فہرست مضامین
تفہیم القرآن
۱۵۔سورۂ دخان تا سورۂ الحجرات
ابو الاعلیٰ مودودی
(۴۴) سورۃ الدُّخان
نام
آیت نمبر ۱۰، یَوْ مَ تَأ تِی السَّمَآ ءُ بِدُ خَانٍ مُّبِینٍ کے لفظ دُخان کو اس سورۃ کا عنوان بنایا گیا ہے، یعنی یہ وہ سورۃ ہے جس میں لفظ دخان وارد ہوا ہے۔
زمانۂ نزول
اس زمانہ نزول بھی کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوتا، مگر مضامین کی اندرونی شہادت بتاتی ہے کہ یہ بھی اسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورہ زُخْرُف اور اس سے پہلے کی چند سورتیں نازل ہوئی تھیں، البتہ یہ ان سے کچھ متأخّر ہے۔ تاریخی پس منظر یہ ہے کہ جب کفار کی مخالفانہ روش شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ خدایا، یوسفؑ کے قحط جیسے ایک قحط سے میری مدد فرما۔ حضورؐ کا خیال یہ تھا کہ جب ان لوگوں پر مصیبت پڑے گی تو انہیں خدا یاد آئے گا اور ان کے دل نصیحت قبول کرنے کے لیے نرم پڑ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور سارے علاقے میں ایسے زور کا قحط پڑا کہ لوگ بلبلا اٹھے۔ آخر کر بعض سرداران قریش، جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود نے خاص طور پر ابو سفیان کا نام لیا ہے، حضور کے پاس آئے اور آپ سے درخواست کی کہ اپنی قوم کو اس بلا سے نجات دلانے کے لیے اللہ سے دعا کریں۔ یہی موقع ہے جب اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی۔
موضوع اور مباحث
اس موقع پر کفار مکہ کی فہمائش اور تنبیہ کے لیے جو خطبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا گیا اس کی تمہید چند اہم مباحث پر مشتمل ہے :
اول یہ کہ تم لوگ اس قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف سمجھنے میں غلطی کر رہے ہو۔ یہ کتاب تو اپنی ذات میں خود اس امر کی بیّن شہادت ہے کہ یہ کسی انسان کی نہیں بلکہ خداوند عالم کی کتاب ہے۔
دوسرے یہ کہ تم اس کتاب کی قدر و قیمت سمجھنے میں بھی غلطی کر رہے ہو۔ تمہارے نزدیک یہ ایک بلا ہے جو تم پر نازل ہو گئی ہے۔ حالانکہ در حقیقت وہ گھڑی انتہائی مبارک گھڑی تھی جب اللہ تعالیٰ نے سراسر اپنی رحمت کی بنا پر تمہارے ہاں اپنا رسول بھیجنے اور اپنی کتاب نازل کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
تیسرے یہ کہ تم اپنی نادانی سے اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہو کہ اس رسول اور اس کتاب سے لڑ کر تم جیت جاؤ گے۔ حالانکہ اس رسول کی بعثت اور اس کتاب کی تنزیل اس ساعت خاص میں ہوئی ہے جب اللہ تعالیٰ قسمتوں کے فیصلے فرمایا کرتا ہے۔ اور اللہ کے فیصلے بودے نہیں ہوتے کہ جس کا جی چاہے انہیں بدل ڈالے، نہ وہ کسی جہالت و نادانی پر مبنی ہوتے ہیں کہ ان میں غلطی اور خامی کا کوئی احتمال ہو۔ وہ تو اس فرمانروائے کائنات کے پختہ اور اٹل فیصلے ہوتے ہیں جو سمیع و علیم اور حکیم ہے۔ ان سے لڑنا کوئی کھیل نہیں ہے۔
چوتھے یہ کہ اللہ کو خود بھی زمین و آسمان اور کائنات کی ہر چیز کا مالک و پروردگار مانتے ہو اور یہ بھی مانتے ہو کہ زندگی و موت اسی کے اختیار میں ہے۔ مگر اس کے باوجود تمہیں دوسروں کو معبود بنانے پر اصرار ہے اور اس کے لیے حجت تمہارے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ باپ دادا کے وقتوں سے یہی کام ہوتا چلا آ رہا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص شعور کے ساتھ یہ یقین رکھتا ہو کہ اللہ ہی مالک و پروردگار اور زندگی و موت کا مختار ہے تو اسے کبھی یہ شبہ تک لاحق نہیں ہو سکتا کہ معبود ہونے کے مستحق اس کے سوا یا اس کے ساتھ دوسرے بھی ہو سکتے ہیں۔ تمہارے باپ دادا نے اگر یہ حماقت کی تھی تو کوئی وجہ نہیں کہ تم بھی آنکھیں بند کر کے اسی کا ارتکاب کرتے چلے جاؤ۔ حقیقت میں تو ان کا رب بھی اکیلا وہی خدا تھا جو تمہارا رب ہے، اور انہیں بھی اسی ایک کی بندگی کرنی چاہیے تھی جس کی بندگی تمہیں کرنی چاہیے۔
پانچویں یہ کہ اللہ کی ربوبیت و رحمت کا تقاضا صرف یہی نہیں ہے کہ تمہارا پیٹ پالے بلکہ یہ بھی ہے کہ تمہاری رہنمائی کا انتظام کرے۔ اسی رہنمائی کے لیے اس نے رسول بھیجا ہے اور کتاب نازل کی ہے۔
اس تمہید کے بعد اس قحط کے معاملے کو لیا گیا ہے جو اس وقت در پیش تھا۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، یہ قحط نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی استدعا پر آیا تھا، اور حضورؐ نے اس کے لیے دعا اس خیال سےکی تھی کہ مصیبت پڑے گی تو کفار کی اکڑی ہوئی گردنیں ڈھیلی پڑ جائیں گی، شاید کہ پھر حرف نصیحت ان پر کار گر ہو۔ یہ توقع اس وقت کسی حد تک پوری ہوتی نظر آ رہی تھی، کیونکہ بڑے بڑے ہیکڑ دشمنان حق کال کے مارے پکار اٹھے تھے کہ پروردگار، یہ عذاب ہم پر سے ٹال دے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ اس پر ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ ایسی مصیبتوں سےیہ لوگ کہاں سبق لینے والے ہیں، انہوں نے جب اس رسول کی طرف سے منہ موڑ لیا جس کی زندگی سے، جس کے کردار سے اور جس کے کام اور کلام سے علانیہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ یقیناً خدا کا رسول ہے، تو اب محض ایک قحط ان کی غفلت کیسے دور کر دے گا۔ دوسرےطرف کفار کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ تم بالکل جھوٹ کہتے ہو کہ یہ عذاب تم پر سے ٹال دیا جائے تو تم ایمان لے آؤ گے۔ ہم اس عذاب کو ہٹائے دیتے ہیں، ابھی معلوم ہوا جاتا ہے کہ تم اپنے اس وعدے میں کتنے سچے ہو۔ تمہارے سر پر تو شامت کھیل رہی ہے۔ تم ایک بڑی ضرب مانگ رہے ہو، ہلکی چوٹوں سے تمہارا دماغ درست نہیں ہو گا۔
اسی سلسلے میں آگے چل کر فرعون اور اس کی قوم کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو بھی ٹھیک یہی آزمائش پیش آئی تھی جس سے اب کفار قریش کے سرداروں کو سابقہ پڑا ہے۔ ان کے پاس بھی ایسا ہی ایک معزز رسول آیا تھا۔ انہوں نے بھی وہ صریح علامات اور نشانیاں دیکھ لی تھیں جن سے اس کا مامور من اللہ ہونا صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ وہ بھی نشانی پر نشانی دیکھتے چلے گئے مگر اپنی ضد سے باز نہ آئے۔ یہاں تک کہ آخر کار رسول کی جان لینے کے درپے ہو گئے اور نتیجہ وہ کچھ دیکھا جو ہمیشہ کے لیے سامان عبرت بن گیا۔
اس کے بعد دوسرا موضوع آخرت کا لیا گیا ہے جس سےکفار مکہ کو شدت کے ساتھ انکار تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم نے کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ اٹھ کر آتے نہیں دیکھا ہے، تم اگر دوسری زندگی کے دعوے میں سچے ہو تا اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو۔ اس کے جواب میں عقیدہ آخرت کی دو دلیلیں مختصر طور پر دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اس عقیدے کا انکار ہمیشہ اخلاق کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھلونا نہیں ہے، بلکہ ایک حکیمانہ نظام ہے، اور حکیم کا کوئی کام عبث نہیں ہوتا۔ پھر کفار کے اس مطالبہ کا کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو، یہ جواب دیا گیا ہے کہ یہ کام روز روز ہر ایک کے مطالبہ پر نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے اللہ نے ایک وقت مقرر فرما دیا ہے جب وہ تمام نوع انسانی بیک وقت جمع کرے گا اور اپنی عدالت میں ان کا محاسبہ فرمائے گا۔ اس وقت کی اگر کسی کو فکر کرنی ہو تو کر لے، کیونکہ وہاں کوئی نہ اپنے زور پر بچ سکے گا نہ کسی کے بچائے بچے گا۔
اللہ کی اس عدالت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جو لوگ وہاں مجرم قرار پائیں گے ان کا انجام کیا ہو گا، اور جو وہاں سے کامیاب ہو کر نکلیں گے وہ کیا انعام پائیں گے۔ پھر یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی ہے کہ تم لوگوں کو سمجھانے کے لیے یہ قرآن صاف سیدھی زبان میں اور تمہاری اپنی زبان میں نازل کر دیا گیا ہے، اب اگر تم سمجھانے سے نہیں سمجھتے اور انجام بدی دیکھنے پر مصر ہو تو انتظار کو، ہمارا نبی بھی منتظر ہے، جو کچھ ہونا ہے وہ اپنے وقت پر سامنے آ جائے گا۔
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
ح۔ م۔ قسم ہے اس کتاب مبین کی کہ ہم نے اسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے(۱)۔ یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ(۲) ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے(۳)۔ ہم ایک رسو، بھیجنے والے تھے، تیرے رب کی رحمت کے طور پر(۴)۔ یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے(۵)، آسمانوں اور زمین کا رب اور ہر اس چیز کا رب جو آسمان و زمین کے درمیان ہے اگر تم لوگ واقعی یقین رکھنے والے ہو(۶)۔ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے(۷)۔ وہی زندگی عطا کرتے ہے اور وہی موت دیتا ہے(۸)۔ تمہارا رب اور تمہارے ان اسلاف کا رب جو پہلے گزر چکے ہیں(۹)۔ (مگر فی الواقع ان لوگوں کو یقین نہیں ہے) بلکہ یہ اپنے شک میں پڑے کھیل رہے ہیں۔ (۱۰)
اچھا انتظار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا، یہ ہے درد ناک سزا۔ (اب کہتے ہیں کہ)’’ پروردگار، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں‘‘۔ ان کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے؟ ان کا حال تو یہ ہے کہ ان کے پاس رسول مبین آ گیا(۱۱) پھر بھی یہ اس کی طرف مُلتفت نہ ہوئے اور کہا کہ ’’ یہ تو سکھایا پڑھایا باولا ہے‘‘(۱۲)۔ ہم ذرا عذاب ہٹائے دیتے ہیں، تم لوگ پھر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے۔ جس روز ہم بڑی ضرب لگائیں گے وہ دن ہو گا جب ہم تم سے انتقام لیں گے(۱۳)۔
ہم ان سے پہلے فرعون کی قوم کو اسی آزمائش میں ڈال چکے ہیں۔ ان کے پاس ایک نہایت شریف رسول(۱۴) آیا اور اس نے کہا (۱۵)’’ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو(۱۶)، میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں(۱۷)۔ اللہ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو۔ میں تمہارے سامنے (اپنی ماموریت کی) صریح سند پیش کرتا ہوں(۱۸)۔ اور میں اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لے چکا ہوں اس سے کہ تم مجھ پر حملہ آور ہو۔ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ پر ہاتھ ڈالنے سے باز رہو‘‘ (۱۹)۔ آخر کار اس نے اپنے رب کو پکارا کہ یہ لوگ مجرم ہیں(۲۰)۔ (جواب دیا گیا) اچھا تو راتوں رات میرے بندوں کو (۲۱) لے کر چل پڑ۔ تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا۔ سمندر کو اس کے حال پر کھلا چھوڑ دے۔ یہ سارا لشکر غرق ہونے والا ہے‘‘۔ کتنے ہی باغ اور چشمے اور کھیت اور شاندار محل تھے جو وہ چھوڑ گئے۔ کتنے ہی عیش کے سر و سامان، جن میں وہ مزے کر رہے تھے ان کے پیچھے دھرے رہ گئے۔ یہ ہوا ان کا انجام، اور ہم نے ذرا سی مہلت بھی ان کو نہ دی گئی۔ ع
تفسیر
۱۔ کتاب مبین کی قسم کھانے کا مطلب سورہ زخرف حاشیہ نمبر ۱ میں بیان کیا جا چکا ہے۔ یہاں بھی قسم جس بات پر کھائی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں بلکہ ’’ ہم ‘‘ ہیں، اور اس کا ثبوت کہیں اور ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، خود یہ کتاب ہی اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد مزید بات یہ فرمائی گئی کہ وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی جس میں اس نازل کیا گیا۔ یعنی نادان لوگ، جنہیں اپنی بھلائی برائی کا شعور نہیں ہے، اس کتاب کی آمد کو اپنے لیے بلائے ناگہانی سمجھ رہے ہیں اور اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہیں۔ لیکن در حقیقت ان کے لیے اور تمام نوع انسانی کے لیے وہ ساعت بڑی سعید تھی جب ’’ ہم ‘‘ نے غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکا نے کے لیے یہ کتاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس رات میں قرآن نازل کرنے کا مطلب بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کا سلسلہ اس رات شروع ہوا۔ اور بعض مفسرین اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اس میں پورا قرآن امّ الکتاب سے منتقل کر کے حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا اور پھر وہ حالات و وقائع کے مطابق جسب ضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ۲۳ سال تک نازل کیا جاتا رہا۔ صحیح صورت معاملہ کیا ہے، اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اس رات سے مراد وہی رات ہے جسے سورہ قدر میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے۔ وہاں فرمایا گیا کہ : اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیلَۃِ الْقَدْرِ، اور یہاں فرمایا کہ : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَا رَکَۃٍ۔ پھر یہ بات بھی قرآن مجید ہی میں بتادی گئی ہے کہ وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی : شَھْرُ رَمَضَا نَ الْذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰن (البقرہ، ۱۸۵)۔
۲۔ اصل میں لفظ ’’ اَمْرٍ حَکِیْم ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حکم سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے، کسی غلطی یا خامی کا اس میں کوئی امکان نہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ ایک پختہ اور محکم فیصلہ ہوتا ہے، اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں۔
۳۔ سورہ قدر میں یہی مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے : تَنَزَّل ُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّ وْ حُ فِیْھَا بِاِ ذْ نِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ، ’’ اس رات ملائکہ اور جبریل اپنے رب کے اِذن س ہر طرح کا حکم لے کر اترتے ہیں۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے شاہی نظم و نسق میں یہ ایک ایسی رات ہے جس میں وہ افراد اور قوموں اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کر کے اپنے فرشتوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ اور پھر وہ انہی فیصلوں کے مطابق عملدرآمد کرتے رہتے ہیں۔ بعض مفسرین کو جن میں حضرت عکرمہ سب سے زیادہ نمایاں ہیں، یہ شبہ لاحق ہوا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے، کیوں کہ بعض احادیث میں اسی رات کے متعلق یہ بات منقول ہوئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ لیکن ابن عباس، ابن عمر، مجاہد، قتادہ، حسن بصری، سعید بن جبیر، ابن زید، ابو مالک، ضحاک اور دوسرے بہت سے مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ رمضان کی وہی رات ہے جسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے، اس لیے کہ قرآن مجید خود اس کی تصریح کر رہا ہے، اور جہاں قرآن کی صراحت موجود ہو وہاں اخبار آحاد کی بنا پر کوئی دوسرے رائے نہیں قائم کی جا سکتی۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ’’ عثمان بن محمد کی جو روایت امام زہری نے شعبان سے شعبان تک قسمتوں کے فیصلے ہونے کے متعلق نقل کی ہے وہ ایک مرسل روایت ہے، اور ایسی روایات نصوص کے مقابلے میں نہیں لائی جا سکتیں۔ ‘‘ قاضی ابوبکر ابن العربی کہتے ہیں کہ ’’ نصف شعبان کی رات کے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ہے، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس امر میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے ‘‘۔ (احکام القرآن)
۴۔ یعنی یہ کتاب دے کر ایک رسول کو بھیجنا نہ صرف حکمت کا تقاضا تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا بھی تھا، کیونکہ وہ رب ہے اور ربوبیت صرف اسی بات کی متقاضی نہیں ہے کہ بندوں کے جسم کی پرورش کا سامان کیا جائے اور انہیں تاریکی میں بھٹکتا نہ چھوڑ دیا جائے۔
۵۔ اس سیاق و سباق میں اللہ تعالیٰ کی ان دو صفت کو بیان کرنے سے مقصود لوگوں کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ صحیح علم صرف وہی دے سکتا ہے، کیونکہ تمام حقائق کو وہی جانتا ہے۔ ایک انسان تو کیا، سارے انسان مل کر بھی ایک سمیع و علیم نہیں بنتی۔ اس کے بس میں یہ ہے ہی نہیں کہ ان تمام حقائق کا احاطہ کرے جن کا جاننا ایک صحیح راہ حیات متعین کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ وہی سمیع و علیم ہے، اس لیے وہی یہ بتا سکتا ہے کہ انسان کے لیے ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا، حق کیا ہے اور باطل کیا، خیر کیا ہے اور شر کیا۔
۶۔ اہل عرب خود اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات اور اس کی ہر چیز کا رب (مالک و پرسردگار ) ہے۔ اس لیے ان سے فرمایا گیا کہ اگر تم بے سوچے سمجھے محض زبان ہی سے یہ اقرار نہیں کر رہے ہو، بلکہ تمہیں واقعی اس کی پروردگاری کا شعور اور اس کے مالک ہونے کا یقین ہے، تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ (۱) انسان کی رہنمائی کے لیے کتاب اور رسول کا بھیجنا اس کی شان رحمت و پروردگاری کا عین تقاضا ہے، اور (۲) مالک ہونے کی حیثیت سے یہاس کا حق اور مملوک ہونے کی حیثیت سے یہ تمہارا فرض ہے کہ اس کی طرف سے جو ہدایت آئے اسے مانو اور جو حکم آئے اس کے آگے سر اطاعت جھکا دو۔
۷۔ معبود سےمراد ہے حقیقی معبود جس کا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت (بندگی و پرستش ) جائے۔
۸۔ یہ دلیل ہے اس امر کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ جس نے بے جان مادوں میں جان ڈال کر تم کو جیتا جاگتا انسان بنایا، اور جو اس امر کے کلی اختیارات رکھتا ہے کہ جب تم چاہے تمہاری اس زندگی کو باقی رکھے اور جب چاہے اسے ختم کر دے، اس کی تم بندگی نہ کرو، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرو، یا اس کے ساتھ دوسروں کی بندگی بھی کرنے لگو۔
۹۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہےاس امر کی طرف کہ تمہارے جن اسلاف نے اس کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنائے، ان کا رب بھی حقیقت میں وہی تھا۔ انہوں نے اپنے اصلی رب کے سوا دوسروں کی بندگی کر کے کوئی صحیح کام نہ کیا تھا کہ ان کی تقلید کرنے میں تم حق بجانب ہو اور ان کے فعل کو اپنے مذہب کے درست ہونے کی دلیل ٹھیرا سکو۔ ان کو لازم تھا کہ وہ صرف اسی کی بندگی کرتے کیونکہ وہی ان کا رب تھا۔ لیکن اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو تمہیں لازم ہے کہ سب کی بندگی چھوڑ کر اسی ایک کی بندگی اختیار کرو کیونکہ وہی تمہارا رب ہے۔
۱۰۔ اس مختصر سے فقرے میں ایک بڑی اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دہریے ہوں یا مشرکین، ان سب پر وقتاً فوقتاً ایسی ساعتیں آتی رہتی ہیں جب ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ جو کچھ تم سمجھے بیٹھے ہو اس میں کہیں نہ کہیں جھول موجود ہے۔ دہریہ اپنے انکار خدا میں بظاہر خواہ کتنا ہی سخت ہو، کسی نہ کسی وقت اس کا دل یہ شہادت دے گزرتا ہے کہ خاک کے ایک ذرے سے لے کر کہکشانوں تک اور گھاس کی ایک پتی سے لے کر انسان کی تخلیق تک یہ حیرت انگیز، حکمت سے لبریز نظام کسی صانع حکیم کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ اسی طرح ایک مشرک اپنے شرک میں خواہ کتنا ہی گہرا ڈوبا ہوا ہو، کبھی نہ کبھی اس کا دل بھی یہ پکار اٹھتا ہے کہ جنہیں میں معبود بنائے بیٹھا ہوں یہ خدا نہیں ہو سکتے۔ لیکن اس قلبی شہادت کا نتیجہ نہ تو یہ ہوتا ہے کہ انہیں خدا کے وجود اور اس کی توحید کا یقین حاصل ہو جائے، نہ یہی ہوتا ہے کہ انہیں اپنے شرک اور اپنی دہریت میں کامل یقین و اطمینان حاصل رہے۔ اس کے بجائے ان کا دین در حقیقت شک پر قائم ہوتا ہے خواہ اس میں یقین کی کتنی ہی شدت وہ دکھا رہے ہوں۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ شک ان کے اندر بے چینی کیوں نہیں پیدا کرتا، اور وہ سنجیدگی کے ساتھ حقیقت کی جستجو کیوں نہیں کرتے کہ یقین کی اطمینان بخش بنیاد انہیں مل سکے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں سنجیدگی ہی سے تو وہ محروم ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں اصل اہمیت صرف دنیا کی کمائی اور اس کے عیش کی ہوتی ہے جس کی فکر میں وہ اپنے دل اور دماغ اور جسم کی ساری طاقتیں خرچ کر ڈالتے ہیں۔ رہے دین کے مسائل، تو وہ حقیقت میں ان کے لیے ایک کھیل، ایک تفریح، ایک ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں ہوتے جن پر سنجیدگی کے ساتھ چند لمحے بھی وہ غور و فکر میں صرف نہیں کر سکتے۔ مذہبی مراسم ہیں تو تفریح کے طور پر ادا کیے جا رہے ہیں۔ انکار و دہریت کی بحثیں ہیں تفریح کے طور پر کی جا رہی ہیں۔ دنیا کے مشاغل سے اتنی فرصت کسے ہے کہ بیٹھ کر یہ سوچے کہ کہیں ہم حق سے منحرف تو نہیں ہیں اور اگر حق سے منحرف ہیں تو اس کا انجام کیا ہے۔
۱۱۔ رسولِ مُبین کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا رسول ہونا اس کی سیرت، اس کے خلاق و کردار اور اس کے کارناموں سے بالکل عیاں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس نے حقیقت کو کھول، کھول کر بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
۱۲۔ ان کا مطلب یہ تھا یہ بے چارہ تو سیدھا آدمی تھا، کچھ دوسرے لوگوں نے اسے بَھروں پر چڑھا لیا، وہ در پر وہ قرآن کی آیتیں گھڑ گھڑ کر اسے پڑھا دیتے ہیں، یہ آ کر عام لوگوں کے سامنے انہیں پیش کر دیتا ہے، وہ مزے سے بیٹھے رہتے ہیں، اور یہ گالیاں اور پتھر کھاتا ہے۔ اس طرح ایک چلتا ہو فقرہ کہہ کر وہ ان ساری دلیلوں اور نصیحتوں اور سنجیدہ تعلیمات کو اڑا دیتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برسوں سے ان کے سامنے پیش کر کر کے تھکے جا رہے تھے۔ وہ نہ ان معقول باتوں پر کوئی توجہ کرتے تھے جو قرآن مجید میں بیان کی جا رہی تھیں۔ نہ یہ دیکھتے تھے کہ جو شخص یہ باتیں پیش کر رہا ہے وہ کس پائے کا آدمی ہے۔ اور نہ یہ الزام رکھتے وقت ہی وہ کچھ سوچنے کی زحمت گوارا کرتے تھے کہ ہم یہ کیا بکواس کر رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی دوسرے شخص در پردہ بیٹھ کر سکھانے پڑھانے والا ہوتا تو وہ حضرت خدیجہؓ اور ابوبکرؓ اور علیؓ اور زیدؓ بن حارثہ اور دوسرے ابتدائی مسلمانوں سے آخر کیسے چھپ جاتا جن سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب اور ہر وقت کا ساتھی کوئی نہ تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہی لوگ سب سے بڑھ کر حضورؐ کے گرویدہ اور عقیدت مند تھے، حالانکہ درپردہ کسی دوسرے شخص کے سکھانے پڑھانے سے نبوت کا کاروبار چلایا گیا ہوتا تو یہی لوگ آپ کی مخالفت میں سب سے پیش پیش ہوتے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۵۷۳۔ ۵۷۴۔ جلد سوم، ص ۴۳۵۔ ۴۳۷)۔
۱۳۔ ان آیات کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہوا ہے اور یہ اختلاف صحابہ کرام کے زمانے میں بھی پایا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے مشہور شاگرد مسروق کہتے ہیں کہ ایک روز ہم کو فے کی مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک واعظ لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہے۔ اس نے آیت : یَوْمَ تَأ تِی السَّمَآءُ بِدُ خَانٍ مُّبِیْنٍ پڑھی، پھر کہنے لگا، جانتے ہو یہ کیسا دھواں ہے ؟ یہ دھواں قیامت کے روز آئے گا اور کفار و منافقین کو اندھا بہرا کر دے گا، مگر اہل ایمان پر اس کا اثر بس اس قدر ہو گا کہ جیسے زکام لاحق ہو گیا ہو۔ اس کی یہ بات سن کر ہم حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس گئے اور ان سے واعظ کی یہ تفسیر بیان کی۔ حضرت عبداللہ لیتے ہوئے تھے۔ یہ تفسیر سن کر گھبرا کے اٹھ بیٹھے اور کہتے لگے کہ آدمی کو علم نہ ہو تو اسے جاننے والوں سے پوچھ لینا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب قریش کے لوگ اسلام قبول کرنے سے انکار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہی چلے گئے تو حضور نے دعا کی کہ خدایا یوسف علیہ السلام کے قحط جسے قحط سے میری مدد فرما۔ چنانچہ ایسا شدید کال پڑا کہ لوگ ہڈیاں اور چمڑا اور مردار تک کھا گئے۔ اس زمانے میں حالت یہ تھی کہ جو شخص آسمان کی طرف دیکھتا تھا اسے بھوک کی شدت میں بس دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا۔ آخر کار ابو سفیان نے آ کر حضور سے کہا کہ آپ تو صلہ رحمی کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ کی قوم بھوکوں مر رہی ہے۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ اس مصیبت کو دور کر دے۔ یہی زمانہ تھا جب قریش کے لوگ کہتے لگے تھے کہ خدایا ہم پر سے یہ عذاب دور کر دے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ اسی واقعہ کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔ اور بڑی ضرب سے مراد وہ ضرب ہے جو آخر کار جنگ بدر کے روز قریش کو لگائی گئی۔ یہ روایت امام احمد، بخاری، ترمذی، نسائی، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے متعدد سندوں کے ساتھ مسروق سے نقل کی ہے۔ اور مسروق کے علاوہ ابراہیم نخعی، قتادہ، عاصم اور عامر کا بھی یہی بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس آیت کی یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی۔ اس لیے اس امر میں کوئی شک نہیں رہتا کہ حضرت موصوف کی رائے فی الواقع یہی تھی۔ تابعین میں سے مجاہد، قتادہ، ابو العالیہ، مقاتل، ابراہیم النخفی، ضحاک اور عطیۃ الغوفی وغیرہ حضرات نے بھی اس تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے اتفاق کیا ہے۔
دوسری طرف حضرت علی، ابن عمر، ابن عباس، ابو سعید خدری، زید بن علی اور حسن بصری جیسے اکابر کہتے ہیں کہ ان آیات میں سارا ذکر قیامت کے قریب زمانے کا کیا گیا ہے اور وہ دھواں جس کی خبر دی گئی ہے، اسی زمانے میں زمین پر چھائے گا۔ مزید تقویت اس تفسیر کو ان روایات ملتی ہے جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ خذیفہ بن اَسید الغفاری کہتے ہیں کہ ایک روز ہم قیامت کے متعلق آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ اتنے میں حضور برآمد ہوئے اور فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی جب تک دس علامات یکے بعد دیگرے ظاہر نہ ہو لیں گی : سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔ دھواں۔ دابّہ۔ یاجوج و ماجوج کا خروج، عیسی ابن مریم کا نزول۔ زمین کا دھنسنا مشرق میں، مغرب میں اور جزیرۃالعرب میں۔ اور عدن سے آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانکتی ہوئی لے جائے گی (مسلم)۔ اسی کی تائید ابو مالک اشعری کی وہ روایت کرتی ہے جسے ابن جریر اور طبرانی نے نقل کیا ہے، اور ابو سعید خدری کی روایت جسے ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے۔ ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوئیں کو علامات قیامت میں شمار کیا ہے، اور یہ بھی حضورؐ نے فرمایا ہے کہ وہ دھواں جب چھائے گا تو مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہو گا، اور کافر کی نس نس میں وہ بھر جائے گا اور اس کے ہر منفذ سے نکلے گا۔
ان دونوں تفسیروں کا تعارض اوپر کی آیات پر غور کرنے سے بآسانی رفع ہوسکتا ہے۔ جہاں تک حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی تفسیر کا تعلق ہے، یہ امر واقعہ ہے کہ مکہ معظمہ میں حضورؐ کی دعا سے سخت قحط رونما ہوا تھا جس سے کچار کے خنّے بہت کچھ ڈھیلے پڑ گئے تھے، اور انہوں نے اسے رفع کرانے کے لیے حضورؐ سے دعا کی درخواست کی تھی۔ اس واقعہ کی طرف قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اشارے کیے گئے ہیں (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۵۴۰۔ جلد دوم، ص۵۹۔ ۶۰۔ ۲۶۹۔ ۲۷۰۔ ۲۷۷۔ ۲۷۸۔ جلد سوم، ص ۲۹۳)۔ ان آیات میں بھی صاف محسوس ہوتا ہے کہ اشارہ اسی صورت حال کی طرف ہے۔ کفار کا یہ کہنا کہ ’’ پروردگار، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ’’ ان کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے جب کہ رسول مبین آ گیا، پھر بھی یہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا کہ یہ تو سکھایا پڑھایا باؤلا ہے۔ ‘‘ پھر یہ فرمانا کہ ’’ ہم ذرا عذاب ہٹائے دیتے ہیں، تم لوگ پھر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے۔ ‘‘ یہ ساری باتیں اسی صورت میں راست ٍآ سکتی ہیں جب کہ واقعہ حضورؐ ہی کے زمانے کا ہو۔ قامت کے قریب ہونے والے واقعات پر ان کا اطلاق بعید از فہم ہے۔ اس لیے اس حد تک تو ابن مسعود رضیاللہ عنہ کی تفسیر ہی صحیح معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس کا یہ حصہ صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ ’’ دھواں‘‘ بھی اسی زمانے میں ظاہر ہوا تھا، اور اس شکل میں ظاہر ہوا تھا کہ بھوک کی شدت میں جب لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا، یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ سے بھی مطابقت نہیں رکھتی، اور احادیث کے بھی خلاف ہے۔ قرآن میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ آسمان دھواں لیے ہوئے آ گیا اور لوگوں پر چھا گیا۔ وہاں تو کہا گیا ہے کہ ’’ اچھا تو اس دن کا انتظار کرو جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا۔ ‘‘ بعد کی آیات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس ارشاد کا صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب تم نہ رسول کے سمجھانے سے مانتے ہو، نہ قحط کی شکل میں جو تنبیہ تمہیں کی گئی ہے اس سے ہی ہوش میں آتے ہو، تو پھر قیامت کا انتظار کرو، اس وقت جب پوری طرح شامت آئے گی تب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ حق کیا تھا۔ پس جہاں تک دھوئیں کا تعلق ہے، اس کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ وہ قحط کے زمانے کی چیز نہیں ہے بلکہ علامات قیامت میں سے ہے، اور یہی بات احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ تعجب ہے کہ مفسرین کبار میں سے جنہوں نے حضرت ابن مسعود کیا تائید کی انہوں نے بات کی تائید کر دی، اور جنہوں نے ان کی تردید کی انہوں نے پوری بات کی تردید کر دی، حالانکہ آیات اور احادیث پر غور کرنے سے یہ صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا کونسا حصہ صحیح ہے اور کون سا غلط۔
۱۴۔ اصل میں ’’رَسُوْلٌ کَرِیْمٌ ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ کریم کا لفظ جب انسان کے لیے بولا جاتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بہترین شریفانہ خصائل اور نہایت قابل تعریف صفات سے متصف ہے۔ معمولی خوبیوں کے لیے یہ لفظ نہیں بولا جاتا۔
۱۵۔ یہ بات ابتدا ہی میں سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں موسیٰ کے جو اقوال نقل کیے جا رہے ہیں وہ ایک وقت میں ایک ہی مسلسل تقریر کے اجزا نہیں ہیں، بلکہ سالہا سال کے دوران میں مختلف مواقع پر جو باتیں انہوں نے فرعون اور اس کے اہل دربار سے کہی تھیں ان کا خلاصہ چند فقروں میں بیان کیا جا رہا ہے۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۶۳ تا ۴۶۔ ۳۰۱ تا ۳۱۰ جلد سوم، ص ۹۵ تا ۱۰۸۔ ۴۸۰ تا ۴۹۸۔ ۵۵۷ تا تا ۵۶۰۔ ۶۳۴ تا ۶۳۹۔ جلد چہارم، المومن، آیات ۲۳ ت ۴۶۔ الزخرف ۴۶ تا ۵۶ مع حواشی)
۱۶۔ اصل میں اَدُّ وْ ا اِلَیَّ عِبَا دَ ا للہِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو اوپر ہم نے کیا ہے اور اس کے لحاظ سے یہ اس مطالبے کا ہم معنی ہے جو سورہ اَ عراف(آیت ۱۰۵)، سورہ طٰہٰ (۴۷) اور الشعراء (۱۷) میں گزر چکا ہے کہ ’’ نبی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دو‘‘ دوسری تر جمہ، جو حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے، یہ ہے کہ ’’ اللہ کے بندو میرا حق ادا کرو‘‘ یعنی میری بات مانو، مجھ پر ایمان لاؤ، اور میری ہدایت کی پیروی کرو، یہ خدا کی طرف سے تمہارے اوپر میرا حق ہے۔ بعد کا یہ فقرہ کہ ’’ میں تمہارے لیے ایک مانت دار رسول ہوں ‘‘ اس دوسرے مفہوم کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
۱۷۔ یعنی بھروسے کے قابل رسول ہوں۔ اپنی طرف سے کوئی بات ملا کر کہنے والا نہیں ہوں۔ نہ اپنی کسی ذاتی خواہش یا غرض کے لیے خود ایک حکم یا قانون گھڑ کر خدا کے نام سے پیش کرنے والا ہوں۔ مجھ پر تم یہ اعتماد کرسکتے ہو کہ جو کچھ میرے بھیجنے والے نے کہا ہے وہی بے کم و کاست تم تک پہنچاؤں گا۔ (واضح رہے کہ یہ دو فقرے اس وقت کے ہیں جب حضرت موسیٰ نے سب سے پہلے اپنی دعوت پیش فرمائی تھی)۔
۱۸۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے مقابلے میں جو سرکشی تم کر رہے ہو یہ در اصل اللہ کے مقابلے میں سرکشی ہے، کیونکہ میری جن باتوں پر تم بگڑ رہے ہو وہ میری نہیں بلکہ اللہ کی باتیں ہیں اور میں اسی کے رسول کی حیثیت سے انہیں بیان کر رہا ہوں۔ اگر تمہیں اس میں شک ہے کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں یا نہیں، تو میں تمہارے سامنے اپنے مامور من اللہ ہونے کی صریح سند پیش کرتا ہوں۔ اس سند سے مراد کوئی ایک معجزہ نہیں ہے بلکہ معجزات کا وہ طویل سلسلہ ہے جو فرعون کے دربار میں پہلی مرتبہ پہنچنے کے بعد سے آخر زمانہ قیام تک حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اس کی قوم کو سالہا سال تک دکھاتے رہے۔ جس سند کو بھی اُن لوگوں نے جھٹلایا اس سے بڑھ کر صریح سند آپ پیش کرتے چلے گئے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الزخرف حواشی نمبر ۴۲۔ ۴۳)۔
۱۹۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب حضرت موسٰی کی پیش کردہ ساری نشانیوں کے مقابلے میں فرعون اپنی ہٹ پر اڑا ہوا تھا مگر یہ دیکھ کر کہ ان نشانیوں سے مصر کے عوام اور خواص روز بروز متاثر ہوتے چلے جا رہے ہیں، اس کے ہوش اُڑے جا رہے تھے۔ اس زمانے میں پہلے تو اس نے بھرے دربار میں وہ تقریر کی جو سورہ زخرف، آیات ۵۱۔ ۵۳ میں گزر چکی ہے (ملاحظہ ہو حواشی سورہ زخرف ۴۵ تا ۴۹) پھر زمین پاؤں تلے سے نکلتی دیکھ کر آخر کار وہ اللہ کے رسول کو قتل کرنے دینے پر آمادہ ہو گیا۔ اس وقت آنجناب نے وہ بات کہی جو سورہ مومن، آیت۲۷ میں گزر چکی ہے کہ اِنّی عذتُ بِربّی ورَبی کُم مِن کُل مُتکبرٍ لّا یؤ منُ الحساب۔ ’’ میں نے پناہ لی اپنے رب کی ہر اس متکبر سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا”۔ یہاں حضرت موسیٰ اپنی اسی بات کا حوالہ دیکھ کر فرعون اور اس کے اعیان سلطان سے فرما رہے ہیں کہ دیکھو، میں تمہارے سارے حملوں کے مقابلہ میں اللہ رب العالمین پناہ مانگ چکا ہوں۔ اب تم میرا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے لیکن اگر تم خود اپنی خیر چاہتے ہو تو مجھ پر حملہ آور ہونے سے باز رہو، میری بات نہیں مانتے تو نہ مانو۔ مجھ پر ہاتھ ہرگز نہ ڈالنا، ورنہ اس کا بہت برا انجام دیکھو گے۔
۲۰۔ یہ حضرت موسیٰ کی آخری رپورٹ ہے جو انہوں نے اپنے رب کے سامنے پیش کی۔ "یہ لوگ مجرم ہیں” یعنی ان کا مجرم ہونا اب قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہے۔ کوئی گنجائش ان کے ساتھ رعایت برتنے اور ان کو اصلاح حال کا مزید موقع دینے کی باقی نہیں رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حضور آخری فیصلہ فرمائیں۔
۲۱۔ یعنی ان سب لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ان میں بنی اسرائیل بھی تھے اور مصر کے وہ قبطی باشندے بھی جو حضرت یوسفؑ کے زمانے سے حضرت موسیٰ ؑ کی آمد تک مسلمانوں میں شامل ہو چکے تھے، اور وہ لوگ بھی جنہوں نے حضرت موسیٰؑ کی نشانیاں دیکھ کر اور آپ کی دعوت و تبلیغ سے متاثر ہو کر اہل مصر میں سے اسلام قبول کیا تھا۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن جلد دوم، ص ۴۳۰)
۲۲۔ یہ ابتدائی حکم ہے جو حضرت موسیٰؑ کو ہجرت کے لیے دیا گیا تھا (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص ۱۰۸تا۴۹۸)
۲۳۔ یہ حکم اس وقت دیا گیا جب حضرت موسیٰؑ اپنے قافلہ کو لے کر سمندر پار کر چکے تھے اور چاہتے تھے کہ سمندر پر عصا مار کر اسے پھر ویسا ہی کر دیں جیسا وہ پھٹنے سے پہلے تھا، تاکہ فرعون اور اس کا لشکر اس راستے سے گذر کر نہ آ جائے جو معجزہ سے بنا تھا۔ اس وقت فرمایا گیا کہ ایسا نہ کرو۔ اس کو اسی طرح پھٹا کا پھٹا رہنے دو تاکہ فرعون اپنے لشکر سمیت اس راستے میں اتر آئے، پھر سمندر کو چھوڑ دیا جائے گا اور یہ پوری فوج غرق کر دی جائے گی۔
۲۴۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کے بعد مصر کی سرزمین کا وارث بنا دیا۔ اور قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد دوسرے لوگ ہیں جو آل فرعون کے بعد مصر کے وارث ہوئے، کیونکہ تاریخوں میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ملتا کہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کبھی وہاں واپس گئے ہوں اور وہاں اس زمین کے وارث ہوئے ہوں یہی اختلاف بعد کے مفسرین میں بھی پایا جاتا ہے۔ (تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص ۴۹۶۔ ۴۹۷)
۲۵۔ یعنی جب وہ حکمراں تھے تو ان کی عظمت کے ڈنکے بج رہے تھے۔ ان کی حمد و ثناء کے ترانوں سے دنیا گونج رہی تھی۔ خوش آمدیوں کے جم گھٹے ان کے آگے اور پیچھے لگے رہتے تھے۔ ان کی وہ ہوا باندھی جاتی تھی کہ گویا ایک عالم ان کے کمالات کا گرویدہ اور ان کے احسانات کا زیر بار ہے۔ اور ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مقبول نہیں، مگر جب وہ گرے تو کوئی آنکھ ان کے لیے رونے والی نہیں تھی، بلکہ دنیا نے ایسا اطمینان کا سانس لیا کہ گویا ایک کانٹا تھا جو اس کے پہلو سے نکل گیا۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے نہ خلق خدا کے ساتھ کوئی بھلائی کی تھی کہ زمین والے ان کے لیے روتے، نہ خدا کی خوشنودی کا کوئی کام کیا تھا کہ آسمان والوں کو ان کی ہلاکت پر افسوس ہوتا۔ جب تک مشیت الٰہی سے اس کی رسی دراز ہوتی رہی، وہ زمین کے سینے پر مونگ ڈلتے رہے۔ جب ان کے جرائم حد سے گذر گئے تو اس طرح اٹھا کر پھینک دیئے جیسے کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے۔
ترجمہ
اس طرح بنی اسرائیل کو ہم نے سخت ذلت کے عذاب، فرعون (۲۶) سے نجات دی جو حد سے گزر جانے والوں میں فی الواقع بڑے اونچے درجے کا آدمی تھا(۲۷)، اور ان کی حالت جانتے ہوئے ان کو دنیا کی دوسری قوموں پر ترجیح دی(۲۸)، اور انہیں ایسی نشانیاں دکھائیں جن میں صریح آزمائش تھی(۲۹)۔
یہ لوگ کہتے ہیں’’ ہماری پہلے موت کے سوا اور کچھ نہیں، اس کے بعد ہم دوبارہ اٹھائے جانے والے نہیں ہیں(۳۰)۔ اگر تم سچے ہو تو اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو‘‘۔ کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنادی ہیں۔ ان کو ہم نے بر حق پیدا کیا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (۳۴)۔ ان سب کے اٹھائے جانے کے لیے طے شدہ وقت فیصلے کا دن ہے(۳۵)، وہ دن جب کوئی عزیز قریب اپنے کسی عزیز قریب(۳۶)کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ کہیں سے انہیں کوئی مدد پہنچے گی سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم کرے، وہ زبردست اور رحیم ہے(۳۷)۔ ع
تفسیر
۲۵۔ یعنی جب وہ حکمراں تھے تو ان کی عظمت کے ڈنکے بج رہے تھے۔ ان کی حمد و ثناء کے ترانوں سے دنیا گونج رہی تھی۔ خوش آمدیوں کے جم گھٹے ان کے آگے اور پیچھے لگے رہتے تھے۔ ان کی وہ ہوا باندھی جاتی تھی کہ گویا ایک عالم ان کے کمالات کا گرویدہ اور ان کے احسانات کا زیر بار ہے۔ اور ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مقبول نہیں، مگر جب وہ گرے تو کوئی آنکھ ان کے لیے رونے والی نہیں تھی، بلکہ دنیا نے ایسا اطمینان کا سانس لیا کہ گویا ایک کانٹا تھا جو اس کے پہلو سے نکل گیا۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے نہ خلق خدا کے ساتھ کوئی بھلائی کی تھی کہ زمین والے ان کے لیے روتے، نہ خدا کی خوشنودی کا کوئی کام کیا تھا کہ آسمان والوں کو ان کی ہلاکت پر افسوس ہوتا۔ جب تک مشیت الٰہی سے اس کی رسی دراز ہوتی رہی، وہ زمین کے سینے پر مونگ ڈلتے رہے۔ جب ان کے جرائم حد سے گذر گئے تو اس طرح اٹھا کر پھینک دیئے جیسے کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے۔
۲۶۔ یعنی فرعون بجائے خود کے لیے ذلت کا عذاب تھا اور دوسرے تمام عذاب اسی ایک عذاب ِ مجسم کے شاخسانے تھے۔
۲۷۔ اس میں ایک لطیف طنز ہے کفار قریش کے سرداروں پر۔ مطلب یہ ہے کہ حد بندگی سے تجاوز کرنے والوں میں تمہارا مرتبہ اور مقام ہی کیا ہے۔ بڑے اونچے درجے کا سرکش تو وہ تھا جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے تحت خدائی کا روپ دھارے بیٹھا تھا۔ اسے جب خس و خاشاک کی طرح بہا دیا گیا تو تمہاری کیا ہستی ہے کہ قہر الٰہی کے آگے ٹھہر سکے۔
۲۸۔ یعنی بنی اسرائیل کی خوبیاں اور کمزوریاں دونوں اللہ پر عیاں تھیں اس نے بے دیکھے بھالے اس کا انتخاب اندھا دھند نہیں کر لیا تھا۔ اس وقت دنیا میں جتنی قومیں موجود تھیں ان میں سے اس قوم کو جب اس نے اپنے پیغام کا حامل اور اپنی توحید کی دعوت کا علمبردار بنانے کے لیے چنا تو اس بنا پر چنا کہ علم میں وقت کی موجود قوموں میں سے یہی اس کے لیے موزوں تر تھی۔
۲۹۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۷۵ تا ۸۶۔ ۴۱۵ تا ۴۲۲۔ ۴۵۸ تا ۴۶۱ جلد دوم، ص ۷۴ تا ۹۵۔ جلد سوم ۱۱۱ تا ۱۲۱۔
۳۰۔ یعنی پہلی دفعہ ہم مریں گے تو بس فنا ہو جائیں گے۔ اس کے بعد پھر کوئی زندگی نہیں ہے۔ "پہلی موت” اس کے الفاظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے بعد کوئی بھی ہو۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا تو اس قول کے صادق ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اس کے بعد لازم دوسرا بچہ پیدا ہو، بلکہ صرف یہ کافی ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کوئی بچہ نہ ہوا ہو۔
۳۱۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ ہم نے کبھی مرنے کے بعد کسی کو دوبارہ جی اٹھتے نہیں دیکھا ہے، اس لیے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے دوسری کوئی زندگی نہیں ہو گی۔ تم لوگ اگر یہ دعویٰ کرتے ہو کہ دوسری زندگی ہو گی تو ہمارے اجداد کو قبروں سے اٹھا لاؤ تاکہ ہمیں زندگی بعد موت کا یقین آ جائے۔ یہ کام تم نے نہ کیا تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ یہ گوایا ان کے نزدیک حیات بعد الموت کی تردید میں بڑی پختہ دلیل تھی۔ حالاں کہ سراسر مہمل تھی۔ آخر ان سے یہ کہا کس نے تھا کہ مرنے والے دوبارہ زندہ ہو کر اسی دنیا میں واپس آئیں گے؟ اور نبی ﷺ یا کسی مسلمان نے یہ دعویٰ کب کیا تھا کہ ہم مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں؟
۳۲۔ تبع قبیلہ حمیر کے بادشاہوں کا لقب تھا، جیسے کسریٰ، قیصر، فرعون وغیرہ القاب مختلف ممالک کے بادشاہوں کے لیے مخصوص رہے ہیں۔ یہ لوگ قوم سبا کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے ۱۱۵ قبل مسیح میں ان کو سبا کے ملک پر غلبہ حاصل ہوا اور ۳۰۰ عیسیوی تک یہ حکمراں رہے۔ عرب میں صدیوں تک ان کی عظمت کے افسانے زبان زد خلائق رہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، سورہ سبا، حاشیہ نمبر ۳۷)
۳۳۔ یہ کفار کے اعتراض کا پہلا جواب ہے۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ انکار آخرت وہ چیز ہے جو کسی شخص، گروہ یا قوم کو مجرم بنائے بغیر نہیں رہتی۔ اخلاق کی خرابی اس کا لازمی نتیجہ ہے اور تاریخ انسانی شاہد ہے زندگی کے اس نظریہ کو جس قوم نے بھی اختیار کیا ہے وہ آخر کار تباہ ہو کر رہی ہے۔ رہا یہ سوال یہ "یہ بہتر ہیں یا تبع کی قوم اور ا س سے پہلے کے لوگ”؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کفار مکہ تو اس خوش حالی و شوکت و حشمت کو پہنچ ہی نہیں سکے ہیں جو تبع کی قوم، اور اس سے پہلے سبا اور قوم فرعون اور دوسری قوموں کو حاصل رہی ہے۔ مگر یہ مادی خوشحالی اور دنیاوی شان شوکت اخلاقی زوال کے نتائج سے ان کو کب بچا سکتی تھی۔ یہ اپنی ذرا سی پونجی اور اپنے ذرائع و سائل کے بل بوتے پر بچ جائیں گے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، سورہ سباء، حواشی نمبر ۲۵۔ ۳۶)
۳۴۔ یہ ان کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی حیات بعد الموت اور آخرت کی جزا و سزا ک کا منکر ہے وہ دراصل اس کارخانہ عالم کو کھلونا اور اس کے خالق کو نادان بچہ سمجھتا ہے، اسی بناء پر اس نے یہ رائے قائم کی ہے کہ انسان دنیا میں ہر طرح کے ہنگامے برپا کر کے ایک روز بس یوں ہی مٹی میں رل مل جائے گا اوراس کے کسی اچھے یا برے کام کا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا۔ حالاں کہ یہ کائنات کسی کھلنڈرے کی نہیں بلکہ ایک خالق حکیم کی بنائی ہوئی ہے اور کسی حکیم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ فعل عبث کا ارتکاب کرے گا۔ انکار آخرت کے جواب میں یہ استدلال قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے، ہم اس کی مفصل تشریح کر چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد، اول، ص ۵۵۱، جلد دوم، ص ۲۶۴۔ ۲۶۵۔ جلد سوم، ص۱۵۱۔ ۱۵۲۔ ۳۰۲۔ ۳۰۳۔ ۷۳۱ تا ۷۳۵)۔
۳۵۔ یہ ان کے اس مطالبے کا جواب ہے کہ ’’ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ زندگی بعد موت کوئی تماشا تو نہیں ہے کہ جہاں کوئی اس سے انکار کرے، فوراً ایک مردہ قبرستان سے اٹھا کر اس کے سامنے لا کھڑا کیا جائے اس کے لیے تو رب العالمین نے ایک وقت مقرر کر دیا ہے جب تمام اولین و آخرین کو وہ دوبارہ زندہ کر کے اپنی عدالت میں جمع کرے گا اور ان کے مقدمات کا فیصلہ صادر فرمائے گا۔ تم مانو چاہے نہ مانو، یہ کام بہر حال اپنے وقت مقرر پر ہی ہو گا۔ تم مانو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے، کیونکہ اس طرح قبل از وقت خبردار ہو کر اس عدالت سے کامیاب بکنے کی تیاری کر سکو گے۔ نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے، کیونکہ اپنی ساری عمر اس غلط فہمی میں کھپا دو گے کہ برائی اور بھلائی جو کچھ بھی ہے بس اسی دنیا کی زندگی تک ہے، مرنے کے بعد پھر کوئی عدالت نہیں ہونی ہے جس میں ہمارے اچھے یا برے اعمال کا کوئی مستقل نتیجہ نکلنا ہو۔
۳۶۔ اصل میں لفظ’’ مولیٰ ‘‘ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو کسی تعلق کی بنا پر دوسرے شخص کی حمایت کرے، قطع نظر اس سے کہ وہ رشتہ داری کا تعلق ہو یا دوستی کا یا کسی اور قسم کا۔
۳۷۔ ان فقروں میں بتایا گیا ہے کہ فیصلے کے دن جو عدالت قائم ہو گی اس کا کیا رنگ ہو گا۔ کسی کی مدد یا حمایت وہاں کسی مجرم کو نہ چھڑا سکے گی، نہ اس کی سزا کم ہی کرا سکے گی۔ کلی اختیارات اس حاکم حقیقی کے ہاتھ میں ہوں گے جس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی، اور جس کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کا بل بوتا کسی میں نہیں ہے۔ یہ بالکل اس کے اپنے اختیار تمیزی پر موقوف ہو گا کہ کسی پر رحم فرما کر اس کو سزا نہ دے یا کم سزا دے، اور حقیقت میں اس کی شان یہی ہے کہ انصاف کرنے میں بے رحمی سے نہیں بلکہ رحم ہی سے کام لے۔ لیکن جس کے مقدمے میں جو فیصلہ بھی وہ کرے گا وہ بہر حال بے کم و کاست نافذ ہو گا۔ عدالت الٰہی کی یہ کیفیت بیان کرنے کے بعد آگے کے چند فقروں میں بتایا گیا ہے کہ اس عدالت میں جو لوگ مجرم ثابت ہوں گے ان کا انجام کیا ہو گا، اور جن لوگوں کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ دنیا میں خدا سے ڈر کر نافرمانیوں سے پرہیز کرتے رہے تھے، ان کو کن انعامات سے سرفراز کیا جائے گا۔
ترجمہ
زقُّوم کا درخت (۳۸)گناہ گار کا کھاجا ہو گا، تیل کی تلچھٹ (۳۹) جیسا، پیٹ میں اس طرح جوش کھائے گا جیسے کھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے۔ ‘‘ پکڑو اسے اور رگیدتے ہوئے لے جاؤ اس کو جہنم کے بیچوں بیچ اور انڈیل دو اس کے سر پر کھولتے پانی کا عذاب۔ چکھ اس کا مزا، بڑا زبردست عزت دار آدمی ہے تُو۔ یہ وہی چیز ہے جس کے آنے میں تم لوگ شک رکھتے تھے‘‘۔
خدا ترس لوگ امن کی جگہ(۴۰) میں ہوں گے۔ باغوں اور چشموں میں، حریر و دیبا(۴۱) کے لباس پہنے، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ یہ ہو گی ان کی شان۔ اور ہم گوری گوری آہو چشم عورتیں (۴۲) ان سے بیاہ دیں گے، وہاں وہ اطمینان سے ہر طرح کی لذیذ چیزیں طلب کریں گے(۴۳) وہاں موت کا مزہ وہ کبھی نہ چکھیں گے، بس دنیا میں جو موت آ چکی سو آ چکی۔ اور اللہ اپنے فضل سے ان کو جہنم کے عذاب سے بچا دے گا(۴۴) یہی بڑی کامیابی ہے۔
اے نبی ؐ، ہم نے اس کتاب کو تمہاری زبان میں سہل بنا دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں اب تم بھی انتظار کرو، یہ بھی منتظر ہیں(۴۵)۔ ع
تفسیر
۳۸۔ زقوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورہ صافات، حاشیہ ۳۴۔
۳۹۔ اصل میں لفظ ’’ المُھل‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں: پگھلی ہوئی دھات۔ پیپ لہو۔ پگھلا ہوا تارکول۔ لاوا تیل کی تلچھٹ۔ یہ مختلف معنی اہل لغت اور مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ لیکن اگر زقوم سے مراد وہی چیز ہے جسے ہمارے ہاں تھوہر کہتے ہیں، تواس کو چبانے سے جو رس نکلے گا، اغلب یہی ہے کہ وہ تیل کی تلچھٹ سے مشابہ ہو گا۔
۴۰۔ امن کی جگہ سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں کسی قسم کا کھٹکا نہ ہو۔ کوئی پریشانی، کوئی خطرہ اور اندیشہ، کوئی مشقت اور تکلیف لاحق نہ ہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’ اہل جنت سے کہہ دیا جائے گا کہ یہاں تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے، ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہ مروگے، ہمیشہ خوشحال رہو گے کبھی خستہ حال نہ ہو گے، ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے‘‘ (مسلم بروایت ابوہریرہ و ابو سعید خدری )۔
۴۱۔ اصل میں سُنْدُس اور اِسْتَبْرَق کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ سُندس عربی زبان میں باریک ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں۔ اور استبرَق فارسی لفظ ستبر کا معرب ہے، اور یہ دبیز ریشمی کپڑے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
۴۲۔ اصل الفاظ ہیں حُوْرٌ عِیْن۔ حور جمع ہے حوراءکی اور حوراء عربی زبان میں گوری عورت کو کہتے ہیں۔ اور عِین جمع ہے عَیناء کی، اور یہ لفظ بڑی بڑی آنکھوں والی عورت کےلیے بولا جاتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، الصافات، حاشیہ ۲۶ و ۲۹ )
۴۳۔ ’’ اطمینان سے ‘‘ طلب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جتنی چاہیں گے بے فکری کے ساتھ جنت کے خادموں کو اس کے لانے کا حکم دیں گے اور وہ حاضر کر دی جائے گی۔ دنیا میں کوئی شخص ہوٹل تو درکنار، خود اپنے گھر میں اپنی چیز بھی اس اطمینان سے طلب نہیں کرسکتا جس طرح وہ جنت میں طلب کرے گا۔ کیونکہ یہاں کسی چیز کے بھی اتھاہ ذخیرے کسی کے پاس نہیں ہوتے، اور جو چیز بھی آدمی استعمال کرتا ہے اس کی قیمت بہر حال اس کی اپنی جیب ہی سے جاتی ہے۔ جنت میں مال اللہ کا ہو گا اور بندے کو اس کے استعمال کی کھلی اجازت ہو گی۔ نہ کسی چیز کے ذخیرے ختم ہو جانے کا خطرہ ہو گا نہ بعد میں بل پیش ہونے کا کوئی سوال۔
۴۴۔ اس آیت میں دو باتیں قابل توجہ ہیں:
ایک یہ کہ جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد جہنم سے بچائے جانے کا ذکر خاص طور پر الگ فرمایا گیا ہے، حالاں کہ کسی شخص کا جنت میں پہنچ جانا آپ اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ جہنم میں جانےسے بچ گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرمانبرداری کے انعام کی قدر انسان کو پوری طرح اسی وقت محسوس ہوسکتی ہے جبکہ اس کے سامنے یہ بات بھی ہو کہ نافرمانی کرنے والے کہاں پہنچے ہیں، اور وہ کس برے انجام سے بچ گیا ہے۔
دوسری قابل توجہ بات اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے جہنم سے بچنے اور جنت میں پہنچنے کو اپنے فضل کا نتیجہ قرار دے رہا ہے۔ اس سے انسان کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ یہ کامیابی کسی شخص کو نصیب نہیں ہو سکتی جب تک اللہ کا فضل کے بغیر کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔ پھر جو بہتر سے بہتر عمل بھی آدمی سے بن ٍآ سکتا ہے وہ کبھی کامل و اکمل نہیں ہوسکتا جس کے متعلق دعوے سے یہ کہا جا سکے کہ اس میں نقص کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ یہ اللہ ہی کا فضل ہے کہ وہ بندے کی کمزوریوں اور اس کے عمل کی خامیوں کو نظر انداز کر کے اس کی خدمات کو قبول فرمالے اور اسے انعام سے سرفراز فرمائے۔ ورنہ باریک بینی کے ساتھ حساب کرنے پر وہ اتر آئے تو کس کی یہ ہمت ہے کہ اپنی قوت بازو سے جنت جیت لینے کا دعویٰ کرسکے۔ یہی بات ہے جوحدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےمنقول ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: اعملو ا و سد دو اوقار بوا و اعلموا انّ احداً لن یُّد خلہُ عملہ الجنۃ۔ ’’ عمل کرو اور اپنی حداستطاعت تک زیادہ سے زیادہ ٹھیک کام کرنے کی کوشش کرو، مگر یہ جان لو کہ کسی شخص کو محض اس کا عمل ہی جنت میں نہ داخل کر دے گا۔ ‘‘ لوگوں نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ، کیا آپ کا عمل بھی‘‘؟ فرمایا وَلَا اَنَا اِلَّا اَنْ یتغمّد نی اللہ بِرَحْمَتِہٖ، ’’ ہاں میں بھی محض اپنے عمل کے زور سے جنت میں نہ پہنچ جاؤں گا الّا یہ کہ مجھے میرا رب اپنی رحمت سے ڈھانک لے ‘‘۔
۴۵۔ یعنی اب اگر یہ لوگ نصیحت قبول نہیں کرتے تو دیکھتے رہو کہ ان کی کس طرح شامت آتی ہے، اور یہ بھی منتظر ہیں کہ دیکھیں تمہاری اس دعوت کا کیا انجام ہوتا ہے۔
٭٭٭
(۴۵) سورۃ الجاثیہ
نام
آیت ۲۸ کے فقرے وَتَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس میں لفظ جاثیہ آیا ہے۔
زمانہ نزول : اس سورۃ کا زمانہ نزول بھی کسی معتبر روایت میں بیان نہیں ہوا ہے۔ مگر اس کے مضامین سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورہ دُخان کے بعد قریبی زمانے میں نازل ہوئی ہے۔ دونوں سورتوں کے مضامین میں ایسی مشابہت ہے جس سے یہ دونوں توام نظر آتی ہیں۔
موضوع اور مباحث
اس کا موضوع توحید و آخرت کے متعلق کفار مکہ کے شبہات و اعتراضات کا جواب دینا اور اس رویے پر ان کو متنبہ کرنا ہے جو انہوں نے قرآن کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کر رکھا تھا۔
کلام کا آغاز توحید کے دلائل سے کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں انسان کے اپنے وجود سے لے کر زمین و آسمان تک ہر طرف پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا ہے کہ تم جدھر بھی نگاہ اٹھا کر دیکھو، ہر چیز اسی توحید کی شہادت دے رہی ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔ یہ طرح طرح کے حیوانات، یہ شب و روز، یہ بارشیں اور ان سے اگنے والی نباتات، یہ ہوائیں، اور یہ انسان کی اپنی پیدائش، ان ساری چیزوں کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر دیکھے اور کسی تعصب کے بغیر اپنی عقل کو سیدھے طریقہ سے استعمال کر کے ان پر غور کرے تو یہ نشانیاں سے اس امر کا یقین دلانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کی خدائی میں چل رہی ہے، بلکہ ایک ہی خدا نے اسے بنایا ہے، اور وہی اکیلا اس کا مدبر اور فرماں روا ہے۔ البتہ اس شخص کی بات دوسرے ہے جو نہ ماننے کی قسم کھا کر بیٹھ گیا ہو، یا شکوک و شبہات ہی میں پڑے رہنے کا فیصلہ کر چکا ہو۔ اسے دنیا میں کہیں سے بھی یقین و ایمان کی دولت حاصل نہیں ہو سکتی۔
آگے چل کر دوسرے رکوع کی ابتدا میں پھر فرمایا گیا ہے کہ انسان اس دنیا میں جتنی چیزوں سے کام لے رہا ہے، اور جو بے حد حساب اشیاء اور قوتیں اس کائنات میں اس کے مفاد کی خدمت کر رہی ہیں، وہ آپ سے آپ کہیں سے نہیں آ گئی ہیں، نہ دیویوں اور دیوتاؤں نے انہیں فراہم کیا ہے، بلکہ وہ ایک ہی خدا ہے جس نے یہ سب کچھ اپنے پاس سے اس کو بخشا اور اس کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ کوئی شخص صحیح غور و فکر سے کام لے تو اس کی اپنی عقل ہی پکار اٹھے گی کہ وہی خدا انسان کا محسن ہے اور اسی کا یہ حق ہے کہ انسان اس کا شکر گزار ہو۔
اس کے بعد کفار مکہ کو اس ہٹ دھرمی، استکبار، استہزاء اور اصرار علی الکفر پر سخت ملامت کی گئی ہے جس سے وہ قرآن کی دعوت کا مقابلہ کر رہے تھے، اور انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ قرآن وہی نعمت لے کر آیا ہے جو پہلے بنی اسرائیل کو دی گئی تھی، جس کی بدولت وہ تمام اقوام علام پر فضیلت کے مستحق ہوئے تھے۔ انہوں نے جب اس نعمت کی ناقدری کی اور دین میں اختلاف کر کے اسے کھو دیا، تو اب یہ دولت تمہارے ہاں بھیجی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا ہدایت نامہ ہے جو دین کی صاف شاہراہ انسان کو دکھاتا ہے۔ جو لوگ اپنی جہالت و حماقت سے اس کو رد کریں گے وہ اپنی ہی تباہی کا سامان کریں گے۔ اور خدا کی تائید و رحمت کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اس کی پیروی قبول کر کے تقویٰ کی روش پر قائم ہو جائیں۔
اسی سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متبعین کو ہدایت کی گئی ہے کہ یہ خدا سے بے خوف لوگ تمہارے ساتھ جو بیہودگیاں کر رہے ہیں ان پر در گزر اور تحمل سے کام لو۔ تم صبر کرو گے تو خدا خود ان سے نمٹے گا اور تمہیں اس صبر کا اجر عطا فرمائے گا۔
پھر عقیدہ آخرت کے متعلق کفار کے جاہلانہ خیالات پر کلام کیا گیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ زندگی بس اسی دنیا کی زندگی ہے، اس کے بعد کوئی دوسرے زندگی نہیں ہے۔ ہم گردش ایام سے بس اسی طرح مرتے ہیں جس طرح ایک گھڑی چلتے چلتے رک جائے۔ موت کے بعد کوئی روح باقی نہیں رہتی جسے قبض کیا جاتا ہو اور پھر کسی وقت دوبارہ لا کر انسانی جسم میں پھونک دیا جائے۔ اس چیز کا اگر تمہیں دعویٰ ہے تو ہمارے مرے ہوئے آبا و اجداد کو زندہ کر کے دکھاؤ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے پے در پے چند دلائل ارشاد فرمائے ہیں:
ایک یہ کہ تم یہ بات کسی علم کی بنا پر نہیں کہہ رہے ہو بلکہ محض گمان کی بنیاد پر اتنا بڑا حکم لگا بیٹھے ہو۔ کیا فی الواقع تمہیں یہ علم ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے اور روحیں قبض نہیں کی جاتیں بلکہ فنا ہو جاتی ہیں؟
دوسرے یہ کہ تمہارے اس دعوے کی بنیاد زیادہ سے زیادہ بس یہ ہے کہ تم نے کسی مرنے والے کو اٹھ کر دنیا میں آتے نہیں دیکھا ہے۔ کیا یہ بات اتنا بڑا دعویٰ کر دینے کے لیے کافی ہے کہ مرنے والے پھر کبھی نہیں اٹھیں گے؟ کیا تمہارے تجربے اور مشاہدے میں کسی چیز کا نہ آنا یہ معنی رکھتا ہے کہ تمہیں اس چیز کے نہ ہونے کا علم حاصل ہے؟
تیسرے یہ کہ یہ بات سراسر عقل اور انصاف کے خلاف ہے کہ نیک اور بد، فرمانبردار اور نافرمان، ظالم اور مظلوم، آخرت کار سب یکساں کر دیے جائیں، کسی بھلائی کا کوئی اچھا نتیجہ اور کسی برائی کا کوئی برا نتیجہ نہ نکلے، نہ کسی مظلوم کی داد رسی ہو اور نہ کوئی ظالم اپنے کیے کی سزا پائے، بلکہ سب ایک ہی انجام سے دوچار ہوں۔ خدا کی اس کائنات کے متعلق جس نے یہ تصور قائم کیا ہے اس نے بڑا ہی غلط تصور قائم کیا ہے۔ اس تصور کو ظالم اور بد کار لوگ تو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کا برا نتیجہ نہیں دیکھنا چاہتے، لیکن خدا کی یہ خدائی اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ یہ ایک برحق نظام ہے جس میں نیک و بد کو بالآخر یکساں کر دینے کا ظلم ہر گز نہیں ہو سکتا۔
چوتھے یہ کہ انکار آخرت کا عقیدہ اخلاق کے لیے سخت تباہ کن ہے۔ اس کو اختیار وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے نفس کے بندے بنے ہوئے ہیں، اور اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں بندگیٔ نفس کی کھلی چھوٹ مل جائے۔ پھر جب وہ اس عقیدے کو اختیار کر لیتے ہیں تو یہ انہیں گمراہ سے گمراہ تر کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہاں کی اخلاقی حِس بالکل مردہ ہو جاتی ہے اور ہدایت کے تمام دروازے ان کے لیے بند ہو جاتے ہیں۔
یہ دلائل دینے کے بعد اللہ تعالیٰ پورے زور کے ساتھ فرماتا ہے کہ جس طرح تم آپ سے آپ زندہ نہیں ہو گئے ہو، بلکہ ہمارے زندہ کرنے سے زندہ ہوئے ہو، اسی طرح تم آپ سے آپ نہیں مر جاتے، بلکہ ہمارے موت دینے سے مرتے ہو، اور ایک وقت یقیناً ایسا آنا ہے جب تم سب بیک وقت جمع کیے جاؤ گے۔ اس بات کو اگر آج تم اپنی جہالت و نادانی سے نہیں مانتے تو نہ مانو، جب وہ وقت آ جائے گا تو تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اپنے خدا کے حضور پیش ہو اور تمہاری پورا نامہ اعمال بے کم و کاست تیار ہے جو تمہارے ایک ایک کرتوت کی شہادت دے رہا ہے۔ اس وقت تم کو معلوم ہو جائے گا کہ عقیدہ آخرت کا یہ انکار اور اس کا یہ مذاق جو تم اُڑا رہے ہو، تمہیں کس قدر مہنگا پڑا ہے۔
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
ح۔ م۔ اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکیم ہے (۱)۔
حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے (۲)۔ اور تمہاری اپنی پیدائش میں، اور ان حیوانات میں جن کو اللہ (زمین میں) پھیلا رہا ہے، بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو یقین لانے والے ہیں(۳)، اور اس رزق میں (۵) جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جِلا اٹھاتا ہے (۶)، اور ہواؤں کی گردش میں (۷) بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں ہم تمہارے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں۔ اب آخر اللہ اور اس کی آیات کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے (۸)۔
تباہی ہے ہر اس جھوٹے بد اعمال شخص کے لیے جس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں، اور وہ ان کو سنتا ہے، پھر پورے استکبار کے ساتھ اپنے کفر پر اس طرح اَڑا رہتا ہے کہ گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں(۹)۔ ایسے شخص کو درد ناک عذاب کا مُژدہ سنا دو۔ ہماری آیات میں سے کوئی بات جب اس کے علم میں آتی ہے تو وہ ان کا مذاق بنا لیتا ہے (۱۰)۔ ایسے سب لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔ ان کے آگے جہنم ہے (۱۱)۔ جو کچھ بھی انہوں نے دنیا میں کمایا ہے اس میں سے کوئی چیز ان کے کسی کام نہ آئے گی، نہ ان کے وہ سرپرست ہی ان کے لیے کچھ کر سکیں گے جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے اپنا ولی بنا رکھا ہے (۱۲)۔ ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
یہ قرآن سراسر ہدایت ہے، اور ان لوگوں کے لیے بلا کا درد ناک عذاب ہے جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا۔ ع
تفسیر
۱۔ یہ اس سورے کی مختصر تمہید ہے جس میں سامعین کو دو باتوں سے خبردار کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ کتاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنی تصنیف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہو رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے وہ خدا نازل کر رہا ہے جو زبردست بھی ہے اور حکیم بھی۔ اس کا زبردست ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان اس کے فرمان سے سرتابی کی جرأت نہ کرے، کیونکہ نافرمانی کر کے وہ اس کی سزا سے کسی طرح بچ نہیں سکتا۔ اور اس کا حکیم ہونا اس کا متقاضی ہے کہ انسان پورے اطمینان کے ساتھ برضا و رغبت اس کی ہدایات اور اس کے احکام کی پیروی کرے، کیونکہ اس کی کسی تعلیم کے غلط یا نا مناسب یا نقصان وہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
۲۔ تمہید کے بعد اصل تقریر کا آغاز اس طرح کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پس منظر میں اہل مکہ کے وہ اعتراضات ہیں جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش کردہ تعلیم پر کر رہے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ آخر محض ایک شخص کے کہنے سے ہم اتنی بڑی بات کیسے مان لیں کہ جن بزرگ ہستیوں کے آستانوں سے آج تک ہماری عقیدتیں وابستہ رہی ہیں وہ سب ہیچ ہیں اور خدائی بس ایک خدا کی ہے۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ جس حقیقت کو ماننے کی دعوت تمہیں دی جا رہی ہے اس کی سچائی کے نشانات سے تو سارا عالم بھر پڑا ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ تمہارے اندر اور تمہارے باہر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو شہادت دے رہی ہیں کہ یہ ساری کائنات ایک خدا اور ایک ہی خدا کی تخلیق ہے اور وہی اکیلا اس کا مالک، حاکم اور مدبر ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ آسمان و زمین میں نشانیاں کس چیز کی ہیں۔ اس لیے کہ سارا جھگڑا ہی اس وقت اس بات پر چل رہا تھا کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خداؤں اور معبودوں کو بھی ماننے پر اصرار کر رہے تھے، اور قرآن کی دعوت یہ تھی کہ ایک خدا کے سوا نہ کوئی خدا ہے نہ معبود۔ لہٰذا بے کہے یہ بات آپ ہی آپ موقع و محل سے ظاہر ہو رہی تھی کہ نشانیوں سے مراد توحید کی صداقت اور شرک کے بطلان کی نشانیاں ہیں۔
پھر یہ جو فرمایا کہ’’ یہ نشانیاں ایمان لانے والوں کے لیے ہیں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بجائے خود تو یہ نشانیاں سارے ہی انسانوں کے لیے ہیں، لیکن انہیں دیکھ کر صحیح نتیجے پر وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو ایمان لانے کے لیے تیار ہوں غفلت میں پڑے ہوئے لوگ، جو جانوروں کی طرح جیتے ہیں، اور ہٹ دھرم لوگ، جو نہ ماننے کا تہیہ کے بیٹھے ہیں، ان کے لیے ان نشانیوں کا ہونا اور نہ ہونا یکساں ہے۔ چمن کی رونق اور اس کا حسن و جمال تو آنکھوں والے کے لیے ہے۔ اندھا کسی رونق اور کسی حسن و جمال کا ادراک نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے چمن کا وجود ہی بے معنی ہے۔
۳۔ یعنی جو لوگ انکار کا فیصلہ کر چکے ہیں، یا جنہوں نے شک ہی کی بھول بھلیوں میں بھٹکنا اپنے لیے پسند کر لیا ہے ان کا معاملہ تو دوسرا ہے، مگر جن لوگوں کے دل کے دروازے یقین کے لیے بند نہیں ہوئے ہیں وہ جب اپنی پیدائش پر، اور اپنے وجود کی ساخت پر، اور زمین میں پھیلے ہوئے انواع و اقسام کے حیوانات پر غور کی نگاہ ڈالیں گے تو انہیں بے شمار علامات ایسی نظر آئیں گی جنہیں دیکھ کر یہ شبہ کرنے کی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہ رہے گی کہ شاید یہ سب کچھ کسی خدا کے بغیر بن گیا ہو، یا شاید اس کے بنانے میں ایک سے زیادہ خداؤں کا دخل ہو۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد اول، ص ۵۳۷۔ ۵۳۸۔ جلد دوم، ص ۵۲۶۔ ۵۲۷۔ جلد سوم، ص ۲۰۱ تا ۲۰۴۔ ۲۶۹۔ ۴۵۸۔ ۵۰۲۔ ۵۰۳۔ ۵۹۳۔ ۵۹۴۔ ۷۴۲ تا ۷۴۶۔ ۷۶۵۔ ۷۶۶۔ جلد چہارم، السجدہ، حواشی ۱۴ تا ۱۸۔ یٰس، آیات ۷۱ تا ۷۳۔ الزمر، آیت ۶۔ المومن، حواشی ۹۷۔ ۹۸۔ ۱۱۰)۔
۴۔ رات اور دن کا یہ فرق و اختلاف اس اعتبار سے بھی نشانی ہے کہ دونوں پوری با قاعدگی کے ساتھ ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں، اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک روشن ہے اور دوسرا تاریک، اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک مدت تک بڑی تدریج دن بڑا اور رات چھوٹی ہوتی چلی جاتی ہے، پھر ایک وقت جا کر دونوں برابر ہو جاتے ہیں۔ یہ مختلف قسم کے فرق و اختلاف جو رات اور دن میں پائے جاتے ہیں اور ان سے جو عظیم حکمتیں وابستہ ہیں، وہ اس بات کی صریح علامت ہیں کہ سورج اور زمین اور موجودات زمین کا خالق ایک ہی ہے، اور ان دونوں کرّوں کو ایک ہی زبردست اقتدار نے قابو میں رکھا ہے، اور وہ کوئی اندھا بہرا بے حکمت اقتدار نہیں ہے بلکہ ایسا حکیمانہ اقتدار ہے جس نے یہ اٹل حساب قائم کر کے اپنی زمین کو زندگی کی ان بے شمار انواع کے لیے موزوں جگہ بنا دیا ہے جو نباتات، حیوانات اور انسان کی شکل میں اس نے یہاں پیدا کی ہیں۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، ص ۲۹۶۔ ۲۹۷۔ جلد سوم، ص، ۶۰۶۔ ۶۵۹۔ جلد چہارم، لقمان، آیت ۲۹، حاشیہ ۵۰۔ یٰس، آیت ۳۷، حاشیہ ۳۲)
۵۔ رزق سے مراد یہاں بارش ہے، جیسا کہ بعد کے فقرے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے۔
۶۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، ص ۲۷۰۔ ۲۷۱۔ ۴۵۵۔ ۴۵۶۔ ۴۷۹۔ ۴۸۹۔ ۵۹۰۔ ۷۴۸۔ ۷۴۹۔ ۷۶۳۔ جلد چہارم، یٰس حواشی ۲۶ تا ۳۱۔
۷۔ ہواؤں کی گردش سے مراد مختلف اوقات میں زمین کے مختلف حصوں پر اور مختلف بلندیوں پر مختلف ہوائیں چلنا ہے جن سے موسموں کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ دیکھنے کی چیز صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین کے اوپر ایک وسیع کرہ ہوائی پایا جاتا ہے جس کے اندر وہ تمام عناصر موجود ہیں جو زندہ مخلوقات کو سانس لینے کے لیے درکار ہیں، اور ہوا کے اسی لحاف نے زمین کی آبادی کو بہت سی آفات سماوی سے بچا رکھا ہے۔ اس کے ساتھ دیکھنے کی چیز یہ بھی ہے کہ یہ ہوا محض بالائی فضا میں بھر کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے چلتی رہتی ہے۔ کبھی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے اور کبھی گرم۔ کبھی بند ہو جاتی ہے اور کبھی چلنے لگتی ہے۔ کبھی ہلکی چلتی ہے تو کبھی تیز، اور کبھی آندھی اور طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کبھی خشک ہوا چلتی ہے اور کبھی مرطوب۔ کبھی بارش لانے والی ہو چلتی ہے اور کبھی اس کو اڑا لے جانے والی چل پڑتی ہے۔ یہ طرح طرح کی ہوائیں کچھ یوں ہی اندھا دھند نہیں چلتیں بلکہ ان کا ایک قانون اور ایک نظام ہے جو شہادت دیتا ہے کہ یہ انتظام کمال درجہ حکمت پر مبنی ہے اور اس سے بڑے اہم مقاصد پورے ہو رہے ہیں۔ پھر اس کا بڑا گہرا تعلق اس سردی اور گرمی سے ہے جو زمین اور سورج کے درمیان بدلتی ہوئی مناسبتوں کے مطابق گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے، اور مزید براں اس کا نہایت گہرا تعلق موسمی تغیرات اور بارشوں کی تقسیم سے بھی ہے۔ یہ ساری چیزیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کسی اندھی فطرت نے اتفاقاً یہ انتظامات نہیں کر دیے ہیں، نہ سورج اور زمین اور ہوا اور پانی اور نباتات اور حیوانات کے الگ الگ مدبر ہیں، بلکہ لازماً ایک ہی خدا ان سب کا خالق ہے اور اسی کی حکمت نے ایک مقصد عظیم کے لیے یہ انتظام قائم کیا ہے، اور اسی کی قدرت سے یہ پوری باقاعدگی کے ساتھ ایک مقرر قانون پر چل رہا ہے۔
۸۔ یعنی جب اللہ کی ہستی اور اس کی وحدانیت پر خود اللہ ہی کے بیان کیے ہوئے یہ دلائل سامنے آ جانے کے بعد بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اب کیا چیز ایسی آ سکتی ہے جس سے انہیں دولت ایمان نصیب ہو جائے۔ اللہ کا کلام تو وہ آخری چیز ہے جس کے ذریعہ سے کوئی شخص یہ نعمت پا سکتا ہے۔ اور ایک ان دیکھی حقیقت کا یقین دلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ جو معقول دلائل ممکن ہیں وہ اس کلام پاک میں پیش کریے گئے ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی نکار ہی کرنے پر تلا ہوا ہو تو انکار کرتا رہے۔ اس کے انکار سے حقیقت نہیں بدل جائے گی۔
۹۔ با الفاظ دیگر فرق اور بہت بڑا فرق ہے اس شخص میں جو نیک نیتی کے ساتھ کی آیات کو کھلے دل سے سنتا اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر غور کرتا ہے، اور اس شخص میں جو انکار کا پیشگی فیصلہ کر کے سنتا ہے اور کسی غور و فکر کے بغیر اپنے اسی فیصلے پر قائم رہتا ہے جو ان آیات کو سننے سے پہلے وہ کر چکا تھا۔ پہلی قسم کا آدمی اگر آج ان آیات کو سن کر ایمان نہیں لا رہا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ کافر رہنا چاہتا ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مزید اطمینان کا طالب ہے۔ اس لیے اگر اس کے ایمان لانے میں دیر بھی لگ رہی ہے تو یہ بات عین متوقع ہے کہ کل کوئی دوسری آیت اس کے دل میں اتر جائے اور سہ مطمئن ہو کر مان لے لیکن دوسرے قسم کا آدمی کبھی کوئی آیت سن کر بھی ایمان نہیں لا سکتا۔ کیونکہ ہو پہلے ہی آیات الہٰی کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کر چکا ہے۔ اس حالت میں بالعموم وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جن کے اندر تین صفات موجود ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جھوٹے ہوتے ہیں، اس لیے صداقت ان کو اپیل نہیں کرتی۔ دوسرے یہ کہ وہ بد عمل ہوتے ہیں، اس لیے کسی ایسی تعلیم و ہدایت کو مان لینا انہیں سخت ناگوار ہوتا ہے جو ان پر اخلاقی پابندیاں عائد کرتی ہو۔ تیسرے یہ کہ وہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں ہمیں کوئی کیا سکھائے گا، اس لیے اللہ کی جو آیات انہیں سنائی جاتی ہیں ان کو وہ سرے سے کسی غور فکر کا مستحق ہی نہیں سمجھتے اور ان کے سننے کا حاصل بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو نہ سننے کا تھا۔
۱۰۔ یعنی اس ایک آیت کا مذاق اڑانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ تمام آیات کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ مثلاً جب وہ سنتا ہے کہ قرآن میں فلاں بات بیان ہوئی ہے تو اسے سیدھے معنی میں لینے کے بجائے پہلے تو اسی میں کوئی ٹیڑھ تلاش کر کے نکال لاتا ہے تا کہ است مذاق کا موضوع بنائے، پھر اس کا م مذاق اڑانے کے بعد کہتا ہے : اجی ان کے کیا کہتے ہیں، وہ تو روز ایک سے ایک نرالی بات سنا رہے ہیں، دیکھو فلاں آیت میں انہیں نے یہ دلچسپ بات کہی ہے، اور فلاں آیت کے لطائف کا تو جواب ہی نہیں ہے۔
۱۱۔ اصل الفاظ ہیں مِنْ وَّ رَ آ ئِھِمْ جَھَنَّمُ۔ وراء کا لفظ عربی زبان میں ہر اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو آدمی کی نظر سے اوجھل ہو، خواہ وہ آگے ہو یا پیچھے۔ اس لیے دوسرے ترجمہ ان الفاظ کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ان کے پیچھے جہنم ہے۔ ‘‘ اگر پہل معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ بے خبر منہ اٹھائے اس راہ پر دوڑے جا رہے ہیں اور انہیں احساس نہیں ہے کہ آگے جہنم ہے جس میں وہ جا کر گرنے والے ہیں۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ وہ آخرت سے بے فکر ہو کر اپنی اس شرارت میں مشغول ہیں اور انہیں پتہ نہیں ہے کہ جہنم ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔
۱۲۔ یہاں ولی کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک وہ دیویاں اور دیوتا اور زندہ یا مردہ پیشوا جن کے متعلق مشرکین نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جو شخص اس کا متوسل ہو وہ خواہ دنیا میں کچھ ہی کرتا ہے، خدا کے ہاں اس کی پکڑ نہ ہو سکے گی، کیونکہ ان کی مداخلت اسے خدا کے غضب سے بچا لے گی۔ دوسرے، وہ سردار اور لیڈر اور امراء و حکام جنہیں خدا سے بے نیاز ہو کر لوگ اپنا رہنما اور مطاع بناتے ہیں، اور آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے ہیں، اور انہیں خوش کر نے کے لیے خدا کو نا خوش کرنے میں تامل نہیں کرتے یہ آیت ایسے لوگوں کو خبر دار کرتی ہے کہ جب اس روش کے نتیجے میں جہنم سے ان کو سابقہ پیش آئے گا تو ان دونوں قسم کے سر پرستوں میں سے کوئی بھی انہیں بچانے کے لیے آگے نہ بڑھے گا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم تفسیر سورہ الشوریٰ، حاشیہ نمبر ۶)
ترجمہ
وہ اللہ ہی توہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں (۱۳) اور تم اس کا فضل تلاش کرو (۱۴) اور شکر گزار ہو۔ اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا(۱۵)، سب کچھ اپنے پاس سے (۱۶)ـــــــــ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں(۱۷)۔
اے نبیؐ، ایمان لانے والوں سے کہہ دو کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے (۱۸)، ان کی حرکتوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ خود ایک گروہ کو اس کی کمائی کا بدلہ دے (۱۹) جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے کرے گا، اور جو برائی کرے گا وہ آپ ہی اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ پھر جاتا تو سب کو اپنے رب ہی کی طرف ہے۔
اس سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب اور حکم(۲۰) اور نبوت عطا کی تھی۔ ان کو ہم نے عمدہ سامان زیست سے نوازا، دنیا بھر کے لوگوں پر انہیں فضیلت عطا کی(۲۱)، اور دین کے معاملہ میں انہیں واضح ہدایات دے دیں۔ پھر جو اختلاف ان کے درمیان رو نما ہوا وہ (نا واقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ) علم آ جانے کے بعد ہوا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے (۲۲)۔ اللہ قیامت کے روز ان معاملات کا فیصلہ فرما دے گا جن میں ہو اختلاف کرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد اب اے نبیؐ، ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت ) پر قائم کیا ہے (۲۳)۔ لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔ اللہ کے مقابلے میں وہ تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکتے (۲۴)۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، اور متقیوں کا ساتھی اللہ ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لیے جو یقین لائیں(۲۵)۔
کیا (۲۶) وہ لوگ جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کی ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے؟ بہت بُرے حکم ہیں جو یہ لوگ لگاتے ہیں(۲۷) ع
تفسیر
۱۳۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن، جلد دوم، ص، ۶۳، جلد چہارم، لقمان، حاشیہ ۵۵، المومن، حاشیہ۔ ۱۱، الشوریٰ، حاشیہ ۵۴۔
۱۴۔ یعنی سمندر میں تجارت، ماہی گیری، غواصی، جہاز رانی اور دوسرے ذرائع سے رزق حلال کرنے کی کوشش کرو۔
۱۵۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۴۸۸، جلد چہارم، لقمان، حاشیہ ۳۵۔
۱۶۔ اس فقرے کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کا یہ عطیہ دنیا بادشاہوں کا سا عطیہ نہیں ہے جو رعیت سے حاصل کیا ہوا مال رعیت ہی میں سے کچھ لوگوں کو بخش دیتے ہیں، بلکہ کائنات کی ساری نعمتیں اللہ کی اپنی پیدا کردہ ہیں اور اس نے اپنی طرف سے یہ انسان کو عطا فرمائی ہیں۔ دوسرے یہ کہ نہ ان کی نعمتوں کے پیدا کرنے میں کوئی اللہ کا شریک، نہ انہیں انسان کے لیے مسخر کرنے میں کسی اور ہستی کا کوئی دخل، تنہا اللہ ہی ان کا خالق بھی ہے اور اسی نے اپنی طرف سے وہ انسان کو عطا کی ہیں۔
۱۷۔ یعنی اس تسخیر میں اور ان چیزوں کو انسان کے لیے نافع بنانے میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ نشانیاں اس حقیقت کی طرف کھلا کھلا اشارہ کر رہی ہیں کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک کائنات کی تمام اشیاء اور قوتوں کا خالق و مالک اور مدبر و منتظم ایک ہی خدا ہے جس نے ان کو ایک قانون کا تابع بنا رکھا ہے۔ اور وہی خدا انسان کو رب ہے جس نے اپنی قدرت اور حکمت اور رحمت سے ان تمام اشیاء اور وقتوں کو انسان کی زندگی، اس کی معیشت، اس کی آسائش، اس کی ترقی اور اس کی تہذیب و تمدن کے لیے ساز گار و مدد گار بنایا ہے۔ اور تنہا وہی خدا انسان کی عبودیت اور شکر گزاری اور نیاز مندی کا مستحق ہے نہ کہ کچھ دوسری ہستیاں جن کے نہ ان اشیاْ اور قوتوں کے پیدا کرنے میں کوئی حصہ، نہ انہیں انسان کے لیے مسخر کرنے اور نافع بنانے میں کوئی دخل۔
۱۶۔ اصل لفاظ ہیں اَ لَّذِیْنَ لَا یَرْ جُوْنَ اَیَّا مَ اللہِ۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ جو لوگ اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے ‘‘۔ لیکن عربی محاورے میں ایسے مواقع پر ایام سے مراد محض دن نہیں بلکہ ہو یادگار دن ہوتے ہیں جن میں اہم تاریخی واقعات پیش آئے ہوں۔ مثلاً ایام العرب کا لفظ تاریخ عرب کے اہم واقعات اور قبائل عرب کی ان بڑی بڑی لڑائیوں کے لیے بولا جاتا ہے جنہیں بعد کی نسلیں صدیوں تک یاد کرتی رہی ہیں۔ یہاں ایام اللہ سے مراد کسی قوم کے وہ برے دن ہیں جب اللہ کا غضب اس پر ٹوٹ پڑے اور اپنے کرتوتوں کی پاداش میں وہ تباہ کر کے رکھ دی جائے۔ اسی معنی کے لحاظ سے ہم نے اس فقرے کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ’’ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے، ‘‘ یعنی جن کو یہ خیال نہیں ہے کہ کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہمارے ان افعال پر ہماری شامت آئے گی، اور اسی غفلت نے ان کو ظلم و ستم پر دلیر کر دیا ہے۔
۱۹۔ مفسرین نے اس آیت کے دو مطلب بیان کیے ہیں، اور آیت کے لفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے۔ ایک یہ کہ اہل ایمان اس ظالم گروہ کی زیادتیوں پر در گزر سے کان لیں تاکہ اللہ ان کو اپنی طرف سے ان کے صبر و حلم اور ان کی شرافت کی جزا دے اور راہ خدا میں جو اذیتیں انہوں نے برداشت کی ہیں نا کا اجر عطا فرمائے۔
دوسرا مطلب یہ ے کہ اہل ایمان اس گروہ سے درگزر کریں تاکہ اللہ خود اس کی زیادتیوں کا بدلہ اسے دے۔
بعض مفسرین نے اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک تھا جب تک مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ دی گئی تھی۔ پھر جب اس کی اجازت آ گئی تو یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ لیکن آیت کے لفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نسخ کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ ’’ در گزر‘‘ کا لفظ اس معنی میں کبھی نہیں بولا جاتا کہ جب آدمی کسی کی زیادتیوں کا بدلہ لینے پر قادر نہ ہو تو اس سے درگزر کرے، بلکہ اس موقع پر صبر، تحمل اور برداشت کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان الفاظ کو چھوڑ کر جب یہاں در گزر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود ان لوگوں کی زیادتیوں کا جواب دینے سے پرہیز کریں جنہیں خدا سے بے خوفی نے اخلاق و آدمیت کی حدیں توڑ ڈالنے پر جری کر دیا ہے۔ اس حکم کا کوئی تعارض ان آیات سے نہیں ہے جن میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی ہے۔ جنگ کی اجازت کا تعلق اس حالت سے ہے جب مسلمانوں کی حکومت کسی کافر قوم کے خلاف باقاعدہ کار روائی کرنے کی کوئی معقول وجہ پائے۔ اور عفو و درگزر کا حکم ان عام حالات کے لیے ہے جن میں اہل ایمان کو خدا سے بے خوف لوگوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے سابقہ پیش آئے اور وہ انہیں اپنی زبان و قلم اور اپنے برتاؤ سے طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ اس حکم کا مقصود یہ ہے کہ مسلمان اپنے مقام بلند سے نیچے اتر کر ان پست اخلاق لوگوں سے الجھنے اور جھگڑنے اور ان کی ہر بیہودگی کا جواب دینے پر نہ اتر آئیں۔ جب تک شرافت اور معقولیت کے ساتھ کسی الزام یا اعتراض کو جواب دینا یا کسی زیادتی کی مدافعت کرنا ممکن ہو، اس سے پرہیز نہ کیا جائے۔ مگر جہاں بات ان حدود سے گزرتی نظر آئے وہاں چپ سادھ لی جائے اور معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔ مسلمان ان سے خود الجھیں گے تو اللہ ان سے نمٹنے کے لیے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے گا۔ در گزر سے کام لیں گے تو اللہ خود ظالموں سے نمٹے گا اور مظلوموں کو ان کے تحمل کا اجر عطا فرمائے گا۔
۲۰۔ حکم سے مراد تین چیزیں ہیں۔ ایک، کتاب کا علم و فہم اور دین کی سمجھ۔ دوسرے، کتاب کے منشا کے مطابق کام کرنے کی حکمت۔ تیسرے، معاملات میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت۔
۲۱۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انہیں تمام دنیا والوں پر فضیلت عطا کر دی، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں دنیا کی تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے چن لیا تھا کہ وہ کتاب اللہ کے حامل ہوں اور خدا پرستی کے علمبردار بن کر اٹھیں۔
۲۲۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۱۶۲۔ ۱۶۳۔ ۲۳۹۔ ۲۴۰۔ جلد چہارم، الشوریٰ، حواشی نمبر ۲۲۔ ۲۳۔
۲۳۔ مطلب یہ ہے کہ جو کام پہلے بنی اسرائیل کے سپرد کیا گیا تھا وہ اب تمہارے سپرد کیا گیا ہے۔ انہوں نے علم پانے کے باوجود اپنی نفسا نفسی سے دین میں ایسے اختلافات بر پا کیے، اور آپس میں ایسی گروہ بندیاں کر ڈالیں جن سے وہ اس قابل نہ رہے کہ دنیا کو خدا کے راستے پر بلا سکیں۔ اب اسی دین کی صاف شاہراہ پر تمہیں کھڑا کیا گیا ہے تا کہ تم وہ خدمت انجام دو جسے بنی اسرائیل چھوڑ بھی چکے ہیں اور ادا کرنے کے اہل بھی نہیں رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، الشوریٰ، آیات ۱۳ تا ۱۵ مع حواشی ۲۰ تا ۲۶ )
۲۴۔ یعنی اگر تم انہیں راضی کرنے کے لیے اللہ کے دین میں کسی قسم کا رد و بدل کرو گے تو اللہ کے مواخذہ سے وہ تمہیں نہ بچا سکیں گے۔
۲۵۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب اور یہ شریعت دنیا کے تمام انسانوں کے لیے وہ روشنی پیش کرتی ہے جو حق اور باطل کا فرق نمایاں کرنے والی ہے۔ مگر اس سے ہدایت وہی لوگ پاتے ہیں جو اس کی صداقت پر یقین لائیں، اور انہی کے حق میں یہ رحمت ہے۔
۲۶۔ توحید کی دعوت کے بعد اب یہاں سے آخرت پر کلام شروع ہو رہا ہے۔
۲۷۔ یہ آخرت کے بر حق ہونے پر اخلاقی استدلال ہے۔ اخلاق میں خیر و شر اور اعمال میں نیکی و بدی کے فرق کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اچھے اور برے لوگوں کا انجام یکساں نہ ہو، بلکہ اچھوں کو ان کی اچھائی کا اچھا بدلہ ملے اور برے اپنی برائی کا برا بدلہ پائیں۔ یہ بات اگر نہ ہو، اور نیکی و بدی کا نتیجہ ایک ہی جیسا ہو گو سرے سے اخلاق میں خولی و زشتی کی تمیز ہی بے معنی ہو جاتی ہے اور خدا پر بے انصافی کا الزام عائد ہوتا ہے۔ جو لوگ دنیا میں بدی کی راہ چلتے ہیں وہ تو ضرور یہ چاہتے ہیں کہ کوئی جزا و سزا نہ ہو، کیونکہ یہ تصور ہی ان کے عیش کو منغّص کر دینے والا ہے۔ لیکن خداوند عالم کی حکمت اور اس کے عدل سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ نیک و بد سے ایک جیسا معاملہ کرے اور کچھ نہ دیکھے کہ مومن صالح نے دنیا میں کس طرح زندگی بسر کی ہے اور کافر و فاسق یہاں کیا گل کھلاتا رہا ہے۔ ایک شخص عمر بھر اپنے اوپر خلاق کی پابندیاں لگائے رہا۔ حق والوں کے حق ادا کرتا رہا۔ نا جائز فائدوں اور لذتوں سے اپنے آپ کو محروم کیے رہا۔ اور حق و صداقت کی خاطر طرح طرح کے نقصانات برداشت کرتا رہا۔ دوسرے شخص نے اپنی خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کیں، نہ خدا کا حق پہچانا اور نہ بندوں کے حقوق پر دست درازی کرنے سے باز آیا۔ جس طرح سے بھی اپنے لیے فائدے اور لذتیں سمیٹ سکتا تھا، سمیٹتا چلا گیا۔ کیا خدا سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں قسم کے آدمیوں کی زندگی کے اس فرق کو وہ نظر انداز کر دے گا؟ مرتے دم تک جن کا جینا یکساں نہیں رہا ہے، موت کے بعد اگر ان کا انجام یکساں ہو تو خدا کی خدائی میں اس سے بڑھ کر اور کیا بے انصافی ہو سکتی ہے؟(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۲۶۳۔ ۲۶۴۔ ۳۶۸۔ ۵۴۱، جلد سوم ۲۰۵۔ ۲۰۶۔ ۶۰۰۔ ۷۳۱ تا ۷۳۴۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ، صٓ، آیت ۲۸۔ حاشیہ نمبر ۳۰)
ترجمہ
اللہ نے تو آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے (۲۸) اور اس لیے کیا ہے کہ ہر متنفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے۔ لوگوں پر ظلم ہر گز نہ کیا جائے گا۔ (۲۹)
پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا (۳۰) اور اللہ نے علم کے باوجود (۳۱) اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟(۳۲) اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟(۳۳)۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو’’۔ در حقیقت اس معاملہ میں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے۔ یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں(۳۴)۔ اور جب ہماری واضح آیات انہیں سنائی (۳۵)جاتی ہیں تو ان کے پاس کوئی حجت اس کے سوا نہیں ہوتی کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو(۳۶)۔ اے نبیؐ، ان سے کہو اللہ ہی تمہیں زندگی بخشا ہے، پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے (۳۷)۔ پھر وہی تم کو اس قیمت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں (۳۸)، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں(۳۹)۔ ع
تفسیر
۲۸۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی تخلیق کھیل کے طور پر نہیں کی ہے بلکہ یہ ایک با مقصد حکیمانہ نظام ہے۔ اس نظام میں یہ بات بالکل ناقابل تصور ہے کہ اللہ کے دی ہوئے اختیارات اور ذرائع و وسائل کو صحیح طریقہ سے استعمال کر کے جن لوگوں نے اچھا کارنامہ انجام دیا ہو، اور انہیں غلط طریقے سے استعمال کر کے جن دوسرے لوگوں نے ظلم و فساد برپا کیا ہو، یہ دونوں قسم کے انسان آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں اور اس موت کے بعد کائنات ایک کھلنڈرے کا کھلونا ہو گی نہ کہ ایک حکیم کا بنایا ہوا با مقصد نظام (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۵۵۱۔ جلد دوم، ص ۲۶۴۔ ۲۶۵۔ ۴۷۹۔ ۴۸۰۔ ۵۲۵۔ ۵۲۶۔ جلد سوم، ص ۷۰۳۔ ۷۳۳)۔
۲۹۔ اس سیاق و سباق میں اس فقرے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر نیک انسانوں کو ان کی نیکی کا اجر نہ ملے، اور ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا نہ دی جائے، اور مظلوموں کی کبھی داد رسی نہ ہو تو یہ ظلم ہو گا۔ خدا کی خدائی میں ایسا ظلم ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح خدا کے ہاں ظلم کی یہ دوسری صورت بھی کبھی رونما نہیں ہو سکتی کہ کسی نیک انسان کو اس کے استحقاق سے کم اجر دیا جائے، یا کسی بد انسان کو اس کے استحقاق سے زیادہ سزا دے دی جائے۔
۳۰۔ خواہش نفس کو خدا بنا لینے سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہش کا بندہ بن کر رہ جائے۔ جس کام کو اس کا دل چاہے اسے کر گزرے، خواہ خدا نے اسے حرام کیا ہو، اور جس کام کو اس کا دل نہ چاہے اسے نہ کرے، خواہ خدا نے اسے فرض کر دیا ہو۔ جب آدمی اس طرح کسی کی اطاعت کرنے لگے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا معبود خدا نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کی وہ اس طرح اطاعت کر رہا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ زبان سے اس کو اپنا اِلٰہ اور معبود کہتا ہو یا نہ کہتا ہو، اور اس کا بت بنا کر اس کی پوجا کرتا ہو یا نہ کرتا ہو۔ اس لیے کہ ایسی بے چوں چرا اطاعت ہی اس کے معبود بن جانے کے لیے کافی ہے اور اس عملی شرک کے بعد ایک آدمی صرف اس بنا پر شرک کے جرم سے بری نہیں ہو سکتا کہ اس نے اپنے اس مطاع کو زبان سے معبود نہیں کہا ہے اور سجدہ اس کو نہیں کیا ہے۔ اس آیت کی یہی تشریح دوسرے اکابر مفسرین نے بھی کی ہے۔ ان جریر اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ اس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا لیا۔ جس چیز کی نفس نے خواہش کی اس کا ارتکاب کر گزرا۔ نہ اللہ کے حرام کیے ہوئے کو حرام کیا، نہ اس کے حلال کیے ہوئے کو حلال کیا۔ ‘‘ ابوبکر جصاص اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ وہ خواہش نفس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جیسے کوئی خدا کی اطاعت کرے ‘‘۔ زمخشری اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ ’’ وہ خواہش نفس کا نہایت فرمانبردار ہے۔ جدھر اس کا نفس اسے بلاتا ہے اسی طرف وہ چلا جاتا ہے، گویا وہ اس کی بندگی اس طرح کرتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے خدا کی بندگی کرے۔ ‘‘ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، ص ۴۵۳۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ ۶۳۔ یٰس، حاشیہ ۵۳۔ الشوریٰ، حاشیہ ۳۸)
۳۱۔ اصل الفاظ ہیں اَضَلَّہُ اللہُ عَلیٰ عِلْمِہ۔ ایک مطلب ان الفاظ کا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص عالم ہونے کے باوجود اللہ کی طرف سے گمراہی میں پھینکا گیا، کیونکہ وہ خواہش نفس کا بندہ بن گیا تھا۔ دوسری مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہا اللہ نے اپنے اس علم کی بنا پر کہ وہ اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا بیٹھا ہے، اسے گمراہی میں پھینک دیا۔
۳۲۔ اللہ کے کسی کو گمراہی میں پھینک دینے اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دینے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دینے کی تشریح اس سے پہلے ہم متعدد مقامات پر اس کتاب میں کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۵۲۔ ۵۵۔ ۵۳۱۔ ۵۳۸۔ جلد دوم، ص ۶۱۔ ۶۲۔ ۲۲۱۔ ۲۲۲۔ ۲۲۴۔ ۳۰۱۔ ۴۵۸۔ ۴۵۹۔ ۴۷۰۔ ۴۷۱۔ ۴۸۶۔ ۵۷۵۔ ۵۷۶۔ ۶۱۹۔ ۵۶۰۔ جلد سوم، ص، ۷۶۷، جلد چہارم، فاطر، آیت ۸، حواشی ۱۶۔ ۱۷، المومن، حاشیہ ۵۴۔
۳۳۔ جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ آخرت کا انکار دراصل وہی لوگ کرتے ہیں جو خواہشات نفس کی بندگی کرنا چاہتے ہیں اور عقیدہ آخرت کو اپنی اس آزادی میں مانع سمجھتے ہیں۔ پھر جب وہ آخرت کا انکار کر دیتے ہیں تو ان کی بندگی نفس اور زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ اپنی گمراہی میں روز بروز زیادہ ہی بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی برائی ایسی نہیں ہوتی جس کے ارتکاب سے وہ باز رہ جائیں۔ کسی کا حق مارنے میں انہیں تامل نہیں ہوتا۔ کسی ظلم اور زیادتی کا موقع پا جانے کے بعد ان سے یہ توقع ہی نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس سے صرف اس لیے رک جائیں گے کہ حق و انصاف کا کوئی احترام ان کے دلوں میں ہے جن واقعات کو دیکھ کر کوئی انسان عبرت حاصل کر سکتا ہے، وہی واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے بھی آتے ہیں، مگر وہ ان سے الٹا یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اور ہمیں یہی کچھ کرنا چاہیے۔ کوئی کلمہ نصیحت ان پر کار گر نہیں ہوتا۔ جو دلیل بھی کسی انسان کو برائی سے روکنے کے لیے مفید ہو سکتی ہے، وہ ان کے دل کو اپیل نہیں کرتی، بلکہ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ساری دلیلیں اپنی اسی بے قید آزادی کے حق میں نکالتے چلے جاتے ہیں، اور ان کے دل و دماغ کسی اچھی فکر کے بجائے شب و روز اپنی اغراض و خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کرنے کی ادھیڑ بن ہی میں لگے رہتے ہیں۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ عقیدہ آخرت کا انکار انسانی اخلاق کے لیے تباہ کن ہے۔ آدمی کو آدمیت کے دائرے میں اگر کوئی چیز رکھ سکتی ہے تو وہ صرف یہ احساس ہے کہ ہم غیر ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ہمیں خدا کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی۔ اس احساس سے خالی ہو جانے کے بعد کوئی شخص بڑے سے بڑا ع الم بھی ہو تو وہ جانوروں سے بد تر رویہ اختیار کیے بغیر نہیں رہتا۔
۳۴۔ یعنی کوئی ذریعہ علم ایسا نہیں ہے جس سے ان کو بتحقیق یہ معلوم ہو گیا ہو کہ اس زندگی کے بعد انسان کے لی کوئی دوسرے زندگی نہیں ہے، اور یہ بات بھی انہیں معلوم ہو گئی ہو کہ انسان کی روح کسی خدا کے حکم سے قبض نہیں کی جاتی ہے بلکہ آدمی محض گردش ایام سے مر کر فنا ہو جاتا ہے۔ منکرین آخرت یہ باتیں کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ محض گمان کی بنا پر کرتے ہیں۔ علمی حیثیت سے اگر وہ بات کریں تو زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ بس یہ ہے کہ ’’ ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں‘‘، لیکن یہ ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ ’’ ہم جانتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔ ‘‘ اسی طرح علمی طریقہ پر وہ یہ جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے کہ آدمی کی روح خدا کے حکم سے نکالی نہیں جاتی ہے بلکہ وہ محض اس طرح مر کر ختم ہو جاتا ہے جیسے ایک گھڑی چلتے چلتے رک جائے۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کہہ سکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ہم ان دونوں میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں جانتے کہ فی الواقع کیا صورت پیش آتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب انسانی ذرائع علم کی حد تک زندگی بعد موت کے ہونے یا نہ ہونے، اور قبض روح واقع ہونے یا گردش ایام سے آپ ہی آپ مر جانے کا یکساں احتمال ہے، تو آخر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ امکان آخرت کے احتمال کو چھوڑ کر حتمی طور پر انکار آخرت کے حق میں فیصلہ کر ڈالتے ہیں۔ کیا اس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور ہے کہ دراصل اس مسئلے کا آخری فیصلہ وہ دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی خواہش کی بنا پر کرتے ہیں؟ چونکہ اس کا دل یہ نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہو اور موت کی حقیقت نیستی اور عدم نہیں بلکہ خدا کی طرف سے قبض روح ہو، اس لیے وہ اپنے دل کی مانگ کو اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں اور دوسری بات کا انکار کر دیتے ہیں۔
۳۵۔ یعنی وہ آیات جن میں آخرت کے امکان پر مضبوط عقلی دلائل دیے گئے ہیں، اور جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کا ہونا عین حکمت و انصاف کا تقاضا ہے اور اس کے نہ ہونے سے یہ سارا نظام عالم بے معنی ہو جاتا ہے۔
۳۶۔ دوسرے الفاظ میں ان کی اس حجت کا مطلب یہ تھا کہ جب کوئی ان سے یہ کہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ہو گی تو اسے لازماً قبر سے ایک مردہ اٹھا کر ان کے سامنے لے آنا چاہیے۔ اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو وہ یہ نہیں مان سکتے کہ مرے ہوئے انسان کسی وقت از سر نو زندہ کر کے اٹھائے جانے والے ہیں۔ حالانکہ یہ بات سے سے کسی نے بھی ان سے نہیں کہی تھی کہ اس دنیا میں متفرق طور پر وقتاً فوقتاً مردوں کو دوبارہ زندہ کیا جاتا رہے گا۔ بلکہ جو کچھ کہا گیا تھا وہ یہ تھا کہ قیامت کے بعد اللہ تعالیٰ بیک وقت تمام انسانوں کو از سر نو زندہ کرے گا اور ان سب کے اعمال کا محاسبہ کر کے جزا اور سزا کا فیصلہ فرمائے گا۔
۳۷۔ یہ جواب ہے ان کی اس بات کا کہ موت گردش ایام سے آپ ہی آپ آ جاتی ہے۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ نہ تمہیں زندگی اتفاقاً ملتی ہے، نہ تمہارے موت خود بخود واقع ہو جاتی ہے۔ ایک خدا ہے جو تمہیں زندگی دیتا ہے اور وہی اسے سلب کرتا ہے۔
۳۸۔ یہ جواب ہے ان کی اس بات کا کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ یہ اب نہیں ہو گا، اور متفرق طور پر نہیں ہو گا، بلکہ ایک دن سب انسانوں کے جمع کرنے کے لیے مقرر ہے۔
۳۹۔ یعنی جہالت اور قصور فکر و نظر ہی لوگوں کے انکار آخرت کا اصل سبب ہے، ورنہ حقیقت میں تو آخرت کا ہونا نہیں بلکہ، اس کا نہ ہونا بعید از عقل ہے۔ کائنات کے نظام اور خود اپنے وجود پر کوئی شخص صحیح طریقہ سے غور کرے تو اسے خود محسوس ہو جائے گا کہ آخرت کے آنے میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔
ترجمہ
زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے (۴۰)، اور جس روز قیامت کی گھڑی آ کھڑی ہو گی اس دن باطل پرست خسارے میں پڑ جائیں گے۔
اس وقت تم ہر گروہ کو گھٹنوں کے بل گِرا دیکھو گے۔ (۴۱) ہر گروہ کو پکار جائے گا کہ آئے اور اپنا نامۂ اعمال دیکھے۔ اس سے کہا جائے گا: ’’ آج تم لوگوں کو ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے تھے۔ یہ ہمارا تیار کرایا ہو ا اعمال نامہ ہے جو تمہارے اوپر ٹھیک ٹھیک شہادت دے رہا ہے، جو کچھ بھی تم کرتے تھے اسے ہم لکھواتے جا رہے تھے ‘‘(۴۲)۔ پھر جو لوگ ایمان لائے تھے اور نیک عمل کرتے رہے تھے انہیں ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور یہی صریح کامیابی ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا تھا ان سے کہا جائے گا ’’کیا میری آیات تم کو نہیں سنائی جاتی تھیں؟ مگر تم نے تکبر کیا(۴۳)اور مجرم بن کر رہے۔ اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہوتی ہے، ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں، یقین ہم کو نہیں ہے ’’(۴۴)۔ اس وقت ان پر ا ن کے اعمال کی برائیاں کھل(۴۵) جائیں گی اور وہ اسی چیز کے پھیر میں آ جائیں گے جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ ’’ آج ہم بھی اسی طرح تمہیں بھلا ئے دیتے ہیں جس طرح تم اس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے۔ تمہارا ٹھکانا اب دوزخ ہے اور کوئی تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔ یہ تمہارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق بنا لیا تھا اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے کہا جائے گا کہ معافی مانگ کر اپنے رب کو راضی کرو‘‘ (۴۶)۔
پس تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو زمین اور آسمانوں کا مالک اور سارے جہان والوں کا پروردگار ہے۔ زمین اور آسمانوں میں بڑائی اسی کے لیے ہے اور وہی زبردست اور دانا ہے۔ ع
تفسیر
۴۰۔ سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس فقرے سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو خدا اس عظیم الشان کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے اس کی قدرت سے یہ بات ہر گز بعید نہیں ہے کہ جن انسانوں کو وہ پہلے پیدا کر چکا ہے انہیں دوبارہ وجود میں لے آئے۔
۴۱۔ یعنی وہاں میدان حشر کا ایسا ہَول اور عدالت الہٰی کا ایسا رعب طاری ہو گا کہ بڑے بڑے ہیکڑ لوگوں کی اکڑ بھی ختم ہو جائے گی اور عاجزی کے ساتھ سب گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے۔
۴۲۔ لکھوانے کی صرف یہی ایک ممکن صورت نہیں ہے کہ کاغذ پر قلم سے لکھوایا جائے۔ انسانی اقوال و افعال کو ثبت کرنے اور دوبارہ ان کو بعینہ اس کی شکل میں پیش کر دینے کی متعدد دوسری صورتیں اسی دنیا میں خود انسان دریافت کر چکا ہے، اور ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ آگے اس کے اور کیا امکانات پوشیدہ ہیں جو کبھی انسان ہی کی گرفت میں آ جائیں گے۔ اب یہ کون جان سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس کس طرح انسان کی ایک ایک بات، اور اس کی حرکات و سکنات میں سے ایک ایک چیز، اور اس کی نیتوں اور ارادوں اور خواہشات اور خیالات میں سے ہر مخفی سے مخفی شے کو ثابت کرا رہا ہے، اور کس طرح وہ ہر آدمی، ہر گروہ اور ہر قوم کا پورا کارنامہ حیات بے کم و کاست اس کے سامنے لا رکھے گا۔
۴۳۔ یعنی اپنے گھمنڈ میں تم نے یہ سمجھا کہ اللہ کی آیات کو مان کر مطیع فرمان بن کر مطیع فرمان بن جانا تمہاری شان سے فرو تر ہے، اور تمہارا مقام بندگی کے مقام سے بہت اونچا ہے۔
۴۴۔ اس سے پہلے آیت ۲۴ میں جن لوگوں کا ذکر گزر چکا ہے وہ آخرت کا قطعی اور کھلا انکار کرنے والے تھے۔ اور یہاں ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اس کا یقین رکھتے اگر چہ گمان کی حد تم اس کے امکان سے منکر نہیں ہیں۔ بظاہر ان دونوں گروہوں میں اس لحاظ سے بڑا فرق ہے کہ ایک بالکل منکر ہے اور دوسرا اس کے ممکن ہونے کا گمان رکھتا ہے۔ لیکن نتیجے اور انجام کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس لیے کہ آخرت کے انکار اور اس پر یقین نہ ہونے کے اخلاقی نتائج بالکل ایک جیسے ہیں۔ کوئی شخص خواہ آخرت کو نہ مانتا ہو، یا اس کا یقین نہ رکھتا ہو، دونوں صورتوں میں لازماً وہ خدا کے سامنے اپنی جواب دہی کے احساس سے خالی ہو گا، اور یہ عدم احساس اس کو لازماً فکر و عمل کی گمراہیوں میں مبتلا کر کے رہے گا۔ صرف آخرت کا یقین ہی دنیا میں آدمی کے رویے کو درست رکھ سکتا ہے۔ یہ اگر نہ ہو تو شک اور انکار، دونوں اسے ایک ہی طرح کی غیر ذمہ دارانہ روش پر ڈال دیتے ہیں۔ اور چونکہ یہی غیر ذمہ دارانہ روش آخرت کی بد انجامی کا اصل سبب ہے، اس لیے دوزخ میں جانے سے انکار کرنے والا بچ سکتا ہے، نہ یقین رکھنے والا۔
۴۵۔ یعنی وہاں ان کو پتہ چل جائے گا کہ اپنے جن طور طریقوں اور عادات و خصائل اور اعمال و مشاغل کو وہ دنیا میں بہت خوب سمجھتے تھے وہ سب ناخوب تھے۔ اپنے آپ کو غیر جوابدہ فرض کر کے انہوں نے ایسی بنیادی غلطی کر ڈالی جس کی وجہ سے ان کا پورا کارنامہ حیات ہی غلط ہو کر رہ گیا۔
۴۶۔ یہ آخری فقرہ اس انداز میں ہے جیسے کوئی آقا اپنے کچھ خادموں کو ڈانٹنے کے بعد دوسروں سے خطاب کر کے کہتا ہے کہ اچھا، اب ان نالائقوں کی یہ سزا ہے۔
٭٭٭
(۴۶) سورۃ الاحقاف
نام
آیت نمبر ۲۱ کے فقرے اِذْاَنْذَ رَقَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ سے ماخوذ ہے۔
زمانۂ نزول
ایک تاریخی واقعہ سے متعین ہو جاتا ہے جس کا ذکر آیت ۲۹۔ ۳۲ میں آ یا ہے۔ ان آیات میں جِنوں کے آ نے اور قرآن سن کر واپس جانے کا جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ حدیث و سیرت کی متفق علیہ روایت کی رو سے اس وقت پیش آیا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم طائف سے مکہ معظمہ کی طرف پلٹتے ہوئے نَخْلہ کے مقام پر ٹھہرے تھے، اور تمام معتبر تاریخی روایت کے مطابق آپ کے طائف تشریف لے جانے کا واقعہ ہجرت سے تین سال پہلے کا ہے، لہٰذا یہ متعین ہو جاتا ہے کہ یہ سورۃ ۱۰نبوی کے آخر، یا ۱۱نبوی میں نازل ہوئی۔
تاریخی منظر
۱۰ نبوی حضورؐ کی حیات طیبہ میں انتہائی سختی کا سال تھا۔ تین برس سے قریش کے تمام قبیلوں نے مل کر نبی ہاشم اور مسلمانوں کا مکمل مقاطعہ ر رکھا تھا اور حضور اپنے خاندان اور اپنے اصحاب کے ساتھ شعیب ابی طالب (شعب ابی طالب مکہ معظمہ کے ایک محلے کا نام تھا جس میں بنی ہاشم رہا کرتے تھے۔ شعب عربی زبان میں گھاٹی کو کہتے ہیں۔ چونکہ یہ محلہ کوہ اب قبیس کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں واقع تھا، اور ابو طالب نبی ہاشم کے سردار تھے، اس لیے اسے شعب ابی طالب کہا جاتا تھا۔ مکہ معظمہ میں جو مکان آج مقامی روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقام پیدائش کی حیثیت سے معروف ہے، اسی کے قریب یہ گھاٹی واقع تھی۔ اب اسے شعب علی یا شعب بنی ہاشم کہتے ہیں۔ )میں محور تھے۔ قریش کے لوگوں نے ہر طرف سے اس محلے کی ناکہ بندی کر رکھی تھی جس سے گزر کر کسی قسم کی رسد اندر نہ پہنچ سکتی تھی۔ صرف حج کے زمانے میں یہ محصورین نکل کر کچھ خریداری کر سکتے تھے۔ مگر ابو لہب جب بھی ان میں سے کسی کو بازار کی طرف، یا کسی تجارتی قافلے کی طرف جاتے دیکھتا، پکار کر تاجروں سے کہہ دیتا کہ جو چیز یہ خریدنا چاہیں اس کی قیمت اتنی زیادہ بتاؤ کہ یہ نہ خرید سکیں، پھر وہ چیز ہاشم کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اور ان پر ایسے ایسے سخت وقت گزر گئے تھے جن میں بسا اوقات گھاس اور پتے کھانے کی نوبت آ جاتی تھی۔
خدا خدا کر کے یہ محاصرہ اس سال ٹوٹا ہی تھا کہ حضورؐ کے چچا ابو طالب، جو دس سال سے آپؐ کے لیے ڈھال بنے ہوئے تھے، وفات پا گئے، اور اس سانحے پر بمشکل ایک مہینہ گزرا تھا کہ آپ کی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ بھی انتقال فرما گئیں جن کی ذات آغاز نبوت سے لے کر اس وقت تک آپ کے لیے وجہ سکون و تسلی بنی رہی تھی۔ ان پے درپے صدموں اور تکلیفوں کی وجہ سے حضورؐ اس سال کو عام الحزن (رنج و غم کا سال ) فرمایا کرتے تھے۔
حضرت خدیجہ اور ابوطالب کی وفات کے بعد کفار مکہ نبی صلی اللہ ولیہ و سلم کے مقابلے میں اور زیادہ دلیر ہو گئے۔ پہلے سے زیادہ آپ کو تنگ کرنے لگے۔ حتیٰ کہ آپ کا گھر سے باہر نکلنا بھی مشکل ہو گیا۔ اسی زمانہ کا یہ واقعہ ابن ہشام نے بیان کیا ہے کہ ایک روز قریم کے اوباشوں میں سے ایک شخص نے سر بازار آپ کے سر پر مٹی پھینک دی۔
آخر کار آپ اس ارادے سے طائف تشریف لے گئے کہ بنی ثَقیف کو اسلام کی طرف دعوت دین اور اگر وہ اسلام نہ قبول کریں تو انہیں کم از کم اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ آپ کو اپنے ہاں چین سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع دے دیں۔ آپ کو اس وقت کوئی سواری تک میسر نہ تھی۔ مکہ سے طائف تک کا سارا سفر آپ نے پیدل طے کیا۔ بعض روایات کی رو سے آپ تنہا تشریف لے گئے تھے، اور بعض روایات کے مطابق آپ کے ساتھ صرف حضرت زید بن حارثہ تھے۔ وہاں پہنچ کر چند روز آپؐ نے قیام کیا اور ثقیف کے سرداروں اور معززین میں سے ایک ایک کے پاس جا کر بات کی۔ مگر انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ کی کوئی بات نہ مانی، بلکہ آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا کہ ان کے شہر سے نکل جائیں، کیونکہ ان کو اندیشہ ہو گیا تھا کہ کہیں آپ کی تبلیغ ان کے نوجوانوں کو ’’ بگاڑ‘‘ نہ دے۔ مجبوراً آپ کو طائف چھوڑ دینا پڑا۔ جب آپ وہاں سے نکلنے لگے تو ثقیف کے سرداروں نے اپنے ہاں کے لفنگوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ راستے کے دونوں طرف دور تک آپ پر آوازے کستے، گالیاں دیتے اور پتھر مارتے چلے گئے، یہاں تک کہ آپ زخموں سے چور ہو گئے اور آپ کی جوتیاں خون سے بھر گئیں۔ اس حالت میں آپ طائف کے باہر ایک باغ کی دیوار سے سائے میں بیٹھ گئے اور اپنے رب سے عرض کیا:
’’خداوندا، میں تیرے ہی حضور اپنی بے بسی و بے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین، تو سارے ہی کمزوروں کا رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے۔ مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے حوالے جو مجھ سے درشتی کے ساتھ پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے حوالے جو مجھ پر قابو پالے؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھ کسی مصیبت کی پروا نہیں، مگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہو جائے تو اس میں میرے لیے زیادہ کشادگی ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اس نور کی جو اندھیرے میں اجالا اور دنیا اور آخرت کے معاملات کو درست کرتا ہے، مجھے اس سے بچا لے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیرے عتاب کا مستحق ہو جاؤں۔ تیری مرضی پر راضی ہوں یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے۔ کوئی زور اور طاقت تیرے بغیر نہیں‘‘ (ابن ہشام، ج ۲، ص ۶۲)
دل شکستہ و غمگین پلٹ کر جب آپ قرن المنازل کے قریب پہنچے تو محسوس ہوا کہ آسمان پر ایک بادل سا چھایا ہوا ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو جبریل علیہ السلام سامنے تھے۔ انہیں نے پکار کر کہا ’’ آپ کی قوم نے جو کچھ آپ کو جواب دیا ہے اللہ نے اسے سن لیا۔ اب یہ پہاڑوں کا منتظم فرشتہ اللہ نے بھیجا ہے، آپ جو حکم دینا چاہیں اسے دے سکتے ہیں‘‘۔ پھر پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو سلام کر کے عرض کیا ’’آپ فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑ ان لوگوں پر الٹ دوں؟‘‘ آپ نے جواب دیا، ’’ نہیں، بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کریں گے‘‘۔ (بخاری، بدء الخلق، ذکر الملائکہ۔۔ مسلم، کتاب المغازی۔ نسائی، البعوث)
اس کے بعد آپ چند روز نخلہ کے مقام پر جا کر ٹھیر گئے۔ پریشان تھے کہ اب کیسے مکہ واپس جاؤں۔ طائف میں جو کچھ گزری ہے اس کی خبریں وہاں پہنچ چکی ہوں گی۔ اس کے بعد تو کفار پہلے سے بھی زیادہ دلیر ہو جائیں گے۔ ان ہی ایام میں ایک روز رات کو آپ نماز میں قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جِنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا، انہوں نے قرآن سُنا، ایمان لائے، واپس جا کر اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ شروع کر دی، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ خوش خبری سنائی انسان چاہے آپ کی دعوت سے بھاگ رہے ہوں، مگر بہت سے جِن اس کے گرویدہ ہو گئے ہیں اور وہ اسے اپنی جنس میں پھیلا رہے ہیں۔
موضوع اور مباحث
یہ حالات تھے جن میں یہ سورت نازل ہوئی۔ جو شخص بھی ایک طرف ان حالات نزول کو دیکھے گا اور دوسری طرف اس سورۃ کو بغور پڑھے گا اسے اس امر میں کوئی شبہ نہ رہے گا کہ فی الواقع یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام نہیں ہے بلکہ ’’ اِس کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے۔ ’’ اس لیے کہ اول سے آخر تک پوری سورۃ میں کہیں ان انسانی جذبات و تأثرات کا ایک ادنیٰ شائبہ تک نہیں پایا جاتا جو ان حالات سے گزرنے والے انسان کے اندر فطری طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام ہوتا، جنہیں پے در پے صدمات اور مصائب کے بے پناہ ہجوم اور طائف کے تازہ ترین چرکے نے خستہ حالی کی انتہا کو پہنچا دیا تھا، تو اس سورے میں کہیں تو ان کیفیات کا عکس نظر آتا جو اس وقت آپ کے دل پر گزر رہی تھیں۔ اوپر ہم نے حضورؐ کی دعا نقل کی ہے، اسے دیکھیے۔ وہ آپ کا اپنا کلام ہے۔ اس کا لفظ لفظ ان کیفیات سے لبریز ہے۔ مگر یہ سورۃ جو اسی زمانے اور ان ہی حالات میں آپ ہی کی زبان مبارک سے ادا ہوئی ہے ان کے ہر اثر سے قطعی خالی ہے۔
سورۃ کا موضوع کفار کو ان گمراہیوں کے نتائج سے خبردار کرنا ہے جن میں وہ نہ صرف مبتلا تھے، بلکہ بڑے اصرار اور غرور و استکبار کے ساتھ ان پر جمے ہوئے تھے اور الٹا اس شخص کو ہدف ملامت بنا رہے تھے جو انہیں ان گمراہیوں سے نکالنے کے لیے کوشاں تھا۔ ان کے نزدیک دنیا کی حیثیت محض ایک بے مقصد کھلونے کی تھی اور اس کے اندر اپنے آپ کو وہ غیر جواب دہ مخلوق سمجھ رہے تھے۔ توحید کی دعوت ان کے خیال میں باطل تھی اور انہیں اصرار تھا کہ ان کے معبود واقعی خدا کے شریک ہیں۔ وہ قرآن کے متعلق یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ یہ خداوند عالم کا کلام ہے۔ رسالت کا ایک عجیب جاہلانہ تصور ان کے ذہن میں تھا اور اس کی بنا پر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دعوائے رسالت کو جانچنے کے لیے وہ طرح طرح کے نرالے معیار تجویز کر رہے تھے۔ ان کے نزدیک اسلام کے بر حق نہ ہونے کا ایک بڑا ثبوت یہ تھا کہ ان کے شیوخ اور بڑے بڑے قبائلی سردار اور ان کی قوم کے بوجھ بجھکڑ اسے نہیں مان رہے ہیں، اور صرف چند نوجوان، چند غریب لوگ اور چند غلام ہی اس پر ایمان لائے ہیں۔ وہ قیامت، اور زندگی بعد موت، اور جزا و سزا کی باتوں کو ایک من گھڑت افسانہ سمجھتے تھے، اس ان کا خیال تھا کہ ان چیزوں کا وقوع خارج از امکان ہے۔
اس سورۃ میں بالاختصار ان ہی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی مدلل تردید کی گئی ہے اور کفار کو خبردار کیا گیا ہے کہ تم اگر عقل و دلیل سے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے تعصب اور ہٹ دھرمی سے کام لے کر قرآن کی دعوت اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو رد کر دو گے تو آپ اپنا ہی انجام خراب کرو گے۔
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
حٰ۔ مٓ، اس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے (۱)۔
ہم نے زمین اور آسمانوں کو ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق، اور ایک مدت خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے (۲)۔ مگر یہ کافر لوگ اس حقیقت سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس سے ان کو خبردار کیا گیا ہے (۳)۔
اے نبی، ان سے کہو، ’’ کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا بھی کہ وہ ہستیاں ہیں کیا جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو؟ ذرا مجھے دکھاؤ تو سہی کہ زمین میں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے، یا آسمانوں کی تخلیق و تدبیر میں ان کا کیا حصہ ہے۔ اس سے پہلے آئی ہوئی کتاب یا علم کا کوئی بقیہ (ان عقائد کے ثبوت میں ) تمہارے پاس ہو تو وہی لے آؤ اگر تم سچے ہو‘‘(۴)۔ آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے (۵) بلکہ اس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارتے والے ان کو پکار رہے ہیں (۶)، اور جب تمام انسان جمع کیے جائیں گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے (۷)۔
ان لوگوں کو جب ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں اور حق ان کے سامنے آ جاتا ہے تو یہ کافر لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ تو کھُلا جادو ہے (۸)۔ کیا ان کا کہنا یہ ہے کہ رسول نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟(۹) ان سے کہو، ’’ اگر میں نے اسے خود گھڑ لیا ہے تو تم مجھے خدا کی پکڑ سے کچھ بھی نہ بچا سکو گے، جو باتیں تم بناتے ہو اللہ ان کو خوب جانتا ہے، میرے اور تمہارے درمیان وہی گواہی دینے کے لی کافی ہے (۱۰)، اور وہ بڑا در گزر کرنے والا اور رحیم ہے‘‘(۱۱)۔
ان سے کہو، ’’ میں کوئی نرالا رسول تو نہیں ہوں، میں نہیں جانتا کہ کل تمہارے ساتھ کیا ہونا ہے اور میرے ساتھ کیا، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے اور میں ایک صاف صاف خبردار کر دینے والے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں‘‘ (۱۲)۔ اے نبیؐ، ان سے کہو’’ کبھی تم نے سوچا بھی کہ اگر یہ کلام اللہ ہی کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کر دیا (تو تمہارا کیا انجام ہو گا(۱۳))؟ اور اس جیسے ایک کلام پر تو بنی اسرائیل کا ایک گواہ شہادت بھی دے چکا ہے۔ وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے (۱۴)۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔ ع
تفسیر
۱۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، سورۃ الزمر، حاشیہ ۱، اور سورۃ الجاثیہ، حاشیہ ۱، اور سورۃ الجاثیہ، حاشیہ ۱۔ اس کے ساتھ سورۃ السجدہ، حاشیہ نمبر ایک بھی نگاہ میں رہے تو اس تمہید کی روح سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
۲۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۵۵۱۔ جلد دوم، ص ۲۶۴۔ ۲۶۵۔ ۴۷۹۔ ۵۱۶۔ ۵۲۵، جلد سوم، ص ۱۵۱۔ ۱۵۲۔ ۳۰۳۔ ۷۰۳۔ ۷۳۳۔ ۷۳۴، جلد چہارم، تفسیر سورہ لقمان، حاشیہ ۵۱۔ الدخان، حاشیہ ۳۴۔ الجاثیہ، حاشیہ ۲۸۔
۳۔ یعنی واقعی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ نظام کائنات ایک بے مقصد کھلونا نہیں بلکہ ایک با مقصد حکیمانہ نظام نظام ہے جس میں لازماً نیک و بد اور ظالم و مظلوم کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہونا ہے، اور کائنات کا موجودہ نظام دائمی و ابدی نہیں ہے بلکہ اس کی ایک خاص عمر مقرر ہے جس کے خاتمے پر اسے لازماً درہم برہم ہو جانا ہے، اور خدا کی عدالت کے لیے بھی ایک وقت طے شدہ ہے جس کے آنے پر وہ ضرور قائم ہونی ہے، لیکن جن لوگوں نے خدا کے رسول اور اس کی کتاب کو ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ ان حقائق سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات کی کچھ فکر نہیں ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب انہیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان حقیقتوں سے خبردار کر کے خدا کے رسول نے ان کے ساتھ کوئی بُرائ کی ہے، حالانکہ یہ ان کے ساتھ بہت بڑی بھلائی ہے کہ اس نے محاسبے اور باز پرس کا وقت آنے سے پلے ان کو نہ صرف یہ بتا دیا کہ وہ وقت آنے والا ہے، بلکہ بھی ساتھ ساتھ بتا دیا کہ اس وقت ان سے کن امور کی باز پرس ہو گی تاکہ وہ اس کے لیے تیاری کر سکیں۔
آگے کی تقریر سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ انسان کی سب سے بڑی بنیادی غلطی وہ ہے جو وہ خدا کے متعلق اپنے عقیدے کے تعین میں کرتا ہے۔ اس معاملہ میں سہل انگاری سے کام لے کر کسی گہرے اور سنجیدہ فکر و تحقیق کے بغیر ایک سر سری یا سُنا سنایا عقیدہ بنا لینا ایسی عظیم حماقت ہے جو دنیا کی زندگی میں انسان کے پورے رویے کو، اور ابدلآباد تک کے لیے اس کے انجام کو خراب کر کے رکھ دیتی ہے۔ لیکن جس وجہ سے آدمی اس خطر ناک سہل انگاری میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھ لیتا ہے اور اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ خدا کے بارے میں جو عقیدہ بھی میں اختیار کر لوں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ یا تو مرنے کے بعد سرے سے کوئی زندگی نہیں ہے جس میں مجھے کسی باز پرس سے سابقہ پیش آئے، یا اگر ایسی کوئی زندگی ہو اور وہاں باز پرس بھی ہو تو جن ہستیوں کا دامن میں نے تھام رکھا ہے وہ مجھے انجام بد سے بچا لیں گی۔ یہی احساس ذمہ داری کا فقدان آدمی کو مذہبی عقیدے دے انتخاب میں غیر سنجیدہ بنا دیتا ہے اور اسی بنا پر وہ بڑی بے فکری کے ساتھ دہریت سے لے کر شرک کی انتہائی نا معقول صورتوں تک طرح طرح کے لغو عقیدے خود گھڑتا ہے یا دوسروں کے گھڑے ہوئے عقیدے قبول کر لیتا ہے۔
۴۔ چونکہ مخاطب ایک مشرک قوم کے لوگ ہیں اس لیے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ احساس ذمہ داری کے فقدان کی وجہ سے وہ کس طرح بے سوچے سمجھے ایک نہایت غیر معقول عقیدے سے چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کو خالق کائنات ماننے کے ساتھ بہت سی دوسری ہستیوں کو معبود بنائے ہوئے تھے، ان سے دعائیں مانگتے۔ تھے، ان کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے، ان کے آگے ماتھے رگڑتے اور نذر و نیاز پیش کرتے تھے، اور یہ خیال کرتے تھے کہ ہماری قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کے اختیارات انہیں حاصل ہیں۔ انہی ہستیوں کے متعلق ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ انہیں آخر کس بنیاد پر تم نے اپنا معبود مان رکھا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو معبودیت میں حصہ دار قرار دینے کے لیے دو ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو آدمی کو خود کسی ذریعہ علم سے یہ معلوم ہو کہ زمین و آسمان کے بنانے میں واقعی اس کا بھی کوئی حصہ ہے۔ یا اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ فرمایا ہو کہ فلاں صاحب بھی خدائی کے کام میں میرے شریک ہیں۔ اب اگر کوئی مشرک نہ یہ دعویٰ کر سکتا ہو کہ اسے اپنے معبودوں کے شریک خدا ہونے کا براہ راست علم حاصل ہے، اور نہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی کسی کتاب میں یہ دکھا سکے کہ خدا نے خود کسی کو اپنا شریک قرار دیا ہے تو لا محالہ اس کا عقیدہ قطعی بے بنیاد ہی ہو گا۔
اس آیت میں ’’ پہلے آئی ہوئی کتاب‘‘ سے مراد کوئی ایسی کتاب ہے جو قرآن سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی ہو۔ اور علم کے ’’بقیہ‘‘ سے مراد قدیم زمانے کے انبیاء اور صلحاء کی تعلیمات کا کوئی ایسا حصہ ہے جو بعد کی نسلوں کو کسی قابل اعتماد ذریعہ سے پہنچا ہو۔ اور دونوں ذرائع سے جو کچھ بھی انسان کو ملا ہے اس میں کیں شرک کا شائبہ تک موجود نہیں ہے۔ تمام کتب آسمانی بالاتفاق وہی توحید پیش کرتی ہیں جس کی طرف قرآن دعوت دے رہا ہے۔ اور علوم اولین کے جتنے نقوش بھی بچے کھچے موجود ہیں ان میں بھی کہیں اس امر کی شہادت نہیں ملتی کہ کسی نبی یا ولی یا مرد صالح نے کبھی لوگوں کو خدا کے سوا کسی اور کی بندگی و عبادت کرنے کی تعلیم دی ہو۔ بلکہ اگر کتاب سے مراد کتاب الٰہی، اور بقیہ علم سے مراد انبیاء و صلحاء کا چھوڑا ہو علم نہ بھی لیا جائے، تو دنیا کی کسی علمی کتاب اور دینی یا دنیوی علوم کے کسی ماہر کی تحقیقات میں بھی آج تک اس امر کی نشان دہی نہیں کی گئی ہے کہ زمین یا آسمان کی فلاں چیز کو خدا کے سوا فلاں بزرگ یا دیوتا نے پیدا کیا ہے، یا انسان جن نعمتوں سے اس کائنات میں متمتع ہو رہا ہے ان میں سے فلاں نعمت خدا کے بجائے فلاں معبود کی آفریدہ ہے۔
۵۔ جواب دینے سے مراد جوابی کاروائی کرنا ہے نہ کہ الفاظ میں بآواز جواب دینا یا تحریر کی شکل میں لکھ کر بھیج دینا۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اگر ان معبودوں سے فریاد یا استغاثہ کرے، یا ان سے کوئی دعا مانگے، تو چون کہ ان کے ہاتھ میں کوئی طاقت اور کوئی اختیار نہیں ہے، اس لیے وہ اس کی درخواست پر کوئی کار روائی نفی یا اثبات کی شکل میں ہیں کر سکتے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، الزمر، حاشیہ نمبر۳۳)
قیامت تک جواب نہ دے سکنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ دنیا باقی ہے اس وقت تک تو معاملہ صرف اسی حد پر رہے گا کہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب ان کی طرف سے نہ ملے گا، لیکن جب قیامت آ جائے گی تو اس سے آگے بڑھ کر معاملہ یہ پیش آئے گا کہ وہ معبود اپنے ان عابدوں کے الٹے دشمن ہوں گے، جیسا کہ آگے کی آیت میں آ رہا ہے۔
۶۔ یعنی ان تک ان پکارنے والوں کی پکار سرے سے پہنچتی ہی نہیں۔ نہ وہ خود اپنے کانوں سے اس کو سنتے ہیں، نہ کسی ذریعہ سے ان تک یہ اطلاع پہنچتی ہے کہ دنیا میں کوئی انہیں پکار رہا ہے۔ اس ارشاد الٰہی کو تفصیلاً یوں سمجھیے کہ دنیا بھر کے مشرکین خدا کے سوا جن ہستیوں سے دعائیں مانگتے رہے ہیں وہ تین اقسام پر منقسم ہیں۔ ایک، بے روح اور بے عقل مخلوقات دوسرے، وہ بزرگ انسان جو گزر چکے ہیں۔ تیسرے، وہ گمراہ انسان جو خود بگڑے ہوئے تھے اور دوسروں کو بگاڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ پہلی قسم کے معبودوں کا تو اپنے عابدوں کی دعاؤں سے بے خبر رہنا ظاہر ہی ہے۔ رہے دوسری قسم کے معبود، جو اللہ کے مقرب انسان تھے، تو ان کے بے خبر رہنے کے دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ الہ کے ہاں اس عالم میں ہیں جہاں انسانی آوازیں راہ راست تک نہیں پہنچتیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی ان تک یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ جن لوگوں کو آپ ساری عمر اللہ سے دعا مانگنا سکھاتے رہے تھے وہ اب الٹی آپ سے دعائیں مانگ رہے ہیں، اس لیے کہ اس اطلاع سے بڑھ کر ان کو صدمہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی، اور اللہ اپنے ان نیک بندوں کی ارواح کو اذیت دینا ہر گز پسند نہیں کرتا۔ اس کے بعد تیسری قسم کے معبودوں کے معاملہ غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان کے بے خبر رہنے کے بھی دوہی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ملزموں کی حیثیت سے اللہ کے ہاں حوالات میں بند ہیں جہان دنیا کی کوئی آواز انہیں نہیں پہنچتی۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی انہیں یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ تمہارا مشن دنیا میں خوب کامیاب ہو رہا ہے اور لوگ تمہارے پیچھے تمہیں معبود بنائے بیٹھے ہیں، اس لیے کہیہ خبریں ان کے لیے مسرت کی موجب ہوں گی، اور خدا ان ظالموں کو ہر گز خوش نہیں کرنا چاہتا۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہی کہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو دنیا والوں کے سلام اور ان کی دعائے رحمت پہنچا دیتا ہے کیوں کہ یہ چیزیں ان کے لیے فرحت کے موجب ہیں، اور اسی طرح وہ مجرموں کو دنیا والوں کی لعنت اور پھٹکار اور زجر و توبیخ سے مطلع فرما دیتا ہے جیسے جنگ بدر میں مارے جانے والے کفار کو ایک حدیث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تو بیخ سنوا دی گئی، کیونکہ یہ ان کے لیے اذیت کی موجب ہے۔ لیکن کوئی ایسی بات جو صالحین کے لیے رنج کی موجب، یا مجرمین کے لیے فرحت کی موجب ہو وہ ان تک نہیں پہنچائی جاتی۔ اس تشریح سے سماع موتیٰ کے مسئلے کی حقیقت بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔
۷۔ یعنی وہ صاف صاف کہ دیں گے کہ نہ ہم نے ان سے کبھی یہ کہا تھا کہ تم ہماری عبادت کرنا، اور نہ ہمیں یہ خبر کہ یہ لوگ ہماری عبادت کرتے تھے۔ اپنی اس گمراہی کے یہ خود ذمہ دار ہیں۔ اس کا خمیازہ ان ہی کو بھگتنا چاہیے۔ ہمارا اس گناہ میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
۸۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن کی آیات کفار مکہ کے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو وہ صاف یہ محسوس کرتے تھے کہ اس کلام کی شان انسانی کلام سے بدر جہا بلند ہے۔ ان کے کسی شاعر، کسی خطیب، اور کسی بڑے سے بڑے ادیب کے کلام کو بھی قرآن کی بے مثل فصاحت و بلاغت، اس کی وجد آفرین خطابت، اس کے بلند مضامین اور دلوں کو بر ما دینے والے انداز بیان سے کوئی مناسبت نہ تھی۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنی کلام کی شان بھی وہ نہ تھی جو خدا کی طرف سے آپ پر نازل ہونے والے کلام میں نظر آتی تھی۔ جو لوگ بچپن سے آپ کو دیکھتے چلے آ رہے تھے وہ خوب جانتے تھے کہ آپ کی زبان اور قرآن کی زبان میں کتنا عظیم فرق ہے، اور ان کے لیے یہ باور کرنا ممکن نہ تھا کہ ایک آدمی جو چالیس پچاس برس سے شب و روز ان کے درمیان رہتا ہے وہ یکایک کسی وقت بیٹھ کر ایسا کلام گھڑ لیتا ہے جس کی زبان میں اس کی اپنی جانی پہچانی زبان سے قطعاً کوئی مشابہت نہیں پائی جاتی۔ یہ چیز ان کے سامنے حق کو بالکل بے نقاب کر کے لے آتی تھی۔ مگر وہ چونکہ اپنے کفر پر اڑے رہنے کا فیصلہ کر چکے تھے، اس لیے اس صریح علامت کو دیکھ کر سیدھی طرح اس کلام کو کلام وحی مان لینے کے بجائے یہ بات بناتے تھے کہ یہ کوئی جادو کا کرشمہ ہے۔ (ایک اور پہلو جس کے لحاظ سے وہ قرآن کو جادو قرار دیتے تھے، اس کی تشریح ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، ص ۱۴۵۔ ۱۴۶۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ ص، حاشیہ ۵)۔
۹۔ اس سوالیہ طرز بیان میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اتنے بے حیا ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن خود گھڑ لانے کا الزام رکھتے ہیں؟ حالانکہ انہیں خوب معلوم ہے کہ یہ ان کا تصنیف کردہ کلام نہیں ہو سکتا، اور ان کا اسے سحر کہنا خود اس امر کا صریح اعتراف ہے کہ یہ غیر معمولی کلام ہے جس کا کسی انسان کی تصنیف ہونا ان کے اپنے نزدیک بھی ممکن نہیں ہے۔
۱۰۔ چونکہ ان کے الزام کا محض بے اصل اور سرا سر ہٹ دھرمی پر مبنی ہونا بالکل ظاہر تھا اس لیے اس کی تردید میں دلائل پیش کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ پس یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ اگر واقعی میں نے خود ایک کلام تصنیف کر کے اللہ کی طرف منسوب کرنے کا جرم عظیم کیا ہے، جیسا کہ تم الزام رکھتے ہو، تو مجھے خدا کی پکڑ سے بچانے کے لیے تم نہ آؤ گے، لیکن اگر یہ خدا ہی کا کلام ہے اور تم جھوٹے الزامات رکھ رکھ کر اسے رد کر رہے ہو تو اللہ تم سے نمٹ لے گا۔ حقیقت اللہ سے چھپی ہوئی نہیں ہے، اور جھوٹ سچ کا فیصلہ کرنے کے لیے وہ بالکل کافی ہے۔ ساری دنیا اگر کسی کو جھوٹا کہے اور اللہ کے علم میں وہ سچا ہو تو آخری فیصلہ لازماً اسی حق میں ہو گا۔ اور ساری دنیا اگر کسی کو سچا کہہ دے، مگر اللہ کے علم میں وہ جھوٹا ہو، تو آخر کار وہ جھوٹا ہی قرار پائے گا۔ لہٰذا الٹی سیدھی باتیں بنانے کے بجائے اپنے انجام کی فکر کرو۔
۱۱۔ اس مقام پر یہ فقرہ دو معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ فی الواقع یہ اللہ کا رحم اور اس کا در گزر ہی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ زمین میں سانس لے رہے ہیں جنہیں خدا کے کلام کو افتا قرار دینے میں کوئی باک نہیں اور نہ کوئی بے رحم اور سخت گیر خدا اس کائنات کا مالک ہوتا تو ایسی جسارتیں کرنے والوں کو ایک سانس کے بعد دوسرا سانس لینا نصیب نہ ہوتا۔ دوسرا مطلب اس فقرے کا یہ ہے کہ ظالمو، اب بھی اس ہٹ دھرمی سے باز آ جاؤ تو خدا کی رحمت کا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہوا ہے، اور جو کچھ تم نے اب تک کیا ہے وہ معاف ہو سکتا ہے۔
۱۲۔ اس ارشاد کا پس منظر یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آپ کو خدا کے رسول کی حیثیت سے پیش کیا تو مکے کے لوگ اس پر طرح طرح کی باتیں بنانے لگے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو بال بچے رکھتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، کھاتا پیتا ہے، اور ہم جیسے انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے۔ آخر اس میں وہ نرالی بات کیا ہے جس میں یہ عام انسانوں سے مختلف ہو اور ہم یہ سمجھیں کہ خاص طور پر اس شخص کو خدا نے اپنا رسول بنایا ہے۔ پھر وہ کہتے تھے کہاگراس شخص کو خدا نے رسول بنایا ہوتا تو وہ اس کی اردلی میں کوئی فرشتہ بھیجتا جو اعلان کرتا کہ یہ خدا کا رسول ہے، اور ہراس شخص پر عذاب کا کوڑا برسا دیتا جو اس کی شان میں کوئی ذرا سی گستاخی کر بیٹھتا۔ یہ آخر کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا کسی کو اپنا رسول مقرر کرے اور پھر اسے یوں ہی مکے کی گلیوں میں پھرنے اور ہر طرح کی زیادتیاں سہنے کے لیے بے سہارا چھوڑ دے۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم یہی ہوتا کہ خدا اپنے رسول کے لیے ایک شاندار محل اور ایک لہلہاتا باغ ہی پیدا کر دیتا۔ یہ تو نہ ہوتا کہ اس کے رسول کی بیوی کا مال جب ختم ہو جائے تو اسے فاقوں کی نوبت آ جائے اور طائف جانے کے لیے اسے سواری تک میسر نہ ہو۔ پھر وہ لوگ آپ سے طرح طرح کے معجزات کا مطالبہ کرتے تھے اور غیب کی باتیں آپ سے پوچھتے تھے۔ ان کے خیال میں کسی شخص کا رسول خدا ہونا یہ معنی رکھتا تھا کہ وہ فوق البشری طاقتوں کا مالک ہو، اس کے ایک اشارے پر پہاڑ ٹل جائیں اور ریگ زار دیکھتے دیکھتے کشت زاروں میں تبدیل ہو جائیں، اس کو تمام : ماکان و ما یکون کا علم ہو اور پردہ غیب میں چھپی ہوئی ہر چیز اس پر روشن ہو۔
یہی باتیں ہی جن کا جواب ان فقروں میں دیا گیا ہے۔ ان میں سے ہر فقرے کے اندر معانی کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔
فرمایا، ان سے کہو، ’’ میں کوئی نرالا رسول تو نہیں ہوں ’’۔ یعنی میرا رسول بنایا جانا دنیا کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ تو نہیں ہے کہ تمہیں یہ سمجھنے میں پریشانی لاحق ہو کہ رسول کیسا ہوتا ہے اور کیسا نہیں ہوتا۔ مجھ سے پہلے بہت سے رسول آ چکے ہیں، اور میں ان سے مختلف نہیں ہوں۔ آخر دنیا میں کب کوئی رسول ایسا آیا ہے جو بال بچے نہ رکھتا ہو، یا کھاتا پیتا نہ ہو، یا عم انسانوں کی سی زندگی بسر نہ کرتا ہو؟ کس رسول کے ساتھ کوئی فرشتہ اترا ہے جو اس کی رسالت کا اعلان کرتا ہو اور اس کے آگے آگے ہاتھ میں کوڑا لیے پھرتا ہو؟ کس رسول کے لیے باغ اور محلات پیدا کیے گئے اور کس نے خدا کی طرف بلانے میں وہ سختیاں نہیں جھیلیں جو میں جھیل رہا ہوں؟ کون سا رسول ایسا گزرا ہے جو اپنے اختیار سے کوئی معجزہ دکھا سکتا ہو یا اپنے علم سے سب کچھ جانتا ہو؟ پھر یہ نرالے معیار میری ہی رسالت کو پرکھنے کے لیے تم کہاں سے لیے چلے آ رہے ہو۔
اس کے بعد فرمایا کہ ان کے جواب میں یہ بھی کہو ’’ میں نہیں جانتا کہ کل میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور تمہارے ساتھ کیا، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ بھیجی جاتی ہے‘‘۔ یعنی میں علم الغیب نہیں ہون کہ ماضی، حال، مستقبل سب مجھ پر روشن ہوں اور دنیا کی ہر چیز کا مجھ علم ہو۔ تمہارا مستقبل تو درکنار، مجھے تو اپنا مستقبل بھی معلوم نہیں ہے۔ جس چیز کا وحی کے ذریعہ سے مجھے علم دے دیا جاتا ہے بس اسی کو میں جانتا ہوں۔ اس سے زائد کوئی علم رکھنے کا میں نے آخر کب دعویٰ کیا تھا، اور کونسا رسول ایسے علم کا مالک کبھی دنیا میں گزرا ہے کہ تم میری رسالت کو جانچنے کے لیے میری غیب دانی کا امتحان لیتے پھرتے ہو۔ رسول کا یہ کام کب سے ہو گیا کہ وہ کھوئی ہوئی چیزوں کے پتے بتائے، یا یہ بتائے کہ حاملہ عورت لڑکا جنے گی یا لڑکی، یا یہ بتائے کہ مریض اچھا ہو جائے گا یا مر جائے گا۔
آخر میں فرمایا کہ ان سے کہہ دو ’’ میں ایک صاف صاف خبردار کر دینے والے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں‘‘۔ یعنی میں خدائی اختیارات کا مالک نہیں ہوں کہ وہ عجیب و غریب معجزے تمہیں دکھاؤں جن کے مطالبے تم مجھ سے آئے دن کرتے رہتے ہو۔ مجھے جس کام کے لیے بھیجا گیا ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے راہ راست پیش کروں اور جو لوگ اسے بول نہ کریں انہیں برے انجام سے خبردار کر دوں۔
۱۳۔ یہ وہی مضمون ہے جو اس سے پہلے ایک دوسرے طریقہ سے سورہ حٰم السجدہ، آیت ۵۲ میں گزر چکا ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، تفسیر سورہ مذکور، حاشیہ ۶۹۔
۱۴۔ مفسرین کے ایک بڑے گروہ نے اس گواہ سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام کو لیا ہے جو مدینہ طیبہ کے مشہور یہودی عالم تھے اور ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے۔ یہ واقعہ چونکہ مدینی میں پیش آیا تھا اس لیے ان مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت مدنی ہے۔ اس تفسیر کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص کا یہ بیان ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام کے بارے میں نازل ہوئی تھی (بخار، مسلم، نسائی، ابن جریر)، اور اسی بنا پر ابن عباس، مجاہد، قتادہ، ضحاک، ابن سیرین، حسن بصری، ابن زید، اور عوف بن مالک الاشجعی جیسے متعدد اکابر مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے۔ مگر دوسری طرف عکرمہ اور شعبی اور مسروق کہتے ہیں کہ یہ آیت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بارے میں نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ پوری سورۃ مکی ہے۔ ابن جریر طبری نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہ اور ان کا کہنا یہ ہے اوپر سے سارا سلسلہ کلام مشرکین مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے چلا آ رہا ہے اور آگے بھی سارا خطاب انہی سے ہے، اس سیاق و سباق میں یکایک مدینے میں نازل ہونے والی ایک آیت کا آ جانا قابل تصور نہیں ہے۔ بعد کے جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو قبول کیا ہے وہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت کو رد نہیں کرتے، بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ آیت چونکہ حضرت عبداللہ بن سلام کے ایمان لانے پر بھی چسپاں ہوتی ہے، اس لیے حضرت سعد نے قُدَماء کی عادت کے مطابق یہ فرمان دیا کہ یہ ان کے برے میں نازل ہوئی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب وہ ایمان لائے اس وقت ان ہی کے بارے میں یہ نازل ہوئی، بلکہ اس مطلب صرف یہ ہے کہ وہ اس آیت کے ٹھیک ٹھیک مصداق ہیں اور ان کے قبول ایمان پر یہ پوری طرح چسپاں ہوتی ہے۔
بظاہر یہی دوسرا قول زیادہ صحیح اور معقول محسوس ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ سوال حل طلب وہ جاتا ہے کہ اس ’’گواہ‘‘ سے مراد کون ہے۔ جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو اختیار کیا ہے ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد موسیٰ علیہ السلام ہیں لیکن بعد کا یہ فقرہ کہ’’ وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے‘‘۔ اس تفسیر کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ زیادہ صحیح بات وہی معلوم ہو تی ہے جو مفسر نیسا پوری اور ابن کثیر نے بیان کی ہے کہ یہاں گواہ سے مراد کو ئ شخص نہیں، بلکہ بنی اسرائیل کا عام آدمی ہے۔ ارشاد الہی کا مدعا یہ ہے کہ قرآن مجید جو تعلیم تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے یہ کو ئ انوکھی چیز بھی نہیں ہے دنیا میں پہلی مرتبہ تمھارے ہی سامنے پیش کی گئی ہو اور تم یہ عذر کر سکو ہم یہ نرالی باتیں کیسے مان لیں جو نوع انسانی کے سامنے کبھی آ ئی ہی نہ تھیں۔ اس سے پہلے یہی تعلیمات اسی طرح وحی کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کے سامنے تو ر ا ۃ اور دوسرے کتب آسمانی کی شکل میں آ چکی ہیں ایک عام آ دمی ان کو مان چکا ہے، اور یہ بھی تسلیم کر چکا ہے کہ اللہ کی وحی ان تعلیمات کے نزول کا ذریعہ ہے۔ اس لیے تم لوگ یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ وحی اور یہ تعلیمات ناقابل فہم چیزیں ہیں۔ اصل بات صرف یہ ہے کہ تمہارا غرور و تکبر اور بے بنیاد و گھمنڈ ایمان لانے میں مانع ہے۔
ترجمہ
جن لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر اس کتاب کو مان لینا کوئی اچھا کام ہوتا تو یہ لوگ اس معاملے میں ہم سے سبقت نہ لے جا سکتے تھے (۱۵)۔ چونکہ انہوں نے اس سے ہدایت نہ پائی اس لیے اب یہ ضرور کہیں گے کہ یہ تو پرانا جھوٹ ہے (۱۶)۔ حالانکہ اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت بن کر آ چکی ہے، اور یہ کتاب اس کی تصدیق کرنے والی زبان عربی میں آئی ہے تاکہ ظالموں کو متنبہ کر دے (۱۷) اور نیک روش اختیار کرنے والوں کو بشارت دے دے۔ یقیناً جن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے، پھر اس پر جم گئے، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے (۱۸)۔ ایسے سب لوگ جنت میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اپنے ان اعمال کے بدلے جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں۔
ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک بر تاؤ کرے اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا، اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے (۱۹)۔ یہاں ک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا ’’ اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں، اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تُو راضی ہو (۲۰)، اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کر مجھے سُکھ دے، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمان (مسلم ) بندوں میں سے ہوں‘‘۔ اس طرح کے لوگوں سے ہم ان کے بہترین اعمال کو قبول کرتے ہیں اور ان کی برائیوں سے درگزر کر جاتے ہیں (۲۱) یہ جنتی لوگوں میں شامل ہوں گے اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا رہا ہے۔ اور جس شخص نے اپنے والدین سے کہا’’ اُف، تنگ کر دیا تم نے مجھے یہ خوف دلاتے ہو کہ میں مرنے کے بعد پھر قبر سے نکالا جاؤں گا؟ حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی نسلیں گزر چکی ہیں (ان میں سے تو کوئی اٹھ کر نہ آیا)’’۔ ماں اور باپ اللہ کی دوہائی دے کر کہتے ہیں ’’ارے بدنصیب، مان جا، اللہ کا وعدہ سچا ہے ’’۔ یہ سب اگلے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں‘‘۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہے۔ ان سے پہلے جِنوں اور انسانوں کے جو ٹولے (اِسی قماش کے ) ہو گزرے ہیں انہی میں یہ بھی جا شامل ہوں گے۔ بے شک یہ گھاٹے میں رہ جانے والے لوگ ہیں (۲۲)۔ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تاکہ اللہ ان کے کیے کا پورا پورا بدلہ ان کو دے۔ ان پر ظلم ہر گز نہ کیا جائے گا(۲۳)۔ پھر جب یہ کافر آگ کے سامنے لا کھڑے کیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : ’’ تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کر چکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا، اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں ان کی پاداش میں آج تم کو ذلّت کا عذاب دیا جائے گا‘‘(۲۴)۔ ع
تفسیر
۱۵۔ یہ ان دلائل میں سے ایک ہے جو قریش کے سردار عوام الناس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بہکا نے کیے لیے استعمال کر تے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر یہ قرآن بر حق ہوتا اور محمد( صلی اللہ علیہ و سلم) ایک صحیح بات کی طرف دعوت دے رہے ہوتے تو قوم کے سردار اور شیو خ اور معز ز ین آگے بڑ ھ کر اس کو قبول کرتے۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہو کتا ہے کہ چند نا تجربہ کار لڑکے اور چند ادبی درجہ کے غلام تو ایک معقول بات کو مان لیں اور قوم کے بڑے بڑ ے لوگ، جو دانا اور جہاندیدہ ہیں، اور جن کی عقل و تدبیر پر آ ج تک قوم اعتماد کر تی رہی ہے، اس کو رد کر دیں۔ اس پر فریب استدلال سے وہ عوام کو مطمئن کرنے کی کو شش کرتے تھے کہ اس نئی دعوت میں خرابی ہے، اسی لیے تو قوم کے اکابر اس کو نہیں مان رہے ہیں، لہذا تم لو گ بھی اس سے دور بھا گو۔
۱۶۔ یعنی ان لوگوں نے اپنے آپ کو حق و باطل کا معیار قرار دے رکھا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ جس ہدایت کو یہ قبول نہ کریں وہ ضرور ضلالت ہی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ اسے ’’ نیا جھوٹ‘‘ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے، کیونکہ اس سے پہلے بھی انبیاء علیہم السلام یہی تعلیمات پیش کرتے رہے ہیں، اور تمام کتب آسمانی جو اہل کتاب کے پاس موجود ہیں، ان ہی عقائد اور ان ہی ہدایات سے بھری ہوئی ہیں۔ اس لیے یہ اسے ’’پرانا جھوٹ‘‘ کہتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک وہ سب لوگ بھی دانائی سے محروم تھے جو ہزاروں برس سے ان حقائق کو پیش کرتے اور مانتے چلے آ رہے ہیں، اور تمام دانائی صرف ان کے حصے میں آ گئی ہے۔
۱۷۔ یعنی ان لوگوں کو انجام بد سے خبردار کر دے جو اللہ سے کفر اور غیر اللہ کی بندگی کر کے اپنے اوپر اور حق و صداقت پر ظلم کر رہے ہیں، اور اپنی اس گمراہی کی وجہ سے اخلاق اور اعمال کی ان کی ان برائیوں میں مبتلا ہیں جن سے انسانی معاشرہ طرح طرح کے مظالم اور بے انصافیوں سے بھر گیا ہے۔
۱۸۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، حٰم السجدہ، حاشیہ نمبر ۳۳ تا ۳۵۔
۱۹۔ یہ آیت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگرچہ اولاد کو ماں اور باپ دونوں ہی کی خدمت کرنی چاہیے، لیکن ماں کا حق اپنی اہمیت میں اس بنا پر زیادہ ہے کہ وہ اولاد کے لیے زیادہ تکلیفیں اٹھاتی ہے۔ یہی بات اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، اور امام بخاری کی ادب المفرد میں وارد ہوئی ہے کہ ایک صاحب نے حضورؐ سے پوچھا کس کا ح خدمت مجھ پر زیادہ ہے؟ فرمایا تیری ماں۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون؟ فرمایا تیرا باپ۔ حضورؐ کا یہ ارشاد ٹھیک ٹھیک اس آیت کی ترجمانی ہے، کیونکہ اس میں بھی ماں کے تہرے حق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : (۱) اس کی ماں نے اسے مشقت اٹھا کر پیٹ میں رکھا۔ (۲) مشقت اٹھا کر اس کو جنا۔ (۳) اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں ۳۰ مہینے لگ گئے۔
اس آیت، اور سورہ لقمان کی آیت ۱۴، اور سورہ بقرہ کی آیت ۲۳۳ سے ایک اور قانونی نکتہ بھی نکلتا ہے جس کی نشان دہی ایک مقدمے میں حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباس نے کی اور حضرت عثمانؓ نے اسی کی بنا پر اپنا فیصلہ بدل دیا۔ قصہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایک شخص نے قبیلہ جُہیَنہ کی ایک عورت سے نکاح کیا اور شادی کے چھ مہینے بعد اس کے ہاں صحیح و سالم بچہ پیدا ہو گیا۔ اس شخص نے حضرت عثمان کے سامنے لا کر یہ معاملہ پیش کر دیا۔ آپ نے اس عورت کو زانیہ قرار دے کر حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جائے۔ حضرت علیؓ نے یہ قصہ سنا تو فوراً حضرت عثمانؓ کے پاس پہنچے اور کہا یہ آپ نے کیا فیصلہ کر دیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ نکاح کے چھ مہینے بعد اس نے زندہ سلامت بچہ جن دیا، یہ اس کے زانیہ ہونے کا کھلا ثبوت نہیں ہے۔ ؟ حضرت علیؓ نے فرمایا نہیں۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کی مذکورہ بالا تینوں آیتیں ترتیب کے ساتھ پڑھیں۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ بلائیں اس باپ کے لیے جو رضاعت کی پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ ’’ سورہ لقمان میں فرمایا ’’ اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ ‘‘ اور سورہ احقاف میں فرمایا ’’ اس کے حمل اور اس کا دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگے‘‘۔ اب اگر تیس مہینوں میں سے رضاعت کے دو سال نکال دیے جائیں تو حمل کے چھ مہینے رہ جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم سے کم مدت، جس میں زندہ سلامت بچہ پیدا ہو سکتا ہے، چھ مہینے ہے۔ لہٰذا جس عورت نے نکاح کے چھ مہینے بعد بچہ جنا ہو اسے زانیہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حضرت علیؓ کا یہ استدلال سن کر حضرت عثمانؓ نے فرمایا اس بات کی طرف میرا ذہن بالکل نہ گیا تھا۔ پھر آپ نے عورت کو واپس بلوایا اور اپنا فیصلہ بدل دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علیؓ کے استدلال کی تائید حضرت ابن عباسؓ نے بھی کی اور اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے اپنے فیصلے وے رجوع فرما لیا (ابن جریر، احکام القرآن للجصاص، ابن کثیر)۔
ان تینوں آیات کو ملا کر پڑھنے سے جو قانونی احکام نکلتے ہیں وہ یہ ہیں :
(۱)جو عورت نکاح کے چھ مہینے سے کم مدت میں صحیح و سالم بچہ (یعنی وہ اسقاط نہ ہو بلکہ وضع حمل ہو) وہ زانیہ قرار پائے گی اور اس کے بچے کا نسب اس کے شوہر سے ثابت نہ ہو گا۔
(۲) جو عورت نکاح کے چھ مہینے بعد یا اس سے زیادہ مدت میں زندہ سلامت بچہ جنے اس پر زنا کا الزام محض اس ولادت کی بنیاد پر نہیں لگایا جا سکتا، نہ اس کے شوہر کو اس پر تہمت لگانے کا حق دیا جا سکتا ہے، اور نہ اس کا شوہر بچے کے نسب سے انکار کر سکتا ہے۔ بچہ لازماً اسی کا مانا جائے گا، اور عورت کو سزا نہ دی جائے گی۔
(۳) رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ اس عمر کے بعد اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تو وہ اس کی رضاعی ماں قرار نہیں پائے گی اور نہ وہ احکام رضاعت اس پر مترتب ہوں گے جو سورہ نساء آیت ۲۳ میں بیان ہوئے ہیں۔ اس معاملہ میں امام ابو حنیفہ نے بر سبیل احتیاط دو سال کے بجائے ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے تاکہ حرمت رضاعت جیسے نازک مسئلے میں خطا کر جانے کا احتمال باقی نہ رہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، سورہ لقمان حاشیہ نمبر ۲۳)
اس مقام پر یہ جان لینا فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ جدید ترین طبی تحقیقات کی رو سے ماں کے پیٹ میں ایک بچہ کو کم از کم ۲۸ ہفتے درکار ہوتے ہیں جن میں وہ نشو و نما پاکر زندہ ولادت کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ مدت ساڑھے چھ مہینے سے زیادہ بنتی ہے۔ اسلامی قانون میں نصف مہینے کے قریب مزید رعایت دی گئی ہے، کیونکہ ایک عورت کا زانیہ قرار پانا اور ایک بچہ کا نصب سے محروم ہو جانا بڑا سخت معاملہ ہے اور اس کی نزاکت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ماں اور بچے دونوں اس کے قانونی نتائج سے بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش دی جائے۔ علاوہ بریں کسی طبیب، قاضی حتی کہ خود حاملہ عورت اسے بار ور کرنے والے مرد کو بھی ٹھیک ٹھیک یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ استقرار حمل کس وقت ہوا ہے۔ یہ بات بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ حمل کی کم سے کم قانونی مدت کے تعین میں چند روز کی مزید گنجائش رکھی جائے۔
۲۰۔ یعنی مجھے ایسے نیک عمل کی توفیق دے جو اپنے ظاہری صورت میں بھی ٹھیک ٹھیک تیرے قانون کے مطابق ہو، اور حقیقت میں بھی تیرے ہاں مقبول ہونے کے لائق ہو۔ ایک عمل اگر دنیا والوں کے نزدیک بڑا اچھا ہو، مگر خدا کے قانون کی پیروی اس میں نہ کی گئی ہو تو دنیا کے لوگ اس پر کتنی ہی داد دیں، خدا کے ہاں وہ کسی داد کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف ایک عمل ٹھیک ٹھیک شریعت کے مطابق ہوتا ہے اور بظاہر اس کی شکل میں کوئی کسر نہیں ہوتی، مگر نیت کی خرابی، ریا، خود پسندی، فخر و غرور، اور دنیا طلبی اس کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور وہ بھی ا س قابل نہیں رہتا ہے کہ اللہ کے یاں مقبول ہو۔
۲۱۔ یعنی دنیا میں انہوں نے جو بہت رسے بہتر عمل کیا ہے آخرت مین اسی کے لحاظ سے مقرر کیا جائے گا۔ اور ان کی لغزشوں، کمزوروں اور خطاؤں پر گرفت نہیں کی جائے گی یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک کریم النفس اور قدر شناس آقا اپنے خدمت گذار اور وفادار ملازم کی قدر اس کی چھوٹی چھوٹی خدمات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس کی کسی ایسی خدمت کے لحاظ سے کرتا ہے جس میں اس نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو، یا جانثاری یا وفاشعاری کا کمال کر دکھایا ہو۔ اور ایسے خادم کے ساتھ وہ یہ معاملہ نہیں کیا کرتا کہ اس کی ذرا ذرا سی کوتاہیوں پر گرفت کر کے اس کی ساری خدم ت پر پانی پھیر دے۔
۲۲۔ یہاں دو طرح کے کردار آمنے سامنے رکھ کر گویا یہ سامعین کے سامنے یہ خاموش سوال رکھ دیا گیا ہے تاکہ بتاؤ، ان دونوں میں سے کونسا کردار بہتر ہے۔ اس وقت یہ دونوں ہی کردار معاشرے میں عملاً موجود تھے اور لوگوں کے لیے یہ جانا کچھ بھی مشکل نہ تھا کہ پہلی قسم کا کردار کہاں پایا جاتا ہے اور دوسری قسم کا کہاں۔ یہ جواب ہے سرداران قریش کے اس قول کا اگر اس کتاب کو مان لینا کوئی اچھا کام ہوتا تو یہ چند نوجوان اور چند غلام اس معاملہ میں ہم سے بازی نہ لے جا سکتے تھے۔ اس جواب کے آئینہ میں ہر شخص خود دکھ سکتا تھا کہ ماننے والوں کا کردار کیا ہے اور نہ ماننے والوں کا کیا۔
۲۳۔ یعنی نہ اچھے لوگوں کے نیکیاں اور قربانیاں ضائع ہوں گی اور نہ برے لوگوں کو ان کی برائی سے بڑھ کر سزا دی جائے گی۔ نیک آدمی اگر اپنے اجر سے محروم رہ جائے، یا اپنے حقیقی استحقاق سے کم اجر پائے تو یہ بھی ظلم ہے، اور برا آدمی اپنے کیے کی سزا نہ پائے یا جتنا کچھ قصور اس نے کیا ہے اس سے زیادہ سزا پائے تو یہ بھی ظلم ہے۔
۲۴۔ ذلت کا عذاب اس تکبر کی مناسبت سے ہے جو انہوں نے کیا۔ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ رسول پر ایمان لا کر غریب اور فقیر مومنوں کے گروہ میں شامل ہو جانا ان کی شان سے گری ہوئی بات ہے۔ وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ جس چیز کو چند غلاموں اور بے نوا انسانوں نے مانا ہے اسے ہم جیسے بڑے لوگ مان لیں گے تو ہماری عزت کو بٹا لگ جائے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو آخرت میں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے غرور کو خاک میں ملا کر رکھ دے گا۔
ترجمہ
ذرا اِنہیں عاد کے بھائی (ہودؑ) کا قصہ سناؤ جبکہ اس نے اَحْقاف میں اپنی قوم کو خبردار کیا تھا(۲۵)ــــــــ اور ایسے خبردار کرنے والے اس سے پہلے بھی گزر چکے تھے اور اس کے بعد بھی آتے رہے ــــــ کہ ’’ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا اندیشہ ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں ڈراتا ہے اگر واقعی تو سچا ہے‘‘۔ اس نے کہا کہ ’’ اس کا علم تو اللہ کو ہے (۲۶)، میں صرف وہ پیغام تمہیں پہنچا رہا ہوں جسے دے کر مجھے بھیجا گیا ہے۔ مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو‘‘(۲۷)۔ پھر جب انہوں نے اس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے ’’ یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا‘‘ ـــــ ’’نہیں (۲۸)، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔ یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں درد ناک عذاب چلا آ رہا ہے، اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر ڈالے گا‘‘۔ آخر کار ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے رہنے کی جگہوں کے سوا وہاں کچھ نظر نہ آتا تھا۔ اس طرح ہم مجرموں کو بدلہ دیا کرتے ہیں (۲۹)۔ ان کو ہم نے وہ کچھ دیا تھا جو تم لوگوں کو نہیں دیا ہے (۳۰)۔ ان کو ہم نے کان، آنکھیں اور دل، سب کچھ دے رکھے تھے، مگر نہ وہ کان ان کے کسی کام آئے، نہ آنکھیں، نہ دل، کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے (۳۱)، اور اسی چیز کے پھیر میں وہ آ گئے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ ع
تفسیر
۲۵۔ چونکہ سرداران قریش اپنی بڑائی کا زعم رکھتے تھے اور اپنی ثروت و مشیخت پر پھولے نہ سماتے تھے، اس لیے یہاں ان کو قوم عام کا قصہ سنایا جا رہا ہے۔ جس کے متعلق اگر قدیم زمانہ میں وہ اس سرزمین کی سب سے زیادہ طاقت ور قوم تھی۔
احقاف حِقف کی جمع ہے اور اس کے لغوی معنی ہیں ریت کے لمبے لمبے ٹیلے جو لندی میں پہاڑوں کی حد کو پہنچے ہو۔ ، لیکن اصلاحاً یہ صحرا عرب (الربع الخالی)کے جنوبی مغربی حصے کا نام ہے جہاں آج کوی آبادی نہیں ہے۔ نقشے میں اس کا مقام ملاحظہ ہو۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ عاد کا علاقہ عمان سے یمن تک پھیلا ہوا تھا اور قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اس کا اصل وطن الاحقاف تھا جہاں سے نکل کر وہ گرد و پیش کے ممالک میں پھیلے اور کمزور ممالک پر چھا گئے۔ آج کے زمانے تک بھی جنوبی عرب کے باشندوں میں یہی بات مشہور ہے کہ عاد اسی علاقہ مین آباد تھے۔ موجودہ شہر مکلا سے تقریباً ۱۲۵ میل کے فاصلہ پر شمال کی جانب حضر موت میں ایک مقام ہے جہاں لوگوں نے حضرت ہودؑ کا مزار بنا رکھا ہے اور وہ قبر ہودؑ کے نام ہی سے مشہور ہے۔ ہر سال ۱۵ شعبان کو وہاں عرس ہوتا ہے اور عرب کے مختلف حصوں سے ہزاروں آدمی وہاں جمع ہوتے ہیں۔ یہ خبر اگرچہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے، لیکن اس کا وہاں بنایا جانا اور جنوبی عرب کے لوگوں کا کثرت سے اس کی طرف رجوع کرنا کم از کم اس بات کا ثبوت ضرور ہے کہ مقامی علاقہ سے اسی علاقہ کو قوم عاد کا علاقہ قرار دیتی ہے اس کے لیے حضر موت میں متعدد خرابے (Ruing) ایسے ہیں جن کو مقامی باشندے آج تک دارِ عاد کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
الاحقاف کی موجودہ حالت دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ کبھی یہاں ایک شاندار تمدن رکھنے والی ایک طاقتور قوم آباد ہو گی۔ اغلب یہ ہے کہ ہزاروں برس پہلے یہ ایک شاداب علاقہ ہو گا اور بعد میں آب و ہوا کی تبدیلی نے اس ریگزار بنا دیا ہو گا۔ آج اس کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک لق و دق ریگستان ہے جس کے اندرونی حصوں میں جانے کے بھی کوئی ہمت نہیں رکھتا۔ ۱۸۴۳ء میں بویریا کا ایک فوجی آدمی اس کے جنوبی کنارے پر پہنچ گیا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ حضرت موت کی شمالی سطح مرتفع پر سے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو یہ صحرا ایک ہزار فیٹ نشیب میں نظر آتا ہے اس میں جگہ جگہ ایسے سفید خطے ہیں جس میں اگر کوئی چیز گر جائے تو ریت میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے اور بالکل بوسیدہ ہو جاتی ہے۔ عرب کے بدو اس علاقہ سے بہت ڈرتے ہیں اور کسی قیمت پر وہاں جانے پر راضی نہیں ہوتے۔ ایک موقع پر جب بدو اسے وہاں لے جانے پر راضی نہ ہوئے تو وہ اکیلا وہاں گیا۔ اس کا بیان ہے کہ یہاں کی ریت بالکل باریک سفوف کی طرح ہے۔ میں نے دور سے ایک شاہ قول اس میں پھینکا تو وہ پانچ منٹ کے اندر اس میں غرق ہو گیا اور اسی رسی کا سرا گل گیا۔ اس کے ساتھ وہ بندھا ہوا تھا۔ مفصل معلومات کے لیے ملاحظہ ہو:
Arabia the isles, Harold ingramsLondon, ۱۹۴۶
The unveiling of Arabia R.H.Kiran,London ۱۹۳۷.
The Empty Quarter, Phiby, London ۱۹۳۳
۲۶۔ یعنی یہ بات اللہ ہی جانتا ہے کہ تم پر عذاب کب آئے گا۔ اس کا فیصلہ کرنا میرا کام نہیں ہے کہ تم پر کب عذاب نازل کیا جائے اور کب تک تمہیں مہلت دی جائے۔
۲۷۔ یعنی تم اپنی نادانی سے میری اس تنبیہ کو مذاق سمجھ رہے ہو اور کھیل کے طور پر عذاب کا مطالبہ کئے جاتے ہو۔ تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ خدا کا عذاب کیا چیز ہوتا ہے اور تمہاری حرکات کی وجہ سے وہ کس قدر تمہارے قریب آ چکا ہے۔
۲۸۔ یہاں اس امر کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ ان کو یہ جواب کس نے دیا۔ کلام کے انداز سے خود بخود یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ جواب تھا جو اصل صورت حال نے عملاً ان کو دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ بادل ہے جو ان کی وادیوں کو سیراب کرنے آیا ہے اور حقیقت میں تھا وہ ہوا کا طوفان جو انہیں تباہ و برباد کرنے کے لیے چلا آ رہا تھا۔
۲۹۔ قوم عاد کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص ۴۴، تا ۴۷۔ ۳۴۵ تا ۳۴۹ جلد سوم، ص ۲۷۷ تا ۲۷۹۔ ۵۲۰۔ ۷۰۰۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ حم السجدہ، رکوع ۲، حواشی ۲۰۔ ۲۱۔
۳۰۔ یعنی مال، دولت، طاقت، اقتدار، کسی چیز میں بھی تمہارا اور ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ تمہارا دائرہ اقتدار تو شہر مکہ کے حدود سے باہر کہیں بھی نہیں اور وہ زمین کے ایک بڑے حصے پر چھائے ہوئے تھے۔
۳۱۔ اس مختصر سے فقرے میں ایک اہم حقیقت بیان کی گئی ہے۔ خدا کی آیات ہی وہ چیز ہیں جو انسان کو حقیقت کا فہم و ادراک بخشتی ہیں۔ یہ فہم و ادراک انسان کو حاصل ہو تو وہ آنکھوں سے ٹھیک دیکھتا ہے، کانوں سے ٹھیک سنتا ہے، اور دل و دماغ سے ٹھیک سوچتا اور صحیح فیصلے کرتا ہے لیکن جب وہ آیات ِ الٰہی کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اسے نگاہ حق شناس نصیب نہیں ہوتی، کان رکھتے ہوئے بھی وہ ہر کلمہ نصیحت کے لیے بہر ہوتا اور دل و دماغ کی جو نعمتیں خدا نے اسے دی ہیں ان سے الٹی سوچتا اور ایک سے ایک غلط نتیجہ اخذ کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی ساری قوتیں خود اس کی اپنی ہی تباہی میں صرف ہونے لگتی ہیں۔
ترجمہ
تمہارے گرد و پیش کے علاقوں میں بہت سے بستیوں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں۔ ہم نے اپنی آیات بھیج کر بار بار طرح طرح سے ان کو سمجھایا، شاید کہ وہ باز آ جائیں۔ پھر کیوں نہ ان ہستیوں نے ان کی مدد کی جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے تقرّب اِلی اللہ کا ذریعہ سمجھتے ہوئے معبود بنا لیا تھا؟ بلکہ وہ تو ان سے کھوئے گئے، اور یہ تھا ان کے جھوٹ اور ان بناوٹی عقیدوں کا انجام جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے۔
(اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے ) جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تاکہ قرآن سنیں (۳۳)۔ جب وہ اس جگہ پہنچے (جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے ) تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہو جاؤ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے۔ انہوں نے جا کر کہا، ’’ اے ہماری قوم کے لوگو، ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے، تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی کتابوں کی، رہنمائی کرتی ہے حق اور راہ راست کی طرف(۳۴)۔ اے ہماری قوم کے لوگو، اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کر لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں عذاب الیم سے بچا دے گا‘‘(۳۵)۔ اور جو(۳۶) کوئی اللہ کے داعی کی بات نہ مانے وہ نہ زمین میں خود کوئی بل بوتا رکھتا ہے کہ اللہ کو زچ کر دے، اور نہ اس کے کوئی ایسے حامی و سرپرست ہیں کہ اللہ سے اس کو بچا لیں۔ ایسے لوگ کھلی گمراہی میں پڑ ے ہوئے ہیں۔
اور کیا ان لوگوں یہ سجھائی نہیں دیتا کہ جس خدا نے یہ زمین اور آسمان پیدا کیے ہیں اور ان کو بناتے ہوئے جو نہ تھکا، وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں کو جِلا اُٹھائے؟ کیوں نہیں، یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے۔ جس روز یہ کافر آگ کے سامنے لائے جائیں گے، اس وقت ان سے پوچھا جائے گا ’’ کیا یہ حق نہیں ہے‘‘؟ یہ کہیں گے‘‘ ہاں، ہمارے رب کی قسم(یہ واقعی حق ہے )‘‘۔ اللہ فرمائے گا، ’’ اچھا تو اب عذاب کا مزا چکھو اپنے اس انکار کی پاداش میں جو تم کرتے رہے تھے‘‘۔
پس اے نبی، صبر کرو جس طرح اُولو العزم رسولوں نے صبر کیا ہے، اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کرو (۳۷)۔ جس روز یہ لوگ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں یوں معلوم ہو گا کہ جیسے دنیا میں دن کی ایک کھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے تھے۔ بات پہنچا دی گئی، اب کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہو گا؟ ع
تفسیر
۳۲۔ یعنی ان ہستیوں کے ساتھ عقیدت کی ابتداء تو انہوں نے اس خیال سے کی تھی کہ یہ خدا کے مقبول بندے ہیں، ان کے وسیلے سے خدا کے ہاں ہماری رسائی ہو گی۔ مگر بڑھتے بڑھتے انہوں نے خود انہی ہستیوں کو معبود بنا لیا، ان ہی کو مدد کے لیے پکارنے لگے، انہی سے دعائیں مانگنے لگے، اور ان ہی کے متعلق یہ سمجھ لیا کہ یہ صالح تصرف ہیں، ہماری فریاد رسی و مشکل کشائی ہی کریں گے۔ اس گمراہی سے ان کو نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات اپنے رسولوں کے ذریعہ سے بھیج کر طرح طرح سے ان کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ اپنے ان جھوٹے خداؤں کی بندگی پر اڑے رہے اور اصرار کیے چلے گیے کہ ہم اللہ کے بجائے ان ہی کا دامن تھامے رہیں گے۔ اب بتاؤ ان مشرک قوموں پر جب ان کی گمراہی کی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا تو ان کے وہ فریاد رس اور مشکل کشا معبود کہاں مر رہے تھے؟ کیوں نہ اس برے وقت میں وہ ان کی دست گیری کو آئے۔
۳۳۔ اس آیت کی تفسیر میں جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زبیر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرات حسن بصری، سعید بن حبیر، زر بن حبیش، مجاہد، عکرمہ اور دوسرے بزرگوں سے منقول ہیں وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جنوں کی پہلی حاضری کا واقعہ، جس کا اس آیت میں ذکر ہے، بطن نخلہ میں پیش آیا تھا۔ اور ابن اسحاق، ابو نعیم اصفہانی اور واقدی کا بیان ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس ہوئے تھے۔ راستہ میں آپ نے نخلہ میں قیام کیا۔ وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ نے قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرأت سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس کے ساتھ تمام روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اس موقع پر جن حضور کے سامنے نہیں تھے، نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس فرمایا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی۔
یہ مقام جہاں یہ واقعہ پیش آیا، یا تو الزیمہ تھا، یا اسیل الکبیر، کیونکہ یہ دونوں مقام وادی نخلہ میں واقع ہیں، دونوں جگہ پانی اور سرسبزی موجود ہے اور طائف سے آنے والوں کو اگر اس وادی میں پڑاؤ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ان ہی دونوں میں سے کسی جگہ ٹھہر سکتے ہیں۔ نقشے میں ان مقامات کا موقع ملاحظہ ہو:
۳۴۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہی جن پہلے سے حضرت موسیٰ اور کتب آسمانی پر ایمان لائے ہوئے تھے۔ قرآن سننے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ یہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اس لیے وہ اس کتاب اور اس کے لانے والے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی ایمان لے آئے۔
۳۵۔ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد جنوں کے پے درپے وفود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہونے لگے اور آپ سے ان کی رو در رو ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اس بارے میں جو روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں ان کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں کم از کم چھ وفد آئے تھے۔
ان میں سے ایک وفد کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں رات بھر غائب رہے۔ ہم لوگ سخت پریشان تھے کہ کہیں پر کوئی حملہ نہ کر دیا گیا ہو۔ صبح سویرے ہم نے آپ کو حراء کی طرف سے آتے ہوئے دیکھا۔ پوچھنے پر آپ نے بتایا کہ ایک جن مجھے بلانے آیا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ آ کر یہاں جنوں کے ایک گروہ کو قرآن سنایا۔ (مسلم۔ مسند احمد۔ ترمذی۔ ابوداؤد)
حضرت عبداللہ بن مسعود ہی کی ایک اور روایت ہے کہ ایک مرتبہ مکہ میں حضور نے صحابہ سے فرمایا کہ آج رات تم میں سے کون میرے ساتھ جنوں کی ملاقات کے لیے چلتا ہے؟ میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ مکہ کے بالائی حصہ میں ایک جگہ حضور نے لکیر کھینچ کر مجھ سے فرمایا کہ اس سے آگے نہ بڑھنا۔ پھر آپ آگے تشریف لے گئے اور کھڑے ہو کر قرآن پڑھنا شروع کیا۔ میں نے دیکھا کہ بہت سے اشخاص ہیں جنہوں نے آپ کو گھیر رکھا ہے اور وہ میرے اور آپ کے درمیان حائل ہیں۔ )ابن جریر۔ بیہقی۔ دلائل النبوۃ۔ ابونعیم اصفہانی، دلائل النبوہ)
ایک اور موقع پر بھی رات کے وقت حضرت عبداللہ بن مسعود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے اور مکہ معظمہ میں حجون کے مقام پر جنوں کے ایک مقدمہ کا آپ نے فیصلہ فرمایا۔ اس کے سالہا سال بعد ابن مسعودؓ نے کوفہ میں جاٹوں کے ایک گروہ کو دیکھ کر کہا حجون کے مقام پر جنوں کے جس گروہ کو میں نے دیکھا تھا وہ ان لوگوں سے بہت مشابہ تھا۔ (ابن جریر)
۳۶۔ ہو سکتا ہے کہ یہ فقرہ بھی جنوں ہی کے قول کا حصہ اور یہ ہو سکتا ہے کہ یہ ان کے قول پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اضافہ ہو۔ فحوائے کلام سے دوسری بات زیادہ قریب قیاس محسوس ہوتی ہے۔
۳۷۔ یعنی جس طرح تمہارے پیش رو انبیاء اپنی قوم کی بے رخی، مخالفت، مزاحمت اور طرح طرح کی ایذا رسانیوں کا مقابلہ سالہا سال تک مسلسل صبر اور ان تھک جدوجہد کے ساتھ کرتے رہے اسی طرح تم بھی کرو، اور یہ خیال دل میں نہ لاؤ کہ یا تو یہ لوگ جلدی سے ایمان لے آئے یا پھر اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کر دے۔
٭٭٭
(۴۷) سورہ محمد
نام
آیت نمبر ۲ کے فقرے و آمنو بما نزل علی محمد سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اسم گرامی آیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا ایک اور مشہور نام "قتال” بھی ہے جو آیت ۲۰ کے فقرے و ذکر فیھا القتال سے ماخوذ ہے۔
زمانۂ نزول
اس کے مضامین یہ شہادت دیتے ہیں کہ یہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں اس وقت نازل ہوئی جب جنگ کا حکم تو دیا جا چکا تھا مگر ابھی جنگ عملاً شروع ہوئی نہ تھی۔
تاریخی پس منظر
جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اس وقت صورتحال یہ تھی کہ مکہ معظمہ میں خاص طور پر اور عرب کی سرزمین میں بالعموم ہر جگہ مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔ مسلمان ہر طرف سے سمٹ کر مدینہ طیبہ کے دار الامان میں جمع ہو گئے تھے، مگر کفار قریش یہاں بھی ان کو چین سے بیٹھنے دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ مدینے کی چھوٹی سی بستی ہر طرف سے کفار کے نرغے میں گھری ہوئی تھی اور وہ اسے مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے لیے اس حالات میں دو ہی چارہ کار باقی رہ گئے تھے۔ یا تو وہ دین حق کی دعوت و تبلیغ ہی سے نہیں بلکہ اس کی پیروی تک سے دست بردار ہو کر جاہلیت کے آگے سپر ڈال دیں، یا پھر مرنے مارنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور سر دھڑ کی بازی لگا کر ہمیشہ کے لیے اس امر کا فیصلہ کر دیں کہ عرب کی سرزمین میں اسلام کو رہنا ہے یا جاہلیت کو۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر مسلمانوں کو اسی عزیمت کی راہ دکھائی جو اہل ایمان کے لیے ایک ہی راہ ہے۔ اس نے پہلے سورہ حج (آیت ۳۹) میں ان کو جنگ کی اجازت دی، اور پھر سورہ بقرہ (آیت ۱۹۰) میں اس کا حکم دے دیا۔ مگر اس وقت ہر شخص جانتا تھا کہ ان حالات میں جنگ کے معنی کیا ہیں۔ مدینے میں اہل ایمان کی ایک مٹھی بھر جمعیت تھی جو پورے ایک ہزار مردان جنگی بھی فراہم کرنے کے قابل نہ تھی، اور اس سے کہا جا رہا تھا کہ سارے عرب کی جاہلیت سے ٹکرا جانے کے لیے تلوار لے کر کھڑی ہو جائے۔ پھر لڑائی کے لیے جس سر و سامان کی ضرورت تھی وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی ایک ایسی ہستی مشکل سے ہی فراہم کر سکتی تھی جس کے اندر سینکڑوں بے خانماں مہاجر ابھی پوری طرح بسے بھی نہ تھے اور چاروں طرف سے اہل عرب نے معاشی مقاطعہ کر کے اس کی کمر توڑ رکھی تھی۔
موضوع اور مضمون
یہ حالات تھے جن میں یہ سورت نازل فرمائی گئی۔ اس کا موضوع اہل ایمان کو جنگ کے لیے تیار کرنا اور ان کو اس سلسلے میں ابتدائی ہدایات دینا تھا۔ اسی مناسبت سے اس کا نام سورہ قتال بھی رکھا گیا ہے۔ اس میں ترتیب وار حسب ذیل مضامین ارشاد ہوئے ہیں:
آغاز میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دو گروہوں کے درمیان مقابلہ درپیش ہے۔ ایک گروہ کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ حق سے ماننے سے انکار کر چکا ہے اور اللہ کے راستے میں سدِ راہ بن کر کھڑا ہو گیا ہے اور دوسرے گروہ کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ اس حق کو مان گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ کا دو ٹوک فیصلہ یہ ہے کہ پہلے گروہ کی تمام سعی و عمل کو اس نے رائیگاں کر دیا اور دوسرے گروہ کے حالات درست کر دیے۔
اس کے بعد مسلمانوں کو ابتدائی جنگی ہدایات دی گئی ہیں۔ ان کو اللہ کی مدد اور رہنمائی کا یقین دلایا گیا ہے۔ ان کو اللہ کی راہ میں قربانیاں کرنے پر بہترین اجر کی امید دلائی گئی ہے اور انہیں اطمینان دلایا گیا ہے کہ راہ حق میں ان کی کوششیں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک وہ ان کا اچھے سے اچھا پھل پائیں گے۔
پھر کفار کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی تائید و رہنمائی سے محروم ہیں۔ ان کی کوئی تدبیر اہل ایمان کے مقابلے میں کارگر نہ ہو گی اور دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بہت برا انجام دیکھیں گے۔
انہوں نے اللہ کے نبی کو مکہ سے نکال کر یہ سمجھا کہ انہیں بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے حالانکہ دراصل یہ کام کر کے انہوں نے اپنی تباہی کو خود اپنے اوپر دعوت دے دی۔
اس کے بعد منافقین کی طرف روئے سخن پھرتا ہے جو جنگ کا حکم آنے سے پہلے تو بڑے مسلمان بنے پھرتے تھے، مگر یہ حکم آ جانے کے بعد ان کے ہوش اڑ گئے تھے اور وہ اپنی عافیت کی فکر میں کفار سے ساز باز کرنے لگے تھے تاکہ اپنے آپ کو جنگ کے خطرات سے بچا لیں۔ ان کو صاف صاف خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ اور اس کے دین کے معاملے میں منافقت اختیار کرنے والوں کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔ یہاں تو بنیادی سوال جس پر تمام مدعیان ایمان کی آزمائش ہو رہی ہے یہ ہے کہ آدمی حق کے ساتھ ہے یا باطل کے ساتھ؟ اس کی ہمدردیاں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ہیں یا کفر اور کفار کے ساتھ؟ وہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کو عزیز رکھتا ہے یا اس حق کو جس پر ایمان لانے کا وہ دعویٰ کر رہا ہے؟ اس آزمائش میں جو شخص کھوٹا نکلتا ہے وہ مومن ہی نہیں ہے، کجا کہ اس کی نماز اور اس کا روزہ اور اس کی زکوٰۃ خدا کے ہاں کسی اجر کی مستحق ہو۔
پھر مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنی قلت تعداد اور بے سر و سامانی اور کفار کی کثرت اور ان کے سر و سامان کی فراوانی دیکھ کر ہمت نہ ہاریں، ان کے آگے صلح کی پیشکش کر کے کمزوری کا اظہار نہ کریں جس سے ان کی جراتیں اسلام اور مسلمانوں کے مقابلے میں اور زیادہ بڑھ جائیں، بلکہ اللہ کے بھروسے پر اٹھیں اور کفر کے اس پہاڑ سے ٹکرا جائیں۔ اللہ مسلمانوں کے ساتھ ہے، وہی غالب رہیں گے اور یہ پہاڑ ان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گا۔
آخر میں مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت دی گئی ہے۔ اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی معاشی حالت بہت پتلی تھی، مگر سامنے مسئلہ یہ درپیش تھا کہ عرب میں اسلام اور مسلمانوں کو زندہ رہنا ہے یا نہیں۔ اس مسئلے کی اہمیت و نزاکت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمانوں اپنے آپ کو اور اپنے دین کو کفر کے غلبہ سے بچانے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اپنی جانیں بھی لڑائیں اور جنگی تیاری میں اپنے مالی وسائل بھی پوری امکانی حد تک کھپا دیں۔ اس لیے مسلمانوں سے فرمایا گیا کہ اس وقت جو شخص بھی بخل سے کام لے گا وہ دراصل اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا بلکہ خود اپنے آپ ہی کو ہلاکت کے خطرے میں ڈال لے گا۔ اللہ تو انسانوں کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے دین کی خاطر قربانیاں دینے سے ایک گروہ اگر جی چرائے گا تو اللہ اسے ہٹا کر دوسرا گروہ اس کی جگہ لے آئے گا۔
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
جن لوگوں نے کفر کیا(۱) اور اللہ کے راستے سے روکا(۲)، اللہ نے ان کے اعمال کو رائگاں کر دیا(۳)۔اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اس چیز کو مان لیا جو محمدؐ پر نازل(۴) ہوئی ہے۔ اور ہے وہ سراسر حق ان کے رب کی طرف سے۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے ان کی برائیاں ان سے دور کر دیں(۵) اور ان کا حال درست کر دیا(۶)۔ یہ اس لیے کہ کفر کرنے والوں نے باطل کی پیروی کی اور ایمان لانے والوں نے اس حق کی پیرسی کی جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے۔ اس طرح اللہ لوگوں کو ان کی ٹھیک ٹھیک حیثیت بتائے دیتا ہے(۷)۔
پس جب ان کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کر دیا فدیے کا معاملہ کر لو، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے(۸)۔
یہ ہے تمہارے کرتے کا کام۔ اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا، مگر (یہ طریقہ اس نے اس لیے اختیار کیا ہے) کہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے(۹)۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہر گز ضائع نہ کرے گا (۱۰)۔ وہ ان کی رہنمائی فرمائے گا، ان کا حال درست کر دے گا، اور ان کو اس کنت میں داخل کرے گا جس سے وہ ان کو واقف کرا چکا(۱۱) ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا(۱۲) اور تمہارے قسم مضبوط جما دے گا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے، تو ان کے لیے ہلاکت ہے۔(۱۳) اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے (۱۴)، لہٰذا اللہ نے ان کے اعمال ضائع اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیے ۔ کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہ تھے کہ ان لوگوں کا انجام دیکھتے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ اللہ نے ان کا سب کچھ ان پر الٹ دیا، اور ایسے نتائج ان کافروں کے لیے مقدر ہیں(۱۵)۔ یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کا حامی و ناصر اللہ ہے اور کافروں کا حامی و ناصر کوئی نہیں (۱۶) ع۔
تفسیر
۱۔ یعنی اس تعلیم و ہدایت کو ماننے سے انکار کر دیا جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش فرما رہے تھے۔
۲۔ اصل میں صَدُّ وْ ا عَنْ سَبِیلِ اللہِ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ صَدّ عربی زبان میں لازم اور متعدی، دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے ان الفاظ کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ خود اللہ کے راستے پر آنے سے باز رہے، اور یہ بھی کہ انہوں نے دوسروں کو اس راہ پر آنے سے روکا۔
دوسروں کو خدا کی راہ سے روکنے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی زبردستی کسی کو ایمان لانے سے روک دے۔ دوسری صورت یہ کہ وہ ایمان لانے والوں پر ایسا ظلم و ستم ڈھائے کہ ان کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور دوسروں کے لیے ایسے خوفناک حالات میں ایمن لانا مشکل ہو جائے۔ تیسری صورت یہ کہ وہ مختلف طریقوں سے دین اور اہل دین کے خلاف لوگوں کو ورغلائے اور ایسے وسوسے دلوں میں ڈالے جس سے لوگ اس دین سے بدگمان ہو جائیں۔ اس کے علاوہ ہر کافر اس معنی میں خدا کی راہ سے روکنے والا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کفر کے طریقے پر پرورش کرتا ہے اور پھر اس کی آئندہ نسل کے لیے دین آبائی کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر کافر معاشرہ خدا کے راستے ہیں ایک سنگ گراں ہے، کیونکہ وہ اپنی تعلیم و تربیت سے، اپنے اجتماعی نظام اور رسم و رواج سے، اور اپنے تعصبات سے دین حق کے پھیلنے میں شدید رکاوٹیں ڈالتا ہے۔
۳۔ اصل الفاظ ہیں اَضَلَّ اَعْمَا لَہُمْ۔ ان کے اعمال کو بھٹکا دیا۔ گمراہ کر دیا۔ ضائع کر دیا۔ یہ الفاظ بڑے وسیع مفہوم کے حامل ہیں۔ ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ توفیق سلب کر لی کہ ان کی کوششیں اور محنتیں صحیح راستے میں صرف ہوں۔ اب وہ جو کچھ بھی کریں گے غلط مقاصد کے لیے غلط طریقوں ہی سے کریں گے، اور ان کی تمام سعی و جہد ہدایت کے بجائے ضلالت ہی کی راہ میں صرف ہو گی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کام اپنے نزدیک وہ خیر کے کام سمجھ کر کرتے رہے ہیں، مثلاً خانۂ کعبہ کی نگہبانی، حاجیوں کی خدمت، مہمانوں کی ضیافت، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، اور ایسے ہی دوسرے کام جنہیں عرب میں مذہبی خدمات اور مکارم اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ضائع کر دیا۔ ان کا کوئی اجر و ثواب ان کو نہ ملے گا، کیونکہ جب وہ اللہ کی توحید اور صرف اسی کی عبادت کا طریقہ اختیار کرنے سے انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس راہ پر آنے سے روکتے ہیں تو ان کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہو سکتا۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ راہ حق کو روکنے اور اپنے کافرانہ مذہب کو عرب میں زندہ رکھنے کے لیے جو کوششیں وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں کر رہے ہیں، اللہ نے ان کو رائگاں کر دیا۔ ان کی ساری تدبیریں اب محض ایک تیر بے ہدف ہیں۔ ان تدبیروں سے وہ اپنے مقصد کو ہر گز نہ پہنچ سکیں گے۔
۴۔ اگرچہ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہنے کے بعد اٰمَنُوْ ا بِمَا نُزِّ لَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ کہنے کی حاجت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ ایمان لانے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپؐ پر نازل ہونے والی تعلیمات پر ایمان لانا آپ سے آپ شامل ہے، لیکن اس کا الگ ذکر خاص طور پر یہ جتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مبعوث ہو جانے کے بعد کسی شخص کا خدا اور آخرت اور پچھلے رسولوں اور پچھلی کتابوں کا ماننا بھی اس وقت تک نافع نہیں ہے جب تک کہ وہ آپؐ کو اور آپؐ کی لائی ہوئی تعلیمات کو نہ مان لے۔ یہ تصریح اس لیے ضروری تھی ہجرت کے بعد اب مدینہ طیبہ میں ان لوگوں سے بھی سابقہ در پیش تھا جو ایمان کے دوسرے تمام لوازم کو تو مانتے تھے مگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے۔
۵۔ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جاہلیت کے زمانے میں جو گناہ ان سے سرزد ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے وہ سب ان کے حساب سے ساقط کر دیے۔ اب ان گناہوں پر کوئی باز پرس ان سے نہ ہو گی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ عقائد اور خیالات اور اخلاق اور اعمال کی جن خرابیوں میں وہ مبتلا تھے، اللہ تعالیٰ نے وہ ان سے دور کر دیں۔ ان کے ذہن بدل گیے۔ ان کے عقائد اور خیالات بدل گیے۔ ان کی عادتیں اور خصلتیں بدل گئیں۔ ان کی سیرتیں اور ان کے کردار بدل گئے۔ اب ان کے اندر جاہلیت کی جگہ ایمان ہے اور بد کر داریوں کی جگہ عمل صالح۔
۶۔ اس کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ پچھلی حالت کو بدل کر آئندہ کے لیے اللہ بے ان کو صحیح راستے پر ڈال دیا اور ان کی زندگیاں سنوار دیں۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ جس کمزوری و بے بسی اور مظلومی کی حالت میں وہ اب تک مبتلا تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے نکال دیا ہے۔ اب اس نے ایسے حالات ان کے لیے پیدا کر دیے ہیں جن میں وہ ظلم سہنے کے بجائے ظالموں کا مقابلہ کریں گے، محکوم ہو کر رہنے کے بجائے اپنی زندگی کا نظام خود آزادی کے ساتھ چلائیں گے، اور مغلوب ہونے کے بجائے غالب ہو کر رہیں گے۔
۷۔ اصل الفاظ ہیں کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللہُ لِلنَّاسِ اَمْثَالَھُمْ۔اس فقرے کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ ’’اس طرح اللہ لوگوں کے لیے ان کی مثالیں دیتا ہے‘‘۔ لیکن اس لفظی ترجمہ سے اصل مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ اصل مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح فریقین کو ان کی پوزیشن ٹھیک ٹھیک بتائے دیتا ہے۔ ایک فریق باطل کی پیروی پر مصر ہے اس لیے اللہ نے اس کی ساری سعی و عمل کو لا حاصل کر دیا ہے۔ اور دوسرے فریق نے حق کی پیروی اختیار کی ہے اس لیے اللہ نے اس کو برائیوں سے پاک کر کے اس کے حالات درست کر دیے ہیں۔
۸۔ اس آیت کے الفاظ سے بھی، اور جس سیاق و سباق میں یہ آئی ہے اس سے بھی یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ یہ لڑائی کا حکم آ جانے کے بعد اور لڑائی شروع ہونے سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ ’’جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو‘‘ کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ابھی مڈ بھیڑ ہوئی نہیں ہے اور اس کے ہونے سے پہلے یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ جب وہ ہو تو کیا کرنا چاہیے۔
آگے آیت ۲۰ کے الفاظ اس امر کی شہادت دے رہے لیں کہ یہ سورۃ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب سورہ حج کی آیت ۳۹ اور سورہ بقرہ کی آیت ۱۹۰ میں لڑائی کا حکم آ چکا تھا اور اس پر خوف کے مارے مدینے کے منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کا حال یہ ہو رہا تھا کہ جیسے ان پر موت چھا گئی ہو۔
اس کے علاوہ سورہ انفال کی آیات ۶۷۔۶۹ بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ آیت جنگ بدر سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ وہاں ارشاد ہوا ہے :
’’کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔ پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے‘‘۔
اس عبارت اور خصوصاً اس کے خط کشیدہ فقروں پر غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس موقع پر عتاب جس بات پر ہوا تھا وہ یہ تھی کہ جنگ بدر میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل دینے سے پہلے سے پہلے مسلمان دشمن کے آدمیوں کو کرنے میں لگ گئے تھے، حالانکہ جنگ سے پہلے جو ہدایت سورہ محمدؐ میں ان کو دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ ’’جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو‘‘۔ تاہم، چونکہ سورہ محمد میں مسلمانوں کو قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت فی الجملہ دی جا چکی تھی اس لیے جنگ بدر کے قیدیوں سے جو مال لیا گیا اسے اللہ نے حلال قرار دیا اور مسلمانوں کو اس کے لینے پر سزا نہ دی۔ ’’اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا‘‘ کے الفاظ میں اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس واقعہ سے پہلے فدیہ لینے کی اجازت کا فرمان قرآن میں آ چکا تھا، اور ظاہر ہے کہ قرآن کے اندر سورہ محمدؐ کی اس آیت کے سوا کوئی دوسری آیت ایسی نہیں ہے جس میں یہ فرمان پایا جاتا ہو۔ اس لیے یہ ماننے پڑے گا کہ یہ آیت سورہ انفال کی مذکورہ بالا آیت سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم تفسیر سورہ انفال، حاشیہ ۴۹)۔
یہ قرآن مجید کی پہلی آیت ہے جس میں قوانین جنگ کے متعلق ابتدائی ہدایات دی گئی ہیں۔ اس سے جو احکام نکلتے ہیں، اور اس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام نے جس طرح عمل کیا ہے، اور فقہاء نے اس آیت اور سنت سے جو استنباطات کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :
۱)۔ جنگ میں مسلمانوں کی فوج کا اصل ہدف دشمن کی جنگی طاقت کو توڑ دینا ہے، یہاں تک کہ اس میں لڑنے کی سکت نہ رہے اور جنگ ختم ہو جائے۔ اس ہدف سے توجہ ہٹا کر دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں نہ لگ جانا چاہیے۔ قیدی پکڑنے کی طرف توجہ اس وقت کرنی چاہیے جب دشمن کا اچھی طرح قلع قمع کر دیا جائے اور میدان جنگ میں اس کے کچھ آدمی باقی رہ جائیں۔ اہل عرب کو یہ ہدایت آغاز ہی میں اس لیے دے دی گئی کہ وہ کہیں فدیہ حاصل کرنے، یا غلام فراہم کرنے کے لالچ میں پڑ کر جنگ کے اصل ہدف مقصود کو فراموش نہ کر بیٹھیں۔
۲)۔ جنگ میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ تمہیں اختیار ہے، خواہ ان پر احسان کرو، یا ان سے فدیہ کا معاملہ کر لو۔ اس سے عام قانون یہ نکلتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو قتل نہ کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر، حسن بصری،عطاء اور حماد بن ابی سلیمان، قانون کے اسی عموم کو لیتے ہیں، اور یہ اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کو قتل لڑائی کی حالت میں کیا جا سکتا ہے۔ جب لڑائی ختم ہو گئی اور قیدی ہمارے قبضے میں آ گیا تو اسے قتل کرنا درست نہیں ہے۔ ابن جریر اور ابوبکر جصاص کی روایت ہے کہ کہ حجاج بن یوسف نے جنگی قیدیوں میں سے ایک قیدی کو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے حوالہ کیا اور حکم دیا کہ اسے قتل کر دیں۔ انہوں نے انکار کر دیا اور یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ ہمیں قید کی حالت میں کسی کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ امام محمد نے السیر الکبیر میں بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ عبداللہ بن عامر نے حضرت عبداللہ بن عمر کو ایک جنگی قیدی کے قتل کا حکم دیا تھا اور انہوں نے اسی بنا پر اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا تھا۔
۳)۔ مگر چونکہ اس آیت میں قتل کی صاف ممانعت بھی نہیں کی گئی ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا منشا یہ سمجھا اور اسی پر عمل بھی فرمایا کہ اگر کوئی خاص وجہ ایسی ہو جس کی بنا پر اسلامی حکومت کا فرمانروا کسی قیدی یا بعض قیدیوں کو قتل کرنا ضروری سمجھے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔ یہ عام قاعدہ نہیں ہے بلکہ قاعدہ عام میں ایک استثناء ہے جسے بضرورت ہی استعمال کیا جائے گا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ بدر مے ۷۰ قیدیوں میں سے صرف عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن الحارث کو قتل کیا۔ جنگ احد کے قیدیوں میں سے صرف ابو عذہ شاعر کو قتل فرمایا۔ نبی قریظہ نے چونکہ اپنے آپ کو حضرت سعد بن معاذ کے فیصلے پر حوالے کیا تھا، اور ان کے اپنے تسلیم کردہ حکم کا فیصلہ یہ تھا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے، اس لیے آپ نے ان کو قتل کرا دیا۔ جنگ خیبر میں جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں سے صرف کنانہ ابن ابی الحقیق قتل کیا گیا کیونکہ اس نے بد عہدی کی تھی۔ فتح مکہ کے بعد آپ نے تمام اہل مکہ میں سے صرف چند خاص اشخاص کے متعلق حکم دیا کہ ان میں سے جو بھی پکڑا جائے وہ قتل کر دیا جائے۔ ان مستثنیات کے سوا حضور کا عام طریقہ اسیران جنگ کو قتل کرنے کا کبھی نہیں رہا۔ اور یہی عمل خلفائے راشدین کا بھی تھا۔ ان کے زمانے میں بھی قتل اسیران جنگ کی مثالیں شاذ و نادر ہی ملتی ہیں اور ہر مثال میں قتل کسی خاص وجہ سے کیا گیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بھی اپنے پورے زمانہ خلافت میں صرف ایک جنگی قیدی کو قتل کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ اسی بنا پر جمہور فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ اسلامی حکومت اگر ضرورت سمجھے تو اسیر کو قتل کر سکتی ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے۔ ہر فوجی اس کا مجاز نہیں ہے کہ جس قیدی کو چاہے قتل کر دے۔ البتہ اگر قیدی کے فرار ہونے کا یا اس سے کسی خطرناک شرارت کا اندیشہ ہو جائے تو جس شخص کو بھی اس صورت حال سے سابقہ پیش آئے وہ اسے قتل کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں فقہائے اسلام نے تین تصریحات اور بھی کی ہیں۔ ایک یہ کہ اگر قیدی اسلام قبول کر لے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ قیدی صرف اسی وقت تک قتل کیا جا سکتا ہے جب تک وہ حکومت کی تحویل میں ہو۔ تقسیم یا بیع کے ذریعہ سے اگر وہ کسی شخص کی ملک میں جا چکا ہو تو پھر اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔ تیسرے یہ کہ قیدی کو قتل کرنا ہو تو بس سیدھی طرح قتل کر دیا جائے، عذاب دے دے کر نہ مارا جائے۔
۴)۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں عم حکم جو دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یا ان پر احسان کرو، یا فدیے کا معاملہ کر لو۔
احسان میں چر چیزیں شامل ہیں: ایک یہ کہ قید کی حالت میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ قتل یا دائمی قید کے بجائے ان کو غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالہ کر دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ جزیہ لگا کر ان کو ذمی بنا لیا جائے۔ چوتھے یہ کہ ان کو بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے۔
فدیے کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں : ایک یہ کہ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑا جائے۔ دوسرے یہ کہ رہائی کی شرط کے طور پر کوئی خاص خدمت ہی نے کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کے قبضے میں ہوں، ان کا تبادلہ کر لیا جائے۔
ان سب مختلف صورتوں پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام نے مختلف اوقات میں حسب موقع عمل فرمایا ہے۔ خدا کی شریعت نے اسلامی حکومت کا کسی ایک ہی شکل کا پابند نہیں کر دیا ہے۔ حکومت جس وقت جس طریقے کو مناسب ترین پائے اس پر عمل کر سکتی ہے۔
۵)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ ایک جنگی قیدی جب ایک حکومت کی قید میں رہے، اس کی غذا اور لباس، اور اگر وہ بیمار یا زخمی ہو تو اس کا علاج، حکومت کے ذمہ ہے۔ قیدیوں کو بھوکا ننگا رکھنے، یا ان کو عذاب دینے کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس حسن سلوک اور فیاضانہ برتاؤ کی ہدایت بھی کی گئی ہے اور عملاً بھی اسی کی نظیریں سنت میں ملتی ہیں۔ جنگ بدر کے قیدیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف صحابہ کے گھروں میں بانٹ دیا اور ہدایت فرمائی کہ استو صوابالا سارٰی خیراً، ’’ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا‘‘۔ ان میں سے ایک قیدی، ابو عزیز کا بیان ہے کہ مجھے جن انصاریوں کے گھر میں رکھا گیا تھا وہ صبح شام مجھ کو روٹی کھلاتے تھے اور خود صرف کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے۔ ایک اور قیدی سہیل بن عمرو کے متعلقو حضور سے کہا گیا کہ یہ بڑا آتش بیان مقرر ہے، آپ کے خلاف تقریریں کرتا رہا ہے، اس کے دانت تڑوا دیجیے۔ حضور نے جواب دیا ’’اگر میں اس کے دانت تڑواؤں تو اللہ میرے دانت توڑ دے گا اگر چہ میں نبی ہوں‘‘ (سیرت بن ہشام )۔ یمامہ کے سردار ثامہ بن اثال جب گرفتار ہو کر آئے تو جب تک وہ قید میں رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے عمدہ کھانا اور دودھ ان کے لیے مہیا کیا جاتا رہا (ابن ہشام)۔ یہی طرز عمل صحابہ کرام کے دور میں بھی رہا۔ جنگی قیدیوں سے بُرے سلوک کی کوئی نظیر اس دور میں نہیں ملتی۔
۶)۔ قیدیوں کے معاملے میں یہ شکل اسلام نے سرے سے اپنے ہاں رکھی ہی نہیں ہے کہ ان کو ہمیشہ قید رکھا جائے اور حکومت ان سے جبری محنت لیتی رہے۔ اگر ان کے ساتھ یا ان کی قوم کے ساتھ تبادلہ اسیران جنگ یا فدیے کا کوئی معاملہ طے نہ ہو سکے تو ان کے معاملے میں احسان کا طریقہ یہ رکھا گیا ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں بھی اس طریقے پر عمل کیا گیا ہے، صحابہ کرام کے عہد میں بھی یہ جاری رہا ہے، اور فقہائے اسلام بالاتفاق اس جواز کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو شخص قید میں آنے سے پہلے اسلام قبول کر چکا ہو اور پھر کسی طرح گرفتار ہو جائے وہ تو آزاد کر دیا جائے گا، مگر جو شخص قید ہونے کے بعد اسلام قبول کرے، یا کسی شخص کی ملکیت میں دے دیے جانے کے بعد مسلمان ہو تو یہ اسلام اس کے لیے آزادی کا سبب نہیں بن سکتا۔ مسند احمد، مسلم اور ترمذی میں حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ بنی عقیل کا اک شخص گرفتار ہو کر آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ : لو قلتھا وانت تملک امرک افلحت کل الفلاح۔ ’’اگر یہ بات تو نے اس وقت کہی ہوتے جب تو آزاد تھا تو یقیناً فلاح پا جاتا۔‘‘ یہی بت حضرت عمر ؓ نے فرمائی ہے کہ اذااسلم الا سیر فی ایدی المسلمیں فقش امن من القتل وھو رقیق۔’’جب قیدی مسلمانوں کے قبضے میں آنے کے بعد مسلمان ہو تو وہ قتل سے تو محفوظ ہو جائے گا مگر غلام رہے گا۔‘‘ اسی بنا پر فقہائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ قید ہونے کے بعد مسلمان ہونے والا غلامی سے نہیں بچ سکتا (السیر الکبیر، امام محمد)۔ اور یہ بات سراسر معقول بھی ہے۔ اگر ہمارا قانون یہ ہوتا کہ جو شخص بھی گرفتار ہونے کے بعد اسلام قبول کر لے گا وہ آزاد کر دیا جائے گا تو آخر وہ کونسا نادان قیدی ہوتا جو کلمہ پڑھ کر رہائی نہ حاصل کر لیتا۔
۷)۔ قیدیوں کے ساتھ احسان کی تیسری صورت اسلام میں یہ رکھی گئی ہے کہ جزیہ لگا کر ان کو دار الاسلام کی ذمی رعایا بنا لیا جائے اور وہ اسلامی مملکت میں اسی طرح آزاد ہو کر رہیں جس طرح مسلمان رہتے ہیں۔ امام محمد السیر الکبیر میں لکھتے ہیں کہ ’’ہر وہ شخص جس کو غلام بنانا جائز ہے اس پر جزیہ لگا کر اسے ذمی بنا لینا بھی جائز ہے۔‘‘ اور ایک دوسرے جگہ فرماتے ہیں ‘‘مسلمانوں کے فرمانروا کو یہ حق ہے کہ ان پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر خراج لگا کر انہیں اصلاً آزاد قرار دے دے‘‘۔ اس طریقے پر بالعموم ان حالات میں مل کیا گیا ہے جبکہ قید ہونے والے لوگ جس علاقے کے باشندے ہوں وہ مفتوح ہو کر اسلامی مملکت میں شامل ہو چکا ہو۔ مثال کے طو پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل خیبر کے معاملہ میں یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا، اور پھر حضرت عمرؓ نے سواد عراق اور دوسرے علاقوں کی فتح کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی پیروی کی۔ ابو عبید نے کتاب الاموال میں لکھا ہے کہ عراق کی فتح کے بعد اس علاقے کے سرکردہ لوگوں کا ایک وفد حضرت عمرؓ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ ’’اے امیر المومنین، پہلے اہل ایران ہم پر مسلط تھے۔ انہیں نے ہم کو بہت ستایا، بڑا برا برتاؤ ہمارے ساتھ کیا اور طرح طرح کی زیادتیاں ہم پر کرتے رہے۔ پھر جب خدا نے آپ لوگوں کو بھیجا تو ہم آپ کی آمد سے بڑے خوش ہوئے اور آپ کے مقابلے میں نہ کوئی مدافعت ہن نے کی نہ جنگ میں کوئی حصہ لیا۔ اب ہم نے سنا ہے کہ آپ ہمیں غلام بنا لینا چاہتے ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے جواب دیا ’’تم کو اختیار ہے کہ مسلمان ہو جاؤ، یا جزیہ قبول کر کے آزاد رہو‘‘۔ ان لوگوں نے جزیہ قبول کر لیا اور وہ آزاد چھوڑ دیے گئے۔ ایک اور جگہ اسی کتاب میں ابو عبید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوموسیٰؓ اشعری کو لکھا کہ ’’جنگ میں جو لوگ پکڑے گئے ہیں ان میں سے ہر کاشت کار اور کسان کو چھوڑ دو‘‘۔
۸)۔ احسان کی چوتھی صورت یہ ہے کہ قیدی کو بلا کسی فدیے اور معاوضے کے یونہی رہا کر دیا جائے۔ یہ ایک خاص رعایت ہے جو اسلامی حکومت صرف اسی حالت میں کر سکتی ہے جبکہ کسی خاص قیدی کے حالات اس کے متقاضی ہوں، یا توقع ہو کی یہ رعایت اس قیدی کو ہمیشہ کے لیے ممنون احسان کر دے گی اور وہ دشمن سے دوست یا کافر مومن بن جائے گا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ دشمن قوم کے اسی شخص کو اس لیے چھوڑ دینا کہ وہ پھر ہم سے لڑنے آ جانے کسی طرح بھی تقاضائے مصلحت نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے فقہائے اسلام نے بالعموم اس کی مخالفت کی ہے اور اس کے جواز کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ ’’اگر امام مسلمین قیدیوں کو، یا ان میں سے بعض کو بطور احسان چھوڑ دینے میں مصلحت پائے تو ایسا کرنے میں مضائقہ نہیں ہے‘‘۔ (السیر الکبیر)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں اس کی بہت سی نظیریں ملتی ہیں اور قریب قریب سب میں مصلحت کا پہلو نمایاں ہے۔
جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق آپ نے فرمایا لوکان المطعم بن عدیٍّ حیًّا ثم کلّمنی فی ھٰؤلاء النتنیٰ لنزکتھم لہ (بخاری، ابوداؤد، مسند احمد)۔ ’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور وہ کچھ سے ان گھناؤنے لوگوں کے بارے میں بات کرتا تو میں اس کی خاطر انہیں یونہی چھوڑ دیتا‘‘۔ یہ بات حضورؐ نے اس لیے فرمائی تھی کہ آپ جب طائف سے مکہ معظمہ واپس ہوئے تھے اس وقت مطعم ہی نے آپ کو اپنی پناہ میں لیا تھا اور اس کے لڑکے ہتھیار باندھ کر اپنی حفاظت میں آپ کو حرم میں لے گئے تھے۔ اس لیے آپ اس کے احسان کا بدلہ اس طرح اتارنا چاہتے تھے۔
بخاری، مسلم، اور مسند احمد کی روایت ہے کہ یمامہ کے سردار ثمامہ بن اُثال جب گرفتار ہو کر آئے تو حضورؐ نے ان سے پوچھا ’’ثمامہ، تمہارا کیا خیال ہے‘‘؟ انہوں نے کہا ’’اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون کچھ قیمت رکھتا ہے، اگر مجھ پر احسان کریں گے تو ایسے شخص پر کریں گے جو احسان ماننے والا ہے، اور اگر آپ مال لینا چاہتے ہیں تو مانگیے، آپ کو دیا جائے گا‘‘۔ تین دن تک آپ ان سے یہی بات پوچھتے رہے اور وہ یہی جواب دیتے رہے۔ آخر کو آپ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ رہائی پاتے ہی وہ قریب کے ایک نخلستان میں گئے، نہا دھو کر واپس آئے، کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے اور عرض کیا کہ ’’آج سے پہلے کوئی شخص میرے لیے آپ سے اور کوئی دین آپ کے دین سے بڑھ کر مبغوض نہ تھا، مگر اب کوئی شخص اور کوئی دین مجھے آپ سے اور آپ کے دین سے بڑھ کر محبوب نہیں ہے‘‘۔ پھر وہ عمرہ کے لیے مکے گئے اور وہاں قریش کے لوگوں کو نوٹس دے دیا کہ آج کے بعد کوئی غلہ تمہیں یمامہ سے نہ پہنچے گا جب تک محمد صلی اللہ علیہ و سلم اجازت نہ دیں۔ چنانچہ انہوں نے ایس ہی کیا اور مکہ والوں کو حضورؐ سے التجا کرنی پڑی کہ یمامہ سے ہمارے غلہ کی رسد بند نہ کرائیں۔
بنی قریظہ کے قیدیوں میں سے آپ نے زبیر بن باطا اور عمرو بن سعد (یاابن سعدیٰ) کی جان مخشی کی۔ زبیر کو اس لیے چھوڑا کہ اس نے جاہلیت کے زمانے میں جنگ معاث کے موقع پر حضرت ثابت بن قیس انصاری کو پناہ دی تھی، اس لیے آپ نے اس کے حضرت ثابت کے حوالہ کر دیا تاکہ ان کے احسان کا بدلہ ادا کر دین۔ اور عمو بن سعد کو اس لیے چھوڑا کہ جب بنی قریظہ حضور کے ساتھ بد عہدی کر رہے تھے اس وقت یہی شخص اپنے قبیلے کو غداری سے منع کر رہا تھا (کتاب الاموال لابی عبید)۔
غزوہ نبی المصطلق کے بعد جب اس قبیلے کے قیدی لائے گئے اور لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے، اس وقت حضرت جویریہ جس شخص کے حصے میں آئی تھیں اس کو ان کا معاوضہ ادا کر کے آپ نے انہیں رہا کرایا اور پھر ان سے خود نکاح کر لیا۔ اس پر تمام مسلمانوں نے یہ کہ کر اپنے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد کر دیا کہ یہ ’’اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رشتہ دار ہو چکے ہیں‘‘۔ اس طرح سو ۱۰۰ خاندانوں کے آدمی رہا ہو گئے (مسند احمد۔طبقات ابن سعد۔ سیرت ابن ہشام)۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے ۸۰ آدمی تننعیم کی طرف سے آئے اور فجر کی نماز کے قریب انہوں نے آپ کے کیمپ پر اچانک شبخون مارنے کا ارادہ کیا۔ مگر وہ سب کے سب پکڑ لیے گئے اور حضورؐ نے سب کو چھوڑ دیا تاکہ اس نازک موقع پر یہ معاملہ لڑائی کا موجب نہ بن جائے(مسلم، ابوداؤد، نسائی، ترمذی، مسند احمد)۔
فتح مکہ کے موقع پر آپ نے چند آدمیوں کو مستثنیٰ کر کے تمام اہل مکہ کو بطور احسان معاف کر دیا، اور جنہیں مستثنیٰ کیا تھا ان میں سے بھی تین چار کے سوا کوئی قتل نہ کیا گیا۔ سارا عرب اس بات کو جانتا تھا کہ اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم کیے تھے۔ اس کے مقابلہ میں فتح پا کر جس عالی حوصلگی کے ساتھ حضورؐ نے ان لوگوں معاف فرمایا اس سے اہل عرب کو یہ اطمینان حاصل ہو گیا کہ ان کا سابقہ کسی جبار سے نہیں بلکہ ایک نہایت رحیم و شفیق اور فیاض رہنما سے ہے۔ اسی بنا پر فتح مکہ کے بعد پورے جزیرۃ العرب کو مسخر ہونے میں دو سال سے زیادہ دیر نہ لگی۔
جنگ حنین کے بعد جب قبیلہ ہَوازِن کا وفد اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے حاضر ہو ا تو سارے قیدی تقسیم کیے جا چکے تھے۔ حضورؐ نے سب مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا یہ لوگ تایب ہو کر آئے ہیں اور میری رائے یہ ہے کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دیے جائیں۔ تم میں سے جو کوئی بخوشی اپنے حصے میں آئے ہوئے قیدی کو بلا معاوضہ چھوڑنا چاہے وہ اس طرح چھوڑ دے، اور جو معاوضہ لینا چاہے اس کو ہم بیت المال میں آنے والی پہلی آمدنی سے معاوضہ دے دیں گے۔ چنانچہ چھ ہزار قیدی رہا کر دیے گئے اور جن لوگوں نے معاوضہ لینا چاہا انہیں حکومت کی طرف سے معاوضہ دے دیا گیا، (بخاری، ابوداؤد، مسند احمد، طبقات ابن سعد)۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو کہ تقسیم ہو چکنے کے بعد حکومت قیدیوں کو خود رہا کر دینے کی مجاز نہیں رہتی، بلکہ یہ کام ان لوگوں کی رضا مندی سے، یا ان کو معاوضہ دے کر کیا جا سکتا ہے جن کی ملکیت میں قیدی دیے جا چکے ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صحابۂ کرام کے دور میں بھی بطور احسان قیدیوں کو رہا کرنے کی نظیریں مسلسل ملتی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے اشعث بن قیس کندی کو رہا کیا، اور حضرت عمرؓ نے ہُرمُز ان کو اور مناذِر اور میسان کے قیدیوں کو آزادی عطا کی (کتاب الاموال لابی عبید)۔
۹)۔ مالی معاوضہ لے کر قیدیوں کو چھوڑنے کی مثال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں صرف جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے جب کہ فی قیدی ایک ہزار سے چار ہزار تک کی رقمیں لے کر ان کو رہا کیا گیا(طبقات ابن سعد۔ کتاب الاموال)۔ صحابۂ کرام کے دور میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور فقہائے اسلام نے بالعموم اس کا ناپسند کیا ہے، کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم روپیہ لے کر دشمن کے ایک آدمی کو چھوڑ دیں تاکہ وہ پھر ہمارے خلاف تلوار اٹھائے۔ لیکن چونکہ قرآن میں فدیہ لینے کی اجازت دی گئی ہے، اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ اس پر عمل بھی کیا ہے، اس لیے ایسا کرنا مطلقاً ممنوع نہیں ہے۔ امام محمد السیر الکبیر میں کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو اس کی ضرورت پیش آئے تو وہ مالی معاوضہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ سکتے ہیں۔
۱۰)۔ کوئی خدمت لے کر چھوڑنے کی مثال بھی جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے۔ قریش کے قیدیوں میں سے جو لوگ مالی فدیہ دینے کے قابل نہ تھے، ان کی رہائی کے لیے حضورؐ نے یہ شرط عائد کر دی کہ وہ انصار کے دس دس بچوں کو لکنا پڑھنا سکھا دیں۔ (مسند احمد، طبقات ابن سعد، کتاب الاموال)۔
۱۱)۔ قیدیوں کے تبادلےکی متعدد مثالیں ہم کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں ملتی ہیں۔ ایک مرتبہ حضورؐ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک مہم پر بھیجا اور اس میں چند قیدی گرفتار ہوئے۔ ان میں ایک نہایت خوبصورت عورت بھی تھی جو حضرت سلمہ بن اکوع کے حصے میں آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے باصرار اس کو حضرت سلمہ سے مانک لیا اور پھر اسے مکہ بھیج کر اس کے بدلے کئی مسلمان قیدیوں کو رہا کرایا (مسلم۔ ابوداؤد۔طحاوی۔ کتاب الاموال لابی عبید۔ طبقات ابن سعد)۔ حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ ثقیف نے مسلمانوں کے دو آدمیوں کو قید کر لیا۔ اس کچھ مدت بعد ثقیف کے حلیف قبیلے، بنی عقیل کا ایک آدمی مسلمانوں کے پاس گرفتار ہو گیا۔ حضورؐ نے اس کو طائف بھیج کر اس کے بدلے ان دونوں مسلمانوں کر رہا کرا لیا۔(مسلم، ترمذی، مسند احمد )۔ فقہاء میں سے امام ابو یوسف، امام محمد، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد تبادلہ اسیران کو جائز رکھتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کا ایک قول یہ ہے کہ تبادلہ نہیں کرنا چاہیے، مگر دوسرا قول ان کا بھی یہی ہے کہ تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ جو قیدی مسلمان ہو جائے اسے تبادلہ میں کفار کے حوالہ نہ کیا جائے۔
اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نے اسیران جنگ کے معاملہ میں ایک ایسا وسیع ضابطہ بنایا ہے جس کے اندر ہر زمانے اور ہر طرح کے حالات میں اس مسئلے سے عہدہ بر آہو نے کی گنجائش ہے۔ جو لوگ قرآن مجید کی اس آیت کا بس یہ مختصر سا مطلب لے لیتے کہ جنگ میں قید ہونے والوں کو ’’یا تو بطور احسان چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے‘‘، وہ اس بات کو نہیں جانتے کہ جنگی قیدیوں کا معاملہ کتنے مختلف پہلو رکھتا ہے، اور مختلف زمانوں میں وہ کتنے مسائل پیدا کرتا رہا ہے اور آیندہ کر سکتا ہے۔
۹۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اگر محض باطل پرستوں کی سرکوبی ہی کرنی ہوتی تو وہ اس کام کے لیے تمہارا محتاج نہ تھا۔ یہ کام تو اس کا یک زلزلہ یا ایک طوفان چشم زدن میں کر سکتا تھا۔ مگر اس کے پیش نظر تو یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو حق پرست ہوں وہ باطل پرستوں سے ٹکرائیں اور ان کے مقابلہ میں مجاہدہ کریں، تاکہ جس کے اندر جو کچھ اوصاف ہیں وہ اس امتحان سے نکھر کر پوری طرح نمایاں ہو جائیں اور ہر ایک اپنے کردار کے لحاظ سے جس مقام اور مرتبے کا مستحق ہو وہ اس کو دیا جائے۔
۱۰۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں کسی کے مارے جانے کے معنی یہ ہر گز نہیں ہیں کہ آدمی اپنی جان سے گیا اور اس کی ذات کی حد تک اس کا کیا کرایا سب ملیا میٹ ہو گیا۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ شہداء کی قربانیاں خود ان کے لیے نہیں بلکہ صرف انہی لوگوں کے لیے نافع ہیں جو ان کے بعد اس دنیا میں زندہ رہیں اور ان کی قربانیوں سے یہاں متمتع ہوں، تو وہ غلط سمجھتا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود شہید ہونے والوں کے لیے یہ زیاں کا نہیں بلکہ نفع کا سودا ہے۔
۱۱۔ یہ ہے وہ نفع جو راہ خدا میں جان دینے والوں کو حاصل ہو گا۔ اس کے تین مراتب بیان فرمائے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ ان کی رہنمائی فرمائے گا۔ دوسرے یہ کہ ان کا حال درست کر دے گا۔ تیسرے یہ کہ ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ پہلے ہی ان کو واقف کرا چکا ہے۔ رہنمائی کرنے سے مراد ظاہر ہے کہ اس مقام پر جنت کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ حالت درست کرنے سے مراد یہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ان کو خلعتوں سے آراستہ کر کے وہاں لے جائے گا اور ہر اس آلائش کو دور کر دے گا جو دنیا کی زندگی میں ان کو لگ گئی تھی۔ اور تیسرے مرتبے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں پہلے ہی ان کو قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے بتایا جا چکا ہے کہ وہ جنت کیسی ہے جا اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھی ہے۔ اس جنت میں جب وہ پہنچیں گے تو بالکل اپنی جانی پہچانی چیز میں داخل ہوں گے اور ان کو معلوم ہو جائے گا کہ جس چیز کے دینے کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا وہی ان کو دی گئی ہے، اس میں یک سر مُو فرق نہیں ہے۔
۱۲۔ اللہ کی مدد کرنے کا ایک سیدھا سادھا مفہوم تو یہ ہے کہ اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کیا جائے۔ لیکن اس کا ایک غامض مفہوم بھی ہے جس کی ہم اس سے پہلے تشریح کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، تفسیر آل عمران، حاشیہ ۵۰)۔
۱۳۔ اصل الفاظ ہیں فَتَعْساً لَّھُمْ۔ تعس ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرنے کو کہتے ہیں۔
۱۴۔ یعنی انہوں نے اپنی پرانی جاہلیت کے اوہام و تخیلات اور رسم و رواج اور اخلاقی بگاڑ کو ترجیح دی اور اس تعلیم کو پسند نہ کیا جو اللہ نے ان کو سیدھا راستہ بتانے کے لیے نازل کی تھی۔
۱۵۔ اس فقرے کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جس تباہی سے وہ کافر دوچار ہوئے ویسی ہی تباہی اب ان کافروں کے لیے مقدر ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو نہیں مان رہے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی تباہی صرف دنیا کے عذاب پر ختم نہیں ہو گئی ہے بلکہ یہی تباہی ان کے لیے آخرت میں بھی مقدر ہے۔
۱۶۔ جنگ احد میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم زخمی ہو کر چند صحابہ کے ساتھ ایک گھاٹی میں ٹھیرے ہوئے تھے اس وقت ابوسفیان نے نعرہ لگایا :لنا عُزّیٰ وَلَا عُزّٰ ی لَکُمْ۔ ’’ہمارے پاس عزیٰ ہے اور تمہارا کوئی عزیٰ نہیں ہے‘‘۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا اسے جواب دو: اللہ مُولانا ولا مُوْلٰی لکم۔ ’’ہمارا حامی و ناصر اللہ ہے اور تمہارا حامی و ناصر کوئی نہیں‘‘۔ حضور کا یہ جواب اسی آیت سے ماخوذ تھا۔
ترجمہ
اے نبیؐ، کتنی ہی بستیاں ایسی گزر چکی ہیں جو تمہاری اس بستی سے بہت زیادہ زور آور تھیں جس نے تمہیں نکال دیا ہے۔ انہیں ہم نے اس طرح ہلاک کر دیا کہ کوئی ان کا بچانے والا نہ تھا(۱۸)۔ بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف و صریح ہدایت پر ہو، وہ ان لوگوں کی طرح ہو جائے جن کے لیے ان کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیرو بن گئے ہیں (۱۹)؟ پرہیز گاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی (۲۰)، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہو گا(۲۱)، ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی(۲۲)، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی(۲۳)۔ اس میں ان کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش(۲۴)۔ (کیا وہ شخص جس کے حصہ میں یہ جنت آنے والی ہے) ان لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے جو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں گی کاٹ دے گا؟
ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں اور پھر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جنہیں علم کی نعمت بخشی گئی ہے پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی انہوں نے کیا کہا تھا؟(۲۵) یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے ٹھپہ لگا دیا ہے اور یہ اپنی خواہشات کے پیرو بنے ہوئے ہیں۔(۲۶)۔رہے وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے(۲۷) اور انہیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے (۲۸) اب کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آ جائے(۲۹)؟ اس کی علامات تو آ چکی ہیں (۳۰)۔ جب وہ خود آ جائے گی تو ان کے لیے نصیحت قبول کرنے کا کونسا موقع باقی رہ جائے گا؟
پس اے نبیؐ، خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، اور معافی مانگو اپنے قصور کے لیے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے بھی (۳۱)۔ اللہ تمہاری سرگرمیوں کی بھی جانتا ہے اور تمہارے ٹھکانے سے بھی واقف ہے۔ع
تفسیر
۱۷۔ یعنی جس طرح جانور کھا تا ہے اور کچھ نہیں سوچتا کہ یہ رزق کہاں سے آیا ہے، کس کا پیدا کیا ہوا ہے، اور اس رزق کے ساتھ میرے اوپر رازق کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں، اسی طرح یہ لوگ بھی کھائے جا رہے ہیں، چرنے چگنے سے آگے کسی چیز کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔
۱۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ سے نکلنے رنج تھا۔ جب آپ ہجرت پر مجبور ہوئے تو شہر سے باہر نکل کر آپ نے اس کی طرف رخ کر کے فرمایا تھا ’’سے مکہ، تو دنیا کے تمام شہروں میں خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اور خدا کے تمام شہروں میں مجھے سب سے بڑھ کر تجھ سے محبت ہے،۔ اگر مشرکوں نے مجھے نہ نکالا تو میں تجھے چھوڑ کر کبھی نہ نکلتا‘‘۔ اسی پر ارشاد ہو ہے کہ اہل مکہ تمہیں نکال کر اپنی جگہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ حالانکہ در حقیقت یہ حرکت کر کے انہوں نے اپنی شامت بلائی ہے۔ آیت کا انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ ضرور ہجرت سے متصل ہی نازل ہوئی ہو گی۔
۱۹۔ یعنی آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اور اس کے پیروؤں کو جب خدا کی طرف سے ایک صاف اور سیدھا راستہ مل گیا ہے اور پوری بصیرت کی روشنی میں وہ اس پر قائم ہو چکے ہیں، تو اب وہ ان لوگوں کے ساتھ چل سکیں جو اپنی پرانی جاہلیت ساتھ چمٹے ہوئے ہیں، جو اپنی ضلالتوں کو ہدایت اور اپنی بد کرداریوں کو خوبی سمجھ رہے ہیں، جو کسی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ محض اپنی خواہشات کی بنا پر یہ فیصلے کرتے ہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ اب تو نہ اس دنیا میں ان دونوں گروہوں کی زندگی ایک جیسی ہو سکتی ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام یکساں ہو سکتا ہے۔
۲۰۔ اصل الفاظ ہیں مَاءٍ غیر اٰسنٍ۔ آسِن اس پانی کو کہتے ہیں جس کا مزا اور رنگ بدلا ہوا ہو، یا جس میں کسی طرح کی بو پیدا ہو گئی ہو۔ دنیا میں دریاؤں اور نہروں کے پانی عموماً گدلے ہوتے ہیں ان کے ساتھ ریت، مٹی اور بسا اوقات طرح طرح کی نباتات کے مل جانے سے ان کا رنگ اور مزا بدل جاتا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ بو بھی ان میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے جنت کے دریاؤں اور نہروں کے پانی کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ وہ غیر آسن ہو گا۔ یعنی وہ خلاص، صاف ستھرا پانی ہو گا کسی قسم کی آمیزش اس میں ہو گی۔
۲۱۔ حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ ’’وہ جانوروں کے تھنوں سے نکلا ہوا دودھ نہ ہو گا‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ یہ دودھ چشموں کی شکل میں زمین سے نکالے گا اور نہروں کی شکل میں سے بہا دے گا۔ ایسا نہ ہو گا کہ جانوروں کے تھنوں سے اس کو نچوڑا جائے اور پھر جنت کی نہروں میں ڈال دیا جائے۔ اس قدرتی دودھ کی تعریف میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’اس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہو گا،‘‘ یعنی اس کے اندر وہ ذرا سی بِساند بھی نہ ہو گی جو جانور کے تھن سے نکلے ہوئے ہر دودھ میں ہوتی ہے۔
۲۲۔ حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ اس شراب کو ’’انسانوں نے اپنے قدموں سے روند کر نہ نچوڑا ہو گا‘‘۔ یعنی وہ دنیا کی شرابوں کی طرح پھلوں کو سڑا کر اور قدموں سے روند کر کشید کی ہوئی نہ ہو گی، بلکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی چشموں کی شکل میں پیدا کرے گا اور نہروں کی شکل میں بہا دے گا۔ پھر اس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی‘‘، یعنی دنیا کی شرابوں کی طرح وہ تلخ اور بو دار نہ ہو گی جسے کوئی بڑے سے بڑا شراب کا رسیا بھی کچھ نہ کچھ منہ بنائے بغیر نہیں پی سکتا۔ سورہ صافات میں اس کی مزید تعریف یہ کی گئی ہے کہ اس کے پینے سے نہ جسم کو کوئی ضرر ہو گا نہ عقل خراب ہو گی (آیت ۴۷)، اور سورہ واقعہ میں فرمایا گیا ہے کہ اس سے نہ دوران سر لاحق ہو گا نہ آدمی بہکے گا(آیت ۱۹)۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ شراب نشہ آور نہ ہو گی بلکہ محض لذت و سرور بخشنے والی ہو گی۔
۲۳۔ حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ ’’وہ مکھیوں کے پیٹ سے نکلا ہوا شہد نہ ہو گا‘‘۔ یعنی وہ بھی چشموں سے نکلے گا اور نہروں میں بہے گا۔ اسی لیے اس کے اندر موم اور چھتے کے ٹکڑے اور مری ہوئی مکھیوں کی ٹانگیں ملی ہوئی نہ ہوں گی، بلکہ ہو خالص شہد ہو گا۔
۲۴۔ جنت کی ان نعمتوں کے بعد اللہ کی طرف سے مغفرت کا ذکر کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرما دے گا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کوتاہیاں ان سے ہوئی تھیں ان کا ذکر تک جنت میں کبھی ان کے سامنے نہ آئے گا بلکہ اللہ تعالیٰ ان پر ہمیشہ کے لیے پردہ ڈال دے گا تا کہ جنت میں وہ شرمندہ نہ ہوں۔
۲۵۔ یہ ان کفار و منافقین اور منکرین اہل کتاب کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آ کر بیٹھتے تھے اور آپ کے ارشادات، یا قرآن مجید کی آیات سنتے تھے، مگر چونکہ ان کا دل ان مضامین سے دور تھا جو آپ کی زبان مبارک سے ادا ہوتے تھے، اس لیے سب کچھ سن کر بھی وہ کچھ نہ سنتے تھے اور باہر نکل کر مسلمانوں سے پوچھتے تھے کہ ابھی ابھی آپؐ کیا فرما رہے تھے۔
۲۶۔ یہ تھا وہ اصل سبب جس کی وجہ سے ان کے دل کے کان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کے لیے بہرے ہو گئے تھے۔ وہ اپنی خواہشات کے بندے تھے، اور حضور جو تعلیمات پیش فرما رہے تھے وہ ان کی خواہشات کے خلاف تھیں، اس لیے اگر وہ کبھی آپ کی مجلس میں آ کر بتکلف آپ کی طرف کان لگاتے بھی تھے تو ان کے پلے کچھ نہ پڑتا تھا۔
۲۷۔ یعنی وہی باتیں، جن کو سن کر کفار و منافقین پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی آپ کیا فرما رہے تھے، ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے مزید ہدایت کی موجب ہوتی ہیں، اور جس مجلس سے وہ بد نصیب اپنا وقت ضائع کر کے اٹھتے ہیں، اسی مجلس سے یہ خوش نصیب لوگ علم و عرفان کا ایک نیا خزانہ حاصل کر کے پلٹتے ہیں۔
۲۸۔ یعنی جس تقویٰ کی اہلیت وہ اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کی توفیق انہیں عطا فرما دیتا ہے۔
۲۹۔ یعنی جہاں تک حق واضح کرنے کا تعلق ہے وہ تو دلائل سے، قرآن کے معجزانہ بیان سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک سے، اور صحابہ کرام کی زندگیوں کے انقلاب سے، انتہائی روشن طریقے پر واضح کیا جا چکا ہے۔ اب ایمان لانے کے لیے یہ لوگ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ قیامت ان کے سامنے آ کھڑی ہو؟
۳۰۔ قیامت کی علامات سے مراد وہ علامات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی آمد کا وقت اب قریب آ لگا ہے ان میں سے ایک اہم علامت خد اکے آخری نبی کا آ جانا ہے جس کے بعد پھر قیامت تک کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے۔ بخاری، مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں حضرت انس، حضرت سہل بن سعد ساعدی، اور حضرت بریدہ کی روایات منقول ہیں کہ حضور نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کھڑی کر کے فرمایا: بُعثتُ انا س السّاعۃ کھَا تین۔ ’’میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں‘‘۔ یعنی جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں ہے، اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی بھی مبعوث ہونے والا نہیں ہے۔ میرے بعد اب بس قیامت ہی آنے والی ہے۔
۳۱۔ اسلام نے جو اخلاق انسان کو سکھائے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے رب کی بندگی و عبادت بجا لانے میں، اور اسے دین کی خاطر جان لڑانے میں، خواہ اپنی ہی کوشش کرتا رہا ہو، اس کو کبھی اس زعم میں مبتلا نہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے کر دیا ہے، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھتے رہنا چاہیے کہ میرے مالک کا مجھ پر جو حق تھا وہ میں ادا نہیں کر سکا ہوں، اور ہر وقت اپنے قصور کا اعتراف کر کے اللہ سے یہی دعا کرتے رہنا چاہیے کہ تیری خدمت میں جو کچھ بھی کوتاہی مجھ سے ہوئی ہے اس سے در گزر فرما۔ یہی اصل روح ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی کہ ’’اے نبی، اپنے قصور کی معافی مانگو‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذاللہ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فی الواقع جان بوجھ کر کوئی قصور کیا تھا۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمام بندگان خدا سے بڑھ کر جو بندہ اپنے رب کی بندگی بجا لانے والا تھا، اس کا منصب بھی یہ نہ تھا کہ اپنے کار نامے کا فخر کا کوئی شائبہ تک اس کے دل میں راہ پائے، بلکہ اس کا مقام بھی یہ تھا کہ اپنے ساری عظیم القدر خدمات کے باوجود اپنے رب کے حضور اعتراف قصور ہی کرتا رہے۔ اسی کیفیت کا اثر تھا جس کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ بکثرت استغفار فرماتے رہتے تھے۔ ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد کی روایت میں حضور کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ ’’میں ہر روز سو بار اللہ استغفار کر تا ہوں‘‘۔
ترجمہ
جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں نہیں نازل کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم دیا جائے)۔ مگر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہی(۳۲)۔ افسوس ان کے حال پر۔ (ان کی زبان پر ہے) اطاعت کا اقرا ر اور اچھی اچھی باتیں۔ مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اس وقت وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انہی کے لئے اچھا تھا۔ اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے (۳۳) تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے(۳۴)؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا۔ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا۔ بادلوں پر ان کے لیے شیطان نے اس روش کو سہل بنا دیا ہے اور جھوٹی توقعات کا سلسلہ ان کے لیے دراز کر رکھا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اللہ کے نازل کردہ دین کو ناپسند کرنے والوں سے کہہ دیا کہ بعض معاملات میں ہم تمہاری مانیں گے(۳۶)۔ اللہ ان کی یہ خفیہ باتیں خوب جانتا ہے۔ پھر اس وقت کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے (۳۷)؟ یہ اسی لیے تو ہو گا کہ انہوں نے اس طریقے کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرنے والا ہے۔ اور اس کی رضا کا راستہ اختیار کرنا پسند نہ کیا۔ اسی بنا پراس کے سب اعمال ضائع کر دیے(۳۸)۔ ع
تفسیر
۳۱۔ اسلام نے جو اخلاق انسان کو سکھائے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے رب کی بندگی و عبادت بجا لانے میں، اور اسے دین کی خاطر جان لڑانے میں، خواہ اپنی ہی کوشش کرتا رہا ہو، اس کو کبھی اس زعم میں مبتلا نہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے کر دیا ہے، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھتے رہنا چاہیے کہ میرے مالک کا مجھ پر جو حق تھا وہ میں ادا نہیں کر سکا ہوں، اور ہر وقت اپنے قصور کا اعتراف کر کے اللہ سے یہی دعا کرتے رہنا چاہیے کہ تیری خدمت میں جو کچھ بھی کوتاہی مجھ سے ہوئی ہے اس سے در گزر فرما۔ یہی اصل روح ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی کہ ’’اے نبی، اپنے قصور کی معافی مانگو‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذاللہ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فی الواقع جان بوجھ کر کوئی قصور کیا تھا۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمام بندگان خدا سے بڑھ کر جو بندہ اپنے رب کی بندگی بجا لانے والا تھا، اس کا منصب بھی یہ نہ تھا کہ اپنے کار نامے کا فخر کا کوئی شائبہ تک اس کے دل میں راہ پائے، بلکہ اس کا مقام بھی یہ تھا کہ اپنے ساری عظیم القدر خدمات کے باوجود اپنے رب کے حضور اعتراف قصور ہی کرتا رہے۔ اسی کیفیت کا اثر تھا جس کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ بکثرت استغفار فرماتے رہتے تھے۔ ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد کی روایت میں حضور کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ ’’میں ہر روز سو بار اللہ استغفار کر تا ہوں‘‘۔
۳۲۔ مطلب یہ ہے کہ جن حالات سے اس وقت مسلمان گزر رہے تھے اور کفار کا جو رویہ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ تھا، اس کی بنا پر جنگ کا حکم آنے سے پہلے ہی اہل ایمان کی عام رائے یہ تھی کہ اب ہمیں جنگ کی اجازت مل جانی چاہیے۔ بلکہ وہ بے چینی کے ساتھ اللہ کے فرمان کا انتظار کر رہے تھے اور بار بار پوچھتے تھے کہ ہمیں ان ظالموں سے لڑنے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا؟ مگر جو لوگ منافقت کے ساتھ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے تھے ان کا حال مومنوں کے حال سے بالکل مختلف تھا۔ وہ اپنی جان و مال کو خدا اور اس کے دین سے عزیز تر رکھتے تھے اور اس کے لیے کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ جنگ کے حکم نے آتے ہی ان کو اور سچے اہل ایمان کو ایک دوسرے سے چھانٹ کر الگ کر دیا۔ جب تک یہ حکم نہ آیا تھا، ان میں اور عام اہل ایمان میں بظاہر کوئی فرق و امتیاز نہ پایا جاتا تھا۔ نماز وہ بھی پڑھتے تھے اور یہ بھی۔ روزے رکھنے میں بھی انہیں تامل نہ تھا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا اسلام انہیں قبول تھا۔ مگر جب اسلام کے لیے جان کی بازی لگانے کا وقت آیا تو ان کے نفاق کا حال کھل گیا اور نمائشی ایمان کا وہ لبادہ اتر گیا جو انہوں نے اوپر سے اوڑھ رکھا تھا۔ سورہ نساء میں ان کی اس کیفیت کو یوں بیان کی گیا ہے: ’’تم نے دیکھا ان لوگوں کو جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ کا حال یہ ہے کہ انسانوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جیسے خد اسے ڈرنا چاہیے۔ بلکہ کچھ اس سے بھی زیادہ۔ کہتے ہیں، خدایا، یہ لڑائی کا حکم ہمیں کیوں دے دیا؟ ہمیں ابھی اور کچھ مہلت کیوں نہ دی؟‘‘(آیت ۷۷)۔
۳۳۔ اصل الفاظ ہیں اِنْ تَوَلَّیْتُمْ۔ان کا ایک ترجمہ وہ ہے جو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے۔ اور دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اگر تم لوگوں کے حاکم بن گئے‘‘۔
۳۴۔ اس ارشاد کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر اس وقت تم اسلام کی مدافعت سے جی چراتے ہو اور اس عظیم الشان اصلاحی انقلاب کے لیے جان و مال کی بازی لگانے سے منہ موڑتے ہو جس کی کوشش محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کر رہے ہیں، تو اس کا نتیجہ آخر اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ تم پھر اسی جاہلیت کے نظام کی طرف پلٹ جاؤ جس میں تم لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے ہو، اپنی اولاد تک کو زندہ دفن کرتے رہے ہو، اور خدا کی زمین کو ظلم و فساد سے بھتے رہے ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری سیرت و کردار کا حال یہ ہے کہ جس دین پر ایمان لانے کا تم نے اقرار کیا تھا اس کے لیے تمہارے اندر کوئی اخلاص اور کوئی وفاداری نہیں ہے، اور اس کی خاطر کوئی قربانی دینے کے لیے تم تیار نہیں ہو، تو اس اخلاقی حالت کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں اقتدار عطا کر دے اور دنیا کے معاملات کی باگیں تمہارے ہاتھ میں آ جائیں تو تم سے ظلم و فساد اور برادر کشی کے سوا اور کس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے۔
یہ آیت اس امر کی صراحت کرتی ہے کہ اسلام میں قطع رحمی حرام ہے۔ دوسری طرف مثبت طریقہ سے بھی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کو بڑی نیکیوں میں شمار کیا گیا ہے اور صلح رحمی کا حکم دیا گیا ہے۔(مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ،۸۳۔۱۷۷۔ النساء، ۸ ۳۶۔ النحل، ۹۰۔ بنی اسرائیل، ۲۶۔ النور، ۲۲۔ رحم کا لفظ عربی زبان میں قرابت اور رشتہ داری کے لیے استعارہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ایک شخص کے تمام رشتہ دار، خواہ وہ دور کے ہو یا قریب کے، اس کے ذوی الارحام ہیں۔ جس سے جتنا زیادہ قریب کا رشتہ ہو اس کا حق آدمی پر اتنا ہی زیادہ ہے اور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ صلہ رحمی یہ ہے کہ اپنے رشتہ دار کے ساتھ جو نیکی کرنا بھی آدمی کی استطاعت میں ہو اس سے دریغ نہ کرے۔ اور قطع رحمی یہ ہے کہ آدمی اس کے ساتھ برا سلوک کرے، یا جو بھلائی کرنا اس کے لیے ممکن ہو اس سے قصداً پہلو تہی کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال کر کے ام ولد کی بیع کو حرام قرار دیا تھا اور صحابہ کرام نے اس سے اتفاق فرمایا تھا۔ حاکم نے مسدرک میں حضرت بردیہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک روز میں حضرت عمرؓ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ یکایک محلہ میں شور مچ گیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جا رہی ہے اور اس کی لڑکی رو رہی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اسی وقت انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ جو دین محمد صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں کیا اس میں آپ حضرات کو قطع رحمی کا بھی کوئی جواز ملتا ہے؟ سب نے کہا نہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا پھر یہ کیا بات ہے کہ آپ کے ہاں ماں کو بیٹی سے جدا کیا جا رہا ہے؟ اس سے بڑی قطع رحمی اور کیا ہو سکتی ہے؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ لوگوں نے کہا آپ کی رائے میں اس کو روکنے کے لیے جو صورت مناسب ہو وہ اختیار فرمائیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے تمام بلادِ اسلامیہ کے لیے یہ فرمان جاری کر دیا کہ کسی ایسی لونڈی کو فروخت نہ کیا جائے جس سے اس کے مالک کے ہاں اولاد پیدا ہو چکی ہو، کیونکہ یہ قطع رحمی ہے اور یہ حلال نہیں ہے۔
۳۵۔ یعنی یا تو یہ لوگ قرآن مجید پر غور نہیں کرتے، یا غور کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر اس کی تعلیمات اور اس کے معانی و مطالب ان کے دلوں میں اترتے نہیں ہیں کیونکہ ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں جو ایسے حق نا شناس دلوں کے لیے مخصوص ہیں۔
۳۶۔ یعنی ایمان کا اقرار کرنے اور مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو جانے کے باوجود وہ اندر ہی اندر دشمنان اسلام سے ساز باز کرتے رہے اور ان سے وعدے کرتے رہے کہ بعض معاملات میں ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔
۳۷۔ یعنی دنیا میں تو یہ طرز عمل انہوں نے اس لیے اختیار کر لیا کہ اپنے مفادات کی حفاظت کرتے رہیں اور کفر و اسلام کی جنگ کے خطرات سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں، لیکن مرنے کے بعد یہ خدا کی گرفت سے بچ کر کہاں جائیں گے؟ اس وقت تو ان کی کوئی تدبیر فرشتوں کی مار سے ان کو نہ بچا سکے گی۔
یہ آیت بھی ان آیات میں سے ہے جو عذاب برزخ (یعنی عذاب قبر) کی تصریح کرتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت ہی کفار و منافقین پر عذاب شروع ہو جاتا ہے، اور یہ عذاب اس سزا سے مختلف چیز ہے جو قیامت میں ان کے مقدمے کا فیصلہ ہونے کے بعد ان کو دی جائے گی۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو النساء، آیت ۹۷۔ الانعام، ۹۳۔ ۹۴۔ الانفال، ۵۰۔ النحل، ۲۸۔۳۲۔ المومنون، ۹۹۔ ۱۰۰۔ یٰس، ۲۶۔ ۲۷ (مع حاشیہ ۲۲،۲۳) المومن، ۴۶ (مع حاشیہ۔ ۶۳)۔
۳۸۔ اعمال سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو مسلمان بن کر وہ انجام دیتے رہے۔ ان کی نمازیں، ان کے روزے، ان کی زکوٰۃ، غرض وہ تمام عبادتیں اور وہ ساری نیکیاں جو اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے اعمال خیر میں شمار ہوتے تھیں اس بنا پر ضائع ہو گئیں کہ انہوں نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی اللہ اور اس کے دین اور ملت اسلامیہ کے ساتھ اخلاص و وفاداری کا رویہ اختیار نہ کی، بلکہ محض اپنے دنیوی مفاد کے لیے دشمنان دین کے ساتھ ساز باز کرتے رہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کا موقع آتے ہیں اپنے آپ کو خطرات سے بچانے کی فکر میں لگ گئے۔
یہ آیات اس معاملہ میں بالکل ناطق ہیں کہ کفر و اسلام کی جنگ میں جس شخص کی ہمدردیاں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نہ ہوں، یا کفر اور کفار کے ساتھ ہوں، اس کا ایمان ہی سرے سے معتبر نہیں ہے کجا کہ اس کا کوئی عمل خدا کے ہاں مقبول ہو۔
ترجمہ
کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا؟ ہم چاہیں تو انہیں تم کو آنکھوں سے دکھا دیں اور ان کے چہروں سے تم ان کو پہچان لو۔ مگر ان کے انداز کلام سے تو تم ان کو جان ہی لو گے۔ اللہ تم سب کے اعمال سے خوب واقف ہے۔ ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تا کہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں۔
جن لوگوں نے کفت کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول سے جھگڑا کیا جب کہ ان پر راہ راست واضح ہو چکی تھی، در حقیقت وہ اللہ کا کوئی نقصان بھی نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ ہی ان کا سب کیا کرایا غارت کر دے گا(۳۹)۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو(۴۰)۔ کفر کرنے والوں اور راہ خدا سے روکنے والوں اور مرتے دم تک کفر پر جمے رہنے والوں کو تو اللہ ہر گز معاف نہ کرے گا۔ پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو (۴۱)۔ تم ہی غالب رہنے والے ہو۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو وہ ہر گز ضائع نہ کرے گا۔ یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے(۴۲)۔ اگر تم ایمان رکھو اور تقویٰ کی روش پر چلتے رہو تو اللہ تمہارے اجر تم کو دے گا اور وہ تمہارے مال تم سے نہ مانگے گا (۴۳)۔ اگر کہیں وہ تمہارے مال تم سے مانگ لے اور سب کے سب تم سے طلب کر لے تو تم بخل کرو گے اور وہ تمہارے کھوٹ ابھار لائے گا (۴۴)۔ دیکھو، تم لوگوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔ اس پر تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل کر رہے ہیں، حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ در حقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کر رہا ہے۔ اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔ع
تفسیر
۳۹۔ اس فقرے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ جن کاموں کو انہوں نے اپنے نزدیک نیک سمجھ کر کیا ہے، اللہ ان سب کا ضائع کر دے گا اور آخرت میں ان کا کوئی اجر بھی رہ نہ پا سکیں گے۔ دوسرا مطلب یہ کہ جو تدبیریں بھی وہ اللہ اور اس کے رسول کے دین کا راستہ روکنے کے لیے کر رہے ہیں وہ سب ناکام و نا مراد ہو جائیں گی۔
۴۰۔ بالفاظ دیگر اعمال کے نافع اور نتیجہ خیز ہونے کا سارا انحصار اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہے۔ اطاعت سے منحرف ہو جانے کے بعد کوئی عمل بھی خیر نہیں رہتا کہ آدمی اس پر کوئی اجر پانے کا مستحق ہو سکے۔
۴۱۔ یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ ارشاد اس زمانے میں فرمایا گیا ہے جب صرف مدینے کی چھوٹی سی بستی میں چند سو مہاجرین و انصار کی ایک مٹھی بھر جمیعت اسلام کی علمبرداری کر رہی تھی اور اس کا مقابلہ محض قریش کے طاقتور قبیلے ہی سے نہیں بلکہ پورے ملک عرب کے کفار و مشرکین سے تھا۔ اس حالت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ہمت ہار کر ان دشمنوں سے صلح کی درخواست نہ کرنے لگو، بلکہ سر دھڑ کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کبھی صلح کی بات چیت کرنی ہی نہ چاہیے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں صلح کی سلسلہ جنبانی کرنا درست نہیں ہے جب اس کے معنی اپنی کمزوری کے اظہار کے ہوں اور اس سے دشمن اور زیادہ دلیر ہو جائیں۔ مسلمانوں کو پہلے اپنی طاقت کا لوہا منوا لینا چاہیے، اس کے بعد وہ صلح کی بات چیت کریں تو مضائقہ نہیں۔
۴۲۔ یعنی آخرت کے مقابلے میں اس دنیا کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ چند روز کا دل بہلاوا ہے۔ یہاں کی کامرانی و ناکامی کوئی حقیقی اور پائیدار چیز نہیں ہے جسے کوئی اہمیت حاصل ہو۔ اصل زندگی آخرت کی ہے جس کی کامیابی کے لیے انسان کو فکر کرنی چاہیے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، تفسیر سورہ عنکبوت، حاشیہ ۱۰۲)۔
۴۳۔ یعنی وہ غنی ہے، اسے اپنی ذات کے لیے تم سے لینے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ اپنی راہ میں تم سے کچھ خرچ کرنے کے لیے کہتا ہے تو وہ اپنے لیے نہیں بلکہ تمہاری ہی بھلائی کے لیے کہاتا ہے۔
۴۴۔ یعنی اتنی بڑی آزمائش میں وہ تمہیں نہیں ڈالتا جس سے تمہاری کمزوریاں ابھر آئیں۔
٭٭٭
(۴۸) سورہ الفتح
نام
پہلی ہی آیت کے الفاظ انا فتحنا لک فتحا مبینا سے ماخوذ ہے۔ یہ محض اس سورت کا نام ہی نہیں بلکہ مضمون کے لحاظ سے بھی اس کا عنوان ہے کیونکہ اس میں اس فتح عظیم پر کلام کیا گیا ہے جو صلح حدیبیہ کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کو عطا فرمائی تھی۔
زمانۂ نزول
روایات اس پر متفق ہیں کہ اس کا نزول ذی القعدہ ۶ھ میں اس وقت ہوا تھا جب آپ کفار مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنے کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لے جا رہے تھے
تاریخ پس منظر
جن واقعات کے سلسلے میں یہ سورت نازل ہوئی ان کی ابتدائی اس طرح ہوئی ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ معظمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ ادا فرمایا ہے۔ پیغمبر کا خواب ظاہر ہے کہ محض خواب و خیال نہ ہو سکتا تھا وہ تو وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور آگے چل کر آیت ۲۷ میں اللہ تعالیٰ نے توثیق کر دی ہے کہ یہ خواب ہم نے اپنے رسول کو دکھایا تھا۔ اس لیے در حقیقت یہ نرا خواب نہ تھا بلکہ ایک الٰہی اشارہ تھا جس کی پیروی کرنا حضور کے لیے ضروری تھا۔
بظاہر اسباب اس ہدایت پر عمل کرنے کی کوئی صورت ممکن نظر نہ آتی تھی۔ کفار قریش نے ۶ سال سے مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا راستہ بند کر رکھا تھا اور اس پوری مدت میں کسی مسلمان کو انہوں نے حج اور عمرے تک کے لیے حدود حرم کے قریب نہ پھٹکنے دیا تھا۔ اب آخر یہ کیسے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صحابہ کی ایک جمعیت کے ساتھ مکہ میں داخل ہونے دیں گے۔ عمرے کا احرام باندھ کر جنگی ساز و سامان ساتھ لیے ہوئے نکلنا گویا خود لڑائی کو دعوت دینا تھا اور غیر مسلح جانے کے معنی اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان خطرے میں ڈالنے کے تھے۔ ان حالات میں کوئی شخص یہ نہ سمجھ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس اشارے پر عمل کیا جائے تو کیسے۔
مگر پیغمبر کا منصب یہ تھا کہ اس کا رب جو حکم بھی اس کو دے وہ بے کھٹکے اس پر عمل کر گذرے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلا تامل اپنا خواب صحابہ کرام کو سنا کر سفر کی تیاری شروع کر دی۔ آس پاس کے قبائل میں بھی آپ نے اعلان عام کرا دیا کہ ہم عمرے کے لیے جا رہے ہیں جو ہمارے ساتھ چلنا چاہے وہ آ جائے۔ جن لوگوں کی نگاہ ظاہری اسباب پر تھی انہوں نے سمجھا کہ یہ لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی آپ کے ساتھ چلنے پر آمادہ نہ ہوا۔ مگر جو اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان رکھتے تھے انہیں اس امر کی کوئی پروا نہ تھی کہ انجام کیا ہو گا۔ ان کے لیے بس یہ کافی تھا کہ اللہ کا اشارہ ہے اور اس کا رسول تعمیلِ حکم کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس کے بعد کوئی چیز ان کو رسول خدا کا ساتھ دینے سے روک نہ سکتی تھی۔ ۱۴۰۰ صحابی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معیت میں اس نہایت خطرناک سفر پر جانے کے لیے تیار ہو گئے۔
ذی القعدہ ۶ھ کے آغاز میں یہ مبارک قافلہ مدینہ سے روانہ ہوا۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر سب نے عمرے کا احرام باندھا۔ قربانی کے لیے ۷۰ اونٹ ساتھ لیے جن کی گردنوں میں ھدی کی علامت کے طور پر قلاوے پڑے ہوئے تھے۔ پرتلوں میں صرف ایک ایک تلوار رکھ لی جس کی تمام زائرین حرم کو عرب کے معروف قاعدے کے مطابق اجازت تھی اور اس کے سوا کوئی سامان جنگ ساتھ نہ لیا۔ اس طرح یہ قافلہ لبیک لبیک کی صدائیں بلند کرتا ہوا بیت اللہ کی طرف چل پڑا۔
اس وقت مکہ اور مدینے کے تعلقات کی جو نوعیت تھی، عرب کا بچہ بچہ اس کو جانتا تھا۔ ابھی پچھلے سال ہی تو شوال ۵ھ میں قریش نے قبائل عرب کی متحدہ طاقت کے ساتھ مدینے پر چڑھائی کی تھی اور غزوہ احزاب کا مشہور معرکہ پیش آ چکا تھا۔ اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنے بڑے قافلے کے ساتھ اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کے گھر کی طرف روانہ ہوئے تو پورے عرب کی نگاہیں اس عجیب سفر کی طرف مرکوز ہو گئیں اور لوگوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ یہ قافلہ لڑنے کے لیے نہیں جا رہا ہے بلکہ ماہ حرام میں، احرام باندھ کر، ھدی کے اونٹ ساتھ لیے ہوئے بیت اللہ کا طواف کرنے جا رہا ہے اور قطعی طور پر غیر مسلح ہے۔
قریش کے لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس اقدام نے سخت پریشانی میں ڈال دیا۔ ذی القعدہ کا مہینہ ان حرام مہینوں میں سے تھا جو صد ہا برس سے عرب میں حج و زیارت کے لیے محترم سمجھے جا تے تھے۔ اس مہینے میں جو قافلہ احرام باندھ کر حج یا عمرے کے لیے جا رہا ہو اسے روکنے کا کسی کو حق نہ تھا، حتیٰ کہ کسی قبیلے سے اس کی دشمنی بھی ہو تو عرب کے مسلمہ قوانین کی رو سے وہ اپنے علاقے سے اس کے گزرنے میں مانع نہ ہو سکتا تھا۔ قریش کے لوگ اس الجھن میں پڑ گئے کہ اگر ہم مدینے کے اس قافلے پر حملہ کر کے اسے مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں تو پورے ملک میں اس پر شور مچ جائے گا۔ عرب کا ہر شخص پکار اٹھے گا کہ یہ سراسر زیادتی ہے۔ تمام قبائل عرب یہ سمجھیں گے کہ ہم خانہ کعبہ کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ ہر قبیلہ اس تشویش میں مبتلا ہو جائے گا کہ آئندہ کسی کو حج اور عمرہ کرنے دینا یا نہ کرنے دینا اب ہماری مرضی پر موقوف ہے، جس سے بھی ہم ناراض ہو گے اسے بیت اللہ کی زیارت کرنے سے اسی طرح روک دیں گے جس طرح آج مدینے کے ان زائرین کو روک رہے ہیں۔ یہ ایسی غلطی ہو گی کہ جس سے سارا عرب ہم سے منحرف ہو جائے گا۔ لیکن اگر ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اتنے بڑے قافلے کے ساتھ بخیریت اپنے شہر میں داخل ہو جانے دیتے ہیں تو پورے ملک میں ہماری ہوا اکھڑ جائے گی اور لوگ کہیں گے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرعوب ہو گئے۔ آخر کار بڑی شش و پنج کے بعد ان کی جاہلانہ حمیت ہی ان پر غالب آ کر رہی اور انہوں نے اپنی ناک کی خاطر یہ فیصلہ کر لیا کہ کسی قیمت پر بھی اس قافلے کو شہر میں داخل نہیں ہونے دینا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنی کب کے ایک شخص کو مخبر کی حیثیت سے آگے بھیج رکھا تھا تاکہ وہ قریش کے ارادوں اور ان کی نقل و حرکت سے آپ کو بروقت مطلع کرتا رہے۔ جب آپ عسفان پہنچے تو اس نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ قریش کے لوگ پوری تیاری کے ساتھ ذی طویٰ کے مقام پر پہنچ گئے ہیں اور خالد بن ولید کو انہوں نے ۲۰۰ سواروں کے ساتھ کراع الغمیم کی طرف آگے بھیج دیا ہے تاکہ وہ آپ کا راستہ روکیں۔ قریش کی چال یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح آنحضرت کے ساتھیوں سے چھیڑ چھاڑ کر کے ان کو اشتعال دلائیں اور پھر اگر لڑائی ہو جائے تو پورے ملک میں یہ مشہور کر دیں کہ یہ لوگ دراصل آئے تھے لڑنے کے لیے، مگر بہانہ انہوں نے عمرے کا کیا تھا اور احرام محض دھوکہ دینے کے لیے باندھ رکھا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ اطلاع پاتے ہی فوراً راستہ بدل دیا اور ایک نہایت دشوار گذار راستہ سے سخت مشقت اٹھا کر حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے جو عین حرم کی سرحد پر واقع تھا۔ یہاں بنی خزاعہ کا سردار بدیل بن ورقا اپنے قبیلے کے چند آدمیوں کے ساتھ آپ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ آپ کس غرض کے لیے آئے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے، صرف بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف ہمارے پیش نظر ہے۔ یہی بات ان لوگوں نے جا کر قریش کے سرداروں کو بتا دی اور ان کو مشورہ دیا کہ وہ ان زائرین حرم کا راستہ نہ روکیں۔ مگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے اور انہوں نے احابیش کے سردار حلی بن علقمہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا تاکہ وہ آپ کو واپس جانے پر آمادہ کرے۔ سردارانِ قریش کا مقصد یہ تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی بات نہ مانیں گے تو وہ ان سے ناراض ہو کر پلٹے گا اور پھر احابیش کی پوری طاقت ہمارے ساتھ ہو گی۔مگر جب اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سارا قافلہ احرام بند ہے، ھدی کے اونٹ سامنے کھڑے ہیں جن کی گردنوں میں قلاوے پڑے ہوئے ہیں، اور یہ لوگ لڑنے کے لیے نہیں بلکہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے آئے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی بات کیے بغیر مکہ کی طرف پلٹ گیا اور اس نے جا کر قریش کے سرداروں سے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ لوگ بیت اللہ کی عظمت مان کر اس کی زیارت کے لیے آئے ہیں اگر تم ان کو روکو گے تو احابیش اس کام میں تمہارا ساتھ ہرگز نہ دیں گے۔ ہم تمہارے حلیف اس لیے نہیں بنے ہیں کہ تم حرمتوں کو پامال کرو اور ہم اس میں تمہاری حمایت کریں۔
پھر قریش کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی آیا اور اس نے اپنے نزدیک بڑی اونچ نیچ سمجھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہا کہ آپ مکہ میں داخل ہونے کے ارادے سے باز آجائیں، مگر آپ نے اس کو بھی وہی جواب دیا جو بنی خزاعہ کے سردار کو دیا تھا کہ ہم لڑائی کے ارادے سے نہیں آئے ہیں بلکہ بیت اللہ کی تعظیم کرنے والے بن کر ایک دینی فریضہ بجا لانے کے لیے آئے ہیں۔ واپس جا کر عروہ نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی گیا ہوں، مگر خدا کی قسم، میں نے اصحاب محمد کو جس طرح محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فدائی دیکھا ہے ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں بھی نہیں دیکھا۔ ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ محمد وضو کرتے ہیں تو ان کے اصحاب پانی کا ایک قطرہ تک زمین پر نہیں گرنے دیتے اور سب اپنے جسم پر کپڑوں پر مل لیتے ہیں۔ اب تو لوگ سوچ لو کہ تمہارا مقابلہ کس سے ہے۔
اس دوران جبکہ ایلچیوں کی آمدورفت اور گفت و شنید کا یہ سلسلہ جاری تھا، قریش کے لوگ بار بار یہ کوشش کرتے رہے کہ چپکے سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ پر چھاپے مار کر صحابہ کو اشتعال دلائیں اور کسی نہ کسی طرح ان سے کوئی ایسا اقدام کرا لیں جس سے لڑائی کا بہانہ ہاتھ آ جائے۔ مگر ہر مرتبہ صحابہ کے صبر و ضبط اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حکمت و فراست نے ان کی ساری تدبیروں کو ناکام کر دیا۔ ایک دفعہ ان کے چالیس پچاس آدمی رات کے وقت آئے اور مسلمانوں کے پڑاؤ پر پتھر اور تیر برسانے لگے۔ صحابہ نے ان سب کو گرفتار کر کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے پیش کر دیا۔ مگر آپ نے ان سب کو چھوڑ دیا۔ ایک اور موقع پر تنعیم کی طرف سے ۸۰ آدمی عین نماز فجر کے وقت آئے اور انہوں نے اچانک چھاپہ مار دیا۔ یہ لوگ بھی پکڑے گئے، مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں بھی رہا کر دیا۔ اس طرح قریش کی اپنی ہر چال اور ہر تدبیر میں ناکامی ہوتی چلی گئی۔
آخر کار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود اپنی طرف سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ایلچی بنا کر مکہ بھیجا اور ان کے ذریعے سے سرداران قریش کو یہ پیغام دیا کہ ہم جنگ کے لیے نہیں بلکہ زیارت کے لیے ھدی ساتھ لے کر آئے ہیں، طواف اور قربانی کر کے واپس چلے جائیں گے۔ مگر وہ لوگ نہ مانے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ ہی میں روک لیا۔ اس دوران یہ خبر اڑ گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے ہیں، اور ان کے واپس نہ آنے سے مسلمانوں کو یقین ہو گیا کہ یہ خبر سچی ہے۔ اب مزید تحمل کا کوئی موقع نہ تھا۔ مکہ میں داخلہ کی بات تو دوسری تھی، اس کے لیے طاقت کا استعمال ہر گز پیش نظر نہ تھا۔ مگر جب نوبت سفیر کے قتل تک پہنچ گئی تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا کہ مسلمان جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے اس بات پر بیعت لی کہ اب یہاں سے ہم مرتے دم تک پیچھے نہ ہٹیں گے۔ موقع کی نزاکت نگاہ میں ہو تو آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ کوئی معمولی بیعت نہ تھی۔ مسلمان صرف ۱۴۰۰ تھے اور کسی سامان جنگ کے بغیر آئے تھے۔ اپنے مرکز سے ڈھائی سو میل دور، عین مکہ کی سرحد پر ٹھیرے ہوئے تھے، جہاں دشمن اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان پر حملہ آور ہو سکتا تھا اور گرد و پیش سے اپنے حامی قبیلوں کو لا کر بھی انہیں گھیرے میں لے سکتا تھا۔ اس کے باوجود ایک شخص کے سوا پورا قافلہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ پر مرنے مارنے کی بیعت کرنے کے لیے بلا تامل آمادہ ہو گیا۔ اس سے بڑھ کر ان لوگوں کو اخلاص ایمانی اور راہ خدا میں ان کی فدائیت کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ یہی وہ بیعت ہے جو بیعت رضوان کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر غلطی تھی۔ وہ خود بھی واپس آ گئے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو کی قیادت میں ایک وفد بھی صلح کی بات چیت کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ میں پہنچ گیا۔ اب قریش اپنی اس ضد سے ہٹ گئے تھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو سرے سے مکہ میں داخل ہی نہ ہونے دیں گے۔ البتہ اپنی ناک بچانے کے لیے ان کا صرف یہ اصرار تھا کہ آپ اس سال واپس چلے جائیں، آئندہ سال آپ عمرے کے لیے آ سکتے ہیں۔ طویل گفت و شنید کے بعد جن شرائط پر صلح نامہ لکھا گیا وہ یہ تھیں:
۱. دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ اور علانیہ کوئی کاروائی نہ کی جائے گی۔
۲. اس دوران قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جائے گا اسے آپ واپس کر دیں گے اور آپ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا اسے وہ واپس نہ کریں گے۔
۳. قبائل عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اسے اس کا اختیار ہو گا۔
۴. محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سال واپس جائیں گے اور آئندہ سال وہ عمرے کے لیے آ کر تین دن مکہ میں ٹھیر سکتے ہیں، بشرطیکہ پرتلوں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں اور کوئی سامان حرب ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہل مکہ ان کے لیے شہر خالی کر دیں گے (تاکہ کسی تصادم کی نوبت نہ آئے)۔ مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔
جس وقت اس معاہدے کی شرائط طے ہو رہی تھیں، مسلمانوں کا پورا لشکر سخت مضطرب تھا۔ کوئی شخص بھی ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ رہا تھا جنہیں نگاہ میں رکھ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ شرائط قبول فرما رہے تھے۔ کسی کی نظر اتنی دور رس نہ تھی کہ اس صلح کے نتیجے میں جو خیر عظیم رونما ہونے والی تھی اسے دیکھ سکے۔ کفار قریش اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے اور مسلمان اس پر بے تاب تھے کہ ہم آخر دب کر یہ ذلیل شرائط کیوں قبول کریں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے بالغ النظر مدبر تک کا یہ حال تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے بعد کبھی میرے دل میں شک نے راہ نہ پائی تھی،مگر اس موقع پر میں بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا۔ وہ بے چین ہو کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا "کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ پھر آخر ہم اپنے دین کے معاملے میں یہ ذلت کیوں اختیار کریں؟” انہوں نے جواب دیا "اے عمر! وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ان کو ہر گز ضائع نہ کرے گا”۔ پھر ان سے صبر نہ ہوا ، جا کر یہی سوالات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھی کیے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ان کو ویسا ہی جواب دیا جیسا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔ بعد میں حضرت عمر مدتوں اس پر نوافل اور صدقات ادا کرتے رہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس گستاخی کو معاف فرما دے جو اس روز ان سے شان رسالت میں ہو گئی تھی۔
سب سے زیادہ دو باتیں اس معاہدے میں لوگوں کو بری طرح کَھل رہی تھیں۔ ایک شرط نمبر ۲ جس کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ یہ صریح نامساوی شرط ہے۔ اگر مکہ سے بھاگ کر آنے والوں کو ہم واپس کریں تو مدینہ سے بھاگ کر جانے والے کو کیوں نہ واپس کریں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر فرمایا جو ہمارے ہاں سے بھاگ کر ان کے پاس چلا جائے وہ آخر ہمارے کس کام کا ہے؟ اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے۔ اور جو ان کے ہاں سے بھاگ کر ہمارے پاس آ جائے اسے اگر ہم واپس کر دیں گے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی کوئی اور صورت پیدا فرما دے گا۔ دوسری چیز جو لوگوں کے دلوں میں کھٹک رہی تھی وہ چوتھی شرط تھی۔ مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ اسے ماننے کے معنی یہ ہیں کہ تمام عرب کے سامنے گویا ہم ناکام واپس جا رہے ہیں۔ مزید براں یہ سوال بھی دلوں میں خلش پیدا کر رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ ہم مکہ میں طواف کر رہے ہیں،مگر یہاں تو ہم طواف کیے بغیر واپس جانے کی شرط مان رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر لوگوں کو سمجھا کہ خواب میں آخر اسی سال طواف کرنے کی صراحت تو نہ تھی۔ شرائطِ صلح کے مطابق اس سال نہیں تو اگلے سال انشاء اللہ طواف ہو گا۔
جلتی پر تیل کا کام جس واقعہ نے کیا وہ یہ تھا کہ عین اس وقت جب صلح کا معاہدہ لکھا جا رہا تھا، سہیل بن عمرو کے اپنے صاحبزادے ابو جندل، جو مسلمان ہو چکے تھے اور کفار مکہ نے ان کو قید کر رکھا تھا، کسی نہ کسی طرح بھاگ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ میں پہنچ گئے۔ ان کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فریاد کی کہ مجھے اس حبس بے جا سے نجات دلائی جائے۔ صحابہ کرام کے لیے یہ حالت دیکھ کر ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔ مگر سہیل بن عمرو نے کہا کہ صلح نامے کی تحریر چاہے مکمل نہ ہوئی ہو، شرائط تو ہمارے اور آپ کے درمیان طے ہو چکی ہیں، اس لیے اس لڑکے کو میرے حوالے کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی حجت تسلیم فرما لی اور ابو جندل ظالموں کے حوالے کر دیے گئے۔
صلح سے فارغ ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اب یہیں قربانی کر کے سر منڈواؤ اور احرام ختم کر دو۔ مگر کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ حکم دیا، مگر صحابہ پر اس وقت رنج و غم اور دل شکستگی کا ایسا شدید غلبہ تھا کہ انہوں نے اپنی جگہ سے حرکت نہ کی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پورے دور رسالت میں اس ایک موقع کے سوا کبھی یہ صورت پیش نہ آئی تھی کہ آپ صحابہ کو حکم دیں اور وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑ نہ پڑیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس پر سخت صدمہ ہوا اور آپ نے اپنے خیمے میں جا کر ام المومنین حضرت ام سلمہ سے اپنی کبیدہ خاطری کا اظہار فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپ بس خاموشی کے ساتھ تشریف لے جا کر خود اپنا اونٹ ذبح فرمائیں اور حجام کو بلا کر اپنا سر منڈوا لیں۔ اس کے بعد لوگ خود بخود آپ کے عمل کی پیروی کریں گے اور سمجھ لیں گے کہ جو فیصلہ ہو چکا ہے وہ اب بدلنے والا نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آپ کے فعل کو دیکھ کر لوگوں نے بھی قربانیاں کر لیں، سر منڈوا لیے یا بال ترشوا لیے اور احرام سے نکل آئے۔ مگر دل ان کے غم سے کٹے جا رہے تھے۔
اس کے بعد جب یہ قافلہ حدیبیہ کی صلح کو اپنی شکست اور ذلت سمجھتا ہوا مدینہ کی طرف واپس جا رہا تھا، اس وقت ضجنان کے مقام پر (یا بقول بعض کراع الغمیم کے مقام پر) یہ سورت نازل ہوئی، جس نے مسلمانوں کو بتایا کہ یہ صلح جس کو وہ شکست سمجھ رہے ہیں دراصل فتح عظیم ہے۔ اس کے نازل ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے جو میرے لیے دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔ پھر یہ سورت آپ نے تلاوت فرمائی اور خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر اسے سنایا کیونکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے۔
اگرچہ اہل ایمان تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سن کر ہی مطمئن ہو گئے تھے، مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ اس صلح کے فوائد ایک ایک کرتے کھلتے چلے گئے یہاں تک کہ کسی کو بھی اس امر میں شک نہ رہا کہ فی الواقع یہ صلح ایک عظیم الشان فتح تھی۔
۱. اس میں پہلی مرتبہ عرب میں اسلامی ریاست کا وجود باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔ اس سے پہلے تک عربوں کی نگاہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کی حیثیت محض قریش اور قبائل عرب کے خلاف خروج کرنے والے ایک گروہ کی تھی اور ان کو برادری باہر (Outlaw) سمجھتے تھے۔ اب خود قریش ہی نے آپ سے معاہدہ کر کے سلطنت اسلامی کے مقبوضات پر آپ کا اقتدار مان لیا اور قبائل عرب کے لیے یہ دروازہ بھی کھول دیا کہ ان دونوں سیاسی طاقتوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں حلیفانہ معاہدات کر لیں۔
۲. مسلمانوں کے لیے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کر کے قریش نے آپ سے آپ گویا یہ بھی مان لیا کہ اسلام کوئی بے دینی نہیں ہے جیسا کہ وہ اب تک کہتے چلے آ رہے تھے، بلکہ عرب کے مسلمہ ادیان میں سے ایک ہے اور دوسرے عربوں کی طرح اس کے پیرو بھی حج و عمرہ کے مناسک ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس سے اہل عرب کے دلوں کی وہ نفرت کم ہو گئی جو قریش کے پروپیگنڈا سے اسلام کے خلاف پیدا ہو گئی تھی۔
۳. دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہو جانے سے مسلمانوں کو امن میسر آ گیا اور انہوں نے عرب تمام اطراف و نواح میں پھیل کر اس تیزی سے اسلام کی اشاعت کی کہ صلح حدیبیہ سے پہلے پورے ۱۹ سال میں اتنے آدمی مسلمان نہ ہوئے تھے جتنے اس کے بعد دو سال کے اندر ہو گئے۔ یہ اسی صلح کی برکت تھی کہ یا تو وہ وقت تھا جب حدیبیہ کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ۱۴۰۰ آدمی آئے تھے، یا دو ہی سال کے بعد جب قریش کی عہد شکنی کے نتیجے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ پر چڑھائی کی تو دس ہزار کا لشکر آپ کے ہمرکاب تھا۔
۴. قریش کی طرف سے جنگ بند ہو جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ موقع مل گیا کہ اپنے مقبوضات میں اسلامی حکومت کو اچھی طرح مستحکم کر لیں اور اسلامی قانون کے اجراء سے مسلم معاشرے کو ایک مکمل تہذیب و تمدن بنا دیں۔ یہی و ہ نعمت عظمیٰ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت ۳ میں فرمایا کہ "آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے”۔
۵. قریش سے صلح کے بعد جنوب کی طرف سے اطمینان نصیب ہو جانے کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں نے شمالِ عرب اور وسطِ عرب کی تمام مخالف طاقتوں کو با آسانی مسخر کر لیا۔ صلح حدیبیہ پر تین ہی مہینے گذرے تھے کہ یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ خیبر فتح ہو گیا اور اس کے بعد فدک، وادی القریٰ، تیما اور تبوک کی یہودی بستیاں اسلام کے زیر نگیں آتی چلی گئیں۔ پھر وسطِ عرب کے وہ تمام قبیلے بھی، جو یہود و قریش کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھتے تھے، ایک ایک کر کے تابع فرمان ہو گئے۔ اس طرح حدیبیہ کی صلح نے دو ہی سال کے اندر عرب میں قوت کا توازن اتنا بدل دیا کہ قریش اور مشرکین کی طاقت دب کر رہ گئی اور اسلام کا غلبہ یقینی ہو گیا۔
یہ تھیں وہ برکات جو مسلمانوں کو اس صلح سے حاصل ہوئیں جسے وہ اپنی ناکامی اور قریش اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے۔ سب سے زیادہ جو چیز اس صلح میں مسلمانوں کو ناگوار ہوئی تھی اور جسے قریش اپنی جیت سمجھا تھا کہ مکہ سے بھاگ کر مدینہ جانے والوں کو واپس کر دیا جائے گا اور مدینہ سے بھاگ کر مکہ جانے والوں کو واپس نہ کیا جائے گا۔ مگر تھوڑی ہی مدت گذری تھی کہ یہ معاملہ بھی قریش پر الٹا پڑا اور تجربہ نے بتا دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہِ دور رس نے اس کے کن نتائج کو دیکھ کر یہ شرط قبول کی تھی۔ صلح کے کچھ دنوں بعد مکہ سے ایک مسلمان ابو بصیر قریش کی قید سے بھاگ نکلے اور مدینہ پہنچے۔ قریش نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاہدے کے مطابق انہیں ان لوگوں کے حوالے کر دیا جو ان کی گرفتاری کے لیے مکہ سے بھیجے گئے تھے۔ مگر مکہ جاتے ہوئے راستے میں وہ پھر ان کی گرفت سے بچ نکلے اور ساحل بحیرہ احمر کے اس راستے پر جا بیٹھے جس سے قریش کے تجارتی قافلے گزرتے تھے۔ اس کے بعد جس مسلمان کو بھی قریش کی قید سے بھاگ نکلنے کا موقع ملتا وہ مدینہ جانے کے بجائے ابو بصیر کر ٹھکانے پر پہنچ جاتا، یہاں تک کہ ۷۰ آدمی جمع ہو گئے اور انہوں نے قریش کے قافلوں پر چھاپے مار مار کر ان کا ناطقہ تنگ کر دیا۔ آخر کار قریش نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی کہ ان لوگوں کو مدینہ بلا لیں اور حدیبیہ کے معاہدے کی وہ شرط آپ سے آپ ساقط ہو گئی۔
یہ تاریخی پس منظر نگاہ میں رکھ کر اس سورت کو پڑھا جائے تو اسے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی (۱) تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے در گزر فرمائے (۲) اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے (۳) اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے(۴) اور تم کو زبردست نصرت بخشے (۵)۔وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی(۶) تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں (۷) ۔ زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے(۸)۔ (اس نے یہ کام اس لیے کیا ہے)تاکہ مومن مردوں اور عورتوں (۹)کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور ان کی برائیاں ان سے دور کر دے(۱۰۔۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے۔۔اور ان منافق مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں(۱۱)۔برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آ گئے(۱۲)، اللہ کا غضب ان پر ہوا اور اس نے ان پر لعبت کی اور ان کے لیے جہنم مہیا کر دی جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ زمین اور آسمانوں کے لشکر اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست اور حکیم ہے(۱۳)۔
اے نبیؐ، ہم نے تم کو شہادت دینے والا(۱۴)، بشارت دینے والا اور خبر دار کر دینے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کا ساتھ دو، اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو(۱۶)۔
اے نبیؐ،جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے (۱۷) وہ در اصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا(۱۸)۔ اب جو اس عہد کو توڑے گا اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہو گا، اور جو اس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے (۱۹)، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ع
تفسیر
۱۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب فتح کا یہ مژدہ سنایا گیا تو لوگ حیران تھے کہ آخر اس صلح کو فتح کیسے کہا جا سکتا ہے۔ ایمان کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد کو مان لینے کی بات تو دوسری تھی۔ مگر اس کے فتح ہونے کا پہلو کسیکی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے یہ آیت سن کر پوچھا: یا رسول اللہ، کیا یہ فتح ہے؟ حضورؐ نے فرمایا ہاں(ابن جریر)۔ ایک اور صحابی حاضر ہوئے اور انہوں نے بھی یہی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا ای والذی نفس محمد بیدہٖ انہٗ لفتح ۔’’ قسم ہےاس ذات کیجس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، یقیناً یہ فتح ہے‘‘(مسند احمد۔ابوداؤد)۔ مدینہ پہنچ کر ایک اور صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’ یہ کیسی فتح ہے؟ ہم بیت اللہ جانے سےروک دیے گئے، ہماری قربانی کے اونٹ بھی آگے نہ جا سکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حدیبیہ ہی میں رک جانا پڑا ، اور اس صلح کی بدولت ہمارے دو مظلوم بھائیوں (ابو جندل اور ابو بصیر) کو ظالموں کے حوالہ کر دیا گیا‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا’’ بڑی غلط بات کہی گئی ہے یہ ۔ حقیقت میں تو یہ بہت بڑی فتح ہے۔ تم مشرکوں کے عین گھر پر پہنچ گئے اور انہوں نے آئندہ سال عمرہ کرنے کی درخواست کر کے تمہیں واپس جانے پر راضی کیا ۔ انہوں نے تم سےخود جنگ بند کر دیتے اور صلح کر لینے کی خواہش کی حالانکہ ان کے دلوں میں تمہارے لیے جیسا کچھ بغض ہے وہ معلوم ہے۔ اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے۔ کیا وہ دن بھول گئے جب احد میں تم بھاگے جا رہے تھے اور میں تمہیں پیچھے سے پکار رہا تھا ؟ کیا وہ دن بھول گئے جب جنگ احزاب میں ہر طرف سے دشمن چڑھ آئے تھے اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے‘‘؟ (بیہقی بروایت عروہ بن زبیر)۔ مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کی اس صلح کا فتح ہونا بالکل عیاں ہوتا چلا گیا اور ہر خاص و عام پر یہ بات پوری طرح کھل گئی کہ فری الواقع اسلام کی فتح کا آغاز صلح حدیبیہ ہی سے ہوا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت جابر بن عبداللہ، اور حضرت براء بن عازب، تینوں حضرات سے قریب قریب ایک ہی معنی میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ ’’ لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہیں ، حالانکہ ہم اصل فتح حدیبیہ کو سمجھتے ہیں‘‘(بخاری، مسلم ،مسند احمد ، ابن جریر)۔
۲۔ جس موقع و محل پر یہ فقرہ ارشاد ہوا ہے اس نگاہ میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں جن کوتاہیوں سے در گزر کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد وہ خامیاں ہیں جو اسلام کی کامیابی و سر بلندی کے لیے کام کرتے ہوئے اس سعی و جہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں پچھلے ۱۹ سال سے مسلمان کر رہے تھے۔ یہ خامیاں کسی انسان کے علم میں نہیں ہیں، بلکہ انسانی عقل تو اس جدوجہد میں کوئی نقص تلاش کرنے سے قطعی عاجز ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کمال کا جو بلند ترین معیار ہے اس کے لحاظ سےاس میں کچھ ایسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنے جلدی مشرکین عرب پر فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہو سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ان خامیوں کے ساتھ اگر تم جدوجہد کرتے رہتے تو عرب کے مسخر ہونے میں ابھی عرصۂ دراز کار تھا، مگر ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے در گزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کر دی اور حدیبیہ کے مقام پر تمہارے لیے اس فتح و ظفر کا دروازہ کھول دیا جو معمول کے مطابق تمہاری اپنی کوششوں سے نصیب نہ ہوسکتی تھی۔
اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مقصد کے لیے ایک جماعت جو کوشش کر رہی ہو اس کی خامیوں کے لیے اس جماعت کے قائد و رہنما ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ خامیاں قائد کی ذاتی خامیاں ہیں۔ در اصل وہ اس جدوجہد کی کمزوریاں ہوتی ہیں جو پوری جماعت بحیثیت مجموعی کر رہی ہوتی ہے۔ مگر خطاب قائد سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے کام میں یہ کمزوریاں ہیں۔
تاہم چونکہ روئے سخن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے، اور فرمایا یہ گیا ہے کہ اللہ نے آپ کی ہر اگلی پچھلی کوتاہی کو معاف فرما دیا ، اس لیے ان عام الفاظ سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے رسول پاک کی تمام لغزشیں (جو آپ کے مقام بلند کے لحاظ سے لغزشیں تھیں) بخش دی گئیں ۔ اسی بنا پر جب صحابہ کرام حضورؐ کو عبادت میں غیر معمولی مشقتیں اٹھاتے ہوئے دیکھتے تھے تو عرض کرتے تھے کہ آپ کے تو اب اگلے پچھلے قصور معاف ہو چکے ہیں، پھر آپ اپنی جان پر اتنی سختی کیوں اٹھاتے ہیں؟ اور آپؐ جواب میں فرماتے تھے : افلا اکون عبداً ا شکوراً۔‘‘کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘؟ (احمد، بخاری، مسلم ، ابوداؤد)۔
۳۔ نعمت کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ ہر خوف، ہر مزاحمت اور ہر بیرونی مداخلت سے محفوظ ہو کر پوری طرح اسلامی تمدن و تہذیب اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے آزاد ہو جائیں ، اور ان کو یہ طاقت بھی نصیب ہو جائے کہ وہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کر سکیں۔ کفر و فسقو کا غلبہ، جو بندگی رب کی راہ میں مانع اور اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی میں مزاحم ہو، اہل ایمان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے جسے قرآن ’’فتنہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس فتنے سے خلاصی پاکر جب ان کو ایک ایسا دارالاسلام میسر آ جائے جس میں اللہ کا پورا دین نے کم و کاست نافذ ہو، اور اس کے ساتھ ان کو ایسے ذرائع و وسائل بھی بہم پہنچ جائیں جن سے وہ خدا کی زمین پر کفر و فسق کی جگہ ایمان و تقویٰ کا سکہ رواں کر سکیں، تو یہ ان پر اللہ نعمت کا اتمام ہے ۔ یہ نعمت چونکہ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی بدولت حاصل ہوئی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ ہی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دینا چاہتے تھے، اس لیے یہ فتح ہم نے تم کو عطا کر دی۔
۴۔ اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے دوسرے الفاظ میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا یہ معاہدہ کرا کے آپؐ کے لیے وہ راہ ہموار کر دی اور وہ تدبیر آپ کو سجھا دی جس سے آپ اسلام کی مزاحمت کرنے والی تمام طاقتوں کو مغلوب کر لیں۔
۵ ۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’ تم کو بے مثل نصرت بخشے‘‘۔ اصل میں لفظ نصراً عزیزاً استعمال ہوا ہے۔ عزیز کے معنی زبردست کے بھی ہیں اور بے نظیر ، بے مثل اور نادر کے بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اس صلح کے ذریعہ سے اللہ نے آپ کی ایسی مدد کی ہے جس سے آپ کے دشمن عاجز ہو جائیں گے۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ شاذ و نادر ہی کبھی کسی کی مدد کا ایسا عجیب طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر جو چیز لوگوں کو محض ایک صلح نامہ اور وہ بھی دب کر کیا ہوا صلح نامہ نظر آتی ہے، وہی ایک فیصلہ کن فتح بن جانے والی ہے۔
۶ ۔ ’’ سکینت ‘‘ عربی زبان میں سکون و اطمینان اور ثبات قلب کو کہتے ہیں، اور یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دل میں اس کے نازل کیے جانے کو اس فتح کا ایک اہم سبب قرار دے رہا ہے جو حدیبیہ کے مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اس وقت کے حالات پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی سکینت تھی جو اس پورے زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں اتاری گئی اور کیسے وہ اس فتح کا سبب بنی۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرے کے لیے مکہ معظمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا، اگر مسلمان اس وقت خوف زدگی میں مبتلا ہو جاتے اور منافقین کی طرح یہ سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحاً موت کے منہ میں جانا ہے، یا جب راستے میں یہ اطلاع ملی کہ کفار قریش لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں، اس وقت اگر مسلمان اس گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتے کہ ہم کسی جنگی ساز و سامان کے بغیر دشمن کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے، اور اس بنا پر ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی، تو ظاہر ہے کہ وہ نتائج کبھی رو نما نہ ہوتے جو حدیبیہ میں رو نما ہوئے۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر کفار نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا ، اور جب انہوں نے چھاپے اور شبخون مار مار کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی، اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی، اور جب ابو جندل مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آ کھڑے ہوئے ، ان میں سےہر موقع ایسا تھا کہ اگر مسلمان اشتعال میں آ کر اس نظم ضبط کو توڑ ڈالتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قائم کیا تھا تو ساا کام خراب ہو جاتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان شرائط پر صلح نامہ طے کرنے لگے جو مسلمانوں کی پوری جماعت کو سخت ناگوار تھیں، اس وقت اگر وہ حضور کی نافرمانی کرنے پر اتر آتے تو حدیبیہ کی فتح عظیم شکست عظیم میں تبدیل ہو جاتی ۔ اب یہ سراسر اللہ ہی کا فضل تھا کہ ان نازک گھڑیوں میں مسلمانوں کو رسول پاکؐ کی رہنمائی پر، دین حق کی صداقت پر اور اپنے مشن کے بر حق ہونے پر کامل اطمینان نصیب ہوا ۔ اسی کی بنا پر انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے سب گوارا ہے۔اسی کی بنا پر وہ خوف ، گھبراہٹ ، اشتعال، مایوسی ، ہر چیز سے محفوظ رہے۔ اسی کی بدولت ان کے کیمپ میں پورا نظم و ضبط بر قرار رہا۔ اور اسی کی وجہ سے انہوں نے شرائط صلح پر سخت کبیدہ خاطر ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلہ پر سر تسلم خم کر دیا۔ یہی وہ سکینت تھی جو اللہ نے مومنوں کے دلوں میں اتاری تھی ، اور اسی کی یہ برکت تھی کہ عمرے کے لیے نکلنے کا خطرناک ترین اقدام بہترین کامیابی کا موجب بن گیا۔
۷ ۔ یعنی ایک ایمان تو وہ تھا جو اس مہم سے پہلے ان کو حاصل تھا، اور اس پر مزید ایمان انہیں اس وجہ سے حاصل ہوا کہ اس مہم کے سلسلے میں جتنی شدید آزمائشیں پیش آتی چلی گئیں ان میں سے ہر ایک میں وہ اخلاص، تقویٰ اور اطاعت کی روش پر ثابت قدم رہے۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سےمعلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک جامد و ساکن حالت نہیں ہے، بلکہ اس میں ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے مرتے دم تک مومن کو زندگی میں قدم قدم پر ایسی آزمائشوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جن میں اس کے لیے یہ سوال فیصلہ طلب ہوتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے دین کی پیروی میں اپنی جان، مال ، جذبات ، خواہشات، اوقات، آسائشوں اور مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ ایسی ہر آزمائش کے موقع پر اگر وہ قربانی کی راہ اختیار کر لے تو اس کے ایمان کو ترقی اور بالیدگی نصیب ہوتی ہے، اور اگر منہ موڑ جائے تو اس کا ایمان ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے جب وہ ابتدائی سرمایہ ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے جسے لیے ہوئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، تفسیر سورہ انفال ، حاشیہ ۲، جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ ۳۸)۔
۸ ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے پاس تو ایسے لشکر ہیں جن سے وہ کفار کو جب چاہے تہس نہس کر دے ، مگر اس نے کچھ جان کر اور حکمت ہی کی بنا پر ایہ ذمہ داری اہل ایمان پر ڈالی ہے کہ وہ کفار کے مقابلہ میں جد و جہد اور کشمکش کر کے اللہ کے دین کا بول بالا کریں۔ اسی سے ان کے لیے درجات کی ترقی اور آخرت کی کامیابیوں کا دروازہ کھلتا ہے جیسا کہ آگے کی آیت بتا رہی ہے۔
۹ ۔ قرآن مجید میں بالعموم اہل ایمان کے اجر کا ذکر مجموعی طور پر کیا جاتا ہے ، مردوں اور عورتوں کو اجر ملنے کی الگ الگ تصریح نہیں کی جاتی۔ لیکن یہاں چونکہ یکجائی ذکر پر اکتفا کرنے سے یہ گمان پیدا ہوسکتا تھا کہ شاید یہ اجر صرف مردوں کے لیے ہو،اس لیے اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے متعلق الگ صراحت کر دی کہ وہ بھی اس اجر میں مومن مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہیں ۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ جن خدا پرست خواتین نے اپنے شوہروں، بیٹوں ، بھائیوں اور باپوں کو اس خطرناک سفت پر جانے سے روکنے اور آہ و فغان سے ان کے حوصلے پست کرنے کے بجائے ان کی ہمت افزائی کی، جنہوں نے ان کے پیچھے ان کے گھر ، ان کے مال ، ان کی آبرو اور ان کے بچوں کی محافظ بن کر انہیں اس طرف سے بے فکر کر دیا، جنہوں نے اس اندیشے سے بھی کوئی واویلا نہ مچائی کہ چودہ سو صحابیوں کے ایک لخت چلے جانے کے بعد کہیں گرد و پیش کے کفار و منافقین شہر پر نہ چڑھ آئیں ، وہ یقیناً گھر بیٹھنے کے باوجود جہاد کے اجر میں اپنے مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہونی ہی چاہیے تھیں۔
۱۰ ۔ یعنی بشری کمزوریوں کی بنا پر جو کچھ بھی قصور ان سے سر زد ہو گئے ہوں انہیں معاف کر دے ، جنت میں داخل کرنے سے پہلے ان قصوروں کے ہر اثر سے ان کو پاک کر دے، اور جنت میں وہ اس طرح داخل ہوں کہ کوئی داغ ان کے دامن پر نہ ہو جس کی وجہ سے وہ وہاں شرمندہ ہوں۔
۱۱۔ اطراف مدینہ کے منافقین کو تو اس موقع پر یہ گمان تھا، جیسا کہ آگے آیت ۱۲ میں بیان ہوا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھی اس سفر سے زندہ واپس نہ آسکیں گے۔ رہے مکہ کے مشرکین اور ان کے ہم مشرب کفار، تو وہ اس خیال میں تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کو عمر ے سے روک کر وہ گویا آپ کو زک دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ ان دونوں گواہوں نے یہ جو کچھ بھی سوچا تھا اس کی تہ میں در حقیقت اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ بد گمانی کام کر رہی تھی کہ وہ اپنے نبی کی مدد نہ کرے گا اور حق و باطل کی اس کشمکش میں باطل کو حق کا بول نیچا کرنے کی کھلی چھوٹ دے دے گا۔
۱۲ ۔ یعنی جس انجام بد سے وہ بچنا چاہتے تھے اور جس سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ تدبیریں کی تھیں، اسی کے پھیر میں وہ آ گئے اور ان کی وہی تدبیریں اس انجام کو قریب لانے کا سبب بن گئیں۔
۱۳ ۔ یہاں اس مضمون کو ایک دوسرے مقصد کے لیے دہرایا گیا ہے۔ آیت نمبر ۴ میں اسے اس غرض کے لیے بیان کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے مقابلے میں لڑنے کا کام اپنے فوق الفطری لشکروں سے لینے کے بجائے مومنین سے اس لیے لیا ہے کہ وہ ان کو نوازنا چاہتا ہے۔ اور یہاں اس مضمون کو دوبارہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو سزا دینا چاہے اس کی سرکوبی کے لیے وہ اپنے بے شمار لشکروں میں سے جس کو چاہے استعمال کر سکتا ہے، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اپنی تدبیروں سے وہ اس کی سزا کو ٹال سکے۔
۱۴ ۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے شاہد کا ترجمہ ’’ اظہار حق کنندہ ‘‘ فرمایا ہے اور دوسرے مترجمین اس کا ترجمہ ’’ گواہی دینے والا‘‘ کرتے ہیں۔ شہادت کا لفظ ان دونوں مفہومات پر حاوی ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو: تفہیم القرآن، جلد چہارم ، تفسیر سوری احزاب ، حاشیہ نمبر ۸۲ ۔
۱۵ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ احزاب، حاشیہ ۸۳ ۔
۱۶ ۔ بعض مفسرین جے تُعَزِّ رُوْہُ اور تُوَقِّرُوْہُ کی ضمیروں کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور تُسَبِّحُوہُ کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’ تم رسول کا ساتھ دو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو، اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو‘‘۔ لیکن ایک ہی سلسلہ کلام میں ضمیروں کے دو الگ الگ مرجع قرار دینا، جبکہ اس کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے، درست نہیں معلوم ہوتا ۔ اسی لیے مفسرین کے ایک دوسرے گروہ نے تمام ضمیروں کا مرجع اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا ہے اور ان کے نزدیک عبارت کا مطلب یہ ہے کہ ’’ تم اللہ کا ساتھ دو، اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہے‘‘۔
صبح و شام تسبیح کرنےسے مراد صرف صبح و شام ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت تسبیح کرتے رہنا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں بات کا شہرہ مشرق و مغرب میں پھیلا ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صرف مشرق اور مغرب کے لوگ اس بات کو جانتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں اس کا چرچا ہو رہا ہے۔
۱۷ ۔ اشارہ ہے اس بیعت کی طرف جو مکہ معظمہ میں حضرت عثمانؓ کے شہید ہو جانے کی خبر سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام سے حدیبیہ کے مقام پرلی تھی ۔ بعض روایات کی رو سے یہ بیعت علیٰ الموت تھی، اور بعض روایات کے مطابق بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ ہم میدان جنگ سے پیٹھ نہ پھیریں گے۔ پہلی بات حضرت سلمہ بن اکوَع سے مروی ہے، اور دوسرے حضرات ابن عمر ، جابر بن عبداللہ اور معقِل بن یسار سے۔ مآل دونوں کا ایک ہی ہے۔ صحابہ نے رسول پاکؐ کے ہاتھ پر بیعت اس بات کی کی تھی کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کا معاملہ اگر صحیح ثابت ہوا تو وہ سب یہیں اور اسی وقت قریش سے نمٹ لیں گے خواہ نتیجہ میں وہ سب کٹ ہی کیوں نہ مریں۔ اس موقع پر چونکہ یہ امر ابھی یقینی نہیں تھا کہ حضرت عثمان واقعی شہید ہو چکے ہیں یا زندہ ہیں ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف سے خود اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر بیعت میں شریک فرمایاس ۔ حضورؐ کا ان کی طرف سے خود بیعت کرنا لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ حضور کو ان پر پوری طرح یہ اعتماد تھا کہ اگر وہ موجود ہوتے تو یقیناً بیعت کرتے۔
۱۸ ۔ یعنی جس ہاتھ پر لوگ اس وقت بیعت کر رہے تھے وہ شخص رسول کا ہاتھ نہیں بلکہ اللہ کے نمائندے کا ہاتھ تھا اور یہ بیعت رسول کے واسطہ سے در حقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو رہی تھی۔
۱۹ ۔ اس مقام پر ایک لطیف نکتہ نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عربی زبان کے عام قاعدے کی رو سے یہاں عٰھَدَعَلَیْہِ اللہَ پڑھا جانا چاہیے تھا، لیکن اس عام قاعدے سے ہٹ کر اس جگہ عَلَیْہُ اللہَ پڑھا جاتا ہے۔ علامہ آلوسی نے اس غیر معمولی اِعراب کے دو وجوہ بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس خاص موقع پر اس ذات کی بزرگی اور جلالت شان کا اظہار مقصود ہے جو کے ساتھ یہ عہد استوار کیا جا رہا تھا اس لیے یہاں عَلَیْہِ کے بجائے عَلَیْہُ ہی زیادہ مناسب ہے۔ دوسرے یہ کہ عَلَیْہِ میں ’’ہ‘‘ دراصل ھُوَ کی قائم مقام ہے اور اس کا اصلی اعراب پیش ہی تھا نہ کہ زیر ۔ لہٰذا یہاں اس کے ٓسلی اعراب کو باقی رکھنا وفائے عہد کے مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
ترجمہ
اے نبیؐ، بدوی عربوں(۲۰) میں سے جو لوگ پیچھے جھوڑ دیے گئے تھے اب وہ آ کر ضرور تم سے کہیں گے کہ ’’ ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں‘‘۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں(۲۱)۔ ان سے کہنا ’’اچھا، یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے؟ تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے(۲۲)۔ (مگر اصل بات وہ نہیں ہے جو تم کہہ رہے ہو) بلکہ تم نے یوں سمجھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھر والوں میں ہر گز پلٹ کر نہ آ سکیں گے اور یہ خیال تمہارے دلوں کو بہت بھلا لگا (۲۳) اور تم نے بہت برے گمان کیسے اور تم سخت بد باطن(۲۴) لوگ ہو‘‘۔
اللہ اور اس کے رسول پر جو لوگ ایمان نہ رکھتے ہوں ایسے کافروں کے لیے ہم نے بھڑکتے ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے(۲۵)۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک اللہ ہی ہے۔ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے ، اور وہ غفور و رحیم ہے(۲۶)۔
جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو(۲۷)۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں(۲۸)۔ ان سے صاف کہہ دینا کہ ’’ تم ہر گز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے(۲۹)‘‘۔ یہ کہیں گے کہ ’’ نہیں ، بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو‘‘۔ (حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے۔) بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں ۔ ان کے پیچھے چھوڑے جانے والے بدوی عربوں سے کہنا کہ ’’عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں۔ تم کو ان سے جنگ کرنی ہو گی یا وہ مطیع ہو جائیں گے(۳۰)۔ اس وقت اگر تم نے حکم جہاد کی اطاعت کی تو اللہ تمہیں اچھا اجر دے گا، اور اگر تم پھر اسی طرح منہ موڑ گئے جس طرح پہلے موڑ چکے ہو تو اللہ تم کو درد ناک سزا دے گا۔ اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں (۳۱)۔ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ درد ناک عذاب دے گا‘‘۔ ع
تفسیر
۲۰ ۔ یہ اطراف مدینہ کے ان لوگوں کا ذکر ہے جنہیں عمرے کی تیاری شروع کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی، مگر وہ ایمان کا دعویٰ رکھنے کے باوجود صرف اس لیے اپنے گھروں سے نہ نکلے تھے کہ انہیں اپنی جان عزیز تھی ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اَسلم،مُزَینہ، جُہَینہ ،غِفار، اَشْجع، دِیل وغیرہ قبائل کے لوگ تھے۔
۲۱ ۔ اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تمہارے مدینہ پہنچنے کے بعد یہ لوگ اپنے نہ نکلنے کے لیے جو عذر اب پیش کریں گے وہ محض ایک جھوٹا بہانہ ہو گا ، ورنہ ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ در اصل کیوں بیٹھ رہے تھے ۔ دوسرے یہ کہ ان کا اللہ کے رسول سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا محض زبانی جمع خرچ ہو گا۔ اصل میں وہ نہ اپنی اس حرکت پر نادم ہیں، نہ انہیں یہ احساس ہے کہ انہوں نے رسول کا ساتھ نہ دے کر کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اور نہ ان کے دل میں مغفرت کی کوئی طلب ہے۔ اپنے نزدیک تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس خطرناک سفر پر نہ جا کر بڑی عقلمندی کی ہے۔ اگر انہیں واقعی اللہ اور اس کی مغفرت کی کوئی پرسا ہوتی تو وہ گھر بیٹھے ہی کیوں رہتے۔
۲۲ ۔ یعنی اللہ کا فیصلہ تو اس علم کی بنا پر ہو گا جو وہ تمہارے عمل کی حقیقت کے متعلق رکھتا ہے۔ اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق ہو اور میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کر دوں تو میری یہ دعا تمہیں اللہ کی سزا سے نہ بچا دے گی۔ اور اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق نہ ہو اور میں تمہارے حق میں استغفار نہ کروں تو میرا استغفار نہ کرنا تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے گا ۔ اختیار میرا نہیں بلکہ اللہ کا ہے، اور اس کو کسی کی زبانی باتیں دھوکا نہیں دے سکتیں۔ اس لیے تمہارے ظاہری قول کو میں سچ مان بھی لوں اور اس بنا پر تمہارے حق میں دعائے مغفرت بھی کر دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
۲۳ ۔ یعنی تم اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ رسول اور اس کا ساتھ دینے والے اہل ایمان جس خطرے کے منہ میں جا رہے ہیں اس سے تم نے اپنے آپ کو نچا لیا ۔ تمہاری نگاہ میں یہ بڑی دانشمندی کا کام تھا۔ اور تمہیں اس بات پر بھی خوش ہوتے ہوئے کوئی شرم نہ آئی کہ رسول اور اہل ایمان ایک ایسی مہم پر جا رہے ہیں جس سے وہ بچ کر نہ آئیں گے۔ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہوئے بھی تم اس پر مضطرب نہ ہوئے بلکہ اپنی یہ حرکت تمہیں بہت اچھی معلوم ہوئی کہ تم نے اپنے آپ کو رسول کے ساتھ اس خطرے میں نہیں ڈالا۔
۲۴ ۔ اصل الفاظ ہیں کُنْتُمْ قَوْماً بُوْراً ۔ بور جمع ہے بائر کی۔ اور بائر کے دو معنی ہیں ایک، فاسد ، بگڑا ہوا آدمی ، جو کسی بھلے کام کے لائق نہ ہو، جس کی نیت میں فساد ہو۔ دوسرے ہالک، بد انجام ، تباہی کے راستے پر جانے والا۔
۲۵ ۔ یہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو صاف الفاظ میں کافر اور ایمان سےخالی قرار دیتا ہے جو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ میں مخلص نہ ہوں اور آزمائش کا وقت آنے پر دین کی خاطر اپنی جان و مال اور اپنے مفاد کو خطرے میں ڈالنے سے جی چرا جائیں۔ لیکن یہ خیال رہے کہ یہ وہ کفر نہیں ہےجس کی بنا پر دنیا میں کسی شخص یا گروہ کو خارج از اسلام قرار دے دیا جائے، بلکہ وہ کفر ہے جس کی بنا پر آخرت میں وہ غیر مومن قرار پائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کو ، جن کے بارے میں یہ نازل ہوئی تھی، خارج از اسلام قرار نہیں دیا اور نہ ان سے وہ معاملہ کیا جو کفار سے کیا جاتا ہے۔
۲۶ ۔ اوپر کی شدید تنبیہ کے بعد اللہ کے غفور و رحیم ہونے کا ذکر اپنے اندر نصیحت کا ایک لطیف پہلو رکھتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اب بھی اپنی غیر مخلصانہ روش کو چھوڑ کر تم لوگ اخلاص کی راہ پر آ جاؤ تو اللہ کو تم غفور و رحیم پاؤ گے۔ وہ تمہاری پچھلی کوتاہیوں کو معاف کر دے گا اور آئندہ تمہارے ساتھ وہ معاملہ کرے گا جس کے تم اپنے خلوص کی بنا پر مستحق ہو گے۔
۲۷ ۔ یعنی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب یہی لوگ ، جو آج خطرے کی مہم پر تمہارے ساتھ جانے سے جی چُرا گئے تھے، تمہیں ایک ایسی مہم پر جاتے دیکھیں گے جس میں ان کو آسان فتح اور بہت سے اموال غنیمت کے حصول کا امکان نظر آئے گا، اور اس وقت یہ خود دوڑے آئیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ یہ وقت صلح حدیبیہ کے تین ہی مہینے بعد آ گیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر پر چڑھائی کی اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے فتح کر لیا۔ اس وقت ہر شخص کو یہ بات صاف نظر آ رہی تھی کہ قریش سے صلح ہو جانے کے بعد اب خیبر ہی کے نہیں ، بلکہ تَیما ، فَدَک، وادی القریٰ، اور شمالی حجاز کے دوسرے یہودی بھی مسلمانوں کی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکیں گے اور یہ ساری بستیاں پکّے پھل کی طرح اسلامی حکومت کی گود میں آ گریں کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان آیات میں پیشگی خبر دار کر دیا کہ اطراف مدینہ کے یہ موقع پرست لوگ ان آسان فتوحات کو حاصل ہوتے دیکھ کر ان میں حصہ بٹا لینے کے لیے آ کھڑے ہوں گے، مگر تم انہیں صاف جواب دے دینا کہ ان میں حصہ لینے کا موقع تمہیں ہر گز نہ دیا جائے گا، بلکہ یہ ان لوگوں کا حق ہے جو خطرات کے مقابلے میں سرفروشی کے لیے آگے بڑھے تھے۔
۲۸ ۔ اللہ کے فرمان سے مراد یہ فرمان ہے کہ خیبر کی مہم پر حضور کے ساتھ صرف انہی لوگوں کو جانے کی اجازت دی جائے گی جو حدیبیہ کی مہم پر آپ کے ساتھ گئے تھے اور بیعت رضوان میں شریک ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے خیبر کے اموال غنیمت ان ہی کے لیے مخصوص فرما دیے تھے جیسا کہ آگے آیت ۱۸ میں بصراحت ارشاد ہوا ہے۔
۲۹ ۔ ’’ اللہ پہلے یہ فرما چکا ہے‘‘ کے الفاظ سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ اس آیت سے پہلے کوئی حکم اس مضمون کا آیا ہوا ہو گا جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے، اور چونکہ اس سورہ میں اس مضمون کا کوئی حکم اس آیت سے پہلے نہیں ملتا اس لیے انہوں نے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اسے تلاش کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ سورہ توبہ کی آیت ۸۴ انہیں مل گئی جس میں یہی مضمون ایک اور موقع پر ارشاد ہوا ہے۔ لیکن در حقیقت وہ آیت اس کی مصداق نہیں ہے، کیونکہ وہ غزوہ تبوک کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی جس کا زمانہ نزول سورہ فتح کے زمانہ نزول سے تین سال بعد کا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس آیت کا اشارہ خود اسی سورہ کی آیات ۱۸ ۔ ۱۹ کی طرف ہے ، اور اللہ کے پہلے فرما چکنے کا مطلب اس آیت سے پہلے فرمانا نہیں ہے بلکہ مخلَّفین کے ساتھ اس گفتگو سے پہلے فرمانا ہے۔ مخلَّفین کے ساتھ یہ گفتگو ، جس کے متعلق یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیشگی ہدایات دی جا رہی ہیں، خیبر کی مہم پر جانے کے وقت ہونے والی تھی ، اور یہ پوری سورۃ ، جس میں آیات ۱۸ ۔ ۱۹ بھی شامل ہیں، اس سے تین مہینے پہلے حدیبیہ سے پلٹتے وقت راستے میں نازل ہو چکی تھیں ۔ سلسلہ کلام کو غور سےدیکھیے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہاں اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو یہ ہدایت دے رہا ہے کہ جب تمہارے مدینہ واپس ہونے کے بعد یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ آ کر تم سے یہ عذرات بیان کریں تو ان کو یہ جواب دینا، اور خیبر کی مہم پر جاتے وقت جب وہ تمہارے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کریں تو ان سے یہ کہنا۔
۳۰ ۔ اصل الفاظ ہیں اَوْیُسْلِمُوْنَ ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اسلام قبول کر لیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کر لیں۔
۳۱ ۔ یعنی جس آدمی کے لیے شریک جہاد ہونے میں واقعی کوئی صحیح عذر مانع ہو اس پر تو کوئی گرفت نہیں، مگر ہٹے کٹے لوگ اگر بہانے بنا کر بیٹھ رہیں تو ان کو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ کیں مخلص نہیں مانا جا سکتا اور انہیں یہ موقع نہیں دیا جا سکتا کہ مسلم معاشرے میں شامل ہونے کے فوائد تو سمیٹتے رہیں ، مگر جب اسلام کے لیے قربانیاں دینے کو وقت آئے تو اپنی جان و مال کی خیر منائیں۔
اس مقام پر یہ بات جان لینی چاہیے کہ شریعت میں جن لوگوں کو شریک جہاد ہونے سے معاف رکھا گیا ہے وہ دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو جسمانی طور پر جنگ کے قابل نہ ہوں، مثلاً کم سن لڑکے، عورتیں، مجنون، اندھے ، ایسے مریض جو جنگی خدمات انجام نہ دے سکتے ہوں ، اور ایسے معذور جو ہاتھ یا پاؤں بیکار ہونے کی وجہ سےجنگ میں حصہ نہ لے سکیں ۔ دوسرے وہ لوگ جن کے لیے کچھ اور معقول اسباب سے شامل جہاد ہونا مشکل ہو، مثلاً غلام، یا وہ لوگ جو لڑنے کے لیے تو تیار ہوں مگر ان کے لیے آلات جنگ اور دوسرے ضروری وسائل فراہم نہ ہوسکیں، یا ایسے قرض دار جنہیں جلدی سے جلدی اپنا قرض ادا کرنا ہو اور قرض خواہ انہیں مہلت نہ دے رہا ہو، یا ایسے لوگ جن کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو اور وہ اس کا محتاج ہو کہ اولاد اس کی خبر گیری کرے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ والدین اگر مسلمان ہوں تو اولاد کو ان کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہ جانا چاہیے، لیکن اگر وہ کافر ہوں تو ان کے روکنے سے کسی شخص کا رک جانا جائز نہیں ہے۔
ترجمہ
اللہ مومنوں سے خوش ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے(۳۲)۔ ان کے دلوں کا حال اس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی(۳۳)، ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی، اور بہت سامال غنیمت انہیں عطا کر دیا جسے وہ (عنقریب) حاصل کریں گے(۳۴)۔ اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ اللہ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے(۳۵)۔ فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی(۳۶) اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے(۳۷)، تا کہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے(۳۸) اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے(۳۹)۔ اس کے علاوہ دوسرے اور غنیمتوں کا بھی وہ تم سے وعدہ کرتا ہے جن پر تم ابھی تک قادر نہیں ہوئے ہو اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے(۴۰)، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
یہ کافر لوگ اگر اس وقت تم سے لڑ گئے ہوتے تو یقیناً پھیر جاتے اور کوئی حامی و مدد گار نہ پاتے(۴۱)۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے(۴۲) اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے ۔ وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے، حالانکہ وہ ان پر تمہیں غلبہ عطا کر چکا تھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔ وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور ہدی کے اونٹوں کو ان کی قربانی کی جگہ نہ پہنچنے دیا(۴۳)۔ اگر (مکہ میں ) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے،اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا(تو جنگ نہ روکی جاتی۔ روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے ۔ وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو (اہل مکہ میں سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے (۴۴)۔ (یہی وجہ ہے کہ ) جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلانہ حمیت بٹھا لی(۴۵) تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر سکینت نازل فرمائی(۴۶) اور مومنوں کو تقویٰ کی بات کا پابند رکھا کہ وہی اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ع
تفسیر
۳۲ ۔ یہاں پھر اسی بیعت کا ذکر ہے جو حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام سے لی گئی تھی۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خوش خبری سنائی ہے کہ وہ ان لوگوں سے راضی ہو گیا جنہوں نے اس خطرناک موقع پر جان کی بازی لگا دینے میں ذرہ برابر تامل نہ کیا اور رسولؐ کے ہاتھ پر سرفروشی کی بیعت کر کے اپنے صادق الایمان ہونے کا صریح ثبوت پیش کر دیا ۔ وقت وہ تھا کہ مسلمان صرف ایک ایک تلوار لیے ہوئے آئے تھے۔ صرف چودہ سو کی تعداد میں تھے۔ جنگی لباس میں بھی نہ تھے بلکہ احرام کی چادریں باندھے ہوئے تھے۔ اپنے جنگی مستقر(مدینہ) سے ڈھائی سو میل دور تھے ، اور دشمن کا گڑھ ، جہاں سے وہ ہر قسم کی مدد لا سکتا تھا، صرف ۱۳ میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ اگر اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لیے ان لوگوں کے اندر خلوص کی کچھ بھی کمی ہوتی تو وہ اس انتہائی خطرناک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ چھوڑ جاتے اور اسلام کی بازی ہمیشہ کے لیے ہر جاتی ۔ ان کے اپنے اخلاص کے سوا کوئی خارجی دباؤ ایسا نہ تھا جس کی بنا پر وہ اس بیعت کے لیے مجبور ہوتے ۔ ان کا اس وقت خدا کے دین کے لیے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ اپنے ایمان میں صادق و مخلص اور خدا اور رسولؐ کی وفاداری میں درجہ کمال پر فائز تھے ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سند خوشنودی عطا فرمائی ۔ اور اللہ کی سند خوشنودی عطا ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو، یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس ما معاوضہ ان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔ اس پر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس وقت اللہ نے ان حضرات کو یہ خوشنودی کی سند عطا کی تھی اس وقت تو یہ مخلص تھے مگر بعد میں یہ خدا اور رسول کے بے وفا ہو گئے، وہ شاید اللہ سے یہ بد گمانی رکھتے ہیں کہ اسے یہ آیت نازل کرتے وقت ان کے مستقبل کی خبر نہ تھی، اس لیے محض اس وقت کی حالت دیکھ اس نے یہ پروانہ انہیں عطا کر دیا ، اور غالباً اسی بے خبری کی بنا پر اسے اپنی کتاب پاک میں بھی درج فرما دیا تاکہ بعد میں بھی، جب یہ لوگ بے وفا ہو جائیں ، ان کے بارے میں دنیا یہ آیت پڑھتی رہے اور اس خدا کے علم غیب کی داد دیتی رہے جس نے معاذاللہ ان بیوفاؤں کو یہ پروانہ خوشنودی عطا کیا تھا۔
جس درخت کے نیچے یہ بیعت ہوئی تھی اس کے متعلق حضرت نافع مولیٰ بن عمر کی یہ روایت عام طور پر مشہور ہو گئی ہے کہ لوگ اس کے پاس جا جا کر نمازیں پڑھنے لگے تھے، حضرت عمرؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے لوگوں کو ڈانٹا اور اس درخت کو کٹوا دیا (طبقات ابن سعد ، ج ۲، ص ۱۰۰ )۔ لیکن متعدد روایات اس کے خلاف بھی ہیں ۔ ایک روایت خود حضرت نافع ہی سے طبقات ابن سعد میں یہ منقول ہوئی ہے کہ بیعت رضوان کے کئی سال بعد صحابہ کرام نے اس درخت کو تلاش کیا مگر اسے پہچان نہ سکے اور اس امر میں اختلاف ہو گیا کہ وہ درخت کونسا تھا( ص ۱۰۵)۔ دوسری روایت بخاری و مسلم اور طبقات ابن سعد میں حضرت سعید بن المسیب کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے والد بیعت رضوان میں شریک تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ دوسرے سال جب ہم لوگ عمرۃالقضاء کے لیے گئے تو ہم اس درخت کو بھول چکے تھے، تلاش کرنے پر بھی ہم اسے نہ پا سکے ۔ تیسری روایت ابن جریر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اپنے عہد خلافت میں جب حدیبیہ کے مقام سے گزرے تو انہوں نے دریافت کیا کہ وہ درخت کہاں ہے جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی۔ کسی نے کہا فلاں درخت ہے اور کسی نے کہا فلاں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا، چھوڑو، اس تکلف کی کیا حاجت ہے۔
۳۳ ۔ یہاں سکنیت سے مراد دل کی وہ کیفیت ہے جس کی بنا پر ایک شخص کسی مقصد عظیم کے لیے ٹھنڈے دل سے پورے سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو خطرے کے منہ میں جھونک دیتا ہے اور کسی خوف یا گھبراہٹ کے بغیر فیصلہ کر لیتا ہے کہ یہ کام بہر حال کرنے کا ہے خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔
۳۴ ۔ یہ اشارہ ہے خیبر کی فتح اور اس کے اموال غنیمت کی طرف ۔ اور یہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ انعام صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص فرما دیا تھا جو بیعت رضوان میں شریک تھے، ان کے سوا کسی کو اس فتح اور ان غنائم میں شریک ہونے کا حق نہ تھا۔ اسی بنا پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صفر ۷ھ میں خیبر پر چڑھائی کرنے کے لیے نکلے تو آپ نے صرف ان ہی کو اپنے ساتھ لیا۔ اس میں شک نہیں کہ بعد میں حضورؐ نے حبش سے واپس آنے والے مہاجرین اور بعض ڈوسی اور اشعری صحابیوں کو بھی اموال خیبر میں سے کچھ حصہ عطا فرمایا، مگر وہ یا تو خمس میں سے تھا، یا اصحاب رضوان کی رضا مندی سے دیا گیا ۔ کسی کو حق کے طور پر اس مال میں حصہ دار نہیں بنایا گیا۔
۳۵ ۔ اس سے مراد وہ دوسری فتوحات ہیں جو خیبر کے بعد مسلمانوں کو مسلسل حاصل ہوتی چلی گئیں ۔
۳۶ ۔ اس سے مراد ہے صلح حدیبیہ جس کو سورۃ کے آغاز میں فتح مبین قرار دیا گیا ہے۔
۳۷ ۔ یعنی کفار قریش کو یہ ہمت اس نے نہ دی کہ وہ حدیبیہ کے مقام پر تم سے لڑ جاتے ، حالانکہ تمام ظاہری حالات کے لحاظ سے وہ بہت زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے، اور جنگی نقطہ نظر سے تمہارا پلہ ان کے مقابلہ میں بہت کمزور نظر آتا تھا۔ مزید براں اس سے مراد یہ بھی ہے کہ کسی دشمن طاقت کو اس زمانے میں مدینے پر بھی حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوئی ، حالانکہ چودہ سو مردانِ جنگی کے نکل جانے کے بعد مدینے کا محاذ بہت کمزور ہو گیا تھا اور یہود و مشرکین اور منافقین اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔
۳۸ ۔ نشانی اس بات کی کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ثابت قدم رہتا ہے اور اللہ کے بھروسے پر حق اور راستی کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسے اللہ کس کس طرح اپنی تائید و نصرت سے نوازتا ہے۔
۳۹ ۔ یعنی تمہیں مزید بصیرت اور یقین حاصل ہو، اور آئندہ تم اسی طرح اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہو اور اللہ کے اعتماد پر راہ حق میں پیش قدمی کرتے چلے جاؤ، اور یہ تجربات تمہیں یہ سبق سکھا دیں کہ خدا کا دین جس اقدام کا تقاضا کر رہا ہو، مومن کا کام یہ ہے کہ خدا کے بھروسے پر وہ اقدام کر ڈالے، اس حیص بیص میں لگ جائے کہ میری طاقت کتنی ہے اور باطل کی طاقتوں کا زور کتنا ہے۔
۴۰ ۔ اغلب یہ ہے کہ یہ اشارہ فتح مکہ کی طرف ہے۔ یہی رائے قتادہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر نے ترجیح دی ہے۔ ارشاد الٰہی کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تو مکہ تمہارے قابو میں نہیں آیا ہے مگر اللہ نے اسے گھیرے میں لے لیا ہے اور حدیبیہ کی اس فتح کے نتیجے میں وہ بھی تمہارے قبضے میں آ جائے گا۔
۴۱ ۔ یعنی حدیبیہ میں جنگ کو اللہ نے اس لیے نہیں روکا کہ وہاں تمہارے شکست کھا جانے کا امکان تھا، بلکہ اس کی مصلحت کچھ دوسری تھی جسے آگے کی آیتوں میں بیان کیا جا رہا ہے ۔ اگر وہ مصلحت مانع نہ ہوتی، اور اللہ تعالیٰ اس مقام پر جنگ ہو جانے دیتا تو یقیناً کفار ہی کو شکست ہوتی اور مکہ معظمہ اسی وقت فتح ہو جاتا۔
۴۲ ۔ اس جگہ اللہ کی سنت سے مراد یہ ہے کہ جو کفار اللہ کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اللہ ان کو ذلیل و خوار کرتا ہے۔ اور اپنے رسول کی مدد فرماتا ہے۔
۴۳ ۔ یعنی جس خلوص اور بے نفسی کےساتھ تم لوگ دین حق کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے پر آمادہ ہو گئے تھے اور جس طرح بے چون و چرا رسول کی اطاعت کر رہے تھے، اللہ اسے بھی دیکھ رہا تھا، اور یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ کفار سراسر زیادتی کر رہے ہیں ۔ اس صورت حال کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہیں اور اسی وقت تمہارے ہاتھوں سے ان کی سرکوبی کرا دی جاتی ۔ لیکن اس کے باوجود ایک مصلحت تھی جس کی بنا پر اللہ نے تمہارے ہاتھ ان سے اور ان کے ہاتھ تم سے روک دیے۔
۴۴ ۔ یہ تھی وہ مصلحت جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ میں جنگ نہ ہوتے دی۔ اس مصلحت کے دو پہلو ہیں ۔ ایک یہ کہ مکہ معظمہ میں اس وقت بہت سے مسلمان مردو زن ایسے موجود تھے جنہوں نے یا تو اپنا ایمان چھپا رکھا تھا ، یا جن کا ایمان معلوم تھا، مگر وہ اپنی بے بسی کی وجہ سے ہجرت نہ کر سکتے تھے اور ظلم و ستم کے شکار ہو رہے تھے۔ اس حالت میں اگر جنگ ہوتی اور مسلمان کفار کو رگیدتے ہوئے مکہ معظمہ میں داخل ہوتے تو کفار کے ساتھ ساتھ یہ مسلمان بھی نادانستگی میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے جاتے جس سے مسلمانوں کو اپنی جگہ بھی رنج و افسوس ہوتا اور مشرکین عرب کو بھی یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ لوگ تو لڑائی میں خود اپنے دینی بھائیوں کو بھی مارنے سے نہیں چوکتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان بے بس مسلمانوں پر رحم کھا کر، اور صحابہ کرام کو رنج اور بد نامی سے بچانے کی خاطر اس موقع پر جنگ کو ٹال دیا ۔ دوسرا پہلو اس مصلحت کا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ قریش کو ایک خونریز جنگ میں شکست دلوا کر مکہ فتح کرانا نہ چاہتا تھا بلکہ اس کے پیش نظر یہ تھا کہ دو سال کے اندر ان کو ہر طرف سے گھیر کر اس طرح بے بس کر دے کہ وہ کیسی مزاحمت کے بغیر مغلوب ہو جائیں، اور پھر پورا کا پورا قبیلہ اسلام قبول کر کے اللہ کی رحمت میں داخل ہو جاتے ، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر ہوا۔
اس مقام پر یہ فقہی بحث پیدا ہوتی ہے کہ اگر ہماری اور کافروں کی جنگ ہو رہی ہو اور کافروں کے قبضے میں کچھ مسلمان مرد ، عورتیں ، بچے اور بوڑھے ہوں جنہیں وہ ڈھال بنا کر سامنے لے آئیں ، یا کافروں کے جس شہر پر ہم چڑھائی کر رہے ہوں وہاں مسلمان آبادی بھی موجود ہو، یا کافروں کا کوئی جنگی جہاز ہماری زد میں ہو اور اس کے اندر کافروں نے کچھ مسلمانوں کو بھی رکھ چھوڑا ہو، تو کیا ایسی صورت میں ہم ان پر گولہ باری کرسکتے ہیں؟ اس کے جواب میں مختلف فقہاء نے جو فیصلے دیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
امام مالکؒ کہاتے ہیں کہاس حالت میں گولہ باری نہیں کرنی چاہیے، اور اس کے لیے وہ اسی آیت کو دلیل قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بچانے کے لیے ہی تو حدیبیہ میں جنگ کو روک دیا(احکام القرآن لا بن العربی)۔ لیکن فی الواقع یہ ایک کمزور دلیل ہے۔ آیت میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے کہ جس سے یہ بات نکلتی ہو کہ ایسی حالت میں حملہ کرنا حرام و ناجائز ہے، بلکہ زیادہ سے زیادہ اس سے جو بات نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ اس حالت میں مسلمانوں کو بچانے کے لیے حملہ سے اجتناب کیا جا سکتا ہے جب کہ اجتناب سے یہ خطرہ نہ کہ کفار کو مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہو جائے گا، یا ان پر ہمارے فتح یاب ہونے کے مواقع باقی نہ رہیں گے۔
امام ابو حنیفہؒ ، امام ابو یوسفؒ ، امام زُفَرؒ اور امام محمدؒ کہتے ہیں کہاں حالات میں گولہ باری کرنا بالکل جائز ہے، حتی کہ اگر کفار مسلمانوں کے بچوں کو ڈھال بنا کر سامنے لا کھڑا کریں تب بھی ان پر گولی چلانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور جو مسلمان اس حالت میں مارے جائیں ان کے خون کا کوئی کفارہ اور کوئی دِیَت مسلمانون پر واجب نہیں ہے۔ (احکام القرآن للجصاص کتاب السیرللامام محمد، باب قطع الماء عن اہل الحرب)۔
امام سفیان ثوری بھی اس حالت میں گولہ باری کو جائز رکھتے ہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ جو مسلمان اس حالت میں مارے جائیں ان کی دیت تو نہیں ، البتہ کفارہ مسلمانوں پر واجب ہے (احکام القرآن للجصاص)۔
امام اوزاعی اور لَیث بن سعد کہتے ہیں کہ اگر کفار مسلمانوں کو ڈھال بنا کر سامنے لے آئیں تو ان پر گولی نہیں چلانی چاہیے۔ اسی طرح اگر ہمیں معلوم ہو کہ ان کے جنگی جہاز میں خود ہمارے قیدی بھی موجود ہیں، تو اس حالت میں اس کو غرق نہ کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ہم ان کے کسی شہر پر حملہ کریں اور ہمیں معلوم ہو کہ اس شہر میں مسلمان بھی موجود ہیں تو اس پر گولہ اری کرنا جائز ہے، کیوں کہ یہ امر یقینی نہیں ہے کہ ہمارا گولہ مسلمانوں ہی پر جا کر گرے گا ، اور اگر کوئی مسلمان اس گولہ باری کا شکار ہو جائے تو یہ ہماری طرف سے بالقصد مسلمان کا قتل نہ ہو گا بلکہ نادانستگی میں ایک حادثہ ہو گا(احکام القرآن للجصاص)۔
امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس حالت میں گولہ باری کرنا نا گزیر نہ ہو تو مسلمانوں کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش کرنا بہتے ہے۔ اگرچہ اس صورت میں گولہ باری کرنا حرام نہیں مگر وہ ضرور ہے۔ لیکن اگر جی الواقع اس کی ضرورت ہو، اور اندیشہ ہو کہ اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو یہ کفار کے لیے جنگی حیثیت سے مفید اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہو گا تو پھر گولہ باری کرنا جائز ہے۔ مگر اس حالت میں بھی مسلمانوں کو بچانے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ مزید براں امام شافعی یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر معرکہ قتال میں کفار کسی مسلمان کو ڈھال بنا کر آگے کریں اور کوئی مسلمان اسے قتل کر دے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ قاتل معلوم تھا کہ یہ مسلمان ہے، اور دوسری صورت یہ کہ اسے معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہے۔ پہلی صورت میں دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں، اور دوسری صورت میں صرف کفارہ واجب ہے(مغنی المحتاج)۔
۴۵ ۔ جاہلانہ حمیت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص محض اپنی ناک کی خاطر یا اپنی بات کی پچ میں جان بوجھ کر ایک ناروا کام کرے ۔ کفار مکہ خود جانتے اور مانتے تھے کہ ہر شخص کو حج اور عمرے کے لیے بیت اللہ کی زیارت کا حق حاصل ہے، اور کسی کو اس مذہبی فریضے سے روکنے کا حق نہیں ہے۔ یہ عرب کا قدیم ترین مسلّم آئین تھا۔ لیکن اپنے آپ کو سراسر ناحق پر اور مسلمانوں کو بالکل بر سر حق جاننے کے باوجود انہوں نے محض اپنی ناک کی خاطر مسلمانوں کو عمرے سے روکا۔ خود مشرکین میں سے جو راستی پسند تھے وہ بھی یہ کہہ رہے تھے کہ جو لوگ احرام باندھ کر ہدی کے اونٹ ساتھ لیے ہوئے عمرہ کرنے آئے ہیں ان کو روکنا ایک بے جا حرکت ہے۔ مگر قریش کے سردار صرف اس خیال سے مزاحمت پر اڑے رہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم اتنی بڑی جمیعت کے ساتھ مکہ میں داخل ہو گئے تو تمام عرب میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔ یہی ان کی حمیت جاہلیہ تھی۔
۴۶ ۔ یہاں سکینت سے مراد ہے صبر اور وقار جس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں نے کفار قریش کی اس جاہلانہ حمیت کا مقابلہ کیا ۔ وہ ان کی اس ہٹ دھرمی اور صریح زیادتی پر مشتعل ہو کر آپے سے باہر نہ ہوئے، اور ان کے جواب میں کوئی بات انہوں نےایسی نہ کی جو حق سے متجاوز اور راستی کے خلاف ہو، یا جس سے معاملہ بخیر و خوبی سلجھنے کے بجائے اور زیادہ بگڑ جائے۔
ترجمہ
فی الواقع اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھا یا تھا جو ٹھیک ٹھیک حق کے (۴۷)مطابق تھا۔ (۴۸)ان شاء اللہ تم ضرور مسجد حرام میں پورے امن کے ساتھ داخل ہو گے(۴۹) ، اپنے سر منڈواؤ گے اور بال ترشواؤ گے(۴۰)، اور تمہیں کوئی خوف نہ ہو گا۔ وہ اس بات کو جانتا تھا جسے تم نہ جانتے تھے اس لیے وہ خواب پورا ہونے سے پہلے اس نے یہ قریبی فتح تم کو عطا فرما دی۔
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے(۵۱)۔ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت (۵۲) اور آپس میں رحیم ہیں (۵۳)۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود ، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے ۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں (۵۴)۔ یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں (۵۵)۔ اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی (۵۶) ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی ، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی ،پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں ۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا(۵۷)ہے ۔ ع
تفسیر
۴۷ ۔ یہ اس سوال کا جواب ہے جو بار بار مسلمانوں کے دلوں میں کھٹک رہا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب تو یہ دیکھا تھا کہ آپ مسجد حرام میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کیا ہے، پھر یہ کیا ہوا کہ ہم عمرہ کیے بغیر واپس جا رہے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرما دیا تھا کہ خواب میں اسی سال عمرہ ہونے کی تصریح تو نہ تھی، مگر اس کے باوجود ابھی تک کچھ نہ کچھ خلش دلوں میں باقی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود یہ وضاحت فرمائی کہ وہ خواب ہم نے دکھایا تھا، اور وہ بالکل سچا تھا ، اور وہ یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔
۴۸ ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے وعدے کے ساتھ ’’ ان شاء اللہ‘‘ کے الفاظ جو استعمال فرمائے ہیں، اس پر ایک معترض یہ سوال کرسکتا ہے کہ جب یہ وعدہ اللہ تعالیٰ خود ہی فرما رہا ہے تو اس کو اللہ کے چاہنے سے مشروط کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ الفاظ اس معنی میں استعمال نہیں ہوئے ہیں کہ اگر اللہ نہ چاہے گا تو اپنا یہ وعدہ پورا نہ کرے گا ۔ بلکہ در اصل ان کا تعلق اس پس منظر سے ہے جس میں یہ وعدہ فرمایا گیا ہے۔ کہ کفار مکہ نے جس زعم کی بنا پر مسلمانوں کو عمرے سے روکنے کا یہ سارا کھیل کھیلا تھا وہ یہ تھا کہ جس کو ہم عمرہ کرنے دینا چاہیں گے وہ عمرہ کر سکے گا، اور جب ہم اسے کرنے دیں گے اسی وقت وہ کر سکے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ان کی مشیت پر نہیں بلکہ ہماری مشیت پر موقوف ہے۔ اس سال عمرے کا نہ ہو سکنا اس لیے نہیں ہوا کہ کفار مکہ نے یہ چاہا تھا کہ وہ نہ ہو، بلکہ یہ اس لیے ہوا کہ ہم نے اس کے نہ ہونے دینا چاہا تھا ۔ اور آئندہ یہ عمرہ اگر ہم چاہیں گے تو ہو گا خواہ کفار چاہیں یا نہ چاہیں۔ اس کے ساتھ ان الفاظ میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ مسلمان بھی جو عمرہ کریں گے تو اپنے زور سے نہیں کریں گے بلکہ اس بنا پر کریں گے کہ ہماری مشیت یہ ہو گی کہ وہ عمرہ کریں۔ ورنہ ہماری مشیت اگر اس کے خلاف ہو تو ان کا یہ بل ہوتا نہیں ہے کہ خود عمرہ کر ڈالیں۔
۴۹ ۔ یہ وعدہ اگلے سال ذی القعدہ ۷ھ میں پورا ہوا ۔ تاریخ میں یہ عمرہ ’’عمرۃ القضاء’‘ کے نام سے مشہور ہے۔
۵۰ ۔ یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عمرے اور حج میں سر منڈوانا لازم نہیں ہے بلکہ بال ترشوانا بھی جائز ہے۔ البتہ مر منڈوانا افضل ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پہلے بیان فرمایا ہے او بال ترشوانے کا ذکر بعد میں کیا ہے۔
۵۱ ۔ اس مقام پر یہ بات ارشاد فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ حدیبیہ میں جب معاہدہ صلح لکھا جانے لگا تھا اس وقت کفار مکہ نے حضور کے اسم گرامی کے ساتھ رسول اللہ کے الفاظ لکھنے پر اعتراض کیا تھا اور ان کے اصرار پر حضورؐ نے خود معاہدے کی تحریر میں سے یہ الفاظ مٹا دیے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہمارے رسول کا رسول ہونا تو ایک حقیقت ہے جس میں کسی کے ماننے یا نہ ماننےسے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اس کو اگر کچھ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ اس کے حقیقت ہونے پر صرف ہماری شہادت کافی ہے۔ ان کے انکار کردینےسے یہ حقیقت بدل نہیں جائے گی، بلکہ ان کے علی الرَّغم اس ہدایت اور س دین حق کو پوری جنس دین پر غلبہ حاصل ہو کر رہے گا جسےلے کر یہ رسول ہماری طرف سے آیا ہے، خواہ یہ منکرین سے روکنے کے لیے کتنا ہی زور مار کر دیکھ لیں۔
’’پوری جنس دین‘‘سے مراد زندگی کے وہ تمام نظام ہیں جو ’’ دین‘‘ کی نوعیت رکھتے ہیں۔ اس کی مفصل تشریح ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن، جلد چہارم ، تفسیر سورہ زمر، حاشیہ ۳، اور تفسیر سورہ شوریٰ حاشیہ ۲۰ میں کر چکے ہیں ۔ یہاں جو بات اللہ تعلایٰ نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کا مقصد محض اس دین کی تبلیغ نہ تھا بلکہ اسے دین کی نوعیت رکنے والے تمام نظامات زندگی پر غالب کر دینا تھا۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ دین اس لیے نہیں لائے تھے کہ زندگی کے سارےشعبوں پر غلبہ تو ہو کسی دین باطل کا اور اس کی قہر مانی کے تحت یہ دین ان حدود کے اندر سکڑ کر رہے جن میں دین غالب اسے جینے کی اجازت دے دے۔ بلکہ اسے آپ اسلیے لائے تھے کہ زندگی کا غالب دین یہ ہو اور دوسرا کوئی دین اگر جیے بھی تو ان حدود کے اندر جیے جن میں یہ اسے جینے کی اجازت دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القران، جلد چہارم، تفسیر سورہ زمر، حاشیہ۴۸)۔
۵۲ ۔ اصل الفاظ میں اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّار، ۔ عربی زبان میں کہتے ہیں فُلانٌ شَدِیْدٌ عَلَیْہِ، فلاں شخص اس پر شدید ہے، یعنی اس کو رام کرنا اور اپنے مطلب پر لانا اس کے لیے مشکل ہے۔ کفار پر اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سخت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ساتھ درشتی اور تند خوئی سے پیش آتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی پختگی، اصول کی مضبوطی، سیرت کی طاقت، اور ایمانی فراست کی وجہ سے کفار کے مقابلے میں پتھر کی چٹان کا حکم رکھتے ہیں۔ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انہیں کافر جدھر چاہیں موڑ دیں۔ وہ نرم نہیں ہیں کہ کافر انہیں آسانی کے ساتھ چبا جائیں۔ انہیں کسی خوف سے دبا یا نہیں جا سکتا ۔ انہیں کسی ترغیب سے خریدا نہیں جا سکتا۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انہیںاس مقصد عظیم سے ہٹ دیں جس کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں۔
۵۳ ۔ یعنی ان کی سکٹی جو کچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں ہے۔ اہل ایمان کے مقابلے میں وہ نرم ہیں، رحیم و شفیق ہیں، ہمدرد و غمگسار ہیں۔ اصول اور مقصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی و ساز گاری پیدا کر دی ہے۔
۵۴ ۔ اس سے مراد پیشانی کا وہ گٹہ نہیں ہے جو سجدے کرنے کی وجہ سے بعض نمازیوں کے چہرے پر پڑ جاتا ہے۔ بلکہ اس سےمراد خدا ترسی ، کریم النفسی، شرافت اور حسن اخلاق کے وہ آثار ہیں جو خدا کے آگے جھکنے کی وجہ سے فطرۃً آدمی کے چہرے پر نمایا ں ہو جاتے ہیں۔ انسان کا چہرہ ایک کھلی کتاب ہوتا ہے جس کے صفحات پر آدمی کے نفس کی کیفیات بآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایک متکبر انسان کا چہرہ ایک متواضع اور منکسرالمزاج آدمی کے چہرے سےمختلف ہوتا ہے۔ ایک بد اخلاق آدمی کا چہرہ ایک نیک نفس اور خوش خلق آدمی کے چہرے سے الگ پہچانا جاتا ہے۔ ایک لفنگے اور بد کار آدمی کی صورت اور ایک شریف پاک باز آدمی کی سورت میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ساتھی تو ایسے ہیں کہ ان کو دیکھتے ہی ایک آدمی بیک نظر یہ معلوم کر سکتا ہے کہ یہ خیر الخلائق ہیں، کیونکہ خدا پرستی کا تور ان کے چہروں پر چمک رہا ہے ۔ یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ جب صحابہ کرام کی فوجیں شام کی سر زمین میں داخل ہوئیں تو شام کے عیسائی کہتے تھے کہ مسیح کے حواریوں کی جو شان ہم سنتے تھے یہ تو اسی شان کے لوگ نظر آتے ہیں۔
۵۵ ۔ غالباً یہ اشارہ کتاب استثناء، باب ۳۳ ، آیات ۲۔۳ کی ظرف ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد مبارک کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے صحابہ کے لیے’’ قدسیوں‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے سوا اگر صحابہ کرام کی کوئی صفت توراۃ میں بیان ہوئی تھی تو وہ اب موجود محرف توراۃ میں نہیں ملتی۔
۵۶۔ یہ تمثیل حضرت عیسیٰ علیہالسلام کے ایک وعظ میں بیان ہوئی ہے جسےبائیبل کے عہد نامہ جدید میں اس طرح نقل کیا گیا ہے۔
’’اور اس نے کہا خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسےکوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوئے اور ن کو جاگے اور وہ بیج اس طرح اگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے۔ زمین آپ سےآپ پھل لاتی ہے۔ پتی،پھر بالیں ، پھر بالوں میں تیار دانے، پھر جب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آ پہنچا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رائی کے دانے کے مانند ہے کہ جب زمین میں بویا جاتا ہےتو زمین کےسب بیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے۔ مگر جب بو دیا گیا تو اگ کر سب ترکاریوں سے بڑا ہو جاتا ہے اور ایسی بڑی ڈالیاں نکالتا ہے کہ ہوا کے پرندےاس کے سائے میں بسیر کرسکتےہیں۔‘‘ (مرقس،بابا۴، آیات ۲۶ تا ۳۲۔ اس وعظ کا آخری حصہ انجیل متی ، باب۱۳، آیات ۳۱۔۳۲ میں بھی ہے)۔
۵۷ ۔ ایک گروہ اس آیت میں مِنْھُمْ کی مِنْ کو تبعیض کے معنی میں لیتا ہے اور آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ ’’ان میںسےجو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اللہ نے ان سےمغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے‘‘۔ اس طرح یہ لوگ صحابہ پر طعن کا راستہ نکالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے صحابہ میں سے بہت سے لوگ مومن و صالح نہ تھے ۔ لیکن یہ تفسیر اسی سورۃ کی آیات ۴۔۵۔۱۸ اور ۲۶ کے خلاف پڑتی ہے، اور خود اس آیت کے ابتدائی فقروں سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔ آیات ۴۔۵۔ میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام صحابہ کے دلوں میں سکنیت نازل کیے جانے اور ان کے ایمان میں اضافہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے جو حدیبیہ میں حضور کے ساتھ تھے، اور بالا استثناء ان سب کو جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی ہے ۔ آیت ۱۸ میں اللہ تعالیٰ نے ان سب لوگوں کے حق میں اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے جنہوں نے درخت کے نیچے حضور سے بیعت کی تھی، اور اس میں بھی کوئی استثناء نہیں ہے۔ آیت ۲۶ میں بھی حضورؐ کے تمام ساتھیوں کے لیے مومنین کا لفظ استعمال کیا ہے، ان کے اوپر اپنی سکینت نازل کرنے کی خبر دی ہے، اور فرمایا ہے کہ یہ لوگ کلمہ تقویٰ کی پابندی کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل ہیں۔ یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے جو مومن ہیں صرف ان ہی کے حق میں یہ خبر دی جا رہی ہے۔ پھر خود اس آیت کے بھی ابتدائی فقروں میں جو تعریف بیان کی گی ہے وہ ان سب لوگوں کے لیے ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے۔ الفاظ یہ ہیں کہ جو لوگ بھی آپ کے ساتھ میں وہ ایسے اور ایسے ہیں۔ اس کے بعد یکایک آخری فقرے پر پہنچ کر یہ ارشاد فرمانے کا آخر کیا موقع ہو سکتا تھا کہ ان میں سےکچھ لوگ مومن و صالح تھے اور کچھ نہ تھے۔ اس لیے یہاں منْ کو تبعیض کے معنی میں لینا نظم کلام کے خلاف ہے۔ در حقیقت یہاں مِنْ بیان کےلیےہےجس طرح آیت فَاجْتَنِبُو ا الرِّجْسَ مِنَ الْاوثَانِ (بتوں کی گندگی سےبچو) میں مِنْ تبعیض کے لیے نہیں بلکہ لازماً بیان ہی کے لیے ہے، ورنہ آیت کے معنی یہ ہو جائیں گے کہ ’’ بتوں میں سےجا نا پاک ہیں ان سے پرہیز کرو، اور اس سےنتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ بت پاک بھی قرار پائیں گے جن کی پرستش سےپرہیز لازم نہ ہو گا۔
٭٭٭
(۴۹) سورہ الحُجُرٰتِ
نام
آیت ۴ کے فقرے ان الذین ینا دونک من ورآء الحجرات سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورت جس میں لفظ الحجرات آیا ہے۔
زمانۂ نزول
یہ بات روایات سے بھی معلوم ہوتی ہے اور سورت کے مضامین بھی اس کی تائید کرتے ہیں کہ یہ سورت مختلف مواقع پر نازل شدہ احکام و ہدایات کا مجموعہ ہے جنہیں مضمون کی مناسبت سے یکجا کر دیا گیا ہے۔ علاوہ بریں روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اکثر احکام مدینہ طیبہ کے آخری دور میں نازل ہوئے ہیں۔ مثلاً آیت ۴ کے متعلق مفسرین کا بیان ہے کہ یہ بنی تمیم کے بارے میں نازل ہوئی تھی جن کے وفد نے آ کر ازواج مطہرات کے حجروں کے باہر سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پکارنا شروع کر دیا تھا، اور تمام کتب سیرت میں اس وفد کی آمد کا زمانہ ۹ھ بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح آیت ۶ کے متعلق حدیث کی بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنی المصطلق سے زکوٰۃ وصول کر کے لانے کے لیے بھیجا تھا اور یہ بات معلوم ہے کہ ولید بن عقبہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔
موضوع و مباحث
اس سورت کا موضوع مسلمانوں کو ان آداب کی تعلیم دینا ہے جو اہل ایمان کے شایان شان ہیں۔ ابتدائی پانچ آیتوں میں ان کو وہ ادب سکھایا گیا ہے جو انہیں اللہ اور اس کے رسول کے معاملے میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ پھر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہر خبر پر یقین کر لینا اور اس پر کوئی کارروائی کر گزرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی اطلاع ملے تو غور سے دیکھنا چاہیے کہ خبر ملنے کا ذریعہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ قابل اعتماد نہ ہو تو اس پر کارروائی کرنے سے پہلے تحقیق کر لینا چاہیے کہ خبر صحیح ہے یا نہیں۔ اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ اگر کسی وقت مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ پھر مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، ایک دوسرے پر طعن کرنا، ایک دوسرے کے برے برے نام رکھنا، بد گمانیاں کرنا، دوسرے کے حالات کی کھوج کرید کرنا، لوگوں کو پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرنا، یہ وہ افعال ہیں جو بجائے خود بھی گناہ ہیں اور معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نام بنام ان کا ذکر فرما کر انہیں حرام قرار دے دیا ہے۔ اس کے بعد قومی اور نسلی امتیازات پر ضرب لگائی گئی ہے جو دنیا میں عالمگیر فسادات کے موجب ہوتے ہیں۔ قوموں اور قبیلوں اور خاندانوں کا اپنے شرف پر فخر و غرور، اور دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا، اور اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے دوسروں کو گرانا، ان اہم اسباب میں سے ہے جن کی بدولت دنیا ظلم سے بھر گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سی آیت فرما کر اس برائی کی جڑ کاٹ دی ہے کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے پیدا ہوئے ہیں اور قوموں اور قبیلوں میں ان کا تقسیم ہونا تعارف کے لیے ہے نہ کہ تفاخر کے لیے، اور ایک انسان پر دوسرے انسان کی فوقیت کے لیے اخلاقی فضیلت کے سوا اور کوئی جائز بنیاد نہیں ہے۔ آخر میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اصل چیز ایمان کا زبانی دعویٰ نہیں ہے بلکہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول کو ماننا، عملاً فرمانبردار بن کر رہنا، اور خلوص کے ساتھ اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کھپا دینا ہے۔ حقیقی مومن وہی ہیں جو یہ روش اختیار کرتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو دل کی تصدیق کے بغیر محض زبان سے اسلام کا اقرار کرتے ہیں اور پھر ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ گویا اسلام قبول کر کے انہوں نے کوئی احسان کیا ہے، تو دنیا میں ان کا شمار مسلمانوں میں ہو سکتا ہے، معاشرے میں ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اللہ کے ہاں وہ مومن قرار نہیں پا سکتے۔
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو(۱) اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے (۲)۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو(۳)، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو(۴)۔ جو لوگ رسول خدا کے حضور بت کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ در حقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے (۵)، ان کے لیے مغفرت ہے اور اجر عظیم۔
اے نبی، جو لوگ تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ اگر وہ تمہارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو نہیں کے لیے بہتر تھا(۶)، اللہ در گزر کرنے والا اور رحیم ہے (۷)۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نا دانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو(۸)۔ خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے۔ اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں مبتلا ہو جاؤ(۹)۔ مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کے تمہارے لیے دل پسند بنا دیا، اور کفر و فسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کر دیا۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں(۱۰) اور اللہ علیم و حکیم ہے (۱۱)۔
اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں(۱۲) تو ان کے درمیان صلح کراؤ(۱۳)۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو(۱۴) یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے (۱۵)۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو (۱۶)۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے (۱۷)۔ مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو (۱۸) اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ع
تفسیر
۱۔ یہ ایمان کا اولین اور بنیادی تقاضا ہے۔ جو شخص اللہ کو اپنا رب اور اللہ کے رسول کو اپنا ہادی و رہبر مانتا ہو، وہ اگر اپنے اس عقیدے میں سچا ہے تو اس کا یہ رویہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اپنی رائے اور خیال کو اللہ اور رسول کے فیصلے پر اقدام رکھے یا معاملات میں آزادانہ رائے قائم کرے اور ان کے فیصلے بطور خود کر ڈالے بغیر اس کے کہ اسے یہ معلوم کر نے کی فکر ہو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان معاملات میں کوئی ہدایت دی ہے یا نہیں اور دی ہے تو وہ کیا ہے۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے کہ اے لانے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے ’’ پیش قدمی نہ کرو‘‘، یعنی ان سے آگے بڑھ کر نہ چلو، پیچھے چلو۔ مقدم نہ بنو، تابع بن کر رہی۔ یہ ارشاد اپنے حکم میں سورہ احزاب کی آیت ۳۶ سے ایک قدم آگے ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے کر دیا ہو اس کے بارے میں کسی مومن کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو اپنے معاملات میں پیشقدمی کر کے بطور خود فیصلے نہیں کر لینے چاہئیں بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں ان کے متعلق کیا ہدایات ملتی ہیں۔
یہ حکم مسلمانوں کے محض انفرادی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے جملہ اجتماعی معاملات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ در حقیقت یہ اسلامی آئین کی بنیادی دفعہ ہے جس کی پابندی سے نہ مسلمانوں کی حکومت آزاد ہو سکتی ہے، نہ ان کی عدالت اور نہ پارلیمنٹ۔ مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم عدالت بنا کر بھیج رہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم ’’کس چیز کے مطابق فیصلے کرو گے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’ کتاب اللہ کے مطابق‘‘۔ آپؐ پوچھا ’’ اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے کا حکم نہ ملے تو کس چیز کی طرف رجوع کرو گے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ سنت رسول اللہ کیا طرف ’’ آپ نے فرمایا ’’ اگر اس میں بھی کچھ نہ ملے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’پھر میں خود اجتہاد کروں گا‘‘۔ اس پر حضورؐ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ’’شکر ہے اس خدا کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق بخشی جو اس کے رسول کو پسند ہے ‘‘۔ یہ اپنے اجتہاد پر کتاب اللہ و سنت رسول کو مقدم رکھنا اور ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کی طرف رجوع کرنا ہی وہ چیز ہے جو ایک مسلمان جج اور ایک غیر مسلم جج کے درمیان وجہ امتیاز ہے۔ اسی طرح قانون سازی کے معاملہ میں یہ بات قطعی طور پر متفق علیہ ہے کہ اولین ماخذ قانون خدا کی کتاب ہے اور اس کے بعد رسول اللہ علیہ و سلم کی سنت۔ پوری امت کا اجماع تک ان دونوں کے خلاف یا ان سے آزاد نہیں ہو سکتا کجا افراد امت کا قیاس و اجتہاد۔
۲۔ یعنی اگر کبھی تم نے اللہ کے رسول سے بے نیاز ہو کر خود مختاری کو روش اختیار کی یا اپنی رائے اور خیال کو ان کے حکم پر مقدم رکھا تو جان رکھو کہ تمہارا سابقہ اس خدا سے ہے جو تمہاری سب باتیں سن رہا ہے اور تمہاری نیتوں تک سے واقف ہے۔
۳۔ یہ وہ ادب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں بیٹھنے والوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے والوں کو سکھایا گیا تھا۔ اس کا منشا یہ تھا کہ حضورؐ کے ساتھ ملاقات اور بات چیت میں اہل ایمان آپ کا انتہائی احترام ملحوظ رکھیں۔ کسی شخص کی آواز آپ کی آواز سے بلند تر نہ ہو۔ آپ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کسی عام آدمی یا اپنے برابر والے سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول سے مخاطب ہیں۔ اس لیے عام آدمیوں کے ساتھ گفتگو اور آپ کے ساتھ گفتگو میں نمایا فرق ہونا چاہیے اور کسی کو آپ سے اونچی آواز میں کلام نہ کرنا چاہیے۔
یہ ادب اگر چہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضورؐ کے زمانے میں موجود تھے، مگر بعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپ کا ذکر ہو رہا ہو، یا آپ کا کوئی حکم سنایا جائے، یا آپ کی احادیث بین کی جائیں۔ اس کے علاوہ اس آیت سے یہ ایماء بھی نکلتا ہے کہ لوگوں کو اپنے بزرگ تر اشخاص کے ساتھ گفتگو میں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ کسی شخص کا اپنے بزرگوں کے سامنے اس طرح بولنا جس طرح وہ اپنے دوستوں یا عام آدمیوں کے سامنے بولتا ہے، در اصل اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں ان کے لیے کوئی احترام موجود نہیں ہے اور وہ ان میں اور عام آدمیوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔
۴۔ اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ذات رسولؐ کی عظمت کا کیا مقام ہے۔ رسول پاکؐ کے سوا کوئی شخص، خواہ بجائے خود کتنا ہی قابل احترام ہو، بہر حال یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کے ساتھ بے ادبی خدا کے ہاں اس سزا کی مستحق ہو جو حقیقت میں کفر کی سزا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک بد تمیزی ہے، خلاف تہذیب حرکت ہے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احترام میں ذرا سی کمی بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے آدمی کی عمر بھر کی کمائی غارت ہو سکتی ہے۔ اس لیے آپ کا احترام در اصل اس خدا کا احترام ہے جس نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپ کے احترام میں کمی کے معنی خدا کے احترام میں کمی کے ہیں۔
۵۔ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں میں پورے اترے ہیں اور ان آزمائشوں سے گزر کر جنہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے دلوں میں فی الواقع تقویٰ موجود ہے وہی لوگ اللہ کے رسول کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہیں۔ اس ارشاد سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ جو دل رسولؐ کے احترام سے خالی ہے وہ در حقیقت تقویٰ سے خالی ہے، اور رسول کے مقابلے میں کسی کی آواز کا بلند ہونا محض ایک ظاہری بد تہذیبی نہیں ہے۔ بلکہ باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے۔
۶۔ حضورؐ کے عہد مبارک میں جن لوگوں جے آپ کی صحبت میں رہ کر اسلامی آداب و تہذیب کی تربیت پائی تھی وہ تو آپ کے اوقات کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے۔ ان کو پورا احساس تھا کہ آپ اللہ کے کام میں کس قدر مصروف زندگی بسر فرماتے ہیں، اور ان تھکا دینے والی مصروفیتوں کے دوران میں لازماً کچھ وقت آپ کے آرام کے لیے اور کچھ وقت آپ کی اہم مشغولیتوں کے لیے اور کچھ وقت اپنی خانگی زندگی کے معاملات کی طرف توجہ کرنے کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ اس لیے وہ آپ سے ملاقات کے لیے اسی وقت حاضر ہوتے تھے جب آپ باہر تشریف فرما ہوں، اور اگر کبھی وہ آپ کو مجلس میں موجود نہ پاتے تو بیٹھ کر آپ کے برآمد ہونے کا انتظار کرتے تھے اور کسی شدید ضرورت کے بغیر آپ کو باہر تشریف لانے کی زحمت نہ دیتے تھے۔ لیکن عرب کے اس ماحول میں، جہاں عام طور پر لوگوں کو کسی شائستگی کی تربیت نہ ملی تھی، بار ہا ایسے اَن گھڑ لوگ بھی آپ سے ملاقات کے لیے آ جاتے تھے جن کا تصور یہ تھا کہ دعوت الیٰ اللہ اور اصلاح خلق کا کام کرنے والے کو کسی وقت بھی آرام لینے کا حق نہیں ہے، اور انہیں حق ہے کہ رات دن میں جب چاہیں اس کے پاس آ دھمکیں اور اس کا فرض ہے کہ جب بھی وہ آ جائیں وہ ان سے ملنے کے لیے مستعد رہے۔ اس قماش کے لوگوں میں عموماً اور اطراف عرب سے آنے والوں میں خصوصاً بعض ایسے ناشائستہ لوگ بھی ہوتے تھے جو آپ سے ملاقات کے لیے آتے تو کسی خادم سے اندر اطلاع کرانے کی زحمت بھی نہ اٹھاتے تھے بلکہ ازواج مطہرات کے حجروں کا چکر کاٹ کر باہر ہی سے آپؐ کو پکارتے پھرتے تھے۔ اس طرح کے متعدد واقعات احادیث میں صحابہ کرام نے روایت کیے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لوگوں کی ان حرکات سے تکلیف ہوتی تھی مگر اپنے طبعی حلم کی وجہ سے آپ اسے برداشت کیے جا رہے تھے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں مداخلت فرمائی اور اس ناشائستہ طرز عمل پر ملامت کرتے ہوئے لوگوں کو یہ ہدایت دی کہ جب وہ آپ سے ملنے کے لیے آئیں اور آپ کو موجود نہ پائیں تو پکار پکار کر آپ کو بلانے کے بجائے صبر کے ساتھ بیٹھ کر اس وقت کا انتظار کریں جب آپ خود ان سے ملاقات کے لیے باہر تشریف لائیں۔
۷۔ یعنی اب تک جو کچھ ہوا سو ہوا، آئندہ اس غلطی کا اعادہ نہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ پچھلی غلطیوں سے در گزر فرمائے گا اور اپنے رحم و کرم کی بنا پر ان لوگوں سے کوئی مواخذہ نہ کرے گا جو اس کے رسول کو اس طرح اذیت دیتے رہے ہیں۔
۸۔ اکثر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ قبیلہ بنی المصطلِق جب مسلمان ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ولید بن عقبہ کو بھیجا تا کہ ان لوگوں سے زکوٰۃ وصول کر لائیں۔ یہ ان کے علاقے میں پہنچے تو کسی وجہ سے ڈر گئے اور اہل قبیلہ سے ملے بغیر مدینہ واپس جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے شکایت کر دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے اور وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے۔ حضور یہ خبر سن کر سخت ناراض ہوئے اور آپ نے ارادہ کیا کہ ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے ایک دستہ روانہ کریں بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نے وہ دستہ روانہ کر دیا تھا اور بعض میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ روانہ کرنے والے تھے۔ بہر حال اس بات پر سب متفق ہیں کہ بنی المصطلق کے سردار حارث بن ضرار (ام المومنین حضرت جویریہ کے والد) اس دوران میں خود ایک وفد لے کر حضور کی خدمت میں پہنچ گئے اور انہوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم ہم نے تو ولید کو دیکھا تک نہیں کجا کہ زکوٰۃ دینے سے انکار اور ان کے قتل کے ارادے کا کوئی سوال پیدا ہو، ہم ایمان پر قائم ہیں اور ادائے زکوٰۃ سے ہمیں ہر گز انکار نہیں ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ اس قصے کو امام احمد، ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس، حارث بن ضرار، مجاہد، قتادہ، عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ، یزید بن رومان، ضحاک اور مقاتل بن حیان سے نقل کیا ہے۔ حضرت ام سلمہ کی روایت میں یہ پورا قصہ بیان تو اسی طرح ہوا ہے مگر اس میں ولید کے نام کی تصریح نہیں ہے۔
اس نازک موقع پر جب کہ ایک بے بنیاد خبر پر اعتماد کر لینے کی وجہ سے ایک عظیم غلطی ہوتے ہوتے رہ گئی، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر، جس پر کوئی بڑا نتیجہ مترتب ہوتا ہو، تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے۔ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو، یعنی جس کا ظاہر حال ی بتا رہا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں ہے، تو اس کی دی ہوئی خبر پر عمل کرنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ امر واقعہ کیا ہے۔ اس حکم ربانی سے ایک اہم شرعی قاعدہ نکلتا ہے جس کا دائرہ اطلاق بہت وسیع ہے۔ اس کی رو سے مسلمانوں کی حکومت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی کاروائی ایسے مخبروں کی دی ہوئی خبروں کی بنا پر کر ڈالے جن کی سیرت بھروسے کے لائق نہ ہو۔ اسی قاعدے کی بنا پر محدثین نے علم حدیث میں جرح و تعدیل کا فن ایجاد کیا تاکہ ان لوگوں کے حالات کی تحقیق کریں جن کے ذریعہ سے بعد کی نسلوں کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث پہنچی تھیں، اور فقہاء نے قانون شہادت میں یہ اصول قائم کیا کہ کسی ایسے معاملہ میں جس سے کوئی شرعی حکم ثابت ہوتا ہو، یا کسی انسان پر کوئی حق عائد ہوتا ہو، فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ البتہ اس امر پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ عم دنیوی معاملات میں ہر خبر کی تحقیق اور خبر لانے والے کے لائق اعتماد ہونے کا اطمینان کرنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ آیت میں لفظ نَبَأ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ہر خبر پر نہیں ہوتا بلکہ اہمیت رکھنے والی خبر پر ہوتا ہے اس لیے فقہاء کہتے ہیں کہ عام معاملات میں یہ قاعدہ جاری نہیں ہوتا۔ مثلاً آپ کسی کے ہاں جاتے ہیں اور گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ اندر سے کوئی آ کر کہتا ہے کہ آ جاؤ۔ آپ اس کے کہنے پر اندر جا سکتے ہیں قطع نظر اس سے کہ صاحب خانہ کی طرف سے اِذن کی اطلاع دینے والا فاسق ہو یا صالح۔ اسی طرح اہل علم کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ جن لوگوں کا فسق جھوٹ اور بد کرداری کی نوعیت کا نہ ہو، بلکہ فساد عقیدہ کی بنا پر وہ فاسق قرار پاتے ہوں، ان کی شہادت بھی قبول کی جا سکتی ہے اور روایت بھی۔ محض ان کے عقیدے کی خرابی ان کی شہادت یا روایت قبول کر نے میں مانع نہیں ہے۔
۹۔ یہ بات سیاق و سباق سے بھی مترشح ہوتی ہے، اور متعدد مفسرین نے بھی اس آیت سے یہ سمجھا ہے کہ بنی المصطلق کے معاملہ میں ولید بن عقبہ کی دی ہوئی اطلاع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے خلاف فوجی اقدام کرنے میں متأمل تھے، مگر بعض لوگوں نے اصرار کیا کہ ان پر فوراً چڑھائی کر دی جائے۔ اس پر ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی گئی کہ تم اس بات کو بھول نہ جاؤ کہ تمہارے درمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہیں جو تمہارے مصالح کو تم سے زیادہ جانتے ہیں۔ تمہارا یہ چاہنا کہ اہم معاملات میں جو رائے تمہیں مناسب نظر آتی ہے آپ اسی پر عمل کیا کریں، سخت بے جا جسارت ہے۔ اگر تمہارے کہنے پر عمل کیا جانے لگے تو بکثرت مواقع پر ایسی غلطیاں ہوں گی جن کا خمیازہ خود تم کو بھگتنا پڑے گا۔
۱۰۔ مطلب یہ ہے کہ پوری جماعت مومنین اس غلطی کی مرتکب نہیں ہوئی جس کا صدور ان چند لوگوں سے ہوا جو اپنی خام رائے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چلانا چاہتے تھے۔ اور جماعت مومنین کے راہ راست پر قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فضل و احسان سے ایمان کی روش کو ان کے لیے محبوب و دل پسند بنا دیا ہے اور کفر و فسق اور نافرمانی کی روش سے انہیں متنفر کر دیا ہے۔ اس آیت کے دو حصوں میں روئے سخن دو الگ الگ گرہوں کی طرف ہے۔ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مَّنَ الْاَمْرِ کا خطاب پوری جماعت صحابہ سے نہیں بلکہ ان خاص اصحاب سے ہے جو بنی المصطلق پر چڑھائی کر دینے کے لیے اصرار کر رہے تھے۔ اور وَلٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمْ کا خطاب عام صحابہ سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اپنی رائے پر اصرار کرنے کی جسارت کبھی نہ کرتے تھے، بلکہ آپ کی رہنمائی پر اعتماد کرتے ہوئے ہمیشہ اطاعت کی روش پر قائم رہتے تھے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتی کہ جنہوں نے اپنی رائے پر اصرار کیا تھا وہ ایمان کی محبت سے خالی تھے۔ بلکہ اس سے جو بات مترشح ہوتی ہے کہ ایمان کے اس تقاضے کی طرف سے ان کو ذہول ہو گیا تھا جو کے باعث انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں اپنی رائے پر اصرار کرنے کی غلطی کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کو اس غلطی پر، اور اس کے برے نتائج پر متنبہ فرمایا، اور پھر یہ بتایا کہ صحیح ایمانی روش وہ ہے جس پر صحابہ کی عام جماعت قائم ہے۔
۱۱۔ یعنی اللہ کا یہ فضل و احسان کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے۔ یہ نعمت عظمیٰ جس کو بھی وہ دیتا ہے حکمت کی بنا پر اور اس علم کی بنا پر دیتا ہے کہ وہ اس کا مستحق ہے۔
۱۲۔ یہ نہیں فرمایا کہ ’’جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑیں‘‘، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں ‘‘۔ ان الفاظ سے یہ بات خود بخود نکلتی ہے کہ آپس میں لڑنا مسلمانوں کا معمول نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ان سے یہ امر متوقع ہے کہ وہ مومن ہوتے ہوئے آپس میں لڑا کریں گے۔ البتہ اگر کبھی ایسا ہو جائے تو اس صورت میں وہ طریق کار اختیار کرنا چاہیے جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ بریں گروہ کے لیے بھی ’’ فرقہ‘‘ کے بجائے ’’طائفہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں فرقہ بڑے گروہ کے لیے اور طائفہ چھوٹے گروہ کے لیے بولا جاتا ہے اس سے بھی یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ حالت ہے جس میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کا مبتلا ہو جانا متوقع نہیں ہونا چاہیے۔
۱۳۔ اس حکم کے مخاطب وہ تمام مسلمان ہیں جو ان دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوں، اور جن کے لیے ان کے درمیان صلح کی کوشش کرنا ممکن ہو۔ دوسرے الفاظ میں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کی اپنی ملت کے دو گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں اور وہ بیٹھے ان کی لڑائی کا تماشا دیکھتے رہیں۔ بلکہ یہ افسوسناک صورت حال جب بھی پیدا ہو، تمام اہل ایمان کو اس پر بے چین ہو جانا چاہیے اور ان کے باہمی معاملات کی اصلاح کے لیے جس کے بس میں جو کوشش بھی ہو وہ اسے صرف کر ڈالنی چاہیے۔ فریقین کو لڑائی سے باز رہنے کی تلقین کی جائے۔ انہیں خدا سے ڈرایا جائے۔ با اثر لوگ فریقین کے ذمہ دار آدمیوں سے جا کر ملیں۔ نزاع کے اسباب معلوم کریں۔ اور اپنی حد تک ہر وہ کوشش کریں جس سے ان کے درمیان مصالحت ہو سکتی ہو۔
۱۴۔ یعنی مسلمانوں کا یہ کام بھی نہیں ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دیں اور جس پر زیادتی کی جاہی ہو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں، یا الٹا زیادتی کرنے والے کا ساتھ دیں۔ بلکہ ان کا فرض یہ ہے کہ اگر لڑنے والے فریقین میں صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں، تو پھر یہ دیکھیں کہ ح پر کون ہے اور زیادتی کرنے والا کون۔ جو حق پر ہو اس کا ساتھ دیں اور جو زیادتی کرنے والا ہو اس سے لڑیں۔ اس لڑائی کا چونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس لیے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے اس کا شمار اس فتنے میں نہیں ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ القائم فیھَا خیرٌ من الماشی والقاعد فیھا خیر من القائم (اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے، اور بیٹھ جانے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہے )۔ کیونکہ اس فتنے سے مراد تو مسلمانوں کی وہ باہمی لڑائی ہے جس میں فریقین عصبیت اور حمیت جاہلیہ اور طلب دنیا کے لیے لڑ رہے ہوں اور دونوں میں سے کوئی بھی حق پر نہ ہو۔ رہی یہ لڑائی جو زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلہ میں بر سر حق گروہ کی حمایت کے لیے لڑی جائے، تو یہ فتنے میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔ تمام فقہاء کا اس کے وجوب پر اتفاق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں اس کے واجب ہونے پر کوئی اختلاف نہ تھا (احکام القرآن للجصاص)۔ بلکہ بعض فقہاء تو اسے جہاد سے بھی افضل قرار دیتے ہیں اور ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا زمانہ خلافت کفار سے جہاد کرنے کے بجائے باغیوں سے لڑنے میں صرف کر دیا (روح المعانی)۔ اس کے واجب نہ ہونے پر اگر کوئی شخص اس بات سے استدلال کرے کہ حضرت علیؓ کی ان لڑائیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور بعض دوسرے صحابہ نے حسہ نہیں لیا تھا تو وہ غلطی پر ہے۔ ابن عمر خود فرماتے ہیں کہ :ماوجدت فی نفسی من شئ ما وجدت من ھٰذہِ اِلاٰ یۃ اَنّی لم اقاتل ھٰذہ الفئۃ کما امرنی اللہ تعالیٰ، (المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب الدفع عمن قعدوا عن بیعۃ علی) ’’مجھے اپنے دل میں کسی بات پر اتنی زیادہ کھٹک نہیں ہوئی جتنی اس آیت کی وجہ سے ہوئی کہ میں نے اللہ کے حکم کے مطابق اس باغی گروہ سے جنگ نہ کی‘‘
زیادتی کرنے والے گروہ سے ’’قتال‘‘ کرنے کا حکم لازماً یہی معنی نہیں رکھتے کہ اس کے خلاف ہتھیاروں سے جنگ کی جائے اور ضرور اس کو قتل ہی کیا جائے۔ بلکہ اس سے مراد اس کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا چاہیے، اور اصل مقصود اس کی زیادتی کا ازالہ ہے۔ اس مقصد کے لیے جس طاقت کا استعمال نا گزیر ہو اسے استعمال کرنا چاہیے اور جتنی طاقت کا استعمال کافی ہو، نہ اس سے کم استعمال کرنی چاہیے نہ اس سے زیادہ۔
اس حکم کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو طاقت استعمال کر کے زیادتی کا ازالہ کرنے پر قادر ہوں۔
۱۵۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ لڑائی باغی (زیادتی کرنے والے گروہ) کو بغاوت (زیادتی) کی سزا دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اسے اللہ کے حکم کی طرف پلٹنے پر مجبور کرنے کے لیے ہے۔ اللہ کے حکم سے مراد یہ ہے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے جو بات حق ہو اسے یہ باغی گروہ قبول کر لینے پر آمادہ ہو جائے اور جو طرز عمل اس میزان حق کی رو سے زیادتی قرار پاتا ہے اس کو چھوڑ دے۔ جوں ہی کہ کوئی باغی گروہ اس حکم کی پیروی پر راضی ہو جائے، اس کے خلاف طاقت کا استعمال بند ہو جانا چاہیے، کیونکہ یہی قتال کا مقصود اور اس کی آخری حد ہے۔ اس کے بعد مزید دست درازی کرنے والا خود زیادتی کا مرتکب ہو گا۔ اب رہی یہ بات کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے ایک نزاع میں حق کیا ہے اور زیادتی کیا، تو لا محالہ اس کو طے کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو امت میں اور علم اور بصیرت کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرنے کے اہل ہوں۔
۱۶۔ محض صلح کرا دینے کا حکم نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ صلح کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے جو حق اور باطل کے فرق کو نظر انداز کر کے محض لڑائی روکنے کے لیے کرائی جائے اور جس میں بر سر حق گروہ کو دبا کر زیادتی کرنے والے گروہ کے ساتھ بے جا رعایت برتی جائے۔ صلح وہی صحیح ہے جو انصاف پر مبنی ہو۔ اسی سے فساد ٹلتا ہے، ورنہ حق والوں کو دبانے اور زیادتی کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہوتا ہے کہ خرابی کے اصل اسباب جوں کے توں باقی رہتے ہیں، بلکہ ان میں اور اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اور اس سے بار بار فساد بر پا ہونے کی نوبت پیش آتی ہے۔
۱۷۔ یہ آیت مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی قانون کی اصل بنیاد ہے۔ ایک حدیث کے سوا جس کا ہم آگے ذکر کریں گے، اس قانون کی کوئی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت میں نہیں ملتی، کیونکہ حضور کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی کہ آپ کے عمل اور قول سے اس کے احکام کی تفصیلات معلوم ہوتیں۔ بعد میںاس قانون کی مستند تشریح اس وقت ہوئی جب حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں خود مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں۔ اس وقت چونکہ بکثرت صحابہ کرام موجود تھے، اس لیے ان کے عمل اور ان کے بیان کردہ احکام سے اسلامی قانون کے اس شعبی کا مفصل ضابطہ مرتب ہوا۔ خصوصیت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اسوہ اس معاملہ میں تمام فقہاء کا اصل مرجع ہے۔ ذیل میں ہم اس ضابطہ کا ایک ضروری خلاصہ درج کرتے ہیں:
۱)۔ مسلمانوں کی باہمی جنگ کی کئی صورتیں ہیں جن کے حکم الگ الگ ہیں۔
(الف) لڑنے والے دونوں گروہ کسی مسلمان حکومت کی رعایا ہوں۔ اس صورت میں ان کے درمیان صلح کرانا، یا یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں سے زیادتی کرنے والا کون ہے، اور طاقت سے اس کو حق کی طرف رجوع پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔
(ب) لڑنے والے فریقین دو بہت بڑے طاقت ور گروہ ہوں، یا دو مسلمان حکومتیں ہوں، اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہو۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور فریقین کو خدا کا خوف دلا کر جنگ سے باز رہنے کی نصیحت کرتے رہیں۔
(ج) لڑنے والے وہ فریقین جن کا اوپر (ب) میں ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک حق پر ہو اور دوسرا زیادتی کر رہا ہو، اور نصیحت سے اصلاح پر آمادہ نہ ہو رہا ہو۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف بر سر حق فریق کا ساتھ دیں۔
(د) فریقین میں سے ایک گروہ رعیت ہو اور اس نے حکومت، یعنی مسلم حکومت کے خلاف خروج کیا ہو۔ فقہاء اپنی اصلاح استعمال کرتے ہیں۔
۲)۔ باغی، یعنی حکومت کے خلاف خروج کرنے والے گروہ بھی متعدد اقسام کے ہو سکتے ہیں:
(الف) وہ جو محض فساد برپا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے اس خروج کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو۔ ان کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اس کا ساتھ دینا اہل ایمان پر واجب ہے، قطع نظر اس سے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو۔
(ب) وہ جو حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے خروج کریں،اور ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو، بلکہ ان کا ظاہر حال بتا رہا ہو کہ وہ ظالم و فاسق ہیں۔ اس صورت میں اگر حکومت عادل ہو تب تو اس کا ساتھ دینا بلا کلام واجب ہے، لیکن اگر وہ عادل نہ بھی ہو تو اس حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے لڑنا واجب ہے جس کے ذریعہ سے فی الحال مملکت کا نظم قائم ہے۔
(ج) وہ جو کسی شرعی تاویل کی بنا پر حکومت کے خلاف خروج کریں، مگر ان کی تاویل باطل اور ان کا عقیدہ فاسد ہو مثلاً خوارج۔ اس صورت میں بھی، مسلم حکومت، خواہ وہ عادل ہو یا نہ ہو، ان سے جنگ کرنے کا جائز حق رکھتی ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب ہے۔
(د) وہ جو ایک عادل حکومت کے خلاف خروج کریں جب کہ اس کے سربراہ کی امارت جائز طور پر قائم ہو چکی ہو۔ اس صورت میں خواہ ان کے پاس کوئی شرعی تاویل ہو یا نہ ہو، بہر حال ان سے جنگ کرنے میں حکومت حق بجانب ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب۔
(ھ) وہ جو ایک ظالم حکومت کے خلاف خروج کریں جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں، اور خروج کرنے والے عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لیے اٹھے ہوں اور ان کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ خود صالح لوگ ہیں۔ اس صورت میں ان کو ’’باغی‘‘ یعنی زیادتی کرنے والا گروہ قرار دینے اور ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دینے میں فقہاء کے درمیان سخت اختلاف واقع ہو گیا ہے، جسے مختصراً ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔
جمہور فقہاء اور اہل الحدیث کی رائے یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہو چکی ہو اور مملکت کا امن و امان نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو، وہ خواہ عادل ہو یا ظالم، اور اس کی امرت خواہ کسی طور پر قائم ہوئی ہو، اس کے خلاف خروج کرنا حرام ہے، الا یہ کہ وہ کفر صریح کا ارتکاب کرے۔ امام سر خسی لکھتے ہیں کہ ’’ جب مسلمان ایک فرمانروا پر مجتمع ہوں اور اس کی بدولت ان کو امن حاصل ہو اور راستے محفوظ ہوں، ایسی حالت میں اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ اس کے خلاف خروج کرے تو جو شخص بھی جنگ کی طاقت رکھتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے اس فرمانروا کے ساتھ مل کر خرج کرنے والوں کے خلاف جنگ کرے ‘‘ (البسوط، باب الخوارج)۔ امام، لودِی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ ’’ ائمہ،یعنی مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف خروج اور قتال حرام ہے، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔ اس پر امام نودی اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں۔
لیکن اس پر اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ فقہائے اسلام کا ایک بڑا گروہ، جس میں اکابر اہل علم شامل ہیں، خروج کرنے والوں کو صرف اس صورت میں ’’باغی‘‘ قرار دیتا ہے جبکہ وہ امام عادل کے خلاف خروج کریں۔ ظالم و فاسق امراء کے خلاف صلحاء کے خروج کو وہ قرآن مجید کی اصطلاح کے مطابق ’’بغاوت‘‘ کا مصداق نہیں ٹھیراتے، اور نہ ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کا مسلک ظالم امراء کے خلاف قتال کے معاملہ میں اہل علم کو معلوم ہے۔ ابوبکر جصاص احکام القرآن میں صاف لکھتے ہیں کہ امام صاحب اس قتال کو نہ صرف جائز، بلکہ سازگار حالات میں واجب سمجھتے تھے (جلد اول، ص ۸۱۔جلد دوم،ص ۳۹) بنی امیہ کے خلاف زید بن علی کے خروج میں انہوں نے نہ صرف خود مالی مدد دی، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی(الجصاص،ج ۱ ص ۸۱)۔ منصور کے خلاف نفس زکیہ کے خروج میں وہ پوری سرگرمی کے ساتھ نفس زکیہ کی حمایت کرتے رہے اور اس جنگ کو انہوں نے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرار دیا(الجصاص،ج۱،ص ۸۱۔ مناقب ابی حنیفہ للکردری،ج۲،ص۷۱۔۷۲)۔ پھر فقہائے حنفیہ کا بھی متفقہ مسلک وہ نہیں ہے جو امام سرخسی نے بیان کیا ہے۔ ابن ہُمام ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ الباغی فی عرف الفقھاْالخارج عن طاعۃ امام الحق، ’’ فقہاء کے عرف میں باغی وہ ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائے‘‘۔ حنابلہ میں سے ابن عقیل اور ابن لجوزی امام غیر عادل کے خلاف خروج کو جائز ٹھیراتے ہیں اور اس پر حضرت حسین کے خروج سے استدلال کرتے ہیں (الانصاف، ج ۱۰، باب قتال اہل البغی)۔ امام شافعی کتاب الام میں باغی اس شخص کو قرار دیتے ہیں جو امام عادل کے خلاف جنگ کرے (ج ۴،ص۱۳۵)۔ امام مالک کا مسلک المدونہ میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ’’ خروج کرنے والے اگر امام عدل کے خلاف جنگ کرنے کے لیے نکلیں تو ان کے خلاف مقاتلہ کیا جائے‘‘(جلد اول،ص ۴۰۷)۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں: ’’ جب کوئی شخص عمر بن عبدالعزیز جیسے امام عدل کے خلاف خروج کرے تو اس کی دفع کرنا واجب ہے، رہا کسی دوسری قسم کا امام تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، اللہ کسی دوسرے ظالم کے ذریعہ سے اس کو سزا دے گا اور پھر کسی تیسرے ظالم کے ذریعہ سے ان دونوں کو سزا دے گا‘‘۔ ایک اور قول امام مالکؒ کا انہوں نے یہ نقل کیا ہے : ’’ جب ایک امام سے بیعت کی جا چکی ہو اور پھر اس کے بھائی اس کے مقابلے پر کھڑے ہو جائیں تو ان سے جنگ کی جائے گی اگر وہ امام عادل ہو۔ رہے ہمارے زمانے کے ائمہ تو ان کے لیے کوئی بیعت نہیں ہے، کیونکہ ان کی بیعت زبردستی لی گئی ہے ‘‘ پھر مالکی علماء کا جو مسلک سَحْنون کے حوالہ سے قاضی صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ تو صرف امام عدل کے ساتھ مل کر کی جائے گی، خواہ پہلا امام عادل ہو یا وہ شخص جس نے اس کے خلاف خروج کیا ہو۔ لیکن اگر دونوں عادل نہ ہوں تو دونوں سے الگ رہو۔ البتہ اگر تمہاری اپنی جان پر حملہ کیا جائے یا مسلمان ظلم کے شکار ہو رہے ہوں تو مدافعت کرو‘‘۔ یہ مسالک نقل کرنے کے بعد قاضی ابو بکر کہتے ہیں : لا نقاتل الامع امامٍ عادل یقدمہ اھل الحق لا نفسہم۔‘‘ ہم جنگ نہیں کریں گے مگر اس امام عادل کے ساتھ جسے اہل حق نے اپنی امامت کے لیے آگے بڑھا یا ہو‘‘۔
۳)۔ خروج کرنے والے اگر قلیل التعداد ہوں اور ان کی پشت پر کوئی بڑی جماعت نہ ہو، نہ وہ کچھ زیادہ جنگی سر و سامان رکھتے ہوں، تو ان پر قانون بغاوت کا اطلاق نہ ہو گا، بلکہ ان کے ساتھ عام قانون تعزیرات کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا، یعنی وہ قتل کریں گے تو ان سے قصاص لیا جائے گا اور مال کا نقصان کریں گے تو اس کا تاوان ان پر عائد ہو گا۔ قانون بغاوت کا اطلاق صرف ان باغیوں پر ہوتا ہے جو کوئی بڑی طاقت رکھتے ہوں، اور کثیر جمیعت اور جنگی سرو سامان کے ساتھ خروج کریں۔
۴)۔ خروج کرنے والے جب تک محض اپنے فاسد عقائد، یا حکومت اور اس کے سربراہ کے خلاف باغیانہ اور معاندانہ خیالات کا اظہار کرتے رہیں،ان کو قتل یا قید نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ ان کے خلاف صرف اس وقت کی جائے گی جب وہ عملاً مسلح بغاوت کر دیں اور خونریزی کی ابتدا کر بیٹھیں۔(المبسوط، باب الخوارج۔ فتح القدیر، باب البغاۃ۔ احکام القرآن للجصاص)۔
۵)۔ باغیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ان کو قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق دعوت دی جائے گی کہ وہ بغاوت کی روش چھوڑ کر عدل کی راہ اختیار کریں۔ اگر ان کے کچھ شبہات و اعتراضات ہوں تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے گی۔اس پر بھی وہ باز نہ آئیں اور مقاتلہ کا آغاز ان کی طرف سے ہو جائے، تب ان کے خلاف تلوار اٹھائی جائے گی۔ (فتح القدیر۔ احکام القرآن للجصاص)۔
۶)۔ باغیوں سے لڑائی میں جن ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے گا وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد پر مبنی ہیں جسے حضرت عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے حاکم، بزار اور الجصاص نے نقل کیا ہے۔: حضورؐ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا اے ابن ام عبد، جانتے ہو اس امت کے باغیوں کے بارے میں اللہ کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا ان کے زخمیوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا، ان کے اسیر کو قتل نہیں کیا جائے گا، ان کے بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا، اور ان کا مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اس ضابطہ کا دوسرا ماخذ،جس پر تمام فقہائے اسلام نے اعتماد کیا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول اور عمل ہے۔ آپ نے جنگ جمَل میں فتح یاب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرو، زخمی پر حملہ نہ کرو، گرفتار ہو جانے والوں کو قتل نہ کرو، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان دو، لوگوں کے گھروں میں نہ گھسو، اور عورتوں پر دست درازی نہ کرو،خواہ وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دے رہی ہوں۔ آپ کی فوج کے بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ مخالفین کو اور ان کے بال بچوں کو غلام بنا کر تقسیم کر دیا جائے۔ اس پر غضب ناک ہو کر آپ نے فرمایا۔ تم میں سے کون امّ المومنین عائشہ کو اپنے حصہ میں لینا چاہتا ہے؟
۷)۔ باغیوں کے اموال کا حکم، جو حضرت علیؓ کے اسوہ حسنہ سے ماخوذ ہے، یہ ہے کہ ان کا کوئی مال، خواہ وہ ان کے لشکر میں ملا ہو یا ان کے پیچھے ان کے گھروں پر ہو، اور وہ خواہ زندہ ہوں یا مارے جا چکے ہوں، بہر حال اسے مال غنیمت قرار دیا جائے گا اور نہ فوج میں تقسیم کیا جائے گا۔ البتہ جس مال کا نقصان ہو چکا ہو، اس کا کوئی ضِمان لازم نہیں آتا۔ جنگ ختم ہونے اور بغاوت کا زور ٹوٹ جانے کے بعد ان کے مال ان ہی کو واپس دے دیے جائیں گے۔ ان کے اسلحہ اور سواریاں جنگ کی حالت میں اگر ہاتھ آ جائیں تو انہی ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا، مگر فاتحین کی ملکیت بنا کر مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا، اور اگر ان سے پھر بغاوت کا اندیشہ نہ ہو تو ان کی یہ چیزیں بھی واپس دے دی جائیں گی۔ صرف امام ابو یوسف کے رائے یہ ہے کہ حکومت اسے غنیمت قرار دے گی (المبسوط، فتح القدیر۔الحصاص)۔
۸ )۔ ان کے گرفتار شدہ لوگوں کو یہ عہد لے کر کہ وہ پھر بغاوت نہ کریں گے، رہا کر دیا جائے گا۔ (المبسوط)۔
۹ )۔ باغی مقتولوں کے سر کاٹ کر گشت کرانا سخت مکروہ فعل ہے، کیونکہ یہ مُثلہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ کے پاس رومی بطیق کا سر کاٹ کر لایا گیا تو آپ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا ہمارا کا رومیوں اور ایرانیوں کی پیروی کرنا نہیں ہے۔ یہ معاملہ جب کفار تک سے کرنا روا نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ تو یہ بدرجہ اولیٰ ممنوع ہونا چاہیے۔(المبسوط)۔
۱۰ )۔ جنگ کے دوران میں باغیوں کے ہاتھوں جان و مال کا جو نقصان ہوا ہو، جنگ ختم ہونے اور امن قائم ہو جانے کے بعد اس کا کوئی قصاص اور ضمان ان پر عائد نہ ہو گا۔ نہ کسی مقتول کا بدلہ ان سے لیا جائے گا اور نہ کسی مال کا تاوان ان پر ڈالا جائے گا، تاکہ فتنے کی آگ پھر نہ بھڑک اٹھے۔ صحابہ کرام کی باہمی لڑائیوں میں یہی ضابطہ ملحوظ رکھا گیا تھا (المبسوط۔ الجصاص۔ احکام القرآن ابن العرنی)۔
۱۱ )۔ جن علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہو گیا ہو اور وہاں انہوں نے اپنا نظم و نسق قائم کر کے زکوٰۃ اور دوسرے محصولات وصول کر لیے ہوں حکومت ان علاقہ پر دو بارہ قبضہ کرنے کے بعد لوگوں سے از سر نو اس زکوٰۃ اور ان محصولات کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ اگر باغیوں نے یہ اموال شرعی طریقے پر صرف کر دیے ہوں گو عند اللہ بھی وہ ادا کرنے والوں پر سے ساقط ہو جائیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے غیر شرعی طریقے پر تصرف کیا ہو، تو یہ ادا کرنے والوں کے اور ان کے خدا کے درمیان معاملہ ہے۔ وہ خود چاہیں تو اپنی زکوٰۃ دوبارہ ادا کر دیں (فتح القدیر۔ الجصاص۔ابن العربی)۔
۱۲)۔ باغیوں نے اپنے زیر تصرف علاوہ میں جو عدالتیں قائم کی ہوں، اگر ان قاضی اہل عدل میں سے ہوں اور شریعت کے مطابق انہوں نے فیصلے کیے ہوں، تو وہ بر قرار رکھے جائیں گے اگرچہ ان کے مقرر کرنے والے بغاوت کے مجرم ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ اگر ان کے فیصلے غیر شرعی ہوں اور بغاوت فرو ہونے کے بعد وہ حکومت کی عدالتوں کے سامنے لائے جائیں تو وہ نافذ نہیں کیے جائیں گے۔ علاوہ بریں باغیوں کی قائم کی ہوئی عدالتوں کی طرف سے کوئی وارنٹ یا پروانہ امر حکومت کی عدالتوں میں قبول نہ کیا جائے گا (المبسوط۔ الجصاص)۔
۱۳)۔ باغیوں کی شہادت اسلامی عدالتوں میں قابل قبول نہ ہو گی کیونکہ اہل عدل کے خلاف جنگ کرنا فسق ہے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ جب تک وہ جنگ نہ کریں اور اہل عدل کے خلاف عملاً خروج کے مرتکب نہ ہوں، ان کی شہادت قبول کی جائے گی، مگر جب وہ جنگ کر کے ہوں تو پھر میں ان کی شہادت قبول نہ کروں گا (الجصاص)۔
ان احکام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کفار کے خلاف جنگ اور مسلمان باغیوں کے خلاف جنگ کے قانون میں کیا فرق ہے۔
۱۸۔ یہ آیت دنیا کے تمام مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے اور یہ اسی کی برکت ہے کہ کسی دوسرے دین یا مسلک کے پیروؤں میں وہ اخوت نہیں پائی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بکثرت ارشادات میں بیان فرمایا ہے جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آسکتی ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی۔ ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا۔ دوسرے یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں گا۔تیسرے یہ کہ ہر مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا (بخاری، کتابالایمان)۔
حضرت عبداللہ بن مسعسد کی رسایت ہے کہ حضور نے فرمایا ’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اس سے جنگ کرنا کفر‘‘(بخاری، کتاب الایمان۔ مسند احمد میں اسی مضمون کی روایت حضرت سعید بن مالک نے بھی اپنے والد سے نقل کی ہے )۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے ‘‘۔ (مسلم، کتاب البروالصلہ۔ ترمذی، ابواب البروالصِّلہ)۔
حضرت ابو سعید خذریؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اس کی تذلیل نہیں کرتا۔ ایک آدمی کے لیے یہی شر بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے ‘‘(مسند احمد)۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی آپؐ کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں کہ ’’ گروہ اہل ایمان کے ساتھ ایک مومن کا تعلق ویسا ہی ہے جیسا سر کے ساتھ جسم کا تعلق ہوتا ہے۔ وہ اہل ایمان کی ہر تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح سر جسم کے ہر حصے کا درد محسوس کرتا ہے۔‘‘ (مسند احمد)۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک اور حدیث میں ہے، جس میں آپؐ نے فرمایا ہے ’’ مومنوں کی مثال آپس کی محبت، وابستگی اور ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملہ میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے کسی عضو کو بھی تکلیف ہو تو سارا جسم اس پر بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے ‘‘(بخاری و مسلم)۔
ایک اور حدیث میں آپ کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ ’’ مومن ایک دوسرے کے لیے ایک دیوار کی اینٹوں کی طرح ہوتے ہیں کہ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے ‘‘(بخاری، کتاب الادب، ترمذی، ابواب البروالصلہ)۔
ترجمہ
(۱۹)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں(۲۰) آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو(۲۱) اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو(۲۲)۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے (۲۳)۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں (۲۴)۔ تجسس نہ کرو (۲۵)۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے (۲۶)۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا (۲۷)؟ تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو،اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے (۲۸)۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے (۲۹)۔
یہ بدوی کہتے ہیں کہ ’’ ہم ایمان لائے‘‘(۳۰)۔ ان سے کہو ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ’’ ہم مطیع ہو گئے ‘‘ (۳۱)۔ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا، یقیناً اللہ بڑا در گزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔
اے نبیؐ، ان (مدعیان ایمان ) سے کہو، کیا تم اللہ کو اپنے دین کی اطلاع دے رہے ہو؟ حالانکہ اللہ زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر شے کا علم رکھتا ہے۔ یہ لوگ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان سے کہو اپنے اسلام اک احسان مجھ پر نہ رکھو، بلکہ اللہ تم پر اپنا احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی اگر تم واقعی اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہو۔ اللہ زمین اور آسمانوں کی ہر پوشیدہ چیز کا علم رکھتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ سب اس کی نگاہ میں ہے۔ع
تفسیر
۱۹۔ پچھلی دو آیتوں میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے متعلق ضروری ہدایات دینے کے بعد اہل ایمان کو یہ احساس دلایا گیا تھا کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بنا پروہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کو خدا سے ڈرتے ہوئے اپنے آپس کے تعلقات کو درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اب آگے کی دو آیتوں میں ان بڑی بڑی برائیوں کے سد باب کا حکم دیا جا رہا ہے جو بالعموم ایک معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت پر حملہ،ایک دوسرے کی سل آزاری، ایک دوسرے سے بد گمانی، اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس، در حقیقت یہی وہ اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رو نما ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو احکام آگے کی آیتوں میں دیے گئے ہیں اور ان کی جو تشریحات احادیث میں ملتی ہیں ان کی بنا پر ایک مفصل قانون ہتک عزت (Law of libel) مرتب کیا جا سکتا ہے۔ مغربی قوانین ہتک عزت اس معاملے میں اتنے ناقص ہیں کہ ایک شخص ان کے تحت دعویٰ کر کے اپنی عزت کچھ اور کھو آتا ہے۔ اسلامی قانون اس کے بر عکس ہر شخص کی ایک بنیادی عزت کا قائل ہے جس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ حملہ واقعیت پر مبنی ہویا نہ ہو، اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کی کوئی ’’حیثیت عرفی‘‘ ہو یا نہ ہو۔ مجرد یہ بات کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تذلیل کی ہے اسے مجرم بنا دینے کے لیے کافی ہے، الا یہ کہ اس تذلیل کا کوئی رعی جواز ثابت کر دیا جائے۔
۲۰۔ مذاق اڑانے سے مراد محض زبان ہی سے کسی کا مذاق اڑانا نہیں ہے، بلکہ کسی کی نقل اتارنا، اس کی طرف اشارے کرنا، اس کی بات پر یا اس کے کام یا اس کی صورت یا اس کے لباس پر ہنسنا، یا اس کے کسی نقص یا عیب کی طرف لوگوں کو اس طرح توجہ دلانا کہ دوسرے اس پر ہنسیں، یہ سب بھی مذاق اڑانے میں داخل ہیں۔ اصل ممانعت جس چیز کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کی کسی نہ کسی طور پر تضحیک کرے، کیونکہ اس تضحیک میں لازماً اپنی بڑائی اور دوسرے کی تذلیل و تحقیر کے جذبات کار فرما ہوتے ہیں جو اخلاقاً سخت معیوب ہیں، اور مزید برآں اس سے دوسرے شخص کی دل آزاری بھی ہوتی ہے جس سے معاشرے میں فساد رو نما ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اس فعل کو حرام کیا گیا ہے۔
مردوں اور عورتوں کا الگ الگ ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مردوں کے لیے عورتوں کا مذاق اڑانا یا عورتوں کے لیے مردوں کا مذاق اڑانا جائز ہے۔ دراصل جس وجہ سے دونوں کا ذکر الگ الگ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام سرے سے مخلوط سوسائٹی ہی کا قائل نہیں ہے۔ ایک دوسرے کی تضحیک عموماً بے تکلف مجلسوں میں ہوا کرتی ہے، اور اسلام میں یہ گنجائش رکھی ہی نہیں گئی ہے کہ غیر محرم مرد اور عورتیں کسی مجلس میں جمع ہو کر آپس میں ہنسی مذاق کریں۔ اس لیے اس بات کو ایک مسلم معاشرے میں قابل تصور نہیں سمجھا گیا ہے کہ ایک مجلس میں مرد کسی عورت کا مذاق اڑائیں گے یا عورتیں کسی مرد کا مذاق اڑائیں گی۔
۲۱۔ اصل میں لفظ لَمزْ استعمال ہوا ہے جس کے اندر طعن و تشنیع کے علاوہ متعدد دوسرے مجہومات بھی شامل ہیں، مثلاً چوٹیں کرنا، پھبتیاں کسنا، الزام دھرنا، اعتراض جڑنا، عیب چینی کرنا، او کھلم کھلا یا زیر لب یا اشاروں سے کسی کو شانہ ملامت بنانا۔ یہ سب افعال بھی چونکہ آپس کے تعلقات کو بگاڑتے اور معاشرے میں فساد برپا کرتے ہیں اس لیے ان کو حرام کر دیا گیا ہے۔ کلام الہٰی کی بلاغت یہ ہے کہ : لَا عَلْمِزُ بَعْضُکُمْ بَعْضاً (ایک دوسرے پر طعن نہ کرو) کہنے کے بجائے : لَا تَلْمِزُوٓ ا اَنْفُسَکَمْ(اپنے اوپر طعن نہ کرو) کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ دوسروں پر زبان طعن دراز کرنے والا دراصل خود اپنے آپ کو مطعون کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کسی شخص کی زبان دوسروں کے خلاف بد گوئی کے لیے اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک اس کے دل میں برے جذبات کا لاوا خوب پک کر پھوٹ پڑنے کے لیے تیار نہ ہو گیا ہو۔ اس طرح ان جذبات کی پرورش کرنے والا دوسروں سے پہلے اپنے نفس کو تو بدی کا آشیانہ بنا چکتا ہے۔ پھر جب وہ دوسروں پر چوٹ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود اپنے اوپر چوٹیں کرنے لیے دوسروں کو دعوت دے رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنی شرافت کی بن پر اس کے حملوں کو ٹال جائے۔ مگر اس نے تو اپنی طرف سے یہ دروازہ کھول ہی دیا کہ وہ شخص بی اس پر حملہ آور ہو جس کو اس نے اپنی زبان کے تیروں کا ہدف بنایا ہے۔
۲۲۔ اس حکم کا منشا یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسے نام سے نہ پکارا جائے یا ایسا لقب نہ دیا جائے جو اس کو ناگوار ہو اس جس سے اس کی تحقیر و تنقیص ہوتی ہو۔ مثلاً کسی کو فاسق یا منافق کہنا۔ کسی کو لنگڑا یا اندھا یا کانا کہنا۔ کسی کو اس کے اپنے یا اس کیا ماں یا باپ یا خاندان کے کسی عیب یا نقص سے ملّقب کرنا۔ کسی کو مسلمان ہو جانے کے بعد اس کے سابق مذہب کی بنا پر یہودی یا نصرانی کہنا۔ کسی شخص یا خاندان یا برادری یا گروہ کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کی مذمت اور تذلیل کا پہلو رکھتا ہو۔ اس حکم سے صرف وہ القاب مستثنیٰ ہیں جو اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے تو بد نما ہیں مگر ان سے مذمت مقصود نہیں ہوتی بلکہ وہ ان لوگوں کی پہچان کا ذریعہ بن جاتے ہیں جن کو ان القاب سے یاد کیا گاتا ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے اسماء الرجال میں سلیمان الاعمش (چندے سلیمان)اور واصل الاخدَب (کبڑے واصل) جیسے القاب کو جائز رکھا ہے۔ ایک نام کے کئی آدمی موجود ہوں اور ان میں سے کسی خاص شخص کی پہچان اس کے کسی خاص لقب ہی سے ہوتی ہو تو وہ لقب استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر چہ وہ بجائے خود برا ہو۔ مثلاً عبداللہ نام کے کئی آدمی ہوں اور ایک ان میں سے نابینا ہو تو آپ اس کی پہچان کے لیے نابینا عبداللہ کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح ایسے القاب بھی اس حکم کے تحت نہیں آتے جن میں بظاہر تنقیص کا پہلو نکلتا ہے مگر در حقیقت وہ محبت کی بنا پر رکھ جاتے ہیں اور خود وہ لوگ بھی جنہیں ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے، انہیں پسند کرتے ہیں، جیسے ابو ہریرہ اور ابو تراب۔
۲۳۔ یعنی ایک مومن کے لیے یہ بات سخت شرمناک ہے کہ مومن ہونے کے باوجود وہ بد زبانی اور شہد پن میں نام پیدا کرے۔ ایک کافر اگر اس لحاظ سے مشہور ہو کہ وہ لوگوں کا مذاق خوب اڑاتا ہے، یا پھبتیاں خوب کستا ہے، یا برے برے ناک خوب تجویز کرتا ہے، تو یہ انسانیت کے لحاظ سے خواہ اچھی شہرت نہ ہو کم از کم اس کے کفر کو تو زیب دیتی ہے۔ مگر ایک آدمی اللہ اور اس کے رسول اور آخرت پر ایمان لانے کے بعد ایسے ذلیل اوصاف میں شہرت حاصل کرے تو یہ ڈوب مرنے کے لائق بات ہے۔
۲۴۔ مطلقاً گمان کرنے سے نہیں روکا گیا ہے بلکہ بہت زیادہ گمان سے کام لینمے اور ہر طرح کے گمان کی پیروی کرنے منع فرمایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بعض گمان نگہ ہوتے ہیں۔اس حکم کو سمجھنے کے لیے ہمیں تجزیہ کر کے دیکھنا چاہیے کہ گمان کی کتنی قسمیں ہیں اور ہر ایک کی اخلاقی حیثیت کیا ہے :
ایک قسم کا گمان وہ ہے جو اخلاق کی نگاہ میں نہایت پسندیدہ اور دین کی نظر میں مطلوب اور محمود ہے، مثلاً اللہ اور اس کے رسول اور ہل ایمان سے نیک گمان اور ان لوگوں کے ساتھ حسن ظن جن سے آدمی کا میل جول ہو اور جن کے متعلق بد گمانی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو۔
دوسری قسم کا گمان وہ ہے جس سے کام لینے کے سوا عملی زندگی میں کوئی چارہ نہیں ہے۔ مثلاً عدالت میں اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا کہ جو شہادتیں حاکم عدالت کے سامنے پیش ہوں ان کو جانچ کر وہ غالب گمان کی بنا پر فیصلہ کرے، کیونکہ معاملہ کی حقیقت کا براہ راست علم اس کو نہیں ہو سکتا، اور شہادتوں کی بنیاد پر جو رائے قائم ہوتی ہے وہ زیادہ تر یقین پر نہیں بلکہ ظن غالب پر مبنی ہوتی ہے۔ اسی طرح بکثرت معاملات میں، جہاں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور حقیقت کا علم حاصل ہونا ممکن نہیں ہوتا، انسان کے لیے گمان کی بنیاد پر ایک رائے قائم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
گمان کی ایک تیسری قسم وہ ہے جو اگرچہ ہے تو بد گمانی، مگر جائز نوعیت کی ہے اور اس کا شمار گناہ میں نہیں ہو سکتا۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کی سیرت و کردار میں یا اس کے معاملات اور طور طریقوں میں ایسی واضح علامات پائی جاتی ہوں جن کی بنا پر وہ حسن ظن کا مستحق نہ ہو اور اس سے بد گمانی کرنے کے لیے معقول وجوہ موجود ہوں ایسی حالت میں شریعت کا مطالبہ یہ ہر گز نہیں ہے کہ آدمی سادہ لوحی برت کر ضرور اس سے حسن ظن ہی رکھے۔ لیکن اس جائز بد گمانی کی آخری حد یہ ہے کہ اس کے امکانی شر سے بچنے کے لیے بس احتیاط سے کام لینے پر اکتفا کیا جائے۔ اس سے آگے بڑھ کر محض گمان کی بنا پر اس کے خلاف کوئی کار روائی کر بیٹھنا درست نہیں ہے۔
چوتھی قوسم کا گمان جو در حقیقت گناہ ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی شخص سے بلا سبب بد گمانی کرے، یا دوسروں کے متعلق رائے قائم کرنے میں ہمیشہ بد گمانی ہی سے ابتدا کیا کرے، یا ایسے لوگوں کے معاملہ میں بد ظنی سے کام لے جن کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ نیک اور شریف ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی گناہ ہے کہ ایک شخص کے کسی قول یا فعل میں برائی اور بھلائی کا یکساں احتمال ہو اور ہم محض سوءِ ظن سے کام لے کر اس کو برائی ہی پر محمول کریں۔ مثلاً کوئی بھلا آدمی کسی محفل سے اٹھتے ہوئے اپنے جوتے کے بجائے کسی اور کا جوتا اٹھا لے اور ہم یہ رائے قائم کر لیں کہ ضرور اس نے جوتا چرانے ہی کی نیت سے یہ حرکت کی ہے۔ حالانکہ یہ فعل بھولے سے بھی ہو سکتا ہے اور اچھے احتمال کو چھوڑ کر برے احتمال کو اختیار کرنے کی کوئی وجہ بد گمانی کے سوا نہیں ہے۔
اس تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گمان بجائے خود کوئی ممنوع چیز نہیں ہے، بلکہ بعض حالات میں وہ پسندیدہ ہے، بعض حالات میں نا گزیر ہے، بعض حالات میں ایک حد تک جائز اور اس سے آگے نا جائز ہے، اور بعض حالات میں بالکل ہی نا جائز ہے۔ اسی بنا پر یہ نہیں فرمایا گیا کہ گمان سے یا بدگمان سے مطلقاً پرہیز کرو، بلکہ فرمایا گیا ہے کہ بہت زیادہ گمان کرنے سے پرہیز کرو۔ پھر حکم کا منشا واضح کرنے کے لیے مزید بات یہ فرمائی گئی ہے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اس تنبیہ سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب کبھی آدمی گمان کی بنا پر کوئی رائے قائم کر رہا ہو یا کسی اقدام کا فیصلہ کرنے لگے تو اسے اچھی طرح جانچ تول کر یہ دیکھ لینا چاہیے کہ میں جو گمان کر رہا ہوں کہیں وہ گناہ تو نہیں ہے؟ کیا فی الواقع اس گمان کی ضرورت ہے؟ کیا اس گمان کے لیے میرے پاس معقول وجوہ ہیں؟ کیا اس گمان کی بنا پر جو طرز عمل میں اختیار کر رہا ہوں وہ جائز ہے؟ یہ احتیاط لازماً ہر وہ شخص کرے گا جو خدا سے ڈرتا ہو۔ اپنے گمان کو مطلق العنان بنا کر رکھنا صرف ان لوگوں کا کام ہے جو خدا سے بے خوف اور آخرت کی باز پرس سے بے فکر ہیں۔
۲۵۔ یعنی لوگوں کے راز نہ ٹٹولو۔ ایک دوسرے کے عیب نہ تلاش کرو۔ دوسروں کے حالات اور معاملات کی ٹوہ نہ لگاتے پھرو۔ یہ حرکت خواہ بد گمانی کی بنا پر کی جائے، یا بد نیتی سے کسی کو نقصان پہنچانے کی خطر کی جائے، یا محض اپنا استعجاب(Curiosity) دور کرنے کے لیے کی جائے، ہر حال میں شرعاً ممنوع ہے۔ ایک مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسروں کے جن حالات پر پردہ پڑا ہوا ہے ان کی کھوج کرید کر ے اور پردے کے پیچھے جھانک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ کس میں کیا عیب ہے اور کس کی کون سی کمزوریاں چھپی ہوئی ہیں۔ لوگوں کے نجی خطوط پڑھنا، دو آدمیوں کی باتیں کان لگا کر سننا، ہمسایوں کے گھر میں جھانکنا، اور مختلف طریقوں سے دوسروں کی خانگی زندگی یا ان کے ذاتی معاملات کی ٹٹول کرنا ایک بڑی بد اخلاق ہے جس سے طرح طرح کے فساد رونما ہوتے ہیں اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ خطبہ میں تجسس کرنے والوں کے متعلق فرمایا:
یا معشر من امن بلسانہ ولم ید خل الایمان قلبہٗ لا تتبعوا عورات المسلمین نانہ من اتبع عوراتھم یتبع اللہ عورہ ومن یتبع اللہ عورتہ یفضحہ فی بیتہ۔(ابوداؤد)
اے لوگو جو زبان سے ایمان لے آئے ہو مگر ابھی تمہارے دلوں میں ایمان نہیں اترا ہے، مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج نہ لگایا کرو، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب ڈھونڈنے کے درپے ہو گا اللہ اس کے عیوب کے درپے ہو جائے گا اور اللہ جس کے درپے ہو جائے اسے اس کے گھر میں رسوا کر کے چھوڑتا ہے۔
حضرت معاویہ کہتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ ڈلی اللہ علی ہو سلم کو یہ فرماتے سنا ہے :
ان کا ان اتبعت عورات الناس اضدتھم او کد ت ان تفسد ھم۔ (ابو داؤد)۔
تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہو گے تو ان کو بگاڑ دو گے یا کم از کم بگاڑ کے قریب پہنچا دو گے۔
ایک اور حدیث میں حضور کا ارشاد ہے :
ازاظننتم فلا تحققوا (احکام القرآن للجصاص) : جب کسی شخص کے متعلق تمہیں کوئی برا گمان ہو جائے تو اس کی تحقیق نہ کرو۔
اور ایک دوسرے حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
من رأ ی عورۃ فستر ھا کان کمن احیا کوؤدۃ (الجصاص) : جس نے کسی کا کوئی مخفی عیب دیکھ لیا اور اس پر پردہ ڈال دیا تو یہ ایسا ہے جیسے کسی نے ایک زندہ گاڑی ہوئی بچی کو موت سے بچا لیا۔
تجسس کی ممانعت کا یہ حکم صرف افرادی ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت کے لیے بھی ہے۔ شریع نے نہی عن المنکر کا جو فریضہ حکومت کے سپرد کیا ہے اس کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ وہ جاسوسی کا ایک نظام قائم کر کے لوگوں کی چھپی ہوئی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے اور ان پر سزا دے، بلکہ اسے صرف ان برائیوں کے خلاف طاقت استعمال کرنی چاہیے جو ظاہر ہو جائیں۔ رہیں مخفی خرابیاں تو ان کی اصلاح کا راستہ جاسوسی نہیں ہے بلکہ تعلیم، وعظ و تلقین، عوام کی اجتماعی تربیت، اور ایک پاکیزہ معاشرتی ماحول پیدا کنے کی کوشش ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ بہت سبق آموز ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت آپ نے ایک شخص کی آواز سنی جو اپنے گھر میں گ ارہا تھا۔ آپ کو دک گزرا اور دیوار پر چڑھ گئے۔ دیکھا کہ وہاں شراب بھی موجود ہے اور ایک عورت بھی۔ آپ نے پکار کر کہا’’ اے دشمن خدا، کیا تو نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا‘‘؟ اس نے جواب دیا ’’ امیرالمومنین جلدی نہ کیجیے۔ اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کیے ہیں۔ اللہ نے تجسس سے منع کیا تھا اور آپ نے تجسس کیا۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور آپ دیوار پر چڑھ کر آئے۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر نہ جاؤ اور آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں تشریف لے آئے۔‘‘ یہ سن کر عمرؓ اپنی غلطی مان گئے اور اس کے خلاف انہوں نے کوئی کار روائی نہ کی، البتہ اس سے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے گا۔ (مکارم الاخلاق لابی بکر محمد بن جعفر الخزائطی)۔ اس سے معلوم ہوا کہ افراد ہی کے لیے نہیں خود اسلامی حکومت کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے راز ٹٹول ٹٹول کر ان کے گناہوں کا پت چلائے اور پھر انہیں پکڑے۔ یہی بات ایک حدیث میں بھی ارشاد ہوئی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :
ان الامیر ازا ابتغی الرنیۃ فی الناس انسدھم (ابوداؤد) : حکمران جب لوگوں کے اندر شبہات کے اسباب تلاش کرنے لگے تو وہ ان کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔
اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ مخصوص حالات ہیں جنمیں بخشش کی فی الحقیقت ضرورت ہو۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے رویے میں بگاڑ کی کچھ علامات نمایاں نظر آ رہی ہوں اور اس کے متعلق یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے والا ہے تو حکومت اس کے حالات کی تحقیق کر سکتی ہے۔ یا مثلاً کسی شخص کے ہاں کوئی شادی کا پیغام بھیجے، یا اس کے ساتھ کوئی کاروباری معاملہ کرنا چاہے تو وہ اپنے اطمینان کے لیے اس کے حالات کی تحقیق کر سکتا ہے۔
۲۶۔ غیبت کی تعریف یہ ہے کہ ’’ آدمی کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جو اگر اسے معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے ‘‘۔ یہ تعریف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت جسے مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور دوسرے محدثین نے نقل کیا ہے، اس میں حضور نے غیبت کی یہ تعریف بیان فرمائی ہے :
ذکرک اخاک بما یکرہ قیل افرأیت ان کان فی اخی ما اقول؟ قال ان کان فیہ ما تقول فقد بھتَّہٗ۔ غیبت یہ ہے کہ ’’ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو‘‘ عرض کیا گیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو اس صورت میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا اگر اس میں وہ بات پائی جاتی ہو تو تُو نے اس کی غیبت کی، اور اگر اس میں ہو موجود نہ ہو تو تُو نے اس پر بہتان لگایا۔
ایک دوسری روایت جو امام مالک نے مؤَطّاء میں حضرت مُطَّلِب بن عبداللہ سے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
ان رجلا سئل رسول اللہ ﷺلیاللہ علیہ و سلم ما الغیبۃ؟ فقال ان تذکر من المرءمایکرہ ان یسمع۔ قال یا رسول اللہ وان کان حقّا؟ قال اذاقلت بَاطلاً فذٰلک البھتان۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا’’ یہ کہ تو کسی شخص کا ذکر اس طرح کرے کہ وہ سنے تو اسے نا گوار ہو‘‘۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر چہ میری بات حق ہو؟ آپ نے جواب دیا اگر تیری بات باطل ہو تو یہی چیز پھر بہتان ہے۔
ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے خلاف اس کے پیچھے جھوٹا الزام لگانا بہتان ہے اور اس کے واقعی عیوب بیان کرنا غیبت۔ یہ فعل خواہ صریح الفاظ میں کیا جائے یا اشارہ و کنایہ میں، بہر صورت حرام ہے۔ اسی طرح یہ نعل خواہ آدمی کی زندگی میں کیا جائے یا اس کے مرنے کے بعد، دونوں صورتوں میں اس کی حرمت یکساں ہے۔ ابوداؤد کی روایت ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی کو جب زنا کے جرم میں رحم کی سزا دے دی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے راہ چلتے ایک صاحب کو اپنے دوسرے ساتھی سے یہ کہتے سن لیا کہ’’ اس شخص کو دیکھو، اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا، مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک یہ کُتے کی موت نہ مار دیا گیا‘‘۔ کچھ دور آگے جا کر راستے میں ایک گدھے کی لاش سڑتی ہوئی نظر آئی۔ حضورؐ رک گئے اور ان دونوں اصحاب کو بلا کر فرمایا ’’ اتریے اور اس گدھے کی لاش تناول فرمائیے ‘‘ ان دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ اسے کون کھائے گا؟ فرمایا : نما نلتما من عِرض اخیکما اٰنفاً اشد من اکل منہ۔ ‘‘ ابھی ابھی آپ لوگ اپنے بھائی کی عزت پر جو حرف زنی کر رہے تھے وہ اس گدھے کی لاش کھانے سے بہت زیادہ بری تھی‘‘۔
اس حرمت سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی شخص کے پیٹھ پیچھے، یا اس کے مرنے کے بعد اس کی برائی بیان کرنے کی کوئی ایسی ضرورت لاحق ہو جو شریعت کی نگاہ میں ایک صحیح ضرورت ہو، اور وہ ضرورت غیبت کے بغیر پوری نہ ہو سکتی ہو، اور اس کے لیے اگر غیبت نہ کی جائے تو غیبت کی بہ نسبت زیادہ بڑی برائی لازم آتی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس استثناء کو اصولاً یوں بیان فرمایا ہے :
ان من اربیٰ الربا الا ستطا لۃ فی عرض المسلم بغیر حق (ابوداؤد) بد ترین زیادتی کسی مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ کرنا ہے۔
اس ارشاد میں ’’ ناحق‘‘ کی قید یہ بتاتی ہے کہ ’’حق‘‘ کی بنا پر ایسا کرنا جائز ہے۔ پھر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے طرز عمل میں ہم کو چند نظیریں ایسی ملتی ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ’’حق‘‘ سے مراد کیا ہے اور کس قسم کے حالات میں غیبت بقدر ضرورت جائز ہو سکتی ہے۔
ایک مرتبہ ایک بدو آ کر حضورؐ کے پیچھے نماز میں شامل ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ ’’خدایا مجھ پر رحم کر اور محمد پر، اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر‘‘۔ حضورؐ نے صحابہ سے فرمایا اتقولون ھواضلّ ام بعیرہ؟ الم تسمعو ا الیٰ ما قال؟ ’’ تم لوگ کیا کہتے ہو، یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کی اونٹ؟تم نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہا تھا‘‘(ابو داؤد)۔ یہ بات حضورؐ کو اس کے بیٹھ پیچھے کہنی پڑی کیونکہ وہ سلام پھیرتے ہی جا چکا تھا اس نے چونکہ حضورؐ کی موجودگی میں ایک بہت غلط بات کہہ دی تھی، اور آپ کا اس پر خاموش رہ جانا کسی شخص کو اس غلط فہمی میں ڈال سکتا تھا کہ ایسی بات کہنا کسی درجہ میں جائز ہو سکتا ہے، اس لیے ضروری تھا کہ آپ اس کی تردید فرمائیں۔
ایک خاتون فاطمہ بنت قیس کو دو صاحبوں نے نکاح کا پیغام دیا۔ ایک حضرت معاویہ دوسرے حضرت ابوالجہم۔ انہوں نے آ کر حضورؐ سے مشورہ طلب کیا۔ آپ نے فرمایا ’’ معاویہ مفلس ہیں اور ابولجہم بیویوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ یہاں ایک خاتون کے لیے مستقبل کی زندگی کا مسئلہ در پیش تھا اور حضور سے انہوں نے مشورہ طلب کیا تھا اس حالت میں آپ نے ضروری سمجھا کہ دونوں صاحبوں کی جو کمزوریاں آپ کے علم میں ہیں وہ انہیں بتا دیں۔
ایک روز حضورؐ حضرت عائشہ کے ہاں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص نے آ کر ملاقات کی اجازت طلب کی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے۔ پھر آپ باہر تشریف لے گئے اور اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی۔ گھر میں واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ نے تو اس سے بڑی اچھی طرح گفتگو فرمائی حالانکہ باہر جاتے وقت آپ نے اس کے متعلق وہ کچھ فرمایا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا : انّشرّالناس منزلۃً عند اللہ یوم القیٰمۃ من ودعہ (اونزکہ) الناس اتقاء فحشہ۔ ‘’خدا کے نزدیک قیامت کے روز بد ترین مقام اس شخص کا ہو گا جس کی بد زبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں‘‘(بخاری و مسلم)۔ اس واقعہ پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ حضورؐ نے اس شخص کے متعلق بُری رائے رکھنے کے باوجود اس کے ساتھ اچھی طرح بات چیت تو اس لیے کی کہ آپ کا اخلاق اسی کا تقاضا کرتا تھا۔ لیکن آپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ آپ کے گھر والے آپ کو اس سے مہر بانی برتتے دیکھ کر کہیں سے آپ کا دوست نہ سمجھ لیں اور بعد میں کسی وقت وہ اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ اس لیے آپ نے حضرت عائشہ کو خبر دار کر دیا کہ وہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے۔
ایک موقع پر حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بن عتبہ نے آ کر حضور سے عرض کیا کہ ’’ ابو سفیان ایک بخیل آدمی ہیں، مجھے اور میرے بچوں کو اتنا نہیں دیتے جو ضروریات کے لیے کافی ہو‘‘ (بخاری و مسلم)۔ بیوی کی طرف سے شوہر کی غیر موجودگی میں یہ شکایت اگر چہ غیبت تھی، مگر حضورؐ نے اس کو جائز رکھا، کیونکہ مظلوم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ظلم کی شکایت کسی ایسے شخص کے پاس لے جائے جو اس کو رفع کرا سکتا ہو۔
سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ان نظیروں سے استفادہ کر کے فقہاءو محدثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ ’’ غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے جب کہ ایک صحیح(یعنی شرعاً صحیح) غرض کے لیے اس کی ضرورت ہو اور وہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہو سکتی ہو‘‘۔ پھر اسی قاعدے پر بنا رکھتے ہوئے علماء نے غیبت کی حسب ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں :
۱)۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہر اس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کو دفع کرنے کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔
۲)۔ اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی بُرائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ امید ہو کہ وہ ان برائیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ کر سکیں گے۔
۳)۔ استفتاء کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورت واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آ جائے۔
۴)۔ لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبر دار کرنا تا کہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکیں۔ مثلاً راویوں، گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے، عدالتوں کو بے انصافی سے، اور عوام یا طالبانِ علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے۔ یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو، یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب و صواب اسے بتا دیں تاکہ نا واقفیت میں وہ دھوکا نہ کھائے۔
۵)۔ ایسے لوگوں کے خلاف علیٰ الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہوں، یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کر رہے ہوں، یا خلق خدا کو بے دینی اور ظلم و جَور کے فتنوں میں مبتلا کر رہے ہوں۔
۶)۔ جو لوگ کسی برے لقب سے اس قدر مشہور ہو چکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی اور لقب سے پہچانے نہ جا سکتے ہوں ان کے لیے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف نہ کہ بغرض تنقیص۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، فتح الباری جلد ۱۰،ص ۳۶۲۔ شرح مسلم للنودی، باب تحریم الغیبۃ۔ ریاض الصالحین، باب کایباح من الغیبۃ۔ احکام القرآن للجصاص و روح المعانی، تفسیر آیہ ولا یغتب بعضکم بعضاً)۔
ان مستثنیٰ صورتوں کے ماسوا پیٹھ پیچھے کسی کی بد گوئی کرنا مطلقاً حرام ہے۔ یہ بد گوئی اگر سچی ہو تو غیبت ہے، جھوٹی ہو تو بہتان ہے، اور دو آدمیوں کو لڑانے کے لیے ہو تو چغلی ہے۔ شریعت ان تینوں چیزوں کو حرام کرتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ اگر اس کے سامنے کسی شخص پر جھوٹی تہمت لگائی جا رہی ہو تو وہ اس کو خاموشی سے نہ سنے بلکہاس کی تردید کرے، اور اگر کسی جائز شرعی ضرورت کے بغیر کسی کی واقعی برائیاں بیان کی جا رہی ہوں تو اس فعل کے مرتکبین کو خدا سے ڈرانے اور اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ:
ما من امرئٍ یخذل امرءًا مسْلماً فی موضع تنتھک فیہ حرمتہ و ینتقص فیہمن عرضِہٖ الّا خذلہ اللہ تعالیٰ فی مواطن یحبّ فیھا نصرتہ، وما من امریءٍ ینصر امرءً ا مسْلماً فی مو ضع ینتقص فِیہ مِن عِرضہٖ وینتھک فیہِمِنْ حرمتہٖ الّا نصرہ اللہ عز و جل فی مواطن یحب فیحا نصرتہ (ابوداؤد)۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں اس کی تذلیل کی جا رہی ہو اور اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حمایت ایسے مواقع پر نہیں کرتا جہاں وہ اللہ کی مدد کا خواہاں ہو۔ اور اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو اور اس کی تذلیل و توہین کی جا رہی ہو تو اللہ عزوجل اس کی مدد ایسے مواقع پر کرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی مدد کرے۔
رہا غیبت کرنے والا، تو جس وقت بھی اسے احساس ہو جائے کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے یا کر چکا ہے، اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ اللہ سے توبہ کرے اور اس حرام فعل سے فک جائے۔ اس کے بعد دوسرا فرض اس پر یہ عائد ہوتا ہے کہ حتی الامکان اس کی تلافی کرے۔ اگر اس نے کسی مرے ہوئے آدمی کی غیبت کی ہو تو اس کے حق میں کثرت سے دعائے مغفرت کرے۔ اگر کسی زندہ آدمی کی غیبت کی ہو اور وہ خلاف واقعہ بھی ہو تو ان لوگوں کے سامنے اس کی تردید کرے جن کے سامنے وہ پہلے یہ بہتان تراشی کر چکا ہے۔اور اگر سچی غیبت کی ہو تو آئندہ پھر کبھی اس کی برائی نہ کرے اور اس شخص سے معافی مانگے جس کی اس نے برائی کی تھی۔ علماء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ معافی صرف اس صورت میں مانگنی چاہیے جب کہ اس شخص کو اس کا علم ہو چکا ہو، ورنہ صرف توبہ پر اکتفا کرنا چاہیے، کیونکہ اگر وہ شخص بے خبر ہو اور غیبت کرنے والا معافی مانگنے کی خاطر اسے جا کر یہ بتائے کہ میں نے تیری غیبت کی تھی تو یہ چیز اس کے لیے اذیت کی موجب ہو گی۔
۲۷۔ اس فقرے میں اللہ تعالیٰ نے غیبت کو مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر اس فعل کے انتہائی گھناؤنا ہونے کا تصور دلایا ہے۔ مردار کا گوشت کھانا بجائے خود نفرت کے قابل ہے، کجا کہ وہ گوشت بھی کسی جانور کا نہیں بلکہ انسان کا ہو، اور انسان بھی کوئی اور نہیں خود اپنا بھائی ہو۔ پھر اس تشبیہ کو سوالیہ انداز میں پیش کر کے اور زیادہ مؤثر بنا دیا گیا ہے گا کہ ہر شخص اپنے ضمیر سے پوچھ کر خود فیصلہ کرے کہ آیا وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے لیے تیار ہے؟ اگر نہیں ہے اور اس کی فطرت اس چیز سے گھن کھاتی ہے تو آخر وہ کیسے یہ بات پسند کرتا ہے کہ اپنے ایک مومن بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت پر حملہ کرے جہاں وہ اپنی مدافعت نہیں کر سکتا اور جہاں اس کو یہ خبر تک نہیں ہے کہ اس کی بے عزتی کی جا رہی ہے؟ اس ارشاد سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ غیبت کے حرام ہونے کی بنیادی وجہ اس شخص کی دل آزاری نہیں ہے جس کی غیبت کی گئی ہو، بلکہ کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرنا بجائے خود حرام ہے قطع نظر اس سے کہ اس کو اس کا علم ہو یا نہ ہو اور اس کا اس فعل سے اذیت پہنچے یا نہ پہنچے۔ ظاہر ہے کہ مرے ہوئے آدمی کا گوشت کھانا اس لیے حرام نہیں ہے کہ مردے کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ مردہ بے چارہ تو اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد کوئی اس کی لاش بھنبوڑ رہا ہے۔ مگر یہ فعل بجائے خود ایک نہایت گھناؤنا فعل ہے۔ اسی طرح جس شخص کی غیبت کی گئی ہو اس کو بھی اگر کسی ذریعہ سے اس کی اطلاع نہ پہنچے تو وہ عمر بھر اس بات سے بے خبر رہے گا کہ کہاں کس شخص نے کب اس کی عزت پر کن لوگوں کے سامنے حملہ کیا تھا اور اس کی وجہ سے کس کس کی نظر میں وہ ذلیل و حقیر ہو کر رہ گیا۔ اس بے خبری کی وجہ سے اسے اس غیبت کی سرے سے کوئی اذیت نہ پہنچے گی، مگر اس کی عزت پر بہر حال اس سے حرف آئے گا، اس لیے یہ فعل اپنی نوعیت میں مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے مختلف نہیں ہے۔
۲۸۔ پچھلی آیات میں اہل ایمان کو خطاب کر کے وہ ہدایات دی گئی تھیں جو مسلم معاشرے کو خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔اب اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کر کے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کی موجب بنی رہی ہے، یعنی نسل، رنگ، زبان، وطن اور قومیت کا تعصب قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا، اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھنچے گئے ہیں۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان، قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا ہے، اور کہیں ایک جغرافی خطے میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہو جانا۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی ہے کہ جنہیں اس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو کہ ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو، بلکہ اس تمیز نے نفرت، عداوت، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کی بد ترین شکلیں اختیار کی ہیں۔ اس کے لیے فلسفے گھڑے گئے ہیں۔ مذہب ایجاد کیے گئے ہیں۔ قوانین بنائے گئے ہیں۔ اخلاقی اصول وضع کیے گئے ہیں۔ قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پر عمل در آمد کیا ہے۔ یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیلیوں سے فروتر رکھا۔ ہندوؤں کے ہاں ورن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی رو سے برہمنوں کی بر تری قائم کی گئی، اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھیرائے گئے، اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، آج اس بیسویں صدی ہی میں ہر شخص اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ سکتا ہے۔ یورپ کے لوگوں نے براعظم امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین نسل کے ساتھ جو سلوک کیا اور ایشیا اور افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کر کے جو برتاؤ ان کے ساتھ کیا اس کی تہ میں بھی یہی تصور کار فرما رہا کہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے حدود سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان، مال اور آبرو ان پر مباح ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ ان کو لُوٹیں، غلام بنائیں، اور ضرورت پڑے تو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔ مغربی اقوام کی قوم پر ستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کے لیے جس طرح درندہ بنا کر رکھ دیا ہے اس کی بد ترین مثالیں زمانہ قریب کی لڑائیوں میں دیکھی جاچکی ہیں اور آج دیکھی جا رہی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ نازی جرمنی کا فلسفہ نسلیت اور نارڈک نسل کی برتری کا تصور پچھلی جنگ عظیم میں جو کرشمے دکھا چکا ہے انہیں نگاہ میں رکھا جائے تو آدمی بآسانی یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم تباہ کن گمراہی ہے جس کی اصلاح کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے۔
اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں:
ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہے، ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے، اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور ایک باپ سے شرع ہوئی تھی۔ اس سلسلہ تخلیق میں کسی جگہ بھی اس تفرقے اور اونچ نیچ کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے جس کے زعم باطل میں تم مبتلا ہو۔ ایک ہی خدا تمہارا خالق ہے، ایسا نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کو مختلف خداؤں نے پیدا کیا ہو۔ ایک ہی مادہ تخلیق سے تم بنے ہو، ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ انسان کسی پاک یا بڑھیا مادے سے بنے ہوں اور کچھ دوسرے انسان کسی ناپاک یا گھٹیا مادے سے بن گئے ہوں۔ ایک ہی طریقے سے تم پیدا ہوئے ہو، یہ بھی نہیں ہے کہ مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیدا ہوئی ہوں۔
دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا ایک فطری امر تھا۔ ظاہر ہے کہ پوری روئے زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان تو نہیں ہو سکتا تھا۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ بے شمار خاندان بنیں اور پھر خاندانوں سے قبائل اور اقوام وجود میں آ جائیں۔ اسی طرح زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کے بعد رنگ، خد و خال، زبانیں، اور طرز بود و ماند بھی لا محالہ مختلف ہی ہو جانے تھے، اور ایک خطے کے رہنے والوں کو باہم قریب تر اور دور دراز خطوں کے رہنے والوں کو بعید تر ہی ہونا تھا۔ مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا یہ ہر گز نہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ نیچ، شریف اور کمین، برتر اور کمتر کے امتیازات قائم کیے جائیں، ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے، ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں، ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوّق جمائے، اور انسانی حقوق میں ایک ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح حاصل ہو۔ خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ ان کے درمیان باہمی تعارف اور تعاون کی فطری صورت یہی تھی۔ اسی طریقے سے ایک خاندان، ایک برادری، ایک قبیلے اور ایک قوم کے لوگ مل کر مشترک بنا سکتے تھے اور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے مدد گار بن سکتے تھے۔ مگر یہ محض شیطانی جہالت تھی کہ جس چیز کو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کا ذریعہ بنایا تھا اسے تفاخُر اور تنافُر کا ذریعہ بنا لیا گیا اور پھر نوبت ظلم و عدو ان تک پہنچا دی گئی۔
تیسرے یہ کہ انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اور ہو سکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت ہے۔ پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان یکساں ہیں، کیونکہ ان کا پیدا کرنے والا ایک ہے، ان کا مدہ پیدائش اور طریق پیدائش ایک ہی ہے، اور ان سب کا نسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتا ہے۔ علاوہ بریں کسی شخص کا کسی خاص ملک قوم یا برادری میں پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس میں اس کے اپنے ارادہ و انتخاب اور اس کی اپنی سعی و کوشش کا کوئی دخل نہیں ہے۔ کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس لحاظ سے کیس کو کسی پر فضیلت حاصل ہو۔ اصل چیز جس کی بنا پر ایک شخص کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا، برائیوں سے بچنے والا، اور نیکی و پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو۔ ایسا آدمی خواہ کسی نسل، کسی قوم اور کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو، اپنی ذاتی خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے۔ اور جس کا حال اس کے برعکس ہو وہ بہر حال ایک کمتر درجے کا انسان ہے چاہے وہ کالا ہو یا گورا، مشرق میں پیدا ہوا ہو یا مغرب میں۔
یہی حقائق جو قرآن کی ایک مختصر سی آیت میں بیان کیے گئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنے مختلف خطبات اور ارشادات میں زیادہ کھول کر بیان فرمایا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر طواف کعبہ کے بعد آپ نے جو تقریر فرمائی تھی اس میں فرمایا:
الحمد للہ الذی اذھب عنکم عیبۃ الجاھلیۃ و تکبر ھا۔ یا ایھالناس، الناس رجلان، برٌّ تقی کریمٌ علی اللہ، و فاجر شقی ھَیِّنٌ علی اللہ۔ الناس کلہم بنو اٰدم و خلق اللہ اٰدمَمن ترابٍ۔(بیہقی فی شعب العیمان۔ترمذی)
شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کر دیا۔ لوگو، تمام انسان بس دوہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک، نیک اور پرہیز گار، جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے۔ دوسرا فاجر اور شقی، جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے۔ ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔
حجۃ الوداع کے موقع پر ایام تشریق کے وسط میں آپ نے ایک تقریر کی اور اس میں فرمایا:
یا ایھا الناس، الا ان ربکم واحدٌ لا فضل لعربی علی ولالعجمی علیٰ عربی ولا سود علی احمر ولا لا حمر علی اسود الا بالتقویٰ، ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم۔ الا ھل بلغتُ؟ قالو ابلیٰ یا رسول اللہ، قال فیبلغ الشاھد الغایب۔ (بیہقی) لوگو، خبر دار رہو، تم سب کا خدا ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے اعتبار سے۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔ بتاؤ، میں نے تمہیں بات پہنچا دی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ۔ فرمایا، اچھا تو جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں۔
ایک حدیث میں آپ کا رشاد ہے :
کلکم بو اٰدم و اٰدم خلق من تراب ولینتھینَّ قوم یفخرون بایٰائِھم اولیکونن اھون علی اللہ من الجعلان۔ (بزار) تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لوگ اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنا چھوڑ دیں ورنہ وہ اللہ کی نگاہ میں ایک حقیر کڑے سے زیادہ ذلیل ہوں گے۔
ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا:
ان اللہ لا یسئلکم عن احسابکم ولا عن انسابکم یوم القیٰمۃ، ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم۔(ابن جریر) ٓللہ قیامت کے روز تمہارا حسب نسب نہیں پوچھے گا۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔
ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں: انّ اللہ لا ینظر الیٰ صُرکم و امسالکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم (مسلم۔ ابن ماجہ) اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔
یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں رہی ہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر کے دکھا دی ہے جس میں رنگ، نسل،زبان، وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہیں جس میں اونچ نیچ اور چھوت چھات اور تفریق و تعصب کا کوئی تصور نہیں، جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ وہ کسی نسل و قوم اور ملک و وطن سے تعلق رکھتے ہوں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عملی شکل دی گئی ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی دین اور کسی نظام میں نہیں پائی جاتی نہ کبھی پائی گئی ہے۔ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بے شمار نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنا دیا ہے۔
اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی کو رفع کر دینا بھی ضروری ہے۔ شادی بیاہ کے معاملہ میں اسلامی قانون کفو کو جو اہمیت دیتا ہے اس کو بعض لوگ اس معنی میں لیتے ہیں کہ کچھ برادریاں شریف اور کچھ کمین ہیں اور ان کے درمیان مناکحت قابل اعتراض ہے۔ لیکن در اصل یہ ایک غلط خیال ہے۔ اسلامی قانون کی رو سے ہر مسلمان مرد کا ہر مسلمان عورت سے نکاح ہو سکتا ہے، مگر ازدواجی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ زوجین کے درمیان عادات، خصائل، طرز زندگی، خاندانی روایات اور معاشی و معاشرتی حالات میں زیادہ سے زیادہ مطابقت ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھی طرح نباہ کر سکیں۔ یہی کفاءت کا اصل مقصد ہے۔ جہاں مرد اور عورت کے درمیان اس لحاظ سے بہت زیادہ بُعد ہو وہاں عمر بھی کی رفاقت نبھ جانے کی کم ہی توقع ہو سکتی ہے، اس لیے اسلامی قانون ایسے جوڑ لگانے کو ناپسند کرتا ہے، نہ اس بنا پر کہ فریقین میں سے ایک شریف اور دوسرا کمین ہے، بلکہ اس بنا پر کہ حالات میں زیادہ بین فرق و اختلاف ہو تو شادی بیاہ کا تعلق کرنے میں ازدواجی زندگیوں کے ناکام ہو جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
۲۹۔ یعنی یہ بات اللہ ہی جانتا ہے کہ کون فی الواقع ایک اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور کون اوصاف کے لحاظ سے ادنیٰ درجے کا ہے۔ لوگوں نے بطور خود اعلیٰ اور ادنیٰ کے جو معیار بنا رکھے ہیں یہ اللہ ہاں چلنے والے نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جس کو دنیا میں بہت بلند مرتبے کا آدمی سمجھا گیا ہو وہ اللہ کے آخری فیصلے میں کم ترین خلائق قرار پائے، اور ہو سکتا ہے کہ جو یہاں بہت حقیر سمجھا گیا ہو، وہ وہاں بڑا اونچا مرتبہ پائے۔ اصل اہمیت دنیا کی عزت و ذلت کی نہیں بلکہ اس ذلت و عزت کی ہے جو خدا کے ہاں کسی کو نصیب ہو۔ اس لیے انسان کو ساری فکر اس امر کی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اندر وہ حقیقی اوصاف پیدا کرے جو اسے اللہ کی نگاہ میں عزت کے لائق بنا سکتے ہوں۔
۳۰۔ اس سے مراد تمام بدوی نہیں ہیں بلکہ یہاں ذکر چند خاص بدوی گروہوں کا ہو راہ ہے جو اسلام میں بڑھتی ہوئی طاقت دیکھ کر محض اس خیال سے مسلمان ہو گئے تھے کہ وہ مسلمانوں کی ضرب سے محفوظ بھی رہیں گے اور اسلامی فتوحات کے قواعد سے متمتع بھی ہوں گے۔ یہ لوگ حقیقت میں سچے دل سے ایمان نہیں لائے تھے، محض زبانی اقرار ایمان کر کے انہوں نے مصلحۃً اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرا لیا تھا۔ اور ان کی اس باطنی حالت کا راز اس وقت فاش ہو جاتا تھا جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر طرح طرح کے مطالبہ کرتے تھے، اور اپنا حق اس طرح جتاتے تھے کہ گویا انہوں نے اسلام قبول کر کے آپ پر بڑا احسان کیا ہے۔ روایات میں متعدد قبائلی گروہوں کے اس رویے کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً مُزینہ، جہینہ، اسلم، اشجع، غِفار وغیرہ۔ خاس طور پر بنی اَسد بن خزیمہ کے متعلق ابن عباس اور سعید بن جُبیر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ خشک سالی کے زمانہ میں وہ مدینہ آئے اور مالی مدد کا مطالبہ کرتے ہوئے بار بار انہوں نے رسول اللہ صلی علیہ و سلم سے کہا کہ ’’ ہم بغیر لڑے بھڑے مسلمان ہوئے ہیں، ہم نے آپ سے اس طرح جنگ نہیں کی جس طرح فلان اور فلاں قبیلوں نے جنگ کی ہے ‘‘ اس سے ان کا صاف مطلب یہ تھا کہ اللہ کے رسول سے جنگ نہ کرنا اور اسلام قبول کر لینا ان کا ایک احسان ہے جس کا معاوضہ انہیں رسول اور اہل ایمان سے ملنا چاہیے۔ اطراف مدینہ کے بدوی گروہوں کا یہی وہ طرز عمل ہے جس پر ان آیات میں بات زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔
۳۱۔ اصل میں قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کو دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ کہو ہم مسلمان ہو گئے ہیں‘‘ ان الفاظ سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ قرآن مجید کی زبان میں ’’مومن ‘‘اور ’’مسلم ‘‘دو متقابل اصطلاحیں ہیں، مومن وہ ہے جو سچے دل سے ایمان لایا ہو اور مسلم وہ ہے جس نے ایمان کے بغیر محض ظاہر میں اسلام قبول کر لیا ہو۔ لیکن در حقیقت یہ خیال بالکل غلط ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس جگہ ایمان کا لفظ قلبی تصدیق کے لیے اور اسلام کا لفظ محض ظاہر اطاعت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مگر یہ سمجھ لینا صحیح نہیں ہے کہ یہ قرآن مجید کی دو مستقل اور باہم متقابل اصطلاحیں ہیں۔ قرآن کی جن آیات میں اسلام اور مسلم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان تتبعُّ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں ’’ اسلام‘‘ اس دین حق کا نام ہے جو اللہ نے نوع انسانی کے لیے نازل کیا ہے، اس کے مفہوم میں ایمان اور اطاعت امر دونوں شامل ہیں، اور ’’مسلم‘‘ وہ ہے جو سچے دل سے مانے اور عملاً اطاعت کرے۔ مثال کے طور پر حسب ڈیل آیات ملاحظہ ہوں:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاَسْلَا مُ (آل عمران ۱۹ ) یقیناً اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
وَمَنْیَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِ سْلَامِ دِیْناًفَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۔ (آل عمران۔۸۵) اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے اس کا وہ دین ہر گز قبول نہ کیا جائے گا۔
وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً (المائدہ۔۳) اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیا ہے۔
فَمَنْ یُّرِدِ اللہُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۔ (الانعام۔ ۱۲۵) اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینا اسلام کے لیے کھول دینات ہے۔
ظاہر ہے کہ ان آیات میں ’’ اسلام‘‘ سے مراد اطاعت بالا ایمان نہیں ہے۔ پھر دیکھیے جگہ جگہ اس مضمون کی آیات آتی ہیں:
قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّ لِ مَنْ اَسْلَمَ۔ (الانعام۔ ۱۴) اے نبی کہا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والا میں ہوں۔
فَاِنْ اَسْلَمُو افَقَدِ اھْتَدَوْا (آل عمران۔۲۰) پھر اگر وہ اسلام لے آئیں تو انہوں نے ہدایت پالی۔
یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا (المائدہ۔ ۴۴) تمام انبیاء جو اسلام لائے تھے تو رات کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔
کیا یہاں اور اس طرح کے بیسیوں دوسرے مقامات پر اسلام قبول کرنے یا اسلام لانے کا مطلب ایمان کے بغیر اطاعت اختیار کر لینا ہے؟ اسی طرح ’’ مسلم‘‘ کا لفظ بار بار جس معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے لیے نمونے کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں۔
یٰٓاَیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُو اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَا تِہٖ وِلَا تَمُوْ تُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمّوْنَ۔ (آل عمرآن۔۱۰۲) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں تم مسلم ہو۔
ھُوَسَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذا (الحج۔ ۷۸ ) اس نے تمہارا نام پہلے بھی مسلم رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی۔
مَا کَا نَ اِبْرَا ھِیْمْ عَھُو دِیًّا وَّ لَا نَصْرَا نِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً۔(آل عمران۔ ۶۷) ابراہیمؑ نہ یہودی تھا نصرانی، بلکہ وہ یک سُو مسلم تھا۔
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّ یَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ۔ (البقرہ۔ ۱۲۸) رب، اور ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری مسلم ہو۔
یٰبَنِیَّ اِنَّ اللہَ اصْطَفیٰ لَکُمُ الدِّ یْنَ فَلَا تَمُوْ تُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (البقرہ۔۱۳۲) (تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم و اسماعیل کی دعا) اے ہمارے رب، اور ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری مُسلم ہو۔
ان آیات کو پڑھ کر آخر کون یہ خیال کر سکتا ہے کہ ان میں مسلم سے مراد وہ شخص ہے جو دل سے نہ مانے، بس ظاہر طور پر اسلام قبول کر لے؟ اس لیے یہ دعویٰ کرنا قطعی غلط ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں اسلام سے مراد اطاعت بلا ایمان ہے، اور مسلم قرآن کی زبان میں محض بہ ظاہر اسلام قبول کر لینے والے کو کہتے ہیں۔ اسی طرح یہ دعویٰ کرنا بھی غلط ہے کہ ایمان اور مومن کے الفاظ قرآن مجید میں لازماً سچے دل سے ماننے ہی کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ بلا شبہ اکثر مقامات پر یہ الفاظ اسی مفہوم کے لیے آئے ہیں، لیکن بکثرت مقامات ایسے بھی ہیں جہاں یہ الفاظ ظاہری اقرار ایمان کے لیے بھی استعمال کیے گئے ہیں، اور یَا اَیّھَُا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا۔ کہہ کر ان سب لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے جو زبانی اقرار کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوئے ہوں، قطع نظر اس سے کہ وہ سچے مومن ہوں، یا ضعیف الایمان، یا محض منافق۔ اس کی بہت سی مثالوں میں سے صرف چند کے لیے ملاحظہ ہو آل عمران، آیت ۱۵۶۔ النساء،۱۲۶۔ المائدہ، ۵۴۔ الانفال، ۲۰۔۲۷۔التوبہ، ۳۸ الحدید، ۲۸۔ الصّف، ۲۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp
تشکر: سبط الحسین
جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید
مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، عبد الحمید
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید