FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

کل کی بات اور تھی

 

 

 

                   سہیل ثاقب

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

 

اپنے بچوں کے نام

 

میرے  امرینہؔ ،  اشہب ؔ و  اسحاقؔ

بس یہی  تو  ہیں  میری  جاگیریں

٭٭٭

 

 

 

تعارف

 

قلمی نام:                سہیل ثاقبؔ

تاریخ پیدائش:  ۱۹۵۵

ملازمت:       سیکیورٹی ٹیکنیکل ایڈوائزر، سعودی الیکڑیسٹی کمپنی (الکہرباء)

الدمام ،  سعودی عرب

موجودہ پتہ:     ، P.O. Box 5190

SCECO Hqtrs-ISD

Dammam 31422

Saudi Arabia

ای میل:                suhailc@hotmail.com

suhailc@yahoo.com

پہلا شعری مجموعہ  :        ’’تیری میری آنکھوں میں ‘‘

دوسرا شعری مجموعہ :     ’’سب کہنے کی باتیں ہیں ‘‘

تیسرا شعری مجموعہ:      ’’کل کی بات اور تھی‘‘

چوتھا شعری مجموعہ:      (زیرِ ترتیب)

 

 

 

 

 

دُعا

 

ہٹا دے آسماں یا رب ہٹا دے

جو ہے ما بین وہ چلمن اُٹھا دے

پھر اِس کے بعد جو ہونا ہے ہو لے

یہ بندہ ضد پہ ہے جلوہ دکھا دے

 

 

 

 

 

التجا

 

مربوط کائنات ہے یہ اُن کے نام سے

پڑھتے رہو درود بہت احترام سے

بس منتظر ہوں اپنے بلاوے کا آپ تک

آؤں گا حاضری کو بڑے اہتمام سے

 

 

 

 

نعت

 

کرم اُن کا ہے طیبہ سے سندیسہ آ گیا ثاقبؔ

درِ رحمت سے میرا بھی بلاوا آ گیا ثاقبؔ

سفینے دید کے نامِ محمد چومتے نکلے

پلک چھپکی تو رحمت کا کنارہ آ گیا ثاقبؔ

غلاموں کے لیے اس سے بڑا اعزاز کیا ہو گا

بنو مہمان تم اُن کے اشارہ آ گیا ثاقبؔ

بہت بھٹکا ہوں ساری عمر میں راہوں کے جنگل میں

مجھے لے جائے منزل تک وہ رستہ آ گیا ثاقبؔ

عجب دیوانگی ہے ہوش میں اب کس کو رہنا ہے

ہمیں بھی زندگی کا اب سلیقہ آ گیا ثاقبؔ

درودِ مصطفی کا ورد جاری ہی رہا لب پر

اندھیرا چھٹ گیا سارا اُجالا آ گیا ثاقبؔ

مری آنکھوں سے شکرانے کے آنسو گر رہے ہیں اب

مری قسمت کا بھی روشن ستارا آ گیا ثاقبؔ

 

 

 

 

 

امیرالسلام ہاشمی، کراچی

 

سہیل ثاقبؔ ———

 

سہیل ثاقبؔ نے اپنی تیسری کتاب کا نام ’’کل کی بات اور تھی ‘‘  رکھ کر بڑی سمجھداری اور دیانت داری کا ثبوت دیا ہے۔ وہ خود فرما رہے ہیں کہ انکی پہلی شاعری اتنی تر و تازہ  اور مضبوط نہیں تھی جتنی کہ اب ہے۔  اپنی شاعری پہ اتنا اچھا تبصرہ اور وہ بھی بہت مختصر الفاظ میں شاید کوئی اچھے سے اچھا تنقید نگار بھی نہیں کر سکتا۔ یہ کتاب یا اُن کا یہ شعری مجموعہ میں نے پڑھا اور میں بھی اسی نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب انکی محنت کے سبب ہوا۔ وہ پہلے بھی کچھ بڑے شاعر نہیں تھے لیکن ان کا شمار اچھے شاعروں میں کیا جا سکتا ہے۔ اب انکی شاعری میں بے ساختہ پن ہے۔ اور آمد ہی آمد ہے۔ ’’ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں ‘‘۔

وہ زیادہ تر ملک سے باہر رہے۔  اور جہاں شاعری کا پروان چڑھنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ گو کہ الیکٹرانک دور ہے۔ آپ جو چاہیں وہ گھر بیٹھے حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن ماحول تو اپنے گرد و نواح  کے وسیع دائرے سے  اور مشاورت سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ ان کی خدا داد صلاحیت، محنت اور لگن کا نتیجہ ہے کہ انکی شاعری  اپنے اندر سنجیدہ فکر، مضبوط عزائم اور مضبوط دسترس رکھتی ہے۔ بہ حرفِ عام ثاقبؔ کی شاعری پر گرفت اتنی ہی اچھی ہے جتنے کہ وہ خود ہیں۔ ثاقبؔ خود اپنے ہی ایک شعر میں کہتے ہیں :

اک تجربے کی بات بتاتا  ہوں میں تمھیں

گر  تم  برے  نہیں  تو  زمانہ  برا  نہیں

سہیل ثاقبؔ نے اپنی شاعری میں تقریباً  ہر موضوع کو منفرد اور مکمل انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ چاہے ثقافتی، سماجی، سیاسی یا معاشی موضوع ہو ثاقبؔ نے پردیس میں رہتے ہوئے بھی ایسے موضوعات سے کہ جن کا براہِ راست وطنِ عزیز سے تعلق رہا ہے دل کھول کر اپنی شاعری میں پیش کیا ہے جو کہ ایک تارکِ وطن کے لیے قدرتی امر ہے۔

چند متفرق اشعار قارئین کے مطالعہ کی نذر:

 

لوگ تو  ہمدرد  ہیں  دُکھ بانٹنے  آ جائیں گے

میں  مگر  تقسیم کا کب  تک عمل جاری رکھوں

 

بازگشت اپنی ہی اے دوست سنائی دے گی

دشتِ امکاں میں جسے چاہے پکارے جاؤ

 

وقت کی آندھی رشتوں کی پہچان اُڑا لے جاتی ہے

مجھ کو اب وہ اپنا کہہ دے، سب کہنے کی باتیں ہیں

 

یہ میرا دل عجب  وحشی ہے پیارے کیا کروں اِس کا

سمندر  میں  اُتر جاتا ہے  طغیانی کے  موسم  میں

 

عصرِ حاضِر مجھے کس موڑ پہ لے  آیا ہے

زندگی  اپنا  ہی  چہرا  نہیں پہچانتی ہے

 

ثاقبؔ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ نا اُمیدی کفر کے مترادف ہے۔ انسان کو امید کا دامن اپنے  ہاتھوں سے کبھی نہیں چھوڑنا چاہیئے۔  آج اگر ہمارا ملک بحرانو ں سے گزر رہا ہے تو ہم انشاء اللہ اس کو پھلتا پھولتا بھی دیکھیں گے۔ اس تناظر میں سہیل ثاقبؔ نے کس خوبصورتی سے یہ شعر تخلیق کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

بے ثمر اب ہے  شجر ہم نے یہ مانا لیکن

یہ  شجر  ہو  گیا  بیکار  غلط  کہتے  ہو

 

ایک زمانہ تھا کہ شاعر کو خوابوں کی دنیا میں رہنے والوں سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ آج کا شاعر لیکن اپنے گرد و نواح سے پوری طرح باخبر ہے۔ اُسے علم ہے کہ زندگی اپنے اندر کتنی جہتیں اور کتنے رنگ لیے ہوئے ہے۔ ملک کے حالات عالمی اور داخلی تناظر میں اگر پرکھے جائیں تو ہم خطرناک حد تک سیاسی اور سماجی بحران کی لپیٹ میں ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنے گردو نواح کا جائزہ لیں تو ایسا نہیں ہے کہ ہم ہی فقط اس کا شکار ہیں۔  ایسا بحران کسی دوسری شکل میں کہیں اور دیکھا جا سکتا ہے۔  اسی پس منظر میں سہیل ثاقبؔ کی ایک مکمل غزل  ملاحظہ فرمایئے:

 

کیا خوف کہ خطرے  تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

گھر گھر میں اندھیرے تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

 

ملنا ہے  تو پھر کیوں نہ  ملیں سامنے سب کے

روشن کئی  رستے  تو یہاں  بھی ہیں  وہاں بھی

 

سیلاب سے  بچنے کے  جتن  دونوں  ہی کر لیں

مٹی کے گھروندے  تو یہاں بھی  ہیں وہاں  بھی

 

شطرنج  کی  بازی  کہ  سیاست  ہے  ہماری

پٹتے ہوئے  مہرے  تو یہاں  بھی ہیں وہاں بھی

 

ہم  ہی  تو  فقط  موردِ    الزام  نہیں  ہیں

جھوٹے کئی وعدے تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

 

اب  ترک  کریں  اپنی  جنوں خیزیاں دونوں

سچائی  پہ  پہرے  تو یہاں  بھی ہیں  وہاں بھی

 

تاریخ  سے  اب  کچھ  تو سبق  سیکھ  لیں  ورنہ

مٹتے  ہوئے  کتبے  تو  یہاں  بھی  ہیں  وہاں بھی

 

میں کس  کو  سراہوں  تو  کسے  ردّ  کروں  میں

ثاقبؔ  مرے  اپنے  تو یہاں  بھی ہیں  وہاں بھی

 

تارکینِ وطن شعراء کا ایک مخصوص موضوع  ہجرت رہا ہے  اور کیوں نہ ہو۔ وطن سے دوری کا احساس، اپنے قریبی احباب،  رشتہ دار، دوست  غرض یہ کہ ہر ایک سے کٹ کے رہنا اور وہ بھی ایک طویل عرصے کے لیے ایک تکلیف دہ عنصر ہے جس کو سہیل ثاقبؔ اور جانے کتنے ہی ہر پل ہر لمحے محسوس کرتے ہیں۔ اس موضوع پر ثاقبؔ کا ذرا یہ قطعہ ملاحظہ ہو :

 

کیا  عجیب  اپنا   بھی   مقدر  ہے

پہلے  صحرا  ہے  بعد  میں  گھر ہے

پھر  بھی  ہم  لوگ  اُڑ  نہیں پاتے

ہر  پرندے  کا   ہاتھ  میں  پر  ہے

 

مندرجہ بالا اشعار پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ سہیل میاں کتنے اچھے شاعر ہیں۔

کراچی کے ادبی گہوارے میں تارکینِ وطن شعرا کی آمد پر اُن کو سننے کے کئی مواقع مجھے میسر آئے۔ یہ بات اپنی جگہ کہ یہ شعراء ادب کی main streamline سے اتنے منسلک نہیں ہیں جتنے کہ ہندوستان اور پاکستان میں رہنے والے شعرا ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم ایسے شعرا جو اپنی ادبی صلاحیتوں اور ایک firm commitment کے ساتھ اپنے پیر جمائے ہوئے ہیں، اس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔  اگر ہم ایسے شعرا کے ادبی درجات مقرر کریں تو میں یہ بات بہت وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سہیل ثاقب تارکینِ وطن شعراء کی صفِ اول میں گنے جا سکتے ہیں۔

انھوں نے تمام عمر دیارِ غیر میں گزار دی۔ جہاں اتنے ادبی مواقع نہیں ہوتے کہ آدمی اپنی شاعری کو مزید نکھار سکے۔ ادبی محفلوں سے کچھ حاصل کر سکے۔ اس کے باوجود سہیل ثاقبؔ کی شاعری میں  آج کے شاعر کے سبھی تیور اور رنگ فراوانی سے نظر آتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں ندرت ہے، سوچ ہے برجستگی ہے۔

اقبال نے ان ہی کے لیے شاید کہا ہو:

 

عروجِ آدمِ خاکی سے  انجم  سہمے  جاتے  ہیں

کہ  یہ  ٹوٹا  ہوا  تارہ  مہ کامل  نہ  بن جائے

 

سہیل ثاقبؔ کو میں شہابِ ثاقبؔ اس سبب سے کہتا ہوں کہ یہ شاعری کے افق پر کچھ ہی دنوں میں مہہ کامل بن کر ابھریں گے۔  میں ان کی کاوشوں اور کامرانیوں کے لیے دعا گو ہو۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ

٭٭

 

 

 

 پروفیسر منظر ایوبی

 

سہیل ثاقبؔ کے تیسرے مجموعہ کلام ’’کل کی بات اور تھی‘‘  پر ایک نظر

 

گزشتہ تیس برس کے دوران دنیائے ادب میں تازہ تخلیق کاروں کا ایک لشکر سرگرمِ سخن نظر آتا ہے۔ اس میں وہ سخنور بھی شامل ہیں جنہوں نے وطنِ عزیز سے باہر دنیا کے کئی ممالک میں اردو کی نئی بستیاں آباد کی ہیں۔ یورپ، امریکہ، مشرقِ وسطیٰ اور ان کے علاوہ جن جن ملکوں میں اردو بولنے والوں نے اپنی دست کاری اور ہنر مندی کے کمالات دکھا کر نہ صرف اپنے وطن کا نام روشن کیا ہے، بلکہ اپنی تہذیبی و تمدنی اور معاشرتی و سماجی اقدار کی پاسداری کا خیال بھی رکھا ہے۔  ادیبوں، شاعروں اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی تمام تر کاروباری اور پیشہ ورانہ مصروفیات کے با وصف ادبیات و فنون کی ترویج و ترقی اور ان کے فروغ کے لیے جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں یا اب بھی دے رہے ہیں وہ در حقیقت اپنی علمی و ادبی خدمات کی ایک ناقابلِ فراموش تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ حالانکہ عام خیال کے مطابق نہ انھیں وہ علمی و ادبی فضا میسر ہے جس میں معیاری ادب کی تخلیق ممکن ہو اور نہ وہ ذرائعِ ابلاغ جو ان کی ذہنی و فکری کاوشوں کی عام قاری تک رسائی ممکن بنا سکیں۔ ان حقائق کے با وصف وہ کسی صلہ و ستائش کی تمنا کیے بغیر اپنے ادیبانہ فرائض انجام دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے۔

حال ہی میں اردو کی نئی بستیوں کے بعض تخلیق کاروں کی تازہ مطبوعات مری نظر سے گزری ہیں ان میں برسہا برس سے سعودی عرب میں مقیم جواں سال شاعر سہیل ثاقبؔ کی تیسری شعری کتاب (بہ شکل مسودہ) مری نظر سے گزری۔ یہ وہی سہیل ثاقبؔ ہیں جن کا پہلا مجموعہ کلام ’’تیری میری آنکھوں میں ‘‘ نومبر ۲۰۰۳ میں کراچی سے شائع ہو کر ادبی و علمی حلقوں میں توقع سے زیادہ پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ اردو کے معروف و مستند نقاد ڈاکٹر فرمان فتحپوری نے تو ثاقبؔ کی غزل گوئی کے حوالہ سے یہاں تک خیال آرائی کی کہ ’’ ان (ثاقبؔ) کے یہاں تخلیقات کی روح میں روایت کی شادابی بھی ہے اور حدّت کی بالیدگی بھی۔ ان کی غزل نئی غزل کی ایک زندہ مثال ہے جن کے کینوس پر ایسے تمام خدوخال نمو پاتے ہیں جو تازہ غزل کے نقش و نگار بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ‘‘۔

نومبر ۲۰۰۹ میں ثاقبؔ کا دوسرا شعری مجموعہ ’’ سب کہنے کی باتیں ہیں ‘‘  بھی اپنے حصے کی پذیرائی حاصل کرنے میں رواں دواں ہے۔ اس مجموعے میں بھی دنیائے ادب  کے چند معتبر نام جناب اقبال کوثر،  پروفیسر قیصر نجفی، جناب مسلم شمیم نے ثاقبؔ کی شاعری پر اپنے تبصرے فرمائے ہیں اور ثاقبؔ کی شاعری کے مستقبل کو نہایت روشن تحریر فرمایا ہے۔

اب  ۲۰۱۱ میں ترتیب پانے والی مجموعۂ کلام کا مسودہ  ’’کل کی بات اور تھی‘‘ مرے پیشِ نظر ہے۔ بقول ثاقبؔ کے ان کے دوسرے اور تیسرے مجموعے میں شامل کلام پچھلے چھ سات برس پر مشتمل ہے۔ اب یہ ان کی کوئی ذاتی مجبوری رہی ہو گی کہ جو اپنے سارے کلام کو دو مجموعوں میں بانٹ دیا ہے۔ ان چھ سات برس کے مختصر وقفہ میں ثاقبؔ نے اپنی فکری کاوشوں کو منظر عام پر لانے کا اہتمام آخر کر ہی لیا۔

مجھے حیرت تو ہوئی کہ اپنے فرائضِ منصبی اور امورِ خانہ داری کی بطریقِ احسن انجام دہی کے باوجود ثاقبؔ نے شعر گوئی کا شغل کس طرح  جاری رکھا  لیکن میرے نزدیک یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ تیسری کتاب کی بر وقت اشاعت سے ثاقبؔ اپنے چاہنے والوں کو مایوس نہیں کر رہے۔ مسودے میں شامل ثاقبؔ کا پیشتر کلام مری نظر سے وقتاً فوقتاً گزرتا رہا ہے بالخصوص دہ ایک برس کے بعد  جب بھی کراچی تشریف لاتے ہیں تو انہیں سننے سنانے کے مواقع حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ یوں بھی اپنے کراچی آنے پر وہ اپنے دولت کدے پر معروف و مستند شعرائے کرام کی محفل منعقد کر کے آئندہ برس تک کے لیے اپنی یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔

ثاقبؔ کے پہلے مجموعہ ’’تیری میری آنکھوں میں ‘‘ کے مطالعہ سے میری طرح دیگر قارئینِ کرام بھی ثاقبؔ کی شاعرانہ اٹھان اور ان کے کامیاب فنی سفر کا پہلے ہی اندازہ لگا چکے تھے۔ تازہ مسودہ  ’’کل کی بات اور تھی‘‘ نے مرے دامنِ مطالعہ کو اختتامِ کلام تک نہ صرف اپنی جانب کھینچے رکھا بلکہ دورانِ قرأت مجھ پر بہت ہی خوشگوار کیفیات طاری رہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ثاقبؔ کسی طور پر بھی ادب کے مرکزی دھارے سے دور رہ کر بھی دور نہیں ہیں۔ ’’کل کی بات اور تھی‘‘ اس امر کی زندہ گواہی ہے کہ ثاقبؔ نے ذہنی طور پر ماضی کی شاعرانہ روایات اور فنی روابط و ضوابط سے اپنی وابستگی قائم رکھی ہے وہ عہدِ موجود کے جدید فکری و ذہنی ہم آہنگی اور زندگی کی نئی جہتوں پر بھی کڑی نظر رکھتے ہیں اور دونو ں صورتوں میں نہایت کامیابی اور توازن کے ساتھ سر گرمِ عمل دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تازہ مجموع میں شامل غزلیہ کلام میں خاص طور اپنی ذہنی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہایت احتیاط اور بھر پور انداز میں اسطرح کیا ہے کہ قاری انھیں داد و تحسین سے نوازنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

آگے چل کر میں ان کی غزلوں کے مختلف اشعار پیش کر کے قارئین اور شائقینِ ادب کو باور کرانے کی کوشش کروں گا کہ مری نظر میں ’’کل کی بات اور تھی‘‘ ثاقبؔ کی غزل گوئی کا تسلسل پن ہے بلکہ یہ ان کے فنی ارتقائی سفر کا ایک اور موڑ ہے جو اپنے ہم عصر اور ہم عمر شعرا میں کیا بہ اعتبارِ موضوع اور کیا بہ لحاظِ اسلوب منفرد مقام عطا کرتا ہے۔

جدیدیت کے رجحان کے حامل شعراء مضامین یا موضوعات کی تلاش میں ادھر اُدھر  نہیں بھٹکتے۔ قدیم اور سینئر شاعروں کے کلام کا مطالعہ بہ نظرِ غائر ضرور کرتے ہیں مگر وہ چبائے ہوئے نوالوں کو دوبارہ چبانے کے قائل نہیں ہیں ویسے بھی عہدِ حاضر میں زندگی اور کائنات کا مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ اتنی وسعت کا حامل ہے اور اس میں اتنی ہمہ گیری اوروسعت ہے کہ جدید شاعر کو چراغ سے چراغ جلانے (پرانے مفہوم میں نہیں ) کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ ان گنت اور لا تعداد مظاہر اور مناظر اس کے گرد حصار کھینچے ہوئے ہیں۔ اب اُس پر منحصر ہے کہ وہ زندگی  کی کن جہتوں اور کائنات کے کن رخوں کو مرکزِ فکر بناتا ہے۔

اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جدیدیت پسند شعرا ء زندگی کو جسطرح برت رہے ہیں اور آئے دن کے واقعات و سانحات جو  ان کے مشاہدے کا حصہ بن رہے ہیں، وہ انہی سے اپنی دکانِ سخن سجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثریت کے موضوعاتِ شاعری اگر انوکھے اور اچھوتے ہیں تو فرسودہ اور کہن زدہ بھی ہیں۔ سہیل ثاقبؔ کے ذیل کے چند اشعارسے ان کے شاعری بالخصوص غزلوں کے مضامین یا موضوعات کی ہمہ گیری اور رنگارنگی کا  بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

اُترتی ہے  غزل جب چاک دامانی کے موسم میں

سراپا  عشق  ہوتا  ہوں غزل  خوانی کے  موسم میں

 

روشنی  بڑھنے لگی ہے اب  اندھیروں کی طرف

ایک سایہ  ساتھ تھا ،  وہ بھی جدا ہونے کو ہے

 

آج  اس نے  میر کا  اک شعر  کا غذ  پر  لکھا

اب  مرا  بیٹا بھی  لگتا  ہے جواں  ہونے کو ہے

 

میں خواب  لکھنے کی کوششوں میں حدوں سے آگے نکل گیا ہوں

لہو  ٹپکتا  ہے  انگلیوں  سے  وہ  دے  گیا ہے  قلم  نشانی

 

تشکیلِ پاکستان کے بعد ہجرت کا احساس پوری شدت کے ساتھ اردو کی اس نسل کے کلام میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے جو نانِ شکم کا رشتہ برقرار رکھنے اور اپنی اولاد کا مستقبل روشن کرنے کی غرض سے بیرون ملک ہجرت پر مامور ہوئے تھے۔ اس حوالہ سے دیگر ہم عصروں کے مقابلے میں سہیل ثاقبؔ کچھ زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں۔ ان کی پیشتر غزلوں کے اشعار میں جہاں جذبۂ حب الوطنی اور وطن کی مٹی کی خوشبو کار فرما نظر آتی ہے وہاں کچھ اپنوں اور کچھ پرائیوں کا وہ روّیہ اور سلوک بھی بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے ذیل کے اشعار جس کے عکاس ہیں :

لوٹ کے  خالی ہاتھ  بھلا میں کیسے جاؤں  اپنوں میں

ان  کے  سر پر آس کے گہرے بادل چھوڑ کے آیا تھا

 

میں ہی  بھیگی آنکھیں لے کر  نکلا کب  تھا  گاؤں سے

گھر میں بھی اک اشکوں سے  تر  آنچل چھوڑ کے آیا تھا

 

اس تسلسل میں زندگی کے دوسرے رخ کی ترجمانی ملاحظہ کیجیے:

 

آج  وہ  ثاقبؔ جانے کیوں کچھ  بدلے  بدلے لگتے ہیں

جن کو  اپنے  پیار  میں  کل میں پاگل  چھوڑ کے  آیا تھا

یہ شعر ہماری اجتماعی زندگی کی عام روش کی نشاندہی ہی نہیں کرتا، بلکہ اس ابر کا مظہر ہے کہ ہمارا معاشرہ مفاد پرستی اور منافقت کی آخری نچلی سطح کو چھو رہا ہے۔ عہدِ حاضر کے بعض اردو شعراء کا محبوب موضوعِ سخن ’’ماں ‘‘ ہے۔ ممکن ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ’’ماں ‘‘ کا یوم دنیا کے ہر ملک میں منایا جاتا ہے اس سے انسپائرہو کر پاک و ہند کے باہر بھی اردو کی نئی بستیوں میں آباد شعرا،  ’’ماں ‘‘ کو مرکزِ فکر بنا کر اس کی عظمت، بڑائی اور تکریم و عز ت کی نغمہ سرائی کے ساتھ انسانی معاشروں میں ماں کی اُن خدمات اور ایثار و قربانی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جو اولاد کی پیدائش سے لے کر پرورش کے تمام مراحل میں اپنا خونِ جگر صرف کرتی ہے۔ دنیا آج تک محبت اور قربانی و ایثار کی کوئی دوسری مثال اس کے مقابلہ میں پیش کرنے سے قاصر رہی ہے۔ مشرقی اقوام میں ’ماں ‘ کی چاہتوں، محبتوں کے جذبات کچھ زیادہ شدت کے ساتھ کار فرما نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شاعروں کی بڑی تعداد کے شعری سرمائے میں ’ماں ‘ سے متعلق گوناگوں موضوعات پر مبنی اشعار شمار کئے جا سکتے ہیں۔ بعض جدیدیت پسند شاعروں کا تو (جیسا اوپر بیان کیا گیا ہے) محبوب موضوعِ سخن ہی ’ماں ‘ ہے۔ سہیل ثاقبؔ کے کلام میں بھی اس کی مثالیں جگہ جگہ بکھری نظر آتی ہیں۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے:

کبھی جو  نیند  میں چہرا  مرا  چھو  کر  ہوا  گز رے

مجھے  پھر  پہروں  اپنی  ماں  کا  دامن  یاد  آتا ہے

 

اسی طرح ثاقبؔ کے یہاں (جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا) وطن سے دوری، اعزا اور احباب کی جدائی کا احساس کچھ زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں ماضی پرستی فطرتِ انسانی کا لازمی جزو ہے۔ حال سے بیزاری اور بے اطمینانی عہدِ موجود کے لوگوں کی سرشت میں شامل ہے۔ قدرت کے لاتعداد عطیات و نوازشات کے باوجود آدمی اپنے بچپن اور اس کے شب و روز کو نہیں بھولتا  سہیل ثاقبؔ بفیضِ ربّی ہر لحاظ سے ایک مطمئن اور آسودہ زندگی گزار رہے ہیں لیکن ان کے اس جذبہ و احساس کو کیا نام دیا جائے جسکی ترجمانی ان کے مندرجہ ذیل اشعار میں دیکھیے:

شجر تھے  نیم کے جس میں  وہ  آنگن  یاد  آتا  ہے

جسے چھوڑ  آئے  پیچھے  ہم  وہ  بچپن  یاد  آتا  ہے

اب  ایسا  بھی  نہیں  بارش  نہیں ہوتی ہے صحرا میں

برستا  تھا  جو  اپنے  گھر  وہ  ساون  یاد  آتا ہے

 

اسی حوالہ سے خاص طور سے یہ شعر نذرِ قارئین ہے:

وہ  خستہ  لکڑیوں  کو  جوڑ کر  اک  گھر  بنا  لینا

مکانوں میں ہیں  پر  اب بھی  وہ مسکن  یاد  آتا ہے

 

موضوعات کی بوقلمونی اور رنگارنگی کے ساتھ سہیل ثاقبؔ کے جدید اسلوب کے آہنگ اور اس کی پُرکاری نے کلام میں قاری کے دل کو موہ لینے والا انداز پیدا کر دیا  ہے۔ گویا سہلِ ممتنع کی شکل میں سہیل ثاقبؔ کی غزلوں میں گرد و پیش میں جو کچھ آنکھیں دیکھتی اور دل محسوس کرتا ہے وہ پوری آب و تاب کے ساتھ سمویا ہوا نظر آتا ہے:

 

جو  کھلی  رکھتے  ہیں  آنکھیں  اپنی

ان  کو  کہتے  ہیں دوانہ  ہم  لوگ

 

مسکرانے کے لیے ڈھونڈتے ہیں

مسکرانے  کا  بہانہ  ہم   لوگ

 

سیکھ  لو  ہم سے سبق الفت  کا

پاس رکھتے ہیں  خزانہ  ہم لوگ

 

کہا  تھا  ہم نے   ہی  آنکھیں کھلی  رکھو  سدا  ا پنی

کہ دے جائیں گے  دھوکا  یہ  نظارے ہم نہ کہتے تھے

 

اس طرح یہ قطع ملاحظہ کیجیے:

دل   اگر   بہکتا  ہے   لغزشیں  تو  ہونی   ہیں

شوق کی  طلب میں  پھر  کوششیں  تو  ہونی  ہیں

پڑ گئیں  دراڑیں  جو  گھر  میں  ہر طرف  ثاقبؔ

پھر  گھروں  کے  اندر  بھی سازشیں تو ہونی ہیں

 

اسی تاثر میں یہ رنگ بھی دیکھیے:

یہ کہو  ہوش میں  لایا  ہے  کوئی  دیوانہ

قو م  خود  ہو  گئی  بیدار  غلط  کہتے  ہو

آئینہ  کے  پا س  ذرا  تم  جاؤ   تو

دُور کے اکثر ڈھول سہانے لگتے ہیں

خوف جو آئے زنداں میں  تو ہم اپنے

پیروں  کی  زنجیر  ہلانے  لگتے ہیں

اُٹھتے ہیں کچھ اور بھی شدت سے اب تو

ثاقبؔ  جی  یہ  درد  پرانے لگتے  ہیں

ثاقبؔ کے مجموعہ ’’کل کی بات اور تھی‘‘ میں سہلِ ممتنع کی مثالیں پیش کرنے کیلیے اشعار کی کمی نہیں بیشتر غزلیں ان کے اسی سادہ اسلوب کی عکاس ہیں۔ ان کے کلام کا یہ وصف بعض اپنے عہد کے سینیرز کے  کلام  میں بھی شاذونادر ہی نظر آتا ہے۔

عہدِ موجود کے بیشتر جواں سال شعراء اپنے کلام کو سادہ اسلوب کے ذریعہ پُر کشش بنانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں مگر ان کے یہاں زبان و بیاں کی صفائی، سادہ سبک اور شیریں لفظوں کا انتخاب اور ان کا بر محل استعمال نہ ہونے کو وجہ سے جمالیاتی روح کی کار فرمائی نظر نہیں آتی۔ اس کے بر عکس سہیل ثاقبؔ کا سادہ اسلوب جن عناصر ِ ترکیبی سے گندھ کر بنا ہے اس کی بنیاد تغزل پہ استوار ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایک طرف سہیل ثاقبؔ کا رشتۂ فن (موضوعی اعتبار سے) قدیم شعری روایت سے جڑا ہوا ہے تو دوسری طرف  فنی ضوابط و قواعد کی پاسداری اور جملہ فنی لوازمات کے اہتمام کے باوجود ان کے سادہ لیکن دلکش اور دلآویز اسلوب نے انھیں جدید شاعری کے علمبرداروں کی صف میں نمایاں مقام عطا کیا ہے تا کہ وہ دور سے ایک قد آور شاعر کی حیثیت سے پہچانے جا سکیں۔ انہیں اپنے ہم عصر و ہم عمر ساتھیوں پر یوں بھی فضیلت حاصل ہے کہ ان کے جدت پسند ذہن نے نئی نئی زمینوں، نئے نئے قافیوں اور نئی نئی ردیفوں میں غزلیں کہلوائی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بولتی ہوئی ردیفیں، کھنکتے ہوئے قافیے، چہکتے ہوے الفاظ، اچھوتی ترکیبیں، خوبصورت تشبیہات و استعارات اور دلکش علامتیں ’’کل کی بات اور تھی‘‘ میں جگہ جگہ اپنی بہاریں دکھا رہے ہیں۔

آیئے جن اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے ان کے باغِ سخن میں چل کر دیکھتے ہیں کہ ایک ایک شعر خوشبوئے فکر سے مہک رہا ہے۔ قافیوں، ردیفوں کا نیا پن دل و دماغ کو تازگی اور شگفتگی عطا کر رہا ہے:

ملے کا کچھ  نہیں دنیا سے پیارے  ہم  نہ کہتے تھے

بکھر جائیں  تیرے  خواب سارے ہم  نہ کہتے  تھا

 

ابھرنے ڈوبنے کا  کھیل اک  مدت سے جاری ہے

بناؤ  گھر  نہ  دریا  کے  کنارے  ہم نہ کہتے تھے

 

ہم ہیں اجداد کی تہذیب کے وارث  ثاقبؔ

مٹنے  والے  ہیں  یہ  آثار  غلط  کہتے ہو

 

بیعت کے  اعتراف سے کب ہم  کو  تھا گریز

ہم  اے   امیر ِ شہر  ر ضا مند  کب   نہ  تھے

 

جانے  وبائے  بغض  و  ریا  کیسے  آ گئی

اپنی  فصیلِ شہر  کے  در  بند کب  نہ تھے

 

احساس  ہو گیا  تھا  اُسے  اپنے  زور  کا

شیشے  کی  سمت  جب  چلا  پتھر ہنسا بہت

 

دھوپ اور سائے کا آخر تجربہ کیسا رہا

خواب سے تعبیر تک کا راستہ کیسا رہا

 

شریر  بچے  کا  یہ  مان  اچھا  لگتا ہے

کہ  چاند  چھونے  کا  ارمان اچھا لگتا

 

نظر  جھکانا،  جھجکنا ،  سمٹنا،  شرمانا

وہ  پہلا  پہلا  سا رومان  اچھا لگتا ہے

سہیل ثاقبؔ کے مذکورہ متفرق اشعار مین اگر قارئینِ کرام کو اپنے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنے سادہ لیکن پُرکار اسلوب اور اندازِ بیان سے جو کام لینا تھا، اسمیں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں، مجھے تو سہیل ثاقبؔ کے تازہ مجموعہ میں نئے احساس اور جدید تجرباتِ حیات کو لباسِ حرف پہنانے کے نئے ڈھنگ اور نئی وضع قطع کے سمجھنے اور ان کی تازہ کاری سے محظوظ ہونے میں قطعاً کسی قسم کی دقت محسوس نہیں ہوئی۔ کسی جگہ تفہیم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوا۔ شعر گوئی کا یہ وصف ہر قلمکار کا مقدر نہیں۔ قدرت یہ متاعِ ہنر کسی کسی کو ودیعت کرتی ہے۔ سہیل ثاقبؔ اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے تین  مجموعوں کی تکمیل کے دوران ہی اپنی فن شناسی کا زندہ ثبوت پیش کر دیا ہے۔ ورنہ ہر عہد میں شعراء کی اکثریت طویل عرصہ مشقِ سخن کے بعد عمر کے آخری حصے میں شعر فہمی کے محرکات سے آشنا ہوتی ہے۔ فنِ شعر گوئی کی اس قسم کی باریکیاں سہیل ثاقبؔ کی نئی ردیفوں اور قافیوں میں جگہ جگہ اپنے وجود کا  احساس دلاتی ہیں۔ چند اشعار قارئین کی ضیافتِ طبع کی نذر:

مجھ کو  اپنے  باب میں اب  اور  کچھ کہنا  نہیں

سامنے  ہوں  آپ کے اچھا  برا جیسا بھی ہوں

 

کیا کروں چلنا  ہی  پڑتا ہے  مجھے  دنیا کے ساتھ

لوگ کہتے ہیں مجھے  ا یسا بھی ہوں  ویسا بھی ہوں

اس غزل کا ایک اور خوبصورت شعر :

یوں  تو بک جانے کو  میں تیار  ہوں بے مول  بھی

ضد پہ  آ جاؤں  تو پھر سب کے لیے  مہنگا بھی ہوں

 

سلاست اور روانی کے مذکورہ اشعار آپ کی نظر سے گزرے۔ اب ذیل میں ایک غیر مردّف غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

 

میں لکھ  رہا تھا کتابِ دل پر گئی  رتوں پر نئی کہانی

نظر کسی کی بتا  گئی  تھی  رفاقتوں کے کئی معانی

 

میں خواب لکھنے کی کوششوں میں حدوں سے آگے نکل گیا ہوں

لہو  ٹپکتا  ہے  انگلیوں سے  وہ  دے  گیا ہے  قلم  نشانی

 

چلوں تو  دشتِ طلب ہے آگے رُکوں  تو رستے سلگ رہے ہیں

عجب  سفر ہے  حیات  کا  بھی، سراب میں دیکھتا  ہوں  پانی

 

جو پوچھنا  ہو  تو کس سے پوچھوں کہاں ہے شہرِ طرب کی رونق

زباں  پہ  پہرے لگے  ہوئے ہیں ہر ایک  چہرہ ہے  داستانی

 

کہیں  نشیبِ شکستگی سے  اُ بھر نہ جائے  د لوں میں  اپنے

ہمارے  حصے کی  بدگمانی  تمھارے حصے  کی خوش  گمانی

 

وہی ہے کرب و بلا  کا  منظر ہر اک ہراساں ہر ایک خائف

سماعتیں  بھی  لرز  رہی  ہیں لبوں پہ رقصاں ہے نوحہ خوانی

 

گزرتے لمحے، بدلتے منظر، اُکھڑتی سانسیں،  اُ جڑتے موسم

ہر اک نفس کو  فنا ہے  ثاقبؔؔ ہر ایک شے ہے جہاں میں فانی

 

میں قتل جو ہوا تھا تو قاتل بھی میں ہی تھا

جی دار میں اگر تھا تو بزدل بھی میں ہی تھا

 

اسی غزل کا یہ شعر خاص طور پر ملاحظہ کیجیے:

 

دستِ عطا تھا میرا ہی کشکول کی طرف

لیکن خبر نہیں تھی کہ سائل بھی میں ہی تھا

 

یہ اور اس قسم کے اشعار سہیل ثاقبؔ  کے تازہ مجموعے میں ہر صفحہ کی زینت بنے ہوئے ہیں جو بادی النظر میں بہت آسان و سہل ہیں لیکن بغور پڑھیے تو ان میں زندگی کے بڑے گہرے اور تلخ تجربے پوشیدہ ہیں۔ اسی طرح بعض سادہ غزلوں میں اجتماعیہ اور کائنات کی پراسراریت اپنی بھرپور بلاغت و فصاحت کیساتھ موجود ہے۔

آئیے ایک اور نئی مگر مشکل ردیف کا استعمال دیکھتے ہیں :

 

فسانہ  تھا  نہ  کوئی داستان  کاغذ پر

لکھا  ہوا  تھا مرا  ہی  بیا ن کاغذ  پر

 

بس  ایک  ٹوٹا  ہوا  پر بنا  دیا  میں نے

میں  اس کو کیسے  دکھاتا  اُڑان  کاغذ پر

 

بنائی  تھی  مری  بیٹی نے پھول کی  تصویر

سمٹ  کے  آ گیا  پھر  گلستان  کاغذ پر

ملاحظہ کیجیے مندرجہ بالا اشعار میں سادے سے لفظوں میں سہیل ثاقبؔ نے تاریخِ انسانیت  کے بعض  بھیانک مناظر سلکِ شعر میں پروئے ہیں۔ ہر شعر اپنے  اندر معانی کا ایک سمندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اسی غزل کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمایئے:

وہ اپنے نام کی  تختی تلک بنا  نہ سکا

جسے  بنانا  تھا  اپنا  مکان  کاغذ  پر

 

اور پھر اس غزل کے آخری دو شعر  بھی دیکھیے:

مجھے  تو  ہر  کوئی اُس  جیسا  ہی  نظر آئے

تو کیا  بنا  دوں  میں  سارا  جہان  کاغذ  پر

تمام  عمر  ہی  ثاقب ؔ ؔ گزار  دی  پڑھتے

کہیں  یقیں،  کہیں  وہم و گمان  کا غذ پر

 

حقیقت یہ ہے کہ ثاقب کی معرکۃ الآرا غزلوں میں یہ غزل شامل ہے جو مطالعہ کے دوران قاری پر گرد و پیش میں رقص کرتی ہوئی زندگی کے ان گنت حقائق سے آشکار کر دیتی ہے۔ یوں تو ثاقب کے کلام کی پہچان ہی اس کا پڑھتے ہی دل میں اتر جانا ہے لیکن ’’کل کی بات اور تھی‘‘ میں بعض مقامات ایسے ضرور آتے ہیں جہاں ٹہر کر قاری بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اچھے، ستھری، دلکش  اور حسین شاعری کا یہی کمال ہے۔

آخری مرحلے میں ثاقب کو جہاں ان کی خوبصورت شاعری پر داد دینا ضروری سمجھتا ہوں وہاں چند حقائق ان کے گوش گزار کرنا میرا فرض ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے کلام کی تہہ داری خیال کی ندرت، فکر کی رفعت، جذبے کی شدت اور احساس کی حدت نے انھیں اپنے ہمعصروں میں  بلند و ممتاز درجہ عطا کیا ہے۔ دلوں کو موہ لینے والا، ذہنوں کو جلا بخشنے والا، نئی رتوں کی بشارتیں دینے والا سہیل ثاقب کا طرزِ اظہار سہلِ ممتنع کی صورت میں عہدِ حاضر کے خود پسند و انا پرست نسلوں کو جدیدیت کی صحیح تصویر دکھاتا ہے۔

دوسری اہم بات جسکی طرف میں سہیل ثاقب کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ موجودہ عہدِ منافقت میں انھیں اپنی کمزوریوں پر ضرور نظر رکھنی چاہیے۔ کلام میں برائے نام سقم کی گنجائش نہیں چھوڑنی چاہیے۔ مثال کے طور پر میں صرف دو اشعار پیش کر رہا ہوں جو محلِ نظر ہیں اور ان کی خاص توجہ کے متقاضی ہیں :

 

ہم  کو  بدل  دیا  تھا  زمانے  کی  ہوا  نے

ورنہ  ہم  اپنے  قول کے پابند  کب  نہ تھے

 

شجر تھے  نیم  کے  جس میں   وہ  آنگن  یاد  آتا ہے

جسے  چھوڑ  آئے   پیچھے  ہم   وہ  بچپن   یاد  آتا ہے

 

آخری بات یہ کہ ثاقب کے ایوانِ شاعری میں مجھے کسی خاص ادبی نظریہ کی گونج سنائی نہیں دی۔ البتہ انہوں نے زندگی و کائنات کا جس طرح مشاہدہ و مطالعہ کیا ہے اسمیں وہ دوسروں کو shareکرنا چاہتے ہیں۔

انھیں اس کا احساس ہے کہ وہ جس سوسائٹی میں زیست بسر کر رہے ہیں اسمیں اجتماعی زندگی کو ان گنت پیچیدہ مسائل درپیش ہیں۔ اور قدم قدم پر عالمی سازشوں کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ہر معاسرتی برائی سوسائٹی کا حصہ بن گئی ہے۔ وطنِ عزیز حادثوں اور سانحوں کی لپیٹ میں ہے۔ طبقاتی، جاگیرداری اور سرمایہ دیارانہ نظام کی خباثت انسانیت کو گہن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ان کی تطہیر و تہذیب کے لیے ارباب حل و نقد کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہو رہی ہیں۔ بعض با اثر اہلِ قلم مصلحتوں اور مفاد پرستی کا شکار ہیں۔ پرنٹٹڈ اور الیکٹرانک میڈیا ہی ہے جو باطل قوتوں سے نبرد آزما ہے اور وطنِ پاک کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔  ملک میں قلمکاروں ہی کا ایک طبقہ ہے جو اپنے ادیبانہ فرائض ادا کر کے سیاسی، اقتصادی اور معاشی بحرانوں سے نجات دلا سکتا ہے۔ سو دنیا دیکھ رہی ہے کہ ترقی پسند اہل قلم ادبی و ثقافتی  محاذ پر حریفانِ وطن سے بر سرِ پیکار ہیں۔ سہیل ثاقب حالانکہ ان معاملات میں ایک non-committedشاعر ہیں مگر ان کا کلام سماجی برائیوں اور جاگیردارانہ نظام کے بہترین نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہی کہ ان کے فن میں احتجاجی لہجے نے غیر شعوری طور پر اپنی جگہ بنا لی ہے۔ ’’کل کی بات اور تھی‘‘ عہدِ حاضر کے ادبی  و شعری تمثیلات اور رجحانات کا آئینہ دار نہیں بلکہ نئی عصری روایتوں اور جدید فنی قدروں کا زندہ  اور بولتا ہوا شعری مجموعہ ہے۔

یقینِ واثق ہے کہ ادبی دنیا میں اسے پہلے اور دوسرے مجموعے سے زیادہ مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہو گی۔

میں دل کی گہرائیوں سے اس کی طباعت و اشاعت پر سہیل ثاقب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، دعا گو ہوں اللہ تعالی انھیں مزید توفیقات سے نوازے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

 

سرور جاوید

 

شاعر اور سہیل ثاقبؔ

 

شاعری صوتِ اظہار ہونے کے ساتھ ایک تہذیبی عمل کی تفاعلی قوت بھی ہے اور تہذیب کی نشو و نما کا اشاریہ بھی ہے۔ ایک جانب یہ ایک اظہاریہ ہے اور دوسری جانب قوتِ متخیلہ اور قوتِ احساس، حساسیت اور حسیت کی علامت ہے اسی طرح کسی نئے شاعر کی آمد یا کسی معتبر شاعر کی تخلیقی صلاحیت اور تخلیقی رو کا تسلسل اس بات کی دلیل ہے کہ تہذیب کا سفر جاری ہے اور یہ کہ شاعری کی دیوی ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوئی۔ یعنی شاعر اور شاعری کا وجود اس بات کی علامت ہیں کہ کسی سوسائٹی میں سوچنے کا عمل اور تخلیقی عمل جاری ہے۔

میں نے ان چند جملوں میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ کوئی بھی معاشرہ فکری عمل سے قائم رہتا ہے اور اس سے اس کی نشو نما ہوتی ہے۔ اس فکری عمل کی بنیاد افراد اور اجتماع کی حسی قوت اور قوتِ متخیلہ بلکہ خواب دیکھنے کی صلاحیت سے متصل ہوتی ہے اور کسی بھی سوسائٹی کے وجود کی علامت اور ضمانت ہوتی ہے۔ شاعری اور فکشن کو یہ تفاخر حاصل ہے کہ ان کے وجود سے کسی سوسائٹی کی زندگی کا ثبوت ملتا ہے۔ سوسائٹی کے دیگر فعال حصوں اور اس کی فعالیت یا اس کی زندگی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک طویل عرصہ اور طویل تجرباتی عمل درکار ہوتا ہے مگر شاعری کا وجود اور اس کا تسلسل بآسانی یہ ظاہر کر دیتا ہے کہ سوسائٹی زندہ ہے اور یہ بھی کہ اس کی زندگی کا معیار کیا ہے۔

اس پس منظر میں ہر شاعر اہم ہو جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو عروس سخن کی آرائش میں منہمک ہے بلکہ جو اس سے متعلق بھی ہے وہ بھی قابلِ قدر ہے۔

مجھے احساس ہے کہ رجب علی بیگ سرور کی طرح تمہید طویل ہو گئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ میں براہ راست شاعر خوش نوا اور صحت فکر سے بہرہ ور سخن تراش سہیل ثاقبؔ کا ذکر کروں اور ان کی شاعری کے محاسن بیان کرنا شروع کر دوں مگر کیا کروں کہ اس کے لیے اب یہ سمجھانا ضروری ہو گیا ہے۔ کسی شاعر کو شاعر کہنے کا مطلب کیا ہے یعنی کسی شاعر بلکہ خود شاعری کا جواز کیا ہے جب بظاہر ہماری زندگی سے شاعری کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔

میں شاعری کے جواز کی بحث میں کوئی  گمبھیر بات نہیں کہنا چاہتا صرف یہ کہنا ہے۔ کہ کسی بھی سوسائٹی میں صنعتی ترقی اور تجارتی عمل کے پھیلاؤ سے ادب اور ثقافت پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور عوام الناس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاعری اور ادب اپنا جواز کھو رہے ہیں مگر یہ احساس وقتی ہوتا ہے۔ جیسے ہی فرد اور کبھی سوسائٹی تنہائی کے عمل سے گزرتی ہے اسے پناہ شاعری اور فکشن میں ہی میسر آتی ہے۔ ہماری سوسائٹی اور ہمارا فرد اس وقت اسی تنہائی کے ابتدائی مرحلے تک پہنچ گیا ہے جس کے سبب سے شاعری کا احیاء ہو رہا ہے اور فکشن اور شاعری اجتماعی سطح پر دوبارہ نمو پذیر ہو رہے ہیں۔

یہ بھی کہتا ہے کہ اس عبوری دور میں بھی جب بظاہر شاعری اپنا  جواز کھوتی نظر آ رہی ہے شاعری کا عمل دو سطحوں پر جاری تھا۔ ایک گروہ وہ تھا جو تخلیقی قوت کے سبب حادثاتی طور پر شعری اظہار کی سطح پر آ گیا تھا اور دوسرے وہ لوگ جہاں شاعری تہذیبی روایت کا حصہ تھی۔ اسی دوران یہ صورت پیش آئی کہ وطنِ عزیز میں ناقص تجارتی اور صنعتی منصوبہ بندی کے سبب بیروزگاری میں اضافے اور بھٹو حکومت کی سوچی سمجھی افرادی قوت کی برامد کی پالیسی کے سبب ہمار ا شاعر بھی ایکسپورٹ ہو گیا اور اس ہجرت سے حاصل ہونے والی تنہائی نے شاعری سے اس کے ربط میں کثیر اضافہ کر دیا اور اس کی تخلیقی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ ماجرا سہیل ثاقبؔ کا بھی ہے اور ایک پوری نسل کا بھی جس نے دنیا کے مختلف حصوں میں اردو کی نئی بستیاں آباد کی ہیں۔

اردو کی نئی بستیوں میں سہیل ثاقبؔ کو جن کا اصل نام سہیل چشتی ہے اور ایسے دیگر شاعروں کو وہ تنہائی میسر آ گئی جو شاعر کو خود سے ملنے کا موقع فراہم کرتی ہے مگر وہ ذہنی بالیدگی (Inspiration) کے حصول کے قدرتی ذرائع جو وطن عزیز میں میسر تھے ان کی دسترس سے دور ہو گئے۔ اس صورتِ حال کے سبب سہیل ثاقبؔ کے کلام میں داخلیت کے عنصر میں اضافہ ہوا۔ داخلیت میں اضافہ کوئی بری بات نہیں بلکہ شاعری کا لازمی اور خوبصورت جزو ہے اس لیے ثاقبؔ کی شاعری میں خوبصورتی بھی پیدا ہوئی ہے۔ بطور مثال یہ کلام ملاحظہ کریں۔

کیا عجب داستان ہے میری

لفظ تیرے زبان ہے میری

اپنی نظروں میں گِر گیا پھر بھی

کتنی اونچی اُڑان ہے میری

اب بھی آتے ہیں خواب یہ کہنے

خواہشِ دل جوان ہے میری

 

کیا گلہ ہجر کا اب یارِ طرحدار کے ساتھ

روز عیسی بھی تو ہوتے نہیں بیمار کے ساتھ

یہ جو ہر روز کہیں خود کو چھپا لیتا ہے

ربط خورشید کا کچھ تو ہے مری ہار کے ساتھ

روز دشمن بھی نہیں رہتا ہے خود سے غافل

روز قسمت بھی نہیں ہوتی ہے تلوار کے ساتھ

 

نہ شوق دید ہے کوئی نہ منتظر آنکھیں

میں چھوڑ کر چلا آیا ہوں جیسے گھر آنکھیں

ہر ایک آنکھ کا اپنا ہی حُسن ہوتا ہے

کسی کسی کو ہی کہتے ہیں تاجور آنکھیں

میں اُس کو تکتا رہا سر سے پاؤں تک ایسے

کہ کائنات کا کرتی رہیں سفر آنکھیں

 

کِس قدر تھے پیکرِ مہرو وفا بستی کے لوگ

اجنبی کیوں ہو گئے میرے خدا بستی کے لوگ

بات بس اتنی سی ہے میں رات کو کہتا تھا رات

زندگی بھر ہی رہے مجھ سے خفا بستی کے لوگ

پُوچھا اِک معصوم سے گھر پھُونکنے والے تھے کون

ڈرتے ڈرتے اُس فرشتے نے کہا بستی کے لوگ

مگر بات یوں ہے کہ داخلیت خارجیت کا ہی پر تو ہوتا ہے۔ جو کچھ ہم خارج سے حاصل کرتے ہیں یعنی جو مشاہدات اور تجربات ہمارے شعور کا حصہ بنتے ہیں اور اپنی حسی صلاحیت اور حساسیت کے سبب ہم جو کچھ محسوس کرتے ہیں یا جن حسی تجربوں سے گزرتے ہیں وہ ایک جانب ہمیں اظہار پر مجبور کرتے ہیں اور دوسری جانب وہ ہمارے شعور اور ہر لاشعور کا حصہ بنتے ہیں جن کا اظہار  اپنے حوالے سے کرنا عرف عام میں داخلیت کہلاتا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس کا بیشتر حصہ خارجیت ہے یعنی شاعری کا تار و پود داخلیت اور خارجیت دونوں پر مشتمل ہے۔ مگر خارجیت اور داخلیت دونوں کا معیار روزمرہ حسی تجربات سے بڑھ کر شاعر کے علم، مطالعہ اور زندگی کے شعور پر منحصر ہوتا ہے جو شاعر کی تخلیقی صلاحیت کے معیار سے مل کر شعری اظہار میں خوبصورتی اور کہیں معجزاتی مظاہر کا سبب بنتا ہے۔ ثاقبؔ کے یہاں معجزاتی عنصر تو ابھی تک آیا نہیں مگر وہ خوبصورت شعری اظہار کی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔ جس کا سبب یہ ہے کہ وہ تخلیقی صلاحیت کے ساتھ شاعری کو ایک تہذیبی روایت کی طرح برتنے اور جاری رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔

تا ہم جس طرح اردو کی تمام نئی بستیوں میں اردو شاعروں کو یہ مشکل درپیش ہے کہ وہ نئی سوسائٹی کے نئے تجرباتِ حسی و شعوری سے بہرہ ور ہونے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اسی طرح سہیل ثاقبؔبھی اس مشکل کا شکار ہیں بلکہ ان کی مشکل کی شدت زیادہ ہے کہ دمام میں کوئی مستحکم سوسائٹی موجود نہیں ہے بلکہ اس پورے ملک میں ثقافت کالعدم ہی سی ہے۔ مغربی ممالک میں تو ثقافت اور ثقافتی عمل مستحکم اور جاری ہے جس کے سبب سے برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور یورپی ممالک میں آباد اردو شاعروں کے پاس Inspiration کے ذرائع موجود ہیں جب کہ دمام، ریاض اور پھر مشرقِ وسطی کی ریاستوں میں یہ صورتِ حال موجود نہیں ہے۔ سو سہیل ثاقبؔ زیادہ مشکل میں ہیں کہ انھیں زیادہ تر اپنی قوتِ تخلیق پر بھوسہ کرنا ہو گا جس کے لیے انھیں مطالعے کو بڑھانا ہو گا اور Inspiration کے ذرائع تک خود پہنچنا ہو گا۔ خدا ان کے درجات بلند کرے اور ان اساتذہ کرام سے محفوظ رکھے جو شاعری کو محض ’’عروض‘‘  سمجھتے ہیں اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے مشن پر گامزن ہیں۔

میں نے سہیل ثاقبؔکی شاعری کے روایتی طریقہ کار کے تحت تجزیے سے گریز کیا ہے جس میں یہ بتایا جانا چاہیے کہ ان کی لفظیات کیا ہیں، علامتی اظہار کتنا موثر ہے اور الفا ظ کا چناؤ کیسا ہے۔ عشق و رومان یعنی ذاتیات اور داخلیت کے موضوعات کا تناسب کیا ہے اور فکر اور تفکر سے مملو شاعری کتنی ہے۔ موضوعات محدود ہیں یا نسبتا ًزیادہ ہیں۔ شاعری میں بے ساختہ پن ہے یا بوجھل آورد کی کیفیت ہے۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ ۔ اس طرز تنقید اور تجزیے سے درگزر کا سبب یہ ہے کہ یہ تمام باتیں مختلف تناسب کے  ساتھ ہر شعری اظہار کا حصہ ہوتی ہیں۔

میں مانتا ہوں کہ شاعری میں بے ساختہ پن کی کیفیت کا اظہار ہونا چاہیے اور بوجھل آورد کی کیفیت نہیں ہونی چاہیے مگر بات یہ ہے کہ شاعری میں یہ تمام باتیں آمد آور اورکسی تناسب سے موجود ہوتی ہیں اور مناسب تناسب سے اس میں شگفتگی آپ ہی آپ پیدا ہو جاتی ہے اس لیے میں صرف شگفتگی کو خاطر میں لاتا ہوں جو سہیل ثاقبؔ کے یہاں ہمہ وقت نہیں تو اکثر موجود رہتی ہے۔ میں آورد کی کیفیت کو برا بھی نہیں سمجھتا کہ کبھی کبھی خود کو تخلیقی عمل کی طرف راغب کرنے کے لیے یہ راستہ بھی اختیار کرنا پڑتا ہے مگر یوں ہے کہ کسی خوبصورت تخلیق سے جو تخلیق وجود میں آتی ہے یعنی جو کلام تخلیق ہوتا ہو وہ کیسا ہے۔

اس ضمن میں سہیل ثاقبؔ کے یہاں آورد کی کیفیت بھی مجھے اچھی لگتی ہے کہ ان کی شاعری میں آمد کی کیفیت ساتھ ساتھ چلتی ہے بہتر سے بہتر کی منزل ہر شاعر کا انتظار کرتی ہے۔ سو سہیل ثاقبؔ کے یہاں بھی امکانات کی وسیع دنیا آباد ہے مگر اس کا مطلب کچھ اور نہیں ہے۔ یہ ہے کہ سہیل ثاقبؔکی شاعری اس وقت بھی قابلِ قدر ہے۔ خوبصورت ہے قابلِ مطالعہ ہے اور نئے امکانات اور نئی منزلوں کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے۔ سہیل ثاقبؔ زندگی کو لکھ رہے ہیں جیسی وہ ہے اور کہیں کہیں وہ زندگی بھی ان کی شاعری میں ہے جیسا زندگی کو ہونا چاہیے۔ اظہار خوبصورت ہے اور واضح رہے کہ شاعری کی سب سے پہلی اور آخری خوبی یہی خوبصورت اظہار ہی تو ہے۔

٭٭٭

 

 

 

’’کل کی بات اور تھی‘‘

 

میرا پہلا شعری مجموعہ ۔ ۔ تیری میری آنکھوں میں۔ ۔ نومبر ۲۰۰۳ میں شائع ہوا۔ نومبر ۲۰۰۹ میں میرا دوسرا شعری مجموعہ ۔ ۔ ’’سب کہنے کی باتیں ہیں ‘‘منظرِ عام پر آیا۔  ۲۰۱۱ میں میرا تیسرا شعری مجموعہ ’’کل کی با ت اور تھی‘‘ آج آپ کے سامنے ہے۔ دوسرے اور تیسرے مجموعوں میں اتنا مختصر عرصہ یقیناً آپ کو سوچنے پر مجبور کر دے گا کہ شاعر اس مجموعے میں معیار برقرار نہیں رکھ پایا ہو گا۔  وہ ادبی تقاضے  اور مراحل جن سے  آج کا قاری مکمل طور پر لیس ہے  وہ ہر تخلیق کو جس باریکی سے پرکھتا ہے اُس کا مجھے بخوبی اندازہ ہے۔ دراصل اس مجموعے میں شامل میرا کافی کلام پردیس اور دیس کے درمیان بٹ اور کٹ گیا تھا۔ ایک اچھا خاسا مواد جو دورانِ سفر ائرلائن کی ر عنایت سے میرے سامان کے ساتھ غائب ہو گیا تھا  اور باوجود تمام تر کوششوں کے مجھے آج تک نہیں مل پایا۔

میرے دوسرے مجموعے  ’’کل کی بات اور تھی‘‘ کی اشاعت میں میں جو کچھ بھی میرے پاس تھا وہ میں نے شامل کیا۔  تقریباً چار سال تک میں اپنے اُس گمشدہ کلام کے نسخے ڈھونڈتا رہا۔  جو کچھ بھی مختلف جگہوں سے مل پایا اور جو کچھ بھی اس عرصے میں میں لکھ پایا وہ آپ کے سامنے حاضر ہے۔  میں اپنے احباب اور دوستوں کا اس شعری کھوج میں مکمل ساتھ دینے پر ان کا ممنون و  متشکر ہوں۔

کل کی بات اور تھی ایک شعوری سوچ ہے۔ ہر ذی نفس زندگی کے مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے اپنے تجرباتی سفر کو جاری و ساری رکھتا ہے۔ اس سفر میں اس کے مشاہدات جو اس کے تجربات کا حصہ بھی بن جاتے ہیں اس کے آخری وقت تک اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ سنسکرتی کہاوت ہے کہ

"Yesterday is but a dream, tomorrow but a vision. But today well lived makes every yesterday a dream of happiness, and every tomorrow a vision of hope. Look well, therefore, to this day. Such is the salutation to the dawn’.

بلا شبہ ہم اپنے حال میں جیتے ہیں، ہم اپنے آنے والے کل کو فکر میں رہتے ہیں اور ہم اپنے بیتے ہوئے کل کو ایک سرمائے کی طرح اپنے ذہنوں میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ ماضی ہمیں حال میں لاتا ہے اور حال مستقبل میں لے جاتا ہے۔ میرا ماضی بھی مجھے حال میں لایا ہے اور میرے مستقبل میں لے کر جائے گا۔ میں بھی اپنے ماضی کو فراموش نہیں کر سکتا۔

ایک وقت وہ تھا کہ جب شہرِ قائد میں راتیں مکمل طور پر جاگا کرتی تھیں۔ ستارے بھی کچھ چاند سے کم روشن نہیں ہوا کرتے تھے۔ ساحلِ سمندر پر لہریں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لگی رہتی تھیں۔ ہوائیں لہلہاتی، چہچہاتی رہتی تھیں۔ آج میرے شہر میں سناٹے کا راج ہے۔ یہ سناٹا جو ایک وبائی صورت اختیار کر چکا ہے۔ روز جانے کتنی انسانی جانوں کا خراج وصول کرتا ہے۔ ہم بے بس و لاچار نظر آتے ہیں۔ ہم اپنا وقار اور اعتماد کھو چکے ہیں۔ ’’خود تماشا ہیں خود تماشائی‘‘

میں اپنے تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے میری اس کتاب کی تکمیل میں میری رہنمائی فرمائی۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میرے پیارے شہر کراچی کی مشہور و معروف ادبی شخصیات نے میرے کلام پر اپنے قیمتی تاثرات میری کتابوں میں شامل کر کے میری حوصلہ افزائی فرمائی۔ محترم منظر ایوبی، محترم امیرالسلام ہاشمی، محترم سرور جاوید، محترم سعید قیس (مملکتہ البحرین) کا میں شکر گزار ہوں کہ انھوں نے میری ایک درخواست پر اپنی قیمتی آرا سے  میری شاعری کو نوازا۔

میں اپنے پبلشر اور دوست معراج جامی کا بھی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ا س کتا  ب کی تزئین و آرائش میں اپنی قیمتی آرا اور مشورے مجھ سے شئیر  کئے۔

Last but not the least میں اپنے اہلِ خانہ کا سب سے زیادہ ممنون ہوں جو مجھے اپنی محبتوں سے نوازتیں رہتے ہیں۔ میرے بچے میرا سرمایہِ حیات ہیں۔ وہ آج کے دور کا حصہ ہیں جو الیکٹرونک اور میڈیا کا دور ہے۔ وہ مجھ سے کہیں آگے کی سوچ رکھتے ہیں۔ اُنہیں آج کے مسائل کا بھی بخوبی علم ہے جن کا وہ بہ نفسِ نفیس سامنا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے میں اُن کی عزت کرتا ہوں۔  اللہ ان کو سلامت رکھے۔ آمین

کتاب آپ کے سامنے ہے۔  مجھے اس بات کا مکمل یقین ہے کہ میری تخلیقات آپ کے معیار پر پوری اترے گی۔

سہیل ثاقبؔ

الدمام، سعودی عرب

٭٭٭

 

 

 

 

٭

 

یہ کون سوچتا ہے اِس نگر کا کیا ہو گا

شجر گرے گا تو اُس کے ثمر کا کیا ہو گا

زمیں جلے، کہ جلے آسماں یہاں ثاقبؔ

ہر اک کو فکر ہے بس اُس کے گھر کا کیا ہو گا

 

 

کھلے جو زلف تو تکمیلِ رات ہوتی ہے

جو کھل کے بکھرے تو پھر اِلتفات ہوتی ہے

یہ بازی عشق کی بازی ہے ہار جاؤ گے

نئے کھلاڑی کو سنتے ہیں مات ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نذرِ اقبال

 

اُفتاد سرِ دست ہے اے مردمِ ناداں

پستی کی طرف ڈر ہے پلٹ جائے نہ انساں

کافر ہو کہ مومن سبھی بیگانۂ امروز

ہے چشمِ بصیرت نہ کوئی صاحبِ دل سوز

اے روم کہاں اب ہے تری قوتِ اشراق

وہ علم کہ جس میں تھا ہر اک زہر کا تریاق

وہ سازِ نفس اب ہوا بیگانہِ مضراب

ہر سُر کی چمک جس کی تھی اک انجمِ سیماب

اس عالمِ لاہوت میں القاب نہ آداب

اس چرخِ مراسم میں نہ تارے ہیں نہ مہتاب

ناسوت میں رکھتا ہے جو اِک سینہِ خاموش

ہو جاتا ہے پل بھر میں خودی سے وہ سبکدوش

اے تیرہِ کوکب یہ مجھے ہو گیا محسوس

ناواقفِ تذلیل ہیں یہ بلبل و طاؤس

کب کشف زدن ہو مرے مزدور کی ہستی

کب لعل بدخشاں و منور ہو یہ بستی

کب خارا شگافوں کی صدا گونج اُٹھے گی

کب ضرب توانا رگِ باطل پہ پڑے گی

اب حُسنِ فسوں سے نہ کسی کارِ زبوں سے

مشروط ہے بیداریِ ملت تو جنوں سے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ کون سوچتا ہے کہ اب کیا حرام ہے

بازار تو اب جیسے خسارے کا نام ہے

سوداگرانِ شہر چلو ابتدا کریں

لاشوں کا کاروبار منافع کا کام ہے

٭٭

 

 

 

کیسے کہہ سکتا ہے وہ گہرا نہیں

جو سمندر میں کبھی اترا نہیں

ماں ترے قدموں میں ہے جنت مری

اور بخشش کا کوئی رستا نہیں

جان لو گے عشق کی بے تابیاں

تم نے اِس کا معجزہ دیکھا نہیں

دل کشادہ ہم نے رکھا ہے سدا

اپنے لب پر مدعا رکھا نہیں

کیا بتاتے حالِ دل اس کو بھلا

اس نے تو ہم سے کبھی پوچھا نہیں

روز کا معمول ہے غارت گری

واقعہ یہ شہر کا پہلا نہیں

ظلم کی کیا حد نہیں ثاقبؔ کوئی

اس طرح تو میری جاں ہوتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

میں جسے چاہوں اُسے میرا مقّدر کر دے

تُو دعاؤں کو مری اتنا موثّر کر دے

کم سے کم دل مرا آیئنہ بنایا ہوتا

میں نے کب چاہا تھا دل کو مرے پتھر کر دے

اپنے معیار سے گِرنا نہیں منظور مجھے

رفعتِ شوق مرے قد کے برابر کر دے

کب کہا میں نے ستاروں کی طلب ہے مجھ کو

کب کہا میں نے کہ دریا کو سمندر کر دے

اِک تسلسل میں کہاں تک میں جئے جاؤں گا

تُو مرے صبر کی کچھ حد تو مقرر کر دے

چند لمحوں کو وہ آتا ہے چلا جاتا ہے

ہے یہی وصل تو پھر ہجر مقدر کر دے

پہلے یہ دیکھ خطا کِس سے ہوئی ہے ثاقبؔ

جُرم ثابت جو مرا ہو تو قلم سر کر دے

٭٭٭

 

 

 

 

جو صداقت کا طرفدار نظر آتا ہے

اک وہی صاحبِ کردار نظر آتا ہے

چاہے یہ وہم سہی دل کی تسلی کر لیں

کچھ تو ہے جو پسِ دیوار نظر آتا ہے

میرے بہتے ہوئے اشکوں سے پرے بھی دیکھو

کون اِس نہر کے اُس پار نظر آتا ہے

خواب ہم دونوں کے یکساں نہیں ہونے پاتے

پھول اُس کو تو مجھے خار نظر آتا ہے

دیکھ حالات سے لڑتے ہوئے لوگوں کی طرف

کیا تجھے کوئی گنہ گار نظر آتا ہے

کتنی مہنگی ہے وفا شہر میں میرے لیکن

ہر کوئی اُس کا طلبگار نظر آتا ہے

فاصلے بیچ کے کم ہو گئے لیکن ثاقبؔ

اک قدم ہے کہ جو دشوار نظر آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ٹھکرا کے اپنی ساری تب و تاب آ گئے

محفل میں لے کے ہم دلِ بیتاب آ گئے

ہم سے لکھے گئے نہ کسی طور آج تک

ایسے بھی اِس کہانی میں کچھ باب آ گئے

جاگا تو مجھ سے روٹھ کے جانے کہاں گئے

سویا تو مجھ کو لینے مرے خواب آ گئے

اُس کی گلی میں جا کے تو کچھ بھی نہیں ملا

بیتاب ہی گئے تھے سو بیتاب آ گئے

بچوں نے جو گھروندے بنائے تھے ریت کے

موجوں کی شوخیوں سے تہِ آب آ گئے

آباء کے نقشِ پا پہ چلے ہیں تمام عمر

یہ کم نہیں کہ جینے کے آداب آ گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر ایک سے وہ فقط اپنی پیروی چاہے

امیرِ شہر ہے، لیکن پیمبری چاہے

میں اپنے واسطے دریا اُٹھا کے لے آیا

اب اور اِس کے سوا کیا یہ تشنگی چاہے

اُسے ہے علم کہاں وقت کی اداؤں کا

وہ اپنے چہرے پہ پہلی سی دلکشی چاہے

محبتوں کے بھی آداب کچھ تو ہوتے ہیں

بس اتنا مجھ کو بتا کیا یہ بندگی چاہے

غرض نہیں ہے ترے گھر کی جگمگاہٹ سے

یہ جھونپڑی تو فقط تھوڑی روشنی چاہے

سخنوری کا بہت شوق ہے تجھے لیکن

رگوں کا خون مری جان شاعری چاہے

وہ اُس کے اپنے ہی اندر کا شور ہے ثاقبؔ

سکوتِ مرگ ہے پھر بھی وہ خامشی چاہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نظر کیسے ملاؤں پتھروں سے

طبیعت مل گئی شیشہ گروں سے

ہمیں ہونا نہیں ہے جزوِ منظر

ہمیں رکھنا جدا تم منظروں سے

اسیرِ صبحِ فردا ہر بشر ہے

کہ رخصت ہو گئیں نیندیں گھروں سے

خرد مندوں سے کچھ آگے ہی ہوں گے

ذرا تم بچ کے رہنا خودسروں سے

خموشی پر مری تم کیوں خفا ہو

کبھی آواز آئی مقبروں سے

پرندوں سے کہو اب کے نہ اُڑنا

بچھڑ جائیں گے وہ اپنے پروں سے

کسی ثاقبؔ کو کیا پہچانتے ہو

چلو پوچھیں ذرا نامہ بروں سے

٭٭٭

 

 

 

 

حد سے آگے کا پتہ دکھلا رہی ہے زندگی

اِس طرف سے اُس طرف لے جا رہی ہے زندگی

مڑ کے پیچھے دیکھنے کی وقت نے دی ہے سزا

دھیرے دھیرے دیکھیے پتھرا رہی ہے زندگی

خوف مرنے کا نہیں لیکن ہے ڈر اس بات کا

نامہ اعمال لے کر جا رہی ہے زندگی

اے اجل آنے کا تیرے غم نہیں مجھ کو کوئی

دکھ ہے تو اس کا مجھے جھٹلا رہی ہے زندگی

دشمنی کیا ہے تجھے اے روشنی مجھ سے بتا

شام ہوتے ہی مجھے بھٹکا رہی ہے زندگی

مت بھروسہ کر سہانے خوابوں کی تعبیر پر

اے دلِ ناداں سنبھل، سمجھا رہی ہے زندگی

تو محبت کی حقیقت کیا مجھے بتلائے گا

ہر گھڑی ثاقب مجھے بتلا رہی ہے زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

لہو تھے ہاتھ مگر معجزات لکھتا رہا

جو لِکھ نہ پایا کوئی میں وہ بات لکھتا رہا

سمجھ نہ پایا تو پھر زندگی کو کاغذ پر

کبھی ثبات کبھی بے ثبات لکھتا رہا

مجھے تھا علم کہ کٹ جائیں گے یہ ہاتھ مرے

ہمیشہ دن کو میں دن، شب کو رات لکھتا رہا

پلٹ کے آنا بھی جانے نصیب ہو کہ نہ ہو

میں ہجرتوں کو ہمیشہ برات لکھتا رہا

لکھا نہ مقبرہ، مرقد، نہ قبر میں نے کبھی

میں بے جھجک اِسے جائے حیات لکھتا رہا

ہر ایک شخص جداگانہ سوچ رکھتا ہے

شکار سب نے لکھا پر میں گھات لکھتا رہا

وہ میری وسعتِ دل سے بڑی نہیں ثاقبؔ

ہر ایک شخص جسے کائنات لکھتا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

ساز ہو جیسے کوئی مضراب کی تحویل میں

لفظ رہتے ہیں سدا اعراب کی تحویل میں

اور کیا اِس سے بھلا اُمید رکھے گا کوئی

خواب ہی دیکھے گا جو ہے خواب کی تحویل میں

تشنہ لب پہنچے تھے تشنہ لب ہی واپس آئے ہیں

صرف مٹی ہی ملی مہتاب کی تحویل میں

وہ بھلا سمجھے گا کیا آبِ رواں کی لذتیں

عمر جس نے کاٹ دی تالاب کی تحویل میں

کل تلک تو جانور رہتے تھے اُس کی قید میں

آجکل انسان ہیں قصّاب کی تحویل میں

جس نے اپنا گھر گِرا کر راستہ اُس کو دیا

آ گیا وہ شخص بھی سیلاب کی تحویل میں

کل کا کیا ہو گا خبر اِس کی نہیں ثاقبؔ مگر

آج کا اِنسان ہے اسباب کی تحویل میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ سلسلہ سوال اور جواب تک تو آ گیا

میں معرکۂ حشر میں حساب تک تو آ گیا

یہ دین ہے خیال کی میں خواب تک تو آ گیا

میں چلتے چلتے عشق میں سراب تک تو آ گیا

اب اور کس نہج پہ تُو شکست لے کے جائے گی

میں لے کے اپنے حوصلے شراب تک تو آ گیا

خراشیں میرے جسم پر لگی ہیں کس مقام پر

میں بچ بچا کے خار سے گلاب تک تو آ گیا

صعوبتیں ہزار تھیں سفر کی راہ میں جناب

یہ معجزہ ہی ہے کہ میں جناب تک تو آ گیا

کہاں کسی کی حسرتیں تمام ہو سکیں مگر

چلو میں شوقِ دید میں نقاب تک تو آ گیا

سہیلؔ یہ قبول و رد تو اس کا اختیار ہے

میں خوش نصیب ہوں حرم کے باب تک تو آ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہو رہی ہے اُتھل پُتھل مجھ میں

اے مرے دل نہ یوں مچل مجھ میں

تُو ہے پتھر تو پھر برس مجھ پر

گر ہے تُو موم تو پگھل مجھ میں

میں اُلجھنے لگا ہوں اب خود سے

کِس نے ڈالے ہیں اتنے بل مجھ میں

اے مرے قلبِ ناتواں سُن لے

خاک ہو جاؤں گا سنبھل مجھ میں

میرؔ کا بس خیال آیا تھا

اور اُترنے لگی غزل مجھ میں

سو نہ پایا میں رات بھر ثاقبؔ

کیسی ہلچل ہے آجکل مجھ میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ کیسی بے بسی ہے کہ خود پر ہنسا بہت

آنسو نہ روک پایا تو اکثر ہنسا بہت

مدت کے بعد یوں تو مرا سامنا ہوا

آئینہ مجھ کو دیکھ کے مجھ پر ہنسا بہت

وہ جانتا تھا سو نہیں پاؤں گا رات بھر

لیٹا جو تھک کے نیند میں بستر ہنسا بہت

جانے وہ پیار تھا کہ وہ اِک طنز تھا کوئی

گھر لَوٹنے پہ مجھ پہ مرا گھر ہنسا بہت

بے چارگی پہ اپنی ہنسے ہم تمام رات

پھر یوں ہوا کہ چاند بھی ہم پر ہنسا بہت

احساس ہو گیا تھا اُسے اپنے زور کا

شیشے کی سمت جب چلا پتھر ہنسا بہت

ہم نے تو دل کی بات نہ ثاقبؔ کسی سے کی

پھر وہ ہمارے حال پہ کیونکر ہنسا بہت

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ نہ لکھ پایا کئی رنگ بدل کر سوچا

میں نے پھر میرؔ کے انداز میں ڈھل کر سوچا

پھر یقیں آیا وہ مجبور بھی ہو سکتا ہے

میں نے جب دائرۂ شک سے نکل کر سوچا

کچھ تو ہو گا جو نکل پڑتے ہیں فوراً آنسو

ایک بچے کی طرح میں نے مچل کر سوچا

پا بہ زنجیر نظر آیا مجھے میرا سخن

کوئی مصرعہ جو کبھی میں نے سنبھل کر سوچا

بس اُجالا ہی اُجالا تھا مرے چاروں طرف

اپنی ہر سوچ سے آگے جو نکل کر سوچا

جب زباں دانتوں تلے آئی تو یہ جان لیا

میرے بارے میں کسی نے کہیں جل کر سوچا

جانے کتنوں کو میسر نہیں یہ بھی ثاقبؔ

خشک روٹی کو جو پانی سے نگل کر سوچا

٭٭٭

 

 

 

 

بڑھ رہی ہے مرے سینے کی جلن اب کے برس

عین ممکن ہے جھُلس جائے بدن اب کے برس

اک زمانے سے تعلق تھا ہمارا لیکن

آ گئی کیوں ترے ماتھے پہ شکن اب کے برس

نہ شکاری، نہ مچانیں، نہ درندے ہیں کہیں

کیوں نظر آتے نہیں بَن میں ہرن اب کے برس

منتظر ہے وہ مرا جب سے سنا ہے میں نے

ہو گئی اور سَوا یادِ وطن اب کے برس

یوں تو دیکھے ہیں زمانے کے کئی رنگ مگر

دیکھیں کیا رنگ دِکھاتا ہے گگن اب کے برس

پوچھتا ہے وہ کہ تم لوٹ کے کب آؤ گے

ہر برس کہتا ہوں اے راحتِ مَن اب کے برس

ایسی مایوسی بھی اچھی نہیں ہوتی ثاقبؔ

ترے چہرے سے چھلکتی ہے تھکن اب کے برس

٭٭٭

 

 

 

 

میں اپنی ذات کے اندیکھے شہپاروں سے واقف ہوں

جہاں سایا نہ ٹھہرے ایسی دیواروں سے واقف ہوں

سخن کے اس سفر میں کیوں کسی سے خوف ہو مجھ کو

کہ میں اس رہگزر کے سارے بنجاروں سے واقف ہوں

مجھے بھی آتا ہے فن اپنی منزل ڈھونڈ لینے کا

جو رستہ روک لیں میں ایسے کہساروں سے واقف ہوں

سخن کو اپنے میں لے کر جو جاؤں تو کہاں جاؤں

میں اپنے ہر قدم پر اونچی دیواروں سے واقف ہوں

وہ کتنا ظرف رکھتے ہیں مجھے سب علم ہے ساقی

ترے میخانے کے میں سارے میخاروں سے واقف ہوں

فقیروں کو بھلا کیا دے گا بس تُو جان لے اتنا

ترے جیسے نہ جانے کتنے زر داروں سے واقف ہوں

میں اک پل میں نتیجہ جنگ کا سب کو بتا دوں گا

شکست و فتح کے ثاقب میں نقّاروں سے واقف ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

اپنے رستے بدلتا رہتا ہے

غم ٹھکانے بدلتا رہتا ہے

اِس کو پہچاننا کٹھن ہے بہت

وقت چہرے بدلتا رہتا ہے

موت کا ڈر نہیں اُسے لیکن

پھر بھی مُہرے بدلتا رہتا ہے

ہم تو خود کو بدل نہیں پائے

وہ زمانے بدلتا رہتا ہے

وقت کے ساتھ ساتھ وہ ہر پل

سب سے رِشتے بدلتا رہتا ہے

کیا کرے گا شکار وہ ثاقبؔ

جو نشانے بدلتا رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آستیں میں سانپ پالے جائیں گے

نِت نئے رشتے نکالے جائیں گے

پہلے کرنا ہے انھیں بے بال و پر

یہ پرندے پھر اُچھالے جائیں گے

محوِ حیرت ہوں کہ سوئے میکدہ

مجھ سے پہلے ہوش والے جائیں گے

کام وہ ہم سے ہی لے گا اور پھر

اُس میں پھر کیڑے بھی ڈالے جائیں گے

دوسروں کے آسرے پر یہ بتا

کب تلک خود کو سنبھالے جائیں گے

علم ہی میرا ہے بس میری اثاث

چھین کر مجھ سے وہ کیا لے جائیں گے

اُن کی مانگیں میں نے گر پوری نہ کیں

وہ مرے بچے اُٹھا لے جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک ہی رنگ میں کب تک کوئی رہ سکتا ہے

حالتِ جنگ میں کب تک کوئی رہ سکتا ہے

اب تو ہر شخص ہے وُسعت کا طلبگار یہاں

حّدِ فرسنگ میں کب تک کوئی رہ سکتا ہے

سیکھنا ہو گا ہمیں اپنی ہی رہ پر چلنا

تیرے آہنگ میں کب تک کوئی رہ سکتا ہے

توڑ ڈالیں گے قفس کو یہ پرندے اک دن

حلقہِ تنگ میں کب تک کوئی رہ سکتا ہے

یوں تو جیتے ہیں سبھی اپنے سراپے میں مگر

حجّتی انگ میں کب تک کوئی رہ سکتا ہے

لفظ کے رنگ و معانی کو نہ پابند کرو

قیدِ فرہنگ میں کب تک کوئی رہ سکتا ہے

ہم تو اُکتا گئے اِن بازی گروں سے ثاقبؔ

اِن کے نَیرنگ میں کب تک کوئی رہ سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

انا کو بیچتا کیسے یہ ہمت کر نہیں پایا

میں خود اپنی کبھی کھُل کر حمایت کر نہیں پایا

چمن کو رکھ دیا گِروی وہ جرأت کر نہیں پایا

محافظ بن کے آیا تھا حفاظت کر نہیں پایا

کبھی سودا خسارے میں کبھی گاہک نہیں کوئی

میں طَے بازارِ دل میں اپنی قیمت کر نہیں پایا

خدا جانے گزاری کس طرح سے زندگی اُس نے

عداوت کی نہیں جس نے محبت کر نہیں پایا

کنارے تک تو لے آیا تھا میں ٹوٹی ہوئی کشتی

اُتر جانے کی لیکن کوئی ہمت کر نہیں پایا

وہ تھا تو نِت نئے تیور سے اُس کو تنگ کرتا تھا

میں اُس کے بعد پھر کوئی شرارت کر نہیں پایا

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ نہ ہو تو بُرا سا لگتا ہے

وقت بھی کچھ خفا سا لگتا ہے

میں بھی بِکھرا ہُوا سا رہتا ہوں

وہ بھی کھویا ہوا سا لگتا ہے

آ گئے ہیں وہ میرے اتنے قریب

قُرب بھی فاصلہ سا لگتا ہے

اپنے بیٹے کو جب بھی دیکھتا ہوں

اپنا چہرہ نیا سا لگتا ہے

جو بھی کہتی ہے میری ماں مجھ سے

حرف حرف اک دُعا سا لگتا ہے

ماند پڑنے لگے ہیں تارے بھی

آسماں بھی تھکا سا لگتا ہے

ساتھ ثاقبؔ جو ظلمتوں میں تھا

وہ دیا اب بجھا سا لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرے استقبال کو بڑھ کر آئیں گے

رستے میں جب سات سمندر آئیں گے

پائے طلب کو کوئی روک نہ پائے گا

صحرا ہو گا ختم، سمندر آئیں گے

تعبیریں پھر ہم کو لے کر بھٹکیں گی

آنکھوں میں جب خواب کے لشکر آئیں گے

جان و دِل میں جیسے خاکے بنتے ہوں

آنکھوں میں پھر ویسے منظر آئیں گے

صبر کرو میخانہ کھُلنے والا ہے

شام بھی ہو گی رقص میں ساغر آئیں گے

دیکھ رہا ہے ہر اک چہرہ یوں ہم کو

جانے اب ہم لوٹ کے کب گھر آئیں گے

شیشے کا کشکول جو لے کر نکلے ہو

سوچ لو ثاقبؔ بھیک میں پتھر آئیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی مثلِ گُل تو کبھی گراں مرے خواب ہیں مرے خواب ہیں

جو بھٹک رہے ہیں یہاں وہاں مرے خواب ہیں مرے خواب ہیں

اُنھیں مت بُلا مرے مہرباں مرے خواب ہیں مرے خواب ہیں

مرے ہم زباں ،  مرے ترجماں مرے خواب ہیں مرے خواب ہیں

کہاں جاؤں میں اِنھیں ڈھونڈنے ہیں نظر میں اب نہ خیال میں

مجھے خود خبر نہیں اب کہاں مرے خواب ہیں مرے خواب ہیں

کبھی ہو رہی ہیں ملامتیں کبھی کر رہا ہوں وضاحتیں

کروں کیا گِلہ مرے راز داں مرے خواب ہیں مرے خواب ہیں

کسے راز دل کے بتاؤں گا کسے بات اپنی سُناؤں گا

مرے ہو کے مجھ سے ہی بد گماں مرے خواب ہیں مرے خواب ہیں

ذرا دِھیرے دھیرے تُو چل ہوا، مجھے ڈر بِکھرنے کا ہے بہت

یہ جو اُڑ رہے ہیں دھواں دھواں مرے خواب ہیں مرے خواب ہیں

ابھی روک مت مرے شوق کو ہیں یہ زندگی سے عزیز تر

مرے منتظر مرے مہرباں مرے خواب ہیں مرے خواب ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

رَبط کب گلستاں سے سارے توڑ آیا ہوں

خار میں اُٹھا لایا پھول چھوڑ آیا ہوں

داستانِ ہستی کے دفترِ پریشاں کا

جو ورق بھی خالی تھا اُس کو موڑ آیا ہوں

دیکھنا ہے یہ ہم کو کب ملیں گی تعبیریں

رتجگے میں لے آیا خواب چھوڑ آیا ہوں

برہمی میاں کیسی میں تو اُس تونگر کے

سر کو چوم آیا ہوں ہاتھ جوڑ آیا ہوں

غفلتی زمانے کو مانتا ہوں میں ثاقبؔ

گو اُٹھا نہیں پایا، پر جھنجھوڑ آیا ہوں

٭٭٭

 

 

٭

 

کیا عجیب اپنا بھی مقدر ہے

پہلے صحرا ہے بعد میں گھر ہے

پھر بھی ہم لوگ اُڑ نہیں پاتے

ہر پرندے کا ہاتھ میں پر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

لاکھ روکا تھا زمانے نے مگر لایا ہوں

موسمِ مرگ میں جینے کی خبر لایا ہوں

دھُول چہرے پہ جمی پاؤں میں چھالوں کی بہار

بس یہی صاحبو سامانِ سفر لایا ہوں

گو کہ پامالِ زمانہ ہوں مگر تیرے لئے

اِس اندھیرے میں بھی اُمیدِ سحر لایا ہوں

تُو ضرورت ہے مری میں ہوں ضرورت تیری

تیرے گھر زَر ہے تو میں دستِ ہنر لایا ہوں

جس کو تُو چھوڑ کے آیا تھا مرے پہلُو میں

میں وہی خواب سرِ دیدہِ تر لایا ہوں

کون کہتا ہے تہی دست زمیں پر اُترا

اور کیا لاتا میں اوصافِ بشر لایا ہوں

میں نے اک شب درِ اقدس پہ گزاری ثاقبؔ

جلوۂ یار سے کشکول کو بھر لایا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خواب تھے مرے جواں کل کی بات اور تھی

فصلِ گُل تھی مہرباں کل کی بات اور تھی

دَور وہ بھی تھا کہ جب ہر گُماں یقین تھا

اَب یقین بھی گُماں کل کی بات اور تھی

خوش خرامیِ غزل جس کو دیکھ دیکھ کر

جھُک گیا تھا آسماں، کل کی بات اور تھی

آج گَرد سے اَٹی دل کی شاہراہ ہے

ہر طرف ہے اب دھواں کل کی بات اور تھی

صورتوں میں آئینے آئینوں میں صورتیں

تھی ہر ایک شے عیاں، کل کی بات اور تھی

حدّتِ لہو بھی تھی شوق تھے جنون کے

کیا بہار کیا خزاں کل کی بات اور تھی

٭٭٭

 

 

 

 

صدہا نہیں جناب مگر چند کب نہ تھے

ہم میں بھی اگلی نسل کے پیوند کب نہ تھے

کب تھے ہمارے شہر میں کچھ کم صفات لوگ

کٹ جائیں اک صدا پہ وہ فرزند کب نہ تھے

بیعت کے اِعتراف سے کب ہم کو تھا گریز

ہم اے امیرِ شہر رضامند کب نہ تھے

جانے وبائے بُغض و رِیا کیسے آ گئی

اپنی فصیلِ شہر کے دَر بند کب نہ تھے

اک بار اپنے آپ میں بھی ڈھونڈتے ذرا

ثاقبؔ تمھارے ساتھ خداوند کب نہ تھے

٭٭٭

 

 

 

٭

 

حقیقتوں  کا  اگر  اعتراف کر لیتے

تو اک جہان کو  اپنے خلاف کر لیتے

اگر وہ جزو تھا اپنے  وجود  کا ثاقبؔ

تو خود سے کیسے  بھلا انحراف کر لیتے

٭٭٭

 

 

 

 

مہک رہی ہے فضا کہکشاں ہے چاروں طرف

زمیں پہ اُترا ہوا آسماں ہے چاروں طرف

نظر نہ آئے گا کچھ بھی جو آنکھ کھولو گے

کہ دل جلوں کا  تمھارے دھواں ہے چاروں طرف

حقیقتوں سے نظر تم چرا نہیں سکتے

حقیقتوں کا تو اک امتحاں ہے چاروں طرف

چلی گئی ہیں ہر اک گھر سے رُوٹھ کر خوشیاں

کہ اب تو شہر میں آہ و فغاں ہے چاروں طرف

کبھی ہے جزر کا حصہ کبھی وہ مد میں ہے

جو اپنی ذات میں سیلِ رواں ہے چاروں طرف

بجز خلا کے رکھا آئنوں میں کچھ بھی نہیں

یقیں کو ڈھونڈوں تو میرے گماں ہے چاروں طرف

میں جس حصار میں ہوں وقت کیا بگاڑے گا

خدا کا شُکر کہ اُس کی اماں ہے چاروں طرف

٭٭٭

 

 

 

 

ٹوٹے ہوئے سپنے کی طرف دیکھ رہا ہے

بچہ ہے کھلونے کی طرف دیکھ رہا ہے

ہر چند نظر بدلی ہے ہر شخص نے لیکن

وہ پھر بھی زمانے کی طرف دیکھ رہا ہے

بچنے کے تمھیں جو بھی جتن کرنے ہیں کر لو

طوفان کنارے کی طرف دیکھ رہا ہے

اِس آس پہ، اُبھرے گا یہیں سے کوئی سورج

ہر شخص اندھیرے کی طرف دیکھ رہا ہے

کیا اُس کو نظر آتی ہے پھر کوئی کہانی

وہ پھر مرے چہرے کی طرف دیکھ رہا ہے

کچھ دل میں دعا مانگ رہا ہے وہ خدا سے

جو ٹوٹتے تارے کی طرف دیکھ رہا ہے

ثاقبؔ ہے رواں ابر جو اک بحر کی جانب

جلتے ہوئے خیمے کی طرف دیکھ رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کیا بتائیں کیسے کیسے سانحے ہوتے رہے

زندگی پر جیسے جیسے تجربے ہوتے رہے

جب بھی سر اپنا اُٹھانے کا خیال آیا ہمیں

روبرو ہر بار اپنے آئنے ہوتے رہے

اور کیا دیتے ہمارے پاؤں صحرا کو لگان

تشنگی پر اُس کی قرباں آبلے ہوتے رہے

آپ کے جاتے ہی موضوعِ سخن بس آپ تھے

بزمِ جاں میں آپ ہی کے تذکرے ہوتے رہے

وہ ملے پھر کھو گئے، وہ پھر ملے، پھر کھو گئے

کیوں مرے ہی ساتھ ایسے حادثے ہوتے رہے

چُپ تھے ہم بس خامشی ہی ٹھیک تھی اپنے لئے

یوں تو سارے کھیل اپنے سامنے ہوتے رہے

تھی کسے فرصت کہ ہم تھے مہوشوں کے درمیاں

بس دیئے جلتے رہے اور رتجگے ہوتے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیری لکھّی ہوئی تحریر کا میں کیا کرتا

تُو نہیں تو تیری تصویر کا میں کیا کرتا

میرے اطراف میں کوئی بھی نہیں رہتا ہے

گھر کے دروازے کی زنجیر کا میں کیا کرتا

جس کی بنیاد سے ہی خوں کی مہک آتی ہو

ایسے اسلاف کی جاگیر کا میں کیا کرتا

کچھ مکینوں کی ضرورت بھی تو ہوتی ہو گی

میں کہ تنہا تھا، سو تعمیر کا میں کیا کرتا

درد ہی جب نہ رکھا پال کے میں نے دل میں

کسی لیلیٰ یا کسی ہیر کا میں کیا کرتا

بات تو جب تھی کہ سینے میں اُترتا میرے

اپنی رہ چلتے ہوئے تیر کا میں کیا کرتا

٭٭٭

 

 

 

 

حوصلے جادۂ پسپائی تک آ پہنچے ہیں

اب اندھیرے حدِ بینائی تک آ پہنچے ہیں

ہم سے مت پوچھ کہ وسعت ہے کہاں تک اُس کی

ہم سمندر کی تو گہرائی تک آ پہنچے ہیں

رات اتنی بھی نہیں گذری مگر آج یہاں

کچھ حسیں لوگ تو انگڑائی تک آ پہنچے ہیں

وہ جو کترا کے گذر جاتے تھے کل تک ہم سے

اب وہی لوگ شناسائی تک آ پہنچے ہیں

خود سے میں خود کو بچاؤں تو بچاؤں کیسے

مسئلے اب مری دانائی تک آ پہنچے ہیں

پہلی سی بات کہاں آج غزل میں ثاقبؔ

لوگ اب قافیہ پیمائی تک آ پہنچے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ابھی ارتقائے عمل میں ہوں  ابھی اہتمامِ سفر میں ہوں

مجھے کھوج مت مری زندگی، تری جستجُو کی ڈگر میں ہوں

کبھی تیز دھُوپ کی زد میں ہوں، کبھی چاندنی کی فصیل پر

مری دسترس میں تو کچھ نہیں، میں حصارِ شمس و قمر میں ہوں

مرے حوصلے مری ہمتیں، کسی کام کی بھی نہیں رہیں

میں اسیر ہوں کبھی رات کا، کبھی میں گرفتِ سحر میں ہوں

مرا ذکر اوجِ کمال پر، مری شان رزقِ حلال میں

میں ہر اک جبینِ سجود میں، میں ہر ایک دستِ ہنر میں ہوں

مری دسترس میں ہے آسماں مری رہگزر میں ہے لامکاں

میں شرر میں ہوں میں گہر میں ہوں میں شجر میں ہوں میں خبر میں ہوں

میں نشیب میں، میں فراز میں، میں یمین میں، میں یسار میں

کہیں مسکراتی نگاہ میں کہیں ڈبڈباتی نظر میں ہوں

مری جستجو کو فروغ دے مری کشمکش کو شعور دے

مجھے اُلجھنوں سے نکال دے کہ میں آگہی کی ڈگر میں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

خیر ہو مٹنے مٹانے آ گئے

شہر میں لو پھر دوانے آ گئے

خاطرِ احباب کا عالم نہ پوچھ

جب میں رُوٹھا سب منانے آ گئے

میرا بیٹا ہو گیا ہے اب جواں

اب اُسے کتنے بہانے آ گئے

آگ کی زد میں تھا جن کا اپنا گھر

وہ مرے گھر کو بچانے آ گئے

جاگنا راتوں کو اور اِس عمر میں

پھر سے کیا بیتے زمانے آ گئے

جب کبھی کھولی کتابِ زندگی

یاد پھر بیتے زمانے آ گئے

کم تھے کیا احباب میرے واسطے

تم بھی اب دل کو دکھانے آ گئے

٭٭٭

 

 

 

 

کیا بتاؤں کہ شب و روز میں اُلجھا کیسے

خود کو میں سمجھا نہیں تجھ کو سمجھتا کیسے

اپنی ہر سوچ کو بازار میں لے آیا تھا

خواب میرا کوئی تعبیر میں ڈھلتا کیسے

رہنمائی کو مرے پاس ستارے بھی نہ تھے

راستہ اپنا بدلتا تو بدلتا کیسے

میرے اجداد نے یہ مجھ کو سکھایا ہی نہ تھا

اپنے چہرے پہ سجاتا کوئی چہرا کیسے

وقت نے وار بہت کاری کیا تھا مجھ پر

زندگی تجھ کو بچاتا تو بچاتا کیسے

میرے ان ہاتھوں کی بڑھتی ہوئی لرزش دیکھو

اُس کی تصویر بناتا تو بناتا کیسے

چاہے پھر جتنی بھی کوشش کوئی کر لے ثاقبؔ

جو گِرا اپنی نظر سے وہ سنبھلتا کیسے

٭٭٭

 

 

 

 

سچ جو کہتا ہوں تو سچائی سے ڈر لگتا ہے

خود مجھے اپنی ہی دانائی سے ڈر لگتا ہے

ہم نے دیکھے ہیں بدلتے ہوئے موسم کتنے

موسمِ گُل تری انگڑائی سے ڈر لگتا ہے

جانے کب کون سے منظر کو اُتارے دل میں

اِس بھٹکتی ہوئی بینائی سے ڈر لگتا ہے

آئنے بھی تو مِرا ساتھ نہ دینے پائے

اب تو خود اپنی شناسائی سے ڈر لگتا ہے

وہ ملیں گے تمہیں ساحل کا نظارا کرتے

جن کو دریاؤں کی گہرائی سے ڈر لگتا ہے

آپ کا حکم ہے کچھ آپ پہ لِکھوں لیکن

اپنی تحریر کی سچائی سے ڈر لگتا ہے

آسماں ایک زمانے سے ہدف ہے ثاقبؔ

اپنی پرواز کی پسپائی سے ڈر لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کِس قدر تھے پیکرِ مہرو وفا بستی کے لوگ

اجنبی کیوں ہو گئے میرے خدا بستی کے لوگ

بات بس اتنی سی ہے میں رات کو کہتا تھا رات

زندگی بھر ہی رہے مجھ سے خفا بستی کے لوگ

سوہنی کا ذِکر آتا ہی نہیں تاریخ میں

گر نہیں دیتے اُسے کچا گھڑا بستی کے لوگ

پُوچھا اِک معصوم سے گھر پھُونکنے والے تھے کون

ڈرتے ڈرتے اُس فرشتے نے کہا بستی کے لوگ

شہرِ جاں میں خیمہ زن تھا ہر طرف خوف و ہراس

کیسے دیتے پھر کسی کو راستہ بستی کے لوگ

وہ بھی کیا دن تھے کہ ثاقبؔ خیر مقدم کے لیے

بڑھ کے آ جاتے تھے بستی سے ذرا بستی کے لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

مرا نصیب تھا، میرے لیے سہارا تھا

وہ شخص مُجھ کو مری جان سے بھی پیارا تھا

مِرا خلوص ہی ہو گا جو کام بنتے گئے

وگرنہ اپنے لیے کون سا سہارا تھا

ہر ایک سنگ کو ہم آئنہ سمجھتے تھے

نظر ہماری تھی اور آپ کا نظارا تھا

عجب ہے کیا جو محبت میں سُرخرو ہم ہیں

رہِ وفا میں قدم ثبت بھی ہمارا تھا

یہ اور بات ہے محرومیاں مقدّر تھیں

گُزارنے کو تو ہم نے بھی دن گزارا تھا

ہمارے شہر کو جو جگمگاتا رہتا تھا

زمیں کا چاند تھا کب عرش کا ستارا تھا

جبھی تو تنگ زمیں ہم پہ ہو گئی ثاقبؔ

جہاں پہ ڈوبی تھی کشتی وہیں کنارا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

ہے ضروری چہرے کو جذبات سے عاری رکھوں

بات اُس سے کرنی ہے لہجہ ذرا بھاری رکھوں

کیا خبر کِس وقت ہو جائے سفر کی ابتدا

میں تو اپنے طور پر چلنے کی تیّاری رکھوں

لوگ تو ہمدرد ہیں دُکھ بانٹنے آجائیں گے

میں مگر تقسیم کا کب تک عمل جاری رکھوں

ایک ہی صورت ہے جِس سے جُرم ثابت ہی نہ ہو

سامنے مُنصف کے میں تحفے ذرا بھاری رکھوں

سامنے ہوتے ہوئے بھی چھُو نہیں سکتا ہوں جب

کیوں نہ پھر میں دسترس کا نام لاچاری رکھوں

کِس انوکھی شرط پر جینا پڑا ثاقبؔ مجھے

آگ بھی سینے میں ہو اور موم سے یاری رکھوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کھلنے والے ہیں اب کنول شاید

لکھنے والے ہیں وہ غزل شاید

مسئلے، مسئلوں میں اُلجھے ہیں

اب نکل آئے کوئی حل شاید

آج مِلنا ہے تو ملو ہم سے

مِل نہ پائیں گے تمسے کل شاید

روز یہ سوچ کر میں لوٹ آیا

آج کا کام ہو گا کل شاید

ہے اجل سامنے کھڑی لیکن

زندگی چاہے ایک پل شاید

جِس نے اُلجھا دیا تھا رستوں کو

اُس کی زلفوں کا ہو گا بل شاید

ہم نے ڈھونڈا نہیں کبھی ثاقبؔ

مِل ہی جاتا ترا بدل شاید

٭٭٭

 

 

 

 

ستارے چاند ہوا آفتاب لے کے چلے

چلے جو عشق میں ہم آب و تاب لے کے چلے

لگان مانگتی تھی دن کی روشنی ہم سے

سو شب نے جو بھی دکھائے وہ خواب لے کے چلے

پھر اس سفر میں تو ہمراہ چاندنی بھی رہی

ہم اپنے ہاتھ میں جب ماہتاب لے کے چلے

درِ حبیب سے اُٹھ کر تو آئے اہلِ جنوں

دلوں میں اپنے بہت اضطراب لے کے چلے

میں تیری خوشبو کو ایسے سمیٹ لایا ہوں

چمن سے جیسے کوئی انتخاب لے کے چلے

اُسی کے حصے میں آتی ہے فتح و نصرت بھی

دل و نگاہ میں جو انقلاب لے کے چلے

نہ جانے کون سا ہم سے سوال ہو جائے

ہر ایک بات کا ثاقبؔ جواب لے کے چلے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ مت سمجھنا کہ ہاتھوں میں میرے دم بھی نہیں

اگر زباں پہ ہیں تالے تو کیا قلم بھی نہیں

گریز کر مگر اتنا کہ کچھ تو ربط رہے

کرم جو کرنا نہیں ہے تو کیا ستم بھی نہیں

ہم اعتدال میں رہتے ہیں جس سے ملتے ہیں

کبھی نہ سر کو اُٹھایا مگر یہ خم بھی نہیں

کہیں گھروں کی چھتیں تک ٹپکتی رہتی ہیں

مگر کہیں پہ زمیں دیکھتا ہوں نم بھی نہیں

یہ منحصر ہے روییّ پہ آپ کے ورنہ

خلوص ہم میں زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں

یقین کر لو خود آ کر جو اعتبار نہ ہو

ہمارے کعبۂ دل میں کوئی صنم بھی نہیں

ہے ایسا کون جہاں میں جو کہہ سکے ثاقبؔ

کہ اُس کے پاس خوشی بھی نہیں تو غم بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

گو کہ جینے میں تھی دشواری بہت

پھر بھی ہم میں تھی رواداری بہت

ایک تو اُس کی جفا اور پھر یہاں

ہے طبیعت میں بھی بیزاری بہت

مر گیا پر ہاتھ پھیلایا نہیں

اُس میں دیکھی ہم نے خود داری بہت

بچ گیا ماں کی دعاؤں کے طفیل

یوں تو مجھ پر ضرب تھی کاری بہت

لائے ہو دامن میں شعلے کس لیے

گھر جلانے کو ہے چنگاری بہت

ورنہ دُکھ ایسے بھی جاں لیوا نہیں

خود پہ کر لیتے ہو تم طاری بہت

دوستی کے بھیس میں ثاقبؔ میاں

لوگ کرتے ہیں اداکاری بہت

٭٭

 

 

 

 

 

مرے شعروں پہ کیوں اب ٹوٹ کر آئے نہ رعنائی

غزل کہنے کا مقصد مل گیا جب تُو نظر آئی

جلانے ہیں کئی سورج ابھی اے آسماں تجھ پر

کسے ہے فکر جو اس کام میں جاتی ہے بینائی

عجب یادوں کا رشتہ روشنی سے ہم نے دیکھا ہے

چراغِ دل بھڑک اُٹھا سرہانے شام جب آئی

بڑھا آگے قدم اب بھی ترا ہے منتظر فردا

پلٹ کے دیکھ مت پیچھے ہے رسوائی ہی رسوائی

بتا اب اور میرے ضبط کی کیا انتہا ہو گی

نگہ میں اشک کب آئے زباں پر بات کب آئی

زباں تو کاٹ دی کب کی حریفوں نے مری ثاقبؔ

بیاں کر جاتی ہے لیکن سبھی کچھ میری بینائی

٭٭٭

 

 

 

 

وہ ہر وجود میں قائم وہ ہر عدم میں ہے

وہ خشک آنکھوں میں پنہاں وہ چشمِ نم میں ہے

ہر ایک ذہن ہر اک دل میں ہے وہ جلوہ نما

وہی تو بھوک کی صورت ہر اک شکم میں ہے

ترا وجود تو اک بُلبُلے کی صورت ہے

تُو کِس گمان میں ہے اور کس بھرم میں ہے

پھر اس کے بعد جو ہونا ہے جانتا ہوں مگر

لکھوں گا سچ کہ یہ جرأت مرے قلم میں ہے

جو توُ ہمیں پہ ستم اپنے آزماتا ہے

بھلا وہ کونسی خوبی بتا دے ہم میں ہے

ہر ایک چہرہ دمکتا ہے اُس کے جلوؤں سے

کوئی تو بات یقیناً مرے صنم میں ہے

اَزل سے دَشت نوردی کے بعد اے ثاقبؔ

کھلا یہ راز کہ دنیا رہِ عدم میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یاد کے آنچل جب لہرانے لگتے ہیں

گیت پُرانے لب پر آنے لگتے ہیں

آ جاتے ہیں اپنے دل کی باتوں میں

ہم کو تو یہ لوگ دَوانے لگتے ہیں

بڑھ جاتی ہے پھر آنکھوں کی بے چینی

خواب مجھے جب چھوڑ کے جانے لگتے ہیں

آیئنے کے پاس ذرا تم جاؤ تو

دُور کے اکثر ڈھول سہانے لگتے ہیں

خوف جو آئے زنداں میں تو ہم اپنے

پیروں کی زنجیر ہلانے لگتے ہیں

ساقی تیرے میخانے میں آکر ہم

بات ہے کیا جو ہوش میں آنے لگتے ہیں

اُٹھتے ہیں کچھ اور بھی شدت سے اب تو

ثاقبؔ جی یہ درد پُرانے لگتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا رہائی کی کرتے تدبیریں

کیسی قسمت کہاں کی تقدیریں

دیکھنا زندگی کے پہلو میں

مختلف رنگ کی ہیں تصویریں

اُس کی آنکھوں سے کیا بہا کاجل

لگ گئیں مجھ پہ ساری تعزیریں

تیرا شہکار تیرا حُسن سہی

میرا شہکار میری تحریریں

میرے امرینہ، اشہب و اسحاق

بس یہی تو ہیں میری جاگیریں

اب ہو اچھا کہ ہو بُرا ثاقبؔ

کروٹیں لے رہی ہیں تقدیریں

(اشہب  او ر اسحق  بیٹے  اور  امرینہ  بیٹی ۔  اللّہ تعالی  اِن  کو آباد  رکھے   آمین)

٭٭٭

 

 

 

 

 

جس سے جتنی اداس ہے دنیا

اس کو اتنی ہی راس ہے دنیا

مت سمجھ کائناتِ کی ہے کتاب

صرف اک اقتباس ہے دنیا

کتنے پردے ہیں ہر طرف حائل

جیسے بیت اللباس ہے دنیا

ہے مسلسل سفر میں پھر کیسے؟

گر ستارہ شناس ہے دنیا

گھر تو میرے کسی کو آنا ہے

جانے کیوں بد حواس ہے دنیا

اس کی آنکھوں میں رنگ قوس قزح

اس کے لب کی مٹھاس ہے دنیا

ہم سے رندوں کے واسطے ثاقبؔ

ایک خالی گلاس ہے دنیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

فُرقت میں تیری پائے ترانے نئے نئے

ہاتھ آئے ہیں سخن کے خزانے نئے نئے

ترکِ تعلقات پہ تیار میں بھی تھا

کرتا تھا وہ بھی روز بہانے نئے نئے

منزل شناس تم ہو اگر ہم بھی کم نہیں

مِل جائیں گے ہمیں بھی ٹھکانے نئے نئے

سب کچھ وہی ہے کچھ بھی تو بدلا نہیں ابھی

کہتا تھا وہ کہ ہوں گے زمانے نئے نئے

کہہ دو یہ نیند سے کہ چلی آئے ایک شب

آنکھوں میں میرے خواب سجانے نئے نئے

محوِ خیالِ حُسنِ غزل ہم ہیں اور وہاں

قصّے نئے نئے ہیں فسانے نئے نئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

فصیل ذات کے اس پار تکتا رہتا ہوں

میں خضرِ راہ ہوں پھر بھی بھٹکتا رہتا ہوں

کہیں تُو چھوڑ کے سورج چلا نہ جائے مجھے

جبھی تو ساتھ ترے میں سرکتا رہتا ہوں

یہ وقت مجھ کو مرے زندگی کے ساغر میں

ہلاتا رہتا ہے اور میں چھلکتا رہتا ہوں

سوالِ ہجر ہے کوئی نہ وصل کا قصہ

مگر میں ہوں کہ انھی سے جھپکتا رہتا ہوں

خزاں نے شاخیں میری بانجھ کر تو دیں لیکن

یہ دیکھ لو کہ میں اب ابھی لہکتا رہتا ہوں

مرا نسب ہے محبت تو عشق مسلک ہے

نہ جانے کتنے دلوں میں دھڑکتا رہتا ہوں

تمہارا کام تبسم ہے میرا نام سہیل

تم ہنستی رہتی ہو اور میں چمکتا رہتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جیسا سُنا تھا کوئی بھی ویسا ملا نہیں

سب کچھ وہی ہے کچھ بھی یہاں پر نیا نہیں

ہر شخص گرم جوشی سے ملتا تو ہے مگر

اپنا کہیں جسے کوئی ایسا ملا نہیں

اِک تجربے کی بات بتاتا ہوں دوستو

گر تم بُرے نہیں تو زمانہ بُرا نہیں

وہ میرا ہم مزاج نہ میں اُس کا ہم مزاج

میں نے کہا کہ ہاں کہو اُس نے کہا نہیں

لگتا ہے اُس کو آب و ہوا راس آ گیئی

کیا بات ہے جو شہر سے اب تک گیا نہیں

دُکھ جھیلتے ہوئے مجھے اِک عمر ہو گئی

لیکن یہ میرا دل ہے جو پتّھر بنا نہیں

ثاقبؔ ہزار ترکِ تعلق کے باوجود

آنکھوں کے سامنے سے وہ چہرہ ہٹا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُترتی ہے غزل جب چاک دامانی کے موسم میں

سراپا عشق ہوتا ہوں غزلخوانی کے موسم میں

تعجب کیا کسی چہرے پہ قرباں آئینے جو ہوں

یہ اکثر ٹُوٹتے رہتے ہیں حیرانی کے موسم میں

یہ میرا دل عجب وحشی ہے پیارے کیا کروں اِس کا

سمندر میں اُتر جاتا ہے طغیانی کے موسم میں

جدھر دیکھو ہزاروں پھول کھِل اُٹھتے ہیں نظروں میں

جوانی تاجور ہوتی ہے سلطانی کے موسم میں

یہ دنیا یاد رکھتی ہے کہاں کوئی خطا صاحب

خموشی ہی مناسب ہے پشیمانی کے موسم میں

حقیقت ہے اِسے جھٹلانے سے کچھ بھی نہیں حاصل

پریشانی ہی ہوتی ہے پریشانی کے موسم میں

بجا کہتے ہو تم ثاقبؔ یہ ناقدروں کی دنیا ہے

کہ ہم بھی ہو گئے انمول ارزانی کے موسم میں

٭٭٭

 

 

 

 

عام ہو خاص ہو تم یہ نہیں پہچانتی ہے

موت آتی ہے تو رُتبہ نہیں پہچانتی ہے

کاش اِس بات کا اندازہ ہمیں ہو جاتا

جب بُرا وقت ہو دنیا نہیں پہچانتی ہے

روکنا چاہو بھی تو روک نہیں سکتے ہو

یہ ہوا وہ ہے جو رستہ نہیں پہچانتی ہے

عصرِ حاضِر مجھے کس موڑ پہ لے آیا ہے

زندگی اپنا ہی چہرا نہیں پہچانتی ہے

کون کِس کے ہے مقابل سرِ میدانِ وفا

دل کی بازی کوئی رشتہ نہیں پہچانتی ہے

زندگی چاند کی کرتی ہے پرستش لیکن

اپنی قسمت کا ستارہ نہیں پہچانتی ہے

اُس کو تو اپنی روانی سے غرض ہوتی ہے

موجِ دل کوئی کنارہ نہیں پہچانتی ہے

اُس کو مطلب ہے فقط اپنی غرض سے ثاقبؔ

میری دنیا مرا لہجہ نہیں پہچانتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آسمانوں پہ نظر اب بھی جما رکھی ہے

ماں نے پریوں کی کہانی جو سُنا رکھی ہے

جانے کس وقت دعاؤں میں ثمر آ جائے

ہم نے ہونٹوں پہ نہیں دل میں دُعا رکھی ہے

لوگ کیوں دیکھتے ہیں مجھ کو عجب نظروں سے

کوئی تو بات ہے جو تُو نے چھُپا رکھی ہے

جب کہ اِس شہر میں تنہائی مُقدّر ہے مِرا

شام پھر کس کے لیے میں نے سجا رکھی ہے

دوستی رکھنی پڑے گی ہمیں طوفانوں سے

ہم نے بستی لبِ ساحل جو بسا رکھی ہے

پھر کہیں شوقِ سفر دل میں نہ اُبھرے ثاقبؔ

ہم نے ہر راہ میں دیوار اُٹھا رکھی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جانتے بُوجھتے دھوکہ بھلا کھاتے کیوں ہو

خوف اِس شہر کا حاصل ہے تو آتے کیوں ہو

اِس جگہ جب تمہیں کچھ بھی نہیں اچھا لگتا

وقت پھر اپنا یہاں آکے گنواتے کیوں ہو

دل اگر صاف تمہارا ہے تو پھر اتنا کہو

اپنے چہرے پہ کئی چہرے سجاتے کیوں ہو

ہے اگر سچ کہ یہاں عام ہے دہشت گردی

جشن پھر روز سرِ شام مناتے کیوں ہو

ہم ہی آئینہِ امروز کی صورت ہیں یہاں

ہم پہ خود ساختہ الزام لگاتے کیوں ہو

جس کا پھل کھاتے ہیں تم اور تمھارے بچّے

اُن درختوں کو بھلا آگ لگاتے کیوں ہو

کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے ہمارے ثاقبؔ

ہم بُرے ہیں تو ہمیں ساتھ مِلاتے کیوں ہو

ایسا منصف ہو خطاوار غلط کہتے ہو

تم غلط کہتے ہو سرکار غلط کہتے ہو

یہ کہو ! ہوش میں لایا ہے کوئی دیوانہ

قوم خود ہو گئی بیدار غلط کہتے ہو

جن کے ایماں کا بھروسہ نہیں ہوتا کوئی

اُن کو تم صاحبِ کردار غلط کہتے ہو

بے ثمر اب ہے شجر ہم نے یہ مانا لیکن

یہ شجر ہو گیا بیکار غلط کہتے ہو

ہم بتائیں گے تمھیں کس کو جنوں کہتے ہیں

خود کو تم آہنی دیوار غلط کہتے ہو

جو حقائق مرے لفظوں میں چھپے ہیں اُن کو

تم اگر کہتے ہو اشعار غلط کہتے ہو

تم کبھی اپنے طرفدار نہ ہونے پائے

تم ہمارے ہو طرفدار غلط کہتے ہو

ہم ہیں اجداد کی تہذیب کے وارث ثاقبؔ

مٹنے والے ہیں یہ آثار غلط کہتے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

گلشن جاں میں خس و خاشاک سے کیا کیا ہوا

پوچھتے کیوں ہو دلِ صد چاک سے کیا کیا ہوا

کس کو فرصت تھی شبِ فرقت کہ پوچھے چاند سے

وقتِ رخصت دیدہِ نمناک سے کیا کیا ہوا

صرف وحشت ہی نہیں تھی موسمِ گل میں مری

تم کیا جانو اس گریباں چاک سے کیا کیا ہوا

یہ فرشتوں کے گماں میں بھی نہ آیا تھا کبھی

کچھ نہ ہونا تھا مگر اس خاک سے کیا کیا ہوا

دیکھ لو چاروں طرف اور خود سے پوچھو یہ سوال

فہم سے کیا کیا ہوا ادراک سے کیا کیا ہوا

کچھ بچا ہی کب تھا کوئی سوچتا جو بیٹھ کر

خیمہِ جاں پر شبِ سفاک سے کیا کیا ہوا

خامشی تجدیدِ الفت میں ہوئی کب کارگر

یہ بتا ثاقب لبِ بیباک سے کیا کیا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا خوف کہ خطرے تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

گھر گھر میں اندھیرے تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

ملنا ہے تو پھر کیوں نہ ملیں سامنے سب کے

روشن کئی رستے تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

سیلاب سے بچنے کے جتن دونوں ہی کر لیں

مٹی کے گھروندے تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

شطرنج کی بازی کہ سیاست ہے ہماری

پٹتے ہوئے مہرے تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

انجام فسانے کا بھلا کیسے ملے گا

کردار ادھورے تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

ہم ہی تو فقط موردِ الزام نہیں ہیں

جھوٹے کئی وعدے تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

اب ترک کریں اپنی جنوں خیزیاں دونوں

سچائی پہ پہرے تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

تاریخ سے اب کچھ تو سبق سیکھ لیں ورنہ

مٹتے ہوئے کتبے تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

میں کس کو سراہوں تو کسے ردّ کروں میں

ثاقبؔ مرے اپنے تو یہاں بھی ہیں وہاں بھی

٭٭٭

 

 

 

 

٭

 

جو ہجرت کر گئے ان کو چمن آواز دیتا ہے

بہت مشکل میں اس پل ہے وطن آواز دیتا ہے

سنو اس کی صدائے خونچکاں اور پھر بڑھو آگے

یہ لاغر لڑکھڑاتا سا بدن آواز دیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں نے بس اتنا کہا تھا راستہ دکھلا مجھے

عشق حاصل ہے کہ لا حاصل ذرا سمجھا مجھے

آ کہ سوزِ عشق میں جلنے کو اب تیار ہوں

آ مرے شوقِ جنوں لپٹا مجھے دہکا مجھے

اے سرابِ زندگی کب تک مجھے بھٹکائے گا

تُو اگر ہے خواب تو تعبیر بھی دکھلا مجھے

ظرف تھا اُس کا کہ تھی شاید پشیمانی مری

اُس نے جب ہنس کر کہا تھا صبح کا بھولا مجھے

میں تو خود آیا نہیں تھا زندگی تیرے لیے

کر دیا ہے کُل جہاں میں تُو نے کیوں رسوا مجھے

پھر وہی رحم و کرم اور بے بسی کا سامنا

پھر سمندر کی طرف لے کر چلا دریا مجھے

دوستی کا حق ادا کرنے کا لمحہ آ گیا

آخری منزل تلک ثاقبؔ ذرا پہنچا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

کیا کریں خود سے محبت نہیں ہوتی ہم کو

دنیا داری ! تری عادت نہیں ہوتی ہم کو

گزری یادوں سے بچا لیتے ہیں دامن اپنا

بھولے بسروں سے شکایت نہیں ہوتی ہم کو

عشق میں تیرے عجب حال ہوا ہے اپنا

سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی ہم کو

جب سے دیکھے ہیں بدلتے ہوئے اپنے ہم نے

اب کسی بات پہ حیرت نہیں ہوتی ہم کو

تُو بھی اِک نشۂ پُر کیف ہے مانا لیکن

وصلِ جاں کیوں تری عادت نہیں ہوتی ہم کو

خوف آتا ہے ہمیں خود سے بھی اب تو اتنا

گھر کے سناٹے سے وحشت نہیں ہوتی ہم کو

پھر نیا ایک سفر سر پہ کھڑا ہے ثاقبؔ

اور بڑھنے کی جسارت نہیں ہوتی ہم کو

٭٭٭

 

 

 

 

دل والے ہیں دل سے رشتہ رکھتے ہیں

تیکھا لیکن اپنا لہجہ رکھتے ہیں

دو رنگی دنیا میں ہم اپنا معیار

حیرت اس پر کیا جو دُہرا رکھتے ہیں

سرد ہوا، چھتنار شجر اور بوجھل شب

دیوانے کیا کچھ سرمایہ رکھتے ہیں

جلتے ہیں ہم حال کے تپتے صحرا میں

مستقبل تو خوب سنہرا رکھتے ہیں

یوں تو اپنا ساتھ دکھوں سے ہر پل ہے

خوشیوں سے بھی کچھ کچھ ناطہ رکھتے ہیں

چھت تو خود ہے طالب ایک سہارے کی

دروازے دیوار سے رشتہ رکھتے ہیں

ہم سے ہی دکھ بانٹ لو ثاقبؔ تم اپنے

پتھر کا ہم لوگ کلیجہ رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

اِس طرح ملتا نہیں ہے روشنی کا راستہ

ڈھونڈنا پڑتا ہے ہر پل زندگی کا راستہ

پھر دیارِ عشق میں وہ روشنی پھیلا گیا

جگمگاتا جا رہا ہے تیرگی کا راستہ

ہم سفیرِ دشت، صحنِ گُل سے کیا لینا ہمیں

راس آتا ہے ہمیں آوارگی کا راستہ

درد ہو کوئی کہ ہو کوئی خوشی کا مرحلہ

ڈھونڈ ہی لیتے ہیں میکش میکشی کا راستہ

شہر میں ہوں اجنبی تنہا بھی ہوں بھٹکا بھی ہوں

کس سے میں پوچھوں بتا تیری گلی کا راستہ

تم تخیل کے پرِ پرواز کو کھلنے تو دو

راہ خود دے گا سخن کو ان کہی کا راستہ

اِن صلیبوں کی طرف اک بار ثاقبؔ دیکھ لو

تم نے گر دیکھا نہ ہو جو بے بسی کا راستہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

کب کہاں کس سے کوئی وصل کی شب مانگتا ہے

سرد راتوں کے گزرنے کا سبب مانگتا ہے

اپنے خوابوں کے فسوں سے وہ نکل آیا ہے

رنگ کچھ ہلکے وہ تصویر میں اب مانگتا ہے

کیا عجب خواہشیں اس ذہن نے پالی ہوئی ہیں

دن کو ڈھلنے نہیں دیتا ہے پہ شب مانگتا ہے

عقل درویش ہے خاموش رہا کرتی ہے

دل تو وحشی ہے جو بس شور و شغب مانگتا ہے

اب کسی اصل کی پہچان نہیں ہے ثاقبؔ

نام سب دیکھتے ہیں کون نسب مانگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

٭

 

کرنا ہے انصاف

منصف میں سچ سننے کے

ہوتے ہیں اوصاف

٭٭٭

 

 

 

 

 

غمِ دوراں کی کسی رات سے کب گزرا ہے

یہ جنوں کرب کے لمحات سے کب گزرا ہے

تُو بھی میری ہی طرح خود سے گریزاں ہوتا

تُو مری جاں مرے خدشات کب گزرا ہے

شاعری، نغمہ گری، عشقِ بتاں، حسنِ خیال

دل مرا ایسے کمالات سے کب گزرا ہے

ہر گھڑی خوف لگا رہتا ہے کھو جانے کا

تُو ابھی شہرِ طلسمات سے کب گزرا ہے

آگ تو دُور تپش اس کی جلا سکتی ہے

شہرِ دل کے تُو مضافات سے کب گزرا ہے

اوجِ برزخ پہ سفر ختم کہاں ہوتا ہے

تُو ابھی ارض و سماوات سے کب گزرا ہے

درد، تنہائی، گھٹن، خوف، جنوں اور ہراس

سکھ بھلا ایسے مقامات سے کب گزرا ہے

زندگانی کے شب و روز بدل جائیں گے

تو ابھی کوچۂ سادات سے کب گزرا ہے

اُس کو اندازہ نہیں دکھ کا مرے کچھ ثاقبؔ

وہ مری روح کے صدمات سے کب گزرا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

٭

 

یقیں نکل پڑا ہے کس قیاس کی تلاش میں ؟

نمک کی کان میں گیا مٹھاس کی تلاش میں

طلب کا جانے کون سا مقام ہم کہیں  اسے

کہ پیاس خود نکل پڑی ہے پیاس کی تلاش میں

٭٭٭

 

 

 

 

خیمۂ شب اُکھڑ جائے گا دیکھنا، رُت بدلنے کو ہے

جگمگائے جائے گا صبح کا راستا، رُت بدلنے کو ہے

کروٹیں لے رہی ہے یہ خلقِ خدا، رُت بدلنے کو ہے

پھول کھلتے نظر آئیں گے جا بجا، رُت بدلنے کو ہے

کب تلک ایک ہی موسمِ کرب میں ہم جئیں گے بھلا

اب تو کرنا پڑے گا ہمیں فیصلہ، رُت بدلنے کو ہے

پھر میری نیند کو زندگی کے سبھی خواب دکھنے لگے

اُس نے چپکے سے مجھ سے جب اتنا کہا، رُت بدلنے کو ہے

اپنے حصے کی ساری پریشانیوں کا کیا سامنا

زندگی اب تو دے دے مجھے راستا، رُت بدلنے کو ہے

وہ جو بے گھر ہوئے طائرانِ چمن، تھی اُنھی کی خطا

صحنِ گُل سے تو آتی رہی تھی صدا، رُت بدلنے کو ہے

اب کے ہجرت کا جب فیصلہ تم کرو، یاد رکھنا اسے

خواب بوئے ہوئے ہیں یہاں جا بجا، رُت بدلنے کو ہے

آ گیا ہے ہوا کو بھی ڈسنے کا فن ازگروں کی طرح

زہر آلود ہو جائے گی اب فضا رُت بدلنے کو ہے

جانے والی ہوا کو سندیسہ تو دے کوئی ثاقب ذرا

یہ یقیں ہے کہ اُبھرے گا سورج نیا رت بدلنے کو ہے کو

٭٭٭

 

 

٭

 

یہ خوں نہ اپنا رنگ دکھائے کبھی کہیں

یہ بار ہی سہی ذرا ہنس کر اُٹھائیے

کھایا حرام آپ نے ہے عمر بھر مگر

اولاد کو جو ہو سکے جائز کھلایئے

٭٭

 

 

ذرا بھی خوف نہیں ہے نہ ڈر کسی کا مجھے

بھلے سے کون گیا کون گھر میں در آیا

بڑے سکون سے سوتا ہوں رات بھر ثاقبؔ

میں جانتا ہوں کہ ڈاکو ہے میرا ہمسایا

٭٭٭

 

 

 

 

دُکھوں کی جب چھڑے سرگم تو آنکھیں بات کرتی ہیں

اگر ہوتا ہے موسم نم تو آنکھیں بات کرتی ہیں

گزر جاتی ہیں یوں تو بے نیازانہ مقابل سے

دلوں کا ہوتا ہے سنگم تو آنکھیں بات کرتی ہیں

محبت کرنے والوں کی ادایئں دلبرانہ ہیں

جو زلفِ یار ہو برہم تو آنکھیں بات کرتی ہیں

زباں کی پھر کہاں مرہونِ منت رہنے پاتی ہیں

نکلتا ہو کسی کا دم تو آنکھیں بات کرتی ہیں

گلستانِ محبت کے حسیں اِن سبزہ زاروں میں

چمکنے جب لگے شبنم تو آنکھیں بات کرتی ہیں

بہت مشکل ہے لفظوں کو نوا میں قید کر لینا

کوئی جب بانٹتا ہو غم تو آنکھیں بات کرتی ہیں

وہاں پر کہنے سننے کو نہیں ہوتا ہے پھر کچھ بھی

کسی گھر میں جو ہو ماتم تو آنکھیں بات کرتی ہیں

عجب یہ آگ ہوتی ہے کہ جس کو کہتے ہیں رشتے

کہیں شدت اگر ہو کم تو آنکھیں بات کرتی ہیں

تکلم کا عجب انداز اکثر ہم نے دیکھا ہے

مزاجِ یار ہو برہم تو آنکھیں بات کرتی ہیں

فراقِ یار میں ثاقب کبھی جو دل کے تاروں کا

اگر ہو جائے سُر مدھم تو آنکھیں بات کرتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ادا کیا قرض ہوتا جا رہا ہے

مجھے قسطوں میں بیچا جا رہا ہے

سروں پہ آ رہا ہے سب کے سورج

ہر اک سایہ سمٹتا جا رہا ہے

کہاں تک میں گنوں موجوں کو ثاقبؔ

سمندر ہے کہ بہتا جا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی مضمحل کبھی پُر سکوں کبھی برہمی ہے مزاج میں

بڑا فرق لگتا ہے جانِ جاں ترے کل میں اور ترے آج میں

نئی بندشوں کے ہیں دائرے مرے جسم و جاں کی فصیل پر

نہیں راہ کوئی فرار کی میں گھرا ہوا ہوں سماج میں

یہ علامتیں ہیں شکست کی کہ جو ہاتھ ملتے ہو ہر گھڑی

کبھی وقت سے ہی گلہ رہا کبھی نقص رسم و رواج میں

جہاں رات ہوتی نہ تھی کبھی وہی روشنی کو ترس گئے

نہ چمک رہی نہ دمک رہی کسی تخت میں کسی تاج میں

ترے باب میں کوئی کیا لکھے ترا حُسن کس سے بیان ہو

یہ تیرے جمال کا عکس ہے جو نہاں ہے نجم السراج میں

یہ تو اُس کا مجھ پہ کرم ہوا جو عزیزِ مصر کا میں ہوا

مرے بھائیوں نے تو دے دیا تھا مجھے بھی یارو خراج میں

٭٭٭

 

 

 

 

جو حرف لکھنے سے قاصر اُنھیں ادیب کہا

ستم ہے زاغ کو یاروں نے عندلیب کہا

لیے لیے مجھے پھرتا ہے شوقِ در بدری

عجب ہے کیا جو کسی نے مجھے غریب کہا

جو میں نے پوچھا دعا میں کہ میرے صبر کا پھل

کسی نے ایسے لگا مجھ سے ’ عنقریب ‘ کہا

فسونِ شوقِ طلب اور میرے چاروں طرف

حصارِ صبر تھا سو وقت کو رقیب کہا

یہ سچ ہے میں نے کہا تھا کٹھن ہے راہِ جنوں

اُسی کو اُس نے بڑھا کر بہت مُہیِب کہا

یہ سانحہ تھا کہ میں اُس سے دُور تھا لیکن

یہ معجزہ ہے کہ اُس نے مجھے قریب کہا

کسی پہ چشمِ کرم اُن کی کیا ہوئی ثاقبؔ

ستم گروں نے اُسے بھی مرا نصیب کہا

٭٭٭

تشکر: ناصر ملک جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید