FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تفہیم القرآن

 

 

 

۱۴۔ سورۂ  مومن تا سورۂ  زخرف

 

ابو الاعلیٰ مودودی

 

 

 

 

 (۴۰) سورۂ المؤمن

 

 

نام

 

آیت ۲۸ کے فقرے وَ قَالَ رَجُلٌ  مُّؤْمِنٌ   مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ سے ماخوذ ہے، یعنی وہ سورہ جس میں اس خاص مومن کا ذکر آیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

ابن عباس اور جابر بن زید کا بیان ہے کہ یہ سورۃ زمر کے بعد متصلاً نازل ہوئی ہے اور اس کا جو مقام قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں ہے  وہی ترتیب نزول کے اعتبار سے بھی ہے۔

 

حالات نزول

 

جن حالات میں یہ سورہ نازل لوئی ہے اُن کی طرف صاف اشارات اِس کے مضمون میں موجود ہیں۔ کفار مکہ نے اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف دو طرح کی کارروائیا ں شروع کر رکھی تھیں۔ ایک یہ کہ ہر طرف جھگڑے اور بحثیں چھیڑ کر، طرح طرح کے اُلٹے سیدھے سوالات اّٹھا کر، اور نت نئے الزامات لگا کر قرآن کی تعلیم اور اسلام کی دعوت اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں اتنے شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دیے جائیں کہ ان کو صاف کرتے کرتے آخر کار حضورؐ اور اہل ایمان زچ ہو جائیں۔ دوسرے یہ کہ آپ کو قتل کر دینے کے لیے زمین ہموار کی جائے۔ چنانچہ اس غرض کے لیے وہ پیہم سازشیں کر رہے تھے، اور ایک مرتبہ تو عملاً انہوں نے اس کا اقدام کر بھی ڈالا تھا۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عُمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم حرم میں نماز پڑھ رہے تھے۔ یکایک عُقبہ بن ابی مُعَیط آگے بڑھا اورس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اسے بَل دینا شروع کر دیا تاکہ گلا گھونٹ کر آپؐ کو مار ڈالے مگر عین وقت پر حضرت ابوبکر پہنچ گئے اور انہوں نے دھکا دے کر اسے ہٹا دیا۔ حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ جس وقت ابو بکر صدّیق اُس ظالم سے کشمکش کر رہے تھے اس وقت اُن کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلَ رَ بِّیَ اللہ (کیا تم ایک شخص کو صرف اِس قصور میں مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟)۔ تھوڑے اختلاف کے ساتھ یہ واقعہ سیرت ابن ہشام میں بھی منقول ہو ا ہے اور نَسَائی اور ابن ابی حاتم نے بھی اسے روایت کیا ہے۔

 

موضوع اور مباحث

 

صورت حال کے اِن دونوں پہلوؤں کو آغاز تقریر ہی میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے اور پھر آگے کی پوری تقریر انہی دونوں پر ایک انتہائی مؤثر اور سبق آموز تبصرہ ہے۔
قتل کی سازشوں کے جواب میں مومنِ آل فرعون کا قصّہ سنایا گیا ہے ( آیت  ۲۳ تا ۵۵) اور اس قصے کے پیرائے میں تین گروہوں کو تین مختلف سبق دیے گئے ہیں :
۱۔ کفّار کو بتایا گیا ہے کہ جو تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کرنا چاہتے ہو یہی کچھ اپنی طاقت کے بھروسے پر فرعون حضرت موسیٰ کے ساتھ کرنا چاہتے تھا، اب کیا یہ حرکتیں کر کے تم بھی اُسی انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو جس سے وہ  دوچار ہوا؟
۲۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے پیروؤں کو سبق دیا گیا ہے کہ یہ ظالم بظاہر  خواہ کتنے ہی بالا دست اور چہرہ دست ہوں، اور ان کے مقابلہ میں تم خواہ کتنے ہی کمزور  اور بے بس ہو، مگر تمہیں یقین رکھنا چاہیے کہ جس خدا کے دین کا بول بالا کرنے کے لیے تم کام کر رہے ہو اس کی طاقت ہر دوسری طاقت پر بھاری ہے۔ لہٰذا جو بڑی خوفناک دھمکی بھی یہ تمہیں دے سکتے ہیں، اس کے جواب میں بس خدا کی پناہ مانگ لو اور اس کے بعد بالکل بے خوف ہو کر اپنے کام میں لگ جاؤ۔ خدا پرست کے پاس  ظالم کی ہر دھمکی کا بس ایک جواب ہے، اور وہ ہے  اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبّیِ وَ بِرَبِّکُمْ مِّنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ۔ اس طرح خدا کے بھروسے پر خطرات سے بے پروا ہو کر کام کرو گے تو آخر کار اس کی نصرت آ کر رہے گی اور آج کے فرعون بھی وہی کچھ دیکھ لیں گے جو کل کے فرعون دیکھ چکے ہیں۔ وہ وقت آنے تک ظلم و ستم کے جو طوفان بھی اُمڈ کر آئیں انہیں صبر کے ساتھ تمہیں برداشت کرنا ہو گا۔
۳۔ ان دو گروہوں کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی معاشرے میں موجود تھا، اور وہ ان لوگوں کا گروہ تھا جو دلوں میں جان چکے تھے کہ حق محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہے اور کفّار قریش سراسر زیادتی کر رہے ہیں۔ مگر یہ جان لینے کے باوجود وہ خاموشی کے ساتھ حق و باطل کی اس کشمکش کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر اُن کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ جب حق کے دشمن علانیہ تمہاری آنکھوں کے سامنے اتنا بڑا ظالمانہ اقدام کرنے پر تُل گئے ہیں تو حیف ہے تم پر اگر اب بھی تم بیٹھے تماشا ہی دیکھتے رہو۔ اس حالت میں جس شخص کا ضمیر بالکل مر نہ چکا ہو اُسے تو اُٹھ کر وہ فرض انجام دینا چاہیے جو فرعون  کے بھرے دربار میں اُس کے اپنے درباریوں میں سے ایک راستباز آدمی نے اُس وقت انجام دیا تھا جب فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنا چاہا تھا۔ جو مصلحتیں تمہیں زبان کھولنے سے باز رکھ رہی ہیں، یہی مصلحتیں اُس شخص کے آگے بھی راستہ روک کر کھڑی ہوئی تھیں۔ مگر اُس نے اُفَوِّ ضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہ کہہ کر ان ساری مصلحتوں کو ٹھکرا دیا، اور اس کے بعد دیکھ لو کہ فرعون اُس کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔
اب رہا کفار کا وہ مجادلہ جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے مکہ معظمہ میں شب و روز جاری تھا، تو اس کے جواب میں ایک طرف دلائل سے توحید اور آخرت کے اُن عقائد کا بر حق ہونا ثابت کیا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور کفار کے درمیان اصل بنائے نزاع تھے، اور یہ حقیقت صاف کھول کر رکھ دی گئی ہے کہ یہ لوگ کسی علم اور کسی دلیل و حجت کے بغیر سچائیوں کے خلاف خواہ مخواہ جھگڑ رہے ہیں۔ دوسرے طرف اُ ن اصل محرکات کو بے نقاب کیا گیا ہے جن کی بنا پر سردارانِ قریش اس قدر سرگرمی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ بظاہر انہوں نے  یہ ڈھونگ رچا رکھا تھا کہ حضورؐ کی تعلیم اور آپؐ کے دعوائے نبوت پر انہیں حقیقی اعتراضات ہیں جن کی وجہ سے وہ ان باتوں کو نہیں مان رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ ان کے لیے محض ایک جنگ اقتدار تھی۔ آیت ۵۶ میں یہ بات کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اُن سے صاف کہہ دی گئی ہے کہ تمہارے انکار کی اصل وجہ وہ کبر ہے جو تمہارے دلوں میں بھرا ہوا ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ اگر لوگ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت تسلیم کر لیں گے تو تمہاری بڑائی قائم نہ رہ سکے گی۔ اسی وجہ سے تم ان کو زک دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو۔
اسی سلسلے میں کفار کو پے در پے تنبیہات کی گئی ہیں کہ اگر اللہ کی آیات کے مقابلے میں مجادلہ کرنے سے باز نہ آؤ گے تو اُسی انجام سے دوچار ہو گے جس سے پچھلی قومیں دوچار ہو چکی ہیں اور اس سے بدتر انجام تمہارے لیے آخرت میں مقدر ہے۔ اُس وقت تم پچھتاؤ گے، مگر اس وقت کا پچھتانا تمہارے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو گا۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

ح۔ م۔ اِس کتاب کا نزُول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے،  سب کچھ جاننے والا ہے،  گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحبِ فضل ہے۔ کوئی معبُود اس کے سوا نہیں، اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔ ۱

اللہ کی آیات میں جھگڑے ۲ نہیں کرتے مگر صرف وہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا ہے۔ ۳ اِس کے بعد دنیا کے ملکوں میں اُن کی چَلَت پھِرَت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ ۴ اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم بھی جھُٹلا چکی ہے، اور اُس کے بعد بہت سے دُوسرے جتّھوں نے بھی یہ کام کیا ہے۔ ہر قوم اپنے رسُول پر جھپٹی تاکہ اُسے گرفتار کرے۔ اُن سب نے باطل کے ہتھیاروں سے حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ مگر آخر کار میں نے ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔ اِسی طرح تیرے ربّ کا یہ فیصلہ بھی اُن سب لوگوں پر چسپاں ہو چکا ہے جو کُفر کے مرتکب ہوئے ہیں کہ وہ واصلِ جہنّم ہونے والے ہیں۔ ۵

عرشِ الہٰی کے حامل فرشتے،  اور وہ جو عرش کے گردو پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دُعائے مغفرت کرتے ہیں۔ ۶ وہ کہتے ہیں ’’اے ہمارے ربّ،  تُو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، ۷ پس معاف کر دے اور عذابِ دوزخ سے بچا لے ۸ اُن لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ۹ اے ہمارے ربّ، اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنّتوں  میں جن کا تُو نے اُن سے وعدہ کیا ہے ۱۰،  اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں ( اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے ۱۱ )۔ تُو بلاشبہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے۔ اور بچا دے اُن کو برائیوں سے ۱۲۔  جس کو تُو نے قیامت کے دن بُرائیوں سے ۱۳ بچا دیا اُس پر تُو نے بڑا رحم کیا،  یہی بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘ ؏۱

 

تفسیر

 

۱:  یہ تقریر کی تمہید ہے جس کے ذریعہ سے سامعین کو پہلے ہی خبردار کر دیا گیا ہے کہ یہ کلام جو اُن کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے کسی معمولی ہستی کا کلام نہیں ہے، بلکہ اس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ پھر پے در پے اللہ تعالیٰ کی چند صفات بیان کی گئی ہیں جو آگے کے مضمون سے گہری مناسبت رکھتی ہیں :اوّل یہ کہ وہ’’ زبردست‘‘  ہے، یعنی سب پر غالب ہے۔ اس کا جو فیصلہ بھی کسی کے حق میں ہو، نافذ ہو کر  رہتا ہے، کوئی اس سے لڑ کر جیت نہیں سکتا، نہ اس کی گرفت سے بچ سکتا ہے۔ لہٰذا اس کے فرمان سے منہ موڑ کر اگر کوئی شخص کامیابی کی توقع رکھتا ہو، اور اس کے رسول سے جھگڑا کر کے  یہ امید رکھتا ہو کہ وہ اسے نیچا دکھا دے گا، تو یہاس کی اپنی حماقت ہے۔ ایسی توقعات کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔ دوسرے صفت یہ کہ وہ ’’ سب کچھ جاننے والا ‘‘ ہے۔ یعنی وہ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی بات نہیں کرتا بلکہ ہر چیز کا براہ راست علم رکھتا ہے، اس لیے ماورائے حسّ و ادراک حقیقتوں کے متعلق جو معلومات وہ دے رہا ہے، صرف وہی صحیح ہو سکتی ہیں، اور ان کو نہ ماننے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خواہ مخواہ جہالت کی پیروی کرے۔ اسی طرح وہ جانتا ہے کہ انسان کی فلاح کس چیز میں ہے اور کون سے اصول و قوانین اور احکام اس کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔ اس کی ہر تعلیم حکمت اور علم صحیح پر مبنی ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا اُس کی ہدایات کو قبول نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خود اپنی تباہی کے راستے پر جانا چاہتا ہے۔ پھر انسانوں کی حرکات و سکنات میں سے کوئی چیز اُسسے چھپی نہیں رہ سکتی، حتّیٰٰ کہ وہ ان نیتوں اور ارادوں تک کو جانتا ہے۔ جو انسانی افعال کے اصل محرک ہوتے ہیں۔ اس لیے انسان کسی بہانے اس کی سزا سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔ تیسری صفت یہ کہ وہ ’’ گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے ‘‘۔ یہ امید اور  ترغیب دلانے والی صفت ہے جو اس غرض سے بیان کی گئی ہے کہ جو لوگ اب تک سرکشی کرتے رہے ہیں وہ مایوس نہ ہوں، بلکہ یہ سمجھتے ہوئے اپنی روش پر نظر ثانی کریں کہاگر اب بھی وہ اس روش سے باز آ جائیں تو اللہ کے دامن رحمت میں جگہ پا سکتے ہیں۔ اس جگہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ گناہ معاف کرنا اور توبہ قبول کرنا لازماً ایک ہی چیز کے دو عنوان نہیں ہیں، بلکہ بسا اوقات توبہ کے بغیر بھی اللہ کے ہاں گناہوں کی معافی ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک شخص خطائیں بھی کرتا رہتا ہے اور نیکیاں بھی، اور اس کی نیکیاں اس کی خطاؤں کے معاف ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہیں، خواہ اُسے ان خطاؤں پر توبہ و استغفار کرنے کا موقع نہ ملا ہو، بلکہ وہ انہیں بھول بھی چکا ہو۔ اسی طرح ایک شخص پر دنیا میں جتنی بھی تکلیفیں اور مصیبتیں اور بیماریاں اور طرح طرح کی رنج و غم پہنچانے والی آفات آتے ہیں، وہ سب اس کی خطاؤں کا بدل بن جاتی ہیں۔ اسی بنا پر گناہوں کی معافی کا ذکر توبہ قبول کرنے سے الگ  کیا گیا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ توبہ کے بغیر خطا بخشی کی یہ رعایت صرف اہل ایمان کے لیے ہے اور اہل ایمان میں بھی صرف اُن کے لیے جو سرکشی و بغاوت کے ہر جذبے سے خالی ہوں اور جن سے گناہوں کا صدور بشری کمزوری کی وجہ سے ہوا ہو نہ کہ استکبار اور معصیت پر اصرار کی بنا پر۔ چوتھی صفت یہ کہ وہ ’’ سخت سزا دینے والا‘‘ ہے۔ اس صفت کا ذکر کر کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ بندگی کی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ جتنا رحیم ہے، بغاوت و سرکشی کا رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے اتنا ہی سخت ہے۔ جب کوئی شخص یا گروہ اُن تمام حدوں سے گزر جاتا ہے جہاں تک وہ اس کے درگزر اور اس کی خطا بخشی کا مستحق ہو سکتا ہے، تو پھر وہ اس کی سزا کا مستحق بنتا ہے، اور اس کی سزا ایسی ہولناک ہے کہ صرف ایک احمق انسان ہی اُس کو قابل برداشت سمجھ سکتا ہے۔ پانچویں صفت یہ کہ وہ ’’ صاحب فضل ‘‘ ہے، یعنی کشادہ دست، غنی اور فیاض ہے۔ تمام مخلوقات پر اس کی نعمتوں اور اس کے احسانات کی ہمہ گیر بارش ہر آن ہو رہی ہے۔ بندوں کو جو کچھ بھی مل رہا ہے اُسی کے فضل و کرم سے مل رہا ہے۔ ان پانچ صفات کے بعد دو حقیقتیں واشگاف طریقہ سے بیان کر دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ معبود فی الحقیقت اُس کے سوا کوئی نہیں ہے، خواہ لوگوں نے کتنے ہی دوسرے جھوٹے معبود بنا رکھے ہوں۔ دوسری یہ کہ جانا سب کو آخر کار اسی کی طرف ہے۔ کوئی دوسرا معبود لوگوں کے اعمال کا حساب لینے والا اور ان کی جزا و سزا کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو چھوڑ  کر اگر کوئی دوسروں کو معبود بنائے گا تو اپنی اس حماقت کا خمیازہ خود بھگتے گا۔

۲:  جھگڑا کرنے سے مراد ہے کج بحثیاں کرنا۔ مین میخ نکالنا۔ الٹے سیدھے اعتراضات جڑنا۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے کوئی ایک لفظ یا فقرہ لے اُڑانا اور اس سے طرح طرح کے نکتے پیدا کر کے شبہات و الزامات کی عمارتیں کھڑی کرنا۔ کلام کے اصل مدعا کو نظر انداز کر کے اس کو غلط معنی پہنانا تاکہ آدمی نہ خود بات کو سمجھے نہ دوسروںکو سمجھنے دے۔ یہ طرز اختلاف لازماً صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جن کا اختلاف بدنیتی پر مبنی ہوتا ہے۔ نیک نیت مخالف اگر بحث کرتا بھی ہے تو تحقیق کی غرض سے کرتا ہے اور اصل مسائل زیر بحث پر گفتگو کر کے یہ اطمینان کرنا چاہتا ہے کہ ان مسائل میں اس کا اپنا نقطہ نظر درست ہے یا فریق مخالف کا۔ اس قسم کی بحث حق معلوم کرنے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ کسی کو نیچا دکھانے کے لیے۔ بخلاف اس کے بد نیت مخالف کا اصل مقصد سمجھنا اور سمجھانا نہیں ہوتا بلکہ وہ فریق ثانی کو زک دینا اور زچ کرنا چاہتا ہے اور بحث کے میدان میں اس لیے اُترنا ہے کہ دوسرے کی بات کسی طرح چلنے نہیں دینی ہے۔ اسی وجہ سے وہ کبھی اصل مسائل کا سامنا نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اطراف ہی میں چھاپے مارتا رہتا ہے۔

۳:  ’’ کفر‘‘ کا لفظ یہاں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک کفران نعمت۔ دوسرے انکار حق۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل صرف وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو اس کے احسانات کو بھول گئے ہیں اور جنہیں یہ احساس نہیں رہا ہے کہ اسی کی نعمتیں ہیں جن کے بل پر وہ پل رہے ہیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سےمطلب یہ ہے کہ یہ طرز عمل صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جنہوں نے حق سے منہ موڑ لیا ہے اور اسے نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں کفر کرنے والے سے مراد ہر وہ شخص نہیں ہے جو مسلمان نہ ہو۔ اسلیے کہ جو غیر مسلم اسلام کو سمجھنے کی غرض سے نیک نیتی کے ساتھ بحث کرے اور تحقیق کی غرض سے وہ باتیں سمجھنے کی کوشش کرے جن کے سمجھنے میں اسے زحمت پیش آ رہی ہو، اگرچہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تک اصطلاحاً ہوتا وہ بھی کافر ہی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس پر وہ بات راست نہیں آتے جس کی اس آیت میں مذمت کی گئی ہے۔

۴:  پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے ذہن سامع پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ فحوائے کلام سے یہ بات خود بخود مترشح ہوتی ہے کہ اللہ عزّوجلّ کی آیات کے مقابلے میں جو لوگ جھگڑالو پن کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں، وہ سزا سے کبھی بچ نہیں سکتے۔ لامحالہ ایک نہ ایک روز ان کی شامت آنی ہے۔ اب اگر تم دیکھ رہے ہو کہ وہ لوگ یہ سب کچھ کر کے بھی خدا کی زمین میں اطمینان سے دندناتے پھر رہے ہیں، اور ان کے کاروبار خوب چمک رہے ہیں، اور ان کی حکومتیں بڑی شان سے چل رہی ہیں، اور وہ خوب داد عیش دے رہے ہیں، تو اس دھوکے میں نہ پڑ جاؤ کہ وہ خدا کی پکڑ سے بچ نکلے ہیں، یا خدا کی آیات سے جنگ کوئی کھیل ہے جسے تفریح کے طور پر کھیلا جا سکتاہے اور اس کا کوئی بُرا نتیجہ اس کھیل کے کھلاڑیوں کو کبھی نہ دیکھنا پڑے گا۔ یہ تو دراصل ایک مہلت ہے جو خدا کی طرف سے ان کو مل رہی ہے۔ اس مہلت سے غلط فائدہ اٹھا کر جو لوگ جس قدر زیادہ شرارتیں کرتے ہیں ان کی کشتی اسی قدر زیادہ بھر کر ڈوبتی ہے۔

۵:  یعنی دنیا میں جو عذاب اُن پر آیا وہ ان کی آخری سزا نہ تھی بلکہ اللہ نے یہ فیصلہ بھی ان کے حق میں کر دیا ہے کہ ان کو واصل بجہنم ہونا ہے۔ ایک دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح پچھلی قوموں کی شامت آ چکی ہے اسی طرح اب جولوگ کفر کر رہے ہیں ان کے حق میں بھی اللہ کا یہ فیصلہ طے شدہ ہے کہ واصل بجہنم ہونے والے ہیں۔

۶:  یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اسوقت کفار مکہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں، اور ان کے مقابلہ میں اپنی بے بسیدیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ ان گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو، تمہارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرش الہٰی کے حامل فرشتے، اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمہارے حامی ہیں اور تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجائے عرش الٰہی  کے حمل اور اس کے گرد و پیش رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوند ی کے عام اہل کار تو درکنار وہ ملائکہ مقربین بھی جواس سلطنت کے ستون ہیں اور جنہیں فرمانروائے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے، تمہارے ساتھ گہری دلچسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔ پھر یہ جو فرمایا گیا کہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے اُن خاکی انسانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے جو  انہی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ فرشتوں کے اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے، مگر انہوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا، بلکہ اس کا مطلب یہ کہ وہ اللہ وحدہٗ  لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں، کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انہیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سر اطاعت جھکاتے ہوں۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلافِ جنس اور بُعدِ مقام کے باوجود ان کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہو گیا۔

۷:یعنی اپنے بندوں کی کمزوریاں  اور لغزشیں اور خطائیں تجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہیں، بے شک تو سب کچھ جانتا ہے مگر تیرے علم کی طرح تیرا دامن رحمت بھی تو وسیع ہے، اسلیے ان کی خطاؤں کو جاننی کے باوجود ان غریبوں کو بخش دے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بربنائے رحمت ان سے لوگوں کو بخش دے جن کو بربنائے علم تو جانتا ہے کہ انہوں نے سچے دل سے توبہ کی ہے  فی الواقع تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔

۸:  معاف کرنا اور عذاب دوزخ سے بچا لینا اگرچہ صریحاً لازم و ملزوم ہیں اور ایک بات کا ذکر کر دینے کے بعد دوسری بات کہنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی۔ لیکن اس طرز بیان سے دراصل اہل ایمان کے ساتھ فرشتوں کی گہری دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ قاعدے کی بات ہے کہ کسی معاملے میں جس شخص کے دل کو لگی ہوئی ہوتی ہے وہ جب حاکم سے گزارش کرنے کا موقع پا لیتا ہے تو پھر وہ اِلحاح کے ساتھ ایک ہی درخواست کو بار بار طرح طرح سے پیش کرتا ہے اور ایک بات بس ایک دفعہ عرض کر دے اس کی تسلی نہیں ہوتی۔

۹:یعنی نافرمانی چھوڑ دی ہے، سرکشی سے باز آ گئے ہیں اور فرمانبرداری اختیار کر کے زندگی کے اس راستے پر چلنے لگے ہیں جو تو نے خود بتایا ہے۔

۱۰:  اس میں بھی وہی الحاح کی کیفیت پائی جاتی ہے جس کی طرف اوپر حاشیہ نمبر ۸ میں ہم نے اشارہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ معاف کرنا اور دوزخ سے بچا لینا آپ سے آپ جنت میں داخل کرنے کو مستلزم ہے، اور پھر جس جنت کا اللہ نے خود مومنین سے وعدہ کیا ہے، بظاہر اسی کے لیے مومنین کے حق میں دعا کرنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے، لیکن اہل ایمان کے لیے فرشتوں کے دل میں جذبۂ خیر خواہی کا اتنا جوش ہے کہ وہ اپنی طرف سےان کے حق میں کلمہ خیر کہتے ہی چلے جاتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ سب مہربانیاں ان کے ساتھ کرنے والا ہے۔

۱۱:  یعنی ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ان کے ماں باپ اور بیویوں اور اولاد کو بھی ان کے ساتھ جمع کر دے۔ یہ وہی بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود بھی ان نعمتوں کے سلسلےمیں بیان فرمائی ہے جو جنت میں اہل ایمان کو دی جائیں گی۔ ملاحظہ ہو سورہ رعد آیت۲۳۔ اور سورہ طور آیت ۲۱۔ سورہ طور والی آیت میں یہ تصریح بھی ہے کہ اگر ایک شخص جنت میں بلند درجے کا مستحق ہو اور اس کے والدین اور بال بچے اس مرتبے کے مستحق نہ ہوں تو اس کو نیچے لا کر ان کے ساتھ ملانے کے بجائے اللہ تعالیٰ ان کو اٹھا کر اس کے درجے میں لے جائے گا۔

۱۲:  ’’ سیّئات‘‘ (برائیوں ) کا لفظ تین مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور تینوں ہی یہاں مراد ہیں۔ ایک، غلط عقائد اور بگڑے ہوئے اخلاق اور بُرے اعمال۔ دوسرے، گمراہی اور اعمال بد کا وبال۔ تیسرے آفات اور مصائب اور اذیتیں خواہ وہ اس دنیا کی ہوں، یا عالم برزخ کی، یا روز قیامت کی۔ فرشتوں کی دعا کا مقصود یہ ہے کہ ان کو ہراس چیز سے بچا جو ان کے حق میں بُری ہو۔

۱۳:  روز قیامت کی بُرائیوں سے مراد میدان حشر کا ہَول، سائے اور ہر قسم کی آسائشوں سےمحرومی، محاسبے کی سختی، تمام خلائق کے سامنے زندگی کے راز فاش ہونے کی رسوائی، اور دوسرےوہ تمام ذلتیں اور سختیاں ہیں جن سے وہاں مجرمین کو سابقہ پیش آنے والا ہے۔

 

ترجمہ

 

جن لوگوں نے کفر کیا ہے، قیامت کے روز ان کو پکار کر کہا جائے گا ’’ آج تمہیں جتنا شدید غصہ اپنے اوپر آ رہا ہے، اللہ تم پر اس سے زیادہ غضب ناک اس وقت ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے ‘‘(۱۴)۔ دیکھیں گے ’’ اے ہمارے رب، تو نے واقعی ہمیں دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی دے دی، (۱۵) اب ہم اپنے قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں (۱۶)، کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے ‘‘؟(۱۷)(جواب ملے گا) یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو، اس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھے۔ اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ  ہے (۱۸)۔

وہی ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے (۱۹) اور آسمان سے تمہارے لیے رزق نازل کرتا ہے (۲۰)، (پس اے رجوع کرنے والو) اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے (۲۲)، خواہ تمہارا یہ فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔

وہ بلید درجوں والا(۲۳)، مالک عرش ہے (۲۴)۔ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح نازل کر دیتا ہے (۲۵) تاکہ وہ ملاقات کے دن سے خبردار کر دے۔ وہ دن جبکہ سب لوگ بت پردہ ہوں گے، اللہ سے ان کی کوئی بات بھی چھپی ہوئی نہ ہو گی۔ (اس روز پکار کر پوچھا جائے گا ) آج بادشاہی کس کی ہے؟(۲۷) (سارا عالم پکار اٹھے گا) اللہ واحد قہار کی۔ (کہا جائے گا) آج ہر متنفس کو اس کمائی کا بدلہ دیا جائے  گا جو اس نے کی تھی۔ آج کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا(۲۸)۔ اور اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے (۲۹)۔ اے نبیؐ، ڈرا دو ان لوگوں کو اس دن سے جو قریب آ لگا ہے (۳۰)۔ جب کلیجے منہ کو آ رہے ہوں گے اور لوگ چپ چاپ غم کے گھونٹ پیے کھڑے ہوں گے۔ ظالموں کا نہ کوئی مشفق دوست ہو گا اور نہ کوئی شفیع جس کی بات مانی جائے (۳۲)۔ اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور سہ راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں۔ اور اللہ ٹھیک ٹھیک بے لاگ فیصلہ کریگا۔ رہے وہ جن کو (یہ مشرکین) اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ کرنے والے نہیں ہیں۔ بلاشبہ اللہ ہی سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے (۳۳)۔ ع

 

تفسیر

 

۱۴۔ یعنی کفار جب قیامت کے روز دیکھیں گے کہ انہوں نے  دنیا میں شرد و دہریت، انکار آخرت اور رسولوں کی مخالفت پر اپنے پورے کارنامۂ حیات کی بنیاد رکھ کر کتنی بڑی حماقت کی ہے، اور اس حماقت کی بدولت اب وہ کس انجام بد سے دوچار ہوئے ہیں، تو وہ اپنی انگلیاں چبائیں گے اور جھنجھلا جھنجھلا کر اپنے آپ کو خود کوسنے لگیں گے۔ اس وقت فرشتے ان سے پکار کر کہیں گے کہ آج تو تمہیں اپنے اوپر بڑا غصّہ آ رہا ہے، مگر کل جب تمہیں اس انجام سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور دوسرے نیک لوگ راہ راست کی طرف دعوت دیتے تھے اور تم ان کی دعوت کو ٹھکراتے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ کا غضب اس سے زیادہ تم پر بھڑکتا  تھا۔

۱۵۔ دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی سے مراد و ہی چیز  ہے جس کا ذکر سورہ بقرہ، آیت ۲۸ میں کیا گیا ہے کہ تم خدا کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو جبکہ تم بے جان تھے، اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر وہ تمہیں موت دے گا اور پھر دوبارہ زندہ کر دے گا۔ کفار ان میں سے پہلی تین حالتوں کا تو انکار نہیں کرتے، کیونکہ وہ مشاہدے میں  آتی ہیں اور اس بنا پر ناقابل انکار ہیں مگر حالت پیش آنے کا انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مشاہدے میں ابھی تک نہیں آئی ہے اور صرف انبیاء علیہم السلام ہی نے اس کی خبر دی ہے۔ قیامت کے روز جب عملاً وہ چوتھی حالت بھی مشاہرے میں آ جائے گی تب یہ لوگ اقرار کریں گے کہ واقعی وہی کچھ پیش آ گیا جس کی ہمیں خبر دی گئی تھی۔

۱۶۔ یعنی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس دوسری زندگی  کا انکار کر کے ہم نے سخت غلطی کی اور اس غلط نظریے پر کام کر کے ہماری زندگی گناہوں سے لبریز ہو گئی۔

۱۷۔ یعنی کیا اب اس کا کوئی امکان ہے کہ ہمارے اعترافِ گناہ کو قبول کر کے ہمیں عذاب کی اس حالت سے نکال دیا جائے جس میں ہم مبتلا ہو گئے ہیں۔

۱۸۔ یعنی فیصلہ اب اسی اکیلے خدا کے ہاتھ میں ہے جس  کی خدائی پر تم راضی نہ تھے، اور ان دوسروں کا فیصلے میں کوئی دخل نہیں ہے جنہیں خدائی کے اختیارات میں حصّہ دار قرار دینے پر تمہیں بڑا اصرار تھا۔ (اس مقام کو سمجھنے کے لیے سورہ زمر آیت ۴۵ اور اس کا حاشیہ ۶۴ بھی نگاہ میں رہنا چاہیے )۔ اس فقرے میں آپ سے آپ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اب اس عذاب کی حالت سے تمہارے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں ہے، کیونکہ تم نے صرف آخرت ہی کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ اپنے خالق و پروردگار سے تم کو چڑ تھی اور اس کے ساتھ دوسروں کو ملائے بغیر تمہیں چین نہ آتا تھا۔

۱۹۔ نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ اس کائنات کا صانع اور مدبر منتظم ایک خدا  اور ایک ہی خدا ہے۔

۲۰۔ رزق سے مراد یہاں بارش ہے، کیونکہ انسان کو جتنی اقسام کے رزق بھی دنیا میں ملتے ہیں ان سب کا مدار آخر کار بارش پر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے شمار نشانیوں میں سے تنہا اس ایک نشانی کو پیش کر گے لوگوں کو توجہ دلاتا ہے کہ صرف اسی ایک چیز کے انتظام پر تم غور کرو تو تمہاری سمجھ میں آ جائے کہ نظام کائنات کے متعلق جو تصور تم کو قرآن میں دیا جا رہا ہے وہی حقیقت ہے۔ یہ انتظام صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا تھا جبکہ زمین اور اس کی مخلوقات اور پانی اور ہا اور سورج اور حرارت و برودت سب کا خالق ایک ہی خدا ہو۔ اور یہ انتظام صرف اسی صورت میں لاکھوں کروڑوں برس تک پیہم ایک باقاعدگی سے چل سکتا ہے جس نے زمین میں انسان اور حیوانات اور نباتات کو جب پیدا کیا تو ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق پانی بھی بنایا اور پھر اس پانی کو باقاعدگی سے ساتھ روئے زمین پر پہنچانے اور پھیلانے کے لیے یہ حیرت انگیز انتظامات کیے۔ اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خدا کا انکار کرے، یا اس کے ساتھ کچھ دوسرے ہستیوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھیرائے۔

۲۱۔ یعنی خدا سے پھرا ہوا آدمی، جس کی عقل پر غفلت یا تعصب کا پردہ پڑا ہوا ہو، کسی چیز کو دیکھ کر بھی کوئی سبق نہیں لے سکتا۔ اس کی حیوانی آنکھیں یہ تو دیکھ لیں گی کہ ہوئیں چلیں، بادل آئے، کڑک چمک ہوئی، اور بارش ہوئی۔ مگر اس کا انسانی دماغ کبھی یہ نہ سوچے گا کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے، کون کر رہا ہے اور مجھ پر اس کے کیا حقوق ہیں۔

۲۲۔ دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے کی وضاحت سورہ زمر حاشیہ نمبر ۳ میں کی جا چکی ہے۔

۲۳۔ یعنی تمام کو موجودات سے اس کا مقام بدر جہا بلند ہے۔ کوئی ہستی بھی جو اس کائنات میں موجود ہے، خواہ وہ کوئی فرشتہ ہو یا نبی یا ولی، یا اور کوئی مخلوق، اس کا مقام دوسری مخلوقات کے مقابلے میں چاہے کتنا ہی ارفع و اشرف ہو، مگر اللہ تعالیٰ کے بلند ترین مقام سے اس کے قریب ہونے تک کا تصور نہیں کیا جا سکتا کجا کہ خدائی صفات و اختیارات میں اس کے شریک ہونے کا گمان کیا جا سکے۔

۲۴۔ یعنی ساری کائنات کا بادشاہ فرمانروا ہے۔ کائنات کے تخت سلطنت کا مالک ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، صفحات ۳۶۔ ۲۶۲۔ ۴۴۱۔ جلد سوم، ص ۸۷)

۲۵۔ روح سے مراد وحی اور نبوت ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ  ہو جلد دوم، صفحات ۵۲۴۔ ۶۳۹) اور یہ ارشاد کہ اللہ  اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے یہ روح نازل کرتا ہے، اس معنی میں ہے کہ اللہ کے فضل پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ جس طرح کوئی شخص یہ اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ فلاں شخص کو حسن کیوں دیا گیا اور فلاں شخص کو حافظہ یا ذہانت کی غیر معمولی قوت کیوں عطا کی گئی، اسی طرح کسی کو یہ اعتراض کرنے کا بھی حق نہیں ہے کہ منصب نبوت کے لیے فلاں شخص ہی کو کیوں چنا گیا اور جسے ہم چاہتے تھے اسے کیوں نہ نبی بنایا گیا۔

۲۶۔ یعنی جس روز تمام انسان اور جن اور شیاطین بیک وقت اپنے رب کے سامنے جمع ہوں گے اور ان کے اعمال کے سارے گواہ بھی حاضر ہوں گے۔

۲۷۔ یعنی دنیا میں تو بہت سے بر خود  غلط لوگ اپنی بادشاہی و جبّاری کے ڈنکے پیٹتے رہے، اور بہت سے احمق ان کی بادشاہیاں اور کبریائیاں مانتے رہے، اب بتاؤ کہ بادشاہی فی الواقع کس کی ہے؟ اختیارات کا اصل مالک کون ہے؟ اور حکم کس کا چلتا ہے؟ یہ ایسا مضمون ہے جسے اگر کوئی شخص گوش ہوش سے سنے تو خواہ وہ کتنا ہی بڑا بادشاہ یا آمر مطلق بنا بیٹھا ہو، اس کا زہرہ آب ہو جائے اور ساری جبّاریت کی ہوا اس کے دماغ سے نکل جائے۔ اس موقع پر تاریخ کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ سامانی خاندان کا فرمانروا انصر بن احمد(۳۳۱۔ ۳۰۱) جب نیشاپور میں داخل ہوا تو اس نے ایک دربار منعقد کیا اور تخت پر بیٹھنے کے بعد فرمائش کی کہ کاروائی کا افتتاح قرآن مجید کی تلاوت سے ہو۔ یہ سن کر ایک بزرگ آگے بڑھے اور انہیں نے یہی رکوع تلاوت کیا۔ جس وقت وہ اس آیت پر پہنچے تو نصر پر ہیبت طاری ہو گئی۔ لرزتا ہوا تخت سے اُترا، تاج سے  اُتار کر سجدے میں گر گیا اور بولا اے رب، بادشاہی تیری ہی ہے نہ کہ میری۔

۲۸۔ یعنی کسی نوعیت کا ظلم بھی نہ ہو گا۔ واضح رہے کہ جزاء کے معاملہ میں ظلم کی کئی صورتیں ہو  سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اجر کا مستحق ہو اور وہ اس کو نہ دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ جتنے اجر کا مستحق ہو اس سے کم دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ وہ سزا کا مستحق نہ ہو مگر اسے سزا د ڈالی جائے۔ چوتھے یہ کہ جو سزا کا مستحق ہو اسے سزا نہ دی جائے۔ پانچویں یہ کہ جو سزا کا مستحق ہو ا سے زیادہ سزا دے دی جائے۔ چھٹے یہ کہ مظلوم کا  منہ دیکھتا رہ جائے اور ظالم اس کی آنکھوں کی سامنے صاف بر ی ہو جائے۔ ساتویں یہ کہ ایک کے گناہ میں دوسرا پکڑ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ان تمام نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کا ظلم بھی اس کی عدالت میں نہ ہونے پائے گا۔

۲۹۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو حساب لینے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ وہ جس طرح کائنات کی ہر مخلوق کو بیک وقت رزق دے رہا ہے اور کسی کی رزق رسانی کے انتظام میں اس کو ایسی مشغولیت نہیں ہوتی کہ دوسروں کو رزق دینے کی اسے فرصت نہ ملے، وہ جس طرح کائنات کی ہر چیز کو نیک وقت دیکھ رہا ہے، ساری آوازوں کو بیک وقت سن رہا ہے، تمام چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملات کی بیک وقت تدبیر کر رہا ہے، اور کوئی چیز اس کی توجہ  کو اس طرح جذب نہیں کر لیتی کہ اسی وقت وہ دوسری چیزوں کی طرف توجہ نہ کر سکی، اسی طرح وہ ہر ہر فرد کا بیک وقت محاسبہ بھی کر لے گا اور ایک مقدمے کی سماعت کرنے میں اسے ایسی مشغولیت لاحق نہ ہو گی کہ اسی وقت دوسرے بے شمار مقدمات کی سماعت نہ کر سکے۔ پھر اس کی عدالت میں اس بنا پر بھی کوئی تاخیر نہ ہو گی کہ واقعات مقدمہ کی تحقیق اور اس کے لیے شہادتیں فراہم ہونے میں وہاں کوئی مشکل پیش آئے۔ حاکم عدالت براہ راست خود تمام حقائق سے واقف ہو گا۔ ہر فریق مقدمہ اس کے سامنے بالکل بے نقاب ہو گا۔ اور واقعات کی کھلی کھلی ناقابل انکار شہادتیں چھوٹی سے چھوٹی جزئی تفصیلات تک کے ساتھ بلا تاخیر پیش ہو جائیں گی۔ اس لیے ہر مقدمے کا فیصلہ جھٹ پٹ ہو جائے گا۔

۳۰۔ قرآن مجید میں لوگوں کو بار بار یہ احساس دلایا گیا ہے کہ قیامت ان سے کچھ دور نہیں ہے کہ بلکہ قریب ہی لگی کھڑی ہے اور ہر لمحہ آ سکتی ہے۔ کہیں فرمایا اَتیٰ اَمْرُاللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ(النحل:۱)۔ کہیں ارشاد ہوا اِقْتَرَبَلِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ (الانبیاء :۱) کہیں متنبہ کیا گیا  اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (القمر:۱)۔ کہیں فرمایا گیا اَزِفَتِ الْاٰ زِفَۃُ لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللہِ کَاشِفَۃٌ  (النجم:۵۷)۔ ان ساری باتوں سے مقصود لوگوں کو متنبہ کرنا ہے کہ قیامت کو دور کی چیز سمجھ کر بے خوف نہ رہیں اور سنبھلنا ہے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سنبھل جائیں۔

۳۱۔ اصل میں لفظ حَمَیْم استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد کسی شخص کا ایسا دوست ہے جو اس کو پٹتے دیکھ کر جوش میں آئے اور اسے بچانے کے لیے دوڑے۔

۳۲۔ یہ بات برسبیل تنزل، کفار کے عقیدہ شفاعت کی تردید کرتے ہوئے فرمائی گئی   ہے۔ حقیقت میں تو وہاں ظالموں کا کوئی شفیع سرے سے ہو گا ہی نہیں، کیونکہ شفاعت کی اجازت اگر مل  بھی سکتی ہے  تو اللہ کے نیک بندوں کو مل سکتی ہے، اور اللہ کے نیک بندے کبھی کافروں اور مشرکوں اور فساق و فجار کے دوست نہیں ہو سکتے کہ وہ انہیں بچانے کے لیے سفارش کا خیال بھی کریں۔ لیکن چونکہ کفار و مشرکین اور گمراہ لوگوں کا بالعموم یہ عقیدہ رہا ہے، اور آج بھی ہے، کہ ہم جن بزرگوں کے دامن گرفتہ ہیں وہ کبھی ہمیں دوزخ میں نہ جانے دیں گے بلکہ اَڑ کر کھڑے ہو جائیں گے اور بخشوا کر ہی چھوڑیں گے، اس لیے فرمایا گیا کہ وہاں ایسا شفیع کوئی بھی نہ ہو گا جس کی بات مانی جائے اور جس کی سفارش اللہ کو لازماً قبول ہی کرنی پڑے۔

۳۳۔ یعنی تمہارے معبودوں کی طرح وہ کوئی اندھا بہرا خدا نہیں ہے جسے کچھ پتہ نہ ہو کہ جس آدمی کے معاملے کو وہ فیصلہ کر رہا ہے اس کے کیا کرتوت تھے۔

 

ترجمہ

 

کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ وہ ان زیادہ طاقت ور تھے اور ان سے زیادہ زبردست آثار زمین میں چھوڑ گئے ہیں۔ مگر اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا اور ان کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ یہ ان کا انجام اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول بینات(۳۴) لے کر آئے اور انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔ آخر کار اللہ نے ان کو پکڑ لیا، یقیناً وہ بڑی قوت والا اور سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ ہم نے موسیٰ(۳۵) کو فرعون اور ہامان(۳۶) اور قارون  کی طرف اپنے نشانیوں اور نمایاں سندِ ماموریت(۳۷)کے ساتھ بھیجا، مگر انہوں نے کہا "”ساحر ہے، کذاب ہے ‘‘۔ پھر جب وہ ہماری طرف سے حق ان کے سامنے لے آیا(۳۸)تو انہوں نے  کہا’’ جو لوگ ایمان لا کر اس کے ساتھ شامل ہوئے ہیں ان سب کے لڑکوں کو قتل کرو اور لڑکیاں کو جیتا چھوڑ دو‘‘(۳۹)۔ مگر کافروں کی چال اکارت ہی گئی (۴۰)

ایک روز(۴۱) فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا’’ چھوڑو مجھے، میں اس موسیٰ کو قتل کیے دیتا ہوں (۴۲)، اور پکار دیکھے یہ اپنے رب کو۔ مجھ اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا، یا ملک میں فساد برپا کرے گا‘‘(۴۳)۔

موسیٰ نے کہا ’’ میں نے تو ہر اس متکبّر کے مقابلے میں جو یَوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا اپنے ر ب اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے ‘‘(۴۴)۔ ع

 

تفسیر

 

۳۴۔ مبیّنات سے مراد تین چیزیں ہیں۔ ایک، ایسی نمایاں علامات اور نشانیاں جو ان کے مامور من اللہ ہونے پر شاہد تھیں۔ دوسرے، ایسی روشن دلیلیں جو ان کی  پیش کردہ تعلیم کے حق ہونے کا ثبوت دے رہی تھیں۔ تیسرے، زندگی کے مسائل و معاملات کے متعلق ایسی واضح ہدایات جنہیں دیکھ کر ہر معقول آدمی یہ جان سکتا تھا کہ ایسی پاکیزہ تعلیم کوئی جھوٹا خود غرض آدمی نہیں دے سکتا۔

۳۵۔ حضرت موسیٰ کے قصے کی دوسرے تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو جلد اول صفحات ۷۵تا ۷۹۔ ۴۲۵۔ ۴۵۹۔ جلد دوم ۶۴ تا ۸۸۔ ۳۰۱ تا ۳۱۰۔ ۳۳۰ ۳۶۵ ۳۶۶۔ ۳۷۰۔ ۳۸۲۔ ۳۸۳۔ ۴۷۱ تا ۴۷۴۔ ۶۴۲ تا ۶۴۹۔ جلد سوم، ۳۴ تا ۴۰۔ ۷۱۔ ۷۲۔ ۸۵۔ ۸۸ تا ۱۲۱ ۲۷۹۔ ۲۸۰۔ ۴۸۰ تا ۴۹۸۔ ۵۵۷ تا ۵۶۰۔ ۶۱۰۔ ۶۱۳ تا ۶۳۹۔ جلد چہارم، سورہ احزاب، آیت ۶۹۔ الصافات، آیات ۱۱۴ تا ۱۲۲۔

۳۶۔ ہامان کے متعلق مخالفین کے اعتراضات کا جواب اس سے پہلے سورہ قصص کے حواشی میں دیا جا چکا ہے (جلد سوم، صفحہ ۶۱۵)

۳۷۔ یعنی ایسی صریح علامات کے ساتھ جن سے یہ امر مشتبہ نہیں رہ جاتا تھا کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ان کی پشت پر اللہ ربّ العٰلمین کی طاقت ہے۔ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصّے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان پر ایک غائر نگاہ ڈالنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کونسی علامات تھیں جن کو یہاں ان کے مامور من اللہ ہونے کی کھلی سند قرار دیا جا رہا ہے۔ اول تا یہ عجیب بات تھی کہ جو شخص چند سال پہلے فرعون کی قوم کے ایک آدمی کو قتل کر کے ملک سے فرار ہو گیا تھا اور جس کے وارنٹ نکلے ہوئے تھے وہ اچانک ایک لاٹھی لیے ہوئے سیدھا فرعون کے بھرے دربار میں درّانہ چلا آتا ہے اور دھڑلّے کے ساتھ بادشاہ اور اس کے اعیانِ سلطنت کو مخاطب کر کے دعوت دیتا ہے کہ وہ اسے اللہ ربّ العا لمین کا نمائندہ تسلیم کر کے اس کی ہدایات پر عمل کریں، اور کسی کو اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ حالانکہ حضرت موسیٰ جس قوم سے تعلق رکھتے تھے وہ اس بری طرح غلامی کے جوتے تلے پس رہی تھی کہ اگر الزام قتل کی بنا پر ان کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا تو اس بات کا کوئی اندیشہ نہ تھا کہ ان کی قوم بغاوت تو در کنار، احتجاج ہی کے لیے زبان کھول سکے گی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عصا اور یدِ بیضاء  کے معجزے دیکھنے سے بھی پہلے فرعون اور اس کے اہل دربار محض حضرت موسیٰ کی آمد ہی سے مرعوب ہو چکے تھے اور پہلی نظر ہی میں انہیں محسوس ہو گیا تھا کہ یہ شخص کسی اور ہی طاقت کے بل بوتے پر آیا ہے۔ پھر جو عظیم الشان معجزے پے درپے ان کے ہاتھ سے صادر ہوئے ان میں سے ہر ایک یہ یقین دلانے کے لیے کافی تھا کہ یہ جادو کا نہیں، خدائی طاقت ہی کا کرشمہ ہے۔ آخر کس جادو کے زور سے ایک لاٹھی فی الواقع ازدہا بن سکتی ہے؟ یا ایک پورے ملک میں قحط پڑ سکتا ہے؟ یا لاکھوں مربع میل کے علاقے میں ایک نوٹس پر طرح طرح کے طوفان آ سکتے ہیں اور ایک نوٹس پر وہ ختم ہو سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے بیان کے مطابق فرعون اور اس کی سلطنت کے تمام ذمّہ دار لوگ، زبان سے چاہے انکار کرتے  رہے ہوں، مگر دل ان کے پوری طرح جان چکے  تھے کہ حضرت موسیٰ فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوئے ہیں۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم ص ۶۵ تا ۶۸۔ جلد سوم، ص ۱۰۰ تا ۱۰۸۔ ۴۸۶ تا ۴۹۴۔ ۵۶۰)۔

۳۸۔ یعنی جب پے درپے معجزات اور نشانیاں دکھا کر حضرت موسیٰ نے یہ بات ان پر پوری طرح ثابت کر دی کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور مضبوط دلائل سے اپنا بر سرِ حق ہونا پوری طرح واضح کر دیا۔

۳۹۔ سورہ اعراف، آیت ۱۲۸ میں یہ بات گزر چکی ہے کہ فرعون کے درباریوں نے اس سے کہا تھا کہ آخر موسیٰؑ کو کھلی چھٹی کب تک دی جائے گی، اور اس نے کہا تھا کہ میں عنقریب بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے اور لڑکیوں کو جیتا چھوڑ دینے کا حکم دینے والا ہوں (تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۷۱۔ ۷۲)۔ اب یہ آیت بتاتی ہے کہ فرعون کے ہاں سے آخر کار یہ حکم جاری کر دیا گیا۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ حضرت موسیٰ کے حامیوں اور پیروؤں کو اتنا خوف زدہ کر دیا جائے کہ وہ ڈر کے مارے ان کا ساتھ چھوڑ دیں۔

۴۰۔ اصل الفاظ ہیں وَمَا کَیْدُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِی ضِلٰلٍ۔ اس فقرے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان  کافروں کی جو چال بھی تھی، گمراہی اور ظلم و جور اور مخالفت حق ہی کی راہ میں تھی، یعنی حق واضح ہو جانے اور دلوں میں قائل ہو جانے کے باوجود وہ اپنی ضد میں بڑھتے ہی چلے گئے اور صداقت کو نیچا دکھانے کے لیے انہوں نے کوئی ذلیل سے ذلیل تدبیر اختیار کرنے میں بھی باک نہ کیا۔

۴۱۔ یہاں سے جس واقعہ کا بیان شروع ہو رہا ہے وہ تاریخ بنی اسرائیل کا ایک نہایت اہم واقعہ ہے جسے خود بنی اسرائیل بالکل فراموش کر گئے ہیں۔ بائیبل اور تَلْمود، دونوں اس کے ذکر سے خالی ہیں، اور دوسری اسرائیلی روایات میں بھی اس کا کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ اس قصے کو جو شخص بھی پڑھے گا، بشرطیکہ وہ اسلام اور قرآن کے خلاف تعصب میں اندھا ہو چکا ہو، وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے گا کہ دعوتِ حق کے نقطۂ نظر سے یہ قصہ بہت بڑی قدر و قیمت رکھتا ہے، اور بجائے خود یہ بات بعید از عقل و قیاس بھی نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ کی شخصیت، ان کی تبلیغ، اور ان کے ہاتھوں ظہور پذیر ہونے والے حیرت انگیز معجزات سے متاثر ہو کر خود فرعون کے اعیان سلطنت میں سے کوئی شخص دل ہی دل میں ایمان لے آیا ہو اور فرعون کو ان کے قتل پر آمادہ دیکھ کر وہ ضبط نہ کر سکا ہو۔ لیکن مغربی مستشرقین، علم و تحقیق کے لمبے چوڑے دعووں کے باوجود، تعصب میں اندھے ہو کر جس طرح قرآن صداقتوں پر خاک ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے ہو  سکتا ہے کہ انسائیکلوپیڈیا  آف اسلام میں مضمون ’’موسیٰ‘‘ کا مصنف اس قصے کے متعلق لکھتا ہے :

’’قرآن کی یہ کہانی  کہ فرعون کے دربار میں ایک مومن موسیٰ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے، پوری طرح واضح نہیں ہے (سورہ۴۰ آیت ۲۸)۔ کیا ہمیں اس کا تقابل اس قصّے سے کرنا چاہیے جو ہگّا دا میں بیان ہوا ہے اور جس کا مضمون یہ ہے کہ یتھر و نے فرعون کے دربار میں عفو سے کام لینے کا مشورہ دیا تھا ‘‘؟

گویا ان مدعیان تحقیق کے ہاں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ قرآن کی ہر بات میں ضرور کیڑے ہی  ڈالنے ہیں۔ اب اگر اس کے کسی بیان پر حرف زنی کی کوئی بنیاد نہیں ملتی تو کم از کم یہی شوشہ چھوڑ دیا جائے کہ یہ قصہ پوری طرح واضح نہیں ہے، اور چلتے چلتے یہ شک بھی پڑھنے والوں کے دل میں ڈال دیا جائے کہ ہَگّا دا  میں یتھرو کا جو  قصہ حضرت موسیٰ کی پیدائش سے پہلے کا بیان ہوا ہے وہ کہیں سے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے سن لیا ہو گا، اور اسے لا کر یہاں اس شکل میں بیان کر دیا ہو گا۔ یہ ہے ’’ علمی تحقیق‘‘ کا وہ انداز جو ان لوگوں نے اسلام اور قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے معاملے میں اختیار کر رکھا ہے۔

۴۲۔ اس فقرے میں فرعون یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ گویا کچھ لوگوں نے اسے روک رکھا ہے جن کی وجہ سے وہ حضرت موسیٰ کو قتل نہیں کر رہا ہے، ورنہ اگر وہ مانع نہ ہوتے تو وہ کبھی کا انہیں ہلاک کر چکا ہوتا۔ حالانکہ دراصل باہر کی کوئی طاقت اسے روکنے والی نہ تھی، اس کے اپنے دل کا خوف ہی اس کو اللہ کے رسول پر ہاتھ ڈالنے سے روکے ہوئے تھا۔

۴۳۔ یعنی، مجھے اس سے انقلاب کا خطرہ ہے، اور اگر یہ انقلاب برپا نہ بھی کرتے تو کم از کم یہ خطرہ تو ہے ہی کہ اس کی کاروائیوں سے ملک میں فساد رونما ہو گا،  لہٰذا بغیر اس کے کہ یہ کوئی مستلزم سزائے موت کرے، محض تحفظ امن عام(Maintenance  of Public order) کی خاطر اسے قتل کر دینا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ اس شخص کی ذات سے فی الواقع  امن عام کو خطرہ ہے یا نہیں، تو اس کے لیے صرف ہز میجسٹی کا اطمینان کافی ہے۔ سرکارِ عالی اگر مطمئن ہیں کہ یہ خطرناک آدمی ہے  تو مان لیا جانا چاہیے کہ واقعی خطرناک اور گردن زدنی ہے۔

اس مقام پر ’’ دین بدل ڈالنے ‘‘ کا مطلب بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے جس کے اندیشے سے فرعون حضرت موسیٰ کو قتل کر دینا چاہتا تھا۔ یہاں دین سے مراد نظام حکومت ہے اور فرعون کے قول کا مطلب یہ ہے کہ  انی اخاف ان یغیر سلطانکم (روح المعانی، ج ۲۴ ص ۵۶)۔ بالفاظ دیگر، فرعون اور اس کے خاندان کے اقتدارِ اعلیٰ کی بنیاد پر مذہب و سیاست اور تمدّن و معیشت کا جو نظام مصر میں چل رہا تھا وہ ملک کا دین تھا، اور فرعون کو حضرت موسیٰ کی دعوت سے اسی دین کے بدل جانے کا خطرہ تھا۔ لیکن ہر زمانے کے مکار حکمرانوں کی طرح اس نے بھی یہ نہیں کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ سے اقتدار نکل جانے کا خوف ہے اس لیے میں موسیٰ کو قتل کرنا چاہتا ہوں، بلکہ صورت معاملہ کو اس نے اس طرح پیش کیا کہ لوگو، خطرہ مجھے نہیں، تمہیں لاحق  ہے، کیونکہ موسیٰ کی تحریک اگر کامیاب ہو گئی تو تمہارا دین بدل جائے گا۔ مجھے اپنی فکر نہیں ہے۔ میان تو تمہاری فکر میں گھلا جا رہا ہوں کہ میرے سایہ اقتدار سے محروم ہو کر تمہارا کیا بنے گا۔ لہٰذا جس ظالم کے ہاتھوں یہ سایہ تمہارے سر سے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے اسے قتل کر دینا چاہیے کیونکہ وہ ملک  اور قوم کا دشمن ہے۔

۴۴۔ یہاں دو برابر کے احتمال ہیں، جن میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ ایک احتمال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اس وقت دربار میں خود موجود ہوں، اور فرعون نے ان کی موجودگی میں انہیں قتل کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہو، اور حضرت نے اس کو اور اس کے درباریوں کو خطاب کر کے اسی وقت بر ملا یہ جواب دے دیا ہو۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی غیر موجودگی میں فرعون نے اپنی حکومت کے ذمہ دار لوگوں کی کسی مجلس میں  یہ خیال ظاہر کیا ہو، اور اس گفتگو کی اطلاع آنجناب کو اہل ایمان میں سے کچھ لوگوں نے پہنچائی ہو، اور اسے سن کر آپ نے اپنے پیروؤں کی مجلس میں یہ   بات ارشاد فرمائی ہو۔ ان دونوں صورتوں میں  سے جو صورت بھی ہو، حضرت موسیٰ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فرعون کی دھمکی ان کے دل میں ذرہ برابر بھی خوف کی کوئی کیفیت پیدا نہ کر سکی اور انہوں نے اللہ کے بھروسے پر اس کی دھمکی اسی کے منہ پر مار دی۔ اس واقعہ کو جس موقع پر قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے، اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے بھی یہی جواب ان سب ظالموں کو ہے جو یوم الحساب سے بے خوف ہو کر آپ کو قتل کر دینے کی سازشیں کر رہے ہیں۔

 

ترجمہ

 

اس موقع پر آل فرعون میں سے ایک مومن شخص، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، بول اٹھا : ’’ کیا تم ایک شخص کو صرف اس بنا پر قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بیّنات لے آیا (۴۵)۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسی پر پلٹ پڑے گا(۴۶)۔ لیکن اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج کا وہ تم کو خوف دلاتا ہے ان میں  سے کچھ تو تم پر ضرور ہی آ جائیں گے۔ اللہ کسی شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور کذّاب (۴۷)ہو۔ اے میری قوم کے لوگو ! آج تمہیں بادشاہی حاصل ہے اور زمین میں تم غالب ہو، لیکن اگر خدا کا عذاب ہم پر آ گیا تو پھر کون ہے جو ہماری مدد کر سکے گا‘‘(۴۸)۔

فرعون نے کہا ’’ میں تو تم لوگوں کو وہی رائے دے رہا ہوں جو مجھے مناسب نظر آتی ہے۔ اور میں اسی راستے کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو ٹھیک ہے ‘‘(۴۹)۔

وہ شخص جو ایمان لایا تھا اس نے کہا ’’ اے میری قوم کے لوگو، مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر بھی وہ دن نہ آ جائے جو اس سے پہلے بہت سے جتھوں پر آ چکا ہے، جیسا دن قوم نوحؑ اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد والی قوموں پر آیا تھا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا(۵۰)۔ اے قوم، مجھ ڈر ہے کہ کہیں تم پر فریاد و فغاں کا دن  نہ آ جائے جب تم ایک دوسرے کو پکارو گے اور بھاگے بھاگے پھرو گے، مگر اس وقت اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔ سچ یہ ہے کہ جسے اللہ بھٹکا دے اسے پھر کوئ راستہ دکھانے والا نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے یوسفؑ تمہارے پاس بینات لے کر آئے تھے مگر تم ان کی لائی ہوئی تعلیم کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہے۔ پھر جب ان کا انتقال ہو گیا تو تم نے کہا اب ان کے بعد اللہ کوئی رسول ہر گز نہ بھیجے گا‘‘(۵۱)۔ ـــــــ(۵۲) اسے طرح اللہ ان سب لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے جو حد سے گزرنے والے  اور شکی ہوتے ہیں اور اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند یا دلیل آئی ہو(۵۳)۔ یہ رویہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک سخت مغضوب ہے اسی طرح اللہ ہر متکبّر و جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے (۵۴)۔ ع

 

تفسیر

 

۴۵۔ یعنی اس نے ایسی کھلی کھلی نشانیاں تمہیں دکھا دی ہیں جن سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے کہ وہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا رسول ہے۔ مومن آل فرعون کا اشارہ ان نشانیوں کی طرف تھا جن کی تفصیلات اس سے پہلے گزر چکی ہیں (تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۶۵۔ ۶۸۔ ۶۹۔ ۷۲۔ ۷۳۔ ۶۴۷۔ ۶۴۸۔ جلد سوم، ص ۱۰۰ تا ۱۰۷۔ ۴۸۷ تا ۴۹۳۔ ۵۶۰)۔

۴۶۔ یعنی اگر ایسی صریح نشانیوں کے باوجود تم اسے جھوٹا سمجھتے ہو تب بھی تمہارے لیے مناسب یہی ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ دوسرا احتمال، اور نہایت قومی احتمال یہ بھی ہے کہ وہ سچا ہو اور اس پر ہاتھ ڈال کر تم خدا کے عذاب میں مبتلا ہو جاؤ۔ اس لیے اگر تم اسے جھوٹا بھی سمجھتے ہو تا اس سے تعرض نہ کرو۔ وہ اللی کا نام لے کر جھوٹ بول رہا ہو گا تو اللہ خود اس سے نمٹ لے گا۔ قریب قریب اسی طرح کی بات اس سے پہلے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی فرعون سے کہہ چکے تھے۔ وَاِنْلَّمْ تُؤْ مِنُوْ الِیْ فَا عْتَزِلُوْنِ (الدخان : ۲۱) ’’ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ میرے حال پر چھوڑ دو۔ ‘‘

یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ مومن آل فرعون نے گفتگو کے آغاز میں کھل کر یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیا ہے، بلکہ ابتداءً وہ اسی طرح کلام کرتا رہا کہ وہ بھی فرعون ہی کے گروہ کا ایک آدمی ہے اور محض اپنی قوم کی بھلائی کے لیے بار کر رہا ہے۔ مگر جب فرعون اور اس کے درباری کسی طرح راہ راست پر آتے نظر نہ آئے تو آخر  میں اس نے اپنے ایمان کا راز فاش کر دیا، جیسا کہ پانچویں رکوع میں اس کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے۔

۴۷۔ اس فقرے دو مطلب ممکن ہیں، اور غالباً مومن آل فرعون نے قصداً یہ ذو معنی بات اسی لیے کہی تھی کہ ابھی وہ کھل کر اپنے خیالات ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایک ہی شخص کی ذات میں راست روی جیسی خوبی اور کذب و افتا جیسی بری جمع نہیں ہو سکتیں۔ تم علانیہ دیکھ رہے ہو کہ موسیٰ ایک نہایت پاکیزہ سیرت اور کمال درجہ کا بلند کردار انسان ہے۔ اب آخر یہ بات تمہارے دماغ میں کیسے سماتی ہے کہ ایک طرف تو اہ اتنا بڑا جھوٹا ہو کہ اللہ کا نام لے کر نبوت کا بے بنیاد دعویٰ کر بیٹھے، اور دوسری طرف اللہ اسے اتنے اعلیٰ درجے کے اخلاق عطا فرمائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اگر حد سے تجاوز کر کے موسیٰ علیہ السلام کی جان لینے کے درپے ہو گے اور ان پر جھوٹے الزامات عاید کر کے اپنے نا پاک منصوبے عمل میں لاؤ گے تو یاد رکھو کہ اللہ تمہیں ہر گز کامیابی کا راستہ نہ دکھائے گا۔

۴۸۔ یعنی کیوں اللہ کی دی ہوئی اس نعمت غلبہ و اقتدار کی ناشکری کر کے اس کے غضب کو اپنے اوپر دعوت دیتے ہو؟

۴۹۔ فرعون کے اس جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی تک وہ یہ راز نہیں پا سکا تھا کہ اس کے دربار کا یہ امیر دل میں مومن ہو چکا ہے، اسی لیے اس نے اس شخص کی بات پر کسی ناراضی کا اظہار تو نہیں کیا، البتہ یہ واضح کر دیا کہ اس کے خیالات سننے کے بعد بھی اپنی رائے بدلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

۵۰۔ یعنی اللہ کو بندوں سے کوئی عداوت نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ انہیں ہلاک کر دے، بلکہ وہ ان پر عذاب اسی وقت بھیجتا ہے جبکہ وہ حد سے گزر جاتے ہیں، اور اس وقت ان پر عذاب بھیجنا عین تقاضائے عدل و انصاف ہوتا ہے۔

۵۱۔ یعنی تمہاری گمراہی اور پھر اس پر ہٹ دھرمی کا حال یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے پہلے تمہارے ملک میں یوسف علیہ السلام آئے جن کے متعلق تم خود مانتے ہو کہ وہ بلند ترین اخلاق کے حامل تھے، اور اس بات کا بھی تمہیں اعتراف ہے کہ انہوں نے بادشاہ وقت کے خواب کی صحیح تعبیر دے کر تمہیں سات برس کے اس خوفناک قحط کی تباہ کاریوں سے بچا لیا جو ان کے دور میں تم پر آیا تھا، اور تمہاری ساری قوم اس بات کی بھی معترف ہے کہ ان کے دور حکومت سے بڑھ کر عدل و انصاف اور خیر و برکت کا زمانہ کبھی مصر کی سر زمین نے نہیں دیکھا، مگر ان کی ساری خوبیاں جانتے اور مانتے ہوئے بھی تم نے ان کے جیتے جی ان پر ایمان لا کر نہ دیا، اور جب ان کی وفات ہو گئی تو تم نے کہا کہ اب بھلا ایسا آدمی کہاں پیدا ہو  سکتا ہے۔ گویا تم ان کی خوبیوں کے معترف ہوئے بھی تو اس طرح کی بعد کے آنے والے ہر نبی کا انکار کرنے کے لیے اسے ایک مستقل بہانا بنا لیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہدایت بہرحال تمہیں قبول نہیں کرنی ہے۔

۵۲۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آگے کے یہ چند فقرے اللہ تعالیٰ نے مومن آل فرعون کے قول پر بطور اضافہ و تشریح ارشاد فرمائے ہیں۔

۵۳۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گمراہی میں انہی لوگوں کو پھینکا جاتا ہے جن میں یہ تین صفات موجود ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی بد اعمالیوں میں حد سے گزر جاتے ہیں اور پھر انہیں فسق و فجور کی ایسی چاٹ لگ جاتی ہے کہ اصلاح اخلاق کی کسی دعوت کو قبول کرنے کے لیے وہ آمادہ نہیں ہوتے۔ دوسرے یہ کہ انبیاء علیہم السلام کے معاملہ میں ان کا مستقل رویہ شک کا رویہ ہوتا ہے۔ خدا کے نبی ان کے سامنے خواہ کیسے ہی بینات لے آئیں، مگر وہ ان کی نبوت میں بھی شک کرتے ہیں اور ان حقائق کو بھی ہمیشہ شک ہی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو توحید اور آخرت کے متعلق انہوں نے پیش کیے ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ کتاب اللہ کی آیات پر معقولیت کے ساتھ غور کرنے کے بجائے کج بحثوں سے ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کج بحثیوں کی بنیاد نہ کسی عقلی دلیل پر ہوتی ہے، نہ کسی آسمانی کتاب کی سند پر، بلکہ از اول تا آخر صرف ضد اور ہٹ دھرمی ہی ان کی واحد بنیاد ہوتی ہے۔ یہ تین عیوب جب کسی گروہ میں پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ اسے گمراہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے جہاں سے دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں نکال سکتی۔

۵۴۔ یعنی کسی کے دل پر ٹھپہ بلا وجہ نہیں لگا دیا جاتا۔ یہ لعنت کی مہر صرف اسی کے دل پر لگائی جاتی ہے جس میں تکبر اور جباریت کی ہوا بھر چکی ہو۔ تکبر سے مراد ہے آدمی کا جھوٹا پندار جس کی بنا پر وہ حق کے آگے سر جھکانے کو اپنی حیثیت سے گری ہوئی بات سمجھتا ہے۔ اور جباریت سے مراد خلق خدا پر ظلم ہے جس کی کھلی چھوٹ حاصل کرنے کے لیے آدمی شریعت الٰہیہ کی پابندیاں قبول کرنے سے بھاگتا ہے۔

۵۵۔ مومن آل فرعون کی تقریر کے دوران میں فرعون اپنے وزیر ہامان کو مخاطب کر کے یہ بات  کچھ انداز میں کہتا ہے کہ گویا وہ اس مومن کے کلام کو کسی التفات کے قابل نہیں سمجھتا، اس لیے متکبرانہ شان کے ساتھ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہامان سے کہتا ہے کہ ذرا میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا، دیکھوں تو سہی کہ یہ موسیٰ جس خدا کی باتیں کر رہا ہے وہ کہاں رہتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، ص ۶۳۶ تا ۶۳۸)

 

ترجمہ

 

وہ شخص جو ایمان لایا تھا، بولا ’’ اے میری قوم کے لوگو، میری بات مانو، میں تمہیں صحیح راستہ بتاتا ہوں۔ اے قوم، یہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے (۵۶)، ہمیشہ کے قیام کی جگہ آخرت ہی ہے۔ جو برائی کرے گا اس کو اتنا بدلہ ملے گا جتنی اس نے برائی کی ہو گی۔ اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔ اے قوم، آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ میں تو تم لوگوں کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو! تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ ان ہستیوں کو شریک ٹھیراؤں جنہیں میں نہیں جانتا(۵۷)، حالانکہ میں تمہیں اس زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلا رہا ہوں۔  نہیں، حق یہ ہے اور اس کے خلاف نہیں ہو سکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے نہ آخرت میں، اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے، اور حد سے گزرنے والے (۵۹) آگ میں جانے والے ہیں۔ آج جو کچھ میں کہہ رہا  ہوں، عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اسے یاد کرو گے۔ اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے ’’۔ (۶۰)

آخرکار ان لوگوں نے جو بری سے بری چالیں اس مومن کے خلاف چلیں، اللہ نے ان سب سے اس کو بچا لیا (۶۱)، اور فرعون کے ساتھی کو بدترین عذاب کے پھیر میں آ گئے (۶۲)۔ دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں، اور جب قیامت کی گھڑی آ جائے گی تو حکم ہو گا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو(۶۳)۔ پھر ذرا خیال کرو اس وقت کا جب یہ لوگ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوں گے۔ دنیا میں جو لوگ کمزور تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ’’ ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا یہاں تم نار جہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کو بچا لو گے؟‘‘(۶۴)وہ بڑے بننے والے جواب دیں گے ’’  ہم سب یہاں ایک حال میں ہیں، اور اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے ‘‘(۶۵)۔ پھر یہ دوزخ میں پڑے ہوئے لوگ جہنم کے اہل کاروں سے کہیں گے ’’ اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے عذاب میں بس ایک دن کی تخفیف کر دے ‘‘۔ وہ پوچھیں گے ‘‘ کیا تمہارے پاس تمہارے رسول بینات لے کر نہیں آتے رہے تھے؟‘‘ وہ کہیں گے ’’ہاں ‘‘ جہنم کے اہل کار بولیں گے : ’’ پھر تو تم ہی دعا کرو، اور کافروں کی دعا اکارت ہی جانے والی ہے ‘‘۔ ع

 

تفسیر

 

۵۶۔ یعنی  اس دنیا کی عارضی دولت و خوشحالی پر پھول کر تم جو اللہ کو بھول رہے ہو، یہ تمہاری نادانی ہے۔

۵۷۔ یعنی ان کے شریک خدا ہونے کا میرے پاس کوئی علمی ثبوت نہیں ہے، پھر آخر آنکھیں بند کر کے میں اتنی بڑی بات کیسے مان لوں کہ خدائی میں ان کی بھی شرکت ہے اور مجھے اللہ  کے ساتھ ان کی بھی بندگی کرنی ہے۔

۵۸۔ اس فقرے کے کئی معنی ہو  سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو نہ دنیا میں یہ حق پہنچتا ہے اور نہ آخرت میں کہ ان کی خدائی تسلیم کرنے کے لیے خلق خدا کو دعوت دی جائے۔ دوسرے یہ کہ انہیں تو لوگوں نے زبردستی خدا بنایا ہے ورنہ وہ خود نہ اس دنیا میں خدائی کے مدعی ہیں، نہ آخرت میں یہ دعویٰ لے کر اٹھیں گے کہ ہم بھی تو خدا تھے، تم نے ہمیں کیوں نہ مانا۔  تیسرے یہ کہ ان کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں ہے نہ آخرت میں، کیونکہ وہ بالکل بے اختیار ہیں اور انہیں پکارنا قطعی لا حاصل ہے۔

۵۹۔ ’’حد سے گزر جانے ‘‘ کا مطلب حق سے تجاوز کرنا ہے۔ ہر وہ شخص جو اللہ کے سوا دوسروں کی خدائی مانتا ہے یا خود خدا بن بیٹھتا ہے، یا خدا سے باغی ہو کر دنیا میں خود مختاری کا رویہ اختیار کرتا ہے، اور پھر اپنی ذات پر، خلق خدا پر اور دنیا کی ہر اس چیز پر جس سے اس کو سابقہ پیش آئے، طرح طرح کی زیادتیاں کرتا ہے، وہ حقیقت میں عقل اور انصاف کی تمام حدوں کو پھاند جانے والا انسان ہے۔

۶۰۔ اس فقرے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ باتیں کہتے وقت اس مومن شخص کو پورا یقین تھا کہ اس حق گوئی کی پاداش میں فرعون کی پوری سلطنت کا عتاب اس پر ٹوٹ پڑے گا اور اسے محض اپنے اعزازات اور مفادات ہی سے نہیں، اپنی جان تک سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ مگر یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس نے محض اللہ کے بھروسے پر اپنا وہ فرض انجام دے دیا جسے اس نازک موقع پر اس کے ضمیر نے اس کا فرض سمجھا تھا۔

۶۱۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص فرعون کی سلطنت میں اتنی اہم شخصیت کا مالک تھا کہ بھرے دربار میں فرعون کے رو در رو یہ حق گوئی کر جانے کے باوجود علانیہ اس کو سزا دینے کی جرأت  نہ کی جا سکتی تھی، اس وجہ سے فرعون اس کے حامیوں کو اسے ہلاک کرنے کے لیے خفیہ تدبیریں کرنی پڑیں، مگر ان تدبیروں کو بھی اللہ نے نہ چلنے دیا۔

۶۲۔ اس طرز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ مومن آل فرعون کی حق گوئی کا یہ واقعہ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش کے بالکل آخری زمانے میں پیش آیا تھا۔ غالباً اس طویل کشمکش سے دل برداشتہ ہو کر آخر کار فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کر دینے کا ارادہ کیا ہو گا۔ مگر اپنی سلطنت کے اس با اثر شخص کی حق گوئی سے اس کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہو گا کہ موسیٰ علیہ السلام کے اثرات حکومت کے بالا ئی طبقوں تک میں پہنچ گئے ہیں۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا ہو گا کہ حضرت موسیٰ کے خلاف یہ انتہائی اقدام کرنے سے پہلے ان عناصر کا پتہ چلایا جائے جو سلطنت کے امراء اور اعلیٰ عہدہ داروں میں اس تحریک سے متأثر  ہو چکے ہیں، اور ان کی سرکوبی کر لینے کے بعد حضرت موسیٰ پر ہاتھ ڈالا جائے۔ لیکن ابھی وہ ان تدبیروں میں لگا ہی ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دے دیا، اور ان کا پیچھا کرتے ہوئے فرعون اپنے لشکروں سمیت غرقاب ہو گیا۔

۶۳۔ یہ آیت اس عذاب برزخ کا صریح ثبوت ہے جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذاب قبر کے عنوان سے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں صاف الفاظ میں عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرما رہا ہے، ایک کم تر درجے کا عذاب جو قیامت کے آنے سے پہلے فرعون اور آل فرعون کو اب دیا جا رہا ہے، اور وہ یہ ہے کہ انہیں صبح و شام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہول کھاتے رہتے ہیں کہ یہ ہے وہ دوزخ جس میں آخر کار ہمیں جانا ہے۔ اس کے بعد جب قیامت آ جائے گی تو انہیں وہ اصلی اور بڑی سزا دی جائے گی جو ان کے لیے مقدر ہے، یعنی وہ اسی دوزخ میں جھونک دیے جائیں گے جس کا نظارہ انہیں غراب ہو جانے کے وقت سے آج تک کرایا جا رہا ہے اور قیامت کی گھڑی تک کرایا جاتا رہے گا۔ اور یہ معاملہ صرف فرعون و آل فرعون  کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے۔ تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے کر قیامت تک وہ انجام بد نظر آتا رہتا ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے، اور تمام نیک لوگوں کو اس انجام نیک کی حسین تصویر دکھائی جاتی رہتی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھا ہے۔  بخاری، مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ان احد کم اذا مات عرض علیہ مقعدہ بالغداۃ و العشی، ان کان من اھل الجنۃ فمن اھل الجنۃ، وان کان من اھل النار فمن اھل النار، فیقال ھٰذا مقعدک حتیٰ یبعثک اللہ عزوجل الیہ یوم القیٰمۃ‘‘ تم میں سے جو شخص بھی مرتا ہے اسے صبح و شام اس کی آخری قیام گاہ دکھائی جاتی رہتی ہے، خواہ وہ جنتی ہو یا دوزخی۔  اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں تو اس وقت جائے گا جب اللہ تجھے قیامت کے روز دوبارہ اٹھا کر اپنے حضور بلائے گا۔ ‘‘(مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القران جلد اول، صفحہ ۳۸۶۔ جلد دوم، ص ۱۵۰۔ ۵۳۵ تا ۵۳۸۔ جلد سوم، ص ۲۹۹۔ ۳۰۰۔ جلد چہارم، سورہ یٰسٓ، حاشیہ ۲۲۔ ۲۳)

۶۴۔ یہ بات وہ اس امید پر نہیں کہیں گے کہ ہمارے یہ سابق پیشوا یا حاکم یا رہنما  فی الواقع ہمیں عذاب سے بچا سکیں گے یا اس میں کچھ کمی کرا دیں گے۔  اس وقت تو ان پر یہ حقیقت کھل چکی ہو گی کہ یہ لوگ یہاں ہمارے کسی کام آنے والے نہیں ہیں۔ مگر وہ انہیں ذلیل کرنے کے لیے ان سے کہیں گے کہ دنیا میں تو حضور بڑے طنطنے سے اپنی سرداری ہم پر چلاتے تھے، اب یہاں اس آفت سے بھی تو ہمیں بچایئے جو آپ ہی کی بدولت ہم پر آئی ہے۔

۶۵۔ یعنی ہم اور تم، دونوں ہی سزا یافتہ ہیں، اور اللہ کی عدالت سے جس کو جو سزا ملنی تھی مل چکی ہے۔ اس کے فیصلے کو بدلنا، یا اس کی دی ہوئی سزا میں کمی بیشی کر دینا اب کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔

 

ترجم

 

یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لاتے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں، (۶۷) اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے (۶۸)، جب ظالموں کو ان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اور ان پر لعنت پڑے گی اور بد ترین ٹھکانا ان کے حصے میں آئے گا۔ آخر دیکھ لو کہ موسیٰ کی ہم نے رہنمائی کی(۶۹)اور بنی اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنا دیا جو عقل و دانش رکنے والوں کے لیے ہدایت و نصیحت تھی(۷۰)۔ پس اے نبیؐ، صبر کرو (۷۱)، اللہ کا وعدہ بر حق ہے (۷۲)، اپنے  قصور کی معافی چاہو(۷۳) اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو (۷۴)۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ کسی سند و حجت کے بغیر جو ان کے پاس آئی ہو، اللہ کی آیات میں جھگڑے کر رہے ہیں ان کے دلوں میں کبر بھرا ہوا ہے (۷۵)، مگر وہ اس بڑائی کو پہنچنے والے نہیں ہیں جس کا وہ گھمنڈ رکھتے ہیں (۷۶)۔ بس اللہ پناہ مانگ لو(۷۷)، وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے۔

آسمانوں (۷۸) اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقیناً زیادہ بڑا کام ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں (۷۹)۔ اور یہ نہیں ہو سکتا کہ اندھا اور بینا یکساں ہو جائے اور ایماندار و صالح اور بد کار برابر ٹھیریں۔ مگر تم لوگ کم ہی کچھ سمجھتے ہو(۸۰)۔ یقیناً قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، اس کے آنے میں کوئی شک نہیں، مگر اکثر لوگ نہیں مانتے (۸۱)۔

تمہارا  رب کہتا ہے ’’ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا(۸۳)، جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے ‘‘(۸۴)۔ ع

 

تفسیر

 

۶۶۔ یعنی جب واقعہ یہ ہے کہ رسول تمہارے پاس بینات لے کر آ چکے تھے اور تم اس بنا پر سزا پا کر یہاں آئے ہو کہ تم نے ان کی بات ماننے سے انکار(کفر)کر دیا تھا، تو اب ہمارے لیے تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ ایسی دعا کے لیے کوئی نہ کوئی عذر تو ہونا چاہیے، اور تم اپنی طرف سے ہر معذرت کی گنجائش پہلے ہی ختم کر  چکے ہو۔ اس حالت میں تم خود دعا کرنا چاہو تو کر دیکھو۔ مگر ہم یہ پہلے ہی تمہیں بتائے دیتے ہیں کہ تمہاری طرح کفر کر کے جو لوگ یہاں آئے ہوں ان کی دعا بالکل لا حاصل ہے۔

۶۷۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، الصافّات، حاشیہ نمبر ۹۳۔

۶۸۔ یعنی جب اللہ کی عدالت قائم ہو گی اور اس کے حضور گواہ پیش کیے جائیں گے۔

۶۹۔ یعنی موسیٰ کو ہم نے فرعون کے مقابلے پر بھیج کر بس یونہی ان کے حال پر نہیں چھوڑ دیا تھا، بلکہ قدم قدم پر ہم ان کی رہنمائی کرتے رہے یہاں تک کی انہیں کامیابی کی منزل تک پہنچا دیا۔ اس ارشاد میں ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیک و سلم )، ایسا ہی معاملہ ہم تمہارے ساتھ بھی کریں گے۔ تم کو بھی مکے کے شہر اور قریش کے قبیلے میں نبوت کے لیے اٹھا دینے کے بعد ہم نے تمہارے حال پر نہیں چھوڑ دیا ہے کہ یہ ظالم تمہارے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں، بلکہ خود تمہاری پشت پر موجود ہیں اور تمہاری رہنمائی کر رہے ہیں۔

۷۰۔ یعنی جس طرح موسیٰ کا انکار کرنے والے اس نعمت و برکت سے محروم رہ گئے اور ان پر ایمان لانے والے بنی اسرائیل ہی کتاب کے وارث بنائے گئے، اسی طرح اب جو لوگ تمہارا انکار کریں گے وہ محروم ہو جائیں گے اور تم پر ایمان لانے والوں ہی کو یہ سعادت نصیب ہو گی کہ قرآن کے وارث ہوں اور دنیا میں ہدایت کے علمبردار بن کر اٹھیں۔

۷۱۔ یعنی جو حالات تمہارے ساتھ پیش آ رہے ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ۔

۷۲۔ اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو ابھی ابھی اوپر کے اس فقرے میں کیا گیا تھا کہ ’’ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں ‘‘۔

۷۳۔ جس سیاق و سباق  میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ’’ قصور‘‘ سے مراد بے صبری کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر، بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر پیدا ہو رہی تھی۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جائے جس سے کفار قائل ہو جائیں، یا اللہ کی طرف سے اور کوئی ایسی بات جلدی ظہور میں آ جائے جس سے مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہو جائے۔ یہ خواہش بجائے خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی، لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اور جس زبردست اولوالعزمی کا وہ مقام مقتقضی تھا، اس کے لحاظ سے یہ ذرا سی بے صبری بھی اللہ تعالیٰ کو آپ کے مرتبے سے فرو تر نظر آئی، اس لیے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہو جاؤ جیسا کہ تم جیسے عظیم المرتبت آدمی کو ہونا چاہیے۔

۷۴۔ یعنی یہ حمد و تسبیح ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے لیے کام کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ صبح و شام حمد و تسبیح کرنے کے دو مطلب ہو  سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ دائماً اللہ  کو یاد کرتے رہو۔ دوسرے یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو۔ اور یہ دوسرے معنی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کر دیے گئے۔ اس لیے کہ عَشِی کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آ جاتی ہیں۔ اور اِبکار صبح کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۵۰۔ ۷۳۔ ۷۴۔ ۱۸۲۔ جلد دوم، ص ۳۷۱۔ ۵۱۹۔ ۵۸۷۔ ۵۸۸۔ ۶۳۴ تا ۶۳۷۔ جلد سوم، ص ۱۳۸۔ ۴۲۰۔ ۴۲۱۔ ۷۰۳ تا ۷۰۸۔ ۷۴۰ تا ۷۴۲۔ ۷۵۴ تا ۷۵۵)

۷۵۔ یعنی ان لوگوں کی بے دلیل مخالفت اور ان کی غیر معقول کج بحثیوں کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کی آیات  میں جو  سچائیاں اور خیر و صلاح کی باتیں ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں وہ ان کی سمجھ میں نہیں آتیں اس لیے یہ نیک نیتی کے ساتھ ان کو سمجھنے کی خاطر بحثیں کرتے ہیں، بلکہ ان کے اس رویہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا غرور نفس یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ان کے ہوتے عرب میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشوائی و رہنمائی تسلیم کر لی جائے اور بالآخر ایک روز انہیں خود بھی اس شخص کی قیادت ماننی پڑے جس کے مقابلے میں یہ اپنے آپ کو سرداری کا زیادہ حقدار سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کسی طرح نہ چلنے پائے، اور اس مقصد کے لیے انہیں کوئی ذلیل سے ذلیل حربہ استعمال کرنے میں بھی کوئی تامّل نہیں ہے۔

۷۶۔ دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ جس کو اللہ نے بڑا بنایا ہے وہی بڑا بن کر رہے گا، اور یہ چھوٹے لوگ اپنی بڑائی قائم رکھنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں وہ سب آخر کار ناکام ہو جائیں گی۔

۷۷۔ یعنی جس طرح فرعون کی دھمکیوں کے مقابلے میں اللہ واحدِ قہار کی پناہ مانگ کر موسیٰ بے فکر ہو گئے تھے، اسی طرح سرداران قریش کی دھمکیوں اور سازشوں کے مقابلے میں تم بھی اس کی پناہ لے لو اور پھر بے فکر ہو کر اس کا کلمہ بلند کرنے میں لگ جاؤ۔

۷۸۔ اوپر کے ساڑھے تین رکوعوں میں سرداران قریش کی سازشوں پر تبصرہ کرنے کے بعد اب یہاں سے خطاب کا رخ عوام کی طرف پھر رہا ہے اور ان کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ جن حقائق کو ماننے کی دعوت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تم کو دے رہے ہیں وہ سراسر معقول ہیں، ان کا مان لینے ہی میں تمہاری بھلائی ہے اور نہ ماننا تمہارے اپنے لیے تباہ کن ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے آخرت کے عقیدے کو لے کر اس پر دلائل دیے گئے ہیں، کیونکہ کفار کو سب سے زیادہ اچنبھا اسی عقیدے پر تھا اور اسے وہ بعید از فہم خیال کرتے تھے۔

۷۹۔ یہ امکان آخرت کی دلیل ہے۔ کفار کا خیال تھا کہ مرنے کے بعد انسان کا دوبارہ جی اٹھنا غیر ممکن ہے۔ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ در حقیقت نادان ہیں۔ اگر عقل سے کام لیں تو ان کے لیے یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہ ہو کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان کائنات بنائی ہے اس کے لیے انسانوں کو دوبارہ پیدا کر دینا کوئی دشوار کام نہیں ہو  سکتا۔

۸۰۔ یہ وجوب آخرت کی دلیل ہے۔ اوپر کے فقرے میں بتایا گیا تھا کہ آخرت ہو  سکتی ہے، اس کا ہونا غیر ممکن نہیں ہے۔ اور اس فقرے میں بتایا جا رہا ہے کہ آخرت ہونی چاہیے، عقل اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہو، اور اس کا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا خلاف عقل و انصاف ہے۔ آخر کوئی معقول آدمی اس بات کو کیسے درست مان سکتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں اندھوں کی طرح جیتے ہیں  اور اپنے برے اخلاق و اعمال سے خدا کی زمین کو فساد سے بھر دیتے ہیں وہ اپنی اس غلط روش کا کوئی برا انجام نہ دیکھیں، اور اسی طرح وہ لوگ بھی جو دنیا میں آنکھیں کھول کر چلتے ہیں اور ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں اپنی اس اچھی کار کردگی کا کوئی اچھا نتیجہ دیکھنے سے محروم رہ جائیں؟ یہ بات اگر صریحاً خلاف عقل و انصاف ہے تو پھر یقیناً انکار آخرت کا عقیدہ بھی عقل و انصاف کے خلاف ہی ہونا چاہیے، کیونکہ آخرت نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ نیک و بد دونوں آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں اور ایک ہی انجام سے دوچار ہوں۔ اس صورت میں صرف عقل و انصاف ہی کا خون نہیں ہوتا بلکہ خلاق کی بھی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اس لیے کہ اگر نیکی اور بدی کا انجام یکساں ہے تو پھر بد بڑا عقل مند ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے دل کے سارے ارمان نکال گیا اور نیک سخت بے وقوف ہے کہ خواہ مخواہ اپنے اوپر طرح طرح کی اخلاقی پابندیاں عائد کیے رہا۔

۸۱۔ یہ وقوع آخرت کا قطعی حکم ہے  جو استدلال کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف علم ہی کی بنا پر لگایا جا سکتا ہے، اور کلام وحی کے سوا کسی دوسرے کلام میں یہ بات اس قطعیت کے ساتھ بیان نہیں ہو  سکتی۔ وحی کے بغیر محض عقلی استدلال سے جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ بس اسی قدر ہے کہ آخرت ہو سکتی ہے، اور اس کو ہونا چاہیے۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہنا کہ آخرت یقیناً ہو گی اور ہو کر رہے گی، یہ صرف اس ہستی کے کہنے کی بات ہے جسے معلوم ہے کہ آخرت ہو گی، اور وہ ہستی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قیاس و استدلال کے بجائے خالص علم پر دین کی بنیاد اگر قائم ہو  سکتی  ہے تو وہ صرف وحی الہیٰ کے ذریعہ ہی سے ہو  سکتی ہے۔

۸۲۔ آخرت کے بعد اب توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے جو کفار اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان دوسرے بنائے نزاع تھی۔

۸۳۔ یعنی دعائیں قبول کرنے اور نہ کرنے کے جملہ اختیارات میرے پاس ہیں، لہٰذا تم دوسروں سے دعائیں نہ مانگو بلکہ مجھ مانگو۔ اس آیت کی روح کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے تین باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں :

اول یہ کہ دعا آدمی صرف اس ہستی سے مانگتا ہے جس کو وہ سمیع و بصیر اور فوق الفطری اقتدار (Supernatural powers)کا مالک سمجھتا ہے، اور دعا مانگنے کا محرک دراصل آدمی کا یہ اندرونی احساس ہوتا ہے کہ عالم اسباب کے تحت فطری ذرائع و وسائل اس کی کسی تکلیف کو رفع کرنے یا کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں یا کافی ثابت نہیں ہو رہے ہیں، اس لیے سکی فوق الفطری اقتدار کی مالک ہستی سے رجوع کرنا نا گزیر ہے۔ بآواز بلند ہی نہیں، چپکے چپکے بھی بکارتا ہے، بلکہ دل ہی دل میں اس سے مدد کی التجائیں کرتا ہے۔ یہ سب کچھ لازماً اس عقیدے کی بنا پر ہوتا ہے کہ وہ ہستی اس کو ہر جگہ ہر حال میں دیکھ رہی ہے۔ اس کے دل کی بات بھی سن رہی ہے۔ اور اس کو ایسی قدرت مطلقہ حاصل ہے کہ اسے پکارنے والا جہاں بھی ہو وہ اس کی مدد کو پہنچ سکتی ہے  اور اس کی بگڑی بنا سکتی ہے۔ دعا کی اس حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ سمجھنا آدمی کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور ہستی کو مدد کے لیے پکارتا ہے وہ در حقیقت قطعی اور خالص اور صریح شرک کا ارتکاب کرتا ہے، کیونکہ وہ اس ہستی کے  اندر ان صفات کا اعتقاد رکھتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں۔ اگر وہ اس کو ان خدائی صفات میں اللہ کا شریک نہ سمجھتا تو اس سے دعا مانگنے کا تصور تک کبھی اس کے ذہن میں نہ آ سکتا تھا۔

دوسری بات جو اس سلسلے میں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ کسی ہستی کے متعلق آدمی کا اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ وہ اختیارات کی مالک ہے، اس سے یہ لازم نہیں آ جاتا کہ وہ فی الواقع مالک اختیارات ہو جائے۔ مالک اختیارات ہونا تو ایک امر واقعی ہے جو کسی کے سمجھنے یا نہ سمجھنے پر موقوف نہیں ہے۔ جو در حقیقت اختیارات کا مالک ہے وہ بہر حال مالک ہی رہے گا، خواہ آپ اسے مالک سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ اور جو حقیقت میں مالک نہیں ہے، اس کو محض یہ بات کہ آپ نے اسے مالک سمجھ لیا ہے، اختیارات میں ذرہ برابر بھی کوئی حصّہ نہ دلوا سکے گی۔ اب یہ بات ایک امر واقعی ہے کہ قادر مطلق اور مدبر کائنات اور سمیع و بصیر ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور وہی کُلی طور پر اختیارات کا مالک ہے۔ دوسری کوئی ہستی بھی اس پوری کائنات میں ایسی نہیں ہے جو دعائیں سننے اور ان پر قبولیت یا عدم قبولیت کی صورت میں کوئی کار روائی کرنے کے اختیارات رکھتی ہو۔ اس امر واقعی کے خلاف اگر لوگ اپنی جگہ کچھ انبیاء اور اولیاء اور فرشتوں اور جِنوں اور سیاروں اور فرضی دیوتاؤں کو اختیارات میں شریک سمجھ بیٹھیں تو اس سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق رو نما نہ ہو گا۔ مالک  مالک ہی رہے گا اور بے اختیار بندے، بندے ہی رہیں گے۔

تیسری  بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے دعا مانگنا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوان حکومت کی طرف جائے مگر اصل حاکم ذی اختیار  کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں انہی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کر دے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جائے کہ حضور ہی سب کچھ ہیں، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے، میری مراد آپ ہی بر لائیں گے تو بر آئے گی۔ یہ حرکت اول تو بجائے خود سخت حماقت و جہالت ہے لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے جبکہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو اور عین اس کی موجود گی میں اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جا رہی ہوں۔ پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اس وقت پہنچ جاتی ہے جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جا رہی ہو خود  بار بار  اس کو سمجھائے کہ میں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، اصل حاکم سامنے موجود ہیں،   تو ان کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود یہ احمق کہتا ہی چلا جائے کہ میرے سرکار تو آپ ہیں، میرا کام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا۔

ان تین باتوں کو ذہن میں  رکھ کر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ مجھے پکارو، تمہاری دعاؤں کا جواب دینے والا میں ہوں، انہیں قبول کرنا میرا کام ہے۔

۸۴۔ اس آیت میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ دعا اور عبادت کو یہاں مترادف الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دعائیں عبادت اور جانِ عبادت ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے دعا نہ مانگنے والوں کے لیے ’’گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے دعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہے، اور اس سے منہ موڑنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے اس لیے اپنے خالق و مالک کے آگے اعتراف عبودیت کرنے سے کتراتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات میں آیت کے ان دونوں مضامین کو کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا  انْ الدعاء ھوا لعبادۃ ثم قرأ ادعونی استجب لکم۔ …..   یعنی دعا عین عبادت ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرائی(احمد، ترمذی، ابو داؤد و، نسائی، ابن ماجہ، بن ابی حتم، ابن جریر)۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا الدعاء مخ العبادۃ، ’’ دعا مغز عبادت ہے ‘‘ (ترمذی)۔ حضرت ابوہریرہؓ فرمانے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا من لم یسأل اللہ یغضب علیہ، ’’ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔ ‘‘ (ترمذی)

اس مقام پر پہنچ کر وہ عقدہ بھی حل ہو جاتا ہے جو بہت سے ذہنوں میں اکثر الجھن ڈالتا رہتا ہے۔ لوگ دعا کے معاملے پر اس طرح سوچتے ہیں کہ جب تقدیر کی برائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میں ہے اور  وہ اپنی غالب حکمت و مصلحت کے لحاظ سے جو فیصلہ کر چکا ہے وہی کچھ لازماً رونما ہو کر رہنا ہے تو پھر ہمارے دعا مانگنے کا حاصل کیا ہے۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہے، اور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوئے اگر آدمی دعا مانگے بھی تو اس کی دعا میں کوئی روح باقی نہیں رہتی۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت اس غلط فہمی کو دو طریقوں سے رفع کرتی ہے۔ اولاً، اللہ تعالیٰ بالفاظ صریح فرما رہا ہے کہ ’’ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘ اس سے صاف معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے ہماری طرح معاذاللہ، خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی باندھ دیے ہوں اور دعا قبول کرنے کے اختیارات اس سے سلب ہو گئے ہوں۔ بندے تو بلا شبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے، مگر اللہ تعالیٰ خود یہ طاقت ضرور رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں اور التجائیں سن کر اپنا فیصلہ بدل دے۔ دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئ یہ وہ یہ ہے کہ دعا خواہ قبول ہو یا نہ ہو، بہر حال ایک فائدے اور بہت بڑے فائدے سے وہ کسی صورت میں  بھی خالی نہیں ہوتی، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کر کے اور اس سے دعا مانگ کر اس کی آقائی و بالا دستی کا اعتراف اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے۔ یہ اظہار عبودیت بجائے خود عبادت، بلکہ جان عبادت ہے جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا قطع نظر اس سے کہ وہ خاص چیز  اس کو عطا کی جائے یا نہ کی جائے جس کے لیے اس نے دعا کی تھی۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات میں ان دونوں مضامین کی بھی پوری وضاحت ہمیں مل جاتی ہے۔ پہلے مضمون پر حسب ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں :

حضرت سلمان  فارسی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا یرو القضاءَ الاالدعاء(ترمذی)۔ ’’قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی مگر دعا۔ ‘‘ یعنی اللہ کے فیصلے کو بدل دینے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، مگر اللہ خود اپنا فیصلہ بد ل سکتا ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اس سے دعا مانگتا ہے۔

حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ما من احدید عو بدعاءٍ الّا اٰتا ہ اللہ ماسأں اوکف عنہ من السرء مثلہ مالم یدع اباثمٍ او قطیعۃ رحمٍ (ترمذی)۔ ’’ آدمی جب کبھی اللہ سے دعا مانگتا ہے، اللہ اسے یاتو وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ‘‘۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک دوسرے حدیث میں ہے جو حضرت ابو سعید خدریؓ نے حضورؐ سے روایت کی ہے۔ اس میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ مامن مسلم یدعوبدعوۃٍ لیس فیھا اثم ولا قطیعۃ رحمٍ الا اعطاہ اللہ احدیٰ ثلٰث، اما ان یعجل لہ، و اما ان یَدَّ خِر ھا لہٗ فی الاٰخرۃ واما ان یصرف عنہ من اسوء مثلھا (مسند احمد ) ’’ ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول فرماتا ہے۔ یا تو اس کی وہ دعا اسی دنیا میں قبول کر لی جاتی ہے۔ یا اسے آخرت میں اجر دینے کے لیے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے۔ یا اسی درجہ کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے۔ ‘‘

حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : اذا دعا احد کم فلا یقل اللھم اغفرلی ان شئت، ارحمنی ان شئت، ارزقنی ان شئت، وَلْیَعْزِم  مسئلتہٗ (بخاری)۔ ’’جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے تو یوں نہ کہے کہ خدایا مجھے بخش دے اگر تو چاہے، مجھ پر رحم کر اگر تو چاہے، مجھے رزق دے اگر تو چاہے، بلکہ اسے قطعیت  کے ساتھ کہنا چاہیے کہ خدایا میری فلاں حجت پوری کر‘‘۔ دوسرے روایت حضرت ابو ہریرہؓ ہی سے ان الفاظ میں آئی ہے کہ آپ نے فرمایا ادعواللہ وانتم موقنون بالاجابۃ (ترمذی)’’ اللہ سے دعا مانگو اس یقین کے ساتھ کہ وہ قبول فرمائے گا۔ ‘‘

ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ : یستجاب للعبد مالم یدعُ با ثم او قطیعۃ رحم مالم یستعجل، قیل یارسول اللہ ما الا ستعجال؟ قال یقول قد دعوت وقد دعوت  فلم اَرَیُستجاب لی فیستحسر عند ذٰلک وید ع الد ع الدعاْ(مسلم)۔ ‘‘ بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، اور جلد بازی سے کام نہ لے۔ عرض کیا گیا جلد بازی کیا ہے یا رسول اللہ؟ فرمایا جلد بازی یہ ہے کہ آدمی کہے میں نے بہت دعا کی،  مگر میں دیکھتا ہوں کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی، اور یہ کہہ کر آدمی تھک  جائے اور دعا مانگنی چھوڑ دے۔ ‘‘

دوسرے مضمون کو حسب ذیل احادیث واضح کرتی ہیں :

حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا لیس شئ اکرم علی اللہ من الدعاء (ترمذی۔ ابن ماجہ ) ’’ اللہ کی نگاہ میں دعا سے بڑھ کر کوئی چیز با وقعت نہیں ہے ‘‘۔

حضرت ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : سلوااللہ من فضلہ فان اللہ یحبّ ان یسأ ل (ترمذی)۔ ’’ اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ اسے پسند فرماتا ہے کہ اس سے مانگا جائے۔ ’’

حضرت ابن عمر اور حضرت مُعاذ بن جَبَل کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ان الدعاء  ینطع ممّا نزل و ممّا لم ینزل فعلیکم عباداللہ بالدعاء (ترمذی۔ مسند احمد ) ’’ دعا بہر حال نافع ہے ان بلاؤں کے معاملے میں بھی جو نازل ہو چکی ہیں اور ان کے معاملے میں بھی جو نازل نہیں ہوئیں۔ پس اے بندگان خدا تم ضرور دعا مانگا کرو‘‘۔

حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : یسأ ل احد کم ربہ حاجتہٗ کلّہ حتیٰ یسأ ل شسع بعلہٖ اذا انقطع (ترمذی) ’’ تم میں سے ہر شخص کو اپنی حاجت خدا سے مانگنی چاہیے، حتیٰ کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو خدا سے دعا کرے۔ ‘‘ یعنی جو معاملات بظاہر آدمی کو اپنے اختیار میں محسوس ہوتے ہیں ان میں بھی تدبیر کرنے سے پہلے اسے خدا سے مدد مانگنی چاہیے، اس لیے کہ کسی معاملے  میں بھی ہماری کوئی تدبیر خدا کی توفیق و تائید کے بغیر کامیاب نہیں ہو  سکتی، اور تدبیر سے پلے دعا کے معنی یہ ہیں کہ بندہ ہر وقت اپنی عاجزی اور خدا کی بالا دستی کا اعتراف کر رہا ہے۔

 

ترجمہ

 

وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں سکون حاصل کرو، اور دن کو روشن کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے (۸۵)۔ وہی اللہ (جس نے تمہارے لیے یہ کچھ کیا ہے ) تمہارا رب ہے۔ ہر چیز کا خالق۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں (۸۶)۔ پھر تم کدھر سے بہکائے  جا رہے ہو؟(۸۷) اسی طرح وہ سب لوگ بہکائے جاتے رہے ہیں جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے (۸۸)۔

وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا(۸۹) اور اوپر آسمان کا گنبد بنا دیا(۹۰)۔ جس نے تمہاری صورت بنائی اور  بڑی ہی عمدہ بنائی۔ جس نے تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا(۹1)۔ وہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں ) تمہارا رب ہے۔ بے حساب برکتوں سالا ہے  وہ کائنات کا رب۔ وہی زندہ ہے (۹۲)۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے (۹۳)۔ ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے (۹۴)۔

اے نبیؐ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ مجھے تو ان ہستیوں کی عبادت سے منع کر دیا گیا ہے جنھیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو(۹۵)۔(میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں ) جبکہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے بینات آ چکی ہیں۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں رب العالمین کے آگے سرِ تسلیم خم کر دوں۔

وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر وہ تمہیں بچّے کی شکل میں نکالتا ہے، پھر تمہیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاؤ،پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے (۹۶)۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے  مقرر وقت تک پہنچ جاؤ(۹۷)، اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو(۹۸)۔ وہی ہے زندگی دینے والا، اور وہی ہے موت دینے والا ہے۔ وہ جس بات کا بھی فیصلہ کرتا  ہے، بس ایک حکم دیتا ہے  کہ وہ ہو جائے اور وہ ہو جاتی ہے۔ع

 

 

تفسیر

 

۸۵۔ یہ آیت دو اہم مضامین پر مشتمل ہے۔ اوّلاً اس میں رات اور دن کو دلیل توحید کے طور پر پیش کیا گیا ہے، کیونکہ ان کا باقاعدگی کے ساتھ آنا یہ معنی رکھتا ہے کہ زمین اور سورج پر ایک ہی خدا حکومت کر رہا ہے، اور ان کے الٹ پھیر کا انسان اور دوسری مخلوقات ارضی کے لیے نافع ہونا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ وہی ایک خدا ان سب اشیاء کا خالق بھی ہے اور اس نے یہ نظام کمال درجہ حکمت کے ساتھ اس طرح بنایا ہے کہ وہ اس کی پیدا کردہ مخلوقات کے لیے نافع ہو۔ ثانیاً، اس میں خدا کے منکر اور خدا کے ساتھ شرک کرنے والوں کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ خدا نے رات اور دن کی شکل میں یہ کتنی بڑی نعمت ان کو عطا کی ہے، اور وہ کتنے سخت ناشکرے ہیں کہ اس کی اس نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شب و روز اس سے غداری و بے وفائی کیے چلے جاتے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، صفحات ۲۹۶ تا ۲۹۸۔ جلد سوم، صفحات ۴۶۱۔ ۶۰۶۔ ۶۵۹۔ ۷۴۷ جلد چہارم، لقمان، آیت ۲۹، حاشیہ ۵۰۔ یٰس، آیت ۳۷، حاشیہ ۳۲)۔

۸۶۔ یعنی رات اور دن کے الٹ پھیر نے ثابت کیا کہ وہی تمہاری اور ہر چیز کا خالق ہے۔ اور یہ الٹ پھیر تمہاری زندگی کے لیے جو عظیم فوائد و منافع اپنے اندر رکھتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ وہ تمہارا نہایت مہربان پروردگار ہے۔ اس کے بعد لامحالہ یہ بات خود بخود ثابت ہو جاتی ہے کہ تمہارا حقیقی معبود بھی وہی ہے۔ یہ بات سراسر عقل اور انصاف کے خلاف ہے کہ خالق اور پروردگار تو ہو اللہ، اور تمہارے معبود بن جائیں دوسرے۔

۸۷۔ یعنی کون تم کو یہ الٹی پٹی پڑھا رہا ہ کہ جو نہ خالق ہیں نہ پروردگار وہ تمہاری عبادت کے مستحق ہیں۔

۸۸۔ یعنی ہر زمانے میں عوام الناس صرف اس وجہ سے ان بہکانے والوں کے فریب میں آتے رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے حقیقت سمجھانے کے لیے جو آیات نازل کیں، لوگوں نے ان کو نہ مانا۔ نتیجہ یہ ہو کہ وہ ان خود غرض فریبیوں کے جال میں پھنس گئے جو اپنی دُکان چمکانے کے لیے جعلی خداؤں کے آستانے بنائے بیٹھے تھے۔

۸۹۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، صفحات ۵۹۰ تا ۵۹۲۔

۹۰۔ یعنی تمہیں کھلی فضا میں نہیں چھوڑ دیا گیا کہ عالم بالا کی آفات بارش کی طرح برس کر تم کو تہس نہس ک دیں، بلکہ زمین کے اوپر ایک نہایت مستحکم سماوی نظام (جو دیکھنے والی آنکھ کو گنبد کی طرح نظر آتا ہے ) تعمیر کر دیا جس سے گزر کر کوئی تباہ کن چیز تم تک نہیں پہنچ سکتی، حتیٰ کہ آفاق کی مہلک شعاعیں تک نہیں پہنچ سکتیں، اور اسی وجہ سے تم امن و چین کے ساتھ زمین پر جی رہے ہو۔

۹۱۔ یعنی تمہارے پیدا کرنے سے پہلے تمہارے لیے اس قدر محفوظ اور پر امن جائے قرار مہیا کی۔ پھر تمہیں پیدا کیا تو اس طرح کہ ایک بہترین جسم، نہایت موزوں اعضاء اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جسمانی و ذہنی قوتوں  کے ساتھ تم کو عطا کیا۔ یہ سیدھا قامت، یہ ہاتھ اور یہ پاؤں، یہ آنکھ ناک اور یہ کان، یہ بولتی ہوئی زبان اور یہ بہترین صلاحیتوں کا مخزن دماغ تم خود بنا کر نہیں لے آئے تھے، نہ تمہاری ماں اور تمہارے باپ نے انہیں بنایا تھا، نہ کوئی نبی یا ولی یا دیوتا میں یہ قدرت تھی کہ انہیں بناتا۔ ان کا بنانے والا وہ حکیم و رحیم قادر مطلق تھا جس نے انسان کو وجود میں لانے کا جب فیصلہ کیا تو اسے دنیا میں کام کرنے کے لیے ایسا بے نظیر جسم دے کر پیدا کیا۔ پھر پیدا ہونے ہی اس کی مہربانی سے تم نے اپنے لیے پاکیزہ رزق کا ایک وسیع خوانِ   یغما بچھا ہوا پا یا۔ کھانے اور پینے کا ایسا پاکیزہ سامان جو زہریلا نہیں بلکہ صحت بخش ہے، کڑوا کسیلا اور بد مزہ نہیں بلکہ خوش ذائقہ ہے، سڑا بُسا اور بد بو دار نہیں بلکہ خوش رائحہ ہے، بے جان پھوک نہیں بلکہ ان حیاتینوں اور مفید غذائی مادّوں سے مالا مال ہے جو تمہارے جسم کی پرورش اور نشو و نما کے لیے موزوں ترین ہیں۔ یہ پانی، یہ غلے، یہ ترکاریاں، یہ پھل، یہ دودھ، یہ شہد، یہ گوشت، یہ نمک مرچ اور مسالے، جو تمہارے، جو تمہارے تغذیے کے لیے اس قدر موزوں اور تمہیں زندگی کی طاقت ہی نہیں، زندگی کا لطف دینے کے لیے بھی اس قدر مناسب ہیں، آخر کس نے  اس زمین پر اتنی افراط کے ساتھ مہیا کیے ہیں، اور کس نے یہ انتظام کیا ہے کہ غذا کے ی بے حساب خزانے زمین سے پے در پے نکلتے چلے آئیں اور ان کی رسد کا سلسلہ کبھی ٹوٹنے نہ پائے؟ یہ رزق کا انتظام نہ ہوتا اور بس تم پیدا کر دیے جاتے تو سوچو کہ تمہاری زندگی کا کیا رنگ ہوتا۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ تمہارا پیدا کرنے والا محض خالق ہی نہیں بلکہ خالق حکیم اور ربّ رحیم ہے؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، ص ۳۲۳۔ ۳۲۴۔ جلد سوم، ص ۵۸۹ تا ۵۹۸)

۹۲۔ یعنی اصلی اور حقیقی زندگی اسی کی ہے۔ اپنے بل پر آپ زندہ وہی ہے۔ ازلی و ابدی حیات اس کے سوا کسی کی بھی نہیں ہے۔ باقی سب کی حیات عطائی ہے، عارضی ہے، موت آشنا اور فنا در آغوش ہے۔

۹۳۔ تشریح کے لی ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الزُّمُر، حاشیہ ۳۔ ۴۔

۹۴۔ یعنی کوئی دوسرے نہیں ہے جس کی حمد و ثنا کے گیت گائے جائیں اور جس کے شکرانے بجا لائے جائیں۔

۹۵۔ یہاں پھر عبادت اور دعا کو ہم معنی استعمال کیا گیا ہے۔

۹۶۔ یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے اور کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہل اور کوئی بڑھاپے کو پہنچنے سے پہلے مر جاتا ہے۔

۹۷۔ وقت مقرر سے مراد یا تو موت  کا وقت ہے، یا وہ وقت جب تمام انسانوں کو دوبارہ اٹھ کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزارتا ہوا اس ساعت خاص  تک لے جاتا ہے جو اس نے ہر ایک کی واپسی کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ اُس وقت سے پہلے ساری دنیا مل کر بھی کسی کو مارنا چاہے تو نہیں مار سکتی، اور وہ وقت آ جانے کے بعد دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی کسی کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں تو کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ ہنگامہ ہستی اس لیے برپا نہیں کیا گیا ہے کہ تم مر کر مٹی میں مل جاؤ اور فنا ہو جاؤ، بلکہ زندگی کے ان مختلف مرحلوں سے اللہ تم کو اس لیے گزارتا ہے کہ تم سب اس وقت پر جو اس نے مقرر کر رکھا ہے، اس کے سامنے حاضر ہو۔

۹۸۔ یعنی زندگی کے ان مختلف مراحل سے تم کو اس لیے نہیں گزارا جاتا کہ تم جانوروں کی طرح جیو اور انہی کی طرح مر جاؤ، بلکہ اس لیے گزارا جاتا ہے کہ تم اس عقل سے کام لو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس نظام کو سمجھو جس میں خود تمہارے اپنے وجود پر یہ احوال گزرتے ہیں۔ زمین کے بے جان مادوں میں زندگی جیسی عجیب و غریب چیز کا پیدا ہونا، پھر نطفے کے ایک خورد بینی کیڑے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق کا سجود میں آنا، پھر ماں کے پیٹ میں استقرار حمل کے وقت سے وضع حمل تک اندر ہی اندر اس کا اس طرح پرورش پانا کہ اس کی جنس، اس کی شکل و صورت، اس کے جسم کی ساخت، اس کے ذہن کی خصوصیات، اور اس کی قوتیں اور صلاحیتیں سے کچھ وہیں متعین ہو جائیں اور ان کی تشکیل پر دنیا کی کوئی طاقت اثر انداز نہ ہو سکے، پھر یہ بات کہ جسی اسقاط حمل کا شکار ہونا ہے اس کا اسقاط ہی ہو کر رہتا ہے، جسے بچپن میں مرنا ہے وہ بچپن ہی میں مرتا ہے خواہ وہ کسی بادشاہ ہی کا بچہ کیوں نہ ہو، اور جسے جوانی یا بڑھاپے کی کسی عمر تک پہنچنا ہے وہ خطرناک سے خطرناک حالات سے گزر کر بھی، جن میں بظاہر موت یقینی ہونی چاہیے، اس عمر کو پہنچ کر رہتا ہے، اور جسے عمر کے جس خاص مرحلے میں مرنا ہے اس میں وہ دنیا کے کسی بہترین ہسپتال کے اندر بہترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہتے ہوئے بھی مر کر رہتا ہے، یہ ساری باتیں کیا اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہیں کہ ہماری اپنی حیات و ممات کا سر رشتہ کسی قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے؟ اور جب امر واقعہ یہی ہے کہ ایک قادر مطلق ہماری موت و زیست پر حکمراں ہے تو پھر کوئی نبی یا ولی یا فرشتہ یا ستارہ اور سیارہ آخر کیسے ہماری بندگی و عبادت کا مستحق ہو گیا؟ کسی بندے کو یہ مقام کب سے حاصل ہوا کہ ہم اس سے دعائیں مانگیں اور اپنی قسمت کے بننے اور بگڑنے کا مختار اس کو مان لیں؟ اور کسی انسانی طاقت کا یہ منصب کیسے ہو گیا کہ ہم اس کے قانون اور اس کے امر و نہی اور اس کے خود ساختہ حلال و حرام کی بے چون و چرا اطاعت کریں؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، ص ۲۰۳۔ ۲۰۴)۔

 

ترجمہ

 

تم نے دیکھا ان لوگوں کو جو اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں، کہاں سے وہ پھرائے جا رہے ہیں؟ (۹۹) یہ لوگ جو اس کتاب کو اور ان کی ساری کتابوں کو جھٹلاتے ہیں جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجی تھیں؟(۱۰۰) عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے، اور زنجیریں، جن سے پکڑ کر وہ کھولتے ہوئے پانی کی طرف کھینچے جائیں گے اور پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے (۱۰۱)۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ اب کہاں ہیں اللہ کے سوا وہ دوسرے خدا جن کو تم شریک کرتے تھے؟(۱۰۲) وہ جواب دیں گے ’’ کھوئے گئے وہ ہم سے، بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیز کو نہ پکارتے تھے ‘‘(۱۰۳)۔ اس طرح اللہ کافروں کا گمراہ ہونا متحقق  کر دے گا۔ ان سے کہا جائے گا ’’ یہ تمہارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم زمین میں غیر حق پر مگن تھے اور پھر اس پر اتراتے تھے (۱۰۴)۔ اب جاؤ، جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ ہمیشہ تم کو وہیں رہنا ہے، بہت ہی برا ٹھکانا ہے متکبّرین کا‘‘۔ پس اے نبی، صبر کرو(۱۰۵)، اللہ کا وعدہ بر حق ہے۔ اب خواہ ہم تمہارے سامنے ہی ان کو ان برے نتائج کا کوئی حصہ دکھا دیں جن سے ہم انہیں ڈرا رہے ہیں، یا (اس سے پہلے ) تمہیں دنیا سے اٹھا لیں، پلٹ کر آنا تو انہیں ہماری ہی طرف ہے (۱۰۶)۔

اے نبی(۱۰۷)، تم سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تم کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے۔ کسی رسول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر خود کوئی نشانے (۱۰۸) لے آتا پھر جب اللہ کا حکم آ گیا تو حق کے مطابق فیصلہ کر دیا گیا اور اس وقت غلط کار لوگ خسارے میں پڑ گئے (۱۰۹)۔ ع

 

تفسیر

 

۹۹۔ مطلب یہ ہے کہ اوپر والی تقریر کے بعد بھی کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ ان لوگوں کی غلط بینی اور غلط روی کا اصل سر چشمہ کہاں ہے اور کہاں سے ٹھوکر کھا کر یہ اس گمراہی کے گڑھے میں گرے ہیں؟ (واضح  رہے کہ یہاں تم کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو ان آیات کو پڑھے یا سنے )

۱۰۰۔ یہ ہے ان کے ٹھوکر کھانے کی اصل وجہ۔ ان کا قرآن کو اور اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کو نہ ماننا اور اللہ کی آیات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے بجائے جھگڑالو پن سے ان کا مقابلہ کرنا، یہی وہ بنیادی سبب ہے جس نے ان کو بھٹکا دیا ہے اور ان کے لیے سیدھی راہ پر آنے کے سارے امکانات ختم کر دیے ہیں۔

۱۰۱۔ یعنی جب وہ پیاس کی شدت سے مجبور ہو کر پانی مانگیں گے تو دوزخ کے کارکن ان کو زنجیروں سے کھینچتے ہوئے ایسے چشموں کی طرف لے جائیں گے جن سے کھولتا ہوا پانی نکل رہا ہو گا۔ اور پھر جب وہاں سے پی کر فارغ ہوں گے تو پھر وہ انہیں کھینچتے ہوئے واپس لے جائیں گے اور دوزخ کی آگ میں جھونک دیں گے۔

۱۰۲۔ یعنی اگر وہ واقعی خدایا خدائی میں شریک تھے، اور تم اس امید پر ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ برے وقت پر تمہارے کام آئیں گے تو ان کیوں وہ آ کر تمہیں نہیں چھڑاتے؟

۱۰۳۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دنیا میں شرک نہیں کرتے تھے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اب ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم جنھیں دنیا میں پکارتے تھے وہ کچھ بھی نہ تھے، ہیچ تھے، لاشے تھے۔

۱۰۴۔ یعنی تم نے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا کہ جو چیز حق نہ تھی اس کی تم نے پیروی کی، بلکہ تم اس غیر حق پر ایسے مگن سے کہ جب حق تمہارے سامنے پیش کیا گیا تو تم نے اس کی طرف التفات نہ کیا اور الٹے اپنی باطل پرستی پر اتراتے رہے۔

۱۰۵۔ یعنی جو لوگ جھگڑالو پن سے تمہارا مقابلہ کر رہے ہیں اور ذلیل ہتھکنڈوں سے تمہیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں ان کی باتوں اور ان کی حرکتوں پر صبر کرو۔

۱۰۶۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر اس شخص کو جس نے تمہیں زک دینے کی کوشش کی ہے اسی دنیا میں اور تمہاری زندگی ہی میں سزا دے دیں۔ یہاں کوئی سزا پائے، بہر حال وہ ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جا سکتا۔ مر کر تو اسے ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ اس وقت وہ اپنے کرتوتوں کی بھر پور سزا پالے گا۔

۱۰۷۔ یہاں سے ایک اور موضوع شروع ہو رہا ہے۔ کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ ہم آپ کو اس وقت تک خدا کا رسول نہیں مان سکتے جب تک آپ ہمارا منہ مانگا معجزہ ہمیں نہ دکھا دیں۔ آگے کی آیات میں ان کی اسی بات کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ (جس قسم کے معجزات کا وہ لوگ مطالبہ کرتے تھے ان کے چند نمونوں کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، صفحات ۳۲۷۔ ۴۹۸۔ ۶۴۲۔ جلد سوم، ص ۴۴۵)۔

۱۰۸۔ یعنی کسی نبی نے بھی کبھی ا پنی مرضی سے کوئی معجزہ نہیں دکھایا ہے، اور نہ کوئی نبی خود معجزہ دکھانے پر قادر تھا۔ معجزہ تو جب بھی کسی نبی کے ذریعہ سے ظاہر ہوا ہے اس وقت ظاہر ہوا ہے جب اللہ نے یہ چاہا کہ اس کے ہاتھ سے کوئی معجزہ کسی منکر قوم کو دکھایا جائے۔ یہ کفار کے مطالبے کا پہلا جواب ہے۔

۱۰۹۔ یعنی معجزہ کبھی کھیل کے طور پر نہیں  دکھایا گیا ہے۔ وہ تو ایک فیصلہ کن چیز ہے۔  اس کے  ظاہر ہو جانے کے بعد جب کوئی قوم نہیں مانتے تو پھر اس کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ تم محض تماش بینی کے شوق میں معجزے کا مطالبہ کر رہے ہو، مگر تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ اس طرح دراصل تم خود تقاضے کر کر کے اپنی شامت بلا رہے ہو۔ یہ کفار کے اس مطالبہ کا دوسرا جواب ہے، اور اس کی تفصیلات اس سے پہلے قرآن میں متعدد مقامات پر گزر چکی ہیں  (ملاحظہ ہو جلد دوم، ص ۴۹۸۔ ۵۱۰۔ ۶۲۶۔ جلد سوم، ۱۴۸۔ ۱۴۹۔ ۴۴۵۔ ۴۴۶۔ ۴۹۸۔ ۴۹۹)

 

ترجمہ

 

اللہ ہی نے تمہارے لیے یہ مویشی جانور بنائے ہیں تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ۔ ان کے اندر تمہارے لیے اور بھی بہت سے منافع ہیں۔ وہ اس کام بھی آتے ہیں کہ تمہارے دلوں میں جہاں جانے کی حاجت ہو وہاں تم ان پر پہنچ سکو۔ ان پر بھی اور کشتیوں پر بھی تم سوار کیے جاتے ہو۔ اللہ اپنی یہ نشانیاں تمہیں دکھا رہا ہے، آخر تم اس کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے (۱۱۰)۔

پھر کیا(۱۱۱) یہ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کو ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ وہ ان سے تعداد میں زیادہ تھے، ان سے بڑھ کر طاقتور تھے، اور زمین میں ان سے زیادہ شاندار آثار چھوڑ گئے ہیں۔ جو کچھ کمائی انہوں نے کی تھی، آخر وہ ان کے کس کام آئی؟ جب ان کے رسول ان کے پاس بینات لے کر آئے تو وہ اسی علم مگن رہے جو ان کے اپنے پاس تھا(۱۱۲)۔ اور پھر اسی چیز کے پھیر میں آ گئے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم نے مان لیا اللہ وحدہٗ لاشریک کو اور ہم انکار کرتے ہیں ان سب معبودوں کا جنھیں ہم شریک ٹھیراتے تھے۔ مگر ہمارا عذاب دیکھ لینی کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے کچھ بھی نفع نہ ہو سکتا تھا، کیوں کہ یہی اللہ کا مقرر ضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہا ہے (۱۱۳)، اور اس وقت کافر لوگ خسارے میں پڑ گئے۔

 

تفسیر

 

۱۱۰۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم محض تماشا دیکھنے اور دل بہلانے کے لیے معجزے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہو، بلکہ تمہیں صرف یہ اطمینان کرنے کی ضرورت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جنّاتوں کو ماننے کی دعوت تمہیں دے رہے ہیں (یعنی توحید اور آخرت) وہ حق ہیں یا نہیں، تو اس کے لیے خدا کی یہ نشانیاں بہت کافی ہیں جو ہر وقت تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آ رہی ہیں۔ حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان نشانیوں کے ہوتے کسی اور نشانی کی کیا حاجت رہ جاتی ہے۔ یہ معجزات کے  مطالبے کا تیسرا جواب ہے۔ یہ جواب بھی اس سے پہل ے متعدد مقامات پر قرآن  میں دیا گیا ہے اور ہم اس کی تشریح اچھی طرح کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو جلد اول، صفحات ۵۳۷۔ ۵۳۸۔ جلد دوم ۳۱۵۔ ۴۴۷۔ تا ۴۴۹۔ جلد سوم، ۴۷۷ تا ۴۷۹)۔

زمین پر جو جانور انسان کی خدمت کر رہے ہیں، خصوصاً گائے، بیل، بھینس، بھیڑ، بکری، اونٹ اور گھوڑے، ان کو بنانے والے نے ایسے نقشے پر بنایا ہے کہ یہ بآسانی انسان کے پالتو خدم بن جاتے ہیں، اور ان سے اس کی بے شمار ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ان پر سواری کرتا ہے۔ ان سے بار برداری کا کام لیتا ہے۔ انہیں کھیتی باڑی کے کام میں استعمال کرتا ہے۔ ان کا دودھ نکال کر اسے پیتا بھی ہے اور اس سے دہی، لسّی، مکھن، گھی، کھویا، پنیر، اور طرح طرح کی مٹھائیاں بناتا ہے۔ ان کا گوشت کھاتا ہے۔ ان کی چربی استعمال کرتا ہے۔ ان کے اون اور بال اور کھال اور آنتیں اور ہڈی اور خون اور گوبر، ہر چیز اس کے کام آتی ہے۔ کیا یہ اس بات کا کھلا ثبوت نہیں ہے کہ انسان کے خالق نے زمین پر اس کو پیدا کرنے سے بھی پہلے اس کی ان بے شمار ضروریات کو سامنے رکھ کر یہ جانور اس خاص نقشے پر پیدا کر دیے تھے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے؟

پھر زمین کا تین چوتھائی حصّہ پانی سے لبریز ہے اور صرف ایک چوتھائی خشکی پر مشتمل ہے۔ خشک حصوں کے بھی بہت سے چھوٹے اور بڑے رقبے ایسے ہیں جن کے درمیان پانی حائل ہے۔ کرہ زمین کے ان خشک علاقوں پر انسانی آبادیوں کا پھیلنا اور پھر ان کے درمیان سفر و تجارت کے تعلقات کا قائم ہونا اس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ پانی اور سمندروں اور ہواؤں کو ایسے قوانین کا پابند بنایا جاتا جن کی بدولت جہاز رانی کی جا سکتی، اور زمین پر وہ سر و سامان پیدا کیا جاتا جسے استعمال کر کے انسان جہاز سازی پر قادر ہوتا۔ کیا یہ اس بات کی صریح علامت نہیں ہے کہ ایک ہی قادر مطلق ربّ رحیم و حکیم ہے جس نے انسان اور زمین اور پانی اور سمندروں اور ہواؤں اور ان تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اپنے خاص منصوبے کے مطابق بنایا ہے۔ بلکہ اگر انسان صرف جہاز رانی ہی کے نقطہ نظر سے دیکھے تو اس میں تاروں کے مواقع اور سیاروں کی باقاعدہ گردش سے جو مدد ملتی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ زمین ہی نہیں، آسمان کا خالق بھی وہی ایک رب کریم ہے۔

اس کے بعد اس بات پر بھی غور کیجیے کہ جس خدائے حکیم نے اپنی اتنی بے شمار چیزیں انسان کے تصرف میں دی ہیں اور اس کے مفاد کے لیے یہ کچھ سر و سامان فراہم کیا ہے، کیا بسلامتی ہوش و حواس آپ اس کے متعلق یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ معاذاللہ ایسا آنکھ کا اندھا اور گانٹھ کا پورا ہو گا کہ وہ انسان کو یہ سب کچھ دے کر کبھی اس سے حساب نہ لے گا۔

۱۱۱۔ یہ خاتمہ کلام ہے۔ اس حصے کو پڑھتے وقت آیات ۴۔ ۵۔ اور آیت ۲۱ پر ایک دفعہ پھر نگاہ ڈال لیں۔

۱۱۲۔ یعنی اپنے فلسفے اور سائنس، اپنے قانون، اپنے دنیوی علوم، اور اپنے پیشواؤں کے گھڑے ہوئے مذہبی افسانوں (Mythology)اور دینیات   (Theology)ہی کو انہوں نے اصل علم سمجھا اور انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے علم کو ہیچ سمجھ کر اس کی طرف کوئی التفات نہ کیا۔

۱۱۳۔ یہ کہ توبہ اور ایمان بس اسی وقت تک نافع ہیں جب تک آدمی اللہ کے عذاب کا موت کی گرفت میں نہ آ جائے۔ عذاب آ جانے یا موت کے آثار شروع ہو جانے کے بعد ایمان لانا یا تو بہ کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔

٭٭٭

 

 

(۴۱) سورۃ حٰم السجدہ

 

 

نام

 

اس سورہ کا نام  دو لفظوں سے مرکب ہے۔ ایک حٰم، دوسرے السجدہ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس کا آغاز حٰم سے ہوتا ہے اور جس میں ایک مقام پر آیت سجدہ آئی ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

معتبر روایات کی رو سے اس کا زمانہ نزول حضرت حمزہؓ کے ایمان لانے کے بعد اور حضرت عمرؓ کے ایمان لانے سے پہلے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق نے مشہور تابعی محمد بن کعب القرظی کے حوالہ سے یہ قصہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ قریش کے کچھ سردار مسجد حرام میں  محفل جمائے بیٹھے تھے اور مسجد کے ایک دوسرے گوشے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تنہا تشریف رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت حمزہ ایمان لا چکے تھے اور قریش کے لوگ مسلمانوں کی جمعیت میں روز افزوں اضافہ دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ اس موقع پر عُتبہ بن ربیعہ (ابو سفیان کے خسر ) نے سرداران قریش سے  کہا کہ  صاحبو، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) سے بات کروں اور ان کے سامنے چند تجویزیں رکھوں،  شاید کہ وہ ان میں سے کسی کو مان لیں اور ہم بھی اسے قبول کر لیں اور اس طرح وہ ہماری مخالفت سے باز آ جائیں۔  سب حاضرین نے اس سے اتفاق کیا اور عتبہ اٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جا بیٹھا۔ آپؐ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا’’ بھتیجے، تم اپنی قوم میں اپنے نسب اور خاندان کے اعتبار سے جو حیثیت رکھتے ہو وہ تمہیں معلوم ہے۔ مگر تم اپنی قوم پر ایک بڑی مصیبت لے آئے ہو۔ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھیرایا۔ قوم کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی۔ اور ایسی باتیں کرنے لگے جن کے معنی یہ ہیں کہ ہم سب کے باپ دادا کافر تھے۔  اب ذرا میری بات سنو۔ میں کچھ تجویزیں تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔  ان پر غور کرو۔ شاید کہ ان میں سے کسی کو تم قبول کر لو‘‘۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابولولید، آپ کہیں،  میں سنوں گا۔ اس نے کہا، ‘‘ بھتیجے، یہ کام جو تم نے شروع کیا ہے، اس سے اگر تمہارا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ہم سب مل کر تم کو اتنا کچھ دیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار ہو جاؤ۔ اگر اس سے اپنی بڑائی چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں۔   اور اگر تم پر کوئی جِن آتا ہے جسے تم خود دفع کرنے پر قادر نہیں ہو تو ہم بہترین اطبا ء بلواتے ہیں اور اپنے خرچ پر تمہارا علاج کراتے ہیں۔ ‘‘ عُتبہ یہ باتیں کرتا رہا اور حضورؐ خاموش سنتے رہے۔ پھر آپ نے فرمایا، ابوالولید آپ کو جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے؟ اس نے کہا، ہاں۔ ،  آپؐ نے فرمایا اچھا، اب میری سنو۔ اس کے بعد آپ  نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر اسی سورۃ کی تلاوت شروع کی اور عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ آیت سجدہ (آیت ۳۸) پر پہنچ کر آپؐ نے سجدہ کیا، پھر سر اٹھا کر فرمایا، ’’ اے ابوالولید، میرا جواب آپ نے سن لیا، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ ‘‘ عتبہ اٹھ کر سرداران قریش کی مجلس کی طرف چلا تو لوگوں نے دور سے اس کو دیکھتے ہی کہا، خدا کی قسم، عتبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے، یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر یہ گیا تھا۔ پھر  جب وہ آ کر بیٹھا تو لوگوں نے کہا : کیا سُن آئے؟ اس نے کہا : ’’ بخدا، میں نے ایسا کلام سنا کہ کبھی اس سے پہلے نہ سنا تھا۔ خدا کی قسم، نہ یہ شعر ہے، نہ سحر ہے نہ کہانت۔ اے سردارانِ قریش، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلام کچھ رنگ لا کر رہے گا۔ فرض کرو، اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے تم بچ جاؤ گے  اور دوسرے اس سے نمٹ لیں گے۔ لیکن اگر وہ عرب پر غالب آ گیا تو اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی، اور اس کی عزت تمہاری عزت ہی ہو گی۔ ‘‘ سرداران قریش اس کی یہ بات سنتے ہی بول اٹھے، ’’ ولید کے ابّا، آخر اس کا جادو تم پر بھی چل گیا۔ ‘‘ عتبہ نے کہا، میری جو رائے تھی وہ میں نے تمہیں بتا دی، اب تمہارا جو جی چاہے کرتے رہو (ابن ہشام، جلد ۱، ص ۳۱۳۔ ۳۱۴)

اس قصے کو متعدد دوسرے محدثین نے حضرت جاب بن عبداللہ سے بھی مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے، جن میں تھوڑا بہت لفظی اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض میں یہ بھی آیا ہے کہ  جب حضورؐ تلاوت کرتے ہوئے آیت : فَاِنْ اَعْرَضُوْ ا فَقُلْ اَنْذَرْ تُکُمْ صَا عِقُۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ (اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے  ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تمہیں عاد اور ثمود کے عذاب جیسے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں ) پر پہنچے تو عتبہ نے بے اختیار آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا ’’خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو‘‘۔ بعد میں اس نے سرداران قریش کے سامنے اپنے اس فعل کی وجہ یہ بیان کی کہ ’’ آپ لوگ جانتے ہیں،  محمدؐ کی زبان سے جو بات نکلتی ہے پوری ہو کر رہتی ہے، اس لیے میں ڈر گیا کہ کہیں ہم پر عذاب نازل نہ ہو جائے‘‘۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر، ج ۴، ص ۹۰۔ ۹۱۔ البدایہ والنہایہ، ج۳، ص ۶۲)۔

 

 

موضوع اور مضمون

 

عتبہ کی اس گفتگو کے جواب میں جو تقریر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی، اس میں ان بیہودہ باتوں کی طرف سرے سے کوئی التفات نہ کیا گیا جو اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہی تھیں۔  اس لیے کہ جو کچھ اس نے کہا تھا وہ دراصل حضورؐ کی نیت اور آپ کی عقل پر حملہ تھا۔  اس کی ساری باتوں کے پیچھے یہ مفروضہ کام کر رہا تھا کہ حضورؐ کے نبی، اور قرآن کے وحی ہونے کا تو بہر حال کوئی امکان نہیں ہے، اب لامحالہ آپؐ کی اس دعوت کا محرک یا تو مال و دولت اور حکومت و اقتدار حاصل کرنے کا جذبہ ہے، یا پھر، معاذاللہ، آپؐ کی عقل پر فتور آ گیا ہے۔  پہلی صورت میں وہ آپ سے سودے بازی کرنا چاہتا تھا، اور دوسری صورت میں یہ کہہ کر آپ کی توہین کر رہا تھا کہ ہم اپنے خرچ پر آپ کی دیوانگی کا علاج کرائے دیتے ہیں۔  ظاہر ہے کہ اس طرح کی بیہودگیوں پر جب مخالفین اتر آئیں تو ایک شریف آدمی کا کام ان کا جواب دینا نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ ان کو قطعی نظر انداز کر کے اپنی جو بات کہنی ہو کہے۔

عتبہ کی باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس سورہ میں اس مخالفت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جو قرآن مجید کی دعوت کو زک دینے کے لیے کفار مکہ کی طرف سے اس وقت انتہائی ہٹ دھرمی اور بد اخلاقی کے ساتھ کی جا رہی تھی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے، آپ خواہ کچھ کریں،  ہم آپ کی کوئی بات سن کر نہ دی گے۔ ہم نے اپنے دلوں پر غلاف  چڑھا لیے ہیں۔  اپنے کان بند کر لیے ہیں۔  ہمارے اور آپ کے درمیان ایک دیوار حائل ہو گئی ہے جو ہمیں اور آپ کو کبھی نہ ملنے دے گی۔

انہوں نے آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا تھا کہ آپ اپنی اس دعوت کا کام جاری رکھیے، ہم آپ کی مخالفت میں جو کچھ ہم سے ہو سکے گا کریں گے۔

انہوں نے آپ کو زک دینے کے لیے کام کا یہ نقشہ بنایا تھا کہ جب بھی آپ یا آپ کے پیروؤں میں سے کوئی عام لوگوں کو قرآن سنانے کی کوشش کرے، فوراً ہنگامہ برپا کر دیا جائے اور اتنا شور مچایا جائے کہ کان پڑی آواز نہ  سنائی دے۔

وہ پوری سرگرمی کے ساتھ اس کام میں لگے ہوئے تھے کہ قرآن مجید کی آیات کو اُلٹے معنی پہنا کر عوام میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائیں۔  بات کچھ کہی جاتی تھی اور وہ اسے بناتے کچھ تھے۔ سیدھی بات میں ٹیڑھ نکالتے تھے۔ سیاق و سباق سے الگ کرک ے کوئی لفظ کہیں سے اور کوئی فقرہ کہیں سے لے اُڑتے اور اس کے ساتھ ا پنی طرف سے چار باتیں ملا کر نئے نئے مضامین پیدا کرتے تھے تاکہ قرآن اور اس کے پیش کرنے والے رسول کے متعلق لوگوں کی رائے خراب کی جائے۔

عجیب عجیب قسم کے اعتراضات جڑتے تھے جن کا ایک نمونہ اس سورہ میں پیش کیا گیا ہے۔ کہتے تھے کہ ایک عرب اگر عربی زبان میں کوئی کلام سناتا ہے تو اس میں معجزے کی کیا بات ہوئی؟ عربی تو اس کی مادری زبان ہے۔ اپنی مادری زبان میں جس کا جی چاہے ایک کلام تصنیف کر لے اور دعویٰ کر دے کہ وہ اس پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ معجزہ تو جب ہوتا کہ یہ شخص کسی دوسری زبان میں،  جسے یہ نہیں جانتا، یکایک اٹھ کر فصیح و بلیغ تقریر کر ڈالتا۔ تب یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ یہ اس کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ اوپر کہیں سے اس پر نازل ہو رہا ہے۔

اس اندھی اور بہری مخالفت کے جواب میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے :

(۱)۔ یہ خدا ہی کا نازل کردہ کلام ہے اور عربی زبان ہی میں ہے۔ جو حقیقتیں اس میں صاف صاف کھول کر بیان کی گئی ہیں،  جاہل لوگ ان کے اندر علم کی کوئی روشنی نہیں پاتے، مگر سمجھ بوجھ رکھنے والے اس روشنی کو دیکھ بھی رہے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔  یہ تو خدا کی رحمت ہے کہ اس نے انسان کی رہنمائی کے لیے یہ کلام نازل کیا۔ کوئی اسے زحمت سمجھتا ہے تو یہ اس کی اپنی بد نصیبی ہے۔ خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے جواس سے فائدہ اٹھائیں،  اور ڈرنا چاہیے ان لوگو کو جو اس سے منہ موڑ لیں۔

(۲)۔ تم نے اگر اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لیے  ہیں اور اپنے کان بہرے کر لیے ہیں تو نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے کہ جو نہیں سننا چاہتا اسے سنائے اور جو نہیں سمجھنا چاہتا اس کے دل میں زبردستی اپنی بات اتارے۔ وہ تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے۔ سننے والوں ہی کو سنا سکتا ہے اور سمجھنے والوں ہی کو سمجھا سکتا ہے۔

(۳)۔ تم چاہے اپنی آنکھیں اور کان بند کر لو اور اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو، مگر حقیقت یہی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی ہے اور تم کسی دوسرے کے بندے نہیں ہو۔ تمہاری ضد سے یہ حقیقت بہر حال نہیں بدل سکتی۔ مان لو گے اور اس کے مطابق اپنا عمل درست کر لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے۔ نہ مانو گے تو خود ہی تباہی سے دوچار ہو گے۔

(۴)۔ تمہیں کچھ احساس بھی ہے کہ یہ شرک اور کفر تم کس کے ساتھ کر رہے ہو؟ اس خدا کے ساتھ جس نے یہ اَتھاہ کائنات بنائی ہے، جو زمین و آسمان کا خالق ہے، جس کی پیدا کی ہوئی برکتوں سے اس زمین میں تم فائدہ اٹھا رہے ہو، اور جس کے مہیا کیے ہوئے رزق پر تم پل رہے ہو۔ اس کا شریک تم اس کی حقیر مخلوقات کو بناتے ہو، اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ضد میں آ کر منہ موڑتے ہو۔

(۵)۔ اچھا، نہیں مانتے تو خبردار ہو جاؤ کہ تم پر اسی طرح کا عذاب اچانک ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہے جیسا عاد اور ثمود پر آیا تھا۔ اور یہ عذاب بھی تمہارے جرم کی آخری سزا نہ ہو گا، بلکہ آگے میدان حشر کی باز پرس اور جہنم کی آگ ہے۔

(۶)۔ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جس کے ساتھ ایسے شیاطین جِن و انس لگ جائیں جو اسے ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھاتے رہیں،  اس کی حماقتوں کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کریں اور اسے کبھی خود صحیح بات سوچنے دیں،  نہ کسی دوسرے سے سننے دیں۔  اس طرح کے نادان لوگ آج تو یہاں ایک دوسرے کو بڑھاوے چڑھاوے دے رہے ہیں،  اور ہر ایک دوسرے کی شہ پا کر نہلے پر دہلا مار رہا  ہے، مگر قیامت کے راز جب شامت آئے گی تو ان میں سے ہر ایک کہے گا کہ جن لوگوں نے مجھے بہکایا تھا وہ میرے ہاتھ لگ جائیں تو انہیں پاؤں تلے روند ڈالوں۔

(۷)۔ یہ قرآن ایک اٹل کتاب ہے۔ اسے تم اپنی گھٹیا چالوں اور اپنے جھوٹ کے ہتھیاروں سے شکست نہیں دے سکتے۔ باطل خواہ سامنے سے آئے یا در پردہ اور بالواسطہ حملہ آور ہو، اسے زک دینے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔

(۸)۔ آج تمہاری اپنی زبان میں یہ قرآن پیش کیا جا رہا ہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو تو تم یہ کسی عجمی زبان میں آنا چاہیے تھا۔ لیکن اگر ہم تمہاری ہدایت کے لیے عجمی مذاق ہے، عرب قوم کی ہدایت کے لیے عجمی زبان میں کلام فرمایا جا رہا ہے جسے یہاں کوئی نہیں سمجھتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں دراصل ہدایت مطلوب ہی نہیں ہے۔ نہ ماننے کے لیے نت نئے بہانے تراش رہے ہو۔

(۹)۔ کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر فی الواقع حقیقت یہی نکلی کہ یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے تو اس کا انکار کر کے اور اس کی مخالفت میں اتنی دور تک جا کر تم کس انجام سے دوچار ہو گے۔

(۱۰)۔ آج تم نہیں مان رہے ہو، مگر عنقریب تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اس قرآن کی دعوت تمام آفاق پر چھا گئی ہے، اور تم خود اس سے مغلوب ہو چکے ہو۔ اس وقت تمہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ تم سے کہا جا رہا تھا، وہ حق تھا۔

مخالفین کو یہ جوابات دینے کے ساتھ ان مسائل کی طرف بھی توجہ فرمائی گئی ہے جو اس شدید مزاحمت کے ماحول میں اہل ایمان کو اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو در پیش تھے۔ ایمان لانے والوں کے لیے اس وقت تبلیغ کرنا تو در کنار، ایمان کے راستے پر قائم رہنا بھی سخت دشوار ہو رہا تھا، اور ہر اس شخص کی جان عذاب میں آ جاتی تھی جس کے متعلق یہ ظاہر ہو جاتا تھا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے۔ دشمنوں کی خوفناک جتھہ بندی اور ہر طرف چھائی ہوئی طاقت کے مقابلے میں وہ اپنے آپ کو بالکل بے بس اور بے یار و مدد گا محسوس کر رہے تھے۔ اس حالت میں اول تو یہ کہہ کر ان کی ہمت بندھائی گئی کہ تم حقیقت میں بے یار مدد گار نہیں ہو، بلکہ جو شخص بھی ایک دفعہ خدا کو اپنا رب مان کر اس عقیدے اور مسلک پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتا ہے، خدا کے فرشتے اس پر نازل ہوتے ہیں اور دنیا سے لے کر آخرت تک اس کا ساتھ دینے ہیں۔  پھر یہ فرما کر ان کا حوصلہ بڑھایا گیا کہ بہترین ہے وہ انسان جو خود نیک عمل کرے، دوسروں کو خدا کی طرف بلائے، اور ڈٹ کر کہے کہ میں مسلمان ہوں۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس وقت جو سوال سخت پریشان کن بنا ہوا تھا وہ یہ تھا کہ جب اس دعوت کی راہ میں ایسے  سنگ گراں حائل ہیں تو ان چٹانوں سے تبلیغ کا راستہ آخر کیسے نکالا جائے َ اس سوال کا حل آپ کو یہ بتایا گیا کہ یہ نمائشی چٹانیں بظاہر بڑی سخت نظر آتی ہیں، مگر اخلاق حسنہ کا ہتھیار وہ ہتھیار ہے جو انہیں توڑ کر اور پگھلا کر رکھ دے گا۔ صبر کے ساتھ اس سے کام لو، اور جب کبھی شیطان اشتعال دلا کر کسی دوسرے ہتھیار سے کام لینے پر اکسائے تو خدا سے پناہ مانگو۔

 

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

ح  مٓ، یہ خدائے رحمان و رحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے، ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں،  عربی زبان کا قرآن، ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں،  بشارت دینے والا اور ڈرا دینے والا(۱)۔

مگر ان لوگوں میں سے اکثر نے اس سے رو گردانی کی اور سہ سن کر نہیں دیتے۔ کہتے ہیں ’’ جس چیز کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں (۲)، ہمارے کان بہرے ہو گئے ہیں،  اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہو گیا ہے (۳)۔ تو اپنا کام کر، ہم اپنا کام کیے جائیں گے ’’(۴)۔

اے نبیؐ، ان سے کہو، میں تو ایک نشر ہوں تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے (۶)، لہٰذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو(۸)۔ تباہی ہے ان مشرکوں کے لیے جو زکوٰۃ نہیں دیتے (۹) اور آخرت کے منکر ہیں۔  رہے وہ لوگ جنہوں نے مان لیا اور نیک اعمال کیے، ان کے لیے یقیناً ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے (۱۰)۔ ع

 

تفسیر

 

۱۔ یہ اس سورہ کی مختصر تمہید ہے۔ آگے کی تقریر پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اس تمہید میں جو باتیں ارشاد ہوئی ہیں وہ بعد کے مضمون سے کیا مناسبت رکھتی ہیں۔

پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کلام خدا کی طرف سے نازل ہو رہا ہے۔ یعنی تم جب تم  چاہو یہ رٹ لگاتے رہو کہ اسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود تصنیف کر رہے ہیں،  لیکن واقعہ یہی ہے کہ اس کلام کا نزول خداوند عالم کی طرف سے ہے۔ مزید براں یہ ارشاد فرما کر مخاطبین کو اس بات پر بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ تم اگر اس کلام کو سن کر چیں بجبیں ہوتے ہو تو تمہارا یہ غصّہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف نہیں بلکہ خدا کے خلاف ہے، اگر اسے رد کرتے ہو تو ایک انسان کی بات نہیں بلکہ خدا کی بات رد کرتے ہو، اور اگر اس سے بے رخی برتتے ہو تو ایک انسان سے نہیں بلکہ خدا سے منہ موڑتے ہو۔

دوسری بات یہ ارشاد ہوئی ہے کہ اس کا نازل کرنے والا وہ خدا ہے جو اپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان (رحمان اور رحیم) ہے۔ نازل کرنے والے خدا کی دوسری صفات کے بجائے صفت رحمت کا ذکر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس نے اپنی رحیمی کے اقتضا سے یہ کلام نازل کیا ہے۔ اس سے مخاطبین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اس کلام سے اگر کوئی بے رخی برتتا ہے، یا اسے رد کرتا ہے، یا اس پر چین بجبیں ہوتا ہے تو در حقیقت اپنے آپ سے دشمنی کرتا ہے۔ یہ تو ایک نعمت عظمٰی ہے جو خدا نے سراسر اپنی رحمت کی بنا پر انسانوں کی رہنمائی اور فلاح و سعادت کے لیے نازل کی ہے۔ خدا اگر انسانوں سے بے رخی برتتا تو انہیں اندھیرے میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا اور کچھ پروا نہ کرتا کہ یہ کس گڑھے میں جا کر گرتے ہیں۔  لیکن یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ پیدا کرنے اور روزی دینے کے ساتھ ان کی زندگی سنورنے کے لیے علم کی روشنی دکھانا بھی وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اسی بنا پر یہ کلام اپنے ایک بندے پر نازل کر رہا ہے۔ اب اس شخص سے بڑھ کر ناشکرا اور آپ اپنا دشمن کون ہو گا جو اس رحمت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا اس سے لڑتے کے لیے دوڑے۔

تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ اس کتاب کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں۔  اس میں کوئی بات گنجلک اور پیچیدہ نہیں ہے کہ کوئی شخص اس بنا پر اسے قبول کرے سے معذوری ظاہر کر دے کہ اس کی سمجھ میں اس کتاب کے مضامین آتے نہیں ہیں۔  اس میں تو صاف صاف بتایا گیا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، صحیح عقائد کون سے ہیں اور غلط عقائد کون سے، اچھے اخلاق کیا ہیں اور برے اخلاق کیا، نیکی کیا ہے اور بدی کیا، کس طریقے کی پیروی میں انسان کی بھلائی ہے اور کس طریقے کو اختیار کرنے میں اس کا اپنا خسارہ ہے۔ ایسی صاف اور کھلی ہوئی ہدایت کو اگر کوئی شخص رد کرتا ہے یا اس کی طرف توجہ نہیں کرتا تو وہ کوئی معذرت پیش نہیں کر سکتا۔ اس کے اس رویے کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ خود بر سر غلط رہنا چاہتا ہے۔

چوتھی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ عربی زبان کا قرآن ہے۔ مطلب یہ ہے اگر یہ قرآن کسی غیر زبان میں آتا تو اہل عرب یہ عذر پیش کر سکتے تھے کہ اس زبان ہی سے نابلد ہیں جس میں خدا نے اپنی کتاب بھیجی ہے۔ لیکن یہ تو ان کی اپنی زبان ہے۔ اسے نہ سمجھ سکنے کا بہانا نہیں بنا سکتے۔ (اس مقام پر آیت ۴۴ بھی پیش نظر رہے جس میں یہی مضمون ایک دوسرے طریقے سے بیان ہوا ہے۔ اور یہ شبہ کہ پھر غیر اہل عرب کے لیے تو قرآن کی دعوت کو قبول نہ کرنے کے لیے ایک معقول عذر موجود ہے، اس سے پہلے ہم رفع کر چکے ہیں۔  ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص ۳۸۳، ۳۸۴۔ رسائل و مسائل، حصہ اول، ص ۱۹ تا ۲۳)

پانچویں بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو علم رکھتے ہیں۔  یعنیاس سے فائدہ ہے جو ہیرے اور پتھر کا فرق نہ جانتا ہو۔

چھٹی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کتاب بشارت دینے والی اور ڈرانے والی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ یہ محض ایک تخیل، ایک فلسفہ، اور ایک نمونہ انشاء پیش کرتی ہو جسے ماننے یا نہ ماننے کا کچھ حاصل نہ ہو۔ بلکہ یہ ہان کے پکارے تمام دنیا کو خبردار کر رہی ہے کہ اسے ماننے کے نتائج نہایت شاندار اور نہ ماننے کے نتائج انتہائی ہولناک ہیں۔  ایسی کتاب کو صرف ایک بیوقوف ہی سر سری طور پر نظر انداز کر سکتا ہے۔

۲۔ یعنی اس کے لیے ہمارے دلوں تک پہنچنے کا کوئی راستہ کھلا ہوا نہیں ہے۔

۳۔ یعنی اس دعوت نے ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دی ہے۔ اس نے ہمیں اور تمہیں ایک دوسرے سے کاٹ دیا ہے۔ یہ ایک ایسی رکاوٹ بن گئی ہے جو ہم کو اور تم کو جمع نہیں ہونے دیتی۔

۴۔ اس کے دو مطلب ہیں۔  ایک یہ کہ ہم کو تم سے کوئی سروکار نہیں۔  دوسرے یہ کہ تم اپنی دعوت سے باز نہیں آتے تو اپنا کام کیے جاؤ، ہم بھی تمہاری مخالفت سے باز نہ آئیں گے اور جو کچھ تمہیں نیچا دکھانے کے لیے ہم سے ہو سکے گا کریں گے۔

۵۔ یعنی میرے بس میں یہ نہیں ہے کہ تمہارے دلوں پر چڑھے ہوئے غلاف اتار دوں،  تمہارے بہرے کان کھول دوں،  اور اس حجاب کو پھاڑ دوں جو تم نے خود ہی میرے اور اپنے درمیان ڈال لیا ہے۔ میں تو ایک انسان ہوں۔  اسی کو سمجھا سکتا ہوں جو ملنے کے لیے تیار ہو۔

۶۔ یعنی تم چاہے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو اور اپنے کان بہرے کر لو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تمہارے بہت سے خدا نہیں ہیں بلکہ صرف ایک ہی خدا ہے جس کے تم بندے ہو۔ اور یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے جو میں نے اپنے غور و فکر سے بنایا ہو، جس کے صحیح اور غلط ہونے کا یکساں احتمال ہو، بلکہ یہ حقیقت مجھ پر وحی کے ذریعہ سے منکشف کی گئی ہے جس میں غلطی کے احتمال کا شائبہ تک نہیں ہے۔

۷۔ یعنی کسی اور کو خدا نہ بناؤ، کسی اور کی بندگی و پرستش نہ کرو، کسی اور کو مدد کے لیے نہ پکارو، کسی اور کے آگے سر تسلیم و اطاعت خم نہ کرو، کسی اور کے رسم و رواج اور قانون و ضابطہ کو شریعت واجب الاطاعت نہ مانو۔

۸۔ معافی اس بے وفائی کی جواب تک تم اپنے خدا سے کرتے رہے، اس شرک اور کفر اور نافرمانی کی جس کا ارتکاب تم سے اب تک ہوتا رہا، اور ان گناہوں کی جو خدا فراموشی کے باعث  تم سے سرزد ہوئے۔

۹۔ یہاں زکوٰۃ کے معنی میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن عباس اور ان کے جلیل القدر شاگرد عکرمہ اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس مقام پر زکوٰۃ سے مراد وہ پاکیزگی نفس ہے جو توحید کے عقیدے اور اللہ کی اطاعت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ  تباہی ہے ان مشرکین کے لیے جو پاکیزگی اختیار نہیں کرتے۔ دوسرا گروہ جس میں قتادہ، سُدی، حسن بصری، ضحاک، مُقاتل اور ابن السائب جیسے مفسرین شامل ہیں،  اس لفظ کو یہاں بھی زکوٰۃ  مال ہی کے معنی میں لیتا ہے۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو شرک کر کے خدا کا اور زکوٰۃ نہ دے کر بندوں کا حق مارتے ہیں۔

۱۰۔ اصل میں : اَجْرٌ  غَیْرُ مَمْنُوْنٍ  کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے دو معنی اور بھی ہیں۔  ایک یہ کہ وہ ایسا اجر  ہو گا جس میں کبھی کمی نہ آئے گی۔ دوسرے یہ کہ وہ اجر احسان جتا جتا کر نہیں دیا جائے گا جیسے کسی بخیل کا عطیہ ہوتا ہے کہ اگر وہ جی کڑا کر کے کسی کو کچھ دیتا بھی ہے تو بار بار اس کو جتاتا ہے۔

 

ترجمہ

 

اے نبیؐ!ان سے کہو، کیا تم اس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں بنا دیا؟ وہی تو سارے جہان والوں کا رب ہے۔ اس نے (زمین کو  وجود میں لانے کے بعد ) اوپر سے اس پر پہاڑ جما دیے اور اس میں برکتیں رکھ دیں (۱۱) اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حجت کے مطابق ٹھیک انداز ے سے خوراک کا سامان مہیا کر دیا(۱۲)۔ یہ سب کام چار دن میں ہو گئے (۱۳)۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا(۱۴)۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا ’’ وجود میں آ جاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو ‘‘۔ دونوں نے کہا ’’ ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح’’(۱۵)۔ تب اس نے دو سن کے اندر سات آسمان بنا دیے، اور ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کر دیا۔ اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا(۱۶)۔ یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے۔

اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں (۱۷) تو ان سے کہہ دو کہ میں تم کو اسی طرح کے ایک اچانک ٹوٹ پڑتے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا عاد اور ثمود پر نازل ہوا تھا۔ جب خدا کے رسول ان کے پاس آگے اور پیچھے، ہر طرف سے آئے (۱۸)اور انہیں سمجھایا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو انہوں نے کہا ’’ ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیجتا، لہٰذا ہم اس بات کو نہیں مانتے جس کے لیے تم بھیجے گئے ہو‘‘(۱۹)۔

عاد کا یہ حال تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے ’’ کون ہے ہم سے زیادہ زور آور ‘‘ ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور آور ہے؟ وہ ہماری آیات کا انکار ہی کرتے رہے، آخر کار ہم نے چند منحوس دنوں میں سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی (۲۰)۔ تاکہ انہیں دنیا ہی کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے عذاب کا مزا چکھا دیں (۲۱)، اور آخرت کا عذاب تو اس بھی زیادہ رسوا کن ہے، وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ ہو گا۔

رہے ثمود، تو ان کے سامنے ہم نے راہ راست پیش کی مگر انہیں نے راستہ دیکھنے کے بجائے اندھا بنا رہنا پسند کیا۔ آخر ان کے کرتوتوں کی بدولت ذلت کا عذاب ان پر ٹوٹ پڑا اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے تھے اور گمراہی و بد عملی سے پرہیز کرتے تھے (۲۲)ع

 

تفسیر

 

۱۱۔ زمین  کی برکتوں سے مراد وہ  بے حد و حساب سر و سامان ہے جو کروڑہا کروڑ  سال سے مسلسل اس کے پیٹ سے نکلتا چلا آ رہا ہے اور خورد بینی کیڑوں سے لے کر انسان کے بلند ترین تمدن تک کی روز افزوں ضروریات پوری کیے چلا جا رہا ہے۔ ان برکتوں میں سب سے بڑی برکتیں ہوا اور پانی ہیں  جن کی دولت ہی زمین پر نباتی، حیوانی اور پھر انسانی زندگی ممکن ہوئی۔

۱۲۔ اصل الفاظ ہیں : قَدَّ رَ فِیْحَآ اَقْوَ اتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَ آءً لِلسَّآئِلِیْنَ۔ اس فقرے کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں :

بعض مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ زمین میں اس کے ارزاق مانگنے والوں کے لیے ٹھیک حساب سے رکھ دیے پورے چار دنوں میں ’’۔ یعنی کم یا زیادہ نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں۔

ابن عباس، قَتَادہ اور سُدّی اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ’’ زمین میں اس کے ارزاق چار دنوں میں رکھ دیے۔ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا ‘‘۔ یعنی جو کوئی یہ پوچھے کہ یہ کام کتنے دنوں میں ہوا، اس کا مکمل جواب یہ ہے کہ چار دنوں میں ہو گیا۔

ابن زید اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ زمین میں اس کے ارزاق مانگنے والوں کے لیے چار دنوں کے اندر رکھ دیے ٹھیک اندازے سے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق‘‘۔

جہاں تک قواعد زبان کا تعلق ہے، آیت  کے الفاظ میں یہ تینوں معنی لینے کی گنجائش ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک پہلے دو معنوں میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیا اہمیت رکھتی ہے کہ یہ کام ایک گھنٹہ کم چار دن یا ایک گھنٹہ زیادہ چار دن میں نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور کمال ربوبیت اور کمال حکمت کے بیان میں کون سی کسر رہ جاتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے اس تصریح کی حاجت ہو؟ اسی طرح یہ تفسیر بھی بڑی کمزور تفسیر ہے  کہ ’’ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا‘‘۔ آیت سے پہلے اور بعد کے مضمون میں کسی جگہ بھی کوئی قرینہ یہ نہیں بتاتا کہ اس وقت کسی سائل نے یہ دریافت کیا تھا کہ یہ سارے کام کتنے دنوں میں ہوئے، اور یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی۔ انہی وجوہ سے ہم نے ترجمے میں تیسرے معنی کو اختیار کیا ہے۔ ہمارے نزدیک آّیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ زمین میں ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت تک جس جس قسم کی جتنی مخلوق بھی اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا تھا، ہر ایک کی مانگ اور حاجت کے ٹھیک مطابق غذا کا پورا سامان حساب لگا کر اس نے زمین کے اندر رکھ دیا۔ نباتات کی بے شمار اقسام خشکی اور تری میں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی غذائی ضروریات دوسری اقسام سے مختلف ہیں۔  جاندار مخلوقات کی بے شمار انواع ہوا اور خشکی اور تری میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اور ہر نوع ایک الگ قسم کی غذا مانگتی ہے۔ پھر  ان سب سے جدا، ایک اور مخلوق انسان ہے جس کو محض جسم کی پرورش ہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے بھی طرح طرح کی خوراکیں درکار ہیں۔  اللہ کے سوا کون جان سکتا تھا کہ اس کرّہ خاکی پر زندگی کا آغاز ہونے سے لے کر اس کے اختتام تک کس کس قسم کی مخلوقات کے کتنے افراد کہاں کہاں اور کب کب وجود میں آئیں گے اور ان کو پالنے کے لیے کیسی اور کتنی غذا درکار ہو گی۔ اپنی تخلیقی اسکیم میں جس طرح اس نے غذا طلب کرنے والی ان مخلوقات کو پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اسی طرح اس نے ان کی طلب کو پورا کرنے کے لیے خوراک کا بھی مکمل انتظام کر دیا۔

موجودہ زمانے میں جن لوگوں نے مارکسی تصور اشتراکیت  کا اسلامی ایڈیشن ’’قرآنی نظام ربوبیت ‘‘ کے نام سے نکالا ہے وہ سواءً للسّا ئِلین کا ترجمہ ’’ سب مانگنے والوں کے لیے برابر ‘‘ کرتے ہیں،  اور اس پر استدلال کی عمارت یوں اٹھاتے ہیں کہ اللہ نے زمین میں  سب لوگوں کے لیے برابر خوراک رکھی ہے، لہٰذا آیت کے منشا کو پورا کرنے کے لیے ریاست کا ایک ایسا نظام درکار ہے جو سب کو غذا کا مساوی راشن دے، کیونکہ انفرادی ملکیت کے نظام میں وہ مساوات قائم نہیں ہو سکتی جس کا یہ ’’قرآنی قانون‘‘ تقاضا کر رہا ہے۔ لیکن یہ حضرات قرآن سے اپنے نظریات کی خدمت لینے کے جوش میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سائلین، جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے، صرف انسان ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف اقسام کی وہ سب مخلوقات ہیں نہیں زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا واقعی ان سب کے درمیان، یا ایک ایک قسم کی مخلوقات کے تمام افراد کے درمیان خدا نے سامان پرورش میں مساوات رکھی ہے؟ کیا فطرت کے اس پورے نظام میں کہیں آپ کو غذا کے مساوی راشن کی تقسیم کا انتظام نظر آتا ہے؟ اگر واقعہ یہ نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نباتات اور حیوانات کی دنیا میں،  جہاں انسانی ریاست نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ریاست براہ راست تقسیم رزق کا انتظام کر رہی ہے، اللہ میاں خود اپنے اس ’’قرآنی قانون‘‘ کی خلاف ورزی ……………….. بلکہ معاذ اللہ، بے انصافی…………… فرما رہے ہیں ! پھر وہ یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ ’’ سائلین ‘‘ میں وہ حیوانات بھی شامل ہیں جنہیں انسان پالتا ہے، اور جن کی خوراک کا انتظام انسان ہی کے ذمہ ہے۔ مثلاً بھیڑ بکری، گائے، بھینس، گھوڑے، گدھے، خچر، اور اونٹ وغیرہ۔ اگر قرآنی قانون یہی ہے کہ سب سائلین کو برابر خوراک دی جائے، اور اسی قانون کو نافذ کرنے کے لیے نظام ربوبیت چلانے والی ایک ریاست مطلوب ہے، تو کیا وہ ریاست انسان اور ان حیوانات کے درمیان معاشی مساوات قائم کرے گی؟

۱۳۔ اس مقام کی تفسیر میں مفسرین کو بالعموم یہ زحمت پیش آئی ہے کہ اگر زمین کی تخلیق کے دو دن، اور اس میں پہاڑ جمانے اور برکتیں رکھنے اور سامان خوراک پیدا کرنے کے چار دن تسلیم کیے جائیں،  تو آگے آسمانوں کی پیدائش دو دنوں  میں ہونے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے مزید دو دن ملا کر آٹھ دن بن جاتے ہیں،  حالانکہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر قرآن مجید میں تصریح فرمائی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق جملہ چھ دنوں میں ہوئی ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص ۳۶۔ ۲۶۱۔ ۳۲۴۔ جلد دوم ص ۴۲۰)۔ اسی بنا پر قریب قریب تمام مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ چار دن زمین کی تخلیق کے دو دن سمیت ہیں،  یعنی دو دن تخلیق زمین کے اور دو دن زمین کے اندر ان باقی چیزوں کی پیدائش کے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس طرح جملہ چار دنوں میں زمین اپنے سرو سامان سمیت مکمل ہو گئی۔ لیکن یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے، اور در حقیقت وہ زحمت بھی محض خیالی زحمت ہے جس سے بچنے کے لیے اس تاویل کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ زمین کی تخلیق کے دو دن دراصل ان دو دنوں سے الگ نہیں ہیں جن میں بحیثیت مجموعی پوری کائنات بنی ہے۔ آگے کی آیات پر غور کیجیے۔ ان میں زمین اور آسمان دونوں کی تخلیق کا یکجا ذکر کیا گیا ہے اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ  نے دو دنوں میں سات آسمان بنا دیے۔ ان سات آسمانوں سے پوری کائنات مراد ہے جس کا یک جز ہماری یہ زمین بھی ہے۔ پھر جب کائنات کے دوسرے بے شمار تاروں اور سیاروں کی طرح یہ زمین بھی ان دو دنوں کے اندر مجرد ایک کُرے کی شکل اختیار کر چکی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ذی حیات مخلوقات کے لیے تیار کرنا شروع کیا اور چار دنوں کے اندر اس میں وہ سب کچھ سرو سامان پیدا کر دیا جس کا اوپر کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے تاروں اور سیاروں میں ان چار دنوں کے اندر کیا کچھ ترقیاتی کام کیے گئے، ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے، کیونکہ نزول قرآن کے دور کا انسان تو در کنار، اس زمانے کا آدمی بھی ان معلومات کو ہضم کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔

۱۴۔ اس مقام پر تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے :

اول یہ کہ آسمان سے مراد یہاں پوری کائنات ہے، جیسا کہ بعد  کے فقروں سے ظاہر ہے۔ دوسرے الفاظ میں آسمان کی طرف متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات کی طرف متوجہ ہوا۔

دوم یہ کہ دھوئیں سے مراد مادے کی وہ ابتدائی حالت ہے جس میں وہ کائنات کی صورت گری سے پہلے ایک بے شکل منتشر الاجزاء  غبار کی طرح فضا میں پھیلا ہوا تھا۔ موجودہ زمانہ  کے سائنسداں اسی چیز کو سحابیے (Nebula)سے تعبیر کرتے ہیں اور آغاز کائنات کے متعلق ان کا تصور بھی یہی ہے کہ تخلیق سے پہلے وہ مادہ جس سے کائنات بنی ہے، اسی دُخانی یا سحابی شکل میں منتشر تھا۔

سوم یہ کہ ’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا‘‘ سے یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ پہلے اس نے زمین بنائی، پھر اس میں پہاڑ جمانے، برکتیں رکھنے اور سامان خوراک فراہم کرنے کا کام انجام دیا، پھر اس سے فارغ ہونے کے بعد وہ کائنات کی تخلیق کی طرف متوجہ ہوا۔ اس غلط فہمی کو بعد کا یہ فقرہ رفع کر دیتا ہے کہ ’’ اس نے آسمان اور زمین سے کہا وجود میں آ جاؤ اور انہوں نے کہا ہم آ گئے فرماں برداروں کی طرح‘‘۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے  کہ اس آیت اور بعد کی آیات میں ذکر اُس وقت کا ہو رہا ہے جب نہ زمین تھی نہ آسمان تھا بلکہ تخلیق کائنات کی ابتدا کی جا رہی تھی۔ محض لفظ ثُمَّ (پھر) کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ زمین کی پیدائش آسمان سے پہلے ہو چکی تھی۔ قرآن مجید میں اس امر کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ ثُمَّ کا لفظ لازماً ترتیب زمانی ہی کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ ترتیب بیان کے طور پر بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، سورہ زمر، حاشیہ نمبر ۱۲)

قدیم زمانے کے مفسرین میں یہ بحث مدت ہائے دراز تک چلتی رہی ہے کہ قرآن مجید کی رو سے زمین پہلے بنی ہے یا آسمان۔ ایک گروہ اس آیت اور سورہ بقرہ کی آیت ۲۹ سے یہ استدلال کرتا ہے کہ زمین پہلے بنی ہے۔ دوسرا گروہ سورہ نازعات کی آیات ۲۷ تا ۳۳ سے دلیل لاتا ہے کہ آسمان پہلے بنا ہے، کیونکہ وہاں اس امر کی تصریح ہے کہ زمین کی تخلیق آسمان کے بعد ہوئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی جگہ بھی تخلیق کائنات کا ذکر طبیعیات یا  ہیئت کے علوم سکھانے کے لیے نہیں کیا گیا ہے بلکہ توحید و آخرت کے عقائد پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہوئے بے شمار دوسرے آثار کی طرح زمین و آسمان کی پیدائش کو بھی غور و فکر کے لیے پیش فرمایا گیا ہے۔ اس غرض کے لیے یہ بات سرے سے  غیر ضروری تھی کہ تخلیق آسمان و زمین کی زمانی ترتیب بیان کی جاتی اور بتایا جاتا کہ زمین پہلے بنی ہے یا آسمان۔ دونوں میں سے خواہ یہ پہلے بنی ہو یا وہ، بہر حال دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے اِلٰہِ واحد ہونے پر گواہ ہیں اور اس امر پر شاہد ہیں کہ ان کے پیدا کرنے والے نے یہ سارا کارخانہ کسی کھلنڈرے کے کھلونے کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اسی لیے قرآن کسی جگہ زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے کرتا ہے اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا۔ جہاں انسان کو خدا کی نعمتوں کا احساس دلانا مقصود ہوتا ہے وہاں بالعموم وہ زمین کا ذکر  پہلے کرتا ہے، کیونکہ وہ انسان سے قریب تر ہے۔ اور جہاں خدا کی عظمت اور اس کے کمال قدرت کا تصور دلانا مقصود ہوتا ہے وہاں بالعموم وہ آسمانوں کا ذکر پہلے کرتا ہے، کیونکہ چرخ گردوں کا منظر ہمیشہ سے انسان کے دل پر ہیبت طاری کرتا رہا ہے۔

۱۵۔ ان الفاظ میں الہ تعالیٰ نے اپنے طریق تخلیق کی کیفیت ایسے انداز  سے بیان فرمائی ہے جس سے خدائی تخلیق اور انسانی صنّاعی کا فرق بالکل  واضح ہو جاتا ہے۔ انسان جب کوئی چیز بنانا چاہتا ہے تو پہلے اس کا نقشہ اپنے ذہن میں جماتا ہے، پھر اس کے لیے مطلوبہ مواد جمع کرتا ہے، پھر اس مواد کو اپنے نقشے کے مطابق صورت دینے کے لیے پیہم محنت اور کوشش کرتا ہے، اور اس کوشش کے دوران میں وہ مواد، جسے وہ اپنے ذہنی نقشے پر ڈھالنا چاہتا ہے، مسلسل اس کی مزاحمت کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ کبھی مواد کی مزاحمت کامیاب ہو جاتی ہے اور چیز مطلوبہ نقشے کے مطابق ٹھیک نہیں بنتی اور کبھی آدمی کی کوشش غالب آ جاتی ہے اور وہ اسے اپنی مطلوبہ شکل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک درزی قمیص بنانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے پہلے وہ قمیص کی صورت کا تصور اپنے ذہن میں حاضر کرتا ہے، پھر کپڑا فراہم کر کے اسے اپنے تصور قمیص کے مطابق تراشنے اور سینے کی کوشش کرتا ہے، اور اس کوشش کے دوران میں اسے کپڑے کی اس مزاحمت کا مسلسل مقابلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ درزی کے تصور پر ڈھلنے کے لیے آسانی سے تیار  نہیں ہوتا، حتیٰ کہ کبھی کپڑے کی مزاحمت غالب آ جاتی ہے اور قمیص ٹھیک نہیں بنتا اور کبھی درزی کی کوشش غالب آ جاتی ہے اور وہ کپڑے کو ٹھیک اپنے تصور کے مطابق شکل دے دیتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کا طرز تخلیق دیکھیے۔ کائنات کا مادہ دھوئیں کی شکل میں پھیلا ہوا تھا۔ اللہ نے چاہا کہ اسے وہ شکل دے جو اب کائنات کی ہے۔ اس غرض کے لیے اُسے کسی انسان کاریگر کی طرح بیٹھ کر زمین اور چاند اور سورج اور دوسرے تارے اور سیارے گھڑنے نہیں پڑے، بلکہ اُس نے کائنات کے اُس نقشے کو جو اس کے ذہن میں تھا بس یہ حکم دے دیا کہ وہ وجود میں آ جائے، یعنی دھوئیں کی طرح پھیلا ہوا مواد ان کہکشانوں اور تاروں اور سیاروں کی شکل میں ڈھل جائے جنہیں وہ پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اس مواد میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ کے حکم کی مزاحمت کرتا۔ اللہ کو اسے کائنات کی صورت میں  ڈھالنے کے لیے کوئی محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑی۔ ادھر حکم ہوا اور ادھر وہ مواد سکڑ اور سمٹ کر فرمانبرداروں کی طرح اپنے مالک کے نقشے پر ڈھلتا چلا گیا، یہاں تک کہ ۴۸ گھنٹوں میں زمین سمیت ساری کائنات بن کر تیار ہو گئی۔

اللہ تعالیٰ کے طریق تخلیق کی اسی کیفیت کو قرآن مجید میں دوسرے متعدد مقامات پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو بس اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم  القرآن جلد اول، ص ۱۰۵۔ ۲۵۲ ۲۵۹۔ جلد دوم، ص ۵۴۱۔ ۵۴۲۔ جلد سوم، ص ۶۷۔ جلد چہارم، یٰس، آیت  ۸۲۔ المومن، آیت ۶۸)۔

۱۶۔ ان آیات کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن کے حسب ذیل مقامات کا مطالعہ مفید ہو گا۔  جلد اول، ص ۶۱۔ جلد دوم ص ۴۴۱۔ ۴۴۲۔ ۵۰۰ تا ۵۰۲۔ جلد سوم، ص ۱۵۵  تا ۱۵۷۔ ۲۴۸۔ ۲۷۰۔ جلد چہارم، یٰس، حاشیہ نمبر ۳۷۔ الصافّات، حواشی نمبر ۵۔ ۶)

۱۷۔ یعنی اس بات کو نہیں مانتے کہ خدا اور معبود بس وہی ایک ہے جس نے یہ زمین اور ساری کائنات  بنائی ہے، اور اپنی اس جہالت پر اصرار ہی کیے چلے جاتے ہیں کہ اُس خدا کے ساتھ دوسروں کو بھی، جو حقیقت میں اس کے مخلوق و مملوک ہیں،  معبود بنائیں گے اور اس کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں انہیں اس کا شریک ٹھیرائیں گے۔

۱۸۔ اس فقرے کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔  ایک یہ کہ ان کے پاس رسول آتے رہے۔ دوسرے یہ کہ رسولوں نے ہر پہلو سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی اور ان کو راہ راست پر لانے کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرنے میں کسر نہ اٹھا رکھی۔ تیسرے یہ کہ ان کے پاس ان کے اپنے ملک میں بھی رسول آئے اور گرد و پیش کے ملکوں بھی آتے رہے۔

۱۹۔ یعنی اگر اللہ کو ہمارا یہ مذہب پسند نہ ہوتا اور وہ اس سے باز رکھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا۔ تم چونکہ فرشتے نہیں ہو بلکہ ہم جیسے انسان ہی ہو اس لیے ہم یہ نہیں مانتے کہ تم کو خدا نے بھیجا ہے اور اس غرض کے لیے بھیجا ہے کہ ہم اپنا مذہب چھوڑ کر وہ دین اختیار کر لیں جسے تم پیش کر رہے ہو۔ کفار کا یہ کہنا کہ جس چیز کے لیے تم ’’ بھیجے گئے ہو‘‘ اسے ہم نہیں مانتے، محض طنز کے طور پر تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ان کو خدا کا بھیجا ہوا مانتے تھے اور پھر ان کی بات ماننے سے انکار کرتے تھے۔ بلکہ یہ اسی طرح کا طنزیہ انداز بیان ہے جیسے فرعون نے حضرت موسیٰ کے متعلق اپنے درباریوں سے کہا تھا کہ : اِنَّ رَسُوْلَکُمْ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْن (الشعراء: آیت ۲۷)۔ ’’ یہ رسول صاحب جو تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورہ یٰس  حاشیہ نمبر ۱۱)

۲۰۔ ’’ منحوس دنوں ‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دن بجائے خود منحوس تھے اور عذاب اس لیے آیا کہ یہ منحوس دن قوم عاد پر آ گئے تھے۔ یہ مطلب اگر ہوتا اور بجائے خود ان دنوں ہی میں کوئی نحوست ہوتی تو عذاب دور و نزدیک کی ساری ہی قوموں پر آ جاتا۔  اس لیے صحیح مطلب یہ ہے کہ ان ایام میں چونکہ اس قوم پر خدا کا عذاب نازل ہوا اس بنا پر وہ دن قوم عاد کے لیے منحوس تھے۔ اس آیت سے دنوں کے سعد و نحس پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔

طوفانی ہوا کے لیے ’’ریح صر صر‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔  اس کے معنی میں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت لُو ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت ٹھنڈی ہوا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ  اس سے مراد ایسی ہوا ہے جس کے چلنے سے سخت شور برپا ہوتا ہو۔ بہر حال اس معنی پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ لفظ بہت تیز طوفانی ہوا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہوا مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک چلتی رہی۔ اس کے زور سے لوگ اس طرح گر گر کر مر گئے اور مر مر کر گر پڑے جیسے کھجور کے کھو کھلے تنے گرے پڑے ہوں (الحاقہ  آیت ۷) جس چیز پر سے بھی یہ ہوا گزر گئی، اس کو بوسیدہ کر کے رکھ دیا (الزاریات، ۴۲ ) جس وقت یہ ہوا آ رہی تھی اس وقت عاد کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے کہ خوب گھٹا گھر کر آئی ہے، بارش ہو گی اور سوکھے دھانوں میں پانی پڑ جائے گا۔ مگر وہ آئی تو اس طرح آئی کہ اس نے ان کے پورے علاقے کو تباہ کر کے رکھ دیا (الا حقاف، ۲۴۔ ۲۵)

۲۱۔ یہ ذلت و رسوائی کا عذاب ان کے کبر و غرور کا جواب تھا جس کی بنا پر وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے تھے اور خم ٹھونک ٹھونک کر کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ زور آور کون ہے۔ اللہ نے ان کو اس طرح ذلیل کیا کہ ان کی آبادی کے بڑے حصے کو ہلاک کر دیا، ان کے تمدن کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا، اور اسن کا قلیل حصہ جو باقی رہ گیا وہ دنیا کی انہی قوموں کے آگے ذلیل و خوار ہوا جن پر کبھی یہ لوگ اپنا زور جتاتے تھے۔ (عاد کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۴۴ تا ۴۷، ۳۴۵ تا ۳۴۹۔ جلد سوم، ص ۲۷۷ تا ۲۷۹۔ ۵۱۷ تا ۵۲۰۔ ۷۰۰)

۲۲۔ ثمود کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۴۷ تا ۵۰۔ ۳۴۹ تا ۳۵۳۔ ۵۱۵ تا ۵۱۶۔ ۶۲۶۔ جلد سوم، ص ۵۲۱ تا ۵۲۶۔ ۵۸۱ تا ۵۸۶۔

 

ترجمہ

 

اور ذرا اس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف کے  لیے گھیر لائے جائیں گے (۲۳)۔ ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا، پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں (۲۵)۔ وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے ’’ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی‘‘؟وہ جواب دیں گی‘‘ ہمیں اسے خدا نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کر دیا ہے (۲۶)۔ اسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اسی کی طرف تم واپس لائی جا رہے ہو۔ تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی۔ بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں ہے۔ تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا، تمہیں لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں پڑ گئے ‘‘ (۲۷)۔ اس حالت میں وہ صبر کریں (یا نہ کریں ) آگ ہی ان کا ٹھکانا ہو گی، اس اگر رجوع کا موقع چاہیں گے تو کوئی موقع انہیں نہ دیا جائے گا(۲۸)۔ ہم نے ان پر ایسے ساتھی مسلط کر دیے تھے جو انہیں آگے اور پیچھے ہر چیز خوشنما بنا کر دکھاتے تھے (۲۹)، آخر کار ان پر بھی وہی فیصلہ عذاب چسپاں ہو کر رہا جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے گروہوں پر چسپاں ہو چکا تھا، یقیناً وہ خسارے میں رہ جانے والے تھے۔ ع

 

تفسیر

 

۲۳۔ اصل مدعا یہ کہنا ہے کہ جب وہ اللہ کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے گھیر لائے جائیں گے۔ لیکن اس مضمون کو ان الفاظ میں بین کیا گیا ہے کہ دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے۔ کیونکہ ان انجام آخر کار دوزخ ہی میں جانا ہے۔

۲۴۔ یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ ایک ایک نسل اور ایک ایک پشت کا حساب کر کے اس کا فیصلہ یکے بعد دیگرے کیا جاتا رہے، بلکہ تمام اگلی پچھلی  نسلیں بیک وقت جمع کی جائیں گی اور ان سب کا اکٹھا حساب کیا جائے گا۔ اس لیے کہ ایک شخص اپنی زندگی میں جو کچھ بھی اچھے اور برے اعمال کرتا ہے اس کے اثرات اس کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتے بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی مدت ہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں اور وہ ان اثرات کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک نسل اپنے دور میں جو کچھ بھی کرتی ہے اس کے اثرات بعد کی نسلوں میں صدیوں جاری رہتے ہیں اور اپنے اس ورثے کے لیے وہ ذمہ دار ہوتی ہے۔ محاسبے اور انصاف کے لیے ان سارے ہی آثار و نتائج کا جائزہ لینا اور ان کی شہادتیں فراہم کرنا نا گزیر ہے۔ اسی وجہ سے قیامت کے روز نسل پر نسل آتی جائے گی اور ٹھیرائی جاتی رہے گی۔ عدالت کا کام اس وقت شروع ہو گا جب اگلے پچھلے سب جمع ہو جائیں دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۲۶ تا ۲۹)

۲۵۔ احادیث میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ جب کوئی ہیکڑ مجرم اپنے جرائم کا انکار ہی کرتا چلا جائے گا اور تمام شہادتوں کو بھی جھٹلانے پر تُل جائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے جسم کے اعضاء ایک ایک کر کے شہادت دیں گے کہ اس نے ان سے کیا کیا کام لیے تھے۔ یہ مضمون حضرت انسؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ، حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت بن عباسؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کیا ہے اور مسلم، نسائی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، بزّار وغیرہ محدثین نے ان روایات کو نقل کیا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، یٰس، حاشیہ ۵۵)۔

یہ آیت منجملہ ان بہت سی آیات کے ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم آخرت محض ایک روحانی عالَم نہیں ہو گا بلکہ انسان وہاں دوبارہ اسی طرح جسم و روح کے ساتھ زندہ کیے جائیں گے جس طرح وہ اب اس دنیا میں ہیں۔  یہی نہیں،  ان کو جسم بھی وہی دیا جائے گا جس میں اب وہ رہتے ہیں۔  وہی تمام اجزاء اور جواہر (Atoms)جن سے ان کے بدن اس دنیا میں مرکب تھے، قیامت کے روز جمع کر دیئے جائیں گے اور وہ اپنے انہی سابق جسموں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے جن کے اندر رہ کر وہ دنیا میں کام کر چکے تھے ظاہر ہے کہ انسان کے اعضاء وہاں اسی صورت میں تو گواہی دے سکتے ہیں جبکہ وہ وہی اعضاء ہوں جن سے اس نے اپنی پہلی زندگی میں کسی جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ اس مضمون پر قرآن مجید کی حسب ذیل آیات بھی دلیل قاطع ہیں : بنی اسرائیل، آیات  ۴۹ تا ۵۱۔ ۹۸۔ المومنون، ۳۵ تا ۳۸۔ ۸۲ ۸۳۔ النور، ۲۴۔ السجدہ، ۱۰۔ یٰسٓ، ۶۵۔ ۷۸۔ ۷۹۔ الصافات، ۱۶ تا ۱۸۔ الواقعہ، ۴۷ تا ۵۰۔ النازعات، ۱۰ تا ۱۴۔

۲۶۔ اس سے معلوم صرف انسان کے اپنے اعضائے جسم ہی قیامت کے روز گواہی نہیں دیں گے، بلکہ ہر وہ چیز بول اٹھے گی جس کے سامنے انسان نے کسی فعل کا ارتکاب کیا تھا۔ یہی بات سورہ زلزال میں فرمائی گئی ہے کہ : وَ اَخْرَ جَتِ الْاَرضُ اَثْقَا لَھَا o وَقَا لَ ا لْاِنْسَانُ مَا لَھَا o یَوْمَئِذٍتَحَدِّ ثُ اَ خْبَا رَھَا oبِاَ نَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا o زمین وہ سارے بوجھ نکال پھینکے گی جو اس کے اندر بھرے پڑے ہیں،  اور انسان کہے گا کہ یہ اسے کیا ہو گیا ہے، اس روز زمین اپنی ساری سرگزشت سنا دے گی (یعنی جوجو کچھ انسان نے اس کی پیٹھ پر کیا  ہے اس کی ساری داستان بیان کر دے گی)۔ کیونکہ تیرا رب اسے بیان کرنے کا حکم دے چکا ہو گا۔

۲۷۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ نے اس آیت کی تشریح میں خوب فرمایا ہے کہ ہر آدمی کا رویہ اس گمان کے لحاظ سے متعین ہوتا ہے جو وہ اپنے رب کے متعلق قائم کرتا ہے۔ مومن صالح کا رویہ اس لیے درست ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کے بارے میں صحیح گمان رکھتا ہے، اور کافر و منافق اور فاسق و ظالم کا رویہ اس لیے ظ

غلط ہوتا ہے کہ اپنے رب کے بارے میں اس کا گمان غلط ہوتا ہے۔ یہی مضمون نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بڑی جامع اور مختصر حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارا رب کہتا ہے انا عند ظن عبدی بی، ’’ میں اس گمان کے ساتھ ہو ں جو میرا بندہ مجھ سے رکھاتا ہے۔ ‘‘ (بخاری و مسلم)

۲۸۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کی طرف پلٹنا چاہیں گے تو پلٹ نہ سکیں گے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوزخ سے نکلنا چاہیں گے تو نہ نکل سکیں گے، اور یہ بھی کہ توبہ اور معذرت کرنا چاہیں گے تو اسے قبول نہ کیا جائے گا۔

۲۹۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مستقل اور دائمی سنت ہے کہ وہ بُری نیت اور بُری خواہشات رکھنے والے انسانوں کو کبھی اچھے ساتھی نہیں دلواتا، بلکہ انہیں ان کے اپنی رجحانات کے مطابق بُرے ساتھی ہی دلواتا ہے۔ پھر جتنے جتنے وہ بدی کی پستیوں میں گہرے اترتے جاتے ہیں اتنے ہی بدتر سے بدتر آدمی اور شیاطین ان کے ہم نشین اور مشیر اور رفیق کار بنتے چلے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ فلان صاحب بذات خود تو بہت اچھے ہیں،  مگر انہیں ساتھی بُرے  مِل  گئے ہیں،  حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ قانون فطرت یہ ہے کہ ہر شخص کو ویسے ہی دوست ملتے ہیں جیسا وہ خود ہوتا ہے۔ ایک بیک آدمی کے ساتھ اگر بُرے لوگ لگ بھی جائیں تو وہ اس کے ساتھ زیادہ دیر تک لگے نہیں رہ سکتے۔ اور اسی طرح ایک بد نیت اور بد کردار آدمی کے ساتھ نیک اور شریف انسانوں کی رفاقت اتفاقاً واقع ہو بھی جائے تو  وہ زیادہ دیر تک نہیں نبھ سکتی۔ بد آدمی فطرۃً بدو ہی کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور بد ہی اس کی طرف کھنچتے ہیں،  جس طرح غلاظت مکھیوں کو کھینچتی ہے اور مکھیاں غلاظت کی طرف کھنچتی ہیں۔ اور یہ جو ارشاد فرمایا کہ وہ آگے اور پیچھے ہر چیز ان کو خوشنما بنا کر دکھاتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کو یقین دلاتے تھے کہ آپ کا ماضی بھی بڑا شاندار تھا اور مستقبل بھی نہایت درخشاں ہے وہ ایسی عینک ان کی آنکھوں پر چڑھاتے تھے کہ ہر طرف ان کو ہرا ہی ہرا نظر آتا تھا۔ وہ ان سے کہتے تھے کہ آپ پر تنقید کرنے والے احمق ہیں،  آپ کوئی نرالا کام تھوڑی کر رہے ہیں،  دنیا میں ترقی کرنے والے وہی کچھ کرتے رہے ہیں جو آپ کر رہے ہیں اور آگے اول تو کوئی آخرت ہے ہی نہیں جس میں آپ کو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی پڑے، لیکن اگر وہ پیش آ ہی گئی، جیسا کہ چند نادان دعویٰ کرتے ہیں،  تو جو خدا آپ کو یہاں نعمتوں سے نواز رہا ہے وہ وہاں بھی آپ پر انعام و اکرام کی بارش کرے گا، دوزخ آپ کے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے بنی ہے جنہیں یہاں خدا نے اپنی نعمتوں سے محروم کر رکھا ہے۔

 

ترجمہ

 

یہ منکرین حق کہتے ہیں ’’ اس قرآن کو ہر گز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو، شاید کہ اس طرح تم غالب آ جاؤ’’(۳۰)۔ ان کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزا چکھا کر رہیں گے اور جو بدترین حرکات یہ کرتے رہے ہیں ان کا پورا پورا بدلہ انہیں دیں گے۔ وہ دوزخ ہے جو اللہ کے دشمنوں کو بدلے میں ملے گی۔ اسی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کا گھر ہو گا۔ یہ ہے سزا اس جرم کی کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے۔ وہاں یہ کافر کہیں گے کہ ’’ اے ہمارے رب، ذرا ہمیں دکھا دے ان جنوں اور انسانوں کو جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں گے تاکہ وہ خوب ذلیل و خوار ہوں ’’(۳۱)۔

جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہ اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے (۳۳)، یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (۳۴) اور ان سے کہتے ہیں کہ’’ نہ ڈرو، نہ غم کرو(۳۵)، اور خوش ہو جاؤ ان جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہو گی، یہ ہے سامان ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے ‘‘۔ ع

 

تفسیر

 

۳۰۔ یہ کفار مکہ کے ان منصوبوں میں سے ایک تھا جس سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت و تبلیغ کو ناکام کرنا چاہتے تھے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ قرآن اپنے اندر کس بلا کی تاثیر رکھتا ہے، اور اس کو سنانے والا کس پائے کا انسان ہے، اور اس شخصیت کے ساتھ اس کا طرز ادا کس درجہ مؤثر ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایسے عالی مرتبہ شخص کی زبان سے اس دل کس انداز میں اس بے نظیر کلام کو جو سنے گا وہ آخر کار گھائل ہو کر رہے گا۔ اس لیے انہوں نے یہ پروگرام بنایا کہ اس کلام کونہ خود سنو، نہ کسی کو سننے دو۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی اسے سنانا شروع کریں،  شور مچاؤ، تالی پیت دو۔ آوازے کسی، اعتراضات کی بوچھاڑ  کر دو۔ اور اتنی آواز بلند کرو کہ ان کی آواز  اس کے مقابلے میں دب جائے۔ اس تدبیر سے وہ امید رکھتے تھے کہ اللہ کے نبی کو شکست دے دیں گے۔

۳۱۔ یعنی دنیا میں تو یہ لوگ اپنے لیڈروں اور پیشواؤں اور فریب دینے والے شیاطین کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں،  مگر جب قیامت کے رو انہیں پتا چلے گا کہ یہ رہنما انہیں کہاں لے آئے ہیں تو یہی لوگا نہیں کسنے لگیں گے اور یہ چاہیں گے کہ وہ کسی طرح ان کے ہاتھ آ جائیں تو پکڑ کر انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں۔

۳۲۔ یہاں تک کفار کو ان کی ہٹ دھرمی اور مخلف تحقق کے نتائج پر متنبہ کرنے کے بعد اب اہل ایمان اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف روئے سخن مڑتا ہے۔

۳۳۔ یعنی محض اتفاقاً کبھی اللہ کو اپنا رب کہتے بھی جائیں اور ساتھ ساتھ دوسروں کو اپنا رب بناتے بھی جائیں،  بلکہ ایک مرتبہ یہ عقیدہ قبول کر لینے کے بعد پھر ساری عمر اس پر قائم رہے، اس کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ اختیار نہ کیا، نہ اس عقیدے کے ساتھ کسی باطل عقیدے کی آمیزش کی، اور اپنی عملی زندگی میں بھی عقیدہ توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے۔

توحید پر استقامت کا مفہوم کیا ہے، اس کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ و سلم، اور اکابر صحابہؓ نے اس طرح کی ہے :

حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا قد قا لھا ا لناس ثم کفر اکثر حم، فمن مات علیھا فھو ممن استقام۔ ’’ بہت سے لوگوں نے اللہ کو اپنا رب کہا، مگر ان میں سے اکثر کافر ہو گئے۔ ثابت قدم وہ شخص ہے جو مرتے دم تک اسی عقیدے پر جما رہا‘‘ (ابن جریر، نسائی ابن ابی حتم)۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں : لم یشرکو ا باللہ شیئاً، لَمْ عَلتفتواالٰی الٰہٍ غیرہ۔ ’’ پھر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا، اس کے سوا کسی دوسرے معبود کی طرف توجہ نہ کی‘‘(ابن جریر)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا، ’’ خدا کی قسم، استقامت اختیار کرنے والے وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گئے، لومڑیوں کی طرح ادھر سے اِدھر سے اُدھر سے اُدھر سے اِدھر دوڑتے نہ پھرے ‘‘ (ابن جریر)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اپنے عمل کو اللہ کے لیے خالص کر لیا‘‘ (کشاف)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اللہ کے عقائد کردہ فرائض فرمانبرداری کے ساتھ ادا کرتے رہے ‘‘ (کشاف )

۳۴۔ فرشتوں کا یہ نزول ضروری نہیں ہے کہ کسی محسوس صورت میں ہو اور اہل ایمان انہیں آنکھوں سے دیکھیں یا ان کی آواز کانوں سے سنیں۔  اگر چہ اللہ جل شانہٗ  جس کے لیے چاہے فرشتوں کو علانیہ بھی بھیج دیتا ہے، لیکن بالعموم اہل ایمان پر، خصوصاً سخت وقتوں میں جبکہ دشمنان حق کے ہاتھوں وہ بہت تنگ ہو رہے ہوں،  ان کا نزول غیر محسوس طریقہ سے ہوتا ہے، اور ان کی باتیں کان کے پردوں سے ٹکرانے کے بجائے دل کی گہرائیوں میں سکینت و اطمینان قلب بن کر اترتی ہیں۔  بعض مفسرین نے فرشتوں کے اس نزول کو موت کے وقت، یا قبر، یا میدان حشر کے لیے مخصوص سمجھا ہے۔ لیکن اگر ان حالات پر غور کیا جائے جن میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں،  تو اس میں کچھ شک نہیں رہتا کہ یہاں اس معاملہ کو بیان کرنے کا اصل مقصد اس زندگی میں دین حق کی سر بلندی کے لیے جانیں لڑانے والوں پر فرشتوں کے نزول کا ذکر کرنا ہے، تاکہ انہیں تسکین حاصل ہو، اور ان کی ہمت بندھے، اور ان کے دل اس احساس سے مطمئن ہو جائیں کہ وہ بے یار و مدد گار نہیں ہیں بلکہ اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ ہیں۔  اگرچہ فرشتے موت کے وقت بھی اہل ایمان کا استقبال کرنے آتے ہیں،  اور قبر (عالم برزخ) میں بھی وہ ان کی پذیرائی کرتے ہیں،  اور جس روز قیامت قائم ہو گی اس روز بھی ابتدائے حشر سے جنت میں پہنچنے تک وہ برابر ان کے ساتھ لگے رہیں گے، لیکن ان کی یہ معیّت اسی عالم کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہ جاری ہے۔ سلسلہ کلام صاف بتا رہا ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں جس طرح باطل پرستوں کے ساتھی شیاطین و اشرار ہوتے ہیں اسی طرح اہل ایمان کے ساتھی فرشتے ہوا کرتے ہیں۔  ایک طرف باطل پرستوں کو ان کے ساتھی ان کے کرتوت خوشنما بنا کر دکھاتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جو ظلم و ستم اور بے ایمانیاں تم کر رہے ہو، یہی تمہاری کامیابی کے ذرائع ہیں اور انہی سے دنیا میں تمہارے سرداری محفوظ رہے گی۔ دوسرے طرف حق پرستوں کے پاس اللہ کے فرشتے آ کر وہ پیغام دیتے ہیں جو آگے کے فقروں میں ارشاد ہو رہا ہے۔

۳۵۔ یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جو دنیا سے لے کر آخرت تک ہر مرحلے میں اہل ایمان کے لیے تسکین کا ایک نیا مضمون اپنے اندر رکھتے ہیں۔  اس دنیا میں فرشتوں کی اس تلقین کا مطلب یہ ہے کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی بالا دست اور چیرہ دست ہوں،  ان سے ہر گز خوف زدہ نہ ہو اور حق پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اور محرومیاں بھی تمہیں سہنی پڑیں،  ان پر کوئی رنج نہ کرو، کیونکہ آگے تمہارے لیے وہ کچھ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہے۔ یہی کلمات جب موت کے وقت فرشتے کہتے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جا رہے ہو وہاں تمہارے لیے کوئی خوف کا مقام نہیں،  کیونکہ وہاں جنت تمہاری منتظر  ہے، اور دنیا میں جن کو تم چھوڑ کر جا رہے ہو ان کے لیے تمہیں رنجیدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں،  کیونکہ یہاں ہم تمہارے لیے چین ہی چین ہے، دنیا کی زندگی میں جو حالات تم پر گزرے ان کا گم نہ کرو اور آخرت میں جو کچھ پیش آنے والا  ہے اس کا خوف نہ کھاؤ، اس لیے کہ ہم تمہیں اس جنت کی بشارت دے رہے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔

 

ترجمہ

 

اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی  جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں (۳۶)۔

اور اے نبی، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔  تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے (۳۷)۔ یہ صفت نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں (۳۸)، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں (۳۹)۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، (۴۰) وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے (۴۱)۔

اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند(۴۳)۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو(۴۴)۔ لیکن اگر یہ لوگ غرور میں آ کر اپنی ہی بات پر اڑے رہیں (۴۵) تو پروا نہیں،  جو فرشتے تیرے رب کے مقرب ہیں وہ شب و روز اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے (۴۶)۔ ۜ

اور اللہ کی نشانیوں میں  سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی ہے، پھر جونہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا، یکایک وہ بھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے۔ یقیناً جو خدا اس مری ہوئی زمین کو جلا اٹھاتا ہے وہ مردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے (۴۷)۔ یقیناً وہ ہر  چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

جو لوگ ہماری آیات کو الٹے معنی پہناتے ہیں (۴۹) وہ ہم سے کچھ چھپے ہوئے نہیں ہیں (۵۰)۔ خود ہی سوچ لو کہ آیا وہ شخص بہتر ہے جو آگ میں جھونکا جانے والا ہے یا وہ جو قیامت کے  روز امن کی حالت میں حاضر ہو گا؟ کرتے رہو جو کچھ تم چاہو، تمہاری ساری حرکتوں کو اللہ دیکھ رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے کلام نصیحت آیا تو انہیں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے (۵۱)، باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے (۵۲)، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔

اے نبیؐ، تم سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے نہ کہی جا چکی ہو۔ بے شک تمہارا رب بڑا درگزر کرنے  والا ہے (۵۳)، اور اس کے ساتھ بڑی درد ناک سزا دینے والا بھی ہے۔

اگر ہم اس کو عجمی قرآن بنا کر بھیجتے تو یہ لوگ کہتے ’’ کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں ؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عربی‘‘(۵۴)۔ ان سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے، مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے  لیے یہ کاتوں کی ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹّی ہے۔ ان کا حال تو ایسی ہے جیسے ان کو دور سے پکارا جا رہا ہو(۵۵)۔ ع۔

 

تفسیر

 

۳۶۔ اہل ایمان کو تسکین دینے اور ان کی ہمت بندھانے کے بعد اب ان کو ان کے اصل کام کی طرف رغبت دلائی جا رہی ہے۔ گزشتہ آیت میں ان کو بتایا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی پر ثابت قدم ہو جانا اور اس راستے کو اختیار کر لینے کے بعد پھر اس سے  منحرف نہ ہونا بجائے خود  وہ بنیادی نیکی ہے جو آدمی کو فرشتوں کا دوست اور جنت کا مستحق بناتی ہے۔ اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آگے کا درجہ، جس سے زیادہ بلند کوئی درجہ انسان کے لیے نہیں ہے، یہ ہے کہ تم خون نیک عمل کرو، اور دوسروں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلاؤ، اور شدید مخالفت کے ماحول میں بھی، جہاں اسلام کا اعلان و اظہار کرنا اپنے اوپر مصیبتوں کو دعوت دینا ہے، ڈٹ کر کہو کہ میں مسلمان ہوں۔  اس ارشاد کی پوری اہمیت سمجھنے کے لیے اس ماحول کا نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی تھی۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ جو شخص بھی مسلمان ہونے کا اظہار کرتا تھا اسے یکایک یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا اس نے درندوں کے جنگل میں قدم رکھ دیا ہے جہاں ہر ایک اسے پھاڑ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ اور اس سے آگے بڑھ کو جس نے اسلام کی تبلیغ کے لیے زبان کھولی اس نے تو گویا درندوں کو پکار دیا کہ آؤ اور مجھے بھنبھوڑ ڈالو۔ ان حالات میں فرمایا گیا ہے کہ کسی شخص کا اللہ کو اپنا رب مان کر سیدھی راہ اختیار لینا اور اس سے نہ ہٹنا بلا شبہ اپنی جگہ بڑی اور بنیادی نیکی ہے، لیکن کمال درجے کی نیکی یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں،  اور نتائج سے بے پرواہ ہو کر اللہ کی بندگی کی طرف خلق خدا کو دعوت دے، اور اس کام کو کرتے ہوئے اپنا عمل اتنا پاکیزہ رکھے کہ کسی کو اسلام اور اس کے علمبرداروں پر حرف رکھنے کی گنجائش نہ ملے۔

۳۷۔ اس ارشاد کی پوری معنویت سمجھنے کے لیے بھی وہ حالات نگاہ میں رہنے چاہییں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو، اور آپ کے واسطے سے آپ کے پروؤں کو، یہ ہدایت دی گئی تھی۔ صورت حال یہ تھی کہ دعوت حق کا مقابلہ انتہائی ہٹ دھرمی اور سخت جارحانہ مخالفت سے کیا جا رہا تھا، جس میں اخلاق انسانیت اور شرافت کی ساری حدیں توڑ ڈالی گئی تھیں۔  ہر جھوٹ حضور اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف بولا جا رہا تھا۔ ہر طرح کے ہتھکنڈے  آپ کو بدنام کرنے اور آپ کی طرف سے لوگوں کو بدگمان کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔ طرح طرح کے الزامات آپ پر چسپاں کیے جا رہے تھے اور مخالفانہ  پروپیگنڈا کرنے  والوں کی ایک فوج کی فوج آپ کے خلاف دلوں میں وسوسے ڈالتی پھر رہی تھی۔ ہر قسم کی اذیتیں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں جن سے تنگ آ کر مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ملک چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہو گئی تھی۔ پھر آپ کی تبلیغ کو روک دینے کے لیے پروگرام یہ بنایا گیا تھا کہ ہلڑ مچانے والوں کا ایک گروہ ہر وقت آپ کی تاک میں لگا رہے اور جب آپ دعوت حق کے لیے زبان کھولیں،  اتنا شور برپا کر دیا جائے کہ کوئی آپ کی بات نہ سن سکے۔ یہ ایسے ہمت شکن حالات تھے جن میں بظاہر دعوت کے تمام راستے مسدود نظر آتے تھے۔ اس وقت مخالفتوں کے توڑنے کا یہ نسخہ حضورؐ کو بتایا گیا۔

پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔  یعنی بظاہر تمہارے مخالفین بدی کا کیسا ہی خوفناک طوفان اٹھا لائے ہوں جس کے مقابلے میں نیکی بالکل عاجز اور بے بس محسوس ہوتی ہو، لیکن بدی بجائے خود اپنے اندر وہ کمزوری رکھتی ہے جو آخر کار اس کا بَھٹّہ بٹھا دیتی  ہے۔ کیوں کہ انسان جب تک انسان ہے اس کی فطرت بدی سے نفرت کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ بدی کے ساتھی ہی نہیں،  خود اس کے علمبردار تک اپنے دلوں میں یہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں،  ظالم ہیں،  اور اپنی اغراض کے لیے ہٹ دھرمی کر رہے ہیں۔  یہ چیز دوسروں کے دلوں میں ان کا وقار پیدا کرنا تو در کنار انہیں خود اپنی نظروں سے گرا دیتی ہے اور ان کے اپنے دلوں میں ایک چور بیٹھ جاتا ہے جو ہر مخالفانہ اقدام کے وقت ان کے عزم و ہمت پر اندر سے چھاپا مارتا رہتا ہے۔ اس بدی کے مقابلے میں اگر وہی نیکی جو بالکل عاجز و بے بس نظر آتی ہے، مسلسل کام کرتی چلی جائے، تو آخر کار وہ غالب آ کر رہتی ہے۔ کیونکہ اول تو نیکی میں بجائے خود دلوں کو مسخر کرتی ہے، اور آدمی خواہ کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اپنے دل میں اس کی قدر محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر جب نیکی اور بدی آمنے سامنے مصروف پیکار ہوں اور کھل کر دونوں کے جوہر پوری طرح نمایاں ہو جائیں،  ایسی حالت میں تو ایک مدت کی کشمکش کے بعد کم ہی لوگ ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بدی سے متنفر اور نیکی کے گرویدہ نہ ہو جائیں۔

دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ بدی کا مقابلہ نیکی سے نہیں بلکہ اُس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجے کی ہو یعنی کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے اور تم اس کو معاف کر دو تو یہ محض نیکی ہے۔ اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے برا سلوک کرے تم موقع آنے پر اس کے ساتھ احسان کرو۔

اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بد ترین دشمن بھی آخر کار جگری دوست بن جائے گا۔ اس لیے کہ یہی انسانی فطرت ہے۔ گالی کے جواب میں آپ خاموش رہ جائیں تو بے شک یہ ایک نیکی ہو گی، مگر گالی دینے والے کی زبان بند نہ کر سکے گی۔ لیکن اگر آپ گالی کے جواب میں دعائے خیر کریں تو بڑے سے بڑا بے حیا مخالف بھی شرمندہ ہو کر رہ جائے گا اور پھر مشکل ہی سے کبھی اس کی زبان آپ کے خلاف بد کلامی کے لیے کھل سکے گی۔ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ دیتا ہو اور آپ اس کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شرارتوں پر اور زیادہ دلیر ہو جائے۔  لیکن اگر کسی موقع پر اسے نقصان پہنچ رہا ہو اور آپ اسے بچا لیں تو وہ آپ کے قدموں میں آ رہے گا، کیونکہ کوئی شرارت مشکل ہی سے اس نیکی کے مقابلے میں کھڑی رہ سکتی ہے۔ تاہم اس قاعدہ کلیہ کو اس معنی میں لینا درست نہیں ہے کہ اس اعلیٰ درجے کی نیکی سے لازماً ہر دشمن جگری دوست ہی بن جائے گا۔ دنیا میں ایسے خبیث  النفس لوگ بھی ہوتے ہیں کہ آپ ان کی زیادتیوں سے در گزر کرنے اور ان کی برائی کا جواب احسان اور بھلائی سے دینے میں خواہ کتنا ہی کمال کر دکھائیں،  ان کے نیش عقرب کا زہریلا پن ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوتا۔ لیکن اس طرح کے شر مجسم انسان قریب قریب اتنے ہی کم پائے جاتے ہیں جتنے خیر مجسم انسان کمیاب ہیں۔

۳۸۔ یعنی یہ نسخہ ہے تو بڑا کار گر، مگر اسے استعمال کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔ اس کے لیے بڑا عزم، بڑا حوصلہ، بڑی قوت برداشت، اور اپنے نفس پر بہت بڑا قابو درکار ہے۔ وقتی طور پر ایک آدمی کسی بدی کے مقابلے میں بڑی نیکی برت سکتا ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لیکن جہاں کسی شخص کو سالہا سال تک ان باطل پرست اشرار کے مقابلے میں حق  کی خاطر لڑنا پڑے جو اخلاق کی کسی حد کو پھاند جانے میں تامل نہ کرتے ہوں،  اور پھر طاقت اور اختیارات کے نشے میں بھی بد مست ہو رہے ہوں،  اور وہاں بدی کا مقابلہ نیکی اور وہ بھی اعلیٰ درجے کی نیکی سے کرتے چلے جانا، اور کبھی ایک مرتبہ بھی ضبط کی باگیں ہاتھ سے نہ چھوڑنا کسی معمولی آدمی کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ کام  وہی شخص کر سکتا ہے جو ٹھنڈے دل سے حق کی سربلندی کے لیے کام کرنے کا پختہ عزم کر چکا ہو، جس نے پوری طرح سے اپنے نفس کو عقل و شعور کے تابع کر لیا ہو، اور جس کے اندر نیکی و راستی ایسی گہری جڑیں پکڑ چکی ہو کہ مخالفین کی کوئی شرارت و خباثت بھی اسے اس کے مقام بلند سے نیچے اتار لانے میں کامیاب نہ ہو سکتی ہو۔

۳۹۔ یہ قانون فطرت ہے۔ بڑے ہی بلند مرتبے کا انسان ان صفات سے متصف ہوا کرتا ہے، اور جو شخص یہ صفات رکھتا ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت بھی کامیابی کی  منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ گھٹیا درجے کے لوگ اپنی کمینہ چالوں،  ذلیل ہتھکنڈوں اور رکیک حرکتوں سے اس کو شکست دے دیں۔

۴۰۔ شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی، حق کے لیے لڑنے والوں،  اور خصوصاً ان کے سربرآوردہ لوگوں،  اور سب سے بڑھ کر ان کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامۃ الناس سے یہ کہا جا سکے کہ دیکھیے صاحب، برائی یک طرفہ نہیں ہے، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اونچے درجے کے انسان نہیں ہیں،  فلاں رکیک حرکت تو آخر انہوں نے بھی کی ہے۔ عامۃ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسرے طرف کی جوابی کاروائی کے درمیان موازنہ کر  سکیں۔  وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہر طرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راستبازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے، اس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں۔  لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بیجا حرکت، یا ان کے مرتبے سے گِری ہوئی حرکت سرزد ہو جائے، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہو جاتے ہیں،  اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانا مل جاتا ہے۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا کہ شیطان کے فریب سے چوکنے رہو۔ وہ بڑا درد مند و خیر خواہ بن کر تمہیں اشتعال دلائے گا کہ فلاں زیادتی تو ہر گز برداشت  نہ کی جانی چاہیے، اور فلاں بات کا تو منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیے، اور اس حملے کے جواب میں تو لڑ جانا چاہیے ورنہ تمہیں بزدل سمجھا جائے گا اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ ایسے ہر موقع پر جب تمہیں اپنے اندر اس طرح کا کوئی نا مناسب اشتعال محسوس ہو تو خبردار ہو جاؤ کہ یہ شیطان کی اکساہٹ ہے جو غصہ دلا کر تم سے کوئی غلطی کرانا چاہتا ہے۔ اور خبردار ہو جانے کے بعد اس زعم میں نہ مبتلا ہو جاؤ کہ میں اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہوں،  شیطان مجھ سے کوئی غلطی نہیں کرا سکتا۔ یہ اپنی قوت فیصلہ اور قوت ارادی کا زعم شیطان کا دوسرا اور زیادہ خطرناک فریب ہو گا۔ اس کے بجائے تم کو خدا سے پناہ مانگنی چاہیے، کیونکہ وہی توفیق دے اور حفاظت کرے تو آدمی غلطیوں سے بچ سکتا ہے۔

اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا۔ حضرت ابو بکرؓ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں دیکھ کر مسکراتے رہے۔ آخر کار جناب صدیقؓ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور انہوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی۔ ان کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضورؐ پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرہ مبارک پر نمایا ہونے لگا اور آپ فوراً اٹھ کر تشریف لے گئے۔ حضرت ابو بکرؓ بھی اٹھ کر آپ کے پیچھے ہو لیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ خاموش مسکراتے رہے، مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپ ناراض ہو گئے؟ فرمایا ’’ جب تک تم خاموش تھے، ایک فرشتہ تمہارے ساتھ رہا اور تمہاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آ گیا۔ میں شیطان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ ‘‘

۴۱۔ مخالفتوں کے طوفان میں اللہ کی پناہ مانگ لینے کے بعد جو چیز مومن کے دل میں صبر و سکون اور اطمینان کی ٹھنڈک پیدا کرتی ہے  وہ یہ یقین ہے کہ اللہ بے خبر نہیں ہے۔ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے اس سے بھی وہ واقف ہے۔ ہماری اور ہمارے مخالفین کی ساری باتیں وہ سن رہا ہے اور  دونوں کا طرز عمل جیسا کچھ بھی ہے اسے وہ دیکھ رہا ہے۔ اسی اعتماد پر بندہ مومن اپنا اور دشمنان حق کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے پوری طرح مطمئن ہو جا تا ہے۔

یہ پانچواں موقع ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو دعوت دین اور اصلاح خلق کی یہ حکمت سکھائی گئی ہے۔ اس سے پہلے کے چار مقامات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۱۱۰ تا ۱۱۱۴۔ ۵۸۱۔ ۵۸۲۔ جلد سوم، ص ۲۹۹۔ ۷۰۸۔ ۷۰۹۔

۴۲۔ اب روئے سخن عوام الناس کی طرف مڑ رہا ہے اور چند فقرے ان کے حقیقت سمجھانے کے لیے ارشاد ہو رہے ہیں۔

۴۳۔ یعنی یہ اللہ کے مظاہر نہیں ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرنے لگو کہ اللہ ان کی شکل میں خود اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر غور کرنے سے تم کائنات کی او اس کے نظام کی حقیقت سمجھ سکتے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ انبیاء علیہم السلام جس توحید خداوندی کی تعلیم دے رہے ہیں وہی امر واقعی ہے۔ سورج  اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس امر پر متنبہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا، اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف طور پر یہ دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدا یا خدا کا مظہر نہیں ہے، بلکہ دونوں ہی مجبور و لاچار بندے ہیں جو خدا کے قانون میں بندھے ہوئے گردش کر رہے ہیں۔

۴۴۔ یہ جواب ہے اس فلسفے کا جو شرک کو معقول ثابت کرنے کے لیے کچھ زیادہ ذہین قسم کے مشرکین عموماً بگھارا کرتے ہیں۔  وہ کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں۔  اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ ہی کے عبادت گزار ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، براہ خود اسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے۔

۴۵۔ ’’ غرور میں آ کر‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ تمہاری بات مان لینے میں اپنی ذلت سمجھ کر اسی جہالت پر اصرار کیے چلے جائیں جس میں یہ مبتلا ہیں۔

۴۶۔ مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات کا نظام، جو ان فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے، اللہ کی توحید اور اسی کی بندگی میں رواں دواں ہے، اس نظام کے منتظم فرشتے ہر آن یہ شہادت دے رہے ہیں کہ ان کا رب اس سے پاک اور منزہ ہے کہ کوئی خداوندی اور معبودیت میں اس کا شریک ہو۔ اب اگر چند احمق سمجھانے پر  نہیں مانتے اور ساری کائنات جس راستے پر چل رہی ہے اس سے منہ موڑ کر شرک ہی کی راہ پر چلنے پر اصرار کیے جاتے ہیں تو پڑا رہنے دو ان کو اپنی اس حماقت میں۔

اس مقام کے متعلق یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ یہاں سجدہ لازم آتا ہے، مگر اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے کہ اوپر کی دونوں آیتوں میں سے کس پر سجدہ کرنا چاہیے۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما : اِنْ کُنْتُمْ اِیَّا ہُ تَعْبُدُوْنَ پر سجدہ کرتے تھے۔ اسی قول کو امام مالک نے اختیار کیا ہے، اور ایک قول امام شافعی سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے۔ لیکن حضرات ابن عباس، ابن عمر، سعید بن المسیّب، مسرق، قتادہ، حسن بصری، ابو عبدالرحمٰن السُّلَمِی، ابن سیرین، ابراہیم بَخَعی اور متعدد دوسرے اکابر : وَھُمْ لَا یَسْئَمُوْنَ  پر سجدے کے قائل ہیں۔  یہی امام ابو حنیفہؒ کا قسل بھی ہے اور شافعیوں کے ہاں بھی مرجَّح قول یہی ہے۔

۴۷۔ تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۵۴۹۔ ۵۵۰۔ جلد سوم، ص ۲۰۲۔ ۷۴۲۔ ۷۴۳۔ جلد چہارم، فاطر، حاشیہ ۱۹۔

۴۸۔ عوام الناس کو چند فقروں میں یہ سمجھانے کے بعد کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جس توحید آخرت کے عقیدے کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہی معقول ہے اور آثار کائنات اسی کے حق ہونے کی شہادت دے رہے ہیں،  اب روئے سخن پھر ان مخالفین کی طرف مڑتا ہے جو پوری ہٹ دھرمی کے ساتھ مخالفت پر تُلے ہوئے تھے۔

۴۹۔ اصل الفاظ ہیں : یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیَا تِنَا (ہماری آیات میں الحاد کرتے ہیں )۔ الحاد کے معنی ہیں انحراف، سیدھی راہ سے ٹیڑھی راہ کی طرف مڑ جانا، کج روی اختیار کرنا۔ اللہ کی آیات میں الحاد کا مطلب تو نہ لے، باقی ہر طرح کے غلط معنی ان کو پہنا کر خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا رہے۔ کفار مکہ قرآن مجید کی دعوت کو زک دینے کے لیے جو چالیں چل رہے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ قرآن کی آیات کو سن کر جاتے اور پھر کسی آیت کو سیاق و سباق سے کاٹ کر، کسی آیت میں لفظی تحریف کر کے، کسی فقرے یا لفظ کو غلط معنی پہنا کر طرح طرح کے اعتراضات جڑتے اور لوگوں کو بہکاتے پھرتے تھے کہ لو سنو، آج ان نبی صاحب نے کیا کہہ دیا ہے۔

۵۰۔ ان الفاظ میں ایک سخت دھمکی مضمر ہے۔ حاکم ذی اقتدار کا کہنا کہ فلاں شخص جو حرکتیں کر رہا ہے وہ مجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہیں،  آپ سے آپ یہ معنی اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ بچ کر نہیں جا سکتا۔

۵۱۔ یعنی اٹل ہے۔ اس کو ان چالوں سے شکست نہیں دی جا سکتی جو باطل پرست لوگ اس کے خلاف چل رہے  ہیں۔  اس میں صداقت کا زور ہے۔ علم حق کا زور ہے۔ دلیل و حجت کا زور ہے۔ زبان اور بیان کا زور ہے۔ بھیجنے والے خدا کی خدائی کا زور ہے۔ اور پیش کرنے والے رسول کی شخصیت کا زور ہے۔ جھوٹ اور کھوکھلے پروپیگنڈے کے ہتھیاروں سے کوئی اسے زک دینا چاہے تو کیسے دے سکتا ہے۔

۵۲۔ سامنے سے نہ آ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پر براہ راست حملہ کر کے اگر کوئی شخص اس کی کسی بات کو غلط اور کسی تعلیم کو باطل و فاسد ثابت کرنا چاہے تو اس میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔  پیچھے سے نہ آ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کوئی حقیقت و صداقت ایسی منکشف نہیں ہو سکتی جو قرآن کے پیش کردہ حقائق کے خلاف ہو، کوئی علم ایسا نہیں آ سکتا جو فی الواقع ’’علم‘‘ ہو اور قرآن کے بیان کردہ علم کی تردید کرتا ہو، کوئی تجربہ اور مشاہدہ ایسا نہیں ہو سکتا جو یہ ثابت کر دے کہ قرآن نے عقائد، اخلاق، قانون، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست تمدُن کے باب میں انسان کو جو رہنمائی دی ہے وہ غلط ہے۔ اس کتاب نے جس چیز کو حق کہہ دیا ہے وہ کبھی باطل ثابت نہیں ہو سکتی اور جسے باطل کہہ دیا ہے وہ کبھی حق ثابت نہیں ہو سکتی۔ مزید برآں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ باطل خواہ سامنے  سے آ کر حملہ آور ہو یا ہیر پھیر کے راستوں سے چھاپے مارے، بہر حال کسی طرح بھی وہ اس دعوت کو شکست نہیں دے سکتا جسے لے کر قرآن آیا ہے۔ تمام مخالفتوں اور مخالفین کی ساری خفیہ اور علانیہ چالوں کے علی الرغم یہ دعوت پھیل کر رہے گی اور کوئی اسے زک نہیں دے سکے گا۔

۵۳۔ یعنی یہ اس کا حلم اور عفو و درگزر ہی ہے کہ اس کے رسولوں کو جھٹلایا گیا، گالیاں دی گئیں،  اذیتیں پہنچائی گئیں اور پھر بھی وہ سالہا سال تک مخالفین کو محبت دیتا چلا گیا۔

۵۴۔ یہ اس ہٹ دھرمی کا ایک اور نمونہ ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مقابلی کیا جا رہا تھا کفار کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) عرب ہیں،  عربی ان کی مادری زبان ہے، وہ اگر عربی میں قرآن پیش کرتے ہیں تو یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ یہ کلام انہوں نے خود نہیں گھڑ لیا ہے بلکہ ان پر خدا نے نازل کیا ہے۔ ان کے اس کلام کو خدا کا نازل کیا ہوا کلام تو اس وقت مانا جا سکتا تھا جب یہ کیس ایسی زبان میں یکایک دھواں دھار تقریر کرنا شروع کر دیتے جسے یہ نہیں جانتے، مثلاً فارسی یا رومی یا یونانی۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب ان کی اپنی زبان میں قرآن بھیجا گیا ہے جسے یہ سمجھ سکیں تو ان کو یہ اعتراض ہے کہ عرب کے ذریعہ سے عربوں کے لیے عربی زبان میں یہ کلام کیوں نازل کیا گیا۔ لیکن اگر کسی دوسری زبان میں یہ بھجا جاتا تو اس وقت یہی لوگ یہ اعتراض کرتے کہ یہ معاملہ بھی خوب ہے۔ عرب قوم میں ایک عرب کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، مگر کلام اس پر ایسی زبان میں نازل کیا گیا ہے جسے نہ رسول سمجھتا ہے نہ قوم۔

۵۵۔ دور سے جب کسی کو پکارا جاتا ہے تو اس کے کان میں ایک آواز تو پڑتی ہے مگر اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے۔ یہ ایسی بے نظیر تشبیہ ہے جس سے ہٹ دھرم مخالفین کے نفسیات کی پوری تصویر نگاہوں کے سامنے کھچ جاتی ہے۔ فطری بات ہے کہ جو شخص کسی تعصب میں مبتلا نہیں ہوتا اس سے اگر آپ گفتگو کریں تو وہ اسے سنتا ہے، سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور معقول بات ہوتی ہے تو کھلے دل سے اس کو قبول کر لیتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص آپ کے خلاف نہ صرف تعصب بلکہ عناد اور بغض رکھتا ہو اس کو آپ اپنی بات سمجھانے کی خواہ کتنی ہی کوشش کریں،  وہ سرے سے اس کی طرف توجہ ہی نہ کرے گا۔ آپ ساری بات سن کر بھی اس کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا کہ آپ اتنی دیر تک کیا کہتے رہے ہیں۔  اور آپ کو بھی یوں محسوس ہو گا کہ جیسے آپ کی آواز اس کے کان کے پردوں سے اُچٹ کر باہر ہی باہر گزرتی رہی ہے، دل اور دماغ تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں پا سکی۔

 

ترجمہ

 

اس سے پہلے ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اس کے معاملے میں بھی یہی اختلاف ہوا تھا(۵۶)۔ اگر تیرے رب نے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر دی ہوتے تو ان اختلاف کرنے والوں کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا(۵۷)۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس کی طرف سے سخت اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں (۵۸)۔

جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے اچھا کرے گا، جو بدی کرے گا اس کا وبال اسے پر ہو گا، اور تیرا رب اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے (۵۹)۔

اس ساعت(۶۰) کا علم اللہ ہی کی طرف راجع ہوتا ہے (۶۱)، وہی ان سارے پھلوں کو جانتا ہے جو اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں،  اسی کو معلوم ہے کہ کونسی کا دہ حاملہ ہوئی ہے اور کس نے بچّہ جنا ہے (۶۲)۔ پھر جس روز وہ ان لوگوں کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک؟ یہ کہیں گے، ‘‘ ہم عرض کر چکے ہیں،  آج ہم میں سے کوئی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے ‘‘(۶۳)۔ اس وقت وہ سارے معبود ان سے گم ہو جائیں گے جنہیں یہ اس سے پہلے پکارتے تھے (۶۴)، اور یہ لوگ سمجھ لیں گے کہ ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔

انسان کبھی بھلائی کی دعا مانگتے نہیں تھکتا(۶۵)، اور جب کوئی آفت اس پر آ جاتی ہے  تو مایوس و دل شکستہ ہو جاتا ہے، مگر جو ں ہی کہ سخت وقت گزر جانے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں،  یہ کہتا ہے کہ’’ میں اسی کا مستحق ہوں (۶۶)، اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے گی، لیکن اگر واقعی میں اپنے رب کی طرف پلٹایا گیا تو وہاں بھی مزے کروں گا’’۔ حالانکہ کفر کرنے والوں کو لازماً ہم بتا کر وہیں گے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں اور انہیں ہم بڑ ے گندے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

انسان کو جب ہم نعمت دیتے ہیں تو وہ منہ پھیرتا ہے اور اکڑ جاتا ہے (۶۷)۔ اور جب اسے کوئی آفت چھو جاتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرتے لگتا ہے (۶۸)۔

اے نبیؐ، ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر واقعی یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہوا اور تم اس کا انکار کرتے رہے تو اس شخص سے بڑھ کر بھٹکا ہوا اور کون ہو گا جو اس کی مخالفت میں دور تک نکل گیا ہو؟(۶۹)

عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے (۷۰)۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز کا شاہد ہے؟(۷۱) آگاہ رہو، یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں (۷۲)،۔ سن رکھو، وہ ہر چیز پر محیط ہے (۷۳)۔ ع

 

تفسیر

 

۵۶۔ یعنی کچھ لوگوں نے اسے مانا تھا اور کچھ مخالفت پر تُل گئے تھے۔

۵۷۔ اس ارشاد کے دو مفہوم ہیں۔  ایک یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ طے نہ کر دیا ہوتا کہ لوگوں کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی مہلت دی جائے گی تو اس طرح کی مخالفت کرنے والوں کا خاتمہ کر دیا جاتا۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ نے پہلے ہی یہ طے نہ کر لیا ہوتا کہ اختلافات کا آخری فیصلہ قیامت کے روز کیا جائے گا تو دنیا ہی میں حقیقت کو بے نقاب کر دیا جاتا اور یہ بات کھول دی جاتی کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون۔

۵۸۔ اس مختصر سے فقرے میں کفار مکہ کے مرض کی پوری تشخیص کر دی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ وہ قرآن اور محمد صلی اللہ و علیہ و سلم کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور اس شک نے ان کو سخت خلجان و اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو وہ بڑے زور شور سے قرآن کے کلام الہٰی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول ہونے کا انکار کرتے ہیں،  لیکن درحقیقت ان کا یہ انکار کسی یقین کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ ان کے دلوں میں شدید تذبذب برپا ہے۔ ایک طرف ان کے ذاتی مفاد، ان کے نفس کی خواہشات، اور ان کے جاہلانہ تعصبات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جھٹلائیں اور پوری طاقت کے ساتھ ان کی مخالفت کریں۔  دوسری طرف ان کے دل اندر سے پکارتے ہیں کہ یہ قرآن فی الواقع ایک بے مثل کلام ہے جس کے مانند کوئی کلام کسی ادیب یا شاعر سے کبھی نہیں سنا گیا ہے، نہ کوئی مجنون دیوانگی کے عالم میں ایسی باتیں کر سکتا ہے، نہ کبھی شیاطین اس غرض کے لیے آ سکتے ہیں کہ لوگوں کو خدا پرستی اور نیکی و پاکیزگی کی تعلیم دیں۔  اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جب وہ جھوٹا کہتے ہیں تو ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ خدا کے بندو کچھ شرم کرو، کیا یہ شخص جھوٹا ہو سکتا ہے؟ جب وہ ان پر الزام رکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ سب کچھ حق کی خاطر نہیں بلکہ اپنی بڑائی کے لیے کر رہے ہیں تو ان کا دل اندر سے ملامت کرتا ہے کہ لعنت ہے  تم پر، اس نیک نفس انسان کو بندہ غرض کہتے ہو جسے کبھی تم نے دولت اور اقتدار اور نام و نمود کے لیے دوڑ دھوپ کرتے نہیں دیکھا ہے، جس کی ساری زندگی مفاد پرستی کے ہر شائبے سے پاک رہی ہے، جس نے ہمیشہ نیکی اور بھلائی کے لیے کام کیا ہے، مگر کبھی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے کوئی بے جا کام نہیں کیا۔

۵۹۔ یعنی تیرا رب کبھی یہ ظلم نہیں کر سکتا کہ نیک انسان کی نیکی ضائع کر دے اور بدی کرنے والوں کو ان کی بدی کا بدلہ نہ دے۔

۶۰۔ اس ساعت سے مراد قیامت ہے، یعنی  وہ گھڑی جب ندی کرنے والوں کو ان کی بدی کا بدلہ دیا جائیگا اور ان نیک انسانوں کی داد رسی کی جائے گی جن کے ساتھ بدی کی گئی ہے۔

۶۱۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھڑی کب آئے گی۔ یہ جواب ہے کفار کے اس سوال کا کہ ہم پر بدی کا وبال پڑنے کی جو دھمکی دی جا رہی ہے وہ آخر کب پوری ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا ہے۔

۶۲۔ اس ارشاد سے سامعین کو دو باتوں کا احساس دلایا گیا ہے، ایک یہ کہ صرف ایک قیامت ہی نہیں بلکہ تمام مور غیب کا علم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے، کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جو خدا جزئیات کا اتنا تفصیلی علم رکھتا ہے اس کی نگاہ سے کسی شخص کے اعمال و افعال کا چوک جانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا کسی کو بھی اس کی خدائی میں بے خوف ہو کر من مانی نہیں کرنی چاہیے۔ اسی دوسرے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا تعلق بعد کے فقروں سے جڑتا ہے۔ اس رشاد کے معاً بعد جو کچھ فرمایا گیا ہے اس پر غور کیجیے تو ترتیب کلام سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا نظر آئے گا کہ قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنے کی فکر میں کہا ں پڑے ہو، فکر اس بات کی کرو کہ جب وہ آئے گی تو اپنی ان گمراہیوں کا تمہیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات ہے جو ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی تاریخ پوچھنے والے ایک شخص سے فرمائی بھی۔ صحاح اور سنن اور مسانید میں حد تواتر کو پہنچی ہوئی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضورؐ سفر میں کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک شخص نے دور سے پکارا یا محمدؐ۔ آپؐ نے فرمایا بولو کیا کہنا ہے۔ اس نے کہا قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے جواب دیا : ویحک انھا کائنۃ لا محالۃ فھا اعد دت لھا؟ ’’بندۂ خدا، وہ تو بہر حال آنی ہی ہے۔ تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی؟‘‘

۶۳۔ یعنی اب ہم پر حقیقت کھل چکی ہے اور ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ جو کچھ ہم سمجھے بیٹھے تھے وہ سراسر غلط تھا۔ اب ہمارے درمیان کوئی ایک شخص بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ خدائی میں کوئی دوسرا بھی آپ کا شریک ہے۔ ’’ ہم عرض کر چکے ہیں ‘‘ کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ قیامت کے روز بار بار ہر مرحلے میں کفار سے کہا جائے گا کہ دنیا میں تم خدا کے رسولوں کا کہا ماننے سے انکار کرتے رہے، اب بولو حق پر وہ تھے  یا تم؟ اور ہر موقع پر کفار اس بات کا اعتراف کرتے چلے جائیں گے کہ واقعی حق وہی تھا جو انہوں نے بتایا تھا اور غلطی ہماری تھی کہ اس علم کو چھوڑ کر اپنی جہالتوں پر اصرار کرتے رہے۔

۶۴۔ یعنی مایوسی کے عالم میں یہ لوگ ہر طرف نظر دوڑائیں گے کہ عمر بھر جن کی سیوا کرتے رہے، شاید  ان میں سے کوئی مدد کو آئے اور ہمیں خدا کے عذاب سے چھڑا لے، یا کم از کم ہماری سزا ہی کم کرا دے، مگر کسی طرف سے کوئی مددگار بھی ان کو نظر نہ آئے گا۔

۶۵۔ بھلائی سے مراد ہے خوشحالی، کشادہ رزق، تندرستی، بال بچوں کی خیر وغیرہ۔ اور انسان سے مراد یہاں نوع انسانی کا ہر فرد نہیں ہے، کیونکہ اس میں تو انبیاء اور صلحاء بھی آ جاتے ہیں جو اس صفت سے مبرا ہیں جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ بلکہ اس مقام پر وہ چھچورا اور کم ظرف انسان مراد ہے جو برا وقت آنے پر گڑگڑانے لگتا ہے اور دنیا کا عیش پاتے ہی آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ چونکہ نوع انسانی کی اکثریت اسی کمزوری میں مبتلا ہے اس لیے اسے انسان کی کمزوری قرار دیا گیا ہے۔

۶۶۔ یعنی یہ سب کچھ مجھے اپنی اہلیت کی بنا پر ملا ہے اور میرا حق یہی ہے کہ میں یہ کچھ پاؤں۔

۶۷۔ یعنی ہماری اطاعت و بندگی سے منہ موڑتا ہے اور ہمارے آگے جھکنے کو اپنی توہین سمجھنے لگتا ہے۔

۶۸۔ اس مضمون کی متعدد آیات اس سے پہلے قرآن مجید میں گزر چکی ہیں۔  اس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : تفہیم القرآن جلد دوم، ص ۲۷۰۔ ۳۲۵۔ ۳۲۶۔ ۶۳۹۔ جلد سوم، ص ۷۵۵ تا ۷۵۷۔ جلد چہارم، الزمر، آیات ۸۔ ۹۔ ۴۹۔

۶۹۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ محض اس خطرے کی بنا پر ایمان لے آؤ کہ اگر کہیں یہ قرآن خدا ہی طرف سے ہوا تو انکار کر کے ہماری شامت نہ آ جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سر سری طور پر بے سوچے سمجھے تم انکار کر رہے ہو، اور بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لیتے ہو، اور خواہ مخواہ کی ضد میں آ کر مخالفت پر تل گئے ہو، یہ کو ئی دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ تم یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ تمہیں اس قرآن کے خدا کی طرف سے نہ ہونے کا علم ہو گیا ہے اور تم یقین کے ساتھ یہ جان چکے ہو کہ خدا نے اسے نہیں بھیجا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے کلام الہٰی ماننے سے تمہارا انکار علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان کی بنا پر ہے۔ جس کا صحیح ہونا اگر بادی النظر میں ممکن ہے تو غلط ہونا بھی ممکن ہے۔ اب ذرا ان دونوں قسم کے امکانات کا جائزہ لے کر دیک لو۔ تمہارا گمان فرض کرو کہ صحیح نکلا تو تمہارے اپنے خیال کے مطابق زیادہ بس یہی ہو گا کہ ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں یکساں رہیں گے، کیونکہ دونوں ہی کو مر کر مٹی میں مل جانا ہے، اور آگے کوئی زندگی نہیں ہے جس میں کفر و ایمان کے کچھ نتائج نکلنے والے ہوں۔  لیکن اگر فی الواقع یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہوا اور وہ سب کچھ پیش آ گیا جس کی یہ خبر دے رہا ہے، پھر بتاؤ کہ اس کا انکار کر کے اور اس کی مخالفت میں اتنی دور جا کر تم کس انجام سے دوچار ہو گے۔ اس لیے تمہارا اپنا مفاد یہ تقاضا کرتا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر سنجیدگی کے ساتھ اس قرآن پر غور کرو۔ اور غور کرنے کے بعد بھی تم ایمان نہ لانے ہی کا فیصلہ کرتے ہو تو نہ لاؤ، مگر مخالفت پر کمر بستہ ہو کر اس حد تک آگے تو نہ بڑھ جاؤ کہ جھوٹ اور مکر و تلبیس اور ظلم و ستم کے ہتھیار اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کرنے لگو، اور خود ایمان نہ لانے پر اکتفا نہ کر کے دوسوں کو بھی ایمان لانے سے روکتے پھرو۔

۷۰۔ اس آیت کے دو مفہوم ہیں اور  دونوں ہی اکابر مفسرین نے بیان کیے ہیں :

ایک مفہوم یہ ہے کہ عنقریب یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ اس قرآن کی دعوت تمام گرد و پیش کے ممالک پر چھا گئی ہے اور یہ خود اس کے آگے سرنگوں ہیں۔  اس وقت انہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ آج ان سے کہا جا رہا ہے اور یہ مان کر نہیں دے رہے ہیں،  وہ سراسر حق تھا۔ بعض لوگوں نے اس مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ محض کسی دعوت کا غالب آ جانا اور بڑے بڑے علاقے فتح کر لینا تو اس کے حق ہونے کی دلیل نہیں ہے، باطل دعوتیں بھی چھا جاتی ہیں اور ان کے پیرو بھی ملک پر ملک فتح کرتے چلے جاتے ہیں۔  لیکن یہ ایک سطحی اعتراض ہے جو پورے معاملے پر غور کیے بغیر کر دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کے دور میں جو حیرت انگیز فتوحت اسلام کو نصیب ہوئیں وہ محض اس معنی میں اللہ کی نشانیاں نہ تھیں کہ اہل ایمان ملک پر ملک فتح کرتے چلے گئے، بلکہ اس معنی میں تھیں کہ یہ فتح ممالک دنیا کی دوسری فتوحات کی طرح نہیں تھی جو ا یک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کو دوسروں کی جان و مال کا مالک بنا دیتی ہیں اور خدا کی زمین ظلم سے بھر جاتی ہے۔ اس کے بر عکس یہ فتح اپنے جِلَو میں ایک عظیم الشان مذہبی، اخلاقی، ذہنی و فکری، تہذیبی و سیاسی اور تمدنی و معاشی انقلاب لے کر آئی تھی جس کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچے، انسان کے بہترین جوہر کھلتے چلے گئے اور بد ترین اوصاف دبتے چلے گئے۔ دنیا جن فضائل کو صرف تارک الدنیا درویشوں اور گوشے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والوں کے اندر ہی دیکھنے کی امید رکھتی تھی اور کبھی یہ سوچ بھی نہ سکتے تھی کہ کاروبار دنیا چلانے  والوں میں بھی وہ پائے جا سکتے ہیں،  اس انقلاب نے وہ فضائل اخلاق فرمانرواؤں کی سیاست میں،  انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کی عدالت میں،  فوجوں کی قیادت کرنے والے سپہ سالاروں کی جنگ اور فتوحات میں، ٹیکس وصول کرنے والوں کی تحصیلداری میں اور بڑے بڑے کاروبار چلانے والوں کی تجارت میں جلوہ گر کر کے دکھا دیے۔ اس نے اپنے پیدا کروہ معاشرے میں عام انسانوں کو اخلاق اور کردار اور طہارت و نظافت کے اعتبار سے اتنا اونچا اٹھایا کہ دوسرے معاشروں کے چیدہ لوگ بھی ان کی سطح سے فروتر نظر آنے لگے۔ اس نے اوہام و خرافات کے چکر سے نکال کر انسان کو علمی تحقیق اور معقول طرز فکر و عمل کی صاف شاہراہ پر ڈال دیا۔ اس نے اجتماعی زندگی کے ان امراض کا علاج کیا جن کے علاج کی فکر تک سے دوسرے نظام خالی تھے، یا اگر انہوں نے اس کی فکر کی بھی تو ان امراض کے علاج میں کامیاب نہ ہو سکے، مثلاً رنگ و نسل اور وطن و زبان کی بنیاد پر انسانوں کی تفریق، ایک ہی معاشرے میں طبقات کی تقسیم اور ان کے درمیان اونچ نیچ کا امتیاز اور چھوت چھات، قانونی حقوق اور عملی معاشرت میں مساوات کا فقدان، عورتوں کی پستی اور بنیادی حقوق تک سے محرومی، جرائم کی کثرت، شراب اور نشہ آور چیزوں کا عام رواج، حکومت کا تنقید و محاسبے سے بالا تر رہنا، عوام کا بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم ہونا، بین الاقوامی تعلقات میں معاہدات کی بے احترامی، جنگ میں وحشیانہ حرکات، اور ایسے ہی دوسرے امراض۔ سب سے بڑھ کر خود عرب کی سر زمین میں اس انقلاب نے دیکھتے دیکھتے طوائف الملوکی کی جگہ نظم، خونریزی و بد امنی کی جگہ امن، فسق و فجور کی جگہ تقویٰ و طہارت، ظلم و بے انصافی کی جگہ عدل، گندگی و نا شائستگی کی جگہ پاکیزگی اور تہذیب، جہالت کی جگہ علم، اور نسل در نسل چلنے والی عداوتوں کی جگہ اخوت و محبت پیدا کر دی، اور جس قوم کے لو گ اپنے قبیلے کی سرداری سے بڑھ کر کسی چیز کا خواب تک نہ دیکھ سکتے تھے انہیں دنیا کا امام بنا دیا۔ یہ تھیں وہ نشانیاں جو اسی نسل نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں جسے مخاطب کر کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلی مرتبہ یہ آیت سنائی تھی۔ اور اس کے بعد سے آج تک اللہ تعالیٰ ان نشانیوں کو برابر دکھائے جا رہا ہے۔ مسلمانوں نے اپنے زوال کے دور میں بھی اخلاق کی جس بلندی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی گرد کو بھی وہ لوگ کبھی نہ پہنچ سکے جو تہذیب و شائستگی کے علمبردار بنے پھتے ہیں۔  یورپ  کی قوموں نے افریقہ، امریکہ، ایشیا اور خود یورپ  میں مغلوب قوموں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا ہے، مسلمانوں کی تاریخ کے کسی دور میں بھی اس کی کوئ نظیر نہیں پیش کی جا سکتی۔ یہ قرآن ہی کی برکت ہے جس نے مسلمانوں میں  اتنی انسانیت پیدا کر دی ہے کہ وہ کبھی غلبہ پا کر اترے ظالم نہ بن سکے جتنے غیر مسلم تاریخ کے ہر دور میں ظالم پائے گئے ہیں اور آج تک پائے جا رہے ہیں۔  کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو خود دیکھ لے کہ اسپین میں جب مسلمان صدیوں حکمراں رہے اس وقت عیسائیوں کے ساتھ کیا سلوک تھا اور جب عیسائی وہاں غالب آئے تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ہندوستان میں آٹھ سو برس کے طویل زمانہ حکومت میں مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور اب ہندو غالب آ جانے کے بعد کیا برتاؤ کر رہے ہیں۔  یہودیوں کے ساتھ پچھلے تیرہ سو برس میں مسلمانوں کا رویہ کیا رہا اور اب فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ ان کا کیا رویہ ہے۔

دوسرا مفہوم اس آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آفاق ارض و سماء میں بھی اور انسانوں کے اپنے وجود میں بھی لوگوں کو وہ نشانیاں دکھائے گا جن سے ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن جو تعلیم دے رہا ہے وہی برحق ہے۔ بعض لوگوں نے اس مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ آفاق ارض و سماء اور خود اپنے وجود کو تو لوگ اس وقت بھی دیکھ رہے تھے۔ پھر زمانہ مستقبل میں ان چیزوں کے اندر نشانیاں دکھانے کے کیا معنی۔ لیکن یہ اعتراض بھی ویسا ہی سطحی ہے جیسا اوپر کے مفہوم پر اعتراض سطحی تھا۔ آفاق ارض و سماء تو بے شک وہی ہیں جنہیں انسان ہمیشہ سے دیکھتا رہا ہے، اور انسان کا اپنا وجود بھی اسی طرح کا ہے جیسا ہر  زمانے میں دیکھا جاتا رہا ہے، مگر ان چیزوں کے اندر خدا کی نشانیاں اس قدر بے شمار ہیں کہ انسان کبھی ان احاطہ نہیں کر سکا ہے، نہ کبھی کر سکے گا۔ ہر دور میں انسان کے سامنے نئی نئی نشانیاں آتی چلی گئی ہیں اور قیامت تک آتی چلی جائیں گی۔

۷۱۔ یعنی کیا لوگوں کو انجام بد سے ڈرانے کے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ اس دعوت حق کو جھٹلانے اور زک پہنچانے کے لیے جو جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ ان کی ایک ایک حرکت دیکھ رہا ہے۔

۷۲۔ یعنی ان کے اس رویہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ کبھی ان کو اپنے رب کے سامنے جانا ہے اورا پنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔

۷۳۔ یعنی اس کی گرفت سے بچ کر یہ کہیں جا نہیں سکتے اور اس کے ریکارڈ سے ان کی کوئی حرکت چھوٹ نہیں سکتی۔

٭٭٭

 

 

 

(۴۲) سورۃ الشوریٰ

 

نام

 

آیت ۳۸ کے فقرے وَاَمْرُ ھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ  سے ماخوذ ہے۔ اس کا نام کا مطلب ہے کہ وہ سورہ جس میں لفظ شوریٰ آیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن اس مضمون پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورہ حٰم السجدہ کے متصلاً بعد نازل ہوئی ہو گی، کیونکہ یہ ایک طرح سے بالکل اس کا تتمہ نظر آتی ہے۔ اس کیفیت کو ہر وہ شخص خود محسوس کر لے گا جو پہلے سورہ حٰم السجدہ کو بغور پڑھے اور پھر اس سورے کی تلاوت کرے۔ وہ دیکھے گا کہ اس سورۃ میں سرداران قریش کی اندھی بہری مخالفت پر بڑی کاری ضربیں لگائی گئی تھیں،  تاکہ مکہ معظمہ اور اس کے گرد و پیش کے علاقے میں جس کسی کے اندر بھی اخلاق، شرافت اور معقولیت کی کوئی حس باقی ہو وہ جان لے کہ قوم کے بڑے لوگ کس قدر بے جا طریقے سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کر رہے ہیں،  اور ان کے مقابلہ میں آپ کی بات کتنی سنجیدہ، آپ کا موقف کتنا معقول اور آپ کا رویہ کیسا شریفانہ ہے۔ اس تنبیہ کے معاً بعد یہ سورۃ نازل کی گئی  جس نے تفہیم کا حق ادا کر دیا اور ایسے دل نشین انداز میں دعوت  محمدی کی حقیقت سمجھائی جس کا اثر قبول نہ کرنا کسی ایسے شخص کے جس میں نہ تھا جو حق پسندی کا کچھ بھی مادہ اپنے اندر رکھتا ہو اور جاہلیت کی گمراہیوں کے عشق میں بالکل اندھا نہ ہو چکا ہو۔

 

موضوع اور مضمون

 

بات کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ تم لوگ ہمارے نبی کی پیش کردہ باتوں پر یہ کیا چہ میگوئیاں کرتے  پھر رہے ہو۔ یہ باتیں کوئی نئی اور نرالی نہیں ہیں،  نہ یہی کوئی نادر واقعہ ہے جو تاریخ میں پہلی ہی مرتبہ پیش آیا ہو کہ ایک شخص پر خدا کی طرف سے وحی آئے اور اسے نبی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے ہدایات دی جائیں۔ ایسی ہی وحی،  اسی طرح کی ہدایات کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام پر پے در پے بھیجتا رہ ہے۔ اور نرالی، اچنبھے کے قابل بات یہ نہیں ہے کہ آسمان و زمین کے مالک کو معبود اور حاکم مانا جائے، بلکہ یہ ہے کہ اس کے بندے ہو کر، اس کی خدائی میں رہتے ہوئے کسی دوسرے کی خداوندی تسلیم کی جائے۔ تم توحید پیش کرنے والے پر بگڑ پڑیں تو کچھ بعید نہیں۔ تمہاری اس جسارت پر فرشتے حیران ہیں اور ہر وقت ڈورے ہیں کہ نہ معلوم کب تم پر خدا کا غضب ٹوٹ پڑے۔

اس کے بعد لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ نبوت پر کسی شخص کا مقرر کیا جانا، اور اس شخص کا اپنے آپ کو نبی کی  حیثیت سے پیش کرنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ خلق خدا کی قسمتوں کا مالک بنا دیا گیا ہے اور اسی دعوے کے ساتھ وہ میدان میں آیا ہے۔ قسمتیں تو اللہ نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہیں۔ نبی صرف غافلوں کو چونکا نے اور بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتانے آیا ہے۔ اس کی بات نہ ماننے والوں کا محاسبہ کرنا اور انہیں عذاب دینا یا نہ دینا اللہ کا اپنا کام ہے۔ یہ کام نبی کے سپرد نہیں کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس غلط فہمی کو اپنے دماغ سے نکال دو کہ نبی اس طرح کے کسی دعوے کے ساتھ آیا ہے جیسے دعوے تمہارے ہاں کے نام نہاد مذہبی  پیشوا اور پیر فقیر کیا کرتے ہیں کہ جو ان کی بات نہ مانے گا، یا ان کی شان میں گستاخی کرے گا وہ اسے جلا کر بھسم کر دیں گے۔ اسی سلسلے میں لوگوں کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نبی تمہاری بد خواہی  کے لیے نہیں آیا ہے،  بلکہ ہو تو ایک خیر خواہ ہے جو تمہیں خبردار کر رہا ہے کہ جس راہ پر تم جا رہے ہو اس میں تمہاری اپنی تباہی ہے۔

پھر اس مسئلے کی حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ اللہ نے سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر راست رو کیوں نہ بنا دیا اور  یہ مجال اختلاف کیوں رکھی جس کی وجہ سے لوگ فکر و عمل کے ہر الٹے سیدھے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ بتایا گیا کہ اسی چیز کی بدولت تو یہ  امکان پیدا ہوا ہے کہ انسان اللہ کی اس رحمت خاص کو پا سکے جو دوسری بے اختیار مخلوقات کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اس ذی اختیار مخلوق کے لیے ہے جو جبلی طور پر نہیں،  شعوری طور پر اپنے اختیار سے اللہ کو اپنا ولی (Patron  guardian ) بنائے۔ یہ روش جو انسان اختیار کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ سہارا دے کر،  اس کی رہنمائی کر کے،  اسے حسن عمل کی توفیق دے کر، اپنی رحمت خاص میں داخل کر لیتا ہے۔ اور جو انسان اپنے اختیار کو غلط استعمال کر کے ان کو ولی بناتا ہے جو در حقیقت ولی نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتے،  وہ اس رحمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اسی سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان کا اور ساری مخلوقات کا ولی حقیقت میں اللہ ہی ہے۔ دوسرے نہ حقیقت میں ولی ہیں،  نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ ولایت کا حق ادا کر سکیں۔ انسان کی کامیابی کا مدار اسی پر ہے کہ وہ اپنے اختیار سے ولی کا انتخاب کرنے میں غلطی نہ کرے اور اسی کو اپنا ولی بنائے جو در حقیقت ولی ہے۔

اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ جس دین کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں وہ حقیقت میں ہے کیا :

اس کی اولین بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ کائنات اور انسان کا خالق، مالک اور ولی حقیقی ہے،  اس لیے وہی انسان کا حاکم بھی ہے،  اور اسی کا یہ حق ہے کہ انسان کو دین اور شریعت (اعتقاد و عمل کا نظام) دے اور انسانی اختلافات کا فیصلہ کر کے بتائے کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ دوسری کسی ہستی کو انسان کے لیے شارع(Lawgiver)بننے کا سرے سے حق ہی نہیں ہے۔ با لفاظ دیگر فطری حاکمیت کی طرح تشریعی حاکمیت بھی اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ انسان یا کوئی غیر اللہ اس حاکمیت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کوئی شخص اللہ کی اس حاکمیت کو نہیں مانتا تو اس کا اللہ کی محض فطری حاکمیت کا ماننا لا حاصل ہے۔

اسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے ابتدا سے انسان کے لیے ایک دین مقرر کیا ہے۔  وہ ایک ہی دین تھا جو ہر زمانے میں تمام انبیاء کو دیا جاتا رہا۔ کوئی نبی بھی اپنے کسی الگ مذہب کا بانی نہیں تھا۔ وہی ایک دین اول روز سے نسل انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوتا رہا ہے،  اور سارے انبیاء اسی کے پیرو اور داعی رہے ہیں۔ وہ دین کبھی محض مان کر بیٹھ جانے کے لیے نہیں بھیجا گیا، بلکہ ہمیشہ اس غرض کے لیے بھیجا گیا ہے کہ زمین پر وہی قائم اور رائج اور نافذ ہو، اور اللہ کے ملک میں اللہ کے  دین کے سوا کسی اور کے ساختہ و پرداختہ دین کا سکّہ نہ چلے۔ انبیاء علیہم السلام اس دین کی محض تبلیغ پر نہیں بلکہ اسے قائم کرنے کی خدمت پر مامور کیے گئے تھے۔

نوع انسانی کا اصل دین یہی تھا،  مگر انبیاء کے بعد ہمیشہ یہ ہوتا رہا کہ خود غرض لوگ اس کے اندر اپنی خود پسندی،  خود رائی اور خود نمائی کے باعث اپنے مفاد کی خاطر تفرقے برپا کر کر کے نئے نئے مذہب نکالتے رہے۔ دنیا میں یہ جتنے بھی مختلف مذہب پائے جاتے ہیں،  سب اسی ایک دین کو بگاڑ کر پیدا کیے گئے ہیں۔

اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس لیے بھیجے گئے ہیں کہ ان متفرق طریقوں اور مصنوعی مذہبوں اور انسانی ساخت کے دینوں کی جگہ وہی اصل دین لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اسی کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اس پر خدا کا شکر ادا کرنے کے بجائے اگر تم الٹے بگڑتے  ہو اور لڑنے کو دوڑتے ہو تو یہ تمہاری نادانی ہے۔ تمہاری اس حماقت کی وجہ سے نبی اپنا کام نہیں چھوڑ دے گا۔ وہ اس بات پر مامور ہے کہ پوری استقامت کے ساتھ اپنے موقف پر جم جائے اور اس کام کو پورا کرے جس پر وہ مامور ہوا ہے۔ اس سے یہ امید نہ رکھو کہ وہ تمھیں راضی کرنے کے لیے دین میں انہی اوہام و خرافات اور جاہلیت کی رسموں اور طور طریقوں کے لیے کوئی گنجائش نکالے گا جن سے خدا کا دین پہلے  خراب کیا جاتا رہا ہے۔

تم لوگوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ اللہ کے دین کو چھوڑ کر غیر اللہ کے بنائے ہوئے دین و آئین کو اختیار کرنا اللہ کے مقابلے میں کتنی بڑی جسارت ہے۔ تم اپنے نزدیک اسے دنیا کا معمول سمجھ رہے ہو، اور تمھیں اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ مگر اللہ کے نزدیک یہ بدترین شرک اور شدید ترین جرم ہے جس کی سخت سزا اُن سب کو بھگتنی پڑے گی جنہوں نے اللہ کی زمین پر اپنا دین جاری کیا اور جنہوں نے ان کے دین کی پیروی اور اطاعت کی۔

اس طرح دین کا ایک صاف اور واضح تصور پیش کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ تم لوگوں کو سمجھا کر راہ راست پر لانے کے لیے جو بہتر سے بہتر طریقہ ممکن تھا وہ استعمال کیا جا چکا۔ ایک طرف اللہ نے اپنی کتاب نازل فرمائی جو نہایت دل نشین طریقے سے تمہاری اپنی زبان میں تمھیں حقیقت بتا رہی ہے۔ اور دوسری طرح محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے اصحاب کی زندگیاں تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں جنہیں دیکھ کر تم جان سکتے ہو کہ اس کتاب کی رہنمائی میں کیسے انسان تیار ہوتے ہیں۔ اس پر بھی اگر تم ہدایت نہ پاؤ تو پھر دنیا میں کوئی چیز تمھیں راہ راست پر نہیں لا سکتی۔ اس کا نتیجہ تو پھر یہی ہے کہ تمھیں اسی گمراہی میں پڑا رہنے دیا جائے جس میں تم صدیوں سے مبتلا ہو، اور اسی انجام سے تم کو دوچار کر دیا جائے جو ایسے گمراہوں کے لیے اللہ کے ہاں مقدر ہے۔

ان حقائق کو بیان کرتے ہوئے بیچ بیچ میں اختصار کے ساتھ توحید اور آخرت کے دلائل دیے گئے ہیں دنیا پرستی کے نتائج پر متنبہ کیا گیا ہے،  آخرت کی سزا سے ڈرایا گیا ہے اور کفار کی ان اخلاقی کمزوریوں پر گرفت کی گئی ہے جو ہدایت سے ان کے منہ موڑنے کا اصل سبب تھیں۔ پھر کلام کو ختم کرتے ہوئے دو اہم باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں :

ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنی زندگی کے ابتدائی چالیس سال میں ’’ کتاب‘‘ کے تصور سے بالکل خالی الذہن اور ایمان کے مسائل و مباحث سے قطعی نا واقف رہنا، اور پھر یکایک ان دونوں چیزوں کو لے کر دنیا کے سامنے آ جانا،  آپ کا اپنی پیش کردہ تعلیم کو خدا کی تعلیم قرار دینا یہ معنی نہیں رکھتا کہ آپ خدا سے رو در رو کلام کرنے کے مدعی ہیں،  بلکہ خدا نے  یہ تعلیم تمام انبیاء کی طرح آپ کو بھی تین طریقوں سے دی ہے۔ ایک وحی، دوسرے پردے کے پیچھے سے آواز،  اور تیسرے فرشتے کے ذریعہ سے پیغام۔ یہ وضاحت اس لیے کی گئی کہ مخالفین یہ الزام تراشی نہ کر سکیں کہ حضور خدا سے رو در رو کلام کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں،  اور حق پسند لوگ یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انسان نبوت کے منصب پر سرفراز کیا گیا ہو اسے کن طریقوں سے ہدایت دی جاتی ہیں۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

ح  م،  ع  س  ق۔ اسی طرح اللہ غالب و حکیم تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے (رسولوں ) کی طرف وحی کرتا رہا ہے (۱)۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اسی کا ہے،  وہ بر تر اور رحیم ہے (۲)۔ قریب ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں (۳)۔ فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں درگزر کی درخواستیں کیے جاتے ہیں (۴)۔ آگاہ رہو، حقیقت میں اللہ غفور و رحیم ہی ہے (۵)۔ جن لوگوں نے اس کو چھوڑ کر اپنے کچھ دوسرے سرپرست (۶) بنا رکھے ہیں،  اللہ ہی ان پر نگراں ہے،  تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو(۷)۔

ہاں،  اسی طرح اے نبیؐ، یہ قرآن عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے (۸) تاکہ تم بستیوں کے مرکز (شہر مکہ) اور اس کے گرد و پیش رہنے والوں کو خبردار کر دو(۹)، اور جمع ہونے کے دن سے ڈرا دو(۱۰) جن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں۔

اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت بنا دیتا،  مگر وہ جسے  چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے،  اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے نہ مدد گار(۱۱)۔ کیا یہ (ایسے نادان ہیں کہ)انہوں نے اسے چھوڑ کر دوسرے ولی بنا رکھے  ہیں؟ ولی تو اللہ ہی ہے،  وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے،  اور وہ ہر چیز پر قادر ہے (۱۲)۔ ع

 

تفسیر

 

۱۔ افتتاح کلام کا یہ انداز خود بتا رہا ہے کہ پس منظر میں وہ چہ میگوئیاں ہیں جو مکہ معظمہ کی ہر محفل،  ہر چوپال، ہر کوہ و بازار، اور ہر مکان  اور دُکان میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت اور قرآن کے  مضامین پر ہو رہی تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ نہ معلوم یہ شخص کہاں سے یہ نرالی باتیں نکال نکال کر لا رہا ہے۔ ہم نے تو ایسی باتیں نہ کبھی سنیں نہ ہوتے دیکھیں۔ وہ کہتے تھے،  یہ عجیب ماجرا ہے کہ باپ دادا سے جو دین چلا آ رہا ہے،  ساری قوم جس دین کی پیروی کر رہی ہے،  سارے ملک میں جو طریقے صدیوں سے رائج ہیں،  یہ شخص ان سب کو غلط قرار دیتا ہے اور  کہتا ہے جو دین میں پیش کر رہا ہوں  وہ صحیح ہے۔ وہ کہتے تھے،  اس دین کو بھی اگر یہ اس حیثیت سے پیش کرتا کہ دین آبائی اور رائج الوقت طریقوں میں اسے کچھ قباحت نظر آتی ہے اور ان کی جگہ اس نے خود کچھ نئی باتیں سوچ کر نکالی ہیں،  تو اس پر کچھ گفتگو بھی کی جا سکتی تھی، مگر وہ تو کہتا ہے کہ یہ خد ا کا کلام ہے جو میں تمھیں سنا رہا ہوں۔ یہ بات آخر کیسے مان لی جائے؟ کیا خدا اس کے پاس آتا ہے؟ یا یہ خدا کے پس جاتا ہے؟ یا اس کی اور خدا کی بات چیت ہوتی ہے؟ انہی چرچوں اور چہ میگوئیوں پر بظاہر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے، مگر  در اصل کفار کو سناتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ ہاں،  یہی باتیں اللہ عزیز و حکیم وحی فرما رہا ہے اور یہی مضامین لیے ہوئے اس کی وحی پچھلے تمام انبیاء پر نازل ہوتی رہی ہے۔

وحی کے لغوی  معنی ہیں ’’ اشارہ سریع‘‘ اور ’’ اشارہ خفی‘‘،  یعنی ایسا اشارہ جو سرعت کے ساتھ اس طرح کیا جائے کہ بس اشارہ کرنے والا جانے یا وہ شخص جسے اشارہ کیا گیا ہے،  باقی کسی اور شخص کو اس کا پتہ نہ چلنے پائے۔  اس لفظ کو اصطلاحاً اس ہدایت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو بجلی کی کوند کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کسی بندے کے د ل میں ڈالی جائے۔ ارشاد الہٰی و مدعا یہ ہے کہ اللہ کے کسی کے پاس آنے یا اس کے پاس کوئی کے جانے اور رو برو گفتگو کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو تا۔ وہ غالب اور حکیم ہے۔ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جب بھی وہ کسی بندے سے رابطہ قائم کرنا چاہے،  کوئی دشواری اس کے ارادے کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتی۔ اور وہ اپنی حکمت سے اس کام کے لیے وحی کا طریقہ اختیار فرما لیتا ہے۔ اسی مضمون کا اعادہ سورۃ کی آخری آیات میں کیا گیا ہے۔ اور وہاں اسے زیادہ کھول کر بیان فرمایا گیا ہے۔

پھر یہ جو  ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نرالی باتیں ہیں،  اس پر ارشاد ہوا ہے کہ یہ نرالی باتیں نہیں ہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے جتنے انبیاء آئے ہیں ان سب کو بھی خدا کی طرف سے یہی کچھ ہدایات دی جاتی رہی ہیں۔

۲۔ یہ تمہیدی فقرے محض اللہ تعالیٰ کی تعریف میں ارشاد نہیں ہو رہے ہیں،  بلکہ ان کا ہر لفظ اس پس منظر سے گہرا ربط رکھتا ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن کے خلاف جو لوگ چہ میگوئیاں  کر رہے تھے،  ان کے اعتراضات کی اولین بنیاد یہ کہ حضورؐ ان کو توحید کی دعوت دے رہے تھے اور وہ اس پر کان کھڑے کر کر کے کہتے تھے کہ اگر اکیلا ایک اللہ ہی معبود، حاجت روا  اور شارع ہے تو پھر ہمارے بزرگ کیا ہوئے؟ اس پر فرمایا گیا ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ مالک کے ساتھ اس کی ملکیت میں کسی اور کی خداوندی آخر کس طرح چل سکتی ہے؟ خصوصاً جبکہ وہ دوسرے جن کی خداوندی مانی جاتی ہے،  یا جو اپنی خداوندی چلانا چاہتے ہیں،  خود بھی اس کے مملوک ہی ہیں۔ پھر فرمایا گیا کہ وہ بر تر اور عظیم ہے،  یعنی اس سے بالا تر اور بزرگ تر ہے کہ کوئی اس کا ہمسر ہو، اور اس کی ذات،  صفات، اختیارات اور حقوق میں سے کسی چیز میں بھی حصہ دار بن سکے۔

۳۔ یعنی یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے کہ کسی مخلوق کا نسب خدا سے جا ملایا گیا  اور اسے خدا کا بیٹا یا بیٹی قرار دے دیا گیا۔ کسی کو حاجت روا اور فریاد رس  ٹھیرا لیا گیا اور اس سے دعائیں مانگی جانے لگیں،  کسی بزرگ کو دنیا بھر کا کار ساز سمجھ لیا گیا اور علانیہ کہا جانے لگا کہ ہمارے حضرت ہر وقت ہر جگہ ہر شخص کی سنتے ہیں اور وہی ہر ایک کی مدد کو پہنچ کر اس کے کام بنایا کرتے ہیں کسی کو امر و نہی اور حلال و حرام کا مختار مان لیا گیا اور خدا کو چھوڑ کر لوگ اس کے احکام کی اطاعت اس طرح کرنے لگے کہ گویا وہ ان کا خدا ہے۔ خدا کے مقابلے میں یہ وہ جسارتیں ہیں جن پر اگر آسمان  پھٹ پڑیں تو کچھ بعید نہیں ہے۔ (یعنی مضمون سورہ مریم، آیات ۸۸۔ ۹۱ میں  بھی ارشاد ہوا ہے )

۴۔ مطلب یہ ہے کہ فرشتے انسانوں کی یہ باتیں سن سن کر کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں کہ یہ کیا بکواس ہے جو ہمارے رب کی شان میں کی جا رہی ہے،  اور یہ کیسی بغاوت ہے جو زمین کی اس مخلوق نے برپا کر رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں،  سبحان اللہ،  کس کی یہ حیثیت ہو سکتی ہے کہ رب العالمین کے ساتھ الوہیت اور حکم میں شریک ہو سکے،  اور کون اس کے سوا ہمارا اور سب بندوں کا محسن ہے کہ اس کی حمد کے ترانے گائے جائیں اور اس کا شکر ادا کیا جائے۔ پھر وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایسا جرم عظیم دنیا میں کیا جا رہا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہر وقت بھڑک سکتا ہے،  اس لیے وہ زمین پر بسنے والے ان خود فراموش و خدا فراموش بندوں کے حق میں بار بار رحم کی درخواست کرتے ہیں کہ ابھی ان پر عذاب نازل نہ کیا جائے اور انہیں سنبھلنے کا کچھ موقع دیا جائے۔

۵۔ یعنی یہ اس کی حلیمی و رحیمی اور چشم پوشی و در گزر ہی تو ہے جس کی بدولت کفر اور شرک اور دہریت اور فسق و فجور اور ظلم و ستم کی انتہا کر دینے والے لوگ بھی سالہا سال تک،  بلکہ اس طرح کے پورے پورے معاشرے صدیوں تک مہلت پر مہلت پاتے  چلے جاتے ہیں،  اور ان کو صرف رزق ہی نہیں ملے جاتا بلکہ دنیا میں ان کی بڑائی کے ڈنکے بجتے ہیں اور زینت حیات دنیا کے وہ سرو سامان انہیں ملتے ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر نادان لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے۔

۶۔ اصل میں لفظ ’’ اولیا ء‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم عربی زبان میں بہت وسیع ہے۔ معبود ان باطل کے متعلق گمراہ انسانوں کے مختلف عقائد اور بہت سے مختلف طرز عمل ہیں جن کو قرآن مجید میں ’’ اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا ولی بنانے ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کا تتبّع کرنے سے لفظ ’’ولی‘‘ کے حسب ذیل مفہومات معلوم ہوتے ہیں :

۱)  جس کے کہنے پر آدمی چلے،  جس کی ہدایات پر عمل کرے،  اور جس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں،  رسموں اور قوانین و ضوابط کی پیروی کرے (النساء، آیات ۱۱۸ تا ۱۲۰۔ الاعراف ۳، ۲۷ تا ۳۰)۔

۲)  جس کی رہنمائی (Guidance)پر آدمی اعتماد کرے اور یہ سمجھے کہ وہ اسے صحیح راستہ بتانے والا اور غلطی سے بچانے والا ہے (بقرہ ۲۵۷۔ بنی اسرائیل ۹۷۔ الکہف ۱۷۔ ۵۰۔ الجاثیہ ۱۹)۔

۳)  جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ میں دنیا میں خواہ کچھ کرتا رہوں،  وہ مجھے اس کے برے نتائج سے اور اگر خدا  ہے اور آخرت بھی ہونے والی ہے،  تو اس کے عذاب سے بچا لے گا (انساء ۱۲۳۔ ۱۷۳۔ الانعام ۵۱۔ الرعد ۳۷۔ العنکبوت ۲۲۔ الاحزاب ۶۵۔ الزمر ۳)

۴)  جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ وہ دنیا میں فوق الفطری طریقے سے اس کی مدد کرتا ہے،  آفات و مصائب سے اس کی حفاظت کرتا ہے،  اسے روزگار دلواتا ہے،  اولاد دیتا ہے،  مرادیں بر لاتا ہے،  اور دوسری ہر طرح کی حاجتیں پوری کرتا ہے (ہود، ۲۰۔ الرعد، ۱۶۔ العنکبوت، ۴۱)

بعض مقامات پر قرآن  میں ولی کا لفظ ان میں سے کسی ایک معنی میں استعمال کیا گیا ہے،  اور بعض مقامات پر جامعیت کے ساتھ  اس کے سارے ہی مفہومات مراد ہیں۔ آیت زیر تشریح بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہاں اللہ کے سوا دوسروں کو ولی بنانے سے مراد مذکورہ بالا چاروں معنوں میں ان کو اپنا سرپرست بنانا اور حامی و مدد گار سمجھنا ہے۔

۷۔ ’’ اللہ ہی ان پر نگراں ہے ‘‘ یعنی وہ ان کے سارے افعال دیکھ رہا ہے اور ان کے نامۂ اعمال تیار کر رہا ہے۔ ان کا محاسبہ اور مواخذہ کرنا اسی کا کام ہے۔ ‘‘ تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو‘‘،  یہ خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی قسمت تمہارے حوالے نہیں کر دی گئی ہے کہ جو تمہاری بات نہ مانے گا اسے تم جلا کر خاک کر دو گے یا اس کا تختہ الٹ دو گے،  یا اسے تہس نہس کر کے رکھ دو گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے آپ کو ایسا سمجھتے تھے اور آپ کی غلط فہمی یا بر خود غلطی کو رفع کرنے کے لیے یہ بات ارشاد ہوئی ہے۔ بلکہ اس سے مقصود کفار کو سنانا ہے۔ اگر چہ بظاہر مخاطب حضورؐ ہی ہیں،  لیکن اصل مدّعا کفار کو یہ بتانا ہے کہ اللہ کا نبی اس طرح کا کوئی دعویٰ نہیں رکھتا جیسے بلند بانگ دعوے خدا رسیدگی اور روحانیت کے ڈھونگ رچانے والے عموماً تمہارے ہاں کیا کرتے ہیں۔ جاہلیت کے معاشروں میں  بالعموم یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ’’حضرت‘‘  قسم کے لوگ ہر اس شخص کی قسمت بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں جو ان کی شان میں کوئی گستاخی کرے۔ بلکہ مر جانے کے بعد ان کی قبر کی بھی اگر کوئی توہین کر گزرے،  یا اور کچھ نہیں تو ان کے متعلق کوئی برا خیال ہی دل میں لے آئے تو وہ اس کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔ یہ خیال زیادہ تر ’’ حضرتوں ‘‘ کا  اپنا پھیلایا ہوا ہوتا ہے،  اور نیک لوگ جو خود ایسی باتیں نہیں کرتے،  ان کے نام اور ان  کی ہڈیوں کو اپنے کاروبار کا سرمایہ بنانے کے لیے کچھ دوسرے ہوشیار لوگ ان کے متعلق اس خیال کو پھیلاتے ہیں۔ بہر حال عوام میں اسے روحانیت و خدا رسیدگی کا لازمہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کو قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کے اختیارات حاصل ہوں۔ اسی فریب کا طلسم توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ کفار کو سناتے ہوئے اپنے رسول پاک سے فرما رہا ہے کہ بلا شبہ تم ہمارے پیغمبر ہو اور ہم نے اپنی وحی سے تمہیں سرفراز کیا  ہے،  مگر تمہارا کام صرف لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانا ہے۔ ان کی قسمتیں تمہارے حوالہ نہیں کر دی گئی ہیں۔ وہ ہم نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہیں۔ بندوں  کے اعمال کو دیکھنا اور ان کو عذاب دینا یا  نہ دینا ہمارا اپنا کام ہے۔

۸۔ وہی بات پھر دہرا کر زیادہ زور دیتے ہوئے کہی گئی ہے جو آغاز کلام میں کہی گئی تھی۔ اور ’’قرآن عربی‘‘ کہہ کر سامعین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے،  تمہاری اپنی زبان میں ہے۔ تم پراہ راست اسے خود سمجھ سکتے ہو، اس کے مضامین پر غور کر کے دیکھو کہ یہ پاک صاف اور بے غرض رہنمائی کیا خداوند عالم کے سوا کسی اور کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔

۹۔ یعنی انہیں غفلت سے چونکا دو اور متنبہ کر دو کہ افکار و عقائد کی جن گمراہیوں اور اخلاق و کردار کی جن خرابیوں میں تم لوگ مبتلا ہو، اور تمہاری انفرادی اور قومی زندگی جن فاسد اصولوں پر چل رہی ہے ان کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

۱۰۔ یعنی انہیں یہ بھی بتا دو کہ یہ تباہی و بربادی صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ آگے وہ دن بھی آنا ہے جب اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جمع کر کے ان کا حساب لے گا۔ دنیا میں اگر کوئی شخص اپنی گمراہی و بد عملی کے برے نتائج سے  بچ بھی نکلا تو اس دن بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اور بڑا ہی بد قسمت ہے وہ جو یہاں بھی خراب ہو اور وہاں بھی اس کی شامت آئے۔

۱۱۔ یہ مضمون اس سلسلہ کلام میں تین مقاصد کے لیے آیا ہے :

اولاً،  اس سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تعلیم اور تسلی دینا ہے۔ اس میں حضورؐ کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ آپ کفار مکہ کی جہالت و ضلالت اور اوپر سے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ دیکھ کر اس قدر زیادہ نہ کُڑھیں،  اللہ کی مرضی یہی ہے کہ انسانوں کو اختیار و انتخاب کی آزادی عطا کی جائے،  پھر جو ہدایت چاہے اسے ہدایت ملے اور جو گمراہ ہی ہونا پسند کرے اسے جانے دیا جائے جدھر وہ جانا چاہتا ہے۔ اگر یہ اللہ کی مصلحت نہ ہوتی تو انبیاء اور کتابیں بھیجنے کی حاجت ہی کیا تھی، اس کے لیے تو اللہ جل شانہ کا ایک تخلیقی اشارہ کافی تھا، سارے انسان اسی طرح مطیع فرمان ہوتے جس طرح دریا، پہاڑ،  درخت،  مٹی، پتھر اور سب حیوانات ہیں (اس مقصد کے لیے یہ مضمون دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول،  ص ۵۳۵ تا ۵۳۷۔ ۵۷۰ )۔

ثانیاً، اس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو اس ذہنی الجھن میں گرفتار تھے اور اب بھی ہیں کہ اگر اللہ فی الواقع انسانوں کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا، اور اگر عقیدہ و عمل کے یہ اختلافات، جو لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں،  اسے پسند نہ تھے،  اور اگر اسے پسند یہی تھا کہ لوگ ایمان و اسلام کی راہ اختیار کریں،  تو اس کے لیے آخر وحی اور کتاب اور نبوت کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو وہ بآسانی اس طرح کر سکتا تھا کہ سب کو مومن و مسلم پیدا کر دیتا۔ اسی الجھن کا ایک شاخسانہ یہ استدلال بھی تھا کہ جب اللہ نے ایسا نہیں کیا ہے تو ضرور وہ مختلف طریقے  جن پر ہم چل رہے ہیں،  اس کو پسند ہیں،  اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں اسی کی مرضی سے کر رہے ہیں،  لہٰذا اس پر اعتراض کا کسی کو حق نہیں ہے (اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بھی یہ مضمون قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول، ص ۵۷۳۔ ۵۷۴۔ ۵۸۷۔ ۵۹۴ تا ۵۹۶۔ جلد دوم، ص ۳۱۳۔ ۳۷۳۔ ۳۷۴۔ ۵۲۸۔ ۵۳۹۔ ۵۴۰)

ثانیاً،  اس کا مقصد اہل ایمان کو ان مشکلات کی حقیقت سمجھانا ہے جو تبلیغ دین اور اصلاح خلق کی راہ میں اکثر پیش آتی ہیں جو لوگ اللہ کی دی ہوئی آزادی انتخاب و ارادہ، اور اس کی بنا پر طبائع اور طریقوں کے اختلاف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے،  وہ کبھی تو کار اصلاح کی سست رفتاری دیکھ کر مایوس ہونے لگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ کرامتیں اور معجزات رو نما ہوں تا کہ انہیں دیکھتے ہی لوگوں کے دل بدل جائیں،  اور کبھی وہ ضرورت سے زیادہ جوش سے کام لے کر اصلاح کے بے جا طریقے اختیار کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں (اس مقصد کے لیے بھی یہ مضمون بعض مقامات پر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۴۲۰۔ ۴۲۱۔ ۵۶۶ تا ۵۶۹)۔

ان مقاصد کے لیے ایک بڑا اہم مضمون ان مختصر سے فقروں میں بیان فرمایا گیا ہے۔ دنیا میں اللہ کی حقیقی خلافت اور آخرت میں اس کی جنت کوئی معمولی رحمت نہیں ہے جو مٹی اور پتھر اور گدھوں اور گھوڑوں کے مرتبے کی مخلوق پر ایک رحمت عام کی طرح بانٹ دی جائے۔ یہ تو ایک خاص رحمت اور بہت اونچے درجے کی رحمت ہے جس کے لیے فرشتوں تک کو موزون نہ سمجھا گیا۔ اسی لیے انسان کو ایک ذی اختیار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کر کے اللہ نے اپنی زمین کے یہ وسیع ذرائع اس کے تصرف میں دیے اور یہ ہنگامہ خیز طاقتیں اس کو بخشیں تاکہ یہ اس امتحان سے گزر سکے جس میں کامیاب ہو کر ہی کوئی بندہ اس کی یہ رحمت خاص پانے کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ رحمت کی اپنی چیز ہے۔ اس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ نہ کوئی اسے اپنے ذاتی استحقاق کی بنا پر دعوے سے لے سکتا ہے،  نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اسے بزور حاصل کر سکے۔ اسے وہی لے سکتا ہے جو اللہ کے حضور بندگی پیش کرے،  اس کو اپنا ولی بنائے اور اس کا دامن تھامے۔ تب اللہ اس کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے،  اور اسے اس امتحان سے بخیریت گزرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اس کی رحمت میں داخل ہو سکے۔ لیکن جو ظالم اللہ ہی سے منہ موڑ لے اور اس کے بجائے دوسروں کو اپنا ولی بنا بیٹھے،  اللہ کو کچھ ضرورت نہیں پڑی ہے کہ خواہ مخواہ زبردستی اس کا ولی بنے،  اور دوسرے جن کو وہ ولی بناتا ہے،  سرے سے کوئی علم، کوئی طاقت اور کسی قسم کے اختیارات ہی نہیں رکھتے کہ اس کی ولایت کا حق ادا کر کے اسے کامیاب کرا دیں۔

۱۲۔ یعنی ولایت کوئی من سمجھوتے کی چیز نہیں ہے کہ آپ جسے چاہیں اپنا ولی بنا بیٹھیں اور وہ حقیقت میں بھی آپ کا سچا اور اصلی ولی بن جائے اور ولایت کا حق ادا کر دے۔ یہ تو ایک امر واقعی ہے جو لوگوں کی خواہشات کے ساتھ بنتا اور بدلتا نہیں چلا جاتا،  بلکہ جو حقیقت میں ولی ہے وہی ولی ہے،  خواہ آپ اسے ولی نہ سمجھیں اور نہ مانیں،  اور جو حقیقت میں ولی نہیں ہے وہ ولی نہیں ہے،  خواہ آپ مرتے دم تک اسے ولی سمجھتے اور مانتے چلے جائیں۔ اب رہا یہ سوال کہ صرف اللہ ہی کے ولی حقیقی ہونے اور دوسرے کسی کے نہ ہونے کی دلیل کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کا حقیقی ولی وہی ہو سکتا ہے جو موت کو حیات میں تبدیل کرتا ہے،  جس نے  بے جان مادوں میں جان ڈال کر جیتا جاگتا انسان پیدا کیا ہے،  اور جو حق ولایت ادا کرنے کی قدرت اور اختیارات بھی رکھتا ہے۔ وہ اگر اللہ کے سوا کوئی اور ہو تو اسے ولی بناؤ، اور اگر وہ صرف اللہ ہی ہے،  تو پھر اس کے سوا کسی اور کو اپنا ولی بنا لینا جہالت و حماقت اور خود کشی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

 

ترجمہ

 

تمہارے (۱۳) درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو، اس کو فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے (۱۴)۔ وہی اللہ میرا(۱۵) رب ہے،  اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں (۱۶)آسمانوں اور زمین کا بنانے والا،  جس نے تمہاری اپنی جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے،  اور اسی طرح جانوروں میں بھی (انہی کے ہم جنس) جوڑے بنائے،  اور اس طریقہ سے وہ تمہاری نسلیں پھیلاتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں (۱۷) وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے (۱۸)، آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں،  جسے چاہتا ہے کھلا رزق  دیتا ہے اور  جسے چاہتا ہے نَپا تلا دیتا ہ، اسے ہر چیز کا علم ہے (۱۹)۔

اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا،  اور جسے (اے محمدؐ)اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے،  اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں،  اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ(۲۰)۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف اے محمدؐ) تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے،  اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے (۲۱)

لوگوں میں جو تفرقہ رو نما ہوا وہ اس کے بعد ہوا کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا (۲۲)، اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے (۲۳)۔ اگر تیرا رب پہلے ہی یہ نہ فرما چکا ہوتا کہ ایک وقت مقرر تک فیصلہ ملتوی رکھا جائے گا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا (۲۴)۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اَگلوں کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کی طرف سے بڑے اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ (۲۵)

چونکہ یہ حالت پیدا ہو چکی ہے اس لیے اے محمد، اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو،  اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاؤ، اور ان لوگو ں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو(۲۶)، اور ان سے کہہ دو کہ: ’’ اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا(۲۷)۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں (۲۸)۔ اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے (۲۹)۔ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں (۳۰)۔ اللہ ایک روز  ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے ‘‘۔

اللہ کی دعوت پر لبّیک کہے جانے کے بعد جو لوگ (لبّیک کہنے والوں سے ) اللہ کے دین کے معاملہ میں جھگڑے کرتے ہیں (۳۱)، ان کی حجت  بازی ان کے رب کے نزدیک باطل ہے،  اور ان پر اس کا غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے۔

وہ اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اور میزان نازل کی ہے (۳۲)۔ اور تمہیں کیا خبر، شاید کہ فیصلے کی گھڑی قریب ہی آ لگی ہو (۳۳)۔ جو لوگ اس کے آنے پر ایمان نہیں رکھتے وہ تو اس کے لیے جلدی مچاتے ہیں،  مگر جو اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یقیناً وہ آنے والی ہے خوب سن لو،  جو لوگ اس گھڑی کے آنے میں شک ڈالنے والی بحثیں کرتے ہیں وہ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔

اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے (۳۴)۔ جسے جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے،  (۳۵) وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے (۳۶)۔ ع

 

تفسیر

 

۱۳۔ اس پورے پیراگراف کی عبارت اگر چہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے،  لیکن اس میں متکلم اللہ تعالیٰ نہیں ہے،  بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ گویا اللہ جل شانہٗ  اپنے نبی کو ہدایت دے رہا ہے کہ تم یہ اعلان کرو۔ اس طرح کے مضامین قرآن مجید میں کہیں تو قُل (اے نبی،  کہو) سے شروع ہوتے ہیں،  اور کہیں اس کے بغیر ہی شروع ہو جاتے ہیں،  صرف انداز کلام بتا دیتا ہے کہ یہاں متکلم اللہ نہیں بلکہ اللہ کا رسول ہے۔ بلکہ بعض مقامات پر تو کلام اللہ کا ہوتا ہے اور متکلم اہل ایمان ہوتے ہیں،  جیسے مثلاً سورہ فاتحہ میں ہے،  یا متکلم فرشتے ہوتے ہیں،  جیسے مثلاً سورہ مریم ۲۴۔ ۲۵ میں ہے۔

۱۴۔ یہ اللہ تعالیٰ کے مالک کائنات اور ولی حقیقی ہونے کا فطری اور منطقی تقاضا ہے۔ جب بادشاہی اور ولایت اسی کی ہے تو لا محالہ پھر حاکم بھی وہی ہے اور انسانوں کے باہمی تنازعات و اختلافات کا فیصلہ کرنا بھی وہی ہے اور انسانوں کے باہمی تنازعات و اختلافات کا فیصلہ کرنا بھی اسی کا کام ہے۔ اس کو جو لوگ صرف آخرت کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں،  وہ غلطی کرتے ہیں۔ کوئی دلیل اس امر کی نہیں ہے کہ اللہ کی یہ حاکمانہ حیثیت اس دنیا کے لیے نہیں بلکہ صرف موت کی زندگی کے لیے ہے۔ اسی طرح جو لوگ اس دنیا میں صرف عقائد اور چند’’ مذہبی‘‘ مسائل تک اسے محدود قرار دیتے ہیں،  وہ بھی غلطی پر ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ عام ہیں اور وہ صاف صاف علی الا طلاق تمام نزاعات و اختلافات میں اللہ کو فیصلہ کرنے کا اصل حق دار قرار دے رہے ہیں۔ ان کی رو سے اللہ جس طرح آخرت کا مالک یوم الدین ہے اسی طرح اس دنیا کا بھی احکم الحاکمین ہے۔ اور جس طرح وہ اعتقادی اختلافات میں یہ طے کرنے والا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، ٹھیک اسی طرح قانونی حیثیت سے بھی وہی یہ طے کرنے والا ہے کہ انسان کے لیے پاک کیا ہے اور نا پاک کیا، جائز اور حلال کیا ہے اور حرام و مکروہ کیا،  اخلاق میں بدی و زشتی کیا ہے اور نیکی و خوبی کیا، معاملات میں کس کا کیا حق ہے اور کیا نہیں ہے،  معاشرت اور  تمدن اور سیاست اور معیشت میں کونسے طریقے درست ہیں اور کونسے غلط۔ آخر اسی بنیاد پر تو قرآن میں یہ بات اصول قانون کے طور پر ثبت کی گئی ہے کہ فَاِنْ تَنَزَعْتُمْفِیْ شَئءٍ فَرپدُّ اِلَی اللہِ وَ الرَّسُوْ لِ (انساء۔ ۵۹)، اور   مَا کَانَ لِمپؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَ اقَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗ  اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرھِمْ (الاحزاب۔ ۳۶)، اور  اِتَّبِعُوْ ا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّ بِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْ ا مِنْدُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآءَ (الاعراف۔ ۳)

پھر جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے اس کے اندر یہ ایک اور معنی بھی دے رہی ہے،  اور وہ یہ  ہے کہ اختلافات کا فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ کا محض قانونی حق ہی نہیں ہے جس کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کافر و مومن ہونے کا مدار ہے،  بلکہ اللہ فی الواقع عملاً بھی حق اور باطل کا فیصلہ کر رہا ہے جس کی بدولت باطل اور اس کے پرستار آخر کار تباہ ہوتے ہیں اور حق اور اس کے پرستار سرفراز کیے جاتے ہیں،  خواہ اس فیصلے کے نفاذ میں دنیا والوں کے کتنی ہی تاخیر ہوتے نظر  آتی ہو۔ یہ مضمون آگے آیت ۲۴ میں بھی آ رہا ہے،  اور اس سے پہلے قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، ص ۴۵۳۔ ۴۶۵۔ ۴۶۶۔ ۴۷۹۔ ۴۸۳ تا ۴۸۶۔ ۶۳۸۔ جلد سوم،  ص ۱۵۱۔ ۱۵۲۔ ۱۶۱)

۱۵۔ یعنی جو اختلافات کا فیصلہ کرنے والا اصل حاکم ہے۔

۱۶۔ یہ دو فعل ہیں جن میں سے ایک بصیغۂ ماضی بیان کیا گیا ہے اور دوسرا بصیغۂ مضارع جس میں استمرار کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ صیغہ ماضی میں فرمایا ’’ میں نے اس پر بھروسہ کیا، ’’یعنی ایک دفعہ میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیصلہ کر لیا کہ جیتے جی مجھے اسی کی مدد، اسی کی رہنمائی، اسی کی حمایت و حفاظت،  اور اسی کے فیصلے پر اعتماد کرنا ہے۔ پھر صیغہ مضارع میں فرمایا ’’میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ‘‘ یعنی جو معاملہ بھی مجھے اپنی زندگی میں پیش آتا ہے،  میں اس میں اللہ ہی کی طرف رجوع کیا کرتا ہوں۔ کوئی مصیبت، تکلیف، یا مشکل پیش آتی ہے تو کسی کی طرف نہیں دیکھتا، اس سے مدد مانگتا ہوں۔ کوئی خطرہ پیش آتا ہے تو اس کی پناہ ڈھونڈتا ہوں اور اس کی حفاظت پر بھروسا کرتا ہوں۔ کوئی مسئلہ در پیش ہوتا ہے تو اس سے رہنمائی طلب کرتا ہوں اور اسی کی تعلیم و ہدایت میں اس کا حل یا حکم تلاش کرتا ہوں۔ اور کسی سے نزاع ہوتی ہے تو اسی کی طرف دیکھتا ہوں کہ اس کا آخری فیصلہ وہی کرے گا اور یقین رکھتا ہوں کہ جو فیصلہ بھی وہ کرے گا وہی حق ہو گا۔

۱۷۔ اصل الفاظ ہیں لَیْسَ کَمِثْلَہٖ شَئ ءٌ ’’ کوئی چیز اس کے مانند جیسی نہیں ‘‘ا مفسرین اور اہل لغت میں س بعض کہتے ہیں کہ اس میں لفظ مثل پر کاف (حرف تشبیہ ) کا اضافہ محاورے کے طور پر کیا گیا ہے جس سے مقصود محض بات میں زور پیدا کرنا ہوتا ہے،  اور عرب میں یہ طرز بیان رائج ہے۔ مثلاً شاعر کہتا ہے وقتلیٰ کمثل جُذوع النخل۔ اور ایک دوسرا شاعر کہتا ہے ما ان کمثلھم فی الناس من احد۔ بعض دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں کہنے کے بجائے اس کے مثل جیسا کوئی نہیں کہتے میں مبلغہ ہے،  مراد یہ ہے کہ اگر بفرض محال اللہ کا کوئی مثل ہوتا تو اس جیسا بھی کوئی نہ ہوتا،  کجا کہ خود اللہ جیسا کوئی ہو۔

۱۸۔ یعنی بیک وقت ساری کائنات میں ہر ایک کی سن رہا ہے اور ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔

۱۹۔ یہ دلائل ہیں اس امر کے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کیوں ولی برحق ہے،  اور کیوں اسی پر توکل کرنا صحیح ہے اور کیوں اسی کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۵۸۹ تا ۵۹۸۔ ۷۴۲ تا ۷۴۶)

۲۰۔ یہاں اسی بات کو پھر زیادہ وضاححت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو پہلی آیت میں ارشاد ہوئی تھی۔ اس میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کسی نئے مذہب کے بانی نہیں ہیں،  نہ انبیاء میں سے کوئی اپنے کسی الگ مذہب کا بانی گزرا ہے،  بلکہ اللہ کی طرف سے ایک ہی دین ہے جسے شروع سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آ رہے ہیں،  اور اسی کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی پیش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوحؑ  کا نام لیا گیا ہے جو طوفان کے بعد موجودہ نسل انسانی کے اولین پیغمبر تھی،  اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کیا گیا ہے جو آخری نبی ہیں،  پھر حضرت ابراہیمؑ کا نام لیا گیا ہے جنہیں اہل عرب اپنا پیشوا مانتے تھے،  اور آخر میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا ذکر کیا گیا ہے جن کی طرف یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کو منسوب کرتے ہیں۔ اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ انہی پانچ انبیاء کو اس دین کی ہدایت کی گئی تھی۔ بلکہ اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں،  سب ایک ہی دین لے کر آئے ہیں،  اور نمونے کے طور پر ان پانچ جلیل القدر انبیاء کا نام لے دیا گیا ہے جن سے دنیا کو معروف ترین آسمانی شریعتیں ملی ہیں۔

یہ آیت چونکہ دین اور اس کے مقصود پر بڑی اہم روشنی ڈالتی ہے،  اس لیے ضروری ہے کہ اس پر پوری طرح غور کر کے اسے سمجھا جائے:

فرمایا کہ شَرَعَلَکُمْ، ’’ مقرر کیا تمہارے لیے ‘‘ شرع کے  لغوی معنی راستہ بنانے کے ہیں،  اور اصطلاحاً اس سے مراد طریقہ اور ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرتا ہے۔ عربی زبان میں اسی اصلاحی معنی کے لحاظ تشریع کا لفظ قانون سازی (Lagislation) کا،  شرع اور شریعت کا لفظ قانون (Law) کا شارع کا لفظ واضح قانون (Law  giver) کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تشریع خداوندی دراصل فطری اور منطقی نتیجہ ان اصولی حقائق کا جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئے ہیں کہ اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے،  اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے،  اور انسانوں کے درمیان جس امر میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے۔ اب چونکہ اصولاً اللہ ہی مالک اور ولی اور حاکم  ہے،  اس لیے لامحالہ وحی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون و ضابطہ بنائے اور اسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو یہ قانون  و ضابطہ دے۔ چنانچہ اپنی اس ذمہ داری کو اس نے یوں ادا کر دیا ہے۔

پھر فرمایا  مِنَ الدِّیْنِ،  ’’اس قسم دین‘‘۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کا ترجمہ ’’ از آئین ‘‘ کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تشریع فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے لفظ ’’ دین ‘‘ کی جو تشریح ہم اس سے پلے سورہ زُمُر،  حاشیہ۳ نمبر میں کر چکے ہیں وہ اگر نگاہ میں رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی الجھن پیش نہیں آ سکتی کہ دین کے معنی ہی کسی کی سیادت و حاکمیت تسلیم کر کے اس کے احکام کی اطاعت کرنے کے ہیں۔ اور جب  یہ لفظ طریقے کے معنی میں   بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مطاع مانے۔ اس بنا پر اللہ کے مقرر کیے ہوئے اس طریقے کو دینا پر اللہ کے مقرر کیے ہوۓ اس طریقے س سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مگاع مانے۔ن کی نوعیت رکھنے والی تشریع کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض سفارش (Recommendation) اور وعظ نصیحت کی نہیں ہے،  بلکہ یہ بندوں کے لیے ان کے مالک کا واجب الاطاعت قانون ہے جس کی پیروی نہ کرنے کے معنی بغاوت کے ہیں اور جو شخص اس کی پیروی نہیں کرتا وہ در اصل اللہ کی سیادت و حاکمیت اور اپنی بندگی کا انکار کرتا ہے۔

اس کے بعد ارشاد ہوا کہ دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع وہی ہے جس کی ہدایت نوح اور ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کو دی گئی تھی اور اسی کی ہدایت اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دی گئی ہے۔ اس ارشاد سے کئی باتیں نکلتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تشریع کو براہ راست ہر انسان کے پاس نہیں بھیجا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً جب اس نے مناسب سمجھا ہے ایک شخص کو اپنا رسول مقرر کر کے یہ تشریع اس کے حوالے کی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ تشریع ابتدا سے یکساں رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی زمانے میں کسی اور قوم کے لیے کوئی دین مقرر کیا گیا ہو اور کسی دوسرے زمانے میں کسی اور قوم کے لیے اس سے مختلف اور متضاد دین بھیج دیا گیا ہو۔ خدا کی طرف سے بہت سے دین نہیں آئے ہیں،  بلکہ جب بھی آیا ہے یہی ایک دین آیا ہے۔ تیسرے  یہ کہ اللہ کی سیادت و حاکمیت ماننے کے ساتھ ان لوگوں کی رسالت کا ماننا جن کے ذریعہ سے یہ تشریع بھیجی گئی ہے،  اور اس وحی کو تسلیم کرنا جس میں یہ تشریع بیان کی گئی ہے،  اس دین کا لازمی جز ہے،  اور عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو لازمی جز ہونا چاہیے،  کیونکہ آدمی اس تشریع کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس کے خدا کی طرف سے مستند (Authentic) ہونے پر مطمئن نہ ہو۔

اس کے بعد فرمایا کہ ان سب انبیاء کو دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع اس ہدایت اور تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اَقِیْمُو ا الدِّیْنَ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب نے  ’’ قائم کنید دین را‘‘ کیا ہے،  اور شاہ رفیع الدین صاحب اور شاہ عبدالقادر صاحب نے ’’ قائم رکھو دین کو ‘‘۔ یہ دونوں ترجمے درست ہیں۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہو جائے یا پہلے سے قائم ہو وہاں اسے قائم رکھیں۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہو چکی ہو۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہو گا، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنی پڑے گی کہ وہ قائم رہے۔

اب ہمارے سامنے دو سوالات آتے ہیں۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ان دونوں باتوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔

قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اٹھا نا ہوتا ہے،  مثلاً کسی انسان یا جانور کو اٹھانا۔ یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے،  جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا۔ یا کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کر کے بلند کرنا ہوتا ہے،  جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں ان کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کما حقہ،  عمل در آمد کرنا،  اسے رواج دینا اور اسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کر لیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کر دی کہ ملک کا سارا انتظام اس دے احکام کے مطابق چلنے لگا۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں،  نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جا رہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جب قرآن مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت و تبلیغ نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود ادا کرو بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہل ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہو جائے۔ مسجدیں ہوں۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں۔ امام اور خطیب مقرر ہوں۔ اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑ جائے۔ اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش آ سکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں،  اور اتنی بات بھی نہ  تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کر لیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورا کا پورا دین ان میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے تاکہ اس کے مطابق عمل در آمد ہونے لگے اور ہوتا رہے۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کا م کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آ سکتا۔ لیکن ہر صاحب عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے،  بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ دعوت و تبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے،  مگر بجائے خود مقصد نہیں ہے،  کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاء کے مشن کا مقصد توحید قرار دے بیٹھے۔

اب دوسرے سوال کو لیجیے۔ بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیا ء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہے،  اور شریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں،  جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْ عَۃً وَّ مِجْھَا جاً،  اس لیے انہوں نے یہ رائے قائم کر لی کہ لا محالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے،  یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل میں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کر لی گئی ہے،  اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیّدنا مسیح علیہ السلام کی امت کو خراب کر دیا۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے، اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو لا محالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیر اہم اور اس کی اقامت کو غیر مقصود بالذات سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کے لے کر بیٹھ جائیں گے۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجائے آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے،  آیا اس سے مراد صرف ایمانیات اور بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں،  یا شرعی احکام بھی۔ قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں :

۱)وَمَآ اُمِرُ ؤٓ ا اِلَّا لِیَعْبُدُو ا اللہَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّ یْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمو االصَّلوٰۃَ وَ یُؤْ تُو االزَّ کوٰۃَ وَ ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃ (البیّنہ، آیت ۵)۔ ’’ اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہو کر  اپنے دین کو الہہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور زکوٰۃ دین،  اور یہی راست رَو ملت کا دین ہے۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں،  حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہئیت،  یہی اس کے اجزاء، یہی اس کی رکعتیں،  یہی اس کا قبلہ، یہی اس کے اوقات، اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ  کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب، یہی اس کی شرحیں،  اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں۔ لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے۔

۲)حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَہُ وَالدَّ مُ وَ لَحْمُ الخِنْزِیْرِ وَمَآاھُلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ …….. الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ …….. (المائدہ۔ ۳) ’’ تمہارے لیے حرام کیا گیا مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا،  اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو، نیز یہ بھی تمہارے لیے حرام کیا گیا کہ تم پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب کام فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین تمہارے لیے مکمل کر دیا ……………..‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب حکام شریعت بھی دین ہی ہیں۔

۳) اَتِلُو االَّذِیْنَ لَا یُؤْ مِنُوْنَ بِا للہِ وَلْیَوْمِ الْاٰ خِرِ وَلَا یُحَرِّ مُوْنَ مَا حَرَّ مَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ (التوبہ۔ ۲۹)۔ ’’ جنگ کرو ان لوگوں سے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ‘‘۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور ان کی پابندی کرنا بھی دین ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے دیے ہیں۔

۴) اَلزَّانِیَۃُوَ الزَّ انِیْ فَا جْلِدُوْ اکُلَّوَحِدٍمِّنْھُمَا مِا ئَۃَ جَلْدَۃٍ وَّ لَا تَأ خُذْ کُمْ بھِمَا رَأ فَۃٌ فِیْ دِ یْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِا للہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰخِرِ (النّور ۲۰)’’ زانیہ عورت اور مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ اور راز آخر پر ایمان رکھتے ہو‘‘ مَا کَا نَ لِیَأ خُذَ اَخَا ہُ فَیْ دِیْنِ الْمَلِکِ (یوسف۔ ۷۶) یوسفؑ اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو۔

یہ چار  تو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی دھمکی دی ہے (مثلاً زنا، سود خواری،  قتل مومن،  یتیم کا مال کھانا،  باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا،  وغیرہ)، اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے (مثلاً عمل قوم لوط،  اور لین دین میں قوم شعیبؑ کا رویہ) ان کا سد باب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہیے،  اس لیے کہ دین اگر جہنم اور عذاب الہٰی سے بچانے کے لیے نہیں آیا ہے تو اور کس چیز کے لیے آیا ہے؟ اسی طرح وہ احکام شریعت بھی دین ہی کا حصہ ہونے چاہییں جن کی خلاف ورزی کو خلود جی النار کا موجب قرار دیا گیا ہے،  مثلاً میراث کے احکام، جن کو بیان کرنے کے  بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْ لَہٗ  وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ  یُدْ خِلْہُنَا راً اخَا لِداً ا فِیْھَا  وَلَہٗ  عَذَابٌ مّھُیْنٌ  (النساء۔ ۱۴) ’’ جو اللہ اور اسے کے رسول کی نافرمانی اور اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا، اللہ اس کو دوزخ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے ‘‘۔ اسی جن چیزوں کی حرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے،  مثلاً ماں بہن اور بیٹی کی حرمت، شراب کی حرمت،  شراب کی حرمت،  چوری کی حرمت، جوئے کی حرمت،  جھوٹی شہادت کی حرمت، ان کی تحریم کو اگر اقامت دین میں شامل نہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیر ضروری احکام بھی دے دیے ہیں جن کا اجراء مقصود نہیں ہے۔ علیٰ ہٰذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے،  مثلاً روزہ اور حج،  ان کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامت دین سے خارج نہیں کیا جا سکتا کہ رمضان کے ۳۰ روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے،  اور کعبے کا حج تو صرف اس شریعت میں تھا جو اولاد ابراہیمؑ کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی۔

دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ آیت : لَکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمُ شِرْ عَۃً وَّ مِنْھَا جاً (ہم نے تم میں سے ہر امت کے لی ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کر دی) کا الٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیے گئے ہیں کہ شریعت چونکہ ہر امت کے لیے الگ تھی، اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاء کے درمیان مشترک تھا، اس لیے اقامت دین کے حکم میں اقامت شریعت شامل نہیں ہے۔ حالانکہ در حقیقت اس آیت کا مطلب اس دے بالکل بر عکس ہے۔ سورہ مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق و سباق کو آیت ۴۱ سے آیت ۵۰ تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہو گا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبی کی امت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی وہ اس امت کے لیے دین تھی اور اس کے دور نبوت میں اسی اقامت مطلوب تھی۔ اور اب چونکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا دور نبوت ہے۔ اس لیے امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ رہا ان شریعتوں کا اختلاف،  تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں،  بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھیے۔ نماز تمام شریعتوں میں فرض رہی ہے،  مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا، اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزاء میں بھی فرق تھا۔ اسی طرح روزہ ہر شریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے ۳۰ روزے دوسری شریعتوں میں  نہ تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ تو اقامت دین میں شامل ہے،  مگر ایک خاص طریقت سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے۔ بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر نبی کی امت کے لیے اس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لیے جو قاعدے مقرر کیے گئے تھے انہی کے مطابق اس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا، اور اب اقامت دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لیے شریعت محمدیہ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انہیں ادا کیا جائے۔ انہی دو مثالوں پر دوسرے تمام احکام شریعت کو بھی قیاس کر لیجیے۔

قرآن مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفر اور کفار کی رعیت فرض کر کے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے،  بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے،  اپنے پیروؤں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دین حق کو فکری، اخلاقی،  تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دین، اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جا سکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّآ اَنْزَلْنا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِا لْحقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّا سِ بِمَآ اَرٰ کَ اللہُ (النساء۔ ۱۰۵)۔ ’’اے نبی، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اس روشنی میں جو اللہ نے تمہیں دکھائی ہے ‘‘۔ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیے گیے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کر کے مستحقین تک  پہنچانے کا ذمہ لے (التوبہ۔ ۶۰۔ ۱۰۳) اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سود خواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلان جنگ کیا گیا ہے (البقرہ ۲۷۵۔ ۲۷۹) وہ اسی صورت میں رو بہ عمل آ سکتا ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہل ایمان کے ہاتھ ہیں ہو۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم (البقرہ۔ ۱۷۸) چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (المائدہ۔ ۳۸) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (النور۔ ۲۔ ۴) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہو گا۔ اس کتاب میں کفار سے قتال کا حکم (لبقرہ۔ ۱۹۰۔ ۲۱۶) یہ سمجھتے ہوئے نہیں دیا گیا کہ اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں چوج بھرتی کر کے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ اس کتاب میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حم (التوبہ ۲۹) اور مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے ان سے جزیہ وصول کریں گے اور ان کی حفاظت کا ذمہ لیں گے۔ اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ مکی صورتوں میں بھی دیدہ بینا کو علانیہ یہ نظر آ سکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہل دین کے ذمی بن کر رہنے کا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم ص ۶۳۳۔ ۶۳۷۔ ۶۳۸۔ جلد سوم،  ص ۶۶۵ تا ۶۶۷۔ ۷۳۰ تا ۷۳۲۔ جلد چہارم،  الصافّات،  آیات ۱۷۱ تا ۱۷۹ (حواشی ۹۳۔ ۹۴) صٓ،  دیباچہ اور آیت ۱۱ مع حاشیہ ۱۲۔

سب سے بڑھ کر جس چیز سے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ عظیم الشان کام ہے جو حضورؐ ۲۳ سال کے زمانہ رسالت میں انجام دیا۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کر دیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار، اجتماعی اخلاق، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی۔ اگر حضورؐ کے اس پورے کام کو ’’اقامت دین ‘‘ کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جائے جو اس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپ کو دیا گیا تھا، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں۔ یا تو معاذاللہ حضورؐ پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ آپ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوئے تھے،  مگر آپؐ نے اس سے تجاوز کر کے بطور خود ایک حکومت قائم کر دی اور ایک مفصل قانون بنا ڈالا جو شرائع انبیاء کی قدر مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی۔ یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جائے کہ وہ سورہ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کر چکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہو گیا اور اس نے اپنے آخری نبی سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورۃ کی اعلان کردہ ’’ اقامت دین ‘‘ سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا،  بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان بھی کر دیا کہ  اَلْیَوْمَ اَکَمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا )، اعاذنااللہ من ذالک۔ ان دو صورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے ’’ اقامت دین ‘‘ کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسول پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہوتا ہو تو ہم ضرور  اسے معلوم کرنا چاہیں گے۔

اقامت دین کا حکم دینے کے بعد، آخری بات جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ : لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ۔ ’’ دین میں تفرقہ نہ برپا کرو ‘‘،  یا ’’ اس کے اندر متفرق نہ ہو جاؤ ‘‘۔ دین میں تفرقہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی دین کے اندر اپنی طرف سے کوئی نرالی بات ایسی نکالے جس کے کوئی معقول گنجائش اس میں نہ ہو اور اصرار کرے کہ اس کی نکالی ہوئی بات کے ماننے ہی پر کفر و ایمان مدار ہے،  پھر جو ماننے والے ہوں انہیں لے کر نہ ماننے والوں سے جدا ہو جائے۔ یہ نرالی بات کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔ وہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو چیز نہ تھی وہ اس میں لا کر شامل کر دی جائے۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو بات شامل تھی اسے نکال باہر کیا جائے۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی نصوص میں تحریف کی حد تک پہنچی ہوئی تاویلات کر کے نرالے عقائد اور انوکھے اعمال ایجاد کیے جائیں۔ اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی باتوں میں رد و بدل ک کے  اس کا حلیہ بگاڑا جائے،  مثلاً جو چیز اہم تھی اسے غیر اہم بنا دیا جائے اور جو چیز حد سے  حد مباح کے درجے میں تھی اسے فرض و واجب بلکہ اس سے بھی بڑھا کر اسلام کا رکن رکین بنا ڈالا جائے۔ اسی طرح کی حرکتوں سے انبیاء علیہم السلام کی امتوں میں پہلے تفرقہ برپا ہوا، پھر رفتہ رفتہ ان فرقوں کے مذاہب بالکل الگ مستقل ادیان بن گئے جن کے ماننے والوں میں اب یہ تصور تک باقی نہیں رہا ہے کہ کبھی ان سب کی اصل ایک تھی۔ اس تفرقے کا اس جائز اور معقول اختلاف رائے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو دین کے احکام کو سمجھنے اور نصوص پر غور کر کے ان سے مسائل مستنبط کرنے میں فطری طور پر اہل علم کے درمیان واقع  ہوتا ہے اور جس کے لیے خود کتاب اللہ کے الفاظ میں لغت اور محاورے اور قواعد زبان کے لحاظ سے گنجائش ہوتی ہے۔ ( اس موضوع پر مزید تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول،  ص ۱۶۲۔ ۱۶۳۔ ۲۳۹۔ ۲۴۰۔ ۲۵۴۔ ۴۲۷ تا ۴۲۹۔ ۴۹۱ تا ۴۹۶۔ ۶۰۴۔ جلد دوم،  ص ۵۷۸ تا ۵۸۱۔ جلد سوم،  ص ۱۸۴ تا ۱۸۶۔ ۲۴۹۔ ۲۸۱ تا ۲۸۳۔ ۶۴۵ تا ۶۴۹۔ ۷۵۴ تا ۷۵۶)۔

۲۱۔ یہاں پھر وہی بات دہرائی گئی ہے جو اس سے پہلے آیت ۸۔ ۹ میں ارشاد ہو چکی ہے اور جس کی تشریح ہم حاشیہ نمبر ۱۱ میں کر چکے ہیں۔ اس جگہ یہ بات ارشاد فرمانے کا مدعا یہ ہے کہ تم ان لوگوں کے سامنے دین کی صاف شاہراہ پیش کر رہے ہو اور یہ نادان اس نعمت کی قدر کرنے کے بجائے الٹے اس پر بگڑ رہے ہیں۔ مگر انہی کے درمیان انہی کی قوم میں وہ لوگ موجود ہیں جو اللہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور اللہ بھی انہیں کھینچ کھچینچ کر اپنی طرف لا رہا ہے۔ اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ کوئی اس نعمت  کو پائے اور کوئی اس پر خار کھائے۔ مگر اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے۔ وہ اسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے جو اس کی طرف بڑھے۔ دور بھاگنے والوں کے پیچھے دوڑنا اللہ کا کام نہیں ہے۔

۲۲۔ یعنی تفرقے کا سبب یہ نہ تھا  کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء  نہیں بھیجے تھے اور کتابیں نازل نہیں کی تھیں اس وجہ سے لوگ راہ راست نہ جاننے کے باعث اپنے اپنے الگ مذاہب اور مدارس فکر اور نظام زندگی خود ایجاد کر بیٹھے،  بلکہ یہ تفرہ ان میں اللی کی طرف سے علم آ جانے کے بعد رونما ہوا۔ اس لیے اللہ اس کے ذمہ دار نہیں      ہے بلکہ وہ لوگ خود اس کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے دین کے صاف صاف اصول اور شریعت کے واضح احکام سے ہٹ کر نئے نئے مذاہب و مسالک بنائے۔

۲۳۔ یعنی اس تفرقہ پروازی کا محرک کوئی نیک جذبہ نہیں تھا، بلکہ یہ اپنی نرالی اپج دکھانے کی خواہش، اپنا الگ جھنڈا بلند کرنے کی فکر، آپس کی ضدم ضدا، ایک دوسرے کو زک دینے کی کوشش، اور مال و جاہ کی طلب کا نتیجہ تھی۔ ہوشیار اور حوصلہ مند لوگوں نے دیکھا کہ بندگان خدا اگر سیدھے سیدھے خدا کے دین پر چلتے رہیں تو بس ایک خدا ہو گا جس کے آگے لوگ جھکیں گے۔ ایک رسول ہو گا جس کو لوگ پیشوا اور رہنما مانیں گے،  ایک کتاب ہو گی جس کی طرف لوگ رجوع کریں گے،  اور ایک صاف عقیدہ اور بے لاگ ضابطہ ہو گا جس کی پیروی وہ کرتے رہیں گے۔ اس نظام میں ان کی اپنی ذات کے لیے کوئی مقام امتیاز نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے ان کی مشیخت چلے،  اور لوگ ان کے گرد جمع ہوں،  اور ان کے آگے اور بھی جھکائیں اور جیبیں بھی خالی کریں۔ یہی وہ اصل سبب تھا جو نئے نئے عقائد اور فلسفے،  نئے نئے طرز عبادت اور مذہبی مراسم اور نئے نئے  نظام حیات ایجاد کرنے کا محرک بنا اور اسی نے خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو دین کی صاف شاہ راہ سے ہٹا کر مختلف راہوں میں پراگندہ کر دیا۔ پھر یہ پراگندگی ان گروہوں کی باہمی بحث و جدال اور مذہبی و معاشی اور سیاسی کشمکش کی بدولت شدید تلخیوں میں تبدیل ہوتی چلی گئی،  یہاں تک کہ نوبت ان خونریزیوں تک پہنچی جن کے چھینٹوں سے تاریخ سرخ ہو رہی ہے۔

۲۴۔ یعنی دنیا ہی میں عذاب دے کر ان سب لوگوں کا خاتمہ کر دیا جاتا جو گمراہیاں نکالنے اور جان بوجھ کر ان کی پیروی کرنے کے مجرم تھے،  اور صرف راہ راست پر چلنے والے باقی رکھے جاتے،  جس سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ خدا کے نزدیک حق پر کون ہیں اور باطل پر کون۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دو ٹوک فیصلہ قیامت تک کے لیے ملتوی کر رکھا ہے،  کیونکہ دنیا میں یہ فیصلہ کر دینے کے بعد بنی نوع انسان کی آزمائش بے معنی ہو جاتی ہے۔

۲۵۔ مطلب یہ ہے کہ ہر نبی اور اس کے قریبی تابعین کا دور گزر جانے کے بعد جب پچھلی نسلوں تک کتاب اللہ پہنچی تو انہوں نے اسے یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں لیا بلکہ وہ اس کے متعلق سخت شکوک اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہو گئیں۔  اس حالت میں ان کے مبتلا ہو جانے کے بہت سے وجوہ تھے جنہیں ہم اس صورت حال کا مطالعہ کر کے بآسانی سمجھ سکتے ہیں جو تورات و انجیل کے معاملہ میں پیش آئی ہے۔ ان دونوں کتابوں کو اگلی نسلوں نے ان کی اصلی حالت پر ان کی اصل عبارت اور زبان میں محفوظ رکھ کر پچھلی نسلوں تک نہیں پہنچایا۔ ان میں خدا کے کلام کے ساتھ تفسیر و تاریخ اور سماعی روایات اور فقہاء کے نکالے ہوئے جزئیات کی صورت میں انسانی کلام گڈ مڈ کر دیا۔ ان کے ترجموں کو اتنا رواج دیا کہ اصل غائب ہو گئی اور صرف ترجمے باقی رہ گئے۔ ان کی تاریخی سند بھی اس طرح ضائع کر دی کہ اب کوئی شخص بھی پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ جو کتاب اس کے ہاتھ ہیں ہے وہ وہی ہے جو حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ کے ذریعہ سے دنیا والوں کو ملی تھی۔ پھر ان کے اکابر نے وقتاً فوقتاً مذہب، الہٰیات، فلسفہ، قانون،  طبعیات،  نفسیات اور اجتماعیات کی ایسی بحثیں چھیڑیں اور ایسے نظام فکر بنا ڈالے جن کی بھول بھلیوں میں پھنس کر لوگوں کے لیے یہ طے کرنا محال ہو گیا کہ ان پیچیدہ راستوں کے درمیان حق کی سیدھی شاہراہ کونسی ہے۔ اور چونکہ کتاب اللہ اپنی اصل حالت اور قابل اعتماد صورت میں موجود نہ تھی، اس لیے لوگ کسی ایسی سند کی طرف رجوع بھی نہ کر سکتے تھے جو حق کو باطل سے تمیز کرنے میں مدد کرتی۔

۲۶۔ یعنی ان کو راضی کرنے کے لیے اس دین کے اندر کوئی رد و بدل اور کمی بیشی نہ کرو۔ ’’ کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول پر ان گمراہ لوگوں سے کوئی مصالحت نہ کرو۔ ان کے اوہام اور تعصبات اور جاہلانہ طور طریقوں کے لیے دین میں کوئی گنجائش محض اس لالچ میں آ کر نہ نکالو کہ کسی نہ کسی طرح یہ دائرہ اسلام میں آ جائیں۔ جس کو ماننا ہے،  خدا کے اصلی اور خالص دین کو، جیسا کہ اس نے بھیجا ہے،  سیدھی طرح مان لے،  ورنہ جس جہنم میں جا کر گرنا چاہے گر جائے۔ خدا کا دین لوگوں کی خاطر نہیں بدلا جا سکتا۔ لوگ اگر اپنی فلاح چاہتے ہیں تو خود اپنے آپ کو بدل کر اس کے مطابق بنائیں۔

۲۷۔ بالفاظ دیگر، میں ان تفرقہ پرواز لوگوں کی طرح نہیں ہوں جو خدا کی بھیجی ہوئی بعض کتابوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے۔ میں ہر اس کتاب کو مانتا ہوں جسے خدا نے بھیجا ہے۔

۲۸۔ اس جامع فقرے کے کئی مطلب ہیں :

ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب بروں۔ میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے،  اور وہ ہے سراسر عدل و انصاف کا تعلق۔ جس کی جو بات حق ہے،  میں اس کا ساتھی ہوں،  خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں،  خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمہارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے،  بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے اور غیر،  بڑے اور چھوٹے،  غریب اور امیر،  شریف اور کمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں،  بلکہ جو کچھ ہے  وہ سب کے لیے حق ہے،  جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے،  جو حرام ہے  وہ سب کے لیے حرام ہے،  اور جو جرم ہے وہ سب کے لیے جرم ہے۔ اس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی ذات کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں۔

تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف کروں،  اور ان نے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کر دوں جو تمہاری زندگیوں میں اور تمہارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔

ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا،  اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں، تمہارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے۔

۲۹۔ یعنی ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کا خود ذمہ دار و جوابدہ ہے۔ تم اگر نیکی کرو گے تو  اس کا پھل ہمیں نہیں پہنچ جائے گا، بلکہ تم ہی اس سے متمتّع ہو گے۔ اور ہم اگر برائی کریں گے تو اس کی پاداش میں تم نہیں پکڑے جاؤ گے،  بلکہ ہمیں خود ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات سورہ بقرہ،  آیت ۱۳۹، سورہ یونس، آیت ۴۱،  سورہ ہود، آیت ۳۵، اور سورہ قصص،  آیت ۵۵ میں اس سے پہلے ارشاد ہو چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول،  ص ۱۱۷، جلد دوم،  ص ۲۸۷۔ ۳۳۷۔ جلد سوم،  ص ۶۴۹۔ ۶۵۰)

۳۰۔ یعنی معقول دلائل سے بات سمجھانے کا جو حق  تھا وہ ہم نے ادا کر دیا اب خواہ مخواہ تو تو میں میں کرنے سے کیا حاصل۔ تم اگر جھگڑا کرو بھی تو ہم تم سے جھگڑنے  کے لیے تیار نہیں ہیں۔

۳۱۔ یہ اشارہ ہے اس صورت حال کی طرف جو مکے میں اس وقت آئے دن پیش آ رہی تھی۔ جہاں کسی کے متعلق لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے،  ہاتھ دھو کر اس کے  پیچھے پڑ جاتے،  مدتوں اس کی جان ضیق میں کیے رکھتے،  نہ گھر میں اسے چین لینے دیا جاتا نہ محلے اور برادری میں،  جہاں بھی وہ جاتا یک نہ ختم ہونے والی بحث چھڑ جاتی جس کا مدعا یہ ہوتا کہ کسی طرح وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ چھوڑ کر اسی جاہلیت میں پلٹ آئے جس سے وہ نکلا ہے۔

۳۲۔ میزان سے مراد اللہ کی شریعت ہے جو ترازو کی طرح تول کر صحیح اور غلط،  حق اور باطل،  ظلم اور عدل، راستی اور نا راستی کا فرق واضح کر دیتی ہے۔ اوپر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے یہ کہلوایا گیا تھا کہ : اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں )۔ یہاں بتا دیا گیا کہ اس کتاب پاک کے ساتھ وہ میزان آ گئی ہے جس کے ذریعہ سے یہ انصاف قائم کیا جائے گا۔

۳۳۔ یعنی جس کو سیدھا ہونا ہے بلا تا خیر سیدھا ہو جائے۔ فیصلے کی گھڑی کو دور سمجھ کر ٹالنا نہیں چاہیے۔ ایک سانس کے متعلق بھی آدمی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے بعد دورے سانس کی اسے مہلت ضرور ہی مل جائے گی۔ ہر سانس آخری سانس ہو سکتا ہے۔

۳۴۔ اصل میں لفظ لَطِیْفٌ  استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم ’’ مہربان ‘‘ سے ادا نہیں ہوتا۔ اس لفظ میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر بڑی شفقت و عنایت رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑی باریک بینی کے ساتھ ان کی دقیق ترین ضروریات پر بھی نگاہ رکھتا ہے جن تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی، اور انہیں اس طرح پورا کرتا ہے کہ وہ خود بھی محسوس نہیں کرتے کہ ہماری کونسی ضرورت کب کس نے پوری کر دی۔ پھر یہاں بندوں سے مراد محض اہل ایمان نہیں،  بلکہ تمام بندے ہیں،  یعنی اللہ کا یہ لطف اس کے سب بدوں پر عام ہے۔

۳۵۔ مطلب یہ ہے کہ اس لطیف عام کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ سب بندوں کو سب کچھ یکساں دے دیا جائے۔  اگر چہ وہ اپنے خزانوں سے دے سب ہی کو رہا ہے،  مگر اس عطا اور دین میں یکسانیت نہیں ہے۔ کسی کو کوئی چیز دی ہے تو کسی دوسرے کو  کوئی اور چیز۔ کسی ایک چیز زیادہ دی ہے تو کسی اور کو کوئی دوسری چیز فراوانی کے ساتھ عطا فرما دی ہے۔

۳۶۔ یعنی اس کی عطا و بخشش کا یہ نظام اس کے اپنے زور پر قائم ہے۔ کسی  کا یہ بل بوتا نہیں ہے کہ اسے بدل سکے،  یا زبردستی اس سے کچھ لے سکے،  یا کسی کو دینے سے اس کو روک سکے۔

 

ترجمہ

 

جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں،  اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے (۳۷)۔

کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریکِ خدا رکھتے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اِذن نہیں دیا؟(۳۸)اگر فیصلے کی بات پہلے طے نہ ہو گئی ہوتے تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا(۳۹)۔ یقیناً ان ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ تم دیکو گے کہ یہ ظالم اس وقت اپنے کیے کے انجام سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ ان پر آ کر رہے گا۔ بخلاف اس کے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ جنت کے گلستانوں میں ہو گے،  جو کچھ بھی وہ چاہیں گے اپنے رب کے ہاں پائیں گے،  یہی بڑا فضل ہے۔ یہ ہے وہ چیز جس کی خوش خبری اللہ اپنے بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے مان لیا اور نیک عمل کیے۔ اے نبیؐ، ان لوگوں سے کہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں (۴۰)، البتہ قرابت کی محبت ضرور چاہتا ہوں (۴۱)۔ جو کوئی بھلائی کمائے گا ہم اس کے لیے اس بھلائی میں خوبی کا اضافہ کر دیں گے۔ بے شک اللہ بڑا در گزر کرنے والا قدر دان ہے۔ (۴۲)۔

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اللہ پر جھوٹا بہتان گھڑ لیا ہے؟(۴۳) اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر مہر کر دے (۴۴)۔ وہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے فرمانوں سے حق کر دکھاتا ہے (۴۵) وہ سینوں کے چھپے ہوئے راز جانتا ہے۔ (۴۶) وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں سے درگزر کرتا ہے،  حالاں کہ تم لوگوں کے سب افعال کا اُ سے علم ہے (۴۷)۔ وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتا ہے۔ رہے انکار کرنے والے،  تو ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔

اگر اللہ اپنے بندوں کو کھُلا رزق دے  دیتا تو وہ زمین میں سرکشی کا طوفان برپا کر دیتے،  مگر وہ ایک حساب سے جتنا چاہتا ہے نازل کرتا ہے،  یقیناً وہ اپنے بندوں سے با خبر ہے اور ان پر نگاہ رکھتا ہے (۴۸)۔ وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے،  اور وہی قابل تعریف ولی ہے (۴۹) اس کی نشانیوں میں سے ہے یہ زمین اور آسمانوں کی پیدائش،  اور یہ جاندار مخلوقات جو اس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں (۵۰)۔ وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کر سکتا ہے (۵۱)۔ ع

 

تفسیر

 

۳۷۔ گزشتہ آیت میں دو حقیقتیں بیان کی گئی تھیں جن کا مشاہدہ ہم ہر وقت ہر طرف کر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ تمام بندوں پر اللہ کا لطف عام ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی عطا و بخشش اور رزق رسانی سب کے لیے یکساں نہیں ہے بلکہ اس میں فرق و تفاوُت پایا جاتا ہے۔ اب اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ اس لطف اور رزق رسانی میں جزوع تفاوُت تو بے شمار ہیں مگر ایک بہت بڑا اصولی تفاوت بھی ہے،  اور وہ یہ ہے کہ آخرت کے طالب کے لیے ایک طرح کا رزق ہے اور دنیا کے طالب کے لیے دوسری طرح کا رزق۔

یہ ایک بڑی اہم حقیقت ہے جسے ان مختصر الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اسے پوری تفصیل کے ساتھ سمجھ لیا جائے، کیونکہ یہ ہر انسان کو اپنا رویہ متعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔

آخرت اور دنیا، دونوں کے لیے سعی و عمل کرنے والوں کو اس آیت میں کسان سے تشبیہ دی گئی ہے جو زمین تیار کرنے سے لے کر فصل کے تیار ہونے تک مسلسل عرق ریزی اور جاں فشانی کرتا ہے اور یہ ساری محنتیں اس غرض کے لیے کرتا ہے کہ اپنی کھیتی میں جو بیج وہ بو رہا ہے اس کی فصل کاٹے اور اس کے پھل سے متمتع ہو۔ لیکن بیت اور مقصد کے فرق، اور بہت بڑی حد تک طرز عمل کے فرق سے بھی،  آخرت کی کھیتی بونے والے کسان اور دنیا کی کھیتی بونے والے کسان کے درمیان فرق عظیم واقع ہو جاتا ہے،  اس لیے دونوں کی محنتوں کے نتائج و ثمرات بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف رکھے ہیں،  حالانکہ دونوں کے کام کرنے کی جگہ یہی زمین ہے۔

آخرت کی کھیتی بونے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دنیا اسے نہیں ملے گی۔ دنیا تو کم یا زیادہ بہر حال اس کو ملنی ہی ہے،  کیونکہ یہاں اللہ جل شانہٗ کے لطف عام میں اس کا بھی حصہ ہے اور رزق نیک و بد سبھی کو یہاں مل رہا ہے۔ لیکن اللہ نے اسے خوش خبری دنیا ملنے کی نہیں بلکہ اس بات کی سنائی ہے کہ اس کی آخرت کی کھیتی بڑھائی جائے گی، کیونکہ اسی کا وہ طالب ہے اور اسی کے انجام کی اسے فکر لاحق ہے۔ اس کھیتی کے بڑھائے جانے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ مثلاً جس قدر زیادہ نیک نیتی کے ساتھ وہ آخرت کے لیے عمل صالح کرتا جائے گا اسے اور زیادہ نیک عمل کی توفیق عطا کی جائے گی اور اس کا سینہ نیکیوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ پاک مقصد کے لیے پاک ذرائع اختیار کرنے کا جب وہ تہیہ کر لے گا تو اس کے لیے پاک ہی ذرائع میں برکت دی جائے گی اور اللہ اس کی نوبت نہ آنے دے گا کہ اس کے لیے خیر کے سارے دروازے بند ہو کر صرف شر ہی کے دروازے کھلے رہ جائیں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ دنیا میں اس کی تھوڑی نیکی بھی آخرت میں کم از کم دس گنی تو بڑھائی ہی جائے گی،  اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے،  ہزاروں لاکھوں گنی بھی اللہ جس کے لیے چاہے گا بڑھا دے گا۔

رہا دنیا کی کھیتی بونے والا، یعنی وہ شخص جو آخرت نہیں چاہتا اور سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتا ہے،  اسے اللہ تعالیٰ نے اس کی محنت کے دو نتائج صاف صاف سنا دیے ہیں۔ ایک یہ کہ خواہ وہ کتنا ہی سر مارے،  جس قدر دنیا وہ حاصل کرنا چاہتا ہے  وہ پوری کی پوری اسے نہیں مل جائے گی، بلکہ اس کا ایک حصہ ہی ملے گا، جتنا اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے جو کچھ ملنا ہے بس دنیا ہی میں مل جائے گا، آخرت کی بھلائیوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

۳۸۔ اس آیت میں  شُرَکَا ء سے مراد،  ظاہر بات ہے کہ وہ شریک نہیں ہیں جن سے لوگ دعائیں مانگتے ہیں،  یا جن کی نذر و نیا ز  چڑھاتے ہیں،  یا جن کے آگ پوجا پاٹ کے مراسم ادا کرنے ہیں۔ بلکہ لامحالہ ان سے مراد وہ انسان ہیں جن کو لوگوں نے شریک  فی الحکم ٹھیرا لیا ہے،  جن کے  سکھائے ہوئے افکار و عقائد اور نظریات اور ان فلسفوں پر لوگ ایمان لاتے ہیں،  جن کی دی ہوئی  قدروں کو مانتے ہیں،  جن کے پیش کیے ہوئے اخلاقی اصولوں اور تہذیب و ثقافت کے معیاروں کو قبول کرتے ہیں،  جن کے مقرر کیے ہوئے قوانین اور طریقوں اور ضابطوں کو اپنے مذہبی مراسم اور عبادات میں،  اپنی شخصی زندگی میں،  اپنی معاشرت میں،  اپنے تمدن میں،  اپنے کاروبار اور لین دین میں،  اپنی عدالتوں میں،  اور اپنی سیاست اور حکومت میں،  اس طرح اختیار کرتے ہیں کہ گویا یہی وہ شریعت ہے جس کی پیروی ان کو کرنی چاہیے۔ یہ ایک پورا کا پورا دین ہے جو اللہ رب العالمیں کی تشریع کے خلاف، اور اس کے اذن (Sanction) کے بغیر ایجاد کرنے والوں نے ایجاد کیا اور ماننے والوں نے مان لیا۔ اور یہ ویسا ہی شرک ہے جیسا غیر اللہ کو سجدہ کرنا اور غیر اللہ سے دعائیں مانگنا شرک ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۱۳۴۔ ۱۹۶۔ ۲۶۲۔ ۳۶۶۔ ۳۶۷۔ ۴۳۷۔ ۴۳۸۔ ۴۹۸۔ ۴۹۹۔ ۵۷۷۔ ۵۷۸۔ ۵۸۵۔ ۵۸۶۔ جلد دوم، ص ۱۸۹۔ ۱۹۰۔ ۲۹۲ تا ۲۹۴۔ ۴۸۲۔ ۴۸۳۔ ۵۷۷۔ ۵۷۸۔ جلد سوم، ص ۳۱۔ ۶۹۔ ۶۵۶۔ جلد چہارم،  سبا،  آیت ۴۱، حاشیہ ۶۳۔ یٰسٓ، آیت ۶۰ حاشیہ ۵۳)۔

۳۹۔ یعنی اللہ کے مقابلہ میں یہ ایسی سخت جسارت ہے کہ اگر فیصلہ قیامت پر نہ اٹھا رکھا گیا ہوتا تو دنیا ہی میں ہر اس شخص پر عذاب نازل کر دیا جاتا جس نے اللہ کا بندہ ہوتے ہوئے، اللہ کی زمین پر خود اپنا دین جاری کیا، اور وہ سب لوگ بھی تباہ کر دیے جاتے جنہوں نے اللہ کے دین کو چھوڑ کر دوسروں کے بنائے ہوئے دین کو قبول کیا۔

۴۰۔ ’’ اس کام‘‘ سے مراد وہ کوشش ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو خدا کے عذاب سے بچانے اور جنت کی بشارت کا مستحق بنانے کے لیے کر رہے تھے۔

۴۱۔ اصل الفاظ ہیں :  اِلَّا  الْمَوَدَّ ۃَ فِی الْقُرْبٰی۔ یعنی میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر ’’قربٰی ‘‘ کی محبت ضرور چاہتا ہوں۔ اس لفظ ’’قربٰی‘‘ کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے۔

ایک گروہ نے اس کو قرابت (رشتہ داری) کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا،  مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم لوگ (یعنی اہل قریش) کم از کم اس رشتہ داری کا تو لحاظ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے۔ لیکن اگر تم نہیں مانتے تو یہ ستم تو نہ کرو کہ سارے عرب میں سب سے بڑھ کر تم ہی میری دشمنی پر تُل گئے ہو‘‘۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر ہے جسے بکثرت راویوں کے حوالہ سے امام احمد، بخاری،  مسلم،  ترمذی، ابن جریر، طبرانی، بیہقی،  اور ابن سعد و غیر ہم نے نقل کیا ہے،  اور یہی تفسیر مجاہد، عکرمہ،  قتادہ، سدی، ابو مالک، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم،  ضحاک، عطاء بن دینار اور دوسرے اکابر مفسرین نے بھی بیان کی ہے۔

دوسرا گروہ’’ قربٰی ‘‘ کو قرب اور تقرب کے معنی میں لیتا ہے،  اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی چاہت پیدا ہو جائے‘‘ یعنی تم ٹھیک ہو جاؤ، بس یہی میرا اجر ہے۔ یہ تفسیر حضرت حسن بصری سے منقول ہے،  اور ایک قول قتادہ سے بھی اس کی تائید میں نقل ہوا ہے بلکہ طبرانی کی ایک روایت میں اب عباس کی طرف بھی یہ قول منسوب کیا گیا ہے۔ خود قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر یہی مضمون ان الفاظ  میں ارشاد ہوا ہے : قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآ ءَ اَنْ یَّتََّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلاً (الفرقان۔ ۵۷)۔ ’’ ان سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا،  میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔ ‘‘

تیسرا گروہ ’’ قربٰی ‘‘ کو اقرب (رشتہ داروں ) کے معنی میں  لیتا ہے،  اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو‘‘۔ پھر اس گروہ کے بعض حضرات اقارب سے تمام بنی عبدالمطلب مراد لیتے ہیں،  اور بعض اسے صرف حضرت علی و فاطمہ اور ان کی اولاد تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ تفسیر سعید بن جُبیر اور عمرو بن شعیب سے منقول ہے،  اور بعض روایات میں یہی تفسیر ابن عباس اور حضرت علی بن حسین (زین العابدین) کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ لیکن متعدد وجوہ سے یہ تفسیر کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اول تو جس وقت مکہ معظمہ میں سورہ شوریٰ نازل ہوئی ہے اس وقت حضرت علی و فاطمہ کی شادی تک نہیں ہوئی تھی، اولاد کا کیا سوال۔ اور بنی عبدالمطلب میں سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ نہیں دے رہے تھے،  بلکہ ان میں سے بعض کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھی تھے۔ اور ابو لہب کی عداوت کو تو ساری دنیا جانتی ہے۔ دوسرے،  نبی صلی کے رشتہ دار صرف بنی عبدالمطلب ہی نہ تھ۔   آپ کی والدہ ماجدہ،  آپ کے والد ماجد اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کے واسطے سے قریش کے تمام گھرانوں میں آپ کی رشتہ داریاں تھیں اور ان سب گھرانوں میں  آپؐ کے بہترین صحابی بھی تھے اور بدترین دشمن بھی۔ آخر حضور کے لیے یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان سب اقرباء میں سے آپ صرف بنی عبد المطلب کو اپنا رشتہ دار قرار دے کر اس مطالبہ محبت کو انہی کے لیے مخصوص رکھتے۔ تیسری بات،  جو ان سب سے زیادہ اہم ہے،  وہ یہ ہے کہ ایک نبی جس بلند مقام پر کھڑا ہو کر دعوت اِلی اللہ کی پکار بلند کرتا ہے،  اس مقام سے اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو،  اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اللہ نے نبی کو یہ بات سکھائی ہو گی اور نبی نے قریش کے لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی ہو گی۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے جو قصے آئے ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اٹھ کر اپنی قوم سے کہتا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا،  میرا اجر تو اللہ رب العالمیں کے ذمہ ہے۔ (یونس ۷۲۔ ہود ۲۹۔ ۵۱۔ الشعراء ۱۰۹۔ ۱۲۷۔ ۱۴۵۔ ۱۶۴۔ ۱۸۰)۔ سورہ یٰسٓ میں نبی کی صداقت جانچنے کا معیار یہ بتایا  گیا ہے کہ وہ اپنی دعوت میں بے غرض ہوتا ہے (آیت ۲۱)۔ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے قرآن پاک میں بار بار یہ کہلوایا گیا ہے کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہو(الانعام ۹۰۔ یوسف ۱۰۴۔ المؤمنون ۷۲۔ الفرقان ۵۷۔ سبا ۴۷۔ ص ۸۲۔ الطور ۴۰۔ القلم ۴۶)۔ اس کے بعد یہ کہنے کا آخر کیا موقع ہے کہ میں اللہ کی طرف بلانے کا جو کام کر رہا ہوں اس کے عوض تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو۔ پھر یہ بات اور بھی زیادہ بے موقع نظر آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تقریر کے مخاطب اہل ایمان نہیں بلکہ کفار ہیں۔ اوپر سے ساری تقریر  ان ہی سے خطاب کرتے ہوئے ہوتی چلی آ رہی ہے،  اور آگے بھی روئے سخن ان ہی کی طرف ہے۔ اس سلسلہ کلام میں مخالفین سے کسی نوعیت کا اجر طلب کرنے کا آخر سوال ہی کہاں  پیدا ہوتا ہے۔ اجر تو ان لوگوں سے مانگا جاتا ہے جن کی نگاہ میں اس کام کی کوئی قدر ہو جو کسی شخص نے ان کے لیے انجام دیا ہو۔ کفار حضورؐ کے اس کام کی کون سی قدر کر رہے تھے کہ آپ ان سے یہ بات فرماتے کہ یہ خدمت جو میں نے تمہاری انجام دی ہے اس پر تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرنا۔ وہ تو الٹا اسے جرم سمجھ رہے تھے اور اس کی بنا پر آپ کی جان کے درپے تھے۔

۴۲۔ یعنی جان بوجھ کر نافرمانی کرنے والے مجرمین کے برعکس،  نیکی کی کوشش کرنے والے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ (۱)جتنی کچھ اپنی طرف سے وہ نیک بننے کی سعی کرتے ہیں،  اللہ ان کو اس سے زیادہ نیک بنا دیتا ہے (۲)ان کے کام میں جو کوتاہیاں رہ جاتی ہیں،  یا نیک عمل کی پونجی وہ لے کر آتے ہیں اللہ اس پر ان کی قدر افزائی کرتا ہے اور انہیں زیادہ اجر عطا فرماتا ہے۔

۴۳۔ اس سوالیہ فقرے میں سخت ملامت کا انداز پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی،  کیا یہ لوگ اس قدر جری اور بے باک ہیں کہ تم جیسے شخص پر افترا، اور وہ بھی افتراء علی اللہ جیسے گھناؤنے فعل کا الزام رکھتے ہوئے انہیں ذرا شرم نہیں آتی؟ یہ تم پر تہمت لگا تے ہیں کہ تم اس قرآن کو خود تصنیف کر کے جھوٹ موٹ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہو؟

۴۴۔ یعنی اتنے بڑے جھوٹ صرف وہی لوگ بولا کرتے ہیں جن کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں بھی ان میں شامل کر دے۔ مگر اس کا یہ فضل ہے کہ اس نے تمہیں اس گروہ سے الگ رکھا ہے۔ اس جواب میں ان لوگوں پر شدید طنز ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ الزام رکھ رہے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی، ان لوگوں نے تمہیں بھی اپنی قماش کا آدمی سمجھ لیا ہے۔ جس طرح یہ خود اپنی اغراض کے لیے ہر بڑے سے بڑا جھوٹ بول جاتے ہیں،  انہوں نے خیال کیا کہ تم بھی اسی طرح اپنی دُکان چمکانے کے لیے ایک جھوٹ گھڑ لائے ہو۔ لیکن یہ اللہ کی عنایت ہے کہ اس نے تمہارے دل پر وہ مہر نہیں لگائی ہے جو ان کے دلوں پر لگا رکھی ہے۔

۴۵۔ یعنی یہ اللہ کی عادت ہے کہ وہ باطل کو کبھی پائیداری نہیں بخشتا اور آخر کار حق کو حق ہی کر کے دکھا دیتا ہے۔ اس لیے اے  نبی، تم ان جھوٹے الزامات کی ذرہ برابر پروا نہ کرو، اور اپنا کام کیے جاؤ۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ سارا جھوٹ غبار کی طرح اڑ جائے گا اور جس چیز کو تم پیش کر رہے ہو اس کا حق ہونا عیاں ہو جائے گا۔

۴۶۔ یعنی اس کو معلوم ہے کہ یہ الزامات تم پر کیوں لگائے جا رہے ہیں اور یہ ساری تگ و دود  جو تمہیں زک دینے کے لیے کی جا رہی ہے اس کے پیچھے در حقیقت کیا اغراض اور کیا نیتیں کام کر رہی ہیں۔

۴۷۔ پچھلی آیت کے معاً بعد توبہ کی ترغیب دینے سے خود بخود یہ مضمون نکلتا ہے کہ ظالمو، سچے نبی پر یہ جھوٹے الزامات رکھ کر کیوں اپنے آپ کو اور زیادہ خدا کے عذاب کا مستحق بناتے ہو، اب بھی اپنی ان حرکتوں سے باز  آ جاؤ  اور توبہ کر لو تو اللہ معاف فرما دے گا۔ توبہ کے ایک معنی یہ ہیں کہ آدمی اپنے کیے پر نادم ہو، جس برائی کا وہ مرتکب ہوا ہے  یا ہوتا رہا ہے اس سے باز آ جائے، اور آئندہ اس کا ارتکاب نہ کرے۔ نیز یہ بھی سچی توبہ کا لازمی تقاضا ہے کہ جو برائی کسی شخص نے پہلے کی ہے اس کی تلافی کرنے کی وہ اپنی حد تک پوری کوشش کرے،  اور جہاں تلافی کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، وہاں اللہ سے معافی مانگے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کے اس دھبے کو دھوتا رہے جو اس نے اپنے دامن پر لگا لیا ہے۔ لیکن کوئی توبہ اس وقت تک حقیقی توبہ نہیں ہے جب تک کہ وہ اللہ کو راضی کرنے کی نیت سے نہ ہو۔ کسی دوسری وجہ یا غرض سے کسی برے فعل کو چھوڑ دینا سرے سے توبہ کی تعریف ہی میں نہیں آتا۔

۴۸۔ جس سلسلہ کلام میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اسے نظر میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں دراصل اللہ تعالیٰ اس بنیادی سبب کی طرف اشارہ فرما رہا ہے جو کفار مکہ کی سرکشی میں کام کر رہا تھا۔ اگرچہ روم و ایران کے مقابلہ میں ان کی کوئی ہستی نہ تھی اور گرد و پیش کی قوموں میں وہ ایک پس ماندہ قوم کے ایک تجارت پیشہ قبیلے،  یا بالفاظ دیگر، بنجاروں سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے،  مگر اپنی اس ذرا سی دنیا میں ان کو دوسرے عربوں کی بہ نسبت جو خوشحالی اور بڑائی نصیب تھی اس نے ان کو اتنا مغرور و متکبر بنا دیا تھا یہ وہ اللہ کے نبی کی بات پر کان دھرنے کے لیے کسی طرح تیار نہ تھے،  اور ان کے سرداران قبائل اس کو اپنی کسر شان سمجھتے تھے کہ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم ) ان کے پیشوا ہوں اور وہ ان کی پیروی کریں،۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کہیں ہم ان چھوٹے ظرف کے لوگوں پر واقعی رزق کے دروازے کھول دیتے تو یہ بالکل ہی پھٹ پڑتے،  مگر ہم نے انہیں دیکھ کر ہی رکھا ہے،  اور ناپ تول کر ہم انہیں بس اتنا ہی دے رہے ہیں جو ان کو آپے سے باہر نہ ہونے دے۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ آیت دوسرے الفاظ میں وہی مضمون ادا کر رہی ہے جو سورہ توبہ، آیت ۶۸۔ ۷۰، الکہف، آیات ۳۲۔ ۴۲۔ القصص، آیات ۷۵۔ ۸۲۔ الروم، آیت ۹۔ سبا، آیت ۳۴۔ ۳۶۔ اور المومن آیات ۸۲۔ ۸۵ میں بیان ہوا ہے۔

۴۹۔ یہاں ولی سے مراد وہ ہستی ہے جو اپنی پیدا کردہ ساری مخلوق کے معاملات کی متولی ہے،  جس نے بندوں کی حاجات و ضروریات پوری کرنے کا ذمہ لے رکھا ہے۔

۵۰۔ یعنی زمین میں بھی اور آسمانوں میں بھی۔ یہ کھلا اشارہ ہے اس طرف کہ زندگی صرف زمین پر ہی نہیں پائی جاتی، بلکہ دوسرے سیاروں میں بھی جاندار مخلوقات موجود ہیں۔

۵۱۔ یعنی جس طرح وہ انہیں پھیلا دینے پر قادر ہے اسی طرح وہ انہیں جمع کر لینے پر بھی قادر ہے،  لہٰذا یہ خیال کرنا غلط ہے کہ قیامت نہیں آ سکتی اور تمام اولین و آخرین کو بیک وقت اٹھا کر اکٹھا نہیں کیا  جا سکتا۔

 

ترجمہ

 

تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے،  تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے،  اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی در گزر کر جاتا ہے (۵۲)۔ تم زمین میں اپنے خدا کو عاجز کر دینے والے نہیں ہو،  اور اللہ کے مقابلے میں تم کوئی حامی و ناصر نہیں رکھتے۔ اس کی نشانیوں میں سے ہیں یہ جہاز جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ اللہ جب چاہے ہوا کو ساکن کر دے اور یہ سمندر کی پیٹھ پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں۔۔۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو کمال درجہ صبر و شکر کرنے والا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا (ان پر سوار ہونے والوں کے ) بہت سے گناہوں سے در گزر کرتے ہوئے ان کے چند ہی کرتوتوں کی پاداش میں انہیں ڈبو دے،  اور اس وقت ہماری آیات میں جھگڑے کرنے والوں کو پتہ چل جائے کہ ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے (۵۴)۔

جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سر و سامان ہے،  (۵۵) اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائدار بھی(۵۶)۔ وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں (۵۷)، جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں (۵۸)اور اگر غصّہ آ جائے  تو در گزر کر جا تے ہیں ( ۵۹)، جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں (۶۰)، نماز قائم کرتے ہیں،  اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں (۶۱)، ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (۶۲)، اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں (۶۳)۔۔۔۔۔ برائی (۶۴) کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے (۶۵)، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے (۶۶)، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا (۶۷)۔ اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جا سکتی،  ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے تو یہ بڑی اُولو العزمی  کے کاموں میں سے ہے (۶۸)۔ ع

 

تفسیر

 

۵۲۔ واضح رہے کہ یہاں تمام انسانی مصائب کی وجہ بیان نہیں کی جا رہی ہے،  بلکہ روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اس وقت مکہ معظمہ میں کفر و نافرمانی کا ارتکاب کر رہے تھے۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر اللہ تمہارے سارے قصوروں پر گرفت کرتا تو تمہیں جیتا ہی نہ چھوڑتا، لیکن یہ مصائب جو تم پر نازل ہوئے ہیں (غالباً اشارہ ہے مکہ کے قحط کی طرف) یہ محض بطور تنبیہ ہیں تا کہ تم ہوش میں آؤ،  اور اپنے اعمال کا جائزہ لے کر دیکھو کہ اپنے رب کے مقابلے میں تم نے کیا روش اختیار کر رکھی ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرو کہ جس خدا سے تم بغاوت کر رہے ہو اس کے مقابلے میں تم کتنے بے بس ہو، اور یہ جانو کہ جنہیں تم اپنا ولی و کار ساز بنائے بیٹھے ہو، یا جن طاقتوں پر تم نے بھروسہ کر رکھا ہے،  وہ اللہ کی پکڑ سے بچانے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتیں۔

مزید توضیح  کے لیے یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ جہاں تک مومن مخلص کا تعلق ہے اس کے لیے اللہ کا قانون اس سے مختلف ہے۔ اس پر جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی آتی ہیں وہ سب اس کے گناہوں اور خطاؤں اور کوتاہیوں کا کفارہ بنتی چلی جاتی ہیں۔ حدیث صحیح میں ہے کہ : مَا یُصیبُ المُسلمَ مِنْ فَصَبٍ ولا وَصَبٍ ولا ھمٍّ ولا حزن ولا اذً ولا غمٍّ حتی الشوکۃُ یُشا کھُا الا کفّر اللہ بھامن خطایاہ۔ (بخاری و مسلم)مسلمان کو جو رنج اور دکھ اور فکر اور غم اور تکلیف اور پریشانی بھی پیش آتی ہے، حتیٰ کہ ایک کانٹا بھی اگر اس کو چبھتا ہے تو اللہ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ ‘‘ رہے وہ مصائب جو اللہ کی راہ میں اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کوئی مومن برداشت کرتا ہے،  تو وہ محض کوتاہیوں کا کفارہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ  کے ہاں ترقی درجات کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ تصور کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ گناہوں کی سزا کے طور پر نازل ہوتے ہیں۔

۵۳۔ ’’صبر کرنے والے ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اچھے اور برے تمام حالات میں بندگی کے رویے پر ثابت قدم رہے۔ جس کا حال یہ نہ ہو کہ اچھا وقت آئے تو اپنی ہستی کو بھول کر خدا  سے باغی اور بندوں کے حق میں ظالم بن جائے، اور برا وقت آ جائے تو دل چھوڑ بیٹھے اور ہر ذلیل سے ذلیل  حرکت کرنے پر اتر آئے۔ ’’ شکر کرنے والے ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جسے تقدیر الہٰی خواہ کتنا ہی اونچا اٹھا لے جائے،  وہ اسے اپنا کمال نہیں بلکہ اللہ کا احسان ہی سمجھتا رہے،  اور وہ خواہ کتا ہی نیچے گرا دیا جائے، اس کی نگاہ اپنی محرومیوں کے بجائے ان نعمتوں پر ہی مرکوز رہے جو برے سے برے حالات میں بھی آدمی کو حاصل رہتی ہیں،  اور خوشحالی و بد حالی، دونوں حالتوں میں اس کی زبان اور اس کے دل سے اپنے رب کا شکر ہی ادا ہوتا رہے۔

۵۴۔ قریش کے لوگوں کو اپنے تجارتی کاروبار کے سلسلے میں حبش اور افریقہ کے ساحلی علاقوں کی طرف بھی جانا ہوتا تھا، اور ان سفروں میں وہ باد بانی جہازوں اور کشتیوں پر بحر احمر سے گزرتے تھے جو ایک بڑا خطرناک سمندر ہے۔ اس میں اکثر طوفان اٹھتے رہتے ہیں اور زیر آب چٹانیں کثرت سے ہیں جن سے طوفان کی حالت میں ٹکرا جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لیے جس کیفیت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے یہاں کھینچا ہے اسے قریش کے لوگ اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں پوری طرح محسوس کر سکتے تھے۔

۵۵۔ یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر آدمی پھول جائے۔ بڑی سے بڑی دولت بھی جو دنیا میں کسی شخص کو ملی ہے،  ایک تھوڑی سی مدت ہی کے لیے ملی ہے۔ چند سال وہ اس کو برت لیتا ہے اور پھر سب کچھ چھوڑ کر دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دولت بھی چاہے بہی کھاتوں میں کتنی ہی بڑی ہو، عملاً اس کا ایک قلیل سا حصہ ہی آدمی کے اپنے استعمال میں آتا ہے۔ اس مال پر اترانا کسی ایسے انسان کا کام نہیں ہے جو اپنی اور اس مال و دولت کی، اور خود اس دنیا کی حقیقت کو سمجھتا ہو۔

۵۶۔ یعنی وہ دولت اپنی نوعیت و کیفیت کے لحاظ سے بھی اعلیٰ درجے کی ہے،  اور پھر وقتی و عارضی بھی نہیں ہے بلکہ ابدی اور لازوال ہے۔

۵۷۔ اللہ پر توکل کو یہاں ایمان لانے کا لازمی تقاضا، اور آخرت کی کامیابی کے لیے ایک ضروری وصف قرار دیا گیا ہے۔ توکل کے معنی یہ ہیں کہ : اولاً، آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی پر کامل اعتماد ہو اور وہ یہ سمجھے کہ حقیقت کا جو علم، اخلاق کے جو اصول، حلال و حرام کے جو حدود، اور دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جو قواعد و ضوابط اللہ نے دیے ہیں وہی بر حق ہیں اور انہی کی پیروی میں انسان کی خیر ہے۔ ثانیاً،  آدمی کا بھروسہ اپنی طاقت،  قابلیت، اپنے ذرائع و وسائل،  اپنی تدابیر، اور اللہ کے سوا دوسروں کی امداد و اعانت پر نہ ہو، بلکہ وہ پوری طرح یہ بات ذہن نشین رکھے کہ دنیا اور آخرت کے ہر معاملے میں اس کی کامیابی کا اصل انحصار اللہ کی توفیق و تائید پر ہے،  اور اللہ کی توفیق و تائید کا وہ اسی صورت میں مستحق ہو سکتا ہے جبکہ وہ اس کی رضا کو مقصود بنا کر،  اس  کے مقرر کی ہوئے حدود کی پابندی کرتے ہوئے کام کرے۔ ثالثاً،  آدمی کو ان وعدوں  پر پورا بھوسا ہو جو اللہ تعالیٰ نے ایمان و عمل صالح کا رویہ اختیار کرنے والے اور باطل کے بجائے حق کے لیے کام کرنے والے بندوں سے کیے ہیں،  اور ان ہی وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے وہ ان تمام فوائد اور منافع اور لذائذ کو لات مار دے جو باطل کی راہ پر جانے کی صورت میں اسے حاصل ہوتے نظر آتے ہوں،  اور ان سارے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کر جائے جو حق پر استقامت کی وجہ سے اس کے نصیب میں آئیں۔ توکل کے معنی کی اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان کے ساتھ اس کا کتنا گہرا تعلق ہے،  اور اس کے بغیر جو ایمان محض خالی خولی اعتراف و اقرار کی حد تک ہو اس سے وہ شاندار نتائج کیوں نہیں حاصل ہو سکتے جن کا وعدہ ایمان لا کر توکل کرنے والوں سے کیا گیا ہے۔

۵۸۔ تشریح کے  لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول،  صفحات ۳۴۶۔ ۳۴۷۔ ۵۹۸۔ ۵۹۹۔ جلد دوم،  ص ۵۶۶۔ نیز سورہ نجم، آیت ۳۲۔

۵۹۔ یعنی وہ  غصیل اور جھلّے نہیں ہوتے،  بلکہ نرم خو اور دھیمے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی سرشت انتقامی نہیں ہوتی بلکہ وہ بندگان خدا سے در گزر اور چشم پوشی کا معاملہ کرتے ہیں،  اور کسی بات پر غصہ آ بھی جاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں۔ یہ وصف انسان کی بہترین صفات میں سے ہے جسے قرآن مجید میں نہایت قابل تعریف قرار دیا گیا ہے (آل عمران،  آیت ۱۳۴) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کامیابی کے بڑے اسباب میں شمار کیا گیا ہے۔ (آل عمران، ۱۵۹)۔ حدیث میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ : مآ انتقم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لنفسہٖ فی شئ قط الا ان تنتھک حرمَۃ اللہِ (بخاری و مسلم )۔ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا۔ البتہ جب اللہ کی حرمتوں میں سے کسی حرمت کی ہتک  کی جاتی تب آپ سزا دیتے تھے۔ ’’

۶۰۔ لفظی ترجمہ ہو گا ’’ اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتے ہیں ‘‘ یعنی جس کام کے لیے بھی اللہ بلاتا ہے اس کے لیے دوڑ پڑتے ہیں،  اور جس چیز کی بھی اللہ دعوت دیتا ہے اسے قبول کرتے ہیں۔

۶۱۔ اس چیز کو یہاں اہل ایمان کی بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے،  اور سورہ آل عمران (آیت ۱۵۹) میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر مشاورت اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے،  اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کی صریح  خلاف ورزی ہے۔ مشاورت کو اسلام میں یہ اہمیت کیوں دی گئی ہے؟ اس کے وجوہ پر اگر غور کیا جائے تو تین باتیں واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔

ایک یہ کہ جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو، اس میں کسی ایک شخص کا اپنی رائے سے فیصلہ کر ڈالنا اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظر انداز کرینا زیادتی ہے۔ مشترک معاملات میں کسی کو اپنی من مانی چلانے کا حق نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جتنے لوگوں کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو اس میں ان سب کی رائے لی جائے، اور اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمد علیہ نمائندوں کو شریک مشورہ کیا جائے۔

دوسرے یہ کہ انسان مشترک معاملات میں اپنی من مانی چلانے کی کوشش یا تو اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض کے لیے دوسروں کا حق مارنا چاہتا ہے،  یا پھر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز اور دوسروں کی حقیر سمجھتا ہے۔ اخلاقی حیثیت سے یہ دونوں صفات یکساں قبیح ہیں،  اور مومن کے اندر ان میں سے کسی صفت کا شائبہ بھی نہیں پایا جا سکتا۔ مومن نہ خود غرض ہوتا ہے  کہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کر کے خود ناجائز فائدہ اٹھانا چاہے،  اور نہ وہ متکبر اور خود پسند ہوتا ہے  کہ اپنے آپ ہی عقل کل اور علیم و خبیر سمجھے۔

تیسرے یہ کہ جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی، کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اس طرح کو جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں۔ خدا ترس اور آخرت کی باز پرس کا احساس رکھنے والا آدمی تو لازماً یہ کوشش کرے گا کہ ایک مشترک معاملہ جن جن  سے بھی متعلق ہو ان سب کو، یا نا کے  بھروسے کے نمائندوں کو اس کا فیصلہ کرنے میں شریک مشورہ کرے،  تاکہ زیادہ سے زیادہ صحیح اور بے لاگ اور مبنی بر انصاف فیصلہ کیا جا سکے،  اور اگر نا دانستہ کوئی غلطی ہو بھی جائے تو تنہا کسی ایک ہی شخص پر اس کی ذمہ داری نہ آ پڑے۔

یہ تین وجوہ ایسے ہیں جن پر اگر آدمی غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آ سکتی ہے کہ اسلام جس اخلاق کی انسان کو تعلیم دیتا ہے،  مشورہ اس کا لازمی تقاضا ہے اور اس سے انحراف ایک بہت بڑی بد اخلاقی ہے جس کی اسلام کبھی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسلامی طرز زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہو جائیں تو انہیں بھی شریک مشورہ کیا جائے۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی رائے لی جائے۔ ایک قبیلے یا برادری یا بستی کے معاملات ہوں اور سب لوگوں کا شریک مشورہ ہونا ممکن نہ ہو، ان کا فیصلہ کوئی ایسی پنچایت یا مجلس کرے جس میں کسی متفق علیہ طریقے کے مطابق تمام متعلق لوگوں کے معتمد علیہ نمائندے شریک ہوں۔ ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے، اور وہ قومی معاملات کو ایسے صاحب رائے لوگوں کے مشورے سے چلائے جن کو قوم قابل اعتماد سمجھتی ہو، اور وہ اسی وقت تک سربراہ رہے جب تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بنائے رکھنا چاہے۔ کوئی ایماندار آدمی زبردستی قسم کا سربراہ بننے اور بنے رہنے کی خواہش یا کوشش نہیں کر سکتا، نہ یہ فریب کاری کر سکتا ہے کہ پہلے بزور قوم کے سر پر مسلط ہو جائے اور پھر جبر کے تحت لوگوں کی رضامندی  طلب کرے،  اور نہ اس طرح کی چالیں چل سکتا ہے  کہ اس کو مشورہ دینے کے لیے لوگ اپنی آزاد مرضی سے اپنی پسند کے نمائندے نہیں بلکہ وہ نمائندے منتخب کریں جو اس کی مرضی کے مطابق رائے دینے والے ہوں۔ ایسی ہر خواہش صرف اس نفس میں پیدا ہوتی ہے جو نیت کی خرابی سے لوث ہو، اور اس خواہش کے ساتھ : اَمْرھُمْ شُوْریٰ بَینَھُمْ  کی ظاہری شکل بنانے اور اس کی حقیقت غائب کر دینے کی کوششیں صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے خدا  اور خلق دونوں کو دھوکا دینے میں کوئی باک نہ ہو، حالانکہ نہ خدا دھوکا کھا سکتا ہے،  اور نہ خلق ہی اتنی اندھی ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص دن کی روشنی میں علانیہ ڈاکہ مار رہا ہو اور وہ سچے دل سے یہ سمجھتی رہے کہ وہ ڈاکہ نہیں مار رہا ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کر رہا ہے۔

اَمْرھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے :

اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو، اور وہ اس بات سے  پوری طرح باخبر رکھے جائیں کہ ان کے معاملات فی الواقع کس طرح چلا ئے جا رہے ہیں،  اور انہیں اس امر کا بھی پورا ح حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں،  احتجاج کر سکیں،  اور اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ  پاؤں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بد دیانتی ہے جسے کوئی شخص بھی : اَمْرھُمْ شُوریٰ بَینَھُمْ کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔

دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جائے،  اور یہ رضامندی ان کی آزادانہ رضامندی ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی، یا تحریص و اطماع سے خریدی ہوئی، یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوئی رضامندی در حقیقت رضامندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے،  بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔

سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ  لوگ مقرر کیے  جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو، اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جا سکتے جو دباؤ ڈال کر، یا مال سے خرید کر، یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر،  یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔

چہارم یہ کو مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں،  اور اس طرح کے اظہار رائے کی انہیں پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر، یا کسی جتھہ بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں،  وہاں در حقیقت خیانت اور غداری ہو گی نہ کہ : اَمْرَھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ  کی پیروی۔

پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوریٰ  کے اجماع (اتفاق رائے) سے دیا جائے، یا جسے ان کے جمہور(اکثریت ) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے،  اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا ہے کہ ’’ ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے ‘‘ بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ’’ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں۔ ‘‘ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے  سے نہیں ہو جاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے مہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔

اسلام کے اصول شوریٰ کی اس توضیح کے ساتھ یہ بنیادی بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ شوریٰ مسلمانوں کے معاملات چلانے میں مطلق العنان اور مختار کل نہیں ہے بلکہ لازماً اس دین کے حدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تشریع سے مقرر فرمایا ہے،  اور اس اصل الاصول کی پابند ہے کہ ’’ تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے ‘‘،  اور ’’تمہارے درمیان جو نزاع بھی ہو اس میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو‘‘۔ اس قاعدہ کلیہ کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کر سکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے،  اور اس پر عمل در آمد کس طریقہ سے کیا جائے تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو، لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کر سکتے کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کریں۔

۶۲۔ اس کے تین مطلب ہیں :

ایک یہ کہ جو رزق حلال ہم نے انہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں،  اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مال حرام پر ہاتھ ہیں مارتے۔

دوسرے یہ کہ ہمارے دیے ہوئے رزق کو سَینت کر نہیں رکھتے بلکہ اسے خرچ کرتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ جو رزق انہیں دیا گیا ہے اس میں سے راہ خدا میں بھی خرچ کرتے ہیں،  سب کچھ اپنی ہی ذات کے لیے وقف نہیں کر دیتے۔

پہلے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف رزق حلال و طیب ہی کو ’’ اپنے دیے ہوئے رزق ‘‘ سے تعبیر فرماتا ہے۔ نا پاک اور حرام طریقوں سے کمائے ہوئے رزق کو وہ اپنا رزق نہیں کہتا۔ دوسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو رزق انسان کو دیتا ہے وہ خرچ کرنے کے لیے دیتا ہے،   سینت  سَینت کر رکھنے اور اس پر مار زر بن کر بیٹھ جانے کے لیے نہیں دیتا۔ اور تیسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ خرچ کرنے سے مراد قرآن مجید میں محض اپنی ذاب پر اور اپنی ضروریات پر ہی خرچ کر دینا نہیں ہے،  بلکہ اس کے مفہوم میں انفاق فی سبیل اللہ بھی شامل ہے۔ انہی تین وجوہ سے اللہ تعالیٰ خرچ کرنے کو یہاں اہل ایمان کی ان بہترین صفات میں شمار فرما رہا ہے جن کی بنا پر آخرت کی بھلائیاں انہی کے لیے مختص کی گئی ہیں۔

۶۳۔ یہ بھی اہل ایمان کی بہترین صفات میں سے ہے۔ وہ ظالموں اور جباروں کے لیے نرم چارہ نہیں ہوتے۔ ان کی نرم خوئی او عفو و درگزر کی عادت کمزوری کی بنا پر نہیں ہوتی انہیں بھکشوؤں اور راہبوں کی طرح مسکین بنکر رہنا نہیں  سکھایا گیا ہے۔ ان کی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ جب غالب ہوں تو مغلوب کے قصور معاف کر دیں،  جب قادر ہوں تو بدلہ لینے سے در گزریں،  اور جب کسی زیر دست یا کمزور آدمی سے کوئی خطا سرزد ہو جائے تو اس سے چشم پوشی کر جائیں،  لیکن کوئی طاقت ور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں اور اس کے دانت کھٹے کر دیں۔ مومن کبھی ظالم سے نہیں دبتا اور متکبر کے آگے نہیں جھکتا۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے وہ لوہے کا چنا ہوتا ہے جسے چبانے کی کوشش کرنے والا اپنا ہی جبڑا توڑ لیتا ہے۔

۶۴۔ یہاں سے آخر پیراگراف تک کی پوری عبارت آیت ما سبق کی تشریح کے طور پر ہے۔

۶۵۔ یہ پہلا اصولی قاعدہ ہے جسے بدلہ لینے میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بدلے کی جائز حد یہ ہے کہ جتنی برائی کسی کے ساتھ کی گئی ہو، اتنی ہی برائی وہ اس کے ساتھ کر لے،  اس سے زیادہ برائی کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا۔

۶۶۔ یہ دوسرا قاعدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے سے بدلہ لے لینا اگر چہ جائز ہے،  لیکن جہاں معاف کر دینا اصلاح کا موجب ہو سکتا ہو وہاں اصلاح کی خاطر بدلہ لینے کے بجائے معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ اور چونکہ یہ معافی انسان اپنے نرس پر جبر کر کے دیتا ہے،  اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اجر ہمارے ذمہ ہے،  کیونکہ تم نے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے۔

۶۷۔ اس تنبیہ میں بدلہ لینے کے متعلق ایک تیسرے قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،  اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کے ظلم کا انتقام لیتے لیتے خود ظالم نہیں بن جانا چاہیے۔ ایک برائی کے بدلے میں اس سے بڑھ کر برائی کر گزرنا جائز نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو ایک تھپڑ مارے تو وہ اسے ایک تھپڑ مار سکتا ہے۔ لات گھونسوں کی اس پر بارش نہیں کر سکتا۔ اسی طرح گناہ کا بدلہ گناہ کی صورت میں لینا درست نہیں ہے۔ مثلاً کسی شخص کے بیٹے کو اگر کسی ظالم نے قتل کیا ہے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جا کر اس کے بیٹے کو قتل کر دے۔ یا کسی شخص کی بہن یا بیٹی کو اگر کسی کمینہ انسان نے خراب کیا ہے تو اس کے لیے حلال نہیں ہو جائے گا کہ وہ اس کی بیٹی یا بہن سے زنا کرے۔

۶۸۔ واضح رہے کہ ان آیات میں اہل ایمان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ اس وقت عملاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب کی زندگیوں میں موجود تھیں،  اور کفار مکہ اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے در اصل کفار کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی چند روزہ  زندگی بسر کرنے کا جو سر و سامان پا کر تم آپے سے باہر ہوئے جاتے ہو، اصل دولت وہ نہیں ہے بلکہ اصل دولت یہ اخلاق اور اوصاف ہیں جو قرآن کی رہنمائی قبول کر کے تمہارے ہی معاشرے کے ان مومنوں نے اپنے اندر پیدا کیے ہیں۔

 

ترجمہ

 

جس کو اللہ ہی گمراہی میں پھینک دے اس کا کوئی سنبھالنے والا اللہ کے بعد نہیں ہے (۶۹)۔ تم دیکھو گے کہ یہ ظالم جب عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے اب پلٹنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟(۷۰) اور تم دیکھو گے کہ یہ جہنم کے سامنے جب لائے جائیں گے تو ذلت کے مارے جھکے جا رہے ہوں گے اور اس کو نظر بچا بچا کر کن اَنکھیوں سے دیکھیں گے (۷۱)۔ اس وقت وہ لوگ جو ایمان لائے تھے کہیں گے کہ واقعی اصل زیاں کا روہی ہیں جنہوں نے آج قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو خسارے میں ڈال دیا۔ خبردار رہو،  ظالم لوگ مستقل عذاب میں ہوں گے اور ان کے کوئی حامی و سرپرست نہ ہوں گے جو اللہ کے مقابلے میں ان کی مدد کو آئیں۔ جسے اللہ گمراہی میں پھینک دے اس کے لی بچاؤ کی کوئی سبیل نہیں۔

مان لو اپنے رب کی بات قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے (۷۲)۔ اس دن تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہو گی  اور نہ کوئی تمہارے حال کو بدلنے کی کوشش کرنے والا ہو گا(۷۳)۔ اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبیؐ،  ہم نے تم کو ان پر نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے (۷۴)۔ تم پر تو صرف بات پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔ انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو اس پر پھول جاتا ہے اور اگر اس کے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اس پر الٹ پڑتا ہے تو سخت ناشکرا بن جاتا ہے (۷۵)۔

اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے (۷۶)، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،  جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے،  جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے،  جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے،  اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے (۷۷)۔

کسی (۷۸) بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے روبرو بات کرے۔ اس کی بات یا تو وحی (اشارے )کے طور پر ہوتی ہے (۷۹)، یا پردے کے پیچھے سے (۸۰)، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ)بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے (۸۱)، وہ برتر اور حکیم ہے (۸۲)۔ اور اسی طرح (اے محمدؐ ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے (۸۳)۔ تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے،  (۸۴) مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔ یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو، اس خدا کے راستے کی طرف جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے۔ خبردار رہو، سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں (۸۵)۔ ع

 

تفسیر

 

۶۹۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے قرآن جیسی بہترین ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجی جو نہایت معقول اور نہایت مؤثر و دل نشین طریقہ سے ان کو حقیقت کا علم دے رہی ہے اور زندگی کا صحیح راستہ بتا رہی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جیسا بنی ان کی رہنمائی کے لیے بھیجا جس سے بہتر سیرت و کردار کا آدمی کبھی ان کی نگاہوں  نے  نہ دیکھا تھا۔ اور اس کتاب اور اس رسول کی تعلیم و تربیت کے نتائج بھی اللہ نے ایمان لانے والوں کی زندگیوں میں انہیں آنکھوں سے دکھا دیے۔ اب اگر کوئی شخص یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ہدایت سے نہ موڑتا ہے تو اللہ پھر اسی گمراہی میں اسے پھینک دیتا ہے جس سے نکلنے کا وہ خواہش مند نہیں ہے۔ اور جب اللہ ہی نے اسے اپنے دروازے سے دھتکار دیا تو اب کون یہ ذمہ لے سکتا ہے کہ اسے راہ راست پر لے آئے گا۔

۷۰۔ یعنی آج جب کہ پلٹ آنے کا موقع ہے،  یہ پلٹنے سے انکار کر رہے ہیں۔ کل جب،  فیصلہ ہو چکے گا اور سزا کا حکم نافذ ہو جائے گا اس وقت اپنی شامت دیکھ کر یہ چاہیں گے کہ اب انہیں پلٹنے کا موقع ملے۔

۷۱۔ انسان کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی ہولناک منظر اس کے سامنے ہوتا ہے اور وہ جان رہا ہوتا ہے کہ عنقریب وہ اس بلا کے چنگل میں آنے والا ہے جو سامنے نظر  آ رہی ہے،  تو پہلے تو ڈر کے مارے وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ پھر اس سے رہا نہیں جاتا۔ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ بلا کیسی ہے اور ابھی اس سے کتنی دور ہے۔ لیکن اس کی بھی ہمت نہیں پڑتی کہ سر اٹھا کر نگاہ بھر کر اسے دیکھے۔ اس لیے بار بار ذرا سے آنکھیں کھول کر اسے گوشہ چشم سے دیکھتا ہے اور پھر ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ جہنم کی طرف جانے والوں کی اسی کیفیت کا نقشہ اس آیت میں کھینچا گیا ہے۔

۷۲۔ یعنی نہ اللہ خود اسے ٹالے گا اور نہ کسی دوسرے میں یہ طاقت ہے کہ ٹال سکے۔

۷۳۔ اصل الفاظ ہیں : مَا لَکُمْ مِنْ نَّکِیْرٍ۔  اس فقرے کے کئی مفہوم اور بھی ہیں۔ ایک یہ کہ تم اپنے کرتوتوں  میں سے کسی کا انکار نہ کر سکو گے۔ دوسرے یہ کہ تم بھیس  بدل کر کہیں چھپ نہ سکو گے۔ تیسرے یہ کہ تمہارے ساتھ جو کچھ بھی کیا جائے گا اس کا تم کوئی احتجاج اور اظہار ناراضی نہ کر سکو گے۔ چوتھے یہ کہ تمہارے جس میں نہ ہو گا کہ جس حالت میں تم مبتلا کیے گئے ہو اسے بدل سکو۔

۷۴ یعنی تمہارے اوپر یہ ذمہ داری تو نہیں ڈالی گئی ہے کہ تم انہیں ضرور راہ راست ہی پر لا کے رہو اور نہ اس بات کی تم سے کوئی باز پرس ہونی ہے کہ یہ لوگ کیوں راہ راست پر نہ آئے۔

۷۵۔ انسان سے مراد یہاں وہ چھچورے کم ظرف لوگ ہیں جن کا اوپر سے ذکر چلا آ رہا ہے۔ جنہیں دنیا کا کچھ رزق مل گیا ہے تو اس پر پھولے نہیں سماتے اور سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کشش کی جاتی ہے تو سن کر نہیں دیتے لیکن اگر کسی وقت اپنے ہی کرتوتوں کی بدولت ان کی شامت آ جاتی ہے تو قسمت کو رونا شروع کر دیتے ہیں،  اور ان ساری نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو اللہ نے انہیں دی ہیں اور کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جس حالت میں وہ مبتلا ہوئے ہیں اس میں ان کا اپنا کیا قصور ہے۔ اس طرح نہ خوشحالی ان کی اصلاح میں مدد گار ہوتی ہے نہ بد حالی ہی انہیں سبق دے کر راہ راست پر لا سکتی ہے۔ سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ در اصل یہ ان لوگوں کے رویئے پر طنز ہے جو اوپر کی تقریر کے مخاطب تھے۔ مگر ان کو خطاب کر کے یہ نہیں کہا گیا کہ تمہارا حال یہ ہے،  بلکہ بات یوں کہی گئی کہ انسان میں عام طور پر یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور یہی اس کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ اس سے حکمت تبلیغ کا یہ نکتہ ہاتھ آتا ہے کہ مخاطب کی کمزوریوں پر براہ راست چوٹ نہیں کرنی چاہیے،  بلکہ عمومی انداز میں ان کا ذکر کرنا چاہیے،  تاکہ وہ چڑ نہ جائے، اور اس کے ضمیر میں اگر کچھ بھی زندگی باقی ہے تو ٹھنڈے دل سے اپنے عیب کو سمجھنے کی کوشش کرے۔

۷۶۔ یعنی کفر و شرک کی حماقت میں جو لوگ مبتلا ہیں وہ اگر سمجھانے سے نہیں مانتے تو نہ مانیں،  حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہے۔ زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں اور جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کر دی گئی ہے،  نہ کسی نبی یا ولی یا دیوی اور دیوتا کا اس میں کوئی حصہ ہے،  بلکہ اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ اس سے بغاوت کرنے والا نہ اپنے بل بوتے پر جیت سکتا ہے،  نہ ان ہستیوں میں سے کوئی آ کر اسے بچا سکتی ہے جنہیں لوگوں نے اپنی حماقت سے خدائی اختیارات کا مالک سمجھ رکھا ہے۔

۷۷۔ یہ اللہ کی بادشاہی کے مطلق (Absolute) ہونے کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہ۔ کوئی انسان،  خواہ وہ بڑے سے بڑے دنیوی اقتدار کا مالک بنا پھرتا ہو، یا روحانی اقتدار کا مالک سمجھا جاتا ہو، کبھی اس پر قادر نہیں ہو سکا ہے کہ دوسروں کو دلوانا تو در کنار، خود اپنے ہاں اپنی خواہش کے مطابق اولاد پیدا کر سکے۔ جسے خدا نے  بانجھ کر دیا وہ کسی دوا اور کسی علاج اور کسی تعویذ گنڈے سے اولاد والا نہ بن سکا، جسے خدا نے لڑکیاں ہی لڑ کیاں دیں وہ ایک بیٹا بھی کسی تدبیر سے حاصل نہ کر سکا، اور جسے خدا نے لڑکے ہی لڑکے دیے وہ ایک بیٹی بھی کسی طرح نہ پا سکا۔ اس معاملہ میں ہر ایک قطعی بے بس رہا ہے،  بلکہ بچے کی پیدائش سے پہلے کوئی یہ تک نہ معلوم کر سکا کہ رحم مادر میں لڑکا پرورش پا رہا ہے یا لڑکی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کوئی خدا کی خدائی میں مختار کُل ہونے کا زعم کرے،  یا کسی دوسری ہستی کو اختیارات میں دخیل سمجھے تو یہ اس کی اپنی ہی بے بصیرتی ہے جس کا خمیازہ وہ خود بھگتے گا۔ کسی کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی تغیر واقع نہیں ہوتا۔

۷۸۔ تقریر ختم کرتے ہوئے اسی مضمون کو پھر لیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوا تھا۔ بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس سورہ کی پہلے آیت اور اس کے حاشیے پر دوبارہ ایک نگاہ ڈال لیجیے۔

۷۹۔ یہاں وحی سے مراد ہے القاء، الہام، دل میں کوئی بات ڈال دینا، یا خواب میں کچھ دکھا دینا، جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت یوسفؑ کو دکھایا گیا (یوسف،  آیات ۴۔ ۱۰۰۔ الصافات ۱۰۲)۔

۸۰۔ مراد یہ ہے کہ بندہ ایک آواز سنے،  مگر بولنے والا اسے نظر نہ آئے،  جس طرح حضرت موسیٰؑ کے ساتھ ہوا کہ طور کے دامن میں ایک درخت سے یکایک انہیں آواز آنی شروع ہوئی مگر بولنے والا ان کی نگاہ سے اوجھل تھا (طٰہٰ، آیات ۱۱ تا ۴۸۔ النمل،  آیات ۸ تا ۱۲۔ القصص، آیات ۳۰ تا ۳۵)

۸۱۔ یہ وحی آنے کی وہ صورت ہے جس کے ذریعہ سے تمام کتب آسمانی انبیاء علیہم السلام تک پہنچی ہیں۔ بعض لوگوں نے اس فقرے کی غلط تاویل کر کے اس کو یہ معنی پہنائے ہیں کہ ’’ اللہ کوئی رسول بھیجتا ہے جو اس کے حکم سے عام لوگوں تک اس کا پیغام پہنچاتا ہے ‘‘۔ لیکن قرآن  کے الفاظ : فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآ ءُ (پھر وہ وحی کرتا ہے اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے ) ان کی اس تاویل کا غلط ہونا بالکل عیاں کر دیتے ہیں۔ عام انسانوں کے سامنے انبیاء کی تبلیغ کو ’’ وحی کرنے ‘‘ سے نہ قرآن میں کہیں تعبیر کیا گیا ہے اور نہ عربی زبان میں انسان کی انسان سے علانیہ گفتگو کو ’’ وحی ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرنے کی کوئی گنجائش ہے۔ لغت میں وحی کے معنی ہی خفیہ اور سریع اشارے کے ہیں۔ انبیاء کی تبلیغ پر اس لفظ کا اطلاق صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو عربی زبان سے بالکل نا بلد ہو۔

۸۲۔ یعنی وہ اس سے بہت بالا و بر تر ہے کہ کسی بشر سے رو در رو کلام کرے، اور اس کی حکمت اس سے عاجز نہیں ہے کہ اپنے کسی بندے تک اپنی ہدایات پہنچانے کے لیے  رو برو بات چیت کرنے کے سوا کوئی اور تدبیر نکال لے۔

۸۳۔ ’’ اسی طرح‘‘ سے مراد محض آخری طریقہ نہیں ہے بلکہ وہ تینوں طریقے ہیں جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوئے ہیں۔ اور ’’ روح‘‘ سے مراد وحی،  یا وہ تعلیم ہے جو وحی کے ذریعہ سے حضورؐ کو دی گئی۔ یہ بات قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان تینوں طریقوں سے ہدایات دی گئی ہیں :

۱)۔ حدیث میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی آنے کی ابتداء ہی سچے خوابوں سے ہوئی تھی (بخاری و مسلم)۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا ہے،  چنانچہ احادیث میں آپ کے بہت سے خوابوں کا ذکر ملتا ہے جن میں آپ کو کوئی تعلیم دی گئی ہے یا کسی بات پر مطلع کیا گیا ہے،  اور قرآن مجید میں بھی آپ کے ایک خواب کا صراحت کے ساتھ ذکر آیا ہے (الفتح، آیت ۲۷)۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، فلاں بات میرے دل میں ڈالی گئی ہے،  یا مجھے یہ بتایا گیا ہے،  یا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے،  یا مجھے اس سے منع کیا گیا ہے۔ ایسی تمام چیزیں وحی کی پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہیں،  اور احادیث قدسیہ بھی زیادہ تر اسی قبیل سے ہیں۔

۲)۔ معراج کے موقع پر حضورؐ کو وحی کی دوسری قسم سے بھی مشرف فرمایا گیا۔ متعدد صحیح احادیث میں حضورؐ کو پنج وقتہ نماز کو حکم دیے جانے،  اور حضورؐ کے اُس پر  بار بار عرض معروض کرنے کا ذکر جس طرح آیا ہے اُس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت اللہ اور اُس کے بندے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان ویسا ہی مکالمہ ہو تھا جیسا دامن طور میں حضرت موسیٰؑ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوا۔

۳)۔ رہی تیسری قسم، تو اُس کے متعلق قرآن خود ہی شہادت دیتا ہے کہ اسے جبریل امین کے ذریعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا گیا ہے (البقرہ،  ۹۷۔ الشعراء، ۱۹۲ تا ۱۹۵)۔

۸۴۔ یعنی نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے کبھی حضورؐ کے ذہن میں یہ تصور تک نہ آیا تھا کہ آپ کو کوئی کتاب ملنے والی ہے،  یا ملنی چاہیے،  بلکہ آپ سرے سے کتب آسمانی اور ان کے مضامین کے متعلق کچھ جانتے ہی نہ تھے۔ اسی طرح آپ کو اللہ پر ایمان تو ضرو حاصل تھا۔ مگر آپ نہ شعوری طور پر اس تفصیل سے واقف تھے کہ انسان کو اللہ کے متعلق کیا کیا باتیں ماننی چاہییں،  اور نہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ اس کے ساتھ ملائکہ اور نبوت اور کتب الہٰی اور آخرت کے متعلق بھی بہت سے باتوں کا ماننا ضروری ہے۔ یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جو خود کفار مکہ سے بھی چھپی ہوئی نہ تھیں۔ مکہ معظمہ کا کوئی شخص یہ شہادت نہ دے سکتا تھا کہ اس نے نبوت کے اچانک اعلان سے پہلے کسی حضورؐ کی زبان سے کتاب الہٰی کا کوئی ذکر سنا ہو، یا آپ  سے اس طرح کی کوئی بات سنی ہو کہ لوگوں کو فلاں فلاں چیزوں پر ایمان لانا چاہیے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے سے خود نبی بن بیٹھنے کی تیاری کر رہا ہو تو اس کی یہ حالت تو کبھی نہیں ہو سکتی کہ چالیس سال تک اس کے ساتھ شب و روز کا میل جول رکھنے والے اس کی زبان سے کتاب اور ایمان کا لفظ تک نہ سنیں،  اور چالیس سال کے بعد یکایک وہ انہی موضوعات پر دھواں دھار تقریریں کرنے لگے۔

۸۵۔ یہ آخری تنبیہ ہے جو کفار کو دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی نے کہا اور تم نے سن کر رد کر دیا، اس پر بات ختم نہیں ہو جانی ہے۔  دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور آخر کار اسی کے دربار سے یہ فیصلہ ہونا ہے کہ کس کا کیا انجام ہونا چاہیے۔

٭٭٭

 

 

 

(۴۳) سورۃ الزُّخْرف

 

 

نام

 

آیت ۳۵ کے لفظ : وَزُخْرُ فاً سے ماخوذ ہے۔  مطلب یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں لفظ زُخْرُفْ آیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوسکا ہے۔  لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورہ بھی اسی زمانے میں نزول ہوئی ہے جس میں المومن، حٰم السجدہ اور الشوریٰ نازل ہوئیں۔ یہ ایک ہی سلسلے کی سورتیں معلوم ہوتی ہیں جن کا نزول اس وقت سے شروع ہوا جب کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جان کے درپے ہو گئے تھے۔  شب و روز اپنی محفلوں میں بیٹھ بیٹھ کر مشورے کر رہے تھے کہ آپ کو کس طرح ختم کیا جائے، اور ایک حملہ آپ کی جان پر ہو بھی چکا تھا۔ اس صورت حال کی طرف آیات ۷۹۔ ۸۰۔ میں صاف اشارہ موجود ہے۔

 

موضوع اور مباحث

 

اس سورے میں پورے زور کے ساتھ قریش اور اہل عرب کے ان جاہلانہ عقائد و اوہام پر تنقید کی گئی ہے جن پر وہ اصرار کیے چلے جا رہے تھے،  اور نہایت محکم و دل نشین طریقے سے ان کی نا معقولیت کا پردہ فاش کیا گیا ہے،  تا کہ معاشرے کا ہر فرد، جس کے اندر کچھ بھی معقولیت موجود ہو، یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ آخر یہ کیسی جہالتیں ہیں جن سے ہماری قوم بری طرح چمٹی ہوئی ہے،  اور جو شخص ہمیں ان کے چکر سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے۔

کلام کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ تم لوگ اپنی شرارتوں کے بل پر یہ چاہتے ہو کہ نزول روک دیا جائے، مگر اللہ نے کبھی اشرار کی وجہ سے انبیاء کی بعثت اور کتابوں کی تنزیل نہیں روکی ہے،  بلکہ ان ظالموں کو ہلاک کر دیا ہے جس اس کی ہدایت کا راستہ روک کر کھڑے ہوئے تھے۔  یہی کچھ وہ اب بھی کرے گا۔ آگے چل کر آیات ۴۱۔ ۴۳۔ اور ۷۹۔ ۸۰ میں یہ مضمون پھر دہرایا گیا ہے۔  جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جان کے درپے تھے ان کو سناتے ہوئے حضور سے فرمایا گیا ہے کہ تم خواہ زندہ رہو یا نہ رہو، ان ظالموں کو ہم سزا دے کر رہیں گے۔  اور خود ان لوگوں کو صاف صاف متنبہ کر دیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہمارے نبی  کے خلاف ایک اقدام کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم بھی پھر ایک فیصلہ کن قدم اٹھائیں گے۔

اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ وہ مذہب کیا ہے جسے یہ لوگ سینے سے لگائے ہوئے ہیں، اور وہ دلائل کیا ہیں جن کے بل بوتے پر یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

خود مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کا، اور ان کا اپنا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔  یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ جن نعمتوں سے یہ فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ سب اللہ کی دی ہوئی ہیں۔ پھر بھی دوسروں کو اللہ کے ساتھ خدائی میں شریک کرنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں۔

بندوں کو اللہ کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ اور اولاد بھی بیٹیاں جنہیں خود اپنے لیے ننگ و عار سمجھتے ہیں۔ فرشتوں کو انہوں نے دیویاں قرار دے رکھا ہے۔  ان کے بت عورتوں کی شکل کے بنا رکھے ہیں۔ انہیں زنانہ کپڑے اور زیور پہناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کی عبادت کرتے ہیں اور ان ہی سے منتیں اور مرادیں مانگتے ہیں۔ آخر انہیں کیسے معلوم ہوا کہ فرشتے عورتیں ہیں ؟

ان جہالتوں پر ٹوکا جاتا ہے تو تقدیر کا بہانہ پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ ہمارے اس کام کو پسند نہ کرتا تو ہم کیسے ان بتوں کی پرستش کر سکتے تھے۔  حالانکہ اللہ کی پسند اور نا پسند معلوم ہونے کا ذریعہ اس کی کتابیں ہیں نہ کہ وہ کام جو دنیا میں اس کی مشیت کے تحت ہو رہے ہیں۔ مشیت کے تحت تو ایک بت پرستی ہی نہیں،  چوری،  زنا، ڈاکہ، قتل، سب ہی کچھ ہو رہا ہے۔  کیا اس دلیل سے ہر اس برائی کو جائز و برحق قرار دیا جائے گا جو دنیا میں ہو رہی ہے ؟

پوچھا جاتا ہے کہ اپنے اس شرک کے لیے تمہارے پاس اس غلط دلیل کے سوا کوئی اور سند بھی ہے،  تو جواب دیتے ہیں کہ باپ دادا سے یہ کام یوں ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔  گویا ان کے نزدیک کسی مذہب کے حق ہونے کے لیے یہ کافی دلیل ہے۔  حالانکہ ابراہیم علیہ السلام،  جن کی اولاد ہونے پر ہی ان کے سارے فخر و امتیاز کا مدار  ہے،  باپ دادا کے مذہب کو لات کار کر گھر سے نکل گئے تھے اور انہوں نے اسلاف کی ایسی اندھی تقلید کو رد کر دیا تھا جس کا ساتھ کوئی دلیل معقول نہ دیتی ہو۔ پھر اگر ان لوگوں کو اسلاف کی تقلید ہی کرنی تھی تو اس کے لیے بھی اپنے بزرگ ترین اسلاف، ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے جاہل ترین اسلاف کا انتخاب کیا !

ان سے کہا جاتا ہے  کہ کیا کبھی کسی نبی نے اور خدا کی طرف سے آئی ہوئی کسی کتاب نے بھی یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے بھی عبادت کے مستحق ہیں، تو یہ عیسائیوں کے اس فعل کو دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم کو ابنُ اللہ مانا اور ان کے پرستش کی۔  حالانکہ سوال یہ نہ تھا کہ کسی نبی کی امت نے شرک کیا ہے یا نہیں، بلکہ یہ تھا کہ خود کسی نبی نے شرک کی تعلیم دی ہے۔  ؟ عیسیٰ ابن مریمؑ نے کب کہا تھا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور تم میری عبادت کرو۔ ان کی اپنی تعلیم تو وہی تھی جو دنیا کے ہر بنی نے دی ہے کہ میرا رب بھی اللہ ہے اور تمہارا رب بھی،  اسی کی تم عبادت کرو۔

محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت تسلیم کرنے میں انہیں تامل ہے تو اس بنا پر کہ ان پاس مال و دولت اور ریاست وجاہت تو ہے ہی نہیں۔ کہتے ہیں کہا اگر خدا ہمارے ہاں کسی کو نبی بنانا چاہتا تو ہمارے دونوں شہروں (مکہ و طائف ) کے بڑے آدمیوں میں سے کسی کو بناتا۔  اسی بنا پر فرعون نے بھی حضرت موسیٰ کو حقیر جانا تھا اور کہا تھا کہ آسمان کا بادشاہ اگر مجھ زمین کے بادشاہ کے پاس کوئی ایلچی بھیجتا تو اسے سونے کے کنگن پہنا کر، فرشتوں کی ایک فوج اس کی اردلی میں دے کر بھیجتا۔ یہ فقیر کہاں سے آ کھڑا ہوا ؟ فضیلت مجھے حاصل ہے کہ مصر کی بادشاہی میری ہے اور دریائے نیل کی نہریں میری ماتحتی میں چل رہی ہیں۔ یہ شخص میرے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے کہ نہ مال رکھتا ہے نہ اقتدار۔

اس طرح کفار کی ایک ایک  جاہلانہ بات پر تنقید  کرنے اور اس کے نہایت معقول و مد لل جوابات دینے کے بعد آخر میں صاف صاف کہا گیا ہ کہ نہ خدا کی کوئی اولاد ہے،  نہ آسمان و زمین کے خدا الگ الگ ہیں، نہ اللہ کے ہاں کوئی ایسا شفیع ہے جو جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرنے والوں کے اس کی سزا سے بچا سکے اللہ کی ذات اس سے منزّہ ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہو۔ وہی اکیلا ساری کائنات کا خدا ہے،  باقی سب اس کے بندے ہیں نہ کہ اس کے ساتھ خدائی صفات و اختیارات میں شریک۔ اور شفاعت اس کے ہاں صرف وہی کر سکتے ہیں جو خود حق پرست ہوں، اور ان ہی کے لیے کر سکتے ہیں جنہوں نے دنیا میں حق پرستی اختیار کی ہو۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

حٓ۔  مٓ۔  قسم ہے اس واضح کتاب کی کہ ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اسے سمجھو (۱)۔ اور دو حقیقت یہ امّ الکتاب میں ثبت ہے (۲)، ہمارے ہاں بڑی بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز کتاب(۳)۔

اب کیا ہم تم سے پیزار ہو کر یہ درس نصیحت تمہارے ہاں بھیجنا چھوڑ دیں صرف اس لیے کہ تم حد سے گزر ہوئے لوگ ہو؟(۴) پہلے گزری ہوئی قوموں میں بھی بارہا ہم نے نبی بھیجے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی ان کے ہاں آیا ہو اور انہوں نے اس کا مذاق نہ اڑایا ہو(۵)۔ پھر جو لوگ ان سے بدر جہا زیادہ طاقتور تھے انہیں ہم نے ہلاک کر دیا،  پچھلی قوموں کی مثالیں گزر چکی ہیں(۶)۔

اگر تم ان لوگوں سے پوچھو زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ انہیں اسے زبردست علیم ہستی نے پیدا کیا ہے۔ وہی نا جس نے تمہارے لیے اس زمین کو گہوارہ بنا یا (۷) اور اس میں تمہاری خاطر راستے بنا دیے تاکہ تم اپنی منزل مقصود کی راہ پا سکو(۹)۔ جس نے ایک خاص مقدار میں آسمان سے پانی اُتارا(۱۰) اور اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جِلا  اُٹھایا  اسی طرح ایک روز تم زمین سے برآمد کیے جاؤ گے (۱۱)۔  وہی جس نے یہ تمام جوڑے پیدا کیے (۱۲)، اور جس نے تمہارے لیے کشتیوں اور جانوروں کو سواری بنایا تاکہ تم ان کی پشت پر چڑھو اور جب ان پر بیٹھو تو اپنے رب کا احسان یاد کرو اور کہو کہ ’’ پاک ہے وہ جس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر کر دیا ورنہ ہم انہیں قابو میں لانے کی طاقت نہ رکھتے تھے (۱۳)، اور ایک روز ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے ‘‘ (۱۴)۔

(یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ) ان لوگوں نے اس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا ڈالا (۱۵)، حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے۔ ع

 

تفسیر

 

۱۔ قرآن مجید کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف ’’ہم‘‘ ہیں نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اور قسم کھانے کے لیے قرآن کی جس صفت کا انتخاب کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ’’کتاب مبین‘‘ ہے۔  اس صفت کے ساتھ قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر خود قرآن کی قسم کھانا آپ سے آپ یہ معنی دے رہا ہے کہ لوگو، یہ کھلی کتاب تمہارے سامنے موجود ہے،  اسے آنکھیں کھول کر دیکھو، اس کے صاف صاف غیر مبہم مضامین، اس کی زبان،  اس کا ادب،  اس کی حق و باطل کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچ دینے والی تعلیم، یہ ساری چیزیں اس حقیقت کی صریح شہادت دے رہی ہیں کہ اس کا مصنف خداوند عالم کے سوال کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا۔

پھر یہ جو فرمایا کہ ’’ ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم اسے سمجھو، ‘‘ اس کے دو مطلب ہیں۔  ایک یہ کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے،  بلکہ تمہاری اپنی زبان میں ہے،  اس لیے اسے جانچنے پرکھنے اور اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے میں تمہیں کوئی دقت پیش نہیں آ سکتی۔  یہ کسی عجمی زبان میں ہوتا تو تم یہ عذر کر سکتے تھے کہ ہم اس کے کلام الٰہی ہونے یا نہ ہونے کی جانچ کیسے کریں جب کہ ہماری سمجھ ہی میں یہ نہیں آ رہا ہے۔  لیکن اس عربی قرآن کے متعلق تم یہ عذر کسے کر سکتے ہو۔ اس کا ایک ایک لفظ تمہارے لیے واضح  ہے۔  اس کی ہر عبارت اپنی زبان اور اپنے مضمون،  دونوں کے لحاظ سے تم پر روشن ہے۔  خود دیکھ لو کہ کیا یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا یا کسی دوسرے عرب کا کلام ہو سکتا ہے۔  دوسرا مطلب اس ارشاد کا یہ ہے کہ اس کتاب کی زبان ہم نے عربی اس لیے رکھی ہے کہ ہم عرب قوم کو مخاطب کر رہے ہیں اور وہ عربی زبان کے قرآن ہی کو سمجھ سکتی ہے۔  عربی میں قرآن نازل کرنے کی اس صریح وجہ کو نظر انداز کر کے جو شخص صرف اس بنا پر اسے کلام الٰہی کے بجائے کلام محمدؐ قرار دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی مادری زبان بھی عربی ہے تو وہ بڑی زیادتی کرتا ہے۔  (ان دوسرے مطلب کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن،  جلد چہارم، سورہ حٰم السجدہ، آیت ۴۴ مع حاشیہ نمبر ۵۴ ملاحظہ فرمائیں)

۲۔ ’’ امّ الکتاب ‘‘ سے مراد ہے ’’ اصل الکتاب‘‘ یعنی وہ کتاب جس سے تمام انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتابیں ماخوذ ہیں۔ اسی کو سورہ واقعہ میں : کِتَابٌ  مَّکْنُوْنٌ (پوشیدہ اور محفوظ کتاب) کہا گیا ہے،  اور سورہ بُروج میں اس کے لیے لوح محفوظ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، یعنی ایسی لوح جس کا لکھا مِٹ نہیں سکتا اور جو ہر قسم کی در اندازی سے محفوظ ہے۔  قرآن کے متعلق یہ فرم کر کہ یہ ’’ امّ الکتاب‘‘ میں ہے  ایک اہم حقیقت پر متنبہ فرمایا گیا ہے۔  اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں اور قوموں کی ہدایت کے لیے مختلف انبیاء پر مختلف زبانوں کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں، کگر ان سے میں دعوت ایک ہی عقیدے کی طرف دی گئی ہے،  حق ایک ہی سچائی کو قرار دیا گیا ہے،  خیر و شر کا ایک ہی معیار پیش کیا گیا ہے،  اخلاق و تہذیب کے یکساں اصول بیان کیے گئے ہیں اور فی ا لجملہ ایک ہی دین ہے جسے یہ سب کتابیں لے کر آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کی اصل ایک ہے اور صرف عبارتیں مختلف ہیں۔ ایک ہی معنی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بنیادی کتاب میں ثبت ہیں اور جب کبھی ضرورت پیش آئی ہے،  اس نے کسی نبی کو مبعوث کر کے وہ معنی حال اور موقع کی مناسبت سے ایک خاص عبارت اور خاص زبان میں نازل فرما دیے ہیں۔  اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کا فیصلہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو عرب کے بجائے کسی اور قوم میں پیدا کرنے کا ہوتا تو یہی قرآن وہ حضورؐ پر اسی قوم کی زبان میں نازل کرتا۔ اس میں بات اسی قوم اور ملک کے حالات کے لحاظ سے کی جاتی، عبارتیں کچھ اور ہوتیں، زبان بھی دوسری ہوتی، لیکن بنیادی طور پر تعلیم و ہدایت یہی ہوتی، اور وہ یہی قرآن ہوتا (اگرچہ قرآن عربی نہ ہوتا اسی مضمون کو سورہ شعراء میں یوں ادا کیا گیا ہے : وَ اِنَّہٗ  لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ………… بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ وَّ اِ نَّہٗ  لَفِیْ زُبُرِ الْاَ وَّ لِیْنَ (۱۹۲۔ ۱۹۶)۔ ’’ یہ رب العٰلمین کی نازل کردہ کتاب ہے …………. صاف صاف عربی زبان میں،  اور یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ ‘‘(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم،  صفحات ۵۳۴۔  ۵۳۵)

۳۔ اس فقرے کا تعلق کتاب مبین سے بھی ہے اور امّ الکتاب سے بھی۔  یعنی یہ تعریف قرآن کی بھی ہے اور اس اصل کتاب کی بھی جس سے قرآن منقول یا ماخوذ ہے۔  اس تعریف سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کوئی شخص اپنی نادانی سے اس کتاب کی قدر و منزلت نہ پہچانے اور اس کی حکیمانہ تعلیم سے فائدہ نہ اٹھائے تو یہ اس کی اپنی بد قسمتی ہے۔  کوئی اگر اس کی حیثیت کو گرانے کی کوشش کرے اور اس کی باتوں میں کیڑے ڈالے تو یہ اس کی اپنی رذالت ہے۔  کسی کی ناقدری سے یہ بے قدر نہیں ہو سکتی، اور کسی کے خاک ڈالنے سے اس کی حکمت چھپ نہیں سکتی۔ یہ تو بجائے خود ایک بلند مرتبہ کتاب ہے جسے اس کی بے نظیر تعلیم،  اس کی معجزانہ بلاغت،  اس کی بے عیب حکمت اور اس کے عالی شان مصنف کی شخصیت نے بلند کیا ہے۔  یہ کسی کے گرائے کیسے گر جائے گی۔ آگے چل کر آیت ۴۴ میں ریش کو خاص طور پر اور اہل عرب کو بالعموم یہ بتایا گیا ہے کہ جس کتاب کی تم اس طرح نا قدری کر رہے ہو اس کے نزول نے تم کو ایک بہت بڑے شرف کا موقع عطا کیا ہے جسے اگر تم نے کھو دیا تو خدا کے سامنے تمہیں سخت جوابدہی کرنی ہو گی۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ ۳۹)

۴۔  اس ایک فقرے میں وہ پوری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلان نبوت کے وقت سے لے کر ان آیات کے نزول تم پچھلے چند برس میں ہو گزری تھی۔ یہ فقرہ ہمارے سامنے یہ تصویر کھینچتا ہے کہ ایک قوم صدیوں سے سخت جہالت،  پستی اور بد حالی میں مبتلا ہے۔  یکایک اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت اس پر ہوتی ہے۔  وہ اس کے اندر ایک بہترین رہنما اٹھاتا ہے اور اسے جہالت کی تاریکیوں سے  نکالنے کے لیے خود اپنا کلام نازل کرتا ہے،  تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہو،  جاہلانہ اوہام کے چکر سے نکلے اور حقیقت سے آگاہ ہو کر زندگی کا صحیح راستہ اختیار کر لے۔  مگر اس قوم کے نادان لوگ اور اس کے خود غرض قبائلی سردار اس رہنما کی پیچھے ہاتھ دھو کر  پڑ جاتے ہیں اور اسے ناکام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ جوں جوں سال پر سال گزرتے جاتے ہیں، ان کی عداوت اور شرارت بڑھتی چلی جاتی ہے،  یہاں تک کہ وہ اسے قتل کر دینے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اس حالت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ کیا تمہاری اس نالائقی  کی وجہ سے ہم تمہاری اصلاح کی کوشش چھوڑ دیں ؟ اس درس نصیحت کا سلسلہ روک دیں ؟ اور تمہیں اسی پستی میں پڑا رہنے دیں جس میں تم صدیوں سے گرے ہوئے ہو ؟ کیا تمہارے نزدیک واقعی ہماری رحمت کا تقاضا یہی ہونا چاہیے ؟ تم نے کچھ سوچا بھی خدا کے فضل کو ٹھکرانا اور حق سامنے آ جانے کے بعد باطل پر اصرار کرنا تمہیں کس انجام سے دوچار کرے گا۔ ؟

۵۔ یعنی یہ بیہودگی اگر نبی اور کتاب کے بھیجنے میں مانع ہوتی تو کسی قوم میں بھی کوئی نبی نہ آتا،  نہ کوئی کتاب بھیجی جاتی۔

۶۔ یعنی خاص لوگوں کی بیہودگی کا نتیجہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ پوری نوع انسانی کو نبوت اور کتاب کی رہنمائی سے محروم کر  دیا جاتا،  بلکہ اس کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جو لوگ باطل پرستی کے نشے اور اپنی وقت کے گھمنڈ میں بد مست ہو کر انبیاء کا مذاق اڑانے سے باز نہ آئے انہیں آخر کار تباہ کر دیا گیا۔ پھر جب اللہ کا قہر ٹوٹ پڑا تو جس وقت کے بل پر یہ قریش کے چھوٹے چھوٹے سردار اکڑ رہے ہیں اس سے ہزاروں گُنی زیادہ طاقت رکھنے والے بھی مچھر اور پسّو کی طرح مسل کر رکھ دیئے  گئے۔

۷۔ دوسرے مقامات پر تو زمین کو فرش سے تعبیر کیا گیا ہے مگر یہاں اس کے لیے گہوارے کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے۔  یعنی جس طرح ایک بچہ اپنے پنگھوڑے میں آرام سے لیٹا ہوتا ہے،  ایسے آرام کی جگہ تمہارے لیے اس عظیم الشان کُرے کو بنا دیا جو فضا میں معلق ہے۔  جو ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے محور پر گھوم رہا ہے۔  جو ۶۶۶۰۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رواں دواں ہے۔  جسکے پیٹ میں وہ آگ بھری ہے کہ پتھروں کو پگھلا دیتی ہے اور آتش فشانوں کی شکل میں لاوا اُگل کر کبھی کبھی تمہیں بھی اپنی شان دکھا دیتی ہے۔  مگر اس کے باوجود تمہارے خالق نے اسے اتنا پر سکون بنا دیا ہے کہ تم آرام سے اس پر سوتے ہو اور تمہیں ذرا جھٹکا تک نہیں لگتا۔ تم اس پر رہتے ہو اور تمہیں یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ کرہ معلق ہے اور تم اس پر سر کے بل لٹکے ہوئے ہو۔  تم اطمینان سے اس پر چلتے پھرتے ہو اور تمہیں یہ خیال تک نہیں آ تا کہ تم بندوق کی گولی سے بھی زیادہ تیز رفتار گاڑی پر سوار ہو، حالانکہ اس کی ایک معمولی سی جھر جھری کبھی زلزلے کی شکل میں آ کر تمہیں خبر دے دیتی ہے کہ یہ کس بلا کا خوفناک دیو ہے جسے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، صفحات ۵۹۰ تا ۵۹۲)

۸۔  پہاڑوں کے بیچ بیچ میں درّے، اور پھر کوہستانی اور میدانی علاقوں میں دریا وہ قدرتی راستے ہیں جو اللہ نے زمین کی پشت پر بنا دیے  ہیں۔ انسان ان ہی کی مدد سے کرہ زمین پر پھیلا ہے۔  اگر پہاڑی سلسلوں کو کسی شگاف کے بغیر بالکل ٹھوس دیوار کی شکل میں کھڑا کر دیا جاتا اور زمین میں کہیں دریا، ندیاں، نالے نہ ہوتے تو آدمی جہاں پیدا ہوا تھا اسی علاقے میں مقید ہو کر رہ جاتا۔ پھر اللہ مزید فضل یہ فرمایا کہ تمام روئے زمین کو یکساں بنا کر نہیں رکھ دیا، بلکہ اس میں قسم قسم کے ایسے امتیازی نشانات (Land marks) قائم کر دیے جن کی مدد سے انسان مختلف علاقوں کو پہچانتا ہے اور ایک علاقے اور دوتے علاقے کا فرق محسوس کرتا ہے۔  یہ دوسرا اہم ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان کے لیے زمین میں نقل و حرکت آسان ہوئی۔  اس نعمت کی قدر آدمی کو اس وقت معلوم ہوتی ہے جب اسے کسی لق و دق صحرا میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے،  جہاں سینکڑوں میل تک زمین ہر قسم کے امتیازی نشانات سے خالی ہوتی ہے اور آدمی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچا ہے اور آگے کدھر جائے۔

یہ فقرہ بیک وقت دو معنی دے رہا ہے۔  ایک معنی یہ کہ تم ان قدرتی راستوں اور ان نشانات راہ کی مدد سے اپنا راستہ معلوم کر سکو اور اس جگہ تک پہنچ سکو جہاں جانا چاہتے ہو۔  دوسرے معنی یہ کہ الل جل شانہ کی اس کاری گری کو دیکھ کر تم ہدایت حاصل کر سکو، حقیقت نفس الامری کو پا سکو،  اور یہ سمجھ سکو کہ زمین میں یہ انتظام اَلل ٹپ نہیں ہو گیا ہے،  نہ بہت سے خداؤں نے مل کر یہ تدبیر کی ہے بلکہ ایک رب حکیم ہے جس نے اپنی مخلوق کی ضروریات کا ملحوظ رکھ کر پہاڑوں اور میدانوں میں یہ راستے بنائے ہیں اور زمین کے ایک ایک خطے کو بے شمار طریقوں سے ایک الگ شکل دی ہے جس کی بدولت انسان ہر خطے کو دوسرے سے ممیز کر سکتا ہے۔

۱۰۔  یعنی ہر علاقے کے لیے بارش کی ایک اوسط مقدار مقرر کی جو مدت ہائے دراز تک سال بہ سال ایک ہی ہموار طریقے سے چلتی رہتی ہے۔  اس میں ایسی بے قاعدگی نہیں رکھی کہ کبھی سال میں دو انچ بارش ہو اور کبھی دو سو انچ ہو جائے۔  پھر وہ اس کو مختلف زمانوں میں اور مختلف اوقات میں جگہ جگہ پھیلا کر اس طرح برساتا ہے کہ بالعموم وہ وسیع پیمانے پر زمین کی بار آوری کے لیے نافع ہوتی ہے۔  اور یہ بھی اس کی حکمت ہی ہے کہ زمین کے بعض حصوں کو اس نے بارش سے قریب قریب بالکل محروم کر کے بے آب و گیاہ صحرا بنا دیے ہیں،  اور بعض دوسرے حصوں میں وہ کبھی قحط ڈال دیتا ہے اور کبھی طوفانی بارش کر دیتا ہے تاکہ آدمی یہ جان سکے کہ زمین کے آباد علاقوں میں بارش اور اس کے عام باقاعدگی کتنی بڑی نعمت ہے،  اور یہ بھی اس کو یاد رہے کہ اس نظام پر کوئی دوسری طاقت حکمراں ہے جس کے فیصلوں کے آگے کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی۔  کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ایک  ملک میں بارش کے عام اوسط کو بدل سکے،  یا زمین کے وسیع علاقوں پر اس کی تقسیم میں فرق ڈال سکے،  یا کسی آتے ہوئے طوفان کو روک سکے،  یا روٹھے ہوئے بادلوں کو منا کر اپنے ملک کی طرف کھینچ لائے اور انہیں برسنے پر مجبور کر دے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، صفحات ۵۰۲۔ ۵۰۳۔ جلد سوم،  ص ۲۷۰۔ ۲۷۲)۔

۱۱۔  یہاں پانی کے ذریعہ سے زمین کے اندر روئیدگی کی پیدائش کو بیک وقت دو چیزوں کی دلیل قرار دیا گیا ہے۔  ایک یہ کہ یہ کام خدائے واحد کی قدرت و حکمت سے ہو رہے ہیں، کوئی دوسرا اس کار خدائی میں اس کا شریک نہیں ہے۔  دوسرے یہ کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی ہو سکتی ہے اور ہو گی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، ص ۵۴۹۔ ۵۵۰۔ جلد سوم،  ص ۲۰۲۔ ۲۰۵۔ ۵۸۹۔ ۵۹۰۔ ۷۴۲۔ ۷۴۳۔ ۷۴۸۔ ۷۴۹۔ جلد چہارم، سورہ فاطر، حاشیہ ۱۹، سورہ یٰسٓ،  حاشیہ ۲۹)۔

۱۲۔ جوڑوں سے مراد صرف نوع انسانی کے زن و مرد،  اور حیوانات و نباتات کے نر و مادہ ہی نہیں ہیں، بلکہ دوسری بے شمار چیزیں بھی ہیں جن کو خالق نے ایک دوسرے کا جوڑ بنایا ہے اور جن کے اختلاط یا امتزاج سے  دنیا میں نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں۔ مثلاً عناصر میں بعض سے جوڑ لگتا ہے اور بعض کا بعض سے نہیں لگتا۔ جن کا جوڑ ایک دوسرے سے لگتا ہے،  ان ہی کے ملنے سے طرح طرح کی ترکیبیں واقع ہو رہی ہیں۔ یا مثلاً بجلی میں منفی اور مثبت بجلیاں ایک دوسرے کا جوڑ ہیں اور ان کی باہمی کشش ہی دنیا میں عجیب عجیب کرشموں کی موجب بن رہی ہے۔  یہ اور دوسرے ان گنت جوڑ ے جو قسم قسم کی مخلوقات کے اندر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں،  ان کی ساخت،  اور ان کی باہمی مناسبتوں،  اور ان کے تعامل کی گوناگوں شکلوں، اور ان کے ملنے سے پیدا ہونے والے نتائج پر اگر انسان غور کرے تو اس کا دل یہ گواہی دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ سارا کارخانہ عالم کسی ایک ہی زبردست صانع حکیم کا بنا یا ہوا ہے،  اور اسی کی تدبیر سے یہ چل رہا ہے۔  صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ فرض کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی حکیم کے بغیر ہوا اور ہو رہا ہے،  یا اس میں ایک سے زیادہ خداؤں کی دخیل کاری کا کوئی امکان ہے۔

۱۳۔ یعنی زمین کی تمام مخلوقات میں سے تنہا انسان کو کشتیاں اور جہاز چلانے اور سواری کے لیے جانور استعمال کرنے کی یہ مقدرت اللہ تعالیٰ نے اس لیے تو نہیں دی تھی کہ وہ غلے کی بوریوں کی طرح ان پر لد جائے اور کبھی نہ سوچے کہ آخر وہ کون ہے جس نے ہمارے لیے بحر ذخّار میں کشتیاں دوڑانے کے امکانات پیدا کیے،  اور جس نے جانوروں کی بے شمار اقسام میں سے بعض کو اس طرح پیدا کیا کہ وہ ہم سے بدر جہا زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود ہمارے تابع فرمان بن جاتے ہیں اور ہم ان پر سوار ہو کر جدھر چاہتے ہیں انہیں لیے پھرتے ہیں۔  ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا اور نعمت دینے والے کو فراموش کر دینا،  دل کے مردہ اور عقل و ضمیر کے بے حس ہونے کی علامت ہے۔  ایک زندہ اور حساس قلب و ضمیر رکھنے والا انسان تو ان سواریوں پر جب بیٹھے گا تو اس کا سل احساس نعمت اور شکر نعمت کے جذبے سے لبریز ہو جائے گا۔ وہ پکار اٹھے گا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے میرے لی ان چیزوں کو مسخر کیا۔ پاک ہے اس سے کہ اس کی ذات و صفات اور اختیارات میں کوئی اس کا شریک ہو۔ پاک ہے اس کمزوری سے کہ اپنی خدائی کا کام خود چلانے سے وہ عاجز ہو اور دوسرے مدد گار خداؤں کی اسے حاجت پیش آئے۔  پاک ہے اس سے کہ میں ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے میں اس کی ساتھ کسی اور کو شریک کروں۔

اس آیت کے منشا کی بہترین عملی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وہ اذکار ہیں جو سواریوں پر بیٹھتے وقت آپؐ کی زبان مبارک پر جاری ہوتے تھے۔  حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ جب سفر پر جانے کے لیے سواری پر بیٹھتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے،  پھر  یہ آیت پڑھتے،  اور اس کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔  : اللھم انی اسأ لُکَ فی سفری ھٰذا لابرَّ و التقویٰ،  ومن العمل ماثرضیٰ،  اللھم ھون انالسفر، واطْو، لَنا البعید،  اللھم انت الصاحب فی السفر،  الخلیفۃُ فی الاھل، اللھم اَصْحِبْا فی سفر نا واخْلُفْنَا فی اھلنا (مسند احمد،  مسلم، ابوداؤد نسائی،  دارمی، ترمذی)۔  ’’ خدایا میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے اس سفر میں مجھے نیکی اور تقویٰ اور ایسے عمل کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو۔ خدایا ہمارے لیے سفر کو آسان کر دے اور لمبی مسافت کو لپیٹ دے،  خدایا تو ہی سفر کا ساتھی اور ہمارے پیچھے ہمارے اہل و عیال کا نگہبان ہے،  خدایا ہمارے سفر میں ہمارے ساتھ اور پیچھے ہمارے گھر والوں کی خبر گیری فرما۔ ‘‘

حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ کہہ کر رکاب میں پاؤں رکھا،  پھر سوار ہونے کے بعد فرمایا : الحمد للہ،  سبحان الذی سخر لنا ھٰذا ……….،  پھر تین مرتبہ الحمد للہ اور تین دفعہ اللہ اکبر کہا،  پھر فرمایا سبحانک، لا اِلٰہ الا انت،  قد ظلمتُ نفسی فاغفرلی۔ اس کے بعد آپ ہنس دیے۔  میں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ ہنسے کس بات پر ؟ فرمایا،  بندہ جب ربِّ اغْفِرْ لِیْ کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کی یہ بات بڑی پسند آتی ہے،  وہ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا مغفرت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔  (احمد، ابوداؤد،  ترمذی،  نسائی وغیرہ)۔

ایک صاحب ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں جانور پر سوار ہوا اور میں نے آیت سُبحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا  پڑھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا اس طرح کرنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ؟میں نے عرض کیا پھر کیا کہوں ؟ فرمایا کہو کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں اسلام کی ہدایت دی، شکر ہے اس کا کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیج کر ہم پر احسان فرمایا،  شکر ہے اس کا کہ اس نے ہمیں اس بہترین امت میں داخل کیا جو خلق خدا کے لیے نکالی گئی ہے،  اس کے بعد یہ آیت پڑھو(ابن جریر۔  احکام القرآن للجصّاص)۔

۱۴۔ مطلب یہ ہے کہ ہر سفر پر جاتے ہوئے یاد کر لو  کہ آگے ایک بڑا اور آخری سفر بھی درپیش ہے۔  اس کے علاوہ چونکہ ہر سواری کو استعمال کرنے میں یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ شاید کوئی حادثہ اسی سفر کو آدمی کا آخری سفر بنا دے،  اس لیے بہتر ہے کہ ہر مرتبہ وہ اپنے رب کی طرف واپسی کو یاد کر کے چلے تاکہ اگر مرنا ہی ہے تو بے خبر نہ مرے۔

یہاں تھوڑی دیر ٹھیر کر ذرا اس تعلیم کے اخلاقی نتائج کا بھی اندازہ کر لیجیے۔  کیا آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ جو شخص کسی سواری پر بیٹھتے وقت سمجھ بوجھ کر پورے شعور کے ساتھ اس طرح اللہ کو اور اس کے حضور اپنی واپسی اور جواب دہی کو یاد کر کے چلا ہو وہ آگے جا کر کسی فسق و فجور یا کسی ظلم ستم کا مرتکب ہو گا ؟ کیا کسی فاحشہ سے ملاقات کے لیے،  یا کسی کلب میں شراب خوری اور قمار بازی کے لیے جانے وقت بھی کوئی شخص یہ کلمات زبان سے نکال سکتا ہے یا ان کا خیال کر سکتا ہے ؟ کیا کوئی حاکم یا سرکاری افسر، یا تاجر، جو یہ کچھ سوچ کر اور اپنے منہ سے کہہ کر گھر سے چلا ہو، اپنی جائے عمل پر پہنچ کر لوگوں کے حق مار سکتا ہے ؟ کیا کوئی سپاہی بے گناہوں کا خون بہانے اور کمزوروں کی آزادی پر ڈاکہ مارنے کے لیے جاتے وقت بھی اپنے ہوائی جہاز یا ٹینک پر قدم رکھتے ہوئے یہ الفاظ زبان پر لا سکتا ہے ؟ اگر نہیں، تو یہی ایک چیز ہراس نقل و حرکت پر بند باندھ دینے کے لی کافی ہے جو معصیت کے لیے ہو۔

۱۵۔ جُزء بنا دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے کسی بندے کو اس کی اولاد قرار دیا جائے، کیونکہ اولاد و لامحالہ باپ کی ہم جنس اور اس کے وجود کا یک جزء ہوتی ہے،  اور کسی شخص کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی کہنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اسے اللہ کی ذات میں شریک کیا جا رہا ہے۔  اس کے علاوہ کسی مخلوق کو اللہ کا جزء بنانے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اسے ان صفات اور اختیارات کا حامل قرار دیا جائے جو اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں،  اور اسی تصور کے تحت اس سے دعائیں مانگ جائیں، یا اس کے  آگے عبودیت کے مراسم ادا کیے جائیں،  یا اس کی تحریم و تحلیل کو شریعت واجب الاتباع ٹھیرا لیا جائے۔  کیونکہ اس صورت میں آدمی اُلوہیت  و ربوبیت کا اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان بانٹتا ہے اور اس کا ایک جز بندوں کے حوالے کر دیتا ہے۔

 

ترجمہ

 

کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں انتخاب کیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا ؟ اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اس خدائے رحمان کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کی ولادت کا مژدہ جب خود ان میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم سے پھر جاتا ہے (۱۶)۔ کیا اللہ کے حصے میں ہو اولاد آئی جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث و حجت میں اپنا مدعا پوری طرف واضح بھی نہیں کر سکتی؟(۱۷)

انہوں نے فرشتوں کو، جو خدائے رحمان کے خاص بندے ہیں (۱۸)، عورتیں قرار دے لیا۔ کیا ان کے جسم کی ساخت انہوں نے دیکھی ہے ؟(۱۹) ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور انہیں اس کی جوابدہی کرنی ہو گی۔

یہ کہتے ہیں’’ اگر خدائے رحمٰن چاہتا (کہ ہم ان کی عبادت نہ کریں ) تو ہم کبھی ان کو نہ پوجتے ’‘۔ (۲۰) یہ اس معاملے کی حقیقت کو قطعی نہیں جانتے،  محض تیر تکّے لڑاتے ہیں۔ کیا ہم نے اس سے پہل کوئی کتاب ان کو دی تھی جس کی سند (اپنی اس ملائکہ پرستی کے لیے ) یہ اپنے پاس رکھتے ہوں؟ (۲۱) نہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پا یا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں(۲۲)۔ اسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم کوئی نذیر بھیجا،  اس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پا یا ہے  اور ہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں (۲۳)۔ ہر نبی نے ان سے پوچھا،  کیا تم اسی ڈگر پر چلے جاؤ گے خواہ میں اس راستے سے زیادہ صحیح راستہ تمہیں بتاؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ؟ انہوں نے سارے رسولوں کو یہی جواب دیا کہ جس دین کی طرف بلانے کے لیے تم بھیجے گئے ہو ہم اس کے کافر ہیں۔ آخر کار ہم نے ان کی خبر لے ڈالی اور دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ ع

 

تفسیر

 

۱۶۔ یہاں مشرکین عرب کی نا معقولیت کو پوری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیا گیا ہے۔  وہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کے بت انہوں نے عورتوں کی  شکل کے بنا رکھے تھے،  اور یہی ان کی وہ دیویاں تھیں جن کی پرستش کی جاتے تھی۔  اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اول تو تم نے یہ جاننے اور ماننے کے باوجود کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ  ہے اور ان زمین کو اسی نے تمہارے لیے گواہ بنایا ہے،  اور وہی آسمان سے پانی برساتا ہے،  اور اسی نے یہ جانور تمہاری خدمت کے لیے پیدا کیے ہیں، اس کے ساتھ دوسروں کو معبود بنایا۔  حالانکہ جنہیں تم معبود بنا رہے ہو وہ خدا نہیں بلکہ بندے ہیں۔ پھر مزید غضب یہ کیا کہ بعض بندوں کو صفات ہی میں نہیں بلکہ اللہ کی ذات میں بھی اس کا شریک بنا ڈالا اور یہ عقیدہ ایجاد کیا کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں۔ اس پر بھی تم نے بس نہ کیا اور اللہ کے لیے وہ اولاد تجویز کی جسے تم خود اپنے لیے ننگ و عار سمجھتے ہو۔ بیٹی گھر میں پیدا ہو جائے تو تمہارا منہ کالا ہو جاتا ہے،  خون کا سا گھونٹ پیکر رہ جاتے ہو، بلکہ بعض اوقات زندہ بچی کو دفن کر دیتے ہو۔ یہ اولاد تو آئی اللہ کے حصے میں۔ اور بیٹے،  جو تمہارے نزدیک فخر کے قابل اولاد ہیں، مخصوص ہو گئے تمہارے لیے ؟ اس پر تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ ہم اللہ کے ماننے والے ہیں۔

۱۷۔ بالفاظ دیگر جو نرم و نازک اور ضعیف و کمزور اولاد ہے وہ تم نے اللہ کے حصے میں ڈالی، اور خم ٹھونک کر میدان میں اترنے والی اولاد خود لے اڑے۔

اس آیت سے عورتوں  کے زیور کے جواز کا پہلو نکلتا ہے،  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے زیور کو ایک فطری چیز  قرار دیا ہے۔  یہی بات احادیث سے بھی ثابت ہے۔  امام احمد، ابو داؤد اور نسائی حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ بنی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہاتھ میں ریشم اور دوسرے ہاتھ میں سونا لے کر فرمایا یہ دونوں چیزیں لباس میں استعمال کرنا میری امت کے مردوں پر حرام ہے۔  ترمذی اور نسائی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت نقل کی ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ریشم اور سونا میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں پر حرام کیا گیا۔  علامہ ابو بکر  جصاص نے احکام القرآن میں اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے حسب ذیل روایات نقل کی ہیں :

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن حارثہ کے صاحبزادے اسامہ بن زید کو چوٹ لگ گئی اور خون بہنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان سے اپنی اولاد جیسی محبت تھی۔ آپ ان کا خون چوس کر تھوکتے جاتے اور ان کو یہ کہہ کہہ کر بہلاتے جاتے کہ اسامہ اگر بیٹی ہوتا تو ہم اسے زیور پہنا تے،  اسامہ اگر بیٹی ہوتا تو ہم اسے اچھے اچھے کپڑے پہناتے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا :لبس الحریر والذھب حرام علی ذکور امتی و حلال لا نا ثھا، ’’ ریشمی کپڑے اور سونے کے زیور پہننا میری امت کے مردوں پر حرام اور عورتوں کے لیے حلال ہے۔ ‘‘حضرت عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ دو عورتیں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھیں۔ آپ نے فرمایا کیا تم پسند کرتی ہو کہ اللہ تمہیں ان کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا تو ان کا حق ادا کرو، یعنی ان کی زکوٰۃ نکالو۔

حضرت عائشہ کا قول ہے کہ زیور پہنے میں مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔

حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ تمہاری عملداری میں جو مسلمان عورتیں رہتی ہیں ان کو حکم دو کہ اپنے زیوروں کی زکوٰۃ نکالیں۔

امام ابو حنیفہ نے عمرو بن دینار کے حوالہ سے یہ  روایات نقل کی ہیں کہ حضرت عائشہ نے اپنی بہنوں کو اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیٹیوں کو سونے کے زیور پہنائے تھے۔

ان تمام روایات کو نقل کرنے کے بعد علامہ جصاص لکھتے ہیں کہ  ’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ سے جو روایات عورتوں کے لیے سونے اور ریشم کے حلال ہونے کے متعلق وارد ہوئی ہیں وہ عدم جواز کی روایات سے زیادہ مشہور اور نمایاں ہیں۔ اور آیت مذکورہ بالا بھی اس کے جواز پر دلالت کر رہی ہے۔  پھر امت کا عمل بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کے زمانے سے ہمارے زمانے (یعنی چوتھی صدی کے آخری دور) تک یہی رہا ہے،  بغیر اس کے کہ کسی نے اس پر اعتراض کیا ہو۔ اس طرح کے مسائل میں اخبار آحاد کی بنا پر کوئی اعتراض تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘

۱۸۔ یعنی مذکر یا مونث ہونے سے مبرا ہیں۔ یہ مفہوم فحوائے کلام سے خود بخود مترشح ہو رہا ہے۔

۱۹۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ کیا نا کی پیدائش کے وقت یہ  موجود تھے ‘‘؟

۲۰۔ یہ اپنی گمراہی پر تقدیر سے ان کا استدلال تھا جو ہمیشہ سے غلط کار لوگوں کا شیوہ رہا ہے۔  ان کا کہنا یہ تھا کہ ہمارا فرشتوں کی عبادت کرنا اسی لیے تو ممکن ہوا کہ اللہ نے ہمیں یہ کام کرنے دیا۔  اگر وہ نہ چاہتا کہ ہم یہ فعل کریں تو  ہم کسے کر سکتے تھے پھر مدت ہائے دراز سے ہمارے ہاں یہ کام ہو رہا ہے اور اللہ کی طرف سے اس پر کوئی عذاب نازل نہ ہوا۔ اس کے  معنی یہ ہیں کہ اللہ کو ہمارا یہ کام نا پسند نہیں ہے۔

۲۱۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ چونکہ اللہ کی  مشیت کے تحت ہو رہا ہے،  اس لیے ضرور اس کو اللہ کی رضا بھی حاصل ہے۔  حالانکہ اگر یہ استدلال صحیح ہو تو دنیا میں صرف ایک شرک ہی تو نہیں ہو رہا ہے۔  چوری،  ڈاکہ،  قتل،  زنا،  رشوت،  بد عہدی، اور ایسے ہی دوسرے بے شمار جرائم بھی ہو رہے ہیں جنہیں کوئی شخص بھی نیکی اور بھلائی نہیں سمجھتا۔  پھر کیا اسی طرز استدلال کی بنا پر یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ تمام افعال حلال و طیب ہیں،  کیونکہ اللہ اپنی دنیا میں انہیں ہونے دے رہا ہے،  اور جب وہ انہیں ہونے دے رہا ہے،  تو ضرور وہ ان کو پسند بھی کرتا ہے ؟ اللہ کی پسند اور نا پسند معلوم ہونے کا ذریعہ وہ واقعات نہیں ہیں جو دنیا میں ہو رہے ہیں،  بلکہ اللہ کی کتاب ہے جو اس کے رسول کے ذریعہ سے آتی ہے  اور جس میں للہ خود بتاتا ہے کہ اسے کونسے عقائد،  کون سے عمال،  اور کون سے اخلاق پسند ہیں اور کون سے نا پسند۔  پس اگر قرآن سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب ان لوگوں کے پاس ایسی موجود ہو جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ فرشتے بھی میرے ساتھ تمہارے معبود ہیں  اور تم کو ان کی عبادت بھی کرنی چاہیے،  تو یہ لوگ اس کا حوالہ دیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص  ۵۷۰۔ ۵۷۳۔ ۵۷۴۔ ۵۸۷۔ ۵۹۴ تا ۵۹۶۔  جلد دوم،  ص ۲۰۔ ۳۱۳۔ ۳۷۳۔ ۳۷۴۔ ۴۶۱۔ ۵۲۸۔ ۵۳۹۔ ۵۴۰۔ ۵۶۸۔ جلد چہارم، الزمر، حاشیہ ۲۰۔ الشوریٰ، حاشیہ ۱۱)۔

۲۲۔ یعنی ان کے پاس کسی کتاب الہیٰ کی کوئی سند نہیں ہے بلکہ سند صرف یہ ہے کہ باپ دادا سے یونہی ہوتا چلا آ رہا ہے،  لہٰذا ہم بھی انہی کی تقلید میں فرشتوں کو دیویاں بنائے بیٹھے ہیں۔

۲۳۔ یہ بات قابل غور ہے کہ انبیاء کے مقابلے میں اٹھ کر باپ دادا کی تقلید کا جھنڈا بلند کرنے والے ہر زمانے میں اپنی قوم کے کھاتے پیتے لوگ ہی کیوں رہے ہیں ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ وہی حق کی مخالفت میں پیش پیش اور قائم شدہ جاہلیت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں  سرگرم رہے، اور وہی عوام کو بہکا اور بھڑکا کر انبیاء علیہم السلام کے خلاف فتنے اٹھاتے رہے ؟ اس کے بنیادی وجوہ دو تھے۔  ایک یہ کہ کھاتے پیتے اور خوشحال طبقے اپنی دنیا بنانے اور اس سے لطف اندوز ہونے میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ حق اور باطل کی، بزعم خویش،  دُور از کار بحث میں سر کھپانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔  ان کی تن آسانی اور ذہنی کاہلی انہیں دین کے معاملے میں انتہائی بے فکر،  اور اس کے ساتھ عملاً قدامت پسند (Conservative ) بنا دیتی ہے تاکہ جو حالت پہلے سے قائم چلی آ رہی ہے وہی، قطع نظر اس سے کہ وہ حق ہے یا باطل،  جوں کی  توں قائم رہے اور کسی نئے نظام کے متعلق سوچنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔  دوسرے یہ کہ قائم شدہ نظام سے ان کے مفاد پوری طرح وابستہ ہو چکے ہوتے ہیں، اور انبیاء علیہم السلام کے پیش کردہ نظام کو دیکھ کر پہلی ہی نظر میں وہ بھانپ جاتے ہیں کہ یہ آئے گا تو ان کی چودھراہٹ کی بساط بھی لپیٹ کر رکھ دی جائے گی اور ان کے لیے اکل حرام اور فعل حرام کی بھی کوئی آزادی باقی نہ رہے گی۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص۵۷۹۔ جلد دوم،  ص ۴۰۔  ۴۵۔ ۴۹۔ ۵۶۔ ۶۶۔ ۷۱۔ ۳۳۳۔ ۳۳۸۔ ۶۰۶۔ جلدسوم، ص۲۷۳۔ ۲۷۴۔ ۲۷۷۔ ۲۷۹۔  ۲۸۰۔ ۲۸۸۔ جلد چہارم، سبا آیت ۳۴، حاشیہ ۵۴)۔

 

ترجمہ

 

یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ (۲۴)’’ تم جن کی بندگی کرتے ہو میرا ان سے کوئی تعلّق نہیں۔  میرا تعلق صرف اس سے ہے جس نے مجھے پیدا کیا،  وہی میری رہنمائی کرے گا‘‘(۲۵)۔ اور ابراہیمؑ یہی کلمہ (۲۶) اپنے پیچھے اپنی اولاد میں چھوڑ گیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں(۲۷)۔ (اس کے باوجود جب یہ لوگ دوسروں کی بندگی کرتے لگے تو میں نے ان کو مٹا نہیں دیا)بلکہ میں انہیں اور ان کے باپ دادا کو متاع حیات دیتا رہا یہاں تک کہ ان کے پاس حق،  اور کھول کھول کر بیان کرنے والا رسول آ گیا(۲۸)۔ مگر جب وہ حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔

کہتے ہیں، یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ نازل کیا گیا؟(۳۰)کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقویم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدر جہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں(۳۱)۔ اور تیرے رب کی رحمت اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (ان کے رئیس ) سمیٹ رہے ہیں(۳۲)۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہر طریقے کے ہو جائیں گے تو خدائے رحمان سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں، اور ان کی سیڑھیاں جن سے وہ اپنے بالا خانوں پر چڑھتے ہیں، اور ان کے دروازے،  اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں،  سب چاندی اور سونے کے بنوا دیتے (۳۳)۔ یہ تو محض حیات  دنیا کی متاع ہے،  اور آخرت تیرے رب کے ہا ں صرف متقین کے لیے ہے۔ ع

 

تفسیر

 

۲۴۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۱۱۰ تا ۱۱۴۔ ۵۵۲ تا ۵۶۰۔ جلد دوم، ص ۴۸۸ تا ۴۹۱۔ جلد سوم،  ۶۹۔ ۶۰۔ ۱۶۳ تا ۱۷۰۔ ۴۹۹ تا ۵۰۵۔ ۶۸۶ تا ۶۹۴۔  جلد چہارم ل الصافات، آیات ۸۳ تا ۱۰۰، حواشی ۴۴ تا ۵۵۔

۲۵۔ ان الفاظ میں حضرت ابراہیمؑ نے محض اپنا عقیدہ ہی بیان نہیں کیا بلکہ اس کی دلیل بھی دے دی۔  دوسرے معبودوں سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ نہ انہوں نے پیدا کیا ہے،  نہ وہ کسی معاملہ میں صحیح رہنمائی کرتے ہیں، نہ کر سکتے ہیں۔ اور صرف اللہ وحدہٗ  لاشریک سے تعلق جوڑنے کی وجہ یہ ہے کہ نہ وہی پیدا کرنے والا ہے اور وہی انسان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے اور کر سکتا ہے۔

۲۶۔ یعنی یہ بت کہ خالق کے سوا کوئی معبود ہونے کا مستحق نہیں ہے۔

۲۷۔ یعنی جب بھی راہ راست سے ذرا قدم ہٹے تو یہ کلمہ ان کی رہنمائی یے لیے موجود رہے اور وہ اسی کی طرف پلٹ آئیں۔ اس واقعہ کو جس غرض کے لیے یہاں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کفار قریش کی نا معقولیت کو پوری طرح بے نقاب کر دیا جائے اور انہیں اس بات پر شرم دلائی جائے کہ تم نے اسلاف کی تقلید اختیار کی بھی تو اس کے لیے اپنے بہترین اسلاف کو چھوڑ کر اپنے بد ترین اسلاف کا انتخاب کیا۔  عرب میں قریش کی مشیخت جس بنا پر چل رہی تھی  وہ تو یہ تھی کہ وہ حضرت ابراہیم و اسماعیل کی اولاد تھے اور ان کے بنائے ہوئے کعبے کی مجاوری کر رہے تھے۔  اس لیے انہیں پیروی ان کی کرنی چاہیے تھی نہ کہ اپنے ان جاہل اسلاف کی جنہوں نے حضرت ابراہیم و اسماعیل کے طریقے کو چھوڑ کر گرد و پیش کی بت پرست قوموں سے شرک سیکھ لیا،  پھر اس واقعہ کو بیان کر کے ایک اور پہلو سے بھی ان گمراہ لوگوں کی غلطی واضح کی گئی ہے۔  وہ یہ ہے کہ حق و باطل کی تمز کیے بغیر اگر آنکھیں بند کر کے باپ دادا کی تقلید کرنا درست ہوتا تو سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ یہ کام کرتے۔  مگر انہوں نے صاف صاف اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہہ دیا کہ میں تمہارے اس جاہلانہ مذہب کی پیروی نہیں کر سکتا جس میں تم نے اپنے خالق کو چھوڑ کر ان ہستیوں کو معبود بنا رکھا ہے جو خالق نہیں ہیں۔ اس سے معلوم ہو کہ حضرت ابراہیمؑ تقلید آبائی کے قائل نہ تھے،  بلکہ ان کا مسلک یہ تھا کہ باپ دادا کی پیروی کرنے سے پہلے آدمی کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کہ وہ صحیح راستے پر ہیں بھی یا نہیں، اور اگر دلیل معقول سے یہ ظاہر ہو کہ وہ غلط راستے پر جا رہے ہیں تو ان کی پیروی چھوڑ کر وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو دلیل کی رو سے حق ہو۔

۲۸۔ اصل میں  رَسُولٌ مُّبِیْن کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا رسول آ گیا جس کا رسول ہونا بالکل ظاہر و باہر تھا۔ جس کی نبوت سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی صاف شہادت دے رہی تھی کہ وہ یقیناً خدا کا رسول ہے۔

۲۹۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص ۱۴۵۔ ۱۴۶۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ ص،  حاشیہ ۵۔

۳۰۔ دونوں شہروں سے مراد مکہ اور طائف ہیں۔ کفار کا یہ کہنا تھا کہ واقعی خدا کو کوئی رسول بھیجنا ہوتا اور وہ اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کا ارادہ کرتا تو ہمارے ان مرکزی شہروں میںسے کسی بڑے آدمی کو اس غرض کے لیے منتخب کرتا۔  رسول بنانے کے لیے اللہ میاں کو ملا بھی تو وہ شخص جو یتیم پیدا ہوا، جس کے حصے میں کوئی میراث نہ آئی،  س نے بکریاں چرا کر جوانی گزار دی،  جواب گزرا اوقات بھی کرتا ہے تو بیوی کے مال سے تجارت کر کے، اور جو کسی قبیلے کا شیخ یا کسی خانوادے کا سربراہ نہیں ہے۔  کیا مکہ میں ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ جیسے نامی گرامی سردار موجود نہ تھے ؟ کیا طائف میں عروہ بن مسعود، حبیب بن عمرہ، کنانہ بن عبد عمرو،  اور ابن عبد یالیل جیسے رئیس موجود نہ تھے ؟ یہ تھا ان لوگوں کا استدلال۔  پہلے تو وہ یہی ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کوئی بشر بھی رسول ہو سکتا ہے۔ مگر جب قرآن مجید میں پے در پے دلائل دے کر ان کے اس خیال کا پوری طرح ابطال کر دیا گیا، اور ان سے کہا گیا کہ اس سے پہلے ہمیشہ بشر ہی رسول ہو کر آتے رہے ہیں،  اور انسانوں  کی ہدایت کے لیے بشر ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کہ غیر بشر،  اور جو رسول بھی دنیا میں آئے ہیں وہ یکایک آسمان سے نہیں اتر آئے تھے بلکہ انہی انسانی بستیوں میں پیدا ہوئے تھے،  بازاروں میں چلتے پھرتے تھے،  بال بچوں والے تھے اور کھانے پیتے سے مبرا نہ تھے (ملاحظہ ہو الجحل، آیت،  ۴۳۔ بنی اسرائیل،  ۹۴۔ ۹۵۔ یوسف،  ۱۰۹۔ الفرقان، ۷۔ ۲۰۔ الانبیا، ۷۔ ۸۔ الرعد، ۳۸)، تو انہوں نے یہ دوسری پیترا بدلا کہ اچھا،  بشر ہی رسول سہی، مگر وہ کوئی بڑا آدمی ہونا چاہیے۔  مالدار ہو، با اثر ہو، بڑے جتھے والا ہو، لوگوں میں اس کی شخصیت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہو۔ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) اس مرتبے کے لیے کیسے موزوں ہو سکتے ہیں ؟

۳۱۔ یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے جس کے اندر چند مختصر الفاظ میں بہت سی اہم باتیں ارشاد ہوئی ہیں:

پلی بات یہ کہ تیرے رب کی رحمت تقوم کرنا ان کے سپرد کب سے ہو گیا ؟ کیا یہ طے کرنا نا کا کام ہے کہ اللہ اپنی رحمت سے کس کو نوازے اور کس کو نہ نوازے ؟ (یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت عام ہے جس میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ملتا رہتا ہے )۔

دوسرے بات یہ کہ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے،  دنیا میں زندگی بسر کرنے کے جو عام ذرائع ہیں،  ان کی تقسیم بھی ہم نے اپنے ہو ہاتھ میں رکھی اور کے حوالے نہیں کر دی۔  ہم کسی کو حسین اور کسی کو بدصورت، کسی کو خوش آواز اور کسی کو بد آواز، کسی کو قوی ہیکل اور کسی کو کمزور کسی کو ذہن اور کسی کو کند ذہن،  کسی قوی الحافظہ اور کسی کو نسیان میں مبتلا، کسی کو سلیم الاعضاء اور کسی کو اپاہج  یا اندھا یا گونگا بہرا، کسی کو امیر زادہ اور کسی کو فقیر زادہ، کسی کو ترقی یافتہ قوم کا فرد اور کسی کو غلام یا پس ماندہ قوم کا فرد پیدا کرتے ہیں۔ اس پیدائشی قسمت میں کوئی ذرہ برابر بھی دخل نہیں دے سکتا۔  جس کو جو کچھ ہم نے بنا دیا ہے وہی کچھ بننے پر وہ مجبور ہے۔  اور ان مختلف پیدائشی حالتوں کا جو اثر بھی کسی کی تقدیر پر پڑتا ہے اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔  پھر  انسانوں کے درمیان رزق،  طاقت،  عزت،  شہرت،  دولت، حکومت وغیرہ کی تقسیم بھی ہم ہی کر رہے ہیں۔  جس کو ہماری طرف سے اقبال نصیب ہوتا ہے اسے کوئی گرا نہیں سکتا، اور جس پر ہماری طرف سے اِدبار  آ جاتا ہے اسے گرنے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔  ہمارے فیصلوں کے مقابلے میں انسانوں کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس عالمگیر خدائی انتظام میں یہ لوگ کہاں فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کائنات کا مالک کسے اپنا نبی بنائے اور کسے نہ بنائے۔

تیسری بات  کہ اس خدائی انتظام میں یہ مستقل قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سب کچھ ایک ہی کو، یا سب کچھ سب کو نہ دے دیا جائے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ ہر طرف تمہیں بندوں کے درمیان ہر پہلو میں تفاوت ہی تفاوت نظر آئے گا۔  کسی کو ہم نے کوئی چیز دی ہے تو دوسرے کسی چیز سے اس کو محروم کر دیا ہے،  اور وہ کسی اور کو عطا کردی ہے،  یہ اس حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ کوئی انسان دوسروں سے بے نیاز نہ ہو، بلکہ ہر  ایک کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے کا محتاج رہے۔  اب یہ کیسا احمقانہ خیال تمہارے دماغ میں سمایا ہے کہ جسے ہم نے ریاست اور وجاہت دی ہے اسی کو نبوت بھی دے دی جائے ؟ کیا اسی طرح تم یہ بھی کہو گے کہ عقل، علم، دولت،  حسن،  طاقت،  اقتدار، اور دوسرے تمام کمالات ایک ہی میں جمع کر دیے جائیں، اور جس کو ایک چیز نہیں ملی ہے اسے دوسری بھی کوئی چیز نہ دی جائے؟

۳۲۔ یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت خاص،  یعنی نبوت ہے۔  مطلب یہ ہے کہ تم اپنے جن رئیسوں کو ان کی دولت و وجاہت اور مشیخت کی وجہ سے بڑی چیز سمجھ رہے ہو، وہ اس دولت کے قابل نہیں ہیں جو محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو دی گئی ہے۔  یہ دولت اس دولت سے بدرجہا زیادہ اعلیٰ درجے کی ہے اور اس کے لیے موزونیت  کا معیار کچھ اور ہے۔  تم نے اگر یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمہارا ہر چودھری اور سیٹھ نبی بننے کا اہل ہے تو یہ تمہارے اپنے ہی ذہن کی پستی ہے۔  اللہ سے اس نادانی کی توقع کیوں رکھتے ہو ؟

۳۳۔ یعنی یہ سیم و زر، جس کا کسی کو مل جانا تمہاری نگاہ میں نعمت کی انتہا اور قدر و قیمت کی معراج ہے،  اللہ کی نگاہ میں اتنی حقیر چیز ہے کہ اگر تمام انسانوں کے کفر کی طرف ڈھلک پڑنے کا خطرہ نہ ہوتا تو وہ ہر کافر کا کھر سونے چاندی کا بنا دیا  جاتا۔ اس جنس فرومایہ  کی فراوانی آخر کب  سے انسان کی شرافت اور پاکیزگی نفس اور طہارت روح کی دلیل بن گئی  ؟ یہ مال تو ان خبیث ترین انسانوں کے پاس بھی پایا جاتا ہے جن کے گھناؤنے کردار کی سڑاند سے سارا معاشرہ متعفن ہو کر رہ جاتا ہے۔  اسے تم نے آدمی کی بڑائی کا معیار بنا رکھا ہے۔

 

ترجمہ

 

جو شخص رحمان کے ذکر (۳۴) سے تغافل برتتا ہے،  ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔ یہ شیاطین ایسے لوگو ں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں،  اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔  آخر کار جب یہ شخص ہمارے ہاں پہنچے گا تو اپنے شیطان سے کہے گا، ’’ کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا بُعد ہوتا تُو تو بد ترین ساتھی نکلا‘‘۔  اس وقت ان لوگوں سے کہا جائے گا کہ جب تم ظلم کر چکے تو آج یہ بات تمہارے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہے کہ تم اور تمہارے شیاطین عذاب میں مشترک ہیں(۳۵)۔

اب کیا اے نبیؐ، تم بہروں کو سناؤ گے ؟ یا اندھوں اور صریح گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو راہ دکھاؤ گے ؟ (۳۶) اب تو ہمیں ان کو سزا دینی ہے خواہ تمہیں دنیا سے اٹھا لیں، یا تم کو آنکھوں سے ان کا وہ انجام دکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے،  ہمیں ان پر پوری قدرت حاصل ہے (۳۷)۔ تم بہر حال اس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعہ سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے،  یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو(۳۸)۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم لوگوں کو اس کی جواب دہی کرنی ہو گی(۳۹)۔ تم سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے تھے ان سب سے پوچھ دیکھو،  کیا ہم نے خدائے رحمان کے سوا کچھ دوسرے معبود بھی مقرر کیے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے؟ (۴۰)۔ ع

 

تفسیر

 

۳۴۔ وسیع المعنیٰ لفظ ہے۔  رحمان کے  ذکر سے مراد اس کی یاد بھی ہے،  اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت بھی، اور یہ قرآن بھی۔

۳۵۔ یعنی اس امر میں تمہارے لیے تسلی کا کوئی پہلو نہیں ہے کہ تمہیں غلط راہ پر ڈالنے والے کو سزا مل رہی ہے،  کیونکہ وہی سزا  گمراہی قبول کرنے کی پاداش میں تم بھی پا رہے ہو۔

۳۶۔ مطلب  یہ ہے کہ جو سننے کے لیے تیار ہوں اور جنہوں نے حقائق کی طرف سے آنکھیں بند نہ کر لی ہوں،  ان کی طرف توجہ کرو، اور اندھوں کو دکھانے اور بہروں کو سنانے کی کوشش میں اپنی جان نہ کھپاؤ،  نہ اس غم میں اپنے آپ کو گھلاتے رہو کہ تمہارے یہ بھائی بن کیوں راہ راست پر نہیں آتے اور کیوں اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا رہے ہیں۔

۳۷۔ اس ارشاد کا مطلب اس ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے ہی اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے۔  کفار مکہ یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ہی ان کے لیے مصیبت بنی ہوئی ہے،  یہ کانٹا درمیان سے نکل جائے تو پھر سب اچھا ہو جائے گا۔ اسی گمان فاسد کی بنا پر وہ شب و روز بیٹھ بیٹھ کر مشورے کرتے تھے کہ آپ کو کسی نہ کسی طرح ختم کر دیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے رخ پھیر کر اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہارے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم زندہ رہو گے تو تمہاری آنکھوں کے سامنے ان کی شامت آئے گی، اٹھا لیے جاؤ گے تو تمہارے پیچھے ان کی خبر لی جائے گی۔ شامت اعمال اب ان کی دامنگیر ہو چکی ہے جس سے یہ بچ نہیں سکتے۔

۳۸۔ یعنی تم اس فکر میں نہ پڑو کہ ظلم اور بے ایمانی کے ساتھ حق کی مخالفت کرنے والے اپنے کیے کی کیا اور کب سزا پاتے ہیں، نہ اس بات کی فکر کرو کہ اسلام کو تمہاری زندگی میں فروغ حاصل ہوتا ہے یا نہیں۔  تمہارے لیے بس یہ اطمینان کافی ہے کہ تم حق پر ہو۔ لہٰذا نتائج کی فکر کیے بغیر اپنا فرض انجام دیتے چلے جاؤ اور یہ اللہ پر چھوڑ دو کہ وہ باطل کا سر تمہارے سامنے نیچا کرتا ہے یا تمہارے پیچھے۔

۳۹۔  یعنی اس سے بڑھ کر کسی شخص کی کوئی خوش قسمتی نہیں ہو سکتی کہ تمام انسانوں میں سے اس کو اللہ اپنی کتاب نازل کرنے کے لیے منتخب کرے اور کسی قوم کے حق میں بھی اس سے بڑی کسی خوش قسمتی کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کی دوسری سب قوموں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اس کے ہاں اپنا نبی پیدا کرے اور اس کی زبان میں اپنی کتاب نازل کرے اور اسے دنیا میں پیغام خداوندی کی حامل بن کر اٹھنے کا موقع دے۔  اس شرف عظیم کا احساس اگر قریش اور اہل عرب کو نہیں ہے اور وہ اس ناقدری کرنا چاہتے ہیں تو ایک وقت آئے گا جب انہیں اس کی جواب دہی کرنی ہو گی۔

۴۰۔  رسولوں سے پوچھنے کا مطلب ان کی لائی ہوئی کتابوں سے معلوم کرنا ہے۔  جس طرح : فَاِنْتَنَا زَعْتُمْ فِیْ شَیْ ءٍ فَرُدُّ وْ ہُ اِلَی اللہِ وَ ا لرَّ سُوْلِ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی معاملہ میں اگر تمہارے درمیان نزاع ہو تو اسے اللہ اور رسول کے پاس لے جاؤ،  بلکہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف رجوع کرو، اسی طرح رسولوں سے پوچھنے کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ جو رسول دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں ان سب کے پاس جا کر دریافت کرو، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ خدا کے رسول دنیا میں جو تعلیمات چھوڑ گئے ہیں ان سب میں تلاش کر کے دیکھ لو، آخر کس نے یہ بات سکھائی تھی کہ اللہ جل شانہ کے سوا بھی کوئی عبادت کا مستحق ہے ؟

 

ترجمہ

 

(۴۱)ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے (۴۲)ساتھ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کے پاس بھیجا،  اور اس نے جا کر کہا کہ میں ربّ العالمین کا رسول ہوں۔  پھر جب اس نے ہماری نشانیاں ان کے سامنے پیش کیں تو وہ ٹھٹھے مارنے لگے۔  ہم ایک پر ایک ایسی نشانی ان کو دکھاتے چلے گئے جو پہلی سے بڑھ چڑھ کر تھی،  اور ہم نے ان کو عذاب میں دھر لیا تاکہ وہ اپنی روش سے باز آئیں (۴۳)۔ ہر عذاب کے موقع پر وہ کہتے،  اے ساحر، اپنے رب کی طرف سے جو منصب تجھے حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے لیے اس سے دعا کر، ہم ضرور راہ راست پر آ جائیں گے۔  مگر جوں ہی کہ ہم ان پر سے عذاب ہٹا دیتے وہ اپنی بات سے پھر جاتے تھے (۴۴) ایک روز فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا، (۴۵)’’ لوگو،  کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے،  اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہ رہی ہیں؟کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا؟(۴۶)میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل و حقیر ہے (۴۷) اور اپنی بات بھی کھول کر بیان نہیں کر سکتا؟ (۴۸)کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے ؟ یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا؟‘‘(۴۹)

اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی، در حقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ(۵۰)۔ آخر کار جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کر دیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کر دیا اور بعد والوں کے لیے پیش رو اور نمونہ عبرت بنا کر رکھ(۵۱) دیا۔ ع

 

تفسیر

 

۴۱۔  یہ قصہ یہاں تین مقاصد کے لیے بیان کیا گیا ہے۔  ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ملک اور کسی قوم میں اپنا نبی بھیج کر اسے وہ موقع عطا فرا تا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے اب اہل عرب کو اس نے عطا فرمایا ہے،  اور وہ اس کی قدر کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس حماقت کا ارتکاب کرتی ہے جس کا ارتکاب فرعون اور اس کی قوم نے کیا تھا تو پھر اس کا وہ انجام ہوتا ہے جو تاریخ میں نمونہ عبرت بن چکا ہے۔  دوسرے یہ کہ فرعون نے بھی اپنی بادشاہی اور اپنی شوکت و حشمت اور دولت و ثروت پر فخر کر کے موسیٰ علیہ السلام کو اسی طرح حقیر سمجھا تھا جس طرح اب کفار قریش اپنے سرداروں کے مقابلے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حقیر سمجھ رہے ہیں۔ مگر خدا کا فیصلہ کچھ اور تھا جس نے آخر بتا دیا کہ اصل میں حقیر و ذلیل کون تھا۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ مذاق  اور اس کی تنبیہات  کے مقابلے میں ہیکڑی دکھانا کوئی سستا سودا نہیں ہے بلکہ یہ سودا بہت مہنگا پڑتا ہے۔  اس کا خمیازہ جو بھگت چکے ہیں ان کی مثال سے سبق نہ لو گے تو خود بھی ایک روز وہی خمیازہ بھگت کر رہو گے۔

۴۲،  اب سے مراد وہ ابتدائی نشانیاں ہیں جنہیں لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربار میں گئے تھے،  یعنی عصا اور ید بیضا (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، ص ۶۵ تا ۶۸۔ جلد سوم،  ص ۹۱۔ ۱۰۰۔ ۴۸۷ تا ۴۹۰۔ ۵۵۹۔ ۵۶۰۔ ۶۳۳)۔

۴۳۔ ان نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو بعد میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے ان کو دکھائیں،  اور وہ یہ تھیں:

(۱)جادوگروں سے اللہ کے نبی کا بر سر عام مقابلہ ہوا اور وہ شکست کھا کر ایمان لے آئے تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم،  ص ۶۷ تا ۷۰۔ جلد سوم،  ص ۱۰۰ تا ۱۰۷۔  ۴۸۹ تا ۴۹۴۔

(۲) حضرت موسیٰ کے پیشگی اعلان کے مطابق مصر کی سر زمین میں شدید قحط برپا ہو گیا اور وہ ان کی دعا پر ہی دور ہوا۔

(۳) ان کے پیشگی اعلان کے بعد سارے ملک میں ہولناک بارشوں اور ژالہ باری اور گرج اور کڑک کے طوفان آ ئے جنہوں نے بستیوں اور کھیتوں کو تباہ کر ڈالا،  اور یہ بلا بھی ان کی دعا سے  ہی دفع ہو ئ۔

(۴)  پورے ملک پر ان کے اعلان کے مطابق ٹڈی دَلوں کا خوفناک حملہ ہوا اور یہ آفت بھی اس وقت تک نہ ٹلی جب تک انہوں نے اسے ٹالنے کے لیے اللہ سے دعا نہ کی۔

(۵) ملک بھر میں ان کے اعلان کے مطابق جُوئیں اور سُر سریاں پھیل گئیں جن سے ایک طرف آدمی اور جانور سخت مبتلا ئے عذاب ہوئے اور دوسرے طرف غلوں کی گودام تباہ ہو گئے۔  یہ عذاب بھی اس وقت ٹلا جب حضرت موسیٰ سے درخواست کر کے دعا کرائی گئی۔

(۶) ملک کے گوشے گوشے میں ان کی قبل از وقت تنبیہ کے مطابق مینڈکوں کا سیلاب امنڈ آیا جس نے پوری آبادی کا ناطقہ تنگ کر دیا۔  اللہ کی یہ فوج بھی حضرت موسیٰ کی دعا کے بغیر واپس نہ گئی۔

(۷) ٹھیک ان کے اعلان کے مطابق خون کا عذاب رونما ہوا،  جس سے تمام نہروں، کنوؤں،  تالابوں اور حوضوں کا پانی خون میں تبدیل ہو گیا،  مچھلیاں مرگئیں، ہر جگہ پانی کے ذخیروں میں عفونت پیدا ہو گئی، اور پورے ایک ہفتے تک مصر کے لوگ صاف پانی کو ترس گئے۔  یہ آفت بھی اس وقت ٹلی جب اس سے نجات پا نے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کرائی گئی۔  تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، ص ۷۲۔ ۷۳۔ جلد سوم، ص ۵۶۰۔ ۵۶۱۔ جلد چہارم،  المومن،  حاشیہ ۳۷۔

بائیبل کی کتاب خروج، باب ۷۔ ۸۔ ۹۔ ۱۰ اور ۱۲ میں بھی ان عذابوں کی مفصل رو داد درج ہے،  مگر وہ گپ اور حقیقت کا مجموعہ ہے۔  اس میں کہا گیا ہے کہ جب خون کا عذاب آیا تو جادوگروں نے بھی ویسا ہی لا کر دکھایا۔  مگر جب جوؤں کا عذاب آیا تو جادوگر جواب میں جوئیں پیدا نہ کر سکے اور انہوں نے کہا کہ یہ خدا کا  کام ہے۔  پھر اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مینڈکوں کا سیلاب اٹھا تو جادوگر بھی جواب میں مینڈک چڑھا لائے،  لیکن اس کے باوجود فرعون نے حضرت موسیٰ ہی سے یہ درخواست کی کہ اللہ سے دعا کر کے اس عذاب کو دفع کراییئے۔  سوال یہ ہے کہ جب ادو گر مینڈک چڑھا لانے پر قادر تھے تو فرعون نے ان ہی کے ذریعہ سے یہ عذاب کیوں نہ دور کرا لیا ؟ اور آخر یہ معلوم کیسے ہوا کہ مینڈکوں کی اس فوج میں اللہ کے مینڈک کون سے ہیں اور جادو گروں کے مینڈک کون سے ؟ یہی سوال خون کے بارے میں بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کی تنبیہ کے مطابق ہر طرف پانی کے ذخیرے خون میں تبدیل ہو چکے تھے  تو جادوگروں نے کس پانی کو خون بنایا اور کیسے معلوم ہوا کہ فلاں جگہ کا پانی جادوگروں کے کرتب سے خون بنا ہے ؟ ایسی ہی باتوں سے صاف معلوم ہو جا تا ہے کہ بائیبل خالص کلام الٰہی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس کو جن لوگوں نے تصنیف کیا ہے انہوں نے اس کے اندر اپنی طرف سے بھی بہت کچھ ملا دیا ہے۔  اور غضب یہ ہے کہ یہ مصنفین کچھ تھے بھی واجبی سی عقل کے لوگ جنہیں بات گھڑنے کا سلیقہ بھی نصیب نہ تھا۔

۴۴۔ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی ہٹ دھرمی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ خدا کے عذاب سے تنگ آ کر حضرت موسیٰ سے اس کے ٹلنے کی دعا کرانا چاہتے تھے اس وقت بھی وہ آپ کو پیغمبر کہنے کے بجائے جادوگر ہی کہہ کر خطاب کرتے تھے۔  حالانکہ وہ جادو کی حقیقت سے نا واقف نہ تھے،  اور ان سے یہ بات چھپی ہوئی نہ تھی کہ یہ کرشمے کسی جادو سے رونما نہیں ہو سکتے۔  ایک جادوگر زیادہ سے زیادہ جو کچھ کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک محدود رقبے میں جو لوگ اس کے سامنے موجود ہوں ان  کے ذہن پر ایسا اثر ڈالے جس سے وہ یہ محسوس کرنے لگیں کہ پانی خون بن گیا ہے،  یا مینڈک اُبلے پڑ رہے ہیں، یا ٹڈی دل چڑھے چلے آ رہے ہیں۔ اور اس محدود رقبے کے اندر بھی کوئی  پانی حقیقت میں خون نہ بن جائے گا بلکہ اس دائرے سے نکلتے ہی پانی کا پانی رہ جائے گا۔ کوئی مینڈک فی الواقع پیدا نہ ہو گا بلکہ اسے پکڑ کر آپ اس دائرے سے باہر لے جائیں گے تو آپ کے ہاتھ  میں مینڈک کے بجائے صرف ہوا ہو گی۔  ٹڈی دَل بھی محض خیالی دل ہو گا،  کسی کھیت کو وہ نہ چاٹ سکے گا۔  رہی یہ بات کہ ایک پورے ملک میں قحط بر پا ہو جائے،  یا تمام ملک کی نہریں اور چشمے اور کنوئیں  خون سے بھر جائیں،  یا ہزار ہا میل کے رقبے پر ٹدی دل ٹوٹ پڑیں اور وہ لاکھوں ایکڑ کے کھیت صاف کر جائیں، یہ کام نہ آج تک کبھی کوئی جادوگر  کر سکا ہے،  نہ جادو کے زور سے کبھی یہ ہو سکتا ہے۔  ایسے جادو گر کسی بادشاہ کے پاس ہوتے تو اسے فوج رکھنے اور جنگ کی مصیبتیں جھیلنے کی کیا ضرورت تھی،  جادو کے زور سے وہ ساری دنیا کو مسخر کر سکتا تھا۔ بلکہ جادو گروں کے پاس یہ طاقت ہوتی تو وہ بادشاہوں کی ملازمت ہی کیوں کرتے ؟ خود بادشاہ نہ بن بیٹھتے ؟

مفسرین کو بالعموم یہ پریشانی پیش آئی ہے کہ جب عذاب سے نجات پانے کے لیے فرعون اور اس کے درباری حضرت موسیٰ سے دعا کی درخواست کرتے تھے اس وقت وہ ان کو ’’ اے ساحر ‘‘ کہہ کر کیسے خطاب کرتے تھے۔  مصیبت کے وقت مدد کی التجا کرنے والا تو خوشامد کرتا ہے نہ کہ مذمت۔  اسی وجہ سے انہوں نے یہ تاویل کی ہے کہ جادو اس زمانے کے اہل مصر کے نزدیک بڑا با وقعت  علم تھا اور ’’ اے ساحر ‘‘ کہہ کر در اصل وہ حضرت موسیٰکی مذمت نہ کرتے تھے بلکہ اپنے نزدیک  عزت کے ساتھ وہ گویا ان کو ’’ اے عالم ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔  لیکن یہ تاویل اس بنا پر بالکل غلط ہے کہ قرآن میں دوسرے مقامات پر جہاں جہاں بھی فرعون کے وہ اقوال نقل کیے گئے ہیں جن میں اس نے حضرت موسیٰ کو جادو گر اور ان کے پیش کردہ معجزات کو جادو کہا ہے،  وہاں مذمت اور تحقیر کا اندازہ صاف ظاہر ہوتا ہے،  اور صریحاً یہ نظر آتا ہے کہ اس کے نزدیک جادو ایک جھوٹی چیز تھی جس کا الزام حضرت موسیٰ پر رکھ کر وہ آپ کو جھوٹا مدعی نبوت قرار دیتا تھا۔  اس لیے یہ ماننے کے قابل بات نہیں ہے کہ یکایک اس مقام پر اس کی نگاہ میں ’’ ساحر‘‘ ایک با عزت عالم کا لقب بن گیا ہو۔ رہا یہ سوال کہ جب دعا کی درخواست کرتے وقت بھی وہ علانیہ حضرت موسیٰ کی توہین کرتا تھا تو آپ اس کی درخواست قبول ہی کیوں کرتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آنجناب کے پیش نظر اللہ کے  حکم سے ان لوگوں پر حجت تمام کرنا تھا۔  عذاب ٹالنے کے لیے ان کا آپ سے دعا کی درخواست کرنا خود یہ ثابت کر رہا تھا کہ اپنے دلوں میں وہ جان چکے ہیں کہ یہ عذاب کیوں آ رہے ہیں، کہاں سے آ رہے ہیں، اور کون انہیں ٹال سکتا ہے۔  اس کے باوجود جب وہ ہٹ دھرمی کے ساتھ آپ کو ساحر کہتے تھے،  اور عذاب ٹل جانے کے بعد راہ راست قبول کرنے کے وعدے سے پھر جاتے تھے،  تو در حقیقت وہ اللہ کے نبی کا کچھ نہ بگاڑتے تھے بلکہ اپنے خلاف اس مقدمے کو اور زیادہ مضبوط کرتے چلے جاتے تھے جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کلی استیصال کی شکل میں آخر  کر دیا۔ ان کا آپ کو ساحر کہنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ در حقیقت اپنے دل میں بھی یہ سمجھتے تھے کہ یہ عذاب ان پر جادو کے زور سے آ رہے ہیں۔ بلکہ اپنے دلوں میں وہ خوب سمجھتے تھے کہ یہ اللہ رب العالمین کی نشانیاں ہیں،  اور پھر جان بوجھ کر ان کا انکار کرتے تھے۔  یہی بات ہے جو سورہ نمل میں فرمائی گئی ہے کہ : وَحَجّدُ وْ ا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتُھَا اَنْفُسُھُمْظُلْماً وَّ عُلُوَّ ا (آیت ۱۴)۔ ‘‘ ان کے دل اندر سے قائل ہو چکے تھے مگر انہوں نے ظلم اور تکبر کی بنا پر ان نشانیوں کا انکار کیا۔ ‘‘

۴۵۔ غالباً پوری قوم میں پکارنے کی عملی صورت یہ رہی ہو گی کہ فرعون نے جو بات اپنے دربار میں سلطنت کے اعیان و اکابر اور قوم کے بڑے بڑے سرداروں کو مخاطب کر کے کہی تھی، اسی کو منادیوں کے ذریعہ سے پورے ملک کے شہروں  اور قریوں میں نشر کرایا گیا ہو گا۔ بے چارے کے پاس اس زمانہ میں یہ ذرائع نہ تھے کہ خوشامدی پریس،  خانہ ساز خبر رساں ایجنسیوں اور سرکاری ریڈیو سے منادی کراتا۔

۴۶۔ منادی کا یہ مضمون ہی صاف بتا رہا ہے کہ ہز میجسٹی کے پاؤں تلے زمین نکلی جا رہی تھے۔  حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پے در پے معجزات نے ملک کے عوام کا عقیدہ اپنے دیوتاؤں پر سے متزلزل کر دیا تھا۔  اور فراعنہ کا باندھا ہوا وہ سارا طلسم ٹوٹ گیا تھا جس کے ذریعہ سے خداؤں کا اوتار بن کر یہ  خاندان مصر اپنی خداوندی چلا رہا تھا۔ اسی صورت حال کو دیکھ کر فرعون چیخ اٹھا کہ کم بختو، تمہیں آنکھوں سے نظر نہیں آتا کہ اس ملک میں بادشاہی کس کی ہے اور دریائے نیل سے نکلی ہوئی یہ نہریں جن پر تمہاری ساری معیشت کا انحصار ہے،  کس کے حکم سے جاری ہیں؟ یہ ترقیات (Developments) کے کام تو میرے اور میرے خاندان کے لیے ہوئے ہیں، اور تم گرویدہ ہو رہے ہو اس فقیر کے۔

۴۷۔ یعنی جس کے پاس نہ مال و دولت ہے نہ اختیار و اقتدار۔ وہی اعتراض جو کفار قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کیا تھا۔

۴۸۔ بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ فرعون کا اعتراض اس لُکنت پر تھا جو حضرت موسیٰ کی زبان میں بچپن سے تھی۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔  سورہ طٰہٰ میں گزر چکا ہے کہ حضرت موسیٰ کو جب نبوت کے منصب پر سرفراز کیا جا رہا تھا اس وقت انہوں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ میری زبان کی گرہ کھول دیجیے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ لیں، اور اسی وقت ان کی دوسری درخواستوں کے ساتھ یہ درخواست بھی قبول کر لی گئی تھی (آیات ۲۷ تا ۳۶ )۔ پھر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر حضرت موسیٰ کی جو تقریریں نقل کی گئی ہیں وہ کمال درجے کی طاقت لسانی پر دلالت کرتی ہیں۔  لہٰذا فرعون کے اعتراض کی بنا کوئی لکنت نہ تھی جو آنحضرت کی زبان میں ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص نہ معلوم کیا الجھی باتیں کرتا ہے،  مابدولت کی سمجھ میں تو کبھی اس کا مدعا آیا نہیں۔

۴۹۔ قدیم زمانے میں جب کسی شخص کو کسی علاقے کی گورنری، یا کسی غیر ملک کی سفارت کے منصب پر مقرر کیا جاتا تو بادشاہ کی طرف سے اس کو خلعت عطا ہوتا تھا جس میں سونے کے کڑے یا کنگن بھی شامل ہوتے تھے،  اور اس کے ساتھ سپاہیوں، چوبداروں اور خدام کا ا یک دستہ بھی ہوتا تھا تاکہ اس کا رعب اور دبدبہ قائم ہو اور اس بادشاہ کی شان و شوکت کا اظہار ہو جس کی طرف سے وہ مامور ہو کر آ رہا ہے۔  فرعون کا مطلب یہ تھا کہ اگر واقعی موسیٰ (علیہ السلام ) کو آسمان کے بادشاہ نے ایں جانب کے پاس اپنا سفیر بنا کر بھیجا تھا تو اسے خلعت شاہی ملا ہوتا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اس کے ساتھ آئے ہوتے۔  یہ کیا بات ہوئی کہ ایک ملنگ ہاتھ میں لاٹھی لیے آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں رب العالمیں کا رسول ہوں۔

۵۰۔ اس مختصر سے فقرے میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔  جب کوئی شخص کسی ملک میں اپنی مطلق العنانی چلانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے کھلم کھلا ہر طرح کی چالیں چلتا ہے،  ہر فریب اور مکر و دغا سے کام لیتا ہے،  کھلے بازار میں ضمیروں کی خرید و فروخت کا کاروبار چلاتا ہے،  اور جو بکتے نہیں انہیں بے دریغ کچلتا اور روندتا ہے،  تو خواہ زبان سے وہ یہ بات نہ کہے مگر اپنے عمل سے صاف ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ در حقیقت اس ملک کے باشندوں کو عقل اور خلاق اور مردانگی کے لحاظ سے ہلکا سمجھتا ہے،  اور اس نے ان کے متعلق یہ رائے قائم کی ہے کہ میں ان بے وقوف،  بے ضمیر اور بزدل لوگوں کو جدھر چاہوں ہانک کر لے جا سکتا ہوں۔ پھر جب اس کی یہ تدبیریں کامیاب ہو جاتی ہیں اور ملک کے باشندے اس کے دست بستہ غلام بن جاتے ہیں تو وہ اپنے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں کہ اس خبیث نے جو کچھ انہیں سمجھا تا، واقعی وہ وہی کچھ ہیں۔ اور ان کے اس ذلیل حالت میں مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر ’’ فاسق‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہیں ہوتی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ انصاف کیا ہے اور ظلم کیا۔ سچائی اور دیانت اور شرافت قدر کے لائق ہے یا جھوٹ اور بے ایمانی اور رذالت۔  ان مسائل کے بجائے ان کے لیے اصل اہمیت صرف اپنے ذاتی مفاد کی ہوتی ہے جس کے لیے وہ ہر ظالم کا ساتھ دینے،  ہر جبار کے آگے رہنے،  ہر باطل کو قبول کرنے،  اور ہر صدائے حق کو دبانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

۵۱۔ یعنی جو اِن کے انجام سے سبق نہ لیں اور انہی کی روش پر چلیں اُن کے لیے وہ پیش رو ہیں، اور جو سبق لینے والے ہیں ان کے لیے نمونہ عبرت۔

 

ترجمہ

 

اور جو ں ہی کہ ابن مریم کی مثال دی گئی،  تمہاری قوم کے لوگوں نے اس پر غل مچا دیا اور لگے کہنے کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟(۵۲) یہ مثال وہ تمہارے سامنے محض کج بحثی کے لیے لائے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ ہیں ہی جھگڑالو لوگ۔  ابن مریمؑ اس کے سوا کچھ  نہ تھا کہ ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنا دیا(۵۳)۔ ہم چاہیں تو تم سے فرشتے پیدا کر دیں(۵۴) جو زمین میں تمہارے جانشین ہوں۔ اور وہ در اصل قیامت کی ایک نشانی ہے (۵۵)، پس تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مان لو، یہی سیدھا راستہ ہے،  ایسا نہ ہو شیطان تم کو اس سے روک (۵۶)دے کہ وہ تمہاری کھلا دشمن ہے۔  اور جب عیسیٰ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ ’’ میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں، اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض ان باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ اسی کی تم عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے (۵۷)‘‘۔ مگر (اس کی اِس صاف تعلیم کے باوجود) گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا(۵۸)، پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے ظلم کیا ایک درد ناک دن کے عذاب سے۔

کیا یہ لوگ اب بس اسی چیز کے منتظر ہیں کہ اچانک ان پر قیامت آ جائے اور  انہیں خبر بھی نہ ہو ؟ وہ دن جب آئے گا تو متقین کو چھوڑ کر باقی سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں (۵۹) گے۔ ع

 

تفسیر

 

۵۲۔ اس سے پہلے آیت  ۴۵ میں یہ بات  گزر چکے ہے کہ ’’ تم سے پہلے جو رسو، ہو گزرے ہیں ان سب سے پوچھ دیکھو کیا ہم نے خدائے رحمٰن کے سوا کچھ دوسرے معبود بھی، مقرر کیے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے‘‘؟ یہ تقریر جب اہل مکہ کے سامنے ہو رہی تھی تو ایک شخص نے،  جس کا نام روایت میں عبداللہ ابن الز بعریٰ آیا ہے،  اعتراض جڑ دیا کہ کیوں صاحب،  عیسائی مریمؑ کے بیٹے کو خدا کا بیٹا قرار دے کر اس کی عبادت کرتے ہیں یا نہیں ؟ پھر ہمارے معبود کیا برے ہیں ؟ اس پر کفار کے مجمع       سے ایک زور کا قہقہہ  بلند ہوا اور نعرے لگنے شروع ہو گئے کہ وہ مارا، پکڑے گئے،  اب بولو اس کا کیا جواب ہے۔  لیکن ان کی اس بیہودگی پر سلسلہ کلام توڑا نہیں گیا، بلکہ جو مضمون چلا آ رہا تھا، پہلے اسے مکمل کیا گیا، اور پھر اس سوال کی طرف توجہ کی گئی جو معترض نے اٹھایا تھا۔ (واضح رہے کہ اس واقعہ کو تفسیر کی کتابوں میں مختلف طریقوں سے روایت کیا گیا ہے جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔  لیکن آیت کے سیاق و سباق اور ان روایات پر غور کرنے کے بعد ہمارے نزدیک واقعہ کی صحیح صورت وہی ہے جو ابھی ہم نے بیان کی ہے )۔

۵۳۔ قدرت کا نمونہ بنانے سے مراد حضرت عیسیٰ کو بے باپ کے پیدا کرنا،  اور پھر ان کو وہ معجزے عطا کرنا ہے جو نہ ان سے پہلے کسی کو دیے گئے تھے نہ ان کے بعد۔  وہ مٹی کا پرندہ بناتے اور اس میں پھونک مارتے تو وہ جیتا جاگتا پرندہ بن جاتا۔ وہ مادر زاد اندھے کو بینا کر دیتے۔  وہ کوڑھ کے مریض کو تندرست کر دیتے۔  حتیٰ کہ وہ مردے جِلا دیتے تھے۔  اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ محض اس غیر معمولی پیدائش اور ان عظیم معجزات کی وجہ سے ان کو بندگی سے بالا تر سمجھنا اور خدا کا بیٹا قرار دے کر ان کی عبادت کرنا غلط ہے۔  ان کی حیثیت ایک بندے سے زیادہ کچھ نہ تھی جسے ہم نے اپنے انعامات سے نواز کر اپنی قدرت کا نمونہ بنا دیا تھا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص، ۲۵۰ تا ۲۵۲۔ ۲۵۹۔ ۴۱۷۔ ۴۵۷  ۴۶۰۵۱۳۔ جلد سوم ۶۳ تا ۶۷۔ ۱۸۴۔ ۱۸۵۔ ۲۸۰۔ ۲۸۱ )۔

۵۴۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم میں سے بعض کو فرشتہ بنا دیں۔

۵۵۔ اس فقرے کا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ قیامت کے علم کا ایک ذریعہ ہے۔  یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ وہ ‘’‘ سے کیا چیز مراد ہے ؟ حضرت حسن بصری اور سعید بن جبیر کے نزدیک اس سے مراد قرآن ہے،  یعنی قرآن سے آدمی یہ علم حاصل کر سکتا ہے کہ قیامت آئے گی۔  لیکن یہ تفسیر سیاق و سباق سے بالکل غیر متعلق ہے۔  سلسلہ کلام میں کوئی قرینہ ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پرا یہ کہا جا سکے کہ اشارہ قرآن کی طرف ہے۔  دوسرے مفسرین قریب قریب بالاتفاق یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ بن ریم ہیں اور یہی سیاق سباق کے لحاظ سے درست ہے۔  اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنجناب کو قیامت کی نشانی یا قیامت کے علم کا ذریعہ کس معنی میں فرمایا گیا ہے ؟ ابن عباس، مجاہد،  عکرمہ، قتادہ، سدی،  ضحاک، ابواالعالیہ اور ابو مالک کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ کا نزول ثانی ہے جس  کی خبر بکثرت احادیث میں وارد ہوئی ہے،  اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ قیامت اب قریب ہے۔  لیکن ان بزرگوں کی جلالت قدر کے باوجود یہ ماننا مشکل ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کو قیامت کی نشانی یا اس کے علم کا ذریعہ کہا گیا ہے۔  اس لیے کہ بعد کی عبارت یہ معنی لینے میں مانع ہے۔   ان کا دوبارہ آنا تو قیامت کے علم کا ذریعہ صرف ان لوگوں کے لیے بن سکتا ہے جو اس زمانہ میں موجود ہوں یا اس کے بعد پیدا ہوں۔ کفار مکہ کے لیے آخر وہ کیسے ذریعہ علم قرار پا سکتا تھا کہ ان کو خطاب کر کے یہ کہنا صحیح ہوتا کہ ’’ پس تم اس میں شک نہ کرو‘‘۔ لہٰذا ہمارے نزدیک صحیح تفسیر وہی ہے جو  بعض دوسرے مفسرین نے کی ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ کے بے باپ پیدا ہونے اور ان کے مٹی سے پرندہ بنانے اور مردے جِلانے کو قیامت کے امکان کی ایک دلیل قرار دیا گیا ہے،  اور ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ جو خدا باپ کے بغیر بچہ پیدا کر سکتا ہے،  اور جس خدا کا ایک بندہ مٹی کے پُتلے میں جان ڈال سکتا اور مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اس کے لیے آخر تم اس بات کو کیوں ناممکن سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں اور تمام انسانوں کو مرنے بعد دوبارہ زندہ کر دے۔

۵۶۔  یعنی قیامت پر ایمان لانے سے روک دے۔

۵۷۔  یعنی عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں اور تم میری عبادت کرو، بلکہ ان کی دعوت وہی تھی جو دوسرے تمام انبیاء کی دعوت تھی اور اب جس کی طرف محمد صلی اللہ علیہ و سلم تم کو بلا رہے ہیں۔  (تشریح  کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول، ص ۲۵۳ تا ۲۵۵۔  ۲۶۰۔ ۴۲۸۔ ۵۱۵۔  ۵۱۶۔ جلد سوم، ص ۶۶ تا ۶۸ )۔

۵۸۔ یعنی ایک گروہ نے ان کا انکار کیا تو مخالفت میں اس حد تک پہنچ گیا کہ ان پر ناجائز ولادت کی تہمت لگائی  اور ان کو اپنے نزدیک سولی پر چڑھوا کر چھوڑا۔ دوسرے گروہ نے ان کا اقرار کیا تو عقیدت میں بے تحاشا غلو کر کے ان کو خدا بنا بیٹھا اور پھر ایک انسان کے خدا ہونے کا مسئلہ اس کے لیے ایسی گتھی بنا جسے سلجھاتے سلجھاتے اس میں بے شمار فرقے بن گئے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول، ص ۴۲۷تا ۴۳۰۔ ۴۵۶۔ ۴۵۷۔ ۴۹۱  تا ۴۹۵۔  ۵۱۵۔ ۵۱۶۔ )۔

۵۹۔ دوسرے الفاظ میں صرف وہ دو ہستیاں باقی رہ جائیں گی جو دنیا میں نیکی اور خدا ترسی پر قائم ہیں۔ دوسرے تمام دوستیاں دشمنی میں تبدیل ہو جائیں گی، اور آج گمراہی،  ظلم و ستم اور  معصیت میں جو لوگ ایک دوسرے کے یار و مدد گار بنے ہوئے ہیں،  کل قیامت کے روز وہی ایک دوسرے پر الزام ڈالنے اور اپنی جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔  یہ مضمون قرآن مجید میں بار بار جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص اسی دنیا میں اچھی طرح سوچ لے کہ کن لوگوں کا ساتھ دینا اس کے لیے مفید ہے اور کن کا ساتھ تباہ کن۔

 

ترجمہ

 

اس روز ان لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے تھے اور مطیع فرمان بن کر رہے تھے کہا جائے گا کہ ’’ اے میرے بندو،  آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تمہیں کوئی غم لاحق ہو گا۔ داخل ہو جاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں(۶۰)، تمہیں خوش کر دیا جائے گا‘‘۔ ان کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کریں گے اور ہر من بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی چیز وہاں موجود ہو گی۔ ان سے کہا جائے گا، ’’ تم اب یہاں ہمیشہ رہو گے۔  تم اس جنت کے وارث اپنے ان اعمال کی وجہ سے ہوئے ہو جو تم دنیا میں کرتے رہے۔  تمہارے لیے یہاں بکثرت فواکہ موجود ہیں تم کھاؤ گے ‘‘۔ رہے مجرمین،  تو وہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے،  کبھی ان کے عذاب میں کمی نہ ہو گی، اور وہ اس میں مایوس پڑے ہوں گے۔  ان پر ہم نے ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔  وہ پکاریں گے،  ’’ اے مالک(۶۱)، تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے ‘‘۔ وہ جواب دے گا، ’’ تم یوں ہی پڑے رہو گے،  ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے مگر تم میں سے اکثر کو حق ہی ناگوار تھا(۶۲)‘‘۔

کیا ان لوگوں نے کوئی اقدام کرنے کا فیصلہ کر لیا (۶۳) ہے ؟ اچھا تو ہم بھی پھر ایک فیصلہ کیے لیتے ہیں۔ کیا انہوں  نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور ان کی سرگوشیاں سنتے نہیں ہیں ؟ ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں۔

ان سے کہو، ’’ اگر واقعی رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں ہوتا(۶۴)‘‘۔ پاک ہے آسمانوں اور زمین کا فرماں روا عرش کا مالک، ان ساری باتوں سے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اچھا، انہیں اپنے باطل خیالات میں غرق اور اپنے کھیل میں منہمک رہنے دو، یہاں تک کہ یہ اپنا وہ دن دیکھ لیں جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے۔

وہی ایک آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا، اور وہی حکیم و علیم ہے (۶۵)۔ بہت بالا و برتر ہے وہ جس کے قبضے میں زمین اور آسمانوں اور ہر اس چیز کی بادشاہی ہے جو زمین و آسمان کے درمیان پائی جاتی ہے (۶۶)۔ اور وہی قیامت کی گھڑی کا علم رکھتا ہے،  اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو(۶۷)۔

اس کو چھوڑ کر یہ لوگ جنہیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے،  الّا یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے (۶۸)۔

اور اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے (۶۹)۔ پھر کہاں سے یہ دھوکا کھا رہے ہیں، قسم ہے رسولؐ کے اس قول کی  کہ اے رب،  یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے (۷۰)۔

اچھا، اے نبی،  ان سے درگزر کرو اور کہہ دو کہ سلام ہے تمہیں(۷۱)، عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

 

تفسیر

 

۶۰۔ اصل میں ازواج کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بیویوں کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے بھی جو کسی شخص کے ہم مشرب،  ہم جولی،  اور ہم جماعت ہوں۔  یہ وسیع المعنی لفظ اسی لیے استعمال کیا گیا ہے تاکہ اس کے مفہوم کیں دونوں داخل ہو جائیں۔  اہل ایمان کی مومن بیویاں بھی ان کے ساتھ ہوں گی اور ان کے مومن دوست بھی جنت میں ان کے رفیق ہوں گے۔

۶۱۔  مالک سے مراد ہے جہنم کا داروغہ جیسا کہ فحوائے کلام سے خود ظاہر ہو رہا ہے۔

۶۲۔  یعنی ہم نے حقیقت تمہارے سامنے کھول کر رکھ دی، مگر  تم حقیقت کے بجائے افسانوں کے دلدادہ تھے اور سچائی تمہیں سخت ناگوار تھی۔  اب اپنے اس احمقانہ انتخاب کا انجام دیکھ کر بلبلاتے کیوں ہو ؟ ہو سکتا ہے کہ یہ داروغہ جہنم ہی کے جواب کا ایک حصہ ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا جواب ’’ تم یوں ہی پڑے رہو گے ‘‘ پر ختم ہو گیا ہو اور یہ دوسرا فقرہ اللہ تعالیٰ کا  اپنا ارشاد ہو۔  پہلی صورت میں داروغہ جہنم کا یہ قول کہ ’’ ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے ‘‘ ایسا ہی ہے جیسے حکومت نے یہ کام کیا یا یہ حکم دیا۔

۶۳۔ اشارہ ہے ان باتوں کی طرف جو سرداران قریش اپنی خفیہ مجلسوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کے لیے کر رہے تھے۔

۶۴۔ مطلب یہ ہے کہ میرا کسی کو خدا کی اولاد نہ ماننا،  اور جنہیں تم اس کی اولاد قرار دے رہے ہو ان کی عبادت سے انکار کر نا کسی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر نہیں ہے۔  میں جس بنا پر اس سے انکار کرتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ کوئی خدا کا بیٹا یا بیٹی نہیں ہے اور تمہارے یہ عقائد حقیقت کے خلاف ہیں۔ ورنہ میں تو خدا کا ایسا وفادار بندہ ہوں کہ اگر بالفرض حقیقت یہی ہوتی تو تم سے پہلے میں بندگی میں سر جھکا دیتا۔

۶۵۔  یعنی آسمان اور زمین کے خدا الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ ساری کائنات کا ایک ہی خدا ہے۔  اسی کی حکمت اس پورے نظام کائنات میں کار فرما ہے،  اور وہی تمام حقائق کا علم رکھتا ہے۔

۶۶۔  یعنی اس کی ہستی اس سے بدر جہا بلند و بر تر ہے کہ کوئی خدائی میں اس کا شریک ہو اور اس عظیم کائنات کی فرماں روائی میں کچھ بھی دخل رکھتا ہو۔  زمین و آسمان میں جو بھی ہیں،  خواہ وہ انبیاء ہو یا اولیا،  فرشتے ہوں یا جن یا ارواح، ستارے ہوں یا سیارے،  سب اس کے بندے اور غلام اور تابع فرمان ہیں۔ ان کا کسی خدائی صفت سے متصف یا خدائی اختیار کا حامل ہونا قطعی نا ممکن ہے۔

۶۷۔  یعنی دنیا میں تم خواہ کسی کو اپنی حامی و سرپرست بناتے پھرو، مگر مرنے کے بعد تمہارا سابقہ اسی ایک خدا سے پڑنا ہے اور اسی کی عدالت میں تم کو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔

۶۸۔  اس فقرے کے کئی مفہوم ہیں :

ایک یہ کہ لوگوں نے جن جن کو دنیا میں معبود بنا رکھا ہے وہ سب اللہ کے حضور شفاعت کرنے والے نہیں ہیں۔ ان میں سے جو گمراہ و بد راہ تھے وہ تو خود وہاں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔  البتہ وہ لوگ ضرور دوسروں کی شفاعت کرنے کے قابل ہوں گے جنہوں نے علم کے ساتھ (نہ کہ بے جا نے بوجھے ) حق کی شہادت دی تھی۔

دوسرے یہ کہ جنہیں شفاعت کرنے کا اختیار حاصل ہو گا وہ بھی صرف ان لوگوں کی شفاعت کر سکیں گے جنہوں نے دنیا میں جان بوجھ کر (نہ کہ غفلت و بے خبری کے ساتھ) حق کی شہادت دی ہو۔  کسی ایسے شخص کی شفاعت نہ وہ خود کریں گے نہ کرنے کے مجاز ہوں گے جو دنیا میں حق سے برگشتہ رہا تھا،  یا بے سمجھے بوجھے : اشھد ان لا ا لٰہ الا اللہ  بھی کہتا رہا اور دوسرے الہٰوں کی بندگی بھی کرتا رہا۔

تیسرے یہ کہ کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے کہ اس نے جن کو معبود بنا رکھا ہے وہ لازماً شفاعت کے اختیارات رکھتے ہیں، اور انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا زور حاصل ہے کہ جسے چاہیں بخشوا لیں قطع نظر اس سے کہ اس کے اعمال و عقائد کیسے ہی ہوں، تو وہ غلط کہتا ہے۔  یہ حیثیت اللہ کے ہاں کسی کو بھی حاصل نہیں  ہے۔  جو شخص کسی کے لیے ایسی شفاعت کے اختیارات کا دعویٰ کرتا ہے وہ اگر علم کی بنا پر اس بات کی مبنی بر حقیقت شہادت دے سکتا ہو تو ہمت کر کے آگے آئے۔  لیکن اگر وہ ایسی شہادت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے،  اور یقیناً نہیں ہے،  تو خواہ مخواہ سنی سنائی باتوں پر، یا محض قیاس و وہم و گمان کی بنیاد پر ایسا ایک عقیدہ گھڑ لینا سراسر لغو،  اور اس خیالی بھروسے پر اپنی عاقبت کو خطرے میں ڈال لینا قطعی حماقت ہے۔

اس آیت سے ضمناً دو بڑے اہم اصول بھی مستنبط ہوتے ہیں۔ اولاً اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے بغیر حق کی شہادت دینا چاہے دنیا میں معتبر ہو، مگر اللہ کے ہاں معتبر نہیں ہے۔  دنیا میں تو جو شخص کلمہ شہادت زبان سے ادا کرے گا،  ہم اس کو مسلمان مان لیں گے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کرتے رہیں گے جب تک وہ کھلم کھلا کفر صریح کا ارتکاب نہ کرے۔  لیکن اللہ کے ہاں صرف وہی شخص اہل ایمان میں شمار ہو گا جس نے اپنی بساط علم و عقل کی حد تک یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے لا الٰہ الا اللہ کہا ہو کہ وہ کس چیز کا انکار اور کس چیز کا اقرار کر رہا ہے۔

ثانیاً،  اس سے قانون شہادت کا یہ قاعدہ نکلتا ہے کہ گواہی کے لیے علم شرط ہے۔  گواہ جس واقعہ کی گواہی دے رہا ہو اس کا اگر اسے علم نہیں ہے تو اس کی گواہی بے معنی ہے۔  یہی بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک فیصلے سے بھی معلوم ہوتی ہے۔  آپ نے ایک گواہ سے فرمایا کہ : اِذارأیت مثل الشمس فاشہد و لّا فدع (احکام القرآن للجصّاص) ’’ اگر تو نے واقعہ کو خود اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا ہے جیسے تو سورج کو دیکھ رہا ہے تو گواہی دے ورنہ رہنے گے۔ ‘‘

۶۹۔  اس کے دو مطلب ہیں۔  ایک یہ کہ اگر تم ان سے پوچھو کہ خود ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ اللہ نے۔  دوسرے یہ کہ اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کے معبودوں کا خالق کون ہے تو یہ کہیں گے کہ اللہ۔

۷۰۔  یہ قرآن مجید کی نہایت مشکل آیات میں سے ہے جس میں نحو کا یہ  نہایت پیچیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ : وَقِیْلِہٖ میں واؤ کیسا ہے اور اس لفظ کا تعلق اوپر سلسلہ کلام میں کس چیز کے ساتھ ہے۔  مفسرین نے اس پر بہت کچھ کلام کیا ہے مگر کوئی تشفی بخش بات مجھے ان کے ہاں نہیں ملی۔  میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح بات وہی ہے جو شاہ عبدالقادر  صاحبؒ کے ترجمے سے مترشح ہوتی ہے،  یعنی اس میں واؤ عطف کا نہیں بلکہ قسمیہ ہے،  اور اس کا تعل : فَاَ نّیٰ یُؤْ فَکُوْنَ سے ہے،  اور قِیْلِہٖ کی ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف پھرتی ہے جس پر : یَا رَبِّ اِنَّ ھٰٓؤُ لَآ ءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْ مِنُوْنَ کا فقرہ صریح دلالت کر رہا ہے۔  آیت کا مطلب یہ ہے کہ :

قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ ’’ اے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے ‘‘،  کیسی عجیب ہے ان لوگوں کی فریب خوردگی کہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور پھر بھی خالق کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت پر اصرار کیے جاتے ہیں۔

رسول کے اس قول کی قسم کھانے کا مدعا یہ ہے کہ ان لوگوں کی یہ روش صاف ثابت کیے دے رہی ہے کہ فی الواقع یہ ہٹ دھرم ہیں، کیونکہ ان کے رویے کا غیر معقول ہونا ان کے اپنے اعتراف سے ظاہر ہے،  اور ایسا غیر معقول رویہ صرف وہی شخص اختیار کر  سکتا ہے جو نہ ماننے کا فیصلہ کیے بیٹھا ہو۔ بالفاظ دیگر یہ قسم اس معنی میں ہے کہ بالکل ٹھیک کہا رسول نے،  فی الواقع یہ مان کر دینے والے لوگ نہیں ہیں۔

۷۱۔  یعنی ان کی سخت باتوں اور تضحیک و استہزاء پر نہ ان کے لیے بد دعا کرو اور نہ ان کے جواب میں کوئی سخت بات کہو، بس سلام کر کے ان سے الگ ہو جاؤ۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduquran.net

http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp

http://ur.wikipedia.org

تشکر: سبط الحسین

جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید

مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین،  عبد الحمید

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید