FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

بیم و رَجا

 

 

ڈاکٹر سلیم خان

 

 

 

 

 

گھر سنسار سلسلے کی تیسری کڑی

۱۔ فقر و غنا

۲۔ مہر و وفا، حصہ اول، حصہ دوم

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ایم۔ پلس کی دُنیا

 

کرشنن کی شادی نے چمیلی کو سوژان کی سہیلی بنا دیا تھا۔ خالی وقت میں سوژان اُسے اپنے پاس بلا لیتی اور دونوں عورتیں ملی جلی زبان میں باتیں کرتیں، جس میں کچھ انگریزی ہوتی تھی، کچھ بنگلہ اور کبھار فلپائن کی تگالو زبان کے الفاظ کا استعمال بھی ہو جاتا تھا۔ لیکن اُن کے لیے زبان کی نہیں، متن کی اہمیت تھی اور وہ ترسیل میں کامیاب تھیں۔

ایک دن چمیلی نے پوچھا۔ ’’سوژان آج کل آپ ہر ہفتے دو چار دن کہیں باہر نکل جاتی ہیں اور دِن بھر مصروف رہتی ہیں۔ کیا بات ہے؟ یہ کسی ملازمت وغیرہ کا چکر تو نہیں ہے؟‘‘

’’باقاعدہ ملازمت تو نہیں … ہاں میں نے ایک کام ضرور شروع کیا ہے۔‘‘ سوژان نے جواب دیا۔

’’کیا کام؟‘‘

’’در اصل میں نے فلپائن میں کالج کے بعد فلم ایڈیٹنگ کا ایک کورس کیا تھا۔ لیکن وہاں مجھے اس میدان میں کام کا موقع نہ مل سکا۔ یہاں آ گئی اور جس طرح ہر فلپینا کو یہاں استقبالیہ میں بٹھا دیا جاتا ہے، یا سکریٹری بنا دیا جاتا ہے، وہی معاملہ میرے ساتھ ہوا اور میں اپنی مجبوری کے پیشِ نظر اس پر راضی ہو گئی۔‘‘

’’مجبوری! کیسی مجبوری؟‘‘ چمیلی نے پو چھا۔

’’اُس وقت مجھ پر گھر چلانے کا معاشی دباؤ تھا، لیکن پھر اس کے بعد میری شادی ہو گئی۔‘‘

’’شادی تو اسی سفارت کار سے ہوئی جو آپ کا افسر تھا، تو پھر آپ نے ملازمت کیوں چھوڑ دی؟‘‘

چونکہ سفیر کی زوجہ کاسفارخانے کے اندر سکریٹری کی حیثیت سے کام کرنا زیب نہیں دیتا تھا اس لئے میں نے ملازمت کو خیرباد کر دیا۔ لیکن اس کے بعد بھی مجھے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا، اِس لئے میں اپنے پرانے شوق کی جانب متوجہ ہو گئی۔ دبئی میں ایک شہر بسایا گیا ہے جس کا نام میڈیا سٹی یعنی شہر ترسیل ہے۔ اتفاق سے وہاں البرٹ کا ایک قدیم دوست جیکب ایم۔ پلس نام کے ایک چینل کا مالک ہے۔ اُس نے خود آگے بڑھ کر مجھے ملازمت کی پیشکش کی جو میں نے قبول کر لی۔‘‘

’’کیا یہ انگریزی چینل ہے؟‘‘

’’جی نہیں! نام کی حد تک یہ انگریزی ضرور ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ابتدا میں یہ خالص عربی چینل ہوا کرتا تھا جس پر عرب موسیقی اور رقص پیش کیا جاتا تھا۔ امارات اور وسط ایشیا کے ممالک میں اس نے اپنی اچھی خاصی ساکھ قائم کر لی ہے۔ اب ان لوگوں نے اسی نام کے تحت ایک تگالو چینل شروع کیا ہے۔‘‘

’’دبئی سے تگالو چینل؟ یہ تو حیرت کی بات ہے؟‘‘

’’کیوں؟ اِس میں کون سی حیرت کی بات ہے؟ کیا تم نہیں جانتیں کہ یہاں فلپائنی باشندے بڑی تعداد میں آبادہیں اور وہ موسیقی کے بے حد شوقین ہیں۔‘‘

’’ہاں ہاں جانتی ہوں۔ تو کیا اس پر آپ گانا وانا گاتی ہیں؟‘‘ چمیلی نے تعجب سے پوچھا۔

’’نہیں، میں گانا نہیں گاتی، گانے تو فلپائن سے بن کر آتے ہیں۔ لیکن بیچ بیچ میں جو اینکر ہوتا ہے نا… میرا مطلب ہے اناؤنسر… وہ یہاں کا مقامی فلپائنی باشندہ ہوتا ہے۔‘‘

’’وہ بولتا تو تگالو زبان ہو گا۔ اب منیلا میں بولے یا دبئی میں … اُس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ چمیلی کو دلچسپی پیدا ہونے لگی تھی۔

’’اِس سے بڑا فرق پڑتا ہے میری بے وقوف سہیلی… میرا مطلب چمیلی… اس سے ایک قسم کا مقامی ٹچ آ جاتا ہے۔ اِسی سبب سے یہاں رہنے والے فلپینی لوگ اس چینل کو منیلا سے نشر ہونے والے چینلس کی بہ نسبت زیادہ دیکھتے ہیں۔‘‘

’’اچھا! تو کیا آپ اس میں اینکر کا کام کرتی ہیں؟ میں نے تو آپ کو ٹی۔ وی کے پردے پر کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

’’بدھو…! میں ایڈیٹر ہوں۔ اینکر کی شوٹنگ کے بعد اسے ایڈٹ کیا جاتا ہے اور پھر نشر کیا جاتا ہے۔ میں پردے کے آگے نہیں آتی بلکہ پیچھے کا کام کرتی ہوں۔‘‘

’’اچھا! تو کیا آپ کے چینل پر لوگ فون کر کے اینکر سے براہِ راست بات نہیں کرتے جیساکہ ہمارے بنگلہ چینل آئی۔ ٹی۔ وی پر کرتے ہیں؟‘‘

’’کرتے ہیں! کیوں نہیں؟‘‘

’’اگر ایسا ہے تو پھر ایڈیٹر کہاں سے آ گیا؟‘‘

سوژان کو چمیلی کے سوالات سے اُلجھن ہونے لگی تھی، وہ بولی۔ ’’چمیلی… جو دِکھائی دیتا ہے وہ حقیقت میں نہیں ہوتا، اور جو ہوتا ہے وہ دِکھائی نہیں دیتا۔ اِسی لیے اِس کو مایا جال کہا جاتا ہے۔ وہ فون پر بات کرنا، وغیرہ… سب ناٹک ہوتا ہے۔ لوگوں کو ایسا لگتا ہے سب کچھ برجستہ ہو رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ہر چیز ایڈیٹنگ کے بعد ہی نشر کی جاتی ہے۔‘‘

چمیلی کے سوالات کا فنجان خالی ہو گیا تو اُس نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا۔ ’’لیکن آپ تو اتنے امیر کبیر انسان کی اہلیہ ہیں، دھن دولت کی آپ کے پاس فراوانی ہے، پھر آپ کو ملازمت کرنے کی کیا ضرورت؟‘‘

سوژان بولی۔ ’’اپنے گھر والوں کی معاشی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے میں نے یہ ملازمت کی ہے۔‘‘

’’آپ کے گھر والے! کیا مطلب؟ آپ کے گھر میں تو آپ دونوں میاں بیوی ہیں … نہ کوئی آگے نہ پیچھے … پھر کس کا خرچ چلانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت پیش آ گئی؟‘‘

’’چمیلی یہ دُنیا بھی ایک مایا جال ہے۔ آگے پیچھے اگر کچھ دِکھائی نہ دیتا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ موجود ہی نہیں ہے۔ ہم بہت کوتاہ نظر ہیں۔ ہماری نگاہ بہت محدود دیکھتی ہے، اس کے باوجود سمجھتی ہے کہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔‘‘

چمیلی بولی۔ ’’اچھا؟‘‘

’’جی ہاں! البرٹ کا اچھا خاصہ خاندان ہے جو بیلجیم میں رہتا ہے۔ ماں باپ، بیوی، بچہ، سب کچھ۔‘‘

’’اوہو… بیوی بچہ بھی؟‘‘

’’ہاں! اس کی بیوی بھی ہے اور بچہ بھی ہے … اور تم جانتی ہو… وہ لوگ جلد ہی یہاں آنے والے ہیں۔

’’کون؟ بیوی بھی؟‘‘

’’نہیں … بیوی کے علاوہ ماں باپ اور بچہ!‘‘

’’ارے واہ… یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔‘‘

’’تو کیا وہ مستقل یہیں رہیں گے؟‘‘

’’نہیں۔ وہ سیر و تفریح کے لیے آئیں گے اور ماہ دو ماہ ٹھہر کر چلے جائیں گے۔‘‘

’’اور تمہارے والدین؟‘‘

’’میرے والدین فلپائن میں رہتے ہیں۔ وہ دونوں بہت ضعیف ہو گئے ہیں۔ وہ نہیں آ سکتے۔‘‘

’’ اُن کے پاس کون رہتا ہے؟‘‘

’’کوئی نہیں۔ اُن کی واحد اولاد میں ہوں۔ میں ہی اُن کی بیٹی ہوں اور میں ہی اُن کا بیٹا بھی ہوں۔ میں جو ملازمت کرتی ہوں، اُس سے اُن کا گھر چلتا ہے۔‘‘

’’آپ اپنا خرچ تو البرٹ سے لیتی ہی ہیں، تو اُن کا خرچ کیوں نہیں؟‘‘

’’ہاں! اگر میں لوں تو وہ منع نہیں کریں گے۔ لیکن میں ان کی بیوی ہوں۔ میری کفالت اُن کی ذمہ داری ہے۔ میرے ماں باپ! وہ اُن کے کیا لگتے ہیں؟‘‘

’’وہ اُن کے ساس سسر لگتے ہیں۔‘‘

’’لیکن ساس سسر کی پرورش تو داماد کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ اگر میں ایسا کروں گی تو شاید یہ بات میرے والدین کو بھی ناگوار گزرے۔‘‘

’’جی ہاں! یہ ہو سکتا ہے۔ تب تو آپ اچھا کرتی ہیں۔ اپنے لیے نہ سہی، اپنے والدین کی کفالت کے لیے ……‘‘

سوژان نے بات کاٹ دی اور بولی۔ ’’والدین کوئی غیر تھوڑے ہی ہیں۔ میں اُن کی ذات کا حصہ ہوں، میں اُن کے لیے کچھ نہیں کرتی۔ میں جو بھی کرتی ہوں، سمجھتی ہوں کہ اپنے لیے کر رہی ہوں۔‘‘

’’آپ اپنے والدین سے بہت محبت کرتی ہیں!‘‘ چمیلی بولی۔

’’میں کیا… ہر کوئی کرتا ہے۔ لیکن مجھے اپنی محرومیت کا شدید احساس ہے۔ میں اپنے والدین کی ویسی خدمت کرنے سے قاصر ہوں جیساکہ اُن کا حق ہے۔ کاش کہ مجھے فلپائن میں ملازمت مل جاتی اور میں عمر کے اس حصہ میں کسی قدر اُن کا خیال رکھ پاتی۔‘‘

دونوں سہیلیوں کی گفتگو چل ہی رہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ سوژان نے فون کو دیکھا اور بند کر دیا۔

چمیلی نے پوچھا۔ ’’یہ کس کا فون تھا؟ آپ نے کیوں بات نہیں کی؟‘‘

سوژان بولی۔ ’’یہ فون نہیں بلکہ الارم تھا جو مجھے یاد دلا رہا تھا کہ میرے جانے کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘

چمیلی نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، تب آپ چلیے اور اپنا خیال رکھیے۔ دبئی کا راستہ بڑا خطرناک ہے۔‘‘

سوژان مسکرا کر بولی۔ ’’ہاں چمیلی، میں جانتی ہوں۔ اس کے باوجود میں منیلا سے ابو ظبی اور دبئی پہنچ گئی۔ اس لیے کہ مجبوریاں راستوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔‘‘

چمیلی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، وہ بولی۔ ’’نہیں، میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ یہاں کے راستے پر لوگ بڑی تیز رفتاری سے چلتے ہیں۔ مجھے تو بڑا ڈر لگتا ہے۔‘‘

’’دیکھو چمیلی، جو شخص گاڑی چلاتا ہے، وہ چوکنا ہوتا ہے۔ وہ شیشوں کی مدد سے سامنے کے علاوہ دائیں بائیں اور پیچھے بھی دیکھتا ہے، خطرات کو محسوس کرتا ہے اور اُن سے بچاؤ کا اہتمام کرتا ہے۔ اُسے ڈر نہیں لگتا۔ لیکن جو لوگ اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں، آگے پیچھے دیکھنے کے بجائے چلانے والے کو دیکھتے رہتے ہیں۔ جن کے پاس گاڑی کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا، وہ بلاوجہ کے اندیشوں میں گرفتار رہتے ہیں۔ خیر… میں چلتی ہوں، مجھے تاخیر ہو رہی ہے۔‘‘ سوژان دروازے کی جانب بڑھی۔ چمیلی ’’خدا حافظ‘‘ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی آئی

٭٭

 

ایم۔ پلس چینل کے ایڈیٹنگ روم میں سوژان حسب معمول اپنے کام میں مصروف تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ سوژان نے آپریٹر سے کہہ رکھا تھا کہ اگر کام کے دوران فون آئے تو نمبر اور پیغام لکھ کر اُسے منقطع کر دیا جائے۔ دورانِ کار اُسے گپ شپ بالکل پسند نہیں تھی۔ اس طریقۂ کار کے باعث اسٹوڈیو کے اندر شاذو نادر ہی اس کے لئے کوئی فون آتا اور ایسے میں آپریٹر کا جواب ہوتا… ’’میڈم میٹنگ میں ہیں۔ کوئی ایمرجنسی ہو تو میں انہیں باہر بلا سکتی ہوں، ورنہ آپ اپنا پیغام درج کروا دیں۔‘‘

اکثر لوگ اپنا نام بتا کر فون بند کر دیتے تھے۔ دفتر میں کام کرنے والے اس سے اسٹوڈیو کے اندر رابطہ کرنے سے حتی الامکان گریز کرتے تھے۔ سوژان کے مطابق اس کا کام ایک جراحی کی مانند ہے۔ آپریشن کے دوران جس طرح کسی سرجن کو ڈسٹرب نہیں کیا جاتا بلکہ آپریشن تھیٹر سے باہر آنے کا انتظار کیا جاتا ہے، اُسی طرح کا معاملہ ایڈیٹر کے ساتھ بھی ہونا چاہئے۔ لوگ اس کی منطق کو سمجھ تو نہ پاتے تھے لیکن تسلیم کر لینے پر مجبور تھے۔ لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ ڈاکٹر کی لاپرواہی سے مریض کی جان جا سکتی ہے، اس کی سانسوں کا تار ٹوٹ سکتا ہے۔ جبکہ سوژان تو مردہ فلم پر کام کرتی تھی۔ اس کئے ان دونوں میں کیا مشابہت ہے؟

اس کے برعکس سوژان کے لئے یہ چلتی پھرتی تصویریں زندگی سے بھرپور ہوتی تھیں۔ وہ تصورِ خیال کی رَو کے ٹوٹ جانے کو اور کام کے دوران ذہنی انتشار کو فن پارے کی موت تصور کرتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ کام کے انہماک کا بکھرنا شیشے کے ٹوٹنے کی طرح ہے کہ ٹوٹ کے بکھر جانے کے بعد اس کو جوڑنے کی کوشش ہاتھوں کو لہو لہان تو کر دیتی ہے لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔ ہر جوڑ کے درمیان خون کی بال سے باریک لکیر موجود ہوتی تھی جو اس بات کی چغلی کر دیتی کہ یہ شیشہ ایک بار ٹوٹ چکا ہے، اُسے زبردستی جوڑا گیا ہے۔ اس ٹوٹ پھوٹ نے اس کی نازکی میں اضافہ کر دیا ہے۔ اب وہ نہایت کمزور ہو چکا ہے اور اسے دوبارہ منتشر کرنے کے لئے ایک معمولی جھٹکا کافی ہے۔ اس کی حالت بستر مرگ پر پڑے ہوئے مریض کی طرح ہے جس کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں اور کسی بھی لمحہ یہ سلسلہ بند ہو سکتا ہے۔ سوژان در اصل اپنے کام کے ساتھ سوتی جاگتی تھی، ہنستی روتی تھی، وہ اس کی زندگی کا حصہ تھا۔ بلکہ دھیرے دھیرے زندگی بنتا جا رہا تھا۔

یہ فون اس وقت بجا تھا جب سوژان اپنے کام کو سمیٹ رہی تھی، اس لئے لپک کر اس نے فون اُٹھا لیا۔ دوسری جانب جیکب تھا۔ اس نے کہا۔ ’’خلل اندازی کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔‘‘

سوژان پسیج گئی، وہ بولی۔ ’’کیسی بات کرتے ہیں جناب آپ؟‘‘

’’سوذان اگر ممکن ہو تو واپسی میں تم میرے دفتر سے ہوتے ہوئے جانا۔‘‘

’آپ اگر ضروری سمجھتے ہوں تو میں ابھی حاضر ہو جاتی ہوں۔‘‘

’’جی نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ میں کھانا کھاتے ہوئے یا کام کرتے ہوئے کسی قسم کا خلل پسند نہیں کرتا۔ اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی۔‘‘

’’شکریہ جناب! لیکن میرا کام مزید دو منٹ چلے گا۔‘‘

’’بہت خوب… تو تم پانچ منٹ بعد آ جاؤ۔‘‘

’’شکریہ جناب!‘‘ سوژان نے فون رکھ دیا۔

سوژان جب جیکب کے کمرے میں پہنچی تو جیکب نے کہا۔ ’’سوژان… کیسی ہو؟ خیریت تو ہے؟‘‘

’’جی ہاں سر… شکریہ!‘‘ سوژان نے مختصر سا جواب دیا۔

’’بہت خوب!‘‘ جیکب بولا۔ ’’سوژان! میں نے ایک خاص کام کے لئے تمہیں بلایا ہے جو تمہیں بڑی راز داری کے ساتھ کرنا ہے۔‘‘

’’فرمائیے سر! ایسا کیا ہے اِس کام میں کہ اِس کے لئے راز داری کی ضرورت پیش آ گئی۔ ہم لوگ تو تشہیر کی دُنیا میں جیتے ہیں اور شہرت کی خاطر مرتے ہیں۔‘‘

’’اسی لئے مجھے خوف محسوس ہوتا ہے۔ میرے ایک عزیز دوست ٹام پیٹرسن نے میری ذاتی زندگی پر ایک فلم بنا کر میرے حوالے کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کی ایڈیٹنگ ہو جائے۔ اُس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہو؟‘‘

’’کیا معاملہ…؟ میں کچھ سمجھی نہیں۔‘‘

’’میرا مطلب ہے … اُسے ریلیز کیا جائے یا نہیں؟‘‘

’’اچھا! میں سمجھ گئی۔‘‘

’’کیا سمجھیں؟‘‘

’’یہی کہ میں اس فلم کے بارے میں گوئی بات کسی اور کو اُس وقت تک نہیں بتلاؤں گی، جب تک کہ آپ مجھے اجازت نہ دیں؟‘‘

’’بہت خوب… اور یہ کہ ان لوگوں میں میرا دوست البرٹ بھی شامل ہے۔‘‘

’’جی ہاں سر… میں یہ بھی سمجھ گئی۔ بڑی راز داری کا کام ہے۔‘‘

’’بہت خوب!!‘‘ یہ کہہ کر جیکب نے اُسے ایک فلم کا بکس تھما دیا، جس پر لکھا تھا ’’جادو کا کھلونا‘‘!

٭٭

 

 

 

 

جادو کا کھلونا

 

جولیا نے اسٹوڈیو میں آ کر فلم لگائی تو اس میں پوری طرح گم ہو گئی۔

’’کیوں کیا تم نے یہ فیصلہ؟ آخر کیوں؟؟‘‘ جولیا نے چیختے ہوئے جیکب سے پوچھا۔

’’تمہاری خاطر! میری جان!‘‘ جیکب نے بردباری کے ساتھ مختصر جواب دیا۔

’’میری خاطر! میری خاطر تم نے ایسا خطرناک فیصلہ کر ڈالا، اور مجھ سے پوچھنا تو درکنار… مجھے بتایا تک نہیں؟‘‘

’’بتایا تو ہے … اسی لئے تو تم اس قدر پیچ و تاب کھا رہی ہو اور شاید یہی غلطی مجھ سے سرزد ہو گئی ہے۔ ہاں … پوچھا اس لئے نہیں کہ میں جانتا تھا کہ تم مجھے کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دو گی۔‘‘

’’اچھا! تو گویا تم اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ یہ میرے لئے کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ اس کے باوجود تم نے یہ فیصلہ کر لیا اور اس پر یہ خوش فہمی بھی کہ یہ میری خاطر کیا جانے والا اقدام ہے؟ مجھے نہ صرف افسوس بلکہ حیرت ہے۔‘‘ جولیا بے تکان بولے جا رہی تھی۔

’’جی ہاں جولیا! میں تم سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں۔ تمہاری یہ دونوں باتیں اتفاق سے صحیح ہیں۔‘‘

’’دیکھو جیکب… میں تمہارے اس طرح بہلانے پھسلانے سے ماننے والی نہیں ہوں۔ مجھے اپنے سوال کا جواب چاہئے، کیا سمجھے؟‘‘

’’میں تمہارے مزاج سے اچھی طرح واقف ہوں جولیا۔ تمہیں تو شیطان بھی ورغلا نہیں سکتا… میں تو ایک معمولی سا انسان ہوں۔‘‘

جیکب کی بات سن کر پہلی مرتبہ جولیا کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، وہ بولی۔ ’’جیکب! سچ تو یہ ہے کہ تمہارے آگے ابلیس بھی پانی بھرتا ہے۔ تم جو ہو نا… تم بڑے وہ ہو… لیکن اس کے باوجود تمہیں مجھے بتلانا ہو گا…‘‘

جیکب نے جملہ درمیان میں کاٹ دیا اور بولا۔ ’’جولیا! تمہارا غم و غصہّ اپنی جگہ بجا ہے۔ لیکن میں کیا کرتا؟ در اصل میرے سامنے کوئی اور متبادل بھی تو نہیں تھا؟ دولت کے بغیر تم سے شادی ممکن نہیں تھی اور دولت کا حصول اس کے بغیر نا ممکن تھا۔‘‘

’’کیا! کیا بکتے ہو جیکب؟ تم یہ تو نہیں کہنا چاہتے کہ ساری دنیا کے دولتمند اس طرح کے سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں؟ جیساکہ تم کرنے جا رہے ہو!‘‘

’’نہیں جولیا… میں نے یہ کب کہا۔ بہت سوں کو دولت و ثروت وراثت میں مل جاتی ہے اور کچھ لوگوں کو اس کے لئے برسوں محنت کرنی پڑتی ہے۔‘‘

’’تم بھی تو محنت کر سکتے تھے؟‘‘

’’ہاں! کیوں نہیں؟ میں محنت سے نہیں ڈرتا۔ لیکن برسوں کے انتظار سے ضرور ڈر لگتا ہے۔ اگر اس دوران…‘‘ جیکب کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔

رُک کیوں گئے؟ بولو… بولتے کیوں نہیں جیکب کہ تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے۔ تمہیں اندیشہ ہے کہ میں تمہارا انتظار نہیں کروں گی اور اس دوران…‘‘ جولیا رونے لگی۔

’’نہیں جولیا۔ تم غلط سمجھ رہی ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے تم پر اپنے آپ سے زیادہ اعتماد ہے۔‘‘

’’اچھا! اگر ایسا ہے تو…‘‘

’’ مجھے اندیشہ تم سے نہیں بلکہ تمہارے والد سے ہے۔ اگر اِس دوران انہوں نے تمہیں کسی اور کے گلے باندھ دیا تو میری ساری محنت پر پانی پھر جائے گا۔‘‘

’’تم جیکب! تم تو میرے والد سے بڑے سیاستدان ہو۔ ایک ایسے گھناؤنے منصوبے کے لئے تم میرے والد کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہو جو تم نے خود بنایا اور جس کا علم میرے والد کے فرشتوں تک کو نہیں۔ اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے؟‘‘

’’اگر میں کوئی الزام تراشی کر رہا ہوتا تو وہ یقیناً زیادتی ہوتی۔ لیکن میں نے ایسی جرأت کب کی ہے بھلا؟ میں تو صرف اپنی حقیقتِ حال کا اظہار کر رہا تھا۔‘‘

’’اچھا…! ہمیں بھی تو پتہ چلے ۰۰۰۰آپ کا حالِ دل۔‘‘ جولیا بولی

جیکب نے کہا ’’شکریہ! بات در اصل یہ ہے کہ تمہاری مانند تمہارے والد میرے دولتمند ہو جانے انتظار نہیں کر سکتے اور ان کے ایسا کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی تو نہیں ہے۔ تم تو جانتی ہی ہو کہ میرے متعلق تمہارے اور ان کے رجحانات یکسر متضاد ہیں۔‘‘

’’اچھا، وہ کیوں؟‘‘

’’اِس لئے کہ میں تمہارے لئے کچھ اور ہوں اور اُن کے لئے کچھ اور!!‘‘

’’تم اُن کے لئے جو کچھ بھی ہو، لیکن میں تو اُن کی بیٹی ہوں … اکلوتی بیٹی؟ اور وہ مجھ سے بے حد محبت کرتے ہیں۔‘‘

’’جی ہاں جولیا! میں جانتا ہوں، اور یہی پدرانہ محبت انہیں کسی صورت تمہارا نکاح مجھ جیسے پھکّڑ انسان سے کرنے نہیں دے گی۔‘‘

’’اچھا! تو کیا وہ مجھ سے پوچھے بغیر میرے بارے میں کوئی بڑا فیصلہ کر گزریں گے اور میں اُس کو بہ سر و چشم تسلیم کر لوں گی؟‘‘

’’ہاں! بدقسمتی سے مجھے ان دونوں باتوں کا روشن امکان نظر آتا ہے۔ میں سر ڈان بریڈمین کی حیثیت اور طبیعت دونوں سے واقف ہوں۔ وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ وہ کسی سے صلاح و مشورہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے، اور پھر اُن کے کسی بھی فیصلے سے سرتابی کی جرأت اس پورے علاقے میں کوئی بھی نہیں کر سکتا۔‘‘

’’کوئی بھی نہیں …؟‘‘

’’ہاں، تم بھی نہیں جولیا۔ اس لئے کہ میں، تم اور ہم سب اس بستی کے باشندے اُن کی رعیت میں شامل ہیں اور وہ ہمارے بارے میں ہر قسم کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔‘‘

جولیا بولی۔ ’’میں اس بات کو تسلیم کرتی ہوں کہ میرے والد کے بارے میں تمہاری معلومات درست ہے، لیکن افسوس کہ میرے بارے میں تمہارا اندازہ غلط ہے۔‘‘

’’ہو سکتا ہے۔‘‘ جیکب نے ہتھیار ڈال دئیے۔

’’لیکن اس سے قطع نظر کیا تم نے یہ سوچا کہ اگر اس کھیل میں تمہیں کچھ ہو جائے تو میرا کیا ہو گا؟‘‘

’’کیوں نہیں؟ میں نے تمام امکانات پر غور کرنے کے بعد بہت ہی سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔ یہ منصوبہ بظاہر خطرناک نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود اس میں کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔‘‘

’’یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟ دو افراد کا قتل ہو جائے اور اس سے کسی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ یہ کیونکر ممکن ہے؟‘‘

’’شاید تم نے منصوبے کو غور سے نہیں سنا۔ اِس حد تک تو تمہارا کہنا درست ہے کہ اس میں دو لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے گا۔ لیکن اُن میں سے پہلا شخص ہمارے باس انڈر ووڈ کا دشمن ہے اور اسے میں نہیں بلکہ باس کا ایک ایسا دستِ راست ریمنڈ قتل کرے گا جس پر باس شک کرنے لگا ہے۔ انڈرووڈ خود اس کا کانٹا نکال دینا چاہتا ہے۔ ایسے میں ریمنڈ نامی قاتل میری گولی کا نشانہ بنے گا۔ اس کے بعد ہمارے اس مشن کا سربراہ کیمرون پولیس کو لاشوں کا پتہ بتا دے گا اور محکمہ پولس خوشی خوشی ان دونوں مجرمین کو مار گرانے کا سہرہ اپنے سر باندھ لے گا۔ اس طرح گویا میرے جرم پر وہی لوگ پردہ ڈالیں گے جن کا کام مجرم کو گرفتار کرنا ہے۔ اس لئے کہ پولیس مجھے سزا دلوانے کی خاطر خود اپنا نقصان کرنے کی حماقت نہیں کرے گی۔‘‘

’’لیکن اگر تم یہ قتل نہیں کر پائے تو کیا ہو گا؟‘‘

’’یہ ضرور ایک خطرناک سوال ہے۔ اگر میں نے یہ قتل نہیں کیا تو کیمرون… جو اس پورے پلان کی نگرانی کر رہا ہو گا… وہ میرا اور ریمنڈ کا کام تمام کر دے گا۔ اس صورت میں پولیس کو دو کے بجائے تین مجرمین کو مار گرانے کا کریڈٹ مل جائے گا۔‘‘

’’لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تمہارے ریمنڈ کو قتل کر دینے کے باوجود کیمرون تم پر گولی چلا دے؟‘‘

’’نہیں … یہ نہیں ہو سکتا! اس لئے کہ اس میں انڈرووڈ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وہ گناہِ بے لذت میں یقین نہیں رکھتا۔‘‘

لیکن ریمنڈ کو مارنے میں انڈرووڈ کا کیا فائدہ ہے؟‘‘

’’تم بھول گئیں … باس کو اس پر شک ہے؟‘‘

’’کیا ریمنڈ اس بات کو جانتا ہے؟‘‘

’’نہیں؟‘‘

’’تو پھر یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ انڈرووڈ کو تم پر بھی شک ہو اور تم بھی اس سے ناواقف ہو؟‘‘

’’نہیں جولیا… انڈرووڈ کو اگر مجھ پر شک ہوتا تو باس مجھے اس اہم مہم کے لئے منتخب نہیں کرتا۔‘‘

’’لیکن تمہارے باس نے شک کے باوجود ریمنڈ کو بھی تو اس مشن کے لئے منتخب کیا ہے؟‘‘

جیکب جولیا کے اس سوال پر لاجواب ہو گیا۔ وہ بات بنانے کی خاطر بولا جولیا تم سوچتی بہت ہو اور بولتی بہت خوب ہو۔ جانتی بہت ہو، پھر سوال بہت اچھے کرتی ہو۔ تم ایک نہایت ذہین لڑکی ہو ہمارے باس انڈر ووڈ سے بھی زیادہ ہوشیار اسی لئے تم مجھے اس قدر اچھی لگتی ہو اور یہی وجہ ہے کہ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور اسی لئے میں یہ سب کر رہا ہوں۔‘‘

’’سچ؟‘‘ جولیا نے خوش ہو کر پوچھا۔

’’کیا تمہیں شک ہے؟‘‘

’’جی ہاں! اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہو کہ یہ سچ ہے؟‘‘

’’دل…؟ کیسا دل…؟ میرے سینے میں کوئی دل نہیں ہے۔ بس ایک پمپ ہے جو رگوں میں خون پھینکتا رہتا ہے۔ میں اپنے سینے سے دل نکال کر نہ جانے کب تمہیں دے چکا ہوں۔ اس لئے میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کچھ بھی کہہ سکتا ہوں۔ لیکن میں یہ بات تمہارے سر پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہا ہوں جولیا… اِس لئے کہ میں تمہارے سر پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ نہیں بول سکتا۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اِس لئے کہ میں اپنی ذات کی حد تک تو تمام خطرات سے کھیل سکتا ہوں، لیکن میرے جھوٹ بولنے سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے، یہ مجھے گوارہ نہیں ہے۔‘‘

’’اچھا… اتنا خیال ہے تمہیں میرا؟‘‘ جولیا نے پھر پوچھا۔

’’جی ہاں جولیا… اس سے بھی زیادہ۔‘‘

’’سچ؟؟‘‘

’’جولیا… بار بار تم مجھ سے یہ سوال نہ کیا کرو۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’مجھے رنج ہوتا ہے۔‘‘

’’واقعی؟‘‘

’’پھر تم نے سوال کر ڈالا۔‘‘

’’اچھا یہ بتاؤ کہ اس منصوبے کے خاتمے کے بعد تم کیا کرو گے؟ پیشہ ور قاتل بن جاؤ گے یا کانٹراکٹ کلر؟‘‘

’’نہیں جولیا! یہ میرا پہلا اور آخری جرم ہو گا۔ اس کے بدلے ایک کثیر رقم میرے ہاتھ لگے گی۔ میں اسے اور تمہیں لے کر دُور نکل جاؤں گا۔ دُور کہیں دُور… جہاں ہمیں کوئی بھی نہ جانتا ہو۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے ہمراہ ایک نئے جہان میں نکل جائیں گے اور وہاں اور اپنی نئی دنیا بسائیں گے۔‘‘

’’اور اگر میں تمہارے ساتھ آنے سے انکار کر دوں تو؟‘‘

’’یہ نہیں ہو سکتا جولیا… یہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘

’’سچ؟‘‘

’’ہاں … یہ سچ ہے … اس کائنات کا سب سے بڑا سچ۔‘‘

’’یقیناً…؟‘‘

’’صد فی صد یقیناً۔‘‘

جولیا خاموش خلاؤں میں دیکھنے لگی اور دیر تک نہ جانے کیا کیا سوچتی رہی۔ جیکب خاموشی کے گہرے سمندر میں نہ جانے کب تک غرقاب رہا، لیکن پھر ایک موج اُبھری… یہ جولیا تھی۔

’’اچھا تو سنو جیکب، میری بات غور سے سنو۔‘‘ پہلی مرتبہ جولیا سوال کرنے کے بجائے جواب دے رہی تھی۔ ’’مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لئے تمہیں اس قتل و غارت گری میں حصہ لینے کی چنداں ضرورت نہیں، ہم لوگ آج شام یہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔‘‘

’’ کیا؟ آج شام؟‘‘ اس بار جیکب نے سوال کیا۔

’ ’جی ہاں، آج شام۔‘‘

’’ لیکن کہاں؟‘‘

’’دور اُفق کے اُس پار جہاں ہم دونوں کو کوئی بھی نہیں جانتا۔ اس جہاں میں جو ہمارا منتظر ہے۔‘‘

’’سچ؟‘‘

’’ہاں سچ۔‘‘

’’یقیناً!‘‘

’’جی ہاں صد فیصد یقیناً اور دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔‘‘

فلم کا انٹرول ہو گیا، سوژان نے دفتر میں کام کرنے والے اردلی سے چائے منگوانے کی کوشش کی، لیکن غالباً بقیہ لوگوں کے ساتھ وہ بھی گھرجا چکا تھا۔ دفتر تقریباً خالی ہو گیا تھا۔ سوژان خود کچن میں گئی اور اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر لوٹ آئی۔ وہ اس بات کو بھول ہی گئی کہ اُسے ابو ظبی لوٹ کر جانا ہے جو ڈیڑھ سو کلومیٹر کی دُوری پر واقع ہے۔ پھر سے فلم چل پڑی تھی۔

٭٭

 

 

 

 

سر ڈان بریڈمین

 

سر ڈان بریڈمین ریاستِ ویلز کے گورنر تھے۔ ان کی نہایت مصروف عوامی زندگی تھی۔ دن بھر سیاست کے داؤں پیچ میں اُن کا وقت گزرتا تھا۔ اس کے باوجود اُن کی زندگی کا سب سے حسین گوشہ اپنی لاڈلی بیٹی جولیا کے لئے مختص تھا اور وہ اس میں کسی کو مخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ وہ جولیا کی تعلیم کے خاتمہ کا انتظار کر رہے تھے تاکہ اس کے بعد جولیا کے ہاتھ پیلے کر کے اپنی سب سے اہم ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائیں۔ سر ڈان بریڈمین جولیا کے لئے بیک وقت والد بھی تھے اور والدہ بھی، اسی کے ساتھ وہ اس کے دوست، ہمراز، غمخوار اور دمساز بھی تھے۔

جولیا کے بچپن میں اس کی ماں نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ سر ڈان اس شرط پر طلاق دینے کے لئے راضی ہو گئے تھے کہ جدائی کے بعد جولیا کو اُن کے حوالے کر دیا جائے گا اور پھر جولیا کی ماں کبھی بھی باپ بیٹی کی زندگی میں مداخلت کی مجاز نہیں ہو گی۔ حالانکہ ایک ماں کے لئے یہ ایک مشکل ترین آزمائش تھی مگر اس نے اس پر بھی صبر کر لیا اور باہم رضامندی کے ساتھ اپنی بیٹی سے ہمیشہ کے لئے دست بردار ہو گئی۔ اس طرح جولیا اپنی ماں کی صورت بھی نہ دیکھ سکی۔

سر ڈان بریڈمین نے اپنی بیٹی کا اِس قدر خیال رکھا کہ جولیا کو ماں کی کمی محسوس ہی نہ ہونے دی اور جب جولیا سنِ بلوغ کو پہنچی تو وہ بیٹی سے اپنے والد کی دوست بن گئی تھی۔ اس دوران جولیا کی ملاقات جیکب سے ہو گئی اور یہ نئی دوستی اس قدیم رفاقت پر غالب آ گئی جو طویل عرصہ کی عظیم قربانیوں پر محیط تھی۔

جولیا ایک معروضی اور منطقی طرزِ فکر رکھنے والی روشن خیال لڑکی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ گزرا ہوا ہر لمحہ اپنے تمام تر حسن و رعنائی کے باوجود ایک لاش کی مانند ہے جو اپنی عمر تمام کر چکا ہے اور زمانۂ ماضی اُن لاشوں کا طویل و عریض قبرستان ہے۔ وہ اس بات کو بھی جانتی تھی کہ ماضی کی لاش کو لامتناہی ڈھویا نہیں جا سکتا۔ ہر آنے والا کل گزشتہ کل کی تدفین کا متقاضی ہوتا ہے۔ ماضی اور مستقبل، موت اور زندگی کی طرح ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔

جولیا نے گھر آ کر شام کی تیاری شروع کر دی۔ ویسے تو وہ حسبِ معمول پُرسکون تھی، لیکن اس کے سامنے ایک بہت بڑا مسئلہ اپنے والد صاحب سے جھوٹ بولنے کا تھا۔ اس لئے کہ اس نے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں کیا تھا۔ شاید اس لئے کہ اسے کبھی اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی۔ اپنے اس مسئلہ کا حل جولیا نے اس طرح نکالا کہ براہِ راست والد صاحب کے بجائے اُن کی سکریٹری للی سے کہہ دیا کہ وہ اپنی سہیلی ثانیہ ہنڈرسن کے ساتھ دو ہفتوں کے لئے ایلپس کے پہاڑوں پر چھٹیاں منانے کے لئے جا رہی ہے اور ساتھ ہی اس بات کی تاکید بھی کر دی کہ وہ اس کی اطلاع والدِ محترم کو پہنچا دے۔

للی کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ باپ بیٹی کے درمیان ترسیل کے لئے وہ حائل ہوئی تھی۔ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ جولیا دو ہفتوں کے لئے نہیں، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جا رہی ہے۔ وہ ایسا کیوں کہہ رہا تھا؟ للی نہیں جانتی تھی۔ لیکن اسے یقین تھا کہ اس کا دل سچ کہہ رہا ہے۔ اِس کے باوجود ملازمت کا تقاضہ تھا کہ وہ دل کی نہیں، دماغ کی بات مانے۔ جو کچھ سنا ہے، اسے بغیر سوچے سمجھے اپنے آقا کے گوش گزار کر دے … اور بس… اُسے اسی کام کی تنخواہ ملتی تھی… اور اس نے یہی کیا۔

سر ڈان کے لئے یہ اطلاع کچھ عجیب سی تھی، لیکن وہ اپنی پیاری بیٹی کے بارے میں کچھ ایسا ویسا سوچنے کے بھی قائل نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے اس پر یقین کر لیا۔ لیکن جب جولیا کے گھر سے چلے جانے کے بعد ایک ہفتہ کا عرصہ گزر گیا اور اس نے اس دوران ایک مرتبہ بھی اپنے والد سے رابطہ قائم نہ کیا تو شکوک و شبہات نے ان کے دل میں سر اُبھارنا شروع کر دیا۔ مسٹر ڈان کا یقین متزلزل ہونے لگا تھا۔ بالآخر انہوں نے اپنی سکریٹری للی کو حکم دیا کہ وہ جولیا کی سہیلی سے رابطہ قائم کرے اور انہیں اس کی خیریت سے واقف کرائے۔ للی خود اِس حکم کے انتظار میں گھڑیاں گن رہی تھی۔ وہ نہ جانے کب سے یہ چاہتی تھی کہ سرڈان اس کو حکم دیں اور وہ پتہ چلائے کہ آخر جولیا گئی کہاں ہے؟ آقا کا حکم سنتے ہی للی نیچے کمرے میں گئی اور فون کا نمبر گھمانے لگی۔

اوپر کے کمرے میں سرڈان نے متوازی فون کو اُٹھا کر کان سے لگا لیا۔ براہِ راست استفسار کرنا سر ڈان کی عزت و ناموس کو ٹھیس پہنچاتا تھا، لیکن جولیا کی سہیلی کا جواب وہ خود سننا چاہتے تھے۔ جولیا کی قریب ترین سہیلی ثانیہ ہیڈرسن دوسری جانب فون لائن پر تھی۔ للی نے بغیر کسی تکلف کے سوال کیا جولیا کیسی ہے؟

ثانیہ نے کہا۔ ’’یہ آپ پوچھ رہی ہیں؟ در اصل گزشتہ ایک ہفتہ سے وہ میرے رابطہ میں نہیں … بلکہ میں آپ سے فون کر کے اس کی خیریت دریافت کرنا چاہتی تھی۔‘‘ للی کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ سوال سے اس کا جواب تلخ تر سوال تھا۔ للی نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولی۔ ’’وہ… بات ایسی ہے کہ جولیا آج کل کچھ اداس ہے۔ میں نے سوچا کہ شاید اس نے اپنی اداسی کی وجہ تمہیں بتلائی ہو۔ تم اس کی خاص سہیلی جو ہو۔ اس لئے میں نے فون کیا۔ تم بھی نہیں جانتیں خیر کوئی بات نہیں۔ دو چار دن میں اس کا موڈ ٹھیک ہو جائے گا تو میں خود پوچھ لوں گی۔

‘‘اچھا آنٹی آپ ایک کام کریں … جولیا سے کہیں اگر میرا فون نہ لینا ہے تو نہ لے، لیکن جب فرصت اور آمادگی ہو تو کم از کم مجھے فون کرے، میں اُس سے بات کرنے کے لئے بے چین ہوں۔‘‘

’’ضرور ثانیہ ضرور… میں جولیا کو تمہارا یہ پیغام ضرور دوں گی۔‘‘

’’میں اس سے ملاقات بھی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’جی ہاں بیٹی! مجھے یقین ہے کہ وہ جلد ہی تم سے ملے گی۔‘‘

’’شکریہ آنٹی… شکریہ۔‘‘ فون بند ہو گیا۔

للی نے آج کس قدر جھوٹ بولے تھے … جولیا اُداس ہے، یہ جھوٹ… وہ رابطہ قائم کرے گی، یہ اُس سے بڑا جھوٹ… اور ملاقات کرے گی، یہ سب سے بڑا جھوٹ! اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس قدر جھوٹ اُسے کس نے سجھائے تھے؟ شاید اس محترم گھر کی آبرو! اس کے تحفظ کی جستجو نے اسے ماہر کذاب بنا دیا تھا۔ للی کو ایسا محسوس ہوا کہ اگر وہ یہ ڈرامہ نہیں کرے گی تو شاید سر ڈان بریڈمین کی عزت و توقیر ملیامیٹ ہو جائے گی۔ ثانیہ سے تو للی نمٹ چکی تھی، لیکن اب اس سے بھی کٹھن مرحلہ باقی تھا… سر ڈان کو بتلانے کا مرحلہ۔ وہ عجیب شش و پنج میں گرفتار تھی۔ اس گتھی کو اگر کوئی سلجھا سکتا تھا، تو وہ ڈان خود تھا۔ لیکن اس کے لئے سرڈان کا حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری تھا۔

للی کے لئے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ آیا سر ڈان بریڈمین اس صدمے کو برداشت کر پائیں گے یا نہیں؟ اس خبر کو من و عن اُن تک پہچانا مناسب ہے یا اس میں کچھ کمی بیشی کر کے پیش کیا جائے؟ یہ اور اس جیسے نہ جانے کتنے سوالات تھے جن میں للی اُلجھی ہوئی تھی۔ کسی طرح اُس نے اپنے آپ کو سنبھالا، الفاظ کو اپنے ذہن میں مناسب ترتیب کے ساتھ سجایا اور بوجھل قدموں کے ساتھ زینے کی جانب چل پڑی۔

سرڈان کے کمرے کا فاصلہ جو للی پلک جھپکتے طے کر دیتی تھی، وہ آج میلوں طویل محسوس ہو رہا تھا۔ فاصلوں کی طوالت منزل کے احساس پر منحصر ہوتی ہے۔ اسی لئے فاصلے گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ للی اوپری منزل پر پہنچی تو پہلا کمرہ جولیا کا تھا۔ اس کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی… کاش کہ اندر سے جولیا کی آہٹ سنائی دے اور سارے شکوک شبہات کا یکسر خاتمہ ہو جائے۔ دروازے کے قریب پہنچ کر اُس نے دروازے کی دراڑ سے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔ ایسا اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ آج وہ ایسا کیوں کر رہی تھی؟ وہ نہیں جانتی تھی؟ حالانکہ وہ جانتی تھی کہ اس وقت کمرہ خالی ہے۔ پھر بھی اُس نے کمرے کی جانب ایک اُمید کے ساتھ دیکھا اور پھر حسرت بھری نگاہوں کے ساتھ آگے چل پڑی۔

سر ڈان کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ وہ کرسی پر براجمان تھے۔ کرسی کی پشت دروازے کی جانب تھی۔ للی کو صرف ان کا سر اور ہاتھ نظر آ رہے تھے۔ للی نے سوچا، اچھا ہے وہ سر ڈان سے آنکھ ملانے کی آزمائش سے بچ گئی۔ للی نے کھنکار کر اپنا گلا صاف کیا۔ اُسے توقع تھی کہ سر ڈان اس کی جانب متوجہ ہوں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ للی نے کہا۔ ’’سر… شاید میرے سمجھنے میں کوئی غلطی ہوئی۔ جولیا نے شاید کسی اور سہیلی کا نام بتلایا اور میں نے ثانیہ کا نام سنا۔ وہ ثانیہ کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ اپنی کسی اور سہیلی کے ساتھ ہے۔ ہمیں اس کی دوسری سہیلیوں سے رابطہ قائم کرنا ہو گا۔‘‘

للی سچ کو جھوٹ کا لباس پہنا کر پیش کر رہی تھی۔ اُسے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں سر ڈان اس کے غلط نام سننے پر اس پر برس نہ پڑیں۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ سر ڈان کی جانب سے کوئی حرکت نہ ہوئی، کہ اچانک للی کی نظر میز سے لٹکتے ہوئے فون پر پڑی۔ فون ہوا میں جھول رہا تھا۔ للی کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُسے لگا یہ فون نہیں سر ڈان کی لاش ہے جو پھانسی کے پھندے سے لٹکی جھول رہی ہے اور وہ سر ڈان کی لاش سے باتیں کر رہی ہے۔

للی آگے بڑھی اور کرسی کے پیچھے بیٹھے ڈان کو دیکھا تو اُن کا سر ایک جانب لڑھکا ہوا تھا، آنکھیں پتھرا گئی تھیں، ان آنکھوں میں ایک تصویر تھی… جولیا کی تصویر… پندرہ دن کی طویل مدت پندرہ سال بن گئی… وہ پندرہ سال جو سر ڈان نے پانچ سال کی جولیا کے ساتھ گزارے تھے … وہ عرصہ جس میں وہ اس کے باپ تھے، اُس کی ماں تھے اور دوست تھے۔ لیکن وہ حسین لمحے پتھر بن گئے تھے … گونگے بہرے پتھر! حسرت و یاس کی تصویر للی وہیں ڈھیر ہو گئی۔ سر ڈان کے قدموں بیٹھی دیر تک روتی رہی۔ اس طرح نہ جانے کتنی صدیاں گزر گئیں۔

للی اپنی جگہ سے اُٹھی۔ سامنے میز پر ایک فائل کھلی پڑی تھی۔ للی نے سوچا کہ شاید اِس فائل میں جولیا کا سراغ ہو۔ لیکن وہ تو وصیت نامہ تھا، جس میں لکھا تھا کہ سر ڈان بریڈمین اپنی ساری جائیداد للی واٹسن کے نام کر کے اِس دارِ فانی سے رُخصت ہو رہے ہیں۔ للی نے اس کاغذ کے پرزے کو اُٹھایا، اس کو چاک کیا اور نیچے پڑے کوڑے دان میں ڈال دیا۔ پھر اس کے بعد آہستہ سے وہ فون کے پاس آئی اور خاندانی ڈاکٹر کو اطلاع دی کہ مسٹر ڈان پر دل کا دورہ پڑا ہے، وہ جلد از جلد گھر آئیں۔ یہ ایک اور جھوٹ تھا جو للی نے کہا تھا۔ وہ اس قدر جھوٹ بول چکی تھی کہ ان کا شمار تک بھول گئی تھی۔

اس کے بعد للی اپنے کمرے میں گئی اور اپنی پرانی گٹھری تلاش کرنے لگی، جسے لے کر آج سے بیس سال قبل وہ اِس کوٹھی میں آئی تھی۔ جولیا کی دایا کی حیثیت سے اس نے یہاں قدم رکھا تھا۔ آج نہ جولیا تھی اور نہ ڈان۔ یہ حویلی اس کے لئے قبرستان بن چکی تھی۔ جولیا کی روح یہاں سے پرواز کر چکی تھی۔ سر ڈان کا لاشہ اوپر کمرے میں ڈاکٹروں کا انتظار کر رہا تھا تاکہ وہ آئیں اور ان کے مردہ ہونے کا اعلان کر دیں۔

للی اپنے کپڑے سمیٹ چکی تھی۔ اب اسے یہاں سے جانا تھا۔ کہاں جانا تھا؟ وہ نہیں جانتی تھی۔ جولیا کہاں چلی گئی؟ وہ نہیں جانتی تھی۔ سرڈان کہاں چلے گئے؟ یہ بھی نہیں جانتی تھی اور اسے کہاں جانا ہے؟ اس کی بھی اُسے خبر نہیں تھی۔ لیکن اتنا ضرور پتہ تھا کہ ’’ختم ہوئے دن اس ڈالی کے جس پر اس کا بسیرا تھا‘‘۔

سر ڈان کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے لے جایا جا رہا تھا تاکہ ان کی موت کی وجہ معلوم کی جا سکے۔ لیکن آج تک سائنس نے کوئی ایسا طریقہ ایجاد نہیں کیا تھا کہ وہ موت کی حقیقی وجہ بتلا سکے۔ للی جانتی تھی کہ موت کی وجہ حرکت قلب کا بند ہونا بتلایا جائے گا۔ لیکن حرکت قلب کیوں بند ہوئی؟ اس راز سے وہ بغیر کسی علم و فن کے اور بلا تفتیش و تحقیق کے واقف تھی۔

اگلے دن ڈربن کے تمام اخبارات میں ریاستِ ویلز کے گورنر سر ڈان بریڈمین کے موت کی خبر تصویر کے ساتھ شائع ہوئی۔ سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین کی تفصیلات بھی اخبارات میں موجود تھیں۔ جولیا اس روز جیکب سے لپٹ کر روئی اور خوب روئی تھی۔ آنسوؤں کی برسات اس کے دل کا بوجھ کم نہ کر سکی۔ وہ اپنے باپ کی قاتل تھی۔ اس نے سر ڈان بریڈ میں کا قتل کیا تھا…ہزمیجسٹی (عزت مآب) گورنر آف ویلز سر ڈان بریڈمین!

فلم کے آخری منظر میں سوگوار جیکب اور جولیا خاموش نہ جانے کب تک جھیل کے پانی میں چاند کا عکس دیکھتے رہے۔ کشتیوں کے آنے جانے سے پیدا ہونے والی لہریں عکس میں ارتعاش پیدا کرتی تھیں۔ لیکن کشتیوں کے آنے جانے سے یا لہروں کے اُٹھنے بیٹھنے سے چاند کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ تو دُور خلاؤں میں مسکرا رہا تھا اور زمین پر لوگ اس کی پرچھائیں پر آنسو بہا رہے تھے۔

آخری منظر کی فلمبندی اس قدر دلنشین انداز میں کی گئی تھی کہ اسے دیکھ کر سوژان کی آنکھوں سے آنسو کے دو قطرات کمپیوٹر کے کی بورڈ پر گرے اور پھیل گئے۔ اس جھیل کی مانند پھیل گئے جس میں نہ کوئی ارتعاش تھا اور نہ ہی لہر تھی۔ بس ایک چاند تھا… ایک چاند سا چہرہ تھا… ہنستا مسکراتا، سر ڈان بریڈ میں کا پر نور چہرہ!

٭٭

 

 

 

 

حسنِ اتفاق

 

سوژان ’’جادو کا کھلونا‘‘ کے سحر میں کچھ ایسی گرفتار ہوئی کہ اسے وقت کا خیال ہی نہ رہا۔ اس روز نہایت سرعت کے ساتھ گاڑی چلانے کے باوجود اُسے اچھی خاصی تاخیر ہو گئی۔ البرٹ اس کے انتظار میں بیٹھا بور ہوتا رہا۔ وہ اس کے ساتھ کسی پارٹی میں جانا چاہتا تھا۔ سفارت کاروں کی اپنی ایک چھوٹی سی دُنیا ہوتی ہے۔ وہ عام لوگوں سے ملنے میں احتراز برتتے ہیں لیکن آپس میں سرکاری خرچ پر ایک دوسرے کو بڑے بڑے ہوٹلوں میں دعوتیں دیتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کا قومی دن ویسے تو دو دن پہلے گزر چکا تھا لیکن کام کا دن ہونے باعث اس روز کسی بڑی تقریب کا اہتمام نہیں کیا جا سکا تھا اور گرانڈ پارٹی کو آخرِ ہفتہ تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ جس دن ہلٹن ہوٹل میں دعوت خاص کا اہتمام تھا سوژان کو لوٹنے میں تاخیر ہو گئی تھی۔

سوژان کو دیکھتے ہی البرٹ بولا۔ ’’سوژان کیا بات ہے؟ آج تم نے بڑی تاخیر کر دی۔ میں گزشتہ ایک گھنٹے سے فون پر فون کئے جا رہا ہوں۔ تم فون بھی نہیں لیتیں۔ آخر کیا ماجرا ہے؟‘‘

سوژان بولی۔ ’’فون؟ کون سا فون؟‘‘

البرٹ کو اس احمقانہ سوال پر ہنسی آ گئی، وہ بولا۔ ’’کون سا فون؟ وہی تمہارا موبائل فون جسے خریدنے میں تم نے دس پندرہ گھنٹے صرف کئے اور جو تمہارے پرس میں بیٹھا چیختا چلاتا رہتا ہے اور تم نے اس کی جانب دیکھ کر نہیں دیا۔‘‘

’’جی… جی میں سمجھ گئی۔‘‘ سوژان نے پرس کھول کر فون نکالا، وہ خاموشی پر تھا۔ اسٹوڈیو میں جانے سے قبل جو اُس کا گلا گھونٹ دیا گیا تواب تک وہ یوں ہی خاموش پڑا تھا۔ سوژان کو فون کی جانب توجہ دینے کی توفیق ہی نہیں ہوئی تھی۔ وہ تو نہ جانے کہاں کھوئی ہوئی تھی۔

سوژان بولی۔ ’’البرٹ… کیا آج کی اس دعوت میں جانا ضروری ہے؟‘‘ سوژان اُسے جیکب کی آپ بیتی سنانا چاہتی تھی۔ حالانکہ جیکب اسے منع کر چکا تھا، لیکن اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔

البرٹ کے لیے یہ سوال عجیب و غریب تھا۔ اس لئے کہ سوژان کو دعوتوں میں جانا اور لوگوں سے ملنا جلنا بے حد پسند تھا۔ آج وہ اُلٹا پوچھ رہی تھی۔ البرٹ نے کہا۔ ’’کیوں؟‘‘

’’بس یوں ہی! در اصل آج میں تم سے باتیں کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’ہاں ہاں … تو کیا اس پارٹی میں بات کرنے پر کوئی پابندی ہے؟ وہیں چل کر باتیں کریں گے۔‘‘

’’وہاں! وہاں بات کہاں ہوتی ہے؟‘‘

’’اچھا تو ہوتا کیا ہے؟ ملنا جلنا، بولنا سننا، اور کھانا پینا… اسی کا نام تو دعوت ہے۔‘‘

’’اور وہ جو گانا بجانا ہوتا ہے؟‘‘

’’جی ہاں … میں بھول گیا تھا۔ ناچنا گانا بھی ہوتا ہے۔ لیکن ان سب کے دوران بات چیت تو جاری ہی رہتی ہے۔ چلو جلدی چلو، وہ لوگ بُرا مانیں گے۔‘‘

’’لیکن مجھے جو کہنا ہے، اُس کا کیا؟‘‘

’’وہ تم راستے میں جاتے ہوئے آتے ہوئے اور وہاں بیٹھے بیٹھے کہہ دینا۔ جلدی چلو، ویسے ہی کافی تاخیر ہو چکی ہے۔‘‘

’’میں سمجھ گئی۔ آپ کے لئے میری کوئی اہمیت کب ہے؟ میں اور میری باتیں بھی آپ کے لئے اہم نہیں ہیں … بس اہمیت ہے تو دعوت کی۔‘‘

البرٹ کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر اس عورت کو آج کیا ہو گیا ہے؟ کہیں اس کا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے؟ البرٹ نے کہا۔ ’’اچھا ایسا کرو کہ پہلے تم اپنی بات بتاؤ، جہاں اتنی تاخیر وہاں کچھ اور تاخیر… پھر چلتے ہیں۔‘‘

’’ایسی بیزاری سے آپ میری بات سننا چاہتے ہیں تو مجھے نہیں بتانی آپ کو اپنی بات! چلئے آپ کی پارٹی میں چلتے ہیں۔ میرا کیا ہے … میں اپنی بات سینے میں دبائے بیٹھی رہوں گی۔‘‘ سوژان نے منھ بسور کر کہا۔

البرٹ نے موقع غنیمت جانا اور بولا۔ ’’یہ اچھا ہے … چلو چلتے ہیں۔ اگر تم اپنی بات نہیں بتانا چاہتی تو چلو یہی سہی۔‘‘

’’نہیں ایسی بات نہیں …یہ کہو کہ تم بتانا چاہتی ہو، میں سننا نہیں چاہتا۔‘‘

’’ٹھیک ہے بابا جو بھی سمجھو اور چلو۔‘‘

’’لیکن اس طرح؟ اس طرح میں کیسے چل سکتی ہوں؟ آپ بیٹھیں میں ذرا کپڑے تبدیل کر کے آتی ہوں۔‘‘

سوژان اُٹھ کر چلی گئی۔ البرٹ نے پھر ٹیلی ویژن کا بٹن دبا دیا اور یورو نیوز دیکھنے لگا۔ البرٹ کو یقین تھا کہ اب گھنٹے بھر کی فرصت ہے، لیکن اُسے مسرت کا ایک جھٹکا اس وقت لگا جب دس منٹ بعد خوشبو کا ایک جھونکا کمرے میں داخل ہوا۔ یہ سوژان تھی… چینی گڑیا کی طرح سجی اورسنوری ہوئی۔

٭٭

 

 

 

غضنفر جس وقت اُن دونوں کو لے کر ہلٹن ہوٹل پہنچا تو پارٹی کا آغاز ہو چکا تھا۔ لوگ کھا پی رہے تھے اسٹیج پر کوئی گلوکار ہندوستانی کلاسیکل گیت گا رہا تھا جسے شاید خود سفیر بھی نہیں سمجھ پا رہے تھے۔ خیر، ہندی روایات کا ڈھونگ رچانے کے لئے کچھ تو کرنا تھا سو یہ کیا گیا تھا۔ سوژان اس سے پہلے کئی مرتبہ ہندوستانی قونصل خانے کی دعوتوں میں شریک ہو چکی تھی اور دیگر ممالک کے سفراء اور ان کے اہل خانہ اس کے دوست بن چکے تھے۔ اس لئے اس نے مہمانوں پر نظر ڈالی تاکہ اپنی کسی سہیلی کے پاس جا کر بیٹھے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی فیصلہ کرتی۔

البرٹ بولا۔ ’’سوژان… وہ دیکھو تمہاری سہیلی رادھا اپنے کرشنن کے ساتھ دائیں جانب بیٹھی ہے۔‘‘

’’اوہو۰۰۰۰۰۰۰۰! مزہ آ گیا۔ ماننا پڑے گا البرٹ، تمہاری نظر عقاب کی مانند تیز ہے۔‘‘

’’تو کیا میں اپنی چھٹی سمجھوں؟ البرٹ نے طنزیہ انداز میں کہا۔

’’لیکن رادھا اور کرشنن یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘

’’وہی جو تم اور میں کر رہے ہیں۔ بھئی وہ لوگ ہندوستانی ہیں، ہمارے میزبان انہیں کے قومی دِن کو منانے کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔‘‘

’’جی ہاں ۰۰۰۰۰۰۰۔ مجھے پتہ ہے۔ لیکن پہلے تو میں نے انہیں یہاں کبھی نہیں دیکھا؟‘‘

’’اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ پہلے نہیں تو اب سہی۔‘‘

’’آپ صحیح کہتے ہیں۔ خیر… آپ بیٹھیں، میں اُن سے مل کر آتی ہوں۔‘‘

اس سے پہلے کہ سوژان ان کی جانب روانہ ہوتی، وہ دونوں ان کے پاس آ چکے تھے۔

کرشنن نے البرٹ کو سلام کیا۔ البرٹ نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا اور اسے قومی دن کی مبارکباد دی۔ کرشنن نے استقبال کیا اور آنے کی زحمت کے لئے شکریہ ادا کیا۔ ایسا لگ رہا تھا گویا کرشنن واقعی میزبان ہے۔‘‘

رادھا نے سوژان کو گلے لگایا اور بے حد مسرت کا اظہار کرتے ہوئے بولی۔ ’’فی الحال ہمارے پاس ہندوستان سے ایک بہت بڑے ناول نگار گنگادین آئے ہوئے ہیں۔ اُن کے سوانحی ناول ’’ترشول‘‘ کے انگریزی ترجمہ کا اجراء دو دن بعد کتب کی نمائش میں ہونے والا ہے۔ ہماری کمپنی آر۔ کے۔ پبلیکیشنز نے اسے شائع کیا ہے۔ میں اس تقریب میں شرکت کی دعوت دینے کے لئے تمہارے پاس آنے ہی والی تھی۔‘‘

’’اچھا… تو کس وقت ہے یہ رسم رونمائی کی تقریب؟‘‘

’’یہ پرسوں دوپہر تین بجے ورلڈ ٹریڈ سینٹر، دبئی میں ہے۔‘‘

’’اچھا… میں کل وہاں آنے ہی والی ہوں۔ در اصل میرے باس جیکب کی انعام یافتہ ڈاکیومنٹری ’’خوف‘‘ کی کل وہاں شیخ راشد ہال میں نمائش ہے۔‘‘

’’اوہو… عراق پر بنی ’’خوف‘‘ اس کے تو آج کل بڑے چرچے ہیں، بلکہ یوں ہے کہ میڈیا میں وہ چھائی ہوئی ہے۔‘‘

’’اچھا… اگر ایسا ہے تو تم بھی آنا، میں تمہیں جیکب سے ملوا بھی دوں گی۔‘‘

البرٹ بولا۔ ’’دو دن بعد کیوں …؟ وہ کیا… دائیں جانب عقب میں میرا پرانا دوست جیکب اپنی نئی بیوی ثنا کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔‘‘

رادھا کی سمجھ میں یہ نیا پرانا کا چکر نہیں آیا، وہ بولی۔ ’’اوہو جیکب بھی یہاں موجود ہے۔ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ میں ابھی تمہیں گنگادین اور ان کی اہلیہ نینا سے ملواتی ہوں۔ در اصل گنگادین ہندوستانی سفیر کے ذاتی دوست ہیں اور انہیں کے توسط سے ہم لوگ اس دعوت میں شریک ہوئے ہیں۔‘‘

’’یہ تو اچھا ہے۔ چلو، میں اُن کو بھی کل کی دعوت دئیے دیتی ہوں۔ جیکب کو ان سے مل کر یقیناً خوشی ہو گی۔ جیکب جانتا ہے کہ ’’ترشول‘‘ کا اجراء دہلی میں صدر جمہوریہ کے ہاتھوں ہوا تھا اور اس کے بعد سیاسی حلقوں میں زبردست ہنگامہ برپا ہو گیا۔‘‘

’’اچھا؟ اسے کیسے پتہ؟‘‘

’’بھئی ذرائع ابلاغ کے لوگ اگر اپنی ہی دنیا کے بارے میں نہ جانیں گے تو کون جانے گا؟‘‘

’’جی ہاں … مجھے بھی جیکب کے بارے میں پہلے گنگادین نے ہی بتلایا تھا، بعد میں اخبارات سے پتہ چلا۔‘‘

دونوں سہیلیاں گنگادین کے پاس پہنچیں تو نینا وہاں سے غائب تھی۔ وہ اپنی سہیلیوں میں مصروفِ عمل تھی۔ رادھا نے سوژان کا تعارف کروایا اور بتلایا کہ وہ فی الحال جیکب کے ساتھ کام کر رہی ہے اور ایک نئے سیریل کی فلمبندی کرنے جا رہی ہے۔

گنگادین یہ جان کر بہت خوش ہوا اور بولا۔ ’’سوژان… تم خوش قسمت ہو جو تمہیں جیکب جیسے باصلاحیت اور معروف فنکار کے ساتھ کام کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔‘‘

سوژان بولی۔ ’’جی ہاں! در اصل میں آپ کو اُن کی ڈاکیومینٹری ’’خوف‘‘ کی خصوصی نمائش کی دعوت دینے کے لئے حاضر ہوئی ہوں۔ وہ آپ کے اور آپ کی کتاب کے بارے میں جانتے ہیں۔ انہیں آپ سے مل کر یقیناً خوشی ہو گی۔‘‘

’’اچھا تو وہ دبئی میں ہے! میں نے تو ڈربن سنا تھا۔‘‘

’’جی ہاں۔ آپ نے صحیح سنا تھا۔ ایک زمانے تک وہ ڈربن میں رہے ہیں، لیکن فی الحال دبئی میں۔ بلکہ اس ہال میں موجود ہیں۔‘‘

’’یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ جیکب تو ایسی شخصیت ہے کہ میں اس سے ملنے کی خاطر جنوبی افریقہ کا سفر بھی کر سکتا ہوں۔‘‘

’’جی ہاں اور وہ بھی آپ سے ملنے ہندوستان جانے کی سوچ رہے تھے۔ خیر، یہ حسنِ اتفاق ہے کہ آپ لوگ ایک دوسرے سے یہیں امارات میں مل رہے ہیں۔‘‘

’’جی! تم نے وقت وغیرہ رادھا کو بتلا دیا ہو گا؟ اس لئے کہ فی الحال دبئی میں ہم لوگ اُنہیں کے اشارے پر چلتے ہیں۔‘‘

سوژان بولی۔ ’’ گنگادین جی، یہ آپ کرشنن کے بارے میں کہہ رہے ہیں یا رادھا کے؟‘‘

’’ایک ہی بات ہے بیٹی! ہم کرشنن کے اشارے پر اور کرشنن……‘‘

’’اَب آگے نہ کہیں، ورنہ کرشنن ناراض ہو جائیں گے۔‘‘

نینا وہاں پہنچ چکی تھی، وہ بولی۔ ’’اِس میں ناراضگی کی کیا بات ہے؟ انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہئے۔‘‘ اور تینوں خواتین ہنسنے لگیں۔

گنگادین حیرت سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ اس درمیان البرٹ، جیکب اور ثنا کے ساتھ اُن کے پاس پہنچ گیا۔ سوژان نے جیکب سے کرشنن کا تعارف کروایا تو کرشنن نے جیکب کو مبارکباد دینے کے بعد اس کا تعارف گنگادین سے کروایا، نیز اگلے دن ’’ترشول‘‘ کے رسمِ اجراء میں شرکت کی دعوت بھی دی۔ جب جیکب نے اس کے لئے حامی بھر دی تو کرشنن نے کہا۔

’’میں چاہتا ہوں آپ اس تقریب میں کتاب پر اپنے چند تاثراتی کلمات کا اظہار فرمائیں۔

جیکب کو کرشنن کی عقل پر ہنسی آئی، لیکن اس نے اپنے آپ پر ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں کسی ایسی کتاب پر تبصرہ کیسے کر سکتا ہوں جسے میں نے ابھی تک دیکھا تک نہیں؟‘‘

رادھا نے یہ سنتے ہی اپنے پرس کے اندر سے ’’ترشول‘‘ کے انگریزی ترجمہ کی ایک کاپی نکال کر گنگادین کو تھما دی۔ پہلے تو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا، لیکن جب نینا نے اشارہ کیا تو وہ سمجھ گئے۔ انہوں نے فوراً ’’ترشول‘‘ پر اپنے دستخط کر کے کتاب جیکب کے حوالے کر دی۔ کرشنن نے دانت نکال دیئے اور بولا۔ ’’صاحب اب تو آپ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب آپ نے دیکھی تک نہیں۔‘‘

’’جی ہاں! لیکن اس پر کچھ بولنے کے لئے اسے پڑھنا بھی تو پڑے گا۔‘‘

رادھا بولی۔ ’’جناب، آپ اسے ایک بار شروع تو کریں، پھر آپ کو پتہ ہی نہ چلے گا کہ یہ کب ختم ہو گئی۔‘‘

جیکب نے کہا۔ ’’اچھا؟ تو آج رات میں آپ کے اس دعویٰ کو آزما کر دیکھتا ہوں۔‘‘

کرشنن بولا۔ ’’ضرور۔ مجھے یقین ہے کہ کل ہم اس پر آپ کا تبصرہ سنیں گے۔‘‘جیکب نے کہا۔ ’’انشا اللہ!‘‘

پاس میں کھڑی ثنا کو جیکب کے انداز پر حیرت ہوئی۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ اُس کے اندر پرورش پانے والا نوزائیدہ ننھا سا معصوم یعقوب بول رہا ہے۔‘‘

اُس رات جیکب نے حسبِ وعدہ ’’ترشول‘‘ کو پڑھنے کے لئے کھولا اور پھر پڑھتا ہی چلا گیا۔

٭٭

 

 

 

 

ترشول

 

جمنا کے کنارے رام نگر نام کا ایک چھوٹا گاؤں آباد تھا۔ جمہوریت کے دَور میں جبکہ مقدار نے معیار کو پوری طرح زیر کر لیا تھا، اس ڈیڑھ دو سو مکان والے گاؤں کو کوئی پوچھتا نہ تھا۔ ورنہ اس گاؤں میں بہت ساری خوبیاں ایسی تھیں جن سے بڑے بڑے شہر محروم تھے۔ نہایت زرخیز علاقے کے لوگ تہذیبِ جدید سے ضرور بے بہرہ تھے، لیکن اعلیٰ انسانی قدروں سے آراستہ تھے۔ گاؤں میں ایک چھوٹا سا اسکول تھا جسے لالہ سنگت رائے نے قائم کیا تھا۔ وہ خود ہی اس اسکول کے منتظم بھی تھے اور پرنسپل بھی۔ وہاں بچوں کو پڑھاتے بھی تھے اور گاؤں والوں کا جڑی بوٹیوں سے علاج بھی کرتے تھے۔ بڑی مرنجان مرنج شخصیت پائی تھی لالہ جی نے، بڑی محبت تھی انہیں اپنی مٹی سے اور اپنے لوگوں سے۔ اسی لیے لاہور سے لے کر یورپ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے واپس اپنے گاؤں کا رُخ کیا تھا۔

لالہ جی اپنے گاوں میں بہت خوش تھے۔ پشتینی کھیتوں سے غلہ اور اناج اس قدر آ جاتا تھا کہ سال بھر کے بعد بھی کچھ نہ کچھ بچ ہی جاتا۔ بازار میں دوکان تھی، جسے چلاتے تو بھائی تھے لیکن منافع میں حصہ برابر دے جاتے تھے۔ لالہ جی کا دل کبھی بازار میں نہ لگا۔ وہ اپنے اسکول کے بچوں اور مریضوں میں مگن رہے۔

اس گاؤں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یہاں کوئی فقیر نہ تھا۔ ہر کسی کے پاس روزگار تھا اور دوسری خاص بات یہ کہ لالہ سنگت رائے کی کوششوں کے سبب یہاں کا ہر بچہ اسکول جاتا تھا۔ لالہ جی اردو فارسی انگریزی اور جرمن ان چاروں زبانوں پر مہارت رکھتے تھے۔ اپنے بیٹے کا نام انہوں نے گنگادین رکھا تو لوگوں نے اعتراض کیا۔ ’’یہ کیسا نام ہے … آدھا ہندو اور آدھا مسلم؟ نا تیتر نہ بٹیر؟‘‘

لالہ جی مسکرائے اور بولے۔ ’’دین زندگی گزارنے کے طریقہ کو کہتے ہیں … جیسے دھرم! لیکن گنگا کے ساتھ دھرم کچھ جچتا نہیں ہے، دین بالکل فٹ ہے۔‘‘

’’لیکن گنگا ہی کیوں؟‘‘ کسی نے ایک بار پوچھ لیا

’’میں چاہتا ہوں میرا بچہ گنگا کی طرح پوتر جیون گزارے۔ گنگا کی طرح لوگوں کے کام آئے، اُن کی تکلیفوں کو اپنے دامن میں سمیٹتا جائے اور انہیں سیراب کرتا جائے۔ لوگ اس سے اپنی پیاس بجھاتے رہیں، لیکن وہ گنگا کی طرح کبھی بھی خشک نہ ہو، اس میں کبھی طغیانی نہ آئے۔ لوگ اس سے خوشحالی حاصل کرتے رہیں، وہ روحانی اور جسمانی پاکی کا ذریعہ اور وسیلہ بنے۔‘‘

لالہ جی کی حیات میں گنگادین جوان ہوا تو چچا کے ساتھ بازار جانے لگا۔ لیکن ان کی موت کے بعد اس کا دل دنیا کی موہ مایا سے ہٹ گیا اور اس نے اسکول کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اپنے والد کے نسخوں والی پوتھی نکال کر اسے پڑھنے لگا اور نہ جانے کب وہ نسخے لکھنے بھی لگا۔ گاؤں والوں کو لالہ سنگت رائے کی جگہ گنگادین مل گیا۔ اس کی اپنی شخصیت تھی، وہ نہ لالہ تھا نہ رائے … ایک نہایت سیدھا سادہ کریم النفس انسان، جس کے اندر شرافت اور دردمندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ اُس کے والد محترم کی دعاؤں اور کوششوں کا نتیجہ تھی۔

رام نگر میں پڑوس کے قصبہ سے پہلی بار ایک شخص یہ پیغام لے کر آیا کہ کل یگ کے کرشن رام رتھ یاترا لے کر رام کی اس نگری میں آنے والے ہیں۔ یہ گاؤں والوں کے لیے مسرت کی بات تھی۔ پہلی بار کوئی سیاسی رہنما اُن کے گاؤں میں ایک نہایت نیک مقصد کی خاطر آنے والا تھا۔ سارا گاؤں اس کے خیر مقدم کی تیاریوں میں لگ گیا۔ اسکول کے میدان میں جلسۂ عام کا اہتمام کیا گیا۔ شام پانچ بجے رتھ یاترا پہنچنے والی تھی۔ اس لئے چار ہی بجے سے گہماگہمی شروع ہو گئی۔ اس طرح انتظار ہونے لگا جیسے بارات آنے والی ہے۔

لیکن ۵؍ کے ۶؍ اور ۷؍ بج گئے … دُور دُور تک نہ رتھ تھا نہ یاترا تھی۔ گنگادین نے گاؤں والوں سے کہا کہ وہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں، کھانا وغیرہ کھائیں۔ اگر یاترا آتی ہے تو نگاڑا بجے گا، ہرکارہ پکارے گا۔ اس وقت سب لوگ میدان میں جمع ہو جائیں۔ لوگ پشیمان اور پریشان اپنے گھروں کو لوٹ گئے، لیکن ۹؍ بجے کے آس پاس کسی نے آ کر خبر دی کہ چند گاڑیاں گاؤں کی جانب آ رہی ہیں۔ گنگادین فوراً نئی شیروانی پہن کر اور سر پر صافہ باندھ کر تیار ہو گئے۔ دیکھتے دیکھتے قافلہ آن پہنچا۔ سارا گاؤں نگاڑے کے شور میں ڈوب گیا۔

گنگا دین نے دیکھا کہ پہلے تو پولیس والے ہیں، پھر ایک بس ہے جسے رتھ کی طرح سجایا گیا اور پھر اس کے پیچھے کچھ گاڑیاں ہیں۔ راستہ کچھ ایسے سجایا گیا تھا کہ وہ اپنے آپ ہی اسکول کے میدان میں پہنچ گئے۔ وہاں پر گنگادین نے تمام مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور اپنے اسکول کے مہمان خانے میں لے گیا جہاں انواع اقسام کے کھانے سجے ہوئے تھے۔ مہمانوں کو نہ کرنے  کے باوجود چند نوالے کھانے پڑے۔ اس بیچ سارا گاؤں … بچے، جوان، بوڑھے، اور عورتیں … سب جمع ہو گئے تھے۔

گنگادین مائک پر آئے۔ انہوں نے اس دن کو رام نگر کے لیے ایک مبارک و یادگار دن قرار دیا اور لالوانی جی کو تقریر کی دعوت دی۔ گنگادین کی آواز اور لب و لہجہ نے تمام مہمانوں کو ششدر کر دیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس جیسے پُر وقار انداز میں بولنے والا شخص اِس قافلہ میں کوئی اور نہ تھا۔ گنگادین کے سامنے اس یاترا کے تمام شرکاء بونے معلوم ہوتے تھے۔ لالوانی جی بھی گنگادین سے بہت متاثر ہوئے تھے اور اُنہیں اس بات پر بھی تعجب ہوا کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں اتنے سارے لوگ کیوں کر جمع ہو گئے۔ لیکن جب اُنہیں پتہ چلا کہ ہر گھر کا فرد یہاں موجود ہے تو اُن کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ ایسا تو ایودھیا میں بھی ممکن نہ تھا۔ شاید اِس لیے کہ وہاں کے لوگ رتھ یاترا کی سیاست سے واقف تھے، لیکن یہ نادان و ناواقف حضرات کمال جوش و خروش کے ساتھ لالوانی جی کی تقریر سننے کے لیے جمع ہو گئے تھے۔

گنگا دین کے بعد لالوانی کی تقریر ہوئی جس میں گاؤں والوں کو بتلایا گیا کہ بابر نام کے کسی بادشاہ نے رام جنم بھومی پر واقع مندر کو توڑ کر وہاں اپنے نام سے ایک مسجد کی تعمیر کر دی تھی۔ اس مقام پر دوبارہ رام کا مندر بنانے کے لیے رام رتھ یاترا نکلی ہوئی ہے اور تمام گاؤں والوں کو اس بات کی دعوت دی گئی کہ وہ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایودھیا چلیں۔ رام نگر کے لوگوں کے لیے یہ ایک حیرت انگیز انکشاف تھا۔ حالانکہ ان لوگوں نے رامائن پڑھی تھی۔ رام چرت مانس وہ سنتے تھے، ہنومان چالیسا کا برابر پاٹھ ہوتا تھا، اسکول میں تاریخ بھی پڑھائی جاتی تھی جس میں نہ صرف رام بلکہ بابر کا بھی ذکر ہوتا تھا۔ لیکن کہیں یہ واقعہ درج نہیں تھا۔ اس کے باوجود گاؤں والوں نے لالوانی جی کی باتوں پر اعتماد کر لیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اُن کے گاؤں میں آنے والے لالوانی جی پہلے سیاستداں تھے، اس لیے یہ لوگ سیاستدانوں کی دروغ گوئی سے نابلد تھے۔ جب لالوانی نے لوگوں سے کہا ’’نکلو ہمارے ساتھ چلو‘‘ تو سارا گاؤں تیار ہو گیا۔ ان لوگوں نے کہا۔ ’’ہم فوراً کیسے نکل سکتے ہیں؟ ایسا کیجئے کہ آپ ایک دو دن کے لیے یہاں رُک جائیے، تب تک ہم اپنے ہاتھ کے کام نمٹا دیں۔ پھر آپ کے ساتھ چلے چلتے ہیں۔‘‘

لالوانی جی کو اُن کی معصومیت پر ہنسی آ گئی، انہوں نے کہا۔ ’’ارے بھئی میں نے کہا چلو۔ اِس کا مطلب یہ تھوڑے ہی ہے کہ ابھی فوراً چلو! میرا مطلب تو یہ تھا کہ ۳۰ اکتوبر کو آپ لوگ ایودھیا آئیں۔ ہم نہیں رُک سکتے ہمارا آگے کا دورہ طے ہے۔‘‘

’’اچھا! تو یہ بات ہے۔ لیکن ہم تو نہیں جانتے ایودھیا کتنی دور ہے اور کیسے آنا ہے؟ اگر آپ ساتھ ہوتے …؟‘‘ یہ کہہ کر اسکول ٹیچر مشرا جی رُک گئے۔

لالوانی جی بولے۔ ’’ کوئی بات نہیں۔ ایودھیا کے لیے آپ کو قریب کے اسٹیشن سے ریل گاڑی مل جائے گی اور ایودھیا پہنچنے کے بعد پھر تو وہاں رام بھکتوں کا راج ہو گا۔‘‘

یہ سن کر مشرا جی جھینپ گئے۔ لالوانی جی کی منطق بزرگوں کی سمجھ میں تو آ گئی لیکن گاؤں کے نوجوانوں کا جوش تھا کہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ وہ کہنے لگے۔ ’’آپ ایودھیا جب بھی پہنچیں، لیکن ساتھ ہمیں لے چلیں ہم لوگ آپ کی خدمت کریں گے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ اس تجویز پر ہم غور کریں گے۔‘‘ لالوانی جی نے وعدہ کیا کہ ’’کچھ دیر بعد مشورہ کر کے اپنا فیصلہ بتلا دیں گے۔‘‘

لالوانی جی جب مشورے کے لیے بیٹھے تو اُن کے ساتھیوں میں اختلاف ہو گیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اچھا ہے نوجوان ساتھ رہیں گے تو سیوا ہوتی رہے گی، آرام رہے گا۔ مختلف جلسوں میں کچھ بھیڑ بھاڑ بھی بنی رہے گی۔ لیکن اعتراض کرنے والے کہہ رہے تھے کہ ایک بلاوجہ کا دردِ سرلگا رہے گا۔ ان کے لیے سواری اور رہائش کا انتظام کرنا پڑے گا اس لئے فائدہ کم اور پریشانی زیادہ ہو گی۔ لیکن بالآخر پہلی رائے پر اتفاق ہوا اور لالوانی جی نے آ کر اعلان کیا کہ ہم آپ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کو ساتھ رکھنے میں ہمیں خوشی ہو گی۔ لیکن ہمارے پاس آپ لوگوں کے لیے سواری کا بندوبست نہیں ہیں، اس کا کیا کیا جائے؟‘‘

نوجوانوں نے کہا۔ ’’آپ اس کی فکر نہ کریں۔ ہمارے گاؤں میں اکیس ٹرک ہیں۔ ہم اُن میں سے ایک کو اس کام کے لیے فارغ کریں گے اور اس میں اپنے بستر لگا دیں گے۔‘‘

یہ سن کر لالوانی جی اور ان کے ساتھی چونک پڑے۔ ٹرک میں تو آپ کو بہت تکلیف ہو گی؟‘‘ نوجوان بولے

’’کیسی تکلیف صاحب…؟ آپ تو مندر کی خاطر جان دینے کی بات کر رہے تھے۔ ہم تو بس ذرا سی تکلیف اُٹھا رہے ہیں۔‘‘

لالوانی جی ڈر گئے۔ یہ تو ہر بات کو سچ سمجھنے لگے ہیں … خیر انہوں نے کہا۔ ’’بہت اچھا، آپ لوگ تیاری کیجئے۔ کل صبح تڑکے میں ہم لوگ نکل پڑیں گے۔‘‘

نوجوان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ گنگادین بھی بہت خوش تھے۔ اپنے گاؤں کے نوجوانوں نے اس کا سر فخر سے اونچا کر دیا تھا۔ گھر آ کر انہوں نے اپنے چچا سے کہا۔ ’’چچا جان! کل صبح میں ایک نہایت مقدس سفر پر روانہ ہو رہا ہوں۔ نہ جانے کب واپسی ہو؟ اور نہ جانے واپسی ہو بھی کہ نہ ہو؟ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے بڑے بیٹے سنتوش کو اسکول کے لیے فارغ کر دیں۔ ویسے وہ شام میں دوا خانے پر آتا رہا ہے۔ بہت سارے نسخے اُسے یاد ہو گئے ہیں۔ پتاجی کی پرمپرا کو جاری رہنا چاہیے۔‘‘

جمناداس اپنے بھتیجے کی بات سن کر خوش ہو گئے، انہوں نے کہا۔ ’’بیٹے تم اس کی چنتا چھوڑ دو۔ تم نے اتنے مہان تیاگ کی پرتگیا کی ہے۔ ہم تمہارے راستے کا روڑا نہیں بنیں گے بلکہ حتی الامکان تمہارا ہاتھ بٹائیں گے۔ رہا سوال اسکول اور دوا خانے کا تو آج سے میرا بیٹا سنتوش اس کام کے لیے وقف ہے۔ ویسے میں اس پر زبردستی نہیں کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے سنتوش کی جانب دیکھا۔‘‘

سنتوش سمجھ گیا کہ والد اس کی مرضی جاننا چاہتے ہیں۔ اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کی اِچھّا ہی میرے لیے آدیش ہے۔ میں اسے اپنا سوبھاگیہ سمجھتا ہوں۔ آپ لوگوں کے آشیرواد سے میں اس لوک کلیان کے کام میں اپنا سب کچھ نچھاور کر دوں گا اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کروں گا۔‘‘

سارا خاندان سنتوش کی یقین دہانی سے خوش ہو گیا اور گنگادین اپنی تیاری میں لگ گیا۔

صبح جب لالوانی جی اپنے رتھ کی جانب بڑھے تو اُنہیں ہرگز اس بات کی اُمید نہیں تھی۔ گنگادین بھی یاترا میں شامل ہو جائیں گے، وہ اس بات سے چونک پڑے اور بولے۔ ’’آپ کیوں کشٹ کرتے ہیں؟‘‘

گنگادین نے کہا۔ ’’کیا بات کرتے ہیں آپ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے نوجوان اِس پونیہ کاریہ میں شامل ہوں اور میں پیچھے رہ جاؤں؟ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ میں نے سب سے پہلے ارادہ کیا تھا، اسی کے بعد یہ آگے بڑھے۔ اب میں ان کے ساتھ وشواس گھات نہیں کر سکتا۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کے لیے انتظامات؟‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے ساتھیوں کی جانب دیکھا۔

اُن میں سے ایک بولا۔ ’’ہماری گاڑی میں تو پہلے ہی تین آدمی ہیں۔‘‘

دُوسرا بولا۔ ’’ویسے ہماری گاڑی میں جگہ ہے، لیکن گاڑی کی حالت کوئی ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

تیسرے نے کہا۔ ’’گنگادین، آپ کے آ جانے سے یہاں اسکول کا کام رُک جائے گا۔ آپ براہِ راست ۳۰؍ اکتوبر کو ایودھیا آ جائیں یہی ٹھیک ہے۔‘‘

گنگادین بولے۔ ’’نہیں، اسکول کا بندوبست ہم نے کر لیا ہے۔ میرا بھتیجا سنتوش اس کی دیکھ بھال کرے گا۔‘‘

سادھوی نینا نے کہا۔ ’’دیکھئے، ہماری گاڑی میں ہمارے ساتھ کیول(صرف) سادھوی سبھدار ہیں۔ لیکن سامنے ڈرائیور کے بغل میں جگہ خالی ہے۔ اس پر اگر گنگادین جی مناسب سمجھیں تو…؟‘‘ یہ کہہ کر وہ رُک گئیں۔

گنگادین بولے۔ ’’نہیں … میں آپ لوگوں کو پریشان کرنا نہیں چاہتا۔ ہمارے گاؤں کا ٹرک ہے جس میں ہمارے نوجوان ہیں۔ میں اُن ہی کے ساتھ رہوں گا۔ آپ لوگ بلاوجہ کی چنتا نہ کریں۔‘‘

’’آپ ٹرک میں …؟‘‘ سب نے حیرت سے کہا۔

گنگادین بولے۔ ’’کیوں نہیں؟ ٹرک میں لوگ نہیں چلتے؟ ہم بھی چلیں گے اور پھر اتنے سارے لوگ تو چل ہی رہے ہیں۔‘‘

لالوانی جی بولے۔ ’’ جی نہیں! اُن کی بات اور ہے اور آپ کی بات اور ہے۔‘‘

’’کیا بات کر رہے ہیں آپ لالوانی جی…؟ ہم اور آپ سب کے سب رام کے بھکت ہیں۔ ہمارے بھیتر کیسا بھید بھاؤ؟ میں انہیں کے ساتھ رہوں گا۔ آپ لوگ میری چنتا چھوڑ دیں۔‘‘

خیر، قافلہ روانہ ہو گیا۔ سب سے آگے لالوانی جی کا رتھ تھا اور سب سے آخر میں گنگادین کا ٹرک۔

٭٭

 

 

 

 

رام بھروسے

 

رام رتھ یاترا جب اپنے اگلے پڑاؤ لکشمی نگر میں پہنچی تو اس میں ۲۰؍ کے بجائے ۶۰؍ لوگ تھے۔ اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر سیٹھ مایا پرساد گھبرا گئے۔ اُن کی کوٹھی میں ۲۰؍ مہمانوں کی گنجائش مشکل سے نکالی گئی تھی۔ لیکن یہ جو چالیس لوگ فاضل آ گئے تھے، اُن کا تو حساب کتاب ہی نہیں تھا۔ انہوں نے وِنود جی کو کنارے بلا کر کہا۔ ’’یہ وانر سینا کہاں سے پکڑ لائے؟‘‘

وِنود جی نے کہا۔ ’’یہ رام نگر کے نوجوان ہیں۔ کیا کریں، زبردستی ساتھ ہو لئے۔ میں نے بہت سمجھایا، لیکن نہ وہ مانے نہ یہ مانے‘‘ اشارہ لالوانی جی کی طرف تھا۔

سیٹھ جی نے کہا۔ ’’وِنود جی آپ تو شکوے شکایت کا دفتر کھول کر بیٹھ گئے۔ اب یہ بتلائیے کہ ان کا کریں کیا؟‘‘

وِنود جی نے کہا۔ ’’یہاں کوئی دھرم شالا وغیرہ تو ہو گی ہی، وہیں ان سب کو بھیج دیں۔‘‘

سیٹھ جی نے کہا۔ ’’بھئی دھرم شالا تو بڑی خستہ حال ہے۔ وہاں آج کل جاتا ہی کون ہے؟ غریب تیرتھ یاتری سال میں دوچار بار قیام کرتے ہیں۔‘‘

’’ہاں تو یہ لوگ غریب بھی ہیں اور یاتری بھی… بلا تکلف بھیج دیجئے۔‘‘

’’لیکن اگر انہیں تکلیف ہوئی تو؟‘‘

’’تو کیا…؟ واپس چلے جائیں گے اور ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں، واپس چلے جائیں۔ بلا و جہ کی اس مصیبت سے پیچھا چھوٹے۔‘‘

سیٹھ جی بولے۔ ’’آپ کے اس مشورے میں دو پریشانیاں ہیں۔ ایک تو اس سے میری بے عزتی ہوتی ہے …‘‘

ونود جی نے چونک کر پوچھا ’’آپ کی بے عزتی…؟ میں سمجھا نہیں؟‘‘ سیٹھ جی بولے ’’در اصل بات یہ ہے کہ دھرم شالہ کا انتظام و انصرام میرے ذمہ ہے۔ اب اگر لوگ اس کی خستہ حالی دیکھیں گے تو میرے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے؟‘‘

وِنود جی نے کہا۔ ’’دیکھئے آپ نے ہندوتوا کی سربلندی کے لیے جو عظیم قربانیاں دی ہیں، اس سے سب واقف ہیں۔ اس لئے آپ کے عزت و احترام میں تو کوئی کمی نہیں ہو گی۔‘‘

’’چلو مان لیا۔ لیکن پھر بھی اپنے معزز مہمانوں سے دھرم شالہ میں رہنے کے لئے کہنے کی جرأت بھی میں اپنے اندر نہیں پاتا۔‘‘

ونود جی نے کہا ’’ارے سیٹھ جی آپ اتنی ذرا سی بات کو لے کر پریشان ہو رہے ہیں۔ لالوانی جی سے پوچھ کر میں اُن سے یہ کہے دیتا ہوں۔‘‘

لالوانی جی بلا توقف وِنود جی کے قائل ہو گئے۔ اِس لیے کہ سیٹھ جی کی کوٹھی میں یہ ۴۰؍ لوگ سبھی کے لیے دردِسر تھے۔ ونود جی باہر گئے۔ اُنہوں نے کہا۔ ’’دیکھئے … یہ کوٹھی بہت چھوٹی ہے۔ اس میں ہم سب نہیں رہ سکتے۔ اس لیے ہم لوگ دھرم شالہ میں قیام کریں گے۔‘‘

نوجوانوں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘

سیٹھ جی کا ڈرائیور رام کھلاون دھرم شالہ تک رہنمائی کے لیے ساتھ ہو لیا۔ رام کھلاون لپک کر ٹرک میں بیٹھ گیا اور ٹرک دھرم شالہ کی جانب چل پڑا۔ نوجوان سوچ رہے تھے کہ سارا قافلہ اُن کے پیچھے آئے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اُنہیں سب سے زیادہ حیرت اِس بات پر تھی کہ گنگادین بھی پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھے۔ وہ سوچنے لگے کہ کل رات تک تو انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ رام نگر کی ننھی سی گنگا ندی ایک بڑے سے سمندر میں جا ملی ہے، لیکن آج صبح اُنہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے منبع گنگوتری سے بھی محروم ہو گئی ہے۔

گنگادین حمام سے باہر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ نوجوان غائب ہیں۔ اُنہیں اندیشہ ہوا کہ کہیں واپس تو نہیں چلے گئے …؟ لیکن اُن کا دل کہہ رہا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے وِنود جی سے دریافت کیا۔ ’’ہمارے نوجوان کہاں ہیں؟‘‘

وِنود جی نے بتایا۔ ’’وہ پاس کی دھرم شالا میں آرام کر رہے ہیں۔‘‘

گنگادین نے حیرت سے پوچھا۔ ’’وہ اُدھر اور ہم اِدھر…؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

وِنود جی نے کہا۔ ’’گنگادین جی، آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔ سیٹھ جی کے مکان پر اتنے سارے لوگوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ سوچ کر کہ انہیں زحمت ہو گی، ہم نے دھرم شالہ بھجوا دیا۔ اس گاؤں کی دھرم شالا بڑی شاندار ہے۔ آس پاس کے تمام تیرتھ یاتری یہاں رُک کر آرام کرنے کے بعد ہی آگے جاتے ہیں۔ ہمارے سیٹھ دھرم داس ہی اس کا انتظام و انصرام کرتے ہیں، بڑے سخی داتا ہیں۔‘‘

گنگادین نے کہا۔ ’’اگر واقعی دھرم شالا اِتنی اچھی ہے تو ہم سب کو وہیں جانا چاہئے تھا۔‘‘

یہ سن کر ونود جی چونک پڑے۔ اُن کی تقریر انہیں کے خلاف پڑ گئی تھی۔ لیکن انہوں نے پھر اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا۔ ’’جی ہاں … آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ ہم بھی یہی چاہتے تھے، لیکن سیٹھ جی ناراض ہونے لگے۔ اب اپنے میزبان کا بھی تو کچھ نہ کچھ خیال کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اُن کی خاطر ہم یہاں رُک جائیں اور نوجوانوں کو وہاں بھجوا دیں۔‘‘

گنگادین نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے … آپ لوگ سیٹھ جی کو ناراض نہیں کر سکتے اور میں اپنے نوجوانوں کو ناراض نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں اُن کے پاس جاتا ہوں۔‘‘

’’ارے ارے …! آپ یہ کیا کر رہے ہیں گنگادین جی؟‘‘ وِنود جی نے کہا۔ ’’آپ ایسا نہ کریں۔ اِس سے لالوانی جی کو بڑا دُکھ ہو گا۔ آپ اُن کی اجازت کے بغیر چلے جائیں گے تو یہ نظم کی خلاف ورزی ہو گی۔ آپ اُن سے پوچھ کر جائیں یا رُکیں آپ کی مرضی ہے۔ جو ٹھیک لگے، کریں لیکن بہرحال وہ ہمارے نیتا ہیں۔‘‘

گنگادین نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’میں اُن سے کیوں پوچھوں؟ نوجوانوں کو دھرم شالا بھیجنے سے پہلے انہوں نے مجھ سے کب پوچھا؟‘‘

ونود جی نے پھر پینترا بدلا۔ ’’وہ تو آپ سے پوچھنا چاہتے تھے، لیکن آپ حمام میں تھے اور وہاں سے نکل کر آپ پوجا پاٹھ میں لگ گئے۔ ہم لوگوں نے خلل اندازی کو مناسب نہیں سمجھا، ورنہ آپ سے ضرور پوچھتے۔‘‘

گنگادین نے کہا۔ ’’دیکھئے اَب وقت ضائع کرنے سے فائدہ نہیں ہے۔ وہ بھی مجھے سمجھائیں گے شاید… لیکن یہ تو نا ممکن ہے کہ میں اپنے نوجوانوں کے بغیر یہاں رُکوں۔‘‘

وِنود جی بولے۔ ’’نہیں لالوانی جی… آپ کے جذبات کی قدردانی ضرور کریں گے … وہ بڑے سمجھدار رہنما ہیں۔ آپ بس ان سے اجازت لے لیں اور جو چاہیں کریں۔ ویسے ہماری خواہش تو یہی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ یہیں رُکیں۔‘‘

گنگادین راضی ہو گئے اور بولے ’خیر چلئے … لالوانی جی کے پاس دو منٹ اور لگے گا۔‘‘

لالوانی جی کا کمرہ کوٹھی کے آخری سرے پر تھا۔ جب یہ دونوں وہاں پہنچے تو کمرہ بند تھا۔ واپس ہوتے ہوئے دونوں سے سادھوی نینا راستہ میں ٹکرا گئیں۔

وِنود جی نے اُن سے پوچھا۔ ’’لالوانی جی کہاں ہیں؟‘‘ تو وہ بولیں۔ ’’ابھی سیٹھ جی آئے تھے ناشتے کے لیے بلانے، شاید انہیں کے ساتھ گئے ہیں۔

چلئے ہم لوگ بھی وہیں جا رہے ہیں۔‘‘

سادھوی نینا نے گنگادین سے پوچھا۔ ’’کیسا لگ رہا ہے آپ کو رام جی کا یہ بن باس؟ جس طرح رام جی اپنا راج پاٹ چھوڑ کر بن باس پر نکلے تھے، ویسے ہی ہم بھی نکلے ہیں۔ تاکہ راون کو شکست دے کر لنکا فتح کی جائے۔ اب ہر بڑی کامیابی کے لیے تکلیف تو اُٹھانی ہی پڑتی ہے؟‘‘

گنگادین کو نینا کی بات اچھی لگی۔ انہوں نے پوچھا۔ ’’لیکن ہم کسے شکست دیں گے اور کیا فتح کریں گے؟‘‘

سادھوی نینا اس سوال سے گھبرا گئیں اور انہوں نے سبھدرا کی جانب دیکھا۔ سبھدرا نے کہا۔ ’’یہ سوال بہت اہم ہے۔

’’ہم بابر کو شکست دیں گے اور دہلی کو فتح کریں گے۔‘‘

اب معاملہ اور زیادہ اُلجھ گیا۔ گنگادین نے پوچھا۔ ’’لیکن بابر کہاں ہے؟ وہ تو زمانہ ہوا مر گیا اور لنکا فتح کرنے کے لیے رام جی لنکا گئے تھے … دہلی فتح کرنے کے لیے ہم لوگ ایودھیا کیوں جا رہے ہیں؟‘‘

سبھدرا مسکرائیں۔ ’’گنگادین… آپ تو بڑے ذہین آدمی ہیں۔ خوب سوچتے ہیں اور خوب پوچھتے ہیں۔ ہمارے پریوار میں تو کسی نے ابھی تک ایسے پرشن نہیں کئے۔‘‘

نینا نے جھٹ کہا۔ ’’در اصل ہمارے پریوار میں لوگ صرف سنتے ہیں اور بولتے ہیں، سوچتے کہاں ہیں! اور جو سوچتا نہیں وہ سمجھتا نہیں، جو سمجھتا نہیں وہ پوچھتا نہیں۔‘‘

گنگا دین نینا کے فلسفے میں کچھ ایسے اُلجھے کہ اپنا سوال بھول گئے۔ اب وہ لوگ دیوان خانے کے دروازے پر کھڑے تھے جہاں سے مختلف انواع کے کھانوں کی خوشبوئیں اُٹھ رہی تھیں۔ جیسے ہی یہ لوگ وہاں پہنچے، سبھی نے اُن کا سواگت کیا۔ لالوانی جی نے آگے بڑھ کر گنگادین کو اپنے پاس بلایا اور بٹھا کر پوچھا۔ ’’کیوں … سب خیریت تو ہے؟‘‘

گنگادین نے کہا۔ ’’ہاں! میں تو خیریت سے ہوں لیکن مجھے اپنے نوجوانوں کی فکر ہے۔ انہیں نہ جانے کہاں دھرم شالا میں بھجوا دیا گیا ہے؟ میں ان کے پاس جانا چاہتا ہوں۔‘‘

لالوانی جی نے کہا ’’ہاں ہاں، چلے جائیے گا۔ آپ کو کون منع کرتا ہے؟ دوچار نوالے ناشتہ ہمارے ساتھ کر لیجئے، پھر نکل جائیے گا‘‘۔

’’آپ کا شکریہ۔‘‘ گنگادین نے کہا۔ ’’ناشتہ تو وہاں بھی ہو گا، میں ان ہی کے ساتھ ناشتہ کر لوں گا۔‘‘

یہ سن کر دوسرے لوگوں نے بھی گنگادین کو سمجھانا شروع کر دیا۔

لالوانی جی نے اپنے حواریوں کی جانب دیکھا اور اونچی آواز میں بولے۔ ’’کون پوچھ رہا تھا کہ یہ نوجوان گنگادین سے محبت کیوں کرتے ہیں؟ ہم سے کیوں نہیں کرتے؟ تم نے نوجوانوں کی محبت تو دیکھی، لیکن گنگادین کی محبت نہیں دیکھی۔ دیکھو یہ صبح سے کتنا پریشان ہے اِسے مت روکو۔ یہ نہیں رُکے گا۔ یہ اُن کے بغیر ایک نوالہ نہیں کھائے گا۔ اسے اُن تک پہنچا دو۔ ونود جی… انہیں دھرم شالا پہچانے کا بندوبست کیجئے۔‘‘

ونود جی بادل ناخواستہ اُٹھے اور گنگادین کے ساتھ باہر آ گئے۔

سادھوی نینا نے کہا۔ ’’یہ اپنے پریوار میں نئے ہیں۔ ان کے دل میں اپنے رہنماؤں کی محبت ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے یہ ہمیں چھوڑ کر اُن نوجوانوں کے پاس جا رہے ہیں۔ ویسے یہ نظم و ضبط کی خلاف ورزی بھی ہے۔ جب اِن سے کہا گیا کہ یہاں رُکو تو انہیں یہیں رُکنا چاہئے۔‘‘

لالوانی جی نے کہا۔ ’’نہیں نینا… ایسی بات نہیں۔ محبت محبت سے پیدا ہوتی ہے۔ جو جس سے محبت کرتا ہے، وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ ہم گنگادین سے محبت نہیں کرتے اور نہ گنگادین ہم سے محبت کرتا ہے۔ نوجوان اس سے محبت کرتے ہیں اور وہ اُن سے محبت کرتا ہے۔ جذبۂ محبت کسی حدود و قیود کا پابند نہیں ہے۔ اسے نظم و ضبط کی زنجیروں میں جکڑا نہیں جا سکتا۔‘‘

سبھدرا جی بولیں۔ ’’گنگادین بہت کام کے آدمی ہیں۔ ان کا ہمارے پریوار میں آنا بہت ضروری ہے اور نظم و ضبط کی پابندی کے بغیر تو یہ ممکن نہیں۔ اس لیے ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا؟‘‘۔ لالوانی جی نے جواب دیا۔ ’’یہ تو بہت آسان ہے۔ یا تو ہم ان سے محبت کریں یا اُن نوجوانوں سے محبت کریں جن سے گنگادین کو محبت ہے۔ اپنے آپ گنگادین کے دل میں ہمارے تئیں محبت و عقیدت پیدا ہو جائے گی۔‘‘ لالوانی جی پہلی بار نظم و ضبط کے بجائے محبت و عقیدت کا درس دے رہے تھے جو اُن کے ہمنواؤں کو کچھ اَٹ پٹا سا لگ رہا تھا۔

 

 

گنگادین کو دھرم شالا میں آتا دیکھ کر نوجوان خوشی سے کھل اُٹھے۔ سب دوڑے دوڑے اُن کے آس پاس جمع ہو گئے۔ کچھ دیر خاموشی رہی، پھر ایک نے کہا۔ ’’پنڈت جی! ہم تو مایوس ہو گئے تھے۔ ہم نے سوچا کہ آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ اب آپ ہمارے پاس کبھی لوٹ کر نہیں آئیں

گنگادین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، وہ بولے۔ ’’یہ تم نے کیسے سوچ لیا؟ اچھا یہ بتاؤ ناشتہ واشتہ کیا کہ نہیں؟‘‘

’’کیسا ناشتہ؟‘‘ دُوسرا بولا۔ ’’بازار سے حلوائی آیا تھا اور اس نے کہا کہ جن لوگوں کو ناشتہ کرنا ہے رام بھروسے ہندو ہوٹل پر آ کر ناشتہ کر لیں۔ ہم لوگوں نے من بنا لیا تھا کہ ہم آپ کے بغیر ایک نوالہ زبان پر نہ رکھیں گے، اس لیے کوئی نہیں گیا‘‘۔

’’چلو اچھا کیا…‘‘ گنگادین بولے۔ ’’…ورنہ مجھے اکیلے جانا پڑتا۔ خیر چلو اب چلتے ہیں۔ سورج سر پر آنے لگا ہے۔‘‘

ایک نوجوان نے پوچھا۔ ’’آپ نے وہاں کوٹھی پر ناشتہ نہیں کیا؟‘‘

گنگادین اُسے ڈانٹتے ہوئے بولے۔ ’’کیا بکتے ہو؟ تم لوگوں کے بغیر میں ناشتہ کیسے کر سکتا تھا؟ چلو جلدی کرو، مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ نوجوان جلدی جلدی کھڑے ہو گئے اور پھر ایک جلوس کی طرح بازار میں رام بھروسے حلوائی کی دوکان پر جا پہنچے۔

حلوائی نے جب چالیس نوجوانوں کے اس ٹڈی دل کو دیکھا تو گھبرا گیا۔ وہ دوڑا دوڑا باہر آیا اور کہنے لگا ’’ آئیے آئیے۔‘‘ لیکن اِس ذرا سے ہوٹل میں آٹھ دس افراد سے زیادہ کی گنجائش ہی نہ تھی۔ فوراً اسے اپنی کم مائے گی کا احساس ہو گیا۔ اس نے کہا۔ ’’ارے آپ اتنے سارے لوگ ہیں، مجھے تو اندازہ ہی نہ تھا… اور پھر غلطی میری ہی ہے … سیٹھ جی کے ڈرائیور نے گاڑی میں سے آواز لگا کر کہا کہ کچھ لوگ دھرم شالا میں ہیں۔ اُن کے ناشتے کا بندوبست کر دو۔ نہ میں نے پوچھا نہ اس نے بتلایا۔ میں نے سوچا ہوں گے پانچ چھ لوگ! خیر…‘‘ اُس نے گنگادین سے کہا۔ ’’ججمان… آپ اندر بیٹھیں۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ سامنے پیپل کے نیچے ان سب کے بیٹھنے کا بندوبست کرتا ہوں۔‘‘

گنگادین نے کہا۔ ’’نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ ہم کھڑے کھڑے ناشتہ کر لیں گے۔‘‘

رام بھروسے بولا۔ ’’نہیں صاحب نہیں …… آپ ہمارے مہمان ہیں، ہم آپ کے ساتھ ایسا سلوک کیسے کر سکتے ہیں؟ اور پھر اتنے سارے لوگوں کا ناشتہ بنانے میں تھوڑا وقت تو لگے گا ہی۔ آپ لوگ بیٹھیں، میں ابھی سب کچھ ٹھیک ٹھا کر دیتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ اُس نے ایک پرانی قناط نکالی، اُسے جھٹکا تو اس میں سے دھول کا ایک طوفان سا اُٹھا۔ پھر وہ اپنے نوکر کی مدد سے اسے اُٹھا کر سامنے کھڑے پیپل کے پیڑ کے نیچے لے گیا اور وہاں اسے بچھا دی۔

نوجوان اس گندی قناط کو دیکھ رہے تھے کہ گنگادین آگے بڑھ کر اس پر بیٹھ گئے۔ اُن کی دیکھا دیکھی سب بیٹھ گئے۔ جن کو اس پر جگہ نہ ملی وہ اپنا انگوچھا بچھا کر زمین پر بیٹھ گئے۔ پورے بازار میں یہ عجب منظر تھا۔ اتنے سارے لوگ کبھی اس بازار نے نہ دیکھے تھے اور سب سے خاص بات یہ خریدار نہیں تھے۔ یہ ہندوتوا کا فلسفہ بیچنے کے لئے آئے تھے۔

رام بھروسے ہوٹل کے اندر جا کر اپنے کام میں جٹ گیا۔ لیکن گنگادین سمجھ گئے کہ وہ اگر اُلٹا بھی لٹک جائے تو ایک گھنٹہ سے پہلے ناشتہ تیار نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا۔ ’’نوجوانو… ایسا کرو بازار ٹہل لو، تب تک ناشتہ بن جائے گا اور وقت بھی گزر جائے گا۔‘‘

نوجوانوں نے حامی بھری۔ اُن میں سے کئی ایسے بھی تھے جو کبھی رام نگر کے باہر نہیں نکلے تھے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں نکل پڑے۔ ہر ٹولی اپنی دلچسپی کی دُکان میں پہنچ گئی۔ جو بڑھئی تھے، وہ بڑھئی کے یہاں جا پہنچے، جو لوہار تھے انہوں نے لوہار کا رُخ کیا۔ کچھ لوگ درزی کی دُکان پر کھڑے تھے، کوئی موچی سے اپنی چپل سلوا رہا تھا۔ دو چار اساتذہ تھے، وہ اسکول کی جانب چل پڑے کہ دیکھیں یہاں پڑھائی کیسے ہوتی ہے؟

یہ لوگ جہاں بھی گئے، رام مندر کا چرچا شروع ہو گیا۔ گاؤں والوں کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ کچھ لوگ ان کے پاس بالواسطہ آئے تھے۔ ورنہ یہ ہوتا کہ جو لوگ بھی باہر سے آتے، وہ سیٹھ جی کی کوٹھی میں بند ہو جاتے۔ شام میں سیٹھ مایا پرساد کی موٹر میں بیٹھ کر میدان میں آتے جہاں سبھا ہوتی، تقریریں ہوتیں اور اس کے بعد وہاں سے دوبارہ وہ کوٹھی کی جانب روانہ ہو جاتے۔ یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں؟ کہاں چلے جاتے ہیں؟ اس کا کوئی پتہ گاؤں والوں کو نہ ہوتا، بلکہ یہ کون لوگ ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ یہ بھی گاؤں والے نہ جانتے تھے۔

گاؤں کے کچھ لوگ اپنا وقت گزارنے کے لیے جلسہ گاہ آ جاتے اور تقریر سے محظوظ ہو کر چلے جاتے۔ گویا یہ سب ان کے لیے ایک تفریح کا سامان تھا۔ لیکن اس بار صورتحال مختلف تھی۔ یہ نووارد افراد اُن سے مل رہے تھے، اُن سے باتیں کر رہے تھے … اپنی سنا رہے تھے، اُن کی سن رہے تھے۔

یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ ہر کوئی ان کی خدمت کر رہا تھا۔ کسی نے اپنی دُکان ہی پر اُن کی ضیافت کا بندوبست کر دیا۔ کوئی انہیں اپنے گھر لے گیا۔

کچھ دیر بعد حالت یہ تھی کہ اکیلا گنگادین نیم کے پیڑ تلے بیٹھا سوچ رہا تھا۔ سیٹھ مایا پرساد کی شاندار کوٹھی اور یہ ٹوٹی پھوٹی دھرم شالا… سیٹھ جی کا دیوان خانہ اور یہ رام بھروسے ہوٹل… اُسے نینا کی بات یاد آئی… ’’عظیم فتح کے لیے تکلیف اُٹھانی ہی پڑتی ہے … رام جی کو بھی بن باس پر نکلنا ہی پڑا تھا۔‘‘ اُسے لگا، بن باس پر تو اس کے نوجوان نکلے ہوئے ہیں لیکن کیا فتح اُن کے حصہ میں آئے گی یا کوئی راون اُسے اغوا کر کے سیٹھ جی کے محل میں لے جائے گا اور دعوت اُڑائے گا؟ ان کی آتما نے کہا… کل یگ ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد رام بھروسے حلوائی کا ناشتہ تیار ہو گیا اور وہ گنگادین کے پاس آیا۔ اُس نے کہا۔ ’’ججمان! ناشتہ تیار ہے۔ کہاں ہیں آپ کے ساتھی؟‘‘۔

گنگادین کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا، وہ بولے۔ ’’مجھے نہیں معلوم؟‘‘۔

’’ارے! آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے اتنا سارا ناشتہ بنایا ہے، یہ تو ایک ہفتہ میں بھی ختم نہیں ہو گا۔ سب کچھ خراب ہو جائے گا، میں تو برباد ہو جاؤں گا۔‘‘

گنگادین مسکرائے، انہوں نے کہا۔ ’’میں تو ہوں میرے لیے ناشتہ لاؤ اور دیکھو اپنے لیے بھی لانا۔‘‘

’اپنے لیے …؟‘‘ یہ جملہ سن کر رام بھروسے چونک پڑا اور دوہرایا۔ ’’اپنے لیے؟‘‘

گنگا دین نے کہا ’’ہاں ہاں … اپنے لیے! کیوں … تم اپنے ہوٹل کا بنا پکوان نہیں کھاتے ہو کیا؟‘‘

ہوٹل کا مالک بولا ’’نہیں صاحب، ایسی بات نہیں۔ ہم بھی کھاتے ہیں؟‘‘گنگادین نے پوچھا۔ ’’پھر پریشانی کس بات کی ہے؟‘‘

’’صاحب… بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی گاہک نے ہم سے یہ نہیں کہا کہ میرے ساتھ ناشتہ کرو۔ آپ پہلے آدمی ہیں۔ خیر، آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں کام میں ایسا غرق ہوا کہ کھانا بھی بھول گیا۔ میں اپنا ناشتہ بھی لاتا ہوں۔‘‘

گنگادین نے پوچھا۔ ’’اور وہ تمہارا نوکر…؟‘‘

’’ہاں ہاں … کلو، وہ بھی بھوکا ہو گا۔ میں نے اسے موقع ہی نہیں دیا۔‘‘ تھوڑی دیر بعد یہ تینوں نیم کے نیچے ناشتہ کر رہے تھے۔ رام بھروسے پوچھنے لگا۔ ’’آپ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ کس مقصد کے لیے یہ سفر کر رہے ہیں؟‘‘… وغیرہ۔ لیکن جب ناشتہ اور سوالات دونوں ختم ہو گئے تو رام بھروسے نے کلو سے کہا۔ ’’جا… دو چائے جلدی سے بنا کر لے آ۔‘‘

گنگادین بولے۔ ’’دو نہیں … تین۔‘‘

رام بھروسے ہنستے ہوئے بولا۔ ’’اُس کی ضرورت نہیں۔ آپ کلو کو نہیں جانتے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ ہمارے لیے چائے بنائے اور خود نہ پیئے۔‘‘

خیر رام بھروسے نے پھر سوال کیا۔ ’’یہ آپ کے نوجوان کہاں چلے گئے؟ اگر یہ نہ آئے تو……؟‘‘

گنگادین نے کہا۔ ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ گاہک کھائے یا نہ کھائے … تمہارا مال تو بک چکا۔ تمہیں سیٹھ جی سے پیسے مل جائیں گے۔‘‘

رام بھروسے بولا۔ ’’نہیں جناب… آپ سیٹھ جی کو نہیں جانتے۔ وہ نہایت بخیل اور شکی قسم کے آدمی ہیں۔ وہ پہلے مجھ سے پوچھیں گے، پھر آپ سے پوچھیں گے، کتنے لوگوں نے ناشتہ کیا۔ پھر کلو سے پوچھیں گے، تب جا کر میرا پیسہ چکائیں گے اور وہ بھی نہ جانے کتنے مہینوں کے بعد۔‘‘

’’اچھا، ایسی بات ہے! ونود جی تو کہہ رہے تھے کہ بڑے سخی آدمی ہیں۔‘‘

رام بھروسے نے کہا۔ ’’ونود جی کے لیے سخی ہوں گے، لیکن گاؤں والوں کے لیے تو نہیں۔‘‘

گنگادین نے کہا۔ ’’تم چنتا نہ کرو، ہم سب ایک ہی جواب دیں گے۔‘‘

رام بھروسے بولا۔ ’’وہ کیا؟‘‘۔

’’یہی کہ ہم سب نے ناشتہ کیا!‘‘۔

رام بھروسے نے استفہامیہ انداز میں کہا۔ ’’یہ تو جھوٹ ہے؟‘‘

گنگادین بولے۔ ’’یہ جھوٹ نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہیں گے کہ رام بھروسے کہ ہوٹل میں سب نے ناشتہ کیا۔ بلکہ صرف سب نے ناشتہ کیا اور یہ سچ ہے کہ جس کسی نے جہاں کہیں بھی ناشتہ کیا ہو… ناشتہ تو سبھی نے کیا ہی ہے۔‘‘

رام بھروسے اُن کا چہرہ دیکھ رہا تھا

۔ گنگادین ہنسے اور انہوں نے کہا۔ ’’ایک بات بتلاؤں … ہر کسی نے مفت میں ناشتہ کیا۔ کسی نے پیسہ نہیں دیئے۔ اب کسی نہ کسی کو پیسے دینے ہی ہوں گے، سو سیٹھ جی دیں گے۔‘‘ رام بھروسے کو گنگادین نے اسی طرح گھما دیا تھا جیسے سادھوی سبھدرا نے اپنی باتوں میں اُنہیں گھما دیا تھا۔ ہندوتوا پریوار کی چانکیہ نیتی وہ بڑی تیزی سے سیکھ رہے تھے۔

٭٭

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں