FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

بنیادی عقائد

 

حصہ اول

 

(مقدمۃ فی العقیدۃ للقیروانی کی شرح کا اردو ترجمہ)

 

                مولف : فضیلۃ الشیخ عبد المحسن حمد العباد(حفظہ اللہ)

                مترجم : فضیلۃ الشیخ عبد اللہ ناصر رحمانی(حفظہ اللہ)

 

 

 

 

مقدمہ از مترجم

 

 

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین امام المتقین وقدوۃ الکاملین وعلی آلہ وصحبہ واہل طاعتہ أجمعین ، وبعد:

 

زیرِ نظر کتاب ہمارے ادارہ”مکتبۃ عبد اللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام” کی ایک تنہائی فخریہ پیشکش ہے ، اس انتہائی اہم اور نافع کتاب کو پی کرتے ہوئے ہم اپنے خالق و مالک کے سامنے اظہارِ شکر کیلئے سربسجود ہیں۔ فنحمداللہ تعالیٰ ونشکرہ فبنعمتہ وفضلہ سبحانہ وتعالیٰ تتم الصالحات۔

یہ کتاب اصول و فروع کا ایک حسین امتزاج ہونے کے ساتھ ساتھ ، تمام مسائل کو کتاب و سنت و اقوالِ سلف صالحین کی روشنی میں پیش کرنے کا گرانقدر مجموعہ ہے ۔

امام عبد اللہ ابو محمد بن ابی زید القیروانی، جن کا چوتھی صدی ہجری کے محدثین و فقہاء میں شمار ہوتا ہے نے ” الرسالۃ” کے نام سے ایک مبسوط کتاب تالیف فرمائی، اس کتاب پر ایک نہایت مختصر مگر جامع مقدمہ تحریر فرمایا ، جو اگرچہ چند سطور پر مشتمل ہے ، مگر اس پر علوم و معارف اور معانی و مطالب کا ایک بحرِ زخار موجزن ہے ۔

یہ بات بالکل درست اور مبنی بر حقیقت ہے کہ ابن ابی زید نے اصول و فروع کے حوالے سے ان چند سطور کے کوزے میں دریا بند کر دیا ہے ۔ اس مختصر مقدمہ کو وقت کے عظیم محدث ، سابق وائس چانسلر مدینہ یونیورسٹی کتبِ کثیرہ و نافعہ کے مؤلف ، فضیلۃ الشیخ عبد المحسن بن حمد العباد حفظہ اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت نفیس اور لطیف شرح کے ساتھ مزین ، منور اور معطر فرما دیا ۔

شیخ موصوف و محترم نے ہر مسئلہ پر قرآن و حدیث کے دلائل کا انبار لگا دیا ہے ، نیز جا بجا اقوالِ أئمہ سلف کے ذکر سے کتاب کی اہمیت و افادیت کو مزید بڑھا کر اس کے حسن میں چار چاند لگا دیئے ۔

شیخ عبد المحسن بن حمد العباد جو عصرِ حاضر میں منہجِ سلف صالحین اہل الحدیث کے امین و محافظ تصور کیئے جاتے ہیں، تحریر و تقریر میں بڑے نمایاں اور منفرد مقام کے حامل ہیں۔ زیرِ نظر کتاب ہمارے اس مؤقف کی پوری پوری تائید کرے گی۔ ہمارا یہ متواضع سا ادارہ جو اپنی تأسیس کا ایک سال مکمل کر چکا ہے ، اس لحاظ سے انتہائی منفرد و متمیز ہے کہ اس کے اہداف و مقاصد میں سرِ فہرست موضوع” اہتمام بالعقیدۃ السلفیۃ” ہے ، ہماری اب تک نشر ہونے والی تمام کتب کا بنیادی موضوع عقیدہ ہی ہے ، بالخصوص” توحید اسماء وصفات” کے حوالہ سے ہمارے ادارہ کی جہود انتہائی قابلِ قدر اور لائق تحسین وستائش ہیں۔ ” وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء”

قارئین کرام! اس قدر اہتمامِ عقیدہ سے ہمارا مقصود ، لوگوں کو اس اہم موضوع سے روشناس کرانا ہے ، کیونکہ عقیدہ ، دینِ اسلام کی اساس ہے ، قبولِ اعمال کا انحصار ، اصلاحِ عقیدہ پر ہے (دیگر شرائط و قیود کی پابندی کے ساتھ ساتھ ) بالخصوص آج کے پر فتن دور میں تو عقیدہ کی معرفت نہایت ہی مؤکد و مہم ہے ، رسول اللہﷺ نے پر فتن دور میں ان لوگوں کو کامیاب اور فائز المرام قرار دیا ہے جو اس صافی منہج کو سینے سے لگائے بیٹھیں گے جسے اصحابِ رسول اللہ نے پوری زندگی تھامے رکھا”المتمسک یومئذ بما أنتم علیہ لہ أجر خمسین رجلا” گویا یہ کام ، مٹھی میں آگ کا انگارہ دبانے کے مترادف ہے ، لہذا علم و عمل اور بالخصوص عقیدے کی معرفت نہایت ہی اہم اور ضروری امر ہے ، ورنہ بمصداقِ حدیث رسول اللہﷺ "[یصبح الرجل فیھا مؤمنا ویمسی کافرا ویمسی مؤمنا ویصبح کافرا، یبیع دینہ بعرض من الدنیا] نہایت ہی خطرناک تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے ، یعنی پر فتن دور میں انسان صبح کو مؤمن، شام کو کافر، اور شام کو مؤمن اور صبح کو کافر بن جائے گا، دنیا کے معمولی مال، اور گھٹیا عہدوں کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالے گا۔

مخرج یہی ہے کہ بندہ علم ، عمل، عقیدہ اور خُلق میں پہاڑ جیسی صلابت و استقامت پر قائم ہو جائے اور کتاب وسنت اور منہج اصحابِ رسول ﷺ و سلفِ صالحین کو سینے سے چمٹا رکھے "وماأنا علیہ الیوم واصحابی”

[ترکت فیکم ماان اعتصمتم بہ لن تضلوا أبدا کتاب اللہ وسنۃ رسولہ]

والتوفیق بیداللہ تعالیٰ ۔

کتابِ ھذا عقیدہ کے اہم مسائل پر مستمل ہے ، اس کی تیاری میں جن احباب نے حصہ لیا سب کا تہہ دل سے ممنون ہوں نیز اضافہ علم و عمل کیلئے دعا گو ہوں۔

اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کو اپنی رضا کیلئے خاص بنا دے ، اس کتاب کا نفع عام بنا دے ، میرے والدین اور جملہ اساتذہ کرام کی مغفرت فرما دے ۔

اس متواضع سی نیکی کو میرے لئے ذخیرہ آخرت بنا دے ، انہ سمیع قریب مجیب الدعوات ، وصلی اللہ علی نبیہ محمد و علی آلہ وصحبہ واہل طاعتہ أجمعین۔

وکتب ذلک/عبد اللہ ناصر الرحمانی

مدیر:مکتبہ عبد اللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام​

 

 

مقدمہ از شارح​

 

الحمدللہ رب العالمین، الرحمٰن الرحیم، مالک یوم الدین، وأشھد أن لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، الہ الأولین والآ خرین، وقیوم السموات والأرضین، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ، سید المرسلین، وامام المتقین، وقائد الغرالمحجلین، المبعوث رحمۃ للعالمین ، صلی اللہ وسلم وبارک علیہ، وعلی آلہ الطیبین الطاھرین وعلی من اتبعھم باحسان وسار علی نھجھم الی یوم الدین۔

أما بعد:

تمام تعریفیں، اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ، بڑا مہربانی، نہایت رحم کرنے والا ہے ، روزِ جزاء کا مالک ہے ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ،، تمام اولین و آخرین کا وہی معبود ہے ، اور آسمانوں اور زمینوں کے نظام کو سہی سنبھالنے والا ہے ۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اسی کے بندے اور رسول ہیں، تمام رسولوں کے سردار ہیں، تمام متقین کے امام ہیں، اس اُمت کے رہبر و رہنما ہیں، جن کے اعضاء و ضوء قیامت کے دن چمک رہے ہوں گے ، جو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ پر اور آپ کیپاکیزہ آل پر ، اور صحابہ کرام جیسی مثالی اور مبارک جماعت پر ، اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے ، اللہ تعالیٰ نے اصحابِ کرام کے ذریعے اپنے دین کو حفاظت اور ظہور و غلبہ عطا فرمایا۔

اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر بھی اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے جو اچھے طریقے سے صحابہ کرام کی اتباع کرتے رہیں اور ان کے منہج کی پیروی کرتے رہیں، قیامت کے قائم ہونے تک۔

اما بعد:

اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدہ کی (کئی اعتبار سے ) ایک ممتاز اور نرالی شان ہے ۔

  1. یہ نہایت صاف ستھرا اور بالکل واضح عقیدہ ہے ۔
  2. اس میں ابہام یا پیچیدگی کا کوئی شائبہ تک نہیں۔
  3. یہ مبارک عقیدہ، نصوصِ وحی یعنی قرآن و حدیث سے مستمدوماخوذہے ۔
  4. سلف صالحین اسی عقیدہ پر قائم تھے ۔
  5. یہ عقیدہ، فطرت کے عین مطابق ہے ۔
  6. عقلِ سلیم جو شبہات کے امراض سے پاک ہو، بھی اسی عقیدہ کو قبول کرتی ہے ۔

دوسرے تمام عقائد، شخصیات کی آراء اور متکلمین کے اقوال سے ماخوذ ہونے کی بناء پر ، اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقیدہ سے یکسر مختلف ہیں۔ ان میں بُری طرح سے ابہام ، پیچیدگی، خبط اور خلط ہے ۔ بھلا یہ فرق کیوں نہ ہو؟ اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ، جبریل امین کے واسطہ سے ، رسولِ اکرمﷺ پر اترا، اور دیگر تمام عقائد ان مبتدعین کی اختراع ہیں جو زمین سے نکلے اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایک حقیر پانی کے قطرہ سے پیدا کیا۔

اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ نبیﷺ کی بعثت اور نزولِ وحی کے ساتھ ہی شروع اور ظاہر ہوا جس پر نبیﷺ اور آپ کے اصحابِ کرام قائم رہے ، نیز وہ سب لوگ قائم ہیں جو منہجِ اصحاب رسول ﷺ کے پیروکار ہیں۔

دوسرے تمام عقائد کا ، زمانہ نبوت میں کوئی وجود نہیں تھا، صحابہ کرام میں سے بھی کسی نے انہیں اختیار نہ کیا، بلکہ ان عقائد کے حاملین میں سے کچھ لوگ ، دورِ صحابہ میں پیدا ہوئے تھے ، مگر اکثر ان کے مبارک دور کے ختم ہونے کے ب عد پیدا ہوئے ، لہذا یہ سارے عقائد، محدثاتِ امور میں سے ہیں،(جنہیں رسول اللہﷺ نے بدعت کہا،) اور ان سے پوری زندگی ڈراتے رہے ۔

آپﷺ فرمایا کرتے تھے :”وایاکم ومحدثات الامور ، فان کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ”یعنی:”تم نئے نئے امور سے بچو، کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے ”

(متکلمین کے عقائد اگر حق ہیں تو) یہ بات نہ تو معقول ہے ، اور نہ کسی صورت قابلِ قبول کہ حق ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جیسی پاکیزہ جماعت سے مخفی اور اوجھل ہو اور ان لوگوں کو حاصل ہو جائے جو صحابہ کرام کے مبارک زمانہ کے بعد آئے ۔

لہذا ان عقائد میں اگر کوئی بھی خیر کا پہلو ہوتا تو سب سے پہلے یہ صحابہ کرام کو نصیب ہوتے ، لیکن چونکہ یہ عقائد سراسر شر ہیں لہذا اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو ان سے محفوظ رکھا اور بعد میں آنے والوں کو مبتلا فرما دیا۔

یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ جو نور وحی سے ماخوذ ہے ، اور متکلمین کے عقائد جن کا مبنی ٰ لوگوں کی آراء و عقول ہیں، کے درمیان وہی فرق ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوقات کے بیچ ۔

یہ بالکل وہی بات ہے جو شریعت کے حوالہ سے کی جاتی ہے ، یعنی شریعت ِ اسلامی جو انتہائی رفیع القدر اور منزل من اللہ ہے ، اور ان گھٹیا وضعی قوانین و دساتیر کہ جنہیں انسانوں نے بنایا، کے مابین وہی فرق ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان۔

(اَأَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ)

ترجمہ:” کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں، یقین رکھنے والے لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے ؟” (المائدۃ:50)​

اکثر لوگوں کی عقلوں کو کیا ہو گیا کہ عقیدہ اور شریعت کے تعلق سے اس انتہائی واضح اور روشن حقیقت سے غافل ہیں، وہ انتہائی بہتر چیز کے بدلے ، انتہائی ردی اور گھٹیا چیز خریدے بیٹھے ہیں۔ اے اللہ! جو مسلمان راہِ راست سے گمراہ ہو گئے انہیں سلامتی کے راستے پر چلا دے ، انہیں ظلمتوں اور تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف پھیر دے ، بلاشبہ تو سننے والا اور قبول فرماتے والا ہے ۔

علماء سنت نے قدیم و جدید، ہر دور میں ایسی کتب تالیف فرمائی ہیں، جو اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدہ کی بہترین توضیح شمار ہوتی ہیں، کچھ مختصر ، کچھ مطول۔

مختصر کتب میں ، امام ابنِ ابی زید القیر وانی المالکی رحمہ اللہ کا اپنے رسالہ پر لگایا ہوا ایک مقدمہ ہے جو سلف صالحین کے منہج کے عین مطابق ، مختصر اور مفید ہے ، یہ مقدمہ اصول و فروع کا ایک حسین مرقع ہے ، جبکہ اصول و فروع کا ایک ہی کتاب میں جمع ہونا تالیفی دنیا میں ایکن ادر چیز ہے ، اس لحاظ سے یہ مقدمہ ایک بہترین تحفہ ہے جو اس شخص کو کہ جو عبادات و معاملات کی فقہ میں مشغول ہے ، فقہ اکبر یعنی عقائد سلف صالحین سے روشناس کراتا ہے ۔

یہ مقدمہ اپنے اختصار اور قلتِ الفاظ کے باوجود عقیدہ سلف صالحین جو عین مطابقِ فطرت ہے اور کتاب وسنت کے نصوص پر مبنی ہے ، کو بڑی وضاحت سے بیان کرتا ہے ۔

یہ مختصر رسالہ اس مشہور مقولہ کی عکاسی اور ترجمانی کرتا ہے :” سلف صالحین کا کلام لفظوں میں کم لیکن برکت میں بہت زیادہ ہوتا ہے ، جبکہ متکلمین کا کلام لفظوں میں بہت زیادہ مگر برکت میں میں بہت تھوڑا ہوتا ہے ۔”

مثال کے طور پر اس مقدمہ کا آغاز اللہ تعالیٰ سے چند امور کی نفی جو در حقیقت اللہ تعالیٰ کیلئے اثباتِ کمال کو متضمن ہے ، کے ساتھ ہوتا ہے ، چنانچہ ابنِ ابی زید اپنے مقدمہ کے آغاز میں فرماتے ہیں:”ان اللہ الٰہ واحد لاالٰہ غیرہ، ولا سبیہ لہ، ولا نظیر لہ، ولا ولدلہ،ولاوالدلہ، ولاصاحبۃ لہ، ولا شریک لہ”

یعنی:” اللہ تعالیٰ معبودِ حق ہے ، اکیلا ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شبیہ اور نظیر نہیں ہے ، نہ ہی اس کی اولاد ہے نہ والد ، نہ اس کی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی شریک”

اس عبارت میں اللہ تعالیٰ سے جن امور کی نفی مذکور ہے ، وہ سب کے سب کتاب وسنت کے نصوص سے مستمد و ماخوذ ہیں۔

اب ذرا متکلمین کا کلام ملاحظہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کس کس چیز کی نفی کرتے ہیں، آپ کو دکھائی دے گا کہ ان کا کلام تکلف پر مبنی اور ابہام و غموض کے ساتھ متصف ہے ، چنانچہ” عقائدِ نسفیہ” کا مؤلف ، اللہ تعالیٰ سے بعض امور کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے :”لیس بعرض ، ولا جسم، ولا جوھر، ولا مصور، ولا محدود، ولا معدود، ولا متبعض ولا متجز، ولا مترکب، ولا متناہ”

اللہ تعالیٰ سے ان منفی امور کی کتاب وسنت میں کوئی نص وارد نہیں، اور یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں جس صفت کی وحی سے دلیل موجود نہ ہو، اس میں سکوت اختیار کیا جائے ، اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ ہر کمال کے ساتھ متصف ہے اور ہر نقص و عیب سے منزہ ہے ۔

پھر ان سلبی اور منفی صفات کو عوام الناس بالکل نہیں سمجھ پاتے ، نہ ہی یہ باتیں ان کی سادہ فطرت سے مطابقت رکھتی ہیں، یہ تو متکلمین کا تکلف ہے ، جس میں ابہام و غموض کے ساتھ ساتھ حق و باطل کا اختلاط بھی ہے ، ہم بطورِ اشارہ ایک ہی نکتہ سے اپنی اس بات کی وضاحت کرتے ہیں:

مذکورہ عبارت میں اللہ تعالیٰ کے جسم کی نفی ہے ، جس کے معنی دو احتمال ہیں:

چنانچہ اگر جسم سے ایسی ذات مراد ہو جو مخلوقات کے مشابہ ہو تو یہ احتمال لفظاً و معنی باطل اور مردود ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مثل کوئی چیز نہیں”لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌوَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ”(الشوریٰ:11) اور اگر جسم سے وہ ذات مراد ہے جو قائم بنفسھا ہے ، جو تمام مخلوقات سے مباین یعنی جدا ہے اور جو تمام صفاتِ کمال کے ساتھ متصف ہے ، تو یہ معنی حق ہے جس کی اللہ تعالیٰ سے نفی کرنا جائز نہیں ہے ، لیکن”جسم” کے لفظ کی اللہ تعالیٰ سے نفی کرنا ضروری ہے ، کیونکہ یہ لفظ ، معنی حق اور معنی باطل دونوں پر مشتمل ہے ۔(لہذا ایسا لفظ جس میں معنی حق کے ساتھ ساتھ معنی باطل کے پائے جانے کا احتمال ہو، اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہوسکتا، البتہ اس لفظ میں پایا جانے والا معنی حق، اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہو گا اور معنی باطل مثفی و مردود ہو گا)

آپ عنقریب امام مقریزی کا کلام ملاحظہ فرمائیں گے ، جس میں وہ صحابہ کرام کے بارہ میں فرماتے ہیں:

اسی طرح صحابہ کرام نے ان تمام الفاظ و صفات کو جو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات ِ کریمہ کیلئے ثابت کیئے ، ثابت و برقرار رکھے ۔ مثلاً: الوجہ(چہرہ) اور الید(ہاتھ) وغیرہ

اور ان صفات کا اثبات کرتے ہوئے انہوں نے خالق کی مخلوق سے مشابہت و مماثلت کی مکمل نفی کی۔ چنانچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کیلئے صفاتِ ثبوتیہ کا اس طرح اثبات کیا کہ وہ اثبات ہر طرح کی تشبیہ سے پاک تھا، اور صفاتِ نقص کی اس رح نفی و تنزیہ کی وہ تنزیہ تعطیل سے پاک تھی۔

صحابہ کرام میں سے کسی ایک شخص نے بھی صفاتِ باری تعالیٰ میں سے کسی ایک صفت کی تاویل کرنے کا تعرض و تکلف نہیں کیا ، بلکہ وہ تمام اس عقیدہ پر متفق و مجتمع تھے کہ ان صفات کو جس طرح وارد ہوئی ہیں، اسی طرح ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے ۔ پھر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محمدﷺ کی نبوت کے اثبات کیلئے ان کا مستدل کتاب اللہ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔۔۔۔۔ وہ علمِ کلام کی الجھنوں اور فلسفہ کی موشگافیوں سے قطعی ناواقف تھے ۔”

اسی طرح آپ آئندہ صفحات میں ابو مظفر السمعانی کا کلام بھی ملاحظہ فرمائیں گے ، وہ منہجِ متکلمین کا ابطال و افساد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو تبلیغِ دین کے مشن پر مامور کیا ہے ، اور سب سے مؤکد و محکم چیز جسے پہنچا دینے کا حکم ہے وہ عقیدہ توحید ہے ، بلکہ توحید تو اصلِ دین اور اساسِ دین ہے ، اور رسول اللہﷺ نے امورِ دین کے تمام اصول ، قواعد اور شرائع ایک نکتہ چھپائے بغیر بیان فرما دیئے ، پورے دین میں یہ آپ کو کہیں نہیں ملے گا کہ رسول اللہﷺ نے متکلمین کے نظریات یعنی جوہر و عرض سے استدلال کی دعوت دی ہو، بلکہ آپﷺ سے اور آپ کے صحابہ سے اس بارہ میں ایک حرف بھی ثابت نہیں۔۔۔۔۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ متکلمین ایک ایسی راہ پر چل نکلے ہیں کہ جو نبی ﷺ اور صحابہ کرام کی راہ سے یکسر مخالف ہے ، اور اس مخالف راہ پر چلنے کیلئے انہوں نے جن اسول و قواعد کا سہارا لیا ہے وہ بالکل نئے اور انکے اپنے اختراع کردہ ہیں۔ اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اپنی اس باطل راہ پر چل نکلنے کے بعد انہوں نے سلفِ کو اپنی قدح و طعن کا نشانہ بنا لیا، انہیں قلتِ علم و معرفت کا الزام دیا اور ان کے طرق کو مشتبہ قرار دے دیا۔

ہم تمام لوگوں کو متکلمین کے کلام و مقالات سے بچنے اور دور رہنے کی نصیحت کرتے ہیں ان کی تمام گفتگو کا مبنیٰ ریت کی دیوار کے سوا کچھ بھی نہیں ، جبکہ انکے مقالات آپس میں ہی متضادات و متناقض ہیں۔”

ابو مظفر السمعانی کا یہ کلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے صحیح بخاری کی شرح، فتح الباری میں” باب قول اللہ تعالیٰ:”یَاأَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغ مَا اّنزِلَ اِلَیکَ مِن رَّبِّکَ” کے تحت نقل فرمایا ہے ، اس کے بعد حسن بصری کا یہ قو بھی ذکر فرمایا :” لوکان مایقول الجعد حقا لبلغہ النبیﷺا” یعنی:” عقائد میں جو باتیں جعد (بن درھم) کرتا ہے ، اگر وہ حق ہوتیں تو نبی ﷺیقیناً بیان فرماتے "(فتح الباری:13/504)

واضح ہو کہ فرقہ جہمیہ اگرچہ جہم بن صفوان کی طرف منسوب ہے ، لیکن اس کا اصل بانی اور مؤسس جعد بن درھم ہی ہے ، کیونکہ سب سے پہلے اس باطل مذہب کا نشر و اظہار اسی نے کیا ۔ اور میں حسن بصری رحمہ اللہ کے مذکور ہ قول کی بنیاد پر یہ کہتا ہوں : آج اشاعرہ اور دیگر متکلمین صفاتِ باری تعالیٰ کے بارہ میں جو کلام کرتے ہیں اگر وہ حق ہے تو نبیﷺ بھی یقیناً وہ باتیں اپنی امت کو بتاتے ۔

میں نے ابی زید کے اس مقدمہ کی ایسی شرح لکھنے کا فیصلہ کر لیا جو اس کی چمل دمک میں مزید اضافہ کر دے اور اس کے مضامین و مشمولات کی مزید تفصیل کر دے ۔ شرح سے قبل میں نے بطورِ تمہید ، عقیدہ سلف کے حوالے سے دس فوائد ذکر کیئے ہیں۔

اس مقدمہ کو شیخ احمد بن مشرف الاحسائی المالکی المتوفی ؁ 1285 نے بڑے عمدہ اسلوب سے نظم کر دیا تھا، میں نے شرح سے قبل، مقدمہ کی مکمل عبارت، مذکورہ نظم کے ساتھ شاملِ اشاعت کر دی ہے ۔ میں نے اس شرح کا نام” قطف الجنی الدانی شرح مقدمۃ رسالۃ ابن ابی زید القیروانی” رکھا ہے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ میری اس شرح کو اصل رسالہ کی طرح نافع اور فائدہ مند بنا دے ، تمام مسلمانوں کو دین میں تفقہ کی توفیق عطا فرما دے ، نیز عقیدہ و عمل میں انہیں سلف صالحین کے منہج پر قائم و دائم رکھے ۔ مجھے ہر قسم کی لغزش سے سلامتی عطا فرما دے ، گفتگو میں صدق اور عمل میں اخلاص جیسی نعمتوں سے مالامال فرما دے ، بے شک وہ سننے والا اور قبول کرنے والا ہے ۔

وصلی اللہ وسلم وبارک علی عبدہ ورسولہ نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین۔​

 

 

 

مؤلف ابن ابی زید القیروانی کے مختصر حالاتِ زندگی​

 

آپ کا نام عبد اللہ، اور کنیت ابو محمد ہے ، ابو زید ان کے والد کی کنیت ہے ، جن کا اصل نام عبد الرحمٰن تھا، قیروان ان کا مولد مسکن تھا، اپنے وقت میں ، مالکی مذہب کے امام اور قدوۃ شمار ہوتے تھے ، انہوں نے امام مالک کی فقہ کو نہ صرف جمع کیا بلکہ بڑے عمدہ پیرائے میں اس کی تشریح بھی کی، ان کا علم انتہائی وسیع اور حفظ و روایت میں کثرت مثالی تھی، ان کی تصنیفات اس ر شاہد ِ عدل ہیں، تحریر و تقریر میں فصاحت نمایاں تھی، جب گفتگو فرماتے تو علم و معرفت کے خزانے لٹا دیتے ، اہل ِ بدعت کا رد کرنا بخوبی جانتے تھے ۔ عمدہ قسم کے اشعار بھی کہا کرتے تھے ۔

ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ استقامت ، ورع ، عفت اور تقویٰ کے بڑے اعلیٰ مقام پر فائز تھے ، گویا دین و دنیا کی سعادت ورأست کو سمیٹ رکھا تھا۔

علم و عرفان کے پیاسے ، مختلف شہروں اور بستیوں سے دور دراز کا سفر کر کے آپ تک پہنچتے ، آپ کے شاگردوں کی بڑی لمبی فہرست ہے ، جو سب کے سب آپ سے خوب محبت رکھتے تھے ، آپ کے دور کے اکابر علماء آپ کی قدر و منزلت پہچانتے تھے ، آپ” مالک الصغیر” یعنی” چھوٹے مالک” کے لقب سے معروف تھے ۔

امام قابسی آپ کے بارہ میں فرماتے ہیں:

وہ امام تھے ، اور دین اور روایتِ حدیث میں انتہائی ثقہ تھے ۔ علم ، ورع ، فضل اور عقلِ راسخ، یہ تمام خوبیاں آپ کی ذات میں مجتمع تھیں ، آپ کی شخصیت ان تمام امور میں شہرت کی بناء پر کسی تعارف کی محتاج نہیں۔

آپ رجوع الی الحق اور انقیاد للحق کیلئے ہمیشہ مستعد اور تیار رہتے ، اپنے شہر کے فقہاء و مشائخ سے تفقہ اور سماعِ حدیث سے فیضیاب ہوتے ، طلبِ علم میں زیادہ تر انحصار و اعتماد ابوبکر بن اللباد اور ابو الفضل القیسی پر فرمایا۔

جبکہ ایک خلقِ کثیر نے آپ سے فقہ و حدیث میں استفادہ کیا۔ آپ کا سنِ وفات؁ ۳۸۶ھ ہے ۔ آپ کی مشہور مؤلفات میں ” کتاب النوادر” اور” الزیادات علی المدنۃ” ہیں، یہ کتاب ایک سو اجزاء سے زائد ہے ، اس کے علاوہ” مختصر المدونۃ” بھی آپ کی مشہور کتاب ہے ، آخر الزکر دونوں کتابیں فقہ مالکی میں معتمد بہ شمار ہوتی ہیں۔ آپ کی کتب کی مکمل فہرست” الدیباج المذھب لابن فحون المالکی” (ص 136 تا138) میں ملاحظہ فرمایئے ، یہ مختصر حالات بھی اسی کتاب سے لئے گئے ہیں۔

امام ذھبی نے ” سیر أعلام النبلاء”(17/10) میں آپ کے ترجمہ کے آغاز میں آپ کے متعلق فرمایا ہے :” الامام العلامۃ، القدوۃ الفقیہ عالم اہل العرب”

جبکہ آپ نے ترجمہ کے آخر میں فرمایا ہے ” اللہ تعالیٰ آپ پر رحمتیں نازل فرمائے ، آپ عقیدہ میں سلف صالحین کے منہج پر قائم تھے ، علمِ کلام کو کچھ نہ جانتے ، نہ ہی تأویل کی باطل روش اپناتے ۔

ہم اللہ تعالیٰ سے توفیق و ہدایت کا سوال کرتے ہیں۔

 

 

                فوائد بین یدی الشرح​۔۔ شرح سے قبل چند اہم فوائد کا ذکر​

 

پہلا فائدہ

 

عقیدہ کے باب میں اہل السنۃ والجماعۃ کا منہج یہ ہے کہ سلفِ صالحین کے فہم کے مطابق کتاب وسنت کی اتباع کی جائے ، واضح ہو کہ اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہﷺ کی دلیل پر مبنی ہے ، جبکہ اس دلیل کا فہم اصحابِ رسول اللہﷺ کے فہم کے مطابق ہو۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ) (الاعراف:3)

ترجمہ:” تم لوگ اس کی اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے رفیقوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت مانتے ہو”​

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) (الانعام:153)

ترجمہ:” اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سواس راہ پہ چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہ ہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیز گاری اختیار کرو۔”​

اور فرمایا: (فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ) (البقرۃ:38)

ترجمہ:” تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں”​

اور فرمایا : (فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي) (طحہ:123)

ترجمہ:” جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وہ بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا”​

اور فرمایا: (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُه اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا) (الاحزاب:36)

ترجمہ:” اور (دیکھو) کسی مومن مرد عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، یاد(رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں پڑے گا”​

نیز فرمایا: (وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا) (الحشر:7)

ترجمہ:” تمہیں جو کچھ رسول دے ، لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ”​

نیز فرمایا: (فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِه اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ) (النور:63)

ترجمہ:” جو لوگ حکمِ رسول کی مخالف کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب (نہ) پہنچے "​

حدیثِ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ترجمہ: ” میرے بعد زندہ رہنے والا شخص بہت اختلافات دیکھے گا، تو اس وقت تم لوگ میری سنت اور خلفاء ِ راشدین کی سنت کے ساتھ چمٹ جانا، اسے مضبوطی سے تھام لینا اور داڑھوں میں دبا لینا، اور نئے نئے امور سے بچنا ، کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے ” (اسے ابوداؤد(4607) اور ترمذی(2676) نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں، امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے )

صحیح بخاری(7280) میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ترجمہ:”میری پوری امت جنت میں داخل ہو گی علاوہ اس شخص کے جس نے جنت میں داخل ہونے سے خود انکار کر دیا ہو، صحابہ نے کہا: یا رسول اللہﷺ جنت میں داخل ہونے سے کون انکار کرسکتا ہے ؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ” جس نے میری اطاعت کی وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کر دیا”

صحیح مسلم(767) میں جابر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے ، رسول اللہﷺ اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے :

ترجمہ:”بے شک سب سے بہترین حدیث کتاب اللہ ہے ، اور سب سے بہترین ہدایت اور طریقہ محمد رسول اللہﷺ کا ہے ، اور سب سے بد ترین امر وہ ہے جو نیا ہو، اور ہر بدعت گمراہی ہے ”

صحیح بخاری (1597) اور صحیح مسلم(1270) میں عابس بن ربیعۃ سے مروی ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ حجرِ اسو د کے پاس آئے اسے بوسہ دیا اور فرمایا: ” میں جانتا ہوں کہ تم ایک پتھر ہو کسی نقصان یا نافع کا اختیار نہیں رکھتے ، اگر میں نے رسول اللہﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا ۔”

صحیح بخاری (2697) اور صحیح مسلم(1718) میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ترجمہ: ” جو بھی شخص ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز شامل کرے گا جو دین میں نہ ہو تو وہ مردود ہے ”

صحیح مسلم میں یہ لفظ بھی منقول ہیں:

ترجمہ: "جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا أمر (موافقت ) نہ ہو تو وہ مردود ہے ”

صحیح مسلم کی اس روایت میں زیادہ عموم ہے ، کیونکہ پہلی روایت محدِث یعنی بدعت ایجاد کرنے والے کے ساتھ مخصوص ہے ، جبکہ دوسری حدیث عام ہے ، اس کا اطلاق اس شخص پر بھی ہو رہا ہے جو خود کوئی نیا عمل ایجاد کرے اور اس شخص پر بھی جو نیا عمل ایجاد کرنے والے کی تابعداری کرے ۔

مسند احمد(16937) اور سنن ابی داؤد(4597) میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (اور یہ الفاظ مسند احمد کے ہیں) رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ترجمہ:”یہود و نصاریٰ اپنے دین کے اندر بہتر فرقوں میں بٹ گئے ، اور یہ امت تہتر فرقوں میں بٹے گی("الأھوا” یعنی خواہشِ نفس کا شکار ہو گی) سب فرقے جہنم میں جائیں گے ، ایک کے سوا، اور وہ ” الجماعۃ” ہے ” (اس حدیث کی تخریج اور شواہد الا رنؤط کے مسند احمد کے حاشیہ میں اس حدیث کے تحت ان کی تعلیق پر ملاحظہ کیجئے ۔)

صحیح بخاری(5063) اور صحیح مسلم (1401) میں جنابِ انس رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث کے آخر میں رسول اللہﷺ کا یہ فرمان منقول ہے :

ترجمہ:”جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں”

واضح ہو کہ اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ کتاب وسنت کی دلیل پر مبنی ہے ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معتقدات کا تعلق علمِ غیب سے ہے ، اور علمِ غیب کی معرفت وحی یعنی قرآن و حدیث کے بغیر ممکن نہیں، اور کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ میں جو کچھ وارد اور ثابت ہے ، عقل ِ سلیم اس کی پوری طرح موافقت کرتی ہے ، اور کسی طرح کی کوئی مخالفت نہیں کرتی ، اس موضوع پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بڑی جامع کتاب جس کا نام” درء تعارض العقل والنقل” کا مطالعہ کیجئے ۔ کتاب وسنت کے نصوص کوسمجھنے کیلئے معتمد علیہ، صحابہ کرام ہیں، نیز ان کی طرف سے ملنے والا فہم صائب ، فکر سدید اور علم نافع ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں ان تک اللہ تعالیٰ کا جو خطاب پہنچا ان کے معانی و مطالب وہ خوب سمجھ چکے تھے ، کیونکہ قرآن حدیث انہی کی زبان میں اترے تھے ، اور اس کے ساتھ ساتھ ان صفات کی کیفیت کا علم بھی اللہ کے سپرد کرنا ضروری تھا، کیونکہ صفات کی کیفیات کا تعلق بھی علمِ غیب سے ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کو ئی نہیں جان سکتا ۔ امام مالک رحمہ اللہ کا ایک قول صفات کی کیفیات سے تعلق سے اس منہج ِ صحیحہ کی خوب عکاسی کرتا ہے ، چنانچہ ایک مجلس میں ان سے اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کی کیفیت کی بابت پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا:

” اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے ، لیکن مستوی ہونے کی کیفیت مجہول ہے ، استواء پر ایمان لانا واجب ہے ، اور کیفیت کا سوال بدعت ہے "​

شیخ ابو العباس احمد بن علی المقریزی (المتوفی ؁ ۸۴۵ھ) نے اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالے سے صحابہ کرام کے منہج کی وضاحت فرمائی ہے ، چنانچہ اپنی کتاب” المواعظ والااعتبار بذکر الخطط والآثار”(2/356) میں فرماتے ہیں: (عقائد ِ اہلِ اسلام کی حالت کا ذکر ، ملتِ اسلام کی ابتداء سے لے کر مذہب اشاعرہ کے پھیلنے تک )

"اللہ تعالیٰ نے جب اہلِ عرب میں سے اپنے نبیﷺ کو تمام لوگوں کی طرف رسول بنا بھیجا، تو انہوں نے رب سبحانہ و تعالیٰ کی صفات ، جو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز میں کہ جسے روح الامین آپ کے قلب پر لے کر نازل ہوا تھا، بیان فرمائی تھیں لوگوں کو بتلائیں ، نیز وہ صفات بھی لوگوں کو بتلائیں جو بذریعہ (وحی خفی) اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی تھیں۔ تمام اہلِ عرب خواہ وہ شہری ہوں یا دیہاتی ، نے ان صفات کو سنا لیکن کسی صفت کے معنی کا نبی ﷺ سے سوال نہیں کیا، جیسا کہ ان کا دیگر مسائل مثلاً: نماز، زکوٰۃ اور حج وغیرہ میں جو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی ہیں، کی بابت نبی ﷺ سے سوال کرنا واردو منقول ہے ، اور جیسا کہ انہوں نے احوالِ قیامت اور جنت و جہنم کے بارہ میں سوالت کیئے ۔۔۔۔ چنانچہ اگر کسی صحابی نے نبیﷺ سے صفاتِ الٰہیہ کے معنی کے متعلق سوال کیئے ہوتے تو وہ یقیناً منقول ہوتے اور نبیﷺ کے جوابات بھی ثابت ہوتے ، جیسا کہ احکامِ حلال و حرام ، ترغیب و ترھیب، احوالِ قیامت اور فتن و ملاحم وغیرہ کے سلسلہ میں ان کے سوالات و استفسارات اور نبیﷺ کے جوابات کے تعلق سے بہت سی احادیث وارد ہیں ، جو کتبِ حدیث : معاجم، مسانید، اور جوامع کے اند ر موجود محفوظ ہیں۔

احادیث رسول پر مشتمل دفاتر ، اور سلفِ صالحین سے منقول آثار پر گہری نگاہ رکھنے والا اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ کسی صحیح یا ضعیف سند سے ، کسی ایک صحابی سے یہ بات ثابت نہیں کہ اس نے نبی ﷺ سے ، رب تعالیٰ کی ذات کے بارہ میں قرآن و حدیث میں وارد صفات میں سے کسی صفت کے معنی کا سوال کیا ہو، حالانکہ صحابہ کرام کے طبقات بھی متنوع تھے اور تعداد بھی کثیر تھی۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ان صفات کا ظاہری معنی سمجھا اور ان پر کلام سے گریز کیا، اور سکوت اختیار کیا۔ بلکہ صحابہ کرام نے تو صفاتِ باری تعالیٰ میں صفاتِ ذات اور صفاتِ فعل کی تقسیم و تفریق بھی نہیں کی، انہوں نے تو تمام صفات کو صفات ازلیہ کے طور پر اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت رکھا ۔ مثلاً: صفتِ علم، قدر، حیاۃ، ارادہ ، سمع، بصر، کلام، الجلال، الاکرم،الجود(سخاوت)، انعام، العزۃ اور العظمۃ وغیرہ ان تمام صفات کے بارہ میں ان کا ایک ہی سیاق ِ کلام تھا۔

اسی طرح صحابہ کرام نے ان تما م الفاظ و صفات کو جو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ کریمہ کیلئے ثابت کیئے ، ثابت و برقرار رکھے ۔ مثلاً: الوجہ(چہر) اور الید(ہاتھ) وغیرہ

اور ان صفات کا اثبات کرتے ہوئے انہوں نے خالق کی مخلوق سے مشابہت و مماثلت کی مکمل نفی کی۔ چنانچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کیلئے صفاتِ ثبوتیہ کا اس طرح اثبات کیا کہ وہ اثبات ہر طرح کی تشبیہ سے پاک تھا، اور صفاتِ نقص کی اس طرح نفی و تنزیہ کی وہ تنزیہ تعطیل سے پاک تھی۔

صحابہ کرام میں سے کسی ایک شخص نے بھی صفاتِ باری تعالیٰ میں سے کسی ایک صفت کی تاویل کرنے کا تعرض و تکلف نہیں کیا، بلکہ وہ تمام اس عقدہ پر متفق و مجتمع تھے کہ ان صفات کو جس طرح وارد ہوئی ہیں، اسی طرح ان کے ظاہر پر معمول کیا جائے ۔ پھر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محمدﷺ کی نبوت کے اثبات کیلئے ان کا مستدل کتاب اللہ کے سوی اور کچھ نہ تھا۔۔۔ وہ علمِ کلام کی الجھنوں اور فلسفہ کی موشگافیوں سے قطعی ناواقف تھے ۔

صحابہ کرام کا دور اس پاکیزہ منہج پر گزرا ، حتیٰ کہ انکے آخری دور میں فرقہ قدریہ ظہور میں آیا، جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کی کوئی تقدیر نہیں بنائی ، بلکہ سارا معاملہ "اُنف” (نیا) ہے ۔”

مقریزی نے جو کچھ بتایا واقعۃً مختلف فرقوں کے ظہور سے قبل صحابہ کرام کا یہی منہج صافی تھا، اور حدیث عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ جو قریب ہی گزری ہے میں رسول اللہﷺ نے اسی اختلاف کے ظاہر ہونے کی خبر دی اور اس حوالے سے رہنمائی بھی فرما دی ۔ حدیث کا ترجمہ دوبارہ ملاحظہ ہو:

"میرے بعد زندہ رہے والا شخص بہت اختلافات دیکھے گا ، تو اس وقت تم لوگ میری سنت اور خلفاء ِ راشدین کی سنت کے ساتھ چمٹ جانا ، اسے مضبوطی سے تھام لینا اور داڑھوں میں دبا لینا، اور نئے نئے امور سے بچنا ، کیونکہ ہر نئی چیز بدعت گمراہی ہے ”

صحابہ کرام کے دور کے بعد ، یا ان کے آخری دور میں عقیدہ کے تعلق سے جو مختلف گروہ اور فرقے ظاہر ہوئے مثلاً: قدریہ، مرجئہ ، یا اشاعرہ ان میں سے کسی کو حق اور صواب کہنا ہر گز معقول نہ ہو گا، بلکہ یقینی اور قطعی طور پر حق تو صرف وہ ہے جس پر اصحاب رسول قائم تھے اور یہ بات کہنے میں ہمیں ادنیٰ سا بھی شک یا تأمل نہیں ہے ، ان مذاہب میں اگر کچھ بھی حق ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اسے پہلے ہی اختیار کر چکے ہوتے ۔ یہ بات عقل میں سماہی نہیں سکتی کہ صحابہ کرام (جن کا ایمان امت کیلئے مثالی قرار دیا گیا ہے ) سے حق چھپا لیا جائے اور بعد کے ادوار میں پیدا ہونے والے لوگوں کیلئے وہ خزانہ کھول دیا جائے ۔

حافظ ابن عبد البر نے جامع بیان العلم وفضلہ(1/97) میں مشہور تابعی ابراھیم النخعی کا قول نقل کیا ہے ، فرماتے ہیں:” تمہارے لیئے (حق کا ) ایسا کوئی ذخیرہ یا خزانہ نہیں ہے جو اس عظیم قوم(صحابہ کرام ) سے تمہاری کسی فضیلت کی بنا پر مخفی رکھا گیا ہو”

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں باب قول اللہ تعالیٰ: "یَاأَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغ مَا اّنزِلَ اِلَیکَ مِن رَّبِّکَ” کی شرح کرتے ہوئے ابو المظفر السمعانی کا بڑا عمدہ اور نفیس کلام نقل کیا ہے ، چنانچہ وہ فرماتے ہیں(13/507)

"المظفر السمعانی نے اس باب کی آیات و احادیث سے مذہب متکلمین کے فاسد ہونے پر استدلال کیا ہے ، چنانچہ متکلمین اشیاء کو جسم، جو ہر اور عرض کی طرف تقسیم کرتے ہیں، ان کے نزدیک جسم سے مراد ہر وہ چیز جو مختلف اجزاء سے مل کر بنے اور جو ہر وہ چیز ہے جو عرض کو اٹھاتا ہے ۔ اور عرض وہ چیز ہے جو اپنی ذات پر قائم نہیں ہوسکتی (بلکہ قائم ہونے کیلئے جوہر کی محتاج ہوتی ہے )۔

اس کے بعد انہوں نے روح کو عرض قرار دیا ہے ، اور نتیجۃً ان تمام احادیث کو رد کر دیا ہے جن میں روح کے جسم سے قبل پیدا ہونے کا ذکر ہے ، نیز ان احادیث کو بھی جن میں عقل کا مخلوقات سے قبل پیدا ہو نا مذکور ہے ۔ اور اس سلسلہ میں انہوں نے سارا اعتماد اپنے ظن و تخمین پر اور اپنے افکار و نظریات کے نتائج پر کیا۔۔۔۔ اب وہ نصوصِ شرعی اپنے خود ساختہ نظریات پر پیش کرتے ہیں، جو نصِ شرعی ان نظریات کے موافق ہواسے قبول کر لیتے ہیں اور جو مخالف ہو اسے رد کر دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو تبلیغِ دین کے مشن پر مامور کیا ہے ، اور سب سے مؤکد و محکم چیز جسے پہنچا دینے کا حکم ہے وہ عقیدہ توحید ہے ، بلکہ توحید تو اصلِ دین اور اساسِ دین ہے ، اور رسول اللہﷺ نے امورِ دین کے تمام اصول ، قواعد اور شرائع ایک نکتہ چھپائے بغیر بیان فرما دیئے ، پورے دین میں یہ آپ کو کہیں نہیں ملے گا کہ رسول اللہﷺ نے متکلمین کے نظریات یعنی جوہر عرض سے استدلال کی دعوت دی ہو، بلکہ آپﷺ سے اور آپ کے صحابہ سے اس بارہ میں ایک حرف بھی ثابت نہیں۔۔۔۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ متکلمین ایک ایسی راہ پر چل نکلے ہیں کہ جو نبی ﷺ اور صحابہ کرام کی راہ سے یکسر مخالف ہے ، اور اس مخالف راہ پر چلنے کیلئے انہوں نے جن اول و قواعد کا سہارا لیا ہے وہ بالکل نئے اور انکے اپنے اختراع کردہ ہیں۔ اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اپنی اس باطل راہ پر چل نکلنے کے بعد انہوں نے سلفِ کو اپنی قدح و طعن کا نشانہ بنا لیا، انہیں قلتِ علم و معرفت کا الزام دیا اور ان کے طریق کو مشتبہ قرار دے دیا۔

ہم تمام لوگوں کو متکلمین کے کلام و مقالات سے بچنے اور دور رہنے کی نصیحت کرتے ہیں ان کی تمام گفتگو کا مبنیٰ ریت کی دیوار کے سوا کچھ بھی نہیں ، جبکہ انکے مقالات آپس میں ہی متضادات و متناقض ہیں، ان کے کسی گروہ کا کوئی کلام آپ سنیں تو معاً کوئی دوسرا گروہ اس کی مخالفت کرتا ہوا دکھائی دے گا، تو ان کے سارے مذہب کی حقیقت یہی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے مقابل، معارض اور مخاصم ہیں۔

ان کے مذہب کے قبیح اور فاسد ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اگر ہم ان کی راہ پر چلتے ہوئے عامۃ الناس کو ان کا مذہب اختیار کرنے کی دعوت دیں گے ، تو شاید ان سب کا کافر ہونا لازم آ جائے ، کیونکہ عامۃ الناس تو سیدھی سادھی اتباع کو پہچانتے ہیں، اور متکلمین کا راستہا ور اسلوب اتنا گنجلک ہے کہ عامۃ الناس اسے سمجھ ہی نہیں سکتے ، صاحبِ نظر ہونا تو بہت دور کی بات ہے ، عامۃ الناس کی اختیارِ توحید کی حد اور غایت اسی قدر ہے کہ انہوں نے عقائد دین میں أئمہ سلف کو جس راہ پر چلتے ہوئے پایا اس کو سینے سے چمٹا لیا اور دانتوں تلے دبا لیا، بڑی سادہ ولی کے ساتھ عبادات و اذکار کی مسلسل ادائیگی میں مصروف ہیں اور ان کا منہج شکوک و شبہات سے قطعی پاک ہے ، وہ اپنے معتقدات سے دستبردار ہونے کیلئے قطعاً تیار نہیں خواہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائی۔ انہیں یقین کی پختگی اور عقیدہ کی سلامتی مبارک ہو، یہ لوگ سوادِ اعظم اور جمہورِ امت ہیں، اگر انہیں کافر قرار دیا جائے تو پھر اسلام کی بساط کے سمیٹ دیئے جانے اور اس کی بنیادوں کو ڈھا دینے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔” واللہ اعلم

واضح ہو کہ ابو لمظفر کے کلام میں خلقِ عقل کا جو ذکر ہے وہ محلِ نظر ہے ، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے ” المنار المنیف” (50) میں خلقِ عقل والی تمام روایات کو موضوع اور مکذوب قرار دیا ہے ۔

ابو الفتح الازدی فرماتے ہیں کہ خلقِ عقل کے بارہ میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے ۔ ابو جعفر العقیلی اور ابو حاتم ابن حبان نے بھی یہی فرمایا ہے ۔ واللہ اعلم

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں علمائے سلف کے ایک بڑی جماعت کے اقوال جمع کیئے ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا بلا تشبیہ ، بلا تحریف اور بلا تعطیل اثبات کیا جائے ، پھر اس بات کو ایک عمدہ اور نفیس کلام سے ختم کیا : فرماتے ہیں: (ج13/408،407)

"بیہقی نے ابو داؤد الطیالسی کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ سفیان ثوری ، شعبہ، حماد بن زید ماد بن سلمۃ، شریک اور ابو عوانۃ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارہ میں تحدید کے قائل تھے نہ تشبیہ کے ، وہ صفاتِ باری تعالیٰ پر مشتمل احادیث روایت کرتے لیکن صفات کی کیفیت کے تعلق سے کبھی ایک حرف بھی نہ کہا۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں ہمارا مسلک بھی یہی ہے ، اور امام بیہقی فرماتے ہیں : ہمارے اکابرین اسی منہج پر قائم و مستمر ر ہے ”

امام لالکائی نے اپنی سند کے ساتھ محمد بن الحسن الشیبانی کا یہ قول نقل کیا ہے :

"مشرق سے لے کر مغرب تک کے تمام فقہاء قرآن پاک اور احادیث صحیحہ میں وارد اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر بلا تشبیہ اور بلا تفسیر ایمان لانے پر متفق ہیں۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کی جہم بن صفوان کے قول سے تفسیر کرنے کی کوشش کرے وہ نبیﷺ اور اصحابِ کرام کے منہج سے خارج ہو گیا اور جماعتِ ھقہ سے علیحدگی اختیار کر لی، کیونکہ وہ شخص رب سبحانہ و تعالیٰ کو معدوم ہونے کے ساتھ متصف قرار دے رہا ہے ۔”

ولید بن مسلم فرماتے ہیں:” میں نے اوزاعی ، مالک ، سفیان ثوری اور لیث بن سعد سے ان احادیث کی بابت پوچھا جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات مذکور ہیں تو ان سب نے جواب دیا: ان احادیث میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات جس طرح وارد ہوئی ہیں اسی طرح بلا کیفیت قبول کر لو۔”

ابنِ ابی حاتم نے ” مناقب الشافعی” میں یونس بن عبد الاعلیٰ سے روایت کی ہے ، وہ فرماتے ہیں: میں نے امام شافعی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :” اللہ تعالیٰ کے کچھ اسماء صفات ہیں کسی کے پاس اس کے رد کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، اور جس شخص نے ثبو تِ حجت کے بعد کسی صفت کا انکار کی وہ کافر ہو گیا، البتہ اقامتِ حجت سے قبل وہ جہل کی بناء پر معذور قرار دیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم عقل ، رؤیت یا تفکیر سے حاصل نہیں ہوتا، لہذا ہم ان صفات کو اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت کریں گے اور تشبیہ کی نفی کریں گے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود تشبیہ کی نفی کر دی ہے ، فرمایا: (لَیسَ کَمثلِہ شَیء) ترجمہ: ” اس کے مثل کوئی چیز نہیں”

بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ احمد بن ابی الحوری کے واسطے سے سفیان بن عینیہ کا یہ قول نقل کیا ہے :

” اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے اندر جو اپنی صفات بیان کی ہیں، ان کی تفسیر یہ ہے کہ ان کی تلاوت کرو اور پھر خاموش ہو جاؤ”

اور ابوبکر الضبعی کے طریق سے سفیان بن عینیہ کا یہ قول نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں:

"قولہ تعالیٰ: (اَلرَّحمٰنُ عَلَی العَرشِ الستَویٰ)میں اہل السنۃ کا مذہب یہ ہے کہ اسے بلا کیفیت قبول کیا جائے ”

سلفِ صالحین سے اس بارہ میں بے شمار آثار ملتے ہیں اور یہی امام شافع اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا منہج ہے ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی جامع میں نزولِ باری تعالیٰ کے بارے میں حدیث ِ ابی ھریرۃ کے تحت فرماتے ہیں:” اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے عرش پر ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ مقدس میں اپنا یہ وصف بیان فرمایا ہے ، بہت سے اہلِ علم نے اس حدیث اور اس جیسی دیگر صفات کے متعلق یہی کہا ہے ۔”

اسی طرح” فضل الصدقۃ” کے باب میں امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"یہ تمام روایات ثابت ہیں، لہذا ہم ان پر ایمان لاتے ہیں، اور کسی وہم کا شکار نہیں ہوتے ، اور نہ ہی اس صفت کی کیفیت کا سوال کرتے ہیں۔ امام مالک، سفیان بن عینیہ اور عبد اللہ بن مبارک سے یہی منقول ہے کہ وہ ان صفات کو بلا کیفیت قبول کرتے تھے ، اور اہل السنۃ والجماعۃ کے اہل علم کا بھی یہی قول ہے ، البتہ جہمیہ ان صفات کو تشبیہ قرار دیکر انکار کرتے ہیں، اسحٰق بن راھویہ فرماتے ہیں: تشبیہ تو تب ہو جب یوں کہا جائے کہ اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ جیسا اور اس کا سننا ہمارے سننے جیسا ہے ”

سورہ المائدہ کی تفسیر میں امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"أئمہ کرام فرماتے ہیں: ہم ان احادیث(صفات) پر بلا تاویل ایمان لاتے ہیں۔ ان أئمہ میں سفیان چوری، مالک، ابن عینیہ اور ابن المبارک کے نام قابلِ ذکر ہیں۔”

حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں:” اہل السنۃ اللہ تعالیٰ کی ان تمام صفات کہ جو کتاب وسنت میں وارد ہیں کے بلا کیف اقرار پر متفق ہیں، البتہ گمراہ فرق جہمیہ ، معتزلہ اور خوارج کا کہنا ہے کہ ان صفات کو ماننے والا مشبہ ہے ” (فسماھم من أقربھا معطلۃ)

امام الحرمین” الرسالۃ النظامیہ” میں فرماتے ہیں:

” صفاتِ باری تعالیٰ کے ظواہر کے بارہ میں علمائے کرام کے مختلف مسالک ہیں، بعض تو آیات قرآنی اور صحیح احادیث میں وارد شدہ صفات میں تاویل کے قائل ہیں، بلکہ وہ بالا التزام تاویلیں کرتے ہیں۔ جبکہ أئمہ سلف تاویل سے یکسر گریز کرتے ہیں، ان کا منہج یہ ہے کہ ان ظواہر کو ان کے اصلی موارد پر محمول کریں اور معانی (حقیقت و کیفیت) کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔ ہمارے نزدیک پسندیدہ رائے اور بہترین عقیدہ و منہج ، أئمہ سلف کی اتباع ہے ،کیونکہ اجماع امت کے حجت ہونے پر قطعی دلیلیں موجود ہیں۔ اگر ان طواہر کی تاویل ہی ضروری ہوتی تو أئمہ سلف فروع شریعت سے کہیں بڑھ کر اس کا اہتمام کرتے ، لیکن اس کے برعکس صحابہ کرام اور تابعین عظام کا پورا زمانہ صفاتِ باری تعالیٰ میں تاویل کرنے سے گریز کرتے ہوئے گزر گیا تو پھر یہی منہج قابلِ اتباع ہے ۔”

اور تیسرے دور کے مختلف علاقوں کے علماء و فقہاء مثلاً: سفیان ثوری، اوزاعی ، مالک، لیث بن سعد اور ان کے ہم عصر علماء اور ان سے روایت لینے والے بہت سے أئمہ کرام کے اقوال گزر چکے ہیں(ان سب کا منہج صفاتِ باری تعالیٰ کو بلا تشبیہ وتکییف و تاویل قبول کرنے کا تھا)۔

تو پھر اس منہج پر کیوں نہ اعتماد و یقین کیا جائے جس پر قرونِ ثلاثہ کے علماء متفق تھے ، جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ صاحبِ، شریعت محمد رسول اللہﷺ نے ان قرونِ ثلاثہ کے متعلق سب سے بہترین قرون ہونے کی شھادت دی ہے ۔

امام الحرمین جوینی کے کلام میں جو یہ بات آئی ہے کہ أئمہ سلف صفات کے معانی کی تفویض کے قائل تھے ، درست نہیں۔ أئمہ سلف معانی کی تفویض کے نہیں بلکہ صفات کی کیفیت کی تفویض کے قائل تھے ۔ جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ ، جب ان سے استواء علی العرش کی کیفیت کی بابت سوال کیا گیا ، تو آپ نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ کا استواء علی العرش معلوم ہے لیکن کیفیت مجہول ہے ، استواء پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کی کیفیت کا سوال بدعت ہے ۔

 

                الفائدۃ الثانیہ: وسطیۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی العقیدۃ بین فرق الضلال۔​

دوسرا فائدہ

 

اہل السنۃ والجماعۃ کا دیگر گمراہ فرقوں کے مابین وسطیت و اعتدال پر قائم رہنا ہمارے نبی محمدﷺ کی امت دیگر امتوں کے مقابلے می وسطیت اور اعتدال پر قائم ہے ، چنانچہ یہود و نصاریٰ میں افراط و تفریط کے اعتبار سے بڑا تضاد ہے ، یہودیوں نے انبیاء کرام کے حق میں اس قدر ظلم و زیادتی کا مظاہرہ کیا کہ بعض انبیاء کو قتل تک کر دیا جبکہ عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی تعظیم کے تعلق سے ایسا غلو اختیار کیا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود ٹھہرا دیا، یہ عقیدہ کے اندر ان کے تضاد کی مثال ہے ۔ احکام کے اندر افراط و تفریط کے لحاظ سے تضاد کی دلیل یہ ہے کہ یہود اپنی حائضہ عورتوں کے ساتھ کھانا پینا بلکہ قریب بیٹھنا تک بند کر دیتے ہیں، جبکہ نصاریٰ نے اس کے برعکس تفریط کا راستہ اختیار کیا ایسی عورتوں کے ساتھ جماع تک کر لیتے تھے ۔

جس طرح امتِ محمدیہ دیگر امتوں کے ا فراط و تفریط کے مقابلے میں وسطیت و اعتدال پر قائم ہے ، اسی طرح اہلِ السنۃ والجماعۃ اس امت میں بنے ہوئے دیگر فرقوں کے افراط و تفریط کے مقابلے میں وسطیت و اعتدال پر قائم ہیں۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:

1- اہل السنۃ والجماعۃ صفاتِ باری تعالیٰ کے مسئلہ میں معطلہ اور مشبہ کی افراط و تفریط کے مقابلے میں طریق وسط پر قائم ہیں، چنانچہ مشبہ نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو قبول تو کیا لیکن اتنی بڑی کوتاہی کے مرتکب ہو گئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مخلوق کے ساتھ تشبیہ و تمثیل کے عقیدہ باطلہ کو اپنا بیٹھے ۔ چنانچہ انہوں نے کہا ، اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے اور وہ ہمارے ہاتھوں جیسا ہے ، اور اس کا چہرہ ہے اور وہ ہمارے چہروں جیسا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس عقیدہ سے بہت بلند اور منزہ ہے ۔

اس کے مقابلے میں معطلہ نے خود ہی یہ مفروضہ گھڑ لیا کہ اثباتِ صفات ، تشبیہ کو مسلتزم ہے ،لہذا انہوں نے صفات کی تعطیل و انکار کا عقیدہ اپنا لیا، اس طرح وہ بزعم ِ خویش اللہ تعالیٰ کی مشابہت ِ مخلوق سے تنزیہ کر رہے ہیں، لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ وہ اس سے بھی بدترین تشبیہ میں داخل ہو چکے ہیں، اور وہ ہے خالق کی معدومات سے تشبیہ۔۔۔۔ کیونکہ ایسی کسی ذات کا تصور موجود نہیں ہے جو صفات سے خالی ہو۔

اہل السنۃ والجماعۃ اس افراط و تفریط کے مقابلے میں ایک درمیانی راہ پر قائم ہیں، اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا اس طرح اثبات ہو کہ وہ ہر قسم کی تشبیہ و تمثیل سے پاک ہو۔۔۔۔ اور صفاتِ نقص سے اس طرح تنزیہ کی جائے کہ وہ ہر قسم کی تعطیل سے پاک ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (لَیسَ کَمِثلِہ شَی ء وَھُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ) اہل السنۃ والجماعۃ اللہ تعالیٰ کیلئے سمع وبصر کی صفات ثابت کرتے ہیں کیونکہ ان دونوں صفات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیئے ثابت کیا ہے ، اس طرح وہ تعطیل و انکار سے بچ گئے ، پھر اہل السنۃ والجماعۃ اثباتِ صفات کے ساتھ ستھ تنزیہ کے بھی قائل ہیں اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ، مخلوق کی صفات سے قطعی مماثل و مشابہ نہیں ہیں، چنانچہ مشبہ کے پاس اثبات ہے لیکن تشبیہ کے ساتھ، اور معطلہ کے پاس تنزیہ ہے لیکن تعطیل کے ساتھ، یعنی اہل السنۃ والجماعۃ نے اس تعلق سے ہر دو گروہوں کی خوبی لے لی اور وہ اثبات اور تنزیہ ہے اور ہر دو گروہوں کی برائی سے اپنے آپ کو بچا لیا اور وہ تشبیہ اور تعطیل ہے ۔

معطلہ اہل السنۃ والجماعۃ کو مشبہ کے لقب سے ملقب کرتے ہیں جو جھوٹ پر مبنی ہے ، کیونکہ ان کے ہاں اثبات کا تشبیہ کے بغیر کوئی تصور نہیں ہے ، جبکہ اہل السنۃ والجماعۃ کا کہنا ہے کہ معطلہ کا عقیدہ معبود کی نفی و انکار پر قائم ہے ۔

حافظ ابن ِ عبد البر” التمھید” (7/145) میں فرماتے ہیں:

"اہل بدعت، جہمیہ، معتزلہ اور خوارج صفاتِ باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں اور کسی صفت کو اس کی اصل حقیقت پر محمول نہیں کرتے ، اور وہ اپنے زعم میں صفات کا اقرار کرنے والوں کو مشبہ سمجھتے ہیں، حالانکہ صفاتِ باری تعالیٰ کا اقرار کرنے والے ” اہل السنۃ والجماعۃ” انہیں معبود کی نفی و انکار کرنے والا قرار دیتے ہیں”

امام ذھبی نے ابنِ عبد البر کا یہ قول” کتاب العلو” (6213) میں نقل کر کے اس پر درج ذیل تعلیق لگائی ہے :

اللہ کی قسم ابنِ عبد البر نے بالکل سچ کہا ہے کیونکہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی صفات میں تاویلیں کرتے ہیں اور انہیں مجاز پر محمول کرتے ہیں وہ رب تعالیٰ کی ذات کی نفی و تعطیل اور اس کے معدوم کے مشابہ ہوے کے عقیدہ باطلہ میں مبتلا ہو گئے ، جیسا کہ حماد بن زید کا قول ہے ، فرماتے ہیں: جہمیہ کی مثال اس قوم جیسی ہے جو کہے ہمارے گھر میں کھجور کا درخت ہے ، ان سے پوچھا گیا:

اس کی شاخیں ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔

اس کی ٹہنیاں ہیں؟ انہوں نے کہا : نہیں۔

اس میں تازہ پھل اور خوشے ہیں؟ جواب دیا نہیں۔

اس کا تنا ہے ؟ جواب دیا نہیں۔

تو اس قوم سے یہی کہا جائے گا: تمہارے گھر میں کھجور کا کوئی درخت نہیں۔”

مطلب یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے صفات کی نفی کر رہا ہے وہ درحقیقت معبود کی نفی کر رہا ہے ، اس لئے کہ ایسی کسی ذات کا وجود نہیں جو صفات سے خالی ہو۔ اس لیئے حافظ ابن القیم اپنے قصیدہ نونیہ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:

"مشبہ صنم کا پجاری ہے ، جبکہ معطل عدم کا ، اور موحد اس الہٰ کی عبادت کرتا ہے ، جو واحد و صمد ہے ، اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے او وہ ذات سمیع و بصیر ہے ۔”

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

"معطل کا دل عدم کے ساتھ معلق ہے ، اور وہ احقر الحقیر چیز ہے ، جبکہ مشبہ کا دل صنم کے ساتھ معلق ہے جو تصویروں اور اندازوں سے گھڑا اور تراشا جاتا ہے ، جبکہ موحد کا دل اس ذات کی پرستش کر رہا ہے ، جس جیسی کوئی چیز نہیں ہے ، اور وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے ”

2- اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ افعال ِ عباد کے تعلق سے جبریہ اور قدریہ کے افراط و تفریط کے درمیان واقع ہے ۔

جبریہ ، بندوں سے ہر قسم کے اختیار کی نفی کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بندوں سے جو اعمال و افعال سرزد ہو رہے ہیں وہ بلا قصد و اختیار سرزد ہو رہے ہیں، جس طرح کے درختوں کی شاخوں اور پتوں کی حرکت غیر اختیاری ہے ۔ جبکہ قدریہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا انکار کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بندہ اپنے ہر طرح کے افعال کا خود ہی خالق ہے ۔ جبکہ اہل السنۃ والجماعۃ، بندے کیلئے اس حد تک مشیت و اختیار ثابت کرتے ہیں جیسے بروئے کار لا کر وہ اجر ثواب یا عذاب و عقاب کا مستحق بنتا ہے ، لیکن وہ بندے کو اس مشیئت و اختیار میں مستقل نہیں سمجھتے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ کے تابع قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّسْتَقِيْمَ ، وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ) (التکویر:28-29)

ترجمہ:” (یہ قرآن نصیحت ہے بالخصوص ) اس کیلئے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلتا ہے ۔ اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے "​

اور یہ عقیدہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام بندوں اور ان کے تمام افعال کا خالق ہے ، جیسا کہ فرمایا:(وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ) (الصافات:96)

ترجمہ:” حالانکہ تمہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو، کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے "​

3- اہل السنۃ والجماعۃ ، وعدووعید کے باب میں مرجئہ اور خوارج و معتزلہ کی افراط و تفریط کے مابین اعتدال کی راہ پر قائم ہیں۔

مرجئہ کا عقیدہ ہے کہ جس طرح کفر کی حالت میں کی گئی نیکی فائدہ نہیں دیتی ، اسی طرح ایمان کی حالت میں کیئے گئے گناہ کا کوئی نقصان نہیں۔ اس سلسلہ میں ان کا اعتماد صرف نصوص ِو عد پر ہے جبکہ نصوصِ شرعیہ کو انہوں نے مہمل و معطل قرار دے دیا ہے ۔ نصوصِ و عد سے مراد ثواب و بشارت پر مشتمل آیات و احادیث ہیں، جبکہ نصوصِ وعید سے مراد وہ آیات و احادیث جن میں سزا اور عذاب و عقاب کا ذکر ہے ۔ گویا مرجئہ اس قدر تفریط کا شکار ہیں کہ ان کے نزدیک گناہ کا کوئی نقصان نہیں۔۔۔۔ اس کے برخلاف خوارج و معتزلہ کا افراط ہے ، جنہوں نے ایک کبیرہ گناہ کے مرتکب کو دنیا میں ایمان سے خارج قرار دے دیا اور آخرت میں اس کے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنمی ہونے کا عقیدہ اپنا لیا۔ خوارج و معتزلہ نے یہ عقیدہ اختیار کرنے کیلئے نصوصِ وعید پر اکتفاء کر لیا اور نصوصِ وعد کو پسِ پشت ڈال دیا۔ جبکہ اہل السنۃ والجماعۃ نے نصوص ِ وعد اور نصوص وعید دونوں کو ساتھ ساتھ لیا، ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ تو ایمان سے خارج ہے اور نہ آخرت میں مخلد فی النار ہے ، بلکہ اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہو گا چاہے عذاب دے دے اور چاہے معاف فرما دے ، اگر عذاب دے گا تو ہمیشہ جہنم میں نہیں رکھے گا جس طرح کہ کفار کیلئے جہنم کی ہمیشگی ہے ، بلکہ اسے جہنم سے بالآخر نکال کر جنت میں داخل فرما دے گا۔

4- اہل السنۃ والجماعۃ ، ایمان کے باب میں مرجئہ اور خوارج و معتزلہ کہ افراط و تفریط کے مابین اعتدال کی راہ پر قائم ہیں۔

اس سلسلہ میں مرجئہ کی تفریط یہ ہے کہ وہ نافرمان مؤمن کو کامل ایمان تصور کرتے ہیں۔ اور خوارج و معتزلہ کی تفریط یہ ہے کہ وہ نافرمان مؤمن کو ایمان سے خارج قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد خوارج تو اس کے کافر ہونے کا حکم لگاتے ہیں، لیکن معتزلہ کے نزدیک وہ ایمان سے خارج تو ہے لیکن کفر میں داخل نہیں، بلکہ ایمان و کفر کے درمیان ایک تھکانے پر کھڑا ہے ۔

اہل السنۃ والجماعۃ ، نافرمان مؤمن کو ناقص الایمان تصور کرتے ہیں، اسے نہ تو مرجئہ کی طرح کامل ایمان تصور کرتے ہیں کہ یہ تفریط کا راستہ ہے ، اور یہ ہی خوارج و معتزلہ کی طرح ایمان سے خارج قرار دیتے ہیں کہ یہ افراط کا راستہ ہے ۔ بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ وہ اپنے ایمان پر قائم رہنے کی بناء مؤمن ہے ، اور کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے فاسق ہے ، نہ تو اسے ایمانِ مطلق کا پروانہ دیتے ہیں اور نہ ہی اس سے مطلق ایمان کا حکم سلب کرتے ہیں۔

اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک ایک بندے کے اندر ایمان اور معصیت اور محبت و بغض کا جمع ہونا ممکن ہے ، چنانچہ اس کے اندر موجود ایمان کی بناء پر اس سے محبت کی جائے ، اور اس سے فسق و فجور کے ارتکاب کی بناء پر بغض رکھا جائے ۔ محبت وبغض کے اس اجتماع کو بڑھاپے کی مثال سے سمجھ جا سکتا ہے ، بڑھاپا انتہائی پسندیدہ بھی ہے اور انتہائی نا پسندیدہ بھی ، پسندیدہ اس وقت جب اس کے مابعد یعنی موت کو دیکھا جائے ، اور ناپسندیدہ

اس وقت جب اس کے ماقبل یعنی جوانی کو دیکھا جائے ، جیسا کہ کسی شاعر کا قول ہے :

الشیب کرۃ واکرۃ ان نفارقَہ

فاعُجب لشی ء علی البغضاءِ محبوب

بڑھاپا نا پسندیدہ ہے لیکن اس سے مفارقت اور بھی ناپسندیدہ ہے (کیونکہ مفارقت کا مطلب موت ہے ) لہذا ناپسندیدگی کے باوجود اسے پسند کیئے رہو۔

5- اہل السنۃ والجماعۃ ، خوارج و روافض کے اندر موجود افراط و تفریط کے مابین مذہبِ اعتدال پر قائم ہیں۔

چنانچہ افراط یہ ہے کہ انہوں نے علی اور معاویہ رضی اللہ عنھما اور ان کے ساتھ موجود صحابہ کرام کو کافر کہا ، ان سے قتال کیا اور ان کے اموال کو حلال سمھجا۔ دوسری طرف روافض کی تفریط ملاحظہ کیجئے کہ انہوں نے علی، فاطمہ اور ان کی اولاد رضی اللہ عنھم کے بارہ میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ انہیں معصوم قرار دینے لگے ، اور دوسری طرف تمام صحابہ کو اپنے بغض اور سب و شتم کا نشانہ بنایا۔

اہل السنۃ والجماعۃ تمام صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں، ان کے ساتھ دوستی اور ولاء قائم کرتے ہیں، اور انہیں انکے اصل مقام و مرتبہ پر فائز سمجھتے ہیں، اور کسی صحابی کے معصوم ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتے ۔ اس سلسلہ میں امام طحاوی اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"ہم رسول اللہ ﷺ کے تمام صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور کسی کی محبت میں نہ تو افراط و غلو کے قائل ہیں اور نہ ہی کسی صحابی سے بغض وبراء کا نظریہ رکھتے ہیں۔ اور صحابہ کرام کا بغض رکھنے والا اور انہیں کلمہ خیر سے یاد نہ کرنے والا ہمارے نزدیک نفرت و بغض کا مستحق ہے ۔ ہم ہمیشہ خیر کے ساتھ صحابہ کا ذکر کرتے ہیں، ان کی محبت دین، ایمان اور احسان ہے ، جبکہ ان کے ساتھ بغض و عداوت رکھنا کفر ، نفاق اور سرکشی ہے ۔”

امام طحاوی کا یہ فرمان:” ہم رسول اللہﷺ کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں” کا مطلب یہ ہوا کہ اہل السنۃ اصحابِ رسول کے بارہ میں اس جفاء سے پاک صاف اور بری ہیں جس میں روافض و خوارج مبتلا تھے ۔ اور ان کا یہ فرمانا: ” ہم کسی کی محبت میں افراط و غلو کے قائل نہیں” کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ان سے محبت کے تعلق سے ہر قسم کے غلو سے پاک ہیں۔ چنانچہ ہم ان سے محبت

کرتے ہیں اس طرح ہم جفاء میں مبتلا نہیں اور اس محبت میں کسی قسم کا غلو روا نہیں رکھتے اس طرح ہم مبتلائے غلو بھی نہیں ہیں۔

واضح ہوکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان امور کو کہ جن میں اہل السنۃ والجماعۃ ، بقیہ فِرَق کے درمیان راہِ اعتدال پر قائم ہیں کو” العقیدۃ الواسطیۃ” میں اجمالاً بیان فرمایا ہے ، چنانچہ فرماتے ہیں:

"اہل السنۃ والجماعۃ صفاتِ باری تعالیٰ کے بارہ میں اہل تعطیل جہمیہ اور اہل تمثیل مشبہ کی افراط و تفریط اور افعالِ عباد میں جبریہ اور قدریہ کی افراط و تفریط ، اور وعد و وعید کے باب میں مرجئہ اور خوارج کی افراط اور تفریط کے مابین راہِ اعتدال پر قائم ہیں۔”

 

 

 

                تیسرا فائدہ: عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ مطابقۃ للفطرۃ۔

تیسرا فائدہ

 

تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ فطرت کے مطابق ہے ۔​

صحیح بخاری (1385) اور صحیح مسلم(2658) میں (اور یہ الفاظ صحیح بخاری کے ہیں) ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبیﷺ نے فرمایا:”ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔۔۔۔”

صحیح مسلم (2865) میں عیاض بن حمارالمجاشی ؓ سے مروی ہے ،(حدیثِ قدسی) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

"۔۔۔۔۔۔ اور میں نے تو اپنے تمام بندوں کو حنفاء پیدا کیا ہے مگر شیاطین نے ان کے پاس آ کر انہیں ان کے دین سے برگشتہ کر دیا ، اور میری حلال کردہ اشیاء کو حرا م کر دیا، اور انہیں میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دے دیا، حالانکہ شرک ایک ایسی چیز ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے ”

یہ دونوں حدیثیں اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ دینِ اسلام ، دین ِ فطرت ہے ، اور اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ فطرت کے مطابق ہے ، یہی وجہ ہے کہ صحیح مسلم(537) میں معاویہ بن الحکم السلمی کی روایت کہ جس میں لونڈی کا قصہ مذکور ہے ، چنانچہ معاویہ بن الحکم نے نبی ﷺ سے پوچھا:[کیا میں اسے آزاد کر دوں؟ تو نبی علیہ السلام نے (یہ جاننے کیلئے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں) فرمایا : اسے میرے پاس لاؤ چنانچہ معاویہ فرماتے ہیں: میں لے آیا ، تو آپ ﷺ نے پوچھا: اللہ کہا ں ہے ؟ اس نے کہا: آسمان پر ، آپ ﷺ نے پوچھا : میں کون

ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : اسے آزاد کر دو بے شک یہ مؤمنہ ہے ۔۔۔۔] اس لونڈی نے اپنی فطرتِ سلیمہ سے یہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْرُ ،اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ ) (الملک:16-17)

ترجمہ: ” کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ آسمانوں والا تمہیں زمین میں دھنسا دے ار اچانک زمین لرزنے لگے ۔ یا کیا تم اس بات سے نڈر ہو گئے ہو کہ آسمانوں والا تم پر پتھر برسا دے ؟ پھر تو تمہیں معلوم ہوہی جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا”​

ان دونوں آیتوں سے بصراحت اللہ تعالیٰ کا آسمان میں ہونا ثابت ہو رہا ہے ۔ ” السماء” سے مراد یا تو علو یعنی بلندی ہے اور یا ” فی” بمعنی” علی” ہے ، جیسا کہ قولہ تعالیٰ: (وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ) میں "فی” "علی” کے معنی میں ہے ۔ جو لوگ مبتلائے مرض علمِ کلام ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے علو کو علوئے قدرو مرتبہ اور علوئے قہر پر محمول کرتے ہیں(علو ذات نہیں مانتے ) جبکہ اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علو سے علوئے قدر ، علوئے قہر اور علوئے ذات سب مراد ہیں۔ بعض متکلمین سے ایسی عبارات منقول ہوئی ہیں جن میں وہ یہ اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ” نجات وسلامتی کا راستہ ہماری فلسفیانہ موشگافیاں نہیں، بلکہ ہماری بوڑھی بزرگ خواتین کا عقیدہ ہے جو انتہائی سادہ اور فطرت کے عین مطابق ہے ۔”

شارح الطحاویۃ نے ابو المعالی الجوینی کا ایک کلام نقل کیا ہے جس میں وہ علم کلام کی مذمت کرتے ہوئے : ( اپنی عمر کا ایک طویل حصہ علمِ کلام کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے گزارنے والا یہ شخص بالآ خر) اپنی موت کے وقت کہہ گیا :

"میں اپنی والدہ کے عقیدہ پر مرتا ہوں”​

یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ:” میں نیشا پور کے بوڑھے بزرگوں کے عقیدہ پر مرتا ہوں” امام رازی جو متلکمین کے سرخیل شمار ہوتے ہیں،” لسان المیزان” (4/427) میں ان کے ترجمہ میں ہے :

"وہ اصول کلام میں تجرِ علمی کے باوجود کہا کرتے تھے کہ کامیاب تو وہی ہو گا جو عاجائز یعنی بوڑھی خواتین کے سادہ اور مطابقِ فطرت عقیدے کو اپنا لے ”

ابو محمد الجوینی جو امام الحرمین کے والد ہیں اپنے اشعری مشائخ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"جو شخص اتنا کچھ پڑھ لینے کے باوجود اب تک اپنے معبود کی جہت کو نہیں پہچان پایا، اور ایک بکریاں چرانے والی لونڈی(جس نے نبی علیہ السلام سے کہا تھا کہ اللہ آسمان میں ہے ) اس سے زیادہ اللہ کو جانتی ہے ، تو پھر اس پڑھے لکھے شخص کا دل ہمیشہ اندھیروں اور تاریکیوں میں بھٹکتا رہے گا جو ایمان و معرفت کے انوار سے کبھی منور نہیں ہوسکے گا۔”

(مجموعۃ الرسائل المنیریۃ”(1/185)”طبقات ابن سعد”(5/374) میں ، صحیح مسلم کی شرط پر جعفر بن برقان سے مروی ہے ، فرماتے ہیں: ایک شخص عمر بن عبد العزیز کے پاس آیا، اور بدعات و اھواء کے تعلق سے کچھ باتیں پوچھیں، تو آپ نے فرمایا:

"ان بڑے بڑے لکھاریوں کے بیچ (خالص الفطرت) بچے اور اعرابی کے عقیدے کو تھام لو، اور اس کے سوا ہر چیز بھول جاؤ”

امام نووی نے بھی” تھذیب الأسماء واللغات” (2/22) میں یہ قول ان کی طرف منسوب فرمایا ہے ۔

 

                چوتھا فائدہ:الکلام فی الصفات فرع عن الکلام فی الذات ۔۔۔۔

 

 

چوتھا فائدہ

 

صفاتِ باری تعالیٰ میں گفتگو ذاتِ باری تعالیٰ میں گفتگو کی فرع ہے ، اور بعض صفاتِ باری تعالیٰ میں گفتگو دیگر صفاتِ باری تعالیٰ میں گفتگو کی طرح ہے ​

اہل السنۃ والجماعۃ اللہ تعالیٰ کیلئے تمام اسماء و صفات جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ نے بیان فرما دیئے ، ثابت کرتے ہیں، اور اس طرح ثابت کرتے ہیں جس طرح اس ذات کے جمال و کمال کے لائق ہے ۔ اور اثباتِ میں کسی قسم کی تکییف یا تمثیل یا تاویل کا نہ تو ارتکاب کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں روا سمجھتے ہیں۔

جہمیہ اور معتزلہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تو ثابت کرتے ہیں لیکن صفات کا انکار کرتے ہیں، ہم ان سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی فات میں کلام ، اس کی ذات

میں کلام کی فرع ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات کو بایں طور مانتے ہو کہ وہ ذات مخلوقات کی ذات کے مشابہ نہیں ہے ، ویسی ہی اس کی وہ صفات جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں انہیں اسی طرح مان لینا چاہیئے کہ وہ مخلوقات کی صفات کے مماثل و مشابہ نہیں۔ یعنی ذات کی طرح صفات کو مان لینے میں کیا مانع ہے ؟

اسی طرح اشاعرہ جو اللہ تعالیٰ کی بعض صفات بلا تاویل مانتے ہیں، لیکن بقیہ صفات میں تاویل کرتے ہیں، ان سے کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات میں کلام ، دیگر صفات میں کلام ہی کی طرح ہے ، جب تم بعض صفات کے بارہ میں یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ انہیں بلا تاویل مان لینا چاہیئے جیسا کہ اس ذات کے لائق ہے ، تو بقیہ صفات کے بارہ میں یہ عقیدہ کیوں نہیں رکھتے کہ انہیں بھی بلا تاویل، جیسا اس ذات کے لائق ہے مان لیا جائے ؟ ان دونوں قواعد کی مکمل توضیح کیلئے شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کے رسالہ”التدمریۃ” (46،31) کی طرف مراجعت کی جائے ۔

 

 

 

                الفائدۃ الخامسۃ: السلف لیسوا مؤولۃ ولا مفوضۃ​

 

پانچواں فائدہ

 

سلفِ صالحین اسماء و صفات میں نہ تو تاویل کے قائل تھے اور نہ ان کے معنی میں تفویض کے قائل تھے ​

یہ بات معلوم ہے کہ سلفِ صالحین ، صحابہ و تابعین ، قرآن و حدیث سے ثابت اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء و صفات کو اس طرح مانتے تھے جیسے اس ذات کے جمال و کمال کے لائق ہے ، اور اس بارہ میں تشبیہ، تعطیل یا تکبیف کے روا ہونے کے قطعاً قائل نہیں تھے ۔۔۔۔ لیکن خلف یعنی بعد میں آنے والوں کا عقیدہ اس کے برخلاف ہے ۔ کیونکہ وہ صفاتِ باری تعالیٰ میں تاویلیں کرتے ہیں اور انہیں معنی باطل کی طرف پھیر دیتے ہیں۔ اسی طرح مفوضہ کا طریقہ بھی ، سلفِ صالحین کے طریقہ کے خلاف ہے ۔

مفوضہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے معانی کو بھی اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے کے قائل ہیں ، یعنی ان کا کہنا ہے کہ ان صفات کا معنی بھی اللہ جانتا ہے ، ہم نہیں جانتے ۔ مؤولہ یعنی تاویل کرنے والا گروہ، مفوضہ کے اس عمل کو سلفِ صالحین کا طریقہ قرار دیتا ہے ۔ حالانکہ یہ باطل ہے ، سلفِ صالحین صفات کے

معانی کی تفویض نہیں کرتے تھے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت کی تفویض کرتے تھے ۔ جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے ، جب ان سے اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کی کیفیت کے بارہ میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا:”الاستواء معلوم، والکیف مجھول والایمان بہ واجب، والسؤال عنہ بدعۃ” یعنی اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کا معنی معلوم ہے ، لیکن استواء کی کیفیت مجہول ہے ، لہذا استواء پر ایمان لانا واجب ہے اور کیفیت کا سوال بدعت ہے ۔

ثابت ہوا کہ سلفِ صالحین صفات کے معنی کی تفویض نہیں کرتے تھے ، بلکہ صفات کی کیفیت کی تفویض کرتے تھے ۔ اب جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین عظام کا طریقہ معانی صفات میں تفویض کرنا تھا، وہ تین انتہائی خوفناک گناہوں کا مرتکب بن جاتا ہے :

  1. ایک اس کا سلفِ صالحین کے مذہب سے جاہل ہونا۔
  2. دوسرا اس کا سلفِ صالحین کو جاہل قرار دینا۔
  3. تیسرا اس کا سلفِ صالحین پر جھوٹ باندھنا ۔

جہاں تک اس کے سلفِ صالحین کے مذہب سے جاہل ہونے کا تعلق ہے ، تو اس کی وجہ واضح ہے ، امام مالک رحمہ اللہ کا قول جو ابھی گزرا اس سے منہجِ سلف کا صاف پتا چل رہا ہے لیکن یہ شخص سلفِ صالحین کا مذہب جانتا ہی نہیں۔

جہاں تک اس کا سلفِ صالحین کو جاہل قرار دینے کا تعلق ہے ، تو یہ بھی واضح ہے ، کیونکہ اس کا یہ کہنا کہ سلفِ صالحین صفات کے معانی کی تفویض کرتے تھے ، تو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ انہیں صفات کے معانی کا فہم حاصل نہیں تھا، لہذا وہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت پر یہی بات کہنے پر اکتفاء کر لیتے تھے کہ اس کا معنی اللہ ہی جانتا ہے ،(اور یہ باطل ہے )

جہاں تک اس کے سلفِ صالحین پر جھوٹ باندھنے کا تعلق ہے تو یہ بھی واضح ہے کیونکہ اس نے ایک باطل مذہب کو سلفِ صالحین کی طرف منسوب کیا ہے ، جس سے وہ بالکل بری تھے ۔

 

                الفائدۃ السادسۃ: کل من المشبھۃ والمعطلۃ جمعوابین التمثیل والتعطیل۔​

 

چھٹا فائدہ​

 

مشبہ اور معطلہ دونوں نے اپنے اپنے عقیدے میں تمثیل و تعطیل کو جمع کر دیا ہے ۔​

معطلہ اللہ تعالیٰ صفات کو نہیں مانتے ، بلکہ ان کی نفی اور تعطیل کے قائل ہیں۔ ان کا شبہ یہ ہے کہ صفات کے اثبات سے تشبیہ لاذم آتی ہے ۔ یہ شبہ اس لیئے پیدا ہوا کہ وہ صفاتِ باری تعالٰی کا تصور ، مخلوقات کی صفات کے مشاہدہ کی روشنی میں کر بیٹھے ، چنانچہ اس غلط تصور نے انہیں نفیِ صفات اور تعطیل ِ صفات کی وادی میں دھکیل دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک چیز سے بچنے کی کوشش میں اس سے بھی زیادہ بدترین چیز میں پھنس کر رہ گئے ، کیونکہ انکے اس باطل عقیدہ کا ماحصل یہی ہو گا کہ اللہ تعالیٰ معدومات(جن اشیاء کا وجود نہ ہو) کے مشابہ ہے ، کیونکہ ایسی کسی ذات کا تصور ممکن نہیں جو صفات سے خالی ہو۔

ہم ایک مثال سے وضاحت کرتے ہیں، کتاب وسنت میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ کلام ثابت ہے جس کا ظاہری معنی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ الفاظ و اصوات کے ساتھ کلام فرماتا ہے (جس کی کیفیت ہم نہیں جانتے ) اب جہمیہ اور معتزلہ نے بزعمِ خویش اللہ تعالیٰ کے کلام فرمانے کا وہ تصور ذہن میں بٹھا لیا جو مخلوق کے طریقہ کلام کے مشابہ ہو گا، پھر اس پر یہ لازم آئے گا کہ جس طرح مخلوق کلام کرنے کیلئے زبان، حلق اور ہونٹوں کی محتاج ہے اللہ تعالیٰ کیلئے بھی یہ سب ضروری ہو گا۔ اب چونکہ ان کے نزدیک یہ تمام چیزیں مخلوقات ہی میں متصور ہیں ، تو اگر یہ مان لیں کہ اللہ تعالیٰ بھی کلام فرماتا ہے ، تو اس کا مخلوقات کے مشابہ ہونا لازم آ جائے گا، لہذا انہوں نے صفتِ کلام ہی کا انکار کر دیا۔

جہمیہ نے جو خود ساختہ تصورات کی عمارت تعمیر کی ہے وہ کئی وجوہ سے باطل اور مردود ہے :

  1. اثباتِ صفات اور تشبیہ میں کوئی تلازم نہیں ہے ، کیونکہ اثبات یا تو تشبیہ کے ساتھ ہو گا، یا تنزیہ کے ساتھ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کیلئے صفت کے اثبات کا تشبیہ کے ساتھ ہونا باطل ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (لَیسَ کَمِثلِہ شَی ء وَھُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ) اب یہاں اللہ تعالیٰ کیلئے صفتِ سمع و بصر ثابت ہیں، اور ساتھ ساتھ مشابہت اور مماثلت کی نفی بھی ہے ، اور یہی اللہ تعالیٰ کے جلال و کمال کے

لائق ہے ، اور یہی حق ہے ،(لہذا اثباتِ صفت کیلئے لازما تشبیہ کا تصور جہمیہ و معتزلہ کا اپنا پیدا کردہ ہے ، جو مردود ہے۔)

  1. دوسری وجہ یہ ہے کہ اثباتِ صفات سے تشبیہ لازم آنے کا ان کا جو زعم ہے ، جس کی بناء پر یہ صفات کا انکار کر دیتے ہیں، بذاتِ خود ایک بہت بڑے اور بدترین محذور کے پیدا ہونے کا باعث بنتا ہے اور وہ ہے خالق کا معدومات کے مشابہ ہونا ۔ اس کے بارہ میں اہلِ علم کا کچھ تبصرہ گزر چکا ہے ، خصوصاً امام ذھبی نے حما د بن زید کے حوالے سے جو کھجور کی مثال بیان کی ہے جس میں کھجور والوں نے اپنے گھر کھجور کا درخت ہونے کا دعویٰ کیا لیکن جب ان سے کھجور کے درخت کی تمام صفات کا پوچھا گیا تو ہر صفت کی نفی کی، جس پر ان سے کہا گیا کہ تمہارے گھر میں کھجور کا درخت نہیں ہے ۔ چنانچہ فائدہ نمبر(3) میں اس کی تفصیل موجود ہے (خلاصہ یہ ہے کہ معطلہ نے تشبیہ کے ڈر سے اللہ تعالیٰ کی صفات کا نکار کیا، تو اس ذات کو صفات سے معطل کر کے معدوم جیسا بنا دیا جو ان کے پیدا کیئے ہوئے محذور سے زیادہ محذور ہے )
  2. تیسری وجہ یہ ہے کہ بعض مخلوقات کا کلام کرنا ثابت ہے اور وہ مخلوقات کے طریقہ کلام سے یکسر مخالف ہے ، چنانچہ بکری کی دستی جس میں نبی ﷺ کیلئے زہر ملا دیا گیا تھا نے نبی ﷺ سے بات کی اور آپﷺ کو اپنے زہر آلود ہونے کی خبر دی۔(ابوداؤد،1245،1045)

صحیح مسلم(7722) میں جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: [میں مکہ میں ایک پتھر کو جانتا ہو جو میری بعثت سے قبل مجھے سلام کیا کرتا تھا، میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں]

یہ دنیا کے اندر بعض مخلوقات کے کلام کرنے کی مثالیں ہیں، آخرت میں بعض مخلوقات کے کلام کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے ، چنانچہ فرمایا: (الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ) (یس:65)

ترجمہ:” ہم آج کے دن ان کے منہ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے ان کاموں کی جو وہ کرتے تھے "​

اور فرمایا: (حَتّىٰٓ اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ،وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَّهُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ) (فصلت:21،20)

ترجمہ:” یہاں تک کہ جب بالکل جہنم کے پاس آ جائیں گے ان پر ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے اعمال کی گواہی دیں گی۔ یہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وہ جواب دیں گی کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے قوتِ گویائی عطا فرمائی جس نے ہر چیز کو بولنے کی طاقت بخشی ہے ، اسی نے تمہیں اول مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے "​

کیا یہاں یہی کہو گے کہ دستی ، پتھر، ہاتھوں اور پاؤں کا زبان ، حلق اور ہونٹوں کے بغیر کلام ممکن نہیں ہے ۔ جب ان مخلوقات کا کلام کرنا ثابت ہے اور وہ بھی اس طرح جو عام مخلوقات کے طریقہ کلام سے مختلف ہے ، تو پھر اللہ تعالیٰ جس کی قدرت کی کوئی انتہاء نہیں اس کی صفتِ کلام کو مخلوق کے مشابہ قرار دینے کی کیا ضرورت اور مجبوری ہے ؟

یہاں امر واجب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ کلام برحق ہے ، اس کا اثبات واجب ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح اس کی شانِ کمال و جلال کے لائق ہے ۔

اس تقریر سے ثابت ہوا کہ معطلہ نے تعطیل کے ساتھ ساتھ تشبیہ کا بھی ارتکاب کیا ہے ۔

(یعنی اللہ تعالیٰ کو معدومات تشبیہ دیتے ہیں)

جس طرح معطلہ نے تشبیہ کا ارتکاب کیا ہے ، اسی طرح مشبہ نے تعطیل کا ارتکاب کیا ہے ۔ چنانچہ اگر چہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا اثبات کیا ہے لیکن اسے مخلوقات کے مشابہ قرار دے دیا ہے ۔۔۔۔۔ چنانچہ وہ معطلہ بھی ہو گئے کیونکہ انہوں نے صفات کو اس طرح نہیں مانا جس طرح اللہ تعالیٰ کے لائق ِ شان ہے ۔ تو کیوں کہ یہ ماننا خلافِ شریعت ہے لہذا وہ ماننے کے باوجود منکر اور معطل قرار پائے ۔

 

 

                الفائدۃ السابعۃ: متکلمون یذ مون علم الکلام ویظھرون الحیرۃ والندم​

ساتواں فائدہ

 

بعض متکلمین کا علم ِ کلام کی مذمت کرنا اور علمِ کلام کے ساتھ تعلق کی وجہ سے حیرت و ندامت کا اظہار کرنا۔​

اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ کتاب اللہ و سنتِ رسول اللہﷺ کی دلیل ، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم وارضاھم کے فہم پر مبنی ہے ۔ یہ بہت ہی ستھرا، روشن ، واضح اور بین عقیدہ ہے جس میں ابہام یا پیچیدگی نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ ان لوگوں کے برخلاف ، جنہوں نے عقیدہ کے سلسلہ میں عقول پر اعتماد کیا، نقول (یعنی قرآن و حدیث) میں من مانی کی تاویلیں کیں اور مذموم قسم کے علمِ کلام پر اپنے معتقدات کی بناء قائم کر دی۔ جبکہ علمِ کلام کے نقصانات سے تو ان لوگوں نے بھی آگاہ کیا جو ایک عرصہ اس علم کے ساتھ منسلک و مبتلیٰ رہے ، بلکہ ایک فضول اور بے مقصد کام میں تضیعِ اوقات پر نیز حق تک رسائی حاصل نہ ہونے پر ندامت و خجالت کا اظہار کرتے رہے ۔ ان کا انجام کا تحیر ، سر گردانی اور ندامت کے سوا کچھ نہ ہوتا، البتہ بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے علمِ کلام کے ترک اور طریقہ سلف کی اتباع کی توفیق دے دی۔ انہوں نے پھر علمِ کلام کی خوب مذمت وشناعت بیان کی۔

ابو حامد الغزالی رحمہ اللہ جو علمِ کلام میں تمکن و رسوخ میں خوب شہرہ رکھتے تھے ، لیکن پھر بالآخر انہوں نے علمِ کلام کی مذمت کی اور بہت ڈٹ کر مذمت کی، اور گھر کے بھیدی سے بہتر خبر کون دے سکتا ہے ؟ وہ اپنی کتاب” احیاء علوم الدین” (92۔91) میں علم کلام کے نقصانات و خطرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"جہاں تک علمِ کلام کے نقصانات کا تعلق ہے تو اس کا کام شکوک و شبہات ابھارنا عقائد میں ضعف وضمحلال پیدا کرنا اور وہ جزم و قطعیت جو عقیدہ کا اصل لازمہ ہے کو یکسر زائل کر دینا ہے ۔ یہ مرض ابتداء ہی سے لاحق ہو جاتا ہے ، پھر اتنی پختگی آ جاتی ہے کہ رجوع الی الحق کے سلسلہ میں ٹھوس اور قطعی دلیل کا معاملہ بھی مشکوک ہو جاتا ہے ، اس حوالے سے لوگوں کے مختلف ذہنی مستوی دیکھنے میں آتے ہیں۔ علمِ کلام کا ایک نقصان تو یہ ٹھہرا کہ یہ اعتقادِ حق میں ضعف اور شکوک پیدا کرتا ہے ، دوسری طرف یہ نقصان بھی ہے کہ یہ مبتدعین کے باطل عقائد کے سینوں میں مضبوطی و پختگی کا باعث بنتا ہے ، اس طرح کی اولاً ان کے دواعی و محرکات ابھرتے ہیں، پھر رفتہ رفتہ ان عقائدِ باطلہ پر مصر رہنے کی شدید حرص پیدا ہو جاتی ہے ، یہ صرف اس تعصب کی پیداوار ہے جو علمِ کلام کے اصل محور یعنی جدل اور لاحاصل قیل و قال سے جنم لیتا ہے ”

امام غزالی مزید فرماتے ہیں:

"جہاں تک علمِ کلام کے فوائد کا تعلق ہے تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حقائق کے منکشف ہونے اور ان کی حقیقی معرفت حاصل ہونے کا فائدہ دیتا ہے ، لیکن یہ بات انتہائی بعید اور ناممکن ہے ، علمِ کلام اس پاکیزہ مقصد میں ہر گز وفا نہیں کرتا، بلکہ غور کریں تو یہ حقائق کے کشف و معرفت سے زیادہ خبط و ضلالت پیدا کرنے کے کردار پر قائم ہے ، یہ بات اگر تم کسی محدث سے یا ایسے شخص سے سنو گے جسے تم حشوی کہتے ہو تو شاید تم ان کی مذمت اس گمان پر کرو کہ چونکہ ایک محدث علم ِ کلام سے واقف نہیں ہے اور لوگ جس چیز سے واقف نہ ہوں اس کے دشمن ہوتے ہیں، لیکن تم یہ بات اس شخص سے سنو جو علمِ کلام کو جانتا ہے ، اور اس کی اصلیت کو پہچان لینے اور درجہ متکلمین کے انتہائی اور آخری مقام پر ٹکریں مارنے کے بعد اس سے ناراضگی اختیار کر کے اسے ٹھکرا دینے کی ٹھان لیتا ہے اور پوری بصیرت کے ساتھ یہ باور کر لیتا ہے کہ علمِ کلام کے ذریعہ معرفت کے حقائق کا راستہ بالکل بند اور مسدود ہے ۔ ہاں علمِ کلام بعض امور کے کشف ، ایضاح اور تعریف کا باعث ضرور بنتا ہے ، لیکن انتہائی نادر، اور وہ بھی ایسے امور کی جنہیں علمِ کلام میں تعمق کے بغیر بھی سمجھا جا سکتا ہے ”

عقیدہ طحاویہ کے شارح نے غزالی کے علم ِ کلام کی مذمت پر مشتمل اس تبصرے اور دیگر تبصروں کو نقرل کر کے فرمایا ہے (ص:238)

"امام غزالی جیسی شخصیت کا علمِ کلام کے بارہ میں یہ تبصرہ انتہائی مکمل اور قاطع حجت ہے ”

پھر شارحِ طحاویہ نے بتلایا کہ سلف ِ صالحین علمِ کلام کو ناپسندیدہ اور قابلِ مذمت سمجھتے تھے جس کی وجہ یہ ہے کہ علمِ کلام ایسے امور پر مشتمل ہے جو جھوٹ اور مخالفت ِ حق پر مبنی ہیں، ان کے یہ امور کتاب و سنت اور ان کے اندر موجود علومِ صحیحہ کے مخالف ہیں۔ اہلِ کلام ان امور کے حصول کیلئے انتہائی سخت اور دشوار گزار راستوں پر چلتے رہے پھر ان امور ، جن کا نفع انتہائی کم ہے کے اثبات کیلئے طویل اور بے مقصد گفتگو کرتے اور لکھتے رہے ۔ اب ان کا فلسفہ دبلے پتلے اونٹ کے اس گوشت کی مانند ہے جو پہاڑ کی ایسی چوٹی پر پڑا ہوا ہے جس کا راستہ انتہائی مشکل اور دشوار ہے ، نہ تو راستہ آسان ہے کہ چوٹی تک بآسانی پہنچا جا سکے نہ اونٹ اتنا فر بہ ہے کہ اس کے گوشت کے لانے کا کوئی فائدہ ہو۔

اہلِ کلام کے پاس جو چیز سب سے اچھی قرار دی جا سکتی ہے، وہی چیز قرآن پاک میں اس سے کہیں بہتر اور خوبصورت تقریر و تفسیر کے ساتھ موجود ہے ۔

شارحِ طحاویہ مزید فرماتے ہیں: یہ بات ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے بابرکت کلام سے تو شفاء ، ہدایت اور علم و یقین حاصل نہ ہو، مگر ان لوگوں کی تحریروں سے حاصل ہو جائے جو خود بھی حیران و پریشانی کے اتھاہ سمندر میں ہچکولے کھا رہے ہیں۔ سنو! ہمارا سب کا فرضِ منصبی یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فرامین کو اصل قرار دے دیں، ان کے معانی پر تدبر و تعقل کریں، ہر شرعی مسئلے کی برہان اور دلیل خواہ عقلِ سلیم سے حاصل ہو یا ایسی نقل سے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ کی خبر سے ہوا چھی طرح پہچان لیں، پھر اس دلیل کی صحیح دلالت جان لینے کے بعد لوگوں کے اقوال ، جو اس دلیل کے موافق بھی ہوسکتے ہیں اور مخالف بھی، کو اس دلیل پر پیش کیا جائے ، اگر ان کی بات رسول اللہﷺ کی بیان کردہ خبر کے موافق ہوتو قبول کر لی جائے ، مخالف ہے تو رد کر دی جائے ۔

شارح طحاویہ (ص242) میں مزید فرماتے ہیں: ابن رشد الحفید جو کہ فلاسفہ کے مذہب و مقالات کو سب سے بڑھ کر جاننے والا تھا اپنی کتاب” تھافت التھافت” میں لکھتا ہے : (فلاسفہ و متکلمین میں سے ) کسی نے الہٰیات (عقائد) کے بارہ میں کوئی قابلِ اعتبار بات لکھی ہے ؟ اسی طرح آمدی جو اپنے دور کی بڑی شخصیت شمار ہوتا تھا بڑے بڑے مسائل میں مجنمہ حیرت بنے کھڑا ہے ۔ امام غزالی رحمہ اللہ، ساری عمر فلسفہ و کلام میں منسلک رہنے کے بعد آخری عمر میں بہت سے مسائل ِ کلامیہ میں توقف و تحریر کی تصویر بنے دکھائی دیتے اور بالآخر ان طریق سے تائب ہو کر رسول اللہﷺ کی احادیث پر ہمہ تن متوجہ ہو گئے اور پھر اسی سلسلہ مبارکہ میں تا حیات مشتغل رہے حتیٰ کہ انتقال کے وقت بھی صحیح بخاری ان کے سینے پر تھی۔

اسی طرح امام عبد اللہ محمد بنع مر الرازی اپنی اقسام اللذات کے موضوع پر تحریر کردہ کتاب میں یہ اشعار لکھنے پر مجبور ہوئے :

ترجمہ: (1) عقلوں کے ہرا اقدام کی انتہاء حیرت اور بندش ہے جبکہ عقلوں کی بنیاد پر دنیا والوں کی ہر کوشش ناکام و نامراد اور گمراہی ہے ۔

(2) ہماری روحیں ہماری جسموں سے متوحش ونامانوس ہیں، اور ہماری دنیا کا حاصل محض اذیت و وبال ہے ۔

(3) پوری عمر لمبی لمبی بحثوں سے ہمیں سوائے قیل و قال جمع کرنے کے اور کچھ حاصل نہ ہوا۔

(4) ہم نے کتنی سلطنتیں اور سربراہ دیکھے مگر سب بڑی تیزی سے ہلاکت کا شکار ہو کر گزر گئے ۔

(5) کتنے ہی پہاڑ دیکھے جن کی چوٹیوں کو لوگوں نے سرکیا اب ان میں سے کوئی نہیں بچا جبکہ پہاڑ اپنی جگہ اسی طرح قائم ہیں۔

امام رازی مزید فرماتے ہیں: میں نے علم کلام کے طرق اور فلسفی منہج پر بڑا غور و خوض کیا ہوا ہے ، لیکن ان میں کسی بیمار کے علاج یا کسی پیاسے کی سیرابی کی کوئی صلاحیت نہیں ہے ، مکمل طور پر درست راستہ وہی ہے جو قرآنِ مجید ے پیش کر دیا ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے اثبات میں اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین پڑھو!:

(اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى) (طحہ:5)

ترجمہ:” جو رحمٰن ہے عرش پر قائم ہے ”

(اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ) (فاطر:10)

ترجمہ:” تمام تر ستھرے کلمات اس کی طرف چڑھتے ہیں”​

جبکہ نفی(صفاتِ نقص) کیلئے ان فرامین کو پڑھو!

(لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌ) (الشوریٰ:11)

ترجمہ:” اس کے مثل کوئی چیز نہیں”

(وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِه عِلْمًا) (طحہ:110)

ترجمہ:” مخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہوسکتا "​

آخر میں فرماتے ہیں : میری طرح کا تجربہ جو شخص بھی کرے ا وہ بالآخر اس نتیجہ پر پہنچے گا جس پر میں پہنچا ہوں(لہذا ان تخرصات میں وقت ضائع کرنے کی بجائے براہ راست کتاب وسنت کو دل و جان کی بہارو قرار بنا لو)

شیخ ابو عبد اللہ محمد بن عبد الکریم الشھر ستانی فرماتے ہیں کہ انہوں نے فلاسفہ و متکلمین کے پاس حیرت و ندامت کے سوا کچھ نہیں دیکھا ۔ ان کے دو شعر ملاحظہ کیجئے :

انکےلعمری لقدطفت المعاھد کلھا وسیرت طرفی بین تلک المعالم

فلم أر الاواضعا کف حائر علی ذقن أو قار عاسن نادم​

ترجمہ: قسم سے ! میں فلسفہ و کلام کے تما مدارس کی خاک چھان چکا ہوں، مجھے یہاں پر ہر شخص حیرت و ندامت کے بوجھ تلے دبے اپنی ٹھوڑی یہ ہاتھ رکھا دکھائی دیا۔

ابو المعالی الجوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

دوستو! علمِ کلام سے کسی قسم کا تعلق جوڑنے کی کوشش نہ کرنا، اس علم کلام نے مجھے جس مقام پر لا کھڑا کیا ہے اگر مجھے پہلے سے اندازہ ہوتا تو میں ہر گز اس کے ساتھ منسلک نہ ہوتا۔

موت کے وقت فرمایا: میں بڑے تاریک و عمیق سمندر میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں اور ان کے پاکیزہ کلام سے پہلو تہی برتتے ہوئے ایک ایسی وادی میں داخل ہو گیا جس سے مجھے وہ روکتے رہے اور اب اگر جوینی کے بیٹے کو پروردگار کی رحمت حاصل نہ ہوئی تو لمبی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔ اور اب میں اپنی موت کے وقت یہ اعلان کر رہا ہوں کہ میں اپنی والدہ کے عقیدے پر ہوں، یا یوں کہا: میں نیسا پور کی بوڑھیوں کے سیدھے سادھے عقیدے پر ہوں۔

شمس الدین خسروشاہی جن کا فخر الدین رازی کے انتہائی خاص شاگردوں میں شمار ہوتا ہے ، اپنے ایک دوست سے ملاقات کیلئے گئے ، ان سے پوچھا : تمہارا عقیدہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا: جو تمام مسلمانوں کا ہے ، پوچھا : تمہیں اس عقیدے پر دل کا پورا انشراح اور یقین حاصل ہے ؟ دوست نے کہا: بالکل۔ کہا: اس عظیم نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ، اللہ کی قسم! میرا حال یہ ہو چکا ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا عقیدہ اپناؤں! اللہ کی قسم مجھے سمجھ نہیں آ رہی کیا عقیدہ اپناؤں، اللہ کی قسم مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا عقیدہ اپناؤں! پھر اس قدر روئے کہ پوری داڑھی آنسؤوں سے بھیگ گئی۔

ابن ابی حدید الفاضل ، جو عراق میں اس مکتب سے تعلق کی شہرت رکھتے ہیں فرماتے ہیں:

فیک یا أغلو طۃ الفکر ھار أمری وانقضی عمری

سافرت فیک العقول فما ربحت الا أذی السفر

فلحی اللہ الألی زعموا انک المعروف بالنظر

کذبوا ان الذی ذکروا خارج عن قوۃ البشر

ترجمہ: (1) اے کج فکری (فلسفہ و کلام) تجھ سے تعلق میں پوری عمر کٹ گئی اور حیرت کے سوا کچھ نہ پایا۔

(2) تیرے حصول کے خاطر عقلوں نے لمبے لمبے سفر کیئے لیکن سفر کی تھکان و اذیت کے سوا کچھ فائدہ نہ ہوا۔

(3) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو برباد کر دے جن کا خیال ہے کہ تو نظر واستدلال کا حق سکھاتی ہے ۔

(4) جنہوں نے یہ کہا جھوٹ کہا، یہ معاملہ تو انسانی طاقت سے باہر ہے (یہاں تو محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے اخبار و فرامین کو قبول کرنا ہی موجبِ عافیت ہے )

خونجی نے اپنی موت کے وقت کہا: جو کچھ میں نے پڑھا اس کا ماحصل یہ ہے کہ ہر ممکن ، مرجح کی محتاج ہے ۔۔۔۔ پھر کہا: محتاج ہونا ایک سلبی و صف ہے ۔۔۔ گویا اب جبکہ میں موت کے منہ میں ہوں، علم و معرفت سے بالکل کورا ہوں۔

علمِ کلام کا ایک اور راہی کہتا ہے : میں اپنے بستر پر لیٹتا ہوں اور لحاف اپنے منہ پر رکھ لیتا ہوں اور مختلف متکلمین کے دلائل میں مقارنہ و مقابلہ شروع کرتا ہوں، فجر طلوع ہو جاتا ہے اور میں کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پاتا۔

(شارحِ طحاویہ مزید فرماتے ہیں) اب فلاسفہ و متکلمین کو دیکھو کہ اس قوم کا ایک شخص اپنی موت کے وقت نیسا پور کے بوڑھیوں کے مذہب اور عقیدے کو اپنانے کا اعلان کر رہا ہے ، گویا وہ موشگافیاں جنہیں”دقائقِ علم” کا نام دیا جاتا تھا، جو بوڑھیوں کے عقیدے کے سراسر خلاف تھیں اور بحث و تمحیص کے بعد جن کی صحت کا قطعی فیصلہ کر لیا جاتا لیکن پھر ان کا فاسد ہونا ثابت ہو جاتا ، یا ان کا صحیح ہونا کبھی ثابت نہ ہو پاتا، آج ان سب کو ٹھکرا چکے ہیں، اور اس عذاب سے بچ نکل کر کس مقام پر کھڑے ہیں؟ ایسے مقام پر جہاں سچے اہل علم کے پیرو کار چھوٹے چھوٹے بچے ، عورتیں اور اعرابی پہلے سے موجود ہیں۔( گویا فلسفہ و کلام کی انتہاء جس مقام پر ہو رہی ہے وہاں سے خالص عقیدہ شرعیہ کی ابتداء ہو رہی ہے )

امام الحرمین کے والد، ابو محمد الجوینی(علمِ کلام سے اشتغال کی بناء پر) اللہ عزوجل کی صفات کے بارہ میں ایک عرصہ حیرت و اضطراب کا شکار رہے پھر بالآ خر سلفِ صالحین کا مذہب اپنا لیا اور اس تعلق سے اپنے اشعری اساتذہ کو خیر خواہی کا خط بھی لکھا جو” مجموعۃ الرسائل المنیریۃ” (1/187،174) میں شائع ہو چکا ہے ۔

 

 

                الفائدۃ الثامنۃ: ھل صحیح أن أکثر المسلمین فی ھذا العصر أشاعرۃ؟​

آٹھواں فائدہ

 

کیا یہ بات درست ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اشعری مذہب پر قائم ہے ؟​

واضح ہو کہ اشعری مذہب کے حاملین، ابو الحسن اشعری کی طرف منسوب ہیں، جن کا نام علی بن اسماعیل تھا، جن کا ؁۳۳۰ھ میں انتقال ہوا۔ رحمۃ اللہ علیہ

عقیدہ کے سلسلہ میں ان پر تین دور آئے ۔

پہلا دور و ہ جس میں وہ عقیدہ معتزلہ کے مذہب پر تھے ۔ دوسرا دور وہ شمار ہوتا ہے جس میں وہ معتزلہ اور اہل السنۃ کے مذہب کے بین بین عقیدہ رکھتے تھے ۔ تیسرا اور آخری دور وہ شمار ہوتا ہے جس میں وہ اہل السنۃ سلفِ صالحین کے عقیدہ صافیہ کو اختیار کر لتے ہیں ۔چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب” الابانۃ” جو ان کی آخری کتاب شمار ہوتی ہے اور اگر بالکل آخری نہیں تو کم از کم آخری کتابوں کی فہرست میں جرور ہے ، میں صراحت سے لکھا ہے کہ وہ عقیدہ میں امام اہل السنۃ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب پر ہیں، جو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کیلئے نیز رسول اللہﷺ نے بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے جو اسماء و صفات ثابت کی ہیں ان تمام کو اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے بالکل ویسے ثابت کیا جائے جیسے اس ذات کے لائق ہیں۔۔۔۔ بغیر کسی تکبیف یا تمثیل کے اور بغیر کسی تحریف و تاویل کے ۔۔۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

( لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ) (الشوریٰ:11)

ترجمہ: ” اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے "​

اب امام ابو الحسن الاشعری تو اپنے سابقہ عقیدے سے رجوع کر کے عقیدہ اھل السنۃ والجماعۃ اختیار کر چکے ، مگر اشاعرہ ان کے اسی سابقہ عقیدے کو تھامے ہوئے ہیں۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تمام جماعتوں میں اشاعرہ کی تعداد 95% ہے ۔۔۔۔ لیکن یہ بات درست نہیں، اور اس کی کوئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔

  1. ایک تو یہ کہ اس طرح کے اعداد و شمار کا تعین ایک انتہائی دقیق قسم کے احصائیہ کی متقاضی ہے ، اور ایسا بالکل نہیں ہوسکا، اور معاملہ کالی دعویٰ کی حد تک ہے ۔
  2. 95% فیصد تعداد کی اس نسبت کو اگر تسلیم بھی کر لیں تو یہ مذہب اشاعرہ کے حق ہونے کی دلیل نہیں ہو گی، کیونکہ عقیدہ کی صحت وسلامتی کی دلیل کثرتِ تعداد نہیں ہوتی، بلکہ صحت و سلامتی عقیدہ کی دلیل تو اس امت کے سلفِ صالحین یعنی صحابہ کرام اور ان کے پاکیزہ و مبارک منہج کی اتباع ہے ۔ پھر سوچنے کی بات ہے کہ چوتھی صدی ہجری میں فوت ہونے والے شخص کا عقیدہ ، جس سے وہ رجوع بھی کر چکا ہے کیسے قابلِ اتباع ہوسکتا ہے ؟ اور عقیدے کا معاملہ تو دین میں سب سے اہم ہے ، پھر اس انتہائی اہم معاملہ میں حق صحابہ کرام ، تابعین ِ عظام وتبع تابعین سے کیسے مخفی و محجوب رہا اور ایسی شخصیت پر ظاہر ہو گیا جس کی ولادت بھی خیر القرون کے گزرنے کے لمبے لمبے عرصے بعد ہوئی! اس بات میں کوئی معقولیت ہے !
  3. تیسری بات یہ ہے کہ اشاعرہ کا مذہب تو وہ لوگ اختیار کیئے ہوئے ہیں جنہوں نے یہ عقیدہ اشاعرہ کے علمی مراکز میں یا پھر اشعری مذہب کے حامل مشائخ سے سیکھا ، جبکہ عوام الناس اور جن کی تعداد بہتر زیادہ ہے ، اشعری مذہب کے بارہ میں کچھ نہیں جانتے ، بلکہ وہ تو اس فطرت پر قائم ہیں جس پر اس لونڈی کا عقیدہ تھا، جو صحیح مسلم کی روایت میں ذکر ہو چکا اور الحمد للہ اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ فطرت کے عین مطابق ہے ، اس کی کچھ وضاحت فائدہ نمبر 3 میں ہو چکی ہے ۔

 

 

                الفائدۃ التاسعۃ: عقیدۃ الأئمۃ الأربعۃ ومن تفقہ بمذاھبھم​

 

نواں فائدہ: ائمہ اربعہ اور ان کے مذاہب کے فقہاء کا عقیدہ​

 

اہل السنۃ کے ائمہ میں سے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ کے (اسمائے گرامی بطورِ خاص ذکر کیئے جاتے ہیں) ان تمام أئمہ کرام کا عقیدہ وہی تھا جو صحابہ کرام کا اور ان کے منہج پر چلنے والے ان کے اتباع کا تھا۔

ان أئمہ کے بعد فقہ کی باگ دوڑ سنبھالنے والے علماء فقہاء کے مختلف ذہن سامنے آتے ہیں، کچھ وہ علماء ہیں جو فروعی مسائل میں ان أئمہ کے علم سے استفادہ تو کرتے ہیں لیکن ان کا اصل اعتماد دلیل پر ہوتا ہے ، چنانچہ ان کے امام کا جو قول کتاب وسنت کے مطابق ہوتا ہے اسے لے لیتے اور جو قول کتاب وسنت کی دلیل کے خلاف ہوتا ہے اسے چھوڑ دینے کے منہج پر قائم ہیں، ان کا مستند یہ ہے کہ ہمارے اماموں نے یہی وصیت کی ہے (یعنی ہم کو ئی بات کہیں اور کتاب وسنت کی دلیل اس کے خلاف ہو تو ہمارے قول کو دیوار سے دے مارو) ان فقہائے کرام نے عقیدہ کے مسائل میں بھی اپنے اپنے ائمہ کے منہج سے پوری پوری موافقت کی۔۔۔ کچھ ایسے حضرات بھی آئے جنہوں نے فروعی مسائل میں اپنے اماموں کی پوری طرح تقلید کی اور ان مسائل کے سلسلہ میں قولِ راجح اور ان کی دلیل معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

اس طبقہ کے علماء فقہاء میں سے گو بعض علماء نے عقیدہ کے مسائل میں بھی اپنے اماموں کی اتباع کی لیکن بہت سے علماء نے ان مسائل میں اشعری مذہب کی اتباع کر لی(یعنی فروعی مسائل میں اپنے امام کی تقلید میں اتنی شدت کی گویا وہ معصوم ہیں، بلکہ بعض اوقات انکے قول کو قبول کر لیا اور اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان کی پروانہ کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیا اور پسِ پشت ڈال دیا، لیکن جب اعتقادی مسائل کا معاملہ آیا جو فروعی مسائل سے کہیں اہم ہیں تو ان میں اپنے اس امام کو بھی چھوڑ دیا اور اشاعرہ کے مذہب سے منسلک ہو گئے۔)

پہلی قسم میں ہم مثال کے طور پر امام ابو جعفر الطحاوی کا نام پیش کرتے ہیں، جن کا تفقہ تو مذہبِ حنفی پر ہے لیکن عقیدہ کے اعتبار سے سلفِ صالحین صحابہ کرام کے منہج پر قائم ہیں، چنانچہ انہوں نے ” العقیدۃ الطحاویۃ” کے نام سے اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدہ پر مشتمل کتاب بھی لکھی ہے ، اسی طرح اس کتاب کے شارح علی بن ابی العزالحنفی کا نام بھی بطورِ مثال پیش کیا جا سکتا ہے ، جو فقہی اعتبار سے تو حنفی تھے لیکن عقیدۃً سلفی تھے ۔

مذہبِ شافعی میں عبد الرحمٰن بن اسماعیل الصابونی صاحبِ کتاب” عقیدۃ السلف والصحاب الحدیث” ، امام ذہبی صاحبِ کتاب” العلو” اور ابن کثیر صاحبِ تفسیر کا نام بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے ۔

مذہبِ مالکی میں ابن ابی زید القیروانی ، ابو عمر الطلمنکی اور ابو عمر بن عبد البر کے نام ، جبکہ مذہب حنبلی میں امام ابن تیمہ، امام ابن القیم اور امام محمد بن عبد الوہاب رحمہم اللہ کے نام پیش کیئے جا سکتے ہیں۔

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب” الصواعق المرسلۃ علی الجھمیۃ المعطلۃ” میں ان لوگوں کے رد میں جو اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کے عقیدہ میں استواء کا معنی استیلاء کرتے ہیں(42) وجوہات ذکر فرمائی ہیں(” مختصر الصواعق المرسلۃ” لابن الموصلی بھی ملاحظہ کر لیجئے )

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ بہت سے مالکی علماء عقیدہ میں مذہبِ سلف پر قائم تھے ، چنانچہ کتابِ مذکور میں ان 42 وجوہات کے ذکر کے ضمن میں فرماتے ہیں(2/136،132)

بارھویں وجہ: سلفِ امت کا اس بات پر اجماع قائم ہے کہ اللہ رب العزت اپنے عرش پر حقیقۃ مستوی ہے نہ کہ مجازاً۔ امام ابو عمر الطلمنکی جو مالکی مذہب کے أئمہ میں سے ہیں اور حافظ ابو عمر ابن عبد البر کے شیخ ہیں اپنی عظیم الشان کتاب” الوصول الی معرفۃ الأصول” میں فرماتے ہیں : اہل السنۃ کا اس عقیدہ پر اجماع قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مجازاً نہیں بلکہ حقیقۃً مستوی ہے ۔۔۔ اس بات پر انہوں نے اپنی کتاب میں صحابہ کرام ، تابعینِ عظام اور تبع تابعین اور پھر امام مالک اور ان کے بہت سے اصحاب و تلامذہ کے اقوال پیش کیئے ہیں، جو شخص بھی ان اقوال کو پڑھے گا وہ مذہب سلف کی حقیقت پالے گا۔

تیرھویں وجہ: امام ابو عمر ابن عبد البر اپنی کتاب” التمھید” میں حدیثِ نزول کی شرح میں فرماتے ہیں: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے ” الجماعۃ” کا یہی قول اور تقریر ہے ۔۔۔ مزید فرماتے ہیں: اہل السنۃ، قرآن و حدیث میں وارد اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے اقرار پر متفق ہیں نیز ان صفات پر ایمان لانے ، اور انہیں ان کی حقیقت پر محمول کرنے ( نہ کہ مجاز پر) پر متفق ہیں، البتہ وہ اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کی تکییف یا تحدید کے قائل نہیں ہیں۔ جبکہ بدعتی گروہ مثلاً: جہمیہ، معتزلہ اور خوارج سب کے سب صفاتِ باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کو حقیقت پر محمول نہیں کرتے ، بلکہ ان صفات کا اقرار کرنے والے کو مشبہ ہونے کا الزام دیتے ہیں، حالانکہ یہ لوگ خود صفات باری تعالیٰ کا اقرار کرنے والے اھل السنۃ کے نزدیک معبود حق کی نفی و انکار کرنے والے قرار پاتے ہیں۔

ابو عبد اللہ القرطبی اپنی معرکۃ الآرا ء تفسیر میں قولہ تعالیٰ: (اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰی) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس مسئلہ میں فقہاء نے کلام کیا ہے ۔ اس کے بعد متکلمین کے اقوال نقل فرماتے ہیں ۔ پھر فرمایا: سلفِ امت کی پہلی جماعت (صحابہ کرام) اللہ تعالیٰ کی جہت کی نفی کے قائل نہیں تھے (جہتِ علو مراد ہے ) نہ ہی انہوں نے کبھی نفی جہت کی بات کی بلکہ ان تمام نے اللہ تعالیٰ کیلئے جہت کے ثابت ہونے کی بات کی ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ، اور جس کی اللہ تعالیٰ کے رسل نے بھی خبر دی ۔ اورسلفِ صالحین میں بھی اس با کا کوئی منکر نہیں کہ اللہ تعالیٰ علی سبیل الحقیقۃ اپنے عرش پر مستوی ہے ۔۔۔ بس وہ جس چیز سے نا آشنا تھے وہ استواء علی العرش کی کیفیت ہے ، جیسا کہا مام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے ، لیکن مستوی ہونے کی کیفیت نا معلوم ہے ۔

چودھویں وجہ: جب جہمیہ نے اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کو مجاز پر محمول کیا ، تو اھل السنۃ نے ببانگِ دہل اس حقیقت کا اعلان و اظہار کیا کہ اللہ رب العزت اپنی ذات کے ساتھ اپنی عرش پر مستوی ہے ، اور سب سے زیادہ شدومد کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کرنے والے علمائے مالکیہ تھے ، چنانچہ علمائے مالکیہ میں سے ابو محم دبن ابی زید نے اپنی تین کتابوں میں اس مسئلہ کی صراحت کی ۔ سب سے مشہور کتاب” الرسالۃ” ہے پھر ان کی کتاب” جامع النوادر” اور” الآداب” ہیں ، اگر کوئی دیکھنا چاہے تو ان کی یہ کتب موجود ہیں۔ نیز قاضی عبد الوہاب نے بھی اس حقیقتِ باصواب کی وضاحت کی ، وہ فرماتے ہیں۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ بذاتہ اپنے عرش پر مستوی ہے ۔۔۔ نیز قاضی ابو بکر الباقلانی جو مالکی المذہب تھے نے بھی اس حقیقت کو واضح فرمایا ، ان کا قول قاضی عبد الوہاب نے نصاً نقل فرمایا ہے ، نیز مالکی مذہب کے بہت بڑے امام ابو عبد اللہ القرطبی اپنی کتاب ” شرح اسماء اللہ الحسنی” میں اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ابوبکر الحضر می نے محمد بن جریر الطبری ، ابو محمد بن ابی زید اور فقہ و حدیث کے بہت سے شیوخ کا یہی قول نقل فرمایا ہے ، جبکہ قاضی عبد الوہاب نے قاضی ابو بکر اور ابو الحسن الأشعری سے جو کچھ بھی نقل فرمایا اس کا ظاہر بھی یہی ہے ، بلکہ قاضی عبد الوہاب نے قاضی ابوبکر کا یہ قول نصاً ذکر کیا ہے کہ” اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ اپنے عرش پر مستوی ہے ” اور بعض جگہ یہ بھی لکھا ہے : کہ” وہ ذاتِ حق اپنی پوری حلق کے اوپر ہے ۔”

پھر فرمایا: یہ قول قاضی ابوبکر کا” تمھیدالأوائل” میں ہے اور یہی قول ابو عمر بن عبد البر اور اور الطلمنکی و دیگر الندلسی(مالکی) علماء کا ہے اور یہی خطابی کا قول ہے ۔

ابوبکر محمد بن موھب المالکی رسالہ ابن ابی زید کی شرح میں فرماتے ہیں: مؤلف(یعنی ابن ابی زید) کا یہ فرمانا کہ” انہ فوق عرشہ المجید” یعنی” اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ اپنے عرش عظیم پر ہے "، تو واضح ہو کہ "فوق” اور "علی” کا تمام عرب کے نزدیک ایک ہی معنی ہے ، اور کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ ﷺ میں بھی اس معنی کی تصدیق موجود ہے ، پھر بطورِ تمثیل کتاب

وسنت کے بعض نصوص کا حوالہ دیا، نیز لونڈی کی حدیث سے بھی استدلال کیا جس سے نبیﷺ نے پوچا تھا]این اللہ؟] اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا :[فی السماء] آسمان پر ہے ، اس بات پر نبیﷺ نے اس لونڈی کے مؤمنہ ہونے کی گواہی دی۔ اس کے بعد انہوں نے نبیﷺ کے معراج پر جانے کی حدیث سے بھی استدلال کیا۔ پھر فرمایا : یہی قول امام مالک کا ہے جسے انہوں نے تابعین کی ایک جماعت سے سمجھا ، جسے تابعین نے صحابہ کرام سے سمجھا، اور جسے صحابہ کرام نے اپنے نبیﷺ سے سمجھا، یعنی اللہ تعالیٰ کے ” فی السماء” آسمانوں میں ہونے کا معنی آسمان کے اوپر ہونا ے ۔۔۔۔ شیخ ابو محمد فرماتے ہیں:” اللہ تعالیٰ بذاتہ اپنے عرش پر ہے ” اس قول سے واضح ہوا کہ اللہ رب العزت کا عرش کے اوپر ہونے کا معنی یہی ہے کہ وہ بذاتہ عرش پر ہے البتہ وہ اپنی خلق سے بالکل بائن(جدا) ہے جس کی کیفیت ہم نہیں جانتے ۔ اور ان کا کائنات میں ہر مقام پر ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے علم کے ساتھ پر مقام پر ہے نہ کہ اپنی ذات کے ساتھ، پھر یہ جگہیں اور مقامات اسے گھیر بھی نہیں سکتیں کیونکہ وہ سب سے بڑا ہے ۔

ابوبکر محمد بن موھب المالکی مزید فرماتے ہیں : مؤلف رحمہ اللہ کا فرمانا” عل العرش استوی” یعنی” وہ عرش پر مستوی ہے ” کا معنی اھل السنۃ کے نزدیک محض استیلاء یعنی غلبہ پانا یا قاہر و مالک ہونا نہیں ہے ، یہ تو معتزلہ اور ان کے ہمنواؤں کی تفسیر ہے ، اور بعض لوگ استواء مانتے ہیں لیکن علی اسبہل المجاز نہ کہ علی اسبیل الحقیقۃ۔ پھر فرماتے ہیں : تھوڑی سی عقل و بصیر ت رکھنے والا شخص بھی ان کے استواء علی العرش ا استیلاء و غلبہ کے معنی کے فساد کو سمجھ سکتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو اپنی پوری مخلوق پر غالب و مستوی ہے ، پھر خاص طور پر عرش پر غالب ہونے کا کیا معنی؟ اگر استواء علی العرش کا معنی صرف غلبہ اور استیلاء ہے تو پھر عرش وغیرہ عرش برابر ہوں گے ۔ چنانچہ استواء علی العرش جو ان کی تاویلِ فاسد میں استیلاء ، ملک، غلبہ اور قہر کے معنی میں ہے کے ذکر کا کوئی معنی نہیں بنتا (کیونکہ استیلاء، غلبہ ، قہر اور ملک تو اس ذاتِ بر حق کو اپنی پوری مخلوقات پر حاصل ہے ) اللہ تعالیٰ کے فرمان : ( وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِيْلًا ) ترجمہ: (بات میں اللہ تعالیٰ سے سچا کون ہوسکتا ہے ؟) پر بھی اگر غور کریں تو یہ بات آشکار ا ہو گی کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا برسبیلِ حقیقت ہے ، مجاز نہیں۔ چنانچہ بنظرِ انصاف دیکھنے والے سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ا ٓسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کے ذکر کے بعد فرمایا کہ وہ عرش پر مستوی ہو گیا، تو اگر مستوی ہونے کا معنی غلبہ حاصل کرنا ہے تو کیا اسے آسمانوں اور زمینوں کا غلبہ حاصل نہیں ہے ! پھر استواء علی العرش کی تخصیص چہ معنی دارد؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان سب سے سچا ہے ، لہذا ہم اس کے مستوی علی العرش ہونے کو مجاز پر نہیں بلکہ حقیقت پر محمول کرتے ہیں، البتہ استوا کی تکییف اور تمثیل سے توقف اختیار کرتے ہیں ، یعنی نہ تو اس ذاتِ حق کے استواء کی کیفیت بیان کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ نے بیان ہی نہیں فرمائی، اور نہ ہی حق تعالیٰ کے استواء کو کسی مخلوق کے استواء سے تشبیہ دیتے ہیں کیونکہ اس کا فرمان ہے :” اس جیسی کوئی چیز نہیں”

پندرہویں وجہ: ابو الحسن الأشعری نے خود استواء کے بمعنی استیلا ء ہونے کے باطل ہونے پر اہل السنۃ کا اجماع نقل کیا ہے ، ہم بعینہ انہی کی عبارت تحریر کیئے دیتے ہیں جسے ابو القاسم بن عسا کرنے اپنی کتاب” تبیین کذب المفتری” میں ان کے حوالے سے بیان کیا ہے ، بلکہ ان سے قبل ابوبکر بن فورک بھی ان سے اسی عبارت کو نقل کرچکے ہیں جو کہ ان کی کتب میں موجود ہے ، فرماتے ہیں کہ ابو الحسن الأشعری اپنی کتاب” الابانۃ” جو کہ ان کی آخری کتاب ہے میں فرماتے ہیں :” باب ذکر الاستواء” یعنی اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کا بیان (اس باب کے تحت لکھتے ہیں) اگر کوئی شخص پوچھے کہ اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کے باب میں تمہارا کیا عقیدہ ہے ؟ ہم کہیں گے : بالکل وہی جو قرآن مجید نے بیان کر دیا : (اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰی) کہ” وہ رحمٰن اپنے عرش رپر مستوی ہے "(اس کے ب عد استواء علی العرش کے مزدی ادلہ بیان کیں)

پھر فرمایا: معتزلہ ، جہمیہ اور خوارج کہتے ہیں کہ استواء سے مراد استیلاء یعنی غلبہ پانا اور مالک ہونا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کو تسلیم نہیں کرتے جیسا کہ اہلِ حق تسلیم کرتے ہیں، لہذا استواء علی العرش کا معنی عرش پر قدرت پانا کرتے ہیں۔ اگر یہ بات درست مان لیں تو پھر عرش اور سب سے نچلی ساتویں زمیں میں کیا فرق ہے ؟ اللہ تعالیٰ تو ہر چیز پر قادر ہے اور آسمان زمین اور ہر چیز اس عالمَ کا حصہ ہیں۔ تو اگر اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستویہونے کا معنی غلبہ اور قدرت پانے کا ہے ، تو پھر اسے زمین اور زمین پر موجود ہر گندگی کے ڈھیر پر بھی مستوی مان لو، کیونکہ قدرت تو اسے ہر چیز پر حاصل ہے ، کیا کسی مسلمان کو کسی نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ حشوش وأخلیہ(یعنی بیت الخلاء اور گندگی کے ڈھیروں) پر مستوی ہے ؟ تو پھر استواء علی العرش جو کہ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص صفت ہے اسے ایک ایسے معنی پر کیسے محمول کیا جا سکتا ہے جو معنی ہر چیز میں عمومیت کے ساتھ موجود ہے ؟

لہذا یہ بات حتمیت کے ساتھ متعین ہو گئی کہ اس ذاتِ حق کے عرش پر مستوی ہونے کا ایک خاص معنی ہے و دیگر کسی شئ میں نہیں پایا جاتا ۔

 

 

 

                الفائدۃ العاشرۃ: التأ لیف فی العقیدۃ علی منھج السلف​

دسواں فائدہ:عقیدے کے موضوع پر سلفی منہج کے مطابق تصنیف کردہ کتب کا بیان​

 

عقیدہ کے موضوع پر سلفی منہج کی حامل بے شمار کتب ہیں، کچھ مؤلفات تو مستقل ہیں جو بطور ِ خاص عقیدے کے موضوع پر لکھی گئیں، جبکہ کچھ کتب ایسی ہیں جو عقائد کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل پر بھی مشتمل ہیں، جو کتب عقائد کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل پر بھی مشتمل ہیں ان میں ہم بطورِ مثال: صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ ذکر کرتے ہیں۔

صحح بخاری کا پہلا عنوان کتاب الایمان ہے اور آخری کتاب التوحید ہے ، اثنائے کتاب میں عقیدے کے تعلق سے اور عنوانات بھی ہیں مثلاً: کتاب القدر، کتاب الانبیاء اور کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ وغیرہ۔

صحیح مسلم کا بھی پہلا عنوان کتاب الایمان ہے نیز کتاب القدر کا عنوان بھی موجود ہے ، اسی طرح سننِ اربعہ میں بھی عقیدہ کے تعلق سے کتاب الایمان کے نام سے عنوانات موجود ہیں، جبکہ سنن ابو داؤد میں اس حوالہ سے کتاب السنۃ کے نام سے عنوان قائم کیا گیا ہے ۔۔۔۔

جو کتب کاملاً و مستقلًا عقیدہ کے موضوع پر تالیف کی گئیں ان کی دو قسمیں ہیں ، ایک وہ کتب جو متقدمین کے طریقہ پر ہیں اور دوسری وہ کتب جو متأخرین کے طرزِ تالیف پر مشتمل ہیں۔

متقدمین کے طرز پر لکھی گئی کتب سے مراد وہ کتب ہیں جو موضوع سے متعلق احادیث و آثار سند کے ساتھ پیش کر دیتی ہیں، متقدمین میں عقیدے سے متعلق لکھی گئی کتب کئی ناموں سے سامنے آتی ہیں، مثلاً: ” کتاب الایمان” ، ” کتاب السنۃ” کتاب الرد علی الجھمیۃ” وغیرہ۔

کتاب ” الایمان” کے نام سے لکھی گئی کتب میں ” الایمان لأبی بکر ابن أبی شیبۃ” ، اور ” الایمان لا بی عبدی القاسم بن سلام” اور ” الایمان لابن ابی عمر العدنی” اور ” الایمان لابن مندہ” وغیرہ معروف نام ہیں۔

جبکہ ” السنۃ” کے نام سے عقیدہ کے موضوع پر لکھنے والوں میں محمد بن نصر المروزی، ابی عاصم عبد اللہ بن امام احمد، لالکائی، خلال اور ابن شاہین وغیرہ معروف ہیں، اس کے علاوہ ابن ابی زمینین نے ” اصو ل السنۃ” لکھی ، مزنی اور بربہاری نے ” شرح السنۃ” جبکہ ابن البنا نے ” المختار فی اصول السنۃ” کے نام سے کتاب لکھی۔

” الرد علی الجھمیۃ” کے نام سے امام احمد، عثمان بن سعید الدارمی اور ابن مندہ کی کتب موجود ہیں۔

عقیدے کے موضوع پر علمائے متقدمین کی دیگر ناموں سے بہت سی کتب موجود ہیں، مثلاً : حافظ ابنِ خزیمہ کی ” کتاب التوحید” ، اور ابنِ مندہ کی ” کتاب التوحید”، آجری کی کتاب ” الشریعۃ” اسماعیل الاصبھانی کی” الحجۃ فی بیان المحجۃ”، صابونی کی ” عقیدہ السلف واصحاب الحدیث” امام بخاری کی” خلق افعال العباد” ، ابن ابی شیبہ کی کتاب” العرش” ، فریابی کی کتاب” القدر” ، ابو الشیخ کی کتاب” العظمۃ” ، امام دار قطنی کی کتاب” الرؤیۃ”،” النزول” اور ” الصفات” ، محمد بن نصر المروزی کی” تعظیم قدر الصلاۃ، ابو داؤد کی ” البعث والنشور” ، ابو نعیم کی” صفۃ الجنۃ والنار” اور ” الرد علی الرافضۃ” ، ھروی کی” ذم الکلام واہلہ” اور ابنِ بطۃ کی” الابانۃ الکبری” وغیرہ۔

متقدمین و متأخرین کی کچھ کتب ایسی بھی ہیں جو اسانید کو ذکر کیئے بغیر انتہائی اختصار کے ساتھ عقیدہ کے مسائل بیان کرنے پر اکتفاء کرتی ہیں، ان میں امام احمد بن حنبل کی کتاب” السنۃ” ، امام طحاوی کی” عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃُ” ، ابنِ ابی زید کا مقدمہ ، ابنِ جریر الطبری کی ” صریح السنۃ” ابوبکر اسماعیلی کی” اعتقاد اہل السنۃ” ابنِ بطۃ کی” الابانۃ الصغری”، ابو الحسن الأشعری کی” الابانۃ” ، عبد الغنی کی ” عقیدۃ الحافظ” ابن قدامۃ المقدسی کی” لمعۃ الاعتقاد” اور” العلو” شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی” عقیدۃ الواسطیۃ” ، ” التدمریۃ” اور ” الحمویۃ” معروف ہیں۔

متأخرین کے طریقہ پر تالیف سے مراد یہ ہے کہ پر موضوع الگ سے قائم کر کے اس سے متعلق آیات ، احادیث اور آثار ذکر کیئے جائیں اور ساتھ ساتھ مخالفین کے عقیدہ پر رد بھی کر دیا جائے ، جب وہ احادیث و آثار کا ذکر کرتے ہیں تو انہیں متقدمین کی کتب کی طرف منسوب کرتے ہیں جو ہر حدیث کو اس کی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں مثلاً: یوں کہتے ہیں: رواہ البخاری، ومسلم ، و ابو داؤد اور حدیث کی سند ذکر نہیں کرتے (کیونکہ وہ اصل کتاب میں موجود ہوتی ہے )

مثال کے طور پر یحیٰ عمرانی کی کتاب” الانتصار فی الرد علی المعتزلۃ القدریۃ الأشرار” ابن ابی العزالحنفی کی کتاب” شرح العقیدہ الطحاویہ”، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب ” منھاج السنۃ” انہی کی ” درء تعارض العقل والنقل” اور ” کتاب الایمان”، امام ذہبی کی کتاب ” العلو” ، حافظ ابن القیم کی کتاب” اجتماع الجیوش الاسلامیۃ” اور ” الصواعق المرسلۃ علی الجھمیۃ والمعطلۃ ” اور محمد بن الموصلی کی کتاب” مختصر الصواعق المرسلۃ” اور شیخ الاسلام محمدبن عبد الوہاب کی” کتاب التوحید” ان کے پوتے شیخ اسلیمان بن عبد اللہ کی کتاب” تیسیر العزیز الحمید شرح کتاب التوحید” اور ان کے دوسرے پوتے شیخ عبد الرحمٰن بن حسن کی کتاب ” فتح المجید” وغیرہ۔ یہ چند کتابوں کے نام ہم نے محض تمثیلاً نقل کیئے ہیں، تمام کتب کا اس مختصر میں احاطہ ممکن نہیں ہے ۔

واضح ہو کہ بعض مبتدعین نے کتبِ سنت پر یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ ان کتابوں میں ضعیف بلکہ موضوع احادیث بھی ذکر کی گئی ہیں۔

یہ اعتراض مردود ہے ، کیونکہ ان محدثین نے تمام احادیث ان کی اسانید کے ساتھ ذکر کی ہیں اسانید ذکر کے وہ بری الذمہ ہو گئے ، اب اس حدیث پر نظر و استدلال کی ذمہ داری پڑھنے پڑھانے والوں پر عائد ہوتی ہے ۔

شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے ” منھاج السنۃ” (4/15) میں فرمایا ہے کہ محدثین کی یہ عادت ہے کہ وہ ہر باب میں وہ تمام احادیث ذکر کر دیتے ہیں جو ان کے پا س موجود ہوتی ہیں تاکہ ان تمام احادیث (اور ان کی اسانید) کی پڑھنے والوں کو معرفت حاصل ہو جائے ، اور یہ ممکن ہے کہ ان میں سے ان کے نزدیک کچھ احادیث ہی قابلِ استدلال و احتجاج ہوں۔

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ایک محدث کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ اپنے مشائخ سے جس حدیث کو سنتا ہے اسے اسی طرح بکمالِ امانت روایت کر دے ، اب تحقیق، نظر اور استدلال کی ذمہ داری تو پڑھنے والوں پر عائد ہوتی ہے ۔۔۔۔ اور اہل علم فعلاً تمام احادیث کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں اور حدیث کی سند کے ایک ایک راوی پر پوری بحث کرتے ہیں۔

حافظ ابن حجر” لسان المیزان” (3/15) میں فرماتے ہیں: گزشتہ ادوار میں سے 200ھجری اور اس کے بعد کے بیشتر محدثین کا طریقہ یہی ہے کہ جب وہ حدیث کو اس کی سند کے ساتھ ذکر کر دیں تو اپنے خیال میں وہ پوری امانت داری کے ساتھ اپنی ذمہ داری کا حق ادا کر کے بری الذمہ ہو چکے ۔

(واللہ اعلم)

 

 

 

نص مقدمۃ رسالۃ أبن أبی زید القیروانی

 

 

متن کا ترجمہ

 

یہ باب دین کے امور کے بیان میں ہے جن کا اقرار تمام زبانوں پر، اور اعتقاد تمام دلوں پر فرض ہے۔​

ان میں سے ایک چیز یہ ہے کہ دل کے ساتھ ایمان ، اور زبان کے ساتھ اقرار کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ: معبود ِ حق ہے، اکیلا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شبیہ اور نظیر نہیں ہے، نہ ہی اس کی اولاد ہے نہ والد، نہ اس کی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی شریک۔

اس کی اولیت کی کوئی ابتدا ء نہیں ، اور اس کی آخریت کی کوئی انتہاء نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرنے والے اس کی کسی صفت کی ماہیت و کیفیت تک نہیں پہنچ سکتے اور تفکر کرنے والے اس کے کسی امر کا احاطہ نہیں کر سکتے، تفکر کرنے والے اس کی آیات سے نصیحت و عبر ت اخذ کرتے ہیں لیکن اس کی ذات کی حقیقت و کیفیت پر غور و خوض اور بحث و تمحیص نہیں کرتے۔ وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، مگر جتنا وہ چاہے، اس کی کرسی کی وسعت نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا اور نہ اکتا تا ہے، وہ بہت بلدن اور بہت بڑا ہے۔

وہ عالم ، خبیر، مدبر ، قدیر، سمیع ، بصیر ، بلند اور بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ بذاتہ اپنے عرشِ عظیم پر ہے، جبکہ بعلمہ ہر جگہ موجود ہے۔

اس نے انسان کو پیدا کیا اور وہ انسان کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں انہیں بھی جانتا ہے اور وہ اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے، اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصے میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے ، مگر یہ سب کتابِ مبین میں ہے۔

وہ عرش پر مستوی ہے اور پوری کائنات پر اس کی حکمرانی، بادشاہت اور قبضہ ہے۔ اس کیلئے انتہائی پیارے پیارے نام اور بہت ہی اعلیٰ صفات ہیں۔ وہ اپنی تمام صفات اور ناموں کے ساتھ ہمیشہ سے ہے، وہ اس بات سے انتہائی بلند اور پاک ہے کہ اس کی کوئی صفت مخلوق ہو یا کوئی نام نیا ہو۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا، اور یہ کلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں بلکہ صفتِ ذاتیہ ہے، اللہ تعالیٰ نے پہاڑ (کوہِ طور) پر اپنی تجلی ڈالی تو وہ اللہ تعالیٰ کے جلال سے ریزہ ریزہ ہو گیا، قرآن ِ مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے کہ فنا کا شکار ہو جائے، نہ ہی کسی مخلوق کی صفت ہے کہ ختم ہو جائے۔

اچھی اور بری ، میٹھی اور کڑوی ہر قسم کی تقدیر پر ایمان لانا (فرض ہے) ۔ ان تمام چیزوں کو ہمارے پروردگار اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمایا، تمام امور کی مقادیر اس کے ہاتھ میں ہے ، جن کا صادر ہونا اس کے فیصلے سے ہے۔

وہ ہر شئ کو وجود میں آنے سے پہلے ہی جانتا ہوتا ہے، اور وہ شئ جب وجود میں آتی ہے تو اس کی تقدیر کے مطابق ہی آتی ہے، بندوں کا ہر قول اور فعل اللہ تعالیٰ کی قضاء قدر اور اس کے علمِ سابق کے مطابق ہوتا ہے۔(کیا وہ ذات علم نہیں رکھتی جس نے پیدا کیا؟ وہ تو باریک بین اور باخبر ہے)۔

جسے چاہتا ہے گمراہ کر کے ذلتوں کی پستیوں میں دھکیل دیتا ہے، جو کہ عینِ عدل ہے، اور جسے چاہتا ہے توفیقِ ہدایت سے مشرف فرما دیتا ہے، جو عینِ فضل ہے۔ ہر بدبخت یا نیک بخت اللہ تعالیٰ کے علمِ سابق اور تقدیر کے مطابق اپنی اپنی راہ پر بآ سانی چلایا جا رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ اس بات سےبہت بلند ہے کہ اس کی بادشاہت میں کوئی چیز آسکے ارادے کے بغیر یا برخلاف ہو ، یا کوئی مخلوق اس سے مستغنی ہو، ہر شئ کا صرف وہی خالق ہے، تمام بندوں اور ان کے تمام اعمال کا وہی رب ہے، اور ان کی تمام حرکات و آجال کی تقدیر بنانے والا بھی وہی ہے۔

 

                لوگوں پر حجت قائم کرنے کیلئے، ان کی طرف رسول مبعوث فرمانے والا ۔

 

پھر اللہ تعالیٰ نے سلسلہ رسالت کا اپنے آخری نبی محمدﷺ پر اختتام فرما دیا ، اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو تمام انبیاء و مرسلین میں سے سب سے آخر میں مبعوث فرمایا، آپﷺ کو بشیر و نذیر بنایا ، اپنے اذن سے اپنا داعی ا سراجِ منیر بناکر بھیجا، آپﷺ پر اپنی کتابِ حکیم (قرآن مجید) نازل فرمائی ، اور آپ ﷺ کے ذریعہ دینِ متین کی شرح و تفصیل، فرمادی، نیز آپﷺ کے ذریعے لوگوں کو صراطِ مستقیم کی ہدایت فرما دی۔

اور ابے شک قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں، اور بے شک اللہ تعالیٰ تمام مُردوں کو اٹھائے گا ، جیسے انہیں پیدا کیا تھا، ویسے ہی دوبارہ بن جائیں گے۔

اور بے شک اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے مؤمن اور موحد بندوں کو خوب بڑھا دیتا ہے، اور ان کی توبہ کے بسبب ان کے بڑ ے بڑے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے، اور بڑے گناہوں سے اجتناب کی برکت سے ان کے چھوٹے گناہوں سے درگزر فرما دیتا ہے، اور اگر کوئی موحد بندہ اپنے کبیرہ گناہوں سے توبہ نہ کر پایا ہو تو اس کا معاملہ اپنی مشیت کے تحت فرما لیتا ہے۔

( اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِه وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ) ( النساء:48)

ترجمہ:” اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرماتا اور شرک کے علاوہ جس گناہ کو چاہے معاف فرما دے”۔

اور جس (مسلمان) کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ کی سا دے گا اسے جہنم سے بوجہ اس کے ایمان کے نکال دے گا، پھر ایمان کی برکت سے جنت میں داخل کر دے گا:” پس جس نے ایک ذرہ کے بقدر نیکی کی وہ اسے ضرور دیکھے گا” اللہ تعالیٰ جہنم سے نبیﷺ کی شفاعت کی وجہ سے آپﷺ کی امت کے بہت سے اہلِ کبائر کو ، جس جس کی آپﷺ شفاعت کریں گے ، نکال دے گا۔

اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا فرما دیا ہے، اور اسے اپنے دوستوں کے رہنے کیلئے ہمیشہ کا گھر قرار دے دیا ہے، اس گھر میں اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو اپنے بابرکت چہرے کے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ یہ جنت وہی گھر ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور خلیفہ آدم علیہ السلام کو اتار کر زمین پر بھیج دیا تھا، اللہ تعالیٰ کے علمِ سابق میں یہ بات موجود تھی۔

اللہ تعالیٰ جہنم کو بھی پیدا فرما چکا ہے ، اور اسے کفر کرنے والوں اور اپنی آیتوں ، کتابوں اور رسولوں میں الحاد پیدا کرنے والوں کو ہمیشہ کا ٹھکانہ قرار دے چکا ہے، ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے دیدار سے محروم رکھے گا۔

اور بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن آئے گا، اور فرشتے بھی قطاروں میں(آئیں گے) تاکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر پیش کریں ، ار اللہ تعالیٰ ان سے سارا حساب لے، اور انہیں عذاب میں جھونکے یا ثواب عطا فرمانے کے فیصلے فرمائے ۔ بندوں کے اعمال کے وزن کیلئے تراز بھی قائم کر دیئے جائیں گے پس جن کا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا، وہ کامیاب قرار پائیں گے۔ اسی طرح لوگوں کو ان کے اعمال کے صحیفے بھی دیئے جائیں گے ، پس جسے دائیں ہاتھ میں اس کا صحیفہ دیا گیا ، ان کا حسا ب بہت آسان کر دیا جائے گا اور جنہیں ان کا صحیفہ پشت کے پیچھے سے دیا گیا، وہ لوگ جلتی آگ کا لقمہ بن جائیں گے۔

(قیامت کے دن) پلِ صراط برحق ہے، جسے بندے اپنے اپنے اعمال کے بقدر عبور کریں گے، کچھ تو نجات پا جائیں گے جو جہنم سے نجات میں تیزی کے اعتبار سے متفاوت ہوں گے۔ اور بہت سے لوگوں کو ان کے اعمال ہلاکت کے گڑھے(جہنم) میں پھینک دیں گے۔

رسول اللہﷺ کے حوض پر ایمان لانا(فرض ہے) آپﷺ کے حوض پر آپ ﷺ کی امت وارد ہوگی، جس نے اس حوض سے پانی پی لیا اسے( جنت میں داخلے تک) پیاس نہیں لگے گی،حوضِ کوثر سے اس بدعتی کو در کر دیا جائے گا جس نے دین میں تبدیل و تغیر کا ارتکاب کیا۔

اور بے شک ایمان زبان کے اقرار، دل کے اخلاص، اور اعضاء کے عمل کا نام ہے ، نیکیوں کی نیکیوں کی زیادتی سے بڑھتا ہے اور کمی سے گھٹتا ہے، ایمان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، ایمان کا قوم ، عمل کے بغیر پورا نہیں ہوتا، اور قول و عمل دونوں نیت کی درستگی کے بغیر نامکمل ہیں، اورقول، عمل اور نیت تینوں رسول اللہﷺ کی سنت کی مطابقت کے بغیر ناقابلِ قبول ہیں۔

اور اہلِ قبلہ میں سے کوئی شخص کسی گناہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہو جاتا۔

شہداء زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس رزق دیئے جاتے ہیں، نیک لوگوں کی روحیں قیامت قائم ہونے تک نعمتوں سے متمتع ہوتی رہیں گی، جبکہ بُرے لوگوں کی روحیں قیامت تک مبتلائے عذاب رہیں گی۔

مؤمنین کو ان کی قبروں میں آزمائش اور امتحان کے مرحلے سے گزارا جائے گا۔” اللہ تعالیٰ اہل ِ ایمان کو قولِ ثابت کے ساتھ دنیا کی زندگی اور آخرت میں ثابت قدمی عطا فرماتا ہے”۔

بندوں پر نگران فرشتے مقرر ہیں، جو ان کے اعمال لکھتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ کے علم سے بھی کوئی عمل ساقط نہیں ہوتا(خواہ فرشتے لکھیں یا نہ) اور ملک الموت فرشتہ اللہ کے اذن سے روحیں قبض کرتا ہے۔

اور بے شک سب سے بہترین زمانہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے بحالتِ ایمان رسول اللہﷺ کی زیارت کا شرف حاصل کیا، پھر ان لوگوں کا جو صحابہ کے بعد آئے ، پھر ان کے بعد آنے والوں کا۔

صحابہ کرام میں سے سب سے افضل خلفاءِ راشدین ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں وہ ابوبکر صدیق پھر عمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ عنھم و اجمعین ہیں۔

ضروری ہے کہ رسول اللہﷺ کے ہر صحابی کو اچھے ذکر سے یاد کیا جائے، ان کے آپس کے مشاجرات و اختلافات کے متعلق خاموشی اختیار کی جائے ، وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ(ان کے مشاجرات میں) ان کیلئے بہتر مخرج تلاش کیا جائے، اور ان کے بارہ میں سب سے اچھا گمان قائم کیا جائے ۔

اور (اہل السنۃ) مسلمانوں کے حکام اور علمائے کرام کی اطاعت بھی (ضروری قرار دیتے ہیں)۔ سلف صالحین کی اتباع، ان کے نقشِ قدم کی پیروی اور ان کیلئے استغفار کرتے رہنا(اہل السنۃ کے معتقدات میں شامل ہے)۔ (اہل السنۃ کے منہج میں یہ بات بھی شامل ہے کہ) دین میں جھگڑنے سے یکسر گریز کیا جائے۔ اہلِ بدعت نے، دین میں جو اضافے کیئے ہیں، انہیں کلی طور پر ترک کر دینا (بھی اہل السنۃ والجماعۃ کے منہج میں شامل ہے)۔

اور اللہ تعالیٰ ہمارے سردار، نبی پاک محمدﷺ پر آپ کی آل، ازواجِ مطہرات اور ذریات پر رحمتیں اور بہت زیادہ سلامتیاں نازل فرمائے۔(آمین)

آغاز شرح/ أول شرح​

[1]

قولہ: "]باب ما تنطق بہ الأ السنۃ وتعتقدہ الأفئدٰۃ من واجب أمور الدیانات، من ذلک الایمان بالقلب والنطق باللسان أن اللہ الہ واحد لاالہ غیرہ ولا شبیہ لہ، ولا نظیرلہ، ولا ولدلہ، ولا والدلہ، ولاصاحبۃ لہ، ولا شریک لہ۔ ”

ترجمہ: "یہ باب دین کے امور کے بیان میں ہے جن کا اقرار تمام زبانوں پر، اور اعتقاد تمام دلوں پر فرض ہے۔ان میں سے ایک چیز یہ ہے کہ دل کے ساتھ ایمان ، اور زبان کے ساتھ اقرار کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ: معبود ِ حق ہے، اکیلا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شبیہ اور نظیر نہیں ہے، نہ ہی اس کی اولاد ہے نہ والد، نہ اس کی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی شریک۔”

شرح:

یہ کتاب جو آپ کے ہاتھ میں ہے، حقیقت میں صرف ایک باب ہے، جسے ابن ابی زید القیروانی رحمہ اللہ نے فقہی مسائل پر لکھے گئے اپنے” الرسالۃ ” کے مقدمہ کے طور پر تحریر فرمایا ہے، گویا یہ انکی عقیدہ کے موضوع پر کوئی مستقل تالیف نہیں ہے، بلکہ مستقل تصنیف کا بطور مقدمہ ایک باب ہے، اس طرح ان کی یہ تحریر دونوں فقہوں کو جمع کیئے ہوئے ہے، ایک وہ فقہ جس کا تعلق عقیدہ سے ہے، جس میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اس فقہ کو اصطلاحا ًفقہ اکبر کہا جاتا ہے، دوسری و فقہ جس کا تعلق فروع دین کے احکام سے ہے اس میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے۔

مؤلف رحمہ اللہ نے مذکورہ عقیدہ کیلئے دو چیزوں کو واجب ہونے کا ذکر کیا ہے، ایک زبان کا اقرار، دوسرا قلبی اعتقاد ۔۔۔ عمل کا ذکر نہیں کیا؟ جو کہ ارجاء ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ عقیدہ کیلئے صرف زبان کا اقرار ار دل کی تصدیق مطلوب ہے، عمل مطلوب نہیں، عمل کی شرط ایمان کی تعریف کے ساتھ ہے، اور اس مقدمہ میں مؤلف رحمہ اللہ نے جب ایمان کی تعریف کی

تو ان تین شرائط کے ساتھ کی ہے یعنی: زبان کا اقرار دل کی تصدیق اور جوارح کا عمل۔

اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اثبات اور اللہ تعالیٰ سے سات چیزوں کی نفی​

ابن ابی زید کا مذکورہ کلام ایک تو اس بات پر مشتمل ہے کہ الوہیت یعنی مستحقِ عبادت ہونا صرف اللہ رب العزت کیلئے ثابت ہے اور کسی کیلئے نہیں۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے سات چیزوں کی نفی کی ہے:

  1. ہر غیر اللہ کے معبود ہونے کی کی نفی۔
  2. کسی کے اللہ تعالیٰ کے شبیہ ہونے کی نفی۔
  3. کسی بھی شئ سے اللہ تعالیٰ کے نظیر ہونے کی نفی۔
  4. اللہ تعالیٰ کی اولاد کی نفی۔
  5. اللہ تعالیٰ کا با پ ہونے کی نفی۔
  6. اللہ تعالیٰ کی بیوی ہونے کی نفی۔
  7. اللہ تعالیٰ کے شریک ہونے کی نفی۔

اب تمام امور کی تفصیل پیشِ خدمت ہے:

مؤلف رحمہ اللہ کا فرمانا: ” أن اللہ الہ واحد لاالہ غیرہ "یعنی (اللہ تعالیٰ اکیلا الہٰ(معبود) ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں )

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے:

( وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ ) (البقرہ:163)

ترجمہ:” تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کےسوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بہت رحم کرنے والا ور بڑا مہربان ہے”​

اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا معبودِ حق ہے، اور ضروری ہے کہ ہر قسم کی عبادت اسی اکیلے معبود کیلئے بجا لائی جائے، اور کسی بھی عبادت میں غیر اللہ کا کسی قسم کا کوئی حصہ نہ ہو۔ اس عظیم الشان عقیدے کو سمجھانے کیلئے اللہ تعالیٰ انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا اور آسمانی کتابیں نازل فرمائیں۔

جیسا کہ الہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّه لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) (الانبیاء:25)

ترجمہ:” اور آپ سے قبل ہم نے جس رسول کو مبعوث کیا اس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے پس صرف اور صرف میری ہی عبادت کرو ۔”​

ایک اور مقام پر فرمایا:

( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) (النحل:36)

ترجمہ:” اور اہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور ہر طاغو ت کا انکار کرو۔”​

نیز فرمایا:

(وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ) (الذاریات:56)

ترجمہ:” اور میں نے نہیں پیدا کیا جنہوں اور انسانوں کو ، مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں”​

توحید کی تین اقسام اور ان کی تعریفات​

 

چنانچہ تمام مخلوقات، اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمائیں ، تمام رسولوں کو اسی نے مبعوث فرمایا، اور تمام کتابیں اسی نے نازل فرمائیں۔۔۔ تاکہ ان رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی خلق تک اللہ تعالیٰ کا امر اور آرڈر پہنچ جائے کہ صرف وہ ذاتِ واحد ہی ہر قسم کی عبادت کی مستحق ہے اور اس ذاتِ برحق کےسوا کوئی بھی ، کسی بھی قسم کی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ توحید کی یہ قسم توحیدِ الوہیت کہلاتی ہے، جو توحید کی تین اقسام میں سے ایک ہے، باقی دو قسمیں توحید ربوبیت اور توحید اسماء و صفات ہیں۔

توحید الوہیت یہ ہے کہ عبادت کے تعلق سے بندوں کے تمام افعال مثلاً: دعاء، استغاثہ، استعاذہ، ذبح اور نذر وغیرہ کا اکیلا اللہ تعالیٰ ہی حقدار ہے۔ تمام بندوں پر یہ بات حتمی اور قطعی طور پر فرض ہے کہ وہ تمام عبادات کو صرف اللہ تعالیٰ کیلئے خاص کر دیں، اور کسی بھی عبادت میں، کسی کو بھی ا س کا شریک نہ ٹھہرائیں۔۔۔ گویا توحیدِ الوہیت کا تعلق بندوں کے افعال سے ہے۔

جبکہ توحیدِ ربوبیت کا تعلق اللہ تعالیٰ کے افعال سےہے مطب یہ کہ جو افعال اللہ تعالیٰ کیلئے مخصوص و مذکور ہیں ان تمام افعال کا صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی مستحق قرار دیا جائے۔۔۔

مثلاً: پیدا کرنا، روزی دینا، زندہ کرنا، مارنا اور کائنات میں تصرف کرنا، یہ سب وہ افعال ہیں جو اللہ تعالیٰ کیلئے مختص ہیں، اور ان افعال میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے۔

توحید ِ اسماء و صفات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے اس ذاتِ حق کیلئے جن اسماء و صفات کا اثبات فرمایا ہے، انہیں اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت کیا جائے ، اور اسی طرح ثابت کیا جائے جیسا کہ اس کے کمال و جلال کے لائق ہے ،اس میں نہ تو کسی صفت میں کسی سےتشبیہ ہو، نہ کسی صفت کی کیفیت کا بیان ہو، نہ کسی صفت میں لفظی یا معنوی تحریف ہو اور نہ ہی کسی صفت کا انکار و تعطیل ہو۔

 

سورۃ الفاتحہ اورسورۃ الناس توحید کی تینوں اقسام پر مشتمل ہیں​

 

توحید کی یہ تقسیم قرآن و حدیث کے نصوص سے استقراء معلو م و مفہوم ہوتی ہے، اور اگر آپ قرآنِ مجیدکی پہلی اور آخری دونوں سورتیں پڑھیں تو یہ نکتہ آپ پر عیاں ہو جائیگا، کیونکہ یہ دونوں سورتیں توحید کی مذکورہ تینوں اقسام پر مشتمل ہیں، چنانچہ ہم وضاحت کیلئے ان دونوں سورتوں کے مضمون پر غور کرتے ہیں:

سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت (الحمد اللہ رب العالمین) ہے، ” الحمد” کا جملہ ، توحید ِ الوہیت پر مشتمل ہے کیونکہ بندوں کا ہر قسم کی حمد و ثنا اللہ کی طرف منسوب کرنا عبادت ہے، اور توحید ِ الوہیت بھی اسی چیز کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ کیلئے پر قسم کی عبادت بجا لائی جائے، اللہ تعالیٰ کے فرمان: (رب العالمین)

میں توحید ربوبیت کا اثبات ہے، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے تمام عالمین کے رب ہونے کا اقرار و اعتراف ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز عالمین میں داخل و شامل ہے، چنانچہ اس کائنات میں یا تو خالق ہے یا مخلوق ، تیسری کوئی چیز نہیں ، رب العالمین میں اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے اور باقی تمام عالمین کے مخلوق و مربوب ہونے کا اعتراف ہے، پھر یہ بات معلوم ہے کہ” رب ” اللہ تعالیٰ کے اسماء مین سے ، اور یہ توحیدِ اسماء و صفات ہے، گویا سورۃ الفاتحۃ کی پہلی آیت ہی توحید کی تینوں اقسام پر مشتمل ہے۔

اس کے بعد قولہ تعالیٰ( الرحمٰن الرحیم ) میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات مذکور ہیں ۔ اس طرح یہ آیت بھی توحید اسماء و صفات پر مشتمل ہے( الرحمٰن الرحیم ) اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سےد و نام ہیں ، یہ دونوں نام اللہ تعالیٰ کی ایک صفت یعنی رحمت پر دلالت کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء مشتق ہیں اور کسی نہ کسی صفت پر دلالت کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے کوئی نام اسم جامد نہیں ہے۔

قولہ تعالیٰ( مالک یوم الدین ) میں توحیدِ ربوبیت کا اثبات ہے، کیونکہ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے مالکِ دنیا و آخرت ہونے کا عقیدہ پنہاں ہے، یہاں صرف آخرت کے مالک ہونے کا بطورِ خاص اس لیئے ذکر کیا کہ قیامت کے دن سب کے سب اللہ رب العالمین کیلئے پوری طرح جھک جائیں گے، برخلاف دنیا کے ، کہ یہاں لوگوں میں طرح طرح کی سرکشی، عناد اور تکبر و نافرمانی پائی جاتی ہے، جیسا کہ فرعون نے( انا ربکم الاعلیٰ ) کہا تھا۔

قولہ تعالیٰ: (ایاک نعبد وایاک نستعین) میں توحیدِ الوہیت کا اثبات ہے، کیونکہ اس آیت ِ کریمہ میں بندے بڑے حصر کے ساتھ اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اے اللہ! ہم ہمہ نوع عبادت واستعانت کے ساتھ تجھے ہی خاص کرتے ہیں اور تیرےساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتے۔

قولہ تعالیٰ:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ، صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ۔

میں توحید الوہیت کا اثبات ہے ، کیونکہ یہ آیات ِ مبارکہ اللہ تعالیٰ سے طلب ِ ہدایت کی دعا پر مشتمل ہیں ، اور یہ بات معلوم ہے کہ دعا ایک اہم ترین عبادت ہے ۔ رسول اللہﷺ کا فرمان :” الدعا ء ھو العبادۃ ” دعا عبادت ہے۔

ان آیاتِ کریمہ میں بندہ اپنے پروردگار سے صراطِ مستقیم کی ہدایت کی دعاء مانگتا ہے، وہ صراطِ مستقیم پر جس پر انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین چلتے رہے، اور یہ سب کےسب اہلِ توحید ہیں۔

اسی طرح ان آیاتِ مبارکہ میں بندہ اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کر رہاہ ے کہ مجھے ان لوگوں کے راستے سے بچائے رکھنا جو مستحقینِ غضب و ضلالت کا راستہ تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو توحید سےباغی تھے، ان سے انواع و اقسام کے شرک صادر ہوتے رہے اور وہ غیر اللہ کی عبادت کی روش پر قائم رہے۔ (ہماری اس تقریرسے واضح ہوا کہ سورۃ الفاتحہ جو ام الکتاب ہے کا مکمل موضوع توحیدِ باری تعالیٰ ہے اور یہ سورہ مبارکہ توحید کی تینوں اقسام پر مشتمل ہے)

اب قرآنِ کریم کی آخری سورت، سورۃ الناس پر غور کیجئے:

اس کی پہلی آیت: ( قل أعوذبرب الناس ) توحید کی تینوں اقسام پر مشتمل ہے، چنانچہ ” استعاذہ ” یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنا عبادت ہے، اور یہ توحید ِ الوہیت ہے، اور ” ر ب الناس ” قولہ تعالیٰ: ( رب العٰالمین ) کی طرح توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ اسماءِ و صفات دونوں پر مشتمل ہے۔

قولہ تعالیٰ : ( مَلِکِ النَّاس ) بھی توحید ِ ربوبیت اور توحیدِ اسماء و صفات دونوں پر مشتمل ہے

قولہ تعالیٰ: ( اِلٰہِ النَّاس ) میں توحیدِ الوہیت اور توحیدِ اسماء و صفات دونوں اقسام موجود ہیں۔

 

توحید کی ان اقسام میں باہم نسبت​

 

واضح ہو کہ توحید کی ان تینوں اقسا م میں جو نسبت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ اسماء و صفات کا اقرار و اعتراف توحیدِ الوہیت کو ستلزم ہے، جبکہ توحیدِ الوہیت کا اقرار و اعتراف توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ اسماء و صفات دونوں کو متضمن ہے۔

اس اجمال کی تفصیل اس طرح ہے کہ جس شخص نے توحیدِ الوہیت کا اقرار کر لیا وہ لازماً توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ اسماء و صفات کا بھی اقرار کرے گا، کیونکہ جب اس نے اللہ وحدہ لاشیک لہ کو اپنا معبود مان لیا اسے ہر قسم کی عبادت کے مستحق ہونے کے ساتھ خاص کر لیا، اور کسی بھی قسم کی عبادت میں ہر قسم کے شری کا انکار کر لیا، تو پھرو ہ اللہ تعالیٰ کے خالق، رازق ، محیی اور ممیت ہونے کا انکار نہیں کرسکے گا(اور یہ سب توحیدِ ربوبیت پر مشتمل صفات ہیں) اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ اور صفاتِ علیٰ میں کسی نام یا صفت کا انکار نہیں کر سکے گا۔

اسی طرح شخص نے توحید ِ ربوبیت اور توحیدِ اسماء و صفات کا اقرار کر لیا تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ توحیدِ الوہیت کا بھی اقرار کر لے، اسے یہ با ت معلوم ہونی چاہئے کہ کفارِ مکہ جن کی طرف رسول اللہﷺ کی بعثت عمل میں آئی عمل میں آئی تھی، توحیدِ ربوبیت کا اقرار کرتے تھے، توحید کی اس قسم کے اقرار کرنے انہیں داخلِ اسلام نہیں کیا ، اور رسول اللہﷺ نے ان سے اس وقت تک قتال حلال قرار دے دیا جب تک وہ خالص اللہ وحدہ لاشریک لہ کہ عبادت نہیں کرتے (یعنی توحیدِ الوہیت کو نہیں مان لیتے) یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید میں بہت سے مقامات میں توحیدِ ربوبیت، جس کا کفار اقرار کرتے تھے کا اثبات و تقریر مذکور ہے، تاکہ انہیں توحیدِ الوہیت کے اقرار و اعتراف پر آمادہ کیا جائے( کیونکہ توحیدِ ربوبیت کا اقرار ، توحیدِ الوہیت کے اقرار کو ستلزم ہے) بطورِ مثال قرآن مجید کی ان آیات کو پڑھیئے:

( اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِه حَدَاۗىِٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَهَا ۭ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ ،اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِه حَدَاۗىِٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَهَا ۭ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ ،اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ ۭءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ، اَمَّنْ يَّهْدِيْكُمْ فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُّرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِه ۭ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۭ تَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ،اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُه وَمَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۭ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ​) (النمل:61تا64)

ترجمہ: ” بھلا بتاؤ تو؟ کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ کس نے آسمان سےبارش برسائی؟ پھر اس سے ہرے بھرے با رونق باغات اگا دیے؟ ان باغوں کے درختوں کو تم ہر گز نہ اگا سکتے، کیا اللہ تعالیٰ کےساتھ اور کوئ ی معبود بھی ہے؟ بلکہ یہ لوگ ہٹ جاتے ہیں( سیدھی راہ سے)۔ کیا جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور ا سکے درمیان نہریں جاری کر دیں اور اس کیلئے پہاڑ بنائے اور دوسمندروں کے درمیان روک بنا دی کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ بلکہ ان میں سے اکثر کچھ نہیں جانتے۔ بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کر کے سختی کو دور و عبرت حاصل کرتے ہو۔ کیا وہ جو تمہیں خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے اور جو اپنی رحمت سے پہلے ہی خوشخبریاں دینے والے ہوائیں چلاتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے جنہیں یہ شریک کرتے ہیں، ان سب سے اللہ بلند و بالا تر ہے۔ کیا وہ جو مخلوق کی اول دفعہ پیدائش کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا اور جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزیاں دے رہا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ۔”​

ان پانچوں آیاتِ مبارکہ میں توحیدِ ربوبیت کی تقریر و اثبات ہے، جسے کفار بھی تسلیم کرتے تھے، تاکہ انہیں توحیدِ الوہیت قبول کرنے کی دعوت دی جائے، یہی وجہ ہے کہ آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے توحیدِ ربوبیت کے اثبات کے بعد فرمایا:

( ءَاِلہ مَعَ اللہِ ) کیا اللہ تعالیٰ کےساتھ کوئی اور معبود ہے؟

مطلب بالکل واضح ہے کہ جو ذات ان افعال کی انجام دہی میں اکیلا و تنہا ہے(جن افعال کا مذکورہ آیات میں ذکر ہوا) تو ضروری ہے کہ اس ذات کو معبود بھی مانا جائے اور ہر نوع کی عبادت اس کے ساتھ مختص کی جائے؛ کیونکہ جو ذات خلق و ایجاد جیسے افعال کے ساتھ مختص ہے اس ذات کا معبود ہونا امرِ متعین و واجب ہے۔

اس بات مین کیا معقولیت ہے کہ یہ مخلوقات جو پہلے معدوم تھیں، اور اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے وجود میں آئیں انہیں پیدا ہونے کے بعد معبود مان لیا جائے، یا ان مخلوقات کو خالق کا شریک ٹھہرا لیا جائے؟ یہ بات کسی طرح بھی معقول ہے؟

 

قبولیتِ اعمال کی دو شرطیں: اخلاص اور اتباعِ سنت

 

حقیقت ِ عبادت واضح ہونے کے بعد آ پ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کسی بھی عبادت یا عمل کے قابلِ قبول ہونے کیلئے دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔

ایک یہ کہ وہ عمل اللہ تعالیٰ کیلئے خالص ہو، اور دوسرا یہ کہ وہ نبیﷺ کی سنت کے مطابق و موافق ہو۔ لہذا ہر عمل کی قبولیت کیلئے تجریدِ اخلاص اور تجریدِ متابعت ضروری ہے ، اخلاص اللہ و حدہ لاشریک لہ کیلئے ، اور متابعت رسول اللہﷺ کیلئے ۔۔۔۔ اگر کسی عمل کو سنتِ رسول ﷺ کی مطابقت تو حاصل ہو لیکن اخلاص مفقود ہو تو وہ عمل عند اللہ کسی قبولیت یا پذیرائی کا مستحق نہیں ہے ، اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا​) (الفرقان:23)

ترجمہ:” اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پرا گندہ ذروں کی طرح کر دیا”​

اسی طرح اگر عمل میں اخلاص کی شرط تو موجود ہے لیکن رسول اللہﷺ کی سنت کی مطابقت کی شرط مفقود ہے ، بلکہ بدعات و محدثات کی اساس پر قائم ہے تو وہ عمل عند اللہ غیر مقبول ہے اور عمل کرنے والے پر مردود قرار پاتا ہے ۔

صحیح بخاری و مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:

"من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منہ فھورد”

ترجمہ:”جس شخص نے (خواہ وہ کوئی بھی ہو) ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز نکالی، جو دین میں سے نہ ہو، تو وہ مردود ہے ”

صحیح مسلم کی حدیث میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں:

"من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھورد”

ترجمہ:”جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہ ہو تو وہ عمل اس شخص پہ مردود ہے ”

یہ کہنا غلط ہے کہ عمل کرنے والا اگر مخلص ہو، عمل خواہ سنت کے مطابق نہ بھی ہو لیکن بندے کا ارادہ و نیت نیک ہو تو وہ عمل درست ، قابل تعریف اور نافع ہے ، اس قسم کے مفروضوں اور نظریات کے غلط ہونے کی دلیل رسول اللہﷺ کا اپنے اس صحابی سے کہ جس نے نمازِ عید سے قبل اپنی قربانی ذبح کر لی تھی یہ فرمایا:[شاتک شاۃ لحم] تمہاری یہ بکری صرف گوشت کھانے کھلانے کی حد تک ہے (قربانی کی نہیں ہے )

رسول اللہﷺ نے اس کی قربانی کا کوئی اعتبار نہیں فرمایا، کیونکہ وہ وقت ِ ذبح شروع ہونے سے قبل ذبح کر لی گئی تھی، وقتِ ذبح نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد ہے مگر اس نے نماز سے قبل ذبح کر ڈالی۔

اس حدیث کو امام بخاری اپنی صحیح(5556) میں اور امام مسلم نے اپنی صحیح(1961) میں روایت فرمایا ہے ۔ حافظ ابنِ حجر فتح الباری(10/17) میں اس کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:” شیخ ابو محمد بن ابی جمرۃ کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عمل خواہ کتنی اچھی نیت سے کیوں نہ صادر ہو ، اسوقت تک صحیح اور معتبر نہیں ہو گا جب تک رسول اللہﷺ کے طریقہ کے موافق نہ ہو”

سنن دارمی(1/69،68) میں ہے

"عبد اللہ بن مسعود ؓ نے کچھ لوگوں کو مسجد میں حلقہ بنائے بیٹھے دیکھا، ان کے سامنے کنکریاں پڑی ہوئی تھیں، ایک شخص کہتا : سو بار” اللہ اکبر” کہو ، سب سو دفعہ ” اللہ اکبر” کہتے ، پھر وہ کہتا: سوبار” لاالٰہ الا اللہ” کہو ، سب سوبار” لاالٰہ الا اللہ” کہتے ، پھر وہ کہتا سو بار ” سبحان اللہ” کہو، سب سو بار” سبحان اللہ” کہتے ۔۔۔۔۔ آپؓ نے فرمایا: یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ لوگوں نے کہا: اے ابو عبد الرحمٰن ! ہم ان کنکریوں پر تکبر تہلیل اور تسبیح شمار کر رہے ہیں، فرمایا : تم اس کے بجائے اپنے گناہ شمار کرو، میں ضمانت دیتا ہوں کہ اس طرح کم از کم تمہاری کوئی نیکی تو نہ ضائع ہو گی، اے امتِ محمد(ﷺ) تم پہ افسوس! تم کتنی جلدی برباد ہو گئے ، ابھی نبی ﷺ کے صحابہ کرام اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں، نبیﷺ کے کپڑے تک موجود ہیں، جواب تک بوسیدہ نہیں ہوئے ، برتن نہیں ٹوٹے ، اللہ کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا تو تم محمدﷺ سے زیادہ نیک اور ہدایت یافتہ بن چکے ہو، یا تم نے اپنے لیئے ضلالت کا ایک دروازہ کھول لیا ہے ،لوگوں نے کہا: اے ابو عبد الرحمٰن ! مگر ہمارا ارادہ اور نیت تو نیک ہے ، فرمایا : کتنے لوگ ہیں جن کے ارادے نیک ہوتے ہیں، لیکن نیکی اور خیر انہیں نصیب نہیں ہوتی”

(گویا محض نیت وارا دے کا نیک ہونا قبولیتِ عمل کیلئے کافی نہیں بلکہ ا س کیلئے امام الانبیاء ﷺ کی سنت کا اتباع بھی ضروری ہے ) اس اثر کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلۃ الصحیحۃ (رقم:2005) میں ذکر کیا ہے ۔

ابن ابی زید رحمہ اللہ کا یہ فرمان” ان اللہ الہٰ واحد لا الہٰ غیرہ” باعتبار معنی، کلمہ اخلاص و توحید” لاالہٰ الا اللہ” کی تعبیر و ترجمانی کر رہا ہے ، چنانچہ کلمہ” لاالہٰ الا اللہ” نفیِ عام ار اثبات خاص پر دلالت کر ر ہا ہے ، نفی عام سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بنائے گئے ہیں یا بنائے جائیں گے سب کی عبادت کی نفی و ابطال، اور اثباتِ خاص سے مراد یہ ہے کہ ہر طرح کی عباد ت کا چونکہ اللہ تعالیٰ مستحق ہے لہٰذا ہر طرح کی عبادت اللہ تعالیٰ کیلئے خاص کر دی جائے ۔

"لا الہٰ۔۔۔۔۔” کا "لا” برائے نفی جنس ہے ، جس کی خبر محذوف ہے ، تقدیر”حق” ہے ۔ مقصود اللہ تعالیٰ کے سوا معبودِ حق کی نفی ہے ، کیونکہ معبود ِ باطل تو نہ صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ بڑی تعداد میں موجود ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کا یہ قول قرآن ِ پاک میں ذکر فرمایا ہے :

(اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ) (ص:5)

ترجمہ:” کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کے بجائے ایک ہی معبود بنا دیا، یہ تو بڑی عجیب بات ہے !”​

ابن ابی زید نے جو "لاالہٰ غیرہ” فرمایا ہے یہ جملہ ان کے قول” انا اللہ الہٰ واحد” کی تاکید ہے ۔ اور ان کے کلام کے مذکورہ ساتھ جملے جو نفی پر مشتمل ہیں، آخری جملہ” لاشریک لہ” ہے جس سے یہ بتانا قصود ہے کہ عبادت کا اللہ تعالیٰ کیلئے خالص ہونا ضروری ہے ، اور عبادت کی کسی بھی قسم میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی الوہیت میں اکیلا ہے ، اور اپنے تمام اسماء و صفات میں اکیلا ہے ، صرف وہی عبادت کا مستحق ہے ، دوسرا کوئی نہیں، اس کی ربوبیت میں بھی کوئی شریک نہیں ہے وہ سبحانہ و تعالیٰ اکیلا ہی خالق اور مدبر ہے ۔ اسی طرح اس کااسماء و صفات میں بھی کوئی شریک نہیں ہے ، کیونکہ ان صفات کے جو معانی اللہ تعالیٰ کے لائق ہیں ، ان میں اللہ تعالیٰ کی کوئی مخلوق شریک نہیں ہوسکتی۔

مؤلف رحمہ اللہ کا قول” لاشبیہ لہ ولا نظیرلہ” اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی مثل نہیں ہے ، اور نہ ہی اس کی پوری مخلوق میں کوئی اس کا مشابہ ہے ، بلکہ وہ اپنی تمام صفات کے ساتھ متفرد(اکیلا اور تنہا) ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ (الشوریٰ:11)

ترجمہ:” اس جیسی کوئی چیز نہیں وہسننے والا دیکھنے والا ہے "​

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ ایک آیتِ کریمہ ، اسماء و صفات کے حوالے سے اہل السنۃ کے عقیدے کیلئے ایک اصل کی حیثیت رکھتی ہے ، اور وہ اصل ہے ” اثبات مع التنزیہ” یعنی صفاتِ کمال کو اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت کرنا اور اس طرح ثابت کرنا کہ وہ کسی بھی مخلوق کی مشابہت ے منزہ اور پاک ہوں۔

اہل السنۃ کا یہ عقیدہ ، فرقہ مشبھہ کے عقیدے کے خلاف ہے ، فرقہ مشبھہ کے ہاں صفاتِ باری تعالیٰ کے حوالے سے جو عقیدہ ہے وہ” اثبات مع التشبیہ” یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی صفات ثابت تو کرتے ہیں لیکن مخلوقات سے تشبیہ کے ساتھ۔(ونعوذباللہ من ھذا الضلال) اسی طرح اہل السنۃ کا مذکورہ عقیدہ، فرقہ معطلہ کے عقیدے کے بھی خلاف ہے ، فرقہ معطلہ کا عقیدہ” تنزیہ مع التعطیل” ہے ، یعنی و خالق کی مخلوقات سے تشبیہ کی نفی کرتے ہیں، اس طرح کہ صفات ہی کا انکار کر دیا جائے ، تاکہ نہ صفات ہوں اور نہ تشبیہ کا مخطور ہو، (ولا حول ولا قوۃ الاباللہ)

اہل السنۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں مذکور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات برحق ہیں، اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہیں اور مخلوقات کی مشابہت سے پاک ہیں۔ چنانچہ قولہ تعالیٰ: (وِھُوَالسَّمِیعۃ البَصِیرُ) میں اللہ تعالیٰ کے دو ناموں کا اثبات ہے ایک” السمیع” اور دوسرا” البصیر” ، اور یہ دونوں نام اللہ تعالیٰ کی دو صفات کے اثبات پر دلالت کررہے ہیں، ایک صفتِ سمع ، دوسری صفتِ بصر۔

اور قولہ تعالیٰ: (لَیسَ کَمِثِلہ شَیء) تنزیہ پر دلالت کر ر ہا ہے ۔ اب اس مکمل آیت کا معنی یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کیلئے صفتِ سمع ثابت و برحق ہے لیکن مخلوقات کے سما ع کی طرح نہیں، اسی طرح صفتِ بصر ثابت و برحق ہے لیکن مخلوقات کے ابصار کی طرح نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا:

(ھَل تَعلَمُ لَہ سَمِیَّا) (مریم:65)

ترجمہ:” اس کا ہمنام ہم پلہ اور بھی ہے ؟”​

حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علی بن ابی طلحۃ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے نقل فرماتے ہیں، وہ ا س آیتِ کریمہ کا معنی یوں بیان کرتے تھے :

” کیا تم رب تعالیٰ کا کوئی مثل یا مشابہ جانتے ہو؟” یہی تفسیر مجاہد، سعید بن جبیر، قتادۃ اور ابنِ جریج وغیرہ سے منقول ہے ۔

ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

(وَلَم یَکُن لَّہ کُفُوًا اَحَد)

ترجمہ:” اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے "​

"کفو” سے مراد مثل اور نظیر ہے ، امام قرطبی اپنی تفسیر میں(20/246) اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

” اس سے نہ تو کوئی مشابہت رکھنے والا ہے نہ کوئی برابری کرنے والا ہے ، اس جیسی کوئی چیز نہیں”

قولہ تعالیٰ: (لَم یَکُن لَّہ کُفُوًا اَحَد) میں کلمہ "احد” جو کہ نکرہ ہے سیاقِ نفی میں ہونے کے باعث بہت بڑے عموم پر دلالت کر رہا ہے ، جس کا معنی یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کا کسی صفت میں، کسی بھی قسم کا کوئی شبیہ یا مثل نہیں ہے ۔ تفسیر ابنِ کثیر میں جو اس کلمہ کی تفسیر” زوجۃ” سے کی گئی ہے تو وہ از قبیل تفسیر بالمثال ہے ۔ اور جملہ(لَم یَکُن لَّہ کُفُوًا اَحَد) سابقہ جملوں کی اور بالخصوص پہلی آیت (قُل ھُوَ اللہ ُ اَحَد) کی تاکید ہے ، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اکیلا ہے اور ایسا اکیلا ہے کہ کوئی اس کا شبیہ اور نظیر بھی نہیں ہوسکتا۔

قولہ:”ولا والدلہ، ولا والدلہ ولا صاحبۃ لہ

"اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی اولاد ہے ، نہ ہی باپ ہے اور نہ ہی بیوی”

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کی اولاد، باپ، بیوی کی نفی نصاً وارد ہے ۔ سورہ اخلاص پڑھ کر دیکھئے

(قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ )

ترجمہ:” آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے ۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے ۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ۔ اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے "​

چنانچہ اس سورت نے اللہ تعالیٰ کے والد اور اولاد ہونے کی نفی کی ہے ، اور ہر مثل و نظیر کی نفی کے ضمن میں بیوی ہونے کی نفی بھی آ گئی۔ اس مبارک سورت میں اللہ تعالیٰ کیلئے احادیث اور صمدیت کا اثبات ہے ، جبکہ ہر اصو ل (باپ) فروع(اولاد) اور نظراء (ہم مثل) کی نفی ہے ، چنانچہ وہ ذات” احد” ہے جس کا کوئی ہم مثل نہیں، اور صمد ہے جس کا کوئی باپ یا بیٹا نہیں ہے ، جس کی طرف تمام خلائق اپنی حاجات پیش کرنے کی محتاج و مفتقر ہیں، اور وہ ذات سب سے مستغنی اور بے پرواہ ہے ، اور اس کا مستغنی اور بے پرواہ ہونا ایسا باکمال ہے کہ وہ والد اور اولاد تک کا محتاج نہیں ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کی نفی دیگر بہت سی سورو آیات میں وارد ہے ، کیونکہ یہودی عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے ، جبکہ کفارِ مکہ جن کی طرف رسول اللہﷺ مبعوث ہوئے ، ملائکہ کے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہونے کا عقیدہ باطلہ رکھتے تھے ، لہذا اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مجید میں بار بار اپنی اولاد ہونے کی نفی فرمائی۔ سورۃ البقرہ میں فرمایا:

(وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ۙ سُبْحٰنَه ۭ بَلْ لَّه مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭكُلٌّ لَّه قٰنِتُوْنَ) (البقرۃ:116)

ترجمہ:” یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے ،(نہیں بلکہ) وہ پاک ہے زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت میں ہے اور ہر ایک اس کا فرمانبردار ہے "​

سورۃ المؤمنون میں فرمایا:

(مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَه مِنْ اِلٰهٍ) (المؤمنون:91)

ترجمہ:” نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے "​

سورہ مریم میں فرمایا:

( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا،لَقَدْ جِئْتُمْ شَئًْا اِدًّا) (مریم:88-89)

ترجمہ:” ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اولاد اختیار کی ہے ۔ یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو”​

اس کے علاوہ اور بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کی نفی مذکور ہے ، دیکھئے سورۃ النساء، الانعام، التوبۃ، یونس، الاسراء، الکھف، الانبیاء، الصافات ، الزخرف، اور الجن۔

جہاں تک اللہ تعالیٰ کی بیوی ہونے کی نفی کا تعلق ہے تو یہ بھی قرآنِ حکیم میں کئی مقامات پر وارد ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے جہاں بیوی کی نفی کی وہاں ساتھ ہی اولاد کی بھی نفی کی، چنانچہ فرمایا:

(بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَه وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّه صَاحِبَةٌ) (الانعام:101)

ترجمہ:” وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ، اللہ تعالیٰ کے اولاد کہاں ہوسکتی ہے حالانکہ اس کی تو ہے نہیں”​

جنوں کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا:

(وَّاَنَّه تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّلَا وَلَدًا) (الجن:3)

ترجمہ:” اور بیشک ہمارے رب کی بڑی شان بلند ہے نہ اس نے کسی کو (اپنی) بیوی بنایا ہے نہ بیٹا”​

مؤلف ابن ابی زید رحمہ اللہ کے مذکورہ کلام میں جو اللہ تعالیٰ کے شبیہ، نظیر، والد، اولاد اور بیوی کی نفی وارد ہوئی ہے یہ بالکل طریقہ سلفِ صالحین کے مطابق ہے ، اور ان میں سے ہر چیز کی نفی اللہ تعالیٰ کیلئے اثباتِ کمال کو متضمن ہے ، چنانچہ شبیہ اور نظیر کی نفی کمالِ احدیت کو ، جبکہ والد، اولاد اور بیوی کی نفی کمالِ غناء کو متضمن ہے ۔(یہاں ایک ضروری نکتہ ہے جو صفاتِ باری تعالیٰ کے تعلق سے ہمیشہ ملحوظِ نظر رہنا چاہئے )قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ سے جس کسی چیز کی نفی وارد ہے ، اس کی نفی کا عقیدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ، اس کے بالمقابل جو صفتِ کمال ہے ، اس کے اللہ تعالیٰ کیلئے اثبات کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے ۔ یعنی و منفی صفتِ نقص اس کے مقابل صفتِ کمال کو اپنے ضمن میں لیئے ہوتی ہے ۔ (یہ اسلوب قرآن مجید نے بھی سکھایا ہے ) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعْجِزَه مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ ۭ اِنَّه كَانَ عَلِيْمًا قَدِيْرًا ) (فاطر:44)

ترجمہ:” اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز اس کو ہرا دے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں وہ بڑے عالم والا، بڑی قدرت والا ہے "​

اب یہاں اللہ تعالیٰ سے عجز کی نفی ہے ، لہذا یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ دنیا کی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتی، عجز کے بالمقابل جو صفتِ کمال ہے وہ قدرت ہے ، لہذا یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر

چیز پر قادر ہے ، یہی وجہ ہے مذکور آیتِ کریمہ میں عجز کے نفی کے بعد، آخر میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ "قدر” وارد ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان :

(وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ) (ق:38)

ترجمہ:” یقیناً ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان میں ہے سب کو (صرف) چھ دن میں پیدا کر دیا اور ہمیں تھکان نے چھوا تک نہیں”​

یہاں اللہ تعالیٰ سے تعب اور تھکاوٹ کی نفی ہے ، جس کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے ، ساتھ ساتھ اس کے مقابل یعنی اس ذات کے قادر ہونے کا عقیدہ رکھا جائے ۔

اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا:

(وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدً)ا(الکھف:49)

ترجمہ:” تیرا رب کسی پر ظلم و ستم نہ کرے گا”​

یہاں اللہ تعالیٰ سے ظلم کی نفی، اس کے کمالِ عدل کی صفت سے متصف ہونے کو متضمن ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان:

(وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرَ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ) (یونس:61)

ترجمہ:” اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر سب کتاب مبین می ہے "​

یہاں اللہ تعالیٰ سے عزوب (کسی چیز کا مخفی ہونا) کی نفی، اس کے کمالِ علم کی صفت سے متصف ہونے کو ضمن میں لئے ہوئے ہے ۔

اس انتہائی لطیف نکتے سے جہاں اللہ رب العزت کی عظمت و جلالت شان کی معرفت مقصود ہے وہاں علمائے متکلمین کا رد بھی پیش ِ نظر ہے ، انہوں ںے اللہ تعالیٰ سے جن امور کی نفی کی ہے وہنفی کسی صفت کمال پر دلالت نہیں کر رہی ہوتی بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کیلئے تشبیہ بالمعدومات کے خطرناک عقیدہ میں دھکیل دینے کا باعث بن جاتی ہے اس کی کچھ وضاحت فائدہ نمبر 2 میں ہو چکی ہے ۔

 

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں "الاوّل” اور ” الآخِر” بھی ہیں

 

[2] ” لیس لأولیۃ ابتداء ، ولا لآ خریتہ انقضاء”

"اس کی اولیت کی کوئی ابتداء نہیں، اور اس کی آخریت کی کوئی انتہاء نہیں۔”

شرح:

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں "الاوّل” اور ” الآخِر” بھی ہیں ​

ابن ابی زید کا یہ کلام اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے :

(هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ) (الحدید:3)

ترجمہ:” وہی پہلے ہے وہی پیچھے ، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی، اور وہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے "​

اس آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت کیلئے صفتِ” اّلأَوَّلُ” اور صفتِ "اَلآخِرُ” کا اثبات ہے ، صفتِ ” اَلأوَّلُ” سے مراد یہ ہے کہ اللہت عالیٰ ہر شئ سے پہلے ہے اور صفتِ ” اَلآخِرُ” اللہ تعالیٰ کے بقاء، دوام اور آخریت پر دال ہے ۔۔۔۔ اس آیتِ مبارکہ میں جو اللہ تعالیٰ کے نام مذکور ہیں ان کی تفسیر رسول اللہﷺ کی ایک حدیث میں بھی وارد ہے ، یہ حدیث در حقیقت نبی ﷺ کی ایک دعا پر مشتمل ہے ، جس کے راوی ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ ہیں، ملاحظہ ہو:

"اللھم أنت الأول فلیس قبلک شیء، وأنت الآخر فلیس بعدک شیء، وأنت الظاھر فلیس فوقک شیء وأنت الباطن فلیس دونک شیء ، اقض عنا الدین وأغننا من الفقر"(صحیح مسلم:2713)

ترجمہ:” اے اللہ تو ” الأول” ہے تجھ سے قبل کوئی چیز نہیں، اور تو ” الآخر” ہے تیرے بعد کوئی چیز نہیں ، اور تو ” الظاھر” ہے ، تیرے اوپر کوئی چیز نہیں، اور تو ” الباطن” ہے ، تیرے دون کوئی چیز نہیں، ہمارا قرض ادا کر دے اور ہمیں فقر سے بچا کر غنا عطا فرما دے ”

ابن ابی زید کے مذکورہ کلام ” لیس الأولیتہ ابتداء ولا لآ خریتہ انقضاء” سے مراد یہ ہے کہ عدم، اللہ تعالیٰ کو نہ تو پہلے کبھی حاصل تھا۔ نہ بعد میں کبھی لاحق ہو گا، جبکہ مخلوقات کا معاملہ یہ ہے کہ ان کیلئے ابتداء بھی ہے اور انتہاء بھی۔۔۔۔ ایسی ابتداء جس سے پہلے عدم تھا، اور ایسی انتہاء جس کو عدم لاحق ہو گا۔

واضح ہو کہ قرآن و حدیث میں ، جنت اور جہنم اور اہل جنت اور اہل جہنم کے بقاء اور دوام کا ذکر ہے ، تو کیا یہ اللہ رب العزت کی آخریت کے منافی نہیں ہے ؟

جواب یہ ہے کہ جنت او جہنم وغیرہ کا بقاء اور دوام اللہ تعالیٰ کے بقاء اور دوا م کے منافی نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کا بقاء اور دوام اور آخریت اس کی ایک صفت ہے جو اس کے ساتھ لازم ہے (یعنی صفتِ ذاتی ہے ) جبکہ جنت اور جہنم اور اہلِ جنت و جہنم کا بقاء و دوام اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور ذاتِ حق کی مشیت و ارادہ کے تباع ہے اگر وہ نہ چاہتا تو انہیں یہ بقاء اور دوام کبھی حاصل نہ ہوتا۔ یہی بات ابن ابی العز نے عقیدہ الطحاویہ کی شرح میں لکھی ہے :

"وبقاء الجنۃ والنار لیس لذاتھما، بل بابقاء اللہ لھما”

یعنی جنت اور جہنم کا ہمیشہ قائم رہنا ان کی صفت ِ ذاتیہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے انہیں دوام عطا فرمانے کی وجہ سے وہ ہمیشہ قائم رہیں گی۔

واضح ہو کہ مؤلف رحمہ اللہ کی مذکورہ تعبیر ” لیس لأولیتہ ابتداء ولا لآ خریتہ انقضاء”

"امام طحاوی کی تعبیر” قدیم بلا ابتداء ، دائم بلا انتھاء” سے بہتر ہے ، یعنی ابن ابی زید نے اللہ تعالیٰ کیلئے ” الأول” اور ” الآخر” کی صفت کا ذکر فرمایا ہے ، جبکہ طحاوی نے اس کی جگہ "قدیم” اور” دائم” کے الفاظ استعمال کیئے ہیں۔۔۔۔ دونوں کی تعبیر کا مقصود اگرچہ ایک ہی ہے لیکن ابن ابی زید کی تعبیر ، طحاوی کی تعبیر سے اس لئے بہتر ہے کہ ابن ابی زید نے اس معنی کو بیان کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کے دو اسمائے حسنیٰ” الأول ” والآخر” کا ذکر فرمایا ہے (جبکہ طحاوی کے ذکر کردہ دونوں الفاظ اسمائے حسنیٰ میں سے نہیں ہے )

 

 

 

اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرنے والے اس کی کسی صفت کی ماہیت و کیفیت تک نہیں پہنچ سکتے

 

[3] قولہ: " لا یبلغ کنہ صفتہ الواضفوان، ولا یحیط بأمرہ المتفکرون، یعتبرا المتفکرون بآ یاتہ، ولا یتفکرون فی ماھیۃ ذاتہ

ترجمہ:” اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرنے والے اس کی کسی صفت کی ماہیت و کیفیت تک نہیں پہنچ سکتے اور تفکر کرنے والے اس کسے کسی امر کا احاطہ نہیں کر سکتے ، تفکر کرنے والے اس کی آیات سے نصیحت و عبرت اخذ کرتے ہیں لیکن اس کی ذات کی حقیقت و کیفیت پر غور و خوض اور بحث و تمحیص نہیں کرتے ۔”

شرح:

اہل السنۃ ، اللہ تعالیٰ کی وہ صفات بیان کرتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بیان فرما دی ہیں، اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ تمام صفات اللہ تعالیٰ کیلئے اس طرح ثابت ہیں جیسے اس کی ذات کے لائق ہیں، وہ ان صفات کے معانی جانتے ہیں، کیفیت نہیں جانتے ، وہ اللہ تعالیٰ کیلئے صفات کا اثبات و اقرار کرتے ہیں، ان صفا کی کیفیات پر بحث و تمحیص نہیں کرتے ۔ چنانچہ وہ صفات کی کیفیت کے تعلق سے نہ کہ معنی کے تعلق سے تفویض کا عقیدہ رکھتے ہیں(یعنی صفات کی کیفیات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے )، جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کے مشہور قول میں اس کی صراحت ہے ، جب ان سے اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کی کیفیت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا تھا:

” اللہ تعالیٰ کا مستوی علی العرش ہونا معلوم ہے ، لیکن مستوی ہونے کی کیفیت نا معلوم ہے ، لہذا اس کا مستوی علی العرش ہونے پر ایمان لانا واجب ہے اور استواء کی کیفیت کا سوال بدعت ہے ”

ابن ابی زید کے مذکورہ کلام کا معنی یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی صفات کی کیفیات کی معرفت کی کوئی شخص طاقت و صلاحیت نہیں رکھتا، کیونکہ کیفیاتِ صفات و امرِ غیبی ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

ابن ابی زید کا یہ فرمانا: کہ” تفکر کرنے والے اللہ تعالیٰ کے کسی امر کا احاطہ نہیں کر سکتے ” اس سلسلہ میں واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کے امر کی دو قسمیں ہیں:

  1. امرِ کونی قدری: یعنی اللہ تعالیٰ کے وہ امر جو اس کون(کائنات) کے امور سے متعلق ہیں۔
  2. امر دینی شرعی: یعنی اللہ تعالیٰ کے وہ امر جو دین اور شریعت سے متعلق ہیں۔

امرِ کونی کی مثال ، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :

(اِنَّمَآ اَمْرُه اِذَآ اَرَادَ شَئًْا اَنْ يَّقُوْلَ لَه كُنْ فَيَكُوْن) (یس:82)

ترجمہ:” وہ جب کبھی کسیچیز کا ارادہ کرتا ہے اسے انا فرما دینا (کافی ہے ) کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتا ہے "​

امرِ شرعی کی مثال:

(اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى) (النحل:90)

ترجمہ:” اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے "​

امر خواہی کونی ہوں یا شرعی، سب کے سب اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت پر مشتمل ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کائنات میں جو کچھ مقدر فرماتا ہے ، کسی حکمت کے تحت فرماتا ہے ، اسی طرح شریعت اور دین کے تعلق سے جو امر و نہی فرماتا ہے کسی حکمت کے تحت فرماتا ہے ۔۔۔۔

بندے امرِ کونی اور امرِ شرعی کے حوالے سے کچھ حکمتیں تو پہچان لیتے ہیں، لیکن اس خلق و شر ع میں پنہاں اللہ تعالیٰ کی تمام حکمتوں کا احاطہ ان کے بس کی بات نہیں ہے ، لہذا ضروری ہے کہ وہ امرِ کونی کے تعلق سے تقدیر پر ایمان لے آئیں ، اور امرِ شرعی کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کی شریعت (کتاب وسنت) کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دیں، خواہ کسی شئ یا مسئلہ کی حکمت یا حکمتیں معلوم ہوسکیں یا نہ ہو سکیں۔

جب انہیں کسی شئ کی حکمت معلوم ہو جاتی ہے تو ان کا ایمان و یقین بڑھ جاتا ہے ، اور اگر کسی امر کی خواہ وہ کونی ہو یا شرعی کی حکمت معلوم نہ ہوسکے تو وہ اپنی اصل ذمہ داری سے منحرف نہیں ہوتے اور وہ ذمہ داری یہ ہے کہ امرِ کونی کے تعلق سے تقدیر پر ایمان، اور امرِ شرعی کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے انقیاد وتسلیم کا مظاہرہ کریں(یعنی قال اللہ وقال رسول اللہ کے پابند ہوکر رہیں اور اس دائرہ سے قطعی باہر نہ نکلیں)

 

تفکر کرنے والے اللہ تعالیٰ کے کسی امر کا احاطہ نہیں کر سکتے ​

 

ابن ابی زید کا کلام” ولا یحیط بأمرہ المتفکرون”سے مقصود یہی ہے کہ تفکر کرنے والے اللہ تعالیٰ کے احکام کے حِکم و اسرار کا احاطہ نہیں کر سکتے ۔یہ مقصود نہیں ہے کہ وہ احکامِ شریعت کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ احکامِ شریعت کی معرفت حاصل کرنا اور پھر ان پر عمل کرنا تو شرعی مطوب نہیں۔ رسول اللہﷺ کا یہ فرمان اس نکتے کو مزید واضح کرے گا:

"مانھیتکم عنہ فاجتنبوہ وما أمرتکم بہ فافعلوا منہ ماستطعتم”

ترجمہ:” جس چیز سے روکوں اس سے با ز آ جاؤ، اور جس چیز کا حکم دوں اسے طاقت کے بقدر ضرور انجام دو”(چنانچہ احکام کو سمجھنا اور عمل کرنا تو ارمِ مستطاع ہے ، لیکن ان میں پنہاں اسرار و رموز کا احاطہ ہماری طاقت سے خارج ہے )​

(صحیح بخاری:7688، صحیح مسلم:1327)

 

تفکر کرنے والے اللہ تعالیٰ کی آیات سے نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہیں​

 

مؤلف رحمہ اللہ نے فرمایا:” تفکر کرنے والے اس کی آیات سے نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہیں”

واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی دو قسمیں ہیں۔

(1) آیاتِ شرعیہ (2) آیاتِ کونیہ

آیاتِ شرعیہ: سے مراد وہ آیات ہیں جن پر قرآن کریم مشتمل ہے ، جبکہ

آیاتِ کونیہ: سے وہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ کی خلق میں موجود ہیں: مثلاً: رات، دن ، چاند اور سورج وغیرہ۔

آیات ِ شرعیہ سے نصیحت و عبر ت حاصل کرنے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :

(وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ) (القمر:17)

ترجمہ: ” اور بیشک ہم نے قرآن کو سمجھنے کیلئے آسان کر دیا ہے پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے "​

نیز اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:

(اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا) (محمد:24)

ترجمہ:” کیا قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں”​

نیز یہ فرمان ہے :

(كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ) (ص:29)

ترجمہ:” اور یہ بابرکت کتاب جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غوروفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں”​

جبکہ آیاتِ کونیہ سے نصیحت و عبرت حاصل کرنے کی دلیل درج ذیل آیات ہیں:

(اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ،الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ) (آل عمران:190-191)

ترجمہ:” آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کیلئے نشانیاں ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی پیدائش میں غور وفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ”

(اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ) (البقرہ:164)

ترجمہ:” آسمان اور زمین کی پیدائش ، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کر ، مردہ زمین کو زندہ کر دینا ، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کیلئے قدرت الہیٰ کی نشانیاں ہیں”

(وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيُحْيِي بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ وَمِنْ آيَاتِهِ أَن تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنتُمْ تَخْرُجُونَ ) (الروم:21تا25)

ترجمہ:” اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر (چلتے پھرتے ) پھیل رہے ہو۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی، یقیناً غور و فکر کرنے والوں کیلئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اس(کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف (بھی) ہے ، دانش مندوں کیلئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں۔ اور(بھی) اس کی (قدرت) کی نشانی تمہاری راتوں اور دن کی نیند میں ہے اور اس کے فضل(یعنی روزی) کو تمہارا تلاش کرنا بھی ہے ۔ جو لوگ( کان لگا کر) سننے کے عادی ہیں ان کیلئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ (بھی) ہے کہ وہ تمہیں ڈرانے اور امید وار بنانے کیلئے بجلیاں بدکھاتا ہے اور آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے ، اس میں (بھی) عقلمندوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان و زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں، پھر جب وہ تمہیں آواز دے گا صرف ایک بار کی آواز کے ساتھ ہی تم سب زمین سے نکل آؤ گے ”

(وَمِنْ اٰيٰتِهِ الَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۭ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ) (حم السجدۃ(فصلت):37)

ترجمہ:” اور دن رات اور سورج چاند بھی (اس کی) نشانیوں میں سے ہیں، تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ اس اللہ کیلئے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ، اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے ”

(وَمِنْ اٰيٰتِه اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۭ اِنَّ الَّذِيْٓ اَحْيَاهَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى ۭ اِنَّه عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) (حم السجدۃ(فصلت):39)

ترجمہ:” اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے (یہ بھی) ہے کہ تو زمین کو دبی دبائی دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو وہ تر و تازہ ہو کر ابھرنے لگتی ہے ، جس نے اسے زندہ کیا وہی یقینی طور پر مردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے ، بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے "​

 

غور و فکر کرنے والے اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیت و ماہیت میں تفکر نہیں کرتے ​

 

مؤلف رحمہ اللہ نے فرمایا ہے :” ولا یتفکرون فی ماھیۃ ذاتہ”یعنی غورو فکر کرنے والے ، اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیت و ماہیت میں تفکر نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔

اس سلسلہ میں واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے ساتھ خالق ہے ، اور باقی ہر شئ اس کی مخلوق ہے ، گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکاکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت کے تعلق سے ہمارا عقیدہ، عقیدہ تفویض ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں، ہمیں ان صفات کا صرف معنی معلوم ہے ، کیفیت نہیں۔۔۔۔ چنانچہ جس طرح اس کی صفات کی کیفیت کے بارہ میں بحث و تمحیص جائز نہیں ہے اسی طرح اس کی ذات کی کیفیت کے بارہ میں بحث و تمحیص جائز نہیں ہے ، مذکورہ جملہ میں اس عقیدہ کا اظہار ہے کہ تفکر کرنے والے اللہ تعالیٰ کی ذات کی ماہیت اور کیفیت کے بارہ میں تفکر نہیں کرتے ۔

 

علم الغیب اللہ تعالیٰ کیلئے خاص ہے

 

[4]: قولہ (وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِه اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا ئَُوْدُه حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ )(القبرۃ:255)

ترجمہ:” وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے ، مگر جتنا وہ چاہے اس کی کرسی کی وسعت نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے ، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا اور ۔ نہ اکتاتا ہے ، وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے ”

شرح:

علم الغیب اللہ تعالیٰ کیلئے خاص ہے ​

یہ چاروں جملے عظیم الشان آیت(آیت الکرسی) کا حصہ ہیں، آیت الکرسی کُل دس جملو ں پر مشتمل ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا درج ذیل فرمان (ایک مکمل آیت) دس جملوں پر مشتمل ہے ۔

(لِذَٰلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ) (الشوریٰ:15)

ترجمہ:” پس آپ لوگوں کو اسی طرف بلاتے رہیں اور جو کچھ آپ سے کہا گیا ہے اس پر مضبوطی سے جم جائیں اور ان کی خواہشوں پر نہ چلیں اور کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں میرا ان پر ایمان ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم میں انصاف کرتا رہوں، ہمارا اور تمہارا سب کا پروردگار اللہ ہی ہے ہمارے اعمال ہمارے لیئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیئے ہیں ہم میں سے کوئی کٹ حجتی نہیں اللہ تعالیٰ ہم (سب) کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے "​

اسی عظیم نکتہ کی طرف حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورہ شوریٰ میں مذکورہ آیت کی تفسیر کے موقع پر ارشاد فرمایا ہے ۔

قولہ:( وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِه اِلَّا بِمَا شَاۗء) (القبرۃ:255)

ترجمہ:” وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے ، مگر جتنا وہ چاہے ”

اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت، صفتِ علم ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر شئ کومحیط ہے ، جیسا کہ اس کا فرمان ہے :

( لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا) (الطلاق:12)

ترجمہ:” تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو باعتبارِ علم گھیر رکھا ہے "​

جہاں تک مخلوقات کا تعلق ہے ، تو وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں سے کچھ بھی نہیں جانتے ، اور کوئی مخلوق کچھ جان بھی پاتی ہے تو صرف اس قدر جو خود اللہ تعالیٰ سکھا دے اور تعلیم فرما دے ۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِه اِلَّا بِمَا شَاۗء) (القبرۃ:255)

ترجمہ:” وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے ، مگر جتنا وہ چاہے "​

نیز فرمایا:

(يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِه عِلْمًا)(البقرہ:255)

ترجمہ:” جو کچھ ان کے آگے پیچھے ہے اسے اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہوسکتا”

(نیز فرمایا: عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِه اَحَدًا ، اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّه يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِه رَصَدًا) (الجن:26-27)

ترجمہ:” وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ، سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے "​

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی نوح علیہ السلام کے متعلق قرآنِ حکیم میں یہ خبردی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے :

(وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ) (ھود:31)

ترجمہ:” میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، (سنو!) میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا، نہ میں کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں”​

اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو حکم دیا کہ آپ اپنی امت کو بتا دیں کہ وہ غیب کا علم نہیں رکھتے ، چنانچہ فرمایا:

(قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ) (الانعام:50)

ترجمہ:” آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ، میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں”​

نیز فرمایا:

( قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ) (الاعراف:188)

ترجمہ:”آ پ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کیلئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سامنا فع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں”​

اور اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے بارہ میں خبر دی :

(قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ)(البقرۃ:32)

ترجمہ:” سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے ، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے "​

اور اللہ تعالیٰ نے جنوں کے متعلق خبر دی :

(وَّاَنَّا لَا نَدْرِيْٓ اَشَرٌّ اُرِيْدَ بِمَنْ فِي الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا) (الجن:10)

ترجمہ:” ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے ”

(نیز فرمایا فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰي مَوْتِه اِلَّا دَاۗبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَه فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِي الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ) (سبا:14)

ترجمہ:” پس جب (سلیمان) گر پڑے اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب دان ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے "​

اور اللہ تعالیٰ نے (عمومی طور پر پوری کائنات کے تعلق سے ) فرمایا:

(قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ) (النمل:65)

ترجمہ:” کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا، اور انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھا کھڑے کیئے جائیں گے "​

اور اگر ذخیرہ احادیث کا تصفح کریں، تو اسی بے شمار احادیث ملیں گی جو ایسے بہت سے امور کے بیان پر مشتمل ہیں جنہیں رسول اللہ نہیں جانتے

تھے ، مثلاً: قصہ افک، چنانچہ آپﷺ کو أم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی براءت کا علم سورہ النور کی آیاتِ متعلقہ براءت کے نزول کے بعد ہوا۔ اسی طرح اس ہار کا واقعہ جو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے ایک سفر کے موقع پر گم ہو گیا تھا، سب اس کی کھوج میں وہیں رک گئے ، بہت تلاش بسیار کے باوجود وہ نہ مل سکا ، پانی بھی ختم ہو چکا تھا، نمازِ فجر لیٹ ہونا شروع ہو گئی(بڑی پریشان کن صورتحال بن چکی تھی) اس اثناء میں تیمّم کا حکم نازل ہوا(تیمّم کر کے نماز ادا کی گئی) اور جب وہاں سے کوچ کرنے کی غرض سے عائشہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ اٹھایا گیا تو ہار اس کے نیچے پڑا ہوا ملا۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ آیت الکرسی کے اندر فرمانِ باری تعالیٰ (ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِه اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں،

"اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے علم میں سے کسی بھی شئ پر کوئی بھی ، کچھ مطلع نہیں ہوسکتا ، مگر صرف اسی قدر جو اللہ تعالیٰ خود کسی چیز کے علم ، یا خبر سے مطلع فرما دے ۔ یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ اس علم سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم ہو، چنانچہ اس کی ذات و صفات کے تعلق سے کوئی، کچھ نہیں جان سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کوئی علم فراہم نہ فرمائے ، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِه عِلْمًا (طہ:10) ترجمہ:” مخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہوسکتا” واضح ہو کہ آیت الکرسی میں جس کرسی کا ذکر ہے ، اور جس کے متعلق فرمایا کہ وہ آسمانوں اور زمینوں پر وسیع اور حاوی ہے ۔۔۔۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے ، اور مستدرک حاکم(2/282) میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کی (موقوف) روایت سے ثابت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے دونوں قدم رکھنے کی جگہ ہے ۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کو نبیﷺ نے روایت نہیں کیا، لیکن یہ بخاری و مسلم کی شرط پر ہے ، حاکم کے اس قول پر امام ذھبی نے بھی کوئی نقد وارد نہیں کیا، البتہ اس کی سند کا ایک راوی” عمار الدھنی” صحیح مسلم کے رواۃ میں سے ہے جبکہ صحیح بخاری میں اس کی کوئی روایت نہیں ہے ۔۔۔۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے ” السلسلۃ الضعیفہ” رقم (906) میں اس کی مفصل تخریج دیکھ لیجئے ، اس حدیث کو مرفوع نقل کرنا ضعیف ہے ( لیکن "موقوفاً علی عبد اللہ بن عباس” صحیح ہے ، اور یہ بحکمِ مرفوع ہے ، کیونکہ اس قسم کی اخبار میں عقل ورائے کا کوئی کمال نہیں، فافھم)

واضح ہو کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کی طرف منسوب ایک دوسرے اثر میں کرسی کی تفسیر علم سے کی گئی ہے ، لیکن اس کی سند میں جعفر بن ابی المغیرۃ ہے جو سعید بن جبیر سے روایت کر رہا ہے ، اس کے متعلق حافظ ابن حجر ” التقریب التھذیب” میں فرماتے ہیں:” یہ صدوق تھا لیکن وہم کرتا تھا” ، حافظ ابن مندہ رحمہ اللہ” کتاب الرد علی الجھمیۃ” میں فرماتے ہیں: اس روایت میں جعفر کا کوئی متابع بھی نہیں ہے اور ویسے بھی سعید بن جبیر سے روایت کرنے میں قوی نہیں ہے ، امام ذھبی نے ” میزان الاعتدال”(1/417) میں اس کے بارہ میں ابن مندہ کی مذکورہ جرح کر کے مزید فرمایا ہے : اسے ابن ابی حاتم نے ذکر کیا ہے ، اور اس پر کسی قسم کی کوئی توثیق نہیں کی، بلکہ سکوت فرمایا ہے ۔ امام طحاوی رحمہ اللہ اھل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عرش اور کرسی حق ہے ۔

قولہ تعالیٰ (وَلَا ئَُوْدُه حِفْظُهُمَا ) سے مراد یہ ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی حفاظت نہ تو اس پر کوئی امرِ شاق ہے اور نہ ہی کسی طرح سے گراں اور بوجھل ۔۔۔۔ یہ ایک ایسی نفی ہے ، جو اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ کیلئے کمالِ قدرت کی صفت سے متصف ہونے کے اثبات کو متضمن ہے ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان کے اندر ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کی حفاظت اللہ تعالیٰ کیلئے قطعی کوئی مشکل یا بھاری نہیں ہے ، بلکہ اس کے برعکس انتہائی سھل اور آسان ہے ۔

آیت الکرسی کے آخر میں(وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ ) ہے ، ” العلی” اور ” العظیم” اللہ رب العزت کے دو مبارک نام ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی دو صفات پر مشتمل ہیں” العلی” میں صفتِ علو ہے ، اور ” العظیم” میں صفتِ عظمت ہے ۔

واضح ہو کہ علو(بلندی) کی تین قسمیں ہیں:

(1) علو القدر، یعنی مرتبہ و مقام کی بلندی ۔

(2) علوالقھر یعنی قہر و غلبہ کی بلندی۔

(3) علوا الذات یعنی ذات کا ہر ایک پر بلند ہونا۔

اللہ رب العزت کی صفت ِ علو میں تینوں چیزیں پائی جاتی ہیں۔ اور رب تعالیٰ کا نام مبارک ” العلی” قرآن ِ حکیم میں دیگر تین مبارک ناموں کیساتھ ملکر آیا ہے ، وہ تین نام ہیں:” العظیم”، "الحکیم” اور "الکبیر”

"العظیم” کے ساتھ ملکر آیت الکرسی اور سورہ شوریٰ کے ابتداء میں آیا ہے ، جبکہ” الکبیر” کے ساتھ مقترن ہو کر سورہ النساء میں آیا ہے : (اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیَّا کَبِیرًا) اس کے علاوہ سورہ الحج اور سورہ لقمان میں آیا ہے : (وَاِنَّ اللہَ ھُوَ العَلِیُّ الکَبِیرُ) جبکہ "الحکیم” کے ساتھ سورہ الشوریٰ کے آخر میں مقترن ہو کر آیا : (اِنَّہ عَلِیُّ حَکِم)

 

العلو، القدرۃ، السمع اور البصیر اللہ تعالیٰ کی صفات میں‌سے ہیں!

 

[5] – قولہ:” العالم الخبیر المدبر السمیع البصیر العلی الکبیر

ترجمہ:” وہ عالم، خبیر، مدبر، قدیر، سمیع ، بصیر، بلند اور بڑا ہے ”

شرح:

العلو، القدرۃ ، السمع اور البصیر اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہیں ان صفات کا مفہوم مختصراً درج کیا جاتا ہے ۔​

"العالم” اور ” الخبیر” اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے دو مبارک نام ہیں، جو علم رکھنے اور خبر گیری فرمانے کی صفت پر مشتمل ہیں۔

)بہتر ہے ، اس کی دو وجوہ ہیں:

ایک یہ کہ صفتِ "العلیم” قرآن پاک میں بکثرت مطلقا ًبلا قید وار د ہوئی ہے جبکہ صفت "العالم” ہر جگہ علمِ غیب کے ساتھ مقید ہو کر وارد ہوئی ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان :

(عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ) (التغابن:18)

ترجمہ:”غیب اور ظاہر کا جاننے والا ہے زبردست حکمت والا ہے "​

نیز فرمایا:

(عٰلِمِ الْغَيْبِ ۚ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ) (السبأ:3)

ترجمہ:” عالم الغیب ہے ، اس سے ایک ذرہ کے برابر کی بھی چیز بھی پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں”​

دوسری وجہ یہ ہے کہ اسمِ مبارک” العلیم” قرآن ِ حکیم میں بہت سے مقامات پر اسمِ مبارک "الخبیر” کے ساتھ مقروناً ذکر ہوا ہے ، جبکہ اسمِ مبارک” العلیم” ہمیشہ مقدم ہی ہوتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ) (الحجرات:13)

ترجمہ:” تم میں سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے بے شک اللہ جاننے والا اور باخبر ہے "​

دوسرے مقام پر فرمایا:

(قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ هٰذَا ۭ قَالَ نَبَّاَنِيَ الْعَلِيْمُ الْخَبِيْرُ) (التحریم:3)

ترجمہ:” اس نے کہا اس کی خبر آپ کو کس نے دی، کہا سب جاننے والے پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے یہ بتلا دیا”​

"القدیر” اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے ، جو صفتِ ” القدرۃ” پر دال ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا فِيْهِنَّ ۭ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) (المائدۃ:120)

ترجمہ:”اللہ ہی کی ہے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی اور ان چیزوں کی جو ان میں موجود ہیں اور وہ ہر شئ پر پوری قدرت رکھتا ہے "​

واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہر شئ پر وسیع اور حاوی ہے ۔ (کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت سے خارج نہیں) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعْجِزَه مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ ۭ اِنَّه كَانَ عَلِيْمًا قَدِيْرًا) (الفاطر:44)

ترجمہ:” اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز اس کو عاجز کر دے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ وہ بڑے علم والا، بڑی قدرت والا ہے "​

نیز فرمایا:

( وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا) (الاحزاب:27)

ترجمہ:” اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے "​

واضح ہو کہ” اَلمُدَبِّر” ہمارے علم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی سے نہیں ہے ، البتہ اللہ تعالیٰ کا امورِ کائنات کی تدبیر فرمانے کی صفت سے متصف ہونا مذکورو معلوم ہے ۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭمَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِه) (یونس:3)

ترجمہ:” بلاشبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کر دیا پھر عرش ر قائم ہوا وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے ، اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں”​

نیز فرمایا:

( يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُه اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ) (السجدۃ:5)

ترجمہ:” وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر ) کام کی تدبیر کرتا ہے پھر(وہ کام ) ایک دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے "​

اللہ سبحانہ و تعالیٰ اکیلا ہی جس طرح چاہتا ہے امورِ کائنات کی تدبیر اور ہر قسم کا تصرف فرماتا ہے ، اس کے سوا کوئی معبودِ حق نہیں ہے ۔

"السمیع، البصیر” اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں میں سے دو مبارک نام” السمیع” اور ” البصیر” ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی صفاتِ عُلیٰ میں سے دو مبارک صفات پر دلالت کرتے ہیں، وہ صفات” السمع” یعنی سننا اور” البصر” یعنی دیکھنا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی صفت” السمع” ہر سنی جانی والی چیز ، جبکہ صفت” البصر” ہر دیکھی جانے والی چیز پر حاوی و محیط ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا نَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ) (مجادلۃ:1)

ترجمہ:” یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی، جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کررہی تھی اور اللہ تعالیٰ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال و جواب سن رہا تھا، بے شک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے "​

اس ایک ہی آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی صفت ” السمع” تین طرح سے وار ہوئی ہے ، ایک ” سَمِعَ” ، بصیغہ ماضی، دوسری ” یَسُمَعُ” یصیغہ مضارع اور تیسری” سَمِیُع” بطور ِ اسم۔

یہ دونوں اسم” السمیع، البصیر” بہت سی آیات میں ایک ساتھ اکھٹے وارد ہوئے ہیں، مثلاً،

اللہ تعالیٰ کا فرمان :

(لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ) (الشوریٰ:11)

ترجمہ:” اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے "​

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان:

( اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِه ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا) (النساء:58)

ترجمہ:” یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے ، بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے دیکھتا ہے ”

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان:

( وَاللّٰهُ يَقْضِيْ بِالْحَقِّ ۭ وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِه لَا يَقْضُوْنَ بِشَيْءٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) (غافر:20)

ترجمہ:”اور اللہ تعالیٰ حق فیصلہ کر دے گا اس کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ نہیں کر سکتے بے شک اللہ تعالیٰ خوب سنتا خوب سیکھتا ہے "​

"العلی ، الکبیر” اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی میں سے دو مبارک نام ہیں اول الذکر صفتِ ” العلو”(سب سے بلند ہونا) اور ثانی الذکر صفت” الکبیر” (سب سے بڑا ہونا) پر دال ہے ۔

اللہ تعالیٰ باعتبار قہر و غلبہ، باعتبار قدر و مرتبہ اور باعتبار ذات سب سے بلند ہے ، اور ہر کبیرو عظیم سے اکبر و اعظم ہے ، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کے سامنے ہر مخلوق حقیر و صغیر ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا اسمِ مبارک” العلی” بہت سی آیات میں اسم مبارک” الکبیر” کے ساتھ اکھٹا ذکر ہوا ہے اس سلسلہ میں کچھ آیات گزر چکی ہیں ، یہ آیتِ کریمہ بھی ملاحظہ ہو:

( حَتّىٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۭ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ) (السبأ:23)

ترجمہ:” یہاں تک کہ جب ان کے   دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وہ بلند و بالا اور بہت بڑا ہے "​

 

اللہ تعالیٰ کے بذاتہ اپنے عرش پر ہونے کا اثبات

 

[6]۔ قولہ:” وأنہ فوق عرشہ المجید بذاتہ، وھو فی کل مکان بعلمہ”

ترجمہ:” اللہ تعالیٰ بذاتہ اپنے عرشِ عظیم پر ہے ، جبکہ بعلمہ ہر جگہ موجود ہے ۔”

شرح

اللہ تعالیٰ کے بذاتہ اپنے عرش پر ہونے کا اثبات​

مؤلف ابن ابی زید رحمہ اللہ نے جب گذشتہ صفحات میں یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ” العلی” (سب سے بلند) ہے اور یہ بھی بتایا کہ یہ نامِ مبارک کبھی تو ” العظیم” کیساتھ اور کبھی” الکبیر” کیساتھ ملکر وارد ہوا ہے ، تو اب یہ بتانا مناسب سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کا” العلو” یعنی(بلند ہونا) اور اس کا عرش کے اوپر ہونا بذاتہ ہے ، یعنی وہ اپنی ذات کیساتھ سب سے بلند ، اور اپنی ذات کیساتھ اپنے عرش پر مستوی ہے ۔ چنانچہ جس طرح وہ باعتبارِ قہر و غلبہ اور باعتبارِ قدر و مرتبہ سب سے بلند ہے اسی طرح باعتبارِ ذات بھی سب سے بلند اور اوپر ہے ۔

مؤلف رحمہ اللہ کو یہ کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بعض مبتدعہ اللہ تعالیٰ کے علو کو محض علو مقام و مرتبہ اور علوئے قہر و غلبہ قرار دیتے ہیں(علو ذات کو نہیں مانتے ) وہ اللہ تعالیٰ کے علو اور فوقیت علی العرش کی استیلاء یعنی محض غلبہ پانے کے ساتھ تاویل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ حقیقتاً اپنے عرش پر نہیں ہے ۔ چنانچہ مؤلف رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے بذاتہ عرش پر ہونے کی تعبیر فرما کر ان لوگوں پر رد فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کے علو کو علوئے حقیقی نہیں ، بلکہ علوئے مجازی قرار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بذاتہ عرش پر مستوی ہونے کی تعبیر ان لوگوں کی وجہ سے اختیار کرنی پڑی جو اللہ تعالیٰ کے بذاتہ عرش پر ہونے کو نہیں مانتے ، جیسا کہ سلفِ صالحین سے قرآن کے غیر مخلوق ہونے کی تعبیر وارد ہے ، اور انہیں یہ تعبیر ان گمراہ عناصر کے رد کیلئے اختیار کرنی پڑی جو قرآنِ پاک کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے ۔

مؤلف رحمہ اللہ کے فرمان:” وھو فی کل مکان بعلمہ” یعنی اللہ تعالیٰ اپنے علم کے ساتھ ہر جگہ ہے ، سے ان لوگوں کی نفی اور تردید مقصود ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارہ میں حلول و اتحاد کا عقیدہ رکھتے ہیں ، جن کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ( والعیاذباللہ) اپنی مخلوقات کے اندر حلول کیئے ہوئے ہے ، ان کے ساتھ متحد اور ان کے اندر مختلط ہے ۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے ؟ اللہ تعالیٰ تو خالق ہے ، اور اس کے ماسوا ہر چیز مخلوق ہے ، ہر مخلوق پہلے معدوم تھی اللہ تعالیٰ نے وجود بخشا۔ تو پھر لامحالہ ان مخلوقات کا وجود، ان کے خالق سے الگ ، جدا اور مباین ہو گا، اور یہ عینِ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات سے الگ ہے ، نہ تو مخلوقات خالق کے اندر حلول کئے ہوئے ہیں، نہ خالق مخلوقات کے اندر حلول کئے ہوئے ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی صفتِ معیت، یعنی مخلوقات کے ساتھ ہونے سے مراد، باعتبارِ علم ساتھ ہونا ہے ، جیسا کہ مؤلف ابن ابی زید کے قول:” وھو فی کل مکان بعلمہ” سے واضح ہو رہا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ) (المجادلۃ:7)

ترجمہ:” تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اور نہ اس سے کم کا اور نہ زیادہ کا مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں،پھر قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا، بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے "​

یہ آیتِ کریمہ جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ معیت کی صفت کا ذکر کر رہی ہے ، اس کا آغاز بھی اللہ تعالیٰ کے علم کے ساتھ ہوا اور اختتام بھی۔

صفتِ معیت کی ایک تفصیل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حقیقتاً اپنی مخلوق کے ساتھ ہے ، (یعنی ایسا ساتھ ہے جیسا کہ اس کی ذات کے لائق ہے ) چنانچہ اللہ تعالیٰ بذاتہ اپنے عرش پر ہے ، اور وہ مخلوقات کے ساتھ بھی ہے ، لیکن اس طرح کہ اس میں داخل اور مختلط نہیں ہے ، کیونکہ مخلوق تو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کے سامنے انتہائی صغیر اور حقیر ہے ، لہذا اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بندوں کے بھی قریب ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ” اعقیدہ الواسطیۃ” میں فرماتے ہیں:

"ایمان باللہ، جس کا ہم نے ذکر کیا، میں اہم نکتہ بھی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو خبر دی ، جو رسول اللہﷺ کی احادیث ِ مبارکہ سے بھی تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور جس پر سلف صالحین کا اجماع بھی قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اور اپنی تمام مخلوقات سے بلند ہے ، پر ایمان لایا جائے ۔ اور یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ ہے ، خواہ وہ جہاں بھی ہوں، ان کے ہر ہر عمل کو جانتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے ان دونوں باتوں(یعنی سب سے بلند ہونا اور بندوں کے ساتھ ہونا) کو اس آیتِ کریمہ میں اکھٹا ذکر فرمایا:

(هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ۭ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَا ۭ وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ) (الحدید:4)

ترجمہ:” وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا وہ خوب جانتا ہے اس چیز کو جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آئے اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے اور جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو تم کر رہے ہو اللہ دیکھ رہا ہے "​

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے فرمان:”وھومعکم” یعنی وہ تمہارے ساتھ ہے ، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے ساتھ مختلط ہے ۔ لغت عربیہ” معیت” کے اس معنی کو ہر جگہ قطعاً لازمی قرار نہیں دیتی، پھر یہ معنی سلفِ

امت کے اجماع کے بھی خلاف ہے ، نیز اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جس فطرتِ سلیمہ پر قائم فرمایا ہے ، اس کے بھی خلاف ہے ۔

چاند اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے اور اس کی ایک چھوٹی سی مخلوق ہے ؟ اسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں رکھا ہے مگر وہ ہر شخص خواہ وہ مسافر ہو یا غیر مسافر کے ساتھ ساتھ ہے چاہے وہ کہیں بھی چلا جائے ، اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہے اپنی تمام خلق کی نگرانی و نگہبانی فرما رہا ہے اور ان کے ہر ہر امر سے خوب واقف و مطلع ہے ، یہ اور اس کے علاوہ اور بہت سے معانی ربوبیت اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ وہ عرش پر ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ وہ مخلوق کے ساتھ ہے ، یہ دونوں باتیں حق اور اپنی حقیقت پر قائم ہیں، جن میں کسی تحریف کی ضرور و حاجت نہیں۔ البتہ کلام ِ باری تعالیٰ کو جھوٹے گمانوں سے بچنا ضروری ہے ۔ جھوٹے گمان کی ایک مثال ، اللہ تعالیٰ کے فرمان:” فی السماء” کے معنی میں یوں کہنا:” کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں میں سمایا ہوا ہے ، یا ” آسمان اللہ تعالیٰ پر سایہ کئے ہوئے ہے "۔ یہ معنی تمام اہل علم اور جملہ مؤمنین کے نزدیک باطل ہے ، اللہ تعالیٰ کی کرسی ہی تمام آسمانوں اور زمینوں پر حاوی اور وسیع ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو گرنے سے بچانے کیلئے تھاما ہوا ہے :

(وَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِه) (الحج:65)

ترجمہ:” وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر اس کی اجازت کے بغیر گرنہ پڑے ”

(وَمِنْ اٰيٰتِه اَنْ تَقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِه) (الروم:25)

ترجمہ:” اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان اور زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں”​

شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں:

"قرآن حکیم میں جو اللہ تعالیٰ کی صفت قرب و معیت کا ذکر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفت علو اور فوقیت کے منافی نہیں، اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفات میں بے مثل ہے ، (کسی صفت میں کوئی مخلوق اس کے مشابہ نہیں ہے ) وہ سب سے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بلند بھی ہے ، اور سبس ے بلندی پر ہونے کے ساتھ ساتھ سب کے قریب بھی ہے ”

شیخ الاسلام کے اس آخری جملے میں حدیث نزول کی طرف اشارہ ہے ، جس میں ہر رات جبکہ آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے آسمانِ

دنیا پر نزول کا ذکر ہے ۔ نیز حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنھا کی طرف بھی اشارہ ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح(1348) میں روایت کیا ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

[یومِ عرفہ سے بڑا اور زیادہ کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے ، اس دن وہ قریب آ جاتا ہے ، اور فرشتوں کے ساتھ اپنے بندوں پر اظہارِ فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے : یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟] (الحدیث)

 

اللہ تعالیٰ کیلئے صفت "العلم” کا اثبات

 

[7]۔ "خلق الانسان ویعلم ماتوسوس بہ نفسہ، وھو أقرب الیہ من حبل الورید، وماتسقط من ورقۃ الا یعلمھا۔ ولا حبۃ فی ظلمات الارض ولا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین۔ ”

ترجمہ:” اس نے انسان کو پیدا کیا اور وہ انسان کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں انہیں بھی جانتا ہے اور وہ اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصہ میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتابِ مبین میں ہے ۔”

شرح

اللہ تعالیٰ کیلئے صفت "العلم” کا اثبات۔۔۔۔​

اللہ تعالیٰ کا علم ہر شئ پر حاوی ہے محیط ہے ، اسے ازل سے ہر ماکان اور مایکون کا علم حاصل ہے ، جو چیز نہیں ہے ، اگر ہوتی تو کیسے ہوتی، وہ یہ بھی جانتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ،بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا يُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ۭ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ) (الانعام:27-28)

ترجمہ:” اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں تو کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس پھیر دیئے جائیں اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہو جائیں”​

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی چیز کی خبر دی ہے جو وقوع پذیر نہیں ہو گی وہ خبر ہے کفار کا دنیا کی طرف دوبارہ لوٹایا جانا ، ایسا کبھی نہیں ہو گا ،مگر اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ اگر وہ دوبارہ لوٹائے جائیں تو وہ دوبارہ انہیں حرکتوں کا اعادہ کریں گے جن سے انہیں روکا جاتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(وَعِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ) (الانعام:59)

ترجمہ:” اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے ) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے ۔ اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصے میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب ِ مبین میں ہے”​

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(اِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۭ وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِه) ( فصلت: 47)

ترجمہ:” قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹا جاتا ہے اور جو جو پھل اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں اور جو مادہ حمل سے ہوتی ہے اور جو بچے وہ جنتی ہے سب کا علم اسے ہے "​

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَه بِمِقْدَارٍ ، عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيْرُ الْمُتَعَالِ ، سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِه وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ ) (الرعد:8 تا 10)

ترجمہ:”مادہ اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ بخوبی جانتا ہے اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی ہر چیز اس کے پاس اندازے سے ہے ۔ ظاہر و پوشیدہ کا وہ علم ہے سب سے بڑا اور بلند و بالا۔ تم میں سے کسی کا اپنی بات کو چھپا کر کہنا اور با آواز ِ بلند اسے کہنا اور جو رات کو چھپا ہوا ہو اور جو دن میں چل رہا ہو، سب اللہ پر برابر و یکساں ہیں”​

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(وَاَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِه ۭ اِنَّه عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ، اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ) (الملک:13-14)

ترجمہ:” تم اپنی باتوںکو چھپاؤ یا ظاہر کرو وہ تو سینوں کی پوشیدگیوں کو بھی بخوبی جانتا ہے ۔ کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ پھر وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو”​

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

( قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُمْ ۙ عٰلِمِ الْغَيْبِ ۚ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرُ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ) (السبأ:3)

ترجمہ:” آ پ کہہ دیجئے ! کہ مجھے میرے رب کی قسم! جو عالم الغیب ہے کہ وہ (قیامت) یقیناً تم پر آئے گی اللہ تعالیٰ سے ایک ذرے کے برابر کی بھی چیز بھی پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی ہر چیز کھلی کتاب میں موجود ہے "​

اس کائنات میں جو بھی حرکت ہوتی ہے ، یا ہونے والی ہے ، اللہ تعالیٰ کو اس کا پہلے سے علم ہے ، یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کسی ایک آدھ چیز کا ازل سے علم نہ ہو، بلکہ بع دمیں حاصل ہو۔

ہمارے شیخ محمد بن امین الشنقیطی رحمہ اللہ اپنی کتاب” اضواء البیان”(1/76،75) میں للہ تعالیٰ کے فرمان:

(وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ) (البقرۃ:143)

ترجمہ:” جس قبلہ پر تم پہلے سے تھے ، اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے "​

کی تفسیر میں فرماتے ہیں: آیت ِ کریمہ کے ظاہری سیاق سے کسی جاہل کو وہم ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اتباعِ رسول کے تعلق سے بندوں کا امتحان لیتا ہے اور امتحان لینے کے بعد ان (کی کامیابی یا ناکامی) کا علم حاصل کرتا ہے جو اسے پہلے نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ جاہلوں کے اس وہم سے بہت بلند ہے ، بلکہ وہ تو ہر ہونے والی چیز کو واقع ہونے سے پہلے ہی جانتا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر یہ واضح فرمایا ہے کہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ وہ بندوں کا امتحان لے کر نتیجے کا علم حاصل کرے ، جو اسے پہلے نہیں ہوتا:

(وَلِيَبْتَلِيَ اللّٰهُ مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ) (آل عمران:154)

ترجمہ:” اللہ تعالیٰ کو تمہاری سینوں کے اندر کی چیز آزمانا اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے پاک کرنا تھا اور اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید سے آگاہ ہے "​

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا” ولیبتلی” (یعنی تاکہ وہ امتحان لے ) کے بعد یہ فرمانا کہ ” انہ علیم بذات الصدود” یعنی اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے اس بات پر دلیلِ قاطع ہے کہ اسے امتحان لے کر شئ نامعلوم ، معلوم نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ اس نظر یہ سے بہت بلند ہے ۔ کیونکہ وہ ذات جو دلوں کے اسراو مخفیات سے بخوبی واقف ہے وہ اس بات سے بالکل مستغنی ہے کہ وہ امتحان کے نتیجے سے کوئی چیز معلوم کرے ۔ یہ آیتِ کریمہ ان تمام آیات کی بڑی واضح تفسیر ہے جن میں اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کا امتحان لینے کا تذکرہ موجو دہے ۔

قولہ تعالیٰ: ” الا لنعلم” یعنی تاکہ ہم جان لیں، سے مراد یہ ہے کہ ایسا علم جو ظہور میں آ کر بندے پر ثواب یا عذاب کے مرتب ہونے کا باعث بنے ، تو پھر یہ جاننا، اللہ تعالیٰ کے علم سابق کے منافی نہ ہوا۔

بندوں کے اس امتحان کا فائدہ یہ ہے کہ ان کا معاملہ لوگوں کیلئے واضح ہو جائے ، جہاں تک اس ذات کا تعلق ہے جو ہر بھید اور سر گوشی سے واقف ہے ۔ وہ تو ہر ہونے والی چیز سے پہلے ہی آگاہ ہوتا ہے ۔ اللہ رب العزت کے فرمان:

(وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ) (ق:16)

ترجمہ:” ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے بھی واقف ہیں اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں”​

کی دو تفسیریں کی گئی ہیں:

ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے شاہ رگ سے قریب ہونے سے مراد ازروئے علم، قدرت اور احاطہ، قریب ہونا ہے ۔ مؤلف ابن ابی زید کے کلام سے یہی مترشح ہو رہا ہے ۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ آیت ِ کریمہ میں جس قرب کا ذکر ہے وہ فرشتوں کا قرب ہے ۔ سورہ الواقعہ میں اس کی نظیر موجود ہے :

(وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ) (الواقعۃ:85)

ترجمہ:” ہم اس شخص سے بہ نسبت تمہارے بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے "​

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اور امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ” الصواعق المرسلۃ” میں اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے ۔ دیکھئے مختصرا الصواعق (2/268)

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایسی ضمیر استعمال ہوئی ہے جو صیغہ تعظیم(جمع) پر مشتمل ہے اور اس سے مراد ملائکہ ہیں۔ مثلاً : اللہ تعالیٰ کا فرمان:

(فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَه) (القیامۃ:18)

ترجمہ:” ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں”​

یہاں ضمیر بلفظِ تعظیم وارد ہوئی ہے اور اس سے مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں ، کیونکہ وحی لے جا کر نبیﷺ پر پڑھنے کے مکلّف ہیں۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِيْمَ الرَّوْعُ وَجَاۗءَتْهُ الْبُشْرٰي يُجَادِلُنَا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍ) (ھود:74)

ترجمہ:” جب ابراھیم کا ڈرو خوف جاتا رہا اور اسے بشارت بھی پہنچ چکی تو ہم سے قومِ لوط کے بارہ میں جدال (جھگڑا) کرنے لگے "​

یہاں” یجادلنا” میں ضمیرِ متکلم جو لفظِ تعظیم پر مشتمل ہے سے مراد ملائکہ ہیں، کیونکہ ابراھیم علیہ السلام نے ملائکہ سے جھگڑا اور جدال کیا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا:

(وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا إِنَّا مُهْلِكُو أَهْلِ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ إِنَّ أَهْلَهَا كَانُوا ظَالِمِينَ ) (العنکبوت:31)

ترجمہ:” اور جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ابراھیم (علیہم السلام) کے پاس بشارت لے کر پہنچنے کہنے لگے کہ اس بستی والوں کو ہم ہلاک کرنے والے ہیں، یقیناً یہاں کے رہنے والے ظالم ہیں۔ ابراھیم(علیہ السلام) نے کہا اس میں تو لوط( علیہ السلام) ہیں ، فرشتوں نے کہا یہاں جو ہیں ہم انہیں بخوبی جانتے ہیں”​

 

اللہ تعالیٰ کی صفت” استواء علی العرش” کا اثبات

 

[8]۔ قولہ: ” علی العرش استوی، وعلی الملک احتوی”

ترجمہ:” وہ عرش پر مستوی ہے اور پوری کائنات پر اس کی حکمرانی ، بادشاہت اور قبضہ ہے ”

شرح

اللہ تعالیٰ کی صفت” استواء علی العرش” کا اثبات۔۔۔​

اللہ تعالیٰ کی فعلی صفات میں سے ایک صفتِ اس کا عرش پر مستوی ہونا ہے ، اس صفت کے بارہ، بلکہ تمام صات کے بارہ میں سلف صالحین کا مذہب یہ ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کیلئے اس طرح ثابت کریں جیسے اس ذات کے لائق ہے ، جس میں تکییف (بیانِ کیفیت) تشبیہ و تمثیل ، تحریف یا تعطی(انکار) کا کوئی شائبہ تک نہ ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے معانی معلوم و مفہوم لیکن ان کی کیفیت مجہول ہے ۔

امام مالک رحمہ اللہ سے جب اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کی کیفیت پوچھی گئی ، تو فرمایا:

” الاستواء معلوم والکیف مجھول والایمان بہ واجب والسؤال عنہ بدعۃ” یعنی اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کا معنی معلوم ہے لیکن کیفیت مجہول ہے ، استواء پر ایمان لانا واجب ہے اور کیفیت استواء کا سوال بدعت ہے ۔

حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے سورۃ الاعراف کی آیت” استویٰ علی العرش” کے سلسلہ میں کافی گفتگو کر رکھی ہے ، جس کے ذکر کا محل ہماری یہ کتاب نہیں، ہم تو اپنی اس کتاب میں اس حوالہ سے سلف صالحین ، مثلاً ، امام مالک، اوزاعی ، سفیان الثوری، لیث بن سعد، شافعی، احمد ابن حنبل، اسحٰ بن راھویہ اور دیگر أئمہ قدیم و حدیث کا پاکیزہ کلام نقل کریں گے ( اور اسی پر چلیں گے )

أئمہ سلف کا مذہب تمام صفاتِ باری تعالیٰ کو ، جو کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہیں ، بلا تکییف، بلا تشبیہ اور بلا تعطیل ثابت و جاری کرنا ہے ۔

اہل تشبیہ کے ذہنوں میں صفات کے تعلق سے ، تشبیہ و تمثیل پر مشتمل جو معنی پیدا ہوتا ہے جسے وہ معنئ ظاہر و متبادر قرار دیتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے حق میں باطل اور منفی ہے ، کیونکہ مخلوقات میں سے کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کے مشابہ یا مماثل نہیں ہے 🙁لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) (الشوریٰ:11)

منہج مستقیم وہی ہے جو أئمہ سلف نے اختیار کیا ، نعیم بن حماد الخزاعی جو امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ ہیں، فرماتے ہیں:

"جس نے اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق سے تشبیہ دی اس نے کفر کیا، اور جس نے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا(جو کتاب وسنت میں ثابت ہے ) انکار کیا اس نے بھی کفر کیا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے جو صفات بیان فرما دی ہیں

اس میں تشبیہ بالمخلوقات کا کوئی دخل نہی۔ اب آیاتِ صریحہ اور احادیث صحیحہ میں جو بھی اللہ تعالیٰ کی صفات وارد ہیں جس نے انہیں اللہ تعالیٰ کیلئے اسی طرح تسلیم کر لیا جس طرح اس کی جلالت و عظمت و کبریائی کے لائق ہے ، اس نے اللہ تعالیٰ سے تمام نقائص و عیوب کی نفی کر دی ، اور ہدایت کے راستے پر گامزن اور قائم ہے ”

واضح ہو کہ اللہ تعالیٰا کی صفتِ ” استواء علی العرش” قرآنِ حکیم میں سات مقام پر وارد ہوئی ہے ۔ سورہ طہ میں: (الرحمٰن علی العرش الستویٰ) فرمایا اور الحدید میں( ثم الستویٰ علی العرش) کے الفاظ وارد ہیں۔

سلفِ صالحین کے نزدیک” استوی” کا معنی چڑھنا اور بلند ہونا ہے ۔ متکلمین نے ” استوی” کو ” استولی” یعنی غلبہ پانا کے معنی میں لے کر تاویل کا خطرناک راستہ اختیار کیا ہے ۔

امام ابو الحسن الأشعری رحمہ اللہ اپنی کتاب” الابانۃ” (ص:86) میں فرماتے ہیں:

” بہت سے معتزلہ، جہمیہ اور حروریہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ( الرَّ حمٰنُ عَلَی العَرشِ استَویٰ) میں” استوی” بمعنی” استولی و ملک وقھر” ہے ، یعنی غلبہ، ملک اور قبضہ پالیا۔ کیونکہ بقول ان کے اللہ تعالیٰ تو ہر مقام میں موجود ہے ۔ انہوں نے اہل حق کے منہج سے یکسر انحراف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کا انکار کر دیا ہے ، اور "ا ستواء” سے قدرت مراد لی ہے ۔ اگر” استواء” سے غلبہ اور قدر مراد ہے تو پھر عرش اور ساتویں زمین میں کوئی فرق نہیں ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ساتویں زمین کا غلبہ و قدرت بھی حاصل ہے ۔ پھر عرش اور زمین میں موجود بیت الخلاؤں اور دیگر ہر چیز میں کیا فرق ہے ؟ کیا اللہ تعالیٰ کو ان تمام اشیاء پر قبضہ و قدرت حاصل نہیں؟ اگر” استواء علی العرش” کا معنی” استیلاء علی العرش” ہے تو پھر اللہ تعالیٰ پر چیز پر مستوی ہے ۔ پھر وہ عرش پر مستوی ہونے کے ساتھ آسمان، زمین اور زمین پر موجود گندگیوں اور غلاظتوں کے ڈھیروں پر بھی(نعوذ باللہ) مستوی ہے ۔، کیونکہ وہ ان تمام چیزوں پر بھی قادر اور غالب ہے ۔ جب یہ بات ثابت اور طے شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر شئ پر قادر ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ گندگیوں اور غلاظتوں کے مقامات پر مستوی ہے ، تو پھر” استواء” بمعنی” استیلاء” (غلبہ و قدرت) جائز نہیں ہو گا، کیونکہ وہ تو بصورت ِ عام ہر چیز پر قائم اور موجود ہے ، تو پھر یہ بات ضروری اور متعین ٹھہری کہ” استواء” ایک ایسے معنی پر مشتمل ہے جو

صرف عرش کیساتھ مختص ہے ، اور وہ اختصاص کسی دوسری چیز کو حاصل نہیں”

امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب” الصواعق المرسلۃ” میں” استواء” بمعنی ” استیلاء” ہونا ، بیالیس (42) وجوہ سے باطل ثابت کیا ہے ۔ دیکھئے "مختصر الصواعق المرسلۃ” لمحمد بن الموصلی( 2/126تا152)

مؤلف ابن ابی زید رحمہ اللہ کا” علی العرش استوی” کے فوراً بعد ” وعلی الملک احتوی” یعنی وہ اس تمام کائنات کا مالک ، قاہر ، قابض اور غالب ہے ، فرمانا در حقیقت ان ہی متکلمین پر رد و ابطال ہے ، کیونکہ متکلمین ” استواء” بمعنی” استیلاء” لیتے ہیں، جس کا معنی ہوا اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر غالب و قابض ہے ۔ صاحب کتاب فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو غلبہ اور قبضہ قدرت عرش اور غیر عرش ہر چیز پر حاصل ہے (پھر گلبہ و قدرت کیلئے عرش کی تخصیص کا کیا معنی؟)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا خالق ہے ، اور اس کے س وا ہر چیز مخلوق ہے ، جو ذات بلا شرکتِ غیر ہر چیز کی خالق و موجد ہے وہی ذات بلا شرکت ِ غیر ہر چیز کی مالک ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ ۡ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ) (الملک:1)

ترجمہ:” بہت بابرکت ہے وہ(اللہ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور جو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے "​

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا فِيْهِنَّ ۭ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) (المائدۃ:120)

ترجمہ:” اللہ ہی کے لیے ہے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی اور ان چیزوں کی جو ان میں موجود ہیں اور وہ ہر شئ پر پوری قدرت رکھتا ہے "​

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(لَه مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ) (الحدید:5)

ترجمہ:” آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور تمام کام اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں”​

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ ) (النور:42)

ترجمہ:” زمین اور آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے "​

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّه شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّه وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيْرًا) (الاسراء:111)

ترجمہ:” اور کہہ دیجئے ! کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک و ساجی رکھتا ہے نہ اس سبب سے کہ وہ کمزور ہے ، کوئی اس کا حمایتی ہے اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا رہ”​

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(الَّذِيْ لَه مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهُ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَه تَقْدِيْرًا )(الفرقان:2)

ترجمہ:” اسی اللہ کی سلطنت ہے آسمانوں کی اور زمینوں کی اور وہ کوئی اولاد نہیں رکھتا ، نہ اس کی سلطنت میں کوئی اس کا ساجی ہے اور ہر چیز کو اس نے پیدا کر کے ایک مناسب اندازہ ٹھہرا دیا ہے "​

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَه مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ ، وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَه اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَه)(سبأ:22-23)

ترجمہ:”کہہ دیجئے کہ اللہ کے س وا جن جن کا تمہیں گمان ہے سب کو پکار لو نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے اور درکواستِ شفاعت بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہو جائے ”

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءَكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَىٰ بَيِّنَتٍ مِّنْهُ ۚ بَلْ إِن يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُم بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا) (فاطر:40-41)

ترجمہ:”آپ کہیئے ! کہ تم اپنے قرار داد شریکوں کا حال تو بتلاؤ جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو۔ یعنی مجھ کو یہ بتلاؤ کہ انہوں نے زمین میں کون سا( جزو) بنایا ہے یا ان کا آسمانوں میں کچھ ساجھا ہے یا ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہے کہ یہ اس کی دلیل پر قائم ہوں بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے سے نرے دھوکے کی باتوں کا وعدہ کرتے آتے ہیں۔ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں اور اگر وہ ٹل جائیں تو پھر اللہ کے س وا اور کوئی ان کو تھام بھی نہیں سکتا ۔ وہ حلیم غفور ہے "​

 

اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا تعلق اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے ہے

 

[9]۔ ” قولہ: ولہ الأسماء الحسنی والصفات العلی”

ترجمہ:” اس کیلئے انتہائی پیارے پیارے نام اور بہت ہی اعلیٰ صفات ہیں۔”

شرح

اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا تعلق اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے ہے ۔۔۔​

(1) اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا تعلق ، اللہ تعالیٰ کے علمِ غیب سے ہے ، جن پر ہمارے لئے کتاب وسنت کی وحی کے بغیر کلام کرنا جائز نہیں ہے ۔ چنانچہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے ان تمام اسما ء و صفات کا اقرار اثبات کریں گے جن کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے اثبات و بیان ثابت ہو گیا۔ اور ہمارا اقرار و اثبات ایسا ہو گا جیسا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لائقِ شان ہے ، جس میں کسی تکییف وتشبیہ اور تحریف و تعطیل کا ذرہ برابر بھی شائبہ نہ ہو۔ نیز ہم ہر اس صفت سے اللہ تعالیٰ کو پاک اور منزہ قرار دیں گے ، جو صفت اللہ تعالیٰ کے لائقِ شان نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) (الشوریٰ:11)

ترجمہ:” اس جیسی کوئی چیز نہیں وہسننے والا دیکھنے والا ہے "​

 

اللہ تعالیٰ کے تمام نام حسنیٰ ​ہیں​

 

(2) قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کیلئے اسماء(ناموں) کا اثبات وارد ہوا ہے ، نیز ان اسماء کا "حسنیٰ” کی صفت سے متصف ہونا بھی وارد ہوا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا) (الاعراف:180)

ترجمہ:” اور اللہ تعالیٰ کے نہایت اچھے اچھے نام ہیں پس تم اسے انہیں ناموں سے پکارو”​

نیز فرمایا:

(اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭ لَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى) (طہ:8)

ترجمہ:” وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں اس کیلئے نہایت اچھے ا چھے نام ہیں”​

نیز فرمایا:

(هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى) (الحشر:24)

ترجمہ:” وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا، بنانے والا، صورت کھینچنے والا، اسی کیلئے نہایت اچھے نام ہیں”​

اللہ تعالیٰ کے اسماء کے ” حسنیٰ” ہونے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام نام حسن و خو بصورتی میں اپنی غایت اور انتہاء کو پہنچے ہوئے ہیں، لہذا اللہ تعالیٰ کے ناموں کو صرف اچھا ہی نہیں بلکہ انتہائی اچھا اور پیارا کہا جائے ، جیسا کہ مذکورہ آیاتِ کریمہ میں وارد ہوا۔

 

 

 

اللہ تعالیٰ کے نام مشتق ہیں​

 

(3) اللہ تعالیٰ کے تمام نام مشتق ہیں، جن کے باقاعدہ معانی ہیں، اور وہ معانی ہی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ مثلاً: اسمِ مبارک” العزیز” عزت پر، "الحکیم” حکمت ہر، ” الکریم” کرم پر،” العظیم” عظمت پر،” اللطیف” لطف پر” الرحمٰن” اور” الرحیم” رحمت پر دلالت کرتے ہیں، اسی طرح بقیہ نام بھی۔

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے کوئی نام جامد نہیں جس کا کوئی استقاق نہ ہو۔ بعض اہل علم کا اللہ تعالیٰ کے ناموں میں” الدھر” (زمانہ) نام ذکر کرنا صحیح نہیں ہے ۔ صحیح بخاری و مسلم میں مروی حدیثِ قدسری میں اللہ تعالیٰ کا فرمان :

"یؤذینی ابن آدم یسب الدھر وأنا الدھر یدی الامر أقلب اللیل والنھار”

"رجمہ:”ابنِ آدم، مجھے تکلیف دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ وہ دھر یعنی زمانے کو گالی دیتا ہے ، اور دھر تو میں ہوں”​

صحیح بخاری(7491،6181،4826) صحیح مسلم(5/458)

اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ ” الدھر” اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے ، کیونکہ” دھر” تو زمانہ ہے ، اللہ تعالیٰ رات اور دن (یعنی زمانہ) کو پھیرتا ہے ، لہذا جس کسی نے ” المقلب” (پھیری ہوئی چیز) یعنی زمانہ کو گالی دی ، تواس کی وہ گالی” المقلب” یعنی پھیرنے والے کی طرف لوٹ جائے گی، اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔یہ نکتہ اللہ تعالیٰ کے فرمان:

"بیدی الامر أقلب اللیل والنھار” سے واضح اور عیاں ہے ۔

جہاں تک اللہ تعالیٰ کی صفات کا تعلق ہے تو ہر صفت سے اللہ تعالیٰ کا اسم نکالنا درست نہیں ہے ، مثلاً: اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات میں ” الوجہ” (چہرہ) ” الید” (ہاتھ) اور ” القدم” (پاؤں) وغیرہ جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، ان صفات میں سے اللہ تعالیٰ کے نام اشتقاق نہیں کیئے جا سکتے ۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفاتِ فعلیہ میں سے ” استھزاء”، "کید” اور ” مکر” ہیں، اب ان میں سے اسماء اخذ کر کے اللہ تعالیٰ کے ” المستھزی” یا” الکائد” یا "الماکر” نام نہیں رکھے جا سکتے ۔

چونکہ بات سے بات نکلتی ہے ، لہذا میں اس موقع پر یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ رسول اللہﷺ کے بھی تمام ثابت نام مشتق ہیں جو باقاعدہ کسی معنی پر دلالت کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ناموں میں سے کوئی نام جامد نہیں ہے ، لہذا "طہ”یا "یٰس” ، رسول اللہ ﷺ کے نام نہیں ہیں۔

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ ” تحفہ المولود” (ص:127) میں فرماتے ہیں:

"(بچے کا نام رکھنے کے تعلق سے ) جن چیزوں سے روکا جائے گا ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قرآن جید کی سورتوں کے ناموں میں سے کوئی نام رکھ دیا جائے ، مثلاً:” طہ” "یٰس” "حٰم” وغیرہ ۔ سھیلی نے امام مالک رحمہ اللہ سے نصا” یٰس” نام رکھنے کی کراہیت ذکر فرمائی ہے ۔ عوام الناس میں جو یہ بات مشہور ہے کہ ” یٰس ” اور "طہ” رسول اللہ ﷺ کے نام ہیں تو یہ غیر صحیح ہے ، کیونکہ یہ بات کسی صحیح یا حسن حتی کہ مرسل حدیث سے ثابت نہیں ، نہ ہی کسی صحابی سے کوئی ایسا قول منقول ہے ۔ یہ بھی” الم”، "حم” ، "الر” کی طرح کے حروف ہیں۔”

جنہوں نے ” یٰس” اور "طہ” کو بھی نبیﷺ کے نام قرار دیئے ہیں شاید ان کے وہم کی وجہ یہ ہو کہ ان حروف ("یٰس” اور "طہ”) کے بعد نبیﷺ کو خطاب ہے ، جس کا معنی یہ ہے کہ یہ نبیﷺ کے نام ہیں۔

ان پر واضح ہوناچا ہیئے کہ رسوۃ الاعراف اور سورۃ ابراھیم کے حروف مقطعات کے بعد بھی نبیﷺ کو خطاب کیا گیا ہے تو ” المص” اور” الر” بھی نبیﷺ کے نام ہیں؟

"ماصاب احدا قط ھم ولا حزن فقال اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ ، وَابْنُ عَبْدِكَ ، وَابْنُ أَمَتِكَ ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ ، أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي ، وَنُورَ صَدْرِي ، وَجِلَاءَ حُزْنِي ، وَذَهَابَ هَمِّي، الا اذھب اللہ ھمہ وحزنہ وابدلہ مکانہ فرح، قال فقیل یا رسول اللہ! الا نتعلمھا فقال ینبعی لمن سمعھا ان یتعلمھا"(مسند احمد:3712)

ترجمہ:”کسی بندے کو کوئی پریشانی یا غم لاحق ہو اور وہ اس طرح دُعا کرے : اے اللہ! میں تیرا بندہ ، تیرے بندے کا بیٹا ہوں اور تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ، میرے بارہ میں صرف تیرا ہی حکم چلتا ہے ، میرے بارے میں تیرا ہی فیصلہ عدل پر قائم ہے ، اے اللہ! میں تجھ سے تیرے ہر نام کے واسطے سے دعا کرتا ہوں وہ نام جو تو نے اپنی ذات کے رکھے ، یا وہ نام جو تو نے اپنی کتاب میں اتارے ، یا وہ نام جو تو نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو دکھا دیئے ، یا وہ نام جو تو نے اب تک اپنے خزانہ غیب میں محفوظ فرما رکھے ہیں کہ تو قرآنِ کریم کو میرے دل کی بہار، سینے کا نور، اور تمام دکھوں اور غموں کا مداوا بنا دے ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام دکھ رد دور کر کے اسے کوشیاں عطا فرما دیتا ہے ۔ کہا گیا : یا رسول اللہ ! ہم کیوں نہ ان کلمات کو یاد کر لیں؟ فرمایا: کیوں نہیں! جو شخص بھی ان کلمات کو سنے اسے چاہیئے کہ انہیں یاد کر لے ”

شیخ شعیب الارناؤوط اور ان کے دونوں ساتھیوں نے اس حدیث کے ضعف کی تعلیق لگائی ہے ، جبکہ حافظ ابن حجر سے اس کا حسن ہونا منقول ہے ، جبکہ شیخ البانی نے ” الصحیحۃ” میں اسے صحیح قرار دیا ہے ، امام ابن القیم نے بھی اسے صحیح کہا ہے ، اور اپنی کتاب” شفاء العلیل” کے ستائیسویں(27) باب میں اس حدیث کی مفصل شرح بھی کی ہے ۔ دیکھئے (ص:369تا374) لہذا اصل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی کو بلا دلیل کسی معین تعداد میں محصورنہ کیا جائے ۔ اور ہمارے علم میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں، البتہ صحیح بخاری(2736، 6410،7392) اور صحیح مسلم(2677) میں ابوھریرۃ ؓ سے مروی ایک حدیث ہے ، جس میں نبیﷺ نے فرمایا:

"ان للہ تسعۃ وتسعین اسماً مأنۃ الا واحدۃ من احصاھا دخل الجنۃ”

ترجمہ:”بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، ایک کم سو ، جو انہیں کما حقہ پڑھے گا وہ جنت میں داخل ہو گا”​

یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ننانوے (99) کی تعداد میں حصور ہونے پر دلالت نہیں کرتی، بلکہ اس حدیث کی دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں

میں سے ننانوے (99) نام ایسے ہیں کہ ان کو پڑھنے والا جنتی ہے ۔ جیسے کوئی شخص کہے : میرے پاس سودرھم ہیں جو میں نے طلبہ علم کیلئے رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ اس کے پاس ان دراھم کے علاوہ اور درھم نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ننانوے (99) ناموں کا ذکر کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، البتہ بعض علماء نے کتاب وسنت سے ننانوے (99) نام نکالے ہیں: مثلاً: حافظ ابن حجر نے فتح الباری(11/215) اور” التلخیص الحبیر” (4/127) میں اور شیخ محمد بن العثیمین نے ” القواعد المثلی” (ص:15 تا16) میں ان ننانوے (99) ناموں کا ذکر کیا ہے ۔ یہ تینوں کتابیں اکثر ناموں کے ذکر میں متفق ہیں، البتہ بعض ناموں کے ذکر میں قدرے اختلاف موجود ہے ۔

 

 

 

اللہ تعالیٰ کے ننانوے (99) ناموں کا بیان​

 

ہم اللہ تعالیٰ کے ان ننانوے (99) اسماء حسنی کا حروفِ تہجی کی ترتیب سے ذکر کرتے ہیں، ہر نام کی قرآن یا حدیث سے دلیل بھی نقل کریں گے ۔ ہم نے یہاں دو ناموں” اَلسَتَیر” اور” الدیَان” کا اضافہ بھی کیا ہے ، جن کا ذکر مذکورہ تینوں کتابوں میں نہیں ملتا۔

  1. اللہ (اللہ تعالیٰ کا اسمِ ذاتی ہے ) (وَاللہُ غَفُورُرَّحِیم) (وَاللہُ عَزِیز حَکِیم)
  2. اَلآخِرُ (سب کے بعد) (ھُو الآخِرُ) (الحدید:2)
  3. اَلاحَدُ(ایک ، اکیلا) (قُل ھُو اللہُ اَحَد) (اخلاص:1)
  4. اَلأَعلیٰ (سب سے بلند) (سَبِّح اسمَ رَبِّکَ الاّعلیٰ) (الاعلی:1)
  5. اَلأَکرَمُ (سب سے زیادہ عزت والا) (اِقرَأ وَربُّکَ الأکرَمُ) (العلق:3)
  6. اَلاِلہٰ (معبود) (وَقَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰهَيْنِ اثْنَيْنِ ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ ) (النحل:51)
  7. الأَوَّلُ (سب سے پہلے ) (ھُوَ الاَ وَّلُ وَالآخِرُ) (الحدید:2)
  8. اَلبَارِی(پیدا کرنے والا) ( ھُوَ اللہُ الخَالقُ البَارِیُ المُصَوِّرُ) (الحشر:24)
  9. اَلبَاطنُ (سب سے پوشیدہ) (ھُوَ الاَوُّلُ وَالآخرُو َالظَّاھِرُ وَالبَاطِنُ) (الحدید:2)
  10. اَلبّرُّ (نیکی و بھلائی کرنے والا) (اِنَّہُ البَرُّ الرَّحِیمُ) (الطّور:28)
  11. البَصِیرُ (دیکھنے والا) (لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ )(الشوریٰ:11)
  12. اَتَّوَّابُ (توبہ قبول کرنے والا) (وَاتَّقُو اللہَ اِنَّ اللہَ تَوَّاب رحِیم) (الحجرات:12)
  13. اَلجَبَّار (ملانے والا) (هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ) (الحشر:23)
  14. اَلجَمِیلُ (خوبصورت) "ان اللہ جمال یحب الجمال” (مسلم:147)
  15. اَلحَافِظ(نگہبان) (فَاللّٰهُ خَيْرٌ حٰفِظًا ۠ وَّهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ) (یوسف:64)
  16. اَلحَسِیُبُ (حساب لینے والا) (وَکَفیٰ بِاللہ ِ حَسِیباً) (النساء:6)
  17. اَلحَفِیُظُ(سنبھالنے والا) (اِنَّ رَبِّی عَلیٰ کُلِّ شَئءِ حَفِیط)(ھود:57)
  18. اَلحَقُّ (سچا اور ثابت) (ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِه هُوَ الْبَاطِلُ) (الحج:62)
  19. اَلحَکَمُ (فیصلہ کرنے والا) ” اِن اللہ ھوا الحکیم ، والیہ الحُکم"(ابوداؤد:4955)
  20. اَلحَلِیمُ (حکمت والا، دانا) (سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ) ( الصّف:1)
  21. اَلحلِیمُ(بربار) (وَاللہُ غَفُور حَلِیم) (المائدۃ:101)
  22. اَلحِمِیدُ(تعریف کیا ہوا) (وَھُوَا الوَلیُّ الحَمِیدُ) (شوریٰ:28)
  23. اَلحَیُّ (زندہ) (هُوَ الْحَيُّ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ) (الغافر:65)
  24. اَلحَیّیِ (حیاء والا) "ان اللہ عزوجل حیی ستّیِر ، یحب الحیاء والستر"(ابوداؤد:4012)
  25. اَلخالِقُ (پیدا کرنے والا) (ھَوَ اللہ ُ الخَالِقُ البَارِیُّ المُصَوِّرُ) (الحشر:24)
  26. اَلخَبِیرُ (باخبر رہنے والا) (قِالَ نَبَّأنِی العَلِیمُ الخَبیرُ) (التحریم:3)
  27. الخَلَّاقُ(پیدا کرنے والا) (اِنَّ اللہَ ھُوَ الخَلّاقُ العَلِیمُ) (الحجر:86)
  28. اَلدَّیَّانُ (بدلہ دینے والا) "قال رسول اللہﷺ یحشر اللہ العباد أو قال، الناس عراۃ غرلا بُھما ، قال قلنا مابُھما؟ قال لیس معھم شیء ، ثم ینادیھم بصوت یسمعہ من بعد کما یسمعہ من قرب، أنا الملک ، أنا الدیّان"

(الحدیث، أخرجہ الحاکم فی المستدرک فی موضعین(2/438)، (4/574)، وصححہ وأقرہ الذھبی، وحسنہ الھافظ فی الفتح (1/174)، والالبانی فی صھیح الأدب المفرد(746)

  1. اَلرَّبُّ (پیدا کرنے والا) (سَلم قَولاً مِن رَّبِّ الرَّحِیم) (یس:58)
  2. اَلرَّحمٰنُ(مہربان) (الحمدللہ رب العالمین ، اَلرحمٰن ِ الرحیم) (فاتحہ:1-2)
  3. اَلرَّحِیمُ (رحم کرنے والا) (وَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ ) (البقرۃ:163)
  4. اَلرَّزَّاقُ (روزی دینے والا) (اِنَّ اللہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُو القُوَّۃِ المَتِینُ) ( الذاریات:58)
  5. اَلرَّفِیقُ (دوست) " ان اللہ رفیق یحب الرفق” (بخاری و مسلم)
  6. اَلرَّقِیبُ (نگرانی کرنے والا) (وَکَانَ اللہُ عَلیٰ کُلِّ شَیءِ رَّقیباً) (احزاب:52)
  7. اَلرَّؤُوف (مہربان) (اِنَّ رَبَّکُم لَرَءُوف رَّحِیم) (النحل:7)
  8. اَلسُّبُّوحُ (پاک) " سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح” (مسلم:487)
  9. اَلسِّتّیرُ (پردہ پوشی کرنے والا) ” ان اللہ عزوجل حیی ستِّیر ، یحب الحیاء والستر” (ابوداؤد:4012)
  10. اَلسَّلاَمُ( سلامتی والا) (هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ) (الحشر:23)
  11. اَلسَّمِیعُ (سننے والا)(يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ ) ( المجادلۃ:1)
  12. اَلسَّیّدُ (مالک) ” السید تبارک وتعالیٰ” (ابو داؤد:4806)
  13. اَلشَّافِی(شفاء دینے والا) "اشف أنت الشافی لا شفیئ الا أنت” (بخاری:5742)
  14. اَلشَّاکِرُ(قدردان) (وَکِانَ اللہُ شَاکِرّا عَلِیماً) (النساء:147)
  15. اَلشَّکُورُ (قدردان) (اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُور شَکُور) (فاطر:34)
  16. اَلشَّھِیدُ(گواہ) (اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّه عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ ) (فصلت:53)
  17. الصَّمَدُ(بے نیاز) (اَللہُ الصَّمَدُ) (اخلاص:2)
  18. الَطَّیّبُ (پاک) "اللہ طیب ولا یقبل الا طیبا” (مسلم:1015)
  19. اَلظَّاھِرُ(سب سے ظاہر) (ھُوَ الاَوَّلُ وَالآخِرُوَالظَّاھِرُ وَالبَاطنُ) (الحدید:2)
  20. اَلعَزِیزُ(غالب) (يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ )الجمعۃ:1)
  21. اَلعَظِیمُ (سب سے بڑا ) ( وَلَا ئَُوْدُه حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ ) (البقرۃ:255)
  22. اَلعَفُوُّ (معاف کرنے والا) (وَلَدْنَهُمْ وَ اِنَّهُمْ لَيَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَ زُوْرًا وَ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ) (المجادلۃ:2)
  23. اَلعَلِیہمُ (علم والا) (وَ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ وَ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ) (التحریم:2)
  24. اَلعَلِیُّ (بلند) (انَّہ عَلِیُّ حَکِیمُ) (الشوریٰ:51)
  25. اَلغَالِبُ (غالب) (وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِه وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ)(یوسف:21)
  26. اَلغّفَّارُ (معاف کرنے والا) (فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ اِنَّه كَانَ غَفَّارًاۙ) (نوح:10)
  27. اَلغَفُورُ (معاف کرنے والا) (اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّه هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ) (الزمر:53)
  28. اَلغَنِیُّ ّ(بے پرواہ) (وَاللہُ الغَنِیُّ وَأَنتُمُ الفُقَرَاءُ) (محمد:38)
  29. اَلفَتَّاحُ ( کھولنے والا) (قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَ هُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيْمُ) (سبأ:26)
  30. اَلقَادرُ (قدرت والا) (قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ) (الانعام:65)
  31. اَلقَاھِرُ (زبردست) (وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِه وَ هُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْر) (الانعام:18)
  32. اَلقُدُّوُسُ (پاک) (يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ) (الجمعۃ:1)
  33. اَلقَدیرُ (قدرت والا) (تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۙ) (الملک:1)
  34. اَلقَرِیبُ (نزدیک) (وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ) (البقرۃ:186)
  35. اَلقَھَّارُ (زبردست) (وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ) (ابراھیم:48)
  36. اَلقَویُّ (قوت والا) (يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيْزُ) (الشوریٰ:19)
  37. اَلقَیُّومُ (ہمیشہ قائم) (اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمُ) (البقرۃ:255)
  38. اَلکَبِرُ (سب سے بڑا) (ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ ) (لقمان:30)
  39. اَلکَرِیمُ (بڑا بزرگ اورسخی) (يٰۤاَيُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيْمِۙ) (الانفطار:6)
  40. اَلکَفیلُ (کارساز) (وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا) (النحل:19) "وحدیث قصۃ الاسرائیلی الذی قال لمن أسفلہ: [کفی باللہ کفیلا] ” (بخاری:2291)
  41. اَللَّطِیفُ (نرمی کرنے والا) (اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ) (الملک:14)
  42. اَلمُبِینُ (ظاہر کرنے والا) (يَوْمَىِٕذٍ يُّوَفِّيْهِمُ اللّٰهُ دِيْنَهُمُ الْحَقَّ وَ يَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِيْنُ) (النور: 25)
  43. اَلمُتَعَالُ (انتہائی بلند) (عٰلِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْكَبِيْرُ الْمُتَعَالِ) (الرعد:9)
  44. اَلمُتَکَبِّرُ (بڑائی کرنے والا) (هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ) (الحشر:23)
  45. اَلمَتینُ ( زبردست قوت والا)(اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ) (الذاریات:23)
  46. اَلمُجِیبُ (دُعا قبول کرنے والا) (اِنَّ رَبِّيْ قَرِيْبٌ مُّجِيْبٌ) (ھود:61)
  47. اَلمَجِیدُ (بزرگی والا) (رَحْمَۃُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُه عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ اِنَّه حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ) (ھود:73)
  48. اَلمُحسِنُ (احسان کرنے والا)”ان اللہ محسن یحب المحسنین ” (رواہ ابن أبی عاصم فی الدیات(ص:56) وابن عدی فی الکامل (6/2145) ، وابو نعیم فی أخبار أصبھان (2/113)، واسنادہ حسن کما ذکر الشیخ الألبانی فی السلسلۃ الصحیحۃ (470)، وانظر صحیح الجامع الصغیر (1819) و(1820)۔
  49. اَلمُحِیطُ (گھیرنے والا) (اَلَا اِنَّہُ بِکُکلِّ شَیءِ مُّحِیط) (فصلت:54)
  50. اَلمُصَوِّرُ (صورت عطا کرنے والا) (ھُوَاللہُ الخَالِقُ البَارِیُّ المُصَوِّرُ) (الحشر:23)
  51. اَلمُعطِیُ (عطا کرنے والا) "واللہ المعطی وأنا القاسم” (بخاری:3116)
  52. اَلمُقتَدِرُ (قدرت رکھنے والا) (وَکَانَ اللہُ عَلیٰ کُلِّ شَیءِ مُّقّتَدِرًا) (الکھف:45)
  53. اَلمُقَدِّمُ (آگے کرنے والا) "أنت المقدم ، وأنت المؤخر” (بخاری:1120)
  54. اَلمُقِیُتُ (روزی دینے والا) (وَلَانَ اللہُ عَلیٰ شَیءِ مُّقِیتاً) (النساء:85)
  55. اَلمَلِکُ (بادشاہ) (ھُوَاللہُ الَّذِی لَا اِلہُ اَلَّا ھُوَ المَلِکُ القُدُّوس) الحشر:23)
  56. اَلمَلِیکُ (بادشاہ) (فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيْكٍ مُّقْتَدِرٍ) (القمر:55)
  57. اَلمَنَّانُ (احسان کرنے والا) "اللھم انی اسألک بأن لک الحمدلاالہ الا أنت المنان” (ابوداؤد:1495)
  58. اَلمُھَیُمِنُ (نگراں، محافظ) (هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ) (الحشر:23)
  59. اَلمُوَّخِّرُ (پیچھے کرنے والا) "أنت المقدم، وأنت المؤخر” (بخاری:1120)
  60. اَلمَولیٰ (مالک، آقا) (نِعم المَولیٰ وَنِعمَ النَّصِیرُ) (الانفال:40)
  61. اَلمُومِن (امن دینے والا) (هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ) (الحشر:23)
  62. اَلنَّصِیرُ (مدد کرنے والا) (وَکَفی بِاللہِ وَلِیَّا وَّ کَفیٰ بِاللہِ نَصِیرًا) (النساء:45)
  63. اَلھَادِیُ (ہدایت دینے والا) (وَکَفیٰ بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَنَصِیرًا) (الفرقان:31)
  64. اَلوَاحِدُ (ایک ، اکیلا) (قُلِ اللہُ خَالِقُ کُلِّ شَیءِ وَھُوَ الوَاحِدُ القَھَّارُ) ّالرعد:16)
  65. اَلوَارِثُ (حقیقی وارث ہونے والا) (وَاِنَّا لَنَحنُ نُحی وَنُمِیتُ وَنَحنُ الوَارِثُوُنَ )(الحجر:23)
  66. اَلوَاسِعُ (کشادہ اور وسیع) (وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ) (البقرۃ: 115)
  67. اَلوِترُ (ایک) "ان اللہ وتر یھب الوتر” (بخاری: 6410)
  68. اَلوَدُودُ (محبت کرنے والا) (وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُۙ) (البروج:14)
  69. اَلوَکِیلُ (کارساز) (فَزَادَهُمْ اِيْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ) (آل عمران:173)
  70. اَلوَلِیُّ (دوست، مددگار) (فَاللہُ ھُوَالوَلیُّ وَھُوَ یُحیِ المَوتیٰ) (الشوریٰ:9)
  71. اَلوَھَّابُ (بہت زیادہ دینے والا) (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ) (آل عمران:8)

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب” اعلام الموقعین” (3/149 تا 171) میں قاعدہ "سدالذرائع” کے اثبات کیلئے ننانوے (99) وجوہات بیان فرمائی ہیں۔

انہیں اس تعداد پر اقتصار و اکتفاء حدیث میں وارد اللہ تعالیٰ اسمائے حسنیٰ کی تعداد(99) سے موافقت کی بناء پر فرمایا۔ ہم نے بھی اپنی ایک کتاب بنام” دراسۃ حدیث[نضراللہ امرا سمع مقالتی] روایۃ ودرایۃ” میں حدیث ” نضرااللہ امرا سمع مقالتی ” کہ جو مختصراً و مطولاً بہت سے الفاظ سے مروی ہے ، سے ننانوے (99) فوائد مستنبط کیئے ہیں۔( ملاحظہ ہو ص:201 تا210)

 

 

 

اللہ تعالیٰ کے بعض ناموں کا اطلاق غیر اللہ پر جائز ہے اور بعض کا نہیں​

 

(6) اللہ تعالیٰ کے کچھ اسماء ایسے ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق کیا گیا ہے ، ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: (لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ) (التوبۃ:128) میں رسول اللہﷺ کو”رؤف”و”رحیم” کہا گیا ہے ۔ نیز قولہ تعالیٰ: (اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ١ۖۗ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا) (الدھر:2) میں انسان کو” سمیع ” اور "بصیر” کہا گیا ہے ۔

اس سلسلہ میں واضح ہو کہ ان ناموں کا خالق کیلئے اطلاق ان معانی کے ساتھ ہے جو خالق کے لائق ہیں، اور مخلوق کیلئے اطلاق ان معانی کے ساتھ ہے جو مخلوق کے لائق ہیں۔ چنانچہ وہ معانی جو ان ناموں کا مدلول ہیں، ان میں خالق، مخلوق کے مشابہ نہیں، اور مخلوق ، خالق کے مشابہ نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کچھ نام ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں اور کسی غیر اللہ پر ان کا اطلاق جائز نہیں، مثلاً : اللہ، الرحمٰن ، الخالق ، الباری، الرزاق، الصمد وغیرہ

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر کے اندر آغاز ِ سورۃ الفاتحہ میں” بسم اللہ الرحمٰن ” کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں کچھ نام ایسے ہیں جس کا (لفظی حد تک) غیر اللہ پر اطلاق جائز ہے ، لیکن کچھ نام ایسے ہیں جو غیر اللہ کیلئے قطعی طور پر نہیں بولے جا سکتے ، جیسے اسمِ مبارک اللہ، الرحمٰن ، الخالق ، اور الرزاق وغیرہ۔

 

اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء صفات ازلی و ابدی ہیں

 

[10]۔ ” لم یزل یجمیع صفاتہ و۰سمانہ ، تعالیٰ ان تکون صفاتہ مخلوقۃ وأسمائہ محدثۃ۔”

ترجمہ:” وہ اپنی تمام صفات اور ناموں کے ساتھ ہمیشہ سے ہے ، وہ اس بات سے انتہائی بلند اور پاک ہے کہ اس کی کوئی صفت مخلوق ہو یا کوئی نام نیا ہو۔”

شرح

اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء صفات ازلی و ابدی ہیں​

اللہ تعالیٰ جن صفات کے ساتھ متصف یا جن اسماء کے ساتھ موسوم ہے وہ سب کے سب ازلی و ابدی ہیں، یعنی وہ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ، یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی ایسے نام کے ساتھ موسوم کیا جائے جس کے ساتھ پہلے موسوم نہیں تھا۔ واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی دو قسمیں ہیں، صفاتِ ذاتیہ اور صفات فعلیہ۔

صفاتِ ذاتیہ:

صفاتِ ذاتیہ سے مراد وہ صفات ہیں جواز لاً و ابداً اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم و لازم ہیں ان صفات کا مشیت و ارادہ سے کوئی تعلق نہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفتِ ” الوجہ” (چہرہ) "الید” (ہاتھ) "الحیاۃ” (زندہ ہونا) ” العلم” (ہر چیز کا جاننا) ” السمع” (سننا) "البصر” (دیکھنا) "العلو” (سب سے بلند ہونا)۔

صفاتِ فعلیہ:

دوسری قسم صفاتِ فعلیہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ سے متعلق ہیں، جیسے صفت "الخلق” (پیدا کرنا) ” الرزق” (روزی دینا) ” الاستواء” (عرش پر مستوی ہونا) ” النزول” (اترنا) ” المجئ” (آنا )وغیرہ۔

یہ تمام صفات با عتبارِ نوع قدیم ہیں ، لیکن باعتبارِ آھاد، حادث ہیں۔ چنانچہ مثلاً: اللہ تعالیٰ صفتِ خلق اور صفت رزق سے ازل سے متصف ہے ، ایسا ہر گز ممکن نہیں کہ پہلے وہ ان صفات سے متصف نہ ہو، بعد میں ہو گیا ہو۔(مقصد یہ ہے کہ جب کوئی مخلوق یا مرزوق نہیں تھا، اللہ تعالیٰ اس وقت بھی خالق اور رازق تھا، کیونکہ اس کی ہر صفت ازلی اور ابدی ہے ۔ البتہ اس نے مخلوق کو پیدا کب کیا؟روزی کب دی؟ جب اس نے چاہا اور ارادہ فرمایا۔)

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا استواء علی العرش فعلی اعتبار سے آسمان و زمین کی خلق کے بعد حاصل ہوا۔ اسی طرح آسمانِ دنیا کی طرف نزول بھی آسمان و زمین کی خلق کے بعد حاصل ہوا۔ اسی طرح مجئ یعنی آنا، جس کا آیتِ کریمہ ( وَجَاءَ رَبُّکَ وَالمَلَک صَفَّا صَفَّا) میں ذکر ہے قیامت کے دن اس وقت حاصل ہو گا جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے مابین فصل قضاء کیلئے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کا صفتِ ” یَفُعَلُ مایُرِیدُ” (یعنی جو ارادہ فرما لیتا ہے وہ کرتا ہے ) سے متصف ہونا بھی باعتبار ِ نوعِ قدیم ہے ، البتہ جن افعال کا ارادہ فرما لیتا ہے وہ افعال آحاد ہیں جن کا ظہور اس وقت ہوتا ہے جس وقت اللہ تعالیٰ ان کے ظہور کا ارادہ فرماتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات کے ساتھ خالق ہے ، اور اس کے ماسوا ہر چیز مخلوق ہے ، لہذا اس کی صفات میں کوئی چیز مخلوق نہیں۔ اور اس کے جتنے بھی نام ہیں، ان کے نام رکھنے کی کوئی ابتداء نہیں ہے ، اس کے تمام نام قدیم اور ازلی ہیں، اور کوئی نام محدّث(نیا) نہیں ہے ۔

 

 

اللہ تعالیٰ کیلئے صفتِ "الکلام” کا اثبات

 

[11]۔ "کلم موسی بکلا مہ الذی ھو صفۃ ذاتہ لاخلق من خلقہ، وتجلی للجبل فصارد کامن جلا لہ وان القرآن کلام اللہ لیس بمخلوق فیبد ولا صفۃ لمخلوق فیفند.”

ترجمہ:”اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا، اور یہ کلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں بلکہ صفتِ ذاتیہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے پہاڑ (کوہِ طور) پر اپنی تجلی ڈالی تو وہ اللہ تعالیٰ کے جلال سے ریزہ ریزہ ہو گیا، قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے کہ فنا کا شکار ہو جائے ، نہ ہی کسی مخلوق کی صفت ہے کہ ختم ہو جائے ۔”

شرح

اللہ تعالیٰ کیلئے صفتِ "الکلام” کا اثبات۔۔۔​

اللہ تعالیٰ ازلا ً و ابداً صفتِ کلام کے ساتھ متصف ہے ، اس کے متکلم ہونے کی کوئی ابتداء نہیں، اور وہ بلا انتہاء صفتِ کلام سے متصف رہے گا، کیونکہ ذاتِ باری تعالیٰ کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کو ئی انتہاء ، لہذا اس کی صفتِ کلام کی بھی نہ کوئی ابتداء ہو گی نہ کوئی انتہاء۔

صفتِ کلام، صفتِ ذاتیہ بھی ہے اور صفتِ فعلیہ بھی۔​

ذاتیہ اس اعتبار سے کہ اللہ تعالیٰ کے اس صفت سے متصف ہونے کی کوئی ابتداء نہیں ، اور فعلیہ اس اعتبار سے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت وارادہ سے جب چاہتا ہے کلام فرماتا ہے ، اس کا کلام فرمانا اس کی مشیت سے متعلق ہے ، جب چاہتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے کلام فرماتا ہے ، لہذا صفتِ کلام باعتبارِ نوع قدیم، اور باعتبار آحادِ کلام حادث ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام سے ان کے دور میں کلام فرمایا تھا، ہمارے نبیﷺ سے شبِ معراج کلام فرمایا تھا، وہ قیامت کے دن اہلِ جنت سے جبکہ وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے کلام فرمائے گا۔ یہ سب آحادِ کلام کی مثالیں ہیں، جن میں سے کچھ تو واقع ہو چکی ہیں، اور کچھ آئندہ حاصل ہوں گی، جب اللہ تعالیٰ ان کا حصول چاہے گا۔

اللہ تعالیٰ کا کلام حروف اور آواز کے ساتھ ہے ۔ اس کا کلام نہ تو مخلوق ہے اور نہ ہی کوئی ایسی صفت ہے جو قائم بالذات ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان:

(وَکَلَّمَ اللہُ مُوسیٰ تَکلِیما) (النساء:164) (اور موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا ) پر غور کیجئے ۔ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ کلام کا اثبات ہے اور یہ بات بھی ثابت ہو رہی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تھا۔ قولہ تعالیٰ:” تکلیما” کلام فرمانے کی مزید تاکید ہے اور اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ سے صادر ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کی نہ تو کوئی ابتداء ہے نہ انتہاء ، نہ ہی اللہ تعالیٰ کے کلام کیلئے کوئی حد یا حصار ہے ۔

مخلوق کے کلام کرنے کا معاملہ اس سے برعکس ہے ، مخلوق کے کلام کرنے کی ابتداء بھی ہے اور انتہاء بھی ، لہذا مخلوق کا کلام اپنی ابتداء اور انتہاء کے اندر محصور ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِه مَدَدًا) (الکھف:109)

ترجمہ: (کہہ دیجئے ! کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں کو لکھنے کیلئے سمندر سیاہی بن جائے تو وہ بھی میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا، گو ہم اس جیسا اور بھی اس کی مدد میں لے آئیں)

نیز فرمایا:

(وَ لَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ يَمُدُّه مِنْۢ بَعْدِه سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ) ( (لقمان:27)

ترجمہ: (روئے زمین کے تمام درختوں کی اگر قلمیں ہو جائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی ہو اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے ، بے شک اللہ تعالیٰ غالب اور با حکمت ہے ۔)​

ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ کیلئے صفتِ کلام کا اثبات ہے اور یہ بھی ثابت اور واضح ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر محصور ہے ، کیونکہ زمین پر موجود بپھری موجوں اور پانی کی اتھاہ گہرائیوں والے تمام سمندروں کو گئی گناہ بڑھا کر، اللہ رب العزت کا کلام لکھنے کیلئے روشنائی میں تبدیل کر دیا جائے اور لکھنے کیلئے زمین پر موجود تمام درختوں کی قلمیں گھڑ لی جائیں ، تو یہ امر طے شدہ ہے کہ لکھتے لکھتے تمام سمندر اور قلمیں ختم ہو جائیں گی، کیونکہ سمندر اور قلمیں بھی تو مخلوق ہیں اور مخلوق کیلئے بہر حال محصور

ہونا بھی ہے اور فنا بھی۔ اللہ تعالیٰ کا کلام کیونکہ غیر مخلوق اور غیر محصور ہے ، لہذا وہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔

قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، توراۃ و انجیل اور اس کے علاوہ ہر وہ کتاب جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی اللہ تعالیٰ کے کلام کا حصہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا کلام کیونکہ غیر مخلوق ہے لہذا ا سے کبھی وہ فنا حاصل نہیں ہو گا جو تمام مخلوقات کا مقدر ہے ۔ اور کلام کو فنا کیسے ہوسکتا ہے ، وہ تو خالقِ کائنات کی صفت ہے ، جس کی کوئی انتہاء نہیں، لہذا اس کے کلام کی بھی کوئی انتہاء یا نفاد نہیں ہے ۔ اس کے برعکس تمام مخلوقات فنا کا شکار ہونے والی ہیں، لہذا ان کا کلام بھی ان کے ساتھ فنا ہو جائے گا۔

مؤلف رحمہ اللہ کا فرمان:” اللہ تعالیٰ نے کوہِ طور پر تجلی ڈالی تو وہ اللہ تعالیٰ کے جلال سے ریزہ ریزہ ہو گیا” اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مذکور ہے :

(وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِيْقَاتِنَا وَ كَلَّمَه رَبُّه قَالَ رَبِّ اَرِنِيْۤ اَنْظُرْ اِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرٰىنِيْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَه فَسَوْفَ تَرٰىنِيْ١ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّه لِلْجَبَلِ جَعَلَه دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ ) (الاعراف:143)

ترجمہ: (اور جب موسیٰ ہمارے وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام فرمائی ، تو عرض کیا کہ اے میرے پروردگار ! اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں۔ ارشاد ہوا کہ تم مجھ کو ہر گز نہیں دیکھ سکتے ، لیکن تم اس پہا ڑ کی طرف دیکھتے رہو اور اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے ۔ پس جب ان کے رب نے اس پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش کر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا! بے شک آ پ کی ذات منزہ ہے میں آپ کی جناب میں تو بہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے اس پر ایمان لانے والا ہوں۔)

اس آیتِ کریمہ سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے جبکہ وہ اس کی میقات و میعاد پر آئے ، کلام فرمایا ۔ موسیٰ علیہ السلام جب اللہ تعالیٰ کا کلام سننے کے شرف سے ہمکنار ہوئے تو انہیں اللہ تعالیٰ کے دیدار کا شوق پیدا ہو گیا جس کا انہوں نے سوال بھی کر دیا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل نہ ہو سکا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اس بات کی متقاضی ہے کہ یہ دیدار اہلِ ایمان کو آخرت میں نصیب ہو گا، جو قیامت کے روز اہلِ جنت کیلئے سب سے بڑی نعمت قرار پائے گی۔

اللہ تعالیٰ کی مشیت کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو لوگوں کی نگاہیں اللہ تعالیٰ کے دیدار کی طاقت ہی نہیں رکھتی ، جب ہی تو موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: (لَن تَرَانِی) یعنی تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتے ۔(یعنی اس دنیا میں)

چنانچہ کوہِ طور اپنی سختی اور صلابت کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ایک تجلی نہ سہہ سکا اور ریزہ ریزہ ہو گیا۔ البتہ دار الآخرۃ میں اللہ تعالیٰ اپنے مؤمنین بندوں کو ایسی بصارت عطا فرمائے گا جس سے انہیں اللہ تعالیٰ کے دیدار کی قدر تنصیب ہو جائے گی۔

دنیا میں کسی بھی شخص کو اللہ تعالیٰ کے دیدار کی قدرت حاصل نہ ہونے پر رسول اللہﷺ کی یہ حدیث بھی دلالت کر رہی ہے :

"تعلموا أنہ لن یری احد منکم ربہ عزوجل حتی یموت” (مسلم:2930)

ترجمہ: اچھی طرح جان لو! تم میں سے کوئی شخص دنیا کی زندگی میں اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا۔

 

 

 

 

ایمان بالقدر اور اس کے کتاب و سنت سے دلائل کا بیان

 

[12]۔ "والا یمان بالقدر خیرہ وشرہ حلوہ ومرہ، وکل ذلک قد قدر اللہ ربنا، ومقادیر الامور بیدہ ومصدر ھاعن قضائہ، علم کل شئ قبل کو نہ، فجری علی قدرہ لایکون من عبادہ قول ولا عمل الاوقد قضاہ وسبق علمہ بہ(ألا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر) (الملک:14)

یضل من یشاء، فیخذلہ بعدلہ، ویھدی من یشاء فیوفقہ بفضلہ، فکل میسر بتیسیرہ الی ماسبق من علمہ وقدرہ، من شقی اوسعید۔

تعالیٰ ان یکون فی ملکہ مالا یرید، أو یکون لاحد عنہ غنی، خالقا لکل شئ، ألا ھورب العباد ورب اعمالھم، والمقدر لحر کاتھم وآجالھم۔”

ترجمہ: اچھی اور بری ، میٹھی اور کڑوی ہر قسم کی تقدیر پر ایمان لانا(فرض ہے )۔ ان تمام چیزوں کو ہمارے پروردگار اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمایا، تمام امور کی مقادیر اس کے ہاتھ میں ہے ، جن کا صادر ہونا اس کے فیصلے سے ہے ، وہ ہر شئ کو وجود میں آنے سے پہلے ہی جانتا ہوتا ہے ، اور وہ شئ جب وجود میں آتی ہے تو اس کی تقدیر کے مطابق ہی آتی ہے ، بندوں کا ہر قول اور فعل اللہ تعالیٰ کی قضاء قدر اور اس کے علمِ سابق کے مطابق ہوتا ہے )کیا وہ ذات علم نہیں رکھتی جس نے پیدا کیا؟ وہ تو باریک بین اور باخبر ہے )

جسے چاہتا ہے گمراہ کر کے ذلتوں کی پستیوں میں دھکیل دیتا ہے ، جو کہ عینِ عدل ہے ، اور جسے چاہتا ہے توفیقِ ہدایت سے مشرف فرما دیتا ہے ، جو

عینِ فضل ہے ۔ ہر بدبخت یا نیک بخت، اللہ تعالیٰ کے علمِ سابق اور تقدیر کے مطابق اپنی اپنی راہ پر بآسانی چلایا جا رہا ہے ۔

اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت بلند ہے کہ اس کی بادشاہت میں کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر یا بر خلاف ہو، یا کوئی مخلوق اس سے مستغنی ہو، ہر شئ کا صرف وہی خالق ہے ، تمام بندوں اور ان کے   تمام اعمال کا وہی رب ہے ، اور ان کی تمام حرکات و آجال کی تقدیر بنانے والا بھی وہی ہے ۔

شرح

ایمان بالقدر اور اس کے کتاب و سنت سے دلائل کا بیان​

(1): تقدیر پر ایمان لانا، ایمان کے ان چھ اصولوں میں شامل ہے جن کا حدیثِ جبریل میں ذکر ہے ۔ چنانچہ جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے ایمان کی بابت سوال کیا ، تو آپﷺ نے فرمایا: "أن تؤ من باللہ، وملائکتہ ، وکتبہ، ورسلہ، والیوم الآخر ، والقدر خیرہ و شرہ۔” (رواہ مسلم:53)

"ترجمہ:ایمان یہ ہے کہ تو اللہ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کیساتھ ایمان لے آئے ، اور یومِ آخرت اور تقدیر کیساتھ، چاہے بھلی ہو یا بُری ایمان لے آئے ۔”

اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، صحیح مسلم کا سب سے پہلا عنوان کتاب الایمان ہے ، اور یہ اس کی سب سے پہلی ذکر کردہ حدیث ہے ۔ اس حدیث کی سند میں یہ بات وارد ہوئی ہے کہ اس حدیث کو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے اپنے والد سے ، مسئلہ ایمان بالقدر کیلئے بطور استدلال روایت فرمایا ہے ۔ تفصیل ِ واقعہ اس طرح ہے کہ یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبد الرحمٰن الحمیری نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے عراق میں موجود کچھ لوگوں کا ذکر کیا جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں اور تماما مور کو ” اُلف” قرار دیتے ہیں(یعنی وہ بغیر کسی مقدِر کے خود بخود ظہور پذیر ہو رہے ہیں) تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے ان سے فرمایا: جب تم ان لوگوں سے ملو تو ان سے یہ بات کہہ دینا کہ میں ان سے اور وہ مجھ سے بری اور لاتعلق ہیں۔ اس ذات کی قسم کہ جس کی عبد اللہ بن عمر ہمیشہ قسم کھاتا ہے : اگر ان میں سے کسی شخص کے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دے ، تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک قبول نہیں فرمائے گا جب تک تقدیر پرصحیح ایمان نہ لے آئے ۔ پھر اس حدیث کو اپنے والدِ گرامی سے روایت کیا۔

واضح ہو کہ حدیثِ جبریل بروایت عمر بن الخطابؓ صرف صحیح مسلم میں ہے ، جبکہ یہی حدیث بروایت ابوھریرۃ ؓ صحیح بخاری و مسلم دونوں میں ہے ۔

(2): قرآنِ حکیم سے بہت سی آیاتِ ، اور رسول اللہ ﷺ کی متعدد احادیث تقدیر کے اثبات پر دال ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(اِنَّا کُلَّ شَیءِ خَلَقنَاہ بِقَدَرِ) (القمر:49)

ترجمہ: "بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقررہ اندازے پر پیدا کیا ہے ”

(قُل لَن یُّصِیبَنَا اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا) (التوبۃ:51)

ترجمہ:” آ پ کہہ دیجئے !ہمیں ہر گز کوئی چیز نہیں پہنچ سکتی مگر وہ جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے لکھ دی ہے ”

(مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الْاَرْضِ وَ لَا فِيْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيْر)(الحدید:22)

ترجمہ:” نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ(خاص) تمہاری جانوں میں ، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے ۔”​

جہاں تک حدیث کا تعلق ہے تو امام بخاری اور امام مسلم (رحمھمااللہ) دونوں نے اپنی اپنی کتاب میں تقدیر کا مستقل باب قائم کیا ہے ۔

چنانچہ صحیح مسلم(2664) میں ابو ھریرۃ ؓ سے مروی ہے ، رسول ﷺ نے فرمایا:

"المؤمن القوی خیر واحب الی اللہ من المؤمن الضعیف وفی کل خیر احرص علی ماینفعک واستعن باللہ ولا تعجز وان اصابک شئ فلا تقل لو أنی فعلت کذا کان کذا وکذا ، ولکن قل قدر اللہ وماشاء فعل ، فان لو تفتح عمل الشیطان”

ترجمہ:”طاقت ور مؤمن، اللہ تعالیٰ کو کمور مؤمن سے زیادہ بھلا اور محبوب ہے ، ویسے دونوں میں بھلائی اور بہتری ہے ۔ تم اپنے لئے ہر نفع بخش چیز کی حرص اور تمنا رکھو اور اس کے حصول کیئے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو، اور عاجز نہ بنو۔ اور اگر کوئی تکلیف پہنچے تو یوں مت کہو کہ اگر میں اس طرح کر لیتا تو اس طرح ہو جاتا ۔ بلکہ یوں کہو: اللہ تعالیٰ کا یہی منظورو مقدور تھا، اور جو کچھ اس نے چاہا وہی کیا۔ "لو” یعنی اگر اگر کہنا شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔”​

امام مسلم نے اپنی صحیح میں(2655) اپنی سند سے طاؤس (تابعی) کے حوالے سے بیان کیا ہے وہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کے بہت سے صحابہ کو یہ کہتے ہوئے پایا: ہر چیز تقدیر کے ساتھ ہے ۔ مزید فرماتے ہیں: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے سنا: وہ فرماتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:[کل شئ بقدر حتی العجز والکیس] یعنی ہر چیز حتی کہ عجز اور کیس بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ساتھ ہے ۔

عجز اور کیس آپس میں دو متضاد لفظ ہیں، کیس سے مراد عقلمندی ، ہوشیاری اور محنت وغیرہ ، اور عجز سے مراد عاجزی ، سستی اور کاہلی ہے ۔ یہ سب تقدیر کے ساتھ مربوط و منسلک ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عاجز کا عجزو ضعف اور کیس یعنی دانا کی دانائی اور عقلمندی سب تقدیر میں لکھی ہوئی ہے (16/205)

رسول اللہﷺ کیا یک اور حدیث ہے :

مامنکم من أحد وقد کتب مقعدہ من الجنۃ ومقعد من النار فقالوا یا رسول اللہﷺ افلانتکل فقال اعملوا میسر ، ثم قرأ(فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَ اتَّقٰىۙ،وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰى ،فَسَنُيَسِّرُه لِلْيُسْرٰى ، وَ اَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَ اسْتَغْنٰىۙ، وَ كَذَّبَ بِالْحُسْنٰى ، فَسَنُيَسِّرُه لِلْعُسْرٰى ) (الیل:5تا10 )​

ترجمہ:”تم میں سے ہر شخص کا جنت یا جہنم کا ٹھکانہ لکھا جا چکا ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم اپنے لکھے ہوئے پر بھروسہ نہ کر لیں؟ (اور عمل چھوڑ دیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عمل کرو، کیونکہ انسان کا جو ٹھکانہ لکھا گیا ہے اس کیلئے اس کے عمل میں آسانی پیدا کر دی گئی ہے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی: ترجمہ:” جس نے دیا(اللہ کی راہ میں) اور ڈرا(اپنے رب سے )۔ اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا۔ تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی۔ اور نیک بات کی تکذیب کی۔ تو ہم بھی اس کی تنگی و مشکل کا سامان میسر کر دیں گے "​

(صحیح بخاری:4945، صحیح مسلم: 2647)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندوں کا نیک اعمال کرنا تقدیر میں لکھا جا چکا ہے ، اور یہ بھی کے وہ نیک اعمال حصولِ سعادت کا سبب ہیں اور سعادت کا حصول بھی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے ۔ اس طرح بعض بندوں کا بُرے اعمال کا ارتکاب کرنا بھی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے ، اور وہ بُرے اعمال، حصولِ شقاوت (بدبختی) کا سبب ہیں، شقاوت کا حصول بھی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اسباب اور ان کے   مسببات ، تمام چیزیں مقدر فرما دی ہیں۔ لہذا کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے فیصلہ، تقدیر، خلق اور ایجاد سے باہر نہیں ہے ۔

"وعن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما قال کنت خلف رسول اللہﷺ یوما فقال یا غلام! انی اعلمک کلمات احفظ اللہ یحفظک، احفظ اللہ تجدہ تجاھک، اذا سألت فاسأل اللہ واذا استعنت فاستعین باللہ، واعلم ان الامۃ لواجتمعت علی ان ینفعوک بشئ لم ینفعوک الا بشئ قدکتبہ اللہ لک ولو اجتمعوا علی ان یضروک بشئ لم یضروک الا بشئ قد کتبہ اللہ علیک، رفعت الا قلام وجفت الصحف۔”

ترجمہ: "عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے ، فرماتے ہیں: ایک دن میں رسول اللہﷺ کے پیچھے سوار تھا، آپ نے فرمایا: اے لڑکے ! میں تجھے چند اہم امور کی تعلیم دیتا ہوں، تم اللہ تعالیٰ کے حدود و فرائض کی حفاظت کرو، اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے گا۔ تم اللہ تعالیٰ کی حدود فرائض کی حفاظت کرو، ہمیشہ اسے اپنے سامنے پاؤ گے ۔ جب بھی مانگو صرف اللہ تعالیٰ سے مانگو، اور جب بھی مدد طلب کرو صرف اللہ تعالیٰ سے کرو ، اور اچھی طرح جان لو! اگر پوری امت تمہیں کوئی نفع پہنچانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے نفع کے علاوہ کوئی نفع نہیں پہنچ سکتی، اور اگر پوری امت تمہیں نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے نقصان کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔(تقدیر لکھنے والی) قلمیں اٹھا لی گئی ہیں اور صحیفے (جن پر تقدیر لکھی گئی ہے ) خشک ہو چکے ہیں۔”​

اس حدیث کی حافظ ابن رجب نے اپنی کتاب” جامع العلوم الحکم فی شرح خمسین حدیثا من جوامع الکلم” (1/459) میں بڑی نفیس شرح فرمائی ہے ۔

الاربعون النوویۃ کی یہ حدیث نمبر 19 ہے ۔

 

 

 

مراتبِ قدر: علم، کتابت، ارادہ اور خلق ایجاد​

 

(2): واضح ہو کہ تقدیر پر ایمان لانے کے چار مراتب ہیں، ان چاروں مراتب کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے ۔

* پہلا مرتبہ یہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہونے والا ہے ، سب کا اللہ تعالیٰ کو ازلی علم حاصل ہے ، اور یہ با ناممکن ہے کہ کسی چیز کا اللہ تعالیٰ کا ازلی علم حاصل نہ ہو بلکہ بعد میں علم ہوا ہو۔ فقرہ نمبر(7) میں اللہ تعالیٰ کے علم کی بحث کے ضمن میں اس مرتبہ کے تعلق سے کچھ وضاحتیں تحریر کی جاچکی ہیں۔

* دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ نے ا ٓسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے ۔ جس کی دلیل رسول للہ ﷺ کا یہ فرمان ہے : [کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل

"ان یخلق اللہ السموات والارض بخمسین الف سنۃ قال وعرشہ علی الماء” (رواہ مسلم: 2653، عن ابن عمر)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل تمام خلائق کی تقدیر لکھ دیں۔ فرمایا: وقت اس کا عرش پانی پر تھا۔

*تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ مشیت پر ایمان لایا جائے ۔ یعنی اس کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہو رہا ہے ، اور چونکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ملک ہے لہذا اللہ تعالیٰ کی ملک میں وہی کچھ ہو سکت اہے جو اللہ تعالیٰ ارادہ فرما لے ۔ پس جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہے گا وہی کچھ ہو گا، اور جو کچھ نہیں چاہے گا وہ ہر گز نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(اِنَّمآَمْرُه اِذَآ اَرَادَ شَئًْا اَنْ يَّقُوْلَ لَه كُنْ فَيَكُوْنُ) (یس:82)

ترجمہ: "وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ) ہے کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتا ہے ”

نیز فرمایا:

(وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلآ اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ) (التکویر:29)

ترجمہ:”اور تم بغیر پروردگار ِ عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے "​

*چوتھا مرتبہ یہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے یا ہونے والا ہے سب اللہ تعالیٰ کی خلق و ایجاد ہے ، جو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے اس علم ِ سابق(ازلی علم) کے مطابق عمل میں آتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل لوحِ محفوظ میں لکھ دیا تھا، لہذا ہر ہر ذات ، اور ہر ہر فعل صرف اللہ تعالیٰ کی خلق و ایجاد ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(اَ للہُ خَالِقُ کُلَّ شَیءِ) (الزمر :62)

ترجمہ:” اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے "​

نیز فرمایا:

(وَاللہُ خَلَقَکُمَ وَمَا تَعمَلُونَ) (الصافات:96)

ترجمہ:” حالانکہ تمہیں اور تمہارے اعمال کو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے "​

 

 

 

ایمان بالقدر کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے

 

(4): اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں جو فیصلے فرما دیئے اور انہیں لوح ِ محفوظ میں تحریر فرما دیا وہ سب کا سب علمِ غیب ہے ، جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ مخلوق کو تقدیر کے فیصلوں کا علم درج ذیل دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ساتھ ہو سکتا ہے :

  1. کسی چیز یا کام کے رونما ہونے سے ۔ چنانچہ جب بھی کوئی چیز رونما ہو گی معلوم ہو جائے گا کہ یہی امرِ مقدور

ہے ، کیونکہ اگر یہ امرِ مقدور نہ ہو تی تو ہر گز رونما نہ ہوتی، کیونکہ جو اللہ چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے ، اور جس چیز کا ہونا اللہ تعالیٰ نہ چاہے وہ ہر گز نہیں ہوسکتی۔

  1. دوسری صورت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ مستقبل میں رونما ہونے والے کسی واقعہ یا امر کی خبر دے دیں۔

جیسا کہ آپﷺ نے ظہورِ دجال، خروجِ یأ جوج و مأجوج اور نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہ الصلاۃ والسلام کی خبر دی۔ اس کے علاوہ اور بھی آپﷺ نے بہت سے امور کی خبر دی جو آخری دور میں ظاہر ہوں گے ۔ ان تمام امور و واقعات کی خبر چونکہ الصادق المصدوق محمد رسول اللہﷺ نے دی، لہذا ان کا حاصل ہونا لازمی ہے ۔ اور چونکہ ان تمام امور کا رونما ہونا ایک طے شدہ حقیقت ہے لہذا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علمِ سابق اور قضاء و قدر کے عین مطابق ہے ۔ (لہذا ہمارا یہ ایمان ہے کہ قربِ قیامت رونما ہونے والے یہ تمام واقعات برحق ہیں کیونکہ یہ سب رسول اللہﷺ کی احادیث سے ثابت ہیں۔ نیز یہ کہ ان تمام امور و واقعات کا اللہ تعالیٰ نے روزِ اول سے فیصلہ فرما کر تقدیر میں لکھ دیا تھا)

ہم مزید ایک مثال سے اس مسئلہ کو واضح کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے ایک ایسے واقعہ کی خبردی جس کا ظہور آپﷺ کے زمانے کے بالکل قریب تھا، چنانچہ ابوبکرؓ کی حدیث ہے فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ منبر پر تشریف فرما تھے اور حسن بن علی رضی اللہ عنھما آپ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے ، رسول اللہﷺ کبھی لوگوں کو دیکھتے اور کبھی حسن کو ، پھر فرمایا:

"ابنی ھذا سید ولعل اللہ یصلح بہ بین فئتین من المسلمین” (بخاری:3746)

یعنی میرا یہ بیٹا سردار ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے بیچ صلح کرائے گا۔​

رسول اللہ ﷺ کی یہ خبر ؁ ۴۱ھ میں حرف بحرف پوری ہوئی، چنانچہ اس سال مسلمانوں کی جمعیت متحد اور مجتمع ہو گئی، حتی کہ اس سال کو” عام الجماعۃ” کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہھم اجمعین نے آپﷺ کے اس فرمان سے یہ نکتہ اخذ کر لیا کہ حسن ؓ بچپن میں فوت نہیں ہوں گے بلکہ اتنی دیر تک ضرور زندہ رہیں گے کہ صلح کے تعلق سے ا ٓپﷺ نے جو پیش گوئی فرمائی وہ پوری ہو جائے ، اور کیونکہ یہ سب

کچھ رونما ہوا لہذا یہی امرِ مقدور تھا۔ جس کا صحابہ کرام کو قبل از وقوع (بوجہ فرمانِ رسول اللہ ﷺ) علم ہو گیا۔

 

 

 

اس عالم ہستی میں جو بھی خیرو شر ہے سب اللہ تعالیٰ کی قضاء قدر سے ہے ​

 

 

[5]: قولہ: "والایمان بالقدر خیرہ وشرہ حلوہ ومرہ ، وکل ذلک قد قدر اللہ ربنا” ” یعنی اچھی اور بری، میٹھی اور کڑوی ہر تقدیر پر ایمان لانا(فرض) ہے ، اور یہ کہ ان تمام چیزوں کو ہمارے پروردگار اللہ تعالیٰ نے مقدر فرما یا ہے ”

تقدیر کے حوالے سے یہ مسئلہ حدیث ِ جبریل میں مذکور ہے "وان تؤ من بالقدر خیر وشرہ” یعنی:”تم تقدیر پر ایمان لاؤ خواہ وہ خیر ہو یاشر۔”

ہر چیز کا خالق اور مقدِّر ، اللہ رب العزت ہی ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(اَللہُ خَالِقُ کُلَّ شَیءِ) (الزمر:62)

ترجمہ:” اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے "​

تو اس عالَم ہستی میں جو بھی خیرو شر ہے ، سب اللہ تعالیٰ کے قضاء وقدر ، اور مشیت وارادہ سے ہے ۔

(یہاں ایک اشکال وارد کیا جا سکتا ہے کہ) جنابِ علی ؓ سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی ایک طویل دعا مذکور ہے ، جس میں یہ الفاظ بھی ہیں: "والخیر کلہ فی یدیک والشر لیس الیک” (صحیح مسلم:771) یعنی:”اے اللہ! تمام کی تمام خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے ، جبکہ شر تیری طرف نہیں ہے ” (تو حدیث بظاہر حدیثِ جبریل کے مضمون کے متعارض ہے ، جس میں خیر و شر کا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہونے کا ذکر ہے )

(ہم عرض کرتے ہیں کہ) حدیثِ علی ؓ میں رسول اللہﷺ کا فرمان: "شر تیری طرف نہیں ہے ” اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ شر اللہ تعالیٰ کی قضاء قدر سے واقع نہیں ہوتا، اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شر کو محض برائے شر پیدا نہیں فرمایا کہ وہ کسی حکمت سے خالی ہو، یا اس میں کسی وجہ سے کسی قسم کا کوئی فائدہ مرتب نہ ہوتا ہو۔

دوسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شر کو علی الوجہ الاستقلال اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کیا جائے ، بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات و مقدرات کے عموم کے ضمن میں شامل تصور کیا جائے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان: (اَللہُ خَالِقُ کُلّ شَیءِ) یعنی اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے ( تو اس کے عموم میں خیر بھی شامل ہے اور شر بھی)

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان:

(اِنَّا کُلَّ شَیءِ خَلَقنَاہُ بِقَدَر) (القمر:49)

ترجمہ:” ہم نے ہر شئ ایک معین مقدار سے پیدا فرمائی” (یہاں بھی(ہر شئ) کے عموم میں خیر و شردونوں کو داخلِ تصور کیا جائے گا) ​

مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ادب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے صرف شرکو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں جنوں کی گفتگو ذکر فرمائی، وہ گفتگو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ادب کی بہترین مثال ہے ، چنانچہ انہوں نے خیر کی نسبت بصیغہ معروف اللہ تعالیٰ کی طرف کی لیکن شرکا ذکر بصیغہ مجہول کیا۔ ملاحظہ ہو:

(وَّ اَنَّا لَا نَدْرِيْۤ اَشَرٌّ اُرِيْدَ بِمَنْ فِي الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًاۙ) (الجن:10)

ترجمہ:” ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے "​

 

 

 

لفظِ ارادہ معنئ کونی و قدری کے ساتھ ساتھ معنئ دینی و شرعی دونوں کیلئے مستعمل ہے ​

 

(6): تقدیر کے چار مراتب ، جن کا گزشتہ صفحات میں ذکر ہوا ، میں ایک مرتبہ یہ تھا کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مشیت وارادہ سے ہے ۔ مشیت وارادہ میں فرق یہ ہے کہ لفظِ مشیت قرآن و حدیث میں صرف معنئ کونی و قدری کے لئے وارد ہوا ہے ، جبکہ لفظِ ارادہ معنئ کونی و قدری کے ساتھ ساتھ معنئ دینی و شرعی دونوں کیلئے مستعمل ہے ۔

چنانچہ ارادہ کے معنئ کونی و قدری کیلئے استعمال ہونے کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :

(وَ لَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْۤ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يُّغْوِيَكُمْ​) (ھود:34)

ترجمہ:” تمہیں میری خیر خواہی کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی، گو میں کتنی ہی تمہاری خیر خواہی کیوں نہ چاہوں، اگر اللہ کا ارادہ تمہیں گمراہ کرنے کا ہو”​

نیز اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:

(فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهْدِيَه يَشْرَحْ صَدْرَه لِلْاِسْلَامِ١ۚ وَ مَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّه يَجْعَلْ صَدْرَه ضَيِّقًا حَرَجًا) (الانعام:125)

ترجمہ:” سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پڑ ڈالنے کا ارادہ فرما لے اس کے سینہ کو اسلام کیلئے کشادہ کر دیتا ہے اور جس کو بے راہ رکھنے کا ارادہ فرما لے اس کے سینہ کو بہت تنگ کر دیتا ہے "​

(ان آیات میں اغواء تضلیل کا ارادہ ، ارادہ کونی و قدری ہے )

لفظِ ارادہ کے دینی و شرعی معنی میں وارد ہونے کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :

(يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ) (البقرۃ:185)

ترجمہ:”اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے ، سختی کا نہیں”​

(مَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ يُّرِيْدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَ لِيُتِمَّ نِعْمَتَه عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ) (المائدۃ:6)

ترجمہ:” اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے کا ہے اور تمہیں اپنی بھر پور نعمت دینے کا ہے ، تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو”​

ارادہ کونی و قدری اور ارادہ دینی و شرعی کے درمیان فرق یہ ہے کہ ارادہ کونیہ عام ہے اور ہر قسم کے امر کیلئے وارد ہوتا ہے ، خواہ وہ امر اللہ تعالیٰ کی رضاء اور محبت کو موجب ہو یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور نا پسندیدگی کو موجب ہو، جبکہ ارادہ شرعیہ صرف اللہ تعالیٰ کے محبوب اور پسندیدہ امور کیلئے مختص ہے ۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ ارادہ کونیہ کا واقع اور رونما ہونا ضروری ہے ، جبکہ ارادہ شرعیہ اس شخص کے حق میں حاصل ہو گا جسے اللہ تعالیٰ کی توفیق میسر ہو، ار اس شخص کو حاصل نہیں ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے محروم ہو۔

کچھ الفاظ ایسے ہیں جو کونی اور شرعی دونوں معنی دیتے ہیں، مثلاً: القضاء، التحریم، الاذن، الامر، الکلمات وغیرہ۔

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز تالیف” شفاء العلیل” کے (29) ویں باب میں ان الفاظ کیلئے قرآن و حدیث سے بہت سی مثالیں ذکر فرمائی ہیں۔

(7): اللہ تعالیٰ نے جن امور کے فیصلے فرما لئے اور انہیں لوحِ محفوظ میں لکھ دیا وہ بلا تغیر و تبدیل رونما ہو کر رہیں گے ۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الْاَرْضِ وَ لَا فِيْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيْرٌ) (الحدید:22)

ترجمہ:” نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ (خاص) تمہاری جانوں میں ، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے "​

نیز رسول اللہﷺ نے فرمایا:”رفعت الاقلام وجفت الصحف” یعنی تقدیر لکھ کر قلم اٹھا لئے گئے اور صحیفے خشک ہیں۔(لہذا اوہی کچھ ہو گا جو قلموں نے صحیفوں پر لکھ دیا ہے )

(لیکن درج ذیل آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلے تبدیل بھی فرما لیتا ہے ) ملاحظہ ہو:

(يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَ يُثْبِتُ وَ عِنْدَه اُمُّ الْكِتٰبِ) (الرعد:39)

ترجمہ:” اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے ، لوحِ محفوظ اسی کے پاس ہے "​

 

 

 

آیتِ کریمہ(یَمُحُوا اللہ ُ مَا یَشَاءُ وَیُثبِتُ۔۔۔​) کا معنی​

 

لیکن اس آیت کو مفسرین نے شرعی امور سے متعلق قرار دیا ہے ، یعنی (اللہ تعالیٰ جس نے ہر نبی پر شرعی احکام نازل فرمائے ، اسے پورا اختیار ہے کہ) جس حکم کو چاہے منسوخ فرما دے ، اور جسے چاہے پر قرار رکھے ، اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور بالآخر محمد رسول اللہﷺ کی ذات پر اختتام پذیر ہوا جس نے سابقہ تمام شرائع کو منسوخ کر دیا۔ کچھ مفسرین نے اس سے مراد وہ اقدار لی ہیں جو لوحِ محفوظ میں نہیں جیسا کہ بعض امور ملائکہ کو تفویض کئے گئے ہیں۔ تفصیل کیلئے حافظ ابن القیم کی کتاب” شفاء العلیل” باب5،4،3،2 اور 6 ملاحظہ ہو۔ حافظ ابن القیم نے ان ابواب میں سے ہر بات میں لوحِ محفوظ کی تقدیر کے بعد خاص تقدیر کا ذکر کیا ہے ۔

یہاں ایک حدیث کی وضاحت بھی ضروری ہے جسے امام ترمذی رحمہ اللہ سند حسن روایت کیا ہے (2139) ، شیخ البانی کی ” السلسلۃ الصحیحۃ” (154) میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

"لایرد القضاء الا الدعاء ، ولا یزید فی العمر الالبر”یعنی: "قضاء کو صرف دعا ٹال سکتی ہے ،جبکہ صرف نیکی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے "

 

 

حدیث شریف [لایرد القضاء الا الدعاء] کا معنی

 

اس حدیث کا یہ معنی ہر گز نہیں کہ دعا لوحِ محفوظ کے فیصلے کو بدل ڈالتی ہے ، بلکہ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دعا کی برکت سے اس شر سے جو تقدیر میں چلتا آ رہا تھا سلامتی عطا فرما دی ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے شر سے

سلامتی مقدر فرما دی اور سلامتی کے اسباب بھی مقدر فرما دیئے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے سے وہ شر جو اس کی تقدیر میں مسلسل چلا آ رہا تھا ٹال دیا، ایک ایسے سبب کے عوض جو بندے سے ظاہر ہو گا اور وہ دعا ہے ، چنانچہ بندے کا دعا کرنا اور اسے سلامتی کا حاصل ہو جانا بھی تقدیر میں لکھا ہوا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بندے کی عمر کا لمبا ہونا تقدیر میں لکھا ہوا ہے اور اس لمبی عمر کا راز بھی تقدیر میں لکھا ہوا ہے ، جو کہ نیکی اور صلہ رحمی سے عبارت ہے ۔

خلاصہ یہ کہ تمام اسباب اور ان کے نتائج و مسببات اللہ تعالیٰ کی قضاء قدر سے ہیں۔

یہی معنی رسول اللہﷺ کی اس حدیث کا کیا جائے گا”من سرہ أن یبسط لہ فی رزقہ أو ینسأ لہ فی أثرہ فلیصل رحمہ” (صحیح بخاری:2067، صحیح مسلم:2557)

یعنی جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی ، اور عمر میں طوالت و برکت عطا فرما دی جائے وہ اپنے رشتے داروں سے جوڑ کر رکھے ۔

بہر حال ہر انسان کی اجل (موت کا وقت) لوح محفوظ میں ایک امرِ مقدر ہے ، جو نہ آگے ہو سکتا ہے نہ پیچھے ۔ جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے :

(وَ لَنْ يُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا) (المنافقون:11)

ترجمہ:” اور جب کسی کا مقررہ وقت آ جاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہر گز مہلت نہیں دیتا "​

نیز فرمایا:

(لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَاْخِرُوْنَ۠ سَاعَةً وَّ لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ۠) (یونس:49)

ترجمہ:”ہر امت کیلئے ایک معین وقت ہے جب ان کا وہ معین وقت آ پہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں”​

جو بھی انسان مرتا ہے یا قتل ہوتا ہے ، معتزلہ کا یہ قول کہ” جو انسان قتل ہوتا ہے اس کی طبعی عمر کٹ جاتی ہے ، اور اگر وہ قتل نہ کیا جاتا تو دوسری اجل یعنی لمبی عمر جیتا ” باطل ہے ، ہر انسان کیلئے ایک ہی اجل مقدر ہے البتہ موت کے اسباب مختلف ہیں اور وہ بھی سب کے سب مقدر ہیں، چنانچہ کچھ لوگوں کا مرض کے نتیجہ میں ، کچھ کا ڈوب کر اور کچھ کا قتل ہو کر مرنا مقدر ہوتا ہے (بہر حال سب کی اجل ایک ہی ہے البتہ اسبابِ اجل مختلف ہیں)

(8) کسی شخص کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے چھوڑنے یا اللہ تعالیٰ کے کسی حرام امر کے ارتکاب کرنے کے سلسلے میں تقدیر کو بطور دلیل و حجت پیش کرے (مثلاً یوں کہے کہ میں نماز نہیں پڑھتا تقدیر میں یونہی لکھا ہوا ہے ، یا میں شراب پیتا ہوں تو تقدیر میں یونہی لکھا ہوا ہے ) اگر کوئی شخص کسی ایسی معصیت کا ارتکاب کرے جس پر شرعی حد نافذ ہوتی ہے ، اور وہ اپنی اس معصیت کا بہانہ یا عذر تقدیر کو قرار دے اور کہے کہ تقدیر میں ایسا ہی لکھا ہوا تھا ، تو اس شخص پر شرعی حد نافذ کر کے اسے آگاہ کر دیا جائیگا کہ یہ حد اور سزا بھی تقدیر میں لکھی ہوئی تھی۔

اب یہاں ایک حدیث کی وضاحت ضروری ہے جس میں آدم و موسیٰ علیھما السلام کا ایک جھگڑا مذکور ہے چنانچہ صحیح بخاری(3409) اور صحیح مسلم(2652) میں ابو ھریرۃ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

"احتج آدم وموسی ، فقال لہ موسی، أنت آدم الذی أخر جتک خطیئتک من الجنۃ، فقال لہ آدم، أنت موسی الذی اصطفاک اللہ برسالاتہ، وبکلامہ، ثم تلومنی علی أمر قدر علی بل أن أخلق فقال رسول اللہﷺ فحج آدم موسی، مرتین”

ترجمہ:”آدم اور موسیٰ علیھما السلام کے مابین ایک جھگڑا ہوا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ آدم ہیں جنہیں آپ کے گناہ نے جنت سے نکلوا دیا، آدم نے فرمایا : تم موسیٰ ہو جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور کلام سے مشرف فرمایا، تم مجھے ایسے مسئلہ میں ملامت کرتے ہو جو میری پیدائش سے بھی قبل میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے دوبارہ فرمایا: آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب آ گئے ”

 

 

 

حدیث احتجاجِ آدم علی موسیٰ کا مفہوم​

 

واضح ہو کہ اس حدیث میں آدم ؑ نے فعل ِ معصیت پر تقدیر کو بطورِ حجت پیش نہیں کیا، بلکہ معصیت کے نتیجے میں نازل ہونے والی مصیبت پر تقدیر کو بطورِ حجت پیش کیا۔

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے ” شفاء العلیل” کا تیسرا باب اس حدیث پر بحث کرنے کیلئے قائم فرمایا ، اس باب میں پہلے تو انہوں نے اس حدیث کی تشریح کے حوالے سے لوگوں کے غلط اقوال کا تذکرہ کیا، پھر قرآن حکیم کی وہ آیات نقل فرمائی جن میں مشرکین کا اپنے شرک کے ارتکاب کرنے پر تقدیر میں لکھے ہوئے کو بطور بہانہ یا حجت پیش کرنے کا ذکر ہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے اس حجت کو پیش کرنے پر انہیں جھوٹا قرار دیا ، کیونکہ وہ اپنے شرک و کفر پر قائم و مصر رہتے ہوئے تقدیر میں لکھے ہوئے کا عذر کر رہے ہیں۔ یہ بات تودرست ہے کہ ان کا مبتلائے شرک ہونا تقدیر میں لکھا ہوا ہے ، مگر ان کا اسے اپنے شرک کی صحت پر محمول کرنا ایک امرِ باطل ہے لہذا ان کا قول حق ہے ، مراد باطل ہے ۔

اس کے بعد حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے حدیث مذکورہ(آدم و موسیٰ کا مناظرہ) کا معنی بیان کرتے ہوئے دو توجیہیں نقل فرمائیں پہلی توجیہ اپنے شیخ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالے سے ، اور دوسری توجیہ اپنے فہم اور استنباط سے پیش فرمائی۔

چنانچہ (ص35تا36) میں فرماتے ہیں:

"جب آپ نے یہ بات پہچان لی ، تو پھر واضح ہو کہ موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء و صفات کی جو معرفت حاصل ہے اس کے پیش ِ نظر ان کا مقام اس بات سے بہت بلند ہے کہ وہ کسی کو کسی ایسے گناہ پر ملامت کریں جس سے وہ توبہ کر چکا ہے بلکہ تو بہ قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت بھی دی اور اپنا چنا ہوا بندہ بھی قرا ر دے دیا، اور آدم ؑ کو جو اپنے پروردگار کی معرفت حاصل تھی اس کے پیشِ نظر ان کا مقام اس سے کہیں اونچا ہے کہ وہ اپنی معصیت کیلئے تقدیر میں لکھے ہوئے کو بطورِ حجت پیش کریں، بلکہ اصل معاملہ یوں ہے کہ موسیٰ ؑ نے آدم ؑ کو معصیت پر نہیں اس مصیبت پر ملامت فرمائی جس کا جنت سے نکلنے اور فتنوں اور آزمائشوں کے گھر میں آنے کی وجہ سے ان کی پوری اولاد کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس لئے ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں کہ موسیٰ ؑ نے آدم ؑ سے فرمایا :

"أخر جتنا ونفسک من الجنۃ” یعنی آپ نے اپنے آپ کو اور ہم سب کو جنت سے نکلوا دیا، اور ایک حدیث میں” خیبتنا” کا لفظ بھی مروی ہے ، یعنی آپ نے ہمیں نامراد بنا دیا، اس کے جواب میں آدمؑ نے ان پر اور ان کی پوری ذریت پر نازل ہونے والی اس مصیبت پر تقدیر میں لکھے ہوئے کو بطورِ حجت پیش فرمایا ، اور فرمایا: یہ مصیبت جو میری غلطی کے بسبب میری اولاد کو حاصل ہوئی، یہ میر ی پیدائش سے بھی قبل تقدیر میں لکھی جا چکی تھی، تقدیر میں لکھے ہوئے کو مصیبتوں میں بطورِ حجت پیش کیا جاتا ہے ، عیبوں اور گناہوں میں نہیں، لہذا آدم ؑ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ تم مجھے اس مصیبت پر ملامت کیوں کر رہے ہو جو مجھ پر اور میری اولاد پر میری پیدائش سے بھی ہزاروں سال قبل لکھ دی گئی تھی۔

یہ ہمارے شیخ کا جواب ہے ، جبکہ ہمیں اس کا ایک دوسرا جواب بنتا دکھائی دے رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ گناہ پر تقدیر کے لکھے ہوئے کو بطور ِ حجت پیش کرنا ایک مقام درست اور نافع ہے ، اور ایک مقام پر غلط اور نقصان دہ ہے ، نافع اس وقت ہے جب بندے سے گناہ سرزد ہو جائے اور وہ اس پر توبہ کر لے اور پھر کبھی اس گناہ کی طرف جھانک کر بھی نہ دیکھے ، جیسا کہ آدم ؑ نے کیا ، تو اس صورت میں گناہ کو نوشتہ تقدیر قرار دینا عینِ توحید بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کی معرفت کی علامت بھی۔

دریں صورت تقدیر کا ذکر ، ذکر کرنے والے اور سننے والے دونوں کو فائدہ دے گا، کیونکہ تقدیر کے ذکر سے نہ تو وہ کسی امر یا نہی کوٹال سکتا ہے نہ ہی شریعت کو باطل کر سکتا ہے ، اس سے تو توحید کی اساس پر محض حق کا ذکر کرنا مقصود ہوتا ہے ، نیز یہ کہ بندہ یہ قرار کرتا ہے کہ نیکی کرنے یا برائی کے چھوڑنے کی مجھ میں کوئی طاقت نہیں(یہ تو محض اللہ کی توفیق ہی سے ممکن ہے )

(یہ بات تھوڑی سی دقیق ہے ) لہذا ہم آدم ؑ کے واقعہ سے کچھ توضیح کرتے ہیں:

آدم ؑ نے موسیٰؑ سے فرمایا تھا: تم مجھے میرے ایک ایسے گناہ کہ جو میری پیدائش سے قبل ہی تقدیر میں لکھا جاچکا تھا کے ارتکاب پر ملامت کر رہے ہو؟ چنانچہ جب انسان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے ، پھر وہ توبہ کر لے ء اور اس کا گناہ اس طرح دھل جائے کہ گویا سرزد ہی نہیں ہوا تھا، اس کے بعد کوئی شخص اسے اس گناہ کے ارتکاب پر ملامت کرے تو دریں صورت اس کا تقدیر کے لکھے ہوئے کو محض حجت بنانا درست ہو گا ، اب وہ یہ کہہ سکتا ہے گناہ کا یہ معاملہ میری تقدیر میں میری پیدائش سے قبل ہی لکھا جا چکا تھا ۔ اب وہ تقدیر کے ذکر سے نہ تو حق کو ٹال رہا ہے ، نہ ہی تقدیر میں لکھے ہوئے کو اپنے گناہ کے جواز کیلئے بطورِ دلیل پیش کر رہا ہے (کیونکہ وہ تو اپنے اس گناہ سے سچی توبہ کر چکا ہے ) لہذا اب تقدیر کے لکھے ہوئے کو بطورِ حجت پیش کرنے کا کوئی نقصان نہیں ہے (بلکہ فائدہ ہے کیونکہ یہ اقرار عقیدہ توحید کی پختگی کی علامت ہے اور اپنے عجزو

ضعف کا اظہار بھی ہے کہ گناہ سے بچنا اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے )

واضح ہو کہ گناہ پر تقدیر کے لکھے ہوئے کو بطور حجت پیش کرنے کا جو نقصان دہ مقام ہے اس کا تعلق زمانہ حال اور مستقبل سے ہے ، جس کی صورت یہ ہے کہ بندہ کسی حرا م کام کا ارتکاب کرتا ہے ، یا کسی فریضے کے ترک کا مرتکب ہوتا ہے (اور توبہ بھی نہیں کرتا) اب اسے کوئی ملامت کرتا ہے اور وہ اپنے اس گناہ کے ارتکاب بلکہ اصرار پر تقدیر کے لکھے ہوئے کو بطورِ حجت پیش کرے (یعنی یوں کہے کہ تقدیر میں یونہی لکھا ہے کہ میں یہ گناہ کرتا ہوں یا کرتا رہوں گا) تو یہ یقیناً نقصان دہ صورت ہے ، کیونکہ اس طرح وہ تقدیر کی حجت کے ذریعے اپنے حق کو ترک کرنے یا باطل کا ارتکاب کرنے کا جواز پیش کر رہا ہے ۔

چنانچہ مشرکین نے اپنے عبادت لغیر اللہ اور شرک کے مسلسل اصرار پر نوشہ تقدیر ہی کو بطورِ حجت پیش کیا تھا، انہوں نے کہا تھا(لَوْ شَآءَ اللّٰهُ ماّاَشْرَكْنَا وَ لاّ اٰبَآؤُنَا) (الانعام:148)

یعنی "اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہ ہم ، نہ ہمارے آباء و اجداد شرک کرتے "(ہم شرک کر رہے ہیں تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ یونہی چاہتا ہے اور اس نے اسی طرح لکھا ہوا ہے )

ایک اور مقام پر ان کا یہ قول مذکور ہے : (لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْ) یعنی”اگر رحمٰن چاہتا تو ہم ان بتوں کی پوجا نہ کرتے ” (الزخرف:20)

لہٰذا وہ اپنے شکر کے جواز پر تقدیر کو بطورِ حجت پیش کر رہے ہیں، نہ تو انہیں اپنے شرک پر کوئی ندامت یا شرمندگی ہے ۔ ، نہ اس شرک کو مستقبل میں چھوڑنے کا کوئی عزم یا ارادہ ہے اور نہ ہی اس شرک کے باطل یا فاسد ہونے کا اقرار و اعتراف ہے ۔ گناہ پر تقدیر کو حجت ماننے کی یہ صورت پہلی صورت سے بالکل برعکس ہے ، کیونکہ پہلی صورت میں گناہ کا اقرار بھی ہے اور اس کے ارتکاب پر ندامت بھی ہے اور اسے ہمیشہ چھوڑنے کا عزم بھی ہے کہ اس کے ارتکاب پر ندامت بھی ہے اور اسے ہمیشہ چھوڑنے کا عزم بھی ہے لہا دریں صورت اگر کوئی ملامت کرے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہوا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ارتکاب ِ معصیت کے بعد اس کی قباحت و ملامت اگر(توبہ کے ذریعہ) ختم ہو جائے تو نوشتہ تقدیر کو بطور حجت ذکر کرنا درست ہے اور اگر ارتکابِ معصیت کے بعد اس کی قباحت و ملامت قائم

ہے (اور بندہ نہ تائب ہے نہ نادم اور نہ اس کے ترک پہ عازم) تو تقدیر کے لکھے ہوئے کو بطورِ حجت پیش کرنا باطل ہے (کیونکہ یہ تو اس گناہ کا جواز پیش کرنے کے مترادف ہو گا)

 

 

افعالِ عباد اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں

 

[9]: قولہ تعالیٰ ان یکون فی ملکہ مالایرید ، أو یکون لاحد عنہ غنی، خالقالکل شئ، ألا ھورب العباد ورب اعمالھم، والمقدر لحر کاتھم وآجالھم۔

ترجمہ:”اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت بلند ہے کہ اسی بادشاہت میں کوئی چیز اس کے ارا دے کے بغیر یا برخلاف ہو، یا کوئی مخلوق اس سے مستغنی ہو ، ہر شئ کا صرف وہی خالق ہے ، تمام بندوں اور ان کے   تمام اعمال کا وہی رب ہے ، اور ان کی تمام حرکات و آجال کی تقدیر بنانے والا بھی وہی ہے ”

شرح

افعالِ عباد اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور یہ بندوں کی مشیت سے واقع ہوتے ہیں۔۔۔​

واضح ہو کہ یہ تمام جملے ، فرقہ ضالہ قدریہ پررد ہیں، جن کا عقیدہ یہ ہے کہ بندے اپنے افعال کے خود ہی خالق ہیں، اسی طرح بندوں کے افعال کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو تسلیم نہیں کرتے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بندوں کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کے اندر ہی سرزدہو رہے ہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر نہیں ہیں۔ اب بندے چونکہ اپنے ا فعال کے خود ہی خالق ہیں لہذا وہ اللہ تعالیٰ سے مستغنی ہیں۔ قدریہ کے ان معتقدات سے ظاہر ہوتا ے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ہر شئ کا خالق تسلیم نہیں کرتے ۔(والعیاذباللہ)

حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کا بھی خالق ہے اور ان کے تمام افعال کا بھی ، وہ تمام ذوات کا خالق ہے ، اور تمام صفات کا بھی ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ هُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ) (الرعد:16)

ترجمہ:”کہہ دیجئے کہ صرف اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے وہ اکیلا ہے ار زبردست غالب ہے "​

نیز فرمایا:

( اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ١ وَّ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ) (الزمر:62)

ترجمہ:”اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے "​

نیز فرمایا:

( وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ) (الصافات:96)

ترجمہ:” حالانکہ تمہیں اور تمہارے اعمال کو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے "​

قدریہ منکرین(منکرین ِ تقدیر) کے مقابلے میں ایک گمراہ فرقہ ے جو جبریہ کے نام سے موسوم ہے ، انہوں نے بندوں سے ہر قسم ا اختیار سلب کر دیا ہے ، اور انہیں ہر قسم کی مشیت و ارادہ سے عاری قرار دیا ہے ، یہ لوگ اختیاری اور اضطراری تمام حرکات میں برابری کے قائل ہیں، ان کا کہنا ہ کہ بندوں کا ہر فعل یا حرکت ، درختوں کی حرکت کی طرح ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ بندوں کا کھانا، پینایا نماز، روزہ ایسے اعمال ان کے ارا دے سے صادر نہیں ہوتے ، بلکہ وہ ان اعمال کے اصدار پر مجبور ہیں۔ جیسے ایک رعشہ کا مریض ، اپنے ارادہ یا اختیار سے اپنے ہاتھ ہیں ہلاتا لکہ بہ سبب مرض مجبوراً اس کے ہاتھ ہلتے رہتے ہیں، لہذا( بقول ان کے ) بندوں کے افعال و حرکات میں، ان کے کسب و ارادہ کو کوئی دخل نہیں۔

ان سے پوچھا جائے کہ پھر انبیاء مرسلین کی بعثت کا کیا فائدہ رہا ؟ کتب سماوی کے نزول کی کیا حکمت رہی؟

شرعی ادلہ سے انتہائی قطعیت کے ساتھ یہ بات معلوم اور ثابت ہے کہ عمل کے تعلق سے بندے کو ایک طرح کا ارادہ و مشیت حاصل ہے چنانچہ وہ اپنے ہر نیک عمل پر قابلِ تعریف بھی ہے اور مستحقِ اجر و ثواب بھی جبکہ ہر بُرے فعل پر قابل مذمت بھی ہے ، اور مستحقِ عذاب بھی۔

اس کے تمام اختیاری افعال، باعتبارِ فعل و کسب اسی کی طرف منسوب ہوں گے ، جبکہ اس کی تمام اضطراری حرکات ، مریضِ رعشہ کی حرکت کی مانند قرار پائیں گے وہ اضطراری حرکت بندے کا فعل نہیں قرار پائی گی، بلکہ اس کی صفت (کیفیت یا حالت) شمار ہو گی۔

یہی وجہ ہے کہ علمائے نحو فاعل کی تعریف یوں کرتے ہیں”ھو اسم مرفوع یدل علی من حصل منہ الحدث أو قام بہ” یعنی: فاعل ایک ایسا اسم ہے جو مرفوع ہوتا ہے ، اور ایک ایسی ذات پر دلالت کرتا ہے جس سے یا تو کوئی کام صادر ہوتا ہے ، یا کوئی کام اس کے ساتھ قائم ہوتا ہے ۔

کام کے صادر ہونے سے ان کی مراد بندے کے وہ اختیاری افعال ہیں جو اس کی مشیت و ارادہ سے صادر ہوتے ہیں(جیسے نماز، روزہ، کھانا ، پینا وغیرہ) اور کام کے ساتھ قائم ہونے سے ان کی مراد ایسے کام جس میں اس کی مشیت و ارادہ کو کوئی دخل نہیں، جیسے موت، مرض اور ارتعال وغیرہ۔

چنانچہ جب یوں کہا جائے گا کہ: زید نے کھایا، پیا، نماز پڑھی یا روزہ رکھا ، تو ان تمام مثالوں میں زید ایک ایسا فاعل ہے جس کے اختیار سے کھانا، پینا ،نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا ایسے اعمال صادر ہو رہے ہیں۔ اور جب یوں کہا جائے کہ: زید بیمار ہوا، یا زید فوت ہوا، یا زید کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوا، تو ان تمام مثالوں میں جو افعال (بیمار ہونا، مرنا وغیرہ) مذکورہ ہیں وہ زید کا فعل قرار نہیں پائیں گے ۔ بلکہ ایسے اوصاف یا احوال قرار پائیں گے جو زید کے ساتھ(بامر اللہ) لاحق و قائم ہوئے (جن میں زید کے ارادہ و مشیت کو کوئی دخل نہیں ہے ۔)

واضح ہو کہ افعال عباد کے تعلق سے اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ، جبریہ اور قدریہ کے گمراہ عقیدوں کے بین بین انتہائی اعتدال پرقائم ہے ۔ چناچہ قدریہ تو تقدیر کے سراسر منکر ہیں، جبکہ جبریہ نے تقدیر کے اثبات میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ بندے سے ہر قسم کے ارادہ و مشیت کو سلب کر کے رکھ دیا۔ جبکہ اہل السنۃ والجماعۃ اعمال کے تعلق سے بندوں کیلئے مشیت ثابت کرتے ہیں جبکہ اللہ رب العزت کیلئے مشیت عامہ کے اثبات کا عقیدہ رکھتے ہیں، وہ بندوں کی مشیت کو اس طرح تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی مشیت اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ) (التکویر:29)

ترجمہ:”اور تم بغیر پروردگارِ عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے "​

لہذا اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں اللہ تعالیٰ کی مشیت و مرضی کے خلاف کوئی چیز واقع نہیں ہوسکتی۔ یعنی جو چیز اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا وہ واقع ہوہی نہیں سکتی، بخلاف قدریہ کے جو کہتے ہیں: بندے اپنے تمام افعال کے خود ہی خالق ہیں اور بخلاف جبریہ کے جو کہتے ہیں کہ بندے اس قدر مسلوبِ ارادہ و مشیت ہیں کہ کسی بھی گناہ کے ارتکاب پر انہیں مستحقِ سزا قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ اس گناہ کے ارتکاب میں ان کے ارادہ و مشیت کو کوئی دخل نہیں۔

ہماری اس تقریر سے ایک سوال کا جواب آسان ہو گیا جو بار بار پوچھا جاتا ہے اور وہ یہ کہ: بندہ مسر ہے یا مخر؟

مخر سے مراد : جیسے اپنے افعال و اعمال پر اختیار حاصل ہو، اور مسر سے مراد جو ہر قسم کے اختیار، ارادہ اور مشیت سے عاری ہو، اور جس طرح چلایا جائے اسی طرح چلنے پر مجبور ہو۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نہ تو اسے مطلقاً مسر کہا جا سکتا ہے نہ مطلقاً مخر، بلکہ یوں کہا جائے گا کہ وہ اس اعتبار سے مخر ہے کہ اسے اپنے افعال کی انجام دہی میں مشیت و ارادہ حاصل ہے ، جس کی بناء پر اس کے تمام اعمال اس کا کسب قرار پاتے ہیں، چنانچہ وہ ہر نیک عمل پر مستحقِ ثواب، اور ہر بُرے عمل پر مستحق ِ عذاب ہے ۔ جبکہ بندہ اس اعتبار سے مسر ہے کہ ا س

سے صادر ہونے والا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی مشیت سے خارج نہیں بلکہ ہر عمل اللہ تعالیٰ کی مشیت ، ارادہ ، خلق اور ایجاد کے دائرہ میں ہے ۔

 

 

 

ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ سے حاصل ہوتی ہے

 

[10]: قولہ یضل من یشاء، فیخذلہ بعدلہ، ویھدی من یشاء فیوفقہ بفضلہ، فکل میسر بتیسیرہ الی ماسبق من علمہ وقدر ہ، من شقی او سعید۔

ترجمہ:”جسے چاہتا ہے ، بتقاضہ عدل گمراہ کر کے ذلتوں اور پستیوں میں پھینک دیتا ہے ، اور جسے چاہتا ہے ، بتقاضہ فضل ہدایت و توفیق سے سرشار فرما دیتا ہے ، لہذا ہر بدبخت یا نیک بخت پر، اللہ تعالیٰ کے علمِ سابق اور اس کی لکھی ہوئی تقدیر کے مطابق اس کی توفیق سے (بُرا یا اچھا) راستہ آسان کر دیا گیا۔”

شرح

ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ سے حاصل ہوتی ہے ​

ہر ہدایت یافتہ انسان کیلئے ہدایت ، اور گمراہ شخص کی گمراہی، اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ سے حاصل ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے بندوں کیلئے سعادت اور ضلالت کا راستہ بیان فرما دیا ہے ، اور انہیں زیورِ عقل سے بھی آراستہ فرما دیا جس کی مدد سے وہ نفع بخش اور نقصان دہ چیز میں تمیز کرسکیں، چنانچہ جو ہدایت کا انتخاب کر کے اس پر رواں دواں ہو گیا وہ ضرور بالضرور سعادتِ کاملہ کے عظیم صلہ کو حاصل کر لے گا۔ سعادت کی اس راہ پر چلنے میں بندہ کی مشیت و ارادہ کو پورا پورا دخل حاصل ہے ، اور بندے کی یہ مشیت و ارادہ مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ کے تابع ہے ، اور ہدایت کا یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان کے بہ سبب ہے ۔ اور جس شخص نے طریقِ ضلالت کا انتخاب کر کے اسے اپنا لیا وہ یقیناً شقاوت (بدبختی) کے گڑھے میں جا گرے گا، بندے کے گمراہی کے راستہ کو منتخب کرنے میں اس کی مشیت و ارادہ کو مکمل دخل حاصل ہے ، اور بندے کی یہ مشیت و ارادہ ، اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ کے تابع ہے ، اور شقاوت کا یہ معاملہ عدل کے بہ سبب ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(اَلَمْ نَجْعَلْ لَّه عَيْنَيْنِ وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَيْنِۙ ۔وَ هَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ) (البلد: 8-10)

ترجمہ:”کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہیں بنائیں۔ اور زبان اور ہونٹ (نہیں بنائے )۔ ہم نے دکھا دیئے اس کو دونوں راستے "​

نیز فرمایا:

(مَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَ مَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَه وَلِيًّا مُّرْشِدًا) (الکھف:17)

ترجمہ: "اللہ تعالیٰ جس کی رہبری فرمائے وہ راہِ راست پر ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے نا ممکن ہے کہ آپ اس کا کوئی کارساز یا رہنما پا سکیں”​

 

 

 

ہدایتِ ارشاد اور ہدایتِ توفیق میں فرق​

 

ہدایت کی دو قسمیں ہیں: ایک ہدایتِ ارشاد، دوسری ہدایت ِ توفیق

ہدایت ِ ارشاد: (جس سے مراد راہِ ہدایت کی دعوت دینا ہے ) سب کو حاصل ہے ، کیونکہ دین کی دعوت عمومیت کے ساتھ سب ہی کیلئے ہے ، اللہ تعالیٰ کے فرمان:

(وَ اِنَّكَ لَتَهْدِيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍۙ​) (الشوریٰ: 52)

ترجمہ: "آپ(ﷺ) صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دیتے ہیں”​

میں اسی قسم یعنی ہدایتِ ارشاد کا ذکر ہے ۔

ہدایتِ توفیق: (جس سے مراد راہِ ہدایت پر چلنے کی توفیق کا مسیر آ جانا ہے ) اس شخص کو حاصل ہوسکتی ہے ، جس کی ہدایت اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان میں اسی قسم کا ذکر ہے :

(اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ) (القصص: 56)

ترجمہ: "آپ(ﷺ) جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے "​

اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ان دونوں قسموں کو اس آیتِ کریمہ میں جمع فرما دیا ہے :

(وَ اللّٰهُ يَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ وَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ) (یونس: 25)

ترجمہ : "اور اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف تم کو بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہِ راست کی طرف ہدایت دیتا ہے "​

اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان:”وَاللہُ یَدعُواالیٰ دَار السَّلَامِ” میں دعوت ِ ارشاد کا ذکر ہے ، کیونکہ دعوت کے مخاطب تمام لوگ ہیں۔ ارادہ عموم کی وجہ سے مفعول محذوف ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ راہ نمائی تو سب کی کر دی گئی ہے ، مگر قبول کون کرتا ہے ؟۔۔ وہی ، جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیقِ ہدایت میسر ہو۔ اس بات کا ذکر اس آیتِ کریمہ کے دوسرے حصے میں فرما دیا: "ويَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ” یہاں مفعول ظاہر کر دیا تاکہ خصوص کا

فائدہ حاصل ہو جائے ، مقصد یہ ہے کہ ہدایت کی توفیق ان مخصوص افراد کو ملتی ہے جن کی ہدایت اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ۔

ہمارے شیخ محمد الأمین الشنقیطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب” فع ایھام الاضطراب عن آیات الکتاب” کے اندر سورۃ الشمس کی تفسیر میں دو حکایتیں ذکر فرمائی ہیں ، جن سے تقدیر کے مسئلہ میں معتزلہ کے مذہب کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے ۔

پہلی حکایت: فرماتے ہیں: جب امام ابو اسحا ق الاسفرانی نے معتزلی عالم عبد الجبار کے ساتھ مناظرہ کیا، تو اس موقع پر مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی۔

عبد الجباد معتزلی نے کہا : پاک ہے وہ ذات جو گناہوں سے پاک اور منزہ ہے ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مثلاً: چوری اور زنا وغیرہ بندے کی مشیت سے سرزد ہوتے ہیں ، ان کے سرزد ہونے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کو کوئی دخل حاصل نہیں، کیونکہ ان کے زعم میں اللہ تعالیٰ کی ذات اس بات سے کہیں بلند و بالا ہے کہ وہ گناہوں اور معصیتوں کی مشیت فرمائے ۔

ابو اسحاق نے فرمایا: یہ کلمہ حق ہے مگر مراد باطل ہے ۔ پھر فرمایا: پاک ہے وہ ذات جس کی بادشاہت میں صرف وہی کچھ ہو رہا ہے جو وہ چاہتا ہے ۔

عبد الجبار نے کہا: اگر وہ گناہوں اور معصیتوں کا خالق ہے تو پھر ان کے ارتکاب پر مجھے عذاب کیوں دے گا؟

ابو اسحاق نے فرمایا: اگر گناہ کا صدور (اللہ تعالیٰ کی مشیت کے برخلاف) تمہاری مشیت سے ہے ، تو پھر تمہاری مشیت اللہ تعالیٰ کی مشیت پر غالب آ گئی، اور اللہ تعالیٰ کی مشیت تمہاری مشیت کے سامنے بے بس ہو گئی، تو کیا تم رب ہو اور وہ بندہ؟

عبد الجباد نے کہا: بتاؤ اللہ تعالیٰ مجھے دعوت تو ہدایت کی دے لیکن اپنی مشیت سے میرے لئے فیصلہ گمراہی کا فرما دے ، تو یہ اس کی میرے ساتھ بھلائی ہے یا بُرائی؟

ابو اسحاق نے فرمایا: جس ہدایت کو اس نے تجھ سے منع فرما دیا، اگر تو اس کا مالک ہے تو پھر یقیناً اس نے بُرا کیا، اور اگر اس کا مالک اللہ تعالیٰ ہے تو پھر اس کا عطا فرما دینا فضل ہے اور منع فرما دینا عدل ہے ۔ اس پر عبد الجبار مبہوت اور لاجواب ہو گیا۔

تمام حاضرین عش عش کر اٹھے ، اور کہنے لگے ، واللہ! اس بات کا کوئی دوسر ا جواب ممکن ہی نہیں۔

دوسری حکایت: ایک اعرابی ، عمرو بن عبید کی خدمت میں حاضر ہوا، اور کہا: میری گدھی چوری ہو گئی ہے ، دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے لوٹا دے ۔

عمرو بن عبید نے یوں دعا کی: اے اللہ ! اس شخص کی گدھی چرا لی گئی ہے ، اور اس کے چرائے جانے میں تیری مرضی اور چاہت شامل نہیں، لہذا یہ گدھی اس شخص کو واپس لوٹا دے ۔

اعرابی نے کہا: اپنی یہ خبیث دعا بند کر دے ، اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہی تھا کہ گدھی چوری نہ ہو مگر پھر بھی چوری ہو گئی ، تو پھر ہوسکتا ہے کہ اس کا ارادہ تو لوٹانے کا ہو ، مگر وہ لوٹائی نہ جا سکے ۔

 

 

 

اللہ تعالیٰ کی بندوں پر سب سے بڑی نعمت

 

[13]: قولہ الباعث الرسل الیھم لاقامۃ الحجۃ علیھم۔

ترجمہ: "لوگوں پر حجت قائم کرنے کیلئے ، ان کی طرف رسول مبعوث فرمانے والا۔”

شرح

اللہ تعالیٰ کی بندوں پر سب سے بڑی نعمت​

(1) اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے انہیں صراط ِ مستقیم کی ہدایت دینے ، اپنے امر سے انہیں گمراہیوں کی تاریکیوں سے نکال کر نورِ ہدایت تک پہنچانے ، اور اس طرح ان پر اپنی حجت قائم کرنے کیلئے ان کی طرف رسول بھیج دیئے اور کتابیں نازل فرما دیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَۚ) (النحل:36)

ترجمہ: "اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور ہر طاغوت کا انکار کرو۔”​

نیز فرمایا:

(وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْۤ اِلَيْهِ اَنَّه لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ) (الأنبیاء: 25)

ترجمہ:”اور آپ سے قبل ہم نے جس رسول کو مبعوث کیا اس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے پس صرف اور صرف میری ہی عبادت کرو۔ "​

نیز فرمایا:

(رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَ مُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ) (النساء: 165)

ترجمہ : "ہم نے انہیں رسول بنایا ہے ، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ پر نہ رہ جائے "​

نیز فرمایا:

( وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ) (فاطر:24)

ترجمہ: "اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی ڈرسنانے والا نہ گزرا ہو”​

نیز فرمایا:

(وَ كَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِيٍّ فِي الْاَوَّلِيْنَ) (الزخرف: 6)

ترجمہ: "اور ہم نے اگلے لوگوں میں بھی کتنے ہی نبی بھیجے "​

 

 

 

تمام رسولوں پر ایمان لانا واجب ہے

 

تمام رسولوں پر ایمان لانا واجب ہے خواہ ان کا تذکرہ قرآن مجید میں ہو یا نہ ہو۔​

(2) رسولوں پر ایمان لانا اصولِ ایمان میں شامل ہے ، اسی طرح ایمان بالکتب بھی ایمان کا ایک اصل ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِيّنَۚ)(البقرۃ: 177)

ترجمہ:”ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر ، قیامت کے دن پر ، فرشتوں پر ، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو "​

نیز فرمایا:

(اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّه وَ الْمُؤْمِنُوْنَ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِه وَ كُتُبِه وَ رُسُلِه لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِه) (البقرۃ: 285)

ترجمہ:”رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مؤمن بھی ایمان لائے ، یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے "​

نیز فرمایا:

ّ(يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِه وَ الْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِه وَ الْكِتٰبِ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ يَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِه وَ كُتُبِه وَ رُسُلِه وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا)(النساء: 136)

ترجمہ : ” اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ پر، اس کے رسول(ﷺ) پر اور اس کی کتاب پر جو اس نے ا پنے رسول(ﷺ) پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل فرمائی ہیں، ایمان لاؤ! جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وہ تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا”​

حدیث ِ جبریل جو خاصی معروف ہے کے مطابق جب جبریلؑ نے رسول اللہﷺ سے ایمان کی بابت پوچھا ، تو آپﷺ نے فرمایا:”ان تؤمن باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخر وبالقدر خیرہ وشرہ

یعنی: "ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اور اس کی کتابوں پر، اور اس کے ر سولوں پر، اور روزِ آخرت پر اور تقدیر خواہ اچھی ہو یا بُری پر ایمان لاؤ”

یہ حدیث صحیح مسلم میں امیر المؤمنین عمر بن خطاب ؓ کی روایت سے موجود ہے ۔

(3) اللہ تبارک و تعالیٰ کے رسولوں میں سے کچھ تو وہ ہیں جب کا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے اندر ذکر فرما دیا اور کچھ وہ ہیں جن کا ذکر قرآن پاک میں موجود نہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان :

(وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ) (غافر: 78)

ترجمہ: "یقیناً ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے (واقعات) ہم آپ کو بیان کر چکے ہیں اور ان میں سے بعض کے (قصے ) تو ہم نے آپ کو بیان ہی نہیں کئے "​

جن انبیاء کرام کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے ، ان کی مجموعی تعداد پچیس(25) ہے ، چنانچہ سورۃ الانعام کے اندر(18) انبیاء کا ذکر ہے ، فرمایا:

(وَ تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَيْنٰهَاۤ اِبْرٰهِيْمَ عَلٰى قَوْمِه نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ اِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ۰ وَ وَهَبْنَا لَه اِسْحٰقَ وَ يَعْقُوْبَ كُلًّا هَدَيْنَا١ۚ وَ نُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِه دَاودَ وَ سُلَيْمٰنَ وَ اَيُّوْبَ وَ يُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَۙ وَ زَكَرِيَّا وَ يَحْيٰى وَ عِيْسٰى وَ اِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَۙ وَ اِسْمٰعِيْلَ وَ الْيَسَعَ وَ يُوْنُسَ وَ لُوْطًا وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِيْنَۙ) (الانعام: 83 تا86)

ترجمہ: "اور یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراھیم کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی، ہم جس کو چاہتے ہیں مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں۔ بیشک آپ کا رب بڑا حکمت والا بڑا علم والا ہے ۔ اور ہم نے ان کو اسحٰق دیا اور یعقوب ۔ ہر ایک کو ہم نے ہدایت کی اور پہلے زمانے میں ہم نے نوح کو ہدایت کی اور ان کی اولاد میں سے داؤ د کو اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں اور (نیز) زکریا کو اور یحیٰ کو اور عیسیٰ کو اور الیاس کو، سب نیک لوگوں میں سے تھے ۔ اور نیز اسمٰعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط کو اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی”​

اور باقی انبیاء جن کا ذکر دیگر مقامات پر موجود ہے ، یہ ہیں۔

محمدﷺ، آدم ، ھود، شعیب، صالح، ذوالکفل اور ادریس علیھم السلام

اس سلسلہ میں امرِ واجب یہ ہے کہ تمام انبیاء ومرسلین ، خواہ ان کا تذکرہ قرآنِ مجید میں ہو یا نہ ہو پر ایمان لایا جائے ، جس نے کسی ایک نبی کو جھٹلا دیا اس نے تمام انبیاء کا انکار کر ڈالا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ ا۟لْمُرْسَلِيْنَ۠) (الشعراء:105)

ترجمہ: "قومِ عاد نے بھی رسولوں کو جھٹلایا”​

نیز فرمایا:

(كَذَّبَتْ عَادُ ا۟لْمُرْسَلِيْنَ۠) (الشعراء: 123)

ترجمہ: "قومِ عاد نے بھی رسولوں کو جھٹلایا”​

نیز فرمایا:

(كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَۚ) (الشعراء: 141)

ترجمہ: "قوم ِ ثمود نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا”​

نیز فرمایا:

(كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ ا۟لْمُرْسَلِيْنَ) (الشعراء: 160)

ترجمہ: "قومِ لوط نے نبیوں کو جھٹلایا”​

نیز فرمایا:

(كَذَّبَ اَصْحٰبُ لَْٔيْكَةِ الْمُرْسَلِيْنَ) (الشعراء: 176)

ترجمہ: "أیکہ والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا”​

اب حالانکہ ہر قوم نے صرف اپنے رسول کی تکذیب کی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف تمام رسولوں کی تکذیب کی نسبت فرما دی ، اس میں نکتہ یہی ہے کہ ایک رسول کی تکذیب تمام رسولوں کی تکذیب ہے ۔

جو شخص ایک رسول پر ایمان لے آئے ، مگر کسی دوسرے رسول کی تکذیب کر دے تو وہ در حقیقت اس رسول کی بھی تکذیب کر رہا ہے جس پر وہ ایمان لانے کا دعویدار ہے ۔

 

 

 

نبی اور رسول میں فرق​

 

(4) جہاں تک نبی اور رسول میں فرق کا سوال ے تو اس سلسلہ میں مشہور قول تو یہی ہے کہ نبی وہ ہے جس کی طرف شریعت کی وحی کی گئی ہو لیکن وہ اس کی تبلیغ پر مامور نہ ہو، جبکہ رسول وہ ہے جس کی طرف شریعت کی وحی کی گئی ہو اور وہ اس کی تبلیغ پر بھی مامور ہو۔ لیکن بعض دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اور رسو کے مابین یہ فرق صحیح نہیں ہے ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(وَ كَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِيٍّ فِي الْاَوَّلِيْن​) (الزخرف: 6)

ترجمہ: "اور ہم نے اگلے لوگوں میں بھی کتنے ہی نبی بھیجے "​

نیز فرمایا:

(وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِيٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْۤ اُمْنِيَّتِه) (الحج: 52)

ترجمہ: "ہم نے آپ سے پہلے جس رسول اور نبی کو بھیجا ا س کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وہ اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا شیطان نے اس کی آرزو میں کچھ ملا دیا”​

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر نبی کی حقیقت باقاعدہ ایک مرسل اور مامور بالتبلیغ کی تھی۔

نیز فرمایا:

(اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌ١ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَآءَ) (المائدہ: 44)

ترجمہ : "ہم نے توراۃ نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور ہے ، یہودیوں میں اسی توراۃ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے انبیاء (علیھم السلام) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتا کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا اور وہاس پر اقراری گواہ تھے "​

یہ آیتِ کریمہ بڑی صراحت کے ساتھ دلالت کر رہی ہے کہ موسیٰ ؑ کے بعد جتنے بھی نبی اسرائیل کے انبیاء تھے وہ توراۃ ہی سے فیصلے فرمایا کرتے اور اسی کی طرف دعوت دیا کرتے تھے ۔ بناء بریں رسول اور نبی کے مابین فرق کے حوالے سے یوں کہا جا سکتا ہے کہ: رسول وہ ہے جس کی طرف شریعت کی وحی کی گئی ہو اور کوئی کتاب اتاری گئی ہو، جبکہ نبی وہ ہے جو بذریعہ وحی پچھلی رسالت کی تبلیغ پر مامور کر دیا جائے ۔ یہی فرق، ادلہ کے مطابق و موافق ہے ۔ البتہ یہاں ایک اشکال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ بعض مرسلین کو اللہ تعالیٰ نے نبی بھی کہا اور رسول بھی ۔

مثال کے طور پہ ہمارے پیارے پیغمبر محمدﷺ کو ایک مقام پر رسول کہہ کر مخاطب فرمایا:

(يٰۤاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ) (المائدۃ: 67)

ترجمہ: "اے رسو ل جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے "​

اور ایک مقام پر نبی کہا :

(يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ) (التحریم: 1)

ترجمہ: "اے نبی! جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے آپ کیلئے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضا مندی حاصل کرنا چاہتے ہیں”​

اسی طرح ایک مقام پر موسیٰ ؑ کو نبی اور رسول کہا :

(وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى اِنَّه كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا) (مریم: 51)

ترجمہ : "اس قرآن میں موسیٰ کا ذکر بھی کر، جو چنا ہوا اور رسول اور نبی تھا”​

اسی طرح اسمٰعیل ؑ کے بارہ میں فرمایا:

(وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ اِنَّه كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا) (مریم: 54)

ترجمہ: "اس کتاب میں اسمٰعیل کا واقعہ بھی بیان کر، وہ بڑا ہی وعدہ کا سچا تھا اور تھا بھی رسول اور نبی”​

ہمارے پیغمبر جناب محمدﷺ کو نبی اور رسول کہنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آغازِ امر میں آپ پر وحی تو نازل ہوئی ، مگر آپﷺ تبلیغ پر مامور نہ تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اپنے فرمان :

(يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ قُمْ فَاَنْذِرْ۪ۙ) (المدثر: 1-2)

ترجمہ: "اے کپڑا اوڑھنے والے ۔ کھڑا ہو جا اور آگاہ کر دے "​

کے ذریعہ تبلیغِ دین پر مأ مور فرما دیا۔ اسی لئے شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ نافعہ” الاصول الثلاثۃ” میں فرمایا ہے : آپﷺ کو” اقرأ” کی وحی کے ذریعہ نبی اور ” المدثر” کی وحی کے ذریعہ رسول بنایا گیا۔

اس تفصیل کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نبی کچھ وقت تبلیغ دین پر مامور نہیں ہوتا(جیسے آغازِ امر میں رسول اللہﷺ تبلیغ ِ دین پر مامور نہ تھے بعد میں تبلیغ کا حکم دیکر منصبِ رسالت پر فائز کر دیئے گئے ۔) یا کچھ عصہ شریعتِ سابقہ کی تبلیغ پر مکلّف و مامور ہوتا ہے ۔

٭٭٭

کمپوزنگ : ابوبکرالسلفی

ماخذ:

http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/%D8%A8%D9%86%DB%8C%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-%D9%85%D9%82%D8%AF%D9%85%DB%83-%D9%81%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%82%DB%8C%D8%AF%DB%83-%D9%84%D9%84%D9%82%DB%8C%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%B1%D8%AD-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88-%D8%AA%D8%B1%D8%AC%D9%85%DB%81.20744/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید