FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

بابا سائیں کی کہانیاں

 

 

               شکیل الرّحمن

 

مرتّب: تنویر احمد

 

 

 

 

 

 

 

بچوں کے رسالے ’بچوں کی نرالی دُنیا‘ میں بابا سائیں ڈاکٹر شکیل الرحمن صاحب نے چند کہانیاں لکھی تھیں، میں ان کہانیوں کو مرتب کر کے شائع کر رہا ہوں۔

 

 

—- تنویر احمد

 

 

 

 

ایک تھے بادشاہ بہادر شاہ ظفر

 

پیارے بچو! آؤ پہلے تمھیں یہ بتائیں کہ میں کون ہوں؟ ٹھیک کہا تم نے ہاں میں دُنیا کے تمام بچوّں کا بابا سائیں ہوں۔ سب سے پہلے میری پیاری سی نواسی جوہی نے مجھے بابا سائیں کہا اور پھر سب بچےّ جو میرے گھر کے آس پاس رہتے ہیں مجھے بابا سائیں کہنے لگے۔ سچ پوچھو تو مجھے یہ نام بہت پسند ہے۔ جب بچّے مجھے بابا سائیں کہتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ جانتے ہو اب بڑے لوگ میرے دوست احباب بھی مجھے بابا سائیں ہی کہتے ہیں۔ ’بابا‘ کہتے ہیں بزرگ کو اور ’سائیں‘ کہتے ہیں اللہ والے کو۔ بچوّں نے مجھے اللہ والا بابا بنا دیا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو گی، ہے نا؟ اب تم سب مجھے بابا سائیں ہی کہنا، میں اپنا فون نمبر لکھ رہا ہوں اور اپنا پتا بھی، کہانی پڑھ کر اپنی رائے ضرور دینا۔ تو لو سنو بابا سائیں کی پہلی کہانی۔

تم نے بہادر شاہ ظفر کا نام تو ضرور ہی سنا ہو گا، اپنے ملک ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ تھے، جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو بہادر شاہ ظفر کو رنگون بھیج دیا جہاں وہ بہت تکلیف میں رہے اور کچھ عرصہ بعد رنگون ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔

یہ جو آخری مغل بادشاہ تھے بہادر شاہ ظفر، تمام لوگوں سے محبت کرتے تھے۔ کہتے تھے ہندو میری ایک آنکھ ہے تو مسلمان دوسری آنکھ۔ دونوں شام غریبوں کو خوب کھانا کھلاتے تھے، عید، بقر عید، ہولی، دیوالی، راکھی بندھن سب تہوار لال قلعہ میں مناتے۔ خود ان تہواروں میں شریک ہوتے، محرّم کی پہلی تاریخ کو روزہ رکھتے، چھٹی تاریخ کو چاندی کی زنجیر کمر میں ڈال کر گشت کرتے، ’ساتویں محرّم‘ کو مہندی اُٹھائی جاتی، آٹھویں محرّم کو سقاّئے حرم کی یاد میں لنگی باندھے، بہشتی بنتے اور شربت کی بھری ہوئی مشک کاندھے پر رکھ کر لوگوں کو شربت پلاتے، نویں اور دسویں کو فقیرانہ لباس پہنتے، سبز کپڑے کے ساتھ گلے میں ڈالنے کے لیے سبز جھول تیاّر ہوتی، دسویں تاریخ کو موتی مسجد میں عاشورہ کی نماز کے بعد ظہر کے وقت حاضری کے دستر خوان پر نیاز دیتے، اللہ سے دُعا کرتے ’’اے اللہ ہمارے ملک کے بچوّں کو سلامت رکھیو، ہمارے بچوّں اور جوانوں کو حضرت علی مرتضیٰؓ کی طاقت اور ان جیسی شجاعت دیجیو۔‘‘

اسی طرح جب ساون کا مہینہ آتا، چاندنی چوک اور جامع مسجد کے آس پاس ہر کوچے میں جھولے پڑتے اور بچیاں جھولوں پر ساون کا گیت گاتیں:

امّاں، میرے باوا کو بھیجو جی کہ ساون آیا

بیٹی تیرا باوا تو بڈّھا ری کہ ساون آیا

تو بہادر شاہ ظفر سلونو کا دن لال قلعہ میں دھوم دھام سے مناتے، جانے کتنی ہندو عورتیں اور بچیاں آتیں جو اُنھیں راکھی باندھ کر راکھی بہن بن جاتیں۔ بہادر شاہ ظفر ایک بھائی کی طرح اُنھیں بہت کچھ دیتے، ان ہی عورتوں میں ایک عورت تھی جو ہر سال بہادر شاہ کو بہت دور سے راکھی باندھنے آتی تھی، شہنشاہ اس کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے، راکھی بندھن کے دن لال قلعے کے اندر جو جھُولے پڑتے ان میں ریشمی ڈوریاں ہوتیں، شام ہوتے ہی قلعے کے اندر اور باہر چراغاں کیا جاتا، جب وہ برہمن عورت آتی اور اپنے بھائی بہادر شاہ ظفر کو راکھی باندھتی تو شہنشاہ اسے زمرّد کی آٹھ چوڑیاں دیتے، چاندی کے سکّے دیتے اور مٹھائیاں کھلاتے۔ واقعہ یہ ہے بچّو کہ بہادر شاہ ظفر کے جو بڑے دادا حضور تھے نا حضرت عزیز الدین عالمگیر، وہ بھی اپنے وقت کے ایک انصاف پرور بادشاہ تھے، ان کا جو وزیر تھا غازی الدین خاں وہ یہ چاہتا تھا کہ بادشاہ کو ختم کر کے خود بادشاہ بن جائے۔ حضرت عزیز الدین عالمگیر درویشوں اور فقیروں کی صحبت پسند کرتے تھے، غازی الدین خاں نے ان سے کہا، ایک پہنچے ہوئے درویش آئے ہوئے ہیں، اگر حضور ان سے ملنا چاہتے ہیں تو میرے ہمراہ چلیں وہاں سپاہی نہ لے جائیں ورنہ درویش ناراض ہو جائیں گے۔ بادشاہ عزیز الدین راضی ہو گئے اور درویش سے ملنے وزیر کے ساتھ چلے گئے، وہاں کوئی درویش تھا ہی نہیں غازی الدین خاں نے کیا کیا بادشاہ کو قتل کر دیا اور واپس بھاگ آیا۔

صبح ہوئی تو ایک برہمن عورت اس راستے سے گزر رہی تھی اس کا نام رام کور تھا، اس نے بادشاہ کی لاش دیکھی اور روتی پیٹتی لال قلعہ کی جانب دوڑی۔ صبح سویرے انصاف کا وہ بڑا گھنٹہ بجایا کہ جو لال قلعے میں لگا ہوا تھا۔ اسی رام کور نے خبر دی کہ بادشاہ کا قتل ہو گیا ہے۔ تب سے بہادر شاہ ظفر کے والد نے اسے اپنی بہن بنا لیا، وہ ہر سال بادشاہ کو راکھی باندھنے آتی رہی، اب جب بہادر شاہ ظفر بادشاہ ہوئے تو رام کور کی بیٹی آنے لگی، وہ بھی ہر سال لال قلعہ آ کر بادشاہ یعنی بہادر شاہ ظفر کو راکھی باندھتی، بادشاہ اسے زمرّد کے کڑے اور قیمتی لباس اور مٹھائیاں دیتے، ادھر ساون آیا، جھولے پڑے اور بچیوں کی آواز گونجی:

امّاں میرے ’باوا‘ کو بھیجو جی کہ ساون آیا

امّاں میرے بھائی کو بھیجو جی کہ ساون آیا

اور ادھر لال قلعے میں بہادر شاہ ظفر کی راکھی بہن پالکی سے اُتری اور بہادر شاہ ظفر کا چہرہ اپنی بہن کو دیکھ کر خوشی سے دمک اُٹھا!

٭٭٭

 

 

 

 

 

حضرت امیر خسرو اور بچےّ

 

بچو!تم حضرت امیر خسروؒ کو خوب جانتے ہو، اُنھیں اپنے ملک ہندوستان سے بے پناہ محبّت تھی،یہاں کی ہر چیز کو پسند کرتے تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ امیر خسروؒ گھوڑے پر سوار کہیں سے آ رہے تھے۔ مہرولی پہنچتے ہی اُنھیں پیاس لگی، آہستہ آہستہ پیاس کی شدّت بڑھتی چلی گئی۔ اُنھوں نے اپنے پانی والے چمڑے کا بیگ کھولا اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا، وہ خود اپنے سفر میں سارا پانی پی چکے تھے، مئی جون کے مہینوں میں تم جانتے ہی ہو دلّی میں کس شدّت کی گرمی پڑتی ہے۔ گرمی بڑھی ہوئی تھی، دھُوپ تیز تھی، کچھ دُور سے اُنھوں نے دیکھا آم کا ایک گھنا باغ ہے۔ اس کے پاس ہی ایک کنواں ہے، نزدیک آئے تو دیکھا وہاں چند بچے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے رسیلے آم چوس رہے ہیں اور مٹکے سے پانی نکال نکال کر پی رہے ہیں۔ پانی کا مٹکا دیکھ کر حضرت امیر خسروؒ کی پیاس اور بڑھ گئی۔ یوں تو وہ آم کے دیوانے تھے پھلوں میں سب سے زیادہ آم ہی کو پسند کرتے تھے، لیکن اُس وقت آم کا زیادہ خیال نہیں آیا بس وہ پانی پینا چاہتے تھے۔ گھوڑے پر سوار، آہستہ آہستہ وہ اُن بچوّں کے پاس آئے جو آم چوس رہے تھے اور مٹکے سے پانی پی رہے تھے۔ بچوّں نے اُنھیں فوراً پہچان لیا۔ خوشی سے چیخنے لگے ’’خسرو بابا خسرو بابا۔‘‘ امیر خسروؒ اُنھیں اس طرح خوشی سے اُچھلتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ گھوڑے سے اُترے اور بچوّں کے پاس آ گئے۔ بچوّں نے اُنھیں گھیر لیا۔ ’’خسرو بابا خسرو بابا کوئی پہیلی سنائیے۔‘‘— ’’ہاں ہاں کوئی پہیلی سنائیے۔‘‘ بچوّں کی آوازیں اِدھر اُدھر سے آنے لگیں۔

’’نہیں بابا آج پہیلی وہیلی کچھ بھی نہیں، مجھے پیاس لگ رہی ہے میری کٹوری میں پانی بھر دو تاکہ میری پیاس بجھے۔ اور میرے گھوڑے کو بھی پانی پلا دو۔‘‘ امیر خسروؒ نے اپنی پیالی بچوّں کی طرف بڑھائی ہی تھی کہ ایک بچّے نے کٹوری اُچک لی اور بھاگ کر مٹکے سے پانی لے آیا۔ حضرت کی پیاس بجھی لیکن پوری نہیں بجھی۔ بولے ’’اور لاؤ پانی ایک کٹوری اور۔‘‘ بچیّ نے کٹوری لیتے ہوئے کہا ’’پہلے آپ ایک آم کھالیں اِس سے پیاس بھی کم ہو جائے گی۔ یہ لیجیے ، یہ آم کھائیے، میں ابھی پانی لاتا ہوں۔‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے مسکراتے ہوئے بچے کا تحفہ قبول کر لیا اور بچہ ایک بار پھر دوڑ کر پانی لے آیا۔ حضرت نے پانی پی کر سب بچوّں کو دُعائیں دیں۔ بچوّں نے گھوڑے کو بھی خوب پانی پلایا۔

’’خسرو بابا، اس سے کام نہیں چلے گا آپ کو آج ہمیں کچھ نہ کچھ سنانا ہی پڑے گا ورنہ ہم آپ کو جانے نہ دیں گے۔‘‘ ایک بچے نے مچل کر کہا۔

’’تو پھر ایسا کرو بچو ، تم لوگ مجھ سے سوال کرو، میں تمھیں جواب دوں گا۔‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے بچوّں کے سامنے ایک تجویز رکھی، بچّے فوراً راضی ہو گئے۔

’’تو پھر کرو سوال۔‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے فرمایا۔

ایک بچیّ نے سوچتے ہوئے پوچھا: ’’خسرو بابا، خسرو بابا، آپ کو کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے؟

حضرت امیر خسروؒ نے جواب دیا: ’’یوں تو ہندوستان کے تمام پھول خوبصورت ہیں، سب کی خوشبو بہت اچھّی اور بھلی ہے، لیکن تمام پھولوں میں مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں اسے پھولوں کا سرتاج کہتا ہوں۔‘‘

’’چمپا تو مجھے بھی بہت پسند ہے، اس کی خوشبو بہت ا چھی لگتی ہے۔‘‘ ایک بچیّ نے کہا۔

’’خوب! دیکھو نا ہندوستان میں کتنے پھول ہیں کوئی گِن نہیں سکتا اُنھیں۔اس ملک میں سوسن، سمن، کبود، گلِ زرّیں، گلِ سرخ، مولسری، گلاب، ڈھاک، چمپا، جوہی، کیوڑا، سیوتی، کرنا، نیلوفر۔ پھر بنفشہ، ریحان، گلِ سفید، بیلا، گلِ لالہ اور جانے کتنے پھول ہیں ۔ اپنے مولوی استاد سے کہنا، وہ تمھیں ہر پھول کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا دیں گے۔ مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے، یوں چنبیلی بھی مجھے بہت پسند ہے۔‘‘

ایک دوسرے بچے نے سوال کیا: ’’خسرو بابا، اور پھلوں میں آپ کو سب سے زیادہ کون سا پھل پسند ہے؟‘‘

’’آم۔‘‘ حضرت نے فوراً جواب دیا۔

سارے بچّے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’خسرو بابا، آم ہم سب کو بھی سب سے زیادہ پسند ہے۔ دیکھئے نا ہم کتنی دیر سے بس آم کھائے جا رہے ہیں، آپ بھی کھائیے نا، ہاتھ پر لے کر کیا بیٹھے ہیں؟‘‘ اُس بچیّ نے کہا۔

’’میں اس آم کو تحفے کے طور پر لے جاؤں گا ، اپنے بچوّں کا تحفہ ہے نا، گھر پہنچ کر اسے دھو کر اطمینان سے بیٹھ کر کھاؤں گا۔‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے جواب دیا۔

’’اس کے بعد کون سا پھل آپ پسند کرتے ہیں؟‘‘ ایک دوسرے بچے نے پوچھا۔

’’آم کے بعد کیلا۔ کیلا بھی مجھے پسند ہے۔‘‘ حضرت نے جواب دیا۔

’’اور خسرو بابا، پرندوں میں کون سا پرندہ آپ کو زیادہ پسند ہے؟‘‘ ایک تیسرے بچیّ نے سوال کیا۔

’’پرندوں میں مجھے طوطا بہت ہی پسند ہے، اس لیے کہ طوطے اکثر انسان کی طرح بول لیتے ہیں۔ یوں مجھے مور، مَینا، گوریّا بھی پسند ہیں۔آپ لوگ پوچھیں گے، جانوروں میں مجھے کون سا جانور پسند ہے؟‘‘ حضرت نے کہا۔

’’میں تو ابھی پوچھنے ہی والا تھا۔‘‘ ایک بچّے نے کہا۔

’’تو سن لو مجھے ہاتھی، بندر اور بکری پسند ہیں۔‘‘ حضرت نے جواب دیا پھر خود ہی پوچھا:

’’جانتے ہو بکری مجھے کیوں پسند ہے؟ اور مور کیوں پسند کرتا ہوں؟‘‘

’’کیوں؟‘‘ کئی بچے ایک ساتھ بول پڑے۔

’’مور اس لیے کہ وہ دُلہن کی طرح سجا سجایا نظر آتا ہے اور بکری اس لیے کہ وہ ایک پتلی سی لکڑی پر چاروں پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ بچے کھلکھلا پڑے۔

’’ا چھا بچو، اب میں چلتا ہوں۔ پانی پلانے کا شکریہ اور اس آم کا بھی شکریہ، میرے گھوڑے کو پانی پلایا اس کا بھی شکریہ۔

حضرت امیر خسروؒ چلنے کو تیاّر ہو گئے تو ایک چھوٹے بچے نے روتے ہوئے کہا۔’’آپ سے دوستی نہیں کروں گا۔‘‘

’’بھلا کیوں بابا، آپ ناراض کیوں ہو گئے؟‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے پوچھا۔

’’آپ نے کوئی گانا نہیں سنایا۔ وہی گانا سنائیے نا جو آپ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے پاس کل صبح گا رہے تھے۔‘‘

’’لیکن تم کہاں تھے وہاں؟‘‘ حضرت نے حیرت سے دریافت کیا۔

’’میں وہیں چھپ کر سن رہا تھا۔‘‘ پھر رونے لگا وہ بچہ۔

’’ارے بابا روؤ نہیں، آنسو پونچھو۔ میں تمھیں وہی گانا سناؤں گا۔‘‘ حضرت نے بچیّ کو منا لیا اور لگے لہک لہک کر گانے:

چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائکے

پریم بھٹی کا دھوا پلائکے، متوالی کر دینی رے موسے

بل بل جاؤں میں تورے رنگ رجوا ، اپنی سی کر لینی رے موسے

کھسر نجام کے بل بل جئے، موہے سہاگن کینی رے موسے

حضرت امیر خسروؒ دیکھ رہے تھے کہ گانا سنتے ہوئے بچّے جھوم رہے ہیں۔ گانا ختم ہوتے ہی بچے چُپ ہو گئے اور پھر اچانک ہنسنے لگے، حضرت امیر خسروؒ بچوّں کو پیار کرنے کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ آم کے پیڑوں کے نیچے وہ بچے جھوم جھوم کر گا رہے تھے:

چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائکے

٭٭٭

 

 

 

آواز اذان کی

 

’’ کُن!‘‘

’’ہو جا!‘‘

ایک آواز گونجی اور کائنات کی تخلیق ہو گئی!

’’ کُن‘‘ اشارہ ہے حکم حق سبحانہ جل شانہ کی جانب جو روز اوّل میں موجودات کے پیدا ہونے کے وقت ہوا تھا۔

سوچو کیسی طاقت اور کیسی توانائی تھی اس لفظ اور اس آواز میں کہ حکم صادر ہوا اور کائنات خلق ہو گئی!

ظہورِ اسلام کے بعد بچّو، ایک آواز اس طرح گونجی ’’اللہُ اکبر، اللہُ اکبر۔‘‘

یہ آواز حضرتِ بلالؓ کی تھی ’’اللہ عظیم تر ہے، اللہ عظیم تر ہے۔‘‘

پہلی اذان دی تھی حضرت بلالؓ نے۔

اور پھر اس کے بعد یہ آواز بار بار سنائی دینے لگی ہر جانب سنائی دینے لگی۔

اذان کی آواز میں جیسے جادو بھرا ہو، یہ آواز اپنے لفظوں کے ساتھ فوراً اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ تم ذرا غور سے سنو اذان، تمہیں لگے گا جیسے صرف تمھیں کوئی پیغام نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ اذان کے یہ الفاظ اپنی آواز کے سحر کے ساتھ تمھارے اندر بڑی خوشگوار تبدیلی بھی پیدا کر رہے ہیں، تمھارے دِل تک پہنچ رہے ہیں، میرا اعتقاد یہ ہے کہ اگر ہم پانچ وقت کی نماز سے قبل مؤذن کی اذان خاموشی سے سنیں تو دِل کی پاکیزگی میں اضافہ ہونے کا احساس ملتا جائے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اذان کے لفظوں اور اس کی آواز سے اللہ کی عظمت اور رحمت اللعالمینؐ کی رحمت اور دونوں سے انسان کے رشتے کے تئیں ایک عجیب خوشگوار بیداری پیدا ہوتی جاتی ہے۔ اذان کے الفاظ اور اس کے لفظوں کا آہنگ— دونوں خالقِ کائنات کی عبادت کی جانب فطری طور پر راغب کرتے ہیں: اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبر۔

یہ آواز ساری دُنیا میں ہر لمحہ گونجتی رہتی ہے۔ یہ حیرت انگیز بات ہے، حیرت انگیز بات یوں ہے بچو،کہ اتنی بڑی دُنیا میں کوئی لمحہ اور لمحے سے بھی کم لمحہ ایسا نہیں ہے کہ اللہ عظیم تر ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ پاک کے رسول ہیں، کی آواز سنائی نہ دے۔ بچو،یہ حیرت میں ڈالنے والی بات بابا سائیں کے اُستاد مولوی منظور صاحب نے سنائی تھی۔

سوچا اللہُ اکبر اللہُ اکبر یا اذان کی حیرت انگیز بات نہیں سناؤں۔

بچو،ذرا دُنیا کا نقشہ نکالو، ایٹلس کو غور سے دیکھو، انڈونیشیا کو دیکھو، کہاں ہے انڈونیشیا اپنی پیاری زمین کے مشرق میں ہے۔ جاوا، سماترا، بوریندہ، سیبل میں جیسے ہی صبح ہوتی ہے فجر کی اذان گونجنے لگتی ہے۔ اللہُ اکبر، اللہُ اکبر۔ انڈونیشیا کے ہزاروں مؤذن ایک ساتھ اذان دینے لگتے ہیں۔ آواز گونجتی ہے اللہ عظیم تر ہے اور حضور کریم صلی اللہ علیہ و سلم اللہ پاک کے رسول ہیں۔ آؤ آؤ فلاح کی راہ پر آؤ۔ پھر اذان کی آوازیں انڈونیشیا کے مغرب سے اُٹھنے لگتی ہیں۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ کم و بیش ڈیڑھ گھنٹوں تک اذان کی آواز گونجتی رہتی ہے۔ سبیل میں اذان ختم ہوتے ہی جکارتا میں اذان شروع ہو جاتی ہے۔ انڈونیشیا میں ادھر اذان ختم ہوئی کہ ملیشیا اور برما کی مسجدوں میں اذان کی آواز گونجنے لگی ’’اللہُ اکبر، اللہُ اکبر‘‘ اور جیسے ہی یہاں اذان ختم ہوئی کہ بنگلہ دیش میں فجر کی اذان شروع ہو گئی اور پھر کولکتہ میں، پورے مغربی بنگال میں اور پھر کولکتہ سے سری نگر کشمیر تک، کوئی نصف لمحہ بھی اذان نہیں رُکتی اللہُ اکبر، اللہُ اکبر۔ سنتے جائیے، آواز ممبئی پہنچ جاتی ہے، پورے مہاراشٹر کو مست مست کر دیتی ہے۔ ادھر سری نگر، سیالکوٹ، کوئٹہ، کراچی— پھر پورے پاکستان میں، افغانستان میں، بغداد میں، پھر مکہ شریف اور مدینہ شریف میں، پھر یمن، عرب امارات میں، کویت میں، مصر میں، شام اور سوڈان میں، ترکی میں، لیبیا میں، پھر تمام افریقی ملکوں میں۔ ان علاقوں اور ملکوں میں فجر کی اذان گونجتی ہی رہتی ہے کہ انڈونیشیا میں ظہر کی اذان شروع ہو جاتی ہے۔ جس وقت انڈونیشیا میں فجر کی اذان شروع ہوتی ہے اُس وقت افریقہ میں عشاء کی اذان کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے— پھر سلسلہ جاری ہی رہتا ہے ’’اللہُ اکبر، اللہُ اکبر۔

اور لاکھوں کروڑوں لوگ ہر لمحہ اور لمحے سے بھی کم لمحہ میں اذان کی سحر انگیز اذان سنتے رہتے ہیں۔ اذان کے معنی خیز پیارے لفظوں میں کھوئے رہتے ہیں۔

کتنا اچھا ہو بچو،تم سب ہر وقت کی نماز سے قبل اذان کو غور سے سنو اور تخیل میں دُنیا کے پورے نقشے کو رکھ کر یہ سوچو اذان نے پوری دنیا کو اپنے الفاظ اور اپنی آواز کے جادو سے کس طرح باندھ رکھا ہے۔ اللہ کی برتری کا بار بار کس طرح احساس دلایا ہے، اللہ اور انسان کے درمیان کس طرح عظیم تر شخصیت رسول کریم محمد مصطفیؐ نے محبت کے رشتوں کو مضبوط اور مستحکم کیا ہے اور اجتماعی زندگی میں انسان اور انسان کے رشتوں کو استحکام بخشا ہے۔

سبحان اللہ! اذان کا نغمہ کتنا قیمتی ہے، یہ تو انسان کی رُوح کا نغمہ ہے بچو،ایک بار زور سے کہو بچو: ’’اَللّٰہُ اَکْبَر اُللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَراَللّٰہُ اَکْبَر۔

٭٭٭

 

 

 

ایک کہانی، شیخ سعدی کی

 

پیارے بچوّ، تم لوگوں نے حضرت شیخ سعدی شیرازی کا نام تو ضرور سنا ہو گا۔ یہ بھی سنا ہو گا کہ ان کی دو بڑی مشہور کتابیں ہیں ’’گلستاں‘‘ اور ’’بوستاں‘‘ جب بابا سائیں مدرسے میں پڑھتے تھے نا اُس وقت مدرسے کے ایک مولوی صاحب گلستاں کی کہانیاں سناتے تھے، صرف سناتے ہی نہ تھے بلکہ کہانی میں پوشیدہ مفہوم بھی سمجھا دیتے تھے۔ بڑے اچھّے تھے مولوی صاحب، بچوّں کو تعلیم دینا جانتے تھے۔ ان کا نام مولوی منظور تھا، اُنھوں نے مدرسے میں جو کہانیاں سنائی تھیں۔ اُن میں چند کہانیاں بابا سائیں کو اب تک یاد ہیں۔ اُن ہی کہانیوں میں ایک کہانی آج تمھیں سنا رہا ہوں۔

ایک بادشاہ تھا۔ اسے کسی شخص پر کسی بات کی وجہ سے بڑا غصّہ آگیا، اُس زمانے میں بادشاہ لوگ غصّے میں آ جاتے تھے تو قتل کرنے کا حکم بھی دے دیتے تھے، یہ بادشاہ بھی جلال میں آگیا اور اُس شخص کو قتل کر دینے کا حکم دے دیا۔ دربار سنّاٹے میں آگیا، کچھ درباری دِل ہی دِل میں سوچنے لگے ایسی کوئی بڑی خطا تو تھی نہیں بادشاہ نے غصّے میں خواہ مخواہ موت کی سزا دے دی۔ دربار میں کھُسر پھُسر ہونے لگی تو بادشاہ نے اپنے بڑے وزیر سے دریافت کیا۔ ’’کیقباد معاملہ کیا ہے تم لوگ یہ کیا کھسرپھسر کر رہے ہو؟‘‘

کیقباد کچھ عرض کرنا ہی چاہتا تھا کہ ملزم کی آواز گونجی، وہ بادشاہ کو بہت بُرا کہہ رہا تھا، گالیاں دے رہا تھا، چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ’’اے بادشاہ تُو بہت جلد برباد ہو جائے گا، کوئی دوسرا بادشاہ تیرے ملک پر حملہ کر کے تجھے قتل کر دے گا۔ تو ذلیل ہے، ناانصافی کرتا ہے۔‘‘ اور جانے کیا کیا کہنے لگا ملزم۔ چونکہ ملزم کی زبان بادشاہ کی زبان سے مختلف تھی اس لیے بادشاہ سمجھ نہ سکا وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس نے پھر اپنے بڑے وزیر کیقباد سے دریافت کیا ’’ملزم کیوں چیخ رہا ہے کیا کہہ رہا ہے۔‘‘ کیقباد آ گئے بڑھا، جھک کر سلام کیا کہا ’’اے سلطانِ عالم، ملزم یہ کہہ رہا ہے کہ میں اللہ کے قریب ہوں اللہ میرے قریب ہے اللہ کہہ رہا ہے بادشاہ بہت نیک، انتہائی شریف اور انصاف پسند ہے، اللہ کہہ رہا ہے میں اُس شخص پر مہربان ہو جاتا ہوں جو اپنے غصّے پر قابو پا لیتا ہے اپنے غصّے سے کسی کا نقصان نہیں کرتا، جو صرف انسان ہی پر نہیں کیڑے مکوڑوں اور جانوروں پر بھی مہربان ہوتا ہے، جہاں پناہ! یہ تو بڑی ا چھی باتیں کر رہا تھا۔‘‘ بڑے وزیر کیقباد کی بات ختم ہوئی تو دربار کے دوسرے وزیر نے آ گئے بڑھ کر کہا ’’جہاں پناہ! چونکہ آپ اور دوسرے سب درباری اس ملزم کی زبان نہیں سمجھتے اس لیے اس کی باتیں سمجھ میں نہیں آئیں۔ یہ شخص تو آپ کو بُرا بھلا کہہ رہا تھا آپ کو کوس رہا تھا، کہہ رہا تھا اللہ آپ پر عتاب نازل کرے گا ایک دوسرا بادشاہ آپ کے ملک پر حملہ کرے گا اور آپ کو قتل کر دے گا۔ بڑے وزیر کیقباد نے جو کچھ کہا ہے غلط ہے میں ملزم کی زبان سمجھتا ہوں عالم پناہ۔‘‘

بادشاہ نے سوچا قتل کے حکم سے یہ شخص بے چین ہے جانتا ہے مارا جائے گا۔ ایسی صورت میں جو چاہو کہہ لو جس طرح چاہے کہہ لو، اب رکھا کیا ہے اب تو مر جانا ہے، ظاہر ہے وہ میرے حکم سے غصّے میں آگیا ہے، یہ فطری بات ہے۔‘‘ یہ سوچ کر بادشاہ نے کہا ’’مجھے کیقباد کی بات پسند آئی۔ میں نے غصّے میں آ کر قتل کر دینے کا حکم دیا تھا۔ یہ انسان کا قتل ہوتا اور صرف میرے غصّے کی وجہ سے ہوتا، وزیر کیقباد کی باتیں سن کر میرا غصہ ختم ہو گیا، میری ناراضگی دُور ہو گئی اب موجود نہیں رہی۔ ممکن ہے وزیر کیقباد نے سچ نہ کہا ہو لیکن یہ خوبصورت جھوٹ اس کڑوے سچ سے دل پر زیادہ اثر کر گیا ہے جو میرے دوسرے وزیر نے بیان کیا ہے، میں اب غصّے سے دُور رہنا چاہتا ہوں۔ جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلہ کرنا نہیں چاہتا، جو شخص اپنے سامنے موت کو دیکھ رہا ہے وہ یقیناً اسی طرح کی باتیں کرے گا کہ جس طرح ملزم نے کی ہیں لہٰذا میں ملزم کو معاف کرتا ہوں اسے آزاد کر دیا جائے۔ ایسے خوبصورت جھوٹ سے وزیر کیقباد نے میری آنکھیں کھول دیں، میرے ذہن کو تبدیل کر دیا کچھ انسانیت کا جذبہ پیدا کر دیا، اب کبھی ایسے جذباتی فیصلے نہیں کروں گا۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

مُلّا نصر الدین ہندوستان آئے

 

 

پیارے بچو!اگر آپ کو کہیں تیز چالاک آنکھیں اور سانولے چہرے پر سیاہ داڑھی لیے کوئی شخص نظر آ جائے تو رُک جائیے، اور غور سے دیکھئے، اگر اس کی قبا پرانی اور پھٹی ہوئی ہو، سر پر ٹوپی میلی اور دھبوں سے بھری ہوئی ہو اور اس کے جوتے ٹوٹے ہوئے اور خستہ حال تو یقین کر لیجیے کہ وہی خواجہ نصر الدین عرف خواجہ بخارا ہیں۔

وہی خواجہ نصر الدین جو مُلّا نصر الدین کے نام سے معروف ہیں اور جن کی کہانیاں آج بھی عراق، ایران، ترکی، رُوس، جرمنی اور انگلستان وغیرہ میں بہت سے لوگوں کو یاد ہیں، ازبکستان، آذربائیجان، ترکمانیہ اور تاجکستان وغیرہ میں اُن کا ذکر اس طرح رہتا ہے جیسے وہ اپنے گھر کے ہوں!

خواجہ بخارا کا گدھا بھی گھر ہی کا کوئی فرد نظر آتا ہے جہاں خواجہ کا ذکر وہاں ان کے گدھے کا ذکر۔

تو بچو،خواجہ نصر الدین عرف خواجہ بخارا عرف مُلّا نصر الدین اپنے گدھے پر سوار ہندوستان کے سفر پر آئے ہوئے ہیں، ہوشیار چمکتی ہوئی آنکھوں، سانولے چہرے پر سیاہ داڑھی اُگائے، پھٹی پرانی قبا اور سر پر میلی کچیلی ٹوپی کے ساتھ کوئی شخص گدھے پر سوار یا اپنے گدھے کو تھامے کہیں نظر آ جائے تو بلا تکلف اُسے روک لیجیے ورنہ آپ ایک بہت بڑی شخصیت کے حقیقی دیدار سے محروم ہو جائیں گے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے خواجہ کو ایک شام پُر تکلف کھانا ضرور کھلائیے، ہاں جب بھی خواجہ کو مدعو کیجیے تو یہ ہرگز نہ بھولیے کہ ان کے گدھے کے لیے ہری ہری گھاس کی بھی ضرورت ہو گی۔ ایسا نہ ہو گا تو گدھا بدک جائے گا، خدانخواستہ گدھا بدکا تو یہ سمجھئے کہ خواجہ بخارا عرف مُلّا نصر الدین بدکے۔

ایک شام انڈیا گیٹ سے سرپٹ جو اپنا گدھا دوڑایا تو خواجہ بخارا عرف مُلّا نصر الدین نے بوٹ کلب کے میدان کے پاس ہی آ کر دَم لیا۔

بوٹ کلب پر اتنی بھیڑ تھی کہ اللہ توبہ کوئی جلسہ ہو رہا تھا اور نیتا لوگ تابڑ توڑ اپنا بھاشن داغ رہے تھے۔ مُلّا جی اپنے گدھے کو لیے ایک طرف بیٹھ گئے، گدھا بھوکا تھا اور خواجہ بخارا کو بھی بھوک لگ رہی تھی۔ گدھا اطمینان سے پیٹ بھر نے لگا اس لیے کہ لان میں ہری ہری گھاس موجود تھی، مُلّا نصر الدین کی نظر سامنے کھڑے خوانچے والے کے اُوپر تھی کہ جس کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا، انھیں معلوم نہ تھا کہ خوانچے والا کیا فروخت کر رہا ہے۔ سوچ رہے تھے بھیڑ چھٹ جائے تو دیکھیں اس کے پاس کیا ہے۔

بچو، تم سب جانتے ہو کہ اپنے دیش کے نیتا لوگ کیا پسند کرتے ہیں۔ ایک عدد مائیکروفون اور ایک اسٹیج۔ سننے والے دو چار ہی کیوں نہ ہوں، یہاں اسٹیج بھی تھا، مائیکروفون بھی اور جنتا بھی، بھلا کس بات کی کمی تھی، نیتا لوگوں کی پھٹی پھٹی آوازوں سے کان کے پردے پھٹ رہے تھے۔ درمیان میں نعرے بھی بلند ہو رہے تھے، زندہ باد، مردہ باد۔ مُلّا نصر الدین کے لیے یہ عجیب و غریب منظر تھا، سوچنے لگے یہ لوگ دیوانے ہیں یا خون کے پیاسے۔ یہ بات بخوبی سمجھ رہے تھے کہ جو نیتا لوگ بھاشن دے رہے ہیں وہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔ اپنے لفظوں سے نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مُلّا جی سوچنے لگے عجیب بات ہے۔ کہنے کو یہ لوگ رہنما ہیں اور باتیں نفرت کی کرتے ہیں۔ اس سے تو نقصان اُن کے اپنے لوگوں کا ہی ہو گا۔ اپنے ملک کا ہو گا۔ جب خواجہ صاحب دہلی پہنچے تھے تو اُنھوں نے ایک شخص سے پوچھا تھا ’’میاں دلّی کا کیا حال ہے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا تھا ’’کیا پوچھتے ہو صاحب، ہر جانب صرف دھما چوکڑی ہے۔‘‘ اب مُلّا جی کی سمجھ میں دھما چوکڑی کا مطلب سمجھ میں آیا۔ اچانک جلسہ ختم ہوا اور مُلّا جی نے دیکھا ایک بھگدڑ مچ گئی ہے۔ لوگ ہیں کہ بس ایک دوسرے پر لڑھکتے جا رہے ہیں، کچھ لوگ پستے جا رہے ہیں لیکن نیچے گر کر بھی اپنی بتیسی نکالے ہوئے ہیں جیسے ان کے جوڑوں کا درد ٹھیک ہو رہا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام خوانچے والوں کی چلتی پھرتی دُکانیں لٹنے لگیں۔ خوانچہ والے آئس کریم والے سب اس طرح بھاگ رہے تھے جیسے دُم دبا کر بھاگ رہے ہوں۔ خواجہ بخارا کو بصرہ کا وہ ساربان یاد آ گیا بچوّ، جسے آہنگر نے قرض وصول کرنے کے لیے صرف ایک طمانچہ رسید کیا تھا اور وہ اپنی اُونٹنی چھوڑ سرپٹ دوڑا تھا جیسے اس کے پیچھے بوتل کا جن نکل آیا ہو۔

خواجہ نصر الدین سوچ رہے تھے لوگ اطمینان سے کیوں نہیں نکل رہے ہیں، یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ وہ یہ کہ وہ لوگ جو نیتا لوگوں کا بھاشن سن رہے تھے آپس میں لڑنے لگے، دھول اُڑنے لگی، چیخ پکار، نعرے بازی، مُلّا جی کا گدھا بھی گھاس چھوڑ کر اُس جانب دیکھنے لگا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تو لگا ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے۔ مُلّا جی نے اُسے ڈانٹا، کہا: ’’اے عقلمند گدھے تجھے کیا ہو گیا ہے، یہ لوگ تو تقریریں سن کر باؤلے ہو رہے ہیں۔ نفرت اپنی جھولی میں بھر بھر کر لیے جا رہے ہیں، لڑتے بھی جا رہے ہیں اور نفرت سے جھولی بھرتے بھی جا رہے ہیں، ذرا اُن کی آوازیں تھم جائیں پھر اپنا راگ سنانے کی کوشش کر۔‘‘ گدھا اپنے مالک کی بات فوراً سمجھ گیا اور خاموش ہو گیا۔

مُلّا جی نے سرد آہ بھر کر کہا: ’’میرے پیارے گدھے تو نیتاؤں سے بہت اچھا ہے تو مدد کرنے والا جانور ہے اور وہ — وہ نفرت پھیلانے والے لوگ!میرے پیارے گدھے، میں نے بخارا میں سنا تھا کہ اِس ملک میں بھوک ہے، بیکاری اور بیروزگاری ہے۔ غریبی اور مہنگائی ہے۔ سیلاب اور خشک سالی ہے، اتنی ساری بیماریاں ہیں، پھر یہ نئی بیماری نفرت کی کہاں سے ٹپک پڑی۔‘‘ گدھے نے ان کی باتیں سنتے ہوئے ایک بار ’ڈھینچو‘ کہا یعنی مالک آپ ٹھیک فرما رہے ہیں اور خاموش ہو گیا۔

جب اندھیرا ہونے لگا تو مُلّا نصر الدین اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے۔ ایک شخص دوسری جانب سے دوڑا آ رہا تھا۔ اس نے مُلّا جی کو گدھے پر سوار دیکھا تو ہانپتے ہوئے بولا: ’’حضرت آپ جو بھی ہوں یہاں سے چلے جائیے، اُس طرف پولیس کی گولیاں چل رہی ہیں۔ آپ خواہ مخواہ شہید ہونا کیوں چاہتے ہیں۔‘‘

مُلّا نصر الدین نے اُس شخص کو روک کر کہا: ’’السلام علیکم۔‘‘

اُس شخص نے کہا: ’’وعلیکم السلام۔ کہنے کا میرے پاس وقت نہیں ہے، میں تو بھاگ رہا ہوں، سنا ہے کہ بھاگنے والے سلام کا جواب دیتے ہیں تو پیچھے سے شیطان اُسے دبوچ لیتا ہے۔‘‘ وہ شخص بری طرح ہانپ رہا تھا۔

مُلّا نصر الدین مسکراتے ہوئے بولے: ’’میاں جو ہو رہا ہے ہونے دو میں تو کبیر داس کی تلاش کر رہا ہوں۔ وہ مجھے مل جائیں تو ہم دونوں حالات پر قابو پالیں گے۔‘‘

’’کون کبیر داس؟ وہ برسے کمبل بھیگے پانی والے کبیر داس؟‘‘ اُس شخص نے پوچھا۔

’’ہاں وہی کہاں ملیں گے؟‘‘ مُلّا نصر الدین نے پوچھا۔

’’وہ تو ہمارے حال پر ماتم کرتے ہوئے جانے کہاں گم ہو گئے، اُنھوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا لیکن کسی نے اُن کی بات نہیں مانی، پھر وہ چلے گئے، مجھے معاف کیجیے میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘وہ شخص پھر دوڑنے لگا۔

مُلّا نصر الدین نے کہا: ’’آپ شوق سے دوڑیئے، صرف ایک پیغام ہے میرا اسے اس ملک کے تمام لوگوں تک پہنچا دیجیے، یہ پیغام دراصل داس کبیر کا ہے اور اب میرا بھی سمجھئے، لوگوں سے کہئے اس پیغام کو پانی میں گھول کر پی جائیں، اللہ شفا دے گا۔‘‘

’’جلدی بتائیے پیغام کیا ہے، میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘ اس شخص نے کہا۔

’’میرا پیغام یہ ہے، اِسے پڑھ لیجیے، یاد کر لیجیے اور اس ملک کے تمام لوگوں سے کہئے یہ بابا کبیر داس کا پیغام ایک بار پھر سن لو۔ مُلّا نصر الدین یہی پیغام سن کر بخارا سے ہندوستان آئے ہیں۔‘‘

’’آپ جلدی سے پہلے پیغام تو پڑھئے میں دَوڑ رہا ہوں۔‘‘ اس شخص نے کہا۔

مُلّا نصر الدین نے داس کبیر کا یہ شعر پڑھا:

چھینہ بڑھے چھن اوترے سو تو پریم نہ ہوئے

اگھٹ پریم پنجر بسے پریم کہاوے سوئے

’’اس کا مطلب جلدی سے بتایئے میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘ اس شخص نے گزارش کی۔

مُلّا نصر الدین نے کہا: ’’میاں اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ایک لمحے میں چڑھے اور دوسرے لمحے میں اُتر جائے وہ محبت نہیں ہوتی جب ایسی محبت انسان میں پیدا ہو جو کم ہونے والی نہ ہو وہی محبت کہلاتی ہے۔‘‘

اُس شخص نے کہا: ’’بہت خوب بہت خوب۔ بابا کبیر داس کا جو پیغام آپ لائے ہیں میں اسے ملک کے تمام لوگوں تک پہنچا دوں گا۔ میں دوڑ رہا ہوں، دوڑتے دوڑتے ہر گھر میں یہ بات پہنچا دوں گا۔اب چلا اس لیے کہ میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘

مُلّا نصر الدین مسکرائے اور گدھے پر سوار جامع مسجد علاقے کی طرف روانہ ہو گئے۔ اُن کی زبان پر یہ مصرع تھا:

اگھٹ پریم پنجر بسے پریم کہاوے سوئے

٭٭٭

 

 

 

 مکھی اور مکڑا

 

پیارے بچو،آپ علاّمہ اقبالؒ سے تو خوب واقف ہوں گے۔ اُردو اور فارسی زبانوں کے مایہ ناز شاعر، وہی علاّمہ اقبال کہ جنھوں نے آپ سب کے لیے ترانۂ ہندی لکھا تھا: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا— اور کیا لکھا تھا؟ ذرا بتائیے۔ جی ہاں ٹھیک کہا آپ نے: لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری، دُور دُنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے، ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے— اور: ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت، جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت۔

ایک صبح محمد اقبال چادر اوڑھے صحن میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے ، سوچ میں گم تھے، شاعر جو تھے اور فلسفی بھی۔ بھلا وہ کیوں نہ سوچتے۔ بیٹھے سوچ رہے تھے اور حقیّ کا کش بھی لے رہے تھے کہ اچانک اُن کی نظر سامنے ایک پودے پر پڑی جہاں ایک مکڑا بہت ہی خوبصورت جال بُن رہا تھا۔ تیز تیز، سورج کی کرنوں سے مکڑے کا جال چمک رہا تھا۔ علاّمہ اقبال مکڑے کے تیز عمل کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ سوچ رہے تھے اللہ کی عجیب قدرت ہے یہ نازک کمزور کیڑا کس خوبصورتی اور تیزی سے جال بُن رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جال مکمل ہو گیا اور مکڑا اس سے چپک گیا۔ علاّمہ کو مکڑے کی یہ تصویر بہت بھلی لگی۔ اُسی وقت کیا دیکھتے ہیں ایک مکھی آئی اور جال کے گرد گھومنے لگی۔ کبھی اِدھر بیٹھی، کبھی اُدھر، لیکن جال پر ایک بار بھی نہیں بیٹھی۔ مکڑے نے مکھی کو دیکھا تو اس سے مخاطب ہوا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے دونوں باتیں کر رہے ہوں۔ علاّمہ اقبال بے چین ہو گئے۔ چاہتے تھے وہ ان کی گفتگو سنیں۔آخر یہ دونوں کیا بات چیت کر رہے ہیں۔ بھلا انسان کس طرح سن سکتا ہے ان کی باتیں۔ انھوں نے اللہ سے دُعا کی، یا اللہ میرے کانوں میں اتنی طاقت دے دیجیے کہ ان دونوں کی باتیں سن سکوں۔ پھر کیا ہوا۔ اللہ پاک نے ان کے کانوں کو طاقت بخش دی اور وہ لگے مکڑے اور مکھی کی باتیں سننے، ہر بات صاف صاف سن رہے تھے۔ وہ حیران تھے کہ مکڑا بھی شاعر تھا اور مکھی بھی شاعرہ تھی۔ دونوں اپنی اپنی شاعری کا جوہر دِکھا رہے تھے۔

مکڑے کی آواز آئی: اے پیاری خوبصورت مکھی!

اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا

لیکن میری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت

بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا

پھر تر نم سے اپنا شعر پڑھنے لگا:

آؤ جو مرے گھر میں تو عزّت ہے یہ میری

وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا

مکھی مسکرانے لگی۔ مکڑے کا تر نم اُسے ا چھا تو لگا لیکن اس طرح جواب دینے لگی:

حضرت! کسی نادان کو دیجیے گا یہ دھوکا!

اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے

جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اُترا

علاّمہ اقبال ان دونوں کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس بات کا بھی دھیان نہ رہا کہ اُن کا حقہ ٹھنڈا ہونے کو آ رہا ہے۔اُنھیں لگ رہا تھا جیسے کوئی مشاعرہ سن رہے ہیں۔ اچانک مکڑے کی آواز سنائی دی۔ میں فریبی نہیں ہوں، تم اتنی نادان کیوں ہو، غور سے سنو تو میں کیا عرض کر رہا ہوں۔ پھر تر نم سے اپنا ایک شعر پیش کیا:

منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ

کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا

بی مکھی مَیں تو تمھاری خاطر کرنا چاہتا ہوں، جانے کہاں کہاں اُڑتی پھرتی ہو، یہاں بھی میرے گھر کا چکر لگا رہی ہو۔ایک بار تو آ جاؤ اندر، پھر متر نم لہجے میں بولا:

ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا؟

کہنے لگا میں نے اپنے گھر میں کئی چیزیں تم کو دِکھانے کے لیے رکھی ہیں، اگرچہ باہر سے یہ چھوٹی سی کٹیا نظر آتی ہے۔ ذرا غور سے دیکھو دروازوں پر کیسے البیلے باریک پردے لگا رکھے ہیں، دیواروں کو آئینوں سے سجا رکھا ہے، مہمانوں کے آرام کے لیے بچھونے لگے ہوئے ہیں۔ مکھی نے فوراً جواب دیا:

ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے

سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اُٹھ نہیں سکتا

مکڑے نے غالباً یہ سوچا خوشامد کے بغیر کام نہیں چلے گا، سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں۔خوشامدانہ لہجے میں کہا، بڑی بی:

اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رُتبہ

اور پھر تر نم سے اپنے اشعار سنانے لگا:

ہوتی ہے اُسے آپ کی صورت سے محبت

ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا

آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں

سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا

یہ حسن ، یہ پوشاک ، یہ خوبی ، یہ صفائی

پھر اس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا

اپنی تعریف سنتے ہی مکھی پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی، کہا آپ سے مجھے کوئی کھٹکا نہیں ہے:

انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں

سچ یہ ہے کہ دِل توڑنا ا چھا نہیں ہوتا

بچو جانتے ہو پھر کیا ہوا،مکھی اُڑ کر جال پر بیٹھی، پاس آئی ہی تھی کہ مکڑے نے اُچھل کر اُسے دبوچ لیا:

بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی

آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اُڑایا!

علاّمہ اقبال جانتے تھے کہ مکھی نے اگر مکڑے کی خوشامد اور چاپلوسی کو نہ پہچانا تو انجام یقیناً برا ہو گا اور وہی ہوا، مکڑے کی خوشامد کو مکھی پہچان نہ سکی اور چالاک مکڑے کا شکار بن گئی۔

حقہ ٹھنڈا ہو گیا تھا،علاّمہ اقبال صحن سے اُٹھے اور اندر جاتے ہوئے سوچ رہے تھے خوشامد پسندوں کی باتیں سن کر انسان تو انسان کیڑے مکوڑے بھی نرم پڑ جاتے ہیں— اور کبھی اتنے نرم، اتنے نرم کہ ان کا وجود ہی مٹ جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کہانی مہاراجا رنجیت سنگھ اور فقیر عزیز الدین کی

 

آج بابا سائیں کی دوسری کہانی سنو:

تم سب نے مہاراجا رنجیت سنگھ کا نام ضرور سنا ہو گا۔ پنجاب کے راجا تھے، لوگوں سے بہت پیار کرتے تھے اور لوگ بھی ان سے پیار کرتے تھے۔ ان کی بڑی عزّت تھی، ہندو مسلم سب مل جل کر رہتے اور اپنے مہاراجا کا گن گاتے۔

فقیر عزیز الدین مہاراجا رنجیت سنگھ کے وزیر اعظم تھے۔ اتنے اچھیّ تھے اتنے اچھیّ کہ لوگ اُنھیں بھی چاہنے لگے تھے، پنجاب میں مہاراجا رنجیت سنگھ کی مٹّی کی مورتیاں بنتی تھیں تو ساتھ ہی فقیر عزیز الدین کی مورتیاں بھی بنتی تھیں، لوگ اور خاص طور پر بچیّ مہاراجا اور فقیر عزیز الدین کی مورتیاں اپنے گھروں میں سجاتے تھے۔

ایک بار مہاراجا رنجیت سنگھ ایک جنگل سے گزر رہے تھے تو کسی جنگلی جانور نے ان کے گھوڑے پر حملہ کر دیا تھا، مہاراجا گھوڑے سے نیچے گرے تو وہ جنگلی جانور ان پر جھپٹا، اسی وقت فقیر عزیز الدین نے اپنی تلوار سے اس جنگلی جانور کے دو ٹکڑے کر دِیے۔ تب سے مہاراجا اپنے وزیر اعظم کو بہت پیار کرنے لگے تھے۔ فقیر عزیز الدین کے مشورے کے بغیر وہ کوئی بھی کام نہیں کرتے۔

مہاراجا کے دربار میں دو وزیر تھے۔ ایک کا نام ڈاگا سنگھ تھا اور دوسرے کا باٹے خاں۔ دونوں چاہتے تھے کسی طرح وزیر اعظم فقیر عزیز الدین کو ختم کر دیا جائے۔ وہ خود وزیر اعظم اور مہاراجا کے خاص صلاح کار بننا چاہتے تھے، اگر فقیر عزیز الدین نہ رہتے تو ڈاگا سنگھ وزیر اعظم ہو جاتا اور باٹے خاں مہاراجا کا خاص صلاح کار بن جاتا۔ ڈاگا سنگھ اور باٹے خاں نے سازش کی۔ ایک رات باٹے خاں نے ڈاگا سنگھ کو بلایا اور دونوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ دوسری رات کو وہ دونوں چپکے سے فقیر عزیز الدین یعنی وزیر اعظم کے گھر پر جائیں گے اور انھیں قتل کر دیں گے۔ اتفاق دیکھو جب باٹے خاں اور ڈاگا سنگھ باتیں کر رہے تھے تو باٹے خاں کا بیٹا عامر چپکے چپکے لحاف میں دُبکا اُن کی باتیں سن رہا تھا، جب ڈاگا سنگھ چلا گیا اور باٹے خاں سو گیا تو عامر آہستہ سے اُٹھا، ایک چادر لپیٹی اور چپکے سے باہر نکل گیا اور پھر دوڑا مہاراجا رنجیت سنگھ کے محل کی طرف، دوڑتا دوڑتا محل تک پہنچا تو پہرے داروں نے عامر کو روک لیا، پہرے دار سوچنے لگے اتنی رات گئے اتنا چھوٹا لڑکا محل کے پاس کیوں آیا ہے؟

عامر نے کہا ’’میں مہاراجا سے ملنا چاہتا ہوں بہت ضروری ہے۔‘‘

’’مہاراجا سو رہے ہیں، تم اتنی رات گئے کیوں آئے ہو بھلا، جاؤ صبح آنا۔‘‘ ایک پہرے دار نے عامر سے کہا۔

عامر نے کہا ’’مجھے مہاراجا سے ابھی ملنا ہے، اسی وقت ملنا ہے۔ تم اُنھیں خبر کر دو۔‘‘ جب پہرے داروں نے انکار کیا تو عامر نے چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیا۔ اس کی آواز گونجنے لگی۔ پہرے دار گھبرا گئے۔ عامر تھا کہ چپ ہی نہیں ہو رہا تھا۔ ہوا یہ کہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی نیند ٹوٹ گئی اور وہ باہر آئے۔ پوچھا ’’ماجرا کیا ہے، یہ بچہّ کیوں رو رہا ہے؟‘‘

پہرے داروں نے سبب بتایا تو مہاراجا رنجیت سنگھ نے کہا ’’بچیّ کو اندر لے آؤ۔‘‘ عامر اب خاموش ہو گیا تھا۔ سپاہی اُسے لے کر مہاراجا کے پاس گئے تو مہاراجا نے عامر سے پوچھا ’’کیا بات ہے؟ تم اس وقت مجھ سے ملنا کیوں چاہتے تھے؟‘‘

عامر نے مہاراجا کو بتایا کہ کس طرح ڈاگا سنگھ اور اس کے والد باٹے خاں نے وزیر اعظم فقیر عزیز الدین کو قتل کرنے کی سازش کی ہے، یہ بھی بتایا کہ یہ دونوں وزیر اعظم کو قتل کرنے کل رات کو اُن کے مکان پر جائیں گے۔

مہاراجا رنجیت سنگھ اس خبر سے چوکنیّ ہو گئے۔ اُنھیں چوکناّ ہونا ہی تھا اس لیے کہ عامر نے عجیب خبر سنائی تھی۔ اُنھوں نے عامر کو پیار کیا، کہا ’’بیٹے تم فکر نہ کرو میں دیکھ لوں گا، ہاں تم کسی سے اس بات کا ذکر نہ کرنا۔ ‘‘ عامر نے کسی سے بھی ذکر نہ کرنے کا وعدہ کیا اور واپس گھر چلا گیا۔

جب دوسری رات آئی تو مہاراجا رنجیت سنگھ اپنے سپاہیوں کے ساتھ وزیر اعظم فقیر عزیز الدین کے گھر پہنچے اور ایک جانب چھپ کر کھڑے ہو گئے۔کچھ دیر بعد یعنی جب کچھ رات گزر گئی تو دیکھتے ہیں کہ ڈاگا سنگھ اور باٹے خاں فقیر عزیز الدین کے گھر کی جانب آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں، ان کے ہاتھ میں ایک سیڑھی ہے جس کی مدد سے وہ اُوپر چڑھنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں نے سیڑھی لگائی اور آہستہ آہستہ اُوپر چڑھنے لگے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ اپنے سپاہیوں کے ساتھ ابھی ان دونوں پر حملہ کرنا ہی چاہتے تھے کہ دیکھا سیڑھی کھسکی اور دونوں ڈاگا سنگھ اور باٹے خاں نیچے دھڑام سے گرے، مہاراجا کے سپاہیوں نے فوراً دونوں کو گھیر کر گرفتار کر لیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے دیکھا عامر میاں پاس ہی کھڑے مسکرا رہے ہیں، وہ سمجھ گئے کہ عامر میاں ہی نے سیڑھی گرائی ہے اور اس کی وجہ سے یہ دونوں ڈاگا سنگھ اور باٹے خاں نیچے دھڑام سے گرے ہیں۔

دیکھا بچو، عامر میاں نے کتنا بڑا کام کیا، فقیر عزیز الدین کی جان بچ گئی، مہاراجا رنجیت سنگھ بہت خوش ہوئے، انھوں نے عامر میاں کی تعلیم کا سارا خرچ برداشت کرنے کا اعلان کیا اور عامر میاں کا منہ– جناب ان کا منہ اچھی اچھی مٹھائیوں سے بھر دیا! ہاں!

تو اس طرح بچی جان مہاراجا رنجیت سنگھ کے وزیر اعظم فقیر عزیز الدین کی!!

کیسی لگی یہ کہانی؟ اپنی رائے بابا سائیں کو ضرور لکھو۔

ایک بات بتاؤں؟ یہ کہانی جب بابا سائیں نے اپنے محلّے کے چھوٹے بچوں کو سنائی تو اُنھوں نے دو چار دن کے اندر ایک گھر میں اسٹیج بنا لیا اور اس کہانی کو ڈراما بنا کر سب محلّے والوں کے سامنے پیش کر دیا۔ کمال کر دیا اُنھوں نے، بابا سائیں بھی حیران تھے۔

تم بھی چاہو بچو تو اس کہانی کو ڈراما بنا کر کھیل سکتے ہو، ایک بچہ بنے گا مہاراجا رنجیت سنگھ، دوسرا بنے گا فقیر عزیز الدین، کئی بچیّ سپاہی اور پہرے دار بنیں گے— ارے میں تو بھول ہی گیا، ایک سمجھ دار بچہ بنے گا– عامر، وہی عامر میاں جن کی وجہ سے وزیر اعظم کی جان بچی، وہ سیڑھی نہ گراتے تو سازشی بھلا دھڑام سے نیچے کس طرح گرتے!

٭٭٭

 

 

 

ہمایوں اور موٹو کی کہانی

 

 

ہندوستان کے مشہور مغل بادشاہ ہمایوں کی امّاں کا نام ماہم بیگم تھا، ہمایوں کے والد شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی رفیقۂ حیات کو شادی کے بعد ہی سے ماہم کہنا شروع کر دیا تھا یعنی ’چاند۔‘ بہت ہی خوبصورت تھیں نا ہمایوں کی امّاں، اسی لیے! ننھا ہمایوں بیمار ہوتا تو لگتا امّاں بی خود بیمار ہو گئی ہیں، دن رات اپنے پیارے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی تھیں، آگرہ کے لوگ ماہم بیگم کی بہت عزّت کرتے تھے اور سب اُنھیں پیار سے اماّں کہتے تھے۔ امّاں ماہم بیگم بھی شہر کے لوگوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ہر تہوار پر، وہ تہوار ہندوؤں کا ہو یا مسلمانوں کا، پورے قلعے پر چراغ روشن کراتیں، مٹھائیاں تقسیم کراتیں، شہر بھر کے بچوّں کو بلاتیں تاکہ وہ ننھے ہمایوں کے پاس آ کر کھیلیں اور خوب مٹھائیاں کھائیں۔ اماّں ماہم بیگم کو بچوّں سے بیحد پیار تھا، قلعے میں جو بچیّ آتے اُن میں ایک بہت ہی پیارا سا بچہ تھا موٹو، بہت موٹا تھا اور خوب کھاتا تھا اسی لیے اس کا نام موٹو ہو گیا تھا۔ اماّں ماہم بیگم اور ہمایوں دونوں موٹو کو بہت پسند کرتے تھے ننھا موٹو اکثر آتا اور ہمایوں کے ساتھ کھیلتا دونوں دوست بن گئے تھے۔ ہاں، ہمایوں اکثر کہتا ’’موٹو کھانا کم کھایا کر ورنہ پیٹ پھٹ جائے گا۔‘‘

موٹو کے باپ کا نام ہیرا تھا جو دودھ فروخت کیا کرتا تھا اور اُسی سے گزارا کرتا تھا، ننھے موٹو کی سب سے اچھی سواری بھینس تھی، وہ دن بھر بھینس کے اُوپر بیٹھ کر اپنے پتا جی کی بھینسوں کو چراتا تھا، ندی پار جو کھیت تھا موٹو وہیں اپنی بھینسوں کو چراتا تھا اور ننھا ہمایوں اور اس کی امّاں ماہم بیگم دونوں قلعے کے اوپر سے بہت دُور سے اسے دیکھتے اور خوش ہوتے تھے، موٹو کو قلعے میں اتنا پیار ملا کہ اس کے آنے جانے کی کسی قسم کی رُکاوٹ نہ تھی، وہ جب چاہتا ننھے ہمایوں سے ملنے آ جاتا، امّاں ماہم بیگم اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتیں، اسی طرح کہ جس طرح اپنے بیٹے ہمایوں کو کھلاتی تھیں۔

آہستہ آہستہ ہمایوں اور موٹو دونوں بڑے ہوتے گئے، وقت تیزی سے گزرتا گیا، ایک دن ہمایوں نے ضد کی کہ وہ موٹو کے ساتھ کھیت پر جائے گا اور موٹو کی طرح کسی بھینس پر بیٹھے گا، ہمایوں شہزادہ تھا بہت اچھا گھوڑا سوار بن رہا تھا لیکن بھینس پر بھی بیٹھنا چاہتا تھا۔ امّاں ماہم بیگم نے اجازت دے دی، ہمایوں بہت خوش ہو گیا، چند سپاہیوں کی نگرانی میں کھیت پر پہنچا موٹو اپنی بھینس پر لیٹا مستی مار رہا تھا، موٹو ہمایوں کو دیکھ کر بہت خوش ہو گیا، بھینس سے نیچے اتر آیا اور سپاہیوں کی مدد سے ہمایوں بھینس پر چڑھ گیا، اب تو اس کی خوشی مت پوچھو، اسے یہ سواری بہت اچھی لگ رہی تھی، موٹو دوسری بھینس پر بیٹھ گیا، اور دونوں مست کھیلتے رہے، جب خوب کھیل چکے تو اپنی اپنی بھینسوں سے نیچے اُترے۔

ایسا ہوا بچو کہ ہمایوں جیسے نیچے اُترا ایک زہریلے سانپ نے اسے ڈس لیا اور ہمایوں کی حالت خراب ہونے لگی۔ سپاہیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں، موٹو نے جب اپنے دوست کی یہ حالت دیکھی تو فوراً اپنی قمیص پھاڑ ڈالی اور ہمایوں کی ٹانگ پر زخم کے اوپر نیچے دو پٹیاں کس کر باندھ دیں تاکہ زہر نہ پھیلے، موٹو کی تیزی اور چستی دیکھ کر سپاہی بھی حیران رہ گئے، ہمایوں کو قلعہ لایا گیا موٹو بھی ساتھ ساتھ آیا، شاہی حکیم صاحب آئے، انھوں نے علاج کیا اور ہمایوں اچھا ہو گیا۔ شاہی حکیم صاحب نے امّاں ماہم بیگم سے کہا ’’اگر موٹو نے اس وقت ہمایوں کے پاؤں پر پٹیاں نہ باندھی ہوتیں تو زہر پورے جسم میں پھیل جاتا، یہ بھینس والا موٹو بہت ذہین اور ہوشیار ہے۔‘‘

امّاں ماہم بیگم اور شہنشاہ بابر دونوں موٹو سے بہت خوش ہوئے، موٹو کو اپنے قلعے میں رکھ لیا، اس کی تعلیم تربیت کا انتظام کیا اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا شروع کیا۔

جب شہنشاہ بابر کا انتقال ہو گیا اور ہمایوں بادشاہ بنا تو اماّں ماہم بیگم نے ہمایوں کو یاد دلایا کہ کس طرح کھیت میں ناگ نے اسے کاٹا تھا اور کس طرح موٹو نے پٹیاں باندھ کر اس کی زندگی بچائی تھی۔ ہمایوں کو واقعہ یاد تھا، وہ موٹو کو بہت پیار کرتا تھا اور اسے اپنا دوست سمجھتا تھا، ہمایوں نے پوچھا ’’اماں بیگم میں موٹو کے لیے کیا کروں؟‘‘

امّاں بیگم نے کہا ’’موٹو کو اپنا ذاتی سپہ سالار بنا لو، وہ تمھارا سچاّ دوست ہے۔‘‘

ہمایوں نے فوراً حکم نامہ جاری کیا، موٹو شہنشاہ ہمایوں کا ذاتی سپہ سالار بن گیا، اماّں بیگم بہت خوش ہوئیں اور اپنے دونوں بیٹوں کو خوب پیار کیا۔

ہمایوں نے موٹو سے کہا ’’دیکھو موٹو کھانا زیادہ کھاؤ گے تو اور بھی موٹے ہو جاؤ گے، دوڑ میں سپاہی آگے نکل جائیں گے اور سپہ سالار پیچھے رہ جائے گا۔‘‘ سب ہنسنے لگے۔

جانتے ہو بچوّ، یہی موٹو سپہ سالار بساون کے نام سے مشہور ہوا اور جانے کتنے دشمنوں کو شاہی فوج کا سردار بن کر شکست دی۔ ہمایوں اور بساون عرف موٹو کے پیار کی کہانی بھلا کون بھول سکتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

بابا گرو نانک اور بچیّ

 

 

پیارے بچو! تم نے بابا گرو نانک دیو جی کا نام ضرور سنا ہو گا، اپنے ملک کے بہت بڑے صوفی سنت تھے۔ سکھ بھائیوں کے پہلے گرو تھے، اُن کی اعلیٰ رُوحانی باتیں ’’جپ جی صاحب‘‘ میں محفوظ ہیں۔ اُنھوں نے اللہ، انسان، زندگی اور رُوحانی باتوں کو طرح طرح سے سمجھایا ہے، وہ ایک ’’اونکار‘‘ یعنی ایک خدا کے ماننے والے تھے اور لوگوں کو یہی تعلیم دیتے تھے کہ خدا ایک ہے، اُس کی تعریف کرو، اُسی نے یہ دُنیا بنائی ہے، آسمانوں کو ستاروں سے سجایا ہے، وہی زندگی دیتا ہے، موت دیتا ہے، اسی کے گن گاتے رہو۔

بابا گرو نانک حمد اور کیرتن کی ترغیب دیا کرتے، خود اُن کی حمد ’’جپ جی صاحب‘‘ دُنیا کی تمام زبانوں میں ممتاز درجہ رکھتی ہے۔ وہ ہلکی ا چھی موسیقی کے بھی دلدادہ تھے، اُن کے ساتھی مرداناؔ بہت ا چھا رباب بجاتے، بابا نانک کے ساتھ رہتے، رباب بجاتے ہوئے حمد سناتے اور بابا عشقِ الٰہی کے سرور میں آنکھیں بند کیے جھومتے رہتے، بابا نانک جہاں بھی گئے اُن کے ساتھی مرداناؔ ساتھ رہے۔ تبّت، سری لنکا، مکۂ معظمہ ہر جگہ ساتھ تھے۔ رباب پر اُن کی حمد سننے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی اور لوگ ذکرِ الٰہی سن کر جھومنے لگتے تھے۔

ایک صبح ایک چھوٹے سے ٹیلے پر بابا نانک آنکھیں بند کیے اللہ کی یاد میں ڈُوبے ہوئے تھے۔ مرداناؔ کے رباب اور حمد کی پیاری آواز گونج رہی تھی کہ اچانک ٹیلے سے نیچے کچھ لڑکوں اور بچوں کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں۔ بابا نانک بچوں سے بہت پیار کرتے تھے اور اُنھیں بچوّں کی ہنسی بہت پسند تھی۔ بچوّں کی ہنسی سن کر اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور بچوّں لڑکوں کو خوش خوش کھیلتے دیکھ کر اُن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی، اشارے سے اپنے ساتھ مرداناؔ کو رباب بجانے سے روک دیا، بولے: ’’مرداناؔ، بچوّں کے چہروں پر مجھے اللہ کا نور نظر آتا ہے اور ان کی ہنسی رباب کی آواز سے بھی بھلی لگتی ہے۔ ذرا دیکھو اُن کے چہروں کو کیسا نور ہے اور سنو اُن کی ہنسی تمھارے رباب سے بھلا ایسی موسیقی کب نکل سکتی ہے۔ رباب رُک گیا، نغمہ رُک گیا اب صرف بچوّں کے ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں، وہ مست کھیل میں مشغول تھے اور بڑے خوش تھے۔ بابا نانک اور مرداناؔ دونوں اُنھیں دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔

تھوڑی دیر بعد دو لڑکوں میں مقابلہ ہوا۔ دوڑنے میں کون آگے نکلتا ہے، دونوں دوڑے، دوڑتے دوڑتے ایک لڑکا اچانک رُک گیا، دوسرا دوڑتا ہوا آگے نکل گیا اور اسے انعام ملا۔ بابا گرو نانک دیو جی کو یہ بات عجیب سی لگی۔ آخر یہ لڑکا اچانک رُک کیوں گیا، دوڑتا رہتا تو ممکن ہے وہی آگے نکل جاتا۔ اُنھوں نے مرداناؔ سے کہا ذرا اُس لڑکے کو بلاؤ جو دوڑتے ہوئے اچانک رُک گیا تھا۔ مرداناؔ نے اس لڑکے کو بلایا۔ بابا نانک نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا، پوچھا ’’بیٹے طبیعت تو ٹھیک ہے تمھاری ‘ تم دوڑتے دوڑتے اچانک رُک کیوں گئے، ہو سکتا تھا تم آگے نکل جاتے۔‘‘

لڑکے نے جواب یا: ’’بابا، بات یہ ہے کہ سامنے سے ایک بلّی گزر گئی، اس نے میرا راستہ کاٹ دیا۔ میری نانی امّاں نے کہا تھا، بیٹا چلتے ہوئے، دوڑتے ہوئے، کبھی بھی جاتے ہوئے اگر سامنے سے بلّی گزر جائے تو ا چھا شگون نہیں ہوتا۔ فوراً رُک جانا چاہیے یا راستہ بدل دینا چاہیے۔‘‘

’’یہ عجیب بات سن رہا ہوں بیٹے، بلّی سامنے سے گزر جائے تو بھلا اس کا برا اثر کس طرح پڑ سکتا ہے۔ بلّی بچاری اپنی راہ پر جا رہی تھی اور تم اپنی راہ پر، اگر وہ سامنے سے گزر گئی تو کیا ہوا۔‘‘

’’کہانا، نانی امّاں نے کہا ہے ا چھا شگون نہیں ہوتا، کون جانے میں دوڑتے دوڑتے گر جاتا اور مر جاتا۔‘‘

بابا نانک کو لڑکے کی باتیں سن کر حیرت تو ہوئی لیکن وہ ہنس بھی پڑے، بولے: ’’بیٹا ذرا اپنے تمام دوستوں کو میرے پاس بلاؤ۔ تمام بچیّ لڑکے بابا نانک کے پاس آ گئے تو بابا نے اُن سے کہا ’’دیکھو بچو! وہم سے ہمیشہ دُور رہا کرو۔‘‘

’’وہم کیا ہوتا ہے بابا؟‘‘ ایک لڑکے نے پوچھا۔

’’خواہ مخواہ دماغ کو غلط باتوں کی طرف لے جانا مثلاً بلّی نے راستہ کاٹ دیا تو ضرور نقصان ہو گا، دہی کھا کر امتحان دینے جائیں گے تو اچھا ہو گا، دہی کھا کر نہیں گئے تو امتحان خراب ہو گا، یہ سب بے کار فضول باتیں ہیں۔ اس طرح سوچنا نہیں چاہیے۔ اب دیکھو نا بچاری بلّی اپنی راہ پر جا رہی تھی اس لڑکے کو دوڑتے دیکھ کر اس کے سامنے سے دوڑ گئی۔ اس سے کیا ہوا شگون خراب ہو گیا۔ نہیں بیٹے نہیں، اس طرح سوچنا ہی غلط ہے۔ دیکھو نا کچھ لوگ کہتے ہیں منگل کے دن پچھم کی طرف سفر نہ کرو یا سنیچر کے دن پورب کی طرف نہ جاؤ، کتنی عجیب بات ہے، ہر صبح، ہر دوپہر، ہر شام، ہر رات مالک کی وجہ سے ہے، یہ جو دن کے نام ہیں نا سوموار، منگل، بدھ، جمعرات وغیرہ یہ نام تو ہم نے دیے ہیں، یہ نام اللہ نے تو نہیں دیے۔ اللہ تو سورج کی روشنی دینے، دوپہر کی دھُوپ دینے، شام کی اچھی ہوائیں دینے، رات کی تاریکی اور روشنی دینے میں کوئی بخل تو نہیں کرتا۔ ہر دن ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ہم وہم کے شکار ہو جاتے ہیں، یہ دکھن، پچھم، پورب، اُترّ یہ سب نام تو بچو،ہم نے دیے ہیں سمت کی پہچان کے لیے اور ہم ہی وہم میں گرفتار ہو کر اُنھیں کبھی اچھا اور کبھی برا کہیں، کتنی عجیب بات ہے۔راستہ بلّی کاٹے یا کتاّ، اس سے ہمارا کیا بگڑ جاتا ہے۔ آئندہ ایسی سوچ سے دُور رہو اس سے صرف اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ ہم خواہ مخواہ فرسودہ باتوں کو لیے جی رہے ہیں، تم ہی بتاؤ اس طرح تم لوگ کیسے آگے بڑھو گے۔‘‘ میری ایک بات یاد رکھو جو اپنے دماغ کو فتح کر لے سمجھو وہ سب کچھ فتح کر سکتا ہے۔ اور جب تک تم اپنے دماغ سے ایسی بیکار سوچ کو الگ نہیں کرو گے دماغ کو فتح نہیں کر سکتے۔‘‘

بچیّ بابا گرو نانک دیو جی کی باتیں غور سے سن رہے تھے، بابا نے کہا ’’وہم کے بارے میں مجھے ایک کہانی یاد آ رہی ہے۔‘‘

بچوّں نے کہا ’’سنائیے سنائیے نا۔‘‘

بابا نے کہا ’’ایک شخص سویا ہوا تھا، خواب میں اُس نے دیکھا کہ اس نے ایک سانپ نگل لیا ہے، صبح اُٹھا، اُسے پیٹ میں سخت درد محسوس ہونے لگا۔ یہ بھول گیا کہ اس نے خواب دیکھا تھا اسے محسوس ہونے لگا جیسے وہ واقعہ سچ تھا۔ اُس نے واقعی سانپ نگل لیا ہے۔ سیدھے حکیم جی کے پاس پہنچا، بولا: ’’حکیم جی حکیم جی میں نے سانپ نگل لیا ہے۔ صبح سے میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے فوراً میرا علاج کیجیے۔‘‘ حکیم جی بہت گھبرائے، آخر اس شخص نے سانپ کیوں نگل لیا؟ بولے ’’میاں یہ تو بتاؤ بھوک لگی تھی تو کچھ اور کھا پی لیتے یہ سانپ کیوں نگل لیا۔ سانپ ملا کہاں؟ کتنا بڑا تھا؟ کیا اسے زندہ نگل گئے؟ یا اسے کاٹ کر کھایا۔‘‘ وہ شخص سوچنے لگا واقعی یہ تو یاد ہی نہیں کہ سانپ کہاں ملا، کتنا بڑا تھا، کیا میں اسے زندہ نگل گیا۔ ’’کس سوچ میں پڑ گئے میاں؟‘‘ حکیم جی نے کہا ’’کچھ یاد تو کرو، کچھ بولو تو آخر میں کس طرح علاج کروں گا۔‘‘ اس شخص کو اچانک یاد آیا کہ اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ سانپ کو نگل گیا ہے یہ سچائی نہیں ہے۔‘‘اس نے حکیم جی سے سچی بات بتا کر کہا ’’معاف کیجیے گا آپ کو زحمت دی۔‘‘ حکیم جی بولے ’’میاں زحمت کی بات کرتے ہو، تم نے تو مجھے اتنا ڈرا دیا تھا کہ لگتا تھا میں نے خود سانپ نگل لیا ہے۔آئندہ میاں ایسے وہم میں نہ پڑا کرو۔‘‘

تمام بچیّ ہنسنے لگے۔ بابا گرو نانک دیو جی کو اُن کا اس طرح ہنسنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اُنھوں نے بچوّں کو ایک بڑی بات سمجھا دی تھی۔ چلتے چلتے ہنستے ہوئے کہا ’’اب تم لوگ بھی خواب میں سانپ نگل کر اپنے وہم کو لیے حکیم جی کے پاس مت چلے جانا۔‘‘ وہم سے ہمیشہ دُور رہو، ہمیشہ دُور رہو۔ بابا گرو نانک آہستہ آہستہ آگے چلے گئے، ان کے پیچھے مرداناؔ رباب بجاتے اور حمد گاتے جا رہے تھے۔

تمام بچیّ یہ سوچتے ہوئے اپنے اپنے گھر چلے گئے کہ وہم بڑی خراب چیز ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

نام دیو جی کا کنواں

 

جب تم سبھوں کا بابا سائیں کالج میں پڑھ رہا تھا، گرمی کی تعطیل میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ سیر کے لیے بیکانیر گیا، بس یونہی گھومنے پھرنے سیر پاٹے کے لیے۔ خوب سیر کی، بیکانیر کے نزدیک ’’کولاوجی‘‘ نام کا ایک گاؤں ہے، بابا سائیں کا ایک دوست گندھر اسی گاؤں کا رہنے والا تھا، اس نے بتایا اس کے گاؤں میں ایک بہت گہرا کنواں ہے اس کا پانی بہت میٹھا ہے اس کنوئیں کو ’’نام دیو کا کنواں‘‘ کہتے ہیں جو بیکانیر آتا ہے وہ ’نام دیو کا کنواں‘ دیکھنے ضرور جاتا ہے۔

جانتے ہو کیوں؟ اس لیے کہ اپنے ملک کے بہت ہی مشہور سنت اور شاعر نام دیو جی نے خود یہ کنواں گاؤں والوں کی مدد سے کھودا تھا، دن رات ایک کر کے کنواں بنایا تھا، بات یہ تھی بچوّ کہ بیکانیر کے پاس اس گاؤں میں پانی کا کال پڑا تھا لوگ پانی کے لیے ترس رہے تھے۔ معلوم ہوا زمین ایسی نہیں ہے کہ پانی نکالا جا سکے، لوگ پانی کی تلاش میں دُور دُور جاتے تھے، کچھ خاندان گاؤں چھوڑ کر بھی چلے گئے، اچانک نام دیو جی اس گاؤں میں آ گئے اور بیٹھ گئے ایک بڑے گھنے درخت کے نیچے۔ پورے گاؤں میں بس یہی ایک گھنا درخت تھا جس کے نیچے وہ بیٹھے تھے۔ سنت سادھو تھے، بیٹھے تو اس درخت کے نیچے لیکن اُنھیں چین کب تھا، وہ تو اپنے مالک کی یاد میں ہر وقت ناچتے گاتے ہی رہتے تھے، جب دیکھو آنکھیں بند کیے خدا کی یاد میں ناچ رہے ہیں، گاؤں والوں نے سوچا اپنی تکلیف بابا کو بتا دیں شاید اُن کی دُعا سے زمین سے پانی نکل آئے۔ گاؤں والے بابا کے پاس گئے تو دیکھا سنت نام دیو آنکھیں بند کیے مالک کا نام لے لے کر ناچ رہے ہیں، اُنھیں ناچنے سے فرصت کب تھی جو گاؤں والوں کی تکلیف سنتے، گاؤں والے اس انتظار میں تھے کہ ان کا ناچ ختم ہو تو وہ اپنی تکلیف بتائیں۔ اسی وقت ایسا ہوا کہ گاؤں کا ایک چھوٹا سا پیارا سا لڑکا شیام مستی میں سنت نام دیو جی کے ساتھ اسی طرح ناچنے لگا کہ جس طرح نام دیو جی ناچ رہے تھے وہی گیت گانے لگا جو نام دیو جی گا رہے تھے، گاؤں کے لوگوں کو ڈر لگا کہیں بابا ناراض نہ ہو جائیں، اُنھوں نے چھوٹے سے لڑکے شیام کو بار بار روکا لیکن شیام تھا کہ بس ناچتا ہی جا رہا تھا ناچتا ہی جا رہا تھا۔

جانتے ہو اس کے بعد کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ نام دیو جی ناچتے ناچتے اچانک رُک گئے اور حیرت سے شیام کو دیکھنے لگے، اُنھیں سخت حیرت ہوئی کہ چھوٹا سا پیارا سا لڑکا اسی طرح ناچ رہا ہے کہ جس طرح وہ خود ناچ رہے ہیں، اسی طرح گا رہا ہے کہ جس طرح وہ خود گا رہے ہیں، دونوں جہاں کے مالک سے امن اور شانتی اور لوگوں کے درمیان پیار محبت کی بھیک اسی طرح مانگ رہا ہے کہ جس طرح وہ مانگ رہے ہیں۔ نام دیو جی کچھ دیر لڑکے کا ناچ دیکھتے رہے، اس کا گیت سنتے رہے، پھر آگے بڑھ کر شیام کو پیار کرنے لگے، شیام ناچتے ناچتے رُک گیا اور بہت ادب سے نام دیو جی کو پرنام کیا۔ نام دیو جی شیام کو پاکر بہت خوش تھے، پوچھا ’’بیٹے تمھارا نام کیا ہے؟‘‘ شیام نے جواب دیا ’’ میرا نام شیام ہے۔‘‘ سنت نام دیو جی نے ایک بار آنکھیں اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ’’آج سے نام دیو تمھارا نام شیام دیو رکھتا ہے، تم اب شیام دیو کہے جاؤ گے، بھگوان نے تمھیں پسند کر لیا ہے، تمھارا نام دُور دُور تک پھیلے گا۔ نام دیو جی نے شیام کا نام شیام دیو کر دیا اسے بہت دُعائیں دیں اور لگے گانے، اپنے گیت میں کہا۔ ’’ہم سب کا مالک ایک ہے وہی سب میں سمایا ہوا ہے، ایک دوسرے سے صرف پریم کرو، ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘ اسی وقت شیام نے نام دیو جی سے کہا ’’آپ ہم گاؤں والوں کی مدد کیجیے۔‘‘ نام دیو جی نے پوچھا ’’کیا مدد کروں میں بتاؤ، میرے کرنے کا ہو گا تو ضرور کروں گا۔‘‘ شیام نے کہا ’’ہم سب پانی کے لیے ترس رہے ہیں، کہیں پانی نہیں ہے۔ پانی کا کال پڑا ہوا ہے، آپ گاؤں کو ایک کنواں دے دیں، کہتے ہیں زمین کے نیچے پانی نہیں ملے گا، گاؤں والوں نے بہت کوشش کی کہیں پانی نہیں نکلا۔‘‘

نام دیوجی نے شیام کی باتیں سن کر کہا ’’بچیّ محنت کرنے سے سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے، سچائی یہ ہے کہ پانی زمین سے بہت نیچے ہے، کنواں جب تک گہرا کھودا نہ جائے گا پانی نہیں نکلے گا۔ مالک اب تم لوگوں کو پیاسا رہنے نہیں دے گا۔ جہاں تم ناچ رہے ہونا اس کے نیچے سے پانی نکلے گا، یقین نہیں آتا تو آؤ ہم سب کنواں کھودنا شروع کر دیں۔‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے نام دیو نے پھر ناچنا شروع کر دیا اور اپنے گیت سے مالک کو پکارنے لگے، بار بار گاتے رہے مالک مالک پانی دو، مالک مالک پانی دو، پھر گاؤں کے لوگ جمع ہو گئے اور نام دیو جی اس گھنے درخت کے نیچے کنواں کھودنے لگے۔ گاؤں والے بھی اس کام میں جٹ گئے اور کچھ ہی دنوں کے اندر اس گھنے درخت کے نیچے ایک گہرا کنواں تیاّر ہو گیا۔ کنویں کے پانی کو صاف کرنے کے لیے نام دیو جی خود کنویں کے اندر اترے اور لگے کنواں صاف کرنے، چند دنوں کے اندر کنواں صاف ہو گیا اور گاؤں والوں کو پانی ملنے لگا۔ نام دیو جی نے شیام کو خوب پیار کیا اور اس کے کان میں کچھ کہہ کر ناچتے گاتے گاؤں سے باہر چلے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ گاؤں والے اُنھیں اب تک بھولے نہیں ہیں۔ جب بھی اس کنویں کا میٹھا پانی پیتے ہیں نام دیو جی کو یاد کرتے ہیں۔ نام دیو جی، شیام اور کنویں کی کہانی آج بھی وہاں سنائی جاتی ہے، نام دیو جی کے جانے کے بعد شیام دیو روز صبح شام کنویں پر ناچتا تھا، پھر وہ بھی کہاں چلا گیا کوئی نہیں جانتا۔

بابا سائیں نے جب اُس کنویں کا پانی پیا تو لگا وہ انتہائی عمدہ میٹھا پانی پی رہے ہیں۔

بچوّ، تم جب بھی اُس گاؤں میں جانا اس کنویں کا پانی ضرور پینا۔ ایسا میٹھا پانی اس علاقے میں دُور دُور تک کسی بھی کنویں میں نہیں ملتا!

٭٭٭

 

 

 

قصہ لکھن لال جی کا

 

مجھے یاد ہے میں بہت چھوٹا تھا۔

وہ اچانک ہماری حویلی میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے تھے، انتہائی بھیانک چہرہ، کہیں سے بھالو، کہیں سے ہنومان اور کہیں سے لنگور، بڑے بڑے بال، ایک اُچھلتی لچکتی بڑی سی دُم، اُچھلتا ہوا میرے سامنے آن کھڑے ہوئے اور اُچھل اُچھل کر کہنے لگے:

’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررہے کھاں‘‘

میں ڈر سے تھر تھر کانپنے لگا۔ میرے ماموں کو شرارت سوجھی۔ انھوں نے مجھے پکڑ کر ان کے اور بھی قریب کر دیا اور اُنھوں نے مجھے گود میں لے لیا۔ پھر کیا تھا پوری حویلی میری چیخ سے گونجنے لگی، روتے روتے بے حال ہو گیا، تم نہیں جانتے بچوّ میرا کیا حال ہو گیا۔ جب اُنھوں نے مجھے چھوڑا تو میں نڈھال ہو چکا تھا تھر تھر کانپ رہا تھا— پھر مجھے فوراً ہی تیز بخار آگیا۔ شب میں بھی میرے کانوں میں اُن کی آواز گونجی:

’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررہے کھاں‘‘

ابھی تک مجھے وہ بے معنی آواز یاد ہے۔ بچپن کی یادوں کے ساتھ یہ آواز بھی آ جاتی ہے۔ کل اس آواز کا خوف طاری ہو جاتا تھا تو تھر تھر کانپنے لگتا تھا۔

وہ ہر جمعہ کو آ جاتے، اسی طرح چیختے ہوئے ’’ناک دھو دھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں۔‘‘ اور میں سہم جاتا۔ دالان کے دروازے کے پیچھے چھپ جاتا، چونکہ ہر ہفتے جمعہ کے دن میرے ابوّ میرے ہاتھ سے محتاجوں کو پیسے کپڑے تقسیم کراتے۔ اس لیے وہ بھی ہر ہفتے بس اس دن آ جاتے ہیں، جو مل جاتا لے کر چلے جاتے۔ اُنھیں دیکھ کر میری رُوح فنا ہو جاتی۔

وہ — اور ان کے بے معنی لفظوں کی بھیانک آواز مجھے پریشان کر دینے کے لیے کافی تھی۔ حویلی کے کچھ لوگوں کو مجھے ڈرانا ہوتا نا بچوّ، تو وہ کہتے ’’دیکھو وہ آگیا بندر کی دُم والا۔‘‘

’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھر رہے کھاں‘‘

اور میری حالت غیر ہو جاتی، کبھی پلنگ کے نیچے کبھی لحاف کمبل میں دُبک جاتا۔

بہت دن بیت گئے۔

جب کچھ بڑا ہوا تو معلوم ہوا اُن کا نام لکھن لال ہے اور وہ ایک بہروپیا ہیں، مختلف قسم کے بھیس بدلتے اور گھر گھر جا کر پیسے مانگتے ہیں۔

یاد ہے ایک روز وہ ڈاکیہ بن کر آئے اور حویلی کے چبوترے پر بیٹھے کچھ لوگ دھوکہ کھا گئے۔ پھر وہ بیٹھے رہے چبوترے پر اور اپنی کہانی سناتے رہے۔ میں بھی پاس ہی بیٹھا اُن کی کہانی سننے لگا۔ مجھے یاد نہیں اُن کی کہانی کیا تھی البتہّ یہ تاثر اب تک ہے کہ وہ جو کہانی سنا رہے تھے اس میں کچھ دُکھ بھری باتیں تھیں، اپنی کہانی سناتے سناتے رو پڑے تھے۔ میرا دل بھی بھر آیا تھا اس لیے کہ میں کسی کو روتا دیکھ نہیں سکتا۔

اتنا یاد ہے اُن کا نام لکھن لال تھا، موتی ہاری شہر سے کچھ دُور ’’بلواٹال‘‘ میں رہتے تھے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں۔ آہستہ آہستہ اُن سے دوستی ہونے لگی۔ مجھے بتاتے کس کس طرح بہروپ بھر کر لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالتے رہے ہیں۔ اُن کی ہر بات بڑی دلچسپی سے سنتا، وہ کبھی عورت بن جاتے، کبھی پوسٹ مین، کبھی ہنومان، کبھی کرشن کنہیا۔ جب وہ اپنی بات پوری کر لیتے تو میں فرمائش کرتا ایک بار بولیے نا ’’ناک دھودھڑکی ناک نجر…‘‘ اور وہ میری خواہش پوری کرتے ہوئے اپنے خاص انداز سے کہتے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھرّرے کھاں‘‘ اُن سے اس طرح سنتے ہوئے اچھا لگتا۔

پھر وہ کہاں اور میں کہاں، میں اپنے گھر اور پھر اپنی ریاست سے بہت دُور اور وہ میرے اور اپنے پرانے شہر میں جانے کتنا زمانہ بیت گیا۔ اُن کی یاد آئی تو اپنے پہلے خوف سے اُن سے دوستی تک ہر بات یاد آ گئی۔ کشمیر میں اپنے بچوّں کو اُن کے بارے میں بتایا اور میرے بچوّں کو بھی ان بے معنی لفظوں سے پیار سا ہو گیا۔ ’’ناک دھودھڑکی ناک نجرکھررے کھاں۔‘‘

بہت دن بیت گئے۔

موتی ہاری گیا تو لکھن لال کی یاد آئی، پرانے لوگوں میں اُن سے بھی ملنے کی بڑی خواہش ہوئی، اپنے عزیز دوست ممتاز احمد سے کہا ’’میرے ساتھ بلواٹال چلو، لکھن جی کا مکان ڈھونڈیں شاید زندہ ہوں اور ملاقات ہو جائے۔ بڑی مشکل سے اُن کی جھونپڑی ملی، ہم اندر گئے، دیکھا ایک کھٹولہ ہے، اُسی کھٹولے پر ایک چھوٹا سا پنجر، ایک انسان کا ڈھانچہ پڑا ہوا ہے، لکھن لال بہت ہی ضعیف ہو چکے تھے اور سکڑ گئے تھے۔ اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، بال ابرو غائب، دانت ندارد، حد درجہ سوکھا جسم، کھلا ہوا منہ، چہرے پر اتنی جھرّیاں کہ بس اُنھیں ہٹا کر ہی چہرے کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ منہ کھولے اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ کہانی بس ختم ہونے کو تھی، چراغ بس بجھنے کو تھا، اچھا ہوا جو مل لیے، اچھا ہوتا جو نہ ملتے۔ وہ اس رُوپ میں ملیں گے، سوچا بھی نہ تھا۔ وہ بھالو، ہنومان، لنگور کا مکسچر یاد آگیا کہ جس نے اُچھل اُچھل کر پہلی بار مجھے اتنا خوفزدہ کیا تھا کہ اب تک بھولا نہیں ہوں۔

کیا یہ وہی شخص ہے؟

کیا یہ وہی لکھن لال ہیں۔

اُنھوں نے مجھے پہچانا نہیں۔ ممتاز نے اُنھیں میری یاد دلائی۔ اُنھیں یاد آگیا، پرانا وقت، میرا نام سنتے ہی کھٹولے پر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والے کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اُن کے پیار کی خوشبو مجھ تک پہنچ گئی۔ دھنسی ہوئی آنکھوں سے کئی قطرے ٹپک پڑے، میری آنکھوں میں بھی اپنے پرانے بزرگ دوست کو دیکھ کر آنسو آ گئے۔ اُنھوں نے آہستہ آہستہ ایک ہاتھ بڑھایا تو میں نے تھام لیا۔ اُسی وقت اُن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک لکیر سی کھنچ گئی۔ ایسی لکیر جو مٹائے نہ مٹے۔ نیم آلود دھنسی ہوئی آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں۔ وہ ایک ٹک بس مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ ہم دونوں آنکھوں میں پچھلی کہانیوں اور رِشتوں کو پڑھ رہے تھے۔ کوئی آواز نہ تھی۔ بچو!میں سوچ رہا تھا عمر بھر بہروپ بھرتے رہے ، سب کو ہنساتے ڈراتے رہے، آپ کا جواب نہیں لکھن جی، مالک کے پاس جانے کے لیے جو نیا بہروپ بھرا ہے وہ اے-ون ہے۔ سنتے ہیں مالک ہر وقت ہنستا ہی رہتا ہے اور اسی کی ہنسی پر دُنیا قائم ہے۔ ذرا اب تو ہنس کر دیکھے یہ بہروپ دیکھ کر رو پڑے گا۔

جب رخصت ہونے لگا تو اُنھوں نے روکا، آہستہ آہستہ بولنے لگے ’’ناک… دھو… دھڑ…کی ناک… نجر… کھر رے …کھاں۔‘‘ پورے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ پھیلی۔

پھر میری طرف دیکھتے ہی دیکھتے آنکھیں بند کر لی۔ پاس کھڑے ان کے کسی رشتہ دار نے بتایا وہ اچانک اسی طرح سو جاتے ہیں۔

اور ایک دن لکھن اچانک ابدی نیند سو گئے۔

بہروپیا اپنے نئے رُوپ کے ساتھ مالک کے پاس پہنچ گیا۔

٭٭٭

 

 

ہم سب کی بڑی امّاں

 

بچو! قطب مینار سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بستی ہے جس کا نام ’’ادھ چینی گاؤں‘‘ ہے۔ کتنا میٹھا میٹھا نام ہے۔ ’ادھ چینی‘ نام لیتے ہی منہ میٹھا ہو جاتا ہے نا؟منہ میٹھا کیوں نہ ہو یہاں ایک عظیم ماں کا مقبرہ ہے، وہاں پہنچتے ہی ممتا کی مٹھاس ملنے لگتی ہے، یہاں ہم سب کی ایک بڑی امّاں آرام فرما رہی ہیں، ہاں ہم سب کی ایک بڑی امّاں کہ جن کی شفقت اور محبت ایک مثال ہے۔

یہ بڑی امّاں کون ہیں؟

حضرت شیخ نظام الدین اولیاؒ کی والدہ ہیں، آپ کا نام بی بی زلیخا ہے۔ شیخ نظام الدین اولیاؒ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اُن کی والدہ بی بی زلیخا ہی نے اُن کی پرورش کی، ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا، اپنی ممتا کی چھاؤں میں رکھا، بہت ا چھی تربیت دی۔ جانتے ہو بی بی زلیخا نے حضرت شیخؒ کو سب سے بڑا سبق کیا دیا؟ سبق دیا محبت کا، ہر شخص سے محبت کرو سب اللہ کے بندے ہیں، محبت اس طرح کرو جس طرح ایک بھائی دوسرے بھائی سے کرتا ہے، کسی سے نفرت نہ کرو کسی کو حقیر نہ سمجھو سب برابر ہیں، سب اللہ کے بندے ہیں۔ دل میں پیار اور محبت کا دیا جلائے رکھو دوسروں کے ساتھ اخلاق اور محبت سے پیش آؤ تاکہ وہ محبت کی قیمت جان سکیں۔

ایک بار ایسا ہوا کہ بی بی زلیخا علیل ہو گئیں، شیخ نظام الدینؒ دن رات اُن کی خدمت کرتے رہے، بڑی امّاں اپنے بیٹے کی خدمت سے بہت متاثر ہوئیں دُعائیں دیں ،کہا بیٹے جیسی محبت تمھیں مجھ سے ہے ویسی ہی محبت ساری دنیا سے کرو، چھوٹی سی زندگی میں اور کیا رکھا ہے محبت کرو اور خدمت کرو، محبت کرو گے تو تمام انسانوں سے ایک مضبوط رشتہ قائم ہو گا۔ خدمت کرو گے تو دنیا والوں کو ا چھی صحت حاصل ہو گی، قوم اور ملک اور پوری انسانیت کی ترقی کا انحصار خدمت ہی کے جذبے پر ہے، جتنی خدمت کرو گے ملک اور قوم کی اتنی ہی ترقی ہو گی۔ چھوٹے شیخ نظام الدینؒ جب بھی اپنی والدہ کے قدموں کے پاس بیٹھتے اُنھیں بہت اچھی اچھی باتیں سننے کو ملتیں۔ چھوٹے شیخ نظام الدینؒ کے ساتھ محلّے ٹولے کے چھوٹے چھوٹے بچیّ بھی بڑی امّاں بی بی زلیخا کے پاس آ کر بیٹھتے اور اُن کی میٹھی میٹھی پیاری پیاری باتیں سنتے۔

بڑی امّاں نے جہاں محبت اور خدمت کی تعلیم دی وہاں ایک اور بڑی بات سمجھائی اور جانتے ہو وہ بات کیا ہے؟ وہ ہے دل کو خوف سے دور رکھو یعنی دل میں کبھی خوف کو پیدا ہونے نہ دو، خوف سے محبت اور خدمت دونوں جذبوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ چھوٹے نظام الدینؒ نے دریافت کیا ’’امّاں دل میں اللہ کا خوف تو رہتا ہی ہے، کیا اس خوف کو بھی نکال دینا چاہیے؟‘‘

بی زلیخا اپنے بیٹے کے اس سوال سے بہت خوش ہوئیں وہ سوچ رہی تھیں جس بچیّ میں سوال کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے وہی بڑا شخص بنتا ہے، اُن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، کہا ’’ہاں بیٹے دل میں اللہ کا خوف بھی آنا نہیں چاہیے۔‘‘

’’لیکن کیوں؟ خوفِ خدا ہی سے تو انسان بدی سے دُور رہتا ہے اور اچھیّ اچھیّ کام کرتا رہتا ہے۔‘‘ بی بی زلیخا کے بھولے بچیّ نے بڑی معصومیت سے کہا۔

’’بیٹے، دل میں اگر خوفِ خدا رکھو گے تو خدا سے محبت کا جذبہ کہاں رکھو گے؟ تم ہی بتاؤ، خوف اور محبت دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، محبت ہی سب سے بڑی چیز ہے اللہ سے جتنی محبت کرو گے بدی سے دُور رہو گے اور بہت اچھے اچھے کام کرتے رہو گے، اللہ پاک ڈراتے نہیں بلکہ اپنی تمام مخلوق سے محبت کرتے ہیں اور محبت کا جواب محبت سے چاہتے ہیں اگر ہم نے ڈر کر کسی کی تعظیم کی کسی کی عزّت کی تو کیا فائدہ، دیکھو تم مجھ سے پیار کرتے ہو اپنی ماں کی عزّت کرتے ہو کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو تمھیں مجھ سے ڈر لگتا ہے؟‘‘

’’نہیں امّاں‘‘ چھوٹے نظام الدینؒ نے جواب دیا۔ ’’میں تو آپ سے بہت محبت کرتا ہوں۔‘‘

’’اللہ بھی محبت چاہتا ہے بیٹے ، دل میں اللہ اور اس کی مخلوق سے جتنی محبت پیدا کرو گے اللہ تم سے اتنی ہی محبت کرے گا، خوفزدہ رہو گے تو بھلا کیا عبادت کرو گے عبادت تو محبت کا رشتہ ہے۔عبادت جب محبت میں ڈھل جاتی ہے تو

سچی عبادت ہوتی ہے اللہ سے محبت کرتے ہو اور عبادت کرتے ہو، ڈر سے عبادت نہیں ہوتی بیٹا۔ ہم سب کے رسولؐ نے کہا تھا نا عبادت اس طرح کرو کہ تمھیں محسوس ہو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ احساس پیدا نہ ہو تو یہ سوچو کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے، تمھارے دل میں محبت ہو گی بیٹے تو اللہ تمھیں بڑی محبت سے دیکھتا رہے گا۔ اللہ کو خوف، بزدلی، نفرت، غرور یہ سب چیزیں قطعی ناپسند ہیں۔‘‘

چھوٹے نظام الدین نے دریافت کیا ’’امّاں، آپ کو کبھی کسی سے ڈر لگا؟‘‘

بی زلیخا ہنسنے لگیں۔ ’’نہیں بیٹے، میں تو آج تک کسی سے نہیں ڈری، میں کسی سے نہیں ڈرتی، میری تمنّا ہے کہ میرا بیٹا بھی نیک اور اچھیّ کام کرتے ہوئے کسی سے خوفزدہ نہ ہو، سامنے کوئی بادشاہ ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

اور تمھیں معلوم ہے بچوّ، حضرت نظام الدین اولیاؒ زندگی میں کسی سے خوفزدہ نہیں ہوئے، وہ اپنے عہد کے سلطان اور اپنے دور کی سیاست سے دُور رہے۔ قطب الدین مبارک خلجی حضرت شیخؒ کو پسند نہیں کرتا تھا، ان کے خلاف بڑی سازشیں ہوئیں، اسی طرح سلطان غیاث الدین تغلق حضرت کے خلاف تھا، اپنے ایک مہم سے واپس آ رہا تھا اس سے قبل حضرت شیخؒ کو یہ پیغام روانہ کیا کہ میرے دلّی پہنچنے سے قبل شیخؒ دہلی چھوڑ کر کہیں چلے جائیں۔ حضرت شیخؒ جنھوں نے اپنی والدہ کی ہر بات گانٹھ باندھ کر رکھ لی تھی مسکرائے، کہا ’’میں کسی سے خوفزدہ نہیں ہوتا، یہ میری والدہ مرحومہ کی بنیادی تعلیم ہے۔‘‘ فرمایا ’’ہنوز دلّی دور است‘‘ یعنی ابھی دلّی دور ہے‘ پھر ایسا ہوا بچوّ، سلطان کے استقبال کے لیے افغان پور میں جو کوشک بنوائی گئی تھی وہ گر گئی اور سلطان اس میں دب کر دنیا سے رخصت ہو گیا۔ حضرت نے فرمایا ’’اللہ کو جو منظور تھا وہی ہوا۔ میں محبت تقسیم کرتا ہوں عوام کو اچھی اچھی باتیں بتاتا ہوں بھلا میرا کیا گناہ تھا کہ سلطان مجھے دلّی چھوڑنے کا حکم دے رہا تھا!‘‘

حضرت شیخ نظام الدین اولیاؒ آخر عمر تک اپنی والدہ بی بی زلیخا کی ہدایتوں پر عمل کرتے رہے، انھوں نے کہا تھا سب انسان ایک جسم کے اعضا کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، سب سے محبت کرو سب کی خدمت کرو، تاریکی اندھیرے سے کبھی خوفزدہ نہ ہو۔

بچوّ! حضرت نظام الدین اولیاؒ کی یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے، اُنھوں نے کہا تھا:

’’انسان کو دریا جیسی سخاوت، آفتاب جیسی شفقت اور زمین جیسی تواضع پیدا کرنی چاہیے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

درخت اور ابن موسوی

 

کسی زمانے میں ایک شخص تھا جس کا نام تھا ابن موسوی، ایک بڑے کھیت کا مالک تھا، اللہ نے اسے بہت کچھ دے رکھا تھا، گھر بھی تھا، روپے پیسے بھی تھے، بیوی کے پاس قیمتی زیورات بھی تھے، کھیت سے خوب آمدنی ہوتی تھی۔ دو بیٹے تھے دونوں علاقے کے بڑے مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، کھیت سے جو آمدنی ہوتی بیوی کے حوالے کر دیتا، تاکید کرتا ایک ایک پائی کی حفاظت کرنا، ابن موسوی کنجوس تو تھا ہی ہوس کا مارا ہوا بھی تھا۔ چاہتا تھا بس روپے آتے رہیں آتے رہیں روپوں سے گھر بھر جائے۔ ہر وقت یہ سوچتا کاش میرے پاس اتنی دولت ہوتی اتنی دولت ہوتی کہ اپنے کھیت کے پاس دوسروں کے کھیت بھی خرید لیتا۔ دولت دولت، دولت دولت، ہر سانس سے یہی آواز نکلتی۔

شام ہو چکی تھی، ابن موسوی اپنے کھیت سے واپس آ رہا تھا، راستے میں برگد کا ایک بڑا گھنا پیڑ تھا۔ گھر جاتے ہوئے اس پیٹر کے نیچے سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا، اُس شام جب ابن موسوی برگد کے اُس پیڑ کے نیچے سے گزرا اُسے ایک عجیب و غریب آواز سنائی دی ’’تمھیں دولت چاہیے نا کتنی چاہیے، میں تمھیں دولت دے رہا ہوں جتنی دولت چاہے لے لے۔‘‘ابن موسوی آواز سن کر اچانک رُک گیا، یہ آواز بار بار سنائی دے رہی تھی لگتا تھا پیڑ کے اُوپر سے کوئی بول رہا ہے۔ اُسے محسوس ہوا جیسے یہ آواز کسی انسان کی نہیں ہے، عجیب طرح کی آواز تھی، ابن موسوی ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا اور لگا اُوپر دیکھنے، ہر ڈال پر نظر گئی کوئی بھی نظر نہیں آیا اور آواز تھی کہ سنائی دے رہی تھی: ’’تمھیں دولت چاہیے نا کتنی چاہیے، میں تمھیں دولت دے رہا ہوں جتنی دولت چاہے لے لے۔ تُو بولتا کیوں نہیں؟ تمھیں دولت چاہیے نا۔‘‘ گرجدار آواز سنائی دی ابن موسوی بول پڑا ’’ہاں ہاں مجھے دولت چاہیے بہت دولت چاہیے اتنی دولت کہ میں اپنے کھیت کے آس پاس جتنے بھی کھیت ہیں اُنھیں خرید لوں۔‘‘ ابن موسوی حریص تو تھاہی ہوس کا مارا ہوا، وہ تو یہی جواب دیتا نا۔

برگد کے اُوپر سے آواز آئی۔ ’’تو جا اپنے گھر وہاں سات بڑے مٹکے رکھے ہوئے ہیں ہر مٹکے میں دولت ہے، جالے لے۔‘‘

’’سارے مٹکے لے لوں۔‘‘ حریص ابن موسوی بول پڑا۔

ہاں ہاں، سب مٹکے لے لے۔‘‘ جواب ملا برگد کے پیڑ کے اُوپر سے۔

یہ سننا تھا کہ حریص ابن موسوی اپنے گھر کی جانب دوڑ پڑا، دوڑتے دوڑتے ایک جگہ گِرا بھی پھر اس طرح اُٹھا جیسے گِرا ہی نہ تھا، دوڑتے دوڑتے گھر پہنچ گیا، کیا دیکھتا ہے ایک کمرے میں سات بڑے بڑے مٹکے رکھے ہوئے ہیں اور اس کی بیوی حیران پریشان ان مٹکوں کو دیکھ رہی ہے۔

’’نہیں جانتی یہ مٹکے کون لایا ہے۔ دروازہ تو بند تھا جانے یہ مٹکے کہاں سے آ گئے۔‘‘ ابن موسوی کی بیوی نے کہا اس کے لہجے میں خوف تھا۔ ابن موسوی حد درجہ خوش تھا ’’تم نہیں جانتیں خاتون یہ تمام مٹکے ہمارے ہیں، ان میں دولت بھری پڑی ہے۔ برگد والے دوست نے یہ مٹکے بھجوائے ہیں، آؤ ایک ایک مٹکا کھول کر دیکھیں۔‘‘ ایک مٹکا ابن موسوی نے کھولا دوسرا اُس کی بیوی نے، دونوں میں ہیرے جواہرات، روپے بھرے تھے۔‘‘ پھر ابن موسوی نے تیسرا اور اُس کی بیوی نے چوتھا مٹکا کھولا، ان میں بھی ہیرے جواہرات اور روپے، دونوں کی خوشی کا اندازہ کرنا مشکل تھا۔ اسی طرح پانچواں اور چھٹا مٹکا کھلا، ان میں بھی ہیرے جواہرات اور روپے، ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے۔ ابن موسوی تو خوشی سے ناچنے لگا، بیوی سے کہا ’’اب آخری مٹکا تم کھولو یعنی ساتواں مٹکا۔‘‘ بیوی نے ساتواں مٹکا کھولا تو دیکھا اس میں روپے زیورات وغیرہ تو ہیں لیکن نصف مٹکا خالی ہے۔ پورا بھرا ہوا نہیں ہے، اس نے اپنے شوہر کو بتایا تو ابن موسوی نے مٹکے میں جھانک کر دیکھا واقعی مٹکا پورا بھرا ہوا نہیں ہے، سوچا بہتر ہے اس بات کی خبر برگد والے دوست کو دی جائے شاید اُس سے غلطی ہو گئی ہو مٹکا پورا بھرا نہ ہو۔ ابن موسوی سرپٹ دوڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے پہنچ گیا اُس برگد کے پیڑ کے نیچے کہ جہاں برگد والے دوست کی آواز سنی تھی، پہنچتے ہی بول پڑا ’’اے برگد والے دوست، چھ مٹکے تو خوب بھرے ہوئے ہیں لیکن ساتواں مٹکا نصف ہی بھرا ہوا ہے، اسے بھی بھر دو۔‘‘

برگد کے اُوپر سے آواز آئی ’’ابن موسوی، ہاں ساتویں مٹکے میں کمی تو ہے، ایسا کرو، گھر جا کر اپنے تمام روپے پیسے ہیرے جواہرات اور بیوی کے زیورات اس میں بھر دو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

یہ سن کر ابن موسوی سرپٹ دوڑا اپنے گھر کی جانب اور دیکھتے ہی دیکھتے گھر پہنچ گیا اور پھر دونوں میاں بیوی نے مل کر ساتویں مٹکے کو اپنے ہیرے جواہرات اپنے روپوں اور زیورات سے بھرنا شروع کر دیا، لیکن سب کچھ مٹکے میں ڈال دینے کے باوجود مٹکا اسی طرح نصف خالی رہا۔ ابن موسوی پریشان ہو گیا، اب کیا کیا جائے، ساتویں مٹکے کو تو بھرنا ہی ہے کسی طرح۔ رات ہو گئی لیکن اُسے نیند نہیں آئی، صبح اُٹھتے ہی وہ گاؤں کے ایک بڑے زمین دار کے پاس پہنچا اور گویا ہوا ’’زمیندار صاحب میں اپنا کھیت فروخت کرنا چاہتا ہوں مجھے روپوں کی ضرورت ہے۔‘‘ زمیندار خوش ہو گیا، ابن موسوی کا کھیت بڑا زرخیز تھا اور زمیندار کی نظر جانے کب سے اُس پر گڑی ہوئی تھی۔ زمیندار نے جھٹ پٹ کاغذات تیاّر کیے، ابن موسوی کے دستخط لے لیے اور ایک بڑی رقم اسے دے دی۔ ابن موسوی روپے سنبھالے دوڑا دوڑا گھر آیا اور تمام روپوں کو ساتویں مٹکے میں ڈال دیا، حیرت زدہ تھا کہ یہ بڑی رقم بھی مٹکا نگل گیا مٹکا اسی طرح نصف خالی تھا۔ ماتھا پیٹ کر بیٹھ گیا، اس ساتویں مٹکے کو بھرنے کے چکر میں اتنا قیمتی کھیت بھی فروخت کر دیا، اب کیا ہو گا۔

ابن موسوی کی بیوی نے کہا ’’دیکھو جب ہم سب کے پاس زیادہ دولت نہیں تھی تو ہم سب خوشی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے، جب یہ مٹکے آئے تو تم نے ہوس کو اپنے اوپر غالب کر لیا۔ سب کچھ بھول گئے، بچوں کی زندگی، ان کی تعلیم تربیت، ایک ا چھی پیاری زندگی، دولت دولت کرتے رہے، یہ مٹکا یہ ساتواں مٹکا تو ہماری ساری دولت نگل گیا، ہیرے جواہرات روپے پیسے۔ کھیت بھی نگل گیا۔ ہوس بری بلا ہے۔ میں بار بار تم سے کہتی رہی مالک نے جو دیا ہے اسی کو غنیمت جانو، لیکن تم تھے کہ حرص اور ہوس کو خود پر غالب کیے رہے۔ ابھی وہ اپنے میاں ابن موسوی کو سمجھا ہی رہی تھی کہ دونوں کی آنکھوں کے سامنے سے ایک ایک کر کے سارے مٹکے گم ہو گئے، وہاں کچھ بھی نہ رہا، کسی بھی مٹکے نے اپنا ہلکا سا نشان بھی نہیں چھوڑا تھا۔ ابن موسوی کے ہوش اُڑ گئے، زور زور سے چیخنے لگا ’’دولت کی لالچ نے مجھے پاگل بنا دیا تھا، کیا جانتا تھا اس کی سزا اس طرح ملے گی، لالچ، حرص، ہوس واقعی بُری بلا ہے خاتون، تم اپنے دو بیٹوں کو یہ بات سمجھاتی رہنا۔‘‘

ابن موسوی کی بیوی کچھ دن بعد اس دُنیا سے گزر گئی، اس کے دونوں بیٹے باپ سے مایوس ہو کر روزگار کی تلاش میں دوسرے شہر جا بسے، رہ گئے ابن موسوی، بہت جلد بوڑھے ہو گئے، ذہنی توازن کھو بیٹھے، لوگوں نے دیکھا وہ اُسی برگد کے نیچے ایک بوری بچھائے چیختے رہتے ہیں ’’مجھے دولت نہیں چاہیے، مجھے دولت نہیں چاہیے‘‘ رات کے اندھیرے میں بھی ابن موسوی کی یہ آواز گونجتی رہتی۔ ’’مجھے دولت نہیں چاہیے مجھے دولت نہیں چاہیے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

کچھوا اور مینڈک

 

 

ایک تھا کچھوا۔ اکثر سمندر سے نکل کر ریت پر بیٹھ جاتا اور سوچنے لگتا دُنیا بھر کی باتیں، سمندر کے تمام کچھوے اسے اپنا گرو مانتے تھے اس لیے کہ وہ ہمیشہ اچھیّ اور مناسب مشورے دیا کرتا تھا۔ مثلاً ریت پر انڈے دینے کے لیے کون سی جگہ مناسب ہو گی، عموماً دشمن انڈوں کو توڑ دیا کرتے تھے اس لیے اس بزرگ کچھوے کی رائے لینا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ گرو نے انڈے دینے کے لیے جو جگہ بتائی وہاں کوئی دشمن کبھی نہیں پہنچ سکا، پھر گرو جی سمندر کی لہروں کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے تھے کہ سمندری طوفان کب آئے گا، سمندر کی لہریں کتنی تیز ہو سکتی ہیں‘ تمام کچھوے اپنے بال بچوّں کو لے کر ساحل کے قریب کس مقام پر رہیں۔ طوفان کتنی دیر رہے گا، یہ سمجھو بچوّ ذہین، دُور اندیش فلسفی قسم کا کچھوا تھا وہ۔

ایک صبح سمندر سے نکل کر وہ کچھوا ریت پر بیٹھا سوچ رہا تھا، ہم تو سمندر اور ریت پر رہتے ہیں، پاس ہی جو بستی ہے وہاں لوگ کس طرح رہتے ہوں گے۔ سوچتے سوچتے اس کی خواہش ہوئی کہ وہ بستی کی طرف جائے اور اپنی آنکھوں سے وہاں کا حال دیکھے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ کچھوے کی چال کیسی ہوتی ہے، بہت ہی آہستہ آہستہ چلتا ہے نا وہ۔ اپنی خاص چال سے آہستہ آہستہ چلا اور پہنچ گیا بستی میں۔

بستی میں پہنچتے ہی اُسے ایک آواز سنائی دی ’’چھپ چھپ‘‘ پھر یہ آواز بند ہو گئی، تھوڑی دیر بعد پھر وہی آواز سنائی دی ’’چھپ چھپ‘‘ پھر یہ آواز رُک گئی، کچھوے کو یقین آگیا کہ یہ پانی کی آواز ہے کہیں قریب ہی پانی میں کوئی چیز اُچھل رہی ہے۔ پھر آواز آئی ’’چھپ چھپ‘‘ کچھوے کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ پانی کی آواز بہت پاس سے آ رہی ہے اور اس میں کوئی جانور اُچھل رہا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنی خاص چال سے اُس جانب چلا کہ جہاں سے آواز آ رہی تھی اور پہنچ گیا ایک کنویں کے پاس۔ اندر جھانک کر دیکھا تو وہاں پانی نظر آیا۔ پانی میں آواز ایک مینڈک کی اُچھل کود سے ہو رہی تھی۔ مینڈک پھر اُچھلا اور آواز آئی ’’چھپ چھپ‘‘ کچھوے نے پوچھا ’’بھائی مینڈک بڑے خوش نظر آ رہے ہو بات کیا ہے، خوب اچھل رہے ہو کنویں کے پانی میں؟‘‘

مینڈک نے جواب دیا ’’میں ہمیشہ خوش رہتا ہوں اور کنویں کے پانی میں اسی طرح اُچھلتا رہتا ہوں۔‘‘

کچھوے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ’’کنواں گہرا تو ہے لیکن تم اندر نہیں جا سکتے۔‘‘

’’بھلا میں اندر کیوں جاؤں، گہرائی میں تو میرا دَم گھٹ جائے گا۔‘‘ مینڈک نے جواب دیا۔

’’تم صرف اس کی سطح ہی پر اُچھل کود کر سکتے ہو۔‘‘ کچھوے نے کہا۔

’’ہاں اس پانی میں مجھے اسی طرح چھپاک چھپاک کرتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔‘‘

’’اور پانی تو اینٹوں کی دیواروں سے گھِرا ہوا ہے، تم اینٹوں کے درمیان بند ہو۔‘‘

’’کمال کرتے ہو بھائی اگر کنویں کے گرد دیوار نہ ہو تو پانی بہہ جائے گا اور میں بھی بہہ جاؤں گا پھر کنواں کہاں رہے گا۔‘‘ مینڈک نے کہا۔

’’وہی تو میں سوچ رہا ہوں۔‘‘ فلسفی کچھوے نے کچھ کہنا چاہا لیکن خاموش رہا۔

’’کیا سوچ رہے ہو بھائی، اس کنویں میں تم سما نہیں سکتے یہی سوچ رہے ہو نا۔ میری قسمت پر رشک آ رہا ہے تمھیں۔‘‘ مینڈک نے طنزیہ انداز میں کہا۔

’’نہیں مینڈک جی، میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ تم کنویں کے مینڈک ہو اور ہمیشہ کنویں کے مینڈک ہی بنے رہو گے، تم نے سمندر نہیں دیکھا، سمندر دیکھو گے نا تو علم ہو گا کہ پانی کیا ہوتا ہے۔‘‘ کچھوے نے اپنی بات سمجھائی۔

’’سمندر کیا ہوتا ہے؟‘‘ مینڈک نے پوچھا۔

’’سمندر پانی کا ایک بہت بڑا، بہت ہی بڑا اور بہت ہی بڑا کنواں ہوتا ہے جو دیواروں کے درمیان نہیں ہوتا، اس کے گرد کوئی دیوار نہیں ہوتی اینٹوں پتھروں کی کوئی دیوار نہیں ہوتی، جہاں تک دیکھو گے نا پانی ہی پانی نظر آئے گا۔ سمندر نے ساری دُنیا کو گھیر رکھا ہے۔ ہم سمندر ہی میں رہتے ہیں۔تم وہاں نہیں رہ سکتے۔‘‘

’’کیوں نہیں رہ سکتے بھلا؟‘‘ مینڈک نے دریافت کیا۔

’’اس لیے کہ تم اس کے بہاؤ میں بہہ جاؤ گے اور تمھاری خبر تا قیامت کسی کو نہیں ملے گی۔ ہاں ایک بات ہو سکتی ہے۔‘‘ فلسفی کچھوے نے سوچتے ہوئے کہا۔

’’کیا؟ کون سی بات؟‘‘ مینڈک نے پوچھا۔

’’یہ ہو سکتا ہے کہ تم کنویں سے نکل کر میرے ساتھ سمندر کی طرف چلو، دیکھو سمندر کیا ہے، اس کی لہریں کیسی ہیں، ہم کچھوے وہاں کس طرح رہتے ہیں۔‘‘

’’نہیں بھائی، میں تو اسی کنویں میں خوش ہوں۔ میں نہیں جاتا سمندر و مندر دیکھنے، تم ہی کو مبارک ہو سمندر۔‘‘

’’تو تم زندگی پھر کنویں کے مینڈک ہی بنے رہو گے؟‘‘ کچھوے نے غیرت دِلائی۔

’’یہی میری تقدیر ہے تو میں کیا کروں؟‘‘ مینڈک نے جواب دیا۔ اس کے لہجے میں اُداسی تھی۔

’’دیکھو تقدیر و قدیر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہم اپنی تقدیر خود بناتے ہیں، تم چاہو تو خود اپنی تقدیر بنا سکتے ہو۔‘‘ کچھوے نے سمجھانے کی کوشش کی۔

’’بھلا کس طرح؟ تم تو کہتے ہو کہ میں سمندر میں جاؤں گا تو پانی میں بہہ جاؤں گا، میرا اَتہ پتہ بھی نہ ہو گا۔‘‘

’’یہ تو سچی بات ہے لیکن تم سمندر کے اندر نہیں اس کے پاس رہ سکتے ہو جس طرح دوسرے سینکڑوں ہزاروں مینڈک رہتے ہیں۔ وہاں بڑے بڑے مینڈک بھی ہوتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بھی تمھاری طرح، سمندر کے کنارے کئی مقامات پر پانی جمع رہتا ہے کہ جس میں مینڈک رہتے ہیں، وہاں رہ کر سمندر کا نظاّرہ بھی کرتے ہیں۔ نکلتے ہوئے خوبصورت سورج کو بھی دیکھتے ہیں، ڈوبتے ہوئے پیارے سورج کا منظر بھی دیکھتے ہیں۔ سورج کی خوبصورت روشنی کو لہروں پر دیکھ کر اُچھلتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں، تم سے زیادہ چھپاک چھپاک چھپ چھپ کرتے ہیں، اُن کے بال بچّے ہیں جو کھلکھلا کر ہنستے ہیں۔ رات میں چاندنی کا مزہ لوٹتے ہیں، اُنھیں ساحل کی ٹھنڈی ہوائیں ملتی ہیں، وہاں ان کی غذا کا بھی انتظام ہے، تمھیں اس کنویں میں کیا ملتا ہے، باہر نکل کر تو دیکھو دُنیا کتنی خوبصورت اور کتنی پیاری ہے، ہواؤں میں درخت کس طرح جھومتے ہیں، سمندر کی لہریں کس طرح اُٹھتی ہیں، کیسی کیسی خوبصورت مچھلیاں ساحل تک آتی ہیں۔ تم تو کنویں کے اندر بند ہو دُنیا سے الگ، میرے ساتھ چل کر دیکھ لو اگر سمندری علاقہ تمھیں پسند آئے تو وہیں رہ جانا اور پسند نہ آئے تو واپس آ جانا اور بن جانا کنویں کا مینڈک۔ میں تو تمھیں دُنیا اور اس کی خوبصورتی دِکھانا چاہتا ہوں تم نے کنویں کے اندر رہ کر بھلا دیکھا کیا ہے کچھ بھی تو نہیں۔ بولو چلو گے میرے ساتھ سمندر کی طرف یا یہاں رہو گے کنویں کا مینڈک بن کر؟‘‘ کچھوے نے صاف جواب طلب کیا۔

مینڈک سوچنے لگا یہ تو سچ ہے کہ میں نے دُنیا کو نہیں دیکھا ہے اسی کنویں میں جنم لیا اور اسی میں اُچھل کود کر رہا ہوں، دُنیا اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ لینے میں مضائقہ کیا ہے۔

’’چلو تمھارے ساتھ چلتا ہوں جگہ پسند نہ آئی تو واپس آ جاؤں گا۔‘‘ مینڈک نے کہا۔

’’ٹھیک ہے ایسا ہی کرنا لیکن مجھے یقین ہے کہ تمھیں سمندر کی آزاد فضا اور دُنیا کی خوبصورتی بہت بھلی لگے گی اور تم وہاں سے واپس آنا پسند نہ کرو گے۔ کنویں کا مینڈک بن کر رہنے والے گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ اُنھیں دُنیا کب نظر آتی ہے۔‘‘

مینڈک باہر آگیا اور دونوں سمندر کی جانب روانہ ہو گئے۔ سمندر کے ساحل پر پہنچتے ہی مینڈک کی بانچھیں کھل گئیں۔ بھلا اُس نے کب دیکھا تھا یہ ماحول، کب دیکھا تھا سمندر کی خوبصورت لہروں کو، اُبھرتے ہوئے سورج کو، مچھلیوں کے خوبصورت رنگوں کو اور کچھووں کی فوج کو اور مینڈکوں کے ہجوم کو۔ کنویں کا مینڈک خوش ہو گیا، پہلی بار اُسے ٹھنڈی ہوا نصیب ہوئی، پہلی بار اُس نے دیکھا دُنیا کتنی بڑی ہے، پہلی بار دیکھا کہ تمام کچھوے، تمام مچھلیاں اور تمام آبی جانور اور تمام چھوٹے بڑے مینڈک کتنے آزاد ہیں۔ سب خوشی سے ناچ رہے ہوں جیسے۔ یہ سب دیکھ کر مینڈک نے کچھوے سے کہا ’’بھائی تم نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے، کنویں کی زندگی سے باہر نکالا ہے۔ اب تو میں ہرگز ہرگز کنویں کے اندر نہیں جاؤں گا یہیں رہوں گا اپنے نئے دوستوں کے ساتھ۔ دُنیا دیکھو ں گا، دُنیا کی خوبصورتی کا نظاّرہ کروں گا، خوب کھاؤں گا، ناچوں گا، گیت گاؤں گا۔‘‘

کنویں کے مینڈک کے اس فیصلے سے کچھوا بہت خوش ہوا۔ اس نے یہ خوشخبری سب کو سنائی، کچھووں کو، مینڈکوں کو، مچھلیوں کو، تمام آبی جانوروں اور آبی پرندوں کو، سب خوشی سے ناچنے لگے گانے لگے، کنویں کے مینڈک نے سوچا ’’اگر میں کنویں میں رہتا تو یہ جشن کب دیکھتا۔‘‘ اُس نے ذرا فخر سے سوچا ’’بھلا ایسا استقبال کب کسی مینڈک کا ہوا ہو گا!‘‘

گرو کچھوے اور اس مینڈک میں گہری دوستی ہو گئی۔ نئی آزاد خوبصورت سی پیاری دنیا کو پاکر مینڈک بھول گیا کنویں کو!‘‘

٭٭٭

 

 

 

ایک تھا پیڑ

 

 

بچو!جب میں چھوٹا تھا تو میرے خالو ابّا نے یہ کہانی مجھے سنائی تھی۔ آج یہ کہانی میں تمھیں سنا رہا ہوں۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک بہت بڑا پیڑ تھا۔ بہت گھنا پیڑ، ان کی بڑی بڑی ڈالیاں نیچے تک جھکی ہوئی تھیں۔ اس پیڑ پر پرندوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ دن بھر چیں چیں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں، پرندے اور ان کے بچیّ، چھوٹے چھوٹے ننھے ننھے ،اپنے نغمے سناتے اور پیڑ ان کے نغموں کو سن کر بہت خوش رہتا۔ ہوائیں چلتیں یا کوئی آندھی آتی تو پیڑ ان پرندوں کے گھونسلوں کو بچائے رکھنے کی کوشش کرتا۔ عجیب و غریب پیڑ تھا، اس پر بہت ہی خوبصورت پھول آتے۔ جب پھول آتے تو پیڑ پر بہار آ جاتی، مت پوچھو کتنے پھول آتے، پورا پیڑ پھولوں سے لد جاتا اور ان پھولوں کی نرالی خوشبو ہر جانب پھیل جاتی۔ دُور دُور تک لوگوں کو خوشبو سے پتہ چل جاتا کہ اس پیڑ پر پھول آ گئے ہیں۔ پھولوں کے ختم ہوتے ہی پھل آ جاتے۔ لذیذ انگور کی طرح، بھورے سیاہ پھل بھی پھولوں کی طرح نرالے ہی تھے۔ اس لیے کہ دُور دُور تک کوئی ایسا پیڑ نہیں تھا جہاں ایسے خوشبو والے پھول آتے اور ایسے لذیذ رسیلے پھل آتے۔ پھلوں کے آتے ہی آس پاس کے گاؤں کے بچیّ پیڑ پر چڑھ جاتے اور لگتے پھل توڑنے۔ خوب پھل کھا کر بچیّ واپس چلے جاتے تو پیڑ ان بچوّں کا سال بھر انتظار کرتا۔ پیڑ کو بچوّں سے بہت پیار تھا۔ جب بچیّ برسات کے موسم میں اس کی موٹی موٹی ڈالیوں پر چڑھ کر پھل توڑتے رہتے، کھاتے رہتے اور بہت سے پھل باندھ کر لے جاتے تو پیڑ کو بہت اچھا لگتا، وہ بچوّں کو دعائیں دیتا رہتا۔ جب بچیّ پیڑ پر چڑھتے اور پھل توڑتے تو یہ پیڑ ان کی نگرانی اسی طرح کرتا کہ جس طرح کوئی ماں اپنے بچوّں کی نگرانی کرتی ہے۔ چڑھتے ہوئے کوئی بچہ گِر نہ جائے، پھل توڑتے ہوئے کسی بچیّ کا کوئی پاؤں پھسل نہ جائے۔ وہ ان بچوّں کو اچھی طرح سنبھالے رکھتا۔

برسات گزر چکی تھی، بچیّ اِدھر کو نہیں آ رہے تھے۔ ایک سنّاٹا سا تھا، پیڑ خاموش گاؤں کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا کہ گاؤں کی جانب سے آٹھ دس سال کا ایک لڑکا آتا دِکھائی دیا۔ وہ اسی طرف آ رہا تھا۔ درخت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، بہت دِنوں کے بعد اس نے کسی لڑکے کو آتے دیکھا تھا، لڑکا نزدیک آیا تو پیڑ نے پوچھا ’’بیٹے، تمھارا نام کیا ہے؟‘‘

لڑکے نے جواب دیا ’’نوشاد علی۔‘‘

’’خوش رہو جیتے رہو۔‘‘پیڑ نے دُعائیں دیں۔ اس نے دیکھا نوشاد میاں کے ہاتھ میں ایک موٹی سی رسّی ہے، بھلا نوشاد میاں اتنی موٹی رسّی لے کر کیوں آئے ہیں، پیڑ سوچنے لگا لیکن اس کی حیرت جلد ہی دُور ہو گئی۔ نوشاد میاں نے پیڑ کی ایک مضبوط ڈالی پر اپنی رسّی ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے بنا ڈالا اپنا جھولا اور لگے اس پر جھولنے۔ پیڑ کو بہت اچھا لگا۔لگا اُسے کوئی دوست مل گیا ہے، بیٹا مل گیا ہے۔ نوشاد میاں خوش خوش پینگیں مار رہے تھے اپنے جھولے پر اور پیڑ جھوم جھوم کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہا تھا۔ پیڑ نے کہا ’’نوشاد میاں، تم اسی طرح روز آنا۔ تم بہت پیارے ہو۔ تمھارا اس طرح جھولتے رہنا مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘‘

نوشاد میاں نے جھٹ جواب دیا ’’کیوں آؤں ہر دن تمھارے پاس، کیا مجھے زندگی میں اور کچھ کرنا نہیں ہے، صرف جھولے پر جھولتا رہوں۔‘‘

’’کیا کام کرنا چاہتے ہو نوشاد میاں؟‘‘ پیڑ نے پوچھا۔

’’میں دولت مند بننا چاہتا ہوں، تم بھلا مجھے کیا دو گے۔‘‘ نوشاد میاں نے طنزیہ انداز میں کہا۔

پیڑ نے تھوڑی دیر سوچا پھر کہا ’’ایسا کرو نوشاد میاں تم میری طرف دیکھتے رہو، ابھی تمھارے لیے موسم کے بغیر پھل لاتا ہوں، میں ابھی دیکھتے ہی دیکھتے پھلوں سے لد جاؤں گا، وہی پھل جسے برسات میں سب بہت شوق سے کھاتے ہیں لذیذ انگور کی طرح، یہ صرف تمھارے لیے کر رہا ہوں، تم ٹوکریاں لے کر آؤ، میرے پھل ان میں بھرتے جاؤ اور ان پھلوں کو گاؤں لے جا کر فروخت کرو، تمھیں خوب روپے ملیں گے۔‘‘

وہی ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے پیڑ پھلوں سے لد گیا۔ نوشاد میاں خوش ہو گئے، گاؤں جا جا کر ٹوکریاں لاتے رہے اور پھل بھر بھر کر لے جاتے رہے۔ شام تک یہی سلسلہ جاری رہا، اب گاؤں میں نوشاد میاں کے پاس بہت پھل جمع ہو گئے، انھوں نے ان پھلوں کو فروخت کر کے خوب پیسہ کمایا۔

بہت دن گزر گئے۔ پیڑ انتظار کرتا رہا، نوشاد میاں واپس ہی نہیں آئے۔ نوشاد میاں سے اُسے پیار ہو گیا تھا۔ کسی طرح اُنھیں دیکھنے کو بے چین سا تھا۔

وقت گزرتا گیا، پیڑ کے دیے ہوئے ان پھلوں کی وجہ سے اتنی برکت ہوئی اتنی برکت ہوئی کہ نوشاد میاں مالامال ہو گئے، ان کی تجارت بڑھتی گئی اور وہ ایک ساتھ کئی کام کرنے لگے، اُنھیں اس پیڑ کی یاد نہیں آئی اور بچارا پیڑ تھا کہ ان کے انتظار میں دن بھر گاؤں کے راستے کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا تھا۔

اب نوشاد میاں جوان ہو چکے تھے۔ ایک شام سیر کرتے ہوئے اسی پیڑ کے پاس سے گزرے تو پیڑ نے آواز دی ’’نوشاد میاں، آپ اتنے برس کہاں تھے؟ یاد ہے جب آپ چھوٹے تھے تو میری ایک ڈالی پر اپنا جھولا ڈالا تھا اور آپ کو یاد ہے موسم کی پروا نہ کرتے ہوئے اتنے پھل دیے تھے کہ۔۔۔۔‘‘

’’ہاں ہاں سب یاد ہے۔‘‘ نوشاد میاں نے بڑی بے رُخی سے جواب دیا۔

پیڑ نے کہا ’’ماشاء اللہ نوشاد میاں تم کتنے خوبصورت جوان ہو گئے ہو، میں تو تمھارا انتظار کر رہا تھا، کب آؤ گے کب آؤ گے۔ آؤ ذرا پاس میرے تمھیں اچھی طرح دیکھ سکوں۔‘‘

’’دیکھو وہ بچپن کا زمانہ تھا، اب میں کوئی بچہ نہیں ہوں۔‘‘ نوشاد میاں نے ذرا اینٹھ کر جواب دیا۔

’’ٹھیک ہے پاس نہ آؤ، صرف یہ بتا دو کہ تمھیں کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔‘‘پیڑ نے دریافت کیا۔

’’تکلیف؟ سب سے بڑی تکلیف مکان کی ہے، میرے پاس اپنا کوئی مکان نہیں ہے۔‘‘ نوشاد میاں نے جواب دیا۔

’’اوہ، تو یہ بات ہے۔ تمھارے پاس اپنا مکان نہیں ہے۔‘‘ پیڑ سوچ میں پڑ گیا، پھر اچانک بولا ’’دیکھو نوشاد میاں، تم میرے سب ڈال کاٹ لو، ساری ڈالیاں کاٹ کر لے جاؤ اور بنا لو اپنا مکان۔‘‘

نوشاد میاں کو پیڑ کی یہ تجویز پسند آ گئی،چند ہی دِنوں کے اندر پیڑ بیچارے کے تمام مضبوط ڈال کٹ چکے تھے۔ تمام ڈالیاں کٹ چکی تھیں۔ اب وہ پیڑ کاہے کو تھا، ایک جڑ بن کر رہ گیا تھا۔ اب ڈال تھے اور نہ ڈالیاں تھیں، نہ پھول نکلے نہ چڑیاں آئیں،بھلا پھل کس طرح آتے وہاں۔ اب تھا بھی کیا۔

وقت گزرتا گیا، جانے کتنے برس بیت گئے۔

ایک صبح ایک ضعیف شخص اس پیڑ کی جڑ کے پاس سے گزرا، پیڑ کی جڑ نے اُسے پہچان لیا۔ وہ نوشاد میاں ہی تھے، بوڑھے ہو گئے تھے۔ جڑ نے آواز دی ’’نوشاد میاں، ذرا پاس تو آؤ، کیسے ہو بیٹے، بوڑھے ہو گئے، تمھیں دیکھنے کو آنکھیں ترس رہی تھیں ، اچھا کیا جو ملنے آ گئے۔ بڑا سکون ملا مجھے۔ تمھارے سر کے بال سفید ہو گئے، جھک کر چل رہے ہو، کیا کرو گے نوشاد میاں یہی زندگی ہے، تمھیں یاد ہو گا میں کتنا بڑا اور کتنا گھنا پیڑ تھا، مضبوط توانا، پتوّں، پھولوں اور پھلوں سے لدا ہوا، سینکڑوں پرندے یہاں گھونسلے بناتے تھے ، انڈے دیتے تھے، ان انڈوں سے چوں چوں کرتے پیارے پیارے بچیّ نکلتے تھے، مجھے سب مل کر اپنے نغمے سناتے تھے، اب میں صرف ایک جڑ ہوں، میرے پاس جو کچھ تھا نوشاد میاں میں تمھیں دے چکا۔ اب تو اس جڑ کے علاوہ اور کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے۔ پھر بھی میں تمھارے لیے کچھ کر سکوں تو ضرور بتاؤ، تم میرے بیٹے ہو۔‘‘

نوشاد میاں نے کہا ’’اب تو تم میرے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے، میں ملک سے باہر جا رہا ہوں تاکہ خوب دولت کما سکوں، مجھے ایک کشتی کی ضرورت ہے۔‘‘

’’یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ پیڑ کی جڑ نے چہکتے ہوئے کہا۔

’’کیوں کوئی مسئلہ نہیں ہے؟‘‘ نوشاد میاں نے حیرت سے پوچھا۔

’’ایسا کرو نوشاد میاں، میری جڑ دیکھ رہے ہو نا کتنی بڑی اور پھیلی ہوئی ہے۔ اسے اچھی طرح کھود کر تراش کر نکال لو اور اسی سے اپنی کشتی تیاّر کر لو۔‘‘

’’گڈ آئیڈیا، ویری گڈ آئیڈیا!‘‘ نوشاد میاں خوش ہو گئے۔ ’’میں لے جاؤں گا اسی سے کشتی تیاّر کروں گا۔‘‘

’’ہاں ایک بات یاد رکھنا، جڑ کے جانے کے باوجود میں اسی زمین میں زندہ رہوں گا۔ تم جب بھی واپس آؤ مجھ سے ملنے ضرور آنا، یہ سوچنا میں اپنی قبر میں دفن ہوں۔ مجھے بہت خوشی ہو گی۔‘‘

نوشاد میاں پیڑ کی جڑ تراش کر لے گئے اب وہاں پیڑ کا وجود ہی نہیں تھا—

پھر نوشاد میاں کہاں چلے گئے کون جانے۔

زمین کے اندر پیڑ سوچ رہا تھا جانے نوشاد میاں کہاں ہوں گے، اللہ ان کی حفاظت کرتا رہے۔ مجھے یقین ہے وہ مجھ سے ملنے کبھی نہ کبھی ضرور آئیں گے۔‘‘

بچو،زمین کے اندر وہ پیڑ اسی طرح سوچتا سوچتا دیوانہ نہ ہو جائے اس کے لیے دُعا کرنا!!

٭٭٭

 

 

 

نیلی کھوپڑی کا قصہ

 

۱۹۵۴ء کی بات ہے، بچوّں کے لیے ایک بہت پیارا رسالہ نکلتا تھا نام تھا ’’کھلونا۔‘‘ ان کے لیے بھی بابا سائیں نے کئی کہانیاں لکھی تھیں، بچوّں کے اس رسالے ’’کھلونا‘‘ کے مدیر تھے الیاس دہلوی صاحب۔ اُن کی فرمائش پر بابا سائیں نے بچوّں کے لیے ایک کہانی لکھی تھی ’’نیلی کھوپڑی‘‘ بڑا عجب نام تھا نا؟ الیاس دہلوی صاحب نے اسے کھلونا بک ڈپو سے کتابی صورت میں شائع کی، بہت پسند کی بچوّں نے۔ بابا سائیں نے سوچا کیوں نہ سالگرہ کے دن وہی کہانی سنا دی جائے۔ ۱۹۵۴ء میں آپ لوگ تو تھے نہیں شاید اس پرانی کہانی سے آپ سب کو لطف آئے۔ اب بابا سائیں ڈھونڈھنے لگے اپنی کتاب ’’نیلی کھوپڑی‘‘ کہیں نہیں ملی، نیلی کھوپڑی غائب ہو گئی۔ یوں تھی بھی وہ پُر اسرار کھوپڑی، بھلا اتنے عرصے تک بابا سائیں کی لائبریری میں دُبکی کیسے بیٹھی رہتی، بابا سائیں تلاش کرتے کرتے تھک گئے نہیں ملی ’’نیلی کھوپڑی۔‘‘ تھک ہار کر بابا سائیں نیلی کھوپڑی کی کہانی یاد کرنے لگے، کچھ یاد نہیں آیا، بابا سائیں کہانی ہی بھول گئے۔ بہت کوشش کی یاد کرنے کی۔ کوشش کرتے کرتے دماغ تھک گیا تو بابا سائیں نے سوچا کیوں نہ اسی عنوان سے تمھیں ایک نئی کہانی سنا دیں، چونکہ بابا سائیں کو یہ نام ’’نیلی کھوپڑی‘‘ بہت پسند ہے اس لیے اسی عنوان کے ساتھ کہانی لکھنے کی کوشش کی جائے۔ بابا سائیں کچھ دیر بیٹھ کر سوچتے رہے آپ سب کو یاد کرتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ بابا سائیں کی بارہویں کہانی میں ایسی باتیں ضرور ہوں کہ یہ سالگرہ یاد رہے۔

بچو، لو اب سنو ’’نیلی کھوپڑی‘‘ کی نئی کہانی۔

 

ڈاکٹر الفریڈ ایک مشہور سائنس داں تھے۔ آثارِ قدیمہ یعنی قدیم زمانے کی چیزوں کی تلاش کرتے تھے۔ پرانے دور کے جو آثار نظر آتے اُن کا مطالعہ کرتے اور اپنی پائی ہوئی سچائیوں کو پیش کرتے۔ اُنھوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے تھے۔ ساری دُنیا اُن کے نام اور کام سے واقف تھی۔ کئی برسوں سے مصر کے اہراموں میں گھوم گھوم کر پرانی قابلِ قدر چیزیں تلاش کر رہے تھے۔ اہرام تم جانتے ہی ہو، انگریزی میں اسے پیرامیڈ کہتے ہیں۔ ان میں مصر کے قدیم فرعون اور بادشاہ دفن ہیں، انھوں نے جانے کتنی ممّیوں کو زمین اور تابوتوں سے نکالا اور اُن کا جائزہ لیا۔ اپنی رپورٹ تیاّر کی، جانے کتنی پرانی ہڈّیوں کا مطالعہ کیا۔ تپتے ہوئے ریگستان میں وہ دیوانہ وار گھومتے رہتے، چھوٹے بڑے غاروں میں داخل ہوتے، اندھیرے میں گیس بتیّ جلا کر پڑی ہوئی چیزوں کا معائنہ کرتے، چونکہ وہ کئی برسوں سے مصر کے اہراموں میں گھوم رہے تھے اس لیے اُنھیں یہ سب کچھ اپنا اپنا سا لگنے لگا تھا، پہاڑیاں غار، قبریں، تابوت، انسانی ڈھانچے، کھوپڑیاں وہ ان سے اس طرح گفتگو کرتے جیسے یہ سب ان کے دوست ہوں۔ دن بھر اُن کے ساتھ کئی مصری مزدور ہوتے، شام ہوتے ہی سب چلے جاتے صرف رہ جاتے اپنے سائنسداں ڈاکٹر الفریڈ، اُنھیں آرام کرنے کی خواہش ہوتی تو وہ اپنے خیمے میں چلے جاتے جو اہراموں کے قریب ہی نصب تھا، خود ہی کھانا پکاتے، کسی کی مدد نہیں لیتے۔ رات دیر تک گیس لیمپ روشن کر کے اپنے خیمے میں اپنے تجربے لکھتے رہتے۔ اپنے نوٹس تیاّر کرتے رہتے۔ کبھی کبھی رات میں بھی اپنے خیمے سے باہر نکل آتے اور گنگناتے ہوئے اہراموں کی جانب چل نکلتے۔ تنہا بالکل تنہا۔ اُنھیں ڈر نہیں لگتا، بھلا اُسے کیا ڈر لگے، بچو، جو کئی برسوں سے مُردوں کے درمیان مسلسل اس طرح گھوم رہا ہو وہ تو ہڈّیوں سے، کھوپڑیوں سے، انسانی ڈھانچوں سے اطمینان سے باتیں کرتے تھے اور باتیں کرتے کرتے پہنچ جاتے تھے صدیوں پیچھے۔

ایک شب اُنھیں نیند نہیں آ رہی تھی تو اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ باہر نکل کر ریگستان کی ٹھنڈک کا لطف لیا جائے۔ تم تو جانتے ہی ہو بچو کہ ریت دن بھر گرم رہتی ہے اور شب میں ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ چاندنی رات تھی، دریائے نیل کی جانب سے جو ہوائیں آ رہی تھیں وہ اچھی لگ رہی تھیں۔ ڈاکٹر الفریڈ گنگناتے ہوئے ایک بڑے اہرام کی جانب چلے جا رہے تھے کہ اچانک اُنھیں دُور سے نیلی روشنی نظر آئی، چونک سے گئے، اُنھوں نے اتنے برسوں میں ایسی روشنی کبھی نہیں دیکھی تھی اور یہ پورا علاقہ تو قبرستان ہے۔ یہاں ایسی پُر اسرار نیلی روشنی کہاں سے آئے گی؟ اشتیاق بڑھا تو وہ تیز تیز اس نیلی روشنی کی جانب بڑھتے چلے گئے۔ جیسے جیسے نزدیک پہنچ رہے تھے روشنی اور تیز ہوتی جا رہی تھی۔ جب پاس پہنچے تو اُنھیں یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ سامنے ایک انسانی کھوپڑی ہے اور اسی سے نیلی روشنی نکل رہی ہے۔ کبھی بہت تیز اور کبھی دھیمی۔ کھوپڑی کے پاس پہنچ کر ڈاکٹر الفریڈ نے کھوپڑی اُٹھا لی اور اسے غور سے دیکھنا شروع کیا۔ کھوپڑی عام انسانوں کی کھوپڑی جیسی تھی، وہ تو ہزار کھوپڑیاں دیکھ چکے تھے لیکن یہ عجیب بات تھی کہ اس کھوپڑی سے نیلی روشنی نکل رہی تھی۔ ڈاکٹر الفریڈ ایسی کھوپڑی پا کر بہت خوش ہوئے۔ سوچنے لگے اب تو دُنیا کو وہ ایک بہت ہی پراسرار کھوپڑی دِکھانے والے ہیں کہ جس کی قیمت کوئی لگا ہی نہیں سکتا۔ بادشاہ اپنی سلطنت دے کر بھی اس کی قیمت چکا نہیں سکتے۔ ڈاکٹر الفریڈ ہاتھ میں نیلی کھوپڑی کو سنبھالے اپنے خیمے میں آئے اور اُنھیں سخت حیرت ہوئی کہ کھوپڑی کے آنے کے بعد اب گیس لائٹ کی ضرورت ہی نہیں تھی اس لیے کہ پورا خیمہ نیلی روشنی سے روشن ہو گیا تھا۔ اُنھوں نے گیس لائٹ آف کر دی۔ خیمے میں بس نیلی کھوپڑی کی نیلی روشنی تھی جو پھیلی ہوئی تھی، اس روشنی میں ہر چیز صاف نظر آ رہی تھی۔ڈاکٹر الفریڈ بہت خوشی سے کھوپڑی کو تکتے ہی جا رہے تھے، تکتے ہی جا رہے تھے کہ اچانک— جانتے ہو اچانک کیا ہوا، کھوپڑی بولنے لگی، ہاں کھوپڑی بولنے لگی۔ وہ ڈاکٹر الفریڈ سے مخاطب تھی۔ ڈاکٹر الفریڈ گھبرا گئے۔ اب اُنھیں کچھ ڈر سا لگنے لگا۔ تم ہی بتاؤ صدیوں پرانی کوئی کھوپڑی اچانک بولنے لگے تو کیا حال ہو۔ میں ڈاکٹر الفریڈ کی جگہ ہوتا تو ایک دو تین خیمے سے بھاگ نکلتا اور پہنچ جاتا نیل ندی کے پاس اور اُس میں کود پڑتا۔ ڈاکٹر الفریڈ دل کے مضبوط آدمی تھے، لہٰذا وہ غور سے نیلی کھوپڑی کی باتیں سننے لگے۔

نیلی کھوپڑی کہنے لگی ’’یہ اکیسویں صدی ہے نا؟‘‘

’’ہاں، اکیسویں صدی۔‘‘ ڈاکٹر الفریڈ نے جواب دیا۔

’’ٹھیک ہے، حضرت موسیٰؑ نے کہا تھا کہ تمھیں اکیسویں صدی میں زبان ملے گی سو مجھے مل گئی۔‘‘ نیلی کھوپڑی کو جیسے اطمینان سا ہو گیا ہو۔

’’لیکن اے نیلی کھوپڑی، یہ حضرت موسیٰؑ کی بات کیوں کرنے لگی؟‘‘ ڈاکٹر الفریڈ نے دریافت کیا۔

’’بہت بڑی کہانی ہے، میں اسے مختصر طور پر تمھارے سامنے رکھوں گی۔ حضرت موسیٰؑ کا حکم تھا کہ ا کیسویں صدی عیسوی میں جو تمھیں پا لے گا اسے اپنی کہانی سنا دینا۔ پھر تمھاری رُوح کو نجات مل جائے گی۔‘‘

اب ڈاکٹر الفریڈ کا تجسّس بڑھنے لگا۔ وہ نیلی کھوپڑی کی کہانی سننے کے لیے بے چین ہو گئے۔

’’تو سنو میری کہانی۔ میں حضرت موسیٰؑ کے عہد میں فرعون کے دربار میں ایک وزیر تھا، جب حضرت موسیٰؑ اپنی قوم کو لے کر مصر سے جانے لگے تو میرے وزیر اعظم نے مجھ سے کہا کہ فرعون کا یہ حکم ہے کہ تم مزدور کا بھیس بنا کر موسیٰؑ کے قافلے میں شامل ہو جاؤ اور اُن کے ساتھ ساتھ جاؤ۔ جب موسیٰؑ دریائے نیل کے کنارے پہنچ جائیں تو اُنھیں قتل کر دو۔ تمھیں بہت بڑا انعام ملے گا۔ میں نے ایک فقیر کا بھیس بنایا اور حضرت موسیٰؑ کی اُمّتوں کے قافلے میں شامل ہو گیا۔ جب حضرت موسیٰؑ نیل کے پاس پہنچے تو میں نے اُنھیں قتل کرنے کا انتظام کر لیا۔ اچانک محسوس ہوا کہ حضرت موسیٰؑ جو ایک چھوٹے سے ٹیلے پر کھڑے دریائے نیل کو مخاطب کیے ہوئے ہیں غیر معمولی انسان نہیں اللہ کے پیغمبر ہیں، اُنھیں قتل کرنا گناہ ہے۔ اسی وقت حضرت موسیٰؑ نے میری جانب غور سے دیکھا، لگا وہ مجھے پہچان گئے ہیں۔ میں فوراً آگے بڑھا، خنجر پھینک دیا اور حضرت موسیٰؑ کے قدموں پر گر گیا۔ کہا مجھے معاف کر دیں، مجھے فرعون کا جو حکم ملا تھا اسی کی تعمیل کر رہا تھا۔‘‘

حضرت موسیٰؑ نے کہا ’’ہم نے تمھیں معاف کیا۔ اللہ بھی تمھیں معاف کر دے گا۔ جا واپس چلا جا۔ تیری موت کے بعد تیری کھوپڑی اکیسویں صدی عیسوی تک زندہ رہے گی، اس سے نیلی روشنی نکلتی رہے گی، تو اکیسویں صدی عیسوی میں میری اور اپنی کہانی کسی کو سنا دے گا تو تیری رُوح آزاد ہو جائے گی۔‘‘

’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا حضرت موسیٰؑ کے حکم سے دریائے نیل دو حصّوں میں تقسیم ہو گیا اور درمیان میں ایک راستہ بن گیا۔ اس راستے سے حضرت موسیٰؑ اپنی قوم کو لے کر چلے گئے۔ اسی وقت فرعون گھوڑے پر سوار اپنے وزیر اعظم اور سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ وہ سب دیکھ رہے تھے۔ موسیٰؑ دریائے نیل کے درمیان بنے ہوئے راستے سے گزرتے آگے بڑھتے جا رہے ہیں، اُسی وقت فرعون نے اپنے وزیر اعظم سے کہا، اس شخص کی گردن اُڑا دو۔ یہ موسیٰؑ کو قتل نہ کر سکا۔ اسی وقت وزیر اعظم نے اپنی تلوار سے میری گردن اُڑا دی۔ تب سے آج تک میں وادی مصر میں لڑھکتی پھر رہی ہوں۔ گردن کٹنے کے بعد بھی میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں۔ فرعون اپنی فوج کے ساتھ اسی راہ پر گامزن ہوا کہ جس پر حضرت موسیٰؑ اپنی قوم کے ساتھ آگے بڑھ چکے تھے۔ اچانک دونوں جانب سے دریائے نیل کی تیز لہریں آئیں راستہ گم ہو گیا اور فرعون اپنی تمام فوج کے ساتھ دریائے نیل میں غرق ہو گیا۔ یہ ہے وہ کہانی جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ حضرت موسیٰؑ کے کہنے پر آج ساری باتیں تم سے کہہ دی ہیں۔‘‘

لیکن حضرت موسیٰؑ نے اکیسویں صدی عیسوی کی بات کیوں کی؟کیا اُنھیں معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰؑ آئیں گے اور صلیب پر چڑھنے کے بعد اُن کی وجہ سے عیسوی کی ابتدا ہو گی؟‘‘

’’یقیناً معلوم ہو گا، وہ اللہ کے پیغمبر تھے۔‘‘ نیلی کھوپڑی نے جواب دیا۔

’’لیکن اُنھوں نے ا کیسویں صدی ہی کیوں کہا، بیسویں صدی، اُنیسویں صدی کیوں نہیں کہا؟‘‘ ڈاکٹر الفریڈ نے دریافت کیا۔

’’اس کی واحد وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اکیسویں صدی میں امریکہ اور انگلستان سے فرعونوں کے قافلے انسانیت کو ختم کرنے آئیں گے اور ملکوں کو تباہ کریں گے۔ خود کو نعوذ باللہ فرعون کی طرح دُنیا کا معبود تصوّر کریں گے، پھر ان کی تباہی اُسی طرح ہو گی کہ جس طرح حضرت موسیٰؑ اور ان کے قافلے کے پیچھے دوڑتے ہوئے فرعون اور اُس کی فوج کو ہوئی تھی۔ یعنی یہ فرعون بھی انشاء اللہ ختم ہو جائیں گے۔‘‘

کہانی ختم ہوتے ہی نیلی کھوپڑی خاموش ہو گئی اور ڈاکٹر الفریڈ نے دیکھا کھوپڑی کی نیلی روشنی گم ہو گئی۔ خیمے میں اندھیرا ہو گیا۔ اُنھوں نے گیس لائٹ روشن کی تو کیا دیکھتے ہیں نیلی کھوپڑی راکھ کی ڈھیر ہو چکی ہے۔ کوئی نشان موجود نہیں ہے اس کا۔ ڈاکٹر الفریڈ نے اپنے نوٹ بک پر ساری تفصیل لکھی اور اسے دنیا والوں اور نئے فرعونوں کے لیے شائع کر دیا۔

٭٭٭

 

 

 

آبشار کے پاس ایک بزرگ

 

 

عرفیؔ، عامرؔ، جوہیؔاور سونوؔ— تین بھائی ایک پیاری سی بہن۔ سب ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔ پڑھنے لکھنے میں تیز، کھیل کود میں آگے، تینوں ہر اتوار کو سیر کے لیے جاتے اور خوب مزے لیتے۔ اتوار کا دِن تھا۔ عامر نے کہا ’’بھیّا آج ہم لوگ پاس کے پہاڑ پر چڑھیں اور اُوپر جا کر آبشار دیکھیں۔‘‘ عرفی نے عامر کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی بہن جوہی سے پوچھا ’’تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘

جوہیؔ نے ہنستے ہوئے جواب دیا ’’لڈّو پیڑا کی بات مان کر ہمیں پہاڑ پر چڑھنا چاہیے اور آبشار ضرور دیکھنا چاہیے۔‘‘

جوہیؔ عامرؔ کو لڈّو پیڑا کہتی تھی اس لیے کہ عامرؔ کی باتیں بہت پیاری اور میٹھی ہوتی تھیں۔ بھائی بہن نے فیصلہ کر لیا کہ وہ پہاڑ پر چڑھیں گے اور آبشار کو قریب سے دیکھیں گے، ان کے ابّا امّاں نے جانے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ انھیں ناشتہ دان تھماتے ہوئے ان کی امّاں نے کہا ’’تم لوگ اپنا خیال رکھنا، آبشار کے زیادہ قریب نہ جانا اور شام ہوتے ہی واپس آ جانا۔‘‘

چاروں نے سر جھکا کر کہا ’’امّاں آپ کا جیسا حکم۔‘‘ اور تینوں ناشتہ دان سنبھالے پہاڑی کی جانب چلے۔

چلتے چلتے، چڑھتے چڑھتے پہاڑ کے اُوپر آ گئے، چونکہ ان بہن بھائیوں کو آبشار دیکھنے کا شوق تھا۔ اس لیے اُونچے پہاڑ پر چڑھتے ہوئے اُنھیں اپنی تھکن کا قطعی کوئی احساس ہی نہ ہوا۔ جیسے جیسے اُوپر چڑھ رہے تھے آبشار کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔ وہاں پہنچتے ہی اُنھیں لگا کہ یہاں صرف آبشار کی تیز آواز ہے باقی ساری آوازیں گم ہو گئی ہیں۔ اب وہ ایک دوسرے سے تیز آواز میں باتیں کرنے لگے تھے اس لیے کہ آبشار کی آواز اتنی تیز تھی کہ خود ان کی آوازیں ایک دوسرے تک نہیں پہنچ رہی تھیں۔ چیخ کر کچھ کہتے تو بات سنائی دیتی ورنہ کچھ سنائی ہی نہ دیتا۔

جب وہ آبشار کے قریب پہنچے تو بس اسے دیکھتے ہی رہ گئے۔ اُونچے پہاڑ سے پانی اس شدّت سے نیچے آ رہا تھا کہ کچھ نہ پوچھو۔ چاروں حیرت سے آبشار کی خوبصورتی دیکھ رہے تھے اور اس کی تیز آواز سن رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا جیسے آبشار کی آواز نے ماحول کی ہر چیز کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔

اچانک عرفی کی نظر آبشار کے قریب بیٹھے ایک صوفی بزرگ پر پڑی۔وہ ایک چٹاّن سے ٹیک لگائے خاموش بیٹھے نظر آ رہے تھے۔ عرفی نے عامر، جوہی اور سونو سے کہا ’’وہ دیکھو وہاں چٹاّن سے ٹیک لگائے ایک بزرگ بیٹھے تسبیح پڑھ رہے ہیں۔ اللہ اللہ کر رہے ہیں، چلو چلتے ہیں ان کے پاس۔‘‘

عرفی، عامر، جوہی اور سونو اُس جانب بڑھے کہ جہاں وہ صوفی بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے۔ قریب پہنچے تو دیکھا بڑی سفید داڑھی ہے، چہرے پر نور برس رہا ہے۔ سبز لباس میں وہ اس آبشار کے پاس بڑے پیارے لگ رہے تھے۔ پاس پہنچے تو بزرگ صوفی نے آنکھیں کھولیں، مسکرائے اور بہن بھائیوں کو پاس بیٹھنے کو کہا۔ چاروں نے زور سے کہا ’’السلام علیکم۔‘‘

اُنھوں نے جواب دیا ’’وعلیکم سلام، آؤ میرے پاس بیٹھو۔‘‘

چاروں بڑے ادب سے اُن کے پاس بیٹھ گئے۔ پہلے تعارف ہوا۔ عرفی نے اپنے بھائی عامر اور سونو اور اپنی بہن جوہی کے نام بتائے، پھر یہ بتایا کہ وہ آبشار دیکھنے آئے ہیں۔ بزرگ صوفی بہت خوش ہوئے۔ تینوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر دُعائیں دیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے کرتے بزرگ صوفی نے عرفی سے اچانک پوچھا ’’آبشار کے پاس تو بیٹھے ہو، یہ تو بتاؤ تمھیں آبشار کی کون سی بات زیادہ اچھی لگ رہی ہے؟‘‘

’’عرفی نے جواب دیا ’’حضور، مجھے اس کی آواز بہت اچھی لگ رہی ہے۔‘‘

’’اور تم بتاؤ عامر میاں، تمھیں آبشار کی کون سی بات زیادہ ا چھی لگ رہی ہے؟‘‘

عامر نے جواب دیا ’’آبشار کی آواز۔‘‘

’’بہت خوب! اور بی بی جوہی، آپ بتائیے؟‘‘

جوہی نے فوراً کہا ’’جو بھیّا اور لڈّو پیڑے نے کہا۔‘‘

بزرگ صوفی بھیّا تو سمجھ گئے اس لیے کہ اشارہ عرفی میاں کی جانب تھا لیکن اُنھیں ’’لڈّو پیڑا‘‘ سمجھ میں نہیں آیا۔ پوچھا ’’بی بی یہ لڈّو پیڑا کون ہے؟‘‘

’’میرا چھوٹا بھیّا عامر، میں اُسے لڈّو پیڑا کہتی ہوں۔ بہت میٹھا ہے نا، میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہے۔‘‘ جوہی نے جواب دیا۔

بزرگ صوفی ہنس پڑے ’’خوب، بہت خوب! تم سب بہت میٹھے ہو، چاروں لڈّو پیڑے ہو۔‘‘پھر رُک کر بولے ’’تو تم کو آبشار کی آواز پسند آئی۔‘‘

سب نے کہا ’’جی!‘‘

’’اِس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ آبشار کی آواز بہت اچھی ہے، لگتا ہے فطرت قہقہے لگاتی جا رہی ہے، بس ہنستی جا رہی ہے۔ غور کرو بچو،آبشار تمھیں اپنے عمل سے کئی باتیں سمجھا رہا ہے۔‘‘

’’مثلاً؟‘‘ عرفی نے دریافت کیا۔

’’مثلاً یہ بچو کہ اس میں زبردست حرکت ہے، کتنی حرکت ہے اس میں، ہے نا۔‘‘ بزرگ صوفی نے کہا۔

’’جی ہاں، پہاڑ کے اُوپر سے اتنی تیز رفتار سے نیچے آ رہا ہے، زبردست حرکت ہے۔‘‘ عامر نے کہا۔

’’یہ سمجھا رہا ہے بچو کہ زندگی حرکت کا نام ہے۔ چپ چاپ بیٹھے رہنے کا نام نہیں ہے،زندگی میں حرکت ہو گی نا تب ہی کامیابی ملتی رہے گی۔آبشار کے اس سبق کو یاد رکھو،جب حرکت ہو گی زندگی میں تبھی کامیابی نصیب ہو گی۔ دیکھو، پانی تیزی سے اُتر رہا ہے اور اُتر کر تیزی سے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ پتھروں کے اُوپر سے گزرتا جا رہا ہے۔ اپنی منزل کو پانے کے لیے کتنا بے چین ہے، یہ سبق یاد رکھنے کا ہے بچو۔‘‘

چاروں نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’اور دیکھو بچو۔‘‘بزرگ صوفی نے کہا ’’یہ لوگوں کی پیاس بجھاتا ہے، یہ دوسرا سبق ہے۔ زندگی میں ہم ایک دوسرے کے کام نہ آئیں تو جینے کا کیا فائدہ ہے۔ جس طرح آبشار دوسروں کی پیاس بجھاتا ہے اُسی طرح ہمیں بھی دوسروں کے کام آنا چاہیے، پیاس بجھاتے رہنا چاہیے،دوسروں کی خدمت کرتے رہنا چاہیے، جس طرح آبشار کا پانی پاکیزہ ہے اُسی طرح انسان کو پاکیزہ رہنا چاہیے اور لوگوں کی مدد کرتے ہوئے پاکیزہ رِشتے قائم کرنا چاہیے۔‘‘

جوہی نے جھٹ کہا ’’یعنی ہر آدمی کو لڈّو پیڑا بن جانا چاہیے، میٹھا میٹھا، ہے نا!‘‘

بزرگ صوفی خوش ہو گئے۔ جوہی کی پیاری بات سن کر بہت خوش ہوئے۔ چاروں کو دُعائیں دیں۔ ’’کہا اب تم اپنا کھانا کھاؤ اور آبشار کا پانی پیو اور شام ہونے سے پہلے نیچے اُتر کر گھر چلے جاؤ۔ آبشار کی باتیں یاد رکھو۔‘‘

عرفی، عامر، جوہی اور سونو نے سلام کیا اور رخصت ہوئے۔ کچھ نیچے اُترے، ناشتہ دان کھولا، امّاں کا بنایا ہوا کھانا کھایا۔ آبشار کے اُس پاکیزہ پانی کو پیا جو نیچے اُتر کر تیزی سے دُور بھاگا جا رہا تھا۔ بزرگ صوفی کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے نیچے آئے اور پھر گھر آ گئے۔

امّاں نے دریافت کیا ’’سناؤ، آبشار دیکھ آئے؟‘‘

’’ہاں امّاں!‘‘ چاروں نے ایک ساتھ جواب دیا۔

’’بہت مزا آیا۔‘‘ سونو نے کہا۔

’’ہم آبشار دیکھنے پھر جائیں گے لیکن آپ اور پاپا دونوں ساتھ ہوں گے۔‘‘

تب ہی عرفی نے کہا ’’پھر اور زیادہ لطف آئے گا۔‘‘

’’ہمیں وہاں ایک لڈّو پیڑا ملے تھے امّاں۔‘‘ جوہی بول پڑی۔

’’لڈّو پیڑا ؟‘‘ امّاں نے حیرت سے دریافت کیا۔

’’ہاں امّاں، ایک بزرگ ملے تھے، بہت میٹھی میٹھی باتیں کر رہے تھے۔ لگتا تھا جیسے ہم لڈّو پیڑا کھا رہے ہیں۔‘‘سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

٭٭٭

 

 

 

بابا سائیں چین میں

 

بابا سائیں جہاں بھی جاتے ہیں چند بچیّ اُن کے دوست ضرور بن جاتے ہیں۔ سعودی عرب، لندن، ماسکو، لینن گراڈ، تاشقند، بخارا، سمرقند، ترکمانیہ، دوشنبے (تاجکستان) جہاں بھی گئے بچوّں سے اُن کی دوستی ضرور ہوئی۔ جب عوامی جمہوریہ چین کی دعوت پر چین گئے اور دارالحکومت بیجنگ میں ٹھہرے تو کئی روز تک کسی بچیّ سے ملاقات نہیں ہوئی، بہت اُداس ہو گئے، اُنھیں کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا، ایک صبح اُنھوں نے اپنے میزبان سے صاف طور پر کہا اگر چین کے بچوّں سے میری ملاقات نہ ہوئی تو میں واپس اپنے ملک ہندوستان چلا جاؤں گا۔ جانتے ہو میرے سرکاری میزبان نے کیا کیا، مجھے چین کے ایک خوبصورت گاؤں میں لے گئے، وہاں چھوٹے بچوّں کا ایک بہت ہی پیارا اسکول تھا، سینکڑوں بچوّں کو ایک ساتھ دیکھ کر بابا سائیں اِتنے خوش ہوئے اِتنے خوش ہوئے کہ کچھ نہ پوچھو۔ جلد ہی بچوّں میں گھل مِل گئے اور لگے اُن کے ساتھ کھیلنے، چھوٹے بچوّں کو گود میں اُٹھا اُٹھا کر خوب پیار کیا۔ بابا سائیں کو لگا اِتنے دِنوں بعد اِتنے بہت سے ’’چاکلیٹ میٹھے میٹھے‘‘ مل گئے ہیں۔ دو گھنٹے اسکول میں رہے۔ بچوّں نے گانے سنائے، رقص کیا، خوب مزا آیا بابا سائیں کو، اِتنے بچوّں سے ایک ساتھ مل کر۔ ایک چھوٹی بچی تھی پانچ چھ سال کی، چینی گانے لہک لہک کر سناتی تھی، اُس کا نام لیؔ تھا، بابا سائیں سے دوستی کر لی اور وہ بابا سائیں کا ہاتھ پکڑ کر خود بھی ناچتی رہی اور بابا سائیں کو بھی نچاتی رہی۔ چینی بچیّ کس طرح ناچتے ہیں مجھے سکھاتی رہی۔ دو گھنٹے بعد بابا سائیں اسکول سے واپس آ گئے لیکن تنہا نہیں آئے بچوّں کی یادیں لے کر آئے۔ آج بھی وہ پیارے پیارے بچّے اور خاص طور پر ’لی‘ کی بہت یاد آتی ہے۔

بابا سائیں دیوارِ چین پر چڑھے، تم جانتے ہی ہو چین کے جنوب میں یہ دُنیا کی سب سے بڑی دیوار ہے۔ انسان کی بنائی ہوئی بس ایک ہی چیز ایسی ہے جو چاند سے نظر آتی ہے۔ ۱۹۶۹ء میں جب دو امریکی خلا باز چاند پر پہنچے تو اُنھیں دُنیا کی یہ واحد چیز تھی ’دیوارِ چین‘ جو اُنھیں نظر آئی تھی۔ بہت ہی مضبوط دیوار ہے۔ اس کے کچھ حصّے ۴۷۵-۲۲۱ سال قبل مسیح بنائے گئے تھے پھر اس کی تعمیر ہوتی رہی، بچوّ! یہ دیوار اس لیے بنی کہ باہر سے دُشمن چین پر حملہ نہ کر دیں۔ کہا جاتا ہے کہ ۲۱۴ سال قبل مسیح اس کی تکمیل ہوئی تھی۔ اس کے بعد بھی اس کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا۔ منگ خاندان کے بادشاہوں کے زمانے میں یعنی ۱۳۶۸ء – ۱۶۴۴ء کے درمیان اسے مکمّل کیا گیا۔ تم نے دیوارِ چین کی تصویریں ضرور دیکھی ہوں گی۔ اس پر چڑھنا آسان کام نہیں ہے۔ اس پر چڑھنے کے کئی راستے ہیں، بڑی بڑی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ بابا سائیں دُنیا کے اس بڑے عجوبے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور لگے دیوارِ چین پر چڑھنے، بڑا مزہ آ رہا تھا۔ تھک جاتے تو کبھی چوڑی دیوار پر بیٹھ جاتے اور کبھی سیڑھیوں پر۔اُن ہی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اُنھوں نے دیکھا کہ ایک ضعیف چینی مصوّر بیٹھا تصویریں بنا رہا ہے اور اس کے پاس دس بارہ برس کا ایک لڑکا بڑے میاں سے تصویر بنانے کا سبق لے رہا ہے۔ بابا سائیں وہیں بیٹھ گئے اور لگے دیکھنے بڑے میاں کی بنائی ہوئی تصویروں کو۔ بڑے میاں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھ سے پوچھا ’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘ بابا سائیں نے جواب دیا ’’ہندوستان سے۔‘‘ وہ بہت خوش ہوئے کہا

’’ہندوستان بھی ایک بڑا ملک ہے۔ وہ گوتم بدھ کا بھی وطن ہے۔‘‘ بابا سائیں نے کہا ’’آپ درست فرما رہے ہیں۔‘‘ بڑے میاں نے بتایا کہ وہ اس لڑکے کے دادا میاں ہیں۔ لڑکے کا نام ’شی شوان‘ ہے۔ وہ روز یہاں بیٹھ کر تصویریں بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ بابا سائیں نے شی شوان کو پاس بلایا اُسے پیار کیا۔ شی شوان بہت خوبصورت، بہت پیارا لڑکا تھا لیکن صرف چینی زبان ہی بول سکتا تھا اور بابا سائیں چینی زبان نہیں جانتے تھے لیکن دونوں نے اشاروں میں باتیں کر کے اور ضعیف مصوّر کی مدد سے ایک دوسرے سے دوستی کر لی۔ بابا سائیں نے اُسے ہندوستان کا بناہوا کنڈے کا ایک قلم دیا اور شی شوان نے اپنی جیب سے ایک پیارا سا خوبصورت پتھر نکالا اور بابا سائیں کو پیش کیا۔ بس ہو گئی دونوں میں دوستی۔ شی شوان کے دادا جی نے بابا سائیں کی ایک تصویر بنائی ہو بہو بابا سائیں ، کوئی فرق نہیں، پس منظر میں دیوارِ چین اور سامنے بابا سائیں۔ شی شوان نے یہ تصویر پیش کی اور چینی زبان میں کہا ’’ہماری یادگار ہے رکھ لیں۔‘‘اُن دونوں سے رُخصت ہو کر اپنی تصویر سنبھالے دیوارِ چین پر چڑھنے لگا۔ اُوپر اور اُوپر، بڑا لطف آیا۔ جب نیچے اُترا تو دوستوں نے خوب تالیاں بجائیں اور بابا سائیں کو بڑی حیرت انگیز مسرّت ہوئی۔ جب دیوارِ چین پر کامیابی کے ساتھ چڑھنے کے لیے اُنھیں ایک سرٹیفکیٹ پیش کیا گیا۔ بابا سائیں خوشی خوشی اپنی تصویر اور شی شوان کے خوبصورت پتھر کو سنبھالے اپنے ہوٹل واپس آئے۔یہ دونوں چیزیں بابا سائیں کے پاس محفوظ ہیں، جب بھی تصویر دیکھتا ہوں وہ ضعیف چینی مصوّر یاد آتے ہیں اور جب بھی وہ پتھر دیکھتا ہوں اپنے پیارے دوست شی شوان کو یاد کرتا ہوں، دونوں نے بابا سائیں کو خوب پیار دیا، بھلا بابا سائیں اُنھیں کس طرح بھول سکتے ہیں۔ زندگی پیار کے رِشتوں ہی میں بندھی ہے۔ بچوّ، تو زندگی کی سچی مسرّت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اِس عمر میں بابا سائیں صرف محبتوں کو ہی یاد کرتے رہتے ہیں اور ان محبتوں میں سب سے معصوم اور انوکھی محبت بچوّں ہی کی ہوتی ہے۔

بچوّ، کیا تمھیں یہ معلوم ہے کہ دُنیا کا سب سے بڑا ڈاک ٹکٹ چین میں بنا تھا۔ یہ ۱۸۷۸ء میں بنا تھا کہ جس پر ’’ڈریگن‘‘ کا چہرہ تھا۔ ۱۹۱۳ء میں جو ڈاک ٹکٹ بنا وہ ۲۴۷ء۵ ملی میٹر لمبا تھا اور ۸ء۶۹ ملی میٹر چوڑا۔ یہ دُنیا کا سب سے بڑا ڈاک ٹکٹ مانا جاتا ہے۔ تم یہ ضرور جانتے ہو گے کہ کاغذ سب سے پہلے چین ہی نے بنایا تھا۔ بانس کی چٹائی پر ریشم کو دھوتے دھوتے اُنھوں نے اچانک کاغذ کی دریافت کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ ۲۰۶ سال قبل مسیح سے چین میں کاغذ کا استعمال ہو رہا ہے۔

میرے چھوٹے دوست شی شوان نے تین چینی لفظ لکھ کر سکھائے تھے۔ سوچا آج وہ تینوں الفاظ لکھ کر میں بھی دِکھلا دُوں:

چاند، سورج،گھوڑا

مجھے معلوم نہیں یہ حروف درست لکھے ہوئے ہیں یا نہیں۔ بابا سائیں کی ڈائری پر شی شوان نے اسی طرح لکھا تھا۔ کچھ بھی ہو یہ بڑے خوبصورت لگتے ہیں، ہیں نا؟

بچوّ، تم سبھوں کو نیا سال بہت بہت مبارک ہو۔

بابا سائیں کو بہت سے بچوّں نے خط لکھے ہیں۔ فون کیے ہیں۔ بابا سائیں نے ہر خط کا جواب دے دیا ہے۔ ان بچوّں میں علیم اختر (دہلی)، ثریا جبیں (پٹنہ)، ایم۔ مرغوب (سہارنپور)، سیّد رضوان سیّد (مالیگاؤں)، بشیر احمد (علی گڑھ)، احسان علی خاں (میرٹھ)، کوثر جبیں کوثر (حیدرآباد) کے خط بہت ہی پیارے ہیں۔ بابا سائیں نے تمام خطوں کو حفاظت سے رکھنا شروع کر دیا ہے، فرصت کے لمحوں میں بابا سائیں اُنھیں پڑھ کر خوش ہوتے رہیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

پہاڑ اور گلہری کی کہانی

 

 

بچو!علاّمہ محمد اقبال ایک پہاڑی علاقے کی سیر کر رہے تھے، گھومتے گھومتے کچھ تھک گئے تو ایک پتھر پر بیٹھ گئے، اپنے خیالوں گم تھے کہ اُنھیں اچانک محسوس ہوا جیسے پاس ہی کوئی کچھ بول رہا ہے، باتیں کر رہا ہے، ایسا کیوں محسوس کر رہے ہیں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اِدھر اُدھر دیکھا کوئی نظر نہیں آیا، جس پتھر پر بیٹھے تھے اُن کے پیچھے ایک پہاڑ تھا۔ اُنھیں لگا پہاڑ ہی کچھ بول رہا ہے۔ پہاڑ کے نیچے ایک گلہری نظر آئی، وہ بھی اپنی خاص آواز کچھ کہہ رہی تھی، کیا کہہ رہی تھی یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ علاّمہ اقبال سمجھ گئے پہاڑ اور گلہری کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے، کوئی ڈراما ہو رہا ہے۔ اُنھوں نے اللہ پاک سے دُعا کی ’’یا اللہ! یہ جو ڈراما ہو رہا ہے اس کے مکالمے سننا چاہتا ہوں۔‘‘

اللہ پاک نے دُعا قبول کر لی اور علاّمہ اقبال پتھر پر بیٹھے بیٹھے پہاڑ اور گلہری کی باتیں سننے لگے۔

پہاڑ گلہری سے کہہ رہا تھا: اے بے شرم، تجھے چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔ چھپکلی جیسی ہے اور غرور دِکھاتی ہے۔ میرے پاس جو عقل ہے، جو سمجھ ہے وہ تیرے پاس کہاں، پھر پہاڑ نے ترنم سے یہ اشعار پڑھے:

تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے؟

زمین پست مری آن بان کے آگے

جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں

بھلا پہاڑ کہاں ، جانور غریب کہاں

پہاڑ حد درجہ مغرور تھا اپنی بلندی پر، کہہ رہا تھا میری آن بان کے سامنے زمین پست ہے، اس کی حقیقت کیا ہے۔ رہ گئے غریب جانور بھلا وہ پہاڑ کے سامنے کیا حقیقت رکھتے ہیں، کچھ بھی نہیں۔

گلہری مغرور پہاڑ کی باتیں غور سے سن رہی تھی، لیکن ساتھ ہی اُس کے ترنم کو پسند بھی کر رہی تھی، اُسے لاہور کا ایک سالانہ مشاعرہ یاد آگیا جہاں بڑے بڑے شعراء جمع تھے، ڈائس سے لگی وہ ہر شاعر کے کلام کو سن رہی تھی، جو شاعر ترّنم سے پڑھتا تھا اُسے پسند کرتی اور واہ واہ سبحان اللہ کہتی۔ اُسی مشاعرے میں پہاڑ ہی کی طرح ایک بھاری بھرکم شاعر آئے تھے، جب ترنم سے غزل پڑھنے لگے تو سامعین جھومنے لگے، واہ واہ سبحان اللہ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ خود گلہری بھی اتنا عمدہ تر نم سن کر جھومنے لگی تھی۔ گلہری کو پہاڑ کا تر نم سن کر لاہور کا وہ شاعر یاد آگیا۔ خیر، پہاڑ نے اپنے غرور کا مظاہرہ کر دیا۔ گلہری کو اس کا ترّنم تو پسند آیا لیکن اس کی باتیں قطعی پسند نہیں آئیں اس لیے کہ پہاڑ اور گلہری دونوں کو اللہ پاک نے بنایا ہے۔ اگر کوئی اُونچا یا بڑا ہے تو کیا، اور کوئی چھوٹا ہے تو کیا، سب اُسی مالک کے بنائے ہوئے ہیں۔ کسی کو اپنی اُونچائی بڑائی پر غرور نہیں کرنا چاہیے۔ پہاڑ ہے تو اُونچا، بھاری بھرکم، مضبوط لیکن بہت مغرور ہے اور غرور کرنا اچھا نہیں۔ اللہ پاک بہت ناراض ہوتے ہیں۔

گلہری سوچنے لگی: ’’پہاڑ کو کتنا غرور ہے اپنی بلندی پر، اللہ توبہ اللہ توبہ!‘‘ گلہری نے فیصلہ کیا پہاڑ کو اس کا جواب ضرور ملنا چاہیے، لہٰذا مغرور پہاڑ سے مخاطب ہو کر وہ بھی مترّنم آواز میں اپنے اشعار پڑھنے لگی۔پہلے تو یہ کہا: اے مغرور پہاڑ، اپنا منہ سنبھال، تیری باتیں کچی ہیں انھیں دِل سے نکال دے۔ پھر ترّنم سے یہ اشعار پڑھنے لگی:

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا!

نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا!

ہر ایک چیز ہے پیدا خدا کی قدرت سے

کوئی بڑا ، کوئی چھوٹا ، یہ اس کی حکمت ہے

بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے

مجھے درخت پر چڑھنا سکھا دیا اُس نے

قدم اُٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں

تری بڑائی ہے ! خوبی ہے اور کیا تجھ میں

جو تۃو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دِکھا مجھ کو

یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دِکھا مجھ کو

نہیں ہے چیز نکمّی کوئی زمانے میں

کوئی بڑا نہیں قدرت کے کارخانے میں

ننھی گلہری نے پہاڑ کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ اللہ کی بنائی ہوئی کوئی چیز ، وہ بڑی ہو یا چھوٹی، فضول اور نکمّی نہیں ہے۔ کوئی بھی برا نہیں ہے۔ اگر میں بڑی نہیں ہوں، تیری طرح مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ذرا تُو یہ تو بتا دے کیا تو میری طرح چھوٹا ہو سکتا ہے؟ یہ کہہ کر گلہری زور سے ہنسی۔ پھر کہا : اے مغرور پہاڑ، یہ اللہ کی قدرت ہے کہ کوئی بڑا ہے اور کوئی چھوٹا۔ جس نے تجھے بڑا بنایا ہے اُسی نے مجھے درختوں پر چڑھنا سکھایا ہے۔اے مغرور پہاڑ، ذرا آگے قدم بڑھا کر تو دِکھا، تُو تو ایک قدم بھی نہیں چل سکتا ہے، تُو جہاں ہے وہیں رہے گا، ساکت، قدم اُٹھانے کی ہمّت نہیں ہے تجھ میں۔ اگر تُو بڑا ہے تو ذرا چھالیا توڑ کر دِکھا۔ دیکھو میں اپنے دانتوں سے کس طرح چھالیا توڑ رہی ہوں۔پھر کٹر کٹر کی آوازیں آئیں۔گلہری اپنے دانتوں سے چھالیا توڑ کر پہاڑ کو دِکھا رہی تھی اور پہاڑ جو اَب تک اس چھوٹی سی گلہری سے سچائی کو سمجھ چکا تھا، بچو، وہ حیرت میں ڈوبا گلہری کو دیکھ رہا تھا۔ علاّمہ اقبال جو یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے پتھر سے اُٹھے ہی تھے کہ پہاڑ سے چھوٹے بڑے پتھر ٹوٹ کر نیچے گرنے لگے۔ علاّمہ اقبال کو ایسا لگا جیسے پہاڑ کا غرور ٹوٹ کر نیچے آ رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایک کہانی بہت پرانی

 

 

بچو،تم نے بزرگوں سے یہ ضرور سنا ہو گا ’’افواہوں پر کان نہ دھرو‘‘ سنا ہے نا؟ یہ بہت ہی ٹھیک بات ہے۔ افواہوں پر یقین نہیں کیا جا سکتا،افواہیں اُڑتی رہتی ہیں، ہمیں اور لوگوں کو مشکلوں میں ڈالتی رہتی ہیں۔کبھی بہت نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ کوئی افواہ اُڑتی ہے تو بتانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کتنی سچ اور کتنی جھوٹ ہے۔ افواہیں دیو پریوں سے زیادہ تیز اُڑتی ہیں۔ اکثر افواہیں آگ جیسی ہوتی ہیں۔ لوگوں کو اور اُن کے گھروں کو جھٹ لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں شہر خاک بن جاتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی افواہ پھیلی اس کی آگ جیسی لپٹوں میں جان مال کا نقصان ہوا۔ پھر معلوم ہوا بات غلط تھی۔ کسی نے جھوٹ کا پٹارا کھول دیا اور پھر لوگوں کی دُنیا خواہ مخواہ

لٹ گئی۔ یہ بات ہم سب کو جان لینی چاہیے کہ افواہوں سے اکثر بہت نقصان ہوتا ہے۔ کوئی افواہ اُڑے تو اس کی سچائی کو جان لینا ضروری ہے— لیکن بچوّ،ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی افواہ اُڑتی ہے تو اس سے بڑا فائدہ بھی ہو جاتا ہے۔ عجیب بات ہے نا؟– تو لو سنو ایک ایسی کہانی جس میں افواہ نے ایک ملک کو ایک بڑے عذاب سے بچا لیا۔ بابا سائیں نے یہ کہانی چین میں سنی تھی۔

کہانی یوں ہے بچو کہ چین کے ایک علاقے میں ایک بادشاہ تھا۔ اُس کا نام منگ چھانگ تھا۔ بہت مضبوط اور طاقتور تھا۔ اُس نے سوچا اپنے ایک پڑوسی ملک پر حملہ کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے۔ اُس ملک کے بادشاہ اور وہاں کے لوگوں کو قتل کر کے اس پر قبضہ کر لیا جائے۔ منگ چھانگ کے وزیر لنگ نے سوچا یہ تو بہت برا ہو گا، میرا بادشاہ حملہ آور ہو گا۔ قتل و غارت سے اُس ملک پر تباہی ٹوٹ پڑے گی۔ لوگ بے گناہ ہیں خواہ مخواہ مارے جائیں گے۔ سب کی دُنیا لٹ جائے گی، اُس نے سوچا کوئی ایسی افواہ پھیلائی جائے کہ بادشاہ منگ چھانگ کا ارادہ تبدیل ہو جائے اور وہ اپنے پڑوسی ملک پر حملہ نہ کرے۔ سوچتے سوچتے لنگ کو ایک بات سوجھی، نیک ارادے اور نیکی کے خیال سے اگر میں جھوٹ بولتا ہوں اور افواہ پھیلاتا ہوں تو پڑوسی ملک کا یقینا بڑا بھلا ہو گا۔ ملک تباہی سے بچ جائے گا۔

وزیر لنگ دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ سے کہا ’’حضور، اگر آپ نے پڑوسی ملک پر حملہ کیا تو بڑا نقصان ہو گا، پڑوسی ملک کا بھی نقصان ہو گا اور اپنے ملک کا بھی، اور پڑوسی ملک خاموش تو نہیں رہے گا وہ بھی تو ہمیں برباد کرنے کی کوشش کرے گا۔‘‘

یہ سن کر بادشاہ سخت ناراض ہوا، بولا ’’لنگ تم جانتے ہی ہو کہ میں کتنا مضبوط ہوں۔ میرے پاس کیسے کیسے ہتھیار ہیں۔ میں اُس ملک کو مٹّی میں ملا دُوں گا۔‘‘

’’حضور جان کی امان پاؤں تو ایک بات عرض کروں۔‘‘ وزیر لنگ نے عاجزی سے کہا۔

’’کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ بادشاہ گرجا۔

’’حضور ابھی ابھی ایک شخص دریائے ’تری‘ پار کر کے آیا ہے، حضور جانتے ہی ہیں کہ جس ملک پر آپ حملہ کرنا چاہتے ہیں وہ دریائے ’تری‘ کے پاس آباد ہے۔ حملہ کرنے سے قبل ہمیں اس دریا کو پار کرنا ہو گا ہی۔‘‘

’’خوب جانتا ہوں دریائے تری کو، میں بچپن میں اس میں خوب ڈُبکیاں لگاتا تھا۔

’’تو حضور اس شخص نے بتایا کہ دریائے تری کے کنارے دو بت کھڑے ہیں، ایک بت لکڑی کا ہے اور دوسرا مٹّی کا، دونوں باتیں کر رہے تھے۔‘‘

’’کیا کہہ رہے تھے؟‘‘ بادشاہ کی دلچسپی بڑھی۔

’’کہہ رہے تھے بادشاہ منگ چھانگ حملہ کرنا چاہتا ہے ذرا دریا تو پار کرے ہم دیکھ لیں گے۔‘‘

’’کیا دیکھ لیں گے؟ کیا کر لیں گے دونوں بت۔‘‘بادشاہ نے پوچھا، لہجے سے لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ خوفزدہ ہو گیا ہے، وہ کیسے یقین کرتا کہ لکڑی اور مٹّی کے بت آپس میں باتیں کریں گے۔

وزیر نے کہا ’’جان کی امان پاؤں تو عرض کروں وہ کیا کہہ رہے تھے۔‘‘

’’اجازت ہے۔‘‘ بادشاہ نے کہا۔

’’مٹّی کے بت نے کہا میں تو منگ چھانگ کے تمام فوجیوں کی ٹانگیں پکڑ کر دَلدل میں پھنسا دوں گا اور وہ بچاؤ بچاؤ کہتے کہتے دَلدل میں دھنس جائیں گے۔‘‘

’’اور لکڑی کے بت نے کیا کہا؟‘‘بادشاہ کے لہجے میں تھرتھراہٹ سی تھی۔

’’اور لکڑی کے بت نے کہا اور میں، میں منگ چھانگ کے سر کو توڑ دوں گا اور اس کا مغز کھا جاؤں گا۔‘‘

دربار میں سنّاٹا چھا گیا، بادشاہ بھی گھبرا گیا۔ پسینے پسینے ہو رہا تھا۔ بولا ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، میری صحت ٹھیک نہیں ہے، پڑوسی ملک پر حملہ نہیں ہو گا۔ نہیں ہو گا پڑوسی ملک پر حملہ، درباری چلے جائیں میں آرام کرنا چاہوں گا۔‘‘

وزیر لنگ کو یقین آگیا کہ اب بادشاہ اپنے پڑوسی ملک پر کبھی حملہ نہیں کرے گا۔

وہ مسکراتا ہوا اپنے گھر کی جانب چلا گیا، اُس رات خوب سویا، بہت اچھی نیند آئی اُسے۔

دیکھا نا بچو اس افواہ کا تماشا!

اب دوسری افواہ کی بات سنو، بابا سائیں نے یہ کہانی بھی اپنے چین کے سفر میں سنی تھی۔

کہانی یوں ہے بچو کہ چین کی ایک ریاست کے زمیندار چیانگ چنگ نے ایک کنواں کھدوایا، اُس مقام پر کنویں کی سخت ضرورت تھی، علاقے کے لوگ بہت خوش ہو گئے۔ ایک شخص نے کہا یہ کنواں کیا بنا ہے لگتا ہے کہ ایک آدمی کا اضافہ ہو گیا ہے۔‘‘

یہ بات اس طرح پھیلی ’’چیانگ چنگ نے جو کنواں کھدوایا ہے اس میں سے ایک آدمی نکلا ہے۔‘‘ یہ بات ہر طرف پھیل گئی کہ کنویں سے ایک آدمی نکلا ہے۔‘‘

بادشاہ کو خبر ملی تو اس نے زمیندار چیانگ چنگ کو بلوایا، گرج کر پوچھا: ’’یہ کیا سن رہا ہوں کہ تمھارے کنویں کے اندر سے ایک آدمی نکلا ہے، وہ آدمی کون ہے؟ کیا نام ہے اُس کا؟ کہاں کا رہنے والا ہے؟ زندہ ہے یا مردہ؟ تم نے اس بات کی خبر وزیر کو اب تک کیوں نہیں دی؟ جانتے ہو اس کی سزا کیا ہے؟ تمھیں عمر بھر کی قید کی سزا ہو گی۔‘‘

زمیندار چیانگ چنگ پہلے تو گھبرایا یہ کون سی آفت ٹوٹ رہی ہے پھر اُس نے خود کو سنبھالا، مسکرایا اور پھر کہنے لگا۔

’’خاموش، بدتمیز، شرم نہیں آتی تجھ کو، دربار میں سزا کی خبر سن کر اس طرح ہنس رہا ہے۔‘‘ وزیر نے ڈانٹا۔

’’حضور، میں اس لیے ہنس رہا ہوں کہ یہ افواہ ہے، جھوٹ ہے۔‘‘ زمیندار نے کہا۔

’’کیا کہا جھوٹ ہے؟ تمھارے کنویں سے کوئی آدمی نہیں نکلا؟‘‘ بادشاہ نے ڈپٹ کر دریافت کیا۔

’’نہیں حضور، کاہے کو نکلے گا کوئی آدمی کنویں سے، بات یہ ہے کہ سرکار کہ جب کنواں تیاّر ہو گیا تو کسی نے کہا یہ کنواں نہیں برادری کا آدمی ہے، لگتا ہے کنویں کی صورت کوئی آدمی پیدا ہو گیا ہے، اور افواہ یہ پھیل گئی کہ کنویں سے آدمی نکلا ہے۔ کوئی آدمی وادمی نہیں نکلا ہے بندہ پرور۔‘‘ زمیندار نے صفائی دیتے ہوئے کہا۔ بادشاہ ہنسنے لگا، قہقہہ لگانے لگا، تمام درباری ہنسنے لگے قہقہہ لگانے لگے۔ صرف وہ زمیندار چیانگ چنگ ہی تھا جو خاموش اتنے لوگوں کو ایک ساتھ قہقہے لگاتے دیکھ رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

تاریخ کی ایک ناقابلِ فراموش کہانی

 

بچو!تم نے جنگ کی بابت بہت کچھ سنا پڑھا ہو گا۔ تاریخ کی کتابوں میں جنگوں کا ذکر امن اور شانتی کے ذکر سے کہیں زیادہ ہے۔ نیپولین کی جنگ، سکندر اور پورس کی جنگ، پلاسی کی جنگ، پانی پت کی جنگ، پہلی جنگِ عظیم، دوسری جنگِ عظیم اور ابھی ابھی عراق پر امریکہ اور انگلستان کا حملہ— جنگ جنگ جنگ! جنگوں نے انسان کی تاریخ کو سکون ہی نہیں دیا ہے اب تک۔

لیکن بچو!تاریخ میں کچھ ایسی جنگوں کا بھی ذکر ملتا ہے جو بہتر اصولوں کو زندہ رکھنے اور سچائی کو قائم رکھنے کے لیے ہوئی ہیں۔ لوگوں کو اذیتوں سے نکالنے اور اُنھیں بہتر نظامِ زندگی عطا کرنے کے لیے ہوئی ہیں۔ تاریخِ اسلام میں ایسی جانے کتنی جنگوں کا ذکر ہے۔ تم نے ٹیلی ویژن پر دیکھا ہو گا، امریکی اور برطانوی فوجوں نے بغداد، کربلا اور عراق کے دوسرے علاقوں پر کتنے خطرناک، زہریلے جان لیوا بم گرائے اور کتنی بڑی تباہی ہوئی، ہزاروں جانیں گئیں، کتنی بڑی بڑی عمارتیں تاش کے گھروں کی طرح ٹوٹ گئیں۔ کتنے بچیّ یتیم ہو گئے، کتنی مائیں بیوہ ہو گئیں، کتنے بچیّ اپنے ہاتھ پاؤں گنوا گئے۔ تم نے اخباروں میں اور ٹیلی ویژن پر اُس بہادر عراقی بچیّ کی تصویر بھی دیکھی ہو گی کہ جس کے دونوں بازو بم کے ایک دھماکے میں اُڑ گئے اور جسم چھلنی ہو گیا۔ یہ بہادر علی اندر سے دُکھ اور اذیّت سے بے چین تھا لیکن ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے ہوئے تھا۔ علی نے امریکہ جا کر علاج کرانا گوارا نہیں کیا۔ کہا امریکہ نے میرے والدین اور میرے خاندان کو ختم کیا ہے بھلا میں اُس دشمن ملک میں اپنا علاج کرانے کیوں جاؤں۔ آج جو جنگیں ہوتی ہیں نا وہ اچھیّ اور بُرے اُصولوں کے لیے نہیں ہوتیں، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ ہاں میں یہ کہہ رہا تھا کہ تاریخِ اسلام میں ایسی کئی جنگوں کا ذکر ہے جو بہتر اصولوں کو زندہ رکھنے اور سچائی اور انسان کے وقار کو قائم رکھنے کے لیے ہوئی ہیں۔

۱۳ھ کا واقعہ ہے بچو، خلیفہ حضرت ابوبکرؓ نے محسوس کیا کہ رُومی اور شامی، مسلمانوں کے لیے خطرہ بن رہے ہیں لہٰذا کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہو گا۔ اُنھوں نے شام اور فلسطین کے لیے ایک لشکر بھیجنے کا انتظام کیا۔ یہ لشکر چار سرداروں کے ساتھ چار حصوں میں تقسیم تھا۔ جانتے ہو وہ سردار کون تھے؟ ایک تھے یزید بن ابی سفیانؓ جو دمشق کی جانب روانہ ہوئے، دوسرے تھے حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ جو حمص کی طرف گئے، تیسرے تھے عمرو بن العاصؓ جو فلسطین کے لشکر کے سردار تھے اور چوتھے تھے شرحیل بن حسنہؓ جو لشکر لے کر اُردن روانہ ہوئے۔

بچو!اب دیکھو حضرت ابوبکرؓ سرداروں اور لشکر کے جانباز سپاہیوں کو کیا نصیحتیں کرتے ہیں۔ اُن کی پہلی نصیحت یہ تھی : دل میں اللہ کی محبت کا چراغ ہمیشہ جلائے رکھو، محبت کا یہ رِشتہ نہ ٹوٹے۔ دُشمنوں سے لڑتے ہوئے بھی اللہ کی محبت کو عزیز رکھو۔ اسی سے خوف دُور ہو گا اور کامیابی نصیب ہو گی۔ غور کرو بچو کتنی خوبصورت نصیحت ہے۔

دوسری نصیحت یہ تھی کہ اپنے نفس پر نظر رکھو ، کوئی غلطی نہ ہو جائے۔ تم اپنے نفس کی اصلاح کرتے رہو گے تو دُشمن بھی اس سے سبق حاصل کریں گے۔

کیا خوب ہے یہ نصیحت بھی ہے نا؟

تیسری نصیحت یہ تھی کہ تمھارے پاس دُشمن کے سفیر آئیں تو اُنھیں ہرگز گرفتار نہ کرنا، اُن کی خوب عزّت کرنا۔ بچو،یہی ہے انسان اور انسان کے رِشتے کی بات۔ عزّت کرنے اور محبت کرنے سے دُشمن بھی جھک جاتا ہے۔

چوتھی نصیحت یہ تھی کہ ہمیشہ سچائی کی راہ اختیار کرنا، سچی بات کہنا تاکہ تمھیں صحیح مشورہ ملتا رہے۔

پانچویں نصیحت یہ تھی کہ لشکر میں پہرہ چوکی کا انتظام ا چھا کرنا، کبھی کبھی اچانک پہنچ کر پہرہ داروں کے کام کی نگرانی بھی کرتے رہنا۔

چھٹی نصیحت سُنو، جن سے ملاقات ہو خلوص کا اظہار کرو۔ بزدل ہرگز نہ بنو اور کبھی خیانت نہ کرو۔

اور آخری نصیحت یہ تھی کہ اگر دُشمن اپنی عبادت گاہوں میں بیٹھے ہوں تو اُن پر کبھی حملہ نہیں کرنا۔

دیکھو بچو کیسی خوبصورت نصیحتیں تھیں خلیفہ حضرت ابوبکرؓ کی۔ کیا آج کوئی امریکہ، کوئی انگلستان اپنے فوجی کمانڈروں کو ایسی نصیحتیں کرتا ہے؟ وہ تو انسانی محبت سے عاری ہو جاتے ہیں اور خطرناک قسم کی بمباری کرتے رہتے ہیں۔ میوزیم ٹوٹ جائیں، عبادت گاہیں مسمار ہو جائیں، لوگوں کی بستیاں اُجڑ جائیں، شہر قصبہ لاشوں کی بستی بن جائے، ان پر تو تباہی لانے کا جنون سوار رہتا ہے۔

بچوّ !بات صرف اسی حد تک نہیں ہے۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے لشکر اُسامہؓ کو رُخصت کیا تو اُس وقت اُنھوں نے انتہائی پیاری، دِل میں اُتر جانے والی نصیحتیں کیں۔ اُنھوں نے حضرت اُسامہ بن زید ابن حارثہؓ کو سردار مقرّر کیا۔ روانگی سے قبل حضرت اُسامہؓ کو بلایا اور اس طرح نصیحتیں کیں:

عورتوں کو قتل نہ کرنا،

کسی کے اعضا کو نہ کاٹنا،

پھل والے درختوں کو نقصان نہ پہنچے،

بوڑھوں اور بچوّں پر بھی وار نہ کرنا،

کھجور کے درختوں کو ہرگز نہ جلانا،

کھانے کی ضرورت کے سوا کسی گائے، بکری یا اُونٹ کو قربان نہ کرنا،

خانقاہوں میں بیٹھے لوگوں پر حملہ نہ کرنا۔

حضرت اُسامہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی ہر نصیحت پر عمل کیا۔ اُن کا لشکر یکم ربیع الثانی ۱۱ھ کو مدینہ سے روانہ ہوا اور چالیس روز کے اندر ہی فتح حاصل کر کے واپس آگیا۔ شام پر مسلمانوں کا یہ حملہ دُنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ جنگ میں اللہ پاک کی محبت اور انسان اور انسان کے رِشتوں کی قدر و قیمت کا اندازہ کرتے رہنے والی فوج ہمیشہ اپنی مثال چھوڑ جاتی ہے۔ جنگ کے دوران میں مسلسل صبر کرتے رہنا اور بزرگوں کی پاکیزہ نصیحتوں کو یاد رکھنا آسان کام نہیں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

چودہویں کہانی

 

جب آپ سب کے بابا سائیں عوامی جمہوریہ چین گئے تو وہاں اُنھیں چین کا ایک گاؤں بھی دِکھایا گیا۔ اُس گاؤں میں کئی بزرگ ملے۔ ان میں دو بزرگوں نے بتایا اُن کی عمر سو برس سے زیادہ ہے۔ اس عمر میں بھی وہ دونوں اپنا کام خود کرتے تھے اپنے پوتوں یا اپنے پوتوں کے بیٹوں سے بھی کسی کام کے لیے نہیں کہتے۔ ان ہی میں ایک بزرگ تھے کہ جن کا نام زونگ یوان تھا، وہ اپنی کرسی پر بیٹھے مچھلیاں پکڑنے کے ایک جال کو ٹھیک کر رہے تھے، اس عمر میں بھی آنکھوں پر عینک نہیں تھی۔ آنکھیں تیز تھیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُن کی آنکھوں میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ وہ مچھلیاں پکڑنے کے جال تیاّر کرتے رہے ہیں۔ اب اُن جالوں کو ٹھیک کرتے ہیں جنھیں ان کے پوتے خراب کر دیتے ہیں۔ معلوم ہوا آپ سب کے بابا سائیں کو وہ بزرگ کہ جن کا نام زونگ یوان تھا کہانیوں کے بادشاہ ہیں یعنی اُنھیں جانے کب کب کی سینکڑوں کہانیاں یاد ہیں۔ اکثر چاندنی راتوں میں اپنے پوتوں اور ان کے بیٹوں کو لے کر صحن میں بیٹھ جاتے ہیں اور اُنھیں کہانیاں سناتے ہیں۔ یہ بات سن کر آپ سب کے بابا سائیں کو بھلا کیسے چین ملتا۔ وہ تو کہانیوں پر جان نچھاور کرتے ہیں، اُنھوں نے چینی بزرگ زونگ یوان سے بڑے ادب سے دریافت کیا: ’’کیا آپ مجھے چند کہانیاں سنانا پسند کریں گے؟‘‘

اُنھوں نے جال ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا: ’’کیوں؟ آپ تو بڑے ہیں، میں تو بچوّں کو چھوٹی چھوٹی کہانیاں سناتا ہوں۔‘‘

بابا سائیں نے کہا: ’’حضور آپ جو کہانیاں سنائیں گے، وہ ہندوستانی پاکستانی بچوّں کے لیے ہوں گی۔ میں واپس جاکر یہ کہانیاں اُنھیں سناؤں گا، اس طرح آپ کی کہانیاں دوسرے ملکوں کے بچوّں تک پہنچ جائیں گی۔‘‘

یہ سن کر بچوّ، زونگ یوان مسکرائے، آپ سب کے بابا سائیں نے دیکھا اُن کے منہ میں سب دانت موجود ہیں، اس عمر میں اتنے مضبوط دانت کہ وہ جال کے دھاگے دانتوں سے توڑ لیتے تھے۔

’’حضور آپ کے دانت نقلی ہوں گے۔‘‘ آپ سب کے بابا سائیں نے کہا۔

اُنھوں نے اپنے دانت دِکھاتے ہوئے جواب دیا ’’دیکھ لیجیے سب اصلی ہیں، ایک دانت بھی نقلی نہیں ہے۔‘‘

آپ سب کے بابا سائیں نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے کہا: ’’حضور، میرے پاس وقت کم ہے۔ ہم واپس جانے والے ہیں لہٰذا ہندوستان کے بچوّں کے لیے دو چار چھوٹی چھوٹی کہانیاں تو سنا دیجیے۔‘‘

بڑے میاں زونگ یوان نے کہا: ’’لیجیے سنئے ایک کہانی، بہت چھوٹی کہانی ہے۔ ہم سب چھوٹی چھوٹی چیزوں کو پسند کرتے ہیں اس لیے ہم چینیوں کی کہانیاں بھی چھوٹی ہوتی ہیں۔ اُنھوں نے کہنا شروع کیا: ’’دیکھئے میں جو کہانی آپ کو سنا رہا ہوں اُسے پڑھ سن کر آپ کے ملک کے بچوّں کو یہ بتانا ہے کہ یہ کہانی کیا کہتی ہے۔ بچوّں کی جانب سے جواب آ جائے تو آپ دہلی سے فون کر کے ہمیں بتائیے گا کہ بچوّں نے کیا کیا کہا۔‘‘

’’ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘ بابا سائیں نے یقین دلایا۔

بڑے میاں زونگ یوان نے کہانی شروع کی:

’’دو بڑے پہاڑ تھے ایک دوسرے کے آمنے سامنے، ہزاروں فٹ اُونچے پہاڑ تھے دونوں۔ ان پہاڑوں کے شمال میں ایک ضعیف شخص رہتا تھا۔ اس کی عمر لگ بھگ نوّے برس تھی۔ آس پاس کے لوگ اسے احمق سمجھتے تھے۔ اس کے گھر کا رُخ اُن پہاڑوں کی سمت تھا اور اسے کہیں آنے جانے میں ہر بار لمبا چکر کاٹنا پڑتا تھا، ایک صبح اُس نے اپنے گھر کے تمام افراد کو جمع کیا اور کہا کیوں نہ ہم ان پہاڑوں کو کھود کھود کر زمین کے برابر کر دیں؟ اس طرح ہماری تکلیف کم ہو جائے گی۔ سب اس کے خیال سے متفق ہو گئے لیکن بوڑھے کی بیوی نے کہا: ’’تم واقعی احمق ہو، بھلا اتنے بڑے دو پہاڑوں کو کاٹو گے کیسے؟ تم تو ایک چھوٹا سا ٹیلا کاٹ نہیں سکتے۔ چلو اگر تم نے دونوں پہاڑ کاٹ بھی دیے تو ملبہ کہاں پھینکو گے؟‘‘

’’ملبہ ہم سمندر میں پھینکیں گے۔‘‘ بوڑھے نے جواب دیا۔

’’معلوم ہے سمندر کتنی دُور ہے؟‘‘ اس کی بیوی نے کہا۔

’’سب معلوم ہے تم چپ رہو۔میں بتاؤں گا احمق کون ہے، میں یا تم۔‘‘ پھر بوڑھے نے اپنے بیٹوں اور پوتوں کے ساتھ مٹّی کھودنا شروع کر دیا، پتھروں کو ہٹانا شروع کر دیا۔ بیٹے اور پوتے ملبہ ٹوکریوں میں بھر کر سمندر کی جانب چل دیتے۔

پہاڑ سے سمندر تک ایک پھیرے میں کئی ماہ لگ جاتے۔

پڑوس میں ایک شخص رہتا تھا، وہ ان کی حرکت دیکھ کر خوب ہنسا، کہا: ’’واقعی تم احمق ہو، خواہ مخواہ بچوّں کو بھی تکلیف دے رہے ہو۔ بھلا یہ دونوں پہاڑ تمھاری ایسی محنت سے ختم ہو جائیں گے اور تم تو اتنے بوڑھے اور کمزور ہو کہ ان پہاڑوں کا ایک کونا بھی نہیں ہٹا پاؤ گے۔‘‘

بوڑھے نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا: ’’تم کوڑھ مغز اور ناسمجھ ہو۔سنو، میں مر جاؤں گا تو میرے بیٹے اور پھر میرے بیٹوں کے بیٹے یہ کام کرتے رہیں گے۔ نسل در نسل کھدائی کا کام ہوتا رہے گا۔ پہاڑ اس سے زیادہ بڑے نہیں ہو سکتے، ایسے میں ہم اُنھیں کھود کر برابر کیوں نہیں کر سکتے؟‘‘

وہ شخص جو اس کا پڑوسی تھا حیرت زدہ رہ گیا!

یہ کہانی سنا کر بابا سائیں آپ اپنے ملک کے بچوّں سے پوچھئے گا کہ یہ کہانی کیا کہتی ہے؟ وہ اس کہانی کو کس طرح سمجھ رہے ہیں۔ میں نے وعدہ کر لیا۔

اب یہ کہانی آپ کے پیارے رسالے ’’بچوّں کی نرالی دُنیا‘‘ میں شائع ہو رہی ہے۔ پیارے بچوّ، اب آپ کا کام یہ ہے کہ اس کہانی کو غور سے پڑھئے اور یہ بتائیے کہ یہ کہانی آپ سے کیا کہتی ہے؟ آپ ’’بچوّں کی نرالی دُنیا‘‘ کے مدیر تنویر احمد صاحب کو خط لکھ کر بتائیے۔ جو خط اُنھیں پسند آئیں گے وہ ’’بچوّں کی نرالی دُنیا‘‘ میں شائع کریں گے۔ آپ کو صرف یہ بتانا ہے کہ یہ کہانی کیا سمجھاتی ہے؟ کیا کہتی ہے؟

آپ سب کا بابا سائیں ۔

٭٭٭

 

 

اکیسویں کہانی

 

 

بچو،تم نے حضرت سعدی شیرازیؒ کا نام تو ضرور سنا ہو گا۔ ایک بار بابا سائیں نے بھی ایک کہانی میں ان کا ذکر کیا تھا۔ یاد آ گئی نا وہ کہانی؟

حضرت سعدی شیرازیؒ کو بچوّں سے بہت پیار تھا اور بچیّ بھی اُنھیں بہت چاہتے تھے۔ بڑی عزّت کرتے تھے اُن کی، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بچوّں کو بہت پیاری پیاری کہانیاں سناتے تھے، بازار، ہاٹ، مدرسہ جہاں بھی بچیّ اُنھیں دیکھتے گھیر لیتے، بابا کہانی سنائیے بابا کہانی سنائیے کی آواز گونجنے لگتی۔ حضرت سعدیؒ خود کو بچوّں کے درمیان میں پا کر بہت خوش ہوتے، کبھی کسی پیڑ کے نیچے بیٹھ جاتے کبھی مدرسے کی سیڑھی پر بچیّ اُنھیں گھیر لیتے اور کہانی شروع ہو جاتی۔

ایک دِن اُنھوں نے بچوّں کو جو کہانی سنائی وہ کچھ اس طرح تھی، ایک معمولی تاجر کے دو بیٹے تھے۔ ایک کا نام رازی تھا، دوسرے کا شہزادہ، رازی بڑا تھا اور شہزادہ چھوٹا۔ایک شام دونوں بھائی کھیلتے کھیلتے تھک گئے تو چنار کے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ گئے، دونوں خاموش بیٹھے تھے کہ شہزادہ نے اچانک پوچھا ’’بھائی یہ تو بتائیے آپ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں؟‘‘

رازی نے چند لمحے غور کرنے کے بعد کہا ’’شہزادے میاں، میں تو خوب لکھنا پڑھنا چاہتا ہوں، درویش بننا چاہتا ہوں۔ اللہ کی محبت کو پانا چاہتا ہوں، دُنیا والوں سے پیار محبت کا رِشتہ قائم کرنا چاہتا ہوں۔ غرور سے دُور رہنا چاہتا ہوں، کسی کو اذیت دینا نہیں چاہتا، کسی کو تکلیف میں دیکھ کر مدد کرنے کے لیے آگے آنا چاہتا ہوں، شہزادے میاں، پیار محبت سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے، انسانیت ہم سب کے مذہب کی خوشبو ہے، اسی خوشبو کو ساری دُنیا میں پھیلانا چاہتا ہوں۔‘‘

’’ہوں۔‘‘ شہزادہ بولا۔ ’’درویش بننا چاہتے ہیں آپ‘ بن جائیے، بنے رہئے محتاج، بسر کیجیے غربت کی زندگی، انسانیت انسانیت کرتے رہئے ٹھیک ہے لوگوں کو آپ سبق دیں گے انسانیت کا، لیکن اس سے آپ کو کیا ملے گا؟ کچھ بھی تو نہیں،ذرا ابّا کی زندگی کی جانب دیکھئے معمولی تاجر ہیں، مشکل سے دال روٹی چلتی ہے، ذرا ہم سب کے کپڑوں پر نظر ڈالیے، بچپن سے پھٹے پرانے کپڑوں میں پَل رہے ہیں ، عید بقر عید میں بھی اچھیّ کپڑے نصیب نہیں ہوتے، ہم دونوں کے دوست ہم سب کی غربت کا مذاق اُڑاتے رہتے ہیں۔ نہیں بھیّا نہیں، میں تو کبھی نہ بنوں درویش، بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ بھلائی کیے جائیے، محبت کیے جائیے اور حاصل کچھ نہیں، آپ ہی کو مبارک ہو یہ درویشی۔‘‘

رازی نے شہزادے میاں کی بات سن کر مسکراتے ہوئے دریافت کیا ’’اب تم بتاؤ تم کیا بننا چاہتے ہو؟‘‘

شہزادہ اس طرح بولنے لگا جیسے سلطان بادشاہ بولتے ہیں ’’بھیّا میں تو بادشاہ بنوں گا، ابّا نے میرا نام بھی شہزادہ رکھا ہے۔ میں مصر کا بادشاہ بننا چاہتا ہوں۔ مصر پر قبضہ کر لوں گا اور وہاں کا فرعون بن جاؤں گا، ایسی حکومت کروں گا، ایسی حکومت کروں گا کہ وہاں کے لوگ فرعون کے ظلم و ستم کو بھول جائیں گے۔ آپ ہی بتائیے بھیّا وہ بادشاہ ہی کیا ہوا، وہ سلطان ہی کیا ہوا، وہ فرعون ہی کیا ہوا جو ظلم و ستم نہ کرے، جو غلاموں کی ایک بڑی جماعت پیدا نہ کرے، جو غلاموں سے بڑے بڑے بھاری پتھر نہ اُٹھوائے اور اپنی عمارتیں نہ بنوائے۔ جو غلام کمزور ہوں اُن پر چابک نہ برسائے، دُنیا اسی طرح چلتی ہے بھیّا، درویشی سے نہیں چلتی، درویشی بزدلی کا نام ہے۔‘‘ مغرور شہزادے نے اپنی بات سامنے رکھ دی۔

رازی نے کہا ’’میاں شہزادے، ابھی سے تم میں اتنا غرور پیدا ہو گیا ہے؟ تم انسان کی قدر کرنا نہیں چاہتے، تم محبت ختم کر کے نفرت کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہو۔ یہ سب تو ہمارے مذہب کے خلاف باتیں ہیں۔ تم نے میری طرح مذہبی تعلیم حاصل کی ہے۔ حیرت ہے تم نے اس کی روشنی حاصل نہیں کی اب تک، میں تمھیں اپنا بھائی کیسے کہوں، تمھاری باتیں سُن کر بہت شرمندہ ہوں، تم ایک بار پھر غور کرو اُن باتوں پر جو میں نے کہی ہیں اور تم نے کہی ہیں، سچائی کیا ہے تمھیں اس کا علم ہو جائے گا۔جائز دولت کمانا چاہتے ہو تو ضرور ایسا سوچو لیکن اس کے لیے فرعون بننا کیا ضروری ہے۔ دیکھو مجھے، میں کتنا خوش ہوں، اللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہوں، مجھے پیغمبروں کی وراثت ملی ہے۔ جسے مذہب کی خوشبو حاصل ہو جائے تمام پیغمبروں کی وراثت کے چند موتی مل جائیں وہ بھلا اور کیا چاہے، نعوذ باللہ! تم فرعون بننا چاہتے ہو، وہ فرعون کہ جس نے مصر کو تباہ و برباد کر دیا تھا، حد درجہ انسانیت سوز حرکتیں کی تھیں۔‘‘

’’آپ چیونٹی بنے رہئے، میں بچھو بننا چاہتا ہوں۔ شہزادے میاں بولے۔

’’ٹھیک ہے، اگر تم ایسا سمجھتے ہو میں ایسی چیونٹی بن کر رہنا پسند کروں گا جسے انسان کا پاؤں داب کر ختم کر دے لیکن یقین جانو میں ہرگز ہرگز ایسا بچھو بننا نہیں چاہوں گا جو انسان کو ڈنک مارتا ہے۔‘‘

رازی اُٹھ کر چلا گیا، شہزادہ اسی مقام پر بیٹھا سوچنے لگا ’’کون ٹھیک کہہ رہا ہے، میں یا رازی بھیّا؟… میں یا رازی بھیّا؟ …میں یا رازی بھیّا؟‘‘

پیارے بچو!اگر تم آج بھی اُس شہر میں جاؤ کہ جہاں رازی اور شہزادہ رہتے تھے، صدیاں صدیاں بیت گئی ہیں پھر بھی تمھیں ایک سخت مضبوط پتھر پر بیٹھا شہزادہ ملے گاجو بیٹھا سوچ رہا ہو گا ’’کون ٹھیک کہہ رہا ہے، میں یا رازی بھیّا؟… میں یا رازی بھیّا…‘‘

یہ کہانی سُنا کر حضرت سعدی شیرازیؒ مسکراتے ہوئے چلے گئے۔ بچیّ ان کی اس کہانی پر غور کرتے ہوئے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ کیا وہ سب بھی یہی سوچ رہے ہوں گے۔ ’’کون ٹھیک کہہ رہا ہے، شہزادے میاں یا رازی بھیّا؟؟‘‘

٭٭٭

 

 

 

چوبیسویں کہانی

 

پیارے بچو، بابا سائیں کی کہانیوں کی دوسری سالگرہ ہم سب کو بہت بہت مبارک ہو۔ چوبیس مہینے چوبیس کہانیاں! سبحان اللہ، اللہ کا شکر ہے کہ کہانیوں کا یہ سفر بہت ہی کامیاب رہا، چھوٹے بڑے بچوّں نے بابا سائیں کی کہانیوں کو خوب خوب پسند کیا۔ انشاء اللہ اگلے ماہ کی پچیسویں کہانی سے ان کہانیوں کا تیسرا سال شروع ہو جائے گا۔

چوبیسویں کہانی اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جس طرح تم سب، دُنیا کے تمام لوگ خواب دیکھتے ہیں نا اسی طرح بابا سائیں بھی خواب دیکھتے ہیں۔ بابا سائیں کے خواب بہت دلچسپ ہوتے ہیں۔ اکثر خواب رنگین ہوتے ہیں فلموں کے رنگوں کی طرح۔ عام خواب بلیک اینڈ وہائٹ ہوتے ہیں بابا سائیں کو اپنے ٹیکنی کلر خواب بہت پسند ہیں اور ان میں اکثر خواب اُنھیں یاد بھی رہتے ہیں۔ کوئی تاریخی خواب ہوتا ہے کہ جس میں شہنشاہ وزیر اور درباری ہوتے ہیں تو یہ سمجھو بڑا مزہ آتا ہے۔ بادشاہ وزیر درباری سب رنگ برنگے لباس میں نظر آتے ہیں، پورا ماحول جگمگ جگمگ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک بار بابا سائیں نے مغل اعظم شہنشاہ اکبر اور اُن کے دربار کو دیکھا، شہنشاہ اکبر تخت پر بیٹھے تھے، پاس ہی راجہ بیربل، راجہ ٹوڈر مل اور جانے کون کون تھے اور سب سے پُر لطف بات یہ بچو کہ دربار کے سیدھے ہاتھ تو میاں تان سین بیٹھے اپنا نغمہ چھیڑے ہوئے تھے، جانتے ہو کون سا راگ سنا رہے تھے؟ ’’دیپک راگ‘‘! ہاں ’’دِیا جلاؤ دِیا جلاؤ جگمگ جگمگ دِیا جلاؤ‘‘ دربار کے تمام چراغ گل کر دِیے گئے اس لیے کہ میاں تان سین کے ’’دیپک راگ‘‘ سے تمام چراغوں کو جل جانا تھا، تان سین کی آواز گونج رہی تھی ’’دِیا جلاؤ، دِیا جلاؤ، جگمگ جگمگ دِیا جلاؤ‘‘ بابا سائیں ٹیکنی کلر میں سارا منظر اچھی طرح دیکھ رہے تھے اس طرح جیسے سب کچھ سامنے ہو رہا ہو، اچانک دیپک راگ سے تمام چراغ روشن ہو گئے۔ شہنشاہ اکبر بول اُٹھے ’’مرحبا مرحبا!‘‘ہر طرف سے آواز آنے لگی ’’مرحبا مرحبا، سبحان اللہ سبحان اللہ۔‘‘ بابا سائیں جو راجہ ٹوڈر مل کے پیچھے کھڑے تھے میاں تان سین کی جانب دوڑے تاکہ اُن کے ہاتھوں کو بوسہ دے سکیں لیکن راجہ بیربل کے تخت سے ایسی ٹھوکر لگی کہ بابا سائیں وہیں گر پڑے— اور پھر کیا ہوا؟

بابا سائیں کی آنکھیں کھل گئیں— وہ خواب تھا، ایک خوبصورت پیارا سا خواب۔ افسوس ہوا یہ خواب کیوں تھا!! تمھیں بھی افسوس ہوتا نا اگر تم نے بھی یہ خواب دیکھا ہوتا؟

 

بابا سائیں کے ایک پڑوسی ہیں تارکنڈے جی، ’’بزنس مین‘‘ ہیں تجارت کرتے ہیں۔ جانے کن کن چیزوں کی تجارت کرتے رہتے ہیں۔ بادام کے ساتھ بادام کے چھلکوں کی، مونگ پھلی کے ساتھ اس کے چھلکوں کی، آم کے ساتھ اس کی گٹھلیوں کی۔ ایک بار بابا سائیں نے اُنھیں اپنے چند رنگین ٹیکنی کلر خواب سنائے تو اُنھوں نے فوراً پوچھا ’’اپنے خواب بیچو گے؟میں تمھارے سب ایسے خواب خرید لوں گا اور ان کی تجارت کروں گا۔‘‘ بابا سائیں نے دریافت کیا ’’تارکنڈے جی، بھلا خوابوں کی تجارت کیسے کریں گے؟‘‘ کہنے لگے ’’میں انھیں ٹیلی ویژن والوں کے ہاتھوں فروخت کر دوں گا وہ انھیں اپنے سیریلز میں کہیں کہیں فٹ کرتے رہیں گے۔ میں تمھیں ہر ٹیکنی کلر خواب کے لیے دو سو روپے دوں گا بولو منظور ہے؟‘‘ بابا سائیں نے جواب دیا ’’تارکنڈے جی، خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میرے خواب فروخت ہو سکتے ہیں، کیا اپنے خوابوں کو فروخت کرنے کے بعد انھیں اپنے پیارے بچوّں کو سنا سکتا ہوں؟‘‘ تارکنڈے جی نے چیخ کر کہا ’’نہیں، بالکل نہیں، میں ہی ان خوابوں کا مالک رہوں گا، تم اپنے خواب کسی کو بھی سنا نہیں سکتے۔‘‘ بابا سائیں نے جواب دیا ’’تو پھر حضور اس معاملے کو بس یہیں پر ختم کیجیے، میرے خواب دنیا کے تمام بچوّں کے لیے ہیں، سیریل ویریل کے لیے نہیں ہیں۔‘‘ غور کرو بچوّ،اس دور میں اب خواب بھی خریدے جا رہے ہیں، کہانیوں کی طرح فلم کے مناظر کی طرح، کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ خواب کی تجارت کے لیے کچھ تاجر بھی جنم لیں گے۔ خیر، بابا سائیں نے تارکنڈے جی کو اپنا ایک بھی خواب فروخت نہیں کیا، تمام خواب بچوّں کے لیے محفوظ کر لیے۔

بچو، ان ہی خوابوں میں ایک خواب تمھیں سنا رہا ہوں۔ گہری نیند میں ایک رنگین خواب دیکھا۔ بابا سائیں کا یہ ایک عجیب و غریب خواب تھا۔ بابا سائیں کیا دیکھتے ہیں ایک بزرگ آئے ہیں، صوفی جیسے، پرانی ایرانی لباس میں، خوبصورت روشن چہرہ چمکتی آنکھیں، سفید داڑھی، اُنھیں دیکھتے ہی منہ سے نکلا ’’السلام علیکم‘‘ فوراً جواب ملا ’’سلامت رہو۔‘‘ پوچھا ’’حضرت آپ کون ہیں؟‘‘ جواب ملا ’’سعدی شیرازی۔ شیراز سے آ رہا ہوں تمھیں چند باتیں سنانے۔‘‘ ’’سبحان اللہ میں کتنا خوش نصیب ہوں آپ اتنی دور سے آئے ہیں مجھ سے ملنے، آئیے آئیے تشریف رکھئے۔‘‘ حضرت سعدی شیرازی بیٹھ گئے۔ ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ فرمایا ’’میاں بابا سائیں تم بچوّں کو کہانیاں سناتے ہونا؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں حضور!‘‘، ’’تو میری چند باتیں بھی بچوّں تک پہنچا دو۔‘‘ اُنھوں نے کہا۔ ’’انشاء اللہ میں آپ کی باتیں بچوّں تک ضرور پہنچا دوں گا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

اس کے بعد وہ اس طرح گویا ہوئے: ’’دوستی بڑی قیمتی چیز ہے، جس سے گہری دوستی ہو اس سے فوراً تعلق ختم نہ کر لو، صدیوں بعد جس طرح کوئی پتھر ہیرا بنتا ہے تو تمھارا دوست بھی وقت گزرتے گزرتے تمھارے لیے ایک ہیرا ثابت ہو سکتا ہے۔ دوست کی ہمیشہ قدر کرو‘‘ خواب ہی میں بابا سائیں نے حضرت سعدی شیرازی کی یہ بات نوٹ کر لی۔ پھر اس طرح گویا ہوئے:’’اگر کوئی قیمتی پتھر کیچڑ میں گِر جاتا ہے تو اس کی حیثیت اور قیمت کم نہیں ہو جاتی وہ قیمتی پتھر ہی رہتا ہے۔ اگر گرد طوفان کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اُوپر اُٹھنے لگتی ہے تو ہرگز یہ نہ سمجھو کہ وہ آسمان چھولے گی۔ اُس کی بنیاد زمین ہی ہوتی ہے۔ انسان کو خوشبو بن جانا چاہیے لوگ عطار کی طرح اس خوشبو کو جو نام دیں۔‘‘

حضرت سعدی شیرازی نے کہا: ’’اور ایک بات یہ کہو بچوّں سے، تعلیم بڑی چیز ہے، اس سے عقل روشن ہوتی ہے جب عقل روشن ہو تو اس سے خوب کام لو، انسان کی خدمت کرو ورنہ فائدہ کیا ہے زمین پر ہل چلاؤ اور اس میں بیج نہ ڈالو۔‘‘

یہ کہتے ہوئے حضرت سعدی شیرازی آہستہ آہستہ واپس چلے گئے۔ میں نے زور سے ’’اللہ حافظ‘‘ کہا اس قدر زور سے کہا کہ نیند ٹوٹ گئی۔ خواب گم ہو گیا— اور آس پاس سوئے ہوئے لوگ اپنے اپنے پلنگ پر جاگ اُٹھے، سب پوچھنے لگے ’’ارے بابا سائیں کیا ہوا آپ کو؟‘‘

میں نے مسکرا کر کہا ’’تکلیف معاف آپ سب سو جائیے جو ہونا تھا وہ ہو گیا مجھے علم حاصل ہو گیا!

٭٭٭

 

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی اور اجازت عطا کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید