FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

تفسیر ابن مسعود

 

تالیف: محمد احمد عیسوی

ترجمہ: مولانا شمس الدین

 

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

کتاب کا نمونہ پڑھیں…..

 

۵۔ سورۃ المائدہ

قولہ تعالیٰ: یا ایہا الذین امنوا اوفوا بالعقود۔

۱۔ علامہ بغوی نے معالم ۲/۳ میں لکھا ہے حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا: عقود سے ایمان اور قرآن مجید کے وعدے مراد ہیں۔

آیت ۲:

وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۔ (اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر اور نہ مدد کر گناہ پر اور زیادتی پر)

۱۔ حضرت امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند ۶/۱۲۴ میں حضرت ابن مسعودؓ کی یہ روایت نقل فرمائی ہے حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں رحمت کائناتﷺ نے فرمایا: جس نے کسی ظلم والے کام میں اپنی قوم کا ساتھ دیا وہ ایسے ہی جیسے کنوئیں میں گرنے والے اونٹ کو اس کی دم سے پکڑ کر کھینچ رہا ہو۔

۲۔ علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر ۳/۱۱ میں لکھا ہے حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں ہادی برحقﷺ نے فرمایا: بھلائی کی طرف راہنمائی کرنے والا اس بھلائی کے کرنے والے کی طرح ہے۔

قولہ تعالیٰ: حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ۔ (حرام ہوا تم پر مردہ اور لہو اور گوشت سور کا اور جس چیز پر نام پکارا اللہ کے سوا کا اور جو مر گیا گھٹ کر یا چوٹ سے یا گر کر یا سینگ مارے سے اور جس کو کھایا پھاڑنے والے نے مگر جو تم نے ذبح کر لیا۔

۱۔ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح ۷/۶۸ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ کے خاندان کے ایک آدمی کا گدھا اس کے کنٹرول سے باہر ہو گیا تو آپؓ نے فرمایا جہاں آسانی سے ضرب لگ سکتی ہے لگاؤ جو گر جائے اسے چھوڑ دو اور باقی کھا لو! (مراد جنگلی گدھا ہے)

قولہ تعالیٰ: وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ ۪ وَ طَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ

۱۔ ابن جوزی نے زاد ۲/۲۹۵ میں لکھا ہے حضرت ابن عباسؓ سے عرب کے عیسائیوں کے ذبیحہ کھانے کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ اور حضرت علی المرتضیؓ اور حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ دوسرے علاقوں کے عیسائیوں کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔

قولہ تعالیٰ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَی الْكَعْبَیْنِ ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا۔

(اے ایمان والو جب تم اٹھو نماز کو تو دھو لو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک اور مل لو اپنے سر کو اور پاؤں ٹخنوں تک اور اگر تم کو جنابت ہو تو خوب طرح پاک ہو)

۱۔ سیوطی نے الدر ۲/۲۶۲ میں لکھا ہے کہ عبد الرزاق اور طبرانی نے یہ روایت نقل کی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے فرمان وارجلکم الی الکعبین میں پاؤں دھونے کی بات ہے۔

۲۔ قرطبی نے احکام ۶/۹۹ میں لکھا ہے حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا: ہاتھوں سے قبل اگر پاؤں سے وضو کی ابتدا کر لی جائے تو کوئی حرج نہیں۔

۳۔ طبری نے جامع ۱۰/۷۲ میں لکھا ہے حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا: ہاتھوں سے قبل اگر پاؤں سے وضو کی ابتدا کر لی جائے تو کوئی حرج نہیں۔

۳۔ طبری نے جامع ۱۰/۷۲ میں لکھا ہے حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا انگلیوں کے درمیان پانی کے ساتھ خلال کیا کرو تو ان کے درمیان آگ نہیں پہنچے گی۔

۳۔ حاکم نے مستدرک ۱/۱۵۰ میں لکھا ہے حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: اللہ کے رسولﷺ نے وضو فرمایا تو کانوں کی دونوں طرف مسح فرمایا: حضرت انس فرماتے ہیں حضرت ابن مسعودؓ بھی یوں ہی کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔

قولہ تعالیٰ: ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائلی و بعثنا منہم اثنی عشر نقیبا۔ (اور لے چکا ہے اللہ عہد بنی اسرائیل کا اور اٹھائے ہم نے ان میں بارہ سردار)

۱۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند ۵/۲۹۴ میں یہ روایت نقل فرمائی ہے۔ حضرت مسروق فرماتے ہیں ہم حضرت ابن مسعودؓ کی خدمت میں حاضر تھے آپ ہمیں قرآن مجید پڑھا رہے تھے کہ ایک آدمی نے آپ سے کہا کیا آپ لوگوں نے جناب رسالت مآبﷺ سے پوچھا تھا کہ اس امت میں کتنے خلیفہ ہوں گے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا میں جب سے عراق آیا ہوں تم سے پہلے کسی نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا۔ پھر آپؓ نے فرمایا ہم نے اس کے متعلق آپﷺ سے دریافت کیا تھا تو آپﷺ نے فرمایا تھا بارہ ہوں گے جیسا کہ بنی اسرائیل کے نقیب بارہ تھے۔

قولہ تعالیٰ: یحرفون الکم عن مواضعہ ونسوا حظا مما ذکرو ابہ۔ (بدلتے ہیں کلام کو اپنے ٹھکانے سے اور بھول گئے ایک فائدہ لینا اس نصیحت سے جو ان کو لی تھی)

۱۔ ابن حجر عسقلانی نے کافی ۵۴ میں لکھا ہے ابن المبارک نے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا میں خیال کرتا ہوں کہ آدمی سیکھا ہوا علم کسی گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے بھول جاتا ہے۔

آیت ۲۷۔ تا۔ ۳۱:

قولہ تعالیٰ: وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لأقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (٢٧) لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لأقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ (٢٨)إِنِّي أُرِيدُ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ (٢٩) فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ (٣٠) فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الأرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْأَةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ (٣١)

(اور سنا ان کو احوال تحقیق آدم کے دو بیٹوں کا جب نیاز کی دونوں نے کچھ نیاز پھر قبول ہوئی ایک سے اور نہ قبول ہوئی دوسرے سے کہا میں تجھ کو مار ڈالوں گا۔ بول کہ اللہ قبول کرتا ہے تقوی والوں سے۔ اگر ہاتھ چلاوے گا مجھ پر مارنے کو میں نہ ہاتھ چلاؤں گا تجھ پر مارنے کو میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو صاحب کا سب جہان کا۔ میں چاہتا ہوں کہ تو حاصل کر لے میرا گناہ اور اپنا گناہ پھر ہو دوزخ والوں میں سے اور یہی سزا بے انصافوں کی۔ پھر اس کو راضی کر لیا اس کے نفس نے خون پر اپنے بھائی کے پھر اس کو مار ڈالا تو ہو گیا زیان والوں میں۔ پھر بھیجا اللہ نے ایک کوا کریدتا زمین کو کہ اس کو دکھاوے کس طرح چھپاتا ہے عیب کو اپنے بھائی کا بولا اے خرابی کہ مجھ سے اتنا نہ ہو سکا کہ ہوں برابر اس کوے کے کہ چھپاؤں عیب اپنے بھائی کا پھر لگا پچھتانے۔

۱۔ علامہ طبری نے جامع ۱۰/۲۰۶۔ ۲۰۷ میں حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعودؓ اور چند دیگر صحابہ کرامؓ سے یہ روایت نقل فرمائی ہے، رحمت دو عالمﷺ نے فرمایا: حضرت آدمؑ کے ہاں جب بھی بچہ پیدا ہوتا تو بچے کے ساتھ ایک بچی بھی پیدا ہوتی، پھر آپؑ پہلے حمل سے پیدا ہونے والے لر کے کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی سے کروا دیتے اور پہلے حمل سے پیدا ہونے والی لر کی کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے لر کے سے کروا دیتے۔ آپؑ کے ہاں دو لڑکے ہوئے۔ انہیں قابیل اور ہابیل کہا جاتا ہے۔ قابیل کھیتی باڑی کرتا تھا اور ہابیل اونٹوں والا تھا۔ قابیل ان میں سے بڑا تھا۔ اس کی بہن ہابیل کی بہن سے زیادہ خوبصورت تھی۔ ہابیل نے مطالبہ کیا کہ وہ قابیل کی بہن سے نکاح کرے گا۔ قابیل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا وہ میری بہن ہے۔ میرے ساتھ پیدا ہوئی تھی اور وہ تیری بہن سے زیادہ خوبصورت ہے میں اس کا زیادہ حقدار ہوں۔ حضرت آدمؑ نے بھی اسے کہا کہ اس کا نکاح ہابیل سے کروا دو مگر وہ نہیں مانا۔ ان دونوں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ اس لڑکی کا حقدار کون ہے اللہ عز و جل کی بارگاہ میں قربانی کی۔ حضرت آدمؑ اس دن وہاں موجود نہیں تھے۔ آپ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کی زیارت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ اللہ عز ذکرہ نے حضرت آدمؑ سے پوچھا تھا کہ آپ کو علم ہے کہ زمین میں میرا ایک گھر ہے؟ حضرت آدمؑ نے عرض کیا اے اللہ! مجھے کوئی علم نہیں۔ تو اللہ نے فرمایا میرا گھر مکہ میں ہے آپ وہاں تشریف لے جائیے۔ حضرت آدمؑ نے آسمان سے کہا میری اولاد کی ایمانداری کے ساتھ حفاظت کر وہ نہ مانا آپ نے زمین سے کہا وہ بھی نہ مانی پھر آپ نے پہاڑوں سے فرمایا وہ بھی نہ مانے۔ آپ نے قابیل سے فرمایا تو وہ مان گیا اور کہا آپ تشریف لے جائیے اور جب واپس آئیں گے تو اپنی اولاد کو ایسا پائیں گے کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔ جب حضرت آدمؑ تشریف لے گئے تو ان دونوں نے قربانی کی۔ قابیل ہابیل پر فخر کیا کرتا اور کہتا کہ میں اس لڑکی کا زیادہ حقدار ہوں وہ میری بہن ہے اور میں تجھ سے بڑا بھی ہوں اور میرے والد سب کچھ مجھے سونپ کر گئے ہیں۔ جب انہوں نے قربانی کی تو ہابیل نے ایک موٹا تازہ اونٹ ذبح کیا اور قابیل نے خوشوں کا ایک گٹھا قربان کیا اور وہ بھی یوں کہ اس گتھے میں ایک خوشہ ذرا بڑا دیکھا تو اسے ہاتھ سے مل کر کر کھا گیا۔

 

آسمان سے آگ اتری تو ہابیل کی قربانی کھا گئی اور قابیل کی قربانی چھوڑ گئی۔ قابیل غصے سے بھر گیا اور کہنے لگا میں تجھے قتل کر دوں گا تاکہ تو میری بہن سے نکاح نہ کر سکے۔ ہابیل نے کہا اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کی قربانی قبول کیا کرتا ہے۔ اگر تو نے مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میں تو اپنا ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا یوں اس کے نفس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر برانگیختہ کر یا۔ تو اس نے اسے قتل کرنے کے لیے بلایا۔

 

ہابیل اس سے بھاگ کر پہاڑوں پر چلا گیا۔ مگر قابیل ایک دن وہاں بھی آ پہنچا جبکہ ہابیل بکریاں چراتے چراتے سو گیا تھا۔ قابیل نے ایک بڑا پتھر اٹھایا اور اس سے ہابیل کا سر کچل دیا۔ یوں وہ فوت ہو گیا تو یہ اسے یوں ہی کھلے میدان میں چھوڑ کر چلا آیا۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ اسے دفن کیسے کرنا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دو کوے بھیجے، ان میں سے ایک نے دوسرے کو مار دیا پھر ایک گڑھا کھود کر اسے اس میں رکھ کر اوپر سے مٹی ڈال دی۔ قابیل نے جب یہ سب کچھ دیکھا تو کہا (اے خرابی کہ مجھ سے اتنا نہ ہو سکا کہ ہوں برابر اس کوے کے کہ چھپاؤں عیب اپنے بھائی کا) یہ بات اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے (پھر بھیجا اللہ نے ایک کوا کریدتا زمین کو اس کو دکھا دے کس طرح چھپاتا عیب اپنے بھائی کا۔ حضرت آدمؑ جب واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے بیٹے نے اپنا بھائی قتل کر دیا ہے۔ اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ہم نے دکھائی امانت آسمان اور زمین اور پہاڑوں کو ) آیت مبارکہ کے آخر تک (یہ ہے بڑا بے ترس نادان) (الاحزاب/۷۲) مراد یہ ہے کہ قابیل نے حضرت آدمؑ کی دی ہوئی امانت لے تو لی مگر اس کی حفاظت کا حق ادا نہ کر سکا۔

 

۲۔ علامہ طبری نے جامع ۱/۲۱۵ میں لکھا ہے حضرت ابن عیاش، حضرت ابن مسعودؓ اور چند دیگر صحابہ کرامؓ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد انی ارید ان تبوء باثمی واثمک کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے میرے قتل کا گناہ اپنے دیگر گناہوں سے ملا لے تاکہ تو جہنمی بن جائے۔

 

قولہ تعالیٰ: مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا۔ (اسی سبب سے لکھا ہم نے بنی اسرائیل پر کہ جو کوئی مار ڈالے ایک جان سوائے بدلے جان کے یا فساد کرنے پر ملک میں تو گویا مار ڈالا سب لوگوں کو اور جس نے جلایا ایک جان کو تو گویا جلایا سب لوگوں کو)

 

۱۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند ۵/۲۲۶۔ ۲۲۷ میں حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں۔ اللہ جل جلالہ کے پیغمبرﷺ نے فرمایا: مظلومیت کے ساتھ قتل ہونے والے ہر بندے کا گناہ حضرت آدمؑ کے اس پہلے بیٹے کے سر ہے کیونکہ اس نے قتل کی رسم بد جاری کی ہے۔

 

۲۔ طبری نے جامع ۱۰/۲۳۳۔ ۲۳۴ میں لکھا ہے حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعودؓ اور چند دیگر صحابہ کرامؓ اجمعین اللہ تعالیٰ کے ارشاد من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مقتول کے نکتہ نظر سے گویا اس نے پوری انسانیت کر دی ہے۔ گناہ کے لحاظ سے یہ اتنا بڑا عمل ہے اور ومن احیاھا کی تفسیر میں فرماتے ہیں جس نے کسی کو ہلاک ہونے سے بچا لیا اس نے گویا ساری انسانیت کو بچا لیا۔ یہ بھی ہلاکت سے بچ جانے والے کے نکتہ نظر کے لحاظ سے ہے۔

 

قولہ تعالیٰ: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا۔ (اور جو کوئی چور ہو مرد یا عورت تو کاٹ ڈالو ان کے ہاتھ سزا ان کی کمائی کی)

 

۱۔ امام نسائیؒ نے اپنی سنن ۸/۸۲ میں یہ روایت درج فرمائی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ جل جلالہ کے نبیﷺ نے پانچ رہم مالیت کی چیز چوری کرنے پر چوری کی یہ سزا نافذ فرمائی تھی۔

 

۲۔ امام ترمذی نے اپنی صحیح ۶۔ ۲۲۶ میں یہ روایت درج فرمائی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں۔ ایک دینار یا دس درہم مالیت کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جائے گی۔

 

یہ حدیث مرسل ہے۔ قاسم بن عبد الرحمن نے اسے حضرت ابن مسعودؓ سے روایت کیا ہے۔

 

قولہ تعالیٰ: سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ۔ (بڑے جاسوس جھوٹ کہنے کو اور بڑے حرام کھانے والے)

 

۱۔ طبری نے جامع ۱۰/۳۱۹۔ ۳۲۰ میں لکھا ہے حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا: السحت سے مراد رشوت ہے۔

 

۲۔ طبری نے جامع ۱۰/۳۲۰ میں لکھا ہے حضرت مسروق فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن مسعودؓ سے السحت کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کوئی آدمی کسی سے کوئی کام کرنے کو کہتا ہے۔ وہ اس کا کام کر دیتا ہے۔ اب یہ اسے کوئی تحفہ دیتا ہے تو وہ یہ تحفہ قبول کر لیتا ہے۔ یہ سحت ہے۔

 

قولہ تعالیٰ: وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ۔ (اور جو کوئی حکم نہ کرے اللہ کے اتارے پر سو وہی لوگ ہیں منکر)

 

۱۔ طبری نے جامع ۱۰/۳۲۱ میں لکھا ہے حضرت مسروق اور حضرت علقمہ نے حضرت ابن مسعودؓ سے رشوت کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا سحت ہی رشوت ہے۔ ان دو حضرات نے پوچھا جبکہ یہ سحت کسی امر کا فیصلہ کرنے میں لی جائے؟ آپ نے فرمایا یہ تو کفر ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون۔

 

۲۔ علامہ زمخشری نے کشاف ۱/۳۴۱ میں لکھا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں یہ کام یہودی اور دیگر لوگ بہت کرتے تھے۔

 

قولہ تعالیٰ: وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ۔ (اور زخموں کا بدلہ برابر۔ پھر جس نے بخش دیا تو اس سے وہ پاک ہوا)

 

۱۔ علامہ زمخشری نے حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت ابن عمرؓ کے حوالے سے لکھا ہے۔ جتنا کوئی کسی کو معاف کرے گا اتنے ہی اس کے گناہ ختم ہوں گے۔

 

قولہ تعالیٰ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ۔ (اے ایمان والو جو کوئی تم میں پھرے گا اپنے دین سے تو اللہ آگے لاوے گا ایک لوگ کہ ان کو چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں نرم دل میں مسلمانوں پر اور زبردست ہیں کافروں پر۔ لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں اور ڈرتے نہیں کسی کے الزام سے)

 

۱۔ علامہ بغوی نے معالم ۲/۵۳ میں لکھا ہے صحابہ کرامؓ نے زکوۃٰ روک لینے والوں سے قتال ناپسند فرمایا مگر سیدنا صدیق اکبرؓ نے تلوار گلے میں لٹکا لی۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں شروع شروع میں ہمیں یہ کام ناپسند تھا مگر آخر کار ہمیں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی اس سلسلہ میں تعریف کرنا پڑی۔

 

قولہ تعالیٰ: قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ۔ (تو کہہ میں بتاؤں ان میں کسی کی بری جزا ہے اللہ کے ہاں وہی جس کو اللہ نے لعنت دی اور اس پر غضب ہوا اور بعضے ان میں بندر کیے اور سؤر)

 

۱۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند ۶/۱۲۔ ۱۳ میں یہ روایت درج فرمائی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں۔ ایک آدمی نے دریافت کیا۔ اے اللہ کے رسولﷺ یہ جو بندر اور سؤر ہیں کیا یہ  انہی مسخ شدہ بندروں اور سؤروں کی نسل سے ہیں؟

نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو مسخ فرماتے ہیں یا تباہ کرتے ہیں تو پھر ان کی نسل باقی نہیں رکھتے بلا شبہ یہ بندر اور سؤر تو اس واقعہ سے پہلے بھی موجود تھے۔

 

قولہ تعالیٰ: لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ داؤد وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (٧٨) كَانُوا لا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (٧٩)۔ (لعنت کھائی منکروں نے بنی اسرائیل میں سے داؤد کی زبان پر اور عیسیٰ بیٹے مریم کی۔ یہ اس سے کہ گنہگار تھے اور حد پر نہ رہتے تھے۔ آپس میں منع نہ کرتے تھے برے کام سے جو کر رہے تھے۔ کیا برا کام ہے جو کرتے تھے)

 

۱۔ طبری نے جامع ۱۰/۴۹۳ میں یہ روایت درج کی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں۔ رحمت کائناتﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل میں جب کوئی برائی ہونے لگتی اور کوئی آدمی اپنے بھائی، ہمسایہ اور ساتھی کو وہ برائی کرتے دیکھتا تو اسے اس سے منع کرتا۔ پھر یہ ہوتا کہ وہ ہم نوالہ و ہم پیالہ اور دوست ہونے کی وجہ سے منع کرنا چھوڑ دیتا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل ایک جیسے کر دیے اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کی زبانی ان پر لعنت کی گئی۔ (ذلک بما عصو و کانو یعتدون سے فاسقون) تک

 

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں۔ رحمت مجسمﷺ اس وقت تکیہ لگائے بیٹھے تھے کہ اٹھ کر بیٹھ گئے آپ سلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا اور فرمایا تم قسم بخدا برائی سے منع کرنا نہ چھوڑنا یہاں تک کہ تم ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اسے حق بات کی طرف لے جانا۔

 

قولہ تعالیٰ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلا تَعْتَدُوا۔ اے ایمان والو مت ٹھہراؤ ستھری چیزیں جو اللہ نے تم کو حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو۔

 

۱۔ حاکم نے مستدرک ۲/۳۱۳۔ ۳۱۴ میں لکھا ہے۔ حضرت مسروق فرماتے ہیں۔ ایک کھیری حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی خدمت میں پیش کی گئی۔ آپؓ نے سب سے فرمایا قریب ہو جاؤ۔ سب کھانے لگے۔ ان میں سے ایک آدمی دور کونے میں بیٹھا رہا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اسے فرمایا نزدیک ہو جاؤ۔ اس نے عرض کیا میں اسے کھانا نہیں چاہتا۔ آپؓ نے دریافت فرمایا کیوں؟ اس نے عرض کیا میں کھیری اپنے اوپر حرام کی ہوئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا یہ حلال کو حرام کر لینا شیطان کی چالوں میں سے ہے۔ اس کے بعد آآپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ۔ اور اسے فرمایا نزدیک آ جاؤ اور کھاؤ اور اپنی قسم کھا کفارہ ادا کر دینا۔ بلا شبہ یوں حلال کو حرام کر لینا شیطان کی چالوں میں سے ایک چال ہے۔

 

۲۔ طبری نے جامع ۱۰/۵۵۵۔ ۵۵۶ میں لکھا ہے حضرت مسروق فرماتے ہیں حضرت معقل بن مقرن حضرت ابن مسعودؓ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا میں نے قسم کھالی ہے کہ بیویوں کے پاس نہ جاؤں گا اور نہ بستر پر سؤوں گا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی یا ایھا الذین آمنوا لاتحرموا طیبات ما احل اللہ لکم ولا تعتدوا ان اللہ لا یحب المعتدین۔ حضرت مسروق فرماتے ہیں۔ حضرت معقل نے عرض کیا میں نے بھی آپ سے اسی لیے مسئلہ پوچھا ہے کہ آج رات ہی میں نے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا۔ بیویوں کے پاس بھی جاؤ اور بستر پر بھی آرام کرو۔ اور ایک غلام آزاد کرو کیونکہ تم مالدار آدمی ہو۔

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأنْصَابُ وَالأزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوه۔ (اے ایمان والو یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے گندے کام ہیں شیطان کے سوا ان سے بچتے رہو)

 

۱۔ علامہ سیوطی نے الدر ۲/۳۱۷ میں لکھا ہے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں سورة بقرہ میں جو شراب کے متعلق آیت اتری ہے لوگ اس کے بعد بھی شراب پیا کرتے تھے اور جو آیت شراب کے حوالے سورة نساء میں ہے۔ اس کے نازل ہونے کے بعد بھی لوگ شراب پیا کرتے تھے۔ مگر جب سورة مائدہ کی یہ آیت مبارکہ اتری تو لوگوں نے شراب مکمل طور پر چھوڑ دی۔

 

۲۔ طبری نے جامع ۴/۳۲۲ میں لکھا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا: یہ جو تم فال لینے کے لیے سرکنڈے کھیلتے ہو۔ یہ چھوڑ دو کیونکہ یہ بھی جوا ہے۔

 

قولہ تعالیٰ: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَأَحْسَنُوا۔ (جو لوگ ایمان لائے اور کام نیک کیے ان پر نہیں گناہ جو کچھ پہلے کھاچکے جب آگے ڈرے اور ایمان لائے اور عمل نیک کیے پھر ڈرے اور یقین کیا پھر ڈرے اور نیکی کی)

 

۱۔ حاکم نے مستدرک ۴/۱۴۳۔ ۱۴۴ میں لکھا ہے حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں جب شراب کی حرمت والی آیت مبارکہ نازل ہوئی تو یہودیوں نے اعتراض کیا کہ تمہارے فوت ہو جانے والے بھائیوں کا کیا بنے گا جو شراب پیا کرتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی لیس علی الذین آمنوا وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا۔

 

۲۔ امام مسلمؒ نے اپنی صحیح ۴/۱۹۱۰ میں یہ روایت نقل فرمائی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں جب یہ مبارکہ لیس علی الذین آمنوا وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا اذا ماتقوا وآمنوا نازل ہوئی تو رحمت دو عالمﷺ نے مجھے فرمایا ابن مسعود! مجھے بتایا گیا ہے کہ تم بھی انہی میں سے ہو۔

 

قولہ تعالیٰ: لا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَلِكَ صِيَامًا۔ (نہ مارو شکار جس وقت تم ہو احرام میں اور جو کوئی تم میں اس کو مارے جان کر تو بدلہ ہے اس مارے کے برابر مواشی میں سے وہ ٹھہرا دیں دو معتبر تمہارے کہ نیاز پہنچا دے کعبہ تک یا گناہ کا اتار ہے کئی محتاج کا کھانا یا اس کے برابر روزے)

 

۱۔ امام شافعیؒ نے مسند ۱/۳۳۱ میں لکھا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے چوہے کے مشابہ ایک جانور کے مارنے میں فیصلہ فرمایا کہ اس کے عوض بکری کا چار ماہ کا بچہ دیا جائے۔

 

۲۔ امام شافعیؒ نے مسند ۱/۳۲۸۔ ۳۲۹ میں لکھا ہے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے شتر مرغ کے انڈے کے بارے میں جسے کسی محرم نے توڑ دیا ہو یہ فیصلہ فرمایا کہ وہ ایک دن کا روزہ رکھے یا پھر ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔

 

حضرت ابن مسعودؓ سے یوں ہی مروی ہے۔

 

قولہ تعالیٰ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ۔ (اے ایمان والو مت پوچھو بہت چیزیں کہ اگر تم پر کھولے تو تم کو بری لگیں)

 

۱۔ علامہ سیوطی نے الدر ۲/۳۳۵ میں میں لکھا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا: رحمت کائناتﷺ نے فرمایا: اللہ نے تم پر حج فرض فرمایا ہے۔ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ کیا ہر سال؟ آپﷺ نے اعراض فرمایا۔ پھر ارشاد فرمایا۔ اس ذات کی قسم جن کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں ہاں کہہ دیتا تو یہ فرض ہو جاتا اور اگر فرض ہو جاتا تو تم اس کی طاقت نہ رکھتے اور اگر تم اسے چھوڑ دیتے تو کافر بن جائے۔ چنانچہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ یا ایہا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیاء۔۔۔ الایۃ۔

 

مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلا سَائِبَةٍ وَلا وَصِيلَةٍ وَلا حَامٍ۔ (نہیں ٹھہرایا اللہ نے بحیرہ اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حامی)

 

۱۔ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح ۸/۱۵۴ میں یہ روایت نقل فرمائی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا۔ اہل اسلام کا وطیرہ یہ نہیں کہ وہ ایک خاص عمر کے اونٹ بیکار کھلے چھوڑ دیں یہ تو جاہلیت کے لوگ کیا کرتے تھے۔

 

۲۔ مسند احمد ۶/۱۳۰۔ ۱۳۱ میں یہ روایت درج ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا: رحمت دو عالمﷺ نے فرمایا:

جانور بیکار کھلے چھوڑنے کی ریت ڈالنے والا اور بتوں کی عبادت شروع کرنے والا ابو خزاعہ عمرو بن عامر ہے۔ میں نے اسے دیکھا کہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹتا پھر رہا ہے۔

 

۳۔ ابن جوزی نے زاد ۲/ ۴۳۹ میں لکھا ہے۔ حام کی تفسیر یہ ہے، جب کسی نر کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہو جاتے تو لوگ کہتے کہ اب اس کی پیٹھ محفوظ ہو گئی ہے۔ پھر اسے اپنے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور اس پر سواری نہ کی جاتی۔ حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت ابن عباسؓ نے یوں ہی فرمایا۔

 

قولہ تعالیٰ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ۔ (اے ایمان والو تم پر لازم ہے فکر اپنی جان کی۔ تمہارا کچھ نہیں بگاڑتا جو کوئی بہکا جب تم ہوئے راہ پر)

 

۱۔ طبری نے جامع ۱۱/۱۴۱ میں لکھا ہے۔ کسی آدمی نے اس آیت کریمہ کے بارے میں حضرت ابن مسعودؓ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اس آیت کریمہ کا حکم آج کل کے بارے میں نہیں۔ آج کل تو نیکی کا کہا جائے تو بات مان لی جاتی ہے لیکن ایک زمانہ آئے گا کہ تم نیکی کا کہو گے تو تمہار بات نہیں مانی جائے گی اس زمانے میں یہ بات ہو گی کہ علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل۔

 

۲۔ طبری نے جامع ۱۱/۱۴۳۔ ۱۴۴ میں لکھا ہے حضرت ابو العالیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ لوگ حضرت ابن مسعودؓ کی خدمت میں بیٹھے تھے دو آدمی جھگڑ پڑے۔ حضرت ابن مسعودؓ کے پاس بیٹھے لوگوں میں سے ایک کہنے لگا کیا میں جا کر ان دونوں کو نیکی کا نہ کہو اور برائی سے روک نہ دوں تو ایک اور آدمی نے اسے کہا تجھے پرائی کیا پری تو اپنی نبی ر کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل ازا اھتدیتم۔

 

۳۔ حضرت ابن مسعودؓ نے یہ بات سنی تو فرمایا ٹھہرو۔ اس آیت مبارکہ کی مراد بعد کے زمانہ میں سامنے آئے گی، قران مجید ایسے نازل ہوا ہے کہ اس کی کچھ ایات کی مراد ان کے نازل ہونے سے پہلے سامنے چکی تھی، کچھ آیات کی مرا زمانہ نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں سامنے آ گئی، کچھ آیات کی مراد رحلت نبویﷺ کے کچھ ہی بعد سامنے آ گئی، کچھ آیات کی مراد آج کل سامنے آرہی ہے، کچھ آیات کی مراد قیامت کے قریب سامنے آئے گی، جن میں کہ قیامت کا ذکر ہے، کچھ آیات مراد حساب کے دن سامنے آئے گی جن میں کہ حساب، جنت اور دوزخ کا تذکرہ ہے۔ پس جب تک تمہارے دلوں میں اتفاق ہے، تمہاری خواہشات انتشار کا شکار نہیں، تم فرقوں میں نہیں بٹے اور باہم دیگر دست و گریبان نہیں ہوئے اس وقت تک امر و نہی کا فریضہ ا کرتے رہو گے اور جب دلوں اور خیالات میں اختلاف ہو جائے گا۔ تم فرقہ بندی کا شکار ہو جاؤ گے اور آپس میں لڑ پڑو گے تو یہ ہو گا کہ بندہ جانے اور بندے کا کام۔ یہ زمانہ ہو گا اس آیت مبارکہ مراد سامنے آنے کا۔

 

قولہ تعالیٰ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ۔ اے ایمان والو گواہ تمہارے اندر جب پہنچے کسی تم میں موت جب لگے وصیت کرنے دو شخص معتبر چاہئیں تم میں سے یا اور ہوں تمہارے سوائے۔

 

۱۔ ابن جوزی نے زاد ۲/ ۴۴۵۔ ۴۴۶ میں لکھا ہے۔ اس آیت میں مذکور گواہی سے مراد وصیت کے معاملات میں حکام کے سامنے گواہی ہے۔

 

حضت ابن مسعودؓ اور حضرت ابن عباسؓ وغیرہ کا یہی ارشاد ہے۔

 

اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد منکم سے مرد ہے کہ تمہارے دین اور تمہاری ملت والوں میں سے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے یہی ارشاد فرمایا ہے۔

 

۲۔ ابن کثیر نے اپنی تفسیر ۳/۲۱۲ میں لکھا ہے حضرت ابن مسعودؓ سے اس آیت کریمہ کے حوالے سے پچھا گیا تو آپؓ نے فرمیا:

 

ایک آدمی سفر پر روانہ ہوا، اس کا مال بھی اس کے پاس تھا اسے اجل نے آگھیرا تو اس نے دو مسلمان مرد پائے اور اپنا ترکہ ان کے حوالے کر دیا۔ اور دو انصاف پسند مسلمانوں کو ان دونوں پر گواہ بنا دیا۔

 

ابن ابی حاتم نے یہ واقعہ روایت کیا ہے:

 

۳: سیوطی نے الدر ۲/۳۴۲۔ ۳۴۳ میں لکھا ہے کہ ابو حاتم اور ابو الشیخ نے ابن مسعودؓ سے روایت کی ہے کہ ان سے آیت اثنان زوا عدل منکم، کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا کتاب میں کوئی چیز ایسی نہیں جس پر کوئی راہنما چیز نہ ملی ہو سوائے اس آیت کے اور اگر میں تم کو اس کی اطلاع نہ دوں تو پھر میں غسل جمعہ کے تارک سے بھی بڑھ کر ناواقف ہوں گا۔ یہ شخص سفر میں گیا اور اس کے پاس مال تھا۔ دوران سفر تقدیر نے آ لیا اس نے دو مسلمان مرد پا کر ان کو مال حوالے کر دیا اور دو اور مسلمانوں کو ان پر گواہ بنا دیا۔

 

اگر بالفرض مسلمان گواہ نہ ملیں تو دو کتابی گواہ بنائے۔ اگر وہ مال ادا کر دیا جائے جب کہ ادا کرنا مناسب ہے اور اگر وہ انکار کر دیں تو نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھوائی جائے گی کہ چیز میرے حوالے کی گئی میں نے اس میں سے کوئی شئے غائب نہیں کی حلف کے بعد بری الذمہ شمار ہوں گے۔ جب اس کے بعد رقعہ والے کوئی چیز پا لیں۔ اور اس کے خلاف خیانت کی گواہی دیں پھر مال والے لوگ نام لے کر اپنی اشیاء کا دعوی کریں تو ورثا کی قسم گواہی کے ساتھ ہو گی پھر اس کے حق وصول کریں گے۔

اس کا تذکرہ اس آیت میں فرمایا ذوا عدل منکم او آخران من غیرکم

٭٭٭