FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تکمیل رسالت

               محمد عثمان خان [ برطانیہ ]

 

دینِ اسلام میں عقیدہ ختمِ نبوت

قرآن و  احادیثِ نبویﷺ کی روشنی میں چند دلائل

ہادی اعظم خاتم النبیین والمرسلین محمد رسول اللہﷺ کا آفتابِ رسالت،  قیامت تک کے لئے پوری انسانیت کو نورِ نبوت سے منوّر کرتا رہے گا۔ آخر الزماں پیغمبر  محمد رسول اللہﷺ،  ربِ کائنات کی طرف سے انسانیت کی رشد و ہدایت کیلئے مبعوث کردہ آخری نبی ہیں۔ آپﷺ کے بعد نبوت اور رسالت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بند ہو چکا ہے، اور اب جو بھی نبوت کا دعوہ کرتا ہے  وہ جھوٹا و کذاب ہے۔  مندرجہ ذیل مختصر مضمون میں ہم  قرآن و صحیح احادیث سے ثابت کریں گے کہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ  آپﷺ پر مکمل ہو چکا ہے  اور اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔

               پہلی دلیل

اللہ رب العالمین نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :

                          وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيراً وَنَذِيراً وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ  ۝

ترجمہ:       ہم نے آپﷺ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اور  دھمکا دینے والا                    بنا کر بھیجا ہے، ہاں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بے علم ہے۔           (سورہ سبا، آیہ 28)

       وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ ۝

ترجمہ :    اور ہم نے آپﷺ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔      (سورہ الانبیا ء :   آیہ  107)

                        قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعاً ۝

ترجمہ:      آپﷺ کہ دیجئے کہ اے لوگوں ! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ( بنا کر بھیجا گیا) ہوں۔    (سورہ الآعراف :  آیہ 158)

                       الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الإِسْلامَ دِيناً  ۝

ترجمہ :     آج میں نے تمہارے لیے تمہارا  دین مکمل کر دیا،  اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے بحیثیت دین،  اسلام کو پسند کیا ہے۔   (سورہ المائدہ :  آیہ  3)

مندرجہ بالا  آیاتِ قرآنی میں اللہ رب العالمین، اپنے پیارے نبی محمدﷺ کی نبوت کی فضیلت بیان کر تے ہوئے مختلف مقامات پر  یہ ارشاد فرما رہا ہے کہ آپﷺ تمام انسانوں  کے لیے نبی اور رسول بنا کر بھیجے گئے، کیونکہ پِچھلی اُمتوں پر اللہ تعالیٰ نے جو  انبیاء کرام مبعوث کرے تھے وہ صرف ایک خاص وقت اور خاص علاقہ اور قوم کے لیے تھے، اس کے بالکل بر عکس آپﷺ قیامت تک آنے والی بنی نوع انسانی کے لیے نبی اور رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں، جو آپ ﷺ پر تکمیلِ رسالت کی ایک واضح  دلیل ہے۔

جیسا کہ  ان آیات کی تفسیر،  شارح قرآن حضرت  محمد رسول اللہﷺ نے  اپنی متعدد  احادیثِ مبارکہ  میں خود یوں بیان فرمائی  ہے کہ :

” مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔

 (1) ایک مہینے کی مسافت پر دشمن کے دل میں میری دھاک بٹھانے کر  میری مدد کی گئی۔

(2) تمام روئے زمین میرے لیے مسجد اور پاک بنائی گئی، چنانچہ  جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے میری امت وہاں نماز ادا کرے۔

(3) مالِ غنیمت کو  میرے لیے حلال کر دیا گیا، جو مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال نہیں تھا۔

(4) مجھے شفاعت کا حق دیا گیا۔

(5)ہم سے  پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا،  اور مجھے کائنات کے تمام انسانوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔  (صحیح بخاری، کتاب التیمم )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فضلت عی الانبیاءبست، اعطیت جوامع الکلم، ونصرت بالرعب، واحلت لی المغانم، وجعلت لی الارض طھورا ومسجدا وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون

” مجھے چھ چیزوں میں انبیاء علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے۔ مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں، رعب و دبدبہ کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے، مال غنیمت میرے لیے ( بشمول امت ) حلال قرار دیا گیا ہے۔ میرے لیے ( بشمول امت ) ساری کی ساری زمین مسجد اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔ میں پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے

                                                                 ( صحیح مسلم،  اوائل کتاب المساجد)

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ  محمد رسول اللہﷺ سے پہلے جتنے بھی نبی اور رسول آئے وہ ایک محدود وقت اور  ایک محدود قوم کے لیے آئے تھے، لیکن آپﷺ آخری نبی اور رسول ہیں جن کہ بعد قیامت تک کوئی نیا نبی اور رسول نہیں آئے گا اسی لیے آپﷺ کو اللہ رب العالمین نے کسی خاص قوم یا کسی خاص وقت کے لیے مبعوث نہیں کیا بلکہ قیا مت تک آنے والی تمام  بنی نوع انسانی کے لیے اور پوری کائنات کے لئے  نبی اور رسول بنا کر بھیجا۔

ایک اور روایت میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاءکلما ھلک بہ، خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاءفیکثرون

” بنی اسرائیل کی قیادت  انبیاء علیہم السلام کرتے تھے، جب کوئی نبی فوت ہوتا، تو دوسرا نبی اس کا جانشین  ہوتا مگر ( سن لو ) میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلیفے ضرور ہوں گے، اور  بکثرت ہوں گے۔ “                    ( صحیح بخاری، 3456، صحیح مسلم : 1842 )

دوسری  دلیل

   قرآن کی دوسری آیات سے اس امر  کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے چنانچہ   اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :

           مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ  أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً ۝

ترجمہ :        (لوگوں!) محمدﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن آپﷺ اللہ تعالیٰ کےرسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا (بخوبی) جاننے والا ہے۔

                                                       (سورہ الاحزاب،  آیہ 40)

قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کی تفسیر بھی اللہ تعالیٰ  کے آخری نبی محمد رسول اللہﷺ نے  اپنی کئی احادیث میں فرمائی اور اس آیت میں موجود لفظ خاتم النبیین کو  بڑی تفصیل کہ ساتھ واضح کیا  تا کہ  بعد میں  امت کسی مفتری اور دھوکے باز کے دھوکے میں نہ آ جائے۔  آپﷺ نے خاتم النبیین کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ :

انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی اوانا خاتم النبیین لانبی بعدی

” میری امت میں تیس بڑے جھوٹے پیدا ہوں گے، جن میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ “     ( ابوداود : 4252، ترمذی، 2219، ابن ماجہ : 3952، مستدرک حاکم، 450/4،  بروایت ثوبان  )

                    (اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن صحیح “   امام  حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور  حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے )

ان بین یدی الساعۃ ثلاثین کذابا دجالا کلھم یزعم انہ نبی

” قیامت سے پہلے تیس کذاب دجال پیدا ہوں گے، وہ سارے کے سارے نبوت کے دعویدار ہوں گے۔ “ ( دلائل النبوۃ للبیہقی :ج۶، ص : ۴۸۰   بروایت جابر بن سمرہ / یہ حدیث صحیح مسلم اور مسند احمد ج : ۵ ص: ۸۶، پر بھی ہے لیکن الفاظ کچھ مختلف ہیں    )

نیز فرمایا :

لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کذابا دجالا کلھم یکذب علی اللہ وعلی رسولہ

” قیامت قائم نہیں ہو گی، جب تک تیس ( نامور ) کذاب دجال پیدا نہیں ہوں گے، وہ سارے کے سارے اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتے ہوں گے  ( ابوداود : 4334 / ابو یعلی، ج : 10، ص : ۳۵۰ بروایت ابو ہریرہ t  433 )

وانہ واللہ لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کذابا آخرھم الاعور الدجال

” اللہ کی قسم ! اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہو گی، جب تک تیس ( نامور ) جھوٹے ( نبی ) پیدا نہیں ہوں گے۔ ان میں آخری کانا دجال ہوگا۔ “

( مسند الامام احمد : ج : ۵، ص : ۱۶ 16/5، طبرانی : ج : ۷، ص : ۲۲۸  6/  مستدرک حاکم، ج: ۱، ص: ۳۲۹ 329/1، 330وسندہ حسن ) اس حدیث کو امام ابن خزیمہ ( 1397 ) امام ابن حبان (2845856 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے

ان  حدیثوں  سے واضح ہوا کہ نبیﷺ کے بعد کچھ  لوگ نبوت کا جھوٹا دعوہ ضرور کریں گے اور مسلمانوں کو دھوکے میں ڈالیں گے، لیکن چونکہ حضرت محمد رسول اللہﷺ نے فرما دیا کہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوگا۔  اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی مدعی نبوت ہو گا، وہ مفتری اور دجال و کذاب ہوگا۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ نبیؐ نے خاتم النبیین اور لا نبی بعدی کی ایسی تشریح کر دی ہے کہ کسی کو اسمیں تاویل کی گنجائش نہیں چھوڑی چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ان الرسالۃ والنبوۃ قدانقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی

” اس میں کوئی شک نہیں کہ رسالت و نبوت منقطع ہو چکی ہے، میرے بعد اب نہ کوئی نبی ہے اور نہ رسول۔ “

( مسند الامام احمد : ج ۳3 ص : 267  ، ترمذی :2272   ، حاکم : ج : 1، ص : ۳۹۱  391/4، ابن ابی شیبہ : ج : ۱۱، ص : ۵۳ 531 )

اس حدیث کو امام ترمذی نے ” حسن صحیح “ امام الضیاء ( 2645) نے ” صحیح “ کہا ہے اور  امام حاکم نے اس کی سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے   یہ حدیث  اس بارے میں نص صریح  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا۔

صحیح بخاری و مسلم  میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ان مثلی ومثل الانبیاءمن قبلی کمثل رجل بنٰی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون : ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ ؟ قال : فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین

” میری اور مجھ سے پہلے انبیاء اکرام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی نے حسین و جمیل گھر بنایا، البتہ  ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے  اور اس کی عمدگی پر اظہار حیرت کرتے رہے  مگر  یہ ضرور کہتے رہے کہ اس  اینٹ کی جگہ کو  پر کیوں نہ کر دیا گیا  ؟ تو وہ اینٹ میں ہوں، اور میں خاتم النبیین ہوں۔ “ ( صحیح بخاری : 3535، صحیح مسلم : 222862/228 )

یہی حدیث حضرت  جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے  جس میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فانا موضع اللبنۃ، جئت فختمت الانبیاءعلیہم السلام

”  اس اینٹ کی جگہ میں ہی  ہوں، چنانچہ   میں نے آ کر انبیاء علیھم السلام کی آمد کے سلسلے کو بند کر دیا  “ ( صحیح مسلم : 2287 )

ایک روایت کے ایک اور الفاظ ہیں :

فانا موضع اللبنۃ ختم بی الانبیاء

” اس اینٹ کی جگہ میں ہی ہوں،  اب میری آمد پر انبیاء کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ۔ “ ( مسند الطیالسی : 1894،  منحۃ المعبود، ج : ۲، ص : ۸۶ / اس حدیث کی سند غایت درجہ صحیح ہے  )

سبحان اللہ، کس وضاحت کے ساتھ آپﷺ نے اپنی امت کو خاتم النبیین کی تشریح بیان فرمائی کہ کوئی  اِشکال باقی نہ رہا۔  آپﷺ نے مزید فرمایا :

سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

ایھا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم

” اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی نہیں، تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ “

( المعجم الکبیر للطبرانی : ج : ۸، ص : ۱۶۱ 5، السنۃ لابن ابی عاصم : ج : ۲، ص : ۵۰۵1095   )

سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دجال کے بارے میں خطبہ دیا :

ایھا الناس ! انہ لم تکن فتنۃ علی الارض اعظم من فتنۃ الدجال وان اللہ لم یبعث نبیا الا حذرہ امتہ، وانا آخر الانبیاء، وانتم آخر الامم وھو خارج فیکم لا محالۃ فان یخرج وانا فیکم فانا حجیج کل مسلم، وان یخرج بعدی، فکل امری حجیج نفسہ، واللہ خلیفتی علی کل مسلم، وانہ یخرج من خلۃ بین الشام والعراق، فیعیث یمینا، ویمیث شمالا، فیا عباداللہ، اثبتوا، فانہ یبدا فیقول : انا نبی ولا نبی بعدی، ثم یثنی فیقول : انا ربکم ولن تروا ربکم حتی تموتوا، وانہ اعور، وان ربکم لیس باعور، وانہ مکتوب بین عینیہ ” کافر “ یقروہ کل مؤمن، فمن لقیہ منکم فلیتفل فی وجھہ….

” اے لوگو ! روئے زمین پر فتنہ دجال سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں، ہر نبی نے اپنی امت کو اس فتنہ سے ڈرایا ہے، میں آخری نبی ہوں، اور تم آخری امت ہو، وہ لامحالہ اس امت میں آنے والا ہے، اگر وہ میری زندگی میں آ جائے، تو میں ہر مسلمان کی طرف سے اس کا حریف ہوں، وہ اگر میرے بعد آئے تو ہر آدمی اپنے طور پر اس کا حریف ہے، اللہ تعالیٰ میری طرف سے ہر مسلمان پر نگہبان ہے، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا، چاروں  سو  فساد برپا کرے گا، اے اللہ کا بندو ! ثابت قدم رہنا وہ اس بات سے ابتداء کرے گا کہ میں نبی ہوں، ( یاد رکھو ) میرے بعد کوئی نبی نہیں، دوسرے نمبر پر یہ بات کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، جبکہ تم مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہ دیکھ سکو گے، اس کی حالت یہ ہو گی کہ وہ کانا ہو گا، جبکہ تمہارا رب کانا نہیں، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ” کافر “ لکھا ہو گا، جسے ہر مومن پڑھ لے گا، تم میں سے جو بھی اس سے ملے،  تو اس کے منہ پر تھوک دے۔     ( السنۃ لابن أبي عاصم : 390، ج : 1، ص : 171 ، سنن ابن ماجہ : 4077، اس حدیث پر تفصیلی کلام کیلئے دیکھئے : قصۃ المسیح الدجال، ص : 47  )

تیسری  دلیل

 ( نبی کریمﷺ کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا عقیدہ ختمِ نبوت )

اللہ کے نبیﷺ نے جہاں اُمت کو  قرآنِ کریم کی آیات کی جامع  تعلیمات  دیں وہیں آپﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ کی روشنی میں مسلمانوں کے ان تمام  بنیادی عقائد کو بھی بالکل  واضح فرما دیا کہ جن کا تعلق ایمان کے ساتھ ہے، اور جنھیں غلط سمجھنے کی وجہ سے ایک مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے۔  انھیں بنیادی عقائد میں سے عقیدہ ختم نبوت بھی ہے جسے ہم  پچھلے صفحات میں قرآن و صحیح احادیث کے دلائل کے ساتھ واضح کر چکے ہیں۔  بات کو مزید واضح کرنے کے لیے ہم چند اور احادیث پیش کر رہے ہیں جن سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور سلف صالحین کا عقیدہ واضح ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ

  سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

انا محمد، وانا احمد، وانا الماحی الذی یمحی بی الکفر، وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی عقبی، وانا العاقب، والعاقب الذی لیس بعدہ نبی

” میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر کو مٹایا  جائے گا، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر برپا ہوگا۔ میں عاقب ہوں، عاقب وہ ہے، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ “ ( صحیح بخاری : 3532، صحیح مسلم :2354 واللفظ لہ )

یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ آپﷺ، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، آپﷺ کے بعد قیامت قائم ہو جائے گی، آپ کے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔

سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ابیتم فو اللہ انی لانا الحاشر، وانا العاقب وانا النبی المصطفی آمنتم او کذبتم

” ( اے یہودیوں  ! تم نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) کا انکار کیا ہے، اللہ کی قسم ! میں حاشر ہوں ( یعنی میرے بعد حشر برپا ہو گا ) میں عاقب ہوں۔

( یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا ) میں نبی مصطفی ہوں خواہ تم ( مجھ پر ) ایمان لے آؤ یا ( میری ) تکذیب کر دو۔ “ ( آپ ایمان لائیں یا نہ لائیں ہر صورت میں اللہ کا آخری نبی ہوں ) ( مسند الامام احمد : ج :۶ / ص : ۲۵ 6/ الطبرانی الکبیر، ج : ۱۸، ص : ۴۶، صححہ محققوا السند، ج : ۳۹، ص : ۴۱۰ )

سیدنا عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

انی عنداللہ مکتوب لخاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ، وساخبرکم باول ذلک : دعوۃ ابی ابراھیم، وبشارۃ عیسی بی

” آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں ہی تھے کہ مجھے اللہ کے ہاں آخری نبی لکھ دیا گیا تھا، اور  اسکی تاویل کب ظاہر ہوئی اسے میں بتاتا ہوں، کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں، اور اپنی ماں کا وہ خواب ہوں، جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا،  ۔ “ (مسند الامام احمد : ج : ۴، ص : ۱۲۷  127/4، تفسیر طبری : 556/1، 87/28 واللفظہ لہ، تفسیر ابن ابی حاتم : 1264، طبقات ابن سعد : 148/1، 149، تاریخ المدینۃ لعمر بن شبہ : 236/2، المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان : 345/2، المعجم الکبیر للطبرانی : ۱۸، ص : ۲۵۲  252/18، مسند الشامیین للطبرانی : 1939، مستدرک حاکم : 418/2، دلائل النبوۃ للبیہقی : ج: ۹، ص : ۱۶۵ 2، وسندہ حسن

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 2404 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے اس کی سند کو ” صحیح “ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ” صحیح “ کہا ہے۔ علامہ البانی اور مسند احمد کے محققین نے اس حدیث کو صحیح بتلایا ہے ۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فانی آخر الانبیاء، وان مسجدی آخر المساجد ( صحیح مسلم : 507/1394 دارالسلام )

” میں آخری نبی ہوں، اور میری مسجد آخری مسجد ( نبوی ) ہے۔

انبیاء کرام کی یہ سنت ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر  مسجد ضرور بناتے ہیں جو  عام مساجد کے مقابلے میں غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے، جیسے بیت اللہ مسجد حرام، جسے ابراہیمؑ نے بنایا اور جس میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔  بیت المقدس جو حضرت سلیمانؑ نے بنائی اور اسی طرح مسجد نبوی  جو خاتم النبیینﷺ کی مسجد ہے اور  جس میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔

تو یہاں اللہ کے نبیﷺ کا یہ فرمانا  کہ میں آخری نبی ہوں اور میری یہ مسجد آخری مسجد ہے، تکمیلِ نبوت اور رسالت کی بہت ہی واضح اور کھلی دلیل ہے۔  اب چونکہ قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں پیدا ہو گا، نبوت اور رسالت کا سلسلہ آپﷺ پر مکمل ہو گیا اس لیے اب کوئی نئی نبوی مسجد بھی نہیں بن سکتی بلکہ وہ آخری مسجد جو مسجد نبوی کہلائی وہ مدینہ منورہ  میں ہے۔

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی بن ابی طالب، فی غزوۃ تبوک، فقال : یا رسول اللہ تخلفنی فی النساءوالصبیان ؟ فقال : اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی ؟ غیر انہ لا نبی بعدی

” غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو ( مدینہ ) میں اپنا جانشین مقرر فرمایا، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا  تم  اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرے ساتھ تمہیں وہی  نسبت ہو، جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ ( صحیح بخاری : 3706، صحیح مسلم : 2404  واللفظ لہ )

اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا :

انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لیس نبی بعدی

”  تمہاری میرے ساتھ وہی  نسبت ہے، جو حضرت ہارون کو حضرت موسی علیھما السلام کے ساتھ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ “

( مسند الامام احمد : 369/6، 437، السنن الکبریٰ للنسائی : 8143، مسند اسحاق : 2139، السنۃ لابن ابی عاصم : 1346، المعجم الکبیر للطبرانی : 146/24، مصنف ابن ابی شیبہ : 60/12، 61 وسندہ صحیح )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لم یبق من النبوۃ الا المبشرات، قالوا : وما المبشرات ؟ قال : الرویا الصالحۃ

” نبوت میں سے مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں، صحابہ نے عرض کی مبشرات کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک خواب۔ “

 ( صحیح بخاری : 699 )

سیدنا حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؟ :

ذھبت النبوۃ فلا نبوۃ بعدی الا المبشرات قیل : وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحۃ یراھا الرجل او تری لہ

” نبوت ختم ہو گئی ہے، میرے بعد کوئی نبوت نہیں، سوائے مبشرات کے، کہا گیا مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب جو آدمی دیکھتا ہے، یا اس کیلئے دیکھا جاتا ہے۔ “ ( البزار ( کشف الاستار : 2121، المعجم الکبیر للطبرانی : 3051 وسندہ صحیح )

سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات

” نبوت ختم ہو گئی ہے، اب صرف  مبشرات باقی ہیں۔ “

( مسند احمد : ج : ۶، ص : ۳۸۱  381/6، مسند حمیدی : 348 348، ابن ماجہ :3896 3896 وسندہ حسن )

اس حدیث کو امام ابن حبان (ج : ۸، ص : 426 ) نے ” صحیح “ کہا ہے، ابویزید المکی حسن الحدیث ہے، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام عجلی نے اس کی توثیق کر رکھی ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر کے بعد فرمایا کرتے تھے، کیا آپ میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ اور فرمایا کرتے تھے :

انہ لا یبقی بعدی من النبوۃ الا الرویا الصالحۃ

” یقیناً میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ( یعنی نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ) البتہ نیک خواب باقی ہیں۔ “

( موطا امام مالک : 956/2، مسند احمد : 325/2، ابوداؤد : 5017، مستدرک حاکم : 390/4، وسندہ صحیح )

اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6048 ) اور امام حاکم نے ” صحیح “ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، مبشرات یعنی مسلمان آدمی کے نیک خواب جو اجزائے نبوت میں سے ہیں، باقی رہیں گے۔

شیخ المعلمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

اتفق اھل العلم علی ان الرویا لا تصلح للحجۃ وانما ھی تبشیر وتنبیہ، وتصلح للاستئناس بھا اذا وافقت حجۃ شرعیۃ صحیحۃ

اہل علم اس بات پر متفق اللسان ہیں کہ ( امتی ) کا خواب حجت ( شرعی ) کی صلاحیت نہیں رکھتا، وہ محض بشارت اور تنبیہ کا کام دیتا ہے، البتہ جب صحیح شرعی حجت کے مطابق و موافق ہو، تو مانوسیت و طمانیت کا فائدہ دیتا ہے۔ ( التنکیل : 242/2 للشیخ عبدالرحمن المعلمی )

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :

لو کان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب

” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے۔ “

( ترمذی : 3886، مسند الامام احمد : 154/4، المعجم الکبیر للطبرانی : 180/17، 298، مستدرک حاکم : 85/3 ح 4495، وسندہ حسن )

اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن غریب “، امام حاکم نے ” صحیح الاسناد “ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صحیح “ کہا ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی تشریعی یا غیر تشریعی  نہیں آئے گا، اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی نہ ہوئے، تو اور کون ہو سکتا ہے ؟

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لقد کان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل رجال یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء، فان یکن فی امتی منھم احد فعمر

” تم لوگوں  سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں، ان میں کچھ  ایسے لوگ بھی تھے، جن سے کلام کی جاتی تھی، جبکہ وہ نبی نہیں تھے، اگر میری امت سے کوئی ہوا، تو عمر ہوں گے۔ “ ( صحیح البخاری : 3689 )

صحابہ کرام اور سلف صالحین کا  عقیدہ

1   اسماعیل بن عبدالرحمن السدی کہتے ہیں :

سالت انس بن مالک قلت : صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ابنہ ابراھیم ؟ قال : لا ادری، رحمۃ اللہ علی ابراھیم لو عاش کان صدیقا نبیا

” میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم پر نماز جنازہ پڑھی تھی ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نہیں جانتا ( پڑھی تھی یا نہیں پڑھی تھی ) ابراہیم پر اللہ کی رحمت ہو اگر وہ زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے۔ “

( مسند الامام احمد : ج : ۳، ص : 281 /  طبقات ابن سعد، ج : ۱، ص : 140 140/1 وسندہ حسن )

اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے کہا :

رایت ابراھیم ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال : مات صغیرا، ولو قضی ان یکون بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی عاش ابنہ، ولکن لانبی بعدہ

” کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ فرمایا وہ بچپن میں ہی فوت ہوگئے، اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ “  ( صحیح بخاری : 6194 6194، ابن ماجہ : 1510 1510، المعجم الاوسط للطبرانی : 6638، تاریخ ابن عساکر : 135/3 )

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا، اسی  لئے تو  آپ کے بیٹے ابراہیم زندہ نہ رہے۔

2   سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ روزِ قیامت شفاعت کبریٰ کے لئے جہاں دیگر انبیاء علیہم السلام کے پاس جائیں گے، وہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی جائیں گے اور کہیں گے، ” اے عیسیٰ ( علیہ السلام ) اپنے رب کے ہاں ہمارے فیصلے کی سفارش کیجئے، وہ فرمائیں گے کہ اس وقت میں آپ کے کام نہیں آ سکتا، ” ولکن ائتوا محمداً صلی اللہ علیہ وسلم فانہ خاتم النبیین “ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں، وہ آخری نبی ہیں۔ “ وہ آج موجود ہیں، ان کے پہلے اور بعد کے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں، عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے، بھلا آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر کسی برتن میں سامان رکھ کر مہر لگا دی گئی ہو، کیا وہ مہر توڑے بغیر اس سامان تک رسائی ممکن ہے ؟ لوگ کہیں گے، نہیں، تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے :

” فان محمدؐ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین “

” یقیناً محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ “ ( مسند الامام احمد : 248/3 وسندہ صحیح )

لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کہنے کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کہیں گے :

یا محمد، انت رسول اللہ وخاتم الانبیاء

” اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔ “ ( صحیح بخاری : 7412، صحیح مسلم : 194 )

الحمدللہ،  بیان کردہ  قرآنی آیات، احادیثِ مبارکہ اور عقائدِ صحابہ کرام و اسلاف صالحین ؟؟  سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ہادی اعظم خاتم النبیین والمرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں،  نبوت اور رسالت آپﷺ پر مکمل ہو گئی ہے  اور وہ کامل ہدایت ہمارے پاس بغیر کسی تحریف کے کتاب اللہ کی صورت میں موجود ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری  اللہ رب العالمین نے خود لی ہے۔ اب قیامت تک کوئی نیا نبی اور رسول نہیں آئے گا، اور جس نے یہ دعوہ کیا کہ وہ محمد رسول اللہﷺ کے بعد تشریعی یا غیر تشریعی  نبی بنا کر بھیجا گیا ہے تو وہ جھوٹا، مفتری اور کذاب ہے۔

                       الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الإِسْلامَ دِيناً  ۝

ترجمہ :     آج میں نے تمہارے لیے تمہارا  دین مکمل کر دیا،  اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے بحیثیت دین،  اسلام کو پسند کیا ہے۔   (سورہ المائدہ :  آیہ  3)

٭٭٭

ماخذ:

http://www.islamidawah.com/play.php?catsmktba=163

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید