FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

براہِ راست

جہانِ دانش کے ممتاز و منتخب اہلِ قلم سے مکالمہ

حصہ اول

               گلزار جاوید

 

اپنی بے بضاعتی کے باعث کتاب ہٰذا کا مصنف جن صاحبانِ قلم سے محروم رہا اُن  روشن ادبی میناروں کے نام

 

 

’’لطف وہ عشق میں پائے ہیں‘‘

            ’’چہارسُو‘‘ کی تیسری اشاعت کے بعد اُستادِ محترم سید ضمیر جعفری، مکالمہ کے سلسلے کو جاری رکھنے کے حق میں نہ تھے۔ اُن کی رائے کے مطابق قلم کار تخلیق کے آئنہ میں جانچا اور پرکھا جانا چاہیئے۔ چند شماروں تک ’’براہ راست‘‘ کو جاری رکھنے کی ہماری خواہش اس خیال سے منظور کر لی گئی کہ اس طریق سے اگر ہمارے شوق کی تکمیل ممکن ہے تو کوئی مضائقہ نہیں !

            وقت کے ساتھ ’’چہارسُو‘‘ میں شامل انٹرویوز کا سلسلہ جس برق رفتاری سے مقبولیت حاصل کرتا گیا اُس کے پیش نظر اُستادِ محترم نے اس گفتگوئی سلسلے کو منقطع کرنا مناسب نہ جانا۔ ’’رس رابطے ‘‘ میں اشاعت پذیر خطوط اس امر کے شاہد ہیں کہ ’’چہارسُو کا قرطاس اعزاز‘‘ معتبر سلسلہ ہے تو ’’براہِراست‘‘ مستند حوالہ ! ہرچند سفرنامہ اور ڈرامہ کی مانند مکالمہ بھی اردو ادب کے لئے زیادہ مانوس صنف ادب نہیں ، وقت گزرنے کے ساتھ سفرنامہ اور ڈرامہ جس طرح اپنی اہمیت منواتے جا رہے ہیں اسی طرح جلد یا بدیر ’’مکالمہ‘‘ بھی بطور صنف ادب اپنی افادیت منوا کر رہے گا!

            ادب بالخصوص ’’اُردو ادب ‘‘میں اس صنف کی اہمیت اس لئے بھی اُجاگر ہو رہی ہے کہ ہمارے قلم کاروں میں قول و فعل کا تضاد سرعت سے بڑھتا جا رہا ہے۔ تخلیق اور خالق کے درمیان کوئی مماثلت ، مناسبت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تخلیق کار لکھتا کچھ ، کہتا کچھ، کرتا کچھ ہے ! کوئی پیمانہ، کوئی میزان قلم کار کی شخصیت کو جانچنے ، پرکھنے کا بھی ازبس ضروری ہوتا جا رہا ہے۔ اسی خیال کے پیش نظر ایک ،دو ،نہیں پورے بارہ سال سے اپنے وقت کے ’’ناخدائے ادب‘‘ کو جانچنے ، پرکھنے اور نتائج اخذ کرنے کی اپنی سی سعی ہم نے جاری رکھی ہوئی ہے۔ بقول جناب افتخار عارف! سنسنی خیزی اور جذباتیت سے ماورا رہتے ہوئے یہ کام سرانجام دیا گیا ہے۔

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

رنج بھی اتنے اُٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

کوئی بھی مشکل اور دیرپا کام کرنے میں سخت مقام آیا ہی کرتے ہیں ہمیں بھی اِن بارہ سالوں میں کئی بار حوصلہ شکن ، کبھی کبھی دل شکن حالات کا سامنا رہا ہے جس کا مختصر بیان ناممکن اور اس موقع پر قطعی بے محل ہے۔ ہمارے خیال میں موقع خوشی کا ہے ، خوشی کے موقع پر اپ شگن باتوں کا بیان بجائے خود ناپسندیدہ عمل ہے چنانچہ خوشگواری کے عمل کو بڑھاتے ہوئے ’’براہ راست‘‘ میں شامل تمام محترم ’’مکالمہ کاروں ‘‘ کی خدمت میں اظہار تشکر پیش کرتے ہوئے ایک خوشخبری آپ کی نظر کرنا چاہیں گے !

            بارہ سال کے طویل عرصہ میں کم و بیش ایک صد اہل علم و دانش سے مستفید ہونے کا ہمیں موقع میسر رہا ہے۔ تمام کے تمام انٹرویوز کی اہمیت و افادیت اور ایک ہی جلد میں آپ کے روبرو پیش کرنے کی خواہش میں ، ہر بار ہمارے وسائل آڑے آتے رہے۔ سرِ دست منتخبہ چالیس شخصیات کے حاصلِ خیال آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی توفیق حاصل ہو سکی ہے۔ آپ کی دعائیں ، نیک تمنائیں اور حوصلہ افزائی شامل حال رہی ہے تو جلد ہی ’’چہارسُو‘‘ میں شامل انٹرویوز پر مشتمل ’’براہ راست‘‘ کی دوسری جلد بھی آپ کے روبرو ہو گی۔

گلزار جاوید

537/D ویسٹریجIII راولپنڈی، پاکستان

3 مارچ 4 ء

 

ممتاز مفتی

(۱۱ ستمبر ۱۹۰۵ تا ۳ نومبر ۱۹۹۵)

٭       پہلی کہانی ایک دوست کی تحریک پر لکھی جو کہ پسند کی گئی۔ آپ کے خیال میں آپ کے فن کی اساس کیا ہے؟ God gifted ہے۔ زندگی کے تجربات و مشاہدات کی بنا پر سفر جاری ہے یا کہانی آپ سے خود کو لکھواتی ہے۔

٭٭   نہ ادب لکھنا آتا تھا۔ نہ ادب کا شوق تھا۔ نہ اردو زبان آتی تھی۔ نہ کہانی اپنے آپ کو خود لکھواتی ہے۔ نثر نگاری مشقت کا کام ہے مگر ہم ادیب لوگ فلسفہ بہت بگھارتے ہیں۔ میرے پاس ایسی کوئی بات نہیں۔

٭       کامیاب ادیب بننے کے لئے زندگی میں ناکام ہونا ضروری ہے کیا؟

٭٭   یہ سوال بے معنی ہے۔ ادیب بننے کے لئے عملی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا کوئی تعلق نہیں۔ میں نے اپنی کتاب ’’اوکھے لوگ‘‘ میں یہ بات بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ ادیب لوگ ذرا Difficultہوتے ہیں۔ یہ لوگوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنا جانتے ہیں نہ اپنے ساتھ۔ ادیب اور عام آدمی میں یہ ہی فر ق ہے۔ ادیب میں شدت زیادہ ہوتی ہے۔ حسیات (Sensitivity)زیادہ ہوتی ہے۔ زیادہ لکھتا ہے ، زیادہ سنتا ہے۔ زیادہ محسوس کرتا ہے۔ جو Hyper Intelligenceاور Hyper Sensitivityدونوں بلیڈ کی طرح ہوتی ہیں جو دوسروں کو بھی کاٹتی ہیں اور خود کو بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ادیب زندگی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ نہیں کر پاتا۔

٭       کیا کوئی اعلیٰ درجہ کا ادیب غیر ترقی پسند بھی ہو سکتا ہے؟

٭٭   یہ بڑی فضول سی بات ہے۔ میں شروع سے ترقی پسندوں کے خلاف رہا ہوں۔ یہ ایک سیاسی تحریک تھی۔ انہوں نے خود کو روٹی کپڑا مکان پر محدود کر رکھا تھا۔ اس کے علاوہ یہ لوگ مذہب کے حق میں نہ تھے۔ میرے نزدیک ادب کا مقصد مادی آسائش نہیں ان لوگوں نے چالاکی سے اس کا نام رکھ دیا ترقی پسند۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ مزدور کے حق میں لکھو اور سرمایہ داری کے خلاف آواز اٹھاؤ۔ یہ کیپٹلزم (Capitalism)کے خلاف پروپیگنڈہ تھا جسے ہر ملک میں روس کنٹرول کرتا تھا۔ میں اس کے خلاف اس لئے تھا کہ یہ ادبی تحریک نہ تھی بلکہ سیاسی تحریک تھی۔

٭       کوئی تحریر کہاں جا کر عریانی اور فحاشی کے زمرے میں آتی ہے؟

٭٭   قاری خود جاتے ہیں ، تحریر نہیں جاتی۔ ادب میں کچھ لکھنے والے جنسیات پر بات کرتے ہیں۔ مثلاً میں کرتا ہوں ، منٹو کرتا تھا، فحاشی کا اپنا اپنا تصور ہوتا ہے۔ مولوی کے نزدیک سر پہ دوپٹہ نہ لینا فحاشی ہو سکتی ہے اور میرے نزدیک برہنگی بھی فحاشی نہیں ہوتی۔ یہ اپنے اپنے ذہن کی اپروچ ہے۔ البتہ جنس کے علم کو عام ضرور ہونا چاہئے۔ فحاشی ایسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب لکھنے والے کا مقصد لذت ہو۔

٭       محبت اور نفرت کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟

٭٭   پھر وہی بات میری جان محبت اور نفرت دو مختلف چیزیں ہیں۔ دونوں جذباتی کیفیتیں ہیں۔ دونوں میں شدت ہوتی ہے جذبات جب چھڑ جاتے ہیں تو پتہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ نفر ت ہے یا محبت۔ اظہار کرنے کے بعد ہی فیصلہ ممکن ہے۔ وصل جو ہے اس کا محبت سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاں وصل آ کیا وہاں محبت ختم۔ جسمانی ملاپ محبت کا دشمن ہے۔ اصل محبت خواہش کے بغیر ہوتی ہے۔

٭       آزادیِ اظہار کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا یہ لامحدود ہونا چاہئے؟

٭٭   آزادیِ اظہار ایک سیاسی یا صحافی نقطہ نظر ہے جس کا ادب سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی چیز کے اظہار آزادی کے وقت لوگ یہ کہتے ہیں تو میں اس سے یہ سمجھتا ہوں کہ وہ حکومت وقت کے خلاف لکھنے کی آزادی مانگتا ہے۔ بہرحال آزادی بھی کئی قسم کی ہوتی ہے۔ مذہبی آزادی، ادبی آزادی اور معاشرتی آزادی۔ یہ سوال تفصیلی ہونا چاہئے۔

٭       ناول ، افسانے ، ڈرامے اور شاعری میں سے کس صنف کو آپ سب سے افضل سمجھتے ہیں؟

٭٭   سب سے بڑا فن شعر و سخن ہے۔ میرے نزدیک اس سے بڑا فن کوئی نہیں۔ ہر نیا خیال، ایجاد، تھیوری سائنسی اصول کا اظہار سب سے پہلے شعر وسخن میں آتا ہے۔

٭       انگلستان اور امریکہ میں آج وہ انگریزی نہیں لکھی جاتی جو پچھلی صدی میں لکھی گئی۔ اردو کی لسانی تشکیل میں آپ کا بہت حصہ ہے۔ اس کی نشاندہی فرمائیں۔

٭٭   بھئی بات یہ ہے کہ ہر زبان وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے۔ اس میں اردو انگریزی کا کوئی سوال نہیں۔ وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو نہیں بدلو گے تو پیچھے رہ جاؤ گے۔ اردو بھی اپنے آپ کو بدل رہی ہے۔ میرے خیال میں اردو کو اپنے اندر سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو کو زیادہ سے زیادہ سمونا ہو گا۔ مثال کے طور پر انڈیا کے شہر بریلی میں بانس پیدا ہوا کرتے تھے اور سارے ملک میں بھیجے جاتے تھے۔ کوئی بریلی میں کہیں سے بانس لے آیا تو لوگوں نے محاورہ بنا لیا کہ الٹے بانس بریلی کو۔ اب لوگوں کو اس محاورے کے بارے میں کیا پتہ۔ بہرحال اردو کا معیار بڑھا ہے اور خاص کر پنجاب، سندھ اور سرحد نے اردو کو ان۔ رچ (enrich)کر دیا ہے۔

٭       ایک مرتبہ آپ نے فرمایا تھا کہ میں انگریزی میں سوچتا ، اردو میں لکھتا اور پنجابی بولتا ہوں ، اس تضاد نے آپ کی تحریر پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں یا مثبت؟

٭٭   دیکھیں مجھے اردو زبان نہیں آتی۔ یہ بات میرے لئے بیک وقت بہت بڑی بدقسمتی اور بہت بڑی خوش قسمتی ہے۔ اگر آپ کو اردو زبان آتی ہے تو آپ اپنے خیالات کا اظہار بندھے ٹکے محاروں میں بیان کر دیتے ہیں۔ بندھے ٹکے رسمی محاورے آپ کے خیالات کو پورے طور پر بیان نہیں کر سکتے۔ آپ کی تحریر میں شگفتگی نہیں آئے گی۔ باسی پن محسوس ہو گا۔ آپ کی تحریر مشکل ہو جائے گی اور سادگی اور روانی نہیں رہے گی۔ زبان نہ آنے کی صورت میں نئے محاورے نئے انداز تلاش کرو گے جس سے حسن کی دریافت ہو گی اور نئی بات بھی پیدا ہو گی۔ ایک دفعہ میں اشفاق احمد کے پاس گیا اور کہا یار اشفاق مجھے اردو نہیں آتی تُو مجھے پنجابی کے ایسے لفظوں کی فہرست بنا دے جو اردو میں بھی مستعمل ہوں۔ اس نے ایک کتاب چھاپ دی عنوان تھا ’’اردو کے خوابیدہ الفاظ‘‘ جب اس کتاب کو اردو بورڈ کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے کتاب چھاپنے پر اعتراض کیا۔ ان کے خیال میں یہ کتاب بے معنی تھی۔ ان سے کہا جناب جو پنجابی ادیب اردو زبان لکھتے ہیں ان کے لئے آسانی پیدا ہو۔ جواب میں بورڈ کے ارکان نے فرمایا کہ کون کہتا ہے یہ الفاظ اردو میں مستعمل ہیں۔ جواب میں اشفاق احمد نے ’’نور اللغات ‘‘کا حوالہ دیا جو اردو کی تسلیم شدہ لغت ہے۔ اس میں ان لفظوں کو مستعمل قرار دیا گیا ہے۔ جواب میں بورڈ نے کہا کہ یہ بالکل مستعمل نہیں ہیں۔ اتھارٹی ہم اہل زبان ہیں۔ ہم اعلان کرتے ہیں یہ الفاظ پہلے مستعمل تھے اب نہیں ہیں۔

٭       خواتین تخلیق کا سرچشمہ ہیں مگر ہمارے ادب میں خواتین اہل قلم کی تعداد بہت کم ہے اس کی وجہ کیا ہے؟

٭٭   تخلیق کا مطلب تو تخلیق ہی ہے۔ اس سے لکھنے کا کوئی تعلق نہیں۔ ملکی حالات کے حوالے سے یہ تعداد بھی زیادہ ہے جو تخلیق قدرت نے ان کے ذمہ لگائی ہے اس کا رزلٹ بارہ کروڑ کی صورت میں سامنے ہے۔

٭       تخلیقات کے معیار اور مقدار کے لحاظ سے آپ کو اردو ادب میں قابل رشک مقام حاصل ہے ، ذاتی طور پر آپ اس سے مطمئن ہیں؟

٭٭   تمہارا تو دماغ خراب ہے۔ کس نے کہہ دیا تم سے کہ میں اردو ادب میں قابلِ رشک مقام پر ہوں۔ میں نے حتی المقدور کوشش کی ہے اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ تمام خیالات کا اظہار کر بھی نہیں پایا البتہ اتنا ضرور ہے کہ جو بات میں کہنا چاہتا تھا شاید ابھی تک کہہ نہیں پایا۔ یہ مقام قابل رشک نہیں سمجھا جا سکتا۔

٭       کیا آپ اپنی ادبی اور غیر ادبی زندگی سے مطمئن ہیں؟

٭٭   بھئی زندگی میں ، میں نے بہت کچھ دیکھا ہر قسم کا تجربہ حاصل کیا۔ مجھ سا خوش قسمت کون ہو گا۔ میں نے سب کچھ دیکھ لیا۔ میری کوئی حسرت باقی نہیں۔ تمام انسانی جذبوں سے آشنا ہو کر پرُسکون زندگی گزار رہا ہوں۔ زندگی بڑی خوبصورت ہے اس کے تمام دکھ درد اور خوشیاں بہت ہی خوبصورت ہیں۔

٭       ملک میں ادب کے فروغ کے لئے اقدامات ضروری ہیں۔ سرکاری ادارے مثلاً ریڈیو، ٹیلی ویژن اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں؟

٭٭   سرکاری اداروں کو ادب کا پتہ ہی نہیں وہ تو پریشر گروپ کو مانتے ہیں۔ ادیبوں کو تو گھاس بھی نہیں ڈالتے تو ہماری تجاویز کو کیا چاٹیں گے۔اس کا اندازہ اس ایک بات سے لگا لیں کہ آج تک کسی وزیر نے سامع کی حیثیت سے کسی ادبی تقریب میں شرکت نہیں کی۔

٭       آپ ماشاء اللہ ہندو پاک کے بہت ہی سینئر افسانہ نگار ہیں۔ بیشتر لوگوں کا عمر بڑھنے کے ساتھ نوجوان نسل سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے جبکہ آپ کے قارئین کی اکثریت اب بھی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟

٭٭   اس کا جواب یہ ہے کہ زندگی میں ہمیشہ میری یہی کوشش رہی ہے کہ اپنے اندر معززیت پیدا نہ ہونے دوں۔ جو لوگ معزز بن جاتے ہیں وہ اپنے آپ کو بہتر اور برتر سمجھنے لگتے ہیں اور اس واسطے ان کا رابطہ نوجوان نسل سے ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ اب وہ نصیحت کا رشتہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک بیماری ہے۔ یہ اگر ادیب میں پیدا ہو جائے تو وہ ری فارمر (Reformer)بن جاتا ہے۔

٭       کیا آپ موجودہ اردو افسانے کی کیفیت سے مطمئن ہیں؟

٭٭   میں پکاتا ضرور ہوں چکھتا بالکل نہیں یہ کام نقاد کا ہے۔ نقاد پر چھوڑ دیں۔ فی الحال تو میں کم از کم نقاد نہیں ہوں۔ دنیا میں نئی چیزیں پیدا ہوتی رہیں گی اور افسانے میں بھی تبدیلی آتی رہے گی اور تبدیلی بہت ضروری ہے۔ یہ وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ کون سی چیز کو دوام حاصل ہے اور کون سی چیز کو نہیں۔

٭       اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں میں سے آپ کا پسندیدہ افسانہ نگار؟

٭٭   ذاتی طور پر بیدی سے بہت متاثر ہوں۔ میرے نزدیک بیدی بہت بڑا لکھنے والا تھا۔ اس کی بدقسمتی کہ وہ فلم لائن میں چلا گیا اگر ڈاک خانے میں رہتا تو بہت بڑا تخلیق کار ہوتا۔ فلمی دنیا کی (ایفلونس) اور عیاشی کی زندگی اسے گھن کی طرح کھا گئی جس کا مجھے بہت افسوس ہے۔

٭       افسانے میں کہانی پن کے عنصر کی کیا اہمیت ہے؟

٭٭   میرے خیال میں افسانے میں کہانی پن کا عنصر لازم ہے۔ میرے نقطہ نظر سے یہ ضروری ہے کہ قاری سوچے اب کیا ہو گا۔

٭       کیا ہم کسی ادیب کی تحریر کو اس کی ذاتی زندگی سے الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں؟

٭٭   ضروری نہیں کہ ناصح صاحب عمل بھی ہو۔

٭       نئی نسل کے بارے میں آپ کا مجموعی تاثر کیا ہے؟

٭٭   نئی نسل زیادہ حساس ہے۔ زیادہ ذہین ہے۔ زیادہ صلاحیتوں کی مالک، ذہنی طور پر زیادہ ویل ان فارم (Well in form)ہے اور ہماری طرح (ہیپو کریٹ) نہیں ہے۔ اس وقت نئی نسل کو گمراہ کرنے میں سیاستیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ بہرطور میرا ایمان ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ نئی نسل ہی کرے گی۔

٭       لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو اپنی کہانی ’’سمے کا بندھن‘‘ بہت پسند ہے کیا یہ درست ہے؟

٭٭   اس سوال کا جواب میں لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کروں گا کہ یہ کہانی مجھے کیوں پسند ہے۔

                                                                        (اگست ۱۹۹۲)

 

تابش دہلوی

(۹ نومبر ۱۹۱۱)

٭       ازدواجی زندگی اور اولاد کے بارے کچھ بتائیے؟

٭٭   میں نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی کا تعلق دلی کے عرب والے سادات سے تھا۔ ان کے انتقال کے بعد دوسری شادی نواب طالع یار خاں کی پوتی سے کی۔ دوسری بیوی کی ننھیال حکیم اجمل خاں اور لوہارو کے خاندانوں سے ہے۔ میری بیوی کی ددھیال نواب مصطفی خان شیفتہ کا خاندان ہے۔ غالب میری بیوی کے رشتے کے خالو تھے۔ حکیم اجمل خان رشتے کے نانا تھے۔ ان سے تین لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے۔ سب بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔

٭       آپ نے کس ماحول اور کن حالات میں شعر کہنے کی ابتداء کی؟ معاشی، معاشرتی ، تہذیبی ، تمدنی اور خاندانی پسِ منظر کے ساتھ بیان کیجئے؟

٭٭   میرے اجداد فارسی کے اچھے شاعر تھے اور میری ننھیال شمس العلماء منشی ذکا ء اللہ کا گھرانا ہے ، اس کے علاوہ میری والدہ بہت ذی علم تھیں انہیں اردو اور فارسی کے سینکڑوں شعر یاد تھے اور میری شاعرانہ ذہنیت کو ان کی تربیت سے زیادہ مدد ملی پھر دلی شہر میں بھی ادبی ماحول تھا۔ میر ناصر علی، حسن نظامی ، قاری سرفراز حسین، مرزا محمد سعید پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور، ناصر نذیر فراق ، سجاد مرزا دہلوی، شاعروں میں آغا شاعر قزلباش، بیخود دہلوی، سائل دہلوی، امرناتھ ساحر وغیرہ تھے۔ اس کے علاوہ میری ذہنی تربیت دراصل حیدر آباد دکن میں زیادہ ہوئی۔ میرے نانا مولوی عنایت اللہ جو ذکاء اللہ صاحب کے بڑے بیٹے تھے ناظم دار الترجمہ تھے۔ میں انہی کے ساتھ حیدر آباد میں تھا وہاں طباطبائی مرزا ہادی و رسوا، وحید الدین سلیم پانی پتی وغیرہ وغیرہ کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔

            میں نے پہلا شعر ۱۹۲۳ء میں گیارہ بارہ سال کی عمر میں کہا۔ وہ بھی ایک طرحی مشاعرہ کے لئے ؂

کہا ں کہاں مجھے مسعود لوگ ڈھونڈ آئے

بھلا میں اس کی گلی کے سوا کہاں ہوتا

٭       آپ کو اگر ’’فانی‘‘ سکول کا طالب علم کہا جائے تو آپ کا ردِ عمل کیا ہو گا؟

٭٭   میں فانی اسکول کا طالب علم ہی نہیں ہوں حضرت فانی کا شاگرد ہوں اور اس پر مجھے فخر ہے۔ میری ساری ذہنی تربیت حضرت فانی نے کی ہے۔

٭       مسعود تابش اور تابش دہلوی کے جداگانہ تشخص اور برتاؤ کے آپ کے زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟

٭٭   مسعود تابش کے نام سے میں نے ۲۳ سال آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان سے خبریں پڑھیں اور مجھے پطرس بخاری نے نوکر رکھا تھا مگر مسعود تابش سے پہلے تابش دہلوی کے نام سے ادبی دنیا میں جانا جاتا تھا اور ریڈیو کی نوکری سے میں نے کبھی ناجائز نام کمانے کی کوشش نہیں کی۔ میں تابش دہلوی اس وقت بھی تھا اور ملک کے معتبر رسائل میں میرا کلام شائع ہوتا رہتا تھا۔

٭       آپ غزل کے نہایت مستند اور قابل احترام اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں حالانکہ آپ کا قاری آپ کی نظم ، نثر اور تنقیدی جوہر کو بھی سراہے بنا نہیں رہ سکتا۔ اس صورتحال کو آپ کس نام اور مفہوم سے موسوم کریں گے؟

٭٭   غزل عجیب صنف شعر ہے۔ نظم کے مشہور شعراء نے بھی مثلاً اقبال اور جوش نے بھی غزل ہی سے نظم گوئی کی طرف رخ کیا، شعر گوئی میں خواہ کوئی صنف ہو غزل کی مشق ہی سے مضبوطی پیدا ہوتی ہے پھر اس کا دائرہ نہایت وسیع ہے ، میں نے نظمیں بھی کہی ہیں معرا شاعری بھی کی ہے ، نثری مضامین خاص طور پر شخصیتوں کے خاکے بھی لکھے ہیں۔ تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں مگر جی غزل ہی میں لگتا ہے ہائے غزل !!!

٭       ساری عمر سوگواری سے آپ کا قاری کیا مراد لے اور برباد محبت سے کیا مفہوم قائم کرے؟

٭٭   فنونِ لطیفہ کے تمام فنکار غمگیں ہوتے ہیں ، یہ غم روٹی کپڑے مکان کا نہیں ہوتا بلکہ احساس حسن کی شدت سے اک ایسا سوز روح میں گھر رکھتا ہے کہ جس کی لذت بیاں سے باہر ہے میں غمگیں آدمی ہوں اور بقول میرے استاد حضرت فانی      ؂

                                    درد کا روحانی بننا ترقی ہے

یہی سوز تو فنون لطیفہ کے شاہکار پیدا کرتا ہے یہ نہ ہو تو فنون لطیفہ کی ترقی معلوم؟

٭       آپ کے ہاں قدیم اور جدید میں جو حسن توازن پایا جاتا ہے وہ ارادی ہے یا اتفاقی؟

٭٭   آدمی کو زمانہ کے ساتھ چلنا چاہئے بشرطیکہ زمانہ کی رفتار کی سمت درست ہو، شاعر تو حالات اور واقعات سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا، چنانچہ میری شاعری بھی دور حاضر کی تمام تحریکوں سے متاثر ہوئی اور میں نے ارادی طور پر اپنی شاعری کو روایت اور جدت سے ہم آہنگ رکھا ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ جدت میں دوسروں کی نقل نہ کروں بلکہ اپنے مضامین اپنے استعارے اپنی تشبیہات استعمال کروں اور یہ تعلی نہیں ہے میرے اکثر شعر عام جدید شعراء کے مضامین سے بالکل الگ ہیں اور اردو میں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

٭       عہدِ شباب میں آپ ترقی پسند تحریک سے متاثر یا منسلک تھے؟ ہم آپ کے نظریہ فن اور نظریہ زندگی کی بابت اپنے قاری کو باخبر کرنا چاہتے ہیں۔

٭٭   میں بھی ترقی پسند ادبی تحریک سے منسلک رہا ہوں مگر اس تحریک نے جب ایک خاص ملک کے سیاسی تصور سے اپنے آپ کو منسلک کر لیا تو میں ہی کیا بہت سے لوگ اس سے الگ ہو گئے اور ترقی پسندی کی ادبی تحریک صرف نعرہ بازی بن کر رہ گئی۔ میں ادب برائے زندگی یا ادب برائے ادب کا قائل نہیں ہوں اور یہ فقرے نقادوں نے اپنی دکان چمکانے کے لئے ایجاد کئے ہیں کیونکہ زندگی کی تبدیلیوں سے بغیر کوشش کے بھی شاعر تو شاعر عام آدمی بھی متاثر ہوتا ہے اور زندگی کی تبدیلیوں کے اثرات ہر شعبہ میں نظر آنے لگتے ہیں۔ ادب تو عکاس ہوتا ہے۔ زندگی کا جیسا معاشرہ ویسا ادب جب معاشرے کی قدریں مصنوعی تھیں تو ہمارا ادب بھی مصنوعی تھا اور اب زندگی اپنی ٹھوس حقیقتوں سے متصادم ہے اس لئے یہ تصادم ادب میں بھی نظر آتا ہے۔

٭       یہ فرمائیے کہ فانی، فراق ، یگانہ ، اصغر ، جگر ، حسرت جیسے بلند پایہ شعراء کی موجودگی میں غزل میں نام پیدا کرنے کے لئے آپ کو کیا کیا جتن کرنا پڑے؟

٭٭   فانی ، حسرت ، اصغر، جگر اور یگانہ کی موجودگی میں میں نے نام پیدا کرنے کے لئے صرف یہ کیا کہ شاعری خاص طو رپرغزل کی صالح روایات کی پیروی کی اور کوشش کی کہ غزل میں اپنا اسلوب اظہار پیدا کروں۔ اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا اس کا فیصلہ اہل ادب کر سکتے ہیں۔ برصغیر کے تمام بڑے نقادوں مع فراق کے میرے تعلقات سب سے تھے مگر میں نے کسی سے بیساکھی نہیں مانگی اور نہ ریڈیو کی ملازمت کو اپنی شہرت کا ذریعہ بنایا۔

٭       اس دور میں ترنم کا بڑا دخل تھا شائد آج بھی ہے آپ ہمیں ترنم کے بغیر مشاعرہ لوٹنے کے فن سے آگاہ کیجئے؟

٭٭   ترنم کا دور ختم ہوا، تحت اللفظ پڑھنے والے اور مشاعرے لوٹنے والے بہت شاعر ہوئے ہیں مثلاً دلی میں آغا شاعر قزلباش اور اس دور میں فیض ، فراز وغیرہ ترنم میں شعر کا عیب ظاہر نہیں ہوتا اور سننے والا ترنم میں محو رہتا ہے۔ تحت اللفظ میں شعر اپنی اصلی خوبیوں اور برائیوں کے ساتھ قاری تک پہنچتا ہے۔

٭       شاعری کی روح کو زندہ رکھنے والے اچھے بھلے مشاعروں کو آپ دنگل بھی قرار دیتے ہیں اور ان میں شرکت بھی فرماتے ہیں کیا ہم اسے دو عملی سمجھنے میں حق بجانب ہیں؟

٭٭   اب مشاعرے دنگل نہیں تو اور کیا ہیں لوگ سینما نہیں گئے مشاعرے میں چلے گئے اور سامعین میں کتنے ہیں جو شعر سمجھتے ہیں۔ اب رہا میرے مشاعرے میں شرکت کا سوال تو تعلقات کے آگے جھکنا پڑ جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ سب مشاعرے دنگل نہیں ہیں بعض بہت عمدہ ہوتے ہیں یہ دو عملی ہے۔

٭       یہ افواہ ہے یا حقیقت کہ آپ نے بڑے بڑے اساتذہ کرام کی تخلیقات کو چوما چاٹی کی شاعری قرار دے ڈالا کہیں آپ نے ’’دلی والا‘‘ ہونے کے ناطے روایتی قرض اتارنے کی کوشش میں تو ایسا نہیں کیا؟

٭٭   آپ کو شاید معلوم ہو کہ ایک زمانہ میں طوائف کو تہذیبی طور پر معاشرہ میں بڑا درجہ حاصل تھا اور شرفاء اپنی اولاد کو ادب و آداب سکھانے کے لئے ان کے پاس بھیجتے تھے اور کسی ڈیرے دار طوائف کو نوکر رکھنا عزت دار ہونے کی دلیل تھا۔ اس معاشرے میں جو شاعری ہوئی وہ ’’چوما چاٹی‘‘ کی شاعری نہیں تو اور کیا ہے اور اس کی مثال میں چند شعر سنئے۔           ؂

اللہ رے حجاب بدگمانی تیری

بھیجی ہے مجھے نصف بدن کی تصویر

٭

ہیں رخِ نازک پہ گنتی کے نشاں

کس نے بوسے تیرے گن گن کے لئے

دختر درزن کا سینہ دیکھ کر

جی میں آتا ہے کہ مل مل دیجئے

٭       لکھنؤ کی زبان و ادب کا ایک جہان قائل ہے اور آپ اسے قطعاً اہمیت نہیں دیتے کوئی معقول جواز یا اعتراض تو یقیناً آپ رکھتے ہوں گے؟

٭٭   میں لکھنؤ کی زبان کا مخالف نہیں ہوں بلکہ ادب کو ناپسند کرتا ہوں کیونکہ اس ادب نے شاعری میں تصنع کی بنا ڈالی اور داخلی احساسات کو مجروح کر کے رکھ دیا۔ اہل لکھنؤ ناسخ اور آتش کو اس دعویٰ کے خلاف پیش کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ناسخ تو لکھنؤ کے تھے ہی نہیں وہ تو لاہور کے رہنے والے تھے اور لڑکپن میں لکھنؤ گئے تھے۔ پھر ان کی شاعری سوائے آورد کے اور کچھ نہیں ہے آتش سو ان پر دہلویت کی چھاپ ہے ، لکھنؤ کی نمائندہ شاعری ریختی اور واسوخت ہے اور بس۔

٭       پوری دنیا میں انگریزی زبان و ادب کا طوطی بول رہا ہے جب کہ آپ غزل کو ہی تمام مضامین کے اظہار کا عمدہ ذریعہ گردانتے ہیں حالانکہ انگریزی میں غزل نام کی کوئی صنف سرے سے موجود نہیں؟

٭٭   تو یہ بات ہی غلط ہے کہ انگریزی میں غزل نام کی کوئی صنف نہیں ان کی Lyricalشاعری کو اور سونیٹ کو آپ کیا نام دیں گے اور بقول آپ کے انگریزی زباں کی ساری دنیا میں دھوم ہے مگر اس کی شاعری کی نہیں ہے ، میرا کہنا غزل کے بارے میں یہ ہے کہ اس صنف میں انسانی تمام رویوں کی سمائی بہت آسانی سے ہوتی ہے خواہ وہ رویئے معاشرتی ، معاشی، تہذیبی، سیاسی، مذہبی ہی کیوں نہ ہوں۔

٭       آپ کی خدمات طویل اور تخلیقات بلند مقام کی حامل ہونے کے باوجود تنقید اور تشہیر میں آپ کو جائز حق نہ ملنے کا سبب کیا ہے؟

٭٭   تنقید اور تشہیر میں مجھے جائز حق نہ ملنے کا سبب میری مہذب تربیت اور ذاتی پروپیگنڈہ سے انحراف ہے۔ مجھے وہ تمام مواقع حاصل رہے جو بڑا شاعر بنانے میں چھوٹے شاعر استعمال کرتے ہیں مثلاً ریڈیو کی ملازمت، تمام نقادوں سے ذاتی تعلقات، لیکن میں نے کبھی کسی سے اپنے ادب اور شاعری پر خود کہہ کر نہیں لکھوایا جو مواد میں نے آپ کو آپ کے اصرار پر روانہ کیا ہے وہ خود اہل قلم حضرات نے میرے لئے فراہم کیا ہے۔ کتابوں پر فلیپ بھی میں نے طلب نہیں کئے۔ خود لوگوں نے لکھے ہیں اور اب تو گستاخی معاف نقاد بھی جانبدار ہو گئے ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اب صحیح معنوں میں اعلیٰ پایہ کے نقاد ہی نہیں ہیں۔

٭       ایک معتبر صاحب قلم کے بقول آپ کو اب تک کوئی نہ کوئی قابل احترام منصب یا لقب مل جانا چاہئے تھا۔ اس باب میں آپ کی کیا رائے ہے؟

٭٭   مجھے کسی منصب کی نہ کسی اعزاز کی طلب ہے اور وجہ یہ ہے کہ میں اپنے حال میں مست ہوں اور ایک اچھا شعر کہہ کر منصب اور اعزاز تو کجا کائنات کو بے قیمت سمجھتا ہوں اور یہی میرا منصب اور اعزاز ہے۔

٭       آپ کے علم و فضل سے فیضیاب ہونے والے شاگردان کی ایک طویل قطار ہے۔ ان میں سے چند کی نشاندہی کیجئے جو مستقبل قریب یا بعید میں بلند مقام تک پہنچنے کے حقدار ٹھہریں؟

٭٭   میں استادی شاگردی کو لغوی معنوں میں پسند نہیں کرتا، یہ ضرور ہے کہ استاد اپنے شاگرد کی تربیت بربنائے محبت کرے ، چنانچہ مجھ سے جو لوگ منسلک ہیں وہ میرے شاگرد نہیں ہیں۔ میرے دوست اور مجھ سے محبت کرنے والے ہیں مجھے ٹوٹا پھوٹا جو علم حاصل ہے وہ میں ان تک پہنچا دیتا ہوں اور بس ! میں ان لوگوں کے نام نہیں بتاؤں گا۔

٭       عمر عزیز کا نصف دلی اور نصف کراچی میں گزارنے کے بعد اپنے احساسات بلا کسی مصلحت اور تذبذب کے بیان کیجئے؟

٭٭   لڑکپن لکھنؤ اور حیدر آباد میں گزارا اور عنفوان شباب دلی میں اور جوانی اور بڑھاپا کراچی اور لاہور میں دنیا بہت بدل گئی ہے اور بدلنی چاہئے لیکن لوگوں کا قول ہے کہ ہر تبدیلی اچھائی پیدا کرتی ہے لیکن میں نے اس کے برعکس مشاہدہ کیا ہے ، ہماری زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو زوال پذیر نہ ہو، تہذیب ادب تعلیم، معاشیات ، سیاست ، مذہب غرض سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں۔ میں نے جن لوگوں کو قریب سے دیکھا اور برتا وہ قد آور لوگ تھے ہر حیثیت میں اب سوائے اس کے کہ   ؂

ان نینوں کا یہ بسیکھ

وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ

٭       آپ نے برصغیر کی نہایت قد آور اور نابغہ روزگار شخصیات کو قریب سے دیکھا، برتا اور فیض حاصل کیا۔ کن سے آپ متاثر ہوئے اور آپ کی زندگی نے کیا اثرات قبول کئے؟

٭٭   سب سے پہلے میرے معصوم ذہن پر میرے ایک ہندو مولوی کے اثرات مرتب ہوئے جس سے میں نے ابتدائی قرآن پڑھا، ان کا نام شیودیال تھا۔ وہ وحدت ادیان کے قائل تھے۔ ان خیالات کی وجہ سے گھر والوں نے ان کو گھر سے نکال دیا تھا وہ عربی، فارسی، سنسکرت اور مڑیا(تجارتی زبان)جانتے تھے پانچوں وقت نماز پڑھتے وارثیوں کی طرح صرف ایک کپڑے میں ملبوس رہتے کھونٹی دار لکڑی کی کھڑاؤں پہنتے اور اس کے بعد میری ماں جو بڑی خوبصورت عورت تھیں میرا مرکز رہیں۔ ان کو اردو اور فارسی کے سینکڑوں شعر یاد تھے۔ خط بڑا پاکیزہ تھا اور میری ذہنی شاعرانہ تربیت میں غیر شعوری طور پر ان کا بڑا حصہ ہے۔ بارہ تیرہ سال کی عمر میں حیدرآباد دکن چلا گیا۔ جہاں میرے نانا (میری والدہ کے ماموں) مولوی عنایت اللہ صاحب جو شمس العلماء منشی ذکاء اللہ کے بیٹے تھے ناظم دار الترجمہ تھے وہاں طباطبائی ہادی رسوا، مسعود علی محوی وغیرہ آتے تو ان کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ ۱۹۳۲ء میں فانی صاحب سے تلمذ حاصل کیا۔ ان کی محفلوں میں یاس، یگانہ ، جوش، علی اختر آزاد انصاری، ماہر القادری، اسماعیل مینائی، حیرت بدایونی، اعجاز الحق قدوسی وغیرہ جمع ہوتے اور ادبی معرکے سر ہوتے یہ سب اثرات ذہن قبول کرتا رہا اور اس تربیت نے زندگی پر خوشگوار اثرات چھوڑے ہیں اور اب تک انہی یادوں میں زندہ ہوں۔

٭       وطن عزیز کے ماضی حال اور مستقبل کے حوالہ سے اردو ادب کے بارے میں آپ کی خواہشات ، خدشات اور تجاویز کیا ہیں؟

٭٭   پاکستان میں ادب کا مستقبل نہایت روشن ہے۔ نوجوان ادیبوں کی ایک بڑی تعداد ادب کی اچھی اقدار کی ترجماں ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم جو انگریز کا دیا ہوا ہے اب تک نہیں بدلا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عالموں اور دانشوروں کی جگہ ابھی تک کلرک پیدا ہو رہے ہیں۔ حکومتیں اپنی نا اہلی کی بناء پر اب تک اردو کو اور مقامی زبانوں کو ان کا وہ درجہ نہیں دے سکیں جس کی وہ حقدار تھیں۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے ایک خلفشار ہے ادبی اور علمی محاذ پر۔ میری رائے میں نظام تعلیم کی تبدیلی اور زیادہ سے زیادہ مدارس کا وجود نہایت ضروری ہے۔

                                                            (مئی ۱۹۹۶)

 

سید ضمیر جعفری

(یکم جنوری ۱۹۱۶ تا ۱۲ مئی ۱۹۹۹)

٭       شاعری کی طرف رجحان کے اسباب؟

٭٭   مجھے نہیں معلوم۔ ہمارے خاندان میں درویشی تو رہی، مگر شاعری کا گزر نہیں ہوا۔ البتہ ننھیال میں میرے پڑ نانا سلطان العارفین پیر محمد شاہ پنجابی کے مقبول صوفی شاعر تھے ، جن کے ابیات گزشتہ دو صدیوں سے سینہ بہ سینہ آزاد کشمیر اور پوٹھوار کے علاقوں میں ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ عارفانہ ابیات گھرو ں میں پڑھے سنے جاتے ہیں۔د ینی مجالس میں بھی واعظین کی زبانوں پر رہتے ہیں اور عوامی میلوں میں بھی لوک فن کار، جن میں عالم لوہار بہت نمایاں تھے ، اکتارے اور چمٹے کے ساتھ گاتے ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی ہیر رانجھے کی سہ حرفی جو ’’پیردی ہیر‘‘ کے نام سے گزشتہ صدی میں شائع ہوئی تھی، ان علاقوں میں بے حد مقبول ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پیر دی ہیر ان علاقوں میں ہیر وارث شاہ سے زیادہ مقبول ہے۔ اس کی وجہ شاید مقامی پوٹھوہاری لہجے کی مانوس مٹھاس ہے۔ سید محمد شاہ کے ابیات کا ایک مجموعہ مرکزی حکومت کے لوک ورثے کے ادارے کی طرف سے ’’من کے تار‘‘ کے عنوان سے چند برس قبل شائع ہو چکا ہے۔ پیر سید محمد شاہ ضلع میر پور آزاد کشمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں کھنیارہ شریف میں پیدا ہوئے۔

            ایک دوسرا موروثی محرک میرے والد صاحب قبلہ سید حیدر شاہ کا ذوق مطالعہ ہے۔ گاؤں میں بھی انہوں نے اخبار لگوا رکھا تھا اور چند مذہبی نوعیت کے رسائل و جرائد بھی باقاعدگی سے منگوایا کرتے۔ میلاد کی مجلسوں میں بھی ذوق و شوق سے شامل ہوتا اور علاقے میں دور دور تک جہاں کہیں کسی میلے مجرے کی بھنک پڑتی میں ضرور پہنچتا۔ گاؤں کے پرائمری اسکول میں ایک باذوق استاد نے بھی شائد اس چنگاری کو روشن کیا ہو۔ ان کا نام نور حسین وفا تھا۔ منشی فاضل، قلندروں کی طرح زلفیں رکھتے اور کلائی میں گجرے پہنتے۔

٭       ابتدا ء میں سنجیدہ شعر کہے یا مزاحیہ؟

٭٭   ابتدا سنجیدہ شعر ہی سے ہوئی۔

٭       مزاحیہ شاعری کب اور کس تحریک پر شروع کی؟

٭٭   ہائی کلاسوں میں آ کر مزاحیہ شاعری کا آغاز ہوا۔ طبیعت کا میلان شروع سے ظرافت کی طرف تھا۔ اسکول کے ماحول نے اس حس کو جلدی ہی گد گدا دیا۔ مزاحیہ اشعار کی بدولت اسکول میں جو قبولیت اور اہمیت ملی اس نے بھی اس رغبت کو تقویت دی۔

٭       آپ کی سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں شاعری توجہ کی طالب ہیں مگر فوقیت کسے حاصل ہے؟

٭٭   سنجیدہ کو۔ اس لئے کہ میں تو مزاحیہ شاعری کو سنجیدہ ہی سمجھتا ہوں۔ اس کی بنیاد بھی تو آنسوؤں ہی پر ہے۔ یہ مسکراتے ہوئے آنسو ہیں۔

٭       آپ کے دور کے بڑے شاعر؟

٭٭   بڑا یا عظیم شاعر تو اقبال ہی پیدا ہوا۔ البتہ منفرد اسلوب کے حامل اہم شعراء بہت سے ہیں۔ جن کی فہرست کافی طویل ہے۔ حسرت موہانی، جوش، فراق، حفیظ، فانی، جگر، فیض، ندیم، قتیل، مجاز، اختر الایمان، احسان دانش، اختر شیرانی، ن۔ م۔ راشد، کن کن کے نام لوں اور کتنے نام لوں۔

٭       غزل کے بارے میں محتلف دور میں مختلف آراء سامنے آتی رہیں آپ کی رائے بھی ہمارے لئے اہم ہو گی۔

٭٭   غزل میرے نزدیک شاعری کی محبوب ترین صنف ہے۔ یہ فرد اور عبد دونوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ اس کے امکانات بے اندازہ ہیں۔

٭       کیا آپ ان اساتذہ کے اسمائے گرامی بتانا پسند کریں گے جن سے آپ متاثر ہوئے یا فیض حاصل کیا؟

٭٭   لفظ و آہنگ کا ایک سیلاب ہے جس کو میں شعوری اور غیر شعوری طور پراپنی روح میں جذب کرتا رہا ہوں۔ غالب واقبال کے بعد حفیظ اور جوش میرے دور کی اہم آوازوں تھیں۔ ذاتی طور پر میں اختر شیرانی کی صحبت سے بھی فیض یاب ہوا۔

٭       آپ کے خیال میں اردو ادب میں مزاحیہ شاعری کا کوئی مقام ہے اگر نہیں تو کب تک ہو گا؟

٭٭    مزاحیہ شاعری کو ہمارے ادب میں وہ مقام ابھی تک نہیں ملا جو اس کا حق تھا۔ کچھ قصور نقادوں کا بھی ہے اور کچھ قصور خود مزاح گو شعراء کا بھی ہے اکبر کے بعد شائد ہی کوئی شاعر ہوا ہے جس نے اکبر کی طرح مزاحیہ شاعری کو سنجیدگی سے اختیار کیا ہو۔ نقادوں کا ذہن بھی مزاحیہ شاعری کے خد و خال، مطالبات اور معیار کے بارے میں کچھ ایسا صاف نہیں ہے۔ ہزل اور مسخرگی نے بھی کافی دھند پھیلا رکھی ہے۔ جو چھٹتے چھٹتے ہی چھٹے گی۔ بہرحال اس میں کیا شک ہے کہ مزاح زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔

٭       آزاد شاعری کے بارے میں آپ کی رائے؟

٭٭   میں تجرے کا حامی ہوں۔ تازہ ہوا کے بغیر ادب بھی پودے کی طرح سوکھ جاتا ہے۔ آزاد شاعری نے اپنی اہمیت کو منوا لیا ہے۔

٭       عالمی ادب میں اردو ادب کا کوئی مقام ہے اگر ہے تو کس حد تک؟

٭٭   عالمی ادب پر میری اتنی نگاہ نہیں ہے کہ میں کوئی تقابلی اندازہ پیش کر سکوں۔ مگر اپنی معلومات کی حد تک میرا یہ احساس ہے کہ جس زبان میں میر و غالب اور اقبال جیسے شاعر ہوں اسے کسی اعتبار سے بھی کم مایہ نہیں کہا جا سکتا اور اردو کی جدید شاعری جس کی نمائندگی فیض، راشد اور ندیم کرتے ہیں کسی ملک کی شاعری سے کمتر نہیں۔

٭       علاقائی ادب کے پنپنے کے کتنے فیصد چانس ہیں کیا انہیں اردو ادب میں شامل ہو کر اپنا مقام حاصل کرناچاہئے یا اپنی حیثیت میں اپنا آپ منوانا چاہئے؟

٭٭   علاقائی ادب اپنی الگ شناخت پیدا کئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں علاقائی زبانیں اور قومی زبان کے باہمی لین دین سے یہ بُعد کم ہوتا جائے گا۔ کسی آزاد مملکت میں علاقائی ادب کی نشونما کو روکا جا ہی نہیں سکتا۔ ایسا کرنا، دریا کے دھارے کے خلاف تیرنے کے مترادف ہے۔

٭       ہماری شاعری موسیقی کی محتاج ہے یا موسیقی شاعری کی؟

٭٭   شاعری اور موسیقی جڑواں بہنیں ہیں۔

٭       آپ نے تحقیقی کام کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی کیوں؟

٭٭   تخلیقی کام ہی کو پوری محبت کہاں دے سکا ہوں کہ تحقیقی کام کی طرف متوجہ ہوتا۔ یوں تو ….. ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔

٭       ملک کے بیشتر مزاح نگاروں کا تعلق پاک فوج سے رہا ہے آپ کے خیال میں اس کی کوئی خاص وجہ؟

٭٭   عسکری زندگی میں رفاقت، مشقت اور خطرات کے عوامل ظرافت کی حس کی آبیاری کرتے ہیں۔

٭٭   ادب کے حوالے سے لاہور اور کراچی سرفہرست ہیں آپ نے اسلام آباد جیسے خاموش شہر کو کیوں مسکن بنائے رکھا اس بارے میں کچھ روشنی ڈالیں گے؟

٭٭   کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد۔

٭       اور آپ اب اس محبت کی تازہ بستی کو چھوڑے جا رہے ہیں۔ ہمارے احساسات تو آپ جانتے ہیں اپنی حالت کے بارے میں بھی کچھ فرمائیے؟

٭٭   جس سوال سے میں بچنا چاہتا تھا وہی سوال تم نے داغ دیا۔ بھئی وجوہات تو بیشمار ہیں مگر اپنی آزردگی میں اپنے قاری کو شریک کر کے بوجھل نہیں کرنا چاہتا بیٹا بہو پوتے پوتیاں کے اصرار پر زندگی کے بقیہ دن ان کے ساتھ شیئر کرنے جا رہا ہوں اس انتقال مکانی پر کبھی کبھی دل بھی ہولتا ہے کہ لوگ مجھے اکثر راولپنڈی اسلام آباد کے ادب کی گھنی چھاؤں سے تشبیہ دیا کرتے تھے اور میں ان کے سروں سے یہ سایہ کیوں کھینچ رہا ہوں مگر جب میری نگاہ اپنے نوجوان ساتھیوں اور دوستوں پر پڑتی ہے تو دل کو اطمینان ہوتا ہے کہ افتخار عارف، انور مسعود، غلام ربانی آگرو، سرفراز شاہد، انعام الحق جاوید، سلطان رشک، گلزار جاوید اور خالد محمود عارف کی شکل میں میری مضبوط جڑیں یہاں موجود ہیں۔ پہلے میں اسلام آباد میں رہتے ہوئے دوسرے شہروں میں رہا کرتا تھا اب دوسرے شہروں میں رہتے ہوئے وقت زیادہ اسلام آباد میں گزرے گا انشاء اﷲ۔

٭       محبت کے بارے میں آپ کی رائے جاننا چاہوں گا، ذاتی تجربہ بھی بیان کریں تو نوازش ہو گی؟

٭٭   محبت کے مظاہرے بے شمار ہیں لیکن ایک بات یہ ہے کہ محبت کے بغیر انسان ادھورا ہے اور زندگی بے معنی ہے۔ حسن انسانی میرے جسم و جاں میں زلزلے تو اکثر برپا کرتا رہا مگر موروثی قناعت، بے نیازی اور روایات کی پاسداری کی برکت یا عادت یا جبر کے باعث کوئی جھٹکا ہمیں پاگل پن کی حد تک متزلزل نہ کر سکا۔بقول اقبال۔

حسن نسوانی ہے بجلی میری فطرت کے لئے

پھر تعجب ہے کہ میرا عشق بے پروا بھی ہے

            میں شاید اتنا مصروف رہا کہ مجھے کسی سے عشق کرنے کا وقت ہی نہ مل سکا۔ عشق میرے لئے قرض زندگی تو تھا طرز زندگی نہ بن سکا۔ لیکن اگر کوئی ہمیں ہرجائی سمجھے تو اسے خدا سمجھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے عشق اور ہوس کو الگ الگ برتنے کی مہلت ہی نہیں ملی یا شاید ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ زندگی کا ہمیشہ دونوں ہاتھ پھیلا کر سواگت کیا ہے۔

 میرا ایک شعر ہے ؂

جو بھی عورت ہے ، خوبصورت ہے

/یہ میری روح کی ضرورت ہے

٭       ملک کے کئی جرائد کی مجلس ادارت میں آپ کا نام نامی نظر آتا ہے آپ نے اپنا کوئی پرچہ نکالنے کی ضرورت محسوس کیوں نہ کی؟

٭٭   ذاتی مکان تک نہیں بنوایا۔ جریدہ کیا نکالتے۔ ہلکا سفرکرنا اچھا لگا۔ مگر یہ پتھر ہم نے چومے بغیر نہیں چھوڑا۔ 1949ء میں راولپنڈی سے ’’باد شمال‘‘ کے نام سے ایک ذاتی قومی روزنامہ جاری کیا تھا جو ایک ہی برس چل کر رک گیا۔ کرنل محمد خان، ڈاکٹر صفدر محمود اور سلطان رشک کی شرکت سے طنز و مزاح کے لئے وقف سہ ماہی ’’اردو پنج‘‘ کی بنیاد بھی ہمیں نے رکھی۔ جس کو اب سلطان رشک چلا رہے ہیں اور کیا ’’چہار سو‘‘ میرا اپنا نہیں ہے۔

٭       سنا ہے آپ نے عمر عزیز کی کچھ ساعتیں سیاست کی خارزار میں گزاری ہیں کنارہ کشی کی وجہ ذاتی تھی یا نظریاتی؟

٭٭   سیاست …. 1949ء میں فوج کی کپتانی سے استعفیٰ دے کر ہم نے پہلے راولپنڈی سے اخبار نکالا۔ پھر 95ء میں تحصیل جہلم کے دیہاتی حلقے سے اسمبلی کا الیکشن ہارا۔ جس کے بعد ہمت ہی ہار بیٹھے۔ کہ سیاست پیسے کا کھیل بن گئی۔ ہم سیاست میں حادثاتی طور پر آئے اور سانحاتی طور پر نکل گئے۔ یوں اپنا ذاتی نظریہ جو آگے چل کر مستحکم ہوا یہ ہے کہ ادیب و شاعر کو سیاست میں تو ہونا چاہئے مگر کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہونا چاہئے۔ میرا ایک شعر شاید میرے اس احساس کی ترجمانی کر سکے۔

تھا فیصلہ غلط کہ نہایت غلط، مگر

بندے علی نے ووٹ دیا پارٹی کے ساتھ

٭       آپ کے خیال میں پاکستانی ادب صحیح سمت میں سفر کر رہا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے؟

٭٭   ادب کبھی سیدھی لکیر میں نہیں چلتا یہ پانی کی طرح اپنی سمت خود مقرر کرتا ہے۔ پاکستانی ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ادب کے دھارے کو نہ روکا جا سکتا ہے اور نہ روکنا چاہئے۔ آپ ادب کے مستقبل کی بات پوچھتے ہیں میرا خیال تو یہ ہے کہ پاکستان کا مستقبل وہی ہو گا جو اس کا ادب بنائے گا۔

٭       موجودہ قومی دھارے میں ادیب یا شاعر کا کوئی رول ہے اگر ہے تو یہ لوگ اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں؟

٭٭   پاکستان کا ادیب معاشرے کی بے پناہ ترغیبات …. تخفیفات….. اور دیگر لغویات کے دباؤ کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ایک بہتر اور خوش تر زندگی کی جنگ بے جگری کے ساتھ لڑ رہا ہے۔

٭       نوجوان اہل قلم کے لئے کامیابی کا راز بتائیے۔

٭٭   میرے نزدیک زندگی کی کامیابی کے چار عناصر ہیں۔ خوش قسمتی، ذہانت، محنت اور محبت۔

                                                                                    (مارچ ۱۹۹۶ء)

٭ ٭ ٭

 

احمد ندیم قاسمی

(۲۰ نومبر ۱۹۱۶)

٭       خاندانی پسِ منظر اور تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ نئی باتیں بتائیں؟

٭٭   بزرگوں سے سنا ہے کہ اسلاف ممالک عربیہ سے ایران میں اور پھر افغانستان میں آ کر آباد ہوئے۔ ہندوستان کے کسی مسلمان تاجدار کے دور میں وہ ہرات سے ملتان میں منتقل ہو گئے یہ حضرات دینی علوم پر حاوی تھے اس لئے کسی مسلم بادشاہ کے دور میں انہیں ملتان سے سون سکیسر بھیجا گیا کہ وہاں اسلام کی تبلیغ کریں۔ اس زمانے میں کوہستان نمک کی وادی سون میں بدھ آباد تھے۔ آج بھی ان بدھوں کی شکستہ یادگاریں پہاڑیوں کی چوٹیوں پر موجود ہیں۔ یہ بھی مشہور ہے کہ وادی سون کے مغربی گوشے میں جو بہت وسیع و عریض جھیل پھیلی ہوئی ہے اسے بدھوں نے اپنے مذہبی رہنما مہاتما بدھ کے حوالے سے جو ساکی منی بھی کہلاتے تھے ‘ساکی سر‘‘ (ساکی منی کی جھیل) کا نام دیا اور یہی نام سکیسر میں بدل گیا۔ سکیسر وادی سون کا بلند ترین پہاڑ ہے۔ آج کل یہ پاکستان ائیرفورس کا ایک اہم اڈا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ میرے اسلاف نے اسی جھیل کے شمال مشرقی کنارے پر ایک گاؤں آباد کیا جس کا نام ’’اسلام آباد‘‘ رکھا گیا۔ (آج کل یہ جھیل جھیل اوچھالی کہلاتی ہے کیونکہ اسکے ایک کنارے پر وادی سون کا مشہور قصبہ’’ اوچھالی‘‘ آباد ہے) اسلام آباد کی یہ بستی خوب پھولی پھلی۔ جب ایران کا نادر شاہ ان سرزمینوں پر حملہ آور ہوا۔ اسلام آباد کے باشندے نادر شاہی لشکر کے قتل و غارت کے ڈر سے شمال کی پہاڑیوں میں پناہ گزین ہو گئے اور جب یہ خطرہ ٹل گیا تو انہوں نے واپس اسلام آباد آنے کے بجائے پہاڑ پر ہی ایک گاؤں ’’انگہ‘‘ آباد کیا تاکہ آئندہ کوئی حملہ آور اس طرف متوجہ ہو تو فوراً پچھلی پہاڑیوں میں منتقل ہو کر اس کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اسلام آباد کا گاؤں پھر کبھی آباد نہ ہو سکا۔ آج بھی چرواہے وہاں سے برتنوں ، چنگیروں ، کدالوں اور کلہاڑیوں وغیرہ کے آثار ڈھونڈ لاتے ہیں۔ وادی سون مدتوں تک ضلع شاہ پور کی تحصیل خوشاب کا حصہ رہی۔ پھر ایک نئے شہر سرگودھا میں یہ ضلع منتقل ہوا تو ضلع سرگودھا کہلایا مگر اب خوشاب کو الگ ضلع کا درجہ دے دیا گیا ہے چنانچہ ’’انگہ‘‘ اس ضلع خوشاب کا ایک پہاڑی گاؤں ہے۔

            میں چار برس کا ہوا تو انگہ کی اسی مسجد میں ، جہاں حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ نے میرے خاندان کے بزرگوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی، قرآن مجید کے درس میں شامل ہوا۔ دسویں گیارھویں سیپارے تک پہنچا تھا تو میرے سرپرست چچا، پیر حیدر شاہ (مرحوم) نے یہ کہہ کر مجھے انگہ کے پرائمری سکول میں داخل کرا دیا کہ پرائمری پاس کرنے کے بعد جب وہ مجھے اپنے پاس لے جائیں گے تو باقی قرآن مجید بھی پڑھا دیں گے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پرائمری کے فائنل امتحان میں وظیفہ حاصل کرنے کے بعد میں انہیں چچا کے ہاں کیمبل پور (حال اٹک) پہنچا جہاں وہ ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر تھے۔ میں نے وہیں دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے مجھے اور میرے بڑے بھائی اور ایک چچا زاد بھائی کو قرآن مجید ترجمے بلکہ تفسیر کے ساتھ پڑھایا اور ساتھ ہی ادب کا ذوق بھی بیدار کیا۔ وہیں میں نے پروفیسرغلام ربانی عزیز اور ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم سے کسبِ فیض کیا۔

            93ء میں چچا جان کا تبادلہ شیخوپورہ ہو گیا۔ وہاں کے ہائی سکول کے ہیڈماسٹر جناب فضل الہی چشتی تھے جو آج کے دور کے ایک بڑے شاعر ن۔ م راشد کے والد گرامی تھے۔ ان دنوں راشد لاہور میں زیرِتعلیم تھے۔ جب کبھی وہ اپنے والد کے ہاں شیخوپورہ آتے تھے ہماری (دسویں) کلاس کو انگریزی کا سبق دینے سکول میں آ نکلتے تھے۔ میں نے اپنی پہلی نظم (مولانا محمد علی جوہر کا نوحہ) شیخوپورہ ہی میں لکھی۔ پھرجب چچا جان کی ریٹائر منٹ قریب آئی تو انہیں ریاست بہاولپور کے مشیر مال کے عہدے کی پیشکش کی گئی جو انہوں نے منظور کر لی اور اسی لئے انہوں نے مجھے میٹرک کے بعد صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل کر ا دیا۔ مگر حکومت نے ان کی ملازمت میں دو سال کی توسیع کر دی چنانچہ وہ وہیں رک گئے۔ البتہ 1934ء میں وہاں سے فارغ ہو کر بہاولپور تشریف لائے اور مشیر مال کا عہدہ سنبھالنے کے سلسلے میں نواب بہاولپور سے مل کر واپس انگہ میں سامان وغیرہ لینے پہنچے تو ان پر دل کا شدید دورہ پڑا اور وہیں انتقال فرما گئے۔ میں نے گریجویشن نہایت نامساعد حالات میں کی اور اگر پروفیسر پیرزادہ عبدالرشید (مرحوم) میری مدد کو نہ آتے تو میری تعلیم کا سلسلہ رک جاتا۔ گریجویشن کے بعد اپنے دور کے فاضلِ اجل اور میرے خالہ زاد بھائی مولانا غلام مرشد (مرحوم) نے مجھے گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگریزی میں داخلہ دلانا چاہا مگر حالات کچھ ایسا کڑا رخ اختیار کر گئے کہ ایسا نہ ہو سکا اور میری تعلیم کا سلسلہ رک گیا۔ اس کے بعد میں حصول معاش کی تگ و دو میں مصروف ہو گیا۔

٭       جیسا کہ ہمیں علم ہے ، آپ کا تعلق مذہبی گھرانے سے ہے۔ وہ کون سے عوامل اور اثرات تھے کہ آپ نے دس گیارہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا؟

٭٭   شعر کہنا ایک وہبی نعمت ہے جو قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے میرا گھرانا غیر مذہبی یا آزاد خیال بھی ہوتا تو میں شعر کہنے لگتا کہ یہ میری شخصیت کا ایک ناگزیر جز تھا۔ پھر مذہبی ماحول کسی کو شاعری کرنے سے نہیں روک سکتا، شرط یہ ہے کہ مذہبی ماحول صحیح معنوں میں مذہبی ہو اور جس کی بنیاد تو ہّم پرستی کے بجائے قرآن پاک اور آنحضور ؐ کی تعلیمات پر ہو ………… اور قرآن یا حضورؐ نے کسی کو شاعری کرنے سے کب روکا ہے جبکہ حضرت حسان بن ثابت دربار نبوی ؐ ہی کے شاعر تھے اور جب قصیدہ کہتے تھے تو قدیم عربی شاعری کی روایات کے مطابق ابتدائی حصہ تشبیب پر صرف کرتے تھے اور حضورؐ اس پر کبھی معترض نہیں ہوئے۔

            میرے اندر شاعر موجود تھا۔ اسے شہ اپنے سرپرست چچا کی علم دوستی سے ملی۔ ان کے ہاں اس دور کے سبھی بڑے ادبی رسالے آتے تھے اور میں آزادی سے ان کا مطالعہ کرتا تھا۔ پھر جب میں نے پہلی نظم کہی …… یعنی مولانا محمد علی جوہر کا نوحہ لکھا تو میرے چچا جان نے مجھ سے بہت پیار کیا، میری پیٹھ ٹھونکی اور فرمایا کہ یہ نظم حیرت انگیز حد تک بحر و وزن اور قافیہ و ردیف کے حوالے سے درست ہے۔ وہ اتنے خوش ہوئے کہ خود لاہور جا کر اسے ایک روزنامے کے مدیر کے سپرد کر آئے جنہوں نے اس نوحے کو اخبار کے پورے صفحے پر بوقلموں رنگوں میں چھاپا۔ یوں میری ہمت افزائی ہوئی۔

٭       ان شعرائے کرام کے اسمائے گرامی بتائیے جن سے آپ نے ابتدائی ایام میں اصلاح لی ہو، یا جن کی صحبت سے آپ کے فن میں پختگی آئی ہو؟

٭٭   میں نے باقاعدہ اصلاح کسی سے نہیں لی۔ بالکل ابتدا میں جب میں میٹرک کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا، ایک بزرگ نے ، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے ، مجھے خط لکھا کہ تم میں جوہر موجود ہے مگر یہ جوہر کسی استاد کی رہنمائی کے بغیر دب جائے گا۔ ان کا اسم گرامی مقبول انور داؤدی تھا اور وہ روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے نوجوان دوست حضرت شاطر غزنوی کا نام تجویز کیا جو غزل کہتے تھے ’’سیاست‘‘ میں لکھتے تھے اور اندرون دہلی دروازہ لاہور ، لنگی کلاہ کا کاروبار کرتے تھے۔ میں نے شاطر صاحب کو ایک غزل بھیجی۔ انہوں نے اسے تمام تر بدل دیا، اپنی طرف سے چند اشعار کا اضافہ بھی کر دیا اور اسے ایک رسالے میں چھپوا بھی دیا۔مجھے یہ غزل یاد نہیں۔ ایک آدھ مصرع یاد ہے ، مثلاً     ؂

کہ مٹ جاتی ہیں موجیں ، پاس جب جاتی ہیں ساحل کے

اور مقطعے کا دوسرا مصرع    ؂

کہ ہم شاگرد بھی تو ہیں ندیم استادِ کامل کے !

مجھے یہ ’’مہربانی‘‘ متاثر نہ کر سکی اور میں نے انہیں کلام بھیجنا بند کر دیا۔ البتہ میں ان کے ایک احسان کو کبھی نہیں بھولوں گا کہ انہوں نے شروع ہی میں میرا تخلص ’’ندیم‘‘ تجویز کیا۔ اس زمانے میں ندیم نام عام نہیں تھا۔ صرف رسالہ ’’ادبی دنیا‘‘ کے منصور احمد مرحوم کبھی کبھار صرف ندیم کے نام سے اپنے رسالے میں اپنی ایک آدھ رباعی درج کر دیتے تھے۔ اب تو جدھر کا رخ کیجئے درجنوں ندیموں سے سابقہ پڑتا ہے مگر 1933ء میں صرف میں ہی ندیم تھا۔ یہ اس لفظ کا حسن ہے جو گزشتہ ساٹھ برس کے عرصے میں اس قدر مقبول ہوا ہے۔ یہ شاطر صاحب کا مجھ پر احسان ہے۔ بعد میں وہ فلمی کہانیاں ، مکالمے اور گانے لکھنے لگے۔ جب بھی ان سے مڈبھیڑ ہوتی، میں ہمیشہ نہایت ادب سے ان سے ملتا اور ہمیشہ ان کی تعظیم کرتا۔

            ان کے علاوہ اختر شیرانی تھے جو اس زمانے میں نوجوان طبقے کے محبوب ترین شاعر تھے حالانکہ وہ دور علامہ اقبال، اور جوش اور حفیظ کا دور تھا۔ میں بھی (برادر محترم سید ضمیر جعفری کی طرح) اختر کا مداح اور معتقد تھا، میں ان کے رسالہ ’’رومان‘‘ میں کلام بھیجتا تو وہ جہاں ایک آدھ مقام پر تبدیلی کرتے وہ میرے لئے نشان راہ بن جاتی۔ مثلاً میرا ایک نہایت ابتدائی شعر ہے    ؂

تم نے اک روز کیا وعدۂ پرسش ہم سے

بس اسی روز سے آشفتہ و بیمار ہیں ہم

اختر صاحب نے ’’اک روز‘‘ کو ’’جس روز‘‘ میں بدل دیا اور شعر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔

            مجھ پر ، میری شخصیت پر اور میری شاعری پر سب سے بھاری احسان گرامی قدر مولانا عبدالمجید سالک، مدیر روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور نے کیا وہ بھی اختر صاحب کی طرح ایک آدھ لفظ ادھر اسے ادھر کر کے شعر کے معیار کو انتہائی بلندی پر لے جاتے تھے اور میں اس خاموش رہنمائی سے فیض یاب ہوتا رہتا تھا۔ اس دور میں حضرت حفیظ ہوشیار پوری اور میں روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں نہایت باقاعدگی سے لکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت سالک ہمیں ’’شعرائے انقلاب‘‘ کہا کرتے تھے۔ اگر میری زندگی میں وہ وارد نہ ہوتے تو میں یہاں وہاں ٹھوکریں کھاتا ہوا عملاً ختم ہو جاتا۔ میں جو کچھ ہوں ، انہی کی محبت اور حوصلہ افزائی کا ثمر ہوں۔

٭       یہ بات تو طے ہے کہ آغاز آپ نے شاعری سے کیا۔ افسانہ لکھنے کی تحریک کب اور کیونکر ہوئی؟ کیا افسانے میں آپ کسی کو استاد مانتے ہیں؟یا افسانے میں آپ کاآئیڈیل کون ہے؟

٭٭   یقیناً میں نے آغاز شاعری سے کیا۔ پھر جب میں صادق ایجرٹن کالج میں زیر تعلیم تھا تو آج کے نامور ادیب، طنز نگار اور سفر نامہ نویس جناب محمد خالد اختر سے میرے دوستانہ روابط استوار ہوئے۔ وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے کے رکن تھے اس لئے ان کے ہاں کتابوں کے انبار لگے رہتے تھے۔ وہ انگریزی فکشن کے عاشق تھے اور آر۔ایل۔ سٹیوسن پر تو باقاعدہ فریفتہ تھے۔ انہوں نے سٹیوسن کے علاوہ متعدد انگریز اہل قلم کی کتابیں مجھے پڑھنے کو دیں اور ساتھ ساتھ اکساتے رہے کہ میں بھی کہانیاں لکھوں۔ یہ انہی کی عنایت ہے کہ میں نے افسانہ نگاری اختیار کی اور یوں اپنے تخلیقی جوہر کو ایک طرح سے غیر محدود کر دیا۔

            میں افسانے میں کسی کو بھی استاد نہیں مانتا البتہ ابتدا میں منشی پریم چند نے مجھے متاثر کیا اور میں بعد میں چیخوف کا پرستار ہو گیا۔ افسانے میں اگر میرا کوئی آئیڈیل ہے تو وہ چیخوف ہے۔

٭       آپ کا قلم ادب کی تمام اصناف پر حاوی ہے۔ آپ اپنی کون سی سائیڈ کوجینیئس سمجھتے ہیں ، یا یوں کہہ لیجئے کہ کس صنف میں تخلیق کر کے آپ کو لطف آتا ہے؟

٭٭   صرف شاعری اور افسانہ نگاری کی اصناف میری پسندیدہ اصناف ہیں۔ باقی جو کچھ بھی ہے ، حصول معاش کا ذریعہ ہے۔ میں نے مزاحیہ کالم نویسی ۳۵ برس تک کی ہے مگر ان بارہ ہزار کالموں میں سے دو تین سو کالم منتخب کرنے کے خیال ہی سے لرز جاتا ہوں جبکہ آج کل نوجوان ادھر چند روز کالم نویسی کرتے ہیں ادھر ان کے کالموں کا مجموعہ آ جاتا ہے۔ اس طرح میری تنقید محض تاثراتی ہے۔ میں ایک تخلیق کار کے نقطۂ نظر سے ادبی مسائل پر تنقید کرتا ہوں اس لئے باقاعدہ نقاد نہیں ہوں۔

            شاعری میری محبوبہ ہے مگر افسانہ نگاری کو بھی کسی صورت میں کمتر نہیں سمجھتا چنانچہ دونوں کی تخلیق مجھے سرشار کر دیتی ہے۔

٭       ملازمت کی ابتداء اور انتہاء کے بارے میں تفصیل بتائیے؟

٭٭   ملازمت کا پہلا تجربہ نہایت تلخ تھا۔ میں ریفارمر کمشنر کے دفتر میں بطور ’’محرر‘‘ بھرتی ہوا۔ بیس روپے ماہانہ تنخواہ تھی۔ دفتر گلاب سنگھ پریس کے قریب ایک تکون سی عمارت کی بالائی منزل میں تھا۔ افسر ایک پٹواری تھا جو پلنگ پر بیٹھتا تھا اور ہم محرر لوگ نیچے فرش پر بچھی ہوئی چٹائیوں پر ووٹروں کی فہرستوں کی چیکنگ کرتے تھے۔ دن بھر فلاں ولد فلاں ذات سکنہ فلاں کی رٹ لگی رہتی تھی۔ ایک روز پٹواری نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ پریس میں جا کر دوات میں روشنائی بھر لاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ اس کام کے لئے چپڑاسی موجود ہے جو باہر برآمدے میں بیٹھا ہے۔ میں محرر ہوں۔ محرّر ہی کا کام کروں گا…… اور اس نے میری چھٹی کر دی۔

            پھر میں نے چند دن دار الاشاعت پنجاب کے ہفت روزہ ’’تہذیب نسواں ‘‘ کے لئے غیر ملکی کہانیوں کے تراجم کئے اور جو معاوضہ ملا اس سے گزر بسر کی۔ انہی دنوں ایک ہندو بزرگ کو حضورؐ صلعم کی سیرت پر کتاب لکھنے کی سوجھی۔ وہ حضورؐ کا عقیدت مند تھا مگر چاہتا تھا کہ کتاب کوئی مسلمان لکھے جو ازدواج مطہرات کے سلسلے میں نہایت خوبصورت جواز پیش کرے۔ محترم سالک صاحب نے میرا نام تجویز کیا۔ معاوضہ پچھتر روپے مقرر ہوا۔ یہ بزرگ دیال سنگھ لائبریری کے ٹرسٹیز میں شامل تھے اس لئے لائبریرین سے کہا کہ اس لڑکے کو جس کتاب کی ضرورت ہو، فوراً نکال دو۔ یوں میں نے ان دنوں حضورؐ کی سیرت طبیہ پر پچاس ساٹھ (بیشتر انگریزی کی) کتابیں پڑھ ڈالیں۔ پھر کتاب لکھی اور بزرگ کو پیش کر دی۔ وہ اتنے خوش ہوئے کہ مجھ پچھتر کی بجائے نوے روپے عنایت کر دیئے اور ظاہر ہے میری تو عید ہو گئی کیونکہ روپے کی موجودہ قیمت کے لحاظ سے وہ نوے روپے آج کے دو ہزار روپوں کے برابر ہوں گے۔

            ٹیلی فون آپریٹر کے امتحان میں کامیاب ہونے پر مجھے اوکاڑہ منڈی میں ٹیلی فون آپریٹر مقرر کر دیا گیا مگر میں اس ملازمت کو نو دن سے زیادہ برداشت نہ کر سکا اور بھاگ آیا۔ اس کے بعد محکمہ آبکاری میں سب انسپکٹر بھرتی ہو گیا۔ میرے پھوپھی زاد بھائی کیپٹن ملک امیر حیدر خان نے میرے لئے یہ اہتمام کیا۔ میں خانیوال اور ملتان میں بھنگ ، چرس ، افیون، چانڈو اور شراب کے کیس پکڑتا پھرا۔ ظاہر ہے یہ میرے ذوق کا ماحول نہیں تھا۔ محترم سالک صاحب کو لکھا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ استعفیٰ دے کر لاہور بھاگ آؤ۔ بھائی جان (پیرزادہ محمد بخش) سے اجازت چاہی۔ انہوں نے فوراً اجازت دے دی اور میں لاہور آ گیا۔ محترم سالک صاحب نے مجھے ہفت روزہ ’’تہذیب نسواں ‘‘ اور ہفت روزہ ’’پھول‘‘ کی ادارت دلوا دی۔

            اسی دوران میں رسالہ ’’ادب لطیف‘‘ کی ادارت بھی کرتا رہا۔ منٹو کی ایک کہانی اور مضمون چھاپنے پر میرے اور منٹو کے خلاف مقدمہ چلا مگر ہم دونوں بری ہو گئے اور ناشر سزایاب ہوئے۔ البتہ بعد میں وہ بھی بری قرار دے دیئے گئے۔

            نروس بریک ڈاؤن نے مجھے لاہور سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ میں انگہ آ گیا اور وہاں کی آب و ہوا امی مرحومہ کی توجہ سے آہستہ آہستہ صحت یاب ہونے لگا۔ اسی دوران میں سجاد سرور نیازی مرحوم نے ، جو ان دنوں پشاور ریڈیو سٹیشن کے ڈائریکٹر تھے اور ان کے گھرانے سے ہمارے خاندانی تعلقات تھے ، مجھے پشاور بلوا بھیجا۔ میں وہاں بحیثیت سکرپٹ رائٹر 948ء کے آغاز تک کام کرتا رہا۔ وہیں پشاور کے دوستوں فارغ بخاری، رضا ہمدانی، خاطر غزنوی وغیرہ کے علاوہ نوجوان محسن احسان اور احمد فراز سے بھی ملاقات ہوئی اور ریڈیو سٹیشن کے ایک اہل کار اور نہایت عمدہ غزل گو حمید نسیم سے تعلق پیدا ہوا۔ پشاور میں قیام کے دوران میں چوہدری نذیر احمد کا نیا رسالہ ’’سویرا‘‘ بھی مرتب کرتا رہا۔ اس کے ابتدائی تین شمارے میرے مرتب کردہ ہیں۔

            پھر جب میری منہ بولی بہنیں ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور ترکِ وطن کر کے لکھنؤ سے لاہور آ گئیں تو میں ان کی سرپرستی کی خاطر پشاور سے مستعفی ہو کر لاہور آ گیا۔ یہاں ہاجرہ بہن نے اور میں نے محمد طفیل صاحب کے تعاون سے رسالہ ’’نقوش‘‘ کا اجراء کیا۔ 1949ء کے آخر تک یہ سلسلہ چلا مگر ہماری ترقی پسندانہ انتہا پسندی سے گھبرا کر ہمارے دوست محمد طفیل (مرحوم) نے ہمارے ساتھ چلنے سے معذرت کر لی۔ ظاہر ہے ہم تو خالی ہاتھ تھے۔ ان کے بغیر رسالہ چلانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا اس لئے ’’نقوش‘‘ ان کے سپرد کیا اور خود بیروزگاری کے صحرا میں داخل ہو گئے۔

            اس دوران ادب کی ترقی پسند تحریک زوروں پر تھی، البتہ انتہاپسندی کی طرف جا رہی تھی۔ میں انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کا جنرل سیکریٹری تھا۔ ہم نے خوب جلسے کئے ، خوب جلوس نکالے اور پھر 95ء میں سنٹرل جیل لاہور کی ایک کوٹھریا میں بند کر دیئے گئے۔ رہائی کے کچھ عرصہ بعد مجھے روزنامہ ’’امروز‘‘ (لاہور) کی ادارت کی پیش کش ہوئی جو میں نے منظور کر لی۔ میں نے چھ برس تک اس روزنامے کی ادارت کی مگر 1958ء میں جب جنرل ایوب خان نے پاکستان پر قبضہ کر لیا تو مجھے پھر لاہور اور راولپنڈی کی جیلوں کے علاوہ لاہور کے شاہی قلعے میں بھی رہنا پڑا۔ فروری 1959ء میں رہا ہو کر آیا تو چند روز بعد ایوب خان کی حکومت نے میرے دوست قدرت اللہ شہاب مرحوم وغیرہ کے مشورے سے ’’امروز‘‘ اور ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ پر قبضہ کر لیا اور میں ’’امروز‘‘ کی ادارت سے احتجاجاً الگ ہو گیا۔

            تب میں نے ایک اشاعتی ادارہ ’’کتاب نما‘‘ چلانا چاہا مگر دماغ کا کاروباری خانہ خالی ہے اس لئے یہ ادارہ فلاپ ہو گیا۔ 1963ء میں رسالہ ’’فنون‘‘ کا اجراء کیا اور اسے اب تک چلا رہا ہوں۔ اب یہ رسالہ تیس برس کا ہو چکا ہے اور میں ان تیس برسوں پر نظر ڈالتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ میں کیسے مشاعروں اور کتابوں کی آمدن سے یہ رسالہ چلاتا رہا اور اب تک چلا رہا ہوں جبکہ میری ملکیت میں صرف ایک دو بیگھ زمین ہے اور وہ بھی انگہ کی پہاڑیوں میں گھری ہوئی۔

            1974ء میں جب محترم پروفیسر حمید احمد خان مرحوم کا انتقال ہوا تو مجلس ترقی ادب کی نظامت کی اسامی خالی ہوئی۔ ان دنوں جناب حنیف رامے پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور میرے محبوب دوست پروفیسر فتح محمد ملک عارضی طور پر ان کے پریس ایڈوائزر تھے۔ انہوں نے اس اسامی کے لئے میرا نام تجویز کیا اور یوں میں اس نیک نام علمی و ادبی ادارے کا ناظم مقرر ہوا۔ ہر تین برس بعد ملازمت میں توسیع ہو جاتی ہے اس لئے میں 1974ء سے اب تک اس عہدے پر فائز ہوں میرے دور نظامت میں دو سو کے قریب کتابیں اس ادارے کی طرف سے اشاعت پذیر ہو چکی ہیں۔ ساتھ ہی پروفیسر محمد عثمان مرحوم کے بعد بزم اقبال کے اعزازی سیکریٹری کا کام میرے سپرد کیا گیا اور میں نے یہ فرض دس بارہ برس تک نبھایا۔

٭       ترقی پسندی کی اصلاح کب اور کیونکر رائج ہوئی؟ آپ کے رجحان کے اسباب کیا تھے؟

٭٭   1935-34 ء میں امیر گھرانوں کے چند نوجوانوں نے ، جو انگلستان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ، انگریز کے استعمار ، جرمنی اور اٹلی کے فاشزم ، خود اپنے وطن میں ملائیت کی گرفت اور بڑے بڑے زمینداروں ، وڈیروں ، خانوں ، پیروں ، تمن داروں کے ہاتھوں کروڑوں عوام کے اندھا دھند استحصال کے خلاف ایک ثقافتی محاذ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1936ء میں اسی جذبے کے تحت پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن (انجمن ترقی پسند مصنفین) کا قیام عمل میں آیا جس کے ہمدردوں میں ٹیگور، منشی پریم چند اور مولوی عبدالحق کی سی شخصیات بھی شامل تھیں مگر اس سے بہت پہلے ہی سے میں غیر ملکی استعمار کی غلامی اور انسان کے ہاتھوں انسانوں کے استحصال سے شدید نفرت کرنے لگا تھا۔ انجمن کارکن بننے سے بہت پہلے میں نے اپنے مجموعہ کلام ’’جلال و جمال‘‘ کا جو طویل دیباچہ لکھا ہے ، وہ اس حقیقت کی شہادت دے گا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے بڑے زمینداروں کے مظالم، ملائیت کی گرفت، پیروں فقیروں کی زیادتیوں اور انگریزی حاکمیت کی سفاکیوں کے مناظر دیکھے تھے اس لئے میں مروجہ صورت حال سے انتہائی حد تک متنفر تھا۔ یہی میری ترقی پسندی تھی۔

٭       اکثر احباب آپ کے بارے میں تذبذب اور گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ آپ بیک وقت کٹر مذہبی اور پکے ترقی پسند ہونے کا دعویٰ کرتے رہے؟

٭٭   میں کٹر مذہبی تو کسی صورت نہیں ہوں۔ میں تو بڑا فراخ دل مسلمان ہوں اور ہر اس نیک آدمی کو سینے سے لگانے کو تیار ہوں جو چاہے کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہو مگر عملاً نیک ہو۔ ’’پکا‘‘ ترقی پسند یقیناً ہوں۔ میرا مذہب میری ترقی پسندی میں کسی طرف سے بھی مزاحم نہیں ہے ، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ خود اسلام بے حد ترقی پسند مذہب ہے جس نے گورے کالے ، عربی عجمی، امیر غریب، بڑے چھوٹے ، کی تفریق ہی سرے سے ختم کر ڈالی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کا مسلمان بیشتر محض برائے نام مسلمان ہے۔ میرا شعر ہے۔

یوں مسلماں تو بہت ہیں ، مگر اب تک نہ سنا

اک مسلماں سے بھی، اک پیروِ اسلام کا نام

ایک اور شعر ہے ؂

بھیک مانگے کوئی انسان تو میں چیخ اٹھتا ہوں

بس یہ خامی ہے مرے طرزِ مسلمانی میں

اس صورت میں میری مذہبیت اور میری ترقی پسندی کے ضمن میں احباب کا تذبذب اور گومگو میں مبتلا ہونا میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا ترقی پسندی کے لئے کافری ضروری ہے؟ کیا ترقی پسند کہلوانے کے لئے کمونسٹ ہونا ضروری ہے؟ یقیناً نہیں۔ پھر یہ تذبذب چہ معنی دارد؟

٭       غالباً جب آپ ترقی پسند تحریک کی سیکریٹری شپ کے عہدے پر فائز تھے تو کچھ ترقی پسند دوستوں کو آپ سے شکایات پیدا ہوئیں۔ وہ شکایات کیا تھیں؟ آپ کے ازالے سے ان دوستوں کی تشفی ہوئی کہ نہیں؟

٭٭   سجاد ظہیر نے ، جو پاکستان کیمونسٹ پارٹی کے سربراہ تھے اور ’’انڈر گراؤنڈ‘‘ تھے ، اپنے پیغام رسان کے ہاتھ مجھے ایک طویل خط لکھا۔ مفہوم یہ تھا کہ کیمونسٹ پارٹی کے ممبر ہو جائیے۔ میں نے اتنے ہی طویل خط میں عرض کیا کہ میں خدا کی وحدانیت اور اس کے رسول پاک ؐ کی نبوت پر ایمان رکھتا ہوں اس لئے میں کیمونسٹ کیسے ہو سکتا ہوں۔ میں انجمن کے منشور کا پابند ہوں ، کیمونسٹ مینی فیسٹو کا نہیں۔ یہ دونوں خطوط ہماری خفیہ پولیس کی تحویل میں ہوں گے کیونکہ خانہ تلاشیوں کے دوران انہیں یہ ’’نعمتیں ‘‘ ملی تھیں۔ شاید میرا یہی انکار ان بیشتر ترقی پسند احباب کی شکایت کا سبب بنا جنہیں سوویٹ روس کی ’’تقدس‘‘ پر کامل ایمان تھا۔ پھر میں نعتیں تو قیام پاکستان سے پہلے سے لکھ رہا تھا مگر جب یہ نعتیں مقبول ہوئیں تو بعض احباب نے یہ تک کہنے سے گریز نہ کیا کہ جو شخص نعت لکھتا ہے وہ ترقی پسند کیسے ہو سکتا ہے۔ (فیض صاحب نے امام حسینؑ کا مرثیہ بھی لکھا ہے اور اچھا کیا جو لکھا ہے مگر فیض ، فیض ہیں اور میں صرف ندیم ہوں)

            میں نے اپنے ان احباب کی تشفی کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ اس دوران میں جب بھی کسی طرف سے بھی ادب کے ترقی پسند نظریئے پر حملہ ہوا، میں نے فوراً اس کا نوٹس لیا اور اپنے نظریئے کی مدافعت کی جبکہ ترقی پسندی کے ’’بڑے ‘‘ یہ کہتے رہے کہ ہم تو ان حملوں کا نوٹس نہ لے کر انہیں نظرانداز کرتے ہیں ، جبکہ دراصل وہ خوفزدہ تھے کہ ندیم کی طرح کسی کو چھیڑ دیا تو پھر خیریت نہیں۔ اسی نکتے پر غور کر لیجئے کہ جماعت اسلامی کے اخبار مجھے آج بھی بخشنے کو تیار نہیں ہیں اور دائیں بازو کے بے شمار اہل قلم مجھے اپنا ذاتی دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ اخبارات کے صفحات اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ محض میری ترقی پسندی کی وجہ سے یہ حضرات کہاں کہاں کی کوڑیاں لاتے ہیں۔

٭       بہت سے لوگوں ، بالخصوص آپ کے نظریات کے حامی لوگوں کو آپ کا شخصی حکومت سے ایوارڈ لینا ناگوار گزارا؟

٭٭   یہ ایوارڈ کسی ایک شخص کی طرف سے نہیں ملتے ، مملکت پاکستان کی طرف سے ملتے ہیں اور مملکت پاکستان کی طرف سے ایوارڈ ملنا ایک بڑا اعزاز ہے۔ مشکل یہ ہے کہ قیام پاکستان کے دس گیارہ برس تو سیاست دان آپا دھاپی، دستور سازی، دستور شکنی وغیرہ میں مصروف رہے۔ اس کے بعد مارشل لاز کا وہ دور آتا ہے جس نے پاکستان کے تشخص کو تہس نہس کر دیا۔ صرف ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے چند برس اور محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے چند سال محفوظ رہے ورنہ ملک پر فوجی آمر ہی حکمران رہے۔ مجھے دو ایوارڈ ملے ہیں۔ پہلا پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ تھا جو ایوب خان کے دور میں ملا مگر یقین کیجئے کہ میں اخبار دیکھ رہا تھا جب ایک ذیلی سرخی میں مجھے اپنا نام نظر آیا۔ ظاہر ہے یہ حکومت کی زیادتی تھی کہ جسے ایوارڈ دیا جا رہا ہے اس سے پوچھا ہی نہ جائے اور ایوارڈ اس کے سر پر تھوپ دیا جائے مگر ایوارڈ کے ساتھ یہ وضاحت موجود تھی کہ یہ میری سالہا سال کی ادبی خدمات کے اعتراف میں دیا جا رہا ہے یہ ایوارڈ مجھے بذریعہ ڈاک بھجوا دیا گیا۔ دوسرا ایوارڈ ’’ستارہِ امتیاز‘‘ کا ہے جو جنرل ضیاء الحق کے دور میں اور وہ بھی میری ادبی خدمات کے صلے میں ملا۔ مجھ پر اس کا انکشاف بھی اس روز ہوا جس روز اس کی خبر اخباروں میں آئی۔ مجھ سے استفسار کا تکلف ہی نہیں برتا گیا۔ تاہم یہ بھی مملکت پاکستان کی طرف سے اعزاز تھا۔

            …… میرے محترم فیض احمد فیض مرحوم کو پاکستان کے دشمن نمبر  یعنی سوویت روس کی طرف سے لینن امن انعام ملا تو تہنیت کے ڈونگرے برسائے گئے مگر میرے ’’ستارہ امتیاز‘‘ کو گردن زدنی قرار دیا گیا کہ میں نے ایک ’’خون آلود ہاتھ والے ‘‘ حاکم سے ہاتھ ملایا جبکہ میرے محترم دوست فیض نے اسی خون آلود ہاتھ والے حاکم سے ڈیڑھ دو گھنٹے کی طویل ملاقات کی اور ظاہر ہے کہ اس طویل ملاقات میں صرف موسم اور آب و ہوا کی باتیں نہیں ہوئی ہوں گی۔ حیرت ہے کہ صرف میں کیسے متہم گردانا گیا جبکہ :

این گناہیست کہ در شہر شما نیز می کنند

میں نے ماہنامہ ’’ہیرلڈ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ان جابروں کے حق میں لکھی ہوئی میری ایک سطر …… میرا ایک لفظ ہی دکھا دیجئے۔ میں نے تو ضیاء الحق کے دور اقتدار ہی میں اس ماہنامے کو بتایا تھا کہ ضیاء الحق کا ریفرنڈم اعلیٰ پیمانے کے ایک فراڈ کے سوا کچھ نہ تھا اور جو نوے دنوں کے لئے آئے تھے انہیں نوے مہینوں سے بھی کہیں زیادہ مدت گزر چکی ہے۔ کیا کسی اور ’’مہا ترقی پسند‘‘ کو یہ کہنے کی توفیق ہوئی؟ پھر جب مملکت پاکستان پر آمر پر آمر مسلط ہوتا چلا جائے تو کیا اس مملکت کے اعزازات کو زیر زمین دفن کر دینا چاہئے؟ …… مشکل یہ ہے کہ شخصی حکومتوں کے خاتمے کے بعد بھی جن اصحاب کو اس نوع کے ایوارڈ ملے ان میں سے بیشتر کی خدمات ’’ادبی‘‘ سے کہیں زیادہ کسی اور نوعیت کی ہیں۔ ساتھ ہی میں نے دو اہل قلم کانفرنسوں میں کلیدی خطبہ پڑھا اور دونوں خطبوں میں مارشل لاء حکومت کو کھری کھری سنائیں اور صاف کہا کہ ہم آپ کے وفادار نہیں ہیں ، ہم اپنی مملکت کے اور اس کے کروڑوں عوام کے وفادار ہیں۔ کیا کسی اور کو برسرِ عام یہ کہنے کی توفیق ہوئی؟

٭       قیام پاکستان کے بعد بڑی شد و مد سے دائیں اور بائیں نظریات کا ادب تخلیق ہوا۔ اس کے بیچ نیوٹرل لوگوں نے جو ادب تخلیق کیا اسے آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

٭٭   نیوٹرل نام کے ادب کی کوئی چیز ہوتی ہی نہیں۔ وہ دوست جو کہتے ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں اور ہمارا کوئی نظریہ نہیں ہے ، دراصل اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ’’بے نظریاتی پن‘‘ ہی ان کا نظریہ ہے۔ آخر لایعنیت اور بے معنویت بھی تو نظریات ہیں۔ چنانچہ یہ ’’نیوٹرل‘‘ والا ڈھکوسلا غلط ہے۔ البتہ میرا نظریہ یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ بائیں بازو کے اہل ادب کا سارا ادب معیاری ہو اور دائیں بازو کے اہل ادب کا تمام ادب غیر معیاری ہے۔ بعض بائیں بازو والے بھی گھٹیا چیزیں لکھتے ہیں اور بعض دائیں بازو والے بھی غیر فانی تخلیق پر قادر ہیں۔ نظریئے کا معاملہ الگ ہے اور فن کی کسوٹی الگ۔

٭       تقسیم ہند نے اردو ادب پر کس طرح کے اثرات مرتب کئے ہیں ، یعنی اردو ادب اس صورتحال سے وسعت پذیر ہوا یا اسے زوال کا سامنا ہے؟

٭٭   تقسیم کے اثرات اردو ادب پر یقیناً مرتب ہوئے ہیں بلکہ جنوبی ایشیا کی تمام زبانوں کے ادب پر یہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ اثرات اس لحاظ سے مثبت ہیں کہ مسلمان، ہندو اور سکھ ادیبوں نے فرقہ وارانہ فسادات کی شدید مذمت کی اور انسانیت کا پرچم سربلند کیا۔ بعض عناصر منفی رجحانات کی زد میں بھی آئے مگر یہ کیفیت عارضی تھی۔ پاکستان میں تو اردو ادب بھرپور انداز میں وسعت پذیر اور ترقی پذیر رہا، البتہ ہندوستان میں وقتی طور پر اسے نقصان پہنچا مگر کیفیت یہ ہے کہ جتنا اردو میں تنقیدی اور تحقیقی کام ہندوستان میں ہو رہا ہے اس کا مقابلہ پاکستان بھی نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اردو ادب مخدوش حالات میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

٭       ملا اور مسٹر کی بحث شدت اختیار کرتی جا رہی ہے حتی کہ علامہ اقبال کو متنازعہ بنانے کی کوشش بھی ہو رہی ہے۔ آپ ان دو انتہاؤں کے بیچ فاصلہ قائم کرنے کے لئے کیا تجاویز دیں گے؟

٭٭   خدا کا شکر ہے کہ ملاّ اور مسٹر کی بحث میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔ اس طرح اس نازک مسئلے کے حل کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ البتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’’ملائیت ‘‘ کا مطلب ’’اسلام‘‘ نہیں ہے اور ’’مسٹریت‘‘ کا مطلب اندھا دھند مغرب پرستی نہیں ہے۔ اس نکتے کو پوری طرح واضح ہونا چاہئے۔ یقیناً یہ دو انتہائیں ہیں مگر اس خلیج کو پاٹنا وسیع النظر علمائے دین اور برداشت کی قوت رکھنے والے جدید تعلیم یافتہ عناصر کا کام ہے جو دینیات کے علاوہ معاشیات، سائنس ، ٹیکنالوجی، فلسفہ اور فنون لطیفہ پر بھی حاوی ہوں۔ یہ دور سائنس اور دیگر جدید علوم کا ہے۔ توہمات اور غلط مذہبی روایات ان علوم کی ترقی اور وسعت میں مزاحم ہوتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ آج بھی بعض ملاّ حضرات انسان کے چاند پر اترنے کو جھوٹ قرار دیتے ہیں۔ انہیں اتنی تعلیم سے تو آراستہ ہونا چاہئے جو توہمات کو بے معنی قرار دے ڈالے۔ اسی طرح جدید تعلیم یافتہ حضرات کو بھی اپنے اندر برداشت کی توانائی پیدا کرنی چاہئے اور مسائل پر الجھنے یا ایک دوسرے کو جاہل قرار دینے کی بجائے ایک دوسرے کے دلائل کا وزن محسوس کرنا چاہئے۔ علامہ اقبال تو اس ملائیت کے شدید دشمن ہیں جو ’’فی سبیل اللہ فساد‘‘ برپا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتی اور جس نے اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کر ڈالا ہے اور ابھی کہاں ابھی تو علامہ کے لکچرز کا عام فہم ترجمہ نہیں ہوا۔ ہو گیا تو دیکھئے گا ملاّ لوگ کیسے علامہ پر چڑھ دوڑتے ہیں ، مگر آخر چاند کا تھوکا تو منہ پر ہی آتا ہے۔

٭       ادب میں گروہ بندیوں کے رجحان کی ابتدا کب ہوئی ، نیز ادب پر اس نے کس قسم کے اثرات مرتب کئے؟ ان گروہ بندیوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ ان کا قلع قمع کس طرح ممکن ہے؟

٭٭   گروہ بندیو ں اور ادبی چپقلش کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا یہ لفظ پرانا ہے مگر بیشتر چپقلشیں زبان و بیان تک محدود ہوتی تھیں۔ اردو شعر و ادب میں ایک دور گالی گلوچ کا بھی آیا مگر یہ عارضی ثابت ہوا۔ اختلاف رائے تو پڑھے لکھے طبقے اور سوجھ بوجھ والے عناصر کے نزدیک ایک نعمت سے کم نہیں ، لیکن جب ذاتیات بھی اس اختلاف کی زد میں آ جائیں تو ادب کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی۔ گروہ بندیوں کے اثرات عموماً منفی ہوتے ہیں کیونکہ ادیب خود کو بعض پست تعصبات میں محدود کر لیتا ہے اور وسعت نظر سے دست کش ہو جاتا ہے۔ یہ پارٹی بازیاں ایک لعنت ہیں جو ذہنوں پر مسلط کر دی جاتی ہے۔ اس کا قلع قمع صرف اس طرح ممکن ہے کہ ثروت مند عناصر جو گروہ بندیوں کے بل پر شہرت حاصل کرتے ہیں اور اس شہرت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اسی لئے اپنی تجوریوں کے دھانے کھول دیتے ہیں اپنی اس منفی سرگرمی سے باز آ جائیں کیونکہ ان کی بقائے دوام کا ضامن تو ان کا تخلیقی لفظ ہے ، اثر و رسوخ اور دولت و ثروت نہیں۔ بعض چھوٹے ذہن اسی پر گزر بسر کرنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں اور یوں کیساکیسا جوہر قابل دشنام و بہتان کے گرد و غبار میں دب جاتا ہے۔ قلع قمع صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو افراد اس گندے کاروبار میں مبتلا ہیں ، اس کمینہ ذہنیت سے علی الاعلان دست کش ہو جائیں اور منافقت ترک کر دیں اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

٭       آج جو ادب ہم تخلیق کر رہے ہیں ، معاشرے پر اس کے کس قسم کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ ہمارا ادب ہماری سمت کا تعین کر رہا ہے یا نہیں؟

٭٭   یقیناً کر رہا ہے۔ اعلیٰ معیار کی شاعری ہو رہی ہے۔ خوبصورت اور کامیاب افسانے لکھے جا رہے ہیں۔ ہماری تنقید اور تحقیق ابھی تخلیقی ادب کے معیار تک نہیں اٹھ سکی ورنہ جس ادب میں پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، مشفق خواجہ، رشید ملک، ڈاکٹر سلیم اختر، یوسف حسن ،عارف عبدالمتین اور مرحومین میں سے ممتاز حسین، محمد حسن عسکری، سلیم احمد ، مجنوں گورکھپوری اور اختر حسین رائے پوری کے سے نقاد اور محقق میسر ہوں یا رہے ہوں ، اس سے مایوس ہونا کفر ہے۔ اس ادب کے اثرات مثبت ہیں۔ بعض منفی تحریکیں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں مگر ان کی مثال رنگین غباروں کی سی ہوتی ہے۔ جو ایک وقفے کے بعد پھٹ کر چھیچھڑوں میں بدل جاتے ہیں اس لئے ان سے بد دل ہونے کی ضرورت نہیں۔ ادب کا مطالعہ کرنے والا طبقہ محدود ہے کیونکہ شرح تعلیم محدود ہے مگر جو لوگ آج کا ادب پڑھ رہے ہیں ، ان کے دلوں میں گداز اور ذہنوں میں وسعتیں پیدا ہو رہی ہیں اور چونکہ اس ادب کی سمت معین ہے کہ وہ زندگی کے بھرپور پن اور ہمہ جہتی آسودگی اور پاکستان کی سالمیت کی سمت نمائی کرتی ہے اس لئے ذاتی طور پر میں تو بے حد مطمئن ہوں۔

٭        اردو ادب کے عالمی ادب میں مناسب مقام حاصل نہ کر سکنے کے اسباب کیا ہیں؟ آپ نے اس سلسلے میں اپنے طور پر کیا کاوشیں کی ہیں؟

٭٭   صرف ایک وجہ سے اردو ادب ، عالمی ادب میں مناسب مقام حاصل نہیں کر سکا اور وہ وجہ یہ ہے کہ اردو ادب کو انگریزی یا دوسری عالمی زبانوں میں سنجیدگی سے منتقل ہی نہیں کیا گیا۔ اگر تراجم کے ذریعے اردو ادب کے شاہپاروں سے یورپ، امریکہ اور ایشیائی ممالک کو متعارف کرایا جائے تو وہ حیرت زدہ رہ جائیں کہ اتنا عظیم ادب ان کی نظروں سے اب تک کیوں پوشیدہ رکھا گیا۔ ذاتی طور پر میں اس سلسلے میں کیا کاوش کر سکتا ہوں ، البتہ آپ کو مطلع کر سکتا ہوں کہ میری شاعری اور افسانوں کے تراجم روسی، چینی، جاپانی، انگریزی اور جرمن زبانوں میں ہو چکے ہیں اور مراہٹی بنگلہ ، تامل، تلیگو، ہندی اور پنجابی میں یہ تراجم مستزاد ہیں۔

٭        حقیقی تخلیقی کار کے نقوش اس کے بعد کتنی مدت تک باقی رہتے ہیں؟ مثلاً ایک ناقد اور بڑے شاعر ایک محفل میں فرما رہے تھے کہ ندیم صاحب پانچ سے دس سال تک اردو ادب میں زندہ رہیں گے۔

٭٭   میں اپنے اس مہربان دوست کو اچھی طرح جانتا ہوں جنہوں نے میری موت کے پانچ سال بعد میرے شعر و ادب کو بھی مار ڈالا ہے۔ ان کی خدمت میں اپنا ایک شعر پیش کرتا ہوں۔   ؂

ایک دل میں بھی مری یاد اگر زندہ ہے

کیا ضروری ہے کہ کہ چرچا رہے گھر گھر اپنا

وہ صاحب کہتے ہیں کہ ایسا انہوں نے کبھی نہیں کہا مگر کاش وہ اس ارشاد کی تردید یا وضاحت ہی فرما دیتے۔ بہرحال اصل چیز ہے وہ لفظ وہ خیال، وہ جذبہ جو زندہ رہتا ہے اور جو ایک عام تجربے کو بھی یونیورسل بنا دیتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو غالب کو تو یار لوگوں نے اس کی زندگی ہی میں مار ڈالا تھا۔ میں اپنے بارے میں کسی خود فریبی میں مبتلا نہیں ہوں مگر اتنا ضرور عرض کروں گا کہ میں نے اعلیٰ معیاروں کا ہمیشہ احترام کیا ہے اور میں نے اب تک جو کچھ تخلیق کیا ہے ، اس سے شرمندہ نہیں ہوں ، بلکہ اس پر نازاں ہوں۔

٭       آزادی جیسی نعمت کو ہم نے چوبیس سال میں ہی ٹکڑوں کی شکل میں بکھیر دیا۔ آپ کی نظر میں اس کے اسباب کیا تھے؟

٭٭   نہایت ظاہر و باہر اسباب ہیں۔ مسلم لیگی رہنما قائد اعظم کی زندگی ہی میں اقتدار سے متعلق آپا دھاپی میں مصروف ہو گئے تھے اور بڑی بڑی زمینوں اور عمارتوں اور دیگر قیمتی املاک کی الاٹ منٹ کے لئے یوں دانت بھینچ کر متعلقہ حکام کے پیچھے پڑ گئے کہ پاکستان کے مقاصد کہیں پیچھے روندے پڑے رہ گئے اور ذاتی مفادات سکہ رائج الوقت قرار پائے۔ یہ نہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ نہایت معمولی ملازمت کرنے والے لوگ ٹیکسٹائل ملوں کے مالک بن جاتے اور نہایت معمولی کاروبار کرنے والے افراد صنعتوں پر صنعتیں قائم کرتے چلے جاتے؟ ان حالات میں پاکستان کا تحفظ کون کرتا؟ یہی مسلم لیگی تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کے مسلم لیگیوں کو رکنیت کی چٹیں دینے سے انکار کر دیا تھا اور وہیں سے عوامی مسلم لیگ نے جنم لیا تھا جو آخرکار سقوط ڈھاکہ کا سبب بنی۔ اس دردناک صورتحال کی واحد وجہ مسلم لیگی رہنماؤں کی خود غرضی عاقبت نا اندیشی اور دولت پرستی ہے اور بس۔

٭       ہمارا عمل آج کل جس قسم کا ہے اس سے ہمارے مستقبل کے خد و خال کیا ہوں گے؟

٭٭   خدا کے لئے یہ بھیانک سوال مجھ سے نہ پوچھئے کہ میں ، جو خود کو ایک ناقابل علاج رجائیت پسند کہتا رہا ہوں ، آج کل کے سیاسی حالات کے دباؤ تلے پسا جا رہا ہوں اور ایک گھنی تاریکی نے میرا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس وقت تو بس ایک ہی دعا ہے کہ اللہ تعالی اس مملکت کو قائم و دائم رکھے اگرچہ ہمارے سیاست دانوں نے اس امانت میں اندھا دھند خیانت کی ہے۔ صرف ایک مثال کافی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے سے لیڈر کے خلاف نواب زادہ نصر اللہ اور مفتی محمود اور جماعت اسلامی اور دیگر عناصر نے ’’نظام مصطفی‘‘ کے نام پر تحریک چلائی اور اس کے بدلے گیارہ برس کی آمریت خریدی ، وہ ’’نظام مصطفی‘‘ کہاں غائب ہو گیا؟ اور کیا جمہوریت اسی کا نام ہے کہ ایک بڑی جمہوریت پسند لیڈر کی وزارت عظمیٰ سے چھٹکارا پانے کے لئے عوام الناس کو سستی جذباتیت کا نشانہ بنایا جائے اور ملک کے مستقبل کا بیڑا غرق کر دیا جائے۔

                                                                        (اگست ۱۹۹۳)

 

ڈاکٹر شان الحق حقی

(۱۵ ستمبر ۱۹۱۷)

٭       آپ اردو ادب کا پہلا انعام حاصل کرنے والے شخص ہیں وہ آپ کو کب کہاں اور کس کی جانب سے ملا؟

٭٭   گلزار جاوید صاحب سب سے پہلے تو آپ کی نوازش کا شکریہ اور اپنی کوتاہی کی معذرت کہ ایک عرصے تک آپ کی فرمائش پر چپ سادھے رہا۔ مگر آپ اپنی دھن کے پکے نکلے۔ ویسے میں آپ کو رسالوں میں بھی کم ہی نظر آیا ہوں گا۔ مشاعروں میں شاذ و نادر۔ آپ کے اپنے شہر اور دوسرے شہروں لاہور وغیرہ میں کتنے ہی مشاعرے ہوئے ہوں گے جن میں نہ مجھے کسی نے یاد کیا نہ خود مجھ میں شرکت کا ولولہ پیدا ہوا۔ پھر بھی سچ یہ ہے کہ قدر دانی مجھے بہت نصیب رہی۔ جیسی کہ آپ کی طرف سے ہو رہی ہے۔ میرا پہلا مجموعہ ’’تار پیراہن‘‘ ۱۹۵۸ء میں چھپا تو مجلس ترقی ادب مغربی پاکستان نے اس پر مجھے ۵۰۰ روپے کے انعام سے نوازا تھا۔ اس وقت مجلس کے روح رواں امتیاز علی تاج تھے اور صدر جسٹس ایس اے رحمن، اس کتاب پر اتنے اچھے تبصرے ہوئے اور اتنے مضامین نکلے کہ شاید کسی بھی نئے مجموعے پر نہیں لکھے گئے ہوں گے۔ چنانچہ انجمن ترقی اردو ہند کے پرچے ’’ہماری زبان‘‘ کو جو ان دنوں علی گڑھ سے نکلتا تھا، اس پر ایک اداریہ لکھنا پڑا کہ آج کل جسے دیکھو حقی صاحب کی تعریف و توصیف میں لگا ہوا ہے۔ فلاں نے لکھا، فلاں نے لکھا، فلاں نے لکھا …… اور ڈاکٹر سید عبداللہ نے بھی ادب لطیف کے سات صفحے کالے کر دیئے۔ حالانکہ وہ تو لکھنے کی پیاس بہت بجھا چکے ہیں۔ جناب مدیر کو ڈر تھا کہ اس طرح شاعر کا دماغ خراب ہو جائے گا۔ چنانچہ مجھے بہت محتاط ہو جانا پڑا۔ نہ چھپنے کا التزام رکھا نہ پڑھنے اور سنانے کا۔ میرا اکثر کلام پہلی بار مجموعے ہی کی صورت میں سامنے آیا۔

٭       علم و ادب سے عشق آپ کا خاندانی ورثہ ہے شعری ورثہ کس کی دین ہے؟

٭٭   معاف فرمائیں۔ میں خاندانی ورثے کا قائل نہیں ہوں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ جوہر قابل اکثر غیر معروف گوشوں سے ابھرتا ہے۔ بلکہ شہر سے زیادہ دیہات سے جیسا کہ عرض کیا تھا             ؂

وجدانِ سخن کیا ہے ، اک رنگ کی پچکاری

ہو اس کا تقاضا کیا، بس جس کو پیا چاہے

ویسے میرے والد بھی شاعر تھے ، ناداں دہلوی۔ ان کی شاعری کا تعارف میں نے اپنے ایک مضمون میں کرایا ہے جو میرے مجموعہ مضامین ’’نکتہ راز‘‘ میں شامل ہے۔

دشمن دانا ہی پایا چرخ کو ، نادانؔ بھی

یوں جو پُر حسرت گیا ناداں نہ تھا دانا ہی تھا

یہ انہی کا شعر ہے۔ انہوں نے دیوان حافظ کا منظوم ترجمہ بھی کیا تھا جو ۱۹۳۹ء میں حیدر آباد دکن سے شائع ہوا تھا اور اس صدی کے شروع میں تحریک تعلیم نسواں کے سلسلے میں بڑی دلچسپ اور پر اثر نظمیں لکھی تھیں۔ یہاں تک کہ عورتوں کو بغاوت پر اکسایا تھا۔ گاندھی جی کے ستیا گرہ سے بہت پہلے ۱۹۰۶ء میں ’’مقاطعہ جوعی‘‘ کی تلقین کی تھی۔ (یہ بھوک ہڑتال کا مترادف تھا جو اردو اخبارات نے اختیار کیا تھا)

خود بھی دو شوہروں سے دلواؤ

اور نہ دیں وہ تو کھانا مت کھاؤ

کہو چندہ اگر نہیں دیتے

مہر واجب ہے تم وہی لاؤ

طبقہ نسواں کی دردمندی میں ان کی بہت سی اور بعض بڑی خوبصورت نظمیں ہیں۔ جیسے کہ ’’جوگن‘‘ جو ایک طویل الیگری ہے۔ خلاصہ مضمون یہ کہ                     ؂

جس دیس میں یہ دن بھرتی ہے اس دیس کا راجہ کانا ہے

یعنی مسلم سماج کی ایک آنکھ روشن ایک کانی ہے۔ مراد یہ کہ اکثر خاندانوں میں مرد پڑھے لکھے عورتیں ناخواندہ ہیں۔ ’’جوگن‘‘ گویا وہ تحریک ہے جو اس کے علاج کے لئے چلی ہے۔

جب نو من کاجل پالے گا تب کانی آنکھ اُجالے گا

تو بوجھ کے مورکھ کیا لے گا یہ جوگن کا افسانہ ہے

یہ ان کی نوجوانی کا کلام ہے۔ یہ نظمیں ۱۹۰۴ء سے ۱۹۱۰ء کے درمیان شیخ عبداللہ مرحوم ، بانی گرلز کالج علی گڑھ کے رسالے ’’خاتون‘‘ میں چھپتی رہی تھیں۔ میرے دادا بھی شعر کہتے تھے۔

دنیا کی حسرتیں ترے گوشے میں آ گئیں

اللہ رے وسعتیں تری اے تنگنائے دل

یہ ان کا شعر ہے۔ خان بہادر مولوی انوار الحق حسرتی تخلص کرتے تھے۔

٭       آپ کی غزل نہایت منفرد اسلوب اور شستہ پیرائے کی آئینہ دار ہے۔ یہ خاص وصف کس کی عطا ہے؟

٭٭   میرا خیال ہے کہ شاعری خواہ کسی فرد واحد پر نازل یا اس کی ذات سے منسوب ہو، دراصل پورے معاشرے کی تخلیق ہوتی ہے۔ ذہن سب کچھ اپنے ماحول سے حاصل کرتا ہے۔ ماحول میں سب کچھ آ جاتا ہے۔ ہر طرح کے سابقے ، صحبتیں ، مشاہدہ اور مطالعہ بھی۔ اسلوب شخصیت کا پرتو ہوتا ہے اور شخصیت ماحول سے بنتی ہے انفرادیت کو جس کا آپ نے نام لیا اور لوگوں نے بھی محسوس کیا ہے۔ خود میں نے کسی خاص اسلوب کو اپنانے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ ہر طرح کی شاعری سے لطف لیتا رہا ہوں۔ تمام ادب ایک رنگ کا ایک سطح پر پیدا نہیں ہوتا۔ اس میں مذاق کی رنگا رنگی کے ساتھ ساتھ مدارج کا بھی فرق ہوتا ہے۔ میں ہر طرح کے ادب کا دلدادہ رہا ہوں جس میں کمال یا ندرت یا دلچسپی کا کوئی بھی پہلو موجود ہو۔ میں نے اپنے ایک مقالے میں گھاس پھوس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ’’اردو شاعری میں خس و خاشاک کا مقام‘‘ خلاصہ یہ کہ ایسی شاعری بھی لغوی اور عمرانی دلچسپی کے بڑے پہلو رکھتی ہے ، خواہ اس کا فکری پایہ بلند نہ ہو۔

٭       آپ کی تعلیم و تربیت دلی میں ہوئی جہاں غزل کے مقابلے نظم کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جبکہ آپ کے ہاں اعلیٰ پائے کی تخلیقی نظمیں بھی با آواز بلند اپنا آپ منوا رہی ہیں۔ اسے آپ کس کی عطا کہیں گے؟

٭٭   روایتاً اسے مبدء فیاض کی عطا کہا جاتا ہے۔ میں تو دلی ّ میں کم دلّی سے دور زیادہ رہا ہوں۔ میں نے پرائمری کی تعلیم گوڑ گاؤں میں پائی جو اس وقت ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ پھر مڈل تک پشاور کے اسلامیہ ہائی سکول میں پڑھا۔ میں نے وہاں بھی اپنے شفیق استادوں سے بہت کچھ حاصل کیا۔ مکتبی علم کی شدبد سے زیادہ وہ باتیں جو خصائل کردار کی ذیل میں آتی ہیں۔ پھر علی گڑھ، حیدر آباد دکن، شملہ، کلکتہ کئی جگہ سے تعلق رہا۔ خود کراچی میں پورا برصغیر کھنچ کے آ گیا ہے۔

            یہ درست ہے کہ دلّی میں داغ کے رنگ کی شاعری مقبول تھی۔ لیکن جدید ادب کے بانی اور نام لیوا بھی وہیں سے اٹھے۔ غالب، حالی، سرسید، آزاد ، نذیر احمد، عظمت اللہ خاں ، میر ناصر علی، حسن نظامی، فرحت اللہ بیگ اور اس دور میں اختر انصاری عالی اور اس خاکسار کے ہاتھوں بھی نئے شعری تجربات ظہور میں آئے۔ مگر میں خود کو یا ان حضرات کو دلّی والا نہیں کہتا۔ بلکہ ایک وسیع ترلسانی و ادبی معاشرے کے اراکین میں شمار کرتا ہوں جو شہری حدود سے متجاوز تھا۔ شہری نسبت پر زور ایک خاص تاریخی دور کی یاد گار ہے جبکہ دلّی کے دربار کی بساط الٹ جانے کے بعد ، لکھنؤ والوں میں ایک طرح کا احساس تفاخر پیدا ہو گیا تھا۔ اب یہ شہری نسبتیں قصہ پارینہ ہو گئیں۔

٭       آپ نے بڑی بھرپور زندگی گزاری ہے جبکہ ہمارے خیال میں آپ ایک تنہا آدمی ہیں یہی تنہائی آپ کو اپنے اور دوسروں کے غم کا احساس دلاتی رہتی ہے؟

٭٭   یہ کہئے کہ تنہا ہوتا جا رہا ہوں۔ جوں جوں عمر بڑھ رہی ہے ، تنہائی کا احساس اور گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ میرے بچپن سے لے کر بڑی عمر تک کے اکثر ساتھی جن سے دل ملتا تھا رخصت ہو چکے۔

سدھارے عالم بالا کو کتنے آشناء حقّی

نہ جانے پاک ہوں کب تک یہ ہم جو رہ گئے خاکی

میں معتدل مزاج کا آدمی ہوں۔ مجلس آرائیاں بھی کی ہیں اور تنہائی سے بھی نہیں گھبرایا۔جاڑوں میں شملہ کے پہاڑ پر تنہا رہا ہوں۔ بوریت بے کاری سے پیدا ہوتی ہے۔ کچھ کرنے کو ہو تو دل لگا رہتا ہے تو میں ہمیشہ مصروف ہی رہا ہوں۔ کام سیدھا اس کے پاس پہنچتا ہے جس کے بارے میں بھروسا ہو کہ کر دے گا۔ تنہائی پر لندن کا زمانۂ قیام کا ایک شعر سن لیجئے۔                        ؂

اب عالم غربت میں یاد آیا کہ کہتے تھے

خالی کوئی دم بیٹھیں تنہا کوئی دم گزرے

اور روانگی سے پہلے مطلع یہ ہوا تھا ؂

اے پائے جنوں لے چل اب صبر سے ہم گزرے

کچھ جان پہ بن جائے کچھ دل پہ ستم گزرے

٭       مشاعروں سے آپ کی غیر حاضری کے اسباب کیا ہیں؟

٭٭   میں اپنے لڑکپن خصوصاً علی گڑھ کے زمانہ طالب علمی میں لحن سے شعر پڑھتا تھا۔ مجاز ، جان نثار اختر ، علی سردار جعفری ، جذبی میرے معاصرین تھے۔ جماعت میں ایک ایک دو دو سال سینئر۔ پھر میں نے عہد کر لیا کہ مشاعروں میں شرکت نہیں کروں گا           ؂

’’تکلف بر طرف تھا ایک انداز جنوں وہ بھی‘‘

بات یہ ہے کہ ان دنوں مائیکروفون تو ہوتے نہیں تھے۔ بڑے بڑے مجمع میں اپنی آواز خود ہی دور تک پہنچانی ہوتی تھی۔ میں نے ایک مشاعرے میں غزل پڑھی جس کی ردیف تھی ’’کو‘‘ ؂

دیکھا تھا اک نظر ہی تری جلوہ گاہ کو

اب بجلیوں میں ڈھونڈ رہا ہوں نگاہ کو

طرحی غزل تھی۔ دور بیٹھے ہوئے سامعین تک شعر تو پہنچتا نہیں تھا۔ صرف ردیف ’’کو‘‘ پہنچتی تھی۔ انہوں نے خود بھی پکارنا شروع کر دیا تھا۔ یہ بات ہنسی میں ٹل جاتی، رفت گزشت ہو جاتی، میں اس پر خواہ مخواہ قسم کھا بیٹھا کہ کون مشاعروں میں جا جا کر گا گا کر داد کی بھیک مانگا کرے۔ شہر بشہر مشاعرے ہوتے۔ میرے ساتھی رفیق ہم صحبت مشاعروں میں جاتے۔ یہ ۱۹۴۰ء سے پہلے کا قصہ ہے۔ انہی دنوں میں ریڈیو پر مشاعرے شروع ہوئے۔ میں کہیں نہیں گیا۔ کوئی بارہ برس بعد پاکستان آ کر یہ قسم توڑی۔ پھر بھی عہد شکنی کی ندامت اور مشاعروں کی طرف سے ایک طرح کی بے دلی قائم رہی۔ خصوصاً ترقی اردو بورڈ کی معتمدی کے زمانے میں تو میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا تھا کہ رات رات بھر مشاعروں میں بیٹھ سکوں۔ یہ ایک اعزازی خدمت تھی جو ۱۷ برس میرے سپرد رہی۔وہ الگ ایک لمبا قصہ ہے۔ میں نے ۱۷ برس کسی اتوار یا جمعہ کی بھی چھٹی نہیں منائی۔ اپنی رخصت مکسوبہ بھی بورڈ میں صرف کرتا تھا کہ پورے وقت وہاں بیٹھ سکوں۔ خود شاعری بھی پس پشت رہی۔ پہلا مجموعہ ۱۹۵۸ء میں چھپا تھا۔ ۲۱ برس بعد دوسرا ۱۹۷۹ء سے پہلے نہ آ سکا۔ جبکہ بورڈ سے دست بردار ہوئے تین سال ہو چکے تھے۔ اس کے بعد میں نے اپنے بعض شاعر دوستوں سے کہا بھی ، جو اکثر مشاعروں میں جاتے ، یا مشاعرہ کرانے والوں کے صلاح کار ہوتے تھے کہ میں اب مشاعروں میں جا سکتا ہوں۔ مگر اس کا کوئی نتیجہ ظاہر نہیں ہوا۔ نہ میں نے یاد دلایا۔ جبکہ میں نے سنا کہ بعض فہرستوں سے میرا نام انہی نے کٹوایا کہ وہ تو مشاعروں کے شاعر ہی نہیں ہیں۔ بات غلط نہیں تھی۔ میں نے شاعری کو کیریر نہیں بنایا تھا۔ کوئی تخلص تک اختیار نہیں کیا تھا۔ مجاز نے کئی بار کہا کہ اچھا سا تخلص رکھو، ایک آدھ خود بھی تجویز کیا، مگر میں نے تو شاعری کے دفتر سے نام ہی کٹوا لیا تھا۔اکثر آمد جو کبھی کبھی ہوتی تھی وہ ہوتی رہی۔

٭       ہر شخص بنیادی یا پیدائشی طور پر کسی خاص وصف کا حامل ہوا کرتا ہے آپ کے ہاں تخلیق ، تحقیق ، تنقید، تراجم، تاریخ ، مزاح، نشر و اشاعت اور ادارت پر بہت ہی ٹھوس جدوجہد نظر آتی ہے۔ اس وقت ہمارے ذہن میں وہ قول گونج رہا ہے کہ ایک سے زائد شعبوں میں مصروف کار لوگ اپنے کام سے انصاف نہیں کر پاتے؟

٭٭   اس بات میں کچھ صداقت ضرور ہو گی۔ آپ نے ٹھیک کہا کہ میں نے بہت سے میدانوں میں سرگردانی کی ہے۔ اب یہ تو آپ ہی لوگ بتا سکتے ہیں کہ کہاں کس حد تک سرخرو ہو سکا۔ میرے قدر دان اس بارے میں مختلف طرح کا اظہار خیال کرتے رہے ہیں۔ ایک زمانے میں مزاحیہ مضامین کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ کچھ ریڈیو پر نشر ہوئے کچھ اخبارات میں چھپے ، کچھ میرے اپنے کچھ فرضی نام سے۔ اس پر بعض اصحاب نے کہا تمہارا اصل رجحان مزاح کی طرف ہے۔ یہ خاصی پرانی ۴۹، ۵۰ کے لگ بھگ کی بات ہے۔ میرے مزاحیہ مضامین کا ایک کتابت شدہ مجموعہ ضائع ہو گیا۔ افسانوں کا مجموعہ ’’شاخسانے ‘‘ چھپا تو بعض ناقدوں اور خود بڑے افسانہ نگاروں نے کہا کہ تمہارا اصل میدان یہ تھا۔ میں نے اردو کے پہلے غنائیے لکھے۔ادلتی بدلتی بحروں میں ، بیانیہ اشعار کے ساتھ غزل، گیت وغیرہ پر مشتمل طویل منظومات۔ یہ ریڈیو سے بار بار نشر ہوئے۔ یہ بھی ۵۰ء کے لگ بھگ کی بات ہے۔ ذوالفقار علی بخاری صاحب نے اپنی آواز شامل کر کے خود پیش کئے۔ غزل کو تو بہت سے اصحاب نے سراہا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ صاحب نے لکھا کہ ’’یہ اردو غزل میں ایک نیا ذائقہ ہے ، بالکل نیا ذائقہ‘‘ نیاز فتحپوری صاحب اپنے عہد کے بہت سے شاعروں کی خبر لے چکے تھے مگر میرے بارے میں لکھا کہ اس میں شک نہیں کہ ’’اس عہد کے خوش فکر و خوش گو شاعروں میں حقی سب سے زیادہ صحیح اور بے عیب شعر کہنے والے ہیں ‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ فیض صاحب نے بھی میری شاعری پر انگریزی میں ایک خاصا طویل مضمون لکھا تھا، بالکل بلا فرمائش ، جو لاہور کے ہفتہ وار انگریزی اخبار میں چھپا تھا اور اس میں غزل ہی کو زیادہ سراہا گیا تھا۔ بعض لوگ منظوم تراجم کو اردو کے بہترین تراجم قرار دیتے ہیں۔ یہ سب آپ لوگوں کا حسن نظر ہے۔ مجھ سے پوچھئے تو میرے بہت سے کام کا سہرا دراصل اردو زبان کے سر ہے۔ نہ اس زبان میں اتنی صلاحیتیں ہوتیں نہ میں اپنی شاعری میں ان سے کام لے سکتا تھا۔ خصوصاً منظوم تراجم کی بابت کہہ سکتا ہوں اور آپ بھی مقابلہ کر کے دیکھ سکتے ہیں کہ وہی چیز اردو میں ڈھلتی ہے تو نکھر جاتی ہے۔ انجمن ترقی اردو نے میری خاص درخواست پر شیکسپیئر کے اینٹی اینڈ کلو پیٹرا کا منظوم ترجمہ ’’قہر عشق‘‘ صفحہ بہ صفحہ انگریزی متن کے ساتھ چھاپا ہے۔

            نثری مضامین کے دو مجموعے ’’نکتہ راز‘‘ اور ’’نقد و نگارش‘‘ پہلے شائع ہوئے تھے ، ایک اب مقتدرہ کی طرف سے چھپ رہا ہے ’’لسانی مسائل اور لطائف‘‘ کئی اور مجموعے بھی تیار ہیں۔ معاصر ادبی شخصیات پر بھی دو درجن مضامین ہیں۔ مقتدرہ نے حال ہی میں ’’فرہنگ تلفظ‘‘ بھی شائع کی ہے جو میں نے ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کی فرمائش پر مرتب کی تھی جب وہ مقتدرہ کے صدر نشین تھے۔ اردو لغت بورڈ کی کلاں لغت کی ترتیب و تنظیم کار، بنیادی مسائل اور فراہمی اسناد کے سلسلے میں بھی میں نے بہت سر کھپایا تھا۔ بچوں کے لئے بہت سی نظم و نثر لکھیں۔ اردو میں شعر گوئی کی روایت حضرت امیر خسرو کی پہیلیوں مکرینوں وغیرہ سے چلی تھی۔ میں نے اسے ۲۰ ویں صدی میں نیا کیا۔ ’’نذر خسرو‘‘ کی خوب خوب پذیرائی ہوئی۔ خود نوشت یادداشتیں رسالۂ افکار کراچی میں قسط وار چھپتی رہی ہیں۔ کوئی اکتالیس قسطیں نکلیں اور ابھی بہت کچھ لکھنے کو باقی ہے۔ میں نے اپنے بہت سے اشعار اور نظموں کا انگریزی نظم میں ترجمہ بھی کیا ہے۔

٭        اب ذکر آتا ہے آپ کی ہفت زبانی کا اردو، ہندی، انگریزی، عربی، فارسی ، پنجابی، سندھی ، بلوچی، پشتو ، بنگالی ، روسی ، چینی ، افریقی اور جاپانی زبانوں میں آپ کی دلچسپی کے اسباب کیا ہیں؟

٭٭   حاشا اتنی زبانوں پر عبور مجھے نہیں۔ بعض کی صرف شد بد رکھتا ہوں۔ ادبی کام زیادہ تر وجدان کی کرشمہ کاری پر مبنی ہوتے ہیں۔ ’’از دل خیز دو بر دل ریزد‘‘ برناڈ شاہ نے کم از کم تین سو سال کی عمر ضروری قرار دی تھی۔ دراصل اس سے بھی کام نہیں چل سکتا۔ دنیا سے آخر کار جہل ہی کا داغ لے کر جانا پڑتا ہے۔ ایک زبان سیکھنے سے علم کا ایک نیا در آپ پر کھل جاتا ہے۔ آج کل یورپ میں بچے عام طور پر کئی کئی زبانیں سیکھ رہے ہیں۔ میرے بڑے بھائی کی نواسی نے جو فن لینڈ میں سکول کی طالبہ ہے مجھے بتایا کہ وہ فیشن کے علاوہ ایک ساتھ ۵ زبانیں اور سیکھ رہی ہے۔ جرمن، فرانسیسی ، روسی، انگریزی اور سویڈش۔ ہماری پاکستانی زبانیں تو آپس میں ہمرشتہ ہیں اور ان میں بہت بڑا لغوی و قواعدی اشتراک موجود ہے۔ ترکیب نحوی ایک ہے۔ جملہ آسانی سے ایک زبان سے دوسری زبان میں ڈھل جاتا ہے۔ ہم آسانی سے انہیں سیکھ سکتے ہیں اور اپنی سب زبانوں کو ترقی کے اعلیٰ درجے پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

٭       اتنی ڈھیر ساری ملکی و غیر ملکی زبانوں کی خدمت کے باوجود ایک رائے یہ ہے کہ آپ اپنی علاقائی زبانوں سے وہ انصاف نہ کر پائے جس کی وہ حقدار تھیں؟

٭٭   دراصل انصاف تو کسی زبان کے ساتھ بھی نہیں ہو سکا۔ نہ ہو سکتا تھا۔ عربی، فارسی، انگریزی سے بھی چند ہی نظمیں لی گئی ہیں۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ اردو میں علاقائی شاعری کے منظوم تراجم کا پہلا مجموعہ ’’خیابان پاک‘‘کے نام سے میں نے ہی مرتب کیا تھا جو ۱۹۵۶ء میں میرے اور الطاف گوہر صاحب کے مشترک مقدمے کے ساتھ چھپا تھا۔ اس میں چالیس شاعروں کے کئے ہوئے ترجمے شامل تھے۔ کچھ میرے اپنے تھے۔ جیسا کہ عرض کیا اپنی علاقائی زبانوں کی شاعری تک تو ہمیں براہِ راست رسائی حاصل ہونی چاہئے۔

٭       فارسی زبان بقول آپ کے اردو سے بے حد قریب اور سب سے زیادہ دقت فارسی کو اردو میں منتقل کرتے ہوئے پیش آتی ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں نیز کس زبان کو اردو میں منتقل کرنا آسان ہے اور کس زبان کا ترجمہ کرتے ہوئے آپ کو لطف آتا ہے؟

٭٭   فارسی میں جو اختصارات برتے جاتے ہیں ان کی بنا پر بعض اوقات ایک لفظ ایک جملے کا فائدہ رکھتا ہے۔ ’’گفتمش‘‘ ایک لفظ ہے اس کا اردو ترجمہ ہو گا ’’میں نے اس سے کہا‘‘ یعنی ایک کی جگہ پانچ لفظ۔ میری مراد یہی تھی کہ وہ بات جو فارسی میں اختصار سے ادا ہو جاتی ہے اردو میں پھیلا کر کہنی پڑتی ہے۔ اسی مضمون کو ایک ہی بحر میں ادا کرنا محال ہو جاتا ہے اور بحریں مشترک ہیں۔ ترجمے کا لطف زبان پر موقو ف نہیں۔ ادب پارے پر موقوف ہے۔ بعض ترجمے بڑے برجستہ ہوتے ہیں اور پرُلطف معلوم ہوتے ہیں۔ مجھے اپنے انگریزی اور بنگالی سے کئے ہوئے ترجمے زیادہ کامیاب معلوم ہوئے۔

٭       کسی صاحب علم نے آپ کو اسلامی معاشرے کی آواز سے موسوم کیا حالانکہ آپ کی کاوشیں برصغیر کے علاوہ دور دور تک محسوس کی جا سکتی ہیں کیا آپ کو اپنے لئے یہ حصار بندی پسند ہے؟

٭٭   معلوم نہیں ان صاحب کی اسلامی معاشرے سے کیا مراد ہو گی۔ اب تو ثابت ہو گیا کہ ہندی مسلم معاشرہ بھی ایک معاشرہ نہیں تھا۔ تقسیم سے پہلے کئے جانے والے اہل سیاست کے اکثر دعوے باطل ہو چکے ہیں۔ میں ہر طرح کی عصبیت سے پناہ مانگتا ہوں اور حقائق سے اغماض برتنے کا قائل نہیں۔ ہم اپنے نفس کو دھوکا دے کر فلاح کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ خلوص فکر اور خلوص جذبات کے بغیر بات نہیں بنتی۔ عصبیت سے یکسر چھٹکارا پانا بڑا مشکل ہے ، لیکن اہل علم اور اہل ادب کو عصبیت سے بیعت کر لینا زیب نہیں دیتا۔ وہ کیا کہا تھا غالب نے : ’’شیعی کیونکر ہو ماوراء النہری‘‘ تو بھائی میں نے تو پاکستان کے اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے ’’بھگوت گیتا‘‘ اور ضخیم ’’ارتھ شاستر‘‘ کا بھی ترجمہ کیا ہے۔ اور ’’بندے ماترم‘‘ کا بھی جس سے مسلمانوں کو چڑ رہی تھی۔ مجھے تو وہ نظم بے ضرر سی معلوم ہوئی :

ستھرا جل اور میٹھے پھل اور پرُوا نرم خرام

کھیت ترے ہریالے اے ماں ، اے ماں ، تجھے سلام ! الخ

ہندوؤں نے بہت نعتیں لکھی ہیں مرثیے اور سلام بھی۔ مسلمانوں میں نظیر کے علاوہ شاید کسی نے کرشن پر کچھ نہیں لکھا۔ خاکسار نے حمد و نعت سلام کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ :                   ؂

بجتی ہے کرشن کی مرلی اب بھی

بلکہ گیتا میں ہے لحن اب بھی

روپ رادھا کا دکھاتا ہے قمر

غمزے ہیں گوپیوں کے کوکب بھی

وغیرہ اس غزل کا ایک شعر یہ بھی ہے           ؂

ہو گی حوروں کی بھی ہاں کوکھ ہری

سلسلہ میرا چلے گا تب بھی

فارسی ، اردو شاعری کی ایک پختہ روایت وسیع المشربی اور فکری روا داری ہے۔ بلکہ شاعروں نے دھڑلے سے کفر کے دعوے بھی کئے ہیں۔

خلق می گوید کہ خسرو بُت پرستی می کند

آرے آرے می کنم با خلق عالم کار نیست

میر کا قول یاد کیجئے کس وضاحت سے کہتے ہیں

؂ ’’قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا‘‘

کوئی اس کا بیڑا اٹھائے تو اردو شاعری میں Profanityریسرچ کے لئے اچھا موضوع ہے۔ کپتان ہبندرے آزاد فرنگی زاد عیسائی تھے مگر وہ بھی روایت کی پیروی میں لکھ گئے   ؂

ہم وہ آزاد زمانہ ہیں کہ اکثر اوقات

ذکر بت کرتے ہیں مسجد میں بھی ہاں اے واعظ

ایک شعر اپنا اور سنا کر اس بات کو ختم کرتا ہوں۔ غزل تھی                    ؂

کل کے ڈر سے آج یہ دنیا کرتی ہے انیائے

کل تو اچھی ہو گی بِدھنا کل جلدی سے آئے

بدھنا یعنی خدا، کرتار ، منتظم کائنات۔ اس میں تھا         ؂

من میرا چکرائے حقّی ان دونوں کا بیچ

جیھ کا نعرہ جے بھگوان اور جیو کا نعرہ ہائے

خدا بھی قرآن یا عربی کا لفظ نہیں۔ اسی طرح میرا خیال ہے کہ بھگوان یا بدھاتا کو یاد کرنے سے بھی ایمان زائل نہیں ہو سکتا۔ ہماری اور بھی دینی اصطلاحیں عجمی ہیں۔ نماز، روزہ ، درود پیغمبر ، فرشتہ ، وغیرہ……

            آپ مجھے بالکل ہی وہ نہ سمجھ لیں اس لئے جتا دوں کہ میں نے نعتیں بھی لکھی ہیں۔ مگر ایک بار نعت کے ساتھ یہ قطعہ بھی موزوں ہو گیا تھا ؂

منہ کہاں اپنا کہ لکھئے نعتِ اوصاف رسولؐ

پوچھ مت ہمدم کہ کن احوال میں لکھی گئی

ایک جرأت یہ بھی میرے نطق سے سرزد ہوئی

اک خطا یہ بھی مرے اعمال میں لکھی گئی

٭       آپ کے کام کو اعلیٰ پیمانے پر سند پذیرائی ملی، تنقید کا سامنابھی یقیناً رہا ہو گا۔ ’’بھگوت گیتا‘‘ کے منظوم ترجمے پر ملکی اور غیر ملکی جرائد میں خاصی تنقید ہوئی ہے؟

٭٭   مجھے اپنے سبھی کاموں پر بھرپور داد ملی ہے۔ اس طرف سے دل سیر ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ سچے دل اور کھری لیاقت کے لوگ داد دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ کچھ دوسرے لوگوں کو اپنی لیاقت جتانے کے لئے نقائص کی ٹوہ رہتی ہے۔ خوردہ گیری سے نہیں چوکتے۔ میرے منظوم تراجم کو خاص طور پر سبھی نے دل کھول کر سراہا ہے۔ بھگوت گیتا پر ایک ہی جلا کٹا تبصرہ میری نظر سے گزرا ہے جو تاراچرن رستوگی صاحب نے طلوع افکار میں کیا۔ لطف کی بات یہ کہ انہوں نے ترجمے کے عیب تو بتائے نہیں کہ کہاں کیا غلطی ہوئی، میری اردو دانی پر طعنہ زنی کی ہے کہ مجھے اردو لکھنی نہیں آتی۔ میں نے محاورے کی ہزاروں غلطیاں کی ہیں۔ لطف یہ کہ مثال ایک بھی نہیں ! ترجمے کی بابت انہوں نے لکھ دیا کہ پڑھا ہی نہیں۔ چلئے چھٹی ہوئی۔ پھر تبصرہ کیسا؟ وہ بے چارے اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ میری غزل کی بابت بھی ان کی یہی رائے تھی کہ مجھے غزل کہنی نہیں آتی۔ میری عادت نہیں کہ کسی کی زبان پکڑوں لیکن جو اعتراض انہوں نے میری زبان پر فرمایا ان ہی پر لوٹ کر آتا ہے۔ ان کے ہاں تو املا تک غلط ہو جاتا ہے۔ اسی تبصرے میں مصور کو مصوطہ لکھتے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ اس کا مادہ ’’صوت‘‘ ہے۔ ص و ط عربی کا کوئی مادہ نہیں۔ وہ غلطیاں کیا نکالتے انہیں خود ہی سنسکرت نہیں آتی۔ میں نے تو اصل متن کا ایک ایک لفظ سامنے رکھا اور پانچ انگریزی ترجموں اور مترجموں کی مدد سے اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ جب کوئی نکتہ اعتراض نہ ملا تو ادھر ادھر کی باتیں لے بیٹھے۔ فصاحت اور صحت زبان کا قصہ جس سے گمان یہ پیدا ہو کہ جیسے میرے کلام میں یہ سارے عیب ہوں گے۔ ان کے تبصرے سے میں کچھ نہ سیکھ سکا۔ نہ میرا کچھ بنا نہ میرا کچھ بگڑا۔ وہ بے چارے قابل رحم ہیں۔

٭       ڈاکٹر صاحب آزاد اور نثری شاعری کے بارے میں آپ کی بے لاگ رائے جاننا چاہتا ہوں؟

٭٭   کسی نئے تجربے کی خواہ مخواہ مخالفت نہیں ہونی چاہئے۔ ہاں نتائج پر حکم لگایا جا سکتا ہے اور انہی سے اس کا جواز ثابت ہو گا۔ آزاد شاعری میں نے بھی کی ہے ، نثری نظم کو نہیں آزمایا۔ ایک نثری نظم فیض صاحب نے بھی لکھی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ تو بڑی آسانی سے موزوں ہو سکتی ہے۔ وزن کی تاثیر مسلم ہے اور ہمارے ہاں اوزان اتنے وافر ہیں کہ نثری نظم ایک تکلف بے جا معلوم ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ جان جان کر وزن سے گریز کر رہے ہیں۔ فیض صاحب بحث نہیں کرتے تھے۔ لیکن انہوں نے بظاہر اس بات سے اتفاق کیا تھا۔

٭       پاکستان اور پاکستان سے باہر اردو ادب پر لکھی جانے والی تنقید کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟

٭٭   اردو درس و تدریس سے تعلق رکھنے والے چند افرادکو چھوڑ کر ، باہر کے ادبی حلقوں میں اردو ادب یا شاعری کے بارے میں بظاہر کوئی بھی رائے نہیں۔ دراصل تراجم جو وہاں پہنچے مختصر بھی تھے اور لفظی یا درسی نوعیت کے نہ کہ تخلیقی۔ اردو شاعری کو بھرپور طریقے سے تخلیقی تراجم کے ذریعے باہر کی دنیا سے متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ اس زبان کی صلاحیتیں بے پناہ ہیں اور اس کے دامن میں ایسا سرمایہ بھی ہے جو دنیا کی دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے لیکن جس طرح ہم ان کے ادب سے انہی کی زبان میں ان کی ادبی روایت میں ڈوب کر لطف اندوز ہوتے اور استفادہ کرتے ہیں وہ بھی جب تک براہِ راست اس تک رسائی حاصل نہ کریں گے اس سے خاطر خواہ واقف نہ ہو سکیں گے۔ تخلیقی ترجمہ ہنسی کھیل نہیں۔ یہ حسنِ اتفاق اور تائید دہی ہی سے اصل کی ترجمانی کا حق ادا کر سکتا ہے۔

٭       شاہد احمد دہلوی اور جوش ملیح آبادی کے درمیان چپقلش میں آپ پر جانبداری کا الزام کس حد تک جائز ہے؟

٭٭   یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ مجھ پر اس سلسلے میں جانبداری کا الزام آئے۔ جانبداری اگر تھی تو جوش صاحب کے حق میں تھی۔ میں نے اس بارے میں جوش صاحب پر اپنے مضمون میں اور پھر اپنی خود نوشت میں بھی وضاحت سے لکھا ہے۔ جوش صاحب نے میرے بارے میں جو کچھ لکھا سو لکھا، خود میں نے ان کو جو نذرانہ عقیدت اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے میں سمجھتا ہوں ان کے حق میں کی گئی بہت سی مدح سرائی پر بھاری ہے۔ میرا وہ مضمون افکار کے ’’بیاد جوش نمبر‘‘ میں چھپا تھا، اور میری کتاب ’’نقد و نگارش‘‘ میں بھی شامل ہے اس میں ان سے میری تقریباً پچاس سال ملاقات کا تذکرہ ہے۔ جس میں سے دس سال اردو بورڈ میں ایک ساتھ گزرے۔ وہ مجھ سے خوش تھے میں ان سے خوش اور انہیں ہر طرح سے آرام پہنچانے میں کوشاں۔ میں نے ان کی خیر خواہی میں کوئی کسر نہیں کی۔

            خلاصہ یہ کہ مولوی نذیر احمد کی دو کتابیں چھپنے جا رہی تھیں ، جوش صاحب نے ان پر اول سے آخر تک اصلاح کا قلم چلا دیا۔ وہ عادت سے مجبور تھے شاہد صاحب نے اس کا برا مانا تو میں نے ان کو سمجھایا کہ یہ سب نادانی میں ہوا ہے۔ بولے وہ ایسے بھی نادان نہیں۔ خیر سمجھانے کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ جوش پر انہوں نے جو مضمون لکھا خاصا معتدل تھا۔ البتہ بعض باتیں قیام دکن کے متعلق ایسی تھیں جو جوش صاحب کے نزدیک درست نہ تھیں۔ انہوں نے اس کے جواب میں مضمون لکھا جس میں نذیر احمد کو ’’سود خور ملّا‘‘  تک لکھ گئے۔ اس پر شاہد صاحب نے جوش نمبر نکالنے کا قصد کیا جو ظاہر ہے کہ جوش صاحب کی مذمت میں ہوتا۔ میں نے ، ممتاز حسن صاحب نے اور پیر حسام الدین راشدی نے شاہد صاحب کو اس سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن دوسری طرف بعض شہ دینے والے بھی موجود تھے۔ چنانچہ ساقی کا جوش نمبر نکلا، لیکن اس میں غالباً سب مضامین جوش کی مذمت میں نہیں تھے۔ میں اس نمبر کی اشاعت پر اتنا بددل ہوا کہ سچ مچ میں نے وہ نمبر پڑھا ہی نہیں ، اور پھر کوئی لے گیا۔ تو حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے جو آپ تک پہنچی۔

٭       ’’بابائے اردو‘‘ مولوی عبدالحق کی بابت آپ کے خیالات کسی قدر گستاخانہ تصور کئے جاتے ہیں؟

٭٭   یہ ایک دوسری ستم ظریفی ہے۔ میرا کوئی قول، کوئی فعل، کوئی تحریر، کوئی فقرہ، کوئی جملہ ایسا بتائیے جس میں مولوی صاحب کے بارے میں گستاخی کا تو کیا ذکر کسی طرح کی مخالفت یا شکایت کا پہلو نکلتا ہو۔ بعض دوسرے اصحاب نے میرے والد سے اپنے ذاتی تعلق کی بنا پر لغت نگاری کے معاملے میں اپنی طرف سے کچھ لکھا تو یہ ان کا فعل تھا۔ میں نے تو اس مسئلے کو چھیڑا ہی نہیں بلکہ شاہد صاحب وغیرہ سے شکایت کی کہ آپ کو ایسا نہیں لکھنا چاہئے تھا۔ مولوی صاحب کا احترام بچپن سے اس حد تک میرے دل میں جاگزیں تھا کہ والد صاحب کی پاسداری کی بناء پر کوئی فرق اس میں نہیں آ سکتا تھا اور نہ ہی آنے پایا۔

٭       آپ زبان کو برتنے میں سلیقہ مندی کے بہت قائل ہیں اور غیر اہل زبان اردو داں طبقے کی اس سلیقہ مندی سے ہمیشہ شاکی رہے اور اس امر کو اردو کی ترقی میں رکاوٹ گردانتے رہے؟

٭٭   معاف کیجئے یہ ایک اور الزام آپ نے اپنے دل سے جوڑ دیا۔ بتائیے میں نے کب کسی کی زبان پر اعتراض کیا یا اپنے اشعار میں کسی تعلی سے کام لیا؟ میں زبان کے ساتھ لغوی اور ادبی دونوں طرح کا لگاؤ رکھتا ہوں اور لسانیات کا طالب علم ہوں۔ میرے خیالات بڑی وضاحت کے ساتھ میرے مطبوعہ مضامین میں موجود ہیں۔ اور اب جو کتاب زیر طبع ہے ’’لسانی مسائل و لطائف‘‘ اس میں بھی آپ کو مل جائیں گے۔ میرا نقطۂ نظر سائنٹفک اور حقیقت پسندانہ ہے عصبیت زدہ یا متشددانہ نہیں۔

٭       ڈاکٹر صاحب خوش امیدی اچھی چیز ہے اگر حد سے نہ بڑھ جائے۔اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں نمایاں خدمات کی حامل شخصیات کی رائے میں اردو زبان تیزی سے پھل اور پھول رہی ہے جبکہ ہماری ناچیز رائے میں اردو کا دامن تیزی سے سمٹ اور اس کا دائرہ اثر محدود ہوتا جا رہا ہے اور اب بیشتر لوگ انگریزی کے بعد مادری زبان کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ ایک ماہر جراح کی حیثیت میں قیام پاکستان، سقوط بنگال اور کراچی کی تازہ صورتحال کے پس منظر میں اردو کے مستقبل کا تعین کیجئے؟

٭٭   قدرت نے تو زبان کا مسئلہ پاکستان کے لئے آسان کر دیا تھا یعنی ہماری سہانی بولیوں کے ساتھ ساتھ ایک ایسی بنی بنائی ، چلتی چلاتی مشترک بولی بھی موجود تھی جو مقامی زبانوں کی ہمرشتہ تھی اور کسی ایک خطے یا صوبے کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ سب کے درمیان یکساں اظہار کا کام دے رہی تھی۔ یہ اسپرانٹو کی طرح علم و ادب سے عاری بھی نہ تھی۔ ہماری زبانوں کے لغات، قواعد اور محاورات میں وسیع اور واضح مماثلت موجود ہے۔ رفتہ رفتہ یہ ایک دوسرے سے اور زیادہ قریب آ جاتیں۔ باصلاحیت قومیں اپنے مشکل مسائل کو بھی حل کر لیتی ہیں ہم نے ایک سیدھے سادے مسئلے کو بھی الجھا لیا۔ اردو چند مہاجر خاندانوں کی زبان نہ تھی جنہیں اہل زبان کہا جا سکتا تھا اور وہ بھی ایک دو پشتوں میں مقامی ہو جاتے بلکہ ہو ہی گئے۔ آج مقامی لوگ مہاجرین کی اولاد سے زیادہ اچھی اردو جانتے اور بولتے ہیں۔ پورے برصغیر میں یہی صورت تھی کہ جو ادیب اردو میں داد فصاحت دیتے ، گھر میں کوئی اور زبان بولتے تھے۔

            اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ تیسری دنیا کے تمام تاریک ، جہالت زدہ علاقے ذہنی مغلوبیت اور تہذیبی زوال سے گزر رہے ہیں۔ بظاہر اس فکر مذمت سے نکلنے کے کوئی آثار نہیں۔ میں ساری عمر خوش آئند امیدیں باندھتا رہا ہوں۔ ان کا ترک کرنابڑا سوہان روح ہے مگر خود فریبی کب تک چل سکے گی۔ ہم اپنی زبانوں کا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ رہے ہیں اور انگریزی یہاں کی عام زبان کبھی نہیں بن سکے گی۔ قوم اپنی ساری لسانی میراث کو لئے تہی دامن نظر آئے گی۔

کیسی کیسی زبان کے ہوتے

ہیں ہمیں لوگ بے زباں کہتے

٭       ایک خیال یہ ہے کہ آپ کی تمام جدوجہد اور جستجو کسی خاص ہدف کی تلاش میں ہے کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟

٭٭   نہ معلوم یہ کس کا خیال ہے اور ہدف سے کیا مراد ہے۔ میری ذاتی اغراض تو بہت ہی محدود رہی ہیں۔ نہ میں نے ادب کو کبھی کیریئر بنایا اور کوئی تخلص تک اختیار نہ کیا۔ چھپنے کا التزام رکھا نہ مشاعرے پڑھے۔ ’’ستارہ امتیاز‘‘ کے دو حرف جناب شفیق الرحمن کی نوازش سے اچانک میرے نام کے ساتھ جڑ گئے۔ جس زمانے میں وہ اکادمی ادبیات کے صدر تھے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ نیت ہمیشہ سے سیر رہی ہے مگر میرے پاس کوئی اثاثہ نہیں۔ کتابوں کو اثاثہ شمار نہیں کر سکتے۔ انہیں رکھنے کے لئے جگہ چاہئے۔ سچ مچ کا بوجھ ہیں کہ اٹھایا جائے نہ رکھا جائے۔

٭       بڑے تخلیق کاروں کی ذات سے کچھ لطائف بھی منسوب ہوتے ہیں آپ کی غیر حاضر دماغی کے قصے بھی خاصے مشہور ہیں کچھ آپ بھی تو فرمائیے؟

٭٭   بعض قصے تو یونہی یاروں نے گھڑ کے میرے سر منڈھ دیئے ہیں۔ کچھ جو سچ تھے سلمیٰ نے اپنے ایک مضمون میں شامل کر دیئے تھے۔ یہ ۱۹۷۲ء میں میری کتاب ’’نکتہ ٔ راز‘‘ کی اشاعت کے موقع پر ایک سوینیئر میں چھپا تھا۔ کسی رسالے میں نہیں چھپا۔ بھول چوک تو ہوتی ہی رہتی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے مانٹریال کی ایک دوکان میں کچھ خریداری کی۔ چلتے وقت یاد آیا کہ چھتری بھی لے کر آیا تھا۔ ادھر ادھر نظر ڈالی دکھائی نہ دی۔ کاؤنٹر پر بیٹھی ہوئی لڑکی سے پوچھا۔ اس نے کہا میں نے نہیں دیکھی۔ شاید اس کی نظر ہی نہ پڑی کہ جس ہاتھ میں تھیلی تھی اسی میں چھتری بھی لٹکی ہوئی تھی۔

            میرے لڑکپن میں ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کے لطیفے بہت مشہور تھے۔ میں نے ایک لطیفہ بچوں کے لئے نظم کر دیا تھا ، سن لیجئے              ؂

کالج میں تھے اک پروفیسر

علم کا جن کے رعب تھا سب پر

بے حد لائق بے حد فاضل

علم ریاضی میں تھے کامل

لوگ سوال جو مشکل لاتے

حل کر دیتے چٹکی بجاتے

ذہن پر ان کے بوجھ بہت تھے

رہتے تھے کچھ کھوئے کھوئے

ایک دن آپ پہن کر آئے

پاؤں میں دو رنگ کے موزے

ایک تھا نیلا ایک تھا پیلا

اس پر اک استاد نے ٹوکا

حضرت یہ کیوں ، حضرت یہ کیا

اک موزہ نیلا اک پیلا

بولے آپ نے سچ فرمایا

مجھ کو بھی تھا اس پہ اچنبھا

آج ہی میں نے گھر میں دیکھی

ایسی ہی اک اور بھی جوڑی

میری ایک نظم ’’بھائی بھلکڑ‘‘ بھی ہے ، دوست کہتے ہیں یہ تم نے اپنے آپ پر لکھی ہے۔ مختصر کر کے سناتا ہوں   ؂

دوست ہیں اپنے بھائی بھلکڑ

باتیں ان کی ساری گڑبڑ

راہ چلیں تو رستہ بھولیں

بس میں جائیں تو بستہ بھولیں

باغ میں جائیں چھڑی بھول آئیں

تیرنے جائیں گھڑی بھول آئیں

سودا لیں تو دام نہ دیں گے

دام دیئے تو چیز نہ لیں گے

کوئی پکارے دام تو لاؤ

کوئی کہے بنڈل تو اٹھاؤ

پیالی میں ہے چمچا الٹا

پھیر رہے ہیں کنگھا الٹا

کام ہے ان کا سارا الٹا

اور تو اور پجامہ الٹا

وہ تو یہ کہئے کہ خدا نے

جوڑ دیئے ہیں اعضا تن سے

باندھ رکھے ہیں سب کل پرزے

ورنہ ہر روز آپ یہ سنتے

گر گئی میری داہنی چھنگلی

ڈھونڈ رہا ہوں بیچ کی انگلی

کیا کہتے اوسان ہیں غائب

کل سے دونوں کان ہیں غائب

تم نے تو نہیں دیکھی بھائی

کھونٹی پر تھی کھال ہماری

بھولے کہیں سر اور کہیں دھڑ

ہائے بچارے بھائی بھلکڑ

                                                                        (اگست ۱۹۹۶)

 

پروفیسر جگن ناتھ آزاد

(۵ دسمبر ۱۹۱۸)

٭       علم و ادب کے حوالے سے پورے برصغیر میں آپ کا بے پناہ احترام کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ، اقبال کے علاوہ ایک اور حوالہ بھی آپ کے احترام کا ہے؟ آپ پاکستان کے پہلے ترانے کے خالق ہیں۔ بھارتی شہری ہونے کے ناطے کیا آپ اس ترانے کو اب بھی ownکرتے ہیں؟ آپ کیا سمجھتے ہیں اگر آپ اپنی خواہش کے مطابق لاہور ہی میں قیام پذیر ہوتے تو کیا آپ کا لکھا ہوا ترانہ ہی ہمارا ترانہ ہوتا؟

٭٭   گلزار جاوید صاحب ! آپ کا یہ پہلا سوال دراصل دو یا تین سوالات پر مشتمل ہے لیکن ان میں سے ایک ایک کا جواب دینے سے پہلے میں تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ تمام سوالات بڑی محبت سے مرتب کئے ہیں۔ خدا آپ کو خوش رکھے !

            جہاں تک برصغیر میں علم و ادب کے حوالے سے میرے احترام کا تعلق ہے یہ آپ ایسے مخلص دوستوں کی دعا اور اللہ تعالی کا خاص کرم۔ اس سلسلے میں میں خود یہ محسوس کرتا ہوں کہ مجھ ہیچمدان کی شاعری ، نثر اور افکار کی اتنی پذیرائی کا جو برصغیر میں ہوئی ہے ، میں مستحق نہیں ہوں۔ یہ تو خداوند کریم کا خاص کرم ہے اور میں اس سلسلے میں یہ عرض کروں گا کہ یہ سورۂ رحمن والی بات ہے۔

            آپ نے پاکستان میں اقبال کے علاوہ ایک اور حوالے سے بھی میرا ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ میں نے لکھا۔ اس سلسلے میں بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بھی عرض کروں کہ میں تقسیم ہند کے وقت لاہور کو چھوڑ کے جانا نہیں چاہتا تھا ستمبر کے شروع میں بھی میرے دوستوں ہی نے مجھے دھکیلا اور جب میں آٹھ دس روز دہلی میں رہ کر دوبارہ لاہور جا پہنچا اور اکتوبر کے وسط تک وہیں رہا تو اس وقت میرے بزرگ دوستوں نازش رضوی مرحوم اور شیخ عبد الشکور مرحوم نے مجھے مجبور کر کے اور یہ کہہ کر لاہور سے روانہ کیا کہ حالات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں اور ہم آپ کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے جب مجھے ہندوستان کی طرف روانہ کیا تو میں دیکھ رہا تھا کہ یہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر مجھے لاہور سے روانہ کر رہے ہیں۔ ویسے اہل پاکستان کے ساتھ میرا ایک اور رشتہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ میرے والد محترم پاکستان کی دو نسلوں کے استاد رہے ہیں۔ عیسیٰ خیل، کلور کوٹ اور راولپنڈی میں سکول سے لے کر کالج کی سطح تک۔

            آپ نے پوچھا ہے کہ بھارتی شہری ہونے کے ناطے کیا میں اس ترانے کو اب بھی ownکرتا ہوں تو میرا جواب مثبت میں ہے۔ میں اس ترانے کا حوالہ اکثر اپنی بات چیت میں بھی دیتا ہوں اور میرے متعلق جو کتابیں شائع ہوئی ہیں ، ان میں سے بعض میں یہ ترانہ مکمل طور پر شائع بھی ہوا ہے۔ آپ شاید یہ پوچھیں کہ یہ میرے کسی مجموعہ کلام میں کیوں نہیں آیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب میں لاہور سے چلا تو بالکل خالی ہاتھ تھا۔ کوئی اپنی بیاض یا تحریر وغیرہ تو ایک طرف رہی کاغذ کا کوئی پرزہ میرے ہاتھ میں نہیں تھا اور سارا ترانہ میرے حافظے میں بھی نہیں تھا۔ جب میں دہلی میں آٹھ دس روز قیام کرنے کے بعد دوبارہ پاکستان گیا اس ارادے سے کہ میں لاہور ہی میں مستقل طور پر قیام کروں گا تو خان بہادر ملک خدابخش کی عنایت سے اپنے غیر مطبوعہ کاغذات وغیرہ سمیٹ کر لے آیا لیکن یہاں آ کر پتا چلا کہ ترانہ ان کاغذات میں نہیں ہے۔ ان کاغذات میں ’’بیکراں ‘‘ کے پہلے ایڈیشن تک کا کلام شامل تھا۔ سارا کلام نہیں چنانچہ بیکراں کا پہلا ایڈیشن صرف اسی کلام پر مشتمل ہے جو مذکورہ کاغذات میں موجود تھا۔ دوسرے ایڈیشن کے وقت تک بھی جب کہ بیکراں میں وہ سارا کلام شامل ہو گیا جو میں نے جولائی ۱۹۴۷ء تک کہا تھا ترانہ دستیاب نہ ہو سکا۔ دراصل اس ترانے کو اس مجموعہ کلام بیکراں میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بعد بیکراں کے جتنے ایڈیشن بھی چھپے سات یا آٹھ وہ انہی پلیٹوں سے چھپے جو دوسرے ایڈیشن کے لئے تیار کی گئی تھیں۔ مجھے دراصل اتنی فرصت ہی نہیں کہ بیکراں کو از سرنو ترتیب کر کے ترانہ صحیح مقام پر شامل کروں لیکن کسی نہ کسی مجموعہ کلام میں شامل ہو جائے گا۔ یہاں چار پانچ برس کی مدت میں میرے تین مجموعہ ہائے کلام شائع ہوئے اور اسی مدت میں مشاعروں میں شرکت کے لئے میں نے پاکستان کے بہت چکر لگائے تو یہ سارا ترانہ اور اس کے ساتھ اس زمانے کی غیر مطبوعہ غزلیں ، نظمیں اور اس زمانے کے رسائل میں چھپا ہوا کلام میری دسترس میں آ کیا۔ وہ سارا کلام ترانے سمیت میرے مجموعہ کلام میں ابھی تک شامل نہیں ہوا کیونکہ میں نے اپنے کلام کے مجموعے تاریخی اعتبار سے مرتب کئے ہیں۔ اب وہ کلام جو ابھی تک مجموعہ کلام میں نہیں آیا اب میں ایک مجموعہ کی صورت میں اس تمہید کے ساتھ شائع کرنا چاہتا ہوں کہ یہ سارا کلام ’’ستاروں سے ذروں تک‘‘ اور ’’وطن میں اجنبی‘‘ سے پہلے کا کلام ہے۔ یعنی شروع سے لے کر بیکراں کی طباعت تک کا کلام ہے۔

            اب اسی سوال کے آخری حصے کا جواب …… یہ بات تو آپ کے علم میں ہو گی کہ آزادی کی پہلے سے طے شدہ تاریخ ۱۴ یا ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء نہیں تھی بلکہ اس سے آٹھ نو ماہ بعد کی تاریخ تھی۔

            لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس تاریخ کو آٹھ نو ماہ پری پون کر دیا تھا اور سارا کام دونوں ملکوں کو انتہائی جلدی میں کرنا پڑا تھا۔ چنانچہ وہ ترانہ جو آٹھ نو ماہ بعد منظر عام پر آنا چاہئے تھا ، قبل از وقت منظر عام پر آیا۔ قومی ترانہ لکھوانے کا طریق یہ ہوتا ہے کہ اخبارات میں اشتہار دیا جاتا ہے تاکہ موسیقار حضرات ترانے کی دھن بنائیں۔ اس طرح کی بنی ہوئی دھنوں میں سے ایک دھن کا جب انتخاب کر لیا جاتا ہے تو شعراء حضرات سے فرمائش کی جاتی ہے کہ وہ اس دھن پر ترانہ لکھیں لیکن چونکہ ان تمام باتوں کے لئے وقت نہیں تھا اس لئے مجھ سے اس وقت کے حکام نے فوری طور پر ترانہ لکھنے کی فرمائش کی۔ جب مجھ سے یہ فرمائش کی گئی تو میں نے یہ کہا کہ اس وقت یہاں مولانا تاجور نجیب آبادی ، سید عابد علی عابد، صوفی غلام مصطفی تبسم، عبد المجید سالک اور حفیظ جالندھری ایسے شعراء موجود ہیں اور فیض صاحب کو بھی اگرچہ اس وقت وہ شہرت حاصل نہیں ہوئی تھی جو بعد میں انہیں حاصل ہوئی۔ لیکن مجھ سے تو وہ ہر اعتبار سے سینئر تھے …… یہی میں نے کہا کہ ان حضرات کی موجودگی میں آپ ایک جونیئر شاعر سے کیوں فرمائش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کا جواب تو نہیں دیا لیکن اصرار یہی کیا کہ ترانہ میں ہی لکھوں۔ میں نے اس وقت یہی سمجھا اور ممکن ہے صحیح سمجھا ہو کہ چونکہ قائد اعظم نے اپنی دہلی کی تقریر میں کچھ اس طرح کے الفاظ کہے تھے کہ I can not visualise Pakistan without minoritiesاور یہ غالباً پاکستان کی کانسٹی چیونٹ اسمبلی میں یہ کہا تھا کہ

From now on there will be no Muslim no Hindu and no Christian politically. They will all be Muslims Hindus and Christians from religious point of view

            تو ہو سکتا ہے کہ قائد اعظم کے اس ارشاد کے پیش نظر اہل حکومت نے ایک غیر مسلم شاعر کا انتخاب کیا ہو۔ اب رہی سوال کی آخری بات کہ اگر میں لاہور میں قیام پذیر ہوتا تو کیا میرا لکھا ہوا ترانہ ہمارا قومی ترانہ ہوتا غالباً اس کا جواب میں پہلے ہی فقرے میں دے چکا ہوں کہ جب پاکستان کے متعدد شعراء مقابلے میں شریک ہوتے اور ان میں حفیظ جالندھری بھی ہوتے جیسا کہ وہ شریک تھے تو اس وقت یہ ہوتا کہ نیا ترانہ دھن پر لکھا جاتا …… اور مذکورہ ترانہ دھن پر تو تھا نہیں کیوں کہ پہلے میں نے ترانہ لکھا اور بعد میں دھن بنائی گئی تو میں حفیظ صاحب کے مقابلے میں دھن پر ترانہ کیسے لکھ سکتا تھا۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ نئی دھن پر نیا ترانہ تو ہر حال میں لکھا ہی جانا تھا اور مجھے دھن پر ترانہ لکھنے کی کوئی مشق نہیں تھی۔

٭        نازش رضوی ، شیخ عبد الشکور اور ملک خدا بخش آج کل کہاں اور کس حال میں ہیں۔ آیا آپ انہیں آج اپنا محسن تصور کرتے ہیں یا مجرم؟

٭٭   یہ تو میرے علم میں ہے کہ نازش رضوی اور شیخ عبدالشکور کا انتقال ہو چکا ہے۔خان بہادر ملک خدابخش کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ بقید حیات ہیں یا نہیں اور اگر خدا کے فضل سے وہ اس وقت بقید حیات ہیں تو کہاں ہیں یہ معلوم نہیں۔ میں انہیں مجرم کیوں تصور کروں۔ یہ تینوں حضرات میرے دوست تھے اور قدر دان …… میں تو انہیں اپنامحسن کہوں گا۔

٭       تقسیم ہند اور بعد کے حالات نے آپ کی زندگی پر کیا اثرات مرتب کئے۔ اس سے آپ کے تخلیقی سفر کو مہمیز ملی یا تنگی داماں کا احساس دامن گیر ہوا۔ نیز آپ کے ہاں وطنیت کا تصور کیا ہے؟

٭٭   اب میں ۵۳/۵۲برس کے بعد یہ تو آسانی سے نہیں کہہ سکتا کہ تقسیم ہند اور بعد کے حالات نے میری زندگی پر کیا اثرات مرتب کئے لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ لاہور اور راولپنڈی کو چھوڑ کر مجھے جو روحانی اذیت ہوئی اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ لاہور سے دہلی پہنچنے تک راستے میں تکلیفات بھی پیش آئیں لیکن سب سے زیادہ تکلیف یہی تھی کہ لاہور ، راولپنڈی، میانوالی اور عیسیٰ خیل کو چھوڑ کر جا رہا تھا۔ یہ کیفیت سالہاسال تک رہی اور اس دور کے جذبات میری شاعری اور نثر دونوں میں ظہور پذیر ہوتے رہے ہیں۔ ’’وطن میں اجنبی ‘‘ انہی تاثرات پر مبنی طویل نظم ہے۔ نثر میں بھی میری متعدد کتابوں میں اس دور کے تاثرات موجود ہیں بلکہ آج بھی میری نظم و نثر میں وطن کی یاد کبھی کبھی شب خون مارتی ہے اور وہ نظم و نثر انتہائی بے ساختگی کی صورت میں صفحۂ قرطاس پر آ جاتی ہے۔

            تنگی داماں کے احساس والی بات جس کا آپ نے ذکر کیا ہے میں نہیں سمجھا۔ لیکن یہاں یہ بتا دینا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ جو میرا اندیشہ تھا کہ اس سرزمین کو جو میری زاد بوم ہے مجھے دوبارہ دیکھنے کا موقع ملے گا یا نہیں ملے گا غلط ثابت ہوا، اور پاکستان آنے کے مواقع مجھے اتنی بار ملے جو شاید ہی کسی مہاجر کو ملے ہوں۔ مدت تک سال میں ایک بار، دو بار ، تین بار مغربی پاکستان میں بھی اور مشرقی پاکستان میں بھی جانے کی خوش نصیبی مجھے حاصل ہوتی رہی۔ کبھی مشاعروں میں شرکت کی دعوت پر ، کبھی سیمینار میں شرکت کے لئے اور کبھی کسی یونیورسٹی میں توسیع لیکچر کے لئے وغیرہ وغیرہ ………… اب آپ کے اسی سوال کے آخری حصے کے متعلق کہ میرا وطنیت کا تصور کیا ہے۔ اپنے خیالات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ میرا ایک Country of birthہے جہاں عیسیٰ خیل کا شہر واقع ہے اور ایک Country of adoptionہے جہاں میں تقسیم کے بعد مقیم ہوں اور جسے نصف صدی سے زیادہ کی مدت ہو گئی ہے۔ اب میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ پاکستان اسی طرح سے میرا وطن ہے جس طرح سے ہندوستان، کیوں کہ وہاں تو ویزا لے کر جانا پڑتا ہے لیکن میں اس خیال سے کبھی غافل نہیں رہا کہ سرزمین پاکستان میری چھوڑی ہوئی سرزمین ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جس کے درختوں کی چھاؤں میں اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ میں نے بسر کیا اور جس کی ہواؤں نے مجھے پالا پوسا۔ میں ہمیشہ ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے لئے دعاگو رہتا ہوں اور دل سے دونوں کی دوستی اور ترقی کا خواہاں ہوں۔ یہ چیز آپ کو میری نظم و نثر دونوں میں نظر آئے گی۔ ہاں میں چونکہ سیاسی آدمی نہیں ہوں اور میں نے ساری عمر لٹریچر کی خدمت میں صرف کر دی ہے اس لئے اس موضوع پر کبھی لمبے چوڑے لیکچر نہیں دیئے بلکہ جو کچھ بھی کہتا ہوں اپنی تحریر میں خواہ وہ نظم ہو یا نثر، محفوظ کر لیتا ہوں اور وہ چھپ کر اہل ہندوستان اور اہل پاکستان کے سامنے آ جاتی ہے۔ اب اس وقت جب کہ وزیر اعظم ہندوستان جناب اٹل بہاری واجپائی اور وزیر اعظم پاکستان جناب محمد نواز شریف کی باہمی ملاقاتوں کی بدولت ماحول میں ایک دوستی کی فضا پیدا ہوئی ہے اکثر شعراء ہندو پاک دوستی کے علمبردار بن کر سامنے آ گئے ہیں حالانکہ وہ نہ ۴۷ء کے ناگفتہ بہ حالات میں سے گزرے ہیں اور نہ ہی ہندو پاک دوستی ان کی شاعری کا خاص موضوع رہی ہے۔

٭       اگر ہم یہ کہیں کہ وطن کے فراق میں آپ Nostalgiaکا شکار ہیں اور آپ کی بیشتر شاعری پنجاب کا ’’مرثیہ‘‘ ہے تو اس کے جواب میں آپ کیا کہنا پسند کریں گے؟

٭٭   آپ کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اپنی چھوڑی ہوئی سرزمین کے فراق میں Nostalgiaنے میرے دل و دماغ کو گھیر رکھا ہے اور میری شاعری جسے آپ نے بڑی حد تک پنجاب کا مرثیہ کہا ہے۔ حقیقتاً اس انسانیت کا مرثیہ ہے جو تقسیم ہند کے ساتھ ہی حیوانیت میں تبدیل ہو گئی اور سرحد کے دونوں طرف انسان مولی گاجر کی طرح کٹنا شروع ہو گئے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب وہ دور ختم ہو چکا ہے اور میری دلی خواہش ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں ایک نہ مٹنے والی دوستی پیدا ہو اور تقسیم کی لکیر جو زمین پر کھنچی ہے وہ زمین ہی پر رہے ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے دلوں کے درمیان نہ کھنچ جائے۔

٭       کیا آپ ایک شاعر کے لئے دنیاوی تجربات و مشاہدات کے علاوہ ذاتی قلبی واردات کے تجربات کو بھی ضروری خیال کرتے ہیں اگر نہیں تو آپ کی زندگی میں اس کا کس قدر عمل دخل رہا؟ اور پروفیسر ظ۔ انصاری نے آپ کے بارے میں جس قسم کا تصور قائم کیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟

٭٭   میرے نزدیک شاعری میں ذاتی یعنی قلبی واردات کی بنیادی اہمیت ہے دنیاوی تجربات و مشاہدات جب تک قلبی واردات کی صورت اختیار نہیں کر لیتے وہ سچی اور کھری شاعری میں نہیں ڈھل سکتے ، فکر کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو وہ جب تک جذبے میں نہیں ڈھل جاتا اس وقت تک وہ شعری پیکر اختیار نہیں کر سکتا۔اگر ہم فکر کو یا کسی فلسفیانہ خیال کو اس جذبے میں ڈھالے بغیر منظوم صورت دیں گے تو وہ فلسفیانہ خیال محض قافیہ پیمائی ہی کی حدوں تک رہے گا۔ اس پر شعر کا اطلاق نہیں ہو سکے گا۔

            پروفیسر ظ۔ انصاری نے میرے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ مضمون کی صورت میں بھی، مختلف مضامین میں بھی۔ اب اس وقت تمام تحریریں میرے سامنے نہیں ہیں۔ علالت کی بنا پر میں ’’بیڈرڈن‘‘ ہوں۔ ان تحریروں کو اس وقت تلاش کرنا بھی مشکل ہے۔ ہاتھ سے لکھنا بھی مشکل ہے۔ اس لئے میرے عزیز محترم امین بنجارہ صاحب، اعزازی مدیر ’’آرٹ اینڈ لٹریچر‘‘ جموں اس سلسلے میں میرا ہاتھ بٹا رہے ہیں اور میں آپ کے سوالات کے تمام جوابات انہیں ہی لکھوا رہا ہوں۔

٭       ابتدائی زمانے کی شاعری ہی سے آپ کی اٹھان بہت بلند تھی ، اسے آپ ’’محروم‘‘ صاحب، اساتذہ ،فنی جوہر اور پروردگار عالم کی کرم نوازی میں سے کس کی عطا کہیں گے؟

٭٭   یہ آپ کی محبت ہے کہ آپ نے میری ابتدائی زمانے کی شاعری کی اٹھان کو بہت بلند کہا ہے۔ یہ پروردگار عالم کا کرم خاص ہی ہے کہ اپنے والد محترم محروم صاحب ، مولانا تاجور نجیب آبادی، صوفی غلام مصطفی تبسم، سید عابد علی عابد، پروفیسر علیم الدین سالک اور ڈاکٹر سید عبداللہ جیسے اساتذہ کے قدموں میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ ان تمام اساتذہ کے دلوں میں میرے لئے جگہ تھی اور ان کی دعائیں ہر وقت میرے ساتھ رہیں …… اور جب تک زندہ ہوں ان کی دعائیں میرے لئے زرہ بکتر کا کام دیتی رہیں گی۔ انشاء اللہ اور میرے اندر کوئی جوہر ہو تو اس کی بھی رہنمائی کرتی رہیں گی۔

٭       آپ کے ہاں شاعری میں اقبال کے عقلی تجربے اور حسرت کی جذباتی فکر کے علاوہ اور بھی بہت سے اساتذہ کا رنگ جا بجا نظر آتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ شاعری میں اپنا منفرد انداز قائم کر سکے ہیں؟

٭٭   میں نے اپنی شاعری کی ابتدا میں اقبال کا تتبع کیا لیکن شعوری طور پر میری کوشش یہ رہی کہ میں اپنی آواز کو بھی دریافت کر لوں۔ اب معلوم نہیں مجھے اس میں کس حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ یہ دیکھنا میرے قارئین اور نقاد حضرات کا کام ہے۔

            آج جب میں اپنے سارے کلام پر نظر ڈالتا ہوں تو اس میں مجھے اقبال کا رنگ نظر نہیں آتا۔ حسرت کا بھی ، ہاں ’’بوئے رمیدہ‘‘ میں جگر صاحب کا کلام کہیں کہیں اپنی جھلک دکھا جاتا ہے۔ غالباً میرے اس طرح کے اشعار میں جن کی تعداد سینکڑوں یا ہزاروں تک پہنچے گی، میرا اپنا ہی رنگ ہے کسی اور شاعر کا نہیں۔

دھوپ میں چلنے کا میں عادی تھا چلتا ہی رہا

سبز پیڑوں کا گھنا سایہ بلاتا ہی رہا

ایک دروازے کو اے آزادؔ جب چھوڑا تو پھر

کیا بتاؤں کتنے دروازوں پہ رسوائی ہوئی

٭       آپ شاعر، دانشور، نقاد، ماہر اقبال، خاکہ نگار، ادیب ، سفرنامہ نگار، ماہر تعلیم اور ساٹھ کے قریب تصانیف اور قریب دو سو مقالوں کے مصنف ہیں۔ ان تمام صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد آپ کیا خیال کرتے ہیں کہ آپ نے تمام مضامین سے کس قدر انصاف کیا؟

٭٭   جہاں تک میری تخلیق شعر یا تخلیق نثر کا تعلق ہے اس میں میرے ارادے سے زیادہ میرے جذبے کو دخل ہے۔ اس لئے جس تجزیئے کی آپ نے فرمائش کی ہے وہ میرے لئے آسان نہیں ، تخلیق شعر یا تخلیق نثر کے لئے میں نے کسی طرح کی منصوبہ بندی سے کام نہیں لیا ہے لیکن اس وقت تک چونکہ میری نظم و نثر دونوں کے بارے میں مختلف اہل قلم حضرات کی متعدد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور میں نے بھی اول سے آخر تک پڑھا ہے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان اور دوسرے ملکوں کے اہل قلم حضرات نے کہیں کہیں اختلاف رائے کے باوجود میرے کام کو سراہا ہے۔ جہاں جہاں کسی اہل قلم نے کسی اختلاف رائے کا اظہار کیا ہے زبان کے معاملے میں بیان کے معاملے میں ، میں نے اس پر خلوص دل سے غور کیا ہے اور اکثر ایسا ہوا ہے کہ میں نے اعتراض سے اتفاق کیا ہے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ اعتراض سے اتفاق نہیں کیا۔ اپنی تحریروں سے اختلاف رائے مجھے کبھی ناگوار نہیں گزرا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ادب میں اختلاف رائے نہ ہو تو ادب کے قافلے کی رفتار رک سکتی ہے اور ادب اپنا قدم آگے نہیں بڑھا سکتا۔

٭       آپ نے نعتیہ اور حمدیہ کلام کے علاوہ اولیاء اللہ ، مساجد اور مسلمان قوم کے لئے بڑی اعلیٰ پائے کی نظمیں کہی ہیں۔ اسے ہم آپ کی وسیع المشربی سمجھیں یا اسلام سے آپ کے خاص لگاؤ کا سبب۔ کیا ہی خوب ہو کہ یہاں آپ اپنے مذہبی تصور سے تفصیلی طور پر ہمارے قارئین کو آگاہ کریں؟

٭٭   اپنے نعتیہ اور حمدیہ کلام کے بارے میں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ میں لٹریچر کے مطالعے سے اسلام کے مطالعے تک پہنچا ہوں۔ لڑکپن ہی سے والد محترم کے ہمراہ مشاعروں میں جانے کی بدولت شروع شروع میں شاعر کے طور پر نہیں بلکہ سامع کے طور پر حفیظ جالندھری کی زبان سے شاہنامہ اسلام کے متعدد حصے سننے کا موقع ملا۔ حفیظ جالندھری مرحوم میرے والد محترم کے دوست تھے اور وہ اپنی ہر تصنیف والد محترم کو ہدیتاً بھیجتے تھے۔ اس طرح سے شاہنامہ اسلام کی چاروں جلدیں میرے تصرف میں آ گئیں مجھے حفیظ صاحب کا نغمے میں ڈوبا ہوا شاعرانہ لہجہ بہت پسند تھا۔ اس لئے ان کا کلام میں بار بار پڑھتا تھا نتیجتاً مجھے نغمہ زار ، سود ساز کی متعدد غزلوں اور نظموں کے ساتھ ہی ساتھ ’’شاہنامہ اسلام‘‘ کے بھی اکثر حصے زبانی یاد ہو گئے تھے (کبھی ملاقات ہو تو آپ اب بھی میرا امتحان لے سکتے ہیں۔ Passmarksیعنی ۳۳ فیصد تولے ہی لوں گا) ساتھ ہی ساتھ کلام اقبال کا مطالعہ بھی جاری تھا۔ (کلام اقبال تو مجھے ایک زمانے میں اول سے آخر تک سارا زبانی یاد تھا اور لاہور میں مجھے حافظ، کلام اقبال کے نام سے پکارا جاتا تھا) بہرطور میں اپنے لئے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ دوسرے مذاہب کا احترام اسی طرح سے کروں جس طرح سے اپنے مذہب کا کرتا ہوں۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو میری حمدیہ اور نعتیہ نظموں کی تعداد ان نظموں سے کہیں زیادہ ہے جو میں نے اپنے مذہب کے بارے میں لکھیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ

از تعصب کاسہ شیخ و برہمن شُد جُدا

ورنہ در میخانہ یک ساقی و یک جام تو بس

٭       ایک زمانے میں آپ کا خیال تھا کہ آزاد ہندوستان میں ’’اردو زبان کا مسئلہ الجھا ہوا ہے ‘‘ اردو ادب کا نہیں اب آپ کے خیال میں ہندوستان میں اردو زبان کا مستقبل کیا ہے؟ دور دور تک ’’اردو زبان‘‘ سے آشنا شخص ناپید ہو چکا ہے۔ کٹر مذہبی نظریات کی حامل جماعتیں روزبروز طاقتور ہوتی جا رہی ہیں۔ بابری مسجد اور مسئلہ کشمیر اس پر مستزاد ہیں؟

٭٭   ہندوستان میں اردو زبان کا مسئلہ ابھی تک موجود ہے اور کسی حد تک الجھا ہوا بھی ہے لیکن اس کے باوجود ہندوستان میں اردو زبان کا مستقبل روشن ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دور دور تک اردو زبان سے آشنا شخص ناپید ہو چکا ہے۔ شمال مشرقی صوبوں مثلاً ناگالینڈ، میزورم، ارونا چل پردیش وغیرہ کو چھوڑ کر ہندوستان کی ہر ریاست میں اردو اکیڈمیاں قائم ہیں۔ اردو کے رسالے اور اخبارات بھی خاصی تعداد میں شائع ہو رہے ہیں۔ اردو اسکولوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ اگرچہ ان میں اضافے کی گنجائش ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، نیشنل بک ٹرسٹ وغیرہ اداروں کے اردو سیکشن کافی مضبوط سیکشن ہیں۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کی چھ سو پچاس شاخیں ملک بھر میں کام کر رہی ہیں۔ نیشنل کونسل برائے فروغ اردو زبان جس کا پہلا نام ترقی اردو بورڈ تھا اب ہر اعتبار سے انجمن ترقی اردو (ہند) کی طرح ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کا کام انجمن کی طرح ملک کے کونے کونے میں پھیل رہا ہے۔ ہندوستان ایک طویل و عریض ملک ہے۔ اس میں تیس کے قریب زبانیں ہیں اور اس کی تگنی تعداد میں بولیاں۔ اب اگر میں یا اردو والے یہ چاہیں کہ ہر شخص کا اوڑھنا بچھونا اردو ہو تو یہ زیادتی ہو گی ویسے جہاں تک یونیورسٹیوں کا تعلق ہے۔ بہتر ّ (۷۲) یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن میں اردو پوسٹ گریجویٹ سطح پر پڑھائی جا رہی ہے۔ اگر اسکولوں اور کالجوں میں اردو نہیں ہے تو بہتر (۷۲) یونیورسٹیوں میں پوسٹ گریجویٹ سطح پر اردو کہاں سے آ گئی؟ اس لئے لوگ جو اردو کے لئے کام کر رہے ہیں اردو کے مستبقل سے مایوس نہیں ہیں۔

            بابری مسجد کا انہدام واقعی ملک کے لئے شرمناک حادثہ تھا میں تو اب بھی یہی محسوس کرتا ہوں کہ اس واقعے کے بعد ہم لوگ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ لیکن اس کے نتائج اب مسجد کو شہید کرنے والوں نے بھی دیکھ لئے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ اس قسم کی حرکتوں سے ملک کو بے حد نقصان پہنچے گا۔ رہی مسئلہ کشمیر کی بات تو اس کے بارے میں ، میں اب کیا کہوں جب تک وزیر اعظم ہندوستان اور پاکستان کی آپس میں ملاقاتیں نہیں ہوئی تھیں اس وقت تک میں بہت مایوس تھا لیکن اب آہستہ آہستہ مایوسی کی جگہ امید لے رہی ہے۔ میں تو اب اس سلسلے میں دعا ہی کر سکتا ہوں کہ دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کامیاب ہو اور اس کا کوئی مثبت نتیجہ ظہور پذیر ہو۔

٭       جموں کشمیر میں طویل قیام کے باوجود بعض لوگ آپ کو کشمیر سے منسوب کرنے پر شاکی کیوں ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کو جب ’’صدر شعبہ اردو‘‘ جموں یونیورسٹی مقرر کیا گیا تو بعض حلقوں میں ناگواری کے جذبات پیدا ہوئے اور ایک معتبر صاحب قلم نے آپ کی پروفیسری کا ذکر کرتے ہوئے ’’چشم بد دور‘‘ کا لاحقہ بھی استعمال کیا۔

٭٭   مجھے ابھی تک نہیں معلوم کہ آج سے بائیس برس پہلے جب میں جموں میں صدر شعبہ اردو مقرر ہوا تو کن حلقوں میں ناگواری کے جذبات پیدا ہوئے۔ اب یہ بھی معلوم نہیں اور غالباً یہ بھی یاد نہیں کہ کس معتبر صاحبِ قلم نے میری پروفیسری کا ذکر کرتے ہوئے ’’چشم بد دور‘‘ کا لاحقہ استعمال کیا تھا۔ ویسے حقیقی صورتحال یہ ہے کہ ۳۱ دسمبر ۱۹۸۳ء کو میں یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے ریٹائر ہوا۔ اور یکم جنوری ۱۹۸۴ء سے یونیورسٹی نے مجھے پروفیسر ایمریٹس کا اعزاز دیا جو تا حیات جاری رہے گا۔ اس سات برس کی مدت میں اور اس کے بعد سولہ برس اور گزر گئے ہیں اس مدت میں جموں اور کشمیر کے اردو اور انگریزی پریس نے میرے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اتنا توصیفی اور تعریفی پہلو لئے ہوئے ہے کہ خود میرے لئے ان چیزوں کو منظرِ عام پر لانا اچھا نہیں لگتا۔ ورنہ میں ان کے اقتباسات اس انٹرویو میں درج کر دیتا۔ کشمیر یا جموں یونیورسٹی نے مجھے بالترتیب ڈی۔لٹ اور ڈی۔ لیٹ کے آنرس کی (اعزازی) ڈگریاں دی ہیں۔

            ۱۹۷۷ء میں مجھے براہ راست پروفیسر کا اعزاز دینے سے قبل جموں یونیورسٹی نے تین ماہرین اردو کو خطوط لکھے اور تینوں نے میرے حق میں بہت عمدہ تحریریں لکھ کر بھیجی تھیں۔ ہاں ! ایک پروفیسر ایسے تھے جن سے پوچھا بھی نہیں گیا تھا انہوں نے دخل در معقولات کرتے ہوئے جموں یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو یہ خط لکھا تھا کہ جگن ناتھ آزاد تو دنیا بھر میں مشاعرے پڑھتے پھرتے ہیں انہیں درس و تدریس کے کام سے کیا تعلق۔ اس طرح کے حاسد تو ہندوستان میں دو ایک مل جائیں گے تو ایسے حاسدوں کا میں کیا نوٹس لیتا پھروں۔

٭       بچپن میں اقبال کا مصرع ’’اڑا لی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے ‘‘ محروم صاحب سے سن کر اقبال سے آپ کی دلچسپی کا آغاز ہوا۔ یہ فرمائیے کہ اقبال سے آپ کی والہانہ محبت کا سبب کب اور کس عمر کس طور آغاز ہوا۔ اقبال سے آپ کی عقیدت شخصی ہے یا فنی؟

٭٭   اقبال کی شاعری سے میری والہانہ محبت کا سبب ان کی وہ طویل نظمیں ہوئیں جو ایک زمانے میں مرغوب ایجنسی لاہور نے چھوٹے چھوٹے پمفلٹوں کی صورت میں چھاپی تھیں۔ مثلاً شکوہ ، جواب شکوہ، تصویر درد ، ابر گوہر بار ، طلوع اسلام اور خضر راہ وغیرہ۔ یہ پمفلٹ مجھے والد محترم کی کتابوں والی الماری میں نظر آئے اور میں نے ایک ایک کر کے انہیں پڑھنا شروع کیا میں اس وقت لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا کہ ان نظموں کے صوتی آہنگ نے مجھے کتنا متاثر کیا۔ اس وقت ان نظموں کے ہر شعر کا مفہوم سمجھنا تو میرے لئے ناممکن تھا لیکن جو شعر سمجھ میں آ جاتا تھا وہ مجھے اپنی گرفت میں لے لیتا تھا۔ یہ صورت حال میری ایم۔اے کی تعلیم تک جاری رہی اور میں نے اقبال کا کلام اتنی دفعہ پڑھا کہ یہ مجھے اول سے آخر تک زبانی یاد ہو گیا اور حافظ کلام اقبال کے نام سے لاہور میں میری شہرت کی ابتداء ہوئی۔ مولانا تاجور نجیب آبادی مشاعروں میں میرا تعارف حافظ کلام اقبال کے نام سے کراتے تھے۔ اس سلسلے میں اکثر لوگوں نے میرا امتحان بھی لیا اور خدا کے فضل و کرم سے میں ایسے ہر امتحان میں کامیاب ہوا۔ اب آپ کے سوال کے اس حصے کے جواب میں کہ اقبال سے میری عقیدت شخصی ہے یافنی۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ کلام اقبال نے مجھے بہت متاثر کیا اور ان کی تصویریں بھی میں اخباروں اور رسالوں میں دیکھ چکا تھا تو کلام کو شخصیت سے الگ کر کے دیکھنا اور شخصیت کو کلام سے الگ کر کے دیکھنا میرے لئے مشکل ہو گا۔ اس وقت میرا جی یہ چاہتا تھا کہ میں اس عظیم شخصیت کی قدم بوسی کا شرف حاصل کروں۔ اس دور میں ایک برس ایسا بھی آیا کہ جب علامہ اقبال کی زندگی کا آخری برس تھا میں لاہور میں تھا۔ ادھر تو یہ خواہش کہ مجھے علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملے اور ادھر یہ خیال کہ میں اتنے بڑے شاعر کو دیکھنے کی تاب کیسے لا سکوں گا۔ یعنی عین نصف النہار کے وقت میں خورشید کو کیسے دیکھوں گا؟ میری اس کیفیت سے میرے استاد مولانا تاجور نجیب آبادی بھی آشنا تھے اور میرے احباب بھی۔ مجھ سے مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک صاحب نے کئی بار کہا کہ تم میرے ساتھ چلو۔ میں تمہیں علامہ اقبال کے پاس لے چلوں گا لیکن میں یہ حوصلہ ہی نہیں کر سکا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تاجور صاحب نے علامہ اقبال سے بات چیت کے دوران میں کہا کہ علامہ صاحب ! آپ کو اپنا کلام اتنا یاد نہیں ہو گا جتنا لاہور میں ایک لڑکے کو یاد ہے بلکہ آپ کا سارا کلام اسے یاد ہے۔ علامہ نے پوچھا کون ہے وہ؟ تاجور صاحب نے کہا محروم صاحب کا بیٹا ہے۔ علامہ نے فرمایا لاؤ اسے یہاں۔ دوسرے تیسرے دن جب میں تاجور صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم بڑے بدنصیب ہو کہ علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے کا حوصلہ نہیں کر رہے ہو۔ دنیا بھر سے بڑے بڑے علماء ان سے ملنے کے لئے آتے ہیں۔ ان دنوں آسٹریلیا سے ایک عالم ان سے ملنے کے لئے آیا ہوا ہے۔ ابھی اگلے دن تمہارے متعلق خود انہوں نے فرمایا ہے کہ ’’لاؤ اسے یہاں ‘‘ مولانا تاجور کی یہ بات سنتے ہی میرا دل دھڑکنے لگا اور پھر مجھ پر وہی کیفیت طاری ہوئی کہ میں اتنے بڑے شاعر کی خدمت میں کیسے حاضر ہو سکوں گا، اسی ادھیڑ بن میں وقت گزرتا چلا گیا اور ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو جب میں دو تین روز کے لئے اپنے گھر راولپنڈی میں تھا تو میں نے آل انڈیا ریڈیو سے یہ سنا کہ علامہ اقبال ہم سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے ہیں۔ اب آپ اس سے جو نتیجہ نکالیں آپ کا حق ہے ، میں اپنی محرومی پر اس وقت تک پچھتا رہا ہوں۔

٭       آپ نے اقبال پر تحقیقی کام میں خلیفہ عبدالحکیم کے علاوہ اور کن مفکرین کے رشحات قلم سے استفادہ کیا؟

٭٭   آپ نے اگر خلیفہ عبدالحکیم اور دوسرے ماہرین اقبالیات کی کتابیں پڑھی ہیں اور اس خاکسار کی ٹوٹی پھوٹی تحریریں کتابی صورت میں یا مضامین کی صورت میں آپ کی نظر سے گزری ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ میری تحریروں میں دوسرے ’’ماہرین اقبالیات‘‘ سے استفادہ نظر نہیں آتا۔ میں نے اقبال کی نظمیں اور غزلیں (اردو بھی فارسی بھی) اور نثر (اردو بھی اور انگریزی بھی) اپنی نظر سے پڑھی ہیں اور اپنے دل و دماغ سے ان پر غور کیا ہے۔ وہ کام جیسا بھی ہے آپ کے سامنے ہے اور میرے مقابلے میں آپ خود ہی اسکا بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔

٭       ہندوستان میں اقبال کی تصاویر کی نمائش اور سیمینار کا نادر خیال آپ کو کیوں کر آیا اور اس کے کیا فوائد حاصل ہوئے اور اس مساعی میں آپ کو کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان دوستوں کے اسمائے گرامی بھی ضرور بتائیے جنہوں نے اس کڑے وقت میں آپ کی طرف دستِ تعاون بڑھایا؟

٭٭   ۱۹۷۳ء میں جب یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر محمد حسن نے جو میرے عزیز دوست ہیں مجھ سے کہا کہ اس سیمینار کے لئے ہمیں چند تصاویر کی ضرورت ہو گی میں نے ان سے کہا کہ میرے پاس تو نادر تصویریں بھی ہیں جو میں آپ کو دے دوں گا لیکن بعد میں جب میں نے اس پر غور کیا کچھ سوچا کہ کیوں نہ کچھ اور تصویریں اور علامہ اقبال کے ہاتھ کی تحریروں کو جمع کر کے ایک نمائش کا انتظام کیا جائے مجھے یہ خیال آیا تو میں نے اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات جناب اندر کمال گجرال اور ساتھ ہی ساتھ اسی وزارت کے سیکریٹری جناب انور جمال قدوائی سے بات کی۔ دونوں نے اس تجویز پر لبیک کہا اور دو ایک دن کے بعد جمال قدوائی صاحب نے مجھے ٹیلی پرنٹر پر (اس وقت فیکس نام کی چیز موجود نہیں تھی) پیغام دیا کہ آپ کے پاس نمائش کے سلسلے میں جتنا میٹریل ہے وہ لے کر دہلی آ جائیے۔ چنانچہ میں تصویریں اور اقبال کی بعض تحریروں کے فوٹو لے کر دہلی پہنچا اور سب کچھ جمال قدوائی صاحب کو دکھایا تو بہت خوش ہوئے۔ گویا مجھے کام کے لئے گرین سگنل مل گیا۔ میں نے ان سے کہا وہ وزارت کے فوٹو ڈویژن کو بھی مطلع کر دیں کیونکہ ان تمام تصویروں اور تحریروں کے Blowupبنانا ہوں گے اور انہیں Panelsپر لگانا ہو گا اور جہاں جہاں یہ نمائش منعقد ہو گی وہاں یہ Panelبھی فوٹو ڈویژن والے اپنے انتظام کے تحت لگائیں گے۔ اس طرح سے نمائش کی تیاری شروع ہو گئی اور جب چھ سو سٹرسٹھ (۶۶۷) تصویریں تیار ہو گئیں تو سب سے پہلے سری نگر میں یہ نمائش منعقد کی گئی۔ یہ نمائش ہندوستان کے کئی شہروں میں منعقد ہوئی اور بعض شہروں میں دو دفعہ منعقد ہوئی دہلی میں مختلف مقامات پر تین بار منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر خلیق انجم کی کتاب ’’جگن ناتھ آزاد، حیات اور ادبی خدمات‘‘ میں آپ کو بھیج چکا ہوں۔ اس میں اقبال کی نمائش کے زیر عنوان میرا مضمون ہے وہ اگر آپ اس گوشے میں شامل نہیں کر سکے تو چہارسو کے کسی اور شمارے میں اسے مکمل طور پر شائع کر دیجئے ، اس کام میں مجھے کسی بھی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہاں محنت بہت کرنی پڑی اور گرمی کے موسم میں ہندوستان بھر کا سفر کرنا پڑا جو عمر کے اس حصے میں میرے لئے کوئی تکلیف دہ بات نہیں تھی۔ اب رہے ان دوستوں کے اسمائے گرامی تو صحیح معنوں میں تعاون تو اندر کمار گجرال صاحب اور جمال قدوائی صاحب کی طرف سے تھا۔ اندر کمار گجرال صاحب وزیر تھے اور جمال قدوائی صاحب وزارت کے سیکریٹری تھے اور یہ دونوں میرے دوست بھی تھے اور گجرال صاحب سے دوستی کا رشتہ آج بھی موجود ہے۔ ہاں جمال قدوائی صاحب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔            ہمیشہ رہے نام اللہ کا

٭       پاکستان میں اقبال کو آفاقی نظریئے کا شاعر اور ہندوستان میں نظریہ پاکستان کا خالق تصور کیا جاتا ہے جب کہ آپ اقبال کو ہند و پاک کے درمیان محبت کی زنجیر سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان کا فاصلہ پاٹنا ممکن ہے کیا؟

٭٭   آفاقی نظریئے کا شاعر ہونا اور نظریہ پاکستان کا خالق ہونا یہ دو انتہائیں نہیں ہیں۔ اقبال تضادات کا شاعر نہیں ہے۔ ہاں ! اس کے پڑھنے والوں کی اکثریت ایک محدود سوچ و بچار کی حامل ہے۔ اقبال دو اکائیوں کا نام نہیں ہے ایک اکائی کا نام ہے جب اقبال کو ہم آفاقی نظریئے کا شاعر کہتے ہیں تو اس آفاقی نظریئے میں ہند و پاک کے درمیان محبت کی زنجیر بھی شامل ہو جاتی ہے۔

٭       آپ نے اقبال کو مغربی مفکرین کا مقلد بھی قرار دیا ہے اور آپ کی یہ رائے اقبال کے لئے Minus point گردانی جائے گی؟

٭٭   میرا خیال ہے کہ آپ کو کچھ غلط فہمی ہو رہی ہے۔ میں نے اقبال کو کہیں بھی مغربی مفکرین کا مقلد قرار نہیں دیا اگر میں چند لفظوں میں بیان کروں تو یہ کہوں گا کہ اقبال کو جہاں جہاں مغربی مفکرین کا نقطۂ نگاہ یا زاویہ نگاہ صحیح نظر آیا ہے وہاں انہوں نے مغربی مفکرین کا ساتھ دیا ہے اور جہاں انہوں نے مغربی مفکرین کے زاویہ نگاہ سے اختلاف کیا ہے۔ وہاں انہوں نے اپنے لئے الگ راستہ اختیار کیا ہے۔ اس صورت میں میری رائے کے Minus pointہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

٭       اقبال کے ناقدین ان پر مدح سرائی کا بے جا الزام بھی لگاتے ہیں۔ مثلاً ان کے خیال میں اقبال نے والیِ بھوپال، نہرو خاندان اور شیخ عبداللہ وغیرہ کی بے جا مدح سرائی کی۔ آپ اقبال کے دفاع میں کیا دلائل پیش کریں گے۔

٭٭   میں نہیں سمجھتا کہ اقبال نے والیِ بھوپال، نہرو خاندان اور شیخ محمد عبد اللہ کی بے جا مدح سرائی کی ہے جو کچھ اقبال نے ان حضرات کے متعلق لکھا ہے وہ سرے سے مدح سرائی ہے ہی نہیں۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جو انہوں نے شاعرانہ انداز میں بیان کر دیئے ہیں۔

٭       کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے انڈیا میں اقبال کو از سر نو زندۂ جاوید کیا جواب اثبات میں ہے تو ان زاویوں پر روشنی ڈالئے جن سے آپ نے اقبال کو از سر نو دریافت کیا اور اس دریافت کی روشنی میں اکیسویں صدی میں اقبال کا کیا رول ہو گا؟

٭٭   حضرت ! میں نے تو کبھی ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال نہیں کیا کہ میں نے اقبال کو از سرنو زندہ جاوید کیا ہے میں ایک ذرہ ہوں بلکہ اس سے بھی کم اور اقبال خورشید عالمتاب ہیں۔ ایک ذرہ خورشید کو بھلا زندہ جاوید کر سکتا ہے؟ ہاں ہندوستان میں اس خورشید کے سامنے کچھ چھوٹے بڑے بادل آ گئے تھے۔ ان بادلوں کو تو ایک دن چھٹنا ہی تھا۔ اس میں میں کیا اور میرا کام کیا جو حق گوئی مجھ سے ہو سکی۔ وہ میں نے نظم اور نثر کی صورت میں پیش کی ہے میں یہ نہ بھی کرتا تو بھی یہ بادل تو وقت کے ساتھ چھٹ ہی جاتے بعض اہل قلم حضرات نے اس ذرا سے ادائے فرض کے لئے مجھے زیادہ کریڈٹ دیا ہے جس کے لئے میں ان کا شکرگزار ہوں اگرچہ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اس کریڈٹ کا حقدار نہیں ہوں۔

٭       کسی زمانے میں سیلاب کے باعث آپ کا ذاتی کتب خانہ برباد ہو گیا تھا اس کے باعث آپ کو اپنے فنی سفر میں کن مشکلات کا سامنا رہا اور آپ کے قاری آپ کی کن قلمی کاوشوں سے محروم رہے۔ کیا اقبال کے حوالے سے بھی کوئی پہلو تشنہ تو نہیں رہا؟

٭٭   جموں میں سیلاب کے بعد میرے ذاتی کتب خانے کا بہت بڑا حصہ برباد ہو گیا تھا۔ اب اس کے باعث اپنے فنی سفر میں مشکلات کی بات یہ ہے کہ اکثر غیر مطبوعہ کتابوں کے مسودے طباعت کے لئے تیار تھے انہیں سیلاب بہا کر لے کیا۔’’روداد اقبال‘‘ کی پہلی جلد کی کتابت بھی ہو چکی تھی۔ وہ تو میرے پاس محفوظ رہی دوسری جلد مسودے کی صورت میں محفوظ رہی لیکن تیسری، چوتھی اور پانچویں جلد یہ تینوں تباہ ہو گئیں۔ اسے کئی برس ہو گئے ہیں لیکن پہلی اور دوسری جلد کو نظر اٹھا کر دیکھنے کی مجھے ہمت نہیں ہوئی۔ سیلاب کی نذر ہو جانے والے مسودوں میں سے چار نثری کتابیں اردو کی ہیں بلکہ تھیں اور تین انگریزی کی۔ اب میں کیا کہوں۔

            ؂            آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک

٭       یونیورسٹی آف کشمیر سری نگر نے آپ کو قریباً آٹھ سال قبل ’’ڈاکٹر آف لٹریچر‘‘ کی اعزازی ڈگری پیش کی تھی۔ مگر اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ’’حکومت ہند‘‘ نے آپ کو پدم بھوشن یا پدم شری کے اعزاز کا حقدار کیوں نہیں جانا۔ کہیں اس کا سبب اقبال اور پاکستان تو نہیں؟

٭٭   یونیورسٹی آف کشمیر سری نگر کی طرف سے ڈاکٹر آف لٹریچر اعزازی ڈگری کے بعد جموں یونیورسٹی نے مجھے ڈاکٹر آف لیٹرز کی اعزازی ڈگری دی اور ایمریٹس شپ بھی۔ رہی پدم شری یا پدم بھوشن کے اعزاز کی بات تو اس کے بارے میں اعزاز دینے والے بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کیوں اعزاز نہیں دیا میں اب اس اعزاز کے لئے ان سے خود تو نہیں کہوں گا۔ اگرچہ میں یہ جانتا ہوں کہ اکثر غیر مستحق لوگوں کو یہ اعزاز دیئے جا چکے ہیں۔ بہرطور میں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ یہ اعزاز مجھے کیوں نہیں ملا۔ آپ نے سبب کے سلسلے میں اقبال اور پاکستان کا ذکر کیا ہے تو ہو سکتا ہے دہلی میں میرے ایک حاسد ایسے موجود ہیں جو مجھے ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ ان کی کوششوں کا بھی دخل ہو۔ کیوں کہ وہ پی۔آر۔شپ کے فن میں بہت ماہر ہیں۔ اس سے قبل بھی میں دو AntiIqbal اور AntiPakistanدوستوں کے ہاتھوں کافی نقصان اٹھا چکا ہوں اس کا ذکر میری Autobiographyمیں نظر آئے گا جو زیر طباعت ہے اور ویسے بھی پدم بھوشن یا پدم شری کوئی ادبی اعزازات تو نہیں ہیں۔ ادبی اعزازات تو D.Billاور D.Letterہیں جو مجھے مل چکا ہے۔ ادبی اعزاز تو پاکستان پر یزیڈنٹ اقبال میڈل ہے جو مجھے مل چکے ہیں اور اب اس عمر میں جس میں اس وقت میں ہوں اس طرح کی باتوں کی خواہش رہتی بھی نہیں۔

٭       پروفیسر صاحب ! تقسیم ہند سے قبل اور بعد کے تخلیقی و تنقیدی اردو ادب کا احاطہ آپ کس طرح کریں گے نیز برصغیر کے سیاسی، سماجی اور جغرافیائی پسِ منظر میں اس زبان و ادب کے مستقبل کو کس قسم کے حالات سے دوچار دیکھتے ہیں؟

٭٭   گلزار جاوید صاحب ! یہ سوال بہت تفصیلی جواب کا متقاضی ہے برصغیر کے تنقیدی اور تخلیقی اردو ادب کے احاطے کے لئے تو بہت مفصل مضمون لکھنا پڑے گا میں نے ابھی ایک مہینہ پہلے طویل علالت کے بعد گھر سے نکلنا شروع کیا ہے اس انٹرویو کے بعض جواب بھی میں دہلی ہی سے لکھوا رہا ہوں۔ مسلسل سفر میں ہوں اگر اس موضوع پر مضمون لکھنا شروع کروں تو اور زیادہ تاخیر ہو جائے گی پہلے ہی میرے سفروں ، علالت اور دوسری مصروفیات کی بنا پر جو تاخیر ہوئی ہے اس کے لئے میں دلی طور پر نادم ہوں اور معذرت خواہ ہوں۔ اب اس موضوع پر ہاتھ ڈال کے مزید تاخیر کرنے کا جرم کیسے کروں۔ اس پر پھر کبھی میں بشرطیکہ زندگی اور خیریت رہی مضمون لکھ کر بھیج دوں گا جو آپ الگ سے چھاپ سکتے ہیں۔

٭       کیا آپ نے کراچی کے اس پبلشر کو معاف کر دیاجس نے آپ کی شاعری کے مجموعے ’’بوئے رمیدہ‘‘ کو ’’بوئے رسیدہ‘‘ کر دیا تھا۔ آپ نے اس غلطی کا ازالہ تو یقیناً کر دیا ہو گا؟

٭٭   کراچی کے پبلشر کو معاف کرنے کا کیا سوال! اب کتاب کے ٹائٹل پر عنوان لکھوانے میں اس سے غلطی ہو گئی میں نے جن دوستوں کو کتاب تحفے میں دی ان پر نام غالباً صحیح کر دیئے تھے اس کے بعد تو ’’بوئے رمیدہ‘‘ کے تین ایڈیشن ہندوستان میں صحیح نام سے چھپ چکے ہیں۔ اب غلط نام لکھنے کی بات پرانی ہو چکی ہے آپ بھی رفت و گزشت سمجھئے گا۔

٭       آپ کے دوستوں اور مہربانوں کو ایک شکوہ آپ کی بسیارگوئی سے بھی ہے کہ آپ جس محفل میں شریک ہوں وہاں دوسروں کو بولنے کا موقع کم ہی ملتا ہے؟

٭٭   بھائی اب عمر اسی (ـ۸۰) سال سے تجاوز کر چکی ہے۔ اب اتنا وقت ہی کہاں کہ اپنی عادات کو بدل سکوں۔

٭        پروفیسر صاحب ! آپ کا حافظہ بلا کا ہے۔ خواہشوں ، کامیابیوں اور ناکامیوں کی لمبی داستان کا مختصر بیان و احاطہ گرچہ مشکل ہے مگر ناممکن نہیں؟

٭٭   یہ صحیح ہے کہ زندگی خواہشوں کامیابیوں اور ناکامیوں کی ایک لمبی داستان ہے لیکن میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں    ؂

جو مانگا تھا اس سے زیادہ ملا

٭       آخر میں ہم آپ کی آئیڈیل شخصیت اور ان کی تعلیمات کی روشنی میں برصغیر کے عوام کے لئے کسی پیغام کی درخواست کرنا چاہیں گے؟

٭٭   عزیز محترم ! پیغام تو بڑے لوگ دیتے ہیں میں تو اپنے آپ کو ایک بہت چھوٹا سا انسان تصور کرتا ہوں میری شخصیت کیا اور میری تعلیمات کیا۔ میں تو سر دست اس بات کے لئے دعا گو ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان صحیح معنوں میں دوستی کی ابتداء ہو اور دونوں ملک دو اچھے پڑوسیوں کی طرح زندگی بسر کر سکیں۔ میری ایک پرانی غزل کا شعر ہے

سیاست نے جو کھینچی ہیں حدیں قائم رہیں بے شک

دلوں کی حدِ فاصل کو مٹا دینے کا وقت آیا

آپ کے ان سوالات کے لئے آپ کا شکریہ اور میری طرف سے تاخیر کے لئے دلی معذرت۔

                                                                        (اپریل ۱۹۹۹)

٭٭٭

 

حکیم محمد سعید

(۹ جنوری ۱۹۲۰ تا۱۷ اکتوبر ۱۹۹۸)

٭       ہمدرد کی تعمیر و ترقی اور عظمت کا کریڈٹ آپ کے والد محترم کو جاتا ہے یا والدہ محترمہ کو؟

٭٭   ہمدرد کا قیام بجائے خود ایک عنوان عظمت ہے کہ یہ اس دور میں ہوا جب انگریز تاجر سے تاجدار بن گیا تھا اور یہ حاکمیت انگریز لازماً حاکمیت ہمہ جہت تھی۔ صنعت ہو کہ تجارت، علم ہو یا حکمت، ہر میدان میں انگریز کی برتری کا زور تھا اور شور، طب کا میدان بھی جولانگاہ انگریز تھا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ برصغیر سے طب کا خاتمہ کر کے طب مغربی کو عنوان شفا و صحت بنا دیتے۔ معروف طریقوں کے مطابق انگریز نے طب پر حملہ کیا اور حاملین طب کو بے وقار و وزن کیا اور طب کو غیر سائنسی کا لقب دے کر حاملین طب کو اتائی قرار دیا۔ طب کے لئے نیز اطباء کے لئے یہ حالات نہایت سنگین تھے۔ ان نہایت تباہ کن حالات میں حفظ و بقائے طب کی جنگ نہایت دلیری اور جرات کے ساتھ دو حکیموں نے لڑی۔ مسیح الملک حکیم حافظ محمد اجمل خان اور شہید فن، ہمدرد خلائق جناب حکیم حافظ محمد عبدالمجید صاحب۔ اول الذکر نے طب کے نظریہ و فلسفہ حفظ کے لئے معرکے سرانجام دیئے اور ایک د رس گاہ طب قائم کر دی جہاں سے خود میں فارغ التحصیل ہوں اور حکیم حافظ عبدالمجید صاحب نے نباتات کی فراہمی اور نباتاتی دوا سازی کی بنیادوں کو استحکام دیا۔ ان دونوں طاقتوں نے پورے جذب و جذبات کے ساتھ میدان طب میں پیش قدمیاں کیں ، حتیٰ کہ برصغیر سے طب کے عدم کے امکانات کو ختم کر دیا۔ میرے والد گرامی جناب حکیم عبدالمجید نے نہایت ناسازگار حالات میں ہمدرد قائم کیا مگر اپنی محبت شاقہ اور محنت فائقہ کے ساتھ ہمدرد کو ایک مقام عزت و شرف دے دیا۔ 1922ء ء میں ان کے انتقال کے بعد ہمدرد پر خاندانی تنازعات کے حملے ہوئے مگر میری والدہ مرحومہ نے پردے میں رہ کر ایک طرف اپنے بھائیوں (ہمارے ماموں) کو راہ راست دی اور دوسری طرف ہمارے دادا اور چچا کے حملوں سے ہمدرد کو بچایا اور حکیم قاضی مشرف علی بدایونی کی اعانت سے ہمدرد کو آندھیوں اور طوفانوں سے بچایا تا آنکہ میرے برادر مکرم جناب حکیم عبدالحمید بلوغ کو پہنچے اور حکیم اجمل خان کے قائم کردہ طیبہ کالج سے آراستہ طب ہو کر ہمدرد کو ترقیاں دینے کے لئے مستعد ہو گئے اور پھر 1936ء سے میں نے ان کی اعانت کی اور جب 1948ء میں ، میں پاکستان آیا تو ہمدرد برصغیر کا ایک سب سے زیادہ عظیم و مستحکم ادارہ طب تھا۔

٭       آپ ماشاء اﷲ پانچ بہن بھائی تھے رضائے الہی سے ایک بھائی عبدالوحید صاحب عالم شباب میں رحلت فرما گئے۔ حکیم عبدالحمید صاحب سے ایک عالم واقف ہے ! ہمشیر گان کی بابت کچھ معلومات فراہم کیجئے نیز یہ بھی کہ آپ کی قربت کن سے زیادہ تھی اور اس کے آپ کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟

٭٭   اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم چار بہن بھائی بقید حیات ہیں۔ میرے بڑے بھائی جناب محترم حکیم عبدالحمید ہندوستان کی ایک نہایت عظیم و کبیر شخصیت ہیں۔ میری دونوں بہنیں میرے ساتھ پاکستان میں ہیں۔ میری بڑی بہن حمیدہ بیگم کی عمر 93 سال ہے۔ الحمد اﷲ وہ صحت مند ہیں اور اخبارات وغیرہ کا مطالعہ ان کا شغف ہے۔ ان کے پسندیدہ اخبار جسارت اور امن ہیں۔ ان سے چھوٹے جناب حکیم عبدالحمید صاحب ہیں عمر 87 سال۔ ان سے چھوٹی اور مجھ سے بڑی محمودہ بیگم ہیں عمر 81سال۔ ان دونوں علیل ہیں۔ حکیم محمد یٰسین کی یہ والدہ نرسنگ ہوم میں ہیں۔ خود حکیم محمد یٰسین اسی بقائی ہسپتال میں ہیں۔ میں اپنی بہن محمودہ بیگم سے زیادہ متاثر رہا ہوں۔ ان کا مزاج نہایت خوب ہے۔ خدمت ان کا عنوان زندگی ہے ساری عمر خدمت گذاری میں صرف کر دی ہے مگر میری محبت ان دونوں بہنوں کے لئے یکساں ہے۔

٭       نو برس کی عمر میں آپ نے کلام پاک حفظ کیا اور تراویح پڑھانے کا عمل شروع ہو گیا کیا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے؟

٭٭   جب تک ہندوستان میں رہا تراویح میں قرآن حکیم سنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان آ کر حالات نے اس سلسلہ دینی کو متاثر کیا ایک بار (شاید 1956 ء میں کسی جگہ کوئی حافظ قرآن غیر حاضر ہو گئے ان کی جگہ دو رکعتوں میں پانچ سپارے پڑھنے کا موقع مل گیا تھا! تلاوت کاسلسلہ بہرحال جاری ہے مگر اب معانی و تفاسیر کے ساتھ۔

٭       بچپن آپ کا انتہائی نظم و ضبط میں گزرا جبکہ نوجوانی میں آپ کبوتر بازی، گلی ڈنڈا، کبڈی، پہلوانی، فٹ بال، بیڈمنٹن، شطرنج، کیرم بورڈ، مرغ بازی، کشتی رانی جیسے غیر سنجیدہ مشاغل میں مصروف رہے ان دو انتہاؤں میں آپ کس طرح تطابق پیدا کریں گے؟

٭٭   مجھے حیرت ہے کہ آپ کشتی رانی، پہلوانی، شطرنج اور بیڈ منٹن کو غیر سنجیدہ فرماتے ہیں۔ جناب یہ ذرا زیادتی ہے ، میری ورزشِ میدان تو ہائیکنگ (پہاڑوں پر چڑھنا) اور فٹ بال رہے ہیں۔ آخر میں مشہور زمانہ محمڈن اسپورٹنگ یونین سے رشتہ رہا۔ شملہ کے مشہور گراؤنڈ گلین میں میچ کھیلا۔ کیا آپ انہیں بھی غیر سنجیدہ کہیں گے ! اور ہاں گاما پہلوان کیا غیر سنجیدہ پہلوان تھے۔ پاکستانی ایک بدقسمت قوم ہے کہ جو اپنے نیشنل ہیرو کو فراموش کر چکی ہے اور دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور انسان کو بھلا بیٹھی ہے سیاست میں تو آپ نے اپنے ہر ہیرو کو بدنام کر ڈالا ہے حتیٰ کہ کسی درسی اور نصابی کتاب میں ان ہیروں کا نام نہیں لکھا جا سکتا مگر گاما (غلام محمد) تو عظمتِ وطن تھے اور رفعت عالم تھے میرا اور گاما کا رشتہ آپ کے نزدیک غیر سنجیدہ ہے !

            آپ کے نزدیک گلی ڈنڈا اور کرکٹ میں کیا فرق ہے۔ اگر کرکٹ خوب ہے تو پھر گلی ڈنڈا بھی ناخوب نہیں ہے۔ کبڈی تو ہمارا شاندار کھیل ہے۔ ہرگز غیر سنجیدہ نہیں ہے۔ مرغ بازی اور کبوتر بازی میرے نزدیک غیر سنجیدہ نہیں ہیں کم از کم میں نے اس سے فتح و شکست کے عنوانات کو جانا ہے۔ ان سب حرکات کے باوجود میں نے علم و حکمت سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔ 13-12 سال کی عمر میں عربی اور فارسی پڑھ لکھ سکتا تھا۔ انگریزی بھی ٹوٹی پھوٹی آ ہی گئی تھی۔ پھر 19 سال کی عمر میں طبیہ کالج دہلی سے فراغ طبی حاصل کر لی۔ اگر آپ کا اصرار سنجیدہ اور غیر سنجیدہ سے ہے تو اس کی داد دیجئے کہ میں ان دونوں سے کیسا عہدہ برآ ہونا جانتا ہوں ! آپ دیکھتے نہیں کہ پاکستان کی غیر سنجیدہ سیاست سے میں کس طرح عہدہ برآ رہتا ہوں !

٭       مداحین کے مطابق پاکستان آمد آپ کے آہنی عزم کا ثبوت ہے جبکہ ناقدین کی رائے میں یہ دور بین تاجر کا بروقت اقدام تھا جو کسی طور بھی مشرقی و مغربی پاکستان کی بڑی مارکیٹ سے محروم ہونا نہیں چاہتا تھا؟

٭٭   میرے ناقدین تجارت اور عبادت کو ایک سمجھنا بھول گئے ہیں۔ یہ ان کا قصور نہیں ہے یہ حالات کا معاملہ ہے صنعت جب تجارت بن جاتی ہے تو پھر اس کے نتیجے میں تعمیر کا عنوان قائم ہوتا ہے۔ صنعت و تجارت جب عبادت کا درجہ اختیار کرتے ہیں تو مدینۃ الحکمۃ وجود میں آتا ہے۔

            مداحین کا ممنون ہوں کہ حالات پر ان کو احاطہ حاصل ہے وہ جانتے ہیں کہ میری ہجرت اتباع ہجرت رسولؐ کا عنوان تھی۔ میں تو پاکستان خالی ہاتھ آیا تھا۔ نوکری کی تھی۔ صرف ساڑھے بارہ روپے کرائے کے فرنیچر سے آغاز ہمدرد کیا تھا۔ یہ بھی میرے عظیم والد کی روایت تھی کہ دہلی میں ہمدرد دو سو روپے قرض کے سرمائے سے شروع ہوا تھا یہ قرض میرے نانا عالی جناب شیخ کریم بخش نے عطا فرمایا تھا۔ اب ذرا ناقدین غور کریں کیا بہ وقت ہجرت مارکیٹ مشرقی و مغربی پاکستان کا کوئی تصور ہوسکتا تھا (جبکہ صنعت و تجارت کا وجود ہی نہیں تھا)۔

٭       قریب ستر سال سے آپ نے کوئی روزہ قضا نہیں کیا، ایک عرصے سے آپ کے نفلی روزوں کی تعداد میں اضافہ جاری ہے ہماری اطلاع کے مطابق آپ عرصہ پچاس سال سے بغیر سحری روزہ رکھ رہے ہیں۔ یہ سلسلہ کب اور کیوں شرو ع ہوا اور اس کے فوائد کیا ہیں؟

٭٭   اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے توفیق ملی کہ میں پابند شرع رہوں۔ روزہ ایک حکم شرعی ہے جب سے پہلا روزہ رکھوایا گیا (عمر 6 سال غالباً) اس کے بعد سے کوئی روزہ قضا نہیں ہوا ہے۔ پھر اب 3 سال سے یہ معمول ہے کہ میں دن میں مطب کرتا ہوں ، مریضوں کی خدمت کرتا ہوں میرا روزہ ہوتا ہے ، اب میں مہینے میں 15 دن مطب کرتا ہوں۔ ان 15دنوں میں روزہ سے ہوتا ہوں۔

            ہاں پاکستان آنے کے بعد میری غربت میری مجبوری تھی، میں دو وقت کا کھانا نہیں کھا سکتاتھا۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے ، اس دوران دن کا کھانا چھٹا اور رمضان المبارک میں سحری بھی۔ فراغت کے بعد میری غربت اب اختیاری ہے۔ الحمد ﷲ میں اس غربت اختیاری پر فخر کرتا ہوں اور اطمینان محسوس کرتا ہوں۔ اس غربت اختیاری کا ایک مظہر یہ ہے کہ میں دن کا کھانا نہیں کھاتا اور رمضان المبارک میں تہجد گزاری میں سکون محسوس کرتا ہوں مگر سحری نہیں کھاتا۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ پاکستان کی آدھی آبادی کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں ہے کیا آپ نے یہ قول رسول ؐ نہیں سنا ’’الفقر فخری! حضور نبی کریم ؐ نے اختیاری غربت کا مظاہرہ فرمایا اور راہ حق دکھائی۔ یہ غربت اختیاری دولت کے بطلان کا درس تھی۔ پر دعائے رسولؐ کی قدر عظمت و رفعت کا عنوان ہے کہ ’’اے اﷲ کریم! مجھے بہ حالت غربت اپنی طرف بلا لے ‘‘۔

            آپ نے فوائد کی بات کی ہے۔ جناب کیا آپ اس اتباع رسولؐ سے سکون محسوس نہیں کرتے کیا یہ سکون فائدہ نہیں ہے۔ پھر واقعتہً میری صحت کا راز کم خوری ہے اور محنت کشی۔ قناعت ہے ، دولت سے نفرت ہے۔ انسان سے محبت ہے۔

کیوں نہ آپ اور ہر فرد قوم یہ تجربہ کرے۔

٭       اوپر کے سوال میں انتہائی سادگی اور کفایت شعاری عیاں ہے جبکہ شنید یہ ہے کہ آپ ’’عمرے ‘‘ کی سنچری مکمل کر چکے ہیں اور حج بھی بے شمار کئے ہیں۔ اس کا بھی کوئی مناسب جواز آپ یقیناً رکھتے ہوں گے؟

٭٭   ایک بات تو یہ ہے کہ میرا پہلا حج 97ء کا ہے اور آخری حج 1996ء کا ہے اس دوران مجھے یہ شرف بھی حاصل ہے کہ میں نے اتنے عمرے کئے ہیں کہ مجھے ٹھیک یاد نہیں ہے۔ میرا کوئی عمرہ اور حج نہ نمائش کے لئے تھا اور نہ نمود کا عنوان رہا ہے۔ میں اتباع سنت رسولؐ سے سرشار رہنا چاہتا ہوں۔ اور حسب توفیق استطاعت میں عمرے کرتا رہا ہوں۔ میری اس توفیق نے مجھے دائرہ اسلام میں تو رکھا ہے مگر دائرہ انسانیت سے باہر نہیں ہونے دیا۔ اور پھر یہ ایک عمرہ ہی کی برکت ہے کہ میں نے مقام ابراہیم پر بیٹھ کر مدینۃ الحکمۃ کا منصوبہ تیار کیا اور اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے ایک لق و دق صحرا میں ایک شہر علم و حکمت نے وجود حاصل کر لیا۔

            آپ کا سوال نہایت عجیب ہے اور یقیناً آپ نے خود اس سوال پر غور نہیں کیا ہے کیا عمرہ ادا کرنا خلاف سادگی ہے؟ یا تلاش سادگی کا عنوان ہے ! پھر عمرے کے لئے جواز کا کیا سوال؟ اس میں کون سی ناجائز بات ہے اور اس میں کیا چیزّ سادگی کے خلاف ہے؟ کفایت شعاری میری زندگی کا حسن ہے کیا آپ نے پاکستان میں مجھے کسی بھی تفریحی مقام پر دیکھا ہے؟ انسان سزاوار فرحت ہے میری فرحت کا سامان سرزمین قرآن پر ہوتا ہے۔ الحمد اﷲ۔

٭       ہمارا یہ سوال بھی اوپر کے سوال سے متصادم ہے ، اس میں ترک دنیا کا کوئی تصور نہیں جبکہ اﷲ تعالیٰ کا فضل و کرم بھی شامل ہو، آپ نے لباس میں سادگی بلکہ سفید پوشی کب سے اختیار کی۔ آپ کے قریبی ذرائع کے مطابق جوتے پالش سے لے کر کپڑوں کی دھلائی اور استری تک آپ نے اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں یہ سلسلہ کب سے جاری ہے اور اس کا سبب کیا ہے؟

٭٭   ایک دن مکۃ المکرمہ سے ایک انسان ظالم اس قصبہ سے مدینۃ المنورہ روانہ ہوا کہ وہاں جا کر حضور رسالت مآب صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کو قتل کرے گا۔ وہ مدینہ منورہ آیا۔ نبوت کدہ تک رسائی حاصل کر لی۔ اندر داخل ہوا۔ ایک انسان نہایت انہماک سے اپنی چادر دھو رہا تھا۔ دروازے کی طرف پشت، آہٹ پر رخ انور دروازے کی طرف ہوا۔ مکہ مکرمہ سے آنے والے نے حیرت سے دیکھا کہ کپڑے دھونے والا انسان اﷲ تعالیٰ کے رسول تھے ! قتل کرنے کے ارادے سے آیا تھا تابع فرمان رسول ہو گیا کلمہ پڑھ کر صف اسلام میں شریک ہو گیا۔ تو اپنے کپڑے خود دھونا سنت رسول اکرم ہے۔ میری سفید پوشی اس سے ہے کہ میرے ہادی برحق رسول اﷲ کو سفید رنگ پسند تھا۔ ہاں ، میں اپنے جوتے بھی خود صاف کرتا ہوں کارکن سے میں یہ ذاتی کام نہیں لیتا۔ میرے کپڑے ایسے ہیں کہ ان پر استری کی ضرورت نہیں ہے بس شرمندگی یہ ہے کہ یہ کپڑا امریکہ کا بنا ہوا ہے مگر میں نے اسے سیل میں سے خریدا تھا!

٭       میڈیکل سائنس کے نقطہ نظر سے انسانی جسم کو چوبیس گھنٹے میں قریب چار سے چھ بار مختلف قسم کی خوراک درکار ہوتی ہے پھر آپ ایک ناشتہ اور ایک کھانا کس تھیوری کے تحت تجویز فرماتے ہیں اور اس کے فوائد کیا ہیں؟

٭٭   پہلی بات تو یہ ہے کہ میڈیکل سائنس میں کوئی ایسی جامع تحقیق نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے کہ انسان چوبیس گھنٹوں میں چار سے چھ بار خوراک لے۔ ایسا صرف زخم معدہ وامعا کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ مگر یہ بھی کوئی حکم حتمی نہیں ہے۔ میڈیکل سائنس نے آج جسم کی ضرورت غذائی کے بارے میں ایک فیصلہ کر دیا ہے کہ ایک انسان کو، جو صحت مند ہو، ہزار بارہ سو سے زیادہ حراروں کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اس قدر حرارے کم سے کم غذاسے حاصل ہو جاتے ہیں۔ تہذیب و تمدن اسلامی پر خوری کے حق میں نہیں ہے اور نہ بلا نوشی کی تائید میں ہے۔ایک حدیث شریف یہ ہے کہ ا نسان کو صبح ایسا اچھا ناشتہ کرنا چاہئے کہ تمام دن اطمینان سے مصروف رہ سکے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (مخاطب اہل جنت ہیں) تم کو صبح و شام کھانا ملتا رہے گا….. ان دونوں حوالوں سے دن کے کھانے کی نفی ہو جاتی ہے۔ عصری سائنس بھی آج دن کا کھانا ترک کرنے کا مشورہ دیتی ہے اور صرف سبزیوں پر قناعت کو کافی سمجھتی ہے۔ یہ دینی اور سائنسی بات ہے۔ اب آپ معاشی و اقتصادی طور پر غور فرمائیے۔ کیا قوم کا ہر فرد آج مقروض نہیں ہے؟ اس قرض نے کیا ہماری آزادی کا سودا نہیں کر لیا ہے؟ اگر آپ کو آزادی مطلوب ہے تو آزادی ایثار کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ بیرونی ملکوں سے دودھ، گوشت، چائے ، دالیں ، ٹماٹر، آلو اور پیاز مشروبات، آئس کریم، چکن، گیہوں اور شکر درآمد کر کے آپ آزاد اور خود دار نہیں رہ سکتے۔ ایک دن آ کر رہے گا کہ اس کھانے پینے کی نظر آپ کی آزادی ہو جائے گی۔ اب فیصلہ یہ کرنا ہے کہ آزاد رہنا ہے یا کھانے پر اپنی آزادی قربان کرنی ہے۔

            تقاضائے وقت و حالات یہ ہے کہ ہم دن کا کھانا یکسر اور یک لخت ترک کر دیں اور غذائی اشیاء کی درآمد بند کریں۔

٭       آپ نے جس مستقل مزاجی، شوق اور لگن سے مریضوں کے لئے خود کو وقف کر رکھا ہے یہ قومی خدمت کی ایک عمدہ مثال ہے جبکہ بہت سے ناقدین اس کو بھی تجارت کی تشہیر کا ذریعہ گردانتے ہیں۔ کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ آپ اب تک کتنے مریض دیکھ چکے ہیں اور ان میں شفا یاب ہونے والوں کا تناسب کیا ہے؟

٭٭   معاشرہ انسانی میں سب سے زیادہ آسان کام اعتراض اور تنقید ہے۔ ہم فکر انسان کی رسائی دانش اس سے زیادہ آگے نہیں جا سکتی۔ یہ انسان نادان کی مجبوری ہے اﷲ تعالیٰ نے ایسے ناقدین کو نعمت فکر و نظر سے ہمیشہ محروم رکھا ہے اور ان کے وجود کو تنبیہات کے لئے برقرار رکھا ہے میں اپنے ہر ناقد کوا پنا دوست سمجھتا ہوں۔ اس لئے کہ اس کی تنقید سے میں اپنی حسب ضرورت اصلاح کرتا رہتا ہوں۔ مریضوں کی بلا معاوضہ خدمات کرنا نہ تجارت ہے اور نہ تشہیر ہے۔ طب ایک فن شریف ہے اور میں نے اس شرافت فن کا احترام کرنے کی توفیق الہٰی حاصل کی ہے۔ میں اس سے سرشار ہوں۔ پاکستان کا نہیں دنیا کا کوئی ایک انسان ذرا یہ بتا دے کہ میں نے اپنے چالیس پچاس لاکھ زیر علاج مریضوں سے کوئی ایک پیسہ فیس کالیا ہو! ہاں ہمدرد کا ریکارڈ یہ ضرور بتائے گا کہ لاکھوں روپے کی ادویہ نادر مریضوں کو دینے کا شرف میں نے حاصل کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اس نے موقع خدمت عطا فرمایا ہے۔ میں اس حقیقت کا ادراک کر نے کا اہل ہوں کہ طب جب تک فن شریف رہتا ہے طبیب دست شفا سے سرشار رہتا ہے جب تک یہ سرشاری حاصل رہے گی اﷲ تعالیٰ شفا کا سامان کرتا رہے گا۔ شفا تو لازماً اور یقیناً اور حتماً من جانب اﷲ ہے۔ طبابیت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

٭       شام ہمدرد کا سلسلہ کب اور کیوں کر شروع ہوا؟ اور اب تک اس سے کیا نتائج برآمد ہوئے اور اس مفید سلسلے کو توسیع تعلقات عامہ سے تشبیہ دینے والوں کے لئے آپ کیا کہنا پسند فرمائیں گے؟

٭٭   وہ انسان کہ جو مرتبہ انسانیت پر فائز نہیں رہتے وہ خود وہ مقام خدمت کے لطف سے محروم رہتے ہیں اور متلاشی حق نہیں رہ سکتے اور احترام انسان نہیں کر سکتے ان کی فکر ہمیشہ منفی ہو جایا کرتی ہے۔ حقائق کا احترام ان کا مقدر نہیں رہتا۔ ہر انسان کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ راہ حق کے مسافر کا احترام کرے اور صراط مستقیم سے دور ہوئے بھٹکے انسان کو سچا اورسیدھا راستہ دکھا دے۔ شام ہمدرد کا عنوان یہی رہا ہے۔ اس مستقل اور پاکستان کے واحد مستحکم پروگرام نے تعمیر اذہان کی نہایت مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔ اس سعی مسلسل اور جہد پیہم میں پاکستان کے ہر صاف فکر نے خلوص و انس کے ساتھ حصہ لیا ہے یہ سب انسان وہ ہیں جو شہرت سے بے نیاز اور نام و نمود سے دور رہنا اپنی شان سمجھتے ہیں اور واقعتہً اہل علم و حکمت کا مرتبہ اور شان یہی ہے۔ شام ہمدرد حکمائے فن کا پلیٹ فارم ہے اور پاکستان کی خدمت کا جلی عنوان ہے۔ یہ ملک و ملت کی عظیم خدمت ہے شام ہمدرد میں سیاست کو دخل دینے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا ہے۔ماورائے سیاست رہ کر اہل علم و فکر سے ملت کی خدمت سرانجام دی ہے اور ہر طور بہ انداز ثبات!

٭       طب مشرق میں تشہیر کا جدید انداز آپ نے متعارف کرایا۔ اشتہاروں کی عبارت، کاپی رائٹنگ کے علاوہ آپ نے بہت سی وڈیو اور اشتہاری فلمیں بھی تحریر کیں۔آج کل اس شعبے سے آپ کی دلچسپی کس مرحلے میں ہیں؟

٭٭   میری یہ دلچسپی قائم ہے میں نے اشتہار کو بھی تعلیم بنانے کی سعی کی ہے۔ اشتہار کو کوئی پیغام دینا چاہئے۔ اب آئندہ ہمدرد کی تشہیر میں حتی الامکان اس کا خیال رکھا جائے گا کہ یہ فقط مصنوعات فروشی نہ ہو بلکہ اہل وطن کے فکر و نظر کی تعمیر کا عنوان بھی ہو۔ مغرب کا یہ انداز نہیں ہے۔ فن تشہیر نے مغرب میں جو کچھ پایا ہے وہ ہاٹ کیک ہے۔یعنی ایسی زبردست تشہیر کہ مصنوعات کی خریداری فوراً ہو جائے۔ مشرق کی ثقافت اس سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ مشرق کا مزاج صنعت عبادت ہے۔ ہر چند کہ پاکستان کے صنعت کار نے عبادت کو ترک کر کے مغرب کا انداز اختیار کیا ہے۔ بہ ایں ہمہ وہ ضمیر رکھتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کی سیاسی ناہمواریوں نے پاکستان کے صنعت کار کو مایوس کر دیا ہے۔ وہ ملک سے مایوس ہو کر اپنی دولت پاکستان سے باہر اکٹھی کر رہا ہے۔ یہ سب سے بڑا ظلم ہوا ہے اور اس سے صنعت کار نے تشہیر کو نظر انداز کیا ہے اور اخبارات اور جرائد کی تعمیر اور ان سے تعاون سے منہ موڑا ہے۔

٭       ایک زمانے میں آپ کو علمی اور ادبی مخطوطات جمع کرنے کا شوق ہوا کرتا تھا۔ آج کل کیا صورتحال ہے اور کیا آپ اپنے جمع شدہ ذخیرہ کی تفصیلات بتانا پسند کریں گے؟

٭٭   ہاں مجھے یہ شوق کل بھی تھا اور آج بھی ہے میرے پاس بیت الحکمۃ میں کوئی ڈیڑھ ہزار مخطوطات ہیں۔ طبی اور غیر طبی۔ شرمندگی مجھے یہ ہے کہ حالات ہنوز سازگار نہیں ہوئے ہیں کہ ان مخطوطات میں سے اہم ترین کا انتخاب کر کے ان کے موجودہ عالمی زبانوں میں تراجم شائع کئے جائیں۔ آپ کو اگر میں یہ بتاؤں تو آپ حیران ہوں گے کہ اس وقت ہمارے دور عروج کا جب ہمارا علم و حکمت سے ناطہ تھا تین ملین۔(تیس لاکھ) مخطوطات اس وقت دنیا کی لائبریریوں میں موجود ہیں۔دنیائے عرب و اسلام میں ان کی ایک بڑی تعداد موجود ہے مگر عرب دولت اور اسلام ثروت علم آج تک ان مخطوطات سے غافل ہے کسی کو معلوم نہیں کہ ان تیس لاکھ کتابوں میں کتنے علوم و فنون موجد ہیں۔ عالم اسلام کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے عالم اسلام کا یہ نہایت درد ناک سلوک ہے۔ اپنی تاریخ کے ساتھ، اپنی ثقافت کے ساتھ اور اپنے ورثہ ہائے ماضی کے ساتھ۔ آج سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ ان تراجم کو نمائش کے بجائے ان کے مشمولات کو الم نشرح کیا جائے۔

٭       آپ 1936ء یعنی عرصہ ساٹھ سال سے باقاعدگی کے ساتھ روزنامچہ تحریر کر رہے ہیں کبھی اس کی اشاعت کا خیال دل میں نہیں آیا؟ آپ کی ڈائری کے اوراق میں تو بر صغیر کی تاریخ محفوظ ہو گی یقیناً؟

٭٭   آپ کو نہایت بھاری دل کے ساتھ بتاتا ہوں کہ میں نے روزنامچہ لکھنا ترک کر دیا ہے میری توجہ تصنیف و تالیف پر رہی ہے اور میں نے اس میدان میں اچھے خاصے کام کیے ہیں۔ ہاں دو سال قبل نونہالوں کے لئے مہینے کا روزنامچہ لکھا تھا جو  جلدوں میں شائع ہوا ہے مگر میں اس سلسلے کو قائم نہ رکھ سکا۔ اول تو دنیائے ادب میں نونہالوں کے لئے روزنامچہ ایک نئی صنف ادب قرار پائی پھر یہ کہ میں نے ان کتابوں کو نو نہال کی تعلیم و تربیت کا عنوان بنانے کی حتی الوسع کوشش کی ہے۔

            یہ ایک صنف ا دب میں اضافہ نونہالوں کے لئے بہ حیثیت سعید سیاح سفر ناموں کا لکھنا ہے۔ تاریخ ادب میں ، خواہ وہ مشرق کی ہو کہ مغرب کی کسی نے نونہالان وطن کے لئے سفرنامے نہیں لکھے۔ اس میدان میں مجھے اولیت حاصل ہوئی ہے۔

            ہاں میں نے آپ بیتی لکھنے کا ارادہ کیا ہے کوئی بارہ سو فائل مرتب بھی کر لئے ہیں۔کوشاں ہوں کہ چند ماہ مل جائیں تو یہ آپ بیتی تحریر کر دوں۔ یقیناً کئی اعتبارات سے اس آپ بیتی کو منفرد ہونا چاہیے۔

٭٭   آپ نے ایک بار کہیں فرمایا تھا کہ میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کے دفتر گیا تو دھکے دے کر نکالا گیا بعد میں اسی اقوام متحدہ نے آپ کو یونانی طب کا مشیر مقرر کیا! کیا آپ مختصر طور پر اس جدوجہد کی روداد بتانا پسند کریں گے؟

٭٭   میں نے 94ء میں یہ فیصلہ کیا کہ میں طب عربی کے احیا کا سامان کروں گا۔ کیونکہ میں نے اس کی سائنسی حقیقت کا ادراک کر لیا تھا۔ نظریہ و فلسفہ طب عربی بہر اعتبار قابل اعتنا و اعتماد ہے۔ اس جدوجہد کا ہندوستان میں اثر ہوا۔ میرے پاکستان آنے کے بعد میرے بھائی جان محترم حکیم عبدالحمید صاحب نے اس تحریک کو جاری رکھا۔ ہم دونوں بھائیوں نے ایک نظریہ طب یعنی چار عناصر پر عالمی سطح پر تحقیقات کر کے اس کی واقفیت ثابت کر دی ہے۔ مجموعی طور پر اس موضوع پر آٹھ عالمی کانفرنسیں ہم نے کرا وی ہیں۔

            ہاں ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(عالمی ادارہ صحت) کی بات پر کہ جب ، میں نے اس عالمی ادارے سے رابطہ قائم کیا اور اس کو بتایا کہ جب تک طب ہائے قدیم (طب عربی، طب چینی، طب ہندی) کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اس ادارہ کی عالمی حیثیت مشتبہ مکمل ناقابل تسلیم رہے گی۔

            میرا یہ انداز فکر اُنھیں گراں گزرا اور میرے خلاف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو پاکستان کے اراکین نے مدد دی اور خود اہل پاکستان کے نمائندگان نے میرے خلاف عالمی ادارہ صحت کے کان بھرے۔ میں ان بزرگوں کا نام لینا نہیں چاہتا مگر یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ طب کی مخالفت کر کے انہوں نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا۔ پاکستان کا جب تعاون عالمی ادارہ صحت کو حاصل ہو گیا تو وہاں میرا داخلہ ممنوع ہو گیا!

            مگر میں نے سائنسی انداز اختیار کر کے دنیا کے اہل سائنس دان کی تائید حاصل کر کے عالمی ادارہ صحت کو طب کا حامی بنا دیا ہے اب یہ ادارہ طب عربی کو کم مگر طب ہندی اور طب چینی کو تسلیم کرتا ہے۔ طب عربی کو کم اس لئئے کہ عالم عرب کا کوئی ایک ملک خود اپنی طب کا حامی نہیں ہے۔ اس لئے عالمی ادارہ صحت چین و ہند کا دباؤ قبول کرتا ہے۔ طب عربی کے لئے فقط پاکستان آواز بلند کرتا ہے۔ یعنی پاکستان کا ادارہ ہمدرد، پاکستان کی وزارت صحت آج بھی طب کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے بلکہ اسے عطایت کے دائرے میں رکھنے پر اس لئے مصر ہے کہ وہ ملٹی نیشنل مغربی دوا سازوں کے زیر اثر ہے۔ اب طب کے لئے عالمی ادارہ صحت کی جو بھی کانفرنس یا میٹنگ ہوتی ہے میں ان میں شریک ہوتا ہوں اور اسکندریہ کی میٹنگوں کی صدارت کا شرف بھی مجھے حاصل ہوتا ہے۔

٭       بڑے لوگوں کی زندگی کے واقعات ذاتی نہیں ہوا کرتے ! ان کا ریکارڈ پر آنا اور عوام تک پہنچانا ایک طرح کی قومی ذ مہ داری ہوا کرتی ہے ہم بصد احترام آپ کی زندگی میں آنے والی نیوزی لینڈ کی خاتون کے علاوہ شادی سے پہلے اور بالخصوص بیگم صاحبہ کی وفات کے بعد کی صورتحال جاننا چاہیں گے؟

٭٭    یہ بات صحیح ہے کہ میں نے دہلی میں نیوزی لینڈ کی ایک خاتون سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس فیصلے کے لئے محترم بڑے بھائی جان کی اجازت حاصل کرنی ضروری تھی اس لئے کہ وہ میرے محسن ہیں اور میری فکری اور ذہنی تعمیر ان کی تربیت کی رہین منت ہے۔ مجھے یہ اجازت نہیں ملی۔ محترمہ والدہ صاحبہ کو میری رائے سے زیادہ اختلاف نہیں تھا مگر ان کی خواہش تھی کہ میرے مرحوم بھائی عبدالوحید سے جو خاتون منسوب تھیں میں ان سے نکاح کر لوں تو خاندان کے حق میں اچھا ہو گا۔ محترم بھائی جان طب کے حوالے سے بات کرتے تھے کہ نہ تو مجھے صحافی بننا چاہئے اور نہ ا یک صحافی خاتون سے عقد کرنا چاہئے۔ میں نے احترام کا مظاہرہ کیا اور نیوزی لینڈ کو سسرال نہ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر میری شادی عزیزہ نعمت بیگم سے ہو گئی۔ ہم دونوں 36 سال ساتھ رہے ان کا حادثاتی طور پر انتقال ہو گیا۔ وہ اس قدر عظیم خاتون تھیں کہ ان کی جدائی کے بعد میرے لئے ہرگز ممکن نہ تھا کہ میں شادی کروں گو میرے سرحد کے دوست مصر تھے ، مگر میں نعمت بیگم کی روح کو دکھ دینا نہیں چاہتا تھا اور نہ ان کے بعد کسی دوسری خاتون کو واجبی محبت دے سکتاتھا، اپنی زندگی میں نعمت بیگم کا اصرار تھا کہ میں نرینہ اولاد کی خاطر شادی کر لوں مگر میں نے جواباً کہا: کیا ضمانت ہے کہ نرینہ اولاد اوباش نہ ہو گی۔ میری پیاری بیٹی سعدیہ نے نرینہ اولاد سے زیادہ مظاہر علم و حکمت کر کے مجھے شاد کا م کیا ہے۔

٭       حکیم صاحب بچوں کی جانب آپ کب راغب ہوئے اور اب تک آپ نونہالان وطن کے حوالے سے کیا کارہائے نمایاں انجام دے سکے ہیں؟

٭٭   اب یہ کوئی دس سال کی بات ہے کہ میں نے مستقبل کے پاکستان پر غور کرنا شروع کیا اور جلد ہی یہ فیصلہ کیا کہ نونہالوں کو مستقبل کا معمار بنانے کی خدمت سرانجام دینی چاہئے۔ افسوس مجھے ضرور ہے کہ یہ خیال  سال قبل کیوں نہ آیا مگر میں نے پوری جواں ہمتی کے ساتھ وطن کے عظیم نونہالوں کو سنبھالا اور ان کو اس انداز سے تربیت دینے کا فیصلہ کیا کہ وہ کل کے پاکستان کو سنبھال سکیں۔

            مجھے اطمینان ہے کہ میں نے اپنی بساط بھر خدمت سرانجام دی ہے اور دے رہا ہوں مگر ہنوز میں پاکستان کے تمام افراد کے دل میں یہ بات نہیں ڈال سکا ہوں کہ جب ان کو کوئی نونہال نظر آئے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھیں کہ یہ نونہال میرا ہے۔

            میں یہ حالات پیدا کرنے کا آرزو مند ہوں۔ جس دن ایسا ہو جائے گا پاکستان کا ہر نونہال شادکام ہو جائے گا۔ اطمینان کی صورت یہ ہے کہ پاکستان میں نونہالوں کے احترام و محبت کے لئے بیداری آنی شروع ہو گئی ہے۔ اور ا رباب صحافت اور ارباب ٹیلی وژن میرا ساتھ دیں تو جو کام  20 سال میں ہونا ہے وہ 3-2 سال میں ہو سکتا ہے۔ مگر صاحبان صحافت اور ارباب ٹیلی ویژن وغیرہ نے ہنوز ا اس نکتے کی فہم سے عاری ہونے کا مظاہرہ کیا ہے۔

            غالباً دنیا کے کسی ملک نے ’’عالمی نونہال صحت کانفرنس کا انعقاد نہیں کیا ہے۔ ہمدرد پبلک سکول کے زیر اہتمام اب تک چار عالمی نونہال صحت کانفرنس ہو چکی ہیں۔ اگر حالات وطن سازگار ہوں تو مختلف موضوعات پر عالمی کانفرنس کر کے میں پاکستان کے عظیم نونہالوں کو دنیا کے نونہالوں کی صف میں کھڑا کر دوں گا۔

            میں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ جب وہ غیر ملکی دوروں پر جائیں تو  نونہال اپنے ساتھ لے جائیں جو لازماً اسکولوں سے لئے جائیں۔ مگر غالباً وزارت خارجہ نے اس میں قباحت محسوس کی۔

            اب تازہ ترین اپروچ یہ ہے کہ میں نے نگران وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ نونہالوں کو اسمبلیوں میں وزراء کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے اور یہ کہ ایک نونہال پارلیمان اسلام آباد کے پارلیمان ہاؤس میں منعقد کرنے کی اجازت دی جائے۔ جناب وزیر اعظم نے ہنوز خاموشی نہیں توڑی ہے۔ تاخیر کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ یہ کام کر گزرنا چاہتے ہیں !

٭       سنا ہے کہ آپ جب عارضہ قلب سے دوچار ہوئے تو آپ نے اپنا علاج خود کیا؟ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوا؟ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ آپ اپنے علاج کے باعث ’’تلی‘‘ کے عارضہ میں مبتلا ہوئے جس کے باعث آپ کو بڑے آپریشن سے دوچار ہونا پڑا؟

٭٭   ہاں مجھے 1956ء میں نہایت شدید حملہ قلب ہوا یہ وہ دور ہے کہ پاکستان میں انفلوئنزا کی وبا آئی تھی میں ایک سو چار پانچ بخار میں بھی مریضوں کی خدمت کرتا رہا یہاں تک کہ انفلوئنزا کے وائرس نے میرے قلب کو تباہ کر دیا۔

            میں نے کوئی علاج نہیں کیا۔ ماہرین قلب نے دوائیں دیں ، مگر میں نے استعمال نہیں کیں۔ مجھے ٹوتھ پیسٹ خود کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ بقر عید کی نماز تک نہیں پڑھنے دی۔ نو دن تو میں نے یہ ’’قید‘‘ برداشت کی دسویں دن نہایت خاموشی کے ساتھ میں راولپنڈی تیز گام سے پہنچ گیا۔ میرے دوست صفدر صاحب نے مجھے ایبٹ آباد پہنچایا۔ مگر وہ جگہ مجھے پسند نہیں آئی میں نے نتھیا گلی کا رخ کیا وہاں ایک اسٹور میں رہنے کو جگہ ملی۔ دو دن آرام کیا۔ دو دن ٹہلنا شروع کر دیا پانچویں دن نتھیا گلی کلب میں جناب شیخ منظو ر قادر صاحب (وزیر خارجہ پاکستان) کے ساتھ ٹینس کھیلنی شروع کر دی۔ یہ میری قوت ارادی کا ایک مظاہرہ ہے۔

            میں خود جس قدر ایکٹو ہوں میری تلی مجھ سے زیادہ ایکٹو ہو گئی۔ اس کی ایکٹو یٹی جب قابو میں نہیں آئی تو اس کا آپریشن کرانا پڑا۔ اب تیل ہے نہ رادھا!

٭       1975ء کے اس لطیفے پر تو روشنی ڈالئے جب آپ نے روس سے آئے ہوئے معزز مہمان کو کسی کھیل میں شکست دے ڈالی تھی؟

٭٭   جی ہاں یہ واقعہ دو شنبہ (تاجکستان) کا ہے۔ وہاں روسی کھلاڑی زور شور سے شطرنج کھیل رہے تھے میں بھی جا کر بیٹھ گیا۔ جب مجھے دعوت ملی تو میں جم گیا اور روس کے اچھے کھلاڑی کو میں نے ہرا دیا۔ اس کی دلچسپ تاریخ 1937ء میں مری پہاڑ پر شطرنج کا چیلنج میچ ہے وہاں سندھ کے شطرنج کے چیمپئن کا شہرہ تھا میں نے انہیں چیلنج کر دیا۔ 17 سال کے جوان سعید کو انہوں نے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور مقابلے سے انکار کر دیا انہوں نے حقارت کا اظہار کیا۔ بالآخر ایک دن کھیل ہو گیا۔ میں نے آٹھویں چال میں انہیں شکست دے دی۔ شطرنج کا میں اچھا کھلاڑی ہوں میری بساط ہنوز محفوظ ہے۔

٭       سرکار و دربار میں آپ کی پذیرائی ہر دور میں رہی کس حکمران سے آپ نے زیادہ ہم آہنگی محسوس کی بالفاظ دیگر عمدہ تعلقات کن سے رہے؟

٭٭   ایک امریکی خاتون نے جب واشنگٹن میں میرا ’’کوفی کپ‘‘ پڑھا اور میرے بارے میں حالات بتائے تو ایک بات یہ تھی ’’میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ کے تعلقات عرب دنیا سے زیادہ ہیں ‘‘ یہ بات زیادہ غلط نہیں تھی بالآخر صحیح ثابت ہوئی۔

            میں بہت سے حکمرانوں سے ملا ہوں۔ مگر ہز ہائی نس امیر کویت کے زیادہ قریب خود کو پایا۔ ہاں اعلیٰ حضرت شاہ فیصل سے مجھے گہرا انس رہا ہے ان جیسا عرب حکمران اب کبھی پیدا نہیں ہو گا۔

٭       طب یونانی کو اسلامی طب کا نام آپ نے ضیاء الحق صاحب کے اسلامائزیشن کے غلغلے کے زیر اثر دیا یا اس کے اسباب کچھ اور تھے؟

٭٭   طب کا آغاز یونان سے ہوا۔ عربوں نے طب یونانی سے استفادہ کیا اور اس درجہ اس میں ریسرچ کی کہ وہ طب عربی ہو گئی۔ یہ طب قرآن و حدیث سے متاثر رہی ہے اور طب فطری کا درجہ رکھتی ہے اس اعتبار سے اسے طب اسلامی اپنے فکر و نظر کی بنا پر کیا۔

            انہوں نے طب اسلامی پر سائنسی اقدامات کی مجھے دعوت دی اور میں نے نہایت شوخ قلب کے ساتھ اس لئے یہ دعوت قبول کر لی کہ میں طب کا حامی رہا ہوں اور اب شاید وقت آ گیا تھا کہ میں طب کا وقار نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بلند کر سکوں۔ ابتدا صدر ضیاء الحق صاحب نے پانچ لاکھ روپے کا اعلان کیا کہ کام کا آغاز کریں۔ یہ رقم میرے وزیر رہنے اور ضیاء الحق صاحب کے انتقال تک وزارت صحت کے پر جوش اور بے ہوش فوجی سیکرٹری جنرل سی کے حق نے منتقل نہیں ہونے دی میں نے اصولاً استعفیٰ دے دیا کہ جس کام کے لئے میں نے یہ وزارت قبول کی تھی وہ کام نہیں ہو سکا۔

            میں نے وزارت بخوشی چھوڑ دی۔

            ذرا اس فرق کو دیکھیں کہ ہندوستان کی حکومت نے 1996ء میں طب یونانی کی ترویج اور ریسرچ کے لئے نیشنل کونسل برائے طب یونانی کو پندرہ کروڑ روپے دیئے !

٭       آپ کی لا تعداد تصنیفات میں تحقیق کا پلہ بھاری نظر آتا ہے آپ کی کاوشیں طب یونان تک محدود ہیں؟ گر نہیں تو آپ کے پسندیدہ موضوعات کیا ہیں اور ان میں آپ نے اب تک کیا پیش قدمی کی ہے؟

٭٭   میرا اصل موضوع تاریخ طب و سائنس ہے۔ میں نے زیادہ تر اسی میدان میں کام کیا ہے مگر طب کے نظریہ و فلسفہ پر بھی میں نے کام کیا ہے۔ ادب سے میں غافل نہیں رہا اور اب نونہال ادب اور نوجوان ادب لکھ رہا ہوں۔ نونہالوں کے لئے میری کتابیں شاید ساٹھ سے زیادہ ہیں۔ مجموعی طور پر کتابیں سوا سو تک پہنچ رہی ہیں۔

٭       ایک زمانے میں آپ نے براہ راست انتخابی سیاست میں بھی حصہ لیا تھا وہ تجربہ کیسا رہا تھا؟ اس کے بعد آپ نہ کسی جماعت میں شامل ہوئے اور نہ آپ نے اپنی الگ سیاسی جماعت تشکیل دی جبکہ آپ کے پاس صلاحیتیں اور وسائل بے پناہ ہیں؟

٭٭   میرا انتخاب میں حصہ لینا غیر اختیاری تھا مجھ پر دباؤ تھا اور میری اجازت و ایماء کے بغیر میرے نام کا اعلان جناب محترم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے فرمایا۔ کراچی کی دس نشستوں پر آٹھ مہاجر کھڑے کئے اور تین سندھ کے۔ آٹھوں مہاجروں کو شکست نصیب کیا گیا۔ تین سندھ کے دوست ہر طرح فتح یاب کرا دیئے گئے۔

            اگر وزیر اعظم کا ریکارڈ کوئی ہوتا تو جناب بھٹو صاحب کے نام میرا وہ ساٹھ صفحات کا خط قابل مطالعہ ہے جس میں ، میں نے ان کے مستقبل کی پیش گوئیاں کر دیں تھیں۔

٭       ہمارے خیال میں آپ کا شمار دانشوروں کی اس صف میں ہوتا ہے جو ہمارے بوسیدہ و بیمار نظام حکومت سے نا مطمئن اور صمیم قلب سے اس کی تبدیلی کے لئے کوشاں بھی! سوالیہ نقطہ یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب آپ اس نظام سے اختلاف رکھتے ہیں تو بار بار مختلف حیثیتوں میں اس کا حصہ کیوں بنتے ہیں؟

٭٭   اول تو یہ کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے حالات میں نے بتا دیئے ہیں۔ صدر ضیاء الحق صاحب کا کہا طب کے لئے مانا تھا۔ جب طب کا کام نہ ہوا تو استعفیٰ دے کر آ کیا۔ سندھ کی گورنری چاروں بزرگوں کے اتفاق رائے سے صرف شفاف الیکشن کرانے کے لئے قبول کی تھی۔ 13نومبر کو جناب محترم لغاری صاحب کا انتخاب ہوا۔ 14نومبر کو میں نے نہایت اطمینان سے استعفیٰ دے دیا۔

            میری شمولیت پاکستان کے مفاد کے لئے رہی ہے۔ ذاتی مفاد کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی کیا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے؟

٭       قابل احترام حکیم صاحب قبلہ! آپ کی بابت ایک عام ناقدانہ رائے یہ ہے کہ آپ معاشرتی ناہمواریوں اور نا انصافیوں کے خلاف بلند آہنگ سے آواز تو بیشک بلند کرتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی موثر قدم نہیں اٹھاتے؟

٭٭   میرا کام یہ ہے کہ میں آواز حق بلا خوف بلند کروں اور اہل وطن کو راہ دکھا دوں۔ میں عمل سے دور رہتا ہوں کیونکہ اس کے معنی سراسر سیاست ہوں گے اور سیاست سے میں فی الحال دور رہنا چاہتا ہوں۔

            بہ ایں ہمہ میں حالات کا غائر مطالعہ کر رہا ہوں اگر حالات درست نہ ہوئے تو میں ضرور کسی سطح پر فیصلہ کروں گا کہ میدان سیاست میں احتیاط سے قدم رکھ دوں۔ پاکستان کی غلامی قبول و منظور نہیں ہو سکتی۔ میں آزاد ملک میں رہنا چاہتا ہوں۔ اور پاکستان کو آزاد رہنا چاہئے۔

٭       گزشتہ دنوں حکومت کی تبدیلی کی جو مہم جوئی طشت از بام ہوئی تھی اور جس کے سبب عبدالستار ایدھی صاحب ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے اس میں درپردہ آپ کا نام نامی بھی آتا رہا! آپ اس باب میں کیا کہنا پسند فرمائیں گے؟

٭٭   میں نے پاکستان کے لئے شرعی ہجرت کی ہے۔ میں اپنی ساری کشتیاں جلا کر پاکستان آیا ہوں۔پاکستان میرا عظیم اور پیارا وطن ہے۔ میں اس پاکستان سے محبت کرتا ہوں۔ اس لئے بھی کہ اس کا قیام اور وجود منشائے الہی کا تابع ہے۔ ورنہ قیام پاکستان کی تاریخ 27 رمضان المبارک نزول قرآن نہ ہوتی۔ شب قدر کی ساعت ہائے نیک و اقدس میں قائم ہونے والا ملک پاکستان انشاء اﷲ قائم رہے گا۔ ہم اپنا خون دے کر اس ریاست اسلامی کو قائم و دائم رکھیں گے۔اس پاکستان کو چھوڑنے کا کوئی تصور میرے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آ سکتا۔ علاوہ ازیں میرا شمار بزدلوں میں نہیں کرنا چاہئے۔میں حالات اور ماحول سے خوف زدہ ہو کر پیارے پاکستان کو ہرگز چھوڑ نہیں سکتا۔ میں یہ خوب جانتا ہوں کہ سندھ کا وزیر اعلٰی میری جان کا در پے رہا ہے اس نے میرے زمانہ گورنری میں سخت اذیتیں پہنچائی تھیں پھر میرے قتل کی افواہ بھی گرم کی گئی۔ دیکھ لیا گیا کہ ساری دنیا نے اسکا اثر قبول کیا۔ میں ان حالات سے گھبراتا نہیں ہوں۔ اس پیارے پاکستان پر میری جان قربان! مگر میں خود اور خود ارادی کو فروخت نہیں کر سکتا جیسا کہ اس کا سودا پاکستان میں عام ہے۔ میرا قلم فروخت نہیں ہو سکتا اس لئے کہ میرا قلم مقدس ہے۔ بہ ایں ہمہ پاکستان میں فکر و قلم کا نیلام عام ہوا ہے اور میری چشم نم نے یہ دردناک مناظر دیکھے ہیں۔

            پاکستان میں سیاست دان کے دام لگے ہیں۔ بیوروکریٹوں کے وارے نیارے ہوئے ہیں۔ میں ان نہایت عبرت ناک حالات کو درست کرنے کے لئے زندہ رہنا چاہتا ہوں۔

٭       سانحات کراچی کی بابت آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟ وسیع تر پس منظر میں آپ اس کا کیا انجام دیکھتے ہیں اور اس حوالے سے زیر گردش ذاتی مالی صدمے کی افواہ کی بابت کیا کہنا پسند کریں گے؟

٭٭   سانحات کراچی درد ناک اور الم نا ک ہیں۔ انسانی جانوں کا اتلاف اور قتل و قتال شرمناک ہے۔ یہ سانحات سیاست کے شاخسانہ تو ہیں مگر ساتھ ہی یہ صوبائی نقصان کے بھی عنوان ہیں۔ اس کے علی الرغم یہ یہودی سازش سے عبارت ہیں۔طاغوت اب صرف پاکستان کو مدمقابل سمجھتا ہے۔ اس لئے وہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی (کراچی) کو توڑ دینا ضروری سمجھتا ہے۔ اس مقصد کے لئے اس نے سیاست دانوں کی خریداریاں کیں۔ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی کہ جب پاکستان کے چار صوبے برسرپیکار تھے اور صوبائیت کے جراثیم اپنی تعداد رات دن بڑھا رہے تھے ان نہایت شدید حالات میں پانچویں قومیت کا اعلان ہرگز صحیح نہیں تھا۔ اس اعلان نے سندھ میں منافرت کا بازار گرم کر دیا۔ سندھ نے کہا کہ یہ پانچویں قومیت احسان فراموش ہے۔ اس کو اہل سنت نے اپنا آغوش وا کیا تھا اس آن اہل سنت نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا کہ پانچویں قومیت کے محب وطن افراد نے سندھ کو بذریعہ صنعت خوشحالی دی تھی۔ احسانات کا عدم اعتراف ایک درد ناک سبب سانحات ہے۔ پوری صورتحال نے اختلافات کی خلیج کو وسیع تر کر دیا اور اس کشمکش سے یہود نے پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ ہندوستا ن اور اسرائیل دوستی کا زمانہ شباب یہی ہے۔ ان دونوں نے زیادہ سے زیادہ مستعد ہو کر پورا پورا فائدہ اٹھایا ایک طرف پانچویں قومیت کے ہزارہا جوان بندوقوں کا نشانہ رہے۔ ہزار ہا جوانیاں بیوہ ہوئیں۔ ہزارہا یتیم ہوئے ، ہزار ہا ماں باپ گریہ و زاری میں مبتلا ہوئے۔ اس سب قتل و غارت کے باوجود نہ اسلام آباد کو رحم آیا نہ لاڑکانہ کا دل دکھا اور نہ لندن کی زبان بند ہوئی اور نہ اسرائیل کا جوش و خروش کم ہوا۔ کراچی کا تیا پانچہ کرنے کے بعد اب پاکستان کا قیمہ بنایا جا رہا ہے۔ کراچی کے جراثیم پنجاب تک پہنچ گئے۔ ٹیلی فون پنجاب میں بھی بولے۔ تباہیاں بربادیاں وہاں بھی آئیں۔

            سانحات کراچی غداریوں کا نام ہے۔ یہود و ہنود سازش کا عنوان ہے۔ شقاوت قلبی کا مظاہرہ ہے۔ پاکستان کا گلہ گھونٹ دینے کا انتظام ہے۔ پاکستان کی آبرو لٹ چکی ہے۔ دنیا پاکستان کو رندوں کا ملک کہتی ہے۔

             اس کے باوجود شرم تم کو نہیں آتی!

٭       آپ نے گزشتہ کسی تحریر میں کہا ہے کہ برطانیہ کے تعاون سے عمران خان صاحب کو پاکستان کا وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے آپ کی اطلاعات کے ذرائع کیا ہیں؟ اور کیوں آپ اس پوری سازش سے اہل وطن کو باخبر نہیں کرتے اور اسی سازش پر کیا موقوف آپ کے سینے میں ملک اور قوم کے خلاف جتنی بھی سازشوں کے راز ہیں ان سب سے قوم کو آگاہ کرنا آپ کا فرض ہے؟

٭٭   میں نے آپ کے سوال پر احتیاط سے ایک بار پھر غور کیا ہے یہ تو کوئی راز نہیں ہے کہ پاکستان کے کرکٹ ہیرو نے ایک ایسی محترم خاتون سے شادی کی ہے جن کا مذہب یہود ہے۔ ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ ان خاتون محترم نے اسلام قبول فرمایا ہے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کاپہلا ’’اسلامی ‘‘ نام غلطی سے غلط رکھا گیا اور بعد میں غلطی کی اصلاح ہوئی ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ہادی برحق، نبی آخر الزمان حضرت محمدﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ہرگز ہرگز یہودی مسلمان کاد وست نہیں ہو سکتا۔ فرمان رسول کا آخری بار اظہار حد درجہ شدت کے ساتھ اس وقت ہوا کہ جب وصال ہو رہا تھا بحالت کرب فرمایا، زور دے کر کہ یہودی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا، نہیں ہو سکتا۔

            ایک مسلمان کی حیثیت سے میں فرمان رسول کی تسلیم کو ایمان کا درجہ دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہودی ہرگز ہرگز مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا۔ کرکٹ کے ہیرو کے خسر محترم نے یہ بیان دیا ہے ، ذرائع ابلاغ نے اسے چھاپا ہے کہ میں کرکٹ ہیرو کی سماجی خدمات (ہسپتال وغیرہ) میں کوئی تعاون نہیں کر سکتا۔ (اس لئے کہ اس سے مسلمان کو فائدہ اور راحت ملنے کا امکان ہے) ہاں میں کرکٹ ہیرو کی بھرپور مالی مدد کروں گا جب وہ سیاست پاکستان میں حصہ لے گا!

            ایک نہایت تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ میرے ایک تردیدی بیان کا ایک یہ جملہ کہ ’’میں پاکستان میں یہودیت کی تائید نہیں کر سکتا ‘‘ پاکستان کے نو اہم اخبارات نے اس جملے کو حذف کر دیا غالباً یہ وہ اخبارات ہیں جن کو کرکٹ کے ہیرو کے خسر صاحب سے اتفاق رائے ہے۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ پاکستان کا ایک اخبار دولت یہود سے خریدا جا چکا ہے اور خریداری کا یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اب پاکستان پر یہ ایک نیا حملہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کے اخبارات ملکیت یہود میں چلے جائیں۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ میں پاکستان میں یہودیت کی تائید نہیں کر سکتا ہرگز نہیں کر سکتا، اس لئے کہ ہادی برحق حضرت محمدﷺ نے یہی رہنمائی دی ہے یہی ہدایت ہے۔

            پاکستان میں یہودیت کی تائید جو اخبارات کرتے ہیں اور مسلسل کر رہے ہیں ان کے بارے میں میری رائے ہے کہ وہ شدید غلطی میں مبتلا ہیں اور یہ پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

٭       حکیم صاحب یہ فرمائیے کہ آپ نے بچشم خود تحریک پاکستان، قیام پاکستان، سقوط مشرقی پاکستان، انتشار پاکستان اور ا فلاس پاکستان بغور دیکھا آپ کا قلب مضطرب اور چشم بینا اس کو کس رنگ میں دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں؟

٭٭   ہاں میری چشم فرحاں و شاداں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔ ہاں میری چشم کشادہ نے عظمت پاکستان کو دیکھا ہے۔ رفعت پاکستان کو دیکھا ہے۔

            اور پھر چشم پر نم نے سقوط مشرقی پاکستان کو دیکھا ہے۔ پاکستان میں انتشار فکر کو دیکھا ہے۔ زوال اخلاق کو دیکھا ہے۔ زوال کردار کو دیکھا ہے۔ قومیتوں کے فسادات کو دیکھا ہے۔ قتل و قتال کو دیکھا ہے۔ ہزارہا بیواؤں کا غم دیکھا ہے ، ہزار ہا معصوم نونہالوں کی یتیمی کو دیکھا ہے۔ سیاست کی سازشوں کو دیکھا ہے۔دولت مند کی زیادتیوں کو دیکھا ہے۔ صحافت کی بے راہ رویوں کو دیکھا ہے۔ امامت کے انتشار کو دیکھا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں پاکستان کے انتشار کو دیکھا ہے۔ پاکستان کے زوال کو دیکھا ہے۔ اور ہاں فروخت شدہ انسانوں کے عیش و عشرت کو دیکھا ہے۔ تباہی اور بربادی پاکستان پر ان کی مسرتوں اور شادمانیوں کو کراچی میں دیکھا ہے۔ لندن میں دیکھا ہے۔ نیو یارک میں دیکھا ہے۔

            میری چشم بینا یہ مناظر دیکھنے کے لئے کاش نابینا رہتی! میرا دل دکھا ہوا ہے مگر اس دل میں مایوسی موجود نہیں ہے۔ میں پاکستان کی از سر نو تعمیر کرنا چاہتا ہوں۔ کاش یہ نگران حکومتیں میری راہ میں رکاوٹ نہ بنتیں !

٭        حکیم صاحب ہم معذرت چاہتے ہیں کہ ہماری گفتگو کا محور آ پ کی ذات رہی اور ’’ہمدرد‘‘ جیسا عظیم الشان فلاحی ادارہ ہماری گفتگو کا موضوع نہ بن سکا۔ اگر آپ اس حوالے سے کچھ فرمانا چاہیں تو ہمیں خوشی ہو گی اور یہ بھی کہ اب تک کی پیش قدمی اور فتوحات کے حوالے سے آپ کے احساسات کیا ہیں؟

٭٭   آپ ہمدرد کو حکیم سعید سے الگ نہیں کر سکتے اور حکیم سعید کو ہمدرد سے الگ نہیں دیکھ سکتے۔ ہمدرد کو پاکستان نے بنایا ہے۔ حکیم سعید کو پاکستان نے بنایا ہے میں نے اور ہمدرد نے پاکستان کو بنانے کی پوری سعی کی ہے۔ میں نے پاکستان میں فکری اور ذہنی انقلاب برپا کرنے کی پوری سعی کی ہے۔ میں نے تعمیر پاکستان کے لئے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ وقف کیا ہے۔ میں نے پاکستان میں صحت اور تعلیم کے لئے بیداری کا نہایت مقدس فریضہ انجام دینے کی جدوجہد کی ہے۔ میں نے پاکستان کو تاریخ کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑنے کا سلیقہ دیا ہے میں نے اہل وطن کی خدمت سے ایک لمحہ روگردانی نہیں کی۔

            ہمدرد نے ایک اسلامی وقف بن کر ہزاروں نونہالوں کی تعلیم کا انتظام کیا، لاکھوں بیماروں کی شفا کا سامان کیا اور پوری قوم نے ہمدرد کی مصنوعات خرید کر جو فائدہ پہنچایا ہمدرد نے اسے مدینۃ الحکمۃ پر لگا کر پاکستان کو ایک شہر علم و حکمت دے دیا۔

            جب اﷲ تعالیٰ کے حضور میری پیشی ہو گی اور نبی اکرمؐ کی شفاعت سے میں سرشار

ہوں گا تو اﷲ تعالیٰ کے اس سوال کا کہ تم دنیا سے کیا لائے ہو ، میرا جواب ہو گا کہ مدینۃ الحکمۃ کا تحفہ لایا ہوں۔

             اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہو گا ’’ پہنچا دو اس کو جنت کے مدینۃ الحکمۃ میں !‘‘

٭       محترم حکیم صاحب اگر وعظ، نصیحت اور پیغام کا وقت نہیں گزرا تو نئی نسل آپ کے ارشادات کی یقیناً منتظر ہے؟

٭٭   میرے عزیز! میری اس تمام گفتگو میں کون سی نصیحت باقی رہ گئی ہے کہ اب کروں ! اگر اصرار ہے تو میں کہوں گا کہ۔

            اے وطن کے سجیلے نوجوانوں ، اپنی عزت نفس کا احترام کرو، اپنی خودی اور خود داری کو عظمت دو اور رفعت۔ سر زمین پاکستان سے دشمن کے ناپاک وجود کو مٹا دو۔ آگ لگا دو دولت مند کی اس دولت کو جو وطن کی تعمیر کے کام آئے۔

            آگ لگا دو ان طرب گاہوں کو جہاں عیش و عشرت کے بازار گرم ہیں اور وطن کے انسان غربتوں کے شکنجوں میں کسے ہوئے ہیں۔

            آگ لگا دو ان محلات کو جہاں وطن کے نونہال بحالت غربت اور تعلیم سے محروم اور صحت سے عاری ہو کر امیروں کی خدمت کر رہے ہیں۔

            آگ کی نذر کر دو اس سیات کو جو وطن فروش ہے ، مٹا دو ہر اس نقش کو جو تمہاری خود داری کا سودا کرانا چاہتا ہے۔ مٹا دو اس قیادت کو جو محبت پاکستان نہیں ہے توڑ دو اس قلم کو جو صداقت کا عنوان نہیں ہے۔ چھوڑ دو اس امامت کو جو منتشر ہو کر گناہ گار ہو رہی ہے۔

                                                                                    (نومبر ۱۹۹۶ء)

٭ ٭ ٭

 

ڈاکٹر وزیر آغا

(۱۸ مئی ۱۹۲۲)

٭       ادبی کشتی کے سوار کب اور کیونکر بنے؟

٭٭   میں کالج کے ایام میں شعر فہمی اور شعر گوئی کی طرف راغب ہوا۔ انگریزی اور اردو ، دونوں زبانوں میں لکھا مگر چھپوایا نہیں ! بعد ازاں یہ سارا کلام تلف کر دیا۔ کالج کے بعد نصرت آرا نصرت کے فرضی نام سے لکھنا شروع کیا۔ نصیر آغا کے فرضی نام سے مقالات لکھے مگر 1948ء کے آخری دنوں میں اپنے نام سے لکھنا شروع کیا۔ اپنے نام سے میرا پہلا مضمون تھا ’’محبت کا تدریجی ارتقا‘‘ جو ادبی دنیا کے شمارہ دسمبر1948ء میں شائع ہوا۔ ’’کب‘‘ کا جواب میں نے دے دیا ’’کیونکر‘‘ کا کیا جواب دوں !

٭       جینئس تخلیق کار کا تصور کیا ہے؟

٭٭   تخلیق کار ماضی اور مستقبل ، روایت اور تجربہ کے سنگم پر جنم لیتا ہے اس کا ایک قدم ماضی کی انگنائی میں ہوتا ہے اور دوسرا مستقبل کے رن وے پر۔ وہ نہ صرف نسلی یادوں سے بلکہ شخصی خوابوں سے بھی لہو کشید کرتا ہے وہ حال کے ڈولتے ہوئے لمحہ کی نوک پر رک کر تخلیق کرتا ہے۔ یہ مقام بے زمانی کا حامل ہوتا ہے۔ گویا زمانوں سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بے زمانی کے تجربے سے گزرنے پر بھی قادر ہوتا ہے۔ اس کا تخلیقی عمل اتنا بھرپور ہوتا ہے کہ وہ جس خیال، شے یا لفظ کو چھوتا ہے وہ لو دینے لگتا ہے۔

٭       انشائیہ نگاری تخلیقی فن کے زمرے میں آتی ہے کیا؟

٭٭   انشائیہ نگاری یقیناً تخلیقی فن کے زمرے میں آتی ہے۔ انشائیہ کا کمال یہ ہے کہ وہ غیر افسانوی اور غیر شاعرانہ نثر کو جو عام طور سے اخباری، سائنسی یا علمی ضرورتوں کے لئے کارآمد ہے ، تخلیقی سطح پر لے آتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ جہاں عام نثر فقط افہام و تفہیم کا ذریعہ ہے وہاں انشائیہ کی نثر عرفان ذات اور جمالیاتی خط کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ انشائیے کاکثیر المعنیاتی پیکر شعر اور افسانے سے مشابہ ہے نہ کہ نثر کی ان صورتوں سے جو معنی کی ترسیل میں ابہام کی کارفرمائی کو مسترد کرتی ہیں۔

٭       آزاد شاعری اور طویل نظمیں لکھنے سے نثر نگاروں کی حق تلفی نہیں ہو رہی کیا؟

٭٭   اسی سوال کو آپ الٹ کر یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کیا انشائیہ اور افسانہ کی مقبولیت سے شاعری کی حق تلفی نہیں ہو رہی؟ دراصل حق تلفی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دونوں کا اپنا اپنا میدان اور اپنا اپنا طریقِ کار ہے بعض اوقات ایک ہی فن کار بیک وقت نثر نگار بھی ہوتا ہے اور شاعر بھی۔ علاوہ ازیں شاعری اور نثر ایک دوسری پر اثرات بھی مرتسم کرتی ہیں۔ اچھی شاعری سہل ممتنع کی سطح پر آ کر Spoken Languageکا روپ دھار لیتی ہے اور اچھی نثر میں شعری عناصر گھل مل جاتے ہیں۔ دونوں میں کسی بھی قسم کی قبائلی دشمنی نہیں ہے۔

٭       تخلیق کار کی معاشی حیثیت کا اس کے فن پر کیا اثر پڑتا ہے؟

٭٭   تخلیق کار کی معاشی حیثیت کا اس کے فن پر کوئی اثر مرتسم نہیں ہوتا۔ بہت سے مفلوک الحال فنکاروں نے بے پر و بال قسم کا ادب تخلیق کیا اور بہت سے خوشحال ادیب ، خوشحال خٹک بن کر چمکے۔ اس طرح بعض خوش حال ادیبوں نے ایسا ادب تخلیق کیا جس کی ادبی قدر و قیمت بالکل معمولی تھی اور بعض نادار فن کاروں نے اعلیٰ پائے کی تخلیقات پیش کیں لہٰذا معاشی حیثیت ادب کے معاملے میں کوئی میزان نہیں رکھتی ہے۔ کسی نظریئے ، اعتقاد یا نسلی رویئے کو بھی ہم میزان قرار نہیں دے سکتے۔ تخلیق کار کی وہی قوت، اس کے ہاں تجربات کی فراوانی، زندگی کی معمولی کروٹوں تک کو شدت سے محسوس کرنے کا رویہ اور پھر لفظ کو تخلیقی طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت …… فن پر ان سب کے اثرات مرتسم ہوتے ہیں مگر فنکار کا غریب یا امیر ہونا، دائیں بازو سے منسلک ہونا یا بائیں بازو سے ، کالا ہونا یاسفید یا کسی بھی مذہب یا فرقے سے متعلق ہونا ان باتوں کا تخلیق کار کی کامیابی یا ناکامی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

٭       تنقید نگار بنیادی طور پر State Forwardہے جبکہ تخلیق کار نرم خو محبت و اخوت اور مساوات کا پیامبر ہوتا ہے۔ یہ دو رنگی شخصیت کو مجروح کرنے کا سبب نہیں بنتی؟

٭٭   یہ کوئی کلیہ نہیں ہے کہ تخلیق کار تو محبت اخوت اور مساوات کا پیامبر ہوتا ہے جبکہ نقاد نہیں۔ تنقید کے کئی روپ ہیں۔ ایسی تنقید بھی ہے جس کے لئے تصنیف ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے لہٰذا اس کا رویہ تیز اور متشدد ہوتا ہے اور ایسی تنقید بھی جو تصنیف سے پیار کرتی ہے اور تصنیف پر سے نقاب ہٹاتے ہوئے اس کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔ رہا مساوات کا مسئلہ یہ تو مصنف اور نقاد دونوں کا مشترکہ میدان ہے۔ دونوں مساوات کے حامی ہو سکتے ہیں اور ممکن ہے دونوں کسی اور نظام کے قتیل ہوں۔ ویسے تخلیق کار اور تنقید نگار کو تخلیق کاری کے حوالے سے خالق اور صارف قرار دینا ایک ایسا مغالطہ ہے جو مغربی ادبیات میں اب موجود نہیں ہے جب کہ ہمارے ہاں اکثر لوگ جو ابھی اٹھارویں صدی ہی میں رہ رہے ہیں اس قسم کی تفریق کو مانتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ تخلیق کاری کے عمل میں تین کردار حصہ لیتے ہیں۔ مصنف، تصنیف اور قاری (نقاد) تخلیق نام ہے ان تینوں کے ربط باہم کا۔ ان کا رشتہ یہ نہیں ہے کہ مصنف نے اپنی تصنیف قاری یا نقاد کے سامنے رکھ دی تاکہ وہ اسے پرکھے بروئے کار لائے بلکہ یہ کہ تخلیقی عمل میں مصنف ، تصنیف اور قاری برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔ مصنف خود کو تصنیف میں انڈیل دیتا ہے جبکہ تصنیف کی ایک اپنی منفرد اور آزاد حیثیت بھی ہوتی ہے چنانچہ وجود میں آنے کے دوران تصنیف بعض اوقات خود مصنف کو اپنے تابع کر لیتی ہے۔ مراد یہ کہ مصنف تصنیف کو ایک خاص سمت میں لے جانا چاہتا ہے مگر تصنیف اپنا دامن چھڑا کر ایک خاص سمت میں چلنے لگتی ہے۔تصنیف کی اس مطلق العنانی اور اس کے اندر کے ساختیاتی نظام کو اب سب لوگ مانتے ہیں یہی حال قاری یا نقاد کا ہے۔ خود تخلیق کار اپنے تخلیقی عمل کے دوران قاری کا رول بھی ادا کرتا ہے۔ جب وہ اندر سے ابھرنے والے خیال یا لفظ یا زاویئے کو بدل دیتا ہے۔ جہاں تک باہر کے قاری یا نقاد کا تعلق ہے تو وہ اپنے تنقیدی عمل سے تصنیف کو از سر نو تخلیق کرتا ہے۔ ہر زمانہ بجائے خود ایک نقاد ہے۔ اگر یہ نقاد باقی نہ رہے تو تصنیف اپنے زمانے کے حصار سے باہر ہی نہ آ سکے۔ لہٰذا کہہ لیجئے کہ وہی تخلیق زندہ رہتی ہے جسے ہر زمانہ نئے سرے سے تخلیق کرتا ہے۔

٭       ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اردو ادب میں تنقید نام کی کوئی چیز نہیں یا آج کل لکھی جانے والی تنقید غیر جانب دار نہیں۔ بحیثیت نقاد آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

٭٭   مجھے اس خیال سے بالکل اتفاق نہیں ہے۔ یہ بات وہ لوگ کہتے ہیں جو خود کو نابغۂ روزگار سمجھتے ہیں اور جنہیں یہ شکایت ہے کہ تنقید نے ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک کیا ہے۔ اردو تنقید نے پچھلی صدی کے دوران بے پناہ ترقی کی ہے۔ لوگ باگ اخبارات میں چھپنے والے تقریباتی مضامین کو تنقید سمجھ لیتے ہیں جو صحیح رویہ نہیں ہے۔ ایسے لوگ اگر واقعتاً اردو تنقید کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اردو کی اعلیٰ تنقید پڑھنی چاہئے۔ محض چائے خانوں میں تنقید اور تنقید نگار کے بارے میں نشر ہونے والی جملہ بازی کو اہمیت دینے سے تو بات نہیں بنے گی۔

٭       آپ ادیب کی کسی بھی دنیاوی نظریہ سے وابستگی کو کس حد تک اور کتنے فیصد مناسب یا ضروری خیال کرتے ہیں؟

٭٭   میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ کسی بھی دنیاوی نظریئے سے وابستگی کا تخلیق ادب سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اکثر اس قسم کی وابستگی تخلیق کار کے راستے میں ایک ناقابل عبور رکاوٹ بن جاتی ہے۔ ادیب کی وابستگی فن کے ساتھ ہو تو بات بنے گی۔ اصل چیز یہ ہے کہ تخلیق کار ساری وابستگیوں کو تج کر ایک لمحہ آزادی میں تخلیق کاری کی طرف متوجہ ہو۔ صرف اسی صورت میں وہ اپنے اندر بھی جھانک سکے گا اور زندگی کے پھیلتے ہوئے آفاق سے بھی آشنا ہو سکے گا لیکن اگر اس نے خود کو کسی بھی دنیاوی نظریئے کے زندان میں مقید کر لیا تو وہ پمفلٹ تو بہت اچھے تخلیق کرے گا، ادب تخلیق نہیں کر پائے گا۔

٭       ترقی پسندی کے مخالفین میں آپ کا شمار کرنے والے آپ کو دائیں بازو کا ادیب سمجھتے ہیں کیا آپ دائیں بائیں کی تفریق پر یقین رکھتے ہیں؟

٭٭   میں بار بار اپنے اس موقف کا اظہار کر چکا ہوں کہ ادیب کو دائیں یا بائیں بازو سے منسلک کرنا ناروا ہے۔ میرے نزدیک ایک سچے تخلیق کار کے دونوں بازو کٹے ہوتے ہیں جب کہ پانی کا مشکیزہ اس نے اپنے دانتوں میں پکڑ رکھا ہوتا ہے۔ وہ زندگی اور موت کے سنگم پر کھڑا ہو کر تخلیق کرتا ہے اس کی ساری توجہ اپنے مشکیزے پر مرکوز ہوتی ہے جسے تیروں سے بچا کر منزل تک پہنچانا اس کی روح کا سب سے بڑا تقاضا قرار پاتا ہے۔ ایسا تخلیق کار ’’بازوؤں ‘‘ کی بیساکھیوں کو کب خاطر میں لاتا ہے۔ ویسے سیاسی سطح پر بھی پوری دنیا میں دائیں اور بائیں کی Polarizationاب تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ میری ناچیز رائے میں ادباء کو دائیں اور بائیں میں تقسیم کرنے کے بجائے ’’مصنفین‘‘ اور ’’محررین‘‘ میں تقسیم کرنا چاہئے۔ یعنی وہ ادیب جو تخلیقی توانائی کا اظہار کرتے ہیں اور وہ جو پمفلٹ تیار کرتے ہیں۔

٭       متحدہ ہندوستان میں ادبی گروہ بندیوں کی بنیاد دہلوی اور لکھنوی اسلوب بیان پر قائم تھی …… پاکستان میں موجود ادبی گروہ بندیوں کی بنیاد کیا ہے؟

٭٭   گروہ بندی ایک منفی عمل ہے جب کہ ادبی مکاتب فکر کا وجود میں آنا ایک مثبت بات ہے۔ لکھنؤ اور دہلی کے ادبی مکاتب دو مختلف رویوں کے علمبردار تھے۔ دہلی والے ’’خیال‘‘ کو اہمیت دیتے تھے اور لکھنؤ والے ’’لفظ‘‘ کو ………… ایک نے گل افشانی خیال کا مظاہرہ کیا دوسرے نے گل افشانی گفتار کا۔ دونوں مکاتب کے تحت ایسے تخلیق کار بھی پیدا ہوئے جن کے ہاں خیال اور گفتار کا خوبصورت سنجوگ تھا مگر بحیثیت مجموعی دہلی والوں نے خیال کی بھول بھلیوں میں سفر کیا اور لکھنؤ والوں نے لفظوں کے طوطے مینا بنائے۔ تاہم دونوں میں فرق ادبی نوعیت کا تھا۔ پاکستان میں زیادہ تر گروہ بندیاں مفادات کی اساس پر استوار ہیں۔ جگہ جگہ قبضہ گروپ پیدا ہو گئے ہیں۔ ان گروہوں کی زیر زمین اور بالائے زمین کارکردگی سے متنفر ہو کر ادباء کے ایک طبقہ نے گوشۂ تنہائی اختیار کر لیا ہے یہی وہ لوگ ہیں جو فی الوقت اچھا ادب تخلیق کر رہے ہیں۔

٭       تقسیم ہند نے اردو ادب پر کس قسم کے اثرات مرتب کئے ہیں؟ ہندوستان اور پاکستان میں تخلیق ہونے والے ادب کا آپ کس طرح موازنہ کریں گے؟

٭٭   اردو ادب پر برصغیر کی تقسیم کا سب اہم اثر یہ مرتب ہوا کہ اس کا مواد اور اسلوب دونوں متحرک ہو گئے۔ اتنے بڑے پیمانے پر انسانوں کی نقل مکانی سے نہ صرف ’’بے گھر‘‘ ہونے کا احساس ابھرا ، نہ صرف قدروں کی پامالی کا منظر سامنے آیا بلکہ صدیوں کے سوئے ہوئے معاشرے کی بھی آنکھ کھل گئی۔ جس طرح پرانی اردو فلموں کے ٹھہرے ہوئے انداز کے مقابلے میں نئی فلموں کے تحرک کو با آسانی نشان زد کیا جا سکتا ہے اسی طرح تقسیم کے بعد کے ادب کے مزاج میں جو تبدیلی آئی اسے بھی بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے دراصل ہر بحران کے بعد چاہے وہ جنگ کی صورت میں ہو یا طواف الملوکی کی صورت میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم نے اردو ادب کو ایک حد تک متحرک کیا مگر تقسیم کے موقع پر ہونے والے فسادات اور لاکھوں انسانوں کی ہجرت نے صورتحال کو یکسر بدل دیا۔ تقسیم کے فوراً بعد فسادات کے موضوع پر خاصا ادب تخلیق ہوا۔ اس وقت تک ابھی ہندوستان اور پاکستان کے اردو ادب کے حالات بدلتے گئے اور اس تبدیلی کے اثرات ادب پر بھی مرتسم ہونے لگے۔ ابھی یہ اثرات زیادہ واضح نہیں ہیں لیکن پچاس سوبرس کے بعد بہت واضح ہو جائیں گے مثلاً ہندوستان کے فروغ نے کھل کر بات کرنے کی روش کو ابھارا جب کہ پاکستان میں مارشل لاء کے بار بار نفاذ نے اخفا کے عمل کو مقبول بنایا۔ دونوں ملکوں کے اردو ادب پر اس کے اثرات مرتسم ہوئے اسی طرح ہندوستان والوں کے ثقافتی اور تاریخی تسلسل میں کوئی شے رخنہ انداز نہ ہوئی مگر پاکستان میں جڑوں کی تلاش کا مسئلہ ابھر آیا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے از سر نو اپنے ماضی کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کے اردو ادب پر (تنقید سمیت) اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ دونوں ملکوں کی اردو تخلیقات میں لہجے کا کچھ فرق بھی نمودار ہوا۔ اور لفظیات کے سلسلے میں بھی کچھ فرق پڑا۔ مگر یہ فرق ابھی موہوم ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ وقت گزران کے ساتھ ساتھ یہ بھی نمایاں ہوتا چلا جائے گا۔ یہ ایک فطری عمل بھی ہے اگر انگلستان اور امریکہ میں تخلیق ہونے والے انگریزی زبان کی تصانیف میں فرق در آیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آگے چل کر پاکستان اور ہندوستان میں تخلیق ہونے والے اردو ادب میں بھی فرق نمودار نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک خوش آئند بات ہو گی۔ کسی بھی زبان کے ادب میں نئے لہجوں اور زاویوں کی نمود کو ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اس امر کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ پوری دنیا میں ایک ’’اردو برادری‘‘ جنم لے رہی ہے۔ اس برادری میں ہندوستان اور پاکستان کے اردو ادبا کے علاوہ یورپ، کینڈا، امریکہ اور خلیجی ممالک کے ادباء بھی شامل ہیں۔ لہٰذا قال کار علاقائی اثرات کے تحت اردو ادب کے بھی کئی رنگ ابھریں گے مگر یہ سب کچھ اردو ادب کے بڑے دائرے کے اندر رونما ہو گا۔

٭       آپ کے یہاں اردو کے ساتھ انگریزی اور ہندی رنگ زیادہ نمایاں نظر آنے کی وجہ کیا ہے؟

٭٭   میری شاعری بالخصوص نظم میں ہندی الفاظ کی آمیزش نظر آتی ہے۔ میں نے جب لکھنا شروع کیا تو اس زمانے میں اردو زبان کے دو انداز رائج تھے۔ایک فارسی آمیز روپ جسے علامہ اقبال اور ان کے بعد ن۔ م۔راشد نے اختیار کیا۔ دوسرا ہندی آمیز روپ جسے میرا اور فراق ، ان کے بعد مجید امجد، قیوم نظر اور دوسرے شعراء نے اپنایا۔ میرا جھکاؤ میرا جی اور فراق کے اسلوب کی طرف تھا اور اسی لئے میری نظموں میں ہندی الفاظ در آئے۔ تاہم پاکستان میں دھیرے دھیرے ہندی الفاظ کا استعمال کم ہوتا چلا گیا۔ البتہ کچھ شعراء نے اسے باقی رکھا۔ میں انہیں شعراء میں سے ہوں۔ مگر میرے ہاں ہندی الفاظ کی بے مہابا آمیزش نہیں ہے جہاں کہیں میں نے محسوس کیا کہ ہندی لفظ کے استعمال سے خیال یا تشبیہ یا انداز کی سندر تا بڑھے گی، میں نے اسے استعمال کیا۔ ویسے میرا مؤقف یہ ہے کہ مشکل لفظی تراکیب اور بھاری بھر کم الفاظ کے استعمال سے چاہے وہ فارسی کے ہوں یا ہندی کے گریز اختیار کر کے شعری زبان کو گفتگو کی سطح پر لایا جائے۔ جہاں تک انگریزی الفاظ کا تعلق ہے تو وہ میں نے نظم میں بہت کم استعمال کئے ہیں۔ البتہ مغرب میں جدید نظم کے رنگ اور پیکر سازی کے سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی ہے میں نے اسے ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ میرا یہ موقف ہے کہ جدید اردو نظم کو مغرب کے شعری دھاروں سے ہم آہنگ کرنا چاہئے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے ثقافتی ورثے ، اپنی زبان کی مخصوص ساخت اور اپنے موضوعات کو جدیدیت کی خاطر قربان کر دے۔ صنوبر کو بہرحال پا بہ گل ضرور ہونا چاہئے ورنہ وہ مرجھا جائے گا۔

٭       ادیب شاعر اور نقاد کے لئے اردو کے علاوہ انگریزی اور دیگر زبانوں کے ادب کا مطالعہ کس حد تک ضروری اور منافع بخش ہے؟

٭٭   اردو کے ادبا، شعرا اور ناقدین کے لئے انگریزی اور دیگر زبانوں کے ادب کا مطالعہ بے حد ضروری ہے بلکہ میں تو یہ تک کہوں گا کہ ان پر لازم ہے کہ ادب کے علاوہ علوم کا مطالعہ بھی کریں بالخصوص فلکیات، طبعیات، نفسیات، حیاتیات، ساختیات ، علم الانسان اور انفرمیشن تھیوری کے مبادیات سے ان کا واقف ہونا ضروری ہے۔ علوم کے علاوہ فنون بالخصوص مصوری سنگتراشی اور موسیقی میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ان سے بھی واقف ہونا ضروری ہے ادیب کو Insightکے علاوہ Outlookبھی درکار ہوتا ہے۔ مقدم الذکر ایک وہبی عمل ہے گو تربیت سے یہ مزید نکھر سنور سکتا ہے۔ مگر مؤخر الذکر ایک اکتسابی شے ہے جس کے لئے عمر بھر خاک چھاننا پڑتی ہے اردو ادبا کے ہاں (اور یہ بات مستثنیات کے تابع ہے) ’’ان سائٹ کی‘‘ تو فراوانی ہے مگر ’’آؤٹ لک‘‘ کے معاملے میں وہ باقی دنیا کے ادیبوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں حد یہ کہ جب ہمارے ہاں کوئی ایسی کتاب چھپتی ہے جس میں ادب کی تفہیم کے لئے سائنسی علوم سے مدد لی گئی ہو تو ہم ایک دوسرے کا منہ تکنے لگتے ہیں اور پھر مدافعتی انداز اختیار کرتے ہوئے سائنسی علوم نیز سائنسی علوم کو بنیاد بنا کر ادبی یا علمی مضامین لکھنے والوں کو ہدف طنز بناتے ہیں۔

٭       اردو ادب کا عالمی ادب سے کسی طرح موازنہ کریں گے۔ پاکستان کے حوالے سے آپ کے ذہن میں چند نام ضرور ہوں گے جن کی تخلیقات کو آپ عالمی پایہ کا تصور کرتے ہوں؟

٭٭   نظم، افسانہ اور انشائیہ …… یہ وہ اصناف ہیں جن کے تحت اردو میں تخلیق ہونے والے مواد کے ایک بڑے حصہ کو ہم عالمی داب کے معیار کے مطابق پاتے ہیں۔ غزل میں ہمارے ہاں خاصی پیش رفت ہوئی ہے اور غزل کے ذریعے ہم نے شعری معراج بھی پائی ہے مگر غزل عالمی ادب میں موجود نہیں ہے لہٰذا مغربی غزل سے اس کے موازنہ کا کوئی سوال نہیں ہے۔ تنقید کے معاملے میں نیز ناول کے باب میں (مستثنیات سے قطع نظر) ابھی ہم مغرب کے معیار کو پہنچ نہیں پائے۔ آپ نے کہا ہے کہ میرے ذہن میں چند نام ایسے ضرور ہوں گے جن کی تخلیقات کو میں عالمی پائے کا تصور کرتا ہوں۔ مگر ادبا کے نام گنانے کے بجائے ان اردو تخلیقات کی نشاندہی شاید زیادہ مفید ہو جو عالمی پائے کی ہیں۔ میں اس سلسلے میں ایسی تخلیقات کی فہرست مہیا کر سکتا ہوں جنہیں میں عالمی ادب کا ہم پلہ سمجھتا ہوں۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور دیگر اداروں کو اعلیٰ پائے کے اردو افسانوں ، نظموں اور انشائیوں کے انگریزی تراجم پر مشتمل مجموعے شائع کر کے انہیں پوری دنیا میں پھیلانے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ انہیں ایسی ادبی اور علمی کتب کے اردو تراجم بھی بڑے پیمانے پر شائع کرنے چاہئیں جو مغرب میں پچھلی چند دہائیوں میں شائع ہو کر مقبول ہوئی ہیں۔

٭       تیسری دنیا کی حد تک انگریز نے اپنے مفادات کی خاطر ادب و سیاست کو ایک دوسرے سے ناآشنا رکھا۔ کیا موجودہ وقت ان میں تال میل بڑھانے کا متقاضی نہیں؟

٭٭   تیسری دنیا کی حد تک انگریز کی سلطنت کا چراغ گل ہوئے ایک زمانہ ہو چکا۔ اب تیسری دنیا کے بیشتر ممالک آزاد ہیں جن میں ادب اور سیاست کے سنجوگ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ویسے بھی سیاست کے دائرے اتنے وسیع ہو چکے ہیں کہ ادب تو ایک طرف ، دنیا کا کوئی شعبہ بھی ان سے باہر نہیں ہے پوری دنیا اب ایک ملک بن رہی ہے جس میں رہنے والا ہر شخص اب دنیا کا شہری ہے۔ ظاہر ہے کہ اس دنیا کے بعید ترین حصے میں بھی جو کچھ ہوتا ہے اس کے اثرات پوری دنیا پر ثبت ہوتے ہیں۔ دنیا کے ممالک کبھی ایک دوسرے سے اس درجہ منسلک نہ تھے جتنے بیسویں صدی کے ربع آخر میں ہو گئے ہیں اور دنیا کے رہنے والے کبھی ایک دوسرے سے اتنے آشنا نہ تھے جتنے اب ہوئے ہیں۔ لہٰذا سیاسی جزر و مد سے کسی بھی ملک کے ادب کا متاثر نہ ہونا اب ممکن نہیں رہا۔ دیگر شعبوں کی میں بات نہیں کرتا۔ البتہ ادب کے معاملے میں یہ ضرور کہوں گا کہ جب تک ادیب سیاسی جکڑ بندیوں سے اوپر اٹھ کر تخلیق نہیں کرے گا اس کے فن میں بے زمانی یا Timelessnessکا وہ انداز پیدا نہ ہو سکے گا جو ادب کی بقا کے لئے ضروری ہے۔ جس طرح کنول پانی میں رہتے ہوئے بھی پانی کی سطح سے اپنا سربلند رکھتا ہے اس طرح ادب کو بھی سیاست کے سمندر میں رہتے ہوئے بھی خود کو سیاست سے اوپر اٹھانا ہو گا۔ جو ادبا سیاست اور سیاسی مسائل سے مغلوب ہو جاتے ہیں ان کے ادب میں ابدیت اور عالم گیریت کے عناصر دب جاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ ادبا جو سیاست سے کنارہ کش ہوئے بغیر ایک طرح کائناتی شعور کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کے تخلیق کردہ ادب میں زمانوں اور سرحدوں کو عبور کر جانے کی صلاحیت از خود پیدا ہو جاتی ہے۔ سیاست ادب کے لئے شجرِ ممنوعہ نہیں ہے مگر اس کی مقدار اتنی ہی ہونی چاہئے جتنی ادب برداشت کر سکے۔ زہر کی قلیل مقدار امرت کا درجہ رکھتی ہے مگر زیادہ مقدار مہلک ہے ادبا کو چاہئے کہ اس حقیقت کو ہمہ وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھیں۔

٭       کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اردو ادب کو گروہ بندیوں سے نجات دلانے کا کوئی طریقہ فارمولا یا تجویز موجود ہے آپ اس سلسلہ میں کس قسم کی پہل کے لئے آمادہ و تیار ہیں؟

٭٭   ادب کی گروہ بندیوں سے نجات پانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جن سینئر ادبا کے مابین شخصی سطح کا تصادم موجود ہے اسے افہام و تفہیم سے دور کیا جائے۔ فکری سطح کے اختلاف کی بات دوسر ی ہے کیونکہ اس سے تو ادب میں گہرائی پیدا ہوئی ہے لہٰذا یہ جاری رہنا چاہئے گو اس معاملے میں بھی تلخ و ترش مباحث کے بجائے ڈائیلاگ کو رواج دینا ضروری ہے۔ مگر شخصی یا گروہی مفادات کی بنیاد پر گروہ بندیوں کا وجود ادب کیلئے مہلک ہے۔ آپ نے پوچھا ہے کہ کیا میں اس سلسلے میں ’’پہل‘‘ کے لئے آمادہ اور تیار ہوں تو عرض ہے کہ میں تو فطرتاً صلح جو ہوں اور چاہتا ہوں کہ ادب میں گروہ بندی کی وبا جلد از جلد ختم ہو جائے لیجئے میں نے پہل کر دی۔ اب بال سید ضمیر جعفری صاحب کی کورٹ میں ہے۔ دیکھتے ہیں وہ اس کا کیا کرتے ہیں !

٭       آنے والے وقت کے حوالے سے آپ کی اپنے بارے میں کیا خواہش ہے کہ ادبی مؤرخ آپ کو نثر نظم یا تنقید میں سے کس حوالے سے بلند مقام پر فائز کرے؟

٭٭   ہر صنف ادب محض ایک کھڑکی ہے جس میں سے مصنف جھانک رہا ہوتا ہے۔ اگر وہ ایک سے زیادہ کھڑکیوں میں سے جھانکتا ہوا نظر آئے تو ادبی مؤرخ پر یہ فرض عائد ہو گا کہ وہ جب اس مصنف کے ادبی مقام کا تعین کرنے لگے تو خود بھی ان ساری کھڑکیوں میں سے مصنف کو دیکھے۔ صرف اسی صورت میں وہ مصنف کو تمام و کمال سمجھنے اور اس کے کام کا جائزہ لینے میں کامیاب ہو سکے گا۔ میں نے کئی اصناف میں کام کیا ہے یہ سب اصناف مجھے عزیز ہیں۔ شاعری سب سے زیادہ عزیز ہے۔ لیکن اگر کبھی کسی ادبی مؤرخ کو ضرورت پڑی کہ وہ مجھے دیکھے تو میں یہ ضرور چاہوں گا کہ وہ مجھے ٹکڑوں میں نہ دیکھے بلکہ ثابت و سالم حالت میں دیکھے اور پھر ہر چہ بادا باد!

٭       ڈاکٹر انور سدید آپ کے بہت گہرے دوست ہیں انہوں نے آپ سے ادبی رہنمائی بھی حاصل کی ہے اور کڑے وقت میں آپ کا ساتھ بھی دیا ہے۔ آپ فرمائیں کہ آپ نے انہیں بطور شخص اور ادیب کیسا پایا ہے؟

٭٭   انور سدید ایک انتہائی پُر خلوص اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ جن کی کرم فرماؤں نے ڈس انفرمیشن کے ذریعے ان کے خلاف نفرت پھیلائی ہے وہ اب خود ہی بے نقاب ہو رہے ہیں جب کہ انور سدید کی ہر دلعزیزی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ انور سدید دوستوں کا دوست ہے اور ایک ایسے زمانے میں جب ہر کسی کو اپنی پڑی ہے ، اس نے اپنے دوستوں کی خاطر بڑے بڑوں سے لڑائی مول لی ہے۔ دوسری طرف اس کے دوستوں نے ان کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ نہیں کہ وہ کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ یہ کہ ان کے ہاں انور سدید کی سی جرأت اور توانائی کا فقدان تھا۔ وہ دعائے خیر کی حد تک تو پیش پیش تھے لیکن عملی طور پر بہت سست گام تھے۔ مگر انور سدید کا یہ کمال ہے کہ وہ کبھی حرف شکایت تک زبان پر نہیں لائے اور اپنے دوستوں سے بے لوث محبت کرتے چلے گئے۔ بحیثیت ادیب بھی انور سدید کا مقام بلند ہے جو خلوص ان کے کردار میں ہے وہی ان کے تخلیق کردہ ادب میں بھی ہے۔ تنقید میں وہ امتزاجی رویئے کے قائل ہیں۔ ان کی کتاب ’’اردو ادب کی تحریکیں ‘‘ ایک بلند پایہ تصنیف ہے جسے جدید کلاسیک کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ ادبی تاریخ لکھنے والوں میں بھی ان کا نام بہت اہم ہے اس پر مستزاد یہ کہ وہ ایک بہت اچھے انشائیہ نگار بھی ہیں۔ بحیثیت شاعر بھی وہ تیزی سے آگے آ رہے ہیں اور بحیثیت کالم نگار بھی انہوں نے ایک طرح نو کا اہتمام کیا ہے مجھے ان کی دوستی اور محبت پر فخر ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے انور سدید ایسا پر خلوص دوست ملا۔

                                                                        (جنوری ۱۹۹۴)

٭٭٭

 

شوکت صدیقی

(۲۰ مارچ ۱۹۲۳)

٭       صرف سترہ سال کی عمر میں ادبی سفر کی ابتدا کس تحریک پر ہوئی؟

٭٭   میرے ادبی سفر کا آغاز کسی منصوبہ بندی یا طے شدہ پروگرام کے تحت نہیں ہوا۔ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ ساٹھ اکسٹھ سال پرانی بات ہے۔ غور کرتا ہوں تو اتنا یاد آتا ہے طالب علمی کا زمانہ تھا۔ کالج میں گرمیوں کی تعطیلات تھیں۔ ان دنوں نصاب کی کتابوں کے بجائے ادبی جرائد نہایت ذوق و شوق سے پڑھتا تھا۔ خصوصیت کے ساتھ افسانے زیادہ زیر مطالعہ تھے۔ ایک روز میرے سر میں بھی سودا سمایا اور ایک عدد افسانہ لکھ ڈالا۔ گھر میں لاہور سے ہفت روزہ ’’خیام‘‘ آتا تھا۔ افسانہ مکمل کر کے ’’خیام‘‘ کو روانہ کر دیا کچھ عرصے بعد وہ چھپ کر آ گیا۔ اس وقت ’’خیام‘‘ کے مدیر، عبدالرحیم شبلی تھے۔ کچھ تو ان کی حوصلہ افزائی اور کچھ تخلیقی لگن، جلد ہی دوسرا افسانہ بھی لکھ ڈالا۔ یہ بھی نیم رومانی نیم سماجی افسانہ تھا۔ ایسے میں نے کئی افسانے لکھے۔ اب تو ان کی تعداد بھی یاد نہیں۔ نہ میرے پاس ان کی کوئی نقل ہے نا تراشے۔ چنانچہ میرے کسی افسانوی مجموعے میں یہ افسانے شامل نہیں۔ مریم حسین کراچی یونیورسٹی سے میرے بارے میں پی۔ ایچ۔ ڈی کے لئے تحقیقی مقالہ تحریر کر رہی ہیں۔ انہوں نے بہت بھاگ دوڑ کر کے ابتدائی دور کے ایسے کچھ افسانے حاصل کئے ہیں۔ آج کے دور سے کچھ ایسے پست اور غیر معیاری بھی نہیں بلکہ میرے پبلشر کی خواہش انہیں چھاپنے کی ہے۔

٭ شاعری کی جانب مائل نہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟

٭٭    شاعری بھی میں نے کی، مگر بہت بعد میں۔ غزل کوئی نہیں کہی۔ چند نظمیں تھیں جو بعض رسائل میں شائع بھی ہوئیں لیکن شاعری کو میں نے اپنی افتاد طبع کے لئے سازگار نہ پایا۔ لہٰذا جلد ہی کنارہ کش ہو گیا۔

٭       لکھنؤ کے ادبی ایوانوں میں آپ کو کس طرح خوش آمدید کہا گیا؟

٭٭    میں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز خاموشی سے کیا اور نہایت خاموشی سے لکھتا رہا۔ ہوتا یہ کہ عموماً رات کو افسانہ لکھتا اور ایک ہی نشست میں ختم کر دیتا۔ دوسرے روز اسے اشاعت کے لئے کسی رسالے کو روانہ کر دیتا۔ کبھی کسی افسانے کی نقل بھی نہ رکھی۔ نہ کسی کو سنایا اور نہ ہی کبھی مشورہ کیا۔ کسی سے تذکرہ بھی نہ کرتا تھا۔ چنانچہ میری افسانہ نگاری کا کچھ زیادہ چرچا نہ ہوا۔ گھر والوں کے علاوہ چند ایسے احباب کو اس کا علم تھا جن کو شعر و ادب کا ذوق تھا۔ کئی برس تک اسی طرح خاموشی سے لکھتا رہا اور رسائل میں چھپتا رہا البتہ جب انجمن ترقی پسندمصنفین کی ہفت روزہ نشستوں میں شرکت کرنے لگا تو کئی افسانے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کے بارے میں بحث مباحثہ ہوا۔ تعریف و توصیف ہوئی اور تنقید و تنقیص بھی وہی سب کچھ ہوتا جو عام طور پر تنقیدی نشستوں میں ہوتا ہے۔

٭        ابتداء میں کس افسانہ نگار کی پیروی کرنے کا شوق ہوا تھا۔

٭٭    افسانہ نگاری کے باب میں کسی ادبی شخصیت سے اس قدر متاثر نہ ہوا کہ تقلید کی حد تک اس کا اتباع کروں یا اس کے اسلوب کو رہنما بناؤں۔ حالانکہ کم عمری میں مجھے مطالعہ کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ میرے والد کو بھی مطالعے کا شوق تھا۔ لائبریری تو ان کی کوئی باقاعدہ نہ تھی، مگر ان کے پاس کتابوں کا بہت اچھا ذخیرہ تھا۔ جن سے میں برابر فیض یاب ہوتا رہا۔لڑکپن میں ہی عبدالحلیم شررؔ کے تاریخی ناول، فسانہ آزاد، ڈپٹی نذیر احمد کے قریب قریب تمام ہی ناول، منشی فیاض علی کے ناول ، شمیم اور انور ، منشی پریم چند کے ناول ، گؤدان، ،میدان عمل، چوگان ہستی، شبلی نعمانی کی الفاروق۔ یہ اور ایسی ہی دوسری علمی اور ادبی کتب، خصوصیت کے ساتھ ناول اور داستانیں حتیٰ کہ طلسم ہوشربا اور داستان امیر حمزہ ایسی واہیات اور لغو داستانیں بھی پڑھ ڈالی تھیں۔ ان کے علاوہ نیاز فتح پوری، سجاد حیدر یلدرم، سلطان حیدر جوش کے رومانی اور عشقیہ افسانوں کے ساتھ ساتھ پریم چند ، علی عباس حسینی، اور ڈاکٹر اعظم کرینوی کے سماجی اور اصلاحی افسانوں کا بھی مطالعہ کیا۔ ان اہل قلم کی تصانیف نے میرے ذہن کی تربیت میں خاصا اہم کردار ادا کیا۔ مگر ان میں سے کسی سے بھی اس حد تک متاثر نہ ہوا کہ کسی کے فکر و فن کی چھاپ میری تخلیقات پر صاف نظر آئے۔

٭        کلاس فیلوز اور آپ کے اساتذہ کا رد عمل کیا تھا؟

٭ ٭    اس سلسلے میں یہ عرض کروں گا کہ انٹر میڈیٹ کے سال دوم میں میری تعلیم کا سلسلہ کچھ اس طرح منقطع ہوا کہ پھر کسی کالج یا یونیورسٹی کا باقاعدہ طالب علم نہیں رہا۔ ایم۔ اے تک تمام امتحانات پرائیویٹ یعنی اکسٹرنل اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے دیئے۔ کئی بار ناکامی کا منہ بھی دیکھا۔ اس طرح تعلیمی سلسلہ ٹوٹتا رہا، بنتا رہا۔ گویا میں نے قسطوں میں تعلیم حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ میرا اساتذہ سے کم واسطہ رہا البتہ اتنا ضرور ہے کہ ابتدائی تعلیم کے زمانے میں گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول میں میرے جو اساتذہ تھے ، ان میں علی عباس حسینی ، حامد اللہ افسر میرٹھی، علی اختر تلہری بھی شامل تھے۔ علی عباس حسینی مشہور افسانہ نگار تھے۔ افسر میرٹھی بھی افسانہ نگار تھے لیکن شاعر بھی تھے۔ خصوصیت کے ساتھ ان کی وہ نظمیں جو انہوں نے بچوں کے لئے کہیں اور ان میں سے کئی نصاب میں بھی داخل تھیں۔ علی اختر تلہری تنقید نگار تھے۔ مگر میں ان میں سے کسی کے بھی فکر و فن سے خاطر خواہ استفادہ نہ کر سکا۔ بات یہ ہے کہ اس وقت تک میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مستقبل میں ادیب بن جاؤں گا۔

٭        نظریاتی شعور کب اور کن عوامل کی بناء پر پختہ تر ہوا اور کس سبب ترقی پسند تحریک سے ناطہ جڑا نیز آپ نے اس تحریک کے لئے کس طرح کی خدمات انجام دیں؟

٭ ٭    یہ بہت بعد کی بات ہے جب میرا ترقی پسند تحریک سے تعلق پیدا ہو گیا اور مجھے اس وسیلے سے جن ترقی پسند اہل قلم کا قرب حاصل ہوا ان میں ڈاکٹر عبدالعلیم خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ لکھنؤ یونیورسٹی کے اہم اساتذہ میں شامل تھے۔ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانیوں میں سے تھے۔ اس کے سیکریٹری جنرل بھی رہے۔ فکری اعتبار سے وہ کٹر مارکسسٹ تھے۔ تنقید ان کا میدان تھا۔ افسو س کہ انہوں نے بہت کم لکھا مگر جو کچھ لکھا وہ اردو ادب کا بہت قیمتی اثاثہ ہے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کی اصابت رائے اور تبحر علمی کا یہ عالم تھا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں جب وہ کسی مسئلہ پر بولتے تھے تو اسے حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ اوروں کا کیا ذکر، پروفیسر احتشام حسین اور آل احمد سرور کو بھی انہیں ٹوکنے یا برملا اختلاف کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے میری نظریاتی تربیت میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان کی شخصیت سے اس قدر شدت کے ساتھ متاثر ہوں کہ میں نے اپنے ناول ’’خدا کی بستی‘‘ کو انہی کے نام سے معنون کیا ہے۔

             ۱۹۴۴ء کے آغاز میں میرے دوست علی نظر رضوی نے لکھنؤ سے ماہنامہ ’’ترکش‘‘ نکالا وہ ایک ادبی رسالہ تھا۔ اس کے ادارۂ تحریر میں علی مظہر رضوی مرحوم کے علاوہ میں بھی بحیثیت مدیر شامل تھا۔ اس رسالے کے لئے مضامین نظم و نثر حاصل کرنے کی غرض سے ادیبوں اور شاعروں سے ملنے جلنے اور قریب ہونے کا بخوبی موقعہ ملا۔ ماہنامہ ترکش کے صرف دو شمارے شائع ہوئے مگر اس کے وسیلے سے لکھنؤ کے قریب قریب تمام ہی قابل ذکر اہل قلم سے اس حد تک مراسم ہو گئے کہ اکثر و بیشتر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ان ادیبوں اور شاعروں میں ڈاکٹر عبدالعلیم ، اسرار الحق مجاز، سلام مچھلی شہری، پروفیسر احتشام حسین ، علی جواد زیدی، ڈاکٹر حنیف فوق، ڈاکٹر عبادت بریلوی، کمال احمد صدیقی، منظر مسلم، پروفیسر ممتاز حسین، ڈاکٹر محمد حسن اور کتنے ہی دوسرے شامل تھے۔

            ماہنامہ ’’ترکش‘‘ تو دو ہی مہینے بعد بند ہو گیا مگر علی مظہر رضوی سے اتنے گہرے دوستانہ مراسم ہو گئے جو ان کے انتقال تک بخیر و خوبی برقرار رہے۔ مظہر رضوی ذہنی طور پر سوشلزم سے متاثر تھے۔ لہذا کیمونسٹ پارٹی سے ان کا خاصا ربط خبط تھا۔ حتیٰ کہ وہ پارٹی کے کل وقتی رکن بن گئے اور پارٹی کا ز کی خاطر جیل بھی گئے۔ مظہر رضوی کے ساتھ ساتھ میرا بھی کیمونسٹ پارٹی کے ساتھ اس حد تک تعلق پیدا ہو گیا کہ میں پارٹی کا قریبی ہمدرد اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ میں اس کا باقاعدہ جز وقتی (پارٹ ٹائم) رکن بن گیا۔ چند ماہ جیل میں بھی رہا۔ اسی نظریاتی رشتے کی بنیاد پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گیا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی سرگرمیوں میں حصہ لیتا رہا۔ انجمن کی تنقیدی نشستوں میں پابندی سے شرکت کرتا رہا۔ پاکستان آنے کے بعد بھی ترقی پسند تحریک سے میری وابستگی برقرار رہی۔

            جولائی ۱۹۵۲ء میں ترقی پسند مصنفین کی کراچی میں کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ ترقی پسند ادیبوں کا آخری اجتماع تھا۔ اس میں انجمن کے نئے عہدیداروں کا انتخاب بھی ہوا۔ سندھ سے میں اور پروفیسر ممتاز حسین مرکزی مجلس عاملہ کے ارکان منتخب ہوئے۔ ۱۹۵۴ء میں سیاسی جماعت قرار دے کر انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی عائد کر دی گئی۔ کراچی کا دفتر سر بہ مہر کر دیا گیا۔ اس کے سیکریٹری ریاض روفی جیل میں بند کر دیئے گئے۔ اس طرح انجمن کی تمام سرگرمیاں ختم کر دی گئیں۔ البتہ دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی اور سیاسی جماعتوں پر پابندی کا قانون کالعدم قرار پایا تو پروفیسر عتیق احمد اور رفیق چوہدری مرحوم نے ایک بار پھر انجمن میں جان ڈالنے کی کوشش کی اور اس کی سرگرمیاں بحال ہو گئیں۔

٭        پاکستان کا قیام ۱۹۴۷ء میں عمل میں آیا جبکہ آپ ۱۹۵۰ء میں پاکستان تشریف لائے ، اس تاخیر کا سبب کیا ہے؟

٭ ٭    میں جولائی ۱۹۵۰ء میں پاکستان آیا تھا۔ مگر مستقل قیام کے ارادے سے نہیں آیا تھا۔ پروگرام یہ تھا کہ کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد واپس چلا جاؤں گا۔ مگر پاکستان پہنچنے کے بعد صورت احوال کچھ ایسی پیدا ہوئی کہ واپسی نہ ہو سکی۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ہندوستان اور پاکستان میں آمد و رفت کے لئے پاسپورٹ کے بجائے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی جانب سے پرمٹ جاری کیا جاتا تھا۔ میں نے پاکستان آنے کے لئے پرمٹ حاصل کرنا چاہا تو کیمونسٹ قرار دے کر میری درخواست مسترد کر دی گئی۔ انہی دنوں میرے ایک دوست بادشاہ مرزا بھی پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ان کا گمان تھا کہ واہگہ پر سرحد عبور کرنے کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ غالباً ان کے کوئی عزیز پولیس میں تھے اور وہ سرحد پر تعینات تھے۔ غرضیکہ میں اور بادشاہ مرزا لاہور کے لئے بذریعہ ٹرین روانہ ہوئے اور جالندھر پہنچ کر ٹھہر گئے۔ اس زمانے میں جالندھر میں پاکستانی ڈپٹی ہائی کمیشن کا دفتر تھا۔ اس دفتر سے بھی پاکستان جانے کے لئے پرمٹ جاری کیا جاتا تھا۔ جالندھر میں میرے دوست رام پال شرنارتھی کی حیثیت سے مقیم تھے۔ میرا اور بادشاہ مرزا کا قیام ان کے ساتھ رہا۔ رام پال اس زمانے میں خاصے مشہور افسانہ نگار تھے۔ ان دنوں فکر تونسوی اور مخمور جالندھری بھی جالندھر میں تھے ان کے علاوہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند تھے۔ وہ افسانہ نگار اور شاعر ہیں اور آج کل امریکہ کی کسی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ اس وقت وہ اقلیم ادب میں نئے نئے وارد ہوئے تھے بہرحال ان تمام احباب نے کسی نہ کسی طور میری دستگیری کی۔ انہی کی کوششوں سے ڈپٹی ہائی کمشنر نے بادشاہ مرزا کے پرمٹ میں میرے نام کا اندراج کر دیا۔ اس طرح میں لاہور پھر کراچی پہنچا۔ واپسی کے لئے ضروری تھا کہ بادشاہ مرزا بھی واپس چلیں۔ مگر انہوں نے واپس جانے کا ارادہ قطعی طور پر ترک کر دیا چنانچہ میں نے بھی مستقل قیام کا ارادہ کر لیا اور اس طرح قیام کیا کہ لکھنؤ جانا نصیب نہ ہوا اور اب تو ایسی خواہش بھی نہ رہی۔

٭        ارد ادب میں لکھنؤ کو جا بجا خوابوں کی سرزمین سے موسوم کیا گیا ہے۔ آپ کے خواب اور ان کی تعبیر کا سِرا عمر عزیز کے اس مقام پر کہاں تلاش کیا جا سکتا ہے؟

٭ ٭    لکھنؤ کے انحطاط پذیر جاگیردارانہ معاشرے کو جس نے بھی خوابوں کی سرزمین سے تعبیر کیا ، اس نے حقیقت پسندی سے کام نہیں لیا۔ میرا ناول ’’چار دیواری‘‘ لکھنؤ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس میں اس شہر خوباں کی ثقافتی اور سماجی زندگی کے اصل روپ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

            میری زندگی کسی نہ کسی روپ میں میرے افسانوں میں بکھری ہوئی ہے۔ مختلف ادوار اور مختلف رخوں کی ان میں کہیں نہ کہیں جھلکیاں ملتی ہیں مثلاً عنفوان شباب کی رومانوی ولولہ انگیزی کی جھلک ابتدائی دور کی میری ایک کہانی ’’وہ بلیک آؤٹ والی رات‘‘ میں نظر آتی ہے۔ اسی طرح جب میں فوج سے وابستہ تھا ، تو اس ہیجان پرور عہد کی یادگار میری کہانی ’’پاگل خانہ‘‘ قرار دی جا سکتی ہے۔ اور جب میں کیمونسٹ پارٹی سے وابستہ تھا تو اس زمانے کا واضح ’’عکس میرے افسانے ’’غم دل اگر نہ ہوتا‘‘ میں ملتا ہے۔ جن دنوں میں اطالوی جنگی قیدیوں کے کیمپ میں ویلفیئر افسر تھا تو اس زندگی کا نشیب و فراز میرے افسانے ’’مردہ گھر‘‘ میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح جب میں کراچی میں بالکل قلاش تھا ، نہ روزگار تھا، نہ سر چھپانے کا ٹھکانا تھا تو اسی دور ابتلا کی جیتی جاگتی تصویر میری کہانی ’’راتوں کا شہر‘‘ ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر لکھنے والا اپنے مشاہدے و مطالعے ہی سے تخلیق کا عمل مکمل کرتا ہے۔

 ٭        شاعری ،افسانہ، ناول ، ڈرامہ تو مستند تخلیقی شناخت ہیں۔ انشائیہ، خاکہ اور سفر نامہ کی بابت آپ کی کیا رائے ہے۔؟

٭ ٭    میں نے انشائیہ اور سفرنامہ لکھنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ دراصل سفرنامے اتنی کثرت سے لکھے جا رہے ہیں کہ ان کی بہتات دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر وہ شخص جو کچھ نہیں لکھ سکتا وہ کم از کم سفر نامہ ضرور لکھ سکتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سفرنامے کے لئے قوت متخیلہ کو تو دخل ہوتا نہیں۔ مشاہدے سے زیادہ مطالعے سے کام چلایا جاتا ہے اور مطالعہ بھی محکمہ سیاحت کے پمفلٹوں اور نقشوں تک محدود ہوتا ہے۔ حاشا ! کسی کی دل آزاری مقصود نہیں۔ مگر مستنصر حسین تارڑ، بیگم ریاض الدین احمد اور ایسے ہی گنے چنے چند سفرنامہ نگاروں سے قطع نظر ، میں نے پیشتر سفرناموں کو سپاٹ اور بے روح پایا ہے۔

٭        آپ کے معترضین آپ پر منصوبہ بندی اور پلاننگ کے تحت ناول لکھنے کا الزام اکثر لگایا کرتے ہیں؟

٭ ٭    باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ناول لکھنا ایسا فعل تو نہیں جو ضابطۂ فوج داری کی کسی دفعہ کی گرفت میں آتا ہو۔ دنیا کا عظیم ترین ناول نگار لیوٹا لسٹائی تو مہینوں نہیں بلکہ برسوں کسی ناول کو تحریر کرنے سے پہلے اس کی منصوبہ بندی کرتا تھا۔ یہ حقیر پر تقصیر تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں البتہ اس سلسلے میں اتنا ضرور عرض کروں گا کہ میں نے اب تک کوئی ناول منصوبہ بندی کے تحت نہیں لکھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس ناول کی برسوں سے منصوبہ بندی کر رہا ہوں وہ ابھی تک نہیں لکھ سکا۔ صرف منصوبہ بندی ہی تک محدود ہے۔

٭        مثال کے طور پر خدا کی بستی اور دیگر تین ناولوں میں کہانیوں کے کئی کئی ٹریک ایک ساتھ چلتے ہیں جس سے ہر طبقۂ فکر کو مطمئن کرنا مقصود ہوتا ہے؟

٭ ٭    کوئی بھی ناول اپنے ارتقائی عمل میں کسی ایک راہ پر یا مختلف راہوں سے گزر کر آگے بڑھتا ہے۔ اس عمل کا تعلق خالص تکنیک یا اسلوب سے ہے۔ میں نے بھی تکنیک کی خاطر کبھی لکھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کبھی تکنک کو موضوع پر فوقیت دی۔ اس کی اہمیت میرے نزدیک محض ثانوی ہے۔ دراصل اظہار خیال کے عمل میں موضوع خود اپنا اسلوب وضع کر لیتا ہے رہا ہر مکتبۂ فکر کو مطمئن کرنے کا سوال تو ا س سلسلے میں گزارش ہے کہ ہر مکتبہ فکر کو مطمئن کرنا فعل عبث ہے۔ میں نے ناممکنات کو ممکنات کے دائرے میں لانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔

            میں نے صرف Under worldہی کے بار ے میں نہیں بلکہ دیگر موضوعات پر بھی لکھا ہے اور بہت زیادہ لکھا ہے جہاں تک Under worldکا تعلق ہے اس کا پسِ منظر یہ ہے کہ کراچی میں میرے قیام کا ابتدائی دور پرآشوب تھا۔ طرح طرح کے تجربات سے گزرنا پڑا اور طرح طرح کے کرداروں سے واسطہ پڑا۔ یہ مشاہدات ذہن پر ایسے گہرے نقش چھوڑ گئے کہ میری سوچ کا ایک زمانے میں حصہ بن گئے۔

٭        آپ روشنی کے بر عکس ، تاریکی اور اندھیروں کو اہمیت دے کر اپنے قاری اور ناظر کو قنوطیت کا شکار کر رہے ہیں۔ آپ کے افسانوں اور ناولوں کے کرداروں کی اکثریت شکست خوردہ ہونے کے باعث آپ کے قاری میں حوصلہ اور امنگ پیدا کرنے کی بجائے بزدلی اور مایوسی کا شکار بنا رہے ہیں۔

٭ ٭    ہمارا معاشرہ ایک طبقاتی معاشرہ ہے جس میں عدم مساوات ہے۔ نا انصافی ، نکہت اور افلاس ہے۔ ایک استحصال کرنے والا طبقہ ہے اور دوسرا استحصال زدہ مظلوم عوام کا طبقہ۔ ایک کو زندگی کی تمام آسائشیں اور نعمتیں نصیب ہیں ، دوسرا زندگی کی ہر نعمت سے محروم ہے جو روشنی حتیٰ کہ صاف ہوا اور صاف پانی کو ترستا ہے۔ ادیب بنیادی طور پر معاشرے کا نہایت حساس فرد ہوتا ہے ، وہ اس اونچ نیچ اور سماجی ناہمواری سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بحیثیت ایک ادیب اس صورت حال نے مجھے بھی متاثر کیا ہے لہٰذا جو کچھ میرے مشاہدے میں آیا ہے اور آ رہا ہے ، میں ایمانداری سے اسے اپنی تخلیقات میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ قاری کو قنوطیت میں مبتلا کرنے کی کوشش نہیں ہے بلکہ اسے معروضی حقائق سے آگاہ کرنے کا عمل ہے۔ یہ عوام کو ان کے بنیادی مسائل سے باخبر کرنے کا عمل ہے تاکہ وہ اس معاشرتی ناہمواری کو تبدیل کر کے ایسامعاشرہ تشکیل و تعمیر کریں جو غربت و افلاس ، عدم مساوات اور سماجی نا انصافی میں مبتلا نہ ہو۔ یہ عوام میں قنوطیت پیدا کرنے کی ہرگز کوشش نہیں ہے بلکہ ان میں ولولہ اور جرأت پیدا کرنے کا عمل ہے۔

٭        آپ نے رومانیت کے مقابل حقیقت نگاری پر اس لئے تو زور نہیں دیا کہ کرشن چند راس الزام کے باعث ایک بڑا ناول نگار بننے سے رہ گئے تھے۔

٭ ٭    حقیقت نگاری محض حقیقت نگاری نہیں ہوتی۔ اس کے بھی مختلف رخ ہیں۔ مختلف پہلو ہیں ، مختلف تصورات ہیں۔ مثلاً سادہ Naireحقیقت نگاری اور رومانوی حقیقت نگاری، سماجی حقیقت نگاری ، سوشلسٹ حقیقت نگاری۔ کرشن چندر نے اپنا ادبی سفر رومانی حقیقت سے شروع کیا۔ سماجی حقیقت نگاری کے مرحلے میں داخل ہوئے اور آخر میں سوشلسٹ نگار کی حیثیت سے سامنے آئے۔ یہ بات ان کے افسانوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ مگر ان کے ناول افسانوں کی طرح وہ بلند مقام حاصل نہ کر سکے جو ان کے فکر و فن کو عظمت عطا کرتا ہے ، لہٰذا ان ناولوں میں سوشلسٹ حقیقت نگاری پوری طرح اجاگر نہ ہو سکی۔ میں بھی نظریاتی طور پر سوشلسٹ حقیقت نگاری کا قائل ہوں۔

٭        کیا یہ رائے درست ہے کہ آپ حقیقت نگاری کی دھن میں تبلیغ کی حدیں بھی پار کر جاتے ہیں؟

٭ ٭    میں نے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا کہ حقیقت نگاری کی دھن میں تبلیغ کے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ فن، پروپیگنڈا نہ بن جائے اور تخلیق پر تبلیغ کا گمان ہونے لگے۔ میرے نزدیک یہ تخلیقی صلاحیت کی کمی کی علامت ہے۔

٭        ڈاکٹر احسن فاروقی ’’خدا کی بستی‘‘ کو اشتراکی طرز ناول نگاری کی سطحی پیروڈی کہتے ہیں؟

٭ ٭    ڈاکٹر احسن فاروقی مرحوم کے نہ صرف ایسے اعتراضات پر بلکہ کسی بھی اعتراض پر میں نے کبھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ چنانچہ کبھی ان پر تبصرہ کیا نہ کوئی جواب دیا۔ اعتراض کرنے کو تو انہوں نے قرۃ العین حیدر کے مشہور ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے بارے میں بھی ایسا ہی جملہ کہا تھا۔ اسے ورجینا وولف کے ناول ’’اورلینڈو‘‘ کا بھونڈا چربہ قرار دیا تھا۔ وہ بڑے تنک مزاج اور جل ککڑے واقع ہوئے تھے۔ مشہور نقاد اور ترقی پسند دانشور ڈاکٹر عبدالعلیم کو کٹھ ملّا اور پروفیسر احتشام حسین کو کولھو کا بیل کہتے تھے۔ پروفیسر ممتاز حسین اور دوسرے ترقی پسند ناقدین کو ’’منشیان ادب‘‘ کہہ کر یاد کرتے تھے۔ ان کی خوشنودی طبع کے لئے ان کے دو شاگردوں نے بطور اظہار تحقیر مجھے کم علم اور کم فہم تک قرار دیا تھا۔ لیکن انہیں یہ علم نہیں کہ ان کے استاد محترم ڈاکٹر احسن فاروقی نے جب اپنا پہلا ناول ’’شامِ اودھ‘‘ تحریر کیا تھا تو اس میں زبان و بیان کی اتنی فاش غلطیاں تھیں اور عبارت اتنی بے ربط اور گنجلک تھی کہ کوئی ناشر لاگت لے کر بھی اسے شائع کرنے پر آمادہ نہ تھا آخرکار ناول کامسودہ اسی حقیر پر تقصیر ، کم علم اور کم فہم کے سپردبغرض اصلاح اور اس مقصد کے لئے کیا گیا جسے آج کی مروجہ اصطلاح میں Reconditioningکہا جاتا ہے چنانچہ میں نے اور خلیق ابراہیم نے یہ فریضہ انجام دیا اور اس ’’کارگزاری‘‘ کا معاوضہ مبلغ پانچ پانچ سو روپے دونوں نے وصول کیا پبلشر سے نہیں مصنف سے۔ اس حقیقت کی تصدیق خلیق ابراہیم کر سکتے ہیں۔ وہ بحمد اللہ حیات ہیں اور کراچی میں مقیم ہیں۔

٭        گزشتہ دنوں پنجابی فلموں کے ایک مشہور مصنف نے اپنی فلموں میں بے جا تشدد کے پرچار پر تنقید کے جواب میں اپنی علاقائی تشدد آمیزی کو جواز کے طور پر پیش کیا تھا آپ اپنی تخلیقات میں جرم و تشدد کی زیادتی کو کس طرح Defendکریں گے؟

٭ ٭    پنجابی فلموں کے مصنف نے جو کچھ کہا ٹھیک ہی کہا ہو گا۔ وہ تماشائیوں کے مزاج آشنا اور باکس آفس کے نبض شناس ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مار دھاڑ اور تشدد کو کہاں اور کیوں کر پیش کیا جائے اور اس کے وسیلے سے ناظرین کے ذہن میں ہلچل اور سرخوشی کیسے پیدا کی جائے میرا یہ میدان نہیں اور نہ ہی میرا ایسا کوئی مقصد رہا ہے میرے افسانوں اور ناولوں کے کردار عموماً استحصال زدہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں اظہار کرتے ہوئے اگر کہیں تشدد یا کوئی ایسا عنصر محسوس ہوتا ہے تو یہ ان کے مزاج اور واقعات کا فطری تقاضہ ہوتا ہے میں فنی مشاطگی یا کسی رنگ آمیزی کے لئے ایسا نہیں کرتا۔ نہیں معلوم میرے بارے میں یہ غلط فہمی کیسے پیدا ہو گئی کہ مار دھاڑ سے بھرپور فلموں کی طرح میں بھی اپنے افسانوں اور ناولوں میں ایسا عنصر شعوری طور پر داخل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

٭        آپ نے لکھنؤ کی نستعلیق زبان اور شائستہ ماحول میں پرورش پائی جبکہ آپ کی تخلیقات میں پنجاب کے دیہی ماحول کی عکاسی اور زبان و بیان میں حقیقت پسندی بلکہ کھردرا پن بہت نمایاں ہے؟

٭ ٭    ’’جانگلوس‘‘ کی جلد اول کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں اس سلسلے میں کھل کر اظہار خیال کر چکا ہوں۔ دراصل اس ناول کو لکھنے کے دوران میں نے پنجاب کے ان علاقوں کا دورہ کیا جن کا پلاٹ سے گہرا تعلق ہے۔مشاہدے کے ساتھ ساتھ تفصیلی مطالعہ بھی کیا یعنی دید و دریافت سے بھرپور استفادہ کیا۔ واضح رہے یہ ناول لگ بھگ سال کے عرصے میں مکمل ہوا تھا۔

٭        ن۔ م راشد آپ کو پریم چند، راشد الخیری، اور منٹو کے مختلف اجزا کا ، حاصل ضرب کہا کرتے تھے کیا آپ کی ذہنی اپج اس حد بندی کو قبول کرتی ہے؟

٭ ٭    خدا کی بستی کی اشاعت کو 42برس سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور اب تک اس کے ۴۶ ایڈیشن صرف اردو میں شائع ہو چکے ہیں اس کے بارے میں مختلف ادوار میں مختلف تبصرے کئے گئے تعریف و توصیف کے پل باندھے گئے اور کلوخ اندازی بھی خوب ہوئی۔ غرضیکہ اچھے برے ہر طرح کے تبصرے اور تذکرے ہوئے مگر کسی نے آج تک ایسی بات نہیں کہی جس کا اظہار ن۔م راشد نے کیا ہے۔ خدا معلوم یہ دور کی کوڑی وہ کہاں سے لائے ایسا محسوس ہوتا ہے انہوں نے نہ تو پریم چند کو پڑھا اور نہ ہی علامہ راشد الخیری کو اور اگر منٹو کو پڑھا ہے تو ڈھنگ سے نہیں پڑھا۔ انہوں نے الیگزینڈر کپرن کے شہرہ آفاق ’’ماما دی بیسٹ‘‘ کا اردو ترجمہ اس قدر پھوہڑ پن سے کیا ہے کہ ان کی تحریر صاف چغلی کھاتی ہے کہ وہ اردو نثر کے مزاج آشنا نہیں اور فکشن کے مطالعے سے کبھی ان کا واسطہ نہیں رہا۔ بحیثیت شاعر اردو ادب میں ان کو جو بلند مقام حاصل ہوا اس کا تقاضہ ہے کہ ایسی غیر ذمہ دارانہ بات انہیں نہیں کہنا چاہئے تھی۔ فیض کی بے پناہ ہر دلعزیزی اور عزت و احترام کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کے بارے میں ایسی پھکڑ بازی کی اور نہ ہی اس طرح فقرہ چست کرنے کی کوشش کی یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔ راشد کے انتقال پر کسی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا وہ بحیثیت مسلماں پیدا ہوئے۔ وہسکی اور سؤر کے گوشت سے رغبت کے باعث نصرانیوں کی طرح زندگی بسر کی مرے تو چتا میں آگ لگوا کر ہندوؤں کی طرح‘‘ جس نے بھی یہ بات کی تنگ نظری کا مظاہرہ کیا۔

٭        عصمت چغتائی صاحبہ کے تعاون سے سفر بمبئی اور ’’خدا کی بستی‘‘ کے حقوق فروخت کرنے میں کس حد تک پیش رفت ہوئی تھی؟

٭ ٭    عصمت چغتائی نے تو ’’خدا کی بستی‘‘ کی ہندی میں اشاعت اور فلم کے معاہدہ کے سلسلے میں مجھے بمبئی بلایا تھا۔ اصرار بھی کیا مگر میں بمبئی نہ جا سکا۔ پاسپورٹ ہی نہ مل سکا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے باعث معتوب بارگاہ سلطانی تھا۔ حکومت وقت کی نظروں میں ملک دشمن سمجھا جاتا تھا۔

٭        آپ ایک عرصہ انگریزی صحافت سے منسلک رہنے کے بعد اچانک اردو صحافت سے وابستہ کیوں ہو گئے تھے؟

٭ ٭   963ء میں میں روزنامہ ’’مارننگ نیوز‘‘ کراچی میں سینئر سب ایڈیٹر تھا تنخواہ میری ساڑھے پانچ سو روپے تھی۔ انگریزی سے اردو صحافت کے کوچے میں داخل ہوا تو میگزین ایڈیٹر /نیوز ایڈیٹر کے عہدے کی پیشکش ہوئی۔ تنخواہ بارہ سو مقرر ہوئی۔ سیدھا سیدھا معاشی مفاد کا مسئلہ تھا۔ محنت ہی تو بیچنا تھی۔ بقول غالب ؔ

وفا کیسی ، کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا !

Yتو پھر اے سنگِ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو؟

٭ شہرت و عظمت کی بلندیاں چھونے کے بعد، آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ آپ نے اپنا فرض بحسن و خوبی انجام دیا اور اس سے آپ کے گرد و پیش کو کوئی فائدہ پہنچا؟

٭ ٭    اک زمانہ تھا کہ میں بڑے تپاک سے اپنا تعارف کراتا تھا اور بار بار کراتا تھا اور بھولنے والے بار بار بھول جاتے تھے۔ اب اتنا فرق آ گیا ہے کہ کسی گلی کے نکڑ پر ، کسی سڑک کے موڑ پر یا کہیں بھی کسی بھی جگہ راہ چلتے لوگ ٹھٹک کر دیکھتے ہیں۔ نیاز مندی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ کبھی ’’خدا کی بستی ‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں اور کبھی ’’جانگلوس‘‘ کے رحیم داد اور لالی یا کسی اور کردار کے بارے میں استفسار کرتے ہیں۔ میرے افسانوں اور ناولوں میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی حاکم یا افسر اعلیٰ کے پاس جانا ہو تو پھر وزیٹنگ کارڈ کی عام طور پر ضرورت نہیں پڑتی۔ اکثر و بیشتر صرف نام بتانے پر بغیر سفارش ہی کے کام بن جاتا ہے۔ میں نے اپنی تحریروں کا بھرپور معاوضہ حاصل کیا اور اب تک رائلٹی کی صورت میں وصول کر رہا ہوں۔ آرام اور اطمینان سے گزر بسر ہو رہی ہے۔ یہ تو ذاتی فائدہ ہوا۔ جہاں تک فکر و خیال کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں گزارش ہے کہ ہر نظریہ اور ہر خیال ایک مدت تک نظریہ اور خیال رہتا ہے مگر جب وہ عوام کے شعور کا حصہ بن جاتا ہے تو وہ مادی شکل اختیار کر لیتا ہے یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب عوام نظریات و افکار سے لیس ہو کر ایک انقلابی قوت کی حیثیت سے ابھرتے ہیں اور معاشرے میں معروضی حالات کے مطابق سماجی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیاں لاتے ہیں۔ یاد آتا ہے جب میں پیپلز پارٹی کے ترجمان اور روزنامہ مساوات کا چیف ایڈیٹر تھا تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ’’خدا کی بستی‘‘ ٹیلی ویژن سے ٹیلی کاسٹ ہوئی تو ہماری تحریک کو اس سے بہت تقویت ملی۔ غریبوں میں غریبی کا احساس شدید ہو گیا تھا۔ در اصل آزادی نام ہے مجبوری ، محکومی کے احساس کا۔ آزادی خواہ سیاسی ہو یا معاشی۔

٭        عالمی برادری بالخصوص پاکستان میں ، آپ برائی کا ذمہ دار کس طبقے کو گردانتے ہیں؟

٭ ٭    پاکستان کے معروضی حالات میں تو تمام سیاسی اور اقتصادی برائیوں کی جڑ جاگیرداری نظام ہے۔ اس کے بارے میں اپنے ناول ’’جانگلوس‘‘ میں اپنے طور پر بھرپور انداز میں اظہار کر چکا ہوں۔                                           (مارچ ۲۰۰۱)

٭٭٭

 

گیان چند جین

۱۹ ستمبر۱۹۲۳ء

٭       آبا کے کم و بیش ساتویں سلسلے تک آپ کو شجرہ نسب ازبر ہے جب کہ ہم آپ کی پیدائش، مقام، وقت اور ماحول کی نسبت اشتیاق رکھتے ہیں؟

٭٭   مجھے سات کی بجائے اپنے اجداد کے گیارہ سلسلے یاد ہیں۔ میری پیدائش 5ستمبر 1923ء بروز بدھ بوقت دوپہر بمقام سوہارا ضلع بجنور UP انڈیا میں ہوئی۔ ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری اور مولانا حفظ الرحمٰن کا تعلق بھی سوہارا سے ہی تھا۔

٭       آپ کتنے بہن بھائی ہیں ، آپ کا نمبر کون سا ہے ، آج کل وہ لوگ کہاں مقیم ہیں اور کس کس میدان کے شہسوار ہیں؟

٭٭   میرے والدین کی کُل دس اولادیں ہوئیں۔ تین بچپن میں فوت ہو گئیں۔ کل تین بھائی اور چار بہنیں بچے۔میرا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے۔ اب میرے علاوہ میری ایک بہن بقید حیات ہیں۔

٭       تعلیم کی ابتداء کب اور کہاں ہوئی؟ کچھ احوال اساتذہ، ہمجولیوں ، ہم جماعتوں اور گرد و پیش کا بھی بیان فرمائیے !

٭٭   میری ابتدائی تعلیم سوہارا میں ہوئی۔ سب سے پہلے مولوی مظہر عالم صاحب نے میری تعلیم میں مدد فرمائی۔ دسویں جماعت ، پارکر ہائی سکول مرادآباد میں اُستاد ظفر حسین عاصی نے مجھے اردو، فارسی پڑھائی۔ ساتھیوں میں قابل ذکر سید مجتبیٰ حسین ہیں اب وہ پاکستان میں مقیم ہیں اور تنقید میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔

٭       اُردو سے آپ یا آپ کے بزرگوں کا تعلق کس طور اس قدر مضبوط ہوا؟

٭٭   میرے والدین اُردو قطعی نہیں جانتے تھے۔ شمالی ہند میں ہندوؤں کی عورتیں اردو نہیں پڑھتی تھیں۔ یہ صورت حال پنجاب تک تھی۔ یُوپی میں بول چال کی حد تک اردو ہندی میں کوئی فرق نہیں تھا۔

٭       ابتدائی درجوں میں اردو سے آپ کی دلچسپی اور مہارت پر اساتذہ اور دیگر احباب کا ردِّ عمل کس نوعیت کا تھا؟

٭٭   اُردو سے میری دلچسپی میرے اساتذہ کی دین ہے جن میں پروفیسر ضامن علی، ڈاکٹر حفیظ سیدہ، ڈاکٹر اعجاز حسین اور ڈاکٹر رفیق حسن قابل ذکر ہیں آخر الذکر کا سایہ ابھی بھی میرے سر پر موجود ہے۔

٭       945ء میں دسویں درجہ تک تعلیم بڑا کارنامہ تھا جب کہ آ پ نے ایم اے اردو میں اوّل پوزیشن لے کر، ریکارڈ قائم کر دیا تھا! کچھ تاثرات اپنے بزرگوں ، عزیزوں اور احباب کے آپ کے حافظہ میں یقیناً محفوظ ہوں گے !۔

٭٭   اُس زمانے میں ایم اے کی کلاس میں کُل چھ طلبا ہوا کرتے تھے۔ ایم اے اُردو میں نے ا لہٰ آبادیونیورسٹی سے پاس کیا تھا۔ ایم اے اردو میں اب تک اوّل پوزیشن حاصل کرنے والا میں واحد ہندو طالب علم ہوں۔ باقی اوّل آنے والے ہمیشہ مسلمان طالب علم رہے ہیں۔

٭       اس کے بعد صرف چار سال کے مختصر عرصہ یعنی 1949ء میں ڈی فل کی ڈگری حاصل کر لیتے ہیں ، یقیناً آپ کے گردو پیش میں ہنگامہ برپا ہو گیا ہو گا، خوشی کے شادیانے بج اُٹھے ہوں گے ! کم از کم ہمیں اس کامیابی کے محرک سے تو ضرور آگاہ کیجئے؟

٭٭   ارے صاحب کیا عرض کروں ! ہندوستان میں آزادی کے بعد اُردو کو کوئی پوچھتا ہی نہ تھا اس لئے خوش ہونے کے بجائے دوست اور احباب مجھ سے ہمدردی جتاتے تھے۔

٭       آپ کی شادی کب اور کس طریق اور عقیدہ کے تحت انجام پائی، یہ لَوّ میرج تھی یا ارینجڈ؟

٭٭   میری شادی 1953ء میں ہریجن عقیدے کے تحت ہوئی۔ یہ arranged میرج تھی۔ ہندو کسے کہتے ہیں یہ ابھی تک کسی کو معلوم نہیں۔ سناتن دھرمی پرانے ہندو اور آریا سماجی نئے ہندو کہلاتے ہیں۔

٭       بیگم صاحبہ ہندی اور آپ اردو کے اسیر ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو کس حد تک پسند و برداشت کرتے رہے؟

٭٭   میری اہلیہ دھیمے مزاج کی مہذب و شائستہ خاتون ہیں اس لئے زبان کے معاملے میں ہمارے درمیان کبھی کوئی شدت پیدا نہیں ہوئی۔

٭       آپ کی اولاد میں اعلیٰ تعلیم کے علاوہ اُردو دانی اور اُردو فہمی کس حد تک دستیاب ہے؟

٭٭   مسابقتی دوڑ کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بچوں کو ہم نے انگریزی تعلیم دی۔ تین بچوں میں صرف ایک نے کچھ اُردو پڑھی ہے۔

٭       ابتدائی ایّام میں بے کاری سے تنگ آ کر آپ نے صحافت کا پیشہ بھی اختیار کیا تھا۔ وہ تجربات کس نوعیت کے تھے اور کیوں آپ صحافت سے مستقل تعلق قائم نہ رکھ سکے؟

٭٭   پاک و ہند میں اردو کا میں آٹھواں Ph.D تھا اس کے باوجود مجھے ابتدائی تین سال ملازمت نہ مل سکی تھی لہٰذا میں نے Pioneer انگریزی اخبار میں Internship شروع کر دی جو چھ ماہ تک جاری رہی۔ یہ جنوری 1950ء تک کا قصہ ہے۔ نصف صدی سے اوپر کا عرصہ گزرنے کے بعد اُس وقت کی صحافتی زندگی کی بابت اتنا کچھ یاد نہیں۔

٭       تدریس کی جانب آپ کی توجہ کے خاص اسباب کیا تھے یا ہیں؟

٭٭   جب سے میں ایم اے اُردو کا طالب علم تھا اُسی وقت میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں تدریس کے شعبہ میں جاؤں گا۔ جون 1947 میں ڈی فل کا مقالہ داخل کر کے یونیورسٹی چھوڑ دی۔ مارچ 1948 میں ڈگری ملی۔ تقسیم ملک کے فوراً بعد اُردو کے خلاف شدید رد عمل تھا جس کی وجہ سے اُردو کی جگہیں بہت کم مشتہر ہوتی تھیں۔ میں نے طے کیا تھا کہ ڈگری کالج سے کم میں نہیں جاؤں گا اور دو سو روپے سے کم مشاہرہ نہ لوں گا۔ کئی جگہ درخواستیں دیں لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ مہاراجہ کالج جے پور میں مجھے منتخب کر لیا گیا لیکن جولائی میں معلوم ہوا کہ اُردو کی جماعتیں شروع ہی نہیں کی گئیں۔ تین سال کی بیروزگاری اور چھ ماہ کے صحافتی تجربہ کے بعد اپریل یا مئی 1950 میں مجھے حمیدیہ کالج بھوپال میں اُردو کی لیکچرر شپ مل گئی۔

٭       ڈاکٹر صاحب ! مذہبی سلسلہ والدہ سے چلتا ہے یا والد سے؟ آپ کی والدہ محترمہ جین دھرم سے بلکہ آپ کی دھرم پتنی کا بھی جین دھرم سے تعلق نہ تھا اس طرح تو آپ اور آپ کی اولاد کو بہت سے معاملات کا سامنا رہا ہو گا؟

٭٭   یہ حقیقت ہے کہ ہمارے گھر میں کئی مذاہب کا اثر رہا ہے اس کے باوجود کسی نے مذہب کی طرف اتنا زیادہ زور نہیں دیا۔ سر سیداحمد خان نے ’’اسباب بغاوت‘‘ میں لکھا ہے کہ مذہب کے معاملے میں مسلمان زیادہ متعصب ہوتے ہیں۔ ہندو اس کی پرواہ نہیں کرتے۔

٭       بھارت میں مردم شماری کے خانہ میں ’’جینی‘‘ ہندوؤں سے الگ قوم کے طور پر درج ہیں۔ آپ مختصر طور پر ہمیں جین دھرم اور اُس کی بابت اپنے ایقان سے آگاہ کیجئے !

٭٭   ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ جینی ہندو ہیں یا نہیں۔ جذباتی اور معاشرتی اعتبار سے جینیوں اور ہندوؤں میں کوئی فرق نہیں ہے اس کے باوجود دونوں کو الگ الگ سمجھا جاتا ہے۔

٭       مادری زبان کا مطلب ’’ماں بولی‘‘ ہے آپ کی والدہ اردو زبان سے آشنا نہیں تھیں پھر بھی آپ نے مردم شماری کے خانہ میں ’’اُردو‘‘ کو مادری زبان کے طور پر درج کیا ہوا ہے؟

٭٭   خاندان چونکہ والد سے شروع ہوتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اردو اور ہندی دو علیحدہ زبانیں ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک زبان کے دو نام ہیں۔ میری زبان میں اردو کا اثر زیادہ ہے۔

٭       ڈاکٹر صاحب! قدرت نے آپ کو تعلیم، تدریس، تحقیق، تنقید، تقریظ، تقریر اور تخلیق کے فن میں جس قدر دسترس اور مہارت عطا کی ہے ، ان سب کا ایک جسم، ایک دماغ بلکہ ایک دل میں سمانا کس طرح ممکن ہے؟ کسی منظم پلاننگ اور رہنمائی کی بدولت کوئی بھی پڑھا لکھا شخص اس قدر کمال حاصل کر سکتا ہے؟

٭٭   اس سوال کو پڑھنے کے بعد میں خوش بھی ہوا ہوں اور حیران بھی کہ میری ذات میں اتنی صفات موجود ہیں۔ سب سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ میں اچھا مقرر صرف تحقیقی ادب میں تھا۔ تخلیق میں میرا حصہ بہت کم رہا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں ، میں نے کثرت سے شعر کہے اور انہیں دفن کر کے چھوڑ دیا۔ اب بھی شاذ شاذ کچھ کہہ لیتا ہوں۔ میرے اندر ایک ذوقِ جمال اور ایک حسِ مزاح ہے کبھی ان کا سہارا ہو جاتا ہے تو نثر کے بعض جملے قابل قبول ہو جاتے ہیں۔

٭       اُردو افسانہ کی طرز پر تحقیق کے چار ستون قاضی عبدالودود، مولانا عرشی، مسعود حسن خان اور مالک رام کی ترکیب سے اتفاق کر لیا جائے تو گیان چند جیسے شہتیر کو عمارت کا کون سا حصہ تصور کیا جائے؟

٭٭   میرے عزیز! اپنے بارے میں کوئی رائے دینا بے وقوفی کی علامت ہے۔ یہ دوسرے لوگ طے کرتے ہیں کہ آپ کا مقام کیا ہے یا کیا ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی

             ؂ ہم کہاں کے یکتا تھے کس ہنر میں دانا تھے

٭       آپ کے خیال میں محقق نقّاد نہیں ہو سکتا جب کہ آپ کی ذات اس خیال کی نفی کے لئے کافی ہے؟

٭٭   یہ بات بھی حقیقت سے بعید ہے۔ میرے خیال میں ڈاکٹر جمیل جالبی تنقید میں بہتر ہیں جب کہ میرا تنقید میں کوئی مقام نہیں ہے۔

٭       قاضی عبدالودود کو کھرا نقّاد ماننے کے باوجود آپ کے ہاں ذہنی تحفظات پائے جاتے ہیں۔ بقول آپ کے اُردو زبان و ادب کو ہنوز غیر جانبدار محقق اور نقاد کا انتظار ہے گویا اس زبان و ادب کے باب میں اب تک کی گئی تحقیق و تنقید پر کامل اعتبار نہ کیا جائے !

٭٭   مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے ایسی بات کبھی کہی ہو، قاضی عبدالودود کے ہاں تحقیق میں غیرجانبداری پائی جاتی ہے۔

٭       ایک طرف آپ اُردو اور ہندی کو دو الگ زبانیں گردانتے دوسری طرف مسلم زعما کے حوالے سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اُردو مسلمانوں کی زبان ہے پھر آپ نے ہندی پر اُردو زبان کو کیوں ترجیح دی؟

٭٭   سوال ٹیڑھا اور نازک ہے مجھے نفسیاتی اُلجھن ضرور ہے لیکن میں دیانتداری سے مختصر جواب دیتا ہوں۔ غیر جذباتی ہو کر اُردو سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلق پر غور کیجئے۔ دکن میں ایک آدھ چھوٹے موٹے مرثیہ گو کے سوا کئی ہندو ادیب نہیں ملتا۔ سرب سنگھ دیوانہ، جسونت سنگھ پروانہ یا رام موجی وغیرہ صرف تذکروں اور محققین کے شاعر ہیں۔ آب حیات اور شعر الہند کے انشا نے دریائے لطافت میں لکھا کہ ’’محاورہ اُردو عبارت از گویائی اہل اسلام است‘‘ حالی نے فرہنگ آصفیہ پر reviewکرتے ہوئے لکھا کہ ’’ڈکشنری لکھنے والا شریف مسلمان ہو کیوں کہ خود دہلی میں بھی فصیح اردو صرف مسلمانوں ہی کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ ہندوؤں کے سوشل حالات اُردوئے معلیٰ کو اُن کی مادری زبان نہیں ہونے دیتی ‘‘ اور مقدمہ شعرو شاعری میں لکھا کہ ’’اگر عربی کے ساتھ فارسی، ترکی، پشتو اور اردو کو بھی جو کہ خالص مسلمانوں کی زبانیں ہیں ، شامل کر لیا جائے تو مسلمان شاعروں کی تعداد کس حد تک پہنچ جائے گی۔‘‘

            مولوی عبدالحق نے پاکستان میں غالب ڈے کے موقع پر کہا کہ ’’اردو نے پاکستان کو بنایا‘‘ اُن کا اور انجمن ترقی اردو پاکستان کا سرکاری نظریہ یہ ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مولوی عبدالحق نے کوئی انکشاف کیا ہے۔ بیس پچیس سال پہلے حمیدیہ کالج بھوپال میں حیات اللہ انصاری صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا ’’کہ اگر میرے بچوں کو اردو سے اسی طرح محروم کیا گیا تو میں انہیں سمپورنانند کے پاس لے جا کر ڈال دوں گا کہ یہ تہذیبی اعتبار سے میرے لئے ناکارہ ہیں ‘‘۔ گونگی بہری نسلوں کا ذکر بھی سنا جاتا ہے اگر مسلمان اردو نہ پڑھنے اور ہندی پڑھنے سے گونگے بہرے اور اپنی تہذیب سے بیگانہ ہو گئے ہیں تو اس سے یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہندو بھی صرف اردو پڑھنے اور ہندی نہ پڑھنے سے اپنی تہذیب سے بیگانہ ہو جائیں گے۔ لیکن مجھے اردو سے وابستگی پر ملال نہیں۔ اگر مجھے دوبارہ جنم ملے اور اپنے موضوعِ تعلیم کے انتخاب کا موقع دیا جائے تو میں پھر اردو زبان و ادب کا انتخاب کروں گا۔ ویسے مجھے یہ بھی صحیح طور پر معلوم نہیں کہ میں ہندو ہوں بھی یا نہیں۔

٭       اچھا یہ فرمائیے ! اتنے طویل کیریئر میں ، آپ کو کب کب ، کہاں کہاں اُردو زبان و ادب کی نسبت عصیبت کا سامنا کرنا پڑا اور آپ نے خود کو کس طرح Defend کیا؟

٭٭   مجھے کبھی ایسے تجربہ سے نہیں گزرنا پڑا۔

٭       اگر ہم یہ مفروضہ قائم کر لیں ! تقسیم ہند نہ ہوتی، پاکستان کا قیام وجود میں نہ آتا تو آپ کے خیال میں اُردو زبان کس مرحلے اور مقام پر ہوتی؟

٭٭   یہ سوال بڑا عجیب ہے ! ہندوستان کی قومی زبان ہندوستانی ہوتی یعنی یہ کہ ہندی اور اردو۔

٭       اگر ہم تقسیم ہند کے بعد سے اب تک کی غزل بلکہ اُردو اور ادب کی تخلیق، ترویج اور دائرہ اثر کی بابت آپ کی رائے معلوم کریں تو آپ کس خطہ، صنف اور تخلیق کو زیادہ اہمیت دیں گے؟

٭٭   اس میں بھی کوئی شخصی اور ذاتی فیصلہ ہوتا ہے کہ اردو ادب میں غزل کے لئے رشید احمد صدیقی کہا کرتے تھے کہ یہ اردو شاعری کی آبرو ہے یقیناً صنف نازک نہیں ہے۔

٭       ڈاکٹر صاحب ! کچھ روشنی اپنے تخلیقی سفر پر بھی ضرور ڈالیے کہ آپ نے کب اور کس صنف سے قلمی ریاضت کا آغاز کیا اور کس کس مرحلے میں کیا کیا

حادثات و واقعات رونما ہوئے اور کون سی صنف آپ کی محبوب تر ہے؟

٭٭   ہائی سکول کی جماعتوں میں رجب علی بیگ سروُر کے خانہ عجائب کے اسلوب سے متاثر ہوا۔ شعور تو تھا نہیں۔ مولوی صاحب کلاس میں جو مضمون لکھ کر دیتے میں خانۂ عجائب کے انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا 38-39 میں کالج کے میگزین میں فانیؔ پر میرا ایک مضمون چھپا تھا طالب علمانہ زندگی سے اب تک بساط بھر لکھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں لیکن میں صاحب اسلوب نہیں ہوں اچھی نثر بمشکل لکھ پاتا ہوں۔میرے خیال میں تخلیق میں میرا کوئی مقام نہیں ہے۔

٭       آپ! 1947 بلکہ 1960 کے بعد کی غزل کے زیادہ قائل ہیں۔ اس طرح میرؔ ، غالبؔ، اقبال اور دیگر اساتذہ کی نفی نہیں ہو جاتی؟

٭٭   جی ہاں ! ابتدائی شعرا کے ہاں ابہام بہت ہے جو اس دور میں قابل قبول نہیں !

٭       ایک سوال اور بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آپ نے ایک درسگاہ کے بجائے بہت ساری درسگاہوں میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اوّل تو اِن کے کچھ نہ کچھ اسباب ہوں گے دوئم کوئی نہ کوئی درسگاہ آپ کی پسندیدہ بھی ہو گی؟

٭٭   بھوپال کالج تھا اور جمّوں یونیورسٹی اس لئے میں یونیورسٹی چلا گیا جہاں میں نے اردو کا نیا ڈیپارٹمنٹ کھولا لیکن جموں ؔ میں رہائش پر بڑی پابندیاں تھیں اس لئے میں الٰہ آباد چلا گیا۔ وہاں بھی اردو کا نیا ڈیپارٹمنٹ کھولا۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی تھی اور مجھے خصوصی طور پر وہاں بھجوایا گیا۔ حیدرآباد کی ایک خوبی یہ ہے کہ جو بھی وہاں جاتا ہے وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے میں بھی حیدرآباد کے ساتھ کچھ ایسا ہی لگاؤ محسوس کرتا ہوں۔

٭       ایک اہم کارنامہ آپ کا سینٹرل یونیورسٹی میں ’’اُردو نصاب‘‘ کی تدوین کا بھی ہے یہ کارِ نمایاں کس تحریک اور کس نوعیت کا تھا اور اس سے کس قسم کے نتائج برآمد ہوئے؟

٭٭   ایڈیٹر صاحب! میں نے ابھی تحقیق کی ہے۔ عام طور پر رواج یہ تھا کہ اصناف کو تقسیم کا جاتا تھا اور ادوار کو کم۔ میں نے اپنے تجربوں سے اسی کو بہتر بنایا ہے۔

٭       آپ کتنے عرصہ سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ اس قیام میں مجبوری یا مرضی کو کتنا دخل ہے۔ آپ کے اس قیام سے اُردو ادب کے قاری و طالب علم کو کس قدر نقصان پہنچا اور آپ اُس کا ازالہ کس طرح کر رہے ہیں؟

٭٭   میں کوئی اتنا بڑا آدمی نہیں ہوں جس کے جانے کے بعد اُردو کو کوئی نقصان پہنچتا۔ میرے تین بچے اس ملک میں مقیم ہیں اور میں اپنے آخری ایّام اپنی اولاد کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔

٭       سمندر پار اُردو کی نئی بستیوں سے آپ کو کس طرح کی توقعات وابستہ ہیں؟

٭٭   نئی بستیوں میں زیادہ اہم لنڈن ہے پھر امریکہ اور کینیڈا ہے۔ ان جدید ممالک میں اردو کا نصاب زیادہ ترقی یافتہ ہو گا۔

٭       ڈاکٹر صاحب! آپ نے جس صاف گوئی سے ’’اُردو زبان‘‘ کی نسبت کا تعین فرمایا ہے ہماری خواہش ہے کہ اُسی بے باکی سے اِس زبان کے مستقبل اور پیش آمدہ خطرات کے ساتھ بچاؤ کی کچھ تدابیر بھی ارشاد فرمائیے !!!

٭٭   یہ تو کوئی نجومی ہی بتا سکے گا کہ اردو کا مستقبل ہندوستان میں کیا ہے اور پاکستان میں کیا ہوسکتا ہے۔ میرے نزدیک تو ہندوستان میں یہ بہت اچھا ہے۔ ہمارے دور میں اردو کلاس میں چھ سے زیادہ طالب علم نہیں ہوتے تھے جب کہ اُن کی تعداد اب 75تک پہنچ گئی ہے۔

٭       آخر میں اپنے قاری ، ناقد، نیاز مندان سے اپنی خواہشات و توقعات کی بابت آپ جو بھی فرمائیں گے وہ ہمارے اور اُن کے لئے تبرک سے کم نہ ہو گا۔

٭٭   یہ سوال بڑی ذمہ داری کا ہے۔ اردو تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو ملک کے فائدے کے لئے ہو اور اُردو پڑھنے والوں کے فائدے کے لئے نہ ہو۔ بس موجودہ زمانے کی ترقی کے لئے ہو!!

            آخر میں ، مَیں جناب گلزار جاویدمدیر’’چہارسُو‘‘ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھ جیسے مجہول الحال شخص کی طرف توجہ دی۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کے شہر اسلام آباد میں عام طور پر مجھے کم لوگ ہی جانتے ہیں اگرچہ میں اپنے بارے میں لکھے جانے والے نمبروں سے ہمیشہ گھبراتا ہوں ، اِن کی محبت کہ انہوں نے مجھے اِس قابل سمجھا!!!

٭٭٭

 

پروفیسر مشکور حسین یادؔ

(۱۹۲۵ء)

٭       سید صاحب ! انٹرویو کی ابتداء عموماً آغاز سفر سے ہوتی ہے جبکہ ہم آپ کی زبانی قیام پاکستان کے وقت آپ پر گزرے المناک بلکہ خوفناک سانحات سے آج کے انٹرویو کی ابتداء کرنا چاہتے ہیں؟

٭ ٭    قیام پاکستان کے وقت کے ’’المناک اور خوفناک‘‘ واقعات کی داستان میں نے اپنی آپ بیتی ’’آزادی کے چراغ‘‘ میں خاصی تفصیل سے بیان کر دی ہے پھر آپ مزید کچھ پوچھنا چاہتے ہیں تو میں حاضر ہوں۔

٭       ایسے حالات و سانحات کے بعد انسان کا سنبھلنا تو کیا زندہ رہنا بھی قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے کیا آپ ہمیں اس قوت کی بابت بتانا پسند کریں گے جس کے سہارے آپ نے زندگی کو پھر سے خوش آمدید کہا؟

٭ ٭    زندگی بجائے خود ایک بہت بڑی قوت ہے اس لئے جب مجھ ایسا ایک نارمل آدمی ہلاکت خیز اور المناک قسم کے حالات سے گزر کر زندہ رہ جاتا ہے پھر اس میں زندہ رہنے کی توانائی خودبخود پیدا ہو جاتی ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ آدمی خواہ مخواہ جذباتی نہ ہو جائے۔ ہم اکثر اپنی عام زندگی میں خواہ مخواہ جذباتی ہوتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے جذبات جو بذات خود بھی ایک طاقت ہوتے ہیں بلاوجہ اپنی توانائی کھو بیٹھتے ہیں۔ اسے آپ میری ہوشیاری کہہ لیجئے یا کچھ اور میں زندگی میں خواہ مخواہ جذباتی بہت ہی کم ہوتا ہوں۔ بس یوں سمجھئے کہ خواہ مخواہ جذباتی بالکل نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہوں تو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے۔ اگر ہم ذرا غور سے کام لیں تو زندگی کا ہر لمحہ خوش آمدید کہنے کے قابل ہوتا ہے۔ کیا سمجھے؟ میں نے پاکستان آ کر ہی زندگی کو خوش آمدید نہیں کہا آج بھی ہر لمحہ اسے خوش آمدید کہتا ہوں۔

٭       اگر ہم یہ کہیں کہ آپ خود پر گزرے سانحات کو بھولے نہیں ، وہ آج بھی آپ کے اندر طوفان بپا کئے ہوئے ہیں جنہیں آپ اپنی بدحواسیوں میں گم کر کے انجمن آرائی کر رہے ہیں؟

٭ ٭    آپ کی یہ بات تو صحیح ہے بلکہ صد فی صد صحیح ہے کہ میں قیام پاکستان کے وقت خود پر گزرے واقعات کو بالکل نہیں بھولا۔ لیکن آپ کا یہ کہنا قطعی طور پر غلط ہے کہ میں ان واقعات کو اپنی بدحواسیوں میں گم کر کے انجمن آرائی کرتا ہوں۔ میرے محترم بھائی ! انجمن آرائی تو میں قیام پاکستان سے قبل بھی کیا کرتا تھا۔ انجمن آرائی میرے خون میں شامل ہے۔ میرے بابا جان بھی بلا کے بذلہ سنج اور ہنس مکھ آدمی تھے اور میرے دادا جان بھی۔ ایک طرح مجھ میں ان کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ مرنے سے ایک روز قبل بابا جان نے مجھ سے کہا ’’یار ہماری سویٹ ہارٹ ابھی تک نہیں پہنچی’’ یعنی بابا جان میری خالہ کو یاد کر رہے تھے جو اس وقت ملتان تھیں اور ہم لوگ ان کی آمد کا انتظار کر رہے تھے (میں اپنی سوتیلی ماں کو خالہ کہا کرتا تھا پاکستان آ کر میں نے ہی بابا جان کو دوسری شادی کے لئے رضا مند کیا تھا)

٭       کرنال، پانی پت ، گڑگاؤں ، حصار وغیرہ قیام پاکستان سے قبل نسبتاً پسماندہ اور اجڈ علاقے تصور کئے جاتے تھے ، اس ناموافق ماحول میں آپ کا شعری ذوق کس اثر کے تحت پروان چڑھا؟

٭ ٭    آپ کا یہ ارشاد بھی بالکل درست ہے کہ تقسیم ہند سے قبل گڑگاؤں حصار وغیرہ اجڈ علاقے شمار ہوتے تھے لیکن شاید آپ کو معلوم نہیں شاعر ی کے لئے خا ص طور پر ایسے علاقے میں پروان چڑھنے کے زیادہ امکان ہوتے ہیں۔ اجڈ علاقے فطرت سے زیادہ قریب ہی نہیں ہوتے حسین فطرت کی گود میں جھولا جھول رہے ہوتے ہیں۔ ویسے عزیز گرامی قدر …… میں کہاں کا شاعر ہوں …… بس چپ ہی کریں اور اگر میرے اشعار میں کوئی شاعری ہے تو پھر یہ مجھے نانہال کی طرف سے ملی ہے کہ میرے نانا سید احمد حسن جمیل اچھے خاصے کہنہ مشکل شاعر تھے اور آتش کے مشہور شاگرد خلیل ہمارے ہی تو بزرگ تھے جن کا ذکر سکسینہ نے تاریخ ادب اردو میں کیا جن کی اس مشہور غزل کا وہاں حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔          ؂            خلیل کعبہ میں بت پرستی خدا خدا کر خدا خدا کر

٭       اس وقت کے متحدہ ہندوستان میں نہایت قد آور اردو شعراء کا طوطی بول رہا تھا آپ نے اپنا لہجہ اور اسلوب کس طور سنوارا اور نمایاں کیا؟

٭ ٭    جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں میں نے اپنے آپ کو شاعر یا ادیب کبھی سمجھا ہی نہیں۔ بس جس طرح آنکھیں بند کر کے شاعری شروع کی تھی اسی طرح نثر بھی شروع کر دی۔ لہٰذا ایسی صورت میں اپنی شاعری کے لہجے کو بنانے سنوارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں نے جب بھی کچھ کہنا چاہا میری یہ خواہش اور آرزو رہی ہے کہ اپنے ہی انداز میں کچھ کہوں۔ میں کسی بھی شاعر یا لکھنے والے کی پیروی کا سرے سے قائل نہیں ہوں۔ جب اپنے آپ میں اس کائنات کی ہر ذات یکتا اور تنہا ہے تو پھر کسی کی پیروی کیوں کی جائے۔

٭       آپ نے غزل کے ساتھ قومی، ملی اور اعلیٰ معیار کی بین الاقوامی نظموں کے علاوہ ’’سلام‘‘ میں بھی منفرد انداز اختیار کیا، آپ ہمیں اپنے شعری سفر کے بدلتے مدارج اور مزاج کی بابت تفصیلاً بتائیں گے؟

٭ ٭    مجھے شعر گوئی سے متعلق تمام سوالات میں آپ کا سوال بہت برمحل لگا ہے کہ میں نے ایک ہی وقت میں طنزیہ ، ملی ، قومی، غزلیہ اور مذہبی شاعری کس طرح کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایک شاعر جس قدر زندگی کے گوناگوں شعبوں سے دلچسپی رکھے گا اسی طرح گو نا گوں قسم کی شاعری بھی کرے گا۔ مجھے جب اپنے ملکی حالات پر غصہ آتا ہے تو میں طنزیہ اور مزاحیہ شاعری شروع کر دیتا ہوں جب حقیقت عظمی کا خیال آتا ہے میں حمد اور سلام کہنے شروع کر دیتا ہوں اور جب میں رومانٹک ہوتا ہوں حالانکہ میں رومانٹک ہی اکثر رہتا ہوں اور ہوتا ہوں تو غزل کہنا شروع کر دیتا ہوں۔ ویسے غزل ایسی ظالم اور ہرجائی صنف سخن ہے کہ آپ اس میں ہر طرح کے مضامین کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ سمو سکتے ہیں یہ تو آپ کی ہمت پر موقوف ہے ورنہ غزل کے لئے کوئی موضوع بھی تغزل سے خالی نہیں۔

٭       قیام پاکستان سے قبل ہی آ پ نے انشائیہ طرز کے نثر پارے تحریر کرنا شروع کر دیئے تھے اس وقت آپ کے نزدیک آپ کے وہ مضامین کس صنف کے نمائندہ شہ پارے تھے؟

٭ ٭    آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ۴۵۔۱۹۴۴ء ہی میں ضلع حصار کے ہفتہ وار ’’پکار‘‘ کا ایڈیٹر ہو گیا تھا اور میں اخبار کا پیٹ بھرنے کے لئے اس میں اپنے اور مختلف ناموں سے خوب انشائیے لکھا کرتا تھا اور ان کو ایسے ہی کہا کرتا تھا۔ انشائیہ کا نام تو یہاں پاکستان میں ۵۸۔۱۹۵۷ء میں اپنایا گیا آپ جانتے ہی ہوں گے۔

٭       کولمبس نے امریکہ دریافت کیا مگر اس کی تعمیر کا سہرا اس کے سر ہرگز نہیں بالفرض محال انشائیہ لکھنے والوں میں آپ پیش پیش تھے مگر اس کی تعمیر کا سہرا آپ کے سر کیونکر باندھا جا سکتا ہے؟

٭ ٭    اگر آپ کو Essayیعنی انشائیہ کی حقیقت معلوم ہوتی تو آپ اس طرح کا سوال ہی نہ کرتے۔ یاد رکھئے ہر زبان میں جب یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ اس میں نثری ادب تخلیق کیا جائے تو اس زبان کے لکھنے والے جو کچھ بھی اور جس طرح کا ادب بھی وہ تخلیق کرتے ہیں ابتدا میں وہ انشائیہ ہی ہوتا ہے۔ ڈرامہ، مقالہ، افسانہ، ناول وغیرہ قسم کے اصناف کی تقسیم بعد میں ظہور میں آتی ہے پہلے انشائیہ ہی ہر زبان میں تخلیق ہوتا ہے۔ اس لئے آپ میرے سر پر یا کسی کے سر پر بھی انشائیہ کی تعمیر کا سہرا باندھنے کی فکر نہ کریں۔ آج جو بھی معیاری انشائیہ لکھ رہا ہے اس کے سر پر خود بخود انشائیے کا سہرا بندھ رہا ہے۔ زمانہ کبھی ظالم نہیں ہوتا۔ ظالم تو ہم اور آپ کسی لکھنے والے کے دوست بن کر یا خواہ مخواہ اس سے عداوت کر کے بن جاتے ہیں۔ میں نے اگر واقعی کام کے انشائیے لکھے ہیں اس طرح اگر کسی اور نے بھی کام کے انشائیے لکھے ہیں تو ان انشائیوں کو کون ختم کر سکتا ہے؟ میں نے کبھی اس لئے اپنے ایک مخالف کے منہ پر کہا تھا کہ میرے دوست میرا ہر انشائیہ تمہارے لئے ڈنڈا ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اب یہ آپ کی مرضی ہے اس ڈنڈے کو اپنے سر پر ماریں یا جہاں کہیں مناسب سمجھیں اسے رکھتے چلے جائیں۔ انشاء اللہ ایک نہ ایک دن میرے انشائیے آپ کا قبض یا انقباض دور کریں گے۔

٭       انشائیے میں مقصدیت کی بحث کی بابت آپ کا کیا خیال ہے؟

٭ ٭    اگر ادب میں مقصدیت کی بحث کوئی معنی رکھتی ہے تو انشائیہ سے اس بحث کو کس طرح دور رکھا جا سکتا ہے۔ انشائیہ اول و آخر ادب ہے بلکہ سرچشمہ ادب ہے۔

٭       اردو اور انگریزی انشائیے میں مماثلت کے اسباب پر آپ کیا کہنا پسند فرمائیں گے؟

٭ ٭    شاید آپ میرے اس جواب پر بھی حیران ہوں کہ انشائیہ واحد وہ صنف ادب ہے جو ایک زبان سے دوسری زبان کی ادبی اہلیت اور صلاحیت کو ممتاز کرتی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کے لاشعور یا شعور میں یہ بات نادانی کے طور پر یا معلومات کے طور پر بیٹھی ہوئی ہے جیسا کہ ہمارے اردو لکھنے اور پڑھنے والوں کے ذہن میں بیٹھی ہوئی ہے کہ انشائیہ انگریزی زبان سے اردو زبان میں آیا پھر تو آپ خواہ مخواہ ہی نہیں جان بوجھ کر انگریزی ایسے کے نقّال بن بیٹھیں گے جیسا کہ ہمارے بعض محترم صاحبان قلم کا حال ہے یہ حضرات پرسنل ایسے ہی کو انشائیہ سمجھتے ہیں ورنہ انشائیہ ایک وسیع صنف ادب ہی نہیں ایک ممتاز صنف ادب بھی ہے جو ایک زبان کے مزاج کو دوسرے زبان کے مزاج سے ممیز کرنے کے ساتھ ساتھ تر و تازہ بھی کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ انشائیہ کی بدولت ہم کسی زبان کی لسانی خوبیوں کو اپنی گرفت میں لے سکتے ہیں میرا مطلب ہے جس طرح انشائیہ میں کسی زبان کی خصوصیات اور امکانات کو سمجھا جا سکتا ہے اسی طرح کسی اور صنف ادب میں نہیں سمجھا جا سکتا۔

٭       آپ کے ہاں مزاح کا تصور کیا ہے؟ کیا مزاح اور مبالغہ لازم و ملزوم ہیں؟

٭ ٭    آپ جانتے ہیں مزاح عربی کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی ہنسنے کے ہیں یعنی ہونٹوں کا در کھلتا ہے اور دانتوں کے موتی نظر آنے لگتے ہیں پس اسی طرح مزاح ہمارے لئے زندگی کی راہیں کھولتا ہے۔ اگر ہمیں واقعی ہنسنا آتا ہے تو ہمارے قدم زندگی کی راہ میں کبھی نہیں رک سکتے۔ گویا مزاح آدمی کے لئے زندگی کے امکانات کو واضح اور روشن کرتا ہے اور مزاح یہ کام کبھی کبھی نہیں ہماری روزمرہ زندگی میں ہر لمحے کرتا رہتا ہے۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ آپ اپنے ہونٹوں کو خواہ مخواہ بھینچ کر رکھتے ہوں اور کوس رہے ہوں زندگی کو۔

٭       آپ کے مزاح میں آپ کی ذات نمایاں نظر آنے کے اسباب کیا ہیں؟

٭ ٭    مزاح میں اگر ذات نمایاں نہ ہو تو پھر مزاح ظلم اور حسد کی غلاظت میں لت پت ہو جاتا ہے۔ میرا مطلب ہے مزاح میں ذات کا نمایاں ہونا بہت ضروری ہے؟ اسے یاد رکھئے مخلص لوگ ہی صحیح معنی میں مزاح کر سکتے ہیں تو جس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ ورنہ عیار اور مکار لوگوں کا مزاح ٹانگ کھینچنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ میں عموماً اپنی ذات کو اپنے مزاح کا نشانہ بناتا ہوں اسی لئے مجھے اپنے مزاح سے کسی کے ناراض ہونے کا خوف کبھی نہیں ہوتا۔ ہاں یہ پھر ایک الگ بحث ہے کہ میرا سامع یا میرا مخاطب کوئی ٹھس آدمی ہو یاٹھُس مزاح سے ٹَھُس اور ٹھُس دونوں ہی لوگ محروم حظ رہا کرتے ہیں۔ قصہ مختصر مزاح کے لئے ذہانت بہت ضروری ہے۔

٭       سنا ہے کہ آپ نے قرآن کے تصور سے مزاح تلاش کر لیا اور علمائے کرام کے غضب سے بھی بچے رہے؟

٭ ٭    قصہ دراصل یہ ہے کہ دنیا کا کوئی موضوع غیر سنجیدہ نہیں ہوتا۔ مزاح کو بغیر سوچے سمجھے ایک غیر سنجیدہ چیز سمجھ بیٹھے ہیں ورنہ جس قدر ایک آدمی مزاح کرتے وقت یا مزاح سنتے وقت نپا تلا اور لیا دیا ہو کر بیٹھتا ہے اتنا نپا تلا انداز اسے عام زندگی میں اور کہیں نصیب نہیں ہوتا۔ چنانچہ اسی خیال کے پیش نظر ’’چشمک‘‘ نکالتے وقت میں نے قرآن کی آیات کے تحت لکھنا شروع کیا اور میرے ہر سنجیدہ قاری نے مجھے اس کی داد دی۔ حد یہ کہ انور مسعود کو جب میں نے چشمک میں قرآنی مزاح پر اپنا مضمون دکھایا تو وہ بھی اسے پڑھ کر مجھے داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔

٭        آپ پر پُر گوئی یا بسیار نویس کا الزام لگایا جائے تو آپ خوش ہوں گے یا ناراض؟

٭ ٭    سچ پوچھئے تو میں نہ پر گو ہوں اور نہ بسیار نویس دراصل مجھ پر یہ الزام اس لئے لگائے جا سکتے ہیں کہ میرا میدان شعر گوئی ایک نہیں ہے میں غزل بھی لکھتا ہوں حمد بھی کہتا ہوں ، قصیدہ بھی لکھتا ہوں انقلاب ایران کے لئے بھی میں نے شاعری کی ہے ، اردو زبان کے ساتھ جو ہمارے رویئے رہے ہیں انہیں بھی میں نے شاعری میں بیان کیا ہے …… طنزیہ مزاحیہ مضامین ہی نہیں لکھے طنزیہ مزاحیہ نظمیں بھی کہی ہیں۔ نثر میں انشائیے ہی نہیں مقالے بھی لکھے تنقید بھی کی۔ کالم نگاری سے بھی باز نہیں آیا۔ فلسفہ بھی لکھا اور داستان گوئی سے بھی گریزاں نہیں رہا۔ آج کل ملا مرزا پر بھی میری کتاب آر ہی ہے۔ غالب پر غالب بوطیقا بھی آنے والی ہے۔ غرض ہر میدان کا سوار ہوں۔ اس لئے لوگوں کو پُرگو اور بسیار گو نظر آتا ہوں ورنہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی مجھ پر یہ الزام لگائے بھی تو اس کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہو گا نہ خوشی نہ غم۔

٭        آپ کے Fun scopeکا آج کل کیا حال ہے سلسلہ ہنوز جاری ہے یا؟

٭ ٭    آپ پوچھ رہے ہیں کہ (FunScope)کا آج کل کیا حال ہے؟ سلسلہ ہنوز جاری ہے ارے میرے پیارے بھائی سلسلہ جاری کیا اب تو شروع ہوا ہے۔ اور آپ جانتے ہیں اس طرح کا آغاز انجام سے بے نیاز ہوتا ہے۔ میں ہی نہیں میری بیوی بھی بیگم کی ڈائری کا دوسرا حصہ لکھ رہی ہے یعنی قلم میرا ہے اور دوات اس کی۔ اب دنیا والے اس کا مطلب کچھ بھی سمجھیں۔ہمیں پروا نہیں۔ بیگم کی ڈائری کا دوسرا حصہ آ رہا ہے۔

٭       آپ کی فی الفوریت نے بھی بہت سے لوگوں کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے؟

٭ ٭    حاشا و کلا ! میرا مطلب فی الفوریت سے کسی کو اذیت پہنچانا نہیں ہے۔ معلوم نہیں آپ یہ سوال کس زاویہ سے پوچھ رہے ہیں میں نے تو حتی الوسع کوشش کی ہے کہ میری ذات سے کسی کو اذیت نہ پہنچے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں چٹ منگنی پٹ بیاہ کا از بس قائل ہوں۔ غالباً اس لئے کبھی کسی حسینہ سے مضبوط قسم کا عشق نہ کر سکا۔ مضبوط قسم کے عشق سے میری مراد دو طرفہ عشق ہے۔میرا مطلب ہے میں نے یک طرفہ عشق کیا ہے اور جس سے عشق کیا اسے کانوں کان خبر نہ ہونے دی یعنی ادھر وہ حسینہ نظر آئی جس کو ہم نے اپنی معشوقہ بنایا۔ یہ لیجئے کھیل ختم پیسہ ہضم۔ ہماری بات آپ کی سمجھ میں آئی یا نہیں؟

٭       بندہ پرور ! یہ ’’ٹٹو‘‘ صاحب کون ہیں اور آپ کا ان سے کیا تعلق ہے کیوں آپ نے اپنوں اور بیگانوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے؟

٭ ٭    ٹٹو سے میں خود اپنا ناطقہ بند کرنا چاہتا ہوں۔ اب یہ پھر ایک الگ بحث ہے کہ میرا نہیں دوسروں کا ناطقہ بند ہو جاتا ہے۔ دراصل ہم لوگ کھل کر بات کرنے کے عادی نہیں اسی لئے کھل کر بات سننے کے بھی عادی نہیں۔ ادھر میرے ساتھ نیکی یا برائی یہ ہے کہ میں کھل کر بات کئے بغیر ایک سانس بھی نہیں لے سکتا۔ ویسے میرے تکیہ کلام میں ٹٹو عاجزی کا Symbolعلامت ہے۔ جیسا کہ میں نے کہیں لکھا ہے ۵۳۔۱۹۵۲ء کا ذکر ہے ہمایوں میں میرے اشعار باقاعدہ چھپا کرتے تھے اور میاں بشیر احمد مرحوم اس زمانہ میں ترکی کے سفیر تھے انہوں نے ترکی سے ہمایوں کے مدیر مظہر انصاری کو ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ میرے اشعار ہر ماہ باقاعدگی سے ہمایوں میں شائع کیا کریں۔ میاں صاحب جب ترکی سے لاہور آ گئے تو مجھے خط لکھا کہ میں ان سے فوراً ملوں۔ چنانچہ میں لارنس روڈ پر میاں صاحب سے ملنے گیا تو موصوف نے میرے اشعار کی تعریف کی جس پر میرے منہ سے بے ساختہ نکلا میاں صاحب آپ میرا دل بڑھانے کو میرے اشعار کی تعریف کر رہے ہیں وگرنہ میں کیا خاک ٹٹو شاعری کرتا ہوں۔ میاں صاحب نے ایک دم اچھل کر پوچھا ’’یہ ٹٹو آپ نے کیا فرمایا۔ میں نے عرض کیا آپ گھبرائیے نہیں ٹٹو سے میری مراد عاجزی اور انکساری ہے۔

٭       آپ کی حسن پرستی کے ، احباب بڑے معترف ہیں ! محبت کے بارے میں آپ کا فلسفہ کیا ہے؟

٭٭   بھائی حسن پرست کون عقلمند نہیں ہوتا۔ ممکن ہے آپ اس پر بھی حیران ہوں کہ میں نے حسن پرستی کے ساتھ عقلمند ہونے کی پخ کیا لگا دی ہے تو اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ حسن اور عقل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عقل کے بغیر حسن بے معنی اور حسن کے بغیر عقل اپنا کوئی مقام نہیں رکھتی گرچہ غالب نے صاف صاف کہہ دیا ہے۔

نہیں گر سر و برگ ادراک معنٰی

تماشائے نیرنگ صورت سلامت

لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ جس کے پاس عقل نہیں وہ کم از کم آنکھیں ہی کھول کر اپنے اردگرد دیکھ لے اس سے دل بہل جائے گا غالب کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس وقت آپ اپنی عقل کو استعمال کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں یا فی الحال آپ سے آپ کی عقل چھین لی گئی ہے تو کوئی بات نہیں آپ دنیا کے رنگا رنگ مناظر کو دیکھیں گے تو اس سے آپ کی کھوئی ہوئی عقل واپس آپ کے پاس آ جائے گی۔ اب چونکہ اللہ میاں نے مجھے زیادہ نہ سہی تھوڑی سی عقل تو ضرور عنایت فرما دی ہے۔ اس لئے میرے لئے حسن پرست ہونا تو بے حد ضروری ہو گیا ہے گویا حسن پرست ہونا بھی ایک طرح سے اللہ کا شکر گزار ہونے کے مترادف ہے یعنی میں بطور شکریہ خدا حسن پرست واقع ہوا ہوں۔

            اب رہی بات محبت کی تو میرے عزیز بھائی میں اس معاملہ میں الحمد للہ بہت فراخ دل واقع ہوا ہوں کون ہے جس سے میں محبت نہیں کرتا۔ میری محبت میں زمین کی بیر بہوٹی سے لے کر عرش کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام کی مخلوق شامل ہے۔ اور عورت ذات پر تو گویا میں عاشق ہونے میں پلک بھی جھپکنے نہیں دیتا۔ مختصراً یوں سمجھ لیجئے کہ میرے ہاں دلچسپی کے ساتھ زندگی گزارنے کا نام محبت ہے۔

٭       آپ کے بارے میں ایک مضحکہ خیز تاثر یہ بھی ہے کہ آپ احباب میں خود ساختہ عشقیہ معرکے سر کرنے کے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں آپ کی ازدواجی زندگی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

٭٭   اس میں کوئی شک نہیں میں ہر روز کوئی نہ کوئی معرکہ عشق سر کرتا ہوں اور یہ معرکہ سرکرتے ہی میں سب سے پہلے اپنی بیوی سعیدہ بیگم کو سناتا ہوں اس لئے میرا یہ معرکہ عشق ہر بلا سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ میرے یہ معاشقے خود ساختہ ہوتے ہیں تو اس ضمن میں بھی آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اب یہ مقولہ بہت پرانا اور فرسودہ ہو چکا ہے کہ عشق کیا نہیں جاتا بلکہ ہو جاتا ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ عشق کیا جاتا ہے اور خاصا ڈٹ کر کیا جاتا ہے اس لئے وہ کسی نہ کسی طور پر خود ساختہ ضرور ہوتا ہے۔

٭       آپ نے بے شمار قلمی ناموں سے بھی لکھا کیا یہ قاری کے ساتھ دھوکا نہیں؟

٭٭   کئی قلمی ناموں سے لکھنا قاری کے ساتھ تو بالکل کوئی دھوکا نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں آج کا زمانہ قاری اساس تنقید کا زمانہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قاری کا سب سے بڑا لنک متن Textیعنی لکھی ہوئی چیز سے ہوتا ہے مصنف یا لکھنے والے سے نہیں ہوتا۔ ہاں آپ اس طرح ضرور کہہ سکتے ہیں کہ مختلف قلمی ناموں سے لکھ کر کیا لکھنے والا اپنے آپ سے دھوکا نہیں کرتا۔ سو پیارے مصنف کو اپنے آپ سے دھوکا کر کے ہی تو سب سے زیادہ مزا آتا ہے۔

٭       آپ کی زیر ادارت نکلنے والے مزاحیہ جریدے ’’چشمک‘‘ اور ’’زعفران‘‘ آج کل منظر سے کیوں غائب ہیں؟

٭٭   آپ کو یہ سن کر بھی شاید حیرانی ہو کہ لوگ فطرتاً زیادہ مزاح پڑھ نہیں سکتے اس لئے مزاحیہ پرچہ خواہ وہ کتنا بھی اونچے معیار کا کیوں نہ ہو اس کو زیادہ قارئین میسر نہیں آ سکتے۔ ممکن ہے آپ فرمائیں کہ صاحب انگریزی کا مزاحیہ پرچہ Punchکتنے برسوں سے چل رہا ہے اس ضمن میں میرا جواب یہ ہے کہ پنچ کو مزاح کے علاوہ اس کی زندگی کے لئے اور بہت کچھ جتن کرنا پڑتے ہیں۔ چلئے سب باتوں کو چھوڑئیے میں آج بھی مزاحیہ پرچہ نکالنے کے لئے تیار ہوں آپ مجھے کوئی ایمان دار اور محنتی پبلشر دے دیجئے۔ پرچے کا پیٹ بھرنا میرا کام ہے۔ پرچے کو چھاپنے اور فروخت کرنے کے جتن پبلشر کرے تو چشمک یا زعفران آج بھی چل سکتے ہیں۔ مزاحیہ پرچے کے لئے ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ اس کے مدیر کو پرچے کا پیٹ بھرنا آتا ہو (یعنی وہی بات کہ وہ مختلف ناموں سے لکھ سکتا ہو) اردو پنچ راولپنڈی ایک عمدہ پرچہ نکلا تھا لیکن جلد ہی بند ہو گیا کیوں؟ اس لئے کہ اس کے مدیران میں ایک مدیر بھی اس صلاحیت کا حامل نہ تھا کہ وہ مختلف ناموں سے مزاحیہ مضامین لکھ کر پرچے کا پیٹ بھر سکتا۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد دم توڑ گیا۔ ان للہ و انا الیہ راجعون

٭       گزشتہ دنوں آپ کی کالم نگاری سے مستفید ہونے کا موقع ملا جس میں برجستگی اور مزاح کی چاشنی کے ساتھ گلہ مندی کا پہلو بھی کسی قدر نمایاں تھا اگر آپ کو اہل اقتدار سے ناقدری کا گلہ ہے تو آپ جرأت اظہار کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے جبکہ استاد ہونے کے ناطے وہاں آپ کا مقام بھی معتبر ہے؟

٭٭   غالباً آپ نے میرے وہ کالم جو گذشتہ برس میں جنگ کے لئے انگلستان سے باقاعدہ بھیجتا رہا آپ نے بغور ملاحظہ نہیں فرمائے ورنہ آپ کو مجھ سے جرأت اظہار کی شکایت نہ ہوتی۔ میرے پیارے بھائی میں تو بہت بے باکی کے ساتھ بات کرنے اور بات لکھنے کا عادی ہوں۔ البتہ ہر بات کا ایک سلیقہ ہوتا ہے اور اس سلیقے کو سمجھنے کے لئے تھوڑا سا ذہین ہونا پڑتا ہے۔ آج کی معروف دنیا کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ آدمی کے پاس غور سے پڑھنے کے لئے وقت نہیں رہا۔ بین السطور پڑھنا تو آج کل اور بھی مشکل ہو گیا ممکن ہے آپ یہاں یہ فرمائیں تو پھر بات سیدھی طرح کیوں نہیں کی جاتی۔ جی ہاں کوئی بات کتنی بھی سیدھی طرح کی جائے اگر اس میں ذرا سی بھی حکمت شامل ہے تو اس کے لئے توجہ اور غور لازمی شرط قرار پاتی ہے اور پھر اقتدار میں آ کر تو آدمی روزمرہ زندگی کے لطف سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک صاحب اقتدار آدمی اسی پر غور کر سکتا ہے جس پر غور کرنے کے لئے اس کا عملہ اسے خصوصی توجہ دلاتا ہے اور جب عملہ اس صلاحیت سے عاری ہو پھر تو اس کے لئے بات کو سمجھنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ اصل آدمی تک رسائی نہیں ہوتی اور جس طرح لوگ آج کل رسائی حاصل کرتے ہیں وہ گُر مجھے نہیں آتے اور اگر آئیں بھی تو میں انہیں استعمال نہیں کر سکتا …… کیا سمجھے؟

٭       بیگم سعیدہ مشکور شادی سے قبل بھی صاحب قلم تھیں یا آپ کی صحبت کا کمال ہے جبکہ کچھ لوگ ’’بیگم کی ڈائری‘‘ کو آپ ہی کے قلمی کمال سے منسوب کرتے ہیں؟

٭٭   بیگم سعیدہ مشکور شادی سے پہلے کس طرح صاحبِ قلم ہو سکتی تھیں۔ قلم ہمیشہ صاحب کا ہوا کرتا ہے۔ رہا بیگم کی ڈائری میں صاحب کمال ہونے کا سوال تو سعیدہ کے بغیر یہ ڈائری ہرگز معرض وجود میں نہیں آ سکتی تھی۔

٭       ہر آدمی خود کو منوانے کے لئے کوئی نہ کوئی حربہ ضرور اختیار کرتا ہے کہیں آپ بھی خود کو دنیا کا سب سے چھوٹا آدمی گردان کر اسی عمل کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟

٭٭   میرے عزیز گرامی قدر آپ یقین کریں جب میں چھوٹا آدمی انشائیہ تحریر کر رہا تھا تو کئی بار میری آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر پورے شعور کے ساتھ اب بھی عرض کر رہا ہوں کہ میں نے جب بھی کسی آدمی کو غور سے دیکھا ہے وہ مجھے اپنے سے بڑا آدمی نظر آیا ہے۔

٭       تمام تر ہنر آمیزی کے باوجود الیکٹرانک میڈیا سے آپ کی دوری کے اسباب کیا ہیں؟

٭٭   غالباً آپ مجھ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کیوں نظر نہیں آتا تو میرے بھائی یہ ماجرا بھی سن لیجئے۔ میں نے ایک زمانہ میں مشاعرے بھی پڑھے۔ ادبی بحثوں میں بھی حصہ لیا۔ ریڈیائی کالم بھی لکھے۔ اس کے بعد جب ٹی وی آیا تو نہ صرف چھوٹے چھوٹے ڈرامے لکھے خود بھی داڑھی مونچھ لگا کر اداکاری فرمائی۔ عرفان کھوسٹ سب سے پہلے میرے ساتھ ٹی۔ وی پر نمودار ہوئے تھے۔ اس وقت یہ لڑکے سے تھے۔ میں نے آغا ناصر کے زمانہ میں فی البدیہہ یعنی تحریر کئے بغیر ڈرامے بھی کئے۔ چودھری نظام دین یعنی سلطان مرزا مرحوم میرے ساتھ ہوتے تھے پہلے پہلے وہ سخت پریشان تھے کہ لکھے بغیر کس طرح بات بنے گی میں نے ان حضرات کو کہا ہوا تھا آپ لوگ جو کچھ بھی اور جیسا کچھ بھی بولیں گے میں اس کو سنبھال لوں گا لیکن Zenoیعنی صفدر میر نے مجھے نہیں پہچانا اور اس نے پاکستان ٹائمز میں کالم لکھا کہ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک نئے اداکار کو تو نمایاں کردار (رول) دے دیا گیا اور مشاق اداکار اس کا منہ دیکھتے رہتے ہیں۔ آغا ناصر نے مجھے کہا بھائی آپ ان لوگوں کو بولنے دیا کریں۔ اس کے علاوہ کیمرہ مین نے کہا مشکور صاحب ہاتھ بہت ہلاتے ہیں ان سے کہیں کہ یہ ہاتھ ہلانا بند کریں۔ بس پھر کیا تھا ان پابندیوں کی وجہ سے اگلا پروگرام فلاپ ہو گیا اور میری جان بھی اداکاری سے چھوٹی۔ اس کے بعد خاور ایوب وغیرہ نے مجھے ڈرامہ لکھنے کے لئے کہا تو میں نے دیکھا کہ یا تو میں کالج میں پڑھا سکتا ہوں یا پھر ٹی وی کے ڈرامے لکھ سکتا ہوں۔ میں نے طلباء کے ساتھ اپنی ذات کی طرف سے زیادتی نہیں ہونے دی۔ اس لئے میں امجد اسلام امجد کی ہمت کی داد دیتا ہوں کہ یہ کس طرح ڈرامے بھی لکھتے رہے اور کالج میں کلاسز سے بھی عہدہ برآ ہوتے رہے ہوں گے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں ٹی وی کے لئے کچھ لکھ سکتا تھا لیکن اب کوئی ٹی وی والا ہماری طرف توجہ نہیں فرماتا۔ ایک طرح یہ بھی اللہ نے مجھے عافیت بخشی ہوئی ہے۔ خوب پڑھ رہا ہوں خوب یعنی بہت زیادہ آج کل قلم چلا رہا ہوں۔ اس سے بڑی عیش اور کیا ہو سکتی ہے۔ اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔

٭       مشکور بھائی ہوتا کچھ یوں ہے کہ آدمی کی وجہ شہرت کچھ اور ہوتی ہے جبکہ وہ خود کو کسی اور حوالے سے شناخت کرانے پر مصر ہوتا ہے آپ کو اپنے فنی کمالات میں سے کون سا حوالہ پسند ہے؟

٭٭   مشہور ہونے میں ایک مزہ ہے اور میں اس سے انکار نہیں کرتا لیکن مضبوط قسم کی شہرت خالی مزیدار نہیں ہوتی پر لطف بھی ہوتی ہے اور پر وقار بھی۔ لیکن مضبوط شہرت کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ عموماً مضبوط شہرت آدمی کو مرنے کے بعد ملتی ہے۔ میں یہ وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں نثر بری نہیں لکھتا اور میری نثر کو اردو ادب فراموش نہیں کرے گا۔ رہی میری شاعری تو اس پر مجھے ابھی تک اعتماد حاصل نہیں ہو سکا۔ اعتماد سے میری مراد یہ ہے کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ اردو ادب میں بحیثیت شاعر مجھے کوئی مقام حاصل ہو سکے گا۔

٭       ملک ، ملت ، مذہب ، علم ، ادب، سیاست ، صحافت غرض سبھی شعبے رو بہ زوال ہیں۔ نصف صدی گزرنے کے بعد وطن کی آزادی کے لئے دی گئی قربانیوں کے پس منظر میں آپ آج کیا کہنا چاہیں گے اور اصلاح احوال کے لئے کوئی نسخہ کیمیا بھی تجویز فرمانا پسند کریں گے؟

٭٭   یقیناً آپ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہم اہل پاکستان جو ہر شعبہ حیات میں زوال اور انحطاط سے دوچار ہو رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ جانتے ہیں ہر شعبہ کو فروغ دینے والے اس شعبہ کے دانشور ہوا کرتے ہیں۔ ہماری پہلی بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہمارا شعبہ سیاست دانشوری سے بالکل عاری ہے۔ کہیں دور دور بھی کوئی دانشور قسم کی چیز اس شعبہ میں نظر نہیں آتی۔ اسی لئے قائد اعظم کی آنکھ بند ہو جانے کے بعد ہمارے سیاست دان اپنے اپنے انداز میں لوٹ مار میں مصروف ہو گئے۔ ظاہر ہے جب کسی ملک کی سیاست میں لوٹ مار شروع ہو جائے تو پھر اس لوٹ مار سے اس کا کوئی شعبہ محفوظ نہیں رہ سکتا۔ آپ نے اس صورتحال کا مجھ سے حل بھی پوچھا ہے تو برادر عالی مرتبت ’’اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے ‘‘ اس کا حل تو محاسبہ ہے۔ چلئے کوئی ادا نہ کرے اہل قلم دانشور ہی سچی سچی باتیں کر کے اپنا محاسبہ کریں لیکن میں نے دیکھا ہے ہمارے یہ لکھنے والے بھی اسی ضمن میں کوئی خاص شجاعت کا مظاہر نہیں کر رہے ہیں۔ یہ لوگ دوسروں کے بارے میں تو صاف صاف باتیں کرنے اور سننے کے قائل ہیں اپنے لئے تیار نہیں ہوتے۔ پچھلے دنوں میں نے کچھ سچ بولنا شروع کیا تھا اس پر بڑے اہل قلم نے مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ ہمارے بہت ہی پیارے شاعر منیر نیازی کے بارے میں ایک ادبی اخبار میں ، میں نے یہ بیان دیا تھا کہ وہ کئی برس سے محرم کے مسالمہ میں لاہور سے ایک ہی سلام سنائے چلے جا رہے ہیں جبکہ ماشاء اللہ وہ نیا سلام بھی کہہ سکتے ہیں تو نیا سلام کیوں نہیں کہتے۔ سنا ہے میرے اس بیان پر منیر نیازی نے یہ فرمایا ہے کہ میں نے ان کے رزق کو روک دیا ہے۔ ہو سکتا ہے رزق روکنے والی بات درست ہو لیکن اگر ان کا یہ رزق رکا ہے تو رزق حرام رکا میں نے تو ان کے لئے رزق حلال کا دروازہ کھولنے سے متعلق بیان دیا تھا حالانکہ مجھے امید ہے کہ منیر نیازی اتنے وسیع القلب انسان ہیں کہ میری اس سچی بات پر وہ خوش ہی ہوئے ہوں گے ناراض کیسے ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے پیارے نذیر ناجی بھی اس بار انعام یافتہ اہل قلم کے بارے میں بہت چرچا کر رہے ہیں کہ انہوں نے ایسے حضرات کو انعام دلوایا ہے جن کو تیس برس پہلے انعام ملنا چاہئے تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو تیس برس پہلے ہمارے علی اکبر عباس کی تخلیقات کیا تھیں اور صفدر محمود اور مرزا منور نے کیا کچھ تخلیق فرما دیا تھا۔ مجھے تو اس قدر یاد ہے کہ صفدر محمود اور مرزا منور ۷۵۔۱۹۷۴ء میں مجھ پر ’’رشک‘‘ فرمایا کرتے تھے کہ میں کئی کتابوں کا مصنف ہو گیا ہوں جبکہ ان لوگوں کی ابھی تک کوئی کتاب نہیں آئی اور اگر کوئی آئی ہے تو مجھ سے تعداد میں زیادہ نہیں تو میرے محترم بھائی اس وقت اگر ہم اہل قلم ہی سچی سچی باتیں اپنے بارے میں کرنے لگیں تو اس سے بھی دوسرے شعبوں کے دانشوروں پر اچھا اثر پڑے گا۔ فی الحال میرا یہی پیغام ہے۔

                                                            (مئی ۱۹۹۸ء)

٭٭٭

 

جوگندر پال

(۱۹۲۵ء)

٭       آج کل آپ کے معمولات کیا ہیں۔ عمر عزیز کے آٹھویں دہے میں تخلیقی سوتے کس نہج پر ہیں؟

٭٭   چونکہ برٹش پنشن پر گزر بسر ہو جاتی ہے ، اسلئے باون ترپن کی عمر سے ہی پیشہ وری سے آزاد ہوں۔ بے پیشہ زندگی کی سہولت مجھے اپنی آزادگی کے آغاز سے ہی خوب راس آئی ہے اور اس عمر میں تو کسی نعمت سے کم معلوم نہیں ہوتی۔ ادب کا مطالعہ، یا کوئی واردات دل و دماغ میں آباد ہونے لگے تو کہانی لکھنے کی مہم پر کمر بستہ ہو جانا، یا یہ دونوں میسر نہ آئیں تو بباطن کسی کہانی کے انتظار میں بظاہر ہر روز مرہ میں جُٹے رہنا یہی میرے معمولات ہیں۔ ساؤتھ ایشیا میں عمر زیادہ ہو جائے تو لکھنے والے کو اپنے کام کا اہل نہ سمجھ کر ایک کونے میں بٹھا دینے کی تدبیر کی جاتی ہے ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لکھنے والے کی صحت جواب نہ دے چکی ہو اور فرصتوں کے با وصف یا اُن کے باعث اُس کے جینے جھیلنے کا اسباب ہوتا رہے تو ساٹھ پینسٹھ کی عمر کے بعد زندگی کسی شفاف جھیل کے مانند اپنی تہوں تک نظر میں بھر کر تحریر میں بہہ آتی ہے اور لکھ لکھ کر بدستور زندگی کئے جانے کا گمان ہوتا ہے۔ جیسے کسی تصویر کے کھڑے کھڑے وقوعوں پر ہلچل کا۔ جس دن کسی کی کوئی اچھی کہانی میرے پڑھنے میں آ جائے ، یا کوئی واردات سوجھنے پر میں اپنی کسی نئی کہانی میں سانس لینے لگوں تو میری باچھیں کھل جاتی ہیں۔

            زندگی کے آٹھویں دہے میں داخل ہو کر مجھے اب اپنا آپ بھی اپنی کہانیوں کا کوئی کردار معلوم ہونے لگاہے۔ جسے پردہ گرنے تک اپنے معمولات کے سیاق و سباق سے ناگزیر طور پر جُڑا رہنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ ایسا نہ ہو تو آدمی گویا اپنی موت واقع ہو جانے پر بھی جئے جانے پر مجبور ہو۔

٭       آدھے سر کا درد اور نیند میں چلنے کی بیماریاں آج کل کس سٹیج میں ہیں؟

٭٭   ہم شاید اپنی بیماریاں اس لئے جھیلتے چلے جاتے ہیں کہ وہ بدلتی رہتی ہیں۔ سوتے سوتے نہ چلے تو چلتے چلتے سو گئے۔ جب بھی میں اپنے ڈاکٹر کو بڑے وثوق سے بتاتا ہوں کہ اب میں مکمل طور پر صحت مند ہوں تو وہ کچھ اس طرح مصنوعی مسرت کا اظہار کرتا ہے جیسے اردو سے نابلد ہونے کے باعث میری کسی کہانی کا بیمار انگریزی ترجمہ پڑھ کر۔

٭       ایک آدھ پیگ، دو چار سیب یا چند انڈوں اور کباب سے بیماری کو بھگانے کے اب بھی قائل ہیں؟

٭٭   پروفیسر عتیق اﷲ بہت شریر ہے۔ آج سے کوئی پچیس سال پیشتر اسی نے اپنی کسی تحریر میں میرے تعلق سے یہ قصہ اڑایا تھا۔ اچھا کھانے پینے سے بہتر کیا ہو سکتا ہے ، پھر بھی یہ واقعہ سنیے۔

            پچھلے سال میں چھ سات مہینے پلورسی کی بیماری سے لڑتا رہا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ دوا سے بھی بڑھ کر ضروری ہے کہ نہایت اچھی خوراک کھاؤں اور معمول سے دگنی تگنی۔ میرے گھر والے ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرنے کے لئے مجھے باندھ باندھ کر میرے منہ میں خوراک ٹھونستے رہے۔ ٹھیک تو میں ہو گیا، مگر کھانے کی ٹیبل کی طرف جاتے ہوئے میں کچھ یوں سر جھکائے ہوتا تھا گویا اپنے کسی جرم کی سزا بھگتنے جا رہا ہوں۔ بیماری سے نجات حاصل کر کے میں اس لئے بھی خوش تھا کہ اتنی اچھی اور زیادہ خوراک کھانا نہیں پڑے گی۔

٭       بھائیا جی، بھابو جی، سدر شناں کے ذکر کے علاوہ خاندان و رشتہ داروں کا آپ کے یہاں کوئی خاص ذکر نہیں ہے۔ پُرکھوں کی بابت کچھ جانکاری اور اپنے نام کے لاحقے ’’پال‘‘ کی بابت کچھ روشنی ڈالیے۔

٭٭   بھائیا جی، بھابو جی اور سدرشناں کے علاوہ میری دو بڑی بہنیں تھیں ، امر کور اورشکنتلا۔ دونوں وفات پا چکی ہیں۔ میری بیوی کرشنا کی مجھ سے ۱۹۴۸ء میں شادی ہوئی جب میں تقسیم کے فوراً بعد انبالہ میں بھائیا جی کی دودھ کی دکان کے لئے آس پاس کے دیہات سے سائیکل پر دودھ لایا کرتا تھا۔ انہی دنوں کرشنا اپنے والدین کے ساتھ نیروبی سے آئی ہوئی تھی۔ ہماری شادی اس شرط پر طے پائی تھی کہ میں شادی کے فوراً بعد کرشنا کے ساتھ مشرقی افریقہ جا بسوں گا۔ ڈولی لڑکیوں کی اٹھتی ہے مگر میرے کیس میں کرشنا میری ڈولی انبالہ سے اٹھوا کر نیروبی لے گئی، حالانکہ اسی زمانے میں بھائیا جی کی موت کے بعد میرا فرض بنتا تھا اور میری چاہ بھی تھی کہ میں اپنی نہایت پیاری چھوٹی بہن کی نئی سسرالی زندگی سے پوری طرح مطمئن ہو پانے تک ہندوستان سے باہر نہ جاؤں۔ نیروبی پہنچتے ہی میں نے انتظار کرنا شروع کر دیا کہ ہندوستان کب لوٹوں گا۔

            میری بیوی نیروبی میں سکول ٹیچر اور ہمارے ہندوستان لوٹ آنے پر پہلے اورنگ آباد دکن میں اور پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انگریزی کی لیکچرار رہیں۔ میری بیٹی ،سکرتیا دہلی یونیورسٹی کے ذاکر حسین کالج میں ریڈر ہے گذشتہ دنوں اس نے یونیسیکو کی سپانسرشپ میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے ساتھ پاک و ہند کی اردو کہانیوں پر اور پروفیسر صادق کے ساتھ ’’کتھا‘‘ کی طرف سے عصمت چغتائی کی لائف اور ورکس پر مختلف اردو مضامین کے انگریزی ترجموں پر مشتمل دو کتابیں شائع کی ہیں۔ بڑا لڑکا سُدھیر سائنس دان ہے اور اپنی فیملی کے ساتھ یو، ایس میں رہائش پذیر ہے اور چھوٹا لڑکا سنیت یہاں دلی میں آر کی ٹیکٹ ہے اور آر کی ٹیکٹ اور ڈیزائن پر ایک انگریزی ماہنامے کا ایڈیٹر میرے دونوں لڑکے ہم میاں بیوی سے ناخوش ہیں تاہم ہم خوش ہیں کہ وہ اپنی اپنی فیملی کے ساتھ بہت چین اور خوشی سے رہ رہے ہیں۔

            پُرکھ؟ غریب بچوں کی یادوں میں اپنے خاندان کا شجرہ محفوظ نہیں ہوتا۔ میرے دادا دادی اور نانا نانی میری پیدائش سے پہلے ہی پر لوک سدھار چکے تھے۔ ان میں سے صرف دادا کا دھندلا سا ذکر سنا تھا جس سے گہرے رشتے کی بجائے بس جان پہچان کے ذرائع ہی پنپ پاتے ہیں۔ پال؟  یوں تو ہم سیٹھی ہیں مگر اپنی اوائل کی مفلس زندگی کے پیش نظر مجھے سیٹھی کہلوانا اپنا مذاق اڑانے کے مترادف لگا، سو دسویں تک پہنچ کر میں نے اپنے نام سے پال ہی اپنے سر نیم کے لئے منتخب کر لیا۔ مجھے یاد ہے 1949ء میں نیروبی میں سکول ماسٹری ملنے پر میرے گوئن پرنسپل نے میرا سر نیم پوچھا۔ جب میں نے اسے بتایا، پال، تو وہ جھلا سا گیا اور کہنے لگا پال تو تمہارے نام کا حصہ ہے۔ میں سر نیم پوچھ رہا ہوں۔  پال ہی میرا سر نیم ہے  اُس نے میری مدد کے لئے کہا، مثلاً  سیٹھی  سیٹھی اس کے دفتر کے بوڑھے کلرک کا سر نیم تھا۔ وہ بھی میرے باپ کے مانند غریب، تنہا اور سادا سا لگتا تھا۔ جب میں نے سیٹھی کو بتایا کہ میں بھی سیٹھی ہوں تو اس نے بے اختیار آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا، مانو سالہا سال پہلے اپنوں کو ہندوستان کھو کر آج اچانک ان ہی میں سے ایک کو پا لیا ہو۔

٭       آپ نے جس انداز میں خاندانی غربت و افلاس کا ذکر کیا ہے۔ اُس سے ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ بھائیا جی نے اتنے نامساعد حالات کے باوجود آپ کو اپنے ساتھ کاروبار میں شریک کرنے کی بجائے اعلیٰ تعلیم کس جذبے کے پیش نظر دلائی؟

٭٭   ایک، اس لئے کہ کوئی نوکری نہ مل پانے کی وجہ سے میرے لئے بیکاری سے بچاؤ کا یہی ایک راستہ تھا کہ ایف، اے کے بعد بی، اے اور بی ، اے کے بعد ایم، اے میں داخل ہو جاؤں۔ دو، کہ بھائیا جی سمجھتے ہوں گے ، آج نہیں تو کل خوب پڑھ لکھ کر میرا تعین بالآخر کسی اعلیٰ پوسٹ پر ہی ہو جائے گا۔ تین، اگرچہ میرے تعلیمی سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں ، اعلیٰ پائے کی نہیں ، تاہم ادب سے مجھے شروع سے ہی والہانہ دلچسپی رہی ہے اور شاید والہانہ دلچسپی کی وجہ سے ہی میری امتحانی صلاحیت مشکوک رہی۔ میں تو اپنی بی اے کی تھرڈ کلاس پر منہ چھپا رہا تھا مگر بھائیا جی جامے میں پھولا نہ سماتے تھے کہ میرا بیٹا اب بی اے ہو گیا ہے۔ اب کاہے کی فکر؟ انہیں بس یہی ایک چاؤ تھا کہ میرا جگندر کوئی بہت بڑا افسر بن جائے ، مگر اُن کی وفات سے چند ماہ پہلے جو ہوا وہ یہ کہ ملک کی تقسیم کے بعد جب انہوں نے انبالہ میں دودھ مکھن کی دکان کھولی تو مجھے گاؤں گاوں سے دودھ ڈھونے کی ڈیوٹی پر لگا دیا تاکہ ہمیں اپنی گزر بسر کے لئے ریفیوجی کیمپ نہ جانا پڑ جائے۔

٭       حافظے پر زور ڈال کر جوانی میں کہے گئے اشعار میں سے کوئی ایک ہمارے قارئین کی نذر کرتے ہوئے اس شاعری کے جواز یعنی گرد و پیش پر بھی روشنی ڈالئے اور تائب ہونے کی وجوہات بھی بیان کیجئے۔

٭٭   حافظے پر زور ڈالنے پر بھی ان دنوں کا اپنا کوئی شعر یاد نہیں آ رہا، جو میں گنڈا سنگھ ہائی سکول اور مرے کالج، سیالکوٹ میں اپنی الم غلم تقریروں کے آخر میں استعمال کے لئے گھڑ لیا کرتا تھا اور بڑے مضحکہ خیز فخر سے اعلان کرتا تھا، اب میرا یہ ’’خود ساختہ‘‘ شعر سنیے۔ کالج میں فرسٹ ایئر کا ذکر ہے کہ ایک فنکشن میں اپنی کسی الٹی سیدھی آزاد نظم کی پہلی لائن ‘ـتنہائیوں میں بیٹھ کے ‘‘ میں ’’بیٹھ‘‘ کو ’’بینٹھ‘‘ پڑھا تو یاروں نے کان کھڑے کر کے بہانے بہانے سے یہ لائن بار بار پڑھوائی اور آخر میں اپنے قہقہوں سے بور ہو کر مجھے ہوٹ آؤٹ کر دیا اور یوں میری شاعری کا باب شروع ہونے سے پہلے ہی پورا ہو گیا۔اس کے بعد شاعری کے مطالعہ میں تو میری دلچسپی برابر بنی رہی، کہانی نے مجھے شاعری سے فلرٹ کرنے کا موقع بھی فراہم نہ ہونے دیا۔

            میرے قریبی دوستوں میں کرشن موہن، م، خ، سامری، سید جابر علی۔ سب کے سب شاعر تھے۔ وحید قریشی میرا سینئر تھا اور منہ دبا کر اُن کی شاعری کو اتنے منہمک اور عالمانہ لہجے میں سراہتا تھا کہ شعراء وحید قریشی کی تنقیدی بصیرت پر پرتپاک بحث کرنے لگتے اور اس دوران مجھ پر نظر پڑنے پر یونہی ذرا سا پوچھ لیتے ، کہو، کوئی کہانی ہوئی؟ اور میں بے سبب روٹھ کر انہیں جواب دیتا، نہیں !

            بزرگوں میں امین حزیں اور اثر صہبائی بھی ہمارے ہی شہر میں قیام پذیر تھے۔ میلا رام وفا اور شاید کچھ مدت کے لئے سدرشن بھی ان ایام میں یہیں تھے۔ مولانا صلاح الدین احمد کے ’’ادبی دنیا‘‘ میں امین حزیں کا کلام پڑھتے ہوئے ہماری آنکھوں میں ان کی نظم کے الفاظ کی بجائے بالعموم ان کا گورا چٹا صحت مند چہرہ گھوم رہا ہوتا۔ میرا خیال ہے ہم میں سے کسی نے بھی ان سے کبھی بات نہ کی تھی، ہاں ، ان کی باتیں بہت کرتے تھے۔ سامری کے برادر بزرگ طفیل ہوشیارپوری کنک منڈی میں اپنا ہندی منیمی سکول چلایا کرتے تھے اور دیوالی اور عید کے جلسوں میں اپنی نظمیں سناتے تھے۔ ہماری بحثوں میں طفیل صاحب کا ذکر نہ آنے پر یا کبھی آ جائے تو ہمیں مسکراتے ہوئے پا کر سامری چڑ جاتا اور عمومی شاعری کے غیر معمولی پہلوؤں پر اتنی روشنی انڈیلنے لگتا کہ اُس کی ہاں میں ہا ں ملاتے ہوئے ہماری آنکھیں چندھیا جاتیں۔

٭       کہانی آپ کے اندر کب اور کیونکر نمودار ہوئی اور آپ نے کن احساسات کے تحت اسے قرطاس پر منتقل کیا؟

٭٭   بچپن میں ہم اس لئے کہانیاں سنتے اور پڑھتے ہیں کہ وہ ہماری زندگی سے کتنی مختلف ہوتی ہیں اور بالغ ہو کر اس لئے ، کہ وہ ہو بہو زندگی کے مانند ہوتی ہیں۔ میں بھی لڑکپن میں اُن وقتوں کا ’’پھول‘‘ پڑھ کے ، اور بڑی معصوم توجہ سے پھول جیسی کہانیاں لکھ لکھ کر اور خود آپ ہی انہیں پڑھ پڑھ کر اونچا ہوا۔ کالج میں پہنچا تو محبت اور غریبی کے مقبول موضوعات پر کالج میگزین کے لئے دو ایک کہانیاں لکھیں۔ ایک کہانی ’’تعبیر‘‘ میں نے کالج کی بزم ادب میں سنائی تو اپنے اردو ٹیچر ڈینیل بخش کی تعریف سن کر سارا دن احمق سا نظر آتے ہوئے آپ ہی آپ مسکراتا رہا۔ امیر ہیروئین کی کہیں اور شادی ہو جانے پر غریب ہیرو کو باجے کی سریلی تانوں میں خوفناک پیغام دینے والی آواز سنائی دیتی ہے !  ایک اور فراموش شدہ کہانی کا ایک جملہ مجھے یا دہے  اور اس نے زور سے میز پر مکا مارا (پھٹے حال نوجوان کہانی میں بار بار میز پر مکا مار رہا تھا) اور بولا، ورنہ میں بھی ڈاکٹر ٹیگور نہ بن جاتا یہ سبھی کہانیاں بچگانہ تھیں۔شور مچا مچا کر میں کہانی کو بے سمت کر دیتا تھا، پھر بھی اپنی وہ ذہنی بیکلی مجھے آج بھی محبوب ہے۔

٭       پہلی کہانی غالباً 1945ء میں شائع ہوئی۔ باقاعدہ افسانہ نگار آپ کو کب اور کس طرح تسلیم کیا گیا؟

٭٭   ہاں ، میری پہلی کہانی غالباً 1945ء میں ہی مولانا شاہد احمد دہلوی نے اپنے ماہنامہ ’’ـساقی‘‘ میں شائع کی، ’’تیاگ سے پہلے ‘‘ اس کہانی کی نقل میرے پاس نہیں ہے۔ گو تم بدھ بننے سے پہلے روحانی طور پر ابھی کمزور سدھارتھ کی ذہنی کیفیت کی آئینہ دار ہے۔ چھپ کر آئی تو میں بی اے کے فوراً بعد نوکری کے لئے اپنی ناکام کوششوں میں جُٹا ہوا تھا۔ پکی سیاہی میں اپنا نام پڑھ کر مانوں مجھے دو جہاں نصیب ہو گئے۔

            کب تسلیم کیا گیا؟  کون کسے کب تسلیم کرتا ہے؟ اور تگ و دو کے تواتر کی خاطر اچھا ہی ہے کہ نہیں کرتا۔ میں نے لڑکپن میں ایک فلم دیکھا تھا۔ دنیا نہ مانے۔ فلم تو سمجھ میں نہ آیا اور نہ ہی اس کا موضوعی تانا بانا اب ذہن میں محفوظ ہے ، تاہم نام یاد رہ گیا ہے ، شاید اس لئے کہ یہ نام بذات خود ایک مکمل کہانی ہے۔ کوئی کسی کو کہاں مانتا ہے۔ ہم ہی خواہ مخواہ خوش ہو لیتے ہیں کہ مان لئے گئے : اپنے نیروبی کے قیام کے دوران میں نے افریقی زندگی کی بعض کہانیاں لکھیں جنہیں کرشن چند رنے 96ء میں کتابی شکل میں پیش کرنے کی رائے دی اور کتاب کے لئے اپنا تعارف بھی لکھ دیا۔ لیجئے صاحب ہم نے باور کر لیا کہ ہم تسلیم کر لئے گئے ہیں  اس افسانوی مجموعہ (دھرتی کا کال) کی بعض کہانیاں اپنے فنی جھول کے باوجود اپنی موضوعی جارحیت کے باعث مجھے پسند ہیں۔ ’’معجزہ‘‘ میں ہم کیکیولیک پر پکنک منانے کے لئے آئے ہوئے ہیں جھیل کی سطح زمینی ہے اور زمین کے نیچے پانی ہی پانی، اور جب ہم اس معجزے پر شادماں تحیر سے ناچتے ہیں تو ہمارے پروں تلے زمین ڈولتی ہے  ایک سنکی سا افریقی کہانی کی آخری سطروں میں پنی رائے دیتا ہے ، میں تواسے معجزہ سمجھتا ہوں کہ سارے افریقہ کی زمین کیوں نہیں ڈولتی۔

٭       آپ کو اپنے نظرانداز کئے جانے کا کافی گلہ رہا ہے۔ روئے سخن قاری، ناقد، ناشر میں سے کس کی جانب تھا، اور یہ کب اور کیونکر دور ہوا ہے؟

٭٭   ہم لکھنا شروع تو کرتے ہیں اپنا آپ منوانے کے لئے ، لیکن جوں جوں ہماری شرکتوں کا سماں گاڑھا ہوتا چلا جاتا ہے کھلتا ہم پر یہ ہے کہ لکھنے کے عمل میں تو دراصل اپنا آپ سونپا جاتا ہے۔ اپنی تصنیف میں اپنی بجائے ہمیں صرف تصنیف کو پیش کرنا ہوتا ہے ، وگرنہ اس میں دم نہیں بھر پاتا۔ خدا کا شکر ہے کہ میں چند ہی سال میں اسٹارڈم کی خواہش کے گھیرے کے کناروں پر آ لگا اور پھر چند اور سال میں شاید گھیرے سے باہر۔ اوائل میں آدمی اپنے آپ کو اپنے سر پر بٹھائے رکھے تو اتنا معیوب نہیں لگتا  بلکہ اچھا ہی لگتا ہے ، مگر ساری عمر ایسے ہی گزار دینے سے بے چارہ اپنی کھال میں ہی محبوس ہو کر رہ جاتا ہے۔ فکشن رائٹر کی (میں) کے اسرار کا ابلاغ تو یوں ہی ممکن ہے کہ وہ اپنے ’’بے میں پن‘‘ پر اصرار کرتے ہوئے محسوس ہو۔

٭       دیگر اہل قلم کی طرح آپ کے ہاں بھی یہ احساس نمایاں ہونے کے کیا اسباب ہیں کہ آپ کا ادبی نصب العین پیش روؤں ، ہمعصروں اور بعد والوں سے مختلف ہے؟

٭٭   ہر قلمکار اپنے زمانے کا پروردہ بھی ہوتا ہے اور اپنے مخصوص تخلیقی رویوں سے اپنا زمانہ پیدا بھی کرتا ہے ، چنانچہ اس کا مختلف ہونا عین مناسب ہے ، لیکن اہم پہلو یہ ہے کہ محض مختلف معلوم ہونے کے لئے وہ بن بن کر نہ لکھے۔ لکھنے والا اگر افسانے کے فطری نشیب سے غفلت برت کر اس پر اپنی وقوعی یا ہیئتی ترجیحات و تعصبات خارج سے لا د دیتا ہے تو افسانہ ویران ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس ضمن میں میری یہ چھوٹی سی کہانی پڑھیے۔

            ’’ میرے ناول کا ہیرو اور ہیروئن دونوں مجھ سے ناراض تھے ، کیونکہ جب اُن کی شادی کے اسباب آپ ہی آپ فطری طور پر انجام پا رہے تھے تو میں نے اُن کا بنا بنایا کھیل چوپٹ کر دیا اور اپنی ترجیحوں کو ناول پر لاد کر انہیں آخری صفحے تک ایک دوسرے سے جدا رکھنے پر اڑا رہا۔

            مگر وہ دونوں تو موقع کی تاک میں تھے۔ ایک دن نظریں بچا کر اچانک غائب ہو گئے۔ میں نے ناول کی ایک ایک سطر چھان ماری اور ہر مقام پر انہیں اپنے ناموں کی اوٹ میں ڈھونڈتا رہ گیا۔ وہ وہاں ہوتے تو ملتے۔

            مجھے بڑا پچھتاوا محسوس ہونے لگا۔

            اگر وہ مجھے کہیں مل جاتے تو میں فوراً ان کا نکاح پڑھوا دیتا، مگر اب کیا ہو سکتا ہے؟ میں منہ سر لپیٹ کر پڑ گیا۔

            آپ حیران ہوں گے ، کئی سال بعد ایک دن وہ دونوں مجھے بہ اتفاق اپنے ہی شہر میں مل گئے۔

            نہیں ، وہ مجھے بڑے تپاک سے ملے اور اپنے گھر لے گئے۔

            میرے ناول کے پنوں سے نکلتے ہی انہوں نے اپنی شادی کی تدبیر کر لی تھی اور اتنے سال بعد اب تین پھول جیسے بچوں کے ماں باپ تھے اور اُن کا گھر بار خوب آباد تھا۔

            نہیں ، اُنہیں اپنے سنسار میں اس قدر پھلتے پھولتے پا کر مجھے حوصلہ ہی نہ ہوا کہ انہیں اپنے ناول میں لوٹ آنے کو کہتا۔

            لوگ دنیا میں ہوں یا کہانی میں ، اپنی کہانی خود آپ بُن رہے ہوں تو سچ مچ کے معلوم ہوتے ہں۔ مزید، نصیب العین از خود طے نہیں پاتا ، بلکہ ہر افسانے کے جداگانہ سیاق کے مخصوص تقاضے کے مطابق طے پاتا ہے۔ قاری کو جہاں بھی یہ محسوس ہونے لگے کہ آپ اسے شعوری طور پر اِس یا اُس منصب کی جانب لئے جا رہے ہیں وہیں اُس کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ اُسے تو یوں لگنا چاہے کہ زندگی کے مانند کہانی میں بھی کوئی ناگزیر واردات پیش آ رہی ہے اور جیسے بھی بنے ، اُس واردات سے گزرتے ہوئے اُسے کوئی نصب العین دریافت کرنا ہے۔افسانوی وقوعے کی ناگزیریت پر نگاہ رکھ کر کہانی لکھی جائے تو اس مانند قاری بھی کہانی کی تخلیق میں گویا کہانی کار کا ساجھی بن جاتا ہے۔

٭       آپ کا شمار انتہائی شریف، مہذب اور صاحب کردار لوگوں میں ہوتا ہے ، جب کہ پروفیسر حسن عسکری کے خیال میں شریف آدمی اچھا ادیب ہو ہی نہیں سکتا۔؟

٭٭   ہماری تنقید اس نکتے پر اٹک سی گئی تھی کہ ادب زندگی کا رپورٹر ہے۔ فی الاصل ادب سچ مچ کی متوازی زندگی کے مترادف ہے۔ لہذا افسانے میں جو کچھ  اچھا یا برا  کوئی کر رہا ہوتا ہے ، وہ واقعتاً ہو رہا ہوتا ہے ، اور اگر یہ صحیح ہے تو  میرے شریف یا بدمعاش ہونے سے قطع نظر  کسی بھی رائٹر کا برا ہونا کیوں ضروری ہے؟ ادب اور زندگی ہر دو میں قدروں کو یکساں ضمیر سے برتے بغیر بن نہیں پڑ سکتی۔ کلیور لوگوں نے فی الحقیقت شرافت اور کردار کو سہولتاً بغلول پن سے عبارت کر رکھا ہے ، حالانکہ یہ دونوں خوبیاں انسانی تجربے اور تدبیر کا حاصل ہیں۔ کلیور لٹریچر چٹکلوں کے مانند لذتیں تو ہوتا ہے لیکن دیرپا لٹریچر ضمیر اور سچائی کی وارداتیں جئے بغیر تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ سیدھی سی بات ہے ، زندگی میں جھوٹ بول بول کر ادب میں سچ کی تلاش کیونکر کی جا سکتی ہے؟

٭       آپ مشاہدے کو کہانی کی بنیاد بنانے کے قائل ہیں ، یا وجدان کو اہمیت دیتے ہیں؟

٭٭   کہانی لکھنے کا کوئی کلیہ نہیں ہوتا۔ بعض اوقات کہانی مشاہدے میں ڈھل آتی ہے اور بعض اوقات وجدان کے تحرک سے ، یا پھر مشاہدے اور وجدان ہر دو سے بھی کہانی کی تخلیق کا اسباب ہونے لگتا ہے ، جیسے بھی بات بن جائے۔ میری رائے میں کہانی لکھنے کے اتنے ہی طریقے ہیں جتنے ہم سب لوگ اصل بات یہ ہے کہ کہانی کار اپنی کہانی کو اُسی کی باشندگی میں پیش کرنے پر حاوی ہو۔

٭       کرشن چندر آپ کو سپنس کا ماہر گردانتے اور آپ کے یہاں سپنس کو مہارت سے برتنے کا اعتراف کرتے ہیں۔ کیا آپ کرشن چندر کی رائے سے متفق ہیں؟ اگر ہیں تو تخلیقی ادب میں سسپنس کی کہاں تک گنجائش ہے اور آپ نے اسے کس طرح برتا ہے؟

٭٭   سسپنس کو مہارت سے برت پانا یقیناً ایک قابل قدر خوبی ہے ، لیکن زندگی کا مدار اکثر سسپنس پر نہیں ، جینے کی ، کئی اور خصوصیات پر ہے۔ موپساں کے ایک ریڈر نے اُس کی کہانیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے رائے دی تھی کہ وہ اپنی ہر کہانی کے آخر میں قاری کو جھٹک کر سسپینس میں مبتلا کر دیتا ہے میں تو اُس کے جھٹکوں کا اس قدر عادی ہو چکا ہوں کہ مجھے اب اُس وقت جھٹکا لگے جب وہ نہ جھٹکے۔

            بعض حالات میں تخلیق کے دھیمے پن میں بھی قاری کی جوش آفریں دلچسپی کا اسباب ہونے لگتا ہے۔ اصل سوال پھر وہی ہے کہ کہانی کی داخلی ضرورت کیا ہے۔

            کہانی کار کا مسئلہ یہ نہیں کہ اُسے کسی ایک نہج کی کہانیوں کا ماہر قرار دیا جائے۔ جو کہانی ندی کی طرح بیک وقت اپنے آگے پیچھے بھی بہہ رہی ہو اُس کی برتری میں بیک وقت کئی مضمرات کام کر رہے ہوتے ہیں  میرا خیال ہے کہ ادھر کئی سال سے میری کہانیوں میں قاری شاید متجسس اور میری طرح بے چین تو ہونے لگتا ہے تاہم مجھے اکثر کسی لمبے چوڑے سسپینس کی ڈرامائیت کی ضرورت لاحق نہیں ہوئی۔

٭       تخلیق کار بالعموم اپنے کرداروں کا پر تو ہوا کرتا ہے۔ آپ بھی جا بجا اپنے کرداروں میں نمایاں نظر آتے ہیں ، مگر نجی زندگی میں آپ اس سے قطعی مختلف ہیں؟

٭٭   برناڈ شا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک ہی غیر فانی کردار تخلیق کیا ہے اور اس کردار کا نام  برناڈ شا ہے۔ فنی کمال دراصل اس میں نہیں ہوتا کہ آپ کے کردار آپ کے مانند ہوں ، بلکہ شاید اس میں ہوتا ہے کہ آپ اپنا آپ کھو پائیں اور وہی بن جائیں جن کی آپ کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ اس کے بغیر آپ اپنے ہر کردار کے کئے کو کیونکر بھوگیں گے اور بھوگیں گے نہیں تو آپ کے اندر اُن کے تعلق سے وہ درد مند فہم کیسے پیدا ہو گی جس سے کہانی کو اسناد بہم پہنچتا ہے۔ کہانی کار بے چارے کو ایک اپنی زندگی جینا نصیب نہیں ہوتا، مگر اس کے عوض میں خدا اسے ہر کسی کو جینے کا موقع عطا کر دیتا ہے۔ اس عمل میں اگر بعض کردار اپنی شناخت کھوئے بغیر اپنے علاوہ کبھی تخلیق کار کو بھی جی لیتے ہیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ایسا ہونے پر بھی وہ اپنی زندگی خود آپ کرتے ہوئے محسوس ہوں۔

٭       کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے بیرون ملک تجربات کو دانستہ نئے سانچوں میں ڈھال کر روایت سے روگردانی کی جس سے تخلیقات کی بنیادی روح کا متاثر ہونا فطری عمل ہے۔

٭٭   لکھنے والوں کی وارداتیں (Experiences) ہی اُن کی تخلیقات کو اپنی بنیاد فراہم کرتی ہیں ، چنانچہ بیرون یا اندرون ملک کی وارداتیں اگر بعض نئے یا پرانے سانچوں میں اتر کر اپنی کوئی طبعزاد ہیئت اختیار کر لیتی ہیں اور اس طرح ادب کے روایتی تصور میں ترمیم واقع ہو جاتی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ ہماری کہانی کی روایت میں مولانا راشد الخیری سے لے کر منٹو تک اور منٹو کے بعد بھی ایسے ہی تو بتدریج تبدیلیاں رونما ہوتی چلی گئیں۔ کہانی، کی بنیادی روح روایت کے تشکیلی عمل سے مجروح نہیں ہوتی، اُس وقت مجروح ہوتی ہے جب خواہ مخواہ نیا بننے کے لئے مصنوعی رویوں کا سہارا لیا جائے۔

٭       مکتوبات پر مشتمل تیکنیک کا استعمال آج کے دور میں کچھ معیوب نہیں لگتا؟

٭٭   مکتوبی تیکنیک کا استعمال میرے یہاں دو ایک مقامات پر ہی ہوا ہے۔ بہرحال میرا خیال ہے کسی کہانی کی اوریجنل شکل و صورت اگر مکتوبی نقوش میں ہی رونما ہوتی ہو تو اسے کوئی دوسرا ہیئتی مکھوٹا پہنانے سے وہ مسخ ہو کر رہ جائے گی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کہانی کی جو اور جیسی بھی اصل ہیئت ہو وہ لکھنے والے کو سوجھ جائے میرے یہاں کوئی فن پارہ اُسی وقت زندگی کے کھٹکے سمیٹ پاتا ہے جب کسی ذی جان کی طرح اُس کی ہیئت اور روح یکجان ہو جائیں۔ ہیئتیں بہ اتفاق یا بہ ترجیح نہیں ہوتیں بلکہ اپنی مخصوص جینز اور خوؤں کی مطابقت سے ہوتی ہیں ، نہ ہوں تو مفاہیم میں فنی ٹیڑھ سی پیدا ہو جاتی ہے۔ فنکار کو اپنے فن کو اس ٹیڑھ سے بچائے رکھنا چاہئے۔

٭       کہا جاتا ہے آپ کے افسانوں میں پایا جانے والا توازن آپ کی شخصیت کی دین ہے۔ قارئین کو یہ بتایئے کہ شخصیت کا توازن کس کی دین ہے۔

٭٭   کوئی بھی توازن  زندگی کا یا ادب کا اٹل نہیں ہوتا۔ بدلے ہوئے حالات میں ایک توازن بے محل ہو کر مٹنے لگتا ہے اور اُس کی جگہ کوئی نیا توازن پنپنے لگتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پرانے وقتوں میں جب زندگی کرنے کا ایک توازن ٹوٹ رہا تھا تو ہمیں نئے حالات میں ایک نئے توازن کی چاپ پر احساس مسرت بھی ہو رہا تھا۔ ہر نئے توازن کاساتھ دیئے بغیر آدمی گویا اپنا حال صیغہ ماضی میں گزارنے پر اَڑ جاتا ہے۔ ایک توازن وہ بھی ہے جسے ہم صحیح پروپورشن کے مفہوم میں استعمال میں لاتے ہیں۔ مگر صحیح پروپورشنز کو بھی ہم اکثر اپنی سہولت کے مطابق تحریر یا عمل میں اپنی بزدلانہ پس قدمی سے تعبیر کر کے خوش ہو لیتے ہیں۔ میری شخصیت کا توازن کس کی دین ہے؟  پتہ نہی، میری شخصیت متوازن ہے یا نہیں ، تاہم اگر ہے تو اس کی ذمہ دار میری زندگی کے مختلف ادوار کی المناکیاں اور اُن المناکیوں میں میری خاموش شرکتیں ہیں ،جن میں رچے بسے بغیر میں شاید ضائع ہو چکا ہوتا (اگر اب تک ضائع نہیں ہو چکا تو  توازن بہرحال ایک بالغ خصوصیت ہے ، اور اگر کوئی بالغ ہو سکے تو وہ سال بہ سال نہیں ہوتا، سانحہ بہ سانحہ ہوتا ہے۔

٭       سچی تخلیق کے لئے آپ کے یہاں محرومی، تنگدستی بلکہ ذلت تک کو ضروری خیال کیا جاتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے لئے یہ چیزیں اجنبی ہیں ، پھر بھی ہم اُن کے ادب سے مرعوبیت کا اظہار کرتے ہیں؟

٭٭   ہماری اداسیاں ہماری ناکامیوں کی دین ہیں ، اور اپنی اداس ذہنی کیفیتوں میں آدمی کی سوچ گہری ہونے لگتی ہے ، یہی سبب ہے کہ اکثر فنکار بنیادی طور پر اداس لوگ ہی ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے اداسی اور اداسی کے محرک اسباب بھی خدا کی نعمتوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔

            زندگی لا محدود ہے اور زندگی کے لا محدود سیاق میں انسان کی ہر کھوج میں اُس کی ایک کامیابی  رسائی دراصل ہر ایک اُس نئی منزل تک نارسائی کا پیش خیمہ ہی ثابت ہوتی ہے۔ جامد اور متمکن کامیابیوں کا تصور تو محض کمرشل موریلٹی کا عکاس ہے اور یہی تاجرانہ ذہنیت اور موریلٹی ترقی یافتہ ممالک میں راہ پا کر لوگوں کو اپنی روحوں سے الگ کئے جا رہی ہے اور آدمی کا کروچوں میں منتقل ہوتے جا رہے ہیں یہی تو وہ سانحات ہیں جن کی وجہ سے کامو اور اُس جیسے دیگر کئی مغربی اکابر ’’کامیاب‘‘ آدمی کے مستقبل سے مایوس ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

            ایشیا کے دُکھ کے احساس سے ہی سارتر نے اعلان کیا تھا کہ اُن کے دکھوں کی گھور بہتات مجھے یقین دلاتی ہے کہ آئندہ کوئی بے حد لکھنے والا ایشیا سے ہی ابھرے گا۔ سو جو ہے وہ یہ، کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اداسیوں اور اداسیوں کے محرکات (ان محرکات میں ذلت کا احساس بھی شامل ہے) کی صرف نوعیت بدل جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ’’ترقی‘‘ سے پیدا شدہ مفاد پرستی، بے ساتھ تنہائی، اتھلا پن اور کائیاں پن سے ہی اُن کی بعض محرومیوں اور ذلتوں کا سامان ہونے لگتا ہے ، جس کی ٹٹول پا کر اُن کے فلسفی اور فنکار گہرائی سے سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے اکثر اچھا لکھنے والوں کی تحریریں ان حقائق کو بحث میں لاتی ہیں۔

٭       آپ کو قسمت کا دھنی، نرگسیت کا شکار اور حقیقت سے فرار کا متلاشی قلم کار کہنے والے کس حد تک سچائی پر ہیں؟

٭٭   قسمت کا دھنی؟

            میں جیسے حالات سے بھی دو چار رہا ہوں ، ان کے لے مجھ پر واجب ہے کہ خدا کا شکر بجا لاؤں کہ اچھے برے سبھی حالات بعض اعتبار سے انمول بھی ہوتے ہیں ، تاہم میری دعاؤں میں یہ بھی شامل رہے گا کہ خدا اوروں کو ان آزمائشوں پر عبور حاصل کرنے کے بہتر وسائل عطا کرے جن کا سامنا میرے مقدر میں لکھا تھا۔

٭       نرگسیت؟

٭٭   واقعہ یہ ہے کہ اُدھر دو تین دہوں سے مجھ پر واضح تر انداز میں وا ہوتا رہا ہے کہ نرگسیت کیونکر اچھی تحریروں کی تخلیق میں مانع ہوتی ہے۔ اس شعور کے تعلق سے میرا یہ افسانچہ ’’محض‘‘ ملاحظہ ہو:

            میں اپنے پیروں کے ٹکاؤ، ہاتھوں کی پینگ اور سر کی چھتری پر ہی اپنی ذات کو معمول کرنے لگا اور میری ذات سالہا سال بڑے صبر و سکون سے دو عالم میں میرا انتظار کرتی رہی اور ہنستی رہی کہ میں اپنے آپ کو محض جوگندر پال سمجھ بیٹھا تھا۔

٭        حقیقت سے فرار؟

٭٭   کونسی حقیقت؟

            حقیقت سے فرار نصیب ہو جاتا تو مجھے انسانی دکھوں کی رفاقت کا موقع کیسے ملتا اور یہ موقع نہ ملتا تو میں لکھتا کیونکر؟

٭       آپ نے جس دور میں لکھنا شروع کیا اُس میں کئی ازم اور نظریوں کی گھن گرج نمایاں تھی۔ آپ کس سے متاثر ہوئے اور آپ کی تخلیقات میں ان کا اظہار کس طرح ہوا۔ نیز عقیدہ، نظریہ اور ازم کے زیر اثر تخلیق کی بابت آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟

٭٭   نعروں اور نظریوں کی گھن گرج میں فن پارے کی صدا کہیں کھو جاتی ہے اور صرف نعرے اور نظریے سنائی دیتے ہیں۔ اگر نعرے اور نظریوں کی گردان کرنا ہی مطلوب ہو تو راست نعرے ہی کیوں نہ لگا لئے جائیں یا نظریے ہی سیدھے سیدھے کیوں نہ قلمبند کر لئے جائیں؟ کہانی کیوں؟ کہانی میں تو کہانی کا ر کو اپنے کرداروں کے عمل اور عقیدے کی ہمدردانہ فہم حاصل کرنا ہوتی ہے۔ ترقی پسندوں کو اوائل میں اسلئے میدان مار لینے میں دقت درپیش نہ ہوئی کہ ان سے پہلے کی کہانیوں سے محض میک بی لیو (Make believe) کا دور دورہ تھا اور حقائق کے جبر کو طلسمانہ پوشش میں سجا کر اپنی مرضی کا بنا لیا جاتا تھا۔ ترقی پسندوں کی یہ دین نہایت قیمتی ہے کہ انہوں نے اپنی کہانیوں میں زندگی کے جبر کو آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ ان لوگوں کی بعض کہانیاں فن اور زندگی کو واقعی خوب گوندھ گوندھ کر پیش کرتی ہیں مثلاً پریم چند کی آخری کہانی ’’کفن‘‘۔ منٹو کی ’’نیا قانون‘‘۔ بیدی کی ’’لاجونتی‘‘۔ اوپندر ناتھ اشک کی ’’ڈاچی‘‘قاسمی کی ’’جوتا‘‘۔ عصمت کی ’’دو ہاتھ‘‘ اور ترقی پسندوں کے جلوس میں دو غیر ترقی پسندوں ، غلام عباس اور ممتاز مفتی کی نہایت محبوب ترقی پسند کہانیاں ، ’’آنندی‘‘ اور ’’سانپ‘‘ ترقی پسندوں کی تحریروں کو آخر آخر میں اس لئے مشکوک قرار دیا گیا کہ وہ اپنی کہانیوں میں کہانیاں بیان کرنے کی بجائے اپنا سیاسی مینی فیسٹو بیان کرنے پر تل گئے تھے۔ جدیدیت پسند بھی اسی مانند جب بالواسطہ طور پر سلوگنل ہو گئے اور خالی خولی فیشن ایبل موضوعی اور لفظی تکرار اور بے تکے ابہام کا اسیر ہونے لگے تو انہیں بھی منظر سے ہٹنا پڑا اور نئے لکھنے والے واردات (Experience) کی پیش کش پر اصرار کرنے لگے۔

٭       اُردو افسانہ جس بلند آہنگی سے چلا تھا باقی کا سفر اُس سج دھج سے جاری نہ رکھ سکا۔ اس کی ذمہ داری کس کے سر جاتی ہے اور آپ کسی طور خود کو اس میں شریک پاتے ہیں؟

٭٭   پہاڑ دور سے زیادہ خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اُردو ا فسانے کا سفر بدستور اُسی سج سھج سے جاری ہے ، مقابلے ناروا ہوتے ہیں تاہم ضروری ہوں تو ’’پتلی جان‘‘ کا رحمان مذنب، ’’گلاب دین چٹھی رسان‘‘ کا آغا بابر، ’’حسب نسب‘‘ کی قرۃ العین حیدر، ’’زرد کتا‘‘ کا انتظار حسین، ’’کٹھن ڈگریا‘‘ کا بلونت سنگھ، ’’گڈریا‘‘ کا اشفاق احمد ، ’’بھیڑ‘‘ کا رام لعل، ’’جوائے ‘‘ کی جیلانی بانو، ’’بیٹے کا خط‘‘ کی بانو قدسیہ، ’’زرد پہاڑ‘‘ کا غلام الثقلین، ’’ڈوب جانے والا سورج‘‘ کا غیاث احمد گدی، ’’اُترن ‘‘ کی واجدہ تبسم، ’’بجو کا‘‘ کا سرنیدر پرکاش، ’’ماچس‘‘ کا بلراج میزا، ’’ گائے ‘‘ کا انور سجاد، ’’سلمیٰ اور ہوا‘‘ کا احمد ہمیش، ’’ایک حلفیہ بیان‘‘ کا اقبال مجید، ’’ ہزاروں سال لمبی رات‘‘ کا رتن سنگھ، ’’واماندگی شوق‘‘ کی فرخندہ لودھی، ’’بے ثمر عذاب‘‘ کا رشید امجد، ’’ریپلیکا‘‘ کا محمد منشا یاد، ’’آسیب‘‘ کا سلیم آغا قزلباش، ‘ـپانیوں میں سراب‘‘ کی زاہدہ حنا، ’’آخری سٹیشن‘‘ کا امراؤ طارق، ’’مائیکل اینجلو‘‘ کا گلزار اور ’’ابد کا تنہا سفر‘‘ کا ناصر بغدادی بھی اپنے پیش روؤں کے مانند اہم اور فراواں ہیں۔ ان کے بعد آپ کے ہم عصروں میں سے میں نے پاک و ہند کے کم سے کم دو درجن نئے لکھنے والوں کی بعض ایسی کہانیاں پڑھ رکھی ہیں جو بھولے نہیں بھولتیں۔ سبھی اپنی اپنی عبادت میں ، مگن ہیں ، جس سے یقین ہونے لگتا ہے کہ ہوتے ہوتے ان میں سے پون درجن کا شمار تو اساتذہ میں ہونے لگے گا۔ ان تازہ کاروں کا سماں بندھنے میں شاید اس لئے تاخیر واقع ہو رہی ہے کہ غیر معمولی لوگ آج کی ہنگامہ خیزی میں دکھنے میں کہاں آتے ہیں۔ پہلے کی اور بات تھی۔ اُس کھڑی کھڑی زندگی ہر کوئی جھٹ عین نظر آ جاتا تھا۔

٭       آپ کے خیال میں تقسیم ہند سے اردو ادب بالخصوص افسانے کو فائدہ پہنچا یا نقصان، اور مستقبل میں کس طرح کی نشاندہی کی جا سکتی ہے؟

٭٭   تقسیم ہند کے موضوع پر بعض انمول اور دیرپا افسانے لکھے گئے۔ منٹو کا افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ تو ایک متھک اعلامیہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ موضوع میری وارداتوں میں بھی پیش پیش رہا ہے مگر میں نے اپنا ناولٹ ’’خواب رو‘‘ 1947ء سے کوئی 35 سال بعد اور اپنی کہانی ’’ڈیرا بابا نانک‘‘ پوری نصف صدی بعد لکھی۔ انہی دنوں لکھ دیتا تو شاید میرے ہیجان کی نذر ہو کر یہ دونوں تخلیقات ضائع ہو جاتیں۔ وقت کے اتنے فاصلے پر جب میری یہ وارداتیں میرے سامنے آ کھڑی ہوئیں تو میرے لئے آسان ہو گیا کہ کسی ترجیحی تلاطم میں پاش پاش ہو نے کی بجائے کناروں پر آ لگوں۔ اسی طرح میری دو اور کہانیاں ’’فاختائیں ‘‘ اور ’’باشندے ‘‘ بھی تقسیم ہند سے پہلے کی سیالکوٹ کی زندگی کی طرف تک تک کر چند ہی سال پہلے ہو پائیں۔ ہم بعض حالات میں بے وجہ اپنی یادداشت سے بھاگتے ہیں ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری یادداشت ہم سے چھن جائے تو ہم پاگل ہو جائیں۔

            اردو ادب کے فائدے یا نقصان کا تصور اصل میں دونوں ملکوں میں اردو زبان کی حیثیت کو تولے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ تقسیم کے بعد پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا اور ہر خطہ کے لوگوں نے بھی اپنی علاقائی زبان سے محبت کے باوجود اردو کو اپنے کام کاج اور جذباتی اظہار کا ذریعہ بنائے رکھا۔ نتیجتاً وہاں اردو زبان و ادب کی ریل پیل میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ حالانکہ ہندوستان میں بھی اردو کو قومی ز بانوں میں شمار کیا جاتا ہے ، پھر بھی اردو کے ابتدائی تعلیمی وسائل اتنی تیزی سے گھٹتے چلے گئے کہ اردو ریڈر شپ آج انتہائی کم ہو کر رہ گئی ہے اور جتنی رہ گئی ہے وہ یا تو بلا لحاظ مذہب، چند ہی بچے کھچے پرانے لوگوں پر مشتمل ہے ، یا پھر نئے لوگوں میں سے محدود ے چند مسلمانوں پر حالانکہ نئے ادبی رسائل ابھی تک نکلتے اور بند ہوتے رہے ہیں اور اُن کی زنجیر ٹوٹنے میں نہیں آئی، تاہم اُن کی اشاعت اور ریڈر شپ کی تعداد مضحکہ خیز حد تک کم ہو گئی۔ آج اُنہیں اکثر لکھنے والے ہی پڑھتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اِدھر چند سال سے بعض لوگ اُردو کی ابتدائی تعلیم کی طرف بھی دھیان دینے لگے ہیں اور توقع ہے کہ جب یہ نئی پود پڑھ لکھ کر بڑی ہو جائے گی تو اُردو پڑھنے والوں میں غالباً قابل لحاظ اضافہ ہو نے لگے گا اور یوں اردو ادب پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ کسی زبان کے ادب کے معیار میں لازماً اُس کے پڑھنے والوں کی تعداد اور معیار کا بھی خاصہ دخل رہتا ہے۔ فی الوقت ہندوستان کے اردو مصنفین کو اپنے قارئین کی کثیر تعداد پاکستانی رسائل کے ذریعے پاکستان میں میسر آتی ہے۔ یہ امر حوصلہ افزاء ہے کہ پاکستانی رسائل ہندوستانی مصنفین کی پہنچ سے باہر نہیں لہذا اُن کی ادبی شرکتوں اور فروغ کے اسباب میں اس قدر انحطاط واقع نہیں ہوا۔

            مجھے امید ہے کہ مستقبل میں اردو ادب کے ہندوستانی قارئین میں قابل لحاظ اضافہ ہو گا اور مقامی صورت حال اتنی مایوس کن نہیں رہے گی۔

٭       ہر دو طرف کے پر جوش قلم کار اپنے ملک کے ادب کو زیادہ با معنی اور مفید قرار دے رہے ہیں۔ آپ کی اس بابت کیا رائے ہے؟

٭٭   ادب کو جغرافیائی حدود سے بالاتر ہو کر پرکھنا ہی مناسب رہے گا۔ ہماری زبان میں اچھا ادب اگر کوئی برازیل میں بھی لکھ رہا ہے تو یکساں طور پر قابل قدر ہے ، ویسے ہی، جیسے کوئی پاکستانی یا ہندوستانی ادیب۔ زبان کا رشتہ تو دنیا بھر میں بکھرے ہوؤں کی ذہنی یکجائی کی تدبیر کرتا ہی ہے ، ادب کا رشتہ تو بجائے خود ایک ہمہ گیر تدبیر ہے۔

٭       اکثر لوگ لمبی عمر کے باوجود ایک جنم جی کر پر لوک سدھار جاتے ہیں ، جبکہ آپ نے ایک جنم میں پانچ جنموں ، سیالکوٹ، انبالہ، کینیا، اورنگ آباد اور دہلی کو بھوگا ہے۔ آپ کس جنم کو فنی ریاضت کے لئے سب سے مفید اور خوشگوار گردانتے ہیں؟

٭٭   اورنگ آباد دکن میں عین مناسب ماحول پا کر مجھے اپنی ادبی تربیت اور شرکت کے کھلے اور غیر مشروط مواقع میسر آئے اور دلی کی بے پیشہ فرصتوں کے خدائی عطیے کی بدولت میں نے اپنا سارا وقت بے لاگ انہماک سے مطالعہ و تحریر میں صرف کیا۔

٭       کچھ عرصہ قبل دہلی کے ایک ادبی دفتر میں ’’میر و غالب‘‘ کے حوالے سے شرکاء بڑھ چڑھ کر اپنی اپنی کارگزاری گنوا رہے تھے۔ ہم دفتر سے باہر آئے۔ ’’میر و غالب، تو کجا، اردو زبان سے آشنا شخص دور دور تک دستیاب نہ تھا۔ جب آپ بھاجی ترکاری لینے باہر نکلتے ہیں اور گرد و پیش کو اپنی تخلیقات سے نامانوس پاتے ہیں تو اردو زبان و ادب کی زوال پذیری پر آپ کے کیا احساسات ہوتے ہیں؟

٭٭   لکھنے پڑھنے والوں میں تو میر و غالب اگر ان سے چھن جائیں تو مانو ان کا حافظہ ان سے چھن جائے۔ اردو زبان کے فروغ کی موجودہ کوششیں اگر ڈھیلی نہ پڑیں تو مجھے یقین ہے کہ نئی نسلیں بھی میر و غالب سے شناسائی حاصل کر کے فخر مندی محسوس کریں گی۔ موجودہ صورت حال میں یہ نئی نسلیں لاعلم ہیں کہ اردو کو کھو کر انہوں نے کتنی بڑی وراثت کھو دی ہے۔

٭       آپ کی شریمتی جی کا فرمان ہے کہ ’’پال صاحب‘‘ نے جتنا وقت اردو کو دیا، اگر انگریزی کو دیتے تو کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔ اگر یہ اُن کا احساس محرومی ہے تو آپ نے اس کا کس طرح ازالہ کیا؟

٭٭   ہماری شادی پر کرشنا انگریزی اور کسی حد تک ہندی ہی لکھ پاتی تھی۔ اُسے فارسی لپّی نہیں آتی تھی، لیکن ہماری شادی کے دو چار سال میں ہی اُس نے محسوس کیا کہ اُس کا فارسی لپّی جاننا نہایت ضروری ہے ، سو اُس نے کافی محنت کر کے میری زبان بھی سیکھ لی۔

            میں شروع سے ہی اردو میں اپنی کہانیاں اور انگریزی میں پیشہ ورانہ موضوعات پر مضامین لکھا کرتا تھا۔ اول اول جب کہیں میری کسی کہانی کا انگریزی ترجمہ چھپتا تو عام طور پر اسے اتنا اچھا نہ لگتا۔ ایک دو بار اس نے کہا بھی، انگریزی بھی تمہارا سبجیکٹ ہے۔ سیدھے انگریزی میں ہی کیوں نہیں لکھتے؟  تاہم اس نے جلدی بھانپ لیا کہ میرے تخلیقی اظہار کی زبان صرف اردو ہے ، اور نہ صرف اس حقیقت کو بخوشی قبول کیا، بلکہ خود آپ بھی تیزی سے اردو پر اتنا عبور حاصل کر لیا کہ میری کتابوں کو اردو سے دیو ناگری میں منتقل کر سکے۔ آج کل اس نے میری فکشن کے انگریزی ترجمے کا کام میری بیٹی سکرتیا کو سونپا ہوا ہے۔ سکریتا ’’کتھا‘‘ کے ادارے کے لئے میرا ناولٹ ’’خواب رو‘‘ انگریزی میں کر چکی ہے اور ادھر چند ماہ سے نیشنل بک ٹرسٹ کے لئے بھی میری منتخب کہانیوں کا انگریزی ترجمہ کر رہی ہے۔ سکرتیا کے ترجمے سے خوش ہو کر وہ اکثر مجھ سے مذاقاً (یا شاید وہ واقعی یہی سمجھتی ہو) کہتی ہے۔ یہ اچھا ہی ہے کہ تم نے راست انگریزی میں نہ لکھا، ورنہ یہ کہانیاں خراب ہو جاتیں۔

٭       آپ کی تقریباً تمام تخلیقات شریمتی کرشنا پال نے ہندی میں منتقل کی ہیں لہذا آپ ہمیں ہندی کے قاری ،پبلشر اور ناقدین کے رد عمل سے آگاہ کیجئے۔

٭٭   ہندی کے قارئین غالباً خوش ہی ہوں گے جو ہندی رسائل اور ناشر کرشنا سے اکثر میری کہانیوں اور مضامین کے ترجمے طلب کرتے رہتے ہیں۔ بعض نے میرے انٹرویو اور فن پر فیچر بھی چھاپے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہندی کا کوئی بے تکلف دوست میری فکشن کے تعلق سے بڑی محبت سے کچھ کہتا ہے تو میں جواب دیتا ہوں۔ تم نے ننگے پنڈے تو مجھے کبھی دیکھا ہی نہیں ، ہمیشہ پوشاک میں دیکھا ہے ، لیکن اب میں محسوس کرنے لگا ہوں کہ کہانیوں کی حد تک اگر آپ صرف لپی بدل کر انہیں ہو بہو دیونا گری میں پیش کر دیں تو اہل ہندی، اردو کو ہی ہندی بلکہ بہتر ہندی قرار دینے لگتے ہیں۔بول چال کی زبان سے چونکہ کہانی کا گہرا واسطہ ہے ، لہذا کہانی کی حد تک اُردو اور ہندی میں چنداں فرق نہیں۔ میری مسلمہ رائے ہے کہ فارسی رسم الخط کے فروغ سے اردو محاورے سے رابطہ بنا رہنے پر ہندی زبان کے برتر اظہار میں بھی وسعت پیدا ہو گی۔

٭       آپ سمیت اہل قلم کی اکثریت انسانی بہتری اور بھلائی کا پرچار کرتی رہی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں کہہ چکے ہیں اور آپ کے کہے کا ٹھیک ٹھیک مفہوم سمجھا گیا ہے۔ سوسائٹی پر اُس کے کچھ اثرات مرتب ہوئے ، یا ہونے کے امکانات ہیں؟

٭٭   جب تک افسانہ نگار سروکار حیات سے ہاتھ نہیں اٹھا لیتا، اسے زندگی کا کوئی نہ کوئی نیا گوشہ نظر آتا ہی رہتا ہے۔ آخر حیات میں تو زندگی کے خطوط پار درشن ہو جاتے ہیں اور افسانہ نگار کے لکھنے کی چاہ اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ چہ جائیکہ وہ قلم چھوڑ کر کمبل تان لینے کی ٹھان لے۔

            اثرات؟  ادب کے اثرات ہنگامی طور پر مرتب ہونے کی بجائے دور بہ دور ہوتے ہیں۔ ادبی ’’مفاہیم‘‘ کا یہ ہے کہ اچھی ادبی تحریروں کے اطراف کھلے رہتے ہیں ، جس کی بدولت بعض قارئین تحریروں سے اُن کے مصنفین سے بھی بہتر مفاہیم اخذ کر لیتے ہیں۔ لکھنے کے مانند مطالعہ بھی ایک توفیق ہے ، پڑھنے والا اپنی توفیق کے مطابق جہاں تک بھی جا پہنچے۔

٭       مفاد پرستی کے اس میڈیائی دور میں ہمارے ملک میں تو کتاب کلچر عنقا ہوا۔ آپ کے یہاں تخلیقی ادب کی اہمیت اور مطالعہ کا رواج کس حد تک باقی ہے؟

٭٭   جس طرح یورپ میں میڈیائی ہنگامہ خیزی کا دور گزر جانے کے بعد خود میڈیا کی بنیاد کو استوار کرنے کے لئے کتاب کی ضرورت لاحق ہونے لگی، اسی طرح ہمارے ملکوں میں بھی میڈیا میں انڈسٹری کی افراتفری کے باعث قدروں کی بازیابی کی ضرورت ناگزیر ہونے لگے گی۔

٭       پال صاحب! آپ کا مذہبی تصور غیر واضح ہے۔ ہندو مت کا پیرو کار ہوتے ہوئے آپ بابا گورو نانک کے مطیع اور اسلامی تعلیمات کے زیر اثر حج کرنے کے خواہش مند بھی رہے ہیں؟

٭٭   میں خدا کی وحدت میں یقین رکھتا ہوں اور میرا خدا صرف میرا اور میرے آس پاس کے لوگوں کا نہیں ، بلکہ سبھی جانے اور انجانے ذی جانوں کا ہے اور ان ذی جانوں کے اکابرین میرے نزدیک واجب التعظیم ہیں۔

            مذہب کی انسٹی چیوشن فی الاصل اسی لئے عمل میں آئی تھی کہ اس کی بدولت انسان کو اپنے جماعتی تعصبات سے آزاد ہو جانے میں مدد ملے ، مگر المناک صورت یہ ہوئی کہ کمتر لوگوں نے خدا کو اپنی ذاتی قامت میں گھٹا لیا اور مذہب کو وسیع تر آشتی اور محبت کا حیلہ بنانے کی بجائے جھگڑوں کی بنیاد بنا لینے پر تُل گئے۔

٭       یہ خیال کس حد تک درست ہے کہ اردو افسانہ عالمی ادب سے پیچھے نہیں بلکہ اس کے روبرو کھڑا ہے۔ اس خیال میں شاعری کو کیوں شامل نہیں کیا جاتا؟

٭٭   اس میں شک نہیں کہ اردو افسانے نے گذشتہ سو سال میں ترقی کی گونا گوں منازل طے کی ہیں اور اپنی بہترین صورت میں عالمی افسانے سے یقیناً کمتر نہیں ، مگر اس پر باور کر کے ہم اس نتیجے پر نہیں پہنچتے کہ ہماری شاعری نچلی سطحوں پر واقع ہے۔میر اور غالب اور اقبال اور فیض کی بالائی سطحیں اتنی بالا ہیں کہ گردن ٹیڑھی کر کر کے اوپر ہی اوپر دیکھتے چلے جائیں۔

                                                                        (فروری ۲۰۰۲)

٭٭٭

 

انتظار حسین

۲۱ دسمبر۱۹۲۵

٭       کیا آپ حسب و نسب پر یقین رکھتے ہیں؟ ہر دو صورتوں میں ، آبا کا مختصر تعارف کرائیے !

٭٭   ………

٭       آپ کے خیال میں سکول، کالج، یونیورسٹی اور گھر کون سی جگہ، طالب علم کی تربیت و تعمیر میں سب سے زیادہ مفید ہے؟

٭٭   ……..

٭       ہم جماعتوں اور ہمجولیوں میں ، کون کون، کب کب یاد آتا اور رابطے کی کیا شکل ہوتی ہے؟

٭٭   ……..

٭       بلند شہر، ہاپوڑ، میرٹھ کی مثلث کے بارے کچھ روشنی ڈالیے؟

٭٭   ……..

٭       قلمی ریاضت کی تحریک کب، کہاں اور کیسے ہوئی اور پہلی تخلیق کس نوعیت کی اور کہاں شائع ہوئی؟

٭٭   ……..

٭       آپ کی نفیس مزاجی شاعری کی محبوبیت میں کیوں گرفتار نہ ہو سکی؟

٭٭   ……..

٭       ہجرت کی بابت کچھ روشنی ڈالیے کہ آپ کِن حالات اور جذبات کے تحت اپنی آبائی سرزمین کو خیرباد کہہ کر پاکستان تشریف لائے اور پچپن سالوں میں کتنی بار ہندوستان تشریف لے گئے اور وہاں جانے پر آپ کے احساسات کیا تھے؟

٭٭   حضرت والا! یہ سوالنامہ ہے یا شیطان کی آنت ہے۔ پہلے سات سوال پوری خودنوشت کا تقاضا کرتے ہیں جس کی یہاں گنجائش ہے اور نہ محل ہے۔ باقی رہا یہ کہ میں نے پچپن سال میں ہندوستان کے کتنے سفر کئے ہیں تو اس قیمتی معلومات کے لئے CIDکے دفتر سے رجوع کیجئے۔

٭       آپ کے خیال میں تقسیم ہند ضروری تھی یا کوئی درمیانی راستہ تلاش کیا جا سکتا تھا دوئم یہ کہ تقسیم ہند معاشی، معاشرتی اور مذہبی محرومیوں میں سے کس کے ردِّ عمل سے وجود میں آئی؟

٭٭   تقسیم ضروری تھی یا نہیں ، یہ سوال اب پیچھے رہ گیا ہے تاریخ آگے نکل گئی ہے۔ میرا مشورہ آپ کو یہ ہے کہ اس تذبذب سے نکل کر آپ اپنے آپ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کریں کہ پاکستان وجود میں آ چکا ہے اور ہے۔

٭       ذاتی طور پر آپ! تقسیم اور ہجرت سے گزرے ہوئے احساسات کو کن الفاظ میں بیان کرنا پسند کریں گے؟

٭٭   اس کے بعد آپ مطالبہ کریں گے کہ اپنی عمر بھر کے افسانوں کا خلاصہ کیجئے۔

٭       کراچی میں آپ کی ہمشیرہ سے ایک محترمہ نے اپنے نانا کی بابت کس قسم کا گلہ کیا تھا؟

٭٭   اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہا کہ وہ واقعہ کیا تھا۔

٭       آپ کو ناسٹلجیا کا افسانہ نگار کہنے والے کس حد تک درست ہیں؟

٭٭   اس سوال کے جواب میں ، میں خاموش رہنا پسند کروں گا۔

٭       آپ کے ذہن میں افسانہ کی کوئی منطقی تعریف نہیں بلکہ افسانہ لکھنے کے بعد بھی آپ کو اُس کے افسانہ ہونے پر شک گزرتا ہے۔ اس بلند مقام و مرتبہ کے بعد گومگو کی اس کیفیت کو کیا نام دیا جائے؟

٭٭   آپ کو اختیار ہے جو چاہیں نام دے لیں۔

٭       کیا یہ رائے درست ہے کہ آپ نے انسانوں کے اخلاقی زوال کی کہانی پر سب سے پہلے توجہ کی اور پاکستانی فرد کی شناخت کو اُجاگر کیا؟

٭٭   اس سوال کا جواب اُن نقّادوں سے دریافت کیجئے جنہوں نے میرے افسانوں کے بارے میں یہ رائے ظاہر کی ہے۔

٭       آپ کے ہاں ! سفر، ہجرت اور فلش بیک کی تکنیک کا استعمال ضرورت سے زیادہ کیوں ہوا ہے؟

٭٭   اس کا فیصلہ بھی نقّاد کریں گے کہ بقدر ضرور ت ہے یا ضرورت سے زیادہ ہے۔

٭       ابتدائے سفر میں اشتیاق اور عزم درمیان میں شکوک و شبہات ، انتہائے سفر میں عدم اعتبار کی کیفیت کن اسباب کے باعث نمایاں ہو رہی ہے؟

٭٭   جناب والا! میں افسانہ لکھتا ہوں ، آم نہیں بیچتا۔ اقسام آموں کی اہمیت رکھتی ہے۔ افسانہ لکھتے وقت میں نے کبھی نہیں سوچا کہ کونسی قسم کا افسانہ لکھ رہا ہوں۔

٭       کیا یہ تاثر درست ہے کہ آپ داستانوی افسانہ نگار ہیں۔ حقیقت نگاری یا علامت نگاری وغیرہ نہیں کر سکتے؟

٭٭   یہ جاننے کے لئے بھی میرے افسانے پڑھنا ضروری ہیں۔

٭       ایک خیال یہ بھی ہے کہ آپ ’’باغ و بہار‘‘ اور’’ فسانۂ عجائب‘‘ کے سحر میں گرفتار ہیں اور غیر محسوس طریق پر وہی تکنیک اور طرز اختیار کئے ہوئے ہیں۔

٭٭   قاری اور نقاد کو اختیار ہے کہ وہ میرے افسانے کے بارے جس طرح بھی چاہیں سوچیں۔ یہ اُن کا کام ہے وہ جانیں میں دخل دینے والا کون ہوتا ہوں۔

٭       کچھ اس خیال کی وضاحت فرمائیے ! کہ آپ ہاتھی کا تجربہ کرنے میں مشغول اور نوجوان افسانہ نگار سانپ کی کہانی لکھ رہے ہیں؟

٭٭   صاف بات ہے یہ سوال میرے پلّے نہیں پڑا۔

٭       آپ ہی نے تو فرمایا ہے کہ نوجوان افسانہ نگار مجھے سمجھ نہیں آتے؟

٭٭   مجھے یاد نہیں آ رہا کہ یہ بات میں نے کب اور کس سیاق و سباق میں کہی تھی۔

٭       آپ کے ہاں ! عورت کا کردار جیتے جاگتے کردار کے بجائے علامتوں میں کیوں بیان ہوا ہے؟

٭٭   بھائی ! اس مفروضہ کے جواب میں ، میں خاموش رہنا پسند کروں گا۔

٭       انسان کے روحانی و اخلاقی زوال کی بابت دو رائے نہیں ہیں۔ سوال ہمارا یہ ہے کہ قحط الرجال کے اس عالم میں آپ تہذیبی شخصیت کی تلاش میں کس حد تک کامیاب ہو سکے ہیں۔

٭٭   آپ سے کس نے کہا کہ میں اس تلاش پر نکلا ہوا ہوں۔

٭       غزل کے علاوہ اردو ادب کی بیشتر اصناف انگریزی ادب سے مستعار تصور کی جاتی ہیں پھر بھی آپ کے بارے یہ رائے قائم ہے کہ آپ نے مشرقی مواد کو مغربی تکنیک سے برتنے کی کوشش کی ہے۔ ہم آپ سے اس کوشش کے نتائج جاننا چاہیں گے؟

٭٭   ایسا تجربہ اگر میں نے کوئی کیا ہے تو وہ منطقی معاملہ نہیں ہے کہ میں اسے دو اور دو چار کر کے بتا سکوں۔

٭       ایک نشتری سوال یہ ہے کہ وقت کے ساتھ آپ کے ہاں قاری کی دلچسپی کا خیال نہیں کیا جا رہا یعنی کردار نگاری سے گریز، فلسفہ فکر سے بے زاری کے ساتھ استعاراتی و علامتی رویہ نمایاں ہو رہا ہے؟

٭٭   میں نے عرض کیا نا! میں ٹی وی سیریل نہیں لکھتا، افسانہ لکھتا ہوں۔ ٹی وی ڈرامہ وغیرہ لکھتا تو قاری کی دلچسپی کا خیال ضرور رکھتا۔

٭       ایک اختلافی رائے یہ بھی ہے کہ آپ نے عمر عزیز کا دو تہائی حصہ پاکستان میں گزارنے کے باوجود یو پی میں بسر کیا ہے۔ یہاں کی ثقافت اور زبان کو باقاعدہ اپنانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

٭٭   جتنے منہ اُتنی باتیں ہیں۔ افسانے میں لکھوں رائے آپ قائم کرتے رہئے۔

٭       انتظار صاحب یہ فرمائیے ! آپ کو ’’اردو ادب‘‘ کی کس صنف سے زیادہ توقعات ہیں۔ مناسب خیال فرمائیں تو اُمید کی کرن کے حامل چند نام بھی گنوا دیجئے؟

٭٭   میں ایک صنف کو برت رہا ہوں۔ باہر بیٹھا ہوا آدمی نہیں ہوں کہ توقعات وابستہ کرنے کی عیاشی کروں۔

٭       وطن اور وطن سے دور لکھی جانے والی تنقید اور آپ کی نسبت ناقدین کے رویوں کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟

٭٭   نقاد اپنا کام کر رہے ہیں میں اپنا کام کر رہا ہوں۔

٭       رسم الخط کی بابت زور پکڑنے والی بحث پر آپ کیا کہنا پسند کریں گے؟

٭٭   اس بحث سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

 ٭       ’’اردو‘‘ کے نام پر وطن عزیز میں بے بہا ادارے کام کر رہے ہیں آپ اُن کی بابت کیا رائے دینا پسند کریں گے؟

٭٭   کوئی نہیں۔

٭       خاص مقصد اور اشارے پر برصغیر میں بڑھنے والی محبتوں کی بابت آپ کیا حسن ظن رکھتے ہیں؟

٭٭   نہ حسنِ ظن نہ سوئے ظن۔

٭       آپ کے خیال میں آپ کا فنی سفر کس مرحلے میں ہے اور آپ کو ملنے والے بڑے ادبی انعام پر آپ کے احساسات کیا ہیں۔

٭٭   سوال کے پہلے حصہ کا جواب میرا منصب نہیں۔ جہاں تک سوال انعام ملنے کا ہے کوئی انعام مل گیا اچھا ہوا لیکن نہ بھی ملتا تو بھی اچھا ہوتا۔ یاں یوں بھی واہ واہ ہے اور ووں بھی واہ واہ ہے !!!

٭

            ستمبر ۲۰۰۳ء

 

جمیل الدین عالی

(۲ جنوری ۱۹۲۶ء)

٭       (الف):حضرت غالبؔ سے آپ کو خاص نسبت، آپ کا خاص موضوع سخن فیض سے آپ کا بے پناہ انس۔(ب) ہم آپ کو کس مکتب فکر کا نمائندہ جانیں یعنی آپ شاعری میں کسی خاص School of thoughtکی پیروی کے قائل ہیں؟

٭٭   غالب سے کس ادب دوست کو بے پناہ انس نہیں؟ سبھی کی طرح میں بھی ان کی عظمتوں کے رنگ برنگے افقوں کو حیرت اور محبت سے تکتا رہتا ہوں۔کائنات تک محدود ہو سکتی ہے۔ (آئن اسٹائن نے تو نوری سالوں کے حساب سے ناپی بھی تھی) غالب کی فکر محدود نہیں۔ نہ جانے کہاں کہاں لے جاتے ہیں۔

            ان سے خاص نسبت کا ذکر وہ کرتا اچھا لگے گا جس نے خود کوئی کمال کر کے دکھایا ہو۔ بہرحال ان سے میرے بزرگوں کے خاندانی اور شاگردانہ روابط رہے ہیں۔ ان کی حیات میں ہی ان کا تعلق کسی اور خانوادے سے اتنا نہیں رہا جتنا اپنی سسرال (ہم لوگوں) سے تین چار پشتوں تک رہا۔ یہ تمام احوال قدما کو چھوڑ کر ڈاکٹر شیخ محمد اکرام، ڈاکٹر مالک رام سے لے کر حال کے کالی داس گپتا رضا (جالندھری۔ اب بمبئی) اور ڈاکٹر معین الرحمن کی کتابوں میں بڑی تفصیل سے درج ہے۔ خلاصہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی جناب عبداللہ ملک نے میاں محمود علی قصوری مرحوم کی سوانح لکھی ہے ان کی بیوی میرے بڑے بھائی کی بیٹی ہیں۔ اس حوالے سے جو ہمارے خاندان کا ذکر شروع کیا تو پورے بیس صفحے بھرنے پر بھی کہتے ہیں کہ تشنگی رہ گئی۔ وہ میرے ہم جد نہیں رشتہ داری ہے مگر مجھ سے شاعر کے طور پر بعد میں متعارف ہوئے۔ اولاً تو ایک ایسے اپنے ہی بزرگ خاندان جس کے چرچے اور لطیفے کسی نہ کسی طور ہر وقت میری ددھیال میں ہوتے تھے۔ غالب کی بہو (منہ بولے بیٹے زین العابدین خاں عارف کے بیٹے باقر علی خاں کامل کی بیوی اور نیر درخشاں کی بیٹی) نواب معظم زمانی عرف بگا بیگم اور خود ان کی بیٹی جندو بیگم (جنہیں غالب نے اپنے خطوں میں مرزا جیون بیگ لکھا ہے) میری جوانی تک حیات تھیں۔ دادی بگا بیگم کا انتقال ۱۹۴۵ء میں ہوا۔ وہ مشہور انٹرویو پرفیسر حمید احمد خاں نے انہی سے کیا تھا۔ میں تو بچپن سے ان کے پاس جاتا تھا۔ یتیمی سے پہلے ہم گلی قاسم جان میں رہتے تھے۔دادی بگا بیگم محلسرا میں گلی کے ایک نکڑ پر جہاں محلہ بلی مار ان شروع ہوتا ہے (غالب بلی ماران میں رہتے تھے۔ کچھ عرصہ احاطہ کالے صاحب میں وہ بھی عین میرے گھر کے سامنے تھا) میں نے دادی بگا بیگم سے ان کے ہزاروں قصے سنے مگر وہ ان کے اصل اعمال و اشغال کے ذکر پر سخت برہم ہو جاتی تھیں۔ (کچھ باتیں میں نے خطوط غالب مرتبہ ڈاکٹر خلیق انجم کے مقدمے میں لکھ رکھی ہیں) غالب کا ایک خط میرے والد (فرخ مرزا) کے نام بھی ہے۔

            ’’دادا اور دلدادہ‘‘ والا۔ ایک دو خطوں میں ان کا ذکر بھی ہے۔ میرے دادا (علائی کے نام ان کے خطوں کی تعداد نمبر دو پر آتی ہے۔ سب سے زیادہ خط ہر گوپال تفتہ کے نام، پھر علائی کے نام …… کچھ لڑکپن میں گھریلو طور سے پڑھائے بھی گئے کہ چھپ چکے تھے۔ والد کی محبت نہیں اٹھائی مگر اپنے سگے چچا نواب ضمیر الدین خاں عالی کی آنکھیں دیکھی ہیں سائل صاحب کے ہاں خوب حاضری دی ہے ان دونوں نے غالب کو دیکھا تو نہیں مگر ایک پشت کے واسطے سے انہیں خوب جانتے تھے۔ ان کی باتیں سناتے تھے۔ میری دلی میں چند دوسرے وہ لوگ بھی زندہ تھے جنہوں نے اپنی جوانی میں غالب کو دیکھا تھا۔

            میری ننھیال خواجہ میر درد کی مالا جپتی تھی (کوچہ چیلان۔ بارہ دری۔ خواجہ میردرد) اور چونکہ مومن کوچہ چیلاں کی ایک گلی میں رہتے تھے اس لئے ان کے افکار ، لطیفے ، شعر زیادہ چلتے تھے۔ مگر وہاں بھی غالب کا رعب بہت تھا۔

            پوری کہانی دس صفحوں میں آتی ہے۔ آپ اتنی جگہ نہیں نکال سکتے۔ بہرحال یوں سمجھئے کہ اتنی قربت کے سبب غالب میرے لڑکپن سے ایک رومانس رہے ہیں مگر ایسی نسبتوں سے شاعری بڑی نہیں ہو جاتی۔

(ب) اس سے قطع نظر کہ میرا کسی مکتب فکر سے تعلق کا دعویٰ کوئی مانے گا یا نہیں مانے گا۔ میں خود یہ طے نہیں کر سکتا۔ نمائندگی تو بڑی بات ہے۔ مکاتب فکر میں جدید تفریق ، واضح نشاندہی کے طور پر انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام ۱۹۳۶ء سے شروع ہوئی تھی۔ اسے اسی وقت بہت سے حلقوں نے چیلنج بھی کیا (اور آج بھی کرتے ہیں) چند برس بعد باقاعدہ طور پر حلقہ ارباب ذوق لاہور نے ایک طرح میرا جی صاحب کی قیادت میں اس کے خلاف محاذ بنایا۔ جب وہ دلی آئے تو وہ محاذ وہاں بھی آیا۔ ہمارے کالج میں حلقے کی ہفتہ وار نشستیں ہوتی رہیں۔ مگر یہ ایک محدود بیان ہے۔ وہ تحریک ملک گیر اور ہمہ لسانی بڑی تھی۔ بہت پھیلی ہوئی تھی۔ آج بھی کہ انجمن ہندوستان میں بھی نہیں اور پاکستان میں تو بالاعلان پانچویں دہائی میں ہی ختم کر دی گئی (علیحدہ کہانی) تحریک یا مکتب فکر پورے زور شور سے جاری ہے تعبیرات کسی قدر مختلف ہو گئی ہیں۔

لیکن میں اب بھی یہ جانتا ہوں کہ شاعری کے لئے مکتب فکر کیسے متعین ہوتا ہے معاف کیجئے میں یہ چاہوں گا کہ یہاں لفظ شاعری سے آسان نہ گزرا جائے۔ یہ اضافی بیان بھی شامل کیجئے کہ اگر مکاتب متعین کرنے ضروری ہیں تو یہ تعین عصر بعد عصر نقاد وں کا کام ہوتا ہے عصر بعد عصر پر بھی دھیان رہے۔ بعض اوقات ’’مصالح مرسلہ‘‘ نے بھی طرح طرح کے لکھنے والوں کو ترقی پسند اور زوال زدہ قرار دلوایا۔ قطعی نا شاعر ، بہت کمزور کمزور ادیب بھی بڑے بڑے مقام پا گئے۔ بعض ضروریات جن کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ادبی فیصلوں پر حاوی ہوتی رہی ہیں اور اب بھی ایسا ہو جاتا ہے پھر وہ ضروریات ختم یا کم ہو جاتی ہیں تو انہیں نقادوں کے اور ان کے بعد میں ابھرنے والوں کے فیصلے یا محاکمے کبھی کاملاً کبھی جزواً بدل جاتے ہیں۔ ہمارے بعض قدما اور متوسطین کے بارے میں بازیافت کا عمل اسی ناگزیر سفر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شیفتہ جیسے فاضل اور باخبر کا نظیر اکبرآبادی کو نظر انداز کرنا بلکہ ان کی مذمت کرنا اور ایک صدی بعد نظیر اکبر آبادی کا ایک دم ابھر کر آ جانا اسی سفر کی ایک مثال ہے۔ خود ترقی پسند تحریک جلد فیصلوں ، ان میں ترمیمات، تبدیلیوں بلکہ تنسیخ تک کے عمل سے گزری ہے …… گزرتی رہتی ہے …… لیکن، میں یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ وہ Undefinedتصور یا خاصیت جو ہے ’’ذوق سلیم‘‘ وہ کلاسیک اور جدید کے امتزاج سے کسی نہ کسی مدت کے بعد کسی ادیب، شاعر پر ، خواہ بن لکھا، اتفاق ضرور کرا دیتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی بہترین مثال منٹو صاحب ہیں۔ ایک وقت ان کی باضابطہ مذمت کرتے ہوئے انہیں زوال پسند اور بیمار ذہنیت کا تخلیق کار قرار دے دیا گیا تھا۔ اب کوئی بیس برس سے نہ صرف اس فیصلے کی بن لکھی سہی، مگر کھلی تنسیخ ہوئی بلکہ انہیں ایک بڑا ادیب قرار دے دیا۔ اب ان کی مدارج روز بڑھتے جاتے ہیں۔

            خود فیض صاحب کی نظم ’’یہ داغ داغ اجالا‘‘ پر ہندوستان کی انجمن تک سے غیر ترقی پسندی کا فتوی آ گیا تھا۔ اس وجہ کے ساتھ کہ انہوں نے آزادی جیسی نعمت کو داغدار کر دیا لیکن پھر انہی محترمین نے اپنی رائے سے رجوع بھی کیا اور فیض صاحب کا قد بہرحال بڑھتا ہی رہا۔ اور بڑھتا ہی رہتا ہے۔ ایک مؤقر گروپ نے علامہ اقبال تک میں فاشسٹ رجحانات کی نشاندہی کی مگر پھر اس سے رجوع کر لیا۔ ہمارے ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری مرحوم نے ایک دور میں علامہ پر جو اعتراض کئے وقت گزرنے یا اپنے ذہنی رویے یا اپنے معاشی حالات اور پیشہ بدلنے کی وجہ سے اس رائے پر قائم نہ رہے۔ ان کے آخری دنوں میں میں نے ایک تقریب سپاس میں جو ان کے اعزاز میں ہوئی تھی۔ سوال و جواب کے دوران یہ بات چھیڑی تو انہوں نے بلا تکلف اقرار کیا کہ وہ اپنی رائے سے رجوع کر چکے ہیں چلئے روانی میں یہ چند مثالیں آ گئیں لیکن دراصل یہ میرا مضمون تحریر ہے نہیں۔ میں جدید تنقید کی زبان بھی استعمال نہیں کر سکتا۔ اسے جانتا اور سمجھتا ضرور ہوں مگر وہ ایک بڑا علم دریا ہے۔ میری اپنی مصروفیات اور یقیناً کم مائیگی نے اس طرف جانے کی اجازت نہیں دی اور اب کہ بظاہر فرصت ملی میرے فکری مسائل ہی نے اتنا گھیر رکھا کہ نہ میں وہ علم حاصل کر سکتا ہوں …… مغرب و مشرق کی تاریخ تنقید اور عصریات …… نہ وہ زبان سیکھ سکتا ہوں نہ کوئی اپنی زبان وضع کر سکتا ہوں۔

            یوں بھی تخلیق کار غیر معمولی ہی سہی تنقید کی اہلیت اور فرصت کم پاتا ہے۔فراق صاحب یا ایک آدمی اور استثنا ہے۔ اردو میں ، انگریزی ادب میں بے شک ایلیٹ صاحب اور ………… میرے حسابوں چینی میں صدر ماؤزے تنگ۔

            اصولاً مجھے اس سے بھی اتفاق نہیں کہ ایک خواہ مجھ جیسا ناچیز تخلیق کار اپنی تعبیر و تفسیر خود کرتا پھرے یا اگر دانستہ طور پر یک رخا نہیں تو اپنا مکتب فکر متعین کرنے بیٹھ جائے۔ بہت ضروری جانے یا کسی کو بے تکلفانہ خطاب کر رہا ہو (خواہ تحریر میں خواہ تقریر میں) یا کہیں سے کوئی ناگزیر طلب آئے تو دوچار باتوں کی وضاحت یا شعروں کی اپنی تفسیر کر سکتا ہے۔ ورنہ اسے عصری اور بعد عصر قارئین اور ناقدین پر ہی اعتماد کرنا چاہئے۔ اگر وہ ابلاغ کا قائل ہے تو آخر وہ جس قاری، سامع ، ناظر تک اپنی بات پہچانا چاہتا ہے اسے کیوں اتنا نا اہل سمجھتا ہے ہاں اگر وہ غالب یا فراق کی طرح اہل نقد بھی ہے تب وہ بھی کسی حد تک ، اپنی تخلیق کی تفہیم میں کچھ مشوروں کا اضافہ کر سکتا ہے اور بس۔ تعلی، خود پرستی ، رعب گانٹھنا، معاصرین سے موازنے کرنا شاید نوجوانی اور ناپختگی کی ضروریات ہوں ، کسی میچور عمر میں ایسا کرنا اچھا نہیں لگتا اور شاید کوئی مضبوط بات کہنا ممکن بھی نہیں تاوقتیکہ اسے یہ دعویٰ نہ ہو کہ وہ جتنے متعلقہ علوم و تواریخ ہیں ، ان پر حاوی ہو چکا ہے۔ یہ تاوقتیکہ بھی میں نے احتراماً ہی کہہ دیا ہے ہاں کمرشل مقاصد، محض طلب شہرت، پھکڑ پن ، فقرہ بازی ، غیر ذمہ داری وغیرہ دوسری صفات ہیں جو میرے احاطہ میں نہیں آتیں۔

٭       آپ کے بیشتر مداحین کو علم ہے کہ شاعری کی ابتداء آپ نے اپنے برادر بزرگ کے مصر ع طرح پر سوہاوہ کے ریسٹ ہاؤس میں غزل پڑھ کر کی۔ غالباً یہ ۱۹۴۰ء کی بات ہے۔ ہندی زبان و ادب سے خاص شغف نہ ہونے کے باوجود نوعمری میں ہی دوہے کی جانب آپ کے رجحان کے کیا اسباب تھے؟ میرا بائی، کبیر داس، تلسی داس یا میرا جی سے کس قسم کا تعلق بنتا ہے اس خوبصورت حادثہ کا؟ نیز اس کا مستقبل آپ کیا دیکھتے ہیں؟

٭٭   تک بندی کی ابتدا ء تو دلی میں گھریلو طور پر ہی ہو گئی تھی۔ میں کسی الہامی تحریک یا اپنے اندروں سے آنے والی آواز کا حوالہ نہیں دوں گا۔ دلی میں کھاتے پیتے شرفا سے لے کر متوسط طبقے تک کا ماحول ایسا تھا کہ شاعری، پتنگ بازی ، شطرنج، پچیسی، تیراکی، اگر وسائل ہوں تو گھڑ سواری اور شکار ایک طرح لوازم تھے۔ مجھ سے ذرا پہلے ڈیرے داروں کے گھر گانا سننے اور آداب محفل سیکھنے بھی جاتے تھے۔ مگر میرے وقت میں یہ ایک قریب الختم روایت تھی۔

            اسکول میں بھی کچھ نہ کچھ کہنے لگا۔ ’’لب پہ آتی ہے دعا ‘‘ اور کئی نصابی نظمیں خوش الحانی سے پڑھتا تھا تو مزا آتا۔ مثنوی مولانا رومی کو تو بے سمجھے بھی ناظرہ کے بعد ہی سکھا دیا جاتا تھا۔ گلستان بوستان بھی مگر مثنوی میں میری لحن پر میرے مولوی صاحب ہی نہیں نک چڑھے عزیز بھی جھومتے تھے۔

            مشاعرے (مختصر مختصر محفلیں) دیکھے تو پڑھنے کا شوق ہوا۔ ایک دو دفعہ میں ملازم کے ساتھ چلا گیا۔وہاں کسی استاد کا شاگرد ہوئے بغیر کوئی قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ مشاعرے طرحی ہوتے تھے (خواجہ شفیع مرحوم کی اردو مجلس میں بعد میں گیا ہوں) مگر میری خاندانی وجاہت کے سبب فواکہات کے وقفے میں آج کی اصطلاح میں As a special caseپڑھوا دیا۔ اشارہ بھی ہوا کہ کسی کے شاگرد ہو جائیے۔ گھر والوں سے کہا (والد انتقال کر چکے تھے) انہوں نے پہلے کہا میٹرک کر لو۔ میں اڑ گیا۔ اپنے بھائی میرے ماموں سید ناصر مجید مرحوم سے کہا۔ انہوں نے کہا سوچیں گے۔ بڑے (سوتیلے) بھائی نوابزادہ مرزا اعتذاز الدین مرحوم کو لکھ دیا۔ وہ پنجاب میں ایس۔ پی تھے گورنمنٹ انڈیا میں کسی کام سے آئے۔ گھر آ کر نرم لفظوں میں ڈانٹا۔ چند شعر سنے۔ پھر کہا جاؤ سائل صاحب کے شاگرد ہو جاؤ۔ (لوہارو والے بے خود صاحب کے شاگرد ہوتے تھے کیونکہ سائل صاحب اپنے تھے۔ سائل صاحب کے بیٹے قطب الدین فصیح بھی بے خود صاحب کے شاگرد تھے) مگر میں کم عمر تھا اور بے خود صاحب کے گھر دیوان خانے میں میری نگہداشت نہیں ہو سکتی تھی۔ جو چچا سائل صاحب کے ہاں ہوتی۔ وہ مجھے زیادہ سنجیدگی سے بھی نہیں لے رہے تھے۔ سوچا ہو گا بچپن کا شوق ہے۔ غائب ہو جائے گا۔ کہنے کو خود بھی شاعر تھے مگر موسمی یعنی خاندانی تقریبات پر کہہ لینا۔ مخلص ہمایوں کیونکہ پیار کا نام بھی ہمایوں مرزا تھا۔ میں دو تین شعر لے کر چچا جان کے پاس گیا۔ گستاخی کی انہوں نے شاگرد نہ کیا۔ (پورا قصہ ان کے خاکے میں ملاحظہ ہو) چھٹیوں میں جہلم گیا۔ بھائی صاحب دورے پر ساتھ لے گئے (اس وقت سینئر افسران دوروں میں اہل خاندان کو ساتھ لے جاتے تھے۔ خوب شکار اور سیر سپاٹا ہو تا تھا)اس شام سوہاوہ کے ڈاک بنگلے میں قیام تھا۔ شام کو جہلم کے معززین مدعو تھے۔ (دو ناموں میں راجہ آتا تھا) صبح حکم آیا اس زمین میں غزل کہئے۔ کم سے کم سات شعر ہوں۔ شام تک کہہ کر مجھے دکھا دیجئے۔ موزوں ہوئی تو احباب کو بھی سنواؤں گا وہاں میں نے اپنی پہلی باقاعدہ غزل کہی گیارہ شعر ہوئے تھے۔ اس لحاظ سے آپ مجھے جہلمی شاعر کہہ سکتے ہیں۔ میری کئی بیاضیں اور ڈائریاں کھوئی ہوئی ہیں یعنی ضائع ہو گئی تھیں۔ ۱۹۴۶ء میں جب دہلی چھوڑ کر قسمت آزمائی کرنے پونہ (اخترالایمان کے ہاں) اور بمبئی جا رہا تھا فسادات شروع ہو گئے تھے ننھیال میں والدہ نے بھی گھر بدل لیا تھا۔ کوچہ چیلان ہی مگر ماموؤں کی شادیاں اور بچے ہو جانے کے بعد دوسرا گھر لینا ضروری ہو گیا تھا۔ وہاں سے بھی آگے ایک کافی بڑا گھر لیا جا رہا تھا۔ میں نے اور سامان تو چھوڑ دیا۔ ایک بکس ساتھ رکھا دو بکس، صندوقچہ لکھنے پڑھنے کا بکس تھا۔ علائی کی یادگار۔ اس میں روایت کے مطابق غالب کی چند قلمیں۔ علائی کی چند قلمیں۔ سیپ کے ہاتھی دانت کے کاغذ تراش چند اور Curiosتھے۔ میری دو ڈائریاں اور بیاض بھی سما گئی تھیں۔ بیوی کو شملے چھوڑنے گیا جہاں اس وقت ان کے والدین لیڈی ذوالفقار علی خاں (علامہ اقبال والے) کی وسیع کوٹھی ’’نوبہار‘‘ میں مقیم تھے۔ انبالہ رک کر آپا شمیم جالندھری سے ملنے گیا۔ میری بیوی مدرسۃ البنات میں پڑھتی تھیں تو ان کی Prototypeتھیں۔ (ان کے والد جالندھر میں پولیس انسپکٹر رہ چکے تھے) آپا شمیم سے مجھے بہت محبت اور عقیدت تھی۔ وہ میری شادی سے پہلے بلند شہر آئی ہوئی تھیں۔ میری شادی میں ان کا خاصا رول رہا۔ بہرحال وہ بکس آپا کے پاس رکھوا دیا۔ شملے جا کر بیوی کو چھوڑا اور خود پونہ چلا گیا۔ (یوم اقبال کا مشاعرہ بھی تھا مگر میرا مقصد اس کے بعد قسمت آزمائی فساداتِ جالندھر میں آپا پر حملہ ہوا (زنانہ مسلم لیگ کی پر جوش رکن) لکڑ بازار میں ان کے بھائی جان کے سب گھر جلا دیئے گئے میرا بکس بھی جل گیا………… ایک اور بیاض جو ساتھ لے گیا تھا بچ گئی۔ کچھ ابتدائی بھی ہے مگر بہت کم اب یاد آ جائے تو محفوظ کرتا رہتا ہوں۔ مشکل سے یاد آتا ہے۔ وہ غزل یاد نہیں ایک شعر…………

ستارے انہیں یاد وعدہ دلائیں

;کبھی جھلملائیں کبھی ڈوب جائیں

دلی پر داغ کی حکمرانی تھی۔ غالب کا احترام۔ غالب کے قصے کہانیاں ، میرے پڑھے لکھوں میں ان کی Ratingاس وقت بھی بہت اونچی مگر شاعر زیادہ تر داغ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔ تمام زور زبان پر دیا جاتا تھا۔ میں جلد ہی کالج میں داخل ہو گیا۔ اخترالایمان ہمارے ہیرو بنے مگر وہ اس وقت رومانوی شاعری کرتے تھے۔ نظم کی۔ بہت جلد وہ گرداب ، والی نظمیں کہنے لگے تھے۔ لیکن مجھ پر ان دلی والوں کا اثر زیادہ رہا۔ میں غزل ہی کہتا رہا۔ خیر آپ نے ابتداء کی بات کی تھی۔ میرے ایک دوست نسیم الظفر کے الیکشن ۱۹۴۳ء پر اس کا قصیدہ بھی کہا تھا۔ ۱۹۴۵ء میں ایک دو آزاد نظمیں مگر غالب غزل ہی رہی۔ بہرحال ابتدائی کلام ضائع بھی ہوا اور کچھ تھا بھی نہیں (اب بھی کیا ہے)

(دوسرا حصہ) دوہا نگاری …… یہ بھی کسی فیصلے یا نعوذ باللہ الہام کا نتیجہ نہیں؟

            دوہا ۱۹۴۴ء کے ستمبر سے کہا ہے۔ ہندی نہیں جانتا تھا۔ اب بھی دیوناگری رسم الخط نہیں پڑھ سکتا تھا۔ مگر لوہارو میں قریبی گاؤں سے جو جے پور کی حدود میں واقع تھے کچھ بھاٹ فقیر آ جاتے تھے اور میرا بائی کے دوہے سناتے تھے (لوہارو اب ہریانے میں ہے۔ قانوناً مشرقی پنجاب مگر راجستھان سے متصل اور جاٹ کٹری بولی کا علاقہ) مجھے ان سے بڑا لطف آتا تھا۔ کالج میں بھگت کبیر سے بھی آشنائی ہوئی لیکن واجبی ………… اگست ۱۹۴۴ء میں چند ہفتہ بیماری کے بعد تبدیلی آب و ہوا کے لئے اپنے چچا زاد بھائی صاحبزادہ صمصام الدین فیروز کی دعوت پر قریبی ضلع بلند شہر گیا۔ و ہ ریٹائر ہو کر آئے تھے۔ چھتاری ہاؤس میں رہتے تھے۔ ان کی بیگم ، میری ساس، ریاست جہانگیر آباد میں حصہ دار تھیں۔ (نواب محمد اسماعیل خاں نبیرہ شیفتہ کی ایک چھوٹی بہن ………… جہانگیر آباد بلند شہر سے گیارہ بارہ میل دور ایک موضع تھا۔بلند شہر (تاریخی نام برن۔ برنی والا) قصبے سے زیادہ شہر بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہاں مجھے دیہاتی ہاٹ بازار دیکھنے کا موقع ملا۔ چھوٹے چھوٹے میلوں میں بھی گیا اور وہاں کی لوگ موسیقی میں بڑا مزا آیا۔ لوہارو میں بڑا ہو کر محض ایک آدھ ، دو بار یا چند روز تعطیلات میں گیا تھا۔ بے تکلفانہ دیہات کی سیر کا موقع نہیں مل سکتا تھا۔ ریت کے ٹیلے ہی ٹیلے۔ یہاں نوجوانی، چاروں طرف سبزہ ہی سبزہ، دیہات میں نہایت سبز و شاداب پینٹھیں ہنگام پرور۔ بھاٹوں کی ٹولیاں ، مغربی یو۔پی کا مشہور رزمیہ الہا اودل اونچی تان سے گاتیں۔ فی البدیہہ مقابلے بھی کرتیں۔ جیسا یہاں ہمارے وسطی پنجاب میں عام ہے۔ (شاید سبھی جگہ ہو میں نے اپنا وسطی پنجاب زیادہ دیکھا ہے) ادھر مجھے اپنے ان بھائی کی صاحبزادی بہت پسند آ گئی تھیں۔ میرے خسر اور خوش دامن مجھے پسند کرنے کے باوجود تفاوت عمر اور میری ننھیال کے دلی پن سے ڈرتے تھے۔ میرا بی اے میں ایک پرچے میں کمپارٹمنٹ آیا تھا۔ کالج کے آخری دو سال میں نیم سوشلسٹ خیالات نے ریاست سے ایک طرح کا باغی بھی کر رکھا تھا۔ وہاں حسب رواج نوکری کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ تھا۔ الاؤنس اچھا تھا مگر اتنا نہ تھا کہ بیوی کے ساتھ الگ گھر لے کر آرام سے گزارہ کروں۔ ریاست سے دوبارہ یافت کے لئے وہاں رعایا سے جبریہ ’’فتوح‘‘ ضروری تھی جو پہلے تو ملتی رہتی تھی کہ والیِ ریاست کی مرضی شامل تھی۔ بے باکانہ اظہار خیال نے اس رعایت کو فضیتے میں ڈال دیا تھا۔ بڑا پریشان تھا۔ نہ اپنی اچھی آمدنی (آخر والدہ کا سہارا کب تک لیتا۔ جبکہ ان کی ذمہ داریوں میں میری چھوٹی بہنوں کے علاوہ جنہیں بہرحال الگ الاؤنس ملتا تھا اپنے میکے کی بڑی ذمہ داریاں سنبھالنی پڑتی تھیں۔ میں بے ڈگری، بے رقم خطیر، ضدی کہ نکاح ابھی ہو گا۔ ایک شام بے اختیار دو دوہے ہو گئے۔

پہلا        ؂

دوہے کبت کہہ کہہ کر عالی من کی آگ بجھائے

من کی آگ بجھی نہ کسی سے ، اُسے یہ کون بتائے

دوسرا نکاح کے بعد کہا گیا ؂

نا مرے سر کوئی طرّہ کلغی نا کھیسے میں چھدام

ساتھ میں ہے اک ناری ساتوری اور اللہ کا نام

پھر چند دوہے اور …… دلی آیا…… میرا جی صاحب سے ملنا ہوا۔ انہیں سنائے یا شاید ۱۹۴۲ء میں پونا میں سنائے تھے۔ ہاں خوب کہے بھئی۔ انہیں پسند آئے کہا اگر میں اب ’’ادبی دنیا‘‘ کا مدیر ہوتا تو تمہیں بڑے زور و شور سے متعارف کراتا۔ بہرحال یاد رکھنا کہ یہ غزل سے زیادہ مشکل ہے مگر شاید تم سے چل جائے۔ بس دو کام کرنا۔ دوہے میں بالکل سچ بولنا۔ غزل جیسی معنی آفرینی نہ کرنا اور ہندی زبان نہ پڑھنا ورنہ اردو کے لئے مشکل لفظیات میں پھنس جاؤ گے۔ یہ تازگی اور شادابی اس کی بحروں کی پابندی کا شکار ہو جائے گی۔ میں نے ہندی نہیں پڑھی۔ دوسری ہدایت پر عمل کا یقین نہیں پورا ہوا نہ ہوا وہ سامع ، قاری ، ناقد جانے۔اتفاق کہ غزل کے ساتھ ساتھ لائف سچویشنز پر دوہے بھی کہنے لگا۔ پڑھتا ہمیشہ ترنم سے تھا۔ انہیں پڑھنے میں الہا اودل کی تیز اور بلند لے کو اپنے فعلن فعلن کے ساتھ ذرا مدھم کر کے جو دیکھا تو بڑا لطف آیا۔ اس کے بعد ایک دو بار پرانی دلی کے مرتے ہوئے مشاعروں میں پڑھے تو وہاں کا رد عمل حیرت، غصے اور خاموش احتجاج میں ابھرتا پایا۔ وہ طرح باز لوگ تھے۔ کالجوں میں پڑھے تو لڑکے لڑکیاں بھونچکے اور پھر میرے دیوانے ہو گئے۔

            مگر پھر میں دلی میں کم ٹھہرا۔ پونہ ، بمبئی، حیدر آباد، دکن گیا۔ وہاں سچویشنز بھی بنیں اور جہاں پڑھے بہت کامیاب رہا۔ دلی واپس آنا پڑا۔ مشاعروں پر ہندو مسلم فسادات کے اثرات غالب آ رہے تھے۔ جلد ہی پاکستان بن گیا۔ یہاں چند ہفتے دوہوں کے باب میں ٹھنڈے گزرے۔ طرحی مشاعرے بھی شروع ہو گئے تھے۔ دوسرے مشاعرے میں غزل زیادہ کہتے تھے۔ دوہے کچھ ذاتی ہو کر رہ گئے تھے گو کہتا برابر رہا۔ پھر ذرا زندگی بدلی امی جمی بھی ہو رہی تھی۔ دوہے پڑھنے شروع کئے تو پورے پاکستان میں پذیرائی ہونے لگی۔ اعتراض بھی آئے کہ یہ مروجہ ہندی بحر میں نہیں۔ اردو کے ذریعے میرا بائی، بھگت کبیر ، رحمن، تلسی داس، بہاری کو پڑھنا اور سمجھنا چاہا۔ رحمن اور بہاری کے لئے بہت محنت کرنی پڑی کیونکہ وہ ٹھیٹھ ہندی کہتے ہیں۔امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کی طرف گیا کچھ آسان دوہے ملے۔ بابا بلھے شاہ کے دوہڑے ملے۔ اندر سے مختلف آگیں بھی بڑھکتی تھیں۔ جوانی تھی، خوش الحانی تھی۔ شاید مصرعے چست بھی ہوتے ہوں۔ بہرحال کیوں کا تجزیہ کوئی اور کرے۔میں یہ مانتا کہ غزل تو جیسی تھی تھی ہی ایک دم میرا دوہا بہت مقبول ہو گیا۔ خواجہ دل محمد صاحب کے دوہے میں نے بعد میں پڑھے۔ ان کی کتاب شاید ۱۹۵۱ء میں آئی تھی۔ کمال کے ہیں مگر مضامین دوسرے اور بحر ہندی کی مروجہ تیرہ ماترے والی۔ جو میں نے اب تک اختیار نہیں کی میرے ذہن میں ایسے وقفے۔ بشرام۔ سے جھٹکا لگتا تھا لیکن میری بحر …… عالی چال…… کے لئے دوہے پر وہ بہت سے مباحث دیکھنے ہوں گے جو بہت سی کتابوں میں بھی آ چکے ہیں۔ جامع ترین کتاب ڈاکٹر سمیع اللہ اشرفی (علی گڑھ) کی ہے۔ دوہوں کی تاریخ پر جامع ترین مقالہ سید قدرت اللہ نقوی کا ہے (تخلیقی ادب ۱۹۸۴ء) میرے دوہوں کو اردو دوہے قرار دینے پر ایک سیر حاصل بحث جمال پانی پتی نے کر رکھی ہے (عالی۔ حیات و فن۔ اشاعت دہلی ۱۹۸۸ء از جناب حبیب خاں) حضرت ڈاکٹر سید عبداللہ مرحوم سمیت دوسرے بہت سے اہل نظر نے ان پر بہت کچھ لکھ رکھا ہے آج بھی کہ غزل سے ہٹے مدت ہو گئی دوہا میرے اندر سے بار بار پھوٹتا ہے۔

            میرا وقت تو گزر گیا۔ میرے دوہے پر بہت سے محترم ماہرین ہندیات اور ناقدین کے تبصرے بھی آئے اور آتے رہتے ہیں۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ اس نے جڑ پکڑ لی۔ پاک و ہند میں بڑے اچھے اچھے دوہا نگار سامنے آتے جا رہے ہیں۔ احیائے دوہا میں اولیت کسی کو دی جائے (وہ میرا مسئلہ نہیں) اہم تر بات یہ ہے کہ ایک تو خوبصورت فارم نے اردو میں جڑ پکڑ لی ہے۔ میں نے ۱۹۸۹ء کے جشن عالی دبئی میں یہ وعدہ کر دیا تھا۔   ؂

کیسے کیسے کہنے والے کیا کیا بھاؤ سبھاؤ

عالی دوہا زندہ رہے گا چاہے تم اُٹھ جاؤ

یہ فارم کے حوالے سے تھا لیکن میں نے دوسروں میں کیا کہا ہے۔ یہ خود کیا بتاؤں۔ وہی کہ قارئین جانیں ، ناقدین جانیں۔ افسوس اب تک فارم پر کریڈٹ اور بحث جاری ہے۔ مہربان نہ جانے یہ کب دیکھیں گے کہ کہا کیا ہے۔ صرف ایک دو مضامین میں تفصیلی گفتگو آئی ہے ورنہ احیاء یا اسے مقبولیت دینے کے حوالے سے بات کئے جاتے ہیں۔ چلئے یہ بھی بہت ہے۔ میرا کوئی دعویٰ بھی نہیں۔ نہ احیاء کا نہ خدانخواستہ کسی اور پہلو سے اہمیت کا۔ ’’بس من کی آگ بجھی نہ کسی سے ، اسے یہ کون بتائے۔‘‘

٭       آپ کے ہم جماعتوں میں سے کچھ کے بقول کالج کے زمانے میں آپ کے نظریات سوشلزم کے خاصے نزدیک تھے کیا آپ ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے کیا آپ کا اس تحریک سے کسی قسم کا تعلق رہا گر نہیں تو اس روشنی کی نشاندہی ضرور کیجئے جس سے آپ کے دل و دماغ میں وسعت اور بنی نوع انسان کے احترام کا جذبہ پیدا ہوا؟

٭٭   جی ہاں مگر میرے مطالعے کا دخل کم تھا۔ میرے ایک ہم جماعت حمید ہاشمی تھے۔ ان کے ہمارے ننھیالی واسطوں سے خاندانی تعلقات بھی تھے۔ (ان کے بڑے بھائی انیس ہاشمی صاحب وہاں بھی اور یہاں کراچی میں کیمونسٹ پارٹی سے متعلق رہے) وہ بڑا سیاسی اور انقلابی خاندان تھا۔ حمید کے بڑے بھائی حنیف ہاشمی کے صاحبزادے ہندوستان کے مشہور لوک تھیٹر والے مظفر ہاشمی تھے جو چند برس ہوئے رجعت پسندوں کے ہاتھوں قتل بھی ہوئے اور پورے ہندوستان کے روشن خیال حلقوں نے ان کا سوگ منایا اور احتجاجی جلسے کئے۔

            روس پر جرمن حملے تک ہندوستان میں کیمونسٹ پارٹی خلاف قانون Bannedتھی۔ انیس ہاشمی، حنیف ہاشمی اور حمید ہاشمی ان کے رکن یا کارکن تھے۔ اس وقت پارٹی کا کچھ لٹریچر بٹر پیپر جیسے کاغذ پر غالباً پیاز سے تحریر کیا جاتا اور خفیہ طریقے سے بٹتا تھا۔ میں کالج ۱۹۴۰ء میں پہنچا۔ چودہ برس کا تھا۔ حمید ہاشمی نے مجھ سے کہا تم ایک نواب کے بیٹے ہو۔ تم پر کوئی شبہ نہیں کرے گا۔ تم یہ لٹریچر فلاں فلاں مقامات تک پہنچا دیا کرو۔ مجھے یوں بھی اپنی یتیمی شروع ہوتے ہی جاگیردار طبقے سے شکایات یا نفر ت ہونے لگی تھی۔ کالج بھی عوامی تھا۔ قائد اعظم نے نواب زادہ لیاقت علی خاں کو صدر منتظم کرا دیا تھا اور خود بھی کبھی کبھی لوگوں میں آ جاتے تھے (مسلم لیگی جمعیت کی اہم نشستیں وہاں ہوئی تھیں۔ ۱۹۴۶ء کی قرار داد بھی ہمارے ہی لان میں منظور ہوئی۔ ادبی طلباء میں اخترالایمان کا سکہ چلتا تھا۔ وہ کھدر پہنتے تھے۔ باقاعدہ سوشلسٹ تھے یا نہیں اس وقت یاد نہیں آ رہا لیکن حلئے اور آزادانہ گفتگو سے اس وقت کے لحاظ سے انہیں بھی سوشلسٹ کہا جا سکتا ہے۔ سکہ بند ترقی پسندوں نے انہیں کبھی سوشلسٹ نہیں مانا۔ میں یوں بھی ان کی شخصیت سے متاثر تھا۔ حمید کی پیش کش میں مجھے آج کی زبان میں ایک رومانس نظر آیا اور میں نے تقریباً ایک ڈیڑھ برس یہ لٹریچر پندرہ بیس دن میں ایک مرتبہ ہندو کالج اور سینٹ سٹیفنر کالج جا کر تقسیم کیا۔ دریا گنج میں ایک مکان تھا جو پارٹی پر سے پابندی ہٹ جانے کے بعد باقاعدہ کمیون بنایا گیا۔ وہاں کامریڈ سرلاگپتا اور کامریڈ مقیم فاروقی آتے جاتے تھے۔ (شاید ویسے انڈر گراؤنڈ تھے) میں نے یہ لٹریچر وہاں جا کر بھی دیا۔ دریا گنج میں بھی ایم این رائے صاحب کا دفتر تھا۔ وہاں بھی ایک دو ہندو مسلم کارکنوں کو یہ لٹریچر دیا کرتا تھا۔ اسے پڑھنے کے لئے اسے دھیمی سی آنچ پر لانا پڑتا تھا۔ جس سے لفظ واضح ہو جاتے تھے۔ میں نے شاید ایک دو بار پڑھنے کی کوشش کی۔ کچھ ہدایات سی تھیں۔ میری سمجھ میں نہیں آئیں۔ بہرحال میں کوئی سوا برس تک پوری وفاداری سے یہ کام کرتا رہا۔ اس دوران حمید ہاشمی نے جو خود بھی میرا ہم عمر تھا مجھے کچھ مارکیسیت سمجھانی چاہی۔ وہ میری سمجھ میں کسی تفصیل سے نہیں آئی مگر میں عمومی طور پر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے نفرت کرنے لگا۔ پھر ترقی پسند ادب کی تحریک پھیلی اور کرشن چند ر، بیدی ، عصمت ، منٹو (منٹو اس وقت ہم لوگوں میں ترقی پسند جانے جاتے تھے) اور سب سے بڑھ کر فیض صاحب، چھپنے اور سامنے آنے شروع ہوئے تو سب کی طرح میں بھی ان کے رومانس میں بہہ گیا ………… ویسے بنی نوع انسان کا احترام ہر دردمند نوجوان کو ہو سکتا ہے اس لئے سوشلسٹ یا ترقی پسند ہونا ضروری نہیں۔ ہاں عملی میدان میں تفصیلی عقائد اور حکمت عملی اور اقدامات کے لئے بہت سی واقفیت درکار ہے۔ بنی نوع انسان کا سب سے زیادہ احترام تو کورس میں علامہ اقبال کی نظمیں ہی پیدا کر دیتی ہیں۔ اگر اس سوال کے جواب میں یہ وضاحت نہ کروں تو گویا آپ سے متفق قرار پاتا کہ بنی نوع انسان کا احترام صرف سوشلزم سکھاتا ہے میرے خیال میں سوشلزم انسان کو سب کچھ نہیں سکھاتا۔ یہ بات اس کی مبینہ ناکامی کی وجہ سے نہیں کہہ رہا۔ مسئلہ جو آج بھی موجود ہے اور شورائیہ روس کے عروج و زوال سے قطعاً نتھی نہیں انسانوں میں پیدا کردہ (نہ کہ بعض حالات میں پیدائشی) ناہمواری کا ہے۔ مواقع میں مساوات اور ذہنی ارتقاء کا ہے۔ اس کا واحد حل سوشلزم ہی نہ سہی، اجتہاد کے ساتھ اسلامی نظریہ حیات بھی ہے۔ بلکہ بقول مولانا حسرت موہانی اپنی روح میں اسلام اور سوشلزم ایک ہی ہیں۔ (وہ اپنے آپ کو اشتراکی مومن کہتے ہیں) لیکن میں اپنی عملی زندگی میں سوشلزم کے بیشتر مطالبات پورے نہیں کر سکا۔نظریاتی طور پر متاثر ضرور ہوا ہوں اور اب بھی ہوں۔ روس اور یورپ میں اس کی تصوراتی شکست نہیں ہوئی۔ یہ سانحے غلط تعبیرات اور غلط ہاتھوں میں آ جانے سے پیش آئے ہیں۔ خود اسلامی نظام امویوں کے دور سے آج تک اپنی روح کے مطابق زیر عمل نہیں آ سکا تو اس کے بنیادی اصولوں کی تقلیط نہیں ہو گئی۔ آئیڈیلز پورے ہونے میں ہزاروں برس لگ سکتے ہیں۔

            میں کراچی میں انجمن ترقی پسند مصنفین میں مسلسل جاتا رہا (حلقہ ارباب ذوق میں تو روایت کے مطابق وقفوں وقفوں سے اپنا کلام بھی پیش کیا کرتا تھا۔) وہاں ادب کو بحثوں میں تحریکی اثرات و ہدایات کے تحت نظریاتی معیاروں پر پرکھنا ایک معمول تھا۔ مجھے ان صحبتوں سے تحت الشعوری طور پر کچھ ملا ہو تو ملا ہو مگر میں صف بندی کے خلاف تھا۔ مارکیسیت کے ادبی اطلاق سے بنیادی واقفیت بھی نہیں تھی۔اپنی وضع کا غزل گو ہی رہا۔ (یقیناً یہ میری بدنصیبی یا کم اکتسابی کہ میری غزل میں سوشلسٹ فکر نہیں جھلکی، دوہوں میں ضرور آمیز ہے۔ نثر میں تو بہت ہے) پھر انجمن کو حکومت نے سیاسی پارٹی قرار دے دیا۔ ہم سرکاری ملازم کسی سیاسی پارٹی کے رکن یا شریک جلسہ نہیں ہو سکتے تھے۔ بہتوں کی طرح مجھے بھی وہاں حاضری ترک کرنی پڑی ………… آگے پاکستان میں ترقی پسند تحریک کی ایک کہانی ہے۔ کراچی میں منعقدہ (غالباً ۱۹۵۴ء) ایک کنونشن میں وہ باقاعدہ ختم بھی کر دی گئی لیکن اس تحریک کے انتہائی مؤثر ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ تنظیم تو اب ہندوستان میں بھی ختم ہو گئی۔ میرے خیال میں تحریک ختم نہیں ہوئی۔ ہاں اس سے کیمونزم کے ساتھ باقاعدہ تنظیمی اور صف بستگی جیسی وابستگی کی مخالفت پہلے بھی خود بعض ترقی پسند کرتے رہے تھے۔ ………… بہرحال میں ان مباحث کو ادبی تاریخ و تنقید نویسوں کا کام سمجھتا ہوں۔ اسی لئے ایسے سوالات پر الجھتا ہوں۔ میرا مسئلہ کہنا ہے اسی میں سب کچھ فن و جمال کے ساتھ آمیز ہونا چاہئے۔ واضح غیر مبہم ، نثری تحریروں کی اہمیت کم نہیں۔ مسئلہ تخلیقی ادب اور تنقیدی ادب میں کسی قدر فرق کا ہے۔ میں تخلیقی ادب سے وابستہ رہنا چاہتا تھا۔ چاہتا ہوں۔

یہ جواب ’’اے میرے دشتِ سخن‘‘ کے شائع ہونے سے پہلے دیا تھا۔

٭       شاعر، ادیب کالم نگار، منتظم ، ماہر معاشیات، بیدار مغز دانشور ہونے کے ساتھ آپ تیزی سے تحقیق و تنقید کے آدمی بنتے جا رہے ہیں آپ کی ان مصروفیات نے اردو ادب سے وہ بلند پایہ شاعر چھین لیا ہے جس سے پروفیسر حسن عسکری کو بڑی توقعات وابستہ تھیں آپ اپنی ان مصروفیات کی روشنی میں اسے المیہ کہیں گے یا بہتری کی جانب سفر گردانیں گے؟

٭٭   میں ماہر معاشیات نہیں ہوں۔ ۱۹۴۴ء میں بی اے ضرور معاشیات کے ساتھ کیا تھا۔ ایم اے میں بھی داخلہ رہا مگر ایم اے کی تعلیم پوری نہ ہوئی۔ شادی کر لی۔ تعلیم چھوٹ گئی۔ نوکریاں البتہ ایسی ملتی رہیں جو ایک طرح عملی معاشیات، خصوصاً اطلاقی مالیات سے واقف کراتی تھیں۔ کامرس، انکم ٹیکس جزوی بینکاری اور آج تو معاشیات ایک بہت پھیلا ہوا اور اپنے ذیلی شعبوں میں انتہائی مہارت طلب مضمون ہے۔ مقامی اخبارات اور بیرونی جرائد میں پڑھتا ضرور رہتا ہوں۔ مگر مہارت تو کیا کسی معقول درجے کی واقفیت کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتا۔ بس کچھ علم و تجربہ ہو گیا ہے۔ (برسبیل تذکرہ، ہمارے انگریزی اخبارات کے بعض معاشی تبصرہ نگار بھی ایم اے معاشیات تک نہیں ہیں) یا ’’جنگ‘‘ میں معیشتی کالم اس مضمون کو پاکستانی حوالے سے عام اردو دانوں میں متعارف کرانے کے لئے شروع کرنا پڑا۔ بحمد اللہ کامیاب رہا۔

۲۔ جس بلند پایہ شاعر ہونے کے امکانات رکھتا تھا یا نہیں یہ تو پروفیسر عسکری مرحوم جانیں یا کوئی اور ابتداً میں تو شاعر ہی تھا۔ شاید کچھ ترقی بھی کرتا۔ اور جتنی شاعری کی ہے اس پر کچھ زیادہ معذرت خواہ بھی نہیں۔ لیکن یہ سچ ہے کہ غزلیہ شاعری کی مقدار بہت کم رہ گئی۔ وجوہ میں کالم نگاری (جزوی حد تک)۔ لیکن ملا جلا کر۔ یہ کئی وجوہ بھی ہیں ، گلڈ کی تاسیس اور تنظیم) ۲ دسمبر ۱۹۵۸ء سے ۱۹۷۳ء تک۔ جب کالج قومیائے گئے۔ انجمن سے تعلق جاری ہے۔ (۳) گلڈ اور کالموں کی وجہ سے نوکریوں کا جانا اور بے روزگاری کی پریشانیوں کے ساتھ نئے روزگار کی تلاش (۴) پھر اس میں شاعری یا شہرت کی بنا پر مراعاتی قسم کا ذریعہ روزگار لینے کے بجائے میرٹ پر دوسری نوکری حاصل کرنے اور اس میں شدید محنت کر کے با عزت طور پر اپنے آپ کو جمانا (۵) اپنی قربانیوں اور محنت کے جواب میں نہ صرف داد نہ ملنا بلکہ بے داد ملنا…… اس سے اتنا سخت فرسٹریشن ہوا کہ ایک وقت تو سبھی خدمت خلق چھوڑنے والا تھا مگر کسی جذبے نے قائم رکھا (۶) وقت کے ساتھ ساتھ فکری افق کا اونچا ہونا۔ ساتھ ہی جمالیاتی معیار بدلنا اور معیار شعر کا بہت اونچا ہو جانا جس پر پورا اترنے میں بڑی جوکھم لگتی تھی (لگتی ہے) ۱۹۸۵ء کا ایک شعر            ؂

میں جو رہا ہوں بے سخن یہ بھی ہے احترامِ فن

یعنی مجھے عزیز تھی اپنی غزل کی آبرو

            میرے ان بیانات کی تہہ میں بعض مجرد معیار اور گاہے گاہے عالمی معیار ہوتے ہیں جو بادی النظر میں کھل نہیں پاتے اور اپنی اوقات شناسی یا منکسرالمزاجی کی بناء پر واضح بھی نہیں کیا کرتا۔ یقیناً وقفے آئے۔ وقفے چھوڑ کر دوہے برابر کہتا رہا اور ان پر بالکل شرمندہ نہیں ہوں۔ اس تعطل غزل کے زمانے میں اصل پرانا پاکستان ٹوٹ چکا تھا۔ باقی ماندہ کو مایوسی سے بچانا تھا شعوری یا غیر شعوری طور پر قومی مطالبوں کے زیر اثر بہت سے قومی نغمے آسان زبان میں لکھے۔ (کتاب چھپی ہوئی ہے) ان پر بھی قطعی شرمندہ نہیں ہوں ………… گاہے ماہے اپنا طویل نظمیہ ’’انسان‘‘ لکھتا رہا ہوں۔ وہ جس دن پورا چھپ گیا، بلند پایہ کا فیصلہ تو الگ سے ہو سکتا ہے جس کی میں پیش گوئی بھی نہیں کر سکتا۔ میرا ’’مسلسل شاعر‘‘ ضرور آپ کو نظر آ جائے گا۔ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ مستقلاً چھین لیا ………… بہت سی چھوٹی چھوٹی نظمیں بھی کہتا رہا۔ (قومی حالات اور ذاتی حد سے بڑھی ہوئی، حساسیت سے فرسٹریشن نے شدید ایک بیزاری پیدا کر دی تھی) بہت سے دوہے جو برسوں سے مشاعروں میں پڑھتا ہوں وہ بھی چھپے نہیں ہوئے۔ بڑے ضخیم جرائد میں سے کس کو بھیجوں ، کس کو نہ بھیجوں۔ گروپ بندیاں ڈراتی رہیں۔ نوجوانی چھوڑ کر پہلے بھی مدیران گرامی کو خطوط اور کلام کی آزمائش میں نہیں ڈالتا تھا۔ ’’شہرت‘‘ نے وہ عادت نہیں بدلی۔ کوئی معیاری جریدے کا مدیر تلوار لے کر کھڑا نہیں ہوتا تھا کہ شعر دو ورنہ جان سے مار دیں گے۔ کچھ مایوس بھی ہو گئے تھے لیکن واضح رہے کہ کالم نگاری نے بہت سی وہ باتیں آسان اور غیر جمالیاتی، غیر فنی زبان میں کہلوا دی ہیں جو شعری زبان میں بڑی اور اچھی لگتیں۔ یقیناً نثر نے میرے چھوٹے سے خزانے سے بہت سا مال لے کر استعمال کر لیا ہے مگر واضح رہے کہ سفر نامہ چھوڑ کر میری کالم نگاری (۱۹۸۹ء تک بغیر معاوضہ) خالصتاً ایک مشن کے تحت رہی۔ کیا مشن؟ قومی یک جہتی، خرد افروزی ، اقدار درستی مستقبلیات، سائنس کا فروغ، خالصتاً اس لئے کہا کہ ۱۹۸۹ء سے کچھ معاوضہ لینا شروع کیا ہے ورنہ پورے ۲۵ برس یہ کالم بالکل بے معاوضہ رہا ………… کیا لکھا ہے یہ ریکارڈ پر اور کتابوں (دعا کر چلے۔ صدا کر چلے) میں محفوظ ہے۔(وفا کر چلے ، کی کئی جلدوں میں بھی آ رہا ہے) جو لکھا اس پر بھی شرمندہ نہیں ہوں۔ اس نے وقت لیا۔ خیال لئے۔ فکر لی۔ جذبہ لیا۔ ظاہر ہے کہ یہ سب شاعری کے خام مال کے حصے سے لیا گیا۔ سو کیا ہوا۔ ایک مقصد کی طرف تو چلتا رہا ہوں۔ شاعری یقیناً ایک ارفع فن ہے مگر شاید خلق خدا کی، اپنے وطن کی راست خدمت اس سے کم ارفع نہیں۔ اگر آپ بہت اور اعلی شاعری نہ کر سکیں۔ مگر کچھ اور اچھے کام کرنے کی کوشش کرتے رہیں تو کم از کم خود اسٹاک ٹیکنگ کے وقت اتنا دکھ نہیں ہوتا۔ معاصرین اور تاریخ جو فیصلہ دیں وہ ان کا کام ہے۔ شاعر کے لئے یہ تصور کہ اسے اور کچھ نہیں کرنا چاہئے میرا تصور نہیں۔ شاید میں کل وقتی شاعر رہنے کے قابل بھی نہیں تھا۔ کون کون سا اور کس معیار کے ساتھ یہ لوگ جانیں۔ خود شاعری ذاتی تسلی یا چلئے کسی آفاقی جستجو کے ساتھ کیا ہے؟ یہ شاید دوبارہ طے کرنا پڑے۔ برسبیل تذکرہ مجھ سے ایک ٹی وی انٹرویو میں پروین شاکر نے پوچھا کہا جاتا ہے۔ (حالانکہ وہ ظاہراً ہی سہی، جیسی تکریم، میری اور میری بیوی کی کرتی تھیں اس کے مطابق خود ان کا سوال نہیں تھا۔ بعد میں پتہ بھی چل گیا کہ ان سے پچھوایا گیا تھا) آپ نے ادب کی کم اور ادیبوں کی زیادہ خدمت کی۔‘‘ میں نے فوراً کیا جواب دیا۔ اس پر غور کیجئے گا۔ میں نے اپنی کسی مفروضہ شعری خوبی کی شان میں کوئی فلسفہ نہیں بگھارا۔ یہ نہیں کہا کہ میں نے کم کہا ہو مگر ایسا کہا ہے ویسا کہا ہے بلکہ یہ جواب دیا کہ اگر میرے نہیں تمہارے معیار کی سو غزلیں نظمیں ایک طرف اور کسی ادیب کی بیوہ یا بچی کے لئے ۶۰۔۱۹۵۹ء کے ڈیڑھ سو روپے ماہوار کا وظیفہ دلوانے کی حیثیت یا طاقت دوسری طرف رکھ دیئے جائیں اور مجھ سے پوچھا جائے کہ تم ان میں سے کسے قربان کرنا پسند کرو گے تو میں ایک بیوہ کی با عصمت، خود دارانہ زندگی ایک یتیم بچی کی آبرومندانہ پرورش میرے لئے کسی کی بھی نظر میں بہترین سو غزلوں نہیں تمام شاعری سے زیادہ قیمتی اور محترم ہے۔ ساتھ ہی میں نے کہا مجھ جیسے (یہ نہیں کہا کہ تم لوگوں جیسے یا بہت سے) شاعر تو آتے رہتے ہیں۔ اپنی ادیب برادری کے لئے بے غرضانہ کام کرنے والے ہم ادیبوں میں ذرا کم پیدا ہوتے ہیں۔ شاعر ہونے کے بارے میں بھی میرا تصور Elitistنہیں ہے۔ اور میرا یہ موقف اپنی کسی نا اہلی کی وجہ سے نہیں بنا۔ غلط ہو تب بھی میری حد تک طبعی اور سچا ہے۔ میں نے شاعر کی عرفیت سے اور یوں بھی زندگی میں بڑے دکھ جھیلے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ لوگ جن کی میں کچھ بھی خدمت کر سکوں میری شاعری جاری رہنے کی قیمت پر دکھ جھیلے جائیں۔ ہاں تمام کام جہاں میرے یا کسی کے بس میں نہیں۔

            میرے شعر کی تعداد کم ہو جانا المیہ بھی ہے مگر میرے لئے اس حد تک نہیں ، یہ بھی دیکھ لیجئے ، میں نے شاعری کی قیمت پر۔ وقت شراب و کباب اور ادب کے بہانے محض مخالفانہ یا موافقانہ ذاتی یا گروہی مباحث (زبانی، تحریری قضیوں) میں نہیں گزارا (حصول علم کی نوجوانی کی ایک منزل کے بعد یا جوانی سے اور بات ہے) میں نے اپنی کوتاہیوں اور ذاتی عیوب کے باوجود دوسروں کے لئے اچھے کام ہی کرنے چاہے ، کارآمد عمارتوں کی اچھی بنیادیں ڈالنی چاہئیں۔ کم خرچ پر، مفت بھی۔ اچھے طلباء و طالبات پیدا کرنے چاہے۔ یہ میں کس حد تک کر سکا، نہیں جانتا۔ آج اردو سائنس کالج میں ساڑھے چار ہزار طلباء و طالبات گھومتے ہیں۔ میں انہیں اپنی اچھی بری ان کہی غزلیں ، دوہے ، گیت سمجھتا ہوں فنون کالج میں تو گیارہ ہزار کے قریب ہیں۔ مولوی صاحب کے بعد، ان کے بچ جانے میں اور نئے کالج (سائنس) کی تعمیر میں اس کی چہل پہل اور اس کے آئندہ امکانات میں کچھ فی صد میرا بھی حصہ ہے۔ میرے لئے یہ کافی ادائے قرض نہ ہو کر بھی کافی ہے۔ مولوی صاحب کے بعد انجمن برقرار رہ گئی۔ کچھ کام بھی کر گئی۔ کرتی رہتی ہے۔ علم پھیلتا ہے۔ چند فی صد میرا بھی حصہ ہے۔ کافی نہ ہو کر بھی میرے لئے کافی ہے۔ گلڈ نے پہلی بار سب پاکستانی زبانوں کے ادیبوں کو آپس میں متعارف کرا دیا تھا۔ ہم قومی یک جہتی کی طرف جا رہے تھے۔ کئی سمتوں میں کام شروع ہو چکا تھا اور شہاب صاحب تو ۱۹۶۳ء میں سفیر ہو کر ہالینڈ چلے گئے اور ۱۹۶۷ء میں واپس آئے۔ مرکزی کام میں ہی کرتا رہا اور میرے دور کی حد تک ساٹھ ستر مختلف زبانوں کے معذور مستحق ادیبوں اور مرحومین کے خاندانوں کے باعزت وظائف مقرر ہو گئے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے وظیفوں کی طرح پڑ گئی۔ اس سے پہلے یہ روایت کہاں تھی۔ ایک آدھ بڑے کی سرپرستی ہو جاتی تھی۔ مثلاً مخدومی حفیظ جالندھری کو کسی نہ کسی بہانے کچھ ملتا رہتا تھا کہ بڑے شاعر تھے۔ کیمونسٹ، کم معروف احمد ریاض جیسے ادیب کی بیوہ اور بچی کو کون پوچھتا تھا۔ اب یہ خواہ کم مقدار وظیفے ایک لازمہ ہیں مگر افسوس کہ بہت دن سے ان کے معاملے میں بھی سیاسی پسند اور ناپسند بھی در آئی ہے گرانی کے لحاظ سے اضافے بھی نہیں کئے جاتے۔ عہدیدار اپنی تنخواہوں اور مراعات میں برابر اضافے لئے جاتے ہیں۔ ہم بھی کافی نہ دلوا سکے مگر جو خدمت کرتے بے معاوضہ کرتے تھے۔ بہرحال ادب، علم، ادیب کے حوالے سے۔میری حقیر شخصیت کو پیکج کے طور پر لیجئے تو بہت نہ ہو کر بھی کسی قدر لائق توجہ ضرور نکلے گی۔ عیب ہم عصری یا میری نام نہاد لسانی عرفیت جو کوئی مجھ پر تھوپ دے اور پھر اپنے لقب اور عرفیت کی نظر سے دیکھے تو یہ اس کا کام ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ باتیں تاریخ کو بھی آلودہ کر دیں یہ اور بات کہ مجھے تاریخ پر شبہ رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ منصف ثابت نہیں ہوتی۔ انصاف اپنا ضمیر ہی کرتا ہے۔ اس کے لئے کسی مخصوص شہرت یا تاریخ تک کی سند ضروری نہیں۔

            مجموعی طور پر میرا کوئی سفر میرے معیار کے لحاظ سے بہتری کی طرف نہیں رہا۔ رستہ ایک کب تھا۔ بیک وقت کئی راستوں پر چلنے والا آدمی کسی ایک پر چل کیسے سکتا ہے۔ لیکن یہ کوئی کمتری برتری کا مسئلہ بھی نہیں۔ یا میں خود فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اتنا ہے کہ محنت اور عزت سے روٹی کمانے کی عادت وقت بہت کھا جاتی ہے۔ ادیبوں کی کچھ خدمت کی۔ علم کی کچھ خدمت کی۔ ادیبوں کی عملی خدمت کے لئے ادارہ ضروری سمجھا، بنایا۔

            اس کی کہانی جدا ہے۔ اگر تقریر سے کچھ خدمت ہو سکتی ہے یعنی معاشرے اور حکومت پر دباؤ پڑ سکتا ہے تو وہ جاری رہی اور جاری ہے۔ علم کی ایک عملی خدمت کا شعبہ کالج قومیا لیا کیا۔ کبھی کبھی اس کی منتظمہ پر نامزد ہوا تو بہتری کے لئے۔ جو کر سکتا تھا اگر تحریر سے کچھ خدمت ممکن ہے مثلاً خواندگی و علم ، سائنس کے فروغ پر خردافروزی، قومی یک جہتی کے لئے اپنی بساط بھر دباؤ ڈالنا، فضا پیدا کرنا تو وہ کالموں کے ذریعے جاری ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شعر کی طرف پھر زیادہ متوجہ ہوا تھا لیکن اتنے بڑے ، مقداری خلاء کو پر کرنے کے لئے جتنا وقت چاہئے شاید اب وہ نہیں بچا۔ بہرحال اب ریٹائرمنٹ کے بعد سے مشاورتی ملازمتوں کی اچھی اچھی پیش کش چھوڑ کر بھی ادب کا کام کرنا چاہا تھا۔ ایک برس بکھرے ہوئے مختلف النوع کاغذات جمع کرنے ، سفروں ، مشاعروں میں لگ گیا۔پھر فوراً ہی پورا ڈیڑھ برس ہسپتال میں رہتے ہوئے والدہ کی ہمہ وقت تیمارداری اسی زمانے میں خود دل کے دورے میں مبتلا ہو کر ہسپتال میں رہا۔ صحت کامل نہیں ہوئی۔ ذہن والدہ کی وفات سے بہت متاثر ہوا۔ ان کے انتقال کے چند روز بعد ہی ایک سگی بہن کے شوہر (غالباً ڈاکوؤں کے ہاتھوں) ایک صبح اپنے گھر میں ہی اس طرح قتل ہوئے کہ سراغ تک نہیں ملا۔ پھر اپنی طرف سے بے یقینی کی نفسیاتی الجھنوں میں پھنس گیا۔ کچھ اموات سے قریبی رشتے داروں کی نئی ذمہ داریاں آ پڑیں۔ کراچی کی زندگی ہر وقت سخت تکلیف دہ اثرات پیدا کرتی رہتی ہے۔ ذہن بٹا ہواہے۔ ساتھ ہی ’’ادبی سماجیات‘‘ سے کامل لاتعلقی بھی ممکن نہیں۔ مجبوراً بے شمار جلسوں میں جانا پڑتا ہے۔ وہاں تقریر وغیرہ تو کوئی مسئلہ نہیں۔ حاضرین میں ہمیشہ چند بہت دکھی شناسا اور اجنبی اپنی اپنی ضرورت سے مل جاتے ہیں وہ گھیر لیتے ہیں۔ ان کے حالات ایسے ہیں کہ مجھ جیسا بے طاقت ، بے اثر بھی سہارا لگتا ہے۔ کاش میں اس سب کو فلسفیا کر اپنی توجہ اپنی تخلیقات پر مرکوز کر سکتا۔ مگر یا تو مجھ میں اتنا تخلیقی دم ہی نہیں یا دکھی ملاقاتیوں تک کو نظرانداز کرنا میرا مزاج نہیں کیونکہ میں خواہ تھوڑے عرصے کے لئے سہی ان معاملات میں بڑا دکھی رہا ہوں چنانچہ ان کے لئے بھاگ دوڑ بہت سا وقت اور توانائی کھینچ لیتی ہے۔ انجمن کے چند مسائل پریشان کن ہو گئے ہیں وہ الگ۔ ساتھ ہی جب کچھ لکھنے بیٹھتا ہوں تو اپنی تقابلی بے بضاعتی کی شدت کچھ نہیں کرنے دیتی۔ بدقسمتی کہ پچھلے پندرہ بیس برسوں میں متفرق مضامین کو ان کی گہرائی میں جا کر پڑھنا چاہا۔ وہ کچھ سامنے آیا اور آتا ہے کہ معیار ہی بدل گیا۔ اس معیار کے مطابق کہنا سخت مشکل ………… یوں کوئی بھی کہنہ مشق بلکہ موزوں طبع ایک دن میں دو ڈھائی سو نہ سہی ٹھیک ٹھاک پچاس ساٹھ شعر تو کہہ ہی سکتا ہے۔ ایسی کوائنٹٹیQuantityسے میری تسلی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر کچھ غزلیں ، کچھ دوہے اور کہہ سکوں اور ’’انسان‘‘ کے حصے جوڑ سکوں تو شاید مجموعی طور پر یا آخر آخر کوئی قابل توجہ مقداور معیار چھوڑ جاؤں گا۔ شاید وہ کسی معیاری بہتری کی جانب سفر بھی قرار پا جائے لیکن اب میں اس سوال کے جال میں زیادہ دیر نہیں رہنا چاہتا۔ میرے تخلیقی سفر پر دوسرے رائے دیں تو بہتر ہے یعنی یہ حق میرا نہیں ان کا ہے ’’آج‘‘ سے مجھے پورے انصاف کی توقع نہیں کیونکہ میں گلڈ کی وجہ سے ادبا کے کئی معاملات میں بہت فعال وقت کتنا آگے چلا گیا ہو۔ اگر یہ کوئی بری مثال تھی تو اس سے بھی بدتر مثالیں پیدا ہو چکی ہوں ، یار لوگ میرے ہی پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ بے شک بہت سے تجزیہ نگار قیام گلڈ کے مدح خواں بھی ہیں مگر وہ ایک ضرورت تھا۔ تحفظ کی چھتری قومی یک جہتی کی طرف سفر………… مگر بعض شاکی بھی ہیں۔ شکایتیں تلخ یادیں چھوڑ جاتی ہیں۔ میرے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے ساتھ ہی یہ کہ گلڈ چھوٹا تو میں نے کوئی گروپ نہیں بنایا اور میں اپنے اسی کلیشے پاکستانی قومیت یا قومی یک جہتی سے چمٹا ہوا ہوں یعنی اسی پر لکھے جاتا ہوں جبکہ بعض فاضل اور معتبر اردو نقاد بھی اندر سے گروپ بندی اور کچھ تو صوبائیت زدگی کی رو میں بھی بہہ گئے ہیں۔ میری ادبی نثر اور شاعری پر لکھتے وقت یک سوئی کے ساتھ نہیں لکھ سکیں گے۔ کبھی ادبی محاکمہ گلڈ کے حوالوں سے کبھی میرے ان موقفوں سے اپنے جائز اختلافات سے آمیز کر دیں گے جو میرے اظہاریوں سے پیدا ہوتے ہوں یہ قابل فہم ہے لیکن شاید ایک وقت ایسا آئے جو میری موت کے بعد ہی آئے گا جب کوئی بے تعصبانہ میری شاعری نثری کاوشوں اور مجموعی حیثیت کا محاکمہ کرے گا۔ شاید اس وقت میرے بارے میں کوئی معروضی گفتگو ہو سکے۔ فیصلہ میں نہیں جانتا کیا ہو گا۔ یوں آج بھی بعض محترم ناقدین و محترمین میرے کچھ کاموں کچھ تخلیقات کی ستائش کرتے ہیں مگر ہم عصری ہم عصری ہے۔ بے گروپ ہونا، بے گروپ ہونا ہے۔ ساتھ ہی وہ عجیب و غریب مقبولیت جو مجھے پاکستان اور پاکستانیوں میں قومی نغموں اور پاک و ہند میں دوہوں سے ملی ہوئی ہے اور پاکستان سے باہر مشاعروں میں بھی وہ ابھی کسی معروضی تنقید کی راہ میں حائل لگتی ہے۔                جی ہاں ! میں نے عسکری صاحب کی توقعات کے بارے میں ’’لاحاصل‘‘ کی اشاعت کے وقت یہ لکھ دیا تھا۔ اول تو کسی کو بھی خالص ، بے داغ، بے تنازعہ شہرت اس کی زندگی میں نہیں مل سکتی کیونکہ ہمیشہ کوئی دوسرا نقطہ نظر کچھ محض حاسدوں ، کچھ مسابقت میں حصہ لینے والے اور اپنی اپنی سچائی کے مطابق اختلاف کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ جناب، پیغمبروں اور آئمہ معصومین کے علاوہ کون انسان غلطیوں سے پاک ہوتا ہے۔ میں نے شہرت کو سچائی کے ساتھ متنازعہ فیہ کہہ دیا ہو آج سبھی نام نہاد مشاہیر متنازعہ فیہ ہوتے ہیں۔ بہ حیثیت شاعر نہیں بلکہ بہ حیثیت منتظم ، حقیقتاً گلڈ بہت دن تک ایک متنازعہ فیہ ادارہ رہا گو اس سے تقریباً معاصرین نے دلچسپی بھی رکھی اور اس میں اپنے اور ہم سب کے تحفظات کے لئے اپنے تحفظات کے ساتھ خوب حصہ بھی لیا۔ فیض صاحب، قاسمی صاحب، شیخ ایاز ، امیر حمزہ شنواری سینکڑوں محترمین ان میں شامل ہیں۔

            گلڈ ایک بڑا موضوع ہے اب تک جتنے انٹرویو میں نے دیئے۔ ان سوالوں کی حدود میں دیئے جو کئے جاتے ہیں۔ اصل بات بہت کم کہہ سکا۔ ایک مضمون زیر تحریر ہے۔ ’’پل بنا ، گلڈ بنا‘‘اس کی تکمیل میں دوسرے کام حارج ہیں اور یہ وجہ بھی کہ میں اسے ممکنہ حد تک شواہد کے ساتھ لکھنا چاہتا ہوں جن کے لئے بہت سا مواد جمع کرنا اور اسے چھانٹنا ہے لیکن اس وقت مختصراً یہ ریکارڈ کر دیا جائے گا کہ یہ میری حد تک ایک بڑا سنجیدہ اور ہمارا یعنی ادیبوں کا ایک بہت بڑا ناقابل مثال اور ایسا ادارہ تھا جس کی ضرورت آج پہلے سے زیادہ ہے۔ ہمارے ہمہ لسانی ادیبوں کو ایک ایسا ادارہ بہرحال درکار ہے۔ جہاں وہ سرکاری نامزدگیوں کے ذریعے نہیں بلکہ صحافیوں کی طرح اپنے انتخابی نظام سے اپنے مسائل اور مقاصد کے لئے کام کریں۔

٭       آپ نے کسی انٹرویو میں فرمایا کہ مجھے گلڈ سے شہرت تو ملی مگر متنازعہ کچھ تو حقیقت ہو گی جس کا یار لوگوں نے فسانہ بنا لیا وگرنہ صورتحال یہ نظر آتی ہے کہ ساری خدائی ایک طرف تنہا آپ ایک طرف؟

٭٭   ایسا نہیں ہے کہ ساری خدائی ایک طرف ………… بحمد اللہ آج بھی ملک و بیرون ملک میری عوامی مقبولیت آپ کے سامنے ہے میرے بتانے کی ضرورت نہیں اور باتیں چھوڑئیے جب تک جیوے پاکستان کا نعرہ کسی بھی گھر میں زندہ رہے گا۔ کوئی میرا نام ہر جگہ سے خارج بھی کرا دے تب بھی پاکستانی مجھے نہیں بھول سکتے۔ ادب کے Assessmentپر پہلے کہہ چکا ہوں ، دوہوں پر عرض کر چکا ہوں ، ہندوستان تک کے کونے کونے میں (دیونا گری رسم الخط میں کر کے) پڑھے اور گائے جاتے ہیں۔

            ’’گلڈ سے شہرت ملی، مگر متنازعہ‘‘ اس کو کسی مبہم حقیقت سے کیا وابستہ کرنا۔گلڈ کا مارشل لاء میں بننے کی وجہ سے متنازعہ ہونا خود ہی ایک حقیقت ہے۔ درجہ بدرجہ سب بانیان اور جو شامل ہوتے گئے۔ فیض صاحب، قاسمی صاحب، شوکت صدیقی، بہت سے بائیں بازو کے محترمین، سب متنازعہ ہوتے رہے۔ مگر وہ معاملہ فہم بزرگ تھے ، ہیں۔

            فی الحال گلڈ کا جریدہ ’’ہم قلم‘‘ سالگرہ نمبر ۱۹۶۱ء دیکھ لیا جائے۔ بہت سے کتب خانوں میں اور سینئر ادیبوں کے پاس ہو گا۔ اس وقت بھی میں نے ان تمام شبہات، بیانات اور تاثرات کو اپنی سالانہ رپورٹ میں دہرا رکھا ہے جو اس میں چھپی ہوئی ہے۔ لطف یہ ہے کہ اکادمی ادبیات سے مارشل لاء میں تعاون اور فائدے اٹھانے کا ذکر نہیں ہوتا۔ اب بھی سبھی جانتے ہیں جسے جو ملتا ہے چھوڑتا نہیں جبکہ اکادمی متنازعہ فیہ رہی اور اب بھی ہے۔ گلڈ پر ایک علیحدہ کتاب آ رہی ہے۔ یہ انٹرویو تمام باتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اتنا یاد دلاتا ہوں کہ ہمارے زمانے میں۔ (اس شائع شدہ ریکارڈ کے مطابق)

۱۔ کنونشن نجی شعبے کے اور ادیبوں کے اپنے خرچ پر ہوا تھا۔

۲۔ کنونشن کے آغاز سے ہی عہدیداروں کے معاملے میں انتخاب کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اس وقت اور اگلے برسوں میں سینکڑوں امیدوار۔ سب انتخابات کے نتائج اور لوگوں کے نام ریکارڈ پر ہیں۔ آپ حیرت انگیز طور پر تمام سیاسی مکاتب فکر کے ادیبوں کو ایک جگہ دیکھیں گے۔ سب کی اپنی اپنی وجوہ تھیں۔ میں کہانی نہیں بیان کر رہا ہوں۔ مگر وہ پہلے تجربے سے Fascinateبھی ہو رہے تھے۔

۳۔ ہمارا قرضوں سے خرید کر حاصل کیا ہوا اور قرض ادا کرنے کے بعد اب بھی گلڈ کے پاس تقریباً چودہ کروڑ کا اثاثہ لاہور والی عمارت اور زمین کی صورت میں موجود ہے۔

۴۔ سینکڑوں بڑے چھوٹے ادیب پچھلے مارشل لاء کے زمانے میں سرکاری خرچ کی مہمانی پر اکادمی ادبیات کے بلائے ہوئے جلسوں میں جاتے رہے اور جاتے ہیں۔ وہاں کبھی کوئی انتخاب عہدہ داران نہیں ہوا۔ اکادمی کے سربراہ نامزد نیم سرکاری ملازم ہوتے ہیں اور منتظمہ بھی سو فی صد نامزد ………………

پچھلے مارشل لا کے حالات اور آج ملا کر پورا پسِ منظر سامنے رکھا جائے تو گلڈ کا قیام اور کام شاید اتنا متنازعہ بھی نظر نہ آئے ………… میرا خیال ہے اب یہ بستہ بند ہی کر دیا جائے تو بہتر ہے۔ میری اہمیت اتنی ہے ہی کہاں کہ پرانی باتیں دہرا دہرا کر مجھے مسلسل مجروح کرتے رہیں۔ خدا را مجھے مت کہنے دیجئے کہ کب کب کون کون صرف اپنی خاطر کن کن سمجھوتوں میں مبتلا ہوتا رہا ہے۔ کسی دوسرے کے لئے کچھ نہیں کیا اور جب موقع ملے میری گلڈ یت کا رونا لے بیٹھتا ہے۔ بلکہ پرانوں میں سے بیشتر رکن بھی تھے بہ مجبوری نہیں بلکہ الیکشن بھی لڑتے تھے۔ انعام ملتا تو وہ بھی لیتے تھے۔

٭       ہمارے ناقص علم کے مطابق آپ کی زندگی کا سنجیدہ دور گلڈ کے تلخ تجربے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اسی کے بعد آپ کا سفرنامہ آتا ہے آپ کی کالم نگاری شروع ہوتی ہے آپ کے دوہوں میں نکھار آتا ہے ………… ملی نغموں کی کسک آپ کے دل میں کب اور کیونکر نمایاں ہوئی اور کس سبب آپ اس مقدس فریضے سے کسی قدر کم تعلق ہو گئے؟

٭٭   سنجیدہ دور سے مراد کیا ہے؟ یہ میں نہیں سمجھا۔ میری پہلے کتاب تو ۱۹۵۷ء میں چھپ گئی تھی۔ ۵۸ کے وسط تک میری شہرت خاصی دور پہنچ چکی تھی۔ میں ۱۹۵۶ء میں اخترالایمان کا خاکہ لکھ چکا تھا (مطبوعہ نیا دور ، ۱۹۵۶ء) ہاؤسنگ سوسائٹی کا الیکشن لڑ کر کامیاب ہو چکا تھا۔ کئی ٹریڈ یونین ٹائپ اداروں میں منتخب ہو کر کام کر چکا تھا۔ کنونشن بلاتے وقت میری عمر ۳۲ برس کی ہو چکی تھی ہاں مجھ میں کوئی خاص سیاسی سماجی بالغ نظری نہیں تھی۔ (شاید اب بھی پیدا نہیں ہوئی) سفرنامے ۱۹۶۳ء سے شروع کئے۔ وہ بھی کالم نگاری کے ذیل میں آ سکتے ہیں کہ سلسلہ وار اور باقاعدہ تھے۔ دوہوں میں نکھار تو بہتوں کی رائے میں ۱۹۴۵ء سے ہی آ گیا تھا۔ ملی نغمے البتہ ۱۹۶۴ء سے شروع ہوئے جب رن آف کچھ کی لڑائیاں شروع ہوئیں اور پھر جلد پہلی بڑی جنگ ۱۹۶۵ء آ گئی۔

            میں اس مقدس فریضے سے کم تعلق نہیں ہوا۔ مگر یہ فریضہ بنیادی طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہی پوری طرح ادا ہو سکتا ہے ورنہ ملی نظمیں کیا کم تھیں۔ میں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں سجاد میر سے یہ کہا کہ قومی نغمے کلام اقبال کے چند گوشوں کی میڈیا توسیع ہیں۔ دراصل یہ نغمے ’’پیشتر‘‘ عوام کے لئے لکھے گئے تھے۔ جن کی اکثریت خواندہ نہیں اور جو ان سے پہلے ریڈیو پر صرف فلمی گانے سنتے تھے۔ (ٹی وی بعد میں آیا) جب اللہ کی مہربانی سے میرے نغمے بہت مقبول ہوتے گئے اور دوسرے بھی اس طرف آئے اور کافی کامیاب رہے تو اول میں خوش ہوا کہ ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آ رہی ہے۔ دوم صرف میرے لئے جو جگہ بنی تھی وہ پھیلی اور اسے دوسرے معاصرین بہت اچھی پر کرنے لگے۔ بہرحال آپ دیکھیں گے کہ ۱۹۷۶ء تک میں نے زیادہ نغمے لکھے ہیں۔ ۱۹۷۷ء میں مجھے PPPکا ٹکٹ برائے قومی اسمبلی ملا۔ میں الیکشن لڑا اور ہار گیا۔ پھر مارشل لاء لگ گیا۔ چند مہینے کو میری نوکری بھی گئی۔ میرا نام وائٹ پیپر میں بھی آیا۔ نہ جانے کیا کچھ گزری جن غیر سیاسی کارکنوں (اساتذہ، بینکر ملازمین وغیرہ) نے میرے الیکشن میں محض میری خاطر کام کیا تھا سخت دھمکیوں اور خطروں سے دوچار تھے۔ انہیں بچانا تھا۔ وہ سیاسی کارکن نہ تھے۔ بال بچوں والے تھے۔ مجھے کتنے عذاب اٹھانے پڑے ہیں؟ ایک پوری کہانی ہے چونکہ مجھ پر کوئی الزام بددیانتی یا الائٹمنٹ ،پرمٹ وغیرہ لینے کا نہیں تھا اس لئے میرے خلاف کوئی فوجداری کاروائی نہیں ہوئی۔ پوچھ گچھ ، ذہنی ٹارچر، بہرحال جناب غلام اسحق خان کی کوششوں سے میری نوکری چند مہینے بعد بحال کر دی گئی۔ مگر عملاً میں ریڈیو، ٹی وی پر اس تمام مارشل لاء کے زمانے میں ممنوع رہا۔ اتنے برس جیوے پاکستان کے علاوہ جسے قتل کرنے کے لئے کسی مارشل لاء کو بھی بڑی ہمت چاہئے میرا کوئی نغمہ ان میڈیا نے نہیں چلایا۔ نئے کا سوال کہاں پیدا ہوتا تھا کہ لکھواتے اور سنوارتے یا دکھاتے۔ پھر بھی میں نے چند لکھے اور وہ آہستہ آہستہ تقریبات چھ ستمبر، مارچ، اگست میں بنتے رہے۔ اس دوران میں اتنے طویل امتناع نے زیادہ بڑا خلاء بھی پیدا کیا اور میرے خلاف غیر ضروری حسدو سازش کو بھی زیادہ کامیاب کر دیا۔ غیر ضروری اس لئے کہتا ہوں کہ میں اجارہ داری کا قائل نہیں۔ میں تو دوسروں کو خود اس طرف لانا چاہتا تھا کہ یہ ایک قومی ضرورت ہے۔ جتنی بہتر ہو سکے جتنے لوگ کر سکیں۔پھر جونیئر لوگ بھی آ گئے۔ میں نہ تو وزیروں سے ہاب ناب کرتا تھا۔ اب بھی نہیں کرتا نہ ٹی وی کے متعلقہ افسران سے مطلوبہ پی۔ آر کا قائل کبھی دوسرے لوگوں کے رستے میں حائل بھی نہیں ہونا چاہا۔ ایک رجحان بحمد اللہ قائم ہو گیا۔ آپ نے دیکھا کہ یہ میدان وسیع ہوتا گیا ہے۔ سبھی کا کام ایک آدمی تو نہیں کر سکتا۔ پھر میری دو شرائط بھی ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ دھن میری مرضی سے اور میری منظوری سے بنے گی۔ وہ عموماً سہیل رعنا بناتے تھے۔ وہ ٹی وی کے آنے کے بعد ریڈیو پر تو جاتے ہی کم تھے۔ پھر مہنگے بھی ہو گئے۔ کمپوزر مجھے نیاز صاحب اور خلیل صاحب بھی پسند تھے کہ ساتھ کام کر سکتے تھے۔ خلیل صاحب لاہور میں ہیں۔ نیاز کو بوجوہ بعض پروڈیوسرپسند نہیں کرتے۔ میں اپنے اس انتخاب پر اس لئے زور دیتا ہوں کہ ملی نغمے ملی یا قومی نظم سے مختلف تخلیق ہے۔ اس میں ادبی جمالیات اور فکری تراوشیں آسان زبان میں آ جائیں تو کیا بات ہے لیکن اس کا اصل مقصد عام پاکستانی کے دل میں اتر کر اسے اپنے ساتھ لینا ہے جس کے لئے مؤثر دھن نہایت ضروری ہے۔ ورنہ ادب لکھئے ، نظم، افسانہ، مقالہ یہاں تک کہ کالم بھی۔ سو وہ دوسرے مقامات ہیں۔ میں اپنے نغموں کو ضائع کرنا نہیں چاہوں گا۔ میں چاہوں گا کہ وہ مقبول اور اس لئے مؤثر ہوں۔ پاکستانی دلوں کی دھڑکنیں بنے رہیں۔ الحمد للہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ بہرحال امتناع کے کئی سال اور حکومتوں کی تبدیلیوں ، کچھ سخت کالموں اور جگہ گھیرتے رہنے کی وجہ سے میرے نغموں اور ان کے ٹیلی کاسٹ ہونے کے موقع کم ہوتے گئے۔ میں اب بھی کبھی کبھی لکھتا ہوں مگر مارشل لاء میں تو ممنوع تھا ہی بعد میں کسی حکومت سے نزدیک یا افسران پر گاہے گاہے تنقید کی وجہ سے ان کو پسندیدہ نہیں رہا۔ (میرے کالم ملاحظہ ہوں جن میں گاہے ماہے یہ سب جھلکتا رہا ہے) اب بنیادی بات یہ ہے کہ ان کے بولوں کے مطابق موسیقی اور آواز کے ساتھ متعین کیا جائے۔ جب تک مجھے پروڈکشن پر اطمینان نہ ہو میں ان کی طلب پر بھی نہیں دیتا۔ لکھ کر رکھ دیتا ہوں۔ کبھی کوئی کام میں لے آئے گا۔ لیکن یہ بھی سوچئے کہ جو کنٹری بیوشن کر دیا گیا وہ کافی نہیں۔ کیا وہ رجحان ساز ثابت نہیں ہوا۔ اگر نہیں تو میں گفتگو آگے نہیں چلاؤں گا۔ عوام میں مقبولیت بعض خواص میں کم و قری کا باعث بھی ہو جاتی ہے کہ دونوں کی طبقاتی نفسیات مختلف ہوتی ہے اگر ہاں تو خود ہی آگے چلے گی …… بس اللہ کا ہزار شکر ہے شکایتیں چند برس رہیں اب وہ بھی نہیں ہیں۔ کس کس کا کیا کیا تذکرہ کروں۔ یہ ہمارا قومی مزاج ہے کہ کوئی کسی شعبہ حیات میں ابھرتا نظر آئے تو اس کی کونچیں کاٹ دیتے ہیں ہاں وہ مقابلہ پر اتر آئے اور مقابلے میں مروجہ حربے استعمال کرنے کی ذلت مول لے تو اور بات ہے۔ مجھے اس مقابلے کی ضرورت نہیں تھی نہ ہے۔ دوسروں کو بھی تو آنا چاہئے۔ اجارہ میری طبیعت میں نہیں رہا۔ مزید کام کے لئے تیار ضرور ہوں اور کسی معاوضے کے بغیر مگر از خود کسی کے پاس نہیں جا سکتا۔ دراصل اسلام آباد میں جو بیوروکریسی سے آمیز ہو کر بظاہر پھنے خان بنے رہتے ہوئے ایک خاص قسم کی پی آر مروج ہے وہی بڑے بڑے پروگرام اور معاوضے مقامات اور انعامات تک دلواتی ہے۔ میرا مزاج ہمیشہ سے سخت خود داری یا بقول کسے کسی قدر سرکشی کا ہے۔ علاوہ اس کے میرے سب جاننے والے جانتے ہیں آپ ’’شہاب نامہ‘‘ دیکھ لیجئے۔ ’’شہاب نگر‘‘ میں شہاب صاحب کا انٹرویو دیکھ لیجئے۔میرے بارے میں سلیم احمد کا مضمون دیکھ لیجئے۔ ۱۹۵۷ء تک میں الطاف گوہر صاحب کا میرے مجموعے پر ریڈیائی تبصرہ دیکھ لیجئے۔ محمد طفیل کا مجھ پر خاکہ دیکھ لیجئے۔ آپ کو اس طرف واضح اشارے ملیں گے۔ (میرے سینکڑوں کالم) تو ریکارڈ پر ہیں ہی۔ وہ تو لاکھوں کے سامنے جاتے رہے ہیں۔ لوگ زبانی ہیرو بنتے ہیں میں تو ریکارڈ پر ہوں۔ میں نوکری میں بھی کسی بڑے کی دھونس میں نہیں آیا۔ نقصان سو اٹھائے۔ سو گزر گئی۔ اس مزاج کے ساتھ وزارت اطلاعات یا پی ٹی وی وغیرہ میں جا کر کیا اشارے دوں کہ میں حاضر ہوں۔ ویسے میں اب بھی حاضر ہوں کہ میں اب بھی قومی نغموں کو عوام و خواص میں عشق وطن اور مقاصد اعلیٰ کے لئے ایک بہت موثر میڈیم سمجھتا ہوں (گو بعض ہائی براؤ اور نقاد ادیب) غالباً اپنی سچائی میں ان سادہ بولوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ انہیں ادب نہ مانا۔ مگر مجھے ان کے ادب منوانے پر اصرار نہیں۔ میں نے کبھی اپنی کسی نثر یا گفتگو میں مدافعت نہیں کی۔ بہرحال میڈیا کو فلمی اجارے یعنی فلمی گیتوں کے ادارے سے تو آزاد کرا لیا۔ عام آدمی کو کچھ دے گیا اور دوسروں سے بھی دلوایا۔ بتاتا چلوں کہ اب بھی جی ایچ کیو میوزک کمیٹی کے لئے قطعاً بے معاوضہ کئی نغمات لکھے جو بحریہ اور فوج کی چند ریجمنٹوں میں منظور ہوتے رہتے ہیں۔ میں نے تمام فوجی بیوگل کالز کے رتھویزی بولوں کو نہایت مختصر دورانیوں کے ساتھ ، قومی زبان میں منتقل کر دیا ہے۔ بہت سی رجمنٹوں کے لئے خود فوجی افسران کے لکھے ہوئے نغمے پیش کرتے ہوئے منظور کرائے ہیں اور کوئی بھی جی ایچ کیو (میوزک اسکول) سے پوچھ سکتا ہے کہ میں نے خاصی محنت شاقہ کی مگر اپنے کام کا کسی بھی شکل میں کوئی معاوضہ نہیں لیا جبکہ معاوضہ پیش ہوتا رہا ہے۔ میں کوئی امیر آدمی نہیں رہا لیکن اس کام کو پیشہ ورانہ نوعیت سے ارفع جان کر کیا ہے۔ نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے۔

٭       مزاجاً آپ زندہ دل اور رومان پسند واقع ہوئے ہیں آپ کی شاعری بھی جا بجا اس کی گواہی دیتی نظر آتی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ آپ کا نثری آہنگ خاصا خشک بے ربط اور مبلغانہ ہوتا جا رہا ہے اس کا سبب بنکنگ کے شعبہ سے وابستگی ہے یا انجمن ترقی اردو کی مصروفیات؟

٭٭   زندہ دلی اور رومان کو بے تبصرہ جانے دیجئے کہ وہ بیان ہے نثری آہنگ کی خشکی میرے رائے کے مطابق سفر ناموں میں تو قطعاً نہیں ہے۔ دوسرے کالموں کو جو مقصدی ہوتے ہیں ادبی لحاظ سے دلچسپ بنانے کے لئے وقت چاہئے یا ابن انشاء جیسی خداداد اور بے مثال صلاحیت۔ کالم میں نے یک نشستی اور ہزار مصروفیات کے ساتھ ساتھ لکھے ہیں۔ پروازوں میں بھی۔ بیرونی دوروں میں بھی بے ربطی آپ کا تاثر ہے۔ بجا ہو گا مگر کچھ لوگ اسی کو تنوع اور اسٹائل قرار دیتے ہیں مبلغانہ کا مجھے اقرار ہے کالموں سے میرا بنیادی مقصد ہی اپنی فکر کی آسان تبلیغ تھا اور ہے۔ پچیس برس بے معاوضہ لکھے (جب تک ریٹائرڈ نہیں ہوا تھا) بہت نہ سہی کچھ احتیاطیں بھی لازم جو نیم سرکاری ملازمت اور کراچی جیسے پیچیدہ اور ہمہ وقت مشتعل شہر میں رہنے کی وجہ سے کرنی پڑتی تھیں۔ کچھ اب آزاد ہونے کے بعد بھی کرنی پڑتی ہیں۔ محض ایک دو کالم کے لئے خفیہ حکومتی اداروں کی زد میں آنا جب کہ اب تو حکومت اقرار بھی نہیں کرتی کہ پکڑ لیا ہے دوسرے کسی سیاسی گروپ سے گولی کھانا ہاتھ پاؤں تڑوانا ذرا سی سیاسی خفگی پر اغواء ہو جانا کوئی مجاہدانہ بات نہیں جب کہ یہ بھی یقین نہ ہو کہ ایسی موت کو شہادت سمجھا جائے گا یا قاتل ہی پکڑ لئے جائیں گے۔ میں باقاعدہ صحافی نہیں میرے لئے ان کی انجمن بھی کھڑے ہو جانے کی پابند نہیں بہت ہوا تو اظہار ہمدردی کر دے گی۔ اب آپ اس شہر میں بیٹھ کر بہت سی باتیں اس طرح نہیں لکھ سکتے جس طرح دوسرے شہروں میں بیٹھ کر لکھ سکتے ہیں پھر بھی اس انکسار کے باوجود خدا را پڑھ کر دیکھئے کہ کیا کیا اور کس کس طرح لکھے گیا ہوں۔ بہرحال اس کا سبب نہ بینکنگ شعبے سے تعلق ہے نہ انجمن کی مصروفیات سے انجمن کا ذکر آیا تو میں اپنے کوئی ڈیڑھ سوشائع شدہ مقدموں پر مشتمل دو جلدوں حرفے چند اول دوم پر توجہ کی دعوت دوں گا اور ان پر جناب مشفق خواجہ جیسے فاضل اور بے باک تبصرہ نگار کی رائے پر بھی اور ان تبصروں پر بھی جو آئے اور آتے رہتے ہیں ویسے مجھے اپنی نثر کے اسٹائل پر کوئی ناز نہیں نہ اس کا دفاع کرنا ہے۔ البتہ اس حد تک مطمئن ہوں کہ ایسی سینکڑوں باتیں کہہ دی ہیں۔ ایسی بہت سی کتابوں اور ایسے بہت سے موضوعات پر لکھ دیا ہے جن کی طرف اس سے پہلے اخباروں میں لکھنے والے بہت قارئین کی توجہ کم کم مبذول کراتے تھے۔ میں بیانیہ اور سجاوٹ کے مباحث میں بے شمار مغربی حوالوں سے حصہ لے سکتا ہوں مگر وہ میرے لئے میری نثر نویسی کے مقاصد نہیں۔ میری اظہاریہ نویسی تخلیق ادب اور اس کی مروجہ اقدار معیار سے جڑی ہوئی نہیں تو نہ ہو۔ مجھے نثر میں مشتاق یوسفی یا مختار مسعود کے Elitistمقامات درکار نہیں۔ اول الذکر تو اب بڑے ہی مثالی نثر نگار ہو گئے ہیں۔ گو مجھ سے اپنے بیان کے مطابق دونوں حضرات مہینوں میں دو دو چار چار صفحے لکھ پاتے ہیں (کاش میں ان جیسا ایک پیراگراف بھی لکھ سکتا وہ واقعی بڑی گاڑھی لذیذ اور خوبصورت تخلیقات ہوتی ہیں عام آدمی کے لئے کتنی مفید شاید ایک دن بہت مفید اور بڑی یادگاریں بھی) لیکن میرا مقصد اور میدان الگ ہے مجھے بہت ہی معمولی استعداد کے پاکستانی قاری تک وہ بہت سی باتیں پہنچانی ہیں جو میری رائے میں اس کے لئے ضروری ہیں۔ کبھی کبھی کسی قدر برتر سطح کے قاری سے بھی خطاب کر لیتا ہوں۔ مگر ان کی تمام تر اہمیت کے باوجود وہ میرے اصل ہدف نہیں ہوتے۔ ادب کی حد تک آپ کے سامنے میری ناچیز شاعری موجود ہے یا سفرنامے یا میرے پیش لفظ اچھے فقرے تراشنے میں وقت لگتا ہے وہ مجھے برسوں میسر نہیں ہوا۔ اب کسی قدر ملا ہے تب بھی کام اتنے ہیں کہ صناعی اور مصوری کے لئے جو تنہائی عملی لا تعلقی درکار ہے میسر نہیں۔ دماغ کے خلیے بھی اس عمر میں اتنے کام نہیں آ سکتے کہ شعر بھی کہوں اورآراستہ نثر بھی لکھوں۔ کوشش یہ ہے کہ شعر پر زیادہ توجہ دوں جو بہرحال قبیلہ فنون میں سے سے برتر قبیلہ تسلیم کیا گیا ہے۔ نثر اسی طرح جاری رہے گی۔ ہاں اگر لہر آئی تو چند خاکے اور ایک دو سفرنامے مکمل کرنے چاہوں گا۔ انہیں دیکھئے گا ………… شاید وہ مکمل نہ ہو پائیں۔ میں زینے پر تیزی سے نیچے اتر رہا ہوں۔ آخر کتنے معیاری کام کر سکوں گا۔ ہاں یاد رہے کہ بعض مقدار Quantityجو ہے وہ معیار Qualityمیں بدل جاتی ہے۔ مادہ ، توانائی ، مادہ کا فارمولا، یہاں بھی نافذ ہو سکتا ہے مگر اب اپنا ججمنٹ شروع نہ ہو جائے۔ اس بحث کے ہزار گوشے ہیں مجموعی ججمنٹ آپ پر ، قارئین پر ، وقت پر چھوڑا۔ اس گذارش کے ساتھ کہ مقدار سے ڈرے بغیر اسے پڑھ کر ہی فیصلہ کیا جائے تو سچا ہو گا ورنہ …………

٭       اہل قلم برادری کی خدمت کے نام پر مختلف اوقات میں آپ کی مختلف النوع مصروفیات اور ہمہ جہتی کے برعکس ایک طبقہ فکر کے خیال میں یہ آپ کے اپنے اندر چھپی اقتدار کی خواہش کی تکمیل و تسکین کا ذریعہ یا قد کاٹھ بڑھانے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش تھی یا ہے؟

٭٭   بلا تکلف عرض کر دیا جائے کہ ایسے ہی خیالات اور سوالات نے ہمارے ملک کے بیشتر شعبوں میں رضاکاروں کی ہمت شکنی کی ہے۔ اب زیادہ تر تنخواہ دار ہی کام کرنے آگے بڑھتے ہیں۔ اب کوئی بڑا مولانا ایدھی جیسا ہی رضاکاری پر قائم رہتا ہے (اور ان پر بھی شبہات اور سوالات ہو چکے ہیں) لیکن چونکہ یہ ایک اہم ذاتی قسم کا سوال ہے اس لئے آئیے میری گزارشات پر غور فرمائیے۔ امید ہے گو یقین نہیں کہ ہمارے اندر کی تھرڈ ورلڈیت اب بھی میری ناچیز بے اقتدار حیثیت کی وجہ سے انہیں اس طرح سمجھے ہی نہیں جیسے میں سمجھانا چاہتا ہوں بہرحال میرا کام آپ کے ذریعے ہی سہی ریکارڈ پر آنا ہے۔

۱۔ اپنا نفسیاتی تجزیہ تو میں کر نہیں سکتا۔ وہ بڑے ذہین ماہرین کرتے ہیں اور ہمیشہ درست نتائج اخذ نہیں کر پاتے۔ کسی انسان کی کون سی چھپی ہوئی خواہش کیا کام کرنے پر اکساتی ہے یہ ایک بڑی اور دوسری بحث ہے اپنے بارے میں تعلی تغیر، دفاع، معذرت یہ سب بھی بڑی طوالت طلب باتیں ہیں فی الوقت میں انہیں ضروری بھی نہیں سمجھتا۔ یہ انٹرویو یوں ہی بہت طویل ہوتا معلوم ہو رہا ہے۔ Ambitiousہونے کے کیا معنی ہیں؟ مختلف سطحوں کے ذہن مختلف انداز میں سوچتے ہیں یہ بھی ہے کہ جو کچھ نہ کریں یا نہ کر سکیں وہ اپنی نا اہلی کو بے کسی فلسفیانہ بے نیازی فقیری ہائی تھنکنگ کے نام پر بے عملی کا جواز پیدا کرتے ہوئے ایسی الزام تراشی کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں میرا بنیادی قصور یہ ہے کہ میں نے پاکستان میں بڑی کم حیثیت سے آغاز کیا لیکن میں نے صرف گلڈ بنانے میں ہی عملیت ثابت نہیں کی آپ شروع سے سنئے ٹریک ریکارڈ دیکھئے میں Ambitiousہوں تو ہمیشہ سے ہوں۔

۲۔ سال دوم میں بزم اردو کے معتمدی کا الیکشن لڑا اتفاق سے کامیاب بھی ہوا۔ نائب صدر جناب سعدالخیری سابق سفیر پاکستان سال چہارم میں بزم ادب کے لئے پھر الیکشن لڑا اتفاق سے کامیاب بھی ہوا۔ بزم ادب خوب چلائی۔ ہماری روایات کے مطابق صدر تو استاد فنون ہوتے تھے۔ طلباء سال دوم میں معتمد اور سال چہارم میں بذریعہ انتخاب صدر ہوا کرتے تھے۔

۳۔ کالج تعلیم ختم کرتے کرتے شادی کر لی تھی۔ اس سلسلے میں والیِ ریاست سے اپنے حقوق کے معاملے میں کچھ بے مزگی پیدا ہوئی تو روزگار کی فکر لاحق ہو گئی۔ عمر انیس برس تعلیم صرف بی اے تک خاندانی روایات کے مطابق اپنی ریاست میں مجسٹریٹی اور پھر شاید دیوانی مل جاتی مگر اس پورے نظام سے نفور بڑھ گیا تھا۔ جنگ ختم ہو رہی تھی با روزگار لوگ بھی چھانٹی کی زد میں آ رہے تھے۔ بیوی کو بھی دہلی لے آیا تھا۔ تین برس طرح طرح کے پاپڑ بیلے۔ پونہ، بمبئی، حیدر آباد گیا کسی خدمت خلق کا موقع ہی نہ تھا۔ صبح شام کسی نہ کسی بہانے روٹی کمانے اور تلاش روزگار میں گزرتے تھے۔ اگست ۱۹۴۷ء میں پاکستان پہنچا۔ کامرس منسٹری میں اسسٹنٹ مگر یہاں آتے ہیں ’’انجمن عمال حکومت پاکستان‘‘ کی تشکیل میں حصہ لیا۔ رکنیت کئی ہزار صدر آغا محمد اشرف مرحوم (شاگرد پطرس وزارت اطلاعات، پھر بی بی سی پھر یو این) معتمد رشید تبسم (کالج کے اولڈ بوائے بھی تھے) نائب معتمد میں ………… سب بذریعہ انتخاب۔ ایک ٹریڈ یونین نما انجمن جسے حکومت پسند نہیں کرتی تھی۔ جلسے ، مطالبے ، احتجاج، نوبت گرفتاری تک پہنچ گئی ، بچ گئے۔ مطالبات جزوی طور پر مان لئے گئے۔ یہ سب اس زمانے کے اخبارات میں موجود ہے۔ تنخواہوں کے لئے اسکیل جو بنائے وہ اس انجمن کی تحریکات اور قربانیوں سے ہی بنے۔

۴۔       کراچی میں پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (پی ای سی ایچ ایس) مخفف سوسائٹی ۴۹ میل کل طوالت کی سڑکیں ہزار ہا مکانات) کی بنیاد ڈالنے والوں میں شامل اور متحرک رہا۔ پہلے صدر بہار شریف کے جناب سید امام تھے۔ (ڈپٹی سیکریٹری درجے کے افسر) وہ اس سوسائٹی کے بانی کہلاتے ہیں۔ اور بجا طور۔ لیکن وہ اتنے بڑے منصوبے کا بار کیسے اٹھا سکتے تھے انہوں نے ایک مختصر سی ٹیم بنائی۔ میں حاضر …… ہم دن میں کام کرتے راتوں کو لالٹین ہاتھ میں لے کر ٹوٹی پھوٹی جیپوں میں کبھی کبھی سائیکلوں پر بھی اس اونچے علاقے کی مسافت کرتے۔ جہاں یہ اتنی بڑی ہاؤسنگ اسکیم بن گئی اور قائم ہے ہزاروں مختلف سائز کے پلاٹ نکالے گئے۔ داخلے کی فیس پچاس روپے زمین کی قیمت ایک روپیہ فی گز۔ خدمات و ترقیات کا معاوضہ تین روپے فی گز چھ ماہی قسطوں میں بے گھر سرکاری ملازمین ٹوٹ پڑے یہ کسی صوبے سے مخصوص نہ تھی نہ ہے وغیرہ وغیرہ مگر پھر آہستہ آہستہ دہلی اور دیگر مقامات بطور خاص حیدر آباد دکن کے فسادات نے اتنے رشتہ داروں کو میرے گھر لا پھینکا کہ خود روٹی کھانی مشکل ہو گئی۔ رات کو روزنامہ ’’مسلمان‘‘ میں شاعر کرار نوری کے ساتھ ترجمے اور سب ایڈیٹنگ کا کام شروع کر دیا۔ اپنے آپ کو چھپاتا بھی تھا کیونکہ سرکاری ملازمین بلا اجازت کوئی اور کام نہیں کر سکتے۔ اس لئے سوسائٹی کے انتخابات میں اس وقت حصہ نہ لے سکا۔ یوں بھی کم عمر تھا۔ امام صاحب کی پالیسی تھی کہ با اثر با اختیار افسروں کی توجہ کو زیادہ اہمیت دی جائے کیونکہ بہت سے کام انہی کے اختیار میں تھے۔ اپنے پاس اتنے دام بھی نہ تھے کہ اس قیمت پر بھی کوئی پلاٹ لیتا۔ ۱۹۵۰ء میں تو یہ حالت تھی کہ سی ایس ایس کے امتحان میں داخلہ فیس کے لئے وہ پچاس روپے والی رکنیت بھی ختم کر کے رقم واپس لی اور داخلے کے لئے بھیج دی۔ مگر پھر ۵۵۔۱۹۵۴میں واپس ہوا اور آگے بقول کسے بڑے اہم واقعات پیش آئے۔ حوالہ آگے۔ امتحان کے لئے ایک دن تیاری کی چھٹی نہیں ملی لوگ مذاق اڑاتے تھے۔ آہا اب نواب صاحب افسر بن کر حکومت کریں گے۔ نہ جانے کیا پڑھا، کیسے پڑھا جب کہ یہ جھگڑے اور مشاعرے بھی جاری تھے۔

۵۔        ۱۹۵۱ء میں سی ایس ایس پاس کر کے ۱۹۵۲ء میں محکمہ انکم ٹیکس پہنچا۔ وہاں حالات کار نہایت خراب۔محکمے میں اکثریت انسپکٹری سے ترقی پائے ہوئے بزرگوں کی تھی۔ مقابلے کے امتحان سے آئے ہوئے افسر بہت کم تھے۔ (مقابلے شروع ہی ۱۹۴۹ء سے ہوئے تھے یا دوچار قبل از تقسیم مخصوص امتحانات کے ذریعے آ گئے تھے) سی ایس پی والے اس محکمے کو بھی ایک زبردست مملکت قرار دیتے تھے۔ ہمارے لئے سرکاری مکانوں کی کوئی گنجائش نہ تھی وغیرہ وغیرہ ………… یوں یہ محکمہ ۱۹۲۲ء سے قائم تھا۔ کبھی کسی خود آگاہی کسی حق طلبی کی روایت قائم نہیں ہوئی تھی۔ میں نے چند مہینے کے اندر اندر انکم ٹیکس آفیسرز ایسوسی ایشن بنائی۔ انتخاب ہوا مجھے معتمد منتخب کیا گیا۔ کابینہ ڈویژن اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جانا شروع کیا۔ اجلاس ، مطالبے عرضداشتیں ، احتجاج۔ یقیناً افسروں کو ٹریڈ یونین بنانے کی اجازت نہ تھی۔ اب بھی نہیں ہے اس لئے اسے ایسوسی ایشن کہا۔ بعض ہمدرد پیدا کئے۔ گارڈن روڈ پر افسران کوارٹرز بن رہے تھے۔ اب IORکہلاتے ہیں۔ آٹھ اپنی سروس کے لئے الاٹ کرائے۔ اپنے مکانوں کے لئے سستی قیمت پر پلاٹ حاصل کرنے کی طرح ڈالی (زمین ملی ذاتی نہیں بلکہ محکمے کے نام۔ وہی پھیل کر بعد میں کالونی بھی بنی۔ ۱۹۵۶ء تک صدر ریاست میجر جنرل سکندر، مرزا کو اپنی انجمن کے سالانہ عشائیے میں لے آیا۔ قمرالاسلام صاحب ممبر بورڈ آف ریونیو بعد میں ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن اور سفیر پاکستان اور صدر ٹیکسیشن کمیشن وغیرہ ہوئے) سی ایس پی تھے مگر ہمارے کمشنر بھی رہ چکے تھے ہماری سروس سے ہمدردی رکھتے تھے۔ علم اور شعر و ادب سے ذوق بھی۔ انہوں نے خاصی مراعات دلوائیں۔ اس وقت کے افسران ریٹائرڈ تو ہو چکے ہیں مگر اکثر زندہ ہیں۔ میں ۱۹۵۹ء میں محکمے سے باہر ڈیپوٹیشن پر چلا گیا۔ ایسوسی ایشن چلتی رہی۔ مختلف ادوار میں بھی حسب سابق قائم نہ رہی مگر کچھ نہ کچھ مراعات یا حقوق ملتے رہے۔

۶۔       ۱۹۵۵ء میں پی سی ایچ ایس (سوسائٹی) کی رکنیت کا احیاء کرایا۔ ۱۹۵۶ء میں منتظمہ کے لئے انتخاب لڑا رکنیت سات ہزار کے قریب ہو چکی تھی۔ بیشتر زمین کے پلاٹ بن گئے تھے۔ مکان تیزی سے بن رہے تھے۔ مسلسل انتخاب ضروری اور سخت مشکل ہو گیا تھا۔ بڑے افسران گروپ بندیاں کر کر کے خود بھی آتے اورزیر اثر جونیئرز کو پینل بنوا کر لڑواتے۔ میں آزاد لڑا۔ تھوڑے سے ووٹوں سے ہار گیا۔ بے ایمانی کا شبہ ہوا مرافعہ دائر کر دیا۔ وہاں کسی کے تبادلے سے منتظمہ میں ایک جگہ خالی ہوئی۔ ذیلی ضوابط کی رو سے ہارے ہوؤں میں نمبر ایک تھا۔ کوآپٹ کر لیا گیا۔ پھر بڑا طوفانی دور رہا۔ منتظمہ کے بڑے افسروں نے پلاٹ الاٹ کرنا اپنے اپنے اختیار میں رکھا تھا۔ ہم اپنا دخل بھی چاہتے تھے (اس وقت میرا کہیں کوئی پلاٹ یا مکان نہیں تھا) کشمکش ہوئی ہم جیتے۔ میں نے اپنے محکمے والوں کو پلاٹ الاٹ کرائے۔ ایک خود بھی لیا۔

            قمر الاسلام صاحب کو بھی الاٹ کیا۔ اگلا انتخاب اکتوبر ۱۹۵۸ء میں پھر لڑا۔ اپنے پینل کے ساتھ جیتا۔ اس وقت ان انتخابات میں اندر ہی اندر صوبائی بنیادیں بھی جڑ پکڑنے لگی تھیں۔ میں نے پینل میں بہاریوں کے ساتھ پنجابی پختون اور بنگلہ دیشی بھی رکھے۔ ریکارڈ ووٹ سے جیتا۔ جس دن نتائج آئے اسی رات مارشل لاء لگ گیا۔ میں نے اگلی شب کراچی کلب میں بیس آدمیوں یعنی پوری منتظمہ کا عشائیہ رکھا تھا۔ کلب والے اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ کئی بار پوچھا کیا منسوخ کر دیں۔ میں نے کہا ہم نے کسی کی چوری کی ہے وہ اس پورے کراچی کے کلبوں اور ہوٹلوں میں اس رات واحد عشائیہ ثابت ہوا۔ اس الیکشن بازی اور پبلک سروس کا ذکر سلیم احمد نے مجھ پر اپنے خاصے سخت مضمون میں کر رکھا ہے۔ وہ مجھے صرف شاعر دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ گریجویٹ بھی نہیں تھا مگر آہستہ اہستہ بہت پڑھ لکھ گیا۔ آخر آخر تو بہت سے نوجوانوں کے لئے پیر کا درجہ ہو گیا تھا۔ اس کا سفر علیحدہ مضمون ہے۔ جلد ہی گلڈ بن گیا تو میں اس سوسائٹی میں فعال نہ رہ سکا۔

            پہلے انجمن کے معاملات میں کوئی عملی دلچسپی لینے کا وقت اور موڈ نہیں تھا۔ بس مولوی صاحب کو گاہے گاہے سلام کرنے چلا جاتا تھاجیسے کہ سب جاتے تھے اور میرے بعض بزرگوں نواب منظور جنگ (حیدرآباد دکن) اختر اور سید ہاشمی فرید آبادی سے ان کے خصوصی روابط بھی رہ چکے تھے۔ ایک بار جب مولوی صاحب بہت ہی تنگ کر دیئے گئے۔ ابن انشاء مجھے ان کے پاس لے گئے۔ آگے ان کی لڑائی لڑنے کی کہانی ہے (ان کے آلام ان کے کتابچے ’’انجمن کا المیہ‘‘ میں موجود ہے) پھر وہ دو ڈھائی برس تک منتظمہ انجمن میں ان کی طرف سے میری نامزدگی اور ان کے بعد انجمن اور کالجوں کی معتمدی پر منتج ہوئی۔ میں نے انجمن اور کالجوں میں کیا کیا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ اسی وقت سے اب تک انجمن معتمد اعزازی ہوں۔ ۳۵ برس سے زیادہ گزر گئے (وہ کالج بھی ۱۹۷۳ء میں تعلیم کے ساتھ قومیائے گئے تھے)

۷) گلڈ۔ علیحدہ کہانی

۸) نیشنل بنک میں ۱۹۶۷ء میں آیا تھا۔ کبھی نیشنل بنک آفیسرز ایسوسی ایشن برائے نام قائم ہوئی تھی۔ بے حس پڑی تھی۔ گلڈ اور انجمن کی مصروفیات نے کوئی عہدہ داری تو نہیں کرنے دی۔ اسے خوب فعال کیا۔ منتظمہ سے قضیئے قصے ہوتے رہے۔

۹) گلڈ چھوڑے ۱۴ برس ہو گئے تھے۔ ہمارے دستور میں سیکریٹری جنرل مسلسل دو میقات سے زیادہ اس عہدہ پر نہیں رہ سکتا تھا۔ یوں بھی میں اس سے بہت دن متعلق رہ لیا تھا۔۱۹۷۰ء میں انتخاب منعقد کرایا۔ بنگلہ ادیب محبوب جمال زاہدی منتخب ہو گئے۔ مگر ایک ہی برس میں سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔ پھر ۱۹۷۵ء میں گلڈ کا صدر دفتر نئے دستور کے مطابق دوسرے صوبائی صدر مقام لاہور چلا گیا۔ میں سقوط ڈھاکہ سے دل شکستہ تھا ہی، گلڈ کی عدم فعالیت اور خود پر مسلسل اعتراضات سے جو آپ نے سوالات کی صورت میں بھی کئے ہیں بالکل دل برداشتہ ہو چکا تھا۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ کرتا رہا۔ بعض معاملے اہل معاملہ، میرے اور خدا کے علم میں ہیں۔ ان کی تشہیر جائز نہیں۔ بعض تعاون دیگراں بغیر نہیں چل سکتے تھے جب سبط علی صبا کا اچانک انتقال ہوا فوراً سبط علی صبا ٹرسٹ بنایا۔ انہیں میں نہیں جانتا تھا۔ کبھی ملا بھی نہیں تھا مگر حالات پڑھے تو بے چین ہو گیا۔ گلڈی خون گردش میں آ گیا۔ بعض نسبتاً خوش حال ادیبوں کو ذاتی خطوط لکھ کر اس کے لئے بینک اکاؤنٹ راولپنڈی میں براہ راست رقمیں منگائیں۔ مخدومی سید ضمیر جعفری صدر مقرر ہوئے۔ برادرم اختر ہوشیار پوری معتمد ………… میں نے کوئی عہدہ نہیں لیا ………… بوجوہ وہ ٹرسٹ مطلوبہ سطح پر کام نہ کر سکا۔ ہاں صبا فیملی کی تھوڑی بہت امداد ہو گئی۔ بی سی سی آئی سے بھی وظیفہ کرایا۔ ان کے بچے مجھے لکھتے رہتے ہیں۔ بڑے ہو گئے ہیں۔

۱۰) اردو کالج کی منتظمہ پر قومیائے جانے کے بعد بھی نامزد ہوا تو نہ جانے کتنا کام کیا۔ لاء کالج میں اردو کو ایل ایل ایم کا ذریعہ تدریس بنوانے میں بڑے کشٹ اٹھانے پڑے۔

۱۱) ۱۹۷۷ء میں بیٹھے بٹھائے قومی اسمبلی کے لئے پی پی پی کا ٹکٹ ملا۔ انتخاب لڑا اور ہارا (وہ علیحدہ کہانی ہے)

۱۲) ۱۹۸۸ء میں ڈاکٹر محبوب الحق وفاقی بجٹ بنا رہے تھے۔ میری نوکری (پاکستان بنکنگ کونسل میں) کا آخری سال تھا۔ اکادمی ادبیات بن چکی تھی مگر مطلوبہ سطحوں کے اور ضروری کام نہیں کر رہی تھی۔ اس سے تعرض نہ رکھا لیکن ڈاکٹر صاحب سے عرض کی کہ ادیبوں کو بلا سود ضرور آسان شرطوں پر قرض دینے کے لئے بجٹ کے حوالے سے ہی کچھ کر جائیں۔ انہوں نے سالانہ دو کڑور روپے قرض حسنہ بینکوں سے دلوانا منظور کیا۔ یہ اعلان بجٹ خطبے جون ۱۹۸۸ء میں موجود ہے۔ اس کے بعد میں نے بینکنگ کونسل سے جاتے جاتے یعنی ریٹائرڈ ہوتے ہوتے (۱) ضوابط اور طریق کار اور (۲) آنے والے مسودوں کو ادبی یا غیر ادبی قرار دینے والے ججوں کی نامزدگی بھی کرا دی تھی کیونکہ لوگ جنتریاں اور مناقشوں سے بھرپور نام نہاد مذہبی سیاسی اور ہر طرح کے مسودے بھیج سکتے تھے۔ مجھے گلڈ میں اس کا تجربہ تھا۔ ہمارے انعامات کے لئے ایسے ایسے موضوعات پر ایسی ایسی کتابیں آتی تھیں کہ الامان و الحفیظ۔

            بجٹ خطبے میں تو اعلان ہو ہی چکا تھا جب میں نے کونسل کے ذریعے تمام تیاریاں مکمل کر دیں تو اپنے کالموں میں کئی بار ذکر کیا۔ ادیبوں کو دعوت دی کہ اشاعتی تخمینوں کے ساتھ مسودے کونسل کو بھیجیں اور قرض حسنہ حاصل کریں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لکھا۔ فی ادیب عموماً پچاس ہزار کا قرض حسنہ مل سکتا تھا۔ صحافت صرف ذاتی اور خود کتاب کی ………… نیشنل بینک میں میرے ماتحت اور اب جونیئر شریک کار شیخ لال جانی ڈی جی بینکنگ کونسل نے بینکوں سے ضروری رابطہ پورا کر لیا تھا۔ میں خود نہ پہلے اپنے بینک (نیشنل بنک آف پاکستان) میں قرضوں کے شعبے کا انچارج رہا نہ کونسل میں …… میرے چلتے چلتے چند درخواستیں آ گئی تھیں۔ واضح رہے کہ نہ میں نے اپنے کسی مسودے کے لئے قرض مانگا نہ ملا۔ کن کن کو ملا یہ میں نہیں جانتا کیونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد سے میں کبھی بینکنگ کونسل نہیں گیا۔ اتنا معلوم ہے کہ اگلے کسی بجٹ میں یہ مد نہیں رکھی گئی۔

            اس گفتگو کا ما حصل : غیر شعوری کا حال تو میں نہیں جانتا۔ لیکن یہ ٹریک ریکارڈ کیا کہتا ہے اس کا فیصلہ آپ اور پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔ ویسے ان باتوں کا تخلیقی معاملات سے Assessmentسے تعلق کم کم ہوتا ہے۔ میں اس حوالہ سے خدمات سے خدانخواستہ کسی ادبی ججمنٹ میں رعایت کا مطالبہ نہیں کر رہا۔ وہ دوسرا شعبہ ہے۔ صرف جواب سوال ہے۔ ویسے اگر آپ بہت بڑے ادیبوں کے بھی نظریاتی اور کرداری تضادات دیکھنے بیٹھ جائیں تو عجیب منظر نامہ اور طلسمات سامنے آئے گا۔ بحمد اللہ میرے ہاں اتنا تضاد نہیں ملے گا۔ آپ کے الفاظ میں جو طبقہ فکر و خیال میرے اندر صرف اقتدار کی خواہش دیکھتا رہا یا دیکھتا ہے اللہ اس پر رحم کرے۔ مگر کام کیوں نہیں دیکھتا۔ کام تو سارے ٹریک ریکارڈ میں ہے۔ شاید مقطع کا بند یہ ہے کہ بہت سے متوسط طبقے کے لوگ کسی کو اپنے سے ’’مختلف ‘‘نہیں دیکھنا چاہتے۔ پیدائشی بڑے یا بڑے افسر مثلاً شہاب صاحب کو اس الزام کے بغیر قبول کر لیتے ہیں کہ وہ تو تھے ہی بڑے افسر، بہرحال ایسے سوالات آئندہ کام کرنے والوں کی بڑی دل شکنی کریں گے بلکہ کر چکے ہیں۔ میرا وقت تو گزر گیا۔ بعض اچھے کاموں کے لئے اس مخصوص شعبے میں ذمہ داری سنبھالنا یعنی آپ کے سوال کی زبان میں اقتدار بھی ضروری ہوتا ہے مگر کون سا اقتدار؟ اچھا، چلئے شاید اقتدار کی کوئی ڈھکی چھپی خواہش بھی ہو۔ سو وہ پوری نہیں ہوئی مگر جیسا کہ گلڈ کے علاوہ اور بعد کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے۔ میں بے اقتداری میں بھی اپنی بساط بھر ویسے ہی کام کرتا رہا ہوں۔ اب وہ خوش رہیں کہ میری خواہش اقتدار پوری نہیں ہوئی مگر یہ تو دیکھیں کہ ادب، ادباء اور خلق خدا کیلئے میں نے کچھ ایسی کوشش بھی کی تھی یا نہیں اور مقتدر بھی ہوتے رہے اب بھی کسی نہ کسی مسند اقتدار پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ کبھی سیاسی کبھی تعلقاتی وجہ سے ، کبھی کسی انعام میں۔ گو مجھے کوئی اعتراض نہیں ! وہ جہاں ہوں خوش رہیں۔ ترقی پائیں۔ نام کمائیں۔ اکرام و اعزاز معہ تنخواہ و مراعات لئے جائیں لیکن بہر خدا آپ مجھے کم از کم ’’مختلف‘‘ ہی کیوں نہیں سمجھ سکتے۔ مختلف ہونا کسی بڑے مقام پر فائز ہونا تو نہیں ہے۔ یوں بھی ہر فرد Uniqueہوتا ہے۔ چلئے چھوڑیئے !!

واہ جوش صاحب ! علامہ کے اتباع میں ہی کہا مگر کہا تو سہی          ؂

ذرا آہستہ لے چل کاروانِ عشق و مستی کو

کہ سطحِ ذہنِ عالم سخت ناہموار ہے ساقی

٭       آمد اور آورد کا سوال تو پرانا ہوا ماحول مثلاً گھر کا، محلہ کا، شہر کا ، ملک کا، کرہ ارض کا، اگر ہم اسے برصغیر تک محدود کرتے ہوئے اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو آپ تخلیق ادب کی رفتار اور معیار (مراد اردو ادب سے ہے) کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ اضافی نقطہ اس سوال میں پاکستان کا قیام مشرقی پاکستان کی علیحدگی موجودہ انارکی اور ہندوستان میں مسلمان اور اردو کی ناگفتہ بہ صورتحال کی روشنی میں دیا جائے؟

٭٭   ادب کی رفتار اچھی ہے۔ معیار ذرا Relative Termہے کیونکہ کلاسیکی مزاج جدید مزاج سے متصادم اور اس میں آمیز ہو کر ابھی Settleہو رہا ہے۔ تنقید میں مکاتب مکاتب سے ٹکرانے لگے ہیں جو بڑی اچھی بات ہے۔ پہلے افراد ٹکراتے تھے لیکن یہ میں کیا لکھنے بیٹھ گیا۔ یہ تو تنقید کا میدان ہے اور میں نے صرف پاکستان کے حوالے سے بات کی ہے۔ پاکستان کا قیام اب بھی ناگزیر نظر آتا ہے یعنی ایسا ہونا ہی تھا۔ خواہ اب کوئی اس کے حق میں رہے یا خلاف ہو جائے۔ یہ ایک تاریخی ناگزیریت تھی جو حقیقت بن گئی۔ گزری ہوئی تاریخ کو Predictکرنا ایک بڑی طویل مشق ہے۔ ’’جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔‘‘ میرا حاصل کلام اب بھی یہ ہے بہت کچھ پڑھنے دیکھنے اور سوچنے کے بعد کہ یہ اچھا ہوا تھا۔ اسے خراب ہم نے کیا اور کر رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کا علیحدہ ہونا تاریخی ناگزیریت نہیں تھی۔ ہم ساتھ رہ سکتے تھے۔ جغرافیائی طور پر تو پہلے بھی الگ تھے۔ پاکستان بننے کے چوبیس برس بعد تک حسب سابق جغرافیائی طور پر الگ رہے ہی مگر ایک عرفیت ، ایک مرکز ، ایک قومیت کے ساتھ۔ Nation Stateکے طور پر ………… اسے ہم نے اپنے آپ سے علیحدہ کیا۔ ہمارے شاؤنزم نے ، ہماری مفاد پرستی نے ، ہماری غلط فکری نے ، یہ میرا بڑا Sorepointہے۔ تجزیات و دلائل کی کمی نہیں مگر یہ موقع نہیں۔ مجموعی تاثر بیان کر دیا۔ میں ان کے ادیبوں اور بہت سے دانشوروں کو بھی خوب اچھی طرح جاننے لگا تھا۔ وللہ وہ ہم سے زیادہ پاکستانی تھے۔ بھارت ، روس اور امریکہ کی کیا مجال تھی کہ ایسی زمین میں بیج بوتا۔ وہ توہم نے ساری زمین خود اپنے دشمنوں کے لئے ہموار کر دی تھی ………… یہ ہم کون ہیں۔ ہم سب مغربی پاکستانی مجموعی طور پر ………… پھر بھی بھارت مسلح حملہ نہ کرتا اور جنرل نیازی اتنی جلد ہتھیار نہ ڈالتا تو ہم بالآخر ساتھ رہ جاتے۔ ہم کنفیڈریشن بن سکتے تھے۔ نام بھی ایک رہتا۔ وسائل مشترکہ طور پر اچھی ایماندارانہ تقسیم کے ساتھ استعمال ہوتے۔ برطانیہ دس ہزار میل دور فاک لینڈ کے لئے جنگ کر بیٹھا ہے تو کسی وجہ سے۔ امریکہ نے الاسکا خریدا۔ جزائر ہوائی کو امریکہ قرار دیا۔ کیومائے ماتسو بلکہ فارموسا (تائیوان) دور ہو کر بھی چین ہیں۔ ہم ایشیا میں دو کونے دبائے بیٹھے تھے۔ افلاس سے لڑائی تو دونوں جگہ ہو رہی تھی۔ہوتی رہتی۔ بھارت میں پوری تیسری دنیا میں ہوتی رہتی ہے۔ اصل مسئلہ طبقاتی تھا۔ طبقاتی ہے۔ بیرونی اور باہمی امداد کچھ عرصے کے لئے ہمارا حصہ شاید اب سے کم رکھتی ان کا حصہ انہیں جاتا تو کیا ہرج تھا۔ طویل المیعاد مفادات کے لحاظ سے دونوں مضبوط ہوتے جاتے۔ ہم نے اپنا وطن خود ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔ اگر آپ اسے پرانی نسل کا رومانس کہنا چاہیں تو کہہ دیجئے۔ پھر آئیڈیل بے معنی ہو کر رہ جائے گا اور وہ تو ایسا آئیڈیل تھا جو نصف سے زیادہ حقیقت بن چکا تھا۔

            اردو کا ہندوستان میں مستقبل اتنا ہے کہ بول چال کو خواہ ہندی کہہ لو خواہ اردو۔ وہ سو دو سو برس تو زندہ رہے گی۔ بہت بعید مستقبل پر سوچیں تو لنگ و افرنیکا کا تصور اور امکان تازہ ہوتا ہے۔ بھارت میں عربی رسم الخط کی اردو Fadeہوتی جا رہی ہے۔

            اب حفاظتی تدابیر اور کسی قدر نتیجہ خیز ہیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ رفتہ رفتہ وہ قومی زبان ہندی میں ضم بھی ہو جائے گی اور اپنے رسم الخط میں تھوڑے سے علمی ادبی اور مذہبی حلقوں تک محدود رہے گی…… دلائل اور مشاہدے یہاں بھی نہیں گنوائے جا سکتے کیونکہ بہت ہیں۔ ہاں اگر ہم یہاں اردو کو مضبوط تر کر دیتے تو اسے کچھ تقویت وہاں بھی پہنچتی۔یہاں ہم روز بروز اسے کمزور کر رہے ہیں۔ اب تو کھلی سرکاری پالیسیاں اسے پیچھے ہی پیچھے دھکیل رہی ہیں لیکن شاید ایک دن بدل جائیں۔ تب دوبارہ اس سوال کا جواب تلاش کیا جا سکتا ہے۔ رہے ہندوستانی مسلمان تو پاکستان بنتے وقت پاکستان بنانے والوں نے پاکستان کو مضبوط کر دینے کے ذریعے انہیں تقویت دینے کے وعدے کئے تھے۔ تمام تحریک کے دوران ریکارڈ پر آنے والے بیانات قائد و زعما۔ ۹ جون ۱۹۴۷ء کو مسلم لیگ کونسل کا فیصلہ ’’وعدہ‘‘ اعلان سب ریکارڈ پر ہے۔ وہ بھی القط اور خود یہاں بنیادی عرفیت پاکستانی کی بجائے قومیاتی بلکہ لسانی اختیار کی جا رہی ہے۔ ان کی مدد کیا کھا کر کریں گے۔…… ہم نے پہلے انہیں ترک کیا۔ ایک طرح دھوکہ دیا۔ پھر مشرقی پاکستان کو ترک کیا۔ اب آپس میں تفریقات ابھار رہے ہیں۔ ہاں اگر ’’تاریخ کی سچائی‘‘ یہی ہے تو …… لیکن آگے گفتگو طویل ہو جائے گی۔ آپ میرے اظہاریئے پڑھ لیا کیجئے۔ معلوم ہوتا ہے ہمارے علاقائی اور ان میں بھی لسانی عرفیتیں پاکستانی عرفیت پر غالب آنے والی ہیں۔ شاونیت کا ایک رنگ نہیں ہوتا۔ ایک نعرہ نہیں ہوتا۔ وہ گرگٹ کی طرح رنگ ضرور بدلتی ہے مگر گرگٹ بنی رہتی ہے۔عالمی تناظر چھوڑیئے۔ یہ جواب مضمون نہیں ! عالمی سیاسی مستقبل پر تو بعض امریکی مصنفین بڑے دلائل اور اعداد و شمار کے ساتھ تین سو ممالک کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ ایک نے اگلی صدی کے آخر تک ایک ہزار ملکوں کی دنیا دکھائی ہے میں یہ سب لکھتا رہتا ہوں۔ تقسیم در تقسیم پر مر جاؤں تو نہ جانے کیا کچھ کہہ سکتا ہوں مگر بالآخر ہمارے لئے بہتر کیا ہے؟ ایک ریاست رہنا۔ ہاں جب اور اگر کوئی عالمی ریاست قائم ہونے لگے تو ہم بھی اپنے تحفظات و مفادات کے ساتھ اس کنفڈریشن میں شامل ہونے پر سوچیں گے۔ شاید یہ اگلے پانچ سو برس سے پہلے ممکن نہ ہو۔ جلد تر بھی ہو تب بھی ہمارا اپنے آپ کو مستحکم اور ترقی یافتہ کر لینا اس میں ہماری رکنیت کی شرائط کو بہتر ہی رکھے گا لیکن اب ہم کسی مستقبل بعید کی پیش بینی میں جا رہے ہیں۔ اس کے لئے نہ جگہ ہے نہ وقت !!!

٭       کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اردو زبان میں عالمی پائے کا ادب تخلیق کیا گیا؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو یہ فرمائیے کہ عالمی ادب میں اس کا نمایاں مقام نہ پانے کے اسباب کیا ہیں؟ ہم یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ عالمی معیار کا ادب کب کہاں اور کس کس صنف میں تخلیق ہوا اور ہو رہا ہے؟

٭٭   عالمی پایہ کیا ہوتا ہے؟ پچھلے پانچ سو برس میں مغرب کی مشرق پر حکومت نے اس کے چھوٹے سے چھوٹے ادیب ، شاعر، دانشور کو ہم سے متعارف کر رکھا ہے۔ ہمارے مشرق کے بہت سے بڑے بھی انگریزی، فرنچ ترجموں کے ذریعے آئے ہیں۔ مثلاً ہم کالی داس اور عمر خیام اور ٹیگور کو انگریزی ترجموں کے ذریعے جانتے ہیں۔ ہمارے بہت سے بڑوں کے انگریزی ترجمے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انہیں یہ نام نہاد عالمی درجہ استناد ملتا بھی کیسے۔دور نہ جائیے اپنے چند آدمی لیجئے۔ امیر خسرو کو غیر اردو فارسی دنیا میں کون جانتا ہے؟ تو کیا وہ ان بہت سے انگریزی ، فرنچ، جرمن، اسپینش زبان کے شعراء سے کم تر ہو گئے جن کے نام اور کام ہمارے ذہنوں اور زبانوں پر قابض رہے ہیں؟ غالب کے ترجمے کتنے ہوئے اور کہاں تک پہنچے؟ معروف ترجمہ پچھلے بیس سال میں پروفیسر رالف رسل اور ڈاکٹر خورشید الاسلام نے کیا۔ وہ بھی فارسی اردو خطوط اور تھوڑے سے شعروں کا۔ کتاب بھی دو ہزار سے زیادہ نہیں چھپی۔ شاید دوسرا ایڈیشن تک نہیں آیا کہ یونیسکو نے اسے کاروباری سطح پر مارکیٹ ہی نہیں کیا۔ بس کوٹہ میں ڈال کر ادھر ادھر چلایا۔ اور مجھے یاد نہیں کہ یورپ کی کسی اور زبان میں اس کا جزوی ترجمہ بھی ہوا ہو۔علامہ اقبال نے وہ بھی ایک اردو نظم میں انہیں گوئٹے کا ’’ہم نوا‘‘ قرار دے دیا تھا۔ یہ اچھے اچھے جرمنوں تک کو معلوم نہیں۔ خود علامہ اقبال کو لیجئے۔ نکلسن صاحب کے ترجمے بھی مثنویوں تک محدود رہے۔ بعد میں جستہ جستہ ترجمے ہوئے۔ مسجد قرطبہ جیسی عظیم الشان نظم کا کوئی معقول انگریزی ترجمہ میری نظر سے تو گزرا نہیں نہ میں نے روسی، فرنچ، جرمن، انگریزی، امریکی ادیبوں ، شاعروں میں اس کی بازگشت سنی۔ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۸۱ء کے پیرس میں (جہاں میں بار بار گیا ہوں اور اچھے اچھے اساتذہ و ادباء سے ملا ہوں۔ مسجد قرطبہ اور علامہ اقبال متوسط درجے کے شعراء میں بھی متعارف تک نہیں۔ وہاں تو دو سو برس سے کوئی گارسین دتاسی بھی پیدا نہیں ہوا۔ بس دو ڈھائی وزٹنگ پروفیسر قسم کے لوگ جیسے جامعہ کراچی میں پروفیسر گمبرے تی آر آئے تھے۔ غالب و اقبال کو کسی حد تک جان کر آتے تھے یا جان جاتے تھے۔پروفیسر این ماری شمل بھی اب کوئی تیس برس سے آتی ہیں اور ان کا کام بھی چند مغربی جامعات کے مخصوص شعبوں تک پھیلا ہے۔ یہاں سے جا کر مغرب میں بس جانے والے کچھ پاکستانی کسی قدر کوشش کر رہے ہیں کہ گو پہلے اپنا کلام اور انگریزی ترجمے چھپواتے ہیں۔ حضرت شاہ لطیف بھٹائی کو بھی اسی صدی میں ، وہ بھی کسی حد تک ، ڈاکٹر ایچ ٹی سورلے نے ’’مغرب‘‘ یعنی دو تین جامعات کے شعبہ ہائے ادب سے متعارف کرایا۔ (اب پروفیسر شمل کراتی ہیں) حالانکہ ان کے انگریزی ترجمے چند ہندو ماہر سندھیوں نے بھی کر رکھے تھے۔ وارث شاہ کے منتخب مقامات تک مغرب میں ایک اچھا اوسط پڑھا لکھا نہیں جانتا۔ خوشحال خان خٹک اپنی سیاسی حیثیت کے سبب اپنی شاعری کے حوالے سے بھی بعض انگلستانی حلقوں میں درج کرا دیئے گئے تھے۔ آج وہاں کوئی پاکستانی اسٹڈیز لے تو واقف ہوتا ہے۔

            خواجہ فرید ، سچل سرمست، بابا فرید، قدیم بلوچی شعراء، کوئی بھی باہر متعارف نہیں۔ فیض صاحب کو لینن انعام برائے امن کے بعد کیرنن صاحب نے وہ بھی روس کے زور پر اور گلڈ بننے کے بعد یونیسکو کی طرف سے پاکستان پر زور پڑنے کے بعد کیا۔ نومی لیزڈ کا ترجمہ بہت بعد میں آیا ہے۔ مگر روس میں ہو چکے تھے۔ مگر ان کی وجہ اور معیار خالص ادبی نہیں تھے۔ دوسرے معاشروں کے ادب میں خرابیوں اور انقلابی جدوجہد کی عکاسی پہلا معیار انتخاب تھا۔ پروسوویت ہونا بھی۔ وہاں جب تک میں گیا ہوں ن۔م راشد اور میرا جی تک کو اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں بھی دو ڈھائی پروفیسر ہی جانتے تھے۔ مثلاً سنئے میں ۱۹۶۰ء میں ماسکو گیا۔ اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ میں سوال و جواب کے لئے بلایا گیا۔ کچھ جائزہ وغیرہ بھی ہونا تھا۔ خیر ایک صاحبہ اٹھیں۔

’’جناب اردو کے عظیم ترین زندہ شاعر علی سردار جعفری کے متعلق آپ کے ملک میں کیا خیال ہے؟ (اس وقت تک فیض صاحب کو لینن پرائز فار پیس نہیں ملا تھا۔ ہاں کچھ اپنی شاعری اور کچھ ایفروایشین کانفرنس میں تاشقند ۱۹۵۸ء میں شرکت کی وجہ سے وہ وہاں متعارف ہو چکے تھے) عرض کی آپ نے جواب خود دے دیا ہے۔ بولیں میں جانتی تھی آپ یہی کہیں گے۔ عرض کی تو اگلا سوال فرمایا۔ بڑائی کا معیار آپ کے نزدیک کیا ہے؟ میں نے بحث نہیں کی۔ فیض صاحب علی سردار بھائی سے تو بڑے تھے اور ہیں مگر اس وقت وہاں علی سردار جعفری کا سکہ چل رہا تھا کیونکہ روس سے بھارت کے بہتر سیاسی تعلقات نے ادب کے دریچے بھی ہماری نسبت زیادہ کھول رکھے تھے۔

دیکھئے ادبی ترجمے عموماً مستثنیات کو چھوڑ کر ، ان چند وجوہ سے ہوتے ہیں۔

۱) کسی ذہین قوم کا اپنے مفاداتی پھیلاؤ میں اپنے ہدف ممالک کو ان کے کلچر سے بھی جاننے کی کوشش کرنا۔ اس کوشش کی بہت سی Dimensionہوتی ہیں۔ اسی چکر میں مخلصانہ شوق رکھنے والے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ بہرحال وہ بھی اس رو کی پیداوار ضرور ہوتے ہیں۔

۲) کسی معاشرے کسی حکومت کا اپنے وسائل سے اپنے پسندیدہ ادیبوں کو باہر متعارف کرانے کا منصوبہ تاکہ ان کی فکر و اسالیب کا شہرہ ہو (اس کے وسیع تر اقتصادی/فوجی/سیاسی مفادات کی خدمت ضرور کرے) میرے علیحدہ ہوتے ہوتے گلڈ نے باقاعدہ منصوبے بنا لئے تھے۔ حکومت عدم تعاون کرتی تھی اور نجی شعبہ پیسے خرچ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ہماری حیثیت دھونس دینے کی تو تھی نہیں۔ ابھی تعمیری مرحلے میں ہی تھے۔

۳) کوئی تعلیمی ادارہ کمر باندھ لے کہ خرچ کی ایک مستقل مد ترجموں کے ذریعے اہم ممالک کے ادب جاننے اور ان سے اپنے بڑوں کو متعارف کرانے پر رکھنی ہے۔ پھر دو طرفہ مفادات پیدا ہو کر فروغ پانے لگتے ہیں۔

            یہ سب سے پہلے برطانیہ، فرانس جرمنی ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ہماری تاریخ میں بھی عباسیوں نے کیا۔انہی کے ترجموں سے یورپ اپنے قدیم مشاہیر اور ان کے ادوار سے روشناس ہوا۔ عربوں کے لئے یہ نیم خالص علمی کوششیں تھیں۔ پوری طرح خالص یوں نہیں کہ بہرحال وہ سلطنت روم سے جنگ آزما تھے اور اندازہ تھا کہ روم اس وقت کے خواہ بیشتر نیم وحشی یورپ کی مدد لے سکتا ہے۔ یونان قدیم کو مصری حوالوں سے جان گئے تھے اور رومن حوالوں سے بھی کیونکہ سلطنت روما میں بہت سے عرب علاقے شامل رہ چکے تھے۔ رومیوں نے بھی یونانی فکر ادب کے ترجمے بھی کرا لئے تھے (بہت سے نہیں ، کچھ کیونکہ وہ تلواروں پر زیادہ یقین رکھتے تھے۔ ہاں جب رومن اعلی طبقے نے اپنے لئے حکومت کے حقوق چاہے تو انہیں کسی قسم کے جمہوری افکار کی ضرورت پڑی۔ وہ انہیں اس وقت کے مقبوضہ یونان سے مل گئے۔ رومن تہذیب کی کہانی یونانیوں کی جزوی فکری توسیع ہے)

۴) کوئی قوم، کوئی پھیلتی ہوئی ریاست، طاقت اپنا فلسفہ عام کرنا چاہے ، مذہب ، مسلک اسی رو میں ادب کو بھی ترجمہ کرا دیتی ہے۔ جب بیرونی زبانوں کے ماہرین اس سے متعارف ہو جائیں وہ اپنے اپنے شوق کے مطابق دوسرے ترجمے بھی کرنے لگتے ہیں۔ اب کچھ ملٹی کلچرل ازم کی ہوا چلی ہے مگر ابھی زیادہ تر حکومتی گرانٹ کی محتاج؟

۵) بعض امیر مشاہیر خود اپنے خرچ سے اپنے ترجمے کرتے اور کراتے ہیں۔ کچھ حلقے ٹیگور کے اعتراف عظمت کے باوجود ان کو سند مغرب ملنے میں ان کی وجاہت اور دولت کے سبب بین الاقوامی خوش تعلقی کا بڑا دخل سمجھتے ہیں۔ اس صدی کے اوائل سے نوبل انعام نے ایک ناگزیر رجحان یہ بھی پیدا کر دیا کہ جسے نوبل انعام ملے اس کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہو جاتا ہے۔ اب بھارت کا گیان پیٹھ ایوارڈ جو سال میں صرف ایک ہندوستانی زبان کو ملتا ہے اس شہرت کی طرف جا رہا جسے ملے اس کا ہندوستانی زبانوں میں تو ترجمہ ہو ہی جاتا ہے کئی دوسرے ممالک جس میں بھی افراد اور ادارے اسے قابل توجہ سمجھنے لگے ہیں مگر میں نے معلوم کر لیا کہ مغرب اب بھی گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ کتابوں کے ترجمے نہیں کرتا۔ وہ بہرحال مغربی مارکیٹوں میں نہیں ہیں۔ بھارت کی بعض سیاسی کتابیں ضرور عام ہوتی جاتی ہیں۔ تخلیقی ادب نہیں ………… یہ چند وجوہ تھیں۔ ذیلی بھی ہیں۔ خلاصہ ہوا۔

۱۔ کسی قوم کا سائز اور حیثیت

۲۔ دانستہ کوششیں

۳۔ آخری تجزیئے میں سیاسی ضروریات

۴۔ فکری اور جمالیاتی ضروریات جو کسی حد تک ملٹی کلچرل ازم کے آہستہ آہستہ بڑھنے والے موقف سے پرورش پا رہی ہیں اور اب ایک صدی سے پی آر بھی …………

            بلا کم و کاست اردو میں اس کے جم جانے کے بعد سے ایسا ادب موجود ہے جو ان ’’عالمی معیاروں ‘‘ پر پورا اترتا تھا جن کی بنیاد پر دوسری زبانوں کے ترجمے ہوئے۔ پچھلے پچاس برس میں پاک بھارت کے کئی غیر زبانیں جاننے والے بیرونی یونیورسٹیوں میں جا کر دنیا میں گھوم کر لکھ چکے ہیں کہ کم از کم میر، غالب، اقبال ان تمام عالمی ادیبوں سے کم نہیں جن کے ترجمے ہوئے اور ہوتے رہتے ہیں۔ میر کا کوئی قابل ذکر انگریزی ترجمہ میرے علم میں نہیں۔ غالب کے لئے پنجاب کے ایک اہل خیر درانی صاحب ہاورڈ میں کچھ رقم چھوڑ گئے تھے (شاید ایک لاکھ ڈالر) اس نے یونیسکو سے مدد مانگی۔ یونیسکو نے رالف رسل اور ڈاکٹر خورشید الاسلام (علی گڑھ) کو رالف رسل ہی کی تجویز پر دو منصوبے دیئے۔ غالب کے فارسی خطوط اور فارسی کلام (انتخاب) کا ترجمہ کبھی کا چھپ گیا تھا۔ گو برسوں لگے۔ ایک اور ترجمہ اس میں بھی مدتیں لگیں۔ اب خاص پاکستان سے چھپ رہا ہے۔(دارالاشاعت کوآپرا، لاہور۔ کراچی) رالف سے یہ میں نے چھین کر انہیں دیا ہے ورنہ ان کے اور خورشید کے افسوس ناک تنازعے میں رکا پڑا تھا۔ لیکن کیا غالب کا ایک اچھا فارسی اردو انتخاب ہمیشہ سے ترجمے کا مستحق نہ تھا؟ برطانوی حکومت کے ہندوستانی محکموں میں کوئی ایسا شعبہ ہی نہیں تھا۔ امراء بے نیاز، غربا ء بدحال۔ برطانوی مقاصد کو قبضے کے بعد ضرورت نہ تھی اردو نثر ’’باغ و بہار‘‘ کے ذریعے اپنے برطانوی افسروں کو مقامی زبان سکھانے کیلئے چلو لکھوائی تھی۔ اس کی دوسری بے شمار ایجنسیاں برطانوی حکومت کو ہندوستانی فکر سے مطلع رکھتی تھیں۔ الٹے ہم کو ایک ایک انگریزی ادیب، شاعر ، نقاد، ازبر کرا دیا جاتا تھا۔ یقیناً ان کی مجموعی ناگزیریت اور افادیت میں کلام نہیں ہم یورپ بلکہ دوسری بہت سی ایشیائی تخلیقات کو بھی انگریزی کے ذریعے جاننے پر مجبور تھے اور اب بھی ہیں گو اب عالمی ادب سے رابطہ ہمیں مسرور کرتا ہے۔ ہمیں سب کو جاننا ہی چاہئے۔ لیکن کیا ان کا ہر وہ تخلیق کار جسے ہم خوب جانتے ہیں ہمارے ہر تخلیق کار سے برتر تھا یا ہے؟ قطعاً نہیں۔ وہاں بڑے بڑے تھرڈ کلاس شاعر اور ادیب گزرے اور گزر رہے ہیں جو ہمارے لئے لازمی نہ تھے اور ہمارے ہاں ان تین سو برس کی مختصر مدت میں بھی چند بہت بڑے تو گزرے ہی ہیں جن کا اسلوب ، متن اور فکر انگریزوں ، امریکیوں اور پورے یورپ کو ایک ایسا جہان معنی و انداز دکھا سکتی ہے جس سے وہ واقف ہی نہیں۔ علامہ اقبال کا ترجمہ کتنا ہوا۔ فہرست سازی کے لئے کچھ نکل آئے۔ وہاں معروف نہیں۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہاں باتیں بہت بنیں۔ نہ کام ہوا نہ کرایا گیا۔ ہم نے گلڈ کی ابتداء میں ہی ایسے منصوبے بنائے تھے۔ ملاحظہ ہو ’’ہم قلم‘‘ سالگرہ نمبر ۱۹۶۱ء۔ ہر قرار داد پر فیصلہ، ہر منصوبہ جس کو مختلف ادوار میں اور آج بھی اکادمی ادبیات اپنا اوریجنل آئیڈیا کہتی رہی ہے ہماری ان قراردادوں اور فیصلوں میں موجود ہے۔ اور ۱۹۶۰ء کے بعد تو ہم نے بہت سوچا اور منصوبہ بندی کی جو اس نمبر میں نہیں۔ دوسرے ریکارڈ میں ہے جو میرے پاس نہیں۔ دراصل ایسے آئیڈیاز اوریجنل ہوتے بھی نہیں۔ ہم سب زبانوں کے ادیب پہلی بار ایک پلیٹ فارم پر جمع اور منتخب ہو گئے تھے۔ اپنی جگہ سوچتے رہتے تھے اول اول ہمارے کنونشن میں انہیں خام مواد ہم نے دیا اور وہ خود بھی لاتے اور ان کی کمیٹیوں نے خوب بحث مباحثے کے بعد گلڈ کے لئے اصولی اور عملی خطوط مرتب کر دیئے۔ ہم کتنے آگے جا سکے۔ کیا نہیں کر سکے اور کیوں؟ یہ الگ کہانی ہے اصل بات ہوتی ہے لگن کے ساتھ وسائل کی۔ لگن ہمیں تھی ، مگر روپیہ کبھی نہیں ملا۔ بیوروکریسی نے شروع میں بھی ہماری مخالفت کی اور شہاب صاحب کے منظر سے ہٹتے ہی تو ہماری کمر توڑ دی۔ وہ واپس آئے تو محتاط رہے۔ زیادہ دلچسپی نہ لی۔ میں کام چلاتا رہا مگر بیچ میں تو میں بھی مارا جا چکا تھا۔ بات کہاں سے کہاں نکل آئی۔ مگر بس ایسے موقعوں پر میرے ساتھ یہی ہوتا ہے یا میں اسی طرح کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں سوانح عمری لکھ نہیں پاؤں گا۔ عزائم اور ناکامیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جہاں موقع ملا شعور یا تحت الشعور کی رو چل پڑتی ہے۔

            سنئے۔ ۱۹۶۱ء میں جی الانہ صاحب کا ترجمہ (ہمہ لسانی انتخاب) گلڈ سے چھاپ کر یورپ اور امریکہ لے گیا تھا (یونیسکو فیلو شپ) لندن کے قیام میں سی ڈے لیوس صاحب C.Day. Lewisکو دکھایا۔ اخلاقاً مسکرائے۔ ’’ویری گڈ‘‘ (وہ اس وقت پوئٹ لاری ایٹ Poet Laureateتھے یا ملک الشعرائے برطانیہ تھے) ’’یہ کن صاحب نے ترجمہ کیا ہے۔ کیا ان کی اپنی کوئی انگریزی کتاب برطانوی مارکیٹ میں آ چکی ہے؟ عرض کی بڑے فاضل آدمی ہیں۔ اپنی شاعری بھی انگریزی میں کرتے ہیں۔ بولے برخوردار (مائی سن) میں نے پوچھا تھا ان کی کوئی کتاب ہماری مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ عرض کی یاد نہیں۔ ٹال گئے۔ اچھا یہ آپ لوگوں نے بہت اچھا کیا۔ میں بڑے شوق سے پڑھوں گا۔ کیا یہ یہاں مارکیٹ کریں گے۔ آپ۔ لیکن اس کا گیٹ اپ بہت اچھا نہیں۔ بہرحال بات آگے ضرور بڑھائیے۔

            نیویارک میں امریکی اکادمی آف لیٹرز (صرف مصنفین نہ کہ مصنف جمع دانشور) کے منتخب (نامزد نہیں منتخب) صدر تھے جناب گلن دے ویسٹ کوٹ (کٹ) (Glennway Wescott)تیسری دہائی بہت مشہور مگر بقول ناقدین متوسط درجے کے ناول نویس، ہنری ملر کے ہم عصر(مگر دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے لیکن اب بڑے سینئر ، مشفق، منتظم آدمی) اس یونیسکو تربیت کے دو تین ہفتے ان کی نگرانی میں کام کیا۔ بے تکلف ہو گئے تھے۔ وہ ترجمہ Presenting Pakistan Poetry انہیں بھی دکھایا۔ سر ، اسے کیسے Promoteکیا جائے۔ پہلے آئیں بائیں شائیں۔ رواجی باتیں۔ دیکھنے کیلئے رکھ بھی لیا۔ ایک دن جب بے تکلف ہو چکے تھے کہا میاں کوئی مادری زبان والا غیر مادری زبان والے کو بہت ہی مشکل سے تسلیم کرتا ہے مگر یہ ترجمے ٹھیک ٹھاک ہیں۔ بعض نے مجھے Fascinateکیا لیکن کتاب کا پروموشن کیسے ہو۔ ابھی تمہاری قوم یہاں اتنی اہم نہیں مانی جاتی کہ ہم خود تمہیں ادب کے ذریعے بھی جاننے کے لئے دوڑ پڑیں۔ تمہارے سب اہل معاملہ تو خود انگریزی بولتے ہیں۔ اہم اخبارات و جرائد انگریزی میں ہیں۔ سیاسی اور اقتصادی مصالح کے لئے تمہارے ادب و ثقافت سے واقفیت ابھی ہماری قوم کی ضرورت نہیں بنی۔ او کے (O.K)ایشیا سوسائٹی وغیرہ اس طرف ایک خیراتی قسم کی توجہ کر رہے ہیں۔ میں تمہیں ان سے ملوا دیتا ہوں (ملا) ہماری کمرشل مارکیٹ بڑی ظالم ہے۔ ہندوستانی کلاسیک بھی جو اتنی قدیم اور مضبوط ہیں مخصوص لوگ پڑھتے ہیں وہ بھی زیادہ تر بعض جامعات کے ڈیپارٹمنٹ آف انڈو لوجی میں۔ میں نے دیکھا کہ فراسٹ صاحب تک مشرق کو کم جانتے ہیں۔ تمہارے نئے ملک کا تو ذکر کیا ہے وہ تو ٹیگور سے بھی واجبی سے ہی واقف ہیں اگر تمہارے پلے پڑ جائیں تو خود Scanکر سکتے ہو (فراسٹ صاحب حیات تھے مگر میں نہیں مل سکا) یہ تو بھائی بڑے زبردست خرچ کا مسئلہ ہے۔ بہترین ترجمہ بہترین گیٹ اپ۔ پہلے خود متعارف کراؤ۔ جیسے ٹیگور نے اپنے آپ کو کرایا تھا۔ اخبارات جرائد کے ادبی صفحات کو ایک مسلسل کوشش سے متاثر کرو (کرواؤ) ادبی ایجنٹ مقرر کرو (رواج ، تقریباً لازمی) خوب اشتہار دو۔ پھر ایک دم برسٹ ہو گیا تو ناشرین اور مصنفین خود پاکستان کی طرف دوڑ پڑیں گے۔ میں نے واپس آ کر وزارت تعلیم کو سب رپورٹیں دیں۔ بے چارے گلڈ کو متحرک کیا ………… لا حاصل لا حاصل !!

            شکر کے اب رفتہ رفتہ ہمارے لوگ وہاں پہنچے ہیں۔ کچھ معقول کچھ نامعقول ترجمے کر رہے ہیں۔ گو ابھی تک بہت کم تعداد میں۔کسی حکومت نے پچھلے دنوں تک تو سفارت کی سطح پر بھی کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اب اس اکادمی ادبیات کو روپیہ اور وزیر اعظم کی ذاتی مدد ملتی رہی تو شاید یہ کچھ کر جائے۔ لیکن اگر ان پر ان کے سیاسی اور تعصباتی اور خود پرستانہ معیار چھا گئے جن کا مجھے بڑا ڈر ہے تو روپیہ خرچ ضرور ہو جائے گا۔ مطلوبہ نتائج نہیں لائے گا۔ بالآخر کوالٹی ہی بولتی ہے وہ وہاں نہ پہنچی تو زیادہ سے زیادہ کبھی کوئی Quota Positionمل جائے گی۔ ہم نے ۱۹۶۷ء میں فیض صاحب اور کوی جسیم الدین کو نوبل ادبی انعام کے لئے نامزد کیا تھا بات آگے بڑھانے کا موقع نہ ملا۔ کاش ہمیں جب ہم گلڈ چلاتے تھے حکومت کی آج سے ایک بٹہ ہزار تائید ہی حاصل ہوتی۔ بیوروکریسی رخنے نہ ڈالتی اور آج سے ایک بٹہ سو روپیہ ہی مل جاتا۔ ہم کام یوں بہتر طریقے پر شروع کر سکتے تھے کہ ہمارے ہاں پر معاملے کا فیصلہ ہماری منتخب کمیٹیاں کرتی تھیں۔ کوئی صوابدیدیت نہیں چل سکتی تھی۔ جن کو گلڈ ترجموں کے لئے منتخب کرتا وہ پوری پیشگی احتیاط بذریعہ نمائندگی اور بعد میں جواب دہی کی حدود میں رہ کر کرتا …… اگر اب بھی ایسا ممکن ہے تو اکادمی اس کام کو کسی حد تک ضرور آگے بڑھا دے گی۔ پچھلے ۳۰ سال میں پاکستان ٹوٹ کر بھی عالمی توجہ کا مستحق رہتا ہے کہ آج ہماری جیوپولیٹیکل پوزیشن ایک خاص حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ دنیا بھی بقول کسے (گو یہ زیادہ تر ابھی ایک رومانٹک اور امریکی اطلاعی شعبہ تجارت کا ایک تجارتی نعرہ ہی ہے) ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے ………… بہرحال ہم تخلیقی لحاظ سے خاصی اچھی پوزیشن میں ہیں اگر بہترین انتخاب کریں ، مادری زبان والے غیر ملکیوں سے اپنے ترجمے درست اور ایڈٹ کرائیں اور ان کی مارکیٹ میں لے جائیں۔ ہمارے اردو ادب ہی نہیں علاقائی ادب بطور خاص علاقائی کلاسیک کی نوعیت، کوالٹی ایسی ہے کہ علمی دنیا کو چونکا دے اور پھر اچھا قاری خود ہماری تخلیقات طلب کرنے لگے گا۔ وہاں کے ناشر بڑے بدمعاش ہوتے ہیں مگر قاری کی نبض پر ہر وقت ہاتھ رکھتے ہیں۔ آج نہ سہی ہم ان کی (برطانیہ، یورپ، امریکہ) کی کھلی مارکیٹ میں بھی بغیر مزید سرکاری امداد کے اپنے لئے اچھی جگہ بنا سکتے ہیں۔ ابتداً فرد یا سرکاری شعبے کو یا کسی دور میں نجی شعبے کو خاصی رقم کی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی۔ میں نے گلڈ کے بعد بھی بک کونسل ، بک فاؤنڈیشن اور سرکاری کانفرنسوں میں بڑے بڑے تحریری منصوبے پیش کئے تھے مگر خیر چھوڑئیے۔ مسئلہ کریڈٹ کا نہیں ، کام ہو جانا چاہئے۔ آخر میرا اور دوسرے ہم خیالوں کا ، اصل مقصد کریڈٹ لینا تو نہیں تھا۔ یہی دیکھئے کہ تحریک آزادی کے سبھی کارکن تو نہ پاکستان آئے نہ وہ جو پاکستانی علاقوں کے جاں باز تھے ، زندہ رہے نہ وزیر اور مشیر بنے۔ ان کا کریڈٹ یہ ہے کہ پاکستان بن گیا ………… ان کے نام بھی کسی کو معلوم نہ ہوں۔ پاکستان کا نام تو دنیا کے نقشے پر آ چکا ہے۔ کبھی کسی کو نوبل انعام بھی مل جائے گا۔ بس یاد رہے کہ وہ زندہ ادیب کو دیتے ہیں اور ان کا ایک بڑا نظام مشاورت ہے۔ میں سوئیڈن جا کر سوئیڈش اکادمی میں سب طریق کار دیکھ چکا ہوں۔ بنیادی جواب آپ کے سوال تک یوں محدود نہیں رہا کہ معیار کے بارے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں۔ اصل مسئلہ حقائق ، مشکلات، اور آئندہ کا تھا جس کے بارے میں جتنے اختصار سے ممکن تھامیں نے بعجلت ایک منظر نامہ بنا دیا ہے۔ واضح رہے کہ اب دنیا تمام نوبل انعام یافتہ ادیبوں کو عظیم نہیں مانتی۔ برسوں سے سیاسی مصالح بھی یہ انعام دلوا دیتے ہیں۔ میرے پاس فیض صاحب کا ایک خط ۱۹۸۴ء کا ہے جس میں انہوں نے یہ تاثر دہرایا ہے۔ خود میں نے ایزاک سنگر کو نوبل انعام ملتے دیکھا۔ اس تقریب کے بعد کھانے کی میز پر ان کا بیٹا اسرائیل میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا سائنس میں تو ہم نے سب کو ایک طرف کر ہی دیا تھا اب دیکھو یہ بھی یہودیت کی فتح ہو رہی ہے۔ عرض کی بھائی پہلے بھی یہودی کو مل چکا ہے۔ بولا جناب میرا باپ زیادہ تر دراصل ییدش Yedish (ایک پرانی پولش یہودی زبان) میں لکھتا ہے۔ پھر ہنسنے لگا۔ یقیناً ایزاک سنگر صاحب برے ناول نویس تھے لیکن ۱۹۷۸ء کا سال یاد کیجئے۔ یہود نوازوں نے اور خود یہودیوں نے کیسی سیاسی اور ثقافتی یلغار کر رکھی تھی۔ اب نوبل ادبی انعام عالمی لابی سے بھی منسلک ہو گیا ہے۔

            لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ہماری تخلیقات اگر اچھے ترجموں کے ساتھ پوری حکمت سے متعارف ہوں تو نوبل انعام نہ ملے۔ اول مرحلہ درست انتخاب ہو گا جو یہاں دوسرے اہم سے اہم شعبوں میں تو مفقود ہے۔ خدا کرے شعبہ ادب میں ہی میرٹ چل جائے۔

٭       لسانی مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے آپ نے کہیں فرمایا تھا کہ اردو زبان سے تعصب اور بیر کا سبب اس زبان کے نادان دوست بھی ہیں کیا آپ ان دوستوں اور نادانیوں کی نشاندہی فرمانا پسند کریں گے؟ کیا آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ان نادانیوں کی ابتداء کراچی سے دارالخلافہ منتقل ہونے کے ساتھ ہی احساس محرومی کی شکل میں نمایاں ہونا شروع ہو گئی تھیں؟

٭٭   یقیناً پاکستان میں اردو کو اس کے نادان دوستوں نے نقصان پہنچایا۔ میں نے کئی مرتبہ کسی قدر تفصیل سے لکھا ہے۔ ویسے دلی، لکھنؤ کے اہل زبان بھی جب سے سلطنت دہلی کمزور ہوئی اور طاقت بٹ کر شمال کی حد تک لکھنؤ میں بھی منتقل ہوئی آپس میں خوب لڑتے تھے۔ تاریخ ادب اردو شاہد ہے۔ پھر علامہ اقبال جیسے تو داغ کے شاگرد ہونے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ سرعبدالقادر جیسے اور بعد میں میاں بشیر احمد (ہمایوں) ٹکسالی اردو پر زور دیتے رہے لیکن بہت جلد نیاز مندان لاہور (ڈاکٹر تاثیر مرحوم وغیرہ) اور شاہد احمد دہلوی مرحوم کی سربراہی میں شلواران پنجاب کے مابین اسی ’’ٹکسالیت‘‘ کی وجہ سے ایسی ناخوشگوار بحث کا آغاز ہوا کہ اس کے ارتعاش آج تک چلتے ہیں۔ یہاں آ کر ’’اہل زبان‘‘ نے کم از کم کراچی میں مقامی سینئرز تک کے لب و لہجہ پر ناک بھوں چڑھائی۔ یہ بیوروکریسی میں زیادہ ہوتا تھا اور کئی موثر عناصر بیوروکریسی میں یہی تھے۔ شعراء ادباء میں کم ہوتا تھا۔ یہ الزام ہے کہ باہر سے آنے والے شاعر اور ادیب یہاں والوں کو نہیں مانتے تھے۔ میں تو اس پورے دور کا گواہ ہوں۔ باہر سے جوش صاحب کے علاوہ (وہ بھی شاید ۵۶۔۱۹۵۵ء میں آئے) کون بڑا کب آ کر کتنے دن جیا۔ جگر صاحب نے ہجرت نہیں کی۔ گاہ گاہ آتے تھے تو میں اکثر حاضر خدمت رہا۔ انہوں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔ وہ اس مزاج کے آدمی ہی نہیں تھے۔ اور یوں دلی میں پرانے دلی والے انہیں کب اہل زبان مانتے تھے۔ وہ تو دلی باہر مراد آباد کے تھے۔ سیماب اکبر آبادی صاحب دیر میں آئے۔ جم نہ سکے اور جلد انتقال کر گئے۔ یگانہ صاحب اپنے آخری زمانے میں آئے۔ عسرت کا عالم تھا۔ کسی سے زبان پر کیا لڑتے بھڑتے۔ جلد واپس بھی چلے گئے۔ خاکی صاحب تقسیم سے پہلے ہی مر چکے تھے۔ کون بڑا شاعر آیا اور مرا۔ جوش صاحب آئے سو وہ دلی والوں کو بھی نہیں پتیاتے تھے۔ ہر ایک کی تقریر تحریر کی گرفت کرتے تھے۔ میں خود ان کی خدمت میں ایک دو بار سے زیادہ حاضر نہیں ہو سکا کہ ان کے تمام احترام کے باوجود ان کی یہ چودھراہٹ نامرغوب تھی۔ اور انہیں یہاں بڑھایا کس نے؟ جگہ کس نے دی چیف کمشنر کراچی ابوطالب نقوی مرحوم نے تو صرف قیام وغیرہ کے معاملے میں کچھ مدد دی تھی۔ جس کی کہانیاں بنی ہوئی ہیں (مجھے سید سعید جعفری صاحب نے ان کا پہلا مالیاتی منصوبہ بند مشیر مقرر کیا تھا۔ بوجوہ میں جلد ہی بھاگ آیا۔ وہ حقیقتاً کچھ لے نہیں سکے۔ مگر وہ دوسری کہانیاں ہیں۔) انہیں اردو بورڈ میں ممتاز حسن صاحب اور پیر حسام الدین راشدی لائے (پھر لمبی کہانیاں) مگر انہوں نے کسی سے کوئی صوبائی تخصیص نہیں برتی۔ وہ اپنی دنیا آپ تھے۔ حفیظ جالندھری صاحب ان پر تقسیم سے پہلے بھی عقائد کے حوالے سے معترض رہتے تھے۔ بعد میں بھی رہے۔ مگر ان کے جھگڑے پھیلے نہیں۔ بلکہ جوش کے خلاف ’’جوش نمبر‘‘ کس نے نکالا۔ شاہد بھائی نے ………… حفیظ صاحب نے نہیں۔ شاہد بھائی اپنے دادا کی توہین پر ناراض ہوئے تھے۔ مگر سیکرٹیریٹ میں اور محفلوں میں بعض اہل زبان نے غیر مہاجروں پر جو معمولی سے طنز بھی کئے (میرے سامنے بھی) ان کے آوازے اور اثرات دور دور تک گئے۔ میں گو نوجوان تھا۔ کم تجربہ، کم بیں مگر ان کی شاؤنیت پر ان بزرگوں سے لڑ لیتا تھا وہ جلد ہی ختم بھی ہو گئے۔ فیض صاحب سے کم واسطہ رہا۔ کیونکہ وہ کئی برس انہوں نے جیل میں گزارے مگر جب انہیں یہاں کی محفلوں اور مشاعروں میں دیکھا مقبول و محترم ہی دیکھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ انکے لہجے یا زبان پر کوئی ڈھکا چھپا اشارہ بھی کرتا ………… اور نثر نگاروں میں تو ہم نے ایسا قضیہ ہی نہ دیکھا، ان میں مکاتب فکر کے اختلافات ضرور ہے۔ پروفیسر حسن عسکری اور منٹو صاحب متحد ہو کر اس وقت کے ترقی پسندوں سے لڑتے تھے۔ یہ پانچویں دہائی کے پہلے دو ڈھائی برس تک چلا۔ ایسی لڑائیاں یہاں ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے علمبرداروں سے بھی لڑی گئیں مگر یہ اردو کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں بنا۔

            اہم ترین بات یہ تھی کہ یہاں آتے ہی بعض حلقوں نے جن میں بطور خاص پنجاب کے لوگ شامل تھے اردو کو قائد اعظم اور مسلم لیگ کے انتخابی منشور اور تحریک آزادی کے نہایت اہم وعدے کے مطابق انگریزی کی جگہ سرکاری زبان بنانا چاہا۔ بابائے اردو نے وفاقی کابینہ سے خوب جھگڑا کیا۔ اسی لپیٹ میں سندھی زبان بھی آ گئی جو یہاں ضلعی دفاتر میں بھی ذریعہ اظہار تھی۔ کراچی کی سندھ سے علیحدگی اور وفاقی صدر مقام بنائے جانے پر سندھی جاگیرداروں کا ایک طبقہ خوش نہیں تھا۔ انہوں نے خود اور اپنے جونیئر ہم نواؤں کے ذریعے جن کی اپنی وجوہ بھی تھیں ایک معاندانہ سیاسی فضا پیدا کر دی۔ پنجاب اردو صوبہ تھا۔ وہاں نفاذِ اردو کی تحریک چل رہی تھی (مولانا صلاح الدین احمد، ڈاکٹر سید عبداللہ، حامد علی خان، پروفیسرحمید احمد خان وغیرہ) سرحد اور بلوچستان بھی اردو پسند تھے (مولانا عبدالقادر ، مولانا یوسفی) (۱۹۷۲ء میں تو پاکستان بھر میں پہلی بار گورنر غوث بخش بزنجو صاحب نے اردو کو بلوچستان کی سرکاری زبان کے طور پر نافذ بھی کر دیا تھا) اور پھر یہ ہوا کہ مشرقی پاکستان میں مرکز سے سیاسی اختلافات ابھر رہے تھے مگر صوبائی حکومت میں اہم افسران مثلاً فضل احمد کریم فضلی مرحوم اردو کو اسی ارشاد قائد کے مطابق مشرقی پاکستان کی سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کی عجلت میں تھے۔ یہی کوشش تعلیمی سطحوں پر اردو نفاذ کے لئے جاری تھی۔ یہ غلط تھا صحیح تھا الگ بحث ہے مگر قائد اعظم خود چٹاگانگ جا کر ایک اور خطبے میں فرما آئے تھے کہ اردو اور صرف اردو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان ہو گی۔ بات بڑھی۔ قائد کے بعد مرکز اور مرکزی علامت کے طور پر اردو کے خلاف تحریکوں میں شدت آ گئی۔ ایک دن نور الامین صاحب کے دور میں حکومت میں ڈھاکہ کے احتجاجیوں نے ایک جلسہ منعقد کیا۔ جلوس بنایا اور رواجی سیاست کے مطابق نعرے لگتے چلے تو متعلقہ مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر ایس۔ پی مسعود محمود نے فائرنگ کرا دی …… بس اس سے وہاں ’’اردو شاؤنیت‘‘ کا ڈنکا پیٹ دیا گیا۔ مسعود محمود قصور کا پنجابی تھا(اس نے کراچی میں مہاجر لیفٹیننٹ کمانڈر عبرت کیس میں ان کی بیوی پر مبینہ طور پر سے ایک شرمناک ٹارچر کی شہرت بھی حاصل کی تھی وہ کوئی اردو اسپیکنگ شاؤنیت زدہ نہیں تھا۔ (یہ وہ شخص ہے جو بھٹو صاحب کو بہت مرغوب رہا اور ان کے مقدمے میں سلطانی گواہ بھی بنا) اس نے اپنے ساتھیوں پر بھی بڑے مظالم کئے۔ ان میں پنجابی بھی شامل تھے۔ وہ ایک بد صفات آدمی تھا۔ صوبائی اپنائیت کا لحاظ بھی نہیں رکھتا تھا۔ ڈھاکہ میں اس سانحے کے اثرات مغربی پاکستان تک آئے۔وہ ایک معمولی سطح کا اردو شاعر بھی تھا۔ مشرقی پاکستان میں اردو کو اس کے ظلم نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ وہاں طلباء نے اپنے تین شہیدان بنگلہ کی یاد میں پھانسی یادگاریں بنا رکھی تھیں۔ ہر سال بڑا جلوس نکالتے تھے۔ ہم نے گلڈ میں بنگلہ کو اردو کے ساتھ رکھا۔ ۱۹۶۷ء آتے آتے میں نے ان کے جلوس کی قیادت خود کی۔ یہ وہاں کے تمام اخبارات میں چھپا ہوا ہے تو یہاں اردو کے ان دوستوں میں وہ مہاجر ہی نہیں جن کا ذکر آیا بلکہ سندھ اور زیادہ تر پنجاب کے اردو پسند بھی شامل تھے۔ پیر حسام الدین راشدی، پیر الہی بخش (علی گڑھ کے فارغ التحصیل) بہت سے نام ہیں۔ پنجاب میں میاں مولانا صلاح الدین احمد، میاں بشیر احمد، ڈاکٹر سید عبداللہ، پروفیسر حمید احمد خان، مولانا حامد علی خان۔ کتنے نام گنواؤں۔ میرے کئی مقدموں میں ہر دور کی صورت حال کے تجزیئے ہیں۔ نادان دوست تو جلد ختم ہو گئے تھے۔ دانا دوست سیاسی مناقشوں سے الگ تھلگ مخلص علماء فضلاء تھے۔ وہ متعلقہ سیاسی حلقوں پر اس طرح اثر انداز نہ ہو سکے کہ سیاسی اور اقتصادی حقوق کے لئے کشمکش میں قومی زبان ملوث نہیں ہونی چاہئے۔ سندھ کے احساس محرومی نے اور جئے سندھ ٹائپ تحریکوں نے زبانوں کو بھی لپیٹ میں لیا تھا۔ اردو کو مہاجر پنجابی سیاسی گٹھ جوڑ کی ایک علامت بھی قرار دیا گیا۔ روسی دانشوروں (بطور خاص پروفیسر گنکوسکی) نے اپنے مقاصد کے تحت مفسدانہ ریسرچ کے ساتھ یہاں ایسا لٹریچر بٹوایا جو مقامی زبانوں بخلاف قومی زبان کے غیر ضروری مسائل اٹھاتا تھا۔ ون یونٹ کے قیام نے اس قضیئے کو اور ہوا دی۔

            صدر مقام کے کراچی سے چلے جانے اور رد عمل سے اردو کا معاملہ متاثر نہیں ہوا۔ جب یہ ہوا چند پرانے اہل زبان جن کو میں نے شاؤنیت زدہ کہا ہے رہے ہی نہیں تھے۔ اور جو دوچار رہ گئے تھے وہ فعال نہیں تھے۔ صدر مقام تبدیل ہونے پر اقتصادی احساس محرومی نے ضرور جنم لیا۔ کوئی لسانی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ ریکارڈ پر نہیں آیا اور میری یاد میں بھی نہیں آ رہا۔ کیونکہ جب صدر مقام کراچی تھا تب بھی اردو سرکاری زبان نہیں تھی۔ انگریزی ہی تھی نہ ہی اہل کراچی نے اس تبدیلی کے حوالے سے کوئی لسانی قضیہ کھڑا کیا۔ یہاں مقیم بنگالی بھی اتنے ناراض ہوئے تھے کیونکہ موسم کی وجہ سے اور سرمایہ کاری میں خصوصی مراعات کی وجہ سے وہ یہاں جمنے لگے تھے یعنی کاروبار میں ان کی شراکت سے مقامی سرمایہ کاروں کو وفاقی پالیسیوں کے تحت جلد تر اور زیادہ مراعات مل جاتی تھیں۔ چنانچہ وہ صدر مقام جانے سے متاثر ہوئے۔

            کراچی میں اردو اس وقت مسئلہ بنی جب ۱۹۷۲ء میں ممتاز بھٹو صاحب نے روایت کے مطابق بھٹو صاحب سے اجازت لئے بغیر ایک لسانی بل سخت عجلت میں منظور کرایا۔ اس کی بعض دفعات نے اپنے دیگر حقوق کے معاملے میں پہلے سے ہی ناراض اردو اسپیکنگ آبادی کو بھڑکا دیا اور لسانی فسادات ہو گئے۔ پھر بھٹو صاحب نے مذاکرات کئے۔ ترمیمات ہوئی۔ اس کے بعد سے سندھ میں اردو ، سندھی دونوں کئی سطحوں پر رائج ہیں۔ کوئی عملی تضاد نہیں۔ صوبائی سیکریٹریٹ میں انگریزی چلتی ہے۔

            درخواستیں اردو سندھی دونوں میں لی جاتی ہیں۔ آج بھی اس سخت اور مناقشات میں بھی اردو زبان اور سندھی زبان میں کسی تصادم ، کسی جھگڑے کی خبر نہیں بنتی۔ وہ ہے ہی نہیں۔

            چند برس سے جو ’’نسلی‘‘ یا لسانی گروپ ابھرے ان کا بھی سندھی زبان سے کوئی تنازعہ نہیں۔ وہ لوگ اردو اسپیکنگ ہیں مگر اس کے تحفظ یا فروغ و نفاذ کی ذمہ داری پورے پاکستان پر ڈالتے ہیں۔ ان کے مسائل میں زبان کے حوالے سے کوئی مطالبہ کوئی قضیہ نہیں۔

            دراصل نفاذ اردو شہری سندھ کا نہیں پورے پاکستان کامسئلہ ہے۔ اسے سندھی کی اردو اسپیکنگ آبادی سے منسوب ہی نہیں کیا جا سکتا۔ میں ۱۹۵۹ء اور خاص طور سے ۱۹۶۲ء سے اس موضوع پر کچھ نہ کچھ کام کرتا رہا ہوں۔ میرے مقدمے ملاحظہ کر لیجئے۔ یہ موقف کہ انگریزی کی جگہ وفاق میں اردو کو نافذ ہونا چاہئے۔ آج بھی ایک قومی مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین رہ چکے ہیں۔ ان کے افکار اور ان کے عہد کا کام دیکھئے۔ پہلے چند بزرگوں کے نام تو گنوا ہی چکا ہوں۔ بابائے اردو کے بعد ان بزرگوں جیسے اردو کا رکن ’’اردو اسپیکنگ‘‘ طبقے میں پیدا نہیں ہوئے۔ ۳۳ برس سے میں انجمن ترقی اردو میں بیٹھا ہوں۔ صلح کل۔ پاکستانی زبانوں کو دل و جان سے ماننے والے ان کے فروغ کا حامی ………… اور میں شہری سندھ میں کسی جن سنگھی قسم کے اردو ادیب، شاعر ، دانشور، سماجی کارکن یا سیاست داں کو بھی نہیں جانتا۔ جو تہہ دل سے اردو کا ٹکراؤ ان زبانوں سے چاہتا ہو۔ سیاسی حربوں میں اسے قضیہ بنا دینا اور بات ہے۔ اردو کی لڑائی انگریزی کے سرکاری استعمال سے ہے۔ انگریزی ہمارے کسی بھی علاقے کے عام آدمی کی زبان نہیں۔ ہاں اس رویئے کے مرتب ہونے میں تھوڑا سا کنٹری بیوشن میرا بھی ہے ………… میں نے انجمن میں آ کر لسان واحد کی تحریک نہیں چلائی۔ نہ چلنے دی۔

            میرے سامنے کوئی علاقائی یا پاکستانی زبانوں کی مخالفت یا ناقدری بھی نہیں کر سکتا۔ میں نے اردو میں ان کے ترجمے بھی کرائے ہیں (انجمن کی کہانی) نہیں جناب وہ احساس محرومی سیاسی اور معاشی حقوق سے منسلک ہے اردو سے نہیں۔

٭       ملک کے سنجیدہ اور غیر جانب دار اہل علم کی رائے میں خرابی کی ایک وجہ اہل زبان کا احساس تفاخر اور بوئے حکمرانی بھی بنا؟

٭٭   کون سی خرابی؟ یہ ایک بہت مبہم اور غلط تاثر سے پیدا ہونے والا سوال ہے۔ خرابیاں تو بلا تخصیص طبقاتی محرومیوں سے آئی ہیں۔ یہ سیاسی اور اقتصادی مسائل ہیں۔ بڑی تفصیل ہے انکی۔ ’’اہل زبان‘‘ نے پاکستان پر حکومت ہی کب کی؟ بوئے حکمرانی ان میں تھی کہاں۔ وہ تو دو سو برس سے عملاً اور ۱۸۵۷ء سے باضابطہ طور پر انگریزوں کے غلام چلے آئے تھے۔ اگر آپ کی مراد نوابزادہ لیاقت علی خان سے ہے تب بھی غلط ہے۔ وہ قائد اعظم کے نامزد وزیر اعظم تھے۔ مسلم لیگیوں میں اختلافات ہوئے تو ایک دھڑے کی مخالفت کا نشانہ بنے۔ پنجاب میں ان کے حلیف میاں ممتاز دولتانہ تھے۔ ان کے مخالفین نے نوابزادہ صاحب کی بھی مخالفت کی۔ یہ سندھ اور مشرقی پاکستان اور سرحد میں ہوتا رہا۔ ویسے لیاقت علی خان مرحوم نے کبھی کوئی ’’اہل زبانی‘‘ دکھائی بھی نہیں۔ وہ دراصل کرنال کے تھے جو مشرقی پنجاب میں تھا (اب ہریانہ میں ہے) زیادہ تر بلکہ تمام جاگیر کرنال میں تھی، ایک ذیلی جاگیر مظفر نگر مغربی یوپی میں ………… حضرت اگر میں اپنی فصیلوں والی دلی میں بیٹھ کر بات کرتا تو انہیں قطعاً اہل زبان نہ مانتا۔

            ثقافتی احساس تفاخر کا الزام بھی بالکل فروعی بلکہ فضول الزام ہے۔ کراچی میں بقول پیر راشدی صاحب پورے ہندوستان کی کریم Creamآ گئی تھی (حقیقتاً نہیں محاورۃً) وہ اپنے اپنے خاندانی تفاخر ضرور ساتھ لائے تھے۔ وہ کوئی ترقی پسند، روشن خیالوں کے قافلے تو نہیں تھے۔ جیسے اس وقت یہاں اور وہاں اپر کلاس مسلمان ہوتے تھے ، ویسے ہی وہ بھی تھے۔ جاگیردارانہ ہو کر بھی جاگیردارانہ مزاج کے چھوٹے چھوٹے آوازے۔ ہندوستان پر مسلم حکومت کے یادوں کے شاخسانے ………… یہاں ایک دوسرے تک سے تفاخر کرتے تھے۔ مگر جلد ختم ہو گئے۔ ان کا تضاد یہاں ہوا کس سے؟ کسی سے بھی نہیں۔ کیونکہ جو یہاں کے جاگیردار نواب اور خاندانی تھے وہ بھی ویسے ہی تھے اور ہیں۔ فرق یہ کہ وہ بے زمین ہوئے یہ اپنی زمین پر ہیں۔ نہیں یہ کوئی وجہ خرابی نہیں تھی۔ نہ جانے آپ کن اہل علم اور اہل الرائے کا ذکر کر رہے ہیں۔ یہ تاریخ تو ماضی قریب کی ہے اسے بھی توڑنا مروڑنا کسی اہل علم اہل الرائے کو زیب نہیں دیتا۔

            اچھا ، اگر کوئی ایسا تھا بھی تو اس وقت کے صدر مقام کراچی تک ہی محدود رہا اور جلد ہی ختم بھی ہو گیا۔ آج کے اتنے پاکستانی مسائل جو اس شدت سے جاری ہیں ان میں ان کا کوئی تسلسل ہے؟ بالکل نہیں۔ پھر ان کی کیا اہمیت رہ گئی۔ افسوس طبقاتی جدوجہد کو جو اصل مسئلہ کس کس بہانے سے کن کن سمتوں میں پھینک کر قومی توجہ بٹائی جا رہی ہے …… حضرت تفصیل کے لئے میں اپنے اظہاریئے پڑھنے کی دعوت دیتا ہوں۔

٭       اردو زبان کے کلی طور پر رائج اور مقبول تر ہونے میں تلفظ کی بحث و تکرار کا تنازعہ بھی رکاوٹ بنا ہوا ہے اب دیکھئے ایک طرف تو آپ سائنسی علوم کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کے پر جوش حامی ہیں دوسری جانب لفظ مقتدرہ ہم سے ہضم نہیں ہوتا یہ دو عملی نہیں تو کیا ہے؟

٭٭   الف) یہ کوئی چالیس برس پرانا سوال تھا جو ختم ہو چکا ہے۔

            ب) روزمرہ کی گفتگو میں مقتدرہ مجھ سے بھی ہضم نہیں ہوتا۔ مگر میں اسے Establishmentسے بہتر سمجھتا ہوں۔ نیز یہ میرے خیال میں اس کے اصل معنی نہیں اور Establishmentسے بھی میری مراد صرف مقتدر طبقہ نہیں بلکہ اعلی معاشی سطحوں کا اقتدار طلب طبقہ بھی ہے یعنی وہ سب تا حال ، اقتدار ہیں اور (اقتدار طلب) ایک طرح کے استحصالی جو حکومتیں بناتے بگاڑتے اور حکومتوں سے اعلیٰ سطحوں پر متعلق رہتے ہیں۔ خیریہ دوسرا مسئلہ ہے۔ مقتدرہ میں لوگوں نے رائج کرنا چاہا، انہوں نے Authorityکا ترجمہ کیا تھا۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد ڈاکٹر وحید قریشی صاحب اور اس کے اراکین منتظمہ گواہ ہیں کہ میں نے دو باتیں کہیں۔

۱) ہمارے مقاصد کے مطابق مقتدر صرف خدا کی ذات ہے۔ کسی ادارے کو مقتدرہ کہنا مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ہے۔

۲) سارے ملک میں کسی Authorityمثلاً CDA,LDA,KDAکے ترجمے میں مقتدرہ استعمال نہیں کیا گیا۔ ادارہ کہتے اور لکھتے ہیں۔ اس مقتدرہ قومی زبان کو بھی کوئی اور نام دے دیا جائے۔

            یہ میں نے کالموں میں بھی لکھ رکھا ہے۔ ان کی منتظمہ نے میرا مؤقف منظور کر کے صدر صاحب کو بھیجا۔ انہوں نے سفارش مسترد کر دی۔ وہ خط و کتابت مقتدرہ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔

            علوم میں اصطلاحات کا مسئلہ دوسرا ہے۔ کئی مکاتب فکر ہیں۔ ہم کام کرتے رہتے ہیں۔ انگریزی میں بھی علوم کی زبان علیحدہ ہوتی ہے۔ مگر عام بول چال میں مقتدرہ ایک ثقیل لفظ ہی کہا جائے گا ………… یہاں دو عملی کا اشارہ میری سمجھ میں نہیں آیا …… میں تو کبھی کسی یا اس قومی زبان والی مقتدرہ کا صدر نشین نہیں رہا ، نہ ہوں ، نہ ہونے کا امکان ہے نہ مجھ میں وہ اوصاف ہیں نہ میری مزاجی کیفیت ایسے معاملے میں جو ایمان کی طرح کسی چپڑ قنات سیکریٹری ، وزیر بلکہ کسی وزیر اعظم کی ماتحتی قبول کر سکتی ہے۔ یہ دل کا مسئلہ ہے۔ میں نے نوکریوں میں دماغ بیچا ہے ، دل نہیں بیچا۔

٭       سندھ کے بے پناہ سنگین مسائل میں ایک مسئلہ کراچی کی جانب ہجرت کا بھی ہے۔ مقامی آبادی کی جانب سے سن اور تناسب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ نیز جبری اور اختیاری ہجرت کے بارے میں آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟

٭٭   یہ کوئی بیس صفحے کا جواب مضمون چاہتا ہے۔ جو لوگ میرے کالم پڑھتے رہے ہیں وہ میری رائے جانتے ہیں۔

٭       ایک مفروضہ قائم کرتے ہیں خدانخواستہ پاکستان کا قیام عمل میں نہ آتا یا آپ ہجرت نہ فرماتے تو آج ہم کس ڈھب کے جمیل الدین عالی سے متعارف ہوتے؟

٭٭   یوں تو یہ مفروضہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے کہ میں میثاق آدم میں شامل نہ ہوتا اور پیدا ہی نہ ہوتا۔

            مگر آپ نے واپس جا کر اپنی اوقات متعین کرنے کی بات کی ہے تو کسی قدر سوچ سکتا ہوں کہ میں وہاں بھی کشمکش کرتا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مجھے پاکستان نے سب کچھ دیا ہے مگر یہ نہ بھولا جائے کہ پاکستان مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ بھی ہے۔ ایک تسلسل گو کم اور ختم ہو رہا ہے یا اس طرح آمیز ہو رہا ہے کہ شاید کچھ مدت بعد اس کی شاؤنت بھی نہ ہونے پائے میرے پسِ منظر میں بھی رہا۔

            یوں دیکھئے کہ اگر پاکستان وجود میں نہ آتا تو کیا ہوتا؟ اگر ہندوستان میں ریاستیں بھی رہتیں تو میں ریاست سے ذہنی بغاوت کے باوجود اس کا وظیفہ تو لیتا ہی رہتا یعنی دوسرے ہندوستانیوں کے مقابلے میں مراعاتی تو رہتا ہی ممکن ہے مجبور ہو کر ریاست میں ہی چلا جاتا اور وہاں سے ابھرتا۔ اس اضافی حیثیت کے ساتھ کشمکش کرتا تو شاید بہت پچھڑا ہوا نہ رہتا۔ اگر ریاستیں بھی ختم ہو جاتیں جیسے کہ ہوئیں تو وظیفہ ختم ہوتے ہوتے (شاید ۱۹۷۱ء میں کامل طور سے ختم ہوئے) ریاست کی سیاست میں آ کر کوئی جگہ بنا لیتا۔ دلی میں کوئی جگہ بنا لیتا۔ شاید ہر جگہ ناکام رہتا لیکن یہ ضروری نہیں۔ میری بے چینی کہیں تو لے جاتی۔ شاعر تو میں رہتا ہی۔ شایدنثرنگار بھی ہو جاتا۔

            لیکن میں اتنی کم عمر میں یہاں آیا ہوں کہ اس مفروضے کامجھ پر اطلاق ہونا ہی نہیں چاہئے۔ میں تو حقیقت سے شروع کرتا ہوں۔ میں پاکستان مجبوری یا فساد کے نتیجے میں ہجرت کر کے نہیں آیا۔ حکومت ہند میں پاکستان آنے کے لئے بھرتی ہوا۔ اور مستقلاً OPTکر کے آ گیا۔ (عارضی اور مستقل تبادلے کی Optionدی گئی تھیں اور قائد نے اپیل کی تھی کہ مسلمان ملازمین پاکستان چل کر حکومت اور ادارے بنائیں۔ یہ ریکارڈ پر ہے) یہاں کشمکش رہی۔ محنت کی۔ ملک کے حالات نے مدد کی (مجھ جیسے بہتیرے رہ بھی گئے) بہرحال پروان یہیں چڑھا تو جو بھی ملنا تھا اور ملا۔ یہاں تک کہ ایک وراثتی جائیداد بھی (بے اولاد بہن بیگم ممدوٹ کی جائیداد اور زمینات) جس میں ایک بٹہ آٹھ حصہ ملا۔ پاکستان (ساہیوال، لاہور) میں ہی واقع تھی۔ ایک وقت تک اس کے ملنے کا امکان نہ تھا کہ مرحومہ کے سگے بہن بھائی زندہ تھے۔ مجھے حسبِ شرع کچھ نہیں مل سکتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کی ایک بڑی بہن (بیگم پاٹوڈی) ان کے بعد بھی زندہ رہیں۔ (انہیں آدھا حصہ ملا۔ ان سے ان کے بیٹے کو آیا جو پاکستان میں ہیں) یہ اتفاق ہو گا، میرے لئے تو وسیلہ ثابت ہوا۔ پاکستانی وسیلہ۔

ماضی کی پیش گوئی بڑا مشکل کام ہے وہی!جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا!!

حال پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ مگر میرے اس احساس کے اسباب منفرد ہیں۔ اگر مفروضے کو عمومیا جائے تو ہر ایک کو ذاتی اور خاندانی حوالے سے سوچنا ہو گا۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ذاتی سطح پر مادی طور سے بہت کچھ کھو دیا۔ مگر پاکستان مل جانے پر خوش ہیں۔ اب مہاجروں کی نوجوان نسل میں ہمارے اور ان بزرگوں کے اس تصور سے اختلاف پیدا ہو رہا ہے۔ میں ان کے ساتھ نہیں مگر یہ ان کی ایک حیثیت ہے بہرحال اس پر کتابیں ہی کتابیں آ رہی ہیں۔

(پرانا ہی سہی) میں اپنی جگہ ، اب بھی یہ موقف رکھتا ہوں کہ پاکستان ناگزیر تھا۔

(۲) مجھے یہاں سبھی کچھ ملا اور (۳) میں ایک پاکستانیت پسند نہ کہ صوبائی لسانی عرفیت زدہ شہری کے طور پر مرنا چاہوں گا۔ اللہ یہ خواہش پوری کرے۔

٭       علوم و فنون رہبری و راہنمائی و ترغیبات کے حوالے سے پچاس سے اوپر بلوغت کی عمر شروع ہوتی ہے۔ ہماری موجودہ ابتری تنزلی اور اخلاق باختگی کی ذمہ دار ہماری نوعمر نوآموز قیادت تو نہیں؟

٭٭   ممکن ہے آپ کا فارمولا انفرادی سطح پر عمومی طور سے ، گو بالاستثنا، درست ہو، افلاطون نے تو ملکی خدمات کے لئے ساٹھ برس تک کی شرط رکھی ہے جس سے پہلے مختلف واضح تعلیم اور تربیتی مراحل سے گزرنا ضروری تھا لیکن ہماری موجود ہ ابتری، تنزل اور اخلاق باختگی کا اس بلوغت یا عدم بلوغت کا کوئی تعلق نہیں۔ ایک نئے سیاسی نام کے ساتھ ہم پچاس برس سے کم عمر ہیں مگر یہ کوئی ایسا صحرا نہیں تھا جہاں انسان پہلی بار معاشرہ بنا رہے ہوں۔

            ہماری موجودہ نوآموز قیادت بھی پچھلے آٹھ دس برس میں ہی جوان ہوئی اخلاق باختگی اس سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔

            ابتری اور اخلاق باختگی ہم سے کہیں زیادہ میچور، سیاسی قیادت کے معاشروں پر چھائی ہوئی ہے۔ ہاں بعض معاشروں میں تمام تر اخلاق باختگی کے باوجود حکومت اور عوام کے رشتوں میں جواب دہی کے نظام نے ملک کو اتنا نقصان نہیں پہنچنے دیا۔ ہم سے کہیں بدتر ہمارے اخلاقی معیاروں کے لحاظ سے ، بھارتی معاشرہ ہے مگر وہاں سیاست دان عموماً نہایت مجرمانہ ذہنیت اور دوغلے پن کے باوجود جواب دہی کے نظام میں ہمارے مقابلے میں کم سے کم قومی نقصان کا باعث ہوتے ہیں۔ یہی حال برطانیہ اور امریکہ کا ہے۔ ذاتی سطح پر نہ جانے کیا کچھ لیکن اجتماعی سطح پر، پبلک لائف میں ، بہترین سیاسی ضوابط کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔

            ہماری ابتری کے بہت سے اسباب ہیں۔ یہ مفروضہ نابالغی نہیں۔ آگے جواب مضمون شروع ہو سکتا ہے۔ مختصراً ہماری بیشتر بدعنوانیوں کی جڑ ہمارے جاگیرداری نظام معاشرت میں ہے جو حکومتوں پر بھی حاوی رہتا ہے۔ ہمارا نظام اقدار ایک آدم خور دلدل کی طرح ہے۔ کوئی اچھائی ابھرتی بھی ہے تو اسے بہت جلد ہڑپ کر لیتا ہے۔ اگر پاکستان بنتے ہی جاگیرداری ، وڈیرہ شاہی، خاندانیت پر تحدید لگا کر آہستہ آہستہ اسے ختم کر دیا جاتا تو سوسمتوں میں روشنی پھیلنے لگتی۔ میں تو حیران ہوں کہ علوم و فنون میں ہمیں اس وقت جو کچھ حاصل ہے وہ بھی کیسے ممکن ہوا؟ شاید یہ ہماری پرانی بہتر روایات کی سخت جانی ہے۔

٭       قریب ۳۰ سال قبل امریکہ میں ایک ٹریننگ کورس کے دوران آپ نے ہنری کسنجر سے سوال کیا تھا کہ ہماری ٹریننگ کے انتظام و انصرام میں سی آئی اے کس قدر ملوث ہے جواب میں ہنری کسنجر نے کہا میں سی آئی اے کے تعاون و اشتراک کا منکر تو نہیں طریقہ کار کے بارے میں البتہ لاعلم ہوں۔ یہی سوال ہمارا آپ سے پاکستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے ہے؟

٭٭   کسنجر صاحب نے یہ کہا تھا کہ جہاں تک میں جانتا ہوں ان سیمیناروں میں سی آئی اے ملوث نہیں۔ لیکن انہوں نے یہ برا مان کر کہا تھا اور وہ سیمینار کوئی اتنا بڑا اور ایسا مہنگا نہیں تھا کہ کروڑوں ڈالر کا خرچ ضروری ہوتا۔ چالیس بیالیس آدمی باہر سے بلوائے جاتے اور لیمونٹ Lamontلائبریری سے متصل لڑکیوں کے ہوسٹل میں ٹھہرائے جاتے۔ کھانا کھانے ایک باہر کے سیلف سروس خاصے سستے نجی ریستوران میں جاتے ، جہاں کوپن دکھانا پڑتا تھا۔ کوئی مزید اکل و شرب یا سیر سپاٹا مفت نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی کچھ Friend of the Seminarاپنے طور پر اپنے گھر یا تفریح کے لئے لے جاتے۔ لیکن امریکی مفادات کے لئے دنیا بھر میں سی آئی اے کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ ۱۹۶۱ء میں ایک کتاب آئی تھی The Waly Americanپھر جلد ہی دوسری آئی۔ اس کا تو نام ہی تھا CIAدنوں نجی اشاعتیں تھیں۔ مگر لوگوں نے کہا خود سی آئی اے نے دنیا کو ڈرانے کے لئے لکھوائی ہیں۔ ان بیانات سے منکر بھی رہے اور انہیں عام بھی ہونے دیا۔

            پچھلے بتیس برس تو اتنا لٹریچر آ چکا ہے اور دنیا بھر کے علاوہ خود پاکستان میں ایسے بڑے بڑے واقعات پیش آئے کہ اب سوال موہوم قرار پا کر القط ہو جاتا ہے یعنی اس کی ضرورت ہی نہیں رہتی تمام صورت حال لمحہ خود منہ سے بولتی ہے۔ ۱۹۶۸ء سے جب صدر ایوب مرحوم بڈبیر علاقے کی لیز توسیع نہ کرنے پر امریکہ کے معتوب ہوئے۔ آج تک جتنی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں وہ خالص مقامی وجوہ سے نہیں آئیں۔ یہ تو سب ہی جان چکے ہیں۔

            چونکہ میں ثابت کر سکتا ، اسی لئے اپنے طبقے تک سے نام نہیں لے سکتا لیکن بہتوں کے طرز عمل اور عمل کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو آخری تجزیئے میں اکثر نہ سہی بہت سے محض غلطیاں کرنے والے محض اپنی سچائیوں کے مطابق مختلف اقوال و اعمال سے متصف نہیں کسی بیرونی قوت کے متاثرین اور بعض اوقات واضح طور پر آلہ کار نکلیں گے۔ سی آئی اے وغیرہ کے ملوث ہونے کا واحد طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ کیش ہی دے دیا کرے ، عہدے بخشوا دے یا کاروبار میں آسانیاں دلوا دے۔ اس نے ایک بڑا گھیرا ڈال رکھا ہے جس میں ہمارے بیسیوں شعبہ ہائے حیات کے افراد اور ادارے اور سیاسی افراد اور طبقے کسی حد تک نادانستہ اور بڑی حد تک دانستہ طور پر گھومتے ہیں۔

            آگے فی الحال، حد ادب۔ اور چہ پدی چہ پدی کا شوربا۔ ’’لاحاصل‘‘ میں ۱۹۵۹ء کے لکھے ہوئے دوہے ’’پاکستان کتھا‘‘ میں ملاحظہ کر لیجئے۔ اس وقت تو نہ مجھے یونیسکو فیلو شب ملا تھا نہ ہاورڈ گیا تھا۔ جولائی یا اگست ۱۹۵۹ء کے ہفتہ وار ’’لیل و نہار‘‘ لاہور میں بھی چھپ چکے تھے۔

            آج بھیڑ چال میں مبتلا ہو جانا، سمجھوتے کر لینا، خوف میں مبتلا ہو کر چپ رہنا انہی کا ہو جانا کہ سب انہی کے ہو چکے ہیں اور بات ہے۔ حقیقت یہ ہے جو تمام دنیا تسلیم کرتی ہے گو اس چکر سے باہر نکلنے کی ہمت بہت کم ملکوں اور کم افراد نے دکھائی ہے کہ …………                                            بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں

سچ کہ ہم اب بھی کسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نظر آنے والے اور نظر نہ آنے والے داؤ پیچ اور سحر میں مبتلا ہیں۔ نتائج ظاہر بھی ہوتے جاتے ہیں اور ہم جانتے بھی ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہو گا لیکن مفادات پیوستہ ہمیں اس دلدل سے نہیں نکلنے دیتے۔ اب تو ایسی غلامی کو قومی شعار بنا لیا گیا ہے۔ بین الاقوامی بھیڑ چال کے حوالوں سے خود تشفی اور جواز کے طلسمات میں کوئی آواز اختلاف بھی نہیں سنی جاتی۔ بلند ہو تو اس کا مذاق اڑا دیتے ہیں۔ سی آئی اے تو پیچھے رہ گئی اب تو عالمی بینک اور آئی ایم ایف کا کھلا کھیل ہے …… خیر یہ بات بہت دور تک جا سکتی ہے۔

            از راہ کرم اپنے قارئین کو میرے اظہارئیے پڑھنے کی ترغیب دلائیے۔ مستقلاً با تفصیل لکھتا رہتا ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ افیون یا ہیروئن کے عادی اگر نشے سے نکلتے بھی ہیں تو کتنی مشکل سے اور اپنے حال کی کتنی قیمت دے کر ………… یعنی مستقبل کو کتنی دور کرتے ہوئے ………… بہرحال کہنے والے کا کام کہے جانا ہے۔

٭       ادب سے وابستہ ایک نوجوان کی ہمہ جہتی سے متاثر ہو کر آپ نے فرمایا تھا کہ تم کرنا کیا چاہتے ہو …… میرا دل چاہتا ہے کہ اس وقت یہی سوال آپ سے پوچھوں کہ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں آپ کی منزل آپ کا ہدف آپ کے شوق کی انتہا کیا ہے؟

٭٭   یہ بہت اچھا سوال ہے۔ بڑی تفصیل مانگتا ہے مگر اس بھروسے کے ساتھ جواب بہت ہی مختصر طور پر دوں گا کہ آپ اور قاری اس سعی بلاغت کو ضائع نہ ہونے دیں گے۔

            میں یہ چاہتا تھا کہ ہمارے معاشرے میں ، متقین کے بعد ، سب سے بڑا درجہ ادیب کو ملے۔ نوجوانی سے ہی اترانے والے بڑوں کی سرکشی کم از کم کراچی میں بہت معروف رہی ہے۔ وقت آیا تو میں نے کنونشن اور پھر گلڈ کے اراکین کے لئے سبز گول بیج پر قلم کا نشان بنوا کر تقسیم کیا کہ سینوں پر آویزاں کر لیا جائے۔ ہماری شناخت قلم ہو، ہمارا مقام کسی بھی عہدے ، سیاسی مقامات، تجارتی، صنعتی اثاثے سے کم نہ ہو۔ یہی میں اب بھی چاہتا ہوں۔ میرے اور کئی خیالات میں تبدیلی آ چکی ہے۔ اس تجزیئے ، اس تصور ، اس خواہش میں تبدیلی نہیں آئی ………… یہ کہ ہم میں کون بڑا چھوٹا ہے۔ اس کا فیصلہ بھی ہم ہی کر سکتے ہیں۔ کوئی محض وزیر ، محض بیوروکریٹ، محض سیاسی عہدہ دار نہیں کر سکتا۔ نہ اسے اس کی اجازت ہونی چاہئے۔ رہے ہمارے عیوب تو وہ اس بلند مقامی کے ارتقا میں احساس ذمہ داری سے خود ہی کم ہوتے جائیں گے۔ ہم اب بھی مجموعی طور پر معاشرے کے لئے دوسروں سے بہت بہتر ہیں۔یہ سب نہیں ہو سکا۔ مگر میرے وقت تک اور شہاب صاحب کے تحفظ یا سرپرستی میں میری جدوجہد، کچھ ساتھیوں ………… مشرقی و مغربی پاکستان ………… کی ہم خیالی اور عملی تائید سے ہم اس تصور کو تقریباً دس فی صد آگے بڑھانے میں کامیاب ہو گئے تھے ………… لیکن پھر ہم کو توڑ مروڑ کر پھینک دیا گیا ………… یہ کہانی میرے دور گلڈ کی کہانی ہے کبھی لکھی ضرور جائے گی۔

            ایسا کہیں ہوا ہو نہ ہوا ہو اس سے مجھے تعرض نہیں۔ ہم صحافتی سطح پر یا صرف آج کے تناظر میں بات نہیں کر رہے ہیں یوں دنیا کے بعض ملکوں میں ایسے ادوار گزرے ہیں۔ جب حکومت کے سربراہ اپنے ادیبوں کی صرف ’’قدر افزائی‘‘ ہی نہیں کرتے تھے ان کے سامنے کھڑے ہو کر ان کی بات سنتے تھے۔ چین میں کنفوسش اور کنفیوسش ازم کی تاریخ پڑھئے۔ یونان میں ارسطو اور اسکندر کی افسانوی نہیں حقیقی روابط کی کہانی دیکھئے جو پلوٹارک نے بیان کی ہے۔ سکندر نافرمان ہو گیا تھا۔ استاد خفا مگر استاد سے سکندر کی جان نکلتی تھی۔ بعض مسلم ادوار بھی ایسے گزرے ہیں کہ ادیب (اس وقت اس تعریف میں بعض علماء بھی آ جاتے تھے) مطلق العنان بادشاہ کو برسرعام ڈانٹتے ہیں اور وہ چپ رہتا ہے۔ اکبر اعظم دربار لگاتا تھا مگر اپنے وسطی دور میں شیخ مبارک اور ابوالفضل اور فیضی کو جو اس کے ملازم تھے۔ اپنا رہنما سمجھ کر کیسا نیازمندانہ رویہ رکھتا تھا۔ جہانگیر نے پہلے حضرت مجدد الف ثانی پر عتاب کیا پھر انہیں رہا کر کے ایک طرح ان کی انور ان کی اولاد کی حلقہ بگوشی بھی اختیار کی …… یہ سب کسی نہ کسی حد میں عظمت ادب کے Recognitionکی ذیل میں آتا ہے۔ صدر ماؤزے تنگ نے لوسین Lwhsun(معروف تلفظ لوسہون) کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ وہ انقلاب کے لئے اپنے طور پر کام کرتا کہ نیان کلچرل فورم (۱۹۴۲ء) سے پہلے مر بھی چکا تھا۔ صدر ماؤزے خود بھی بڑے شاعر اور سیاسی مصنف تھے۔ انہوں نے خطبات نیان میں اس کے لئے چار مرتبہ Greatestکا لقب استعمال کیا تھا۔ انہوں نے شاعر کومورو Koukojoکو نیشنل کانگریس کا چیئرمین بنا رکھا تھا۔ انقلاب کے بعد بھی یعنی جب حکومت حاصل کر لی تب بھی …… میں نے اپنے دورۂ چین میں بھی یہی دیکھا (اور لکھا……) ان کی طرف عام اور خاص چینیوں کا رویہ بھی دیکھا۔ ہمارے ہاں بھی ایک آدھ مثال موجود ہے۔ مولانا میمن ، پیر راشدی، فیض صاحب ، امیر حمزہ شنواری ایک وقت میں جوش صاحب ، حفیظ صاحب !)

            فرض کیجئے آج علامہ اقبال زندہ ہوتے (وہ ہماری برادری کے سردار ہی تو ہیں) تو انہیں کیا معاشرتی حیثیت ملنی چاہئے تھی۔ میں سرکاری حیثیت نہیں کہہ رہا۔ اور اگر آج ہم ہر وقت ان کے راگ گا رہے ہیں تو کس وجہ سے۔ ان کا مؤثر ترین میڈیم کیا تھا۔ ادب یا سیاست؟ یا حکومت؟ (تو اس برادری کی برتری اور توقیر کو اپنا آئیڈیل بنا لینا ناممکن کو چھونے کی آرزو نہیں ہے یہ ایک امکان ہے جو کئی عناصر جمع ہو جانے کے بعد حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ یہ الگ بات کہ برادری اپنی فضولیات میں پڑ کر اسے دور سے دور تر کرتی رہی لیکن ادیب برادری ہی متقین کے بعد ہر لحاظ سے ہماری اہم ترین اور محترم ترین برادری ہونی چاہئے۔ اس کے پاس علم بھی ہوتا ہے اور تخلیقی جوہر بھی۔ ان دو کا امتزاج اور کسی برادری میں نہیں۔

            بر سبیل تذکرہ (اور اب کہنے کی ہمت کر ہی لی جائے ، کھونے یا پانے کے لئے کچھ رہ بھی نہیں گیا ہے) میں نے اپنے انتہائی ضرورت مندی کے دور میں بھی ادب کی نوکری نہیں کی۔ ایم اے کر لیا ہوتا تو شاید پڑھانے چلا جاتا۔ کیونکہ میرے ابتدائی زمانے میں وہاں میرا ’’باس‘‘ بھی کوئی پڑھا لکھا ہوتا۔ (اب کی بات نہیں کر رہا) مگر ادب کی نوکریاں محدود تھیں اور صرف سرکاری شعبے میں ملتی تھیں۔ جہاں شعبہ کسی نہ کسی وزارت کے تحت ہوتا تھا۔دراصل تھا بھی ایک ہی میں یعنی وفاقی حکومت میں ڈی اے ایف پی (محکمہ اطلاعات کے تحت) وہاں میں نے افسری زیادہ دیکھی۔ میں خود کسی قابل تھا یا نہیں (ظاہر ہے کہ اس وقت نہیں تھا اور شاید اب بھی نہیں ہوں) مگر جو اوپر تھے وہ بالآخر افسروں کے ماتحت ہوتے تھے۔ پروفیسر عسکری، پروفیسر وقار عظیم، پروفیسر عزیز احمد …… سب جلد جلد چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ان کی ماتحتی مجھے منظور ہوتی لیکن جن کے ماتحت وہ تھے وہ صرف بیوروکریٹ تھے۔ (شیخ محمد اکرام بہت اوپر تھے) میں کچھ نہ ہو کر بھی ایک تخلیق کار تھا۔ اپنے فیلڈ میں بغیر سوال کسی بڑے کو بھی تسلیم نہیں کر سکتا تھا۔ اسی رویئے سے میرے تمام کیئررز پر برے اثرات پڑتے رہے کیونکہ کہیں بھی جاؤ کسی نہ کسی صورت سے ادیب ہونے پر حملہ ہوتا توہین کی جاتی۔

            جتنے کیریئر اختیار کئے ان میں دماغ اور ہاتھ بیچے۔ انکم ٹیکس افسری میں کمشنر جو حکم دے۔ تعمیل۔ دل کہیں Involveنہیں ہوتا۔ ایوان صدر میں بھی دماغ کی نوکری بلکہ اس نوکری کے بہانے ادیب کی سربلندی کے لئے کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرنا (یہ سیاسی طور پر متنازعہ فیہ دعوے کہا جا سکتا ہے۔ پھر پریس ٹرسٹ میں بھی دماغ اور محنت کاپی رائٹ دفتر (مختصر المیعاد نوکری) دماغ اور محنت ، بینک ، دماغ اور محنت۔

            آگے چلئے۔ چار آدمی زندہ ہیں۔ کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے۔ مارشل لاء دور لیں۔ وزیر تعلیم ڈاکٹر محمد افضل، نسیم آہیر، وزیر تعلیم، جوگے زئی وزیر تعلیم۔ تینوں نے کہا اکادمی آف لیٹرز میں آ جائیے۔ عرض کی ادب اور ادیبوں کی نوکری اچھی نہیں ہوتی۔ کر بھی لوں تب بھی افسر تو سیکریٹری وزارت تعلیم اور وزیر تعلیم ہوتا ہے کہا آپ کے لئے ایسا نہیں ہو گا۔ آپ کر کے دیکھئے تو سہی۔ ایک تو میں اس مارشل لاء کے جواز سے اس پر اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی اپنے اندر ایک احتجاج رکھتا تھا۔ بس بینک کی نوکری میں اپنا وقت گزار دینا چاہتا تھا۔ دوم اگر حالات سے سمجھوتا کرتے ہوئے (جس نے نہیں کیا اسے مبارک مگر یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ کس کس نے وزارت اطلاعات کے کسی نہ کسی شعبے میں کب تک نوکری جاری رکھی اور ………… خیر …………) اپنے آپ کو وسیع تر مقاصد کی خوراک پلا کر ادھر چلا بھی جاؤں تو فوراً ہی کوئی ان پڑھ سیکریٹری ان پڑھ وزیر حکم چلانے لگے گا۔ اس سے بہتر ہے کہ اپنے پیشے میں اگر سیکشن آفسر کے سامنے بھی جانا پڑے وہ برداشت کر لیا جائے۔ فیصلوں کی ذمہ داری اس کی یا ڈپٹی یا جوائنٹ یا ایڈیشنل یا سیکریٹری اور وزیر کی ہو گی لیکن اکادمی ہوئی ، مقتدرہ ہوئی ، وزارت اطلاعات کے (سب نہ سہی) دوچار شعبے ہوئے ، نا اہل ، چھوٹے لوگ ، چپڑ قنات وزیر ایک ادیب کو اس کے مضمون کے بارے میں کیا رہنمائی دے سکتے ہیں۔ دھونس سے ہی کام چلانا چاہیں گے۔ آفتاب احمد خان سابق اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری (وزارت خزانہ کے بھی) زندہ ہیں۔ ایک مسیح الزمان صاحب کیبنٹ سیکریٹری بھی تھے۔ میں ان سے ایک مرتبہ سے زیادہ ملا بھی نہ ہوں گا۔ جونیجو صاحب کے دور میں دونوں نے پوچھا کہ آپ کو ان تین ناموں میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو مقتدرہ میں ڈاکٹر وحید قریشی کی ریٹائرمنٹ پر زیر غور آ رہے ہیں۔ عرض کی اگر جونیجو صاحب خود یقین دلا دیں کہ میں کسی سیکریٹری کے تحت نہ ہوں گا (نظری نہ سہی عملی طور پر مقتدرہ کا چیئرمین گریڈ ۲۲ میں رہ کر بھی ایک سیکریٹری کے تحت رہتا ہے) اور وہ کم از کم اپنی سی کوشش نفاذ اردو کے لئے کریں گے تو بلا تنخواہ اپنی زمین بیچ کر اسلام آباد میں کسی کے گھر رہ کر گزارہ کر لوں گا…… وہ یہ یقین دہانی حاصل نہ کر سکے۔ باقی تفصیل ہے۔ بہرحال ان پیش کشوں پر ان حضرات سے استفسار کیا جا سکتا ہے۔ جونیجو صاحب نے خود بھی بلا کر بات کی تھی مگر وہ گواہی دینے کو زندہ نہیں ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ میری جاریہ بینکاری ملازمت میں ہی مزید توسیع کر دی۔ انہوں نے دو برس کا حکم دیا تھا اسٹاف نے پچرمار کر ’’فی الحال‘‘ ایک برس کر دیا۔ دو پہلے ہی مل چکے تھے۔ میں نے دوبارہ مل کر شکایت بھی نہ کی۔ اونے پونے جائیداد بیچنے میں لگ گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ میرے لئے اچھا ہی ثابت ہوا …… بہرحال میرے ہدف تین ہیں ایک ذاتی۔ یہ کہ میں کچھ اور لکھ جاؤں دوم اجتماعی وہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں اور دنیا میں ادب اور ادیب کو متقین کے بعد سب سے بڑا مقام ملے۔ میں افلاطون کے فلاسفر کنگ والے سے یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ادیب حکومت کریں یا جب کوئی مقامی یا عالمی حکومت بنے تو اس کے سربراہ صرف ادیب ہوا کریں۔ یہ بڑے طویل المیعاد مستقبل کے مسائل ہیں گو میں اب بھی فلاسفر کنگ کا آنا قیامت تک خارج از امکان نہیں سمجھتا۔ شاید ایسا وقت آ جائے جب ہمارا ذہنی ارتقاء فلاسفر کنگ بھی پیدا کرنے لگے۔ سبھی فلاسفر ہونے لگیں اور اپنے میں سے کوئی واقعی بے غرض دانشور کا انتخاب کیا کریں۔

            تیسرا ہدف یہ کہ میں Quest For Knowledgeکیلئے کوئی بڑا کام کر جاؤں۔ اپنی عمر، اوقات اور قومی پس ماندگی دیکھتے ہوئے آج یہ امکان بڑا مشکل لگتا ہے لیکن اللہ تعالی کے کرم سے تو کچھ بھی بعید نہیں۔ بہرحال یہ میرا ہدف ہے ضرور۔ اس میں یہ بات ضروری نہیں کہ میں ہی کروں۔ مراد یہ ہے کہ میں ایسے حالات پیدا کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکوں۔ علم ہی تو خیر ہے بھائی صاحب۔ وہ بزرگوار اتنے پرانے ہو کر بھی بات بڑی تازہ کہہ گئے ہیں …… مگر انٹرویو میری کس حیثیت میں لیا گیا ہے؟ سوالات قدم قدم پر سوانح سے منسلک گلڈ کے Repetitionشاید ناگزیر طور پر …… جناب میں بہت معمولی آدمی ہوں مگر میں نے روزی کمانے کے علاوہ بہت کام کیا ہے۔ بہت خواہ نثر میں لکھا ہے کچھ نہ کچھ پڑھا بھی ہے اور پڑھتا رہتا ہوں یہ سب نثری تحریروں میں بھی Reflectہوتے ہیں خواہ وہ کالم ہوں اور شعر میں بھی۔ ذاتی تجربات سے کشید ہو کر خواہ دوہے ہوں خواہ ’’انسان‘‘ کے حصے۔ کاش ہم ایک دو نشستوں سے زیادہ نشستوں میں تسلسل کے ساتھ جم کر باتیں کر سکتے …… مگر خیر بقول فیض صاحب یہ بھی ٹھیک ہی ہے …… افسوس میری ابتدائی تعلیم یتیمی لاڈ پیار اور جیسے بھی با محبت سرپرست تھے ان کی نا اہلی اور کم توجہی سے بالکل ناقص ہوئی۔ تربیت لڑکپن میں تو ہونے ہی نہ پائی۔ کبھی کسی نے ایک گھُرکی تک نہ دی۔ طمانچے کا تو کیا ذکر ہے …… بڑے ہوتے ہوتے کچھ پرانی وضع کے فضلاء مثلاً اپنے چچا نواب ضمیر الدین عالی اور نواب سراج الدین خان سائل دہلوی اور مفتی کفایت اللہ صاحب (ننھیالی گھر کے بالکل سامنے آ کر رہنے لگے تھے) کے پاس از خود جا کر بیٹھنے لگا تھا۔ ایک آدھ استاد نے کالج میں توجہ کی مگر اعلیٰ تعلیم نہ پا سکا۔ یہ کمی بعد میں ہزاروں کتابیں پڑھنے اور دنیا بھر کھنگالنے کے بعد بھی پوری نہیں ہوئی …… ہاں جدید لوگوں میں اخترالایمان کی صحبت سے بہت سے بڑے لوگ گاہے گاہے ملتے رہے۔ ان کا فیض لاشعوری طور پر باہر کچھ نہ کچھ دے گیا ہو گا۔

            آئیے آپ کے انٹرویو کا اختتام کریں …… ممنون ہوں کہ مجھ پر توجہ فرمائی۔ اتنا وقت اور کاغذ ضائع کر رہے ہیں۔ میری شعوری عمر نہایت سخت کوشی کے باوجود کسی کائنات اصغر کی تشکیل پر سوچتے اور اس سمت میں چھوٹے چھوٹے کام معمولی معمولی ابتدائیں کرتے گزری ہے۔ محض خیالی دنیا میں شعری ، فکری کاوشوں میں تو لوگ کائنات اکبر تک تخلیق کر کے مطمئن (یا نا مطمئن) رہتے ہیں اور عموماً ناقدین ان کی فکری یا خیالی تخلیقات کے حوالے سے یہی بات کرتے ہیں۔ عملی اقدامات کو سیاست کے شعبے میں پھینک دیتے ہیں۔ شاید وہ بھی درست ہوں مگر ایک وقت کے بعد میں نے اپنی ہزار ہا محدودات میں بھی دونوں کوششیں کرنی چاہیں۔ کامیابی اور ناکامی خارج از بحث کیونکہ یہ دونوں چھوٹے فاصلوں سے منسلک ہیں۔ میرے لئے ایک مصرع ، ایک فقرہ، ایک قدم بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اب نئی کتاب ’’اے مرے دشتِ سخن‘‘ میں ’’تہجی‘‘ ملاحظہ کیجئے اور یہ دو شعر ہیں۔

چل آ کہ تو بھی اسی بابِ ناتمام سے ہے

یہاں تو سب کو غرض اپنے اپنے کام سے ہے

رہا یہ قصّہ کہ کب ’’کون‘‘ کس کو کیا مانے

تو کون جانے ، ازل جانے یا ابد جانے

نومبر 1995ء

٭٭٭

٭٭٭

ان پیج کی فائل کے لئے مصنف گلزار جاوید کا شکریہ۔

ان پیج سے تبدیلی،تدوین،پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید