FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تھر: عشق کی ہر دَم نئی بہار

 

 

 

                   عبد الطیف ابو شامل

 

 

 

 

 

 

                   اِسے زندہ کر دوبارہ

 

آپ اِسے فرار کہہ لیں۔ ضرور کہیں … میں آپ کی قدر کرتا ہوں اور آپ کے خیالات کی بھی۔ لیکن میں اِسے فرار نہیں قرار کہتا ہوں۔

جب چاروں اُور اُداسی کا رقص شروع ہو جائے، بے کلی چھا جائے، وحشت گھورنے لگے، دِل مُردہ ہونے لگے، دم گھٹنے لگے، سانس رُکنے لگے، تب کیا کِیا جائے ؟ پھر اقبال یاد آتے ہیں۔ میں کبھی کبھی اقبال کو بابا کہنے لگتا ہوں۔ کیوں ؟ اِسے رہنے دیجیے۔ وہ تھے ہی ایسے … آپ ضرور مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ ہاں تو پھر وہ کہنے لگتے ہیں ؎

دِلِ مُردہ دِل نہیں ہے، اِسے زندہ کر دوبارہ

بس پھر مجھے کچھ نہیں سوجھتا۔ میں یا تو سمندر کا رخ کرتا ہوں یا صحرا کا۔ اِس مرتبہ بھی یہی ہوا۔ میں بھاگ کھڑا ہوا۔ لیکن اِس مرتبہ تو مجھے اُنھیں مبارک باد دینی تھی، اُن کے ساتھ والہانہ رقص کرنا تھا۔ اُن کی خوب صورت بولی کے گیتوں میں اپنی آواز ملانی تھی۔ اُن کے ساتھ جھومنا تھا۔ دن بِتانے اور راتیں جاگنی تھیں۔ اُن کے چوپالوں میں بیٹھ کر اُن کی باتیں سننی تھیں اور سر دھننا تھا۔ دِل موہ لینے والی باتیں۔

آسمان بادلوں سے بھرا ہوا تھا کہ میں تھر کے لیے روانہ ہوا۔ وہ تھر جہاں پانی نایاب ہے۔ وہ پانی جسے ہم بے دردی سے ضائع کر دیتے ہیں۔ مجھے ارباب مالک نے بتایا تھا کہ تھر میں بارشیں شروع ہو گئی ہیں، پھر کیا تھا! میں جانتا تھا کہ تھر میں بارش کا مطلب کیا ہے۔ جی ہاں آپ بے چین مت ہوں، تھر میں بارش کا مطلب زندگی ہے۔ زندگی کی تمام رعنائیاں، خوشیاں، مسکراہٹیں، آس و اُمید اور نجانے کیا کچھ پانی کا مرہونِ منت ہے۔ اور پھر وہ تھر جس نے خشک سالی اور قحط کا عذاب بارہا بھگتا ہو، وہاں بارش کیسا رنگ جماتی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میں تھر میں تھا کہ بارش شروع ہو گئی، بارش بھی کیا صرف بوندا باندی… پھر کیا تھا، لوگ دیوانہ وار گھروں سے نکل آئے، خوشی اور مسرت سے اُن کے چہرے چمک رہے تھے، وہ بے خود ہو کر ناچنے لگے … واقعی بالکل وہ ہاتھ اٹھائے محوِ رقص تھے، ساتھ ہی تھری کا گیت بھی… بارش اُن کا عشق ہے۔

عشق کا دریا بہتا جائے عاشق خوب نہائیں

اِس میں پیار کے لاکھوں بٹیرے ہر دم بہتے جائیں

پنجابی کے لوک شاعر حافظ برخوردارؔ کا یہ شعر اُن پر صادق آتا ہے۔ ابھی ہم کراچی سے نکلے ہی تھے کہ بارش نے ہمیں آ گھیرا… لیکن جذبہ صادق ہو اور اُمنگ جواں، تو پھر کیسا طوفاں …! ہم نے سفر جاری رکھا۔ رات نو بج رہے تھے کہ ہم عمرکوٹ پہنچے۔ اِس سے پہلے میر پور خاص کے جھونپڑا ہوٹل میں کچھ دیر آرام کے بعد ہم تازہ دم تھے۔ عمرکوٹ تھر کی ابتدا ہے۔ تھر صحرا کی خوشبو یہیں سے آپ کے لیے چشمِ ما روشن دلِ ما شاد پکار نے لگتی ہے۔

تھر کو تھری زبان میں ’’ڈھاٹی‘‘ کہتے ہیں، آپ اِسے صحرا کہہ لیجیے۔ تھر، ہاں صحرا کی طرح کشادہ دل اور خندہ پیشانی والے خوب صورت لوگوں کی سرزمین ہے۔ یہ سادہ لوح، ایمان دار، خلوص و محبت میں گندھے ہوئے لوگ… مسکراتے، چہچہاتے اور سجدۂ شکر بجا لانے والے … راضی بہ رضا کا مفہوم مجھے وہاں سمجھ میں آیا۔ کبھی اُن کی زبان سے شکوہ نہیں سنا۔ زبانی کلامی شکر ادا کرنے والے نہیں مجسم تشکر ہیں وہ… مجسم تشکر۔ اپنی خوشیوں کو دوسروں پر قربان کر دینے والے ایثار کیش اور دوسروں کے غم کو خود پر اوڑھ لینے والے انسان… انسانیت وہاں اترائے پھرتی ہے۔

میں تھر میں ہی تھا جب میں نے عجیب سی آوازیں سنیں۔ میں نے گھڑی میں وقت دیکھا… رات کافی گزر چکی تھی اور گھڑی ڈھائی بجا رہی تھی۔ کچھ لوگ چیخ پکار کر رہے تھے۔ میں اٹھ بیٹھا اور آواز کی سمت دوڑ لگا دی۔ ایک شخص کو سانپ نے ڈس لیا تھا، تکلیف کی شدت سے وہ چلّا  رہا تھا، کچھ لوگ گاڑی کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے لیکن وہاں گاڑی کہاں تھی! دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ پھر ایک چارپائی پر اُس شخص کو لٹا دیا گیا، اور چار لوگوں نے چارپائی اٹھا کر دوڑنا شروع کر دیا، باقی لوگ اُن کے پیچھے تھے اور اُسے حوصلہ دے رہے تھے۔

میں نے پوچھا، ’’تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟‘‘ تو مجھے بتایا گیا ’’قریبی گاؤں میں ایک شخص علاج کرتا ہے وہاں جا رہے ہیں۔ ‘‘

میں نے پوچھا، ’’کتنی دور ہے وہ گاؤں ؟‘‘

’’بس قریب، یہی کوئی چھے سات میل ہو گا۔ ‘‘

’’چھے سات میل! اِتنی دور اور صحرا کا سفر…!!‘‘

صبح ہو چکی تھی اور میں بے چینی سے اُن کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ ہزار اندیشے مجھے سانپ بن کر ڈس رہے تھے کہ پھر وہ گھڑی بھی آ پہنچی۔ دور سے کچھ لوگ آتے دکھائی دیے۔

’’چلو سائیں لطیف، وہ لوگ آ پہنچے ہیں۔ ‘‘،

’’اچھا، کیا ہوا؟‘‘

’’تم فکر نہ کرو سائیں، اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوتی تو سب روتے ہوئے آتے۔ اللہ سائیں نے کرم کیا ہے۔ ‘‘

میں سوچنے لگا، ہم شہری اِس نعمت سے محروم ہیں ناں، میں سچ کہہ رہا ہوں، میری عمر تو آوارگی میں کٹ گئی، میں نے بہت کم لوگ ایسے دیکھے ہیں جو اِتنے محبت کرنے والے ہوں۔ شہر میں کہیں ایکسیڈنٹ ہو جائے تو گاڑیاں رکتی ضرور ہیں پَر اکثر تو ویسے ہی گزر جاتی ہیں … حالاں کہ یہاں اِتنی سہولتیں دست یاب ہیں، پھر بھی ہم کسی کی مدد کے لیے انتظار کرتے ہیں کہ کوئی اور آگے بڑھے۔ تھر میں اِس طرح کا کوئی بھی نہیں ہے … مجھے تو نہیں ملا۔ سب ایک دوسرے کی مدد ایسے کرتے ہیں، جیسے یہ اِبتلا اور مصیبت خود اُن پر آ گئی ہے۔ ایسے لوگوں کو آپ معمولی انسان سمجھتے ہیں ! بہت غیر معمولی لوگ ہیں وہ… بلکہ نایاب۔ ہمیں پھول بننا تھا ہم کانٹے بن گئے، نجانے کیوں۔ وہ میرا، ایک پگلا دوست کہا کرتا تھا:

پھول اور کانٹے دونوں دیکھو ایک جگہ ہوں پیدا

اِک شب پھول کی عمر یہاں پر مانت کانٹوں کی دنیا

تھوڑا جینا لیکن پیارے، کانٹا مت بن جانا

ہاں تو بارش میں صحرا عجیب رنگ دکھاتا ہے … عجیب رنگ۔ ایک تھری کو میں نے بہ آوازِ بلند دعا مانگتے دیکھا۔ اُس کی نگاہیں آسمان کی سمت لگی ہوئی تھیں اور وہ بہت منت سماجت سے اپنے رب سے آہ و زاری کر رہا تھا۔ مانگ کیا رہا تھا؟ بارش اور کیا…!!

مجھے اُسے دیکھ کر باہُو صاحب یاد آئے۔

سوز نے دل کو پھونک جلایا دکھوں نے ڈیرے ڈالے ہُو

کوئل بن کر کُوک رہا ہوں، مولا مینہ برسائے ہُو

بول پپیہے ساون آیا، رُت خالی نہ جائے ہُو

باہُو، ثابت قدم بڑھیں گے، تجھ کو یار بنائے ہُو

ٹوٹی پھوٹی سڑک پر گاڑی صحرا کا سینہ چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ دونوں اطراف سبزہ پھوٹنے کے لیے بے چین ہو رہا تھا۔ بارش کا سُن کر قافلے واپس صحرا کا رُخ کر رہے تھے … اپنے صحرا کا۔ اُن کے مویشی اور اُن کے گلے میں بندھی گھنٹیاں عجب سماں باندھ رہی تھیں کہ میں نے قافلے کے ایک شخص سے پوچھا… غربت و افلاس کا مارا ہوا تھری… ’’تم کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘

’’سائیں یہاں چارہ پانی ختم ہو گیا تھا تو بیراج چلے گئے تھے، وہاں سے آ رہے ہیں۔ ‘‘

’’پیدل آ رہے ہو؟‘‘

’’ہاں سائیں۔ ‘‘

’’کب چلے تھے وہاں سے ؟‘‘

’’سائیں تین دن ہو گئے۔ بس اب پہنچنے والے ہیں۔ ‘‘

’’ہاں ضرور پہنچ جاؤ گے تم۔ اچھا خوش رہو۔ ‘‘

وہ مسکرایا تو مجھے یاد آیا

چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ

وہ تو اپنی منزل پر پہنچنے والے تھے اور ہم؟ اور ہماری منزل…؟

ہم عمرکوٹ سے اسلام کوٹ پہنچے۔ ہمارا ٹھکانا کیلاش کا گھر تھا۔ کیلاش ہمارا دوست… اُس نے وہاں بھی جنگل میں منگل مچایا ہوا ہے۔ اِتنا بڑا سا گھر… گھر کیا محل… ماربل سے مزین، لیکن اُس میں بھی ’’چونرا۔ ‘‘ آپ چونرا نہیں جانتے ناں ! میں بتاتا ہوں۔ تھر میں اکثر گھر ایسے ہی ہیں، بالکل گول کمرہ نما جھونپڑا، جسے گھاس پھونس سے ڈھک دیا جاتا ہے، دُور سے آپ کو گنبد کی طرح کے جو گھر نظر آئیں تو سمجھ لیجیے یہ چونرا ہے۔ دو، تین چارپائیاں بہ آسانی اُس میں بچھ سکتی ہیں۔ گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم۔ تھریوں کی اپنی سائنس ہے۔ پشت در پشت منتقل ہونے والی سائنس… روایت کا تسلسل۔

اسلام کوٹ جاتے ہوئے ہم اپنے پرانے دوست مہندر دیو کے گاؤں میں رکے تھے۔ مہندر موجود نہیں تھا۔ اُس کا بوڑھا ضعیف والد ہم سے گلے ملا:

’’سائیں آپ لوگ آ گیا، بہت اچھا کیا۔ ‘‘

ہم ایک چونرے میں بیٹھ گئے اور حال احوال پوچھا جانے لگا۔ میں نے پوچھا: ’’یہ سامنے کیا ہو رہا ہے ؟‘‘

’’بابا کنواں نکال رہے ہیں۔ ‘‘

’’آؤ چلو دیکھتے ہیں۔ ‘‘

تھر میں کنواں کھودنا پلِ صراط پار کرنا ہے۔ سو، ایک سو بیس فٹ پر کہیں آپ کو پانی نظر آنے لگتا ہے، اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ۔

……٭٭٭……

 

 

                   سادہ لوح انسان کیا جانیں ترقی کیا ہے

جس کا ایندھن انسان ہیں

 

اتنی جان توڑ محنت کے بعد پانی کا حصول…! تقریباً ایک سو چالیس فٹ گہرائی میں دو تھری اُترے ہوئے تھے، جنہیں ایک رسّی کی مدد سے اندر اُتارا گیا تھا۔ مجھے وہ ایک گہری سرنگ نظر آئی۔ ایک حد کے بعد اندھیرا، اور اِتنا گہرا… میں نے اندر آواز دی تو دور سے ’’جی سائیں ‘‘ کی آواز آئی۔ میں نے ایک تھری سے پوچھا: ’’اتنی گہرائی میں اُترنے کے لیے کیا حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں ؟‘‘ ’’کچھ نہیں سائیں، بس اللہ کا آسرا ہے۔ ‘‘ بالکل، بس اُسی کا آسرا ہے۔ وہی سب سے بڑا حفاظت کرنے والا ہے … بس وہی ہے۔ میرے سامنے اکیسویں صدی تھی جہاں مشینوں کی حکومت تھی۔ جہاں احساسِ مروت کچلے ہوئے پڑے تھے۔ چھوڑیے میں پھر کہیں اور نکل جاؤں گا۔ اِتنی جان لیوا محنت کے بعد حاصل کیے ہوئے پانی کی قدر و منزلت میں اور آپ نہیں جان سکتے، اِتنی آسانی سے ہمیں پانی جو دست یاب ہے۔

ہم نے فیصلہ کیا کہ رات کیلاش کے گھر گزاری جائے۔ تب ہم اسلام کوٹ پہنچے تھے … لیکن ابھی ڈیڑھ گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ مہندر دیو کا پیغام موصول ہوا: ’’سائیں آپ نے یہ کیا کیا؟ میں اگر یہاں نہیں تھا تو کیا ہوا، گاؤں تو تھا ناں ! آپ نے بہت زیادتی کی، اب اِس کا ازالہ بھی کرو۔ ‘‘ سو ہمیں اُس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ یوں ہم دوبارہ مہندر کے گاؤں میں تھے۔ مہندر دیو پرائمری اسکول ٹیچر ہے۔ ۔ ۔ بہت ہنس مکھ، ملنسار، محبت اور ایثار کا نمونہ… مجھ پر نظر پڑتے ہی اُس کی آواز گونجی:

’’سائیں آپ مجھ سے بچ کر کیسے جا سکتے تھے ؟

لیکن سائیں !

اب تو آپ کے بال بہت سفید ہو گئے ہیں، کیوں کیسے ہو گئے ؟‘‘

’’ہاں مہندر! اب کالے ہونے سے تو رہے۔ تم تو بالوں کے سفید ہونے پر آزردہ ہو، خون سفید ہونے کے بارے میں تم کیا کہتے ہو!‘‘

’’سائیں آپ بہت مشکل ہیں۔ ‘‘

رات کو کھلے صحرا میں چارپائیاں بچھائی گئیں اور خوب صورت رنگ برنگی رلیاں۔ پورا چاند اور اُس کی چاندی… عجیب سماں ہوتا ہے۔ حدِّ نظر تک ریت اور وہ بھی چمکتی ہوئی۔ اونٹوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آوازیں اور کشادہ دل والے سادہ لوح، بے ریا دیہاتی۔ یہاں شہر میں آپ اِسے نہیں محسوس کر سکتے … ہاں آپ کو وہیں جانا ہو گا۔ میرے ساتھی سوگئے تھے اور میں سوچ کے گہرے ساگر میں اترا ہوا تھا۔

خوب صورت موروں نے چیخ چیخ کر لوگوں کو اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے کہہ رہے ہوں :

’’تم بھی اٹھو، بستر چھوڑو، بستر چھوڑو اور منہ دھولو،

اِتنا سونا ٹھیک نہیں ہے۔ ‘‘

میں نے گھڑی میں وقت دیکھا، پانچ بج رہے تھے کہ ہمارے میزبان نے ناشتہ میرے آگے سجا دیا تھا، ’’سائیں ! اب بھی آپ چائے پر ہی گزارہ کرتے ہیں۔ ‘‘

’’ہاں مہندر ایسا ہی ہے۔ ‘‘

ناشتے سے فارغ ہو کر ہم نے اجازت چاہی، وہ بضد تھا:

’’نہیں سائیں آج نہیں، ابھی آپ رہو، نئے کنویں کا پانی پی کر جانا۔ ‘‘

’’ہاں مہندر! میرا بھی جی نہیں چاہتا جانے کو، لیکن مجھے جانا ہو گا۔ زندگی رہی تو پھر آؤں گا، میرا تم سے وعدہ ہے۔‘‘

بہت اداس اور غمگین مہندر نے ہمیں رخصت کیا۔

ہم اسلام کوٹ سے ہوتے ہوئے ننگرپارکر کے لیے روانہ ہوئے۔ بارش کے بعد تھر میں خوب صورت پرندے چہچہانے لگتے ہیں۔ طرح طرح کے پرندے … میں تو اُن کے نام نہیں جانتا، میں نے ایک جگہ کوئل کو کُوکتے ہوئے سنا، تو مجھے میاں محمد بخش یاد آئے ؎

پگلی کوئل کُو کُو کر کے کس کو کُوک سنائے

دکھ سے بھری ہے دنیا ساری، سُکھ پھر کہاں سے آئے

میں نے سوچا، کوئل کو کیا معلوم کہ دنیا دکھوں کا مسکن بن رہی ہے۔ وہ تو بس اپنا کام کر رہی ہے۔ اُس کا کام تو صرف اِتنا ہی ہے، کُوکنا۔ کیا ہم اپنا کام کر رہے ہیں ؟ ہم تو سمجھ دار ہیں ناں … اور اشرف المخلوقات بھی… ہمارا کیا کام تھا؟ کیا فرائض تھے ؟ کیا ہم نے اپنے حصے کے سُکھ بانٹے، کیا ہم نے اپنا فرض پورا کر لیا؟ چلیے چھوڑیے، ابھی تو ہمیں اور بھی بہت سے کام ہیں۔ فرصت ملی تو سوچیں گے۔

میں نے اتنی ساری فاختائیں اور ایک جگہ پر، کبھی نہیں دیکھیں۔ فاختہ کو دیکھتے ہی مجھے شاخِ زیتون یاد آئی… امن کی پیام بر فاختہ اور زیتون یاد آتے ہی مجھے فلسطین اور لبنان یاد آئے اور پھر مہذب، پڑھی لکھی اور ترقی یافتہ دنیا اور اُس کے باسی، موت برسانا جن کا کام ہے۔

ایک جگہ رک کر میں نے ایک تھری سے پوچھا، ’’تمہیں معلوم ہے لبنان پر بم باری ہو رہی ہے !‘‘ اُسے سمجھانے میں مجھے بہت مشکل پیش آئی، پَر وہ سمجھ گیا تھا، کہنے لگا، ’’سائیں یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ آدمی آدمی کو مارے !‘‘

میں نے کہا ’’کیا تھر میں آدمی کو آدمی نہیں مارتا؟‘‘

’’سائیں بالکل نہیں، ہاں کبھی کبھی چھوٹا موٹا جھگڑا ہو بھی جاتا ہے، بس زبانی کلامی… یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آدمی کو جان سے مار دے۔ ‘‘

وہ یہ بات ماننے پر تیار نہیں تھا کہ نہتے معصوم شہریوں پر بم برساکر اُنھیں فنا کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔ میرے اندر خیال جاگا… یہ تو دیہاتی ہے، اِس نے تو کبھی مکتب کی شکل بھی نہیں دیکھی… سادہ لوح انسان… یہ کیا جانے ترقی کے معنی، جس کا ایندھن انسان ہیں۔ اِتنا سارا بگاڑ اب کیسے نمٹائیں گے ؟ کوئی نہیں سوچتا۔ کوئی بھی نہیں۔ وہ روشن دین نے بالکل صحیح کہا تھا ؎

کیا بیچا، کیا بیچ کمایا

بدیوں کا سر بوجھ اٹھایا

جان بچاری چھُپ چھُپ جائے

لینے والے، لینے آئے

جب لینے والا لینے آئے گا تب ہم کیا کریں گے ؟ پتا نہیں۔

ننگرپارکر روانہ ہونے سے پہلے ہم نے اپنے دوست ’’جانُو ڈھاٹی‘‘ کو اطلاع کر دی تھی اور اُس کا بھی پیغام مل گیا تھا کہ وہ سڑک کے کنارے ہمارا، انتظار کرے گا، لیکن ہم خوب صورت مناظر میں اِس قدر محو تھے کہ ہمیں یہ یاد ہی نہیں رہا تھا۔

خوش باش تھری اپنی زمینوں میں ہل چلا رہے تھے اور خواتین اُن کا ہاتھ بٹا رہی تھیں۔ تھر کی خواتین بہت با حیا اور بہت جفا کش و محنتی ہیں … وہ اپنے مردوں کا پورا ساتھ دیتی ہیں … گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ وہ کھیتی باڑی میں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہیں۔ ایک کھیت میں کام کرنے والے نوجوان تھری سے میں نے پوچھا، ’’تم نے کیا کاشت کیا ہے ؟‘‘

پہلے تو وہ مسکرایا اور پھر بولا، ’’سائیں یہاں کیا کاشت کرنا ہے، بس اپنے گزارے کے لیے جوار، باجرا اور تل کاشت کیے ہیں۔ ‘‘

’’اچھا تو کب تک فصل تیار ہو جائے گی؟‘‘

’’سائیں بس بارش پر ہے۔ ابھی تو ہم نے بیچ بو دیا ہے، اللہ سائیں پھل بھی دے گا۔ ‘‘

’’اور اگر زیادہ تیز بارش ہو گئی تب کیا کرو گے ؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’ہم نے کیا کرنا ہے سائیں، ہم نے جو کرنا تھا کر دیا اب تو رب سائیں کرے گا اور وہ جو کرے گا بھلا کرے گا۔ ‘‘

آپ اِسے کیا کہتے ہیں ؟ اِسے کہتے ہیں توکل اپنے رب پر، کامل بھروسا۔ مجھے اپنا ’’دادُو‘‘ یاد آیا۔ داد محمد بلوچ کو ہم پیار سے دادو کہتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگا، ’’دیکھو واجا! زیادہ سوچ موچ کا ضرورت نہیں ہے، جس نے چونچ دیا ہے وہی دانہ بھی دے گا، نہیں تو اپنا چونچ بھی واپس لے لے گا۔ ابھی اپنا آخرت کا فکر کرو ڑے۔ ‘‘ اِس کے لہجے پر مت جائیے، ذرا غور کیجیے، یہ ہے اصل بات۔

تھریوں کے اپنے رسم و رواج ہیں۔ مہندر چار بچوں کا باپ ہے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کی بیوی اب بھی اُس کے ماں باپ کے سامنے اُس سے بات نہیں کرتی، راستے میں مرد آگے اور عورت پیچھے چلتی ہے۔ شادی کی رسومات دو ڈھائی ماہ پہلے شروع ہو جاتی ہیں اور شادی کے دو، ڈھائی ماہ بعد تک چلتی رہتی ہیں، لیکن سادگی کے ساتھ۔ شادی کے گیت، تھریوں کا والہانہ رقص… پورا گاؤں خوشیوں اور غموں میں ساجھے دار ہوتا ہے۔ سب ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔

ایک درخت کے سائے تلے میں نے تین بچیوں کو دیکھا تو میں رُک گیا۔ ’’تم لوگ کیا کر رہی ہو یہاں پر۔ ‘‘

وہ ہنسنے لگیں۔ ’’تم کیوں ہنس رہی ہو؟‘‘

اُنھوں نے میرے بالوں کو دیکھ کر پوچھا، ’’کیا تم جو گی ہو؟‘‘

میں نے کہا ’’ہاں ‘‘۔

’’کیا سانپ پکڑنے آئے ہو؟‘‘

’’ہاں اُسے ہی پکڑنے آیا ہوں۔ ‘‘

’’تو پکڑو نا اُسے ‘‘۔

’’کہاں ہے وہ؟‘‘

’’یہیں پر ہو گا، ہمیں کیا پتا؟‘‘

ہاں میرا بہت جی چاہتا ہے … سانپوں کو پکڑ لینا چاہیے … وہ لوگوں کو ڈس لیتے ہیں۔ حالاں کہ کوئی فائدہ نہیں ہوتا ڈسنے سے، بس عادت ہوتی ہے۔ کیا آپ نے ایسے لوگ نہیں دیکھے جو دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں چاہے اُنھیں کوئی فائدہ نہ ہو۔ بس وہ سانپوں کی طرح ہوتے ہیں۔ بھٹ شاہ کے لطیف نے کہا تھا، ’’سانپ دیکھنے میں خوب صورت ہوتے ہیں مگر اُن کے پہلو میں شہد نہیں زہر ہوتا ہے۔ ‘‘

تھر کے ہر گاؤں میں آپ کو ایسے بڑے بوڑھے ضرور ملیں گے جو تھر کی پوری تاریخ سے واقف ہیں۔ پوری تاریخ سے ہی نہیں لوگوں کے شجرۂ نسب تک اُنھیں یاد ہیں۔ آپ گاؤں کے کسی فرد کے متعلق دریافت کر لیں۔ اُس کا پورا شجرہ آپ کے سامنے بیان کر دیں گے۔ نوجوان بزرگوں کی بہت عزت کرتے ہیں … اُن کے آگے اونچی آواز میں بات نہیں کرتے … وہ اگر ڈانٹ دیں تو خاموشی سے سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔

ہم پڑھے لکھے مہذب کیا کرتے ہیں ؟ کبھی ہم نے سوچا! میں نے چوپالوں میں دیکھا، گاؤں کے لڑکے بالے اپنے کسی دوست کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ بس کسی نا کسی کی شامت آ ہی جاتی ہے، لیکن مجال ہے تلخی پیدا ہو۔ اِتنی برداشت، اتنا تحمل… ہم شہری اِس سے محروم ہیں۔ کبھی فرصت ملے تو ضرور جائیے تھر… اور دیکھیے ہم کس کس نعمت سے محروم ہیں اور وہ دورِ جدید کی ساری آسائشیں نہ ہونے کے باوجود کس قدر ہنس مکھ، ملنسار اور پُرسکون ہیں۔ وہاں کسی سیمینار کی ضرورت نہیں ہے، کہ وہ پُر امن رہیں، پُرسکون رہیں، برداشت سیکھیں، انسانیت سے پیار کریں … اُن کی گھُٹّی میں یہ سب کچھ ہے۔ انہیں کسی لیکچر کی ضرورت نہیں ہے۔

وہ بھی تو کسی یونیورسٹی کے پڑھے لکھے نہیں تھے۔ بھٹ شاہ کے لطیف سائیں کے اِس سوال کا جواب ہے ہمارے پاس…؟

’’کونجوں نے اُڑان بھرتے غول ہی کو

اپنا وطن بنا لیا ہے

اِن کے میل ملاپ کا بندھن نہیں ٹوٹتا

آخر انسانوں میں اتحاد کیوں نہیں ہے ؟‘‘

ایک دوسرے کے کام آنے، ایک دوسرے کا سہارا بننے کو بھٹائی لطیف سائیں نے اِس طرح بیان کیا ہے :

’’آبِ جُو کے کنارے اُگی گھاس کتنی غیرت مند ہے

ڈوبنے والے کو سہارا دے کر بچا لیتی ہے

اور اگر نہ بچاس کے

تو خود بھی اُس کے ساتھ ہی ڈوب جاتی ہے۔ ‘‘

آپ کیا کہتے ہیں اس کے بارے میں۔ !!!

……٭٭٭……

 

 

 

 

 

                   سائیں ! آپ آئے تو ہمارے بھاگ جاگ گئے

 

تھر کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں … بہت زیادہ۔ جان نہ پہچان، بس آپ اُن سے سلام دعا کر لیں، وہ آپ کی خاطر مدارت شروع کر دیں گے۔ کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہے آپ کو۔ بالکل بھی نہیں … بس آپ مہمان ہیں، پردیسی ہیں … اب آپ کی رہائش، کھانے پینے، آسائش و آرام کی ذمے داری اُن کی ہے۔ آپ لاکھ ان کار کر دیں، وہ نہیں مانیں گے۔ ایک تھری نے ہمیں کھانے کے لیے روکنا چاہا… ہم نے اپنی مصروفیت سے آگاہ کیا تو وہ کہنے لگا: نہیں سائیں، آپ کو میری چائے تو پینی ہی پڑے گی، ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا۔

کھلے صحرا میں ایک چھپر تلے وہ چائے بنانے کی تیاری کرنے لگا۔

اِدھر اُدھر سے جھاڑیاں جمع کیں۔ تین اینٹوں کے چولہے کے اوپر دیگچی میں پانی ڈالا اور آگ سلگاکر اسے پھونکیں مارنے لگا۔ دھوئیں سے اُس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں، لیکن وہ منہمک تھا۔ پانی گرم ہونے پر اُس نے ایک چائے کی پڑیا اور شکر ڈالی، اُبال آنے پر دودھ ڈال کر وہ ہم سے مخاطب ہوا، ’’سائیں آپ بہت اچھے ہو۔ ‘‘

’’کیوں ؟ تم بہت اچھے ہو یار… نہ جان نہ پہچان اور چائے پلا رہے ہو ہمیں۔ ‘‘

’’نہیں سائیں، آپ کا وقت بہت مہنگا ہے، ہمیں کیا کام ہے یہاں …! بس آپ نے ہمیں عزت دی، اللہ سائیں آپ کو عزت دے۔ بہت مہربانی سائیں۔ ‘‘

جب میں سسّی کے گاؤں پہنچا تھا، تب مجھے بتایا گیا کہ یہاں پر ہر پردیسی کا استقبال کھلے دل سے کیا جاتا ہے۔ ایک گھر کو باقاعدہ مہمان خانہ بنایا گیا ہے جس میں اپنے تئیں ہر سہولت فراہم کی گئی ہے۔ خود بھوکے سو جائیں گے آپ کو کھانا کھلائے بغیر نہیں جانے دیں گے۔ گھر میں موجود ہر نعمت آپ کے لیے حاضر کر دیں گے۔ مجھے وہ تھری بھی یاد ہے جس نے کہا تھا، ’’سائیں ! آپ لوگ آئے، میرے تو بھاگ جاگ گئے۔ ‘‘ جب میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ تو اس نے کہا، ’’سائیں ! مہمان تو اللہ سائیں کی رحمت ہوتے ہیں، جس سے اللہ سائیں خوش ہوتا ہے اُس کے گھر مہمان بھیجتا ہے۔ مہمان آنے سے رزق میں، روٹی میں برکت ہوتی ہے۔ ہم نے آپ کو کھلایا، اللہ سائیں ہم کو کھلائے گا۔ آپ کے حصے کا دانہ ہمارے گھر لکھا تھا، ہم نے وہ آپ کو کھلا دیا۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔ ‘‘

ہمارے ہاں اب کیا ہوتا ہے۔

’’گھر آنے سے پہلے فون کر لیجیے گا۔ ‘‘،

’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔ ‘‘

شہری زندگی میں اب مصروفیت ہی مصروفیت ہے۔ انسان کے پاس اپنے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ لاکھ مسائل ہیں … ہم سب زندگی سے جنگ میں کھپ رہے ہیں۔ لیکن آپ اِسے کچھ اور نہ سمجھیے۔ میں نے دیکھا ہے اب ہم گھر پر مہمان آنے سے کوفت میں مبتلا ہو جاتے ہیں … مہمان کے سامنے تو مسکرا کر کہتے ہیں : اچھا کیا آپ آئے۔ اُس کے جانے کے بعد ہم کیا کہتے ہیں ! چلیے کوئی اور بات کرتے ہیں۔

تھر کول پروجیکٹ سے گزرتے ہوئے ارباب مالک کی آواز آئی، ’’لطیف بھائی! یہاں ہیں کوئلے کی کانیں، اگر یہاں پر یہ پروجیکٹ لگ گیا تو تھر میں بہت خوش حالی آ جائے گی، سب دکھ درد دور ہو جائیں گے، روزگار ملے گا… اور بھی بہت کچھ۔ ‘‘ لیکن میں دوسری طرف نکل گیا تھا… میں سوچنے لگا: ہاں خوش حالی تو آہی جائے گی، آسائشیں بھی، شہری تمدن بھی سر اٹھائے گا، پیسے کی ریل پیل بھی… لیکن کیا ایسا ہو گا بھی! اوّل تو یہاں سرمایہ دار ہمارے خوب صورت اور سادہ دل تھریوں کا خون چوس لے گا۔ سب کچھ سرمایہ دار سمیٹ کر لے جائے گا۔

چلیے، اللہ کرے ایسا نہ ہو، تب بھی ہمارا تھر کیا اتنا ہی خوب صورت رہے گا؟ تھری جیسے اب ہیں ویسے ہی رہیں گے ؟ یا صنعتی ترقی ہمارے تھر کو نیست و نابود کر دے گی؟ تھر میں اُس وقت بھی اسی طرح چوپال جمے گی؟ اسی طرح سب باہم شیرو شکر رہیں گے ؟ اس طرح کے بہت سے سوالات سر اٹھائے کھڑے تھے جن کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ بس اندیشے تھے … وحشت ناک خدشات… اور دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کا کوبرا پھن پھیلائے کھڑا تھا۔ اللہ ہمارا تھر سلامت رکھے، اور ہمارے تھریوں کو بھی۔ دُور سے مجھے میاں بردے خان برداؔ کی پُرسوز آواز سنائی دی ؎

عمر حباب ہے، جیسے سایا سورج سے ڈھل جائے

جس دَم پر مغرور ہوا تُو، یہ دَم آئے نہ آئے

کبھی نہ جَو سے گندم پھوٹے، آک نہ آم اگائے

برداؔ جب تک تیل دیے میں، تب تک جلتا جائے

اُس گاؤں میں پہنچتے ہی مجھے معصوم بچوں نے گھیر لیا۔ ’’چاچا آپ کب آئے ؟‘‘، ’’ابھی تو آیا ہوں۔

تم دیکھ نہیں رہے، وہ سامنے کھڑی ہے گاڑی۔ ‘‘

’’ہاں ہاں اتنی اچھی گاڑی میں آئے ہیں آپ، ہمارے لیے کیا لائے ؟‘‘

’’اوہو! کچھ بھی نہیں، بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ ‘‘

’’کیا آپ ہمارے لیے کھٹ مٹھا بھی نہیں لائے۔ ‘‘ وہ ٹافیوں کا پوچھ رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کیا غلطی کر بیٹھا… غلطی کیا کوتاہی، غفلت، اور جتنے بھی ایسے الفاظ ہوں۔ ہم اپنے بچوں کا تو بہت خیال رکھتے ہیں … یہاں کے بچوں کو آئس کریم چاہیے، برگر چاہیے، پیزا چاہیے، آئس لولی چاہیے، نہ جانے کیا کچھ چاہیے … اور یہ بچے جنہیں ان چیزوں کے نام بھی نہیں معلوم کہ یہ کیا بلا ہیں۔

میں سر جھکائے کھڑا تھا۔ اتنا بے دست و پا میں کبھی نہیں رہا۔ اب کیا کروں ؟ میں سوچنے لگا کہ ایک چھوٹے سے بچے نے یہ مسئلہ حل کر دیا: ’’چلو چاچا! کوئی بات نہیں، ہماری خرچی نکالو۔ ‘‘

’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔ ‘‘ دیکھیے کتنا اپنا پن ہے ان میں۔ ہم تو صرف اشتہار میں اپنا پن ڈھونڈتے ہیں۔ اگر آپ کسی بچے کو دو روپے کا سکہ دیں تو وہ خوش ہو گا۔ پانچ کا سکہ دیں تو ناچنے لگے گا اور اگر آپ نے دس روپے دے دیے تو وہ سوچ میں پڑ جائے گا کہ اب اس کا کیا کروں ؟

مجھے وہ بات اب بھی یاد ہے، جب ایک بچے کو میں نے سو روپے دیے تھے اور وہ حیران پریشان کھڑا تھا کہ اُس کی ماں کی آواز آئی، ’’بھائی جی ! یہ کیا کر رہے ہیں ؟ اتنے سارے پیسوں کا یہ کیا کرے گا؟ اتنے پیسے تو ہمارے پاس بھی نہیں ہیں، بس اسے دو روپے دے دیں۔ ‘‘ میں اسے کیا کہوں، آپ بتائیں ؟

تھر میں دکان داری بس اللہ توکل ہوتی ہے۔ سارا کام ادھار پر ہوتا ہے … کپڑا، اشیائے خورد و نوش، دوا دارو سب کچھ… جب فصل آئے گی تب پیسے ادا کیے جائیں گے۔ میں نے ایک دکان دار سے پوچھا ’’کیسے چلتا ہے کاروبار؟‘‘

’’بس سائیں ایسے ہی چلتا ہے۔ ‘‘

’’قحط کے زمانے میں کیا ہوتا ہے ؟‘‘

’’کچھ نہیں ایسے ہی چلتا ہے۔ ‘‘

’’کیا واپسی کی ضمانت بھی ہے ؟‘‘

’’کوئی ضمانت نہیں سائیں، بہت ایمان دار لوگ ہیں، جیسے ہی پیسے آئے سب سے پہلے قرض اتارتے ہیں۔ ‘‘ سارا لین دین اعتماد کی بنیاد پر ہے … کوئی لڑائی جھگڑا نہیں … کوئی تلخی نہیں … کوئی مسئلہ نہیں۔ تھری، شاہ لطیف کے اِس ارشاد کی عملی تصویر ہیں، شاہ سائیں نے کہا ہے : اپنی کشتی سے ناقص چیزوں کو نکال دے۔ جھوٹ کا کاروبار نہ کر اے سوداگر! سچ کے لین دین میں ہی برکت ہے۔ ‘‘

واہ کیا بات ہے تھر کی۔ ہاں تھر، تھر ہے جناب! زندگی کے سرد و گرم کا اتنی بہادری، اتنی جواں مردی سے مقابلہ کوئی اُن سے سیکھے۔ شاہ سائیں لطیف بھٹائی نے بالکل صحیح کہا ہے ؎

تن پہ کپڑا نہیں تو کیا غم ہے

مقصدِ جسم و جاں سمجھتے ہیں

یہ بیاباں نورد، تھر والے

تھر کو جنت نشاں سمجھتے ہیں

تھریوں نے … خوب صورت تھریوں نے اپنی زمین کو جنت بنایا ہوا ہے۔ شاہ سائیں آپ بالکل صحیح کہتے ہیں، وہ تھر ہی کو جنت سمجھتے ہیں۔ اپنی مٹی سے محبت، اپنے لوگوں سے پیار… کتنی گہری جڑیں ہیں اُن کی… اور ہم شہریوں کی……!!

ایک معصوم دیہاتی سے میں نے پوچھا، ’’تمہیں تھر میں سب سے زیادہ خوب صورت کیا لگتا ہے ؟‘‘

وہ سوچ میں پڑ گیا… ’’سائیں سب کچھ خوب صورت ہے، اپنی اپنی جگہ سب بہت اچھا ہے۔ پر سائیں ہمارے تھر کی خوب صورتی مور ہیں … ہاں مور… ہم انہیں اپنے بچوں سے زیادہ چاہتے ہیں … آپ دیکھ نہیں رہے کیسے گھوم پھر رہے ہیں۔ اِدھر اُدھر… کوئی انہیں پریشان نہیں کرتا۔ سب ان کا خیال رکھتے ہیں۔ ‘‘

میں نے کہا، ’’مجھے دو مور چاہییں … کتنے کے مل جائیں گے ؟‘‘

’’سائیں پیسوں کو گولی مارو، ویسے ہی مل جائیں گے۔ پر سائیں یہ تو شہر میں نہیں رہ سکتے۔ ‘‘

میں نے پوچھا ’’کیوں ؟ شہر میں کیوں نہیں رہ سکتے ؟‘‘

’’سائیں ! یہ تو وہاں شور ہی سے مر جائیں گے۔ میں تو بہت حیران ہوں کہ آپ شہر میں کیسے رہ جاتے ہیں۔ اتنا شور، اتنا دھواں … یہاں دیکھیے کتنا سکون ہے، کتنی شانتی ہے، کتنا امن ہے … سائیں معاف کرنا، شہر میں تو بہت مارا ماری ہے۔ ‘‘ ہاں وہ بالکل درست بات کہہ رہا تھا۔ سو فی صد صحیح بات… ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں، ہمیں بہت کام ہیں، ہم کتنے جھمیلوں میں پڑے ہوئے ہیں، اسے کیا پتا۔ آسائشوں کے لیے کیا کچھ کھونا پڑتا ہے … خود کو بھی کھونا پڑتا ہے جناب… ویسے آپ ہی بتائیے ہم خسارے میں نہیں رہے ؟

وارث شاہ نے کہا تھا ؎

سچ بولیں تو دیس نکالا، پنچ ہیں ٹھگ اور چور یہاں

بات شریفوں کی نہ مانیں، چودھری سب لنڈور یہاں

سڑک کا خاصا بڑا حصہ بارش کی وجہ سے بہہ گیا تھا اور مزدور خواتین، مرد اور بچے اپنے سروں پر پتھر سے بھری ٹوکریاں رکھے کام میں مصروف تھے۔ گاڑی بہت آہستگی سے چل رہی تھی۔ آس پاس کے مزدور ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے۔ ایک چھوٹے سے بچے نے ہمیں روک کر پوچھا، ’’سائیں پانی پلاؤں آپ کو؟‘‘

’’نہیں بیٹا جیتے رہو۔ ‘‘

اُس کے پاس پانی ہی تھا۔ ’’سائیں ! بس تھوڑی سی تکلیف اور ہے، جلد ہی سڑک دوبارہ بن جائے گی، پھر آپ کو تکلیف نہیں ہو گی۔ ‘‘

’’لیکن تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’سائیں ! اپنی ماں کے ساتھ آیا ہوں، وہ دیکھو سڑک پر کام کر رہی ہے وہ… جب اسے پیاس لگتی ہے تو میں اسے پانی پلاتا ہوں اور شام کو اس کے ساتھ گھر چلا جاتا ہوں بس۔ ‘‘

اتنی سی عمر میں اسے اپنی ماں کا کتنا خیال ہے۔ میں نے اسے گلے لگا کر اس کا ما تھا چوما اور رخصت ہو گیا۔

ننگرپارکر کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے۔ لیکن یہ کیا ہوا؟ ہم جانو ڈھاٹی کو تو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔

ہم نے ایک دوسرے کو خوب کوسا، لیکن اب واپسی ممکن نہ تھی۔ بے چارہ جانو کیا سوچ رہا ہو گا۔ تھر میں لوگ ایک دوسرے کو مختصر ناموں سے پکارتے ہیں۔ ہاں اس میں ایک اپنائیت بھی ہوتی ہے۔ جیسے جانُو کا اصل نام جان محمد ہے۔ ہمارے دین محمد کو ہم دینو یا دینا کہتے ہیں، مہندر دیو کو مہندرا، لچھمن داس کو لاشو۔ پھر لاڈ پیار کے نام الگ ہیں۔ القابات کے ساتھ پورا نام بزرگوں کا لیا جاتا ہے … یا پھر لوگ اپنے رشتے خود بنا لیتے ہیں۔ چاچا، ماما تو عام سی بات ہے۔ ہر گاؤں میں دو چار بزرگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جنہیں بلا مبالغہ سیکڑوں لطیفے اور شعر ازبر ہوتے ہیں۔ کوئی ان کی بات کا برا نہیں مناتا، بلکہ میں نے تو دیکھا ہے کہ چھوٹے خود انہیں مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ انہیں ڈانٹ سکیں، کچھ کہیں، چاہے گالیاں ہی دیں۔ آپ بالکل بھی پریشان نہ ہوں، وہاں بزرگ پیار میں گالیاں بھی دیتے ہیں، لیکن کوئی ان سے بدمزہ نہیں ہوتا۔ ان کی گالیوں میں بھی پیار، محبت، اپنائیت، خلوص، مٹھاس اور شیرینی ہوتی ہے۔ آپ پریشان ہو گئے ناں۔ آپ کو اس کا تجربہ نہیں ہے اس لیے۔ میں کیا کر سکتا ہوں ؟ ایسا ہی ہے۔ میرا ایک دوست کہا کرتا تھا، ’’یار کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو گالیاں بھی دیں تو اچھے لگتے ہیں، پیارے لگتے ہیں، جی چاہتا ہے ان کا منہ چوم لیں، اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو دعائیں بھی دیں تو غصہ آنے لگتا ہے۔ بس یہ تعلق کا معاملہ ہے۔ اس پر کیا بات کریں ؟‘‘ ہو سکتا ہے آپ کا تجربہ مختلف ہو… ایسا ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر ایک یک ساں تجربے سے گزرے۔ بہرحال میرا تجربہ تو ایسا ہی ہے۔ تھر میں بھی مجھے یہی تجربہ ہوا۔

خوش آمدید ننگرپارکر ’’بھلی کری آیا‘‘ نے ہمارا استقبال کیا۔ رینجرز کی چیک پوسٹ پر اندراج کرا کے ہم ننگرپارکر میں داخل ہوئے۔ آپ کو وہاں رینجرز کی چیک پوسٹیں بکثرت ملیں گی۔ اس لیے کہ یہ سرحدی علاقہ ہے۔ لیکن بس آپ کو اندراج کرانا ہو گا۔ جاتے ہوئے بھی اور آتے ہوئے بھی۔ ہماری گاڑی ننگرپارکر پولیس اسٹیشن میں داخل ہوئی اور اشوک نے ہمارا مسکرا کر استقبال کیا۔ اشوک اسسٹنٹ سب انسپکٹر ہے۔ مجھے وہ بہت شرمیلا سا لگا۔ وہ کہیں سے بھی پولیس والا نہیں لگ رہا تھا۔ اگر وہ وردی میں نہ ہوتا تو اسے پہچاننا خاصا مشکل کام تھا۔ بہت بھولا بھالاسا نوجوان۔ میرا اس سے تعارف کرایا گیا تو وہ کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گیا۔ در اصل ہم ملنے تو انسپکٹر صاحب سے گئے تھے، لیکن وہ ایک اہم میٹنگ کے سلسلے میں مِٹھی چلے گئے۔ بعد میں ان کا فون آیا بھی کہ میرا انتظار کرنا۔ اب اشوک پر دوہری ذمے داری آ پڑی تھی۔ بالآخر مجھے ہی پہل کرنا پڑی:

’’اشوک کتنے عرصے سے پولیس میں ہو؟‘‘

’’ سر ہو گئے پانچ سال۔ ‘‘

’’ہو کہاں کے ؟‘‘

’’سر اسی علاقے کا ہوں۔ ‘‘

اچھا پھر تو تمہارے مزے ہو گئے۔ ‘‘

’’ہاں سر۔ ‘‘

’’یار یہ بتاؤ کرائم ریٹ کیا ہے ؟‘‘

’’سر کچھ نہیں۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟ کوئی لڑائی جھگڑا، چوری چکاری، قتل، ڈکیتی کچھ تو ہوتا ہو گا۔ ‘‘

’’سر سچ بتاؤں ‘‘

’’ہاں بالکل سچ سچ بتانا۔ ‘‘

’’بس کبھی کبھی لڑائی جھگڑا ہو جاتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ‘‘

’’اور لڑائی جھگڑا کس بات پر ہوتا ہے ؟‘‘

’’جیسے سر آج کل بارش ہو رہی ہے، زمین کی حد بندی پر تنازعہ ہو جاتا ہے۔ ‘‘

’’پھر تم کیا کرتے ہو؟‘‘

’’بس سر کچھ نہیں، موقع پر جاتے ہیں، پٹواری کو بلاکر حد معلوم کی

اور دونوں کو سمجھادیا، چائے پی، کھانا کھایا اور واپسی۔ ‘‘

’’یار پھر تم نکمے بیٹھے ہو۔ ‘‘

وہ زور سے ہنسا، ’’ہاں سر ایسا ہی سمجھو۔ ‘‘

اس نے چائے منگوائی اور کھانا کھلانے پر اصرار کرنے لگا، ’’نہیں اشوک، صرف چائے۔ ‘‘

’’کیوں سر، آپ مہمان ہو۔ ‘‘

’’پھر سہی‘‘ میں نے کہا۔ چائے پینے کے بعد اشوک نے ہمارا پروگرام پوچھا، ’’بس اشوک گاڑی یہاں کھڑی ہے ہم پیدل گھومنا چاہیں گے۔ ‘‘

’’لیکن سر کہاں ؟‘‘

’’بس اِدھر ہی۔،،

’’سر آپ کے ساتھ گارڈ بھیجتا ہوں۔ ‘‘

’’نہیں بالکل بھی نہیں۔ کس لیے گارڈ بھیج رہے ہو!‘‘

’’سر راستے کے لیے۔ ‘‘

’’نہیں مجھے کسی گارڈ کی ضرورت نہیں ہے اور پھر یہاں پر…‘‘

مجھے یاد آیا، عمر کوٹ کے ایک انسپکٹر سے میری بات ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا: ’’یہ بتاؤ تھر کے لوگ کیسے ہیں ؟‘‘

’’سر ہیرا ہیں ہیرا۔ آپ خود دیکھ لو۔ ‘‘

مجھے یاد ہے بہت اچھی طرح سے، اس نے یہ بھی کہا تھا، ’’سر آپ کسی بھی دیہات میں چلے جائیے اور لاکھوں روپے کہیں پر پھینک کر دور کہیں چلے جائیے، کوئی بھی تھری وہ پیسے اٹھا کر آپ کو ڈھونڈنا شروع کر دے گا۔ چاہے آپ دو ماہ بعد آئیں وہ امانت آپ کو لوٹا کر رہے گا، چاہے اس کی جیب میں ایک روپیہ بھی نہ ہو۔ ‘‘

سچ بتاؤں، اُس وقت مجھے بالکل بھی یقین نہیں آیا تھا۔ اب میں یہ سب کچھ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔

ننگرپارکر کے چھوٹے سے اور اکلوتے بازار سے گزرتے ہوئے مجھے بالکل بھی عجیب نہیں لگا۔

چھپّر ہوٹلوں میں چائے پیتے ہوئے تھری، پکوڑے اور سموسے خریدتے ہوئے جوان، پھل فروش اور بھاگتے دوڑتے بچے … سب میری طرف متوجہ تھے۔ ظاہر ہے میں اجنبی تھا، حلیے سے بھی اور لباس سے بھی۔ میں عجوبہ بنا ہوا تھا شاید اس لیے بھی۔ اب میری باری تھی۔

میں نے انہیں مخاطب کیا، ’’آپ لوگ کیوں حیران اور پریشان ہو رہے ہیں، میں تم میں سے ہی ہوں، آؤ گپ شپ کرتے ہیں۔ ‘‘

ارباب مالک سے ایک نے پوچھا ’’یہ سائیں کون ہے ؟‘‘

’’بس بابا فقیر آدمی ہے۔ مولائی مست، بس گھومتا رہتا ہے، آج یہاں آ گیا۔ ‘‘ دوسرے بوڑھے کی آواز گونجی

’’مجھے پہلے ہی پتا تھا یہ فقیر آدمی ہے، لیکن میں نے پہل اس لیے نہیں کی کہ کہیں میرا اندازہ غلط نہ ہو جائے۔ ‘‘ اس پر سب کا قہقہہ گونجا۔

بہت اچھے ہیں تھری۔ دوسرے ہی لمحے مجھے یوں لگا جیسے وہ برسوں سے مجھے جانتے ہیں، وہیں چوپال جمی اور دل کی باتیں ہوئیں۔ بہت سے نوجوان بضد تھے کہ سائیں آپ ہمارے ساتھ گاؤں چلو۔

’’ہاں ضرور چلوں گا پر ابھی نہیں، پھر کبھی۔ ‘‘

اجنبیت کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ پھر باہُو صاحب یاد آ گئے۔ سلطان باہُو صاحب۔

دل سے ہے منہ کالا اچھا، کوئی اگر یہ جانے ہُو

منہ کالا دل اچھا جس کا، یار اسے پہچانے ہُو

پھر تو باہُو صاحب نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہاں، میں کیا کر سکتا تھا!

دل کا درد ہے دل میں میرے، بیان کروں تو گھائل ہُو

حال مرا پھر وہ کیا جانیں، جو دنیا پر مائل ہُو

عشق کا بپھرا ظالم ساگر، ہر دم راہ میں حائل ہُو

نام ترا ہے کافی باہُو، تیرے درد کے سائل ہُو

ایک بڑی عمر کا تھری۔ بہت مضبوط قد کاٹھ کا، ہماری باتیں بہت توجہ سے سن رہا تھا۔ پھر اس سے رہا نہیں گیا۔ وہ ارباب مالک سے مخاطب ہوا ’’سائیں آپ ارباب مالک تو نہیں ہو کہیں۔ ‘‘

’’ہاں میں ہی ہوں، لیکن تم کون ہو؟‘‘

’’آپ نے مجھے نہیں پہچانا!‘‘

’’نہیں تو۔ ‘‘

’’آپ سے بیس برس پہلے فلاں جگہ ملاقات ہوئی تھی تب آپ بہت جوان تھے۔ ‘‘

’’اچھا…‘‘ ارباب مالک کو یاد آ گیا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’بیس سال پہلے کا مالک اور آج کا، بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ اسے کیسے پہچان گئے ؟‘‘

وہ مسکرایا اور کہنے لگا، ’’سائیں ارباب صاحب! کی آواز سے میں انہیں پہچان گیا اور اب تو میں یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ وہ کس کالج میں پڑھتا تھا اور اس کے مشاغل کیا تھے ؟‘‘

دیکھا آپ نے، میں نے آپ کو بتایا تھا ناں تھری آپ کو کبھی نہیں بھولتے۔ وہ یاد رکھتے ہیں، ہمیشہ۔ اور ہمارا کیا حال ہے۔ سال دو سال بعد ہم ایک دوسرے کے نام بھول جاتے ہیں۔ اوہو، آپ سے ملاقات ہوئی تھی، آپ کا نام؟ ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہم میں ان میں بہت فرق ہے، بالکل بجا ارشاد فرمایا۔ ہم اتنے مصروف وہ اتنے فارغ……

اب وہ ہمارا میزبان تھا، ’’سائیں ! بالکل بھی آپ کہیں نہیں جا سکتے، چلیے اٹھیے سائیں، گھر چلتے ہیں۔ سائیں پہلے پیٹ پُوجا پھر کم دُوجا۔ ‘‘ اور ہم اُس کے ساتھ اُس کے گھر چل پڑے۔

بازار تھا ہی کتنا بڑا، بیس بائیس دکانیں اور کیا… سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ فنا، فنا اور فنا۔ بس نام رہے گا اللہ کا۔

اچانک میری نظر ایک بورڈ پر ٹھہر گئی ’’آثارِ قدیمہ‘‘ ہاں سب کچھ آثارِ قدیمہ میں بدل جاتا ہے۔ ہم یہ آثار دیکھ رہے ہیں، کوئی ہمارے آثار بھی دیکھنے آئے گا۔ کوئی مفر نہیں۔ کوئی نہیں بھاگ سکتا… کوئی بھی نہیں۔

یہ ایک مندر تھا، دروازہ کھلا ہوا، ہُو کا عالم، بہت بوسیدہ سا۔ میں نے جوتے اتارے اور اندر داخل ہوا۔ دیواروں پر کائی جمی ہوئی، بڑا دالان اور ایک چھوٹا سا کمرہ، اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا، مکمل سکوت۔ کمرے میں داخل ہوئے، کچھ لمحے گزرے تب مجھے کچھ کچھ دکھائی دیا۔ سامنے ایک مورتی، کچھ دیے اور سوکھے ہوئے پھولوں کی پتیاں۔ میں کچھ دیر وہیں کھڑا رہا، اور پھر باہر نکل آیا۔ محکمۂ آثارِ قدیمہ نے کچھ بھی نہیں کیا تھا اسے محفوظ رکھنے کے لیے۔ بس وہ اپنی ذمے داری ایک بورڈ لگا کر ادا کر چکے تھے : ’’آثارِ قدیمہ کا خیال رکھیے ‘‘ بس۔ یہ جین مت کا مندر تھا۔ دو ہزار سات سو سال پرانا مندر۔ اسے محفوظ رکھنا چاہیے تھا ناں۔ یہ ذمہ داری تھی محکمۂ آثارِ قدیمہ کی۔ لیکن افسوس باقی اداروں کی طرح اس کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہر عبادت گاہ محفوظ ہونی چاہیے، چاہے کسی مذہب کی ہو۔

’’آپ سائیں اتنی دیر اندر کیا کر رہے تھے ؟‘‘ ہمارے میزبان نے پوچھا،۔

’’کچھ نہیں، بس ویسے ہی۔ ‘‘

’’اچھا سائیں ٹھیک ہے، کیا نظر آیا آپ کو‘‘

’’بہت کچھ۔ ‘‘

’’ہمارے کو بھی بتاؤ۔ ‘‘

’’ہاں بتاؤں گا کبھی۔ ‘‘

چھوٹے سے گاؤں میں داخل ہوتے ہوئے بچے، بوڑھے ہمیں دیکھ کر سلام دعا کر رہے تھے کہ ہمارے میزبان کا گھر آ گیا۔ گھر کیا تھا چاروں طرف جھاڑیاں، درمیان میں ایک نیم پختہ کمرہ اور ساتھ ہی ایک چونرا۔ دروازے پر چونے سے لکھا ہوا تھا ’’اللہ والی بستی۔ ‘‘

’’کیا تمہارا گھر اللہ والی بستی ہے۔ ‘‘

’’ہاں سائیں، میں نے یہ نام رکھا ہے۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’بس سائیں، اس لیے کہ اللہ سائیں سب کا ہے۔ وہ رب العالم ہے، ہم سب مخلوق اور وہ خالق ہے۔ وہ ہر بندے سے محبت کرتا ہے، وہی سب کا سہارا ہے، سائیں۔ میں نے جب یہ گھر بنایا تو میں نے سوچا اس کا نام اللہ والی بستی ہونا چاہیے، یہ گھر سب کے لیے کھلا ہے، سب کے لیے۔ امن شانتی کا گھر، سب کے لیے حاضر ہے، یہاں کوئی فکر نہیں ہے، کوئی ڈر نہیں ہے۔ ‘‘

اللہ والی بستی۔ کتنا خوب صورت نام ہے یہ… میں اس سادے سے تھری کو سن رہا تھا۔ میں سوچنے لگا، یہ ہے اصل تبلیغ، اسے کہتے ہیں مبلغ۔ میرا جی چاہنے لگا اسے اپنے ساتھ لے جاؤں، ہر جگہ لوگوں کو جمع کروں اور ان سے کہوں : سنو، اتنی سادہ سی بات ہمیں سمجھ نہیں آ رہی، اسے سمجھ آ گئی ہے، اسے سنو۔ اتنے بڑے بڑے سیمیناروں میں کھوکھلے لوگوں کا جو خود کو دانشور بھی کہتے ہیں، بھاشن، تقریریں، مقالے اور اتنی آسان سی بات۔ لیکن وہ تو پڑھا لکھا نہیں ہے ناں، اس کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہے، اس لیے اس کی بات ہم کیوں سنیں، کیوں سنیں ہم اس کی بات، آخر کیوں ؟ یہاں خواجہ فرد فقیرؔ بہت یاد آئے، خواجہ صاحب 1116 ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کی ایک کتاب ’’دریائے معرفت‘‘ بھی ہے۔ کیا خوب کہا ہے خواجہ صاحب نے ؎

س۔ سنائے پند کی باتیں، لوگوں کو سمجھائے

اوروں کو تُو کرے نصیحت، دل میں کھوٹ چھپائے

گدھے پہ جیسے علم لدا ہو، ایسا تیرا حال

فردا! حشر میں پوچھے گا وہ قادر جل جلال

اگر آپ مجھے اجازت دیں۔ میں آپ کی دل آزاری نہیں کر رہا۔ بخدا میں سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن ہمیں اپنی کوتاہی، غفلت اور منافقت کا چولا اتار پھینکنا ہو گا۔ تب کہیں کام بنے گا، ویسے نہیں۔ اپنے آس پاس دیکھیے، کیا خواجہ فرد فقیر نے غلط کہا ہے ؎

ک۔ کلام خدا کا جانیں، مُلّا اور فقیر

بولیں جھوٹ حرام بھی کھائیں پھر کیا ہو تاثیر

شیخ بنیں اور جی کہلائیں، چلیں یہ اُلٹی چال

فردا! حشر میں پوچھے گا وہ قادر جل جلال

ہم ایک چونرے میں بیٹھ گئے جسے رنگ برنگے کپڑوں سے سجایا گیا تھا اور ہمارا میزبان ہماری خاطر تواضع کے لیے جُٹ گیا۔

اس کی بہت زیادہ بھاگ دوڑ دیکھ کر آخر مجھے کہنا پڑا ’’تم آرام سے کیوں نہیں بیٹھ جاتے۔ ‘‘

’’سائیں مہمان ہیں آپ، یہاں صحرا میں ہے ہی کیا؟ بس جو کچھ ہے حاضر کر رہا ہوں، میرا تو بس نہیں چل رہا، ورنہ تو میں دنیا کی ہر نعمت سائیں آپ کے لیے حاضر کر دیتا۔ ‘‘

’’بس ہمیں چائے پلاؤ اور کچھ نہیں۔ ‘‘

’’نہ، نہ سائیں یہ کیسے ہو سکتا ہے ! کھانے کے وقت میں چائے ! پہلے کھانا پھر چائے سائیں۔ ‘‘

وہ اپنی مرغیوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر نڈھال ہو چکا تھا، مگر مرغیاں اس کے ہاتھ آنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ میں بہت دیر تک یہ آنکھ مچولی دیکھتا رہا۔ تب مجھے اپنے بزرگ دوست، جی ہاں اُن کے پاس بیٹھ کر آدمی رونا بھول جاتا ہے۔ نادر و نایاب ہیں وہ۔ کوئی تکلف نہیں برتتے۔ جو ٹھیک سمجھا کہہ دیا۔ ایسے لوگ زمین کا نمک ہیں۔ انتہائی زیرک اور دانا۔ مگر پھوں پھاں نام تک کو بھی نہیں۔ ہر ایک کے لیے چشمِ براہ۔ میں پھر کبھی ان پر لکھوں گا۔

جی ہاں میں اپنے بزرگ دوست جو جوانوں سے زیادہ جوان ہیں، ہاں ہاں میں ملک نواز احمد اعوان ہی کی بات کر رہا ہوں، بہت یاد آئے۔ کاش وہ ہمارے ساتھ ہوتے۔ وہ ہمیشہ مجھ سے پنجابی میں بات کرتے ہیں۔ ایک دن میں ان کے پاس پہنچا۔

’’آپ کب آئے لاہور سے۔ ‘‘ میں نے پوچھا۔

’’یار کل ہی آیا ہوں ‘‘۔

’’کیسا رہا دورہ‘‘

’’کیسا دورہ یار! بس کام تھا، نمٹا کے آ گیا۔ ‘‘

’’اور سنائیں ‘‘… میں نے کہا۔

’’کیا سناؤں تمہیں۔ میں اپنے ماموں کے گھر تھا۔ ایک دن ممانی نے کہا: جاؤ جا کر مرغی لاؤ تاکہ کھانا پکاؤں۔

میں مرغی والے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ ایک بزرگ پنجرے کے سامنے کھڑے انتہائی انہماک سے مرغیوں کو دیکھ رہے تھے، جب خاصی دیر ہو گئی تب میں نے پوچھا: چاچا جی آپ کیا دیکھ رہے ہیں ؟ پہلے تو چاچا جی نے مجھے گھورا اور پھر بولے : مرغیاں دیکھ رہا ہوں، اور اس پنجرے میں ہے ہی کیا جو دیکھوں۔ میں نے پوچھا: یہی تو حیرت ہو رہی ہے کہ آخر آپ مرغیوں کا اتنا بغور مطالعہ کیوں فرما رہے ہیں۔ پتا ہے چاچا جی نے کیا کہا، چاچا جی بولے : بیٹا! میں یہ دیکھ رہا ہوں، یہ مرغیاں ایک ہی جگہ کھڑی ہیں۔

نہ ہلنا، نہ جلنا، بس ایک جگہ سر جھکائے کھڑی ہیں، یہ مرغیاں خود ہی نہیں چل سکتیں۔ انہیں کھا کر میں کیا خاک چلوں گا۔ مجھے نہیں خریدنی مرغی، میں تو چلا، تم لے لو۔ ‘‘ نواز صاحب فارمی مرغیوں کو پلاسٹک کی مرغیاں کہتے ہیں۔ میرے سامنے تھری مرغیوں نے مراتھن ریس کا مظاہرہ شروع کیا ہوا تھا۔ آخر ایک مرغی ہمارے میزبان کے ہتھے چڑھ ہی گئی۔

گاؤں کی کھلی آب و ہوا میں پلی بڑھی مرغیاں پکڑنا بھی پہلوانی سے کم نہیں۔ میں نے اسے مرغی پکڑنے پر مبارک باد دی تو وہ ہنس پڑا۔ ’’سائیں کیا کریں، ہاتھ ہی نہیں آ رہی تھی۔ ابھی آپ اس کو پکڑ کے رکھنا میں دوسری پکڑتا ہوں۔ ‘‘ میں نے وہ مرغی بھی چھوڑ دی تو وہ بہت خفا ہوا۔

’’سائیں یہ کیا کیا آپ نے ‘‘۔

’’بس تم بیٹھ جاؤ۔ گپ شپ کرتے ہیں ‘‘

لیکن جناب وہ بھی ضد کا پکا تھا، بالکل بھی نہیں مانا۔

کھانا کھانے کے بعد میں نے پوچھا، ’’یہ سامنے پہاڑ پر کیا ہے ؟‘‘، ’’سائیں بس ابھی آپ کو دکھانے لے کر جاؤں گا۔‘‘

گری نائٹ کا خوب صورت پہاڑ۔ ہر طرف سوچ و بچار کا سامان۔ خدائے واحد کی تخلیق کا خوب صورت و دل کش شاہ کار۔ خالقِ کائنات نے فرمایا: ان پہاڑوں کو زمین پر میخیں بنا کر گاڑ دیا ہے ہم نے، ورنہ تو زمین کو قرار نہ آتا۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ پُر شکوہ پہاڑ پر بھی جین مت کے دور کے آثار بکھرے پڑے تھے۔

’’یہ دیکھو سائیں پہاڑ کے دامن میں ایک چوکور کمرہ بنا ہوا تھا، بہت ہی وزنی پتھروں کا کمرہ، زیادہ بڑا نہیں، بس اتنا کہ ایک فرد آسانی سے اندر بیٹھ سکے۔ سائیں آپ بتائیں یہ کیا ہے ؟‘‘

’’ہاں مجھے لگتا ہے یہ تنہائی میں گیان دھیان کی جگہ ہے۔ یہاں بیٹھ کر اس وقت کوئی ضرور تخلیقِ کائنات کے اسرار و رموز پر سوچ بچار کرتا ہو گا۔ کبھی خالی نہیں رہی دنیا ایسے لوگوں سے۔ ہمیں بھی تو بارہا کہا ہے ہمارے رب نے : فکر کرو، تدبر کرو، سوچ بچار کرو، عقل سے کام لو، کیوں نہیں غور کرتے تم، دیکھو ہم نے غور و فکر کا کتنا سامان پیدا کیا ہے۔ ‘‘

’’ہاں سائیں واہ واہ سائیں، سولہ آنے صحیح بولا سائیں۔ لیکن ایک بات میرے کو اور بتاؤ۔ ‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’سائیں دیکھو! اتنا بڑا بڑا پتھر، اتنی اونچائی پر پہچانا اور اتنا خوب صورت کمرہ بنانا۔ اس طرح کے کمرے یہاں بہت سارے ہیں۔ ننگرپارکر میں ان پہاڑوں پر ایسی بہت سی جگہیں ہیں۔ اتنے وزنی پتھر اٹھانا کسی انسان کے بس کی بات بھی نہیں ہے، پھر سائیں دو ہزار سات سو سال پہلے تو کوئی بڑی مشین بھی نہیں تھی۔ پھر یہ آخر بنے کیسے ؟‘‘

’’یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔ ‘‘

’’لیکن سائیں میں تو اس بات پر پندرہ بیس سال سے سوچ رہا ہوں۔ ‘‘

’’پھر تم کس نتیجے پر پہنچے ؟‘‘

’’میں تو سائیں بس یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ علم کے زور پر بنا ہے۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

مطلب یہ ہے کہ علم پڑھا تو یہ سب کچھ بن گیا، اس کے بغیر تو یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے، انسان تو عاجز ہے۔ ‘‘

مجھے خاموش دیکھ کر وہ بولا، ’’کیا سائیں آپ بھی یہی سمجھتے ہیں ؟‘‘

اس نے مجھے امتحان میں ڈال دیا تھا اور ارباب مالک دور کھڑا مسکرا رہا تھا۔ لطیف بھائی اب آپ جواب دیں۔

’’دیکھو اس کی اصل حقیقت تو مجھے بھی نہیں معلوم۔ لیکن ابھی تم کہہ رہے تھے کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے، چلو یہاں سے شروع کرتے ہیں، انسان اشرف المخلوقات ہے …‘‘

’’بالکل سائیں برابر۔ ‘‘

سادہ دل تھری کا انہماک بڑھتا جا رہا تھا۔

’’اب دیکھو یہ بھی ہو سکتا ہے ناں۔ ساری مخلوق انسان کے تابع ہیں۔ ‘‘

’’ہاں ہاں۔ ‘‘

’’اب یہ ہو سکتا ہے کہ اُس زمانے میں جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جنّات تھے اور وہ ان سے ہر طرح کے کام لیتے تھے، کسی نے یہ کام جنّات سے کروا لیا ہو۔ اس سے زیادہ تو میں کچھ نہیں جانتا۔ ‘‘

تھری کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا، پھر وہ مجھ سے لپٹ گیا۔ ’’اڑے سائیں، بالکل بالکل ایسا ہی ہوا ہو گا۔ آج مجھے پتا چلا کہ یہ اسی طرح بنے ہوں گے۔ مجھے تو یہ خیال ہی نہیں آیا تھا۔ سائیں واہ واہ، آپ نے آج میری مشکل حل کر دی۔ ‘‘

وہ بہت دیر تک سردھنتا رہا اور میں سوچتا رہا کہ کتنے شانت ہیں یہ، کتنے سادہ… کوئی حیل و حجت نہیں۔ بس بات سمجھ میں آ گئی تو مان لی۔ میں نے تو یہ بات اسے مطمئن کرنے کے لیے کہی تھی، لیکن وہ مجھے علامہ سمجھ بیٹھا تھا۔ پھر تو اس کے سوالات کا طوفان تھا اور میں تنکے کی طرح اس میں بہے چلا جا رہا تھا۔ بالآخر اس نے فیصلہ صادر کیا، ’’سائیں ارباب اب لطیف سائیں کو میں آپ کے ساتھ نہیں جانے دوں گا۔ بس اب یہ یہیں رہیں گے۔ ‘‘ ارباب مالک کا قہقہہ فضا میں گونجا،۔

’’بالکل، اسے یہیں پکڑ لو، اس سے ہم سب تنگ ہیں۔ اچھا ہے اس جنگل میں رہے یہ… یہ شہر کے قابل بھی نہیں ہے، لیکن اب یہ بات بتاؤ، اگر شہر کے لوگ اسے لینے یہاں پہنچ گئے پھر تم کیا کرو گے؟‘‘

’’کیا کریں گے سائیں، اُن کی منت سماجت کریں گے کہ بابا اللہ سائیں کو مانو، اس کو ہمیں دو، تم جاؤ اپنے شہر، اور کیا کریں گے۔ لڑائی جھگڑا تو ہم کرنے سے رہے۔ ‘‘

میرا بھی بہت جی چاہتا ہے شہر سے دور اس جنگل میں آبسوں … جہاں محبت ہے، پیار ہے، اپنائیت ہے، خلوص ہے، مٹھاس ہے، ہم دردی ہے … یہاں سب کچھ سانجھا ہے … خوشی بھی غم بھی، دکھ بھی درد بھی، بارات بھی جنازہ بھی، سب کچھ سانجھا… کوئی گلہ نہیں، کوئی شکوہ نہیں، کوئی طعنہ نہیں … کتنے محروم ہیں ہم، کتنے سخی ہیں یہ… زندگی ہم پر بار ہو گئی ہے، یا ہم نے بنا لی ہے اور یہ… زندگی ان پر رشک کرتی ہے، اترائے پھرتی ہے، مسکرائے جاتی ہے … اس طرح ہر گاؤں کے لوگوں نے مجھے کہا: سائیں آپ بس یہیں رہ جائیں، آپ جو کچھ کہیں گے ہم وہی کریں گے، بس سائیں آپ ہماری بات مان لیں۔ سچ بتاؤں میرا بہت جی چاہنے لگا ہے کہ ہاں بس اب یہیں رہوں۔ کیا رکھا ہے اپنی زندگی میں۔ یہیں بسیرا کر لوں، لیکن……

سدا بہار نہ آئے یہاں اور سدا نہ ایک زمانہ

ہر دم چال نئی البیلی، روز نہ یہ مستانہ

روگ، خوشی، سب وقتی یارو، سدا نہ ایک ترانہ

ہاشمؔ لاکھوں آئے گئے، یہ دنیا مسافر خانہ

یہ تو ہاشم شاہ نے کہا تھا، اور پتا ہے آپ کو عبدی قیصر شاہی نے کیا کہا ہے ؎

جس جانب بھی دیکھے گا تُو اسی کا دیکھ نشان

وہی بسا ہے دل میں تیرے، اور نہ کوئی جان

کانچ سے نازک جسم کی خاطر کیوں ہے تُو حیران

عبدی رات بسر کرنی ہے، کیا کٹیا، میدان

اوہو۔ میں تو یہیں پر کھڑا ہو گیا، پر آپ کیوں کھڑے ہیں میرے ساتھ چلیے اب آگے چلتے ہیں۔

’’سائیں آپ تھوڑی تھوڑی دیر میں کہاں چلے جاتے ہیں !‘‘

’’کہیں بھی نہیں، یہیں ہوتا ہوں۔ ‘‘

’’ سائیں آپ سوچتے بہت ہیں۔ ‘‘

’’ارے نہیں بابا، کیا سوچنا ہے، بس کبھی کبھی کسی منظر میں گم ہو جاتا ہوں اور بس، کچھ دیر کے لیے سایہ ملتا ہے، پھر دھوپ ہی دھوپ… صحرا ہی صحرا۔ اچھا یہ بتاؤ، یہاں کوئی یو گی ہے۔ ‘‘

’’ کیوں سائیں ؟‘‘

’’ بس ویسے ہی ملنا ہے مجھے اس سے۔ ‘‘

’’ اچھا، چلو میں آپ کو ایک جگہ لے کر جاتا ہوں۔ وہاں سے پتا کریں گے۔ ‘‘

تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک اور چونرا آ گیا تھا، سادہ سا چونرا۔ وہ مجھے لے کر اندر داخل ہوا۔ اندر پانچ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے میرا تعارف کرایا۔ ایک بڑی عمر کے بابا جی اور چار میرے ہم عمر… ’’ہاں سائیں، ان سے پوچھو۔ ‘‘ میرا میزبان مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’بابا جی یہ بتائیے، یہاں کوئی یو گی ہے ؟‘‘

بابا جی نے میری طرف دیکھا اور پھر بولے، ’’کیا کرنا ہے تم نے یو گی کا۔ ‘‘

’’مجھے اس سے ملنا ہے۔ ‘‘

’’کیوں ملنا ہے تُو نے اس سے۔ ‘‘

’’بس ویسے ہی ملنا ہے۔ ‘‘

ویسے ہی کوئی کسی سے نہیں ملتا۔ ‘‘ بابا جی گویا ہوئے، ’’تجھے یوگ کا مطلب بھی معلوم ہے ؟‘‘

’’ہاں کچھ کچھ!‘‘

میرے مختصر جواب سے وہ مطمئن نہیں ہوئے، آخر مجھے تفصیل سے گفتگو کرنا پڑی… تھوڑی دیر بعد بابا جی مسکرائے۔ ان کی سفید داڑھی اور بڑی بڑی مونچھیں اور منڈھا ہوا سر۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔ پھر اپنا ہاتھ میرے کاندھے پر رکھ دیا، ’’یہ بتا کب سے یوگا کر رہا ہے ؟‘‘

’’بابا جی مجھے تو کچھ نہیں آتا۔ ‘‘

’’اچھا… کچھ نہیں آتا، سچ سچ بتا۔ ‘‘

اب میری اور بابا جی کی پکی دوستی ہو گئی تھی اور گفتگو جاری تھی۔ وہ سب ہم دونوں کو بغور سن رہے تھے۔ ’’اچھا ایک شرط پر تجھے ملاؤں گا۔ ‘‘

’’وہ کیا بابا جی؟‘‘

’’تجھے بہت دن تک میرے ساتھ رہنا ہو گا۔ ‘‘

میں نے اُن سے اگلی دفعہ بہت دن تک رہنے کا وعدہ کیا، چائے پی، گپ شپ کی اور رخصت ہونے کی اجازت چاہی۔ وہ سب کچھ دور مجھے چھوڑنے آئے، ’’اچھا بابا جی آپ کب بنے تھے یو گی؟‘‘

میرے اچانک سوال سے بابا جی تھوڑی دیر تک پریشان ہوئے، پھر مسکرائے اور بولے ’’اوئے تُو تو بہت گہرا نکلا… تجھے کیسے پتا چل گیا!‘‘

بابا جی جس طرح آپ بیٹھے ہوئے تھے، اس طرح کوئی عام آدمی بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ ‘‘

’’اچھا اچھا ٹھیک ہے۔ اگلی دفعہ سیدھا میرے پاس آنا۔ تُو یہ نہ سمجھ میں نے تجھے نہیں پہچانا، چل اب ایشور تیری رکھشا کرے۔ ‘‘

میں واپس پہنچا تو ارباب مالک مجھے کوس رہا تھا، ’’یار کہاں چلے گئے تھے ؟‘‘

’’یہیں تھا… مجھے کہاں جانا ہے !‘‘

’’لطیف بھائی! لوگ یہاں آتے ہیں، گھنٹہ بھر رہتے ہیں اور پھر واپسی، آپ جانے کا نام نہیں لیتے۔ کبھی مسجد میں گھس جاتے ہیں، کبھی مندر میں، کبھی پہاڑ پر، کبھی چوپال میں … کیا ڈھونڈتے رہتے ہیں آپ؟ اچھا اب کیا پروگرام ہے۔ ‘‘

’’بس واپسی۔ ‘‘

میں نے اپنے میزبان کا شکریہ ادا کیا، ’’سائیں کس بات کا شکریہ، مہربانی تو آپ نے کی۔ آپ آئے، ہمارے پاس رہے۔ بہت اچھا لگا بہت مزہ آیا۔ سائیں اب کب آئیں گے ؟‘‘

’’بہت جلد۔ تم دعا کرنا۔ ‘‘

وہ بہت اداس تھا۔ مجھے وہ ابھی تک اسی جگہ کھڑا نظر آ رہا ہے۔

ہم دوبارہ ننگرپارکر پولیس اسٹیشن پہنچے، جہاں ہماری گاڑی کھڑی تھی۔ ’’خیریت سے آ گئے آپ‘‘ اشوک بولا، ’’ہاں یار ہم کوئی محاذِ جنگ پر تھوڑی گئے تھے۔ ‘‘ وہ پھر کھانا کھلانے پر بضد تھا۔ مگر ہم نے رخصت چاہی۔ ابھی ہماری گاڑی پولیس اسٹیشن سے نکلی ہی تھی کہ ایک جیپ نے ہمارا راستہ روک لیا۔ ’’اللہ خیر کرے لطیف بھائی‘‘۔ ارباب مالک کی آواز آئی۔

یہ کون ہمارا رستہ روک کر کھڑا ہو گیا ہے اور تھر میں ! یہاں تو سب ایک دوسرے کو راستہ دیتے ہیں، راستہ دکھاتے ہیں، کبھی گم راہ نہیں کرتے۔ یہ بیماریاں تو ہمارے شہروں میں ہیں۔ سب ایک دوسرے کا راستہ روکے کھڑے ہیں۔ خود بھی نہیں چلتے اور دوسروں کو بھی چلنے نہیں دیتے۔ ایک دوسرے کو گرا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہاں ایسا کون آ گیا ہے ؟ ہے کون آخر؟

اس سے پہلے کہ میں گاڑی سے اترتا، ارباب مالک نے نیچے اتر کر آواز دی، ’’تم کون ہو؟ ہمیں راستہ کیوں نہیں دیتے؟‘‘

لیکن خاموشی تھی۔ میں بھی مالک کے ساتھ آ کھڑا ہوا۔ ’’یار! چل کر دیکھ لیتے ہیں کون ہے یہ‘‘۔

آخر جیپ کا دروازہ کھلا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا نوجوان قہقہہ لگاتے ہوئے نیچے اترا، ’’ہاں آپ کیا سمجھ رہے تھے مجھے ملے بغیر شہر بھاگ جائیں گے۔ ‘‘

یہ ہمارا جانو تھا… جان محمد… جو اپنے نام کے ساتھ صحرائی لگاتا ہے۔ وہ واقعی بندۂ صحرائی ہے۔ خوب صورت و خوب سیرت نوجوان۔

ہنستا مسکراتا، قہقہہ لگاتا، پُر خلوص اور ملنسار۔ ’’تم کہاں سے نازل ہو گئے ؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’لطیف بھائی! کیا بتاؤں کہاں سے اور کیسے نازل ہو گیا۔ آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ راستے سے مجھے اپنے ساتھ لائیں گے اور میں حسبِ وعدہ وہاں موجود تھا، لیکن آپ مجھے لیے بغیر ننگر آ گئے۔ ‘‘

’’ہاں تم یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہو، ہم اتنے مگن تھے کہ یہ یاد ہی نہیں رہا۔ ‘‘

’’لیکن مجھے تو یاد تھا ناں، میں کیسے اپنے مہمانوں کو بھول جاتا۔ ‘‘

’’لیکن پھر تم یہاں تک پہنچے کیسے ؟‘‘

’’کیا بتاؤں لطیف بھائی! میں صبح اپنے گاؤں سے روانہ ہوا، میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ تم مجھے شاہراہ پر چھوڑ دینا۔ ہمارے گاؤں سے ننگر جانے والی شاہراہ بارہ کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ جب میں مطلوبہ جگہ پہنچا تو آپ کے آنے میں خاصی دیر تھی۔ میں ایک درخت کے نیچے انتظار کرنے لگا۔ لیکن جب آپ خاصی دیر تک نہیں آئے تو مجھے تشویش ہوئی کہ گاڑی خراب نہ ہو گئی ہو۔ لیکن جب میں بالکل مایوس ہو گیا تب واپس گاؤں کے لیے روانہ ہوا۔ خاصا فاصلہ طے کر چکا تھا کہ ہمارے گاؤں جانے والی گاڑی آ گئی۔ میں اُس میں بیٹھ کر گاؤں پہنچا۔ پھر اپنے خالہ زاد بھائی کے گھر گیا، وہاں سے یہ جیپ لی اور ننگر کے لیے روانہ ہوا۔ مجھے معلوم تھا آپ ننگر میں ہی ہوں گے۔ جب پولیس اسٹیشن میں آپ کی گاڑی کھڑی دیکھی تو میں انتظار کرنے لگا۔ میں آپ کو کیسے بھول سکتا تھا، میں صبح سے انتظار کر رہا ہوں اور اب شام ہونے والی ہے۔ ‘‘

میں اُس کی داستان سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ہم سے سراسر زیادتی ہو گئی۔ ہم تو اُسے چھوڑ کر آ گئے تھے لیکن وہ دھُن کا پکا یہاں پہنچ گیا۔ مجھے سچ سچ بتائیے ہم اس کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے ؟ یہی ناں کہ اب میرا کیا قصور! وہ خود ہی مجھے چھوڑ گئے۔ بات ختم ہو گئی۔ ہم اسی طرح کے ہیں۔ وہ کسی اور مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ کتنی مصیبت جھیل کر وہ یہاں پہنچا تھا۔ میں نے جانو سے معذرت کی۔

’’معذرت کیسی لطیف بھائی؟ جرمانہ عاید کر دیا ہے میں نے آپ پر۔ ‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’یہی کہ اب آپ میرے ساتھ میرے گاؤں چلیں گے اور جتنے دن میں چاہوں گا آپ وہیں رہیں گے۔ ‘‘

’’لیکن ہمیں تو واپس پہنچنا ہے۔ ‘‘ میں نے جانو کی منت سماجت شروع کی۔

’’آپ کی کوئی بات نہیں مانوں گا، اپنی گاڑی یہیں کھڑی کریں اور بیٹھیں میری گاڑی میں، شاباش جلدی… دیر ہو رہی ہے، ہمیں گاؤں پہنچنا بھی ہے۔ ‘‘ وہ ماننے پر تیار ہی نہ تھا۔ آخر اُس کی ضد کے آگے ہم نے ہار مان ہی لی۔

ہم نے اپنی گاڑی ننگرپارکر سے واپس آتے ہوئے اس کے گاؤں جانے والی لنک روڈ پر ایک جگہ کھڑی کی اور اس کی جیپ میں سوار ہو گئے۔ اب ہم اُس کے رحم و کرم پر تھے۔

راستہ پہلے ہی بہت خراب تھا۔ اب تو بارش نے سڑک کا نام و نشان تک مٹا دیا تھا۔ جگہ جگہ پانی کے جوہڑ بن گئے تھے اور ہماری جیپ اس صحرا میں رواں دواں تھی۔ جانو اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہے۔ ’’خیال سے چلاؤ یار‘‘ جانو کا جان دار قہقہہ فضا میں گونجا، ’’لطیف بھائی بے فکر ہو جائیں میں آنکھیں بند کر کے بھی اپنی منزل پر پہنچ جاؤں گا۔ ‘‘ ہاں بالکل درست کہہ رہا تھا وہ… انسان کو اپنی منزل معلوم ہو تو وہ کتنا پُر اعتماد ہو جاتا ہے۔ وہاں شاہ لطیف سائیں نے پھر مشکل آسان کر دی۔ شاہ بھٹائی نے کہا ہے :

ظاہری آنکھ سے نہ دیکھ

ان ظاہری آنکھوں سے، محبوب نہیں پہچانا جاتا

اُسے وہی دیکھ سکتا ہے

جو آنکھیں بند کر لے

ہماری جیپ اونچے نیچے ٹیلوں اور جوہڑوں سے اٹے دشوار راستے پر رواں دواں تھی کہ اچانک جانو ایک چھپر ہوٹل کے سامنے جیپ بند کر کے نیچے کود گیا۔ ’’آئیں لطیف بھائی! پہلے یہاں چائے پیتے ہیں، پھر آگے چلتے ہیں۔ ‘‘

’’نہیں چائے گاؤں جا کر پئیں گے۔ ‘‘

’’آپ نیچے تو اتریں دیکھیں کیا مزے دار چائے ہے۔ ‘‘

ہم چائے پینے بیٹھے تو وہ غائب ہو گیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اخبار میں کچھ لپیٹ کر لے آیا۔ ’’لیجیے کھائیے۔ ‘‘

’’یہ کیا ہے جانو؟‘‘

’’یہ یہاں کا مشہور حلوہ ہے۔ میں صبح اسے کہہ کر گیا تھا کہ میرے مہمان آنے والے ہیں حلوہ بنا کر رکھنا۔ ‘‘

’’یار تم بھی…!‘‘

کیا مزے دار حلوہ تھا۔ آپ یقین کیجیے اتنا مزے دار حلوہ میں نے پہلے کبھی نہیں چکھا۔ ’’واہ جانو واہ… بہت مزے دار ہے۔ ‘‘

کتنا خیال تھا اُسے ہمارا۔ وہ سارے انتظامات کر کے نکلا تھا۔ چائے پی کر ہم دوبارہ گاؤں روانہ ہوئے۔

’’آخر کب آئے گا گاؤں ؟‘‘

’’بھائی صاحب ابھی تو آدھا راستہ بھی نہیں کٹا۔ لطیف بھائی کوئی تھری کا گیت سنائیں۔ ‘‘ اس نے فرمائش کر دی۔

’’ہاں گاؤں چل کر سناؤں گا۔ ‘‘

’’مائی بھاگی کا بھی۔ ‘‘

’’ہاں … وہ بھی۔ ‘‘

تھر کے لوگ موسیقی کے بہت رسیا ہیں۔ بہت زیادہ۔ لیکن ٹھہریے، یہ وہ موسیقی نہیں ہے جو شہر میں پائی جاتی ہے۔ اُسے موسیقی کہنا بھی چاہیے یا نہیں … شور، اچھل کود اور چیخ چیخ کر خود کو اور سامعین کو بھی ہلکان کر دینا… یہاں اِسے موسیقی کہتے ہیں۔ بالکل ٹھیک ہے۔ اس موضوع پر ہم ضرور بات کریں گے۔ ظاہر ہے یہ کوئی معمولی موضوع نہیں ہے۔ ابھی تو ہم تھر میں ہیں۔ ہاں تو تھر کی موسیقی واقعی کانوں میں رس گھولتی ہے۔

بہت دھیمی، صحرا جیسی وسعت لیے ہوئے موسیقی۔

رنگ و آہنگ کا حسین امتزاج اور شاعری دلوں کو چھو لینے والی، سادگی اور معصومیت میں رچی بسی، سیدھی دل میں اتر جانے والی… اور ہماری طرح سے موسیقی کے آلات بھی نہیں ہیں وہاں پر۔ بس ایک گھڑا، اکتارہ جسے شاہ لطیف نے ایجاد کیا تھا۔ بہت زیادہ ہوا تو ایک پیتل کی تھالی۔ بس یہی آلاتِ موسیقی ہیں تھر میں۔

اکثر رات کو چوپال میں لوگ گیت گاتے ہیں اور سننے والے جھومتے ہیں اور کبھی کبھی بے خود ہو کر محوِ رقص ہو جاتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی پوری چوپال وجد میں آ جاتی ہے اور پھر تو ایسا رنگ چڑھتا ہے کہ بس… میں اُسے لفظوں میں بیان کر ہی نہیں سکتا۔ ہر موسم کا گیت، ہر پہر کا گیت، شادی اور بارات کے گیت، درد میں ڈوبے ہوئے اور انسان کو اپنی اصل منزل کا پتا بتاتے گیت… آپ ذرا ایک جھلک تو دیکھیں، کیا بات ہے اس گیت میں :

اس دنیا میں موت کا پتھر لعل جواہر توڑے

ترس ذرا نہ اُس کو آئے نازک بدن بھنبھوڑے

ازل کا مالی رحم نہ کھائے شاخ سے پھول مروڑے

نیا پرانا کچھ بھی نہ دیکھے، جڑ سے پیڑ بھنبھوڑے

جہاں بھی جا کر چھپ جاؤ گے، ملک الموت نہ چھوڑے

نازک بدن کو کیڑے کھائیں، جیسے موت جھنجھوڑے

قبریں دیکھو، غور کرو، کیا خاک نے جسم نچوڑے

کیسا لگا آپ کو؟ ہے ناں اس میں زندگی بھر کا نچوڑ۔ اور سنیے :

آیا ساون مینہ برسائے، سکھیاں پینگ چڑھائیں ری

عشق کی ظالم گھور گھٹائیں، میرے سر پر چھائیں ری

برہا والی بجلی چمکے، آنکھیں نیِر بہائیں ری

سہل نہیں ہے عشق ہدایت، اِس میں بڑی بلائیں ری

اور یہ دیکھیے کیا بات ہے اس میں :

آخر سوہنی وہاں پہ پہنچی، گھڑا جہاں رکھ آئے

پاؤں میں کانٹے چبھ چبھ جائیں، پھر بھی بڑھتی جائے

اور گھڑا جو دیکھا اُس نے رو رو کرے صدائیں

کہے، رضا ہے تیری مولا، آنسو چھلکے آئیں

پکے سے تو کچا کر کے، یوں تقدیر بنائے

تو چاہے تو موت بھی بھاگے، کسی کو آنچ نہ آئے

اور ہمارے بھٹائی شاہ لطیف سائیں نے کہا ہے :

تیری رحمت سے مل گئے مجھ کو

زندگی ہی میں وہ مرے پیارے

اب وہ مجھ سے جدا نہ ہوں یارب

راحتِ جاں ہیں جن کے نظّارے

دشوار گزار رستہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ جیپ اچھلتی کودتی رواں دواں تھی کہ گاؤں کے آثار نمودار ہونا شروع ہوئے۔ ’’لطیف بھائی! آ گیا گاؤں۔ ‘‘ جانو کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ اپنے گاؤں، اپنے شہر پہنچنے کی خوشی تو سب کو ہوتی ہے ناں۔ اور پھر ایک گھر کے سامنے گاڑی رکی۔ جانو اچھل کر نیچے اترا اور ہمارا سامان اتارنے لگا۔ چھوٹا سا گاؤں، بس چار دکانیں۔ انڈین بارڈر سے صرف بیس منٹ کی مسافت پر۔ وہی ہوا جو ہر گاؤں میں ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ گاؤں کے بچے، بوڑھے اور جوان آگے بڑھ بڑھ کر سلام دعا کرتے ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ہم ایک چونرے میں بیٹھ گئے اور گاؤں کے لوگ ہمارا حال چال معلوم کرنے لگے۔ وہ آپ سے بہت کچھ سننا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں تو خیر کیا… کراچی کیسا ہے، وہاں کیا ہو رہا ہے … اور بہت کم لوگ ایسے ہیں جو سیاسی حالات پر بات کریں۔ جب بھی کوئی مہمان آتا ہے، وہ سب سے پہلے پانی پلاتے ہیں اور بہت اہتمام کے ساتھ اور آپ سے پوچھے مانگے بغیر کھانے کا انتظام۔

میں بہت تھک گیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد گپ شپ ہوتی رہی اور مجھے نیند آ گئی۔ میں مغرب کی نماز پڑھ کر سویا تھا۔ اب میری آنکھ کھلی تو رات کے نو بج رہے تھے۔ پورا گاؤں سو چکا تھا، لیکن نوجوانوں کی ٹولی میرے انتظار میں جاگ رہی تھی۔ ارباب مالک انہیں بتا چکا تھا کہ میں دو، ڈھائی گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتا۔ پھر کیا تھا وہی تھری کے گیت۔

کچھ انھوں نے سنائے اور پھر میری باری تھی۔ آپ کہیں بھی جائیں اگر آپ کو اس علاقے کی زبان کی تھوڑی سی بھی شد بدھ ہے تو اپنائیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ میں مائی بھاگی کا ایک گیت گا رہا تھا اور نوجوان میرا ساتھ دے رہے تھے۔ آسمان بادلوں سے بھرا ہوا تھا، وسیع صحرا میں ہماری آواز گونج رہی تھی۔ پھر ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی اور نوجوانوں نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔ نیند مجھ سے کوسوں دور تھی اور میں دور کہیں صحرا میں کھویا ہوا تھا۔ کیا کرتا:

اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب

صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا آوارگی

ہاں رات گزر ہی جاتی ہے۔ گزر جانے کے لیے ہی تو ہے وہ۔ رات، رات ہے، چاہے کتنی بھی لمبی ہو۔ اُس کی سحر ہو کر رہتی ہے۔ سحر کو کون روک سکتا ہے ! کوئی بھی تو نہیں … ہاں کوئی بھی… جابر، ظالم، سرکش، باغی، عابد، زاہد، کوئی بھی نہیں روک سکتا سحر کو… ہاں اتنا ضرور ہے کتنا کھپ جاتا ہے انسان اس میں۔ بے حسوں، بے ضمیروں کی بات چھوڑ دیجیے، اُن کا تذکرہ رہنے ہی دیجیے۔ میرے سامنے اپنا دشمنِ جاں … ہاں ہاں میرا اجمل سراج کھڑا تھا ؎

طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں

یہ رات جس میں ستاروں کا کچھ پتا ہی نہیں

جو تیرے دل میں تمنائے وصل زندہ ہو

تو اِس حیات کو اندیشۂ فنا ہی نہیں

تھری… میں نے آپ کو بتایا تو تھا، منہ اندھیرے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں، پُر مشقت اور کٹھن دن سے لڑنے کے لیے … اُسے زیر کرنے کے لیے … اپنی ہمت سے اُسے بِتا دینے کے لیے۔ ہاں منہ اندھیرے وہ اپنے بازو پھیلائے دن کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر اکثر مجھے یاد آتا ہے :

منہ اندھیرے نظر آتے ہیں جو کچھ لوگ یہاں

یہ سحر خیز ہیں یا رات کے جاگے ہوئے ہیں

ہاں اب ہم جانو کے رحم و کرم پر تھے۔ بہت خوش تھا وہ اور اس کا بوڑھا ماموں، جو تھر کی تاریخ کا حافظ ہے۔ اُس کا سادہ لوح باپ، جس نے مجھ سے پوچھا تھا، ’’سائیں ! آپ دن بھر میں کتنے اخبار بیچ لیتے ہو؟‘‘

مجھ سے پہلے ارباب مالک بول پڑا، ’’نہ بابا سائیں ! یہ اخبار نہیں بیچتا‘‘ یہ تو اخبار لکھتا ہے۔ ‘‘

اور میں نے دیکھا اس کا چہرہ کتنا غمگین ہو گیا تھا…

’’اوہو جب ہی تو کہوں اسے اناج کیوں نہیں لگتا۔ کیوں یہ کھاتا پیتا نہیں ہے۔ بس سارا دن دھواں اپنے اندر اتارتا رہتا ہے۔ میرے بچے تُو تو بہت تھک جاتا ہو گا۔ اتنا بڑا اخبار لکھنا، کتنا محنت طلب کام ہے۔ ‘‘… ہے ناں سادگی کی انتہا۔ وہ مجھ سے اور زیادہ شفقت سے پیش آنے لگا تھا۔ وہ ہیں ہی ایسے۔ محبت و ایثار میں گندھے ہوئے۔ جن کا دل ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ہمارے دل کی طرح نہیں کہ بس ہڈیوں کے پنجرے میں لوتھڑا جو صرف دھک دھک کر رہا ہے۔

ناشتے سے فارغ ہوتے ہی میں نے جانو سے کہا: ’’بس جانو تمہاری ضد پوری ہوئی۔ اب مجھے اجازت دو اور اجازت بھی کھلے دل سے۔ ہنسی خوشی سے۔ میں پھر آؤں گا، وعدہ رہا۔ زندگی نے وفا کی تو ضرور۔ ‘‘

میری بات سن کر وہ سر جھکائے بیٹھ گیا اور ایک تنکے سے ریت پر آڑی ترچھی لکیریں بنانے لگا، ’’آپ بالکل بھی نہیں رک سکتے ؟‘‘ کتنا مشکل سوال تھا اُس کا۔

’’میں ضرور آؤں گا۔ ‘‘ اس سے زیادہ میں اُسے کچھ نہ کہہ سکا۔

ہمارا سامان جیپ میں رکھ کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ آج وہ بہت خاموش تھا۔ اُس کی ساری شوخی ہوا ہو گئی تھی۔ وہ پورے راستے خاموش رہا۔ بس ہوں، ہاں سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس نے اپنی جیپ ہماری گاڑی کے برابر آ کر روکی اور ہمارا سامان منتقل کیا۔ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔

’’اچھا جانو اپنا بہت خیال رکھنا۔ ‘‘ مجھ سے گلے ملتے ہوئے وہ پھٹ پڑا۔

’’آپ بہت بُرے ہیں … بہت ہی بُرے۔‘‘

وہ سچ کہہ رہا تھا، سچ کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے … ’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، بالکل ٹھیک۔ ‘‘ اُس وقت مجھے اپنا عرفان ستار یاد آیا ؎

ابھی اے بادِ وحشت اس طرف کا رُخ نہ کرنا

یہاں مجھ کو بکھرنے سے بچایا جا رہا ہے

ہمیں آج اسلام کوٹ سے ہوتے ہوئے عمر کوٹ پہنچنا تھا۔ تھری اسی طرح زندگی سے نبرد آزما تھے۔ میں انہیں دیکھ کر سوچتا رہتا ہوں : کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں یہ۔ ہم ایسے کیوں نہیں ہیں ؟ شاہ سائیں یاد آتے ہیں۔ آپ نے کہا تھا :

ایثار و قربانی کا سبق سوئی سے حاصل کرو

دوسروں کو لباسِ فاخرہ سے آراستہ کرتی ہے

اپنا تن ڈھانپنے کی

اُسے کوئی فکر نہیں ہوتی

اور یہ بھی تو کہا تھا شاہ سائیں نے ؎

سُکھ ہے تو آپے سے باہر نہ ہو جاؤ

دکھ درد میں صابر و شاکر رہو

نفس کی پیروی کے بجائے

عرفانِ نفس کی راہ اختیار کرو

اب آپ کو مل گیا ناں جواب کہ تھری ایسے شانت، ایسے محنتی، محبت و ایثار کا پیکر، خلوص و عظمت کا مینار کیوں ہیں۔ وہ زندگی کی اصل کو جانتے ہیں اس لیے۔ ہم بھی زندگی کو جانتے ہیں ؟ پتا نہیں، بس ماہ و سال بیت رہے ہیں، کھا پی رہے ہیں، آسائشوں کی تلاش و حصول میں زندگی کھپا دی ہم نے، کیا وہ مل گئیں ؟ اور اگر مل بھی گئیں تو کیا قیمت چکائی ہے ہم نے اس کی۔ کبھی نہیں سوچتے ہم۔ سوچنے کی فرصت کسے ہے ! اور اگر مل بھی جائے تو ہم سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ آپ رنجیدہ نہ ہوں نہ ہی خفا… میں تو اپنی بات کر رہا ہوں۔ چلیے ہم کوئی اور بات کرتے ہیں۔

وجید خاں وجید 1130 ہجری، کابل میں پیدا ہوئے۔ جوان ہوئے تو فوج میں بھرتی ہو گئے۔ بہت آزاد طبیعت پائی تھی۔ سو فوج کی زندگی کو چھوڑ دیا۔

کسی سادھو سے ملاقات ہو گئی، گیان دھیان کی باتیں سن کر گھر بار چھوڑ دیا اور فقیر ہو گئے۔ جاگیردارانہ نظام کے بے حد خلاف تھے اور سماج میں طبقاتی اونچ نیچ کے سامنے سراپا احتجاج۔ صوفی منش درویش تھے۔ اس سارے منظر کو انھوں نے خدا کی بے نیازی کا رنگ دے کر بیان کیا ہے۔ ان کا بہت کم کلام دست یاب ہے۔ شفیع عقیل نے اُن کے اشلوکوں کا ترجمہ کیا ہے۔ مجھے اپنے بے نوا دیہاتیوں کو دیکھ کر وہ بہت یاد آتے ہیں۔ تھر میں تو خاص کر۔

چور، جو چوری کریں یہاں پر، لُوٹ کے لائیں گھر

اُن کو میسر دودھ ملائی، کھائیں ڈونگے بھر

اور جو تیری آس پہ بیٹھے، پھرے یہاں دَر دَر

کون وجید کہے مالک کو، ایسے نہیں یوں کر

یہاں پہ موج اڑائیں کتے، گھی شکر وہ کھائیں

جن کا دوہیں دودھ سبھی، وہ بھوکے مر مر جائیں

بوئے کوئی، کاٹے کوئی، لے جائے کوئی گھر

کون وجید کہے مالک کو ایسے نہیں یوں کر

اور ہمارے شاہ بھٹائی نے کہا تھا ؎

خدا شاہد ہے جب روحوں نے باہم

کیے روزِ ازل کچھ عہد و پیماں

نہ جانے کیوں اُسی دن سے ہیں مجھ کو

بہت پیارے یہ سب نادار دہقاں

ٹوٹی پھوٹی برائے نام سڑک پر گاڑی چلی جا رہی تھی۔ ظہر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک چھوٹے سے گاؤں میں چند تھری بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے۔ ہمارے رکتے ہی انھوں نے ہماری جانب دوڑ لگا دی۔ ’’کیا ہوا سائیں ؟‘‘، ’’کچھ نہیں، بس نماز کے لیے رک گئے۔ ‘‘ یہ سنتے ہی انھوں نے وضو کے لیے پانی کا انتظام کیا۔ ایک تھری مٹی کے لوٹے میں پانی لیے کھڑا تھا۔ ’’لاؤ میں وضو کر لوں۔ ‘‘، ’’نہیں سائیں، میں پانی ڈالتا ہوں آپ آرام سے وضو کریں۔ ‘‘ وہ جزئیات کی حد تک آپ کا خیال رکھتے ہیں۔ ہم نماز پڑھ رہے تھے اور وہ ہماری پشت پر زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ نماز ادا کی تو ہم رخصت کے طلب گار ہوئے۔ ’’سائیں ! کھانے کا وقت ہے۔ ‘‘ ان کا اصرار بڑھا۔ ’’اللہ جی آپ کے رزق کو فراواں کر دے ‘‘۔ ’’آمین آمین سائیں۔ پر سائیں کھانا ضرور کھا کر جائیں۔ ‘‘ اُن کے اصرار پر ہم نے صرف چائے پر اکتفا کیا۔

دن کے اجالے کو رات کا اندھیرا گھیر چکا تھا اور ابھی ہم عمرکوٹ سے خاصی دور تھے۔ لیکن ہمیں پہنچنا تھا، سو سفر جاری رہا۔ سفر جاری رہے تو کٹ ہی جاتا ہے۔ خاصی رات ہو گئی تھی کہ ہم عمرکوٹ پہنچے۔ یہاں ہمارا دین محمد، جسے ہم پیار سے ’’دینا‘‘ کہتے ہیں، بہت بے تابی سے منتظر تھا۔

’’چاچا! آپ آ گئے ‘‘…

’’ہاں آ گئے ‘‘۔

’’مجھے چھوڑ کر آپ ننگر چلے گئے۔ ‘‘

’’کیا تمہیں بھی جانا تھا؟‘‘

’’کیوں نہیں ! آپ کے ساتھ جانا چاہتا تھا۔ ‘‘،

’’پھر تم نے کہا کیوں نہیں ؟‘‘

’’چاچا! اس لیے نہیں کہا کہ گاڑی میں جگہ نہیں تھی۔ اگر میں ساتھ چلتا تو آپ تکلیف سے جاتے۔ اگلی دفعہ میں آپ کے ساتھ چلوں گا۔ ‘‘ یہ ہے ہمارا دین محمد۔

ارباب مالک ہمیں چھوڑ کر جا چکا تھا۔ اب دینا ہمارا میزبان تھا۔

’’آپ بہت تھک گئے چاچا!‘‘

’’نہیں یار! بالکل بھی نہیں تھکا۔ ‘‘،

’’نہیں آپ تھک گئے۔ لیکن میں آپ کو کھانا کھلائے بغیر نہیں سونے دوں گا۔ ‘‘

’’مجھے بالکل بھی بھوک نہیں ہے۔ ‘‘

’’نہیں آپ چلیں میرے ساتھ۔ ‘‘

’’کہاں چلیں ؟‘‘

’’ کاروں جھر ہوٹل۔ ‘‘

آخر وہ جیت گیا۔ اب ہم عمرکوٹ کے خوب صورت کاروں جھر ہوٹل میں رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ کاروں جھر ایک پہاڑ ہے، بہت بلند و بالا۔ ہم اُسے ننگرپارکر میں دیکھ آئے تھے۔

’’کاروں جھر دیکھا آپ نے چاچا‘‘…

’’ہاں ہم نے دیکھ لیا۔ ‘‘

’’کیسا لگا آپ کو۔ ‘‘

’’بہت اچھا‘‘…

’’آپ کب تک ہیں ؟‘‘

’’بس دینا صبح فجر پڑھتے ہی روانگی ہے ‘‘،

’’نہیں چاچا! یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ابھی تو آپ کو میں نے گوگاسر لے کر جانا ہے۔ ‘‘

’’ہاں ضرور چلیں گے گوگا سر۔ ‘‘

’’چاچا! آپ جب آتے ہیں، بابا سائیں ! کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں، مجھے تو آپ وقت ہی نہیں دیتے۔ ‘‘ وہ ارباب مالک کا کہہ رہا تھا۔

’’اس مرتبہ تمہارے بابا کے ساتھ نہیں تمہارے ساتھ جاؤں گا گوگاسر۔ ‘‘

’’وعدہ کریں چاچا‘‘…

’’ہاں پکا وعدہ۔ ‘‘

گوگاسر ارباب مالک کا آبائی گاؤں ہے۔ میں نے سوچا ضرور جائیں گے گوگاسر۔ پر وہاں نیا کیا ہو گا۔ پورا تھر پیار محبت میں گندھا ہوا ہے۔ وہاں بھی ایسا ہی ہو گا۔ ہاں میں دینا کے ساتھ ضرور گوگاسر جاؤں گا۔ کیا ہو گا وہاں پر یہ تو میں واپسی پر ہی آپ کو بتا سکوں گا۔

سب لوگ پھر سے سو گئے تھے۔ ہمیں صبح سویرے روانہ ہونا تھا۔ میں بہت سے لوگوں کا تذکرہ نہیں کر سکا۔ ہاں اپنے دوست مٹھو مہاراج کا جس کا اصرار ہے : سائیں ! ہمیں یوگا سکھاؤ، کیا آپ مہینے میں تین دن بھی فرصت نہیں پا سکتے ! آپ کو کراچی سے لانے لے جانے کی میں ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ اپنے لچھمن داس کا… میں اسے جیپ کا پائیلٹ کہتا ہوں، صحرا میں وہ ایسی ڈرائیونگ کرتا ہے، یوں لگتا ہے آپ کشتی میں بیٹھے سمندر کے سفر پر ہیں۔ بہت ہنس مکھ اور لطیفہ گو۔ اپنے شیرو ماما کا، جسے پورا تھر ماما شیر محمد منگریو کہتا ہے۔ ماما شیرو پورے تھر میں فیصلے کرنے کے ماہر ہیں۔ رشتے ناتے، لڑائی جھگڑے، وہ ہر مرض کی دوا ہیں۔ اُن پر تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، اپنے مولانا محمد طاہر کا… ایک مستند عالمِ دین۔

تھر کے رسم و رواج، قوم قبیلہ، جغرافیہ، موسم، حالات… وہ اپنی ذات میں ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ اپنے ارباب نیک محمد کا… وہ ایک صوفی درویش اور بلند پایہ ادیب ہیں۔ سندھی اخبارات میں ان کے کالم اور تجزیے ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ… زندگی بخیر رہی تو ان سب کا قرض بھی ادا کر دوں گا اور پورے تھر کا شکریہ میں کیسے ادا کر سکوں گا؟ کبھی نہیں ادا کر سکتا میں۔ سو مجھے کہنا ہے : تھر تُو سلامت رہے، ہمیشہ تیرا ریگستان اسی طرح کشادہ رہے۔ تیرے بسنے والوں کی خیر، تُو ہمیشہ مسکرائے۔ خوشیاں بانٹے، تُو ہمارا مان ہے۔ ہاں تُو ہمارا مان ہے، تُو پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے۔ ہاں تُو اس لائق ہے کہ تیرا قصیدہ پڑھا جائے، تجھے چاہا جائے۔ تُو سدا جیے، ہمیشہ سلامت رہے اور تیرے باسی بھی۔

پھر سے تارکول کی بے حس سڑکیں تھیں جن پر مشینی گھوڑے دوڑ رہے تھے۔ ہر طرف دھواں، ہر طرف نفسانفسی۔ نہیں … نہیں بخدا میں اپنے لوگوں کا، ہاں اپنے کراچی کے لوگوں کی محبت کا منکر نہیں ہوں۔ بالکل بھی نہیں۔ ہمارے لوگ پیارے لوگ۔ میں ان کی محبت سے کیسے منکر ہو سکتا ہوں ! اللہ سب کو سلامت رکھے، کبھی غم نہ دکھائے۔ ہمارے لوگ بہت پیارے، بہت ہی پیارے لوگ۔ لیکن ٹھہریے ! مجھے کچھ کہنا ہے، کچھ لمحات فارغ کیجیے، جائیے ! یہ پڑوس میں ہے تھر۔ جائیے ! یقین مانیے آپ تازہ دم ہو جائیں گے۔ ضرور جائیں۔ کیوں اداس ہیں آپ؟ مجھ سے آپ کا رنج، اداسی، بے کلی اور تنہائی نہیں دیکھی جاتی۔ وعدہ کریں آپ ضرور جائیں گے تھر۔ آپ سب سدا جئیں، خوش رہیں، آباد رہیں، دل شاد رہیں۔ اللہ آپ کو صحت و عافیت سے رکھے۔

رات کا دوسرا پہر بیت گیا ہے۔ ایش ٹرے بجھے ہوئے سگریٹوں سے بھر گیا ہے۔ مجھے معاف کر دیجیے۔ میں بہت کچھ آپ سے کہنا چاہتا ہوں، ضرور کہوں گا۔ کب؟ پتا نہیں۔ اپنا ضرور خیال رکھیے گا۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے، اشد ضرورت۔ مجھے بتائیے آپ کیا کر سکتے ہیں تھر کے لیے … ان بچوں کو بھی کھلونے چاہییں، کپڑے چاہییں، کتابیں چاہییں، ٹافیاں چاہییں۔ جائیے ! ملیے ان سے، آپ کے لیے کیا کہوں، میں تو اکثر کہتا ہوں ؎

سینے سے میرے زہر اترنے نہیں دیتے

زندہ رہیں وہ لوگ جو مرنے نہیں دیتے

اب میں آپ سے رخصت ہوا، یار زندہ صحبت باقی۔

ہم دن بھر دنیا داری میں ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہیں

پھر ساری رات پگھلتے ہیں، اک اشک رقم کرنے کے لیے

بس نام رہے گا اللہ جی کا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.express.pk/story/73777/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید