FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

بجھی ہوئی شام

 

 

                   عبدالرحمن واصفؔ

 

 

 

عہدِ بے باک کا شاعر: عبدالرحمن واصف

 

 

 

 

 

واصف کی شاعری ایسی سطح پر ہے جہاں یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک طویل ریاضت اس کے پسِ منظر میں ہو گی۔ مصرع کو تخلیقی اور فنی اعتبار سے آراستہ کرنا واصف کو آتا ہے اور یہ شعری شعور بہت مشکل سے آتا ہے۔ واصف کے اس مجموعہ میں قارئین دیکھیں گے کہ لفظوں کو برتنا، تشبیہات کا حسن، استعارے اور تراکیب ایسی ملیں گی جو بلاشبہ ایک پختہ کار شاعر کا امتیاز ہوتی ہیں۔

جدید ہونے کے شوق میں اس نے کھردرے الفاظ استعمال کرنے کے بجائے نرم و ملائم الفاظ کا استعمال کیا ہے اور صوتی اعتبار سے ایک خوبصورت لہجہ تخلیق کیا ہے۔ واصف کی شاعری میں رنگا رنگ موضوعات ہیں۔ زندگی کی تلاطم خیزی سے ہی انسان متاثر ہوتا ہے اور اظہار کرتا ہے۔ واصف نے بھی اپنی ذات سے جڑے دکھ، کائنات میں پھیلی ہوئی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور اپنے اردگرد کے حالات سے ہی شاعری کے متنوع موضوعات چنے ہیں۔

محبت تو ہر شاعر کا موضوع ہوتا ہے اور محبوب سے وفا و جفا کا سلسلہ رہتا ہے۔ لیکن اصل بات تو وہ اسلوب ہے جس میں آپ محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگر اسلوب نیا نہیں ہے تو وہ گویا ایک تکرارِ اظہار ہے۔ واصف نے اپنے انداز سے محبت اور محبوب کے بارے میں لکھا ہے۔

جسے تو سوتا ہوا سمجھ کر چلا گیا تھا

تجھے نہ پاکر وہ جاگتا ہے کئی دنوں سے

 

کون آیا کہ سرخرو ہوا دن

کون بچھڑا کہ ملگجی ہوئی شام

ذکر آیا ہے اس کا محفل میں

کھل گئی ہے وہ بند کی ہوئی شام

حسنِ تشبیہہ کی ایک مثال یہ شعر دیکھیے۔

اچھوتے لہجے میں کوئی رسمی سی بات کہنا

کہ دو مہکتے لبوں کو نیل و فرات کہنا

زمانے کا گلہ اور اس کی بے اعتنائی کو واصف نے خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے۔ یہ زمانہ کس کا ہوا ہے۔ لیکن زمانے کے دکھوں اور ناکامیوں کو واصف نے امید میں بدلنے کا وہ انداز اختیار کیا ہے جو بڑے شعراء نے اختیار کیا ہے۔ میر ؔ کا ایک شعر ہے

تمام عمر نبھی ہے مری سلیقے سے

تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

واصف کہتا ہے

ہماری آنکھ میں جس غم کی لو رکھی ہوئی ہے

اسی کے دم سے اندھیروں میں روشنی ہوئی ہے

اس طرح کے بہت سے اشعار میں واصف نے وقت سے گلہ بھی کیا ہے اور وقت کے دیے ہوئے زخموں کو حوصلے سے برداشت کرنے کا اور پھر ان سے کام لینے کا ہنر بھی دیا ہے۔ اپنے معاشرے میں نا انصافیوں اور جبر و استبداد کا بھی ایک سلسلہ مستقل ہے۔ پر امن زندگی ہمارے نصیب میں نہیں ہے۔ اسی معاشرے کے چبھتے ہوئے المیے کو واصف نے اپنے اشعار میں یوں جا بجا لکھا ہے

مسل دیے ہیں یہ کس جبر نے خیال کے پھول

ہر ایک سوچ پہ کیوں برف سی جمی ہوئی ہے

 

میں اس کے خوف سے شاید نکل نہ پاؤں کبھی

جو واہمہ ہے مرے دل میں سرسراتا ہوا

واصف نے اپنے گزرے ہوئے زمانے کو کبھی بھلایا نہیں۔ وہ اپنے بچپن کو ابھی تک ساتھ لیے پھرتا ہے۔ اور اسی شدتِ جذبات نے اس سے اس طرح کے اشعار بھی کہلوائے ہیں۔

خوشبو میں نہائے ہوئے جھونکے کی طرح تھا

بچپن کسی معصوم کے چہرے کی طرح تھا

 

غبار بن کے اڑی ہے وہ بچپنے کی ترنگ

گزر گئے ہیں مہ و سال خواب ہوتے ہوئے

 

میں سر گراں ہوں محبت کے ریگزاروں میں

گئے دنوں کی بہاروں کو گنگناتا ہوا

واصف کبھی کبھی خود کو اور کائنات کو سوچتا ہے تو اس پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ اس کائنات کو معنی ہم نے دیے ہیں

جمود میں تھے عناصر زمین پر پہلے

مگر ہم آئے جہاں میں تو زندگی ہوئی ہے

واصف کی شاعری میں ایک روانی کا احساس ہوتا ہے اور یہ ہنر اس وقت آتا ہے جب شاعر الفاظ کے صوتی آہنگ سے پوری طرح واقف ہو۔ واصف نے اس مجموعے میں الفاظ و معانی کی تعقید سے گریز کیا ہے اور شعر کو آسان ترین زبان میں بیان کر کے شعر کے اندر کئی پرتیں رکھ دی ہیں۔ واصف کے کئی اشعار ایسے ہیں جو تاثیر کے حوالے سے زبان زدِ عام ہونے کا وصف رکھتے ہیں۔

مجموعہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ خود یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ میں نے کہاں تک یہ بات صحیح کہی ہے۔ کہوٹہ جیسی سنگلاخ زمین سے اس قدر مٹھاس میں گندھے ہوئے الفاظ کی شاعری واصف کا کمال ہی تو ہے۔ میں خود حیران ہوں کہ ادبی حلقوں سے کم آشنائی اور ادبی مباحث سے کنارہ کش ہونے کے باوجود شاعری کی اس درجہ تخلیق ایک کسبی نہیں بلکہ وہبی چیز ہے۔ فطری طور پر وہ ایک شاعر ہے اور اس کا مشاہدہ اور تجربہ بہت پختہ سطح کا ہے۔

امید کرتا ہوں کہ رحمان واصف کے اس مجموعے کو علمی اور ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملے گی۔

جاوید احمد

کہوٹہ، ضلع راولپنڈی

٭٭٭

 

 

 

 

عبدالرحمن واصف …نفیس تخلیق کار

 

 

 

 

 

شاعری محبت کی زبان ہے، زندگی کا فلسفہ ہے، حالات ِ حاضرہ کا محور ہے۔ فقط شعر تخلیق کرنا کمالِ فن نہیں بلکہ خوبصورت مضمون، زبان، اظہار اور لہجہ شعر کو مدتوں زندہ و  پائندہ  اور سفر میں رکھتے ہیں۔ کیا کیا جائے کہ شعری معاملات بھی کچھ ایسے تیکھے ہیں۔

واصف کی شاعری کا میں کافی عرصے سے مطالعہ کر رہا ہوں اور جب جب اس کا کلام سامنے آیا  ہے تو یقیناََ آنکھیں ٹھہر جاتی ہیں۔ وارداتِ تازہ کی مانند ان کا کلام اپنے آپ میں کئی شاعرانہ تیور اور اچھوتے انداز لیے ہوئے ہوتا ہے۔

ان کا طرزِ بیان سہلِ ممتنع کی ایک کامیاب مثال ہے۔

واصف کے اردگرد علمی اور ادبی حلقے میں ان کی پہچان اور شناخت بہت مضبوط ہے۔ اس کی شاعری کا معیار ایسا نہیں کہ رواروی سے ورق گردانی کی جائے۔ واصف کا کلام محاسنِ سخن پر اپنی مکمل گرفت لیے ہوئے نظر آتا ہے۔ منفرد اور اچھوتی ردیفوں کا استعمال اس کے  یہاں  جا بجا کامیابی سے دکھائی دیتا ہے۔ ان اچھوتی ردیفوں کے کئی اشعار  یہاں تحریر ہوسکتے ہیں مگر میں یہ چھوٹ قاری کو ہی دوں گا کہ وہ خود زحمت فرمائے۔

واصف کی شاعری کھلی فضا میں سانس لے رہی ہے۔ اسے اپنے گرد و نواح کی پوری آگہی ہے۔ وہ اپنے اطراف میں زندگی محسوس کر رہا ہے۔ وہ مایوسی کے عنصر سے قطعی طور پر ناواقف ہے۔ اچھی، بھرپور اور معیاری شاعری اسی جذبے کی متقاضی ہے۔ یہ Approach ہمیشہ Positive Attitude کو جنم دیتی ہے اور ذہن کی گرہیں اعتماد کے ساتھ کھلتی چلی جاتی ہیں۔ پھر اچھا شعر تخلیق ہونے سے کیسے  رک سکتا ہے۔

واصف ادبی دنیا میں اپنی جگہ بنانے پر Committed دکھائی دیتا ہے۔ وہ تعلقات اور حالات کی بیساکھی کے استعمال سے گریز کرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے اور خود اعتمادی سے قدم آگے بڑھا رہا ہے۔ وہ بلا شبہ جانتا ہے ان آندھیوں اور بندشوں کو جو اس کے راستے میں جگہ جگہ ایک کوہِ گراں کی طرح موجود ہیں اور ان سے مکمل طور پر آشنا نظر آتا ہے۔ اس میں حوصلہ اور جذبہ دکھائی دے رہا ہے۔

واصف کی شاعری کا مطالعہ جہاں مجھے حیرت آمیز خوشی فراہم کرتا رہا وہاں مجھے نئے موضوعات سے بھی ملاتا رہا جنہیں میں کسی بھی طرح دبستانِ ادب کے ترازؤوں پر تولے بغیر جذب کرتا رہا اور واصف کی توانا آواز کا جو اس کے جذبوں، احساسات اور کم تجربہ کار مشاہدات سے مزین تھی اور کامیابیوں کے خمار سے آراستہ تھی۔

وہ نہایت آسودگی اور آسانی کے ساتھ شعر کی بنت کرتا ہے اور بات سے بات نکالتے ہوئے اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کی بھرپور قوت رکھتا ہے۔ وہ غزل یا نظم کی تواضع کا خیال رکھے بغیر اپنا مدعا قاری کے ذہن پر نقش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کہیں بھی جذباتی رنگ سے ہٹتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ معاشرت اور وسیبی آئنوں سے بچ بچا کر چلتا ہے بلکہ وہ اپنے اطراف کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے جو اس کی شاعری کا ایک نمایاں وصف بھی ہے۔

واصف جہاں معاشرتی آلائشوں، رسم و رواج اور طبقاتی اتار چڑھاؤ سے شاکی نظر آتا ہے وہاں امید اور حوصلے کا دامن تھامے خوابوں کی پر کشش روش پر کھڑا بھی دکھائی دیتا ہے۔

اس نے اپنے ذہن میں مساوات، اخوت اور احترام بخشنے والے معاشرے کا خواب سجا رکھا ہے جسے وہ گاہے بگاہے اپنی شاعری میں سموتا رہتا ہے اور قاری کو انگلی تھام کر اس خوش آئند وادی کی سیر کراتا جاتا ہے۔

شاعری محض بدنما چہروں کی تصویر کاری نہیں بلکہ یہ ان بدنما چہروں پر حسن کاری کا ہنر بھی پیش کرتی ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاعری کو معاشرے کے مصلح کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے اور اسے اچھا ذریعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ سوچ واصف کے ہاں بھی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ وہ الجھنوں کے ساتھ ساتھ سلجھاؤو ں کا باب بھی رکھتاہے۔ اور قاری کو مایوسی کی دبیز فضا سے نکال کر خوشی، امید اور خوابوں کی آکسیجن بھی فراہم کرتا ہے۔

قاری اور شاعر کے درمیان محض الفاظ کا رشتہ نہیں ہوتا بلکہ ایک روحانی رشتہ استوار ہوتا ہے جس کے بل پر قاری بین السطور وہ مضامین بھی کشید کر لیتا ہے جو عمومی نظر سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ایسے ہی کئی مضامین میں نے واصف کی غزلوں اور نظموں سے کشید کیے ہیں جو بلا شبہ اپنی جگہ بہت منفرد اور اہم ہیں۔ چونکہ میں قاری اور واصف کے درمیان اپنی رائے کو دیوار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، اس لیے درمیان سے ہٹتے ہوئے واصف کے چند اشعار، جنہوں نے میرے ذہن پر بے ساختہ دستکیں دیں اور مجھے اس واصف سے ملوایا جو ایک طویل عرصہ سے میرے کہیں بہت آس پاس اپنے وجود کو معطر کیے سرگرداں تھا، قارئین کے سامنے رکھتا ہوں۔

مجھے امید ہے کہ قارئین ان چند اشعار کو زینہ بناتے ہوئے اوجِ متن پر پہنچیں گے اور واصف کی شعری سعی کا اعتراف کریں گے۔

یہ کس کی آنکھیں ہماری رونق کو کھا گئی ہیں

یہ کس کے غم میں ہمارا چہرہ بجھا ہوا ہے

سوچوں کے جزیروں میں تری یاد کا بادل

کل رات بہت ٹوٹ کے برسا، اسے کہنا

 

اے میرے خواب تجھ کو ٹوٹنا ہے

مری آنکھوں میں اک پل جھلملا لے

 

خواہشاتِ دلِ بے تاب کے مارے ہوئے ہیں

ایک امید کے، اک خواب کے مارے ہوئے ہیں

 

پسِ ظلمتِ غمِ نیم شب مجھے سوچنا

ذرا سوچنا، کسی اور ڈھب مجھے سوچنا

مانا محبتوں میں بھی لازم ہے احتیاط

لیکن اب احتیاط سے آگے کی سوچنا

دعا گو ہوں کہ واصف اپنے مستقبل کے ادبی سفر میں مطالعہ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ ان سے بہت سی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ واصف اس سفرمیں تنہا نہیں، نسلِ نو کا ایک جمِ غفیر اس سفر میں گامزن دکھائی دے رہا ہے۔ قوتِ اظہار، شعری پرکھ اور سلیقہٗ گفتار سچی اور معیاری شاعری کی انفرادی پہنچان کی ضامن ہیں۔

بس ثابت قدمی شرط ہے۔

سہیل ثاقب

الدمام، سعودی عرب

٭٭٭

 

 

 

 

 

حرفِ آغاز

 

 

کہا جاتا ہے کہ دنیا کا مشکل ترین کام خود احتسابی ہے۔ اپنے معاملے میں رائے دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی تصویر پر تحریر شدہ عبارت”غلطی ہے تو درست کر دیں "پر عمل کرنا ہے۔

اساتذہ سے سنتا آیا ہوں کہ اکتسابی عمل میں میرے حواس میری گرفت کے تابع ہوتے ہیں اور اکتسابی نکتہٗ نگاہ سے یہ عمل خوش آئند ہے۔ مگر احتساب کے معاملے میں تو میں بالکل کورا ہوں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نابلد ہوں۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ خود احتسابی۔

مجموعہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور ویسے بھی ایک کہاوت ہے کہ وقت سب سے بڑا محتسب ہے جو نہایت منصفانہ طور پر یہ فریضہ سرانجام دیتا ہے۔

میں کوئی نثر نگار تو ہوں نہیں کہ طولانی تمہید باندھوں، پھر سلیقے سے گندھے ہوئے الفاظ میں مدعا بیان کروں۔ میں دلی طور پر ان احباب کا مشکور ہوں جنہوں نے اس مجموعہ کی اشاعت میں میرا ساتھ دیا۔ باالخصوص میرے استادِ محترم جناب جاوید احمد کہ جن کی نگاہِ فیض رسا کا ثمر اس مجموعہ کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں ہے۔ میرا بہت پیار ا دوست اور شاعری کے سفر میں میرا ہمرکاب، میرا ہمدم و ہمراز قمر عباس ناسکؔ جس نے ہمیشہ میرے حوصلوں کو مہمیز بخشی، میرا قانون دان دوست اور لنگوٹیا امجد افسر ایڈووکیٹ جو پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے ساتھ ساتھ شاعری کو بھی بہت اچھے طریقے سے برتنے کا فن جانتا ہے، جناب جاوید اقبال تبسم کہ مجھ جیسے لفظوں کے شیدائی کو الجبرے، ریاضی اور ہندسوں کا علم سکھا تے سکھاتے عاجز آکر مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔ بہت پیارے دوست، بھائی، ہمراز عامر خلیل مغل، جو حلقہ یاراں میں متلون مزاج صحافی کے طور پر شہرتِ دوام حاصل کر چکا ہے، اور جس سے ملاقات کے پانچ منٹ کبھی بھی پانچ منٹ کے دورانیے پر ختم نہیں ہوتے،  اپنے بڑے بھائی ضیاء الرحمان کہ جس نے شاعری کی اولین اولین ساعتوں میں میری قدم قدم پر رہنمائی کی، میرے محسن عبداللہ ابراہیم ایڈووکیٹ کہ جس کو حلقہ کے دوست "نقادِ دوراں "سے کم نہیں گردانتے اور جس کی رفاقت نے مجھے شاعری کے سفر میں تنہائی کا احساس نہ ہونے دیا اور جس کی تنقید میرے لیے اکسیر کا کام کرتی رہی، میرا بہت پیارا بھائی خرم محبوب جو ہر روز کسی نئی دھن میں رہتا ہے اور اس مجموعے کی اشاعت میں ہمہ وقت میرے اعصاب پر سوار رہا، میرے بڑے محسن اور مربی جناب انکل گل نذیر خان گل جو ایک بہت اچھے نعت گو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان بھی ہیں، میرا دوست نوید ملک جو پنڈی کے ادبی حلقوں کی آکسیجن کے طور پر جانا جاتا ہے  اور جس کی محبت شاملِ حال نہ ہوتی تو شاید یہ مجموعہ بہت سے دیر سے منصہ شہود پر آتا۔

پروفیسر حبیب گوہر، لیکچرر شعبہ اردو ڈگری کالج کہوٹہ، کہ جن کے ساتھ نشست و برخاست نے ہمیشہ لکھنے پر تحریک دی، اور آخر میں ایک ایسی شخصیت کہ جس کے ذکر کے بغیر یہ الفاظ ادھورے ہیں اور جو ہمیں داغِ مفارقت دے کر چلا گیا مگر ہمارے دلوں میں تا دمِ زیست زندہ رہے گا، مرے محسن جناب سرور سلطان کہ جنہوں نے مجھے نئی فکر اور نئی نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ اللہ ان کو جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ جناب ڈاکٹر محمد عارف قریشی جو کہوٹہ کے علمی ادبی سماجی اور رفاہی اداروں اور تنظیموں کے سرپرست بھی ہیں اور جن کے ادب دوست رویے نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ میرے یہ دوست اور محسن اور ان کے علاوہ دوسرے بہت سے احباب کا مشکور ہوں جنہوں نے قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی اور بالآخر وہ سفراپنی منزل کو پہنچا جس کا خواب میں نے دیکھا تھا۔ خیر سفر ختم کہاں ہوتا ہے کہ

سفر یہ ختم نہ ہو گا فنا سے آگے بھی

امید کرتا ہوں کہ یہ مجموعہ اپنی تمام خامیوں اور نقائص کے باوجود قارئین کو پسند آئیگا اور قارئین مجھے اس مجموعہ کے حوالے سے اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں گے۔

رائے کا منتظر

عبدالرحمان واصفؔ

 

کہوٹہ۔ پاکستان

رابطہ فون: 03359745200    03459745200

ای میل:wasif9745200@gmail.com

٭٭٭

 

 

 

 

حمد باری تعالیٰ

 

اس کے ارض و سماوات، کوہ دمن

اس کے ہیں ریگزار اور سرو و سمن

 

ذرے ذرے میں موجود اس کے نشاں

اس نے بخشا زمیں کو ہرا پیرہن

 

وہ جو معبود ہے وہ جو مسجود ہے

اس کی تسبیح کرتے ہیں اہل چمن

 

ہے وہی جو ہر اک سمت موجود ہے

اولاً، آخراً، ظاہراً، باطناً

خالق و مالک و کارساز جہاں

لم یزل، لم یلد، لم یولد، ذوالمنن

 

ہے جو کیڑے کا پتھر میں روزی رساں

اس کے انوار عالم پہ سایہ فگن

 

اس کا پہرا ہے میرے ہر اک فعل پر

جس کے سجدے لٹاتا ہے تن اور من

 

دونوں عالم اسی کی کرشمہ گری

جس کی عظمت مرے دل میں ہے موجزن

٭٭٭

 

 

نعت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

 

 

محبتوں کے سبھی زاویے کمال میں رکھ

عقیدتوں کے یہ رنگ اپنے خد و خال میں رکھ

 

وہ ہر جہان میں رحمت سراپا رحمت ہیں

مت ان کے فیض کو محدود ماہ و سال میں رکھ

 

ہو تیری صوت و صدا میں درودِ پاک کی لے

انہی کے اسم کو اپنے لہو کی تال میں رکھ

 

ترے گناہ شفاعت کی رہ نہ روکیں گے

مت اپنے آ پ کو محبوس اس ملال میں رکھ

 

یہ رنگ و نور کے سب سلسلے بنے جس سے

تو اپنے ذہن کو اس روئے خوش خصال میں رکھ

 

کھلے گا تجھ پہ ہر اک مسئلے کا حل واصفؔ

بس ان کے نام کو ہر دستکِ سوال میں رکھ

٭٭٭

 

 

 

 

نعت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

 

غبار ِ صحرا کو جس نے خورشید کر دیا ہے، وہ مصطفیؐ ہے

کہ جس کی عظمت کا عرش والوں میں تذکرہ ہے، وہ مصطفیؐ ہے

 

وہ کو ن ہے جس کی رحمتوں سے خدا نے چمکائے دونوں عالم

جو دونوں عالم میں آدمیت کا مقتدا ہے، وہ مصطفیؐ ہے

 

ہیں عارض و لب ضحی کی تفسیر، آیہء لیل جس کی زلفیں

کہ جس کو یٰسین کہہ کہ قرآں پکارتا ہے، وہ مصطفیؐ ہے

 

قمر بھی دو لخت ہو گیا تھا بس ایک جنبش کا حکم پاکر

یہ جس کی بعثت کا ایک ادنٰی سا معجزہ ہے، وہ مصطفیؐ ہے

مٹایا کہنہ روایتوں کو، امان دیتا ہے دشمنوں کو

جوکھا کے خود سنگ دوسروں کو بچا رہا ہے، وہ مصطفیؐ ہے

 

جھکے ہوئے ہیں اسی کے در پر رعونتوں کے تمام پتلے

کہ جس کی آمد سے کفر مٹی میں مل گیا ہے، وہ مصطفیؐ ہے

٭٭٭

 

 

 

ہدیۂ عقیدت بحضور سبطِ رسول ﷺ

 

انبوہِ حق پرست کے رہبر حسینؓ ہیں

صد افتخار سبطِ پیمبر حسینؓ ہیں

 

جس نے صداقتوں کا سبق قوم کو دیا

وہ شاہِ اوجِ خلد سراسر حسینؓ ہیں

 

پھیلی ہے کائنات میں اب تک صدائے حق

اب تک کہ جیسے برسرِ منبر حسینؓ ہیں

 

وہ جس نے چاک کی ہے قبائے دجل پرست

لختِ جگرِ بنتِ پیمبر حسینؓ ہیں

وہ گھر کہ علم و حِکم و صداقت کا پاسباں

اس گھر کی چھت علی ہیں اگر در حسینؓ ہیں

 

باطل کہ جس کی سمت ہزاروں کی فوج ہے

حق جس کے پاس صرف بہتر حسینؓ ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خوشبو میں نہائے ہوئے جھونکے کی طرح تھا

بچپن کسی معصوم کے چہرے کی طرح تھا

 

تھا بے سرو سامانی کے عالم میں بھی خود مست

یہ دل کسی آزاد پرندے کی طرح تھا

 

اب تک وہ مری ذات کے آنگن میں کھڑا ہے

جو غم کے سمندر میں جزیرے کی طرح تھا

 

کیوں وقت نے چھینا مرا ماضی مرا بچپن

جو میرے لیے دھوپ میں سائے کی طرح تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کبھی خوشی تو کسی دن عذاب ہوتے ہوئے

نظر نے دیکھے ہیں کیا انقلاب ہوتے ہوئے

 

یہ کس نے لُوٹ لیا ہے ہمارے دل کا سکوں

یہ خواب کس نے دکھائے سراب ہوتے ہوئے

 

وہ اپنے حسن پہ نازاں رہے مگر سن لے

بدل بھی جاتے ہیں موسم گلاب ہوتے ہوئے

 

نہ لیں گے اب کے فقط ہم جفا کا ہی بدلہ

کریں گے سُود بھی شامل حساب ہوتے ہوئے

 

غبار بن کے اڑی ہے وہ بچپنے کی ترنگ

گزر گئے ہیں مہ و سال خواب ہوتے ہوئے

 

میں جھیلتا ہوں ابھی تک ترے فراق کا دکھ

میں اب تلک نہیں سنبھلا خراب ہوتے ہوئے

 

بتا کہ تجھ کو مرے بعد کون پوچھے گا

چُرا نہ مجھ سے نظر لاجواب ہوتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہماری آنکھ میں جس غم کی لو رکھی ہوئی ہے

اسی کے دم سے اندھیروں میں روشنی ہوئی ہے

 

یہ حشر کس نے اٹھایا ہے میری بستی پر

گلی گلی مری بستی کی ماتمی ہوئی ہے

 

مرے شعور پہ صدیوں کا زنگ تھا شاید

اس آگہی سے مری جان پر بنی ہوئی ہے

 

بھٹک نہ جائیں دھندلکے میں قافلے والے

فضا غبار کے طوفاں سے سرمئی ہوئی ہے

 

مسل دیے ہیں یہ کس جبر نے خیال کے پھول

ہر ایک سوچ پہ کیوں برف سی جمی ہوئی ہے

 

جمود میں تھے عناصر زمین پر پہلے

مگر ہم آئے جہاں میں تو زندگی ہوئی ہے

 

وہ کس بناء پہ محبت کی بات کرتا ہے

کہ انگ انگ میں جس کے انا بھری ہوئی ہے

 

میں زندگی کو گلابوں کی سیج کہہ رہا ہوں

میں بدحواس نہیں ہوں نہ میں نے پی ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ستم گروں سے مسلسل فریب کھاتا ہوا

چلا ہوں جانبِ منزل قدم  بڑھاتا ہوا

 

سما گیا مری آنکھوں میں جھلملاتا ہوا

ملن کا خواب نئی دھڑکنیں جگاتا ہوا

 

میں سرگراں ہوں محبت کے ریگزاروں میں

گئے دنوں کی بہاروں کو گنگناتا ہوا

 

میں اس کے خوف سے شاید نکل نہ پاؤں کبھی

جو واہمہ ہے مرے دل میں سرسراتا ہوا

نہیں کے لفظ نے کیا کیا قیامتیں ڈھا دیں

عذاب اترا سماعت پہ دل دکھاتا ہوا

 

ادھیڑ عمری میں کتنا عجیب لگتا ہوں

میں روٹھتا ہوا تجھ سے تجھے مناتا ہوا

 

تو خواہشات کے دریا کو کیسے روکے گا

گزر ہی جائے گا یہ راستہ بناتا ہوا

 

تُو جس کے واسطے رویا تھا بیٹھ کر پہروں

چلا گیا ہے وہ تیری ہنسی اڑاتا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دسمبر …

 

سلامِ صبح ِ دسمبر ……..

اے آرزوئے قدیم……..

اے روئے مہرِ درخشاں ……..

اے سازِ بادِ نسیم ……..

خدا کرے ترے رخ پر سدا بہار رہے ……..

خدا کرے تری تقدیر تابدار رہے ……..

٭٭٭

 

 

 

 

 

حدِ شماریات سے آگے کی سوچنا

اب قلزم و فرات سے آگے کی سوچنا

 

میں بھی نکل گیا ہوں عذاب و ثواب سے

تم بھی رہِ نجات سے آگے کی سوچنا

 

مانا، محبتوں میں بھی لازم ہے احتیاط

لیکن اب احتیاط سے آگے کی سوچنا

 

سانسوں سے ماورا بھی تو ہے ایک زندگی

اس عارضی حیات سے آگے کی سوچنا

 

ترتیبِ کائنات ابھی کل کی بات ہے

ترتیبِ کائنات سے آگے کی سوچنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ پیکر کس کا آ کر بس گیا ہے من کے بھیتر میں

مچائی جس نے ہلچل یاد کے گہرے سمندر میں

 

مرا غم اور تمہارے فلسفے کس روز کم ہونگے

تمہارے اور اپنے حال پر ہنستا ہوں اکثر میں

 

کسی برفاب لہجے کی برودت ڈس گئی مجھ کو

کہ اک پل میں بنا بے نام سے صدمے سے پتھر میں

 

جو پہروں بیٹھ کر اپنے مقدر پر سسکتا ہے

کوئی دن تھے وہ کہتا تھا، مقدر کا سکندر میں

 

محبت کی ہر اک بنیاد کو جو منہدم کر دے

تو پھر ایسی خودی کو تو بھی رکھ پاؤں کی ٹھوکر میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خدا جانے میں کس کو ڈھونڈتا ہوں ماہ و اختر میں

گیا ہے جب سے تو مجھ کو سکوں ملتا نہیں گھر میں

 

ابھی کھل کر ستم ڈھالو کہ اب لب سی لیے میں نے

خدا کے سامنے پوچھوں گا تم سے روزِ محشر میں

 

تو کس رستے پہ یونہی بے سرو سامان جاتا ہے

نہ جانے کون سا سودا سمایا ہے ترے سر میں

 

چلا جا روشنی گل کر کے سو جا بند کمرے میں

مری جاں شب گئے تک کیوں کھڑا رہتا ہے تُو در میں

 

سبھی بچوں کو اپنی جان سے بڑھ کر وہ رکھتی ہے

محبت اس قدر رکھی ہے رب نے چشمِ مادر میں

 

ہے ناممکن سی بات اب تو تری الفت کا دم بھرنا

بس اک اپنا ہی بت رکھا ہے میں نے دل کے مندر میں

٭٭٭

 

 

 

 

دماغ میں شور سا بپا ہے کئی دنوں سے

وہ ٹوٹ کر یاد آ رہا ہے کئی دنوں سے

 

جسے تُو سوتا ہوا سمجھ کر چلا گیا تھا

تجھے نہ پا کر وہ جاگتا ہے کئی دنوں سے

 

اے دِل نہیں ہے اس آشنا تک تری رسائی

جسے تو دن رات سوچتا ہے کئی دنوں سے

 

یہ کس کی آمد ہے میرے گھر میں کہ جس کی خاطر

منڈیر پر کاگ بولتا ہے کئی دنوں سے

 

ہماری آنکھوں کے خواب سارے عذاب سارے

یہ کون ہے جو سمیٹتا ہے کئی دنوں سے

 

’’  نہیں ‘‘کی تکرار بس گئی شب کے گنبدوں میں

بس ایک ہی لفظ گونجتا ہے کئی دنوں سے

 

عداوتیں بھی بطرزِ الفت نبھا رہا ہے

وہ میرے لہجے میں بولتا ہے کئی دنوں سے

 

کئی دنوں سے میں دیکھتا ہوں اسی کی جانب

جو شخص مجھ سے گریز پا ہے کئی دنوں سے

 

حواس و ہوش و گمان و نطق و خیال چپ ہیں

یہ مجھ پہ کیسا جمود سا ہے کئی دنوں سے

 

محال تھا جس کو سانس لینا بغیر میرے

بچھڑ کے مجھ سے وہ جی رہا ہے کئی دنوں سے

٭٭٭

 

 

 

 

دلوں پہ لپکی تو شہرِ اماں اجاڑے گی

نظر کی آگ بھی کتنے مکاں اجاڑے گی

 

ملا کے خاک میں رکھ دے گی حسنِ شہرِ حیات

سکندری کی ہوس بستیاں اجاڑے گی

 

مجھے خبر ہی کہاں تھی کہ میری کم سخنی

یہ رنگ و بو میں بسا گلستاں اجاڑے گی

 

چراغ جن میں تیقن کے جل رہے ہوں گے

ہوائے تند وہی کھڑکیاں اجاڑے گی

 

اتر رہی ہے جو آنگن میں سوگوار سی شام

ترے مزاج کی سب شوخیاں اجاڑے گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو مخفی مجھ پہ تھا، اب کھل گیا وہ راز، می رقصم

کہ جب مطرب نے چھیڑا روح پرور ساز، می رقصم

 

یہ تو ہے یا تھرکتی زندگی ہے پہلوئے شب میں

تری باتیں، ترا لہجہ، تری آواز، می رقصم

 

مکمل موت، حیرت می کنم، تیر ی اسیری ہے

مجسم زندگانی ہے ترا انداز، می رقصم

 

طلسمِ حسنِ دل آویز نس نس میں سمایا ہے

نظر بے کل، سماعت گوش بر آواز، می رقصم

 

ذرا تو ہاتھ میر ا تھام، رقصِ زندگی کر لیں

اے میرے ہم سفر، ہم دم، مرے ہم راز، می رقصم

 

مرے لفظوں پہ ہے وارفتگی کی کیفیت طاری

سخن میرا مرے جذبات کا غماز، می رقصم

٭٭٭

 

 

 

 

 

نم ہواؤں سے بھیگتی ہوئی شام

کس کے غم میں ہے یہ بجھی ہوئی شام

 

اس کے چہرے پہ ہفت رنگ دھنک

مری آنکھوں میں ہے بسی ہوئی شام

 

سو گیا ہے کہیں تھکا ہوا دن

جاگ اٹھی ہے اونگھتی ہوئی شام

 

ہجر آہیں اذیتیں آنسو

کتنے رنگوں سے ہے سجی ہوئی شام

 

کون آیا کہ سرخرو ہوا دن

کون بچھڑا کہ ملگجی ہوئی شام

 

مرے گھر کے اداس آنگن میں

آ گئی مجھ کو ڈھونڈتی ہوئی شام

 

ذکر آیا ہے اس کا محفل میں

کھل گئی ہے وہ بند کی ہوئی شام

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ کس کی یاد کا غم دستکیں پلکوں پہ دیتا ہے

مسافر کس نگر کا خیمہ گاہ ِدل میں ٹھہرا ہے

 

ستے چہرے سے، سرخ آنکھوں سے ہنس کر بولنے والا

یہ لگتا ہے کہ ساری رات تنہائی میں رویا ہے

 

کسی گزرے ہوئے کمزور لمحے کا فسوں تھا وہ

زمانے نے محبت نا م جس اک شے کا رکھا ہے

 

جو کل ماضی میں آئینہ دکھاتا تھا زمانے کو

وہ اب خود آئنے کے سامنے جانے سے ڈرتا ہے

 

فقط اک رسم ہے دیوار و در کو آشیاں کہنا

وگرنہ اصل میں گھر تو مکینوں ہی سے بنتا ہے

 

فقیہہِ شہر پوشاک ِ حریری زیب تن کر کے

ہمیں صبر و رضا کی زندگی کا درس دیتا ہے

٭٭٭

 

 

کوئی خورشید جب بجھ کر مری آنکھوں میں مرتا ہے

تو وحشت میں مرے ہر سُو اندھیرا رقص کرتا ہے

 

جسے اوجِ ثریا پر پہنچ جانے کی جلدی ہو

وہی طائر بلندی کی حدوں سے گر کے مرتا ہے

 

اکیلا چاند کیوں ہر روز میرا دل دکھانے کو

کسی کا عکس چپکے سے مری کھڑکی میں دھرتا ہے

 

نہایت خوبصورت پینٹنگ کو رنگِ خوں دے کر

مصور کس طرح شہ کار کی تکمیل کرتا ہے

 

میں مٹی سے تراشیدہ، مرا انجام ہے مٹی

مگر دل مانتا کب ہے، مگر دل کب سدھرتا ہے

 

حویلی میں نہایت قیمتی ملبوس رُلتے ہیں

حویلی سے پرے مزدور سردی میں ٹھٹھرتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اچھوتے لہجے میں کوئی رسمی سی بات کہنا

کہ دو مہکتے لبوں کو نیل و فرات کہنا

 

کسی کی آنکھوں کو مے کے شوریدہ جام لکھنا

کسی کی زلفوں کو ہی اماوس کی رات کہنا

 

محبتوں میں شمار کرنا عداوتوں کو

کہ بے رخی کی ادا کو بھی التفات کہنا

 

نظر چرانا جہان بھر کی حقیقتوں سے

ہر اک رہِ پُر خطا کو راہِ نجات کہنا

 

مجھے ملی ہے تری محبت میں خاک پائی

نہیں ہے میرے نصیب میں تیرا سات کہنا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ طلسمِ مرگ و حیات بھی کوئی خواب ہے

مری گفتگو، تری بات بھی کوئی خواب ہے

 

کوئی کھیل سا ہے یہ موسموں کی لپک جھپک

سفرِ ثبات و حیات بھی کوئی خواب ہے

 

نہ یقین کر، کہ یہ عمر وہم و گمان ہے

ترا جسم اور مری ذات بھی کوئی خواب ہے

 

ہیں فریب سارے قریب و دور کے سلسلے

مرے ہونٹ بھی، ترا ہاتھ بھی کوئی خواب ہے

 

تو قریب ہے یا ترے خیال کا لمس ہے

کہ یہ خوابناک سی رات بھی کوئی خواب ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ برکھا رُت کی بارش کا نظارہ دیکھتے رہنا

شبوں کو چاند کرنوں کا اشارہ دیکھتے رہنا

 

تمہیں تنہائیوں میں سوچنا اور سوچتے جانا

وصال اور قرب کا وہ دور سارا دیکھتے رہنا

 

تمہارے بعد اب ہر شب مری حالت یہ ہو تی ہے

کہ ٹیرس پر کھڑے اک اک ستارا دیکھتے رہنا

 

جہاں ہم تم ملے سنگم وہ بے شک بھولنا، لیکن

جہاں بچھڑے وہ دریا کا کنارا دیکھتے رہنا

 

خنک ساحل کی ٹھنڈی ریت پر بیٹھے ہوئے تنہا

سفینہ ڈوبتا ہے کب ہمارا، دیکھتے رہنا

 

محبت کی رہِ پر خار پر چلتے ہو گر واصفؔ

تو پھر درد و الم کا گوشوارہ دیکھتے رہنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو آگ کا دریا مرے رستے میں کھڑا ہے

وہ میرے تخیل کی حدوں سے بھی بڑا ہے

 

سویا ہے جو سر وقت کی دہلیز پہ رکھ کر

وہ نیند کے طوفاں سے بہت دیر لڑا ہے

 

وہ جو مری نس نس میں دکھن گھول رہا ہے

وہ ہجر کا خنجر مرے سینے میں گڑا ہے

 

قدموں پہ جھکاتا تھا زمانے کو جو اک شخص

اب خاک بسر وقت کے قدموں میں پڑا ہے

 

آنکھوں میں نہیں دل میں اتارو سبھی آنسو

سن لو کہ یہاں ضبط کا معیار کڑا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جہانِ آرزو بکھرا، بہاروں پر الم ٹوٹے

گریزاں ہو گئے جب خواب آنکھوں سے تو ہم ٹوٹے

 

کبھی پلکوں پہ جب اترا تصور آشیانے کا

یہ مت پوچھو کہ کتنے چاند زیرِ چشمِ نم  ٹُوٹے

 

مکمل کر نہ پایا زندگی کا فلسفہ کوئی

نہ جانے لفظ کتنے بجھ گئے کتنے قلم ٹُوٹے

 

مجھے بھی اپنی آشفتہ سری کے ساتھ مرنا ہے

اندھیری رات کی سانسوں کا جب بھی زیرو بم ٹُوٹے

 

کبھی تو آفتاب ابھرے زمینِ وحشتِ دل پر

کبھی تو سلسلہ ہائے طلسم ِ شامِ غم ٹُوٹے

 

ہماری بند آنکھوں سے بھرم قائم تھے کتنوں کے

کھلی آنکھیں تو در کھلے، کتنے بھرم ٹوٹے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پسِ ظلمتِ غمِ نیم شب، مجھے سوچنا

ذرا سوچنا، کسی اور ڈھب مجھے سوچنا

 

کبھی بے سکون ہو، مضمحل ہو یہ دل ترا

تو اداس ہو کبھی بے سبب، مجھے سوچنا

 

ابھی مسکراؤ، نئی نئی ہیں رفاقتیں

تمہیں چھوڑ دیں گے یہ لوگ، تب مجھے سوچنا

 

تمہیں آج ناز ہے جس پہ جس پہ غرور ہے

وہ شباب تم سے جدا ہو جب، مجھے سوچنا

 

کبھی کرب سے تری چشمِ تر جو چھلک پڑے

مرا نام آئے جو زیرِ لب، مجھے سوچنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم نے دیکھا ہے فقط ایک ہی دستور میاں

ہجر میں ہوتی ہے ہر شب شبِ عاشور میاں

 

تم تو آغازِ سفر میں ہی ہوئے چوُر میاں

یہ محبت ہے جو رہتی ہے بہت دور میاں

 

ایک دو دن کی مصیبت ہو تو کٹ جاتی ہے

عشق ہو جائے تو بن جاتا ہے ناسور میاں

 

ہم سے مت پوچھ محبت کی نہایت کیا ہے

ہم نے لکھے ہیں بہت درد کے منشور میاں

 

اس کو ہر روز کسی تازہ رفاقت کی طلب

تم ہو جس شخص کی چاہت میں شرابور میاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اداسی گھل گئی ہے موسموں میں

صدائیں چیختی ہیں جنگلوں میں

 

ستارے بجھتے جاتے ہیں مسلسل

امیدیں جاگتی ہیں واہموں میں

 

ہم اب شاید ہی ساحل دیکھ پائیں

گھری ہیں کشتیاں سب پانیوں میں

 

اجالوں میں جسے کھویا تھا ہم نے

اسے اب کھوجتے ہیں رتجگوں میں

 

اگر ہم مل بھی جائیں فائدہ کیا

دراڑیں پڑ چکی ہیں اب دلوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو عکس آنکھوں میں ایک مدت سے بن رہا ہے، گلاب سا ہے

جسے وہ دل میں بٹھا کے دن رات سوچتا ہے، وہ خواب سا ہے

 

خیال ِ کوئے وصال و اندیشہ ہائے ہجر و فراقِ یاراں

یہ خود فریبی کا ایک بے انت سلسلہ بھی سراب سا ہے

 

میں تجھ کو پا کے بھی نارسائی کے دائروں میں سلگ رہا ہوں

یہ پا کے کھونے کا غم قیامت سے کم نہیں ہے، عذاب سا ہے

 

وہ مجھ سے صدیوں کے فاصلے پر کھڑا ہے جس کو پکارتا ہوں

نہ جانے کیوں درمیاں ہمارے یہ فاصلوں کا حجاب سا ہے

 

کبھی تو برسوں کی پیاس آخر تمام ہو گی وہ آ سکے گا

کہ جس کی باتیں گلاب صورت ہیں، جس کا چہرہ کتا ب سا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ایک بیوی کا اپنے شوہر کو خط

 

’’تمہارے بعد اب دل ہی نہیں لگتا، وہ لکھتی ہے

بس اب جلد ی سے گھر کو لوٹ کر آ جا‘‘ وہ لکھتی ہے

 

’’چلی بادِ بہاری، کونپلیں پھوٹیں، شجر نکھرے

روپہلی بارشیں ہیں، چاند ہے پورا ‘‘ وہ لکھتی ہے

 

’’کھلیں کلیاں، گُلوں کی خوشبوئیں ہر سمت پھیلی ہیں

نکھر آیا فضا کا رنگ دوبارہ‘‘ وہ لکھتی ہے

 

’’روپہلا چاند، ساحل، سانولی شب کا حسیں منظر

تمہارا ساتھ ایسے میں اگر ہوتا ‘‘ وہ لکھتی ہے

 

’’بہت دن ہو گئے ہیں، چوڑیاں پہنی نہیں میں نے

بہت مدت سے آئینہ نہیں دیکھا ‘‘ وہ لکھتی ہے

 

’’گئے ہو جب سے تم پردیس، جاں سولی پہ اٹکی ہے

میں خود کو دیکھتی ہوں کس قدر تنہا ‘‘ وہ لکھتی ہے

 

’’جدائی کے یہ دن گن گن کے لکھ لیتی ہوں کاغذ پر

سراپا منتظر رہتی ہوں ہر لمحہ ‘‘ وہ لکھتی ہے

 

’’پرائے دیس میں شاید بہت مصروف رہتے ہو

کئی دن سے تمہارا خط نہیں آیا ‘‘ وہ لکھتی ہے

 

سنو اب لوٹ آؤ، ضبط کی طاقت نہیں مجھ میں

تمہیں میں نے مہینوں سے نہیں دیکھا، وہ لکھتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

شوہر کا بیوی کو جواب

 

میں ہوں پردیس میں، دل گھر میں  ہے اٹکا، میں لکھتا ہوں

میں کتنے دن سے اک لمحہ نہیں سویا، میں لکھتا ہوں

 

تمہارے ساتھ گزرے ہیں جو موسم دیس میں میرے

وہ موسم کاش واپس آئیں دوبارہ میں لکھتا ہوں

 

عیاں تم پر ہے میرے ذہن و دل کی کیفیت ساری

تمہیں میں کیا بتاتا اور کیا کہتا  میں لکھتا ہوں

 

تمہیں گر ہجرتیں ڈستی ہیں بن کر ناگ روزانہ

نہیں کچھ مختلف حالت مری واللہ میں لکھتا ہوں

 

زمانے ہو گئے اپنے وطن کی خاک کو چومے

تمہارے ساتھ گھومے ایک جُگ بیتا میں لکھتا ہوں

 

میں اپنا دل تمہارے پاس گھر میں چھوڑ آیا تھا

سو اپنے آپ سے رہتا ہوں لاپروا  میں لکھتا ہوں

 

اگرچہ میں یہاں پردیس میں مصروف ہوں لیکن

تمہاری یاد سے غافل نہیں رہتا  میں لکھتا ہوں

 

لرزتے ہیں مری آنکھوں میں بام و در مرے گھر کے

اک اک منظر مری آنکھوں میں ہے تازہ  میں لکھتا ہوں

 

میں  اک دن لوٹ کر آؤں گا، وعدہ ہے مرا تم سے

نہ دل میں لا کوئی اندیشۂ بے جا  میں لکھتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مری الفتیں مری چاہتیں اسی ایک فرد کے واسطے

مری زندگانی کی راحتیں اسی ایک فرد کے واسطے

 

مری خلوتیں مری جلوتیں مری عمر کی سبھی حسرتیں

مرے موسموں کی سبھی رُتیں اسی ایک فرد کے واسطے

 

مرے روز و شب کے یہ مشغلے، مری شاعری پہ یہ تبصرے

مرے فن کی ساری تمازتیں اسی ایک فرد کے واسطے

 

مری شاعری، مری گفتگو، مری جستجو، مر ی آرزو

مرے مرتبے مری رفعتیں اسی ایک فرد کے واسطے

 

مری التجا میں یہ ندرتیں مرے سوزِ دل کی حکایتیں

مری عمر بھر کی ریاضتیں اسی ایک فرد کے واسطے

 

مری شہرتیں مری عظمتیں، مرے حسنِ شعر کی رنگتیں

مری روح کی سبھی حدتیں اسی ایک فرد کے واسطے

٭٭٭

 

 

 

 

مقدر نے کچھ اس انداز سے دستِ ہنر رکھا

کہ ہم کو مبتلائے کاروبارِ چشمِ تر رکھا

 

میں جس کو رات دن خورشیدِ عالم تاب کہتا تھا

مجھے اس نے سدا جیسے غبارِ رہگزر رکھا

 

تعلق اس نے یوں مجھ سے بہ اندازِ دگر رکھا

کہ میرے سامنے ہر روز اک تازہ سفر رکھا

 

بڑا نادان ہے تحقیق کی خُو چھوڑ دی جس نے

سماعت کو مقفل، اور نِگہ کو بے بصر رکھا

 

کہیں اوجِ ثریا کی حدوں کو پار نہ کر لوں

اسی اک خوف سے اس نے مجھے بے بال و پر رکھا

 

مری آنکھوں میں لکھا ہے کہ میں کل شب نہیں سویا

تمہارے خواب کو آنکھوں میں میں نے رات بھر رکھا

 

’’تمہارے سارے غم اے کاش اپنے سر میں لے لیتی‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کئی جہان ہیں ارض و سما سے آگے بھی

سفر یہ ختم نہ ہو گا فنا سے آگے بھی

 

وہ کارِ اہلِ وفا ہو کہ راہِ جرمِ جفا

ہر ایک سمت چلو انتہا سے آگے بھی

 

بہل نہ پائیگا دل اب فقط دلاسوں سے

مجھے نواز، دعا بدعا سے آگے بھی

 

میں اب کے تیری تمنا سے بڑھ کے کچھ مانگوں

کہ بارہا تجھے مانگا خدا سے، آگے بھی

 

ترا شعور فقط کرۂ ہوائی تک

مرا خیال ورا، ماوراء سے آگے بھی

٭٭٭

 

 

 

 

ایک شعر

 

فاقہ کشوں کو کیسے رلاتی ہے زندگی

آسائشوں میں پلتے بدن کو خبر کہاں

 

 

 

مرے نادان سے شاعر

 

مرے نادان سے شاعر

طلسمِ شعرو سوز و ساز کے آقا

ترے الفاظ

مانا کہ چمن زاروں کے پھولوں سے حسیں تر

موتیوں سے قیمتی

مہتاب سے پیارے

صحیفوں پر چمکتے خوشنما تارے

ترے الفاظ مرہم ہیں

کسی بھی آبلہ پا کا

مگر یہ بھی حقیقت ہے

کہ تیرے کاغذی لفظوں سے

فاقہ کش کے ظالم پیٹ کا

دوزخ نہیں بھرتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جلترنگ

 

مجھے وہ گیت بھاتا ہے

جو صرف اور صرف

تیرے نام سے منسوب ہو جائے،

کہ جس میں صرف تیرا تذکرہ ہو،

تیرا چرچا ہو !

مجھے وہ رنگ بھاتا ہے،

کہ جس کو خاص دن اور خاص موقعے پر،

مری جاں تم نے پہنا ہو !

وہ منظر میری آنکھوں کو

بہت شاداب کرتے ہیں

کہ جن کو تم نے دیکھا ہو !

مجھے وہ پھول بھاتے ہیں

کہ جو تیری وجہ سے

کھلکھلاتے، لہلہاتے، مسکراتے ہیں !

تِرے ہونٹوں سے جو خوشبو چراتے ہیں !

اگر تم مسکراؤ تو

زمانے مسکراتے ہیں !

ستارے، چاند، آنکھیں،

پھول، ساون، رنگ،

خوشبو، دھڑکنیں دل کی،

سبھی منظر خوشی سے جھومتے ہیں،

گیت گاتے ہیں !

مرے الفاظ بھی شعروں میں ڈھل کر

گیت گاتے ہیں !

مری جاناں میں کیا لکھوں ؟

کہاں تک بولتا جاؤں ؟

تری تعریف کرنے سے

مرے الفاظ قاصر ہیں !!!

٭٭٭

 

 

 

 

عجب بے نام خواہش ہے

 

عجب بے نام خواہش ہے

تمہارے نام پر اک نظم لکھنے کی

کہ جس میں ہجر کے موسم کے

سارے رنگ شامل ہوں

تمہاری یاد کے لمحے

سلگتی، آگ برساتی امنگیں جس کی زینت ہوں

کہ جس میں ان خطوں کا تذکرہ بھی ہو

گواہی جن کی حرفِ معتبر ٹھہرے

وہ خط جن میں ہمارے اور تمہارے خواب رہتے تھے

وہی خط جن میں ہم اک دوسرے کو

اپنی دنیا سے بہت منسوب کرتے تھے

رفاقت کے حسیں لمحوں کو

اور قربت کے موسم کو

تمہارے وصل میں گزری

سبھی شاموں کے ہر لمحے کو

حرفِ جاوداں لکھوں، کرم لکھوں

کہ اپنے درد و غم لکھوں

محبت کے الم لکھوں

میں اپنی آرزوؤں، حسرتوں، بے چین سوچوں کو

فسردہ خواہشوں کو

قافیوں میں بند کر ڈالوں

ردیفوں میں تمہارے وصف گِنواؤں

وفا کے استعاروں کو

تمہار ے نام سے اعزاز بخشوں

ہجرتوں کے تذکرے بھی کم سے کم لکھوں

مگر سب اپنے غم لکھوں

محبت کے الم لکھوں !!!

٭٭٭

 

 

 

 

انتظار

 

اماوس رات کا منظر

طلسمِ شب کے پہلو میں

در و دالان ڈوبے ہیں

پرانی، ادھ موئی منڈیر پر

ظلمت کا پہرا ہے

ہوائیں سرسرائیں تو

شکستہ کھڑکیاں، ٹُوٹا ہوا در بین کرتا ہے

اندھیرے میں کسی پل

جب کوئی ننھا سا جگنو ٹمٹماتا ہے

تو برسوں سے سسکتی

در کی چوکھٹ سے لگی

بے چین ماں کو بچھڑا بیٹا یاد آتا ہے

(وہ جس کی منتظر برسوں سے بیٹھی ہے)

عنابی بھیگتی آنکھیں

کہ جن میں کرب پھیلا ہے

سسکتے، کپکپاتے ہونٹ

ہونٹوں پر بہت مہمل سے

کچھ الفاظ رکھے ہیں

برودت سے ٹھٹھرتے ہاتھ

ہاتھوں کی لکیروں پر شکستہ داستانیں ہیں

فقط ہجرت کے قصے ہیں

نظر آفاق کی وسعت میں گم

ان دیکھے نقطے پر جمی ہے

اور سماعت ہر نئی آہٹ پہ

جیسے چونک اٹھتی ہے

خدایا ! اب وہ آ جائے!!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

Definition….

 

 

کبھی سوچو تو پا جاؤ

محبت کی حقیقت کو

تمہارے واسطے جو ایک فرسودہ

سبھی جذبات سے عاری

حقائق سے تہی دامن

فقط اک لفظِ مہمل ہے

جسے تم شاعروں کا فلسفہ گردانتے ہو

اور سمجھتے ہو

کہ یہ شاید

کتابوں ہی میں ملتا ہے

چلو پھر آزماؤ

اپنی سب سے قیمتی سی شے

گنوا دو

یا کہیں رکھ کر بھلا بیٹھو

تمہارے دل میں گر اس کے زیاں سے

دکھ یا پھر کوئی خلش محسوس ہو تو

جان لینا

’’یہ محبت ہے!!! ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

میں تم بن نامکمل ہوں

 

ادھورا شعر ہوں،

نظمِ محبت میں لکھا،

اک لفظِ مہمل ہوں،

میں تم بن نا مکمل ہوں !!!

جھلستے ریگ زارِ ہجر میں

جلتا ہوا دل ہوں،

غبارِ ریگِ بے کل ہوں،

میں تم بن نا مکمل ہوں !!!

نہ رستوں کی خبر مجھ کو،

نہ منزل سے شناسائی،

فلک کی گردشوں میں تیرتا،

آوارہ بادل ہوں،

میں تم بن نا مکمل ہوں !!!

میں تم بن نا مکمل ہوں !!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں اس کے واسطے کیا ہوں ؟؟؟

 

جو میری زندگی ہے

زندگی کی آخری حد ہے

میں اس کے واسطے کیا ہوں ؟؟؟

میں شاید اس کے کمرے میں پڑا

گزرے ہوئے دن کا کوئی اخبار

جس کو سرسری نظروں سے بھی

دیکھا نہیں اس نے !

اک ایسا لفظ

جو اس نے لغت سے کاٹ پھینکا ہے !

یا اس کی رائٹنگ ٹیبل پہ رکھے

چند ورقوں کے دباؤ میں پڑا

بے کار سا صفحہ

جسے پڑھنے کی زحمت کی نہیں اس نے !

یا وہ کنگھا

کہ جو متروک ہونے کا لقب پا کر

طلسمِ زلفِ تیرہ کی بلندی سے

بہت نیچے

اب اس کی ڈسٹ بن کی تہہ میں

محوِ استراحت ہے !

میں وہ کل ہوں

میں وہ گزرا ہوا کل ہوں

جسے وہ سوچنے سے بھی گریزاں ہے !

میں ہوں شاید وہ اک نغمہ

کہ جو لب تک رسائی سے

بہت پہلے کہیں دم توڑ دیتا ہے !

میں وہ لمحہ ہوں

جو اب تک

اسی کے ہجر کی سولی پہ لٹکا ہے !

میں اس کی آنکھ سے

چھلکا ہوا آنسو

جو خاک آلود چہرے پر

تمناؤں کا خوں مَل کر

زمیں پر رقص کرتا ہے !

میں اک برگِ خزاں ہوں

اس کے قدموں کے تلے جو

ٹوٹتا ہے، چرمراتا ہے !

خدارا مجھ کو بتلائے!!!

مجسم درد ہوں ؟ غم ہوں ؟

سراپا اک تمنا ہوں ؟

مسرت ہوں کہ حسرت ہوں ؟

سمندر ہوں کہ صحرا ہوں ؟

میں اس کے واسطے کیا ہوں ؟؟؟

جو میری زندگی ہے

زندگی کی آخری حد ہے !!!!!!

٭٭٭

 

 

 

 

محبت زندگانی ہے

 

محبت زندگانی

اور متاعِ زندگانی ہے

محبت آسماں کی وسعتوں میں

سرگراں سورج،

محبت ان گنت تاروں کا جھرمٹ،

کہکشاؤں کا نشانِ راہ،

محبت چاند کا ہالہ،

محبت آبشاروں کی زباں سے گونجتا نغمہ،

محبت وقت کے دھارے پہ بہتا

سوچ کا دریا،

محبت سات رنگوں کی دھنک کا

چہرۂ زیبا،

محبت درد کے چہرے میں ڈھلتا

شوخ سا قصہ،

محبت گھر کے آنگن میں

مہکتی رات کی رانی،

محبت اپنے باجے سے الجھتا

پھول سا بچہ،

محبت یاد کا پنچھی،

محبت ہجر کی سولی پہ لٹکا

درد کا لمحہ،

محبت آگ کا دریا،

محبت پھول کی پتی سے

لپٹا اوس کا قطرہ،

محبت پیاس کی بنجر زمیں سے

پھوٹتا چشمہ،

محبت آسماں پر تیرتا

اک ابرِ آوارہ،

محبت زندگانی اور

متاعِ زندگانی ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

یہ عقدہ کیوں نہیں کھلتا ؟؟؟

 

یہ عقدہ کیوں نہیں کھلتا،

کہ چرواہے کا بیٹا

بکریوں کا پیٹ بھرتا ہے

مگر خود پیٹ بھر کر کیوں نہیں سوتا ؟

یہ عقدہ کیوں نہیں کھلتا،

جفا کش روز و شب کی

جاں گسل محنت تو کرتا ہے

مگر دو وقت کی روٹی کو

پھر بھی کیوں ترستا ہے ؟

یہ عقدہ کیوں نہیں کھلتا،

کہ ہاری فصل بو کر کاٹتا ہے

دوسروں میں بانٹ دیتا ہے

تو اس کے گھر کا چولہا

کیوں نہیں جلتا ؟

یہ عقدہ کیوں نہیں کھلتا،

کہ فاقہ کش کے

بچوں کے مقدر کا لکھا رزق

ان کو آخر کیوں نہیں ملتا

یہ عقدہ کیوں نہیں کھلتا ؟؟

یہ عقدہ کیوں نہیں کھلتا ؟؟؟

٭٭٭

 

 

 

 

تضاد

 

میں سوچتا تھا

گلاب چہروں کی شخصیت کا

ہر ایک پہلو گلاب ہو گا

مگر یہ سچ ہے

کہ میں غلط تھا !!!

٭٭٭

 

 

 

 

استعارہ

 

سرِ ساحل

ہو ا کی سرسراہٹ

چیختی لہریں

فلک پر گھر کو جاتے

طائروں کے ان گنت جھرمٹ

فضائے نیلگوں میں

ڈوبتے خورشید کا عالم

’’یہ منظر خوبصورت ہے

اگر تم اس میں بس جاؤ!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے تو یاد آتا ہے !!!

 

فضا میں جب بھی کویل کُوکتی ہے

گیت گاتی ہے

حنائی رنگ جب نیلے گگن پر پھیل جاتا ہے

مجھے تُو یاد آتا ہے !!!

اداسی رات کے سینے پہ جب بھی ہاتھ دھرتی ہے

چمکتی چاندنی جب بھی زمیں کی مانگ بھرتی ہے

خموشی ان کہے لفظوں میں جب بھی بات کرتی ہے

ہوا جب سرسراتی ہے

کوئی جب ہیر گاتا ہے

مجھے تُو یاد آتا ہے !!!

کبھی بارش کے موسم میں

تھرکتی، جھلملاتی، شوخیاں کرتی ہوئی

بارش کے قطروں میں

تِرے ہی عکس بنتے ہیں

فضا میں تیرتے بادل

خوشی سے رقص کرتے ہیں

فلک پر جب کبھی کوئی ستارا ٹمٹماتا ہے

مجھے تُو یاد آتا ہے !!!

اکیلے پن کا سناٹا

مجھے جب تنگ کرتا ہے

ستاتا ہے

مجھے تُو یاد آتا ہے !!!

تخیل کے دریچوں سے

کوئی بھی عکس جب بھی جھانکتا ہے

مسکراتا ہے

مجھے تُو یاد آتا ہے !!!

مجھے تُو یاد آتا ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

وہ ایک لمحہ…

 

وہ ایک لمحہ

کہ جس میں تم نے

مجھے کہا تھا

’’مرے شب و روز تم سے روشن‘‘

وہ ایک لمحہ

مری ان آنکھوں میں

ان گنت خواب دھر گیا ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

اثاثہ

 

مری تمام عمر کا اثاثہ

بس ایک بوسہ

جو دو مہکتے ہوئے لبوں سے

پھسل کے میرے

اداس چہرے پہ جم گیا ہے !!!

٭٭٭

 

 

 

 

خوشبو

 

جنابِ من

ہمارے واسطے

خوشبو کے جیسے ہیں

مگر یہ بھی حقیقت ہے

کہ خوشبو ہر طرح کی قید سے

آزاد ہوتی ہے !

٭٭٭

 

 

گھاؤ

 

کبھی وہ ایک خوشبو تھا

مگر اب ایسا گھاؤ ہے

جو شاید بھر نہ پائے گا!!!

٭٭٭

 

 

 

 

شرارت

 

زمیں کی سرحدوں سے

آسماں کی کہکشاؤں تک

ہوا جتنے مواطن میں گئی

ان سب میں

تیرا نام رکھ آئی !!!

٭٭٭

 

 

 

 

اختتام

 

مری  مانو تو یوں کر لو

تعلق توڑ دو سارے

وہ سب بے نام رشتے بھی

کہ جن سے ہم کبھی منسوب ہوتے تھے

وفا کی سرحدوں سے خوش گمانی کے

سبھی پہرے ہٹا ڈالو

ہمارے اور تمہارے رابطے کا جو بہانہ تھے

وہ خط سارے جلا ڈالو

رفاقت کے زمانوں کو

سپردِ ریگِ صحرائے عدم کر دو

محبت کے سبھی کچے گھروندے منہدم کر دو

دلوں میں گونجتی بے چینیوں کو ختم کر ڈالو

ستاروں، چاند، آنکھوں،

پھول، خوشبو، دل کے سارے تذکروں سے

تم ہمارے تذکرے قصے مٹا ڈالو

چلو یہ مان لیتے ہیں

کہ ہم ہی بے وفا ہیں

بے مروت ہیں !!!

٭٭٭

 

 

 

 

ابھی میں دل نہیں ہارا

 

ابھی میں دل نہیں ہارا

کہ میری ماں کے ہونٹوں پر

مرے حق میں مچلتی سب دعائیں

سانس لیتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہر ایک شام نئے بانکپن میں رہتا ہے

وہی لہو جو ہمارے بدن میں رہتا ہے

 

رچا ہوا ہے یہ صوت و صدا میں غم کیسا

یہ کیسا درد کلام و سخن میں رہتا ہے

 

ڈبو نہ دے کہیں مجھ کو یہ موجِ بحرِ سکوت

یہ خوف روز مرے جان و تن میں رہتا ہے

 

اُسی سے ٹوٹے گا آخر طلسمِ ظلمتِ شب

جو آفتاب دیے کی کرن میں رہتا ہے

 

یہ کہہ رہا ہے کہ "ہے آگہی بھی ایک عذاب”

وہ اک فقیر جو اقصائے بن میں رہتا ہے

 

اُسی کی لو سے منور ہیں آسمان و زمیں

جو اک چراغ ورائے زمن میں رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بس خدا جانے کہ کتنی بار بدلے جائیں گے

دیکھنا، سچ جھوٹ کے معیار بدلے جائیں گے

 

دیکھنا مدہم نہ ہو جائے دیے کی تیز لو

شب کی شب میں قافلہ سالار  بدلے جائیں گے

 

ظلمتوں کو راہِ منزل اب پکارا جائیگا

روشنی کے نام پر افکار بدلے جائیں گے

 

آشیاں کو پھر سے اک ترتیبِ نو دی جائیگی

روزن و چلمن، در و دیوار بدلے جائیں گے

 

ایک میں تم ہی نہیں، اب کے برابر دیکھنا

اس کہانی کے سبھی کردار بدلے جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

اس نے جب زلفیں بکھیریں، تب کھلا

مجھ پہ آدھی رات کا مطلب کھلا

 

پھول میرے چار سُو کھلنے لگے

جب طلسمِ سازِ نطق و لب کھلا

 

اے جنابِ شیخ پردہ کس لیے

حاشیہ مجھ پر تمہارا سب کھلا

 

اک تمنا آنسوؤں میں بہہ گئی

ہم پہ یہ شہرِ نگاراں کب کھلا

 

رات بھر میری طرح جلتے ہیں کیوں

روز یہ سیارگانِ شب کھلا

 

کب سمجھتا تھا میں صحراؤں کا دکھ

تیری ہجرت میں یہ  عقدہ اب کھلا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم محبت کی تب و تاب کے مارے ہوئے ہیں

سادہ دل ہیں اسی زہراب کے مارے ہوئے

 

خواہشاتِ دلِ بے تاب کے مارے ہوئے ہیں

ایک امید کے، اک خواب کے مارے ہوئے ہیں

 

چشمِ قاتل کی مئے ناب کے مارے ہوئے

ہم اسی دیدہٗ مہتاب کے مارے ہوئے ہیں

 

ریشم و اطلس و کمخواب کے مارے ہوئے ہیں

اہلِ دنیا انہی اسباب کے مارے ہوئے ہیں

 

اور ہوں گے وہ جو دشمن سے تہہِ تیغ ہوئے

ہم عدو کے نہیں، احباب کے مارے ہوئے ہیں

 

نام دشمن کا بھی لیتے ہیں تو اعزاز کے ساتھ

ہم سخن ور ہیں کہ آداب کے مارے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کس قدر روپ بدلتا ہے یہ سودائی بھی

خود ہی مقتول بھی، قاتل بھی تماشائی بھی

 

خود کبھی اس کی محبت سے گریزاں مرا دل

اور کبھی اس کی محبت کا تمنائی بھی

 

صرف احباب گزیدہ ہی نہیں ہوں کہ مجھے

دشت میں چھوڑ گئے میرے سگے بھائی بھی

 

جن کے ہاتھوں نے مری شب سے ستارے نوچے

ان کے لشکر میں کھڑا ہے مرا ہرجائی بھی

 

اک ترے ہجر کا غم بھی کسی محشر سے وراء

اس پہ اک حشر مری قافیہ آرائی بھی

٭٭٭

 

 

 

 

دو اشعار

 

روشن تھا مگر بجھ گیا، اسود ہوا میں بھی

اک لفظِ محبت تھا، قلم زد ہوا میں بھی

 

تو نے بھی پرستش کے لیے ڈھونڈ لیے لوگ

اور تیری عبادات سے مرتد ہوا میں بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

سانولی شب میں چمکتے ہوئے تاروں جیسا

اور صحراؤں میں وہ ابر کے پاروں جیسا

 

مری ناؤ کو ڈبویا ہے اسی دشمن نے

جس کا لہجہ تھا بہ ظاہر مرے یاروں جیسا

 

کم نصیب ایسے کہ مل کر بھی نہیں مل پاتے

حال اپنا بھی ہے دریا کے کناروں جیسا

٭٭٭

 

 

 

 

لہجہ

 

وہ خواب لہجہ

کہ جس نے اپنی

کھنک سے میر ے

تمام خوابوں کو زندگی دی

وہ خواب لہجہ بدل گیا  ہے.

٭٭٭

 

 

 

 

جس نے کیے ہیں تجھ پہ محبت میں وار دوست

کیوں اس قدر ہے اس کے لیے بے قرار دوست

 

ہم نے بنائے شہر میں کتنے ہزار دوست

وقتِ طلب نہ کوئی ملا غمگسار دوست

 

مانوس اجنبی ہیں نگاہوں کے سامنے

"اپنا”کوئی نہیں ہے مگر بے شمار دوست

 

اُس نے کی ہے چاک ترے دل کا پیرہن

وہ شخص جس کو تو نے کہا بار بار دوست

 

سوکھے ہوئے شجر سے تمنائے برگ و بار؟

جو جا چکا ہے تو بھی اسے مت پکار دوست

 

قائم انہی سے ہے ترے چہرے کی تازگی

ہیں تیرے آس پاس جو غم کے حصار دوست

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمیں کر کے سمندر کے حوالے

وہ کیوں چپ چاپ اپنا راستہ لے

 

پرندے اب کہاں مسکن بنائیں

کہ انسانوں نے جنگل کاٹ ڈالے

 

کسی مجذوب نے کیا سچ کہا تھا

جو کچھ پانا ہے تو ماں کی دعا لے

 

سفر شاید نہ جاری رکھ سکوں میں

لہو آلود ہیں پاؤں کے چھالے

 

ہمارے حرف ریزے چاندنی تھے

جنہوں نے سب اندھیرے پھونک ڈالے

 

اے میرے خواب تجھ کو ٹوٹنا ہے

مری آنکھوں میں اک پل جھلملا لے

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی الجھے تھے پاؤں کنکروں سے

لہو رِستا ہے اب تک آبلوں سے

 

در و دیوار کیوں ہیں نیلگوں سے

یہ کیسا رنگ جھلکا منظروں سے

 

سفینہ کب تلک ڈوبے گا شب کا

کب ابھریں گے سویرے ظلمتوں سے

 

ہوا میں زہر کس نے بھر دیا ہے

شگوفے ٹوٹتے ہیں شاخچوں سے

 

اٹا ہے دھول سے چہرہ ہمارا

کہ ہم بچھڑے ہوئے ہیں قافلوں سے

٭٭٭

 

 

 

 

جاوید احمد کی زمین میں

 

سسکتے چیختے دم توڑتے اشکوں کے دریا

ہماری آنکھ میں اترے ہیں دریاؤں کے دریا

 

مری بستی کا ہر رستہ لہو سے تر بہ تر ہے

گلی کوچوں میں بہتے خون کی موجوں کے دریا

 

ہوس نے وادیوں کی رونقیں سب چاٹ لی ہیں

بہا کر حسنِ فطرت لے گئے شہروں کے دریا

 

کہ سارے خشک و تر ہوتے ہیں ان کی دسترس میں

بہت منہ زور ہوتے ہیں تمناؤں کے دریا

 

میں اب تک زندگانی کی وضاحت کر رہا ہوں

ہیں میرے چار سُو پھیلے ہوئے لفظوں کے دریا

 

یہ کس مظلوم نے دہلا دیا ہے شب کا سینہ

رواں کس کے لبوں پر ہیں مناجاتوں کے دریا

 

دھنک اتری ہوئی واصفؔ ہو جیسے آسماں پر

رواں ہیں اس کے رخساروں پہ یوں رنگوں کے دریا

٭٭٭

 

 

 

 

محسن نقوی کی زمین میں

 

یہ شوق بنا لیتا ہے رستہ اسے کہنا

جنگل ہو کہ دریا ہو کہ صحرا اسے کہنا

 

اجڑے ہوئے سب نخل تھکے ماندے کھڑے ہیں

اور زرد ہے اس دشت کا چہرہ اسے کہنا

 

اک وہ ہے کہ ہے وادیِ بے آب میں سیراب

اک میں ہوں کہ پیاسا لبِ دریا اسے کہنا

 

میں آج گرفتارِ بلا ہوں تو نہیں غم

ظلمت سے ابھرتا ہے سویرا اسے کہنا

 

سوچوں کے جزیروں میں تری یاد کا بادل

کل رات بہت ٹوٹ کے برسا اسے کہنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ جس کا لہجہ بلاغتوں میں گندھا ہوا ہے

یہ دل اسی کی شکایتوں سے بھرا ہوا ہے

 

وہی تو سینے کی دھڑکنوں کو بڑھا رہا ہے

جو لفظ میرے لبوں پہ آکر رکا ہوا ہے

 

اسے نہیں فکرِ آشیاں فکرِ زندگی ہے

جو اک پرندہ شکاریوں میں گھرا ہوا ہے

 

یہ کس کی آنکھیں ہماری رونق کو کھا گئی ہیں

یہ کس کے غم میں ہمارا چہرہ بجھا ہوا ہے

 

عمارتوں نے درخت سارے نگل لیے ہیں

بسی ہے بستی تو حسنِ فطرت فنا ہوا ہے

 

میں کس طرح اپنی جھونپڑی کو جلاؤں واصفؔ

کہ میرا بچہ اسی میں پل کر بڑا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ دل اسی کی محبت کے ہر جتن میں رہا

وہ ایک شخص جو تاروں کی انجمن میں رہا

 

محبتوں کا نشہ بھی عجیب نشہ ہے

کبھی دماغ پہ چھایا کبھی بدن میں رہا

 

میں اپنے مرکزو محور سے کیسے ہٹ جاتا

کہ اک جہان پھرا دل مگر وطن میں رہا

 

ہماری آنکھ میں روشن چراغ کی صورت

کسی کی یاد کا تارا کہ جو گگن میں رہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دبے پاؤں اندھیرا بام و در تک آ گیا ہے

عجب اک خوف ہے جو میرے گھر تک آ گیا ہے

 

عزیزِ شہر تو بس اپنی سر مستی میں گم ہے

مگر چڑھتا ہوا سیلاب سر تک آ گیا ہے

 

دریچے میں کچھ اس طرح سے اترا ہے وہ سورج

اجالا سا مرے قلب و نظر تک آ گیا ہے

 

یہ تیری کج اڑانیں تجھ کو لے ڈوبیں گی اک دن

عدو کا ہاتھ تیرے بال و پر تک آ گیا ہے

 

جو کل اوروں کے دروازوں پہ دستک دے رہا تھا

وہی طوفان کوئے چارہ گر تک آ گیا ہے

 

کہ فکرِ آشیاں بے چین اس کو کر گئی ہے

پرندہ لوٹ کر پھر سے شجر تک آ گیا ہے

 

یہ کس کی یاد لو دیتی ہے اس افسونِ شب میں

اتر کر چاند میری رہگزر تک آ گیا ہے

 

سنو واصفؔ یہی قصہ تمہاری بے بسی کا

بہت جلدی تمہارے بے خبر تک آ گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یوم اقبال میں ایک طرحی مشاعرے پر

 

یہ کس آواز کی ہے گونج شب کے قید خانوں میں

کہ بدلی ہے مہ و انجم کی گردش آسمانوں میں

 

رقم تو ہو رہی ہے عصرِ نو کی داستاں ہر دم

مگر ہم آج تک رہتے ہیں ماضی کے فسانوں میں

 

مجھے معلوم ہے میری زمیں بنجر نہیں ہو گی

کہ جب تک دولتِ کردار ہے میرے جوانوں میں

 

"کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا”

ہوا نے رکھ دیے پیغام شب کے بادبانوں میں

 

صدائے لا الہ تھی یا کوئی پر سوز نغمہ تھا

مگر تلخی یہ کیسی گھل گئی تیری اذانوں میں

 

ہویدا ہے سحر کا نور تیرہ شب کے چہرے سے

ابھی اترے گی صبح گاؤں کے کچے مکانوں میں

 

تجھے فطرت نے اے نادان خوئے لم یزل دی ہے

"تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں ”

٭٭٭

تشکر: ناصر ملک جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید