FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

تُرک اور سنبھل سرکار

 

               پرنسپل ایم۔ عثمان

 

مترجم

               انجینئر محمد فرقان سنبھلی

نوٹ: اصل کتاب میں کئی تصویریں اور نقشے ہیں۔ جو اس کی سافٹ کاپی میں نہیں تھے، اور جن کو شامل کرنا بھی مشکل تھا۔  جسے ان کی ضرورت ہو مصنف سے ربط کر ے اصل کتاب حاصل کر سکتے ہیں۔

Ph.: +919568860786, email: f.sambhli@gmail.com

 

 

 

 

 

 

 

عرض مترجم

 

 

سنبھل ایک تاریخی مقام کے طور پر زمانہ قدیم سے ہی مشہور رہا ہے۔ یہ رام گنگا اور گنگا ندی کے درمیان 78035’Nاور 78033’E (28.58,78.53)کورڈینیٹس پر واقع ہے۔ اور تقریباً ۱۶کلومیٹر علاقہ میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کے وجود میں آنے کی مستند وجہ تسمیہ تو معلوم نہیں ہوسکی لیکن ہندو مذہب کے عقائد کے مطابق یہ چاروں یُگوں میں موجود تھا۔ سنبھل دور حاضر میں روہیل کھنڈ خطہ کا ایک شہر ہے جسے برسوں تک ضلع مرادآباد کی ایک تحصیل رہنے کے بعد ۲۸؍ستمبر ۲۰۱۱ء کو نئے تشکیل دیئے گئے عجیب و غریب ضلع بھیم نگر کی تحصیل بنا دیا گیا۔ عجیب و غریب ضلع اس معنے میں کہ اس کے ہیڈ کوارٹر کا آج تک کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوسکا ہے اور اس کی تشکیل سے سنبھل کا رتبہ پہلے سے گھٹ گیا ہے۔ پہلے یہاں اے۔ ڈی۔ ایم سنبھل اور ایس۔ پی سنبھل کے دفاتر قائم تھے مگر اب اے۔ ڈی۔ ایم سنبھل کی پوسٹ ختم ہو چکی ہے اور ایس۔ پی سنبھل کی جگہ اے۔ ایس۔ پی سنبھل کو تعینات کیا گیا ہے۔ تمام عارضی دفاتر سنبھل سے ۲۲کلومیٹر فاصلے پر ایک چھوٹے سے قصبے بہجوئی میں کھولے جا رہے ہیں ۔ محض ۳۷؍ ہزار آبادی پر مشتمل قصبہ بہجوئی اس معنی میں خوش قسمت ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں کو تواسے تحصیل بنائے جانے کی بھی امید نہیں تھی ظاہر ہے انھیں بن مانگے موتی مل گئے ہیں یعنی ضلع بھیم نگر کا عارضی ہیڈ کوارٹرسنبھل کی جگہ بہجوئی بنا دیا گیا ہے۔

بہر حال یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کہ حکومت وقت نے سنبھل کی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہو۔ سنبھل کو دہلی ترک سلطنت کے آخرسے تیموری سلطنت کے آخری دور تک (تقریباً ۴۰۰ برس تک) سرکا رکا درجہ حاصل تھا سرکار سنبھل کا صدر مقام بھی سنبھل میں ہی تھا۔ اُس وقت سنبھل سرکار کو ملک کی بڑی اور مشہور سرکاروں میں سے ایک مانا جاتا تھا۔ شا ہ جہاں کے دور میں رستم خاں دکنی نے سنبھل سے ۳۵ کلومیٹر کے فاصلے پر مرادآباد شہر بسایا تھا۔ رستم خاں دکنی سنبھل سرکار میں گورنر تھا اور وہ ۲۵سال تک سنبھل کا گورنر رہا۔ ۲۰سال تو اس نے سنبھل میں گزارے لیکن آخری پانچ سال اس نے مرادآباد میں رہائش اختیار کی۔ اس دوران سنبھل کی اہمیت بھی کم ہو گئی اور کچھ وقت کے بعد سنبھل سرکار کا صدر مقام سنبھل سے مرادآباد منتقل کر دیا گیا۔ پھر فرخ سیر کے دور میں تو سنبھل کے ساتھ اور بھی ظلم ہوا۔ سنبھل کے سرکار کے درجہ کو ختم کر کے مرادآباد کو ہی سرکار بنا دیا گیا۔ تب سے اب تک سنبھل اپنے ماضی کی سنہری یادوں کے سہارے دن گزار نے پر مجبو رہے۔

اس کتاب سے پہلے سنبھل پر تاریخ کے تعلق سے جو کتابیں لکھی گئیں ان میں احسن التواریخ از غلام شوق فریدی، سنبھل اے ہسٹوریکل سروے از بی ایم سانکھدھر، مصباح ا لتواریخ ا ز معید سنبھلی، ایوان مقفل از جادو رقم، آئینہ سنبھل، اتہاس کے جھروکے سے سنبھل از سریندر موہن مصر وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔ ان میں سے بی۔ ایم سانکھدھر کی انگریزی میں لکھی گئی کتاب’سنبھل اے ہسٹوریکل سروے‘ میں کسی حد تک صحیح تاریخ مرتب کرنے کی کوش کی گئی ہے، بقیہ تو موضوع کی تشنگی کو نہیں مٹا پاتیں ۔ محض سنی سنائی باتوں اور روایتوں پر تاریخ نہیں لکھی جا سکتی بلکہ اس پر مورخ کی نظر سے بحث بھی ہونی چاہیے۔

سنبھل کی تاریخ مرتب کرنے کی طرف میرا کام بھی جاری ہے لیکن اس درمیان ہند انٹر کالج کے سابق پرنسپل محمد عثمان صاحب کی’ ’ترک اور سنبھل دیپا سرائے ایک کھوج‘‘ عنوان سے ہندی میں ایک کتاب شائع ہوئی جس کی تیاری میں مَیں بھی کسی نہ کسی طور شریک رہا تھا۔ انھوں نے ترک قوم کے متعلق تو اس کتاب میں اہم معلومات فراہم کی ہی ہیں ساتھ ہی سنبھل کی تاریخ پر بھی خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے۔ عوام نے اس کتاب کو کافی سراہا اور ایک سال سے کم عرصے میں کتاب کی ۱۰۰۰ کاپیاں فروخت ہو گئیں ۔ اس کتاب کے لیے مصنف پرنسپل محمد عثمان کو اُتر پردیش سامانیہ گیان پِرَتِی یَوگیتاسَمیتی نے ایوارڈ سے نوازا ہے۔ کتاب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مصنف نے’ ’ترک اور سنبھل دیپا سرائے ایک کھوج‘‘ کو ایڈٹ کر کے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلا حصہ’ ’ترک اور سنبھل سرکار‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں ترک قوم کے تعلق سے سنبھل سرکا ر اور سنبھل شہر کی تاریخ کو بیان کیا گیا ہے جب کہ دوسرے حصے’ ’دیپاسرائے ایک کھوج‘‘ میں دیپا سرائے (سنبھل کا ایک محلہ)اور وہاں آباد شیخ ترک نسل کی خواجہ / خوجہ ترک برادری پر اپنی کھوج کو شامل کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ گذشتہ ۱۰۰برسوں میں دیپا سرائے کی اس برادری کے کچھ لوگوں کا جو اپنے اپنے وقت میں مختلف شعبوں میں سنبھل یا سنبھل سے باہر مشہور رہے ہیں ، مختصر خاکہ پیش کیا ہے۔

اردو قارئین کے لیے’ ’ترک اور سنبھل سرکار‘‘ کا اردو میں ترجمہ کرنے کی اجازت مصنف پرنسپل محمد عثمان صاحب نے مجھے بخوشی دے دی اور اس طرح کتاب کے ترجمے کا کام شروع ہو گیا۔ کئی ماہ کی مشقت کے بعد یہ کام مکمل ہوسکا ہے۔ جس میں عثمان صاحب کی رہنمائی بھی شامل رہی ہے اس کے لیے میں ان کا بے حد مشکور ہوں ۔

’’ترک اور سنبھل سرکار ‘‘کتاب میں ترک قوم کے حوالے سے سرکار سنبھل اور سنبھل شہر کی تاریخ کو نہایت دلچسپ اور مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ترکوں کی فتوحات اور ترکوں کی ہندوستان و سنبھل آمد کو بھی حوالہ جاتی کتابوں کے ذریعہ بیان کیا ہے۔ وسطی ایشیا کے مشرقی علاقہ کا شغر میں چین کے ساتھ تصادم میں وہاں کی حکمراں جماعت کے کچھ درباری شیخ خواجہ ۱۷۶۰ء میں نقل مکانی کر کے شمالی ہندوستان کے کٹھیر(جسے اب روہیل کھنڈ بھی کہا جاتا ہے )کے سنبھل شہر تک آئے اور یہاں آباد ہوئے۔ ان کے یہاں تک پہنچنے کے واقعات تو جمع کیے ہی ہیں ساتھ ہی مغلیہ ترک، مغل خانی ترک، شیخ ترک اور خواجہ و خوجہ، شیخ و سید خواجہ وغیرہ اصطلاحوں پر بھی خاطر خواہ روشنی ڈالی گئی ہے۔

تاریخ سنبھل کے تعلق سے ایک اہم واقعے کی نشاندہی اس کتا ب میں کی گئی ہے اس کا ذکر بھی یہاں ضرور ی معلوم ہوتا ہے۔ اکبر اور بیرم خاں کی عدم موجودگی میں سنبھل کے گورنر علی قلی خاں شیبانی نے پانی پت کی مشہور لڑائی میں راجہ ہیمو کو شکست دی تھی۔ ۱۵۵۶ء میں پانی پت کی جنگ سے پہلے ہندوستان میں صرف پنجاب کے تھوڑے سے علاقے پر ہی اکبر بادشاہ کا قبضہ تھا۔ پانی پت کی جنگ میں اس وقت کے سنبھل سرکارکے گورنر علی قلی خاں شیبانی کے زیر قیادت سنبھل کی دس ہزار فوج (جس میں زیادہ تر راجپوت فوجی شامل تھے )نے بیرم خاں اور اکبر کی فوج کے ہر اول دستے کے دس ہزار سواروں کے ساتھ مل کر راجہ ہیمو کی افغان فوج کوزبردست شکست دی تھی اور اس طرح اس نے ہندوستان میں تیموری حکومت کے قیام میں اہم کردار نبھایا تھا۔ اِس جنگ کے خاتمے کے بعد ۱۴سال کے اکبر کو پہلی بار راجپوتوں اور ان کی بہادری اور وفا داری کی جانکاری ملی جس سے وہ بہت متاثر ہوا۔ آگے چل کر خود مختار بادشاہ اکبر نے راجپوتوں کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مستحکم کر لیے۔ اس سے ہندوستان میں اپنی حکومت کی جڑیں مضبوط کرنے میں اسے بہت مدد ملی۔ راجپوتوں کی وفاداری کا یقین اور بہادری کا اثر اُس پر ہمیشہ قائم رہا۔ اس اہم واقعے کا بیان اس کتاب کے علاوہ سنبھل کی تاریخ پر لکھی گئی کسی کتاب میں نہیں ملتا۔ مصنف نے ترکوں اور دوسرے مسلمان حکمرانوں کے دور میں پرگنہ سنبھل، جاگیر سنبھل اور سرکار سنبھل کی تاریخ پر جامع انداز میں روشنی ڈالی ہے۔

کتاب میں اُس وقت کی سنبھل سرکار کے ماتحت موجودہ دور کے امروہہ، مرادآباد، رامپور، بھیم نگر وغیرہ اضلاع کے علاقوں کی تاریخ مختصر مگر جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے وہاں کے دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ترکوں کے احوال بھی تحریر کیے گئے ہیں ۔

کتاب میں تصویروں اور شجروں کے ساتھ کچھ نقشوں کا استعمال قارئین کی سہولت کے مد نظر کیا گیا ہے لیکن ان کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے۔

کتاب کے ترجمہ کے درمیان جن حضرات نے مجھے تعاون دیا میں ان سبھی کا دل سے ممنون و مشکور ہوں ۔ ان میں میرے استاد محترم پروفیسر ابوالکلام قاسمی صاحب، جناب ڈاکٹر شعائر اللہ خاں صاحب، میری شریک حیات شمیم فاطمہ، بچوں عاطر فرقان اور عبداللہ یافی، والدہ عبیدہ خاتون، شمشیر حسین، قمر عالم، اذکار حسین اور مصنف کتاب پرنسپل جناب ایم۔ عثمان صاحب وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔ میں شاہد بھائی(علیگ) کا بھی مشکور ہوں کہ انھوں نے اپنی مصروفیت کے باوجود اس کتاب کی کمپوزنگ کا کام نہایت خوبی کے ساتھ مکمل کیا۔

ہندی کتاب’ ’ترک اور سنبھل سرکار‘‘ کا ترجمہ اب اردو قارئین کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کیسا ہے اس پر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار فرمانے کی زحمت کریں ۔ مجھے انتظار رہے گا۔

 

محمد فرقان سنبھلی

۵؍ فروری ۲۰۱۲ء

 

 

 

 

 

دیباچہ

 

پرنسپل محمد عثمان صاحب کی کتاب’ ’ترک اور سنبھل سرکار ‘‘اُن کے مسلسل مطالعہ، تحقیق اور سخت محنت کا ثمرہ ہے۔ عثمان صاحب کا اصرار تھا کہ میں اس کا دیباچہ لکھوں ۔

عثمان صاحب علم کیمیا(Chemistry)کے اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ ہر دل عزیز استاد بھی رہے ہیں ۔ میں اٹاوہ میں ان ہی کے پڑوس کے ایک ڈگری کالج میں تاریخ کا استاد تھا۔ تب بھی عثمان صاحب کی دلچسپی اپنے معاشرہ ماحول اور پس منظر کو جاننے سمجھنے میں رہتی تھی۔ اکثر وہ میرے ساتھ تاریخ کے موضوع پر بھی گفتگو کیا کرتے تھے۔ ملک، سماج اور تاریخ کے تئیں ان کی یہ جستجو ہی در حقیقت اس کتاب کی بنیاد ہے۔

ترک قوم کی تاریخ و تہذیب پر مبنی اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس کا موضوع بہت طویل ہے۔ دنیا خصوصاً وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کی ایک ہزار سال سے زیادہ وقت کی تاریخ میں ترکوں کی کلیدی حیثیت رہی ہے۔ چھٹی صدی کے وسط میں تیوکن (Tiukin) نامی خانہ بدوش سلطنت کے قیام سے ترکوں کو ایک اہم فوجی طاقت کے طور پر پہچان ملی۔ تیوکمو سلطنت چین کی سرحدوں سے لے کر بائزینتینی(Byzentine) سلطنت تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ سلطنت پہلی خانہ بدوش سلطنت تھی جو تقریباً ۲۲؍ اقوام کا گروہ تھا۔ تقریباً دو سو سال تک یہ سلطنت قائم رہی۔ آٹھویں صدی کے بعد تیوکمو سلطنت کئی بار تقسیم ہوئی اور مختلف طور طریقوں سے چلی۔ تقریباً دسویں صدی سے مختلف مختلف ناموں سے جانی جانے والی برادریوں کے لیے ایک عام لفظ’ ’ترک‘‘ یا’ ’ترکمان‘‘ کا استعمال شروع ہوا۔ جنگوں اور تجارتی رشتوں کی وجہ سے ترکوں کا باہری دنیا سے تعلق قائم ہوا۔

فوجی لڑائیوں نے ترکمینستان اور وسطی ایشیا کے باہر دو اہم ترک اقتدار کے مراکز قائم کر دیئے۔ مشرقی یورپ میں سلطنت عثمانیہ( آٹومن ایمپائر) اور ہندوستان میں  دہلی سلطنت قائم ہوئی۔ ہندوستان میں ترکوں کی آمد ایک اہم واقعہ تھا۔ تقریباً ۱۲۰۰ء میں ہندوستان پر ترک حکومت قائم ہوئی جسے دہلی سلطنت کے نام سے جانا گیا۔

ہندوستان میں ترکی حکومت کے تقریباً ۲۰۰سال کے عرصے میں ہندوستانی سیاست، معاشی نظام، معاشرہ اور ثقافت میں اہم تبدیلیاں آئیں ۔ ایک نئی انتظامی یونٹ اِقطہ قائم ہوئی۔ آگے چل کر یہ مغل دور میں’ جاگیر‘ کے روپ میں جانی گئی۔ یہ ریاست کے رِوینیو  کو جمع کرنے اور تقسیم کرنے کا اہم مرکز تھا۔ ساتھ ہی سلطنت کے نظم و نسق کی ضرورت بھی۔ (سنبھل بھی ایک اہم اِقطہ تھا)یہ ایک اثر دار خاندانی فوجی کمانڈر کے ذمہ ہوتا تھا جو اس پر مقتی، ولی یا گورنر کے روپ میں حکومت کرتے تھے۔ معاشی نظام میں کرنسی نظام اور تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ نئے تجارتی گروپ (صراف اور دلال) اور نئی تجارتی رسوم (ہنڈی، بیما، دلالی)چلن میں آئیں ۔ رہٹ (کنوئیں کی گہرائی سے پانی نکالنے کی تکنیک)، چرخا اور کرگھا کے استعمال نے زراعت اور کپڑے کی صنعت کو فروغ دیا۔ عمارتوں کی تعمیر میں کئی سامان جیسے سرخی اور چونا وغیرہ کے استعمال نے محراب، گنبد اور مینار والی نئی طرزِ معماری کی عمارتوں کو نئی شکل اور لمبی زندگی دی۔ اس سے اور ہینڈی کرافٹ سے کاریگر طبقے میں اضافہ ہوا اور تجارتی سرگرمیاں بڑھیں ۔ اِن سبھی سے شہری نظامِ زندگی کو فروغ ملا۔

ثقافتی میدان میں’ ’بھکتی آندولن ‘‘ کا نیا چہرہ، صوفی ازم کی آمد اور سکھ مذہب کی بنیاد پڑنا اہم معرکہ تصور کیا گیا۔ ایک نئی زبان اردو کی پیدائش اور ترکی فارسی اور عربی جیسی زبانوں کا ہندوستان میں بول بالا بڑھا۔ بھکتی اور صوفی ازم کے اثر نے سبھی ہندوستانی زبانوں کے ادب کو مالامال کیا۔ موسیقی میں ستار، طبلے اور قوالی کی شروعات ہوئی۔ سماج اور ثقافت کی یہ سبھی کامیابیاں ہندوستان اور معاصر ترکوں کے ساتھ آئی اسلامی روایات، سماج اور ثقافت کے باہمی اشتراک کا نتیجہ تھیں ۔ اس نے زبان، آرکیٹکچر، ادب، آرٹ اور موسیقی کے ہنر کو ایک نئی پہچان اور رفتار دی۔

’’سرائے‘‘ بھی اُس دور کی ایک اہم ضرورت تھی جوہندوستان میں اسی دور میں وجود میں آئی۔ یہاں تاجروں اور مسافروں کے ٹھہرنے اور ان کے سامان کو محفوظ رکھنے کی سہولت ہوتی تھی۔ اس کتاب میں بڑی تعداد میں سرائے کے نام آئے ہیں ۔ سرائے کی بڑی تعداد بتاتی ہے کہ سنبھل تجارت اور حکومتی انتظامات کے لحاظ سے بہت اہم شہر تھا جہاں بڑی تعداد میں مسافروں اور تاجروں کا آنا جانا رہتا تھا۔

ترکوں کی تاریخ کے تعلق سے اس کے مختلف گوشوں پر کافی کتابیں اور تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں لیکن مقامی سطح پر ترکوں پر مطالعہ تقریباً نہ کے برابر ہے۔ اس کتا ب میں علاقائی اور مقامی سطح پر ترکوں کی تاریخ اور پہچان کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس مطالعہ میں ایک بات اہم ہے۔ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ ترکی حکومت کے قیام نے شہری تہذیب کو بہت فروغ دیا ہے۔ مورخین کا خیال ہے کہ ترکوں کے فوجی کمانڈر شہری مراکز میں رہے اور انھیں آس پاس کے علاقوں سے رِوینیو (مال گزاری)جمع کرنے کے اختیار ملے جس سے وہ اپنی آمدنی اور فوجیوں کی تنخواہ حاصل کرتے تھے۔ یہ اِقطہ نظام کے ذریعہ ممکن ہوا۔ اس عمل میں دیہی علاقوں سے آدھے سے زیادہ ٹیکس کی شکل میں ان قصبوں یا شہروں میں آنے سے ان کے علاقے بڑھے اور ایک بڑی شہری تہذیب کو فروغ حاصل ہوا۔

اس کتا ب کی سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ یہ تاریخ کو اُن لوگوں تک پہنچاتی ہے جن کو مستند تاریخ آسانی سے مہیا نہیں ہو پاتی۔ وہ بڑے بڑے تحقیقی مقالوں اور جرائد تک محدود رہ جاتا ہے۔ تاریخ کو دلچسپ اور مقبول بنانے کے لیے بہت ضروری ہے کہ علاقائی اور مقامی تاریخ کا اسی محور سے مطالعہ کیا جائے اور جانچا پرکھا جائے۔ مقامی تاریخ کی معلومات لوگوں کو اپنے ماحول سے وابستہ کرتی ہے۔ وہی محلہ یا عمارتیں یا چیزیں جن کے پاس سے آپ گزرتے ہیں ، رہتے ہیں ، یا روز دیکھتے ہیں ایک نئے معنوں میں آپ کے سامنے آتے ہیں جب آپ انھیں ان کے ماحول کے سیاق میں دیکھتے اور سمجھتے ہیں ۔ یہ لوگوں میں اپنے ماضی کے بارے میں جاننے کی دلچسپی بھی پیدا کرتا ہے جو انھیں ان کی ایک پہچان دیتا ہے۔

عثمان صاحب اپنے جانے پہچانے ماحول کی تاریخ لکھ رہے ہیں جن کے درو دیوار اور خیالات سے وہ پوری طرح واقف ہیں ۔ مقامی باقیات اور نشانات سے وہ بخوبی واقف ہیں اس سے مصنف کو ایک خاص سہولت مل جاتی ہے کہ وہ اس تاریخ کو مقامی ماحول میں گہرائی تک دیکھ پاتا ہے۔ عثمان صاحب نے تاریخی دستاویزات پر مبنی تاریخی حقائق کے علاوہ رائج روایتوں اور مقامی روایتوں کو بھی ذرائع کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کتاب میں ترک تاریخ پر جو معلومات فراہم کی گئی ہیں وہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے  طلباء و ریسرچ اسکالرس کو نئی تحقیق کی طرف راغب کریں گی اور ساتھ ہی ساتھ عوام کو ان کے ماحول کے بارے میں بہت سی معلومات بھی فراہم کریں گی۔

 

پروفیسر احمد رضا خاں

شعبۂ تاریخ

ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی، نئی دہلی

 

 

 

               باب اول

 

ہندوستان میں بیرونی اقوام کی آمد

 

باہری قوموں کی ہندوستان میں آمد سے قبل ہندوستان کی آبائی قوموں بھیل، سنتھال، منڈا، کول اور دراوڑ وغیرہ کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں ہیں لہٰذا ہندوستان کی اصل تاریخ غیر ملکی قوموں کی آمد سے ہی شروع ہوتی ہے۔

 

آریوں کی آمد

 

بیکٹرین اور پر تھین(Bactrian and Perthian):

کچھ مورخین کے مطابق عیسیٰ سے تقریباً ۱۵۰۰ تا ۱۰۰۰ سال قبل کچھ غیر ملکی اقوام مشرقی یوروپ (ہنگری، آسٹریاوغیرہ)سے اور پروفیسر چائلس کے مطابق کچھ روس کے جنوبی حصے کے علاقوں سے ایشیائے کوچک کے راستے پرتھیا (پرشیا) اور بیکٹریا (موجودہ افغانستان کا بیشتر علاقہ)میں آ کر بس گئیں اور صدیوں تک رہتے رہتے پرتھین اور بیکٹرین کہلانے لگیں ۔ ہندوستانی مورخین ڈاکٹر اَوِیناش چندر داس اور ڈاکٹر سَمپُورنانند کے مطابق آریوں کا آبائی علاقہ سپت سندھو پردیش (بھارت )ہے۔

عیسیٰ سے تقریباً ۱۰۰۰ تا ۶۰۰ سال قبل یہ بیکٹرین اور پرتھین (جو کبھی پہلے مشرقی یورپ اور جنوبی روس کے علاقوں سے پرتھیا اور بیکٹریا میں آ کر بس گئے تھے )باس پورس یا درّۂ دانیال سے ہو کر ہندوستان میں داخل ہوئے اور کشمیر و سندھ کے علاقوں میں پھیل گئے۔

سیتھین:

وسطی ایشیا میں آمو دریا کے اوپر ی د وسطی علاقے سے اور وسطی ایشیا کے مشرق میں طارم گھاٹی کے علاقے سے سیتھین گھڑ سوار خانہ بدوش قبیلے (خوارزمی اور سوغدیانی ) موجودہ قزاکستان، شمالی سائبیریا اور مغربی ایشیا تک گھومتے پھرتے تھے۔ یہ سبھی مقیم اور خانہ بدوش قبیلے ایرانی نسل کے تھے۔ جو سیفس ؔکے مطابق سیتھین قبیلے حضرت نوح ؑ کے پوتے’ موزیز ‘ کی نسل سے ہیں ۔ پرشین لوگ سیتھینوں کوشکوں (Sakas)کے روپ میں جانتے تھے۔ جب کہ جنوبی ایشیا (موجودہ بنگلا دیش، ہند، پاکستان و افغانستان )میں وہ انڈو سیتھین جانے جاتے تھے۔

وسطی ایشیا میں آباد مختلف قبیلوں کے باہمی اشتراک اور خانہ بدوش سیتھینیوں کے دوسری آرین قوموں کے ساتھ اشتراک کے بعد ساتویں صدی عیسویں میں یہ سبھی قبیلے’ ’ترک‘ قبیلوں کے نام سے مشہور ہوئے۔ یعنی’ ’ترک‘‘ وسطی ایشیا میں سوغدیانی، خوارزمی اور وہاں آباد دیگر قدیم قبیلائی قوموں کے باہمی اشتراک نیز وہاں کے خانہ بدوش ستیھین قبیلوں کے دوسری آرین قبیلائی قوموں کے ساتھ اشتراک کا جدید روپ ہیں ۔

معروف جرمن دانشور میکس مولر کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں زیادہ تر غیر ملکی قوموں کے قبیلے وسطی ایشیا سے آئے تھے جو سبھی ستیھین تھے۔ کچھ سیتھین قبیلے بیکٹریا کی طرف اور کچھ مغرب میں پرتھیا کی طرف چلے گئے جب کہ زیادہ تر درّۂ دانیال سے ہو کر شمالی ہند میں پنجاب اور راجپوتانا کے میدانوں میں بس گئے۔ اسی طرح سیتھین قبیلوں نے شمال کے بعد مغرب سے بھی دراوڑوں ، بھیلوں اور سنتھال وغیرہ کو کھدیڑ کر ان کے ٹھکانوں پر اپنا قبضہ جما لیا اور بعد میں پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔

سیتھین قبیلوں میں شک اور شکوں کی اولادوں میں’ ’کُشان‘‘ مشہور حکمراں ہوئے۔

 

شک(Sakas):

۵۲۲ء سے ۴۸۶ء قبل وسطی ایشیا کا علاقہ، پرتھیا کے راجہ داری کی سلطنت میں شامل تھا۔ اس وقت وہاں سیر دریا کے شمالی میدانوں میں (موجودہ ترکستان نگر جہاں آباد ہے)سیتھین بنجاروں کے ٹھکانے تھے۔ عیسیٰ سے ۱۶۰سال قبل یہ سیتھین بنجارے جنوب میں یونانی حکومت کے زیر نگیں بیکٹریا کی جانب چلے گئے۔

وسطی ایشیا کے مشرقی علاقے(اب چین کا شمال مغربی صوبہ سنکیانگ)میں آباد ایک اور بنجارہ قوم’ ’یوہ چی‘‘ نے جب بیکٹریا کی یونانی حکومت کو ختم کر دیا تو سیتھین بنجارہ قبیلے جنوب مغربی سمت میں ہرات اور سیستان کی جانب چلے گئے اور وہاں بس گئے یہ’ ’شک‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ بعد میں پرتھینوں نے انھیں ہرات سے ہٹا دیا تو شک محض سیستان و کندھار تک محدود رہ گئے۔ آخر میں وہ بولان درّے سے ہو کر سندھ کے نچلے حصے میں داخل ہوئے یہ علاقہ انڈو سیتھین یا شک دیپ کے نام سے مشہور ہوا۔

مغربی اور جنوبی افغانستان اور سیستان میں ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے شک اور پہلّو (پرتھین)ایک دوسرے سے منسلک ہو کر ان صوبوں کے حکمراں ہوئے۔ مشرقی ایران، سیستان اور آرکیشیا  کے’ ’شک‘‘ اور’ ’پہلّو‘‘ حکمراں پارتھین لقب اختیار کرتے تھے اور شہنشاہ کہلاتے تھے لیکن ان کے سکّوں کے پیچھے یونانی زبان کا استعمال ہوتا تھا۔

 

کُشان:

شمال مغربی چین میں’ ’یوہ چی‘‘ نام کی برادری کے کئی قبیلے تھے جنھوں نے وسط ایشیا کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ پہلی صدی قبل مسیح کے آخر تک اس برادری کے ایک طاقتور قبیلے’ ’کشان‘‘نے اپنی برادری کے بقیہ قبیلوں کو شکست دے کر ان پر اپنا قبضہ جمالیا۔ اس کے بعد پوری برادری کا نام ہی’ ’کُشان ‘‘ پڑ گیا۔ کُشان نسل کے لوگوں نے وسطی اشیا میں کاشغر اور کھیتان سے لے کر ہندوستان کے شمال مغرب میں پرتھیا اور بیکٹریا پر قبضہ کر کے سندھ، پنجاب اور شمالی ہند میں کاشی تک اپنی حکومت پھیلادی۔ کُشان شاہی گھرانے کا پہلا شہنشا ہ کڈ فائسِس اول (۷۳۔۳۳ء) تھا اور دوسرا بیٹا بِیم کڈ فائسِس دوئم (۷۸۔۷۳ء) تھا۔ اس نسل کا تیسرا شہنشاہ کَنِشک(۱۲۸۔۷۸ء) ہندوستان کے کُشان حکمرانوں میں سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ وہ بودھ مذہب کا پیرو تھا۔ ہندوستان میں اس کی حکومت کشمیر، پنجاب، سندھ و موجودہ اتر پردیش کے مغرب سے کاشی اور پاٹلی پُتر تک پھیلی ہوئی تھی۔ جس میں شمالی ہند کا سنبھل علاقہ بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ افغانستان، بیکٹریا اور وسطی ایشیا کے یارقند، تاشقند، کاشغر اور کھیتان بھی اس کی ریاست میں ملے ہوئے تھے۔ کَنِشک کی راجدھانی پورُشپور (موجودہ پیشاور )تھی۔ کَنِشک نے تقریباً ۴۵سال حکومت کی۔

 

ہونڑ:

پانچویں اور چھٹی صدی میں وسطی ایشیا کے شمال مشرق سے (چین کا مغربی شمالی حصہ)ہونڑوں کے کئی گروہ شمالی ہند اور شمال مشرقی ہند(نیپال، آسام اور دیگر شمال مشرقی پڑوسی صوبے )میں آ کر آباد ہوئے۔

 

اِنڈو  آرئین:

بیکٹرین، پرتھین، سیتھیں (شک، کُشان)و ہونڑ وغیرہ آرئین اپنی لمبی چوڑی قد کاٹھی و گورے رنگ کی وجہ سے خود کو اچھے اور اونچے خاندان کا مانتے تھے۔ آرئین لوگ طاقتور جسم کے مالک تھے اور لڑائی کے اوزار بنانے میں ماہر تھے۔ وہ قبائلی، تہذیبی اور ثقافتی معاملوں میں بھی کالے یا گہرے سانولے چھوٹے قد کے آدی واسی دراوڑوں اور کولاروں سے بہت آگے تھے۔ ہندوستانی علاقوں میں آباد ہونے کے بعد آرئین برادریوں کے باہمی اشتراک یا ہندوستان کی آبائی قوموں بھیل، سنتھال، کولار اور دراوڑ وغیرہ کے ساتھ ان کے اشتراک سے پیدا ہوئی قومیں’ ’انڈو ۔آرئین‘‘ کہلائیں ۔ سبھی اِنڈو  آرئینوں کی الگ الگ پہچان ممکن نہیں ۔

 

اِنڈو  آرئین کا مذہب:

آرئینوں کے سب سے پہلے اور قدیم گرنتھ ’ ’رِگ وید‘‘ کے مطابق آرئینوں کا مذہب بہت سے قدرتی عناصر سے جڑی روایتوں اور رسم و رواج پر مبنی تھا(شیمنسٹ)۔ اُس وقت کسی مندر یا مورتی کا تصور نہیں تھا۔ وہ کھلے طور سے زمین، آسمان، سورج، چاند، آگ، ہوا اور پانی وغیرہ کی پوجا کرتے تھے۔

 

اِنڈو آرئین کا سماجی نظام:

وقت گزرنے کے ساتھ آرئین آگے بڑھتے ہوئے شمالی ہند میں گنگا کے دو آب تک پہنچے اور موجودہ شمالی صوبے کے مغربی حصوں میں پھیل گئے۔ تب ان کے سماجی نظام میں تبدیلیاں آئیں اور وہ پیشے کے مطابق مختلف فرقوں اور ذاتوں میں تقسیم ہو گئے۔

آرئینوں میں راج کاج جن لوگوں کے ہاتھوں میں رہا وہ’ ’شَتّریے۱؎  ‘‘کہلائے۔ راجہ اور فوجی۲؎  انہی میں سے ہوتے تھے۔

پُروہِت (مذہبی رہنما)مذہبی امور کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ راجاؤں کو مذہبی اور سیاسی مشورے بھی دیتے تھے۔ آریئنوں میں عام  لوگ جو کہ’ ’وَیشیہ‘‘ کہلاتے تھے کھیتی اور تجارت کا کام کرتے تھے۔’ ’شُودْر‘‘ ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جن کی رگوں میں آریائی خون نہیں تھا اور جو آریوں کے مذہب اور رنگ سے منفرد تھے۔

 

شمالی ہند کے راجپوت، جاٹ وغیرہ بھی انڈو آرئین :

پنجاب راجپوتانہ اور موجودہ اتر پردیش کے مغربی علاقوں میں آباد آرئین لوگ صدیاں گزر جانے کے بعد پوری طرح سے ہندوستانی ماحول میں ڈھل گئے اور ہندوستانی ناموں کے ساتھ شَتریے، راجپوت، جاٹ وغیرہ کے روپ میں پہچانے جانے لگے۔

ڈاکٹر بی۔ اے۔ اسمتھ کے مطابق راجپوت ایسے قبیلوں کی نمائندگی کرتے تھے جو شتریوں کی طرح ہی جنگجو تھے اور اپنے کو اونچے کُل کا سمجھتے تھے۔ ان کے ساتھ برہمنوں نے بھی شتریوں کی طرح ہی برتاؤ کیا۔

راجستھانی تاریخ کے مورخ کرنل جیمس ٹاڈ اور ہندوستانی تاریخ لکھنے والے دیگر سابق ماہرین کے مطابق شتریے و راجپوت کافی حد تک غیر ملکی نسل کے سیتھینوں اور ہونڑوں کی نسل کے تھے (آٹھویں صدی عیسوی میں وسطی ایشیا میں ستیھین قبیلے،’ ’ترک قبیلوں ‘‘ کے نام سے جانے گئے)

مصنف گورکھ ناتھ چوبے ایم۔ اے نے اپنی کتاب پِراچِین بھارت(ہندوکال) کے صفحہ ۲۴۲ و۲۴۳ کے حواشی میں مورخ سی۔ بی ویدیہ کی کتاب’ ’میڈیول ہندو انڈیا‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ راجپوت خالص آریہ تھے۔ چاہے وہ وسطی ایشیا کے سیتھین یا شمال مشرقی ایشیا کے ہونڑ قبیلوں کی نسل کے رہے ہوں ۔

راجہ ہَرش کے بعد شمالی ہند کی تاریخ میں صدیوں تک راجپوتوں کا اثر قائم رہا۔ وہ پوری طرح سے قدیم شتریوں کا مقام حاصل کر چکے تھے۔ شمالی ہند میں راجپوتوں میں اہم ترین فرقہ گُرجروں کا ہے۔ مغربی پنجاب (اب پاکستان میں )میں ایک ضلع’ ’گُجراں والا‘‘ اور ہندوستا ن میں ایک صوبہ گجرات (گرجر +آرات)ان کے نام پر ہے۔ راجپوتوں کے کچھ خاص فرقے وسطی اور جنوبی ہند میں بھی بسے ہیں ۔ شمالی ہند میں دہلی اور موجودہ اتر پردیش کے مغربی علاقوں میں تقریباً ساڑھے چار سو سال تک راجپوتوں کا راج قائم رہا، جو راجپوتی تہذیب کا سنہری دور ہے۔

 

عربوں کا داخلہ :

۷۱۰ء بغداد میں اُمووی خلیفہ الحاج ابن یوسف نے پرشیا کے گورنر ۱۷سالہ محمد بن قاسم کو، جو خلیفہ کا بھتیجہ اور داماد تھا پنجاب کو فتح کرنے شیراز سے روانہ کیا۔ راستے میں عراق سے کچھ نو مسلم فوجی بھی اس کی فوج میں شامل ہو گئے۔ سندھ کی سرحد پر پہنچنے کے بعد وہاں اسے چھ ہزار اونٹ سواروں کی فوج کا ایک دستہ اور ملا۔ بعدہ ٗمحمد بن قاسم مکران سے ہوتا ہوا دیول (موجودہ کراچی)کی طرف بڑھا اور اسے فتح کر لیا۔ دیول سے محمد کی فوجیں شمال کی جانب بڑھنا شروع ہوئیں جہاں سندھ ندی کے دوسری طرف راجہ داہر کی فوجیں کھڑی تھیں ۔ راجہ داہر کی فوجوں سے مقابلے کے پہلے محمد نے تھوڑا پیچھے ہٹ کر خلیفہ بغداد کے ذریعہ بھیجی گئی کچھ اور فوجی امداد حاصل کی ساتھ ہی اس نے مشرقی کنارے کے مچھواروں اور جاٹوں کو لالچ دے کر اپنی طرف ملا لیا۔ اُرّور کے مقام پر راجہ داہر کی فوجوں سے گھمسان کی لڑائی میں محمد بن قاسم کی فتح ہوئی اور راجہ داہر لڑائی میں مارا گیا۔ اس طرح عرب لوگ سندھ اور پنجاب کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے۔

 

افغانوں (پٹھانوں )کی آمد:

۱۱۹۲ء میں محمد غوری کی فوج میں ترکوں کے ساتھ ساتھ بہت سے پٹھان۳؎  (افغان) جنگجوؤں نے ہندوستان میں داخل ہو کر دہلی و اجمیر کو فتح کیا۔ اس کے بعد ہندوستان پر لودھی خاندان (۱۵۲۶۔۱۴۵۱ء) اور سُور خاندان (۱۵۵۵۔۱۵۴۰ء) کے پٹھانوں کی حکومت رہی۔

ایران کے ترک حکمراں نادر شاہ کی فوج کے افغان جنر ل احمد شاہ نے ۱۷۴۷ء میں افغانستان کی بنیاد ڈالی اور موجودہ پاکستان، کشمیر، پنجاب اور خراسان کے بہت سے علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کیا۔

۱۷۴۲ء سے ۱۷۷۴ء تک شمالی ہند کے کٹھیر علاقہ پر افغانستان کے روہیلے پٹھانوں کی حکومت رہی اور کٹھیر علاقہ کا نام روہیل کھنڈ پڑا جس میں شاہجہانپور، بریلی، سنبھل، آنولہ، بدایوں ، رامپور، شاہ آباد، پیلی بھیت، مرادآباد علاقے شامل تھے۔ ۱۷۷۴ء میں روہیل کھنڈ علاقہ انگریزوں کے ماتحت اودھ کے نوابوں کی حکومت میں چلا گیا۔ محض رامپور اسٹیٹ پر انگریزوں کے ماتحت روہیلے نوابوں کی حکومت قائم رہی۔ روہیل کھنڈ علاقہ (سابق کٹھیر علاقہ) میں آج بھی افغان (پٹھان)کافی تعداد میں آباد ہیں اور پٹھان کے بجائے خان۴؎  کے نام سے زیادہ معروف ہیں ۔

ترکوں کی آمد:

دسویں صدی کے آغاز تک وسطی ایشیا میں تقریباً سبھی ترک قبیلے اسلام مذہب اپنا چکے تھے۔ غزنی کی ترک سلطنت کے حکمراں سلطان محمود نے اپنے دور حکومت (۱۰۳۰۔ ۹۹۷ء) میں ہندوستان پر کئی مرتبہ حملے کیے اور ہر مرتبہ وہ بہت سی دولت و ہیرے جواہرات لوٹ کر غزنی واپس گیا۔ ستمبر ۱۰۱۸ء سے دسمبر ۱۰۱۸ء کے درمیان سلطان محمود نے مشرقی ہند میں برن (بلند شہر) مہابن (متھرا)اور قنوج پر فتح حاصل کی جہاں سے بھاری مقدار میں سونا اس کے ہاتھ لگا۔ واپس لوٹتے وقت راستے کے کئی قلعوں کو فتح کرتا ہوا بے شمار دولت کے ساتھ ۵۵ ہزار غلام اور ۳۵۰ ہاتھی بھی اپنے ساتھ غزنی لے گیا۔ (دی ونڈر دیٹ واز انڈیا، ایس ایس رضوی، حصہ دوئم، صفحہ ۱۴)

۱۰۲۱ء میں سلطان محمود نے پنجاب پر قبضہ کر لیا اور شمالی پنجاب کے علاقوں کو فتح کر کے غزنی سلطنت میں ملا لیا اور سب سے پہلے وہاں ترکوں کو آباد کیا۔ بعد میں پنجاب غزنی سلطنت کا ایک صوبہ ہو گیا جو کہ ۱۱۸۶ء تک رہا۔

٭       ۱۱۸۶ء میں شہاب الدین محمد غوری نے غزنی سلطنت کے پنجاب صوبہ کو اپنے قبضے میں لے لیا اور ۱۱۹۲ء میں ترائن کی دوسری جنگ میں اجمیر و دہلی کے راجہ پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر ہندوستان میں مسلم حکومت قائم کی۔ اس جنگ میں اس کا نائب ترک سپہ سالار قطب الدین ایبک تھاجس نے بعد میں تھوڑے وقت میں ہی مسلسل فتوحات حاصل کر نئے نئے علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا اور پنجاب صوبے کو پھر سے ہندوستان کی غوری حکومت میں شامل کر لیا۔ ۱۲۰۲ء میں کالنجر کی جیت کے بعد بدایوں اور سنبھل پر بھی مسلمانوں کا تسلط قائم ہو گیا۔ ۱۲۰۶ء میں سلطان محمد غوری کی موت کے بعد اس کے نائب قطب الدین ایبک نے ہندوستان میں ترک سلطنت قائم کی جو’ ’دہلی سلطنت‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔

٭       سلطان قطب الدین ایبک کے بعد سے تیموری خاندان کے ترک دَور تک ہندوستان میں جتنے بھی ترک حکمراں ہوئے ان کے دَور میں ہزاروں کی تعداد میں ترک تاجر، سپاہی، کاریگر، مذہبی رہنما، اساتذہ اور درباری وسطی ایشیا سے ہندوستان آتے رہے اور ان میں سے بیشتر یہیں آباد ہو گئے۔

٭       ۱۲۱۹ء سے ۱۲۲۱ء کے دوران چنگیز خاں نے وسطی ایشیا کے تمام ترک علاقوں پر قبضہ کر کے خوارزم شاہی ترک سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ خونریزی، تباہی و بربادی کا ایسا طوفان مچا کہ وسطی ایشیا کی مسلم تہذیب کوزبردست جھٹکا لگا۔ ترک سلطنت کے درباری، اسلامی رہنما اور عام لوگ محفوظ مسلم حکومتوں کی طرف ہجرت کرنے کو مجبور ہو گئے۔ بہت سے ترکوں و شیخ ترکوں کے قافلے کسی نہ کسی طرح ہندوستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت تک سلطان التمش کی دہلی ترک سلطنت مضبوط اور مستحکم ہو چکی تھی۔ سلطان اسے منگولوں کے حملے سے محفوظ رکھنے میں بھی کامیاب رہا تھا۔ (ہسٹری آف انڈیا، سی۔ ایف ڈی لافوس، صفحہ ۹۹)

۱۷۶۰ء میں مشرقی ترکستان ۵؎ کے کاشغر جنگاریہ اور طارم گھاٹی علاقوں پر جب چینی حکمراں نے اپنے زیر نگیں شیخ ترک خواجاؤں کی حکومت کو ختم کر دیا تو ان علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں شیخ خواجہ ترک دیگر ترکوں کے ساتھ ہندوستان کی طرف ہجرت کر گئے۔

ہندوستان کی طرف جانے والے چھوٹے بڑے قافلوں میں حکمراں شیخ ترک خواجاؤں کے درباری، فوجی و عام ترک اپنے کنبوں کے ساتھ شامل تھے۔ ترکوں کے یہ قافلے پہاڑی راستوں کی مصیبتوں کو برداشت کرتے ہوئے شمالی ہند کے کٹھیر( روہیل کھنڈ )علاقہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔

٭٭

کتابیات

۱۔ ’’ہسٹری آف انڈیا ‘‘ جی ایف ڈی لافوس،صفحہ ۵۵۔۵۳

۲۔ بھارت کی تاریخی مان چِتراوَلی،ص ۱۸۔۱۶،ڈاکٹر ہری پرساد تھَپلیال

۳۔ ’ہسٹری آف انڈیا‘، ای ڈبلو تھامپسن،ایم اے ،ص ۶۲۔۵۸

حواشی

۱۔  قدیم کتابوں کے مطابق ایک ایسی حکمراں قوم جو جنگ کر نئے صوبوں کو اور اولادوں کو جنم دیتی رہتی تھی ۔اپنے کو ’راجنیہ‘ کہتی تھی۔ آگے چل کر راجنیہ ہی شتریے کہلانے لگے۔(اے ہسٹری آف انڈیا، رومیلا تھاپر ،ص ۳۸)

 

۲۔  شتریے راجہ کی بہت سی رانیاں ہوتی تھیں ۔پٹ رانی کے جو بیٹے ہوتے تھے انہی میں سے ریاست کا وارث طے ہوتا تھا ۔دوسری رانیوں سے پیدا ہونے والے بیٹے راجہ کے پوت (راجپوت )کہلاتے تھے ۔وہ فوجیوں سے لے کر فوج کے اونچے عہدوں تک تعینات ہوتے تھے۔

 

۳۔ پٹھان: موجودہ افغانستان کے پٹھان اصلیت میں مختلف آرئین برادریوں کے باہمی اشتراک کا جدید روپ ہیں۔

مشہور مورخ فرشتہ (۱۶۲۰۔۱۵۶۰ء) کے مطابق افغان لوگ ممکنہ طور پر مصر کے فراعنہ کی کسی برادری کی اولادیں ہیں جن میں سے بیشتر نے حضرت موسیٰؑ کے احکام کے مطابق یہودی مذہب اپنا لیا تھا ۔ان میںسے کچھ لوگ اپنا ملک چھوڑ کر بھارت کی طرف چلے آئے اور کوہ سلیمان پر مقیم ہو گئے ۔ بعد میں خود کو افغان کہنے لگے۔

افغان مورخین کے مطابق اسلام مذہب سے پہلے غور اور عرب میں بہت سے قبیلے یہودی مذہب کے ماننے والے تھے ۔عرب علاقوں کے بہت سے یہودی قبیلے ہجرت کر کے غور میں کوہ سلیمان کی وادی میں’ ’پُشت‘‘ نام کے ٹیلے پر آکر رہنے لگے تھے۔ شروع میں ان کی زبان سنسکرت و ہندی کے مشابہ تھی۔ لہٰذا وہ’ ’پشتوان‘‘ (پشت پر رہنے والے) کہلانے لگے ۔چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ لفظ، ان کا مطلب اور زبان میں تغیر پیدا ہوتا رہا لہٰذا اسی تغیر کے سبب وہ دھیرے دھیرے پُشتوان سے پتان ہو گئے۔

عرب کے ایک یہودی قبیلے کا سردار’ ’قیس‘‘ تھا ۔اس قبیلے کے بہت سے یہودی بھی عرب علاقوں کے دیگر قبیلوں کے ساتھ کوہ سلیمان کو ہجرت کر گئے تھے۔ یہودی سردار’ ’قیس‘‘ اسلام قبول کرنے کے بعد عبدالرشید کے نام سے جانا گیا۔ سردار عبدالرشید کی شادی عرب جنرل خالد بن ولید کی لڑکی’ ’سارا‘ ‘ سے ہوئی۔ بعدہٗ سردار عبدالرشید خالد بن ولید کے ساتھ کوہ سلیمان کی وادی میں اپنے یہودی بھائیوں کے درمیان اسلام کی تبلیغ کرنے آیا۔غور کے یہودی’ ’پتانوں‘‘ نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا۔

البیرونی کی گیارہویں صدی کی تاریخ’ ’الہند‘‘ کے مطابق ہند کے مغرب میں پہاڑی علاقوں (اندازاً پرشیا اور قدیم ہندوستان کے درمیان کوہ سلیمان)میں رہنے والے بہت سے قبیلے دسویں صدی (تقریباً ۹۸۲ء) میں افغانوں کے نام سے جانے گئے۔

 

۴۔ ’خان‘ ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب سردار، بہادر، جنگجو،ا میر وغیرہ ہے۔ مونگولی زبان میں خان کو ’’قاآن‘‘ پڑھا جاتا ہے ۔ غور اور افعانستان میں جب ترکوں کی حکومت قائم ہوئی اور وہاں کے پٹھانوں (افغانوں)سے ترکوں کے باہمی مراسم قائم ہوئے تو پٹھان بھی ترکوں کی طرح خان کہلانے لگے اور یہی ہوا ہندوستان تک چلی آئی ۔ (تاریخِ حیاتِ افغانی)

 

۵۔ ۔  وسطی ایشیا کو ترکستان کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔

 

 

 

 

               باب دوم

 

وسطی ایشیا اور ترک

 

وسطی ایشیا: (Central Asia)

ایشیا کے مغرب میں کیسپین ساگر سے لے کر مشرق میں مغربی مونگولیا و وسطی چین تک اور شمال میں جنوبی روس سے لے کر جنوب میں شمالی ہند، پاکستان، افغانستان و شمال مشرقی ایران تک پھیلا ہوا وسیع و عریض علاقہ وسطی ایشیا ۱؎  کے نام سے جانا جاتا تھا۔

موجودہ دور میں قزاکستان، کِرگستان، تاجکستان، اوزبیکستان، ترکمینستان، شمال مشرقی ایران، شمالی افغانستان اور پاکستان، ہندوستان و چین کا مغربی اور جنوب مغربی حصہ، وسطی ایشیا کے علاقوں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔

وسطی ایشیا کے جنوب اور مغرب میں وسیع و عریض استیپی علاقہ (پرت دار زمین) ہے۔ مغربی جنوب سے مشرق تک پامیر، اونچے پہاڑ (تیانشان)اور لمبے چوڑے ریگستان (کراکُم، کِزلکُم، تکلامکان)ہیں ۔

پامیر اور کوہ تیانشان، وسطی ایشیا  کے اس وسیع و عریض علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔ تیانشان کے مشرق میں منقسم شمالی استیپی علاقے، جُنگاریا (موجودہ شمالی سنکیانگ) اور جنوبی علاقے طارم وادی (موجودہ جنوبی سنکیانگ)کے نام سے جانے جاتے تھے۔ عہد وسطیٰ میں یہ دونوں علاقے مشرقی ترکستان کے نا م سے بھی جانے گئے۔ تیانشان کے مغرب میں’ ’ماوراء النہر۲؎ ‘‘ اور موجودہ قزاکستان کا کچھ علاقہ مغربی ترکستان کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔

یہاں گھنی آبادی والے نخلستانوں کے چاروں طرف ریگستان ہے۔ شمال میں موسم ٹھنڈا اور جنوب میں گرم و خشک رہتا ہے۔ شمال میں اَرال (Aral)ساگر بھی کئی مہینوں تک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ سیر دریا(دریائے صیحون )اور آمو دریا (دریائے ذیہون) دو بڑی ندیاں ہیں ۔ سیر دریا کا نچلا حصہ بھی کئی مہینوں تک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ چھوٹی ندیوں میں زرفشان، چو، مرغاب، اِرتش، اِلی، اور ال اور اِشم نخلستانوں کو ہر ا بھرا بنائے رکھتی ہیں ۔ اس علاقے کی خاص اہم جھیلوں میں بلخاش، جھیل اور اِسّیق کول جھیل ہیں ۔ چین کو بقیہ ایشیا سے ملانے والا’ ’ریشمی راستہ ‘‘(Silk Road)وسطی ایشیا سے ہو کر جاتا تھا اور پرشین سلطنت کے زیر نگیں آتا تھا جس میں بیشتر سوغدیانی خوارزمی اور سیتھین برادریوں کے قبیلے تھے۔

 

تُرک یا تُرَک(Turk or Turak):

وسطی ایشیا سے مغربی سائبیریا تک کے اصل ساکن جو ترکی زبان یا اِس سے ملتی جلتی زبانیں بولتے ہیں ترک یا تُرَک کہلاتے ہیں ۔

ترک وسطی ایشیا میں قدیم سوغدیانی، خوارزمی اور دیگر قدیم مقیم برادریوں کے باہمی اشتراک اور وہاں کی خانہ بدوش ستیھین برادریوں کے ساتھ دیگر آرئین برادریوں کے اشتراک کا جدید روپ ہیں ۔

موجودہ تناظر میں شمال مغربی اور وسطی یوریشیا کے لوگ جو ترکی زبان یا اس سے ملتی جلتی تقریباً ۳۰ زبانیں بولتے ہیں ترک کہلاتے ہیں ۔ بعض تحقیق کے مطابق’ ’ہُونڑ‘‘ کو سب سے پہلے ترک قبیلوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جب کہ کچھ تحقیقات کے مطابق’ ’ہُونڑ‘‘ مونگولوں کی نسل میں سے ہیں ۔ کچھ ترک قبیلے جیسے’ خضر‘ اور’ پیچینگ‘ بہت زمانے سے خانہ بدوشوں کی طرح رہتے آئے تھے اور وسطی ایشیا کے شمال میں خانہ بدوشوں کی یُونِین’ جیانگنو‘ کا ایک حصہ تھے۔ جدید تحقیق سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ قدیم زمانے میں وسطی ایشیا کے ترک جیانگنو تہذیب سے و ابستہ تھے۔ جیانگنو خانہ بدوش یونین کے خاتمے کے تقریباً ۴۰۰ سال بعد ترکوں کی کمان گوک ترکوں کے ہاتھوں میں آ گئی۔ ۵۸۵ء میں چینی شہنشاہ نے گوک ترک خان’ ’اِشبرا(Ishbra)‘‘کو لکھے ایک خط میں اسے ایک’ ’عظیم ترک خان‘‘ کے نام سے مخاطب کیا تھا۔ چینیوں نے ترک قبیلوں کا سوغدیانوں کے ساتھ سِلک روڈ کے راستے تجارت کرنے کا بھی ذکر کیا ہے۔ ۷۳۵ء کی اور ہُن رسم الخط (Orhun Script)میں بھی تُرک (Turk)یا تُرَک(Turak)الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔

زوروسترئین ژیند ایویستہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک قدیم روایت کے مطابق ترک’ ’ایما‘‘ کے پوتے’ تُر‘ یا’ تُرا‘ کی اولادوں میں سے ہیں جو کہ قیامت جیسے سمندری طوفان ۳؎ میں اکیلا ہی زندہ بچا تھا اور اس نے پھر سے دنیا بسائی تھی۔

گیارہویں صدی کے ترک مورخ کاشغر کے محمود اور دوسرے اسلامی مورخین کے مطابق:

’’حضرت نوحؑ کے تین لڑکوں میں سے ایک’ ’یافِث‘‘ تھا جس کی نو اولادوں میں سے ایک کا نام ترک تھا۔ ترک کی پانچویں نسل میں’ او لُنجا خان‘‘ کی پیدائش ہوئی تھی۔ اولُنجا خان کی بیوی سے ایک ساتھ دو بیٹے پیدا ہوئے تھے جن میں سے ایک کا نام’ ’تاتار‘‘ تھا۔ آگے چل کر تاتار کی اولادیں’ تُرک‘ کے نام سے مشہور ہوئیں ۔ ‘‘

ایران میں تیرہویں صدی کے آخر میں اِیلخانی مونگول سلطنت کے حکمراں ایلغانی قازان خان (غازان خان ۱۳۰۴۔۱۲۹۵) کے دور میں جب مونگولوں نے اسلام مذہب قبول کیا تو ممکنہ طور پر ان کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنی پیدائش کو قرآن  کے مطابق دریافت کرنے کی کوشش کریں ۔ لہٰذا ایلخانی صوبے کے وزیر اعظم و مشہور مسلم مورخ رشید الدین نے مونگولوں کے شاہی خاندان کا سلسلہ ترکوں کے بزرگوں حضرت نوحؑ اور ان کے بیٹے یافِث کی اولادوں سے ملایا اور چند دلائل کے ساتھ شجرہ بھی پیش کیا۔ رشید الدین کے مطابق ترک اور مونگول ایک ہی باپ اُولُنجا خاں کی اولادیں ہیں ۔ اس شجرہ کے صحیح ہونے کے بارے میں رشید الدین نے ہلکی پھلکی دلیلیں دینے کے علاوہ کوئی اہم ثبوت پیش نہیں کیا۔ مورخ میر خاوند اور عبدالغازی نے اس شجرہ میں تھوڑا اضافہ اور کچھ ناموں کو تبدیل کر کے پیش کیا۔ (انساب سلاطین مونگولیا، ایچ ہاور تھ سرہندی، ترجمہ سیدمحمد ضامن)

تاتار کی اولادیں یعنی ترک قبیلے وسطی ایشیا کے علاقوں میں آباد ہوئے اور ترکی یا  اُس سے ملتی جلتی زبانیں بولتے تھے جب کہ مونگول قبیلے اور ان کی نسلیں مانچوریا  ( موجودہ مونگولیا) اور چین کے علاقوں میں پھیل گئیں ۔ مانچوریا میں آباد مونگول قبیلوں کی مادری اور سرکاری زبان مونگول تھی۔ ۱۰ویں صدی کے آخر تک وسطی ایشیا کے تقریباً سبھی ترک قبیلے اسلام مذہب میں داخل ہو چکے تھے۔ جب کہ ۱۳ویں صدی کے شروع میں وسطی ایشیا پر قابض ہوئے مونگول اور ان کے حکمراں تیرہویں صدی کے آخر میں مسلمان ہوئے۔ وسط ایشیائی ان مسلمان مونگولوں کی اولادوں نے مونگولی کے بجائے ترکی اور فارسی زبانوں کو اپنا لیا۔ وسطی ایشیا کے آبائی ترک، عہد وسطیٰ میں ایشیا، یوروپ، افریقہ اور وسطی مشرقی ممالک کی طرف پھیلتے چلے گئے۔

 

ترکوں کی زبان:

ترک ترکی زبان یا اس سے ملتی جلتی تقریباً ۳۰ زبانیں بولتے ہیں ۔ یعنی’ ترک‘ لفظ سبھی ترکی زبانیں بولنے والوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کہ’ ترکی ‘ لفظ ترکی زبان اور ٹرکی ملک کے ترک لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جغرافیائی نظریہ سے ان مختلف ترکی زبانوں کو مندرجہ ذیل گروپ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

(۱)       جنوب مغرب کی ترکی زبانیں                      اوگُز گروپ  (Oguz Group)

(۲)      شمال مغرب کی ترکی زبانیں                         قفچاک گروپ

(۳)     شمال کی ترکی زبانیں                                   الطائی گروپ

(۴)     مشرق کی ترکی زبانیں                                اوئی گُور، یُوگُور گروپ

 

وسطی ایشیا کی تہذیب:

وسطی ایشیا تہذیب کے سب سے پرانے مراکز میں سے ایک ہے۔ کئی وسطی ایشیائی قبیلے’ ’نَو پاشان یُگ‘‘ میں ہی زراعت اور مویشی پالن کرنے لگے تھے۔ شروعاتی لَوہ یُگ تہذیب عیسیٰ سے ایک ہزار سال قبل قدیم خوارزم میں موجود تھی جو دراصل زراعت اور مویشی پالن پر مبنی تھی۔ خوارزم میں نہروں کا جال بچھا تھا۔ قدیم وسطی ایشیا اور استیپی علاقہ کی قدیم آبادی اسی ایرانی سلسلۂ نسب سے تھی جس کے فارس والے تھے۔ زرخشان وادی کے سوغدیانی اور آمو دریا کے نچلے کناروں پر بسے ہوئے خوارزمی بھی اسی آبائی قوم کے تھے اور سب سے پرانے لوگوں میں سے تھے۔ ۵۲۲ سے ۴۸۶ قبل مسیح تک ان کا علاقہ’ اَکیمینِد‘‘ حکومت کا حصہ تھا۔

سکندرِ اعظم کے حملے کے وقت سوغدیان فارس کی حکومت کے زیر نگیں تھا۔ سوغدیانی، سکندر کے خلاف بہادری کے ساتھ لڑے لیکن سکندر نے اَکیمیند ۴؎ حکومت کو برباد کر دیا اور اس کے علاقوں کو یونانی مخدونی سلطنت میں ملا لیا۔ اسی صدی میں اس سلطنت کے خاتمے کے بعد یونانی بیکٹریائی حکومت قائم ہوئی جو ۱۳۰ سال قبل مسیح تک قائم رہی۔ اس کے بعد وسطی ایشیا میں کُشانوں کی حکومت قائم ہوئی۔ جو کہ تیسری صدی تک رہی۔

کشان شاہی خاندان کا تیسرا شہنشاہ کَنِشک(۱۲۳۔۷۸ء)جو بودھ مذہب کا پیرو تھا، ہندوستان اور وسطی ایشیا کے کشان شہنشاہوں میں سب سے مشہور ہوا۔ وسطی ایشیا کے علاوہ کَنِشک کی سلطنت ہندوستان میں کشمیر، پنجاب، سندھ اور موجودہ اُتر پردیش کے مغرب سے لے کر کاشی و پاٹلی پتر تک پھیلی ہوئی تھی۔ کَنِشک کے صوبے کی راجدھانی پُوروشپور تھی جو کہ اب پیشاور کہلاتا ہے۔

کشان حکومت میں چین کو فارس اور رومن سلطنت کے صوبوں سے ملانے والا’ ’عظیم ریشم روڈ‘‘وسطی ایشیا سے ہو کر جاتا تھا جو اس علاقہ کی ترقی اور خوشحالی کی وجہ بنا ہوا تھا۔ چوتھی صدی عیسوی میں’ ’افتھلائی سفید ہونڑ‘‘ قبیلے نے بیکٹریا پر قبضہ کر لیا اور وسطی ایشیا میں کشان حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ لیکن ۵۶۳ تا۵۶۷ء’ ’جَیتی سُب‘‘ کے ترکوں نے افتھلائیوں کو شکت دے کر منچوریا سے کالے ساگر تک پھیلے’ ’کھاگان‘‘ حکومت میں ملا لیا۔ چھٹی صدی کے آخر میں کھاگان حکومت کے مغربی حصے پر مسلمان عربوں نے قبضہ کر لیا۔ وسطی ایشیا میں عربوں کا اصل دخل آٹھویں صدی کے شروع میں’ ’خراسان ‘‘۵؎ کے عرب گورنر قطیبہ بن مسلم کے زیر قیادت ہوا۔ دور حاضر میں وسطی ایشیا میں جو عرب نژاد  لوگ بسے ہوئے ہیں ان میں سے کچھ قطیبہ بن مسلم کے دور کے اور کچھ امیر تیمور کے دور کے عربوں کی اولادیں ہیں ۔

نویں اور دسویں صدی میں وسطی ایشیا میں سامانیوں کا راج قائم ہوا۔ سامانی سلطنت میں ماور ا النہر، خوارزم، سیر دریا کے علاقے، ترکیمنستان کا کچھ حصہ ایران اور افغانستان شامل تھے۔ سامانی دور میں فارسی زبان دور دور تک پھیلی۔ اسی دور میں عظیم شاعر رُودکی اور فردوسی نے اپنی لازوال تصانیف لکھیں ۔ عرب میں علم ہندسہ کے بانی محمد ابن موسیٰ الخوارزمی کی تصانیف بھی اسی دور کی ہیں ۔ ان ہی کی تصنیف’ ’الجبر‘‘ کے نام پر ہی مضمون کا نام’ ’الجبرا‘‘ پڑا۔ وہ ماہر حساب ہونے کے ساتھ ماہر فلکیات، ماہر جغرافیہ اور مورخ بھی تھے۔ وسطی ایشیا کے اہم سائنس داں ابو علی ابن سینا (۱۰۳۷۔۹۸۰ء)نے طب اور فلسفے پر کئی کتابیں لکھیں ۔ طب سے متعلق ان کی کتاب’ ’القانون فی طب‘‘ بہت مشہور ہے۔ خوارزمی تہذیب کی ایک اور عظیم شخصیت البیرونی (۱۰۴۸۔۹۷۳ء)کی تصنیف’ ’کتاب الہند‘‘ ایک بہترین تاریخ اور علم الانسان کا مآخذ ہے۔

(’آدھونِک مدھیہ ایشیا‘، دیویندر کوشک صفحہ ۱۷ تا ۲۱/ بھارت کی اتیہاسک مانچتراولی‘، ڈاکٹر ہری پرساد تھپلیال ص ۱۶، ۱۸/ہسٹری آف انڈیا‘، جی۔ ایف ڈِلافوس،  ص ۵۳ تا ۵۵)

 

ترک قوم کی شاخیں :

اپنی پرانی تہذیب سے وابستہ مختلف ترک گروہوں کی صحیح صحیح تعداد طے کرنا تو ذرا مشکل ہے پھر بھی کچھ اہم قومی گروہ کی فہرست مندرجہ ذیل ہے:

(۱)التائی            (۲)اوگُز(سلجوک اور ٹرکش)     (۳)قفچاک(قیومن)

(۴)قراکلپاک    (۵) خزر           (۶)تاتار(کریمین تاتار/ بولگاتاتار/ سائبیرین تاتار)             (۷)بلغار (۸)چوواش     (۹)بشکیر          (۱۰)طووان      (۱۱)اوئیغور            (۱۲)یاقوت       (۱۳)بلکار          (۱۴)قزاق       (۱۵)ترکمینی       (۱۶)قِرگِز             (۱۷)اوزبیک     (۱۸)آزربائیجانی             (۱۹)گوگاز وغیرہ۔

 

وسطی ایشیا میں رائج ترکوں کے مذہب :

اسلام سے پہلے ترکوں کے مذہبی اعتقاد زیادہ تر شیمینٹ ۶؎ اور ٹینگرک۷؎  عقائد پر مبنی تھے۔

آج کل زیادہ تر ترک سنی مسلمان ہیں جن میں بالکن ترک، بشخیر، کریمین تاتار، قزان تاتار، قِرگِز ترکمینی، ٹرکش، اوزبیک اور اوئیغور اہم ہیں ۔ آزربائیجان کے ترک خاص طور سے شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کچھ قشکائی خانہ بدوش اور خراسانی ترک بھی شیعہ ہیں ۔ ٹرکی کے علوی’ ’بارہ امامی شیعہ فرقہ‘‘ سے متعلق ہیں اور ٹرکی کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں ۔ آج کل یہ مغربی ٹرکی کے بڑے بڑے شہروں میں رہتے ہیں ۔ چوواشیا کے چوواش اور مالدووا کے گوگاز اصلاً عیسائی ترک ہیں ۔ مشرقی یوروپ کے بہت سے کریمین ترک یہودی ہیں ۔ ان کے علاوہ اہم شہروں جیسے باکو، انکارا اور استنبول میں کچھ ترک یہودی مذہب کے پیروکار ہیں ۔ سائبیرین علاقہ کے کچھ طووان اور الطائی ترک ٹینگر یسٹ ہیں ۔ شمال مغربی سائبیریا میں یاقوتیا کے کچھ ترک، شیمینٹ ہیں اور کچھ عیسائی ہو گئے ہیں ۔ صرف روس کے کچھ طووان ترک، بدھ مذہب کے ماننے والے ہیں ۔ اس کے علاوہ تھوڑی تھوڑی تعداد میں دیگر مذاہب کو ماننے والے ترک بھی ہیں ۔

 

ترک اقوام کی ابتدا:(Origin)

چونکہ ترک قبیلے زمانہ قدیم کے مختلف نسلی قبیلوں کا مرقع ہیں اس لیے وسطی ایشیا کی زیادہ تر ترک اقوام کی ابتدا ان ہی ترک قبیلوں کے مرقع سے ہوئی ہے۔

چونکہ چوتھی سے چھٹی عیسوی تک اس علاقہ میں افتھلائی قبیلے کا راج قائم رہا ہے لہٰذا اس دوران افتھلائی اور مقامی ترک قبیلوں کے اشتراک سے افتھلائی ترک قوم وجود میں آئی۔ جو اوگُز ترکوں کے نام سے جانی گئی۔ اوگُزوں کا مرکز ینگیقند شہر تھا۔ ان اوگُزوں نے آٹھویں صدی عیسوی کے بعد دریائے سیر کے نچلے حصوں میں آباد ترک قبیلوں کے ساتھ مل کر ایک طاقتور سنگھ بنا لیا تھا۔ اَرال ساگر کے علاقوں میں پیچے نیگ قبیلوں کا اتحاد قائم ہوا۔ استیپی کے ترک قبیلے جن میں ایک قفچاک قبیلہ بھی تھا، خوارزمی، سوغدیانی، مساغات اور شکوں کی اولاد تھے۔ یہ ترک قبیلے ماورا ا لنہر علاقے کی زرفشان، فرغانہ، چاچ اور خوارزم کی وادیوں میں آ کر بس گئے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ مقامی کسانوں کے ساتھ ساتھ پوری طرح گھُل مل گئے اور اپنی زبان (ایرانی)کو چھوڑ کر ان کے رسم و رواج اور رہن سہن کے طور طریقوں کو پوری طرح اپنا لیا۔ ان کے ساتھ رہ کر مقامی کسان بھی ترک قبیلوں کی ترکی زبان بولنے لگے۔ گیارہویں اور بارہویں صدی میں ان استیپی ترک قبیلوں اور مقامی کسانوں کے اشتراک سے آمو دریا اور سیر دریا کے درمیان کے علاقے میں اوزبیک ترک قوم کی ابتدا ہوئی۔

گیارہویں صدی میں کاشغر اور جیتیصب کے علاقہ میں ایک طاقت ور ترک شہنشاہیت’ ’قراخاند‘‘ کی بنیاد پڑی جس کی سرحدیں ماوراء النہر سے لے کر موجودہ قزاکستان کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھیں ۔ اسی زمانے میں وسطی ایشیا کے مشرقی اور مغربی علاقوں کی قبیلائی قوموں کا اشتراک بھی شروع ہوا۔ جیتی صُب اور دریائے سیر کے آس پاس چاچ علاقے میں کئی ترک قبیلے بسے ہوئے تھے ان میں سب سے بڑا اور طاقتور ترک قبیلہ’ ’کر لُوک‘‘ تھا۔ جو تلس ندی کی وادی سے طارم ندی تک پھیلا ہوا تھا۔ اس قبیلے کے لوگ بہت تہذیب یافتہ تھے اور شہر و مواضعات میں رہ کر مویشی پالن اور کھیتی باڑی کرتے تھے۔ دوسرا بڑا ترک قبیلہ’ چغِل‘ تھا جو اسّیق کول جھیل کے شمال مشرق میں بسا تھا۔ ایک اور ترک قبیلہ’ ’یاگمہ‘‘ اسّیق کول جھیل کے جنوب میں آباد تھا۔

ترکمانوں کی ابتدا ارال کیسپین استیپی کے داخوں اور مساغاتوں کے باہمی اشتراک سے ہوئی۔ ان کی تشکیل میں او گُزوں کا اثر پہلے ہی پڑ چکا تھا۔ گیارہویں صدی میں دریائے سیر کے نچلے کنارے کے او گزوں اور قراخانیوں کی آپسی جھڑپوں کے دوران سلجوقیوں کی ابتدا  ہوئی۔ سلجوقیوں نے قراخانی اور اوگز علاقہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلجوق و اوگُز سیر دریا کے علاقے سے موجودہ ترکمینستان کے علاقہ میں داخل ہوئے۔ جو آگے چل کر عثمانی ترک کہلائے۔ اس درمیان میں پیچینیگوں کے ساتھ بھی اوگزوں کا ایک حصہ ملا جس نے ارال ساگر کے علاقے اِرتِش سے آئے ہوئے قفچاکوں سے مل کر’ ’قراکلپاک ‘‘ترک قوم کی بنیاد ڈالی۔

۱۰؍ ویں اور ۱۱؍ ویں صدی میں قفچاکوں نے موجودہ مغربی اور وسطی قزاکستان میں استیپی ترک قبیلوں کے کئی سنگھ قائم کر لیے تھے۔ استیپی کے ان ترک قبیلوں اور قفچاکوں کے اشتراک سے’ ’قزاق‘‘ قوم کی ابتدا ہوئی۔ کوہ تیانشان کے مشرق میں آباد ترک قبیلوں (جن میں قفچاک بھی شامل تھے)نے نویں اور دسویں صدی میں بالائی ینی سیئی میں اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ ینی سیئی سے یہ ترک قبیلے وسطی ایشیا میں ان علاقوں تک بڑھ آئے تھے جہاں آج موجودہ قرگستان واقع ہے۔ وہ یہاں کی مقامی آبادی کے ساتھ گھل مل گئے اور ان کے باہمی اشتراک سے’’ قرگز ‘‘قوم کی ابتدا ہوئی۔ وسطی ایشیا کے ان قِرگِزوں پر مقامی آبادی کے علاوہ الطائی، اِرتِش اور یُغور لوگوں کا ثقافتی اثر بھی دکھائی دیتا ہے۔

ینی سیئی (Yenisei)کے ترک قبیلوں کی روسی لوگوں سے مڈبھیڑیں ہوئیں ۔ بعدہٗ ا ن کا بڑا حصہ اس وقت جنگاریہ میں بس گیا اور دوسرا سائبیریا کے خاکاسیوں اور طوبانوں میں گھل مل گیا۔ وسطی اور مغربی سائبیرین علاقہ کے ترک قبیلوں اور موجودہ قزاکستانی علاقہ کے ترک قبیلوں کے درمیان لڑائیاں چلتی رہتی تھیں ۔ جس کی وجہ سے دونوں طرف کے بہت سے لوگ قیدی بنا لیے جاتے تھے۔

ان علاقوں میں اسلام مذہب کے آنے کے بعد  دونوں طرف کے قیدی بھی مسلمان ہو گئے۔ ان مسلمان سائبیرین ترکوں اور قزاق ترکوں کے اشتراک سے پیدا ہوئی اولادیں تاتاری ترکوں کے نام سے جانی گئیں ۔ آگے چل کر تاتاری ترکوں نے تاتارستان میں اپنی حکومت قائم کی۔ تاتاری ترک اپنے علاقوں کی بنیاد پر سائبیرین تاتار بولگا تاتار (قزان تاتار)اور کریمین تاتار کہلائے۔ مشرقی ترکستانی علاقوں میں آباد تاتاری نسل کے مونگولوں اور تاتار ی ترکوں کے باہمی اشتراک سے یغور ترک قوم وجود میں آئی۔

مغربی سمت کے دور دراز سے آنے والے خانہ بدوش قراقطائیوں نے بارہویں صدی میں جیتی صُب میں ایک حکومت قائم کر لی۔ بعد میں ماوراء النہرپر بھی قبضہ کر لیا اور اپنے ترک قبیلے کا ایک حصہ ماورا النہر میں آباد کر دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قبیلے نے مقامی ترکی زبان اپنا لی اور مقامی لوگوں کے اشتراک سے وہ قطائی ترک مشہور ہوئے۔

قراقطائیوں کی حکومت بہت دنوں تک نہیں رہی اور ان کی جگہ خوارزم شاہی ترکوں نے لے لی۔ خوارزم شاہوں نے وسطی ایشیا میں سلجوقی سلطنت کو ختم کر کے خوارزم شاہی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ جس میں وسطی ایشیا کے ساتھ خراسان (موجودہ افغانستان کا زیادہ تر حصہ)ایران اور آزربائیجان  کے علاقے بھی شامل تھے۔

 

               وسطی ایشیا کے علاقوں پر غیر ترکی حکومتیں

 

عربوں کا اقتدار:

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے چار خلفاء کی کوششوں سے چاروں طرف اسلام پھیلنے لگا تھا۔ ۶۳۲ء تک فلسطین اور شام (Syria)دونوں ممالک میں اسلام کی مقبولیت عام ہو چکی تھی۔ عرب جنگجوؤں نے ۶۳۹ء میں ایران، ۶۴۴ء سے۶۵۵ء کے درمیان غزنی اور کابل کو فتح کر لیا تھا۔ ساتویں صدی کے آخر تک وسطی ایشیا میں خگان صوبے کے زیادہ تر مغربی علاقوں پر عربوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ قدیم زمانے سے ترک قبیلوں اور چینیوں کے درمیان لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں ۔ چین نے ترک قبیلوں کے حملوں سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر مشہور ’’چین کی دیوار‘‘ تعمیر کرائی تھی۔ آٹھویں صدی کی شروعات میں چینیوں نے ترکوں پر آخری بار ایک بڑا حملہ کیا۔ ترکوں نے خلیفہ بغداد (خلافت عباسیہ بغداد۸؎ )سے عباسی خلیفہ نے خراسان کے گورنر عرب جنرل قطیبہ بن مسلم کو ترکوں کی مدد کے لیے ان کے ساتھ چین کے خلاف جنگ کرنے بھیجا۔ آٹھویں صدی کے وسط میں تقریباً ۷۵۱ء میں عربوں اور ترکوں کی مشترکہ فوج نے’ ’تالاس‘‘ کے میدان میں چینی لشکر کو شکست دے کر کاشغر سے خوجند، یارقند اور تُرفان تک کے چینی قبضے والے ترک قبائلی علاقوں کو آزاد کرالیا۔ قطیبہ بن مسلم کی افواج کاشغر کے شمال میں بھی شاش(تاشقند) تک پہنچی۔ اس فتح کے ساتھ ہی ترکستانی علاقوں میں اسلام کی شروعات ہوئی۔ بعدہٗ وہاں اسلام مذہب میں دینی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے قطیبہ بن مسلم نے عرب شیخوں ، خواجاؤں ، سرداروں ، فوجیوں ، اساتذہ اور ان کے خاندانوں کو سمرقند، بخارا، کاشغر، خوجند اور اور آس پاس کے علاقوں میں بسادیا۔ اسی دوران نئے عباسی خلیفہ نے عہدہ کا حلف لیتے ہی قطیبہ بن مسلم کو فاتح ترک علاقوں سے فوراً واپس آنے کا حکم دیا۔ قطیبہ بن مسلم نے واپسی سے انکار کر دیا۔ حالانکہ بد قسمتی سے کچھ دن بعد ہی اس کی فوج نے اسے مار ڈالا۔ اس کی موت کے بعد عباسی خلیفہ فاتح ترک علاقوں پر حکومت کرنے کے لیے عرب گورنروں کی تقرری کرتے رہے۔

(The wonder that was India, Part 2, S.S.A. Rizwi, p.12,22,23,24)

 

شیخ:

پیشوا قوم، عرب قبیلوں کے عالم دین امیر و سردار، ۵۰ سال سے زیادہ عمر کے عربی بزرگ اور عالم د ین، شیخ قوم کے لوگ۔ (اردو لغت تاریخی اصول پر، حصہ XII)

٭       عرب علاقوں سے بہت سے درباری امیر، فوجی افسر، تجارتی انجینئر، عالم دین و صوفی بزرگ جنوبی ایشیاء آئے اور یہیں آباد ہو گئے۔ ان کی اولادیں آج بھی شیخوں کے نام سے جانی جاتی ہیں ۔

٭       جنوبی ایشیا میں عرب نسل کے لوگوں کے علاوہ ہندوستانی برادریوں سے مسلمان ہوئے عالم دین کو’ شیخ‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ آگے چل کر ان کی اولادیں شیخ زادوں کے نام سے مشہور ہوئیں ۔

 

شیخ قوم:

٭       ترک، مُغل اور پٹھانوں کی طرح ایک قوم جو عرب علاقوں میں رہنے والے اور عربی زبان بولنے والے مسلمانوں کی قوم ہے۔

٭       شیخ قوم میں عرب علاقوں کے عربی بولنے والے سبھی قبیلوں کے لوگ شامل ہیں ۔

بانیِ اسلام حضرت محمد ؐ  کے قبیلے اور گھرانے کے لوگ (قریش، ہاشمی)، ان کی بیٹی سیدہ فاطمہؓ اور بھتیجے و داماد علیؓ  کے صاحبزادے حسنؓ و حسینؓاور ان کی اولادیں (فاطمی، حسنی وحسینی جوسیّد کے طور پر بھی مشہور ہیں) ان کے چچاؤں و خلفائے راشدین کے خاندان کے لوگ (شیخ عباسی، شیخ صدیقی، شیخ فاروقی، شیخ عثمانی وغیرہ)اور شیخ انصار۹؎  بھی’ شیخ قوم‘ ہیں ۔             یعنی ان تمام گھرانوں /خاندانوں کا ہر فرد شیخ قوم سے ہے مگر شیخ قوم کا ہر فرد اِن گھرانوں / خاندانوں سے نہیں ہے۔

٭       محمود احمد عباسیؔ نے اپنی کتاب تاریخ امروہہ کے صفحہ ۲۴ پر لکھا ہے کہ عرب وسطی ایشیا اور افغانستان سے ہندوستان آنے والے لوگ مقامی ہندو ذاتوں کی طرح شیخ، سید، مغل اور پٹھانوں میں بٹ گئے۔

یہ پوری طرح سچ نہیں ہے کیونکہ(۱) ان علاقوں سے ہندوستان آنے والے لوگ شیخ، ترک اور پٹھان قوم تھے۔ مصنف نے غالباً وسط ایشیا سے آنے وا لی بڑی ترک قوم کو’ مغل‘ لکھا ہے جب کہ اس دور میں مغل قوم کے لوگوں کی تعداد ہندوستان میں نہیں کے برابر تھی۔ وسط ایشیائی ترکوں میں مغل نسل کے ترک (مغلیہ ترک)عام طور پر ہندوستان میں غلط فہمی سے مغل کہلائے جاتے رہے ہیں ۔ غالباً اسی لیے مصنف نے بھی مغل اور ترک میں تفریق نہیں کی(۲) سید الگ سے قوم نہیں جیسا کہ مصنف نے بیان کیا ہے بلکہ مکہ میں شیخ قوم کے ہی ایک مخصوص خاندان کی اولادوں کو سید کہنے کا رواج چل نکلا۔

٭       خلافت اسلامیہ کے چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ اور ان کی زوجہ سیدہ فاطمہؓ (حضرت محمدؐ کی بیٹی)کے صاحبزادوں حسن اور حسین کی شادیاں آخری ساسانی (ایرانی)شہنشاہ کی شہزادیوں کے ساتھ ہوئی تھیں اور ان کا شجرہ بھی انہیں شہزادیوں سے آگے بڑھا۔ لہٰذا ایرانیوں کو یہ فخر ہوا کہ حسنؓ و حسین ؓ کی اولادوں میں ایرانی خون بھی شامل ہے۔ عربوں کی بالادستی کو ختم کرنے اور اپنے قومی وقار کو بڑھانے کے لیے ایرانیوں نے علی ؓ، فاطمہؓ حسن و حسین کو اپنا پیشوا مانا اور شیعہ کہلائے۔ اس ناطے ایرانیوں کی شیعہ اولادوں نے خود کو سید کہلانے کا سلسلہ شروع کیا۔

٭       شروعات میں وسطی ایشیائی علاقوں میں شیخ قوم کے عالموں کو اسلام پھیلانے میں کافی پریشانی اٹھانی پڑی۔ پرانے زمانے سے جو ترک قبیلے آپس میں لڑتے چلے آرہے تھے اسلام کے ایک قومی نظریے سے شیخ عالموں کو ان میں یکجہتی قائم کرنے میں مدد ملی۔ اور اس طرح اسلام کے ساتھ ساتھ عربی زبان کا فروغ بھی ہوا۔ آگے چل کر جلد ہی عربی زبان سرکاری زبان ہو گئی۔ سائنس اور فلاسفی بھی عربی زبان میں پڑھائی جانے لگی۔ حالانکہ عام ترک لوگ ترکی زبانوں کا ہی استعمال کرتے رہے۔

 

خوجہ و خواجہ اور شیخ خواجہ و شیخ ترک:

٭       فارسی الفاظ’ خوجہ‘ و’ خواجہ‘ اور ترکی لفظ’ خوجہ‘ کے معنی سردار، مالک، حاکم اور آقا کے ہیں ۔ خلافت اسلامیہ کے دور میں عرب علاقوں سے خراسان آنے والے شیخ قوم کے عالم دین امیر و سردار بھی خواجہ کہلائے۔

٭       آٹھویں صدی میں یہ خواجہ لوگ جب خراسان سے وسطی ایشیا گئے اور وہاں اسلام پھیلایا تو وہاں شیخ خواجاؤں کے نام سے مشہور ہوئے۔

٭       عربوں کے بعد وسطی ایشیا پر ایرانیوں کی اور بارہویں صدی شروع ہوتے ہی وہاں خود ترکوں کی حکومت قائم ہو گئی جو تقریباً ۱۲۵سال تک قائم رہی۔ ترک حکومت کے دوران وسطی ایشیا میں شیخ خواجاؤں اور وہاں پیدا ہوئی ان کی اولادوں نے مقامی ترک قبیلوں کے ساتھ گھل مل کر پوری طرح سے ترکوں کے رہن سہن و رسم و رواج کو اختیار کر لیا اور ترکوں میں شمار ہونے لگے۔ اور اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ ان شیخ نسل کے ترکوں اور مقامی ترک قبیلوں کے لوگوں اور سرداروں کے اشتراک سے’ شیخ ترک‘ قوم وجود میں آئی۔ شیخ ترک قوم کے شیخ خواجاؤں میں سے وہ لوگ جو ہندوستان کی ترک سلطنتوں کے دور میں وسطی ایشیا سے ہندوستان آئے عام طور پر شیخ ترک قوم کے’ خواجہ ترک‘ یا’ خوجہ ترک‘ کہلائے۔ مگر عالِم دین صوفی۱۰؎  حضرات شیخ خواجہ ہی مشہور ہوئے۔ شیخ ترک قوم کے وہ لوگ جن کا شجرہ مکہ میں سیّد خاندان سے جا کر ملتا تھا شیخ خواجہ کے بجائے سید خواجہ بھی کہلائے۔ عالمی شہرت یافتہ صوفی حضرات شیخ /سید خواجہ معین الدین چشتیؒ۱۱؎ ، شیخ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ۱۲؎ ، شیخ سید خواجہ نظام الدین اولیاؒ۱۳؎ ’ شیخ ترک قوم‘ سے تھے۔ ترک سلطنتوں کے دور میں جنوبی ایشیا (افغاستان، پاکستان، بھارت و بنگلہ دیش)میں اسلام پھیلانے کا سہراکسی حد تک شیخ ترک نسل کے ان صوفی شیخ خواجاؤں کو بھی جاتا ہے۔

٭       Shaikh Khwajas are multi ethnic community partly descended from Arabs and Turks who historically travelled to South Asia during Turk Sultanats. (History of India, E.W. Thompson)

ترجمہ: ہندوستان میں شیخ خواجہ عرب ترک نسل کے وہ  لوگ ہیں جو ترک سلطنتوں کے دور میں وسطی ایشیا سے جنوبی ایشیا (موجودہ بنگلہ دیش، ہندوستان، پاکستان و افغانستان)آئے اور یہیں بس گئے۔

٭       ترک سلطنت میں’ خواجہ‘ ایک منصب بھی رہا ہے جو اتالیق کے مساوی تھا۔ شاہی خاندان کے لوگوں کو فوجی تعلیم و ٹریننگ دینے کے ساتھ ساتھ انھیں شریعت اسلامی کے مطابق حکومت کرنے کی ہدایات دینے نیز اسلام مذہب اور اسلامی ادب کی تعلیم دینے کے بہ موجب شیخ ترکوں کو خواجہ کا  منصب دیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیخ ترک خواجاؤں کی اولادیں بھی خود کو خواجہ کہنے لگیں اور اس منصب و عہدے سے ترک قوم کی پہچان بھی وابستہ ہو گئی۔

٭       ترک سلطنتوں میں وزیر اعظم کے بعد قاضی کا عہدہ ہوتا تھا۔ جو تمام عدالتوں کا صدر ہوتا تھا۔ سلجوقی ترک سلطنت میں قاضی دو اور عہدیداروں کی تقرری کرتا تھا جو’ خواجہ‘ و’ مفتی‘ کہلاتے تھے۔ مفتیوں کے عہدے پر زیادہ تر شیخ قوم کے ایسے عالم و فاضل لوگوں کی تقرری ہوتی تھی جو حضرت محمدؐ کے خاندان یا خلفائے راشدین کے خاندان یا ان کے بعد کے دوسرے خلفاء کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جب کہ خواجہ کے عہدے پر عربی ترکی زبان کے ماہر شیخ ترکوں کو ترجیح دی جاتی تھی۔

٭       دہلی ترک سلطنت میں سلطان وزیر کی سفارش سے خواجہ مقرر کرتا تھا۔ ہر ایک صوبے میں ایک خواجہ کی تقرری ہوتی تھی۔ خواجہ حالانکہ صوبے دار کے ماتحت ہوتا تھا لیکن بادشاہ کے ذریعہ مقرر ہونے اور فوج کے حساب پر کنٹرول رکھنے کی وجہ سے اسے خاص حقوق حاصل ہوتے تھے۔ (تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی)

٭       مسلم دور میں ہر شعبے کے ماہرین اور معزز لوگوں کو خواجہ کے لقب سے بھی نوازا جاتا رہا ہے۔ جیسے ڈھاکہ کے پہلے نواب سر خواجہ عبدالغنی میاں  پاکستان کے گورنر جنرل جو بعد میں پاکستا ن کے وزیر اعظم بھی ہوئے، سر خواجہ نظام الدین وغیرہ۔

٭       توران میں کچھ سادات کو بھی’ خوجہ‘ کے لقب سے نوازا جاتا تھا۔

(History of India, E.W. Thompsan / The free Encyclopedia / Wikipedia)

٭       چودہویں صدی میں ایران کے کچھ سادات خود کو’ خوجے‘  خواجاؤں کے نام سے مشہو کہنے لگے تھے۔ بعد میں شیعہ فرقہ’ نظاریہ‘ و’ اسمٰعیلیہ ‘ کی ایک شاخ کا نام’ خوجے۱۴؎ ‘ پڑا۔ جس کا بانی’ نور عین شاہ‘ (نورست گرُو) تھا۔

٭       پاشا:  عثمانی ترک سلطنت میں سب سے پہلے فوج کے سپہ سالار کو پاشا کہا گیا۔ بعد میں پاشا سلطانوں کے ان خاص لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا جو قلعہ دار مقرر ہوتے تھے۔ یہ قلعے کسی نہ کسی صوبے سے جڑے ہوتے تھے لہٰذا قلعہ دار ہی صوبے دار بھی ہوتے تھے۔ ان صوبے داروں کو بھی پاشا کا نام دیا گیا۔

٭       عثمانی سلطانوں نے بحری بیڑے کے بڑے ایڈمرل کو کپتان پاشا کا نام دیا اور اپنے ماتحت مصر کے حکمرانوں کو بھی پاشا کے خطاب سے نوازا۔

٭       عثمانی سلطانوں نے سلطنت کے عیسائی و مسلمان اونچے عہدیداروں کو جنھوں نے سلطنت کے وفادار رہ کر خصوصی خدمات انجام دیں ۔ ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی جنھوں نے سلطنت سے الگ رہ کر کسی بھی شعبے میں مخصوص خدمات انجام دیں پاشا کے خطاب سے نوازا۔ جیسے محمدعلی پاشا(مصر کے وائس رائے)ریاض پاشا (مصر کے سفیر)جوڈار پاشا(مورقّن جنرل)، لی مین وان سینڈرس پاشا، گارڈن پاشا، اسٹون پاشا وغیرہ۔ بعد میں ان پاشاؤں کی اولادیں بھی پاشا کہلائیں ۔ اور اس طرح پاشا بھی ترک قوم کی پہچان بن گئی۔

 

ایران کے سامانی خاندان کی حکومت:

وسطی ایشیا کے ترک علاقوں پر عربوں کے بعد ۸۷۴ء میں ایران کے’ نصر سامانی‘ نے سامانی خاندان کی حکومت قائم کی۔ اس سلطنت میں ماوراء النہر کے علاوہ خراسان کے علاقے بھی شامل تھے۔ سامانی سلطنت کا سب سے خاص حکمراں اسمٰعیل سامانی (۹۰۷۔۸۹۲ء)  ہوا۔ سامانی سلطنت ۱۰۰۵ء تک قائم رہی۔

سامانی حکومت کے دوران وسطی ایشیائی اور خراسانی علاقوں میں فارسی زبان کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ عربوں کے دور میں یہاں سرکاری و غیر سرکاری کاموں میں عربی زبان کا استعمال کیا جانے لگا تھا۔ سامانی دور میں فارسی زبان نے عربی کی جگہ لے لی تھی۔ مذہبی کتابیں شعرو شاعری اور دیگر تحریری کام فارسی زبان میں ہونے لگے تھے۔ سامانی سلطنت کا دارالحکومت بخارا تھا۔ بخارا نے اس دور میں تعلیم، تجارت، زراعت، تہذیب اور ثقافت کے میدان میں بہت ترقی کی۔ وہ دنیا کے سب سے تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہونے لگا تھا۔ بخارا کے ساتھ ساتھ سمرقند، خوارزم، بلخ، مرو، ہرات، نیشاپور اور رے سامانی سلطنت کے سب سے بڑے اور خوشحال شہر تھے۔ اس دور کا ایک مشہور سیاح’ ’مقدّسی‘‘ لکھتا ہے کہ’ ’سارے مشرق میں سمرقند جیسا پھلتا پھولتا دوسرا کوئی شہر نہیں ۔ نیشاپور سب سے عالی شان شہر ہے۔ اسلامی دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں ۔ بلخ تو خراسان کی جنت ہے۔ شہر باغات سے گھرا ہوا ہے اور نہروں کا جال بچھا ہوا ہے۔’ رے‘ کی خوبصورتی اور صفائی بے مثال ہے۔ یہاں پر ہر حاکم عالم ہے۔ بعد میں جب سامانی حکومت بغاوتوں کا شکار ہو گئی تو خراسان میں سامانی سلطنت کا گورنر ترک سپہ سالار اَلَپتگین سامانی سلطنت سے الگ ہو کر غزنی چلا گیا اور ۹۶۲ء میں وہاں اپنی آزاد حکومت قائم کر لی۔ ۱۰۰۵ء میں سمر قند اور بخارا پر کاشغر کے ترک بادشاہ’ ایلق خاں ‘ نے قبضہ کر کے سمرقند کو راجدھانی بنا لیا اور اس طرح سامانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔

 

مونگول حکومت:

۱۲۱۹ء میں چنگیز خاں کے مونگول لشکر کا وسطی ایشیا کے ترک علاقوں پر قبضہ شروع ہو گیا تھا۔ ۱۲۲۰ء تک چنگیز خاں نے وسطی ایشیا کی خوارزم شاہی ترک سلطنت کا پوری طرح سے خاتمہ کر دیا۔ ۱۲۲۷ء میں چنگیز خاں کی موت کے بعد وسطی ایشیا کے مغربی اور مشرقی حصے پر اس کے بیٹے چغتائی خاں نے اور وسطی ایشیا کے شمال اور سائبیریا علاقے پر اس کے پوتے باطو خاں بن جوجی خاں نے حکومت کی۔ ۱۲۴۲ء میں چغتائی خاں کی موت کے بعد اس کے خاندان کے لوگوں نے ۱۳۶۱ء تک وسطی ایشیا کے مغربی حصے (ماوراء النہر علاقے)پر حکومت کی۔ ۱۳۶۱ء میں امیر تیمور نے پورے ماورا النہر علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ وسطی ایشیا کے مشرقی علاقے (مشرقی ترکستان) پر تقریباً ۱۵۶۵ء تک چغتائی خانیوں کا قبضہ رہا۔

گولڈن ہورڈمونگول خانی حکومت پر ۱۲۵۶ء تک باطو خاں کا قبضہ رہا۔ ا س کی موت کے بعد اس کے خاندان کے لوگوں نے ۱۵۰۲ء تک گولڈن ہورڈ کی’ سرائے سلطنت‘ پر حکومت کی۔ ۱۲۲۷ء میں چنگیز خاں کی موت کے بعد وسطی ایشیا کی مذکورہ بالا دونوں حکومتیں مونگول خانی سلطنتوں کے طور پر قائم ہوئی تھیں ۔ تقریباً ۱۰۰ سال بعد ہی ان مونگول خانی حکومتوں کے مونگول خان اور سپہ سالار دیگر مونگولوں کے ساتھ مسلمان ہونے لگے۔ ان مسلمان مونگول خانوں اور سپہ سالاروں کی وسطی ایشیا میں پیدا ہوئی ترکی زبان بولنے وا لی نسلیں ترکوں کے رہن سہن اور رسم و رواج اپنا کر مقامی ترکوں میں گھُل مل گئیں اور دونوں مونگول خانی حکومتیں مغل خانی ترک سلطنتوں میں شمار ہونے لگیں ۔

 

               ترک قبائل کے ساتھ عربوں ، ایرانیوں اور مونگولوں کا قومی اشتراک

 

شیخ ترک:

آٹھویں صدی کے وسط تک وسطی ایشیا کے ترک علاقوں پر عربوں کا قبضہ ہو گیا تھا اور اسی کے ساتھ وہاں اسلام مذہب کا آغاز ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ وسطی ایشیا میں پیدا ہوئیں شیخ قوم اور ان کے خاندان مقامی ترک قبیلوں میں پوری طرح سے گھل مل گئے۔ انھوں نے ترکوں کے رسم و رواج، رہن سہن اور ترکی زبانوں کو اپنا لیا اور ترکوں میں شمار ہونے لگے۔ ان عرب النسل لوگوں کی ترک اولادوں ، مقامی ترک قبیلوں اور ا ن کے سرداروں کی اولادوں کے اشتراک سے شیخ ترک قوم وجود میں آئی۔

 

مشرقی ترکستان میں شیخ ترک خواجاؤں کی حکومت:

مغربی ترکستان میں چغتائی خانی حکومت ایک مونگول خانی حکومت کے طور پر قائم ہوئی تھی۔ ۱۴ویں صدی کے وسط تک یہ چغتائی مونگول خانی حکومت مغربی اور مشرقی  مغل خانی سلطنتوں میں تقسیم ہو گئی۔ ۱۴ویں صدی کے آخر میں مغربی مونگول خانی سلطنت  پر امیر تیمور نے اپنی حکومت قائم کر لی اور سمرقند کو دارالحکومت بنایا۔ مشرقی مغل خانی حصے پر بہت دنوں تک مسلمان چغتائی خانیوں کا قبضہ قائم رہا اور ان کا دارالحکومت کاشغر رہا۔ ۱۶ویں صدی کے وسط کے بعد کاشغر کی یہ مغل خانی حکومت بھی چار حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ یہ منقسم چار حصے کاشغر، یارقند، خوتان اور عکسو تھے۔ ان چاروں حصوں کے مسلمان مغل خانی حکمرانوں نے حکومت کے سارے اختیارات کاشغر کے شیخ ترک قوم کے طاقتور  شیخ خواجاؤں کو دے دیئے۔

بعد میں یہ شیخ خواجہ خود بھی دو حصوں’ آق تغلق‘ اور’  قرا تغلق‘ میں تقسیم ہو گئے۔ ۱۷ویں صدی کے آخر میں چغتائی مغل خانی ترکوں نے آق تغلق خواجہ سردار کو ہٹا کر پھر سے اپنا قبضہ کرنے کی کوشش کی تو آق تغلق سردار نے جنگارؤں سے مدد لے کر کاشغر پر حملہ کر دیا اور وہاں کے مغل خانی حکمراں کو گرفتار کر کے قیدی بنالیا۔ جنگارؤں نے یارقند میں قرا تغلقوں کے خلاف بھی آق تغلقوں کی مدد کی۔ کچھ دنوں بعد ہی جنگارؤں نے طُرفان کی مغل خانی حکومت بھی اپنے قبضے میں لے لی۔

طارم وادی بھی ۱۸ویں صدی کے وسط تک جنگارؤں کے قبضے میں رہی لیکن جنگارؤں کے ماتحت رہ کر شیخ ترک قوم کے شیخ خواجہ ہی وہاں حکومت کرتے رہے۔ بعد میں جنگارؤں کے ساتھ ایک لمبی لڑائی میں چین کے مانچوقنگ شہنشاہوں نے مشرقی ترکستان کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا۔ ۱۷۵۷ء میں قنگ شہنشاہ نے قُلجا پر حملہ کر کے پورے جنگار صوبے پر قبضہ جما لیا اور اگلے دو سالوں میں جنگارؤں کے تمام باقیات کو مٹا دیا۔ مگر انھوں نے شیخ ترک شاہی خاندان کے شیخ خواجاؤں کو اپنے زیرِ نگرانی وہاں کا حاکم بنے رہنے دیا۔

۱۷۵۹ء میں آخر کار اس نظام کے خلاف زبردست بغاوت ہو گئی۔ مجبور ہو کر چینی شہنشاہ نے جنگاریا اور طارم وادی دونوں علاقوں کو سیدھے اپنے فوجی کنٹرول میں لے لیا۔ ۱۷۶۰ء میں طارم وادی پر قبضہ کرنے کے بعد چین نے کاشغر، یار قِند اور خوتان پر بھی قبضہ کر لیا۔ یہاں کے حکمراں شیخ خواجہ برہان الدین اور اس کے بھائی شیخ خواجہ جہاں نے بھاگ کر بدخشاں میں پناہ لی۔ لیکن بدخشاں کے حکمراں امیر سلطان نے چینی دھمکی پر دونوں بھائیوں کو قتل کر کے ان کے سر چین بھیج دیئے۔ اور خواجہ جہاں کی بیوی دلشاد جہاں سلطان کو بھی چین بھیج دیا۔ جہاں اسے چینی شہنشاہ کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کرنے پر مار ڈالا گیا۔ اس فوجی لڑائی میں شیخ خواجاؤں کے بہت سے امیر، سردار، درباری و ہزاروں سپاہی مارے گئے اور دوسرے بہت سے محفوظ ترک سلطنتوں کی طرف بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ چونکہ مغربی ترکستان میں ۱۷۳۰ء سے ہی موجودہ قزاکستان کے استیپی علاقوں سے لے کر ترکستان شہر کے علاقہ تک زار شاہی روس ۱۵ ؎ کا پھیلاؤ شروع ہو چکا تھا۔ لہٰذا مشرقی ترکستان سے ہزاروں کی تعد۱

٭ نے اسلام پر حملہ کرنے     اد میں شیخ خواجہ و دوسرے ترک ہندوستان کی طرف بھاگ نکلے۔

(ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ، جلد دو، ثروت صولت، ص ۴۲۸۔۴۲۹)

 

تاجک:

۸۷۴ء میں ایران کے سامانیوں نے وسط ایشیا میں عربوں کے قبضے والے ترک علاقوں پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ سامانی سلطنت میں ماوراء النہر اور خراسان کے علاقے شامل تھے۔ یہ سلطنت تقریباً ۱۲۵برس تک قائم رہی۔ اس سلطنت کے دور میں وسط ایشیا کے تقریباً سبھی علاقوں میں اسلام پھیل چکا تھا۔ عربی اور ترکی زبان کے مقابلے میں فارسی کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ جس سے فارسی زبان کی بہت ترقی ہوئی۔ وسطی ایشیا کے موجودہ ترکمینستان اور آزربائیجان کی سرحدیں اس وقت ایران کی سرحدوں سے ملتی تھیں ۔ لہٰذا ان  کے سرحدی علاقوں کے مقامی ترک قبیلوں اور ایرانیوں کے اشتراک سے تاجک قوم وجود میں آئی۔

ایران سے سرحد ملی ہونے کی وجہ سے تاجک اپنے رنگ روپ اور بناوٹ میں ترکوں کے مقابلے ایرانیوں سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ انھوں نے فارسی کو مادری زبان اور ترکی کو دوسری زبان کے طور پر اپنایا۔ ساتھ ہی ساتھ ایرانیوں کے رسم و رواج اور مذہب اور رہن سہن کو بھی اپنا لیا۔ لہٰذا مادری زبان ترکی نہ ہونے کی وجہ سے ترخانوں  ۱۶؎ کی طرح تاجک بھی ترکوں میں شمار نہیں ہوتے۔ موجودہ وقت میں زیادہ تر تاجک وسط ایشیا کے تاجکستان علاقہ میں آباد ہیں ۔ ایران میں ترک نژاد قزلباش ۱۷؎  بھی ترکوں میں شمار نہیں کیے جاتے۔

یُغور ترک:

نویں صدی کے شروع میں مونگولوں نے چین پر قبضہ کر لیا اور مشرقی ترکستان کی طارم وادی کے علاقہ کو بھی تبّت کے قبضے سے آزاد کرا لیا۔ چین پر قبضہ کرنے والی مونگول فوج میں تاتاری ترکوں کے ساتھ ساتھ بہت سے تاتار النسل مونگول فوجی بھی تھے جن کے بزرگ ماضی میں مونگول علاقے میں آباد ہو گئے تھے جو مونگولوں کے رہن سہن زبان اور رسم و رواج کو اپنا چکے تھے۔ مونگول فوج کے تاتاری النسل یہ لوگ چینی علاقوں سے نقل مکانی کرنے کے بعد مشرقی  ترکستا ن کے علاقوں میں آباد ہو گئے اور ان میں سے کچھ پہلے ہی مسلمان ہو گئے تھے باقی یہاں آ کر مسلمان ہو گئے۔ مقامی تاتاری ترکوں اور تاتاری نسل کے مونگولوں کی ملی جلی نسلیں یغور (Ughur)ترکوں کے نام سے مشہور ہوئیں ۔

 

مغل خانی ترک:

۱۲۲۷ء میں چنگیز خاں کی موت کے بعد وسط ایشیا کے ماوراء النہر، کاشغر و طارم وادی کے علاقے چنگیز خاں کے بیٹے چغتائی خاں کو ملے۔ اس چغتائی خانی سلطنت کے مونگول اور ان کے حکمراں خان اس سلطنت کے قیام کے بعد تقریباً ۱۰۰سال کے اندر مسلمان ہو گئے۔ اور ان کی اولادیں مقامی مسلمان ترک قبیلوں کے ساتھ گھل مل گئیں ۔ ترکوں کے رسم و رواج رہن سہن اور ترکی زبانوں کو بھی اپنا لیا اور ترکوں میں شمار ہو گئیں ۔ اسی اشتراک سے ایک مغل خانی قوم،’ چغتائی خانی‘۱۸؎  وجود میں آئی۔ اٹھارہویں صدی کے آخر تک کاشغر اور طارم وادی علاقہ میں یہ مغل خانی چغتائی ترک حکومت قائم رہی۔

چودہویں صدی کے شروع میں گولڈن ہورڈ (سنہری اور دا) کی’ ’سرائے‘‘ سلطنت کے مغل خانی ( مغل لفظ مونگول کا فارسی متبادل ہے )مسلمان حکمراں محمد ازبیک خاں ۱۹؎  کی اولادوں اور مقامی ازبیک ترکوں کے اشتراک سے مغل خانی ازبیک ترک قوم وجود میں آئی۔

سولہویں صدی کے شروع میں وسط ایشیا میں مغل خانی ازبیکوں کی ایک اور قوم وجود میں آئی۔ جب گولڈن ہورڈ کی سرائے سلطنت ختم ہوئی تومونگول حکمراں جوجی خاں کی نسل میں سے شہزادہ ابوالخیر نے مغربی سائبیریا کے طورا میں اپنی آزاد حکومت قائم کی۔ اسی وقت دیشتی قفچاک کے نئے طاقتور قبائلی فرقے کا قیام عمل میں آیا۔ جس میں ماوراء النہر علاقہ کا ایک ازبیک قبیلہ بھی شامل تھا۔ ابوالخیر کی موت کے بعد طورا سے دیشتی قفچاک کا یہ ازبیک ترک قبیلہ سیر دریا کے کنارے ترکستان شہر میں آباد ہو گیا۔ ۱۴۸۸ء میں وسطی  ایشیا کے مشرق میں چغتائی خانی حکمراں محمود خان نے ابوالخیر کے پوتے محمدشیبانی خا ن کو اس کی خدمات کے بدلے میں ترکستان شہر کی حکومت عطا کر دی۔ دیشتی قفچاک کے ترک قبیلوں نے محمد شیبانی خاں کے زیر قیادت وسطی ایشیا میں تیموری سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ شیبانی خان نے وہاں ۲۲سال حکومت کی۔ اس کی موت کے بعد اس خاندان کے مسلمان مغل خانوں اور مقامی مسلمان ازبیک ترک قبیلوں کے اشتراک سے ایک اور مغل خانی ازبیک ترک قوم وجود میں آئی جو شیبانی ازبیکوں ۲۰؎ کے نام سے جانی گئی۔

 

مغلیہ ترک:

چنگیز خاں نے ترکستانی علاقوں۲۱؎ کو اپنے بیٹے چغتائی خاں کی حکمرانی میں دینے کے بعد شاہی خاندان کے ان تمام لوگوں کو جن کے حصے میں حکمرانی نہیں تھی یا جن کے حصے میں سپہ سالاری ۲۲؎  آئی تھی انہیں ترک علاقوں میں جاگیریں دے دیں ۔ اور انھیں اپنی اپنی جاگیروں میں ترک قبیلوں کا سردار مقرر کر دیا۔ مونگول فوج کا سپہ سالار امیر قاچار بُرلاس ترک قبیلے کا سردار ہوا۔ سپہ سالار خاندان کے امیر قراچار کے بعد جو بھی مونگول فوج کے سپہ سالار و سردارہوئے وہ سب وسطی ایشیا میں ہی پیدا ہوئے۔ چغتائی خاں سلطنت کے قیام کے ۱۰۰سال کے اندر ہی مونگول خانوں کے ساتھ ساتھ مونگول سردارو فوجی اور ان کے کنبے بھی مسلمان ہو گئے تھے اور مقامی مسلمان ترک قبیلوں کے ساتھ رہتے رہتے ان میں گھل مل گئے تھے۔

بعد میں ان کی اولادوں نے ترکوں کے رسم و رواج اور رہن سہن اور ترکی زبانوں کو بھی اپنا لیا۔ لہٰذا ان سابق مونگول سرداروں اور فوجیوں کی مسلمان اولادیں ترکوں میں شمار ہونے لگیں ۔ کیوں کہ ان کے نسبی بزرگ مونگول خانوں کی فوج کے سپہ سالار، سردار و فوجی تھے۔ لہٰذا مونگول نسل کے یہ ترک’ ’مغلیہ ترک‘‘ قوم ہیں ۔ وسطی ایشیا میں امیر قراچار کی چوتھی نسل میں ایک مسلمان مغلیہ ترک سردار امیرطراغائی کے گھر امیر تیمور۲۳

ترک: ؤ ؎  کی پیدائش ہوئی۔ امیر تیمور مشہور مغلیہ ترک سردار و سپہ سالار امیر برکل کا پوتا تھا۔ بعد میں ان مغلیہ ترک قوم کی اولادوں اور مقامی ترک قبیلوں کی اولادوں میں بھی باہمی اشتراک ہوا۔

 

قبلئی خاں                                                                                                   کاچولی بہادر

(حکمراں خاندان)                                                                                 (سپہ سالار خاندان)

 

 

               ہندوستان میں تیموری سلطنت کے حکمراں مغل یا ترک

 

زیادہ تر ایشیائی اور یوروپین مورخین نے ہندوستان میں تیموری سلطنت کے حکمرانوں کو مغل اور ان کی سلطنت کو مغل سلطنت کے نام سے موسوم کیا ہے جس سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ مندرجہ ذیل عبارتوں سے یہ صاف ہو جاتا ہے کہ تیموری حکمراں در حقیقت مغل نہیں بلکہ مغل نسل کے ترک (مغلیہ ترک)تھے۔

٭       عثمانی سلطنت کے ترک سلطان بایزید یلدرم کے خلاف جنگ میں جانے سے پہلے امیر تیمور نے ایک منصوبے کے تحت سلطان یلدرم کی فوج میں سے اپنے مغل نسل کے بیشتر ترکوں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا جو جنگ میں ا س کے بہت مددگار ثابت ہوئے۔ امیر تیمور کو اس عالمی سطح پر مشہور جنگ میں فتح حاصل ہوئی اور وہ دنیا کے بڑے فاتحین میں شامل ہوا۔ اس سے صاف ہوتا ہے کہ مغلیہ ترک حکمراں امیر تیمور میں ترکوں کے مقابلے مغلوں کے اوصاف زیادہ تھے۔ پھر بھی وہ مغل حکمراں کے طور پر مشہور نہیں ہوا اور نہ ہی اس کی سلطنت مغل سلطنت کے طور پر جانی گئی۔

٭       وسطی ایشیا میں مونگول حکومت کے تقریباً تین صدی بعد تیموری خاندان کی پانچویں نسل میں بادشاہ بابر نے ہندوستان میں تیموری سلطنت قائم کی۔ بابر اور اس کے بعد اس کی ترکی بولنے والی حکمراں اولادیں پوری طرح ترکی رنگ میں رنگی ہوئی تھیں اور ترکوں میں شمار ہوتی تھیں یہی وجہ ہے کہ ان تیموری حکمرانوں کے دور کے مورخین نے انہیں کبھی مغل نہیں لکھا۔ خود ان حکمرانوں نے بھی اپنی لکھی کتابوں اور دستاویزوں میں خود کو مغل نہیں کہا۔

٭       A History of India by E.W. Thompson M.A.کے ص ۷ پر لکھا ہے :

Mughal is the Persian form of Mongol but the "Mughals” of the Indian history are rather scythians than Mongols. Similarly the Turks were also Scythians tribes much modified by union with other Aryan races.

ترجمہ: مونگول کا فارسی بدل مغل/ موغل ہے لیکن ہندوستانی تاریخ میں جن کو مغل کہا گیا ہے درحقیقت و ہ سیتھین ہیں ۔ جس طرح’ ترک‘ وسطی ایشیا کے قدیم سیتھین قبیلے ہیں جو اب دوسری آرئین قوموں سے اشتراک کی جدید شکل ہیں ۔

٭       شروع میں کابل کا حکمراں بابر مغل کے طور پر مشہور کیا گیا۔ سالوں تک وہاں حکمرانی کرنے کے بعد کابل والے بابر کی جائے پیدائش (وسطی ایشیا) سے اچھی طرح واقف ہو گئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ تیموری خاندان کا یہ حکمراں مغل نہیں ترک ہے۔ (’اکبر‘ (ہندی)، راہل سانکرتیائن، ص ۱۶۳)

٭       "Akbar was much more a Turk than a Mongol / Mughal”

(‘Akbar the great Mughal’ ۔V.A. Smith, p۔10)

٭       مورخ ایشوری پرساد کے مطابق،’ چونکہ بابر و ہمایوں کے دور تک حکومت کا انتظام منظم نہیں ہوسکا تھا اس کا فائدہ اٹھا کر افغان سردار بھی اپنی کھوئی طاقت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ملک کی بیشتر عوام ہندو تھی جو بابر وہمایوں کو ظالم مغل سمجھتی تھی۔ (در حقیقت وہ ترک تھے )یہی ایک وجہ تھی کہ شیر خان (شیر شاہ سوری)کو ہمایوں کے خلاف اپنی مہم کو کامیاب کرنے میں مدد ملی‘۔

(’بھارت کا اِتہاس‘، حصہ دوم، ص ۳۰، مصنف ایشوری پرساد)

*The Timurides in India (Indian Mughals) though originally Turks, hailing from Central Asia were influenced by the culture and language of Iran. They continued to study the Iranian literature and religion (shia۔izm), Persian became their court language, though the language in private life and of the immigrants from central Asia remain turki.

(Humayun Badshah۔ S.K. Benarji, p.308)

ترجمہ: (مورخ ایس کے بنرجی کے مطابق ہندوستان میں تیموری حکمراں جو مغلوں کے طور پر مشہور ہوئے در حقیقت وسطی ایشیا کے ترک تھے۔ وہ ایرانی کلچر اور فارسی زبان سے بھی متاثر تھے۔ لہٰذا ایرانی ادب اور شیعہ ازم کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔ فارسی ان کے دربار کی زبان ہو گئی۔ جب کہ عام زندگی میں وہ اور وسطی ایشیا سے آنے والے سبھی لوگ ترکی زبان کا استعمال کرتے تھے)۔

*Bairam Khan remained Loyal to his old master instead of acting as the deputy of Afghan ruler, he choose to share all the exile of his master. It is the striking example of Shia Irani’s loyalti for an exiled sunni Turk king. (Humayun Badshah, S. K. Benerji. p.91)

(بیرم خاں اپنے پرانے آقا کا وفادار رہا۔ افغان حکمراں کا نائب ہونے کے بجائے اس نے اپنے پرانے آقا کی ملک بدری میں اس کا ساتھ دیا۔ ایک ہارے ہوئے ملک بدرسنی ترک بادشاہ کے لیے ایک ایرانی شیعہ سردار کی وفاداری کی یہ ایک نایاب مثال ہے)

مندرجہ بالا سبھی تاریخی اقوال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان میں تیموری حکمرانوں کو قومی اعتبار سے مغل کہنا یا ان کی سلطنت کو مغل سلطنت کہنا پوری طرح درست نہیں ہے۔

 

مصنف کے خیال میں :

ہندوستان میں تیموری حکمراں قومی اعتبار سے ترک تھے۔ صدیوں سے وسطی ایشیا میں رہنے، پیدا ہونے اور وہاں حکومت کرنے کے بموجب وہ اپنی آبائی نسل کو پوری طرح بھول گئے تھے۔ مغل خانی یا مغل حکومت میں مغل لفظ عام طور پر مغل قوم کو ظاہر کرتا ہے۔ مگر چونکہ کسی بھی سلطنت کی بنیاد قوم نہیں بلکہ طاقت ہوتی ہے۔ جب تیرہویں صدی میں مونگول چنگیز خاں شمال مشرقی وسطی ایشیا میں ایک بڑی طاقت بن کر اُبھرا اور اس کی فوجوں نے خونریزی تباہی اور بربادی کی تمام حدوں کو توڑ ڈالا اور فاتح عالم کہلایا۔ ایسے میں’ ’مغل‘‘ لفظ ایک’ ’قوم‘‘ کے علاوہ’ ’مغلوں جیسی طاقت‘‘ کے متبادل کے طور پر سامنے آیا۔ در حقیقت ہندوستان میں تیموری حکومت قائم ہونے میں’ مغل قوم‘ نہیں بلکہ’ ’مغلوں جیسی طاقت‘ ذمہ دار تھی جس نے عوام کو بری طرح خوفزدہ کر دیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہندوستان میں تیموری سلطنت مغل سلطنت کے نام سے مشہور ہوئی۔

مغلیہ ترک سردار امیر تیمور وسطی ایشیا کا حکمراں ہوا اور تیموری سلطنت کا بانی کہلایا۔  وسط ایشیا میں امیر تیمور اور اس کے بعد اس کے خاندان کی حکومت میں نیز ہندوستان میں ا س کے خاندان کی سلطنت میں ترکوں کے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں مغلیہ ترک سردار، فوجی، امیر و دوسرے درباری شامل تھے۔ وسطی ایشیا میں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں مغلیہ ترک آباد ہیں ۔

٭٭٭

 

حواشی

 

۱۔  وسطی ایشیا کو ترکستان کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔

 

۲۔ ماورالنہر: (ٹرانس آکزیانا/ قدیم سوغدیانا علاقہ)ماورالنہر (عربوں کا دیا گیا نام)وسطی ایشیا میں سیر دریا اور آمو دریا کے درمیان کا علاقہ  ماورالنہر کہلاتا تھا۔ موجودہ دور میں یہ اوزبیکستان کا علاقہ ہے۔ ٹرانس آکزیانا (مغربی سیّاحوں کے ذریعہ دیا گیا نام)آکسس ندی (آمودریا)سے سیر دریا کے دور تک کا علاقہ ٹرانس آکزیانا کہلاتا تھا۔

قدیم سوغدیانی علاقہ: مغربی ترکستان کے سمرقند و بخارا کا علاقہ۔

 

۳۔    سمندری یا بحری طوفان : بائبل میں نوح کی کہانی کے مطابق اور قرآن میں حضرت نوحؑ کے دور میں جب ان کی قوم نافرمان ہو گئی اور زمین پر گناہ بہت بڑھ گئے تو ایک قیامت خیز طوفان آیا جس کی اطلاع حضرت نوح ؑ کو پہلے ہی مل گئی تھی اور خدا کے حکم کے مطابق انھوں نے ایک بڑی کشتی بھی تیار کر لی تھی۔حضرت نوحؑ اپنے کچھ پیروؤں اور خاندان کے افراد کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر اس قیامت خیز طوفان سے زندہ بچ کر نکل گئے۔بعد میں ان کی اولادوں نے اس دنیا کو آگے بڑھایا۔

 

۴۔   اَکَینمینِد سلطنت کے راجہ داری نے اپنے کتبوں میں سوغدیانوں اور خوارزمیوں کو اپنی رعایا بتایا جنھوں نے سکندر کے خلاف لڑائی میں راجہ کے ساتھ شرکت کی تھی۔ اس کے علاوہ چھٹی صدی عیسوی کے آخر تک دیگر کچھ علاقوں میں بھی ترک قبیلوں نے مل کر چھوٹے چھوٹے صوبے بنائے تھے۔پھر بھی ترکوں کے بہت سے خانہ بدوش قبیلے آزادی کے ساتھ ہی گھومتے پھرتے رہتے تھے۔

 

۵۔   خراسان اور خوارزم کا تقریباً ایک ہی مطلب تھا۔خراسان کی اصل سرحدیں مشرق میں بلخ، شمال میں مَرو جنوب میں سیستان اور مغرب میں نیشاپور تک تھیں اور مرکز ہرات تھا۔ شروع میں خراسان کا علاقہ بیکٹرینوں،سوغدیانوں،پرتھینوں اور شکوں وغیرہ کے قبضے میں تھا۔ جو خود کو آرئین کہتے تھے۔

گریٹر خراسان میں سابق بیکٹرین علاقے (موجودہ شمالی افغانستان،ترکمینستان، جنوبی اوزبکیتان اور مغربی تاجیکستان کے علاقے)ماورا النہر،سوغدیانا،خوارزمیہ اور سیستان (آرکوسیا)کے علاقے شامل تھے۔ اور اس کی حدیں مشرق میں بلخ سے کابل اور غزنی تک، شمال میں مَرو سے ماورا لنہر اور خوارزم تک جنوب میں سیستان اور جبولستان تک اور مغرب میں نیشاپور سے لماگھان اور گُرگان تک پھیلی ہوئی تھیں۔

۳۳۰سال قبل مسیح خراسان کے علاقے اَکیمینِد حکومت کا حصہ تھے۔عیسیٰ بعد پہلی صدی میں خراسان کا مشرقی حصہ کشان سلطنت میں مل گیا۔یہیں سے کشانوں نے چین اور جاپان تک بودھ مذہب کو فروغ دیا۔ ۷۴۷ء میں خراسان کو عربوں نے فتح کر لیا اور یہ اُمّائد سلطنت کا ایک صوبہ ہو گیا۔ ۷۴۹ء میں خلافت اسلامیہ عباسی خاندان کے ہاتھوں میں آ گئی لیکن اس کا مرکز بغداد ہی رہا۔ خلیفہ بغداد نے قطیبہ بن مسلم کو خراسان کا گورنر مقرر کیا۔۷۵۱ء میں خلیفہ بغداد نے قطیبہ بن مسلم کو ترکوں کی مدد کرنے کے لیے چین سے جنگ کرنے بھیج دیا۔ دور وسطیٰ میں گریٹر یونان کے دو خاص علاقے تھے ایک پرشین عراق اور دوسرا خراسان۔ ۱۳ویں صدی تک خراسان پرشیہ کی ثقافتی راجدھانی مانا جاتا تھا۔ اس دور میں خراسان میں کئی مشہور سائنسداں، فلسفی، مصنف اور شیعہ و سنی عالم دین گزرے ہیں۔ ۱۶ویں صدی میں خراسان کا مشرقی حصہ دہلی میں تیموری مغلیہ ترک حکمرانوں کے قبضے میں رہا۔ بابر کے مطابق ہندوستان اور خراسان کے درمیان دو بڑے شہر کابل اور کاندھار ہیں۔

 

۶۔  ِشیمینٹ مذہب روحانی طاقتوں اور چاند سورج زمین و دوسرے قدرتی عناصرسے متعلق عقائد پر مبنی ہے۔

 

۷۔  ٹینگرک مذہب کو ماننے والے آسمان پر راج کرنے والے ٹینگری دیوتا پر یقین رکھتے ہیں۔

 

۸۔ خلافت اور خلیفہ عربی زبان کے لفظ ہیں۔خلافت کا مطلب اصل میں ایک ذمہ داری سے ہے جس میں انسانوں کی حفاظت کرنے اور ان کو نظم ونسق میں رہنے کے احکام دینے کے ساتھ ساتھ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اللہ کے قانون کو پوری دنیا میں پھیلانا شامل ہے۔ اسلام کے وجود میں آنے کے بعد قرآن کی زبان میں اسلامی دنیا کی خلافت کی ذمہ داری اس اسلامی سلطنت کی ہو گی جو سب سے بڑی ہو اور سب سے زیادہ شریعت (اسلامی قانون) اور ملت کی حفاظت کی طاقت رکھتی ہو۔ اس سلطنت کا سردار اللہ کا نائب اور قائم مقام یعنی خلیفہ ہو گا۔ اس کے بعد آنے والی قوموں یا حکومتوں میں جو بھی خلافت کی حقدار ہو گی اس کا خلیفہ پہلے خلیفہ کا نائب و قائم مقام ہو گا۔

یقینی طور پر اس ذمہ داری کو سب سے پہلے پورا کرنے والی عرب قوم خلافت پانے کی حقدار بنی،اس خلافت اسلامیہ کے پہلے خلیفۃ اللہ حضرت محمد ؐ خود ہوئے اور یہ سلسلہ ۶۳۲ء میں ان کی وفات پر ختم ہوا۔ آگے جن لوگوں کے ہاتھوں میں اسلام کی مرکزی حکو مت اقتدار میں آئی وہی پہلے خلیفہ کے نائب و قائم مقام ہوئے۔ اس طرح خلافت اسلامیہ کا یہ سلسلہ حضرت محمدؐ کے دور کے چار خلفائے راشدین( ۶۶۱۔۶۳۲ء) کے بعد سے لے کر ’’خلفائے بنو امیہ ‘‘ (۷۴۹ء ۔۶۶۱)،’’سلسلہ عباسیہ بغداد ‘‘(۱۲۵۸ء۔۷۴۹ء) اور ’’سلسلہ عباسیہ مصر‘‘ (۱۵۱۷ء – ۱۲۵۸ء) تک پہنچا۔ سولہویں صدی کے شروع میں عثمانی ترکوں کی حکومت قسطنطنیہ میں قائم ہو چکی تھی اور ایشیا یوروپ میں ہر طرف پھیل رہی تھی۔ ۱۵۱۷ء میں سلطان سلیم خاں اوّل نے مصر و شام پر قبضہ کر لیا اور عباسی خلیفہ المقتول نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر کے خلافت کے تمام حقوق اور اختیارات سلطان کے سپرد کر دیئے۔ساتھ ہی مقدس مقامات کی کنجیاں،حضرت محمد ؐ کی تلوار، جھنڈا اور چادر بھی دے دی۔ اسی دن سے عثمانی ترک سلطان نمایاں طور پر خلیفہ کے طور پر دنیا میں مشہور ہوئے اور خلافت اسلامیہ ۱۵۱۷ء۔۱۹۲۴ء ) تک سلطنت عثمانیہ کے پاس رہی۔ اس وقت ایران میں سلطنت صفویہ اور ہندوستان میں تیموری خاندان کی سلطنت قائم ہو چکی تھی۔اس سلطنت کے تیموری حکمرانوں نے ۳۰۰ سال کے اندر ایک بار بھی اپنے قدم ہندوستان سے باہر نہیں نکالے۔بھلے ہی وہ ہندوستان میں اپنے کو امام سمجھتے تھے لیکن خلافت اسلامیہ کا دعویٰ انھوں نے کبھی نہیں کیا۔

عرب میں جب اسلام کی شروعات ہوئی تو سب سے پہلے اسلام کی مخالفت عرب میں ہی مکہ کے قریشوں کی طرف سے ہوئی۔اس کے خاتمے کے بعد آج تک ان تیرہ صدیوں میں صرف عیسائی حکومتیں ہی مسلمانوں کے مقابل رہیں۔اس وقت عیسائیوں کے علاوہ کوئی دوسری قوم ایسی نہ تھی جس نے اسلام پر حملہ کرنے  کا ارادہ کیا ہو۔ یہودیوں کی کوئی سیاسی طاقت باقی نہیں رہی تھی۔ہندوستا ن کے ہندوؤں اور بودھ راجاؤں نے ہندوستان سے نکل کر کبھی مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا۔ بعد میں مونگول ضرور ایک بڑی طاقت بن کر اُبھرے اور اسلامی سلطنتوں کو فتح کیا لیکن یہ بھی ایک صدی کے اندر اندر مسلمان ہو گئے۔ ان کی قائم ہوئی مونگول حکومتیں مسلمان  مغل سلطنتوں کے طور پر ختم ہوئیں۔ جس وقت سلطنت عثمانیہ کے ترک فاتح یوروپ کو فتح کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اس وقت ایران کی حکومت نے او ر امیر تیمور نے ان پر حملہ کر کے ان کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیا اور تمام وسطی یوروپ فتح نہ ہوسکا۔ یمن اور عرب کے مسلمان قبیلے توجیسے خلافت اسلامیہ کے مقصد کو پوری طرح بھول ہی گئے تھے۔

(مسئلہ خلافت، مولانا ابوالکلام آزاد )

۹۔ شیخ انصار: حضرت محمد ؐ کے مکہ سے مدینہ کو ہجرت کر جانے کے بعد جن لوگوں نے ان کا ساتھ دیا انھیں حضرت محمد ؐ نے ’انصار ‘نام دیا۔انصار لوگوں کی اولادیں آگے چل کر شیخ انصار کہلائیں۔

۱۰۔  شروعاتی دور میں صوفی کہلانے والے لوگ سخت عبادت کرنے والے ہوتے تھے۔حسن بصریؒ اور ان کی مرید صوفی رابعہؒ نے روزہ نماز اور اللہ سے محبت پر زور دیا۔ان کی شہرت دور دو ر تک پھیل گئی۔اس وقت صوفی لوگ صوف(اُون)کی ایک گدڑی پہنتے تھے جو پرانے دور کے پیغمبروں کی وراثت مانی جاتی تھی۔ہندوستان میں ترک سلطنت کے دوران صوفی بزرگوں کو سیّد کا خطاب بھی دیا گیا۔ ۱۰؍ ویں صدی تک اسلامی دنیا میں مختلف صوفی سلسلے دور دور تک پھیل چکے تھے اور ساتھ ہی ان کی خانقاہیں بھی قائم ہو چکی تھیں۔ کچھ صوفیوں نے ’سماع‘ کی پیرو ی کی جس میں جنون کی کیفیت پیدا کی جاتی تھی حالانکہ بہت سے علماء اس کے خلاف تھے۔ہندوستان میں صوفی سلسلوں کے دو گروہ ہوئے۔ایک باشراء یعنی شریعت کو ماننے اور اس پر عمل کرنے والے ،دوسرے بے شراء جو شریعت کے پابند نہیں تھے اور قلندر کہلاتے تھے۔قلندروں نے کوئی سلسلہ قائم نہیں کیا۔

۱۱۔ خواجہ معین الدین چشتی ؒ: چشتی سلسلہ چِشت (افغانستان)میں تقریباً ختم ہو چکا تھا۔اس سلسلے کو ہندوستان میں خواجہ معین الدین چشتیؒ نے شروع کیا۔ خواجہ صاحب کے بزرگ عرب سے خراسان آئے تھے۔ خراسان میں وسطی ایشیا کا کافی بڑا علاقہ شامل تھا۔ خواجہ صاحب کی شروعاتی زندگی کے بارے میں زیادہ پختہ جانکاری نہیں ہے کیونکہ انھوں نے اپنے اقوال کا کوئی مجموعہ نہیں چھوڑا۔ان کے بارے میں جو بھی معلومات حاصل ہوئیں وہ ان کے انتقال کے۱۵۰برس بعد لکھی گئی ہیں۔بعد کے مصنفوں نے اس میں کافی تبدیلیاں بھی کی ہیں۔

خواجہ صاحب محمد غوری کی دہلی پر فتح کے بعد تقریباً ۱۲۰۶ء کے قریب خراسان سے ہندوستان آئے اور اجمیر میں قیام پذیر ہوئے۔ اس وقت اجمیر ایک چھوٹا سا شہر تھا اور وہاں کافیمسلم آبادی قائم ہو چکی تھی۔بعد میں راجستھان کی ایک اور چھوٹی بستی ناگور میں ان کے مرید حمید الدین ؒ بس گئے۔خواجہ صاحب شادی شدہ تھے اور صوفیانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ۱۲۳۵ء میں ان کا انتقال ہوا اس کے بعد ہی ان کو شہرت ملنا شروع ہوئی۔خلجی دور میں ان کے مقبرے کی مرمت کے ساتھ اس پر ایک گنبد اور اس کے برابر ایک مسجد کی تعمیر ہوئی۔ اکبر کے دور میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کی شہرت بلندی پر پہنچی۔اکبر کو خواجہ صاحب سے بے حد عقیدت تھی۔

۱۲۔  خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ: ۱۲۲۰ء میں وسطی ایشیا کے تمام ترک علاقوں پر چنگیز خاں کا قبضہ ہونے کے بعد وہاں سے ہجرت کرنے والے ترک فوجیوں،درباریوں، عالموں اور صوفیوں کے ساتھ قطب الدین بختیار کاکیؒ بھی دہلی آئے۔ دہلی میں ترک سلطان شمس الدین التمش نے ان کا خیر مقدم کیا۔دہلی میں سہر وردیوں اور علماء کے مقابلے میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے وہاں چشتیہ سلسلے کو مضبوطی سے قائم کیا۔اس وقت تک خواجہ معین الدین چشتیؒ اجمیر میں چشتیہ سلسلہ قائم کر چکے تھے۔سماع کا اہتمام کرنے پر علماؤں نے اُن پر بدعتی ہونے کا فتویٰ لگایا اور دہلی سے نکالنا چاہا مگر التمش نے ان کا بچاؤ کیا اور دہلی سے نہیں جانے دیا۔ بختیار کاکیؒ کے مرید خاص اور نائب بابا فرید الدین گنج شکرؒ تھے جو پہلے موجودہ ہریانہ کے ہانسی میں رہے اور بعد میں اجودھن (موجودہ پاکستان میں )چلے گئے تھے۔

۱۳۔  خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے بزرگ عرب سے وسطی ایشیا کے سمرقند میں آباد ہوئے تھے۔ ۱۲۰۶ء میں جب التمش صوبہ بدایوں کا گورنر ہوا تو نظام الدین اولیاؒ کے دادا اور والد محترم سمرقند سے ہندوستان آئے اور بدایوں سرکار میں ملازم ہوئے۔۱۲۳۵ء میں نظام الدین اولیاؒ کی بدایوں میں پیدائش ہوئی۔وہ دہلی میں چشتیہ سلسلے کے سب سے مشہور صوفی ہوئے۔ وہ سلطان بلبن سے لے کر خلجی اور تغلق سلطانوں کے دور تک تقریباً ۵۰ برس دہلی میں رہے۔ ۱۳۲۵ء میں تقریباً ۹۰سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔

جولائی ۱۳۲۰ء میں خلجی سلطان کا قتل کرنے کے بعد ایک نو مسلم امیر خسرو دو مہینے دہلی کے تخت پر بیٹھا۔ اسی دوران اس نے ایک بڑی رقم خواجہ نظام الدین اولیاؒ کو نذر کی۔ستمبر ۱۳۲۰ء میں خسر و کا قتل ہو گیا اور غیاث الدین تغلق تخت نشیں ہوا۔ سلطان غیاث الدین تغلق نے نظام الدین اولیاؒ سے اس رقم کا حساب مانگا تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ دہلی کے مسلمانوں کی تھی لہٰذا انھیں میں تقسیم کر دی گئی۔ نظام الدین اولیا ؒ کے اس جواب سے سلطان مطمئن نہیں ہوا۔ اس کا ارادہ بنگال سے لوٹنے کے بعد حساب کتاب کرنے کا تھا۔بنگال پہنچ کر اسے خبر ملی کہ نظام الدین اولیاؒ نے اس کے بیٹے جونا خاں (محمد تغلق)سے سانٹھ گانٹھ کر لی ہے۔سلطان نے خبر بھجوائی جس میں جونا خاں کو نظام الدین اولیاؒ سے دور رہنے کی تاکید کی اور جونا خاں کو دہلی سے باہر ہی اپنے استقبال کی تیاری کا حکم دیا۔جونا خاں نے اس بابت نظام الدین اولیا ؒ کو بتایا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہنوز دہلی دور است‘‘(ابھی دلی دور ہے)اس کے بعد جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ دہلی پہنچنے سے پہلے ہی جونا خاں کے تیار کرائے گئے استقبالیہ خیمے میں سلطان کی موت ہو گئی۔یہ واقعہ اتفاق سے پیش آیا یا اس میں کوئی سازش تھی اس بارے میں تاریخ میں کچھ صاف نہیں ہو پاتا۔بہر حال اس کے بعد نظام الدین اولیاؒ ضرور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

۱۴۔  عام طور پر اسمٰعیلی شیعہ مصر کے فاطمی خلیفاؤں کو اپنا مذہبی اور سیاسی پیشوا مانتے تھے لیکن خلیفہ مستنصر کے بڑے بیٹے نظار اور چھوٹے بیٹے مستعالہ کی جانشینی کو لے کر زبردست اختلافات قائم ہو گئے۔ اور ہندوستان میں اسمٰعیلی شیعہ دو فرقوں میں منقسم ہو گئے۔ نظار کے حمایتی اور شاگرد’ نظاریہ خوجے ‘کہلائے جبکہ مستعالہ کے ہمنوا’ بوہرے‘ کہلائے۔ بعد میں اسمٰعیلیوں میں ایک اور گروپ آغا خانی خوجے کا ابھرا۔ خوجے زیادہ تر پنجاب،سندھ،کچھ،کاٹھیاواڑ اور ممبئی میں آباد ہیں۔ ان کے پہلے پیر نورست گُرو کے نام سے مشہور تھے جنہیں قلعہ الموت سے گجرات بھیجا گیا تھا جہاں انہوں نے ’ناصاری ‘ میں اپنے شیعہ مسلک کی تبلیغ کی اور وہاں کے ہندو راجہ کی بیٹی سے شادی کی۔انھوں نے گجرات کی چھوٹی ذاتوں،کنبی، کہار اور کولی کو اسمٰعیلی فرقہ میں شامل کیا۔

(صوبہ بمبئی گزیٹیئر جلد ۹ و جلد ۱۱،ص ۶۶)

اسماعیلی نظاریہ خوجے جماعت کے پیر صدر الدین نے نظاریہمسلک کے قاعدے قانون کو ہندوستانی ماحول کے مطابق ڈھالا اور اسمٰعیلی فرقہ کی تین جماعتیں تشکیل دیں جن کے منیجر ’مکھی‘ کہلائے۔ پنجاب کے مکھی سیٹھ شیام داس لاہوری،کشمیر کے سیٹھ تلسی داس اور سندھ کے ’تریتم‘ ہوئے۔

(اسمٰعیلیوں کی تاریخ (انگریزی میں )،مسٹر اے۔ایس پکلے،ص ۶۳۔۶۴)

پنجاب کے لوہانہ قوم کے بہت سے لوگوں نے ان کے ذریعہ اسلام قبول کیا۔ سندھ کے بہت سے لوگ ان کے ذریعہ مسلمان ہوئے۔ پیر صدر الدین نے ایک کتاب ’دس اوتار‘ کے نام سے لکھی جس میں حضرت  محمد ؐ کو برہما اور حضرت علیؓ کو وشنو کے مساوی بیا ن کیا ہے۔ یہ کتاب نظاریہ خوجوں کی پاک کتاب مانی جاتی ہے۔

(تاریخ ہندوستان،آبِ کوثر، از شیخ محمد اکرام)

۱۵۔ ۱۷۵۷ء تک اس علاقہ کو روسی گورنر جنرل کے ماتحت روسی ترکستان کے طور پر منظم کر کے سیدھا استعماری صوبہ بنا لیا گیا تھا جس کی آبادی اس وقت۷۴لاکھ۶۴ہزار تھی۔بخارہ خانیٹ (آبادی ۲۲لاکھ۳۶ہزار) اور خیوا خانیٹ (آبادی ۶لاکھ۴۰ ہزار)کا وجود حالانکہ آزادانہ طور پر تھا لیکن حقیقت میں وہ کئی طریقے سے زارشاہی روس کے استعماری صوبے کی طرح ہی تھے۔

 

۱۶۔  خراسان میں صدیوں تک ترکوں کا غلبہ رہا۔ خراسان کے جنوب میں افغان سرداروں کی اولادوں اور مرزا ترک سرداروں کی اولادوں کے اشتراک سے ترخان قوم وجود میں آئی۔ اس قوم کے تین حکمرانوں نے ۳۵سال تک سندھ میں حکومت کی۔مرزا محمد عیسیٰ ترخان (۶۷۔۱۵۵۶ء)،مرزا محمد باقی ترخان (۸۵۔۱۵۶۷ء)،مرزا جانی بیگ ترخان (۹۱۔۱۵۸۵ء)۔شہنشاہ جہانگیر کی حکومت کے دوران ۱۶۰۶ء میں قندھار کا مرزا عیسیٰ تر خان (مرزا قندھاری) سنبھل کا گورنر ہوا (تزک جہانگیری)۔۱۶۰۹ء میں شہزادہ خرّم (بعد میں شاہجہاں )کی شادی اسی مرزا قندھاری کی لڑکی سے ہوئی جو قندھاری بیگم کے خطاب سے نوازی گئی۔ترخانوں نے افغانی رہن سہن اور رسم و رواج کے ساتھ ہی افغانی زبا ن کو اپناتے ہوئے ہی ترکی زبان سیکھی۔ علاقہ سے ترکوں کا اقتدار ختم ہونے کے بعد ترکی زبان بھی ختم ہو گئی اور ترخان بھی اُسے بھول گئے۔ لہٰذا ترخانوں کو ترکوں میں شامل نہیں مانا جاتا۔

 

۱۷۔  امیر تیمور نے شمالی علاقوں سے بہت سے ترکمانوں کو جنگی قیدی بنا کر ایران کے قبضے والے خراسانی علاقہ دستگرد میں بسا دیا تھا۔بعد میں شیعہ مذہبی علماء نے ان سنی ترکمانوں کو آزاد کر کے انھیں شیعہ امام حیدر صفوی سے بیعت کرنے کے بعد ’’لال تاج حیدری‘‘ ان کے سر پر رکھ دیا اور شیعہ فرقہ میں شامل کر لیا۔ ایران کی حکومت حاصل کرنے کے لیے اسمٰعیل صفوی نے ۱۵۰۰ء میں ان شیعہ ترکمانوں میں سے تقریباً  ۷۰۰۰جوانوں کو فوجی ٹریننگ دے کر ایک جنگ میں شیروان کے شاہ فرخ یاسر کو شکست دی۔ اسمٰعیل صفوی نے لال تاج والے شیعہ ترکمانوں کو ’’قزلباش‘‘ کا خطاب دیا۔ اس کے بعد اسمٰعیل صفوی کے زیر قیادت ان قزلباشوں نے ’’آق قیون لو‘‘ کی تیس ہزار فوج کو شکست دے کر تبریز پر قبضہ کر لیا  ے ا  the great Mughal’ -اور ایران میں صفوی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ ترک النسل قزلباشوں نے شیعہ فرقے سے وابستگی کے بعد پوری طرح سے ایرانی زبان اور تہذیب و ثقافت کو اپنا لیا اور ایرانیوں میں پوری طرح گھل مل گئے۔لہٰذا قزلباش ترکوں میں شمار نہیں کیے جاتے۔ جب کہ ان کے بزرگوں کی خراسان میں آباد غیر فوجی اولادیں مادری زبان ترکی فارسی ہونے کی وجہ سے ترکوں میں شمار ہوتی رہیں۔ ایران میں ترک النسل قزلباشوں کی بڑی تعداد آباد ہے ان کے قبیلائی نام شاملو، افشار وغیرہ ہیں۔ پاکستا ن کے سابق صدر جنرل آغا محمد یحییٰ خاں قزلباش تھے۔

 

۱۸۔ ۱۵۶۷ء میں سعید خاں چغتائی (مغل خانی چغتائی ترک)اس دور میں دہلی صوبے کی سنبھل سرکار میں گورنر تھا۔

 

۱۹۔  گولڈن ہورڈ  کی مونگول خانی سرائے سلطنت کا بانی باتو خاں (۱۲۵۶۔۱۲۳۷ء)  چنگیز خاں کے بڑے بیٹے جوجی خاں کا بڑا بیٹا تھا۔ تقریباً سو سال کے بعدسرائے سلطنت کے مونگول خانوں کے مسلمان ہو جانے سے سرائے سلطنت مونگول خانی مسلمان سلطنت میں بدل گئی۔ محمد ازبیک خاں (۱۳۴۱۔۱۳۱۳ء)سرائے کی اس مغل خانی سلطنت کے مسلمان حکمرانوں کی اولادوں میں سے تھا۔

 

۲۰۔ ہمایوں کی دوبارہ تخت نشینی سے اکبر کے تخت نشین ہونے کے چار سال بعد تک علی قلی خان شیبانی دہلی صوبے کی سنبھل سرکار میں گورنر رہا۔

 

۲۱۔ وسطی ایشیا کی جگہ کہیں کہیں ترکستان لفظ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ ترکستانی علاقہ میں ایک شہر ترکستان کے نام سے بھی آباد ہے۔

 

۲۲۔  چنگیر خاں کا شجرہ دراصل ملکہ ایلن کوا کے غیر روایتی (بنا باپ کے)طریقے سے پیدا ہوئے تین لڑکوں میں سے ایک بوزنجر خاں سے شروع ہوتا ہے جو بڑا ہو کر خان اعظم ہوا۔ مونگول سرداروں اور امیروں کی ایک مجلس (جسے مونگولی اور ترکی زبان میں قُرلطائی کہتے تھے)میں اتفاق رائے سے فیصلے لیے جاتے تھے۔ مونگولوں میں بادشاہت و سپہ سالاری ورثے میں ملتی تھی۔مگر یہ فیصلہ کہ وارثوں میں کس کو بادشاہت ملے اور کس کو سپہ سالاری یہ فصیلہ بھی قرلطائی ہی کرتی تھی۔

بوزنجر خان کی پانچویں نسل میں تومنا خان کے دو لڑکے ہوئے۔ بڑا لڑکا ًقُبلئی خان اور چھوٹا قاچولی بہادر تھا۔ اُس دور کی قرلطائی کے فیصلے کے مطابق بادشاہت اور حکومت قبلئی خان اور اس کی نسلوں کے اقتدار میں رہنا اور مونگول فوج کی سپہ سالاری قاچولی بہادر اور ا س کی نسلوں کے حق میں جانا طے ہوا۔ قبلئی خاں کی چوتھی نسل میں چنگیز خاں پیدا ہوا اور  قاچولی بہادر کی آٹھویں نسل میں امیر تیمور کی پیدائش ہوئی۔

 

۲۳۔ امیر تیمور: ان کے نسبی بزرگ وسطی ایشیا میں حکمراں مونگول خانوں کی فوج کے سپہ سالار ہوتے تھے وہ تیمور کی پیدائش سے تقریباً ۵۰ سال پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔ وسطی ایشیا میں پیدا ہونے،مادری زبان ترکی ہونے مگر مغل نسل سے ہونے کی وجہ سے امیر تیمور مغلیہ ترک سردار تھا۔ امیر تیمور نے وسطی ایشیا کے تمام علاقوں سے چغتائی مغل خانی حکومت کا خاتمہ کر کے وہاں تیموری حکومت قائم کی اور سمر قند کو اپنا پایہ تخت بنایا۔مگر مونگولوں کی قرلطائی کے سابق فیصلے کا لحاظ کرتے ہوئے سلطنت کے صوبوں کی گدی پر کٹھ پتلی مغل خانوں کو ہی بٹھایا اور اپنے لیے خان کی جگہ امیر لفظ کا استعمال کیا۔ لہٰذا تیموری شہزادے امیر زادے (میر زادے یا میرزا یا مرزا)کہلائے۔

 

 

 

 

 

               باب سوم

 

ترکوں کی فتوحات

 

سامانی سلطنت کے خاتمے کے ساتھ ہی وسطی ایشیا میں ترکوں کی فتح کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ دسویں صدی کے آخری حصے میں ترکوں نے غزنی سلطنت قائم کی اور خوارزم سیستان غور وغیرہ کئی ممالک کو فتح کر کے غزنی سلطنت میں شامل کیا۔ ہندوستا ن میں پنجاب کا علاقہ بھی ۱۵۰سال سے زیادہ عرصے تک غزنی سلطنت کا صوبہ رہا۔ عباسی خلیفہ کی فوج کے ترک سردار مشرقی وسطی اور افریقی ممالک کے حکمراں رہے۔ وسطی ایشیا میں سلجوق شاہی اور خوارزم شاہی حکومتوں کے دوران ترکوں نے بہت سے دیگر ممالک کو بھی فتح کیا۔ کمزور پڑ چکی عباسی خلافت اور بائزینتینی ۱؎ سلطنت کو بھی ترکوں نے اپنی تحویل میں لے لیا۔

۱۲۰۶ء میں سلطان شہاب الدین محمد غوری کے ترک سپہ سالار قطب الدین ایبک نے ترکوں کی دہلی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو ۱۴۱۳ء تک (تقریباً ۲۰۸سال) قائم رہی۔   وسطی ایشیا میں فرغانہ کے سابق حکمراں اور کابل کے بادشاہ بابر نے ۱۵۲۶ء میں ہندوستان میں تیموری سلطنت قائم کی۔ جو مغل سلطنت کے نام سے مشہور ہوئی اور تقریباً ۳۰۰ سال قائم رہی۔

ایشیائے کوچک اور مغربی اناتولیا میں ترکوں نے سلطنت عثمانیہ (Ottoman Empire)قائم کی اور بائزینتینی ایمپائر کے ایشیائی اور مشرقی یوروپین ممالک کو فتح کیا۔ اس سے وہ خلافت اسلامیہ کے حق دار بھی بن گئے۔ گذشتہ پانچ صدیوں میں جو اسلامی حکومتیں وجود میں آئیں اور قائم رہیں ان میں بنا کسی شک و شبہ کے ترکوں اور ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کے علاوہ مسلمانوں کی ایسی قوم یا حکومت نہیں تھی جس نے تمام مسلمانوں کی طرف سے خلافت اسلامیہ کے مقصد کو پورا کیا ہو۔ جو فرض تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے بنتا تھا اس کو سب کی طرف سے ترکوں نے ہی انجام دیا۔

ترک سلطنتوں میں ترک شیخ خواجہ بھی عربی فارسی اور ترکی زبان میں اسلام کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اسلامی فلاسفی اور ادب پر بھی کام کرتے رہے۔ جس وجہ سے ترک سلطنتوں میں انہیں بہت عزت و شہرت ملی۔ حکومتوں میں ان کا اثرو رسوخ بڑھنے لگا۔ وہ فوج اور دربار میں اہم عہدوں پر فائز ہونے لگے۔ ۱۶ویں صدی کے آخر سے ۱۷ویں صدی کے آخر تک مشرقی ترکستان کی چاروں مغل خانی سلطنتوں میں حکومت کی باگ ڈور ان ہی ترک شیخ خواجاؤں کے ہاتھوں میں رہی۔ اس کے بعد اٹھارہویں صدی کے وسط تک پہلے ان علاقوں میں جنگاروں پھر چین کے مانچو شہنشاہوں کا اقتدار رہا مگر ان دونوں کے ماتحت بھی ترک شیخ خواجہ ہی وہاں حکومت کرتے رہے۔

 

ترک۔اسلام کے محافظ اور علم بردار :

ترکوں کو مرکز میں رکھ کر اسلامی مبلغین، معروف مورخین اور مصنفین نے بہت کچھ کہا ہے۔

٭       مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب’ ’مسئلۂ خلافت‘‘ میں ترکوں کے بارے میں لکھتے ہوئے اسلام کی تبلیغ میں ترکوں کے کارہائے نمایاں کو ص ۲۰۸ تا ۲۱۲پر اس طرح بیان کیا ہے :

’’حقیقت میں ترکوں کا یہ وہ عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی نظیر مسلمانوں کی کوئی حکمراں قوم نہیں پیش کر سکی۔ صر ف مصر میں صلاح الدین ایوبی اس سے مستثنیٰ ہے  جس نے تمام یوروپ کے متحد مسیحی جہاد کو شکست دی۔ تاہم وہ بھی ایک محدود زمانے کا دفاع تھا۔ مسلسل تین چار صدیوں تک صرف ترکوں کی ہی اسلامی مدافعت قائم رہی ہے۔ ان چار صدیوں میں تمام روئے زمین کے مسلمان اپنے سب سے بڑے قومی فریضے سے دور رہے۔ کسی بھی قوم نے ایک زخم بھی اس مقدس را ہ میں نہیں کھایا۔ کسی بادشاہ نے ایک قدم بھی اس کے لیے آگے نہیں بڑھایا صرف تن تنہا ترک ہی دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے یہ پورا کام انجام دیتے رہے۔ انھوں نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو عیش و عشرت کے لیے چھوڑ دیا اور خود اپنے لیے خاک و خون کی راہ پسند کی۔

تمام دنیا کے مسلمانوں پر ترکوں کا یہ وہ احسان عظیم ہے کہ اگر اس کے بدلے میں مسلمان عالم اپنا سب کچھ قربان کر دیں تب بھی ان کے بارِ احسان سے سبک دوش نہیں ہوسکتے۔ اگر گذشتہ صدیوں میں مسلمانوں نے حکومتیں کی ہیں تو صرف ان ہی کی بدولت اور آج حکومتیں کھو کر بھی کچھ نہ کچھ عزت ان کے پاس ہے تو صرف ان ہی کی بدولت۔ مسلمان دنیا کے کسی بھی حصے میں رہتا ہو چین میں ہو یا افریقہ کے کسی گوشے میں لیکن صدیوں سے اس کی قومی زندگی عزت عیش و آرام سب کچھ جو ایک قوم کے لیے ہے اور ہوسکتا ہے صرف ترکوں ہی کے طفیل سے ہے اور ان ہی کا بخشا ہوا ہے۔

بہت ممکن ہے کسی دوسرے حصے کے مسلمانوں نے ترکوں سے زیادہ نمازیں پڑھی ہوں ، نماز کے قیام کی راہ میں ان سے زیادہ قرآن کی تلاوت کی ہو لیکن قرآن کی حفاظت کی راہ میں چار سو برس سے زخم ان ہی کے سینوں نے کھائے ہیں ۔ لہٰذا جو قرآن اور سنت پر یقین رکھتے ہیں انہیں یہ بھی یقین کرنا چاہیے کہ دوسرے ملکوں اور قوموں کے ہزاروں عابد و زاہد مسلمانوں سے ترکوں کا ایک گناہگار ادنیٰ فرد بھی اللہ کے آگے کہیں زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ جو مسلمان یوروپ کے مسیحی و سیاسی اثر سے متاثر ہو کر ترکوں پر اعتراض کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ جس اولین فرض دینی کے لیے ترک چار سو برس سے اپنا خون بہا رہے ہیں انھوں نے اس کے لیے کیا کیا۔ ‘‘

٭       ’’ مورخ ستیش چندر کے مطابق:

’’ماضی میں آٹھویں صدی کے دوران وسطی ایشیا کے ترکوں نے اسلام مذہب اپنایا تھا۔ بعد کی چار صدیوں میں ان کی نسلوں نے وسطی ایشیا کی اسلامی تہذیب کو وراثت میں حاصل کیا جو ترقی کے عروج پر پہنچ چکی تھیں ۔ تیرہویں صدی میں دہلی ترک سلطنت کے قیام کے آخری دور میں بڑے پیمانے پر خونریزی اور بربادی کا دور چلا مگر سلطنت قائم ہوتے ہی امن اور ترقی کی طرف کوششیں تیز ہو گئیں ۔

ہندوستان آنے والے ترک حکمراں کسی بھی طرح سے وحشی اور ظالم نہیں تھے۔ وہ نہ صرف خودکو اسلام کا محافظ مانتے تھے بلکہ آرکیٹیکچر، ادب، حکومتی نظام، سائنس اور تکنیک وغیرہ تمام شعبوں میں اسلام کی عظیم الشان روایت کے علم بردار ہونے پر فخر کرتے تھے۔ ‘‘

(مدھیہ کالین بھارت۔ د لّی سلطنت، ستیش چندرا، ص ۲۳۳۔۲۳۵)

٭       معروف فارسی اردو شاعر اور فلسفی ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں ترکوں کو ذہن میں رکھ کر اور کہیں کہیں خود ترکوں کے زاویۂ نگاہ سے ان کو سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے :

عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے

شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی

٭٭

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر

٭٭

تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں

خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا

مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری

تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا

٭٭

تھے ہمیں ایک تیرے معرکہ آراؤں میں

خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریاؤں میں

دیں اذانیں کبھی یوروپ کے کلیساؤں میں

کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے

٭٭٭

حواشی

۱۔بائزینتینی ایمپائر: قدیم رومن سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی اس کا مشرقی حصہ بائزینتینی ایمپائر کے نام سے جانا جاتا تھا جس کی دارالسلطنت قسطنطنیہ (موجودہ استنبول)تھی۔

 

 

 

 

               باب چہارم

 

سنبھل

 

شمالی ہندوستان کے موجودہ روہیل کھنڈ علاقہ میں رام گنگا اور گنگا ندی کے درمیان آباد سنبھل ایک قدیم معروف شہر ہے جو زمانہ قدیم میں جنگلوں سے گھرا ہوا تھا۔

سنبھل کی قدیم تاریخ قدیم مذہبی کتابوں سے دریافت ہوتی ہے حالانکہ تاریخی کتب میں بھی احوال ملتے ہیں ۔ ہندو روایت کے مطابق پُرانوں میں سنبھلا گرام کے نام سے سنبھل کا تذکرہ موجود ہے۔ اسکند مہا پُران میں باب ۳ اشلوک ۸۹کے مطابق ست یُگ میں سنبھل کا نام ستیہ برت، تِریتا یُگ میں مہدوگری، دُواپَر میں پنگل اور   کل یُگ میں شنبھل کہلایا۔ اسی پران میں سنبھل کے ۶۸ تیرتھوں اور ۱۹ کوپوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ہندو روایت مشہور ہے کہ ستیہ یگ اور کل یُگ کے درمیان وِشنو کے دشاوتاروں میں سے ایک کلکی اوتار سنبھل میں ہی ظہور پذیر ہو گا۔

۶۸ تیرتھوں اور ۱۹کوپوں میں سے ایک منی کرنیکا تیرتھ جو محلہ کوٹ کے جنوب میں واقع ہے مہدوگری اور منو کامنا تیرتھ بھی کہلاتا ہے۔ ہندو روایت کے مطابق یہاں کے پانی میں شنکر کی غائبانہ رہائش ہے جو تمام گناہوں کو ختم کرنے والے ہیں ۔ اسی تیرتھ کے نزدیک ایک کلکی مندر بھی تعمیر ہوا ہے ۔یہاں سادھوؤں و بھکتوں کے قیام کے لیے دھرم شالہ بھی ہے۔

 

سنبھل کی قدیم تاریخ:

پانچویں صدی ق۔ م میں سنبھل مشرق میں گومتی، شمال مغرب اور جنوب میں جمنا، گنگا و چمبل ندیوں اور شمال میں ہمالیہ کی تلہٹی سے گھرے طاقتور پانچال صوبے کا حصہ تھا۔ پانچال صوبے کا دارالحکومت اہیچھتر تھا۔ ۷۵ء سے ۱۵۰ء کے درمیان سنبھل کُشان سلنطت کا حصہ تھا۔

(History of India, G.F. DE La Phos, P. 53۔54/ An Historical Atlas of the Indian peninsula, p 6, 14) A Historical Survey of Sambhal, B.M. Sankhdher, p)

چوتھی صدی کے اختتام پرسنبھل گُپت حکومت کا حصہ رہا۔ ۶۰۶ء میں اس حصے کو  راجہ ہرش وردھن نے گپت راجاؤں کے خلاف جنگ جیت کر اسے اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔

(R. D. Benerji, ‘The Age of Imperial Guptas’ /’ مرادآباد کے اتہاس  کی ایک جھلک ‘، بی۔ ایس۔ بھٹناگر /’ تاریخ جدو جہد آزادی‘، سید محبوب حسین سبزواری، ص ۳۶)

سنبھل ایسا تاریخی شہر ہے جو ماضی میں کئی مرتبہ زمیں بوس ہوا پھر آباد ہوا۔ محلوں اور قلعوں کے باقیات گزرے زمانے کی عظمت پارینہ بیا ن کرتے ہیں ۔ جس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ سنبھل کی شان و شوکت اور بلندی کئی زمانوں میں قائم رہی۔ چھٹی صدی میں سنبھل، بدایوں ، مرادآباد، آنولہ، رامپور، ٹھا کردوارہ اور بریلی کے علاقوں میں آبادیاں کم اور جنگلات زیادہ تھے۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں میں لوگ آباد تھے۔ ان میں زیادہ تر گھوسی، اہیر، ہبوڑے، گیدھیے وغیرہ ذات کے لوگ آباد تھے۔ وہ پوری طرح جنگلی انداز کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ چھٹی صدی کے آخر میں بلند شہر کی طرف سے کچھ بڑ گوجروں نے انوپ شہر سے ہو کر گنگا ندی پا ر کر کے آدم پور، سنبھل و چندوسی کے جنگلوں میں آبادیاں قائم کر لیں ۔

یہ بڑ گوجر خود کو راجپوت اور سورج ونشی کہتے تھے۔ راجستھانی تاریخ کے مورخ کرنل جیمس ٹاڈ نے بھی انہیں سورج ونشی راجپوت لکھا ہے

(Anals of Rajasthan by C. James Tod)

کچھ وقت کے بعد ہی ان راجپوتوں نے اس علاقہ میں اپنی حکومت قائم کر لی اور ان کا پہلا راجہ پرتاپ سنگھ ہوا۔ پرتاپ سنگھ کی موت کے بعد اس کے بڑے بیٹے بسنت پال کو چندوسی کے پاس کا علاقہ ملا جو بعد میں ریاست مجھولا کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسرے بیٹے ہاتھی سنگھ کو مجھولا سے کچھ فاصلے پر نرولی کا راجہ بنایا گیا۔ تیسرے بیٹے بدن سنگھ کو سنبھل کا علاقہ دیا گیا۔

بڑ گوجرراجپوتوں کے بعد سنبھل علاقہ کٹھیریوں ، پریہاروں ، راٹھوروں ، تومروں اور چوہان راجپوتوں کے قبضے میں رہا۔ ان سب کے دور میں بڑ گوجرراجپوت راجہ ان کے ماتحت رہ کر مجھولا و نرولی پر حکومت کرتے رہے۔ اور ان کے وفادار رہے۔ مسلم دور میں بھی مجھولا اور نرولی سنبھل سرکار کا حصہ رہے۔ تب یہ راجہ ترک سلطانوں ، پٹھانوں اور تیموری بادشاہوں کے ماتحت ہو گئے اور ا ن کے وفادار بن گئے۔

شہنشاہ اکبر کا ایک شاہی فرمان اور سند اس شاہی خاندان کے پاس آج بھی محفوظ ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت ریاست مجھولا سنبھل سرکار میں شامل تھی۔ اس خاندان کے دیپ چند ریاست مجھولا کے راجہ تھے۔ راجہ دیپ چند کو اکبر بادشاہ کی طرف سے چار سو گھوڑ سوار اور آٹھ ہزار پیدل فوج (پہلے پچاس گھوڑ سوار اور ۵۰۰۰ پیدل فوج)رکھنے کا فرمان حاصل ہوا تھا۔ بعد میں اور نگ زیب کے زمانے میں بھی ایک فرمان شاہی اس خاندان کو ملا۔ اودھ کے نواب آصف الدولہ کے دیئے ہوئے فرمان بھی اس خاندان کے پاس محفوظ ہیں ۔

علی گڑھ، بلند شہر اور مرادآباد علاقوں میں بڑے جاگیردار بڑ گوجر راجپوت جو راجہ کہلاتے تھے اپنی رعایا کے ساتھ کافی تعداد میں مسلمان ہوئے۔ ان میں سے چند لوگ مشہور بھی ہوئے۔ جن میں نواب چھتاری (انگریزی دور میں یوپی کے پہلے مسلمان گورنر)، نواب پنڈراول، نواب پاوتی اور نواب زادہ لیاقت علی خاں (پاکستان کے پہلے وزیر اعظم )کے نام بطور خاص لیے جا سکتے ہیں ۔

(’مرادآباد کے اتہاس کی ایک جھلک ‘، پرنسپل بی۔ ایس۔ بھٹناگر )

 

علاقۂ کٹھیر اور کٹھیریا راجپوت:

بڑ گوجر راجپوتوں کے آباد ہونے کے کچھ بعد ہی چھٹی صدی کے آخر میں ایک اور راجپوت قبیلے کٹھیریا نے گنگا ندی پار کر کے بدایوں علاقے میں قدم رکھے اور تھوڑے وقت میں ہی موجودہ آنولہ، شاہ آباد، بریلی، مرادآباد اور سنبھل علاقے اپنے قبضے میں لے لیے۔ اس کے بعد سے یہ علاقہ کٹھیر کے نام سے مشہور ہوا۔

علاقۂ کٹھیر کی ابتدا کے بارے میں کئی روایتیں مشہور ہیں ۔

٭       گنگا ندی کے کناروں کا علاقہ پانی کی سطح اونچی ہونے اور ریتیلی زمین ہونے کی وجہ سے کھادر کہلاتا ہے۔ ریتیلی زمین سے دور جانے پر پانی کی سطح گہری ہونے سے اوپر کی زمین (کٹھور)سخت ہونے لگتی ہے۔ غالباً لفظ’ کٹھور‘ ہی بگڑ کر کٹھیر ہو گیا۔

٭       Atekinsonکا کہنا ہے کہ چھٹی عیسوی میں بنارس کے پاس’ کٹیہار‘ نام کی ا یک جگہ سے راجپوت اس علاقے میں آئے تھے۔ ایک روایت کے مطابق بنارس کے راجہ جے چند نے کٹیہار کے ایک سورج ونشی راجپوت بھیم سین کو بنارس سے نکال دیا تھا۔ بھیم سین اپنے ساتھیوں کو لے کر لکھنور (موجودہ شاہ آباد ضلع رامپور)پہنچا اور وہاں سے اہیروں کو بھگا کر اپنا راج قائم کر لیا۔ ساتویں صدی عیسوی میں بھیم سین کی اولادوں کی طاقت کافی بڑھ گئی اور وہ آنولہ تک پھیل گئے۔ انھوں نے آنولہ کو اپنی راجدھانی بنایا اور پہلے کٹیہار بعد میں کٹھیریا راجپوتوں کے نام سے جانے گئے۔ آٹھویں صدی سے یہ علاقہ کٹھیر کے نام سے مشہور ہوا۔ اُس وقت کٹھیر میں موجودہ بدایوں ، بریلی، رامپور، مرادآباد، کاشی پور اور امروہہ ضلعوں کے علاقے آتے تھے۔

٭       کٹھیر علاقے میں یہ بات مشہور ہے کہ ریاست مجھولہ کے ایک راجپوت راجہ نے اپنی ایک لڑکی کی شادی کوٹھاری برہمن سے کر دی تھی۔ اس راجپوت لڑکی سے برہمن کے چار لڑکے ہوئے۔ ان چاروں لڑکوں کی اولادیں کوٹھاریہ (کٹھیریا) راجپوتوں کے نام سے مشہور ہوئیں ۔

گیارہویں اور بارہویں صدی میں علاقہ کٹھیر پر کٹھیریا راجپوت پوری طرح چھائے رہے۔ علاقے کے اہیر اور آدی واسی قومیں کبھی کبھی آپس میں اکٹھا ہونے لگتی تھیں تو راجپوت ان کو علاقے سے بھگا دیا کرتے تھے۔ کٹھیریا راجپوتوں نے مسلمان حکمرانوں کے غلبے کو کبھی منظور نہیں کیا۔ اور اکثر وہ دلی سلطنت کے لیے مشکلیں پیدا کرتے رہے۔ علاقے کے جغرافیائی حالات کٹھیریا سرداروں کو بغاوت کرنے کے لیے اُکساتے تھے۔ کانٹے دار گھنے جنگل سارے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے جو کٹھیریا سرداروں کے چھپنے کے محفوظ ٹھکانے تھے لہٰذا کٹھیریا راجپوت چھاپہ مار لڑائی میں مہارت رکھتے تھے اور سلطانی فوجوں کے ساتھ لکا چھپی کا کھیل کھیلتے رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے سلطانوں کو بغاوت کچلنے میں زبردست دشواریوں کاسامنا کرنا پڑتا تھا۔ حالانکہ شاہی فوجوں کے ساتھ لگاتار جھڑپوں کے چلتے کٹھیریا راجپوت بھی دکھ بھری اور خطروں کی زندگی جینے کو مجبور تھے۔

۱۸ویں صدی(۱۷۴۲ء) میں کٹھیرپر روہیلوں ۱؎ کا قبضہ ہو جانے کے بعد سے یہ علاقہ روہیل کھنڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یعنی اتر پردیش کا موجودہ روہیل کھنڈ مدھیہ کالین یُگ کا کٹھیر علاقہ ہے۔ (بریلی گزٹ ص ۵۷۷/ فشر  شاہجہانپور ص ۷۲)

ساتویں صدی کے شروع میں انوپ شہر کی طرف سے ہی گنگا ندی پار کر کے پریہار راجپوتوں نے سنبھل علاقے میں گھس کر کٹھیریا راجپوتوں کو بھگا دیا۔ ا س کے تھوڑے عرصے کے بعد ہی اُسی سمت سے آئے راٹھور قبیلے کے راجپوتوں نے آدم پور کے مقام پر پریہاروں سے جنگ کر کے انہیں شکست دی۔

 

سنبھل میں دہلی کے تومر راجپوتوں کی حکومت :

۷۰۰ء میں دہلی کے راجپوت راجہ واسُدیو تومر۲؎ نے اپنے بیٹے کنک پال کو بلند شہر کی طرف سے گنگاپار سنبھل پر حملہ کرنے بھیجا جس نے راٹھور راجپوتوں کو شکست دے کر علاقہ سے نکال دیا۔ اس طرح سنبھل تومر خاندان کی دہلی حکومت کی حدود میں آ گیا۔

نویں صدی کی تیسری دہائی کے آخر میں (۸۲۸ء) سنبھل کچھ وقت کے لیے قنوج کے گوجر پرتیہار خاندان کے حاکم ناگ بھٹ ۔II ۳؎ کی تحویل میں آ گیا۔ بعد میں پھر دہلی کے تومر راجاؤں کے قبضے میں چلا گیا۔

راجپوت راجا وجّر پال (۱۰۰۲۔۱۰۲۶ء) محمود غزنوی (۹۹۷ء۔۱۰۳۰ء) کا معاصر تھا۔ اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا مہی پال تومر (۱۰۲۶ء۔۱۰۵۱ء )بھی تقریباً چار سال محمود غزنوی کا معاصر رہا۔ راجہ مہی پال کی موت کے بعد اس کا بیٹا اَگر پال تومر (۱۰۵۱ئ۔۱۰۷۲ء) پھر اس کا بیٹا پرتھوی راج تومر (۱۰۷۲۔۱۰۹۵ء) جو کہ رائے پتھورا کے نام سے مشہور ہوا اور دہلی کے تخت پر بیٹھا۔ رائے پتھورا نے دہلی میں ۱۰۸۵ء سے ۱۰۹۵ء کے درمیان ایک خوبصورت قلعہ بنوایا جو قلعہ رائے پتھورا ۴؎  کے نام سے جانا جاتا ہے۔  اس وقت سنبھل اور امروہہ کا علاقہ دہلی حکومت کی حدود میں شامل تھا لہٰذا رائے پتھور ا نے سنبھل کے پرانے قلعے میں بھی مرمت اور تبدیلیاں کرائیں ۔ رائے پتھورا نے اپنی بہن رانی انبا(Amba) کے لیے موجودہ امروہہ کے مقام پر ایک نیا قلعہ بنوایا اور اس کا نام اپنی بہن کے نام پر امبیکا نگر رکھا جو بعد میں امروہہ کے نام سے مشہور ہوا۔

(Rohilkhand Territory by Afzalur  Rahman Khan, p۔31)

۱۰۹۵ء میں پرتھوی راج تومر رائے پتھورا کی موت کے بعد دہلی میں تومر خاندان کا خاتمہ ہو گیا مگر سنبھل پر ۱۱۵۰ء تک تومر خاندان کے راجاؤں کی حکومت رہی۔

 

سنبھل کا حاکم پرتھوی راج:

تومر راجپوتوں کے دور دسویں صدی کے آغاز میں سنبھل کچھ عرصے تک تاریخ میں گُم نظر آتا ہے۔ سنبھل کے نزدیک سرتھل (موجودہ گاؤں سرتھل کھیڑا)کا تومر راجہ ہجات کوڑ ھ کے مرض میں مبتلا تھا وہ اپنے حکیموں اور نجومیوں کے مشورے پر سنبھل کے تیرتھوں کی زیارت کرنے اور وہاں کے کوپوں (کنوؤں ) میں نہانے کے لیے آیا۔ روایت کے مطابق کوپوں میں نہانے سے اس کا کوڑھ کا مرض جاتا رہا۔ اس ے متاثر ہو کر تومر راجہ ہجات نے سرتھل کی جگہ سنبھل کو ہی اپنا دارالحکومت بنا لیا اور سنبھل میں ایک قلعہ تعمیر کرایا۔

تومر راجہ ہجات کے بعد سنبھل میں تھوڑے تھوڑے وقفے پر کئی راجہ ہوئے۔ اس کے بعد راجہ ہجات کا نواسہ پرتھوی راج سنبھل کا حاکم ہوا۔ مہوبا کے راجہ پرمال نے پرتھوی راج کی بیٹی سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کی خوبصورت بیٹی نے بھی راجہ پرمال کو پسند کر لیا مگر اس وقت کے رواج کے مطابق دونوں کی شادی بنا جنگ ہوئے ممکن نہ تھی۔ لہٰذا راجہ پرمال اور پرتھوی راج کے درمیان جنگ ہوئی جس میں پرتھوی راج کی ہار ہوئی اور بیلا کی شادی راجہ پرمال سے کر دی گئی۔ گونہ (وداعی)بعد میں ہونا طے پایا۔ پرتھوی راج نے جب کافی دنوں تک وداعی نہیں کی تو بیلا نے راجہ پرمال کو خبر بھجوائی کہ میرے والد کو جنگ میں شکست دے کر مجھے لے جاؤ۔ لہٰذا راجہ پرمال نے اپنے سرداروں آلہ و اُودل کے ساتھ سنبھل پر حملہ کر دیا۔ زبردست لڑائی میں راجہ پرمال مارا گیا اس وقت میں رائج رسم کے مطابق بیلاستی ہو گئی۔ جہاں بیلا ستی ہوئی اس مقام کو’ ’بیلا کا تھان‘‘ کے نام سے شہرت ملی۔ کئی جگہ اس دور اور اس کے بعد کے دور کے ستیوں کے تھانوں کے نشان آج بھی ملتے ہیں ۔

 

سنبھل اور سید سالار مسعود غازی :

امروہہ، مرادآباد، سنبھل اور بدایوں کے علاقوں میں سینہ بہ سینہ چلی آرہی داستانوں کے مطابق ۱۰۳۰ء میں سلطان محمود غزنوی کی موت کے بعد اس کی فوج کے سپہ سالار ساہو کے بیٹے سالار مسعود غازی ۵؎  نے سنبھل کے حاکم راجہ پرتھوی راج ۶؎ کے دور میں غزنوی کے پنجاب صوبے سے ہو کر ایک بڑی فوج کے ساتھ دہلی و میرٹھ کو فتح کرتے ہوئے سنبھل پر شمال مغربی سمت سے حملہ کر دیا لیکن سنبھل کے حاکم پرتھوی راج  کی فوج نے انہیں شکست دے دی۔ بعدہٗ سپہ سالار غازی نے اس مورچہ سے ہٹ کر مشرق کی طرف سے قلعہ پر حملہ کر نے کا منصوبہ بنایا۔

پرتھوی راج نے شہباز پور کے مقام پر اپنے دشمن سے سخت مقابلہ کیا مگر اس بار ہار گیا اور قلعہ کی چور سرنگ جس کے اندر صرف ایک آدمی ہی چل سکتا تھا اور جو قلعے کے چاروں طرف بنی نہر کے پانی کے نیچے ہوتی ہوئی دکھن کی طرف باہر نکلتی تھی سے ہو کر بھاگ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سید سالار مسعود غازی کی فوج کے احمد اور محمد سب سے پہلے مشرقی کمایوں دروازے سے قلعے کے اندر داخل ہوئے اور وہاں پرتھوی راج کے لڑکے کے ساتھ ہوئی لڑائی میں مارے گئے۔ ان دونوں کے مزار قلعے میں کمایوں دروازے کے اندر موجود ہیں ۔ اس فتح کی یاد میں شاہباز پور (سنبھل )میں نیزے کا تیوہار بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شہباز پور میں منایا جانے والا نیزہ تقریباً ۱۰۰۰ سال پرانا تیوہار ہے۔

سیدسالار مسعود غازی اور پرتھوی راج کی جنگ میں پہلے پرتھوی راج کو کامیابی ملی تھی لہٰذا اس فتح کی یاد میں سنبھل کے رائے ستی علاقے میں اُسی مقام پر ایک باغ میں سنبھل کے ہندو عوام دھجا (دھوجا)کا تیوہار مناتے ہیں ۔ سنبھل میں نیزے اور دھجا کے تیوہاروں سے سید سالار مسعود غازی اور پرتھوی راج کے بیچ ہوئی جنگ کا مشہور واقعہ جڑا ہے۔ قلعہ فتح ہونے کے بعد قلعے کے اندر سپاہیوں اور لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا جو سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ نئے مسلمان ہوئے سپاہی اس وقت ترکیہ سپاہیوں ۷؎  کے نام سے جانے گئے۔ ممکن ہے کہ ترکیوں میں سے بہت سے نوجوان سپاہیوں کو سید مسعود غازی فوج میں شامل کر کے اپنے ساتھ بہرائچ لے گئے ہوں اور ان کی جگہ پر اپنی فوج کے کچھ ترک فوجیوں اور اساتذہ کو قلعہ و قلعہ کے عوام کے تحفظ اور اسلامی تعلیم کے لیے سنبھل میں چھوڑ دیا ہو۔

جلد ہی یہ ترک سپاہی قلعہ کے ترکیہ سپاہیوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ گھُل مل گئے۔ حالانکہ بہت دنوں تک قلعہ پر ان لوگوں کا قبضہ برقرار نہیں رہا اور قلعہ کے ان ترک اور ترکیہ سپاہیوں کی اولادوں کو سنبھل کے بیرونی علاقوں میں آباد ہونا پڑا۔

’’سنبھل کے حاکم پرتھوی راج اور اس کے دور کی یا اس سے پہلے کی تاریخ و سید سالارمسعود غازی کے سنبھل میں داخل ہونے و سنبھل کے حاکم پرتھوی راج کے ساتھ جنگ ہونے کی حقیقت کے بارے میں اُس وقت کا کوئی مستند حوالہ تاریخ میں نہیں ملتا۔ ‘‘

 

سنبھل دہلی کے چوہان راجپوتوں کے زیر حکومت :

۱۰۹۵ء میں راجہ بلدیوچوہان نے دہلی میں تومر حکومت کا خاتمہ کر کے چوہان راجپوت حکومت کی بنیاد ڈالی۔ اس حکومت کی پانچویں پشت کے راجہ ناگ دیو چوہان (۱۱۴۲۔۱۱۳۸ء) کا بیٹا پرتھوی راج چوہان ۱۱۴۱ء میں اپنے نانا و اجمیر کے راجہ وسال دیو کی موت کے بعد ان کی وصیت کے مطابق اجمیر کی گدی پر بیٹھا۔ (اجمیر کے راجہ وسال دیو کا کوئی وارث نہیں تھا)ایک سال کے بعد اپنے والد راجہ ناگ دیو کی موت کے بعد وہ دہلی کا بھی راجہ بن گیا۔ اس طرح پرتھوی راج چوہان اجمیر اور دہلی دونوں کا راجہ کہلایا۔

۱۱۵۰ء میں پرتھوی راج چوہان نے اپنے چھوٹے بھائی تھانڈے رائے کو گنگا پار سنبھل علاقے پر جو اس وقت تومر راجپوتوں کے قبضے میں تھا، کو فتح کرنے اور وہاں سے تومر راجپوتوں کو بھگانے کے لیے ایک بڑی فوج کے ساتھ سنبھل روانہ کیا۔ معمولی جھڑپ کے بعد تھانڈے رائے نے سنبھل پر اپنا قبضہ کر لیا اور علاقے سے تومر راجپوتوں کو نکال باہر کیا۔

(تاریخ جدوجہد آزادی، سید محبوب حسین سبزواری ص ۳۸)

اس طرح پرتھوی راج چوہان نے سنبھل کو اپنے ماتحت کر کے وہاں کا حاکم اپنے بھائی تھانڈے رائے کو بنا دیا۔ پرتھوی راج چوہان نے سنبھل میں پرانے و خستہ حال قلعہ کے مقام پر ہی ایک بڑا اور شاندار قلعہ تعمیر کرایا۔ قلعہ کے چاروں طرف چار دروازے بنوائے گئے۔ مغرب میں دہلی دروازہ، مشرق میں سرتھل دروازہ، جنوب میں بدایوں دروازہ اور شمال میں کمایوں دروازہ تھا۔ قلعہ کے چاروں طرف خندق بھی کھدوائی گئی تھی اس دوران پرتھوی راج چوہان نے سنبھل کے دورے بھی کیے۔ پرتھوی راج چوہان اجمیر و دہلی کا آخری ہندو راجپوت راجہ ہوا۔ وہ ۴۹ سال ۵ ماہ حکومت کرنے کے بعد ۱۱۹۲ء میں محمد غوری کے ہاتھوں ترائن کی دوسری جنگ میں مارا گیا۔

اس طرح اس بڑ گوجر راجپوت راجاؤں کے علاقہ پر تھوڑے تھوڑے وقت کے لیے کٹھیریوں ، پریہاروں اور راٹھوروں کا قبضہ رہنے کے بعد تقریباً چار سو سال تک تومر راجپوتوں کی و تقریباً ۹۵سال تک دہلی کے چوہان راجپوتوں کی حکومت رہی۔

(’مراد آباد کے اتہاس کی ایک جھلک‘، پرنسپل بی۔ ایس بھٹناگر /’ مرادآباد تاریخ جدوجہد آزادی‘، سید محبوب حسین سبزواری /’ واقعات دارالحکومت دہلی‘، بشیر الدین احمد/’ تاریخ فرشتہ ‘، محمد قاسم فرشتہ/’ منتخب التواریخ‘، عبد القادر بدایونی (ترجمہ) /’ سنبھل اے ہسٹوریکل سروے‘، بی۔ ایم سانکھدھر /’روہیل کھنڈ‘، گری راج نندن)

 

سنبھل روہیلوں کے قبضے میں :

۱۷۴۲ء میں کٹھیر کا علاقہ روہیلہ سردار علی محمد خان کے قبضے میں آیا۔ اس کے بعد سے کٹھیر علاقے کو روہیل کھنڈ کے نام سے موسوم کر دیا۔ ۱۷۴۸ء میں علی محمد خاں کے انتقال کے بعد حافظ رحمت خان روہیلہ سردار ہوا۔ حافظ رحمت خاں نے اپنے چچیرے بھائی سردار دوندے خاں کو افغانستان سے بلا کر روہیلہ فوج کا سپہ سالار مقرر کیا۔ ۱۷۵۲ء میں روہیل کھنڈ کا بٹوارہ ہو گیا۔ شاہ آباد اور موجودہ رامپور علاقہ نواب فیض اللہ خان کو ملا۔ فیض اللہ خان بانی روہیل کھنڈ علی محمد خان کے بڑے بیٹے تھے۔ جو ۱۷۷۴ء تک بریلی میں رہ کر علاقہ کا نظام چلاتے رہے۔ ۱۷۷۴ء میں رامپور اسٹیٹ قائم ہوئی اور نواب فیض اللہ خان رامپور اسٹیٹ کے پہلے نواب ہوئے اور ۱۷۹۴ء تک رہے۔ سنبھل، مرادآباد، امروہہ، بسولی اور اسلام نگر سردار دوندے خان کے حصے میں آئے۔ ۱۷۷۰ء میں نواب دوندے خان کی موت کے بعد یہ علاقہ ۱۷۷۳ء تک ان کے لڑکوں کے حصے میں ر ہا۔ ۱۷۷۳ء کے آخیر میں کچھ وقت کے لیے سنبھل پر مراٹھوں کا قبضہ بھی رہا۔

بریلی، پیلی بھیت اور شاہجہاں پور حافظ رحمت خان کے حصے میں آئے۔ ۱۷۷۴ء میں اودھ کے نواب شجاع الدولہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی مشترکہ فوجوں نے روہیلہ سردار حافظ رحمت خان کی فوج کو شکست دے دی۔ اس جنگ میں فیض اللہ خاں نے حافظ رحمت خاں کا ساتھ نہیں دیا۔ جنگ میں حافظ رحمت خان مارا گیا۔ (Cambridge History of India)

 

سنبھل اودھ صوبے کا حصہ :

۷؍ اکتوبر ۱۷۷۴ ء کو نواب فیض اللہ خان اور نواب شجاع الدولہ و برٹش حکومت کے درمیان ہوئے سمجھوتے کے مطابق رامپور کو چھوڑ کر سارا روہیل کھنڈ اودھ کے نواب شجاع الدولہ کے قبضے میں آ گیا اور اس طرح سنبھل اودھ صوبے کا حصہ بن گیا۔ تقریباً ۲۷ برس تک روہیل کھنڈ پر اودھ کے نواب کی حکومت رہی۔ ۱۸۰۱ء میں انگریزوں نے اودھ کے نواب سے روہیل کھنڈ چھین لیا۔

 

روہیل کھنڈ پر انگریزوں کی حکومت:

شمالی ہندوستان میں روہیلوں کی شکست کے بعد ٹونک کے جاگیردار نواب محمد امیر خاں سنبھلی نے انگریزوں کے خلاف مورچہ سنبھالا۔ ۱۸۰۵ء میں نواب امیر خاں سنبھلی کی قیادت میں مراٹھا فوج نے روہیل کھنڈ کے مغربی علاقے پر حملہ کر دیا۔ امیر خان مرادآباد کو فتح کرتا ہوا چندوسی تک پہنچا اور علاقہ پر پھر سے مراٹھوں کا قبضہ کرادیا۔ ۱۸۱۶ء میں تیسری اینگلو مراٹھا جنگ شروع ہوئی جس میں انگریزوں کو فتح ملی۔ ۱۸۱۷ء میں جنرل ہیسٹنگس کے ساتھ ہوئے ایک معاہدہ کے تحت نواب امیر خاں سنبھلی اور مراٹھوں کو یہ علاقہ چھوڑنا پڑا۔ اس طرح روہیل کھنڈ پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا مگر نواب امیر خان سنبھلی کو ٹونک ریاست کا خود مختار نواب مان لیا گیا۔

 

آثار قدیمہ:

سنبھل کا قدیم قلعہ اکبر کے زمانے تک صحیح حالت میں رہا۔ ابوالفضل کی آئینہ اکبری کے صفحہ ۲۳۸ پر لکھا ہے کہ صوبہ سنبھل دہلی کے ماتحت تھا۔ جہاں اینٹوں سے بنا ایک قلعہ ہے۔ قلعے کے آثار اب ختم ہوتے جا رہے ہیں ۔ ابھی کچھ سال پہلے تک مسلم دور کے قلعے کا ایک بُرج (بالا برج، فارسی کتبہ کے مطابق ۱۰۵۲ھ مطابق ۱۶۴۲ء، تصویر)صحیح حالت میں تھا مگر اب اس کا بھی کوئی نشان باقی نہیں ہے۔ قلعے کا علاقہ اب محلہ کوٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

محلہ کوٹ میں سنبھل کے پرانے قلعے کے مغرب میں تغلق دور ۸؎ کی ایک خستہ حال مسجد کی جگہ پر ۱۵۲۷ء میں بنی جامع مسجد بالکل صحیح حالت میں ہے ۔ سنبھل میں دہلی دروازے کے جنوب میں تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے (موجودہ سرائے ترین کا محلہ دربار)پر سکندر لودھی کے دور کی میاں داؤد ملک کی ۱۵۰۳ء میں بنوائی ہوئی ایک اور جامع مسجد موجود ہے ۔اس جامع مسجد کے بالکل قریب ہی ایک باغ کے پکّے احاطے میں شاہ فتح اللہ ترین کا مقبرہ ہے ترین سرائے ۹؎ (سرائے ترین) انھیں کے نام سے آباد ہے۔ شاہ فتح اللہ ترین کے مقبرے والے باغ کا صدر دروازہ ۱۹ویں صدی کے شروع میں نواب امیر خاں سنبھلی ۱۰؎  نے بنوایا تھا۔

سنبھل کی جامع مسجد کے مغرب میں تقریباً دو میل کے فاصلے پر دہلی روڈ پر اعتماد الملک سنبھلی (شیر شاہ کے دربار میں وزیر اعظم)کا مقبرہ ہے جس کا گنبد بجلی گر جانے کی وجہ سے کافی پہلے گِر چکا ہے  اعتماد الملک کے مقبرے کے برابر اس سے پہلے کا ایک اور مقبرہ (نام نامعلوم) گنبد کے نام سے صحیح حالت میں موجود ہے

شیر شاہ اور اسلام شاہ کے دور میں ۱۵۴۳ء سے لے کر ۱۵۴۷ء تک سنبھل ٹکسال بھی رہا ہے جہاں تانبے کے سکّے ڈھلے۔

(Coin reported by Nelson Wright p. 219۔22

سنبھل میں دہلی دروازے سے جنوب مغرب میں سنبھل دہلی شاہراہ۱۱؎ پر تقریباً ۱ میل کے فاصلے پر شاہجہاں کے دور کی ایک عیدگاہ اور باؤلی تعمیر ہے۔

دہلی دروازے سے متصل دہلی شاہراہ پر ہی تقریباً ۵ میل کے فاصلے پر آباد سوندھن گاؤں میں شاہجہاں کے ہی دور کا ایک قلعہ اور مسجد تعمیر ہے۔

٭       سنبھل کے شمال مشرق میں تقریباً ساڑھے تین کوس(۵میل) کے فاصلے پر سوت ندی کے پاس موجودہ فیروز پور کے مقام پر شاہجہاں کے ہی دور کا ایک قلعہ اور مسجد موجود ہے۔

٭       سنبھل میں ایک دوسرا قلعہ موجودہ میانسرائے علاقے میں ہے جو امین الدولہ کا بنوایا ہوا ہے (امین الدولہ ۱۶۸۵ء میں سنبھل شہر کا حاکم/ گورنر ہوا)۔ قلعے کا صدر دروازہ خستہ حالت میں ہے۔ صدر دروازے کے باہر کٹرہ بازار ہے اور قریب ہی ایک مسجد بھی ہے جو ۱۷۱۵ء کی تعمیر کردہ ہے۔ (کتبہ ۱۱۲۷ھ)

٭       سنبھل کے اطراف میں تاریخی حیثیت کے کئی کھیڑے ۱۲؎  موجود ہیں ۔ موجودہ دیپا سرائے چوک کے مغرب میں تھوڑے فاصلے پرہی بابر اور ہمایوں کے سپہ سالار ہندو بیگ نے ہندو پورہ آباد کیا تھا۔ اسی پرانی آبادی کے ڈھیر پر محلہ ہندوپورہ کھیڑہ آباد ہے۔

٭       سنبھل سے ۵میل دور مشرق میں موضع چندائن میں ایک قدیم چندیشور مندر کے کھنڈر ہیں جن پر چندیشور کھیڑہ آباد ہے۔ ۱۹۴۹ء کی برسات میں باڑھ آ جانے پر یہ مندر گر گیا تھا۔ بعد میں اُسی جگہ پر نیا چندیشور مندر بنا۔ یہاں ہر سال دیوالی کے تیسرے دن پھیری کا میلہ لگتا ہے۔ اس کے علاوہ گاؤں علی پور کے قریب سوت ندی کے کنارے امرایتی کھیڑہ ہے۔ سرتھل کھیڑہ بھی قدیم تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔

 

دیپاسرائے (ایک کھوج)

 

۱۷۵۲ء میں روہیل کھنڈ کی تقسیم کے بعد سنبھل، مرادآباد، کاشی پور، امروہہ، بسولی اور اسلام نگر حافظ رحمت خان کے چچیرے بھائی سردار دوندے خان کے حصے میں آئے تھے۔  (سنبھل روہیلوں کے قبضے میں)دیپا سرائے علاقہ سنبھل شہر کا شمال مغربی حصہ ہے۔

 

کاشغر (مشرقی ترکستان)سے شیخ خواجاؤں کی سنبھل میں آمد:

۱۷۶۰ء میں کاشغر سے منتقل ہو کر آئے شیخ ترک قوم کے شیخ خواجاؤں کے قافلے (مشرقی ترکستان میں شیخ خواجاؤں کی حکومت، برتھیل اور درکوٹ درّوں سے ہو کر شوالک پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ ترائی علاقوں کے راستے سیدھے آگے بڑھتے ہوئے دلی سے کچھ دور گزر کر دوآب کے علاقہ میں بجنور تک پہنچے بجنور سے شیخ خواجاؤں کے دستے دوسمتوں میں تقسیم ہو گئے۔ کچھ کاشی پور کی طرف رُودر پور، ہلدوانی اور رامپور کے سوار، ٹانڈہ، بلاسپور، مونڈھا پانڈے وغیرہ علاقوں میں وہاں پہلے سے آباد شیخ خواجہ یاخوجہ ترکوں کی آبادی والے مواضعات میں تھوڑی تھوڑی تعداد میں مقیم ہو گئے۔

شیخ خواجاؤں کے دستے کے بہت سے لوگ بجنور سے روہیل کھنڈ علاقہ میں داخل ہو کر امروہہ کے قریب سے گزر کر جویا سے موضع ماتی پور (سنبھل کی طرف)کے درمیان اور شمال مشرق میں کندرکی اور بلاری تک ’’خوجہ ترک آبادی والے مواضعات‘‘۱۳؎   میں آباد ہو گئے۔ انگریزوں کے استحصال سے بچنے کے لیے امروہہ، مرادآباد، رامپور اور سنبھل شہروں کے زیادہ تر شیخ ترک خاندان بھی انھیں مواضعات کی طرف نقل مکانی کے بعد وہاں پہلے سے آباد خوجہ ترکوں کے ساتھ رہنے لگے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی ان میں مل گئے۔ کچھ شیخ خواجاؤں کا ایک دستہ جس میں کاشغر کے سابق حکمرانوں (شیخ خواجاؤں )کے اونچے منصب دار درباریوں کے دو بڑے گھرانوں اور ساتھ میں ان سے جڑے ترکوں و خوجہ ترکوں کے کچھ لوگ بھی شامل تھے، سیدھے سنبھل شہر میں قیام پذیر ہوئے دہلی سلطنت کے قیام کے بعد سے ہی دہلی، سنبھل اور اطراف کے علاقوں سے اور وسطی ایشیا کے بخارا، سمرقند، کاشغر وغیرہ علاقوں سے تجارت یا ملازمت کے سلسلے میں دونوں طرف کے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔

۵؍نومبر ۱۵۵۶ء کو پانی پت کے میدان میں اکبر کی ترک فوج اور راجہ ہیمو (Hemu) نے کچھ روز قبل ہی دہلی کے حاکم تردی بیگ کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کیا تھا )کے درمیاں ہوئی جنگ میں اکبر کی فوج نے راجہ ہیمو کو شکست دے دی تھی۔ اس جنگ میں سنبھل سرکار کے گورنر علی قلی خان شیبانی کے زیر قیادت سنبھل کی فوج نے شاہی ہراول دستے کے ساتھ مل کر زبردست جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اور اکبر / بیرم خاں کے زیر قیادت شاہی فوج کے جنگ کے میدان تک پہنچنے سے پہلے ہی جنگ جیت لی تھی۔ علی قلی خان شیبانی نے ہی راجہ ہیمو کو گرفتار کر کے اکبر کے سامنے پیش کیا تھا۔ لہٰذا  اکبر نے اسے سنبھل کا گورنر بنائے رکھتے ہوئے’ ’خان زماں ‘‘ کے خطاب سے نوازا اور سنبھل کی کل جاگیر ا س کے نام کر دی جو پہلے بیرم خان کے نام تھی۔ پانی پت کی جنگ میں جانے سے پہلے خان زماں علی قلی خان شیبانی کے زیر قیادت سنبھل سرکار کے سبھی ۴۷ پرگنوں کی دس ہزار فوج نے مل کر’ ’دریا سر‘‘ کے میدان میں جنگ کے لیے مشق کی تھی۔ سنبھل کی دس ہزار فوج میں سنبھل کے ایک محال’ ’ریاست مجھولا‘‘ کے راجہ دیپ چند کی پانچ ہزار راجپوت فوج بھی شامل تھی۔ سنبھل شہر کے شمال مغرب میں موجودہ تمر داس سرائے سے لگا ہوا پیچھے کا جنوبی علاقہ راجہ دیپ چند کی فوج کی چھاؤنی تھا۔ رکن الدین سرائے کے مغرب میں باقی فوج کی چھاؤنی تھی۔ بعد میں راجہ دیپ چند چھاونی کا نام ان ہی کے نام پر’ ’دیپ سرائے‘‘ پڑا۔

راجہ ہیمو پر فتح کے بعد راجہ دیپ چند کو بھی اکبر کی طرف سے ایک فرمان اور سند جاری کر کے کمایوں میں بڑی جاگیر نام کی گئی اور فوج کی تعداد پانچ ہزار سے بڑھا کر آٹھ ہزا ر کر دی گئی۔ (دی گزٹ مرادآباد، ایٹلس تحصیل سنبھل ۱۹۲۹ء ص ۳۲)

 

علاقہ دیپا سرائے میں شیخ خواجاؤں کا قیام:

شہنشاہ اکبر کے ابتدائی دور میں موجودہ چندوسی کے قریب’ راجہ کا مجھولا‘ کے بڑ گوجر راجپوت راجہ دیپ چند کے نام سے سنبھل کے شمال مغرب میں دیپ سرائے یا دیپا سرائے آباد ہوئی تھی۔ اس کے تقریباً ۱۵۰سال بعد کاشغر (مشرقی ترکستان) سے نقل مکانی کر کے آنے والے حکمراں شیخ خواجاؤں (شیخ ترکوں ) کے ایک دستے نے سنبھل شہر میں اسی دیپ سرائے کے جنوب میں موجودہ دیپا سرائے میں قیام کیا اور بعد میں یہیں سکونت اختیار کر لی۔

قافلے کے ساتھ آئے کچھ دیگر ترک اور خوجہ ترک بھی دیپا سرائے اور اس سے متصل شمالی علاقہ میں مقیم ہو گئے۔ سنبھل شہر کی سرحدی سرایوں اور اس کے دیہی علاقوں میں بہت پہلے سے ہی کافی تعداد میں مختلف قبیلوں کے ترک اور بوبنہ ترک (یہ اب صرف ترکوں کے نام سے جانے جاتے ہیں )آباد تھے۔ سنبھل شہر میں دیگر مقامات پر پہلے سے آباد کچھ’ ’شیخ خواجاؤں ‘‘ اور خوجہ ترک خاندانوں کی بھی جلد ہی دیپا سرائے کے شیخ ترکوں کے ساتھ شمولیت ہو گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنبھل علاقہ کے باہر کے گاؤں سے بھی شیخ ترک اور خوجہ ترک دیپا سرائے میں آ کر آباد ہوتے رہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

 

ہندو پورہ کھیڑا اور دیپا سرائے میں شیخ ترک قوم کے خواجہ ترک:

کاشغر سے سیدھے سنبھل آ کر موجودہ دیپا سرائے میں قیام پذیر شیخ ترک نسل کے شیخ خواجاؤں کے دو بڑے گھرانوں میں شیخ رفعت محمد (شیخ رفاتی)، ان کے بھائیوں اور لڑکوں کے خاندان و شیخ نتھن اور ان کے لڑکوں کے خاندان شامل تھے۔ شیخ رفاتی اور شیخ نتھن نے دیپا سرائے میں قیام کے ساتھ ہی اپنے کنبوں کی مستقل رہائش کے انتظامات کیے۔ بعد میں جلد ہی سنبھل شہر و اس کے چاروں طرف بیرونی علاقوں میں بھی بہت سی آراضی ان کی ملکیت میں آگئی۔ شیخ رفاتی نے اپنے کنبے کے لیے موجودہ چوک کے چاروں طرف کی آراضی میں مغرب کی طرف پانچوں بھائیوں کے لیے ایک حویلی تعمیر کرائی جس میں بڑے بڑے پانچ خوبصورت نقشین لکڑی کے دروازے لگے تھے۔ آگے چل کر یہ’ ’بڑی حویلی‘‘ کے نام سے جانی گئی۔

شیخ رفاتی کے بعد ان کے کنبے کی اولادیں’ ’رفاتی والے ‘‘گھرانے کے نام سے مشہور ہوئیں ۔ آج بھی رفاتی والے گھرانے کے ایک بزرگ مولانا چراغ عالم دیگر رفاتی گھرانے کے لوگوں کے ساتھ اپنے بزرگوں کی بنوائی ہوئی دیپاسرائے کی سب سے پرانی’ بڑی حویلی‘ (تعمیر ۱۱۷۵ھ/۶۲۔۱۷۶۱ء) میں رہتے ہیں ۔ حویلی کے سامنے کافی جگہ چھوڑی گئی تھی۔ جب چھوڑی گئی جگہ کے تینوں طرف بھی رفاتی والوں کے مکان بن گئے تو چھوڑی ہوئی جگہ’ ’رفاتی چوک‘‘ کے نام سے جانی گئی۔ دور حاضر میں نئے مکانات کی تعمیر سے چوک چھوٹا ہو گیا ہے اور اب یہ شاہ ا جمل صاحب کے نام سے منسوب ہو کر’ ’اجمل چوک‘‘ کہلاتا ہے۔ شیخ رفاتی اور شیخ نتھن کے کنبوں کے ساتھ آئے دیگر لوگوں میں سے کچھ رفاتی چوک کے مغرب میں بڑی حویلی کے پیچھے اور کچھ چوک کے مشرق میں بس گئے تھے وہ بالترتیب پچھیّوں والے اور پوربلے (پورب والے) کہلائے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا،گھر کے ممبران کی تعداد بڑھتی گئی اور رفاتی گھرانے کے لوگ چوک سے ہٹ کر دیپا سرائے کے کھلے مقامات میں آباد ہوتے گئے۔ زیادہ تر لوگ دیپا سرائے کے موجودہ روضہ علاقہ میں اور کچھ ہندو پورہ کھیڑا علاقہ میں آباد ہو گئے۔

کاشغر سے آنے والے شیخ خواجاؤں کے دونوں بڑے گھرانے جب پہلے پہل موجودہ دیپا سرائے میں آ کر آباد ہوئے تھے تو وہاں کوئی آبادی نہیں تھی صرف ایک حویلی ۱۴؎  پہلے سے موجود تھی جو اُس وقت تقریباً ۵۰۔۶۰سال پرانی تھی۔ یہ حویلی کس کی تھی یا کس نے تعمیر کرائی تھی اس بارے میں کوئی پختہ معلومات نہیں مل سکی ہیں ۔ البتہ اس حویلی کو شاید ۱۹ویں صدی کے آخر میں’ ’رفاتی والے‘‘ گھرانے کے دو بھائیوں قطبی اور قاسم (شیخ قطب الدین اور شیخ قاسم حسین) نے خریدا۔ اس کے بعد سے یہ’ ’قطبی قاسم کی حویلی‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئی۔ اس حویلی کی اصل شکل اب مسخ ہو رہی ہے محض دروازہ کا کچھ حصہ اور اندر کچھ مقام ابھی باقی ہے۔

رفاتی والوں کی بڑی حویلی کی حدوں سے تقریباً ۱۰۰ گز کے فاصلے پر شمال کی جانب شیخ نتھن نے اپنے کنبے کی رہائش کا انتظام کیا اور وہاں ۶۳۔۱۷۶۲ء میں’ ’بڑا بغر ‘‘ نا م کی حویلی (فوٹو باقیات ) تعمیر کرائی جو کچھ عرصے بعد شیخ نتھن کی تیسری پیڑھی میں گاؤں’ ’سورج پور چھتریا ‘‘ سے آئے شیخ نتھن گھرانے کے داما د قاسم علی کو دی گئی۔

شیخ نتھن گھرانے کو اپنی حیثیت قائم کرنے میں تقریباً ۴۰ سال لگے۔ شیخ نتھن کے پوتے شیخ مولوی محمد عالم نے بہت شہر ت پائی۔ اسی وجہ سے ان کے خاندان کو’ ’عالم والا خاندان‘‘ کہا گیا۔ محمد عالم اور ا نکے بھائیوں نے شاندار حویلیاں تعمیر کرائیں جن میں بڑے بغر کے برابر شمال میں’ ’مچھلی محل‘‘ نام کی حویلی بھی تھی (تعمیر ۱۸۰۸ء) حویلی کے شمالی حصے میں ایک خوبصورت دیوان خانہ بھی بنوایا تھا بعد میں مچھلی محل حویلی سے مغرب میں پیپٹ پورہ تک’ ’عالم والوں ‘‘کی حویلیاں بنیں ۔ دیپا سرائے میں برجوں والی مسجد شیخ اجیالے (عالم والے)نے ۱۲۶۱ھ (۱۸۴۷ء) میں تعمیر کرائی اس کے علاوہ عالم والوں نے ہندو پورہ کھیڑا / دیپا سرائے پیپٹ پورا اور سنبھل کے مشرقی باہری علاقے منڈی کشن داس سرائے میں مسجدوں کی تعمیر کرائی۔ شیخ عالم نے سنبھل میں چاروں طرف اپنی جاگیروں میں اضافہ کیا اور بہت سے گاؤں کے زمیندار ہوئے۔ ان کی اولادوں نے  بھی تقریباً ۱۰۰ سال تک اپنے بزرگوں کی جائداد کو بڑھانے کی روایت کو قائم رکھا۔

دیپا سرائے کے شیخ ترکوں نے سب سے پہلے موجودہ چودھری سرائے کے آس پاس کی اپنی آراضی وہاں کے زمیندار چودھریوں کو دے کر بدلے میں ان کے قبرستان’ ’دریا سر‘‘ کا شمالی حصہ لیا جو آج بھی موجود ہے۔ کچھ عرصے بعد عالم والوں نے اپنے کنبے کے لیے موجودہ تنیوں والے قبرستان کی آراضی خریدی اور اس میں مقبروں وغیرہ کی تعمیر کرائی۔ اس کے بعد رفاتی والے خاندان نے بھی رتنجُک تالاب کے شمال میں اپنے قبرستان کے لیے علیٰحدہ جگہ خریدی۔ اب دیپا سرائے میں خوجہ ترکوں کے چار پرانے وبڑے قبرستان ہیں دریا سر تنیوں والا  رفاتی والا اور تکیہ۔ ا س کے علاوہ ڈیریا والے، مُنّی والے(مترجم کے) اور ٹھیکیداروں کے قبرستان بھی ہیں ۔

’’رفاتی والے ‘‘اور’ ’عالم والے‘‘ گھرانے کے دیپا سرائے میں مقیم ہونے کے بعد سے ہی سنبھل شہر میں اور سنبھل سے باہر کے دیہاتوں میں پہلے سے آباد بہت سے خوجہ ترک بھی دیپا سرائے میں آ کر مقیم ہو گئے۔ ایسے گھرانوں میں سب سے پہلے ہتھوڑے والے گھرانے کے لوگ ہیں جن کے بزرگ موضع کالا کھیڑا سے دیپا سرائے میں آئے تھے۔

ہتھوڑے والے گھرانے کے شجرے سے پتہ لگتا ہے کہ وہ دیپا سرائے میں خوجہ ترکوں کے آباد ہونے کے ۱۰۰ سال پہلے سے سنبھل کے اطراف کے علاقوں میں (کالا کھیڑا حسن پور) آباد تھے۔ مختلف دیہی علاقوں سے دیپا سرائے میں آ کر رہنے والے خوجہ ترکوں میں کئی خاندان اور لوگ بہت مشہور ہوئے۔

بادشاہ بابر کے دور میں اس کے امیر ہندو بیگ نے سنبھل شہر کے باہر مغر ب میں ہندو پورہ (موجودہ ہندو پورہ کھیڑا) آبادکیا تھا جس میں اس وقت صرف ترکوں کی آبادی تھی۔ ۱۸ ویں صدی کے آخر میں ہندو پورہ میں بھی دیپا سرائے و دیہاتوں سے آنے والے شیخ ترک آباد ہونے لگے۔ یہ محلہ اب دیپا سرائے کی حدو د میں شامل ہو چکا ہے۔ دیپا سرائے وہندو پورہ میں اب صرف شیخ ترک قوم کے خواجہ ترک ہی آباد ہیں ۔ گذشتہ تقریباً ۲۵۰ سالوں میں ان کی تعداد بڑھ کر تقریباً ۷۰ہزار ہو گئی ہے۔

ترک سلطنتوں کے دور میں امروہہ، مرادآباد اور رامپور کے علاقوں میں وسطی ایشیا سے آ کر کافی تعداد میں ترک، خوجہ ترک اور خواجہ شیخ ترک آباد ہوئے تھے۔ اُس وقت سرکاری زبان ترکی ہونے کی وجہ سے زیادہ تر شیخ خواجہ (شیخ ترک) بھی خوجہ ترکوں میں ہی شمار ہونے لگے۔ لیکن اپنی قوم’ ’شیخ ترک ‘‘ہی لکھتے رہے۔

یہاں کے زیادہ تر لوگ کاروباری، مذہبی اور ۱۰۰ فیصدی سنی حنفی ۱۵؎ مسلمان ہیں ۔ دیپاسرائے میں چھوٹی بڑی تقریباً ۴۰ مساجد ہیں ۔ ۱۹ویں اور ۲۰ ویں صدی میں دیپا سرائے کے علما نے ملک و بیرون ممالک میں شہرت حاصل کی۔

دور حاضر میں سماجی برائیوں سے دیپا سرائے کا معاشرہ بھی متاثر ہے لیکن دیگر مقامات کے مقابلے اس کا فیصد کافی کم ہے۔ در حقیقت دیپا سرائے میں مذہبی اور سیاسی تنظیمیں تو ہیں لیکن ایسی کوئی سماجی تنظیم نہیں ہے جو سماجی برائیوں کو دور کر پاکیزہ و ترقی یافتہ معاشرہ کی تشکیل کر سکے۔ دیپا سرائے میں بھکاری نہیں ہیں اور تقریباً ہر فیملی کے پاس اپنا مکان بھی ہے۔ تعلیمی بیداری بھی اب عروج کی طرف ہے۔ یہاں کے خواجہ شیخ ترک شادیاں مقامی سطح پر ہی کرنا پسند کرتے ہیں لیکن بدلتے وقت کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔

زمین جائداد سے متعلق بیع ناموں ، پرانے دستاویزوں اور نکاح ناموں وغیرہ میں دیپا سرائے کے خوجہ ترکوں کی قوم’ ’شیخ ترک‘‘ ہی ملتی ہے جو شروعات سے ہی وجود میں ہے۔ ۸ویں اور ۹ویں صدی میں عرب علاقوں سے اور ۱۳ویں صدی میں مونگول علاقوں سے کافی تعداد میں لوگ وسطی ایشیا میں آ کر آباد ہوئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عرب اور مونگول نسل کی وسطی ایشیا میں پیدا ہوئی ترکی زبان بولنے والی اولادیں’ ’ترک ‘‘قوم میں ہی شمار ہوتی تھیں لیکن وہ سب اپنے بزرگوں کی نسل کو پہچان کے طور پر’ ’ترک ‘‘قوم کے ساتھ ملانے لگیں جیسے عرب نژاد ترک ’’شیخ ترک‘‘ یا شیخ خواجہ، مغل نژاد ترک چغتائی خانی، ازبیک خانی اور مرزا وغیرہ۔

دراصل مذکورہ بالا سبھی ترک جب وسطی ایشیائی ترکوں کے ساتھ وسطی ایشیا سے ہندوستان آئے تو صرف’ ’ترک قوم ‘‘تھے۔

 

شیخ ترک نسل کے بزرگوں کی یاد یں اور نشانیاں :

ترک سلطنتوں میں حکومت اور لوگوں سے متعلق مسائل پر غور و فکر کرنے کے لیے جو مجلس ہوتی تھی وہ’ ’دیوان ‘‘کہلاتی تھی۔ یہ دیوان جس جگہ ہوتی تھی اسے دیوان خانہ کہا جاتا تھا۔ دیپاسرائے کے خاص اور اہم دیوان خانوں میں سے ایک بڑا اور شاندار دیوان خانہ چوک کے قریب رفاتی والے خاندان کی ملکیت تھا۔ اس کی جگہ اب مکانات تعمیر ہو چکے ہیں ۔ عالم والوں کی مشہور’ ’مچھلی محل حویلی ‘‘ سے وابستہ شمالی حصہ میں عالم والوں کا خوبصورت دیوان خانہ تھا جس کے زیادہ تر حصہ پر مکان تعمیر ہو چکے ہیں صرف چہار دیواری کا دروازہ باقی ہے۔ ۔ مندرجہ بالا دونوں دیوان خانوں کے بعد تعمیر ہوا دیوان خانہ ممبروں والے دیوان خانے کے نام سے مشہور ہے جو اب بھی کافی اچھی حالت میں ہے ۔ اس کے علاوہ مُنّی والی گلی میں’ ’مُنّی والوں (مترجم کے خاندان)‘‘ کا بنوایا ہوا ایک چھوٹا سا لیکن خوبصورت دیوان خانہ تھا جو تقریباً دس سال قبل ختم ہو چکا ہے۔

یہ شاندار دیوان خانے، حویلیاں یا ان کے باقیات، مساجد، چہار دیواری سے گھرے پکے باغوں میں بنی سیر گاہیں ، لمبی چوڑی حدود میں پھیلے قبرستان، وہاں موجود پرانے مقبرے اور قبریں یا ان کے باقیات اور ان پر فارسی /اردو زبان میں کندہ کتبے وغیرہ دیپا سرائے کے شیخ ترکوں کے شاندار ماضی کے نشانات ہیں جو تقریباً ۲۵۰سالوں کو محیط ہیں ۔

شیخ ترک نسل کے خواجاؤں کے گھرانے :

دیپاسرائے میں شیخ ترک قوم کے زیادہ تر خواجہ ترک اپنے اپنے گھرانوں کے نام سے جانے گئے۔ فیملی کے مشہور شخص کے نام پر یا کسی دوسری خاصیت کی بنیاد پر ان گھرانوں کے نام پڑے۔

دیپا سرائے میں مقیم پہلے دو گھرانوں ، رفاتی والوں اور عالم والوں کے خاندان کی اب سات پیڑھیاں مکمل ہو چکی ہیں ۔ ایک پیڑھی اوسطاً ۳۵سال کے وقفے کو پورا کرتی ہے جس سے دونوں گھرانوں کے دیپا سرائے میں آباد ہونے کے تقریباً ۲۵۰سال کی تحقیق ہو جاتی ہے۔ بعد میں دیپا سرائے آنے والے گھرانوں میں’ ’ہتھوڑے والے‘‘، ڈیریا والے، سنّا والے، باجرے والے، نوئی، سرور والے، ممبروں والے، علی دلال والے، ہیبت والے، قاسم علی والے، منی والے، کن پوریے اور لال پریے وغیرہ (سبھی کی چار سے چھ پیڑھیاں )اہم گھرانے ہیں ۔ مصنف محمد عثمان دیپا سرائے کے رفاتی والے گھرانے اور مترجم فرقان سنبھلی مُنّی والے گھرانے کے فرد ہیں ۔

٭٭

حواشی:

 

۱۔ روہیلے مختلف افغان قبیلوں  کے لوگ تھے جو افغانستان کے پہاڑی علاقہ روہؔ سے ہند میں  آئے تھے۔ہندوستان میں  تیموری سلطنت کے آخری دور میں  روہیلے بڑی تعداد میں  کٹھیر میں  آباد ہوئے۔

 

۲۔۶۷۶ء میں  راجہ اگر سین کے بیٹے راجہ انیک پال تومر نے دہلی میں  تومر حکومت قائم کی۔ ۶۹۴ء میں  انیک پال تومر کا بیٹا واسدیو تومر دہلی کا راجہ ہوا۔

 

۳۔ ٹائمس آف انڈیا دہلی کے ۱۱ جولائی ۱۹۹۴ء کے شمارے میں  پی۔ٹی۔آئی کے حوالے سے ایک رپورٹ بہ عنوان’’ نویں  صدی کی ایک کاپر پلیٹ یوپی میں  پائی گئی ‘‘شائع ہوئی تھی۔ رپورٹ میں  اے ایس آئی (Archeological  Survey of India)کے سپرنٹنڈنگ آرکیالوجسٹ ڈاکٹر ڈی آر منی کے مطابق ۱۹۹۱ء میں  ضلع مرادآباد کی تحصیل سنبھل میں  شمالی ہند کے گوجر پرتیہار حاکم ناگ بھٹ II(۸۰۰۔۸۳۳ء) کے دور کی ایک کنندہ کاپر پلیٹ مڑی ہوئی حالت میں  ملی تھی جس کا سائز (161.5x49x0.50)سینٹی میٹر اور وزن تقریباً ۱۰؍کلو گرام تھا۔یہ کاپر پلیٹ سَمْوَت ۸۸۵ (۸۲۸ء) کے جیٹھ ماہ کی سات تاریخ کو مہودیہ (قنوج)کی طرف سے گناپورہ (موجودہ گنور)ضلع کے شنبھو پلّیکا (موجودہ سنبھل) کو دی گئی تھی۔

ASIکی ایک شاخ Epigraphyکے جناب ایم جی شرما اور دوسرے معاونین کی مدد سے کاپر پلیٹ پر کندہ عبارت او راس کا ترجمہ ’’نَو بھارت ٹائمز‘‘ کے ۵؍اگست ۱۹۹۴ء کے شمارے میں  شائع ہوا۔ کاپر پلیٹ پر کندہ ناگ بھٹ ۔IIکا یہ فرمان نویں  صدی کے ناگری رسم الخط کی سنسکرت میں  ۱۴لائنوں  میں  کندہ ہے۔ اس میں  ناگ بھٹ ۔IIکے ذریعہ اپنے شجرہ سے واقف کراتے ہوئے سنبھل کے عوام اور درباریوں  کو یُوراج راما کو ہر ممکن تعاون دینے کے بارے میں  حکم دیا گیا ہے۔ یہ کاپر پلیٹ امروہہ کے توفیق احمد چشتی کے پاس تھی۔

 

۴۔ ’واقعات دارالحکومت دہلی ‘ کے مصنف بشیر الدین احمد کے مطابق پرتھوی راج رائے پتھورا کا حکومتی دور ۱۰۵۹۔۱۰۷۲ء)ہے۔محمد افضا الرحمن نے اپنی کتاب ‘Rohil Khand Territory in Medieval India’کے صفحہ ۳۱ پر رائے پتھور کی حکومت کا دور (۱۱۹۳۔۱۱۷۸ء )لکھا ہے جو غلط ہے کیونکہ دہلی میں  تومر خاندان کے آخری راجہ پرتھوی راج رائے پتھور ا کے انتقال (۱۰۹۵ء) کے بعد ہی راجہ بلدیو سنگھ چوہان نے دہلی میں  چوہان راجشاہی کی بنیاد ڈالی۔چوہان راجونش کی چھٹی پیڑھی میں  پرتھوی راج چوہان ۱۱۹۲ء میں  محمد غوری کے ساتھ ہوئی جنگ میں  مارا گیا۔قلعہ رائے پتھورا کی تعمیر کے تقریباً ۱۲۵ برس بعد قلعہ میں  قطب مینار کی تعمیر ہوئی۔

۵۔  سالار مسعود غازی اور پرتھوی راج چوہان۔مورخ فرشتہ نے سید سالار مسعود غازی کو سلطان محمود غزنوی کا بھانجہ اور اس کی فوج کے سپہ سالار ساہو کا بیٹا بیان کیا ہے۔ضیاء الدین برنی کے مطابق وہ محمود غزنوی کی فوج کا ایک سپاہی تھا۔عبدالقادر بدایونی نے اسے ایک افغان قرار دیا جس کی ابتدائی زندگی کا حال معلوم نہیں  ہوسکا شاید اسی لیے آنے والی نسلوں  نے اس کے بارے میں  خیالی داستانیں  شامل کر دی ہیں۔

سید سالار مسعود غازی کی زندگی اور کارناموں  پر پہلی کتاب عبدالرحمن چشتی نے’ مراۃ مسعودی‘ کے نام سے جہانگیر کے زمانے میں  لکھی تھی۔ یعنی سید سالار مسعود غازی کے ۶۰۰ برس بعد لکھی گئی تھی۔لہٰذا اسے کسی طرح بھی پوری طرح مستند نہیں  مانا جا سکتا اور یہ ایک افسانے سے زیادہ اہمیت نہیں  رکھتی۔(تاریخ امروہہ، محمود احمد عباسی،ص ۱۰)

مراۃ مسعودی میں  سنبھل یا سنبھل کے گاؤں  شہباز پور میں  پرتھوی راج اور سالار مسعودغازی کے درمیان ہوئی جنگ کا یا سنبھل قلعہ میں  مسعود غازی کے داخلے کا کوئی ذکر نہیں  ملتا۔

 

۶۔محمد افضال الرحمن خاں  نے اپنی کتاب ’’روہیل کھنڈ ٹیری ٹری اِن میڈیول انڈیا‘‘ کے صفحہ ۳۲ پر علاقہ میں  ایک لمبے عرصے سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی روایتو ں کے حوالے سے لکھا ہے کہ پرتھوی را ج چوہان اور سید سالار مسعود غازی کے درمیان سنبھل کے مشرق میں  پانچ میل فاصلے پر واقع شہباز پور کے مقام پر لڑائی ہوئی۔ اس کے علاوہ بھی کئی علاقائی اور مقامی تاریخ دانوں  نے سید سالار مسعود غازی اور پرتھوی راج چوہان کے درمیان جنگ ہونے کا ذکر کیا ہے۔حقیقت میں  سید سالار مسعود غازی اور پرتھوی راج چوہان کے درمیان جنگ کا ہونا ممکن نہیں  کیونکہ دونوں  کے دور میں  ایک صدی سے بھی زیادہ کا فرق ہے۔

انجینئر سمیع الدین کی کتاب سلطان الشہدا(سید سالار مسعود غازی) کے صفحہ ۱۱پر بجز نامہ مسعود (اردو ترجمہ)ص ۲۵ اور مراۃ اسرار (اردو ترجمہ ص ۴۳۹) کے حوالے سے سید سالار مسعود غازی کی پیدائش ۱۰۱۴ء میں  اجمیر میں  ہونے کا ذکر ہے اور ص ۲۳ پر ان کے والد سالار ساہو کی موت ۱۰۳۱ء میں  ہونے و صفحہ ۳۰ پر سید سالار کی شہادت ۱۰۳۲ء میں  ہونے کا ذکر ہے۔ اس طرح سلطان محمود غزنوی، سپہ سالار ساہو و سید سالار مسعود غازی کا انتقال بالترتیب ۱۰۳۰ئ،۱۰۳۱ء ،۱۰۳۲ء میں  ہوا۔ ۱۱۵۰ء میں  سنبھل،دہلی و اجمیر کے راجہ پرتھوی راج چوہان (۱۱۹۲۔۱۱۴۱ء) کے زیر حکومت آیا۔ اس طرح پرتھوی راج چوہان اور سپہ سالار ساہو و سید سالار مسعود غازی کے دور میں  کم سے کم ۱۲۰ سال کا فرق صاف نظر آتا ہے۔

تومر خاندان کا آخری راجہ پرتھوی راج ’رائے پتھورا‘ (۱۰۹۵۔۱۰۷۲ء) بھی سید سالار مسعود غازی کی موت (۳۳۔۱۰۳۲ء) کے کم از کم ۴۰ سال بعد دہلی و سنبھل کا راجہ ہوا۔

مولانا عبدالمعید سنبھلی نے اپنی کتاب مصباح التواریخ میں  سید سالار مسعودغازی اور پرتھوی راج چوہان کے درمیان جنگ کی بات کرتے ہوئے کتاب کے ص ۸۶۔۸۵ میں  لکھا ہے کہ ’’تحقیقی اور اصل بات یہ ہے کہ مورخین نے ساہو سالار اور سالار مسعود غازی کی شخصیتوں  کو گڈمڈ کر دیا ہے۔جو واقعات سید سالار مسعود غازی کے بیان کیے جاتے ہیں  وہ درحقیقت سید سالار ساہورسے وابستہ ہیں  ان کے بیٹے کو ان کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ ‘‘

انھوں نے اس قول کے حق میں  کوئی دلیل تو پیش نہیں  کی ہے لیکن مولانا معید کے اس قول کو اگر صحیح بھی مان لیں  تو بھی سنبھل میں  سالار ساہو اور پرتھوی راج چوہان کے درمیان جنگ کا کوئی امکان نہیں  ہے کیونکہ سالار ساہو کے انتقال (۱۰۳۱ء) اور پرتھوی راج چوہان کے دور میں  تقریباً وہی فرق آتا ہے تو سید سالار مسعود غازی اور پرتھوی راج چوہان کے دور میں  آتا ہے۔ (تقریباً ۱۲۰ سال)

مصنف کا نظریہ: دہلی و سنبھل کا راجہ درحقیقت اس دور میں  مہیپال تومر (۱۰۵۱۔ ۱۰۲۶ء) تھا ، پرتھوی راج چوہا ن نہیں۔ اس وقت دہلی میں  تومر خاندان کے راجہ کی حکومت تھی اور سنبھل دہلی کے ماتحت تھا۔ یعنی دہلی کے راجہ کے ماتحت سنبھل کا حاکم مقرر ہوتا تھا۔ لہٰذا سنبھل میں  سیدسالار مسعود غازی کے ساتھ ہوئی جنگ میں  راجہ مہیپال تومر کے ماتحت پرتھوی راج نام کا وہی راجہ سنبھل کا حاکم تھا جس کا تذکرہ پیچھے ہو چکا ہے مگر بعد میں  غلطی سے پرتھوی راج چوہان مشہور ہو گیا۔

 

۷۔ترکیہ۔ہندوستان میں  ترکوں  کے ابتدائی دور میں  کسی بھی ذات یا قبیلے کے نئے مسلمان ہوئے لوگوں  کو ترکیہ (مذہبی طور پر ترکوں  سے جڑے ہوئے) کے نام سے جانا گیا کیونکہ اس وقت مسلمان لفظ رائج نہیں  تھا۔

 

۸۔ تغلق دور میں  مقبروں  اور مسجدوں  کی تعمیر نے آرکیٹیکچر کو ایک نئی شکل دی۔ان کی تعمیر کی قابل ذکر خوبی ان کی دیواروں  کا نیچے سے ڈھلواں  ہونا تھا جنھیں  ڈھال دار پشتے بھی کہا جاتا تھا۔جو صدر عمارت کو مضبوطی دیتے تھے۔                                                             (مدھیہ کالین بھارت، ستیش چند، ص ۲۳۸)

۹۔ سرائے ترین: سنبھل کی آبادی ۵۲سرایوں  اور ۳۶ پوروں  میں  تقسیم تھی۔ان سرایوں  اور پوروں  کے نام اکثر عالِم دین،صوفیوں ،درباریوں  یا حکمرانوں  کے نام پر تھے۔ شیخ فتح اللہ کابل کے ’تریم‘ نام کے ایک قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔وہ شیخ سلیم چشتی کے نائب تھے اور سنبھل بھیجے گئے تھے۔انھیں  کے نام پر سنبھل کے جنوب میں  ایک سرائے ’تریم‘ نام سے آباد ہوئی۔ موجودہ دور میں  سرائے تریم (سرائے ترین)کی آبادی سنبھل کی سب سرایوں  سے زیادہ ہے۔شاہ فتح اللہ کا مقبرہ سرائے ترین کے بیچ محلہ دربار میں  ایک باغ کے پکّے احاطے میں  ہے۔

 

۱۰۔ نواب امیر خاں  سنبھلی: امیر خان سرائے ترین کے نواب خیل محلے میں  ۱۷۶۵ء میں  پیدا ہوئے تھے۔ نوجوان امیر خان بلند حوصلہ شجاع اور پر عزم شخصیت تھے۔انھوں  نے مختلف حکمرانوں  کی فوج میں  نوکری کی مگر صحیح موقع نہ ملنے کی وجہ سے وہ پریشان رہنے لگے تھے۔ اسی جدوجہد کے دوران وہ کسی طرح پنڈاریوں  کے ساتھ مل گئے۔ پنڈاری مہاراشٹر اور راجپوتانا کے سرحدی علاقوں  کے قبیلوں  کے لوگ تھے۔ جنھوں  نے تیموری سلطنت کے آخری دور میں  راستوں  اور سرایوں  میں  قافلوں  کو لوٹنا شروع کیا تھا۔ وہ سرائے میں  ٹھہرنے والے مسافروں  کے ساتھ گھل مل کر نہایت چالاکی اور خاموشی کے ساتھ رومال کا ایک خاص پھندہ لوگوں  کے گلے میں  ڈال کر مار دیا کرتے تھے اور لوٹ لیا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی طاقت اور تعداد بڑھتی گئی۔۱۸؍ویں  صدی کے آخری سالوں  میں  گوالیر،اندور اور پونا کے مراٹھا حکمرانوں ،سندھیا، ہولکر و پیشواؤں  کی سرپرستی میں  مراٹھا صوبوں  کے چاروں  طرف پنڈاریوں  کے ٹھکانے قائم ہو چکے تھے۔ ان کے تین طاقتور گروہ تھے جن کے سردار کریم خاں  پنڈاری،چیتو پنڈاری و واصل محمد پنڈاری تھے۔کریم خاں  اور محمد واصل گوالیار حکمراں  سندھیا کی سرپرستی میں  و چیتو پنڈاری ہولکر کی سرپرستی میں  ان کی فوجوں  کو ہتھیار مہیا کرانے اور جنگوں  میں  ان کی مدد کرنے کے بدلے میں  ان سے دولت اور جاگیریں  لیتے تھے۔

پنڈاریوں  میں  شامل ہونے کے بعد امیر خان نے جلد ہی یشونت راؤ ہولکر کی سرپرستی میں  گھوڑ سوار پٹھانوں  کا ایک دستہ تشکیل دیا۔پنڈاری گروہ وسطی اور جنوبی ہندوستان میں  سرگرم تھے جب کہ امیر خان اور اس کے پٹھان شمالی ہندوستان اور راجپوتانہ میں  سرگرم رہے۔ امیر خان پنڈاری نہیں  تھا جیسا کہ کچھ انگریز مورخین نے مشہور کر دیا تھا۔ وہ سالارزئی افغانی پٹھان تھا۔اپنے عروج کے دور میں  امیر خان کے دستے میں  آٹھ ہزار پیدل دس ہزار گھوڑ سوار اور ۲۰۰ توپچی و بندوقچی تھے۔ امیر خان مراٹھا حکمرانوں  کے لیے جنگیں  لڑتا تھا۔ بدلے میں  ان سے جاگیریں  حاصل کرتا تھا۔ ۱۷۹۸ء میں  اِندور کے یشونت راؤ ہولکر نے امیر خان کو اپنے پرگنہ ٹونک (موجودہ راجستھان میں  )کی جاگیر اور نواب کا خطاب دیا۔ نواب امیر خان نے ٹونک کی جاگیر اور سرحدوں  کو بڑھا کر ۱۸۰۶ء میں  ٹونک کو اسٹیٹ کے درجہ کا اعلان کر دیا اور سندھیا و ہولکر حکمرانوں  سے اسٹیٹ کی سند حاصل کر لی۔ وہ خود ٹونک اسٹیٹ کا پہلا نواب ہوا۔ ۱۸۱۷ء میں  جنرل ہیسٹنگس کے ساتھ ہوئے ایک معاہدے کے تحت جب رامپور کو چھوڑ کر پورے روہیل کھنڈ پر انگریزوں  کا تسلط مان لیا گیا تو نواب امیر خان سنبھلی کو ریاست ٹونک کا خود مختار نواب مانا گیا۔ ۱۸۳۴ء میں  نواب امیر خان کا انتقال ہو گیا۔اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا محمد وزیر خان (۶۴۔۱۸۳۴ء) ریاست ٹونک کا نواب ہوا۔ سرائے ترین کے محلہ دربار کے وسط میں  ایک چوکور عمارت ’’بنگلہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے جہاں  نواب دوندے خاں  کے دور میں  نواب امیر خان کے والد محمد حیات خان قرآن اور دینیات کی تعلیم دیتے تھے۔ سرائے ترین کے محلہ دربار میں  بنگلہ کے برابر ہی پکے باغ میں  شاہ فتح اللہ ترین کا مقبرہ ہے جس کا صدر دروازہ نواب امیر خاں  سنبھلی نے بنوایا تھا امیر خان کے خاندانی بزرگ سالارزئی افغان ابراہیم لودھی کے دور میں  ہندوستان آئے اور سنبھل کے سرائے ترین میں  آباد ہوئے۔اس وقت سنبھل کے حاکم بہادر خاں  نے ابراہیم لودھی سے باغی ہو کر سنبھل پر قبضہ کر لیا اور محمد شاہ کے نام سے سنبھل میں  تخت نشین ہوا اور اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا اور سکہ بھی جاری کیا۔ حالانکہ جلد ہی ابراہیم لودھی نے محمد شاہ سے سنبھل واپس لے لیا۔آگے چل کر امیر خان کے دادا تالے خان نواب علی محمد خان کی فوج میں  ملازم ہوئے۔ (’نواب محمد امیر خان‘،باسط علی /’ مصباح التواریخ‘،مولانا معید سنبھلی )

 

۱۱۔ شاہجہاں  کے دور میں  سنبھل کے دہلی دروازے سے سیدھے مغرب کی طرف تقریباً ساڑھے تین کوس (تقریباً ۸ کلومیٹر )کے فاصلے پر آباد سوندھن سے آدم پو رہو کر آگے گنگا ندی پار کر کے دہلی پہنچنے کے لیے ۶۰ کوس (تقریباً ۱۳۵کلومیٹر) لمبی سنبھل دہلی شاہراہ تھی۔ ۱۸ویں  صدی میں  اُس مقام پر گنگا کے چوڑے اور گہرے ہو جانے کی وجہ سے سنبھل دہلی شاہراہ بند ہو گئی۔ موجودہ دور میں  سنبھل سے دہلی جانے کے لیے سڑک سے ہو کر دو راستے ہیں۔ ایک گجرولا ہو کر اور دوسرا انوپ شہرہو کر۔

 

 

۱۲۔      تاریخی حیثیت کی کسی پرانی آبادی کی جگہ مٹی یا اینٹوں  کے ڈھیر یا ٹیلوں  پر جو نئی آبادی بستی ہے وہ کھیڑہ کہلاتی ہے۔

 

۱۳۔  وسطی ایشیا میں  عربوں  کے قیام کے تقریباً ۱۲۵سال بعد ایران کے سامانی خاندان کی حکومت قائم ہوئی جس میں  دربار کی زبان عربی زبان کے بجائے فارسی ہوئی اور ترکی دوسری زبان تسلیم کی گئی۔ عربی زبان صرف مذہبی زبان بن کر رہ گئی۔سامانی حکومت بھی تقریباً ۱۲۵؍ سال قائم رہی۔سامانی سلطنت کے خاتمے کے بعد تقریباً ۲۰۰ سال تک وسطی ایشیا پر وہاں  کے ترکوں  کی حکومت رہی۔ (سلجوک خاندان ۔تقریباً ۱۲۵؍سال اور خوارزم شاہی خاندان تقریباً ۷۵سال) ترک سلطنت میں  دربار کی زبان اور عام زبان ترکی ہو گئی جب کہ فارسی دوسری زبان کے طور پر تسلیم کی گئی۔مذہبی زبا ن عربی ہی رہی۔ اس دور میں  ترک النسل ترکی اور فارسی زبان بولنے والے،جو اسلام مذہب کے اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ امیر و سردار بھی تھے۔ وہ سب خوجہ (ترکی لفظ)کے طور پر مشہور ہوئے۔ ان کی اولادیں  بھی ’’خوجہ ترک‘‘ مشہور ہوئیں۔ شیخ/ سید ترک النسل کچھ خواجہ بھی ترکی بولنے والوں  کے ماحول میں  عام طور پر خوجہ ہی کہلانے لگے۔ وسطی ایشیا پر چنگیز خان کے حملے کے بعد وہاں  سے ہزاروں  کی تعداد میں  ترک،خوجہ اور شیخ خواجہ (شیخ ترک)ہندوستان آئے۔ چونکہ ہندوستان میں  بھی اس وقت ترک سلطنت قائم ہو چکی تھی لہٰذا خالص ترکی ماحول ہونے کی وجہ سے بہت سے شیخ خواجہ ترک بھی ’’خوجہ ترک کہلانے لگے۔

۱۴۔  ۱۷۰۵ء کے قریب تعمیر ہوئی دیپا سرائے چوک کی اس شاندار حویلی کے ٹھیک پیچھے مغرب کی طرف تقریباً ۴۰۰ یا ۵۰۰ گز کے فاصلے پر ایک اونچے بڑے چبوترے پر پختہ سرائے بنی تھی۔ جس میں  مغرب کی طر ف مسجد کی ایک دیوار تھی جس میں  اُبھرے ہوئے در بنے تھے۔ دیوار کے ایک سرے پر حُجرہ (ایک دروازہ کا کمرہ)اور کنواں  تھا۔ یہ سب پکی چھوٹی اینٹ کے بنے تھے۔ان کے باقیات اب سے تقریباً ۵۰ سال قبل تک موجود تھے۔اُس وقت میں    سرائے پر رہنے والے ایک بزرگ نے بتایا کہ نئے مکان بنانے کے لیے جب لوگوں  نے کھدائی کرائی تو سرائے کی حدود میں  چاروں  طرف جگہ جگہ پرانی بنیادیں  نکلیں  جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرائے میں  سپاہیوں  اور لوگوں  کے ٹھہرنے کے لیے کمرے بنے ہوں  گے۔

سرائے کے ٹھیک سامنے چند گز کے فاصلے پر سڑک کی دوسری طرف نتھے خاں  کا باغ ہے۔دہلی کے بادشاہ فرخ سیر کے دور میں  نتھے خان سنبھل سرکار کا آخری حاکم تھا۔کیونکہ ۱۷۱۶ء میں  نتھے خاں  کی موت کے بعد فرخ سیر کے وزیر رکن الدین نے سنبھل کے بجائے مرادآباد کو سرکار بنا دیا تھا۔باغ سے متصل نتھے خاں  کی کچہری تھی۔کچہری باغ اور سرائے کے باقیات میں  پکے باغ کا بیرونی دروازہ اور اس کے اندر مسجد و نتھے خاں  کا مزار ابھی ٹھیک حالت میں  ہے۔نتھے خان کا باغ،باغ کے برابر اس کی کچہری،سامنے سرائے اور سرائے کے نزدیک ایک رہائشی مکان کا ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شروعات میں  نتھے خاں  نے اسی مکان کو اپنی رہائش گاہ بنایا ہو گا۔ بعد میں  نتھے خاں  نے محلہ کوٹ غربی میں  اپنی رہائش کے لیے ایک شاندار مکان تعمیر کرایا جو نتھے خان کے محل کے نام سے جانا گیا۔ اس مکان کے باقیات میں  اب صرف ایک دالان ہی باقی ہے۔

 

۱۵۔ امام ابو حنیفہ: ۱۱ویں  صدی کے آخیر میں  عباسیؔ خلافت بری طرح لڑکھڑانے لگی تھی۔ایسے میں  ترکوں  کے سنہری دور کا آغاز ہوا۔شریعت قانون سختی کے ساتھ لاگو ہوا۔ قرآن کو عقل کی کسوٹی پر رکھ کر متضلائیتوں  نے سلسلے وار تبدیلیاں  کرنے کی کوشش کی تھی جس میں  انھیں  عباسی خلفاء کی پشت پناہی حاصل تھی۔مگر قرآن کو خدائی کتاب ماننے والوں  کو اس میں  کوئی بھی دخل اندازی پسند نہیں  تھی۔لہٰذا متضلائیوں  کو کفر کا فتویٰ دیتے ہوئے ان کی سخت مذمت اور مخالفت کی گئی جس سے متضلائیوں  کا خاتمہ ہوا۔ساتھ ہی شریعت کی پابندی کے لیے چار عالِم دین امام سرگرم عمل ہوئے۔ مشرقی ترکستان کے ترکوں  نے امام ابوحنیفہ کی تقلید کی بعد میں  مشرقی ترکستان سے یہ ترک ہندوستان آئے۔

٭٭٭

 

 

 

               باب پنجم

 

جاگیرسنبھل اور سنبھل سرکار

 

The terms of Vilayat, Shiqq, Khitta, Iqta, Jagir, Suyrghal, pargana, Mahai, Sarkar, Suba were used for Administrative units during the medieval period

 

ولایت:

ترک سلطانوں کے شروعاتی دور میں موجودہ دور کے صوبوں کی طرح سلطنت کی بڑی اکائیاں ولایت کہلاتی تھیں جس میں بہت سے پرگنے شامل ہوتے تھے۔

 

مقطی (گورنر):

ولایت میں نظم و نسق سے متعلق سارے کام انجام دینے کے لیے مقطی مقرر کیے جاتے تھے۔

 

شق Shiqq/ سرکار:

ترک سلطنت میں صوبے سے الگ کا علاقہ جو ولایت کے ماتحت نہ ہو کر سیدھے صدر مقام کے تحت آتا تھا Shiqqکے نام سے جانا جاتا تھا۔ ہندوستان میں لودھی اور تیموری سلاطین کے دور میں Shiqqکو سرکار کے نام سے جانا گیا۔ جس طرح صوبوں میں مقطی (گورنر) مقرر کیے جاتے تھے اسی طرح سرکاروں میں بھی انتظامی امور کے لیے گورنر مقرر کیے جاتے تھے جو صوبوں کے ماتحت نہ ہو کر سیدھے سلطانوں کے ماتحت ہوتے تھے۔

 

فوجدار:

شیر شاہ کے دور میں سرکاروں کے مکھیا (گورنر) فوجدار کہلائے۔

(History of Sher Shah, p. 119, Dr. I.H.Siddiqui)۔

تیموری سلطانوں کے دور میں سرکاروں کے فوجدار صوبوں کے ماتحت ہوتے تھے۔

(The Administration of the Mughal Empire p. 231, Dr. I.H. Qureshi)

 

محال / پرگنہ/چکلا:

سلطنت میں محال / پرگنہ موجودہ زمانے کی تحصیلوں جیسے تھے۔ شاہجہاں کے آخری دور میں’ چکلا‘ موجودہ ضلع کی حیثیت رکھتا تھا۔

وظیفہ اور مدد معاش (سُویرغلSuyrghal):

دانشوروں اور صوفیوں کو طے شدہ وقت میں جو نقد رقم مقرر کی جاتی تھی وہ وظیفہ کہلاتی تھی۔ اگر نقد رقم کے بجائے زمین عطا کی جاتی تھی تو وہ مدد معاش( سُویر غل) کہلاتی تھی۔

 

اقطہ(جاگیر):

یہ کسی shiqqمیں اس کی ایک چھوٹی اکائی ہوتی تھی جس میں کچھ ہی پرگنے شامل ہوتے ہیں ۔ دہلی سلطنت کے وفادار اور مشہور امیروں اور ان کے ماتحتوں کو کسی شِق کے ایک مخصوص علاقے سے حاصل مال گزاری (Revenue)سے تنخواہ وغیرہ ادا کرنے کی غرض سے مقیم مقطی (گورنر) کو عام طور پر اُس سرکار کے صدر مقام کی اقطہ نام کی جاتی تھی۔ دہلی ترک سلطنت کے بعد اقطہ کو جاگیر کہا جاتا تھا۔

(‘Rohilkhand Territory in medieval India’, M. Afzalur Rahman Khan, p.108 with reference ‘The Administration of Mughal Empire’ by Dr. I.H.Qureshi)

دہلی ترک سلطنت میں ولایت، شِق اور اقطہ ترک سلطانوں کے بعد کے دور میں صوبہ، سرکار اور جاگیر کے متبادل (Synonyms)تھے۔

(Rohilkhand Territory in medieval India, M. Afzalur Rahman Khan, p.101)

Iqtaنام کرنے کے متعلق منہاج نے اس طرح بیان کیا ہے :

’’اولین ترک دور میں کسی امیر کو Iqtaنام کرنے کا مطلب اس کو اقطہ کا انچارج بنا کر وہاں کے انتظامی امور کی کل ذمہ داری دینا ہوتا تھا۔ جو امیر کسی اقطہ کا مقطی یا گورنر مقرر کیا جاتا تھا اس کومرکز میں کوئی اور عہدہ نہیں دیا جاتا تھا۔ ‘‘

غالباً ۱۲۵۷ء کے بعد اس طریقہ کار میں تبدیلی آئی یعنی اگر کوئی امیر مرکز میں کسی عہدے پر فائز ہے تو اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ کسی اقطہ میں گورنر بھی ہوسکتا ہے۔ مرکز میں رہ کر وہ اپنی جاگیر کے انتظامی امور کی ذمہ داری اپنے کسی ماتحت کو سونپ دیتا تھا اور چاہے تو خود وقتاً فوقتاً جاگیر کا دورہ کرسکتا تھا۔

گورنر کی تنخواہ اور ماتحتوں کے اخراجات اس کے نام کی گئی جاگیر سے پورے ہوتے تھے جس سے مرکزی شاہی خزانہ پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا تھا۔ ترک سلطنتوں کے ابتدائی دور میں جو امیر گورنر مقرر کیے جاتے تھے وہ سلطنت کے مختلف شعبوں میں مختلف عہدوں پر کام کرنے کا لمبا تجربہ رکھتے تھے۔ عام طور پر کسی امیر کو گورنر ہونے میں تقریباً ۲۵سال کا تجربہ درکار ہوتا تھا۔

دہلی میں ترک سلطنت کے قیام سے تیموری سلطنت کے آخر تک (تقریباً ۴۰۰ سال) سنبھل کا شمار سلطنت کے خاص شہروں میں ہوتا رہا۔ اس دوران سنبھل کو پرگنہ سنبھل، جاگیر سنبھل اور سرکار سنبھل ہونے کے علاوہ سکندر لودھی کے دور میں چار سال تک ہندوستان کی عارضی دارالسلطنت ہونے کا فخر بھی حاصل ہوا۔

 

جاگیر سنبھل اور سنبھل سرکار:

سلطان قطب الدین ایبک کے دور میں ۱۲۰۶ء میں شہاب الدین محمد غوری کی موت کے بعد قطب الدین ایبک دہلی کے تخت پر بیٹھا اور دہلی ترک سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ سلطان نے گوالیار فتح کرنے کے بعد اپنے غلام ترک سردار شمس الدین التمش کو گوالیار کا قلعہ سونپ دیا۔ بعد میں اُسے برن (موجودہ بلندشہر )کا حاکم مقرر کر دیا۔ تھوڑے دنوں بعد سلطان نے التمش کے ساتھ اپنی لڑکی کی شادی کر دی۔

قطب الدین ایبک نے کٹھیر علاقے کو اپنی سلطنت کا ایک صوبہ بنا دیا۔ کٹھیر صوبے کا صدر مقام بدایوں ہوا۔ التمش بدایوں صوبہ کا پہلا مقطی (گورنر )ہوا جو ۱۲۰۶ء سے ۱۲۱۰ء تک رہا۔ اس کے بعد سلطان رضیہ کے دور میں اختیار ا لدین ایٹکن اور     بدر الدین سنجر رومی بدایوں کے مقطی رہے۔ بعد میں سنبھل اور امروہہ ترک امیروں کو جاگیر کے طور پر نام کیے گئے۔ جاگیروں کے گورنر کٹھیریوں کو قابو میں رکھنے میں مرکز کی مدد کرتے تھے۔ دہلی، سنبھل اور بدایوں فتح کرنے کے بعد سے ہی قطب الدین ایبک نے ان شہروں کی سرحدوں میں ترکوں کی رہائش کے انتظام کر دیئے تھے۔

 

سلطان شمس الدین التمش کے دور میں :

۱۲۱۰ء میں سلطان قطب الدین ایبک کی اچانک موت ہو جانے پر تخت نشینی کی رسہ کشی میں سلطان کے کچھ امیروں اور وزیروں نے التمش کو دہلی پہنچنے کی اطلاع دی۔ بدایوں سے دہلی جاتے ہوئے راستے میں التمش ایک رات سنبھل میں ٹھہرا اور اگلے روز دہلی پہنچ کر تخت نشین ہوا۔ التمش بدایوں کی صوبہ داری کے دوران سنبھل و آس پاس کے علاقوں سے اچھی طرف واقف ہو چکا تھا۔ اس کے دَور سے پہلے ہی اِن علاقوں میں ترک لوگ آباد ہونا شروع ہو چکے تھے۔ کچھ مقامی لوگ بھی اسلام مذہب اختیار کر چکے تھے مگر ان سب کے حالات اچھے نہیں رہے تھے کیونکہ سنبھل فتح کرنے کے بعد سلطان قطب الدین ایبک کو ادھر آنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ لہٰذا ان علاقوں میں کٹھیریا راجپوت لگاتار بغاوت کرتے رہے جس سے علاقے میں لوٹ مار، قتل و غارت گری اور بدامنی کا بول بالا رہا جو اسلام کی تبلیغ اور پھیلاؤ میں رکاوٹ بنا۔

ان علاقوں میں بغاوتوں کو کچلنے کے لیے ترک فوجوں کو لمبے اور ا نجان گھنے جنگلوں  کے راستے سے ہو کر جانا پڑتا تھا۔ فوجوں کو رسد مہیا کرنے، آگے بڑھ کر صحیح راستوں کی پہچان کر انھیں ٹھیک کرنے کے لیے فوجی انتظامیہ کو تمام پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ فوج کے راستے میں پڑنے والی آبادیوں اور مقامی لوگوں سے انھیں کوئی تعاون نہیں ملتا تھا۔  مقامی لوگ کھانے پینے کا سامان اور جانوروں کو لے کر مع اپنے گھر بار کے فوجی راستے سے میلوں دور گھنے جنگلوں میں چھپ جاتے تھے اور ترک فوجوں کے گزرنے کے بعد ہی لوٹتے تھے۔ ان حالات کو ذہن میں رکھ کر سلطان نے ضرورت کے مطابق مقامی لوگوں کو اسلام میں شامل کرنے کی کوششیں تیز کیں ۔

چونکہ ہندوستان کے باقی علاقوں کی طرح شمالی ہندوستان میں بھی مقامی لوگ اپنے اپنے پیشے و کام دھندے کے مطابق اونچی نیچی ذاتوں ۱؎  میں منقسم تھے۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ذات خاص کے لوگ دوسری ذات کے پیشے کو نہیں اپنا سکتے تھے۔ نیچی ذات کے لوگوں کو بری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اونچی ذات کے لوگ اکثر ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے تھے۔ وہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم تھے۔ شہروں میں وہ لوگ اکثر اونچی ذات کے لوگوں سے الگ بستی کے باہری علاقوں میں ہی رہتے تھے۔ مذہب اسلام کی روح کے مطابق سب کے ساتھ برابری کا درجہ ملنے کی امید میں یہ پسماندہ مظلوم ذاتوں کے لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ مگر ان لوگوں کے رہن سہن، رسم و رواج، مذہب اور زبانیں الگ الگ ہونے کی وجہ سے انھیں اسلام میں شامل کرنے اور اسلامی تعلیم کے لیے غیر فوجی ترک و شیخ قوم کے اساتذہ کو زبردست مشکلات اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرسکے۔

وسط ایشیا پر چنگیز خان کا قبضہ ہو جانے کے بعد وہاں سے نقل مکانی کر کے آئے ترکوں /خوجہ ترکوں کے قافلوں کو سلطان نے عزت و احترام کے ساتھ دہلی میں پناہ دی۔ سلطان نے دہلی اور آس پاس کے علاقوں میں اسلامی تعلیم دینے کے لیے جومدرسے قائم کیے تھے وہاں اسلامی تعلیم دینے کی ذمہ داری کو ان ترکوں وشیخ خواجاؤں نے نہایت عقیدت مندی سے نبھایا اور اسلام کی تبلیغ میں بے حد اہم کردار ادا کیا۔ بعد کے سالوں میں سلطان التمش نے سنبھل و بدایوں ۲؎  کی طرف خاص توجہ مرکوز کی تھی۔ جہاں اسلام کی تبلیغ و تعلیم کے لیے عالموں کی ضرورت تھی۔ سلطان التمش نے دہلی میں پناہ لیے کچھ شیخ خواجاؤں کو جو کہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ فوجی بھی تھے پورے انتظام وسہولیات کے ساتھ سنبھل کی طرف کوچ کرنے کے احکام دیئے۔ سب سے پہلے ان شیخ خواجاؤں نے علاقہ کے ترکوں کی مدد سے کچھ بنجاروں کو مسلمان کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ان نو مسلم بنجاروں (ترکیہ بنجارے ۳؎ ) کو ترک فوجوں کے ان کے علاقوں سے ہو کر گزرنے پر رسد اور دوسرے ضروری سامان کا انتظام کرنے نیز انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے ان سے معاہدہ کر لیا گیا۔ کیونکہ یہ کام علاقہ کے بنجارے ہی آسانی سے کر سکتے تھے۔ اس کے بعد ان شیخ خواجاؤں نے دور دور تک ترکوں کے ذریعہ فتح کیے ہوئے تمام علاقوں میں جا کر اسلام کی تبلیغ میں پوری طرح اپنا تعاون دیا۔ ترکستان سے آنے والے شیخ خواجہ صوفیوں نے بھی ہندوستانی ماحول کے مطابق صوفی ازم کو فروغ دیا۔ جس سے اسلام کی جڑیں ہندوستان میں مستحکم ہوئیں ۔ ابن بطوطہ کے مطابق یہی وجہ تھی کہ دہلی سلطنت میں سبھی صوفیوں کو سیّدکہے جانے کی روایت قائم ہوئی۔ (مدھیہ کالین بھارت، ستیش چندر، ص ۹۶)

شیخ / سید خواجہ معین الدین چشتیؒ، شیخ خواجہ بختیار کاکیؒ اور شیخ /سید خواجہ نظام الدین اولیاؒ ایسے ہی مشہور صوفی گزرے ہیں ۔

 

سلطان ناصر الدین محمودکے دور میں :

۱۲۴۵ء میں سلطان التمش کا چھوٹا بیٹا اور بہرائچ کا حاکم ناصر الدین محمود امروہہ ہوتے ہوئے سنبھل آیا او رکچھ دنوں سنبھل میں ہی قیام کیا۔ اس نے سیر و شکار میں اپنا وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ اطراف کی کٹھیریا بغاوتوں کوبھی ختم کیا۔ تخت نشینی کی امید میں جب وہ دہلی کے لیے روانہ ہوا تو سردار داؤد خاں کو سنبھل کا حاکم مقرر کر دیا۔ ۱۲۵۴ء میں ناصر الدین محمود بلبن کو ساتھ لے کر کٹھیریوں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے آیا۔ وہ دہلی سے ہری دوار ہوتا ہوا گنگا کو پار کر کے بدایوں پہنچا اور وہاں سے کٹھیر کی بغاوت کو ختم کرتے ہوئے سنبھل آ گیا۔ اس بغاوت کو کچلنے میں شاہی فوج کو زبردست جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ کٹھیر علاقے اور سنبھل میں آگے کوئی بغاوت نہ ہواس بات کا خیال رکھتے ہوئے اس نے کچھ ترک فوجیوں کو مستقل طور پر سنبھل میں ہی قیام کرنے کا حکم دیا۔ بعد میں ان ترک فوجیوں نے مقامی ترکیہ لوگوں میں اپنی شادیاں کر کے خاندان کو آگے بڑھایا۔ آج بھی سنبھل اور اس کے اطراف میں ان ترکوں کی اولادیں بڑی تعداد میں آباد ہیں ۔ ان میں سے کافی تعداد میں’ ’بامینا ترکوں ‘‘۴؎  کی اولادیں ہیں ۔ عام طور پر ترکوں کے نام سے مشہور ان بامینا ترکوں کی اولادیں بوبینا (بوبنا)ترکوں کے نام سے جانی جاتی ہیں ۔

 

غیاث الدین بلبن کے دور میں :

۱۲۶۵ء میں غیاث الدین بلبن دہلی حکومت کے تخت پر بیٹھا اس وقت سنبھل اور بدایوں علاقوں ۵؎  سے مسلسل بغاوتوں کی خبریں موصول ہو رہی تھیں ۔ اس سے پہلے بھی بلبن سلطان ناصر الدین محمود کے دور میں کٹھیریا بغاوتوں کو کچل چکا تھا۔ لہٰذا ۱۲۶۶ء میں سلطان غیاث الدین بلبن نے فوج کی تیاری کا حکم دیا اور اعلان کر دیا کہ وہ ہمالیہ کی وادیوں میں شکار کے لیے جا رہا ہے۔ سلطان بلبن پانچ ہزار تیر انداز لے کر دہلی سے بجنور کے راستے سنبھل کے لیے روانہ ہوا۔ سنبھل سے گزر کر اس نے سیدھے باغی کٹیہاروں کے ٹھکانوں پر حملہ کر دیا۔ محمد قاسم کی’ ’تاریخ فرشتہ‘‘ کے مطابق پانچ ہزار فوجیوں کے اچانک حملے نے باغیوں کو کچھ سوچنے اور سنبھلنے کا موقع نہیں دیا اور زیادہ تر باغی قتل کر دیئے گئے۔ برنیؔ کے مطابق بلبن کچھ دنوں تک کٹھیر علاقہ میں ہی ٹھہرا اور آگے کسی بغاوت کے امکانات نہ ہوں اس لیے اس نے ترک فوج کا ایک دستہ سنبھل میں ہی رہنے دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بلبن کے دور میں سنبھل، بدایوں ، امروہہ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں پھر کوئی بغاوت نہیں ہوئی۔ ترک دستے کے کچھ سپاہیوں نے سنبھل میں پہلے سے آباد بوبینا اور دیگر قبیلوں کے ترک سپاہیوں کے خاندانوں میں اور کچھ نے مقامی ترکیہ لوگوں کے کنبوں میں شادی بیاہ کر کے اپنے خاندان کو آگے بڑھایا۔ بعد کی ترک سلطنتوں میں بھی مختلف قبیلوں کے ان ترکوں کی تعداد بڑھتی رہی۔

حقیقت میں غیاث الدین بلبن پہلا سلطان تھا جس نے کٹھیریوں کی بغاوت کچلنے کے لیے کارگر طریقے اپنائے۔ اس نے بدایوں صوبے میں امروہہ اور سنبھل کو اقطہ بنا کر  شہرکی طرح ترقی دی۔ پہلے امروہہ میں اور پھر سنبھل میں فوجی ہیڈ کوارٹر قائم کیے جس سے علاقے میں امن قائم کرنے میں مدد ملی۔ کٹھیریا بغاوتوں کو ختم کرنے کے بعد سلطان نے فوجی ہیڈ کوارٹر امروہہ سے سنبھل پہنچا دیا اور ملک خطاب افغن کو وہاں کا نگراں بنا دیا جو کافی عرصے تک سنبھل میں رہا۔

 

خلجی سلطانوں کے دور میں :

بلبن کی مو ت کے کچھ برس بعد( ۱۲۹۰ء کے آس پاس) خلجی سلطان کو سنبھل میں ایک بڑی بغاوت کے متعلق معلومات حاصل ہوئی۔ خلجی سلطان نے بغاوت شروع ہونے کے ٹھیک پہلے بنا خون خرابے کے اس پر قابو پالیا۔ سلطان علاء الدین خلجی کے دور میں امروہہ کو پھر سے فوجی چھاؤنی بنایا گیا۔ ۱۳۰۵ء میں مشرقی ترکستان کی طرف سے مغلیہ ترک سردار علی بیگ کے زیر قیادت تقریباً ۵۰ہزار ترک اور مغلیہ ترک فوج سندھ ندی پار کر کے پنجاب پہنچی اور وہاں سے تیز رفتار سے آگے بڑھ کر دہلی سے کچھ فاصلے پر شِوالک پہاڑیوں کی ترائی میں مقیم آبادیوں کو ویران کرتی ہوئی دوآب پہنچی۔ فرشتہؔ کے مطابق وہاں سے بجنور کے راستے مار کاٹ کرتے ہوئے امروہہ علاقہ میں داخل ہوئی۔ برنیؔ کے مطابق دہلی کے سلطان علاء الدین خلجی نے امیر ملک نائب آخور۶؎  کومقابلے کے لیے بھیجا۔ ملک نائب نے ۳۱؍دسمبر ۱۳۰۵ء کو سنبھل و امروہہ کے درمیان علی بیگ کی فوج کو بری طرح شکست دی اور اس کے ہزاروں فوجیوں اور سرداروں کو گرفتار کر کے دہلی بھیج دیا۔ جہاں سلطا ن نے ان کا قتل کر کے ان کے سروں کو سیری قلعہ میں چنوادیا۔ (دہلی سلطنت، ڈاکٹر ایس۔ رائے، ص ۱۲۔۱۴، دہلی سلطنت، ستیش چندرا، ص۶۴)۔

جو فوجی کسی طرح بچ نکلے وہ امروہہ کے جنگلوں میں روپوش ہو گئے۔ بعد میں انھوں نے   مغل پور آباد کیا اور وہیں رہنے لگے۔ یہ مغل پور آج افغان پور کے نام سے جانا جاتا ہے۔

 

تغلق سلطانوں کے دور میں :

سلطان محمد بن تغلق کے دور میں امروہہ کے والی ا لخراج عزیر خمّار نے کسی بھی کٹھیریا سردار یا زمیندار کو سر اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ اس طرح بلبن سے محمد تغلق کے دور تک کٹھیریا سردار خاموش رہے لیکن اپنی طاقت بڑھاتے رہے۔ سلطان کے آخری دور میں کٹھیر کا علاقہ جو صوبہ بدایوں کے تحت آتا تھا دو سرکاروں میں تقسیم ہو گیا۔ کٹھیر کا مشرقی حصہ بدایوں سرکار میں اور مغربی حصہ سنبھل سرکار میں شامل ہوا۔ بدایوں سرکار میں اُس وقت بدایوں کے علاوہ موجودہ شاہجہانپور، بریلی، پیلی بھیت، آنولہ و تلہر کے علاقے شامل ہوئے جب کہ سنبھل سرکار میں سنبھل کے علاوہ موجودہ شاہ آباد، رامپور، کاشی پور، مرادآباد، امروہہ، بجنور اور اسلام نگر کے علاقے شامل ہوئے۔ دونوں سرکاریں دہلی صوبے کے تحت رکھی گئیں ۔ محمود تغلق کے دور میں اسد خاں لودھی سنبھل سرکار میں گورنر ہوا۔ برنیؔ کے مطابق ۱۳ویں اور ۱۴؍ویں صدی میں کٹھیر علاقے کی سنبھل اور بدایوں سرکاروں میں امروہہ، کنواڑی، افغان پور، کابر، کھادر، آنولہ اور کوبلہ محال تھے۔ فیروز شاہ تغلق کے دور میں کٹھیریا راجپوت سردار کھڑک سنگھ (کھڑکو) نے ۱۳۷۹ء میں بدایوں کے گورنر اور اس کے دو بھائیوں سیدعلاء الدین اور سید محمود کو دھوکا دے کر قتل کر دیا۔              (تاریخ فرشتہ، جلد ۱، ص ۱۴۸/ تاریخ مبارک شاہی، ص ۱۳۵)

سیدؔ بھائی سلطان کے معزز درباری اور بڑے منصب دار تھے۔ ان کی موت کا بدلہ لینے کے لیے ۱۳۸۰ء میں خود سلطان سنبھل آیا اور شاہی فوج کے ساتھ باغی کٹھیر یا۷؎ راجپوتوں کے ٹھکانوں کو کچلتا ہو ا اور وہاں قتل عام کرتا ہوا کٹھیریا راجپوت سردار کھڑک سنگھ کے ٹھکانے کی طرف پہنچا۔ کھڑک سنگھ شاہی فوج کا مقابلہ نہ کرسکا اور کمایوں کی طرف بھاگ گیا۔ شاہی فوج نے اس کا پیچھا کیا مگر وہ پکڑا نہیں جا سکا۔ ۲۳؍ہزار کٹھیریا باغی قیدی بنائے گئے۔ سنبھل واپس آ کر سلطان نے سنبھل کے حاکم ملک داؤد کو حکم دیا کہ وہ ہر سال کٹھیر علاقے پر فوج کشی کرتا رہے۔ اس دور میں محمود بک شیروان (۱۳۸۵۔۱۳۸۲)  امروہہ کا حاکم تھا۔

فیروز تغلق کے دور میں امروہہ بہت چھوٹی مسلم بستی تھی اور اطراف کا تمام علاقہ گھنے جنگلوں سے گھرا ہوا تھا۔ اسی دور میں صوفی شاہ شرف الدین نقوی شاہ ولایت مع اپنے اہل و عیال امروہہ میں قیام پذیر ہوئے۔ ان کے بڑے لڑکے امیر علی اُس وقت امروہہ میں قاری کے عہدے پر فائز تھے۔ تیموری سلطنت کے دور میں انھیں کی اولادوں میں سے ایک شیعہ مذہب کا پیرو ہو گیا۔ لہٰذا آگے ان کی نسل میں سُنّی اور شیعہ دونوں فرقوں کے لوگ ہوئے۔

اسی دور میں ایک مصری سیّاہ ابن بطوطہ دہلی دربار میں حاضر ہوا۔ فیروز تغلق نے اُسے بہت عزت بخشی اور شاہی درباریوں میں شامل کر لیا۔ اسی دوران ابن بطوطہ نے امروہہ کا سفر کیا اور وہاں ۳مہینے تک قاضی امیر علی کا مہمان رہا۔ ۱۳۸۸ء میں فیروز تغلق کی موت کے بعد ابن بطوطہ اپنے وطن مصر لوٹ گیا۔

(تاریخ فرشتہ جلد ۱، ص ۱۴۸، کیمبرج ہسٹری ص ۱۸۲۔۱۸۳، تاریخ امروہہ، محمود احمد عباسی، ص ۴۰)

سنبھل اور امروہہ کی قدیم عمارتوں میں امروہہ کی صدوؔ مسجدسب سے قدیم ہے۔ یہ سلطان بلبن کے بیٹے سلطان قے قوباد (۱۲۹۰۔۱۲۸۷ء) کے دور میں امروہہ کے حاکم نے تعمیر کرائی تھی۔ تیموری شہنشاہ اکبر کے ابتدائی دور میں بڑے پیمانے پر اس کی مرمت کرائی گئی۔ ساتھ ہی مشرقی صدر دروازے اور اُس سے ملحق مدرسہ کی تعمیر بھی عمل میں آئی (صدر دروازہ کے اندر صحن کی طرف کتبہ ۹۶۴ھ کندہ ہے۔ تنگ راستوں سے گزر کر امروہہ کی گھنی آبادی میں تین گنبدوں والی یہ ویران مسجداپنی آخری سانسیں گنتی ہوئی نظر آتی ہے۔ امروہہ میں درگاہ شیخ شرف الدین شاہ ولایت ۱۳۸۱ء میں قائم ہوئی۔ اس کے علاوہ شاہ غازی، شاہ عبدالہادی، میاں پیر بخش ملا داد اور شاہ ناصر الدین کے مقبرے بھی امروہہ کی پرانی یادگاریں ہیں ۔

جب سید خضر خاں نے ۰۶۔۱۴۰۵ء میں دہلی میں ملّو اقبال کی حکومت کو ختم کر دیا تو دہلی کے لوگوں نے سلطان محمود تغلق کو دہلی بلانے کی کوشش کی چونکہ مغربی دہلی کے تمام علاقوں میں خضر خاں کا قبضہ تھا۔ لہٰذا سلطان محمود کو سنبھل اور بدایوں سرکاروں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ بدایوں اور سنبھل سرکاروں کے گورنر سلطان کے قریبی تھے۔ اُس وقت اسد خاں لودھی سنبھل سرکار میں گورنر تھا۔

۱۴۱۲ء میں سلطان محمود کے انتقال کے بعد میرٹھ سنبھل اور بدایوں کے گورنر دولت خاں سے مل گئے۔ ۱۴۱۴ء میں سید خضر خاں نے دولت خاں کو گرفتار کر کے دہلی پر قبضہ کر لیا اور سیّد خاندان کی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ خضر خاں نے دہلی کی گدی پر بیٹھنے کے بعد اپنے ایک وزیر تاج الملک کو سنبھل روانہ کیا۔ تاج الملک نے کٹھیریا راجپوت راجہ رائے ہری سنگھ پر زبردست حملہ کر دیا۔ لڑائی میں تاج الملک کو فتح حاصل ہوئی۔ راجہ ہری سنگھ فرار ہو کر آنولہ پہنچنے میں کامیاب ہوا اور جرمانہ ادا کرنے کے لیے راضی ہو گیا۔ ۱۹۔۱۴۱۸ء میں راجہ رائے ہری سنگھ نے پھر بغاوت کر دی۔ اس بار پھر تاج الملک کو بغاوت کچلنے کے لیے بھیجا گیا اس بار بھی شاہی فوج کو کامیابی ملی مگر راجہ ہری سنگھ کمایوں بھاگ گیا۔

۱۴۲۱ء میں خضر خاں کی موت ہو گئی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا سید مبارک شاہ دہلی کے تخت پر بیٹھا۔ خضر خاں کی موت کی خبر سنتے ہی علاقے کے سارے کٹھیریا راجپوت پھر سے راجہ ہری سنگھ کی قیادت میں اکٹھا ہو گئے اور سنبھل پر حملہ کر کے سارے علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت ملک اللہ داد خاں لودھی سرکارسنبھل کا گورنر تھا۔ راجہ نے اپنی خودمختاری کا اعلان کر دیا۔

سید مبارک شاہ جب ایک بڑی فوج لے کر سنبھل کی طرف روانہ ہوا تو راجہ ہری سنگھ نے سنبھل کے باہر نکل کر شاہی فوج کا مقابلہ کیا لیکن شکست ہوئی اور مارا گیا۔ اس کے ساتھ ہی علاقے میں کٹھیریا بغاوتوں کا خاتمہ ہو گیا۔ حالانکہ کٹھیریا راجپوتوں میں راجہ مترسین اکیلا ایسا سردار تھا جس نے لکھنور (موجودہ شاہ آباد) علاقے پر شیر شاہ اور اس کے خاندان کے لوگوں کے دَور تک حکومت کی۔

حالانکہ سلطان مبارک شاہ سید کٹھیر کے زیادہ تر علاقے پر کٹھیریا راجپوتوں کا اثرو رسوخ ختم کرنے میں کامیاب رہا تھا لیکن سنبھل کے گورنر دریا خاں لودھی نے نہ صرف سنبھل کے علاقہ پر اپنا قبضہ برقرار رکھا بلکہ دہلی شہر کے باہر تک اپنی حکومت قائم کر لی  سرہند کا حکمراں بہلول لودھی ۱۴۵۰ء میں دہلی کے تخت پر بیٹھا۔ اس کے بعد۔ ۱۴۵۲ء میں برن اور سنبھل کے حکمران دریا خان لودھی نے بھی اس کی اطاعت تسلیم کر لی اور ا س کا وفادار رہا (نظام الدین احمد ص ۱۵۳)۔ بدایوں کا علاقہ سلطان علاء الدین عالم شاہ کے قبضے میں رہا۔ آخری سید سلطان علاء الدین عالم شاہ کے انتقال کے بعد اس کے داماد جونپور کے محمد حسین شرقی۸؎  کو بدایوں اور سنبھل پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا۔ بدایوں پر قبضہ کے بعد وہ ایک بڑی فوج لے کر دہلی کی طرف چلا۔ راستے میں اُس نے ۱۴۷۸ء میں سنبھل پر قبضہ کر لیا اور سنبھل کے گورنر تاتار خاں لودھی (دریا خاں لودھی کا بیٹا)کو گرفتار کر لیا۔ سنبھل پر فتح کے بعد شرقی نے دہلی پر حملہ کر دیا۔ دہلی کے حاکم بہلول لودھی نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس وقت شرقی سے صلح کر لی مگر شرقی کے دہلی سے واپس ہوتے ہی پیچھے سے اُس پر حملہ کر دیا اور شرقی کو شکست دی یہاں تک کہ جونپور تک کا علاقہ فتح کر لیا۔ اس وقت بہلول لودھی نے مسندِ عالی محمود خاں لودھی شاہو خیل کو سنبھل کا علاقہ دے دیا۔

۱۷؍جولائی ۱۴۸۹ء میں بہلول لودھی کا بیٹا سکندر لودھی دہلی کے تخت پر بیٹھا۔ ۱۴۹۳ء میں سکندر لودھی کٹھیریوں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے سنبھل پہنچا تھا اور علاقے سے اچھی طرح واقف ہو چکا تھا۔ تخت نشینی کے تقریباً ۱۱؍سال بعد ۱۴۹۹ء میں اصغر خاں کو دہلی کا حاکم مقرر کر کے و آگرہ شہر کی بنیاد ڈال کر سکندر لودھی پھر سنبھل آ گیا۔

شنکھدھرؔ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سکندر لودھی نے غیر اسلامی نظریہ کے لوگوں سے دشمنی رکھنے، نفرت کرنے اور اور کٹھیر علاقے میں ہندو سرداروں کی طاقت کو ختم کرنے کے ارادے سے سنبھل کو اپنی راجدھانی بنایا۔

(A Historical Survey of India by B. M. Shankhdar Sambhal, p.28۔29)

شنکھدھرؔ کا یہ نظریہ ٹھیک نہیں کیونکہ

۱۔        نعمت اللہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ’ ’اپنے خلاف کچھ مسلمان امیروں اور حرم کی عورتوں کی لگاتار سازشوں کے چلتے سکندر لودھی دہلی میں خود کو محفوظ نہیں مانتا تھا۔ دوسرے سنبھل دوندیوں کے بیچ میں بسا ہونے کی وجہ سے دشمن کے اچانک حملوں سے کسی حد تک محفوظ تھا۔ گھنے جنگل ہونے سے سنبھل کی آب و ہوا بھی بہت اچھی تھی۔ سکندر لودھی نے چار سال تک سنبھل میں رہ کر سیر و تفریح و شکار سے دل بہلایا ساتھ ہی حکومت کے سارے کام یہیں سے انجام دیئے۔ حالانکہ سنبھل میں بھی کچھ امیروں نے سکندر لودھی کو ہٹا کر شہزادے فتح خاں کو تخت نشین کرانے کی سازش کی لیکن شہزادے نے سازش کے بارے میں سلطان کو آگاہ کر دیا سلطان نے تمام سازشی امیروں کو، جو سبھی مسلمان تھے، قتل کروادیا۔  (‘Tareekh Khan۔e۔Jahan, by Namatullah, p.134)

۲۔       نظام الدین کے مطابق دہلی میں سکندر لودھی کو ہٹانے کی سازش رچی گئی تھی۔ اس سازش کے خاتمہ کے بعداصغر خاں کو دہلی کا حاکم مقرر کر کے سکندر لودھی سنبھل چلا گیا اور وہاں چار سال تک رہا۔

(Tabqat۔e۔Akbari  by Nizamuddin Ahmad, p.163)

بعد میں سکندر لودھی نے دہلی کے ظالم اور بے ایمان حاکم اصغر خاں کی جگہ سنبھل کے خواص خاں کو دہلی کا حاکم مقرر کیا۔ چار سال سنبھل کو عارضی راجدھانی بنائے رکھنے کے بعد سکندر لودھی نے آگرہ کو اپنی راجدھانی بنا لیا۔

(احسن التواریخ، منتخب التواریخ اور سنبھل اے ہسٹوریکل سروے)

سکندر لودھی نے اسلامی تعلیم اور تہذیب و ادب پر خاص توجہ دی۔ اس نے ملتان سے شیخ عزیز اللہ طلبنی کو سنبھل میں ایک بڑے مدرسے کا صدر مدرس مقرر کیا۔ ان کے شاگردوں میں شیخ حاتم سنبھلی ۹؎  اور شیخ اللہ دیئے جونپوری کافی مشہور رہے ہیں ۔ سلطان التمش اور اس کے خاندان کے حکمرانوں کے دور میں بدایوں کو جو اہمیت حاصل ہوئی تھی اس سے کہیں زیادہ سلطان سکندر لودھی کے دور میں سنبھل کو حاصل ہوئی۔ سکندر لودھی نے سنبھل میں اسلامی تعلیم اور مسلم تہذیب کی جو بنیاد ڈالی تھی وہ تیموری نسل کے مغلیہ ترکوں کے دور میں بھی خوب پروان چڑھی۔

سلطان سکندر لودھی کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے ابراہیم لودھی کے دور میں دریا خاں کے بیٹے بہادر خاں نے باغی ہو کر سنبھل پر قبضہ کر لیا اور سلطان محمد شاہ کے نام سے خطبہ پڑھوا کر سنبھل میں تخت نشین ہوا اور اپنے نام کا سکہ بھی جاری کیا۔ ابراہیم لودھی نے محمد شاہ سے جلد ہی سنبھل واپس لے لیا اور میاں قاسم سنبھلی (قاسم خان لودھی) کو سنبھل کا گورنر بنا دیا جو لودھی سلطنت کے خاتمہ کے بعد تک سنبھل کا گورنر رہا۔

 

تیموری بادشاہ بابر کے دور میں :

ترکستان میں فرغانہ کے سابق حکمراں اور کابل کے بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر ۱۰؎  نے ابراہیم لودھی کے دور میں کئی حملے کیے مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ آخر کار ۱۵۲۶ء میں پانی پت کے میدان میں بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں تیموری خاندان کی سلطنت قائم کی جو مغل سلطنت کے نام سے مشہور ہوئی۔

سلطان بلبن کے دور تک صوبے میں گورنر اور دوسرے اہم خضر خاں نے دولت خاں کو گرفتا ki عہدوں پر زیادہ تر ترک امیر ہی فائز ہوتے تھے۔ ایک حقیقت جو بابر نے خودتسلیم کی ہے کہ دہلی فتح کرنے کے بعد میرے علم میں آیا کہ دہلی، سنبھل اور بدایوں سرکاروں میں افغانوں کی حیثیت اور طاقت بہت زیادہ ہے۔ زیادہ تر علاقوں پر ان کا قبضہ تھا۔ ہندوستانی عوام کا تعاون ان کے ساتھ تھا کیونکہ ہمیں مغلوں کے طور پر مشہور کیا گیا تھا اور ہندوستانی عوام مغلوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ (بابر نامہ ترجمہ بَیورِج، ص ۵۲۳)

لودھی سلطنت کے خاتمے کے بعد بہت سے افغان سرداروں نے دہلی کے چاروں طرف سنبھل اور بدایوں سرکاروں تک خود کو زمینداروں کے طور پر مستحکم کر لیا تھا۔

بابر نے’ تزک بابری‘ میں لکھا ہے کہ سنبھل میں میاں قاسم سنبھلی (قاسم خاں لودھی) بیانہ میں نظام خاں اور میوات میں حسن خاں نے بغاوت کی۔ لہٰذا ہم نے سنبھل کی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے امیر کوکل تاش کو سنبھل کا گورنر مقرر کیا۔ مگر کوکل تاش کے سنبھل روانہ ہونے سے پہلے ہی فیصلہ بدل کر سنبھل جاگیر کو شہزادہ ہمایوں کے نام کیا گیا۔ ہمایوں کے بدخشاں میں ہونے کی وجہ سے امیر ہندو بیگ اور بابا قشقاش ملک قاسم کو سنبھل پر قبضہ کرنے اور بعد میں اس کا انتظام دیکھنے کے لیے روانہ کیا گیا۔ اُس وقت ببن خاں افغان قلعہ سنبھل کا محاصرہ کیے ہوئے تھا۔ قاسم سنبھلی نے ببن خاں افغان کے خلاف بابر کے امیروں سے مدد مانگی تھی۔ لہٰذا لڑائی میں ببن خاں نے شکست کھائی۔ بابر کے امیروں نے قلعہ اپنے حوالے کرنے کے لیے خبر بھیجی لیکن قاسم سنبھلی اس کے لیے راضی نہیں ہوا۔ آخر کار تھوڑی کشمکش کے بعد میاں قاسم سنبھلی نے سنبھل قلعہ کو امیر ہندو بیگ اور ملک قاسم کے حوالے کر دیا۔ ہمایوں کے بدخشاں میں ہونے کے دوران بابر نے اس کی جاگیر سنبھل میں خواجہ زاہد کو پہلا گورنر مقرر کیا۔ خواجہ زاہد کے بعد یوسف علی سنبھل کا گورنر ہوا۔ (تزک بابری، ص ۳۵۷)

ببن خاں سنبھل سے بھاگ گیا تھا مگر کچھ عرصے کے بعد اس نے لکھنور ۱۱؎ پر قبضہ کر لیا۔ بابر اس وقت رانا سانگا سے الجھا ہوا تھا۔ لہٰذا بابر نے اس بار قاسم حسین سلطان ۱۲؎  کی نگرانی میں ایک فوجی ٹکڑی ببن خاں کے خلاف بھیجی۔ جیسے ہی بابر کی فوج نے گنگا ندی پار کی ببن خاں کو اس کا پتہ چل گیا اور وہ مقابلہ کرنے کے بجائے بھاگ نکلا اور پکڑا نہ جا سکا۔

ابوالفضل نے بیان کیا ہے کہ ہمایوں کے بدخشاں سے لوٹنے کے بعد بابر نے شہزادہ ہمایوں کو امیر ہندو بیگ کے ساتھ اس کی جاگیر سنبھل بھیجا۔ ہمایوں کل ۶ماہ سنبھل میں رہا۔ اس درمیان ہمایوں سنبھل میں سخت بیمار ہو گیا تو بابر نے اسے آگرہ اپنے پاس بلا لیا۔ ٹھیک ہونے کے بعد ہمایوں پھر سنبھل آ گیا۔ اس کے کچھ دنوں بعد ہی آگرہ میں بابر بھی بیمار ہو گیا۔ گلبدن کے مطابق جب بابر کی بیماری ڈھائی تین مہینے تک چلتی رہی تو ہمایوں کو سنبھل سے بلوایا گیا۔ شہزادہ ہمایوں بابر کے انتقال سے چار دن پہلے آگرہ پہنچا۔ ہمایوں بادشاہ بابر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہمایوں کے ساتھ ایک لمبی بات چیت کے بعد بابر نے ہمایوں کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ اور اس کے تین دن بعد بابر کا انتقال ہو گیا۔

(طبقات اکبر از نظام الدین احمد، نول کشور، ص۱۹۴)

بادشاہ بابر اکتوبر ۱۵۲۷ء میں دو دن کے لیے سنبھل آیا تھا (تزک بابری اردو ترجمہ، ص ۲۴۱)۔ اس وقت سنبھل میں کوئی جامع مسجد نہیں تھی۔ قلعے کے مغربی حصے میں تغلق دور کی ایک خستہ حال مسجد کھڑی تھی لہٰذا بابر نے اپنے جنرل ہندو بیگ کو اس کی مرمت کے ساتھ ساتھ اس کی حدوں کو بڑھانے اور جامع مسجد کی شکل دینے کا حکم دیا۔ اسی وجہ سے یہ بات مشہور ہو گئی کہ سنبھل کی جامع مسجد بابر کے دور میں اس کے جنرل ہندو بیگ نے تعمیر کروائی ہے۔

 

ہمایوں کی حکومت کے پہلے دور میں :

بابر کے انتقال کے بعد ۱۵۳۰ء میں ہمایوں آگرہ میں تخت نشین ہوا اس کے فوراً بعد ہمایوں نے سنبھل کا دورہ کیا اور لوٹ کر سنبھل کی جاگیر شہزادہ مرزا عسکری کے نام کر دی جہاں امیر ہندو بیگ کی نگرانی میں مرزاعسکری کچھ دنوں سنبھل میں رہنے کے بعد واپس آ گیا۔ ۱۵۳۲ء میں اللہ داد خاں لودھی کوسنبھل کا گورنر بنایا گیا۔ (تذکرۃ الواقعات، جوہر اردو ترجمہ معین الحق، ص ۲۱)

۱۵۳۷ء میں ہمایوں نے مرزا بھائیوں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے پھر شہزادہ عسکری کوسنبھل بھیجا مگر اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی مرزا برادران وہاں سے بھاگ چکے تھے۔

ہمایوں کی حکومت کے آخری دور میں بدایوں اور سنبھل سرکاروں میں کٹھیریا سرداروں نے اپنی آزاد حکومتیں قائم کر لی تھیں ۔

شیر خاں نے ۱۷؍مئی ۱۵۴۰ء کو قنوج کے مقام پر ہمایوں کی فوج پر زبردست حملہ کیا۔  ہمایوں شیر خاں کا مقابلہ نہ کرسکا۔ اس نے بڑی مشکل سے ایک ہاتھی پر سوا ر ہو کر دریا پار کیا اور اپنی جان بچائی۔ ہمایوں آگرہ سے بھاگ کر کابل پہنچا مگر اس کے بھائیوں نے اس کی کوئی مدد نہیں کی اور ہمایوں کو ہندوستان چھوڑ کر اِدھر اُدھر بھٹکنا پڑا۔

قنوج میں ہمایوں کی شکست کے بعد ہی اس کی فوج بکھر گئی تھی اور بیرم خاں بھی فوج سے بچھڑ گیا تھا۔ بیرم خاں بھاگ کر پہلے اپنی جاگیر سنبھل میں آیا اور وہاں سنبھل کے رئیس اور اپنی جاگیر کے نگراں میاں عبدالوہاب کے گھر ٹھہرا۔ بعد میں بیرم خاں لکھنور کے گورنر مترسین ۱۳؎ کے پاس چلا گیا۔

 

شیر شاہ اور اس کے وارثوں کے دور میں :

مئی ۱۵۴۰ء میں شیر شاہ نے ہمایوں کو ہرا کر سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی۔ اس کے فوراً بعد ہی ہیبت خاں نیازی کی کمان میں شیر شاہ کی فوجوں نے سنبھل پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت سنبھل کی جاگیر بیرم خاں کے نام تھی وہ فوراً اپنی جاگیر سے نکل کر راجہ مترسین کے پاس لکھنور چلا گیا۔

شیر شاہ نے سب سے پہلے ناصر خاں کو سنبھل سرکار کا صدر /ہیڈ (فوجدار۱۴؎ )بنایا مگر وہ لوگوں کی ہمدردی اور مدد حاصل نہیں کرسکا۔ لوگوں نے اس کی زیادتیوں اور ظلموں کی شکایت شیر شاہ سے کی۔ لہٰذا شیر شاہ نے عیسیٰ خاں کالکاپوری کو سنبھل کا گورنر۱۵؎  بنایا اور ناصر خاں کو فوجدار بنا رہنے دیا۔

بہرحال ناصر خاں اور عیسیٰ خاں کالکاپوری نے کامیابی کے ساتھ علاقے پر کنٹرول رکھا۔ شیر شاہ کے بعد اسلام شاہ کے دور میں خواص خاں (شیر شاہ کا جنرل خواص خاں اس کے دوسرے بیٹے عادل شاہ کا حامی و مددگار تھا)کے لگاتار حملوں کے بموجب علاقے میں بدامنی پھیلی۔ اسلام شاہ کے گدی نشین ہونے کے بعد سے خواص خاں راجہ کمایوں کے یہاں پناہ لیے ہوئے تھا جہاں سے وہ سرکار سنبھل اور بدایوں پر حملے کرتا رہتا تھا۔ اسلام شاہ کافی وقت تک ان حملوں کا معقول جواب نہ دے سکا۔ آخر کار اسلام شاہ نے تاج خاں کرمانی کو سنبھل کا گورنر بنایا اور اس کے ساتھ مل کر خواص خاں کا مقابلہ کیا جس میں خواص خاں مارا گیا۔ تاج خاں کرمانی کو بھی بعد میں سرسی (سنبھل کے قریب ایک قصبہ)کے مقام پر مار دیا گیا۔

نواب اعتماد الملک سنبھلی شیر شاہ کی حکومت میں وزیر اعظم مقرر  ہوئے ان کے انتقال کے بعد سنبھل کے مغرب میں موجودہ سنبھل(حسن پور)، دہلی روڈ پر ان کا مقبرہ بنا۔ جس کا گنبد ۱۹ویں صدی کے آخر میں بجلی گر جانے سے پوری طرح ٹوٹ گیا۔

شیر شاہ اور اسلام شاہ کے دور میں ۱۵۴۳ء سے ۱۵۴۷ء کے درمیان سنبھل میں تانبے کے سکّے ڈھالنے کا ٹکسال رہا۔ (Coins reported by Nelson Wright)

 

ہمایوں کی حکومت کے دوسرے دور میں :

۱۵۴۰ء میں شیر شاہ نے ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ ہمایوں اور بیرم خاں ۳سال تک الگ الگ بھاگتے رہے۔ ۱۵۴۳ء میں بیرم خاں ہمایوں سے جا ملا۔ ۱۵۴۴ء میں دونوں ایران گئے اور وہاں سے فوجی مدد لے کر لوٹے۔ ۱۵۴۵ء میں ہمایوں نے مرزا عسکری کو ہرا کر قندھار پر قبضہ کر لیا اور بیرم خاں کو وہاں کا گورنر بنادیا۔ اس کے بعد کابل پر بھی قبضہ ہوا اور آخر کار ۱۵۵۵ء میں ہمایوں نے شیر شاہ کے جانشینوں سے دہلی کو بھی واپس لے لیا۔ اس کے فوراً بعد ہمایوں کے ترک سردار بیرم خاں نے بغیر جنگ کے لاہور پرہمایوں کا قبضہ کرادیا۔ ہمایوں نے بیرم خاں کو’ خان خاناں ‘ کے خطاب سے نوازا اور قندھار کے ساتھ ساتھ سنبھل کی جاگیر بھی اس کے نام کر دی۔

سرہند کو فتح کرنے کے بعد جب ہمایوں دہلی لوٹ رہا تھا تو اس کی فوج کے ایک سردار قنبر دیوانہ نے ہمایوں سے الگ ہو کر بغاوت کر دی اور سنبھل و بدایوں پر قبضہ کر لیا۔ سنبھل اور بدایوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد قنبر دیوانہ خوشی میں دیوانہ ہو گیا اُس نے جیت کا شاندار جشن منایا اور اپنے سرداروں کو انعامات و خطابات سے نوازا۔ یہ خبر پا کر ہمایوں نے اپنے ایک سردار علی قلی خاں شیبانی کو امیر الاُمرا کا درجہ دے کر دیوانہ کو گرفتار کر دربا رمیں  لانے کے لیے سنبھل بھیجا۔ علی قلی خاں نے سنبھل آتے ہی پہلے قنبر دیوانہ کے ساتھیوں کو سنبھل سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد وہ بدایوں کے لیے روانہ ہوا۔ اس نے قنبر دیوانہ کو اپنے سپرد کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا۔ آخر کار لڑائی ہوئی اور دیوانہ نے خود کو بدایوں کے قلعے میں بند کر لیا اور ہمایوں کے پاس رحم کی اپیل بھیج دی۔ ہمایوں نے اپیل کو مانتے ہوئے دیوانہ کو دہلی لانے کے لیے فوراً قاسم مخلص کو روانہ کر دیا۔ مگر اس سے پہلے کہ قاسم مخلص بدایوں پہنچ پاتا، علی قلی خاں شیبانی نے دیوانہ کو گرفتار کر کے قتل کر وا دیا اور اس کا کٹا ہوا سر دہلی بھیج دیا۔ رحم دل بادشاہ ہمایوں کو یہ بات پسند نہ آئی۔  (آئینہ اکبری، انگریزی ترجمہ، ص ۳۳۵)

۱۵۵۵ء میں دہلی فتح کرنے کے بعد ہمایوں نے ایک منصوبے کے تحت ہر صوبے کو نئے سرے سے سرکاروں اور محالوں میں تقسیم کیا۔ سرکاروں میں گورنر مقرر کیے۔ ہر گورنر کو خصوصی اختیارات کے ساتھ ۲۰۰۰ ۱فوج بھی رکھنے کی منظوری دی۔ اسی منصوبے کے تحت سنبھل سرکار میں بھی محال بنے اور علی قلی خاں شیبانی کو سنبھل سرکار میں گورنر بنایا گیا۔

 

شہنشاہ اکبر کے دور میں :

ہمایوں کی اچانک موت کے بعد اس کا بیٹا اکبر کلا نور میں تخت نشین ہوا۔ اس موقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہیمو(افغان عادل شاہ کی فوج کا سپہ سالار)اپنے لشکر کے ساتھ گوالیر و آگرہ فتح کرتے ہوئے دہلی کی طرف بڑھا۔ دہلی کے حاکم تردی بیگ نے سنبھل سرکار کے گورنر علی قلی خاں شیبانی کو اور پنجاب سے اس کے بھائی بہادر خان کو جو وہاں افغان پٹھان شادی خان سے لڑ رہا تھا، اپنی مدد کے لیے جلد سے جلد دہلی پہنچنے کی اطلاع بھجوائی مگر خود مقابلے کے لیے کوئی خاص انتظامات نہیں کیے۔ کچھ درباریوں نے صلاح دی کہ قلعہ بند کر کے یا پیچھے ہٹ کر پنجاب سے مدد آنے یا سنبھل سے علی قلی خان کے آنے کا انتظار کریں ۔ دریں اثنا آگرہ سے اسکندر خاں بھاگ کر تردی بیگ کے پاس دہلی آ گیا تھا جہاں دونوں تغلق آباد کے قریب مدد کا انتظار کرنے لگے۔ مدد پہنچنے سے پہلے ہی ہیمو نے تردی بیگ کی فوج پر حملہ کر دیا۔ تردی بیگ شکست کھا کر سرہند کی طرف بھاگ گیا۔ ہیمو نے اگلے دن ہی دہلی پر قبضہ کر لیا اور خود کو وِکرمادِتیہ کے نام سے راجہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس وقت علی قلی خاں شیبانی سنبھل سے گڑھ مُکتیشور تک اور اس کا بھائی بہادر خان کرنال ہوتا ہوا میرٹھ تک پہنچا تھا کہ انھیں تردی بیگ کی شکست کی اطلاع ملی۔ علی قلی خاں فوراً گڑھ سے میرٹھ پہنچا اور وہاں سے اپنے بھائی کے ساتھ سرہند چلا گیا جہاں آگرہ دہلی و دوسری جگہوں سے سب امیر و سردار موجودہ حالات میں ہیمو سے جنگ کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں صلاح مشورہ کرنے کے لیے اکبر اور بیرم خاں کے پاس جمع ہو رہے تھے۔ اسی دوران بیرم خاں نے اپنے حریف تردی بیگ کو لڑائی کا میدان چھوڑ کر بھاگ آنے کی وجہ سے سرہند پہنچتے ہی قتل کر دیا۔ سرہند میں تقریباً سبھی امیر و سردار اس بات پر متفق تھے کہ ہیمو سے اس وقت نہ لڑا جائے اور کابل جا کر اپنی طاقت کو بڑھایا جائے۔ مگر بیرم خان اکبر اور علی قلی خاں شیبانی اس رائے سے متفق نہیں ہوئے۔ انھوں نے پانی پت کے میدان میں راجہ ہیمو سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا اکبر نے سب سے پہلے پنجاب کی حفاظت کے لیے اپنے بہنوئی خضر خواجہ کو جو کاشغر کے حکمراں شیخ خواجاؤں کی اولاد میں سے تھا پنجاب کا حاکم مقرر کر دیا۔

 

پانی پت کی جنگ :

جنگ کے لیے بیرم خان نے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصے کی سپہ سالاری علی قلی خان کو دی اور اس کی دس ہزار فوج کے ساتھ اپنے کچھ امیروں کو علی قلی خاں کے بھانجے حسین قلی خاں کے زیر قیادت شاہی ہر اول دستے کے دس ہزار سواروں کے ساتھ آگے روانہ کیا۔ دوسرے حصے کو خود کی نگرانی میں بیرم نے اکبر کی رکاب میں دیا۔ نوجوان امیر، علی قلی خاں ایک بہادر جنگجو تھا جسے جنگی حکمت عملی میں مہارت حاصل تھی۔ ادھر دہلی فتح کے بعد ہیمو ۱۶؎ کا حوصلہ بہت بڑھ گیا تھا اس نے سب سے پہلے دو افغان سرداروں کو ۲۰ ہزار فوج اور توپ خانے کے سا تھ پانی پت کی طرف روانہ کیا۔ علی قلی خاں وہاں پہلے سے موجود تھا اس نے موقع غنیمت جان کر دشمن پر زبردست طوفانی حملہ کیا کہ دشمن سنبھل نہیں پایا۔ بدحواسی میں افغان سردار اور سپاہی جنگی سامان چھوڑ کر ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے علی قلی خاں کو توپ خانے کے ساتھ افغان سپاہیوں کے بہت سے ہاتھی گھوڑے ہاتھ لگ گئے۔ ہیمو کو اپنے تو پ خانے پر بہت ناز تھا مگر وہ میدان جنگ سے کچھ پیچھے تھا جب اس نے یہ خبر سنی تو وہ غصے سے بوکھلا گیا اور سپہ سالار شادی خان کو لے کر ۳۰ ہزار فوج و ۱۵۰۰ہاتھی کے ساتھ میدان جنگ پہنچا اور جنگ کا اعلان کر دیا۔ مجبوراً علی قلی خاں کو اکبر کی فوج کا انتظار کیے بغیر جنگ میں کودنا پڑا۔ ہیمو کے ہاتھیوں کا ریلا کالی گھٹا کی طرح علی قلی خان کی فوج پر ٹوٹ پڑا۔ علی قلی خاں بھی اپنے دستے کے ساتھ ہیمو کے ہاتھیوں کی طرف بڑھا لیکن گھوڑے ہاتھیوں کو دیکھ کر بدکنے لگے۔ لہٰذا شیبانی کے سپاہی گھوڑوں سے اتر کر ہیمو کے لشکر کی صفوں میں گھس گئے۔ تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھار کر دی۔ ہیموں کی فوج کا سپہ سالار شادی خاں جو افغان سرداروں کی ناک کا بال تھا اچانک کٹ کر گِر پڑا۔ فوج اس سے بکھرنے لگی ہیمو نے اپنے سرداروں کے نام لے لے کر ان کی حوصلہ افزائی کی، دیکھتے ہی دیکھتے ہیمو کا پلہ بھاری ہونے لگا۔ اچانک ایک تیر ہیمو کی بھینگی آنکھ میں آ کر لگا۔ اس نے خود تیر نکال کر اپنی آنکھ پر کپڑا باندھا مگر زخم میں تکلیف کی شدت کی وجہ سے وہ بیہوش ہو کر گر پڑا جس سے اس کی فوج کی ہمت جواب دے گئی اور فوج بھاگنے لگی۔

اکبر کے لشکر نے پچھلی رات کرنال سے چل کر دن چڑھے میدان جنگ سے پانچ کوس پہلے ہی پڑاؤ ڈالا تھا کہ ایک برق رفتار گھوڑ سوار نے پہنچ کر اطلاع دی کہ جنگ چھڑ گئی ہے۔ لشکر میں اتنی جلدی جنگ چھڑنے کا اندازہ کسی کو نہ تھا۔ خان خاناں بیرم خاں نے فوراً لشکر کو تیار ہونے کا حکم دیا۔ جلد ہی اکبر اور اس کی فوج و امیر تیار ہو گئے۔ نقارے پر چوٹ پڑی اور اکبر نے فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ کچھ دور چلنے کے بعد ایک تیز گھوڑ سوار نے پھر خبر دی کہ جنگ فتح ہو گئی۔ کسی کو ایک دم یقین نہ آیا اور سب ہکا بکّا رہ گئے۔ اس کے بعد جو بھی قاصد آتا وہ مبارک کہتا ہوا گھوڑے سے زمین پر گر پڑتا تھا۔ پل کے پل میں اکبر بیرم خان، امیر اور فوجی اپنے گھوڑے دوڑا کر میدان جنگ میں پہنچ گئے۔ علی قلی خان نے گرفتار زخمی ہیمو کو اکبر کے سامنے پیش کر دیا۔ بیرم خان نے ہیمو کو قتل کرنے کے لیے اکبر کو اشارہ کیا لیکن اکبر نے انکار کر دیا۔

کسی بے کس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا

جو خود ہی مر رہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا

(بہ حوالہ دربار اکبری)

آخر کار بیرم خان نے خود ہی ہیمو کو قتل کر دیا۔

اس طرح نومبر ۱۵۵۶ء میں پانی پت کے میدان میں سنبھل سرکار کے گورنر علی قلی خاں شیبانی کے فوجی دستے نے زبردست کارنامہ انجام دیا تھا اس کارنامے کے بدلے بیرم خاں کی سفارش پر اکبر نے اسے سنبھل سرکار کا گورنر بنائے رکھتے ہوئے سنبھل کا علاقہ بھی اس کی جاگیر میں دے دیا (جو پہلے بیرم خاں کی جاگیر میں تھا)اور’ ’خان زماں ‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ حقیقت میں خان زماں شیبانی نے ہندوستان میں تیموری سلطنت کی دوبارہ بنیاد رکھنے میں بیرم خاں کے بعددوسرا مقام حاصل کیا۔

(ابوالفضل جلد ۲، ص ۱۴/ دربار اکبری، شمس العلما مولانا محمد حسین آزاد، ص ۱۹۔۱۴، ۱۶۹، ۲۰۳/آئینہ اکبری، اردو ترجمہ، ص ۲۳۵)

ونسینٹ اے اسمتھ نے بیان کیا ہے کہ جس وقت کلا نور میں اکبر کی تاج پوشی کی رسم ادا کی گئی تھی اس وقت اکبر کو کسی ریاست کا مالک نہیں کہا جا سکتا تھا۔ بیرم خان کے زیر قیادت اس وقت فوج نے پنجاب کے کچھ اضلاع  پر ہی قبضہ کیا تھا۔

During the battle the young prince had been kept at a safe distance in the rear and Bairam Khan had left the conduct of the fight to his Lientenant Ali Quli Khan Shaibani. (Akbar, the great Moghal, Vincent A. Smith, Oxford 1917, p.39)

ترجمہ: جنگ کے دوران نوجوان اکبر کو قریب میں ہی بیرم خان کی سپردگی میں پیچھے ایک محفوظ جگہ پر رکھا گیا تھا۔ بیرم خان نے جنگ کی پوری کمان اپنے لیفٹیننٹ علی قلی خاں شیبانی کی قیادت میں سونپ دی تھی۔

اپنی حکومت کے دوسرے سال میں جب اکبر مانکوٹ کا محاصرہ کیے ہوئے تھا تو حسن خاں بچکوئی نے افغان سردار جلال خاں سور کے ساتھ مل کر اور ۲۰ہزار سواروں کو لے کر سنبھل سرکار کے ایک علاقے پر حملہ کر دیا۔ خان زمان نے اپنے چار ہزار سواروں کے ساتھ لکھنور میں ان کا مقابلہ کیا اور لڑائی میں جیت حاصل کی۔ یہ خان زماں کا ایک اور بڑا کارنامہ تھا۔ خان زماں شیبانی نے جلد ہی لکھنؤ تک کا علاقہ فتح کر کے سنبھل سرکار میں ملا دیا۔ ۱۵۵۹ء میں بنارس اور جونپور پر بھی قبضہ کر لیا اور تیموری سلطنت کی سرحدیں بہار تک پھیلا دیں ۔ تقریباً پانچ سال تک سنبھل سرکار میں گورنر رہنے کے بعد اکبر نے اسے جونپور کا گورنر بنا دیا اور اس کی جگہ صادق خاں کو سنبھل سرکار میں گورنر بنا دیا (ابوالفضل جلد ۲، ص ۱۰۴) سنبھل کی جاگیر مرزا بھائیوں کی سپردگی میں دے دی۔

۱۵۶۷ء میں اکبر کو سنبھل میں مرزا بھائیوں کی بغاوت کی خبر ملی۔ مرزا بھائیوں نے سنبھل اور اس کے علاقوں میں خود کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ باغی ابراہیم حسین مرزا، محمد حسین مرزا(بابر کے چچا سلطان محمد مرزا کے لڑکے)، شا ہ مرزا (سلطان محمد کا پوتا)اور اُولُغ مرزا دوم (اُولُغ مرزا اول کا لڑکا)اکبر کے دُور کے رشتہ دار تھے۔ انھیں سنبھل میں جاگیر ملی ہوئی تھی۔ وہ اس لیے اکبر سے ناراض تھے کہ انھیں حکومت میں ان کی حیثیت کے مطابق جگہ نہیں دی گئی تھی۔ علاقہ کے جاگیردار متحد ہو کر مرزا بھائیوں کی بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ مرزا بھائی ان کا مقابلہ نہیں کر سکے اور مالو ا کی طرف بھاگ گئے۔ (روہیل کھنڈ ٹیریٹری، افضال الرحمن خاں ، بحوالہ تاریخ الہند از عبدالقادر بدایونی)

اکبر دھیرے دھیرے سلطنت کی ساری طاقت کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کرنے لگا تو اس بات سے دربار کے اثر دار اور طاقت ور مغل خانی ازبیک ترک ناراض ہونے لگے۔ خان زماں علی قلی خاں شیبانی بھی اس لیے ناراض تھا کہ اسے حکومت کی بڑی خدمات کے بدلے معقول اعزاز و منصب نہیں ملا۔ لہٰذا خان زماں شیبانی کے زیر قیادت بغاوت شروع ہو گئی۔ اس میں خان زماں کا بھائی بہادر خاں اس کا چچا ابراہیم خاں ، ازبیک سردار اسکندر خاں و عبداللہ خاں بھی شامل تھے۔ خان زماں نے شاہی فوج کو ہرا کر مانک پور پر قبضہ کر لیا۔ مجبور ہو کر اکبر خود بغاوت کو کچلنے کے لیے میدان میں آیا۔  اس نے اسکندر خاں پر حملہ کر کے جلد ہی لکھنؤ پر قبضہ کر لیا۔ اسکندر خاں خان زماں کے ساتھ بہا رکی طرف بھاگ گیا۔ ۱۵۶۷ء میں خان زماں شیبانی کی موت کے ساتھ اس بغاوت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

ابراہیم حسین مرزا نے دوسری بار ۱۵۷۴ء میں اکبر کی حکومت کے ۱۸ویں سال میں بغاوت کی۔ اُس وقت ایک دوسری بغاوت دبانے کے لیے اکبر گجرات کی مہم پر تھا۔ ابراہیم حسین مرزا اپنے ۳۰۰ آدمیوں کے س اتھ اپنی پرانی جاگیر اعظم پور ہوتا ہوا سنبھل پہنچا۔ سنبھل کا گورنر معین الدین خاں دوسرے امیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ سنبھل میں قلعہ بند ہو گیا۔ اکبر نے فوراً اس کی مدد کے لیے بریلی سے حسین خاں ترکیہ کو اپنی فوج کے ساتھ سنبھل پہنچنے کا حکم دیا۔ حسین خاں کے سنبھل پہنچنے پر قلعہ بند لوگوں نے سمجھا کہ ابراہیم حسین مرزا نے قلعہ پر حملہ کر دیا ہے۔ مگر جلد ہی اصلیت معلوم ہونے پر حسین خاں نے قلعہ بند لوگوں کو سمجھایا کہ آخری دم تک باغی کا مقابلہ کرنا ہے مگر حسین خاں کے سنبھل پہنچنے کی خبر سے ہی ابراہیم حسین مرزا مقابلہ کرنے کے بجائے سنبھل سے بھاگ کر امروہہ پہنچ گیا۔ حسین خاں نے کچھ دور تک اس کا پیچھا کیا لیکن وہ پکڑا نہ جا سکا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد ابراہیم حسین مرزا کی ملتان میں موت ہو گئی۔ (۱۔تاریخ الہند، عبدالقادر بدایونی (۲)Rohailkhand Territory in Medieval India (1200۔1707)by Ifzalur Rahman Khan, p70.)

مارچ ۱۹۸۱ء میں عرب بہادر، نیابت خاں اور شاہ دانا نے مل کر سنبھل سرکار کے علاقے میں بغاوت کر دی اور وہاں لوٹ مار شروع کر دی۔ باغیوں نے بریلی کے فوجدار حکیم عین الملک کو بھی اپنی طرف ملا نا چاہا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ حکیم عین الملک نے قلعہ کے اندر رہ کر بغیر لڑائی کے نہایت چالاکی کے ساتھ باغیوں کو قلعے سے دور رکھنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اسی درمیان حکیم عین الملک نے بدایوں ، امروہہ، لکھنور اور سنبھل سے جاگیرداروں کو اکٹھا کر لیا اور باغی نیابت خاں کو اپنی طرف ملا لیا۔ اُدھر باغیوں کے ساتھ کچھ کٹھیریا سردار بھی شامل ہو گئے۔ حکیم عین الملک اور دوسرے ساتھی جاگیردار بہادری کے ساتھ باغیوں سے لڑے اور فتح حاصل کی۔ عرب بہادر بھاگ کر کمایوں کی پہاڑیوں میں چلا گیا جہاں ۱۵۸۳ء کے بعد اس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ اس کے بعد  اکبر، جہانگیر، شاہجہاں اور اور نگ زیب کے دور میں کٹھیر علاقے سے کسی خاص بغاوت کی خبر نہیں ملتی۔ (معاصر لعمارا، شاہنواز خاں ، جلد۱، ص ۵۶۳)

اکبر کے دور میں سنبھل، سلطنت کی سب سے بڑی سرکاروں میں شمار ہوا۔ اس وقت سلطنت میں ۱۵صوبے تھے۔ دہلی صوبے میں سات سرکاریں تھیں جن میں سے ایک سنبھل تھی۔ دہلی صوبے کی دوسری سرکاریں بدایوں ، کمایوں ، سہارنپور، رواری، حصار اور سرہند تھیں ۔ دہلی صوبے میں دہلی کو چھو ڑ کر دوسری سرکاروں کے مقابلے سنبھل سرکار میں سب سے زیادہ ۴۷محال تھے جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :

 

سنبھل سرکار

 

  1. No./نمبر شمار
Mahal/محال Cultivated land in bighas/ کاشت کی زمین (بیگھہ) Revenue in Dams/ مال گذاری (دام) Suyrghal in Dams/ مدد معاش(دام) Cavalry/ھڑسوار Infantry/ پیدل Elephant/ ہاتھی Castes/ ذات برادری
1 2 3 4 5 6 7 8 9
1. Amroha/ امروہہ 320,654 6342000 993358 1000 5000 50 Saiyyads/سید
2. Azampur/ اعظم پور 55,467 2389478 137544 30 3000 ۔ Tags/ ٹاگس
3. Islampur Bahru/ اسلام پور بہرو 66096 1370640 12133 100 200 ۔ Baishnavi/ بیشنوی
4. Ujhari/ اُجھاری 125221 697609 2788 20 200 ۔ Jat/جاٹ
5. Akbarabad/ اکبرآباد 53790۔14 640264 28360 50 200 ۔ ۔
6. Islampur Dargu/ اسلام پور درگو 11217۔10 429675 675 20 200 ۔ Jatجاٹ
7. Islamabad/ اسلام آباد 25261۔10 346348 6394 50 500 ۔ Jatجاٹ
8. Bijnor/ بجنور 60362 3355425 18154 60 500 ۔ Taga Brahmn/ تاگا، برہمن
9. Bachhraon/ بچھراؤں 115226۔12 828322 3632 50 300 ۔ Tagaتاگا
10. Biroi/ بروئی 15027۔12 150,000 ۔ 25 100 ۔ Kohiکوہی
11. Bisara/ بسارا 3003۔7 200,000 ۔ 25 100 ۔ Khasia/ خاسیہ
12. Chanpur/ چاند پور 87273 431071 259959 50 200 ۔ Taga, Jat and   others/ ٹاگا، جاٹ اور دوسرے
13. Jalalabad/ جلال آباد 49393 1470072 12263 25 100 ۔ Jatجاٹ
14. Chaupala/ چوپالا 1016199 1340812 ۔ 100 500 ۔ Gaurگور
15. Jhala/ جھالا 26795 237809 34916 50 400 ۔ Jatجاٹ
16. Jadwar/ جڈوار 76757۔19 828346 ۔ 50 200 ۔ Bargujar/ بڑ گوجر
17. SubuRban Distri ctof Sambhal/ سبربن ضلع سنبھل 206450 3322448 143739 100 500 ۔ Taga. Brahman and othersٹاگا، جاٹ اور دوسرے
18. Deorah/ دیوراہ 96965 1924837 ۔ 25 200 ۔ ۔
19. Dhaka/ ڈھاکا 130158۔16 670364 6487 25 200 ۔ Rahes/ راہیس
20. Dhabarsi/ ڈھبارسی 82692۔11 280306 ۔ 25 200 ۔ ۔
21. Dadilah/ دادیلاہ 30130۔15 210000 ۔ 20 100 ۔ Kohiکوہی
22. Rajpur/ راج پور 189390 700000 ۔ 50 400 ۔ Rajput/ راجپوت
23. Rajabpur/ رجب پور 40364۔9 612977 2288 25 150 ۔ Kokar & Shaikh zadas/ کوکر شیخ زاداز
24. Sambhal/ سنبھل 46400 850953 63404 50 400 ۔ Kokar/ کوکر
25. Seohara/ سیوہارا 27945 1333732 1418 50 300 ۔ Tagaٹاگا
26. Sirai/ سرائی 52400۔11 958769 152314 20 200 ۔ Saiyyads & others/ سید  اور دوسرے
27. Sahanspur/ سہنس پور 54844۔10 944304 1038 50 400 ۔ Tagaٹاگا
28. Sursawah/ سُرساوا 37502 308065 ۔ 15 400 ۔ Kurawah/ کورو
29. Sherkot/ شیر کوٹ 19870 4921051 218157 100 1000 ۔ ۔
30. Shahi/ شاہی 80417 900496 472 20 200 ۔ Gaur گور
31. Kundarki/ کندرکی 86164 674936 74963 50 400 ۔ Kayath/ کایستھ
32. Kiratpur/ کرت پور 80973 2410609 166218 100 500 ۔ Taga Jat/ ٹاگا، جاٹ
33. Kachh/ کچھ 99868 1248995 5765 20 200 ۔ ۔
34. Gandaur/ گندور 18576۔17 751520 34270 30 200 ۔ Tagaٹاگا
35. Kabar/ کبار 33232۔7 566539 16019 50 400 ۔ Chauhan/ چوہان
36. Ganaur/ گنور 51005۔1 267919 17719 10 100 ۔ Musalman/ مسلمان
37. Khankari/ خانکاری 31546۔7 200000 ۔ 10 100 ۔ ۔
38. Lakhnor/ لکھنور 246440 2499208 32983 1000 5000 ۔ Gaurگور
39. Liswah/ لسواہ 1871 100000 ۔ 10 100 ۔ ۔
40. Mughalpur/ مغل پور 168374 3580300 80300 100 500 ۔ Taga ٹاگا
41. Majhaula/ مجھولا 142461 1737556 6970 400 8000 ۔ Bargujar/ بڑ گوجر
42. Mandawar/ منڈاور 65710 1256995 20455 25 300 ۔ Baisبایس
43. Nagina/ نگینہ 99233 2647242 284368 50 500 ۔ Ahirاہیر
44. Nehtaur/ نہٹور 35974۔12 1738160 4685 50 300 ۔ Tagaٹاگا
45. Neodhana/ نیودھانا 209620۔10 904675 ۔ 100 500 ۔ Gaur گور
46. Naroli/ نرولی 181621 1408093 43212 50 400 ۔ Bargujar/ بڑ گوجر
47. Hatamnah/ ہتامنا 5702۔14 25000 ۔ 50 400 ۔ Kodar/ کوڈر

 

 

اکبر کے تخت نشین ہونے کے بعد خان زماں علی قلی خاں شیبانی چار سال سے کچھ زیادہ عرصے تک سنبھل سرکا ر میں گورنر رہا۔ اس کے بعد ۱۵۶۱ء میں افغان بغاوت کو ختم کرنے کے لیے صادق خاں کوسنبھل سرکا رمیں گورنر بنا کر بھیجا گیا۔ جولائی ۱۵۶۸ء میں پیر محمد خاں اتکہ سنبھل سرکار میں گورنر ہوا اور ۱۵۷۶ء تک رہا۔ ۱۵۷۷ء میں عین الملک سنبھل کا گورنر ہوا۔ ابوالفضل کے مطابق ۱۵۸۱ء میں معین الدین خاں فارنخودی کو گورنر کا عہدہ دیا گیا۔ ۱۵۸۳ء میں سعید خاں کچھ مہینوں کے لیے سنبھل کا گورنر رہا۔ اس کے بعد کچھ سالوں کے لیے سنبھل میں گورنر کی تقرری کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔

۱۵۸۹ء میں قلج خاں اندجانی کو سنبھل کی جاگیر دی گئی  اس کے بعد کچھ دنوں تک ابوالفضل بھی سنبھل سرکار میں مقطی رہے۔ بدایونی کے مطابق اگست ۱۵۹۵ء میں سنبھل کی جاگیر ابوالفضل سے لے ل ی گئی اور مرزا مظفر حسین قندھاری کے نام کی گئی جو ۱۵۹۸ء تک رہی۔ ۱۵۹۸ء کے بعدقندھار کے ہی مرزا عیسیٰ تر خان (مرزا قندھاری)کو سنبھل سرکار کا گورنر بنایا گیا اور سنبھل کی جاگیر بھی عطا کی گئی۔

اکبر کے زمانہ میں جو امیر سنبھل کے گورنر رہے ان میں علی قلی خاں شیبانی، محمد خاں اتکہ او ر مرزا مظفر حسین قندھاری پانچ ہزاری منصب دار تھے۔ اس دور میں سنبھل نے اسلامی تعلیم کے فروغ میں زبردست نام کمایا اور بہت سے دانشوروں نے سنبھل کا نام روشن کیا۔ شیخ عزیز اللہ کے شاگردِ خاص شیخ حاتم سنبھلی(تفصیل) اپنے وقت کے ایک عظیم عالم دین اور استاد تھے۔ انھوں نے ۷۰سال تک اسلامی تعلیم اور ادب پر کام کیا۔ شیخ حاتم سنبلی کے مشہور شاگردوں میں شیخ ابوالفضل، فیضی و شیخ عبدالقادر بدایونی نے دربارَ اکبری کی شہرت میں چار چاند لگائے۔

 

شیخ ابوالفضل :

یہ دربار اکبری میں ایک عظیم شاعر، مورخ اور تنقید نگار تھے۔ انھوں نے’ آئین اکبری‘ اور اکبر نامہ جیسے تاریخی دستاویز تخلیق کیے۔ اکبر ابوالفضل سے بہت متاثر تھا۔ اس نے ۱۵۷۴ء میں کچھ سنسکرت کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرنے کے لیے ابوالفضل کو منتخب کیا۔ سنبھل سرکار میں ایک موضع اعظم پور (موجود ہ مرادآباد/جے۔ پی۔ نگر ضلع میں )تھا جہاں طالب خاں کا مقبرہ (۱۵۷۸ء) قائم ہے۔ جنوب میں ایک کھیڑہ ہے کہا جاتا ہے کہ وہاں ابوالفضل کے بھائی فیضی کا مدرسہ تھا۔ آج بھی دور دراز کے لوگ یہاں سے مٹی لے کر جاتے ہیں اور اپنے شاگردوں کو کھلاتے ہیں وہ مانتے ہیں کہ اس مٹی سے ان کی یادداشت میں اضافہ ہو جائے گا۔

شیخ عبدالقادر بدایونی(ملا بدایونی):

شیخ عبدالقادر ۱۵۴۰ء میں بدایوں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ملوک شاہ (سنبھل میں اب ان کا مزار ملّک شاہ کے نام سے جانا جاتا ہے )بدایوں کے رہنے والے تھے اور شیخ پنجو سنبھلی کے شاگرد تھے۔ ۵سال کی عمر تک ملا بدایونی اپنے والد کے ساتھ رہے پھر انھوں نے سنبھل میں اپنے نانا مخدوم اشرف جو فوج میں جنگی عہدے دار تھے، کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ان کے والد ملوک شاہ نے سنبھل آ کر ۱۲سال کی عمر میں انھیں یہاں حاتم سنبھلی کی خدمت میں تعلیم حاصل کرنے بھیجا۔ یہیں ابوالفضل اور فیضیؔ بھی ان کے ساتھی ہوئے۔ جس وقت راجہ ہیمو نے دہلی کو فتح کیا تھا اس وقت سنبھل میں بھی لوٹ مار ہوئی تھی جس میں ملا بدایونی کے والد کا کتب خانہ بھی لٹ گیا تھا۔ اس دوران ملا بدایونی سنبھل میں ہی تھے۔

ملا بدایونی کی’ منتخب التواریخ‘ اکبر کے دور میں لکھی گئی فارسی زبان کی بیش قیمتی تصنیف ہے جسے ۱۵۷۴ء میں اکبر کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ اکبر نے اس سے متاثر ہو کر ملا بدایونی کو درباریوں میں شامل کر لیا اور ہزاری منصب دیا۔ بعد میں اس نے مہابھارت اور رامائن کا بھی فارسی میں ترجمہ کیا۔ ملا بدایونی نے’ انتخاب جامع رشیدی‘ کا عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا۔ دین الٰہی پر تنقید کرنے اور اُسے فروغ نہ دینے کی وجہ سے اکبر ملا بدایونی سے ناراض ہو گیا۔ دربار میں ابوالفضل کے مقابلے کم  اہمیت ملنے کی وجہ سے ملا بدایونی بھی اکبر سے بہت ناراض تھا۔ لہٰذا اس نے اکبر، ابوالفضل اور فیضی تینوں پر سخت تنقید کی۔ لہٰذا اس کا منصب اور جاگیر چھین لی گئی۔ بدایونی کا آخری وقت بہت غربت اور پریشانیوں میں گزرا، یہاں تک کہ ا س نے لنگر خانوں سے کھانا حاصل کیا۔ ۱۵۹۶ء میں اس کا انتقال ہوا۔

 

شیخ تاج الدین سنبھلی ؒ:

شیخ تاج الدین ہندوستان میں نقشبندی سلسلے کے اہم ستون تھے۔ وہ اس زمانے کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ باقی باللہ کے خاص مریدوں میں سے تھے۔ خواجہ باقی باللہ جب پہلی مرتبہ ہندوستان آئے تو وہ سنبھل بھی آئے تھے۔ شیخ تاج الدین سنبھلیؒ ان سے بہت متاثر ہوئے تھے دوبارہ جب خواجہ باقی باللہ ماوراء النہر سے ہندوستان آئے تھے تو شیخ تاج الدین سنبھلی نے اُن سے دہلی میں ملاقات کی۔ خواجہ باقی باللہ نے انھیں سنبھل میں نقش بندی سلسلے کو بڑھانے کے لیے مرید خاص بنایا۔

 

شہنشاہ جہانگیر کے دور میں :

اکبر کے بعد جہانگیر نے بھی مرزا قندھاری کو سنبھل کی جاگیر میں بنا رہنے دیا اور اس کی فوج بڑھا کر ۱۵۰۰ ذات اور ۸۰۰سوار رکھنے کا فرمان بھی جاری کیا۔ (تزک جہانگیری، ص ۲۷۸)

غور طلب ہے کہ شہزادہ خرم جو کہ بعد میں شاہجہاں کے نام سے مشہور ہوا کی شادی ۱۶۰۹ ء میں سنبھل کے گورنر مرزا قندھاری کی لڑکی سے ہوئی جو کہ قندھاری بیگم کے خطاب سے نوازی گئی۔ شہنشاہ جہانگیر نے شہزادہ خرم کو جب دکن کی مہم پر روانہ کیا تو شہزادہ کے ساتھ مقرب خان دکنی کو بھی بھیجا۔ مقرب خان نے دکن اور قندھار کی لڑائیوں میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔

’’تزک جہانگیری‘‘ میں جہانگیر نے لکھا ہے کہ ۱۶۱۵ء میں مرزا عیسیٰ ترخان اپنی جاگیر سنبھل سے آ کر دربار میں حاضر ہوا اس کے بعد اسے دکن بھیجا گیا۔ جہانگیر کی اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا عیسیٰ ترخان ۱۶۱۵ء تک سنبھل کا گورنر رہا۔ اگست ۱۶۱۶ء میں میر مغل کو سید عبدالوارث کی جگہ سنبھل کا فوجدار بنایا گیا جو ۱۶۱۹ء تک رہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مرزا عیسیٰ ترخان کے بعد اگست ۱۶۱۶ء تک کچھ دنوں سید عبدالوارث سنبھل کا فوجدار رہا۔ اپریل ۱۶۱۹ء میں صدر جہاں سنبھل کا فوجدا ر ہوا۔ (تزک جہانگیری، ص ۱۶۱ و ۲۷۰) امروہہ کی مسجد چلّا جہانگیر کے دور میں ۱۶۱۹ء میں تیار ہوئی تھی۔

 

شہنشاہ شاہجہاں کے دور میں :

جب شہزادہ خرم شاہجہاں کے لقب سے تخت نشین ہوا تو اس کے پہلے سال ۱۶۲۹ء میں نظر بہادر خَوِشگی سنبھل میں فوجدار ہوا۔ جو تین سال سے کچھ زیادہ عرصے تک فوجدار بنا رہا۔ نظر بہادر کو فوجدار کی تنخواہ دہلی سے ملتی تھی۔ کیونکہ اس کے دور میں سنبھل کی جاگیر خان زماں مرزا بہادر امان اللہ خاں کے نام تھی۔ (’معاصر العمارا‘، شہنواز خاں جلد ایک ص ۹۴۲)

۳۳۔۱۶۳۲ء میں شاہجہاں نے مقرب خان دکنی کو فیروز جنگ بہادر رستم خان کا خطاب دے کر سنبھل سرکا رمیں گورنر بنایا۔ رستم خان  دکنی ۲۵سال سنبھل و مرادآباد میں گورنر رہا۔

۱۶۳۴ء میں کٹھیریوں کے سردار راجہ رام سکھ نے ترائی علاقہ میں بغاوت کر دی۔ کمایوں کے راجہ نے شاہجہاں سے مدد مانگی۔ شاہجہاں نے رستم خان دکنی کو بغاوت کچلنے کے لیے بھیجا۔ لڑائی میں راجہ رام مارا گیا۔ رستم خاں نے راجہ رام سکھ کے قلعے چوپالہ پر قبضہ کر لیا۔ چوپالہ کے چاروں کناروں پر گاؤں آباد تھے۔ رستم خان نے بعد میں اسی جگہ پر ایک نیا شہر بسایا اور رستم نگر نام رکھا مگر بعد میں شہزادہ مراد کے نام پر مرادآباد کر دیا اور وہاں ایک قلعہ اور جامع مسجد کی تعمیر کرائی۔ قلعہ اب کھنڈر میں بدل چکا ہے مگر مسجد ابھی ٹھیک حالت میں ہے ۔)

رستم خان نے سنبھل کی جامع مسجد کی مرمت کرانے کے ساتھ اس کے مشرقی دروازے کی تعمیر بھی کرائی۔ رستم خاں نے سنبھل کے پرانے قلعہ کے مغرب میں دہلی گیٹ سے سیدھے مغرب کی طرف سنبھل دہلی شاہراہ پر تقریباً ۷کلومیٹر دور سوندھن کے مقام پر ۱۶۴۵ء میں ایک مسجد اور شاندار قلعہ تعمیر کرایا)۔ قلعہ اب ٹوٹ چکا ہے اور اس کے اندر مکان کھڑے ہیں ۔ مکانوں کے درمیان قلعے کا ایک بُرج خستہ حالت میں باقی ہے۔ قلعے کا صدر دروازہ اور مسجد ابھی صحیح حالت میں ہے۔  صدر دروازے کے اندر اس کی گول گنبد نما چھت میں چھوٹی اینٹ کا استعمال ہوا ہے۔ اینٹوں کو اتنی کاریگری اور خوبصورتی سے لگایا گیا ہے کہ آج بھی دیکھتے ہی بنتا ہے۔

رستم خاں نے شاہجہاں سے سفارش کر کے اپنے ایک درباری سید فیروز کو سنبھل کے شمال میں تقریباً ۷کلومیٹر دور سوت ندی کے کنارے ایک ہزار بیگھہ آراضی دلوائی جہاں ۱۶۵۶ء میں رستم خاں کی نگرانی میں سید فیروز نے ایک چھوٹا مگر خوبصورت قلعہ تعمیرکرایاجس کا صدر دروازہ اور مسجد آج بھی موجود ہے۔ باقی حصہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ قلعہ کے سامنے سوت ندی پر تعمیر ہوا پل فیروز پور کے پل کے نام سے مشہور ہے۔ مرادآباد شہر آباد کرنے کے بعد رستم خاں نے مرادآباد کو سنبھل سے ملانے کے لیے ایک سڑک بھی تعمیر کرائی تھی اور راستے میں لوگوں کے قیام کے لیے ایک سرائے رستم خاں کے نام سے بنوائی۔ رستم خاں نے سنبھل سرکار کا ایک پرگنہ نیودھنا کا نام بدل کر پہلے رستم پور اور بعد میں اسلام نگر کر دیا۔ اُس دور میں موجودہ تحصیل بسولی اور گِنّور کا علاقہ بھی سنبھل سرکار میں شامل تھا۔ اس کے بعد شاہ جہاں نے رستم خاں کو دہلی بلالیا اور سید معصوم علی سبزواری کو مرادآباد کا فوجدار ۱۷؎ مقرر کیا۔ سیدمعصوم علی نے کٹھیریوں کی گذشتہ بغاوتوں کے مد نظر رام گنگا کے مشرقی علاقوں کے جنگلوں کو صاف کر کے موجودہ رامپور کے علاقوں تک کٹھیریا راجپوتوں کی آبادی والے گاؤں کے قریب ہی شہر کے ترک فوجیوں اور ا ن کے خاندانوں کے لیے گاؤں آباد کیے۔ اس کے علاوہ مرادآباد و امروہہ کے درمیان موجودہ دہلی روڈ کے دونوں طرف بھی ترک گاؤں آباد کر دیئے۔ جس سے آگے چل کر اس علاقہ میں کٹھیریا بغاوتیں نہیں ہوئیں ۔ امروہہ کے بادشاہی چبوترے (۱۶۵۱ء) کے پاس ہی شاہجہاں کے دور کی ایک مسجد (۱۶۵۶ء)  ملک سلیمان کی تعمیر کردہ ہے۔

(‘Rohailkhand Territory’, M. Afzalur Ramhan Khan/ اخبارالصنادید، نجم الغنی خاں رامپوری)

شاہجہاں کے دور میں سنبھل کے گورنر رستم خاں دکنی نے دہلی دروازہ سے سنبھل دہلی شاہراہ پر تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر عید گاہ (۱۶۵۶ء) اور اس کے برابر ایک باؤلی تعمیر کرائی۔ اس باؤلی میں کنویں کے اندر گولائی میں پانی کی سطح کے ٹھیک اوپر تین منزل میں دالان نما کمرے بنے ہوئے ہیں جس میں  اوپر سے نیچے آنے جانے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں ۱۹۳۰ء میں اس کی صفائی کرائی گئی تھی اس کے بعد تقریباً ۳۰سال تک کنویں میں پانی رہا بعد میں کنواں سوکھ گیا اور اوپر تک مٹی اور کوڑے وغیرہ سے نیچے کی منزلیں بھر گئی ہیں اور اب اوپر کی منزلوں میں بھی آس پاس کے کھیت والوں نے توڑ پھوڑ شروع کر دی ہے۔

۱۶۵۸ء میں رستم خاں شہزادہ’ ’داراشکوہ ‘‘کی طرف سے جنگ میں لڑتے ہوئے مارا گیا۔

 

شہنشاہ اورنگ زیب کے دور میں :

شاہجہاں کی حکومت کے آخری سال میں سنبھل اور مرادآباد میں الگ الگ گورنر مقرر ہونے لگے تھے۔ ۱۶۵۸ء میں شاہجہاں نے مرادآباد اور سنبھل سرکار میں گورنر رستم خاں دکنی کو دہلی واپس بلا کر سید معصوم حسین سبزواری کو مرادآباد کا گورنر بنا دیا تھا۔ اور نگ زیب کی تخت نشینی کے بعد سنبھل اور مرادآباد کے گورنر فوجدار کہلانے لگے۔ اور نگ زیب کے ابتدائی دور میں محمد قاسم خاں سنبھل سرکار میں فوجدار ہوا مگر مرادآباد شہر کی ذمہ داری سید معصوم حسین سبزواری پر ہی رہنے دی گئی۔ دو سال بعد محمدقاسم خاں کو ہی مرادآباد اور سنبھل دونوں کا فوجدار مقرر کر دیا گیا۔ شاہنواز ؔخاں نے لکھا ہے کہ قاسم خاں سے پہلے مرادآباد اور سنبھل دونوں جاگیریں رستم خاں کے نام تھیں (معاصرالصمارہ، جلد ۳، ص۹۹شاہنواز خاں )بعد کے اور نگ زیب دور میں سنبھل سرکار کے صدر مقام مرادآباد کی اہمیت بہت بڑھ گئی اور سنبھل سرکار میں مقرر ہوئے فوجدار کو مرادآباد کا فوجدار کہا جانے لگا۔ سنبھل شہر کا نظام وہیں رہ کر دیکھنے کے لیے مرادآباد (سنبھل سرکارکاصدر مقام)کے فوجدار کے ماتحت سنبھل شہر کے حاکم کی تقرری ہونے لگی۔ مگر سنبھل کا حاکم بھی عام طور پر گورنر ہی کہلایا۔

۱۶۶۱ء میں قاسم خاں کے بعد اصالت خاں مرزا محمد تقریباً ۶سال مراداباد (سنبھل سرکار)میں فوجدار رہا اور راجہ مکند رائے سنبھل شہر کا حاکم (گورنر)ہوا جو ۱۶۸۵ء تک رہا۔ اصالت خاں کے بعد کچھ مہینے اللہ وردی خاں اور اس کے بعد تین سال تک نام دار خاں مرادآباد کا فوجدار رہا۔ نام دار کے بعد فیض اللہ خاں ۱۸؎  اور اس کے بعد افراسیاب خاں رومی ۶سال تک مرادآباد کا فوجدار رہا۔ ۱۶۸۸ء میں مسعود خاں اور اس کے بعد ۱۶۹۲ء میں افراسیاب خاں کا بھائی مختار بیگ رومی نوازش خاں کے لقب سے تقریباً ۱۰سال تک مرادآباد کا فوجدار رہا۔ نومبر ۱۷۰۲ء میں محمد یار خاں کو مرادآباد کا فوجدار بنایا گیا۔ سنبھل میں راجہ مکند رائے کے بعد ۱۶۸۵ء میں امین الدولہ گورنر مقرر ہوا۔ اس نے موجودہ میاں سرائے محلہ میں ایک قلعہ تعمیر کرایا۔ قلعہ کا صدر دروازہ جو کٹرہ بازار کی طرف ہے اب خستہ حالت میں ہے ۔

اور نگ زیب کے دور میں سنبھل سرکا رمیں ۴۹ محال آتے تھے۔ ا س سے زیادہ صرف دہلی میں ۵۱ محال تھے جسے صوبہ کے ساتھ راجدھانی ہونے کا درجہ بھی حاصل تھا۔ دہلی اور سرہند کے بعد سب سے زیادہ مال گزاری بھی سنبھل سرکار سے ہی ہوتی تھی۔ ۱۶۸۸ء میں اور نگ زیب نے مرادآباد میں چاندی کے سکے ڈھالنے کی ٹکسال قائم کی۔

ایک بار اور نگ زیب عالمگیر سنبھل کے قریب ایک گاؤں میں اپنے خیمے میں تھے کہ وہاں کے قاضی کا اردلی بادشاہ کے نام قاضی کا حکم نامہ لے کر آیا۔ حکم نامے میں لکھا تھا کہ اس گاؤں کا چودھری آپ پر ایک ہزار اشرفی اُدھار بتاتا ہے لہٰذا آپ دن کے دس بجے عدالت میں حاضر ہو کر جواب دیں ۔ اگلے دن طے شدہ وقت سے کچھ پہلے ہی بادشاہ و قاضی الگ الگ ہاتھ میں تلوار لیے عدالت پہنچے۔ قاضی نے اپنے اردلی سے کہا مدعا علیہ اورنگ زیب عدالتِ محمّدی میں خلاف اصول تلوار لے کر آیا ہے ا سکے ہاتھ سے تلوار لے لو۔ اردلی نے اور نگ زیب کے ہاتھ سے تلوار لے لی۔

قاضی: درخواست گزار کا دعویٰ ہے کہ جب بادشاہ سلامت شہزادے تھے تو یہیں سنبھل میں شکار کھیلنے آئے تھے اور کسی ضرورت کے تحت ایک ہزار اشرفی اس سے قرض لی تھیں اور کہا تھا کہ خیمہ پر جا کر بھجوا دیں گے لیکن دس سال ہو گئے کہ اسے رقم نہیں ملی۔

اور نگ زیب:’ ’یہ سچا ہے میں بھول گیا تھا، میں معافی چاہتا ہوں ‘‘۔ رقم دے دی گئی۔ بعد میں اور نگ زیب نے قاضی سے پوچھا کہ کیا آپ روز عدالت میں تلوار لے کر آتے ہیں ۔ قاضی نے جواب دیا نہیں ، صرف آج۔ کیونکہ بادشاہ عدالت میں مغرور نہ ہو۔ قاضی نے اور نگ زیب سے سوال کیا کہ آپ تلوار لے کر کیوں آئے تھے۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر تم میرے ڈر سے مقدمہ ٹھیک سے نہ چلاؤ تو تلوار سے تمہارا سرکاٹ لوں ۔

(لال قلعہ کی ایک جھلک، حکیم خواجہ ناصر نظیر فراق دہلوی، اشاعت، اردو اکادمی دہلی، ص۹۱)

 

فرخ سیر اور شاہ عالم ثانی کے دور میں :

اور نگ زیب کی موت کے بعد تخت نشینی کو لے کر اس کے ورثاء میں لڑائیاں شروع ہو گئیں جس سے دہلی سلطنت کمزور ہونے لگی۔ ۱۷۰۳ء میں فرخ سیر نے اپنے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا اور ۱۷۱۶ء میں اس کے وزیر رکن الدولہ نے بدایوں ، بریلی اور سنبھل کی بجائے مرادآباد کو سرکار بنانے کا اعلان کر دیا۔ نتھے خاں سنبھل کا آخری گورنر ہوا۔ بادشاہ فرخ سیر کے بعد دہلی اور اس کے اطراف میں انگریزوں کا دخل بڑھنے لگا تھا اور تیموری بادشاہ انگریزوں کی کٹھ پتلی بن گئے تھے۔

ہندوستان پر قبضہ کرنے کی انگریزوں کی نیت بہت پہلے واضح ہو چکی تھی لیکن ترک حکمرانوں نے انھیں قبضہ نہیں دیا تھا۔ نئی صورت حال میں انگریزاس موقع کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دینا چاہتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے دہلی اور مغربی یوپی کے ترک اکثریتی آبادی والے شہروں پر شکنجہ کسنا شروع کر دیا۔ حالات بگڑتے دیکھ دہلی و آس پاس کے شہروں سے ترک خاندان مرادآباد، رامپور اور بریلی کے دیہی علاقوں میں نقل مکانی کرنے لگے۔ انگریزوں کی سیدھی پہنچ سے محفوظ رہنے کے لیے امروہہ، سنبھل، مرادآباد، رامپور، بدایوں اور کاشی پور میں آباد خوجہ ترک بھی دیہی علاقوں میں جا کر رہنے لگے۔ جس سے وہ انگریزوں کی پہنچ سے کسی حد تک دور ہو گئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کے معاشی حالات خراب ہوتے گئے۔ ۱۷۴۲ء میں کٹھیر علاقہ روہیلوں کی تحویل میں آ گیا اور اس کا نام روہیل کھنڈ ہو گیا۔ ۱۷۷۴ء میں اودھ کے نواب شجاع الدولہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی مشترکہ افواج نے روہیلہ سردار حافظ رحمت خاں کی قیادت والی فوج کو شکست دے دی۔ اس روہیلہ فوج میں سنبھل کے روہیلہ حاکم بھی شامل تھے۔ جنگ میں حافظ رحمت خان مارا گیا۔ اس جنگ میں رامپور کے علاقے کے روہیلہ نواب فیض اللہ خاں نے ایسٹ انڈیا کمپنی و اودھ کے نواب شجاع الدولہ سے ایک معاہدہ کے تحت حافظ رحمت خاں کا ساتھ نہیں دیا۔ ۷ اکتوبر ۱۷۷۴ء کو رامپور کو چھوڑ کر روہیل کھنڈ کا سارا علاقہ اودھ کے نواب شجاع الدولہ کی تحویل میں دے دیا گیا۔

 

سنبھل سرکار کے علاقوں میں ترک آبادیاں :

۲۷۔۱۲۲۰ء میں پورے وسطی ایشیا پر چنگیز خاں کا قبضہ ہونے کے بعد وہاں سے بہت سے ترک خوجہ وخواجہ ترک خاندان ہجرت کر کے دہلی ترک سلطنت میں پہنچے۔ ترک سلطان التمش نے انھیں بہت عزت و احترام کے ساتھ دہلی میں پناہ دی۔ بعد میں ان میں سے زیادہ تر خوجہ /خواجہ ترکوں کو اسلامی تعلیم اور تبلیغ کے لیے صوبہ، بدایوں روانہ کیا۔ دہلی سلطنت کے صوبہ بدایوں میں اس وقت بدایوں کے علاوہ موجودہ شاہجہاں پور، بریلی، پیلی بھیت، رامپور، کاشی پور، مرادآباد، سنبھل، امروہہ اور بجنو ر کے علاقے آتے تھے۔ خوجہ /خواجہ ترک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ٹرینڈ فوجی بھی تھے۔ لہٰذا ان خوجہ / خواجہ ترکوں نے ان علاقوں میں آباد ہو کر اسلام پھیلانے اور اسلامی تعلیم دینے میں اہم رول ادا کیا۔ بعد کے برسوں میں ترک سلطنتوں کے آخر تک ان علاقوں میں ترکوں اور خوجہ / خواجہ ترکوں کی آبادیاں لگاتار بڑھتی رہیں ۔

۱۲۲۱ء کے آخر میں چنگیز خاں سلطان محمد خوارزم شاہ کے بیٹے جلال الدین کا پیچھا کرتے ہوئے سندھ تک آیا۔ راستے میں اس نے ترکوں کے شہر بومیان میں قتل عام کا حکم دے شہر کو تہس نہس کر دیا۔ جو بومِنہ ترک کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے وہ دہلی آ گئے۔ کچھ دنوں بعد سلطان التمش نے انھیں سنبھل بھیجنے کے انتظام کر دیئے۔ آج بھی سنبھل اور اس کے اطراف کے دیہی علاقوں میں یہ بومِنہ ترک دوسرے قبیلائی ترکوں کے ساتھ کافی تعداد میں آباد ہیں اور عام طور پر بوبِنہ ترکوں کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔

شاہجہاں نے ۱۶۵۸ء میں سنبھل سرکار کے گورنر رستم خاں دکھنی کو دہلی بلوا لیا تھا اور سید معصوم علی سبزواری کو مرادآباد کا فوجدار مقرر کیا تھا۔ سید معصوم علی نے کٹھیریوں کی گذشتہ بغاوتوں کو دیکھتے ہوئے رام گنگا کے مشرقی علاقوں کے جنگلوں کو صاف کر وا دیا اور وہاں سے موجود ہ رامپور تک کے علاقوں میں کٹھیریا راجپوتوں کی آبادی والے گاؤں کے آس پاس ہی شہر کے ترک فوجیوں اور ان کے کنبوں کے لیے گاؤں آباد کروا دیئے۔ اس کے علاوہ مرادآباد  امروہہ کے درمیان موجودہ دہلی روڈ کے ادھر اُدھر بھی ترک گاؤں آباد کروائے۔

اس طرح دہلی ترک سلطنت کے قیام ۱۲۰۶ء سے ۱۹ویں صدی کے آخر تک بوبِنہ ترک، خوجہ/ خواجہ ترک اور مغلیہ ترک سنبھل سرکار کے علاقوں میں آباد ہوتے رہے۔  موجودہ رامپور ضلع کے علاقوں میں ترک آبادیوں کی تفصیل:

رامپور ضلع کے ترکوں سے جانکاری حاصل کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ لوگ نسلی طور پر شیخ ہیں اور ہندوستان میں بخارا (وسطی ایشیا)سے آئے ہیں ۔ (رامپور اسٹیٹ گزٹ ۱۹۱۱ء)

On enquiry from some of those who called themselves ‘Turks’ it appeared that they were originally Shaikhs and came in India from Bukhara (Central Asia)۔ Rampur State Gazett۔1911AD.

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ رامپور ضلع کے علاقوں میں ترک کہلانے والے لوگ’ شیخ ترک‘ ہیں جو خوجہ ترک کہلاتے ہیں ۔

جناب احسن علی ساکن گاؤں بینجنی، احمد نگر ٹانڈہ ضلع رامپور نے عبدالغفّار خاں کی تصنیف’ رامپور ضلع کے دیہاتی علاقوں کی تاریخ موضع وار ۱۹۰۴ء ‘کے حوالے سے رامپور ضلع کے دیہی علاقوں میں ترکوں کی آبادیوں کی تفصیل دی ہے جو اس طرح ہے :

 

اُن گاؤں کی تفصیل جو ترکوں نے آباد کیے

 

نمبر شمار گاؤں کا نام آباد کرنے والے ترکوں کے نام سنہ
۱۔ برہانپور مدی پردھان ۱۸۰۴ء
۲۔ امیر خاں کا مجرا امیر خاں
۳۔ بہادر کا مجرا بہادر
۴۔ ٹاہ کلاں ٹانڈہ کے احمدی ترک
۵۔ جالف نگلہ احمد ذلفی ۱۸۰۴ء
۶۔ رسول پور نوگزہ چمن سہسوانی (بدایوں ) ۱۷۵۴ء
۷۔ سعدی نگر ہجیرہ محمد سعدی ۱۷۷۴ء
۸۔ شکار پور الیاس ۱۸۰۴ء
۹۔ ضامن گنج امیر خاں ۱۸۰۴ء
۱۰۔ لاڈ پور (سیمرا) خان پردھان ۱۲۱۴ء
۱۱۔ ہر نگلے کا مجرا بہرام
۱۲۔ احمد نگر جاگیر (صدر) غلام محمد
۱۳۔ احمد نگر فیض گنج پدر احمد
۱۴۔ بدی سلامت علی
۱۵۔ گھاٹم پور حسین
۱۶۔ بیندو کھیڑہ بیندو
۱۷ ڈندی اشرف(شہزاد نگر)
۱۸۔ سُنیّا احمد احمد(سنبھل) ۱۸۰۴ء
۱۹۔ طالب پور داؤد (سنبھل) ۱۸۰۴ء
۲۰۔ عظیم نگر عظیم ۱۸۰۴ء
۲۱۔ کرم پور کرم علی ۱۷۸۴ء
۲۲۔ کسرول کریم بخش ۱۴۰۴ء
۲۳۔ لال پور لال محمد ۱۷۵۴ء
۲۴۔ سنیّا سکھ خیراتی (سنبھل) ۱۸۰۴ء
۲۵۔ علی نگر علی اعظم
۲۶۔ منجیان شازی شازی (اجیت پور)
۲۷۔ نوگواں ترکان مرادآباد
۲۸۔ وزیر گنج وزیر ۱۸۵۴ء
۲۹۔ اِٹکا(بلاس پور) نیک محمد ۱۷۰۴ء
۳۰۔ بھٹ پورہ تارن شیرازی ۱۶۰۴ء
۳۱۔ بیل کھیڑہ بیل ترک ۱۵۰۴ء
۳۲۔ پپلیا گوپال بڑنجی ۱۶۰۰ء
۳۳۔ پجاوا پیرمنش ۱۲۱۰ء
۳۴۔ ٹاہ خرد اللہ نور ۱۴۰۰ء
۳۵۔ ٹیری خواجہ خواجہ نور بخش ۱۴۰۰ء
۳۶۔ دبدبا دولت خواجہ ۱۷۰۴ء
۳۷۔ سِرس کھیڑا سردار حسین ۱۵۰۰ء
۳۸۔ علی نگر ٹاہ خرد علی محمد ۱۶۰۰ء
۳۹۔ کھاتا کریم اللہ ۱۶۰۰ء
۴۰۔ لالہ نگلہ لال محمد ۱۵۰۰ء
۴۱۔ محمد پور محمد علی ۱۸۰۴ء
۴۲۔ محمد نگر پیر بخش(مہوناگر) ۱۸۲۴ء
۴۳۔ مرزا پور نجّو پردھان ۱۶۰۰ء
۴۴۔ مشرف گنج رستم(پپلیا)مشرف خاں تحصیلدار کے نام پر
۴۵۔ مصطفی باد مصطفی حسین
۴۶۔ مُنکرا منیر حسین ۱۵۰۰ء
۴۷۔ مڈھیاں میٹھو ترک ۱۴۰۰ء
۴۸۔ نانکارین فقیر محمد (ماہونگر) ۱۵۰۰ء
۴۹۔ عنایت گنج فقیر محمد (ماہو نگر )پیشکار عنایت اللہ کے نام پر
۵۰۔ نر کھیڑہ نور اللہ ۱۸۴۴ء
۵۱۔ نرکھیڑا کرم علی ۱۵۵۰ء
۵۲۔ نور پور نور محمد ۱۶۰۰ء
۵۳۔ عظمت گنج (نیا گاؤں ) عظمت حسین ۱۸۰۰ء
۵۴۔ چاند پور (ٹانڈہ) امام پردھان ۱۸۰۴ء
۵۵۔ مجرانور پور نورین ترک ۱۸۳۴ء
۵۶۔ سہورا نظام حسین ۱۸۰۴ء
۵۷۔ شاہ پورا سیفو حسن
۵۸۔ رائے پور (شاہ آباد) بیچا  ترک ۱۷۰۴ء

 

اُن گاؤں کی تفصیل جن میں ترکوں کی آبادی ہے

 

۱۔رامپور صدر

۲۔کشن پور اٹریا

۳۔بیجنا

۴۔بینجنی

۵۔حوص پور

۶۔گاگن نگلی

۷۔چھتریا

۸۔بے نظیر

۹۔اٹریا

۱۰۔اجے پور

۱۱۔سیاپور شاملی

۱۲۔چمروا

۱۳۔آغا

۱۴۔ہریٹا

۱۵۔مُصّیما

۱۶۔بگھروا

۱۷۔نگلیا عاقل

۱۸۔جٹ پورا

۱۹۔کُچیٹا

۲۰۔حزر پور

۲۱۔پرج والی

۲۲۔امرتا

۲۳۔بچپورا

۲۴۔صورت پورا

۲۵۔سہورا

۲۶۔فرید پور

۲۷۔دھنو پورا

۲۸۔علیف نگلہ

۲۹۔علی نگر

۳۰۔بوڑھی دڑھیال

۳۱۔نرپت نگر

۳۲۔پیپل سانہ

۳۳۔نانکر رانی

۳۴۔مان پور

۳۵۔مکرم پور

۳۶۔اصالت پور

۳۷۔ملک تاج خاں

۳۸۔سیندنپور

۳۹۔امیر پور

۴۰۔برکھیڑی

۴۱۔بھٹ کھیڑی

۴۲۔کچنال

۴۳۔پپلیازد

۴۴۔عیسیٰ نگر

۴۵۔کنواں کھیڑہ

۴۶۔مرزا پور

۴۷۔ملّاکھیڑہ

۴۸۔مہو نگر

۴۹۔دریاگڑھ

۵۰۔سلطان پور

۵۱۔دھاونی حسن پور

۵۲۔ملک منڈی

۵۳۔کھیم پور

۵۴۔ڈہریا

۵۵۔دوی پورا

۵۶۔ڈھیریا

۵۷۔سِرس کھیڑا

۵۸۔کھڑیا

۵۹۔ترانہ

۶۰۔سِمٹیا

۶۱۔پیپل گاؤں

۶۲۔کسرول

۶۳۔کھوٹہ کھیڑہ

۶۴۔اشوک پور

۶۵۔گنگا پور قدیم

۶۶۔بانس نگلہ

۶۷۔برا خاص

۶۸۔تُماڑیہ

۶۹۔ڈوڈن

۷۰۔فیض اللہ نگر

۷۱۔علی نگر

۷۲۔نصرت  نگر

۷۳۔حاجی نگر

۷۴۔اجیت پور

۷۵۔پسیہ پور

۷۶۔چھتونی

۷۷۔للوارا

۷۸۔سیفنی

۷۹۔کھرسول

۸۰۔کھانا

۸۱۔کھور

۸۲۔کھنڈیا

۸۳۔دبکہ

 

رامپور ضلع کے بلاک وار ترک گاؤں جو گرام سماج اور گرام پنچائتیں ہیں

 

نمبر شمار بلاک ترکوں کے گاؤں ترک گاؤں جو گرام سماج میں ہیں ترک گاؤں جو گرام پنچائتیں ہیں
۱۔ بلاس پور ۲۶ ۱۲ ۳۰
۲۔ سید نگر ۱۱ ۶ ۴۲
۳۔ سُوآر ۱۱ ۶ ۴۰
۴۔ ٹانڈہ ۵ ۲ ۶
۵۔ شاہ باد ۱ ۱ ۸
۶۔ چمرّوا ۹ ۴ ۲۵
کل ۶بلاک ۶۳ ۳۱ ۱۵۱

 

مرادآباد  و امروہہ (جے۔ پی۔ نگر)کے علاقوں میں ترک آبادی والے قصبے اور گاؤں

 

۱۔جویا

۲۔شہباز پورہ

۳۔حسین پور

۴۔رامپور

۵۔داسی پور

۶۔رائے پور

۷۔پریاولی

۸۔مسعود پور

۹۔نوادہ

۱۰۔جوئی

۱۱۔اصغری پور

۱۲۔مہر پور

۱۳۔فتّے پور

۱۴۔مجاہد پور

۱۵۔مُریز پور

۱۶۔حاجی پور

۱۷۔نرسوں

۱۸۔ماتی پور

۱۹۔ہریانہ

۲۰۔ہٹوؤا

۲۱۔پٹی

۲۲۔سینتلی

۲۳۔ٹکیا

۲۴۔کالاکھیڑا

۲۵۔پلولہ

۲۶۔ کنپور

۲۷۔ سِنورا

۲۸۔ مٹھن پور

۲۹۔ مونڈھا

۳۰۔ فتے پور

۳۱۔ شیونالی

۳۲۔ جوگی پورہ

۳۳۔ نیلی کھیڑا

۳۴۔ ڈھکیا

۳۵۔۔ دیپ پور

۳۶۔ گنداس پور

۳۷۔ سہسپور

۳۸۔ ملک

۳۹۔ غوث پور

۴۰۔ امیڑھہ

۴۱۔ جوائی

۴۲۔ اٹایلہ

۴۳۔ کھیہ

۴۴۔ منصور پور

۴۵۔ شہباز پور تلوار

۴۶۔ کھر کھودا

۴۷۔ شاہ پور

۴۸۔ بکینیا

۴۹۔ نگلیا

۵۰۔ لال پور گنگ واری

۵۱۔ جعفر پور

۵۲۔ للوارا

۵۳۔ نانکار

۵۴۔ ہاشم پور

۵۵۔ منڈی مِلک

۵۶۔ اسد پور

۵۷۔ بھیکن پور

۵۸۔ ڈینگر پور

۵۹۔ بسیرا

۶۰۔ لالہ والی امرت پور

۶۱۔ گجروں والا امرت پور

۶۲۔ چندن پور

۶۳۔ کمال پور

۶۴۔ ڈوم گھر

۶۵۔ سیت پور

۶۶۔ سِکری

۶۷۔ پنڈت نگلہ

۶۸۔ پنڈت نگلہ گیندا

۶۹۔ گاگن والی مناٹھیر

۷۰۔ عبدُلّے پور

۷۱۔ باقی پور

۷۲۔ موہن پور

۷۳۔ تخت پور

۷۴۔ جیت واڑا

۷۵۔ گدی پورا

۷۶۔ روپ پور

۷۷۔ جلال پور

۷۸۔ ہاتھی پور

۷۹۔ گجی پور مہلولی

۸۰۔ بگھروّا

۸۱۔ پیت پور

۸۲۔ تھاملا

۸۳۔ محمود پور

۸۴۔ مل پورا

۸۵۔ مڑھیا

۸۶۔ عیسیٰ پور

۸۷۔ سِوُنا

۸۸۔ پی پریا

۸۹۔ اہلاد پور

۹۰۔ رسول پور

۹۱۔ برہیٹا

۹۲۔ نواب والی ملک

۹۳۔ مناٹھیر

۹۴۔ مِلک

۹۵۔ گریر

۹۶۔ مانک پور

۹۷۔ طاہر پور

۹۸۔ پاکبڑا

۹۹۔ کرنپور

 

سنبھل شہر و اُس کے دیہی علاقوں میں ترک آبادیوں کی تفصیل :

سنبھل شہر کے محلہ دیپا سرائے اور ہندو پورا کھیڑہ میں کل آبادی کا تقریباً ۸۵فیصد (تقریباً ۷۰۔۶۰ ہزار)خوجہ/ خواجہ ترکوں کی آبادی ہے۔ سنبھل شہر کے چاروں طرف جن بیرونی محلوں و سرایوں میں بوبنہ ترکوں کی آبادی ہے وہ اس طرح ہیں :

۱۔        تمر داس سرائے کا کوٹلہ     ۲۔       میاں سرائے      ۳۔       ڈیرا سرائے

۴۔       بیگم سرائے                                ۵۔       نئی سرائے                     ۶۔            چودھری سرائے

۷۔       سرائے ترین                  ۸۔       رکن الدین سرائے

 

سنبھل کے جن دیہی علاقوں میں بوبنہ ترکوں کی آبادی ہے وہ اس طرح ہیں :

۱۔ مِلک

۲۔ مرزا پور

۳۔ مانڈلی

۴۔ ککروؤا

۵۔ منّی کھیڑا

۶۔ موسیٰ پور

۷۔ ملک گونجنمی

۸۔ مُئی مدالہ

۹۔ مہندی پور

۱۰۔ مراد مہیو

۱۱۔ پِنکا

۱۲۔ پنیا

۱۳۔ بچھیڑا

۱۴۔ پلتھا

۱۵۔ پہلنگا

۱۶۔ تاج پور

۱۷۔ حسام پور

۱۸۔ حسن پور

۱۹۔ چمیاولی

۲۰۔ جوگی پورا

۲۱۔ چندائن

۲۲۔ خان پور

۲۳۔ دہیا

۲۴۔ سِوتا

۲۵۔ سیندن پور

۲۶۔ سکندر پور

۲۷۔ سید کھیڑا

۲۸۔ رائے پور

۲۹۔ گونجنی

۳۰۔ رائنا

۳۱۔ نگلہ

۳۲۔ فیروز پور

۳۳۔ گووند پور

۳۴۔ ہیبت پور

۳۵۔۔ کھیڑا کلاں

۳۶۔ رہٹا

 

ماضی کے سید/ شیخ، ترک اور پٹھان :

سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین محمد غوری اور قطب الدین ایبک سے لے کر ہندوستان میں تیموری سلطنت کے آخر تک جتنے بھی حکمراں ہوئے ان کے دور میں ترکستان، افغانستان اور عرب ملک سے فوجی، فنکار، کاریگر، عالم دین، اساتذہ اور مختلف شعبوں کے ماہرین و درباری ہزاروں کی تعداد میں ہندوستان آئے اور زیادہ تر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ تیموری سلطنت کے خاتمے کے بعد پچھلے تقریباً ۲۰۰ برسوں میں بھارت میں آباد ترک پٹھان اور سید/ شیخ لوگوں کی اولادیں مقامی لوگوں کے ساتھ پوری طرح گھل مل گئیں ۔ اپنی مادری زبانوں (ترکی، فارسی، افغانی اور عربی)کو بھول کر ہندوستانی زبانوں کو اپنا لیا۔ لہٰذا ماضی کے ان شیخ، سید، ترک اور پٹھان قوم کے لوگوں کی اولادیں اب بھارتیہ قوم ہیں اور بھارت میں بسنے والی دوسری قوموں کی طرح ہی انھیں بھی وہی آئینی حقوق حاصل ہیں یعنی اب وہ شیخ/ سید، ترک و پٹھان نسل کے بھارتیہ ہیں ۔

بھارت میں زیادہ تر لوگ ترک نسل سے انجان ہیں ۔ شاید انگریزوں کے دور میں ترکوں کی بڑے پیمانے پر حوصلہ شکنی اور دوسری مسلمان قوموں کو بڑھا وا دینے اور عام طور پر ترکوں کا اپنے نام کے ساتھ اپنی نسل کو ظاہر نہ کرنے سے لوگ ترک نسل کو بھولنے لگے۔ جب کہ شیخ/ سید اور پٹھان نسل کے لوگ اپنے ناموں کے ساتھ اپنی نسل کے پہچان کے الفاظ جوڑتے رہے جس سے ا ن کی پہچان بنی رہی۔

آج کل تمام مثالیں ایسی بھی ہیں جن میں مقامی مسلمانوں نے شیخوں /سیدوں و پٹھانوں کی نسلی پہچان کے الفاظ اپنے ناموں کے ساتھ جوڑ  لیے اور وہ اسی نسل میں شمار ہونے لگے۔ اسی طرح بہت سے مقامی ترکیہ لوگ (ہندوستانی نژاد نیچی و پچھڑی ذاتوں کے وہ لوگ جو ابتدائی ترک دور میں مسلمان ہو گئے تھے)بھی خود کو خود ساختہ’ ’ترکیہ قبیلے ‘‘ کے ترک کہنے لگے مگر حقیقی ترک نسل کے لوگوں کی پہچان ختم ہونے لگی۔

٭٭٭

 

حواشی:

 

۱۔        وسطی ایشیا کے ترک قبیلوں کے لوگ اپنے پیشے کی بنیاد پر اونچی نیچی ذاتوں میں منقسم نہیں تھے۔ وہ اپنی اپنی قابلیت کے مطابق سبھی طرح کے چھوٹے بڑے کاموں کو انجام دیتے تھے۔ فوج کے ساتھ رہ کر بھی انھیں ان کی قابلیت کی بنیاد پر ہی الگ الگ کام دیے جاتے تھے مگر ان سب کی قوم ترک ہی تھی۔

۲۔       دہلی میں تخت نشین ہونے سے پہلے سلطان التمش بدایوں کا صوبیدار رہا تھا اس زمانے میں سنبھل بدایوں صوبے میں آتا تھا اور بدایوں۔دہلی کے راستے میں پڑتا تھا۔ لہٰذا سلطان ان علاقوں سے پوری طرح واقف تھا۔

۳۔       (ہندوستان کے ترکیہ بنجارے اور دوسری ترکیہ اقوام)۔ترکوں کے ابتدائی دور میں شمالی ہندوستان کی پسماندہ ذاتوں میں سے جب بنجاروں کو مسلمان کیا گیا تو انھیں مسلمان بنجارے کہنے کے بجائے ’ترکیہ‘ (مذہبی طور پر ترکوں سے متعلق )بنجارے کہا گیا۔ چونکہ اس وقت مسلمان لفظ رائج نہیں تھا۔ لہٰذا علاقہ کے وہ بنجارے جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے خود میں اور اپنی ہی ذات کے مسلمان ہوئے بنجاروں میں فرق رکھنے کے لیے انھیں ترکیہ بنجارے کہنے لگے۔ سیکڑوں سالوں کے بعد یہ ترکیہ بنجارے خودساختہ طور پر خود کو ترکیہ قبیلے کے ترک کہنے لگے ۔ (رامپور گزٹ ۱۹۱۱)

The Turkish Banjaras state that they came from Multan and their first settlement in Rampur was ‘Tanda Badli’. In the state (Rampur), according to the 1901 census report Banjara traditions indicate that all banjaras were orignally HIndus (Gazat Rampur State 1911AD)

ترکیہ بنجاروں کے مطابق وہ ملتان سے آئے اور سب سے پہلے رامپور کے ٹانڈہ بادلی مقام پر آباد ہوئے۔ رامپور اسٹیٹ کی ۱۹۰۱ء کی سینسس (Census)رپورٹ کے مطابق بنجاروں کے رسم و رواج سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاً سارے ہندو تھے۔             (رامپور اسٹیٹ گزٹ،۱۹۱۱ء)

ترکیہ بنجاروں کے علاوہ ہندوستان میں دوسری ذاتوں کے لوگ بھی مسلمان ہوئے اور اِن لوگوں نے ترک فوجوں کے لیے اپنے اپنے پیشے کے مطابق کام کیے۔ ان ہی کی ذات کے لوگ مذہبی طور پر خود میں اور ان میں فرق رکھنے کے لیے ذات کے نام سے پہلے ترکیہ لفظ لگا دیتے تھے ۔ جیسے ترکیہ نائی، ترکیہ گوالے، ترکیہ درزی، ترکیہ جھوجھے، ترکیہ دھوبی، ترکی ہرنگریز وغیرہ۔ صدیاں گزرنے کے بعد کچھ ترکیہ لوگ بھی غلط فہمی میں خود کو ترک کہنے لگے ۔جب کہ بہت سے ترکیہ لوگوں نے اپنی اپنی الگ پہچان کے لیے ادریسی، منصوری، قریشی ، انصاری، فاروقی ،رائینی، سلیمانی وغیرہ لقب اختیار کر لیے ۔ان تمام لقب کی حیثیت نصبی نہیں ہے بلکہ وہ کسی نہ کسی معنی میں یا پیشے کے طور پر اپنائے گئے ہیں ۔

حکیم غلام احمد شوق فریدی کی کتاب ’’احسن التواریخ‘‘ کے صفحہ۱۰۳ پر ’’سنبھل کے پرانے باشندے‘‘ عنوان کے تحت آخری سطروں میں وحشی ترک مسلمان لکھا ہے۔ شاید مصنف نے ’’ترک و ترکیہ‘‘ لفظ میں فرق نہ کر پانے کی وجہ سے ایسا لکھ دیا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ ہندوستان کے ابتدائی ترک دور میں ترک دربار و فوج میں کسی بھی مذہب قوم یا قبیلے کے لوگوں کو ترک کے نام سے جانا جاتا تھا ۔مگر جنگلوں میں رہنے والے یہاں کے پرانے باشندے غیر مہذب آدی واسی اور بنجارے اسلام مذہب میں شامل ہونے کے بعد ترکیہ (مذہبی طور پر ترکوں سے متعلق)کے نام سے جانے گئے کیونکہ اس وقت لفظ ’’مسلمان‘‘رائج نہیں تھا۔ ترکیہ لوگ ترک نہیں تھے ۔وہ مقامی ہندو ذاتوں سے نئے مسلمان ہوئے لوگ تھے ۔چونکہ یہ لوگ صدیوں سے جنگلی زندگی گزار تے آئے تھے لہٰذا مسلمان ہونے کے بعد بھی انہیں مہذب ہونے میں طویل وقت گزر گیا۔

۴۔  ۱۲۲۰ء میں ترکوں اور مونگولوں کے درمیان ہوئی جنگوں میں وسطی ایشیا و خراسان پر چنگیز خان کا قبضہ ہو گیا۔ لیکن ایک جنگ میں ترک سلطان محمد خوارزم شاہ کا ایک بیٹا جلال الدین مونگولوں سے بچ کر غزنی آگیا جہاں اس نے جلد ہی اپنے ساتھیوں کی تعداد بڑھا لی۔ مونگولوں کی فوج بھی اسی علاقہ میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی تھی ۔ بامیان کی جگہ پر جلال الدین اور مونگول فوجو ں میں اچانک جھڑپ ہوگئی جس میں چنگیز خاں کا پوتا (جوجی خاں کا لڑکا)مارا گیا اور جلال الدین کو فتح ملی۔ مونگول فوج کی ہار کی خبر ملتے ہی چنگیز خاں بامیان پہنچا اوروہاں قتل عام کا حکم دے دیا۔ کچھ لوگ کسی طرح بچ کر آس پا س کے گائوں کے ترکوں کے ساتھ بھاگ کر ہندوستان آگئے جہاں ترکوں کی سلطنت (سلطان شمش الدین التمش کی دہلی سلطنت )مستحکم ہو چکی تھی ۔بعد میںدہلی سے نکل کر بامینا ترک سنبھل شہر اور اطراف کے علاقو ں میں آباد ہوگئے ۔ سنبھل علاقہ میںرہتے ہوئے پہلے یہ ترک ’’بامینا ترک‘‘ اور بعد میں ’’بابینا ترک‘‘ کہلانے لگے (۲۰ویں صدی میں یہ لفظ بدل کر بوبینا اور بعد میں ’’بوبنا ‘‘ ہو گیا)

۵۔       بدایوں علاقہ کے شمال میں کٹیہار(کٹھیریا) راجپوتوں کے ٹھکانے تھے اور اہم مرکز اہیچھتر تھا۔ باغی کٹیہار بدایوں اور سنبھل میں ہنگامہ آرائی کرتے رہتے تھے ۔ (مدھیہ کالین بھارت، ستیش چندرا، ص۵۱)

 

۶۔         ملک نائب پہلے سمانا اور سُنام کا حاکم رہ چکا تھا۔

 

۷۔   ‘Sambhal ۔ A Historical Survey ‘ کتاب کے مصنف بی ایم شنکھدھر نے اپنی کتاب میں  ۱۳۸۰ء میں  فیروز تغلق کے دور میں  سلطان کے حکم سے کٹھیر علاقے میں  ہندوؤں  کا قتل عام کروانے کی بات لکھی ہے۔ اس بارے میں  مصنف کا کہنا ہے کہ :جہاں  تک کٹھیر علاقے میں  ہندوؤں  کا قتل عام کروانے یا ہندو سرداروں  کی طاقت کو ختم کرنے کی بات ہے تو اُس وقت کٹھیر علاقہ میں  سنبھل کے تحت مشرق اور جنوب میں  نرولی اور مَجھولہ دو ہندو بڑ گوجر راجپوتوں  کی ریاستیں  تھیں۔ بڑ گوجر راجپوت سلطانوں  کے وفادار رہے لہٰذا ان کو سلطانوں  کی طرف سے بھاری رعایتیں  ملیں  اور وہ سلطانوں  کے معاون ہو کر صدیوں  تک اپنے اپنے علاقوں  پر راج کرتے رہے۔بڑگوجر راجپوتوں  کی ریاستوں  کی سرحدوں  کے بعد چاروں  طرف کٹھیریا راجپوتوں  کے ٹھکانے تھے جو سلطانوں  کے خلاف کھڑے ہو کر لگاتار بغاوتیں  کرتے رہتے تھے۔لہٰذا سلطانوں  کی کارروائی اُن باغی کٹھیریا راجپوتوں  کی آبادیوں  اور ان کے سرداروں  تک ہی محدود رہتی تھی۔ حملہ آوروں  کے خلاف اپنے خطے کی حفاظت کے لیے لڑنے مرنے والے قوم پرست سردار و عوام اُن کی نظر میں  باغی ہی کہلاتے تھے۔تاریخ گواہ ہے کہ باغی چاہے حکمرانوں  کی اولادیں  ہوں  یااُن کے عزیز و اقارب،ہندو ہوں  یا مسلمان یا کسی اور مذہب کے ان کے ساتھ باغیوں  کی طرح ہی سلوک کیا گیا ہے۔

 

۸۔          شرقی سلطنت جونپور کا بانی فیروز تغلق کا ایک خاص امیر ملک سرور تھا جسے ’’ملک الشرق کے خطاب‘‘ سے نوازا گیا تھا۔ بعد میں  اس کے وارث شرقی سلطان کہلائے جانے لگے۔ شرقی سلطانوں  نے جونپور کو دارالسلطنت بنایا اور اُسے شاندار محلوں  مسجدوں  اور مقبروں  سے سجایا۔اپنی بلندی کے دور میں  یہ سلطنت بندیلکھنڈ سے علی گڑھ نیپال اور دربھنگہ تک پھیلی ہوئی تھی۔کچھ دنوں  تک سنبھل بھی شرقی سلطنت کا حصہ رہا۔

 

۹۔   شیخ حاتم سنبھلی کے والد خواجہ محمد اپنے بڑے بھائی شیخ ہلالی بنی اسرائیل کے ساتھ سکندر لودھی کے دور میں  کنان سے ہندوستان آئے تھے۔ شیخ ہلالی کی شادی بنی اسرائیل قوم کے سردار شیخ لال کی لڑکی سے سنبھل میں  ہوئی تھی۔ (دربارِ اکبری،مولانا محمد حسین آزاد، ص۴۲۴)

شیخ حاتم سنبھلی نے مولانا عثمان (جو بنگال کے رہنے والے تھے اور سنبھل میں  آباد ہو گئے تھے )اور کچھ عرصے دہلی کے علاء الدین چشتی کی خدمت میں  رہ کر بھی تعلیم حاصل کی۔ پوشیدہ روحانی طاقتوں  کی جانکاری کی خاطر تقریباً ۱۰سال تک سنبھل اور امروہہ کے علاقوں  میں  ننگے سر اور ننگے پیر گھوم کر راہِ سلوک میں  لگے رہے۔۱۵۵۳ء میں  ملا عبدالقادر بدایونی شیخ حاتم سنبھلی سے تعلیم حاصل کرنے سنبھل آئے اور ان سے ’قصیدۂ بردہ‘ اور کنزِ فقہ (Kanze Fiqah)پڑھیں۔۶۲۔۱۵۶۱ء میں  حاتم سنبھلی کا انتقال ہوا۔ (منتخب التواریخ از ملا بدایونی جلد ۳،ص ۲و ۳)

 

۱۰۔   امیر تیمور کے بعد اس کی چوتھی نسل میں  ’سلطان عمر شیخ مرزا‘ بابر کا باپ تھا اور چنگیز خاں  کے بیٹے چغتائی خاں  کے بعد وسطی ایشیا میں  اس کی ۱۱ویں  نسل میں  ’یونس خاں  ‘ کی بیٹی بابر کی ماں  تھی۔ اس طرح بابر کی ماں  قِتلق نگار خانم چغتائی خانی ترک‘ اور باپ عمر شیخ مرزا تیموری مغلیہ ترک تھا۔

(Historians of Medieval India 1968, Prof. Mohibbul Hasan)

 

۱۱۔ اس دور میں  لکھنور سنبھل سرکار کا ایک پرگنہ تھا۔ موجودہ دور میں  شاہ آباد کے نام سے ضلع رامپور کی ایک تحصیل ہے۔

 

۱۲۔  قاسم حسین سلطان عائشہ بیگم سلطان کا لڑکا تھا۔بدایوں  ا سکے حصہ میں  تھا۔ قاسم خاں  لودھی (میاں  قاسم سنبھلی) سنبھل کا گورنر تھا۔ملک قاسم بابا قشقاش پانی پت کی لڑائی میں  بابر کے ساتھ تھا۔

 

۱۳۔      کٹھیریا سردار مترسین سنبھل کے ایک محال لکھنور (موجودہ شاہ باد ضلع رامپور)کا راجہ تھا۔ جب کٹھیر کا علاقہ شیر شاہ کی حکومت کے تحت آیا تو وہ راجہ مترسین سے مل کر بہت متاثر ہوا اور اسے سنبھل کا گورنر بنا دیا۔جب دہلی پر دوبارہ ہمایوں  کا قبضہ ہوا تب بھی کچھ دنوں  تک راجہ مترسین ہی سنبھل کا صوبے دار (گورنر) رہا۔(روہیل کھنڈ،گرراج نندن،ص ۴۶)

 

۱۴۔        شیرشاہ کے دور میں  سرکاروں  کے ہیڈ کے طور پر فوجداروں  کا تقرر کیاگیا جو سیدھے سلطانوں  کے ماتحت ہوتے تھے۔(History of Shershah, Dr. I.H.Siddiqui, p.119)

تیموری سلطانوں  کے دور میں  سرکاروں  کے فوجدار صوبوں  کے ماتحت ہوتے تھے۔

(The Administration of  Mughal Empire, Dr. I.H. Qureshi, p. 2310(

 

۱۵۔        گورنر مسندِ عالی عیسیٰ خاں  کالکاپوری کو سنبھل سرکار کی منصفی کا چار ج دیاگیا تاکہ وہ لوگوں  کو انصاف دلا سکے۔  ناصر خاں  کو فوجدار کے طور پر پولس اور فوج کے انتظام کی ذمہ داری دی گئی۔

 

۱۶۔      ہیم چند(ہیمو): کچھ مورخین کے مطابق ہیم چند ریواڑی کادھوسر بنیا تھا اور کچھ کے مطابق بہار کا رونیار تھا۔ عادل شاہ نے اپنے دور میں  ہیمو کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے اسے سپہ سالار بنا یاتھاجسے ہیمو نے بڑی قابلیت کے ساتھ نبھایا۔

 

۱۷۔     کٹھیریا سردار مترسین سنبھل کے ایک محال لکھنور (موجودہ شاہ باد ضلع رامپور)کا راجہ تھا۔ جب کٹھیر کا علاقہ شیر شاہ کی حکومت کے تحت آیا تو وہ راجہ مترسین سے مل کر بہت متاثر ہوا اور اسے سنبھل کا گورنر بنادیا ۔جب دہلی پر دوبارہ ہمایوںکا قبضہ ہوا تب بھی کچھ دنوں تک راجہ مترسین ہی سنبھل کا صوبے دار (گورنر) رہا۔(روہیل کھنڈ،گرراج نندن ،ص ۴۶)

 

۱۸۔      مئی ۱۶۷۰ء میں  گورنر پرنس محمد اعظم کے نائب کے طور پر جہانگیر قلی خاں  کو سنبھل بھیجا گیا۔ اگست ۱۶۷۰ء میں  فیض اللہ خاں  کو جہانگیر قلی خاں  کی جگہ سنبھل کا فوجدار مقرر کیاگیا۔ شاہنواز خاں  کا کہنا ہے کہ اگست ۱۶۷۰ء میں  فیض اللہ خاں  کو مرادآباد کا فوجدار بنایاگیا (معاصر الصمارا،جلد ۳،ص ۲۹)حقیقت میں  فیض اللہ خاں  کو پہلے پرنس محمد اعظم خاں  کے نائب جہانگیر قلی خاں  کی جگہ سنبھل کا فوجدار مقرر کیاگیا تھا مگر اُسی دوران مرادآباد کے فوجدار نامدار خاں  کی جگہ خالی ہوئی لہٰذا فیض اللہ خاں  کو مرادآباد کا چار ج دیاگیا۔ (معاصر الصمارا،شاہنواز خاں ، جلد ۳،  ص ۸۳۱)

٭٭٭

 

 

 

 

کتابیات

 

۱۔                    ’ملّت اسلامیہ کی مختصر تاریخ‘، جلد دوم و سوم، ثروت و صولت

۲۔                   ’تاریخ اسلام‘، مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی

۳۔                   ’ہمایوں بادشاہ‘، ایس کے بنرجی

۴۔                   ’انصاب سلاطین مغلیہ‘، ایچ۔ ہاور تھ سرہندی کے سی۔ آئی۔ ای۔ ایف۔ ایس۔ آر۔ ایس، ترجمہ سید محمد ضامن ایڈیٹر

۵۔                   ’پرگتی‘ (آدھونک مدھیہ ایشیا)ڈاکٹر دیویندر کوشک، پرگتی پرکاشن، ماسکو

۶۔                   وکی پیڈیا، دا فری انسائیکلو پیڈیا(انٹرنیٹ)

۷۔                   ’روہیل کھنڈ ۔اتہاس اور سنسکرتی ‘، گری راج نندن، پرکاش بک ڈپو، بریلی

۸۔                   ’لال قلعہ کی ایک جھلک‘، حکیم خواجہ ناصر نذیر فراق دہلوی، اردو اکادمی، دہلی

۹۔                    ’خلافت اور خلیفہ‘، مولانا ابو الکلام آزاد

۱۰۔                  ’مصباح التواریخ‘، مولانا معید سنبھلی

۱۱۔                   ’اردو لغت تاریخی اصول پر‘، حصہ یکم، ششم اور دوازدہم

۱۲۔                  ’اسرائیلیوں کی تاریخ‘، ترجمہ اے۔ ایس۔ پکلے

۱۳۔                  ’طبقات ناصری‘، جلد اول و دوم، عبدالحئی، کابل، ۱۵۴۳ء (انگلش ترجمہ از راور ٹی، دہلی، ۱۹۷۰ء)

۱۴۔                  طبقات ناصری (آدی ترک کالین بھارت)’منہاج السراج‘، ضیاء الدین برنی، فخر مدبر، امیر خسرو ترجمہ سید اطہر عباسؔ رضوی

۱۵۔                  ’تاریخ ہندوستان‘، آب کوثر، شیخ محمد ا کرام

۱۶۔                  ’اخبار الصنادید‘، نجم الغنی خاں ، نول کشور پریس، لکھنؤ ۱۹۱۸ء

۱۷۔                 ’آثار الصنادید‘، سرسید احمد خاں

۱۸۔                  ’بھارت کا اتہاس‘، حصہ دوم، ایشوری پرشاد

۱۹۔                  ’دلی سلطنت‘، آشیروادی لال شریواستو

۲۰۔                 ’ہسٹورِک دہلی‘، ایڈیٹیڈ بائی ایچ۔ کے۔ کول، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس

۲۱۔                  ’دی آئین اکبری‘، ابوالفضل، انگریزی ترجمہ، ایچ بلوچمین، دہلی ۱۹۶۵ء

۲۲۔                 دی آئین اکبری، ‘ جلد دوئم، ابوالفضل، نول کشور ایڈیشن، لکھنؤ، ۱۸۸۲ء

۲۳۔                 ’مرادآباد کے اتہاس کی ایک جھلک‘، پردھاناچاریہ بی۔ ایس۔ بھٹناگر

۲۴۔                 ’مرادآباد تاریخ جدوجہد آزادی‘، سید محبوب حسین سبزواری

۲۵۔                 ’واقعات دارالحکومت دہلی‘، بشیر الدین احمد

۲۶۔                 ’تاریخ فرشتہ‘، جلد اول، محمد قاسم فرشتہ، نول کشور لکھنؤ، ۱۸۶۴ء

۲۷۔                ’منتخب التواریخ، عبدالقادر بدایونی، جلد اول و سوم، ایڈیٹڈ احمد علی کلکتہ ۶۹۔۱۹۶۸ء

’منتخب التواریخ‘، عبدالقادر بدایونی، جلد دوئم، انگریزی ترجمہ از لو(Lowe) پٹنہ، ۱۹۷۳ء

۲۸۔                 ’سنبھل اے ہسٹوریکل سروے ‘، بی۔ ایم سانکھدھر، کمار بردر دہلی، ۱۹۷۱ء

۲۹۔                 ’ہسٹورینس آف میڈیول انڈیا ‘، پروفیسر محب الحسن، ۱۹۶۸ء

۳۰۔                 ’ہسٹری آف انڈیا‘، ای۔ ڈبلو تھامپسن، ایم اے کلکتہ یونیورسٹی پریس ۱۹۰۹ کرشچین کلچرل سوسائٹی لندن اور مدراس

۳۱۔                  ’دربار اکبری ‘، شمش العلماء مولانا محمد حسین آزاد

۳۲۔                 ’ تاریخ امروہہ‘، محمود احمد عباسی، تجلّی پرنٹنگ پریس، دہلی ۱۹۳۰ء

۳۳۔                ’تزک بابری‘، اردو ترجمہ، بابر نامہ، انگریزی ترجمہ، اے ایس بیوریج لندن، ۱۹۲۲ء

۳۴۔                ’بھارت کی ایتہاسک مان چتراولی‘، ڈاکٹر ہری پرساد تھپلیال

۳۵۔                ’دی ونڈر دیٹ واز انڈیا‘، ایس۔ اے۔ اے رضوی، حصہ دوم(سِڈوک اینڈ جیکسن لمٹیڈ لندن/ روپا اینڈ کمپنی کلکتہ الہ آباد اور دہلی )

۳۶۔                 ’این ہسٹوریکل ایٹلس آف انڈین پینِن سُلا‘، سی کولن ڈیویز

۳۷۔                ’اکبر دی گریٹ مغل‘، ونسینٹ اے اسمتھ، سی۔ آئی۔ ای۔ آکسفورڈ، ۱۹۱۷ء

۳۸۔                ’ہسٹری آف انڈیا‘، جی ایف ڈیلافوس، میک ملن اینڈ کمپنی لمٹیڈ، سینٹ مارٹن اسٹریٹ  لندن، ۱۹۱۴ء

۳۹۔                 ’بھارت کا برہت اتہاس‘ جلداول، مدھیہ کالین بھارت تیسرا ایڈیشن، پروفیسر نیتر پانڈے، الہ آباد، بنارس، ۱۹۵۱ء

۴۰۔                 ’پولٹیکل ہسٹری آف اینسی اینٹ انڈیا‘، ہیم چندر چودھری، کلکتہ، ۱۹۵۰ء

۴۱۔                  دی ایج آف امپیریل گپتاز، آر ڈی بنرجی

۴۲۔                 ’ہسٹری آف انڈیا‘، ایل ایف اشبرو ک ولیم

۴۳۔                ’تاریخ شاہجہاں ‘، ڈاکٹر بنارسی پرساد سکسینہ، ترجمہ ڈاکٹر سید اعجاز حسین، ترقی اردو بورڈ، دہلی

۴۴۔                ’مدھیہ کالین بھارت کا اتہاس‘، وی کے شرما، یونیورسٹی بک ڈپو ایجوکیشن پبلشرز، میرٹھ

۴۵۔                ’تزک جہانگیری ‘، نور الدین جہانگیر، (i)سید احمد خاں غازی پور، ۱۸۶۳ء (ii)ترجمہ مولوی احمد علی رامپوری، سنگمیل پبلشرز، اردو بازار لاہور، ۱۹۶۷ء

۴۶۔                 ’تاریخ جہانگیر‘، پروفیسر ڈاکٹر بینی پرساد، ترجمہ رحم علی الہاشمی، ترقی اردو بورڈ دہلی

۴۷۔                ’اور نگ زیب اینڈ دی ڈیکے آف مغل ایمپائر‘، اسٹین لے لین پول، سنیتا پبلی کیشن دہلی، ۱۹۸۸ء

۴۸۔                ’طبقات اکبری‘، حصہ اول و دوئم، نظام الدین احمد، نول کشور پریس لکھنؤ ۱۹۲۷ء

۴۹۔                 ’ہمایوں نامہ (گلبدن بیگم)، انگریزی ترجمہ، اے۔ ایس بیوریج، دہلی، ۱۹۷۲ء

۵۰۔                 ’معاصر الصمارا‘، جلد اول تا سوئم، شہنواز خاں ، کلکتہ، ۱۸۸۸ئ، ایڈیٹر عبدالرحیم

۵۲۔                 ’تذکرۃ الواقعات ‘، جوہر آفتابچی، اردو ترجمہ معین الحق، کراچی ۱۹۵۵ء

۵۳۔                ’روہیل کھنڈ ٹیری ٹری (کٹھیر)ان میڈیول (۱۷۰۷۔۱۲۰۰ء)انڈیا‘، محمد افضال الرحمن خان، کنِشک پبلشرز، دہلی، ۱۹۹۵ء

۵۴۔                ’دی فاؤنڈیشن آف مسلم رول ان انڈیا‘، اے بی ایم حبیب اللہ، سینٹرل بک ڈپو، الہ آباد، ۱۹۷۶ء

٭٭٭