FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 برزخی اور دوسرے افسانے

 

 

عبد اللہ جاوید

 

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

 

ماخذ: عکاس انٹر نیشنل، عبد اللہ جاوید نمبر، شمارہ ۲۷، مدیر: ارشد خالد

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

 

 

جب کوئلیں چلّا رہی تھیں

 (محترمہ حجاب امتیاز علی اور جناب ظفر قریشی سے معذرت کے ساتھ)

 

بنڈی میں بیٹھ کر اس پہاڑی راستے کو طے کرنا۔ زہرہ کے پاؤں سن ہو گئے اور گھٹنے میں ٹیس ہونے لگی۔ چچا جان پر اسے بہت غصہ آیا، آخر ’ ’ گاؤں والے ہی ہیں۔ ‘‘ آم کھانے کا مزہ تو بھئی امر ئی میں آ تا ہے۔ اور یہ جو تپتی ہوئی گرمیوں کا مزہ بنڈی کے بے پناہ جھٹکوں میں آتا ہے وہ ان نگو ڑے آموں کے مزے سے کیا کم ہے۔ اور یہ حمیدہ کو دیکھو آرام سے بیٹھی ٹر ٹر کئے جا رہی ہے۔ اگر اپنی کہیں۔۔ ۔ اب کے بار جو یہاں آئی۔ ؟ تعطیلات گزارنے کے لئے ابا جان کو ایک کوہیر ہی ملتا ہے۔

’ ’ چچا جان تمہارے اصرار کر رہے ہیں دیکھنا زہرہ! یہ خط آیا ہے لکھ دیا ہے کہ تم امتحان ختم ہوتے ہی کوہیر پہنچ جاؤ گی ‘‘۔ رجمن اپنے با لوں کے گچھوں میں انگلیاں ڈالے جوئیں نکال رہی تھی۔ ہر ہر جھٹکے پر وہ ایک طویل جمائی لیتی۔ ایک آنکھ کھول کر کر کبھی زہرہ اور حمیدہ کو تاکتی پھر اونگھنے لگتی۔ زہرہ نے حمیدہ کی بات پر بغیر سنے ہوں، ہاں کرتے ہوئے سامنے کی بنڈی کی طرف دیکھا چچا جان ہاتھ نچا نچا کر اس سے بکواس میں مشغول تھے۔۔ وہ۔۔ جس کا نام لیتے ہوئے نجا نے زہرہ کیوں لال لال ہو جا تی تھی۔ وہ سبز دھاریوں دار قمیص اور کشمشی رنگ کے پتلون میں۔۔ کیا اچھا لگ رہا تھا !۔ لیکن دونوں ایک ہی آفت میں گرفتار۔۔ ۔ وہ کبھی تھکا تھکا چچا جان کی بک بک سے نظر آتا تھا۔ ہر نئے جھٹکے پر اس کی اونچی پیشانی پر تین لکیریں سج جاتیں، لب سکڑ کر کچھ ٹیڑھے ہو جا تے۔

چچا جان اسے کتنا چاہتے ہیں جیسے کوئی سگے بیٹے کو پیار کرتا ہو۔ کہتے ہیں بے آسرا ہونے کی وجہ سے چچا جان نے اسے گود لے لیا تھا۔ اسے نجانے کیون یہ خیال برا لگا۔ ’ ’ لیکن کتنا خوبصورت ہے ! جب مسکرانے میں یا شوخی کی کوئی بات کرنے میں اس کے لب کچھ تر چھے ہو جا تے ہیں اور پتلے پتلے ہونٹوں پر مسکرا ہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ ‘‘ نجانے کیوں اس کی پلکیں تھر تھرانے لگیں۔ رخسار سرخ ہو گئے۔ کوری نگاہ سے اس نے حمیدہ کی طرف دیکھا وہ بڑے افسوس میں گائے کے بچھڑے کی موت کا واقعہ سنائے جا رہی تھی۔ وہ پھر ہوں ہوں، ہاں ہاں کرنے لگی۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

گھاس کی چھپر تھی وہ سب آم چوستے بیٹھے تھے۔ اب امرئی اس کو جنت کا ایک ٹکڑا معلوم ہو رہی تھی۔

’ ’ سارے دکن میں ایسے آم نہیں ملیں گے۔ ‘‘ چچا جان نے آم رس میں اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو تر کرتے ہوئے کہا۔ اس نے بھی شفیق کے ساتھ ہاں میں ہاں ملا دی۔

رجمن جو بغیر ادھر ادھر دیکھے گٹھلی چوسنے میں محو تھی اب، کاہل، اونگھنے والی منحوس نظر نہ آئی۔ اس نے تو چھپر تلے صفا ئی کر کے دری بچھائی تھی۔

’ ’چچا جان شفیق کا کتنا خیال رکھتے ہیں، کیسے اچھے ہیں یہ چچا جان، یہ گاؤں بڑے ہی اچھے ہو تے ہیں۔ ‘‘ ایک دم اس کی نظریں شفیق پر پڑیں جو شرمائے جا رہا تھا۔ ’ ’ شفیق بھی تو گاؤں والا ہی ہے۔۔ کیسی بھولی بھالی باتیں کرتا ہے۔۔ یہ کالج میں کس طرح پڑھتے ہیں۔۔ ۔ اتنے شرمیلے۔۔ نجانے ساتھی انہیں کتنا تنگ کرتے ہوں گے۔ ‘‘ وہ سوچے جا رہی تھی۔ حمیدہ اپنے آموں میں مشغول گائے کے بچھڑوں، مرغیوں اور کھیتوں کو بھول گئی تھی۔۔ ۔۔ ۔

دھوپ کی تیزی رخصت ہو گئی تھی شام کی دلہن شرم سے سرخ سرخ آسمان کے مغربی کونے پر سمٹتی جا رہی تھی۔ رجمن اور حمیدہ آم کے پیڑ پر جھولے کے لئے رسی باندھ رہی تھیں، وہ یونہی ایک طرف آہستہ آہستہ چلنے لگی۔ چچا جان کی امرئی خاصی تفریح گاہ تھی۔ دور جانے کے بعد وہ ایک چھوٹی سی چٹان پر بیٹھ گئی۔ کالج، سہیلیاں، ابا جان اور شرمیلا شفیق اس کے دھندلے تصورات کے موضوع تھے۔ اچانک شفیق ایک طرف سے دبے پاؤں آیا۔۔ کچھ دیر ٹھٹکا پھر اس کی آنکھوں کو پیچھے سے میچ لیا۔ اس نے کہا ’ ’ حمیدہ، حمیدہ ‘‘۔ لیکن ایک دم سے اسے لانبی لانبی سخت انگلیوں کا احساس ہوا۔ وہ کچھ شرمائی، لیکن ایک نا معلوم احساس کے ساتھ اس نے کہا

’ ’ شفیق صاحب! مہربانی فرما کر ہاتھ ہٹائیے میری آنکھیں دکھ رہی ہیں۔ ‘‘ ہاتھ ہٹ گئے، شفیق اس کے سامنے آ بیٹھا۔ زہرہ کو آنکھ ملانے کی ہمت نہ ہوئی۔ شفیق نے کہا ’ ’ آپ خفا ہو گئیں کیا ؟۔ زہرہ خاموش رہی۔۔ ۔ ’ ’ یقین مانئے میں سخت نادم ہوں ‘‘۔ شفیق کے لہجے سے ندا مت ٹپک رہی تھی۔ تب بھی زہرہ یونہی دھیرے دھیرے اٹھنے والی شفیق کو دیکھ رہی تھی۔ شفیق اس کی طرف کھسکا، اس نے کہا

’ ’ زہرہ ! خدا کے لئے کچھ تو کہو ‘‘۔ کسی قوت نے اس کو شفیق کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا۔ شفیق کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے تھے۔ زہرہ کھو سی گئی۔۔ ۔ اور۔۔ ۔۔ شفیق کے چوڑے سینے پر سر رکھے وہ بھی دیر تک روتی رہی۔۔ نجانے کیوں۔ شفیق نے کہا ’ ’میری زہرہ، میری اچھی زہرہ۔ ‘‘ زہرہ کا جی چاہا کہ وہ بھی کچھ کہے۔ کسی نے کہا ’ ’ وہ بے آسرا ! پا لکڑا ! اس کی یہ مجال کہ تجھ سے ایسی باتیں کرے۔ زہرہ ! اٹھ نا۔۔ ۔ یہاں سے۔۔ ۔ اور اسے جھڑک دے ‘‘لیکن وہ شفیق کا سہارا لئے یونہی نیم دراز رہی۔

اب شفیق کی خاموشی۔ شرم نجانے کہاں تھی وہ دھیمی آواز میں باتیں کئے جا رہا تھا جیسے دور کوئی میٹھے سروں میں گا رہا ہو۔ زہرہ نیم وا آنکھوں سے شفیق کو دیکھ رہی تھی۔ شفق۔۔ اور شفیق۔۔ ۔ دنیاس میں یہی دو عجیب اور حسین چیزیں اب تک نظر آئیں۔ اتنے میں آم کے پیڑ پر کوئی کوئل کوکنے لگی۔ شفیق نے کہا ’ ’ یہ کوئل بھی کیا سست آواز میں کوکتی ہے۔ ‘‘

شام ہو چکی تھی، سیاہی چھا رہی تھی۔ دونوں بمشکل اٹھے اور چھپر کی طرف چلنے لگے۔ بنڈیاں گھر کی طرف لوٹ رہی تھیں دھیرے دھیرے سست چال سے۔ ’ ’ یہ جھٹکے ہی زندگی کی جان ہیں۔ ‘‘ پہیوں کی گھڑ گھڑاہٹ پرسکون چاندنی رات میں، کسی تھکے ہوئے مسافر کے سست گیت کی مانند سمع نوازی کر رہی تھی۔ آم کے پیڑوں پر کوئلیں مدھ بھرے گیت الاپ رہی تھیں۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

دو سال بعد جب زہرہ انٹر کے آخری سال کا امتحان ختم کر کے کوہیر آئی تو اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ شفیق کا امتحان ختم ہو گیا تھا اور وہ ابھی سے ملازمت کی دوڑ دھوپ میں مصروف تھا۔ اور شاید اسی لیئے وہ باغ میں نہ آ سکا تھا جہاں وہ روز شام اس کا انتظار کیا کرتی۔

آخر وہ۔۔ ۔ امتحان ختم ہوتے ہی کو ہیر پہنچی جہاں شفیق سے ملنے کی امید تھی۔ اسے بہت کچھ کہنا تھا کہ اس کی زہرہ کو کسی دوسرے کو بیاہا جا رہا ہے۔ لیکن وہ نہ ملا۔ زہرہ نے کالج کے پتے پر خط لکھا۔ اور اس کے ایک دلی دوست کے پاس دوسرا خط ’ ’کہ وہ جلد سے جلد آئے۔ ‘‘

زہرہ، حمیدہ اور اس کی شوخ سہیلیاں ایک بنڈی پر چچا اور رجمن دوسری بنڈی پر چلے جا رہے تھے۔ وہ مستقبل کے دھندلے، دھندلے، سہمے، سہمے سایوں کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتی ہوئی، بنڈی کے جھٹکوں، حمیدہ اور اس کی سہیلیوں کی چھیڑ چھاڑسے بے خبر بیٹھی تھی۔ اسے یہ نہ محسوس ہوا کہ کب وہ امرئی پہنچی اور کس طرح اس سے وہ پھیکے پھیکے بے مزہ آم کھائے گئے۔

حمیدہ اور اس کی سہیلیاں جھولا جھول رہی تھیں وہ دبے پاؤں ایک طرف کو چلی۔ پاؤں خود بخود اٹھ رہے تھے۔ آخر وہ ان چٹانوں کے پاس پہنچی جہاں پہلی دفعہ دونوں نے ترالی زبان میں باتیں کی تھیں۔ چٹان پر سر رکھے وہ سوکھی سوکھی گھاس پر نیم دراز تھی۔ شفق تاریکی میں سہم کر سمٹتی جا رہی تھی۔ ’ ’ آہ شفیق ! اب کیا ہو گیا ہے۔ ؟ شفق بے بس اور مجبور ہے، اندھیرا اسے فنا کر کے چھوڑے گا۔۔ ۔۔ وہ آ خر اندھیرے میں ختم ہو جائے گی۔۔ ۔ تم ایک کلرک سے ترقی کر کے ناظم ہو سکتے ہو، تم محل بنا سکتے ہو۔۔ ۔ لیکن شفیق !کیا تم پالکڑے کہلائے جانے سے بچ سکتے ہو۔۔ ۔ ؟ آہ! یہ ظالم پالتے ہیں معصوم پر ترس کھا کر لیکن تمام عمر کے لئے ایک داغ دے دیتے ہیں۔ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ وہ یتیم اور بے کس کو یونہی چھوڑ دیتے۔۔ ۔ مرے یا جئے، لیکن پالکڑے کے گھناؤنے نام سے تو بچ جاتا۔ آہ ! یہ ظالم سماج۔۔ ۔ اف ! یہ ابا جان سمجھتے ہیں کہ اس جاگیردار کے یہاں ان کی بیٹی لاڈ و پیار میں رہے گی۔ ‘‘

اتنے میں کوئل کوکنے لگی کسی اپنے شفیق کی یاد میں۔۔ ۔ د ل میں چبھ جانے والا غمگین گیت۔ بنڈیاں پھر وہی کرخت گڑ گڑ اہٹ کے ساتھ گڑھوں اور ٹیلوں کو طے کر رہی تھیں۔ دور کوئلیں غمگین گیت گا رہی تھیں۔۔ ۔۔ ۔

اس کا موٹا بھدا شوہر آم پر آم چوسے جا رہا تھا، چچا جان اس سے بکواس میں لگے ہوئے تھے، ’ ’ آج پورے دس سال گزرے آج پھر آم کھانے کا مزہ آ رہا ہے۔ ‘‘

’ ’جی ‘‘۔

’ ’ چھٹپن سے یہ زہرہ ہر سال گرمیوں میں یہاں آتی تھی۔ ‘‘ ’ ’ جی ہاں ‘‘

’ ’ یہاں کے جیسے آم کم ملتے ہیں ‘‘ ’ ’ جی ہاں بے شک ! ان آموں کا کیا کہنا۔ ‘‘ زہرہ بڑے بچے کے لیئے آم رس نکال رہی تھی۔ شام کا وقت قریب تھا، اس نے ایک نظر چاروں طرف دیکھا، حمیدہ بیوگی کے سفید لباس میں اپنی شوخیوں کی جیتی جاگتی لاش۔ ! بوڑھی رجمن اپنے پوپلے منہ سے گٹھلی کا ریشہ چوسنے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔ وہ اٹھی۔۔ غیر ارادی طور پر چٹانوں کی طرف چلنے لگی، قدم لڑ کھڑا رہے تھے، دل دھڑک رہا تھا جیسے وہ کوئی گناہ کر رہی تھی۔ جیسے کسی قوت نے اسے بٹھا دیا، ملگجی رنگ کے پتھر اور سوکھی سوکھی گھاس۔ شفق آسماں سے غائب ہو گئی تھی۔ اچانک کوئل کی کوک فضا میں لرز گئی۔ آہ شفیق ! تم بھی اس شفق کی مانند تاریکی میں کھو سے گئے۔ میرے بیاہ اور تمہارے غائب ہونے کا دن اب تک ان ظالموں کے تجسس اور تعجب کا مرکز ہے۔ وہ بے سدھ چٹان پر بیٹھی پھٹی پھٹی نظروں سے خلا میں گھور رہی تھی کسی نے اس کی آنکھیں میچ لیں، اس نے نرم نرم انگلیوں کو ہٹا یا، اس کا بڑا بیٹا اسے ڈھونڈنے آیا تھا۔ ’ ’امی جان آپ کو ابا میاں پوچھ رہے ہیں۔ ‘‘ ’ ’چلو آؤ چلیں۔ ‘‘ وہ بمشکل اٹھی۔ دو گرم گرم آنسو اس کے رخساروں پر ڈھلک گئے۔ بچے نے پو چھا ’ ’ امی جان ! دیکھئے کوئل کوک رہی ہے، کیسی اچھی آواز ہے۔ ‘‘ وہ سر سے پیر تک لرز گئی۔ اس نے بمشکل کہا۔ ’ ’ نہیں سلیم اس کی آواز تو اچھی نہیں۔ ‘‘

’ ’ پر امی جان ہماری اردو کتاب میں تو اس کی تعریف ہے۔ ‘‘ سلیم نے رکتے رکتے کہا۔

’ ’ نہیں تو۔۔ یہ سب فضول بکواس ہے۔ کوئلیں بس چلّا تی ہیں، چیختی ہیں۔ ‘‘ جیسے وہ اپنے آپ سے کہہ رہی تھی۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

بوڑھی رجمن آنکھیں میچے سر کھجا رہی تھی۔ حمیدہ آنکھیں پھاڑے۔۔ ۔ فضا میں نجانے کیا ڈھونڈھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

سامنے کی بنڈی پر اس کا شوہر اور اس کا بوڑھا چچا بغیر تھکے بک بک کئے جا رہے تھے۔ اور اس چاندنی رات میں بنڈی کے پہیوں کی گڑ گڑا ہٹ۔۔ ۔ وحشیوں کے خونی گیت کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔

اس کا چھوٹا بچہ بنڈی کے ہر ہر جھٹکے پر اس کی گود میں اس سے چمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔ ۔۔

دور آم کے پیڑوں پر کوئلیں چلّا رہی تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

اللہ میاں

 

عہدِ طفلی تو نہیں کہوں گا البتہ بچپن ہی سے حیدر آباد کے جس چہرے سے مجھے واسطہ پڑا وہ مسجدوں والا حیدر آباد تھا۔ اس حیدر آباد سے میرا تعارف میرے والد کی وساطت سے ہوا وہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مسجدوں کے ہو رہے تھے۔ میں ان کی انگلی پکڑ کر مسجد جاتا تھا۔ پہلی بار مسجد جانے کا واقعہ اب بھی ہوتا رہتا ہے۔ چھوٹی سی خوبصورت عمارت۔ گھروں اور بنگلوں سے بالکل مختلف۔ چھت تو بالکل ہی بدلی ہوئی۔ ہرے رنگ کا گول گنبد جس کے بیچوں بیچ سنہرے رنگ کا کلس جو سورج نکلنے سے قبل کی نیم روشن، نیم تاریک شبنمی فضا میں، میرے بچگانہ ذہن میں ایک انجانا خوف پیدا کر رہا تھا۔ اس عمارت کی ایک اور امتیازی خصوصیت، اس کے بلند و بالا مینار تھے۔ جو شاید آسمان کو چھونے کی انسانی خواہش کا استعارہ تھے۔ اس وقت تک اللہ میاں کے بارے میں میری معلومات کچھ یوں تھی کہ وہ آسمانوں میں کسی جگہ، کسی اونچے تخت پر بیٹھتے ہیں۔

تخت پر ہی نہیں بلکہ تخت پر بچھی کسی شاندار کرسی پر اور نورانی فرشتے ہمہ وقت ان کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں۔ میں ان کے گھر میں داخل ہو رہا تھا۔ والد کے ساتھ کے باوجود، میں ڈرسے کانپ رہا تھا۔ جس دروازہ سے ہم دونوں باپ بیٹے داخل ہوئے وہ عام دروازوں سے قدرے کشادہ تھا۔ اس کا ایک پٹ کھول دیا گیا تھا۔ ایک ہنوز بند تھا۔ مسجد یعنی اللہ کے گھر کا صحن سنگ سیلو کا تھا۔ دروازے کے پاس ہی ایک کیاری سی تھی۔ اس کیاری میں موٹا خوب تناور جنگلی بادام کا درخت اپنی موٹی موٹی شاخیں اور پتلی پتلی ٹہنیاں مسجد کی چھت سے بھی بلند تر فضا میں چاروں اور پھیلائے کھڑا تھا۔ ان ٹہنیوں میں لمبے چوڑے اور دبیز دبیز پتے لگے ہوئے تھے اور جگہ جگہ موٹے موٹے ہرے جامنی دھبوں والے بادام دیکھنے والوں کی نظروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے تھے۔ چند ایک نیچے بھی گرے پڑے تھے، وہ پھٹے پھٹے تھے۔ ان کا اندر کا سرخ، جامنی، سخت لیکن رس بھرا ریتہ باہر جھانک رہا تھا۔ اندر داخل ہو کر میں نے اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھا۔ میری آنکھیں اللہ میاں کو تلاش کر رہی تھیں۔ ان کا کہیں پتہ نہ تھا۔

دروازے کے بالکل قریب جوتے اتار کر چھوڑنے ہوتے تھے۔ والد نے اپنی چپلی اتار دی تھی۔ میں کھڑا رہا۔ میرے جوتے والد صاحب نے اتارے اور اپنی چپلیوں کے ساتھ رکھ دئیے۔ بالآخر ہم دونوں صحیح معنوں میں اللہ میاں کے گھر میں داخل ہو گئے۔۔ ننگے پاؤں۔۔ اللہ میاں کو جوتے شاید اس لئے پسند نہ تھے کہ ان کے تلووں کے ساتھ مٹی اور گندگی ان کے گھر آ جاتی، اللہ میاں کو گندگی پسند نہیں تھی۔ وہ صفائی پسند تھے میری والدہ کی مانند۔ دروازے کے پاس ایک بانس سے لپٹی ہوئی چنبیلی کے پھولوں کی ایک بیل تھی۔ ہرے رنگ کی اس بیل پر سفید کلیاں لگیں تھیں۔ کھلی بھی، ادھ کھلی بھی اور بند بھی۔ مجھے پھول پیارے لگتے تھے۔ ہر طرح کے پھول۔ مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ اللہ میاں کو بھی پھول پسند ہیں۔۔ ۔ اللہ میاں کی اور میری پسند ایک سی ہے۔۔ ۔ میرے بچہ ذہن نے سوچا۔ تو کیا اللہ میاں میرے جیسے ہیں۔۔ ؟۔۔ میری سوچ ایک قدم اور آگے بڑھی۔۔ نہیں اللہ میاں میرے جیسے نہیں ہو سکتے۔۔ ۔ سب کہتے ہیں وہ بہت بڑے ہیں۔۔ تو پھر مجھ جیسے کس طرح ہو سکتے ہیں۔۔ ؟۔۔ میں تو ابھی ایک بچہ ہوں۔۔ ۔ میں نے اپنی بچگانہ سوچ کی نفی کی اور ایک بار پھر اپنے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ اللہ میاں دکھائی نہیں دئیے۔ ایک جانب پانی کے دو مٹکے تھے۔ وضو کرنے کی جگہ تھی، وہاں ایک ادھڑ عمر کا آدمی وضو کر رہا تھا۔ ایک بے حد موٹا آدمی تسبیح ہاتھ میں لٹکائے ٹہل رہا تھا۔ دو چار آدمی صحن سے اندرونِ مسجد جا رہے تھے۔ میں نے سوچا۔۔ اللہ میاں اندر ہوں گے۔۔ ۔ والد کے پیچھے پیچھے میں بھی اندر چلا گیا۔ اندر صفیں بچھیں تھیں۔ دور ایک بڑی سی محراب تھی اس کے قریب ایک چوبی منبر تھا۔ محراب کے پاس سفید ململ کا کُرتا اور آسمانی رنگ کی چار خانہ تہبند پہنے ہوئے ایک پھیلے پھیلے بدن کے گورے چٹے آدمی بیٹھے ہوئے تھے، والد صاحب نے ان کو سلام عرض کیا اور مجھے ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ وہ اللہ میاں ہر گز نہ تھے۔ مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ میاں آدمیوں جیسے نہیں ہوتے۔ اور یہ تو آدمی تھے۔ لوگ ان کو بغدادی صاحب کے نام سے مخاطب کر رہے تھے ٹوٹی فصیل، سلطان پورہ، نور خان بازار میں واقع وہ مسجد بھی بغدادی صاحب کی مسجد کہلاتی تھی۔ بغدادی صاحب نے میرے سر اور کندھوں پر اپنے دونوں موٹے موٹے گوشت بھرے ہاتھ پھیرے۔ وہ ہاتھ بے حد نرم تھے جیسے ربر کے بنے ہوں۔ بغدادی صاحب خود بھی ربر کے بنے ہوئے تھے۔ ایک بڑے سے گُڈے لگتے تھے۔ انہوں نے مجھے سامنے بٹھایا اور میرے چہرے اور سر پر کچھ پڑھ کر پھونکا۔ پاس رکھی ہوئی ایک سفید رنگ کی طشتری میں کچھ کھجوریں تھیں۔ بغدادی صاحب نے اس طشتری سے ایک کھجور اٹھائی اپنا منہ تھوڑا سا کھولا اور نصف کے قریب کھجور اپنے دانتوں سے بڑی چترائی سے کتری اور باقی آدھی میرے منہ میں گھسیڑ دی۔ ان کے منہ کی کھجور کو میں برداشت نہ کر سکا اور فوراً تھوک دیا۔

” کندراتا ہے "بغدادی صاحب کی زبان سے نکلا۔ میری اس حرکت سے والد صاحب کو ندامت ہوئی۔ انہوں نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ ڈال دئیے اور مجھ کو اٹھا کر باہر لے گئے۔ کچھ دیر بعد اذان شروع ہوئی اور نمازی صف بستہ ہونے لگے۔ کسی نمازی نے مجھے اپنے پہلو میں کھڑا کر لیا اور اس طرح میں نے اپنی زندگی کی پہلی با جماعت نماز ادا کی۔ وہ بھی اس طرح کہ سب کو دیکھ کر ان کی نقل میں رکوع و سجود کرتا اٹھتا، بیٹھتا رہا۔ اس تجربہ سے مجھ پر یہ راز افشا ہو گیا کہ اللہ کے گھر میں، اللہ کے بندے اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ لیکن اس گھر میں اللہ میاں نہیں ہوتے۔ مجھے بے حد مایوسی ہوئی تھی۔ یہ ایک طرح کی زیادتی تھی۔۔ ۔ صاف۔۔ صاف۔

ایک انجانے خوف کے باوجود جو میرے ننھے سے وجود کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھا۔ میں اللہ میاں کو دیکھنے کے لئے بے تاب ہو رہا تھا۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ ابّا جان مجھے اللہ میاں کے گھر لے جانے والے ہیں۔ میں بے حد خوش تھا۔ بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اللہ کے گھر میں اللہ میاں کو نہ پا کر۔۔ میں اتنا ہی اداس ہو گیا تھا۔ ایسے وقتوں میں میرا معمول تھا کہ میں خوب روتا اور بسورتا تھا۔ زمین پر ٹانگیں گھس گھس کر اپنی مطلوبہ چیز مانگتا۔ گھر کے اندر داخل ہوتے ہی میں سیدھا دالان کے اس گوشے میں پہنچا جہاں بیٹھ کر یہ سب کچھ کرنے کا عادی تھا۔ میں وہاں بیٹھ تو گیا لیکن کوشش کے باوجود نہ تو اپنی مخصوص۔۔ ریں۔ ریں۔۔ شروع کر سکا اور نہ ہی ٹانگیں گھِسنے میں کامیاب ہو سکا۔ میرے حلق سے ریں۔۔ ریں۔۔ کی آواز ہی نہیں نکل رہی تھی میں نے سوچا یہ مجھے کیا ہو گیا۔۔ ؟۔۔ میں اپنی معمول کی ریں۔۔ ریں۔ کرنے میں کیوں ناکام ہو رہا ہوں۔

اچانک میں نے حیرانی سے یہ محسوس کیا کہ اندر ہی اندر مجھے کچھ ہو رہا ہے۔ میں کسی کو آواز دے رہا ہوں۔ میں بلک بلک کر پکا رہا ہوں۔ اللہ میاں۔۔ !۔ اللہ میاں۔۔ !۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ روتے روتے میں نے اسی طرح دالان کے فرش پر سر ٹکا دیا جیسے اللہ میاں کے گھر میں لوگ نماز کے دوران کر رہے تھے۔ سجدے کی حالت میں اللہ میاں کو پکارتے۔۔ بغیر آواز کے لیکن آنسوؤں سے روتے۔ میں جانے کب سو گیا یا غافل ہو گیا۔ مجھے یاد نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نہ ہی خواب میں اور نہ ہی میری غفلت کی حالت میں مجھے اللہ میاں دکھائی دئیے۔ کروڑوں برس پہلے جب پہلی مرتبہ آدمی نے اللہ کا گھر بنایا اور پھر بناتا ہی چلا گیا۔ میں اپنے کسی بزرگ کی انگلی تھام کر اللہ میاں کے ہر نئے گھر میں برابر جا رہا ہوں۔ اور اللہ کے گھر میں، اللہ کو نہ پا کر مایوس لوٹ رہا ہوں۔ پھر کسی اور جگہ اور وقت۔۔ ۔ کسی اور اللہ کے گھر میں جانے کے لئے۔

٭٭

 

’ ’لکھنے کے لئے ایک اضطراب اور بے چینی بہت ضروری ہے۔۔ ۔۔ کشف کے بڑے سے بڑے تجربے کے بعد بھی ایک کسک، ایک بے چینی تو موجود رہتی ہے۔ لکھنا بھی ایک مکاشفہ ہی ہے۔ لکھنے والا مطمئن ہو جائے تو صورت حال کا غلام بن جاتا ہے۔ اس کے اندر دربار داری پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اپنے لفظوں سے وہی کام کرتا ہے جو بھانڈ اپنی حرکتوں سے کرتا ہے۔ تفریح اور حظ آفرینی میں ایک فرق ہے۔ لکھنے والا اپنی ہر تحریر میں خود موجود ہوتا ہے۔ میں اپنے ہر کردار کے اندر بھی ہوں اور اس سے باہر بھی۔ ایک اضطراب مجھے لئے لئے پھرتا ہے ‘‘

اقتباس از تمنا بے تا بخود نوشت ڈاکٹر رشید امجد صفحہ نمبر ۲۷۵

٭٭٭

 

 

 

شکریہ میرے مہر باں ! !

 

قریب قریب ہر روز جولیاؔوارڈا پنی عیادت اور مزاج پر سی کے لئے آ نے والوں کو طرح طرح کے دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کر تی کہ یہ جو اس نے مرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ درست ہی نہیں، با جواز ہی نہیں، بلکہ نظریۂ ضرورت کے عین مطابق ہے۔ ان دلائل کی تعداد میں روز بروز اضافہ جاری تھا۔ آج تک جتنے دلائل اس نے آزما لئے ان کی تعداد سو تک تو پہنچ گئی ہو گی۔ لیکن کسی ملنے والوں یا قرابت داروں نے اس کی کسی بھی دلیل کو تسلیم کرنا تو در کنار توجہ سے کان دھرنے کے لائق بھی نہیں ما نا جیسے ہی وہ بات شروع کرتی لوگ اس کے ہونٹوں پر انگلیاں رکھ کر اس کا منہ بند کر دیتے تھے یا اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالنے لگتے۔

ادھر جو لیاؔ  روز بروز اپنے اس ارادے میں اٹل ہو تی جاتی کہ اسے جلد از جلد عدالت سے رجوع کر کے خودکشی کرنے کی قانونی اجازت حاصل کرنی چاہیئے۔ اس کا مذہب خود کشی کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اس نے چند ایک پادریوں سے اچھی طرح بحث مباحثہ کر لیا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ دوسرے مذاہب کا موقف بھی خود کشی کے معاملے میں ایسا ہی ہے۔

جب اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا نے کا خیال کیا تو اس کی ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا ’ ’ جولی ! ایسا لگتا ہے تمہیں کہیں سے کو ئی فالتو رقم مل گئی ہے اور تم اس کو فضول خرچ کرنا چاہتی ہو۔ اگر واقعی ایسا ہے تو تم مجھ مسکین کو عیش کرا دو۔ ‘‘

’ ’ ایملیؔ میری جان، کیسی فالتو رقم، کیسی فضول خرچی، اب تو یہی وِش کرو کہ عدالت میری درخواست مان لے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر جولیؔ کے ضبط کا پیمانہ چھلک گیا اور وہ آواز سے رونے لگی۔ ایملیؔ بھی اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی اور اس نے جولیؔ کے چہرے کو اپنے آ نسوؤں سے دھو دیا۔ کچھ وقت ان دو جسموں نے ایک دوسرے کو یگانگت کی سرشاری میں ڈبو یا پھر جدا ہو گئے۔ ایملیؔ  اپنی دنیا میں لوٹ گئی اور جولی اپنے بیمار جسم کے زنداں میں۔

ڈاکٹر ہی نہیں خود جولیؔ بھی جانتی تھی کہ اس کا مرض اے ایل ایس لا علاج ہی نہیں ترقی پذیر بھی ہے۔ وہ اس کے جسم کے اندر اور با ہر کو مغلوب، بے جان اور بے حس کرتا ہوا آہستہ آہستہ نیچے سے اوپر کی جا نب رینگ رہا ہے۔ اس جسم کے ساتھ وہ گھنٹوں اکیلی پڑی رہتی۔ اس کے پیا رے اس سے دور ہو تے جا رہے تھے۔ لیکن اس کا جسم اسے چھوڑنے پر مائل ہی نہیں ہوتا تھا۔ جولیاؔ اور اس کے جسم میں بہت پرانا اور مضبوط یارانہ تھا دونوں ایک دوسرے کے ہر اچھے اور برے راز سے واقف تھے اور پردہ دار بھی۔ لوگ دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ جولیا نے دنیا کو اپنے بدن سے دیکھا، چھوا، چکھا، سونگھا اورمحسوس کیا تھا۔ بیماری کی گرفت میں آنے سے قبل وہ بدن ہی تو تھی۔ اسکول کی نمبر ون ایتھلیٹ، والی بال کی سب سے اچھی کھلاڑی اور ٹیم کی کپتان۔ کالج اور یونیورسٹی کی مایہ ناز کھلاڑی اور کلر ہولڈر جیتے ہوئے کپوں اور ٹرافیوں سے اس کا کمرہ بھرا ہوا ہوتا تھا۔ اس کے بدن نے اس کو فخر و امتیاز کی بلندیوں تک پہنچا یا تھا۔ اچھی ایتھلیٹ اور کھلاڑی لڑکیوں کے بدن اکثر مردوں جیسے ہونے لگتے ہیں لیکن کیوبک کی اس قا تلہ کے بدن نے ایسا نہیں کیا اس کا ایک ایک عضو، ایک ایک رواں، عورت ہونے کا ثبوت دینے کے ہر مرحلے پر بھی نمبر ون رہا۔ لذت لینے میں بھی اور لذت دینے میں بھی۔ جو لیاؔ نے اپنے ناف سے نیچے والے بدن کا خیال کر کے ایک پھیکی ہنسی کو اپنے لبوں سے گالوں تک پھیلتے محسوس کیا اور اس طرح اپنے آپ پر طنز یہ خود ترسی کرتے ہوئے اپنے با لا ئی بدن کو برہنہ کر کے اپنی ہتھیلیوں سے محسوس کرنے لگی۔ اس کا پیٹ ابھی تک چپٹا تھا اس کی جلد زندہ اور ملائم تھی کمر پتلی تھی۔ گدگدانے پر اس کی کمر جو اب بھی دیتی تھی۔ کمر سے پیٹ، پیٹ سے پسلیوں اور پسلیوں سے سینے تک جا تے جاتے اس کی ہتھیلیاں اس کے شاندار بدن کے لمس کا ذائقہ لیتی ہوئی اوپر سفر کر تی رہیں پھر اچانک اس پر غنودگی سی طاری ہونے لگی۔ اور اس غنودگی میں ملفوف حالت میں اس نے اپنے بالائی جسم سے کہا۔

’ ’ مجھے خوش فہمی کے جال میں نہ پھنساؤ میں جانتی ہوں تم مرنا نہیں چاہتے۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہو چکا ہو گا تمہارا نچلا حصہ جیتے جی مر چکا ہے۔ ‘‘

’ ’ جولیا ڈیر تم صحیح کہتی ہو میرا آدھا نچلا ساتھی بیماری کے آگے ہتھیار ڈال چکا ہے۔ بیماری کسی انتہائی عیار دشمن کی طرح اپنے بے آواز قدموں کے ساتھ اس کو انچ انچ فتح کر چکی ہے۔ لیکن یہ جو تم کہتی ہو میرا نچلا بدن مر چکا ہے میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ اعضا کا سن ہو جا نا، از خود حرکت کے لائق نہ ہو نا بیماری کا ثبوت تو قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن موت کا نہیں۔ یہ اور اس طرح کی دوسری علا مات، بیماری کی علا مات ہیں، موت کی علا مات نہیں۔ ‘‘ اس کے بالائی بدن نے اس سے کھلا اختلاف کیا۔

’ ’یہ جو میری حالت ہے وہ موت سے بھی زیادہ ہے۔ آخر تم سمجھتے کیوں نہیں۔ ؟‘‘جولیا با لائی بدن سے جھگڑنے لگی۔

’ ’ میں تمہاری اذیت کو سمجھ رہا ہوں لیکن تم اس نکتے پر بھی تو سوچو کہ نچلے دھڑ کو موجودہ صورتِ حال تک پہنچنے میں کتنی مدت لگی۔ ؟‘‘

بدن نے اس کو ’وقت ‘ کی جا نب متوجہ کرنا چا ہا جو فرد کی زندگی کا پیمانہ بھی ہے۔

’ ’ مدت لگی۔۔ ۔۔ ہاں مدت لگی۔۔ قریباً چار سال۔۔ ۔ میری تکلیف کا آغاز شاید ۲۰۰۷ میں ہوا اور یہ ۲۰۰۱۱ کا فال ہے۔ لیکن اب جو بیماری نے میرے ایک ہاتھ اور کلا ئی پر حملہ شروع کیا ہے۔ تو کیا میں مزید چار سال کی مدت میں اس لائق رہ سکوں گی کہ اپنے بارے میں کچھ کر سکوں۔ میرے اس مردہ جسم کی دیکھ بھال کون کرے گا ‘‘جولیاؔ وارڈ غیض میں آ کر بولی۔

’ ’ وہی کریں گے۔۔ وفاقی حکو مت کے لوگ، وفاقی پار لیمان والے، قانون بنا نے والے، تمہاری خواہشِ مرگ کی تکمیل میں قانونی رکاوٹیں ڈالنے والے لوگ ہیں۔ ‘‘ بالائی بدن نے جولیاؔ کو لا جواب کرنے کی کوشش کی،

’ ’ خوب خوب۔۔ گویا میں اس رینگنے والی موت کے ہاتھوں تل تل مروں۔ ان کے بھروسے جو صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آ تے بھی نہیں ‘‘

اسے یہ تو یاد نہیں کہ غنودگی کے دوران اس کا مکالمہ (خود اس کے اپنے ) بالائی جسم سے کتنی دیر تک جاری رہا لیکن یہ ضرور یاد رہا کہ ساری بات چیت کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچی۔

غنودگی سے باہر نکلنے کے بعد اس نے اپنی ۱۶سالہ بھانجی کو اس غنودگی اور غنودگی کے دوران ہونے والی بحث اور دلائل کا مختصر جائزہ لکھوا دیا جو اس نے اے ایل ایس کلب کے اراکین کو ای میل سر کلر کے طور پر روانہ کر دیا۔

اس کو کلب کے اراکین کی جا نب سے جلد ہی ای میل ملنا شروع ہو گئیں۔

۱۔ ڈیئر ڈیئر جولیا وارڈ بہا دری سے رہو۔ ہر سال دنیا کے ہزاروں عورت اور مرد اس بیماری سے دو چار ہو رہے ہیں تو کیا ہر ایسے بیمار کو مرنے کا حق دے دیا جائے ؟

۲۔ عزیز تم نے اگر ابھی تک کیمرج یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیفن ہا کنگ کے بارے میں نہیں جانا ہے تو کسی سے کمپیوٹر پر نکلوا کر معلوم کر لو وہ اپنے وقت کا ذہین ترین آ دمی تھا (وہ زمین کے سیاہ غاروں Black Holes) اور کائنات کی پیدائش کے بھید کو دریافت کرنے کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن اے ایل ایس اس کی راہ میں حائل ہو گیا۔

تمہارا بہی خواہ

۳۔ کتنی عجیب بات۔۔ ۔ مرض کی شناخت کے چار برس بعد تمہارا ہاتھ اب متاثر ہونا شروع ہوا ہے جب کہ یہ مرض سب سے پہلے ہاتھ میں اپنی علامات ظاہر کرتا ہے۔ بیماری علا مات کی زبان میں بات کر تی ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر تمہاری بیماری کسی اور زبان میں بات کر تی محسوس ہو رہی ہے۔ کیا کہتے ہیں دوسرے اراکین کلب بیچ اس مسئلے کے۔

تمہاری۔۔ ۔۔

مندرجہ بالا تین ای میلز کے علاوہ باقی تذکرے کے لائق نہیں تھیں

جولیاؔ وارڈ نے بالآخر اعانتی خود کشی ( Assisted Suicide)کی در خواست کے ساتھ عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا اور کلب کو اسی ضمن میں ایک مراسلہ بھی روانہ کر دیا۔ ساتھ ہی روڈری کوئز کیس کے بارے میں تفصیلات اکھٹی کروا کر اس وکیل کا پتہ بھی چلوایا جس نے بیس برس قبل روڈری کوئز کی در خواست کی پیر وی کی تھی اگر چہ کہ وہ یہ کیس ہار گیا تھا۔ بیماری سے قبل روڈری کوئز ایک مثالی جوان عورت تھی۔ وہ گھڑ سواری میں امتیاز کی حامل تھی۔ وہ جب گھوڑے کی پیٹھ پر چھلا نگ لگا کر بیٹھتی تو وہ گھوڑا یا گھوڑی اس کی دونوں رانوں کے بیچ ہونے پر ناز کرتے۔

اس دوران ایک مسلمان اسکالرنسرین نے اس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ جو لیا نے قدرے پس و پیش کے ساتھ وقت دے دیا۔ وہ بھی بیشتر ترقی یافتہ ملکوں کے عیسا ئیوں کی مانند ہر مسلمان مرد، عورت کو القا عدہ کا دہشت گرد سمجھنے لگی تھی۔ وقت مقر رہ پر نسرین اس سے ملنے پہنچ گئی۔ ہائی، ہلو کے بعد نسرین بو لی ’ ’۔۔ ۔۔ میں تمہاری بیماری کے متعلق بہت کچھ جانتی ہوں۔ میں جانتی ہوں ڈاکٹروں کے مطابق اے ایل ایس لا علاج اور روز افزوں بیماری ہے جو انسانی اعضا ء، جوارح اور بدن کے خلیات اور ریشے مفلوج کرنے کے ساتھ بر باد بھی کر دیتی ہے پھر بھی میں تم تک آ ئی ہوں کہ تمہارے قریب ہو کر میں تمہارے لئے دعا کروں اور تم میرے لئے۔ ‘‘

نسرین کی در خواست سن کر وہ بولی ’ ’ نسرین میں شکر گزار ہوں کہ تم وقت نکال کر مجھ جیسی نا کا رہ عورت سے ملنے آئی ہو۔ لیکن میں نہیں سمجھتی مجھے تمہاری دعا سے چنداں فائدہ ہو گا کیونکہ تم خود جانتی ہو کہ میرا مرض لا علاج ہے، دواؤں اور دعاؤں کی پہنچ سے با ہر۔۔ ۔۔ البتہ میں تمہارے لئے دعا کرنے کو تیار ہوں۔۔ ۔ تمہیں کیا ہوا ہے۔ ‘‘

’ ’ دیکھو جولیاؔ وارڈ دعاؤں کی ہر شخص کو ضرورت رہتی ہے۔ بعض اچھے لو گوں نے کہا ہے بیمار کی دعا میں بڑا اثر ہوتا ہے سو میں نے تم سے دعا کی گذارش کی۔ اب مجھے اس کی اجازت دو کہ میں امراض اور ان کی شفا کے بارے میں ہم مسلمانوں کا عقیدہ پیش کروں جس کی بنیاد پر میں تم سے ملنے آ ئی ہوں۔ ‘‘ نسرین نے محبت بھرے لہجے میں کہا جو ترس کھانے والا نہ تھا۔

’ ’ او مائی گاڈ ! کیا تم مجھے یہ کہنے جا رہی ہو کہ میں مسلمان ہو جاؤں۔ ‘‘ جولیا بیزاری سے بولی۔

’ ’ تم اطمینان رکھو میں چاہ کر بھی تمہیں ایسا مشورہ نہیں دوں گی۔ میں تو بیماری اور شفا یابی کے بارے میں تمہیں اسلام کا عقیدہ بتاؤں گی اور بس تمہاری مرضی تم اس پر کان دھرو یا رد کر دو۔ ‘‘ نسرین نے یقین دلا یا۔

’ ’ اگر ایسا ہے تو کہہ ڈالو میں سن رہی ہوں۔ ‘‘ جولی نے بیزاری سے کہا

’ ’ اسلام کے عقائد کی رو سے خدا ہی بیماروں کو شفا دیتا ہے۔۔ ۔۔ جس کو چاہتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے بھی دوائیں استعمال کی تھیں۔ دوائی کا استعمال سنتِ نبوی ہے۔ کوئی مرض لا علاج نہیں سوائے موت کے۔ اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ دعائیں مانگنا بیکار نہیں جا تا۔ بعض اوقات جو مانگو نہیں ملتا تو اس کے بدلے میں کچھ اور اس سے بہتر مل جاتا ہے۔ موت کی دعا مانگنا منع ہے۔ خودکشی حرام ہے۔ ‘‘

جیسے ہی نسرین نے بولنا بند کیا جولیؔ اس سے مخا طب ہو ئی۔

’ ’ نسرین جو کچھ تم نے کہا میں نے سن لیا۔ بہت بہت شکریہ۔ خدا تمہیں خوش رکھے۔ اب مجھے اکیلا چھوڑ دو اور ہاں اپنا خیال رکھنا۔ ‘‘

نسرین خدا حافظ کہہ کر چلی گئی لیکن اس کو جاتا دیکھ کر جولیؔ ایک عجیب احساس سے دو چار ہو ئی نسرین کوئی اور نہیں وہ خود ہے۔

زند گی بھر وہ مذہب سے دور رہی تھی۔ چرچ سے بھی جہاں تک ممکن ہو۔ لیکن ان دنوں مذہب بلکہ مذاہب نے اس کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ چرچ سے ایک پادری مار کوئس ہفتے میں ایک دن عام طور پر پیر کی شام اسے بائبل میں سے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنا تا اور جنت کی بشارت دے کر رخصت ہو جا تا۔ آئے دن کسی نہ کسی مذہب کے پیر فقیر بنا وقت لئے ہی اس پر مسلط ہو جاتے۔ عدالت میں رجوع کا فیصلہ میڈیا میں آ یا تو ایک بھکشو نما فقیر اس کے پائنتی آ کھڑا ہوا اور بولا ’ ’ بیٹی خود کشی تیرا حق ہے۔ عدالت ودالت چھوڑ اور چپ چاپ اپنے آپ کو ختم کر لے۔ موت کی اذیت منٹوں کی ہو تی ہے۔ ایک سانس سے دوسری سانس تک کی مختصر مدت۔ ’ ’

اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہتی، سنتی وہ فقیر جس طرح بغیر اطلاع آیا تھا، بغیر اجازت رخصت ہو گیا۔ جولی کا ذہن جنگِ عظیم دوم کے دوران اس وقت کے سب سے بڑے بحری جہاز کی غرقابی کی طرف گیا جس کی چمنی میں ایک جا پانی پائلٹ نے اپنا طیارہ گھسیڑ دیا تھا اور پھر چھوٹے بڑے بے شمار واقعات جا پانیوں کی خودکشی کے اس کے ذہن میں تا زہ ہو گئے جو اس نے ڈا ئجسٹ پر چوں میں پڑھ رکھے تھے۔

ایک عجیب فیصلہ جو جولیا وارڈ نے اپنے مقدمے کے سلسلے میں لیا تھا وہ یہ تھا اس نے اپنی در خواست کی پیر وی کے لئے اس وکیل کا انتخاب کیا تھا جس نے بیس برس پہلے روڈی کوئز کا کیس تھا۔ ہا را تھا جب کسی نے وکیل کے اس انتخاب کے معاملے میں اس سے تمسخر کیا ’ ’ لوگ باگ ایسے وکیلوں انتخاب کرتے ہیں جو مقدمہ جیت کر مشہور ہوئے اور تم اس وکیل کو مقرر کر رہی ہو جو کیس ہار کر مشہور ہوا۔ ‘‘ تو اس نے فوراً جواب دیا ’ ’ میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں وکیل ملارمےؔ  میرا کیس جیت کر رہے گا۔

’ ’ وہ کیسے۔ ؟ ‘‘ اعتراض کرنے والے نے تعجب سے پو چھا۔

’ ’ وہ اس طرح کہ مقدمہ ہارنے کے بعد روڈی کوئز کی اعانتی خود کشی کی در خواست کے سلسلے میں وہ اپنے موقف کے پیش کرنے اور دلائل میں وقوع پذیر ہونے والی کمزوریوں سے ضرور واقف ہو گیا ہو گا اور میری در خواست کے معاملے میں ان کو دہرا نے کی ہر گز غلطی نہیں کرے گا۔ اس کے علا وہ پچھتاوے کے ساتھ اس نے ضرور کچھ ایسا بھی سو چاہو گا۔

’ ’ کاش میں یہ کرتا اور وہ نہ کرتا۔ جو ہر شکست خوردہ آ دمی سوچتا ہے۔ ‘‘ جولی نے ہارے ہوئے وکیل کے انتخاب کے سلسلے میں اپنا دفاع کیا۔

جولیاؔ وارڈ کی وکیل ملارمےؔ سے ملاقات کچھ ٹھنڈی رہی۔ وکیل نے اس کو بتا یا ’ ’ ان بیس بر سوں میں روڈریؔ  کوئز کے کے مقدمے کے بارے میں کو ئی قا نو نی پیش رفت نہیں ہو ئی۔ فیڈرل پار لیمان نے اپنے قانون میں جز وی تبدیلی کی بھی اجازت نہیں دی۔ میں نے روڈریؔ کوئز کے معاملے میں اس قانون کے انٹر پریٹیشن (تفہیم و تا ویل ) اور اپلیکیشن ( استعمال ) کا کوئی نکتہ فروگذاشت نہیں کیا تھا۔ بالآخر معاملہ فیکٹس پر آ ٹکا۔ اور جیسے ہی فیکٹس کی اساس پر میں نے کیس کو کھڑا کیا تو روڈریؔ کوئز عدالت کی نظروں میں ایک عام معذور مریضہ قرار دی گئی اور نتیجے کے طور پر درخواست خارج کر دی گئی۔ ‘‘

وکیل کہتا رہا اور جولیؔ  سنتی رہی اس کے کان وکیل کی آواز کو سن رہے تھے۔ اس کی آنکھیں اس کو دیکھ بھی رہی تھیں۔ زند گی کے جس مرحلے پر وہ پہنچا دی گئی تھی اس مرحلے پر پانچوں میں سے دو یا تین حواس معمول سے زیا دہ تیز ہو جا تے ہیں۔ وکیل نے اپنی بات ختم کی اور اس کے بستر اور بدن کو بار بار دیکھنے اور اپنی ٹھوڑی سہلا نے میں مصروف ہو گیا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو جولیؔ کی آنکھوں سے دو چار ہونے نہیں دیا۔ وہ ایک مخروطی چہرے والا خو صورت فرانسیسی بوڑھا تھاجس پر کیو بک اور قدیم مونٹریال کی چھاپ پڑی تھی۔

’ ’ اب اگر میں اعانتی خود کشی ( Assisted Suicide) کے لئے عدالت سے رجوع ہو تی ہوں تو کتنے فی صد امکان ہے۔ ؟ جواب دینے کے لئے آپ اپنا وقت لے سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ آج ہی۔۔ ۔۔ ‘‘ جولیؔ نے اپنے ہر لفظ پر زور دے کر استفسار کیا۔

وکیل ملارمے نے اس کا فقرہ پورا ہونے نہیں دیا اور بولا ’ ’ نہیں نہیں مجھے وقت نہیں چاہئے۔ میں تمہا رے سوال کا جواب اسی وقت دے سکتا ہوں۔ تمہارا کیس قانون کے نکات پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اس کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہے۔ حا لات ( فیکٹس ) پر ہی کچھ امکانات بن سکتے ہیں۔ میڈیکل بورڈ تشکیل دلوایا جا سکتا ہے۔ اس کی رپورٹ پر پانچ سے پچاس فیصد کے درمیان کامیابی کی توقع بھی کی جا سکتی ہے۔ صورتِ حال روشن نہیں ہے لیکن وہ جویہ کہا جا تا ہے کہ دور بہت دور تاریکی کے آخری سرے پر کسی روشن لکیر کی مو جود گی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ ملارمے نے یہ سب کہہ کر پہلی مر تبہ جولیؔ سے آنکھیں چار کیں۔

’ ’ ری ٹین چارجزکا چک۔۔ ؟ ‘‘ جولی نے وکیل کی آنکھوں میں اپنی بڑی بڑی آنکھیں ڈال کر پوچھا۔‘‘

’ ’ نہیں ابھی نہیں مجھے مقرر کرنے میں آپ اپنا وقت لے سکتی ہیں۔ جلدی کی ضرو رت نہیں ہے۔ ‘‘ وکیل ملارمے بغیر ریٹے نر لئے رخصت ہو گیا۔ شاید وہ جولیاؔ وارڈ کو رسان کے ساتھ سوچنے کا موقع دینا چا ہتا تھا۔ جولی کے اندر سے گریہ آنکھوں تک آ کر رک گیا۔ اس نے ایک مر تبہ پھر اپنے سارے بدن کا جائزہ لیا۔ یہ احساس اس کو ہمیشہ عجیب لگتا۔ کہ جس بدن کو اس نے شاذ شاذ ہی کسی کمزور لمحے میں کسی کی دست برد کے لئے کھولا اور عام حالات میں کڑی حفاظت کی، اس پر اے ایل ایس کل وقتی قابض ہے۔

با لآ خر جو لیا واردڈ نے وکیل ملارمے کو ریٹین (مقرر )کر لیا۔ اور جیسا کہ وکیل نے پہلے ہی خد شہ ظا ہر کیا تھا آٹوا ( Ottawa ) کی مرکزی عدالت عا لیہ نے جولیا وارڈ کی اعانتی خود کشی کی در خواست کو قانون کی اساس پر غور کے لا ئق تسلیم کرنے سے انکار کر کے رد کر دیا۔

’ ’ دنیا بھر میں ہزاروں مریض اے ایل ایس میں مبتلا ہیں۔ کیا ان سب کو اعانتی خودکشی سے دو چار کرنا قصّابانہ اقدام نہ ہو گا۔ ؟ ‘‘

جج نے جولیاؔ وارڈ کے وکیل سے طنزیہ استفسار کیا جس پر وکیل ملارمے کو ایک خاموش سامع کا رول ادا کرنا پڑا۔ میڈیکل بورڈ کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کے حصول کے ضمن میں عدالت عالیہ نے منا سب احکامات جا ری کر دیئے۔ عدالت عالیہ کے حکم سے تشکیل کر دہ میڈیکل بورڈ میں کینیڈا، امریکہ، یو کے کے علاوہ فرانس کے چوٹی کے ایسے نیو رو فزیشن شامل کئے گئے تھے جو اے ایل ایس کی تحقیق اور علاج کے سلسلے میں جانے مانے تھے۔

اس میڈیکل بورڈ نے دو سے تین ہفتے کی مہلت طلب کی۔ بورڈ کو یہ بھی اختیار دیا گیا تھا کہ کسی بھی اہم نکتے پر متفقہ نقطۂ نظر نہ ہونے کی صورت میں بورڈ کا کوئی بھی رکن اختلافی نوٹ درج کر سکتا ہے۔

ایک ڈاکٹر کے اختلافی موقف اور وضاحتی نوٹ کے ساتھ رپورٹ عدالت عالیہ کے تین رکنی بنچ کے زیرِ غور آ ئی۔

رپورٹ میں پندرہ میں سے چو دہ اراکین کا متفقہ موقف درج ذیل تھا۔

۱۔ مریضہ جولیاؔ واردڈ مرض اے ایل ایس میں مبتلا ہے۔

۲۔ مرض کا آغاز قریباً چار سال قبل ہوا ہے۔

۳۔ مریضہ کی ٹانگیں کام نہیں کر رہی ہیں۔

۴۔ مریضہ کا دماغ ٹھیک ٹھیک کام کر رہا ہے۔

بورڈ کے صرف ایک رکن کے اختلافی مو قف کے مطابق ’ ’ مریضہ کا با لائی جسم مرض سے متاثر نہیں معلوم ہوتا۔ چار سال کی مدت گزرنے کے بعد ہاتھوں میں ہلکی سی علا مات ظاہر ہو ئی ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔ جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایک فیصد بھی اس کا امکان ہو کہ مریضہ اے ایل ایس میں مبتلا نہیں ہے تو اس کو ’ ’ انڈر آبزرویشن‘‘ رکھا جانا چاہئے۔ مریضہ میں اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی قوتِ ارادی ہنوز مو جود ہے۔ وہ اعانتی خود کشی کی خواہاں محض اس سبب سے ہو گئی ہے کہ ڈاکٹروں نے اس کو اے ایل ایس کا شکار بتا دیا ہے جو ایک لا علاج مرض ہے۔

وکیل ملارمےؔ  کی سا ری کوششیں ایک مر تبہ پھر بے کار ثابت ہوئیں۔ ایک مر تبہ پھر عدالتِ عالیہ نے در خواست خارج کر دی البتہ یہ گنجائش رکھی کہ چھ ماہ بعد اس پر نظر ثانی کی در خواست پر غور کیا جا سکتا ہے۔

اس رات نیند کی گو لیوں نے بھی جولی کو غفلت سے ہمکنار نہیں کیا۔ وہ آواز کے ساتھ اور کبھی بے آواز روتی رہی۔ اور سوچتی رہی کہ ’ ’ اگر کو ئی ہے جو خلق بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے تو کیوں جولیؔ کو اپنی زندگی کا خود خاتمہ نہیں کرنے دیتا۔۔ ۔ ؟ وہ جو بھی ہے اگر شفا دینے والا ہے تو اس کو اس مرض سے کیوں نجات نہیں دلا دیتا۔ اے ایل ایس جو ڈاکٹروں کے بقول اس کی جان لے کر ہی جائے گا۔ وہ جو بھی ہے کیوں چاہتا ہے جولیاؔ وارڈ اپنے نصف مر دہ دھڑ کے ساتھ بستر پکڑے ہوئے اس وقت تک اپنی سا نسیں گنتی رہے جب تک اے ایل ایس اس کے پورے بدن کو عضو عضو، خلیہ خلیہ، ریشہ ریشہ ختم کر کے اس کا خاتمہ کرے۔ ‘‘ اس نے خدا کے بارے میں اپنی گستا خانہ سوچ کو صدا میں بدلا، تا آنکہ نیند اس کے مفلوج ہو تے ہوئے بدن پر مسلط ہو گئی۔

اس رات جو لیاؔ ور رڈ نے خواب دیکھا یا یہ کہ اس کے اندر سے نسرین با ہر نکلی، اس کے بدن پر ہلکے ہلکے ہاتھ پھیرا اور واپس اس کے اندر چلی گئی۔

پھر صبح ہو ئی۔ موسمِ سرما کے اختتامی ہفتے کی ایک روشن صبح۔ سورج اس کے کمر ۂ خواب کی کھڑکی سے اندر گھسا چلا آ رہا تھا۔ کھڑکی کے آدھے کھلے، آدھے بند بلا ئنڈس نیم برہنہ حالت میں حائل کھڑے، سورج کا راستہ روک رہے تھے۔ جولیا کے دل نے اس سے کہا ’ ’ جو لیاؔ وارڈ اٹھ اور کھڑکی کے سارے بلا ئنڈس کھول دے۔ اپنا پیرہن اتار پھینک اور اپنے آپ کوسورج اور اس کی دھوپ کے حوالے کر دے۔ ‘‘

وہ بستر سے تو اٹھ نہ سکی لیکن اس نے یہ ضرور محسوس کیا کہ برسوں کے بعد اس کے نچلے بدن نے ایک جھر جھری سی لی۔ اس کا دایاں ہاتھ اس ڈوری کی جا نب بڑھا جس کو کھینچنے سے اس کی خدمت گار خاتون کو طلب کرنا ممکن ہوتا تھا لیکن اس نے اپنا ہاتھ روک لیا اور بستر پر پڑی رہی۔ بستر پر لیٹے لیٹے اس نے اپنے دائیں پیر کی بڑی انگلی کو جنبش کرتے دیکھا۔ کچھ ہی دیر بعد اس کے داہنے پیر کا پورا پنجہ حر کت میں آ یا۔

’ ’ نسرین تم نے دیکھا میرے پیر کا ایک پنجہ جنبش کرنے لگا ہے۔ ‘‘ جو لیا وارڈ نے اپنے اندر والی نسرین کو بتا یا۔ اور گریہ اس کے سینے سے حلقوم تک بھر آ یا۔

’ ’ شکریہ میرے مہر باں !

میرے خالق ! میرے مالک ! مجھے زندہ رکھنے کا۔۔ ۔۔ شکریہ!! ‘‘

گریہ سے لبا لب بھری آواز میں وہ ملتجیانہ گڑ گڑائی۔

٭٭٭

 

 

 

 پرورش

 

میں جب اپنے لڑکے کو عام عراقی بچوں سے مختلف پا تی ہوں تو اپنے ذہنی ردِ عمل کو خود بھی نہیں سمجھ پا تی۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ میں دل ہی دل میں رو رہی ہوں یا ہنس رہی ہوں۔ اس کیفیت سے خود کو آزاد کرنے کے لئے میں کھانسنے لگتی ہوں۔ موقع بے موقع اور وقت بے وقت۔ کھانسی کوئی مستحسن فعل نہیں یہ میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ میں پڑھی لکھی عورت ہوں۔ مقامی اسکولوں کے علاوہ لندن میں بھی کچھ دن پڑھ چکی ہوں۔ لندن میں ایک گورا لڑ کا فلپؔ جو قد میں میرے برابر لیکن بے حد موٹا تھا میرے پیچھے پڑ گیا تھا۔ اس کو میرے چہرے پر ناک اور میرے بدن میں پتلی کمر بہت پسند تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ پورے عراق میں شاید ہی کسی لڑکی کی اتنی ستواں ناک کے ساتھ اتنے پتلے نتھنے ہوں۔ اور میری کمر تو آج بھی چیتے کی کمر ہے، نہ ہونے کے برابر اور بے حد لچکدار۔ مجھے یقین تھا کہ فلپؔ مجھ سے فلرٹ نہیں کرتا تھا وہ سچ مچ مجھ پر مر تا تھا لیکن میں نے کبھی اسے گھاس نہیں ڈالی۔ میں جانتی تھی کہ اگر میں فلپؔ سے ملوں گی تو دوسرے لڑکے مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ میں چھوڑنے کے لائق تھی بھی نہیں، یہ میں اچھی طرح سمجھتی تھی۔ اور میں یہ بھی جانتی تھی کہ میں اگر فلپ سے اکیلے میں ملوں گی تو اسکول کے بُلی (Bully ) لڑکے فلپؔ کو نہیں چھوڑیں گے۔ میں نے اپنا اِمیج (Image) ایک ایسی عرب مسلم لڑکی کا بنایا ہوا تھا۔ جس پر ایک غیر مرئی لیبل چسپاں ہو ’ ’فاصلہ رکھو‘‘۔ وہ بھی کیا دن تھے۔ لیکن میں یہ سب کچھ کیوں سوچ رہی ہوں۔ وہ لڑکی جس پر فلپؔ مر مٹا تھا کوئی اور تھی، یہ لڑکی یا عورت جو میں اب ہوں کوئی اور ہے۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ بظاہر آپ ہی ہوں لیکن کوئی اور آپ کے اندر حلول کر جائے اور آپ کو کوئی اور بنا دے۔ میں نے یا تو غلط الفاظ کا استعمال کر لیا ہے یا میری سوچ غیر واضح ہے کہ میرے اندر کوئی آ گیا یا حلول کر گیا،ا یسانہیں ہے۔ اور نہ ہی میں کسی کے اندر حلول کر گئی ہوں۔۔ ۔۔ ۔ تو پھر کیا ہوا ہے ؟یہ بھی ممکن ہے مجھے معلوم بھی نہیں ہوا، لیکن میں مر بھی گئی اور میرا دوسرا جنم بھی ہو گیا۔ اگر ایسا ممکن ہے تو میرے ساتھ پھر ایسا ہی ہوا ہو گا کیونکہ مجھے یاد پڑ تا ہے اس رات میں مر گئی تھی۔

عجیب رات تھی، شہر لُٹ پُٹ گیا تھا۔ شہر کا نام نہیں بتاؤں گی، میں نے اپنا نام کب بتا یا ہے۔ نام تو ان کو ساجتے ہیں جن کی کوئی تاریخ ہو تی ہے اور جن کا جغرافیہ اتھل پتھل نہیں ہوتا۔ میرا مکان آسمان سے بمباری اور زمینی گولہ با ری سے آدھے سے زیادہ ملبے کا ڈھیر ہو چکا تھا۔ ایک میرا مکان ہی کیا اس گلی بلکہ محلے کے سب مکان اور ان کے مکینوں پر قیامت ٹوٹ چکی تھی۔ میرے باقی ماندہ گھر کے مکینوں میں سے صرف دو نفوس زندہ بچے تھے، ایک میری بوڑھی دادی اور ایک میں۔ میرے ماں باپ اور اکلوتا بھائی مرے پڑے تھے۔ دوسرے دن ان کے کفن دفن کے لئے مجھے ہی بہت کچھ کرنا تھا۔ لیکن تازہ مسئلہ یہ در پیش تھا کہ گھر میں پانی کی ایک بوند بھی نہیں تھی۔ گھر کی ٹوٹ پھوٹ سے پانی کا نلکا مسدود ہو گیا تھا۔ باورچی خانہ، غسل خانہ وغیرہ تو زیرِ زمین سما چکے تھے۔ دادی پیاس سے بیتاب تھی اور میں بھی۔ اپنے لئے نہیں تو دادی کے لئے پانی مہیّا کرنا ضروری تھا، اور وہ بھی جلد۔ باہر تباہی ہی تباہی تھی۔ ہمت کر کے میں نے بغیر سوچے سمجھے ایک جانب چلنا شروع کیا۔ چل کیا رہی تھی ملبے کے ڈھیروں سے ٹھوکریں کھا رہی تھی۔ آس پاس کے پہچان کے لو گوں کے گھر کھنڈر تو تھے ہی لیکن ان کے مکینوں میں اکثر مر چکے تھے۔ باقی ماندہ ادھر اُدھر نکل چکے تھے۔ مجھے بھی وہاں سے چلا ہی جا نا چاہئے تھا لیکن معذور دادی کو لے کر وہ بھی اندھیری رات میں اس کھنڈر علا قے سے گزرنا آسان نہیں تھا۔ بجلی تو شاید شہر بھر کی بند پڑی تھی۔ دادی کو ان کی معذوری کے ساتھ چھوڑ کر فرار ہونا مجھے منظور نہ تھا۔ ابھی کچھ دور ہی چلی تھی کہ مجھے محسوس ہوا کوئی گاڑی دندناتی، ملبے سے لڑتی ہو ئی قریب ہی رکی ہے۔ میں خوف سے لرزتی ہو ئی ملبے کے ایک ڈھیر میں گھس پڑی اگر چہ ایسا کرنے سے میری ہتھیلیوں، کہنیوں، گھٹنوں میں خراشیں آ گئیں۔ وہ فوجی گا ڑی تھی اس سے صرف ایک فوجی اترا تھا۔ میں یہ سب غور سے دیکھ رہی تھی۔ تاریکی کے با وجود مجھے ہر چیز پر نظر رکھنا ضروری ہو رہا تھا۔ یہ تو صاف ظاہر تھا جو فوجی ٹرک سے اترا تھا وہ عراقی نہیں تھا۔ امریکی، انگریزی، یا اطالوی کوئی بھی ولد الحرام ہو سکتا تھا۔ میں بغیر آواز کے رو رہی تھی۔ ’ ’ وَ لاَ یؤدُ ہُ حِفظُہُماَ وَ ھُوَا لعَلَیُا لعظَیِم ‘‘ کا ورد میں نہیں بلکہ میرے اندر کا وجود مسلسل کئے جا رہا تھا۔ میرے ہونٹ کانپ رہے تھے لیکن میری زبان گنگ ہو گئی تھی۔ میں دل ہی دل میں پو رے خضوع اور خشوع کے ساتھ دعا مانگ رہی تھی کہ وہ جو کوئی بھی ہو مجھے دیکھ نہ پائے۔ شاید اس پسر ولد خنزیر نے مجھے پہلے ہی دیکھ لیا تھا اس کے آہنی بوٹوں کی گڑگڑاہٹ جو ملبے کے ٹکڑوں کو چورا چورا کر رہے تھے قریب ہو تی چلی گئی۔ میرے قریب آتے ہی اس نے عربی میں تحکمانہ لہجے میں آواز لگائی:

’ ’ جو کوئی بھی ہو فوراً باہر آ جاؤ، دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر ورنہ میں فائر کھولتا ہوں۔ ‘‘

’ ’ کم بختوں کو ٹوٹی پھوٹی عربی سکھا دی جا تی ہے ‘‘ میں نے اس سور کے تخم کو کوستے ہوئے سو چا اور ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے باہر آ گئی۔ اس نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا، چھلانگ لگا کر دبوچا اور انتہائی پھرتی سے میرے بدن کو ٹٹولا۔۔ ۔ ہنسا اور بولا: ’ ’ اس کھنڈر میں کیا تلاش کر رہی تھی۔ ‘‘

’ ’ پانی ‘‘ میں نے جواب دیا۔

’ ’ پانی تو بہت ہے میرے پاس ‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر ہنسا اور مجھے گھسیٹنے لگا۔

’ ’ میری دادی کے لئے پانی۔ ‘‘ Drinking water for my Granny ) ) اس مر تبہ میں نے انگریزی میں جواب دیا۔

’ ’ تو انگریزی جانتی ہے۔ ؟ ‘‘ You know English ) ) اس مرتبہ اس نے انگریزی میں سوال کیا۔

’ ’ ہاں۔ لندن میں ’ میری کلاسیو اسکول ‘ میں پڑھ چکی ہوں ‘‘۔ میں بولی۔

یہ سن کر اس کا رویّہ ایک دم تبدیل ہو گیا۔

’ ’ کہاں ہے تمہاری دادی ‘‘ اس نے انتہائی ہمدردانہ لہجے میں پوچھا۔

میں نے اپنے کھنڈر مکان کی جانب اشارہ کیا جو دکھا ئی نہیں دے رہا تھا اور بولی: ’ ’ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ‘‘

یہ سن کر وہ سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ بولا۔

’ ’ میں ڈیوٹی پر ہوں اور ہم کو اجازت نہیں کہ مقامی لوگوں سے ملیں جلیں۔ پھر بھی میں تمہارا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہوں۔ شاید کل کچھ کر سکوں۔ تم آگے چلو میں تمہارے کچھ پیچھے آ تا ہوں۔ ‘‘

’ ’ اوکے۔۔ بہت بہت شکریہ ! میں انگریزی اور عربی ایک ساتھ بولی۔

’ ’ یو آر ویلکم ‘‘ اس نے جواب دیا۔

میں نے اس پر ایک بھرپور نظر ڈالی۔ وہ جس کو تھوڑی دیر پہلے میں نے خنزیر کی اولاد کہا تھا، اس وقت مجھے فرشتہ نظر آ رہا تھا۔ اور خوبصورت، بے حد خوبصورت۔۔ ۔۔ ۔ میرے ٹوٹے پھوٹے مکان تک پہنچ کراس نے مجھ پر ایک نظر ڈالی، پانی کی بوتل اور بسکٹوں کا ایک پیکٹ اپنے یونیفارم میں کسی جگہ سے بر آمد کر کے مجھے پکڑایا۔ ’ ’ بائی بائی۔ ‘‘ کہتے ہوئے میری پیشانی کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی سے چھوا اور مستعد فوجیانہ انداز سے وہاں سے چلا گیا۔

میں نے دادی کو فوری طور پر پانی دیا۔ وہ بے چا ری سمجھ رہی تھی کہ میں یا تو مر گئی یا اس کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئی۔ ہم دونوں نے بسکٹ کھائے اور ایک بار اور پانی پیا۔ ہمارے بالکلپاس ہمارے پیاروں کی لاشیں پڑی تھیں، ان کے مردہ جسم اکڑ گئے تھے اور ان کی روحیں ہم دونوں دادی پو تی کے آس پاس بھٹک رہی تھیں یا پھر ان فرشتوں کے حصار میں تھیں جو مرنے والوں کی روح سے ابتدائی پوچھ گچھ کرتے ہیں۔

کھنڈر میں رات گزری اور صبح ہو ئی۔ یوں لگا جیسے میری زندگی کی پہلی رات اور پہلی صبح تھی۔ جاتے ہوئے وہ اپنا نام بتا گیا تھا اور میرا پوچھ گیا تھا۔ دوسرے دن اس نے آ نے کو کہا تھا لیکن وہ نہیں آیا۔ البتہ وہ ہم سے غافل بھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی توجہ ہی تھی جس کی وجہ سے مجھے اور میری دادی کو ’ ’ریڈ کراس ‘‘ والوں کی حفاظت میں پہنچا دیا گیا تھا۔ وہ ہم دادی پو تیوں کو اپنی عارضی پناہ گاہوں میں لئے پھرتے رہے۔ دادی کا علاج ہوا اور تدفین میں بھی کامیابی ہو ئی۔ اس تمام دوران وہ نہیں آیا لیکن اس کی پر چھائیں میرے آس پاس لہراتی رہی۔ عجیب آ دمی تھا۔۔ ۔۔ یا فوجی ڈسیپلین سے بندھا تھا کہ ایک پرچہ بھی اس کی جا نب سے موصول نہیں ہوا البتہ میرے معاملات بہتر سے بہتر ہو تے گئے۔ ریڈ کراس کے اس گروپ نے مجھے اپنے عملے کے ساتھ شا مل کر لیا۔ میں زخمیوں کی مرہم پٹّی کے کام میں تر بیت یافتہ نرسوں کے شانہ بشانہ کام کرنے لگی۔ ہماری حفاظت کا بندو بست بھی تھا البتہ ہمارے کاموں میں اڑچن پیدا ہو تی رہتی تھی۔ ان رکاوٹوں کا باعث باہر والوں سے زیادہ عراقی ہو تے تھے وہ عراقی جو باہر والوں کو اپنے ملک سے باہر نکالنا چاہتے تھے اور ان کے لئے جگہ جگہ دیوار بن رہے تھے۔ ان ریزسٹResist ) )کرنے والوں میں تھوڑے ہی سہی، ایسے اہلِ عرب بھی تھے جو ’ ریڈ کراس ‘ والوں کو بھی شبہے کی نظر سے دیکھتے تھے اور موقع ملتے ہی ریڈکراس کے چھوٹے بڑے کیمپوں یہاں تک کے ہسپتالوں کو بھی اپنا نشا نہ بنانے سے نہیں چوکتے تھے۔ حفاظت کے ہمہ وقت اور ہمہ جہت انتظامات کے با وجود ریڈکراس والوں کو طرح طرح کے نقصانات اٹھانے پڑتے تھے۔ زخمیوں کے لئے مرہم پٹّی کا سامان ضائع ہو جا تا تھا، دوائیں بر باد ہو جاتی تھیں، چھوٹے بڑے آپریشن کے لئے ضروری آلات ٹوٹ پھوٹ جاتے تھے، بستر وغیرہ کی قلّت میں اضافہ ہو جا تا تھا، غذاؤں کی کمی ہو جاتی، ڈاکٹر، نرسیں، اور میڈی کیئر کے دیگر افراد بھی کبھی کسی حملے کی زد میں آ کر ختم ہو جاتے اور تو اور شرمناک پہلو یہ بھی تھا کہ ریڈ کراس کی خواتین کی عصمتیں بھی محفوظ نہیں تھیں۔ اس میں باہر والوں اور مقامی لو گوں میں خاص فرق نہ تھا موقع دستیاب ہونے پر دونوں ہی اقسام کے مرد اپنے ہاتھ رنگ لیتے تھے اگر چہ عام عراقی خواتین کے مقابلے میں ریڈ کراس والیاں قد رے محفوظ ضرور تھیں۔ میں اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتی رہتی تھی، ربّ العالمین کا سایہ مجھ پر تھا، میں عراق کی خواتین کے مقابلے میں ہزار گنا محفوظ تھی اور ایک نہایت ہی افضل کام سے جڑی ہوئی تھی۔ زخمیوں کی مرہم پٹّی اور خدمت کا کام۔ میرا شمار عام عراقی عورتوں میں نہ تھا جو فوجیوں کے لئے وقف ہو چکی تھیں۔ مفتوحہ ملک کی مفتوحہ عورتیں۔۔ ۔۔ باہر والوں کے لئے ’ مالِ غنیمت ‘ اور مقامی اہلِ حرب کے لئے ’ مالِ مفت ‘۔ ریڈ کراس کیمپ اور عارضی ہسپتال خانہ بدوشوں کی حالت میں کام کر رہے تھے۔ ان سے متعلق عورتیں، ٹین ایجر لڑکیاں، ادھیڑ عمر کی خواتین، پیرا میڈس نرسیں، اور ڈاکٹرز اس روز روز کی شفٹنگ اور تبدیلی کی وجہ سے غیر محفوظ مرحلوں سے بھی گزرتیں، میں بھی لاکھ کوشش کے باوجود غیر محفوظ ہونے سے محفوظ نہ رہ سکی۔۔ فو جیوں سے روندی گئی جن میں دو عراقی اور ایک باہر والا تھا۔

ایک شام اس کا دیدار ہوا۔ اس مرتبہ بھی وہ ملنے نہیں آیا تھا بلکہ اسے لا یا گیا تھا ایک زخمی کے طور پر۔ جیسے ہی میں نے اسے دیکھا میں پہچان گئی بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ بغیر دیکھے میں اس کی طرف کھنچتی چلی گئی۔ وہ بے ہوش تھا، زخموں سے چور تھا۔ اللہ کا بڑا شکر ہے کہ ہماوا کیمپ ان دنوں خاصے محفوظ علاقے میں تھا اور وہاں پر ہر سہولت موجود تھی۔ میرے اس تک پہونچنے سے قبل وہ ایک نہایت ہی لائق ڈاکٹر کے معائنے سے گزر چکا تھا۔ اور اسی کی ہدایت کے مطابق ایک نرس نے اس کو انجکشن دے کر درد کی اذیت سے چھٹکا را دلا دیا تھا۔ جس کے زیرِ اثر وہ نیند کی آغوش میں جا چکا تھا۔ میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا مارفین کے زیرِ اثر نیند میں عارضی طور پر وہ اپنی جسمانی اذیتوں سے آ زاد ہو گیا تھا۔ وہ مجھے بے حد حسین لگ رہا تھا، مردانہ حسن کا مکمل نمونہ۔ اگر چہ قبیح اور بد صورت جنگ نے اس کے حسین جسم کو سر سے پیر تک چھید ڈالا تھا۔ اس سے قبل اس رات بھی وہ مجھے بے حد حسین لگا تھا جب اس نے پیاسی دادی اور میرے لئے بسکٹ کا پیکٹ اور پانی کی بوتل دی تھی۔ کھنڈر میں وہ اس سے پہلی ملاقات میری زند گی کی یادگار ملاقات تھی اگر چہ اس رات میں اپنے والدین سے محروم ہو گئی تھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔۔ ۔۔ اس کیمپ میں لائے جانے کے دوسرے دن ہی جب وہ ہوش میں آ یا تو اس نے مجھے پہچان لیا۔ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی، اس کے ہو نٹ مسکرائے، اس نے اپنے سیدھے ہاتھ کی انگلی میرے نچلے ہو نٹ پر ہلکے سے دبائی۔ اس کھنڈر والی ملاقات میں رخصت ہو تے سمے اپنی وہی انگلی میرے ماتھے سے چھوئی تھی۔ وہ لمس ماتھے پر ہنوز تا زہ تھا۔ یہ کیسا مرد تھا۔۔ ۔۔ فوجی مرد، فاتح فوجی، یا دوسرے لفظوں میں قابض فوجی، جن کو مقامی حریت پسند غاصب کہتے تھے۔ میں تو اس کے فوجی بوٹوں تلے آئی ہو ئی مفتوحہ زمین تھی جس کے کبھی ماتھے اور کبھی ہونٹ کو اپنی شہادت کی انگلی سے محض ہلکے سے چھو رہا تھا۔ مجھ مفتوحہ عورت کو وہ اپنے پیار سے کیوں فتح کرنا چاہتا تھا۔ فو جیوں کا پیار سے کیا واسطہ۔۔ ۔۔ ۔ ؟ دیوانہ ! میں اپنی ڈیوٹی سے غافل نجانے کیا کیا سوچتی رہی تھی۔

’ ’ ہیلو ! ہاؤ آر یو۔ ‘‘ اس نے سر گوشی کی یوں بھی اس کی آواز میں نقاہت آ گئی تھی۔

’ ’ میں ٹھیک ہوں۔ تم نے اپنے آپ کو توڑ پھوڑ لیا۔ ‘‘

’ ’ میں نے تمہارے ملک کو توڑا پھوڑا۔ میری یہی سزا ہے اور سچ پوچھو تو یہ سزا بہت کم ہے۔ ‘‘

جیسے ہی وہ کھڑے ہونے کے لائق ہو اوہ اس کو لے گئے۔ اس نے ’ ’بائی بائی ‘‘ کہتے سمے میرے سامنے اپنی داہنے ہاتھ کی انگلی بڑھائی اس سے پہلے وہ میرے ہو نٹ یا ماتھے کو چھوتی میں نے اس کو پکڑ لیا اور اپنی جانب کھینچا، انگلی کے ساتھ وہ بھی کھنچتا چلا آ یا اور میں اس سے بغلگیر ہو گئی، عراقی انداز سے۔ معانقہ کرنے کے۔ بعد میں نے مغربی انداز سے اس کو ایک طویل بوسہ دیا۔

کیمپ سے لے جائے جانے کے بعد اس کو نجانے کس کس کے آگے پیش کیا گیا لیکن بالآخر اس کو فرنٹ کے نا قابل قرار دے دیا گیا۔ وہ ایک بار پھر آیا۔ بہت سا رے چھو ٹے چھوٹے تحائف کے ساتھ۔ جو سگریٹ، چیونگم، ویفرس، بسکٹ، چاکلیٹ، ڈسپوزیبل ریزرس، شیمپوز وغیرہ پر مشتمل تھے۔ جو اس نے عملے میں تقسیم کئے۔ میرے لئے ایک فلاور بُکے لا نے میں کامیاب ہو گیا تھا جو ان حالات میں قریب قریب نا ممکن تھا۔ میں نے اس کو دیکھتے ہی دعائیں مانگنی شروع کر دیں۔ ’ ’اللہ کرے وہ مجھے پروپوز کر دے۔ ‘‘

میں جو اندر سے اس کی ہو چکی تھی۔ باہر سے بھی اس کی ہو جانا چاہتی تھی۔ کاش ! وہ کسی گوری سے بندھا نہیں ہو۔ میری دعا قبول ہو گئی اس نے مجھے عیسائی آداب کے مطابق زمین پر گھٹنا ٹیک کر پرو پوز کیا۔ اسنے عیسائی طریقے سے اور میری فرمائش پر اسلا می طریقے سے مجھ سے شادی کی۔

پہلے وہ خود اپنے ملک چلا گیا بعد میں مجھے بلوانے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن ہماری شادی شدہ زندگی بہت مختصر رہی۔ اس کے بدن پر لگے ہوئے گھاؤ جو بظاہر بھر گئے تھے، جان لیوا ثابت ہوئے۔ جاتے جا تے وہ اپنے اور میرے بیٹے کی صورت میں اپنی نشانی دے کر مجھ سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا۔ میں اس گورے فوجی کی نشانی لے کر ایک بار پھر اپنے ملک لوٹ آ ئی اور ریڈ کراس والوں نے مجھے ایک بار پھر شریک کار بنا لیا۔ میرا عراق لوٹنا میرے ریڈکراس کے بہی خواہوں میں زیرِ بحث آتا رہا۔۔ ۔ اور میرے اندر بھی۔۔ ۔۔ کیا اس کے اور میرے بیٹے کو اُس کے ملک میں پر ورش پانا چاہئے تھا یا میرے ملک میں۔۔ ۔۔ ۔۔ فاتحوں کے درمیان یا مفتوحین میں۔۔ ۔۔ ۔ ؟

٭٭٭

 

 

 

میری بیوی

 

میری بیوی نہ تو اتنی خوبصورت تھی کہ اس کے حسن کے چرچے عام ہوتے اور نہ ہی اتنی بد صورت کہ دیکھنے والا اس پر دوسری یا تیسری نظر نہ ڈا لے، البتہ اس کے جسم میں کچھ تھامائل کرنے اور پکڑ نے والا۔ میں اپنی بیوی سے بالکلمطمئن تھا اور شاید وہ بھی مجھ سے مطمئن تھی۔ سب سے بڑی بات، دنیا ہم سے مطمئن تھی اور ہم دنیا سے مطمئن تھے۔ ہمارے گھر میں ہم دونوں کے علاوہ ایک کتّا تھا جو باہر سے بد صورت اور اندر سے بے حد خوبصورت تھا، ڈھیر سا رے چھو ٹی ذات کے طو طے تھے اور ایک سفید چوہا۔ میری بیوی ان کے ساتھ گھل مل کر رہتی اور ان کی دیکھ بھال کر تی۔ وہ پڑوسیوں کے ساتھ بھی مل جل کر رہتی۔ رشتے داروں کا آناجانا نہیں تھا۔ میرے سب لوگ میلوں دور اور اس کے لوگ سمندروں دور رہتے تھے۔ شادی کے بعد دو سال ایسے گز رے جیسے ویک اینڈ گزر جا تا ہے۔ پھر یہ ہوا کہ میرا تبادلہ امورِخارجہ کے اس شعبہ میں ہو گیا جو میرے ملک کے عالمی منصو بوں پر کام کرتا ہے اور جلد ہی مجھ کو ایک خاص مشن پر دور دراز کی ایک چھو ٹی ریاست میں بھیج دیا گیا۔ وہاں کا ماحول سازگار نہ تھا یوں انسانی جان کی کوئی قیمت نہ تھی لیکن باہر والوں کو چو کنّا رہنا پڑتا تھا۔ وہاں زیرِ زمین ایسی تنظیمیں موجود تھیں جو باہر والوں کی ’ ’ ٹارگٹ کلنگ ‘‘ میں مشہور تھیں اس کے علاوہ بیرونی ملکوں کے ایجنٹ بھی موقع ملتے ہی کام کر جا تے۔ مقامی لوگ تو فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے تھے ایکد وسرے کو مارنے کاٹنے میں مصروف رہتے تھے۔ میرے ملک والے ہی نہیں دوسری بڑی طاقتوں کے ایجنٹ مقامیوں کو تقسیم کرنے اور لڑانے میں لگے ہوئے تھے۔ ان کے مقاصد مختلف ہو سکتے تھے لیکن ان سب کا طریقۂ کار مشترک اور ایک جیسا تھا۔ میں یہاں آیا تو پتہ چلا کہ یہاں فرائضِ منصبی ادا کرنے کے اوقات صحیح معنوں میں کل وقتی تھے یعنی دن اور رات کے چوبیس گھنٹے ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا کہ گھر جانا کوئی آ سان نہیں۔ فون کالس پر بھی پابندی تھی۔ ای میل پر بات کرنا بھی متعیّنہ حدود کے اندر ممکن تھا ورنہ درمیان سے سینسر ہو جا تا۔ حدود سے میری مراد موضوعات کے حدود۔ سچ تو یہ ہے کہ گفتگو ہا ئی، ہیلو، ہوَ آر یو، فائن، تھینک یو، آئی لو یو، لو یو ٹو، اوکے، ٹیک کیئر تک ہی محدود ہوتی۔ محکمہ جاتی مراسلت، پرنٹڈ میٹر، کی شکل اور خاص معاملات ’ ’ کوڈ ‘‘ میں بھیجے جاتے۔ جیسے ہی میں وہاں پہنچا مجھے بہت سارے معاملات پر بریف کر دیا گیا۔ ہر روز کے انسٹرکشن ایک مخصوص طریقۂ کار کے تحت روز روز مل جا تے، انٹر نیٹ پر بھی بہت کچھ لیا اور دیا جا تا۔ یوں تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا لیکن بڑامسئلہ یہ تھا کہ میں اپنی بیوی سے قریب قریب جدا ہو گیا تھا۔ یہ جدائی مجھے بے حد شاق گزرتی۔۔ ۔۔ ۔ وہ بھی میری جدائی میں بہت بور ہو تی ہو گی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اتنے عرصے کے ساتھ میں یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہو چکی تھی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے لئے بنے تھے۔ ایک دو سرے کے ساتھ رہ کر ہی زندگی گزار سکتے تھے ’ ’ ہَوسوئیٹ اینڈ ہَو اوریئنٹل ‘‘ (کتنا پیارا اور کتنا مشرقی ) میں نے اپنیا س سوچ کی آپ ہی تضحیک کی۔ یوں تو میں گھر جانے کے لئے پہلے ہی ہفتے سے جُگاڑ نکالنے میں لگا تھا لیکن کامیابی تیسرے مہینے کے اواخر میں نصیب ہو ئی۔ شاید یہ کا میابی بھی اس لئے ممکن ہوئی تھی کہ ہم لوگوں نے کم وقت میں مطلوبہ نتائج حا صل کر لئے تھے۔ جن دو بڑے مذہبی گروہوں میں منا فرت کے بیج ہم نے بوئے تھے وہ اب قد آور درختوں کی صور رت اختیار کر کے پھل دینے لگے تھے۔ دونوں گروہوں کے اربابِ اختیارمیں سے بیشتر نہیں چاہتے تھے کہ آپس کے اختلافات کو ہوا دی جائے۔ اس سبب سے ہمارا کام قد رے مشکل ہو گیا تھا۔ چاروناچار ہمیں ایسے اقدامات کی جا نب رجوع ہو نا پڑا جو خود ہما رے لئے بھی خطرے سے خالی نہیں تھے۔ ہر صورت میں ہمیں پردے میں رہنا تھا۔ بہر حال ایک سے زائد مرتبہ کبھی اِس گروہ اور کبھی اُس گروہ کے لوگوں کو دورانِ عبادت قتل کر وا نا پڑ تا، تا آنکہ ان کا پیمانۂ صبر چھلک پڑا اور وہ ایک دوسرے کا خون بہا نے پر مجبور ہو گئے۔ یہی ہمارا سب سے بڑامشن تھا اور اس مشن میں ہم کامیاب ہو گئے تھے۔ اسی دوران ہمیں اپنی ایمبیسی کے چند مقامی ملا زموں کو بھی مروانا پڑا۔ افسوس کہ مقامیوں کے علاوہ ہمارا ایک آد می بھی زد میں آ گیا۔ اس طرح کے واقعات تو ہما رے پیشے کے معمو لات میں داخل ہوتے ہیں۔ کہاں ہما ری ایک جان اور کہاں مقامیوں کی ہزار جانیں۔۔ ۔۔ ۔ دونوں میں کوئی تناسب نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ ریاست کے دونوں بڑے گروہ ایک دوسرے کے ساتھ بر سرِ پیکار تھے۔ آئے دن فسادات رو نما ہونے لگے تھے، لا اینڈ آرڈر کا شیرا زہ بکھر چکا تھا۔ قانون کی حکمرانی اور حکومت کے رِٹ کے تصوّر کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی۔ اسٹاک ایکسچینج کا انڈکس روز بروز گرتا جا رہا تھا۔ باہر کے لوگوں نے جو پیسہ ریاست کی صنعت و تجا رت میں لگایا تھا اسے تیزی سے نکال رہے تھے۔ مقامی انو یسٹرز کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔ حکو مت بیرونی قر ضوں کے جال میں پھنستی جا رہی تھی۔ بیرونی طاقتیں امداد کے نام پر غلا می کے طوق پہنانے میں مصروف ہو گئی تھیں۔ پڑ و سی ملک ریاست کی سر حدوں پر اپنی رال ٹپکا رہے تھے، غرّا رہے تھے، دھمکیاں دے رہے تھے جس کے نتیجہ میں ریاست کے وسائل، بیرونی قرضوں، اور امداد کا بڑا حصّہ ہتھیاروں کی خریداری اور دفا عی سا مان کی فرا ہمی میں صرف کیا جا رہا تھا۔ ایک کمزور، زوال پذیر ملک بہت جلد ہما ری گود میں گرنے کے لئے تیّار ہو رہا تھا۔ بہت جلد وہ بظا ہر آزاد اورببا طن ہمارا غلام ملک ہونے جا رہا تھا۔ ہمارا محکمۂ فوج اس ملک میں اپنا فوجی اڈّہ بنانے کی تیّا ریاں پہلے ہی مکمل کر چکا تھا۔ جس دن میں اپنے گھر کے لئے پرواز کرنے والا تھا مجھے یہ احکا مات وصول ہوئے کہ میری چھٹّی منسوخ کیجا چکی تھی اور اب مجھے سرکا ری کام سے جا نا تھا۔ اس کام کی مدّت ایک ہفتہ تھی۔ البتہ مجھے اجا زت دی گئی تھی کہ میں اپنے گھر رہ سکتا تھا۔ یہ صورتِ حال میرے لئے خلافِ توقع حد تک بہتر اور قابلِ قبول تھی شاید ایسی ہی صورتِ حال کو ’ ایک پنتھ دو کاج ‘ کہا جاتا ہے۔ میں خوش تھا، اور کیوں نہ خوش ہوتا آخر گھر جا رہا تھا۔۔ ۔۔ گھر، جہاں میری بیوی رہتی تھی۔ میں یہ محسوس کر کے بے حد حیران تھا کہ میری خوشی میں کوئی اڑ چن سی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں خوش ہوں بھی اور نہیں بھی۔ ’ ’یہ سب کیا ہے ؟ ‘‘میں یہ سب سوچنے پر مجبور تھا۔ بیوی سے اتنا عر صہ جدا رہنا میرے لئے کیسا تجربہ تھا یہ میں خوب جانتا تھا۔ میرے سوا اور کون جان سکتا تھا ؟ شاید یہ بھی پورا سچ نہیں تھا۔ پورا سچ تو یہ تھا کہ میرے چہرے مہرے، طور و اطوار سے یہ پتہ چل گیا تھا کہ میں ان شوہروں میں سے تھا جن کو ’ ہیں پیکیڈ ‘کہا جاتا ہے۔ سب کو نہیں تو میرے ایک افسرِ با لا اور ایک رفیقِ کار کو ضرور اس کا اندازہ تھا۔ اس کا پتہ مجھے اس طرح چلا کہ جب میرے افسرِبالا نے ایک پارٹی میں مجھے اس کارنر میں بیٹھے دیکھا جہاں وہ لوگ بیٹھتے ہیں جن کو ڈانس کرنا نہیں آتا یا جو کسی نہ کسی سبب سے ڈانس کرنے سے گریزاں ہو تے ہیں۔ اس نے مجھے دیکھا، مسکرایا اور آنکھ دبا کر بولا ’ ’انجوائے دی پارٹی اولڈ مین‘ ‘ آخر پارٹی میں مسز ذی کا کوئی مصرف ہونا چاہئے۔ اور ہاں مس ایکس تو تمہیں ہڑپ کرنے کے لئے بالکلتیّار ہے۔ اگر تم اس کو مگر مچھ بن کر نگل بھی جا ؤ تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور نہ ہی محکمے کو ہو سکتا ہے ‘‘ میں بھی جواب میں مسکرایا لیکن اس جگہ سے اس وقت تک نہیں ہلاجب تک ڈانس کی موسیقی بند نہیں ہوئی۔ میں نے ڈانس کے دوران مسز ذی اور مس ایکس پر اچٹتی نظر ڈالی وہ دونوں ڈانس کرتے ہوئے مردوں پر اس طرح گر رہی تھیں جیسے تتلیاں پھولوں پر گرتی ہیں۔ اس کے دوسرے دن کافی بریک کے دوران اس نے مجھے تنہا بیٹھا دیکھ کر صرف اتنا کہا ’ ’ بیوی یاد آ رہی ہے۔۔ ۔ ہے نا ‘‘ اور ہنستا ہوا ایک لمبی ٹانگوں والی لڑکی کے ساتھ کافی لاؤنج سے با ہر نکل گیا۔ کسی ایسے ہی موقع پر ایک کو لیگ نے بھی میرے ساتھ ایسا ہی رویّہ اپنایا۔ ایک ہر دلعزیز دیالو مقامی لڑکی جس سے میل جول کا اوپر سے او کے سگنل ملا ہوا تھا خود میری طرف آئی اور مجھے اپنے گھر لے جا نے پر اصرار کرنے لگی لیکن میں پس و پیش کرنے لگا۔۔ ۔۔ ۔۔ میرے اس کولیگ نے دور ہی سے صورتِ حال کو بھانپ لیا اور میری کلائی پر بندھی گھڑی جیسی شکل کے فون پر مجھے پیغام دیا ’ ’ اے بیوی کے وفادار احمق !اگر تو نے اس خوبصورت کتیا کو ٹھکرایا تو میں تجھے مار ڈالوں گا۔ ‘‘ یہ بتانا ضروری نہیں کہ میں اس خوبصورت نو جوان کتیا کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔ اس کا گھر جو ایک بوڑھی آنٹ کی موجودگی کے باوجود ہم جیسے دورافتادہ جوان آدمیوں کے لئے جنّت سے کم نہ تھا۔۔ ۔۔ ۔ یہ اور بات جب ہم دنیا و ما فیہا سے بے خبر ایک دوسرے کے مزے لوٹ رہے تھے گھر کے ایک کونے میں رکھے ہوئے ٹی وی اسکرین پر مقامی لوگوں کے ہاتھوں مارے گئے مقامی لوگوں کی لاشیں ایک عبادت خانے کے اندر جگہ جگہ خون سے لت پت دکھائی جا رہی تھیں۔ عجیب لوگ تھے کہ بچّوں، جوانوں، اور بوڑھوں کی لاشوں کا انتہا ئی قصّا با نہ انداز سے بار بار نظارہ دکھا رہے تھے، کیف ومستی میں پوری طرح غرق ہو جا نے کے باوجودمیں اس منظر سے بد مزہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور واش روم جا کر الٹی کرنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ اور بات کہ میں نے اپنے احساسات اس مقامی حسینہ پر ظا ہر نہیں ہونے دیئے ورنہ وہ ضرور حیران رو جاتی کہ اتنے بڑی عالمی طاقت کا ایک سپوت اتنا جذ باتی اور نرم دل۔ ’ ’کیا میں واقعی نرم دل ہوں۔۔ ۔ ہیو مینٹرین۔۔ ۔۔ ٹو ہیل وِد اِٹ۔۔ ۔ شٹ۔ ‘‘میں اندر ہی اندر اپنے آپ پر غصّہ ہوا اور اپنے اندر کے وُلف (بھیڑیئے ) کو باہر نکال کر اس مقامی لیکن جان لیوا بھیڑ پر ٹوٹ پڑا اگر میں ایسا نہ بھی کرتا تو بھی وہ میرا والٹ ضرور ہلکا کرتی۔

بیوی سے میری ملا قات ایئر پورٹ پر ہو ئی، وہ مجھے ایئر پورٹ پرلینے آئی تھی، معمول سے کہیں زیادہ پُر کشش لیکن قد رے مختلف اس نے بالوں کوبالکل ہی مختلف انداز سے بنایا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کا چہرہ بدل سا گیا تھا، گردن اور زیادہ پتلی ہو گئی تھی۔ اس کا لباس بے حد مختصر تھا۔ اٹھنگی سے شرٹ اورچھو ٹی سی چڈّھی وہ بھی بھڑ کیلے لال رنگ کی۔ وہ سر سے پیر تک دعوت ہی دعوت تھی۔ میں نے اس سے قبل اپنی بیوی کو کسی پبلک پلیس پر ایسے لباس اور ایسے انداز میں نہیں دیکھا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے ایئر پورٹ کے کار پارکنگ کمپلیکس کی بھول بھلیّوں میں بھٹک رہے تھے۔ میرے جن ہاتھوں کو بیوی کے پتلی کمر کے گردحلقہ بنانا تھا وہ ہینڈ کیری گھسیٹ رہے تھے اس کے لازمی نتیجے کے طور پرمیری بیوی نے اپنے ایک بازو سے میری کمر کو اور کولھوں کو تھاما ہوا تھا۔ ایئر پورٹ سے گھر جانے کے دوران میں نے اپنی بیوی کا اچھّی طرح جائزہ لیا۔ اس مختصر لباس میں گاڑی چلاتے ہوئے وہ بالکل برہنہ لگتی اگر اس کے کپڑوں کا رنگ بھڑکیلانہ ہوتا۔ جب میں نے اس کے چہرے کا جائزہ لیا تو اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہی مائل بھورے حلقے نظر آئے۔ ’ ’کیا وہ بیمار تھی۔۔ ؟ کیا وہ دیر دیر تک جاگتی رہتی تھی۔۔ ؟ کیا اس نے میری جدا ئی کو اپنے اندر لے لیا تھا۔۔ ؟ کیا وہ زیادہ پینے لگی تھی۔۔ ؟‘‘ ایئر پورٹ سے گھر بہت زیادہ دور نہ تھا۔ جب ہماری گاڑی گھر کے گیراج میں داخل ہو رہی تھی۔ میں نے اس کے گال پر ہلکی سی تھپکی دیتے ہوئے بڑے پیار سے پوچھا۔ ’ ’ کیا تم زیادہ پینے لگی ہو۔۔ ‘‘ میرے اس سوال پر وہ چونکی اور بولی۔ ’ ’ تمہیں کیسے معلوم ہوا۔۔ ؟ ہم دونوں گا ڑی سے اترے، اتر تے ہی وہ تیزی سے میری طرف آئی اور مجھ سے لپٹ ہی نہیں بلکہ چمٹ کر سسکیاں لینے لگی، گیراج کا شٹر اوپر ہی تھا، میں نے اس کے ہاتھ سے ریموٹ لیا اور شٹر گرا دیا۔ میں اس کو لپٹائے، لپٹائے چھوٹا سا چوبی زینہ چڑھ کر اور اس کو اپنے سہارے چڑھاکر گھر میں داخل ہو گیا۔ گھر کے اندر پہونچتے ہی وہ آواز سے رونے لگی، میرے گلے میں اپنی باہیں حمائل کئے، میرے چوڑے سینے سے اپنا گداز سینہ چپکائے وہ رورہی تھی کبھی آواز سے اور کبھی بے آواز۔۔ ۔ آخر میں نے اس کو انتہائی رسان سے، نرمی سے اپنے بدن سے جدا کیا۔۔ ۔ اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس کے روتے پھڑکتے منہ اور ہونٹوں کو اپنے منہ اور ہونٹوں سے بند کیا، ایک خاموش طویل بوسے کی صورت میں جو ہم دونوں کے جسموں سے ہو کر روحوں میں اتر گیا اور دیر تک اترا رہا۔۔ ۔ جب میں نے اس کے منہ کو آزاد کیا تو اس نے اپنا سر جھکا لیا اورسر گو شی کی جیسے کسی گناہ کا اعتراف کر رہی ہو۔ ’ ’ یس ڈارلنگ۔۔ تمہاری پیاری بیوی ایک ڈرنکرڈ۔۔ ایک بلڈی ڈرنکرڈ ہو گئی ہے۔ !! ‘‘ میں نے اپنے آپ پر قا بو پا لیا۔ اس قسم کے پروفشلزم کی ہمیں تربیت دی جا تی ہے۔ ورنہ سچ پوچھئے تو اپنی بیوی کی حالت اور اس اعتراف سے میرے اندر بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ اس سے قبل وہ بیئر بھی کم کم پیتی تھی۔ شیمپیئن بھی صرف چند چسکیاں۔ وہسکی کے جام تو وہ لبوں سے چھونے سے بھی گریز کرتی۔ میں نے تاسّف، تردّد اور تفکّر کے سارے مرحلے اس ایک لمحے میں، ایک ہی ساتھ طے کر لئے تھے۔ ساتھ ہی اپنے آپ کو خوف زدہ بھی محسوس کر رہا تھا، یہ سب میرا اندر تھا۔ اپنے باہر جو میں نے ردِّ عمل ظاہر کیا وہ یہ تھا کہ میں نے اس کے ہونٹوں پر دو انگلیاں ثبت کیں پھر آہستہ سے کہا ’ ’اس موضوع پر کسی اور وقت بات کریں گے ‘‘

گھر جا کر، بیوی سے ملا قات کر کے میں نے صورتِ حال کی مضحکہ خیزی کا خوب خوب عرفان کر لیا تھا۔ محکمے نے مجھے چھٹّی پر نہیں بلکہ ڈیوٹی پر روانہ کیا تھا۔ یہاں تک کہ میرا گھر جانا اور اپنی بیوی سے ملنا بھی ایک ڈیوٹی جیسا لگ رہا تھا۔۔ ۔۔ ڈیوٹی سے بھی زیادہ سنجیدہ اورگھمبیر۔۔ ۔۔ میری حالتِ زار کا اندازہ صرف وہی انسان لگا سکتا تھاجس کا واسطہ کسی عادی شرابی سے پڑا ہو اور وہ بھی شرابن بیوی سے۔ ایک جانب میں اس کام میں جٹا ہوا تھاجو میرے سپرد کیا گیا تھا تو دوسری جانب میں اپنی بیوی کو زیادہ سے زیادہ وقت دینے کی کوشش میں لگا تھا۔ میں چاہتا تھا دونوں محا ذوں پر کامیاب ہو جاؤں۔ سرکاری کام قدرے آسان ثابت ہو رہا تھا لیکن غیر سرکا ری کام جس کا تعلق میری اپنی بیوی سے تھا میرے لئے ’ ’نا قابلِ حصول ٹارگٹ ‘‘ بنتا جا رہا تھا۔ سرکا ری کام ڈکیو مینٹیشن کی نوعیت کا تھا انفار میشن کو ڈس انفارمیشن میں بدلنے کا اور ڈس انفارمیشن کو مصدّقہ ( اتھینٹک ) بنا نے کا۔ ایک ہفتے کے کام کو صرف دودن میں نمٹا چکا تھا اب میری پوری توجّہ اپنی بیوی پر تھی۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے شراب ترک کر دی تھی البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری خاطر وہ ٹُن ہونے سے بچنے لگی تھی۔ دن میں ’ جوب ‘ کے دوران پینے سے یوں بھی بچتی ہو گی۔ میری خاطر ’جوب ‘ سے چھٹّی کرنے کے باوجود وہ شراب کو ہاتھ نہیں لگاتی تھی۔ لیکن میرے گھر سے باہر جاتے ہی وہ ایک دو گھونٹ حلق سے نیچے اتارلیتی۔ میں اس کی پسند اور اس کے طریقۂ کار سے و اقف ہو چکا تھا۔ زیادہ تر وہ ’ ’ ووڈکا ‘‘ سے شوق کرتی لیکن موقعہ ملتا تو ’ ’ جن ‘‘ میں سنگتروں کا رس آمیز کر کے چڑھاتی۔ وہسکی کے لئے وہ ہمہ وقت تیّار رہتی اور اس کے ساتھ سیب کا رس پی کر تو وہ خود شراب بن جاتی۔ شام کا آنا تو غضب ہو جا تا۔ شام۔۔ ۔۔ اور شام کے بعد وہ بڑی مشکل میں پڑ جا تی۔ پہلے وہ مجھ سے چھپ کرواش روم میں پیتی لیکن بہت جلد چھپنے چھپانے کے تکلّف سے آزاد ہو جاتی۔ میں حتیا لامکان اس کا ہاتھ روکتا لیکن اس کو روکنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا تا۔ اس کو پکڑنا اس لئے مشکل ہوتا کہ وہ ہر قسم کے برتن میں ڈال کر رکھ لیتی تاکہ نظر میں آئے بغیر ’ پی سکے ‘ عام گلاس، ڈسپوزل ایبل گلاس، کوئی سا بَول (پیالہ )، چھوٹا، بڑا، سوپ نوشی کا، یا جوس پینے کے مقصد کا کوئی سا کپ، یا مگ۔۔ ۔۔ گھر کے اندر وائن بَول میں وہ عام طور پر پانی پیتی تھی۔ پانی پینے کا تو یونہی ذکر آ گیا۔ شراب کی زیادتی نے اس کے جگر پر اثر کرنا شروع کر دیا تھا وہ پانی پینے اور پانی ہضم کرنے کے لائق نہیں رہی تھی۔۔ ۔ شراب کی عادت نے، میری جدائی نے، نئے لوگوں کی صحبت نے، اس میں کچھ بدلاؤ بھی کر دیا تھا۔۔ ۔ اس کا پہلا تجربہ یوں ہوا کہ ایک شام جب میں واش روم میں نہانے گھسا تو وہ بھی میرے ساتھ لگی چلی آئی اور میرا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی شاورباتھ میں لے گئی میں ننگ دھڑنگ اس کے پیچھے گھسٹتا چلا گیا، میں شاور کے نیچے کھڑا تھا اور وہ شیشے کی دیوار کی دوسری جا نب کھڑی مجھے دیکھتی رہی تھوڑی دیر وہ مجھے دیکھ کر ہنستی رہی پھر نجانے کہاں سے اس کے ہاتھ میں ایک گلاس آ گیا۔ جس میں میرے اندازے کے مطا بق چار پیگ تھے۔ کھڑے کھڑے اس نے ایک ہی سانس میں ساری کی ساری شراب حلق سے نیچے اتارلی اور خالی گلاس قریب ہی کہیں رکھ کر جب وہ نمودار ہو ئی تو اس کے گلے میں لٹکے ہوئے ایک ننھے سے کراس کے علاوہ تن ڈھانپنے کے لئے اور کچھ نہ تھا۔ ’ ’تمہیں تو شا ور کے نیچے نہانا بھی نہیں آتا ‘‘اس نے گھٹی گھٹی ہنسی میں ملی جلی آواز سے کہا۔ پھر اس نے مجھے شاور کے نیچے نہانے کا درس دینا شروع کیا۔ تھوڑی دیر کے لئے میں یہ بھی بھول گیا کہ میری بیوی ایک ’ ’ شرابن ‘‘تھی جس کو مجھے ایک نارمل عورت بنا نا تھا۔ اس وقت وہ صرف ایک عورت تھی۔

اس عورت نے مجھے شاور کے نیچے نہا نے کا جو درس دیا تھا کس سے سیکھا تھا؟ میری بیوی تو یہ سب کچھ نہیں جانتی تھی۔ کیا یہ عورت ’ ’ میری بیوی نہیں ہے ؟ ‘‘ کیا یہ کوئی اور عورت ہے ؟ کیا ’ ’میری بیوی ‘‘ بدل گئی ہے ؟ کسی اور عورت نے میری بیوی کی جگہ لے لی ہے ؟ اگر یہ ’ ’ میری بیوی ‘‘ نہیں ہے تو یہ شرا بن میرے گھر میں کیا کر رہی ہے ؟

شاور کے نیچے نہانے کے بعد پہلی تنہا ئی میسّر آ نے پر میں نے اپنے آپ کو ان جیسے بے شمار سوالوں میں گھرا ہوا پایا۔

جس پہلی تنہائی کا ذکر میں نے کیا ہے وہ میں نے کس طرح گذاری اس کا ذکر آپ کے لئے با عثِ تعجب ہو گا۔ وہ کسی طرح بھی تنہا ئی کہلا نے کی مستحق نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ ایک ڈسکو کلب تھا، مجمع، شور، رقص، گہما گہمی، لپٹا لپٹی، خوشبو، رنگ، رنگ برنگی روشنیوں کی مار، ہر سائز، ہر وضع، ہر عمر، ہر قماش کی عورتیں اور مرد، ٹین ایجرز سے لے کر پختہ جوان مرد، ادھیڑ، بوڑھے، سینیئرس، ساٹھے پاٹھے، سترے بہترے، ایک دو ان سے بھی گئے گزرے، ایک دو معذور، ایک وہیل چیئروالا، دو ایک مصنوعی بازو، مصنوعی ٹانگ والے ریٹائرڈ فوجی جن میں بیشتر کسی نہ کسی جسمانی نقص کو اپنی فوج کی سوغات کے طور پر پیش کرنے کے شوقین !ڈاڑھی والے، کلین شیو، صرف مونچھوں والے، گنجے مرد، گنجی عورتیں، وِگ پوش مرد، وِگ پوش عورتیں، بلونڈ بالوں والی عورتیں، برینٹ بالوں وا لی عورتیں، سرخ سر والے مرد اور عورتیں، گورے لوگ، کالے لوگ، بھورے لوگ، زرد لوگ، لمبے، ٹھگنے، موٹے، دبلے لوگ، شریف، بدمعاش، شرابی، ڈرگ ایڈکٹس، جواری، چور، اسمگلر، نو سر باز، ڈاکو، اپنی موجودگی کا ثبوت دینے والے، اور اپنی موجودگی کو غیر محسوس کرانے والے، اپنے شوہروں کی نگراں عورتیں، اپنی عورتوں کے نگراں مرد، سِلیبریٹیز مرد اور عورتوں کے ساتھ ان کے با ڈی گارڈز، ایک جانب کسی کسی پول سے لپٹی ہوئی برہنہ لڑکیاں، بے شمار قوموں، رنگوں، نسلوں کی نما ئند گی کرتے ہوئے کسی چھو ٹی سی ڈائیس پر اسٹرپٹیزپرفارم کرتی ہوئی لڑکیاں جو پانچ سے دس ڈالر کے عوض اپنا سب کچھ لٹانے پر تیار رہتیں۔ رقص، موسیقی، شور، جوانی، مستی، شراب، نشہ، جوا، ڈالروں کی ریل پیل کے اس عالم میں، خود شراب پینے، نیم مد ہوش ہونے، کچھ لڑکیوں کو چھیڑنے، کچھ لڑ کیوں کو گالیاں دینے، ایک آدھ سے گالی کھانے، کچھ مال جوئے میں لٹانے کے بعد میں اس قابل ہوا کہ اپنی بیوی کے بارے میں کچھ سوچتا اور جیسے ہی میں نے سوچامیرے ذہن میں ایک جھما کا سا ہوا۔۔ ایک تجلّی، شاید ایسی ہی تجلّی پرنس سدھا رتھؔ کے ذہن میں نمودار ہوئی تھی جب وہ دنوں ہفتوں یا شاید مہینوں ایک پیپل کے پیڑ کے نیچے گیان دھیان میں لگے رہے تھے۔ یہ بات پہلی مرتبہ اپنے ایک پرائمری کلاس کے ٹیچر سے سنی تھی۔ اس تجلّی کے بعد وہ پرنس سدھارتھ سے ’ ’ بدھا ‘‘ بنے تھے۔

میری تجلّی سے مجھے بھی کچھ بن جانا تھا۔ لیکن ضروری نہیں ہے جو کچھ ہونا ہے وہ فوری ہو جائے۔ اس ریا ست میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی نیو برسوں پہلے رکھی گئی تھی۔ اور جو بہت بعد میں ہو گا اس کی داغ بیل آج ڈالی جا رہی ہے۔ ڈسکو کلب کے اس متوالے صد رنگے ہجوم میں اچانک وہ ہو جائے جو اس ریاست کی عبادت گا ہوں میں ہو رہا ہے تو کیا ہو ؟۔ ہنستے کھیلتے لوگوں پر اچانک نزول ہو دہشت، خوف، تباہی، بربادی، ٹوٹ پھوٹ، شور شرابہ، کراہیں، انسانی اعضاء کا جسموں سے علیحدہ ہو نا، دور و نز دیک گرنا، سروں کا دھڑوں سے کٹ کر چھتوں اور دیواروں سے ٹکرانا، انسانی خون کا زخموں سے رِسنا، بہنا، اور کسی جسم سے فوّارے کی طرح اڑنا، لوگوں کی بھگدڑ، مردہ جسموں سے الجھ کر گرتے ہوئے لوگ، اور مردہ یا نیم مردہ جسموں کو کچل کر گزرتے ہوئے لوگ، لیٹے لیٹے کراہتے اور چلّا تے لوگ، رینگ رینگ کر، گھسٹ گھسٹ کراس قیامت والی جگہ سے باہرنکل جانے کی کوشش میں مصروف لوگ۔ چھوٹی عمر میں اپنی پرائمری ٹیچر سے میں نے سنا تھا کہ پرنس سدھارتھ (بھگوان بدھا ) نے اپنی محل کی زندگی تج دیتے اور بچّے اور بیوی کو سوتا ہوا چھوڑتے سمے، اور بعد میں ’گیا‘ (ہندوستان ) میں سچ کی تلاش میں ادھر اُدھر بھٹکتے ہوئے اور بالآخر پیپل کے پیڑ تلے آسن جما کر بیٹھنے کے دوران طرح طرح کے آ زاروں اور دکھوں میں مبتلا مخلوق کا دھیان کیا تھا۔ میں بھی تو وہی کرنے لگا تھا۔ تو کیا میں دوسرا بدھ بھگوان بننے جا رہا تھا؟ لیکن میں ان سے قطعی مختلف آد می تھا۔ وہ انسانوں کو دکھوں سے محفوظ کرنا چا ہتے تھے اور میں۔۔ ۔ میں تو ایک بہت بڑی مشین کا پرزہ تھا جس کا کام ہے انسانوں کو دکھوں میں مبتلا کرنا۔۔ پرنس سدھا رتھ نے اپنی جس جوان بیوی کو ترکِ دنیا کرتے سمے سوتا چھوڑا تھا اس پر دنیا خا موش تھی۔ اس کے بارے میں اگر کچھ ملتا بھی ہے تو اس کی نوعیّت، قیاس اور گپ شپ کے دا ئرے میں آتی تھی۔ میں نے بھی تو اپنی بیوی کو تنہا چھو ڑا تھا۔ میری بیوی بھی مجھے اتنی ہی پیاری تھی جتنی پرنس کی بیوی پرنس کو پیا ری تھی، جوانی ہم دونوں کی بیویوں کے درمیان قدر مشترک بھی تھی

ڈسکوکلب کی پُر ہجوم تنہائی میں بیوی کے با رے میں گیان کی جو روشنی میرے ذہن میں اتری تھی اس کے تحت میں نے بیوی سے پوچھا ’ ’میری غیر موجودگی میں کوئی دوسرا مرد ؟ ‘‘ ایئر پورٹ جا تے ہوئے گاڑی میں چلا رہا تھا اور وہ میرے ساتھ اس طرح بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کا ایک چوتھا ئی بدن مجھ پر لدا ہو تھا۔ میرا سوال اس کے کانوں کے راستے اس کے دماغ میں اور دماغ سے شاید اس کے پورے بدن میں گونج گیا۔ اس کا بدن اچانک تن گیا۔ وہ مجھ سے علیحدہ ہو گئی اور تن کر بیٹھ گئی۔ میں اس کو کنکھیوں سے دیکھ کر اس کے اعضاء کی حر کت کا جا ئزہ لے رہا تھا۔ ریفلیکس ایکشن (غیرارادی حرکات ) پر میرا اچّھا خاصا مطالعہ تھا۔۔ با ڈی لینگویج سے واقف تھا۔ وہ سیدھی ہو کر اور اپنی سڈول خوبصورت اور بے حد گوری ٹانگوں کو اکڑ اکر بیٹھ گئی جیسے اس کا جسم کسی ناگہا نی حملے سے بچنے کے لئے تیّار ہو گیا ہو۔ اس نے مجھے بغور دیکھا۔ میرا چہرہ سنجیدہ تھا۔ معمول کی مسکراہٹ سے بھی خالی۔ ‘‘

’ ’ کیا یہ ایک سنجیدہ سوال ہے جو تم پوچھ رہے ہو ؟ ‘‘

’ ’ یس‘‘ میں نے اس کے بعد ’میڈم ‘کہنے سے اپنے آپ کو بمشکل باز رکھا۔ اگر کہہ دیتا تو میری یہ ’ ’ یس ‘‘ خوفناک حد تک طنزیہ بن جا تی۔

’ ’ تم نے اس سوال کے لئے بہت ہی غلط وقت چنا ہے۔ کاش!تم کسی فرصت کے وقت پوچھتے اور میں تفصیل سے کام لیتی۔ ‘‘

بولتے بولتے وہ رک گئی اور یوں لگا جیسے گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھ رہی ہو۔ ایک لحظہ کے لیے ایسا بھی لگاجیسے وہ رو رہی ہو۔ رونے پر قابو پا رہی ہو یا بس رونے والی ہو۔۔ پھر اسی طرح شیشے سے دیکھتے ہوئے اس نے گر یہ سے معمور آواز میں ایک ہلکا سا ’ ’یس‘‘ گا ڑی کی بند فضا میں چھوڑ دیا۔ جو کسی سائلنسر لگی ہوئی گن سے نکلی ہوئی گولی کی طرح میرے ذہن میں پیوست ہو گیا۔

ایئر پورٹ پر جب میں ڈرائیونگ سیٹ سے نیچے اترا تو وہ میری جگہ کھسک آئی اور گاڑی پارک کرنے چلی گئی۔ جس وقت وہ گاڑی پارک کر کے لوٹی میں کلیرنس لے چکا تھا۔ ہم دونوں نے آنکھیں نہیں ملائیں۔ البتہ جب میں اپنی ہینڈ کیری گھسیٹتا ہوا دوسرے مسافروں کے ساتھ جہاز کی طرف جا نے لگا تووہ ایک جھٹکے کے ساتھ میرے سینے سے آ لگی اور دوسرے لمحے علیحدہ ہو گئی اور ایئر پورٹ کی بیرونی راہداری کی طرف اس کے قدم بڑھنے لگے۔ اس کی جانب دیکھے بغیر میں یہ بتا سکتا تھا کہ وہ آنسوؤں سے رو رہی تھی۔ میرا یہ سفر کس طرح کٹا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ بچپن میں آپ کبھی پتنگ اُڑارہے ہوں، اچانک ہوا تیز ہو گئی ہو، ڈور سے پتنگ سنبھالنا مشکل ہو گیا ہو، اورپھر ڈور نہ صرف آپ کے ہاتھوں سے نکل گئی ہو بلکہ چرخی کو بھی اُڑا لے گئی ہو۔ مجھے تو ڈور سنبھالنے کی کوشش کرنے کا موقع ہی نہیں نصیب ہوا اور میری بیوی میرے ہاتھ سے نکل گئی۔ اس کو تیز ہوا لے گئی۔ ہوا جو قدرت کا مظہر ہے۔ حالات کا سمبل ہے۔ جس پر میرا یا میری بیوی کا کوئی قابو نہیں۔ ہماری جدائی، اس کی تنہائی۔۔ تنہائی کی طویل شام اور لمبی رات جس کی اس کو عادت ہی نہیں تھی۔ جب وہ پہلی بار میرے بغیر گھر میں رہی ہو گی تو گھر کے طوطوں اور کتّے نے اسے ضرور رفاقت دی ہو گی۔ سفید چوہے نے کچھ دیر اسے لّبھائے بھی رکھا ہو گا یا پھر ان سب نے اس کے تنہا رہ جا نے کے احساس کو گھٹن کی حد تک پہنچا دیا ہو گا۔ گھر اسے کاٹنے دوڑا ہو گا اور وہ گھر سے باہر دوڑ گئی ہو گی اور اور پھر اس کا ایکسپوز ہو گیا ہو گا۔ اس ہزار پا، اکٹوپس کے سامنے جس کو عرفِ عام میں دنیا کہا جا تا ہے۔ میں نے ہمیشہ اسے ایکسپوز ہونے سے بچایا تھا۔ کاش! میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ اس کو تھوڑا تھوڑا ایکسپوز ہونے دیا ہو تا۔ کیا میری بیوی واقعی ایک پتنگ تھی جس کو تیز ہوا اڑا لے گئی تھی۔ میری غیر متوقع اور اچانک جدائی کی تیز ہوا۔۔ یا میری پتنگ کو کسی شاطر پتنگ باز نے پہلے کاٹا اور پھر لوٹ لیا تھا۔

میری سوچ جب اس مرحلے پر پہنچی تو جیسے سب کچھ بدل گیا۔۔ ۔ سارا ما حول بدل گیا۔۔ ۔۔ ما حول کیا بدل گیا۔۔ ۔۔ ۔ ؟ بدلتا جب کچھ ہوتا، وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔۔ ۔۔ ۔ جہاز جس میں بیٹھا تھا۔۔ ۔ مسافر۔۔ ۔ چھوٹے بڑے کاموں کے سلسلے میں ادھر اُدھر گشت کرتی ہوئی ہوسٹس لڑکیاں۔۔ ۔ سب کچھ جیسے ہوا میں تحلیل ہو چکا تھا اور اسی ہوا میں۔۔ ۔۔ ۔ میں اڑتا ہوا جا رہا تھا۔۔ ۔۔ میری شرٹ کے اندر جیکٹ تھا ایسا ہی جیکٹ جو عام طور پر خود کُش حملہ آور پہنتے ہیں۔ میرا ٹارگٹ تھا خود اپنے گھر کو دھما کے سے اُڑا دینا کیونکہ اس گھر میں وہ پہنچ چکا ہو گا۔۔ ۔۔ میری بیوی کی تنہا ئی دور کرنے۔۔ ۔۔ ۔

جہاں تک میں اپنی بیوی کو جانتا تھا اس کی بنیاد پر اب میں وثوق سے یہ بات کہہ سکتا تھا کہ میری بیوی نے اپنے آپ کو محض اس لئے شراب کے سپرد کیا تھا کہ اس کی زندگی میں ’ ’ وہ ‘‘ داخل ہو گیا تھا۔ میری بیوی اس قماش کی لڑکی تھی کہ وہ نہ تو میری زندگی میں کسی عورت کو برداشت کر سکتی تھی اور نہ ہی اپنی زندگی میں کسی مرد کو۔۔ ۔۔ ۔ اور جب اس کی زندگی میں ’ ’وہ ‘‘داخل ہو گیا تو اس کے اندر کی لڑ کی کو زبردست دھچکا لگا۔۔ ۔ اس دھچکے کو وہ سہہ نہ پا ئی اور خود کو شراب میں غرق کر دیا۔۔ ۔۔ ۔ ایک لمحہ کے لئے میرے دل کے کسی گوشے میں میری بیوی کے لئے پیار جا گا۔۔ ۔۔ لیکن میں تو بدل چکا تھا۔۔ ۔ میں۔۔ ۔۔ میں نہیں رہا تھا ورنہ اس احمقانہ مشن پر کیسے روانہ ہوتا۔۔ میں اس کو حماقت، دیوانگی، اور غیر انسانی وحشیانہ زندگی سے تعبیر کرتا تھا۔۔ ۔۔ ۔ ایسے کام وہی لوگ سر انجام دیتے ہیں جن کے سر میں یا تو دماغ سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے اور ہوتا بھی ہے تو اس پر کسی ماسٹر مائنڈ کا قبضہ ہو چکا ہوتا ہے۔۔ ۔۔ ۔

یہ میں ہی تھا جو جہاز میں سوار اپنے مشن کی کی تکمیل کرنے جا رہا تھا اور یہ بھی میں ہی تھا جو جہاز کے باہر الٹی سمت ہوا میں اُڑتا ہوا اپنے ہی گھر کو دھما کے سے اڑانے جا رہا تھا، محض اس لئے کہ گھر میں ’ ’ وہ ‘‘ پہنچ چکا ہو گا اور مجھے اسے اڑانا تھا۔ اگر میں نے یہ دھماکا کیا تو گھر کے دوسرے مکینوں کا کیا ہو گا۔ میرا اور میری بیوی کا عزیز از جان کتّا، جو باہر سے بد صورت اور اندر سے خوبصورت تھا۔۔ ۔ چھوٹی ذات کے طوطوں کا جنہیں ہم نے بڑے چاؤ سے پا لا تھا۔۔ ۔۔ سفید چوہے کا جس کی ہم اپنے خاص مہمانوں کو زیا رت کراتے تھے۔۔ ۔۔ ؟اور میری بیوی کا۔۔ ۔ جو میرا سب سے قیمتی اثاثہ تھی۔۔ ۔۔ ؟

اس سے پہلے کہ میں ہوا میں اڑتا ہوا اپنے ٹارگٹ پر حملہ آور ہوتا میرا جہاز زمین پر اتر کر ٹیکسی کرنے لگا۔ اسکے ساتھ ہی مجھے ہوش آ گیا۔ میں اپنے ذہن کو سمیٹ کراس مشن پر مر کوز کرنے لگا جو میرے ملک کی جا نب سے اسائن کیا گیا تھا۔ جس کا مقصد مذکورہ ریاست کو تہ و با لا کرنا تھا۔ یہ مشن بھی غیر انسانی اور وحشیانہ تھا لیکن میرے ماسٹر مائنڈ کے مطابق اس کا مقصد امن کو فروغ، کلچر کا بڑھاوا تھا۔ سب سے اہم نکتہ جو میرے اور میرے ساتھ فرائضِ منصبی ادا کرنے والے ساتھیوں کو فیڈ کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ اس مشن کی تکمیل اوراس ریا ست کے پرخچے اڑانے اور لا تعداد آدمیوں، فوجی، غیر فوجی، مرد، عورت اور بچّوں کی اموات کے بعد ہمارا ملک پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گا۔ میں اور میرے اس مشن کے ساتھآدمی کم اور ’ ’پروگرامڈ ‘‘ رو بوٹس زیادہ تھے۔ کیا آدمی ’ پروگرامڈ‘ رہنے کے بعد بھی آدمی رہتا ہو گا ؟ اگر آدمی رہتا بھی ہو گا تو کتنا ؟ میں جو کچھ بھی اپنے ساتھ جہاز سے لے کر اترا تھا وہ ریاست کی پیٹھ پر آخری تنکا تھا یا شاید اس سے بہت زیادہ۔۔ میں جانتا تھا کہ ریاست کے بھک سے اڑ جانے میں اب زیادہ دیر نہیں تھی۔۔ میں پروگرامڈ رو بوٹ جو اپنے اندر رمق برا بر ’ آدمی ‘ کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو رہا تھا پہلی فرصت میں یہ انتظام کر لیا تھا کہ میری بیوی اور اس کے ’ ’ وہ ‘‘ کی نہ صرف نگرانی کی جا سکے بلکہ اس کی شناخت، اس کے بارے میں وائٹل معلومات، اس کی تصویر، میری بیوی کے ساتھ اس کی تصاویر جلد از جلد مجھ کو مہِیّا ہو جائیں۔ یہ سب کام انتہا ئی راز داری اور پیشہ ورانہ انداز سے انجام پایا۔ اس کام میں بمشکل تین دن لگے۔ ساتھ ہی میں جو کچھ لے کر پہنچا تھا وہ انتہائی تیزی سے نتیجے کی طرف بڑھا۔ مجھے یقین تھا کہ اس کے بعد کسی اور اقدام کی ضرورت نہیں پڑنی تھی۔ یہ قطعی طور پر آخری اقدام تھا اس کے بعد جو کچھ بھی ہونا تھا، خود کار ہونا تھا۔ اگر چہ تباہی اور بربادی، خون خرابہ بھی انتہا کا ہونا تھا لیکن کیا کیِا جائے ایسے کاموں میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس دن کے آخری ٹارگٹ کو میری نگرانی میں تکمیل پانا تھا۔ میں اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لئے نکل چکا تھا کہ مجھ کو، میرے گھر کے، میری بیوی کے بارے میں ایک لفافہ ملا۔ (یہ میرا خانگی معاملہ تھا اور اس معاملے میں کمپیوٹر کو ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا تھا ) میں نے لفافہ بند ہی رہنے دیا اور اسے اندرونی جیب میں ٹھونس لیا۔ میری پہلی ترجیح اپنے فرضِ منصبی کی تکمیل تھی اور میں جان و دل سے اس کام میں جُٹ گیا۔ اچانک میرے ذہن میں وہی روشنی، وہی تجلّی، پھوٹ گئی جس کا ذکر اس سے قبل ( گیا ) انڈیا کے پرنس سدھا رتھ گو تم بدھ کے حوالے سے کر چکا ہوں۔ مجھ کو اور میرے دو ساتھیوں کو اس آخری مشن کی بھینٹ چڑھنا تھا اور میرے ملک نے اس کی تیّا ری کر لی تھی کہ ہم تینوں کسی طرح بچ نہ نکلیں۔ ہمارے ملک کے اپنے مامور کئے ہوئے آدمی محفوظ فاصلوں پر اس حکم کے ساتھ موجود تھے کہ ہمارے بچ نکلنے کی صورت میں ہمیں نشانہ بنا لیا جائے۔ یہ میرا آخری مشن ہی نہیں بلکہ میری زندگی کا آخری دن تھا، میرا مرنا لکھا جا چکا تھا اور یقینی تھا۔ میں پہلی مرتبہ اس سے رجوع ہوا جو کہیں نہ کہیں موجود ہے اور وقتِ آخر ہر آدمی اس سے رجوع ہوتا ہے۔ میرے اندر سے گریہ ایک فوّارے کی طرح جاری ہوا۔ روتے دل، روتی آنکھیں، روتے لبوں میں نے اس ہستی سے گڑ گڑا کر معافی مانگی۔ اگر چہ جو کچھ میں نے کیا تھا اپنا فرضِ منصبی سمجھ کر کیا۔ لیکن خلقِ خدا کی اس کثرت سے اموات، تباہی، بربا دی، خون خرابہ کتنا وحشیانہ اور غیر انسانی لگا اس وقت جب کہ میں خود مرنے جا رہا تھا۔ اس حا لت میں نجا نے کیسے میں نے وہ لفافہ اپنی اندرونی جیب سے برآمد کیا اور اس کو چاک کر دیا اس کے اندر سے میری بیوی کے ساتھ ’ ’ اس ‘‘ کے فوٹو بر آ مد ہوئے۔ ممکن ہے اپنی موت کو اتنا قریب دیکھ کر میری بینائی میں خلل واقع ہو گیا ہو۔ ہر فو ٹو میں ’ وہ ‘ ہنس رہا تھا۔ وہ ایک مقامی تھا۔ میں نے اسے ریاست میں دیکھا تھا یا شاید اس سے بات بھی کی تھی۔ یاد آیا۔۔ میرے ملک اور ریاست کی مشترکہ انجمن کے سالانہ ڈنر میں۔ پیشے سے وہ انجینئر تھا۔ میرے ملک میں جاب کرتا تھا، اسی فرم میں، جس میں میری بیوی ملازم تھی۔ تصویر کے پیچھے لکھی ہوئی مزید معلومات پڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔ میرا مشن پورا ہو چکا تھا۔۔ ۔ میری موت آ چکی تھی!

٭٭٭

 

 

 

برزخی

 

نومبر کی ایک خنک اور خاصی روشن رات میں نہ جانے کیوں اور کیسے سندھ کے میروں کے شہر خیر پور میرس پہنچ گیا۔ یہ شہر تالپور خانوادے کے میروں کی ریاست کا پایہ تخت رہا اور ریاست کے خاتمے کے بعد کمشنری آ گئی لیکن یہ شہر چھوٹا ہی رہا۔ چھوٹے شہروں کی مانند جلد سو جانے والا شہر۔ اس شہر میں میں نے اپنی زندگی کے قریباًدس برس گزارے تھے۔ آدھی رات کا سمے تھا۔ خیال سا ہے کہ میں ٹانگے سے پنج گولہ چوک میں اترا۔ چوک کی جامع مسجد سو رہی تھی۔ اس سے لگا ہوا سینما بھی رات کے آخری شو کے بعد انگڑائیاں لے رہا تھا۔ سینما کے ساتھ جڑا ہوا ہوٹل خرّاٹے لے رہا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی پرائمری اسکول کے بڑے آہنی پھاٹک پر بڑاسا تالا لگا ہوا تھا۔ پھاٹک کے قریب دیوار سے لپٹا ہوا ایک لڑکا سو رہا تھا۔ وہ ایک پھٹی پرانی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ اس کے پاس ایک کتا نیم بیدار ایک ایسے آسن میں لیٹا تھا جو لیٹنے اور بیٹھنے کی درمیانی حالت ہو سکتی تھی۔ ٹانگہ اسٹینڈ میں جو چوک سے تھوڑے فاصلے پر تھا دو گھوڑے بیٹھے اور ایک کھڑا تھا۔ دو ٹانگے گھوڑوں کے بغیر اگلا حصّہ اوپر اٹھائے اور پچھلا زمین پر ٹکائے کھڑے تھے۔ گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں طویل طویل وقفوں سے بلند ہو رہی تھیں۔ میں چوک کے بیچوں بیچ پانچ روشن قمقموں کی تیز روشنی کے نیچے کھڑا تھا مگر آسمان پر روشن چاند سے بھی یکسر غافل نہ تھا۔ میں اپنے اکناف کی ایک ایک چیز سے واقف ہوتا جاتا تھا۔ میں یہ تک جانتا تھا کہ اس ماحول میں کتنی بلّیاں کس کس حالت یا مصروفیت میں ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ کسی گلی سے دو عورتیں آ کر کھڑی تھیں۔ ان کے ساتھ جو ملازم نما آدمی آیا تھا شاید ٹیکسی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑ رہا تھا۔ قرینِ قیاس یہی تھا کہ دونوں عورتیں کسی کی اوطاق میں اجتماعی دل بہلاوے کا فرض بھگتا کر اب قریب کے بڑے شہر سکھر کے بازارِحسن لوٹائی جانے کی منتظر تھیں۔ سچ پوچھئے تو میں خود بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ میں چوک کے بیچوں بیچ کھڑا کیا کر رہا تھا۔ اچانک میری نظر اس پر پڑی وہ تیزی سے اس گلی میں داخل ہو رہا تھا جہاں اس کا کلینک تھا۔ جیسے ہی میں نے اسے دیکھا میری ٹانگیں آپ ہی آپ متحرک ہو گئیں اوردوسرے ہی لمحے میرا پورا وجوداس کے پیچھے تھا۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ( وہ قد میں مجھ سے ٹھگنا تھا) اور حیران ہو کر رہ گیا میں نے محسوس کیا کہ اتنی رات گئے، اپنائیت کے اس مظاہرے پر وہ نہ تو چونکا اور نہ ہی میری جانب پلٹا۔ آخر مجھ کو ہی اس کے سامنے آنا پڑا۔۔ میں اس کی راہ میں حائل ہوا اور بے تکلفی، خوشی اور محبّت کے ملے جلے لہجے میں اسے آواز دی۔

’ ’ کس چکر میں ہو ڈاکٹر۔۔ ۔ اتنی رات گئے وہ بھی اکیلے۔۔ ۔ ؟‘‘ ڈاکٹر نے مجھ سے آنکھیں نہیں ملائیں۔ سر جھکائے کھڑا رہا۔ وہ خاموش نہ تھا منہ ہی میں بڑبڑا رہا تھا۔

’ ’ میں بھاگا دوڑی کرتے کرتے تنگ آ گیا ہوں۔ تھک کر چور ہو رہا ہوں لیکن نتیجہ کچھ نہیں !۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘ا س کی بڑبڑاتی آواز کو سمجھنے میں بڑی دقّت پیش آ رہی تھی لیکن مجھے اس سے بات کرنی تھی۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ رات کا باقی حصّہ اس کے ساتھ گزاروں گا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ مجھے اپنے گھر چلنے کے لئے کہے (اس شہر میں کوئی ایسا ہوٹل کبھی قائم نہ ہو سکا جس میں مجھ سا سفید پوش قیام کر سکے )۔ میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی۔ یہ پوچھنا تو میرا اخلاقی فرض بن گیا تھا کہ اس سے اس کی بھاگ دوڑ کا سبب معلوم کروں لیکن میرے سوال کرنے پر کہ اسے کیا پریشانی لاحق ہے اور وہ کیوں بھا گا دوڑی میں لگا ہے۔۔ ۔ بڑبڑانے کے انداز میں اس نے اپنے پورے فقرے کو ایک بار پھر دہرایا لیکن اس اضافے کے ساتھ۔

’ ’میرے گھر میں بجلی نہیں ہے۔۔ پانی نہیں ہے۔۔ دفتر دفتر دوڑتا ہوں شہر کے کونے کونے میں اعلان کرتا پھرتا ہوں۔ لیکن نتیجہ کچھ نہیں !‘‘چونکہ اس نے اپنے گھرکی بات کی تھی۔ میں نے موقع غنیمت جان کر اس کو اپنا گھر دکھانے کی بات کر ڈالی۔

’ ’میں دیکھتا ہوں ڈاکٹر تمہارے گھر میں پانی، بجلی کیوں نہیں ہے۔۔ ۔ چلو تمہارے گھر چلتے ہیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں اس کے سامنے سے ہٹ گیا۔ وہ میرے آگے آگے تیز تیز چلنے لگا۔ لیکن اس نے مجھ سے اب تک آنکھیں نہیں ملائی تھیں۔ اس دوران میں نے اس کو اس کے پورے نام سے بھی مخاطب کیا تھا۔ وہ مجھ سے آگے آگے تیز تیز چل رہا تھا۔ دو تین پیچدار گلیوں کو پار کر کے وہ اپنے کلینک کے سامنے پہنچ گیا۔۔ کلینک کے عین سامنے پہنچ کروہ رک گیا۔ اس نے پہلی بار اپنی جھکی ہوئی نظریں تھوڑی سی اوپر اٹھائیں اور اوپر لگے ہوئے بورڈ کو دیکھا۔ لکھا ہوا تھا ’ ’ ہیلدی لائف کلینک ‘‘ پھر اس نے ایک نظر اپنی نام کی تختی پر ڈالی۔۔ ۔ خیرپور میرس سے جو خبریں ملتی آئی تھیں ان کے مطابق اس کی بیوی نے کسی نا تجربے کار ڈاکٹر کو واجبی تنخواہ پر ملازم رکھ لیا تھا۔ کام تو پرانا کمپاؤنڈر ہی نمٹا رہا تھا۔ کلینک کے سامنے تھوڑی دیر رک کر ڈاکٹر آگے بڑھ گیا لیکن اس نے وہ گلی نہیں لی جو اس کے گھر کی طرف جاتی تھی (میں اس کے گھر سے واقف تھا) اس نے بڑبڑانا بند نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے گھرسے مختلف راستوں پر چلتا ہوا ایک مکان کے سامنے رک گیا۔ مکان بند تھا۔ دروازے پر تالا پڑا تھا اوپر ’ ’ برائے فروخت ‘‘ کا بورڈ آویزاں تھا۔ ڈاکٹر میری طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا لیکن اس کی ٹھوڑی جھکی ہوئی تھی۔ کھڑے رہنے کا انداز ایسا تھا کہ جیسے مجھے رخصت کر رہا ہو۔ میں اس کی اس رکھائی اور ڈھٹائی سے گنگ ہو کر رہ گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کس قسم کے ردِّ عمل کا اظہار کروں۔۔ ۔ ؟ میں اس کے سامنے ڈٹ گیا۔

’ ’ ڈاکٹر۔۔ ۔ میں اس طرح نہیں ٹلنے کا۔۔ ۔ آپ اچّھی طرح جانتے ہیں میں سات سمندر پارسے یہاں محض آپ کا دیدار کرنے نہیں آیا۔۔ ۔ آپ خود سمجھ گئے ہوں گے کہ میں ہم تینوں کے مشترکہ دوست ارباب بن عبدالباقی کی موت کے بارے میں سچائی جاننا چاہتا ہوں ‘‘ اس کی ٹھوڑی جھکی رہی لیکن اس کے جسم پر لرزہ سا طاری ہو گیا۔

’ ’ آپ نے ڈاکٹر صاحب کی موت کو ’ ہائی بلڈ پریشر اور کارڈیوویسکولرفیلیئرقرار دیا اور اس کی لاش خود ہی اس کے بھا ئی کے پاس حیدرآباد (سندھ) پہنچا آئے۔۔ ۔۔ ۔ بولتے بولتے رک کر میں نے اس کو دیکھا اس توقع سے کہ وہ کچھ جواب دے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اس نے کچھ جواب نہیں دیا۔

’ ’ اس کے بھائی نے ہمارے حیدرآباد کے دوستوں کو رو رو کر یہ حقیقت بتائی کہ ارباب کے بدن سے دو گولیاں برآمد ہوئیں۔۔ ۔۔ ‘‘

آپ نے ایسا کیوں کیا۔۔ ۔ ؟ اپنے عظیم پیشے کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا۔ آپ نے دوستی کے رشتے کا بھی لحاظ نہیں کیا محض اس سبب سے کہ قاتل آپ کے فرقے سے تعلق رکھتا تھا اور آپ کا یعنی ہمارا عزیز دوست ارباب بن عبدالباقی کسی اقلیتی فرقے سے تھا۔ ‘‘ میری اس قدر لمبی لتاڑ سے وہ متاثر ہوا تھا۔ اس کا بدن شدّت سے کانپا۔۔ ۔ میں نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے ایک کچوکا اور دیا۔۔ ۔ ’ ’ تم کتنے چالاک نکلے ڈاکٹر۔۔ ۔۔ کتنی صفائی سے تم نے اپنے آدمی کو سزاسے بچا لیا۔۔ ۔ قاتل کو بھی بچا لیا اور خود بھی بچ گئے۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘ میں آپ سے تم پر آ گیا تھا۔۔ ۔۔ ۔ کچھ دیر بعد میں نے ڈاکٹر پر حقارت کی نظر ڈالی اور بولا۔

’ ’ تم وہی ہونا۔۔ ۔ ڈاکٹر۔۔ ۔ جس کو ارباب بیحد عزیز رکھتا تھا۔ یوں بھی تم ہر کسی کے چہیتے تھے۔ تمہاری مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ شہر کے ہر فلاحی ادارے نے تم کو اپنا مربّی اور سر پرست بنا رکھا تھا۔۔ ۔ تم کو ہر تعصب سے، ہر تنگ نظری سے بالاتر مانا جاتا تھا۔ تم کو یاد ہے۔ ہر رات کلینک بند کرنے سے پہلے تم میز کی دراز سے چھوٹا سا خرگوش باہر نکالتے تھے۔ اس میں لگے ہوئے ایک نپل کو دبا کر اس میں ہوا بھرتے۔ وہ میز کی سطح پر چلتا۔ پھر تم اسے اسی دراز میں رکھ دیتے۔ یہ کلینک بند کرنے کا تمہارا ٹوٹکا تھا۔ اس خرگوش کا اصل مقصد تو کسی روتے ہوئے مریض بچے کو بہلانا تھا۔ لیکن یہ جو تم اس کے ساتھ خود کھیلتے اور میں تمہاری چمکتی آنکھوں اور دمکتے چہرے کو دیکھتا تو سوچتا۔ ’ ’دنیا جہاں میں شاید ہی کوئی دوسرا آدمی اتنا معصوم دل ہو گا۔۔ ‘‘ تمہیں اس حالت میں دیکھنے کے لئے اکثر میں تمہارے کلینک کو اپنے سامنے بند کرواتا۔۔ ۔ کہاں گیا وہ خرگوش۔۔ ۔۔ تم نے اسے بھی مار ڈالا ہو گا۔۔ ۔۔ ؟

اب کی مرتبہ میں نے پہلے سے بھی لمبی تقریر کی۔ ادھر میری بات ختم ہو ئی اُدھر ڈاکٹر نے دونوں بازو اوپر اٹھائے، ٹھوڑی اوپر کر کے شاید آسمان کی طرف دیکھا۔۔ پھر بازو نیچے کئے۔ دونوں ہاتھ جوڑ لئے۔ یوں محسوس ہوا جیسے وہ میرے آگے بھی ہاتھ جوڑ رہا ہو۔ جیسے وہ شدید عذاب سے گزر رہا ہو اور پھر اچانک میرے دیکھتے ہی دیکھتے تالا لگے ہوئے دروازے سے اس خالی مکان میں داخل ہو گیا۔ جس پر ’ ’برائے فروخت ‘‘ کی تختی لگی ہو ئی تھی۔

میں کیا کرتا۔۔ لوٹ جانے کے سوا لیکن واپسی کے دوران میں نے محسوس کیا کہ میرے کوٹ کی جیب میں کچھ ہے۔ جو پہلے نہیں تھا۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولا۔۔ ۔ جیب میں ’ ’ کھلونا خرگوش ‘‘ آ موجود ہوا تھا۔ جس سے ڈاکٹر کلینک بند کرنے سے پہلے کھیلا کرتا تھا۔

پنج گولا چوک پر مجھے ایک ٹانگہ مل گیا اور میں ایک بار پھر اسٹیشن کی طرف جا رہا تھا ویٹنگ روم میں رات گزارنے لیکن سارا راستہ مجھے یہی لگا جیسے لمبے قد، بھاری بدن، چگی ڈاڑھی اور چھوٹی آنکھوں والا ارباب بن عبدالباقی میرے برابر بیٹھاہوامسکرارہا ہو اور ’ ’جوائے را ئڈ ‘‘ (Joy ride )کے مزے لے رہا ہو۔ اس کی یہ خصوصیت تھی کہ دن میں تپتی دھوپ میں بھی پیدل چلتا اور ساتھ میں کسی کو گھسیٹے پھرتا اور رات میں ٹانگے میں لدے بنا کہیں نہ جاتا اور ٹانگہ رائڈ۔۔ جوائے رائڈ۔۔ کی رٹ لگائے رکھتا میں نے اس سے ڈاکٹر سے ملاقات کا ذکر کیا لیکن اسنے صرف اتنا ردِّ عمل ظاہر کیا کہ کچھ دیر کے لئے مسکرانا بندک ر کے خاموش بیٹھ گیا۔۔ بالکل خاموش۔۔

٭٭٭

 

 

 

دُختر آب

 

بیوی سے بک بک جھک جھک کر کے وہ سمندر کی طرف چلا گیا۔

غنیمت تھا کہ موسم سمندر مخالف مزاج کا نہ تھا۔ موافق اور مناسب تھا۔ ورنہ وہ تو ایسے ایسے موسم میں سمندر کے کنارے پہنچا ہے جب کوئی صحیح الدماغ آدمی سمندر کا رخ نہیں کرتا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ سمندر کا رخ ہی اس وقت کرتا تھا جب اس کا دماغ صحیح نہیں ہوتا تھا یا پھر دل، شدید غصہ، دکھ، صدمہ، اداسی، مایوسی، ذہنی کرب، دل کی بے چینی یا کوئی گہری نا معلوم کیفیت اس کو سمندر کی جانب دوڑا دیتی۔ ہر طرف برف ہے۔ زمین پر ٹھنڈی سفید برف کا فرش بچھا ہے۔ سمندر کا پانی دور دور تک جمی ہوئی برف میں بدل چکا ہے لیکن حضرت اور کچھ نہیں تو گاڑی دوڑا کر ساحلِ سمندر کے قریب ترین رسائی کے لائق مقام پر پہنچے ہوئے ہیں۔ خواہ تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی۔ سمندر سے اس کا بہت پرانا رشتہ تھا۔ یہ کیسا رشتہ تھا کوئی نہیں جانتا تھا یہ رشتہ کب سے تھا۔ پہلے پہل کب استوار ہوا تھا۔ کوئی اور تو کیا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ سب کچھ ایسے ہی تھا، شاید اس کے بچپن سے یا شاید بچپن سے بھی پہلے۔ اس کی پیدائش سے بھی پہلے اس وقت سے جب وہ پیدا تو نہیں ہوا تھا لیکن تھا اور سمندر بھی پیدا نہیں ہوا تھا، لیکن کسی نہ کسی شکل میں کہیں نہ کہیں موجود تھا۔ اس دن جب وہ سمندر کے کنارے اپنے مخصوص چٹانی پتھر پر بیٹھا سمندر کو اپنے اندر لینے کے لئے اپنے آپ کو کھلا اور ڈھیلا چھوڑا تو اس کو ایک خلافِ معمول صورتِ حال سے دو چار ہونا پڑا۔ معمول کے مطابق تو یہ ہونا تھا کہ سمندر کا جادو اس کے وجود پر چھا جاتا اور وہ اپنا سب کچھ فراموش کر دیتا۔ یوں لگتا کہ سمندر کی کوئی طاقتور موج اس کا سب غم و غصہ، دکھ درد، نہ چاہے جانے کا، نہ سمجھے جانے کا، تحسین ناشناس و سکوت سخن شناس کے علاوہ صریح غلط بخشی کا سارا کرب خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئی۔ اور فوراً بعد کوئی اور موج مثبت عناصر کی ایک تازہ کمک سے اس کے ذہن و دل کو معمور کر گئی۔ ایسا تو ہونا ہی تھا اور ہوتا ہی کیونکہ سمندر نے اسے آج تک مایوس نہیں کیا تھا۔ لیکن اس شام وہی کچھ کسی اور انداز میں ہوا۔ نہ تو کوئی موج اس کے منفی عناصر بہا کر لے گئی، اور نہ ہی اس کے بعد دوسری موج مثبت عناصر سے معمور کر گئی۔ برسوں کا یہ معمول اس شام نہیں ہوا اس کی جگہ ایک نیا اور خلاف توقع واقعہ پیش آیا اس کی آنکھوں نے ساحل کے بہت ہی قریب، بصارت اور بصیرت کی حد کے اندر ایک بے حد خوبصورت اور روشن وجود کو متحرک دیکھا۔ اس طرح حرکت کرتے ہوئے وجود کو دیکھ کر یہی گمان گزرے گا کہ مچھلی سطح آب پر آ گئی ہے، لیکن روشنی اور وہ بھی عجیب و غریب روشنی جیسے آگ، شعلہ، برق، چاندنی اور دھوپ کو باہم دیگر آمیز کر دیا کیا ہوا اور اس کو قوس و قزح کا ست رنگی جامہ پہنا دیا گیا تھا۔ سطح آب کے بالکل قریب وہ سنہرا روپہلا بلکہ رنگ برنگا وجود اپنے حسن تابناک کی جلوہ سامانیاں بکھیر رہا تھا۔ اس لئے سمندر کے کنارے بچپن سے لے کر اب تک کیا کچھ نہیں دیکھا۔ بھانت بھانت کے پنکھ پکھیرو، جانور، چرندے، درندے، تانبیل کچھوے، کیکرے اور مچھلیاں، بھانت بھانت کی مرغابیاں، بطخیں، قاز، بگلے اور نجانے کیا کیا۔ وہ سمندرے کے کنارے ان مقامات تک جاتا جہاں کوئی نہ ہوتا، ورنہ آباد اور با رونق ساحلوں پر تو مچھلیاں بھی نہیں آتیں، سوائے سی گلوں کے جو لوگوں کا جھوٹا کھاتی ہیں۔ جس وجود کو وہ اپنے پورے ہوش حواس میں ہوش و حواس کھو دینے کے انداز میں دیکھ رہا تھا۔ وہ قطعی طور پر ان دیکھا، انجان، ان سوجھا اور ان کہا تھا۔ اس نے سفر نامے اور سیاحوں کے روزنامچے بھی بہت پڑھے تھے لیکن گپ باز سے گپ باز اور جہاں گرد سیاح نے ایسے کسی وجود کا ذکر نہیں کیا تھا۔ الف لیلوی کہانیوں، چھپنے والے نام نہاد قصوں میں یہاں تک کہ دوسری دنیاؤں اور سیاروں کی کہانیوں میں بھی اس جیسے کسی وجود کا ذکر اس کے پڑھنے میں نہیں آیا تھا۔ شاید پانی میں متوازی اور افقی انداز میں تیر رہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے تیرنے کا انداز بھی تیرنے جیسا نہ تھا۔ پانی سے اٹکھیلیاں کرنے کو تیرنا نہیں کہا جا سکتا۔ وہ بہت دیر تک اس کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا، یہاں تک کہ وہ جس طرح اچانک نظروں کے سامنے آیا تھا اسی طرح نظروں سے غائب ہو گیا، بعد میں وہ بے حس و حرکت بیٹھا اس مقام کو نجانے کتنی دیر تک تکتا رہا، اس کو یاد نہیں۔ اس کے غائب ہونے کے بعد اس نے اپنے ہوش و حواس سمیٹے اور اس کے بارے میں سوچا۔ وہ کیا تھی؟۔ یہ بات تو قطعیت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ مونث تھی۔ اس کے چھٹی حس نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی تھی، بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ چھٹی، سا تویں، آٹھویں، نویں بلکہ ہزارویں حس ( اگر انسان کو اتنی ساری حسّیں مہیا ہیں ) نے بھی یہی کہا تھا کہ وہ جنسِ مخالف رکھتی ہے۔ تو گویا وہ لڑکی تھی۔ انسان تھی۔ وہ اگر لڑکی تھی انسان تھی تو کہاں غائب ہو گئی۔ آخر کنارے پر کیوں نہیں دکھائی دی۔ یہ تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس کی گاڑی کنارے کھڑی ہوئی پیچ در پیچ چتانوں اور جگہ جگہ اُگی ہوئی جھاڑیوں کی آڑ میں موجود ہو اور گاڑی اس کے ساتھی بھی ہوں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوا کہ وہ پانی کے اندر ہی اندر کسی طرف کنارے پر نکلی اور اس کی نظروں میں آئے بغیر غائب ہو گئی۔ سوچنے اور کہنے کی حد تک تو یہ درست ہے کہ وہ غائب ہو گئی لیکن کیا یہ حقیقت میں غائب ہو گئی تھی۔ غائب ہونے میں وہ ظاہر تھی، ظاہر ہونے میں وہ غائب تھی۔ اس کی غیر موجودگی ہی اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ وہ غیر موجود ہے تو کسی مقام پر موجود ہے۔ عین اس طرح جس طرح وہ خود اپنے مکان میں غیر موجود ہے اور اس غیر آباد ساحل پر موجود ہے اور اب اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس ساحل کا ایک نام ہے، اس سمندر کا ایک نام ہے جو دو ملکوں کے درمیان بہہ رہا ہے۔ ان ملکوں کے نام بھی ہیں۔۔ ۔ جدا جدا جیسے اس کا اپنا ایک نام ہے اور اس لڑکی کا بھی۔۔ ۔۔ ۔ ’ ’ بہر حال ناموں کے تفرقوں سے قطع نظر کر کے میں اس لڑکی کو اپنے وجود کے اندرونی گوشے میں لئے اپنی گاڑی کی طرف جا رہا ہوں ‘‘۔ اس نے واضح طور پر اپنے آپ کو یقین دلایا۔ لڑکی نے اس کے اندر اپنا تسلّط جما لیا تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر اس نے گاڑی کا رخ گھر کی جانب پھیرنے کے بجائے مخالف سمت میں ایک قریبی موٹیل کی جانب کر دیا۔ یوں بھی اس کی ذہنی حالت گھر جانے کے لائق نہیں تھی۔ وہاں اس کی بیوی تھی۔۔ اس کی بیوی۔۔ ۔ چڑیل۔۔ بچپن میں اس نے چڑیلوں کی بہت ساری کہانیاں پڑھی تھیں۔۔ بڑے ہونے پر پتہ چلا کہ ’ ’ چڑیلیں ‘‘ نہیں ہوتیں۔ پھر اسے یاد آیا کہ بچپن میں اس کے اسکول میں جیتی جاگتی ’ ’ چڑیل ‘‘سے واسطہ پڑا تھا۔ بھلا سا نام تھا لیکن لڑکے لڑکیاں اس کی غیر موجودگی میں ’ ’ چڑیل ‘‘ کہہ کر ہی اس کا ذکر کرتے تھے۔ وہ اسکول کی وائس پرنسپل تھی۔ اسے ایک اور ٹیچر یاد آ گئی جو جادو گرنی ( وِچ) کہلاتی تھی۔ ایک دن باتوں باتوں میں اس نے اپنے والد سے ’ ’ چڑیل ‘‘ اور ’ ’ جادوگرنی ‘‘ کہہ کر پرنسپل اور میتھس کی ٹیچر کا ذکر کر دیا تھا۔ والد نے اس کے کولھوں پر ایک زور کا لہتّر رسید کیا تھا۔ ’ ’ اسکول کے اساتذہ کا احترام کیا جاتا ہے۔ ‘‘

’ ’ You have to be polite with your teachers even in the absence. ‘‘

’ ’ تمہیں اپنے اساتذہ کا ادب کرنا چاہئے، ان کی غیر موجودگی میں بھی۔ ‘‘

اس نے اپنے رونے پر قابو پاتے ہوئے ’ ’ سوری ‘‘ کہا تھا۔ عین اس وقت اس کی ماں آ موجود ہوئی تھی اور پھر ماں اور باپ آپس میں اس معاملے پر لڑ پڑے تھے۔ اور وہ بیسمنٹ ( Basement ) میں جا کر پنجرے میں بند پیلی چونچ اور بڑے سے تاج والے طوطے سے باتیں کرنے لگا تھا، جس کو ایک روز قبل اس کی خالہ دے گئی تھیں۔ اس کی ماں اس بات کے خلاف تھیں کہ باپ بچوں کو مارے۔ بچوں پر ہر طرح کی سختی کا حق دار وہ صرف اپنے آپ کو سمجھتی تھی اور اس میں کسی کی شرکت اسے گوارہ نہ تھی۔ اسے یہ یاد کر کے ہنسی آ گئی کہ اس ماں کی ماں یعنی نانی کو یہ گوارا نہ تھا کہ اس کی بیٹی بچوں کو مارے پیٹے۔ ظاہر ہے بڑوں کے ان اختلافات کا فائدہ بچوں کو پہنچ رہا تھا۔ بچے تین تھے وہ اور اس کی دو بڑی بہنیں۔ اس چھوٹ کی وجہ سے بچے تینوں کے تینوں خود سر اور ضدی ہو گئے تھے اور سب سے بڑھ کر وہ خود ہر طرح سے ایک اسپویلڈ چائلڈ ( Spoilt Child ) بگڑا بچہ تھا۔ یوں بھی اس کی دو بڑی بہنوں کے ساتھ نے اس کے اندر نسوانیت پیدا کر دی تھی وہ موقعہ بے موقعہ آئینہ دیکھنے لگتا تھا۔ اس کے حق میں ایک بات اچھی ہو گئی تھی کہ وہ اور اس کی بہنیں جدا جدا اسکولوں میں داخل ہو گئی تھیں۔ مان نے باپ کی مرضی کی پروا کئے بغیر لڑکیوں کو ایک کیتھولک گرلز اسکول میں داخل کروا دیا۔ اس طرح وہ اسکول کی حد تک اپنی بہنوں کے زیر اثر رہنے سے بچ رہا ورنہ نسوانیت اس پر حاوی ہو جاتی اور وہ ایسا لڑکا بن جاتا جس کو دوسرے لڑکے ’ ’ سسی ‘‘ کہنے لگتے ہیں تاہم وہ لڑکوں کے مردانہ کھیلوں میں پھسڈی ہی رہا۔ نہ تو بیس بال میں اس کا دل لگا اور نہ کسی اور کھیل میں جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا اس کا ذوق واضح ہوتا گیا۔ وہ ایک پیدائشی آرٹسٹ نکلا۔ بنیادی رنگوں سے شناسائی تو اسے عمر کے چوتھے سال ہی میں ہو گئی تھی۔ رنگوں سے کھیلنے کے ساتھ وہ لکیروں سے بھی کھیلتا۔۔ لکیریں جو نقطوں سے جنم لیتی ہیں، دو نقطوں کو ملانے سے بنتی ہیں اور نقطوں کو ملانے سے ہی شکلیں بنتی ہیں۔ ہندسی ( جیو میٹریکل) شکلیں، مثلث، مربع، مسدس وغیرہ۔ ان ہی سے مستطیل بھی بنتے ہیں اور مخروطی اور پھر جب نقطہ پھیلتا ہے تو دائرہ جنم لیتا ہے۔ ہر نقطہ دائرہ نہیں بنتا البتہ ہر دائرے کا نقطہ ضرور ہوتا ہے۔ دائرے کا تصور قوس کے ساتھ جُڑا ہوتا ہے۔ قوس کے ساتھ نیم قوس۔۔ ۔ اور پھر محور۔۔ ۔ اور محیط۔ جب وہ آرٹ کی کلاس میں دوسرے لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ ماڈل کا اسلیچ بنا رہا تھا، جو ایک جوان عورت تھی تو اس کے آرٹ ٹیچر نے تخلیق کا یہ نکتہ بیاں کیا تھا کہ قدرت نے عورت کا جسم دائروں اور مخروطوں سے تشکیل دیا ہے۔ سب لڑکے اور لڑکیوں نے ماڈل کے برہنہ جسم کو اپنی نظروں سے چھلنی کر دیا تھا۔ مستقبل کے ان آرٹسٹوں پر کچھ گزرا یا نہیں گزرا اُس سے نہ تو آرٹ ٹیچر کو کوئی واسطہ تھا اور نہ ہی ماڈل کو۔ ایک آرٹ کا دیوانہ تو دوسری ڈالر کی۔ ایک دن عبادت خانے میں خالق کائنات کے گیان پر بات کرنے کے دوران پادری، پنڈت، ملّا جو کوئی بھی تھا کہنے لگا۔ ’ ’ اس کے دھیان اور گیان کا راستہ ایک نقطے سے نکلتا ہے۔۔ ۔ جب تک آپ نقطے کا گیان نہیں کرتے دائرے تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم سب اس غلطی کے مرتکب ہیں، اس لئے دائرے کے چکر میں گرفتار ہیں۔ دائرے سے مرکز تک پہنچتے پہنچتے صدیاں درکار ہیں، سو لوگو پہلے مرکز پر دھیان دو۔ پہلے خالق کو مانو۔۔ پھر کائنات کی طرف جو اس کی تخلیق ہے۔۔ ۔ خالق مرکزی نقطہ ہے اور کائنات اس نقطے سے تشکیل پانے والا دائرہ ہے۔ ‘‘ اس کی کا رموٹیل پہنچ گئی۔ گاڑی چلانا در حقیقت شعوری کام اس وقت تک رہتا ہے جب تک آپ اناڑی ڈرائیور ہیں۔ بعد میں تو سب کچھ نیم شعوری ریفلیکس (Reflexes) پر چلتا ہے۔ اس دوران اُس نے منیجر سے ٹیلیفونی رابطہ کر کے اپنے آپ کو رجسٹرڈ کروا لیا تھا۔ ایک مرتبہ سب کچھ سیٹل (Settle ) کر لینے کے بعد وہ سیدھا ہال میں چلا گیا۔ ہلکا پھلکا کھانا آڈر کر کے اس نے ڈرنک کی چسکیاں لیں اور جب گرمی اس کے حلق سے اتر کر معدے کا رخ کرنے کی جگہ سر میں چڑھی تو اس کو پتہ چلا کہ اس نے تواتر کے ساتھ چار پیگ چڑھا لئے تھے اور ساتھ ہی اس کو یہ بھی پتہ چلا کہ وہ اس سے پیشتر آرٹ ٹیچر اور کسی پیشوا کے رٹے رٹائے فقروں کے بیچوں بیچ موجود تھا۔ دونوں جانب ہندسی اشکال تھے، نقطے تھے دائرے تھے اور نجانے کیا الّم غلّم۔ اس کو اچانک یاد آیا کہ پیرس میں پینٹنگس کی تازہ ترین نمائش میں اس کے پانچ شہکار رکھے گئے ہیں۔ اب کی مرتبہ اس کو یقین تھا کہ ایلیگرو Allegro نامی اس کمپی ٹیشن میں وہ ضرور اوّل انعام لے گا۔ یوں تو اس کے چھوٹے بڑے بے شمار اعزازات اور انعامات، دنیا کے قریب قریب ہر مقابلۂ آرٹ میں مل چکے تھے، لیکن کسی بڑے مقابلے میں اوّل آنے میں وہ ہمیشہ ناکام رہا۔ اس ناکامی پر وہ ہمیشہ ایک طنزیہ مسکراہٹ سے کام چلا لیا کرتا۔

’ ’ بے چارے وہ کیا جانیں میرے رنگ کس زبان میں باتیں کرتے ہیں اور میرے برش کے توانا اور پُر اعتماد اسٹروکس اُس کی جانب کیسے واضح اشارے کرتے ہیں۔ جو موجود ہو کر بھی غیر موجود ہے۔۔ ۔ لیکن اس کو سمجھ میں آنے لگے گا وہ جان جائیں گے۔۔ ۔ ان کو جاننا پڑے گا۔ ان کو میری عظمت کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ میں سب سے منفرد ہوں میں جسموں کے باطنی وجودوں کو مصور کرنے والا ہوں۔ میرے رنگ مقدس راگ الاپتے اور میرے اسٹروکس ان پر دیوانہ وار رقص کرتے ہیں۔ اس رقص اور موسیقی کی فضا میں میری تخلیقات تجرید اور تجسیم کے آواگون سے دوچار رہتی ہیں۔ میں فنا اور بقا، ہستی اور نیستی کا فنکار ہوں۔ ‘‘ ہر ناکامی کے بعد وہ کچھ اس طرح سوچتا اور مسکرا پڑتا۔ وہسکی کے چار پیگ اس کی حد تھے بعد میں پیتے رہنے کا مطلب وہ جانتا تھا۔۔ ۔ چنانچہ اس نے آڈر کئے ہوئے کھانے کی جانب رجوع ہونے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ کھانے کے دوران اس نے ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا جائزہ لیا۔۔

کوئی چہرہ کوئی شخصیت ایسی نہ تھی جس پر دوسری نظر ڈالی جا سکتی۔ دُور کے کونے میں ایک چھوٹی میز کے ساتھ بیٹھی ہوئی ایک بوڑھی عورت کے ماسوا جس کی عمر ستر سے تجاوز کر چکی تھی لیکن ہنوز اس کے جسم کا رُواں رُواں زندہ تھا اور چہرے کے خط و خال ہلکے سروں میں گنگنا رہے تھے۔ وہ شاید خاموشی سے اپنے ساتھی کی باتیں سن رہی تھی۔ دونوں سیاح لگتے تھے اس کا مرد ساتھی اس سے قدرے بڑی عمر کا تھا لیکن اس نے اپنی داڑھی مونچھیں رنگی ہوئی تھیں اور سر پر بڑی ساری ٹوپی منڈھ رکھی تھی۔ ایسی ٹوپی جس کو اتار کر بیٹھنا یا سلام کرتے وقت اتارنا لوازمۂ تہذیب نہیں ہوتا۔۔ کسی کو گھورنا چونکہ خلافِ تہذیب ہے وہ اس جوڑے کو وقفے وقفے سے دیکھ رہا تھا۔ درمیانی وقفوں میں ہال میں مصروف رقص جوڑوں پر نظر ڈالتا رہا تھا۔ موٹیل کا ہال رسمی سا تھا اس میں رقص کرنے کا رواج بھی نہ ہونے کے برابر تھا اور موسیقی کا انتظام بھی صرف کام چلانے کی حد تک غیر معمولی لیکن ’ ’ ٹین ایجرس‘‘ میں مقبول گیتوں کی دھنیں بجتی رہتی تھیں۔ ویسے گاہکوں کی مہیا کی ہوئی سی ڈیز، ڈی وی ڈیز اور کیسٹیس بھی بجا لئے جاتے تھے۔ لیکن با دلِ نخواستہ جب اس کی نگاہ ایک بار پھر گھوم کر دور کنارے میز کی جانب گئی تو اس کے سامنے ایک جھماکا سا ہوا۔ وہاں ایک مہمان کا اضافہ ہو چکا تھا اور وہ لڑکی کم اور آبی رنگوں سے بنائی ایک تصویر زیادہ دکھائی دیتی تھی۔ اس نے آبی رنگوں میں بہت کم کام کیا تھا لیکن جو بھی کیا شاہکار کیا تھا۔ اس کے آبی رنگ کبھی دریا کی موجوں کی طرح بہتے تو کبھی کسی معصوم کنواری کی آنکھوں سے پھول رخساروں پر ڈھلک آنے والے آنسوؤں کی طرح پھسلتے تو کبھی یوں ڈبڈباتے جیسے نیم وا کلیوں میں صبح کی شبنم۔۔ ۔ آبی رنگوں میں برش کے اسٹروکس کی حتی الامکان کیفیت اس کی انفرادیت تھی۔ نتیجہ ظاہر تھا کہ اس کے آبی رنگوں کے شاہکاروں میں جسموں کے اندر سے روحیں باہر آ جاتیں۔ اتنے فاصلے کے باوجود اس لڑکی کی روح اس کے جسم سے باہر آ کر اس کی آنکھوں کی راہ سے اس کے وجود کی گہرائیوں میں اترتی معلوم ہوئی، اور سات ہی اس کے شعور کی رَو نے ایک بار پھر اس کی نگاہوں کے سامنے سمندر کے کنارے تیرنے والے نسوانی پیکر کو موجود کر دیا۔ اس کے اندر یہ خواہش شدت کے ساتھ ابھر آئی کہ وہ اس وجود کو ’ پکڑ لے ‘ لیکن اس نے اپنی بچکانہ خواہش کو اپنے اندر سے باہر جھٹک دیا اور اپنے آپ سے بولا۔ ’ ’ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ کیا مجھے مزید پینا چاہئے۔ ‘‘

اس کی نگاہیں آپ ہی آپ اس کونے کی جانب چلی گئیں۔ ’ ’ او مائی گوش! یہ لڑکی کتنی زیادہ آبی ہے جیسے پانی اور رنگ سے بنی ہو، اور اس کا چہرہ کتنا ٹرانسپیرنٹ ( شفاف) ہے۔ بیرونی چہرے کے پیچھے سے اندرونی چہرہ جھلک جھلک پڑتا ہے۔ کیا واقعی وہ اتنی ہی حسین ہے جتنی دکھائی دیتی ہے۔ حسن قاتل جیسے اس کے تصور میں کوئی زہرہ، کوئی قلوپطرہ، کوئی کارمن، کوئی ڈیلائیلہ یا کوئی ہیلن ابھر آئی ہو۔ ‘‘۔ اسے یقین تھا دنیا کی ساری حسیناؤں کی تخلیق آبی رنگوں سے ہوئی ہو گی۔ اور ہر قابلِ ذکر حسینہ ٹرانسپیرنٹ ہی لگتی ہے۔ وہ تو اپنی کرسی پر جما رہا لیکن اس کا اندرونی وجود اسے حیران چھوڑ کر دور کونے میں رکھی ہوئی چھوٹی سی گول میز کے اطراف بیٹھے ہوئے لوگوں تک پہنچ گیا۔ وہ اب ان چاروں افراد کا تفصیل سے جائزہ لے رہا تھا۔ ان کو محسوس کر رہا تھا شاید ان کی باتیں بھی سن رہا تھا۔ جب کہ اس کا ظاہری وجود اس گوشے کی جانب گھورنا بھی ترک کر چکا تھا۔ کسی کو گھورنا خلافِ تہذیب جو ٹھہرا۔ اس کے چھٹے، سا تویں، آٹھویں، نویں سنس نے ان کی باتیں اندر ہی اندر اس کو سنوا دیں۔ خوبصورت بزرگ خاتون اس حسینہ ( شفاف) سے کہہ رہی تھیں۔

’ ’ او مائی سویٹی تم ہمیں کہاں لے آئیں۔ یہاں خاک تفریح ہے توبہ توبہ پانی کی شور مچاتی موجوں کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں۔ ‘‘

’ ’خاک تفریح تو نہیں ہے البتہ آب تفریح ضرور ہے۔ مائی ڈیئر ڈیئر گرینی۔ ‘‘

لڑکی نے بات کو ہنسی میں ٹال دیا۔

’ ’ یہ موا سمندر تیری ماں کی بھی کمزوری تھا۔ ‘‘

’ ’ کمزوری نہیں گرینی، سمندر تو میری مَوم کی طاقت تھا۔ میری مَوم سمندر پر حکمرانی کرتی تھی۔ وہ ملکہ تھی۔ سمندر کی ملکہ۔ وہ سمندر کی موجوں میں تیرتی نہیں تھی بلکہ فاتحانہ خرام کرتی تھی۔ ‘‘ شفاف چہرے والی لڑکی کا چہرہ اپنی ماں کی پیراکی کا ذکر کرتے ہوئے مزید شفاف ہو گیا تھا۔ شاید اسی ذکر نے اس کو اپنی سیٹ پر واپس پہنچا دیا جہاں وہ ایک بار پھر اپنے اصل وجود میں ضم ہو کر اس حسینہ کے تصور میں کھو گیا۔ جس کو اس نے پانی کی لہروں سے طلوع اور پھر ان ہی لہروں میں غروب ہوتے دیکھا تھا۔

’ ’ وہ سمندر کی موجوں پر خرام کر رہی تھی اس شفاف حسینہ کی ماں کی مانند یا پھر۔۔ ۔۔ یا پھر اُن پر محو رقص تھی۔ ‘‘ اس نے اندر ہی اندر اپنے آپ سے سوال کیا اور جواب میں اس کے اندر نے الٹا پوچھا۔ ’ ’ تم یہ کیوں نہیں سوچ سکتے کہ وہ پیراک حسینہ یہ بھی تو ہو سکتی ہے۔ یہ شفاف حسینہ؟ اس کی ماں موجوں پر چلتی تھی تو کیا یہ سمندر کی موجوں پر رقص نہیں کر سکتی۔ ؟ ‘‘۔ اس کے ذہن میں ایک وقفۂ سوالات سا گزر گیا اور جوابات کے مرحلے پر اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا۔

’ ’ نہیں۔۔ ۔ یہ قیاس درست نہیں۔۔ ۔ یہ لڑکی وہ نہیں ہو سکتی۔۔ ۔ وہ لڑکی یہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے اندر کوئی مستقبل ترغیب دے رہا تھا کہ کرسی چھوڑ کر ان لوگوں کے پاس جائے۔ وہ اٹھا اور تیز تیز قدموں سے چل کر اپنے روم میں پہنچا اور ٹی۔ وی۔ آن کر کے اپنے آپ سے راہِ فرار اختیار کر لی۔ اسکرین پر کسی انشورنس کمپنی کا اشتہار تھا۔ ’ ’ زندگی آپ کی طرف بہت تیز آتی ہے۔ ‘‘ جب کبھی وہ یہ اشتہار دیکھتا تو بڑبڑاتا۔ ’ ’ زندگی آپ کے پاس سے بہت تیز جاتی ہے۔ ‘‘

کچھ دیر ٹی وی دیکھنے کے بعد اس نے اس کو سوئچ آف کیا۔ کمرے کی تیز بتی تھی، بجھائی اور بستر پر دراز ہو گیا۔ آنکھیں بند کیں تو اس کی بیوی سامنے آ گئی۔ تصور میں بھی وہ ایک چڑیل ایک کڑک مرغی ہی نظر آئی۔ جس سے فرار کر کے تصور ہی تصور میں وہ ساحل سمندر پر پہنچ گیا۔

’ ’ اے سمندر تو میرا ہمدم، میرا ہم راز ہے۔ ‘‘ کسی شاعر کا یہ مصرع اُس کے ذہن میں گونجنے لگا اور وہ سمندر کی لہروں میں یا نیند کی باہوں میں پڑ کر سو گیا۔

صبح اس کا سر بھاری تھا سر میں اور کندھوں میں درد ہو رہا تھا کم پینے کے باوجود ’ ’پیگ اوور‘‘ وہ بڑبڑایا بستر سے ایک چھلانگ لگائی اور دن کی مصروفیات میں الجھ گیا۔۔ ۔ جب وہ گھر پہنچا تو یہ سوچ کر کہ وہ بیوی کو خاطر میں نہ لائے گا۔ اپنے اسٹوڈیو کی طرف بڑھا۔ لیکن اس کا گھر تو بھائیں بھائیں کر رہا تھا اس کی تنک مزاج لڑاکا بیوی گھر چھوڑ کر جا چکی تھی۔ گھر کی ساری قیمتی اشیاء غائب تھیں اس نے گھر کا صفایا کر دیا تھا۔۔ ۔ جب وہ بیڈ روم میں پہنچا تو اس کا چھوڑا ہوا پرچہ ملا۔ لکھا تھا۔

’ ’ میرے پیچھے نہ آنا ‘‘ اس نے درست لکھا تھا کہ اس کے پیچھے جانا فضول تھا اور نہ ہی اس سامان، نقدی، زیور کے لئے کچھ کیا جا سکتا تھا جو وہ لے گئی تھی۔ چیک بک بھی جگہ پر نہیں ملی۔۔ ۔ جس کا مطلب صاف تھا کہ بنک کا بھی صفایا ہو چکا ہو گا۔ اس لئے بنک فون کیا تو معلوم ہوا تھوڑی سی رقم اس کی بیوی نے شاید اس پر ترس کھا کر چھوڑ دی تھی۔ اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور ’ شٹ ‘ کہہ کر دیوار کو ٹھوکر ماری۔۔ اس سے پہلے کہ وہ گھر میں کچھ توڑ پھوڑ مچاتا اس کا بدن اپنے آپ ہی ایک صوفے پر گر پڑا۔ وہ قریب قریب بے سدھ پڑا تھا۔ سامنے لگی کلاک کی سوئیاں چکر لگانے میں مصروف تھیں۔ ’ ’ ٹک ٹک ٹک ٹک ‘‘ وقت گزر رہا تھا گزرے جا رہا تھا۔

وقت کو اس نے ہمیشہ اپنا دشمن سمجھا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وقت انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس کی بیوی جو اس کو اس طرح چھوڑ کر بھاگ چکی تھی اسی دشمن کا حوالہ دے کر لڑا کرتی تھی۔

’ ’تم مجھے وقت نہیں دیتے ہو ‘‘

’ ’ بیوی ؟ ہونھہ۔ کُتیا؟ ( بِچ )!

فکنگ بِچ ! اس کو ہر وقت۔ موقع بے موقع۔ وقت بے وقت۔ وقت چاہئے تھا۔ اُس کی فالتو باتیں سنو۔ سنے جاؤ۔۔ اس کے بے ہودہ، ذوق سے عاری محض فیشن کے مطابق لباس کی تعریف کئے جاؤ اس کے لیپا پوتی کئے ہوئے جی متلانے والے چہرے کو دیکھے جاؤ تعریفی نظروں سے۔ اُس کے باہر نکلے ہوئے بھدے بٹکس کو ہاتھوں سے تھپتھپاتے جاؤ۔ جیسے سائیس گھوڑی کو تھاپی دیتا ہے۔۔ شاید وہ گھوڑی ہی تھی کُتیا کم گھوڑی زیادہ۔ اس کے قریب جاؤ تو اس کے بدن کے مختلف حصے پھڑکنے لگتے تھے۔ جیسے کسی گھوڑی کا بدن اپنے سائیس کو یا مالک کو یا پھر کسی گھوڑے کو قریب پا کر پھڑکتا ہے۔ ’ڈیٹس اِٹ ‘ وہ شاید گھوڑی ہی تھی پیچھے جاؤ تو دو لتیاں جھاڑنے والی، آگے جاؤ تو بڑا سا منہ پھاڑ کر کندھے کو جکڑنے والی۔ ’ ’ اس کو پہچاننے میں خود مجھ سے غلطی سر زد ہوئی ‘‘ اس نے سوچا اور پھر سوچ کا سلسلہ چل نکلا۔۔ ’ ’ وہ سب میرا ہی قصور تھا، میں نے اپنے گھر کے دروازے ایک گھوڑی کے لئے کھول دئیے تھے وہ ہنہناتی ہوئی اندر آ گئی۔ ‘‘۔۔ ۔ سب سے پہلے بیڈ روم پر قبضہ جمایا۔ بیڈ روم اُس کی دو لتیاں جھاڑتی اور لِونگ روم میں اپنی جیسی گھوڑیوں اور ان سے جفتی کھانے والے گھوڑوں کا مجمع لگائے رکھتی۔ فیملی روم، کیچن، اور سٹڈی کو اس پر چھوڑ رکھا تھا۔ کھانا پکانے سے اُسے بیر تھا اور جو کبھی شوق فرماتی توسارا کا سارا گار بیج کرنا پڑتا۔ وہ تو کہو اللہ تعالیٰ کے کرم سے دو بہت ہی سلیقہ مند ملازم ساتھ لگے ہوئے تھے ایک مرد اور ایک عورت۔ وہ دونوں بٹلر، باورچی، خانساماں، کیئر ٹیکر سب کچھ تھے۔ اس کی بیوی۔۔ سوری۔۔ ۔ گھوڑی کو تو کافی بنانی بھی نہیں آتی تھی۔ جب ملازم اِدھر اُدھر ہوتے تو وہ کافی بنانے کی فرمائش کرتی۔

’ ’ ذرا کافی بنا دو ڈارلنگ، تمہیں پتہ ہے نا مجھے پر کو لیٹر سے وحشت ہوتی ہے۔ ‘‘ وہ مٹک کر بولتی۔ اسے پرکو لیٹر ہی سے نہیں گھر کے ہر کام سے وحشت ہوتی تھی۔ اس کو ویکیوم کلینر استعمال کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ اگر ملازم گھر پر نہ ہوں اور کوئی ضرورت آن پڑے تو وہ پیار سے آواز دیتی۔ ’ ’ ذرا لوِنگ روم میں ویکیوم کر دو ڈارلنگ ‘‘ اور اسے اپنی اسٹوڈیو کی مصروفیت ترک کر کے اور رنگوں میں اَٹے ہوئے لباس میں لوِنگ روم کی صفائی کرنا پڑتی۔ اگر وہ آنا کانی کرتا تو صفائی کرنے کے لئے ایک ایسی اسپینی میڈ کو کال کرتی جس کی منحوس صورت دیکھنا اسے قطعی منظور نہ تھا۔

نجانے وہ اپنی بھگوڑی بیوی کے بارے میں کتنی دیر تک اپنے آپ سے باتیں کرتا رہا۔ اچھی طرح یاد نہیں کہ ایسے موقعوں پر وہ دل ہی دل میں سوچتا یا پھر بڑ بڑاتا ہے۔ وہ اپنی بیوی پر ہنسنا چاہتا تھا۔ زور زور سے ہنسنا چاہتا تھا۔ ’ ’اچھا ہی ہوا وہ چلی گئی ‘‘۔ وہ اٹھا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ہنسنے لگا۔۔ ہنستے ہنستے اور اپنے عکس کو آ ئینے کے اندر ہنستا دیکھتے دیکھتے وہ تھک گیا۔ اس کے جبرے دُکھنے لگے۔ عکس کے اندر جو تھا وہ باہر نہ تھا۔ پتہ نہیں کیوں ایسے لگا کہ آ ئینہ اس سے جھوٹ بول رہا تھا۔ ’ ’ پرانے زمانے میں آئینے سچ بولتے تھے لیکن پرانے زمانے میں آدمی ڈالروں کے پیچھے اتنا دیوانہ نہ تھا۔ ‘‘ وہ بڑ بڑایا اور کسی دماغی رَو کے تحت ٹیلیفون کے بٹن دبا دئیے۔ دوسری جانب ریئل اسٹیٹ کا آدمی تھا۔ ’ ’ ہائے۔ دنیا کیسی جا رہی ہے اولڈ میں ‘‘۔

’ ’ جیسی جانی ہے۔۔ ۔ ینگ میں ‘‘ !

‘‘ اس کا مطلب ہے تم مجھے پہچان گئے ہو ‘‘

’ ’ تم خوب جانتے ہو میں تمہاری آواز پہچان لیتا ہوں۔ آرٹسٹ شیطان۔۔ ۔ بولو کیسے کال کی ؟۔ ‘‘

رئیل اسٹیٹ کا ایجنٹ اپنے کام میں پیشہ ورانہ لیکن اپنے سلوک میں خوش مزاج آدمی تھا۔ اس نے پہلے ہی اپنے اس عظیم الشان وِ لا کو ’ ’برائے فروخت ‘‘ کے طور پر لگا رکھا تھا۔ بڑے عرصہ کے بعد اس کا ایک جینوئن خریدار بھی سامنے آیا ہوا تھا۔ اب جو اس کی بیوی نے یہ انتہائی قدم اٹھا لیا تو یہ ضروری ہو گیا تھا کہ اپنے مکان کے دام ہاتھ کر لے۔ مباداً اس کی بیوی سب پیسے اڑانے کے بعد کسی گھوڑے وکیل کے ساتھ ہنہناتے ہوئے آئے اور نصف مکان کی دعویدار بن کر دو لتّیاں جھاڑنے لگے۔ اس خیال سے اس نے اسٹیٹ ایجنٹ کو مناسب داموں میں ڈیل فائنل کرانے کے انسٹرکشن دے دئیے۔ اس طرف سے جواب ملا۔

’ ’ نو پرابلم ‘‘۔ ڈیل ہو گئی، سمجھ لو کب تک موو کرنے کا ہے ‘‘

’ ’ ڈیل کے ساتھ ہی فوراً۔۔ ۔ مجھے کوئی نوٹس پیریڈ درکار نہیں ہو گا۔۔ کسی دیانت دار موونگ ایجنسی سے بھی تم ہی معاملات طے کر وا دینا۔ ‘‘

’ ’ او کے۔ یو آر دی باس ‘‘ اسٹیٹ ایجنٹ نے جواب دیا۔

ٹیلیفون بند کر کے وہ اسٹودیو میں داخل ہوا اور اپنی ادھوری اور اہم پینٹنگس کو احتیاط سے پیک کرنے میں لگ گیا۔ اسٹودیو کی پیکنگ کو وہ ’ ’ موورس‘‘ (movers ) کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ نا چاہتا تھا۔

ایک ہفتہ کے اندر اندر وہ اپنے شاندار وِ لا نما مکان سے دست بردار ہو چکا تھا۔ ’ ’ ایک مرتبہ وہ پھر بے گھر ہو گیا۔ زندگی میں کئی بار وہ گھر سے بے گھر ہوا۔۔ ۔ اسے اچھی طرح یاد نہیں۔ یہ عصرِ جدید ہے، پرانے زمانے میں لوگوں کا آبائی گاؤں، آبائی شہر، آبائی رہائش گاہیں۔۔ ۔ محل، فورٹس، کوٹھیاں، بنگلے اور مکان ہوا کرتے تھے۔ اور تو اور قبرستان بھی آبائی ہوتے تھے۔ بڑے لوگ جہاں کہیں بھی مرتے لیکن دفن ہوتے تھے اپنے خاندانی قبرستانوں میں۔ ‘‘

اس نے سوچا اور سوچتے ہی مسکرا دیا۔

بہر حال وہ اپنے آپ کو ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ اب اس کے لئے اُڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس کے ایجنٹ نے اس کے ضٖروری سامان کو ایک ماہ کے لئے بحفاظت رکھوا بھی دیا تھا۔ وہاں سے سب کچھ اس ایجنسی کے لوگ اس کے اگلے پتے پر بھجوا دینے والے تھے۔ ’ ’ اگلا پتہ ‘‘۔ ابھی اس کا کوئی اگلا پتہ نہیں تھا۔

وہ اپنی پسندیدہ ائیرویز کے ایک جمبو کی گود میں پیرس کے لئے اُڑ رہا تھا۔ اور دوران پرواز ہمیشہ کی طرح زمین سے رابطہ منقطع ہونے کو اس طرح محسوس کر رہا تھا جس طرح کوئی بچہ کسی تیز رفتار جھولے میں پہلا جھونکا لیتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔ اس کا بچپن اس سے کبھی جدا نہیں ہوا تھا۔ ’ ’ کیا سب آدمیوں کے بچپن بھی اسی طرح چپکے ہوئے رہتے ہیں۔ ؟ ‘‘ اس نے سوال کیا، ساتھ ہی اس کے ذہن میں ایک اور سوال اُبھرا۔

’ ’ یہ میں کس سے سوال کرتا ہوں۔ ؟ ‘‘ کیا میرے اندر میرے سوا کوئی اور بھی ہے ؟۔ کیا ہر آدمی کے اندر کوئی دوسرا آدمی بھی ہوتا ہے ؟۔ کیا ہم سب دوہری شخصیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ ؟ کیا آدمی اسپلٹ، ہونے کے امکان میں زندگی گزار دیتا ہے۔ جب کہ کوئی کوئی اس سے دو چار بھی ہو جاتے ہیں۔ ؟ Dual ڈوؤل پرسنالٹی‘‘ ہو نھہ ’ ’ہم بگ ‘‘ Hum bug یہ ماہران نفسیات، سائیکاٹرسٹ۔۔ ۔ لٹیرے۔۔ ۔ احمق آدمیوں کی جیبوں کو ہلکا کرنے والے جیب تراش۔ آج ڈوؤل پرسنالٹی کا مسئلہ اٹھتا ہے تو بہت جلد ملٹی پل پر سنالٹی کا شوشہ اٹھ جائے گا۔۔ ۔

’ ’ ملٹی پل ‘‘ کا دور جو ٹھہرا ‘‘۔ عین اس وقت فضائی میزبان نے کچھ پینے کے لئے پیش کیا۔ ’ ’ کوئی سی بھی اسکاچ ‘‘ اس نے لڑکی کے یونیفارم کے اندر سے چھلکتے ہوئے بدن کو ایک آر ٹسٹ کی نگاہ سے جانچتے ہوئے کہا۔۔ ۔۔ وہ مسکرائی۔ پیشے کی مسکراہٹ تقسیم کرنے میں وہ کیوں بخل سے کام لیتی۔ ’ ’ موسیو۔۔ ۔ اپنی ایر لائن کی ایک خاص وائن کی سفارش کروں گی۔ ہماری اسپیشلیٹی‘‘ اس نے ایک خاص انداز سے اپنا رٹا رٹایا فقرہ اس کی سماعت میں انڈیل دیا۔ ’ ’ او کے۔ او کے۔ تم جس طرح چاہو مجھے قتل کرو۔ میرے لئے تو تم ایکسٹرا اسپیشل ہو ‘‘

لڑکی نے جام پیش کیا اور اٹھلا کر چلی گئی۔

وہ اس لڑکی سے قطعاً غیر متاثر تھا اور جو کچھ اس نے بولا اور جو کچھ اس نے ظاہر کیا وہ صرف اور صرف رسمی خوش اخلاقی تھی۔۔ فضائی میزبان ایسا ہی سلوک اپنے مہمانوں سے ایکسپیکٹ کرتی ہیں۔

ان کے ساتھ اگر ایسی شیولری نہ دکھائی جائے تو وہ غریب اپنے کو ’ ’ ناکام ‘‘ سمجھنے لگیں۔ شراب جو اس لڑکی نے پیش کی وہ حقیقت میں اچھی تھی۔ اس کے پہلے ہی گھونٹ نے اس کو سوالات کے اس جھمیلے سے باہر نکال دیا۔ جس میں وہ بُری طرح الجھ گیا تھا۔۔ اب وہ اپنے وجود میں واپس آ چکا تھا جس کا تعلق حُسن، تخلیق حُسن، رنگ، روشنی اور شیڈس سے تھا۔ آرٹ ویونگ ( حُسن بینی) اور آرٹ کری ایٹنگ ( تخلیق حُسن ) میں نمایاں فرق یہی ہے، تصویر دیکھنے والا رنگ دیکھتا ہے۔ تصویر بنانے والا رنگوں کے ساتھ ان کی روشنی اور سایوں کو بھی پینٹ کرتا ہے۔ اگر آپ مصور ہوں تو اس حقیقت سے بھی واقف ہوں گے کہ رنگوں کی تخلیق روشنی سے ہوتی ہے۔ جب روشنی ٹوٹتی ہے تو بنیادی رنگ جنم لیتے ہیں۔ باقی سارے رنگ ان رنگوں کی پرچھائیاں ( شیڈس) ہوتے ہیں۔ وہ روشنی اور اس کی پرچھائیوں کا بڑا پاریکھ تھا۔ رنگ اس کو دھوکا نہیں دے سکتے تھے۔ وہ ان کی ایک ایک ادا، ایک ایک ناز، ایک ایک نخرے سے واقف تھا۔ رنگ بھی اس کے ایک ایک برش کو پہچانتے اور ان کی نوکوں پر آتے ہی اس کے تابع فرمان ہو جاتے جیسے وحشی سے وحشی رہوار کسی شہہ سوار کی رانوں کی گرفت کو محسوس کرتے ہی اپنی گردن، کمر اور چاروں ٹانگیں اس کے قابو میں دے دیتا ہے۔ فضائی میزبان کی دی ہوئی شراب کیف آور تھی لیکن تیز نہ تھی۔ فضائی کمپنیاں تیز شرابوں سے اپنے مسافروں کو دور رکھتی ہیں لیکن بعض لوگوں کے لئے شراب کا نام ہی بہت ہے۔ چنانچہ ایک بڑی عمر کے شریر بچے نے کسی فضائی میزبان کی ران میں چٹکی لے لی پہلے تو وہ دو قدم آگے چلی پھر الٹے قدموں لوٹی اور اس ’ بڑ بچے ‘ کے پاس ادب سے جھکی اور بولی۔

’ ’موسیو! میں سپروائز سے آپ کی شکایت کر سکتی ہوں لیکن ایسا کرنے سے اپنے آپ کو روک رہی ہوں۔ مجھے آپ کی عزت عزیز ہے۔ توقع کرتی ہوں موسیو! آپ بھی میری عزت کا پاس کریں گے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ بڑے پر وقار انداز سے چلتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

چال کی اس تبدیلی کو محسوس کر کے وہ حیران رہ گیا۔ گھوڑی۔۔ ۔ اس نے سوچا یا شاید ہلکی آواز میں بڑ بڑایا اور مسکراتے ہوئے سوچا عالم حیوانات میں گھوڑا ہی وہ جانور ہے جو نہایت غیر محسوس طریقے سے اپنی چال بدل لیتا ہے۔ اس کی چار اقسام کی چالیں بھی مشہور ہیں۔ دُلکی۔۔ ۔ ابھی وہ تین چالوں کے بارے میں سوچنے ہی والا تھا کہ بڑ بچے مسافرنے حقارت سے دانت پیس کر آواز لگائی۔ ’ ’ فکیگ بِچ‘‘۔ اور پھر اس کی طرف دیکھ کر ایک آنکھ دبائی۔۔ ۔ اس نے بڑ بچے کے اس احتیاط کو قدر دانی سے محسوس کیا کہ یہ فقرہ اس نے فضائی میزبان کے عقب میں اس وقت پھینکا جب وہ شاید اس کی آواز کی پہنچ سے دورجا چکی تھی۔ اس کا جی چاہا بڑ بچے سے بولے۔

’ ’ کتیا نہیں میرے بھائی۔۔ ۔ گھوڑی۔۔ ۔ ! ‘‘ شراب کے بعد کھانا اور سوفٹ ڈرنک۔۔ ۔ پھر کافی۔۔ ۔ پھر ٹی وی اسکرین پر مووی اور سوچ۔۔ ۔ سوچ میں۔۔ ۔ بیوی۔۔ ۔ مان۔۔ ۔ ماں باپ میں بظاہر مسلسل اختلاف رائے۔۔ ۔ تو تو۔۔ میں میں۔۔ ۔ چھوٹی جھڑپیں۔۔ ۔ بڑی جھڑپیں۔۔ ۔ جنگیں۔۔ ۔ مارپیٹ لیکن وہی ایک ساتھ رہائش بیڈ روم ہی نہیں بیڈ بھی ایک۔۔ جوانی۔۔ پختہ عمر۔۔ ۔ ریٹائر منٹ۔۔ بڑھاپا۔۔ ۔۔ ملازم پر انحصار۔۔ اولڈ ہاؤس میں نہ کوئی بھیجنے پر راضی اور نہ کوئی جانے پر تیار۔۔ پھر۔۔ باپ کی وفات اور اس کے پیچھے ماں بھی صرف چند ہفتوں کے اندر۔۔ ۔ عجیب۔۔ ۔ ناقابل فہم رفاقتِ عمری۔۔ ۔ مزاجوں میں۔۔ ۔ ذہنوں میں۔۔ ۔ پسند نا پسند میں ہم آہنگی، نہ ہونے کے برابر۔۔ ۔ ایک قطب شمالی تو دوسرا قطب جنوبی۔۔ جسموں میں قدر مشترک۔۔ ۔ صفر۔۔ والد ٹھگنے اور موٹے۔۔ ۔ والدہ لمبی اور دبلی۔۔ ۔ والدہ خواب دیکھنے والی۔۔ ۔ والد انسانی رو بوٹ۔۔ ۔ والدہ بنیاد پرست مذہبی۔۔ ۔ والد خدا کے وجود پر شک البتہ ’ جیسس‘ پر یقین رکھتے تھے۔ اولاد یں، وہ خود بھگوڑی بیوی کا شوہر۔۔ ۔ روشنی، رنگ اور پر چھائیوں کا قیدی، ہر وقت سوچ میں گرفتار۔۔ ۔ زمیں سے آسمان تک سوچ کے سلسلے۔۔ ۔ شعور کی رَویں ،۔۔ ۔ نیم شعور کی رَویں اور لا شعور کا ماورائی خلا۔ لیکن خدا۔۔ اس کی سوچ میں خدا نہیں آتا اور آتا بھی تو چھلاوے کی طرح غائب ہو جاتا۔۔ جیسے کالی رات میں بجلی کا کوندنا۔۔ ۔ دو بہنیں جن کی ماں نے لڑکوں سے علیحدہ پالنے کی کوشش کی۔ لڑکیوں کے کیتھولک اسکول میں پڑھوایا لیکن گرمیوں کی چھٹیوں سے کوئی محفوظ رہ سکتا ہے۔ ؟۔۔ ۔ لڑکیوں کو وہ بیچ پر جانے سے کیسے روک سکتی تھی؟۔۔ ۔ بیچ پر ماں باپ کہیں۔۔ ۔ لڑکیاں کہیں۔۔ ۔ اور وہ کہیں۔۔ ۔ ماں کی مذہبی طبیعت اور روز مرہ کی زندگی میں بنیاد پرستی کی وجہ سے ہم تینوں کی زندگی میں جنس ( سیکس ) قدرے تاخیر سے داخل ہوئی۔ بیچ پر دوسرے ہم عمر لڑکوں کیساتھ انتہائی نو عمری میں بھی وہ لڑکیاں تاکتا پھرتا۔ اس کے بعد جیسے جیسے بڑا ہوا چھوٹی بہن کی سہیلیوں نے اس کی استانیوں کا کام کیا۔۔ ۔ چھوٹی بہن اپنا بدن دیکھ لینے کا موقع بھی دے دیا کرتی تھی۔ بڑی بہن ان معاملوں میں بڑی سخت تھی۔ چھوٹی بہن کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ ’ ’ دیدی کیا تم مان کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ’ ’ موسٹر بیشن ‘‘ سے کام چلاتی ہو۔

’ ’ ہاں جب تک شادی نہیں ہو جاتی ‘‘

’ ’ پلیز دیدی۔۔ کنڈوم کے استعمال کی سہولت ہے نا۔۔ ۔ میری سہیلیاں موسٹربیشن کے بہت خلاف ہیں۔ ‘‘

’ ’ اپنی سہیلیوں کی کیا بات کرتی ہو جیسی تم ویسی تمہاری سہیلیاں ‘‘

’ ’ او مائی گوش! دیدی۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہو۔۔ ۔ ہوش میں آؤ۔۔ ۔ ماں پرانی دنیا کی مخلوق ہے۔۔ ۔ اب اس کا زمانہ گزر گیا ہے ‘‘۔

’ ’ میں ماں کی طرف ہوں۔۔ ۔ شادی ہونے تک وہی کروں گی جو ماں نے کیا تھا۔۔ بس۔۔ دیٹس اِٹ ‘‘

اس نے سکیس کے بے شمار گُن بڑی جلدی اور بہ آسانی سیکھ لئے۔۔ ۔ کچھ سکھانے والیوں کی وسیع القلبی کے سبب سے تو کچھ اپنے تجسس کی تحریک پر۔۔ ۔ پُروناگرافی سے اسے دل چسپی نہیں رہی لیکن عریاں تصاویر کا دلدادہ ہونے میں دیر نہیں لگی۔ ویڈیو کیسٹس، کتابیں، ڈی وی ڈیز، سی ڈیز، ٹی وی، موویز۔۔ ۔ انٹر نیٹ اس نے سکس کے عہد میں پیدا ہونے کا حق ادا کیا۔ لیکن سکس میں ڈوب نہ سکا۔۔ وہ تخلیق کار تھا بہت جلد اس نے عریانی میں حُسن تلاش کرنا سیکھ لیا۔۔ ۔ عریانی اس کو سیکس کے عمل کی جانب راغب کرنے کی جگہ حُسن تخلیق کرنے کی جانب مائل کرنے لگی۔۔ ۔ ’ ’بہنوں کا کیا بنا۔۔ ۔ ؟‘‘

یہ سوچ کر وہ ہنس پڑا۔۔ ۔ تقدیر کا مذاق۔۔ اس کی چھوٹی۔۔ شرارتی سیکس کے معاملے میں وسیع القلب لڑکی۔۔ آج ایک ’ ’ نن ‘‘ ہے۔ اس نے شادی نہیں کی اور نہ ہی اس کا کوئی ایسا ارادہ ہے۔۔ ۔ بڑی بہن۔۔ بنیاد پرست مذہبی جنونی ماں کی چہیتی بیٹی اور اس کی تعلیمات پر کامل وِشواس رکھنے والی۔۔ آج ایک کامیاب ’ ’ اسٹرپ ٹیز ‘‘ پرفارمر ہے۔ اس کامیابی غیر عیسائی ہے۔۔ اسٹیج کا اداکار ہے دونوں کی ایک شوخ وشنگ بیٹی ہے جس کو وہ مووی ایکٹریس بنانے کی فکر میں ہے۔

ابھی وہ تقدیر اور معاملات جبر و قدر پر سوچتے ہوئے قدرت اور پھر خدا کی جانب سوچ کو لے کر جانے والا تھا کہ درمیان میں کھانے پینے کے ایک دو وقفوں کے بعد۔۔ ۔ نئی دنیا سے پرانی لیکن ہمیشہ چکا چوند مچانے والی دنیا یعنی فرانس پہنچ گیا۔ دنیا نے الٹی سیدھی کئی کروٹیں لیں لیکن فرانس۔۔ ۔ فرانس ہی رہا۔ آرٹ اور کلچر کا ملک اور پھر جمہوریت کا ملک۔۔ ۔ مادرِ جمہوریت۔۔ ۔ انقلاب فرانس کا ملک۔ ڈیگال ایئر پورٹ نے اسے پیرس میں لا پٹخا۔ پیرس جہاں ایفل ٹاور ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے پیرس کا شہر ایک ہمیشہ یکساں رہنے والی خاتون آہن۔ ( Iron Lady ) کے قدموں میں پھلتا پھولتا، چمکتا دمکتا رہتا ہے، اور اس کی گہما گہمیوں کے عین وسط سے دریا سین ( Seine ) مستانہ تموّج سے بہتا ہے۔ اس نے پیرس کو اور پیرس نے اس کو اچھی طرح دیکھ رکھا تھا۔ پیرس نے اس کے لئے اپنی باہیں کھول دیں اور وہ پیرس سے بغل گیر ہو گیا۔

پیرس کے ان تمام مقامات سے اس کا کوئی لینا دینا نہ تھا۔ جن کی زیارت کرنا سیاحوں اور پیرس میں قدم رکھنے والوں کے مقدس فرایض میں داخل تھا۔ اب اس کے لئے یہ بھی دل چسپی کی چیز نہ رہا تھا کہ ہیڈرالک لفٹوں کی مدد سے ایفل ٹاور کی چوٹی تک جا پہنچے اور وہاں سے قریب قریب سارے شہر کو اپنی آنکھوں میں اتار لے۔ خاصے فاصلے پر ساکرے کیر (Sacre Coeur ) ٹروکا ڈیر ( Trocader ) بالکل سامنے دوسری جانب نوٹرے ڈیم ( Note dame ) اور دیہات جو مل جل کر شہر بناتے ہیں اور شہر کے بیچوں بیچ دریائے سین (Seine )۔۔ ۔ ایفل ٹاور کا سوچ کر وہ طنز سے مسکرایا۔ اس نے سوچا پسند۔۔ نا پسند۔۔ قدر۔۔ ناقدری کچھ بھی تو لائقِ اعتبار نہیں۔۔ ۔ دیرپا نہیں۔۔ اسی ایفل ٹاور کی تعمیر پر کتنی لے دے ہوئی تھی جب وہ 1889 ء میں کھڑا کیا گیا۔۔ ۔ آج پیرس کا سمبل ہے۔ سیاحوں کی دل چسپی کے مقامات میں چیمپ ڈی مارس Champ de Mars ہے بالکل نشیب میں عقبی جانب جو سترہ سو پینسٹھ عیسوی ( 1765ء) میں فوج کے نئے بھرتی شدہ جوانوں کا پیریڈ گراؤنڈ ہوا کرتا تھا اور بعد میں بڑے بڑے انقلابی واقعات کا اور بین الاقوامی نمائشوں کا میدان بنا۔ اس کے کچھ فاصلے پر سنہری گنبد والا ہو ٹل ڈی انویالڈس Hotel Des Invalides لوئی چہاردہم Lovis xiv کے زمانے میں فوجی اسپتال تھا اور آج فوجی میوزیم اور نپولین کے مقبرے پر مشتمل ہے۔۔ فوجی پریڈ گراؤنڈ، فوجی ہسپتالوں، فوجی میوزموں اور مشہور فوجی طالع آزما، فاتح عالم بنے کے خواب دیکھنے والے فرانسیسی ہیرو ( جنرل ) نپولین بونا پار ٹے کے مقبرے سے بھی اسے سروکار نہ تھا۔ البتہ اس مقبرے کے چند قدم کے فاصلے پر اٹھارھویں صدی کا قصرِ عالی شان ہوٹل بائروں Hotel Biron اس کے لئے ایک اہم زیارت گاہ تھی۔ اپنے معمول کے مطابق اب کی مرتبہ بھی وہ دو تین چکر لگانے والا تھا۔ ہوٹل بائروں میں روڈین میوزیم کو وہ کس طرح نظر انداز کر سکتا تھا، اور ہوٹل بائروں سے اس کی عقیدت کس طرح کم ہو سکتی تھی، جہاں دنیا کے اس منفرد اور عظیم مجسمہ ساز روڈین نے اپنی زندگی کے آخری برس گزارے۔ وہ تو اس باغ میں دیوانہ وار گھومتا پھرتا تھا جس کی فضا میں لیموں کے پیڑوں کی مخصوص مہک اور گلابوں کی خوشبو رچی رہتی ہے۔

اس کے ذہن میں یہ معاملہ کبھی بھی واضح نہیں ہو سکا کہ روڈین کے مجسمے لیموں کی مہک میں رچے ہوئے باغ کی فضا اور گلابوں کی خوشبو اس کو علیحدہ علیحدہ متاثر کرتے ہیں یا باہم مل جل کر۔۔ ۔ وہ یہ بھی سوچا کرتا کہ روڈین کے مجسموں کو دیکھنے والے اپنے حواس پر قابو کیسے رکھ لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر مجسمہ سازی سے معمولی بھی شغف نہ رکھنے کے باوجود وہ روڈین کے ایک ایک مجسمے میں دیر تک کیا تلاش کرتا ہے ؟۔ مجسمے کے خالق روڈین کو یا روڈین کے خالق کو؟۔ ان احساسات کے بیچوں بیچ یہ احساس کیوں موجود رہتا کہ ان مجسموں کے اندر شیطان اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ زندہ اور متحرک ہے۔ یہ کیوں لگتا ہے کہ ہر تخلیق کے عقب میں الہ من یزداں کے ساتھ مہیش وشنو کے ساتھ گتھم گتھا ہے۔

پیرس میں چین کا سانس لیتے ہی اس کی آنکھوں کے آگے پانی موج زن ہو گیا۔ تخلیق کا آغاز زمین پر نہیں بلکہ پانی پر ہوا تھا یا یوں کہئے پانی میں ہوا تھا۔ پانی کی لہروں میں زندگی کی توانائیاں کتنی شفاف اور واضح دکھائی دیتی ہیں اور پھر ان کا سکوت موت کے کتنا قریب۔ ان ہی لہروں میں ’ ’ وہ ‘‘ دکھائی دی تھی۔۔ تیرتی ہوئی۔۔ ۔ بہتی ہوئی۔۔ ۔ ان پر چلتی ہوئی تھرکتی ہوئی ناچتی ہوئی، اور پھر ان میں گم ہوتی ہوئی۔ اس کو ایک ہفتہ پیرس میں قیام کرتا تھا۔ اس امید موہوم پر کہ شاید اس کی کسی تصویر کو انعام کے لئے چن لیا جائے۔۔ ۔ شاید۔۔ ۔ مقابلے کا نتیجہ ٹھیک سا تویں دن تھا۔ اس دوران وہ ایک مرتبہ بھی اپنی اور دوسرے فن کاروں کی وہ تصاویر دیکھنے نہیں گیا جو مقابلے کے لئے رکھی گئی تھیں۔ ان تمام مقامات سے بھی وہ گریز کرتا رہا جہاں سیاحوں کی بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے۔ جوئے کے بدنام زمانہ کلبوں سے دور رہا اور ان اڈوں سے بھی جہاں شوقین مزاج، لڑکوں اور لڑکیوں لے لئے جاتے ہیں۔ اس کیفے سے بھی دور۔ جہاں سارتر اور کاموس جیسے دانشور کافی پیا کرتے تھے۔ ایسے تمام کیفوں، ریسٹورانوں پر تیسرے درجے کے فلمی ستاروں کا قبضہ رہتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عام قسم کے کیفوں میں کسی کونے کی میز پکڑتا اور بھانت بھانت کے کپڑوں میں ملبوس مردوں، عورتوں، لڑکوں، لڑکیوں کو دیکھتا اور جلد ہی اکتا کر باہر آ جاتا۔ پیرس سے اگر آپ بور ہونا چاہیں تو بور بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ بھی بور ہو رہا تھا۔ بوریت کو دور کرنے کے لئے۔ گھٹیا پبوں ( Pubs ) کے کاؤ نٹر پر گھٹیا شراب کے پیگ چڑھاتا۔ پیرس خوشبوؤں اور شرابوں کا شہر ہے، لیکن اس کی جیب میں اعلیٰ شرابوں کے لئے پیسے نہیں تھے اور سچ پوچھئے تو اس کا مزاج بھی اعلیٰ شرابوں کے لائق نہ تھا۔ اس مزاجی کیفیت میں تو نفیس سے نفیس شراب ہو جاتی ہے۔

پیرس یاترا کے پانچویں دن قبل از وقت وہ پانی کی کھینچا چلا گیا اور موجوں کی مار کھانے میں شام کر دی۔ اس رات خواب میں ’ وہ ‘ آئی اور اپنے دیدار سے نواز گئی۔ چھٹے دن کی صبح وہ اس کا سودا سر میں لے کر اٹھا اور ایک ناشتہ فروخت کرنے والے کیبن میں ناشتہ کر کے ونڈو شاپنگ کرنے نکل گیا۔ چلتے چلتے نہ جانے کن کن سواریوں میں چڑھتا اترتا ایک مرتبہ پھر کنارِ آب پہنچ گیا۔ وہ دن جادو کا تھا یا سہ پہر طلسماتی تھی کہ اس کے کافی فاصلے پر ’ وہ ‘ نظر آ گئی۔ پانی کی موجوں پر حکمرانی کرتی ہوئی کوئی جل پری لیکن جل پری کا تو نچلا دھڑ مچھلی کا ہوتا ہے۔ وہ دیکھتا رہا۔ دیکھتے دیکھتے وہ آنکھ بن گیا۔ سر تا پا آنکھ۔ اس کی سوچیں جو دن اور رات کے چوبیس گھنٹے اس کے ساتھ رہتیں اسے تنہا چھوڑ گئیں۔ اس کے اینڈے بینڈے سوالات جو اس کے ذہن کو گھیرے رہتے تھے۔ پانی کی ان چھوٹی بڑی موجوں میں گم ہو گئے جو اس کے بدن پر واری واری جا رہی تھیں۔ اس کا اپنا کیا بنا؟ اوّل اوّل وہ آنکھ بن گیا تھا صرف آنکھ اور ’ اس ‘ کو دیکھنے میں مصروف رہا تھا۔ پھر شاید وہ دیکھ بھی نہ رہا تھا۔ صرف تھا۔۔ بعد میں وہ ’ تھا ‘ بھی نہیں صرف ’ وہ ‘ تھی۔

آرٹ کی بین الاقوامی تنظیم ’ الگرو‘ کی سہ سالہ تقریب حسبِ روایت پُر وقار تھی۔ یہ دنیائے مصوری کی سب سے منفرف، معتبر اور نمائندہ تنظیم کا خاص اجتماع تھا جس میں وقت کے سب سے بڑے مصور کے نام کا اعلان ہونے جا رہا تھا۔ ججوں کا پینل عصر موجود کے تمام بڑے نقادوں پر مشتمل تھا۔ فیصلے کا اعلان کرنے کے لئے ایک بزرگ خاتون کا انتخاب کیا گیا تھا جن کے خاندان نے فرانس کی قدیم ترین آرٹ گیلری کو اپنا مال و متاع اور اپنی زندگیاں دے دی تھیں۔ اس تقریب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ججوں سے لے کر منتظمین اور حاضرین کے چہروں پر سنجیدگی اور سوگ طاری تھا۔ نقادوں کے پینل کے معمر ترین رکن نے کھڑے ہو کر ہال میں طاری سکوت کو توڑا۔۔

’ ’ جس مصور کے شاہکار کا آج انتخاب کیا گیا ہے اس کے پانچ فن پارے مقابلے میں شریک کئے گئے تھے۔ میں منصفوں کے پینل کے سب اراکین کی جانب سے اور خود اپنی جانب سے مختصر ترین اظہارئے کے طور پر یہ اعلان کرتا ہوں کہ پانچوں کے پانچوں فن پارے بلا شبہ دنیائے مصوری کے شاہکار ہیں۔ ان پر کسی بھی موجودہ یا قدیم مصوری کے مکتبۂ فن، تکنیک اور خیال کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ یہ قطعی طور پر مصوری کے جدید ترین اور منفرد ترین نمونے ہیں۔ ان پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا صرف ان کی تعریف کی جا سکتی ہے، خاص طور پر ان میں سے ایک تصویر جس کا عنوان ’ ’ دخترِ آب ‘‘ ہے ایک ایسی لڑکی کی تصویر ہے جو پانی کی ایک موج بھی ہے اور لڑکی بھی۔ ایسی تصویر بنائی نہیں جاتی بن جاتی ہے۔۔ صدیوں میں کبھی کبھار۔۔ ۔ ایسے مصور بھی صدیوں بلکہ ہزاروں برسوں میں جنم لیتے ہیں۔ افسوس ہمارے دور کا یہ عظیم مصور۔۔ کل کسی موج آب کی گود میں جا کر ہمیں افسردہ چھوڑ گیا۔ میں آج کے مہمان خصوصی سے درخواست کرنے جا رہا ہوں کہ آج کی دنیا کے سب سے عظیم مصور کے نام کا اعلان کریں۔ براہِ کرم تالیاں نہ بجائیں صرف اپنی جگہ پر ساکت کھڑے ہو کر اس عظیم مصور کو ایک منٹ کے سکوت کا نذرانہ پیش کریں۔ ‘‘

نام کا اعلان ہوا۔۔ اسی کا نام تھا۔ لوگ ایک منٹ کے لئے خاموش کھڑے رہے۔ بعد میں انتہائی پر وقار انداز میں انعام کی ٹرافی اور رقم کا چیک اس کی بیوی نے وصول کیا۔ ہال کے کسی گوشے میں کھڑے ہوئے مصور کے لب حرکت میں آئے۔ ’ ’ گھوڑی ‘‘ لیکن اس کے منہ پر ایک نرم ونازک ہاتھ کی نرم و نازک انگلی ثبت ہو گئی۔ وہ ہاتھ اسی وجود کا ہاتھ تھا جو پانی پر رقص کرتے ہوئے مصور کو بھی اپنے میں شریک کر چکا تھا۔ وہ بلا شبہ ایک لڑکی کا وجود تھا۔

٭٭٭

 

 

 

آگہی کاسفر

 

اس عجیب وغریب اشتہار کو میں عرصۂ دراز سے پڑھتی آ ئی تھی لیکن اس مرتبہ وہ میرے ذہن کے اس گو شے میں اتر پڑا جہاں سے آدمی کو عمل کی ترغیب ملتی ہے اور میں حرکت میں آ گئی۔ اشتہار کے الفاظ میں نیچے درج کئے دیتی ہوں۔ اس تحریر کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اشتہار ایک سفر سے متعلق تھا۔ میں نے سوچا مجھ سے قبل قدیم زمانے سے سفر پر نکلنے والوں میں سے اکثریت نے روز نامچے، یاد داشتیں ڈائریاں اور سفرنامے قلم بند کئے تھے جن میں سے بعض کی افادیت بعد میں کھل کر سامنے بھی آئی لہٰذا مجھے بھی ایک روز نامچہ تیّار کرناچاہئے۔ شاید اس کا لکھنا بھی ایک مثبت اقدام ثابت ہو۔ سو یہ ہے میری تحریر کا شانِ نزول۔ پہلے متذکرہ اشتہار جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ساری دنیا میں دکھایا جا رہا تھا۔

’ ’ آگہی کے سفر پر جانے کے خواہشمند مسافروں سے درخواست ہے کہ اپنی قریب ترین بندرگاہ یا طیارہ گاہ پر دن اور رات کسی بھی وقت پہنچ جائیں، اپنے لباس پر کسی بھی نمایاں جگہ پر ’ ’ آگہی ‘‘ کا لفظ لکھ دیں اور کچھ دیر انتظار فرمائیں ہمارے عملے کے سارے لوگ آپ کے سفر کا سارا انتظام خود ہی انجام دیں گے۔ لفظ ’ ’ آگہی ‘‘ کسی بھی زبان میں تحریر کیا جا سکتا ہے۔ اخراجاتِ سفر ہمارے ذمّے۔ اسباب کی ضرورت نہیں۔ دستاویزاتِ سفر آپ کا مسئلہ نہیں۔ آپ کی حفاظت، جملہ ضروریات، کھانا، دیکھ بھال، دوائیاں، ہیلتھ کئیر ہمارے ذمّے۔

منجانب نگراں ’ ’ آ گہی ‘‘ سفر

میں نے اشتہار کے الفاظ من و عن مطابقِ متن درج کر دیئے ہیں۔ دنیا بھر میں اور شاید دنیا کی ہر زبان میں اس اشتہار کا مضمون یکساں ہے اب آپ یہ نہ پوچھنے بیٹھ جائیں کہ میں نے اس اشتہار کی کوئی تصد یق وغیرہ بھی کی یا نہیں ؟ ظاہر ہے مجھ جیسی عورت جس کو ایک دنیا فرنٹ لا ئن رائٹر کے طور پر جانتی ہے جس نے دنیا کی اعلیٰ ترین جامعات سے اعلیٰ ترین امتحانات، اعلیٰ ترین اعزازات کے ساتھ پاس کئے ہوں اتنی سادہ لوح نہیں ہو سکتی کہ اس اشتہار پر یقین کر لیتی۔ میں نے پہلے پہل اس اشتہار کو دیوانے کی بَڑ قرار دے کر اپنے ذہن کی کھڑکی سے باہر پھینک دیا تھا۔ اس کا سبب صاف تھا دنیا کے کسی بھی ادارے نے اس اشتہار کی اشاعت کی ذمّہ داری قبول نہیں کی تھی۔ میں نے دنیا کے بڑے بڑے معتبر اخباروں کے مدیروں سے لے کر مالکوں تک کو بھی کھڑ کھڑا لیا تھا۔ خود بھی انٹرنیٹ پر اور چند ایک ماہرین انٹرنیٹ کے تعاون سے بھی ’ ’ آگہی ‘‘ کے سفر اور اس کے کرتا دھرتا لوگوں کا پتہ چلا نے کی کوشش کی تھی مگر بے سود۔ میں نے دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے اطلاعاتی و تحقیقاتی اداروں سے بھی رجوع کیا مگر بے نتیجہ۔ اس معاملے کو قومی اور بینا لاقوامی سیکیورٹی کا معاملہ بنانے کے بھی ممکنہ جتن کر ڈالے لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔۔ ۔۔ میں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اس اشتہار کے مشتہرین پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جا رہا ہے۔۔ ۔ ؟اس کے لئے مالی ادائیگیاں کرنے والوں سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جا رہی ہے۔۔ ؟ میرے ان آخری سوالات کا جو جواب ملا اس نے مجھے حیران، پریشان، چوکنّا اور لا جواب کر دیا۔

وہ جواب یہ تھا کہ مذکورہ اشتہار آپ ہی آپ نشر ہو رہا ہے اور طبع ہو رہا ہے۔ اس کو روکنے کی بھی ساری تدبیریں بے کار گئی ہیں۔ اس جواب کے ملنے کے بعد میں نے اس اشتہار کے بارے میں سوچنا قطعی چھوڑ دیا۔ اپنے ذہن کواس خیال سے بہلا دیا تھا کہ اس کے عقب میں کسی عالمی بڑی طاقت کا ہاتھ ہے ورنہ یہ سب ٹیکنالوجی کے طور پر اتنا اعلیٰ، اتنا جدید، اور ظاہری طور پر اتنا حیران کن اور نا قابلِ فہم نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک زمانے میں اُڑن تشتریوں کا مسئلہ سامنے آیا تھا جو بغیر حل ہوئے دب گیا تھا۔ برمودا ٹرائینگل، ( برمودا کے مثلث ) کامعاملہ بھی زوروشور سے اٹھا اور ڈوب گیا۔ کسی بڑی طاقت کے قبضے میں ایلین کی مو جودگی کی افواہوں کا بھی کچھ ایسا ہی حشر ہوا۔ میری طرح اور بھی لوگ ہوں گے جو اس اشتہار کو اس مر حلے تک پہنچاکر عاجز آ گئے ہوں گے۔ میں بھی عاجز آ چکی تھی، ہار چکی تھی اور بالآ خر اس کو بھلا چکی تھی تا آنکہ وہ خود میرے ذہن میں اتر پڑا۔ مجھ کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ مجوزہ سفر کے لئے آپ ہی آپ میں تیار ہو گئی۔ میری ہر حرکت بلا ارادہ سر زد ہوتی گئی۔ میں نے کسی بھی دوست یا رشتے دار کو اطلاع دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ میں جانتی تھی سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن مطلبی لوگ تھے جو کسی ذاتی غرض کی بناء پر مجھ سے رجوع ہوتے اور غرض کے پورے ہوتے ہی مجھ میں یا میرے کسی کام میں کیڑے نکال کر مجھ سے کٹ جا تے۔ میں شادی کرنے کی کوشش میں بھی ناکام رہی تھی۔ میں شاید مردوں کی نظر میں ضرورت سے زیادہ پڑھی لکھی اور لکھنے والی کے طور پرغیر معمولی مشہورومعروف سلیبریٹی تھی اور مردوں کی اکثریت کی نظروں میں سلیبریٹی عورت ’ ’ گھر نہیں بنا سکتی۔ ‘‘ میرا کوئی بوائے فرینڈ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ جن دنوں میں ’ ’ گرل ‘‘ تھی کسی لڑکے کی گرل فرینڈ نہ بن سکی تھی۔ کسی لڑکے کی مجال نہیں ہوئی کہ مجھے اپنی آئس کریم چاٹنے کے لئے پیش کرے۔ رہا کافی یا چائے کی رفاقت تو کوئی لڑکا مجھے اس کی دعوت دینے حماقت کر بیٹھتا تو اس کے دماغ کے سارے طبق روشن ہو جاتے جب وہ دنیا کے کسی بھی موضوع پر میرے آگے زبان کھولتا۔ جب میں گھر سے نکلنے کو تھی تو میرا بہت دل چاہ رہا تھا کہ میرا کوئی ہوتا جس کے نام پیغام چھوڑتی۔ تاہم رسم پوری کرنے کے لئے میں نے میز پر رکھے ہوئے کیلینذر کے ایک گوشے پر لکھا۔ ’ ’ ہیلو ڈیئر۔۔ ۔ میں آگہی کے سفر پر جا رہی ہوں، مجھے اچھے سفر کے لئے ’ ’ وش ‘‘ کرو۔ تمہاری جو بھی تم سمجھو۔۔ ‘‘اپنے جیکٹ کے کالر پر ’ ’ آ گہی ‘‘ کا ٹیگ لگایا اور ایک چھوٹے سے ہینڈ کیری کو گھسیٹتی ہو ئی باہرنکل پڑی۔ قریبی ایئر پورٹ پر گاڑی پارک کی اور انتظار گاہ میں داخل ہو گئی۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے دیکھا کہ ادھر میں انتظار گاہ میں داخل ہو ئی اُدھر ایک سرو قد ایئر ہوسٹس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، مسکرائی اور ’ ’ آگہی ‘‘ کا ٹیگ میرے کالر سے جدا کیا اور ایک نیلے رنگ کی فائل میں ڈال دیا۔ اپنے ساتھ آنے کاہلکا سا اشارہ کیا۔ میرے ساتھ اس ہینڈ کیری کے علاوہ کوئی اور اسباب نہیں تھاجس کو پارک کرنے کے وقت گاڑی سے باہر نکال لیا تھا۔ ایئر پورٹ پر مختلف مقامات پرالگ الگ جانے والی ایئر لائنوں کے مسافروں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ مذکورہ ایئر ہوسٹس کے عقب میں قطاروں سے بے نیاز میں آگے بڑھتی گئی۔ وہ ایک دروازے کے سامنے جا کرادب سے ایک طرف ہو کرکھڑی ہو ئی۔ میں نے پہلی بار اس کے چہرے پر کھل کر نظر ڈالی یا شاید اس نے مجھے ایسا کرنے دیا۔ اس کا چہرہ روشنی سے بنا تھا اس سے آنکھیں ملانے کی مجھے ہمت نہیں ہوئی۔ اس کی آواز جو مجھے بے حد دلکش اور پُر اعتماد لگی میرے کانوں میں اتری۔ وہ کہنے لگی ’ ’ آگے کا دروازہ کھولو، جہاز کا زینہ چڑھو، ایک انتہائی اہم اور دلچسپ سفر تمہارا منتظر ہے۔۔ یہ رہا تمہارا بورڈنگ کارڈ۔ ‘‘ ایئر ہوسٹس کے ہاتھ نے میری جانب کارڈ بڑھایا۔ میں نے کارڈ تھاما، دروازہ کھو لا اور ہینڈ کیری گھسیٹتی ہو ئی اندر چلی گئی۔ بائی بائی۔۔ ایئر ہوسٹس کی آواز مجھے باہر سے اندر آ تی ہو ئی معلوم ہوئی۔ میں نے سوچا یہ عجیب سفرہے نہ قطاریں لگیں، نہ کلیئرنس کروایا بس جہاز کے اندر ہو گئے۔ یہ کیسی فضائی کمپنی تھی کہ انتظار گاہ میں داخل ہوتے ہی فضائی میزبان خدمت میں حاضر۔ ایسا تو صرف وی۔ وی آئی۔ پی (بہت زیادہ اہم ) کے ساتھ ہوتا ہو گا۔

جہاز کے اندر سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا ہوا کرتا ہے۔ ایک انتہائی خوبصورت فضائی میز بان نے مجھ سے بورڈنگ کارڈ طلب کیا۔ نصف حصہ خود رکھا اورنصف مجھے لوٹا دیا۔ اور انتہائی خوش اخلاقی سے، مجھ سے آگے چلتے ہوئے میری نشست کی نشاندہی کی۔ میری ہینڈ کیری کو میری نشست کے نیچے رکھا۔ اور اس سے پہلے کہ میں اپنی نشست پر اپنے آپ کو جماتی وہ جہاز کی فضا میں تحلیل ہو گئی۔ بیٹھنے کے ساتھ ہی میں نے اپنے پڑوس میں بیٹھے ہوئے مسافرپر ایک چور نظر ڈالی مبادا وہ میرے اس تجسس کو نا شائستگی سے تعبیر کرے لیکن نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگا میرے ساتھ کی نشست پر بیٹھا ہوا مسا فر جو ادھیڑ عمر کا ایشیائی دکھا ئی دے رہا تھا۔ وہاں مو جود ہونے کے باوجود غیر مو جود تھا میں نے اس کو ’ ہائی، ہیلو ‘ کہنا چاہا تاکہ اس کو پتہ چلے کہ اس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھنے والی عورت کوئی مہذب خاتون ہے۔ لیکن یہ کیا میری زبان پر دو حرفی اور چار حرفی لفظ بھی نہ آ سکے۔ میں نے بار بار منہ کھولا، ہونٹوں کو حرکت دی، حلق کے عضلات کو تکلمی جنبشیں دیں، زبان کو اٹھایا، بٹھایا، گھمایا، دائیں بائیں ہر طرح کی حرکت دی، پھیلایا، سکیڑا، سمیٹا، گولائی میں لپیٹا، آواز کے حنجرے ( ساؤنڈ بکس ) پر پوری توانائی صرف کر دی۔ لیکن میرے حلقوم سے کوئی آواز برآمد نہیں ہو ئی اتنی سا ری کوششوں میں نا کا می کے باوجود میری ہیلو، ہائی میرے بازو والے آدمی تک پہنچ بھی گئی۔ اور اس شریف آد می کے چہرے پر اس کی رسید اور جواب صاف طور پر تحریر ہو گیا۔ خود میرے اندر اس کی جوابی ہیلو، ہائی بھی نازل ہو چکی تھی۔ اس شریف آ دمی نے محسوس کیا ہو یا نہ کیا ہو، میں نے یہ حیرت ناک حقیقت محسوس کر لی۔ اس فضائی میز بان نے مجھ سے جس طرح کلام کیا جس نے ایئر پورٹ سے جہاز کے گیٹ وے تک میری رہبری کی۔ اور اب دونوں مسافروں نے جس طرح ہیلو، ہائی کیا۔ اس سے مجھ پر واضح ہو گیا۔ یا میرے مولا۔ ! یہ بغیر الفاظ کے بات چیت کا انوکھا طریقہ تھا۔ اس سے آپ فا رسی کی اس شاعرانہ کہاوت کی طرف ذہن کو نہ لے جائیں ؎ خموشی معانی دارد کے در گفتن نمی آید۔ کیونکہ یہاں معاملہ بالکلمختلف تھا ’ ’ اس کو بغیر الفاظ کے بات چیت کہنا درست ہو گا یا اس کے لئے کوئی نئی اصطلاح اختراع کرنا پڑے گی۔۔ ‘‘ میں نے سوچا ’ ’ دوسرے آ دمی کے خیالات میرے ذہن کے اندر اور میرے خیالات دوسرے آدمی کے ذہن کے اندر ابلاغ یا ترسیل ہو رہے تھے۔ الفاظ کی صورت اختیار کئے بنا۔۔ ‘‘ میں نے اپنے آپ کو باور کرانے کی کوشش کی۔ تھوڑی دیرکے لئے سفر کو بھول کر شاید اس الجھن کو سلجھانے میں لگ گئی لیکن جلد ہی اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ میں مسافر تھی اور مسافر لمحۂ موجود سے غافل نہیں رہ سکتا۔ لمحۂ موجود کے مطا بق میں جہاز کے اندر تھی۔ جہاز کا اندرون بظاہر تو عام جہازوں جیسا تھا لیکن مجھے بدلا بدلا سا لگا۔ مثال کے طور پر اس احساس کو کیا کروں مجھے فضائی میزبان نظر نہیں آ ئی لیکن یہ کیا ادھر میں نے سوچا اوراُدھر فضائی میزبان ایک ٹرالی دھکیلتے ہوئے میرے عین داہنے بازو آ موجود ہو ئی اور بولی ’’جوس، سافٹ ڈرنک، پا نی ‘‘۔

’ ’ کافی ملے گی۔۔ ؟ ‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔

’ ’ ایک لحظہ انتظار کیجئے براہِ کرم ‘‘ اس نے انتہائی ادب سے کہا اور آگے بڑھ گئی۔ پلک جھپکتے ہی ایک اور میزبان ( اس دفعہ مرد ) کافی، چائے، اورد یگر گرم مشروبات کی ٹرالی کے ساتھ حاضر ہو گیا۔ میں نے کالی کافی طلب کی جو مجھ دے دی گئی۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر نے کسی نا معلوم زبان میں کوئی عجیب سا گرم شروب مانگ لیا جس کے بخارات سے میری اپنی ایک پسندیدہ خوشبو ’’شرارت ‘‘ (Mischief) کی مہک آ رہی تھی۔ مجھے بے حد اچھا لگا۔ اچانک سب کچھ معمول کے مطابق ہونے لگاکپتان کی جا نب سے بھی کچھ نشر ہوا۔ فضائی میزبانوں نے کچھ ہدایات دیں۔ ٹی وی اسکرین بھی روشن ہوئے اور مسافروں نے اپنے من پسند پروگرام سننے کے لئے کانوں پر ہیڈ فون چڑھا لئے لیکن جہاں تک ابلاغ کا معاملہ ہے اس کا کوئی ثبوت نہ ملا۔ یا تو خیالات بغیر الفاظ کا جامہ پہنے ایک ذہن سے دوسرے ذہن میں منتقل ہو رہے تھے یا پھر لفظ اگر تھے تو ان کی نوعیت بد لی ہوئی تھی۔ بے جسم لفظ۔ مجرّد لفظ۔

’ ’کیا واقعی میں آگہی کا سفر کر رہی ہوں ‘‘۔ میں نے اس سے پہلے نہ تواس طرح سوچا تھا اورنہ ہی اپنے آپ کو سمجھا یا تھا۔ میراذہن روشن ہو رہا تھا۔ میری فکر کے تا ریک گوشوں پر روشنی کی کرنیں سی پڑنے لگی تھیں۔ جہاز پر ابلاغ کی صورت جو مشاہدے میں آ رہی تھی اس نے مجھے اللہ تعا لیٰ کے بارے میں اس عقیدے کو یقین اور ایمان کی حد تک سمجھنے کے قابل بنا دیا کہ ’ ’ اللہ جو سوچتا ہے وہ ہو جاتا ہے ‘‘۔ وہ اشبدھ ہے اسے لفظوں کی احتیاج نہیں۔ لفظ وقت کے ساتھ بدلتے ہیں۔ وقت کے زیرِ اثر ہیں۔ اللہ وقت کے زیرِ اثر نہیں۔ اس سے قبل میری سوچ فقرے پر رکی ہوئی تھی۔ ’ ’ سب سے پہلے لفظ تھا ‘‘ (Before every thing, there was word ) اس طرح سوچتے سوچتے میں اپنی سوچوں کے لئے بھٹکتی پھری۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ جہاز پر کھانا دیا بھی گیا کہ نہیں۔ دھندلی دھندلی یاد میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں نے کھانے کی ٹرالی والی سے ازراہِ مذاق ایسی ڈش مانگی جو ہوائی جہازوں میں مہیا نہیں کی جاتی لیکن اس نے مہیا کر دی اور میں دل ہی دل میں جھینپ کر رہ گئی۔ آ خر کار کپتان کی جانب سے یہ اعلان القا ہوا کہ ’ ’ ہماراجہاز اپنی منزلِ مقصود ’ ’ آگہی ‘‘ کی طیران گاہ پر اترنے والا ہے۔ مبارک ہو ‘‘ چند لحظوں کے بعد جہاز نے ٹیکسی کی اور میں دوسرے مسا فروں کے ساتھ اپنی ہینڈ کیری گھسیٹتی ہوئی زینے کے قریب کھڑے ہوئے جہاز کے کپتان اور عملے والوں کی مسکراہٹوں کے جواب میں اپنے دانت دکھاتے ہوئے جہاز کے زینے سے نیچے اتر گئی چند قدم کے فاصلے پر ایک لابی ( غلام گردش ) دکھائی دے رہی تھی۔ ہم سب اس پر پہنچ گئے ہم نے دیکھا کہ دوسری جانب ایک انتہائی خوبصورت اور خاصی لمبی گاڑی کھڑی تھی۔ ہم مسافر اس گاڑی میں سوار ہوئے۔ ایسی گاڑی کسی نے کہاں دیکھی ہو گی۔ مسافروں نے جہاز میں تو ایک دوسرے سے بات کرنے سے پر ہیز کیا تھاشاید ہر کوئی اس عجیب و غریب مہم کے زیرِ اثر گنگ ہو گیا ہو گا لیکن اس گاڑی کے اندرون کو دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور سب ہی ستائشی کلمات کے تبادلے میں لگ گئے۔ یہ بتانا اب شاید غیر ضروری ہو گیا ہو گا کہ بظاہر بات چیت ہو رہی تھی لیکن حقیقت میں غیر لفظی ابلاغ سے کام لیا جا رہا تھا ’ ’یہ بھی تو ممکن ہے ہمارا کھانا، پینا، جہاز، ایئر پورٹ، بس، فضائی میزبان، کپتان، عملہ، سفر، ظاہر میں کچھ اور با طن میں کچھ اور ہو‘‘ کسی برقی جھماکے کے طور پرسوچ کا یہ رخ میرے ذہن میں اچانک وارد ہو گیا جس کو جھٹک کر باہر نکال پھینکنا مجھے بہت مشکل ہوا تا آنکہ ہم ’ ’ آگہی ‘‘ کے مرکزی دفتر ’ ’ Base ‘‘ پر اتار دیئے گئے۔

مرکزی دفتر یا ’بیس ‘ کی عمارت نہ توسنگ و خشت سے تعمیر شدہ تھی اور نہ ہی چوبی تھی۔ یہ قیاس کرنا ممکن نہیں کہ اس بیضوی عمارت اور اس کے پہلو میں بنا ہوا ٹاور، لاٹ یا مینار کسی تعمیری مواد سے تشکیل دیا گیا تھا۔ یوں بھی وہ بڑاسا خوبصورت انڈا اور مینار تعمیر شدہ نہیں لگتے تھے۔ صاف طور پر ظاہر ہوتا تھا کہ ان میں سے کچھ بھی تعمیر شدہ نہ تھا۔ بلکہ تخلیق شدہ تھا۔ اس علاقے میں جہاں میں پہنچائی گئی تھی جو کچھ تھا محض خیال تھا۔ احساس تھا یا خیال اور احساس کا آمیزہ۔ جو سوچا گیا اور سوچ سے خلق ہو گیا، عین اسی طرح جس طرح زمین، چاند، ثوابت و سیار اور نظامِ شمسی خلق ہوئے سوچ سے۔ سوچ چو دھویں کی طرح ہے اور تسلسل کے ساتھ ایک کے بعد ایک کہکشاؤں کے سلسلے خلق کرتی جا رہی ہے۔

’ ’ آگہی ‘‘کے مرکزاور مینارکید رمیانی جگہ ایک چھوٹے سے لان کی صورت میں تھی جس کے کنا رے پھولوں کے قطعات تھے۔ لان میں جو گھاس کا فرش تھا وہ حقیقی نہیں معلوم ہوتا تھا۔ ایک دبیز قا لین تھاجس نے میرے پورے وجود کو اپنے آ غوش میں سمیٹ لیا۔ کنا رے پھولوں پر نظر پڑی تو جسم، ذہن، دل اور روح، خوشبو اور رنگ میں نہا گئے۔ ’ ’آگہی ‘‘ کے داخلی دروازیپر چمکدار حرفوں سے لکھا ہوا ایک بورڈ آ ویزاں تھا۔

’ ’بابِ آگہی میں داخل ہونے والوں کی واپسی کی ضما نت نہیں دی جائے گی۔ واپسی کا معاملہ انتظامیہ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہو گا جن مسافروں کو داخل ہونا منظور نہ ہو وہ مینار کے نیچے والی لابی میں تشریف لے جا سکتے ہیں۔ ان کی واپسی کا انتظام فوری طور پرممکن ہے۔ ‘‘ مسافر اس تحریر کو پڑھ کر حیران ہو رہے تھے۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ بورڈ ایک ہی تھالیکن اس کی تحریر ہر پڑھنے والے کو اس کی اپنی زبان میں لکھی نظر آ رہی تھی۔ مسافر تحریر پڑھ رہے تھے۔۔ ۔ سوچ رہے تھے۔۔ ۔ دو دلے ہو رہے تھے۔۔ ۔ کسی فیصلے پر پہنچنا کسی بھی مسافر کے لئے آ سان نہ تھا۔ مسافروں میں ہر مسا فراپنے انداز میں ردِ عمل کا اظہاربھی کر رہا تھا۔ زیادہ لوگ بے چین بے چین ٹہل رہے تھے۔ کچھ لان پر سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے۔ کچھ وقت اس طرح گزرا پھر فیصلے سامنے آنے لگے۔ بیشتر مسافروں نے مینار کا رخ کیا اور بہت کم باب آ گہی کے نیچے جمع ہوئے۔ اور ایک ایک کر کے اس کے اندر داخل ہو گئے۔ ان داخل ہونے والوں میں سب سے آ خری مسافر میں تھی جس نے سب سے آ خر میں یہ فیصلہ کیا۔۔ ۔ میں نے سوچا۔ ’ ’ آگاہ ‘‘ ہو کر واپس نہ بھی ہو ئی تو کون سا فرق پڑ جائے گا۔ دنیا تو اب بھی چل رہی ہے تب بھی چلتی رہے گی۔ ‘‘

٭٭

 

’ ’جب میں چلنے کو تھا، آپ یعنی حیدر قریشی ’ ’جسم اور روح‘‘پر بزبان تحریر بات کرتے مل گئے۔ موضوع میرا اپنا خاص اور بولنے والا اپنا خاص (جو بھی بھلا لگا وہ بڑی دیر سے ملا)، رُکنا ہی پڑا۔ یہ کیسا اسلوبِ بیان ہے کہ بات سے بات جُڑی ہوئی چل رہی ہے، کبھی خراماں خراماں، کبھی رواں، دواں، کبھی بہہ رہی ہے موج در موج، سیل در سیل، جیسے ہوا۔ اصل موضوع کا یہ حال کہ چلتے چلتے، بہتے بہتے بالکل غائب اور پھر غیر محسوس طریقے سے دوسری باتوں کے درمیان ایک بار پھر نمودار۔۔ خیال، فکر، احساس، ادراک، اپنے طور پرہر قسم کی قیدوبند سے آزادجیسے سب اپنے طور پر اپنے اپنے کاموں میں مصروف، باہم آمیز ہو کر بھی اور جدا جدا بھی ایک غیر محسوس اسلوب کے بنتوّں (ٹکسچر)میں بندھے ہوئے۔ بظاہر دھاگے الجھے الجھے اِدھراُدھر نکلتے ہوئے اور پھر خودبخودجُڑتے ہوئے، جیسے کبھی اُدھڑے ہی نہ تھے۔ عرفانِ روح کے مذہب کے راستے کے علاوہ دوسرے راستوں کی نشاندہی نے مضمون کے دامن کو زیادہ معنی خیز بنا دیا لیکن موضوع کو تشنہ رہنا تھا، سو رہا۔ اصل لطف تو طفلانہ معسومیت، حیرانی اور تجسس کی تحت موجی نے دیا جو مجھ سے کم مایہ قاری سے بھی چھپی نہ رہ سکی۔ باتوں کا سلسلہ اس دوران آپ کی تحریر ’ ’اپنے وقت سے تھوڑا پہلے ‘‘ کی سرحد میں داخل ہو چکا ہے۔ جسم اور روح سے بھی زیادہ گھمبیر اور گہرے معاملے سے ہم اور آپ دوچار ہیں لیکن لفظیات کا تانا بانا قطعی مختلف ہے۔ حیران کن۔۔ عجیب طرح کا ہلکا پھلکا پن، ایک مکمل سپردگی، ایک کامل تسلیم ورضا بلکہ راضی بہ رضا والی کیفیت کی فضا میں ایقان کو چھونے والا یہ احساس کہ انسان کی مساعی ہی قدرت کی پراسرار قوتوں کو مشکل کشائی، تعاون اور سرپرستی کی جانب راغب کرتی ہے۔ لاٹری۔۔ نوجوان، رقم سے معمور سوٹ کیس، پولیس۔۔ درمیان میں آپ پولیس کے نرغے میں۔۔ ٹرین سے چھوٹے بیٹے کا اترنا۔۔ تبدیلیِ شخصیت و شناخت۔۔ پراسرار معاملات۔ کشف کے، وجدان کے، جذب کے، ماہیت قلبی کے، جیسے کوئی شمسؔ تبریزکسی جلال الدین رومی کو قیل و قال کی پستی سے مرتبۂ حال کی بلندیوں پر لے جا رہا ہو۔ ‘‘

(اقتباس از مکتوب عبد اللہ جاوید بنام حیدر قریشی  مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ نمبر ۱۱۔ جولائی تا دسمبر۲۰۰۸ء۔ ص۲۶۷، ۲۶۸)

٭٭٭

 

 

 

ایفل ٹاور

 

میری عمر انتیس برس کی ہے۔ پانچ برسوں سے میں اسی موسم میں یعنی ماہ جنوری کے دوسرے ویکینڈ میں برف سے کچھ نہ کچھ بڑا اور قابلِ دید بنا رہا ہوں۔ اس برس کی خاص بات یہ ہے کہ میرا چھوٹا بھائی میرے ساتھ نہیں ہے۔ اس کی کمی کو میرے والد اپنی مرضی اور خوشی سے پوری کر رہے ہیں۔ ہر سال برف سے ہم جو بھی بنا تے ہیں دنیا اس کی تعریف کرتی ہے لیکن موم مسکرا کر یہی کہتی ہے ’ ’وقت کا ضیاع اور کچھ نہیں ‘‘ یہ کہ کر وہ میرے کندھے پر ایک تھپکی دیتی ہے تاکہ میں زیادہ بد دل نہ ہو جاؤں۔ پچھلے سال چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کرمیں نے ایک قلعہ بنایا تھا۔ برف کا بڑاسا آنکھوں میں کھب جانے والا قلعہ۔ وہ کوئی عام سا قلعہ نہیں تھا۔ پہلی نظر میں کسی جن کی کھوپڑی لگتا جس کے چہرے پر آنکھوں کی جگہ دو بڑے بڑے سوراخ تھے، دوسری نظر میں وہ قلعہ دکھا ئی دینے لگتا۔ یہ فریبِ نظر قلعے کے پگھل جا نے کے بعد بھی دنوں تک لوگوں کا موضوعِ گفتگو بنا رہا۔ میڈیا نے بھی اس کی مناسب تشہیر کی۔ اس سے قبل ہم دونوں بھائیوں نے اسنو میں بنائے تھے، دیو قامت اسنو مین—ہم بھائی جو بھی بناتے دیو قامت بناتے۔ برف سے چھوٹی موٹی چیزیں تو بچّے بھی بنالیتے۔ برف کی تعمیرات میں شکل و صورت کے ساتھ ساتھ قد وقامت کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ ہماری کوشش کا میاب گئی تھی۔

لوگ ہر سال ہما رے ہنر، فنکاری اور محنت کی داد دینے کے عا دی ہو گئے تھے۔ جب والد صاحب نے اس سال کے لئے پیرس کے ایفل ٹاور کا انتخاب کیا تو میں کچھ دیرکے لئے گنگ رہ گیا تھا۔ پہلا مسئلہ تو یہ تھا کہ میں نے ایفل ٹاور دیکھا ہی نہیں تھا۔ جب میں نے اس موضوع پر والد صاحب سے بات کی تو ان کا ردِّعمل مجھے عجیب سا لگا۔ انہوں نے کہا:

’ ’تم نے ایفل ٹاور نہیں دیکھا تو اس کا مطلب تم پیرس ہی نہیں گئے ‘‘

’ ’ یہی تو میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں ‘‘

’ ’ تم آرکیٹیکٹ ہو، ہر آرکیٹیکٹ، آرٹسٹ کو زندگی میں ایک مرتبہ پیرس جانا ہی جانا ہے ‘‘

’ ’ لیکن ڈیڈ میں تو ابھی تک نہیں گیا— اور‘‘

’ ’ اور —کیا —تو پھر کب جا رہے ہو۔ میرے خیال میں تم آج ہی نکل چلوپیرس یاترا پر ‘‘

’ ’پیرس پلگریمیج —اب آپ آگے بڑھ کر اس کوہولی پلگریمیج نہ کہہ دیں (زیارتِ مقدّسہ )۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں ہنس پڑا لیکن جب ڈیڈ کے چہرے پرنظرڈالی تو وہ جذبا تی ہو رہے تھے۔ بھنویں متحرّک اور آنکھوں کی پتلیاں رقصاں تھیں، گال اوپر کو اٹھ آئے تھے، ناک ابھرے ہوئے گالوں میں دب کر رہ گئی تھی، ہونٹ اپنے کناروں کو اونچا اٹھا کر قوس سی بنارہے تھے۔ ٹھوڑی کی حسین گولائی اور زیادہ حسین ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے مجھے یہ خیال نہیں آیا تھا کہ میرے ڈیڈ ایک حسین شخص ہیں —قطعی طور پر ہینڈسم شخص! ایک اور بات جس کو میں نظر اندازنہ کر سکا تھا کہ وہ پیرس کے عاشقوں میں سے تھے۔ اس وقت میری سمجھ میں یہ نکتہ آ یا کہ ہمارے لونگ روم اور ڈیڈ کی اسٹڈی میں ایفل ٹاور کے چھو ٹے بڑے مجسمے کیوں بھرے پڑے ہیں۔ سوچ کی اسی موج کے نیچے میرے فیصلے کی ایک زیریں لہربھی سر اٹھا چکی تھی۔

’ ’ ڈیڈ—آپ فکر نہ کریں — میں پیرس گیا یا نہیں گیا میں نے ایفل ٹاور دیکھا یا نہیں دیکھا لیکن اس مر تبہ ہم برف کا ایفل ٹاور بناکر رہیں گے۔ ‘‘ میں نے ایک ایک حرف پر زور دے کر اپنے فیصلے کا اعلان کر دیا۔

’ ’سوچ لو اس میں بڑی مشکل پیش آ سکتی ہے۔ ‘‘والد مجھ پر ترس کھانے کے موڈمیں آ گئے تھے مگر میں اپنے فیصلے پر اٹل تھا—

’ ’ آپ ہیں نا میرے ساتھ —پھر کیا پریشانی ہے۔ آپ تو پیرسجا چکے ہیں —آپ نے تو ایفل ٹاور دیکھا ہے۔ میں نے ان کو یاد دلایا۔ ’ ’ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں پیرسجا چکا ہوں — سچ تو یہ ہے کہ میں پیرس جا کر آیا ہی کب ہوں —؟میں تو اس وقت بھی پیرس میں ہوں۔ تم نے کسی گم نام شاعر کا وہ مشہور گیت نہیں سنا —؟

’ ’پیرس میرے اندر ہے پیرس میرے اندر ہے

اے البیلی دوشیزہ تو اور تیری یہ دنیا

تیرا جیسس، تیرا کلیسا ہے تو لیکن با ہر ہے

پیرس میرے اندر ہے پیرس میرے اندر ہے ‘‘

والد نے یہ اشعار اتنے لہک لہک کر سنائے کہ تھوڑی دیر کے لئے میں ان کی شخصیت کے اندر اتر گیا۔ ایک ایسی شخصیت جس سے شاید میں پہلی مرتبہ متعارف ہو رہا تھا۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ میرے والد کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں اور ان میں تارے چمک رہے تھے۔ اس ساری رات میں نے ہوم ورک کرتے گزاردی۔ پروجیکٹ سے واقف ہوا۔ کاغذی تیّاریاں مکمل کیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عام تعلیم کے زمانے میں میری جہالت کا یہ عالم تھا کہ میں یہ بھی نہ جانتا تھا کہ پیرس میں انقلابِ فرانس کی صد سا لہ تقاریب کے سلسلے میں جو بین الاقوامی نما ئش ۱۸۸۹میں منعقد کی گئی تھی اس کی یادگار کے طور پر ایفل ٹاور تعمیر کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں سات سو نقشے پیش کئے گئے تھے۔

منصفین نے گستاؤ ایفل کے نقشے کو متفقہ طور پر کامیاب قرار دیا تھا۔ اگر چہ اس کے خلاف ۳۰۰ اپیلیں دائر کی گئی تھیں۔ جن میں بعض اپیل کنندگان دنیائے آرکیٹیکچر اور آرٹ کے عظیم نام تھے۔ رات بھر کی محنت سے میں ایفل ٹاور سے سر سے پیر تک واقف ہو گیا تھا۔ مجھے تو برف کی مدد سے صرف اس کی شبیہ کھڑی کرنی تھی لیکن میں یہ تک جان گیا تھا کہ ایفل ٹاور میں کونسا لوہا یا فولاد اور کتنی مقدار میں استعمال ہوا تھا، اس کو اسٹرکچرل انجینئرنگ کے کن بنیادی اصولوں کے تحت ڈھالا، جوڑا اور کھڑا کیا گیا تھا۔ اس پر۱۸۸۷میں کام شروع کیا گیا اور مقر رہ وقت یعنی ۱۸۸۹ میں مکمل کر دیا گیا تھا۔ نقّادوں نے اسے وکٹو رین اسٹرکچرل ایکسپر یشنسٹ کے تحت رکھا۔ جہاں تک اس کی اونچائی کا تعلق ہے یہ ۱۶۵۲ قدمچوں پر مشتمل عمارت۱۹۳۰تک دنیا کی بلند ترین عمارت کہلائی جا تی رہی ہے۔ اس کو کسی کوہ پیما نے سر بھی کیا اس پرسے پیرا شوٹ کے ذریعہ چھلانگ لگانے کا مظاہرہ بھی ہوا۔ دور بیٹھے بیٹھے میں ایفل ٹاور کو اچھی طرح دیکھ بھی چکا تھا اور جان بھی چکا تھا۔

صبح جب میری آنکھ کھلی دن چڑھ چکا تھا۔ والدہ جاب پرجا چکی تھیں۔ پہلے تو میرے سامنے صرف ایک مقصد تھا۔ والدہ کو خوش کرنا۔ سرپرائز دینا۔ میں یہ جانتا تھا کہ وہ دو مر تبہ پیرسجا چکی تھیں اور مجھے یہ غلط فہمی بھی تھی کہ وہ ایفل ٹاور پر مرتی تھیں۔ یہ جو گھر کے کونے کونے میں ایفل ٹاور کے نمو نے کھڑے ہیں، ماں کے ایفل ٹاور سے لگاؤ کے شواہد ہیں۔ مگر اب جب کہ میں کام شروع کرنے جا رہا تھا ماں سے بھی زیادہ ڈیڈ میرے خیالوں میں تھے۔ ایفل ٹاور تو ڈیڈ کے اندر تھا اس گیت والے گمنام شاعر کے پیرس کی طرح۔

ہم نے نیلے ڈبّوں سے برف کی تہوں کو جما نے کا کام لیا۔ یہ سب میں نے رات ہی کو طے کر لیا تھا۔ وہ دن اس کام کے لئے بالکل ہی مناسب ثابت ہوا۔ سورج غائب تھا۔ لیکن بارش کے آثار بھی نہیں تھے اور برف نرم تھی۔ اس برفانی ایفل ٹاور کی تعمیر کے لئے ہمیں کہیں دور جانا نہیں پڑا۔ گھر کے سامنے ہی ایک کھلی جگہ موجود تھی وہی موزوں لگی۔ سب سے پہلے ہم نے نیلے ڈبّوں کی مدد سے ایفل ٹاور کی بنیاد تعمیر کی۔ اس کو ممکن حد تک سخت کیا۔ اس پر اپنے نقشوں کے مطابق ایفل ٹاور کھڑا کیا جو سانچے ہم نے تیّار کئے تھے وہ بھی مناسب ثابت ہوئے اس کام میں وقفہ کرنے کی گنجائش نہیں تھی کہ برف کی فطرت کو ہم خوب سمجھتے تھے۔ وقت کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔ برف اور وقت میں ازلی دشمنی تھی اور اگر موسمیات والوں کی پیشین گوئی غلط نکلی اور سورج نے اپنے چہرے پر سے نقاب اٹھا لیا تو دھوپ وقت سے کہیں زیادہ برف دشمن ہے۔ لیکن موسمیات والوں کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی، سورج نہیں نکلا اور ہم نے اپنا یہ اہرامِ مصر طرز کا ایفل ٹاور چار گھنٹوں کے اندر کھڑا کر دیا۔

کام ختم کر کے ہم اپنے گھر کے اندر چلے گئے۔ ہمارا یہ ایفل ٹاور ہمارے گھر کی کھڑکی سے صاف نظر آ رہا تھا۔ دس فٹ اونچا یہ مینار ہما ری کامیابی پر بے حد خوش دکھائی دے رہا تھا۔ شاید وہ اس سبب سے بھی خوش تھا کہ جو لوگ اس کی تعمیر کے دوران اکھٹّے ہونے شروع ہوئے تھے اب ایک عظیم مجمعے میں بدل چکے تھے۔ ہمارا ایفل ٹاور اس ہجوم کے درمیان کھڑا مسکرا رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ پیرس والا ایفل ٹاور بھی شاید اس وقت اسی طرح مسکرا رہا ہو۔ دروازے کی بجتی ہوئی گھنٹی نے مجھے میری سوچ سے باہر نکالا۔ دروازے کی دوسری جانب میڈیا کی کوئی خاتون کھڑی تھیں۔ اس کے پیچھے کیمرہ سنبھالے ایک فرنچ داڑھی مونچھ والا فوٹو گرافر کھڑا تھا، جس کی ٹانگیں بدن سے کہیں زیادہ لمبی تھیں۔ میری نظریں اس کی داڑھی پر تھیں۔ اور وہ خاتون اپنا تعارف کراتے ہوئے کسی ٹی وی چینل کا کارڈ میری جانب بڑھا رہی تھیں۔ ایسے تجربات سے میں ہر سال ہی گزرتا تھا۔ میں نے والد کو آواز دی، وہ بھی باہر آ گئے۔ ہم دونوں کی برفانی ایفل ٹاور کے ساتھ تصاویر اتا ری گئیں اور دونوں سے بات چیت کی گئی اور پھر —تھینک یو بائی بائی —اس کے بعد اس طرح کے اپی سوڈس کئی مر تبہ ہوئے۔ ٹی وی والے، اخبار والے، ریڈیو والے، یہ والے، وہ والے، آتے گئے جاتے گئے —بونجو —ہا ئی —بائی بائی ٹاٹا —بڑی سردی ہے تاہم ایک اچّھا دن —آپ باپ بیٹے فرنچ ہیں — فرنچ نہیں۔۔ کیوبک سے تعلق۔۔ ۔۔ ۔ وہ بھی نہیں تو پھر آپ نے ایفل ٹاور کیوں چنا۔۔ ۔ بس یونہی۔۔ ۔۔ ۔ پھر بھی اس انتخاب کی کوئی وجہ۔۔ ۔ کو ئی رومانس وغیرہ۔۔ وہ بھی نہیں۔

اگر میں کہوں ’ ’والد بول رہے تھے ‘‘ — ’ ’فولاد کو پانی کرنا ‘‘۔

’ ’او —او —کوئی گہری بات —یو میں — او کے۔ ‘‘

’ ’کیسی گہری بات ‘‘ —والد پھر بولے ’ ’پیرس کا ایفل فولاد —ہمارا ایفل برف۔۔ ۔ برف۔۔ ۔ برف کب تک ؟ آخر پانی۔۔ ؟‘‘

’ ’فلاسفی۔۔ ۔ پییورفلاسفی۔۔ کانگریچولیشن ٹو یو—ٹو یور ایفل۔۔ چیرس۔۔ ۔ ‘‘

کچھ ہی دیر میں ہم باپ بیٹے تھک گئے۔ اندر جا کر ہم نے ایک نوٹس تیّار کیا ’ ’ڈونٹ ڈسٹرب ‘‘ (براہِ کرم ہمیں پریشان نہ کریں ) اور دروازے پر چسپاں کر دیا۔ کچھ عرصے کے لئے دونوں اندر آرام کرنے لگے —میں تو رات بھر کا جا گا ہوا تھا صوفے پر بیٹھے بیٹھے سو گیا اور اس وقت اٹھا جب ماں جوب سے لوٹی۔۔ ۔۔ اس کے لئے شاید والد نے دروازہ کھولا تھا۔۔ میں نے والدہ کو خراب موڈ میں پایا۔ میں نے مسکرا کر ماں کو ’ ہائی موم ‘ کہا۔ لیکن اس نے میری مسکراہٹ کو نظر انداز کر دیا اور کرخت لہجہ میں پوچھا۔۔ ۔ ’ ’ یہ ایفل ٹاور کا خیال کس کا تھا —؟‘‘

’ ’ میرا تھا —آپ دو مرتبہ پیرس گئیں، آپ نے وہاں کی تعریفیں کیں —سوچا آپ کو سر پرائز دوں — کیا آپ کو پسند نہیں آیا۔۔ ؟‘‘ اس تمام دوران وہ سوال تو مجھ سے کر رہی تھیں لیکن دیکھ ڈیڈ کی طرف رہی تھیں — میں نے یہ بھی حیرت سے دیکھا کہ ڈیڈ موم کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو غور سے دیکھ رہے تھے — میرے جواب کا نتیجہ اچھا سامنے آیا—موم کے چہرے کا فولاد کچھ کچھ پگھل گیا تھا۔

’ ’ پسند آیا —تم دونوں نے بہت اچّھا بنایا ہے —باہر بھی سب واہ واہ کر رہے ہیں۔ مبارک ہو تم دونوں کو۔ ‘‘

چونکہ باہر کے دروازے سے نو ٹس ہٹا لیا گیا تھا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے کچھ اور لوگ بھی آئے۔ اب کی مرتبہ میں نے والد کے ساتھ والدہ کو بھی بات چیت اور فوٹو میں شریک کر لیا — جس طرح ایفل ٹاور نے ہمارے گھر کے باہر کے ما حول کو خوشیوں کا گہوارہ بنا رکھا تھا اسی طرح گھر کے اندر کا ماحول بھی اگر خوشگوار نہ بھی ہوا ہو تو نیم خوشگوار ضرور تھا۔ یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ رات کب آئی۔ ڈنر پر گھرکے لو گوں کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی شریک تھے۔ ایک جوڑے نے رقص بھی کیا۔ دیر رات سو نے کا موقعہ ملا۔

ایفل ٹاور کی تعمیر کے پیچھے میرا اوّلین مقصد موم کو سرپرائز دینا تھا، اس میں قطعی ناکامی سے دوچار ہوا تھا۔ البتہ اگلی صبح ہمارے لئے ایک سرپرائز لے کر چلی آ ئی تھی اور وہ بھی ایک زبر دست المیہ کی صورت میں۔ ابھی صبح پوری طور پر ہوئی بھی نہ تھی کہ دروازے کی گھنٹی نے ہم سب کو جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ دو پولیس افسر با ہر کھڑے تھے۔ دو تین پولیس گاڑیاں، اور ایک ایمبولینس۔ آگے آگے میں، میرے پیچھے ڈیڈ اور ان کے پیچھے موم —جلدی میں صرف جیکٹ جسموں پر ڈالے گھرکے دروازے پر پہنچے تھے۔ ہم نے پولیس افسروں کو گھرکے اندر بلا لیا۔ اندر داخل ہو کر انہوں نے دھما کہ خیز اطلاع سے بات شروع کی۔ رات ایک لیڈی ایفل ٹاور سے لپٹ کر مر گئی تھی۔ ہمیں باہر جا کر اس کی باڈی کو شناخت کرنا تھا۔ ابھی تک اس کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئی تھیں اس کے مطابق: —

مرنے والی کا نام مار تھا فرامرز تھا۔ اس کی عمر40، 45 برس کی تھی چند ہی دن ہوئے پیرس سے آئی تھی۔ ہم تینوں نے خاموشی سے یہ سب کچھ سنا۔ پولیس افسروں سے اجازت لے کر سردی کا لباس پہنا۔ با ڈی کو ہسپتال لے جانے کی تیّاری ہو رہی تھی۔ ہم تینوں کو ایمبولنس میں چڑھ کر اسے دیکھنا پڑا۔ جب ہم نیچے اترے تو پولس افسر نے ہمارا بیان قلمبند کیا۔ میں نے یہی کہا کہ مرنے والی کو اس سے قبل میں نے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی پیرس جا نے کا اتفاق ہوا — موم اور ڈیڈ نے کیا لکھوایا یہ مجھے اس وقت معلوم نہ ہو سکا۔ البتہ اس خاتون کی موت کا سبب میں نے پولس افسراور موقع ملنے پر پیرا میڈ سے معلوم کرنے کی کوشش کی پولس والے نے کہا ’ ’سردی — ایکسپوژر‘‘ پیرا میڈ نے بتا یا ’ ’نمونیہ — زبردست نمونیہ ‘‘۔ پھر وہ سب ہسپتال چلے گئے۔ یہ سب بہت جلد ہو گزرا —یوں تو پپیرا میڈ نے اس کو برقی جھٹکے دے کر حتمی کوششیں کر چھوڑی تھیں لیکن ہسپتال میں بھی پہنچا نا ضابطے کے مطابق ضروری تھا۔

جب میں گھر میں داخل ہوا تو ماحول سو گوار ہونا ہی تھا لیکن قدرے ناقابل فہم ہو رہا تھا— میں نے دیکھا کہ موم فیملی روم میں اکیلی بیٹھی تھیں۔ وہ صوفے پر نیم دراز سی تھیں اور ان کی آنکھیں چھت کو تک رہی تھیں۔ ایک اپنے آپ کو سکیڑنے اور سمیٹنے والی ہستی— ضابطے کے اندر رہنے والی ہستی اپنے آپ کو پھٹ پڑنے سے روک رہی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ ان سے پوچھوں کہیں وہ اس مرنے والی کو جان کر بھی انجان نہ بن رہی ہوں۔ ان سے یہ توقع رکھی جا سکتی تھی۔ اپنے اندر ان سے سوال کرنے کی ہمّت نہ پا کر میں فیملی روم سے نکل رہا تھا کہ موم کے الفاظ میری سماعت سے ٹکرائے ’ ’اپنے ڈیڈ کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ وہ اس کتیا کو یاد کر کے رو رہا ہو گا۔ ‘‘

میں نے موم کی تاکید ان سنی کر دی اور زینہ چڑھ کر ڈیڈ کے کمرے تک پہنچا۔ دروازہ اندر سے بند نہ تھا۔ میں نے ناک کیا۔۔ ۔ کوئی جواب نہیں ملا۔ دو مرتبہ دروازہ ٹھک ٹھک کرنے کے بعد میں کمرے کے اندر دبے پاؤں داخل ہوا۔ میری نیت یہ تھی کہ اگر ڈیڈ کو بستر پر لیٹا پاؤں گا تو چپ چاپ الٹے قدموں واپس لوٹ جاؤں گا۔ لیکن وہ بستر کے بائیں گوشے میں پڑی ہوئی کرسی پر اس طرح بیٹھے تھے کہ جیسے میز پر جھک کر کچھ لکھ رہے ہوں۔

’ ’ تم ہو۔۔ ۔ مجھے پتہ تھا تم ضرور آ ؤ گے۔ تمہاری موم نیچے کیا کر رہی ہے — ‘‘؟ ’ ’ میں جانتا ہوں وہ چھت کا مطالعہ کر رہی ہو گی۔ ایسے وقتوں میں وہ یہی کرتی ہے ؟‘‘میں نے دیکھا موم کے خیال کے عین مطابق ڈیڈ اکیلے بیٹھ کر رو رہے تھے۔ ان کی آنکھوں سے صاف پتہ چل رہا تھا۔

’ ’موم اور ڈیڈ دونوں ایک دوسرے کوکس حد تک جانتے تھے۔ ایک دوسرے کے ردِّ عمل کے بارے میں دونوں کے اندازے کس قدر درست تھے۔ ‘‘ میں نے سوچا اور بولا۔۔

’ ’ موم فیملی روم میں بیٹھ کر چھت کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہیں۔ لیکن آپ۔۔ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔ کیا آپ رو رہے ہیں ڈیڈ؟‘‘

’ ’تم سے کس نے کہا۔۔ ؟

’ ’ موم نے ‘‘

’ ’ موم نے اور کیا کہا۔۔ ۔ ؟ ‘‘

’ ’ موم کی بات چھوڑیئے۔۔ ۔۔ یہ بتائیے کیا آپ متوفی کو جانتے تھے۔۔ ۔ ؟‘‘

’ ’ہاں۔۔ ۔ جانتا تھا۔۔ ۔ اتنا ہی جتنا میں پیرس کو جانتا تھا۔۔ ۔ بھول گئے وہ گیت ‘‘

’ ’ پیرس میرے اندر ہے ‘‘۔ ’ ’ وہ میرے اندر تھی۔۔ ۔ وہی تو تھی میری پیرس۔۔ ۔ پیرس میرا نہیں ہو سکا۔۔ ۔ وہ میری نہ ہو سکی۔۔ ۔۔ ہم سب کے راستے جدا تھے۔ ‘‘

’ ’ ہم سب کے۔۔ ۔۔ ؟‘‘

’ ’ ہم سب سے مراد، وہ، میں، پیرس، اور ایفل ٹاور۔۔ ۔ ایفل ٹاور اس کی سا ئیکی کا ایک حصّہ تھا۔ اس نے ایفل ٹاور کے ریسٹوران میں مجھے ڈنر دیا۔۔ ۔ بلِ آیا تو پتہ چلا۔۔ ۔۔ ایفل ٹاور کا وہ ریسٹوراں دنیا کا مہنگا ترین ہو ٹل تھا۔۔ ۔۔ ۔ ایک پا گل ہی وہاں ڈنر دے سکتی تھی۔ اسے عشق تھا ایفل ٹاور سے۔۔ ۔ ہر شام وہ سورج ڈھلنے سے کچھ دیر قبل ایفل ٹاور کی چھت پرجا پہنچتی اور پیرس کا نظارہ کرتی۔۔ پیرس کا نظارہ کرنے کا موزوں ترین وقت۔۔ ۔۔ ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نری پا گل تھی۔۔ ۔۔ اور مری بھی پاگل کی موت۔ ‘‘

یہ کہہ کر ڈیڈ چیخ چیخ کر رونے لگے۔ میں نے ڈبے سے ٹِشو نکال کر ڈیڈ کو دیا اور کمرے سے نکلتے ہوئے دروازہ اچّھی طرح سے بند کر دیا۔

٭٭٭

 

 

 

چھت سے گرنے والی

 

آندھی چلی تھی، تیز، بہت تیز— ہوا کے بدن میں بھوت اتر کر لڑ رہے تھے۔ ہلکے ہلکے جھونکے، جھکّڑوں میں بدل کر، چنگھاڑ چنگھاڑ کر، ایک دوسرے پر وار کرتے، آپس میں گتھم گتھا ہوتے — اڑ رہے تھے۔ اڑنے کے دوران ہر اس چھوٹی بڑی چیز کو اڑا رہے تھے، جو ان کی زد میں آتی۔ پیڑ، پکھیرو، جھوپڑ، چھپر، چھت، ستون، کھمبے اور آدم زادوں کا پھیلا ہوا کاٹھ کباڑ—جس سمے میں نے اس کو بلندی سے نیچے گرتے دیکھا، آندھی تھم کر غبار کی صورت فضا میں آویزاں ہو گئی تھی۔ سیاہ و سپید دھند کا آمیزہ ساجو دکھاتا کم اور چھپاتا زیادہ یا— نیم خواب نیم بیداری کی ملی جلی کیفیت۔ ایسی کیفیت جس کا رشتہ اس ماحول سے، اس فضا سے یا خود میرے اندرون سے تھا۔ اصل معاملہ یا مسئلہ یہی تھا کہ سب کچھ غیر واضح تھا۔ اگر کچھ صاف اور واضح تھا تو اس کا گرنا تھا۔ عمارت کی وہ چھت جس پر چلتے ہوئے، کافی بلندی سے وہ نیچے گری تھی، ابھی نیم تعمیر حالت میں تھی۔ پہلا سوال تو یہ پیدا ہو رہا تھا کہ شام کے جھٹ پٹے میں وہ ہسپتال کی چھت پر کیا کر رہی تھی؟ یہی سوال میرے اپنے بارے میں پیدا ہو سکتا تھا کہ میں وہاں اس سمے کیوں موجود تھا؟ یہ دونوں سوال بعد کی پیداوار تھے، جو وقوع پذیر ہو رہا تھا، وہ یہ تھا کہ میں دوڑ رہا تھا، اس چھت پر جو پوری طرح بنی بھی نہیں تھی۔ اس پر دوڑ نا تو رہا ایک طرف چلنا بھی آسان نہیں تھا لیکن میں چھلانگیں لگاتا اور ہر رکاوٹ کو پھلانگتا ہوا اس نیم پختہ زینے کی جانب جلد سے جلد پہنچنا چاہ رہا تھا جو مجھے نچلی منزلوں تک لے جا سکتا تھا، تاکہ اس تک پہنچ سکوں۔ وہ جو میری نظروں کے سامنے چوتھی منزل کی چھت سے نیچے گر پڑی تھی، اگرچہ میں جانتا تھا کہ جب تک میں نیچے پہنچوں بہت تاخیر ہو چکی ہو گی۔ پھر بھی میں یہ چاہتا تھا کہ زینہ جلد آ جائے، لیکن زینے پر قدم رکھتے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ میں غلط زینے پر تھا۔ یہ وہ زینہ نہیں جس پر چڑھ کر میں ہسپتال کی چھت پر آیا، اپنے یار انجینئر راجا اکرم سے ملاقات کرنے، جس کے بارے میں نیچے اطلاع ملی تھی کہ وہ چھت پر ہو سکتا تھا۔ جیسے ہی میں زینے سے راہداری میں پہنچا، مجھے معلوم ہو گیا کہ میں ہسپتال کی عمارت کی پشت پر نرسوں کی اپارٹمنٹ کی عمارت میں اتر پڑا تھا۔ دوڑتا ہوا جب میں ایلیویٹر کی جانب گیا تو دو نرسیں چیختی چلاتیں میرے پیچھے دوڑیں۔ پتہ نہیں کیوں وہ فوراً ہی رک بھی گئیں ؟ میں آرام سے ایلیویٹر کے ذریعے نیچے اتر گیا۔ نیچے انتہائی ناساز گار حالت کا سامنا تھا۔ شور ہی شور تھا۔ راستے پر ایک ٹریکٹر کھڑا تھا جو رکا ہونے کے باوجود شور کر رہا تھا۔ کسی اللہ کے بندے کے ذہن میں یہ خیال نہیں آ رہا تھا کہ اس کو بند کر دے۔ قدرے فاصلے پر فولادی سریوں سے لدا ہوا ایک ٹرک کھڑا تھا، جس کے باہر دو آدمی کسی معاملے پر بلند آواز میں بحث کر رہے تھے۔ ان دونوں سے قطع نظر کر کے میں اس نرس کی جانب گیا جو شاید ہسپتال کے شعبہ حادثات سے آ رہی تھی۔

’ ’اس کا کیا ہوا جو چھت سے گری تھی‘‘ میں نے رسمی ہائے ہیلو سے درگزر کرتے ہوئے نرس سے دریافت کیا۔ نرس نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے وہ میرے سوال کو سمجھنے سے قاصر ہو۔ ’ ’چھت سے گری تھی۔ کس چھت سے گری تھی؟‘‘ اس سے پہلے کہ نرس کا سوال مجھ سے جواب کا طالب ہو، میں آگے دوڑ گیا۔ شعبہ حادثات کی کھڑکی پر ایک جوان نرس فون پر بات کر رہی تھی۔ دوسری سے جو قدرے بوڑھی تھی، میں نے چھت سے گرنے والی کی بابت دریافت کیا۔ وہ بھی ایسی بن گئی جیسے اس پورے واقعے سے لاعلم ہو۔

’ ’لیزا ذرا سنو، یہ صاحب کیا پوچھ رہے ہیں ؟‘‘ بوڑھی نرس نے جوان نرس کو مخاطب کیا۔ ’ ’کیا پوچھ رہے ہیں ؟‘‘ جوان نرس نے سوال دہرایا۔ ’ ’یہ کسی کو پوچھ رہے ہیں جس کو انہوں نے ہسپتال کی چھت سے نیچے گرتے دیکھا تھا؟‘‘ بوڑھی نرس نے میرے سوال کو طنزیہ انداز میں نشر کیا۔ ’ ’ہسپتال کی چھت سے تو کوئی نیچے نہیں گرا۔ ‘‘ اچانک نہ جانے کس کونے سے ایک وارڈ بوائے نمودار ہوا اور بولا۔ میں جو غم زدہ تھا، اس کے لئے ذہنی اور دلی کرب میں مبتلا تھا، اس وارڈ بوائے پر پھٹ پڑا۔ اگر کاؤنٹر کیبن کی نیم دیواری درمیان میں حائل نہ ہوتی تو میں اس وارڈ بوائے کا منھ نوچ لیتا۔

’ ’ظالمو! بے دردو!تم سب نے اس معاملے کو دبانے کی سازش کر رکھی ہے۔ مجھے سچ بتا دو۔ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ ہسپتال کو بدنام نہ ہونے دوں گا۔ جاؤ اپنے ایڈمنسٹریٹر سے بولو، ایک بندہ ہے جو ہر طرح کے فارم پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہے۔ میں یہ بیان دینے پر بھی راضی ہوں کہ وہ چھت سے نہیں گری تھی بلکہ میں اسے سڑک سے اٹھا لا یا تھا۔ میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اس کے لئے۔ اپنی جان بھی دے سکتا ہوں۔ مجھے اس کے پاس جانے دو۔ مجھے بتاؤ تم لوگوں نے اسے کہاں چھپا رکھا ہے۔ ‘‘ میں نہ جانے کب تک اور کیا کیا بکے جاتا، اچانک میری نظریں اس وارڈ بوائے پر پڑیں جو میرے سامنے ہاتھ ملتا کھڑا تھا۔ دونوں نرسیں بھی اس کے پاس کھڑی میری جانب ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھیں جیسے میری حالت پر ترس کھا رہی ہوں۔ اس تمام دوران میں شاید روتا بھی رہا تھا اور اسی سبب سے ماحول سے بالکل بے خبر ہو گیا تھا۔ ہسپتال کی اس راہداری میں لوگ جمع ہو گئے تھے۔ میں ان کی جانب پلٹا اور گریہ کرتے ہوئے ان سے گرنے والی کے بارے میں پوچھا۔ ان لوگوں نے بھی مجھ پر ترس کھانے والی نظریں ڈالیں اور وہاں سے کھسک گئے۔ ہسپتال کی راہداری میں آگے جانا بے کار تھا۔ میں نے نیچے اتر کر ہسپتال کے صحن میں دوڑ لگا دی۔ چشم زدن میں اس جگہ پہنچ گیا جہاں اس کے گرنے کا سب سے زیادہ امکان تھا۔ میرے حساب سے اس کو عمارت کے قریبی لان میں کسی جگہ گرنا تھا۔ یا اس چھوٹے سے کیبن کی چھت پر جو دیوار کے ساتھ تھا اور جس میں مالی اپنا سامان رکھتا تھا۔ یا پھر ان چار جڑواں گیراجوں میں سے کسی ایک کی چھت پر جو ہسپتال کے چار بڑوں کی گاڑیوں کے لئے مختص تھے میں اس اسپتال کے پورے جغرافیے سے واقف تھا۔ اسی سبب سے اس تمام نواح میں پوچھ گچھ کر کے اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ معاملہ اتنا آسان نہیں رہا تھا۔ کہیں نہ کہیں کچھ غلط تھا یا غلط کیا جا رہا تھا۔ ہسپتال والے ضرور کچھ چھپا رہے تھے۔ اس کو گرتے ہوئے بہت کم آدمیوں نے دیکھا ہو گا اور ان کم آدمیوں میں سے مجھے کسی ایسے آدمی کی تلاش تھی جو زبان کھولے اور وقوعے پر روشنی ڈالے۔ یوں بھی بڑی تاخیر ہو چکی تھی۔ میں نے یہ بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنے حواس پر پوری طرح قابو رکھوں گا۔ (اگرچہ میرے اندر کوئی روئے جا رہا تھا) مجھے جذباتی اور بدحواس دیکھ کر مصلحت پسندی کے مارے لوگ ترس کھا سکتے تھے، لیکن زبان نہیں کھول سکتے تھے۔ اس معاملے میں بیشتر عوامل میرے اور اس چھت سے گرنے والی کے خلاف جاتے تھے اور جیسے جیسے سمے گزرتا جاتا تھا، رات بھی آتی جاتی تھی۔ جس وقت وہ گری تھی یا میری آنکھوں نے اس کو ہسپتال کی چھت سے نیچے گرتے دیکھا تھا، شام پڑ رہی تھی، لیکن اب تو رات تھی۔ رات میں ادھر ادھر پھرنا، خواہ ہسپتال میں، ایسا فعل ہے جو ہسپتال کے نگراں عملے کی نظروں میں آ سکتا تھا۔ میں ہسپتال کی اس پوری عمارتی اکائی (Unit) کے اطراف اچھی طرح دیکھ بھال کرتے ہوئے چکر لگا چکا تھا جس کی چھت سے وہ گری تھی۔ وہ یا اس کے بدن کا نام و نشان بھی نہیں ملا۔ دل گریاں کے ساتھ میں ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ اس بینچ پر پہلے سے کوئی پراگندہ لباس، پراگندہ حال بوڑھا آدمی بیٹھا تھا۔ اس کی بھویں چوڑی، کمانی دار اور سپید تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے آنکھوں کی کھڑکیوں کے اوپر دو سپید چھجّے بنے ہوں، میں نے اس کو بس اتنا ہی دیکھا تھا کہ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا پارکنگ کی جانب چلا گیا۔ چلتے چلتے اس نے میری طرف دیکھے بِنا مجھ سے کہا۔ ’ ’قبرستان— ہسپتال کا قبرستان‘‘ اس کے جاتے ہی، پارکنگ کے عقب سے اذان کی آواز میرے کانوں میں گونجتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس سے قبل شاید اس لئے سنائی نہیں دی کہ میں ایک ہی خیال میں گم رہا تھا۔ ’ ’حیّی علی الصلٰوۃ— حیّی علی الصلٰوۃ‘‘ نماز کی طرف آؤ۔ نماز کی طرف آؤ۔ ’ ’حیّی علی الفلاح — ’ ’حیّی علی الفلاح ‘‘ فلاح کی طرف آؤ۔ فلاح کی طرف آؤ۔ میں بینچ سے اٹھا اور ہسپتال کی مسجد کی طرف روانہ ہو گیا یا اس کی جانب جس کی جانب ہر مشکل میں سارے آدم زاد رجوع ہوتے ہیں، یہ میں نہیں بتا سکتا۔ وضو بنا کر نماز میں شریک ہوا اور نماز کے بعد مسجد میں پوچھ گچھ کی۔ نمازیوں میں زیادہ تعداد ان کی تھی جو بیمار تھے یا بیماروں کے رشتے دار اور احباب تھے، میں نے ہر چہرے کو دعا کرتا ہوا پایا۔ ہسپتال آدمی کو جتنا خدا کے قریب کر دیتا ہے کوئی عبادت گاہ شاید ہی اتنا قریب کرے۔ چھت سے گرنے والی کے بارے میں پوچھ گچھ بیکار گئی۔ نمازی بھی جلدی میں تھے، مسجد سے نکل کر میں نے سوچا ’ ’ اب ایک ہی راستہ تھا اور وہ راستہ راجا اکرم کی طرف جاتا تھا۔ ایک مرتبہ پھر اس سے ملنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ شاید وہی میری مدد کرے۔ ‘‘

مسجد سے باہر آ کر ایک بار پھراس علاقے میں پہنچا جہاں ٹرک وغیرہ کھڑے تھے۔ فولادی سریوں والا ٹرک غائب تھا، لیکن ان دو آدمیوں میں سے جو کسی بات پر تکرار کرتے ملے تھے، ایک جو قدرے موٹا، پستہ قد، جو اپنی خشخشی موچھ اور داڑھی میں خاصا اہم اور معتبر لگتا تھا— موجود تھا، ٹریکٹر جہاں کھڑا تھا، وہیں ڈٹا ہوا تھا لیکن کسی نے اس کو بند کر دیا تھا، اس سبب سے خاموش تھا۔ میں نے اس الفربہ خواہ مخواہ معتبر سے بعد سلام راجا اکرم کے بارے میں دریافت کیا۔ راجا اکرم کا نام سنتے ہی وہ کھڑا ہو گیا اور بولا۔ ’ ’آپ نے ان سے ملنا ہے تو جھٹ پارکنگ کی طرف دوڑ جائیے۔ وہ ابھی ابھی ادھر گئے ہیں۔ ‘‘

ابھی اس کا فقرہ مکمل بھی نہ ہوا ہو گا، میں دوڑ پڑا۔ راجا اکرم پارکنگ کے راستے ہی میں مل گیا۔ اس کے ساتھ دو آدمی تھے، جو ٹیکنیشین لگتے تھے۔ مجھ سے رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے کہا ’ ’میں گھر جا رہا تھا — چلو کسی قریبی ریسٹوراں چلتے ہیں۔ ‘‘

’ ’مجھے تم سے کچھ کام ہے۔ ہسپتال کے اندر ہی بات کر لیں گے۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔ راجا نے میری جانب غور سے دیکھا۔ یہ انجینئر قسم کے لوگ آدمی کو پڑھ لیتے ہیں۔ امپرسنل جو ہوئے، ایک ہلکے سے اشارے سے راجا نے ان دونوں بندوں سے چھٹکارا پالیا۔ وہ سلام کر کے رخصت ہوئے پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’ ’تیری تو بُری حالت ہے۔ کیا ہسپتال میں کوئی سیریس ہے ؟‘‘

’ ’راجا میں تو اس مطلب سے آیا تھا کہ تجھے جلد سے جلد وہ چیز پیش کروں جو خاص تیرے لئے منگوائی ہے۔ ‘‘

وہ آ گئی۔ مزہ آ گیا۔ اس خانہ ساز میں جو بات ہے وہ باہر کی مہنگی سے مہنگی شراب میں نہیں، لیکن یہ تیرے چہرے کو کیا ہو گیا ہے ؟ پورے بارہ بج رہے ہیں۔ ‘‘ راجا کو تیز کلامی کی عادت تھی وہ لمبی سے لمبی بات ایک سانس میں کہہ دیتا تھا۔

’ ’تیری چیز آ گئی اور — اور میری چیز چلی گئی۔ ‘‘ میں نے گریہ پر قا بو پاتے ہوئے کہا۔ یہ میرے روتے بسورتے چہرے نے اسے بتا دیا ہو گا کہ میں کسی بڑے دُکھ میں مبتلا ہوں۔ اس کا چربی چڑھا طبّاخی چہرہ ایک دم لٹک سا گیا۔ وہ میرا قریبی دوست تھا۔ ہم برسوں سے ایک دوسرے کے سکھ دُکھ بانٹ رہے تھے اور آپس میں بے تکلف بھی تھے۔ ’ ’تو پیتا بھی نہیں — تو پھر یہ تیری چیز چلی گئی — صاف بتا دے مرے بھائی۔ بات کیا ہے ؟‘‘ وہ اپنائیت سے بولا۔

’ ’وہ جو ہسپتال کی چھت سے نیچے گری ہے ‘‘ میں نے اس طرح کہا کہ میرے الفاظ ٹوٹ پھوٹ رہے تھے۔ ‘‘

’ ’اس ہسپتال کی چھت سے آج تک کوئی نہیں گرا۔ راجا نے اپنی بھویں اوپر اٹھا کر اور آنکھوں کو پوری طرح کھول کر اعتماد کے لہجے میں کہا۔ ’ ’راجا— تمہیں کیسے یقین دلاؤں۔ آج ہی، آج کی شام جب میں تمہاری تلاش میں اورپر نیم تعمیر چھت پر پہنچا۔ تم تو نہیں ملے، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے — اس کو چھت سے نیچے گرتے دیکھا۔ نیچے دوڑا آیا ہر طرف دیکھا، پوچھ گچھ بھی کی— اب تم سے مدد چاہتا ہوں۔ ‘‘

’ ’کیسی مدد۔ ؟‘‘ راجا مجسم سوال ہو گیا۔ اس کے لہجے میں اخلاص تھا۔ ’ ’راجا۔ مجھے یقین ہے کہ ہسپتال کی بدنامی کے خوف سے اس پورے واقعہ کو دبایا جا رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرو اور اس گرنے والی کا پتہ چلاؤ۔ ‘‘

اتنا کہہ کر میں رونے لگا اور وہ بھی آواز کے ساتھ— شاید میرے صبر اور ضبط کا بند ٹوٹ چکا تھا۔ مجھے روتا دیکھ کر راجا اکرم مجھ سے لپٹ گیا اور جب وہ علیحدہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ ’ ’میں ابھی پتہ چلا لیتا ہوں۔ میرے ساتھ چلو۔ دفتر کھلوائے دیتا ہوں۔ تم بیٹھ کر چاہئے پیو اور میں اس مہم پر روانہ ہوتا ہوں۔ ‘‘ گریہ سے بھرّائی ہوئی آواز میں وہ بولا۔ ’ ’ میں چائے وائے نہیں پی سکوں گا۔ بس تم گرنے والی کا پتہ چلاؤ، و ہاں میری طرف سے یہ وعدہ کہ ہسپتال کی بدنامی کا باعث نہیں بنوں گا۔ ‘‘ میں راجا کے پیچھے چلا۔ شعبہ تعمیرات کی چھوٹی سی خوبصورت عمارت میں اس کا دفتر تھا۔ دفتر میں ابھی تک کام ہو رہا تھا۔ دو چار آدمی ایک بڑا سا بلو پرنٹ دیکھ رہے تھے۔ سپید گاؤں میں ملبوس ایک لمبا پتلی موچھوں والا گنجا آدمی کسی نقشے پر بات کر رہا تھا۔ اس کے الفاظ میری سماعت تک پہنچ تو رہے تھے لیکن سنائی نہیں دے رہے تھے۔ راجا اکرم نے اپنا کمرہ کھلوا لیا اور میں اس کمرے کے ایک صوفے میں دھنس گیا، جو ایک کونے میں رکھا تھا۔ اس دوران اکرم باہر جا چکا تھا میری آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہ رہی تھیں۔ آنسوؤں کی ہر چھوٹی بڑی میں ’وہ‘ تھی۔ وہ جو میری نہ ہوتے ہوئے بھی میری تھی۔ ارض وسما میں بلکہ شاید پوری کائنات میں صرف اور صرف وہی تو تھی جو حقیقی معنوں میں میری تھی۔ چھت پر سے گرنے کے باوجود وہ زندہ سلامت تھی۔ اسے کچھ نہیں ہوا تھا۔ اسے کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ ‘‘ میں نے اپنے آپ کو یقین دلایا۔ مجھے یاد آیا اس نے مجھے لکھا تھا۔ ’ ’ جب تک میرا حافظہ نہ جاتا رہے میں تمہیں نہیں بھولوں گی۔ ‘‘ اس نے اپنے مرنے کا نہیں لکھا تھا تو پھر وہ کیسے مرسکتی تھی۔ ؟ ’ ’ اسے مرنا نہیں ہے۔ مجھ سے پہلے تو ہر گز نہیں ‘‘ مجھے نہیں معلوم صوفے پر بیٹھے ہوئے روتے روتے بیہوش ہو گیا تھا یا اس کی یاد میں گم ہو گیا تھا۔ جب میں ہوش میں آیا راجا اکرم کا چپراسی مجھ سے مخاطب تھا۔ ’ ’ صاحب چائے حاضر ہے۔ ‘‘ میں نے چپراسی کو دیکھا۔ وہ مجھے کسی اور دنیا سے آئی ہوئی مخلوق لگا۔ اصل بات یہ تھی کہ میں خود کسی اور دنیا میں پہنچا ہوا تھا اور چپراسی کی آواز نے مجھے اس کی دنیا میں لاڈالا تھا۔ ’ ’ اللہ بخش۔ تم نے چائے بیکار ہی بنائی۔ میں نے تمہارے صاحب کو پہلے ہی منع کر دیا تھا۔ اب تم یوں کرو کہ چائے واش بیسن میں انڈیلو اور کپ دھو ڈالو۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔ ‘‘ میں نے چپراسی سے کہا۔ ’ ’ آپ شکریہ کہہ کر شرمندہ نہ کریں صاحب جی۔ میں آپ کا نوکر ہوں جی۔ خادم ہوں۔ ‘‘ چپراسی بولا لیکن اس نے چائے کا کپ رکھا رہنے دیا۔ وہ چاہتا تھا کہا س کا صاحب راجا اکرم کسی طرح چائے کا کپ دیکھ لے۔ اسی لمحے راجا اکرم آ پہنچا اور میرے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس پر ایک نظر ڈالی۔ وہ ناکام لوٹا تھا۔

’ ’ ان لوگوں نے تم کو بھی کچھ نہیں بتایا۔ ظالم کمینے ‘‘

’ ’ یہی کہ چھت پر سے آج شام کوئی نہیں گِری۔ ‘‘

’ ’ اس کا مطلب ہسپتال کا ایڈ منسٹریٹر معاملے کو دبانے پر تلا ہوا ہے ‘‘

یہ کہہ کر میں اٹھا اور باہر جانے لگا۔ راجا اکرم میرے تیور دیکھ کر اٹھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا۔

’ ’ تم کہاں چلے۔ ؟‘‘

’ ’ اس خبیث ایڈ منسٹریٹر سے نمٹوں گا۔ ‘‘

’ ’ تم ہوش میں ہو۔ ؟ ہمارے پاس ایک گواہ بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس کو چھت سے نیچے گرتے دیکھا ہو۔ ‘‘

’ ’میں ہوں نا۔ میں نے اسے چھت سے نیچے گرتے دیکھا تھا۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں کسی چھوٹے بچے کی مانندرو پڑا۔ ’ ’ میں نے گرتے دیکھا تھا۔ اپنی جان کو۔ اپنی روح کو۔ ‘‘

’ ’ جب ایڈ منسٹریٹر آپ سے پوچھے گا کہ آپ کی وہ کیا لگتی تھی تو آپ اس کو یہی جواب دیں گے کہ وہ آپ کی جان تھی۔ آپ کی روح تھی۔ آپ کہتے ہیں وہ چھت سے گری تھی تو اس کو ہسپتال میں ہونا تھا اور ہسپتال والے ایسے کسی کیس سے لاعلم ہیں۔ اگر اس کے بارے میں آپ سے پوچھ گچھ کی جائے تو آپ اس کی اور اپنی شناخت درج کروائیں گے۔ ؟ مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا کچھ بھی نہیں کریں گے۔ آپ اس کے لوگوں کا سامنا بھی نہیں کریں گے۔ آپ پر یہ الزام بھی آ سکتا ہے کہ خود آپ ہی نے اس کو چھت سے دھکا دیا یا کسی کو اس کام پر لگایا۔ بھائی۔ کچھ دیر بیٹھو اور اس پورے معاملے پر نظر ثانی کرو۔ ‘‘

اس لمبی تقریر کے بعد وہ خاموش ہو گیا اور مجھ کو بھی خاموشی کے غار میں دھکیل دیا۔ اس غار کے اطراف سوچوں کا جنگل تھاخاموشی کے غار میں خاموشی کے علاوہ وہ بھی تھی جو چھت سے نیچے گِر پڑی تھی اور جس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اس کو آسمان کھا گیا تھا یا زمین نگل گئی تھی۔ سوچوں کے جنگل میں درندے میرے ذہن کی جانب منھ پھاڑے دھاڑ رہے تھے۔ ’ ’ تو اس کا کون ہے۔ ؟‘‘

خاموشی کے غار کے باہر آتے ہی میں کھڑا ہو گیا۔ رات پڑے دیر ہو چکی تھی۔ میری خاطر میرا دوست راجا اکرم بھی اپنے دفتر میں رکا ہوا تھا اور چپراسی اللہ بخش کو بھی گھر جانے میں تاخیر ہو رہی تھی میرے ساتھ ہی راجا اکرم بھی کھڑا ہوا۔ وہ سر جھکائے بیٹھا تھا اس سے جو کچھ بن پڑا وہ کر چکا تھا۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو اپنے دکھ میں شریک کر لیا تھا۔ بغیر کچھ بولے اس نے میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبایا۔ میں نے اس کی آنکھوں سے اپنی آنکھیں نہیں ملائیں اور دبی زبان میں خدا حافظ کہہ کر باہر نکل گیا۔

ہمیشہ کی طرح باہر کی دنیا معمول کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے پر تُلی بیٹھی تھی۔ برسوں سے یہی ہوتا چلا آیا تھا۔ چھت سے گرنے والی مجھ سے الگ کسی اور دنیا میں زندگی گزار رہی تھی۔ وہ میری ہوتے ہوئے بھی کسی اور کی ہو گئی تھی۔ ادھر میں بھی اس کا ہوتے ہوئے بھی کسی اور کا ہو گیا تھا۔ ہم دونوں کی دنیاؤں کے درمیان بڑے فاصلے اور مذہب کی سنگین دیوار حائل تھی۔ ہسپتال سے باہر نکل کر میں نے اپنی گاڑی اپنے گھر کے بجائے ایک ہوٹل کی طرف موڑ دی۔ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ گاڑی نے مجھے ہوٹل کی طرف موڑ دیا۔ گھر میں اطلاع دے دی کہ رات میں نہ آ سکوں گا۔ مزید یہ بھی کہہ دیا کہ ممکن ہے مجھے دو تین روز کے لئے اسلام آباد جانا پڑے۔ رات ہوٹل میں گزاری۔ روم سروس وغیرہ منع کردی اور سختی سے ہدایت کر دی کہ مجھے تنہا چھوڑ دیا جائے۔ ہوٹل کے کمرے میں بغیر معمولات شب اور بغیر کپڑے بدلے، بستر پر گر کر لحاف کے اندر چلا گیا۔ اگر میں اپنے حواس میں ہوتا تو اپنے پرائیویٹ آفس سے سفری ہینڈ کیری لے آتا جس میں ضرورت کی ہر چیز ہمہ وقت پیک رہتی تھی۔ جیسے ہی میں ہوٹل کے کمرے میں تنہا ہوا وہ میرے پاس آ گئی اور بولی۔

’ ’ یہ تم نے کیا حالت بنا رکھی ہے۔ ؟ اپنے آپ کو سنبھالو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں نا۔ ہمیشہ کی طرح— ‘‘ اور میں اس سے لپٹ کر دنیا وما فیہا سے بے خبر ہو گیا۔

صبح جب میں بستر سے اٹھا تو یوں لگا جیسے وہ پہلے ہی بیدار ہو کر، شاورلے کر باہر چلی گئی ہو۔ جیسے وہ میرے ساتھ ہی رہتی ہو جیسے وہ ہوٹل کا کمرہ نہ ہو بلکہ ہمارا گھر ہو۔ لیکن حقیقت میں نہیں تھا۔ میں نے دانت برش کئے، شیو کئے بنا شاور لیا۔ روم سروس والا چائے، ناشتے کو پوچھنے کے لئے آیا میں نے منع کر دیا۔ ہوٹل کاؤنٹر پر بِل ادا کر کے، روم سروس اور واش روم سروس کے بندوں کو مناسب ٹپ دے کر میں باہر نکل تو گیا لیکن گاڑی میں بیٹھنے تک یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ مجھے آگے کیا کرنا تھا۔ ؟ گھرجاؤں اور میڈیا سے یہ امیدکروں کہ مجھے گھر بیٹھے خبر دے دیں۔ کم از کم اس کی گم شدگی کی خبر تو آئی ہی ہو گی یا ایک بار پھر ہسپتال جاؤں اور ادھر ادھر معلوم کروں لیکن گاڑی نے خود ہی یہ فیصلہ کر ڈالا کہ گھر کے راستے پر نہیں پڑی۔ اس کے بعد اسٹیرنگ نے گاڑی کو ہسپتال کے گیٹ کے اندر داخل کر دیا۔ گاڑی پارک کر کے میں انکوائری اور ایمر جنسی کاؤنٹر کے سامنے بے مقصد چکر لگانے لگا۔

وہاں رونق تھی۔ میں نے لوگوں پر بھی نظر ڈالی لیکن کسی پر بھی نظرنہیں رکی بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ میں شاید دیکھنے سے قاصر رہا اور جلد ہی وہاں سے نکل گیا۔ آئی سی یو وارڈس میں ایک دو نرسوں اور گارڈوں سے سر کھپا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کی شباہت رکھنے والی کوئی مریضہ آئی سی یو (I.C.U) میں تو نہیں داخل تھی۔ لیکن ناکام رہا۔ نیچے اتر کر میں نے وہ فیصلہ لیا جو میں لینا نہیں چاہتا تھا۔ ہسپتال کے قبرستان جانے کا فیصلہ۔ اس فیصلے نے ایک بار پھر میری دونوں آنکھوں کو رواں کر دیا۔ میرے اندر کا سب کچھ پانی ہونے لگا۔ میرے لئے بہتر طریقۂ کا ریہ تھا کہ ہسپتال کے تیسرے گیٹ سے اندر داخل ہوں اور بیرونی دیوار کے آخری سرے پر جھاڑیوں سے بنائی ہوئی ایک باڑھ کے پیچھے پہنچ جاؤں اور میں نے ایسا ہی کیا۔ لاوا رثوں کے اس قبرستان میں داخل ہو کر میں نے چاروں اور نظر ڈالی۔ السلام علیک یا اھل القبور (تم پر سلامتی ہو اے قبر والو) میں نے اپنی دین کی شریعت پر عمل کرتے ہوئے ہلکی لیکن صاف آواز میں کہا۔ اس دوران ایک جوان آدمی، دو دس، بارہ سالہ لڑکوں کے ساتھ نہ جانے کہاں سے برآمد ہو گیا۔ اس نے مجھے سلام کیا اوربولا آپ کا کوئی بندہ۔ ؟‘‘ میں نے اس کو اور ان لڑکوں کو نہ دیکھتے ہوئے دیکھا اور اپنی بہ سبب گریہ بھرّائی ہوئی آواز پر قابو پا کر پوچھا۔ ’ ’ کسی مائی کی قبر۔ کل رات یا آج فجر والی‘‘ ’ ’ آپ کون۔ ؟‘‘ اس نے الٹا مجھ سے سوال کیا۔ مجھے اس کے اس سوال پر غصّہ آ گیا۔ ’ ’عجیب دنیا ہے۔ ‘‘ میں نے سوچا۔ ’ ’ یہاں قبروں پر بھی رشتے داروں کا اجارا ہے۔ ‘‘ اپنی مجبوری پر خود مجھے بھی ترس آنے لگا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے یہی سوال دہرایا۔ ’ ’ آپ کی کون۔ ؟‘‘ اور خود ہی جواب دیا۔ ’ ’ میری سب کچھ۔ ‘‘ یہ جواب میں اس قبرستان کے مجاور کو نہیں دے سکتا تھا سو خاموش رہا۔

’ ’ کس کا کون۔ ؟‘‘ میرے لا جواب ہو جانے کے فوراً بعد کسی نے میرے عقب سے سوال کیا۔ یہ وہی درویش تھا جس نے مجھے ’قبرستان‘ کا اشارہ دیا تھا۔ اس وقت جب میں ہسپتال میں چھت سے گرنے والی کے بارے میں پوچھتا پھر رہا تھا۔ میں نے پلٹ کر اس کو دیکھا۔ اس مرتبہ اس کے بال کھُل کر، دونوں شانوں اور پیٹھ پر لہرا رہے تھے۔ اور اس کے روشن چہرے کو اپنے احاطے میں لے کر روشن تر بنا رہے تھے۔ روشنی نے میری آنکھوں میں چکا چوند سی پیدا کر دی۔ میری نگاہیں آپ ہی آپ جھک گئیں۔ میں نے دیکھا یا محسوس کیا اس مجاور نما شخص نے اپنے دونوں ہاتھ، ادب سے پیٹ پر ناف کے قریب باندھ لئے تھے دونوں لڑکے بھی ادب کے انداز میں آ گئے تھے اگر چہ انہوں نے آنکھیں نہیں جھُکائیں۔ وہ ٹکٹکی باندھے اس درویش کو دیکھ رہے تھے۔ ’ ’ اسلام علیکم سائیں۔ یا علی مدد‘‘ مجاور نما آدمی نے درویش کو سلام کیا۔ ’ ’ یا علی مدد۔ وقت شاہ بابا۔ ‘‘ لڑکوں نے بلند آواز میں کہا۔

’ ’ کوئی کسی کا نہیں۔ سب وقت کے ہیں — وہ— وہ اپنا وقت بسر کر گئی— آگے اس جھاڑ کے نیچے — مٹی اوڑھے۔ ‘‘

درویش کے الفاظ نے میرے پیروں کو متحرّک کر دیا اور میرا بدن اپنے آپ ہی ادھر بڑھا جدھر درویش نے اشارہ کیا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھ سے قدرے فاصلہ رکھ کر وہ سب میرے پیچھے آ رہے تھے۔

اس نئی بنی ہوئی لحد پر پھول تھے۔ ’ ’ ہسپتال کی انتظامیہ کی ہدایات میں قبر پر پھول ڈالنا بھی شامل ہو گا۔ ‘‘ میں نے سوچا۔ میرے اندر سے یقین کی ایک لہر اٹھی اور میرے ذہن کے صف اول میں پہنچ کر رُک گئی۔ میں اس نئی بنائی ہوئی، مٹی کی کچّی قبر کی پائنتی کھڑا ہو گیا اوربولا۔ ’ ’ تم ہی ہو۔ نا۔ تم نے مذہب کی بنیاد پر شادی کی در خواست (Proposal) ٹھکرادی تھی۔ یاد ہے نا۔ میں نے تمہیں راضی کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ میں نے تم سے وعدہ بھی کیا تھا کہ تمہیں مذہب تبدیل کرنے کے لئے کبھی مجبور نہیں کروں گا لیکن تم نے ہر مرتبہ ہنسی میں ٹال دیا تھا۔ میں نے بچوں کو مذہب اختیار کرنے کی آزادی دینے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن تم نہیں مانیں اور ہنستی رہیں۔ دیکھو۔ اب تم میرے مذہب کے طریقے پر دفن ہوئی ہو۔ دیکھ رہی ہو۔ ‘‘

’ ’ دیکھ رہی ہوں۔ لیکن میں مری ہوں اپنے مذہب پر اور اس سمے بھی ہنس رہی ہوں۔ ‘‘ وہ بولی۔ میں نے دیکھا وہ میرے سامنے کھڑی ہنس رہی تھی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ میرے پیچھے آنے والوں کا کہیں بھی پتہ نہیں تھا۔ مجاور نما آدمی۔ اس کے دونوں لڑکے غائب ہو گئے تھے البتہ وقت شاہ فقیر کا پرچھاواں ساکھڑا تھا اور آہستہ آہستہ فضا میں تحلیل ہوتا جا رہا تھا۔

پیچھے بہت پیچھے ماورائی افق پر۔ وقت کی سُرنگ سے خلق بر آمد ہوتی جا رہی تھی۔ وقت کی سُرنگ میں خلق داخل ہو کر نظروں سے غائب ہو تی جا رہی تھی۔ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔ برآمد ہونے کا اور غائب ہونے کا۔ وہ ہنسے جار ہی تھی اور اس کا انگ انگ، رُواں رُواں ہنس رہا تھا۔ یہ اس کے ہنسنے کا انداز تھا۔

میں اس کے ساتھ قدم بہ قدم چل رہا تھا۔

سُرنگ کے داخلی راستے کی جانب۔

آہستہ آہستہ۔ آہستہ آہستہ۔ !!

٭٭٭

 

 

 

ہونے کا درخت

 

مقام اور وقت کے بارے میں کچھ بھی تو واضح نہیں ہے۔ میں قطعی نہیں جانتا کہ میں کب اور کہاں پیدا ہوا۔ میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ جب میں زمین سے اوپر نکلا تو مجھ کو یہ احساس ہوا کہ زمین سے باہر آنے کے باوجود میں زمین میں پیوست ہوں۔ میری جڑیں زمین کے اندر ہیں اور میں زمین سے بندھا ہوں۔ میں نے ان کیڑوں مکوڑوں، چیونٹیوں، کیچوؤں کو جنہیں آدمی حشرات الارض کے نام سے پکارتے ہیں، زمین کے باہر اور زمین کے اندر حرکت کرتے اور رینگتے ہوئے دیکھا۔ میں نے اپنے ساتھ پیدا ہونے والے، اپنے ہم مقام اور ہم وقت جھوٹے بڑے جانداروں کو اور پرندوں کو دیکھا۔ وہ سب حرکت کرتے تھے، رینگتے تھے، اچھلتے کودتے تھے۔ بعض چلتے اور بعض ہوا میں اڑتے بھی تھے۔ میں اور مجھ سے کئی اور اپنے مقام سے حرکت کرنے پر قادر نہیں تھے۔ مجھے اس صورت حال سے بڑی مایوسی ہوئی— ’ ’آخر میں نے اور مجھ جیسے دوسروں نے کون سا گناہ، کون سا جرم اور کیا خطا کی تھی کہ ہمارے پاؤں زمین میں گاڑ دئے گئے اور وہ بھی تاعمر۔ ‘‘

میں نے سوچا— پیدائش کے دکھ کے بعد جو ہر خلق ہونے والے کو سہنا پڑتا ہے، یہ میرا دوسرا بڑا دکھ تھا، جس نے میرے وجود سے زندگی کی ساری امنگوں کو دور کر دیا تھا۔ شدید صدمے سے میں نے اپنا سر جھکا لیا۔ میرے پتے منھ لٹکا کر رہ گئے۔ میرا سینہ خمیدہ ہو گیا، میری کمر جھک گئی۔ میں نے سوچا کہ مادرِ ارض کی چھاتی سے لپٹ جاؤس اور لپٹا رہوں۔ اس وقت تک کہ مٹی کے ذرے اور کنکر پتھر میرے گنتی کے چندپتوں، نرم شاخوں، لچکدار سینے، میرے سارے ننھے منے وجود کو ڈھانپ لیں اور میں دھرتی کی امانت، دھرتی میں لوٹ کر ایک بار پھر مٹی ہو جاؤں لیکن ماں نے مجھے لیٹنے نہیں دیا اور پیار سے بولی ’ ’میرے ننھے منے راج دلارے بیٹے ! ابھی تم کو میرے بدن سے الگ ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا۔ ہر کوئی جو خلق کیا جاتا ہے وہ اپنا وقت ساتھ لے کر آتا ہے۔ ابھی تم ایک چھوٹے سے پودے ہو۔ ابھی تم کو بڑا ہونا اور پورا درخت بننا ہے۔ اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ!‘‘ دھرتی ماں نے میری ہمت بڑھا ئی لیکن میں بحث کرنے لگا اور بولا۔

’ ’لیکن ماں — یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے، یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور یہ جانور، یہ پرندے حرکت کرتے ہیں۔ رینگتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں، دوڑتے بھاگتے ہیں، اچھلتے، کودتے ہیں، بعض اڑتے بھی ہیں — تو پھر میں بندھا ہوا کیوں ہوں —؟ آخر کیوں میں اپنی جگہ سے جنبش بھی نہیں کر سکتا—؟ یہ کیسی قید ہے —؟ کیسی سزا ہے —؟ میں تو ابھی ابھی پیدا ہوا ہوں۔ مجھ سے ایسا کون سا گناہ، کون سا جرم سرزد ہوا ہے جس کی یہ سزا مجھے دی جا رہی ہے —؟‘‘ میں نے ماں سے اپنے اصل دکھ کی وضاحت کی۔ اس مرحلے پر مجھے یوں لگا کہ جیسے مادرِ ارض نے مجھے جڑوں سے لے کر پتوں تک چوم لیا۔ اس ایک بوسے نے مجھے وہ توانائی بخشی کہ میں ایک بار پھر کھڑا ہو گیا اور اپنے ننھے وجود کے ساتھ ہوا میں رقص کرنے گا۔

اس چھوٹی سی عمر میں بھی، میں یہ جان چکا تھا کہ مادرِ ارض بہت بڑی ہے۔ پوری ایک دنیا ہے۔ اس سمے جب میں مادرِارض کے پیار کرنے پر زندگی سے بھر پور رقص میں مصروف تھا، یہ محسوس کیا کہ وہ مسکرارہی ہے اور بے حد خوش اور مطمئن ہے۔ اسی خوشی اور طمانیت کی کیفیت کو جڑوں سے پتوں تک منتقل کرتے ہوئے وہ گویا ہوئی۔

’ ’تم بے کار بددل ہو رہے میرے بچے — تم جو بظاہر ایک جگہ قائم ہو اصل میں تم بھی حرکت کر رہے ہو، اپنے چاروں اطراف اپنی جڑوں کے ذریعہ۔ جیسے جیسے تم بڑے ہوتے جاؤ گے، اپنے حرکت کرنے کو جانتے جاؤ گے۔ اپنی رینگتی جڑوں کو پہچان لو گے۔ یہاں سے کچھ دور ایک ندی بہہ رہی ہے۔ تم دیکھنا تھوڑے ہی عرصے بعد تم اپنی ان زمیں دوز ٹانگوں کی مدد سے اس ندی تک پہنچ جاؤ گے۔ ‘‘یہ سب کچھ ماں نے بڑے وثوق سے کہا۔

’ ’سچ ماں ‘‘ میں چہک کر بولا۔

’ ’ہاں بیٹے تم ندی تک ضرور پہنچ جاؤ گے۔ تم اپنے چاروں طرف دور دور تک جاؤ گے۔ تم بھی دوسرے جانداروں کی مانند حرکت کرو گے۔ زمین کے اندر، اندر اپنی جڑوں کی مدد سے اور باہر اپنے تنے شاخوں اور پتوں کی مدد سے۔ ‘‘ ماں نے ایک مرتبہ پھر مجھے مثبت سوچوں اور امیدوں کی جانب ڈھکیلا لیکن میرے اندر ایک کانٹا سا چبھ رہا تھا اور اس کی چبھن کے زیر اثر میں نے ماں سے یہ شکوہ کیا—

’ ’لیکن ماں مجھے یہ قید بہت بری لگتی ہے۔ کیا اس قید سے مجھے آزادی نہیں مل سکتی۔ کبھی بھی نہیں۔ ‘‘ میں نے ماں سے ضد کی۔

’ ’میرے بیٹے ! میں تجھے کس طرح سمجھاؤں۔ ابھی تو ان معاملات کو سمجھنے کے لئے بہت چھوٹا ہے۔ جس کو تو قید کہتا ہے میرے لعل وہ قید نہیں ہے، وہ تیرا ہونا ہے، تو اپنے ہونے میں قید ہے، ہر کوئی جو یہاں ہوتا ہے وہ اپنے ہونے کے اندر قید ہوتا ہے۔ اپنے اپنے انداز میں، جس طرح کا ہونا، اس طرح کی قید۔ میں بھی ہوں، سو میں بھی قید ہوں۔ توزمین سے جڑا ہوا ہے، یہ تیرے ہونے کا انداز ہے۔ میں گردش میں ہوں، یہ میرے ہونے کا انداز ہے۔ جہاں تک حرکت کا تعلق ہے، سب حرکت میں ہیں۔ تو بھی حرکت میں ہے، میں بھی حرکت میں ہوں، جو ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی انداز کی حرکت میں ہوتا ہے اور تو اورجمادات بھی، کنکر، پتھر، چٹانیں، پہاڑ وغیرہ جو تجھ سے کہیں زیادہ جامد اور غیر متحرک نظر آتے ہیں، اپنے اپنے اندرون میں متحرک ہیں۔ ہم سب لاکھ حرکت میں ہوں، ہم سب قید ہیں۔ سارے ہونے والے قید ہیں، وہ جو زمین میں ہیں، وہ جو زمین کے اوپر ہیں، ہواؤں میں ہیں، پانی میں ہیں، فضا میں ہیں، خلاؤں میں ہیں، سارے ایسی ڈوریوں سے بندھے ہیں جو دکھائی نہیں دیتیں۔ غیر مرئی ہیں اور یہ ڈوریاں اس کے قابو میں ہیں جو سب کا خالق ہے، لیکن یہ ساری باتیں میں تجھ سے کیوں کہہ رہی ہوں —؟ ابھی تو ان باتوں کے لئے بہت چھوٹا ہے —اب جا— تو اپنے ہونے میں ہو—‘‘

ماں سچ کہہ رہی تھی۔ میں ان باتوں کے لئے ہنوز بہت چھوٹا تھا، لیکن ان کو پوری طرح سمجھنے کے لائق بڑا— میں کبھی نہ ہو سکا یا پھر بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ اور ہی طرح کی باتوں میں الجھتا گیا کہ ان باتوں کی جانب متوجہ ہونے کی مہلت ہی نہیں ملی۔ ہونے کے مرحلے سے گزرنے کے بعد میں ’بڑا‘ ہونے کے مرحلوں سے گزرتا گیا۔ میرے بڑے ہونے، زمین سے اوپر اٹھنے میں اگرچہ مجھے شاخ شاخ ہونے کے آشوب سے بھی گزرنا پڑا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میں فربہ بھی ہوا، لمبا بھی ہوا اور گھنا بھی۔ مجھ پر چھتریاں سی اگتی چلی گئیں اور جب چھتریاں گھنی ہو کر آپس میں مربوط ہو گئیں تو شاخوں، ڈالیوں اور پتوں سے، اچھا خاصا ہرا بھرا سائبان تعمیر ہو گیا۔ میری آبادی میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ رینگنے والے چھوٹے بڑے وجودوں نے تو آغاز ہی سے مجھ میں اور مجھ پر رہنا بسنا شروع کر دیا تھا لیکن جیسے جیسے میری چھت پھیلی اور میں چھتنار ہوتا گیا مجھ پر اور مجھ میں بڑے حشرات الارض رہنے سہنے لگے۔ بھانت بھانت کے پرندے، گھونسلے بنانے والے اور گھونسلے بنائے بغیر گزر بسر کرنے والے آباد ہو گئے۔ ساتھ ہی چند ایک چوپائے بھی میرے پتوں، نرم ٹہنیوں پر منھ مارنے والے مجھ سے متعارف ہوتے گئے۔ بکریاں جنکا پیٹ ہی نہیں بھرتا مجھ سے لپٹی رہتیں۔ ان سب کے علاوہ میرے نیچے، میری چھاؤں میں آدم زاد بھی ڈیرا جمانے لگے تھے۔ مجھے ان آدم زادوں کے بچے، بچیوں کا آنا بہت بھاتا، ان چڑیوں سے بھی زیادہ جو پوپھٹے میری اس چھوٹی سی بستی کو اپنی آوازوں سے بیدار کیا کرتی تھیں۔ میرے نیچے۔ بچے، بچیاں، لڑکے، لڑکیاں طرح طرح کے کھیل کھیلتے۔ بڑے لڑکے، لڑکیاں اپنی جوانی کے ڈرامے کے ابتدائی مناظر کی بساط جماتے۔ بوڑھے حقے گڑ گڑاتے، چلمنیں پھونکتے اور بستی کی عورتوں اور لڑکیوں کے گرما گرم اسکینڈل سنتے سناتے یا ایجاد کرتے۔

بڑے ہونے کے مرحلے سے گزرنے کے دوران میں زیادہ سے زیادہ سمجھ دار ہوتا گیا۔ جسمانی بڑھوتری، وسعت اور بلندی کو اور جسمانی حرکت کو ہی سب کچھ خیال کرنے والا ’میں ‘ اس حقیقت سے آشنا ہو اکہ جسمانی بڑھوتری کے علاوہ بھی بڑے ہونے کی متعدد دوسری صورتیں اور حالتیں ہیں جیسے ذہنی طور پر بڑا ہونا، جذباتی اور حسّی طور پر بڑا ہونا۔ چونکہ دھرتی ماتا نے مجھ میں صبر، ضبط اور رسان ڈال دی تھی۔ اس سبب سے گھبرا جانے اور مایوس ہونے کی منفی کیفیتوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لائق ہو گیا تھا۔ میں نے ایک بنیادی سچائی سے آگاہی پیدا کر لی تھی اور یہ جان چکا تھا کہ ہونے کو سہنا بھی ہونے کے لوازمات میں شامل ہے۔ اول اول میں صرف اپنے ہونے میں جٹا رہا پھر یوں ہوا کہ میرے ہونے سے، بہت سارے اور ہونے والے مجھ سے جُڑتے چلے گئے۔ جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا مجھ سے جُڑے ہوئے ان ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ وقت بھی آیا کہ ان کے ہونے کا ادراک کرنا بھی میرے بس کی بات نہیں رہی۔ اسی دوران میرے مشاہدے میں تواتر کے ساتھ ایک تکلیف دہ حقیقت آئی اور مختلف اور متنوع صورتوں میں آئی کہ میں شدید صدمے سے دو چار ہونے لگا۔ میرے بدن پر چھوٹے بڑے کیڑے شروع ہی سے ادھر ادھر رینگتے پھرتے تھے۔ وہ زمین کے اندر میرے نچلے دھڑ کے ساتھ ہوتے تھے اور زمین کے اوپر میرے بالائی دھڑ پر بھی ہوتے تھے۔ میں نے محسوس کیا میرے اپنے بدن پر مخصوص اقسام کی چھپکلیاں، گرگٹ اور چند ایک بڑے جسموں والے حشرات الارض آ کر بس گئے اور ان کیڑوں کو موت کے گھاٹ اتارنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ میری شاخوں پر رہنے والی چڑیاں اور پرندے صبح سویرے زمین پر اتر کر ان کیڑوں کو لقمۂ اجل بناتے تھے میں نے یہ بھی دیکھا کہ جانے کہاں کہاں سے چیلیں اور عقاب سورج کے نکلنے سے قبل میری شاخوں اور پتوں پر سوئی ہوئی چڑیوں اور چھوٹے پرندوں پر جھپٹّے مار کر انہیں لے اڑتے۔ میں نے یہ بھی دیکھا خوبصورت چال میں مٹکنے والے اور غٹر غوں کرنے والے کبوتروں، ہوکتی فاختاؤں اور گانے والی بلبلوں کو حسین جسموں اور جادوئی پھنوں والے ناگ اور ناگنیں اپنے اندر اتار لیتیں۔ میں جو بلّیوں کو مراقبہ کرتے ہوئے دیکھ کر ان کا احترام کرنے لگا تھا یہ دیکھ کر لرز اٹھا کہ ایک بلّی اپنا مراقبہ توڑ کر کسی چڑیا پر جھپٹی، پلک جھپکتے میں اس کے پر نوچ کر الگ کئے اور غڑپ کر گئی۔ میرے پتوں نے ہو اکے ساتھ مل کر ماتمی حلقے بنا لئے جو دکھ مجھے پہلی پت جھڑ کے دوران ہوا تھاوہ میرے ان خوفناک اورالمناک مشاہدوں کے آگے کچھ بھی تو نہ تھا۔ قریب تھا کہ ایک مرتبہ پھر اپنی منفی سوچوں میں ڈوب جاؤں دھرتی ماتا خود ہی میری جانب متوجہ ہو گئی۔ دھرتی ماتا کو اپنی جانب متوجہ پا کر میں نے پتوں پر پڑی ہوئی شبنم کے بے شمار آنسو ماں کی گود میں ٹپکادئے اور ان بھیانک مشاہدوں سے اس کو آگاہ کرتے ہوئے پوچھا ’ ’یہ سب کیا ہے ماں۔ یہ میں کیا دیکھتا ہوں۔ ؟ ان ننھے ننھے معصوم کیڑوں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے جو پرندے ان کو اپنی چونچوں میں اٹھا لیتے ہیں۔ ؟‘‘ دھرتی ماں نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا صرف مادرانہ شفقت سے مجھے دیکھتی رہی ایک کے بعد ایک میں نے اپنے سارے تلخ مشاہدات دھرتی ماں کو سنا دئے اور جب کثرت سے مراقبے میں مصروف ہونے والی بلّی کی سفاکی تک پہنچا توا پنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور روتےر وتے نڈھال ہو گیا۔ دھرتی ماں نے مجھے اپنی محبت کے حصار میں لے لیا۔ میں نے محسوس کیا جیسے میں کوئی نوزائیدہ ننھا وجود تھا اور دھرتی ماں مجھے اپنی گود میں لٹا کر گیت سنا رہی تھی۔

’ ’میرے بیٹے۔ مت رو، مت رو

راج دلارے۔ مت رو۔ مت رو

تم اب تک ’ ہونے ‘ میں رہے تھے

اور فقط ’ہونا ‘ دیکھا تھا

ہونے کی گودی میں چندا

ہونا ہی، ہونا، ہوتا تھا

سپنوں میں کھونا ہوتا تھا

’ ’میرے بیٹے۔ مت رو، مت رو

راج دلارے۔ مت رو۔ مت رو

تم نے جو دیکھا ہے، چندا

لگتا ہے جو بھیانک سپنا

ہر ہونے کے ساتھ لگاہے

وہ ہونے کا انت ہے پیارے

اور ’نہ ہونا‘ کہلاتا ہے

’ہونا ‘ اور ’نہ ہونا‘دونوں

ہوتے ہوئے بھی ہوتے نہیں ہیں

اچھے بچے روتے نہیں ہیں

’ ’میرے بیٹے۔ مت رو، مت رو

راج دلارے۔ مت رو۔ مت رو

دھرتی ماتا نے گانا بند کیا اور مجھے پیار سے دیکھا۔ اس دوران میں نے رونا بند کر دیا تھا۔ اپنی آنکھوں کے آنسو خشک کر لئے تھے۔ اگر چہ ماں نے گیت کی مدھرتا میں لپیٹ کر زندگی کی چند بڑی لیکن کڑی سچائیوں کو میری سماعت اور ذہن میں انڈیل دیا تھا لیکن میری تشفی نہیں ہو سکی تھی ’ ’ماں مجھے ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔ کیا میں بھی ’نہیں ‘ ہو جاؤں گا؟ ‘‘

میں نے ماں سے سیدھا سوال کر ہی دیا۔

’ ’ میں نے کہا نا—ہر ہونے کو ایک دن نہ ہونا ہے۔ ‘‘

’ ’ تو بتاؤ ماں۔ میں کب ’ نہ ہونے ‘ کے مرحلے سے گزروں گا۔ ؟‘‘

’ ’ میرے چندا۔ یہ میں نہیں بتا سکتی۔ میں خود اپنے بارے میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میں کب نہ ہونے کے مرحلے سے گزروں گی۔ ؟‘‘

’ ’ ایسا کیوں ہے ماں۔ ؟‘‘

’ ’ایسا اس سبب سے ہے بیٹے کہ تم اور میں، ہم دونوں اپنی مرضی سے نہیں ہیں اور بیٹے تم اور میں دونوں اپنے اپنے وقت پر ’نہ ہونے ‘ کا مرحلہ گزاریں گے اس کی مرضی کے مطابق جس نے ہمیں ’ہونے ‘ کے مرحلے میں ڈالا تھا۔ ‘‘

میں نے دھرتی ماں سے کچھ اور پوچھنا لاحاصل جان کر چپ سادھ لی اور دھرتی ماتا نے بھی خاموش رہنا مناسب خیال کر لیا۔ اس کے بعد میرے رویے میں تبدیلی آئی اور میں اپنے ہونے میں رہتے ہوئے ہر روز ہی نہیں، ہر لمحہ دوسروں کے ہونے اور نہ ہونے کا مشاہدہ کرنے لگا۔ پھر تو میرا یہ حال ہوا کہ اندھیرے کو اجالے کے پیٹ سے اور اجالے کو اندھیرے کے پیٹ سے پیدا ہوتے دیکھتا، رات سے دن کو، دن سے رات کو جنم لیتے دیکھتا۔ سردی کی کوکھ سے گرمی، گرمی سے سردی، بہار سے خزاں، خزاں سے بہار پیدا ہوتے ہوئے نہ صرف محسوس کیا بلکہ موسموں کے چکر سے واقف ہو گیا۔ مشاہدوں کے تسلسل سے آخر کار میں سوچ کے اس مرحلے پر جا کر پریشان ہو گیا جس میں ہونے اور نہ ہونے کا تواتر میرے پیش نظر تھا۔ جب میں نے اپنی اس پریشانی کا دھرتی ماں سے ذکر کیا تو وہ ہنس پڑی اور بولی۔

’ ’بس بس میں سمجھ گئی۔ اب میرا بیٹا صحیح معنوں میں بڑا ہو گیا ہے۔ ‘‘

’ ’ صحیح معنوں میں بڑا ہو گیا ہے۔ ؟ صحیح معنوں میں کس طرح بڑے ہوتے ہیں۔ ؟‘‘

’ ’ تم نے ہونے اور نہ ہونے کو بھر پور طریقے سے محسوس کر لیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تم بڑے ہو گئے ہو۔ ‘‘

’ ’صاف صاف بتاؤ ماں۔ آج آپ پہلی مرتبہ میرے سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب نہیں دے پا رہی ہو۔ ‘‘

’‘ بیٹا۔ ہونا اور نہ ہونا نت نئے رخ اختیار کرتا ہے اور پوری کائنات اس کی مختلف جہتوں سے معمور ہے۔ رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوبارہ جو رات آتی ہے وہی پہلے والی رات ہوتی ہے اور جو دن آتا ہے وہی گزرا ہوا دن ہوتا ہے۔ میرے بھولے بھالے بیٹے جب تم بڑے ہی ہو گئے ہو تو یہ بھی جان لو—جو رات بھی آتی ہے، جو دن بھی طلوع ہوتا ہے وہ نیا ہی ہوتا ہے — پرانا نہیں۔ آج جو چاند آسمان پر چمکے گا وہ ڈوبے گا تو پھر نہیں ابھرے گا۔ آج جو سورج چمک رہا ہے غروب ہو کر پھر طلوع نہیں ہو گا۔ میں زمیں ہوں۔ یہ مانا کہ میرا ایک ہی چاند ہے اور جس نظام شمسی میں ہوں اس کا سورج بھی ایک ہی ہے لیکن وقت اپنا کام کرنے سے نہیں رکتا اور وقت ہی ہے جو ہر صبح کے سورج کو نیا اور ہر رات کے چاند کو نیا روپ دے دیتا ہے۔ وقت کے زیر ہر رُت نئی ہی ہوتی ہے۔ پرانی کوئی بھی رُت لوٹ کر نہیں آتی۔ وقت کے زیر اثر تم ہر لمحہ بدل رہے ہو اور میں بھی۔ میں ہر لمحہ نئی ’ میں ‘ ہوں تم ہر لمحہ ایک نئے ’تم‘ ہو۔ میرے بیٹے۔ یہ ہر روز کا نیا پن ہی ہونے سے نہ ہونے تک ہمارے بتدریج اور مسلسل سفر کا شاہد ہے اور ثبوت بھی۔ ہر بدلنے میں اور نئے ہونے میں ’نہ ہونا‘ چھپا ہوا ہے۔ ‘‘

’ ’ ماتا میری۔ کیا ’نہ ہونا‘ اٹل ہے۔ ؟‘‘

’ ’ ہاں یہ اٹل ہے۔ میرے بچے — لیکن یہ سب … ‘‘

’ ’ یہ سب آپ کہتے کہتے رک کیوں گئیں۔ ؟‘‘

’ ’ یہ سب گمان ہے۔ ‘‘

’ ’گمان …؟‘‘

ہاں میرے بیٹے۔ یہ سب… اور تمہارا، میرا ہونا بھی محض گمان ہے صرف ایک مفروضہ۔۔ ‘‘ اتنا کہہ کر دھرتی ماں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ میں نے ماں کے چہرے کو غور سے دیکھا اور سوچا ’ ’مجھے اس گمان والی بات پر بحث جاری نہیں رکھنی چاہئے۔ ماں پہلے ہی اداس ہے۔ دکھی ہے۔ اس موضوع پر مزید گفتگو سے مزید دکھی ہو جائے گی۔

اس مقام پر میں نے ماں سے رخصت چاہی۔

میں اپنے آپ کو اور اپنے نیچے، اوپر اور اطراف پھیلے ہوئے وجودوں کو محض ’ ’گمان‘‘ تسلیم کرنے کی حالت میں نہیں تھا اور نہ کبھی ہو سکا البتہ دوسروں کے بارے میں سوچنا میں نے ترک نہیں کیا۔ دوسروں کے بارے میں سوچنے سے میں نئے نئے دکھوں اور نئی نئی خوشیوں سے آشنا ہوتا چلا گیا۔ اصل بات یہ تھی کہ آدم زادوں کو میری چھاؤں راس آنے لگی تھی۔ وہ اپنے دکھوں اور خوشیوں کے ساتھ میرے سائبان تلے آنے جانے لگے تھے۔ ان میں قابل ذکر ایک لڑکا، لڑکی تھے۔ وہ میرے نیچے ایسے وقت آتے جب کسی اور آدم زا کے آنے کے امکانات نہ ہوتے۔ ظاہر تھا وہ چوری چھپے ملتے تھے اور کبھی دیر تک، کبھی تھوڑے وقت ساتھ رہتے لیکن جتنی دیر بھی رہتے ایک دوسرے میں گم رہتے۔ بہت جلد میں ان کے چھوٹے بڑے بے شمار رازوں کا امین ہو گیا تھا۔ جس طرح وہ دونوں ایک دوسرے کے ہو رہے تھے میں ان دونوں کا ہو رہا تھا۔ میری نئی نویلی ٹہنیاں، ڈالیاں اور پتے ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونے لگے تھے۔ وہ جب ہم آغوش ہوتے تو میں دیوانہ وار رقص کرتا، وہ جب دکھی ہوتے تو میں بلک بلک کر روتا۔ پھر ایک منحوس دن وہ لڑکی تنہا آئی، میری ایک ڈالی کو پکڑ کر کھڑی روتی رہی میں بھی رویا لیکن جب وہ میرے بدن سے لپٹ کر روئی تو میں اپنے سارے وجود سے ماتم کرنے لگا۔ وہ ہمیشہ کے لئے مجھے چھوڑ کر چلی گئی کبھی لوٹ کر نہیں آئی۔ بہت جلد میرے نیچے آنے جانے والے آدم زادوں کی باتوں سے مجھے پتہ چل گیا کہ لڑکا جبری فوجی بھرتی میں دھر لیا گیا تھا۔

ایک دن ایک سادھو نما شخص میرے نیچے آیا۔ اس نے آتے ہی میرے بدن کے ساتھ ایک پتھر کھڑا کیا، اس پر سیندور سے کچھ نقش بنائے اور اس کی جانب منہ کر کے پوجا کے آسن میں ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر اس طرح عبادت کر کے دوسری جانب کھسک کر مجھ سے ٹیک لگالی۔ آنکھیں بند کر کے نیم دراز پڑا رہا۔ گم صم، سویا نہیں لیکن جھپکی ضرور لی۔ بیدا رہو کر دو تین انگڑائیاں لیں، سرہانے دبی پوٹلی سے، مٹی کا پائپ، تمباکو کی چرمی تھیلی اور ایک ڈبیہ کسی بھورے رنگ کے سفوف کی بر آمد کی۔ اکڑوں بیٹھ کر مٹی کے پائپ میں تمباکو اور سفوف دبا دبا کر بھرا رو مال کے ایک گوشے میں بندھی ماچس کی ڈبیہ نکال کر پائپ کو آگ دکھائی، پائپ سے دھواں حلق میں لے کر باہر پھینکتا رہا۔ پہلے چھوٹے چھوٹے، بعد میں لمبے کش لئے۔ جیسے وہ گش لیتا، اس کے گلے کی نسیں تن جاتیں، گالوں میں دو غار سے بنتے اور آنکھیں ماتھے پر چڑھ کر لال انگارہ ہو جاتیں، پائپ پیتے ہوئے وہ زور زور سے کھانستا، کروٹ لے کر تھوک اور بلغم باہر پھینکتا، پھر دنیا ما فیہا سے بے خبر قریب قریب بے ہوش ہو جاتا۔ جب ہوش میں آتا، اٹھتا اورمیری بصارت سے پرے جانے کیا کرتا پھرتا۔ کبھی کبھی وہ میری سرحدِ ادراک میں آیا تو لٹیا میں ایک بکری کا دودھ نچوڑ رہا تھا۔ آدم زادوں کے مسائل میں سے ایک مسئلہ ان کے پیٹ کا ہے جن کے لئے غلط اور صحیح بے شمار کام کرگزرتے ہیں۔ میرے مشاہدے کا ہدف، آدم زاد ہو گئے تھے اور میں ان کو ترجیح دینے لگا تھا۔

اس سادھو نما آدمی سے میری دلچسپی بڑھ گئی۔ اس کی حرکات وسکنات سے صاف پتہ چلتا تھا وہ نیچے طویل قیام کا فیصلہ کر چکا تھا۔ سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتا اور کان میں جینو اٹکا کر جھاڑیوں میں گھُستا، جھاڑیوں سے باہر نکل کر، ندی کا رخ کرتا، اشنان کرتا اور پانی میں کھڑے ہو کر تری مورتی کا زور زور سے جاپ کرتا ’‘ برہما، وشنو، مہی‘‘ش جس کی آواز مجھ تک پہنچتی البتہ سوریہ دیوتا کے لئے جو اشلوک پڑھتا وہ دبی آواز میں ہوتے اور مجھ تک نہیں پہنچتے۔ آدم زادوں کی زندگی میں اور باتوں کے علاوہ یہ بات دوسری مخلوق سے قدرے مختلف دیکھنے میں آئی کہ غیر متوقع وا قعات سے بھری ہوئی ہے۔ اس سادھو نما آدمی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ مجھے توقع نہیں بلکہ یقین تھا کہ وہ میرے نیچے طویل مدت گزارے گا۔ ابھی میں اس سے پوری طرح واقف بھی نہ ہو سکتا تھا کہ مقامی زمیندار کے چند سوار آئے اور سادھو کو اس کی پوٹلا، پاٹلی کے ساتھ گھوڑے کی پشت پر ڈال کر لے گئے۔ میں تو اس کے بارے میں یہ بھی نہ جان سکا تھا کہ وہ کون تھا، عام آدمی، سادھو سنت، کوئی بھوکی جو یو گی بن گیا ہو یا پھر منتر جنتر کو ہی سب کچھ ماننے والا کوئی تانترک— میرے نیچے آنے جانے والے آدم زادوں سے تو صرف یہی سُن پایا کہ وہ سونا بنانے والے کی شہرت کا مالک تھا۔ مشہور تھا کہ وہ جب اپنے مٹی کے پائپ سے کش لگاتا ہے تو تانبے پیتل کا سکہ اڑ جاتا ہے اور اس کی جگہ خالص سونے کے ذرات مٹی کے پائپ میں چپکے رہ جاتے ہیں۔ لوگ اس کو یاد کر کے بہت دنوں ہنستے بولتے رہے تھے۔ ’ ’زمیندار اسے پٹوا پٹوا کر سونا بنوا رہا ہو گا۔ سالا بڑا سادھو سنت بنتا تھا— ہا ہا۔ ہاہا… ‘‘

سادھو کے پکڑے جانے کے بعد میں نے اپنے نیچے ایک خلا سا محسوس کیا۔ میں نے اس دھات کے بارے میں بھی سوچا جو کسی کام کی نہیں ہوتی لیکن آدم زاد اس پر جان دیتے اور جان لیتے ہیں۔ ’ ’ مادر ارض کے پاس تو بہت سارا سونا ہے ‘‘ میں نے یہ بھی سوچا۔

اس سادھو کے پکڑے جانے کے بعد میرے نیچے ایک درویش آبیٹھا چند روز بعد معلوم ہوا۔ کہ وہ میرے نیچے چلّہ کرے گا، چایس روز کا چلّہ۔ بڑا خوبصورت، گورا چٹا آدمی تھا۔ اس کے بال اس سادھو نما شخص کے بالوں کی مانند لمبے ضرور تھے لیکن وہ ان میں ہر روز کنگھی پھیرتا تھا اور دن میں کئی مرتبہ ایک چھوٹے سے آئینے میں دیکھ کر اپنی ریش بھی سنوارتا تھا۔ درویش کو بھی سلام کرنے کے لئے لوگ آنے لگے۔ مرد بھی اور عورتیں بھی جس طرح اس سادھو نما کے لئے آنے لگے تھے۔ میں نے سوچا کہ اس کو بھی زمیندار کے سوارلے جائیں گے لیکن چند ایک ہفتے گزرنے کے بعد بھی زمیندار کے سوار نہیں آئے تو مجھے اطمینان ہو گیا۔ میں چاہتا تھا وہ درویش میرے نیچے، ہمیشہ کے لئے بس جائے۔ وہ لوگوں سے بات چیت نہیں کرتا تھا۔ بس ہوں، ہاں کرتا البتہ ہر کسی کو دیکھ کر پیار سے مسکرادیتا۔ عورتوں اور لڑکیوں کو ایک فاصلے پر روک دیتا۔ سب کی بپتا اور منتوں کو آنکھیں بند کر کے سنتا۔ بوڑھوں، بوڑھیوں کو بھی بیٹا، بیٹی، پتر، پتری کہہ کر مخاطب ہوتا اور کہتا۔

’ ’آپ بھی دعا کرو، بابا بھی دعا کرے گا۔ اب جاؤ بابا کو کام کرنے دو۔ ‘‘

وہ کوئی کام نہیں کرتا۔ لوگ باگ۔ اس کے لئے روٹی، دال بھات، پھل، مٹھائی اور کھیت سے توڑی ہوئی گاجر، مولی اور نہ جانے کیا کیا لے کر آتے وہ تھوڑا تھوڑا چکھ کر وہاں موجود لوگوں میں اسی وقت تقسیم کروا دیتا۔ دوسرے دن کے لئے بچا کر نہیں رکھتا تھا۔ لوگوں کی حاجات پوری ہونے لگی تھیں یا درویش کی مقناطیسی شخصیت کا اثر تھا کہ اس کو سلام کرنے کے لئے آنے والوں میں روز بروز اضافہ ہونے گا کبھی کبھی تو اچھا خاصا مجمع لگ جاتا حالانکہ وہ سارا علاقہ جو فوجی نقل و حرکت اور ہوائی حملوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ میں اپنے نیچے کی آبادی میں اضافے سے خوش تھا لیکن ایک انتہائی گرم دن وہ درویش آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا اور شاید کچھ ورد کرنے میں مشغول تھا۔ آس پاس کوئی نہ تھا سوائے ایک موٹی کالی بلّی کے جو میری ایک ڈال پر اپنی دم نیچے لٹکائے بیٹھی تھی۔ مجھ پر کچھ زندہ وجود تھے بھی تو وہ سب کے سب بے حس و حرکت اور چُپ تھے۔ چڑیوں نے بھی چوں چوں بند کر رکھی تھی۔ اچانک ایک لڑکی جانے کہاں سے آ گئی۔ وہ اس طرح دبے پاؤں آئی کہ درویش کو جو اپنے وظیفے میں گم تھا، لڑکی کے آنے کا احساس بھی نہ ہو سکا۔ لڑکی درویش کے چہرے پر جھکی اور اس کا ما تھا چوم کر الٹے قدموں چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد وہ درویش کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر ایک چھوٹے سے حلقے میں دوڑتا رہا پھر دوڑنا بند کر کے اس نے اپنی چھڑی سے اپنے ہی بدن پر ضرب لگائی۔ اپنی اس پٹائی سے فارغ ہو کر اپنا مختصر اسباب سمیٹا، پوٹلی سی باندھی، پوٹلی کو چھڑی سے پرویا، کندھے پر لادا اور پلک جھپکتے میں، میرے نیچے سے رخصت ہو گیا۔ مجھ پر آباد وجودوں نے اگر یہ سب دیکھا بھی تو چپ سادھے رہے کیونکہ وہ یا میں — کر بھی کیا سکتے تھے، ہونے کے ساتھ ہونی بھی تو لگی ہے۔

دوسرے دن دوپہر میں وہ لڑکی آئی۔ درویش کو موجود نہ پا کر اس مقام پر ما تھا ٹیکا جہاں وہ بیٹھا کرتا تھا۔ کچھ دیر سجدے کی حالت میں پڑی رہی اور پھر چپ چاپ اٹھ کر چلی گئی۔ میں نے اپنی ڈالیاں اور پتے ہلا کر اور مجھ پر اور مجھ میں بسے ہوئے بے شمار وجودوں نے اپنے اپنے انداز میں اس لڑکی سے شکوہ کیا لیکن لڑکی اپنے المیے میں گُم ہم سب سے بے خبر رہی۔ اگر لڑکی اس طرح نہ آتی اور وہ سب نہیں کرتی جو اس نے کیا تو شاید وہ درویش میرے نیچے اپنا تکیہ بنا لیتا۔ شاید۔ شاید۔ شاید دور کسی چٹان کی نوک پر کوئی چیل چیخ چیخ کر اپنے رفیق حیات کو آواز دے رہی تھی۔ درویش کے جانے کے بعد، عین اس کے چلّے کی جگہ ایک انتہائی حسین بلّی ہر روز مراقبہ کرنے لگی۔ کچھ دن بعد اس بلی نے بھی آنا ترک کر دیا۔ جانے کیوں مجھے یوں لگا کہ اس حسین بلّی نے درویش کا چلّہ پورا کیا۔

میرے نیچے یوں تو صدہا ٹھہرنے والے بشمول آدم زاد ٹھہرے لیکن ایک میاں بیوی کے جوڑے کو میں کبھی نہ بھول سکا۔ وہ بہت کم وقت کے لئے آئے اور چلے گئے۔ دونوں ڈھلتی عمروں کے تھے۔ مرد قدرے فربہ لیکن گھٹے ہوئے جسم کا مالک تھا۔ اس کا چہرہ بڑا — گندمی رنگت، بڑی بڑی مونچھوں اور سرخ لہو رنگ آنکھوں سے نہ بھولنے والا ہو گیا تھا۔ دونوں ایک ہی گھوڑے پر سوار ہو کر آئے تھے۔ مرد نے گھوڑے کو مجھ سے باندھا اور وہاں سے تیز قدموں چلا گیا۔ عورت میرے قریب ہی کہیں بیٹھ رہی لیکن چادر سے پوری طرح چھپی ڈھکی۔ کوئی آدھ گھنٹہ گزرا ہو گا کہ مرد واپس آیا۔ اس کا گندمی چہرہ کامیابی کی چمک سے دمک رہا تھا لیکن آنکھوں سے خون ٹپکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کو دیکھ چادر میں لپٹی عورت جھپٹ کر اٹھی اور کھڑی ہو گئی۔ عورت کے کھڑے ہونے کے ساتھ ہی ان کا گھوڑا جو پوری طرح بیٹھا تھا اور نہ ہی کھڑا تھا ایک دم کھڑا ہو گیا اور اپنی اگلی ٹانگوں کو اٹھا کر، گھٹنوں سے موڑ کر، اپنے حلق سے ایک خاص آواز نکال کر اپنے مالک کو پیغام دینے لگا کہ وہ پوری طرح چاق و چوبند اور سواری کے لئے تیار ہے۔

’ ’کام ہو گیا‘‘ مرد نے عورت سے کہا ’ ’یہاں سے جلدی نکل چلو ہمارا تعاقب ضرور ہو گا‘‘۔

’ ’نہیں — پہلے میں اس ملعون کا منھ دیکھوں گی۔ ‘‘عورت غرائی، مرد نے عورت کی جانب نظر گھمائی۔ عورت کی چادر ڈھلک گئی تھی، عورت کی بڑی بڑی آنکھیں اس کے پورے چہرے پر پھیلنے کے ساتھ باہر ابل پڑی تھیں۔ ان سے آگ کی سی لپٹیں باہر آ رہی تھیں۔ مرد کی لہو چکیدہ آنکھیں عورت کی آنکھوں سے ٹکرا کر جھک گئیں۔

’ ’تم عورت ہو یا—‘‘ مرد بولتے، بولتے رک گیا۔

’ ’میں شیرنی ہوں —میں نے اپنا شیر بیٹا کھویا ہے — اکلوتا بیٹا—جلدی کرو۔ مجھے وہ خبیث سر دکھاؤ—میرے بیٹے کے قاتل کا سر— اس شیطان چہرے کو دیکھے بغیر— میں یہاں سے نہیں ٹلوں گی—‘‘ مرد نے اپنی بیوی کی آواز سنی اور سر سے پاؤں تک لرز گیا۔ یہ آواز وہ اپنی طویل ازدواجی زندگی میں پہلی بار سن رہا تھا۔ ایک مکمل غیر انسانی آواز— جس میں تحکم تھا۔ اس نے ایک ہی جھٹکے سے اپنی بغل سے لٹکا ہوا چرمی تھیلا نکالا۔ دوسری ہی لمحے اس کے سیدھے ہاتھ میں ایک جوان آدمی کا سر تھا، جس کو اس نے بالوں سے پکڑا ہوا تھا۔ کٹی ہوئی گردن سرخ و سیاہ خون سے آلودہ تھی۔ چہرے پر دہشت کی چھاپ تھی۔ بے جان آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ ناک ٹیڑھی ہو چکی تھی۔ دہانہ کھلا تھا، جس کے اندر سے سرخ زبان کی نوک اور سفید دانت جھانک رہے تھے، کالی گھنی موچھوں کے نیم حلقے سے گھرے ہوئے۔ تھوڑی جس پر خشخشی داڑھی تھی، گردن کی جانب لٹک گئی تھی۔ عورت نے پہلی مرتبہ چادر کو بدن سے الگ گرا دیا اور اس گردن سے کٹے ہوئے چہرے کی طرف لپکی۔ گھوڑا جو شاید ماحول کی دہشت کو سونگھ چکا تھا۔ اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا اور اپنی تھوتھنی آسمان کی طرف اٹھا کر چیخا۔ گھوڑے کی اس آواز کو ہنہنانا نہیں کہا جائے گا۔ میرے پتے بھی چلانے لگے اور میرے اوپر اور میرے اندر رہنے والے سارے وجود اپنے اپنے طور پر بین کرنے لگے۔ عورت کو سر کی جانب بڑھتا دیکھ کر، مرد تیزی سے پیچھے ہٹا اور چلایا۔

’ ’پرے رہو— پرے رہو— ہاتھ نہیں لگاؤ— دور— دور‘‘ عورت نے مرد کی آواز پر کان نہیں دھرے۔ مرد کے ہاتھ سے لٹکے ہوئے سر پر بپھری ہوئی شیرنی کی مانند جھپٹی— مرد پیچھے ہٹا۔ عورت نے اس کٹے ہوئے سر کے منھ پر تھوک دیا اور غیض و غضب کی حالت میں چیخ چیخ کر کچھ ایسے الفاظ ادا کئے جو الفاظ ہوتے ہوئے بھی، نہیں ہوتے جو حلق سے نکلتے ہیں لیکن منھ یا زبان سے ادا نہیں ہوتے۔ مرد صورت حال کو بگڑتا دیکھ رہا تھا۔ وہ قریبی بستی کے کسی جوان کا سرکاٹ لایا تھا جو اس کے خیال میں اس کے بیٹے کا قاتل تھا۔ اس نے انتقام لے لیا تھا اور اس فریضے سے سبکدوش ہو گیا تھا جو قبائلی آدم زادوں میں صدیوں سے مروّج تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اس کے بیٹے کی روح کو اپنے والد کے اس کارنامے پر فخر ہو رہا ہو گا اور وہ جہاں بھی ہو گی خوش ہو رہی ہو گی—اس نے اپنی عورت کی پہنچ سے پرے ہو کر، سر کو چمڑے کی زنبیل میں ٹھوس کر اپنی دائیں بغل سے لٹکا لیا۔ میرے بدن سے بندھے ہوئے گھوڑے کو کھولا اور اس پر ایک ہی جست میں سوار ہو گیا۔ اپنے جوان بیٹے کے قاتل کی گردن کاٹ کر ’ ’ایک بار پھر جوان ہو گیا تھا۔ گھوڑے کو ایک قدرے بڑے دائرے میں گھما کر وہ عورت کے قریب پہنچا اور اپنا دایاں ہاتھ اس تک بڑھایا۔ گھوڑے کے حرکت میں آتے ہی وہ عورت بھی حرکت میں آ گئی۔ زمین پر گری ہوئی چادر اس کے بدن پر آ چکی تھی۔ جیسے ہی گھوڑا اور سواری اس کے قریب آئے وہ اوپر اٹھی اور مرد کے ہاتھ کا ہلکا سا سہارا لیا۔ مرد اس دوران اس کی جانب جھک گیا تھا۔ اس نے اپنا دایاں بازو عورت کی کمر کے گرد حمائل کیا جو ڈھلتی عمر کے باوجود چیتے کی کمر کی مانند پتلی تھی۔ پلک جھپکتے میں وہ مرد کے آگے گھوڑے کی پیٹھ پر تھی اور گھوڑے کی گردن کے بال اس کے بدن اور چادر کو چھو رہے تھے۔ سوار کے اشارے پر گھوڑا اپنے چاروں پیروں پر کچھ دیر مٹکا اور جب سوار نے اس کی ران میں ایڑھ لگائی تو وہ ایک جست لگا کر ہوا میں اڑ گیا۔

ا دھر گھوڑا اور اس کے دونوں سوار منظر سے غائب ہوئے اور ادھر بستی کے لوگ جو ان کے تعاقب میں تھے، اس منظر سے ہو کر گزرنے لگے۔ پہلے دو سوار جنہوں نے ہوائی گولیاں بھی چلائیں پھر پیدل لاٹھیاں، بھالے اور برچھے اٹھائے، دو ایک نے ننگی تلواریں بھی لی ہوئی تھیں ’ ’دوڑو— پکڑو— جانے نہ پائیں —‘‘ کی ہانک لگاتے ہوئے یہ سب بھی گزر گئے۔ اولادِ آدم جن کے بارے میں فرشتوں نے فساد فی الارض برپا کرنے اور خون بہانے کی پیش گوئی کی تھی۔

گھنٹے، آدھے گھنٹے میں تعاقب کرنے والے واپس آ گئے۔ میرے نیچے کچھ وقت ٹھہرے۔ پہلے دونوں سوار آئے اور ان کے بعد پیدل۔ وہ سب ناکام لوٹے تھے کیونکہ آگے بمباری ہو رہی تھی۔ تعاقب کرنے والوں کو یقین ہو چلا تھا کہ بستی کے جوان کا سرکاٹ کر لے جانے والے اس شدید بمباری کی زد میں آ کر مر گئے ہوں گے۔ ان کو یہ بھی معلوم نہ ہو سکا تھا کہ وہ کتنے آدمی تھے، جنہوں نے اس جوان کی سرکٹی لاش اپنے پیچھے چھوڑ دی۔ میں بہت پہلے یہ جان چکا تھا کہ آدم زاد سوچ کے غلام ہوتے ہیں۔ سوچ نے ان لوگوں کو تعاقب میں دوڑایا۔ سوچ نے ان سے تعاقب ترک کرا دیا۔ اس سمے وہ اجتماعی سوچ کے زیر اثر تھے۔ ان میں اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں کوئی فرق نہ تھا۔ آدم زاد ہوتے تو حیوان ہیں لیکن تسلیم نہیں کرتے۔ میں نے مخلوقات کی بہت ساری اقسام کو سمجھ لیا تھا۔ میں نے وقت اور مقام کے طلسم سے بھی آگاہی پیدا کر لی تھی جو خلق کی تقدیر ہے۔ میں اس سے بھی واقف تھا جو اس طلسم سے ماورا ہے، جو اصل ہے۔ اس کے ماسوا جو ہے وہ نقل ہے۔ اپنے ہونے سے میں دوسروں کے ہونے تک پہنچا تھا۔ ہونے سے نہ ہونے تک پہنچا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ وقت کو سمجھنے کی کوشش میں وقت کی مکانی حقیقت کو پا  گیا یا یوں کہئے کہ حقیقت کو جو زمانی اور مکانی حقیقت ہے جب میں حقیقت لامکانی اور لازمانی تک پہنچا تو خود پر ہنسنے کے لائق ہو گیا۔ اپنی ڈالیاں اور پتے ہلا کر— میں دانشور ہو گیا تھا۔ وہ سب جان چکا تھا جو میں جان سکتا تھا۔ جہد لل بقاء سے اب میں ہراساں نہیں ہوتا تھا۔ اس کے بھیانک سے بھیانک مظہر کو فطرت خلق کے عین مطابق پا کر قبول کر لیا تھا۔ عزم للِ قوۃ کو کبھی بھی کھلے دل سے نہیں مانا تھا۔ یوں بھی میرا ہونا پورا ہو چکا تھا۔ جتنا اونچا اٹھنا تھا، اٹھ چکا تھا۔ جتنا پھیلنا تھا، پھیل چکا تھا۔ زمین سے اوپر بھی اور زمین کے نیچے بھی۔ میری جڑیں قریبی ندی تک پہنچ چکی تھیں۔ میں نہ ہونے کے لئے پوری طرح تیار تھا۔

اس روز جب کچھ لوگ آرا مشینوں کے ساتھ آئے تو میں قطعی ہراساں نہیں ہوا۔ اگر مجھے اپنے اندر اور باہر رہنے بسنے والوں کی ’بے گھری‘ کا دکھ نہ ہوتا تو میں دکھی بھی نہ ہوتا۔ آرا مشین والوں کی آپس کی گفتگو سے مجھے یہ پتہ چل گیا تھا کہ مجھے اور آس پاس کے چند درختوں کو اس لئے کاٹا جا رہا تھا کہ ہماری لکڑی سے ریڈ کراس کی تنظیم جنگی زخمیوں کے لئے عارضی چھپر تیار کرنے والی تھی۔

’ ’میں اپنے نہ ہونے میں دوسروں کے ہونے کی سبیل بنوں گا‘‘ میں نے اپنے آپ کو دلاسا دیا۔

جس وقت آرا مشین مجھے ہونے سے نہ ہونے کے مرحلے میں پہنچارہی تھی۔ مجھے اپنے ہونے کے ایک اور رخ سے واقفیت حاصل ہوئی، جس سے واقف نہ ہو سکا تھا۔ ادھر میرا بالائی بدن کاٹا جا رہا تھا اور ادھر میرا نچلا دھڑ جو زیر زمین میں سفر کرتے ہوئے ندی کے کنارے تک جا چکا تھا۔ میرے ایک اور وجود کو ہونے کے مرحلے پر لا چکا تھا۔ یہ جان کر مجھے عجیب سا احساس ہوا۔ اپنے نہ ہونے میں ہونے کا۔ میں ایک مرتبہ پھر ہونے جا رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس مرتبہ میرا پرانا وجود نہیں بلکہ نیا ہی و جود ہو گا— ’ ’تو کیا ہوا—؟ میں ہو تو رہا تھا— پرانا نہ سہی، نیا ہی سہی—‘‘ میں نے سوچا۔ ٭٭٭

 

 

 

مشورت

 

ہر صبح اور ہر شام، میں اپنے آپ کو ٹٹولتی ہوں اور جب اپنے آپ کو موجود پاتی ہوں تو اطمینان کا سانس لیتی ہوں۔ وہ میری اولاد ہیں۔ ان کا شکوہ کرتے بھی لجا آتی ہے۔ لیکن یہ عجیب ہیں۔ عقل اور دانش کے دعوے کرتے ہیں لیکن اتنے احمق ہیں کہ جس ڈال پر بیٹھے ہیں اسی کو ہی کاٹنے میں لگے ہیں۔ یہ بیچارے بھی کیا کریں کیونکہ فساد اور لہو آشامی ان کی جینز میں موجود ہے، اگر سب کی جینز میں نہ بھی ہو تو بیشتر کی جینز میں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اپنا بھلا بُرا ا بھی سوچنا ترک کر دیں۔

’ ’میں ماضی بعید کی اس ساعت کو کیسے بھول سکتی ہوں جب میں موجود تھی اور یہ نہ تھے۔ اس ساعت کو یہ بھولے رہتے ہیں۔ میں کبھی نہیں بھولتی۔ ان کی پیدائش اور تخلیق کا موضوع زیرِ بحث تھا۔ ان کے خلاف ووٹ پڑ چکے تو ان کے حق میں کاسٹنگ ووٹ نے فیصلہ کروا دیا۔ مخالفت میں ووٹ ڈالنے والوں میں ایک اَڑ گیا۔ واک آؤٹ کر گیا یا اس کو راندۂ درگاہ قرار دے کر اور ایک لمبی رسی سے باندھ کر۔۔ باہر دوسروں کو ورغلانے اور راہِ راست سے بھٹکانے کے لئے آزاد چھوڑ دیا گیا۔ اب اس کو میری غلطی کہو یا بھولپن، میں نے اس کے لئے اپنی کوکھ اور گود دونوں ہی پیش کر دیں یا یوں کہو بغیر کسی چون و چرا قبول کر لیا۔ اس سمے میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا کہ یہ انا پرست، فسادی، خون آشام، تخریب کار اور جنگجو خود میرے بھی در پے ہو جائیں گے۔ ان کی بقا کو جو خطرات لاحق ہیں وہ ان سے کافی حد تک آگاہ ہو گئے ہیں اور ہوتے جا رہے ہیں۔ بہت جلد وہ پانی اور غذائی قلت سے دو چار ہونے والے ہیں۔ فضائی آلودگی ان پر منڈلا رہی ہے۔ کسی بڑی جنگ سے ان کو حالات نے بچا رکھا ہے تو انہوں نے چھوٹی جنگوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ استعمار اور استحصال شانہ بشانہ مصروف ہیں۔ جنگ و جدال اور لوٹ کھسوٹ میں۔ ایسی صورتِ حال میں اپنے وجود اور اپنی بقا کے لئے تردّد نہ کروں تو اور کیا کروں ؟۔ ‘‘

’ ’ تم نے بیکار ہی اتنی لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی۔ تمہارے خدشات بے بنیاد نہیں۔ میں ان کو حقیقی مانتا ہوں۔ میں ان سب حالات سے آگاہ ہوں کیونکہ میں روشنی ہوں۔ مجھ سے کوئی بھی چھپا ڈھکا نہیں رہ سکتا لیکن میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ تم اتنی پریشان اور فکر مند کیوں ہو جب کہ مذکورہ سارے مسائل کا حل خود تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ ‘‘

’ ’ میرے ان مسائل کا حل میرے اپنے پاس ہے۔ میرے اپنے ہاتھوں میں۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ ؟ ‘‘

’ ’ تو کیا میں نے غلط کہہ دیا۔ ؟ کیا تمہارے مسائل کا حل تمہارے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ سیدھی سی بات ہے ان سے تمہیں خطرہ ہے تم ان کا خاتمہ کر دو یا کر وا دو،۔۔ تمہارا مسئلہ ختم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ آیا سمجھ میں۔ ‘‘

’ ’ وہ کس طرح۔ ؟۔ ‘‘

’ ’ وہ اس طرح کہ تم میرے قریب آؤ، اتنی مدت کے لئے کہ تمہارا ہدف حاصل ہو جائے۔ جو تمہارے در پے ہیں سب کے سب ختم ہو جائیں۔ ‘‘

’ ’ میں تمہارے قریب ہو گئی تو۔ یہ بیچارے تمہاری تپش سے جل جائیں گے۔ ہے ہے۔ یہ مجھ سے دیکھا نہ جائے گا۔ ‘‘

’ ’ کیوں۔ ؟۔ ‘‘

’ ’ میں ان کی ماں جو ہوں۔ ایک بات اور ان میں سب کے سب قابیل نہیں ہیں۔ جہاں قابیل ہیں وہاں ہابیل بھی ہیں۔ جہاں راون ہیں وہاں رام بھی ہیں۔ ‘‘

’ ’ تمہارا دکھڑا سن کر میں نے تمہیں مشورہ دینے کی غلطی کر دی۔ مجھے مشورہ دینے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے تھا کہ تم ماں ہو۔ میں ماؤں کو مشورہ دینے کا اہل نہیں ہوں۔ ‘‘

’ ’ وہ کیوں۔ ؟ ‘‘

’ ’ میں بانجھ ہوں۔ !! ‘‘

٭٭

 

’ ’ارے یہ سامنے کون کھڑا ہے ؟‘‘

گوتم نے یک لخت ہڑبڑا کر پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا، ’ ’کون؟‘‘

اکلیش نے کہا، ’ ’مہا بھارت کے کوی نے پوچھا ہے، تو کون ہے جو کدم کے درخت کی ٹہنی جھکائے ہے ؟ دیوتا ہے یا یکشی یا اپسرا؟ درختوں کے اسرار بہت گہرے ہیں بھائی گوتم۔ ‘‘

’ ’کیسے درخت؟‘‘

’ ’گوتم، تم بھولتے ہو کہ ہمیں لڑکیوں پر نظر نہ ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ‘‘ اکلیش نے دفعتاً سنجیدہ ہو کر جواب دیا اور آنکھیں بند کر کے ایک شاخ کی اوٹ میں چلا گیا۔ گوتم نے چونک کر دوبارہ سامنے دیکھا۔

کدم کے نیچے ایودھیا کے گھاٹ والی لڑکی کھڑی تھی۔ ایودھیا کے گھاٹ والی لڑکی کو پیشِ نظر لانے کے لیے نہ تو کیسری ساری کا اور نہ ہی بالوں میں اڑسے ہوئے چمپا کے پھول کا حوالہ دیا گیا اور نہ ہی اس کی گنجا ئش تھی۔ چمپک نے گوتم کو نہیں دیکھا۔ وہ نرملا سے باتیں کرتی دوسری پگڈنڈی پر مڑ گ     ئی۔

قرۃالعین حیدر کے ناول ’ ’آگ کا دریا سے اقتباس بحوالہ ’ ’آگ کا دریا۔۔ ایک مطالعہ‘‘ از عبد اللہ جاوید

٭٭٭

 

 

 

دسواں مکان

 

میں صدر کے ایک سستے پب جس کے باہر ڈسپنسری (Dispensary ) کا بورڈ لگا ہے۔ کوئٹہ ساختہ وہسکی کے چوتھے اور اپنے آخری پیگ کے ساتھ انصاف کر رہا تھا میرے اس شام کے رفیقِ مے نوشی ایم۔ اے۔ بیگ ( مظہر انوار بیگ ) کو پہلے ہی پیگ میں چڑھ گئی۔ اس نے دوسرے پیگ کو ہاتھ میں پکڑ کر اس سے باتیں کرنی شروع کر دیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ ایم۔ اے۔ بیگ خاصا پکا پکایا بندہ تھا۔ اس کا ایک پیگ میں ڈھیر ہو جانا میرے ذہن سے نیچے نہیں اترا۔ یوں بھی وہ ایک فری لانس جرنلسٹ ہے۔ یہ فری لانس جرنلسٹ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا رات تو اپنی ہے اس بندے کے ساتھ ہی سہی۔ میں نے کہا۔ ’ ’ مسٹر بیگ آؤ باہر چلتے ہیں اور گورنرہاؤس کے فوارے کے سامنے والے لان میں گپیں لگاتے ہیں۔ ‘‘ اس نے جواب میں نہ تو ہاں کہا اور نہ ہی نا، البتہ کھڑا ہو گیا اور کھڑے ہوتے ہوتے ہاتھ میں پکڑا ہوا پیگ حلق میں انڈیل لیا۔ ہم دونوں باہر نکل آئے اور بوہری بازار کی تنگ لیکن با رونق اور آباد گلیوں سے ہوتے ہوئے ریکس سینما کے سامنے جا نکلے اس کے آگے چلے تو بیگ کے قدم اس میخانے کی جانب آپ ہی آپ بڑھنے لگے جس کے صحن میں ایک لمبا سا تاڑ کا پیڑ ہے۔ میں نے اس کے کندھے کے اسٹیرنگ کو سیدھے راستے کی طرف گھما دیا۔ چند ہی منٹ میں ہم دونوں لان کے ایک گوشے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

کراچی شہر کی ایک خوبصورت رات آسمان سے اتر کر چاروں اور پھیل چکی تھی۔ بہت جلد آسمان سے اتری ہوئی اس رات کی مدد سے میں نے بیگ کو باتوں کی پٹڑی پر دوبارہ لا ڈالا۔ اس دوران چاٹ والا ہمیں دو پلیٹ خشک چاٹ دے گیا جس کا ہم نے لان کے باہر آڈر دے دیا تھا۔ یہ چاٹ ہم جیسے بار سے آئے ہوئے لوگوں کے لئے تیار کی جاتی تھی۔ بیگ نے اس چاٹ کی ایک پھکی منھ کے حوالے کر کے باتیں شروع کر دیں۔ ’ ’ میں، قصبہ کالونی میں اس رات جو کچھ ہوا، اس کو ایک بار پھر واقع ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے اڑتی چڑیا نے یہ خبر بہم پہنچائی تھی کہ اس روز قصبہ کالونی میں ہونے والا ہے۔ ایک لسانی تنظیم کے لڑکوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ دوسری لسانی شناخت رکھنے والوں کی ایک چھوٹی سی بستی میں ان کا صفایا کر دیا جائے جو بمشکل پچاس ساٹھ گھروں پر مشتمل تھی۔‘‘

’ ’ ارے یہ تم نے کیا قصہ چھیڑ دیا۔ ختم کرو۔ تم نے یہ اطلاع قصبہ پولیس کو پہنچا دی اور ایک خونی واردات کو واقع ہونے سے روک دیا۔ اور تمہیں تھانہ انچارج سے سند امتیاز دلوا دی۔ ‘‘ میں بیزاری سے بولا۔ بیگ نے مجھ پر عجیب سی نظر ڈالی جیسے وہ میری بات پر دھیان دینا ہی نہ چاہتا ہو۔ اس کی آواز میں بھی کچھ ایسا تھا جس نے مجھے چپ کر دیا۔

’ ’ میں پولیس تھانے نہیں گیا۔ مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ پولیس میں جاتا تو تھانے ہی میں روک لیا جاتا۔ میں نے کسی بڑے اخبار کے دفتر کو بھی اطلاع نہیں دی اور نہ کسی ٹی وی چینل والوں سے رابطہ کیا۔ میں جانتا تھا کہ میں اس ہونی کو روکنے میں ناکام رہتا۔ میرے لئے ایک ہی راستہ تھا۔ یا اس کو ہوتے دیکھوں اور ممکن ہو تو اس کو اپنے کیمرے میں محفوظ کر لوں۔ سو میں نے اس خونی معاملے کے شروع ہونے سے کافی دیر پہلے اپنے آپ کو وہاں جما لیا۔ اور ایک ڈرم کے اندر بیٹھ کر مورچہ بنا لیا۔ وہ ڈرم میرے لئے تکلیف دہ تو کافی تھا۔ لیکن میں اس کے اندر سے ایک وسیع علاقے کو کور کرنے کی صلاحیت کا مالک ہو گیا۔ جس جگہ وہ ڈرم رکھا تھا وہ علاقے کا تاریک ترین گوشہ تھا۔ مجھے مکمل تنہائی حاصل تھی۔ جب وہ خونی معاملہ شروع ہوا تو حملہ آوروں نے اطمینان سے تیاری کی۔ سب سے پہلے تو اس آبادی کے اطراف کلاشنکوف بردار لوگوں کے پہرے لگے اس کے بعد بڑے اطمینان سے اس آبادی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہتھیار بند آدمی گھروں میں گھسنے لگے اور اپنا خونی کام انجام دے کر باہر آنے لگے۔ میں موقع موقع سے کیمرے کو باہر نکال کر اور حرکت دے کر اس منظر کو فلم بند کرنے میں لگ گیا۔ ظاہر ہے میں اس پوری بستی کو جو آگ اور خون کے آغوش میں آئی ہوئی تھی۔ اپنے کیمرے میں نہیں اتار سکتا تھا۔ میرے اور میرے کیمرے کی آنکھوں کے سامنے دس مکانات تھے۔ اور ان میں اپنا لسانی اور قومی فرض بھگتانے والے وحشی تھے۔ ان وحشیوں میں ایک وہ بھی تھا جس کی لمبی ریش اس کی ناف تک جاتی تھی اور جس کے ہاتھ میں تسبیح تھی۔ جس کے دانے اس کی انگلیوں کی زد میں تھے۔ اس کے بائیں ہاتھ میں مشعل سی فروزاں تھی۔ وہ واردات میں حصہ لینے والوں کے ساتھ مکانوں میں یکے بعد دیگرے داخل ہوتا اور ان کو نذر آتش کر کے نکلتا۔ شاید وہ چاہتا تھا کہ جب اس کے ساتھی مکان کے اندر رہنے والوں کو تہہ تیغ کریں تو وہ مکان کو اور ان کو جلا کر اپنا فرض منصبی ادا کرے۔ میرا مووی کیمرہ حرکت میں تھا اور نیم روشن، نیم تاریک اس علاقے میں ہونے والی اس بھیانک غیر انسانی واردات کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کر رہا تھا جو انسان انجام دے رہے تھے۔ میرے کیمرے کی آنکھ کی حد جس مکان سے شروع ہوتی تھی وہ مکانات کی اس قطار کا دسواں مکان تھا۔ ان دس مکانات کے عقب میں ایک آبادی تھی۔ جو غیر آباد کی جا رہی تھی۔ دسواں مکان قدرے تاریکی میں تھا اور اس تاریکی کو ایک گھنا پیڑ تاریک تر بنا رہا تھا اس پیڑ کے عین سامنے کچھ فاصلے پر کوڑے کرکٹ کے ایک ڈھیر کے ساتھ ہی میں اپنی پناہ گاہ وسیع و عریض میں ڈرم میں بیٹھا کیمرہ گھما رہا تھا۔ بہت جلد میں نے یہ غیر معمولی بات نوٹ کی کہ اس گھنے پیڑ کے نیچے والے مکان میں جس پر سرخ رنگ سے انگریزی میں ’ 10 ‘ پینٹ کیا ہوا تھا۔ داخل ہونے والا باہر نہیں نکلا تھا۔ میرے ایسا محسوس کرنے کے بعد بھی یکے بعد دیگرے دو تیغ بدست اندر گئے اور وہیں کے ہو رہے۔ ان کے بعد وہ لمبی ریش والا تسبیح کے دانے چلاتا ہوا اندر داخل ہوا اور فوراً ہی باہر آیا چیختا، چلاتا لیکن دروازے کی چوکھٹ پر دھڑام سے گر پڑا۔ وہ لہو میں نہا رہا تھا۔ اس کا بدن کچھ دیر پھڑک کر ساکت ہو گیا۔ مشعل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر کوڑے کے ڈھیر پر آ گری۔ اسی لمحہ اس مکان سے ایک عورت برآمد ہوئی اور دوڑتی ہوئی میرے ڈرم کی طرف آئی۔ اس دوران میں ڈرم سے باہر کود چکا تھا کیونکہ کوڑے کے ڈھیر نے آگ پکڑ لی تھی۔ اِ دھر میں باہر کودا، اُدھر وہ عورت میرے ہاتھوں کی زد میں آئی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ اسی ہاتھ میں اس نے تلوار تھامی ہوئی تھی۔ میں نے اس سے کہا۔

’ ’ تلوار پھینکو اور میرے ساتھ بھاگو۔ ‘‘

اس نے حالات کا تقاضا سمجھ کر میری بات مان لی۔ البتہ تلوار بہت دیر بعد پھینکی۔ میری قسمت یاور تھی۔۔ ۔ میں عورت کو، کیمرے کو اور اپنے آپ کو لے کر اس موٹر بائیک تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جس کو میں نے دور ایک جھاڑی میں چھپایا تھا۔ اتنا کہہ کر ایم اے بیگ فری لانس جرنلسٹ ایک دم چپ ہو گیا اور اس لڑکے کو پلیٹیں واپس کرنے میں لگ گیا۔ ادائیگی پہلے ہی کیجا چکی تھی۔ لیکن لڑکا ان پلیٹوں کو دیکھ کر آنکھیں چمکانے لگا۔ جو قریب قریب بھری ہوئی تھیں۔۔ ۔۔ ۔ ہم دونوں نے تمام دوران اس پر توجہ نہیں دی تھی۔ لڑکے کے جانے کے بعد دوبارہ طاری ہونے والے سکوت کو توڑتے ہوئے میں نے بیگ سے کہا۔

’ ’ اس مووی فلم پر تو تمہیں خاصی رقم ملی ہو گی۔ کس کو فروخت کی تھی۔ ‘‘

’ ’ کسی کو بھی نہیں ‘‘

’ ’ کیوں ‘‘

’ ’ بس دل نہیں چاہا، بیچتا تو قصائیوں کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لیتا۔۔ ۔۔ ۔۔ اس لئے۔۔۔‘‘

’ ’ خوب۔ ‘‘ میں نے اس حیرانی اور قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

اس نے مجھ سے آنکھیں نہیں ملائیں۔ اور آسمان کو دیکھنے لگا۔ آسمان اودے سے سیاہ ہو چکا تھا اور جگہ جگہ تاروں کے نقاط روشن ہو گئے تھے۔ ’ ’ اس عورت کا کیا ہوا ‘‘ میں نے اس کو آسمان سے زمین پر اتارنے کے لئے سوال کیا۔

’ ’ اس کا کوئی بھی زندہ نہ بچا تھا۔ رہا شوہر تو شوہر کے قاتل کی تلوار چھین کر ہی تو وہ عورت سے شیرنی بنی تھی۔ اس شیرنی سے کچھ عرصے بعد میں نے شادی کر لی۔ ‘‘ بیگ نے آسمان کی بلندی سے میرے سوال کا جواب دیا۔

٭٭٭

تشکر: ارشد خالد جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل