوتی تو ضرور جمن کے الزاموں پر اپنا دفاع کرتی۔

کتنا سہا تھا اس نے!

بوڑھی اندھی ساس ایک عورت ہوتے ہوئے بھی اسے گناہ کے لئے مجبور کرتی۔  مانا کہ جمن سیدھے طریقے سے کچھ نہ کہتا، لیکن بالواسطہ اس کا اشارہ یہی ہوتا کہ اسے اولاد چاہیے۔  کسی بھی قیمت پر اسے اولاد چاہیے تھی۔

باقی باتوں کی وضاحت ساس کر دیتی۔

وہ کہتی، ’’رنڈی! ستی ساوتری بنتی ہے۔  اپنے دیور پر الزام لگاتی ہے۔  ارے گھر کی بات باہر لاتی ہے۔  تُو جا تو سہی، دیکھنا جمن کو کیسے اولاد والا بناتی ہوں۔ ‘‘

نصیبن لڑتی، ’’آپ کے بیٹے سے کچھ بھی نہ ہو پائے گا، وہ بچہ پیدا کرنے کے قابل تو کیا، کسی عورت کے بھی لائق نہیں۔ ‘‘

وہ بھری جوانی میں اپنے ٹھنڈے بستر اور مردہ راتوں کی بات کس طرح کہتی۔

’’رانڈ۔۔ ۔  دوش تیرے میں ہے۔  ارے، عورت چاہے تو پتھر بھی پگھل جائے۔  ہر سال بکری اور کتیا کی طرح گابھن ہوتی رہے۔  یہ کہہ نا کہ تیری کوکھ میں طاقت ہی نہیں۔ ‘‘

’’نہیں اماں! تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔۔ ۔  تُو مان کہ تیرا بیٹا کسی کام کا نہیں، سوائے روزہ نماز، روزی روٹی کے۔  میٹھا بولتا ہے اور مسکراتا رہتا ہے، اس سے یہ نہ سمجھیو کہ وہ بڑا مرد ہے۔ ‘‘ وہ کیسے کہے کہ ہجڑا ہے جمن ایکدم ہجڑا!

ساس رونے دھونے لگتی، ’’پتہ نہیں کس گھڑی میں نے تجھے پسند کیا۔  کمینی تھی نند سالی، میری دشمن، وہی تیرا رشتہ لائی تھی۔  اس نے تو تجھے ہمارے گلے منڈھ کر ہم سے بدلہ لے ہی لیا۔۔ ۔  اب ہمیں زندگی بھر یہی ڈھول بجانا ہو گا۔  لیکن نہیں، میں پوتا کھلائے بغیر مروں گی نہیں۔  میں نے حضرت جی سے بات کی ہے۔  انہوں نے کہہ دیا ہے کہ اولاد کے لئے دوسرا یا تیسرا کیا، چوتھا نکاح بھی جائز ہے۔  میں نے تو لڑکی بھی دیکھ لی ہے۔  بس، یہ جورو کا غلام جمنوا ایک بار ’’ہاں ‘‘ بھر بول دے۔  دوسرے دن ہی نکاح کروا دوں۔ ‘‘

وہ بھی چڑ جاتی، ’’تب ایسا ہے کہ گابھن بہو لانا۔  ایک دو ماہ کے پیٹ والی ہو۔  میکے سے اولاد لے آئی تو ٹھیک، ورنہ اسے بھی میری طرح سوتن برداشت کرنا ہو گی۔ ‘‘

ساس بھی کہاں کم تھی۔  اس نے بھی دنیا دیکھی تھی۔  بوڑھی عورت نے کہا، ’’اولاد کیلئے کچھ نہ کچھ گنوانا تو ہو گا ہی۔  ایسے رونے دھونے سے کوئی فائدہ نہیں۔  تُو بانجھ ہے سمجھی! اب تو جمن کیلئے گھر میں ایک نئی بہو لے آنا ہے بس! ‘‘

وہ کیا کہتی سوائے اس کے کہ سوتن کے ساتھ وہ نہیں جی پائے گی، اور یہ بھی کہ وہ خود کشی نہیں کرے گی! وہ پورے معاشرے کو چیخ چیخ کر بتائے گی کہ جمن نامرد ہے۔  اس سے اولاد کیا کنکر پتھر بھی پیدا ہونا مشکل ہے۔  وہ اسے چھوڑ کر دوسرا نکاح کیا کرے گا۔  اسی بات پر وہ جمن سے خود خلع لے لے گی۔

آخر ہوا بھی یہی۔۔ ۔  ایک دن پتہ چلا کہ جمن اب دوسرا نکاح کرنے والا ہے۔  اسلام میں پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسرا نکاح کرنے پر پابندی نہیں۔  وہ جمن کو اس کیلئے مجبور نہیں کر سکتی تھی۔

اس نے سوچ لیا کہ اس دروازے اب اسے نہیں جھانکنا۔۔ ۔  اور وہ اپنی خالہ کے گھر چلی گئی۔  وہاں سے خالہ اور خالو دونوں نے جمن پر دباؤ ڈالنا چاہا، مگر جمن اپنی ماں کے فرمان کے آگے بے بس نکلا۔  کہتے ہیں کہ اندھی ساس نے دوسری بہو لانے میں بڑی چالاکی کی۔  وہ جان بوجھ کر ایسی لڑکی کو لے آئی، جس کے پیٹ میں ڈیڑھ ماہ کا حمل تھا۔  ہاں، تحقیقات سے یہ بھی جان لیا تھا کہ اس لڑکی کے پیٹ میں کسی غیر کا نہیں بلکہ اپنے ہی جیجا کا نطفہ ہے۔

یہی تو ساس نصیبن سے چاہتی تھی۔  لیکن۔۔ ۔

ہوا نہیں ویسا کچھ، جیسا نصیبن چاہتی تھی یا یہ کہ ساس شوہر دیور کی خواہش تھی۔

نصیبن ضد پر اڑی رہی کہ دوش آدمی میں ہے۔  لہٰذا دوسری شادی اس مسئلہ کا حل نہیں۔

ساس نے حضرت جی کی چوکھٹ میں اپنی پریشانیاں رکھیں۔  چراغاں میں اچھی خاصی رقم چڑھائی۔  حضرت جی پر اس کا اچھا اثر پڑا۔

انہوں نے ساس سے پوچھا، ’’آپ اس سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہیں؟‘‘

’’ ہاں، حضرت جی! مجھ رانڈ اندھی کو پوتے کا منہ دیکھنا ہے۔  اس سے کچھ ہو گا نہیں۔  میں نے جمن کے لئے ایک لڑکی دیکھی ہے۔  رشتے داروں سے ہیں۔  پیدائشی سنی ہیں وہ لوگ۔۔ ۔  یہ نصیبن تو وہابی گھر سے ہے حضرت جی! ‘‘

حضرت جی کے کان کھڑے ہوئے، ’’کیا کہا، دیوبندی گھر سے ہے آپ کی پہلی بہو؟‘‘

’’ ہاں، حضرت جی۔۔ ۔! ’’

’’بس پھر کیا ہے۔  طلاق دے دو اس ’’منافق‘‘ کو۔  یہ دیوبندی لوگ ’’کافروں ‘‘ سے بھی بدتر ہیں۔  ان سے ’’سلام مصافحہ‘‘، کھانا پینا، اور رشتے داری وغیرہ کی ممانعت ہے۔  آپ نے نکاح سے پہلے اس کی تصدیق نہیں تھی کیا؟ ورنہ آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔  اچھا ہوا، اللہ تعالیٰ نے اس ’’منافق‘‘ سے آپ کے گھر میں اولاد نہ دی۔  آپ صرف اسی بنا پر طلاق حاصل کر سکتے ہیں کہ آپ کی بہو بد عقیدہ ہے۔ ‘‘

کہا بھی گیا ہے کہ ایک بار کافر کا اعتبار کر لو مگر دیوبندی یا وہابی پر قطعی اعتماد نہ کرو۔  ان لوگوں کو اللہ کے پیارے رسول پر ایمان نہیں۔  یہ بد عقیدہ لوگ نبیوں کے نبی، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی طرح کا ایک انسان سمجھتے ہیں۔

یہ ان پر درود نہیں بھیجتے، زندہ اولیاء اور بزرگوں کی کرامات پر یقین نہیں رکھتے۔  یہ لوگ بریلویوں کو ’’بدعتی‘‘ سمجھتے ہیں۔  جبکہ یہ کافروں سے بھی بدتر ہیں۔  ان کے سائے سے بھی بچنا چاہئے۔

اور دیوبندی ہونے کی بنا پر جمن نے اسے طلاق دے دی تھی۔

بس اسٹارٹ ہوئی۔  بغل والی عورت کچھ پر سکون ہوئی۔

نصیبن نے اس کے بچوں کو پیار کیا۔

نصیبن نے ان سے ان کے نام پوچھے۔  بچوں نے تتلا کر اپنے نام بتائے، جسے بس کی گھرگھراہٹ میں وہ سن نہ پائی۔  پھر اس نے ان سے پوچھا، ’’کہاں جانا ہے؟‘‘

جواب بچوں کی ماں نے دیا۔  ’’شہڈول۔۔ ۔ ‘‘

پھر بات کو آگے بڑھانے کی غرض سے اس نے پوچھا، ’’اور آپ کہاں جا رہی ہیں؟‘‘

’’شہڈول۔ ‘‘

’’دیکھئے کب تک پہنچاتی ہے بس۔۔ ۔  پہلے ہی لیٹ ہو گئی ہے۔  آگے نہ جانے کیا ہو؟‘‘

’’ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ، اگر یہی حال رہا تو رات تک ہی شہڈول پہنچ پائیں گے!‘‘

’’اب جو ہو سو ہو۔۔ ۔  اور کوئی راستہ بھی نہیں۔  راستہ بھی اوپر سے اتنا خراب ہے کہ بس چاہے بھی تو  تیز بھاگنا، تو بھاگ نہیں سکتی۔  اب تو سڑک پر بڑے بڑے گڑھے بن گئے ہیں۔ ‘‘

’’پیچھے سیٹ ملے تو میں سفر ہی نہ کروں۔۔ ۔  آگے ٹھیک ہے۔  دھچکے اتنے پتہ نہیں چلتے۔ ‘‘

اس گفتگو کے بعد ایک خاموشی۔۔ ۔  کنڈیکٹر آیا۔

ٹکٹ کے پیسے بڑھائے۔

کنڈیکٹر نے دو انچ کے مریل سے کاغذ کا ایک ٹکٹ دیا۔  اِدھر کی نجی بسوں میں اسی طرح کے ٹکٹ ملتے ہیں۔  وہ بھی کبھی دیا تو دیا، ورنہ گول!

کھڑکی پوری کھلی تھی۔

بغل والی نے ٹوکا، ’’چھٹکی کو بخار ہے۔  ذرا کھڑکی تو بند کر لیجئے۔۔ ۔ ‘‘

نصیبن نے مروّت میں کھڑکی بند کی۔  لیکن تھوڑی سی جھری چھوڑ دی تاکہ اسے تازہ ہوا ملتی رہے۔

’’کیا ہوا اسے؟‘‘

’’کچھ نہیں، کل اس کے ماموں نے اسے آئس کریم کھلا دی تھی۔  رات میں ہلکا سا بخار ہو گیا۔  میں تو ڈر رہی ہوں کہ اس کے ابا کو کیا بتاؤں گی۔۔ ۔  وہ مجھے بہت ڈانٹیں گے۔ ‘‘

’’تو کیا آپ نے جان بوجھ کر بخار سے کہا ہے کہ میرے بچے کے بدن پر آ کر بیٹھے۔ ‘‘

’’یہ بات نہیں۔  انہیں اپنی اولاد سے بہت محبت ہے۔  وہ تو اچھا ہے کہ ساس نہیں رہی، ورنہ وہ اندھی تو بہت گرجتی! ‘‘

’’اندھی ساس!‘‘ نصیبن کا ما تھا ٹھنکا۔  اسے اپنے پہلے شوہر جمن کی ماں کی یاد آئی۔

’’ ہاں آپا۔ ‘‘ جانے کیوں اس عورت نے اس سے بہناپا جوڑ لیا۔

نصیبن کو اس عورت میں دلچسپی پیدا ہوئی۔

اس نے اس سے پوچھا، ’’شہڈول میں آپ کی سسرال ہے؟‘‘

’’ ہاں۔ ‘‘ مختصر سا جواب آ یا۔

’’ کہاں پر گھر ہے؟‘‘ نصیبن کا تجسس عروج پر تھا۔

’’اتواری محلہ میں۔ ‘‘ عورت نے سادے سے انداز میں جواب دیا۔

اتواری محلہ، مطلب اتواری محلہ میں تو، اس کی پہلی سسرال تھی۔  اس نے فوری طور پر اگلا سوال داغا۔

’’کیا نام ہے آپ شوہر کا؟‘‘

نصیبن نے اپنی آنکھیں جواب سننے سے پہلے بند کر لیں۔

اس عورت نے اپنے شوہر کا نام بتانے میں ہچکچاہٹ سے کام لیا۔  اس نے اپنی بچی سے کہا، ’’بٹیا ابو کا نام چچی کو بتا دو!‘‘

بٹیا نے اٹکتے ہوئے کہا، ’’جمن۔۔ ۔ ‘‘

نصیبن کی آنکھیں بند تھیں۔

ایک بم سا پھٹا تھا، اس کے کان کے پاس! ‘‘جمن‘‘ کاش! اس نے اپنے کان بھی بند کر لئے ہوتے۔

***

 

 

 

 

پِیرُو حجام عرف حضرت جی

 

ایک صبح فجر کی نماز سے پہلے، حضرت جی کی لاش باتھ روم میں گُو مُوت سے لتھڑی پڑی ملی۔  لاش دیکھ کر ایسا لگتا تھا، جیسے مرنے سے پہلے باتھ روم سے نکلنے کے لئے، انہوں نے کافی جد و جہد کی ہو۔ اس کوشش میں وہ کئی بار گرے ہوں گے اور پھر اٹھنے کی کوشش کی ہو گی۔ ان کے کپڑے، ہاتھ پاؤں یہاں تک کے پورا بدن ہی گندگی سے سنا ہوا تھا۔ ہمیشہ مشک و عنبرسے بسا رہنے والا بدن اتنا غلیظ دکھ رہا تھا کہ ابکائی آ جائے۔  حضرت جی کے عالیشان کمرے میں اٹیچ باتھ روم تھا۔ چکنے، چمکدار ٹائلز اور موزائیک کا کمال۔۔ ۔  جو حضرت جی کی نفیس فطرت ظاہر کرتا تھا۔

چونسٹھ سالہ حضرت جی کو آج جس حالت میں ’’گُو مُوت‘‘ نے اپنی آغوش میں لیا تھا، اسے دیکھ کوئی کیسے یقین کرے کہ یہ کسی مقدس شخصیت کی لاش ہے۔ سید شاہ بابا کی درگاہ کے گدی نشین، تعمیر کنندہ اور سربراہ حضرت جی کا اتنا المناک اختتام!

پہلے اس درگاہ شریف میں صرف ایک ہی مزار تھا۔

سید شاہ بابا کا مزار۔

اب وہاں دو مزار ہیں۔

ایک تو سید شاہ بابا اور دوسرا جناب حضرت جی کا۔

حضرت جی یعنی سید شاہ بابا کے مزار کی خواہش کو حقیقت میں بدلنے والی شخصیت یعنی کہ پِیرُو حجام کا۔۔ ۔

حضرت جی کی پِیرُو حجام سے پیر بننے کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔

آج جہاں سید شاہ بابا کا مزار ہے، پہلے وہاں ایک خشک پیپل کے درخت کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔

پہلے حضرت جی بھی تو حضرت جی نہ تھے۔

گاندھی چوک پر ان کی حجامت کی ایک چھوٹی موٹی دکان تھی۔

پِیرُو حجام کی دکان۔

وہ خاندانی نائی تھے۔

ان کے باپ دادا خلیفہ کہلاتے تھے۔

ختنہ کرنے والے خلیفہ۔۔ ۔

حضرت جی نے پشتینی دھندہ چھوڑ کر حجامت والا دھندہ پکڑا۔

ان تین بیویوں سے پیدا ہوئے کوئی درجن بھر اولادوں میں سے، دو بیٹے اب اسی دھندے میں ہیں۔

کہتے ہیں کہ پِیرُو حجام یعنی کہ حضرت جی بچپن سے ہی بہت خرافاتی مزاج کے تھے۔

بالغ ہوئے تو فطرتاً مقامی مسجد کے صدر بننے کا خواب دیکھنے لگے۔

تب شہر میں ایک ہی مسجد تھی۔  وہاں شیخ، سیدوں اور نو دولتمند تاجروں کا اثرو رسوخ تھا۔  اور انہی لوگوں کے بیچ سے صدر، سکریٹری وغیرہ منتخب کئے جاتے تھے۔

وہاں حضرت جی کی کہاں چلتی۔

اسی لیے انہوں نے جلاہوں، قصائیوں، دھُنیوں اور دیگر پسماندہ اور نچلی ذاتوں کے مسلمانوں کو منظم کرنا چاہا۔

جامع مسجد کے بڑے امام صاحب دیوبندی تھے اور ان کی دیکھ بھال میں کسی طرح کا ہنگامہ نہ تھا۔  چھوٹے بڑے سب ان نورانی شخصیت کا ادب و احترام کرتے تھے۔

وہاں حضرت جی کو کامیابی نہ ملی۔

تب حضرت جی نے جامع مسجد کے تمام نمازیوں کے خلاف فتوی دلوانے کا جگاڑ کیا کہ جامع مسجد وہابیوں کی مسجد ہے۔  وہاں نبیوں کے سردار حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر درود وسلام نہیں پڑھا جاتا ہے۔  یہ دیوبندی وہابی لوگ ولیوں اور بزرگوں کو نہیں مانتے۔  بزرگوں کے مزارات کا مذاق اڑاتے ہیں۔  بد دین ہوتے ہیں یہ دیوبندی وہابی، ان سے تو کافر بھلے۔

ان وہابیوں کے پیچھے نماز پڑھنا حرام ہے۔

ان دیوبندیوں میں سے کوئی اگر سلام کرے، تو جواب نہ دو۔

ان سے روٹی بیٹی کا تعلق نہ بناؤ۔

حضرت جی کے اس پروپیگنڈے کو بریلی سے آئے ایک مولانا نے شہ بھی دی۔ آخر کار کچھ لوگ ان کے مزاج کے مل ہی گئے۔

حضرت جی کو پرانی مسجد میں اپنا حق نہ ملنے کا اندیشہ تھا، تو وہ اپنے گھر کے ایک کمرے میں با جماعت نماز ادا کرنے لگے۔  ان کے کچھ شاگرد بھی بن گئے۔

حضرت جی کے چہرے پر نورانی داڑھی آ گئی۔  کھچڑی بالوں پر مہندی لگائی، تو ایک نئی شخصیت بن گئی۔  سر پر سبز پگڑی باندھی اور گلے میں کالے، نیلے، لال، پیلے، ہرے، سفید پتھروں کی مالا ڈالنے پر وہ اب سکہ بند بابا بن گئے۔

موٹوانی ایک فوٹو گرافر تھا۔  اس کا دھندہ بڑا مندا چلتا تھا۔  اس کے لئے حضرت جی نے دعائیں کیں۔

ان دعاؤں کی بدولت موٹوانی کا اسٹوڈیو چمک اٹھا۔

اب یہ حضرت جی کی دعاؤں کا نتیجہ ہو یا میونسپل والوں کی مہربانی! اس اسٹوڈیو کے سامنے سے گزرنے والی گلی کو، میونسپل والوں نے بڑھا کر، اسے ہائی اسکول اور کچہری جانے والی سڑک سے جوڑ دیا تھا۔

موٹوانی کی آمدنی بڑھ گئی۔

اب موٹوانی کے پاس ایک جاپانی فوٹوکاپی مشین بھی آ گئی۔

اس نے تین چار ملازم رکھ لئے۔

وہ حضرت جی کا مرید بن گیا۔

حضرت جی کی تیسری شادی کرانے میں اس کا اہم رول تھا۔

موٹوانی کے پروپیگنڈہ کی وجہ سے حضرت جی کے جھاڑ پھونک اور دعا تعویذ کا کاروبار چمک اٹھا۔  دھندہ مندا ہو تو تیز ہو جائے گا۔  لڑکا نہ ہو رہا ہو تو تعویذ سے لڑکوں کی لائن لگ جائے گی۔  شوہر شرابی ہو یا کہ ادھر ادھر منہ مار دیتا ہو تو اسے صحیح راستے پر لانے کے لئے حضرت جی سے دعائیں کروا لو۔  کورٹ کچہری کا چکر ہو تو مقدمے کا فیصلہ آپ کے حق میں ہو گا۔

لوگوں نے انہیں زندہ ولی قرار دیا تھا۔

ایک صبح حضرت جی نے فجر کی نماز کے وقت، مریدوں کے سامنے اپنے ایک خواب کا ذکر کیا۔

انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ بائی پاس چورا ہے کے قریب قبرستان سے ملحق زمین پر جو پیپل کا درخت ہے، اس کے پاس ایک بزرگ سید شاہ بابا کی قبرِ مبارک ہے۔

مرحوم حضرت سید شاہ بابا نے خود خواب میں آ کر انہیں اس جگہ کی نشاندہی کی ہے۔

موٹوانی کو خبر ملی۔

وہ بھاگا بھاگا حضرت جی کے پاس آیا۔

حضرت جی نے اس سے بھی یہی بات بتائی۔

موٹوانی حضرت جی کو اپنی ماروتی میں بٹھا کر بائی پاس چوراہا لے گیا۔

وہاں واقعی قبرستان کے کونے پر ایک خشک پیپل کا درخت تھا۔

درخت ایک ہریجن استاد چندو بھائی کی زمین پر تھا۔

چندو بھائی نے جب موٹوانی سے حضرت جی کے خواب کے بارے میں سنا، تو اس نے فوراً زمین کا وہ ٹکڑا سید شاہ بابا کے مزار کے نام کرنے کا یقین دلایا۔

اس نے شرط بس اتنی رکھی کہ اس زمین پر جو بھی کام کیا جائے، اس کی اطلاع چندو بھائی کو بھی ضرور دی جائے۔

اس میں بھلا کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟

حضرت جی، موٹوانی اور چندو بھائی یہی تینوں اس زمین کے ٹکڑے کر کے ٹرسٹیز بنے۔

حضرت جی کے مسلمان مریدوں نے اعتراض کیا۔  اسلامی کاموں میں غیروں کو اتنی اہمیت دینا ٹھیک نہیں۔  سب سے پہلے باقاعدہ ایک کمیٹی بنائی جائے۔  حضرت جی اس کے اہم عہدیدار رہیں اور پھر سید شاہ بابا کے درگاہ کی تعمیر کا کام ہاتھ میں لیا جائے۔

ان مخالفت کرنے والوں میں سلیمان درزی اور عزیز قریشی اہم تھے۔

حضرت جی نے انہیں اپنے گروپ میں شامل تو کر لیا، مگر رسمی طور پر کوئی کمیٹی نہ بننے دی۔

اسی لیے حضرت جی کی موت کے بعد مشکلات پیش آنی شروع ہوئیں۔

موٹوانی نے صاف صاف اعلان کر دیا کہ حضرت جی کا جو حکم ہو گا، اس تعمیل کی جائے گی۔

سلیمان درزی اور عزیز قریشی دل مسوس کر رہ گئے۔  مسلمانوں کی زیارت گاہ پر غیر مسلموں کی اس طرح کی دخل اندازی، ناقابل برداشت تھی۔

مگر کیا بھی کیا جا سکتا تھا؟

موٹوانی اور چندو بھائی کی وجہ سے ہی اس نئے مزار پر بھیڑ بڑھنے لگی۔

شروع شروع میں جو مسلمان اس اتحاد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، وہ بھی آہستہ آہستہ پگھلنے لگے۔

ہر جمعرات کو چڑھاوا آنے لگا۔ زائرین کی تعداد میں بھی آہستہ آہستہ اطمینان بخش اضافہ ہونے لگا۔  وہاں پر اب زوردار سالانہ عرس منعقد ہونے لگا۔  بنارس اور پٹنہ سے قوال بلائے جانے لگے۔  آس پاس خوانچے اور دیگر ضروریات کی دکانیں سجنے لگیں۔

موٹوانی نے شہر کے مشہور پینٹر مشتاق سے سید شاہ بابا کی ایک تصویر بنوائی۔

پینٹر مشتاق ایک نمبر کا شرابی تھا۔  اس نے حضرت جی سے خواب والے بزرگ سید شاہ بابا کا حلیہ پوچھا۔  ان کے بیان اور اپنے تخیل کے زور سے اس نے کئی تصویریں بنائیں۔

ایک تصویر کو حضرت جی نے منظوری دے دی۔

وہ ایک سفید داڑھی اور بڑی بڑی آنکھوں والے خوبصورت بزرگ کی تصویر تھی۔

موٹوانی نے اپنی عقل استعمال کر کے اس تصویر کے ساتھ، پیپل کے سوکھے درخت اور درگاہ شریف کی تصویر کا ایک بہترین کولاج سیٹ کروا کر، اسے بہت بڑے سائز میں پرنٹ کروایا۔

اس نے ان تصاویر کو مزار شریف کے باہر لگنے والی پھول شیرینی کی دکانوں میں بھی زائرین کے لئے رکھوایا۔

موٹوانی کا بیٹا بڑا ہوشیار تھا۔  بارہویں کلاس میں تیسری بار فیل ہونے کے بعد وہ دھندے میں لگ گیا تھا۔  اس نے عرس کے موقع پر منعقدہ قوالی کے پروگرام کی ریکارڈنگ کروائی اور کٹنی جا کر چند کیسٹس تیار کروا لئے۔  ان کیسٹس میں سید شاہ بابا کی درگاہ کی شان و عظمت پر مبنی، بہترین قوالیاں موجود تھیں۔  ان کیسٹس کی ڈیمانڈ بڑھی، تو پھر اس کا بھی ایک سلسلے وار دھندہ بن گیا۔

اس سے سید شاہ بابا کی مزار کی بھرپور مشہوری ہوئی، مگر کسے پتہ تھا کہ اتنی بڑی مذہبی شخصیت جناب حضرت جی کا اتنا غلیظ انجام ہو گا!

حضرت جی کی لاش پر اب مکھیاں بھی بھنبھنانے لگی تھیں۔

سید شاہ بابا کے مزار کے سربراہ کی حالت زار پر، ان کی درجن بھر اولادیں اور تینوں بیویاں دہاڑے مار مار کر رو رہی تھیں۔

حضرت جی کا یہ کمرہ بڑا عالیشان تھا، اس کے دو حصے تھے۔

ایک طرف شاندار ڈبل بیڈ، بڑی سی الماری، قد آدم آئینے والی ایک ڈریسنگ ٹیبل، کونے میں رکھا ہوا ایک شوکیس، جس پر رکھا تھا ایک کلر ٹیلی ویژن۔  دوسرے حصے میں حضرت جی کی عبادت گاہ تھی۔  خوبصورت قالین جیسی جائے نماز، کتابوں کی الماری جس میں عربی اردو کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔

اس افراتفری کے ماحول میں کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا کہ اب کیا کرنا ہو گا؟

مرحوم حضرت جی کی تیسری بیوی کلثوم اور ان کے بڑے بیٹے حیدر نے روتے روتے ایک دوسرے کو دیکھا، تو جیسے انہیں لگا کہ اس طرح رو رو کر وقت برباد کرنے سے بہتر ہے کہ کچھ ٹھوس فیصلے کئے جائیں۔

باقی لوگوں کو روتا دھوتا چھوڑ کر، وہ دوسرے کمرے میں آ گئے۔

یہ کلثوم بیگم کا کمرہ تھا۔

حضرت جی کی سب سے پیاری بیوی کا کمرہ۔۔ ۔  حضرت جی نے خود اس کمرے کی سجاوٹ میں دلچسپی لی تھی۔  حضرت جی کی نفیس سوچ کا ایک منفرد نمونہ!

ہلکے گلابی رنگ کی دیواریں اور اسی رنگ کی تمام چیزیں۔

کونے پر شاہی مسہری۔  موٹا گدا۔  مخملی چادریں اور نرم گاؤ تکیے۔

کلثوم بیگم مسہری پر بیٹھ گئیں۔

حیدر ان کے سامنے قالین پر رکھے موڑھے پر بیٹھ گیا۔

حضرت جی کی پہلی بیوی کا بیٹا حیدر، کلثوم بیگم کو دھیان سے دیکھنے لگا۔

کلثوم محض تیس برس کی کسے بدن والی لڑکی تھی۔

حضرت جی سے شادی سے پہلے اس کا نام کسم تھا۔

کسم سے کلثوم بننے کی بھی ایک کہانی ہے۔

موٹوانی کے پھیلائے جال میں کسم کا تیلی باپ پھنس گیا۔

کسم کے باپ گردھاری گپتا کی شہر میں ایک ویران اور بے رونق سی کریانہ کی دکان تھی۔  سیٹھ گردھاری گپتا جب خود دکان پر بیٹھتا، تو ایک بھی گاہک نہ آتا۔  جب اس کی بیٹیاں دکان سنبھالتیں، تب کہیں جا کر ‘ ‘بوہنی بٹّا‘‘ ہو پاتا۔

کہنے والے کہتے کہ گردھاری گپتا کی دکان میں ہر سائز کا مال ملتا ہے۔

پانچ بیٹیاں، پانچ سائز۔۔ ۔

گردھاری گپتا نے ایک عدد بیٹے کی کھوج میں گپتائن کے ساتھ کئی تجربات کئے۔  پانچ بیٹیوں کے بعد اسے بیوی کی خراب ہو چکی بچے دانی کا آپریشن کروانا پڑا۔  پر بیٹا ایک بھی نہ ہوا۔

کسم منجھلی بیٹی تھی۔

اس سے بڑی ایک بہن نے ہاتھ پیلے نہ ہونے کے غم میں خود کشی کی تھی۔

فطرتاً چنچل کسم بے وقت مرنا نہیں چاہتی تھی۔

اسے زندگی سے پیار تھا۔

موٹوانی کا ا سٹوڈیو اس کی دکان کے سامنے تھا۔

لڑکے والوں کو دکھانے کے لئے وہاں سے، اس کی کئی تصویریں کھنچوائی گئی تھیں۔

موٹوانی فارغ وقت میں اپنے اسٹوڈیو سے بیٹھاکسم کو لائن مارا کرتا تھا۔

اس امید پر کہ شاید کبھی تو وہ پگھلے اور کسم کون سا پتھر تھی کہ نہ پگھلتی۔

موٹوانی نے کسم کی سینکڑوں تصویریں مختلف پوزوں میں کھینچیں۔  لڑکے والے کسم کو پسند کر بھی لیتے، مگر جہیز کی ڈیمانڈ کے آگے گردھاری گپتا گھٹنے ٹیک دیتے۔

ایک دن موٹوانی نے گردھاری گپتا کو بیٹیوں کے موزوں وروں کے لئے، سید شاہ بابا کی درگاہ پر جا کر منت مانگنے کا مشورہ دیا۔

پھر تو گردھاری گپتا کے خاندان کا درگاہ شریف جا کر منتیں مانگنے کا سلسلہ ہی بن گیا۔

حضرت جی تب ادھیڑ تھے۔  ان کے تندرست بدن پر روحانیت کا رنگ بے مثال تھا۔  جب سے وہ درگاہ شریف کے متولی بنے، انہیں اچھی خوراک بھی ملنے لگی۔  گال گلابی اور آنکھیں نشیلی سی لگنے لگی تھیں۔  درگاہ شریف میں آنے والی خواتین ان کی خوبصورت شخصیت کے سحر کا شکار ہونے لگی تھیں۔

حضرت جی کی دو بیویاں تھیں، مگر اب ان میں وہ بات نہ تھی۔

کسم حضرت جی کی سحر انگیز شخصیت کے جال میں کب قید ہوئی، اسے پتہ ہی نہ چلا۔

موٹوانی سے اس کا چکر چل ہی رہا تھا۔

حضرت جی بھی چاہتے تھے کہ کسم ان کی محبوبہ بنے۔

اور کسم نے خود ایک دن انہیں اس کا موقع فراہم کر دیا۔

ایک جمعرات، جب وہ ماں کے ساتھ مزار شریف پر نذرانۂ عقیدت پیش کرنے آئی، تب اس نے حضرت جی کو اکیلے پا کر ان سے دریافت کیا۔

حضرت جی کے ہاتھوں میں مورپنکھ کا جھاڑو تھا اور وہ اس سے سید شاہ بابا کے مزار کی صفائی میں مصروف تھے۔

ان کے پاس جا کر کسم نے کہا، ’’’میں خود کشی کرنا نہیں چاہتی حضرت جی۔۔!‘‘

حضرت جی نے آنکھیں جھپکائیں، یعنی کہ چڑیا خود جال میں آئی ہے۔

’’۔۔ ۔  میری مری دیدی کی روح مجھے اپنے پاس بلاتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ میں بھی گلے میں دوپٹہ ڈال کر چھت سے جھول جاؤں۔  میں کیا کروں بابا؟۔۔ ۔  مجھے راہ دکھائیے۔  ‘‘

حضرت جی نے کہا کہ تم سید شاہ بابا کے مزار کی خدمتگار بن جاؤ اور یہاں آنے والی خواتین اور شردھالو مہلاؤں کی خدمت کرو۔

کسم تیار ہو گئی۔

شہر میں اس کی مخالفت ہوئی۔

ہندوتوا وادی سنگٹھنوں نے جب ایک ہندو لڑکی کا یہ اقدام دیکھا تو وہ ہاف پتلونوں اور دھوتیوں سے باہر ہوئے۔

کسم نے کسی بھی طرح مزار شریف سے باہر نکلنا قبول نہ کیا، تب حضرت جی نے صورتِ حال کو سنبھالا۔

انہوں نے کسم کو نکاح کی پیشکش کی۔

اس طرح کسم ان کی تیسری بیوی بنی۔

اس کا نام نکاح کے بعد کلثوم ہو گیا۔

حضرت جی کا بڑا بیٹا حیدر، کسم کے ساتھ پرائمری اسکول میں پڑھ چکا تھا۔

اس نے باپ کی تھوڑی مخالفت کی، مگر کسم سے کلثوم بنی، کسم نے جلد ہی اسے یہ احساس کرا دیا کہ وہ اس کی چھوٹی ماں نہیں رہے گی، بلکہ وہ تو اس کی کسم ہی رہے گی۔

کلثوم کے موٹوانی سے جسمانی تعلقات پہلے ہی سے تھے۔  اب اس فہرست میں دو اور لوگ شامل ہو گئے۔  حضرت جی اور ان کا بڑا بیٹا حیدر۔

درگاہ کمیٹی کے لوگ سب جانتے تھے، لیکن حضرت جی کے آگے کسی کی نہ چلتی۔

حضرت جی کی بے وقت موت سے پیدا ہوئے اس بحران میں، حیدر جانتا تھا کہ کلثوم بی بی کوئی نہ کوئی آسان حل ضرور نکال لے گی۔

کلثوم بیگم کی مسہری کی سائیڈ ٹیبل پر فون رکھا تھا۔

یہ فون خاص کلثوم بیگم کے لئے لگایا گیا تھا۔  اس سے صرف وہی بات کیا کرتیں۔

گھر میں جو دوسرا فون تھا، اسے دیگر گھر والے استعمال کرتے تھے۔

حیدر فون کی طرف دیکھ رہا تھا، جس کا مطلب کلثوم بیگم سمجھ گئیں۔

کلثوم بیگم نے فوری طور پر موٹوانی کا نمبر ملایا۔

کلثوم بیگم کی کھوئی کھوئی اور حیرت میں ڈوبی آنکھوں میں حیدر نے جانے کیا پا لیا تھا کہ وہ بھول گیا کہ اس کے والد صاحب انتقال فرما چکے ہیں۔  اور ان کی گُو مُوت سے لتھڑی لاش باتھ روم میں پڑی ہوئی ہے۔  گھر میں تمام لوگوں کا رونا دھونا مسلسل چل رہا ہے۔  اس کی اپنی ماں اور منجھلی ماں کا روتے روتے برا حال ہو چکا ہے۔  اپنے درجن بھر بھائی بہنوں کے ساتھ، آج وہ بھی یتیم ہو گیا ہے۔  وہ سب بھول چکا ہو جیسے!

حیدر، کلثوم بیگم کے حسن میں بندھا ہوا تھا۔

وہ کلثوم بیگم کو چھوٹی ماں کبھی نہیں کہتا تھا۔

کہتا بھی کیسے؟

شاید ادھر سے موٹوانی کی آواز سنائی دی ہو، تبھی تو کلثوم بیگم کی آنکھیں چمکیں۔

کلثوم بیگم نے روہانسی آواز میں بتایا، ’’حضرت جی نہیں رہے موٹوانی جی! آپ فوری طور پر چلے آئیے۔  ہو سکے تو چندو بھائی کو بھی لیتے آئیے۔  میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں؟‘‘

اُدھر سے کچھ کہا گیا۔

کلثوم نے کہا، ’’آپ دوڑے چلے آئیے اور اپنی آنکھوں سے سب دیکھئے۔  میں کچھ بھی بتا نہیں پاؤں گی۔  میرا دماغ کام نہیں کر رہا ہے موٹوانی جی۔ ‘‘

اور پھر وہ فون پر ہی رونے لگیں۔

کلثوم بیگم نے فون رکھ دیا۔

حیدر اٹھ کر مسہری پر، کلثوم بیگم کی بغل میں بیٹھ گیا۔

کلثوم بیگم نے روتے روتے اپنا سر حیدر کے کندھے پر رکھ دیا۔

حیدر ان کے بال سہلا کر انہیں تسلی دینے لگا۔

حیدر کو ذرا بھی رونا نہیں آ رہا تھا۔

وہ سوچ رہا تھا کہ اگر موٹوانی سے پہلے، سید شاہ بابا کی درگاہ کمیٹی سے منسلک سلیمان درزی اور عزیز قریشی کو، حضرت جی کی ناپاکی کی حالت میں موت کی بھنک لگ گئی، تو غضب ہو جائے گا۔

حضرت جی جیسے پائے کے بزرگ کا انتقال اور وہ بھی ناپاک حالت اور غلاظت والی جگہ میں؟

وہ کلثوم کے کانوں میں بھنبھنایا، ’’ سنبھالیے اپنے آپ کو۔  چل کر بُڑھاہو کو باتھ روم سے باہر نکال کر، انہیں پاک صاف کرنے کا جگاڑ کرتے ہیں۔ ‘‘

وہ دونوں اٹھ کر پھر اسی کمرے میں پہنچے۔

حیدر نے اپنے دو چھوٹے بھائیوں سے کہا کہ وہ باغ سے پلاسٹک کا لمبا والا پائپ نکال کر لے آئیں۔  اسی پائپ سے حضرت جی کی لاش دھوئی جائے گی۔

حجامت کی دکان میں بیٹھنے والے دونوں بھائی پائپ لے کر آ گئے۔

پائپ فوری طور پر نل سے جوڑا گیا۔

تب تک موٹوانی اور چندو بھائی بھی آ گئے۔

حضرت جی کی حالت زار دیکھ کر، موٹوانی نے رو مال ناک پر لگا لیا اور حیدر سے کہا کہ فوری طور پر لاش کو دھو پونچھ کر، حجرے میں لٹا دیا جائے۔

پائپ سے پانی کا تیز پریشر دے کر لاش کو دھویا جانے لگا۔

موٹوانی نے کلثوم بیگم کو اشارہ کیا اور وہ دونوں کلثوم بیگم کے کمرے میں چلے گئے۔

وہاں جو بھی باتیں ہوئی ہوں، معلوم نہیں، لیکن باہر نکل کر موٹوانی زار و قطار رونے لگا۔

روتے روتے وہ صرف یہی دہراتا کہ حضرت جی نے کل شام کو ہی اپنے جانے کا اشارہ دے دیا تھا۔  انہوں نے بتایا تھا کہ وہ آنے والے کسی بھی وقت پردہ فرما سکتے ہیں۔

حضرت جی نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں سید شاہ بابا کی قبر کے برابر دفن جائے۔

حیدر، موٹوانی کی اس بے سروپیر کی بات سن چونکا، تو کلثوم بی بی نے جھٹ اشارہ کر دیا کہ وہ چپ رہے اور دیکھتا جائے۔  یہ جو کرے گا سب ٹھیک ہی ہو گا۔

حیدر کی نگرانی میں حضرت جی کی لاش دھو پونچھ کر، ان کے حجرے میں لے جائی گئی۔

اگر بتی اور لوبان کے دھوئیں کے درمیان لاش کو کفن پہنا دیا گیا۔

سلیمان درزی اور عزیز قریشی نے حضرت جی کو فجر کی نماز میں نہ پایا، تو وہ دونوں سیدھے حضرت جی کی خیریت جاننے حجرے کی طرف آئے۔

وہاں انہوں نے دیکھا کہ حضرت جی کی لاش رکھی ہوئی ہے اور آہ و زاری مچی ہوئی ہے۔

موٹوانی، چندو اور کلثوم بیگم کی تِگڑی دیکھ کر ان دونوں کا ما تھا ٹھنکا۔

یعنی کہ غیروں کو خبر دے دی گئی، لیکن ہم مذہبوں کو کچھ بھی پتہ نہیں۔  ضرور اس میں کوئی چال ہے۔

انہیں دیکھ موٹوانی اور زور زور سے رونے لگا۔

’’۔۔ ۔  ہائے حضرت جی ہمیں یتیم کر گئے۔۔ ۔  میں آپ کی آخری خواہش ضرور پوری کروں گا۔  سید شاہ بابا کی قبر کے برابر آپ کو دفنایا ہی جائے گا۔ ‘‘

سلیمان درزی اور عزیز قریشی، حضرت جی کی پہلی بیوی یعنی کہ حیدر کی ماں سے ملے۔  ان لوگوں نے روتے روتے واقعے کی پوری تفصیل انہیں دی۔  یہ بھی بتایا کہ باتھ روم میں حضرت جی کی موت ہوئی تھی۔

تفصیل سن کر سلیمان درزی دہاڑے، ’’اتنی بڑی بات ہو گئی اور ہمیں خبر ہی نہیں دی گئی۔ ‘‘

’’حد ہو گئی! کیا جنازے کی نماز بھی ان کافروں سے پڑھوائیں گے آپ لوگ؟‘‘

عزیز قریشی اسی طرح زہر اگلا کرتے ہیں۔

چندو بھائی سے رہا نہ گیا تو اس نے کہا، ’’اگر اتنا ہی آپ لوگ حضرت جی کے قریبی تھے، تو حضرت جی نے پردہ ہونے سے پہلے آپ لوگوں کو کیوں نہیں وصیت کی؟‘‘

دونوں تلملا گئے، لیکن کیا کرتے؟

بازی پلٹ چکی تھی۔

اب ایک ہی حل بچا تھا کہ موٹوانی کی وصیت والی بات کو جھوٹا ثابت کیا جائے۔

وہ دونوں اڑ گئے کہ ایسا ہو نہیں سکتا۔

حضرت جی کو سید شاہ بابا کی مزار شریف کے برابر دفن کرنا جائز نہیں۔

اس سے سید شاہ بابا کی درگاہ کی بے حرمتی ہو گی۔  ایسے تو ان کے بعد جتنے بھی گدی نشین ہوں گے، انہیں بھی درگاہ شریف کے اندرونی حصے میں دفن کرنا ہو گا۔

موٹوانی روئے جا رہا تھا۔

اس کی یہی فریاد تھی کہ مرحوم حضرت جی نے جو وصیت کی تھی، اگر اس پر عمل نہ کیا گیا، تو ان کی روح کو چین نہ ملے گا۔

موٹوانی کی بات کی کلثوم بی بی اور حیدر حمایت کر رہے تھے۔

حضرت جی کے پردے فرمانے کی خبر، جنگل میں آگ کی طرح چاروں طرف پھیل گئی۔

بڑی تعداد میں معتقد ین اور شردھالو آنے لگے۔

حضرت جی کی لاش پھولوں کی چادروں سے ڈھکنے لگی۔

موٹوانی نے اپنا اسٹوڈیو بند کروا کر، سبھی شاگردوں کو ویڈیو وغیرہ بنانے کے کام میں لگا دیا۔

کلثوم بی بی، موٹوانی اور چندو بھائی کی غمگین صورتوں کے ساتھ، حضرت جی کی لاش اور معتقد ین اور شردھالوؤں کی عقیدت مندی کے نظارے کیمرے میں قید ہونے لگے۔

حضرت جی کی موت کے اس موقع پرستی والی مہم کو دیکھ کر سلیمان درزی، عزیز قریشی اور تمام مسلمان بھائی تلملا رہے تھے۔

وہ کہاں سے فتوی لاتے کہ عام انسان کو زبردستی پہنچا ہوا ثابت کرنا گناہ ہے۔  وہ کس طرح ثابت کرتے کہ موٹوانی کے خواب کی باتیں من گھڑت ہیں۔  اگر موٹوانی کا خواب من گھڑت ہے، تو پھر حضرت جی نے جس خواب کا ذکر کر کے سید شاہ بابا کی درگاہ کا پروپیگنڈہ کیا تھا، وہ کیا تھا؟

بیشک، یہ تو سچ ہے کہ حضرت جی کو سید شاہ بابا نے خواب میں اپنا دیدار کرایا تھا، لیکن موٹوانی کو حضرت جی نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی، یہ بات کسی کے گلے سے نہیں اتر رہی تھی۔

ماحول اب ایسا بنتا جا رہا تھا کہ موٹوانی کی بات کو جھٹلانے سے، اِنہی لوگوں پر وہابی ہونے کا فتوی جاری کیا جا سکتا تھا۔

وہابی یعنی مزاروں اور درگاہوں کا احترام نہ کرنے والے مسلمان، وہابی یعنی کہ نبی اور اولیاء پر درود وسلام نہ بھیجنے والے مسلمان، وہابی یعنی کہ برادری سے باہر کر دیے جانے کا ڈر۔۔ ۔

سلیمان درزی اور عزیز قریشی بڑی کشمکش میں پھنس چکے تھے۔

انہیں لگنے لگا کہ اب موٹوانی کی وصیت والی تھیوری کی حمایت کرنے میں ہی بھلائی ہے، ورنہ وہابی ہونے کا فتوی انہیں جھیلنا پڑ سکتا ہے۔

اور اس طرح سید شاہ بابا کی درگاہ شریف میں دو، دو قبریں بن گئیں۔

***

 

 

 

 

ہولوکاسٹ

 

 

نیوز اینکر کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔  بکے ہوئے میڈیا کے دور میں ایک چینل ایسا بھی تھا، جو خبروں کے پیچھے چھپے مستقبل کے خطرناک خطرے کو محسوس کرتا تھا۔  اس کے کئی اینکر صحافت کی اخلاقی ذمہ داریوں سے لیس ہوا کرتے تھے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ پرائم ٹائم کو پیش کرتا ہوا اینکر غیر ضروری طور پر کچھ زیادہ ہی خوفزدہ ہے۔ بکے ہوئے میڈیا کے لوگ اس اینکر کو ایک ڈیزائنر صحافی کہتے ہیں۔  اور اس کا تمسخر اڑاتے ہیں اور وہ تنہائی کی اذیت برداشت کرتا، فسطائیت کی مدھم چاپ سنتا، اندر ہی اندر لرزتا رہتا ہے۔  اس کے ہمراہ ایک بڑی فین اینڈ فرینڈ فالوئنگ ہے، جو بہت بے تابی سے اس اینکر کی مرتب کردہ رپورٹس کے دروں خانہ چھپے اغراض و مقاصد کو کشید کیا کرتے تھے۔  سلیم بھی ان لوگوں میں شامل تھا، جو اس اینکر کی رپورٹنگ کے دیوانے تھے۔

ثریا نے جب اپنے شوہر سلیم کے چہرے کو بغور دیکھا تو اسے لگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔  فلم شعلے میں، اے۔ کے۔  ہنگل کا لکھا ایک ڈائیلاگ اسے اچانک یاد آ گیا۔  ’’یہاں اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟‘‘

ادھر کئی سالوں سے، ثریا نے سلیم کو نیوز سنتے ہوئے تاریک اور بھیانک سناٹوں کی وادیوں میں کھوتے ہوئے دیکھا ہے۔  آج پھر و ہی اذیت ناک سناٹا۔  شام کو لیڈیز پارٹی سے لوٹنے پر ثریا کتنی خوش تھی۔  اس باراس نے ہاؤجی گیم میں اچھی جیت حاصل کی۔ پچھلی بار اس کی قسمت نے دھوکہ دیا تھا اور تمام پیسہ ڈوب گیا تھا۔  اس کے بعد سے وہ بہت اپ سیٹ تھی، لیکن آج کی کامیابی نے اسے تر و تازہ کر دیا تھا۔

’’اتنا ہی برا تھا ہٹلر تو اس وقت کی عوام کیوں اسے خاموشی سے برداشت کر رہی تھی؟‘‘ ثریا نے ایک معصوم سا سوال کیا۔

سلیم نے ٹی وی کی آواز کم کر دی۔  اور ثریا کے چہرے کو غور سے دیکھا۔  کتنا غصہ ہے اس کے چہرے پر؟ ہالوکاسٹ میوزیم کے بارے میں جاندار رپورٹنگ، نے جیسے یہودیوں کے خلاف رکھے جانے والے ظلم و بربریت کی فہرست شائع کر دی تھی۔  ہٹلر کے کنسٹرکشن کیمپ کے انسانیت سوز مظالم کو یاد کر کے دل میں چبھن ہونے لگتی ہے۔  سلیم بھی جیسے آمریت پسندہٹلر کی آمد کو دیکھ، سن رہا تھا اور اس اندیشے سے اس کا رواں رواں کانپ رہا تھا۔

ثریا کا سوال سن کر سلیم چڑ گئے، ’’ تمہیں ہولوکاسٹ سے کیا لینا دینا۔  تم بس ہاؤجی میں اپنی جیت کا جشن مناؤ۔ ‘‘

ثریا اپنی ہتھیلیوں میں ابھر آئی مہندی کے ڈیزائن پر فدا ہو رہی تھی۔  اس نے گوگل سے جو ڈیزائن سیلیکٹ کیا تھا، اسے دیکھ کر مسز چوپڑا اور مسز مکھرجی کتنا جل بھن رہی تھیں۔  ارے بھائی، ہائی ٹیک وقت میں شادی کے وقت کی ڈیزائن بک سے نقل کر کے مہندی لگانے والیاں کہاں جان پائیں گی کہ آج کل گوگل کا عہد ہے اور ایک سے بڑھ کر ایک آپشن ملتے ہیں وہاں۔  اتنی اسمارٹ کہاں ہیں عورتیں۔  مہنگے کپڑے، میچنگ کے چپل، چوڑیاں اور بیوٹی پارلر سے لپا پوتا چہرہ لے کر گھومنے سے کوئی اسمارٹ نہیں ہو جاتا ہے۔  اس کیلئے اسمارٹ فون چلانا آنا چاہئے۔ ثریا اسی اسمارٹ فون کے ذریعے مٹن چکن کے اوراسی طرح کے دیگر شاکاہاری ڈشز کی نت نئی ریسیپیز کے تجربات کیا کرتی ہے۔

وہ چپ چاپ کچن چلی گئی۔  اسے معلوم ہے کہ سلیم کو اگر فوری طور پر گرین ٹی کا فل کپ دے دیا جائے تو ان کا موڈ صحیح جائے گا۔  اس کے بعد رات دس بجے تک کھانا پیش کر دے گی۔  دس سے پہلے سلیم ٹی وی کے سامنے سے ہٹنے سے رہے۔

۔۔ ۔۔ ۔۔

ادھر سلیم کو جب سے ذیابیطس ہوا ہے وہ فشار خون کے بھی مریض ہو گئے ہیں۔  پچپن سال کی عمر ہے۔  پانچ سال بعد ریٹائرمنٹ ہو گی۔  بچے ابھی ہائیر ایجوکیشن لے رہے ہیں۔  کمانے والے صرف سلیم ہیں اور خرچ لا محدود۔  یہ تو اچھا ہے کہ ان کی تنخواہ بہت اچھی ہے۔

ثریا چائے لے کر آئی اور سلیم کے سامنے رکھی ٹیبل پر اس نے بڑا سا کپ رکھ دیا۔

سلیم چپ چاپ چائے کی چسکیاں لینے لگے۔

سلیم نے گرین ٹی کو نشہ بنانا ثریا کو سکھایا ہے۔  برتن میں ایک فل کپ پانی ڈال کر کھولایا جائے، پھر آنچ بند کر اس پانی میں گرین ٹی کی پتیاں ڈالی جائیں اور ڈھکن لگا دیا جائے۔  ایک منٹ بعد ڈھکن ہٹاؤ اور چائے تیار۔

ثریا، سلیم کے چہرے پر تیرتی فکر کی لکیروں کو پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔  کتنا کھردرا سا ہو گیا ہے چہرہ۔  ماتھے کی نسیں ابھر آئی ہیں۔  وہ کہتی ہے کہ کسی اچھے ڈاکٹر سے کنسلٹ کریں اور بہترین علاج کرائیں، لیکن سلیم خود ہی اپنے ڈاکٹر ہیں۔  جانے کس کس سے پوچھ پوچھ کر کبھی جڑی بوٹی پھانکنے لگتے ہیں اور کبھی انگریزی دوائیں لینے لگتے ہیں۔  گھر میں بی پی ناپنے کی مشین ہے اور گلوکومیٹر بھی۔  خود ہی اپنے ڈاکٹر ہیں سلیم۔  ادھر کئی مہینوں سے بال ڈائی کرنا بھی بند کر دیا ہے۔  سر پر درمیان میں گنے چنے بال ہیں اور کونوں پر گھنے بالوں کی جھالر۔  انہیں ٹرمنگ کرا کر آج کل سلیم سفیدی کے ساتھ اپنے نئے لک میں مگن رہتے ہیں۔  ایک زمانہ تھا جب ان کے بال اتنے بڑے ہوا کرتے تھے کہ ان کا ہیئر اسٹائل اس طرح بنتا کہ دونوں کان ڈھک جاتے تھے۔  کافی فیشن ایبل ہوا کرتے تھے سلیم۔  جب بوبی کالر اور بیل باٹم کا زمانہ تھا، تب رشی کپور کی طرح انہوں نے اپنا لک بنا لیا تھا۔  وہی سلیم اب ہلکے رنگ کی ٹی شرٹ اور گاڑھے رنگ کی ٹراؤزر کے ساتھ سفید بالوں والے سنجیدہ ادھیڑ عمر شخص کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔  فیملی کلب میں جہاں دیگر ساتھی کالے بالوں کے ساتھ رنگے رنگائے آتے، وہیں سلیم کی شخصیت انہیں بھیڑ سے جدا رکھتی۔  ثریا پہلے ان کے بال رنگا کرتی تھی، لیکن اب سلیم نے منع کر دیا تھا، ’’کیا ہو گا ان سب سے؟ آدمی جوان تو ہو نہیں جائے گا۔  کیسا زمانہ آ گیا ہے کہ کوئی شخص بوڑھا دکھنا نہیں چاہتا ہے۔  جبکہ ایک عمر کے بعد انسان کو بوڑھا ہو جانا چاہئے۔  کب تک مصنوعی اوزاروں سے لڑائی لڑی جائے گی۔  حقیقت کو حقیقت رہنے دو یار۔ ‘‘

ثریا ان سے زیادہ بحث نہیں کرتی۔  بھاڑ میں جائیں۔  جیسا رہنا چاہیں، ویسے رہیں۔  ان کی اپنی زندگی ہے۔  اب تو بچے بھی انہیں ٹوکنے کی جرات نہیں کرتے۔

بس، ثریا کو اسی بات سے چڑ ہے کہ فیس بک، وہاٹس اپ اور نیوز چینلوں میں جس طرح سلیم ڈوبے رہتے ہیں اور تناؤ کا شکار رہتے ہیں، یہ مناسب نہیں ہے۔

تبھی سلیم بھڑک اٹھے، ’’ دیکھا، بھیڑ نے چلتی ٹرین میں روزے دار مسلمان لڑکوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا۔ ‘‘

چونک پڑی ثریا۔  آج کل ایسی خبریں خوب آ رہی ہیں۔  کبھی گائے کو لے کر، کبھی عشق پیار کو لے کر قتل کرنے کا دور جیسے چل پڑا ہو۔

سلیم بپھرے ہوئے تھے، ’’ان لوگوں کا حوصلہ بڑھ گیا ہے۔  جانے کب یہ آگ بجھے گی؟‘‘

سلیم کا بی پی لگتا ہے بڑھ گیا ہے۔

ثریا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، سلیم کے سامنے رکھے ٹی وی کے ریموٹ کو جھٹکے سے اٹھا کر ٹی وی بند کر دیا۔

سلیم صدمے سے گم صم بیٹھے ہوئے تھے۔

ان کے چہرے پر غم اور غصہ کے بادل امڈ رہے تھے۔

ثریا ریموٹ لے کر کچن چلی گئی۔

’’آگ لگے اس ٹی وی پر۔  سارے گھر کا سکھ چین چھین لئے جا رہا ہے موا۔ ‘‘

یہ صحیح ہے کہ ان واقعات کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔  ایک سو پچیس کروڑ کی آبادی کا ملک ہے۔  اتنی بڑی آبادی میں اس طرح کے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں۔  پہلے کتنا اچھا تھا۔  اخبار میں تفصیل سے خبریں پڑھنے کو ملتی تھیں۔  ٹی وی کے آ جانے سے جیسے خبریں نہ ہوئیں، کوئی سامان ہو گئیں۔  جسے دیکھو ان بھاڑے کے نیوز چینلوں کی خبروں کی جگالی کرتا رہتا ہے۔

عورتیں بھی کم نہیں ہیں۔  ثریا کو دیکھیں گی تو بس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی خبروں پر بحث کریں گی۔

مسز مکھرجی نے آج ہی ثریا کو سناتے ہوئے کہا تھا، ’’لگتا ہے پاکستان کے ساتھ جنگ ہو کر رہے گی!‘‘

ثریا نے فوراً کہا تھا، ’’جنگ کبھی نہیں ہو گی۔  یہ سب پروپیگنڈہ ہے میڈیا کا۔ ‘‘

ویسے ثریا چڑ گئی تھی کہ اگر جنگ ہو بھی گئی تو کیا اسے تمام عورتیں پاکستانی سمجھتی ہیں، جو اس طرح کی باتیں اسے چڑانے کیلئے کرتی ہیں۔  بھاڑ میں جائے پاکستان اور اس کے دہشت گرد۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

رات کے بارہ بج رہے تھے۔

ثریا تھکی ہوئی تھی اور سو چکی تھی۔

اچانک اس کی آنکھ کھلی، دیکھا سلیم جاگ رہے ہیں۔ آنکھوں پر چشمہ لگا ہے اور موبائل پر وہ فیس بک چلا رہے ہیں۔  ثریا نے انہیں ڈانٹا، ’’سو کیوں نہیں جاتے۔  یہ کیا بات ہوئی کہ اتنی رات گئے موبائل پر آنکھیں پھوڑ رہے ہو۔  ابھی تو چشمے کا نیا نمبر آیا ہے۔  یہی اصول رہے تو ایک دن اندھے ہو جائیں گے آپ۔ ‘‘

سلیم نے موبائل آف کیا۔  بستر سے اٹھے اور باتھ روم چلے گئے۔

لوٹ کر آئے تو تکیے پر سر رکھے چھت پر گھومتے پنکھے کو گھورنے لگے۔

ثریا نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور درخواست کی۔  ’’ سو بھی جائیے۔  صبح کام پر بھی تو جانا ہے۔ ‘‘

سلیم بول اٹھے، ’’ سکھیا سب سنسار کھاوے ارو، سووے۔  دکھیا داس کبیر، جاگے ارو، رووے۔‘‘

پھر سلیم نے بتایا، ’’وہاٹس اپ پر ان لوگوں نے بڑا رائتہ پھیلا رکھا ہے۔  کہیں کا اینٹ کہیں کا روڑا۔  بس، جسے دیکھو مسلمانوں پر غرا رہا ہے۔  مسلمان ہیں کہ وہ بھی ان دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں لیکن کوئی مانے تب نہ۔  آپس میں گروپ بنا کر ایسے خطرناک پیغامات اور ویڈیو شیئر کرتے ہیں کہ فساد ہو ہی جائے۔  ٹی وی والے کچھ ایک ویڈیوز کا وائرل سچ ہی دکھا پاتے ہیں، پھر ان ویڈیوز کی سچائی جاننے کی ضرورت ہی کیا ہے انہیں۔  ان کے لئے تو بس مرغے کی ایک ہی ٹانگ والی بات ہے۔  اس دیش میں اب مسلمانوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے ثریا۔ ‘‘

ثریا تلملا اٹھی، ’’یہی سب دیکھ سن کر آپ اپنا ما تھا خراب کئے رہتے ہیں۔  باہر اتنا شور و غل نہیں ہے جتنا آپ کے دل میں ہے۔  ارے حد ہے۔  آپ اپنے کام میں پرفیکٹ ہیں۔  لوگ آپ کی قابلیت کو مانتے جانتے ہیں پھر آپ کا ہے اتنا ہلکان کئے رہتے ہیں۔  چین سے سوتے بھی نہیں۔ ‘‘

سلیم تکیے سے پیٹھ ٹکا کر پلنگ پر بیٹھ ہی گئے۔

’’تمہیں کیا معلوم۔  گھر گرہستی کے جنجال میں الجھی رہتی ہو۔  ادھر میں آج کل ہٹلر کی آپ بیتی پڑھ رہا ہوں۔  تمہیں معلوم، جرمنی کے بھی یہی حالات تھے جب ہٹلر نے حکومت سنبھالی تھی۔  بے روزگار نوجوانوں کی بھیڑ روزگار چاہتی تھی، لیکن روزگار کے مواقع دینے کیلئے کوئی ذرائع وہاں نہیں تھے۔  بچتے تھے صرف نسل پرست سوچ کے بھیانک افکار۔  یہودیوں کے خلاف منصوبہ تیار کیا گیا۔  بتلایا گیا کہ اگر یہ یہودی جو تمہارے دھن دولت پر قبضہ کئے ہوئے ہیں، تمہارے روزگار پر چھائے ہوئے ہیں ان سے جرمن کو صاف کر لیا جائے تو جرمن ایک بار پھر خوشحال ہو جائے گا۔  نتیجہ کیا ہوا؟ سب کو معلوم ہے۔  ہٹلر کی جانب سے مارے گئے یہودیوں کی یاد میں بنوائے گئے ہولوکاسٹ میوزیم آج بھی اس بھیانک نسل کشی کی یاد کو تازہ کرتے رہتے ہیں۔  میں ڈرتا ہوں ثریا کہ کہیں۔۔ ۔!‘‘

’’کیا کہیں۔۔ ۔  بولیے نہ روک کیوں گئے؟‘‘ثریا بھی گھبرا اٹھی۔

’’کہیں دنیا میں مسلمانوں کے لئے بھی کیا کوئی ہولوکاسٹ میوزیم بنایا جائے گا؟‘‘

سلیم اور ثریا بہت دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔  ان کی آنکھوں سے نیند غائب ہو چکی تھی۔

سلیم نے ثریا سے کہا، ’’سوچتا ہوں کپ صبح سویرے اٹھنے کے ساتھ بٹیا سے بھی بات کرنی ہو گی۔ ‘‘

’’کیا بات؟‘‘

’’کچھ نہیں، اب سوتے ہیں۔۔ ۔  اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے۔  سب جاننے والا ہے۔  یہی ایمان تو ہماری پونجی ہے۔  چلو اب سو جائیں۔ ‘‘

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

صبح فجر کی اذان سے ان کی آنکھ کھلی۔

سلیم کا معمول ہے کہ اٹھتے کے ساتھ دو گلاس نیم گرم پانی پیتے ہیں اور پھرا سپورٹس شوز پہن کر ٹہلنے نکل جاتے ہیں۔  جب پاس کی مسجد سے صلاۃ وسلام پڑھنے کی آواز آتی ہے، تب وہ لوٹ آتے ہیں۔  سلیم فجر کی نماز پڑھتے نہیں۔  پھر فریش ہو کر، شیونگ کر کے وہ ناشتہ کرتے ہیں اور ٹھیک سات بجے کان نکل جاتے ہیں۔  ان کی ڈیوٹی صبح سات بجے سے شروع ہوتی ہے۔

ثریا بستر پر کاہل سی پڑی تھی۔  رات دیر سے آنکھ لگنے کی وجہ سے اس کا بدن ٹوٹ رہا تھا۔

سلیم اٹھے اور باتھ روم جا گھسے۔

وہاں سے نکلے تو بڑی پھرتی سے کرتا پاجامہ پہننے لگے۔

پھر سر پر ٹوپی لگا کر جائے نماز ڈھونڈنے لگے۔

ثریا اچنبھے سے انہیں دیکھ رہی تھی۔

پلنگ کے بغل کی خالی جگہ پر جائے نماز بچھا کر سلیم فجر کی نماز ادا کرنے لگے۔

آج وہ ٹہلنے نہیں گئے۔

نماز پڑھ کر انہوں نے موبائل فون اٹھایا اور کسی کو فون کرنے لگے۔

’’و علیکم السلام بٹیا۔ ‘‘

اچھا تو سلیم بڑی بٹیا رقیہ سے بات کر رہے ہیں۔

’’اس لئے یاد کیا بٹیا اتنی صبح کہ دیکھو تم جو حجاب کرتی ہو نہ۔  اب یہ حجاب کرنا بند کر دو۔  دہلی میں رہتی ہو۔ زمانہ ٹھیک نہیں ہے۔  حجاب کی بدولت تم پہچان میں آ سکتی ہو کہ تم ایک مسلمان لڑکی ہو، سمجھی۔  بنا حجاب کے تم ایک عام سی ہندوستانی لڑکی دکھو گی۔ ‘‘

ادھر سے جو جواب آیا، وہ ثریا کو کہاں سنائی پڑتا، لیکن سلیم جو کہہ رہے تھے اسے سن کر ثریا کے من میں بھی ڈر کا احساس ہونے لگا۔

‘‘بحث مت کرو۔  جو کہتا ہوں اسے مانو بیٹا۔  جب تک وقت ٹھیک نہیں چل رہا ہے میری بات مان لو۔ ‘‘

لگتا ہے ادھر سے بٹیا نے کچھ کہنا چاہا تھا، لیکن سلیم نے فون بند کر دیا اور کچن چلے گئے پینے کے لئے پانی نیم گرم کرنے۔

تھوڑی ہی دیر میں سلیم کا فون بک گنگنا اٹھا۔

سلیم جگ میں نیم گرم پانی لے کر آئے۔  اس سے پہلے ثریا نے دیکھا کہ بٹیا کا فون ہے سو اس نے فون اٹھا لیا۔

بٹیا بول رہی تھی، ’’پاپا، کیا ہو گیا آپ کو۔  ایسا آپ کیوں کہہ رہے ہیں؟‘‘

ثریا بولی، ’’ارے یہ تو میں ہوں ممی!‘‘

رقیہ نے ممی کو سلام کیا اور بولی، ’’پاپا کو بول دیجیے۔  ٹی وی پر نیوز دیکھنا کم کریں۔  فیس بک اور وہاٹس اپ کم چلائیں۔  تبھی ان کا ٹینشن کم ہو گا۔  ایسا ہوتا ہے کیا؟ میں انجینئرنگ کر رہی ہوں۔  حجاب میری پہچان ہے۔  مجھے حجاب سے کمفرٹ لگتا ہے۔  جانے کب سے حجاب پہن رہی ہوں۔  کالج میں بھی کوئی معترض نہیں، بلکہ بہت سے ٹیچر تو مجھے رسپیکٹ کرتے ہیں۔  یہ دیش ہم سب کا ہے ممی۔  پاپا کو فون دیجیے نہ ممی۔  مجھے ان سے بات کرنی ہے۔ ‘‘

ثریا نے سلیم کو فون دے دیا۔

ثریا نے دیکھا کہ اب سلیم چپ چاپ ادھر سے رقیہ بٹیا کی بات سن رہے ہیں اور ہوں، ہوں کہہ رہے ہیں۔

’’ٹھیک ہے بیٹا، جیسی تمہاری مرضی۔  تم سمجھدار ہو۔  موجودہ زمانے کے حالات اور آس پاس کے لوگوں کو دیکھ سن کر، کانشس ہو کر رہنا ہے اب، بس اتنی بات تو مان لو۔ ‘‘

بات ختم ہوئی تو سلیم سوچ میں ڈوبے صوفے پر دھنس گئے۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل