FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

جرمنی کا یہودی شاعر ہائینے

 

 

                میراجی

 

ماخذ: جدید ادب، جرمنی، میرا جی نمبر

 

 

 

 

 

 

انگریزی نقاد اور شاعر میتھیو آرنلڈ اپنی ایک نظم ’’ہائینے کی قبر‘‘ میں لکھتا ہے :

روح عالم نے انسان کی بے ڈھب باتوں کو دیکھا، لاف زنی کو دیکھا کارہائے نمایاں کو دیکھا اور مختصر لمحے کے لیے اس کے چہرے پر ایک بناوٹی مسکراہٹ دوڑی۔

یہی مسکراہٹ ہائینے تھی۔ ‘‘

ایک یہودی مصنف ہائینے کے متعلق لکھتا ہے کہ وہ ایک المانوی پیرسی تھا، ایک یہودی جرمن۔ ایک ایسا سیاسی جلاوطن جو ساری عمر اپنے پرانے پیارے جرمن گھر کو ترستا رہا، اس کا دکھ درد دیکھنے کا انداز نظر مادّی تھا، لیکن اس کا دکھ درد کو جھیلنے میں صبر و استقلال مذہبی، وہ ایک رومانی شاعر تھا، جو قدیم اصناف شعری میں ایک جدید روح کا اظہار کرتا تھا۔ وہ ایک غریب،  بے چارہ یہودی تھا۔

اور ہائینے کا سوانح نگار ولیم شارپ لکھتا ہے کہ وہ ایک رومانی تھا، لیکن رومانیت کا زبردست دشمن بھی تھا، وہ ایک سچا شاعر تھا، لیکن اس کا کوئی اصول تاریخ نویسی نہ تھا۔ وہ ایک فلسفی تھا، لیکن اس کے کوئی نظریے نہ تھے، وہ طرز حیات میں آزاد رو تھا، لیکن اپنی بیوی سے وفادار رہا اور اپنی ماں کی عزت کرتا تھا،  جرمن شعرا میں سب سے نازک احساسات اُس کے کلام میں ملتے ہیں، لیکن سب سے بڑھ کر ترش بیانی بھی اس کے ہاں ہے۔ وہ ایک جرمن تھا، لیکن اس کی ہستی جرمنی کے لیے ایک تازیانہ تھی۔ وہ انگلستان کے شعرا کا دلی مداح تھا، لیکن اسے انگریز قوم اور انگلستان کی ہر بات سے نفرت تھی۔ جذبات پرستی کی وہ ہنسی اڑاتا تھا، لیکن خود بھی ایک جذباتی انسان تھا۔ اس کی صحت اچھی نہ تھی، لیکن اُن مصائب کو زبردست استقلال اور ہمت سے برداشت کیا، جن کا عشر عشیر بھی آج تک کسی اور شاعر کو نہیں دیکھنا پڑا۔

ہائینے کی زندگی میں بھی ایک فرانسیسی نے اس کے متعلق اسی طرز کی متضاد رائے قلم بند کی تھی۔ ……یہ کہنا محض بیکار تضاد پرستی ہی نہیں ہے کہ ہائینے میں سختی بھی ہے اور ملائمت بھی، بے رحمی بھی ہے اور نرمی بھی، سادگی بھی ہے اور پرکاری بھی۔ تغزل بھی ہے اور ’’نثریت‘‘ بھی، جذبات کا ابلتا ہوا جوش بھی ہے اور جدت بھی۔

ہمارا تجسس پوچھ سکتا ہے کہ وہ کونسا زمانہ تھا، وہ کونسی سماج تھی، وہ کیسی نسل تھی، وہ کیسا ماحول تھا، جس سے ہائینے کا تعلق ہے اور اس مجموعۂ اضداد کی شرح و وضاحت کی طلب میں ہمارا تجسس یکسر حق بجانب ہو گا۔

ابھی ہائینے چھوٹا سا لڑکا ہی تھا کہ فرینک فرٹ میں، جہاں اس کے والدین رہتے تھے، کسی یہودی کو کسی باغ یا تفریحی مقام پر آنے جانے کی اجازت نہ تھی،  اتوار کے دن کوئی یہودی چار بجے کے بعد اپنے گھر سے باہر آ جا نہ سکتا تھا اور سال بھر میں صرف چوبیس یہودیوں کو شادی کرنے کی اجازت ملتی تھی۔ ہائینے کے دل کی اندھی نفرت اور آتش احساسات نے اسی ماحول میں پرورش پائی تھی۔

لیکن ایسے ماحول کی تخلیق کا باعث کیاہوسکتا ہے ؟____اپنی کتاب ’’تہذیب کی نشو نما‘‘ میں مغربی محقق ڈبلیو جی پیری نے ایک جگہ لکھا ہے :’’تہذیب میں دو بڑے رجحان کارفرما ہیں ؛ ایک طرف تو تعمیری رجحان ہے، جس کی وجہ سے لوگوں نے آج تک نت نئی دریافتیں کی ہیں،  علوم و فنون اور صنعتوں کو فروغ دیا ہے، دنیا کے مختلف حصوں کے درمیان سلسلۂ پیام رسانی کو جاری کر کے اسے قائم رکھنے کی کوشش کی ہے،  اُن نئی سرزمینوں کو آباد کیا ہے،  جہاں دل پسند اشیا موجود تھیں، کتابیں، نظمیں اور ناٹک لکھے ہیں،  تصویریں بنائی ہیں،  راگ کی تخلیق کر کے نئے سے نئے گیت گائے ہیں اور ان گنت وہ باتیں کی ہیں، جن کی وجہ سے تہذیب ایک قابل قدر چیز بن گئی ہے ____اور دوسری طرف اس کے ساتھ ہی چند خامیوں نے، جو تہذیب کی نشو نما کے دوران میں انسانی تعلقات میں پیدا ہو گئی سماجی ہم آہنگی کو توڑ دیا۔ ‘‘

ان الفاظ کی روشنی میں جب ہم یورپ کی یہود دشمنی کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ انسانی تعلقات میں ان خامیوں کے پیدا کرنے میں مذہب اور نسلی امتیاز و افتخار کا درجہ کم نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مذہب، جو انسان کی زندگی میں بہت سی باتوں کا بنانے والا ہے، وہی جب ذہنیتیں تخریب آلود ہو جائیں،  تو ایسے بگاڑ پیدا کر دیتا ہے، جن کا سدھار کسی کے بس کی بات نہیں رہتا۔

ہائینے کو اپنے یہودی نسل سے ہونے کا احساس تھا،  چناں چہ اپنی ادبی تخلیقات کے دوران، وہ اکثر اپنے کو یونانی یہودی کہتا رہا۔ شاید اس طرح اس کی نظر میں یہودی خون کا اثر کم ہو جاتا تھا۔ شاید وہ یونان کے فنون و ادب کے ذخائر کی وجہ سے اپنے کو یوں منسوب کرنا چاہتا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک خالص یہودی تھا۔

یہاں اس اختلاف کا اظہار بھی بے جا نہ ہو گا۔ جو ایک یونانی اور یہودی کے زندگی اور ادب اور آرٹ سے متعلق نظریوں میں ہے۔ یونانی کسی تخلیق کا جواز اس مسرت کو سمجھتے تھے،  جو کسی فنکار کو کسی چیز کے بنانے میں حاصل ہوتی ہے،  گویا وہ صحیح معنوں میں ’’فن برائے فن‘‘ کے قائل تھے،  لیکن یہودی اپنی تمام تاریخ میں اس قسم کے ممتاز، بلند اور انفرادی مقصد سے کبھی بھی مطمئن نہ ہوئے۔ اُن کا مطمح نظر اگر کوئی ہوسکتا ہو تو یہ تھا کہ ’’فن براے حیات‘‘۔

توریت کے مرتب کرنے والے پجاری پیغمبروں سے لے کر زبور کے نغمہ خواں تک، اُن کے تصور کے افق پر صرف ایک ہی رنگ چھایا ہوا تھا____جمہوری رنگ۔ ماضی کے یہ تمام یہودی اپنے نغموں اور اپنی زندگی کو ایک ہی چیز سمجھتے تھے۔ یہ سب لوگ آسمانی باتوں کو زمین پر پھیلانے والے پیغمبر تھے۔ انھیں اپنی ذات پر پورا بھروسا تھا،  پیغامبری کی روحانی نسبت نے اُن میں ایک خود بینی پیدا کر دی تھی اور اس کی وجہ سے وہ اپنے کو محض فنکار سے بالاتر تصور کرتے تھے۔ جب وہ خدا کی حمد میں ایک والہانہ نغمہ الاپتے تھے، تو حقیقت میں وہ اُن خدائی صفات کو سراہتے تھے، جو انھیں انسان میں نظر آتی تھیں۔

اُن کے لیے حسن کی ہستی کو تصور کرنے سے پہلے یہ ضروری تھا کہ حسن ان کے ساتھ شانہ بہ شانہ آ کھڑا ہو،  ان کے ساتھ مل کر ہر کام کرے، اُن کے ساتھ مل کر کھائے پیے۔ اُن کے ساتھ مل کر زیست کی تگ و دو کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کر دے، انہی کی طرح دکھ درد سہے اور ان کی روزمرہ امنگوں، آرزوؤں اور خوابوں کا ایک جز بن جائے۔ ان کے لیے حسن کی من موہن خصوصیات ہی اس کا جواز نہ تھیں۔ خود ہائینے کہتا ہے کہ اہل یہود ایک ہی نسل ہیں، جن کی جبلّت میں ہی بغاوت، فساد، استقلال و استحکام کُوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ ایک ایسی نسل ہیں، جسے یونانیوں کے حد سے بڑھے ہوئے شعور اور بلند وقار سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ___اور خود ہائینے کا بھی یہی حال تھا۔ وہ ایک غیر معمولی جذباتی اور تیز مزاج انسان تھا اور اس لحاظ سے مشرقی، صحیح معنوں میں سامی نسل کا ایک فرد اور اُس کے احساس اُس وقت پوری تیزی پر ہوتے تھے، جب وہ اپنے درد کو طنزیہ قہقہوں میں چھپاتا تھا ___یہودیت سے ہائینے کا گریز صرف اس کے ملکی حالات کا آئینہ دار ہے،  ورنہ برتری کے لحاظ سے یہودیوں کا درجہ بہت بلند ہے۔ یہ یہودی ہی تھے، جنھوں نے سب سے پہلے خدا کی وحدانیت کا تصور قائم کیا۔ آج بھی دنیا کا سب سے بڑا حساب دان حکیم آئین سٹائن ایک یہودی ہے اور نفسیات جدید کا پیغمبر سگمنڈ فرائڈ بھی اسی نسل کا ایک فرد تھا۔ آج کی بات کو جانے دیجیے، تاریخ بتاتی ہے کہ یورپ سے اپنے تعلق کے آغاز ہی سے، اُس وقت سے جبکہ ابھی یورپ کی موجودہ قومی زبانوں اور علم و ادب کی ساخت بھی نہ ہوئی تھی، وہاں کی تمدنی زندگی میں اہل یہود کا نمایاں حصہ رہا ہے۔ اس قدیم یونانی زمانے میں بھی جس کا علم روما سے ہوتا ہوا،  پھیل کر، تمام یورپ پر چھاگیا،  اسکندریہ میں بہت سے یہودی شاعر، یہودی ڈراما نگار،  یہودی فلسفی اور یہودی تاریخ نویس تھے اور وہ سب یونانی زبان میں لکھتے تھے۔ جہاں کہیں بھی یہودی رہے ہوں، انھوں نے سماج کو اپنی مفید کار گذاریوں سے شاداب کیا ہے۔ تاریخ مذہب میں تو اُن کے حصے کو پوری طرح تسلیم کر لیا گیا ہے،  لیکن سماجی تعلقات، تفکر اور علم و ادب اور بعض دوسرے میدانوں میں انھوں نے نوع انسانی کی، جو خدمت بجا لائی ہے، اس کی طرف سے یا تو اغماض برتا گیا ہے یا اُس پر بہت ہی کم توجہ دی گئی ہے۔

ایک مشہور یہودی کے اس ادعا کو خواہ یورپ کی عیسائی قومیں گستاخی پر ہی کیوں نہ محمول کریں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’وہ کونسی قوم ہے، جس نے بنی اسرائیل کی سلطنت میں سے اپنا حصہ نہ لیا ہو؟‘‘ ___اسی نظریے کی ایک مثال ہائینے کا کلام ہے۔ ہائینے جرمن زبان کا وہ شاعر تھا جس نے یورپی علم و ادب کی مشہور تحریکِ رومانی پر ایک زبردست اثر کیا۔ لیکن ہائینے سے متعلق کچھ کہنے سے پہلے اس تحریک سے متعلق بھی کچھ جان لینا ضروری ہے۔

علم ادب کی مثال صاف کھلے، پھیلے ہوئے آسمان کی سی ہے اور اس آسمان میں مختلف شعرا چاند ستاروں اور سیاروں کی مانند ہیں۔ اگر اس استعارے کو ذرا بڑھایا جائے تو ادبی تحریکیں وہ آتے جاتے بادل ہیں، جو فضائی تغیر کا باعث ہوتے ہیں اور آسمان پر چمکتی ہوئی بجلی کو اگر ہم اندرونی اثرات سمجھ لیں، تو بادلوں کو بہا کر لانے اور لے جانے والی ہواؤں کو بیرونی تاثرات کہہ سکتے ہیں۔ اٹھارویں صدی کے یورپ میں، وہاں کے ادب کے آسمان پر ایک زبردست تحریک کے بادل چھائے۔ اس تحریک کو رومانی تحریک کہا جاتا ہے۔ ایک مغربی نقاد نے اس تحریک کے متعلق ذیل کے خیالات ظاہر کیے ہیں :

نوع انسانی کی نشو نما اور ارتقا میں مد و جزر کی طرح دو بنیادی تحریکیں کارفرما ہیں۔ ان میں سے ایک مرکز کی طرف آتی ہوئی تحریک ہے اور دوسری مرکز سے ہٹتی ہوئی۔ ان تحریکوں کو ہم کئی نام دے سکتے ہیں ____محدود، وسیع…… تنظیمی، تخریبی …… ساکن، متحرک ……جامد، مشتق …… قدامت پرست، انقلابی …… کلاسیکی اور رومانی۔

سطحی طور پر یہ رجحان خواہ کتنے ہی متضاد اور مختلف کیوں نہ معلوم ہوں،  حقیقتاً ان کی حیثیت اضافی ہے۔ زندگی کے بہاؤ کی موزونی کو قائم رکھنے کے لیے ان کا باہمی سمجھوتہ اور تبادلہ ضروری ہے۔ یہ دونوں تاریخ کی لازمی خصوصیات ہیں۔ جب جوش و خروش اور بے ترتیبی کا زمانہ گزر جاتا ہے، تو تنظیم کا دور آتا ہے اور جب یہ تنظیم کا زمانہ ایک مضر حیات یکسانی اور بیزاری پیدا کر دیتا ہے، تو کسی انقلابی محرک کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے تاکہ زندگی اور سماج پر ایک جمود نہ طاری ہو جائے۔ یوں زندگی یا وہ پُر اسرار روح حیات، جسے ہم جو بھی جی چاہے نام دے لیں،  خود بخود ایک روانی کے ساتھ بڑھتی اور بہتی رہتی ہے۔

جس طرح تاریخ انسانی کے یہ دو پہلو ہیں، اسی طرح انسانی شخصیت میں بھی ایسے ہی دو اہم پہلو کارفرما ہیں۔ انسانی شخصیت میں، جو سوچنے والا پہلو ہے،  وہ عموماً تنظیم کی طرف مائل رہتا ہے اور نہ سوچنے والے پہلو کا رجحان ہر اس بات کو بدل دینے کی طرف ہوتا ہے، جو یک رنگ اور قدیم ہو جائے۔ لیکن اگر ان دونوں میں سے ایک ہی تحریک کام کرتی رہے، تو زندگی کو بہت جلد زوال آ جائے۔ ’’بنے ہیں لاکھوں بگڑ بگڑ کر بگڑ گئے بے شمار بن کر‘‘___یوں ہی یہ نظام قائم ہے۔

اگر صرف سوچنے والا پہلو ہی زندگی کی رہنمائی کرتا ہے، تو بہت جلد زندگی کی وہ خصوصیات زائل ہو جائے، جس سے ہر بات کی تجدید ہوتی ہے۔ یوں سماجی جسم ایک زندہ نظام عمل کی بجائے ایک منظم مشین کی صورت اختیار کر لے گا اور اگر صرف نہ سوچنے والا پہلو ہی کارفرما ہو جائے،  تو اس کا نتیجہ بدنظمی اور ہیولیٰ کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔

نوع انسانی اور حیات انسانی کا وہ پہلو جو معین، ساکن اور عملی ہے، اسی کو ہم سوچنے والا پہلو کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اس دور میں، جب سوچنے والے پہلو کا اقتدار ہو، زندگی کا ’’اندھا بھید‘‘ گھٹ گھٹا کر چند مدلل اصولوں کا تابع ہو جاتا ہے، ایسے وقت میں احساسات و جذبات اور مذہبی تجربات___یہ سب باتیں انسان کو مشکوک نظر آتی ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں اگر نہ سوچنے والا پہلو کے سامنے مکمل طور پر ہار مان لی جائے،  تو انسان کا اندرونی استقلال و استحکام، انسان کی قوت ارادی، بلکہ عقل سلیم بھی ضائع ہو جائے۔

انسانی نشو نما کو سوچنے اور نہ سوچنے والے پہلوؤں کے باہمی عمل میں ایک توازن درکار ہے۔ لیکن نشو و نما کے تقاضے کے مطابق ان دونوں پہلوؤں کا تناسب گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ چناں چہ عین ممکن ہے کہ آج جس رجحان کو زندگی اپنی ضرورت کے لحاظ سے سچ سمجھ کر اختیار کر لے،  اسے شاید کل جھوٹ ہی تصور کیا جائے۔ ارتقاے انسانی کا ہر دور اپنی مخصوص سچائیوں کا حامل ہے اور وہ سچائیاں اسی وقت تک برحق شمار کی جا سکتی ہیں، جب تک کہ وہ مفید مطلب ہیں،  جب تک ان میں زور ہے۔ اُن کے مفید پہلو کا زور ختم ہوا اور ان کی بجائے نئے حقائق اور رجحانات آ جمے،  جو نہ صرف پہلی باتوں سے مختلف ہوسکتے ہیں،  بلکہ یکسر ان کے متضاد۔ چناں چہ آج اگر ایمان بالغیب کا مذہبی دور ہے، تو کل سوچ بچار اور عقلی دلائل کا زمانہ آ جاتا ہے۔ آج اگر ہوشمندانہ ما دیت کا دور دورہ ہے تو کل اس عمل کا ردِّ عمل رومانیت اور جذبات پرستی کی صورت میں نمودار ہو جاتا ہے۔ یورپ میں روما کی ما دیت کا دور جب ختم ہوا تو تمام پہلے تصور بدل گئے اور عیسائیت نے ایک نیا انسان بنا ڈالا اور اسی طرح موجودہ مادی دور کا پیشرو آج سے سو سال پہلے کا وہ زمانہ تھا، جب رومانیت کی لہر پھیل کر تمام یورپ کے ادبی شعور پر چھا گئی تھی۔

یہ کہنا کچھ فالتو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تحریک جسے رومانی تحریک ادب کہا جاتا ہے، اُس انقلاب کا ایک حصہ تھی،  جو یورپ کے شعور ذہنی میں نمودار ہوا۔ یہ ذہنی انقلاب ایک ایسی کیفیت تھی،  جس نے لوگوں کو زندگی اور دنیا کے متعلق اپنے انداز نظر کو یکسر تبدیل کر کے از سر نو قائم کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس نئے انداز نظر کی تخلیق کئی وجوہ سے ہوئی۔ ان میں سے ایک اہم وجہ اٹھارویں صدی عیسوی کی یورپی تہذیب کا یک طرفہ استدلال اور تکلف تھا۔ کیوں کہ اگرچہ اس صدی میں یورپ کے ہر ملک میں احیائے علوم و فنون ہوا، مگر اس صدی کے علم و فن کی جستجو میں ایک نئی روشنی تو تھی،  البتہ علم و حکمت کی گہرائی نہ تھی کہ وہ ذہنوں کو ذات پات اور سماجی پابندیوں کے بندھنوں سے رہائی دے سکے۔ اس زمانے میں سماجی شائستگی کا معیار حاصل کرنے کو کسی شخص کے لیے ضروری تھا کہ معاشرتی ممنوعات کا زبردست لحاظ رکھے۔ اس پر تکلف اور ساختہ ماحول کے باعث اٹھارویں صدی کی یورپی تہذیب فطری روش سے بہت ہی دور ہو گئی۔ اتنی دور کہ ان دونوں میں کوئی تعلق ہی نہ رہا۔ اس لیے ضروری تھا کہ ان میں از سر نو ہم آہنگی پیدا کی جائے۔

اسی اٹھارویں صدی کے آغاز کے بعد اور انیسویں صدی کے پہلے پچاس سالوں میں، اُس اندرونی جوش اور ابال کی تخلیق، نشو نما، بلندی اور زوال ہوا، جسے رومانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ وضاحت کے طور پر عموماً کہا جاتا ہے کہ یہ ’’رومانیت‘‘ ادب اور زندگی کی فرسودہ رسموں کے خلاف ایک بغاوت تھی،  انفرادی احساسات و تخیل کی ایسی فتح تھی، جو رومان نوازوں کو ذہنی پژمردگی پر حاصل ہوئی۔ حقیقی زندگی کی بے مزہ کیفیتوں سے فرار۔ دور دراز کی غیر معین اور لامحدود دلچسپیوں کے لیے ایک تشنگی وغیرہ وغیرہ۔

رومانیت کی یہ تمام وضاحت صحیح ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ایک تشنگی، ایک فرار اور ایک بغاوت سے زیادہ پیچیدہ اور گہرا معاملہ ہے۔ کیوں کہ ایک طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ ’’رومانیت ‘‘کی اتنی ہی قسمیں ہیں جتنے کہ رومانی افراد___لیکن ان افراد میں بھی چند خصوصیتیں یکساں ہوتی ہیں۔ ان خصوصیتوں کے اجتماع کا ہی دوسرا نام رومانی ذہنیت رکھا جا سکتا ہے۔

اس رومانی ذہنیت کے تصور اور مفہوم کو سمجھنے کے لیے فرانس کے ادیب روسو کی شخصیت پر ایک چھچھلتی ہوئی نظر ڈالنا چاہیے۔ روسو کو اکثر یورپی رومانیت کا روحانی باپ کہا گیا ہے۔ اگرچہ اس کا وجود رومانیت کی تحریک ادبی سے بہت پہلے ہوا، پھر بھی رومانی ذہنیت کے مطالعے کے لحاظ سے روسو ایک بہت اچھا موضوع ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک گہرا مانع عقلیت کا رجحان تھا اور اس کے ساتھ ہی اس میں اُس مدافعت کی بھی کمی تھی، جس کا ہونا حقیقت سے مقابلے کے لیے ضروری ہے اور جس کے نہ ہونے کی وجہ ہی سے ذہن انسانی اس دنیا سے تنگ آ کر رومانی رجحانات کا حامل ہو جاتا ہے اور اس میں ایک تفکرانہ خود بینی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ حقیقی زندگی کے عملی پہلو کا ایک خیالی نعم البدل سوچ لیتا ہے۔ روسو کے مشہور عالم ’’اقبال نامہ‘‘ سے ظاہر ہے کہ وہ ایک جھجکنے والا،  شرمیلا سا انسان تھا، سپنے دیکھنے کا عادی،  جس کی ہستی ہمیشہ حالات و واقعات کے رحم پر اپنے دن گزارتی رہی۔ قوت عمل کی کمی نے اسے کشمکش حیات سے پنپنے کے ناقابل بنا دیا تھا۔

اس کے علاوہ سماجی طور پر وہ ایک ’’مردود‘‘ انسان تھا۔ اپنے طبقے کو چھوڑ کر اس نے سماج کے جس اونچے طبقے میں اپنی فصاحت و بلاغت اور اپنے جوہر خدا داد کے بل پر بار پایا، اُس طبقے نے اسے کبھی برابری کا رتبہ نہ دیا۔ اسے ہمیشہ ایک ’’طباع اچھوت‘‘ ہی سمجھا گیا اور روسوایسے حساس انسان کو یہ بات ہمیشہ ناگوار گزرتی رہی اور اس کی خود پسندی و خود بینی کو صدمہ پہنچاتی رہی۔ چناں چہ رفتہ رفتہ اُس کے ذہن میں یہ بات جڑ پکڑ گئی کہ عملی لحاظ سے اس کی سیرت میں جو خامیاں ہیں، اُن کی ذمہ داری اُس پر نہیں بلکہ اس سماج اور اس تہذیب پر عائد ہوتی ہے، جس کی وہ پیداوار تھا اور اس کی تمام تصنیفات میں اسی خیال کی ترجمانی ہونے لگی۔ وہ اپنی خارجی زندگی اور اپنے ماحول کو الزام دینے لگا۔

یورپ کے جدید شعور کے لحاظ سے روسو کی اہمیت اس بات میں ہے کہ وہ پہلا شخص تھا،  جس نے اُس ’’علاحدگی‘‘ اور ’’دوری‘‘ کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی، جو یورپ میں لوگوں کے ذہنوں پر ایک ہمہ گیر طریقے سے اس وقت چھا رہی تھی،  جب پرانے جاگیردارانہ نظام پر نیا صنعتی عہد بری طرح حملہ آور ہو رہا تھا۔

جس بات کو رومانیت کہا جاتا ہے، وہ اُس ہنگامہ پرور زمانے کا ایک متعلقہ رد عمل تھا، کیوں کہ اس زمانے نے پہلی تمام قائم شدہ رسموں اور قدر و قیمت کے معیاروں کو درہم برہم کر دیا تھا۔ تمام فرقوں اور جماعتوں کو باہم ملا دیا تھا،  تمام اعتقادات کو مٹا دیا تھا اور لوگوں کے ذہنوں کو ان کے داخلی مرکز سے ہٹا کر خارجی مرکز پر متوجہ کر دیا تھا۔ گویا روحانی انداز نظر کو مادی انداز نظر بنا دیا تھا۔

یہ ایک عام دیکھی بات ہے کہ جب کبھی اس طرح کا انقلابی یا ہنگامہ پرور دور طاری ہوا اور اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ایک بے ترتیبی اور بے اطمینانی پھیل جائے تو لازماً چند ایسے افراد پیدا ہو جاتے ہیں، جو عضوی اعتبار سے کسی خاص گروہ یا جماعت سے تعلق نہیں رکھتے۔ وہ اپنے گرد و پیش کے حالات کو قبول کرنے کے ناقابل ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یا تو یہ ہوتی ہے کہ وہ زندگی کی تگ و دو کا مقابلہ کرنے میں کمزور ہوتے ہیں یا وہ اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق نہیں ڈھال سکتے یا ان کے اپنے شخصی مطالبات اور ذوق اس قدر بلند ہوتے ہیں کہ ان کی تسکین کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسے افراد گویا ہجوم میں بھی تنہا ہی رہتے ہیں اور اپنے خارجی ماحول سے انھیں کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہ تنہائی یا علاحدگی اسی اعتبار سے کم یا زیادہ ہوتی ہے، جتنا کہ کوئی شخص کم یا زیادہ حساس ہو اور انتہائی حالتوں میں اس قدر خطرناک صورت بھی اختیار کر جاتی ہے کہ اس فرد کے لیے اپنے خارجی حالات برداشت سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اس کیفیت کی وضاحت روسو کے الفاظ میں یوں کی جا سکتی ہے :

’’مجھے یوں محسوس ہوتا ہے،  گویا میں اس زمین پرکسی اور سیارے سے آ گرا ہوں،  جس پر میں نے پہلے زندگی گزاری ہے۔ خارجی دنیا میں مجھے جو بات بھی دکھائی دیتی ہے، اس سے مرے دل میں درد اور اذیت ہی کی تخلیق ہوتی ہے۔ ‘‘

گویا اس کیفیت کا رد عمل صرف ایک ہوسکتا ہے، یعنی ذہن کا مرکز خارجی سے داخلی دنیا میں تبدیل ہو کر قائم ہو جائے۔ اُس داخلی دنیا میں جہاں ہر طرح کی غیر عقلی دلچسپیاں اور امکانات موجود ہیں،  لیکن یوں غیر شعوری اور غیر مدلل اثرات کا مفتوح بن کر عین ممکن ہے کہ پہلے سے کہیں بڑھ کر متضاد باتوں کا سامنا کرنا پڑے۔ ایسی متضاد باتوں کا سامنا، جو رہائی اور تسکین کی بجائے قوت ارادی کے آخری اجزا کے شیرازہ کو بھی بکھیر دیں اور اس فرد کے اندرونی توازن کو درہم برہم کر کے رہی سہی بات بھی گنوا دیں۔

ان نئی پیدا ہو جانے والی داخلی متضاد کیفیتوں سے نپٹنے کے لیے ایسا فرد ایک کام کر سکتا ہے کہ وہ اپنی رہنمائی کے طور پر کسی ایک خیال، تصور یا آدرش کو مقرر کر لے۔ جو اس کے ذہن کو ایک مرکز پر قائم رکھے اور عموماً ہوتا بھی ایسا ہی ہے کہ ہر وہ شخص جو قوت عمل کی کمی سے گھبرا کر داخلی انداز نظر اختیار کر لیتا ہے،  اپنے لیے کسی رہنما اصول کا سہارا خود بخود ڈھونڈ لیتا ہے اور پھر اسی کے بل پر آیندہ اظہار نفس کرتا ہے۔ رومانی ذہنیتیں، جس اشتیاق سے اس سہارے کی جستجو کرتی ہیں، اسی سے ظاہر ہے کہ اس طرح کی نفسی مرکزیت اور خود بینی رومانی ذہنیت کا ایک ستون ہے اور دوسرا ستون وہ سچی تلاش ہے،  جسے رومانی رجحان والے افراد زندگی اور انسان میں ایک بلند ہم آہنگی کو حاصل کرنے کے لیے جاری کرتے ہیں۔ یہ ہم آہنگی، وہ طفلانہ ہم آہنگی نہیں ہوتی، جو ابتدا ئی وحشی انسان کا خاصہ تھی(یعنی حالات کے مطابق جوں توں اپنے کو ڈھال لینا)اُس میں اور اِس میں ایک امتیاز ہوتا ہے۔

وہ انتہائی داخلی انداز نظر جو کسی شخص کے زاویۂ نظر کو اس قدر محدود کر دے کہ وہ اس دنیا میں صرف اپنی ہی ذہنی کیفیتوں،  اپنے ہی احساسات اور اپنے ہی دکھ درد کو دیکھتا رہے،  ایک توازن چاہتا ہے اور یہ توازن اُس پر جوش لیکن بے مصرف تمنا سے پورا ہوتا ہے، جو اس فرد کو اپنے آپ سے دور نکل جانے پر اکساتی ہے،  بلکہ بعض دفع اُس عالمگیر حد تک پہنچا دیتی ہے، جو ایک فرد کو ایک انسان سے بڑھا کر تمام بنی نوع انسان پر حاوی کر دیتی ہے۔ والٹ وٹمن کا کلام اس کی مثال ہے۔

گویا ایک رد کیا ہوا،  تنہا علاحدہ سا انسان اس لیے رومانی انداز نظر کا حامل ہو جاتا ہے کہ اس کے بغیر اس کے لیے زندگی کے ناقابل برداشت ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے کیوں کہ وہ نہ تو حقیقت کو حسب منشا بناسکتا ہے، نہ خود حقیقت کے مطابق بن سکتا ہے اور اُس کے اور حیات کل کے درمیان جو خلا پیدا ہو جاتی ہے، اُس کے پر کرنے کو اس کا جذبۂ حفاظت نفسی اُسے اکساتا ہے۔

اس خلا کو پُر کرنے کے لیے ایک رومانی فرد دو راستے اختیار کر سکتا ہے، اور راستہ کا انتخاب اس کی افتاد طبع پر منحصر ہوتا ہے ___آیا وہ تیز اور عملی رجحان رکھتا ہے یا سست اور غیر عملی رجحان۔ غیر عملی رجحان والا ایک ایسی پناہ کی جستجو کرے گا، جو اس کے احساس تنہائی کے درد کو کم کر کے اسے آرام دے، وہ ایک خیالی دنیا میں پہنچنے کی کوشش کرے گا، ماضی کے دھندلکے میں کھو جانے کی کوشش کرے گا، مستقبل کے من مانے جال میں گرفتار ہونے کی جستجو کرے گا، اپنے ملک کو چھوڑ بیٹھے گا، کسی اور ملک کی طرف راغب ہو جائے گا، اپنے ماحول سے مختلف ماحول میں بسنا چاہے گا۔ شہری ہے تو مناظر قدرت اسے پسند آ جائیں گے،  دیہاتی ہو تو شہر کی الجھنوں میں جا پھنسے گا، پابند مذہب ہے تو لا مذہبیت کو اپنا شعار بنا لے گا، تخیل پرستی، نظارہ بینی،  روحانیت، جذبات پرستی___یہ سب وہ مختلف راستے ہیں، جن پر ایسے افراد اپنی رومان پسندی کی وجہ سے جا پڑتے ہیں۔ ‘‘

اسی بات کو ہم چند لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ غیر عملی اور مفکر رومان پسند زندگی سے پہلو تہی کرتا ہے اور دبی ہوئی قوت عمل والا رومان پسند زندگی اور حقیقت کا ایک زبردست ناقد بن سکتا ہے،  بلکہ بعض اوقات ایک باغی بھی ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ میدان عمل سے باہر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بھرپور زندگی کا آرزومند بھی ہوتا ہے اور اس لیے معاشری ماحول اُسے اپنا دشمن نظر آتا ہے،  اپنا ایک ایسامخالف، جو اس کے ارادوں میں قدم قدم پر ایک روک بنتا ہو۔

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’’رومانیت‘‘ محض ایک کمزوری ہی کا دوسرا نام ہے ؟ کیا یہ ایک طاقت نہیں،  بلکہ طاقت کا سراب ہے ؟ ___جواب یہ ہے کہ ’’رومانیت صرف کمزوری ہی کا دوسرا نام نہیں ہے۔ بہت سی مثالیں ایسے وقتوں کی پیش کی جا سکتی ہیں، جب ایسی ’’رومانیت‘‘ کا ظہور ہوا، جس میں ایک زور تھا اور ایک قوت تھی۔ لیکن یہ ضرور کہنا پڑے گا کہ ایسے دور صحیح معنوں میں رومانی نہیں تھے،  بلکہ کسی حد تک ’’مہماتی‘‘ تھے، یعنی ان میں چند افراد اپنے خیالات کی مہموں کو سر کرنے میں کوشاں رہے۔ جیسے آج کل اردو میں جوش ملیح آبادی یا ترقی پسند ادیب اور شعرا۔

ان تمام باتوں سے رومانی ذہنیت کی پیچیدہ حیثیت کا اظہار ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ایک واحد خصوصیت رومانی کا تعلق بھی بعض دفعہ ایسی جبلّی تحریکات سے ہو جاتا ہے،  جن کو اصل رومانی انداز نظر سے دور کی بھی نسبت نہیں ہوتی۔ مثالاً اختر شیرانی اور حالی کو کوئی بھی ایک گروہ میں رکھنے پر تیار نہیں ہوسکتا۔ لیکن ان دونوں شاعروں نے ایک ہی رومانی روح حیات کا مختلف اظہار اپنی اپنی طبیعت کے مطابق کیا ہے۔ حالی نے ماحول کے قومی زوال اور ذہنی جمود سے باغی ہو کر ایک نیا رستہ نکالا ہے اور اختر شیرانی نے اردو کی عشقیہ شاعری کی جنسی تخریب سے بیزار ہو کر اُس میں فطری شگفتگی پیدا کی ہے۔

اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے رومانیت کی مخالفت نہیں کرنا چاہیے کہ رومانی شاعر ایسے افراد ہوتے ہیں،  جو اپنے داخلی احساسات اور خواب آلود جذبات کی بنا پر عملی زندگی سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ رومانی تحریکات کی قدرو قیمت اسی حساب سے بدلتی جاتی ہے، جس سے ہم اسے بروئے کار لائیں اور جس رخ پر ہم اسے چلا دیں۔

بہر حال ایک بات مسلّم ہے کہ صحت خیال کے لیے استحکام کی ضرورت ہے اور استحکام کا نتیجہ حقیقت پرستی ہے یا یوں کہیں کہ استحکام یا سکون و جمود سے رومانیت اور حقیقت پرستی کا وہ امتزاج پیدا ہو جاتا ہے، جو ہمیں کسی حد تک غالب میں ملتا ہے، کیوں کہ اگرچہ غالب کی قنوطیت اسے یہ کہنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

اور اس کا انداز نظر غیر عملی یا رومانی ہو جاتا ہے۔ لیکن غالب ہی ظاہری صورتوں کی ماہیت معلوم کرنے پر ہمیں اکساتا ہے، ’’دل ناداں !تجھے ہوا کیا ہے ؟___آخر اس درد کی دوا کیا ہے ؟___ابر کیا چیز ہے،  ہوا کیا ہے ؟___عشوہ و غمزہ و ادا کیا ہے ؟ ___اس کا یہی تجسس ہم میں حقیقت پرستی کے رجحان پیدا کرتا ہے۔

رومانی شعرا کی ادبی تخلیقات کا باعث زندگی سے ان کی ہم آہنگی نہیں، بلکہ یہ زندگی سے ان کی مناشقت تھی، جس سے بچنے کو وہ اپنے لیے بہت سے شاعرانہ نعم البدل تلاش کرتے تھے۔

یہ تو ادب اور آرٹ میں کم و بیش یا مکمل رومانی رجحان رکھنے والے فنکاروں کی بات ہوئی، لیکن اس کے علاوہ ہم سب بھی ایک طرح سے رومانی ہی ہیں، خواہ ہم میں اور کسی قسم کی خصوصیات بھی ہوں۔ ہمارے رومانی ہونے کی کئی دلیلیں ہیں۔ ہم دنیا کی موجودہ حالت سے مطمئن نہیں، اس لیے ہم رومانی ہیں۔ ہمارے دلوں میں زندگی کی بلندتر صورتوں کو حاصل کرنے کی ایک گہری آرزو ہے، اس لیے ہم رومانی ہیں،  ہم حسن اور تکمیل کے خواہاں ہیں، اس لیے ہم رومانی ہیں۔ رومانیت کوئی خطرناک رجحان نہیں۔ البتہ اس رومانیت کو اس طور پر تنظیم دینا کہ وہ عملی روش اختیار کر کے نہ صرف زندگی کے مطابق ہو جائے بلکہ اسے مکمل بنائے، اس میں ایک شدت پیدا کر دے اور ہماری تخلیقی کوششوں میں ایک نہ مٹنے والا تواتر پیدا کر دے،  یہ بات از بس ضروری ہے۔

اسی رومانی ذہنیت اور رومانی تحریک کی مثال جرمنی کے یہودی شاعر ہائینے کی شخصیت ہے۔

ہیولاک ایلس لکھتا ہے کہ ہائینے کے ذہن کا ایک حصہ یونانی تھا اور دوسرا عبرانی ___لیکن خواہ ہائینے کے کلام میں اُس کا یونانی پہلو زیادہ تر کارفرما ہے یا عبرانی پہلو، اس نے زندگی کے لیے، جو آدرش قائم کیا تھا، اس کے لحاظ سے دونوں پہلوؤں کی مساوی حرکت ضروری تھی یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ وہ روح اور جسم دونوں کے سنجوگ کا جویا تھا۔

ایک جگہ وہ لکھتا ہے کہ ازمنۂ وسطیٰ کے مقدس اور خونخوار طائروں نے ہماری زندگی کے لہو کو اس درجہ چوس لیا ہے کہ دنیا ایک ہسپتال بن کر رہ گئی ہے۔ ہائینے کے دل و دماغ میں ماحول کے تاثرات سے جو تلخی پیدا ہو گئی تھی، اس کا ظہار اس فقرے سے بخوبی ہوتا ہے۔ ہائینے کی پیدایش اُس وقت ہوئی، جب گوئٹے کے جوہر خداداد کی چمک سے تمام جرمنی روشن ہو رہا تھا۔ جرمنی کے رومانی شعرا میں مرتبے کے لحاظ سے اس نے پہلا درجہ حاصل کیا، البتہ وقت کے لحاظ سے وہ ان شعرا میں آخر میں نمایاں ہوا۔ اس نے ارادہ و شعور کے ساتھ نئی احساساتی روح کو پرانی شعری صورتوں میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ وہ اپنے فن کی تخلیق سادگی اور وضاحت کے ساتھ کرتا تھا۔ اُس کے کلام پر ایک نفسی رنگ چھایا ہوا ہے، لیکن اس کے شعر کا عشرت پرستانہ رنگ کیٹولس کی طرح ایک بلندی اور وقار لیے ہوئے ہے۔

جرمنی کی تاریخ میں اپنے ملک کی آزادانہ ذہنی رہنمائی کے لحاظ سے لوتھر اور لیسنگ نمایاں درجہ رکھتے ہیں اور ہائینے کے دل میں ان دونوں کے لیے بہت عقیدت تھی اور وہ ان کے خیالات کو چاہ سے دیکھتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ وہ اپنے ملک کو پہلے سے زیادہ متحد اور با عظمت بنا دے۔ لیکن اسے موجودہ حالات میں بہت سی باتیں پسند نہ تھیں۔ ان کے خلاف اس کے دل میں ایک اندھا جوش تھا۔ پرانے نظام کے خلاف اس کی پکار آج ہماری کس قدر ہم نوائی کرتی ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتا ہے ’’پرانے سماجی نظام کو مٹنا ہی ہو گا، اس نظام کی جانچ پڑتال خوب کر لی گئی ہے اور اسے مردود قرار دے دیا گیا ہے۔ اب اسے اپنی قسمت کو بھوگنا ہی پڑے گا۔ یہ پرانا نظام، جس میں انسانوں کے دلوں میں دنیا سے بیزاری اور تلخی کی نشو نما ہوتی ہے،  جس میں انسان انسان سے ناجائز فائدے اٹھاتا ہے، ان ٹوٹی ہوئی قبروں کو اب یکسر نابود کر دینا چاہیے،  جو جھوٹ اور نا انصافی کے مسکن ہیں۔ ‘‘

لیکن کسی شخص کی فطرت اور سیرت کو بخوبی سمجھنے کے لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ اس کی زندگی کے خاص خاص واقعات اور عام حالات کو مد نظر رکھا جائے۔ جب ہم ہائینے کی زندگی پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ’’آب حیات‘‘ میں سید انشا کا حال یاد آ جاتا ہے۔ آزاد مرحوم نے سعادت یار خاں رنگین کی زبانی انشا کی زندگی کے چار دور کیے ہیں۔ ہائینے کی زندگی کو بھی ہم اسی طرح تقسیم کر سکتے ہیں۔

ہائینے ۱۳دسمبر ۱۷۹۹ء کو دریاے رہائن(Rhine) کے کے کنارے ڈیوسُل ڈورف(Dusseldorf) کے قصبہ میں پیدا ہوا۔ یہ مقام اس وقت فرانسیسیوں کے زیر حکومت تھا۔ ہائینے کے ماں باپ دونوں یہودی تھے۔ اپنی نسل کے بارے میں ہائینے کے جو خیالات تھے، ان کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ ایک بار اس نے کہا تھا کہ یہی نسل وہ خام مواد ہے، جس سے دیوتاؤں کی تخلیق ہوتی ہے۔ ہائینے کی ماں کا گھرانہ اس کی پیدایش سے ایک صدی پہلے ہالینڈ سے آ کر رھائن کے کنارے پر آباد ہوا تھا۔ ہائینے کی ماں کا نام بیٹی (Betty)تھا۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھی اور اسے اپنی اعلیٰ تعلیم میں اپنے بھائی سے مدد ملی تھی، جو ایک مشہور ماہر طب گزرا ہے۔ وہ انگریزی اور فرانسیسی دونوں زبانیں بخوبی جانتی تھی اور جرمنی تو اس کی اپنی زبان تھی۔ روسو اور گوئٹے اس کے محبوب مصنف تھے۔ ناول یا شاعری سے اسے کوئی دلچسپی نہ تھی اور اس کے رجحانات جذباتی نہیں بلکہ منطقی تھے اور الفاظ کی صحیح قدرو قیمت کے متعلق وہ بہت محتاط رہتی تھی۔ چوبیس سال کی عمر میں، اُس نے جو خطوط لکھے ہیں،  ان سے پتا چلتا ہے کہ اس کی طبیعت میں ایک بے باکی، ایک جراَت اور ایک شیرینی تھی۔ یوں بھی وہ ایک دلکش عورت تھی اور اس کے چاہنے والوں کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔

۱۷۹۶ء کے موسم بہار میں اُن کے گھر میں ایک شخص سمسون(Samson) ہائینے آیا۔ یہ شخص ہمینور کے ایک یہودی سوداگر کا بیٹا تھا۔ دیکھنے میں ایک لمبا چوڑا جوان رعنا؛ اس کے بال نرم اور سنہرے تھے اور اس کے ہاتھ بہت خوبصورت تھے۔ ہائینے اپنے باپ کے متعلق لکھتا ہے :’’اس میں پختہ سیرت کا فقدان تھا، ایسا فقدان جیسا کہ عورتوں میں ہوتا ہے اور وہ ایک بڑی عمر کا بچہ معلوم ہوتا تھا۔ ‘‘ اس شخص سمسون ہائینے اور بیٹی میں کچھ عرصہ معاشقہ ہوتا رہا اور پھر دونوں نے شادی کر لی اور دونوں ڈیوسل ڈورف ہی میں رہنے سہنے لگ گئے۔

ہائینے کی طبیعت میں جو ڈھیلے اور غیر متوازن خصائص اور تکلف تھا، وہ اس نے اپنے کمزور اور رومانی باپ سے ورثے میں لیا اور جیسا کہ ہائینے خود بھی تسلیم کرتا ہے، اُس کی ذہنی نشو نما اور ارتقا میں اس کی ماں ہی کا حصہ زیادہ تھا اور ماں جس کی فطرت صحت ور اور مضبوط تھی اور جو ذہنی اور جذباتی طور پر بہت پختہ عورت تھی۔ شاعروں اور مشاہیر کی ذہنی نشو و نما اور زندگی میں جو درجہ اور دخل ان کی ماؤں کو رہا ہے،  اس کی مثال ہمیں نپولین، باڈلئیر اور وٹمن کے علاوہ ہائینے میں بھی ملتی ہے۔

ہیری ہائینے ایک طفل طرار تھا اور اگرچہ وہ جسمانی طور پر مضبوط نہ تھا لیکن اس کے احساسات تیز تھے۔ وہ مطالعے کا بے حد شوقین تھا اور ڈان کوہیٹے (Don Quixote)اور گولیور کے سفر(Gulliver’s Travels) اُس کی محبوب کتابیں تھیں۔ ان کتابوں کے نکتہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کیوں کہ ان کتابوں ہی کی خیالی دنیائیں تھیں،  جن کا نقش شاعر کے ذہن پر بہت گہرا ہوا اور نوجوانی اور آیندہ عمر میں ان طفلانہ تاثرات کا اظہار اس کے کلام میں ہوا۔

ہائینے اپنی بہن کے ساتھ مل کر بچپن ہی سے شعر و شاعری کے مشغلہ میں حصہ لیا کرتا تھا اور دس سال کی عمر میں اس نے ایک ایسی نظم لکھی، جسے اس کے استادوں نے ایک شاہکار تسلیم کیا۔ سکول کی طالب علمی کے زمانہ میں وہ دن رات بہت اچھی طرح پڑھائی میں مصروف رہا۔ اس دوران میں صرف ایک بار اسے غم کا سامنا ہوا۔

ایک دفعہ وہ سکول کے کسی مجمع میں ایک نظم پڑھ کر سنارہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہیں ایک خوبصورت لڑکی پر پڑھیں۔ یہ لڑکی سامعین میں موجود تھی۔ وہ پڑھتے پڑھتے جھجکا، رک رک کر اُس نے پھر پڑھنے کی کوشش کی، لیکن بے کار، وہ خاموش ہو گیا اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ مشہور ماہر جنسیات ہیولاک ایلس لکھتا ہے کہ اس واقع سے ہائینے کی زندگی میں بچپن ہی سے اس شدت احساس کا اظہار ہوتا ہے، جو اس کی فطرت میں موجود تھی۔ گویا وہ بچپن ہی سے اپنے جذبات و تخیل کا محکوم تھا۔

اس بات کو کئی سال گزر گئے۔ ہائینے سترہ سال کا تھا اور اس کا امیر چچا سلیمان ہائینے اس بات کی بے کار کوشش میں تھا کہ اپنے بھتیجے کو تجارت کی طرف لگا دے۔ اس زمانہ میں ہائینے کی ملاقات اس عورت سے ہوئی، جس نے اس کے دل میں پہلی اور آخری بار ایک گہرے جذبہ کو بیدار کیا تھا۔ لیکن اس جذبہ کی اس کے سوا اور کسی طرح تسکین نہ ہوسکی کہ شاعر کی نظمیں اس سے چمک اٹھیں۔ ہائینے نے کبھی اس عورت کا نام تک اپنی زبان پر نہ آنے دیا اور میر تقی کی طرح ۱ ساری عمر ایک غیر سر زمین میں جا کر گزار دی اور اپنی محبوبہ کی شخصیت کو ہمیشہ چھپائے رکھا۔ یہاں تک کہ اس کی موت کے بھی بہت بعد میں جا کر لوگوں کو معلوم ہوا کہ جس عورت کے متعلق شاعر ایسے میٹھے اور دکھ بھرے گیت گاتا رہا ہے اور جس کی شخصیت پر وہ میر یا، زلیما اور ایو سے لینا کے ناموں کے پردے ڈالتا رہا ہے، وہ اس کی بنت عم ایمیلی ہائینے تھی۔

ہائینے کی شخصیت کا انسانی پہلو تو اپنے اس ناکام افسانۂ محبت کی تلخی کے اثرات سے عہدہ بر آ ہو گیا۔ لیکن اس کی رگوں میں، جو یہودی خون دوڑ رہا تھا۔ اسے کبھی اس صدمے سے صحت نہ ہوئی۔ بلکہ اس کے یہودی پہلو نے تو اس موضوع کو ہمیشہ کے لیے اپنا پڑاص،پنجند لائبریری جنہوں نے جدید ادب، میرا جی نمبر کی فائل فراہم کیلیا اور اس قدر وسعت دی کہ اس سے نہ صرف اس کے کلام میں ایک مستقل رنگ پیدا ہو گیا، بلکہ یہ اس کی شاعری کا ایک نمایاں جزو بن گیا۔ اردو میں اختر شیرانی کے کلام میں جس طرح سلمیٰ کی آمد ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ ساون کی پھیلتی ہوئی گھٹا کی طرح اُس کی تمام تخلیقات شعری میں پڑھنے والوں کو سلمیٰ ہی کا جلوہ نظر آنے لگا، اسی طرح ہائینے کے کلام میں بھی ایک ایسی عورت ایک تواتر کے ساتھ نمودار ہوتی رہی، جس سے اسے نوجوانی کے زمانہ میں محبت ہوئی اور جس نے شاعر پر ایک زر دار کو ترجیح دے کر جرمن زبان میں لافانی نغمے پیدا کیے۔ اپنے کلام کی تلخی کی وضاحت کرتے ہوئے ہائنے خود تسلیم کرتا ہے :

تعلیل

لوگ کہتے ہیں کہ گیتوں میں مرے ہے تلخی!

اے مری جان! کہو اور بھی کچھ ممکن ہے

جس کا دارو نہ ہو تم نے ہی وہ جادو کر کے

تم نے ہی ان کو بنایا ہے مری جان! زہری

لوگ کہتے ہیں کہ گیتوں میں سم قاتل ہے !

یہ نہ ہوتا تو بتاؤ کہ بھلا کیا ہوتا!

ناگ رہتے ہیں ہزاروں مرے پہلو میں سدا

اور اے جان جہاں ! ان میں تمہارا دل ہے !

چار سال تک ہائینے اس ناکام جذبے کو پرورش کرتا رہا، جو اس کے دل میں اپنی بنت عم کے لیے پیدا ہوا تھا اور جب اس نے شادی کر لی تو شاعر کے احساسات کا رخ اپنی پہلی محبوبہ کی چھوٹی بہن تھریس کی طرف ہو گیا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ نے کوئی خاص ترقی نہیں کی۔

اپنے چچا کی مدد سے ہائینے نے برلن اور دو اور مقامات پر قانون کا مطالعہ کیا۔ برلن میں اس پر جرمن فلسفی پروفیسر ہیگل کے خیالات کا بہت نمایاں اثر ہوا اور اسی اثر کی وجہ سے بعد میں جا کر ہائینے کی ذہانت میں وہ خصائص پیدا ہوئے، جن کے باعث اس کے کلام نے رومانی ادب و شعر کا خاتمہ کر دیا۔ برلن ہی میں ۱۸۲۱ء میں اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا اور اس کے بعد سے وہ اپنے اصلی رنگ میں دنیا کی نظروں کے سامنے آنے لگا۔

اس زمانہ میں وہ ایک خوش طبع اور نرم مزاج نوجوان تھا، لیکن میل جول میں وہ بہت محتاط تھا اور اپنے صحیح احساسات کا اظہار اسے ناپسند تھا۔ اس کے حلیہ میں درمیانہ قد، دبلا پتلا جسم، لمبے ہلکے بھورے بال، پیلا بیضوی چہرہ، جس پر داڑھی اور روشن نیلی لیکن کم نظر آنکھیں، یونانی ناک، گالوں کی اونچی ہڈیاں،  بڑا سا دہن اور بھرے ہوئے لوبھی، استہزا سے پُر ہونٹ___شامل ہیں۔ صورت شکل سے وہ جرمنی کا خاص باشندہ معلوم نہیں ہوتا تھا۔ تمباکو نوشی کی اسے عادت نہ تھی، بئیر پینا وہ ناپسند کرتا تھا اور شراب تو اس نے پیرس پہنچنے سے پہلے چکھی بھی نہ تھی۔

چند سالوں تک وہ قانون کا مطالعہ کرتا رہا، لیکن یہ کام نہ تو کرنا چاہتا تھا نہ اُس میں اس کے کرنے کی اہلیت تھی۔ لیکن اس زمانے میں اس کا شاعرانہ پہلو ذرا دبا دبا ہی رہا۔ کبھی کبھی اسے دورہ سا پڑتا، اس کے دل میں کوئی نیا خیال کروٹ لیتا، کسی دلکش منظر فطرت، کسی باغ کے پھولوں کو وہ دیکھتا، کوئی حسین لڑکی اُس کی نگاہوں کے سامنے آتی اور اس کے احساس شعری کو تحریک ہوتی اور وہ خیال کرتا کہ یوں اپنے مہربان اور امیر چچا کے سہارے پر عمر بسر کرتے رہنا کچھ اچھا نہیں، لیکن یہ شاعرانہ تحریکیں یہیں تک بغاوت پیدا کر کے رہ جاتیں۔

قانون کا ڈپلوما حاصل کرنے کے کچھ عرصے کے بعد اس نے اس توقع میں کہ جرمنی میں اسے کوئی سرکاری ملازمت مل جائے، یہودیت کو چھوڑ کر عیسائیت کو اختیار کر لیا۔ لیکن اسے جلد ہی اپنے اس اقدام پر پشیمانی ہوئی، کیوں کہ اس سے کچھ فائدہ نہ ہوا، بلکہ الٹا نقصان ہوا۔ عیسائی اس کے نئے مذہب کی ’’سطحیت‘‘ پر اس کے دشمن ہو گئے اور یہودی اس کے ارتداد پر۔ لیکن اس کے خاندان کو اس کی تبدیلی اعتقاد کی کوئی خاص پروانہ تھی۔ ہائینے کی ماں مذہبی قسم کی تھی، لیکن اس کے باپ کو ان باتوں سے سروکار نہ تھا۔ البتہ ان کے گھر میں یہودی مذہب کے رسم و رواج پر باقاعدہ عمل در آمد ہوتا تھا۔

ابھی اس کے ذہن سے وکالت کا خیال پوری طرح نکلا نہ تھا کہ ۱۸۲۶ء میں اس کی نظموں کے دوسرے مجموعے کی پہلی جلد شائع ہوئی۔ اس مجموعے کی بے باکی، دلکش انداز بیان اور جدت نے اسے تمام جرمنی میں مشہور کر دیا۔ دوسری جلد پہلی سے بہتر اور زیادہ بے باک تھی، اسے دیکھ کر بعض لوگ خوش ہوئے اور بعض ناخوش۔ بلکہ آسٹریا، پرشیا اور چند دوسری چھوٹی ریاستوں میں تو اسے ممنوع قرار دیا گیا۔

یہ ہائینے کی زندگی کا پہلا رنگ تھا۔

دوسرا رنگ وہ تھا کہ ہائینے جرمنی کو چھوڑ کر انگلستان کو روانہ ہوا۔ جرمنی سے اس کا دل بیزار تھا اور انگلستان میں اسے اپنے وطن کی بہ نسبت زیادہ آزادی نظر آتی تھی، لیکن وہاں پہنچ کر اس پر جلد ہی ظاہر ہو گیا کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں اور اسی زمانے سے اس کے دل میں انگلستان اور (یہاں کے شاعروں کے سوا) ہر اُس بات سے جو اس ملک سے تعلق رکھتی ہو،  ایک زبردست تلخی اور نفرت پیدا ہو گئی۔

اپنے چچا کی اقتصادی مدد برابر اس کے شامل حال رہی، لیکن دولت کے باوجود لندن کا شہر اسے پسند نہ آیا، صرف انگلستان کی سیاسی زندگی میں اسے دلچسپی تھی۔ یہاں سے ہٹ کر وہ اٹلی پہنچا، جہاں اس نے اپنی زندگی کے سب سے شاداں دن بسر کیے اور آخرکار جب اسے یقین ہو گیا کہ جرمنی میں اسے سرکاری ملازمت کبھی بھی نہیں مل سکتی،  تو اس نے وطن کو چھوڑ کر ۱۸۳۱ء کے بعد سے مستقل طور پر پیرس کو ہی اپنا گھر بنالیا اور مختصر وقفوں کے علاوہ یہیں وہ جرمن اخباروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے بسر اوقات کرتا رہا اور آخر دم تک یہیں رہا۔

ہائینے کی زندگی کا تیسرا رنگ اس کے پیرس میں داخلے سے شروع ہوتا ہے۔ پیرس کو وہ ’’نیا یروشلم ‘‘ کہتا تھا۔ اس وقت وہ اکتیس سال کا تھا، ابھی جوانی باقی تھی اور وہ نئے اثرات کو قبول کرنے کے قابل تھا اور باوجود سر درد کے دوروں کے اس کی صحت اچھی تھی۔ ابھی اس کی ذہنی نشو نما جاری تھی اور یہ نشو نما جوانی کے بعد رک نہیں گئی، بلکہ آخر دم تک جاری رہی۔ یہ مانا کہ اس کی نظموں میں اب وہ پہلی سی غیر مادی اور آسمانی دلکشی باقی نہ رہی تھی، لیکن اس کی بجائے حقیقت پر اس کی گرفت بڑھ گئی تھی، اس کے طنزیہ قہقہے بلند تر ہو گئے تھے اور اس کی درد انگیز چیخیں زیادہ تند و تیز۔

ادبا اور فنکاروں کے اس گروہ نے، جو اس وقت پیرس کے ماحول میں یکجا تھا، ہائینے کا دلی استقبال کیا۔ اس گروہ میں وکٹر ہیوگو(Victor Hugo) ایسا شاعر اور ادیب تھا،  جارج سینڈ (George Sand) جیسی ناول نگار مصنفہ تھی، بالزاک(Balzac) ایسا داستان گو مفکر تھا، الفریڈ دی میو(Alfred Meissner) سے جیسا شاعر اور ڈراما نگار تھا، تھیو فائل گائٹے (Thophile Gautier) ایسا انشا پرداز اور افسانہ نویس تھا اور ہائینے نے ان سب فنکاروں کی رنگارنگ دلچسپیوں میں دلی مسرت اور اشتیاق کے ساتھ حصہ لینا شروع کر دیا۔ کچھ عرصے تک اس کا تعلق سینٹ سائمن اور اس کے پیروؤں سے بھی رہا۔ یہ گروہ انسانیت کے مذہب کی تبلیغ کرتا تھا، اس لیے ان کے خیالات میں ہائینے کو اپنے جمہوری خیالات کے خوابوں کی تکمیل دکھائی دی۔

پیرس پہنچنے سے چند سال بعد ہائینے کے دل میں ایک ایسا تعلق خاطر پیدا ہوا، جسے اس کی زندگی میں بہت نمایاں دخل رہا۔ ۳۵۔ ۱۸۳۴ئکے موسم سرما میں اس کی واقفیت ’’میتھلڈے یوحینی میرات‘‘ (Mathilde Crescence Mirat)سے ہوئی۔ یہ ایک سولہ سالہ، نوجوان اور زندہ دل لڑکی تھی، جس کا باپ ایک امیر اور بلند مرتبہ آدمی تھا، لیکن وہ اس کی جائز لڑکی نہ تھی۔ نارمنڈی سے پیرس میں وہ اس لیے آئی تھی کہ ایک جوتوں کی دکان میں کام کرے، جو اس کی چچی کی ملکیت تھی۔ ہائینے کا گزر اکثر اس دکان کے سامنے سے ہوتا تھا۔ پہلے پہل تو وہ دونوں ایک دوسرے کو دکان کے شیشوں میں سے ہی دیکھتے رہے، لیکن رفتہ رفتہ یہ تعلق گہرا اور زیادہ قریبی ہو گیا۔ میتھلڈے نہ لکھنا جانتی تھی نہ پڑھنا۔ ایک دیہاتی قسم کی سیدھی سادی لڑکی، جو بیرونجات سے پیرس میں کام کاج کے لیے آئی ہو لکھنا پڑھنا جان بھی کیوں کر سکتی تھی۔ چناں چہ جب عشق و عاشقی کا افسانہ شروع ہو کر نشو نما پانے لگا، تو سب سے پہلے یہ فیصلہ کیا گیا کہ کچھ عرصے کے لیے شاعر کی محبوبہ سکول میں جا کر لکھنا پڑھنا سیکھے۔ اس تعلیم و تدریس کے بعد ہائینے نے اس کے ساتھ مل کر ایک گھر میں رہنا شروع کر دیا، لیکن اس مل کر رہنے میں عقد و مناکحت کی عام پابندیوں کو کوئی دخل نہ تھا۔ مل کر رہنے سہنے کا یہ باہمی سمجھوتہ ایک ایسا نظام تھا، جسے خاص ’’پیرس کا گھریلو نظام‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ پیرس میں اس طور پر رہنے کو سماجی لحاظ سے تقریباً جائز سمجھا جاتا تھا اور ہائینے کو بھی اس طریق زندگی پر کوئی اعتراض نہ تھا، بلکہ یہ انداز اس کے لیے مرغوب خاطر تھا کیوں کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ شادی بیاہ کے معنی مذہبی یا قانونی بندھن نہیں ہیں۔ لیکن چند سالوں کے بعد اسے مجبوراً یہ رسمی زنجیر بھی پہننا ہی پڑی۔ نوبت یوں آئی۔ ہائینے نے ایک عورت میڈم سٹراس کے متعلق کچھ رائے زنی کی۔ میڈم سٹراس کے ایک دوست کو ہائینے کی باتیں ناگوار گزریں اور نوبت مبارزہ تک پہنچی۔ اس مبارزہ میں شامل ہونے سے پہلے ہائینے نے اس خیال سے اپنی رفیقۂ حیات سے باقاعدہ شادی کر لی کہ اگر وہ اس جھگڑے میں کام آ گیا، تو اس کے بعد اس کا رتبہ محفوظ رہے۔ اس شادی کی رسم کے بعد اُس نے اپنے ان تمام دوستوں کو کھانے کی دعوت دی، جن کا اپنی اپنی محبوب عورتوں سے اسی طرح کا تعلق تھا۔ اس دعوت سے ہائینے کا مقصد یہ تھا کہ اُس کے دوست بھی اس کی طرح ہی اپنی اپنی رفیقۂ حیات کو باقاعدہ نکاح میں لے آئیں،  لیکن معلوم نہیں کہ اس کا یہ مقصد پورا ہوا کہ نہیں۔

اس بات کو سمجھنا کچھ خاص مشکل نہیں کہ ایک ایسے شاعر کے دل میں جس کے احباب کے حلقے میں بہت سی ذہنی طور پر ترقی یافتہ اور اونچے درجہ کی عورتیں بھی شامل تھیں، کس طرح ایک معمولی سی سیدھی سادی، دیہاتی، زندہ دل اور خوبصورت لڑکی کے لیے اتنی زبردست گہری اور مستقل کشش پیدا ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نوخیز لڑکی میں ایک بھولپن تھا، اس کی ہنس مکھ صورت میں ایک سادگی تھی، ایک طفلانہ بے ساختگی تھی اور وہ محض ایک نادان ہستی تھی۔ ہائینے کے لیے یہی بات بے حد دلچسپ تھی کہ اس کی بیوی نے اس کی نظموں کا کبھی ایک مصرع بھی نہ پڑھا تھا، اسے معلوم ہی نہ تھا کہ ایک شاعر ہوتا کیا بلا ہے،  وہ اگر ہائینے کو چاہتی تھی، تو صرف ہائینے کی حیثیت میں ہی چاہتی تھی اور ہائینے کے لیے اس میں ایک مستقل ماخذ تھا، تازگی کا، شگفتگی کا، نت نئے جوش کا۔ وہ گویا زندگی کے تھکا دینے والے سفر میں اس خوش مزاج اور سادہ دل عورت کی طفلانہ مزاجی سے قدم قدم پر تازہ دم ہو جاتا تھا اور تازہ دم ہونے کی اسے ضرورت بھی تھی کیوں کہ اس کی رسمی شادی کے بعد کے سالوں میں ہی اس کے گرد اگرد داخلی اور خارجی طور پر تاریک سائے اکٹھے ہونا شروع ہو گئے اور اس کے ذہنی اور جسمانی افق پر گھٹائیں چھانے لگیں۔

اس زمانے میں وہ اگرچہ شاعری میں اپنے شاہکار تصنیف کر رہا تھا، پھر بھی ادبی ذرائع سے اس کی آمدنی بہت کم تھی۔ اس کی بیوی کوئی سگھڑ اور ہوشیار عورت نہ تھی، وہ گھر گرہستی کو اچھی طرح نہیں چلا سکتی تھی اور اپنے چچا سلیمان سے کافی وظیفہ حاصل ہونے پر بھی ہائینے کو روپے پیسے کے معاملے میں کافی دقتیں پیش آتی تھیں۔ آخر ان دقتوں ہی سے مجبور ہو کر اسے حکومت فرانس سے ایک چھوٹی سی پنشن قبول کرنی پڑی۔ وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے دشمنوں کی مخالفت بڑھتی گئی اور اُس کے دل میں بھی نفرت کا جذبہ پرورش پاتا رہا اور اُس کی اس طبعی تلخی کا اظہار، اس کے کلام میں ہونے لگا۔ اب وہ زمانہ آ پہنچا کہ اس کی محبوب بیوی بھی صرف عیش و عشرت ہی کو تحریک دینے والی عورت نہ رہی، وہ الھڑ حسینہ، جس پر کسی زمانے میں شاعر کا دل بچھا تھا، اب ایک ادھیڑ عمر کی عورت تھی، لیکن اس کی طبیعت میں کوئی فرق نہ آیا تھا، وہ اب بھی اسی طرح سادہ دل تھی، اُس کی طفلانہ خصوصیات اب بھی اُسی طرح قائم تھیں۔ وہ ہائینے کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہ لے سکتی تھی۔ اسے تھیٹر اور سرکس کے تماشوں کا شوق تھا اور ہائینے ان تماشا گاہوں پر ہمیشہ اس کے ساتھ نہ جا سکتا تھا۔ اس لیے ایسے موقعوں پر اس کے ذہن میں ایک بے ڈھب اور غیر مدلل حسد کا احساس پیدا ہونے لگا۔ اس پر طرہ یہ کہ اس کا چچا سلیمان ہائینے مرگیا اور اس کے بیٹے نے اپنے باپ کا مقرر کیا ہوا وظیفہ ہائینے کو دینے سے انکار کر دیا، لیکن آخر بہت دباؤ ڈالنے پر وہ راضی ہو گیا۔

اس پیچیدگی سے ہائینے کو ایک سخت صدمہ ہوا اور اس سے اُس مرض کو تحریک ہو گئی، جو اس کے اعصاب میں آسودہ تھا۔ فالج کی علامات نمودار ہوئیں اور چند ہی مہینوں میں وہ، اپنے قول کے مطابق،  ایک زندہ درگور انسان نظر آنے لگا۔ آیندہ سالوں میں اگرچہ اس کا ذہن ہمیشہ بالکل صاف اور روشن رہا، لیکن مرض کی وجہ سے اُس کی زندگی ایک المناک فسانہ بن گئی اور وہ اس مہلک عارضے سے آخر دم تک رہائی نہ پا سکا۔ ان وحشت ناک ایام میں اس کی زندگی کے افق پر صرف ایک روشنی نظر آئی اور وہ یہ کہ ایک نوجوان مصنفہ کیملی سیلڈن (Camille Selden)، جس کا ذکر ہائینے ’’موشے (Mouche)‘‘ کے نام سے کرتا ہے، آخری دم تک اس کی دلسوزی سے تیمار داری کرتی رہی۔

مئی ۱۸۴۸ء میں وہ آخری بار گھر سے باہر نکلا۔ بینائی کافی حد تک جاچکی تھی۔ آدھا اندھا اور آدھا لنگڑا، وہ ان گلیوں میں سے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے، جن میں انقلاب فرانس کا شور و غل اور ہنگامہ بپا تھا،  پیرس کے مشہور نگار خانے تک پہنچا۔ یہ وہ مندر تھا، جس میں حسن کی دیوی وینس کا مجسمہ رکھا ہوا تھا۔ وہ اس مجسمے کے قدموں میں جا بیٹھا اور بہت دیر تک وہیں بیٹھا رہا۔ وہ اپنے پرانے دیوتاؤں کو خیرباد کہہ رہا تھا، اس کی طبیعت اب دکھ درد کے دھرم کی عادی ہو چکی تھی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے نکل آئے۔ حسن کی دیوی نے اسے دیکھا، اس کی نگاہوں میں دیا کی بھیک جھلک رہی تھی، لیکن وہ بھی بے بس تھی۔ وہ شاعر کے دکھ کو نہیں مٹاسکتی تھی۔

ہائینے کے اس رنگ کا بیان ایک انگریز نے لکھا ہے، ’’وہ چٹائیوں کے ایک ڈھیر پر لیٹا ہوا تھا، اس کا جسم گھل کر کانٹا ہو چکا تھا اور وہ اپنی اوڑھی ہوئی چادر کے نیچے ایک بچے کی مانند معلوم ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور اس کے چہرے کے ہر ایک نقش سے دکھ درد اور اذیت کے آثار آشکارا تھے۔ ‘‘

اس درد و اذیت کو کم کرنے میں صرف مارفیا ہی ایک معاون تھا اور اس کی بڑھتی ہوئی مقدار کی روزانہ ضرورت تھی، لیکن اس مہلک مرض کے علاوہ دوسرے مصائب کے باوجود اس کی ہمت میں کسی طرح کا فرق نہ آیا۔ اس کے ڈاکٹروں میں سے ایک کی رائے تھی کہ ’’وہ غضب کا انسان ہے، اُسے صرف دو باتوں کی فکر ہے، ایک یہ کہ اپنی ماں سے اپنی حالت کو چھپائے رکھے اور دوسرے اپنی بیوی کے مستقبل کا پورا پورا انتظام کر دے ‘‘۔ اس زمانے میں اس کی ادبی تخلیقات اگرچہ مقدار میں کم ہو گئیں، لیکن ان کا زور وہی پرانی شان لیے رہا۔

۱۶فروری ۱۸۵۶ء کو ہائینے مرگیا۔

یہ اُس کی زندگی کے چوتھے رنگ کا انجام تھا۔ یہاں پھر سید انشا کے متعلق آزاد مرحوم کے الفاظ یاد آتے ہیں ___’’بعض فلاسفہ یونان کا قول ہے کہ مدت حیات ہر انسان کی سانسوں کے شمار پر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہر شخص، جس قدر سانس یا جتنا رزق اپنا حصہ لایا، اسی طرح ہر شے کہ جس میں خوشی کی مقدار اور ہنسی کا اندازہ بھی داخل ہے، وہ لکھوا کر لایا ہے ‘‘___ہائینے ___’’نے اس ہنسی کی مقدار کو،  جو عمر بھر کے لیے تھی، تھوڑے وقت میں صرف کر دیا باقی وقت یا خالی رہا یا غم کا حصہ ہو گیا‘‘۔

ہائینے کی زندگی میں جہاں اپنی بنت عم سے اس کی شیفتگی، اس کی سادہ دل بیوی، اس کی تیمار دار مؤشے اور اس کی یہودی نسل سے تعلق کو اہمیت حاصل ہے، اسی طرح اس کا پیرس پہنچنا، بھی اہم ہے۔

نیا شہر اور وہ بھی فرانس کا دارالسلطنت نئے تاثرات، نئے مقاصد، نئی دلچسپیاں، ان سے اس کی شاعرانہ تخلیق میں ایک وقفہ پیدا ہو گیا۔ چوں کہ وہ فطری طور پر حساس بھی تھا اور ایک رنگ رس انسان اور جسمانی لذتوں کا رسیا بھی، اس لیے پیرس ایسے عشرت پرست شہر کو اس کی طبیعت سے ایک قدرتی مناسبت تھی، لیکن جب تک اس کے ادبی اور نسلی آغاز پر غور نہ کیا جائے، اُس کی شخصیت کے شاعرانہ پہلو کو سمجھنا ذرا مشکل ہے۔ وہ پیدایشی لحاظ سے یہودی تھا اور اپنے ہمہ گیر خیالات اور اعتقادات کے باوجود اپنی نسل کی پیچیدہ اور متضاد ذہنیت سے پیچھا چھڑا نہ سکا۔

ایک یہودی میں اسی طرح متضاد خصوصیات کا اجتماع ہوتا ہے، جس طرح یورپ میں ایک روسی میں،  چین میں ایک چینی میں اور قدیم زمانے میں ایک سنسکرت بولنے والے برہمن میں۔ یا آج کل کسی حد تک ایک پنجابی میں۔ ایک یہودی انتہا کا حساس بھی ہوسکتا ہے اور انتہا کا نفس پرست بھی،  اس میں ذہانت کی بلند نفاست بھی ہوتی ہے اور عامیانہ کینہ پرور طنز بھی، اس کے دل میں سچے گہرے احساس بھی پیدا ہوسکتے ہیں اور وہ انہی جذبات پر قہقہے بھی لگا سکتا ہے۔ وہ خواہ کتنا ہی خود بین و خود کام کیوں نہ ہو حقیقت کے دامن کو کبھی بھی اپنے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتا۔ اُس کی بلند دماغی خواہ کتنی ہی بڑھ جائے، وہ ہر شے کی قدر و قیمت کو خود جانچ لیتا ہے، چوں کہ وہ ایک زیردست نسل سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے اس کے دل میں باغیانہ خیالات بہت آسانی سے پیدا ہوسکتے ہیں،  لیکن وہ کسی مقصد کے لیے جوش اور بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے بھی، اُس مقصد کے صحیح ہونے پر شک کر سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس کا دل ناپسندیدگی اور نفرت سے پاک ہو، لیکن ایک خاص حد تک نفرت اور اُس کے ساتھ ہی کسی گئے گزرے زمانے سے اُس کے خون میں رچا ہوا ڈر اُس میں موجود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ بعض اوقات اپنے اچھے ارادوں کو پورا کرنے سے بھی جھجک جاتا ہے۔ اگرچہ وہ عام زندگی میں اتنا محتاط ہوتا ہے کہ اُس کی حد سے بڑھی ہوئی احتیاط کو بزدلی پر محمول کیا جا سکتا ہے، لیکن استقلال میں وہ صبر ایوب  کی مثال بھی قائم کر سکتا ہے۔ وہ یہ بھی کر سکتا ہے کہ دکھ درد کو خوش آمدید کہے، بلکہ خود اپنے پر دکھ درد کو طاری کر لے اور اس درد و اذیت کی زیادتی میں بھی ایک لذت اور مسرت محسوس کرے۔ اُن قوموں میں ایک احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے،  جن سے دوسری قومیں برا سلوک کریں۔ ایک یہودی کا بھی یہی حال ہے اور اس وجہ سے اکثر یا تو وہ بہت ہی عاجز اور مسکین بنا رہتا ہے یا رد عمل کی صورت میں دعوے بازی کا عادی ہو کر ادّعائے محض کرنے لگتا ہے اور چوں کہ یہ دعوے بازی ایک دھوکا یا زعم ہوتی ہے اور اس کی بنا خود داری پر نہیں ہوتی،  اس لیے اس میں کوئی شان نہیں ہوتی۔ رنج و اندوہ اور غم و الم ہی ایک ایسی کیفیت ہے،  جس میں ایک یہودی عظمت کی بلندی کو حاصل کر سکتا ہے۔ ایسی عظمت اور بلندی جیسی کہ خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبروں میں ہوتی ہے۔ لیکن عین ممکن ہے کہ یہی پیغمبر، جو آج اپنے درد و غم کی وجہ سے عظمت کی بلندی حاصل کر چکا ہے، کل جب اپنے کو از سر نو زندگی کے عام حالات میں دیکھے،  تو اسی پہلی عظمت اور بلندی کا مذاق اڑائے۔ چوں کہ اسے سماجی لحاظ سے ایک نقلی اور ساختہ قسم کی زندگی بسر کرنی پڑتی ہے، اس لیے وہ وقت کے مطابق بدلتا رہتا ہے اور ہر قسم کا انداز نظر اختیار کرتا رہتا ہے، لیکن اپنے دل کی گہرائی میں، وہ ان بدلتی ہوئی کیفیتوں پر، اپنے آپ پر اور اپنے دیکھنے والوں پر مسکراتا رہتا ہے۔ وہ کسی بات کو بغیر سوچے سمجھے یوں ہی نہیں مان لیتا کیوں کہ اس کا مشاہدہ گہرا ہے اور اسے ہر بات کے متعلق پوری معلومات حاصل ہیں اور جب کبھی اسے مناسب اور محفوظ موقع مل جاتا ہے، وہ دنیا کی ریاکاری اور ڈھونگ کے بخیے اُدھیڑنے میں ایک مسرت محسوس کرتا ہے۔ اور جب وہ یوں ڈھول کا پول کھول دیتا ہے، تو قہقہے لگاتا ہے اور اس کی یہ ہنسی کسی درباری مسخرے کی ہنسی کی مانند ہوتی ہے، جو خود بھی بنتا ہے اور دوسروں کو بھی بناتا ہے، لیکن ایک یہودی میں درباری مسخرے اور ایک پیغمبر کی خصوصیات کا جو امتزاج ہے اس کے متعلق یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کب وہ معجزے دکھانے شروع کر دے گا اور کب خالی خولی دل لگی پر اُتر آئے گا۔

اس قدر متضاد کیفیتوں کو اپنے دل و دماغ میں پالنے اور پھر ان کے برے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے، جس نفسی زور اور قوت کی ضرورت ہے، وہ ایک یہودی میں موجود ہے۔ ہائینے اس لحاظ سے ایک مثالی یہودی تھا۔ بلکہ مستزاد یہ کہ وہ شاعری کے لحاظ سے جوہر خدا داد کا مالک بھی تھا اور اس کے اس جوہر خداداد کی نشو و نما اور تربیت جرمن تمدن اور جرمن رومانی تحریک ادبی میں ہوئی تھی۔ یہ بات جدا ہے کہ بعد میں جا کر رومانیت کی تحریک کا خاتمہ بھی اسی نے کیا۔

یورپ کے شعرا میں ہائینے سے بڑھ کر اور کوئی ایسا شاعر نہیں گزرا، جس کی ذہانت اور طبیعت میں رومانیت کے ساتھ ساتھ اس قدر مخالف رومانیت خصوصیات بھی اکٹھی ہوں۔ اُس کی نظموں کے اُس مجموعے میں، جس کا نام ’’کتاب نغمہ ‘‘(Book of Songs/  Buch der Lieder)ہے، اس کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں۔ اس کتاب کی نظموں میں سے بعض جرمنی کی رومانی شاعری کے بہترین نمونے ہیں، جن میں آہوں کا ذکر ہے، چاندنی راتوں کا بیان ہے، اُن گلاب کے پھولوں کی کہانی ہے، جنہیں ہائینے بلبلوں کی کاہل دلہنیں کہتا ہے اور طائروں کے نغموں کی صدائیں ہیں ___روحوں کے فسانے ہیں، لیکن ان کے ساتھ ہی ساتھ اچانک وہ اپنے رومانی طلسم کو توڑ دیتا ہے اور اپنے احساسات کی نزاکت کو ایک قہقہے سے مٹا دیتا ہے۔ گہرائی کو چھوڑ کر یک دم سطحی انداز اختیار کر لیتا ہے،  بے ساختگی اور آمد سے ہٹ کر یک قلم تکلف اور آورد پر اتر آتا ہے۔ جب اس کی حساس طبیعت کا بار اس کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے، تو وہ ایک نیا چولا پہن لیتا ہے، جسے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ’’شاعر نہیں تو بھانڈ ہے بھڑوے !‘‘ ___شاید وہ یہ سمجھ کر قہقہے لگاتا ہے کہ ان میں اُس کی آہوں کی آواز کھو جائے گی۔ وہ خود ایک جگہ لکھتا ہے کہ اُس کے قہقہے ایک بے آس، رومان نواز کے قہقہے ہیں، جس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہو۔ ___یہ بالکل سچ ہے کہ اسے ان قہقہوں کی ضرورت بھی تھی، تاکہ وہ اس ہتھیار سے دنیا کا مقابلہ کر سکے۔ کیوں کہ دنیا کی دشمنی نے اس کے ذہن کو عجیب الجھی ہوئی کیفیتوں میں پھنسا رکھا تھا۔ ان الجھی ہوئی کیفیتوں کی ایک مثال اس انداز نظر سے ملتی ہے، جو اجتماع کے متعلق اُس کے ذہن میں پیدا ہو گیا تھا۔ چوں کہ وہ جسمانی طور پر عمر کے آخری ایام میں ہجوموں میں ملنے جلنے اور ان کی سنگت سے لطف اٹھانے کے ناقابل تھا، اس لیے عوام کے متعلق اس کے مختلف ذہنی رد عمل تھے۔ شاید یہ علاحدگی کے برے اثرات کا نتیجہ تھا کہ وہ کبھی اجتماع سے بیزار ہو جاتا تھا اور کبھی گہری نفرت کا اظہار کرتا تھا۔

ہیولاک ایلس (Havelock Ellis)کے خیال میں ہائینے کی نظر میں جذبۂ محبت اور جذبۂ جنسی دو الگ الگ چیزیں تھیں، لیکن وہ عشرت پرست بھی تھا اور محض جذباتی بھی۔ بلکہ یوں کہا جا سکتا

ہے کہ وہ ایک جذباتی نفس پرست تھا اور اُس سے بڑھ کر ایسا کوئی شاعر یورپ میں نہیں ہوا۔ جب اسے اپنی جذبات پرستی سے خطرہ محسوس ہوتا، تو وہ اس کا مقابلہ اپنے طنزیہ اور نفس پرست رجحانات سے کر لیتا، لیکن چوں کہ محبت اور جنس اُس کی نظروں میں دو مختلف چیزیں تھیں، اس لیے اُس کے کلام میں وہ صحت ور لذت نفس نہ آسکی، جو عرب کی ایام جہالت کی شاعری میں تھی، امراء القیس میں تھی۔ سنسکرت کی قدیم عشرت پرستانہ شاعری میں تھی، امارو، میور اور دوسرے شعرا میں تھی، نواب مرزا شوق کی زہر عشق میں تھی۔ شعر و ادب میں یہ رنگ اسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے، جب کہ فنکار کی نظر میں جنسیت اور محبت ایک ہی بات کے دو نام ہوں۔ چوں کہ ہائینے کی شاعرانہ نفسیت پیچیدہ قسم کی تھی، اس لیے اُس کے لیے عشرت کی لذت بھی درد کی صورت اختیار کر لیتی تھی، جیسے کہ اذیت پرست شعرا کا عام انداز ہے۔ اردو میں تو شروع سے اب تک شاعری کا یہی حال رہا ہے۔ اس کی بجائے کہ وہ تلاش مسرت میں مسرت تک پہنچیں، اپنی ذہنی پستی کی وجہ سے پلٹ کر پھر غم کی طرف ہی آ جاتے ہیں

جس سے پوچھا کہ دل خوش ہے کہیں دنیا میں

رو دیا اُن نے،  اور اتنا ہی کہا ’’کہتے ہیں ‘‘

سودا

شاید وہ اپنی خودی کو اپنے دکھ کی مورت میں پوجتے ہیں۔ عشق ایسا حیات افروز جذبہ بھی انھیں روشنی سے دور ہی لے جاتا ہے ___’’عشق میں ہم نے یہ کمائی کی/  دل دیا غم سے آشنائی کی (شوق) البتہ غالب اپنے فلسفیانہ انداز سے، اسی بات میں ایک گہرائی پیدا کر دیتا ہے۔

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا

درد کی دوا پائی،  درد لا دوا پایا

لیکن حاصل اسے بھی درد لادوا ہی ہوتا ہے۔ اردو شعرا محض عشرت کی طرف آتے بھی ہیں، تو صرف بیانیہ شاعری تک پہنچ کر رہ جاتے ہیں۔

مشرق اور مغرب کی اس شاعرانہ اذیت پرستی میں اتنا اختلاف ہے کہ مشرق میں اس کی حیثیت اجتماعی ہے، یعنی ہر شاعر اپنی نسلی اور بنیادی خصوصیات کی وجہ سے اذیت پرست ہوتا ہے، نیز اس لیے بھی کہ اس کا مطمح نظر ایک ماورائے مادیات دنیا ہوتی ہے، جو اسے مل نہیں سکتی اور اس کا نہ ملنا ہی اسے غم و الم کی طرف راغب کر کے پست ہمت اور تاریک بین بنا دیتا ہے۔ مغرب میں فطری رجحان عمل پرستی ہونے کے باعث شاعری میں دکھ درد کے عنصر کی وجہ انفرادی ہوتی ہے، جس میں شاعر کی نسل اور حالات زندگی کے علاوہ ذہنی اور نفسی نشو و نما اور تربیت کو دخل ہوتا ہے۔ جیسے باڈلئیر

ہائینے بھی اپنی نسلی اور ذہنی خصوصیات کی وجہ سے مشرقی تھا اور اس حقیقت سے آگاہ کہ اس کے نغموں کی تخلیق کا دارومدار اس کے ذاتی درد و غم پر ہے، لکھتا ہے :

وہ درد جو اپنی تندی سے تن من کو گھلاتا جاتا ہے

مجھ کو تو مٹاتا جاتا ہے پر گیت بناتا جاتا ہے

ضبط گریہ اور فقدان گریہ، شدت گریہ کا نتیجہ ہے مثلاً

پیتم کو پیار نہیں ہم سے ہنس ہنس کے ہنسانا چھوٹ گیا

دکھ درد کا پردہ کوئی نہیں اب تو مسکانا چھوٹ گیا

پیتم کو پیار نہیں ہم سے اب ہم کو رونا یاد نہیں

دل ٹوٹا لیکن آنکھوں کو اشکوں سے دھونا یاد نہیں

اور اس تمام غم کا باعث وہی اس کا مستقل موضوع سخن ہے، اس کی ذاتی زندگی، اس کی بنت عم

پھولوں کو اگر معلوم یہ ہو کتنا دکھ ہے میرے دل میں

وہ دل کا بوجھ کریں ہلکا اور ساتھ مرے مل کر روئیں

گاتے پنچھی گر جان سکیں میرے دل کے دکھ کی بپتا کو

گا گا کر جنگل گونجا دیں اور دور بھگائیں چنتا کو

آکاش کے تاروں کو جو کبھی میرے دکھ کا کچھ دھیان آئے

دینے کو تسلی راتوں میں ہر تارا ٹوٹ کے آ جائے

لیکن انجان ہیں یہ سارے،  اک دل کا دکھ پہچانتی ہے

دل کو گھائل کرنے والی دل کے گھاؤ کو جانتی ہے

اور یہ دکھ کا احساس اس قدر شدید صورت اختیار کر کے اُس کے ذہن پر طاری ہو جاتا ہے کہ اُسے ہر بات غم آلود نظر آتی ہے، ہر حسن مٹنے والا اور وہ اللہ بس باقی ہوس پکارتا نظر آتا ہے :

پریم کا یہ دیوانہ میلہ

نفس کے عیش کا وحشی ریلہ

ختم ہوا، ہم دونوں کھڑے ہیں

ہوش میں اب تو آئے ہوئے ہیں

ایک تھکن ہے اک بیزاری

وہ لو، وہ لو، آئی اُباسی

چپکے کھوئے ہوئے تکتے ہیں

ہر شے سے بیزار ہوئے ہیں

________

خالی ہے،  خالی ہے پیالہ

جس میں بھری تھی کام جوالا

لیکن اب وہ نور نہیں ہے

خالی ہے،  بھرپور نہیں ہے

خالی ہے،  خالی ہے پیالہ

جس میں بھری تھی کام جوالا

________

ساز وہ اب خاموش ہیں سارے

گیت پر ناچے پاؤں ہمارے

ناچ وہ دھندلے پیارے پیارے

ناچ رسیلے مدھ متوارے

جیسے ناچیں گگن کے تارے

ساز مگر خاموش ہیں سارے

________

اب فانوس نہیں ہیں روشن

چپ ہے جگمگ کرتا آنگن

اب یہ سوچ ہے دل میں میرے

مٹ جائیں گے جلوے تیرے

تیری سندرتا کا جادو

کب ہو گا؟ بس میرے آنسو

بہتے ہوں گے کہتے ہوں گے

خاک میں جلوے رہتے ہوں گے

اور زندگی اور دنیا کی ہر شے کی ہیچ مقداری بعض دفعہ اُس کے ذہن میں ایک عجیب کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ جب وہ ہر بات کو ایک خواب یا خیال سمجھ لیتا ہے اور اس کے غم آلود احساس اپنی شدت کی وجہ سے ایک غیر مرئی درجہ حاصل کر لیتے ہیں، جیسے پانی بے انتہا گرم ہو کر بھاپ بن جاتا ہے۔

 

نزاکت احساس

 

محبت تھی اک دوسرے سے مگر

نہ آپس میں وہ دونوں بولے کبھی

ملی اجنبی ہوکے ان کی نظر

محبت سے تھی گرچہ جاں پر بنی

جدا ہو گئے اور تصور میں ہی

ملے دونوں،  سپنا مگر مٹ گیا

بالآخر جب آئی گھڑی موت کی

انھیں موت کا بھی کب احساس تھا

ہائینے میں غزل کی ایک ایسی نزاکت، تازگی، شگفتگی اور سادگی تھی، جس سے اس کی نظموں میں دیہاتی گیتوں کا سا اچھوتا پن محسوس ہوتا ہے۔ وہ اپنے پیچیدہ سے پیچیدہ احساسات میں بھی دیہاتی گیتوں کا سا لہجہ اور بیساختگی پیدا کرنا جانتا تھا اور سادگی اور نزاکت کے اس امتزاج سے اس کی بعض نظموں میں ایک چبھتی ہوئی شوخی نمایاں ہو جاتی ہے۔ بعض دفعہ وہ معمولی انداز میں ایک سیدھی سادی سی بات بیان کر جاتا ہے، لیکن اسی میں اشارے اور کنائے کی گہرائی بھی ہوتی ہے۔

صنوبر کا ایک پیڑ استادہ ہے

بہ طرف شمال

ہیں بہتی ہوائیں جہاں رقص میں

بہ زور کمال

ہے سویا ہوا نیند کی گود میں

صنوبر کا پیڑ

اڑھایا ہوا ہے اُسے برف نے

سفید ایک شال

اسے نیند میں لو،  نظر آیا خواب

کسی پیڑ کا

کسی مشرقی ملک میں اک کھجور

ہے تنہا کھڑی

اکیلی ہے وہ،  اس کے قدموں تلے

ہے صحرا بچھا

ہیں تپتی ہوئی ریت پر اُس کے پیر

وہ گھل جائے گی

ہائینے کی پیدایش کے وقت جرمنی کا تمدن ایک شاداب حالت میں تھا اور ہر قسم کے فلسفے اور تنقید و تبصرے کی کثرت اور وسعت موجود تھی، جرمن تخیل اور ذہانت کے تمام خزانے ہر شخص کو مہیا تھے۔ ان خزانوں سے ہائینے نے خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا۔ اُس کی ذہانت سے زندگی پھوٹ رہی تھی، اُس میں ایک تیکھی تیزی تھی اور وہ ذہانت ہر نئی صورت میں ڈھل جانے کے قابل تھی۔ اس لیے اس نے اپنے ملکی تخیل و تفکر کے موجودہ خزانوں کو اپنی تخلیقات کی زینت بنا لیا اور جس طرح اس نے جرمنی سے کانٹ، شلینگ اور ہیگل ایسے فلاسفہ کے خیالات کو اپنایا اسی طرح فرانس میں پہنچ کر وہاں کے سیاسی اور جمہوری خیالات کے مصنفین کی خوشہ چینی کی۔

طنز اور ہنسی کھیل سے اسے ایک دلی تعلق تھا اور یہی اس کے ذہن کی بنیادی خصوصیت تھی، لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طنز اور تمسخر ایک ساختہ کیفیت نفسی ہے یا بے ساختہ اظہار روح؟ کیا ہنسی یا طنز سے بھی اسی طرح شاعری کی تخلیق ہوسکتی ہے، جس طرح دوسری جذباتی کیفیات ذہنی سے ؟___مثلاً کسی پر دباؤ ڈالنا یا بھڑکانا ایک قلبی یا روحانی کیفیت نہیں ہے، بلکہ ایک ارادی عمل ہے، اس عمل سے خطابت کی تخلیق ہوسکتی ہے، لیکن اس میں بنفسہ شعریت نہیں موجود ہے، البتہ شعریت کو یہ اپنا معاون بناسکتی ہے۔ طنز یا مضحکہ یا تمسخر کے لیے بھی یہی خصوصیات لازمی ہیں، یعنی یا کسی پر دباؤ ڈالا جا رہا ہو گا یا کسی کو بر انگیختہ کرنے کا سامان ہو گا۔ ہنسی مذاق یونہی پیدا ہوتا ہے۔ ہنسی مذاق اکیلے یا اوروں کے ساتھ مل کر ایک عملی انداز میں حظ اندوز ہونے کا نام ہے۔ مذاق کے لیے ہم تصورات کو ایک ایسے غیر متوقع انداز میں ترتیب دیتے ہیں، جس سے وہ جسمانی رد عمل پیدا ہوتا ہے، جسے ہم ہنسی یا قہقہہ کہتے ہیں۔

لیکن یہ انداز نظر شاعرانہ انداز نظر سے بالکل مختلف بلکہ ایک حد تک اس کا مخالف ہے، کیوں کہ شاعر اپنی توجہ کو اپنی ہی ذات کی گہرائیوں پر مرکوز کرتا ہے اور جو باتیں اسے وہاں ملتی ہیں، وہ انھیں الفاظ کی گرفت میں لانے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اپنے اسی لفظی نقشے سے دوسروں کو بھی غور کرنے پر مائل کرتا ہے۔ ظرافت طنز یا مزاح کا ماہر ہمارے پھیپھڑوں کو قہقہوں سے ورزش کراتا ہے، یا ہمارے لبوں پر تبسم کی لہر دوڑا دیتا ہے، لیکن ہمارے دلوں پر اس کا اثر نہیں ہوتا۔ شاعر ہمارے ذہنوں میں تصورات کے سلسلے کو جگا دیتا ہے اور ہمارے دلوں کے ساز سے احساسات کے نغمے چھیڑ دیتا ہے۔ شاعرانہ طبیعت میں ایک وقار ہوتا ہے، ایک مسرت ہوتی ہے، ایک زندگی ہوتی ہے، لیکن اس زندگی کی آواز قہقہے کی صورت نہیں اختیار کرتی۔

ہنسنے ہنسانے والے لوگ اُس قسم کے فنکار ہیں، جیسے کوئی خطیب ہو۔ دونوں کو اپنے عمل کی مدد کے طور پر شاعرانہ تصورات سے مدد لینی پڑتی ہے، لیکن ان کے عمل کا نتیجہ شاعرانہ صورت میں نہیں برآمد ہوتا، بلکہ اس سے ایک عملی قسم کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور چوں کہ اس طرح وہ شاعری کو ایک ذریعہ یا ایک آلۂ کار بنا لیتے ہیں، انھیں شاعر نہیں کہا جا سکتا۔ سودا جب کہتا ہے کہ

کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا

ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

تو یہ شاعری ہے، لیکن جب وہ اپنے غلام سے کہتا ہے ’’ابے غنچے ! ذرا لانا تو میرا قلمدان‘‘۔ تو اس وقت وہ محض ایک ہجو نگار بن کر رہ جاتا ہے۔

سید انشا لکھتے ہیں

انشا نے سن کے قصہ فرہاد یوں کہا

کرتا ہے عشق چوٹ تو ایسے ہی منڈ پر

یہاں محض قافیے (منڈ) نے ایک سنجیدہ بات میں مزاح کا پہلو پیدا کر دیا۔ اسی طرح سنجیدگی میں مزاح اور طنز کی آمیزش کرنے میں یورپ کے شعرا میں ہائینے کا کوئی مد مقابل نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ بعض جگہ ہائینے کے کلام میں صرف اسی وجہ سے ایک زبردست اثر نظر آتا ہے کہ وہ سنجیدگی کی بلندی میں قہقہوں کی عمومیت کو نہایت چابک دستی اور نفاست سے گھلا ملا دیتا ہے۔

ہائینے کی طبیعت میں شاعری کی ایک سچی، آزاد اور صحیح اور باقاعدہ موج تھی، جس پر اس کے تصورات کے حسن کا پردہ پڑا ہوا تھا اور ان تصورات میں ایک گہری احساساتی خصوصیت تھی، جسے وہ ایک عملی نتیجہ پیدا کرنے کے لیے استعمال میں لاتا تھا۔ شاعری کی اس موج یا خاصے کو بعض نقادوں نے پر تکلف اور جذباتی کہا ہے، لیکن ایک اطالوی نقاد کے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ وہ اعتراض کی دلیل کے طور پر کہتا ہے کہ وہ تاثر یا اظہار، جو ہائینے کی روح میں سب سے پہلے نمودار ہوتا ہے، دوبارہ کم موافق حالات میں بھی نظر آتا ہے، بلکہ اُس کے آخری ایام تک قائم رہتا ہے اور ان ننھی اور نازک نظموں میں ظاہر ہوتا ہے، جو اوس کی بوندوں کی مانند شفاف اور پاکیزہ ہیں۔ نظم کے علاوہ اُس کی نثر کی غیر معمولی تازگی میں بھی یہی بات نظر آتی ہے، اس لیے اس متواتر شگفتہ اظہار کو ہم محض پُر تکلف اور جذباتی کہہ کر ہی نظر انداز نہیں کر سکتے۔

ہائینے کی تمام شاعرانہ تحریک کا سرچشمہ اس کی بچپن کی شاعری کو کہا جا سکتا ہے۔ وہ بچپن کی شاعری یا شاعرانہ انداز نظر، جو ہر شخص اپنے گھر کی گرم جوشی اور اپنے ماں باپ کی عاطفت میں محسوس کرتا ہے۔ یہ وہی طفلانہ انداز نظر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہم بچپن میں آنکھیں کھولے،  ایک معصوم استعجاب کے ساتھ آدھی آدھی رات تک کہانیاں سنتے رہتے ہیں۔ انہی کہانیوں کی وجہ سے ہمیں تاریخ میں دلچسپی ہو جاتی ہے اور ہم شہزادوں، شہسواروں اور بڑے بوڑھے داناؤں کو سراہنے لگتے ہیں اور اُن فرضی کرداروں سے ایک گہری ہمدردی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اُن کے کاموں میں خیالی طور پر حصہ لینے لگتے ہیں۔ ہمارے ذہنوں پر پرانے قلعے اور محل ایک گھٹا کی مانند چھا جاتے ہیں۔ ہائینے کے ذہن میں بچپن کے یہ نقوش اس قدر گہرے ہو گئے کہ ماضی کی دلکشی اس کے لیے ایک خبط اور جنون بن گئی اور وہ چاہنے لگا کہ وہی گزرا ہوا زمانہ لوٹ آئے۔ بچپن میں ڈان کوہیٹے اور گولیور کے سفر اُس کی محبوب کتابیں تھیں اور بلوغ کے بعد ماضی کی طرف رجعت ایک اور ہی رنگ اختیار کر گئی۔ جس میں شاید اس بات کو بھی دخل تھا کہ اُس کے ذہن میں اپنی پہلی محبوبہ ایمیلی (Amalie)کی ہستی ناکامی کی وجہ سے کسی اور ہی دنیا کی بن کر رہ گئی تھی اور اس لیے اس کو مری ہوئی عورتوں سے ایک خاص تعلق نفسی رہا۔ وہ اپنی نظموں میں بارہا ایسی عورتوں کا ذکر کرتا ہے،  جو از سر نو قبروں سے جاگ کر نکلتی ہیں اور اپنے عشاق کو دکھائی دیتی ہیں۔ ایک جگہ وہ سلومی(Salome) کی ماں ہیروڈیاس(Herodias) کو مخاطب کرتا ہے، وہ اس کی نظروں میں ایک ایسی سانولی یہودن ہے، جو نخلستان کے تاڑ کی طرح کھڑی ہے اور جس کی چھاتیوں کے درمیان مشرقی خوشبوئیں موجود ہیں۔ ’’اے مردہ یہودن ! میرے دل میں سب سے بڑھ کر تیری ہی چاہت ہے،  میں تجھے یونان کی دیوی وینس (زہرہ)[Venus] سے بھی زیادہ چاہتا ہوں اور شمال کی پری سے بھی زیادہ۔ ‘‘

ماضی کی اس قدر دلچسپی کا باعث طفلی کے نقوش ذہنی ہوتے ہیں اور اس انداز نظر پر ہی تمام رومانی ادب کی بنیاد قائم ہوئی اور ادب نہ صرف جرمنی میں بلکہ تمام یورپ میں پھیل گیا۔ لیکن اس ادب کی شدت کو ہائینے سے بڑھ کر اور کسی نے محسوس نہ کیا۔ جس طرح انسان کے دل سے تجربے کے ساتھ ساتھ نت نئی صورتوں کی چاہ کے باوجود پہلے پیار کی شیرینی کبھی نہیں جاتی اور زندگی کی کشمکش اور تلخی میں ہمیشہ ایک قسم کی جھوٹی تسکین دیتی رہتی ہے، اسی طرح ہائینے کے ذہن میں بچپن کے یہ تصورات زندہ رہے۔

وہی اطالوی نقاد، جس کا حوالہ اوپر آ چکا ہے ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ ہائینے کی عشقیہ شاعری کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسے اُس کے بچپن کی اُن آرزوؤں کی بازگشت سمجھیں، جن سے بعض افراد کبھی رہائی نہیں حاصل کر سکتے۔

چوں کہ ہائینے کی نظر میں محبت ایک جنسی جذبہ یا جسمانی احساس نہ تھی اور وہ اسے اپنی طفلی نگاہوں سے دیکھ کر صرف ایک دلچسپ کھیل سمجھتا تھا، اس لیے وہ ساری عمر اپنے کلام کے ذریعے سے اس کھیل میں حصہ لیتا رہا، جو اس دار المحن میں تسلی کا واحد ذریعہ ہے۔

اس کا اظہار ذیل کی نظم میں دیکھیے۔

 

دکھ کا دارو

 

درد نے دل کو کچل ڈالا مرے

دیکھتا ہوں دیدۂ پُر آب سے

اُس گئے گزرے زمانہ کا سماں

جب نہ تھا غم کا کہیں کوئی نشاں

جب نہ دیکھی تھی زمانہ نے کبھی

شکل صورت ابتری کے دور کی

جب ہر اک انسان کا دل شاد تھا

جب جہاں کا نام عیش آباد تھا

اب مگر دنیا پہ چھایا ہے جنوں

یہ کیے جاتی ہے ہر راحت کا خوں

دوڑنا آگے کو گھائل کر گیا

دیکھیں کیا حالت ہو اب انسان کی

آسمانوں پر خدا بھی مرگیا

اور زمیں پر مرگیا شیطان بھی

چھائی گئی ہے زندگی پر ریل پیل

جن سے الجھن بن گئی ہر اک شے

آہ! اس اندھے ہجوم دہر میں

دوسرے کو سب ہی دیتے ہیں دھکیل

وجہ تسکیں اک اکیلا عشق ہے

راحتیں ہیں جس کی ہر اک لہر میں

__________________

ہائینے نے رومانیت کو مٹانے سے پہلے اس کی تمام خصوصیات کو ایک تازہ زور کے ساتھ استعمال کیا اور ان میں ایک تخیلی حقیقت پرستی بھر دی۔ چاندنی، اجڑے ہوئے باغ،  گل و بلبل،  قبروں سے نکلتے ہوئے مردہ پریمی اور یتیم، وحشی سوار، رقصاں پنجر، دیو،  جنگل اور سمندر کی پریاں __یہ سب چیزیں اُس کی نظموں میں لگاتار آتی جاتی رہتی ہیں۔

ہائینے کے کلام سے پوری طرح حظ اٹھانے کے لیے اُس کی زندگی اور محبت کے فسانہ کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ بعض دفعہ اس کی سادگی میں کوئی اور ہی بات بل کھا کر چھپی ہوئی ہوتی ہے اور اس لیے مترجم کو بھی ایک مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ اُس کی بہت سی نظمیں ایسی ہیں، جو اپنے اصلی مدعا کو صرف ادھورے طور پر ہی ظاہر کرتیں۔ جس طرح ہائینے اپنی زندگی میں ہر بات کو غیر معمولی احتیاط سے چھپا کر رکھتا تھا، اسی طرح وہ اپنی نظموں میں بھی اصلی مفہوم کو چھپاتا ہے۔ ایک نظم دیکھیے :

 

پرارتھنا

 

ننھی تو اک پھول ہے گویا

پیارا پیارا اور پاکیزہ

تیری صورت کو جب دیکھا

میرے دل میں آئی اداسی

میں اک سرگوشی میں بولا

ایک دعا ہے میرے دل کی

تیرے ماتھے کو میں چھولوں

اور خدا سے اتنا کہہ دوں

ایسے پھول کو رکھنا ہر دم

پیارا پیارا اور پاکیزہ

اس نظم کے متعلق لوئیس انٹر مئیر(Louis Untermeyer) لکھتا ہے کہ یہ محض ایک جذباتی گیت ہی نہیں ہے۔ پہلی بات جو اس میں نمایاں ہے، یہ ہے کہ اس میں کسی محبوبہ کو مخاطب نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں شاعر کا تخاطب کسی ننھی لڑکی سے ہے،  بلکہ کسی بچی سے ہے۔ اس پھول سی بچی کے معصوم حسن کو دیکھ کر شاعر چاہتا ہے کہ اُس کے ماتھے کو چھوئے اور خدا سے دعا کرے کہ اسے ایسا ہی رکھیو، جیسی یہ اب ہے ___’’پیاری پیاری اور پاکیزہ‘‘___اس نظم میں ہائینے ایک آہ بھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے، گویا اسے اس کا احساس ہے کہ یہ معصومیت مٹ جانے والی ہے اور پھر شاید اسے سوچ آتی ہے کہ کس طرح ایک ایسے ہی حسن اور پاکیزگی کی صورت نے اُس سے بھی دھوکا کھیلا تھا۔ یہی ایک خیال اس کے ذہن پر چھایا رہتا ہے اور ہائینے ہمیشہ اسی خیال کو، جو بنیادی تھا، اپنے کلام میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس خیال کی شدت اور چھپانے کی مدافعت سے ایک رد عمل ہوتا تھا اور وہ چھپانے کی بجائے مکمل اظہار کر جاتا تھا۔ وہ اس ڈر سے کہ کہیں، اس کے پڑھنے والے، اس کے دلی رازوں کو نہ پالیں، سیدھے استعاروں کے استعمال سے بھی گریز کرتا ہے۔ ان چھپانے اور دکھانے کی مختلف حرکتوں یا اس شعری آنکھ مچولی کے بعد جب وہ پلٹتا ہے تو اپنے پرانے موضوع کا رخ کرتا ہے اور شاید میر تقی کی طرح دل میں یہ سمجھتا ہے کہ

مرے سلیقہ سے میری نبھی محبت میں

تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

ایک بے آس بے باکی،  نرمی، عمومیت، طنز یہ سب باتیں اُس کی شخصیت میں قائم رہتی ہیں اور ان کے ساتھ ہی وہ اپنے سینہ سے اُس اذیت کو لگائے رہتا ہے،  جو ناکام محبت کی وجہ سے اُس کے نصیب میں لکھی تھی۔

گفتگو کی آسان روی اور شاعری کا امتزاج، احساس اور طنز کا امتزاج، اخلاص اور بناوٹ کا امتزاج__ہائینے کے کلام میں ہر جگہ دبا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن ظاہری صورت سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ ہائینے کا کلام بظاہر بے ساختہ لیکن حقیقتاً بہت ہی سوچ بچار کر کہی ہوئی چیز ہے۔ وہ اپنے کلام کی بہت گہری چھان پھٹک کیا کرتا تھا۔ اس حیران کن سادگی اور بے ساختگی کو حاصل کرنے کے لیے وہ ایک ایک نظم کو چھے سات بار نئے سرے سے لکھا کرتا تھا، تب کہیں جا کر وہ نظم پہلے سے بہتر آسان اور واضح بنتی تھی اور نظم کی طرح اس کی نثر کا بھی یہی حال تھا۔ نظم و نثر کی ان خصوصیات کے لحاظ سے ہائینے انشا سے بہت ملتا جلتا ہے۔ انشا کے کلام میں (نظم و نثر دونوں میں ) شوخی تھی،  طنز، بے ساختگی اور تکلف سبھی باتیں تھیں۔ لیکن ان سب کے باوجود وہ بعض دفعہ بہت موثر چیزیں لکھ جاتا تھا۔ ہائینے کی نثر کے متعلق ایک مغربی مصنف استعارۃً کہتا ہے کہ وہ ایک ایسی بگڑی ہوئی پرتکلف طوائف تھی،  جس میں انتہا کی دلکشی ہو اور جس کی نکتہ سنجی اور شوخی اُسی قدر تیز ہو جاتی ہو، جس قدر کہ وہ اپنی دردناک حالت کو بھلانے کی کوشش کرے۔

ہائینے نے خواہ کوئی بلند یا پر عظمت زندگی بسر نہ کی ہو، لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اُس کی زندگی میں جو کمی عظمت کے لحاظ سے تھی، اسے اُس نے اپنے کلام کی عظمت سے پورا کر دیا۔

ہائینے اور اس کے کلام کو سمجھنے کے لیے ایک اور بات کا لحاظ بھی رکھنا چاہیے،  اور وہ اس کی بیماری کا واقعہ ہے۔ اُس کے کلام کی تیزی اور تلخی محض یہودی ذہنیت اور نفسیاتی کیفیت کا ہی نتیجہ نہ تھی،  بلکہ اس کی محرک اُس کی جسمانی پیچیدگی بھی تھی۔ اس کی زندگی میں کبھی کبھی ایسا موقع بھی آیا کہ اس کی شخصیت کا یہودی پہلو، جس کی مخالف اُسے تمام دنیا نظر آتی تھی،  نسبتاً آرام سے رہا، لیکن اس کے جسم کو یہ سکون اور راحت کبھی نہ ملی۔ اُس کا جسم ایک مستقل اذیت میں مبتلا تھا،  وہ ایک جگہ اپنے ایک دوست کو لکھتا ہے، ’’ پچیس سال پہلے مرحوم پروفیسر ہیگل نے مجھے یقین دلایا تھا کہ انسان دو ٹانگوں والا ایک دیوتا ہے، لیکن اب کبھی کبھی مجھے اُن کا یہ بیان مشکوک معلوم ہونے لگتا ہے۔ خصوصاً اس وقت جب درد میری ریڑھ کی ہڈی میں اپنے اذیت رساں عمل کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بدلتا ہے۔ گذشتہ سال جب فصلیں پکی ہوئی تھیں اور چاندنی راتیں جوبن پر تھیں، تو مجھے مجبوراً بستر پر ہی لیٹے رہنا پڑتا تھا اور تب سے اب تک میں چارپائی سے نہیں ہلا۔ میں اب وہ دو ٹانگوں والا دیوتا نہیں رہا، جو ہر بات کو ہنسی میں اڑا دیا کرتا تھا۔ اب میں صرف رنج و اندوہ کا پتلا ہوں۔ ایک غمزدہ انسان،  ایک بیچارہ بیمار یہودی۔ ‘‘

اور ہائینے کو صرف ان ذہنی اور جسمانی مصائب ہی کا سامنا نہ تھا، بلکہ اسے اپنے دشمنوں اور قرض خواہوں سے بھی سابقہ پڑتا رہتا تھا۔ پچاس سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی وہ اپنی آدھی بینائی کھو بیٹھا تھا،  چل پھر بھی نہ سکتا تھا، اس کی قوت شامہ اور قوت ذائقہ بھی ناکارہ ہو چکی تھی۔ اس کے ہونٹوں پر فالج گر چکا تھا۔ اور اس کے علاوہ وہ بے حد غریب اور نادار تھا۔ آٹھ سال تک وہ یونہی صاحب فراش رہا۔ اُس کی یہ غم نصیبی شروع عمر سے ہی اُس کے ساتھ تھی۔ نوجوانی کے زمانہ میں اسی غم نصیبی نے اس کے شگفتہ اور امنگوں بھرے تخیل کو آلودہ کر دیا تھا۔ سولہ اور بیس سال کی عمر میں اس نے جو گیت اور نظمیں لکھیں،  ان کے عنوانات ہی سے ان آنے والے غموں کی جھلک دکھائی دیتی ہے ’’سپنوں کی تصویریں ‘‘، ’’جواں سال دکھ‘‘۔

ہائینے کا کلام رومانی اسکول کے زوال کا باعث اس لیے ہوا کہ اُس نے اپنے کلام کو پرانے خیالات کے مٹانے میں ایک زبردست حربہ بنایا۔ اس کے علاوہ اس نے جرمنی کے سیاسی حالات کی مخالفت میں بھی اُسے استعمال کیا۔ لیکن یہ انفرادی مخالفت اُس وقت ایک اجتماعی صورت اختیار کر چکی تھی۔ سیاسی اور سماجی حالات کی وجہ سے نئی نسل کے لیے پہلا انداز شعر و ادب اور رومان نوازی مرغوب طبع نہ رہی تھی۔ لوگوں کی ضروریات کو وہ ادب پورا نہ کر سکتا تھا، جو حقیقت اور عوام سے دور ایک الگ تھلگ خیالی دنیا میں پرورش پا کر ظاہر ہو۔ دنیا اس ادب کی جویا تھی، جو زندگی کے مطابق ہو اور اس لیے حقیقت پرستی کے رجحان ترقی پا رہے تھے۔ یہ زمانہ ایک طرح سے بالکل حالی اور سرسید کے زمانے کے مطابق تھا۔

جرمن ادب پر نظر ڈالتے ہوئے ہائینے کی شاعری کا ایک اور پہلو بھی قابل ذکر ہے اور وہ سمندر کے متعلق اس کی نظمیں ہیں۔ شاید جرمن ادب پر سب سے بڑا احسان اُس نے یہی کیا ہے۔ یونان، انگلستان،  سکنڈے نیویہ کی شاعری اور امریکہ کے شاعر والٹ وٹمن کے کلام میں سمندر کے متعلق جن شاندار احساسات کا بیان ہے، اس کی نفیس اور اعلیٰ گونج اگر دیکھنی ہو تو ہائینے کے علاوہ جرمنی کے کسی اور بڑے شاعر کے کلام میں نظر نہیں آئے گی۔ اس کے علاوہ جرمنی کے غزلیہ شعرا میں ہائینے ہی سب سے زیادہ ہمہ گیر شاعر ہے۔ یورپ کے تمام ممالک میں اور کسی شاعر کو اتنا نہیں پڑھا گیا، جتنا اُسے۔ اور اس کے مجموعۂ نظم ’’کتاب نغمہ ‘‘ سے بڑھ کر اور کسی کتاب نے تحریک رومانی پر اثر نہیں کیا۔ گویا ہائینے ہی نے جرمنی کی غزلیہ شاعری کو یورپی درجہ دیا۔

اور اب اس غزلیہ شاعری کی چند مثالیں :ہائینے کی بعض نظمیں بہت ہی چھوٹی ہوتی ہیں۔ مثلاً

غموں سے،  آنسوؤں سے پھول کھل کھل کر نکلتے ہیں

مری آہوں سے پیارے پنچھیوں کے گیت ابلتے ہیں

مری پیاری! جو تو چاہے تو میں یہ پھول لاؤں گا

ترے دوارے پہ تجھ کو راگ پنچھی کے سناؤں گا

ایک اور دیکھیے

میں نا امید ہو کر اوّل اوّل سب سے کہتا تھا!

میں سہہ سکتا نہیں اس کو، نہیں یہ بات سہنے کی!

مگر سہتا ہوں نا امید ہو کر،  کیسے سہتا ہوں !

نہ پوچھو مجھ سے،  ہمت ہی نہیں ہے مجھ میں کہنے کی

ایک اور:

نازک پھول کنول کا چپکا دیکھ رہا تھا اوپر کو

دیکھتے دیکھتے اُس نے دیکھا پیلا چہرہ چندا کا!

پھول کی چاہت میں ڈوبا تھا چاند، نگاہیں روشن تھیں،

پریمی کے چہرے جیسا تھا پیلا چہرہ چندا کا!

پھول نے دیکھا تو شرمایا اور جھکایا نظروں کو

لیکن پانی میں پھر دیکھا پیلا چہرہ چندا کا

_______________

محبوبہ کا مکان

 

رات سکوں لیے ہوئے،  مہر بہ لب گلی گلی،

سامنے میں گھر میں رہتی تھی،  وجہ سکون دل مری!

چھوڑ کے شہر کا عرصہ ہوا چلی گئی،

گھر ہے مگر کھڑا ہوا ویسے کا ویسا آج بھی!

اور بھی ایک شخص ہے،  راہ میں یاں کھڑا ہوا،

تکتا ہے آسمان کو وہ یاس کا اک مجسمہ!

نور سفید چاند کا پھیلا جب اس کی شکل پر،

دیکھنا! دیکھتا ہوں کیا، عکس میری ذات کا!

اے مرے عکس ناتواں ! کس لیے آ گیا یہاں !

کس لیے اپنی آنکھ سے اشک بہا رہا ہے تو؟

میں بھی یہاں پہ رویا ہوں،  اب وہ زمانہ ہے کہاں ؟

خالی کیے ہیں میں نے بھی،  یاں کئی چشم کے سبو!

____________

ہائینے کے دل میں عورت کی بے وفائی کا نقش اتنا گہرا تھا کہ اُس کے کلام میں ہر جگہ ابھر آتا ہے۔ ذیل کی نظم میں بھی یہ نقش ابھرا ہوا ہے۔ اس نظم کا اندرونی فسانہ دو طرح کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ ایک یوں کہ شاعر اپنی پہلی بے وفا محبوبہ سے تصور میں مخاطب ہے۔ دوسرا یوں کہ وہ کسی اور عورت سے مخاطب ہے اور اس کا اظہار محبت اُسے پہلی بے وفائی کی یاد دلا جاتا ہے :

 

اندیشہ

 

جب دیکھتا ہوں ان آنکھوں کو،  دکھ درد سبھی کھو جاتے ہیں،

جب چومتا ہوں ان ہونٹوں کو،  مجھ کو بلوان بناتے ہیں۔

جب رکھتا ہوں اپنے سر کو،  اُس نرم،  معطر سینے پر!

میں دیوتا بن جاتا ہوں،  مجھے آکاش کے سکھ کب بھاتے ہیں !

لیکن جب تم کہتی ہو مجھے ’’مجھ کو بس چاہ تمہاری ہے ‘‘

تب جی بھر آتا ہے میرا اور آنسو امڈے آتے ہیں !

 

انداز نظر

فسردہ ہو کے کبھی دل جو ٹوٹ جاتے ہیں

ستارے ہنستے ہیں اور قہقہے لگاتے ہیں

ہے ان کا اپنا انوکھا طریقہ باتوں کا

وہ سوچتے ہیں،  بس اور سوچتے ہی جاتے ہیں ؛

’’یہ خاکی عشق میں گھل گھل کے زیست کرتے ہیں ،

’’ہمیشہ پھر بھی محبت پہ ہی یہ مرتے ہیں !

’’محبت ان کو دکھاتی ہے درد کے جلوے

’’مگر یہ درد سے دامن کو اپنے بھرتے ہیں !

’’ہمیں تو ایسی محبت کا کچھ نہیں معلوم!

’’کہ جس کی ہستی بس اک لمحے میں بنے موہوم!

’’مٹائے چاہنے والے کو اور مٹ جائے۔

’’یہی ہے وجہ نہ ہوں گے کبھی بھی ہم معدوم!‘‘

 

نور کا جادو

رات نے چھاؤنی چھائی اندھیرے اور انجانے رستوں پر،

دل میں تھکن ہے،  انگ انگ میں روک ہے ہے میری سانسوں پر!

پیارے چندا ! تو نے میرے دل کا بوجھ کیا ہلکا،

مجھ کو سہارا ہے بس تیرا،  تیری کرنوں کے بل کا!

چاند! یہ تیرا نازک جادو رات کے سب اندیشوں کو،

دور بھگا دیتا ہے مجھ سے ڈر کے اندھے خیالوں کو!

میرے دل میں جتنے ڈر ہیں سب کے سب مٹ جاتے ہیں !

دل کے گھاؤ سہلاتے ہیں،  سکھ کے آنسو آتے ہیں !

_______________

ذیل کی نظم میں ہائینے خود کو چھپاتے ہوئے اپنے راز کا اظہار کر رہا ہے :

 

راز درون پردہ

 

اس کا اندیشہ کسی دل میں نہ لانا ہرگز،

اپنی چاہت کو میں رسوا نہ کروں گا پیاری!

استعاروں میں ترے حسن کے گن گاتا ہوں

غور کرتی نہیں،  نادان ہے دنیا ساری!

بھید اپنا ہے نہاں پردۂ خاموشی میں،

اُس نے اوڑھی میرے گلہائے سخن کی چادر!

راز پر نور ہے اور گرم ہے روپوشی میں،

علم ہوسکتا نہیں اس کا کسی کو یکسر!

خواہ یہ پھول بھڑک اٹھے،  جوالا ہو جائے

پھر بھی اندیشہ کبھی آئے نہ تیرے دل میں !

جان سکتا نہیں کوئی بھی رہے گا پھر بھی

شعلۂ حسن نہاں شعر کے ہی محمل میں !

ذیل کی نظم سے اِس نکتہ وری کا اظہار ہوتا ہے جسے شاعری میں گھلا ملا کر ہائینے اپنا سیدھا سادا تاثر پیدا کرتا تھا:

 

چغلی

 

تمہارے خط نے مرے دل پہ کچھ اثر نہ کیا!

اگرچہ اس کا ہر اک لفظ زور والا ہے !

یہ کہتی ہو کہ نہیں اب سے دل میں چاہ مری!

مگر میں سوچتا ہوں خط یہ کتنا لمبا ہے !

یہ خط ہے یا کوئی مضمون تم نے لکھا ہے ؟

میں پوچھتا ہوں کہ جب ’’الوداع‘‘ ہی کہتی ہو

تو کون ہے جو مصیبت میں اتنی پڑتا ہے ؟

انسان کے اعتقادات اور نظریات کی بنیاد اس کے تجربوں پر ہوتی ہے۔ ہائینے کے دل پر اس کی پہلی ناکام محبت کا زخم بہت کاری لگا اور اس سانحہ سے وہ گویا اسی خیال کا حامی بن گیا کہ عورت کی ذات میں وفا نہیں۔ اس نظم سے اسی محدود نظریہ کا اظہار ہوتا ہے۔

 

بھروسا

 

نرم اجیالے جسم کی چاہ کا میرے دل میں ڈیرا ہے،

انگ انگ کو جس کے کام دیو نے آ کر گھیرا ہے !

جذبوں والی آنکھیں ہیں اور اُن پہ ما تھا نورانی،

اور ماتھے پر زلفوں کی کالی لہروں کا بسیرا ہے !

دیس دیس میں ڈھونڈ کے آیا جس کو تم وہ رانی ہو،

آج ملی ہو، تم ہو اچھوتی (لیکن بہت پرانی ہو)

تم ہو بالکل میرے ڈھب کی،  تم نے مجھ کو سمجھا ہے

آؤ زبانوں پر اب اپنے پریم کی میٹھی بانی ہو!

میں ہوں مرد وہی،  بیٹھی تکتی تھیں تم رستہ جس کا!

دو دن کی سنگت میں مل کر ہنسنا اور مل کر رونا!

پریم کی بات کی رات سہانی چاند چھپے تو بیتے گی،

تم بھی جیسے ریت ہے جگ کی،  مجھ کو دھوکا دے دینا

_______________

 

شدت احساس غم

 

اکیلا آنسو مری آنکھ میں جھلکتا ہے

یہ آنسو پہلے پرانے غموں سے دھندلا ہے

جو دن تھے رنج و الم کے وہ سارے بیت گئے

مگر یہ آنسو ابھی تک وہیں پہ ٹھہرا ہے

تھے اس کے اور بھی ساتھی، وہ اک زمانہ مٹا!

مٹے وہ، جیسے غم و عیش کا فسانہ مٹا!

ہر ایک شے ہے نہاں شب میں باد و باراں کی۔

رہا نہ کچھ بھی،  مری زیست کا بہانہ مٹا!

چھپے وہ اوس کی مانند سیمگوں حلقے،

ستارے تھے،  کہ تبسم کناں وہ نیزے تھے !

مسرتوں کو،  غموں کو انہی نے چھیدا تھا،

وہ مسکراتے ہوئے دل میں میرے اترے تھے !

مٹے وہ،  اور مٹی دل سے اب تو چاہت بھی

وہ چاہ سانس تھی میرا کہ جس کو کھینچا تھا!

میں تجھ سے کہتا ہوں،  سن میرے اشک کم رفتار

چلا جا آیا ہے اب لمحہ تیرے جانے کا!

_______________

 

آمد بہار

 

کھلا کھلا یہ بن ہے،  ایسے جیسے کوئی کنواری ہو

سج کر اس سے ملنے جائے جس کے دل کو پیاری ہو

ہنستی ہیں سورج کی کرنیں،  کیا کہتی ہیں،  کون کہے

آیا بسنتی سماں سہانا،  جُگ جُگ اپنے ساتھ رہے۔

کان میں آئی تان سریلی،  ایک پپیہا بول اٹھا،

میرے من کی بات ہی کیا ہے،  سارا بن ہی ڈول اٹھا

میں نے جان لیا ہے پنچھی ! دکھ کی تیری کہانی ہے

تیرے منہ پر بس لے دے کر اک ’’پی، پی‘‘ کی بانی ہے

_______________

 

پریمی

 

تیتری کے دل میں چاہت پھول کی

ہے بسی

لیتی رہتی ہے بلائیں سارا دن

پھول کی

پھول کی متوالی سورج کی کرن

ناچتی

ناچتی رہتی ہے اُس کے پاس ہی،

ہر گھڑی

ہاں مگر ہے کون پیارا پھول کو؟

سوچنا !

کس کی چاہت میں ہے وہ پیلا پڑا،

کانپتا ؟

کیا اسے پیارا ہے تارا شام کا؟

بوجھنا !

یا ہے وہ پنچھی کہ جس کا راگ ہو

جانفزا !

پھول کے پیتم کا مجھ کو کیا پتا؛

کیا پتا؟

میرے دل میں سب کی چاہت ہے چھپی،

برملا !

میرے گیتوں میں ستارا شام کا

ہے چھپا

تیتری، پنچھی، کرن اور پھول بھی

نغمہ زا !

_______________

 

منظر

 

ایک ستارا، ایک ستارا، جگمگ کرتا ٹوٹ گیا،

پھیلے ہوئے،  نیلے آکاش کے دامن سے وہ چھوٹ گیا

دیکھ رہا تھا میں بھی اس کو،  تھا وہ ستارا چاہت کا

ٹوٹا، گہرائی میں ڈوبا، اب تو نہیں وہ ابھرے گا!

کلیاں پتے،  کلیاں پتے،  پیڑ سے گرتے جاتے ہیں

گرتے گرتے فضا میں سارے رکتے،  لرزتے جاتے ہیں

دیکھ رہا ہوں،  بہتی ہے یاں رنگیلی شاداب ہوا،

کلیاں پتے اس شاداب ہوا سے لپٹے جاتے ہیں

راج ہنس ہے،  راج ہنس ہے،  من کی موج میں گاتا ہے،

دیکھ رہا، ہوں گاتے گاتے سطح پہ بہہ جاتا ہے !

جھکتا ہے،  جھکتے جھکتے،  اوجھل ہوتا ہے نگاہوں سے،

گیت بھی چھپ جاتا ہے،  گانے والا بھی چھپ جاتا ہے !

خاموشی ہے،  خاموشی ہے،  اور ہر سو تاریکی ہے،

وہ جو ستارا ٹوٹا تھا، اب وہ اک خاک کی مٹھی ہے !

راکھ بنے بکھرے ہیں سارے پتے اور ساری کلیاں،

راج ہنس کا گیت بھی اب تو ختم ہے،  دنیا سونی ہے !

_______________

جرمنی کا یہودی شاعر ہائینے بھی راج ہنس کی طرح گیت گا کر ختم ہو گیا، لیکن اس کا سارا خیال صحیح نہ تھا، گیت نہیں مٹے، وہ اب بھی باقی ہیں۔ البتہ ان گیتوں کے متعلق اس نے جو کہا تھا کہ

’’مصیبت، اذیت، غضب آرزو کا

دکھایا ہے میں نے چھپایا نہیں ہے

جو دیکھے گا ان کو مجھے جان لے گا

مرے دل کی ہر بات گویا یہی ہے ‘‘

اس کی سچائی سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔

٭٭٭

٭٭٭

ماخذ: جدید ادب، جرمنی، میرا جی نمبر

تشکر: وقاص،پنجند لائبریری جنہوں نے جدید ادب، میرا جی نمبر کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید