FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 بچوں  کے  بابا کبیر

 

 

 

 

               شکیل الرحمن

 

©  جملہ حقوق بحق عصمت شکیل محفوظ
مدھوبن، A-267، ساؤتھ سٹی،گوڑگاؤں۔ 122001(ہریانہ)

 

 

 

 

 

انتساب

 

 

عرفی  عامر اور جوہی

اور

دُنیا کے  تمام بچوں  کے  لیے

۔۔۔۔۔ بابا سائیں

 

 

 

 

 

 

ایک دِن ایسا ہوا بچو بابا کبیر ایک بڑے  گھنے  پیڑ کے  نیچے  بیٹھے  اللہ کو یاد کر رہے  تھے  کہ اچانک اُسی گاؤں  کے  دو بھائی مہندر  اور  جوگندر لڑتے  جھگڑتے  تو تو میں  میں  کرتے  وہاں  آن پہنچے۔ وہاں  پہنچ کر  اور  بابا کبیر کو دیکھ کر بھی دونوں  کا جھگڑا کم نہ ہوا۔ دونوں  ایک دوسرے  سے  اُلجھے  رہے اور تو تو میں  میں  کرتے  رہے۔ کچھ دیر تو بابا کبیر نے  ان دونوں  کا تماشا دیکھا۔ جب ان کی چیخ پکار بڑھ گئی تو بولے: ’’بھائی تم لوگ اس طرح کیوں  جھگڑا کر رہے  ہو۔ بیٹھ جاؤ اس گھنے  پیڑ کے  نیچے اور اپنا معاملہ ٹھیک کر لو۔ ا چھے  لوگ بھلا کبھی اس طرح لڑتے  جھگڑتے  ہیں۔‘‘

’’کیا ٹھیک کر لیں  اپنا معاملہ، بابا پہلے  سن لیجیے  معاملہ کیا ہے۔ یہ جو مہندر ہیں، یہ میرے  بڑے  بھائی ہیں۔‘‘  جوگندر نے  کہنا شروع کیا ’’بابو جی کے  مر نے  کے  بعد اُن کے  کھیت کا بٹوارہ ہوا۔ آدھا کھیت مہندر بھائی نے  لیا  اور  آدھا میں  نے۔ اب دیکھئے  بابا مہندر بھائی کی نیت خراب ہو گئی  اور  اُنھوں  نے  میرے  کھیت پر قبضہ کر لیا۔ لاکھ کہا ہاتھ جوڑے، یہ سنتے  ہی نہیں  ہیں۔ آپ ہی بتایئے  بابا کبیر یہ کوئی انصاف ہے  دوسروں  کا حق مارنا کہاں  کا انصاف ہے۔‘‘  جوگندر  رونے  لگا۔

بابا کبیر نے  جوگندر کو ڈھارس دیتے  ہوئے  کہا ’’روتے  نہیں، تمھارے  دُکھ کو خوب سمجھ رہا ہوں۔‘‘  پھر بابا کبیر نے  مہندر کی طرف دیکھ کر پوچھا ’’کیا یہ سچ ہے؟تمھارا چھوٹا بھائی جوگندر جو کہہ رہا ہے  وہ سچ ہے؟‘‘

مہندر نے  آہستہ سے  کہا ’’ہاں  بابا۔‘‘

’’بھائی کا حق مار رہے  ہو، یہ کوئی اچھی بات تو نہیں  ہے  مہندر، اُس کا   حصہ واپس کر دو، جوگندر تمھارا چھوٹا بھائی ہے  نا۔‘‘

’’بابا، جوگندر نے  مجھ سے  دس سیر چاول قرض کے  طور پر لیے  تھے، سال بیت گیا، ابھی تک واپس نہیں  کیا ہے۔ اسی واسطے  میں  نے  اس کے  حصّے  کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔‘‘   مہندر نے  کہا۔

’’دس سیر چاول کے  لیے  تم نے  اُس کے  حصّے  کے  کھیت پر قبضہ کر لیا؟ یہ تو حد ہو گئی۔‘‘  بابا کبیر بولے۔

’’یہ سچ ہے  بابا، پچھلے  سال میں  نے  مہندر بھائی سے  دس سیر چاول لیے  تھے، کہا تھا جلد واپس کر دوں  گا۔ اِس برس میرے  کھیت میں  اچھا اناج پیدا ہوا ہے۔ میں  نے  کہا  بھیا میں  تمھیں  دس کی جگہ پندرہ سیر چاول دے  دوں  گا، میرے  کھیت پر قبضہ مت کرو، لیکن یہ مانے  نہیں۔ اپنے  ساتھیوں  کو لے  کر آئے اور ڈنڈے  کے  زور پر میرے  حصّے  کے  کھیت پر قبضہ کر لیا۔ بابا میں  اِس سال چاول ضرور واپس کر دوں  گا۔ ان سے  کہیے  یہ میری زمین چھوڑ دیں  ورنہ میری بیوی بچے ّ سب بھوک سے  مر جائیں  گے۔ بابو جی کا دیا ہوا یہی تو ایک سہارا ہے۔‘‘

’’مہندر میری بات غور سے  سنو  اور  تم بھی   سنو جوگندر، اس چھوٹی سی زندگی میں  جتنی خوشیاں  آ سکیں  سمیٹ لو، آپس میں مِل  جل کر رہو، ہوس لالچ سے  دُور رہو۔ ایک دن اس زندگی کو تیاگ دینا ہے۔  اگر  ہم ایک دوسرے  سے  محبت کریں اور اچھی صفات پیدا کرتے  رہیں  تو زندگی بہت خوبصورت بنتی جائے  گی۔ انسان کے  پاس اپنی صفات کے  علاوہ  اور  کیا ہے۔ جانور مرتے  ہیں  تو اُن کی ہڈّیاں  کام آتی ہیں، ان سے  زیورات بھی بنتے  ہیں، اُن کے  چمڑے  سے  ڈھول نقاّرے  بھی بنتے  ہیں۔ انسان مرتا ہے  تو اُس کا گوشت بھی کام نہیں  آتا، اس کی ہڈّیاں  بھی کام نہیں  آتیں۔ اس کے  چمڑے  بھی کام نہیں  آتے، اس لیے  اُسے  سوچنا چاہیے  کہ اچھی صفات ہی سب کچھ ہے۔ ا چھے اور نیک کام کرو، دوسروں  کی مدد کرو، دُشمنی حسد بے  ایمانی، کڑواہٹ سے  بچو۔ انسان اپنی عمدہ صفات ہی سے  پہچانا جاتا ہے۔ میری یہ بات یاد رکھو:

 

مانس تیرا   گن بڑا، مانس نہ آوے  کاج

ہاڑ نہ ہوتے  آبھرن تو چانہ باجے  باج

 

میرا کہنا یہ ہے  کہ انسان کا سب سے  بڑا   گن اُس کی انسانیت ہے، جانوروں  کے  گوشت کی طرح اس کا گوشت کام نہیں  آتا، اس کی ہڈّی سے  زیور نہیں  بنتے اور چمڑے  سے  ڈھول نقاّرے  نہیں  بنتے۔ تم دونوں  بھائی میری اس بات پر خوب ا چھی طرح غور کرنا۔  اگر  میری بات سچ نہ ہو تو  ہر گز نہ ماننا  اور   اگر  سچ ہو تو  محبت سے  رہنا بھائی بھائی کی طرح کھیت کھلیان سب پڑے  رہ جائیں  گے۔ جب انسان اِس دُنیا سے  چلا جائے  گا صرف اس کی صفات ہی لوگوں  کو یاد  رہیں  گی۔‘‘

بابا کبیر اُٹھے، چلنے  کو تیاّر ہوئے، اِدھر دونوں  بھائیوں  مہندر  اور  جوگندر نے  ایک دوسرے  کو  محبت کی نظر سے  دیکھا  اور  خوشی سے  ایک دوسرے  سے  لپٹ گئے۔ بابا کبیر نے  اُن کی جانب دیکھا، مسکرائے اور یہ گاتے  ہوئے  چلے  گئے:

مانس تیرا   گن بڑا مانس نہ آوے  کاج

آہستہ آہستہ آواز بہت دُور چلی گئی۔

 

بچو، اپنے  ملک ہندوستان میں  بابا کبیر ایک بہت بڑی  اور  بہت پُر وقار  اور  پُر عظمت شخصیت کا نام ہے۔ ایک بڑے  صوفی بزرگ تھے  جن کی گہری نظر دُنیا کے  حالات، اپنے  ماحول  اور  خالقِ کائنات  اور  انسان کے  رشتے  پر تھی۔ ہر طبقے اور ہر قوم و ملّت کے  لوگ اُن کے  قدر داں  رہے اور آج بھی ہیں۔ ان کے  دوہے  صدیوں  سے  لوگوں  کو یاد ہیں، کم سے  کم لفظوں  میں  بڑی بڑی باتیں  کہہ جاتے  ہیں، بابا کبیر چودھویں  صدی عیسوی کے  ایک ممتاز صوفی بزرگ تصوّر کیے  جاتے  ہیں، اُن کا زمانہ غالباً ۱۴۴۰ء سے  ۱۵۱۸ء تک کا ہے۔ اتنا عرصہ گزر گیا ان کی زندگی کی کہانی ابھی تک دھُندلکوں  میں  چھپی ہوئی ہے۔ ان کی زندگی مختلف قسم کی کہانیوں  میں  لپٹی ہوئی ہے  لیکن اس بات کو سبھی مانتے  ہیں  کہ اُن کی پرورش ایک مسلمان جولا ہے  کے  گھر میں  ہوئی تھی۔ اُنھیں  بھی کپڑا   بننے  کا شوق تھا۔ کپڑا    بنتے     بنتے  شاعری بھی کرتے  رہتے  تھے۔ اپنے  ایک دوہے  میں  کہا ہے  ’’جی چاہتا ہے  کپڑا   بننا چھوڑ کر صرف اپنے  مالک کی یاد میں  پوری زندگی بسر کر دوں۔‘‘  ایک خدا کو ماننے  والے  اس سنت صوفی نے  ہندوؤں اور مسلمانوں  کے  درمیان پیار محبت کے  رِشتوں  کو مضبوط کر نے  کی ہر ممکن کوشش کی، مذہب دھرم کے  نام پر آپس میں  جھگڑے  کر نے  والوں  کو طرح طرح سے  سمجھانے  کی کوشش کی۔ ہندو  اور  مسلمان دونوں  ان کے  زبردست عقیدت مند رہے۔ بابا کبیر نے  جب کپڑا   بننا چھوڑ دیا  اور  اللہ کی یاد میں  وقت گزار نے  لگے  تو کبھی ایسا نہ کیا کہ وہ خود کو لوگوں  سے  الگ کر لیں۔ وہ ہمیشہ لوگوں  کے  درمیان میں  ہی رہنا پسند کرتے  تھے اور اُنھیں  اچھی ا چھی باتیں  سمجھاتے  تھے، کبھی اپنی تقریروں  سے اور کبھی اپنی شاعری سے۔ جس راستے  سے  گزرتے  لوگ اُن کے  ساتھ ہو جاتے  ان میں  بچے ّ، جوان، بوڑھے  سب ہوتے، اُن کی زبان سے  جو بات نکلتی اُسے  بہت سے  لوگ اپنے  دماغ میں  محفوظ کر لیتے۔ اس طرح اُن کا کلام ایک نسل سے  دوسری نسل تک پہنچتے  پہنچتے  ہم تک پہنچا ہے۔ ایک بار ایسا ہوا بابا کبیر گھر سے  نکلے  تو اُن کے  ساتھ بہت سے  لوگ ہولیے۔ چلتے  چلتے  بابا ایک دوسرے  گاؤں  پہنچ گئے، اُن کے  ساتھ وہ لوگ بھی پہنچ گئے  جو ان کے  ساتھ چل رہے  تھے۔ دوسرے  گاؤں  کے  لوگوں  نے  جب بابا کبیر کو دیکھا تو بڑی  محبت سے  ان کا استقبال کیا، اُنھیں  بٹھایا  اور  اُن تمام لوگوں  کو بھی جو اُن کے  ساتھ آئے  تھے اور اُن کے  مہمان تھے۔ اُس گاؤں  کی روایت کے  مطابق سب کے  سامنے  مکئی کی روٹی  اور   گڑ کے  ٹکڑے  رکھے  گئے۔ بابا کبیر نے  خوش ہو کر گڑ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اپنے  منہ میں  ڈال لیا  اور  پانی پیا۔ مہمان روٹی  اور   گڑ کھا کر بہت خوش ہوئے۔ اُس دِن بابا کبیر نے  لوگوں  کو یہ سمجھانے  کی کوشش کی کہ انسان کا دماغ ہمیشہ بے  چین  اور  بے  قرار رہتا ہے  سمندر کی تیز لہروں  کی طرح، لیکن انسان دِماغ کی بے  چینی  اور  بے  قراری کو روک لے  تو دِماغ کی لہروں  کے  رُکتے  ہی اسے  زندگی کی نعمتیں  حاصل ہوں  گی، زندگی کی قیمت سمجھ میں  آئے  گی اُسی طرح کہ جس طرح سمندر کی موجوں  کے  ٹھہر جانے  کے  بعد قیمتی پتھر حاصل ہوتے  ہیں۔ سمندر کی لہروں  کے  ٹھہرتے  ہی ہم قیمتی پتھر ہیرے  چننے  لگتے  ہیں۔ اسی طرح دماغ کی لہروں  کے  ٹھہرتے  ہی بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے، زندگی کی طرف سے  زیادہ بیداری پیدا ہو گی۔ اُنھوں  نے  ایک دوہا پڑھ کر اس بات کو اس طرح سمجھایا:

 

جیتی لہر سمدر کی تیتی من کی دور

سہجے  ہیرا نِپجے  جو من آوے  ٹھور

 

یعنی سمندر کی اَنگنت لہریں  ہوتی ہیں، اسی طرح دماغ کی بھی بہت سی لہریں اور موجیں  ہوتی ہیں۔ جب سمندر کی موجیں  ٹھہر جاتی ہیں  تو انسان موتی   چننے  لگتا ہے  اسی طرح دماغ کی لہروں  پر قابو پا لیا جائے  تو زندگی کے  بہت سے  موتی حاصل ہوں  گے۔

یہ باتیں  سمجھا کر بابا کبیر آگے  بڑھ گئے اور وہ تمام لوگ یعنی دونوں  گاؤں  کے  لوگ بابا کی باتوں  پر غور کرتے  رہے، آپس میں  بات چیت کی  اور  اس نتیجے  پر پہنچے  کہ بابا نے  جو کہا ہے  وہ درست ہے، انسان اپنے  دماغ کی لہروں  کو تھامنے  کی کوشش کرتا رہے  تو اُسے  یقیناً بہت سی نعمتیں  حاصل ہوں  گی۔ پچھلے  گاؤں  سے  آنے  والے  یہی پڑھتے  اپنے  گاؤں  واپس چلے  گئے:

 

جیتی لہر سمدر کی تیتی من کی دُور

سہجے  ہیرا نِپجے  جو من آوے  ٹھور

 

بابا کبیر نے  پوری زندگی ا چھی ا چھی باتیں  کیں، انسان  اور  زندگی کی سچائیوں  کو سمجھایا،بچوں اور نوجوانوں  کو بہت چاہتے اور پسند کرتے  تھے  اس لیے  کہ ملک و قوم کے  خوبصورت مستقبل کا انحصار ان ہی پر ہے۔ اچھی اچھی باتوں  کو سمجھاتے  ہوئے  ایک بہت ہی گہری بات اُنھوں  نے  اس طرح کہی تھی:

 

سیپ جونہی پتلگ اُترتی جیلک کھا لی پیٹ

آٹی سیپ پیرے  گئی بھئی سوتی سے  بھیٹ

 

پہلے  یہ بتا دوں بچو کہ بابا کبیر کی زبان بہت ہی قدیم اُردو ہے  جسے  اودھی کھڑی کہتے  ہیں۔ ’’وہ کھڑی اُردو‘‘  کے  پہلے  شاعر ہیں، اس طرح اُردو زبان کے  پہلے اور سب سے  بڑے  شاعر۔ یہ مِلی  جلی زبان ہے۔ کھڑی اُردو نے  علاقائی  اور  مقامی بھاشاؤں اور بولیوں  کے  لفظوں  کو اپنا بنا لیا تھا، اُردو زبان ابھی نکھری نہیں  تھی۔ ہاں  دیکھو اس دوہے  میں  وہ کیا کہہ رہے  ہیں۔ وہ کہہ رہے  ہیں  سمندر میں  سیپ اُلٹی تیرتی رہتی ہے  سویتی کی بوند کے  انتظار میں  پیاسی رہتی ہے۔ جیسے  ہی سویتی کی بوند پیتی ہے  وہ سمندر کے  اندر گہرائیوں  میں  چلی جاتی ہے۔ اس کے  اندر ایک قیمتی موتی آ جاتا ہے، وہ گھومتے  ہوئے  سمندر کے  اندر چلی جاتی ہے۔ بابا کبیر کے  کہنے  کا مقصد یہ ہے بچو کہ ارادہ مضبوط رکھو، سیپ کی مانند رہو، جب تک ارادہ مضبوط  اور  مستحکم نہ ہو گا تم دُنیا کو قیمتی موتی کی طرح کچھ دے  نہ سکو گے۔

غور کرو بابا کبیر نے  دُنیا کے  تمام بچوں اور نوجوانوں  کو کتنی اہم بات سمجھا دی ہے۔

 

ایک بار ایسا ہوا بچو، بابا کبیر اللہ کی یاد میں  مست ایک گھنے  جنگل سے  گزر رہے  تھے  کہ اُنھوں  نے  دیکھا ایک سادھو آنکھیں  بند کیے  تنہا بیٹھا ہے، رام رام ہری ہری کے  نام کی مالا جپ رہا ہے۔ قریب پہنچے  تو اندازہ ہوا کہ سادھو دُنیا سے  بے  خبر اپنی دُنیا میں   گم ہے۔ تھوڑی دیر پاس کھڑے  رہے  پھر سادھو کو مخاطب کر کے  کہا ’’آپ یہ کیا کر رہے  ہیں؟ آبادی سے  اِتنی دُور اس گھنے  جنگل میں  بھگوان کو یاد کر رہے  ہیں۔ کیا بھگوان اللہ صرف اس خاموش جنگل میں  ملے  گا؟ دُنیا سے  کٹ کر آپ بھگوان کو تلاش کر نے  تنہا اس جنگل میں  پڑے  ہیں۔ کھاتے  ہیں اور نہ کچھ پیتے  ہیں۔ جسم سوکھ رہا ہے  رام رام ہری ہری کہتے  کہتے  ہونٹ زخمی ہو گئے  ہیں۔ سمجھ رہا ہوں  کہ آپ بھگوان کو ڈھونڈھ رہے  ہیں  جانے  کب سے  خود کو تکلیف  اور  اذیت میں  ڈال کر مالک کو تلاش کر رہے  ہیں۔ آپ یقیناً سچے ّ انسان ہیں  لیکن اتنے  دِنوں  کی عبادت  اور  تپسیا کے  بعد بھی اب تک بھگوان آپ کو نہیں  ملے  ہیں  یہ بھی توسچی بات ہے  نا؟‘‘

یہ باتیں   سن کر سادھو کی آنکھیں   کھل چکی تھیں اور وہ بابا کبیر کو ٹکٹکی باندھے  دیکھ رہا تھا، اُسے  ان کی باتیں  قطعی ا چھی نہیں  لگ رہی تھیں، سوچ رہا تھا یہ عجیب شخص ہے، رنگ میں  بھنگ ڈالنے  آ گیا ہے۔ میری عبادت  اور  تپسیا کو خراب کر نے  پہنچ گیا ہے۔ سادھو نے  جب اپنی آنکھیں  کھولیں  تو بابا کبیر نے  دیکھا آنکھیں  زرد ہو چکی تھیں اور اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ اُنھوں  نے  سادھو سے  کہا ’’کیا اسی طرح بھگوان ملیں  گے؟ خود کو تباہ  اور  برباد کر کے، خود کو دُنیا سے  الگ کر کے، بھگوان کی دی ہوئی خوبصورت زندگی کو توڑ کر، جسم کو دُکھ  اور  تکلیف پہنچا کر، نہیں  سادھو، بھگوان اس طرح ہر گز نہیں  ملتے، بھگوان نے  ہمیں  ایک خوبصورت زندگی دی ہے، خوبصورت جسم دیا ہے  اس لیے  تو نہیں  کہ ہم اس طرح پہاڑوں اور جنگلوں  میں  اُسے  تلاش کر کے  ہر دی ہوئی نعمت سے  خود کو الگ کر دیں۔ خود اپنی روح  اور  آتما کو دکھ دیتے  رہیں، اپنے  جسم کو   گھلا دیں۔‘‘

’’میں  نہیں  جانتا تم کون ہو۔ برسوں  برسوں  سے  یہاں   تپسیا کر رہا ہوں، بھگوان کو پانے  کی کوشش کر رہا ہوں، اتنے  برسوں  میں  اس گھنے  جنگل میں  کوئی نہیں  آیا تم کہاں  سے  آ گئے  تم ہو کون؟‘‘  سادھو نے  آہستہ آہستہ کمزور آواز میں  کہا۔

’’سادھو مہاراج میں  کبیر ہوں۔ اس جنگل سے  گزر رہا تھا کہ آپ کو اس حال میں  دیکھا بڑا ترس آیا آپ پر، آپ سچے ّ انسان ضرور ہیں  لیکن یہ نہیں  جانتے  بھگوان کس طرح ملتا ہے۔‘‘  بابا کبیر نے  کہا۔

’’بتاؤ بھگوان کیسے  ملتا ہے، تم تو اس طرح کہہ رہے  ہو جیسے  تم نے  بھگوان کو پا لیا ہو، میں  برسوں  برسوں  سے  تپسیا کر رہا ہوں، اب تک بھگوان کو پانہ سکا ہوں، تم بھگوان کو پانا مذاق سمجھتے  ہو۔‘‘  سادھو نے  کچھ تیز لہجے  میں  کہا۔

بابا کبیر نے  جواب دیا ’’سادھو مہاراج، ہری ہری رام رام کہنے  کے  لیے  جنگل  اور  پہاڑوں  میں  آنا عقلمندی نہیں  ہے۔ آپ بھگوان کا جپ لوگوں  کے  درمیان میں  رہ کر بھی کر سکتے  ہیں۔ اپنے  آپ کو اذیت  میں  ڈالے  رہنا کہاں  کی ہوش مندی ہے۔‘‘

’’آپ کے  بال بچے ّ تو ہوں گے؟‘‘  بابا کبیر نے  پوچھا۔

’’ہاں، تو اس سے  کیا؟‘‘  سادھو نے  ذرا  رُوکھے  پن سے  جواب دیا۔

’’کیا آپ کو اپنے  بال بچوں  میں  بھگوان نہیں  ملے، رام  اور  ہری تو وہاں  بھی مل سکتے  تھے،  ّبچوں  کے  بھولے  پن میں، ان کی مسکراہٹوں  میں، کیا اُن کی خوبصورت پیاری آوازوں  میں  کرشن کی بانسری کی آواز سنائی نہیں  دی؟‘‘

سادھو بابا کبیر کی باتیں  سن کر حیرت سے  اُن کی جانب دیکھ رہا تھا۔

’’رام ہری کرشن سب آپ کے  گھر میں  موجود ہیں، آپ کے  ٹولے  میں  موجود ہیں، آپ کی بستی میں  موجود ہیں، محنت کر نے  والوں  کی جانب آپ نے  کبھی غور سے  دیکھا، بھگوان کی طاقت ان میں  نہ ہوتی تو وہ اتنا بھاری بھاری کام کس طرح کر سکتے  تھے۔ بھگوان تو اُن کے  اندر بیٹھا بل دیتا رہتا ہے، طاقت دیتا رہتا ہے  سب کے  اندر، سب کے  بھیتر بھگوان بسے  ہیں، آپ کے  اندر بھی بھگوان بیٹھے  ہیں، آپ نے  خود اپنے  آپ کو نہیں  دیکھا، آپ کو بھگوان مل جاتے۔ جنگل پہاڑ کی طرف بھاگنے  سے  مہاراج بھگوان نہیں  ملتے، زندگی سے  بھاگنا انسان کا دھرم نہیں  ہے، آپ اپنے  اندر تلاش کیجیے  بھگوان کو، بھگوان ضرور ملیں  گے۔‘‘  اس کے  بعد بابا کبیر نے  اپنا شعر پڑھا:

 

برجھا پوچھئی بیج سون برجھ کے  مانیہہ

جیو سو ڈھونڈھے  برہم کو برہم جیو کے  پانیہہ

 

’’سادھو مہاراج درخت نے  کہا اے  بیج دیکھو تم میرے  اندر کیسے  بسے  ہو، اسی طرح سائیں  سب کے  دل میں  بسا ہے اور انسان ہے  کہ اُسے  یہاں  وہاں  ڈھونڈتا رہتا ہے، اپنے  اندر دیکھو برہم ملے  گا، بھگوان ملے  گا، اللہ ملے  گا۔ خود کو پہچانو مالک کو پہچان لو گے۔‘‘

یہ کہتے  ہوئے  بابا کبیر آ گئے  بڑھ گئے۔

اور  سادھو بیٹھے  بیٹھے  غور کرتا رہا، اُسے  یقین آ گیا کہ بابا کبیر جو کچھ کہہ رہے  تھے  سچ کہہ رہے  تھے۔ اچانک اس کمزور نڈھال سادھو کو اپنی بیوی بچوں  کی یاد آئی رو پڑا، سوچنے  لگا میں  بھی کیا آدمی ہوں  جہاں  بھگوان بستے  ہیں  وہاں  سے  جنگل کی طرف دوڑ پڑا بھگوان کی تلاش میں، میں  نے  تو خود اپنے  اندر جھانک کر نہیں  دیکھا مجھے  بھگوان برہم اپنے  دِل کے  اندر مل جاتے۔ درخت نے  ٹھیک ہی کہا بیج سے  کہ جس طرح تم میرے  اندر بسے  ہوئے  ہو اسی طرح بھگوان سب کے  دِل میں  بسا ہوا ہے۔ یہ سب کچھ سوچنے  کے  بعد سادھو نے  اپنا ڈنڈا اُٹھایا، کمنڈل لیا  اور  ہری ہری رام رام کرتا ہوا اپنی بستی کی جانب روانہ ہو گیا۔ جہاں  اُس کی بیوی بچے ّ تھے۔ ہاں، دِل میں  ایک خواہش لیے  ہوئے  بستی کی طرف جا رہا تھا کہ کاش بابا کبیر سے  ایک بار پھر ملاقات ہو جائے اور اُن سے اور بھی اچھی اچھی بہت ہی اچھی اچھی باتیں  سنوں۔

 

پیارے بچو، بابا کبیر نے  ہمیشہ پیار محبت کی تعلیم دی، اُن کے  نزدیک  محبت سب سے  بڑی نعمت ہے۔ انسان  اور  انسان کے  رشتے  میں  وہ  محبت ہی کو ایک مضبوط کڑی مانتے  ہیں۔  محبت ہی کے  ذریعہ اللہ تک پہنچ سکتے  ہیں، اللہ وہاں  ہوتا ہے  کہ جہاں   محبت ہوتی ہے، محبت کو پا لیا تو سمجھو سب کچھ پا لیا۔ بابا کبیر کہتے  ہیں  خود اپنی حفاظت میں  مصروف رہو گے  تو  محبت یا پریم تک پہنچ نہ سکو گے . دیکھو نا پتھر مضبوط ہوتا ہے اور پھول ہمیشہ خطرے  میں،  ّپتھر مردہ ہے اور پھول زندہ، پھول کی خوشبو پھیلتی ہے، پتھر کے  پاس خوشبو کہاں؟ پھول کوئی بھی کسی وقت توڑ سکتا ہے،پتھر کو پھول کی طرح کوئی نہیں  توڑتا، کیا تم پتھر کی طرح رہنا چا ہو گے  جو خوشبو نہیں  دے  سکتا، پیار کا رِشتہ باندھ نہیں  سکتا،

محبت یا پریم پتھر نہیں  پھول ہے  اس سے  بڑا خوشنما پھول کوئی پھول نہیں، اس سے  زیادہ کسی بھی پھول میں  خوشبو نہیں  ہے، محبت تو زندگی کا نام ہے اور زندگی آزاد رہنا چاہتی ہے، پرواز کرنا چاہتی ہے، @ درخت کی جڑ ہے، درخت بڑا ہوتا ہے  اس کی شاخیں  نکلتی ہیں، غور کرو تو اس سچائی کو پالو گے  کہ محبت جو درخت کی جڑ ہے  وہ درخت کے  اندر ہے اور اس کی شاخوں  کے  اندر جڑ کا جوہر موجود ہے۔ بابا کبیر کہتے  ہیں  کہ ڈال درخت کی جڑ کی تلاش میں  ہے  حالانکہ جڑ اس کے  اندر ہے، ہر شخص اپنی جڑ کی تلاش میں  جانے  کہاں  کہاں  مارا پھر رہا ہے:

 

ڈال بھئی رے  مول تے  مول ڈال کے  مانہہ

سبھی پڑے  جب بھرم میں  مول ڈال کچھ نانہہ

ڈالی جو ڈھونڈھے  مول کا ڈال مول کے  پاہینہ

آپ آپ کو سب چلے  ملے  مول سوں  ناہینہ

 

ایک جگہ بابا کبیر نے  کہا ہے  کہ محبت باغ میں  نہیں  اُگتی، یہ بازار میں  فروخت نہیں  ہوتی، راجا پرجا جسے  اس کی ضرورت ہے  اپنا سردے  کر لے  جائیں:

 

پریم نہ باڑی اوپجے  پریم نہ ہاٹ بکائے

راجا پرجا جہیہ رچے  سیس دیئے  لے  جائے

 

جو لوگ اللہ بھگوان کی تلاش میں  جنگلوں  پہاڑوں  پر مارے  مارے  پھرتے  ہیں  اُن ہی سے  مخاطب ہو کر بابا کبیر نے  کہا ہے:

 

تیرا سائیں  تجھ میں  جیوں  پہپن میں  باس

کستوری کا مرگ جیوں  پھرپھر ڈھونڈے  گھاس

 

یعنی اللہ سائیں  وجود میں  اس طرح سمائے  ہوئے  ہیں  جیسے  پھول میں  خوشبو، کستوری کے  ہرن کی طرح گھوم گھوم کر گھاس میں  خوشبو کیوں  تلاش کر رہے  ہو۔ بابا کبیر نے  بار بار کہا ہے  کہ انسان کے  وجود میں  چمن زار ہے، جلوۂ الٰہی  اور  صفاتِ الٰہی ہے، دِل کے  اندر ہزار پنکھڑیوں  کا کنول ہے  اس پر انسان بیٹھ جائے  تو ساری کائنات کا حسن و جمال دیکھ سکتا ہے اور اپنے  مالک کو پا سکتا ہے:

 

باگوں  ناجارے  ناجا

تیری کایا میں  گل جار

سہس کنول پر بیٹھ کر

تو دیکھے  روپ پار

بابا کبیر نے  کہا ہے  کہ اللہ دریا ہے اور ہم اس کی لہریں  ہیں، دریا  اور  لہر ایک دوسرے  سے  مختلف نہیں  ہیں، دونوں  میں  فرق نہیں  ہے:

 

دریاؤ کی لہر دریاوہے  جی دریاو اور  لہر  بھن کویم

 

جو لہریں  اُٹھتی نہیں  وہ تو پانی ہی ہیں  یعنی جو لہریں  اُٹھتی ہیں  وہ پانی ہی تو ہیں اور جو لہریں  بیٹھتی ہیں  وہ بھی پانی ہیں، بتاؤ دوسرا کس طرح ہو گا:

 

اُٹھے  تو نیر ہے  بیٹھتا نیر ہے  کہو کس طرح دوسرا ہویم

 

اسی نام کو دو بار کہو تو لہر ہے، لہر کہنے  سے  پانی کھو تو نہیں  جاتا:

 

اُسی نام کو پھیر کے  لہر دھار و لہر کے  کہے  کیا نیرکھویم

 

دُنیا ہی برہم (اللہ) ہے اور برہم ہی دُنیا ہے۔ اے  کبیر جو میں  کہہ رہا ہوں  اُسے  خوب جان کر، سمجھ کر  اور  دیکھ کر کہہ رہا ہوں:

 

جگت ہی پھیر سب جکت ہے  برہم میں  گیان کر دیکھ کبیر گویم

اسی بات کو بابا کبیر نے  دوسری جگہ اس طرح سمجھایا ہے:

 

کرتا آپ آپ میں  کرتا لکھ من کو پرمودھو

 

یعنی اللہ میں  تم ہو  اور  تم میں  اللہ ہے  یہ سمجھ کر مطمئن  اور  خوش رہو۔

 

جیسے  بٹ کا بیج تاہ میں  پتر پھول پھل چھایا

 

جیسے  برگد کے  بیج ہی میں  اس کے  پتے ّ پھول پھل سایہ وغیرہ ہیں۔

 

کایا مدھے   بند براجے    بندے  مدھے  کایا

 

اسی طرح جسم میں  اللہ ہے اور اللہ میں  جسم ہے!

 

ّبچو، بابا کبیر بستی کے  ایک گنجان علاقے  سے  گزر رہے  تھے  کہ ان کی نظر کچھ دُور ایک بھیڑ پر پڑی، وہاں  بہت سے  لوگ جمع تھے اور کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا۔ وہ تیز تیز آگے  بڑھے اور لوگوں  کی بھیڑ کے  پاس جا پہنچے۔ کیا دیکھتے  ہیں  ایک جانب ایک مہا پنڈت چیخ رہے  ہیں اور دوسری جانب ایک ملاّ جی آسمان سرپر اُٹھائے  ہوئے  ہیں۔ ایک طرف کچھ مسلمان ہیں  دوسری طرف کچھ ہندو، خوب ’توُ  توُ میں  میں ‘  ہو رہی ہے۔ دونوں  یعنی پنڈت جی  اور  ملاّ جی ہاتھ لہرا لہرا کر، ہاتھ چمکا چمکا کر لڑ رہے  ہیں، دونوں  کے  حلق سے  آوازیں  پھٹ کر نکل رہی ہیں۔ بابا کبیر نے  سمجھ لیا جھگڑا دیر سے  ہو رہا ہے  ورنہ ملاّ جی  اور  پنڈت جی کی آوازیں  اس طرح پھٹ نہیں  جاتیں، حلق خشک ہوئے  ہوں  گے  دونوں  کے، کسی نے  پانی نہیں  دیا ہو گا پینے  کو، خشک حلق کے  ساتھ چیخنے  سے  یہی ہوتا ہے۔ آواز کبھی بیٹھ جاتی ہے  کبھی اُٹھ جاتی ہے اور پھر آواز پھٹ جاتی ہے۔۔۔ حد یہ کہ دونوں  کی آوازیں  پھٹ گئی تھیں  لیکن تیور جارحانہ تھا جیسے  ابھی دونوں  ایک دوسرے  کے  ساتھ کشتی لڑیں  گے۔ بابا کبیر کو اندازہ ہو گیا کہ مجمع میں  دوہی اہم کردار ہیں، ایک پنڈت جی مہاراج دوسرے  ملاّ جی، باقی جو اتنے  لوگ کھڑے  ہیں  وہ سب تماشائی ہیں۔ دونوں  کے  جھگڑے  سے  لطف لینے  والوں  کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ بابا کبیر نے  ایک شخص سے  پوچھا ’’بیٹے  ماجرا کیا ہے؟ ملاّ جی  اور  پنڈت جی کس بات پر اتنے  آگ بگولا ہیں۔‘‘

اس شخص نے  بتایا۔ ’’جھگڑا خدا  اور  بھگوان پر ہو رہا ہے۔‘‘

’’او  تو یہ خدا  اور  بھگوان کی لڑائی ہے‘‘  بابا کبیر بولے۔

’’نہیں  بابا خدا  اور  بھگوان یہاں  کہاں  سے  آ گئے، یہاں  تو پنڈت جی ہیں اور ملاّ جی، ان دونوں  کا جھگڑا ہو رہا ہے  خدا  اور  بھگوان کا معاملہ ہے۔‘‘

’’کیا کہتے  ہیں  پنڈت جی؟‘‘  بابا کبیر نے  پوچھا۔

’’پنڈت جی کہتے  ہیں  اے  ملاّ تیرا خدا سات آسمانوں  کے  اوپر رہتا ہے  تجھ کو کیا معلوم وہ کیسا ہے، تم نے  تو اپنے  خدا کو دیکھا ہی نہیں  ہے   اگر  تمھارا خدا ہے  تو ذرا دکھاؤ ہمیں  ہم بھی دیکھیں۔‘‘

’’واہ پنڈت جی واہ، کیا بات ہے۔۔۔  اور  ملاّ جی کیا فرماتے  ہیں؟‘‘  بابا کبیر نے  دریافت کیا۔

’’ملاّ جی کہتے  ہیں  تمھارے  بھگوان پتھر کے  ہیں۔ دیکھ بول نہیں  سکتے، چل پھر نہیں  سکتے۔ تم انھیں  خود ہی بناتے  ہو، میرا خدا نیچے  نہیں  رہتا سات آسمانوں  سے  اوپر رہتا ہے۔‘‘

بابا کبیر بولے  ’’واہ ملاّ جی واہ، بھائی مان گئے۔ یہ دونوں  لڑنے  جھگڑنے  کا طریقہ خوب جانتے  ہیں اور اپنی اس لڑائی کو لوگوں  تک پہنچا کر فساد کرنا چاہتے  ہیں۔‘‘

’’دیکھئے  نا بابا کبیر، یہ لوگ ایک گھنٹے  سے  بس ایک ہی بات کہے  جا رہے  ہیں۔ آپ ہی بتایئے  ایک ہی بات سنتے  سنتے  ہم کتنے  تھک گئے  ہوں  گے۔‘‘

’’باتوں  کو آگے  بڑھانا ہی نہیں  جانتے  جیسے۔‘‘  اس شخص نے  تنگ آ کر شکایت کی۔

’’تم کیا جانو بیٹے  ان دونوں  نے  تو بات بہت آگے  بڑھا دی ہے، چ نگاری سلگا کر لوگوں  کے  دِلوں  میں  آگ لگا چکے  ہیں، مجھے  ان سے  کچھ کہنا ہی ہو گا۔‘‘  یہ کہتے  ہوئے  بابا کبیر نے  بھیڑ کے  اندر جا کر کہا ’’پنڈت جی   چپ رہیے  ملاّ جی   چپ رہیے، آپ دونوں  دِکھاوے  کے  پنڈت  اور  ملاّ ہیں، آپ دونوں  کے  پاس کوئی علم نہیں  ہے، اپنی لاعلمی کا ثبوت دیتے  رہتے  ہیں اور ہندو مسلمانوں  میں  جھگڑا کراتے  رہتے  ہیں۔‘‘

بابا کبیر کی آواز سنتے  ہی دونوں  یعنی پنڈت جی  اور  ملاّ جی اچانک خاموش ہو گئے اور بابا کبیر کی طرف دیکھنے  لگے۔ غالباً دونوں  ہی سوچ رہے  تھے  یہ کون آ گیا ہمارے  درمیان میں۔ جو لوگ وہاں  کھڑے  ملاّ پنڈت کی لڑائی دیکھ رہے  تھے  وہ سب بھی خاموش ہو گئے۔‘‘

بابا کبیر نے  تمام لوگوں  کو مخاطب کرتے  ہوئے  کہا ’’پانی میں  رہ کر مچھلی پیاسی ہے  یہ سن کر مجھے  ہنسی آتی ہے  (   سن   سن آوت ہانسی)  اگر  آتما  اور  روح کا گیان نہیں  ہے  تو متھرا جاؤ یا کاشی سب بے  کار ہے  (اتّم گیان بنا سب  سونا کیا متھرا کیا کاسی) گھر میں  رکھی چیز دکھائی نہیں  دیتی  اور  تم سب اسے  تلاش کر نے  باہر جاتے  ہو:

 

گھر میں  وستودھری نہیں  سوجھے  باہر کھوجت جاسی

مرِگ کانا بھی مانہہ کستوری بن بن کھوجت جاسی

 

اے  ملاّ  اور  اے  پنڈت تم دونوں  غور سے  سنو میری بات، ہرن کے  ناف میں  مشک ہے اور وہ جنگل جنگل اسے  تلاش کر رہا ہے، اللہ بھگوان خوشبو کی طرح تمھارے  دل میں  ہے  تم اپنے  دل کی خوشبو پا نہیں  سکتے  تو پھر کیسے  پنڈت  اور  کیسے  ملاّ ہو:

مرِگ پاس کستوری باس

آپ نہ کھوجے  کھوجے  گھاس

 

آپ اپنے  اندر اللہ  اور  بھگوان کو تلاش کیجیے۔ وہ پنڈت ہی کیا  اور  وہ ملاّ ہی کیا کہ جس نے  اپنے  اندر اپنے  مالک کی خوشبو نہیں  پائی  اور  اس خوشبو کے  ساتھ معبودِ حقیقی تک نہیں  پہنچا۔ مالک کی یہ آواز کیوں  نہیں  سنتے:

 

موکو کہاں  ڈھونڈھے  ہو بندے  میں  تو تیرے  پاس میں

کہے  کبیر سنو بھائی سادھو سب سانسوں  کی سانس میں

 

ایک بات  اور  کہہ دوں، پنڈت جی آپ بھی سن لیجیے  ملاّ جی آپ بھی،  اور  آپ سب بھائی بہن جو یہاں  کھڑے  ہیں  آپ سب بھی سن لیجیے اور جب گھر جائیے  تو اس بات پر غور کیجیے،  ّ سچائی کا پتہ چل جائے  گا:

 

کعبہ پھر کاسی بھایا رام بھایا رحیم

موٹ چن میدہ بھئے  بیٹھی کبیر جیم

 

نام الگ الگ ہیں  ورنہ جو کعبہ ہے  وہی کاشی ہے۔ رام  اور  رحیم میں  کیا فرق ہے، دونوں  ایک ہیں، اناج پیس دو تو سب اناج ایک جیسے  ہو جاتے  ہیں  جنھیں  ہم سب کھاتے  ہیں۔ پنڈت جی  اور  ملاّ جی چلتے  چلتے  میں  آپ دونوں  سے  کہنا چاہتا ہوں  کہ نو من دودھ میں   اگر  ایک قطرہ زہر پڑ جائے  تو سارا دودھ زہریلا ہو جاتا ہے۔ ہندو مسلمانوں  کا رِشتہ دودھ کی طرح صاف  اور  پاکیزہ  ہے  آپ لوگ اس میں  زہر نہ ڈالیے۔ ہندو کہتا ہے  کہ مجھے  رام پیارا ہے  مسلمان رحمن کو پیارا کہتا ہے، آپس میں  دونوں  لڑے  مرے  جاتے  ہیں  اصل بھید کسی کو معلوم نہیں:

 

کہہ ہندو موہے  رام پیارا، ترک کہے  رحمانا

آپس میں  دود مرمر موئے  دھرم نہ کا ہو جانا

 

یہ سب کچھ کہہ کر بچو بابا کبیر اپنی راہ ہو لئے۔ ملاّ جی  اور  پنڈت جی دونوں  کو شرمندگی محسوس ہوئی۔ دونوں  لوگوں  کی نظر بچاتے  ہوئے  اپنے  اپنے  گھر چلے  گئے۔ اُنھیں  یقین آ گیا تھا کہ بابا کبیر جو کہہ گئے  ہیں  وہی سچ ہے  ہم واقعی سچ کی راہ پر نہیں  تھے۔

آج تک بچو، لوگ بابا کبیر کی یہ بات بھولے  نہیں  ہیں:

نومن دودھ بٹور کے  ٹپکا کیا ہوناش

دودھ پھاٹ کانجی بھیاگھیو کا ناش

یعنی تم نے  نو من دودھ جمع کیا  اور  ایک بوند نے  اسے  برباد کر دیا، دودھ پھٹ کر کھٹا ہو گیا  اور  اس کا گھی بھی جاتا رہا۔

بابا کبیر کی یہ بات بھی سنو:

 

آدی ہوت سب آپ میں  سکل ہوت تا مانہہ

جیوں  ترور کے  بیج میں  ڈار پات پھل چھانہہ

 

یعنی اللہ سب میں  ہے اور سبھی اس میں  ہیں  جیسے  درخت کے  بیج میں  شاخیں، پتے ّ پھل  اور  سایہ    چھپے  رہتے  ہیں۔

 

بچو، بابا کبیر نے  ہزاروں  باتیں  ایسی کہی ہیں  جو قیمتی موتیوں  سے  بھی زیادہ قیمتی ہیں، اُن کی تمام باتوں  کو بیان کرنا آسان کام نہیں  ہے، ذرا ان ہی باتوں  پر غور کرو:

 

*          بابا کبیر کہتے  ہیں  جب تو پیدا ہوا اس دُنیا میں  آیا تو تو رو رہا تھا  اور  لوگ خوش تھے  اس لیے  زندگی میں  ہر گز کوئی کام ایسا نہ کرو کہ لوگ تمھارا مذاق اُڑائیں  تم پر ہنسیں:

 

جب تو آیا جگت میں  لوگ ہنسے  تو روئے

ایسی کرنی نہ کری پاچھیں  ہنسے  سب کوئے

 

*          گنے ّ کا رس نکالتے  ہیں  تو رس نکلنے  کے  بعد بھی گنے ّ میں  اس کی خوشبو موجود رہتی ہے، یہ خوشبو بہت قیمتی ہے، تم بھی لوگوں  کو  محبت کا رَس دے  کر اپنی خوشبو قائم رکھ سکتے  ہو۔

 

*          کسی سے، وہ سادھو ہی کیوں  ہوا اس کی ذات نہ پوچھو۔۔۔ یہ دیکھو کہ وہ اللہ کو کتنا جانتا پہچانتا ہے اور تمھیں  اللہ کے  بارے  میں  کتنا بتا سکتا ہے۔

 

*          وہ شخص دیوانہ ہی تو ہے  جو سانپ کو نہیں  اس کے  بل کو مارتا ہے۔ سانپ کا   بل تو کسی کو نہیں  کاٹتا سانپ کاٹتا ہے

 

*          چا ہو تو صرف گفتگو کر نے  کے  انداز سے  ہی ایک پڑھے  لکھے  شخص  اور  ایک جاہل کو پہچان سکتے  ہو۔

 

*          اللہ کے  سوا  اور  کوئی نہیں  جو رائی کو پہاڑ اور  پہاڑ کو رائی بنا سکے۔

 

*          میں   برے  آدمی کی تلاش میں  نکلا، کوئی بُرا شخص نہیں  ملا، جب میں  نے  اپنے  من کو ٹٹولا، اپنے  دِل کی تلاشی لی تو لگا اس بھری دُنیا میں  صرف میں  ہی بُرا شخص ہوں۔

 

*          بھگوان پر صرف برہمنوں  کا حق کیسے  ہے؟ بھگوان پر تو ہر اُس شخص کا حق ہے  کہ جس کا دِل پاکیزہ ہے۔

 

*          شکل و صورت سے  ہر سادھو ایک جیسا لگتا ہے، گلِ لالہ کے  باغ میں  جس طرح سفید پھولوں  کی قطار ہوتی ہے  اسی طرح یہ سادھو بھی نظر آتے  ہیں، بہت کم ایسے  سادھو ہوتے  ہیں  جو سر خ پھولوں  کی مانند ہوتے  ہیں، سرخ گلِ لالہ کو پہچان کر ہی ان کے  پاس بیٹھو۔

 

*          کاشی ہے  کیا؟ رام تو دِل میں  بسے  ہوئے  ہیں،  اگر  کبیر کاشی میں  مر جائے  تو اس سے  رام کو کیا فائدہ ہو گا؟

 

آج کا لہہ دن ایک میں  استھر نہیں  سریر

کہہ کبیر کس رادکھہی کانچے  باسن نیر

 

یعنی جسم رہنے  والا نہیں  ہے  آج یا کل ختم ہو جائے  گا۔ کبیر  کہتے ہیں  کہ  کچی  مٹّی کے  برتن میں  پانی کس طرح رکھ سکتے  ہیں:

 

*   چلتی چکّی دیکھ کے  دیا کبیرا روئے

دوے  پٹ بھیتر آئے  کے  ثابت گیا نہ کوئے

 

یہ جو چلتی ہوئی  چکی ہے  دو پاٹوں  میں  بٹی ہوئی (زمین  اور  آسمان) اس کے  درمیان جو بھی آیا پس کر رہ گیا یہ دیکھ کر کبیر کو دُکھ ہوتا ہے  وہ روتے  ہیں۔

 

*          میٹھی زبان بولو، ایسی زبان کہ جس سے  تمھیں  بھی راحت ملے اور دوسروں  کو بھی سکون  اور  خوشی محسوس ہو:

ایسی بانی بولیے  من کا آپا کھوئے

اور  َن کو سیتل کرے  آپہو ستیل ہوئے

 

*          اگر دل  پرسکون ہو تو دُنیا میں  کوئی بھی دشمن نہیں  بنے  گا۔ اپنا غرور تیا گ دے  تو ہر شخص سے   محبت پیدا ہو گی، ہر شخص تم پر مہربان ہو گا:

 

جگ میں  بیری کوئی نہیں  جو من ستیل ہوئے

یا آیا کو ڈار دے  دیا کرے  سب کوئے

 

*          تیرا دِل متھرا ہے، دل دُوارکا  اور  جسم کاشی یعنی سارے  تیرتھ استھان تیرے  اندر ہی ہیں، تیرا مندر جو ہے  اس کے  دس دروازے  ہیں  اسی مندر میں  بیٹھ کر اللہ کے  حسن کا دیدار کر:

 

من متھرا دِل دُوارکا کایا کاسی جان

دس دروازے  کا دیہرا تامیں  جوتی پچھان

 

*     پوتھی پڑھ پڑھ جگ موا پنڈت ہوا نہ کوئے

ایکے  اچھر پریم کا پڑھے  سوپنڈت ہوئے

 

یعنی کتابیں  پڑھتے  پڑھتے  دُنیا مر گئی علم حاصل نہ ہوا۔ صرف  محبت کا ایک ہی حرف انسان پڑھ لے  تو وہ پنڈت عالم بن جائے  گا۔

 

*            غصہ کرو  اور  دیکھو سینکڑوں  ہزاروں  گمراہیاں  پیدا ہو جائیں  گی غرور سے  سب کیے  کرائے  پر پانی پھر جاتا ہے:

کوٹ بھرم لاگے  رہیں  ایک کرودھ کی لار

ِکیا کرایا سب گیا جب آیا ہنکار

 

*          ہوس، خواہش، لالچ ایک ڈاکنی (چڑیل) ہے، زندگی تباہ کر دینے  والی موت، یہ ڈاکنی ہر دن نیا شکار چاہتی ہے اور جینا دوبھر کر دیتی ہے:

کی ترستا ہے  ڈاکنی کی جیون کو کال

اور   اور  نس دِن چہے  جیون کرے  بے  حال

 

*          پیڑ تالاب، اللہ والے  لوگ  اور  برستے  بادل یہ چاروں  دوسروں  کی بھلائی کے  لیے  ہی جسمانی صورت اختیار کرتے  ہیں:

 

ترور سرور سنت جن چوتھے  برسے  مہینہ

پرمارتھ کے  کار نے  چاروں  دھاریں  دیہہ

 

*          آگے  آگے  آگ جلتی جائے اور پیچھے  پیچھے  وہ ہرا ہوتا جائے۔ اس پیڑ پر کون قربان نہ ہو جائے  جس کی جڑ کاٹنے  سے  اس میں  پھل آتے  ہیں:

 

آگے  آگے  دو پرے  پیچھے  ہریر ہوئے

بلہاری وا برچھ کی جڑ کاٹے  پھل ہوئے

 

بچو،ایک دِن جبکہ بابا کبیر لوگوں  کے  درمیان بیٹھے  تھے  بول پڑے۔ ’’ایک راہ دیکھی ہے  میں  نے  ایک راستہ دیکھا ہے  میں  نے، یہ راہ   سوئی کے  سوراخ سے  بھی چھوٹی ہے،  اور  اس سوراخ سے  میں  نے  ہزاروں  اُونٹوں اور ہاتھیوں  کو گزرتے  ہوئے  دیکھا ہے۔‘‘

لوگوں  کی سمجھ میں  بات نہ آئی تو اُنھوں  نے  بابا کبیر سے  پوچھا‘‘  یہ کون سی راہ ہے  بابا جو   سوئی کے  سوراخ سے  بھی چھوٹی ہے اور اس سے  آپ نے  ہزاروں  اُونٹوں اور ہاتھیوں  کو گزرتے  دیکھا ہے؟‘‘

بابا کبیر مسکرائے  بولے  ’’بھائیو یہ انسان کی آنکھ کی  پتلی ہے   سوئی سے  بھی چھوٹی لیکن یہ کیا نہیں  دیکھتی، اس کے  سامنے  سے  ہزاروں  اُونٹ  اور  ہزاروں  ہاتھی گزرتے  رہتے  ہیں  لیکن پیارے  بھائیو میں  اُس آنکھ کی بات بھی کروں  گا جو دِل کی آنکھ ہے، وہ آنکھ کھلی رہے، یہ  پتلی کھلی رہے  تو انسان ساری کائنات کی خوبصورتی کو دیکھ سکتا ہے۔ صرف وہ چاند ستارے  سورج نہیں  جو نظر آتے  ہیں  بلکہ وہ سینکڑوں  سینکڑوں  ستارے  چاند سورج جو کائنات میں  ہیں اور انسان کو دِکھائی نہیں  دیتے۔ ہم اپنے  مالک کو دیکھنے  کے  لیے  اپنے  دِل میں  جتنا اُتریں  گے  نا دِل کی آنکھ اُتنی ہی زیادہ روشن  اور  تیز ہوتی جائے  گی۔ آپ سب اپنے  اندر دیکھئے  اپنے  رام  اور  رحیم کو دِل کی گہرائیوں  میں  ڈھونڈئیے  دیکھئے  دِل کی آنکھ کتنی روشن ہوتی ہے اور کیا کچھ دِکھاتی ہے۔ معبود کی خوشبو ناف کے  کنول میں  ہے اور ہم ہیں  کہ ہرن کی طرح جنگل میں  خوشبو کی تلاش میں  دوڑتے  رہتے  ہیں۔

پیارے بچو، اُردو  اور  فارسی کے  ممتاز شاعر محمد اقبالؔ نے  اپنی ایک فارسی غزل میں  یہ کہا ہے  کہ صرف ہم انسان اللہ کی تلاش میں  نہیں  رہتے  خود اللہ بھی انسان کی تلاش میں  رہتا ہے۔ اپنی سب سے  خوبصورت تخلیق کی تلاش میں، کبھی پھولوں  کے  اندر سے  انسان کو دیکھتا ہے اور کبھی چمکتے  روشن ستاروں  سے۔ بابا کبیر نے  بہت پہلے  اس سے  ملتی جلتی بات کہی تھی، کہتے  ہیں  میں  نے  صاف پاک پانی سے  اپنے  دماغ کو دھو لیا ہے، اس پانی سے  کہ جو گنگا کے  پانی کی طرح پاک  اور  پوتر ہے، اب اللہ خود میری تلاش میں  ہے، ہر جانب اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔ کبیر، کبیر، کبیر، کبیر!

سبب؟ مخلوق  اور  خالق کی  محبت!

 

کبیرا بادل پریم کا ہم پر برسایا آئی

اندر بھیگی آتما ہری بھئی بن رائی

 

اللہ سے   محبت کیجیے  اللہ آپ سے  محبت کرے  گا  اور  پھر محبت کی ایسی برسات ہو گی کہ پورا جسم بھیگ بھیگ جائے  گا روح  معطر ہو جائے  گی، محبت کی برسات انسان کو تبدیل تو کر ہی دیتی ہے  پورے  ماحول کو بھی بدل دیتی ہے، اللہ، انسان  اور  ماحول میں  ایک عجیب پُر اسرار خوشبو کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے!!

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ کہ ان کے توسط سے فائل کا حصول ہوا۔

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید