FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

خاک میں صورتیں اور اُردو شاعری میں تصوّرِ زن

               نسیم انجم

حصہ اول: اردو شاعری میں تصوّرِ زن

اردو شاعری میں تصوّرِ زن

شاعری اظہارِ ذات کا سب سے خوب صورت وسیلہ ہے اور عورت تصورِ کائنات کا سب سے دلپذیر رنگ۔ مگر آج کی عورت نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ تصویرِ کائنات کی نصف حقیقت بھی ہے۔

 معاصر تنقید میں تانیسیت (feminism) کے تصوّر نے جو اہمیت حاصل کی ہے، اس کے پیشِ نظر نظم و نثر میں تصوّرِ زن کے حوالے سے تحقیق و تنقید کے نئے امکانات منظرِ عام پر آرہے ہیں۔ نسیم انجم کا مقالہ ’’خاک میں صورتیں اور اُردو شاعری میں تصوّرِ زن‘‘ اپنی نوعیت کا ایک اہم مقالہ ہے جس میں اردو شاعری کے منظر نامے میں تصوّرِ زن کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مقالہ نگار نے تحقیق و تنقید کے آداب کی مکمل پاسداری کی ہے اور اسلوب کے پردے میں اپنی تخلیقی بصیرت کا کامیاب اظہار کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ زیرِ نظر مقالہ اردو تحقیق و تنقید کی دنیا میں ایک گراں قدر اضافہ ثابت ہو گا اور روشنی کی جستجو میں سفر کرنے والوں کے لیے مینارۂ نور ثابت ہو گا۔

ڈاکٹر محمد کامران

پروفیسر، شعبہ اردو

پنجاب یونیورسٹی، اورینٹل کالج، لاہور

٭٭٭

 

 

سعیِ مسلسل

            اپنے محترم ناقدین و قارئین کی خدمت میں تقریباً ۲ سال کے عرصے کے بعد حاضر ہونے کا شرف حاصل کر رہی ہوں۔ اس بار میری تحریر ذرا مختلف ہے، نہ افسانے اور نہ ناول، بلکہ ایک طویل مضمون ہے، جو بے حد محنت، توجہ، لگن اور سعیِ مسلسل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا ہے۔ میں نے جس خاص کتاب پر خامہ فرسائی کی ہے وہ کتاب ہے بے حد محترم و مکرم جناب فضاؔ اعظمی کی، بعنوان ’’خاک میں صورتیں ‘‘ جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے کہ وہ صورتیں جو بے حد ترو تازہ، خوب صورت اور عالمِ شباب کی بہاروں سے مرصع تھیں اور اب جنھیں خاک میں ملا دیا گیا اور یہ صورتیں عورتوں کی ہیں ، مردوں کی ہو نہیں سکتیں کہ طاقت ور ہی کم زور پر غالب آسکتا ہے اور یہ جنگل کا قانون ہے جو ہمارے ملک اور اس کے شہروں اور دیہاتوں میں نافذ ہے۔

            یوں تو بڑے بڑے لوگ، بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان ہیں ، ہر لحاظ سے طاقت ور ہیں ، اعلیٰ منصب پر فائز ہیں۔ چاہیں تو ایسے قوانین کا نفاذ کر سکتے ہیں ، جن کی رو سے عورت عدم تحفظ کا شکار نہ ہو۔ لیکن وہ عورت کو اس کا جائز مقام دینا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ پاکستانی قوم کا المیہ یہ ہے کہ انھیں ایسے حکمران نہ ماضی میں میسر آئے اور نہ حال میں کہ وہ عورت کو انصاف فراہم کریں اور مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں کہ ایسا کرنے کے لیے انھیں دینِ اسلام حکم دیتا ہے۔ بنتِ حوا منتظر ہے۔ ایک غیور مسلمان کی، کہ وہ محمد بن قاسمؒ کی طرح آئے اور اس کے زخموں پر مرہم رکھ دے۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

            جناب فضاؔ اعظمی نے بلا کسی تفریق انسانیت کے ناتے دنیا بھر کی خواتین کے ازلی غموں ، غیر منصفانہ و ظالمانہ رویے کا تذکرہ نہایت درد مندی اور راست بازی کے ساتھ شعر و سخن کی شکل میں کیا ہے۔

             ہزاروں نہیں ، لاکھوں لوگوں کو ان کی شاعری متاثر کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے سچ کا وہ آئینہ لوگوں کو دکھایا ہے، جس میں ہر شخص اپنی تصویر دیکھ سکتا ہے کہ آئینہ صاف اور شفاف ہے، دھندلاہٹ اور گرد سے پاک۔

             ظلم کی سیاہ راتیں ، انسانیت کی تذلیل، عورت پر ختم نہ ہونے والا جبر و قہر کا سلسلہ، ملکی و معاشرتی حالات کا مرثیہ، قوموں کے عروج زوال کی داستانیں ، انسان کے حرص و ہوس اور طمع کے واقعات، وڈیرہ سسٹم سے پیدا ہونے والی عبرت ناک اور شرم ناک برائیاں ، خواتین پر ظلم اور اس کی لاچاری و مجبوری، فضاؔ اعظمی کی شاعری ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کا خاصہ ہے۔

            ایک حقیقت اور آشکارا کرتی چلوں کہ جب میں ’’خاک میں صورتیں ‘‘ پر لکھنے کی کوشش میں مصروفِ عمل تھی تو اکثر اوقات میری آنکھوں میں نمی اُتر آتی۔ معصوم و بے خطا و نوخیز جانوں پر ہونے والے مظالم مجھے رونے پر مجبور کر دیتے، تب مجھے قلم چھوڑنا پڑتا اور آگے لکھنے کی مجھ میں سکت نہیں رہتی اور میں کسی پُر فضا مقام کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتی کہ اختلاجِ قلب کی جگہ تسکینِ قلب حاصل ہو، اور میرے دل و دماغ پر سسکتی، تڑپتی مستور رات کا قافلہ کہیں دور کسی ویرانے میں گم ہو جائے۔ میں تمام خونی واقعات کو بھلانا چاہتی تھی اور اکثر کامیاب بھی ہو جاتی۔

            ایک بار میں نے محترم فضاؔ اعظمی سے اپنی دلی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے ایک سوال کیا کہ ’’اس قسم کے درد ناک واقعات کو لکھتے ہوئے آپ پر کیا گزری؟‘‘ برجستہ جواب دیا۔ ’’جو آپ پر گزری۔ ‘‘ بہرحال:

 دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

            یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سال ہا سال سے اپنی بساط کے مطابق شعر و ادب کی کتابوں پر مضامین لکھ رہی ہوں۔ یہ مضامین وقتاً فوقتاً رسائل و جرائد میں شائع بھی ہوتے رہے اور ادبی محافل میں مقرر کی حیثیت سے پڑھے بھی گئے، ان مضامین پر داد و تحسین بھی ملی۔ میرے حصے میں جو بھی چھوٹی موٹی کام یابیاں اور خوشیاں آئیں ، اس کے لیے اپنے رب کی شکر گزار اور احسان مند ہوں۔

            اپنے ناول ’’نرک‘‘ اور’’ گلاب فن اور دوسرے افسانے‘‘ پر تحریری اور تقریری طور پر بے حد پذیرائی ملی۔ میں اپنی تحریروں کے ناقدین، مبصرین اور قارئین کی بے حد ممنون ہوں۔ ان کی وسیع النظری اور قدر دانی نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ ایک بات اور جو میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں وہ یہ کہ ضلع دادو کے ماہرِ تعلیم، نقاد، افسانہ نگار و شاعر جناب ذوالفقار گاندھی نے میرے 10 افسانوں کا ترجمہ سندھی زبان میں کیا ہے اور یہ دسوں افسانے ’’موکی‘‘، پرک، ’’ہزار داستان‘‘ جیسے پرچوں میں شائع ہوئے اور افسانے کے قاری و نقاد سے داد وصول کر چکے ہیں۔ یقیناً یہ امر میرے لیے باعث مسرت ہے۔

                                                                        نسیم انجم

                                                                        ۲۱، اپریل ۲۰۱۲ء

٭٭٭

 

 

اُردو شاعری کی ابتداء- ایک تعارف

             اپنے ما فی الضمیر کو موثر انداز میں بیان کرنے کا اک ذریعہ شعر و ادب ہے۔ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے، شعرو سخن بھی زندگی کے ساتھ ساتھ محوِ سفر ہے، زندگی ہے تو شعر و ادب ہے اور زندگی نہیں تو یہ اصنافِ سخن بھی نہیں ، گویا زندگی اور شعری و ادبی تخلیقات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

            صحرائے عرب میں بھی طلوعِ اسلام سے قبل اور بعد میں شاعری کی جاتی رہی ہے۔ شعراء اپنا کلام ایک دوسرے کو سنایا کرتے تھے۔ صحابیِ رسولؐ حضرتِ حسانؓ کو یہ مرتبہ حاصل تھا کہ وہ دینِ اسلام کے حوالے سے اشعار کہا کرتے تھے۔ دوسرے صحابہ کرامؓ نے بھی شاعری کی ہے۔

            جوں جوں وقت گزرتا گیا، شاعری کی مختلف اصناف وجود میں آتی رہیں۔ غزل، نظم،  قصیدہ،  مثنوی،  مسدس،  مرثیہ وغیرہ میں ادب و شاعری کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات اور حالاتِ زمانہ کے عروج و زوال کی داستانیں رقم کی جانے لگیں اور شاعری کا سلسلہ زمانۂ قدیم سے زمانۂ جدید تک دراز ہوتا چلا گیا۔ اُردو شاعری میں غزل ہمیشہ سے غالب رہی ہے،  تشبیہات، استعارات،  الفاظ کی ندرت اور غنائیت،  غزل کی جان رہی ہے۔ زیادہ تر شعراء غزل کے اس لیے بھی شائق رہے کہ دوسری اصناف کے مقابلے میں غزل لکھنا نسبتاً زیادہ آسان ہے۔ ان کے نزدیک نظم لکھنا مشکل ہے۔

            اُردو نظم کا آغاز اس وقت ہو گیا تھا جب شاعری وجود میں آئی اور نظم کی ابتدائی صورت مثنوی میں نمایاں ہوئی۔ لا تعداد مثنویاں لکھی گئیں۔ مثنویوں کے حوالے سے کئی نام ور شعرا ء کے نام سامنے آتے ہیں۔ ایک اہم نام’’ سلطان قلی قطب شاہ ‘‘کا ہے جو اُردو زبان کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ہوئے، لیکن جب حالات نے پلٹا کھایا تو ۱۸۵۷ء کے اثرات شعراء کے کلام میں نظر آنے لگے اوروہ تخیلات و تصورات کی دنیا سے باہر آ گئے اور حب الوطنی و قوم پرستی نے ان کی شاعری میں جگہ بنالی۔

            حالات و واقعات کو رقم کرنے کا نظم نگاری ایک عمدہ وسیلہ ہے۔ نظم نگاری کے حوالے سے جناب باقر نقوی فرماتے ہیں کہ ’’نظم میرے ناقص خیال کے مطابق مشکل ہوتی ہے اور اگر نظم کسی ایک مسلسل یا طویل موضوع پر ہو تو پھر اور بھی مشکل مرحلہ ہوتا ہے جس میں کام یاب ہونا آسان نہیں ہوتا۔ ‘‘

            موضوعاتی نظمیں تو بہت سے شعراء نے لکھی ہیں مگر جس اہتمام اور رنگا رنگی کے ماہر نظیرؔ اکبر آبادی تھے، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ نظیرؔ نے چھوٹی بڑی ہزاروں نظمیں تخلیق کی ہیں۔ نظیرؔ آج بھی بے نظیر ہیں۔ ان کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہوا۔

            فضاؔ اعظمی ہمارے عہد کے شاعروں میں ان معنوں میں منفرد ٹھہرتے ہیں کہ انہوں نے غزلوں کی راہ چھوڑ کر، یا ساتھ ساتھ ان پر چلتے ہوئے موضوعاتی شاعری کے زمرے میں بڑی وقیع طویل نظمیں لکھنے کی ہمت کی ہے اور اُردو زبان کو ان پر مشتمل کئی کتابیں دی ہیں۔ ان نظموں کے لکھنے میں انہوں نے تجربے بھی کیے ہیں اور یہ بھی ہمت کی بات ہے۔

            اُردو شاعری کے ارتقاء میں رومانوی تحریک کا ذکر کرنا بھی لازمی قرار دیاجاتا ہے۔ رومان ایک لاطینی لفظ’’رومانس‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ یورپ میں رومانویت کا سب سے بڑا علم بردار روسو تھا، اس نے فرد کی آزادی پر زور دیا۔ اُردو ادب میں رومانوی تحریک سر سید تحریک کے خلاف ردِ عمل کے طور پر سامنے آئی۔ سر سید نے عقلیت،  مادیت اور حقائق پر بہت زور دیا۔ جب کہ فرد کی زندگی کے جذباتی اور رومانوی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا۔ اس اندازِ فکر سے رومانوی ادیبوں نے احتجاج کیا اور ادب میں نئی راہیں کھول دیں۔ اس طرح رومانوی تحریک غالب آ گئی۔ اُردو کے رومانی شعراء میں اخترؔ شیرانی، حفیظؔ جالندھری، جوشؔ ملیح آبادی اور دوسرے کئی شعراء کے نام نمایاں ہیں۔ فیضؔ کی شاعری میں رومان اور حقیقت کا امتزاج نظر آتا ہے۔ اُردو شاعری میں اقبالؔ کی شاعری پر بھی رومانویت کا گہرا اثر ہے۔ عظمتؔ اللہ خان، احسانؔ دانش،  ساغرؔ نظامی اور عزیزؔ جہاں بیگم  وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ رومانوی تحریک کے حوالے سے ڈاکٹریونس حسنی کہتے ہیں کہ ’’رومانیت نے روایت کی بت شکنی کی اور شاعری کو جدید تجربات سے آشنا کیا۔ یہ رومانویت کا ہی اثر ہے کہ اُردو شاعری نئی بحروں میں ترنم اور ایک نئے آہنگ سے آشنا ہوئی۔ ‘‘

            دورِ حاضر میں نظم نگاری کے حوالے سے فضاؔ اعظمی کا نام اعتماد کے ساتھ لیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے طویل مقصدی اور موضوعاتی نظمیں لکھ کر اپنے ہم عصر شعراء اور نقادوں سے دادو تحسین حاصل کر لی ہے اور ان کے کلام کومستند قرار دیا جاچکا ہے۔

            جناب فضاؔ اعظمی نے ’’خاک میں صورتیں ‘‘میں مسدس کو ذریعۂ اظہار بنایا ہے، لیکن اس سے پہلے کہ ہم جناب فضاؔ اعظمی کی مسدس’’خاک میں صورتیں ‘‘ کو زیرِ بحث لائیں ، ہم’’مسدسِ حالیؔ‘‘ کو جو حالیؔ کا ایک عہد آفرین کارنامہ تھا، اس کا مختصراً ذکر کرتے چلیں۔ جب’’مسدس‘‘ کا ذکر نکلتا ہے تو جدید اُردو شاعری اور انجمن پنجاب کا نام لازم و ملزوم ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انجمن پنجاب کے مشاعروں میں ایک جدت یہ تھی کہ مصرعہ طرح دینے کے لیے ایک خاص موضوع مقرر کر لیا جاتا تھا۔ اس طرح شعراء غزل کی بجائے مسلسل نظم کہتے۔ نظمِ مسلسل اُردو میں کوئی نیا تجربہ نہیں تھا۔ خاص طور پر مثنویوں میں ایسے موضوعات پر پہلے بھی نظمیں لکھی جا چکی تھیں۔ انجمن کے مقابلے کافی مشہور تھے۔ آزادؔ اور حالیؔ کے علاوہ مقامی شعراء بھی ان محفلوں میں شریک ہوتے۔ حالیؔ کے کلام میں مثنوی’’برکھارُت‘‘ اس دور کی یاد گار ہے، لیکن ان کی چند نظموں سے قطع نظر ان کا سب سے بڑا کام ان کی مشہور مسدس ’’مدو جزرِ اسلام‘‘ ہے جسے اُردو شاعری میں پہلی،  قومی اور بڑی نظم کہا جاتا ہے۔ اس کا مفصل ذکر اگلے صفحات میں درج ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مسدس یا اس قسم کی نظم میں اشعار کی تعداد کی قید نہیں ہوتی۔ حالیؔ سے پہلے بھی شعراء نے مسدس کی صنف اختیار کی تھی۔ اُردو کے ابتدائی ادوار میں اکثر مرثیہ بھی لکھا جاتا تھا۔ شمالی ہند میں ’’مرثیہ‘‘ کی جب ترقی ہوئی تو مرثیہ گو شعراء نے جن میں سوداؔ کا نام قابلِ ذکر ہے۔ اسے مرثیہ کے لیے اختیار کیا۔ مسدس لکھنے کا اصل مقصد اصلاحِ معاشرہ ہے۔ مسدسِ حالیؔ سے اُردو شاعری میں قومی شاعری کی تحریک کو بڑی تقویت ملی۔ یقیناً مدو جز رِ اسلام یا مسدسِ حالیؔ ایک عظیم کارنامہ تھا۔ مولانا شبلیؔ نعمانی،  اکبرؔالہ آبادی، اسماعیلؔ میرٹھی کے نام اُردو کی جدید شاعری میں اہم ہیں۔

٭٭٭

 

 

اسلام کا تصوّرِ زن

            ’’خاک میں صورتیں ‘‘ عورت کے موضوع پر ایک مکمل اور موثر نظم ہے۔ دو سو صفحات پر مبنی یہ کتاب ان تمام عوامل کا احاطہ کرتی ہے جو تاریخِ انسانی میں عورت پر گزری ہیں اور جن راہوں سے گزر کر آج عورت موجودہ صورتِ حال تک پہنچی ہے۔ اس کتاب کی ما بہ الامتیاز خصوصیت یہ ہے کہ ان تمام حقائق و کوائف کا اظہار مکمل سباق و سیاق کے ساتھ بزبانِ شاعری کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے میری معلومات کے مطابق عالمی ادب میں شاید ہی ایسی کوئی دوسری مثال موجود ہو۔

            ’’خاک میں صورتیں ‘‘ چودہ ابواب پر مشتمل ہے۔ یہ نظم ’’حسنِ کائنات‘‘ اور ’’رموزِ آفرینش‘‘ سے شروع ہو کر تاریخِ انسانی کے نمائندہ ادوار سے گزرتی ہوئی اور مختلف تہذیبوں کے کردار کا عورت کے حوالے سے جائزہ لیتے ہوئے ’’بنامِ عادلِ برحق‘‘ اور ’’صدا یہ عرش سے آئی‘‘ پر ختم ہوتی ہے۔

            ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کا چھٹا باب بعنوان ’’عروجِ آدمیت‘‘ تاریخِ انسانی کے اس نمایاں دور کی نشان دہی کرتا ہے جس میں عورت صدیوں پر محیط ہیبت ناک اور کرب آسا دور سے گزر کر اس مقام پر پہنچی، جہاں اسلامی نظام نے اس کو مرد سے برابری کا مرتبہ تفویض کیا۔ اس تناظر میں دیکھیے تو یہ طویل نظم اس موضوع پر اسلامی طرزِ فکر کی نمائندہ نظم ہے۔ اس تناظر میں فضاؔ اعظمی اپنے مخصوص موثر انداز میں فرماتے ہیں   ؎

یہ تھا ادبار عورت پر کہ جب پیغامِ حق آیا

خواتیں کے لیے انصاف کا پہلا سبق آیا

ہوا نازل صحیفہ آخری توقیرِ انساں کا

دکھی عورت کی خاطر امن کا پیغامبر آیا

حرا کے غار سے روشن ہوا خورشید ایماں کا

ہوا منشورِ نو جاری حقوقِ نوعِ نسواں کا

            محترم فضاؔ اعظمی کی شاعری میں اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ قرآنی علوم کی ایسی روشنی دکھائی دیتی ہے کہ سچ اور جھوٹ نیکی اور بدی کا فرق واضح نظر آنے لگتا ہے۔ انہوں نے خواتین کی پسند و نا پسند اور فطرت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے شاعری کا گلشن سینچا ہے۔ ان کی  شاعری اسلامی تعلیمات کا مکمل نمونہ پیش کرتی ہے۔

حدیں اللہ نے کھینچی ہیں ایسی ربطِ باہم کی

کسی تہذیب کے اندر نہیں ملتی مثال ان کی

یہ ہے فرمانِ محکم عورتوں کو تنگ مت کرنا

زبردستی نہ لینا تم وراثت ایک عورت کی

پسند ہر شخص کی ہے مختلف، تم یاد یہ رکھنا

خدا کی اس میں حکمت ہے مزا جوں کا الگ ہونا

            فضاؔ اعظمی نے عورت کے حقوق کی نشان دہی قرآن کی روشنی میں کی ہے اور معاشرے کے ٹھیکے داروں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مذہبِ اسلام نے عورت کو اعلیٰ مرتبہ عطا کیا ہے، اس کی تعظیم کی جائے۔ چوں کہ وہ اسی لائق ہے اور اس کی بہترین مثالیں ہمارے دین میں نظر آتی ہیں۔ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجِ مطہراتؓ کی تعداد گیارہ تھی، لیکن آپؐ نے سب کے ساتھ انصاف کیا، کسی کے ساتھ زیادتی تو دور کی بات ہے کبھی سخت بات تک نہ کی۔ واقعۂ ’’افک‘‘ کے موقع پر بھی خاموشی اختیار کر لی۔ اللہ کے کسی نبیؑ نے اپنی ازدواج یا بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ کبھی برا سلوک اور ناشائستہ گفتگو نہیں کی اور پھر بزرگانِ دین کو ہی لے لیجیے جن کے مزاروں پر عرس ہوتے ہیں۔ زائرین و خدام نہایت عقیدت کے ساتھ مزار سے متعلق تمام کام انجام دیتے ہیں ، لیکن اللہ کے نیک بندوں کی اس تعلیم پر عمل نہیں کرتے جو دینی تعلیم اور احکامِ خداوندی ہیں اور ان کا رویہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کیسا رہا؟ ان کی تعلیم کیا تھی؟

            لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ بے علم لوگوں اور اندھیری راہوں کے مسافروں نے کبھی اپنے مذہب کے بارے میں جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بس جو کچھ وراثتاً ملا اسے ہی اپنا لیا۔ اگر باپ دادا نے وڈیرہ اور چوہدری بن کر ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا تو انہوں نے بھی وہی کیا بلکہ اس سے زیادہ (خونی داستانوں کی تخلیق) خون خرابہ کیا، نجی جیلوں میں کم زور لوگوں کو قید رکھا اور عورت کو کم زور ترین مخلوق جان کر اپنے قدموں کی خاک جانا،  انہی لوگوں اور منصفِ وقت اور حکام کے لیے ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کی شکل میں ایک ایسا مدرسہ وجود میں آ گیا ہے جس میں پڑھ کر عورت کے حقوق و فرائض سے آگاہی ہو سکتی ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

یہ رتبہ ہے اناث الناس کا اسلام کی رو سے

بہو بیٹی پہ لطفِ خاص ہے قرآن کی رو سے

کہ کیسی انقلابی فکر کا حامل ہے یہ مذہب

وہ کس انصاف کی حق دار ہے ایمان کی رو سے

یہ کتنی رحمتیں لے کر خدا کا دین آیا ہے

یہ کیسی نعمتوں سے اس نے انساں کو نوازا ہے

            شاعر کسی بھی موقع اور کسی بھی مقام پر عورت کے معاملے میں بے بس نظر نہیں آتا ،  کہ بھئی اب کیا کریں ، ظلم کیا جا رہا ہے، اس بے چاری پر؟ وہ ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی ایسی دلیلیں لاتے ہیں جن سے انکار ممکن ہی نہیں ،  اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے دنیوی و دنیاوی تعلیمات کو پڑھا ہے اور اس کی حقانیت سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے،  پوری زندگی کے معاملات،  رشتوں ناتوں کا تقدس،  اقربا پروری،  رشوت ستانی اور عدل و انصاف،  سزا و جزا کا ذکر قرآنِ پاک میں موجود ہے، جس نے اس کی تعلیم کو سمجھ لیا،  عمل کر لیا، و ہی کام یاب ہوا،  اور آج کسی کو کام یابی حاصل ہوئی تو وہ ہیں اہلِ مغرب، جنہوں نے قرآن کی تعلیم اور اسلامی نظام کو اپنا لیا ہے۔ آج کئی ملکوں میں حضرت عمر ؓ کا نظامِ حکومت رائج ہے اور بچوں کی کفالت،  غریبوں ،  ضعیفوں ،  اپاہج لوگوں کے لیے الاؤنس مقرر کیا ہے اور اس الاؤنس کا نام بھی ’’عمر الاؤنس‘‘ رکھا گیا ہے،  یعنی خلیفۂ دوئم حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے کا نظام چلتا ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ الاؤنسز کا نام بھی نہیں بدلا گیا، پھر وہ کیوں نہ ترقی کریں ، خوشی و خوش حالی کا دور دورہ کیوں نہ ہو۔ چوں کہ اسلام کی رو سے انصاف سب کے لیے یکساں ہے۔

            نہایت کرب سے یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ حکمرانوں اور ہم سب نے قرآنِ پاک کو خوب صورت چمک دار غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا ہے، اس کا استعمال صرف اتنا ہے کہ بچوں کو رٹا دیا جائے،  نعوذبااللہ، اس سے کنواری لڑکیوں کی شادی کر دی جائے،  کوئی معاشرے کے ان لوگوں سے پوچھے جو اپنے گھر والوں ، بستی کے لوگوں کے حاکم بنے بیٹھے ہیں کہ قرآنِ پاک اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا ،  کسی بھی دینی کتب میں ، ایسی شادی کا ذکر ملتا ہے۔ یہ سراسر خواتین کی حقوق تلفی اور قرآنِ پاک کی بے ادبی ہے۔ فضاؔ اعظمی کو بھی ایسے رسم و رواج نے حیرت میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ سوال نامہ ترتیب دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ لوگ جو طاقت کے نشے میں مست و بے خود ہیں ، کیا وہ بہ حیثیت مسلمان ان کے سوالوں کے جوابات دیں گے؟

یہ کیا سچ ہے کہ تم قرآن سے شادی رچاتے ہو

اور اس صورت سے تم اپنی زمینداری بچاتے ہو

تم اپنی عاقبت اس طرح سے برباد کرتے ہو

کلام اللہ کی تم اس طرح تحقیر کرتے ہو

کہاں نور الٰہی اور کہاں قرآن کی عظمت

کہاں یہ ملحدانہ سوچ! یہ افرادِ بد طینت

             یہ تو تھا گاؤں اور گوٹھ کا حال۔ شہر کا حال اس سے ابتر ہے کہ پڑھے لکھے گھرانوں میں لڑکی کی رخصتی کے وقت قرآنِ پاک کو دولھا دلھن کے سروں سے گزار تے ہیں۔ گویا قرآنِ پاک کے سائے میں اپنی بیٹی کو وداع کرتے ہیں۔ یہاں بھی قرآن کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے، ترجمہ اور تفسیر پڑھنے اور قرآن فہمی کے لیے قرآنِ پاک نازل ہوا ہے، تاکہ اللہ کے احکامات پڑھیں ، ان پر عمل کریں اور تبلیغ کا حق ادا کریں ، لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ جھوٹی قسمیں اور جھوٹے حلف اُٹھا کر قرآنِ پاک کی تعلیمات کی نفی کر تے ہیں۔

            افسوس اُمتِ مسلمہ خصوصاً پاک و ہند کے مسلمانوں نے اپنے خود ساختہ قوانین بنائے ہیں اور ان پر ہی عمل پیرا ہیں۔ دو روز کا ہی واقعہ ہے۔ جنوری ۲۰۱۲ء غالباً ۱۵-۱۶ جنوری ہے، خبروں کے درمیان بریکنگ نیوز Breaking Newsکی پٹی چلتی ہے۔ سامنے جو منظر ہے وہ بڑا ہی دل خراش ہے۔ انسانیت نوحہ کناں ہے ،  انسان کا دل دہل جائے،  انسانی اقدار کے پرخچے اُڑا دیئے گئے۔ منظر تھا۔

            ایک ریل کی پٹری ہے، اس پٹری پر ایک پریمی جوڑا رسیوں سے بندھا ہوا ہے۔ پریمی جوڑا جانور یا پرندوں کا ہر گز نہیں ہے، یہ انسانوں کا جوڑا ہے، جیسے حضرت آدمؑ اور بی بی حواؑ کا جوڑا، پاکیزہ ہستیوں اور سوہنی مہینوال،  شیریں فرہاد،  لیلیٰ مجنوں کے جوڑے۔

            ایک لڑکا جس کی عمر تقریباً ۲۰۔ ۲۱سال اور لڑکی کی عمر ۱۶۔ ۱۵سے زیادہ نہیں ،  بے حد معصوم سی، من مو ہنی شکل کی بچی،  ایک بے رحم ہے جس کے ہاتھ میں بندوق ہے اور منہ پر ڈھاٹا۔ ان کے سروں پر کھڑا، اس ریل کا انتظار کر رہا ہے جو موت کی شکل میں آنے والی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ریل گاڑی ’’چھک چھک‘‘ کرتی آئے گی اور یہ درندہ صفت انسان اپنی جگہ چھوڑ دے گا،  کہ اسے مرنے کا نہیں ، مارنے کا حکم ملا ہے اور حکم دینے والا متکبر شخص دنیاوی عیش و عشرت میں گم ہو گا۔ اسے اس بات کا احساس بھی نہیں کہ اس نے انسانوں کے اس جوڑے کو بے دردی سے قتل کرنے کا حکم دیا ہے، جن کی شادی ہو چکی ہے اور انہوں نے سنتِ رسولؐ پر عمل کیا ہے۔ کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔ وہ دونوں میاں بیوی ہیں ، لیکن اس وقت موت کے منظر ہیں ،  دونوں کی آنکھیں کھلی ہیں ، گویا سکتے کا سا عالم ہے،  دیو ہیکل انجن اور ابدان کے ٹکڑے اور بہت سارا خون ان کے سامنے ہے۔ ان کے مرنے کے بعد ورثاء کسی گھڑے میں ڈال دیں گے اور بس، چوں کہ روز ایسی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور بہت جلد تاریکی میں گم ہو جاتی ہیں ، لیکن ان کا انجام جو وہ چاہتے تھے اس سے ذرا مختلف ہو گیا ہے کہ ریل گاڑی نہیں آئی بلکہ کسی شخص کی اطلاع پر نجی ٹی وی چینل سے رپورٹر اپنی ٹیم کے ساتھ آ جاتے ہیں ،  منظر کی عکاسی ہو جاتی ہے اور وہ ستم گر ان دونوں معصوم بے زبان،  قیدیوں کو کھول کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ کہانی بھی کہیں گم ہو گئی۔ کچھ پتا نہیں چلا کہ کیا ہوا ہو گا، لیکن جو کچھ بھی ہوا، وہ ہر شخص کی سمجھ میں بہت آسانی کے ساتھ آسکتا ہے۔

            ایک طرف عورت کو غیرت و تحفظ دینے کی بات کی جاتی ہے، اس امر کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں ، منظور بھی ہو جاتے ہیں ،  این جی اوز فلاحی ادارے بھی کچھ نہ کچھ کوشش کر رہے ہیں کہ عورت کو اس کی جائز آزادی مل جائے۔

            فضاؔ اعظمی کی بھی یہ ہی کاوش ہے کہ اپنے تخلیقی جوہر کو ہتھیار بنا کر عورت کو تحفظ اور اس کا کھویا ہوا مقام دلانے کے لیے جدوجہد کرتے رہیں ہیں۔ وہ دنیا کے تمام مذاہب کے پیرو کاروں ،  مولویوں ،  سادھوؤں ،  پادریوں اور پنڈتوں کو ایک ایسا آئینہ دکھا رہے ہیں جس میں ان کا چہرہ صاف نظر آتا ہے۔

کھڑے ہیں ملزمان خوں بداماں عہدِ رفتہ کے

کھڑے ہیں عالمان سؤ روایت کی عبا ڈالے

کھڑے ہیں کچھ ادھر رنگین قبائیں زیب تن کر کے

صلیبیں گردنوں میں اور عبادت کی ردا ڈالے

ادھر وہ ہیں برہنہ جسم،  دھونی کا دھواں لے کر

تلک چندن کا پیشانی پہ،  کشکولِ فغاں لے کر

            فضاؔ اعظمی کی تخلیقات پڑھنے کے بعد ہمیں اس بات کا احساس اچھی طرح ہو جاتا ہے کہ وہ ایک عالم کی طرح سامنے آئے ہیں ، جن کے ہاتھ میں امن اور سلامتی کا پرچم ہے۔ یہ پرچم دراصل اسلام کا پرچم ہے، وہ اس کے ذریعے دعوتِ فکر دے رہے ہیں کہ اہلِ ایمان و اہلِ بصیرت آئیں اور اس جھنڈے تلے آ کر جمع ہو جائیں اور انسانوں کو گمراہی کی دَلدَل سے باہر نکالیں کہ بہ حیثیت انسان سب کا خون سرخ ہے،  ہر انسان کے احساس و جذبے یکساں ہیں۔ پھر اس پہاڑ تلے دبے انسان کو باہر نکالنے کے لیے کوشش کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟

               دورِ فاروقیؓ اور دوشیزہ کی بھینٹ

            ’’خاک میں صورتیں ‘‘کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے عورت کی قربانی اور اس کی بھینٹ کے حوالے سے دورِ عمر فاروقیؓ کا ایک اہم واقعہ یاد آ گیا ہے جو عورت پر ہونے والی سفاک داستان کے حوالے سے ہے۔ گویا عورت نہ ہوئی ایک مٹی کا کھلونا، ایک بے جان شے، بلکہ اس سے بھی بد تر کہ کھلونے ٹوٹنے کے بعد کوڑے کرکٹ میں پھینک دیئے جاتے ہیں ، لیکن عورت کو بار بار توڑ پھوڑ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے، طلوعِ اسلام سے قبل اور بعد میں خواتین سے کس طرح کا سلوک کیا جاتا تھا اور آج بھی کچھ جگہوں پر ایسے ہی حالات ہیں جن کی عکاسی فضاؔ اعظمی نے چابک دستی کے ساتھ کی ہے۔

            واقعہ یوں ہے کہ حضرت عمرؓ بن العاصؓ قاہرہ کی آبادی سے باہر ایک خیمے کے سامنے تشریف فرما تھے۔ بہت سے مجاہدین و مہاجرین اور شہرِ قاہرہ کے دس پندرہ علمائے دین خاص عرض و معروض کرنے کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ امیرِ وفد نے عرض کی کہ جنابِ عالی! ہم ایک امرِ خاص کی اجازت لینے کے لیے آئے ہوئے ہیں اور کرم فرمائی کے امیدوار ہیں۔

            عمرؓ بن العاص نے کہا۔ ’’کیا امرِ خاص ہے، درخواست پر غور کیا جائے گا، اگر وہ معقول ہو گی تو منظور کر کے اجازت دے دی جائے گی۔ ‘‘

            امیرِ وفد نے کہا۔ ’’ شکریہ جنابِ والا۔ اس ملک کی زراعت اور خوش حالی کا تعلق دریائے نیل کے ساتھ خاص ہے۔ مگر نیل ہر سال موسمِ خزاں میں اُتر جاتا ہے اور جب تک ایک حسین و جمیل دو شیزہ کی نذر نہ لے لے، نہ اس کا پانی چڑھتا ہے اور نہ طغیانی ہی آتی ہے۔ جس سے زراعت نہیں پلتی، بلکہ قحط سالی کی مصیبت نازل ہوکر اہلِ مصر کو تباہ کر دیتی ہے۔ ‘‘

            عمر وؓ نے فرمایا۔ ’’ عجیب رسم ہے،  تم کیا کرتے ہو ؟‘‘

            امیرِ وفد نے جواب دیا۔ ’’ اس دوشیزہ کو قیمتی لباس، نادر زیورات اور بیش بہا جواہرات سے آراستہ و پیر استہ کرتے ہیں۔ گویا اسے’’ عروسِ نو‘‘ بنایا جاتا ہے۔ پھر ہم لوگ خوب خوشیاں اور جشن مناتے ہیں۔ ایک جلوس تیار کرتے ہیں اور یہ آبادی کا گشت کرنے کے بعد دریائے نیل کے کنارے پر پہنچتا ہے۔ دوشیزہ ہمارے درمیان ہوتی ہے۔ پس اب اسے دریائے نیل کی نذر کیا جاتا ہے، یعنی دریا میں ڈالا اور بہا دیا جاتا ہے۔ ‘‘

            عمرؓو نے کہا۔ ’’ اگر تم کسی سال بھینٹ نہ دو تو کیا ہو گا؟‘‘

            امیرِ وفد نے کہا۔ ’’ اس سال نیل میں طغیانی بالکل نہیں آتی بلکہ خشک ہو جاتا ہے اور جل جاتا ہے اور تمام ملک قحط سالی کی مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اب وہ وقت بالکل قریب آ گیا ہے، اسی لیے ہم اجازت لینے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ ‘‘

            حضرت عمرؓو بن العاص نے کچھ دیر غور و فکر کیا اور مشیروں سے مشورہ کرنے کے بعد امیرِ وفد سے فرمایا۔

            ’’میں اس معاملے میں خود کوئی کارروائی کرنے سے معذور ہوں۔ البتہ میں یہ تمام کیفیت امیر المومنینؓ کی خدمت میں لکھ بھیجتا ہوں۔ میرا قاصد جائے گا اور حکم لائے گا۔ جو حکم ہو گا میں اس پر عمل در آمد کروں گا اور آپ لوگوں کو مطلع کر دوں گا۔ ‘‘

            مصری وفد نے بھی اس تجویز کو پسند کیا، اس کے بعد عمرؓو بن العاص نے مفصل خط لکھ کر اونٹنی سوار کو مدینے کی جانب دوڑا یا تاکہ وہ جلد جواب لائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ حضرت عمرؓو بن العاص کے پاس حضرت عمرؓ فاروق کا خط آ گیا ہے۔ مگر دوسرا خط دریائے نیل کے لیے لکھا گیا۔ جو خط امیرِ لشکر کے نام ہے، اس میں حضرت عمر فاروقؓ نے لکھا ہے کہ دریائے نیل کو دوشیزہ کی بھینٹ دینا زمانۂ جاہلیت کی ایک قاتلانہ رسم تھی۔ مگر وہ تاریک دور گزر چکا ہے،  اب اسلام کی روشنی نے دنیا کو روشنی بخش دی ہے، لہٰذا اہلِ مصر کو اس فعل سے باز رکھا جائے اور میرا دوسرا خط دریائے نیل میں ڈال دو اور خوش انجام اور مبارک نتیجے کے منتظر رہو۔

            حضرت عمرؓ نے دریائے نیل کے نام کچھ اس طرح خط لکھا ہے۔

            ’’بسم اللہ، منجانب بندہ الہٰی عمرؓ بن خطاب امیر المومنین بنام دریائے نیل مصری۔

            اے دریائے نیل ،  اگر تو جاری ہے اپنی طرف سے،  تو ہمیں تیری ضرورت نہیں اور ہم تیرے محتاج نہیں اور اگر تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہے اور جاری رہتا ہے تو پھر تجھے رکنے کا اختیار نہیں تو نافرمان مت بن اور جو تجھے ہمیشہ جاری رکھتا ہے وہی اب بھی جاری رکھے گا تو کون ہوتا ہے جاری نہ ہونے والا۔ اے دریائے نیل،  تجھے تو کچھ بھی اختیار نہیں ہے۔ ‘‘

            قربانی کی تاریخ،  ان خطوط اور قاصد کے آنے سے پہلے گزر چکی تھی اور ظاہر ہے کہ دریا میں دوشیزہ نہیں ڈالی گئی تھی۔ دریائے نیل کا پانی رو ز بہ روز کم ہو تا جا رہا تھا۔ اہلِ مصر خشک سالی اور فاقہ کشی کے خوف سے کانپ رہے تھے۔

            حضرت عمرؓو بن العاص اور بہت سے مجاہدین دریائے نیل کے کنارے موجود ہیں اور مصریوں کا جمِ غفیر بھی وہاں پہنچ چکا ہے۔ جناب عمروؓ نے خلیفہ کا خط دریائے نیل میں ڈال دیا۔ خشک دریا کا پانی دیکھتے ہی دیکھتے بڑھنے لگا۔ حتیٰ کہ کناروں سے باہر آ گیا اور پھر اس میں طغیانی کی کیفیت پیدا ہو گئی اور اہلِ مصر یہ منظر دیکھ کر انگشت بہ دنداں رہ گئے۔ اس دفعہ کھیت اور باغات پہلے سے زیادہ سر سبز و شاداب ہوئے۔ اسلام کا یہ معجزہ دیکھ کر سینکڑوں مصری اسلام میں داخل ہو گئے۔

            فضاؔ اعظمی نے جہالت کی اسی قسم کی رسموں کو شاعری کی زبان عطا کی ہے اور حقِ شاعری کو دیانت داری کے ساتھ ادا کیا ہے۔

            ذرا دیکھیے یہ اشعار، غور کیجیے کہ عورت دنیا کے ہر مذہب اور ہر تہذیب میں موردِ الزام ٹھہرائی جاتی ہے، بدی اور شیطانیت کے تمام امور کی وہ ہی ذمے دار ہے۔ سوائے مذہبِ اسلام کے کہ جس نے اسے تقدس و تحفظ عطا فرمایا۔

یہ فیصلہ ہے اٹل، معاملہ یقین کا ہے

گناہ و جرم کا ذمہ کسی لعین کا ہے

تمام لوگ ہیں معصومیت کا تاج لیے

فساد زن کا ہے، زر کا ہے اور زمین کا ہے

اگر یہ تین نہ ہوتے تو کیا بھلا ہوتا

بدی کا نام زمانے سے اُٹھ گیا ہوتا

ہے شیطنیت کے لیے باب کھولنے والی

برائے روحِ بدی راہ کھولنے والی

کہ اس نے توڑ دیا قفلِ شجر ممنوعہ

ہے انحراف کا دروازہ کھولنے والی

مرید خاص ہے، شیطان کی ہراول ہے

کتابِ رغبتِ عصیاں کا بابِ اول ہے

قرونِ اوّل و وسطیٰ کی یہ روایت تھی

یہ اپنے دور کی اک مستقل حقیقت تھی

یہود و اہلِ نصاریٰ تھے متفق اس پر

بدی کا منبع اوّل جہاں میں عورت تھی

یہی وجہ ہے کہ اس پر خدا کی لعنت ہے

زمانے بھر کے لیے وہ بنائے وحشت ہے

وہ بدنصیب وراثت کے حق سے عاری تھی

بہن ہو،  بیٹی ہو،  ماں ہو،  فقط بھکاری تھی

وہ ظلم و جور تھا رومن سماج کے اندر

کہ جائیداد کی صورت وہ خود بھی بٹتی تھی

کہ اس پہ حق تھا وراثت کے پانے والے کا

کہ اس کی ذات بھی ترکہ تھی مرنے والے کا

٭٭٭

 

 

مذاہبِ عالم میں تصوّرِ زن

            ندرتِ بیان، اچھوتا انداز اور نئے نئے خیالات کی آمیزش اور اسلامی تاریخ کے شعور نے فضاؔ اعظمی کی شاعری میں ایک حسن اور نکھار پیدا کر دیا ہے۔ اکبر خان کیانی اپنے مضمون ’’عرضِ ناشر‘‘ میں لکھتے ہیں۔

            ’’دو غزلیہ مجموعوں ،  ’’جو دل پہ گزری‘‘ اور تیری شباہت کے دائرے میں ‘‘ کی اشاعت کے بعد چار نظمیہ مجموعوں ، مثنوی کرسی نامۂ پاکستان،  مرثیۂ مرگِ ضمیر،  عذابِ ہمسائیگی اور آوازِ شکستگی کے منظرِ عام پر آنے سے موضوعاتی شاعری کے حوالے سے جناب فضاؔ اعظمی کو جو استنادو اعتبار حاصل ہوا ہے۔ اس میں عہدِ حاضر میں تا حال ان کا کوئی حریف نہیں ہے۔ ‘‘

            یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ طویل مقصدی نظموں کے حوالے سے فضاؔ اعظمی کا کوئی حریف نہیں دوسری موضوعاتی نظموں کے علاوہ خاک میں صورتیں اس کا بہترین ثبوت ہے۔ شاعر نے مرد کی اس ازلی ذہنیت کا مظاہرہ اس طرح کیا ہے کہ ازل سے آج تک کے حالات قاری کی سمجھ میں آسانی سے آ جاتے ہیں۔

ازل سے مردمانِ کم نظر کی جستجو ہے یہ

کہ عورت دشمنِ ایمان ہے،  حق کی عدو ہے یہ

علامت ہے وہ کذب و افترا کی،  عقل سے عاری

کہ بد اخلاق ہے،  کم ظرف ہے،  بے آبرو ہے یہ

انہوں نے ’’قصہ‘‘ تخلیق کی تاویل ایسی کی

کہ جس کی رو سے عورت مرد کی گمراہ کن ٹھہری

            مرد عورت پر الزامات لگا کر کسی بھی قیمت میں بری الذمہ نہیں ہوسکتا،  اس لیے کہ حقیقت کچھ اور کہہ رہی ہے۔ وہ یہ کہ مرد ہی عورت کی بربادی کا ذمے دار ہے۔ آج اگر عورت برائیوں میں مبتلا ہے،  رقص و سرود کی محفلیں سجاتی ہے،  گاتی ہے، ناچتی ہے،  تو ان تمام باتوں کی ذمے دار فقط مرد کی ذات ہے۔ چوں کہ ان کاموں کی تکمیل وہ تنہا ہر گز نہیں کر سکتی۔

            یہ مرد حضرات ہی ہیں کہ جنہوں نے ان بازاروں کو تحفظ دیا جہاں صبح و مسا،  بدی کے کاموں کو پروان چڑھایا جاتا ہے، یہ مرد کبھی پولیس کے روپ میں ، تو کبھی محافظ اور کبھی گاہک کے روپ میں نظر آتا ہے۔ عورت کی خریدو فروخت میں یہی آدمی پیش پیش ہے۔ عورت ان کاموں کی شریک ضرور ہوسکتی ہے۔ وہ بھی مرد کے مجبور کرنے پر، لیکن داغ بیل مرد نے ہی ڈالی ہے۔ آج پوری دنیا میں ہزاروں کلب اور ہوٹل کھلے ہیں ،  ان کے مالکان مرد ہی ہیں اور یہ مرد عورت کو ایک کھلونے کی مانند سمجھتے ہیں۔ جب چاہا کھیل لیا اور دل چاہا تو توڑ دیا اور دوسرا خرید لیا۔

            دنیا کے تمام مذاہب میں عورت کا استحصال ہوا ہے۔ ’’ہندو پنڈتوں کے مطابق کہ اگر مندروں میں زیادہ سے زیادہ بد فعلی، ا ور غیر اخلاقی حرکات کی جائیں تو دھرتی کی دیوی خوش ہو گی اور جس سے پیدا وار میں اضافہ ہو گا۔ ‘‘

            قدیم مذاہب کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ تھا کہ آسمان،  سورج اور زمین کی وجہ سے فصلیں اُگتی ہیں ،  آسمان سے بارش اور زمین سے فصلیں اُگتی ہیں اور سورج فصل پکاتا تھا۔ چناں چہ آسمان کے دیوتا،  سورج دیوتا اور دھرتی کی دیوی، دھرتی ماتا کی پرستش کی جاتی تاکہ پیدا وار زیادہ سے زیادہ ہو،  اس عقیدے کی وجہ سے لوگ جنسی عمل اور کھیتی باڑی کو ایک جیسا فعل سمجھتے تھے۔ لہٰذا اس عقیدے نے جنم لیا کہ دھرتی ماتا کے مندروں میں زیادہ سے زیادہ برے کام کیے جائیں تو دھرتی دیوی خوش ہو گی اور پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ چناں چہ یہی وہ وقت تھا جب خواتین کا استحصال شروع ہوا اور اس مقصد کے لیے خوب صورت لڑکیاں مذہب کے نام پر لائی جانے لگیں ،  چوں کہ یہ شیطانی فعل ہے،  شیطان نے بھی حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالنے سے پہلے یہ مشورہ دیا تھا کہ تمام مردو عورت اس فعل کی طرف راغب ہو جائیں چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ سب نے مل کر بُرے کام کیے اور شیطان کا کام ہی یہ ہے کہ وہ قیامت تک انسانوں کو ورغلاتا رہے۔

            بابلیوں کی رسم بھی بڑی ہی شرم ناک ہے،  ہر جوان عورت کو اپنی عمر میں ایک بار ضرور زہرہ عشتار (۲۰) کے مندر میں جا کر کسی نہ کسی یا تری سے مقاربت کرنی پڑتی تھی۔ ہندوستان میں آج بھی مذہبی عصمت فروشی موجود ہے اور اس برائی سے دنیا کا کوئی ملک شاید ہی بچا ہو۔

            عربی سیاح ابو ریحان البیرونی ’’کتاب الہند‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’ہندو راجے کسبیوں کو اپنے شہروں کے لیے باعثِ زینت سمجھتے تھے اور انہیں رعایا کے لیے عیش و عشرت کا سامان خیال کرتے۔ اس قسم کی صورتِ حال سے اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ مرد ہی ہے جس نے عورت کو مجبورو محصور کیا تاکہ وہ برے کام کر سکے۔ لیکن بڑی سفاکی کے ساتھ اپنے الزامات عورت کے سر تھوپ دیئے۔ شاعرِ مستورات نے مرد کی ذہنی اختراع اور تنگ نظری کو شعری آہنگ اس طرح عطا کیا ہے۔

یہ بے جا راستہ بہتان کا،  تہمت طرازی کا

یہ سبقت کی ہوس،  یہ سلسلہ قامت درازی کا

یہی ہے خشتِ اوّل آدمیت کی تباہی کی

جہاں کی ابتری تاوان ہے اس جعل سازی کا

ہزاروں سال گزرے اور یہ منفی سوچ جاری ہے

نفاقِ مرد و زن کا فتنہ گر ادبار طاری ہے

            فضاؔ اعظمی نے حکمرانوں کی رعشہ دوانیوں اور اقتدار و طاقت کے نشہ کی اس طرح وضاحت کی ہے کہ ماضی صورت و حال کی سامنے آ گئی ہے۔

جو انساں جنس کی بنیاد پر تفریق کرتا ہے

وہ ایک بے حس سماجی عہد کی تشکیل کرتا ہے

شرابِ حاکمیت کے نشے سے سرگراں ہو کر

وہ اک بے درد،  ظالم قوم کی تعمیر کرتا ہے

ہزاروں سال گزرے ہیں یہ جدوجہد جاری ہے

نتیجے میں جہاں پر جور کا ادبار طاری ہے

            شاعر نے گزشتہ و موجودہ ادوار کی عکاسی بے حد خو ب صورتی اور دردِ دل کے ساتھ کی ہے۔ اسی لیے ہر شعر پُر اثر ہے،  بات دل کو لگتی ہے کہ واقعات و حالات میں سچ کا خمیر شامل ہے۔

            جناب فضاؔ اعظمی سے جب اس کتاب کے سلسلے میں تبادلۂ خیال ہوا تو وہ دھیمے اور شگفتہ لہجے میں فرما رہے تھے کہ عورت کے حوالے سے جو پہلا پتھر رکھا گیا وہ ہی غلط تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج عمارت ہموار نہیں ہے۔ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود جب یہ دور ترقی یافتہ اور ماڈرن دور کہلاتا ہے، اس زمانے میں بھی عورت آج بھی اپنے آپ کو کم زور ترین مخلوق سمجھنے پر مجبور ہے۔ اگر اس کے برعکس سوچے اور عمل کرے تب یہ معاشرہ اور اس معاشرے کا مرد اس کی ہمت اور علمیت کو بغاوت کا نام دے دیتا ہے۔ اس کی اس آزادی کو جو اسے مذہبِ اسلام نے دی ہے، اسے سر کشی اور نا فرمانی کے زمرے میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ کاش تعلیم عام ہوتی،  اسلام کی روشنی میں عورت کے حقوق کا پر چار کیا جاتا،  تو شاید حالات مختلف ہوتے اور والدین خصوصاً باپ اور بھائی اپنی مرضی مسلط نہ کرتے۔ اس پر حکم نہ چلاتے اس کے جذبات کا بھی خیال رکھا جاتا۔ ‘‘

            کسی مفکر نے کہا تھا کہ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو،  میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا،  یقیناً جب عورت تعلیم یافتہ ہو گی تو وہ اپنی اولاد کی بہتر طریقے سے تربیت کر سکتی ہے۔ شاعر نے’’ عورت‘‘ اور ’’ماں ‘‘ کے لیے اس قسم کے اشعار تخلیق کیے ہیں کہ جس سے عورت کی قدر و منزلت اور اہمیت کا اندازہ اچھی طرح ہو جاتا ہے۔ لیکن اس معاشرے نے اس کے جائز حقوق و اختیارات کو قید کر دیا ہے۔

کہ جس آغوش میں انسان کی تقدیر پلتی ہے

کہ جن ہاتھوں سے ملک اور قوم کی تصویر بنتی ہے

کہ جس مکتب میں رجحانات کی تشکیل ہوتی ہے

کہ جس ماحول میں اخلاق کی تعمیر ہوتی ہے

اسے معتوب اور معزول کر دینے کی سازش ہے

اسے معدوم اور مفقود کر دینے کی سازش ہے

            آج جو بھی تصویروں اور کرداروں کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں ، ان سب کو نابغۂ روز گار بنانے میں ایک عورت کا ہاتھ ہے اور وہ عورت ہے ماں ،  بچہ اور پہلا سبق ماں کی ہی گود میں سیکھتا ہے۔ اس کی ہی تعلیم و تربیت رنگ لاتی ہے۔

            سلطانہ ڈاکو اور شیخ سعدیؒ کی ماؤں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک ڈاکو بنتا ہے اور دوسرا بچہ اعلیٰ وارفع مرتبہ حاصل کرتا ہے تو اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ضروری ہے۔

            کسی زمانے میں تعلیمِ بالغاں کا بڑا شور و غوغا تھا۔ کاش کہ یہی شور پھر اُٹھے۔ آج تعلیم اور تعلیمِ بالغاں کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ جہالت کی بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہر روز ہو گا۔ قوموں کی تباہی و بربادی کی وجوہات کیا ہیں ، اس پر فضاؔ اعظمی نے اپنی علمیت، بصیرت و بصارت کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے۔

وہ قومیں جو جنم لیتی ہیں قبضے کی سیاست میں

جکڑ دیتی ہیں انسانوں کو محکومی کی لعنت میں

اور ان کی نصف آبادی ترستی ہے، تڑپتی ہے

وہ قیدِ با مشقت کاٹتی ہے گھر کی عزلت میں

وہ اک ایسے سماجی ذہن کی تشکیل کرتی ہیں

جو ہر ہر گام پر قصرِ تباہی سے گزرتی ہیں

انسانیت کا زوال اور سائنسی ترقی

            ذرا دیکھیں تو اس بند میں فضاؔ اعظمی حضرتِ انسان کی خامیوں اور کردار کی کمزوریوں کی کس انداز میں بات کر رہے ہیں۔

سوالوں کی فراوانی جوابوں کی تنک یابی

غمِ اندیشۂ فردا، جنونِ کیمیا سازی

مدّور وادیوں میں دوڑتے رہنا تسلسل سے

خیال و خواب کے ویران صحراؤں کی بے آبی

تہِ بحرِ تحیّر سے خذف کو ڈھونڈ کر لانا

نہ پا کر اس میں موتی، بین کرنا اور پچھتانا

            انسان نے سائنس و طب کے حوالے سے حیرت انگیز طور پر ترقی کر لی ہے، جن باتوں کے بارے میں سن کر عقل حیران ہوتی تھی، آج وہ ایجادات سامنے آ گئی ہیں ،  گھنٹوں اور دنوں میں ہونے والے کام اب پلک جھپکتے ہو جاتے ہیں۔ پہلے ریڈیو ہاتھ میں ہوتا تھا اور اب Lap Topلیپ ٹوپ ساتھ ہے، یعنی چلتا پھرتا سنیما ہال،  ٹی وی چینل اور کمپیوٹر جہاں دل چاہے بیٹھے بیٹھے دنیا بھر سے رابطہ قائم کر لیں۔ گانے سن لیں ، تصاویر دیکھ لیں ، روبوٹ وجود میں آ گئے ہیں ، یعنی انسان کی نقل، لیکن اصل کبھی نہیں بنا سکتے۔

            چوں کہ وہ تو میرے رب کا ہی کام ہے، وہ کہتا ہے ’’کن فیکون‘‘ یعنی ہو جا، وہ ہو جاتا ہے۔ اسے سال ہا سال کسی بھی کام کے لیے تحقیق و تجربات سے نہیں گزرنا پڑتا۔

            زمانے کی اس ترقی کے باوجود انسان آج بھی پستی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ کوئی ملک ایسا نہیں ہے۔ ’’سوائے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سر زمینِ پاک کے‘‘ جہاں دہشت گردی نہیں ہوتی ہے۔ برے کام نہیں کیے جاتے ہیں چوں کہ وہاں اسلامی سزائیں مقرر ہیں۔

            شاعر کو دنیا کی ترقی اور انسانوں کے کردار کی پستی نے پریشان کر دیا ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ

گئے ہم چاند کے اوپر،  نتیجہ اس کا کیا نکلا؟

قدم پہلا جو رکھا تھا،  نتیجہ اس کا کیا نکلا؟

رموزِ جوہری پائے،  نتیجہ اس کا کیا نکلا؟

بنائے ایٹمی حربے،  نتیجہ اس کا کیا نکلا؟

صدا و صوت کو باندھا،  نتیجہ اس کا کیا نکلا؟

کیا پابند صورت کو،  نتیجہ اس کا کیا نکلا؟

            یہ زمانہ سائنسی ترقی کے عروج کا ہے، ایجادات کے اعتبار سے انسان غاروں سے نکل کر آسمانوں تک پہنچ گیا،  چاند پر قدم رکھ دیا اور چاند پر ایک دنیا بسانے کے بارے میں  غور کرنے لگا ہے اور آدمؑ کا بیٹا، نئے آدم کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ آسمانوں پر کمند ڈالنے لگا،  ستاروں اور سیاروں کو تسخیر کرنے کا عمل جان لیا، لیکن اخلاقیات،  تہذیب و شرافت کو بھلا بیٹھا،  اور ایک دوسرے کا جانی دشمن بن گیا۔ خصوصاً عورت کی محبت،  نرم خوئی،  برداشت و تحمل کا قدر دان نہ بن سکا اور یہی المیہ ہے انسانوں کا، پوری دنیا کے انسان ایک دوسرے کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں۔ کسی کو کسی پر اعتبار نہیں ہے۔ فضاؔ اعظمی ان اشعار میں موجودہ دور کی ترقی کا ذکر بے حد کرب کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے انسان کو سائنسی کام یابی ضرور نصیب ہوئی ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو عدم تحفظ کا شکار محسوس کرتا ہے۔ چوں کہ اسے تحفظ سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اخلاقی تقاضوں کا جنازہ سرِ عام نکالا جا رہا ہے اور نفسا نفسی کے عالم میں ہر شخص پریشان ہے۔ مادّی ترقی اپنی جگہ اور بھوک و افلاس کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے، بقائے نسلِ انسانی کے نشانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ فضاؔ اعظمی کی شاعری انسانی دکھوں سے آراستہ ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

شکم کی آگ کیا انسان کی پہلے سے بہتر ہے؟

دفاعِ قحط کا سامان کیا پہلے سے بہتر ہے؟

سسکتی ادھ مری لاشیں سلگتی شاہراہوں پر

بقائے نسل کا امکان کیا پہلے سے بہتر ہے؟

غریبوں مفلسوں کے غول میں کیا کچھ کمی آئی؟

اور ان کی جاں کنی کے قہر میں کیا کچھ کمی آئی؟

            شاعر نے اپنے سوالات کے جوابات کو بڑی مہارت کے ساتھ شعری رنگ میں بدل دیا ہے۔

قتال و جنگ کی بربادیاں پہلے سے بدتر ہیں

ہلاکت اور دہشت گردیاں پہلے سے بدتر ہیں

مؤرّخ کے قلم سے خون کی بوندیں ٹپکتی ہیں

شقیق القلبیاں انسان کی پہلے سے بدتر ہیں

عیاں ہے راز خلیوں کا،  نئے آدم کی تیاری

نئی تخلیق کی قدریں ،  نیا طرزِ اداکاری

ستاروں کی فلک پیمائی آدم کے اشارے پر

خبرگیری خلاؤں کی،  شعاعوں کی سحرکاری

براہ تار برقی سلسلہ خط و کتابت کا

نئی تعلیم کی راہیں ،  نیا ذریعہ تلاوت کا

٭٭٭

 

 

 اکبرؔ الہ آبادی کا تصوّرِ زن

            عورت کے حوالے سے اکبر الٰہ آبادی کا تصورِ زن اور فضاؔ اعظمی کے خیالات و افکار ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں۔ اکبرؔ ا لہ آبادی بھی عورت کے لیے اس حدود کی بات کر رہے ہیں جو اللہ نے مقرر کی ہیں۔

تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر

خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں

            اکبرؔ الہ آبادی عورتوں کی تعلیم کو تسلیم کر رہے ہیں ، لیکن انہیں عورت کی آزاد خیالی اور مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنا پسند نہیں ، لیکن فضاؔ اعظمی کا طرزِ فکر اور تصورِ زن کچھ مختلف ہے۔ اکبرؔ کہتے ہیں :

کون کہتا ہے کہ تعلیمِ زناں خوب نہیں

ایک ہی بات فقط کہنا ہے یاں حکمت کو

دو اسے شوہر و اطفال کی خاطر تعلیم

قوم کے واسطے تعلیم نہ دو عورت کو

            اکبرؔ الہ آبادی دور کی کوڑی لائے ہیں اور وہ عورت کی بے جا آزادی کے نتائج کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے درج بالا قبیل کے اشعار تخلیق کیے تاکہ معاشرے میں توازن قائم رہے۔ چوں کہ قوم پر مغربی تہذیب بہت زیادہ اثر انداز ہو رہی تھی۔ اور اکبرؔ ان حالات میں بہت پریشان ہیں۔

            دراصل بات یہ ہے کہ اکبرؔ کے طنز و مزاح کو سمجھنے کے لیے ۱۸۵۷ء کے بعد کے دور کو سمجھنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ اکبرؔ کی شاعری کے عروج کا زمانہ ہندوستان میں مغربی معاشرت کے عروج کا زمانہ ہے۔ ہندوستان بیرونی مداخلت کے تسلط کے شکنجے میں بری طرح جکڑا ہوا تھا اور اہلِ مغرب کا جادو ساری قوم پر چل گیا تھا۔

            بقول مولانا عبدالماجد دریا آبادی ’’برطانیہ کی عظمت کا نقشہ ہر دل پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ وہ فضا تھی جس میں اکبرؔ نے آنکھ کھولی، اکبرؔ کا پیغام مغربی تعلیم اور سرسید تحریک کے خلاف ردِ عمل کے طور پر اُبھر کرسامنے آیا۔ اکبرؔ کے اگر ذہن کا تجزیہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کہ وہ اپنے زمانے کا تاریخی شعور نہیں رکھتے تھے۔ وہ اپنے اکثر مشاہدے یا ریاضی کی تاریخ سے یا اپنے وجدان سے کام چلایا کرتے تھے،  جنگِ آزادی کے بعد ہندوستان ایک نیم جاگیر دارانہ اور نیم صنعتی دور میں داخل ہو چکا تھا۔ ہندوستان کے متوسط طبقے میں فرقہ پرستی کا زہر پھیل چکا تھا، لیکن اکبرؔ ماضی کو دل و دماغ میں سجائے ہوئے تھے اور نئے سرمایہ دارانہ اور صنعتی نظام کو شک کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ انگریزی حکومت کی معقول چیزوں سے بھی بد ظن ہو گئے تھے۔ اس کی وجہ سے تضاد کی فضا پروان چڑھی تھی۔ وہ روایتی شاعری کا مذاق کچھ اس طرح اُڑاتے ہیں :

مغرب نے خورد بیں سے کمر ان کی دیکھ لی

مشرق کی شاعری کا مزہ کرکرا ہوا

دعویٰ بہت بڑا ہے،  ریاضی میں آپ کو

طولِ شبِ فراق ذرا ناپ دیجیے

            اکبرؔ الہ آبادی اور فضاؔ اعظمی کی سوچ و فکر کے اعتبار سے بہ ظاہر تو ایک زاویۂ نگاہ ہے لیکن بہت سے مواقع پر تخلیقات کے حوالے سے بات مختلف نظر آتی ہے اور خیالات میں تضاد نمایاں ہے۔ اکبرؔ الہ آبادی کہتے ہیں۔

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبرؔ زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

            ان اشعار میں جہاں پردے کے حوالے سے عورت کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے،  وہاں مردوں کو آزاد خیالی کا احساس دلایا ہے لیکن وہ وجوہات بیان نہیں کی گئیں کہ جن کی وجہ سے خواتین نے بے پردگی کو اختیار کیا اور مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے میں ہی بہتری جانی۔

            بے جحابی کے اسباب کو اگر زیرِ بحث لائیں تو شاید ایک وجہ تو یہ تھی کہ ماحول کے اثرات مرتب ہوئے اور ماحول انگریز حکومت اور مسلم راہ نماؤں کی مرہونِ منت تھا۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ملک کی ترقی و استحکام کے لیے عورت کو بھی اپنے فرائض انجام دینے ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے تنظیمیں بنائی گئیں جن کی بانی مسلم خواتین تھیں جنہوں نے ملک و ملت کے لیے بہترین خدمات انجام دیں۔ ان میں خاص نام بیگم رعنا لیاقت علی خان کا ہے۔

            آج ہم جس فلاحی ادارے خصوصاً خواتین کے حوالے سے ’’اپوا‘‘ کا نام سنتے ہیں ، اس کی بنیاد بھی بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ہی رکھی تھی۔

            تحریکِ پاکستان کے حوالے سے خواتین نے بڑھ چڑھ کر کام کیا۔ خواتین نے تہذیب کے دائرے میں رہ کر سیاسی کاموں کو انجام دیا۔

            فضاؔ اعظمی نے گزشتہ ادوار کا ہی قصہ بیان نہیں کیا ہے بلکہ موجودہ دور کے حالات بھی قارئین کے گوش گزار کیے ہیں۔ مغربی تہذیب میں ، تہذیب و ثقافت کے حوالے سے معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ، ان سے وہ اچھی طرح واقف ہیں۔ لہٰذا فضاؔ اعظمی نے عورتوں کی جائز آزادی کو ہر پہلو اور ہر زاویے سے دیکھا اور سمجھا ہے۔

            جب کہ اکبرؔ الہ آبادی نے چند اشعار میں آزادیِ نسواں اور مغربی طرزِ معاشرت کا ذکر کیا ہے۔ لیکن شاعرِ مستورات نے اپنی شاعری کو ’’سرابِ مغرب‘‘ کا عنوان دے کر ۲۰صفحات اور ۴۰بند لکھے ہیں۔ قلم کی روانی ہے کہ رکتی نہیں ،  نئے خیالات،  نئی فکر، نئے نئے الفاظ ہم جولیوں کے جھرمٹ میں ’’ مثلِ ثریا ‘‘و’’ مشتری‘‘ کے ادب و تابع داری کے ساتھ چلے آتے ہیں اور مودب قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں کہ کب شاعر اپنے دل و دماغ کے دریچوں سے انہیں صدا لگائے اور وہ آگے بڑھیں اور فکر و نظر میں سما جائیں۔

            فضاؔ اعظمی کی شاعری تخیلات کی بلندی اور اسلامی فکر سے پُر ہے۔ وہ ترقیِ زمانے کا ذکر اس طرح سے کرتے ہیں  کہ

یہ عہدِ عقل و دانش ہے، ترقی کا زمانہ ہے

خیال و فکر کی آزاد باشی کا ترانہ ہے

روایت آج اک حرفِ غلط ہے دورِ ماضی کا

یہاں ادراک و استدلال کا اب آستانہ ہے

عقائد آج استفسار کی چکی میں پستے ہیں

فرائض آج استدلال کی بھٹی میں تپتے ہیں

٭

ہزاروں سال کی تاریخ کے ایوان لرزاں ہیں

حروف و لفظ پارینہ نگاہوں سے گریزاں ہیں

کچھ ایسا خیرہ کن خورشید چمکا ہے گلستاں پر

کہ پتے پھول سب مرجھا گئے باغِ ویراں ہیں

نئی گلکاریاں ہیں اور انساں محوِ حیرت ہے

نہ اس کو پائے ماندن ہے نہ اس کو جائے رفتن ہے

٭

غزالانِ حسیں کا غول ہے تیروں کی بارش ہے

نئی دنیا کا آدم آج پھر مصروفِ سازش ہے

٭

            فضاؔ اعظمی اس بات کی بھی وضاحت کر دیتے ہیں کہ زمانہ ہر لحاظ سے ترقی کی منزلوں پر گامزن ہے، لیکن عورت کے معاملے میں اس کی سوچ و فکر میں ہرگز تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔

اب اس دورِ ترقی میں زبوں ہے حال عورت کا

نہ وہ رسمِ کہن بدلی ،  نہ وہ طرزِ سخن بدلا

نئی تہذیب لائی ہے نئے انداز سطوت کے

وہی دکھ ہیں وہی ہے دورِ استحصال جو کل تھا

حقوقِ بنتِ حواؑ کا نیا عنوان نکلا ہے

حکومت کی ہوس ہے اور آزادی کا دھوکا ہے

            حکومت اور آزادیِ نسواں اکبرؔ الہ آباد ی کا بھی موضوعِ خاص ہے۔ جس طرح علامہ اقبالؔ اور فضاؔ اعظمی کی تعلیم و تربیت میں والد صاحب کی خصوصی توجہ کو دخل تھا، بالکل اسی  طرح اکبرؔ الہ آبادی کے والد محترم سید تفضل حسین رضوی جو کہ ریاضی کے ماہر تھے، انھوں نے اپنے برخوردار کو ریاضی کے کلیئے اور اصول سکھا دیئے تھے فارسی اور عربی بھی گھر میں ہی پڑھائی تھی اور یہ گھر کا ہی ماحول اور والدین کی توجہ تھی جس کی وجہ سے اکبرؔ کے دل و دماغ میں اسلامی تعلیمات اور ملی اقدار و اثرات رچ بس گئے تھے، علامہ اقبالؔ کی طرح اکبرؔ الہ آبادی بھی فنی اور فکری اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے۔

            فضاؔ اعظمی کو بھی گلہ ہے کہ ہمارے حکمران پاکستان کے استحکام کے لیے کسی بھی قسم کا مثبت کام کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں روشن خیالی کی آڑ میں تہذیب اور شرافت کا جنازہ                نکل چکا ہے۔ جس کا اظہار فضاؔ اعظمی نے اپنی طویل نظم ’’کرسی نامۂ پاکستان‘‘ اور دوسری نظموں میں کیا ہے۔

            اکبرؔ بھی اسلامی تشخص اور دینی تعلیمات سے دوری کے نتیجے میں اس طرح کے اشعار کہنے پر مجبور ہوئے۔

قابلیت تو بہت بڑھ گئی ماشاء اللہ

مگر افسوس یہی ہے کہ مسلماں نہ رہے

کٹے ملت سے جو دیکھے گی دنیا ان کو عبرت سے

گرے پتے ہیں یہ بس سبز اپنی رطوبت سے

            اکبرؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنی اعلیٰ فکر کا اظہار کیا اور مغربی تہذیب و تمدن کا جو سیلاب بہتا چلا آرہا تھا، اس کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قوم کو اس طرح احساس دلایا ہے کہ

طفل سے بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی

دودھ تو ڈبے کا ہے،  تعلیم ہے سرکار کی

            عورتوں کا مغربی تعلیم اور طرزِ فکر کو اپنانے کے شوق نے اکبرؔ کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا۔

حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی

اب ہے شمعِ انجمن پہلے چراغِ خانہ تھی

            فضاؔ اعظمی عورتوں کی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں بلکہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ جب عورت اسلامی تشخص اور دینی افکار کے ساتھ جدید تعلیم حاصل کرے گی تب وہ بھٹک نہیں سکے گی۔ بلکہ معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لانے کی ضامن ہو گی کہ عورت کی گود میں نسلیں پروان چڑھتی ہیں اور اس کی ہی آغوش بچے کا پہلا مدرسہ ہے۔

            جب کہ اکبرؔ الٰہ آبادی نے اس نکتے طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے کہ جب مغربی تہذیب کو اپنانے سے شرم و حیا، تہذیب و تمدن کا جنازہ نکالا جا رہا تھا اور بھلے برے کی تمیز مٹتی جا رہی تھی تو ان حالات میں وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے:

پردہ اٹھا ہے ترقی کے یہ سامان تو ہیں

حوریں کالج میں پہنچ جائیں گی غلمان تو ہیں

پریوں کا شوق ہے نہ مجھے فکرِ حور ہے

کالج سے ہے نجات تو ذکرِ حضور ہے

            ہر ذی شعور اس حقیقت سے واقف ہے کہ گھر کا ماحول،  تعلیم و تر بیت ہی ایک عام انسان کو خاص انسان بنا دیتی ہے۔ اس بات کا اظہار اکبرؔ الٰہ آبادی نے اپنے اشعار میں شاعرِ مشرق علامہ اقبالؔ کے حوالے سے کیا ہے اور انھوں نے ان کے والدین کی خوبیوں کا بھی اس انداز میں اعتراف کیا ہے۔

حضرتِ اقبالؔ میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں

قوم کی نظریں جو ان کے طرز کی شیدا ہوئیں

یہ حق آگاہی، یہ خوش گوئی، یہ ذوقِ معرفت

یہ طریقِ راستی خود داری بے تمکنت

اس کے شاہد ہیں کہ ان کے والدین ابرار تھے

با خدا تھے ،  اہلِ دل تھے ،  صاحبِ اسرار تھے

            فضاؔ اعظمی نے جو طویل نظمیں اور خاص طور پر عورت کے حوالے سے جو نظم لکھی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ہے، کوئی شاعر قدیم و جدید شعراء میں نظر نہیں آتا جس نے اس قدر طویل،  مقصدی و تاریخی نظم لکھی ہو، لیکن فضاؔ اعظمی کی اس صلاحیت کا فراخ دلی وسیع النظری کے ساتھ اعتراف کرنا ہو گا کہ انہوں نے عورت کی مکمل مظلومیت اور اس کی محکومیت پر اور اس کے ہر دکھ درد کو اپنی شاعری میں سمیٹ لیا ہے۔

            اکبرؔ الٰہ آبادی کے فکری وجدان اور ان کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لیے اس وقت کے حالات واقعات کو مدِ نظر رکھنا ہو گا۔ ان کی مقبولیت کے حوالے سے اگر ہم یہ بات کہیں تو بے جا نہ ہو گی کہ اکبر الٰہ آبادی کی شہرت کا انحصار ان کی طنزیہ اور ظریفانہ شاعری پر ہے ،  اکبرؔ الٰہ آبادی گورنمنٹ کے ملازم تھے اور یہی وہ مجبوری تھی کہ وہ انگریزوں کے طور طریقوں اور تہذیب کی کھلم کھلا مخالفت نہ کر سکے۔ اسی وجہ سے انہوں نے طنزو مزاح کا میدان منتخب کیا۔ اور مغربی تہذیب پر بھر پور تنقید کی ہے۔ یہاں اکبرؔ الٰہ آبادی کی شاعری کے بارے میں لکھنے کا یہی مقصد ہے کہ ہمارے دور کے شاعر فضاؔ اعظمی کی سوچ اندازِ فکر،  مذہب سے محبت اور مغرب کی کھوکھلی اقدار و تہذیب (تہذیبوں کا تصادم) اور اپنے ملک کی زبوں حالی کا احساس بالکل اسی طرح ہے جس طرح علامہ اقبالؔ اور اکبرؔ الٰہ آبادی کو تھا۔

            فضاؔ اعظمی نے ’’سرابِ مغرب‘‘ میں مغربی معاشرے کی اخلاقی کم زوری اور فریب کاری کا نوحہ بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں۔

سنایا ہے اسے مغرب نے آزادی کا افسانہ

پڑھا یا ہے اسے روشن خیالی کا سبق نامہ

وہ خستہ حال ہے دامن دریدہ ہے شکستہ ہے

مگر بننا ہے پھر بھی اس کو آزادی کا پیمانہ

ترقی اور روایت میں وہ دونوں ہی کا مہرا ہے

وہ قربان گاہِ سبقت میں فقط گردن کشیدا ہے

            اکبرؔ کے سیاسی و قومی شعور کی یہ اساس ہے کہ وہ تہذیبی و معاشرتی سطح پر مشرق کو مغرب پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ اگر ماضی کو پسند کرتے ہیں تو مسلمانوں کے عروج و ترقی کی زمانی علامت کے طور پر، انہیں اس بات کا پکا یقین ہے کہ مسلمانوں کی یہ ترقی و کام یابی دینی اصولوں کی روشنی میں ہوئی اور حال سے انہیں اس لیے شکایت ہے کہ حال دین کو نظر انداز کر رہا ہے۔ فضاؔ اعظمی کو بھی گلہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں عورت اپنے حقوق سے محروم کر دی گئی ہے۔ یہ سچ ہے کہ عورت آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہے، بس زمانے کا انداز بدلا ہے، لوگوں کا حلیہ تبدیل ہوا ہے، لیکن عورت کے معاملے میں سوچ اسی قدر پست ہے جتنی کل تھی۔ اس دورِ جدید میں بھی عورت کو پیر کی جوتی ہی سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے مرد نے اسے اس کی جائز آزادی نہیں دی جس کے ذریعہ وہ اچھی اور کام یاب زندگی گزار سکتی۔ فطری تقاضوں کی تکمیل کرتی، لیکن حالات اس کے حق میں نہیں ہیں۔ کمین گاہ میں شکاری کھڑے ہیں اور اس کی عزت و آبرو کو نیلام سرِ باز ار کر رہے ہیں۔ کہیں اس کا سودا ہوا ہے تو کہیں اس کی آواز و انداز کی بولی لگی ہے۔ اس کی عزت کا مول بھاؤ کیا گیا ہے۔

            جناب فضاؔ اعظمی نے کلب، ہوٹل اور رقص و سرود کی محفلوں کا حال چشمِ دید گواہ کی طرح بیان کیا ہے کہ ماڈرن دور کی تصویریں لفظوں کے پیکر میں ڈھل گئی ہیں۔ جگمگاتی روشنیوں سے اس دور کی آزاد خیال عورت کی نگاہیں خیرہ ہو گئی ہیں ، اس کے جسم کو قیمتی پوشاک نے اس انداز میں ڈھانپا ہے کہ وہ نیم عریاں نظر آتی ہے،  وہ رقص و سرور کی محفلوں کی جان ہے، وہ اشتہارات پر چسپاں کر دی گئی ہے بہ ظاہر وہ ہشاش بشاش ہے۔ اس کے انداز میں اِتراہٹ ہے۔ اس کی چال شاہانہ اور لباس فاخرانہ ہے، لیکن دل رو رہا ہے،  روح زخمی ہے،  ایک کسک ہے، تشنگی ہے، وہ من کی پیاس بجھانا چاہتی ہے، لیکن ایسا ممکن نہیں ہے کہ اسے کوئی اپنانے کے لیے تیار نہیں ، کوئی اسے چار دیواری کی زینت بنانا نہیں چاہتا ہے اور اگر اتفاق سے قسمت کی دیوی مہربان ہو جائے تب اس کی آزادی اور مرد کی حاکمیت میں ایسی جنگ چھڑ جاتی ہے کہ حاکم غالب آ جاتا ہے اور آزادی کی تمام راہوں کو مسدود کر دیا جاتا ہے۔ مغرب زدہ عورت کو مرد کی بے جا مداخلت پسند نہیں اور مرد کو اس کی جائز آزادی بھی برداشت نہیں۔ اس لیے بات علاحدگی تک پہنچ گئی ہے، لیکن حالات و ہی ہیں اور پھر وہی آزادی، رنگین محفلیں ،  خوش گپیاں ،  اجالوں کا رقص اور نگاہ کو خیرہ کرنے والی روشنیاں ، لیکن مستقبل کا کچھ پتا نہیں۔ یہ بند اسی قسم کے واقعات کا عکاس ہے۔

ہجوم مہ و شاں ہے،  چشم و ابرو کا نشانہ ہے

نگاہ مست و سرکش پر ہوس کا تازیانہ ہے

سجی ہے محفلِ شب،  دھول دھپا ہے،  شرارت ہے

نگاہوں کے لیے زلف و کمر کا شاخسانہ ہے

کہیں پر کم لباسی نے ستم ڈھائے ہیں محفل پر

کہیں پر بے لباسی قہر کی صورت گری دل پر

            عورت کے لیے غلامی اور آزادی ایک ہی لفظ کا نام ہے۔ ایک ہی معنی ہیں۔ چوں کہ وہ آزاد ہو کر بھی قید ہے اور اس دفعہ اسے ان لوگوں نے قید کیا ہے جو روشن خیال اور مغربی فکر کے حامل ہیں۔ انہوں نے اپنے احکامات جاری کیے ہیں اور اس سے اس کی قیمتی متاع چھین لی ہے اور یہ قیمتی دولت اس کی ’’حیا‘‘ ہے، اس کے عوض انھوں نے بہت سی دولت کمائی ہے اور کچھ سکّے اس کی بھی جھولی میں ڈال دیئے ہیں اور اب وہ ان کی مرضی کے تابع ہے۔ بظاہر شاد ہے، لیکن دل زخم خوردہ ہے۔ شاعر کا احساس درد کی صورت میں اشعار میں ڈھل گیا ہے۔

غلامی سے نکل کر قید آزادی میں عورت ہے

نئی تہذیب کے ہاتھوں میں تیغِ بے ملامت ہے

گرفتار ہوس ہے اور آزادی کا چرچا ہے

اکھڑتی سانس ہے اور مرکز آفات عورت ہے

خریداروں کا جھرمٹ ہے،  سبھی تیار بیٹھے ہیں

شکاری تیغ لے کر گھات میں ہشیار بیٹھے ہیں

            فضاؔ اعظمی نے عورت کی مکمل تصاویر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا ہے۔ ہر طبقے کی عورت،  دکھ و درد میں ڈوبی ہوئی عورت،  روتی ہوئی عورت،  سسکتی، تڑپتی عورت، سرِراہ بکتی ہوئی عورت، شاعر نے مصور کی طرح لفظوں کے آرٹ سے عورت کی مجبوریوں کے مختلف پوز بنائے ہیں۔ اس آرٹ کے نمونے کو ہر صاحبِ دل بہ خوبی دیکھ سکتا ہے۔ اس طویل مقصدی نظم میں عورت کا ہی دکھ اور مجبوریاں بیان کی گئی ہیں۔ اس کی محکومیت کے نئے اور پرانے انداز بڑی ہی جرأت و سچائی کے ساتھ دکھائے گئے ہیں۔ کہیں عورت فکرِ معاش میں صبح سے شام تک اپنا وقت گھر سے باہر گزارنے پر مجبور ہے، کہیں شوہر کے حکم پر، تو کہیں بوڑھے والدین کے لیے وہ اپنے نازک کاندھوں پر ذمے داریوں کے بوجھ کو خوشی خوشی اُٹھاتی ہے، لیکن اس کا من خوش نہیں ہے۔ اسے دوسروں کی چاکری کرنی پڑتی ہے۔ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے پیٹ کا ایندھن حاصل کرنا پڑتا ہے۔ شاعرِ مستورات نے عورت کی اسی مجبوری اور روزگار کے مسائل کو شاعری کی زبان دی ہے۔

نئی انسانیت پلتی ہے ایسے بطنِ مادر میں

کہ جس کی آنکھ کھلتی ہے پریشانی کے ساگر میں

کہ جو صبح و مسا روزی کمانے میں پریشاں ہے

کہ جس کی شام ہوتی ہے مفاداتی سمندر میں

جو اکثر جاگتی ہے خواب آور گولیاں کھا کر

تہِ موجِ تباہی ہے وہ بحرِ بیکراں پا کر

٭٭٭

 

 

 اقبالؔ کا تصوّرِ زن

            علامہ اقبالؔ کی نظم نگاری کی ابتداء انجمنِ اسلام کے جلسوں سے ہوئی۔ یہاں اقبالؔ نے سالانہ جلسوں میں نالۂ یتیم،  ابرِ گہر یار،  فریادِ اُمت اور دوسری نظمیں پڑھیں ،  اقبالؔ کی ابتدائی دور کی شاعری میں وطنیت اور قومیت کا احساس بڑی شدت سے نظر آتا ہے اور ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اقبالؔ بھی حالیؔ اور شبلیؔ کی طرح وطنیت کے پرستا ر نظر آتے ہیں۔

            اقبالؔ کی شاعری کا دوسرا دور یورپ میں قیام کا ہے،  علامہ اقبالؔ کی مصروفیت کا یہ زمانہ تھا، اقبال نے اس دور میں نہ کہ اپنے ’’مقالہ‘‘ کی تکمیل کی بلکہ پوری اقوام کے مزاج کا قریب سے مشاہدہ بھی کیا۔ اقبالؔ کا موضوع اسلامی فلسفہ تھا،  علامہ اقبالؔ نے اسلامی فلسفے کے دوران اسلامی تہذیب کا بھی مطالعہ کیا۔ مسلمانوں کے ماضی کی شان و شوکت نے انہیں مسحور کیا۔ دنیا میں پھیلی ہوئی بدامنی اور انتشار کو دور کرنے کے لیے علامہ اقبالؔ نے مذہبِ اسلام میں راہِ نجات تلاش کی۔

            عقل کے مقابلے میں اقبالؔ عشق کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک عشق کی بدولت اعلیٰ مقصد پایا جا سکتا ہے اور ’’عشق‘‘ بے خطر آتشِ نمرود میں کو د پڑتا ہے اور عقل مصلحت اندیش ہے۔

            اقبالؔ کہتے ہیں کہ اگر فراست یا خبر ’’وِجدان‘‘ ’’عشق‘‘ یا ’’نظر‘‘ سے بے گانہ رہے گی تو اس کو حقیقت آخر الامر کا عرفان کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ صرف وِجدان یا عشق یا قلب کی بصیرت کے ذریعہ ہی ہم حقیقت کی مکمل معرفت حاصل کر سکتے ہیں۔

            قلب ایک قسم کا باطنی وِجدان (INNER INTUTION)یا بصیرت ہے جو مولانا رومی کے الفاظ میں آفتاب کی کرنوں سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے اور ہمیں حقیقت کے ایسے پہلوؤں سے دو چار کر دیتا ہے جو اس کے ذریعے سامنے نہیں آتے ہیں ،  وِجدان حقیقت سے تعلق پیدا کرنے کا ایسا طریقہ ہے جس میں حواسِ ظاہری کوئی کردار ادا نہیں کرتے، لیکن اس کے ذریعہ جو ہمیں تجربہ حاصل ہوتا ہے وہ اتنا ہی حقیقی اور ٹھوس ہوتا ہے جتنا کوئی دوسرا تجربہ۔

            اقبالؔ نے علم اور عشق کے متعلق اپنے خیالات کا اس طرح اظہار کیا ہے۔

علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن

عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن

            اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جس طرح علامہ اقبالؔ پر مولانا روم کا گہرا اثر ہے، اسی طرح عقیل احمد فضاؔ اعظمی پر اقبالؔ کا اثر لا شعوری طور پر غالب آ گیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ دونوں کا نقطۂ نگاہ اور مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے خوابیدہ قوم کو جگانا۔ علامہ اقبالؔ نے جس دور میں شاعری کی، تو یہ وہ زمانہ تھا، جہاں مسلمان تنزلی کے غار میں اُتر رہے تھے اور انہیں جہالت کے اندھیروں سے باہر نکالنا تھا۔ اقبالؔاس نکتہ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں۔

غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حسنِ زیبائی سے محرومی

 جسے زیبا کہیں آزاد بند ے ہے وہ ہی زیبا

بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر

کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا

وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے

 زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا کو

            یا پھر یہ شعر   ؎

شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے

 سبق شاہیں بچوں کو ،  دے رہے ہیں خاک بازی کا

            اتفاق ایسا ہے کہ فضاؔ اعظمی کو بھی آشوب زمانہ نے شاعری اور اصلاحِ معاشرہ کی طرف رغبت دلائی،  افرا تفری خود غرضی،  حرص و ہوس نے لوگوں کو انسانی قدروں سے دور کر دیا ہے۔ ان کے نزدیک صرف اور صرف اپنا مفاد تھا اور ہے۔ فضاؔ اعظمی نے ان کی اقربا پروری،  عیاری اور اپنے فرائض سے چشم پوشی کی تصاویر کو شاعری کے پیراہن میں ملبوس کیا ہے اور معاشرے کو ان کا اصل چہرہ دکھانے کی کام یاب کوشش کی ہے۔

            اقبالؔ کی شاعری کا مطالعہ قاری کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اقبالؔ وطن کی محبت سے سرشار ہیں۔ اقبالؔ و حالیؔ کی شاعری کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو فضاؔ اعظمی بھی شاعری کی مقصدیت و معنویت پر غور کرتے ہیں تو بخوبی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ فضاؔ اعظمی کا بھی مطمحِ نظر جدا نہیں ہے۔ (ان کے اشعار مجموعوں میں ایسی ہی علامات و کیفیات کیفیت موجود ہیں ) انہیں بھی اپنے وطن سے محبت ہے۔ اُمتِ مسلمہ کی تباہی و بربادی کا شدت سے احساس ہے۔ انہوں نے بھی اقبالؔ کی طرح اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو ایک عظیم نصب العین دینے کے لیے وقف کر دیا ہے۔ فضاؔ اعظمی اس معاشرے کو اسلامی تعلیم سے منور دیکھنا چاہتے ہیں ،  ملّی احساس جگانے کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کے حوالے سے دنیا کے تمام انسانوں خصوصاً مسلمانوں کو ماضی کے رخشندہ ادوار کو بہ ذریعۂ شاعری دکھانے کی کوشش کی ہے اور زمانۂ حال میں جو بھی مسلمانوں کے اخلاق و کردار پر بجلی گری ہے، ان حالات کو شاعری کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔ ان کی شاعری میں تینوں زمانے نظر آتے ہیں۔ ماضی،  حال اور مستقبل،  وہ آنے والے وقت سے پُر امید ہیں۔

            حضرت علامہ اقبالؔ کی عظمت کے متعلق ناقدین و ماہرین کی متفقہ رائے یہ ہے کہ ان کا شمار دنیا کے ان عظیم شعراء میں ہوتا ہے جن کی امتیازی شان پر کوئی حرف گیری نہیں ہوسکتی،  اللہ تعالیٰ نے انہیں جس صلاحیت اور ذہانت و فطانت سے مالا مال کیا تھا، وہ عمیق نظری کے ساتھ ہمہ گیری لیے ہوئے تھی، وہ فلسفۂ تاریخ اور ادبیات کے معتبر عالم اور باکمال استاد تھے،  عربی،  فارسی اور اُردو کے علاوہ مشرق و مغرب کی دوسری زبانوں سے بھی پوری واقفیت رکھتے تھے۔

            علامہ اقبالؔ کے کلام میں ایسی روح کا ر فرما ہے جن سے قومیں بیدار ہوتی ہیں۔ انہوں نے خوابیدہ قوم کو جگانے کی کام یاب سعیِ مسلسل کی ہے۔ ان کی تخلیقات و تصانیف میں گہرائی،  فکر انگیزی اور شاعرانہ عظمت پنہاں ہے۔

            جرمن شاعر گوئٹے اور انگریزی شاعر کولرج کی شاعری کا محور یہ ہے کہ سوئی ہوئی قوم جاگ جائے اور خودی کے اسرار اور رموز سے واقفیت حاصل کرے۔ اسی لیے وہ شاہین کی مثال پیش کرتے ہیں۔ علامہ اقبالؔ نے ’’عورت‘‘ کی خلوت و جلوت،  آزادیِ نسواں اور عورت کی حفاظت کے حوالے سے کچھ اشعار کہے ہیں۔ علامہ اقبالؔ کو اچھی طرح احساس تھا کہ عورت کا کیا مقام ہے،  جرمن شاعر گوئٹے اور انگریزی شاعر کولرج، دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ شاعری میں ’’عظمت‘‘ خیال کی گہرائی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس معیار پر جانچا جائے تو غالبؔ کے بعد اُردو شاعری کے اُفق پر اقبالؔ نظر آئیں گے اور ضربِ کلیم میں ہی جہاں مختلف موضوعات خصوصاً تعلیم و تربیت، علم و عشق، انہوں نے ’’عورت‘‘ پر شاعرانہ نظر کی ہے اور اس کے دکھ تکلیف کا احساس ان کے اشعار میں نظر آتا ہے۔

             پروفیسر آلِ احمد سرورؔ کہتے ہیں ’’اقبالؔ اس نئی مشرقیت کی آواز ہیں جسے سر سید کی تحریک نے سوزِ آرزو دیا اور جسے مغرب کی ظلمات سے گزر کر اپنا چشمۂ حیواں ملا اور بلا شبہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر غالبؔ نے اُردو شاعری کو ’’ذہن‘‘ عطا کیا تو اقبالؔ نے ’’وحدتِ فکر‘‘ اور ’’ذوقِ یقیں ‘‘ بخشا ہے۔ ‘‘

            اقبالؔ کی شاعرانہ عظمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری میں بیسویں صدی کے اہم نشانات نظر آتے ہیں۔ کبھی وہ پیامِ مشرق میں گوئٹے کی مشرقیت کو سراہتے ہیں ،  کبھی آنسٹائن کے نظریۂ اضافیت میں نئی دنیا کا دھندلا سا خاکہ ڈھونڈتے ہیں ،  کہیں شوپن ہار کے نظریۂ ’’اصلیتِ شر‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہیں اور کہیں ’’مارکس‘‘ سے یہ کہہ کر عقیدت کو ظاہر کرتے ہیں۔

’’نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب ‘‘

            کبھی وہ خضرِ راہ میں سرمایہ دار اور مزدور کی آمیزش کا ذکر کرتے ہیں۔

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

            اور کبھی ضربِ کلیم میں مغربی علوم و فنون کی طرف ہماری توجہ اس طرح دلاتے ہیں۔

ع           علومِ تازہ کی سرمستیاں گناہ نہیں

            فضاؔ اعظمی نے بیسویں صدی کے حوالے ہی سے شاعری نہیں کی ہے بلکہ جب سے دنیا وجود میں آئی اور اسلامی تعلیم و فکر کو فراموش کر دیا گیا اور ایک بار پھر انسانی اقدار زوال پذیر ہوئیں ، مرد کی بالا دستی نے عورت کو جو دکھ دیئے ہیں ، اسے پستی میں دھکیلا اور آزادی کی آڑ میں محبوس رکھا گیا، یہ ظلم و ستم فضاؔ اعظمی کی شاعری میں عریاں ہو گئے ہیں اور جس طرح قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’عورتیں ، مردوں اور مرد، عورتوں کے لباس ہیں۔ ‘‘

            ’’ضرب کلیم‘‘ میں جہاں مختلف موضوعات تعلیم و تربیت علم و عشق، مشرق و مغرب، یورپ اور یہود، جہاد، حیات ابدی، اجتہاد جیسے اہم عنوانات پر روشنی ڈالی گئی ہے، وہیں اقبالؔ نے عورت کی زبوں حالی پر بھی شاعرانہ نظر کی ہے۔ اقبالؔ کا تصورِ زن کچھ اس طرح ہے کہ۔

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور

کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد

نے پردہ ،  نہ تعلیم ،  نئی ہو کہ پرانی

نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا

اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

            آزادیِ نسواں کے نقصانات سے اکبرؔ الہ آبادی کی طرح ڈاکٹر علامہ اقبالؔ بھی پریشان ہیں اور انہوں نے عورتوں سے آزادی کے حوالے سے ایک سوال کیا ہے کہ قیمتی کیا چیز ہے۔ اس کا فیصلہ عورت کوہی کرنا ہے۔

اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا

گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند

کیا فائدہ،  کہہ کے بنوں میں اور بھی معتوب

پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش

مجبور ہیں معذور ہیں ،  مردانِ خردمند

کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ

آزادیِ نسواں کہ زمرد کا گلو بند

            ’’ایک سوال‘‘ کے عنوان سے علّامہ اقبالؔ اہلِ یورپ کے دانش وروں سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ مغربی معاشرے میں مرد و عورت کو جداگانہ خانوں میں کیوں بانٹ دیا گیا ہے چوں کہ مرد کے مقابلے میں عورت اس قدر زیرِ بار کیوں ہے؟ اپنے ان خیالات کو انہوں نے اس طرح شاعری کی زبان دی ہے۔

کوئی پوچھے حکیمِ یورپ  سے

ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش!

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال؟

مرد بے کار و زن تہی آغوش

            علامہ اقبالؔ،  اکبرؔ الٰہ آبادی اور فضاؔ اعظمی،  ان تینوں شعر ائے کرام نے مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کا اظہار بڑی خوب صورتی اور درد مندی کے ساتھ کیا ہے۔ اقبال کا تصورِ زن اس کے دکھ درد ہیں وہ ایک طرف اس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

            یقیناً علامہ اقبالؔ نے تصویر کا سامنے کا رخ دکھایا ہے اور یہ رخ اپنی جگہ سچائی کے رنگ سمیٹے ہوئے ہے کہ عورت کے بغیر کائنات کے رنگ پھیکے ہیں یعنی اس کی اہمیت و مرتبہ اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اقبالؔ کو عورت کی مظلومیت نے غم ناک کر دیا ہے اور مغربی تہذیب کے اثرات جو عورت پر رونما ہوئے تھے، اس کا ذکر انھوں نے گہرے دکھ کے ساتھ کیا ہے کہ   ؎

جوہرِ مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر

غیر کے ہاتھوں میں ہے جوہرِ عورت کی نمود

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتۂ شوق

آتشیں لذتِ تخلیق سے ہے اس کا وجود

میں بھی مظلومیِ نسواں سے ہوں غمناک بہت

نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود

            فضاؔ اعظمی بھی مغرب کی کھوکھلی تہذیب سے اچھی طرح واقف ہیں کہ روشن خیالی کی آڑ میں وہ عورت کو ان کاموں کی طرف راغب کرتے ہیں کہ جن کے کرنے سے خواتین کا وقار مجروح ہوتا ہے لہٰذا شاعر نے عورت کو نہیں مرد کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے چوں کہ مرد ہی عورت کو رنگین جال میں مقید کرتا ہے اور پھر جس طرح چاہتا ہے اسے اسی طرح اپنے مفاد کے خاطر استعمال کرتا ہے انہوں نے ان لوگوں کو بددعا بھی دی ہے کہ وہ اسی کے مستحق ہیں۔

عذاب ان مغربی تہذیب کے روشن خیالوں پر

جو استحصالِ زن کی ناروا سازش کا حصہ ہیں

جو عورت کو بہ شکل مال مرئی پیش کرتے ہیں

عذاب ان شر پسندوں پر،  عذاب ان بد قماشوں پر

جو اس کو اشرف المخلوق سے کم تر سمجھتے ہیں

جو اس کی ذات کو نا معتبر ،  ناچیز اور اسفل سمجھتے ہیں

            سر سید احمد خان نے مسدسِ حالیؔ کو اپنی نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ فضاؔ اعظمی کے شعری خزانے میں بھی بہت سے لوگوں کی خاص طور پر ان کے بزرگوں کی دعائیں اور حوصلہ افزائی شامل ہے۔ انھوں نے بھی نیکی اور تبلیغ کا کام اس طرح کیا ہے کہ شعر و سخن کی فنی خوبیوں کو ضرب نہیں لگی۔ ہوسکتا ہے فضاؔ اعظمی کی شعری کاوش سے کتنے لوگوں کی منزل آسان ہو جائے چوں کہ اللہ کی رحمت تو بخشش کا سامان پیدا کرتی ہے اور بخشنے کا بہانہ تلاش کرتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ خود فضاؔ اعظمی کی یہ کاوش بھی ان کے حق میں ہر لحاظ سے بہتری کا سامان لائے۔

٭٭٭

 

 

الطاف حسین حالیؔ کا تصوّرِ زن

خواجہ الطاف حسین حالیؔ اور ’’مسدس مدوجزرِاسلام‘‘ لازم و ملزوم ہیں اور یہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جس کی بدولت حالیؔ شاعری کے ساتھ زندہ جاوید ہو گئے۔ مسدسِ حالی کو اُردو شاعری میں پہلی اور بڑی قومی نظم کہا جاتا ہے۔ اس عظیم اور لازوال نظم کے لیے صنف کے اعتبار سے حالیؔ نے مسدس کا انتخاب کیا اور اس میں ایک فنی پہلو یہ نکلتا ہے کہ اس قسم کی نظم میں اشعار کی تعداد کی قید نہیں ہوتی، چھ مصرعوں کے بند میں ایک خیال کو بہت خوب صورتی کے ساتھ نظم کیا جا سکتا ہے۔ تاریخی واقعات کے لیے مسدس سے بہتر شاید کوئی دوسرا پیمانہ نظر نہیں آتا۔ چنانچہ مرثیہ نگار شعراء نے بھی اس سے استفادہ کیا ہے۔

مسدسِ مد و جزرِ اسلام ایک تاریخی اور قومی نظم ہے، اس کی تحریک مسلمانوں کے زوال اور پستی کو دیکھ کر ہوئی تھی۔ مسدس کے دیباچۂ اوّل میں (مسدسِ حالیؔ صدی ایڈیشن، جامعہ پریس دہلی میں ) حالیؔ نے قوم کی تباہی و بربادی کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے۔ ’’قوم تباہ ہے، عزیز ذلیل ہو گئے ہیں۔ علم کا خاتمہ ہو چکا ہے، دین کا صرف نام باقی ہے، افلاس کی گھر گھر پکار ہے۔ اخلاق بالکل بگڑتے جاتے ہیں ، تعصب کی گھنگھور گھٹا تمام قوم پر چھائی ہوئی ہے۔ رسم و رواج کی بیڑی ایک ایک کے پاؤں میں پڑی ہے، جہالت اور تقلید سب کی گردن پر سوار ہے۔

اس کے بعد حالیؔ نظم کی ترتیب، اس کے موضوع اور اس اسلوب کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں۔ ’’ اس مسدس کے آغاز میں پانچ سات بند تمہید کے لکھ کر اوّل عرب کی اس ابتر حالت کا خاکہ کھینچا ہے جو ظہورِ اسلام سے پہلے تھی اور جس کا نام اسلام کی زبان میں جاہلیت رکھا گیا، پھر کوکبِ اسلام کا طلوع ہونا اور نبی امّی کی تعلیم سے اس ریگستان کا دفعتاً سرسبز و شاداب ہو جانا وغیرہ، بیان کیا ہے۔ اس کے بعد تنزل کا حال بیان کیا ہے اور قوم کے لیے بے ہنر ہاتھوں سے ایک آئینہ خانہ بنایا ہے جس میں وہ اپنے خط و خال دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کون تھے اور کیا ہو گئے ہیں۔ ‘‘ حالیؔ اگلی سطور میں لکھتے ہیں کہ بیان کا حق نہ مجھ سے ادا ہوا اور نہ ہوسکتا تھا مگر شکر ہے کہ جس قدر ہو گیا۔ اتنی بھی امید نہ تھی، ہمارے ملک میں اہلِ ذوق ظاہراً اس سیدھی سادھی نظم کو پسند نہیں کریں گے۔ اس میں حدیثوں کا ترجمہ اور قوم کی حالتِ زار کا احوال ہے۔ کہیں نازک خیالی، رنگین بیانی ہے اور نہ مبالغے کی چاٹ۔ اس نظم کی ترتیب مزے لینے اور واہ واہ سننے کے لیے نہیں کی گئی بلکہ عزیزوں اور دوستوں کو شرم اور غیرت دلانے کے لیے لکھی گئی ہے۔

حالیؔ کو یقین نہیں تھا کہ یہ نصیحت آمیز طویل نظم اس قدر مقبول ہو جائے گی، لیکن اشاعت کے بعد اس کی بہت شہرت ہوئی اور حالیؔ کے لیے یہ بات غیر متوقع تھی۔

حالیؔ کی طویل نظم مسدسِ حالی بلاشبہ اُردو کی تاریخ میں بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ اس حوالے سے حالیؔ کو اُردو میں قومی شاعری کا نقیب قرار دینا غلط نہ ہو گا چوں کہ یہ سلسلہ دورِ جدید تک یا یہ کہنا چاہیے کہ فضاؔ اعظمی تک جا پہنچا ہے۔

حالیؔ کے مسدس میں ایک شدید احساس ناکامی اور یاسیت کا نظر آتا ہے، شاید یہی وجہ  ہے کہ حالیؔ نے مسدس کے دوسرے ایڈیشن میں ایک ضمیمہ شامل کیا ہے جس میں امید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔

بس اے ناامیدی نہ یوں دل بچھا تو

جھلک اے امید اپنی آخر دکھا تو

ذرا ناامیدوں کی ڈھارس بندھا تو

افسردہ دلوں کے دل آخر بڑھا تو

بڑے دم سے مُردوں میں جانیں پڑی ہیں

جلی کھیتیاں تو نے سرسبز کی ہیں

سفینہ پئے نوحِ طوفاں میں تو تھی

سکوں بخش یعقوبِ کنعاں میں تو تھی

زلیخاؑ کی غمخوار ہجراں میں تو تھی

دلِ آرام یوسفؑ کی زنداں میں تو تھی

مصائب نے جب آن کر ان کو گھیرا

سہارا وہاں سب کو تھا اک تیرا

حالیؔ کا مسدس سر سیّد کی تحریک کا مرہونِ منّت ہے، چوں کہ سر سیّد کی ترغیب سے ہی حالیؔ نے مسدس لکھی۔ حالیؔ نے جن حالات، احساسات و جذبات، قوم کی تباہی اور اس کے اخلاق کی پستی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی طویل نظم مسدسِ حالیؔ لکھی، یقیناً اس بے مثال نظم کا کوئی ثانی نہیں۔ مسلمانوں کی زبوں حالی کا یہ مرثیہ ہے، ان کی اخلاقی، معاشرتی کم زوریوں اور خامیوں کا مرقع یہ طویل نظم ہے۔

حالیؔ کا مسدس ایک مکمل ضابطۂ حیات کا درجہ رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ بند  ؎

سکھائی انھیں نوعِ انساں پہ شفقت

کہا ہے یہ اسلامیوں کی علامت

کہ ہمسائے سے رکھتے ہیں وہ محبت

شب و روز پہنچاتے ہیں اس کو راحت

وہ جو حق سے اپنے لیے چاہتے ہیں

وہی ہر بشر کے لیے چاہتے ہیں

خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر

نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر

کسی کے گر آفت گزر جائے سر پر

پڑے غم کا سایہ نہ اس بے اثر پر

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

خدا مہرباں ہو گا عرشِ بریں پر

غریبوں کو محنت کی رغبت دلائی

کہ بازو سے اپنے کرو تم کمائی

خبر تاکہ لو اس سے اپنی پرائی

نہ کرنی پڑے تم کو در در گدائی

طلب سے ہے دنیا کی گریاں یہ نیت

تو چمکو گے واں ماہِ کامل کی صورت

یقیناً مسدس مدو جزر اسلام حالیؔ کا بڑا کارنامہ اور کارِ خیر کا درجہ رکھتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے یہ طویل اور مقصدی نظم لکھ کر بہ حیثیت انسان اور بہ حیثیت مسلمان اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ انھوں نے تبلیغِ دین کا کام شعر و سخن کے سانچے میں اس قدر مہارت اور نفاست کے ساتھ ڈھالا ہے کہ بات دل میں اُترتی ہے، اگر موجودہ دور میں طویل مقصدی نظم کے حوالے سے غور کریں تو زیادہ سوچنے کی ضرورت ہر گز پیش نہیں آئے گی بلکہ برق رفتاری کے ساتھ ایک اہم نام ذہن کے گوشوں سے اُبھر کر ہمارے لبوں پر آ کر ٹھہر جائے گا اور وہ نام ہے جناب فضاؔ اعظمی کا اور یہ بات ہر گز مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں ہے کہ فضاؔ اعظمی کی بھی وہی سوچ، و ہی اندازِ فکر ہے جو سر سید احمد خان اور حالیؔ کا ہے۔ اصلاحِ قوم کا بیڑہ فضاؔ اعظمی نے بھی اٹھا یا ہے۔ فضاؔ اعظمی کی شاعری مقصدی شاعری ہے، ان کی شاعری میں ا نسانیت کا درس پنہاں ہے۔ وہ بہ حیثیت مسلمان اسلام کی تعلیمات کو ہر حال میں اور ہر قیمت پر عام کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کے افکار و ادراک پر غور و خوض کرنا اور اس پر عمل در آمد کرنا اور کرانے کے لیے مضبوط لائحۂ عمل تیار کرتے ہیں اور یہ لائحۂ عمل ان کے ہر شعر میں عیاں ہے، جو پانی کی ٹھنڈی اور شفاف موجوں کی طرح بل کھاتا اور سمندر کی بے پناہ وسعتوں سے نکل کر ساحل کی جانب آتا ہوا نظر آتا ہے۔ فضاؔ اعظمی کی مکمل نظمیہ شاعری خواہ وہ ’’خاک میں صورتیں ‘‘، ’’مثنوی ثواب  و عذاب‘‘، ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘، ’’عذابِ ہمسائیگی ہو‘‘ ایک عظیم اور بڑے مقصد کا احاطہ کرتی ہیں ، انسانیت کو معراج بخشنے اور انسانوں کو راہِ راست پر لانے سے بڑا مقصد کیا کوئی اور ہوسکتا ہے؟ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہالت کی آہنی زنجیریں علم و آگہی اور انسانی و اخلاقی اقدار کے شفاف پتھر سے ہی ریزہ ریزہ ہوسکتی ہیں۔ وہ قدم قدم پر ایک رہبر و رہنما کا کردار خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔

ان کی شاعری پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے قرآنِ پاک اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا مطالعہ خشوع و خضوع کے ساتھ کیا ہے۔ بالکل حالیؔ ہی کی طرح انھوں نے امر با المعروف و نہی عن المنکر کا فرض ادا کیا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی شاعری قرآنی رنگ میں رنگ گئی ہے یہ دل کشی اور چمک دینی افکار کی ہے، ہر مصرعہ موتی کی طرح چمکتا اور موتیے کے پھولوں کی طرح مہکتا ہے۔ یہی فضاؔ اعظمی کی شاعری کی خصوصیت ہے کہ وہ بین بھی بڑے سلیقے سے کرتے ہیں اور بے حد نرمی، شفقت اور محبت کے ساتھ محاسن اور مصائب کی نشان دہی اس انداز میں کرتے ہیں۔

ہوا اعلان جاری اشرف المخلوق ہے انسان

کہ پید انفسِ واحد سے ہوئے ہیں مرد اور نسواں

کہ درجہ ہر بشر کا منحصر اس کے عمل پر ہے

کہ جنس اور ذات کی تفریق کا اس میں نہیں امکاں

تمہارے رب کو سب معلوم ہے، سب جانتا ہے وہ

عمل کس کا ہے کیا، ہر فرد کو پہچانتا ہے وہ

دیکھیے کتنا سادہ اور دل نشیں انداز ہے، کسی پر تہمت نہیں لگائی گئی ہے بلکہ وضاحت کر دی گئی، ہر اچھائی اور برائی کی۔ اب ماننا نہ ماننا انسان کا کام ہے۔

مرد اور عورت کے مساوی حقوق کی نشان دہی بھی اسی انداز میں کر دی ہے۔ کہ سچ کی خوشبو اشعار کے قالب میں ڈھل گئی ہے اور ساتھ ہیں ابتدائے آفرینش کا احوال حضرتِ حوّاؑ اور حضرت آدمؑ کا ازلی قصّہ جس میں سز و جزا، جرم و معافی شامل ہے۔

صرف چند لفظوں میں اتنا اہم اور اسلامی و قرآنی واقعہ کو بیان کر دیا ہے۔ کفایتِ لفظی کا ہنر فضاؔ اعظمی کو بہت اچھی طرح آتا ہے۔ چوں کہ جس موضوع پر انھوں نے خامہ فرسائی کی ہے، وہ نظم کا نہیں نثر کا موضوع تھا، جس کی ابتدا اور انتہا میں بے شمار صفحات کالے کرنے پڑتے، تب بھی مضمون کی تمام باریکیوں اور نزاکتوں کو سمیٹنا ایک مشکل اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن شعری سانچے میں زمانے کی تاریخ اور معاشرتی حقائق کو ڈھالنا بھی آسان نہیں تھا بلکہ کٹھن ترین کام تھا، لیکن فضاؔ اعظمی سخت ترین زمینوں میں شعری تخم کو بونے کا فن اچھی طرح جانتے ہیں ، سو انھوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔

کلامِ حق نے اس بنیاد کی یکسر نفی کر دی

صحیح تشریح تخلیقِ جہاں کے رمز کی کر دی

کیا واضح کہ اس میں مرد و زن دونوں برابر ہیں

ہیں دونوں مرتکب اس کے، یہ کوتاہی ہے دونوں کی

ملا تھا حکم دونوں کو برائے شجرِ ممنوعہ

خلافِ امرِ ناطق دونوں ہی نے حق سے منہ موڑا

خدا کی بارگہ میں موردِ الزام تھے دونوں

گنہ کے مرتکب دونوں تھے اور گمراہ تھے دونوں

ندامت ایک ہی سی دونوں کو تھی، دونوں پشیماں تھے

طلب گارِ نگاہِ رحمتِ غفار تھے دونوں

دعا دونوں نے مانگی اور سرتابی سے توبہ کی

سزا دونوں نے پائی اور دونوں کو ملی معافی

یہ قصّہ ہے جہانِ آب و گل کی حاکمیت کا

یہ قصّہ خیر و شر کا ہے، یہ قصّہ ہے ہدایت کا

نہاں ہے راز اس قصّے میں حق تعالیٰ کی حکمت کا

یہ قصّہ عدل کا ہے، عفو کا ہے اور رحمت کا

ہر مرد و زن کے ربطِ باہمی کی خشتِ اوّل ہے

نہ ان میں کوئی اعلیٰ ہے، نہ ان میں کوئی افضل ہے

غرض فضاؔ اعظمی کی حیثیت موجودہ زمانے میں ایک ایسے طبیب کی سی ہے، جس نے نہ کہ سماجی امراض کو دیکھا، بلکہ لوگوں کی تکلیف کو محسوس کر کے ان کے زخموں کا علاج بھی کرنے کی بھرپور طریقے سے کوششیں کی ہے اور یہ کوشش ضرور رنگ لائیں گی اور عورت کی گم شدہ عظمت و رفعت اسے ضرور ملے گی اور یہی انسانیت کی بقا کی ضامن ہو گی۔

٭٭٭

 

 

اُردو غزل میں تصوّرِ زن

جب بات غزل کی ہوتی ہے تو زن کی طرف ذہن خود بہ خود چلا جاتا ہے چوں کہ لغوی اعتبار سے غزل کے معنی ہی عورتوں سے باتیں کرنے کے ہیں اور اس پوری کتاب میں شاعری کی کسی بھی صنف کے حوالے سے بات عورت کے حسن و جمال، ہجر و وصال اور اس پر ٹوٹنے والی قیامت تک ہی محدود ہے۔

غزل کو ہمیشہ ہی سے اُردو شاعری میں بلند مقام حاصل رہا ہے۔ ویسے تو غزل میں حسن و عشق کی داستانیں رقم کی جاتی رہی ہیں لیکن غزل کبھی بھی عشقیہ مضامین تک محدود نہیں رہی  بلکہ اس میں زندگی کے تمام مسائل کوبہ خوبی بیان کرنے کی قدرت ہے۔

زمانے کی جہاں روش بدلی، وہاں غزل کے موضوعات میں بھی وسعت پیدا ہوتی چلی گئی۔ سیاسی و سماجی اور معاشرتی حالات، اندرونی و خارجی واقعات اور مختلف نظریات و خیالات کو غزل میں سمویا جانے لگا۔ غزل کے حسن اس کی ہیئت میں ذرا سا بھی فرق نہ آیا بلکہ اس کی شان بڑھتی چلی گئی۔ اس طرح غزل ایک ہمہ گیر صنف کی شکل اختیار کر گئی۔

اُردو میں غزل، فارسی غزل کے زیرِ اثر آئی اور اس صنف میں شعراء نے طبع آزمائی کی اور جلد ہی کام یابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ یوں تو اُردو کا پہلا شاعر امیر خسروؔ کو کہا جاتا ہے لیکن غزل کی ابتدا شمالی ہند کی بجائے دکن سے ہوئی اور پہلا صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ولیؔ دکنی کو اُردو شاعری کا اوّلین معمار تصور کیا جاتا ہے۔ مولانا محمدحسین آزادؔ کے مطابق ولیؔ اُردو شاعری کا باوا آدم ہے اور یہ شک گزرتا ہے کہ اُردو میں غزل کی ابتدا انہی سے ہوئی۔ ولیؔ کو یقیناً اس بات میں اوّلیت حاصل ہے کہ انہوں نے اُردو میں باقاعدہ غزل کی بنیاد ڈالی اور شمالی ہندوستان میں باقاعدہ اُردو شاعری کی تحریک پیدا کی۔ اُردو غزل کا جو مخصوص آہنگ ہے، اس کا تعین بھی ولیؔ نے کیا، غزل کے مزاج کی ترتیب میں انہیں بلا شبہ اوّل مقام حاصل ہے۔ ولیؔ دکنی کی ہی طرح ملا وجہیؔ کو بھی دکنی دور میں بے حد اہمیت اور مقبولیت حاصل رہی ہے۔ دکنی دور کا یہ شاعر محمد قلی قطب شاہ کا ہم عصر تھا۔ ملا وجہیؔ کی نمایاں خصوصیت اس کا سوز و گداز ہے۔ مثال کے طور پر یہی اشعار  ؎

طاقت نہیں دوری کی اب تو بیگی آ مل رے پیا

تجھ بن منجے جیونا بہوت ہوتا ہے مشکل رے پیا

کھانا برہ کہتی ہوں پانی انجھو پیتی ہوں میں

تجھ نے بچھڑ جیتی ہوں میں کیسا سخت ہے دل رے پیا

ہر دم تو یاد آتا منجے اب عیش نہیں بھاتا منجے

برہا یوں ستاتا منجے شج باج تل تل رے پیا

جب ہم محمد قلی قطب شاہ کا ذکر کرتے ہیں ، تب ذہن کے دریچوں میں بہت ہی اہم کتاب ’’محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات‘‘ جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر شکیل الرحمن ہیں جن کا جمالیات کے حوالے سے اُردو ادب میں ایک خاص مقام و مرتبہ ہے۔

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد محمد قلی قطب شاہ کا تصور کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ قلی قطب شاہ نے عورت کو کس انداز میں دیکھا ہے اور اس کے کون کون سے روپ اسے بھائے ہیں۔

ڈاکٹر شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ اس کا جمال محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کی جمالیات کا مرکز ہے۔ ایک بڑے حسن پسند اور حسن پرست اور ایک حیرت انگیز رومانی ذہن کے اس شاعر نے عورت اور اس کے جمال کو جیسے اپنے وجود میں جذب کر لیا تھا۔ ا س کے کلام میں رنگ و نور، نغمہ و آہنگ اور خوشبوؤں کی جو دنیا ملتی ہے وہ اسی جذبی کیفیت کی دین ہے۔ شاعر کی حسن پسندی نے ماحول کے تمام حسن کو سمیٹ لیا ہے۔ عورت کا معبود ایک نغمہ ہے۔ ڈاکٹر شکیل الرحمن محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کی خاصیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ محمد قلی  قطب شاہ کی شاعری میں عورتوں سے متعلق جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ مٹھاس اور شیرینی لیے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر   ؎

چمن پھول سب باس خوشبو پائے

سگھڑ سندری جب اپس کیس کھولے

عورت کے تعلق سے یہ اشعار شاعر کے گہرے رومانی، جمالیاتی ذہن کو بڑی شدت سے نمایاں کرتے ہیں   ؎

پیا کے نین میں بہوت چھند ہے

او دو زلف میں جیو کا آنند ہے

سجن یوں مٹھانی سوں بولے بچن

کہ اس خوش بچن میں لذتِ قند ہے

قلی قطب شاہ کی شاعری میں عورت کا حسن و جمال، ناز و انداز پنہاں ہے۔ انہوں نے عورت کو اسی انداز میں دیکھا، اس کے حسن و شباب کے گیت گائے ہیں۔

مرزا محمد رفیع سوداؔ کی غزلیات عشقی جذبات سے مزین ہے۔ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی سوداؔ کی غزل گوئی پر بحث کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔ ’’سودا کی غزلیات کا ایک حصہ جہاں خارجیت، معنی آفرینی، خیال بندی، تمثیل نگاری، سنگلاخ زمینوں میں سخن تراشی، قصیدے جیسے انداز اور بیان پر مشتمل ہے، وہاں ایک حصہ ایسا بھی ہے جو تجربات اور پُر خلوص جذبات کا آئینہ دار معلوم ہوتا ہے۔ یہاں بھی عشق کی ہی کہانی کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے   ؎

عشق سے تو نہیں ہوں مَیں واقف

دل کو کچھ شعلہ سا لپٹتا ہے

جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے

یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے

اُردو شاعری اور خصوصاً غزل میں محبوب سے محبت، اس کی جدائی، ہجر و وصال کی داستانیں جنم لیتی ہیں ، جدائی کا کرب، محبوب کو کھو دینے کا غم، زندگی کا وبال بن جاتا ہے۔ تقریباً تمام ہی شعراء کی شاعری میں یہ کیفیت بدرجہ اتم موجود ہے، جس بھی شاعر کا کلام اُٹھا لیں غمِ جاناں سے پُر نظر آتا ہے۔ زندگی کے مسائل اپنی جگہ اور محبت کی تلخی اپنی جگہ۔۔

میر تقی میرؔ غزل کے میدان میں سب سے زیادہ کام یاب ہیں۔ ان کا مزاج غزل کے مزاج سے خاص مناسبت رکھتا تھا۔ غزل سے خصوصی رغبت کی وجہ سے انھیں دوسری اصنافِ سخن کے مقابلے میں غزل میں نمایاں کام یابی حاصل ہوئی۔

دوسرے شعراء سے ان کا انداز مختلف ضرور ہے لیکن احساسات و جذبات ہر گز مختلف نہیں۔ وہ بھی اپنے اندر ایک نازک و حساس دل رکھتے ہیں۔ جب کبھی کوئی انھیں تکلیف پہنچاتا ہے تو وہ بھی کرب سے چیخ اُٹھتے ہیں اور یہ غم و تکلیف ان کی شاعری میں بے حد نفاست کے ساتھ جگہ بنا لیتی ہے۔ ویران دل کا حال اس طرح بیان کر رہے ہیں   ؎

دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے

یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

میرؔ کو محبوب کی اَدھ کھلی آنکھوں میں شراب کا نشہ نظر آتا ہے۔ وہ اس کی نشیلی آنکھوں کے دیوانے ہیں اور اسی دیوانگی نے ہی ان سے یہ شعر کہلوایا ہے   ؎

میر اُن نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

انھوں نے اپنے محبوب کی جدائی کے قصے کو اس طرح شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے   ؎

جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے

اس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر آوے

میرؔ کے پاس اتنا دل گردہ اور حوصلہ نہیں ہے کہ جب محبوب کا نام آئے تو وہ بے تعلق اور بے حسی کا مظاہرہ کریں۔ انہیں یہ کسی قیمت منظور نہیں ہے کہ انہوں نے اسے دل و جاں میں بسایا ہے۔ یقینی بات ہے اس کی یاد انھیں بے چین و بے کل کر دیتی ہے کہ محبت سچی ہے   ؎

میرؔ جی رازِ عشق ہو گا فاش

چشم ہر لحظہ مت پُر آب کرو

میرؔ اپنے د وست کو، اپنے چاہنے والے کو یاد کر کے رونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان کا محبوب حسن و جمال میں یکتا ہے۔ اس کی خوب صورتی چاند جیسی ہے، مہتاب جیسا روشن چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہے لیکن حسین تصور سے زیادہ تلخ حقیقت سے بھی وہ اسی لیے گریہ و زاری پر مجبور ہوئے ہیں لیکن بہت خاموشی کے ساتھ کہ محبوب کی رسوائی نہ ہو۔ ایک سچے عاشق کا حال کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار جو میرؔ کی حالتِ زار کو عیاں کر رہے ہیں   ؎

یاد آوے ہے جب شب کو وہ چہرہ مہتابی

آنسو مری پلکوں سے تارے سے چھٹکتے ہیں

ہم طورِ عشق سے تو واقف نہیں مگر ہاں

سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے

جب بات غزل کی ہو گی تو خواجہ میر دردؔ کا نام لبوں پر ضرور آئے گا کہ میر دردؔ غزل کی شان اور آن بان ہیں۔ خواجہ میر دردؔ کا خاص حوالہ تصوف ہے۔ وہ ایک صاحبِ عرفان بزرگ تھے لیکن ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں دنیاوی و مادی عشق کے تجربات بھی شامل ہیں۔ شاید اسی عشق کی گرمی و تپش کی وجہ سے ہی امیرؔ مینائی کو چھپی ہوئی بجلیوں کا گمان ہوتا ہے۔

خواجہ میر دردؔ کی شاعری کے مطالعے کے بعد اس بات کا احساس بہ خوبی ہو جاتا ہے کہ ان کی شاعری میں وہ ہی جذبات اور احساسات موجود ہیں جو عام انسانی رشتوں کے ناتے وجود میں آئے ہیں۔ چند اشعار نمونے کے طور پر   ؎

قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا

پر مرے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا

شوخ تو اور بھی ہیں دنیا میں

پر تری شوخی کچھ عجیب ہے واہ

دردؔ کو اپنا محبوب بڑا ہی نرالا نظر آ تا ہے، اس جیسا پوری دنیا میں نہیں اور یہ ہی چاہت و محبت کی معراج ہے کہ اس کائنات میں ایک ہی شخص ایسا ہے جسے میر دردؔ کی محبت و چاہت نصیب ہوئی ہے۔

میرؔ بھی دوسرے شعرا کی طرح اپنے محبوب کی شوخی اور اس کی بے وفائی کا ذکر منفرد انداز میں کرتے نظر آتے ہیں اور محبت و عشق کے جذبات سے ان کا دل لبریز ہے۔ انہوں نے بھی اسی طرح محبت کی ہے جس طرح دوسرے لوگ کرتے ہیں ، بس فرق اتنا ہے کہ وہ عام لوگوں سے جدا ہیں   ؎

میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے

مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا

دبستانِ دلی کی شاعری اپنے موضوع اور اسلوب دونوں اعتبار سے سادگی اور صفائی کی حامل نظر آتی ہے اور ایک قلندرانہ شان سے ہم آہنگ ہے۔ جب کہ دہلی کے مقابلے میں لکھنؤ کی رنگین فضا میں اُردو شاعری ایک نئے انداز سے سامنے آئی۔

لکھنؤ کے معاشرے میں عورت کو خصوصی اہمیت دی جانے لگی۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھنوی معاشرے کو عورت کا معاشرہ قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شعر و سخن پر نسوانیت کا اثر غالب آ گیا تھا۔ مثال کے طور پر مختلف شعراء کے یہ اشعار  ؎

اوپری تجھ کو خدا نے دی ہے صورت نور کی

تری ایڑی پر کروں صدقے میں چوٹی حور کی

(رندؔ)

تیرے چھڑیوں کے دوپٹے سے جو ملتا ہے مزا

لطف یہ پاتے ہیں ہم چھڑیوں کا میلہ دیکھ کر

(رشکؔ)

پھوٹ بہنے دو انھیں یار کے آگے آتشؔ

دل کا احوال بھی آنکھوں کو بیاں کرنے دو

(آتشؔ)

تمام عمر یوں ہی ہو گئی بسر اپنی

شبِ فراق کٹی اور انتظار آیا

(ناسخؔ)

دبستانِ دہلی ہو یا لکھنؤ، ہر شاعر نے بہ حیثیت انسان عورت کی محبت کو اپنے خانۂ دل میں جگہ دی ہے اور اس کی جدائی میں نالہ و فریاد شاعری کی شکل میں کیا ہے۔ گویا ان شعرائے کرام کا تصورِ زن، عورت کو اپنی سانسوں اور خوابوں میں بسانا، اس کی پوجا کرنا ہے۔ اس کی خوب صورتی پر فدا ہونا اور اس کی محبت اور توجہ کا حصول، خاص مقصد نظر آ تا ہے یا پھر فطری جذبات کا اظہار ہے۔ یہ قدرتی بات ہے کہ صنفِ مخالف میں ایک کشش ہے اور یہ کشش  ہی اپنے محبوب کو پا لینے کی آرزو کرتی ہے۔

رشید احمد صدیقی نے غزل کو اُردو شاعری کی آبرو کہا ہے۔ اس حوالے کی روشنی میں ہم یہ بات اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ جگرؔ مراد آبادی ان شعراء میں سے تھے جو جدید غزل کی آبرو تھے۔ جن شعراء نے غزل کو نئے زمانے کے تقاضوں سے آشنا کیا، ان میں حسرتؔ موہانی، فانیؔ اور اصغرؔ کے ساتھ جگرؔ کا نام لازم و ملزوم ہے۔ جگرؔ نے شاعری میں مختلف اندازِ بیاں اختیار کے ہیں اور ہر جگہ ان کی بے ساختگی، ندرتِ بیاں ، والہانہ پن، سادگی و شعریت سے بھر پور انداز ایک نئی فضا قائم کر دیتا ہے۔ عشق و محبت کے خمیر میں گندھے ہوئے اشعار قارئین کے دل میں اُتر جاتے ہیں۔ ان کی یہ غزل جس میں نغمگی بھی ہے، کیف و سرور بھی ہے   ؎

محبت کار فرمائے دو عالم ہوتی جاتی ہے

کہ ہر دنیا دلِ شائستۂ غم ہوتی جاتی ہے

ہر اک صورت، ہر اک تصویر مبہم ہوتی جاتی ہے

الٰہی! کیا میری دیوانگی کم ہوتی جاتی ہے

ایک اور غزل   ؎

نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے

نہ آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے

ستاتے نہیں وہ تو ان کی طرف سے

خود اپنے ستانے کو جی چاہتا ہے

کوئی مصلحت روک دیتی ہے ورنہ

پلٹ دیں زمانے کو جی چاہتا ہے

تجھے بھول جانا تو ہے غیر ممکن

مگر بھول جانے کو جی چاہتا ہے

تری آنکھ کو بھی جو بے خواب کر دے

وہ فتنہ جگانے کو جی چاہتا ہے

حسین تیری آنکھیں ، حسیں تیرے آنسو

یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے

جگرؔ اب تو وہ ہی یہ کہتے ہیں مجھ سے

میرے ناز اُٹھانے کو جی چاہتا ہے

ایک اور غزل کے چند اشعار    ؎

آدمی آدمی سے ملتا ہے

دل مگر کب کسی سے ملتا ہے

بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے

وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے

مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا

ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے

اصغرؔ گونڈوی کا شمار بھی غزل کے اہم شعراء میں ہوتا ہے۔ اصغرؔ گونڈوی کی شاعری میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہے لیکن اصغرؔ گونڈوی کا تغزل نہایت دل کش ہے۔ وہ مومنؔ اور حسرتؔ کی سی شعریت اور تغزل تو پیدا کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں لیکن مومنؔ اور حسرتؔ کی سی رندانہ جرأت ان کے یہاں نہیں۔ مثال کے طور پر یہ اشعار    ؎

کیا مرے حال پہ سچ مچ انھیں غم تھا قاصد

تو نے دیکھا تھا ستارہ سرِ مژگاں کوئی

نہ پوچھو مجھ پہ کیا گزری ہے مری مشقِ حسرت سے

قفس کے سامنے رکھا رہا ہے آشیاں برسوں

رشید احمد صدیقی نے فانیؔ بدایونی کو یاسیت کا امام لکھا ہے تو غلط نہیں کہا کہ فانیؔ بدایونی کی تمام شاعری ذاتی حالات اور داخلی کیفیات کا آئینہ ہے۔ فانیؔ بدایونی اپنے گھر اور باہر بہت سے صدموں سے دو چار ہوئے اور یاسیت کا یہی رنگ ان کی شاعری پر غالب آ گیا ہے۔

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا

بات پہنچی تری جوانی تک

تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا

دل اس کے ساتھ نکلے گا اگر یہ دل سے نکلے گا

گم کردہ راہ ہوں قدمِ اوّلیں کے بعد

پھر راہ بر مجھے نہ ملا راہ بر کو میں

بتا اب اے جرسِ کارواں کدھر جاؤں

نشانِ گردِ رہِ کارواں نہیں ملتا

حسرتؔ موہانی اور غزل کو لازم و ملزوم کہا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ حسرتؔ موہانی کا غزل سے جنون کی حد تک عشق ہے۔ حسرتؔ موہانی نے غزل کے مردہ جسم میں نئے سرے سے روح پھونک کر اسے وہ توانائی بخشی کہ اُردو کی دوسری اصنافِ سخن اس سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہ کر سکی۔

حسرتؔ کے رنگا رنگ دیوان میں عشق کا رنگ بھی بڑا گہرا نظر آتا ہے۔ ان کے تصورِ زن کو آنکھوں میں بسانے اور دل میں اُتارنے میں کہ ان کا کلام دل میں بسنے کے ہی قابل ہے  ؎

آئینہ میں وہ دیکھ رہے تھے بہارِ حسن

آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے

اللہ رے جسمِ یار کی خوبی کہ خودبخود

رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

بزمِ اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے

ہاتھ آہستہ مرا پھر بھی دبا کر چھوڑا

حالیؔ کی ابتدا کی غزلیں صفِ اوّل کا شاہکار ہیں۔ غزل کا ایک شعر  ؎

عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید

خودبخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا

اُردو غزل کا روشن ستارہ مرزا اسد اللہ خان غالب شاعری کے افق پر صدیوں سے جلوہ گر ہے اور اس حقیقت سے کسی کو انحراف نہیں کہ میرؔ کے بعد غالبؔ اُردو شاعری کے میدان میں سب سے بلند اور منفرد نظر آتے ہیں۔ غالبؔ فطرت کی کھلی کتاب کا اپنے علم اور مشاہدات کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔ غالبؔ کی شاعری مختلف رنگوں اور موضوعات کے تنوع سے مرصع ہے۔ بلاشبہ وہ ایک آفاقی شاعر ہیں۔

غالبؔ کی شاعری میں محبت و الفت اور اس کی رونقیں جا بہ بجا موجود ہیں۔ ان کے تصورِ زن کو دیکھنے کے لیے غالبؔ کی شاعری کا مطالعہ اور اس کا احاطہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ ان کا مشہورِ زمانہ شعر جس میں انہوں نے اس بات کی وضاحت بے حد خوب صورتی کے ساتھ کی ہے کہ مریضِ عشق اپنے محبوب کی جدائی میں بیمار پڑ گیا ہے اور اس کا علاج صرف اور صرف اس کی دید ہے، محبوب کی دید شاعر کے لیے تحفۂ عید ثابت ہو گی۔ وہ کہتے ہیں   ؎

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

اپنے محبوب کو یاد کر رہے ہیں اور اس کی یاد، جدائی کا احساس اشعار کے قلب میں ڈھلتا جا رہا ہے   ؎

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا

دل جگر تشنہ فریاد آیا

دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز

پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا

زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی

کیوں ترا راہ گزر یاد آیا

پھر ترے کوچے کو جاتا ہے خیال

دلِ گم گشتہ مگر یاد آیا

ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا

آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

ڈاکٹر محمد حسن کے مطابق غالبؔ کا عہد ایک عظیم تہذیب کا اختتامیہ تھا اور نئی قدریں وضع نہیں ہوئی تھیں۔ اس عمرانی خلاء میں غالبؔ کا وجود ایک نقشِ فریادی کی طرح اُبھرتا ہے اور نا کردہ گناہوں کی داد طلب کرتا ہے۔

یقیناً غالبؔ کا بیشتر کلام حسرتؔ و یاسؔ کا نمونہ ہے لیکن اس کے باوجود شوخی اور طنز و مزاح نے ان کے کلام کو اثر انگیز بنا دیا ہے۔ ان کی شاعری قاری کو ہرگز مایوس نہیں کرتی   ؎

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

 بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے

اُردو شاعری کی پوری تاریخ اور خصوصاً غزلیہ شاعری میں ، عورت جلوہ فگن نظر آتی ہے۔ اس کے مختلف انداز ہیں ، کہیں وہ محبت کی دیوی ہے تو کہیں بے وفائی کی تصویر۔ کہیں حسرت و تمنا کی شکل میں موجود ہے تو کہیں زندگی میں رنگ و نور بکھیرنے میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔

مومن خان مومنؔ کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ غزل کو روایت کے سانچے سے نکال کر باہر کی فضاؤں (ان کا محبوب اور رقیب دونوں کھلی فضاؤں میں سانس لیتے ہیں ) ہر شاعر کی طرح مومنؔ کی شاعری بھی عشق کے مثلث کے گرد گھومتی ہے۔ مومنؔ کا محبوب پردہ نشین ہے۔ وہ اپنی غزلیات میں اپنے محبوب کی نقاب کشائی کرتے ہیں۔ ان کی غزلیات میں محبوب کا عکس کچھ اس طرح منور ہے   ؎

میرے آنسو نہ پوچھنا دیکھو

کہیں دامان تر نہ ہو جائے

رشکِ دشمن بہانہ تھا سچ

میں نے ہی تم سے بے وفائی کی

عشق کی رنگا رنگی اور محبت کے جنون کو انہوں نے لفظوں کا جامہ اس طرح پہنایا ہے  ؎

عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ

آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

سچ ہے، عشق و محبت کسی کی میراث نہیں۔ یہ جذبہ فقیر و ولی کے دل میں بھی جاگ سکتا ہے اور بادشاہ کی بادشاہت اور اس کی انا و تکبر پر بھی غالب آسکتا ہے۔ پھر تخت و تاج کی کس کو پروا، بس مرنا جینا عشق ہے، صحراؤں ، جنگلوں ، مرغ زاروں ، محلوں میں عشق ہی جلوہ دکھاتا ہے۔ جنونِ عشق کے حوالے سے کئی بادشاہ اور ان کی محبت و سلطنت تاریخ کے اوراق میں سما چکی ہے۔ جہانگیر اور نور جہاں کی مثالی محبت نے بھی اپنی چمک دمک دکھائی لیکن محبت اور بادشاہت کے حوالے سے میری نگاہ بہادر شاہ ظفرؔ کے کلام پر جا کر ٹھہر گئی ہے۔ بہادر شاہ ظفرؔ کو بھی اپنے محبوب سے بات کرنی اور اس کا دیدار کرنا پڑا ہی مشکل ترین نظر آ رہا ہے کہ حالات ان کے حق میں نہیں ہیں۔ با اختیار ہوتے ہوئے بھی کاروبارِ زندگی اور محبت کے معاملے میں بے اختیار نظر آتے ہیں۔ کس قدر متاثر کن اور سوز و ساز سے آراستہ یہ غزل ہے  ؎

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار

بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

اس کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو

کہ طبیعت میری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی

عکسِ رخسار نے کس کے لیے تجھے چمکایا

تاب مجھ میں مہِ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی

اب کی جو راہِ محبت میں اُٹھائی تکلیف

سخت ہوتی کہیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی

بہادر شاہ ظفرؔ محبت کے رنگین جال میں بری طرح جکڑے جا چکے ہیں۔ محبوب کی آنکھوں کے سحر نے ان کی زندگی ہی بدل دی ہے۔

اس حقیقت میں شک کی گنجائش ہے ہی نہیں کہ محبت انسانی زندگی میں تبدیلی لانے کا باعث بنتی ہے۔ اب تبدیلی خوشی اور کام یابیوں کے حوالے سے ملے یا محبت کی ناکامی کی صورت میں اپنے اپنے حالات و واقعات اور قسمت کی بات ہے۔ کوئی جیل کی سنگلاخ چٹانوں سے اپنا سر ٹکراتا ہے تو کوئی صحراؤں کی خاک چھانتا ہے اور کسی کا منزل استقبال کرتی ہے اور کوئی محبوب کے ہاتھوں مقتول بن جاتا ہے۔ محبوب جس طرح چاہے ستم کر سکتا ہے اور عاشق بے چارہ تو دیوانگیِ عشق میں اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھا ہے۔ اسے اپنے اچھے برے کی ذرّہ برابر تمیز نہیں ہوتی لیکن بہادر شاہ ظفرؔ کا یہ کہنا ہے کہ میرے تو اوسان خطا ہو گئے ہیں اور میں جنون کی حد تک اس کی محبت میں مبتلا ہوں تو کوئی میرا غم گسا ر نہیں تھا جو میرے محبوب کو میرے عشق و محبت کے بارے میں بتاتا اور اسے مجبور کرتا کہ وہ آ کر مرا حالِ زار دیکھے کہ میرا اس کی جدائی میں کیا حال ہوا ہے۔ دیکھیے یہ اشعار آئینۂ دل کے عکاس ہیں   ؎

کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا

کوئی یاں تک اسے لایا تو ہوتا

مزہ رکھتا ہے زخمِ خنجرِ عشق

کبھی اے بوالہوس کھایا تو ہوتا

کیا کس جرم پر تو نے مجھے قتل

ذرا تو دل میں شرمایا تو ہوتا

دل اس کی زلف میں اُلجھا ہے کب سے

ظفرؔ اِک روز سلجھایا تو ہوتا

اخترؔ شیرانی نے اپنے دل کا حال غزل کی شکل میں اس طرح بیان کیا ہے اور اپنے دوست کے حسن و عشق سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں۔ انھیں شکایت ہے کہ ان کا محبوب فراق کی گھڑیاں بخش کر چلا گیا ہے اور اب وہ تنہائی اور فراق کے دکھ سہنے پر مجبور ہیں   ؎

وہ دور سے نقاب اُٹھا کر چلے گئے

آنکھوں پہ بجلیاں سی گرا کر چلے گئے

سینے میں اِک تپش سی بسا کر چلے گئے

کیسے مزے کی آگ لگا کر چلے گئے

ساحرؔ لدھیانوی کی غزلوں کے ترش و شیریں ذائقے کو بھلا کون فراموش کر سکتا ہے اور ساحرؔ کے راز و نیاز سے بھلا کون واقف نہیں ، عشق و محبت کے شاعر ساحرؔ لدھیانوی کے دل سے نکلے ہوئے اشعار دل میں اُتر جاتے ہیں۔ آئیے ان کا حالِ دل پڑھتے ہیں   ؎

تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم

ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم

مایوسیِ مآلِ محبت نہ پوچھیے

اپنوں سے پیش آتے ہیں بیگانگی سے ہم

لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ اُمید

لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے

پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم

مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی، والا معاملہ ساحرؔ لدھیانوی کے ساتھ پیش آیا۔ انہوں نے محبت کے معاملے میں ثابت قدم رہنے کا عزم کیا ہے۔ اس حقیقت کا اظہار پوری غزل میں نمایاں ہے   ؎

جرمِ الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں

کیسے نادان ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں

ہم سے دیوانے کہیں ترکِ وفا کرتے ہیں

جان جائے کہ رہے بات نبھا دیتے ہیں

آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں

ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں

تخت کیا چیز ہے لعل و جواہر کیا چیز

عشق والے تو خدائی بھی لٹا دیتے ہیں

اُستاد قمرؔ جلالوی بھی محبت کے معاملے میں ذرّہ برابر پیچھے نہیں۔ بقول آتشؔ۔ یہ وہ آتش ہے۔ وہ محبت کے خارزاروں میں ننگے پاؤں چلے ہیں اور اس قدر آگے نکل گئے کہ زندگی کا سفر تھمنے پر آ گیا ہے۔

قمرؔ جلالوی اپنے محبوب کی بے وفائی کا ذکر بھی بے حد محبت بھرے انداز میں کر رہے ہیں۔ انھیں اپنے محبوب سے کچھ شکایتیں بھی ہیں ، اس کی بے وفائی کا گلہ اور اپنی بے مثال محبت اور جنونِ عشق کا احساس بھی ہے جس کا تذکرہ انہوں نے بے حد نفاست اور محبت کے احساس کے ساتھ کیا ہے   ؎

مریضِ محبت انھیں کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے

مگر ذکر شامِ الم کا جب آیا چراغِ سحر بجھ گیا جلتے جلتے

انھیں خط میں لکھا تھا دل مضطرب ہے جو اب ان کا آیا محبت نہ کرتے

تمہیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے

شاعر پر محبوب کی محبت بوجھ بنی ہوئی ہے کہ اس کی توجہ و التفات کو حاصل کرنے میں وہ ناکام ہو چکے ہیں اور بے حد مایوسی کا عالم، نزع کا عالم ہے اور آنکھوں کے آگے سفر آخرت کا، یاسیت بھرا منظر، محبوب کے فراق کو مایوسی اور کرب ناکی میں بدل رہا ہے۔

گویا قمرؔ جلالوی کے ہاں تصورِ زن محبوب کی چاہت، اس کی جدائی، ملاقات کی تمنا کے گرد گھومتا ہے۔

غزل کے یہ اشعار جو سوز و گداز کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ، قاری کے دل و دماغ پر محبت اور اس کی ناکامی کے اثرات اثر انداز ہوتے اور وہ بھی شاعر کے غم میں برابر کا شریک ہو جاتا ہے۔ درد و غم سے آراستہ و پیراستہ یہ غزل دیکھیے  ؎

کب مرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں

غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو

جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اُتارا کرتے ہیں

جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی للہ تم اُٹھ کر نہ آ سکے

دوچار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں

ساغرؔ صدیقی اُردو شاعری خصوصاً غزل کے حوالے سے اہم نام ہے۔ ان کی غزلیات دل کو گرماتی ہیں اور ایک ایسی فضا میں لے جاتی ہیں ، جہاں محبت کی دھیمی دھیمی آنچ ہے، یاسیت کے اندھیروں میں روشنی ہے اور شاعر کی بے بسی سرِ عام کھڑی نوحہ کناں ہے۔ اس کا دل و دماغ مضطرب و بے چین نظر آ رہا ہے۔ اس کی آہ میں ایک التجا ہے۔ اس کی چاہ میں ایک سوز ہے   ؎

چراغِ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اُٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے

ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے

ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے

انھوں نے اپنی شاعری کو جدت طرازی کے رنگ و آہنگ میں سمو دیا ہے۔ ایک اچھوتا سا انداز ہے جو قارئین کو متاثر کیے بنا نہیں رہتا ہے۔

ساغرؔ صدیقی کی یہ غزل مے و ساغر میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے کہ ان کا تخلص ساغرؔ نے ان کی شاعری نے خود شاعر کو مکمل طور پر اپنے اندر جذب کر لیا ہے   ؎

میں تلخیِ حیات سے گھبرا کے پی گیا

غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

چھلکے ہوئے تھے جام، پریشاں تھی زلفِ یار

کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

کمال کی بات تو یہ ہے کہ وہ مے نوشی کا الزام بھی اپنے سر رکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کا ذمے دار بھی حالات کو ٹھہرتے ہیں بلکہ انہوں نے فیض احمد فیضؔ اور دوسرے شعراء کرام کی طرح نظمیہ شاعری میں ہی مقبولیت اور اہمیت حاصل نہیں کی بلکہ ان کی غزلیات نے بھی اُردو شاعری میں اپنی جگہ بنائی ہے اور خاص و عام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ فیضؔ کی غزلیں شگفتگی و نغمگی سے آراستہ ہیں۔ وہ بھی محبت کی آنچ میں اور ہولے ہولے جلے ہیں اوردوست کے فراق میں تڑپے ہیں۔ ان کا تصورِ زن بھی د وسرے شعراء سے جدا نہیں ہے اور اس بات کی گواہی ان کے اشعار میں موجود ہے   ؎

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

قفس اداس ہے یارو! صبا سے کچھ نہ کوہ

کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے

جو ہم پر گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

اپنے لہجے کے کھرے اور انقلابی شاعر جالب اپنی غزلیات میں ذرا مختلف نظر آتے ہیں اور دھیمے لہجے میں اپنی دل کے داستان بیان کر رہے ہیں کہ ان کا محبوب کوئی آمر یا جمہوریت دشمن تو ہے نہیں بلکہ نازک اندام من مو ہنی صورت والا محبوب ہے، جس نے ان کے دل و دماغ پر قبضہ جما لیا ہے۔ دل کی بات کہہ کر وہ خوش نہیں رہ سکے، اس لیے کہ ان کی قسمت میں دکھ درد اور جدائی کے شب و روز در آئے ہیں   ؎

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

ہم نے سنا تھا اسی بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں

لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں

جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے

آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

جناب احمد ہمدانی کا شاعری اور خصوصاً غزلیات میں اہم مقام ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی احمد ہمدانی کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ ’’احمد ہمدانی غزل کا شاعر ہے، اس کی فکر کے جوہر اور اس کے احساساتِ زندگی کے کسی ایک رخ یا کسی خاص پہلو ہی پر محیط نہیں ، ان میں ہمہ گیری اور موضوعات کا تنوع ہے۔ محبت کی سلیقہ مندی اور گل و ثمر کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے کی شدید خواہش بھی ہے۔ ‘‘

مجنوں ؔ گورکھپوری کی رائے کے مطابق ان کی غزلوں میں جو ان کا اصلی سرمایہ ہے۔ ایمائیت اور ابہام کے باوجود کسی قسم کا الجھاؤ پیدا نہیں ہوتا۔ خصوصیت کے ساتھ فراقؔ اور فیضؔ کی آوازوں کے ارتعاشات ان کی غزلوں میں محسوس ہوتے ہیں مگر یہ ارتعاشات ان کے اپنے تاثرات اور اپنے لہجے میں سموئے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے ہم عصر اُردو کے غزل سراؤں میں اپنا منفرد انداز رکھتے ہیں۔ یہ مجموعہ (پیاسی زمین) غزلیات پر مشتمل ہے اور ہمدانی غزل کے شاعر ہیں۔

جناب احمد ہمدانی کی غزلیات میں جدائی کا دکھ، محبوب کی بے وفائی اور ذات کا کرب  اور تلخیِ زمانے کا رنگ بہت گہرا اور دیرپا ہے۔ یہ غم ان کی سانسوں اور خون میں شامل ہو چکا ہے۔ قاری کو اشعار کی گہرائی اور گیرائی متاثر کیے بنا نہیں رہتی۔ ساز و سوز سے پُر اشعار نے ایک مسحور کن کیفیات سے دوچار کیا ہے    ؎

کب اس سے فرق کہیں چاہتوں میں پڑتا ہے

یہ بات سچ ہی سہی کوئی ہم سے روٹھا ہے

کٹی ہے عمر محبت کی، جب کہیں جا کر

ہوا یہ درد سا حاصل جو آج اٹھتا ہے

ایک اور غزل کے چند اشعار   ؎

نہ آرزو، نہ تمنا کہاں چلے آئے

تھکن سے چور یہ تنہا کہاں چلے آئے

رکی رکی سی ہوائیں ، گھٹا گھٹا ماحول

یہ رات رات اندھیرا کہاں چلے آئے

گھروندا ایک بنایا تھا ہم نے خوابوں کا

گرا کے خود وہ گھروندا کہاں چلے آئے

شعروسخن کے قدردان اور قارئین و ناقدین اچھی طرح اس بات سے واقف ہیں کہ جونؔ ایلیا نے عورت کو کس طرح دیکھا اور اپنی داخلی و خارجی کیفیات کو شاعری کے رنگ و آہنگ میں کس انداز میں سمویا ہے۔ جونؔ ایلیا کا نام شاعری کے باب میں ستاروں کی طرح چمک رہا ہے۔ آئیے ہم بھی دیکھتے ہیں ، ان کی طرزِ ادا اور طرزِ بیاں   ؎

بے قراری سی بے قراری ہے

وصل ہے اور فراق طاری ہے

بن تمہارے کبھی نہیں آئی

کیا مری نیند بھی تمہاری ہے

اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں

رات دن تیری انتظاری ہے

سحرؔ انصاری علم و ادب اور شعر و سخن کے حوالے سے ایک اہم شخصیت ہیں۔ ان کی شاعری بھی غمِ زمانہ، غمِ عشق اور غمِ جاناں سے سجی ہوئی ہے۔ احساس کی تپش نے شعر و سخن کے قالب میں سوز کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ انھیں اپنے ہم راز سے دلی محبت ہے۔ اس لیے اسے پریشان دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھے ہیں۔ ان کی بے قراری اور اضطرابی کیفیت ان کے کلام میں جا بہ جا نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ چند اشعار شاعر کی دلی حالت کے غماز ہیں  ؎

کیا کسی لمحۂ رفتہ نے ستایا ہے تجھے

ان دنوں میں نے پریشان سا پایا ہے تجھے

تیری تنویر سلامت مگر اے مہر جبیں

گھر کی دیوار پہ یوں کس نے سجایا ہے تجھے

شکوۂ تلخیِ حالات بجا ہے لیکن

اس پہ روتا ہوں کہ کیوں میں نے رلایا ہے تجھے

شاعرؔ صدیقی شاعری کے حوالے سے ممتاز شخصیت ہیں۔ انھوں نے اپنی عمر اسی کوچے میں بسر کی ہے۔ اسی لگن اور شعری جنون کے نتیجے میں ان کی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔

دیکھتے ہیں انہوں نے زندگی کو کس طرح بسر کیا ہے اور عشق و محبت نے کیا گل کھلائے ہیں اور وہ محبت کے سفر میں کس طرح ثابت قدم رہے۔ ان کی شاعری کے مطالعے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے قناعت جیسے اعلیٰ وصف کو اپنا شعار بنا لیا ہے  ؎

کچھ اس طرح سے غمِ زندگی گوارا کیا

جو اشک آنکھ میں آیا اسے ستارا کیا

بس ایک عشق کافی تھا زندگی کے لیے

مواقع خوب ملے عشق نہ دوبارہ کیا

جو کر گیا ہے حوالے مجھے اندھیروں کے

عجیب شخص تھا وہ جس کو نین تارا کیا

عبید اللہ علیمؔ غزل کی دنیا میں زندہ و تابندہ نظر آتے ہیں اور پریم کہانی کچھ اس طرح سنا رہے ہیں   ؎

تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ

جانے کیا کیا پوچھ رہے ہیں یہ جانے پہچانے لوگ

جیسے تمہیں ہم نے چاہا ہے کون بھلا یوں چاہے گا

مانا اور بہت آئیں گے تم سے پیار جتانے لوگ

جناب سعید الظفرؔ صدیقی کا تصورِ زن بھی اپنے ہم عصر شعراء سے جدا نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے احساسات اور جذبات کو شاعری کا خوش رنگ دوشالا اس طرح اُوڑھایا ہے کہ محبت کا رنگ واضح ہو گیا ہے  ؎

تمہارا بھی محبت میں کوئی کردار ہونا تھا

ہمیں تو خیر سے رسوا سرِ بازار ہونا تھا

گماں تھا ان سے اب کی بار کھل کر گفتگو ہو گی

خبر کیا تھی یہ محشر بھی پسِ دیوار ہونا تھا

سعید الظفرؔ صدیقی کام یابیوں کے سفر پر گامزن رہے ہیں۔ یقیناً یہ ان کی خوش بختی ہے لیکن یکسانیت بھی کیا چیز ہے اور ساتھ میں یہ کہ انسان بھی کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔ شاعر کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوا ہے۔ ان کا کلام ان کی حالتِ زار اور احوالِ محبت کا چشم دید گواہ ہے۔ محبت کے خمیر میں گندھے ہوئے اشعار قارئین کی عدالت میں محبت کی کہانی بیان کر رہے ہیں   ؎

زندگی اور طرح اب تو گزاری جائے

عشق کی جیت کے بازی کوئی ہاری جائے

آج پھر ہے لب و رخسار پہ گل رنگ بہار

آئیے آپ کی تصویر اُتاری جائے

اب کوئی اس سے تعلق، نہ مراسم، نہ قرار

اب اگر جان یہ جاتی ہے ہماری جائے

ہم بھی کچھ اپنی وضع داریاں کم کر لیں گے

پہلے یہ ضد تو طبیعت سے تمہاری جائے

زلف کا کیا کہ یہی اس کے شب و روز سعیدؔ

صبح بکھرے تو سرِ شام سنواری جائے

یاور امان کے مجموعۂ کلام ’’انہدام‘‘ سے غزل کے چند اشعار، انہدام مجموعۂ غزلیات ہے اور یارو امان کی عمر بھر کی کاوشوں کا صلہ ہے۔ اس بات سے ہر وہ شخص جو شعری ذوق رکھتا ہے، یاور امان کی شاعری اور ان کے لہجے کے کھرے پن سے اچھی طرح واقف ہے۔ دل سے نکلی ہوئی بات دل میں جگہ بنا لیتی ہے۔ انہوں نے بھی محبوب کے ستم اور جدتِ ادا کو لفظوں کا وہ جامہ پہنایا ہے جو دل فریب بھی ہے اور دل نشین بھی   ؎

وہ سرِ آئینہ چہرہ نہیں ہونے دیتا

اور پسِ آئینہ پردہ نہیں ہونے دیتا

لطف لیتا ہے نئے زخم لگا کر لیکن

درد کو حد سے زیادہ نہیں ہونے دیتا

وہ سہولت بھی فراہم نہیں کرتا کوئی

مشکلوں میں بھی اضافہ نہیں ہونے دیتا

اجنبیت بھی وہ رکھتا ہے شناسائی میں

اور بہ ظاہر کوئی رشتہ نہیں ہونے دیتا

ایک اور غزل کے چند اشعار   ؎

وہ مجھ سے دور تھا لیکن مری نظر میں رہا

چراغ اور کہیں تھا اجالا گھر میں رہا

دباؤ اتنا اسیری کا بال و پر میں رہا

رہا ہو کے میں صیاد کے اثر میں رہا

عجیب ربط ہے اس کی گلی کے پتھر سے

کسی کو چوٹ لگی درد میرے سر میں رہا

یہ میرا جرمِ وفا تھا کہ ایک مدت تک

ترے سلوک سے بدنام شہر بھر میں رہا

نقوشؔ نقوی بھی دل کے معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور کیوں رہیں پیچھے کہ وہ  بھی ایک انسان ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ شاعر ہیں ، اپنے لطیف جذبات کو شاعری کے پیراہن میں ڈھالنے کی صلاحیت بہ خوبی رکھتے ہیں۔ انہوں نے بہ بانگِ دھل محبت کے گیت غزل میں گائے ہیں۔ بہت اچھے شاعر ہیں   ؎

یہ کس کی یاد اچانک آ گئی ہے

کہ دل میں روشنی ہی روشنی ہے

ترا حسنِ سماعت چاہتی ہے

صدا جو میرے ہونٹوں پہ آتی ہے

مجھے محسوس کیوں تنہائیاں ہوں

خیالِ رفتگاں سے دوستی ہے

ابھی کیا موت کی بابت بتاؤں

ابھی تو زندگی مجھ پر کھلی ہے

خیال آیا تری قربت میں یہ بھی

مرے نزدیک کوئی اور بھی ہے

نقوشؔ نقوی کی شاعری میں غنائیت بھی اور انفرادیت بھی ہے۔۔ ان کا شمار غزل کے اچھے شعراء میں ہوتا ہے۔

جناب فضاؔ اعظمی کی غزلیات کے بارے میں حسین انجم کی رائے کچھ اس طرح ہے۔ فضاؔ اعظمی نے شعر گوئی کا آغاز غزل سے کیا اور ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’جو دل پہ گزری ہے۔ ‘‘ 1996ء میں شائع ہو کر دادِ سخن حاصل کر چکا ہے۔ ’’تری شباہت کے دائرے میں ‘‘ ان کا دوسرا مجموعۂ غزلیات ہے جو 2006ء میں شائع ہو ا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری جناب فضاؔ اعظمی کی غزلیات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ فضاؔ اعظمی طبعاً نظم کے نہیں ، غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی غزل کے بہت سے اجزا ایسے ہیں جو تا دیر لطف سے پڑھے جائیں گے۔ ان پر توجہ دی جائے گی۔ ‘‘

ان ناقدین کی رائے کے تناظر میں ہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ فضاؔ اعظمی کو غزل سے محبت نہیں بلکہ عشق ہے اور غزل سے ان کا رشتہ دیرینہ ہے۔ جیسے بھی حالات ہوں اور اگر غزل لکھنے کا موڈ ہو تو وہ غزل لکھنے میں منہمک رہتے ہیں۔ قلم ان کے ہاتھ اور قلم کی نوک ان کی گرفت میں ہوتی ہے۔ وہ جنبش کریں تو شاعری کے گلشن میں بے شمار مہکتے ہوئے پھول کھلا دیں اور ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ بے شک یہ اللہ کی دین اور اس کی مہربانی ہے۔

’’شیدائے غزل‘‘ کے عنوان سے وہ قطعہ کی شکل میں اس طرح رقم طراز ہیں   ؎

لہو بہہ رہا ہے غزل لکھ رہے ہیں

مکان جل رہا ہے غزل لکھ رہے ہیں

چمن لٹ رہا ہے غزل لکھ رہے ہیں

سزا مل رہی ہے غزل لکھ رہے ہیں

یقیناً یہ جنونی کیفیت اور جناب فضاؔ اعظمی اس کیفیت میں گویا ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ والا معاملہ ہو چکا ہے اور ان کا یہی عمل ایک سچا شاعر ہونے کی روشن دلیل ہے۔

فضاؔ اعظمی کا اپنی غزلیات میں اپنے محبوب اپنے ہم راز سے رویہ ذرا مختلف نظر آتا ہے۔ ایک طرف وہ محبوب کو ظالم قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف اس کی حمایت اس طرح کرتے نظر آتے ہیں   ؎

کرنے کو ستم ہم پر وہ کیا کیا نہیں کرتے

پر جاں سے گزر جائیں وہ اتنا نہیں کرتے

رِستے ہوئے زخموں کی نمائش نہیں کرتے

تپتے ہوئے احساس کا چرچا نہیں کرتے

تاریخ کے صحرا میں اُڑاتے نہیں ہم خاک

مجنوں ہیں مگر ویسا تماشا نہیں کرتے

باریک بہت ہیں خطِ آدابِ محبت

پر حد سے گزر جائیں ہم ایسا نہیں کرتے

فضاؔ اعظمی پُر سکون اور فرحت بخش ماحول میں ہی شاعری کرنے کے عادی نہیں ہیں بلکہ جیسا بھی ماحول ہو، حالات ہوں ، گرمی کی حدت اور بادِ صرصر کی غضب ناکی ہو، وہ غزل لکھنے میں محو ہیں۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر شاعری کی طلسماتی نگری میں گم ہیں۔ انھوں نے دوزخ کو بھی نہیں بخشا۔ جب تخلیق کار ہوش و ہواس سے بے گانہ ہو تو یہی صورت جنم لیتی ہے، بس ہوش ہے تو شاعری کو نئے نئے انداز بخشنے کا۔ ان اشعار پر توجہ فرمائیے۔ یقیناً یہ کسی عام شاعر کا کلام نہیں ہے   ؎

فردا کی کتاب لکھ رہا ہوں

آئینے پہ خواب لکھ رہا ہوں

دیکھا ہے پسِ نقاب اس کو

بن دیکھے گلاب لکھ رہا ہوں

فضاؔ اعظمی کی پروازِ تخیل کچھ اس قدر برق رفتار ہے کہ محبوب کو پردے میں دیکھ کر گلاب جیسا دل کش، نازک اور حسین تصور کر لیا ہے۔ ان کے خیال کی اُڑان انھیں کہاں سے کہاں لے گئی اور دل کش و دل ربا چہرہ ان کے سامنے آ گیا ہے۔

شاعر نے اپنے دوست سے کس انداز میں محبت کی ہے اور عشق کی اہمیت اور محبوب کے جلووں کی عکاسی اس طرح نمایاں ہوئی ہے۔ آئیے یہ غزل پڑھتے ہیں   ؎

عشق سے ہم کو کام بہت ہے

عشق مگر بدنام بہت ہے

حسن کے جلوے اللہ اللہ

اس پہ مگر الزام بہت ہے

شغلِ محبت خوب ہے لیکن

اُجرت کم ہے، کام بہت ہے

فضاؔ اعظمی نے محبت کے سفر میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ بہت سے تلخ تجربات سے گزرے ہیں۔ لوگوں کے سلوک کو پرکھا ہے۔ لہٰذا انھیں اب اس بات کا احساس شدت سے ہو گیا ہے کہ زیست کو کس طرح بسر کرنی چاہیے اور علاجِ درد اور تسکینِ دل کے لیے کون سے طریقے استعمال کرنے ہیں۔ وہ شاعری کی زبان میں اپنے خیالات کی نشان دہی اس طرح کر رہے ہیں   ؎

نیا طوفان اُٹھاتے ہیں ، نیا ساحل بدلتے ہیں

علاجِ دردِ دل کے واسطے ہم دل بدلتے ہیں

ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ہمیں تو قتل ہونا ہے

چلو تسکینِ دل کے واسطے قاتل بدلتے ہیں

محبت کب تلک پلتی رہے گی داستانوں میں

نہ ہم لیلیٰ بدلتے ہیں اور نہ محمل بدلتے ہیں

نہ تم قیدِ محبت میں ، نہ ہم جبرِ وفا میں ہیں

جو تم پہلو بدلتے ہو تو ہم محفل بدلتے ہیں

شاعر خود انا پرست ہے، وہ دوستی میں بھی عزت و روا داری برقرار رکھنے کا خواہش مند ہے۔ اسی لیے محبوب کی ذرا سی لاپروائی پر وہ محفل چھوڑنے پر تیار ہے کہ لطف اسی وقت ہے کہ محبت کی آگ دونوں طرف برابر لگی ہو۔

جب ہم فضاؔ اعظمی کی غزلیات کا مطالعہ سنجیدگی سے کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگتی کہ ان کی غزلوں میں مایوسی کم اور شگفتگی زیادہ ہے۔ بہارِ امید کا پیغام دیتے ہیں۔ ان کی غزلیات میں ، شوخیِ جذباتِ ادا، محبوب سے ملنے کی اُمید اور خوشی نظر آتی ہے۔ تشبیہات و استعارات اور نئی تراکیب نے شاعری کے حسن میں اضافہ کر دیا ہے   ؎

محشرِ خواب و خیالات لیے بیٹھے ہیں

تم سے اُمیدِ ملاقات لیے بیٹھے ہیں

تم نہیں ہو تو عجب عالمِ تاریکی ہے

صبح ہوتی ہی نہیں رات لیے بیٹھے ہیں

آپ بے رنگیِ موسم سے نہ گھبرائیں کہ ہم

آپ کے واسطے برسات لیے بیٹھے ہیں

ہم اس سے پہلے کہ اپنے مضمون ’’اُردو غزل میں تصورِ زن‘‘ کو اختتام تک پہنچائیں ، چند اور خاص شعراء کے ’’تصورِ زن‘‘ کو واضح کرنا اور دل کے صنم خانے کی تصاویر کو دکھانا مناسب ہو گا تاکہ تشنگی برقرار نہ رہے   ؎

دیدنی ہے شکستگیِ دل کی

کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے

                               (میر تقی میرؔ)

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ

کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاۂ آئینہ ساز میں

                              (علامہ اقبالؔ)

دل میں آ کر نہ دل سے پھر نکلے

تم تو ارمان بن گئے دل کے

                           (امیرؔ مینائی)

میں ڈھونڈ رہا ہوں عالم عالم

وہ دل میں سما کے چھپ گئے ہیں

                     (سیف الدین سیفؔ)

کسی کے سامنے کیوں کر کہا جائے

خود اپنا دردِ دل اپنی زباں سے

                         (ثاقبؔ لکھنوی)

حدیثِ دردِ محبت سنائی جاتی ہے

مگر وہ ہیں کہ انھیں نیند آئی جاتی ہے

تم کیا سمجھ سکو گے مرے دل کی واردات

تم کو بھی ہوتی کاش محبت کسی کے ساتھ

                       (صادقؔ القادری)

فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں ، پر کچھ کچھ

بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیبِ داستاں کے لیے

                                  (شیفتہؔ)

یارب کہیں سے گرمیِ بازار بھیج دے

دل بیچتے ہیں کوئی خریدار بھیج دے

                          (لالہ کھیم نرائن رندؔ)

زندگی دردِ سر ہوئی حاتمؔ

کب ملے گا مجھے پیا میرا

                                (شاہ حاتمؔ)

ملنے کو تجھ سے دل تو مرا بے قرار ہے

تو آ کے مل نہ مل پہ تیرا اختیار ہے

سرخ ڈورے حسین آنکھوں میں

جیسے اُٹھے ہوں وہ ابھی سو کے

                            (رفعت سلطانؔ)

جب سے دیکھا ہے ترے ہاتھ کا چاند

میں نے دیکھا ہی نہیں رات کا چاند

                               (ناصرؔ کاظمی)

اس دہن کو غنچۂ دل کیا کہوں

ڈر لگے ہے مسکرانا چھوڑ دے

                                     (مومنؔ)

کہتے ہیں تیرے قامت و عارض دیکھ کر

بالائے سرو، پھول کھلا ہے گلاب کا

                                       (ناسخؔ)

جذبۂ دل اپنا سلامت ہے تو انشاء اللہ

کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے

                                       (انشاؔ)

بے سبب جی نہیں نڈھال اپنا

پھر کہیں دل نے چوٹ کھائی ہے

                              (نظیرؔ صدیقی)

غزل کو اُردو شاعری کی دلھن کہا گیا ہے اور اس دلھن کے جلووں اور اس کی آب و تاب نے پوری شاعری کو جگمگا دیا ہے۔ غزل کے تقریباً ہر شاعر نے مقصد سے ہٹ کر عورت کی سندرتا، وفا و بے وفائی، اس کے خد و خال، گیسو، غزالی آنکھوں ، نشیلے نین، عارض، قد و قامت، حسن و نزاکت کے قصیدے جھوم جھوم کر پڑھے ہیں۔ اسی وجہ سے شاید اُردو غزلیات کی روح میں کیف و سرور نے جگہ بنا لی ہے، جو پڑھتا ہے اسے ایک انوکھا مزہ محسوس ہوتا ہے۔ سرشاری کی کیفیت اس پر غالب آ جاتی ہے اور غزل کی معنویت پرت در پرت کھلتی چلی جاتی ہے۔ یہی غزل کی آن بان اور شان ہے۔

قدیم و جدید شعراء کا تصوّرِ زن

            ہر دور کے شعراء نے عورت کے حسن و عشق کے قصے بیان کیے ہیں ، ہجر و وصال اور اس کے حسن و جمال کو شاعری کا لباس پہنایا ہے۔ فیضؔ نے کہا :

موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

            اقبالؔ نے کہا :

 وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

            اخترؔ شیرانی سلمیٰ کے گیت گاتے ہیں۔

سنا ہے میری سلمیٰ نور برسائے گی وادی میں

سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں

            ناصرؔ کاظمی:

یاد کے بے نشاں جزیروں سے

تیری آواز آ رہی ہے ابھی

            حسرتؔ موہانی:

 چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً

اور دوپٹے سے تیرا وہ منہ چھپانا یاد ہے

            آتشؔ اپنے محبوب کے بارے میں اس طرح اپنے دل کی بات کہہ رہے ہیں۔

جو دیکھتے تیری زنجیرِ زلف کا عالم

اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

            فضاؔ اعظمی نے اپنی کتاب ’’خاک میں صورتیں ‘‘ میں عورت کے حسن و عشق کی داستان سنانے کی بجائے اس کے دکھ درد بیان کیے ہیں۔ سراب کا خوب صورت پردہ ہٹایا ہے تاکہ مرد و عورت کی واضح تصویریں سامنے نظر آ جائیں۔ انہوں نے اس کے حسن و محبت کا ذکر ذرا دوسرے انداز میں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔

بو صفِ صنفِ نازک کچھ عجب رنگِ زمانہ ہے

اسی کے حسن سے جاری جنوں کا کارخانہ ہے

وہ مشرق ہو یا مغرب ،  اس کے دیوانے ہیں ہر جانب

اسی کے دم سے وابستہ محبت کا فسانہ ہے

کوئی کرتا ہے رقصِ حسن بے پردہ سرِ محفل

کوئی نذرانہ دیتا ہے درونِ پردۂ محمل

            ڈاکٹر منظور احمد فضاؔ اعظمی کی شاعری کے حوالے سے اس طرح رقم طراز ہیں۔

            ’’پچھلی ربع صدی میں فلسفۂ نسواں پر جتنا کام مغرب میں ہوا ہے، اس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ مغرب میں بھی یہ کام دو نوعیتوں کا ہے، ایک عورتوں کی آزادی،  حقوقِ نسواں اور کارِ زندگی میں مردوں کی برابری سے متعلق ہے اور دوسرا کام زیادہ فکری نوعیت کا ہے،  جو یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ مغربی معاشرہ پچھلے تین چار سو سال کی روشن خیالی کے باوجود منفی مساوات کا قائل کیوں نہ ہوسکا، وہ ان فلسفیانہ اور معاشرتی نظاموں اور افکار کا بھی بڑی دیدہ ریزی سے جائزہ لیتا ہے جو خاص طور پر جنسی عوامل کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔

            فضاؔ اعظمی کی یہ کتاب بڑے موثر پیرائے میں موجودہ معاشرے کے ان تمام مسائل کا نہ صرف یہ کہ جائزہ ہے بلکہ ان کے ہر شعر میں وہ فکر کار فرما ہے جو اسلام کی ایک انقلابی اور ترقی پسند فکر تھی۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 ادیبؔ سہیل کا تصورِ زن

جب بات طویل نظم نگاری کی ہو رہی ہے تو نظمیہ شاعری کے حوالے سے ایک اہم ترین نام ذہن کے دریچوں میں آ کر ٹھہر گیا ہے اور وہ نام ہے جناب ادیبؔ سہیل کا۔ ان کا نام شعر و سخن اور طویل نظم نگاری کے حوالے سے اُردو ادب میں قابلِ اعتبار ہے۔ ادیبؔ سہیل کا مختصر تعارف کچھ اس طرح ہے۔

ادیبؔ سہیل نے شاعری کا آغاز ۱۹۴۶ء سے کیا۔ مطبوعہ تصانیف میں

(۱)بکھراؤ کا حرفِ آخر (شاعری)

(۲)غمِ زمانہ بھی سہل گزرا (منظوم خود نوشت)

(۳) کچھ ایسی نظمیں ہوتی ہیں (نظموں کا مجموعہ)

(۴) یہ زندگی یہ اپسرا (نظموں پر مشتمل) یہ کتاب ۴۹۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ جب کہ ان کی کئی کتابیں اشاعت کی منتظر ہیں۔

ادیبؔ سہیل پر ایم اے کا مقالہ بعنوان ’’ادیبؔ سہیل ایک مطالعہ‘‘ فرخندہ جمال نے سندھ یونیورسٹی جامشورو ۲۰۰۰ء میں ڈاکٹر سیّد جاوید کے زیرِ نگرانی لکھا، جب کہ دوسرا مقالہ بعنوان ’’ادیبؔ سہیل فن اور شخصیت‘‘ ربابہ خلیل نے شعبۂ اُردو جامعہ کراچی سے ۲۰۰۲ء میں ڈاکٹر ظفر اقبال کی زیرِ نگرانی تحریر کیا۔ ادیبؔ سہیل نے پاکستانی ادب سال بہ سال کے عنوان سے ۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۳ء تک، پاکستانی ادب کا جائزہ لکھا جو پاکستان ٹیلی وژن کراچی سے پیش کیا گیا۔ ٹی وی کے لیے بہت سے نغمے لکھے اور مشہور گلوکاروں نے انھیں گا کر اپنی آواز کا جادو جگایا۔

ڈراما میاں تان سین کے ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے ایک ڈراما چھ قسطوں میں لکھا، جس کی ڈرامائی تشکیل حسینہ معین نے کی اور پی ٹی وی پر پیش کیا گیا۔ ادیبؔ سہیل کی شعری و فنی لیاقت کا اعتراف ناقدین و قارئین نے داد و تحسین کی شکل میں کیا ہے۔

جناب صباؔ اکرام ادیبؔ سہیل کی شاعرانہ عظمت کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ ’’ادیبؔ سہیل کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جو ساٹھ کی دہائی سے پہلے اپنی شاعری کو غزل گوئی کے اثرات سے بچا کر نظم کی حیثیت سے کام یاب ہوئے ہیں۔ ان کے یہاں بیشتر صورتوں میں آزاد نظم کا فارم استعمال ہوا ہے، جس میں خود کلامی کا سا انداز اپنایا گیا ہے، جو انفرادیت پسندی کی ایک صورت ہے۔ ‘‘

ادیبؔ سہیل کی شاعری کے حوالے سے افسانہ نگار و نقاد جناب رشید امجد نے اس طرح اظہارِ خیال کیا ہے۔ ’’ان کی نظر نہ صرف اُردو ادب پر ہے بلکہ وہ دوسری کئی زبانوں کے ادب سے بھی شناسائی رکھتے ہیں ، جس کی وجہ سے ان کے نقطۂ نظر میں ایک وسعت پیدا ہوئی ہے۔ اس وسعت نے ان کی شاعری کے فکری پہلوؤں کو تہہ دار بنایا ہے۔ وہ ایک منفرد شاعر اور بہترین نقاد و محقق ہیں۔ ادیبؔ سہیل کی طویل نظم بعنوان ’’غمِ زمانہ بھی سہل گزرا‘‘ یہ کتابی شکل میں ہے اور ۸۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ نظم ’’عورت‘‘ کے حوالے سے ہے اور وہ عورت  شاعر کی شریکِ سفر، عارفہ ہے یہ ادیبؔ سہیل کی منظوم سوانحِ عمری ہے۔

اس طویل نظم کے تمام اشعار ترنم اور نغمگی سے مرصع ہیں۔ ان کے قلم کی روانی کسی بھی موڑ پر ٹھہرنے کا اشارہ نہیں کرتی بلکہ بڑھے چلو، بڑھے چلو کا درس دیتی اور شعری سفر کو جاری رکھنے کی امنگ پیدا کرتی ہے اور یہ جوش و جذبہ ہی ہے جس نے ان کی شاعری کو تازگی و شگفتگی عطا کی ہے۔ اس لیے کہ ایک لمبا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی ادیبؔ سہیل کی محبت زندہ اور تابندہ ہے۔

جناب ادیبؔ سہیل نے زمانۂ طفلی سے لڑکپن اور لڑکپن سے موجودہ حالات کے واقعات یعنی انچاس سال پہلے یا تقریباً نصف صدی سے قبل کی محبت و عشق کی کہانی کو بڑی چاہت کے ساتھ رقم کیا ہے۔ محبت کی سرشاری نے طویل مدت گزر جانے کے بعد جذبات و احساسات کو تر و تازہ رکھا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ یہ اشعار دیکھیے:

            وہ عہد و پیماں جو میرے اور عارفہ کے مابین

            اب سے انچاس سال پہلے ادھر رونما ہوئے تھے

            ابھی تک میرے جسم و جاں میں

            اسی تڑپ سے مہک رہے ہیں

            وجود پیماں کا روزِ ازل سے

            اک عالم میں

            اپنی چاہت کے بام و در پر

            دمک رہا ہے چراغ آسا

اس نظم میں شاعر کا بچپن، حالاتِ زمانہ، احساسِ محبت، ملن کی گھڑیاں ، شادی کا سنجوگ، رشتوں ناتوں کا تقدس، سانحۂ مشرقی پاکستان، قحطِ بنگال کی الم ناک تصاویر، انگریز فوجیوں کی سفاکی اور حریت پسندوں سے انتقام کا ذکر مختصراً نظر آتا ہے لیکن ان کی شاعری اس محبت کے گرد گھومتی ہے جو امر ہو چکی ہے۔ اشعار کا تسلسل اور ایک سلسلہ وار محبت کی کہانی قاری کا دامن اس وقت تک تھامے رکھتی ہے جب تک کتاب کا اختتام نہ ہو جائے اور یہی کام یاب تخلیق کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

اب اگر ہم فضاؔ اعظمی اور ادیبؔ سہیل کا شاعری کے حوالے سے موازنہ کریں تو دونوں کے افکار میں کافی حد تک مماثلت نظر آتی ہے۔

محبت کی کہانی ہو یا ہجرت کا واقعہ، معاشرے کا وہ المیہ ہو جس نے انسان کو حیوان بنادیا اور اپنے ہی جیسے انسانوں پر ظلم کی سیاہ رات توڑ دی۔ والدین کی تعلیم و تربیت، ان کا عزت و احترام، رشتوں اور ناتوں کا تقدس۔ ایک سے ہی حالات و سانحات سے دونوں شعراء کو گزرنا پڑا ہے لیکن طویل نظم نگاری کے حوالے سے فضاؔ اعظمی کی شاعری کا ایک رُخ انہیں جداگانہ حیثیت ضرور عطا کرتا ہے اور جدت و انفرادیت کو نمایاں کرتا ہے، اور وہ انداز یا طریقۂ سخن معاشرتی اقدار ہیں کہ فضاؔ اعظمی انسانیت کی بالادستی چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ لوگوں کے ذاتی عیوب، مال و زر سے محبت اور انسانیت کی تذلیل کا مرثیہ پڑھتے نظر آتے ہیں اور ساتھ ساتھ انسانی اقدار اور اسلامی تعلیمات کی روشن دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں۔ انہیں دکھ ہے تو اس بات کا کہ آخر مسلمان قوم اسلامی تعلیم کے زریں اصولوں کو بھلا کر کس سمت بڑھتی چلی جا رہی ہے؟ وہ اپنی شاعری میں اُس سمت کا بھی تعین کرتے ہیں کہ وہ سمت ہے روشن راہوں کی۔ چوں کہ ہر شخص نے ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا، اپنا موروثی حق سمجھ لیا ہے۔ فضاؔ اعظمی اپنی شاعری میں شر و خیر کی قوتوں کو اعتماد اور جرأت کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی جرأتِ شاعری، مقصدی شاعری کے زمرے میں داخل ہو گئی ہے۔ محبت کے معاملے میں دونوں شعراء بے حد مخلص اور بے غرض ہیں۔ وہ صرف اور صرف دل و روح کی گہرائیوں سے اپنے محبوب کو چاہتے ہیں اور پھر اسے عمر بھر کے لیے جیون ساتھی بنا لیتے ہیں۔ جناب ادیبؔ سہیل کی طویل نظم ’’غمِ زمانہ بھی سہیل گزرا‘‘ ان کی محبوبہ جو بعد میں منکوحہ بنیں ، ان سے عشق و محبت کے حوالے سے لکھی گئی ہے اور بچپن سے جوانی کی اور لازوال محبت کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔

فضاؔ اعظمی کی کتاب بعنوان ’’تیری شباہت کے دائرے میں ‘‘ جس میں پریم کہانی درج ذیل ہے۔ انہوں نے چاہت کے انمول لمحات کو صفحۂ قرطاس پر قید کر دیا ہے۔ عرض کرتے ہیں کہ:

گئے جہاں بھی رہے ہمیشہ تیری محبت کے دائرے میں

جو عشق ہم نے کیے ہیں وہ بھی تیری شباہت کے دائرے میں

جو وصل و عشرت کے خواب دیکھے وہ رات ہی کو بکھر گئے سب

سحر ہوئی تو وہیں کھڑے تھے تیری حقیقت کے دائرے میں

انہوں نے کتاب کا انتساب بھی اپنی شریکِ زیست، فرزانہ احمد کے نام لکھا ہے۔

تم سے وابستہ کچھ ایسا سلسلہ پھولوں کا تھا

زندگی بھر ساتھ جیسے قافلہ پھولوں کا تھا

اک طرف دیوانگی تھی، اک طرف فرزانگی

سنگ کی بارش میں جینا حوصلہ پھولوں کا تھا

فضاؔ اعظمی اور ادیبؔ سہیل کی دوسری مشترکہ خوبی طویل نظم نگاری ہے۔ ان کی ایک اور نظم جو ان کے شعری مجموعے ’’بکھراؤ کا حرفِ آخر‘‘ میں شامل ہے، عنوان ہے ’’سمندر اور قطرے‘‘ یہ نظم ۲۷ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس نظم کا ’’موضوع ہجرت اور ہجرت کا کرب ہے۔ ‘‘

والدین کی تعلیم و تربیت کا ذکر ادیبؔ سہیل اور فضاؔ اعظمی کی شاعری میں نمایاں ہے۔ فضاؔ اعظمی ہی کی طرح ادیبؔ سہیل کو بھی اپنے گھر سے انسانیت و مساوات کا درس ملا تھا۔ وہ اس خوبی کا اس طرح ذکر کرتے ہیں :

میرے باپ کی دین تھیں میرے اندر کی کریدیں

میرے باپ کی آگہی، راست فکری کا مجھ پر اثر تھا

کئی ان کی باتیں گرہ میں بندھی تھیں

کہ ہم سب سے اوّل ہم انسان بیٹے

یہی آدمی کی ہے پہچان بیٹے

مذاہب سب ہی اس کی تبلیغ میں ہم نوا ہیں

ڈاکٹر مشرف احمد ’’ہجرت‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ہجرت سے آنے والے اُردو اہلِ قلم کے طرزِ احساس میں ایک اور تبدیلی آئی کہ وہ دوسری ہجرت اور اس کی تباہ کاریوں کے زخم اُٹھائے ہوئے تھے۔ ادیبؔ سہیل کا شمار بھی انہی شعراء و ادیبوں میں ہوتا جو پہلے پاکستان کے مشرق صوبے میں جا کر آباد ہوئے۔ انہوں نے پاکستان بنتے دیکھا، اس کی جدوجہد میں شریک رہے، پھر ایک مجبور محبِ وطن پاکستانی کی حیثیت سے پاکستان کے ایک حصے کو بنگلہ دیش کا روپ اختیار کرتے دیکھا۔ قومیت کی تند و تیز آندھیوں میں اس تجربے سے گزرے، باہر سے آ کر آباد ہونے والوں کی حیثیت دراصل ایک سمندر کے مقابلے میں حقیر قطروں کی سی تھی۔ ‘‘

دشمن کی سفاکی و درندگی و قتل و غارت کی عریاں تصویریں اس نظم میں موجود ہیں۔ چند اشعار:

                        انہیں میں ایک شہر تھا میرا مسکن

                        یہاں اسلحہ بند قوت نے جب قتل کی ابتدا کی

                        سر شہر قاتل کے رحم و کرم پر

                        مری طرح کے سارے افراد بھی قتل کے منتظر تھے

                        میں اس دم بھرے گھر کی ملکہ

                        پرستار اجمل کی بیوی تھی

                        نوخیز اختر کی ماں تھی

                        میرے گھر کی جنت میں وہ بس رہی تھی

                        وہ قاتل سر شب جو سنگین تھامے در آئے

                        وہ انجان بھی تو نہیں تھے

                        کئی ان میں سے آشنا تھے

                        تلاشی لی گھر کی

                        بڑی ہی شقاوت سے سنگین اجمل کے سینے میں گھونپی

                        عجب کرب میں مانگتا تھا وہ پانی

                        مرے سر پر تلوار لٹکی ہوئی تھی

                        بڑھے جب وہ نو عمر اختر کی جانب

                        تو وہ بھاگ کر میرے سینے سے چمٹا

                        شقی نے اسے کر دیا قتل سینے پہ میرے

                        دمِ قتل اس کے عجب نرخرے کی صدا تھی

            پھر آگے ایک اور خونی منظر نظر آتا ہے۔

                        کہیں قتل تھے آگہی کے شناور

                        کہیں خون میں لت پت تھے فہم و فراست کے مہتابِ پیکر

                        کہیں ڈھیر تھے ارتقا کے پیمبر

                        یہ سچ ہے خرد دشمنی آگہی کشتی

تقسیمِ ہندوستان اور پھر بنگلہ دیش سے دوسری ہجرت نے جہاں عام انسانوں کو خون میں نہلا دیا، وہاں قلم کار بھی ان حالات سے نہ بچ سکے۔ انہوں نے اپنی تحریروں کو سیاہی کی جگہ خونِ دل سے لکھا۔ اس طرح شعر و ادب کا ہر لفظ لہو میں اور وہ بھی اپنوں کے لہو میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔

جناب فضاؔ اعظمی نے بھی ہجرت کے دکھ اُٹھائے ہیں اور اسے شاعری کے آہنگ میں سمودیا ہے۔ فضاؔ اعظمی اپنے ہم عصروں میں ممتاز بھی ہیں اور منفرد بھی کہ ان کی شاعری میں تنوع اور احساسات کی تپش نمایاں ہے۔ وہ انسانوں کے دکھوں ، غموں اور زیادتیوں کو سچّے دل سے رقم کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

حمایت علی شاعرؔ کا تصوّرِ زن

جب ہم طویل نظم نگاری کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے ذہن کے اُفق پر کئی نام جلوہ گر ہو جاتے ہیں۔ انہی ناموں میں سے ایک خاص اور بڑا نام جناب حمایت علی شاعرؔ کا بھی ہے۔ ان کا ذکر نہ کرنا کم علمی کی دلیل ہو گا، لہٰذا ہم ان کا مختصر تعارف اور ان کی شاعری کا تذکرہ کرنا ضروری قرار دیتے ہیں۔ ذیلی سطور میں فضاؔ اعظمی کا اندازِ سخن اور حمایت علی شاعرؔ کا شعر و سخن کا تقابلی موازنہ اور طویل نظم نگاری کے محرکات کو بھی بیان کرنا، اس لیے اہم ہے تاکہ اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کے تحت جناب حمایت علی شاعرؔ نے اپنی طویل ترین نظم ’’آئینہ در آئینہ‘‘ لکھنے کی ضرورت محسوس کی۔

برصغیر پاک و ہند میں حمایت علی شاعرؔ کے بے شمار قارئین اور ناقدین موجود ہیں۔ ان سب نے جناب حمایت علی شاعرؔ کی شاعری کو دادِ تحسین سے نوازا کہ ان کی شاعری تعریف و توصیف کی مستحق تھی۔

حمایت علی شاعرؔ نے جو کچھ دیکھا، محسوس کیا، زمانے کو برتا، تجربات و مشاہدات حاصل کیے، اپنی علمیت و قابلیت کے ساتھ ان جذبات و احساسات کو شاعری کے مختلف رنگوں میں ڈھال دیا ہے۔ انہوں نے اپنے خیالات اور زمانہ شناسی کو خوب صورت اور بامعنی لفظوں کا پیکر عطا کیا ہے، انھوں نے نظمیں بھی لکھیں اور غزلیں بھی۔ ان کے شعری مجموعے بعنوان:

۱۔         آگ میں پھول،

 ۲۔       مٹی کا قرض،

 ۳۔       تشنگی کا سفر،

۴۔        ہارون کی آواز،

 ۵۔       حرف حرف روشنی،

 ۶۔       عقیدت کا سفر،

 ۷۔        آئینہ در آئینہ،

 ۸۔       کلیاتِ شاعرؔ

ان کی آٹھ کتب شائع ہو چکی ہیں اور ان کی شاعری کو دادِ تحسین سے نوازا گیا ہے۔ جناب حمایت علی شاعرؔ نے نثر بھی لکھی ہے، ان کے نثری مجموعوں کے عنوانات ہیں۔

۱۔         شیخ ایاز جدید سندھی ادب کا عہدِ آفرین شاعر،

 ۲۔       شخص و عکس،

 ۳۔        کھلتے کنول سے لوگ

ان کی بہت سی تحریریں اشاعت کی منتظر ہیں ، غیر مطبوعہ کتب کی تعداد ۲۱ ہے۔ فلم اور ٹی وی کے لیے بھی انھوں نے اپنی خدمات انجام دیں۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ادبی و تحقیقی پروگرام کرتے رہے ہیں ، اس کے علاوہ ان کے لکھے ہوئے فلمی نغموں کو بے پناہ شہرت ملی ہے۔ ادبی و علمی خدمات کے صلے میں انہیں صدارتی ایوارڈ، رائٹرز گلڈ ایوارڈ، آدم جی ادبی ایوارڈ کے علاوہ اور بھی بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔

جناب حمایت علی شاعرؔ کا نام شاعری کی تاریخ میں بے حد اہم اور نمایاں ہے۔ ان کی طویل نظم’’ آئینہ در آئینہ‘‘ منظوم خود نوشت سوانحِ حیات ہے اور یہ ۳۳۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس نظم کا پس منظر کیا ہے، یہ ہم جناب حمایت علی شاعرؔ کی زبانی سنتے ہیں۔ اپنے مضمون ’’حرفِ اوّل‘‘ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں :

’’آئینہ در آئینہ ایک طرح سے منظوم خود نوشت سوانحِ حیات کا حرفِ آخر ہے جو میں نے اب سے پندرہ، بیس سال پہلے ایک نظم کی صورت میں لکھا تھا کہ: ایک دن صہباؔ لکھنوی نے کہا: ’’تمہیں یاد ہے 1956 میں ’’آگ میں پھول‘‘ کے حوالے سے پروفیسر ممتاز حسین نے تمھاری شاعری کے بارے میں کیا لکھا تھا۔ ’’حمایت کی شاعری ایک طرف اپنی خودنوشت سوانح عمری ہے تو دوسری طرف قومی تاریخ کا آئینہ بھی ہے۔ ‘‘

تم جو مختلف نظموں میں اپنی زندگی کی جھلکیاں دکھاتے رہتے ہو۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ باضابطہ اپنی سوانحِ حیات لکھ ڈالو، ’’صہباؔ نے مشورہ دیا۔ ’’ اور منظوم لکھ دو تو کیا کہنے، شعری ادب میں پہلا تجربہ ہو گا۔ ‘‘ نکہتؔ بریلوی نے لقمہ دیا۔ ’’سوانحِ حیات لکھنا، دوبارہ جنم لینے اور دوسری زندگی از سرِ نو گزارنے کے مترادف ہے اور پھر منظوم؟‘‘

’’نکہتؔ تم تو خوشبو کی طرح ایک بات کہہ جاتے ہو اور وہ بات میرے دل میں اُتر کر رہ جاتی ہے، مگر ایک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے۔ ‘‘

 یہ تحریر میں نے مجلہ’’ شخصیت‘‘ کے حمایت علی شاعرؔ نمبر (جولائی 1996ئ) میں اپنی سوانحِ حیات کی (بارہ اقساط کے ساتھ) ابتدائیے کے طور پر لکھی تھی۔ یہ منظوم داستان اگست (1995) سے ستمبر (1999) تک ماہنامہ ’’افکار‘‘ میں ماہ بہ ماہ چھپتی رہی، آخری قسط جو پاکستان کے تازہ ترین واقعات اور اپنی کیفیات کا آئینہ تھی۔ ’’یار زندہ، صحبت باقی۔ ‘‘

اپنی طویل نظم ’’آئینہ در آئینہ‘‘ میں شاعرؔ نے اپنی ابتدائی زندگی و تعلیم، والدین، دوست احباب، رشتوں کی حرمت، زندگی کا آغاز اور اس سے قبل آغازِ محبت اور منگنی و شادی کے واقعات، تقسیمِ پاکستان اور پاکستان کے سیاسی حالات پر بے حد سادگی و پُر کاری کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اپنے شعر و سخن کو دل آویز و دل کش رنگ میں رنگ دیا ہے اور حق بات یہ ہے کہ ہر رنگ پکا اور ہر انداز صداقت و سچائی کے خمیر سے اُٹھا ہے۔ شاعرؔ کی شاعری پڑھنے کے بعد اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ حقیقت پسند ہیں ، انھوں نے اپنی زندگی کے حقائق پر پڑے ہوئے دبیز پردے کو بے حد ہنر مندی اور وقار کے ساتھ ہٹایا ہے کہ اس طرح زیست کی ہر تصویر روشن ہو گئی ہے۔ قاری جو کوئی بھی واقعہ ان کے ماضی و حال کے بارے میں جاننا چاہے تو کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے، یہ ہی نہیں بلکہ معاشرتی و سماجی حالات کی تاریخ بھی درج ہے۔ ان کا باطن شفاف آئینے کی طرح چمک رہا ہے۔ شاید اسی لیے انہوں نے اپنی منظوم خود نوشت سوانحِ عمری کا نام ’’آئینہ در آئینہ‘‘ منتخب کیا ہے، کتاب کی ابتدا دل نشیں انداز میں ہوئی ہے۔

یہ شہر جس کو سب اورنگ آباد کہتے ہیں

یہاں صدیوں سے میرے بزرگ رہتے ہیں

بہت زمانہ ہوا اس کا نام کھڑکی تھا

جو فتح خان کے ہاتھوں فتح نگر بھی ہوا

پھر اس کے بعد مغلِ دست بُرد میں آیا

اور اس پہ پڑ گیا اورنگ زیب کا سایا

اپنے گھرانے کا تعارف انھوں نے اس طرح کرایا ہے کہ

میں جس گھرانے کا ہوں فرد، مذہبی تھا بہت

طریقتی بھی تھا، لیکن شریعتی بھی تھا بہت

فقیہ و قاضی و صوفی میرے آب و جد تھے

بڑے نمازی تہجد گزار، سیّد تھے

اسی طرح کے اندازِ سخن میں زندگی کی تاریخ آگے بڑھ رہی ہے۔ استعارات و تشبیہات اور تلمیحات کے برملا استعمال نے شاعری کو بلند آہنگ عطا کیا ہے اور ایک تاریخ آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ اس تاریخ میں مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستانوں کے اشارے ملتے ہیں اوراس کے ساتھ وہ اپنے گھرانے کا ذکر بے حد عقیدت اور محبت کے ساتھ کرتے ہیں۔ بچپن کی تلخ یادوں کا خصوصاً والدہ کی موت اور پھر سوتیلی ماں کی آمد، رنجشیں اپنوں کی، الفت اور خوش گوار یادیں ، مطالعہ اور مطالعہ کی دنیا، شاعری کی ابتدا اور افسانہ نگاری کا ذکر بے حد مؤثر انداز میں نظر آتا ہے۔ بچپن کی تلخ و شیریں یادوں اور واقعات کی دہلیز کو عبور کرتے ہوئے، بلوغت کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہیں ، بہار ان کا خیر مقدم کرتی ہے، اس کا اظہار انھوں نے اس طرح کیا ہے کہ خانۂ دل میں محبت اپنے رنگ بھرنے کے لیے بے تاب ہے۔

مگر جو اب کے گیا تو عجب ہوا احساس

کھڑی تھی سامنے ایک خوش جمال دوشیزہ

نظر نظر سے ملی اور جھک گئی چپ چاپ

جہاں رکی تھی وہاں پر ہی رک گئی چپ چاپ

حمایت علی شاعرؔ نے اپنی محبت و عشق کی کام یابی کا اعتراف جرأتِ اظہار کے ساتھ طشت از بام کیا ہے کہ کوئی بات، کوئی واقعہ ڈھکا چھپا نظر نہیں آتا۔ ہر بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔

مثال کے طور پر یہ اشعار:

میں خوش نصیب ہوں کتنا کہ جس سے عشق کیا

بہ فیضِ جذبۂ دل اس کو میں نے پا بھی لیا

میرے کلام میں جو ہے اسی کا پر تَو ہے

اس کے نکہت و رنگ اور اسی کی اک ضو ہے

میرے کلام کا مجموعہ ہے جو ’’آگ میں پھول‘‘

بیاں ہے اس میں مری شاعری کی وجہِ نزول

محبت کی کام یابی پر بے حد نازاں اور اپنے رب کے شکر گزار ہیں کہ انھیں منزل مل گئی ہے، جسے چاہا اسے پایا بھی لیا۔ اس کا اظہار اس طرح کیا ہے :

یہ وہ لمحہ تھا کہ اپنے خدا پہ پہلی بار

اُمڈ کے آیا میرے دل میں پیار ایسا پیار

کہ گر پڑا تھا میں سجدے میں اور روتا رہا

اپنے اشکوں سے دل کا غبار دھوتا رہا

وہ دن ہے اور آج بھی روشن میری نگاہوں میں

بچھے ہوئے ستارے سے مری راہوں میں

یہ زندگی مجھے کتنی حسین لگتی تھی

ہر اک چیز مجھے بہترین لگتی تھی

’’محاسبہ‘‘ کے عنوان سے جو ہمیں اشعار نظر آتے ہیں ، ان اشعار میں حضورِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے عقیدت و محبت کے ساتھ اپنی کوتاہ بینی اور جہل کو بے حد دل گداز انداز اور عاجزی و انکساری کے ساتھ بیان کیا ہے کہ یہی ایک سچے مسلمان کی پہچان ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے خاص و عام واقعات کا تذکرہ بے حد خوب صورتی کے ساتھ اشعار کی زبان میں درج کیا ہے۔ حمایت علی شاعرؔ کے بارے میں مختصر سا خاکہ اور شعری آہنگ کو جان کر اس بات کا اندازہ با خوبی ہو جاتا ہے کہ جناب فضاؔ اعظمی اور جنابِ حمایت علی شاعرؔ ایک ہی راستے کے راہی ہیں اور وہ راہ ہے، ’’ طویل نظم نگاری‘‘ بس فرق اتنا ہے کہ فضاؔ اعظمی کی شاعری مقصدی ہے۔

جنابِ حمایت علی شاعرؔ نے اس کتاب کے علاوہ بھی طویل نظمیں لکھی ہیں ، مثال کے طور پہ ’’حرف حرف روشنی‘‘ کو ہی لے لیجیے، یہ نظم بھی ۱۱ صفحات پر مشتمل ہے اور بہت دل آویز ہے۔ ان دونوں شعراء کی بہت سی باتیں بھی مشترک نظر آتی ہیں ، دونوں کو اپنے وطن سے محبت ہے جو کہ قدرتی امر ہے۔ فضاؔ اعظمی اپنی مختلف نظموں میں پاکستانی سیاست اور بے ضمیر مسلمانوں کے اخلاق کی پستی کو بیان کرتے ہیں ، انھیں اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ ہر شخص، خواہ وہ عوام میں سے ہو، یا خواص میں ، مفاد پرست ہے، وطن سے محبت کرنے والے انگلیوں پر گنے جانے والے لوگ ہیں جبکہ انسانی اوصاف سے عاری، مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں کی کمی ہر گز نہیں ہے۔ فضاؔ اعظمی نے اپنی طویل نظم ’’خاک میں صورتیں ‘‘ لکھ کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ ان کے قلم میں اس قدر توانائی ہے کہ وہ تھکتا نہیں ہے اور نہ وہ خود تھکن کا شکار ہوتے ہیں بلکہ اپنے تجربات و مشاہدات کی بدولت عورت پر ہونے والے ظلم کی داستان رقم کرتے چلے جاتے ہیں ، لیکن ساتھ میں ان کا اپنا رویّہ اور سلوک کچھ اس طرح ہے کہ وہ خواتین کی بے پناہ عزت کرتے ہیں اور وہ دنیا بھر کی عورتوں کے دکھوں کو شدت سے محسوس کرتے ہیں ، وہ ان کے لیے اشعار تخلیق کرتے ہیں اور یہ ہی ان کا تصورِ زن ہے۔

جناب حمایت علی شاعرؔ بھی اپنے لوگوں سے بے حد مخلص ہیں۔ معاشرتی مسائل کا ادراک ہے، سیاسی بصیرت سے مالا مال ہیں ، حکمرانوں کی نااہلی سے بھی واقف ہیں ، حالاتِ زمانہ نے انہیں تجربہ کار اور با ہمت بنا دیا ہے، لیکن دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے حالات کا بھی احساس ہے۔ وہ اپنی ذمے داریاں بڑے خلوص و محبت کے ساتھ نبھانے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ حمایت علی شاعرؔ کو اپنی اہلیہ سے بے پناہ بلکہ جنون کی حد تک محبت ہے، بعد از مرگ بھی وہ نہیں بھولے ہیں بلکہ ان کے دل میں ان کی مرحوم بیوی بستی ہیں ، وہ اپنی بیوی سے گھنٹوں تنہائی میں باتیں کرتے ہیں ، انہیں گھر کے حالات اور بچوں کے مشاغل و تعلیم کے بارے میں بتاتے ہیں۔ خوش گوار لمحوں اور خوشیوں کی بھی نوید سناتے ہیں۔ ان حالات میں ان کی شاعری کو خود کلامی کے عنصر نے مزید حسین بنا دیا ہے۔ شاعرؔ نے اپنی شرکِ حیات معراج نسیم سے روح کی گہرائیوں سے محبت کی اور ٹوٹ کر چاہا ہے۔ انھوں نے اس پروانے کا کردار ادا کیا ہے جو ساری عمر شمع کے گرد چکر لگانے کا فریضہ بے حد خلوص کے ساتھ انجام دیتا ہے، جل کر مرنا پسند کرتا ہے لیکن اپنی وفا پر آنچ نہیں آنے دیتا۔

فضاؔ اعظمی کا اندازِ مُحبت بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان کی اپنی نصف بہتر کے لیے چاہت و محبت سے تخلیق کیے گئے اشعار نے شعری مجموعے کی شکل اختیار کر لی ہے جس کا عنوان ہے ’’تیری شباہت کے دائرے میں ‘‘۔ اس مجموعے سے چند اشعار جو شاعر کا حالِ دل بڑی خوب صورتی سے بیان کر رہے ہیں ، محبت کی دھیمی دھیمی آگ نے شاعری کو حرارت بخش دی ہے۔ جسے صاحبِ دل محسوس کر سکتا ہے۔

آنکھوں میں چمک ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی ہے

کیا آپ سے غیروں نے کوئی بات کہی ہے

ہم ڈھونڈ نہ پائے تھے جسے عرشِ بریں پر

وہ قامتِ انساں میں میرے پاس کھڑی ہے

ایک حشرِ مسلسل کا وہ سامان بنی ہے

وہ جانِ قیامت جو نگاہوں میں پلی ہے

ان اشعار کو دیکھیے اور اندازہ کیجیے کہ شاعر محبت کی شیرینی اور لطیف جذبات کو بے خودی کے عالم میں شدت سے محسوس کر رہا ہے۔

اس دل ربا سے آنکھ ملا کر تو دیکھیے

پھر اس کے بعد ہوش میں آ کر تو دیکھیے

خود بھی کسی کے ناز اُٹھا کر تو دیکھیے

دل میں کسی کی یاد جگا کر تو دیکھیے

مذکورہ کتاب میں ان کی بیگم کی پینٹنگ اور شاعر کی تخلیقی اُپچ نے اس کتاب کونہ کہ انفرادیت بخشی ہے بلکہ محبت کی کہانی کو ایک نیا اور خوب صورت موڑ بھی دیا ہے، مثال کے طور پر یہ اشعار:

ہم تخیل میں کھِلاتے ہیں نئے پھول مدام

لیلیِٰ زلف کے اور سرخیِ رخسار کے پھول

جناب پروفیسر سحرؔ انصاری اپنے مضمون ’’میری رائے میں ‘‘ لکھتے ہیں کہ عقیل احمد فضاؔ اعظمی ایک زرخیز تخلیقی ذہن کے آدمی ہیں۔ انھوں نے اس سے قبل اپنی شاعری کی جو کتابیں پیش کی ہیں ، وہ ان کے اسلوبِ سخن کی پہچان بن چکی ہیں۔ فضاؔ اعظمی ایک رخ یا ایک نظرئیے کے شاعر نہیں ہیں ، رومان، سماجی حقائق، سیاست و مقامی و عالمی تہذیب کے مختلف زاوئیے ان کے دائرۂ فکر کا حصہ ہیں اور وہ بڑی خوبی سے شاعری کی زبان میں اپنی بات کہہ دیتے ہیں۔ فضاؔ اعظمی کی کتاب ’’تیری شباہت کے دائرے میں ‘‘ اس قسم کے اشعار بھی موجود ہیں۔

ہم چاند کہانی کے مصنف تو ہیں لیکن

وہ لوگ کوئی اور ہیں جو چاند نشیں ہیں

جناب حمایت علی شاعرؔ نے بھی اپنی طویل نظم ’’آئینہ در آئینہ‘‘ میں اپنی زندگی کے تقریباً تمام ہی پہلوؤں پر منظوم انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ ان کے قاری کو ذرا بھی تشنگی محسوس نہیں ہوتی۔ محبت ان کی اَن مول دولت اور متاعِ حیات ہے۔ وہ بے حد پُر اثر انداز میں اپنی شریکِ حیات کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں اور اپنے دلی جذبات کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا ہے۔

تجھ کو معلوم نہیں ، تجھ کو بھلا کیا معلوم

تیرے چہرے کے یہ سادہ سے، اچھوتے سے نقوش

میرے تخیل کو کیا رنگ عطا کرتے ہیں

تیری زلفیں ، تیری آنکھیں ، تیرے عارض، تیرے ہونٹ

کیسی انجانی سی، معصوم خطا کرتے ہیں

تیرے قامت کا لچکتا ہوا مغرور تناؤ

جیسے پھولوں سے لدی شاخ ہوا میں لہرائے

وہ چھلکتے ہوئے ساغر سی جوانی، وہ بدن

جیسے شعلہ سا نگاہوں میں لپک کر رہ جائے

خلوتِ بزم ہو یا جلوتِ تنہائی ہو

تیرا پیکر میری نظروں میں اُبھر آتا ہے

کوئی ساعت ہو، کوئی فکر ہو، کوئی ماحول

مجھ کو ہر سمت تیرا حسن نظر آتا ہے

تجھ کو معلوم نہیں ، تجھ کو بھلا کیا معلوم

ان کی شاعری بے حد سبک رفتاری، محبت کی دل آویزی اور کیف و سرور کا احساس لیے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ شفاف جھرنوں کی طرح، ایک نئے انداز، نغمگی اور غنائیت کے ساتھ جیسے ستار کے تار بج اُٹھیں ، حمایت علی شاعرؔ کا اپنی شاعری کے حوالے سے ایک منفرد و معتبر مقام ہے۔ ان کی حیثیت ایک عہد اور ایک ادارے کی مانند ہے، جہاں سے سیکھا جا سکتا ہے اور وہ اپنے آپ میں اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں۔

٭٭٭

استفادۂ کتب

            ۱۔         قصص الانبیاء

            ۲۔        عورت مذہب، فلسفہ، تاریخ کی نظر میں                     پروفیسر اورنگ زیب

            ۳۔        جدید اردو ادب                                                   پروفیسر ابواللیث صدیقی

            ۴۔        کلیاتِ اقبال

            ۵۔        کلیاتِ اکبر الہ آبادی

            ۶۔        نصابی کتب

            ۷۔        دانائے راز                                                         پروفیسر ضیاء الدین احمد

            ۸۔        خطبات حضرت عمرؓ                                              ترتیب: سعدیہ عاصم

            ۹۔         حضرت عثمانؓ                                                      ترتیب: سعدیہ عاصم

            ۱۰۔       تاریخِ زبان و ادبِ اُردو                                         مصنف: پرفیسر جمیل احمد انجم

٭٭٭

 

 

نسیم انجم

تعلیم                 :                       ایم۔ اے، بی۔ ایڈ

پیشہ                  :                       درس و تدریس، صحافت

            مطبوعہ تصانیف

۱۔         دھوپ چھاؤں                 (افسانے)

۲۔        کائنات                          (ناول)

۳۔        آج کا انسان                    (افسانے)

۴۔        نرک                                        (ناول)

۵۔        پتوار                                         (ناول)

۶۔        گلاب فن اور دوسرے افسانے       (افسانے)

۷۔        کالم نگاری 2000ء سے تا حال

(روزنامہ ایکسپریس، ’’سا ختہ بے ساختہ‘‘ کے عنوان سے)

۸۔        ڈرامے (ریڈیو پاکستان پر 1984ء سے 2007ء تک)

۹۔         خاک میں صورتیں اور اُردو شاعری میں تصورِ زن

            زیر ترتیب :

۱۔         مضامین کا مجموعہ

۲۔        دو ناول

۳۔        کالموں کا مجموعہ

٭٭٭

تشکر: یوسفِ ثانی، جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید