FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

  تفسیر سورۂ فاتحہ (انوار الحجّت )

 

 

                حجۃ الاسلام والمسلمین سید نیاز حسین نقوی

 

 

 

 

 

 

مکی، سات آیات

 

مقام مکہ، ا ور کہا گیا ہے کہ مدینہ میں بھی نازل ہوا مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صرف مدنی سورہ ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ یہ سورہ ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوا ہے اس سلسلے میں کافی ادلہ موجود ہیں لیکن اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے تین دلیلیں پیش کرتے ہیں۔

(۱) جیسا کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے۔

نزلت فاتحۃ الکتاب بمکۃ من کنز تحت العرش۔

سورہ فاتحہ الکتاب عرش کے نیچے سے ایک خزانے میں سے مکہ میں نازل ہوا (منہج الصادیقین ج ۱ ص ۸۶)۔

(۲) نماز چونکہ بعثت کے فورا بعد ہی واجب ہوئی اور سورہ فاتحہ اس کا لازمی جز ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ

لا صلاۃ الابا لفاتحۃ۔

سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

لہذا یقیناً یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ہے اور شروع ہی سے نماز میں پڑھا جاتا ہے۔

(۳) یہ سورہ سبع مثانی ہے (سبع مثانی کا ایک معنی یہ ہے کہ اس کی سات آیتیں ہر نماز میں دو مرتبہ پڑھی جاتی ہیں۔) اور سبع مثانی کا ذکر قران میں ان الفاظ کے ساتھ ہوا ہے۔

ولقد آتیناک سبعا من المثانی( سورہ حجر کی آیت۸۷)

سورہ حجر یقیناً مکی سورہ ہے اسی بنا پر سورہ فاتحہ بھی مکی ہے

زمان نزول کے بارے اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ بعثت کے بعد بالکل ابتدائی ایام میں نازل ہوا اور اس کا سبب نزول نماز ہے چونکہ یہ سورہ نماز کا لازمی جز ہے۔( مناقب ابن شہر آشوب ج ۱، ص ۴۴)

 

                اسمائے سورہ اور وجہ تسمیہ

 

سیوطی نے کتاب الاتقان میں اس سورہ کے پچیس تک نام گنوائے ہیں، ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں۔

(۱)فاتحۃالکتاب۔کیونکہ اس سے قرآن مجید کا آغاز ہوتا ہے۔

(۲) حمد۔کیونکہ اس میں حمد الٰہی ہے۔

(۳) ام الکتاب۔کیونکہ قرآن مجید کے بنیادی مفاہیم پر مشتمل ہے۔

(۴)سبع المثانی۔کیونکہ یہ نام سورہ حجر میں ذکر ہوا ہے۔

(۵)اساس۔کیونکہ یہ سورہ قرآن مجید کی بنیاد اور جڑ ہے۔

(۶)شفاء۔ کیونکہ یہ ہر مرض کے لئے شفاء ہے۔

(۷) کافیہ۔کیونکہ نماز میں اس کا پڑہنا ضروری ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور سورہ کفایت نہیں کرتا۔

(۸) صلاۃ۔ کیونکہ یہ نماز کا لازمی جز ہے۔

(۹)کنز۔کیونکہ یہ خدا کے خزانوں میں سے عظیم ترین خزانہ ہے۔

(۱۰)دعاء۔ کیونکہ اس میں دعا کا طریقہ سیکھایا گیا ہے۔

ان میں سے پہلے چار نام مشہور ہیں۔

 

تفسیر انوار الحجّت

 

                خصوصیات سورہ

 

اس مبارک سورہ کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں۔

 

(۱)اجمال قرآن

 

قرآن مجید میں ہر خشک وتر کا ذکر موجود ہے اور یہ سورہ اس کا اجمال چونکہ سنت الٰہی یہ ہے کہ پہلے ایک چیز کو اجمال سے ذکر کیا جاتا ہے اور پھر تدریجاً اسے تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے یہ سورہ جن بنیادی اصولوں پر مشتمل ہے پورا قرآن ان کی وضاحت کرتا ہے۔

 

(۲) قرآن کا مرادف

 

خود قرآن میں اس سورہ کو قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے جیساکہ ارشاد رب العزت ہے۔

ولقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم۔

اور ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطاء کیا ہے۔

چونکہ اس سورہ کا ایک نام سبع مثانی ہے اور اسے قرآن کے مرادف قرار دیا گیا ہے۔

 

(۳)منفرد لب و لہجہ

 

اس سورہ کا لب و لہجہ اور انداز بیان باقی سورتوں سے بنیادی فرق رکھتا ہے قرآن مجید کی باقی سورتیں کلام خدا ہیں مگر اس سورہ میں خداوند عالم مخلوق کے کلام کو بیان فرما رہا ہے۔

 

(۴)دعا اور گفتگو کے منفرد انداز کی تعلیم

 

اس سورہ میں خداوند متعال اپنی ذات سے بلا واسطہ دعا مانگنے اور گفتگو کرنے کا طریقہ سکھلا رہا ہے اور درس دے رہا ہے کہ پروردگار عالم کے حضور کیا درخواست پیش کی جائے اور کس انداز سے التجاء کی جائے۔

 

(۵)رسول اکرم کے لئے خصوصی اعزاز

 

یہ سورہ پیغمبر کے لئے عظیم اعزاز اور عطیہ الٰہی ہے جیسا کہ حضرت امیر ا لمومنین علیہ السلام پیغمبر گرامی سے یہ حدیث نقل کرتا ہیں کہ آپ نے فرمایا۔

ا ن اللہ تعالی افردالامتنان علی بفاتحۃ الکتاب وجعلھابا زائالقرآن العظیم۔

خالق کائنات نے سورہ حمد دے کر مجھ پر خاص طور پر احسان کیا ہے اور اس کو قرآن مجید کے برابر قرار دیا ہے۔

 

(۶)شیطان کی فریاد کا موجب

 

قرآن کی سورتوں میں فقط یہ سورہ ہے جو شیطان کے فریاد و نالہ کا موجب بنا جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

ان ابلیس اربع رنات اولھن حین اھبط ا لی الارض و حین بعث محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و حین انزلت ام الکتاب۔

شیطان نے چار مرتبہ بلند آواز سے فریاد کی پہلی مرتبہ جب بار گاہ الٰہی سے لعنت کا مستحق ٹھرا دوسری مرتبہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبعوث ہوئے چوتھی اور آخری مرتبہ جب سورہ فاتحہ نازل ہوئی۔(۳)

 

(۷)نماز کا لازمی جز

 

نماز دین کا ستون ہے اور یہ اس کا لازمی جز ہے اور یہ اسی سورہ کی خصوصیت ہے کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی باقی سورتوں میں یہ خصوصیت نہیں ہے (۱) لاصلواۃالا بفاتحۃالکتاب۔

 

(۸)کتاب الٰہی کا آغاز

 

اس سورہ سے قرآن مجید کا آغاز ہوتا ہے۔

 

(۹)قرآن میں نازل ہونے والا پہلا سورہ

 

یہ قرآن میں نازل ہونے والا پہلا سورہ ہے۔

 

(۱۰) آسمانی صحیفوں کا جامع

 

یہ سورہ تمام آسمانی صحیفوں کے علوم، برکات اور ثواب کا جامع ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے خداوند متعال نے آسمان سے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں سے چار کا انتخاب کیا، اور باقی سو کتابوں کے علوم کو ان چار کتابوں میں جمع فرمایا اور وہ چار کتابیں توریت، انجیل، زبور اور قرآن تھیں۔

پھر ان چاروں کے علوم و برکتوں پڑھنے اور جاننے کے ثواب کو قرآن میں رکھا اور پھر قرآن کے علوم اور برکتوں کو جمع کیا اور ایک مفصل سورہ میں رکھا اور پھر مفصل سورہ کے علوم اور برکتوں کو فاتحۃ الکتاب میں جمع کر دیا اور فاتحۃ الکتاب کا پڑھنے والا اس طرح ہو گا جیسے اس نے ایک سو چار کتابیں پڑھی ہوں۔

 

                سورہ حمد کے فضائل

 

اس سورہ کے فضائل کا احصاء نا ممکن ہے البتہ ہم تبرکاً پانچ کے تذکرہ پر اکتفاء کرتے ہیں۔

 

(۱) اسم اعظم

 

روایات میں اس سورہ کی فضیلت میں بیان ہوا ہے کہ اس میں یقینی طور پر اسسم اعظم موجود ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

اسم اللہ الاعظم مقطع فی ام الکتاب۔

قطعی طور پر سورہ حمد میں اسم اعظم الٰہی موجود ہے۔ (۱)

 

(۲) قرب الٰہی

 

اس سورہ کی تلاوت قرب الٰہی کا موجب ہے اور اسی وجہ سے شیعہ وسنی روایات میں اس کی ارادے کو مضبوط کرتی ہے اور انسان کو گناہ اور گمراہی سے بچاتی ہے۔

————

(۳)تفسیر نور الثقلین ج، ص۴۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

(۳) دو تہائی قرآن

 

اس سورہ کی تلاوت کا ثواب دو تہائی قران کی تلاوت کے ثواب کے برابر ہے اسی وجہ سے پیغمبر اکرم کا ارشاد ہے۔

ایما مسلم قراء فاتحۃ الکتاب اعطی من الاجر لانما قراء ثلثی القرآن اعطی من الاجر کانما تصدق علی کل مومن و مومنۃ(۳)

جو مسلما ن بھی سورہ حمد کی تلاوت کرتا ہے اسے قرآن کی دو تہائی پڑھنے کا ثواب عطا کیا جائے گا اور اس سے تمام مومنین اور مومنات کو صدقہ دینے کا بھی ثواب عطا ہو گا۔

 

(۴) شفاء

 

یہ سورہ تمام جسمانی اور روحانی تکالیف کے لیئے شفاء ہے جیسا کہ جابر ابن عبداللہ انصاری نے رسول اکرم (ص) سے نقل کیا ہے۔

ھی شفاء من کل داء الا السام والسام الموت۔ (جوامع الجامع ج ۱، ص)

یہ سورہ موت کے علاوہ ہر مرض کے لئے دوا ہے۔

—————

(۱)تفسیر شہید مصطفی خمینی ج ۱، ص۲۵، نقل از ثواب الاعمال ص ۲۳۳،

(۳)مجمع البیان ج۱، ص۵۲

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

نیز حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے کہ

من لم یبرئہ الحمد لم یبرئہ شئی۔ (اصول کافی جلد ۴ ص ۴۲۳ح۲۲)

جس کو سورہ حمد سے شفاء نہ ملے اسے کوئی چیز بھی شفاء نہیں دے سکتی۔

اسی وجہ سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

لو قرئت الحمد علی میت سبعین مرۃ ثم ردت فیہ الروح ما کان ذلک عجبا (۳)

اگر سورہ حمد کسی میت پر ستر مرتبہ پڑھی جائے اور اس کی روح پلٹ آئے تو تعجب کی بات نہیں ہے۔

 

(۵)تمام آسمانی کتب کی برکات و ثواب

 

اس سورہ میں تمام آسمانی کتابوں کے جاننے اور پڑھنے کا ثواب رکھا گیا ہے جیسا کہ حدیث مین ہے جو بھی فاتحۃ الکتاب پڑھے گا ایسے ہی ہے جیسے ایک سو چار آسمانی کتابیں پڑھی ہوں۔

 

                سورہ کے موضوعات

 

یہ سورہ قرآن مجید کے بنیادی نکات پر مشتمل ہے اس کے موضوعات کا احصاء و شمار نہایت مشکل ہے لہذا ہم چند اہم موضوعات کو فہرست وار ذکر کرتے ہیں۔ انکی تفصیل بعد کے صفحات پر ملاحظہ فرمائیں۔

 

(۱) خداشناسی

(۲) توحید و صفات الٰہی

(۳) حمد الٰہی

(۴) تربیت الٰہی

(۵) جہان بینی

(۶) وحدت کلمہ

(۷)حاکمیت اعلی

(۸) معاد

(۹) عبادت

(۱۰) استعانت

(۱۱) خصوصی ہدایت

(۱۲) دعا

(۱۳) صراط مستقیم

(۱۴) الٰہی نعمتیں

(۱۵) مغضوبین کے راہ کی نفی

(۱۶) ضالین کے راہ کی نفی

 

تفسیر آیات

 

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سہارہ اللہ کے نام کا جو سب کو فیض پہنچانے والا بڑا مہربان ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم میں مندرجہ ذیل چار موضوعات بیان ہوئے ہیں۔

 

۱۔خدا شناسی

 

اللہ کے نام سے شروع کرنا انتہائی بابرکت عمل ہے جو ہر کام کے احسن طریقہ پر انجام پانے کا موجب بنتا ہے پروردگار عالم اس آیت سے اپنے پاک کلام کا آغاز کر کے یہ رسم قائم کر رہا ہے اور تربیت دے رہا ہے کسی بھی کام میں یاد خدا سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ جس کو ہر کام میں خدا یاد رہے گا اس کا کوئی کام قانون خداوندی کے خلاف نہ ہوگا اور اس کی زندگی گناہوں سے پاک رہے گی۔ جیساکہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی معروف حدیث میں ہے۔

کل امر ذی با ل لم یزکر فیہ اسم اللہ فھوابتر۔

کسی بھی اہم کام میں اگر خدا کے نام کا ذکر نہ ہو تو ناکامی ہو گی۔( بحار الانوار ج ۱۶، ب ۵۸)

اس حدیث نبوی کو حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے نقل فرمایا ہے اور اس کے بعد

فرماتے ہیں کہ انسان کوئی بھی کام انجام دینا چاہے تو لازم ہے کہ بسم اللہ کہے یعنی مین اس کام کو اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور جو کام اللہ کے نام سے شروع ہو گا وہ مبارک ہو گا۔

نیز امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں۔

وینبغی الایتان بہاعندافتتاح کل امر عظیم او صغر لیبارک فیہ۔ (تفسیر عیاشی ج ۱، ص ۱۹)

بہتر یہ ہے کہ ہر چھوٹے یا بڑے کام کے آغاز پر بسم اللہ کہا جائے تاکہ وہ کام مبارک ہو۔

 

ب۔ استعانت

 

اس آیت سے آغاز کر کے یہ درس دیا جا رہا ہے کہ مسلمان زندگی کے ہر قدم پر اللہ سے سہارا مانگیں تاکہ یہ احساس ہمیشہ قائم رہے کہ تنہا وہی برتر ذات ایسی ہے جو مدد دے سکتی ہے۔ہمیشہ اسی کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے اور اسی سے توفیق طلب کی جائے تاکہ بلند ہمتی سے امور انجام پائیں یہ عظیم مقصد تبھی پورا ہو سکتا ہے اپنی عاجزی کو تسلیم کرتے ہوئے تنہا قادر مطلق پر اعتماد کیا جائے حضرت امام علی نقی علیہ السلام کا فرمان ہے۔

استعین علی اموری کلھا بالله الذی لا تحق عبادہ الا لہ۔( تفسیر الفرقان ج ۱، ص ۷۹)

میں اپنے تمام امور میں اسی خدا سے مدد اور سہارا طلب کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی بھی بندگی کا استحقاق نہیں رکھتا۔

 

ج۔ اسم خدا

 

خدا کا جامع ترین نام اللہ ہے اور یہی ایک نام خدا کے تمام اسماء و صفات کا جامع ہے اور اسی لیئے بسم اللہ کہا جاتا ہے بسم الخالق، یا بسم الرازق نہیں کہا جاتا، چونکہ بقیہ تمام اسماء و صفات کو اسی  کلمہ اللہ کی صفت کی حیثیت سے بیان کیا جاتا ہے دوسرے نام کسی ایک کمال اور صفت کو منعکس ہیں مثال کے طور پر غفور و رحیم سے خدا کی بخشش و رحمت کی طرف اشارہ ہے۔

لہذا جس طرح خدا اپنی ذات میں واحد ہے اسی طرح اپنے نام اللہ میں بھی  واحد ہے قرآن مجید میں سب سے زیادہ اسی کا ذکر کیا گیا ہے یعنی ۲۶۹۷ دفعہ ذکر کیا گیا ہے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا فر مان ہے۔

اللہ اعظم اسماء من اسماء اللہ وھوالاسم الذی لا ینبغی ان یسمی بہ غیر اللہ لم یتسم بہ مخلوق۔( وہی ماخذ ص۸۲۔تفسیر صافی ج۱، ص ۸۱)

اللہ خدا کے ناموں میں سب سے عظیم نام ہے۔ یہ ایسا نام ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی بھی اس نام سے موسوم نہیں ہو سکتا اور مخلوق بھی یہ نام نہیں رکھ سکتی۔

جیسا کہ مولا کائنات حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے

والتسمیتہ فی اول کل سورۃ آیۃ منہا وانما کان یعرف انقضاء السورۃبنزولھا ابتداء للاخری

بسم اللہ ہر سورہ کی ابتدائی آیت ہے اور ہر سورہ کی ابتداء اور انتہاء اسی آیت کے نزول سے معلوم ہوتی ہے (منہج الصادیقین ج ۱، ص ۹۹)

 

(۶) نماز میں مکرر

یہ آیت ہر نماز میں لازمی طور پر کم از کم چار مرتبہ پڑھی جاتی ہے اس طرح فقط فرض نمازوں میں ہی ۲۰ مرتبہ پڑھی جاتی ہے اور روزانہ کی نافلہ نمازوں میں کم از کم ۶۸مرتبہ پڑھی جاتی ہے۔

 

                پہلی آیت کے فضائل

 

اس آیت کے فضائل کا احصی قوت بشری سے باہر ہے بہرحال مندرجہ ذیل تین فضائل ملاحظہ فرمائیں

 

(۱) تمام اعمال پر غالب ہے

 

اس آیت میں ذات خداوندی کے تین ایسے با عظمت نام بیان ہوئے ہیں جو تمام ناموں اور صفات کے جامع ہیں اور یہ تین نام امت مسلمہ کی نجات کے موجب بن جائیں گے اور یہ نام بنی آدم کے تمام اعمال پر بھاری ہیں جیسا کہ حدیث نبوی میں وارد ہوا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا۔

جب میری امت کو قیامت کے دن حساب کتاب کے لیئے لایا جائے گا اور ان کے اعمال کو میزان میں تولا جائے گا تو ان کی نیکیاں ان کے گناہوں پر غالب آ جائیں گی۔

انبیاء سلف کی امتیں سوال کریں گی پیغمبراسلام کی امت کے اعمال بہت کم تھے لیکن ان کی نیکیوں کا پلڑا کیوں بھاری ہے تو انبیاء سلف جواب دیں گے۔کیونکہ یہ امت اپنے کلام کا آغاز خالق متعال کے تین ناموں سے کرتی تھی۔ اور اگر یہی تین نام میزان کے ایک پلڑے پر رکھے جائیں۔ بنی آدم کے تمام حسنات وسیئات دوسرے پلڑے پر رکھے جائیں تو یہ پلڑا بھاری ہوگا اور وہ تین نام بسم اللہ، الرحمن، الرحیم ہیں

 

(۲) شیطان کی دوری کا موجب

 

جس کام میں بھی یہ آیت پڑھی جائے شیطان اس کام میں شریک نہیں ہوتا مثلاً کھانا کھاتے وقت اس آیت کے پڑھنے سے شیطان دور ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام سے روایت منقول ہے۔جو شخص کھانا کھاتے وقت بسم اللہ کہے شیطان اس سے دور ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ کھانے میں شریک نہیں ہوتا اور اگر کوئی شخص بسم اللہ کے بغیر کھانا کھائے شیطان اس کے ساتھ شریک ہو جاتا ہے۔

 

(۳) گناہوں کی بخشش کا ذریعہ

 

یہ آیت آخرت میں بھی نجات کی موجب ہے۔ اور دنیا میں بھی اس آیت کے تکرار کرنے سے جو عادت بن جاتی ہے یہی عادت آخرت میں گناہوں کے محو ہونے اور جہنم کی آگ سے دوری کا باعث ہو گی۔ جیسا کہ پیغمبر عظیم الشان اسلام کی ان تین روایتوں میں وارد ہو ہے کہ۔

قیامت کے دن جب انسان کو حساب کتاب کے لیئے لا یا جائے گا اوراس کا اعمال نامہ گناہوں اور برائیوں سے پر ہو گا جب یہ اعمال نامہ اس کے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ اپنی دنیوی عادت کے مطابق بسم اللہ الرحمن الرحیم زبان پر جاری کرے گا تو وہ اعمال نامہ اسے سفید نظر آئے گا۔ فرشتوں سے سوال کرے گا کہ میرا اعمال نامہ تو سفید ہے اور اس میں کچھ نہیں لکھا ہوا تو وہ جواب دیں گے بسم اللہ کی برکت سے تمام سیئات و خطیئات محو ہو گئے ہیں۔(منہج الصادیقین ج ۱ ص ۱۰۱)

دوسری روایت، اور فرمایا جب قیامت کے دن کسی بندے کو حکم دیا جائے گا کہ وہ دوزخ میں جائے تو جب وہ کنارے پر پہنچے گا اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے گا تو جہنم کی آگ اس سے ۷۰ ہزار سال دور ہو جائے گی۔(۲)

 

تیسری روایت

انہ اذا قال المعلم للصبی قل بسم اللہ الرحمن الرحیم فقال الصبی بسم اللہ الرحمن الرحیم کتب اللہ برائتہ لا بویہ و برائتہ للمعلم۔

نیز فرمایا جب استاد بچے سے کہتا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کہو اور وہ کہے بسم اللہ الرحمن الرحیم تو خداوند متعال، اس کے والدین اور استاد کو بخش دیتا ہے۔( جامع الاخبار، بصائر ج۱ ص۲۲۳ مجمع البیان ج۱ ص۹۰)

 

الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ

 

تمام حمد  و ثناء اس خدا کے لیئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اس آیت میں مندرجہ ذیل چار موضوعات ہیں

 

(۱) حمد الٰہی

(۲) تربیت الٰہی

(۳) جہاں بینی

(۴) وحدت کلمہ۔

 

الف۔ حمد الٰہی

 

اختصاص حمد صرف خدا کے ساتھ ہے۔ خالق متعال الحمدللہ رب العالمین کہ کر اس حقیقت کو بشریت کے لیئے واضع اور آشکار کر رہا ہے کہ حمد الٰہی کا مفہوم اور اس کی حقیقت، ذات مقدس الٰہی سے مختص ہے کیونکہ اس کی ذات کمال مطلق ہے جو تمام عیوب و نقائص سے منزہ ہے۔

لہذا وہ ذاتی لیاقت رکھتا ہے کہ ہر قسم کی حمد صرف اسی سے مختص ہو حمد اختیاری عمل پر ہوتی ہے اور رب العالمین کے پاس اختیا ر کل ہے لہذا حقیقی حمد کا استحقاق بھی وہی رکھتا ہے بلکہ وہ اپنی ذات، صفات، اور افعال کے حوالے سے ہر قسم کی حمد و تعریف کا حقدار ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا ایسی تعریف کا حقدار نہیں ہے ہاں وہ خود کسی کو محمد بنا دے تو اور بات ہے۔

 

ب۔تعلیم حمد

 

بندوں کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے پالنے والے کی معرفت حاصل کریں اور رب العالمین کی بے شمار اور لا متناہی نعمتیں ہی ہمیں اس کی شناخت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کیونکہ جب کسی انسان کو نعمت حاصل ہو تو وہ فطری طور پر عطا کرنے والے کا شکر گزار ہوتا ہے شکریے کا حق ادا کرنے کے لیئے منعم اور محسن کی پہچان ضروری ہے۔

جب ہمیں پہچان ہو جائے کہ خدا کی ذات ہی تمام نعمتوں اور رحمتوں کو عطا کرنے والی ہے تو شکر ادا کرنے کا طریقہ سکھا رہی ہے کہ جب بھی تم میری عظیم نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہو تو میری حمد کرو اور جب حمد کرنا مقصود ہو تو کہو الحمد للہ رب العالمین اس طرح میری مکمل ترین حمد ہو جائے گی۔ اگر خداوند متعال حمد و شکر کی تعلیم کر دے تو انسان ذاتی طور پر اس کمال مطلق کی تعریف کے قابل نہیں ہو سکتا۔

 

 (۲) تربیت الٰہی

 

الف۔ خدائی پرورش

 

خداوند متعال ’ رب العالمین ‘ سے یہ بیان فرمایا جا رہا ہے کہ تمام جہانوں موجودات کی تخلیق اور ایجاد کرنے والا قادر مطلق ہے اور چونکہ اسی نے وجود بخشا ہے لہذا وہی بہتر پرورش کر سکتا ہے وہی تمام موجودات کا رب اور پالنے والا ہے۔کائنات وجود پانے کے بعد بھی ہمیشہ رب العالمین کی محتاج ہے پرورش اور رشد کے تمام عوامل اسی نے پیدا کیے ہیں۔تربیت اور پرورش دو قسم کی ہوتی ہے۔

(۱) تکوینی تربیت

(۲) تشریعی تربیت

ہمارا خالق دونوں لحاظ سے رب ہے ہماری خلقت میں بھی ہمیں پالنے والا وہی ہے اور تعلیم و تربیت میں بھی وہی رب ہے اور راہ دکھلاتا ہے۔اور تمام مخلوقات کے تکامل اور ترقی کے تمام وسائل کا انتظام اسی نے کیا ہے اور پھر ان وسائل کے استعمال کا طریقہ بھی اسی نے سکھایا ہے۔

خالق متعال نے نہ صرف طبعیت اور جسمانی تربیت کا مکمل انتظام کیا ہے بلکہ اپنی مخلوق ناطقہ کے لیئے روحانی اور اخلاقی تربیت کا بھی پورا اہتمام فرمایا ہے۔اس امر کے لیئے فطرت بشری میں ہدایت کی راہ پر چلنے کا جوہر رکھا ہے اور صحیح راہ کی شناخت کے لیئے عقل جیسی ممتاز نعمت عطا فرمائی ہے۔ چونکہ بشریت کو ارتقائی منازل طے کرنے کے لیئے راہنما کی ضرورت تھی تو اس کا انتظام انبیاء الٰہی کو ہدایت بشری کے لیے مبعوث فرمایا اور آسمانی کتب نازل فرمائی جس سے رشد و تکامل کے تمام انتظامات مکمل ہو گئے۔

 

(ب) دیگر ارباب کی نفی

 

خالق مطلق چونکہ ہر چیز کا مالک ہے اور ان کی تربیت بھی صرف وہی کر سکتا ہے اور رب حقیقی اور مطلق بھی وہی ہے تو کسی اور کا رب ہونا یا تربیت میں شریک ہونا اس حقیقت کے منافی ہے۔اس آیت کے ذریعہ کائنات کی ہر چیز کی تربیت کو صرف خداوند متعال سے مختص کر دیا گیا ہے اور بقیہ تمام تخیلی ارباب کی نفی کر دی گئی ہے اور اس طرح توحید ویگانگی کی اساسی وجہ بیان کر دی ہے۔

 

(۳)جہان بینی

 

عالم سے مراد وہ جہان ہے جو ایک شمسی نظام اور اس میں موجود تمام سیارات سے تشکیل پاتا ہے سا ئنسی ترقی سے انسان نے بہت سے کہکشاں اور ہر کہکشاں میں متعددشمسی نظام اور ہر شمسی نظام میں موجود مختلف سیاروں کا پتہ چلا لیا ہے البتہ سائنس کی ترقی سے بہت پہلے ہمارے معصومین علیہما ا لسلام نے اس کی خبر دے رکھی تھی جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ ا لسلام کا فرمان ہے۔

ان اللہ قد خلق الف الف آدم۔

بے شک اللہ نے ہزار ہزار (ایک ملین )جہان پیدا کیے اور ہزار ہزار آدم کو خلق فرمایا ہے۔

اس سے عالمین یعنی بہت سے جہان کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے کہ کائنات میں جتنے عالم ہیں ان تمام کا خالق اور رب صرف خدا کی ذات ہے۔

عالمین کے تذکرے سے مراد یہ ہے کائنات کی وسعت، جہانوں کے تعدد، ان کی خلقت اور ان کی تربیت پر غور کیا جائے اور ایک جہان بینی اور کلی نظر پیدا ہو کہ وہ ذات بر تر و جامع کمالات ہے اس کی خالقیت اتنی وسعت رکھتی ہے کہ انسان ان کے جزئیات کو نہیں پا سکتا اور صرف تخلیق ہی نہیں کیا بلکہ تخلیق کے بعد ان کی تربیت کر نے والی ذات بھی وہی ہے۔

یعنی وہ ذات کائنات اور اس میں موجود تمام جہانوں، نظاموں، سیاروں، آسمانوں، زمینوں، جمادات، نباتات، حیوانات اور ملائک، جن اور انس نیز دیگر مخلوقات کی ان کے مناسب حال تدریجی طور پر تربیت کرتا ہے اور کمال کی منزل تک پہنچاتی ہے۔

اس سے عالمین کی تربیت پر ایک کلی نظر پیدا ہوتی ہے کہ کتنا بڑا اور پھیلا ہوا عمل ہے کہ خالق کے علاوہ اس کام کو کوئی انجام نہیں دے سکتا اسی لیے تمام حمد اور تعریفوں کو اسی ذات سے مخصوص کر نا ضروری ہے۔

 

(۴) وحدت کلمہ

 

جب ذات، صفات، خالقیت اور تربیت میں وحدانیت الٰہی معلوم ہو گئی اور ہر روز نئے خدا اور ہر کام کے لیے علیحدہ علیحدہ خدا نیز قبلہ کا الگ الگ خدا ہو نے کی نفی کر دے گئی اور یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آ گئی کہ وہ اس ایک جہان ہی خالق نہیں بلکہ وہ ایسے بہت سے جہانوں کا خالق، مدبر اور پالنے والا ہے۔

اس سے ایک طرف سے ہر طرح کے شرکت کا سد باب کیا اور دوسری طرف اتحاد عالمی کی ایک مستحکم بنیاد قائم کر دی تاکہ سب لوگ وحدت کلمہ کے ساتھ ترقی و کمال کے مدارج طے کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچیں۔

اگرچہ ابھی تک انسانیت تہذیب و تمدن کین انتہائی ترقی کے باوجود اس بنیاد پر کوئی مضبوط عمارت قائم نہیں کر سکی اور جب تک اس اخوات کا سنگ بنیاد رکھنے والے دین اسلام اور کتاب (قرآن ) کو عمومی طور پر تسلیم نہ کر لیا جائے اس وقت تک یہ عظیم مقصد حاصل نہ ہو گا۔

اس سلسلے میں قرآن کا وعدہ ہے کہ

لیظھر الدین کلہ؛

تا کہ اس دین کو ہر دین پر غلبہ عطاء کرے۔

یہ وعدہ حتمی ہے جو پورا ہو کر رہے گا جب حضرت حجت کا ظہور ہو گا اور دنیا کی تمام بے تابیاں اور پریشانیاں اس وقت ختم ہو جائیں گی۔اور ایمان۔نظم اور اتحاد عالم کی نہایت ہی شاندار عمارت بنے گی اور دنیا کے مضطربانہ اٹھتے ہوئے قدم آخر میں اس منزل پر پہنچ کر دم لیں گے اور اطمینان اور سکون کی فضا قائم ہو جائے گی۔

 

                خصوصیات آیت

 

اس آیت کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں۔

 

(۱)تمام انواع حمد کی جامع

یہ آیت حمد کی تمام انواع و مراتب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور خداوند متعال کے جتنے اوصاف کمالات ہیں ہر کمال پر وہ لائق حمد ہے اس کی جتنی نعمتیں اور آثار ہیں سب کے سب حمد الٰہی کے موارد ہیں۔ کسی انسان میں طاقت نہیں ہے کہ جس طرح وہ حمد کا حقدار ہے اس طرح حمد الٰہی بجا لائے اور اس آیت میں خدا کی جامع حمد ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر مایا۔

اگر خداوند متعال میری سواری مجھے لوٹا دے تو میں اس کی ایسی حمد کروں گا جو اسے پسند آئے گی سواری مل گئے اور اس پر سوار ہوئے تو آسمان کی طرف سر اٹھا کر فرمایا الحمد للہ اور اس سے زیادہ کچھ نہ فرمایا اور پھر فرمایا۔

ما ترکت ولا ابقیت شےئا جعلت جمیع انوع المحامد للہ عزو جل فما من الا و ھو داخل فی ما قلت۔

میں نے خدا کی حمد سے کسی قسم کی چیز کو نہیں چھوڑا حمد کی اقسام اس جملے میں داخل ہیں۔

ہم تمام انواع حمد کی وضاحت میں چند جملے دعا افتتاح کے بیان کرتے ہیں امام زمانہ (عج)نے اپنے خاص نائب ابو جعفر محمد ابن عثمان کو تعلیم فرمائی تھی۔

الحمد للہ بجمیع محامدہ کلہا، علی جمیع نعمہ کلہا۔الحمد للہ الذی لا مضاد لہ فی ملکہ، ولاس منازع لہ امرہ۔الحمد للہ الذی لا شریک لہ فی خلقہ ولا شبیہ لہ فی عطمتہ۔ الحمد للہ الفا شی فی الخلق امرہ وحمدہ، الظاھر بالکرم مجدہ، الباسط بالحوریدہ، الذی لا تنقض خزائنہ ولا تزید کثرۃ العطاء الا حور ا وکرما انہ ھو العزیز الوھاب

حمد اللہ ہی کے لئے ہے اس کی تمام خوبیاں اور ساری نعمتوں کے ساتھ، حمد اس اللہ کے لئے ہے جس کی افرینش میں کئی اس کا ساجھی نہیں ہے اور اس کی بڑائی میں کوئی اس جیسا نہیں ہے، حمد اس اللہ کے لئے ہے جس کا حکم پوری مخلوق میں آشکار ہے اس کی شان اس کی بخشش کے ساتھ ظاہر ہے بن مانگے دینے میں اس کا ہاتھ کھلا ہے۔یہ وہی ہے جس کے خزانے کم نہیں ہوتے اور کثرت کے ساتھ عطا کرنے میں اس کی بخشش و سخاوت میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ وہ زبردست عطا کرنے والا ہے۔بہرحال پوری دعا ہی پروردگار عالم کی حمد پر مشتمل ہے اور ہر قسم کی حمد کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔

 

(۲)نماز میں الحمدللہ رب عالمین پڑھنا

 

اس آیت کا حمد کے بعد نماز میں پڑھنا مستحب ہے یہ اس آیت کی خصوصیت ہے چونکہ با جماعت نماز میں سورہ حمد اور بعد والی سورہ کا پڑھنا صرف پیش نماز کے لیے ضروری ہوتا ہے اور مقتدی صرف سنتا ہے اور جب پیش نماز سورہ حمد کی قرأت ختم کرتا ہے تو مقتدی کے لیے مستحب ہے وہ کہے الحمد للہ ر ب العالمین۔

جیسا امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے

اذا کنت خلف امام ففرغ من قرائۃالفاتحہفقل انت من خلفہ الحمد للہ ر ب العالمین

جب آپ با جماعت نماز پڑھیں اور پیش نماز سورہ فاتحہ پڑھ چکیں تو کہیں الحمد للہ رب العالمین۔

اسی طرح فرادی نماز میں بھی حمد کے بعد اس آیت کو پڑھنا سنت ہے جیسا کہ امام علیہ ا لسلام کا اس بارے میں ارشاد ہے۔

فاذا قرائات الفاتحۃ ففرغٹ من قرائتھا و انت فی الصلوۃ فقل الحمد للہ رب العالمین۔

جب آپ سورہ الفاتحہ کو نماز میں قرات کریں تو کہیں الحمدللہ رب العالمین۔البتہ آئمہ معصومین علیہمالسلام کے فرامین کے مطابق سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔

 

                فضائل آیت دوم

 

شکر نعمت

 

خداوند متعال کی بے پناہ نعمتوں پر شکر واجب ہے اور شکر الٰہی ادا کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں چونکہ کائنات کی وسعتوں میں موجود بے شمار نعمتوں کا وہ احصاء کرنے سے قاصر ہے تو پھر کیسے شکر ادا کرے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ماانعم اللہ علی عبد بنعمۃ صغرت و کبرت فقال الحمد للہ الا ادی شکرھا۔( البیان ص۴۵۵ اصول باب الشکر ص۳۵۶)

خداوند متعال نے کوئی ایسی چھوٹی یا بڑی نعمت اپنے بندے کو عطا نہیں فرمائی

 

 الرَّحْمَانِ الرَّحِیمِ

 

وہ سب کو فیض پہنچانے والا بڑا مہربان ہے۔

 

اس آیت کی تفسیر پہلے بیان ہو چکی ہے لیکن ایک نکتہ کا یہاں ذکر کرنا مناسب ہے کہ رحمن سے مراد دنیا میں اس کی رحمت ہے اور رحیم سے اس کی اخروی رحمت مراد ہے۔

اس کا واضح برہان یہ ہے کہ لفظ رحمان۔الحمد لله رب العالمین کیساتھ متصل ہے اور یہ دنیا میں اس کے رحمن ہونے کو بتاتا ہے اور لفظ رحیم مالک یوم الدین کیساتھ متصل ہے اور یہ اس کی اخروی رحمت پر دلالت کرتا ہے، یہ دونوں صفات منشاء الٰہی کے فیوض و برکات پر مشتمل ہے۔

 

                خصوصیات

 

سب سے پہلا تکرار

 

یہ قرآن مجید کی سب سے پہلی آیت ہے جس کے تمام الفاظ بسم الله میں ذکر ہو چکے ہیں۔ قرآن مجید میں کہیں بھی بے فائدہ تکرار نہیں ہوا بلکہ خاص معنی اور مفہوم کو بیان کرنے کیلئے تکراری الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور یہاں تکرار کی مندرجہ وجوہات ہیں۔

 

الف:استحقاق حمد

 

بسم اللہ میں رحمن اور رحیم کا تذکرہ امداد طلب کرنے کے ذیل میں تھا اور یہاں استحقاق حمد کے لیئے ہے کیونکہ وہ ذات سر چشمہ رحمت ہے اور اس نے ہمیں اپنی رحمت سے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں، لہذا وہ ذات حق رکھتی ہے کہ اس کی حمد کی جائے گرچہ رحمت کے علاوہ اس کی عالمی تربیت اور دیگر تمام اوصاف کمال بھی اسی ذات کو مستحق حق گردانتی ہیں۔

 

ب: تربیت کی دلیل

 

یہاں رحمن اور رحیم میں خدائی تربیت کی دلیل موجود ہے کیونکہ وہی کائنات کا خالق اور رب ہے لیکن یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کی یہ تخلیق اور تربیت کس بنیاد پر ہے؟ یہ واضع حقیقت ہے کہ وہ ذات ہر چیز سے بے نیاز ہے اور عالمین کی تربیت اپنی ضرورت کے لیئے نہیں کرتا۔

اس کی وسیع اور دائمی رحمت کا تقاضہ ہے کہ سب کو فیض پہنچائے اور اپنے لطف و کرم اور رحم سے ان کی تربیت کرے اور انہیں رشد و کمال کے راستے پر چلائے اور آخرت میں بھی اپنے دامن عفو و رحمت میں جگہ عطاء فرمائے ہماری تربیت اور بخشش سے اس ذات کو ذاتاً کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنی رحمت سے ہمیں نعمتیں عطاء فرماتا ہے اور رحمت کی وجہ سے ہماری تربیت کرتا ہے۔

 

ج:حقیقی مالک اور مجازی مالک میں فرق

 

دنیوی مالک کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں بلکہ حقیقی اور اصلی مالک ان کو وجود اور زندگی عطا کرنے والا پروردگار ہے لیکن یہ دنیاوی مالک اپنی اس جھوٹی مالکیت کو جتلانے کے لئے اور اپنی انا اور خواہشات نفسانی کے تحت پر قسم کے ظلم و ستم، قتل و غارت اور بے راہ روی کو اپناتے ہیں۔

لہذا رب العالمین کے بعد الرحمن الرحیم کو لانا اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ حقیقی مالک ہونے کے باوجود اپنے بندوں پر مہربانی و لطف و کرم کرتا ہے، اور اپنی رحمت کے سائے میں تو بہ کرنے والے تمام خطا کاروں کو بخشش دیتا ہے۔اسی لئے ارشاد الٰہی ہے۔

قل یا عبادی الذین اسر فو ا علی انفسہم لا تقنطوا من رحمتہ اللہ ان اللہ تغفرالذنوب جمیعا ھو والغفورالرحیم پیغمبر (ص) آپ پیغام پہنچا سیجیے کہ اے میر ے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی، رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اور وہ یقیناً بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔

 

 مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ

 

وہ خدا روز جزا کا ما لک ہے۔

 

 حاکمیت اعلی

 

 الف 

 

دنیا میں اقتدار اعلی خداوند عالم زمان و مکان کی تمام حالتوں پر حاکم ہے۔اور اس کی حاکمیت تمام جہانوں پر محیط ہے۔ہر چیز پر اس کا تسلط اور احاطہ ہے اور جہاں ہستی کے لیئے وہی ذات ہی حقیقی حاکم ہے اور وہ اپنی حکومت میں کسی چیز کا محتاج نہیں ہے اور علی الاطلاق وہی حاکم اعلی ہے خداوند متعال کی تربیت اور پرورش فقط اس دنیا تک محدود نہیں ہے۔

 

 ب

 

آخرت میں اقتدار اعلی، یہاں خداوند متعال مالک یوم الدین کہ کر روز جزا کی حاکمیت فقط اپنی ذات کے ساتھ ہی مخصوص کر رہا ہے اور آج تک کسی نے اس دن کی حاکمیت کا دعوی نہیں کیا۔ جیسا کہ اس دنیا میں بھی لوگوں کی تربیت اور تدبیر کرنا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح آخرت کی تدبیر اور حساب کتاب بھی اسی ذات کے ہاتھ میں ہوگا جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے۔

لمن الملک الیوم للہ واحد القہار۔

آج کس کی حکومت ہے (جواب دیا جائے ) صرف خدا یگانہ اور قہار کی حکمرانی ہے۔

 

 معاد

 

الف: آخرت پر ایمان

 

خلاق متعال کی ربوبیت اور رحمانیت کا تقاضہ یہ ہے کہ جزا اور سزا کا ایک مکمل نظام ہو، خدا نے انسان کو ترقی اور کمال کے مراحل طے کرنے کے لیئے راہ دکھلائے اس کی تربیت کا انتظام کیا اسے شعور اور اختیار عطا فرمایا اب اگر انسان صحیح راہ کا انتخاب کرے جو کہ اطاعت اور ایمان ہے، تو وہ جزا پائے گا۔

لیکن اگر بری راہ یعنی کفر و معصیت کو اختیار کرے تو وہ سزا کا مستحق ہے۔ اس آیت کے ذریعے خداوند متعال انسان کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ تمام لوگوں کا پلٹنا اسی کی طرف ہے اور یہی معاد ہے۔

ان کے تمام اعمال  و امور، قیامت کے دن خداوند متعال کی حکومت اور سلطنت میں پیش کیے جائیں گے اور وہیں سزا و جزا کا تعین ہو گا، تو اسی بنا پر فقط اسی سے امید رکھنی چاہیے اور اسی سے ڈرنا چاہیے اور اس ذات کی مخالفت اور نافرمانی سے بچنا چاہیے۔معاد پر ایمان انسان کو غلط راستے سے بچاتا ہے اور اس کے کردار اور اخلاق کی اصلاح ہوتی ہے۔اس بنا پر دین کی ایک بنیادی اصل  معاد اور قیامت ہے۔

 

ب: روز حساب

 

قرآن مجید میں عالم آخرت کو مختلف الفاظ کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے، یوم الدین، یوم حساب اور دوسری تعبیریں استعمال ہوئی ہیں اور یوم دین سے مراد روز حساب ہے جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ مالک یوم الدین سے کیا مراد ہے۔آپ نے ارشاد فرمایا اس سے مراد یوم الحساب ہے۔

یہ وہ دن ہے جس دن تمام پوشیدہ حقائق واضع ہو جائیں گے اور تمام الٰہی وعدے پورے ہو جائیں گے اور ہر چھوٹے بڑے عمل کو عدالت الٰہی کے ترازو میں پرکھا جائے گا ہر شخص کی نیکیوں اور اچھائیوں، اسی طرح گناہوں اور برائیوں کاحساب و کتاب ہو گا۔

حاکم مطلق کی بارگاہ میں ہر ظلم و زیادتی کے خلاف شکایت کی جائے اور حقدار کو اس کا حق ملے گا اور کسی کو مایوسی نہ ہو گی اور ہر عمل کا عدل و انصاف کے ساتھ حساب ہو گا جب نیک اور برے افراد علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گے تو ان کا اجر وسزا معین ہو گا اور جو اجر پانے والے ہو نگے انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا اور جو لوگ سزا اور عذاب کے مستحق ہونگے انہیں جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔

 

 إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ

 

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں

 

(۱) عبادت

 

الف:۔حق کی ادائیگی، گزشتہ آیات میں اوصاف خداوندی کا تذکرہ ہو ہے اس ذات(خداوندی) کی شناخت اور معرفت کے مراحل سے گزرتے ہوئے یہ علم ہوا کہ وہ ذات ہماری خلقت کے بعد، ہماری تربیت اور ہدایت کے تمام اسباب مہیا کرتی ہے، اس دنیا میں اس کی رحمت اور لطف و کرم ہم پر سایہ فگن ہے اور آخرت میں اس کی حاکمیت مطلقہ کے باوجود اس کی رحمت مومنین کے شامل حال ہے۔

اس وجہ سے برتر و بالا ذات کے بہت سے حقوق ہماری گردن پر ہیں اور جن کی صحیح معنوں میں ادائیگی ہمارے بس میں نہیں ہے، ان میں سے ایک منعم کا شکر ادا کرنا ہے، شکر کو حمد خداوندی کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے اسی طرح ایک حق یہ کہ ہم اپنے رحیم و کریم مالک کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں اس کا واضع مظہر عبادت خداوندی ہے۔

مزید یہ کہ جب کسی سے کوئی حاجت طلب کی جائے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس کے حقوق ادا کیے جائیں اور جو انسان اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا وہ اس کی عنایت کا حق دار نہیں ہوتا۔اس مقام پر بیان ہونے والی آیات بتاتی ہیں کہ ہم نے کس طرح بارگاہ خداوندی سے حاجات طلب کرنی ہیں ان آیات میں اس کے حق کی ادائیگی کا اقرار کیا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے حاجات طلب کرتے ہیں۔

 

(ب)وہی ذات لائق عبادت ہے

 

خداوند متعال بے پناہ کمالات کا مالک ہے اور اس کی ذات کمال مطلق ہے اور اس کی ہر صفت بھی کمال ہی کمال ہے، وہی رب بھی ہے اور مالک بھی اسی لیئے وہ ذات بندگی اور پرستش کی حق دار ہے یعنی اس کی عبادت کا موجب صرف اور صرف اس کی ذات ہے کوئی اور شیء نہیں ہے۔

اسی لیئے مولا علی علیہ السلام کا فرمان ہے۔

، الٰہی وجدتک اھلا للعبادہ فعبدتک۔

بار الہا میں نے تجھے بندگی اور عبادت کے لائق پایا، اسی لیئے تیری عبادت کرتا ہوں۔

جب وہ ذات ہی بندگی کی لیاقت رکھتی ہے تو پھر عبادت بھی فقط اسی کی قربت کی نیت سے ہونی چاہیے۔

 

(ج)انحصار بندگی

 

ان آیات سے جب اس ذات کا عبادت کے لائق ہونا واضع ہو گیا تو اب ایک اور موضع کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ عبادت فقط اسی ذات میں منحصر ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے۔

عقل و فطرت کا بھی یہی تقاضا ہے جب وہی ذات خالق کل اور مالک حقیقی ہے تو پھر صرف اسی کی اطاعت کی جائے اور جب ہم اس کے بندے ہیں تو معبود بھی اسی کو ہونا چاہیے۔لہذا خداوند متعال کے علاوہ کسی کی عبادت سلب آزادی اور غلامی کے مترادف ہے لیکن اگر انسان دوسروں کی عبودیت اور نفس امارہ سے آزاد ہونا چاہے اور فقط اور فقط خدا کی عبادت پر انحصار کرے تو اس کا مستحق ہوگا کہ خود کو خدا کا بندہ کہے کیونکہ اس کی بندگی میں عزت ہے۔

دنیاوی طاقتوں اور طاغوتوں کے سامنے جھکنے میں ذلت ہے۔ بہرحال قرآن مجید کی یہ آیت صاحبان ایمان کے لیئے روحی لحاظ سے علو کو پیش کرتی ہے۔اس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرے اور اپنی احتیاج اسی کے سامنے پیش کرے اور اس کے علاوہ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے۔ اسی کے علاوہ کسی پر اعتماد اور توکل نہ کرے کسی کو خدا کا شریک قرار نہ دے اور خدا کی سلطنت کے مقابلہ میں کسی کی حاکمیت کو محبوب نہ جانے کیونکہ خداوند متعال کا حتمی فیصلہ یہ ہے کہ

و قضی ربک ان لا تعبدوالاایاہ

اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا۔

دین کا حکم بھی یہی ہے کہ ہمیں شرک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ شرک در عبادت و اطاعت بھی انسان کو دائرہ توحید سے خارج کر دیتا ہے۔ نیز اس مطلب کی طرف بھی متوجہ رہنا چاہیے کہ کائنات کی ہر چیز خداوند متعال کی مطیع ہے اور اس کی عبادت کرتی ہے اس مقام پر خدا ارشاد فرماتا ہے۔

ان کل من فی السموات والارض الا اتی الرحمن عبدا۔

زمین و آسمان میں ہر چیز خدا کا بندا اور (اس کی) فرمانبردار ہے۔

خداوند متعال کی تمام مخلوقات میں صرف انسان اور جن ہی اس کی نافرمانی اور سرکشی کرتے ہیں حالانکہ انہیں عبادت کے لیئے خلق کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد خدا و ندی ہے۔

وما خلقت الجن ولانس الا لیعبدون۔

جن و انس کو صرف عبادت کے لیئے پیدا کیا گیا ہے۔

المختصر یہاں پر جب یہ واضع ہو گیا کہ عبادت و پرستش صرف ذات الٰہی کے ساتھ مختص ہے اور غیر اللہ کی عبادت جس صورت اور جس طرز فکر سے ہو، شرک ہے کیونکہ جو شخص غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ اسے معبود سمجھ بیٹھتا ہے اور جو معبود حقیقی کے علاوہ کسی اور کو معبود سمجھے وہ کافر اور مشرک ہے۔خدا پرست اور اہل توحید اسی عقیدہ کی وجہ سے مشرک اور غیر موحد لوگوں سے ممتاز ہیں۔

 

خضوع و خشوع

 

اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مخلوق کو خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ خضوع و خشوع بھی کرنا چاہیے کیونکہ وہ ذات اس قدر عظیم ہے کہ اس کے مقابلے میں ہر چیز صحیح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اللہ اکبر کہہ کر اپنی ناچیزی کا اقرار کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی ذات اور بندگی کا اظہار ہمارے لئے ضروری ہے۔

یہ ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس پر عقل اور شریعت دونوں شاہد ہیں اس کے علاوہ کسی استدلال اور برہان کی ضرورت نہیں ہے۔عبادات میں خضوع و خشوع انسان کے مقام کی بلندی  کا موجب بنتا ہے بندہ کی اسی میں عزت ہے کہ بندگی میں کمال پیدا کرے اور یہ کمال صرف خشوع و خضوع میں مضمر ہے۔

اس سے بڑا فخر اور بڑی عزت کوئی نہیں ہے کہ انسان غنی مطلق کی بارگاہ میں سجدہ ریز  ہوجیسا کہ حضرت امیر علیہ ا لسلام ارشاد فرماتے ہیں۔

الٰہی کفانی فخراان تکون لی ربا وکفانی عزا ان کون لک عبدا۔

پروردگار میرے لئے صرف یہ بہت بڑا فخر ہے کہ تو میرا رب ہے اور میرے لئے یہ بہت بڑی عزت ہے کہ میں تیرا عبد ہوں۔

 

ھ۔ خدا کی مرضی کے مطابق عبادت

 

عبادت خداوند متعال کی مرضی کے مطابق ہونی چاہیے، اور عبادت تقرب خداوندی کے لئے، ہو تی ہے تو اسے اس کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے خواہ خاص حکم ہو یا عام، اسے اپنے وہم و  گمان اور مرضی کے مطابق بجا لانا چاہیے، کیونکہ خداوند متعال تمام مصالح اور نقصانات سے آگاہ ہے اور انسانی عقل اس کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتی ہے۔

لہذا عبادت اور اطاعت کا صحیح طریقہ وہی ذات معین کر سکتی ہے اور اس کے حکم اور اجازت کے بغیر کوئی عبادت خدا کی عبادت نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ہو وہوس اور تخیل کی عبادت ہوگی۔

اس سلسلے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے۔

قال ابلیس :رباعفنی من السجودلآدم وانا اعبدک عبادۃ لا یعبدکھا ملک مقرب ولابنیمرس فقال جل جلالہ لا حاجۃ لی فی عبادتک انہ اعبادتی من حیث ارید لامن حیث ترید۔

جب شیطان نے کہا بار الہا اگر مجھے آدم کو سجدہ کرنے سے معاف کر دو تو میں تمہاری ایسی عبادت کروں گا جو کسی مقرب فرشتے اور مرسل نبی نے نہ کی ہوگی۔ اس وقت اللہ جل جلالہ نے فرمایا مجھے تمہاری عبادت کی کوئی حاجت نہیں ہے بلکہ میری عبادت وہ ہے جو میری مرضی کے مطابق ہو نہ کہ تیری مرضی کے مطابق ہو۔

 

عبادات کی شرائط اور اقسام

 

خدا کی عبادت تبھی خالص ہو سکتی جب انسان اس کی ذات پر یقین کامل رکھتا ہو اور دوسرے تمام اسلامی اصولوں کا بھی معترف ہو کیونکہ عبادت ان اصولوں کی فرع ہے خداوند متعال کی حمد  و ثنا، اس کی ذات کی عظمت اور یوم قیامت کے حساب کتاب جیسے مفاہیم جب انسان کی روح میں سرائیت کر جائیں تو یہ انسان کے عقیدے کے استحکام کا موجب ہیں۔

عبادت کی تکمیل بھی اس مشروط ہے کہ انسان معرفت پروردگار، عقیدہ کی دوستی۔اخلاص و ایمان سے عبادت کو بجا لائے اور مقام بندگی میں خود کو اس کے حضور میں سمجھے اور خدا کا خالص بندہ  بن  کر اس کی بار گاہ میں جائے اور دنیا، لذات، خواہشات و شہوات اور دنیا داروں سے بریدہ ہو کر فقط اس کی عبادت کرے۔

 

عبادت مختلف طرح سے کی جاتی ہے

 

(۱) کبھی انسا ن اس لئے عبادت کرتا ہے تاکہ اسے اجر اور ثواب ملے یعنی خدا کے احسان اور وعدہ کے لالچ میں عبادت کرتا ہے۔

جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

ومن یطع اللہ ورسولہ ید خلہ جنات تجری من تحتھا النھار

جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی

اور فرمایا۔

وعد اللہ الذین امنو وعملو الصالحات لہم مغفرۃ واجر عظیم۔

اللہ نے صاحبان ایمان، نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔

(۲) کبھی انسان جہنم کے عقاب و عذاب کے خوف کی وجہ سے اللہ کی عبادت کرتا ہے جیسا کہ خداوند عالم نے فرمایا۔

انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم

اگر میں اپنے پروردگار کی نا فرمانی کروں، تو مجھے ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

(۳) کبھی انسان اللہ کی عبا ت اور پرستش اس لئے کرتا ہے کیونکہ وہی لائق عبادت اور یہ عبادت اولیاء خدا کے ساتھ مخصوص ہے جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ ا لسلا م ارشاد فرماتے ہیں

الٰہی ما عبداک خوفا من عقابک ولا طمعا فی ثوابک ولکن وحدئک اھلا لعبادۃ معبدئک۔

خدایا میری عبادت تیرے عذاب کے خوف، اور ثواب کے طمع و لالچ میں نہیں ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کہ تو اس کے لائق ہے۔

ہر شخص اپنی معرفت اور ظرف کے مطابق عبادت کرتا ہے جتنی معرفت ہو اتنی ہی عبادت کی تین قسمیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

قوم عبدواللہ عزوجل خوفا فتلک عبادۃ العبید، وقوم عبدہ اللہ تبارک و تعالی طلب الثواب فتلک عبادۃ الاجر اء و قوم عبد و اللہ عز وجل حتی لہ فتلک عبادۃ الاجرارہ ھی افضل العبادۃ۔

ایک قوم اللہ تبارک و تعالی کی عبادت جہنم کے خوف کی وجہ کرتی ہے یہ غلاموں کی سی عبادت ہے اور ایک گروہ اللہ کی عبادت ثواب حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے اور یہ اجیر کی عبادت کاروباری عبادت ہے۔ ایک قوم خدا کی محبت میں اس کی عبادت کرتے ہیں یہی احرار لوگوں کی عبادت ہے اور یہی افضل ترین عبادت بھی ہے۔

اور جو لوگ اللہ کی محبت میں عبادت بجا لاتے ہیں ان کے لئے خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ۔

ائے رسول کہہ دیجیے اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔

 

احتیاج عبد

 

انسان ایک محتاج موجود ہے اور بذات خود کسی طرح کی کوئی احتیاج نہیں رکھتا ہے۔انسان نے اپنا وجود بھی اسی ذات سے حاصل کیا ہے اور اس ذات کے علاوہ کوئی بھی وجود دینے کی قدرت نہیں رکھتا ہے انسان اپنی تمام زندگی میں خدا کی مرضی کے بغیر کسی چیز کو حاصل نہیں کر سکتا۔

لہذا تمام عمر ہر امر میں اس ذات کا محتاج ہے مادیات میں بھی محتاج ہے اور معنویات میں بھی خدا کی مدد اور توفیق کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہو سکتا اور عبادت بھی انسان کی ایک ضرورت ہے   چونکہ دین انسان کی فلاح و سعادت کے لئے ہے اور اس کے احکام پر عمل کرنے سے ہی یہ مقصد حاصل ہو گا  لہذا عبادت کو انسان اپنی ہی بہتری کے لئے انجام دیتا ہے اور خدا کی ذات کو عبد کی عبادت کا کوئی فائدہ اور ضرورت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرمایا ہے۔

یا ایھاالناس انتم الفقراء الی ا للہ واللہ ھو ا لغنی الحمید

اے لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز ہے اور قابل حمد و ثنا ء ہے۔

اب اس مقام پر انسان محتاج اپنی ذات اور تشخص کو ختم کرتے ہوئے کہتا ہے ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں جمع کی ضمیر اس لیے استعمال کی ہے کہ مفرد ضمیر یعنی ’میں‘  کہنے میں انائیت کا شائبہ ہوتا ہے اور مقام بندگی میں جب ’ہم‘ کہا جاتا ہے تو اس کا یہ مقصد ہوتا ہے میں ناچیز اور محتاج ہوں اور اس قابل ہی نہیں کہ اپنی ذات کا اظہار کرسکوں اور مقام عبادت اور طلب میں ناداری اور نیاز مندی کا اظہار ضروری ہے۔

اللہ تعالی بے نیاز مطلق ہے اور کائنات کی کوئی چیز اس کی ضرورت نہیں بن سکتی ہے اور ضرورت اور احتیاج کمال کے منافی ہو تی ہے اور عبادت جن وانس کی خدا کو ذرہ بھر ضرورت نہیں ہے۔

بلکہ اگر کائنات میں ایک فرد بھی خدا کو مانتا ہے اور اس کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہو تو پھر بھی خدا کی خدائی میں فرق نہیں پڑتا اور اس کے کمال میں کوئی کمی پیدا نہیں ہو سکتی۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد الٰہی ہے۔

انسان عبادت بھی خدا کی مدد کے بغیر انجام نہیں دے سکتا بندگی اور اطاعت کے تمام مراحل میں اس کا محتاج ہے۔

اسی لئے عبادت اور بندگی میں توفیق الٰہی اور استعانت طلب کی جاتی ہے عبادت کے شروع کرنے میں بھی خداوند متعال کی استعانت ضروری ہے چونکہ شیطان انسان کو بندگی اور اطاعت کرنے سے روکتا ہے اور مختلف حیلوں سے موانع ایجاد کرتا ہے۔

اس وقت انسان مصمم ارادہ کے ساتھ خدا کی مدد طلب کرتا ہے اور جب الٰہی توفیق شامل حال ہو جاتی ہے تو وہ عبادت کا آغاز کرتا ہے اس وقت شیطان ناکام ہونے کے بعد عبادت میں خلل ڈالنے اور بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے۔

اس کے لیئے عبادت کو بجا لانے اور اس میں اخلاص اور حضور قلب رکھنے میں خدا کی طرف محتاج ہے اوراس کی مدد کی ضرورت ہے لہذا عبادت کے آغاز، اس کے مال اور اس کی تکمیل فقط خدا کے لطف و کرم سے ہو سکتی ہے۔

نتیجہ یہ کہ انسان ہر سانس میں اس غنی مطلق کا محتاج ہے اور دنیا و آخرت کے تمام امور خداوند متعال کی مدد کے بغیر انجام نہیں پا سکتے۔اور خداوند متعال کسی بھی امر میں کسی بھی چیز کا محتاج نہیں ہے۔

 

(ج) عبادت اختیاری

 

یہ آیت اس بات کی طرف متوجہ کر رہی ہے کہ عبادت بندہ کا اختیاری فعل ہے اور خداوند

فاطر آیت ۱۵نیز سورہ محمد کی آخری آیت میں بھی یہ مفہوم موجود ہے

متعال نے انسانوں کو اختیار عطا فرمایا ہے کہ اگر بندگی اور فرمانبرداری سے خداوند متعال کی اطاعت اور عبادت میں زندگی گزارے تو اس کی آخرت سنور جائے گی اور اگر وہ نافرمانی کرتے ہوے کفر کی زندگی اختیار کرے تو عذاب شدید کا مستحق ہو گا۔

لہذا مسلمان اپنی عبادت اختیار سے انجام دیتا ہے لیکن اس عبادت کے کمال اور تکمیل پر اس کا اختیار نہیں ہے کیونکہ ثواب اور اجر اخروی، صحیح اور کامل عبادت پر ہی عطا ہوتا ہے اسی لیئے استعانت طلب کی جاتی ہے۔

اس آیت کریمہ میں عبادت کو عبد کا فعل کہا ہے اور استعانت اور مدد کرنا خدا کا فعل ہے لہذا خدا کے فعل پر انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ہاں اگر انسان اطاعت اور بندگی میں ایسے عالی اور بلند مرتبہ پر فائز ہو جائے کہ قرب الٰہی کے عظیم درجہ کا حامل ہو جائے تو پھر وہ خود خدا کی مرضی بن جاتا ہے یہ مقام نہایت ہی خاص ہستیوں کا نصیب ہے۔

اگر انسان خدا کی اطاعت اور بندگی کو اختیار نہیں کرتا تو وہ اپنی ہویٰ اور ہوس کا بندہ ہے اور ہوس اور ہویٰ نفس کی غلامی اختیار کرتا ہے وہ غیر خدا کی پرستش کرتا ہے اور جیسا کہ فرمان رب العزت ہے۔

ارایت من اتخذ الہہ ہواہ۔

کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جو اپنی ہوا وہوس کو اپنا خدا بناتا ہے۔ اور اگر انسان خدا کی اطاعت اور بندگی کو اختیار کرے اور ’ نعبد‘ میں مخلص اور سچا ہو تو اس تکبر اور غرور کی نفی کرتا ہے۔ عبادت انسان کو اچھائی کی راہ دکھلاتی ہے اور تمام برائیوں سے دور کر دیتی ہے چونکہ جب انسان بندگی کو تسلیم کر لیتا ہے تو پھر سر اٹھانے اور نافرمانی کرنے کی نفی کرتا ہے اور راہ نجات پر گامزن ہوتے ہوئے سعادت اخروی کو پا لیتا ہے۔

 

اصل خدا ہے

 

ذات خداوند چونکہ اصل ہے اس لیئے ایاک کو مقدم کیا ہے اور نعبد و نستعین کو بعد میں ذکر کیا ہے چونکہ عبادت و استعانت ذات خدا پر فرع ہے اور اللہ ہر چیز سے پہلے اور مقدم ہے جیسا کہ مولا کائنات فرماتے ہیں۔

ما رائیت شیئا الا وقد رایئتاللہ قبلہ۔

میں نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ مگر یہ کہ خدا کو اس سے پہلے پایا۔

یعنی خدام تعال کی ذات ہر چیز پر مقدم ہے، لہذا عبادت پر بھی مقدم ہے اسی طرح استعانت پر بھی مقدم ہے نیز ایاک کو مقدم کرنے میں حصر عبادت اور حصر استعانت کا مفہوم بھی بیان ہو رہا ہے صرف تیری ذات کی عبادت کرتے ہیں اور صرف تیری ذات سے مدد مانگتے ہیں۔

 

عبادت کیوں مقدم ہے

 

عبادت کو استعانت پر اس لیئے مقدم کیا ہے کہ عبادت مطلوب خداوندی ہے اور استعانت عبد کی طلب ہے اور عبد کی طلب کا ذریعہ بھی عبادت ہے اور عبادت اور اطاعت واجب ہے اور اس کی تکمیل گرچہ استعانت ہی سے ہو گی لیکن اسے انجام دینا عبد کا اختیاری فعل ہے۔ لہذا عبد کہتا ہے کہ ’ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تم سے مدد چاہتے ہیں ‘ تاکہ ہماری عبادت تکمیل پائے اور عبادت کے ذریعہ تم سے مدد چاہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اور اس طرح سے تیرے قرب کے طلب گار ہیں اور تعلق اور تقرب عبادت ہی سے متحقق ہو سکتا ہے۔ نیز کلام کی ہم آہنگی اور خوبصورتی بھی اسی میں ہے کہ ایاک نستعین بعد میں آئے تاکہ آیات کے اختتام میں یکسانیت پیدا ہو۔

 

لطف حضور

 

ادب کا تقاضا ہے کہاس بلند و بالا ذات سے تدریجاً قرب پیدا کیا جائے اس سورہ میں نام سے آغاز کیا پھر ذات کا ذکر کیا اس کے بعد مختلف اوصاف کا تذکرہ کیا اور معرف خداوندی کے مراحل طے کیے اسطرح درجہ بدرجہ تعلق پیدا کیا جا رہا ہے اللہ، رب، رحمن، الرحیم اور مالک کہنے کے بعد اب عبد اپنا انداز گفتگو تبدیل کر رہا ہے اور اپنے آپ کو خدا کے حضور اور اس کی بارگاہ میں محوس کر رہا ہے۔ اسی لیئے پہلے غیبت کے الفاظ استعمال کرتا رہا ہے اور اب مخاطب اور حاضر کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ صرف آپ کی عبادت کرتے ہیں اور پھر جب بارگاہ میں گفتگو کا شرف پا لیا تو اب عبد مزید قرب حاصل کرنے کے لیئے اپنی گزارشات کو پیش کرتے ہوئے استعانت کا طلب گار ہوتا ہے اور بعد والی آیات میں اپنی بنیادی دعا کو طلب کرتا ہے چونکہ حضور میں پہنچ کر درخواست جلدی قبول ہوتی ہے۔

نماز میں جب انسان اس سورہ کو پڑھا جاتا ہے تو انسان روحانی پرواز اور معراج کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچتا ہے تو اس وقت اس کے لئے یہ نقطہ عروج ہے۔

اور یہاں تعلق اور قرب الٰہی کا مقام ہے لہذا اس کے بعد دعا کرتا ہے، یعنی پرواز روحانی حمد، تعلق و قرب، اور درخواست کے مراحل پر مشتمل ہے۔

 

(۲)وحدت کلمہ

 

اس آیت مبارکہ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو وحدت اور یگانگی سے اپنے امور بجا لانا چاہیں اور اتحاد کے ساتھ خدا کی اطاعت اور بندگی میں زندگی گزاریں، اپنی عبادات میں بھی وحدت کو ملحوظ رکھیں جیسے اجتماعی عبادات مانند حج، نماز جماعت، نماز جمعہ جہاد وغیرہ میں ضروری ہے۔

سورہ حمد چونکہ نماز کا لازمی جز ہے اور جب بندہ نماز میں یہ جملہ کہتا ہے تو اپنے آپ کو جماعت اور اجتماع میں شمار کرتے ہوئے نعبد و نستعین کہتا ہے ہر قسم کی انفرادیت، علیحدگی، گوشہ نشینی اور ہر قسم کی دوسری چیزیں قرآن اور روح اسلام کے منافی ہیں اور عبادت تو خاص طور پر اجتماعی پہلو رکھتی ہے اور خصوصاً نماز کی بہترین حالت جماعت کی صورت میں ہے۔

اذان اور اقامت سے لے کر اختتام نماز یعنی السلام علیکم و رحمۃ و برکاتہ تک جماعت اور اجتماع کی ضرورت کو بیان کیا جاتا ہے گرچہ انفرادی نماز بھی صحیح ہے لیکن یہ دوسرے درجے کی عبادت ہے اور اجتماعی عبادت اور دعا جلد قبول ہوتی ہے اور اس کا ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے۔

 

استعانت

 

الف ضرورت استعانت

 

انسان دنیا میں بہت سی قوتوں سے نبرد آزما ہے کچھ بیرونی قوتیں ہیں اور کچھ انسان کی اندرونی قوتیں ہیں جو اسے تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں اور بندگی اور اطاعت میں بھی بہت سی قوتیں انسان کو انحراف، خود پسندی، ریاکاری، سستی اور ایسے دیگر امور میں مبتلا کرسکتی ہیں جیسا کہ شیطان نے بھی انسانوں کو گمراہ کرنے کی کی قسم اٹھا رکھی ہے۔

نفس امارہ بھی برائیوں کی طرف رغبت دلاتا ہے تو اس مقام پر عبد کو ایک طاقتور اور قادر مدد گار کی ضرورت کا ہوتا ہے تو وہ خدا سے مدد مانگتا ہے اور خود کو پروردگار کے سایہ حمایت کے سپرد کرتا ہے اور جو انسان نماز میں بار بار اس کا تذکرہ کرتا ہو۔

اس کا ایمان بندگی کا اعتراف اور اسی سے مدد مانگتا ہو تو وہ پھر کسی طاقت سے نہیں گھبراتا، ثابت قدمی کے ساتھ اطاعت اور بندگی کے راستے پر گامزن رہتا ہے اور کسی دوسری قوت کے سامنے سر نہیں جھکاتا اور مادیات کی کشش سے دھوکا نہیں کھاتا ہے اور اپنی حیات و ممات کو خدا کے لئے قرار دیتا ہے۔

 

انحصار استعانت

 

خداوند متعال چونکہ قادر مطلق ہے اور کائنات کی ہر طاقت اور قوت پر حاوی ہے لہذا صرف وہی ذات ہے جو ہر معاملہ میں مددگار ہو سکتی ہے لہٰذا صرف اسی ذات سے مانگنی چاہیے اور اس ذات کے علاوہ کسی دیگر قوت کی مدد ناقص ہوگی مگر یہ کہ خداوند متعال خود کسی کو خصوصی طور مدد گار کامل بنا دے۔

اب اگر انسان اس سے مدد لے تو یہ بھی خدا کی عطا کردہ قوت کی مدد ہو گی خدا کی ذات ’ کن فیکون‘ بلکہ اس سے بالا تر طاقت لہذا جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرمائے تو دنیا وی کسی طاقت کو ہر مارنے کی مجال نہ ہوگی اور ہر طاقت کی قوت دم توڑ دے گی اسی لئے انسان اپنے تمام امور میں اسی ذات سے مدد مانگتا ہے تکمیل ایمان و عبادت میں بھی اس کی مدد کا محتاج ہے۔

اگر کوئی انسان غفلت میں زندگی گذار رہا ہو اور خدا کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جائے گرچہ یہ بہت بڑی بد بختی ہے لیکن یہ انسان جب کسی بڑی مشکل اور مصیبت میں مبتلا ہو تا ہے اور دنیا کی ہر طاقت سے ما یوس ہو جا تا ہے تو پھر فقط اور فقط ایک ہی طاقت ہے کہ جس سے مدد مانگی جا سکتی ہے اور وہ خداوند متعال کی ذات ہے۔

 

                خصوصیات آیت پنجم

 

اولین تکرار لفظ

 

اس آیت میں ایک لفظ ’ایا ل‘ دو مرتبہ آیا ہے اس طرح یہ قرآن مجید کا ایک ہی آیت میں ہونے والا پہلا تکرار ہے یہ معنوی مفاہیم کے علاوہ لفظی خوبصورتی کا باعث ہے اس مقام پر یہ تکرار کلام میں لطافت بھی پیدا کرتا ہے اور محبوب سے گفتگو چونکہ شیرین ہو تی ہے تو الفاظ کے تکرار سے طویل کیا جاتا ہے۔

 

پہلا بلا واسطہ فعل

 

اس آیت مبارکہ کی یہ خصوصیت ہے کہ آسمانی کتاب میں عبد پہلی دفعہ اپنے مالک کو بلا واسطہ پکارا ہے اور اس کو خطاب کرنے کا شرف حاصل کرتا ہے گرچہ انسان گذشتہ آیات میں مختلف مرا حل میں یہ اعزاز حاصل کر رہا ہے کہ اپنے مالک اور خالق سے صرف ’تم‘ کہہ کر گفتگو کا آغاز کرے جس میں اپنائیت پائی جا تی ہے۔

 

پہلی ضمیر

 

قرآن مجید میں استعمال ہو نے والی پہلی ضمیر ’ایاک ‘ ہے یہ اس آیت مبارکہ کی خصوصیت ہے کہ سب سے پہلی ضمیر اس آیت میں آ ئی ہے اور وہ بھی خدا کے لئے استعمال ہوئی ہے اور ضمیر بھی ضمیر مخاطب ہے اور یہ ضمیر ایک آیت میں دو مرتبہ آئی ہے۔

ضمیر کا استعمال عظمت مقام معبود کی وجہ سے ہے اور اس میں یہ مفہوم ہے معرفت اور شناخت کے مراحل طے ہو چکے ہیں لہذا اب اس ذات برتر کے لیئے ضمیر استعمال ہو رہی ہے اور ضمیر خطاب اس لیئے ہے کہ تعلق کا اظہار کیا جائے ہم تیرے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔

 

(۴)پہلا مطلوب الہی

 

مطلوب الٰہی اور عبد کا پہلا تذکرہ اس آیت میں ہے۔ مقصد تخلیق بھی عبادت ہے اور خدا بھی چاہتا ہے کہ انسان عبادت کرے اور اطاعت کی زندگی گزارے لہذا قرآن مجید میں پہلا مقام ہے کہ جہاں الٰہی طلب جو کہ عبادت ہے اس کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ ہم تیرے حکم کے مطابق صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔

پس مرضی الٰہی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔اور پھر عبد اپنی طلب کا اظہار بھی کرتا ہے کہ بار الٰہی ہم تمام معاملات میں تم سے ہی مدد طلب کرتے ہیں لہذا یہ عبد کی پہلی طلب اور دعا قرار پائی کہ جو قران مجید کی اس آیت کا خاصہ ہے۔

 

(۵)پہلا اظہار وجود

 

اس آیت مبارک میں عبد’ نعبد ‘ اور ’ نستعین‘ کے الفاظ سے اظہار وجود کرتے ہوئے خدا کی بارگاہ میں حاضری دے رہا ہے اور کہ رہا ہے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور بندہ اپنے مالک سے اپنی ہی بھلائی کے دو کاموں کا تذکرہ کر رہا ہے کہ ہم اپنے کام اور ذمہ داری پوری کرتے ہیں اسی لیئے فعل مضارع کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور (یہ قرآن مجید میں آنے والا پہلا فعل بھی ہے)۔

البتہ یہاں جمع متکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے اس میں اس امر کا اظہار ہے کہ ہماری عبادت مجموعی طور پر ( یعنی اولیاء انبیاء اور آئمہ کی عبادت سے مل کر )ہی عبادت کہلا سکتی ہے وگرنہ ایک بندہ عبادت خدا انجام دینے کو اپنی طرف نسبت دینے میں کاذب بھی ہو سکتا ہے۔

 

                فضائل

 

(۱) نماز حضرت امام زمانہ میں تکرار

 

اس آیت مبارکہ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ ہمارے موجودہ زمانہ کے امام آخر الزمان علیہ السلام کی مخصوصہ نماز کی ہر رکعت میں یہ آیت ۱۰۰ مرتبہ تکرار ہوتی ہے۔

اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ

ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما تا رہ  ہدایت، پروردگار عالم کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار، اس کی وحدانیت کی گواہی، اسے اس کائنات اور عالم آخر ت کا مربی اور مالک ماننے اور اس سے طلب و استعانت کے مرحلہ تک پہنچ جانے کے بعد ہم بارگاہ خداوندی میں درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں دنیا کے اس بیابان میں راہ مستقیم پر گامزن رکھ اور یہی راستہ جنت کے لیئے ہمارا ہادی ہو، اس ہدایت کی دو صورتیں ہیں۔

 

(۱) ہدایت تکوینی

 

خالق کائنات نے اس ہدایت کے ذریعے تمام حیوانات، جمادات، نباتات کو رشد، نمو اور ترقی فرماتی ہے جس طرح پرندوں، چرندوں کا گرمی اور سردی کے مطابق انتظام کرنا، شد کی مکھیوں کا پھولوں سے رس نکال کر شھد فراہم کرنا ہدایت تکوینی ہے جیسا کہ خداوند عالم نے ارشاد فرمایا۔

ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی

(حضرت موسی نے فرمایا )ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر موجود کو لباس ہستی بخشا ہے اور پھر اس کی ہدایت اور رہبری کی ہے۔

 

(۲) ہدایت تشریعی

 

اس کے ذریعہ سے خداوند عالم نے تمام افراد بشر کی ہدایت کی ہے انبیاء اور آسمانی کتب

کے بھیجنے کیساتھ خدا نے تمام انسانوں پر اتمام حجت کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انسان کو حق و باطل کی پہچان کے لیئے عقل جیسی قوت عطا فرمائی ہے اور انبیاء علیہم السلام نے احکام اور قوانین الٰہی کو ان کے سامنے بیان کیا ہے۔ اس ہدایت تشریعی کی وجہ سے بعض لوگوں نے ہدایت حاصل کی ہے اور بعض لوگوں نے ضلالت و گمراہی کاراستہ اختیار کیا جیسا خداوند عالم نے فرمایا

ا ما ھدیناہ السبیل اما شاکرا واما کفورا

یقیناً ہم نے انسان کو راہ(سعادت)کی ہدایت کی خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا ہو۔

ہدایت سے کیا مراد ہے؟جن لوگوں نے اس وجہ سے ہدایت حاصل کی ہے اب وہ بارگاہ خداوندی میں خصوصی ہدایت کی درخوا ست کر رہے ہیں کہ ہمیں سیدہی راہ کی ہدایت فرما اور یہی اھدناالصراط المستقیم میں بھی مراد ہے۔ یہ عنایت ربانی ہے خداوند عالم اپنی حکمت کے تقاضوں کے ساتھ اپنے خاص بندوں کے لیئے یہ ہدایت فرما رہا ہے۔بہرحال یہاں عمومی ہدایت مراد نہیں ہے یعنی جو خداوند عالم نے پوری کائنات کو عطا کی ہے۔ لہذا یہاں ہدایت سے مراد وہی اعانت ہے جس کی خواہش کا اظہار ایک نستعین میں کیا تھا یہ وہ توفیق خداوندی جو بندہ کے شامل حال ہوتی ہے اور وہ اسی کی بدولت وہ خیر و فلاح کے قریب  آجاتا ہے۔

 

دعا

 

مقام الٰہی کی معرفت رکھنے والے انسان کے لئے اہم ترین دعا ہے، صراط مستقیم کی طرف ہدایت کی دعا ہے یعنی ہمیں دنیاوی امور جیسے عبادت، اعتقاد، اخلاق، سیاست، معاملات، لین دین اور دوسرے تمام امور جیسے قبر و برزخ، میدان حشر، پل صراط اور صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کے دعا حساب کتاب کے مشکل حالات سے نجات عطا فرمائے۔

یعنی انسان کی تمام دنیاوی اور اخروی میدانوں میں کامیابی اور سعادت کا ذریعہ ہے البتہ صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے میں ہم ہر آن اور لحظہ، خدا کے فضل و کرم اور توفیق کے محتاج ہیں جیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے۔

یا ایھاالناس انتم الفقراء الی اللہ۔

اے لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو

 

 (۳)صراط مستقیم

 

صراط مستقیم کی وضاحت قرآن مجید نے مختلف مقامات پر بیان فرمائی ہے بعض مقامات پر راہ اعتدال، اتحاد اور استقامت مراد ہے کیونکہ انسان کو ہر لمحہ لغزش اور کجروی کا خوف رہتا ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔

ان ھذاصراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق لکم عن سبیلہ

یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے اس کی اتباع کرو اور دوسرے راستوں کی طرف نہ جاؤ کہ راہ خدا سے الگ ہو جاؤ گے۔

اسلام کا تربیتی راستہ معتدل اور درمیانی راہ ہے اس میں کوئی افراط و تفریط نہیں پائی جاتی ہے۔قرآن مجید نے صراط مستقیم سے آئندہ کا آئین، دین حق اور احکام خداوندی کی پا بندی بھی مراد لی ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے۔

قل اننی ھدانی ربی الی مستقیم دینا قیما، ملۃ ابراہیم حنیفا و کان من المشرکین۔

کہہ دیجیے کہ میرے پروردگار نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت کی ہے جو کہ سیدھا دین ہے اور اس ابراہیم کا آئین ہے جس نے کبھی خدا نے شرک نہیں کیا۔

اسی طرح اللہ تبارک و تعالی نے اپنی عبادت کا نام بھی صراط مستقیم رکھا ہے جیسا کہ فرمان خداوندی ہے۔

وان اعبد ونی ھذا صراط مستقیم

اور میری ہی عبادت کرو کیونکہ یہی صراط مستقیم ہے۔

صراط مستقیم تک پہنچنے کا راستہ اللہ سے تعلق و ربط کے ساتھ ممکن ہے اس سلسلے میں خداوند والم رشاد فرماتا ہے۔

من یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط المستقیم

جنہوں نے اللہ تعالی کے دامن کو تھامے ر کھا انہوں نے ہی صراط مستقیم کی ہدایت پائی۔

خدا پر اعتقاد رکھنے والے انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا ور اولیا ء خدا کی راہ کا انتخاب کرے کیونکہ فقط یہی راہ ثابت ہے اور دوسری تمام راہیں تغیر و تبدل کا شکار رہنے کے ساتھ متعدد بھی ہیں لہذا انسان فقط خدا سے ہی سیدھی راہ ثابت قدم رہنے کا تقاضا کرے۔

اگر ہم ظلم اور راہ روی جیسے گناہوں ارتکاب کریں تو منبع ہدایت سے ہمارا رابطہ منقطع ہو جائے گا لہذا ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اسے موانع پیش نہ آئیں تا کہ ہم انحراف اور تباہی سے بچے رہیں جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

یعنی ارشد نا للزوم الطریق المئودی الی محبتک والمبلغ الی جنتک والما نع من ان یتبع اھئوا نا فنعطب اوان نا خذبا را ئینا فنھلک

خدایا ہمیں ایسے راستے کی ہدایت فرما جو تیری محبت اور جنت تک لے جاتا ہے اور جو راستہ خواہشات کی اتباع اور اپنی آرا ئپر عمل کرنے سے ہلاکت میں پڑنے سے روکتا ہے اس آیت سے واضح طور ہر معلوم ہوتا ہے دین حق کی حقیقی معرفت ان اشخاص کے ذریعہ ہو سکتی ہے۔

جنہوں نے اس دین کے اصولوں پر صحیح معنی میں عمل کیا ہے اور اس دین کے لئے ایک بہترین نمونہ ہیں۔

لہذا صراط مستقیم پر پہنچنے کیلئے ان ہستیوں کی شناخت کے ساتھ ساتھ ان کی پیروی انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کا اتم اور اکمل نمونہ صرف اور صرف اہلیبیت و  طہارت وعصمت علیہم السلام ہی ہیں۔

جیسا کہ روایت میں بھی موجود ہے حضرت امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لیس بین اللہ و بین حجتہ حجاب ولا للہ دون حجتہ ستر: نحن ابواب اللہ و نحن صراط المستقیم و نحن ملبستہ علمہ و نحن تراجمۃ وحیہ و نحن ارکان توحیدہ و نحن مو صع سرہ۔

خدا اور اس کی حجت کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے خدا کی شناخت کے لئے حجت کی شناخت ضروری ہے ہم ہی باب اللہ ہیں، ہم ہی صراط مستقیم ہیں، اور خدا کے علم کا خزانہ بھی ہیں ہم ہی خدا کی وحی کے ترجمان ہیں اس کی تو حید کے ستون ہم ہیں، اور اس کے اسرار کا خزانہ بھی ہم ہیں۔

اسی مطلب پر اور بھی بہت سی روایات ہیں جو بتاتی ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد محبت اہلبیت ہے اس مطلب پر ابن شہر آشوب نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ اھد نا الصراط   المستقیم سے مراد اہلبیت اور محبت اہلبیت علیہم السلام ہے۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ہی الطریق الی معر فتہ و ہما صراطان صراط الدنیا، صراط الاخرۃ، فا ما الصراط فی الدنیا دہو الامام المعتر ض الطا عۃ من عرفہ فی الدنیا واقتدی بہداہ مر علی الصراط الذین ھو حسر جہنم فی الا خراۃ ومن لم یعرفہ فی الدنیا زلت قدمہ فیالاخراۃ فتردی فی نار جہنم

صراط مستقیم خدا کی معرفت کا راستہ ہے اس مراد دو راستے ہیں صراط دنیا صراط آخرت، صراط دنیا سے مراد وہ امام ہیں جن کی اطاعت مخلوق پر واجب ہے۔ لہذا جس نے اس دنیا میں اس امام کی معرفت حاصل کی اور اس کی پیروی کی، قیامت والے دن وہ پل صراط کو با آسانی عبور کرے گا اور جس نے اس دنیا میں امام بر حق کی معرفت حاصل نہ کی قیامت والی دن اس کے قدم ڈگمگا جائیں گے اور جہنم کی آگ ہی اس کا ٹھکا نا ہو گی۔

پل صراط کے بارے میں حضرت ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اعظم( ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔

لا یجوز احد الصراط الا من کتب لہ علی الجواز

بہر الحال بعض مفسریں نے صراط مستقیم سے اسلام، بعض نے قرآن بعض نے انبیاء بعض نے حضرت رسول اعظم (ص) بعض نے معرفت امام بعض نے حضرت امیر المومنین اور بعض آئمہ بر حق مراد لئے ہیں۔

مرحوم طبرسی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کو عموم پر حمل کرنا بہتر ہے تا کہ تمام موارد کو شامل ہو جائے یعنی صراط مستقیم وہ دین ہے جس کا خداوند عالم نے ہمیں حکم دیا ہے اور توحید، عدل اور (نبوت امامت) اور ولایت کی اطاعت کو ہم پر واجب اور ضروری قرار دیا ہے۔

۰۰۰ریاض النضرۃ ج ص و صواعق محرقہ ۰۰۰

صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَالضَّالِّینَ

جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تم نے نعمتیں نازل کیں ہیں، ان کا راستہ نہیں جن پر تم نے غضب نازل ہوا ہے جو گمراہ ہوئے ہیں۔

 

الٰہی نعمتیں

 

یہ آیت مبارکہ اس راہ حق اور سیدھے راستے کی وضاحت ہے جس کی پہلی آیت میں دعا مانگی گئی تھی بہر حا ل یہاں نعمت سے مرا د مادی اور دنیاوی نعمتیں نہیں ہیں کیونکہ دنیاوی نعمتیں خدا کا عمومی انعام ہیں ان کے لئے بقاء نہیں ہے لہذا یہاں وہ ابدی اور دائمی نعمت مراد ہے جس کے حصول کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور وہ نعمت ہدایت اور تو فیق ہدایت ہے۔ یہی انسان کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھتی ہے اور یہ نعمت صرف اور صرف ایمان، آئمہ اطہار علیہم السلام کی ولایت کا اقرار، اور اطاعت اور پیروی میں مضمر ہے اور آخری دم تک اس ہدایت پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے اور جو لوگ نعمتوں کے حصول کے بعد ان پر ثابت قدم نہیں رہے تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا جیسا کی اللہ رب العزت کا فرمان ہے

الم تر الی الذین بدلو انعمت اللہ کفرا واحلو اقومھم دارالبوار

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفران نعمت کے ساتھ تبدیل کر دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی منزل تک پہنچا دیا۔

لہذا جنہں نے جان بوجھ کر حق سے انحراف کیا ہے ان پر تو اللہ کا عذب ہوا ہے اور جنہوں نے حق کو طلب کرنے میں کوتا ہی کی ہے وہی بھٹکے ہوئے ہیں اور جو اس ہدایت پر ثابت قدم ہیں وہ انعام یافتگان الٰہی ہیں اور انہی کے لئے سعادت ہے۔

حضرت فاطمۃالزاھرا سلام اللہ علیہا نے بھی فدک کے مسئلہ پر اپنے تاریخی خطبہ مسجد نبوی میں اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی کے اس فرمان کو تلاوت فرمایا۔

فلا تموتن الا وانتم مسلمون

مسلمان رہتے ہوئے اس دنیا سے مرنا۔

لہذا اس ہدایت پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے فقط اسلام کو قبول کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ مرنے تک ثابت قدم رہنے سے ہی سعادت اور خوش بختی نصیب ہو سکتی ہے۔

 

تر بیت الہی

 

انسان اپنے آغاز لے کر انجام تک تربیت کا محتاج ہے یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم نے اس کی تربیت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے ہیں۔

ان کے بعد ائمہ اطہار علیہم ا لسلام تا قیام قیامت انسانیت کے مربی ہیں اور انسان بھی یہی درخواست پیش کر رہا ہے کہ مجھے ان انعام یافتہ لوگوں کی راہ کا مسافر بنا خداوند عالم نے انعام یافتہ لوگوں کا قرآن مجید میں اس طرح تذکرااہ فرمایا ہے۔

ومن یطع اللہ والرسول فئا ولئیک مع الذین انعم ا للہ علیہم من النبیین الصدیقین والشھدا ء والصالحین

جو لوگ خدا اور رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں خدا نے انہیں ان لوگوں کے ساتھ قرار دے دیا ہے جنہیں نعمات سے نوازا گیا ہے اور وہ انبیاء، صدیقین، شھداء اور صالحین لوگ ہیں۔

اسی طرح معانی اخبار میں حضرت رسول اعظم (ص) سے روایت موجود ہے۔

انعمت علیہم شیعتہ علی یعنی انعمت علیہم بولایت علی ابن ابی طالب لم تغضب علیہم ولم یضلوا

انعام یافتگان الٰہی علی کے شیعہ ہیں کیونکہ انہیں علی ابن ابی طالب کی ولایت کا انعام دیا گیا ہے ان پر نہ تو غضب الٰہی ہو گا اور نہ ہی وہ گمراہ ہیں

 

مغضوبین کی راہ سے دوری

 

قرآن مجید میں مغضوبین کے عنوان سے مختلف افراد اور امتوں کا تذکرہ موجود ہے جن پر خدا کا غضب ہوا ہے ا ور ہم ہر روز نماز میں خداوند عالم سییہی دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں ان مغضوبین کے عقائد، اخلاق اور عمل سے دور رکھ یعنی ان کی راہ سے دوری اور ان سے نفرت کا اظہار ضروری ہے کیونکہ ان پر اللہ کا غضب بھی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور انہیں جنت کی خوشبو تک نصیب نہ ہو گی اور جہنم کا ٹھکا نا ہو گا جیسا کہ اللہ نے فرمایا۔

ویعذب المنافقین والمنا فقاتوالمشرکین والمشرکا ت الظانین باللہ ظن السوء علیہم دآئرۃالسوء وغضب اللہ علیہم و لعنہم و اعد لہم جہنم

منافق اور مشرک مرد اور عورتیں جو خدا کے بارے میں برے خیالات رکھتے ہیں ان سب پر عذاب نازل کرے، ان پر عذاب کی گردش ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے جہنم کو کو مہیا کیا ہے۔

بہر حال کفر کی راہ اختیار کرنے والے، حق سے دشمنی والے ہیں انبیاء مرسلین اور آئمہ اطہار کو اذیت دینے والے ہی مغضوبین ہیں جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ان المغضوب علیہم الضاب

بیشک مغضوب علیہم سے مراد اہلبیت سے عداوت کا اظہار کرنے والے (ناصبی) ہیں

لہذا مغضوبین کی راہ سے دوری اور ان سے نفرت کرنے والے ہی انعام یافتگان کی اتباع اور پیروی کرنے والے ہیں۔

 

گمراہوں کی راہ سے دوری

 

ہمیں گمراہوں کی راہ سے دوری اور نفرت کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ بھی مغضوبین کی طرح ہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ خود گمراہ ہیں جبکہ مغضوبین خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ خدا نے پہلے مغضوبین کی راہ سے دوری کا حکم صادر فرمایا ہے اور پھر بلا فاصلہ گمراہوں کی راہ سے اجتناب کا کہا ہے قرآن مجید میں دونوں گروہوں کے متعلق مختلف آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے مغضوبین کا مرحلہ، گمراہوں کی نسبت سخت اور بد تر ہے بعض مفسرین نے ضالین سے منحرف عیسائی مراد لئے ہیں اور مغضوبین سے یہودی مراد لئے ہیں اور بعض مفسرین نے اس کے عکس کو بیان کیا ہے حقیقت یہ ہے مغضوبین اور ضالین دو عنوان ہیں چونکہ یہودی اور عیسائی ہر وقت اسلام سے دشمنی رکھتے تھے

لہذا یہ دونوں گروہ مغضوبین اور ضالین ہیں کیونکہ یہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسرں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں۔

کل من کفر باللہ فھو مغضوب علیہ وضال عن سبیل اللہ

جو بھی حق خدا کو چھپاتا ہے وہ مغضوب علیہ اور سبیل خدا سے گمراہ ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں

الضالین اہل الشکوک الذین لا یعرفون الامام

ضالین سے مراد وہ اہل شکوک ہیں جو امام کو نہیں پہچانتے۔

لہذا ان دونوں گروہوں سے نفرت ان کی راہ سے دوری اور انعام یافتگان کی راہ پر ثابت قدم رہنا صراط مستقیم ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

www.alhassanain.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید