FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

انورمسعود (شخصیت و شاعری )

               محمد شعیب خان

               حصہ اول

 

کحصہ دوم یہاں ملاحظہ کریں

انتساب

بہت ہی عزیز دوست

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیزساحر

کے نام

 

 

اعترافات

            اللہ تبارک و تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور بروقت مدد میری زندگی کے ہر ہر لمحے پر حاوی ہے۔ متعدد مشکلات کے باوجود میری تعلیمی و ادبی سرگرمیوں میں تسلسل، اسی ذاتِ با برکات کی نوازشوں کا ایک باب ہے جس پر میں اُس کا جتنا بھی شکر ادا کروں، بہت کم ہے۔

            اس مقالے کی تکمیل میں ڈاکٹر عبدالعزیز ساحرصاحب نے شعبۂ اردو کے چیئرمین کی حیثیت سے میری تحقیقی و تنقیدی بصیرت کو صراطِ مستقیم پر رکھا اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید صاحب نے اپنی تمام تر مصروفیات کے ہوتے ہوئے میری نگرانی کے فرائض میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ میں ان دونوں صاحبانِ فن کے تعاون و راہ نمائی کا اعتراف کرتا ہوں۔ آخر میں کتاب کی اشاعت کے لیے نوجوان مزاح گو شاعر اور نثر نگار محمد عارف  کا خصوصی شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں، کہ اُن کے تعاون، اصرار اور توجہ کی بہ دولت یہ کتاب منظرِ عام پر آئی۔

                                                                                                                                                            محمد شعیب خان

                                                              ۲ جنوری ۲۰۱۴ء

                                                                 واہ کینٹ

٭٭٭

 

 

باب اوّل:  سوانحی خاکہ

 

 

               ۱۔       خاندانی پس منظر

محمد انور مسعود مغلیہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں [۱]۔ انور مسعود کے شجرہ نسب کی وساطت سے ان کے خاندان کے جس پہلے شخص سے تعارف ہوتا ہے، اس کا نام عبدالرحمٰن ہے[۲]۔ ان کے دو صاحبزادے محمد اعظم اور محمد عظمت تھے۔ انور مسعود کی زبانی عبدالرحمٰن کے امرت سر میں قیام کے متعلق معلوم ہوتا ہے، لیکن ان کی اولاد نے یہاں زیادہ وقت نہیں گزارا۔ خاندان کے کچھ لوگ ہجرت کر کے شیخوپورہ میں آ بسے۔ انور مسعود کے دادا اللہ بخش شیخوپورہ کے ایک گاؤں پوپڑہ میں مقیم تھے، جہاں سے نقل مکانی کر کے گجرات شہر میں آئے۔ انور مسعود کے والد محمد عظیم نے ضلع منڈی بہاء الدین کے ایک دیہات کی خاتون، اقبال بیگم سے شادی کی۔ اقبال بیگم کو علم و ادب سے دلچسپی تھی اور وہ اپنے بچوں کی زبان پر خصوصی توجہ مرکوز رکھتی تھیں۔ اسی لیے انور مسعود نے اپنی والدہ کو پرائمری سکول، کالج اور یونی ورسٹی قرار دیا ہے:

 ’’پنجابی میری مادری زبان اے۔ ایس لئی میرے اُتے سب توں زیادہ احسان میری والدہ محترمہ دا اے جنھاں مینوں ایہہ بولی بولنی سکھائی تے اَج تیکر میں اپنیاں غلطیاں دی اصلاح اونھاں کولوں لیناں۔ ۔ ۔ ایہہ پریمری سکول میرے لئی پنجابی زبان دا کالج وی ثابت ہویا تے یونیورسٹی وی۔ ‘‘ [۳]

            انور مسعود کے والد محمد عظیم ابتدا ہی سے مذہب کی جانب راغب تھے۔ شریعت و تصوف کی پابندی میں ہمہ وقت مصروفیت نے بڑی حد تک ان کو علائقِ دنیاوی سے بے نیاز کر دیا تھا۔ سلسلہ نماز روزہ، شب بیداری، ذکر اذکار اور وظائف کی کثرت ان پر حاوی رہتی تھی۔ ان کے والد، پانچ بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔ ان کے بھائیوں کے نام بالترتیب غلام نبی، خدا بخش، محمد لطیف اور محمد اشرف ہیں۔ ان میں محمد لطیف جن کو عبد اللطیف افضل کے نام سے شہرت حاصل ہوئی، ایک عالم دین اور پنجابی و  اردو کے قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ انور مسعود کے بہت سے عزیز و اقارب اب بھی گجرات اور گوجرانوالہ میں پنکھا سازی کی صنعت و تجارت سے وابستہ ہیں۔

              انور مسعود کے نانا کا نام غلام حسین ہے جو ابتداً ریلوے میں ملازم تھے۔ ان کے حالات کے بارے میں انور مسعود اپنے ایک مضمون میں مختصراً لکھتے ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ غلام حسین (نانا)ریلوے میں ملازم تھے انھوں نے ریلوے کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور راولپنڈی میں سکونت اختیار کر لی اور ایک انگریز(فرے صاحب)  کی موٹر مرمت کی فیکٹری میں ملازم ہو گئے۔ غلام حسین صاحب تقریباً دس سال تک راولپنڈی میں رہے۔ ان کے خیالات بڑے جدید تھے۔ انھوں نے انگریزی سیکھی اور لاہور جا کر انجینئرنگ کے امتحان کا ایک حصہ پاس کیا، دوسرے حصے کا امتحان ابھی باقی تھا کہ ۳۰ سال کی عمر میں دار الامتحان سے کوچ کر گئے۔ ۔ ۔ ‘‘ [۴]

            انور مسعود کی نانی، کرم بی بی۱۸۹۳ء کے لگ بھگ وزیر آباد کے قریب ایک گاؤں گل والا میں پیدا ہوئیں [۵]۔ ان کے والد فتح دین کوبسلسلہ ملازمت مختلف مقامات پر رہنا پڑتا، جس کی وجہ سے کرم بی بی کو کئی علاقے دیکھنے کا موقع ملا۔ کرم بی بی کے دو بھائی صوفی محمد شفیع اور صوفی حسن محمد تھے، جو گوجرانوالہ میں سکونت پذیر رہے۔ کرم بی بی صاحبہ، صاحبِ علم و عمل خاتون تھیں۔ دینی علوم میں مہارت کے ساتھ شعرو شاعری سے بھی شغف رکھتی تھیں۔ ان کا تخلص عاجز تھا اور مجموعۂ کلام، ’’ گل وگلزار‘‘ کے نام سے۱۹۶۲ء میں ان کی زندگی ہی میں شایع ہو گیا[۶]۔ کرم بی بی عاجز کی تمام عمر، غم و اندوہ اور مصائب میں بسر ہوئی، لیکن اس کے باوجود صبر و استقامت کا دامن مضبوط سے تھامے رکھا۔ ان کی دردناک داستانِ حیات کا ایک رُخ انور مسعود یوں دکھاتے ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ عمر تین سال کی تھی کہ والدہ کا انتقال ہو گیا۔ چھوٹی عمر میں شادی ہوئی اور شادی سے کچھ دیر پہلے طاعون کی بیماری میں ان کی بڑی بہن، بہنوئی اور ان کے دو بیٹے انتقال کر گئے۔ اسی اثناء میں گھر میں چوری ہوئی اور جہیز کا سارا سامان چوری ہو گیا۔ شادی کے چار ماہ بعد دادی کا انتقال ہو گیا اور چھے ماہ بعد دادا بھی فوت ہو گئے اس کے کچھ عرصے بعد ساس، سسر اور دو نندیں بھی طاعون کی نذر ہو گئیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۷]

            شوہر کے انتقال کے بعد کرم بی بی پر صعوبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اس وقت ان کی عمر ۲۸ برس تھی اور صرف مصیبتوں کے یہی پہاڑ ان پر نہ ٹوٹے، بلکہ اس دوران میں ان کے چھے صاحبزادوں میں سے پانچ صاحبزادے اور چار صاحبزادیوں میں سے تین صاحبزادیاں بچپن ہی میں انھیں داغِ مفارقت دے گئیں۔ آفرین ہے اس خاتون کے صبر واستقلال پر جس کا ایمان ان لمحات میں کمزور پڑنے کے بجائے مزید پختہ ہو گیا اور دین سے لگاؤ اس حد تک بڑھا کہ ترجمہ کے ساتھ قرآن مجید، چھے ماہ میں پڑھ لیا، جس پر ان کے اساتذہ بھی حیرت کا اظہار کرتے۔ اخبار باقاعدگی سے پڑھتی تھیں اور گھر پر بچوں کو قرآنی تعلیم دینے کے ساتھ اتوار کو خصوصی درسِ قرآن کا اہتمام کرتیں، جس میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوتی[۸]۔

            کرم بی بی عاجز کے چھٹے فرزند اور انور مسعود کے ماموں محمد صدیق۳۲ سال کی عمر میں شدید علالت کے بعد ۱۹۵۲ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بیماری کی شدت اتنی بڑھی کہ ان کی دونوں ٹانگیں اور بازو کاٹنے پڑے۔ ان کے سترہ آپریشن ہوئے اوراس زمانے میں کرم بی بی نے اپنے بیٹے کے علاج پر اپنی ان تھک محنت کی کمائی سے تقریباً ۲۵ ہزار روپے خرچ کیے[۹]۔            انور مسعود کے مضمون ’’کرم بی بی عاجز‘‘ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نانی عبادات و وظائف کی کثرت، اللہ تعالیٰ کی جانب سے سخت آزمائشوں میں ثابت قدمی اور دینی خدمات کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کے باعث بلند مرتبے پر فائز ہو چکی تھیں، جس کی وجہ سے کچھ واقعات کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے ہی ان کو اشارے مل جاتے تھے۔  مذہب سے اس والہانہ عشق کی بہ دولت وہ جس رتبے پر فائز تھیں، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے:

 ’’عمر کے آخری چار سالوں میں اگرچہ مختلف بیماریوں کی شدت سے نڈھال ہو چکی تھیں لیکن حجِ بیت اللہ کے لیے ایسی تڑپ رکھتی تھیں جو بیان سے باہر ہے۔ نو دفعہ انھوں نے حج کی درخواست دی لیکن ایک بار بھی منظور نہ ہوئی۔ جب درخواست نامنظور ہو جاتی تو دھاڑیں مار مار کر رویا کرتیں۔ ایسے عالم میں انھیں کئی مرتبہ اشارہ ہوا کہ آپ کا حج قبول ہو گیا ہے اور آپ کی یہاں پر زیادہ ضرورت ہے۔ ایسے اشارے کے بعد ان کو تسلی ہو جاتی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے ایک عزیز(جو سعودی عرب میں بسلسلہ ملازمت گئے تھے) کا بیان ہے کہ میں نے جب بھی عمرہ کیا تو طوافِ بیت اللہ کرتے ہوئے ہر بار استانی صاحبہ کو اپنے آگے آگے دیکھا ہے۔ پھر ایک دفعہ میں نے ان کے نام کا عمرہ کیا تو اس کے بعد وہ دکھائی نہیں دیں۔ ‘‘ [۱۰]

            انور مسعود کی عظیم نانی کرم بی بی عاجز ۲۵ دسمبر ۱۹۶۷ء کو ہمیشہ کے لیے زندگی کی تکالیف سے نجات پا گئیں۔ انور مسعودان کی وفات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 ’’جب بھی بیمار پڑتیں بتا دیتیں کہ میں ٹھیک ہو جاؤں گی لیکن آخری مرتبہ جب بیمار ہوئیں تو پہلے بتا دیا کہ یہ میرا آخری وقت ہے اور مجھے اس کا اشارہ ہو گیا ہے۔ ان کی وفات کا وقت ایسا مبارک تھا کہ کسی کو کم نصیب ہوا ہو گا۔ دسمبر کی ۲۵ تاریخ تھی رمضان کا مہینہ تھا اکیسویں شب تھی، سحری کا وقت تھا، تین بجے تھے اور جمعہ کا دن تھا۔ جب ان کی روح پرواز کر چکی تو بڑے زوروں کی بارش ہوئی۔ جنازہ تیار ہو گیا تو بارش ایک دم تھم گئی اور تدفین تک تھمی رہی۔ تدفین کے بعد پھر زوروں کا مینہ برسا۔ ان کا سال وفات ۱۹۶۷ء ہے۔ ‘‘ [۱۱]

            اب تمام اولاد میں سے ان کی ایک صاحبزادی اقبال بیگم حیات تھیں، جن کو پیدایش ہی سے گھر میں ہر طرف نکھرا نکھرا مذہبی رنگ ملا۔ انھی اقبال بیگم کا فرزند ہونے کا اعزاز انور مسعود کو حاصل ہوا۔ اپنی والدہ کی طرح اقبال بیگم بھی دین سے وابستہ، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والی نیک سیرت خاتون تھیں۔ ان کا انتقال ۱۹۸۸ء میں ہوا[۱۲]۔

            والد کی جانب سے دین و مذہب سے فطری میلان، عشقِ رسولﷺ، درویشی، قناعت پسندی اور فقر، والدہ کی تربیت نے زبان دانی اور علم و ادب سے بہرہ وری، جب کہ تایا اور نانی صاحبہ کی وساطت سے صبر و رضا، دلیری، حوصلہ مندی اور شاعری کا فن انور مسعود کو ورثے میں ملے۔ لوگ وراثت میں دولتِ دنیا کی توقع رکھتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے ایمان تک داؤ پر لگا دیتے ہیں، جب کہ علم و ادب اور فن کی جانب اُسی کی نگاہِ فطرت شناس جاتی ہے، جس کی گھٹی میں دولتِ اسلام پڑی ہو۔

               ۲۔      پیدایش

            ۱۹۳۵ء کا سال ہندوستان میں کئی اہم واقعات کے ظہور کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ سیاسیات، ادبیات، قدرتی آفات وغیرہ نے اس سال کی اہمیت کو تاریخ میں امر کر دیا۔ ہندوستانی سیاسیات میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کا نفاذ عمل میں آیا اور قانون مجریہ ۱۹۱۹ء منسوخ کر دیا گیا۔ قانون حکومت ہند مجریہ ۱۹۳۵ء کو دنیا کا سب سے طویل اور پیچیدہ آئین قرار دیا گیا جو ۳۲۶ مطبوعہ صفحات، ۳۲۱ دفعات اور جدولیات کا حامل تھا۔ اسی سال کوئٹہ کی تاریخ کا سب سے ہولناک زلزلہ آیا، جس میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی۔ اردو ادب میں نئے رجحانات کی حامل ’’ترقی پسند تحریک‘‘ کے لیے میدان ہم وا ار کرنے کا سب سے زیادہ کام ۱۹۳۵ء میں ہوا، جس کے نتیجے میں اس ادبی تنظیم کی پہلی کل ہند کانفرنس کا انعقاد ۱۵ /اپریل ۱۹۳۶ء کو لکھنؤ میں ممکن ہوا۔

            محمد انور مسعود۸ نومبر۱۹۳۵ء کو جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب گجرات شہر میں پیدا ہوئے[۱۳]۔ یہ وہی سال تھا، جس میں وقوع پذیر کئی واقعات نے ہندوستان کی تاریخ کا رُخ موڑ کر رکھ دیا تھا۔ سرکاری کاغذات میں انور مسعود کی پیدایش یکم اکتوبر ۱۹۳۶ء درج ہے۔ اس سلسلے میں ان کی میٹرک کی سند اور شناختی کارڈ کا حوالہ موجود ہے[۱۴]۔ لیکن انور مسعود ۸ نومبر ۱۹۳۵ء ہی کو اپنی درست تاریخ پیدایش تسلیم کرتے ہیں۔

               ۳۔      بچپن

محمد انور مسعودکی عمر کے ابتدائی پانچ سا ل گجرات میں بسر ہوئے۔ ان کی عمر پانچ سال تک پہنچی تو والد کو بہ سلسلۂ روزگار لاہور جانا پڑا۔ اس سفر میں آپ بھی والد کے ہمراہ تھے اور یہ ۱۹۴۰ء کا تاریخی سال تھا[۱۵]۔ اسی سال لاہور کے منٹو پارک(اقبال پارک) میں منعقدہ آل انڈیامسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی، جس نے ہندوستان کے مسلمانوں میں آزادی کی نئی روح پھونک کر سیاست کے میدان میں ہل چل مچا دی۔ ۱۹۴۷ء کا تاریخی سال دنیائے اسلام کے لیے ایک خوش خبری لے کر طلوع ہوا اور ۱۴/ اگست کو ایک عظیم اسلامی مملکت پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر نمو دار ہوئی۔ جس طرح ایک تاریخی سال میں انور مسعود کو اپنے والد کے ہمراہ لاہور جانا پڑا تھا، اسی طرح ۱۹۴۷ء کے مبارک سال میں ان کے والد کی دوبارہ گجرات آمد ہوئی[۱۶] اور ظاہر ہے کہ انور مسعود بھی ان کے ساتھ تھے۔ بچپن سے ان کی طبیعت کھیل کود کے بجائے شعر و ادب کی طرف مائل تھی۔ ان کے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد افضل اعزاز لکھتے ہیں :

 ’’بچپن کی دوستی بڑی بے لوث اور بے غرض ہوتی ہے۔ اسی لیے دیرپا بھی ہوتی ہے۔ مجھے وہ زمانہ اب بھی یاد ہے جب انور مسعود گرمیوں کی چھٹیاں اپنے ننھیال میں گذارنے کے لیے گجرات سے پنڈی آیا کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ آؤٹ ڈور گیمز میں انور کی دلچسپی گلی ڈنڈے سے آ گے نہ بڑھ سکی۔ اسے بچپن ہی سے کھیل کود سے کوئی خاص رغبت نہیں تھی۔ اس زمانے میں بھی وہ فقرے بازی، شعر گوئی اور چٹکلے چھوڑنے میں بڑا طاق تھا۔ مضامین لکھتا تو عبارت آرائی کرتا اور گفتگو میں ادبی چاشنی اور رنگ آمیزی کا مظاہرہ کرتا۔ اس کا مزاج لڑکپن سے ہی شاعرانہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۱۷]

            انور مسعود شروع ہی سے زبان و بیان کے برتاؤ میں سلیقہ مندی اور خوش گفتاری کے قائل تھے۔ زبانوں سے دلچسپی اور فقرے بازی کے بارے میں خود کہتے ہیں :

 ’’ایک دفعہ میں محلہ کی ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک خاتون کی ایک بطخ گھر سے نکلی اور بھاگ کھڑی ہوئی اس کے پیچھے آنے والی خاتون نے مجھے دیکھا تو کہا ’’کاکا ایس بطخ نوں ڈک لئیں ‘‘ تو میں نے اس عورت کو کہا کہ بی بی پتہ ہے ’’ڈک‘‘ کے معنی بھی بطخ ہی ہوتا ہے تو گویا مجھے زبانوں سے ایک دلچسپی تھی اور میں نے شوق سے پڑھی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۱۸ ]

            گرمیوں کی چھٹیوں میں، جب انور مسعود راولپنڈی میں اپنے ننھیال آتے، تو ان کی ملاقات اپنے ماموں محمد صدیق سے بھی ہوتی تھی۔ انھوں نے ماموں کی تکلیف دہ زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے درد کو محسوس بھی کیا۔ اس لیے اُن کی زندگی کے واقعات بیان کرتے ہوئے بہت جذباتی ہو جاتے ہیں اور ان کا لہجہ آنسوؤں سے تر ہوتا ہے۔ انور مسعود جب ۱۷سال کے تھے تو ان کے اکلوتے ماموں زخموں سے لدے ہوئے جسم کے ساتھ راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ بچپن کے کئی دیگرسانحات کے ساتھ جوانی کے اس واقعے نے ان کے قہقہوں میں آنسوؤں کی رم جھم کومستقل شامل کر دیا، جس کا گہرا تاثر انور مسعود کی شاعری  میں شروع سے نمایاں ہے۔

               ۴۔      تعلیمی سرگرمیاں

            انور مسعود نے لاہور کے علاقے وسن پورہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، پانچویں جماعت وطن ہائی سکول، برانڈ رتھ روڈ، لاہورسے پاس کی۔ [۱۹] جلد ہی ان کے والد دوبارہ گجرات واپس روانہ ہوئے اور انور مسعود کو پبلک ہائی سکول، گجرات میں داخلہ مل گیا۔ محنت پر یقین رکھنے والے محمد انور مسعود نے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے مارچ ۱۹۵۲ء میں منعقد ہونے والا میٹرک کا امتحان، رول نمبر ۱۸۹۳۱کے تحت درجہ اوّل میں پاس کیا[۲۰]۔ انھوں نے میٹرک کا امتحان سائنس مضامین میں پاس کیا تھا، اس لیے والدین کی خواہش تھی کہ ایف۔ ایس۔ سی میں داخلہ لیں اور ڈاکٹر بنیں۔ والدین کے ادب و احترام اور ان کی خواہشات کو انور مسعودنے اپنے احساسات پر فوقیت دی اور خاموشی سے زمیندار کالج، گجرات میں ایف۔ ایس۔ سی، پری میڈیکل میں داخلہ لے لیا۔ ان کے رجحان کا اندازہ سب سے پہلے ان کے اساتذہ کو ہوا۔ انھوں نے انور مسعود کے والدین کے مشورے سے ان کو آرٹس کی جانب لا کر دنیائے شعر و ادب پر گراں قدر احسان فرمایا۔ بقول ڈاکٹر محمد افضل اعزاز:

 ’’ اس کی افتاد طبع کے خلاف میٹرک کے بعد اس کے والدین نے اسے ڈاکٹر بنانے کا فیصلہ کر لیا لیکن سائنس اور ریاضی کی مشکل اصطلاحات اور فارمولے اس کی طبع شاعرانہ پر گراں گزرتے تھے۔ مینڈک اور خرگوش کی DISSECTIONکے دوران ان کے خونِ ناحق سے وہ آزردہ خاطر ہو جاتا تھا۔ جسمانی طور پر تو وہ کلاس میں ہوتا تھا لیکن اس کا ذہن دیوان غالب، بال جبرئیل، سیف الملوک اور ہیر وارث شاہ کی شاعرانہ فضاؤں میں گم رہتا۔ اسی زمانے میں اس نے خود بھی شعر گوئی کا آغاز کر دیا تھا۔ اساتذہ کے مشورے سے انور کے والدین کو بالآخر اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ انور نے ایف۔ ایس۔ سی چھوڑ کر آرٹس میں داخلہ لے لیا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۲۱]

            انور مسعود اس فیصلے کا سہرا اپنے استا دپروفیسرچودھری فضل حسین کے سر سجاتے ہیں۔ ایف۔ اے میں انھوں نے تین زبانیں پڑھیں جن میں انگریزی، اردواورفارسی شامل ہیں۔ ۱۹۵۶ء کو آپ نے رول نمبر ۱۱۵۱۹ کے تحت ایف۔ اے کا امتحان اسکالر شپ کے ساتھ پاس کر لیا[۲۲]۔ اب ان کی ادبی صلاحیتوں میں مزید نکھار آنا شروع ہو گیا اور بی۔ اے کا سیشن ان کے لیے کامیابیوں کے کئی دروازے کھولے نمودار ہوا۔ ۲۲/اکتوبر۱۹۵۷ء کو انور مسعود زمیندار کالج، گجرات کے ادبی مجلے شاہین کے ایڈیٹر بنے۔ اسی سیشن ۵۸۔ ۱۹۵۷ء میں ’’شمعِ  تاثیر‘‘ کے تحت ہونے والے مشاعروں میں ان کو اردو اور فارسی شاعری میں پہلا انعام اور انگریزی شاعری میں دوسرا انعام ملا۔ انور مسعود کے ان ابتدائی مشاعروں کا رنگ یوں بیان کیا جاتا ہے:

 ’’۔ ۔ ۔ اس کی جولانیِ طبع وہ رنگ لائی کہ بین الکلیاتی مشاعروں میں وہ اپنی دھاک جمانے لگا۔ طلوعِ آفتاب، کشمیر اور نئی زندگی جیسی معرکۃ الآراء نظمیں اس نے اسی زمانے میں لکھیں۔ ’’شمع تاثیر‘‘ اسلامیہ کالج لاہور کے مشہور مشاعرے میں حمید احمد خان مرحوم (وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی) نے اس کی نظم سن کر بے ساختہ کہا کہ میں نے ایسی پُر فارمنس کبھی نہیں دیکھی۔ ۔ ۔ ‘‘ [۲۳]

            ان کی ادبی خدمات پر کالج کی جانب سے ان کے اعزاز میں پروفیسر حامد حسن کے دست خطوں سے ایک سرٹیفیکیٹ جاری کیا گیا[۲۴]۔ سیشن ۱۹۵۸ء میں منعقدہ بی۔ اے کے امتحان میں اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل کی اور زمیندار کالج میں اول پوزیشن کے حق دار ٹھہرے، اسکالر شپ، رول آف آنر اور سلور میڈل بھی حاصل کیا[۲۵]۔ اتنی بھرپور تعلیمی لیاقت کے ہوتے ہوئے انور مسعود کو سلسلۂ تعلیم ترک کر کے نامساعدگھریلو معاشی پریشانیوں سے مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مستقبل کے ایک عظیم دانشور اور شاعر کی زندگی کا سب سے اہم مرحلہ اور ان کی ہمت و دلیری کا امتحان بھی تھا۔ ’’ ہمتِ مرداں، مددِ خدا‘‘ کے مصداق چو مکھی لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہو گئے اور بہترین رزلٹ کے باوجود کنجاہ کے ایک سکول میں پڑھانے پر معمور و مجبور ہوئے، وجہ یوں بتاتے ہیں :

 ’’والد صاحب اپنے میلانِ تصوف کے باعث علائقِ دنیوی سے بے نیاز ہو گئے تھے گھر کی ساری ذمہ داریاں میرے کندھوں پر آ پڑیں۔ اسی وجہ سے بی۔ اے میں انتہائی امتیازی پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود دو سال کے لیے میرا سلسلۂ تعلیم منقطع ہو گیا اور میں نے کنجاہ کے ایک سکول میں ایک ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۲۶]

            انور صاحب نے قلندرانہ طبیعت کے باوجود اپنی عزت نفس کو کبھی مجروح نہ ہونے دیا۔ سکول کی ملازمت سے صرف اتنی سی بات پر استعفیٰ دے آئے کہ ایک طالب علم سے کچھ تلخی پیدا ہونے پر انتظامیہ نے اُسے سکول سے کیوں نہ نکالا، کہتے ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ اک منڈے نال سکول وچ جھگڑا ہو گیا۔ میں انتظامیہ نوں آکھیا کہ اوس منڈے نوں سکولوں کڈھو، انتظامیہ نہ منی۔ ۔ ۔ اوہناں بہتیرا آکھیا کہ تسیں جان دیو، بال غلطیاں کر دے ای ہوندے نیں پر میں نہ رُکیا۔ استعفیٰ دے دتا۔ ‘‘ [۲۷]

            یہ وہی زمانہ ہے، جب انور مسعود کو دیہی معاشرت اور مزاج کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پنجابی زبان سے مکمل آگاہی کے ساتھ اس کے رموز اوقاف پر دست رس اسی عہد کی یادگار ہیں، جب کہ ان کی شاہ کار پنجابی نظمیں ’’امبڑی‘‘ اور ’’ریجھاں ‘‘ بھی سکول کی تدریسی زندگی کا حاصل ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی نے انور مسعود کو ایسے اشعار کہنے پر بھی مجبور کر دیا جو تقدیر سے گلہ تو نہیں لیکن ایک مجبور انسان کی خود کلامی ضرور تھی:

                        کب تک لیے پھروں گا یوں ہی قتل گاہ میں

                        زخموں کے انتظار میں دُکھتا ہوا بدن              [۲۸]

            بی اے کے بعد دو سال تک انور مسعود یوں ہی’ قتل گاہوں ‘‘ میں زخمی ہوتے رہے۔ ۱۹۶۰ء میں علم کی مزید طلب نے ان کو لاہور کی راہ دکھائی۔ پہلے پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کے لیے قسمت آزمائی کی، لیکن داخلے کی تاریخیں گزر جانے کی وجہ سے اورینٹل کالج، لاہور میں ایم اے فارسی کے طالبِ علم بنے۔ یہاں انور مسعود کو ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر اسلم انصاری، پروفیسر عابد صدیق اور ڈاکٹر خورشید رضوی جیسی نابغۂ روزگار شخصیات کا ساتھ میسر آیا۔ ان کو جہاں اچھے ساتھیوں کا ساتھ حاصل ہوا وہاں شہرہ آفاق اساتذہ سے بھی کسبِ فیض کا موقع ملا جس کا تذکرہ آئندہ صفحات میں آئے گا۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں انورمسعود کو بہ طور شاعر شہرت ملنا شروع ہو چکی تھی اور اس سلسلے میں ان کے اساتذہ ان پر خصوصی شفقت فرماتے۔ ۱۹۶۲ء میں انور مسعود نے ایم اے فارسی کا امتحان پہلی پوزیشن میں پاس کر کے گولڈ میڈل حاصل کیا[۲۹]۔ آپ کالج یونین میں معتمد عمومی کے عہدے پر بھی فائز تھے اور امتحان میں آپ کی امتیازی کامیابی پر یونین کے پیڈ پر پروفیسرسیّد وقار عظیم کے دستخطوں سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا۔ ۱۱ /اکتوبر ۱۹۶۲ء کو جاری ہونے والے اس مراسلے کی عبارت درج ذیل ہے:

 ’’انور مسعود صاحب نے اس سال (یعنی ۱۹۶۲ء میں )  فارسی میں ایم اے کیا ہے اور درجۂ اوّل حاصل کرنے کے علاوہ کامیاب طلباء میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کی ہے۔ ان کے اساتذہ کے لیے یہ نتیجہ قطعی غیر متوقع نہیں اس لیے کہ انور مسعود صاحب میں وہ تمام اوصاف موجود ہیں جو اچھے طالب علم میں ہونے چاہیں۔ لیکن میں جو کہ فارسی نہیں پڑھاتا تھا اس لیے اُن کے اِن اوصاف کا ذکر ان کے اساتذہ پر چھوڑتا ہوں، البتہ مجھے ان سے کالج یونین کے صدر کی حیثیت سے اس طرح سابقہ رہا ہے کہ وہ یونین کے سیکرٹری تھے اور اس منصب کے فرائض انھوں نے بڑی محنت، خوش اسلوبی اور خلوص کے ساتھ انجام دیے اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں بڑوں کے ساتھ ادب اور برابر والوں سے محبت اور مروت کے ساتھ پیش آئے۔ ۔ ۔ میرے دل میں بھی ان کی نیکی اور سعادت مندی کا بڑا گہرا نقش ہے اور دعا کرتا ہوں کہ خدا انھیں اپنے ارادوں میں کامیاب کرے۔ ‘‘ [۳۰]

            انور مسعود ایم اے کی تعلیم کے دوران اپنے مضمون فارسی سے جو شغف رکھتے تھے، اس کا اندازہ ایک اور حوالے سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف مواقع پر مخصوص ادبی تقریبات میں مضامین بھی پڑھا کرتے تھے۔ یہ مضامین صرف ایک طالب علمانہ کوشش نہ ہوتی بلکہ انتہائی تحقیق و تدقیق کے ساتھ مواد تک رسائی حاصل کر کے ان کو ایک عمدہ کاوش کا روپ دیا جاتا۔ ایسے ہی کچھ نایاب مضامین بعد میں ان کی شائع ہونے والی کتاب ’’فارسی ادب کے چند گوشے‘‘ کی زینت بنے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انور مسعود یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد صرف ایک تعلیم یافتہ انسان ہی نہ تھے بلکہ ان میں محققانہ صلاحیتیں، تنقیدی فکر اور تمام شاعرانہ خوبیاں پروان چڑھ چکی تھیں اور ایک روشن و تاباں مستقبل، ان کا منتظر تھا۔

               ۵۔      اساتذہ

            کسی بھی شعبۂ زندگی میں اساتذۂ فن کی اہمیت مسلم ہے۔ شعبۂ تعلیم میں تو بہترین اساتذہ کے بغیر تعلّم کا عمل کبھی مکمل نہیں ہو پاتا۔ اساتذہ کی خوش بختی ہوتی ہے، جب ان کو ذہین، محنتی اور روشن دماغ شاگرد نصیب ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے ان کے نام کو بھی سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔ انور مسعود کو ہائی سکول کے زمانے سے ذہین، محنتی اور دیانت دار اساتذہ کا قرب نصیب ہوا۔ اس ضمن میں پبلک سکول گجرات کے ہیڈ ماسٹر، شیخ شفقت اللہ کا خصوصی ذکر کرتے ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ اسکول کے زمانے میں ایسے اساتذہ ملے جنھیں بچے کی تعلیم کے ساتھ اس کی صحیح تربیت کا بھی بہت خیال رہتا تھا۔ اصل چیز تربیت ہے۔ اسی کو علامہ اقبال نے نظر کہا ہے۔ یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی۔ اس ضمن میں، میں پبلک سکول گجرات کے ہیڈ ماسٹر جناب شیخ شفقت اللہ مرحوم کی شخصیت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ وہ راتوں کو بھیس بدل کر اپنے شاگردوں کی شبینہ سرگرمیوں کا کھوج لگاتے رہتے تھے۔ طلبا کسی سینما ہال میں ہوں یا کسی بھی حال میں ہوں۔ ان کی کڑی نگرانی کرتے تھے اور اس طرح کراماً کاتبین کا ہاتھ بٹاتے تھے اور دوسرے دن بھری کلاس میں ان کی شب رفتہ کا اعمال نامہ کھول کر رکھ دیتے تھے اور واجبی گوشمالی کرتے تھے۔ ‘‘ [۳۱]

            درج بالا اقتباس سے عہدِ رفتہ کے اساتذہ کا خوبصورت نقش ذہن کے نہاں خانوں سے ایک خواب کی صورت اُبھرتا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے، جو طلبہ کو اپنے بچوں کی طرح عزیز از جاں رکھتے اور ان کی تربیت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں جو نسل سامنے آتی، وہ انور مسعود جیسے دانش وروں کی صورت میں اپنی روشنی سے چہار اطراف کو منوّر کرتی ہے۔ ان کی محنت، تحقیق، جستجو اور اپنے مقصد سے لگاؤ نے اس پیغمبری پیشے سے اس طرح انصاف روا رکھا، جس کا یہ مستحق تھا۔ ایک ایسے ہی استاد جن کی صحبت سے بہرہ مند ہونے کا موقع انور مسعود کو ایف اے اور بی اے میں ملا، وہ چودھری فضل حسین تھے۔ یہ وہی استاد ہیں، جنھوں نے انور صاحب کی صلاحیتوں کو بھانپ کر انھیں میڈیکل سائنس سے آرٹس کی جانب لانے کا فریضہ انجام دیا تھا۔ چودھری صاحب کے بارے میں انور مسعود کی رائے ملاحظہ کیجیے:

 ’’۔ ۔ ۔ چودھری صاحب سے میں نے فارسی پڑھی۔ ۔ ۔ چودھری فضل حسین کا لیکچر بڑا کھلا ڈلا ہوتا تھا۔ شگفتگی اور پنجابی زندہ دلی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ ان کا کوئی طالب علم ان کی کلاس میں کبھی بور نہیں ہوتا تھا۔ وہ فارسی شاعری کی تفہیم کے لیے زیادہ تر امثال و شواہد پنجابی کے عظیم شعرا کے کلام سے لاتے تھے۔ فارسی کی نزہتیں پنجابی کی لطافتوں سے مل کر بہت مزہ دیتی تھیں۔ پروفیسر صاحب کو پوری طرح احساس تھا کہ برصغیر کی جملہ زبانوں میں پنجابی فارسی سے قریب ترین ہے۔ یہاں تک کہ اس کا نام بھی فارسی کا لفظ ہے۔ چودھری صاحب کا لیکچر اس اعتبار سے بھی بڑا خستگی ربا ہوتا تھا کہ وہ لطیفوں کے ٹوٹے بھی لیکچر میں جڑ دیتے تھے۔ بعض لطیفوں سے وہ طلبا کو یقین دلا دیتے تھے کہ زمن بگیر کہ اے جانمن جواں شدہ ای۔  چودھری فضل حسین فارسی کے علاوہ نفسیات میں بھی ایم۔ اے تھے۔ وہ اپنی نفسیاتی مہارت کو بھی لیکچر میں خوب استعمال کرتے تھے۔ وہ جملہ تدریسی حربوں سے بات کو اس طرح ذہن نشین کر دیتے تھے جسے فارسی میں ’’خر فہم کردن‘‘ کہتے ہیں یعنی بات گدھے کی سمجھ میں بھی آ جائے۔ ‘‘ [۳۲]

            ڈاکٹر سیّد عبداللہ، پروفیسر شکور احسن، ڈاکٹر وحید قریشی، پروفیسر حامد حسن سیّد اور پروفیسر وزیر الحسن عابدی جیسے صاحبِ کمال اور اہلِ فن جس کو میسر آئیں، اس کو اور کیا چاہیے۔ انور مسعود وہ خوش قسمت طالب علم رہے، جن کو یہ تمام اساتذہ نہ صرف میسر آئے بلکہ انھوں نے اِن پر خصوصی نظرِ کرم فرمائی، جس سے انور مسعود کے مقدر کا ستارہ باآسانی بلندیوں کی منازل طے کر گیا۔ ایک ایسے ہی استاد ’’پروفیسر حامد حسن سیّد‘‘ کے بارے میں، انور مسعود کچھ یوں رقم طراز ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ پروفیسر حامد حسن سیّد کے اسلوبِ تدریس نے مجھے بے انتہا متاثر کیا۔ وہ انتہائی سنجیدہ استادتھے۔ عربی اور فارسی کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ شاعری سے انہیں عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ انگریزی نظم ونثر پڑھاتے ہوئے وہ میر، غالب، ذوق، داغ اور انیس کی شاعری سے بڑے نادر شواہد لاتے تھے۔ پروفیسر صاحب انگریزی زبان و ادب کے ایسے Devoted استاد تھے کہ فرمایا کرتے تھے کہ جب قبر میں نکیرین مجھ سے پوچھیں گے کہ من ربک؟ تو میں یہ کہوں گا کہ انگریزی میں پوچھئے کہ یہی زبان میں نے پڑھی اور پڑھائی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۳۳]

            حامد حسن سیّد کے متعلق انور مسعود مزید بیان کرتے ہیں کہ:

            ایم اے فارسی کے دوران انور مسعود کو ڈاکٹر سیّد عبداللہ جیسے جید اسکالر کی صحبت نصیب ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کے رویہ کے بارے میں لکھتے ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ سیّد عبداللہ سے میں نے یہ بات سیکھی کہ استاد کے لیے سب سے ضروری چیز محبت کا رویہ ہے( بلھے شاہ کا نام بھی سیّد عبداللہ تھا اور اس کا پیغام بھی یہی تھا) یہ وہ رویہ ہے جو بھاگنے والے طالب علم کو چھٹی کے روز بھی درس گاہ کا رخ اختیار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ‘‘ [۳۴]

            پروفیسر وزیرالحسن عابدی کی شخصیت اور ان کے اندازِ تدریس نے انور مسعود کی شخصیت پر گہرے نقوش ثبت کیے۔ انور مسعود نے اپنے مضمون ’’میرے شفیق اساتذہ ‘‘ میں عابدی صاحب کا تذکرہ تفصیلاً بیان کیا ہے جو اپنے اِس استاد سے محبت اور عقیدت کی محکم مثال ہے۔ ان کے طرزِ تدریس پر درج ذیل الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا استاد صدیوں کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ میں نے دو سال میں ان کا ایک لیکچر بھی Miss نہیں کیا۔ ان کے لیکچر کے دوران میں مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میرے ذہن میں روشنیاں تیر رہی ہوں۔ وہ کسی ایسے طالب علم کو کلاس میں بیٹھنے نہیں دیتے تھے جس کے پاس کوئی سوال نہ ہو۔ ان کا محکم عقیدہ تھا کہ علم سوال سے پیدا ہوتا ہے اور سوال تجسس سے پھوٹتا ہے۔ ۔ ۔  عابدی مرحوم ان اساتذہ میں سے تھے جن کا طریقہ تدریس طالب علم کے اندر ذوقِ تجسس پیدا کر دیتا تھا اور اس کے سینے میں جاننے کی خواہش کا الاؤ روشن کر دیتا تھا۔ ‘‘ [۳۵]

            مذکورہ اساتذہ سے انور مسعود نے صرف درسی کتابوں کا علم حاصل کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی شخصیت کے اہم پہلوؤں کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد اپنی ذات میں وہی صفات پیدا کرنے کی تگ و دو کی، جس کی بدولت آج وہ خود کئی خوبیوں کا مرقع ہیں۔ اپنی تدریس کے متعلق انور مسعود لکھتے ہیں :

 ’’میں جب کلاس میں لیکچر دیتا ہوں تو خود محسوس کرتا ہوں کہ اس وقت میرے اندر سے چودھری فضل حسین بول رہے ہیں۔ اب حامد حسن سیّد کا لہجہ میرے لیکچر میں در آیا ہے اور اب    انور مسعود کی گفتار میں سیّد وزیرالحسن عابدی کا پیرایہ اپنی کچھ جھلک دکھا رہا ہے۔ شکر ہے یہ صحبتیں میسر آئیں۔ وگرنہ من گل نا چیز بودم۔ ‘‘ [۳۶]

               ۶۔       ملازمت

            انور مسعود نے باقاعدہ ملازمت کا آغاز ۱۹۶۲ء میں کیا جب وہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کی جانب سے لیکچرر (فارسی) منتخب ہوئے اور ان کی پہلی تعیناتی گورنمنٹ کالج، ڈیرہ غازی خان میں ہوئی۔ انور مسعود نے جن کالجز میں تدریسی خدمات انجام دیں ان کے نام اور سن وار تفصیل ملاحظہ ہو:

 ’’گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان                 ۱۹۶۲ء   تا         ۱۹۶۵ء

  گورنمنٹ کالج بہاول نگر                           ۱۹۶۵ئ            تا         ۱۹۶۶ء

  گورنمنٹ کالج پنڈی گھیب                       ۱۹۶۶ئ تا         ۱۹۶۷ء

  گورنمنٹ کالج گوجر خان                           ۱۹۶۷ئ            تا         ۱۹۶۹ء

  گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی     ۱۹۶۹ئ تا         ۱۹۷۶ء

  گورنمنٹ کالج مری                                 ۱۹۷۶ئ            تا         ۱۹۷۸ء

 گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی      ۱۹۷۸ء      تا           ۱۹۹۶ئ‘‘        [۳۷]

             ۱۹۷۰ء میں انور مسعود نے اسلام آباد میں اپنا پلاٹ خرید لیا تھا جہاں اب وہ مقیم ہیں۔ انور مسعود نے راولپنڈی آکر بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کی میزبانی انھی دنوں کی بات ہے۔ ان کے ریڈیو پر پڑھے گئے ہلکے پھلکے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کو کافی شہرت حاصل ہوئی۔ ان مضامین کے انتخاب پر مبنی کتاب ’’بات سے بات‘‘ کے عنوان سے حال ہی میں شایع ہو ئی ہے، جو ان کے تخلیقی مضامین کی پہلی کتاب بھی ہے۔

            انور مسعودبھرپورتدریسی سرگرمیوں کے بعد ۳۰ ستمبر ۱۹۹۶ء کو گورنمنٹ ڈگری کالج سیٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی سے سبک دوش ہوئے۔ ۱۹۹۶ء ہی کو انور مسعود نے سبک دوشی کے بعدسب سے پہلے حج کا فریضہ ادا کیا۔

               ۷۔      شادی

             اللہ تعالیٰ نے انور مسعود سے کئی کٹھن امتحانات لیے اور ان میں کامیابی کے بعد ان پر اپنی نوازشات کی بارش بھی کی۔ ان نوازشات میں یقیناًسب سے بڑی نوازش ان کی شریکِ زندگی محترمہ صدیقہ انور کا انتخاب ہے۔ انور مسعود اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :

 ’’فارسی پڑھنا میری زندگی دا سب توں وڈا فیصلہ سی۔ بہرحال ایہہ مضمون پڑھنا میرے لئی کئی فائدے لے آیا۔ یونیورسٹی وچوں مینوں دوچیزاں لبھیاں۔ اک گولڈ میڈل تے دوجی میری اہلیہ، تے ایہہ دونوں چیزاں مینوں راس آئیاں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۳۸]

            انور مسعود کی اہلیہ کا نام صدیقہ انور ہے جو ان کی ہم جماعت تھیں اور فارسی کی پروفیسر کی حیثیت سے تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں۔ ایم اے کے بعد ۱۹۶۳ء میں دونوں گھرانوں کی باہمی رضا مندی سے ان کی منگنی ہوئی۔ انور مسعود کی شادی، منگنی کے دوسال بعد۱۸ جولائی ۱۹۶۵ء کو ہوئی[۳۹]۔

               ۸۔      اولاد

            انور مسعود کے بچوں کی تعداد پانچ ہے۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

            نام                     تاریخ پیدائش                    تعلیمی قابلیت

 ’’۱۔      محمد عاقب         ۱۸ /اپریل ۱۹۶۶ء             سی۔ اے

۲۔        عدیلہ راشد         ۴ مئی ۱۹۶۷ء                      ایم اے(فارسی)

۳۔        محمد عمار مسعود    ۴ستمبر   ۱۹۶۸ء             ایم اے(اکنامکس)، ایم۔ بی۔ اے

۴۔        لینہ انور             ۸فروری ۱۹۷۱ء                  بی۔ اے

۵۔        محمد جواد اظفر    ۲۰ فروری ۱۹۷۵ء               ایم۔ بی۔ اے‘‘   [۴۰]

               ۹۔       ادبی خدمات (تصانیف)

            انور مسعودکی اب تک جو کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، ان میں پنجابی زبان میں دو اور اردو زبان کے چھے شعری مجموعے شامل ہیں۔ یہ غلط فہمی عام ہے کہ انور مسعود صرف شاعر ہیں اور وہ بھی طنزیہ و مزاحیہ۔ انور مسعود کی شخصیت اور فن کا صرف ایک پہلو قارئین کے سامنے پیش کرنا کسی لحاظ سے بھی قابلِ رشک نہیں۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی مقالات و مضامین پر مشتمل تین مجموعے شائع ہو کر اپنی قدر و منزلت محققین و ناقدین پر واضح کر چکے ہیں اور اس میدان کے ناموران میں انور مسعود کا نام اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے جس تک پہنچنے کے لیے صرف مطالعہ ہی کافی نہیں بلکہ تحقیقی و تنقیدی شعور و فکر کے ساتھ قدیم و جدید مشرقی و مغربی طریقہ ہائے تحقیق سے گہری واقفیت بھی ضروری ہے۔ اردو ادب میں طنزیہ و مزاحیہ نثر لکھنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور لے دے کر اس وقت ہمارے چند انشا پرداز اس حوالے سے اپنا مقام بنا سکے ہیں۔ عہدِ حاضر میں تو مشتاق احمد یوسفی کے بعد کوئی دوسرا نام دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے وقت میں انور مسعود کا مجموعہ ’’بات سے بات‘‘ ہوا کے خوشگوار جھونکے کی مانند ہے۔ ان دنوں اپنی سوانح عمری لکھنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ انور مسعود کی اب تک شائع ہونے والی تمام کتب کی ترتیب و تفصیل حسبِ ذیل ہے:

نام کتاب                                               نوعیت                                  اشاعت اوّل

۱۔         میلہ اکھیاں دا                              (پنجابی کلام)                   ۱۹۷۴ء

۲۔        قطعہ کلامی                                  (اردو کلام)                    ۱۹۸۸ء

۳۔        فارسی ادب کے چند گوشے             (تحقیقی و تنقیدی مقالات)۱۹۹۳ء

۴۔        غنچہ پھر لگا کھلنے                            (اردو طنزیہ و مزاحیہ کلام)۱۹۹۶ء

۵۔        ہُن کیہ کریئے؟                          (پنجابی کلام)                   ۱۹۹۶ء

۶۔        تقریب                                     (تعارفی مضامین۔ اردو)   ۱۹۹۷ء

۷۔        اِک دریچہ اِک چراغ                   (سنجیدہ اردو شاعری)       ۲۰۰۰ء

۸۔        شاخِ تبسم                                  (مزاحیہ شاعری کا سنجیدہ مطالعہ)   ۲۰۰۰ء

۹۔         میلی میلی دھوپ                          (اردو پنجابی سنجیدہ/مزاحیہ شاعری)۲۰۰۲ء

۱۰۔       درپیش                                      (اردو مزاحیہ شاعری)                 ۲۰۰۵ء

۱۱۔        بات سے بات                             (ہلکے پھلکے مضامین)                    ۲۰۰۷ء

۱۲۔       روز بروز                        (مزاحیہ قطعات)                       ۲۰۱۰ء

۱۳۔       سیف الملوک                             (اردو نثری ترجمہ)                      ۲۰۱۱ء

۱۴۔       باریاب                                      (نعتیہ شاعری)              ۲۰۱۲ء

            ذیل میں ان کی درج بالا کتب کا تعارف ملاحظہ کیجیے:

۱۔      میلہ اکھیاں دا

             ۱۹۷۴ء میں پہلی بار شایع ہونے والے اس شعری مجموعے نے اپنے خالق کے نرالے اسلوب و انکشافات کی وجہ سے چمنستانِ ظرافت کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا اور اس کی شہرت پاکستان کی سرحدوں کو پھلانگتی ہوئی دساور کی ادبی منڈیوں میں اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اب تک اس شعری مجموعے کے ۴۳ سے زائد ایڈیشن(بقول انور مسعود) مختلف اداروں سے شایع ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اس مجموعے کی مقبولیت صرف شاعر کے اسلوب و اظہار پر قدرت کی وجہ سے نہیں بلکہ انھوں نے آنکھوں دیکھے واقعات اور کانوں سنے مکالمات کی تصاویر من و عن ایک وسیع کینوس پر اتار کر سرِراہ کھڑی کر دی ہیں۔ یہ شعری مجموعہ ’’پنجاب رائٹرز گِلڈ‘‘ سے انعام یافتہ ہے۔ انور مسعود نے اس کا انتساب اپنی اہلیہ صدیقہ انور کے نام کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے جو چیز بھی محترمہ صدیقہ انور کے نام کی، وہ خوب پھلی پھولی اور شہرت کی انتہائیں اس کا مقدر بنیں۔ انور مسعود کے مذکورہ مجموعے کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی شہرت کے پیچھے بھی ان کی اہلیہ کے قسمت و مقدر کی پرچھائیں دکھائی دیتی ہیں۔ مجموعے کی ابتدا، انور مسعود کے دیباچے ’’پہلی گل‘‘ سے ہوتی ہے۔ ڈیڑھ صفحے کی اس ’’پہلی گل‘‘ کے بعد ’’جان پچھان‘‘ کے عنوان سے پیر فضل حسین گجراتی کی نظم موجود ہے جو ۱۹۷۰ء میں لکھی گئی اور انور مسعود نے مجموعے کی اشاعت کے وقت اسے شاملِ کتاب کیا۔ اس نظم میں انور مسعود کے رنگِ شاعری کی کئی خوبیوں کو احسن طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔

            احمد ندیم قاسمی نے اپنے ایک مضمون میں انور مسعود کو پنجابی کا نظیر اکبر آبادی کہا ہے اور اسی عنوان کی مناسبت سے انھوں نے ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ کے لیے لکھے گئے مضمون کا نام بھی ’’پنجابی دا نظیر اکبر آبادی‘‘ تجویز کیا۔ یہ مضمون پنجابی زبان میں لکھا گیا اور انور مسعود کے کمالِ فن کے اعتراف کے طور پراس مجموعے میں شامل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے اس مضمون میں انور مسعود کی شاعری پر کئی زاویوں سے روشنی ڈالی ہے۔ ان کے موضوعات کے متعلق ندیم کی رائے دیکھیے :

 ’’۔ ۔ ۔ انور مسعود نوں قدرت ولوں ڈوہنگیاں سوچاں تے بڑیاں  نازک حسّاں دے نال ای مشاہدے دی وی اینی وڈی قوت ملی اے کہ اپنے موضوع دا کوئی چھوٹے توں چھوٹا پہلو وی اُس دیاں تیز تے بھرپورنظراں توں بچ نئیں سکدا۔ اوہ اپنے موضوع نوں پوری طرح ورتدا اے تے اوہنوں کھنگال کے رکھ دیندا اے۔ اُس دیاں نظماں پڑھو تاں اِنج معلوم ہوندا اے کہ ایس توں بعد اس موضوع تے کُجھ ہور کہن دیاں ساریاں گنجائشاں ختم ہو گئیاں نیں۔ گنجائشاں تاں خیر کدی وی ختم نئیں ہوندیاں پر ایہہ شاعر دا معجزہ اے کہ اک واری تاں اوہ اپنے فن دے کمال نال اوہناں نوں ناممکن بنا دیندا اے۔ ‘‘ [۴۱]

            میرزا ادیب مرحوم کی ادبی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ جن دنوں وہ ’’مغربی پاکستان رائٹرز گلڈ‘‘ کے سیکرٹری تھے، انھوں نے ’’عوامی شاعر‘‘ کے زیرِ عنوان انور مسعود کے فن کی خصوصیات پر ایک مضمون رقم کیا تھا۔ یہی مضمون ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ کے چند ابتدائی صفحات کی زینت ہے۔ انور مسعود کی شاعری پر میرزا ادیب لکھتے ہیں :

 ’’الفاظ کے استعمال میں خوش سلیقگی اور بحروں کے انتخاب میں ترنم اور نغمگی ہے۔ شعر اس طرح دل میں اترتے جاتے ہیں  جیسے فضا میں قوسِ قزح پھیل جاتی ہے۔ مگر اس کی شاعری صرف قوسِ قزح نہیں ہے اس قوسِ قزح کے رنگ میں تلخیوں کے دھبے بھی ہیں اس لیے میں کہتا ہوں کہ انور مسعود زندگی کی مٹھاس، تلخی اور زہر ناکی کا شاعر ہے۔ ‘‘ [۴۲]

            مذکورہ تفصیلی مضمون کے بعد ’’شریف کنجاہی‘‘ مرحوم کا انور مسعود کو خراجِ تحسین ’’نویکلی آواز‘‘ کے نام سے دو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مختصر تحریر کے بعد ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ کا باقاعدہ آغاز نظم ’’حضرت میاں محمد بخش ؒ دی خدمت وچ‘‘ سے ہوتا ہے جس میں انھوں نے میاں صاحبؒ کی خدمت میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ انور مسعود سے ان کی نظم ’’امبڑی‘‘ کی فرمائش ہر مشاعرے میں کی جاتی ہے۔ اس کے پہلے بند میں ماسٹر اپنے شاگرد ’’بشیرے‘‘ سے مخاطب ہو کر اس کے دیر سے سکول آنے کا سبب دریافت کرتا ہے۔ یہ پہلا بند اپنی سادگی و پُرکاری کی وجہ سے قارئین کو ہمہ تن اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے کہ اب شاگرد کیا جواب دے گا؟ بشیرا جب اپنے دیر سے آنے کی وجہ بیان کرتا ہے تو اس کے بیان کردہ منظر کی تصویر اس طرح بننے لگ جاتی ہے جیسے مصور مختلف رنگوں کے ساتھ کینوس پر نقش گری کرتا ہے۔ اس تصویر کی تکمیل سے پہلے ہی سامعین کی آنکھوں سے جاری ہونے والی آنسوؤں کی برسات ہچکیوں کی صورت میں بدل کر دلوں میں درد کی انمٹ کیفیات کو جنم دیتی ہے۔ اَج کیہہ پکائیے، بدّل، ہالیا، لسّی تے چاء، انار کلی دیاں شاناں، دِینا، جہلم دے پُل تے، رِیجھاں، تندور، وَرہیاں دے پینڈے، حال اوئے پاہریا، تسلیاں، پِٹ سیاپا، وگوچہ، اِک خواب وغیرہ اس مقبولِ عام شعری مجموعے کی ناقابلِ فراموش نظمیں ہیں جن کے کرداروں کے ذریعے پنجاب کی ثقافتی تصاویر میں حقیقی رنگ بھرے گئے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل انور مسعود کی کئی نظمیں تدریسی نصاب کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ شعری مجموعہ متعدد پہلوؤں کی وجہ سے بذاتِ خود ایک الگ تحقیقی مقالے کا متقاضی ہے۔

۲۔     قطعہ کلامی

 

 

             انور مسعود کا پہلا اردو شعری مجموعہ ’’ قطعہ کلامی‘‘ اردو ادب میں ایک نئی انفرادیت کے ساتھ طلوع ہوا۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف ایک ہی صنف ’’قطعہ‘‘ کو برتا گیا ہے اور اسی حوالے سے اس کا نام ’’قطعہ کلامی‘‘ تجویز کیا گیا۔ اس کا انتساب ان کی بیٹی ’’عدیلہ ‘‘ اور داماد ’’راشد ‘‘ کے نام ہے۔ یہ مجموعہ ۱۳۶ قطعات پر محیط ہے۔ قطعہ انور مسعود کی پسندیدہ صنف ہے اور ان کے کلام کا بڑا حصہ قطعات پر مشتمل ہے۔ ہنگامی حالات پر اظہار کے لیے قطعہ کے مقابلے میں کوئی دوسری صنف زیادہ دیر ساتھ نہیں دیتی اسی لیے انور مسعود اسی صنف کو شعری اظہار کا وسیلہ بنائے ہوئے ہیں۔ انور مسعود کے اس شعری مجموعے پر نمل یونیورسٹی کی طالبہ نرگس بانو نے ۱۹۹۷ء میں ایم۔ اے کا مقالہ لکھا۔ ’’قطعہ کلامی ‘‘ کے قطعات میں سے زیادہ تر مستقل اہمیت کے حامل اور ان کے موضوعات آفاقیت کے علم بردار ہیں۔ انور مسعود کے قطعات پر معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کا محاکمہ ملاحظہ کیجیے:

 ’’عمدہ مزاح کا انحصار بڑی حد تک Element of Surprise (عنصرِ استعجاب)پر ہوتا ہے۔ جن قارئین نے انورمسعود کو مشاعرے لُوٹتے دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ ان کے قطعات کے پہلے تین مصرعے، اُنھی کی طرح، بظاہر بالکل گھریلو اور بے ضرر سے نظر آتے ہیں، لیکن چوتھے چُلبلے مصرعے میں اچانک ان کی آنکھوں کی ساری شوخی معصوم شرارت پر اُتر آتی ہے۔ بڑی سے بڑی اور گمبھیر سے گمبھیر بات کو ایسے ہلکے پھلکے اور دھیمے لہجے میں کہنے کا ہنر جانتے ہیں کہ سننے والا پہلے مسکراتا ہے، پھر سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ ‘‘ [۴۳]

             ’’قطعہ کلامی‘‘ کا پیش لفظ انور مسعود نے ’’پہلی بات‘‘ کے عنوان سے قلم بند کیا ہے۔ سیدضمیر جعفری کا انور مسعود کی شگفتہ بیانی پر ’’تائید ضمیر‘‘ کے نام سے لکھا گیا مضمون خاصے کی چیز ہے جو اس شعری مجموعے میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کا فلیپ مختارمسعود کی تحریر سے مزین ہے۔ کتاب میں موضوع کی مناسبت سے کارٹون نما تصاویر کا اضافہ کیا گیا ہے جو ابلاغ میں مدد کا ذریعہ ہیں۔ آخر میں ’’قطعہ کلامی ‘‘ اور انور مسعود کے فنِ قطعہ نگاری پر ڈاکٹر طیب منیر کے تاثرات ملاحظہ ہوں :

 ’’ان کے اردو قطعات کی کتاب ’’قطعہ کلامی‘‘  ادب کے اُفق پر ایک نیا رنگ اور آہنگ لے کر طلوع ہوئی ہے۔ ٹی۔ وی پر مسلسل ان کے قطعات ان کی زبانی پیش ہوتے رہے ہیں۔ مشاعروں میں ان کے قطعات بے پناہ پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ ہر طبقہ کے لوگ ان کے قطعات سے متعارف بھی ہیں اور محظوظ بھی ہو رہے ہیں۔ پہلے سننے والوں نے انور اور پنجابی کو لازم و ملزوم جان لیا تھا، اب قطعہ اور انور کو ایک جان، جان لیا گیا ہے یہی فن کا تقاضا ہے کہ فن پارہ فنکار کا دست و بازو نظر آئے۔ پڑھنے والا تخلیق اور خالق کو جدا نہ کر سکے ان کے قطعات کا نک سک لب و لہجہ، موضوعات کی رنگا رنگی، فنکارانہ مہارت، فنی پختگی، برجستگی،  موضوع پر گرفت، قاری کو متحیر کر دیتی ہے۔ قطعات کے چاروں مصرعے اس طرح موزوں، متوازن اور کسے ہوئے نظر آئیں گے، جیسے مشین سے ڈھل کر نکلے ہوں، موضوعات کی بوقلمونی پڑھنے والوں پر سحر طاری کر دیتی ہے۔ ‘‘ [۴۴]

۳۔    فارسی ادب کے چند گوشے

 

 

             ’’فارسی ادب کے چند گوشے‘‘ انور مسعود کے سرمایۂ معلومات کا ایک نادر خزینہ ہے۔ اس کا سرورق اسلم کمال کے فنی کمال کا نمونہ ہے جب کہ فلیپ ڈاکٹر توصیف تبسم، ڈاکٹر آفتاب اصغر اور ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھے ہیں۔ اس کتاب میں شامل مضامین پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف محقق ڈاکٹر جمیل جالبی ر قم طراز ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ موصوف صرف شاعر ہی نہیں ہیں ، صاحبِ علم بھی ہیں۔ وسیع المطالعہ، لفظوں کے پارکھ اور فارسی ادب کے استاد۔ فارسی ایسے بولتے ہیں جیسے شعر سنا رہے ہوں۔ ۔ ۔ جدید و قدیم فارسی ادب پر ایسی نظر کہ کم کم دیکھنے میں آتی ہے۔ خوش مزاج، خوش نظر اور خوش فکر بھی۔ آپ جب یہ مضامین پڑھیں گے تو میرے ہم نوا ہو کر پروفیسر انور مسعود کے نقد و نظر کے قائل ہو جائیں گے اور میری طرح ان کو مشورہ دیں گے کہ حضرت شاعری بہت کر چکے، اب پوری سنجیدگی اور دلجمعی سے ایسے ہی مضامین اور لکھئے جیسے اس کتاب میں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘  [۴۵]

            انور مسعود نے ڈاکٹر جمیل جالبی کی آدھی بات پر عمل کیا اور مزید مضامین کے دو مجموعے لکھ ڈالے لیکن شاعری کو بھی جاری  رکھا اور ان کے کئی مزید مجموعے شعری شاہکار بن کر سامنے آئے۔ ’’فارسی ادب کے چند گوشے‘‘ ۱۵۵ صفحات پر پھیلا مجموعۂ مضامین ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ۱۹۹۳ء میں شائع ہوا اور اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۹۷ء کو گورا پبلشرز(پرائیویٹ لمیٹیڈ )نے ۲۵۔ لوئر مال، لاہور سے شائع کیا۔ مصنف نے کتاب کا انتساب اپنے استادِ گرامی جناب پروفیسر چودھری فضل حسین کے نام کیا ہے۔ اس مجموعے میں سات مضامین کے ساتھ مصنف کی جانب سے ایک ’’پیش نامہ‘‘ اورپروفیسر شکور احسن کے قلم سے کتاب کے مضامین پر اظہارِ خیال ’’جائزہ‘‘ کے سرنامے کے ساتھ موجود ہیں۔ ’’پیش نامہ‘‘ میں فاضل مصنف نے اس بات کا  اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے سات میں سے چار مضامین اس وقت رقم کیے جب وہ یونیورسٹی اورینٹل کالج، لاہور میں ایم۔ اے فارسی کے طالبِ علم تھے اور یہ ۶۲۔ ۱۹۶۱ء کا زمانہ تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شروع ہی سے شاعری کے ساتھ تحقیق و تنقید میں بھی ان کو ملکہ حاصل رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ شاعری کی اتنی زیادہ پذیرائی ہوئی کہ ان کی نثر کا میدان شائقینِ ادب کی نظروں سے اوجھل رہا۔ انورمسعود کتاب میں شامل مضامین کی بابت ’’پیش نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ ۔ سات میں سے چار مضامین  (غنیمت کنجاہی، میرزا علی اکبر دہخدا، خیام اور ناقدینِ سبکِ ہندی)  میں نے اس زمانے (۶۲۔ ۱۹۶۱ء) میں لکھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مضامین شعبۂ فارسی میں منعقد ہونے والے سیمیناروں میں پڑھے گئے تھے۔ ۱۹۷۰ء میں کچھ تازہ تحقیقی مواد میسر آنے پر میں نے خیام سے متعلق مضمون پر نظر ثانی کی اور اس میں ضروری اضافے کیے۔ ۱۹۷۶ء میں مجھے ایران جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پر فروغ فرخ زاد کے بارے میں جو تحریری مواد جمع ہو سکا اس کی مدد سے ۱۹۷۷ء میں میں نے  یہ مضمون تحریر کیا۔ عشقی پر مضمون ۱۹۷۸ء میں لکھا گیا جب خانۂ فرہنگ ایران راولپنڈی سے مجھے  ’’کلیاتِ مصورِ عشقی‘‘ کا نسخہ دستیاب ہوا۔ ۱۹۹۲ء میں بہاولپور یونیورسٹی نے حضرت علامہ اقبال پر ایک مذاکرے کا اہتمام کیا۔ اقبال پر مضمون اسی مذاکرے کے لیے تحریر کیا گیا۔ ۔ ۔ ‘‘ [۴۶]

۴۔     غنچہ پھر لگا کھلنے

            یہ انور مسعود کی طنزیہ و مزاحیہ اردو شاعری کا دوسرامجموعہ ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا۔ اس کے ابتدائیے کا عنوان ’’شکر و تشکر‘‘ ہے جو انور مسعود کی تحریر ہے۔ اس میں شامل واحد مضمون مشتاق احمد یوسفی نے ’’سادگی و پرکاری‘‘ کے نام سے لکھا ہے۔ فلیپ کے راقم جناب افتخار عارف ہیں۔ اس مجموعے پر پروفیسر مرزا سلیم بیگ کا تبصرہ اہم ہے:

 ’’۔ ۔ ۔ انور مسعود کی مزاح نگاری دراصل اُس دودھاری تلوار کے مانند ہے جس کے ایک طرف ہنسنے ہنسانے کا سامان اور دوسری طرف اصلاحِ معاشرہ کی بھاری ذمہ داری ہے اور وہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان جس توازن کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ ایک چھُپی ہوئی نہیں بلکہ چَھپی ہوئی حقیقت ہے۔ اس مجموعے میں آپ کی ۹۰ نظمیں شامل ہیں جن میں بیشتر زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۴۷]

            اس طنزیہ و مزاحیہ شعری مجموعے کی اہم نظموں میں ’’ سائیڈ ایفیکٹس، ہم جا رہے ہیں بھائی، اُفتاد، تم بھول گئے شاید، قیس بنی عامر اور لیلیٰ کی ماں، گر تو بُرا نہ مانے، ایک جدید ترین نظم ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اسی مجموعے کی کئی غزلیات کے اشعار نے بھی شہرتِ دوام حاصل کی۔ ایک غزل کے چند اشعار حسبِ ذیل ہیں :

طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا

اب یہ بھی کوئی کام ہے لکھنا کتاب کا

دیکھی ہے ایک فلم پرانی تو یوں لگا

جیسے کہ کوئی کام کیا ہے ثواب کا

شوگر نہ ہو کسی بھی مسلماں کو اے خدا

مشکل سا اک سوال ہے یہ بھی حساب کا

            غزلیات اور نظموں کے ساتھ قطعات کی مناسب تعداد بھی ’’غنچہ پھر لگا کھلنے ‘‘ میں شامل ہے۔ انور مسعود کی ایسی ہی شاعری کی افتخار عارف نے ان الفاظ میں پذیرائی کی ہے:

 ’’بلا خوفِ تردید کہا جانا چاہیے کہ جیسا کرارا، کسا ہوا، اور ٹھکا ہوا چُست مصرع اورجیسے سلیقے اور شائستگی کے ساتھ لفظوں کا ورتارا  انور مسعود کے یہاں ملتا ہے، وہ ہمارے عہد میں مزاحِ منظوم کی وہ منزلِ کمال ہے کہ جہاں بڑے بڑوں کی سانس پھول جاتی ہے۔ رواں مصرعوں میں صناعی و پرکاری ایسی بلا کی کہ الٰہی توبہ، نظم اپنی بنت میں ایسی مسلسل اور مربوط کہ آپ ایک مصرع اِدھر سے اُدھر نہیں کر سکتے۔ حشو و زواید ان کے احباب میں ہوں تو ہوں مگر شاعری اس سے بالکل پاک وصاف نظر آتی ہے۔ خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ ہم نے کبھی انور مسعود کی کوئی ہلکی نظم نہ پڑھی نہ سُنی۔ ‘‘ [۴۸]

۵۔     ہن کیہ کریے!

            مجموعی طور پر یہ انور مسعود کا چوتھا جب کہ پنجابی زبان میں دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ پنجابی نظموں اور غزلوں پر مشتمل اس مجموعے کی اشاعت اول۱۹۹۶ء میں ہوئی۔ دوسری مرتبہ ۱۹۹۸ء میں دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد سے شائع ہوا۔ انتساب والدہ مرحومہ کے نام، تحریر بقلم خود مصنف بعنوان ’’اک دو گلاں اپنے ولوں ‘‘ ، مضمون پروفیسر شریف کنجاہی بعنوان ’’انور مسعود دے مکھانے‘‘ ، دوسرا مضمون چودھری فضل حسین بعنوان ’’انور مسعود اور اس کا فن’‘اور اسیرعابد کی ایک نظم ’’موجاں لہراں بہراں ‘‘ کے نام سے ابتدائی ۲۲صفحات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اس میں شامل غزلوں کی تعداد پندرہ(۱۵)اور باقی نظمیں ہیں، صفحات کی تعداد ۱۴۳ہے۔ حمد، نعت اور سلام کے بعد حضرت اقبالؒ سے عقیدت کا اظہار ملتا ہے۔ اس مجموعے کی کئی نظمیں مقبول ہوئیں لیکن نظم ’’  بنین‘‘ مقبولیت کی انتہاؤں تک پہنچی۔

            اس شعری مجموعے کی ایک اور نظم ’’جمعہ بازار‘‘ گہرے مشاہدے اور زبان و بیان کے تیکھے پن کی وجہ سے تخلیقی انفرادیت کا بہترین نمونہ بن کر سامنے آتی ہے۔ اس شعری مجموعے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں صرف مزاح و ظرافت کی پھلجھڑیاں نہیں ہیں بلکہ اس کی شاعری سنجیدگی کی ایک دبیز چادر اوڑھے قارئین کو ہمہ وقت نشتروں کی زد پہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کا فلیپ نامور شاعر احمد فراز مرحوم نے لکھا تھا۔ انور مسعود کی شاعری پر احمدفراز کے نادر خیالات ملاحظہ ہوں :

 ’’یہ بڑا ظالم آدمی ہے۔ ۔ ۔ ۔ اُڑتی ہوئی آوازوں کو پکڑ لیتا ہے۔ پھر ان آوازوں کو منجمد کر دیتا ہے اور ان منجمد آوازوں کو جب چاہے تیلی دکھا دیتا ہے  اور وہ پھر اُڑنے لگتی ہیں لیکن نئے سُروں اور انوکھے رنگوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ تتلیوں کی طرح۔

اس طلسم کار کی کرشمہ سازی کا ایک بھید یہ ہے کہ موضوعات کے چناؤ کے ساتھ ساتھ الفاظ کے خزانوں پر بیٹھے ہوئے سانپوں کو بھی سدھا رکھا ہے  اور جب بھی اس کے ابرو میں جنبش ہوتی ہے یہ ناگ شب چراغ اُگل دیتے ہیں جو ہر سخن طراز کے بس کی بات نہیں۔ ‘‘ [۴۹]

۶۔      تقریب

            اس نثری کتاب کے متعلق اس سے پہلے کوئی جاندار تبصرہ موجود نہیں ہے اس لیے یہاں پر ایک تفصیلی اور جامع اظہاریہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ’’تقریب‘‘ کے عنوان سے انور مسعود کے مضامین کا مجموعہ ۱۹۹۷ء میں منظر عام پر آیا۔ اسے گورا پبلشرز (پرائیویٹ) لمیٹڈ نے ۲۵۔ لوئر مال، لاہورسے شائع کیا۔ اس میں موجود مضامین انور مسعود کے فنِ تحقیق و تنقید پر عبور کی محکم دلیل ہیں۔ اس مجموعۂ مضامین میں اٹھارہ مقالات شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر مختلف ادبی تقریبات کا حاصل ہیں۔ ان کے بارے میں مذکورہ کتاب کے دیباچے میں ’’تقریب کچھ تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ کے عنوان سے مصنف خود لکھتے ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ ۔ یہ مجموعہ محض تعارفی مضامین پر مشتمل ہے۔ ان اٹھارہ مضامین میں سے پہلا مضمون علامہ اقبال کی عظیم تصنیف ’جاوید نامہ‘  کے ایک باب کی ترجمانی کی ایک کوشش ہے۔ نو مضامین اردو اور پنجابی کے جانے پہچانے شعرا کے کلام کے جائزے پر مشتمل ہیں جب کہ چھے مضامین حال ہی میں شائع ہونے والے اردو کے چند نثری کارناموں کے تعارف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک مضمون ایک مترجم اور ایک مضمون ایک مصوّر کے کمالِ فن کے اعتراف کی ذیل میں آتے ہیں۔ ‘‘ [۵۰]

            دیباچے کے بعد پہلا مضمون ’’فلکِ عطارد (جاوید نامہ کا ایک باب)‘‘ ہے۔ انور مسعود نے اس مضمون میں علامہ اقبال کی لازوال تصنیف ’’جاوید نامہ ‘‘ کے ایک باب میں پیش کیے گئے نظریات کو بہت جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے نثری اسلوب میں ادبی چاشنی کا لطف، تحقیق و تنقید کی گرانی کے باوجود قاری کو آخر تک اپنے ساتھ چلنے اور نتائج کا رس کشید کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ فارسی زبان سے ناآشنا نئی نسل کے لیے اس مضمون کا مطالعہ اقبال کے تصورات و نظریات کے ابلاغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ علامہ اقبال نے عالمِ تصور میں دانشورانِ عالم سے اپنی ملاقاتوں کے دوران جو مباحثِ حیات و کائنات سلجھائے، ان کو ’’جاوید نامہ‘‘ کے اس باب میں سمو دیا۔ انور مسعود نے اس مضمون میں ’’فلکِ عطارد‘‘ کے مباحث کو اردو کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے کہ اس تعبیر وتفسیر نے بذاتِ خود تخلیق کا روپ اختیار کر لیا ہے۔ عہد موجود میں مملکتِ خداداد کو درپیش نظریاتی مسائل و مصائب کواس مضمون میں حقائق کی روشنی دکھائی گئی ہے۔ حضرت جمال الدین افغانی ؒ کی زبان سے علامہ نے مختلف موضوعات کے ساتھ ’’حکومتِ الہٰی‘‘ پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مفسرِ جاوید نامہ نے جو مثال پیش کی، اس کے پسِ منظر تک پہنچنا چنداں مشکل نہیں :

 ’’قانون سازی کا حق خدا نے بندوں کو نہیں دیا۔ اس میں مصلحت یہ ہے کہ انسان کی عقل خود بیں اور خود غرض ہے۔ وہ صرف اپنا بھلا سوچتی ہے لیکن وحی کسی خاص طبقہ یا فرد کا مفاد نہیں دیکھتی بلکہ اس کی نگاہوں میں سب انسان برابر ہیں۔ صلح ہو یا جنگ، قانونِ الہٰی عدل پر مبنی ہے۔ اس قانون کی نظر میں شاہ و گدا برابر ہیں۔ جب انسان خود حاکم بن بیٹھتا ہے تو کمزوروں پر ظلم کرنے لگتا ہے۔ آمریت یقینی طور پر قاہریّت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ جو انسان انسانوں پر حکمران ہوتا ہے وہ دراصل کافر ہے کیونکہ وہ اپنے طرزِ عمل سے خدائی کا دعویٰ کر رہا ہے۔ ڈکٹیٹر کتنا ہی مدبّر کیوں نہ ہو، وہ اپنی مطلق العنانی کو پردے میں چھپا لیتا ہے۔ اس کی مجلسِ شوریٰ بھی دھوکے بازی ہے۔ آمریت کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سرمایہ دار زیادہ سرمایہ دار اور غریب زیادہ غریب ہو جاتا ہے۔ ‘‘ [۵۱]

             ’’تقریب‘‘ کا دوسرا مضمون ’’اکبر الٰہ آبادی(از خواجہ محمد زکریا)‘‘ ہے۔ اس میں خواجہ محمد زکریا کے ڈاکٹریٹ کے مقالے پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ یہ مضمون اپنے اندر تحسین کا تاثر لیے ہوئے ہے۔ تحقیق و تنقید پر مشتمل مقالہ پر لکھا گیا مذکورہ مضمون انور مسعود کو ’’نقد الانقاد‘‘ کے دائرے میں شامل کرتے ہوئے انورمسعود کے محققانہ و ناقدانہ وصف کو ان پر لگی ہوئی شعری چھاپ کے باوجود منوا کر رہتا ہے۔ انھوں نے یہاں بھی نتائج مرتب کرتے وقت مذہب و ملت کے درد سے معمور مثالوں کا اہتمام کیا ہے۔ مثلاً:

             ’’افکارِ اکبر کے موضوع پر خواجہ صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اکبر کو انگریز کی ہوا خواہی سے جو نفرت تھی  اس کے پسِ منظر میں ٹھوس تاریخی حقائق تھے۔ مختصر یہ کہ ہم انگریز کے کتنے ہی خیر خواہ بن جائیں انگریز ہمارا خیر خواہ ہر گز نہیں تھا۔ اس کو صرف اپنا مفاد عزیز تھا اور یہ حصولِ مفاد یہاں کے باشندوں کے استحصال کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اکبر اس استحصال کی ساری صورتوں سے کامل آگاہی رکھتے تھے۔ قرآن کی عقلی توجیہیں اور تاویلیں ان کے لیے وہی حیثیت رکھتی تھیں جیسی ایک زمانے میں یونانی فلسفے سے مرعوب ہو کر کی گئی تھیں۔ اکبر فرنگی یلغار کو قرآنِ مجید کی اس آیت کی روشنی میں دیکھ رہے تھے:

ان الملوک اذا دخلو قریۃً افسدوھا وجعلو آاعزۃ اھلھآ اذلۃ وکذلک یفعلون۵(النمل۔ ۳۴)

یعنی حکمران جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں۔ ‘‘ [۵۲]

            تیسرے مضمون کا عنوان ’’کاروانِ حرم‘‘ ہے۔ ’’ع۔ س۔ مسلم‘‘ جو ایک افسانہ نویس اور شاعر ہیں، ان کے سفر حج کی منظوم داستان ’’کاروانِ حرم‘‘ ہے جس پر اس مضمون کی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ یہ مضمون نو صفحات پر محیط ہے اور اس میں اشعار کی مثالوں کے ساتھ اس پر لکھے گئے تبصروں سے چند آرا  کو بھی مختلف مقامات پر بطور حوالہ استعمال کیا گیا ہے۔ صاحبِ کتاب کے علمی پس منظر پر لکھی گئی صاحبِ مضمون کی شاہکار تحریر کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

 ’’مسلم صاحب ایک صاحبِ علم و فضل شخصیت ہیں۔ عربی، فارسی،  ہندی اور پنجابی میں بھی انھیں بڑی دسترس حاصل ہے۔ وہ ان زبانوں کے لفظ لفظ میں چھپی ہوئی تصویروں، سروں، اور رنگوں کو پہچانتے ہیں اور ان کے مختلف مطالب سے کامل آگاہی رکھتے ہیں۔ ذخیرۂ الفاظ کے اعتبار سے وہ انتہائی ثروت مند شاعر ہیں اور اس ذخیرے کو اتنا بر محل استعمال کرتے ہیں کہ محل تعمیر کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ان کے ہاں اقبال کا فیضان بھی ہے اور انیس کے تیور بھی موجود ہیں۔ مجھے ان کی مثمن کا مطالعہ کرتے ہوئے کئی مقامات پر یہ احساس ہوا ہے کہ مولانا الطاف حسین حالی عبدالعزیز خالد سے گلے مل رہے ہیں۔ ‘‘ [۵۳]

             ’’تقریب‘‘ کے صفحہ اکاون سے لے کر صفحہ اڑسٹھ تک اپنی بہار دکھانے والا ایک اور ادبی و تحقیقی مضمون ’’پیر فضل کا رنگِ غزل‘‘ ہے۔ اس میں پنجابی ادب کی ہر دل عزیز کتاب ’’ڈونگھے پینڈے‘‘ کی شاعر ی اور اس کے شاعر ’پیر فضل گجراتی‘ کی شعری جہات کا محاکمہ کیا گیا ہے۔ انور مسعود نے پیر فضل کو پنجابی زبان کا میر کہا ہے۔ اٹھارہ صفحات کے اس مکمل مضمون کی چاشنی کا لطف لینے کے لیے درج ذیل اقتباس دیکھیے:

 ’’۔ ۔ ۔ پیر کی غزل میں اندوہِ بیکراں کا وہی اندوختہ ہے جو میر تقی کے دل پر نازل ہوا تھا۔ میں پیر اور میر کا موازنہ نہیں کر رہا۔ ۔ ۔ میر کی استادی کے سامنے تو غالب بھی کورنش بجا لاتا ہے۔ اس کے یہاں جو معصوم تہ داری ہے وہ گداز مندوں کے لیے ایک الگ آشوب چشم ہے۔ پیر کے تذکرے میں ذکرِ میر اس لیے در آیا کہ دونوں کے یہاں دردِ جانکاہ کا رشتہ مشترک ہے اور یہ ایک متاعِ کمیاب ہے۔ ‘‘ [۵۴]

            مضمون کے اختتام پر کہا گیا تحریفی مصرع اس بات کا گواہ ہے کہ انور مسعود نے پیر فضل کی پنجابی شاعر ی اور اس کی فنی عظمت کو مسلّم بنانے کے لیے ان کو پنجابی زبان کے شعرا میں میر کا رتبہ بخشا ہے:

 ’’آپ بے  بہرہ  ہے  جو  معتقدِ  پیر  نہیں ‘‘

            اسیر عابد نے دیوانِ غالب کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا۔ ’’دو آتشہ‘‘ کے نام سے ’’تقریب‘‘ کا چوتھا مضمون اسی منظوم ترجمے کی باز گشت ہے۔ اس ترجمے پر رائے دینا یقیناً دشوار کام تھا اور ایک ایک لفظ کی پرتیں کھولے بغیر اس میں موجود طلسم معانی کو آشکار کرنا ممکن نہ تھا۔ انور مسعود نے یہ تمام پرتیں کھول کر شاعر کے ذہن میں چھپے گوہرِ معانی تک رسائی حاصل کی۔ مترجم کے مزاج سے آگہی، اس کی زبان سے شناسائی اوراستعدادِ کار سے واقفیت کے باوجود بسا اوقات مختصر مطالعے سے بات نہیں بنتی اور محقق کو کئی ہفت خواں طے کرنا پڑتے ہیں۔ یہ مضمون انور مسعود کی اسی محنت، توجہ اور عمیق مطالعے کا ثمر ہے جس نے قارئین پر دیوانِ غالب کے پنجابی ترجمے کے کئی در کھول دیے ہیں۔ سیالکوٹ میں ’حلقۂ اربابِ ذوق‘ کے زیرِ اہتمام منعقدہ تقریب میں پڑھے گئے اس مضمون کا ایک دریچہ یوں وا ہوتا ہے:

 ’’اسیرعابد کے ’دیوان غالب‘ کے منظوم پنجابی ترجمے کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا رہا کہ ہر شعر کا ترجمہ کرتے ہوئے اسیرعابد یہ سوچتا رہا ہے کہ غالب اگر اپنی انھی قلبی اور ذہنی توانائیوں کے ساتھ اکبر آباد کے بجائے لاہور یا اس کے مضافات میں پیدا ہو گیا ہوتا اور پنجابی میں شعر کہتا تو اس مضمون کو کس پیرائے میں بیان کرتا۔ اس ضمن میں اسیر عابد نے پنجابی زبان کے امکانات کو ٹٹولنے کی حتّی الامکان کوشش کی ہے اور اس کامیاب کوشش نے پنجابی زبان کو مالا مال کر دیا ہے۔ ۔ ‘‘ [۵۵]

            شریف کنجاہی پنجابی ادب کا ایک معتبر نام ہے۔ ’’تقریب‘‘ کا چھٹا مضمون اسی حوالے سے ہے جس کا عنوان ’’شریف کنجاہی: چند تاثرات‘‘ ہے۔ یہ بھی ایک ادبی تقریب میں پڑھا گیا مضمون ہے جوتحسین کے زمرے میں آتا ہے۔ اس میں ممدوح کی شخصیت، شاعری، تراجم اور ادبی کارناموں کے سلسلے میں تاثرات کا بیان ہے۔ پنجابی زبان میں شریف کنجاہی کے مقام و مرتبے اور عالمانہ شخصیت سے ہر صاحبِ علم و ادب آگاہ ہے۔ انور مسعود نے ان کی شخصیت اور فن کو دلائل کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ مثلاً:

 ’’شریف صاحب نے پنجابی کے ساتھ محبت کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے اور اس کا حق ادا کر دیا ہے۔     ان کی پنجابی شاعری، پنجابی میں ان کی نفسیاتی تنقید، خطباتِ اقبال اور جاوید نامے کے ترجمے نے پنجابی کو بڑا اعتبار بخشا ہے۔ پنجابی کو شریف کنجاہی میسر نہ آتا تو اس کو یہ قابلِ فخر علمی مرتبہ اور مقام حاصل نہ ہوتا۔ شریف کنجاہی کے طفیل اب تو پنجابی بڑی روانی کے ساتھ فلسفہ بولنے لگی ہے۔ ‘‘ [۵۶]

            امجد اسلام امجد کئی ادبی میدانوں کے شاہ سوار ہیں۔ ان کے کمالاتِ فن کے اعتراف میں ’’ تقریب‘‘ کا ساتواں مضمون صفحہ ۹۳ سے ۱۰۲ تک اپنی خوشبوئیں بکھیر رہا ہے۔ امجد کے ڈرامے، تنقیدی مضامین، شاعری، سفرنامے، تراجم اور کالم، ہر ایک میں محبت کی جو لہریں موجود ہے اس نے ان کی شہرت کو ملک کی سرحدوں سے نکال کر دنیا کے کئی ممالک میں پھیلا دیا ہے۔ اس مختصر مضمون میں امجد اسلام امجد کے فن اور ان کی شخصیت کی چند پرتوں کو کھولا گیا ہے۔ ٹی وی سیریل ’’وارث‘‘ کی مقبولیت کے بیان کو خاص طور پر مختلف مشاہیر کی آرا کے اقتباسات سے مزین کیا گیا ہے جن میں مشتاق احمد یوسفی اور پروین شاکر شامل ہیں۔ فیض، احمد ندیم قاسمی، شہزاد احمد، اختر حسین جعفری،  فتح محمد ملک، ڈاکٹر سلیم اختر، مشفق خواجہ وغیرہ کے کلماتِ تحسین جو امجد کی شاعری پر سند ہیں، اس مضمون میں موجود ہیں۔

             ’’تقریب‘‘ کا ایک اور اہم مضمون ’’خاقان خاور اور اس کی غزلیں ‘‘ ہے۔ اس میں شاعر کی غزل کی فنی خصوصیات کے ساتھ نفسِ مضمون کے پسِ منظر کو واضح طور پر منصۂ شہود پر لایا گیا ہے۔ خاقان خاور کی شخصیت کے پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے مضمون کی ابتدا اس طرح کی ہے کہ عام قاری بھی مکمل مضمون کے مطالعے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مضمون میں شامل اشعار کا انتخاب لائق توجہ ہے:

میلوں میں پھیلتے گئے پودے کپاس کے

محتاج کتنے لوگ ہیں پھر بھی لباس کے

وہ کہتا ہے کہ اس نے بات کی ہے

میں کہتا ہوں مجھے خنجر لگا ہے

             ’’تقریب ‘‘ کا نواں مضمون پروفیسر احسان اکبر کی کتاب ’’جموں و کشمیر:ہمارا اکیسویں صدی میں داخلہ‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ مقالہ صفحات کے اعتبار سے مختصر مگر جامعیت و معنویت کے لحاظ سے بہت معتبر ہے۔ اس میں احسان اکبر کی نظریہ پاکستان اور کشمیر کازسے وابستگی کے ساتھ کتاب میں پیش کیے گئے تاریخی حقائق کا جائزہ لے کر پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت بیان کی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکمرانوں کی غفلتوں کا ذکر اور اس پر حزن و ملال کی کیفیت طاری کرنے والی فضا مذکورہ مقالے میں جذبات کا پیش خیمہ ہے۔ مثلاً:

 ’’۔ ۔ ۔ اس فردوسِ روئے زمین میں سکھوں، ڈوگروں اور موجودہ بھارتی حکومتوں نے پے در پے کشمیریوں پر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے ہیں کہ استبداد کی ساری تاریخ ان خونریزیوں کے سامنے شرمندہ ہے۔ اور یہ سارا خونیں ڈرامہ ملتِ مسلمہ کے خلاف انگریز اور ہندو کی گھناؤنی ملی بھگت ہے۔ وہی شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاری کا تسلسل اور پھر کشمیری مسلمانوں سے اپنوں کی بیگانگی، غیروں کی سرد مہری، عالمی درِ انصاف پر دستکوں کی بے اثری۔ کوئی بھی تو ان کی فریاد کو نہیں پہنچا۔ ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۵۷]

             ’’جلیل عالی کا خواب دریچہ ‘‘ میں جلیل عالی کی لسانی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اس توانا شاعر کے جدید لسانی تجربات نے غزل کو اظہار و بیان کی اس زبان سے متعارف کرانے کی داغ بیل ڈالی ہے جو مستقبل قریب میں متوقع ہے۔ ’’خواب دریچہ‘‘ پر رقم کیے گئے اس مقالے میں مصنف نے شاعر کے اشعار میں موجود ہمہ پہلو سوالات کی کئی گرہوں کو کھول کر قارئین کے متاعِ تجسس کی آبیاری کی ہے۔ استفہامیہ پرتیں کھولنے سے پہلے انور مسعود شاعر کے خیال میں بسے استعاراتی و تشبیہاتی سوالات کو یوں بیان کرتے ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ عالی سراپا سوال ہے کہ لوگ اک دوسرے کو کیوں روندتے چلے جا رہے ہیں۔ پرندے اجنبی دیسوں کو ہجرت کرنے پر کیوں مجبور ہیں ؟ اپنی تنک تابیوں کو نمایاں کرنے  کے لیے بستیوں کے چراغ کیوں بجھائے جا رہے ہیں ؟ ایسا کیوں ہے کہ لوٹنے والے آواز بھی لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ عالی کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ دامانِ زیست کیوں تار تار ہے؟‘‘ [۵۸]

            اس مقالے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اشعار کی صورت میں شاعر کے خیالات کی رم جھم کر کے اس کے رجحان و میلان کی آئینہ داری کا فریضہ احسن طریقے سے نبھایا گیا ہے۔ مثلاً:

شہر میں سو ترمیم ضروری ہو

شہرِ پناہ میں ضرب لگانا ٹھیک نہیں

سدا دھوپوں جلے لیکن نہ عالی

اماں مانگی کسی کے سائباں سے

کون خوشبوؤں مہکتی ہے مرے آنگن کی بیل

جگمگانے کو ہے کیسی روشنی سے گھر مرا

             ’’بشیر سیفی کی خاکہ نگاری پر ایک نظر‘‘ آٹھ صفحات پر پھیلی موتیوں کی ایک مالا ہے۔ یہ مقالہ انور مسعود کے ذوقِ تحقیق اور تنقیدی بصیرت کا  بولتا ثبوت ہے۔ اس میں کتاب ’’خاکہ نگاری‘‘ کے اہم ترین پہلوؤں کا جامع ترین الفاظ میں خلاصہ پیش کر کے خاکہ نگاری کے فن کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ مقالہ قارئین کو متعلقہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دے کر مطالعہ کی تحریک و تحریص کا سبب بنتا ہے۔ ڈاکٹر بشیر سیفی کی تحقیقی و تنقیدی فکر اور خاکہ نگاری کے فن پر انور مسعود کا جچا تلا مؤقف کچھ اس طرح مائل بہ پرواز ہے:

 ’’۔ ۔ ۔ کسی شخصیت کی انفرادیت کو کمالِ اجمال کے ساتھ بیان کر دینے کا نام خاکہ نگاری ہے۔ یہ صنف پھیلاؤ کی متحمل نہیں بلکہ حسنِ انتخاب کا معاملہ ہے۔ خاکہ نگار وہ ہے جو کسی شخصیت کے تعارف میں غیر ضروری تفصیل کو ترک کرنے کا ہنر جانتا ہو اور حسنِ اعتدال کے ساتھ کسی کے ظاہری اور باطنی عیب و ہنر کی جھلکیاں اس طرح دکھائے کہ شخصیت کی دلآویزی مجروح نہ ہونے پائے۔ ‘‘ [۵۹]

            مذہبی، اخلاقی اور آفاقی اقدار سے بے پناہ عقیدت رکھنے والے صوفی شاعر استاد کرم کے مجموعہ کلام ’’پھلواری‘‘ میں جو عارفانہ زمزمے چھیڑے گئے ان کا عکس ’’ تقریب ‘‘ کے صفحہ ۱۴۷ سے صفحہ ۱۵۸ میں منعکس ہے۔ یہ شعری مجموعہ پنجابی زبان کی فطری نغمگی اور اس کی لطافتوں کا حسین مرقع ہے۔ انور مسعود نے ’’پھلواری‘‘ کے تمام پھولوں کے رنگ اکٹھے کر کے اس مضمون میں ایک گلدستہ کی صورت سجا کر استاد کرم کے فن و شخصیت کی تحسین کی ہے۔ اس گلدستہ سے ایک رنگ دیکھیے:

 ’’یہ بجا کہ نام نہاد واعظین نے سادہ لوحوں کا استحصا ل کیا ہے اور لوگوں کو روحِ مذہب سمجھانے کے بجائے ظواہر کے گورکھ دہندوں میں اُلجھا دیا۔ یہ منافقانہ طرزِ عمل بلا شبہ قابلِ گرفت ہے۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آدمی سچ نہ بولنے والوں سے نفرت کرتے کرتے سچائی کی مخالفت پر کمر باندھ لے، کسی کی کوتاہی عمل سے شعائر دینی کی توہین کا جواز تو نہیں نکلتا۔ استاد کرم کی عظمت کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ان کا دامن اس غلط روایت کی تقلید سے قطعی پاک ہے۔ ‘‘ [۶۰]

             ’’اسلم کمال اوسلو میں ‘‘ ایک معروف مصور کے سفر نامہ کی سرگزشت کا احوال ہے۔ اوسلو میں منعقدہ مصوری کے فن پاروں کی نمائش کے لیے اختیار کیے گئے سفر اور اس دوران مصنف و مصور کو پیش آنے والے دلچسپ و یاد آور واقعات کی داستان اس سفر نامے کی تخلیق کا باعث ہے۔ اس سفر نامے کے رنگ روپ نے اسلم کمال کی مصورانہ صلاحیتوں کے ساتھ ان کی ادیبانہ ہنر کاری کے نقوش کو واضح کیا ہے۔ انور مسعود نے اپنے مخصوص اسلوب میں اس سفر نامے کی پہلو داری پر اظہاریہ لکھ کر اس کو پذیرائی بخشی ہے۔ مضمون میں فاضل مصنف نے چند واقعات کی نقش بندی بھی کی ہے جس سے اس کی اثر پذیری دوچند ہو گئی ہے:

 ’’میں جب ناروے پہنچا تو ناروے کی ایک خاتون نے مجھے بڑے اشتیاق سے بتایا کہ آپ کے آنے سے پہلے آپ کا ہم وطن ایک مصور بھی یہاں آیا تھا۔ اس نے آپ کے ایک عظیم شاعر کو بڑی ہنر مندی سے PAINTکیا ہے۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ اس کی مصوری کو دیکھ کر آپ کے دل میں کیا تاثر پیدا ہوا تو وہ کہنے لگی کہ ایسا لگتا تھا کہ وہ شخص (اقبال) اپنے ہم وطنوں کو اندھیروں سے اجالوں کی طرف لے کر جانا چاہتا ہے۔ یہ تبصرہ سُن کر مجھے محسوس ہوا کہ اسلم کمال نے کتنی کامیابی کے ساتھ پیغامِ اقبال کی ترسیم و ترسیل کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۶۱]

            تقریب کا چودھواں مضمون ’’بشیر منذر کی یاد میں ‘‘ ہے جو اردو اور پنجابی کے معروف شاعر تھے۔ اس مضمون میں مصنف نے بشیر منذر کی شخصیت کا احاطہ اپنی یادوں کے حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے جن کی وجہ سے ممدوح کی شخصیت اُبھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ مضمون کا اسلوب خاکہ نگاری سے قریب تر معلوم ہوتا ہے جس سے اس کی جاذبیت اور ادبی قدر و منزلت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ درج ذیل اقتباس سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

 ’’مجھے ’جی آیاں نوں ‘ کہتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر جو پُر خلوص مسکراہٹ پھیل گئی تھی وہ میری یادوں کا بہت قیمتی اثاثہ ہے۔ میں نے یہ محسوس کیا بشیر مُنذر اہلِ قلم کے اس بھرے میلے کو disturbہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ اس دوران میں اگر کوئی گاہک آن ٹپکتا تو بشیر منذر اس سے شتابی فارغ ہونے کی ہر ممکن اور معقول تدبیر کر گزرتا تھا۔ ‘‘ [۶۲]

            انور مسعود نے اس خاکہ نما مضمون میں بھی بشیر منذر کے اشعار کی شبنم سے تازگی کا اہتمام کیا ہے۔ مثلاً:

رخصت ہوئے تو جانا سب کام تھے ادھورے

کیا کیا کریں جہاں میں دو ہاتھ آدمی کے

اچھے کبھی برے ہیں حالات آدمی کے

پیچھے پڑے ہوئے ہیں دن رات آدمی کے

مستقل خطرات بام و در پہ منڈلاتے رہے

دل کی بستی کے سدا حالات ہنگامی رہے

             ’’جمشیدمسرور۔ ۔ ۔ سمندر پار کی ایک پاکستانی آواز‘‘ تقریب کا پندرھواں اور اہم مضمون ہے۔ اہم اس لحاظ سے کہ جمشیدمسرور، انور مسعود کے شہر گجرات سے تعلق رکھنے کے ساتھ ان کے کالج فیلو بھی تھے اور جمشید کے والد جناب ڈاکٹر مسرور کپور تھلوی فنِ شعر گوئی کے اسرارورموزمیں طاق اور ایک صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ انور مسعود کی کئی ملاقاتیں ڈاکٹر مسرور سے ہوتی رہیں جن کے دوران اِن کے ادبی ذوق کی پرورش ہوئی اور اس کا اعتراف انور مسعودخود بھی کرتے ہیں۔ ’’میری خوشبوئیں میرے پھول‘‘ جمشید مسرور کا مجموعہ کلام ہے جس پر صفحاتِ تقریب میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری میں وطن سے دوری کی وجہ سے حب وطن کا رنگ مزید گہرا ہواہے۔ انور مسعود نے دیگر پہلوؤں کے ساتھ اس رنگِ شاعری پر خصوصی خیال آرائی کی ہے:

 ’’وہ اپنے وطن میں مسندِ عدالت ومنبرودستار کی خوئے استحصال کے ہاتھوں سخت نالاں ہے اور ایک صحت مند انقلاب کا آرزومند ہے اور اس انقلاب کے لیے ایسا جذبہ چاہتا ہے جو کچھ کر گزرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور اگر یہ توفیق نہ ہو تو ایمان کی کمزور ترین سطح تو میسر ہو جو برائی کو بددعا دے سکے۔ ‘‘ [۶۳]

             ’’گفتنی نا گفتنی‘‘ کے عنوان سے شمیم حیدر کے فکاہیہ مضامین پر مشتمل کتاب کو موضوع بنایا گیا ہے۔ انورمسعود نے شمیم حیدر کا تعارف، ان کی فکر کے زاویوں، معاش و مزاج کے امتزاج اور ان کی شخصیت کے چھپے ہوئے گوشوں کو بے نقاب کر کے وہی خاکہ نگاری کی پتیاں بکھیری ہیں جو ان کی جولانیِ طبع کا خاصہ ہے۔ ’’گفتنی نا گفتنی‘‘ میں شامل فکاہیہ مضامین سے اقتباسات نے مذکورہ مضمون کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

             ’’عذرا وقار کا تجزیہ وارث‘‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے عذرا وقار کے مقالے ’’وارث شاہ:عہد اور شاعری‘‘ کے تعارف پر مبنی مضمون ہے۔ اس تحقیقی و تنقیدی مضمون میں مصنفہ کی عام فہم تحریر، تحقیقی کاوشوں اور تنقیدی اسالیب کی مختلف جہتوں پر رائے دی گئی ہے۔ ’’تقریب‘‘ کا آخری مضمون ’’قومی ترانہ:ایک بصری جہت‘‘ کے عنوان سے رقم کیا گیا ہے۔ یہ ’’مصور کتابچہ ‘‘ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کا قابلِ قدر کارنامہ ہے اور اس کے مصور صغیر احمد ہیں جنھوں نے قومی ترانے کو مختلف رنگوں اور تصویروں سے مزین کیا ہے۔ مضمون کے اختتام پر( جو کتاب کا اختتام بھی ہے) انور مسعود نے اشعار کی صورت میں اس کاوش کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے جس سے اس کی جزئیات کا علم بھی ہوتا ہے:

            ہوا   تبدیل  نغمہ  پیکروں  میں             کہ مصرعے ڈھل گئے ہیں منظروں میں

            صداؤں نے ردائیں اوڑھ لی ہیں                  بڑی   رنگیں  قبائیں  اوڑھ  لی  ہیں

            کہیں محراب و مسجد  کے  نظارے                  کہیں   پر  روشنی   کے  استعارے

            جمالِ  کوکبِ  شایستہ  ضو  ہے                        عجب   حسنِ   فروغِ   ماہِ   نو  ہے

            سرِ   قرطاس   مینارِ   درخشاں                            کہ   جیسے   منظرِ   شمعِ   فروزاں

            بہاروں کے طرب انگیز  دن  ہیں                  کہ چشم و  گوش  دونوں  مطمئن  ہیں

            سُنے بھی  اور  دیکھے  بھی   زمانہ             مصوّر   ہو    گیا    قومی    ترانہ

             ’’تقریب‘‘ کی سب سے خاص بات اس کا اسلوب ہے۔ کتاب کی زبان میں شعریت موجود ہے اور سیکڑوں جگہ مسجع و مقفیٰ زبان کا استعمال رعایتِ لفظی کے ساتھ مضامین کی چاشنی اور ادبیت کو دوچند کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل عبارات ملاحظہ کیجیے:

۱۔ ’’ہمارے خلاف غلط قسم کا پراپیگنڈا وہ ملک کر رہا ہے جو بظاہر آشتی کا دم بھرتا ہے اور گھر کے اندر بیٹھا چپکے چپکے بارودوں سے بم بھرتا ہے۔ ‘‘ [۶۴]

۲۔ شمیم حیدر کے فکاہیہ مضامین میں موضوعات کا بڑا تنوع دکھائی دیتا ہے۔ ان موضوعات میں نہانا بھی ہے۔ مکان کا بنانا بھی ہے۔ کھڑا کھانا بھی ہے۔ عید کا ملنا ملانا بھی ہے اور ریٹائر ہو جانا بھی ہے۔ ‘‘ [۶۵]

۳۔ ’’ہمارے ہاتھ میں ہمارے ڈور نہیں اور جس کے ہاتھ میں ہے اس پر کسی کا زور نہیں۔ ‘‘ [۶۶]

۴۔ ’’امجد کھانے پینے کے سلسلے میں پرہیز سے بڑی پرہیز کرتا ہے۔ کھانے کی میز پر کسی قسم کی دال بھی موجود ہو تو کھانے کو بڑا مدلل قرار دیتا ہے۔ ‘‘ [۶۷]

۵۔ ’’ المیہ یہ ہے کہ جو ممالک اسلامی کانفرنس میں ہماری حمایت میں ہاتھ اٹھاتے ہیں اقوامِ متحدہ میں پہنچ کر ہماری حمایت سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔ ‘‘ [۶۸]

۶۔ ’’وہ ایک نیا اندازِ تغزل لے کر آیا ہے۔ جس میں نرمی بھی ہے اور دلگرمی بھی۔ ‘‘ [۶۹]

            تقریب کے تمام مضامین انور مسعود کے منفرد اسلوب کے ساتھ دنیائے تحقیق و تنقید میں ان کی آمد کا اعلان کرتے ہیں اور ایسا نظر آتا ہے کہ اگر وہ میدان تحقیق کی جانب توجہ دیں تو اس فن کی قسمت بھی جاگ اُٹھے گی۔

۷۔    اِک دریچہ، اک چراغ

            انورمسعود کا اردو زبان میں سنجیدہ شاعری کا پہلا مکمل مجموعہ ’’اِک دریچہ، اک چراغ‘‘ کی صورت میں ۲۰۰۰ء کو جلوہ گر ہوا۔ اس کی جدید تر اشاعت ۲۰۰۸ء میں ہوئی جس کے سرِ ورق کے مصوّر خالد رشید ہیں اور خطاطی محمد علی زاہد نے کی ہے۔ اس کا انتساب ’’عاقب، روشین اور زنیبدہ‘‘ کے نام ہے۔ ’’تمہید‘‘ کے نام سے اس کا پیش لفظ انور مسعود نے لکھا ہے۔ اس مجموعے میں شامل غزلیات، قطعات اور نظمیں اپنے خالق کے فن کی سحر کاری کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ ’’ اِک دریچہ، اک چراغ‘‘ کی سنجیدہ شاعری پر تفصیل، مقالہ کے باب چہارم میں ’’انور مسعود کی سنجیدہ شاعری ‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔

۸۔     شاخِ تبسم

            یہ جدید طنزیہ و مزاحیہ شعرا کی شاعری کے سنجیدہ مطالعہ پر مبنی نثری کتاب ہے۔ ’’شاخِ تبسم‘‘ پہلی بار ۲۰۰۰ء میں منظرِ عام پر آئی۔ سرِ ورق کے مصور خالد رشید ہیں اور دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد نے اسے شائع کیا۔ اس میں بارہ(۱۲) معروف شعرا کی خدمات کے جائزے کے ساتھ ان کے کلام سے انتخاب کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جن شعرا پر مضامین رقم کیے گئے ان میں ’’سیّد محمد جعفری، نذیر احمد شیخ، ضمیر جعفری، دلاور فگار، سرفراز شاہد، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، نیاز سواتی، امیر الاسلام ہاشمی، اسد جعفری، چونچال، ڈاکٹر صابر آفاقی اور انور مسعود‘‘ شامل ہیں۔ ’’تفصیل کا اجمال‘‘ انور مسعود کا مذکورہ کتاب کے تعارف پر لکھا گیا پہلا مضمون ہے۔ اس میں اردو ادب میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’’شاخِ تبسم‘‘ کے متعلق انور مسعود لکھتے ہیں :

 ’’ ’’شاخِ تبسم‘‘ آزادی کے بعد سے اب تک کے قابلِ ذکر مزاحیہ شعرا کا تذکرہ ہے۔  ان شعرا کے ہاں موضوعات کا کینوس خاصا وسیع دکھائی دیتا ہے۔ اس میں ملکی سطح پر سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور اخلاقی بدحالی کا جائزہ بھی ہے، فنونِ لطیفہ کی بعض  Funnyکیفیات پر تبصرہ بھی، بین الاقوامی سطح پر استعمار، استحصال اور استکبار کی کریہہ صورتوں کی نشاندہی بھی اور خالص مزاح کی عمدہ مثالیں بھی۔ ان شعرا نے تقریباً سبھی معروف اور متدِ اوّل اصنافِ سخن (قطعہ، مسدس، پابند نظم، نظمِ آزاد اور ہائیکو وغیرہ) کو وسیلہ اظہار بنایا ہے۔ چار مصرعوں کے قطعہ کو بالخصوص اس دور میں بڑا فروغ اور پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۷۰]

             اس کتاب میں، جن اہم مزاحیہ شعرا پر مضامین موجود نہیں ہیں ان کی بابت مختصر رائے کو ’’تفصیل کا اجمال‘‘ میں سمو دیا گیا ہے۔ ایسے شعرا میں مرزا محمود سرحدی، ضیاء الحق قاسمی مرحوم، پروفیسر عنایت علی خان، پروفیسر طہٰ خان، اطہر شاہ خان، مسٹر دہلوی مرحوم، وحید آغا، خالد عرفان، زاہد فخری شامل ہیں۔ انور مسعود نے جس شخصیت کے فن پر پہلا مضمون لکھا، وہ سیّد محمد جعفری ہیں۔ اس کا عنوان ’’ظریفانہ شاعری کے قراقرم کا کے۔ ٹو‘‘ ہے۔ تحقیق کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اقتباسات کے اہتمام کے ساتھ مضامین کی صورت گری کر کے ان کی اہمیت دوچند کی گئی ہے۔ سید محمد جعفری کے بارے میں لکھے گئے مضمون کی جامعیت صرف ایک اقتباس سے دیکھیے:

 ’’جس شخص کی نظر میں فارسی کے مشاہیر کا کلام ہو۔ لفظ کی صوتی، معنوی اور تصویری پرتوں کو پہچانتا ہو۔ بڑی لطیف حسِ مزاح سے بہرہ ور ہو۔ روحانی طور پر غالب اور اقبال سے بیعت رکھتا ہو اور ان کے کلام کی نزہتوں کا شناسا ہو، اس کے کلام میں کوئی جھول کیونکر ہو گا۔ سید محمد جعفری کے حسنِ کلام کو تین لفظوں میں بخوبی بیان کیا جا سکتا ہے یعنی شستہ، شائستہ اور شگفتہ۔ ‘‘ [۷۱]

            دوسرا مضمون نذیر احمد شیخ کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے پوشیدہ زاویوں کو پردۂ اخفا سے نکال کر صفحۂ قرطاس پر لاتا ہے۔   نذیر احمد شیخ کی شاعری پر گفتگو کے دوران کئی نئی معلومات سے آشنائی ہوتی ہے۔ مضمون کے اختتام پر نمونۂ کلام سے اہم نوادرات موجود ہیں۔ ’’شاخِ تبسم‘‘ کا تیسرا مقالہ ’’ضمیر بمقابلہ ضمیر‘‘ کے عنوان سے سیّد ضمیر جعفری کے فن و شخصیت کو بے نقاب کرتا ہے۔ انتخابِ کلام میں ضمیر جعفری مرحوم کی معروف نظموں او غزلیات کو شامل کی گیا ہے۔ ان سے انور مسعود کے خصوصی تعلقات استوار رہے اور مقالے میں اس کے کئی اشارے ملتے ہیں۔ ان کی شخصیت کی پرتیں کھولتے وقت الفاظ کی مالائیں انور مسعود کواس طرح گھیر لیتی ہیں کہ حرفوں کے گلاب خوشبوؤں میں بس کر اپنے گرد و پیش کو معطر کر دیتے ہیں۔ ایسی ہی معطر فضاؤں سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:

 ’’ضمیر ضمیر ہے بالکل اسی طرح جیسے لاہور لاہور ہے۔ لاہور کا ذکر میں نے اس لیے کیا ہے کہ زندہ دلی اس شہر کا طرۂ امتیاز ہے۔ ۔ ۔ ۔ ضمیر صاحب کی سنجیدہ شاعری زیادہ وقیع ہے یا مزاحیہ شاعری زیادہ قدر و قیمت کی حامل ہے۔ کیا معلوم کس گھڑی ’’ما فی الضمیر‘‘ کو ’’قریہِ جاں ‘‘ سے بھڑا دیا جائے۔ ان کی بزمیہ و رزمیہ شاعری کے درمیان کسی وقت بھی میچ ہو سکتا ہے اس لیے ان کی غزل بھی بڑی البیلی ہے اور ادھر گنر شیر خاں شیر نر شیر خاں ہے۔ ایک طرف تغزل کا لہجہ ہے تو دوسری طرف عسکری آہنگ ہے۔ ‘‘ [۷۲]

            انور مسعود، دلاور فگار پر لکھے گئے مضمون کی ابتدا ان کے علاقے بدایوں کی ادبی روایت سے کرتے ہیں۔ شکیل بدایونی اور فانی بدایونی کی شاعری پر چند جملے لکھنے کے بعد دلاور فگار کی جانب آ کر کشتِ زعفران میں ان کے مقام کا تعین کرتے ہوئے بات ان کی کراچی آمد سے شروع کی گئی ہے۔ دلاور فگار کے مزاج، ان کے تخئیل، موضوعات، مزاح کے حربوں اور قافیہ پیمائی کا شعری حوالوں کے ساتھ اجمالی جائزہ، اس مضمون کو تحقیق کے فن کا اعتبار بخشتا ہے۔

             ’’سرفراز شاہد کی شاعری۔ ۔ ۔ ۔ اک تیغِ شگفتہ نیام‘‘ مزاح الیون کے پانچویں شاعر پر لکھا گیا مضمون ہے۔ مضمون میں ممدوح کی تعلیمی قابلیت اور پیشے کو بطور خاص موضوعِ بحث بنایا گیا ہے اور ان کے سائنسی پس منظر کے باوجود شاعری کی جانب جھکاؤ پر دلچسپ پیرائے میں گفتگو کی گئی ہے۔ سرفراز شاہد کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے مختلف گوشوں کی پرکھ کے بعد ان کے کلام سے جو انتخاب دیا گیا ہے اس میں دو نظمیں، چار غزلیں اور تیرہ(۱۳) قطعات شامل ہیں۔

            درج ذیل اقتباس جس شاعر کے اعزاز میں ’’شاخِ تبسم‘‘ کا ایک منفرد باب ہے وہ شاعرِ جواں مرگ ’’نیاز سواتی‘‘ ہے۔ حسن ابدال کے قریب ٹریفک حادثے کا شکار بننے والے مانسہرہ کے ایک دور افتادہ گاؤں کا یہ عظیم شاعر ۳اگست ۱۹۹۵ء کو میدانِ طنز و مزاح کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر ابدی سفر پر چل نکلا۔ انور مسعود نے اپنے مضمون میں نیاز سواتی کی شخصی و فنی خوبیوں کو بیان کر کے اس کی خدمات کو آبِ حیات پلا دیا ہے:

 ’’۔ ۔ ۔ اس کی زعفرانی شعری تخلیقات ملکی سطح پر تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہیں۔ محکمہ بہبودِ آبادی کا یہ ملازم مشقِ سخن میں کسی وقفے کا قائل نہیں تھا۔ وہ لگاتار اور موسلا دھار لکھتا تھا  اور ایسے تخلیقی وفور کا حامل تھا کہ کبھی کُڑک نہیں ہوا۔ مزاح نگار احباب جب بھی مل بیٹھتے تو اس کی بسیار نویسی پر حیرت کا اظہار کرتے تھے۔ اس کی ناگہانی حادثاتی موت پر یہ عقدہ کھلا کہ اس کی یہ زود گوئی اسی سبب سے تھی کہ اس کے پاس وقت بہت کم تھا۔ افسوس کہ مرگِ نا گہاں سے اس کے سخن کا سیلِ رواں تھم گیا ہے۔ ‘‘ [۷۳]

            امیر الاسلام ہاشمی ’’شاخِ تبسم‘‘ کے ساتویں شاعر ہیں۔ ان پر لکھے گئے مضمون سے احساس ہوتا ہے کہ یہ ان کے شعری مجموعے کے سلسلے میں منعقد کی جانے والی کسی تقریبِ رونمائی میں پڑھا گیا ہو گا۔ اس مضمون میں بھی درج بالا مضامین کا انداز اختیار کرتے ہوئے اقتباسات سے مزین کر کے اس کو جامعیت کا جامع پہنایا گیا ہے۔ آخر میں حسبِ سابق نمونہ کلام موجود ہے۔

            اسد جعفری کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری صورتِ واقعہ کی شاعری کہلاتی ہے۔ اس پر تفصیلی شنذرہ ’’شاخِ تبسم‘‘ کے صفحہ ۲۰۵ سے ۲۲۱ پر پھیلا ہوا ہے۔ چلتن ایکسپریس، پیشہ ور ممتحن کی کہانی اور مغل کی کار جیسی نظموں کے ساتھ تین غزلیں اور اتنے ہی قطعات کو شاملِ انتخاب کیا گیا ہے۔ مضمون میں موجود شاعری کی کئی مثالیں اس کے علاوہ ہیں۔

             ’’سیالکوٹ کا واحد ظریف شاعر‘‘ اس حوالے سے اہم مضمون ہے کہ اس میں ایک غیر معروف لیکن صفِ اول کے شاعر ’’چونچال‘‘ کی شعری خصوصیات اور شخصیت کے چند پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے۔ چونچال کا مجموعہ کلام شائع ہونے کی وجہ سے ان کی شاعری زمانے کی دست برد سے محفوظ ہو چکی ہے۔ اس شاعر کی شعری خاصیتیں ایک ہی اقتباس میں یوں بیان کر دی گئی ہیں :

 ’’چونچال کے ہاں زور دار قہقہہ نہیں البتہ برق تبسم کی ایک لہر سارے کلام میں برابر دوڑ رہی ہے۔ ان کے ہاں مزاح زیادہ تر حسنِ ترکیب، حسن تشبیہ، انگریزی الفاظ کے حسن استعمال، شوخی اور غیر متوقع صورتحال سے پیدا ہوتا ہے اور اس مزاح آفرینی میں وہ انتہائی کامیاب شاعر ہیں۔ ‘‘ [۷۴]

            طنزیہ و مزاحیہ اردو شاعری میں مشاعروں کی نظامت اور مخصوص طرزِ ادا کے ساتھ موضوعات کی وسعت کے حوالے سے ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا نام معروف و مقبولِ عام ہے۔ ’’شاخِ تبسم‘‘ کے صفحات ۲۴۵ تا ۲۶۲ اسی شاعرِ خیال و جمال کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری پر قدرتِ اظہار کا بیش قیمت اور نادر نمونہ ہے۔ اس مضمون کے ایک ابتدائی نثر پارے میں ان کی سنجیدہ شاعری کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے اور شعروں کی صورت میں مثالیں دی گئی ہیں۔ مثلاً:

مری آبائی تلواروں کے دستے بیچ ڈالے ہیں

بہت مہنگے تھے یہ ہیرے جو سستے بیچ ڈالے ہیں

وہ جن پہ چل کے منزل پر پہنچنا تھا غریبوں کو

امیرِ شہر نے وہ سارے رستے بیچ ڈالے ہیں

مرے دریاؤں کا پانی اٹھا ڈالا ہے ٹھیکے پر

وہ بادل تھے جو کھیتوں پر برستے بیچ ڈالے ہیں

بھرے گھر کے لئے مشکل تھی فاقوں کی خریداری

بالآخر باپ نے بچوں کے بستے بیچ ڈالے ہیں

            آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے طنز و مزاح نگار ڈاکٹر صابر آفاقی پر لکھا گیا مضمون ان کی علمی، تحقیقی، شخصی اور فنی جمالیات کی تصاویر سے مزین ہے۔ ان کی علمی خصوصیات کے ساتھ شعری صلاحیتوں پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے انور مسعود لکھتے ہیں :

 ’’یہ بات بڑی حیرت آور ہے کہ ایک شجرِ علم و تحقیق سے شاعری کی کونپلیں کیسے پھوٹ پڑی ہیں ؟ انسانی شخصیت بھی بڑی عجیب چیز ہے کہ اس میں متضاد استعدادوں کے پنپنے کی بھی وسیع گنجائشیں پائی جاتی ہیں۔ ‘‘ [۷۵]

            کتاب کا آخری باب انور مسعود کے انٹرویو پر مبنی ہے جو ماہنامہ ’’چہارسُو‘‘ راولپنڈی میں شائع ہوا۔ اس کا اہتمام گلزار جاوید نے کیا تھا۔ اس انٹرویو میں اٹھارہ سوالوں کے جوابات شامل ہیں۔ انور مسعود کی چند اردو نظمیں، غزلیں اور قطعات آخری گیارہ صفحات پر انتخابِ کلام کے طور پر موجود ہیں۔

۹۔     میلی میلی دھوپ

            اردو زبان میں ماحولیات پر وقتاً فوقتاً لکھا جاتا رہا ہے لیکن کتابی صورت میں ماحولیات پر پہلا مکمل شعری مجموعہ لکھنے کا اعزاز انور مسعود کے نام ہے جو ’’میلی میلی دھوپ‘‘ کے عنوان سے ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا۔ سر ورق پر گاڑیاں اپنے ہمراہ دھوئیں کے بادل لیے موجود ہیں اور کٹے ہوئے درختوں کے دھڑافسردہ صورتوں کے ساتھ آنسوبہا رہے ہیں۔ سرورق کے مصور خالد رشید ہیں جب کہ مجموعے میں شامل کارٹون نما اسکیچ عباس شاہ کی مہارتِ فن کے عکاس ہیں۔ انتساب صائمہ اور عمار کے نام کیا گیا ہے۔ ’’عرضِ شاعر‘‘ کے نام سے انور ؔمسعود کا دیباچہ اور ’’ماحولیات کے موضوع پر پہلا شعری مجموعہ‘‘ کے عنوان سے امجد اسلام امجد کا مضمون ابتدائی تحاریر ہیں۔ اس ماحولیاتی شعری مجموعے کے مزاحیہ و ظریفانہ رنگوں کے ہمراہ طنز کے تیروں کی بوچھاڑ بھی ملتی ہے جو ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ماحولیاتی شعور کو عام کرنے کا سبب بھی ہے۔ اس مجموعے کا زیادہ حصہ اردو زبان میں غزلوں، نظموں اور قطعات وغیرہ پر مشتمل ہے اور پنجابی زبان میں سات صفحات پر ایک قطعہ اور تین نظمیں موجود ہیں۔ مقالہ ہذا کے باب سوم میں ’’ماحولیات‘‘ کے عنوان سے اس شعری مجموعے کی شاعری پر تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

۱۰۔    در پیش

            اردو طنزیہ و مزاحیہ قطعات، غزلیات اور منظومات سے معمور یہ شعری مجموعہ ۲۰۰۵ ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس کے سرورق کے مصوّر بھی خالد رشید ہیں اور دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد سے اس کی اشاعت ممکن ہوئی۔ انور مسعود نے اپنے اس شعری مجموعے کا انتساب ڈاکٹر توصیف تبسم کے نام کیا ہے۔ مجموعے کے صفحات کی تعداد ۱۲۸ ہے۔ شاعر نے ’’جواز‘‘ کے نام سے پیش لفظ تحریر کیا ہے۔ ڈاکٹر اسلم انصاری کا مضمون ’’مزاحیہ شاعری کا فیملی چینل‘‘ دو صفحات میں انور مسعود کے فکر و فن کو آشکار کرتا ہے:

 ’’۔ ۔ ۔ ان کے قطعات میں، جو بعض اوقات تضمین کے فن کی بہت خوبصورت مثالیں پیش کرتے ہیں، ایک حیران کر دینے والا اچانک پن ملتا ہے، جس چابک دستی سے وہ الفاظ اور مصرعوں سے غیر متوقع معانی نکال لاتے ہیں اس پر شاید وہ الفاظ اور مصرعے بھی دنگ رہ جاتے ہوں گے۔ ان کے معاشرتی طنز میں شائستگی کا پہلو ہر حال میں نمایاں رہتا ہے، انھوں نے اس خیال کو بہت فروغ  دیا ہے کہ ہنسی اور قہقہے آنسوؤں کو چھپانے کے لیے ہوتے ہیں، شاید وہ اس بات کی طرف مستقل اشارہ کرتے رہتے ہیں کہ ان کے اپنے قہقہوں کی صورت بھی مختلف نہیں، انور مسعود ایک ایسا سخن طراز ہے جو اپنی معاشرتی صورتِ حال سے ہر طرح جُڑا ہوا ہے۔ ‘‘ [۷۶]

            اس شعری مجموعے میں شامل قطعات ہنگامی حالات اور قومی و عالمی سیاسی وسماجی صورت حال کی عمیق پر چھائیں قارئین کو دکھاتے ہیں تو غزلیات اور نظمیں مستقل مسائل و مصائب اور آلام و بلیات کا درد اپنے جگر میں سموئے نوحہ گر ہیں جب کہ مزاح کی چاشنی، نشتروں کی چبھن میں زخمِ خنداں کی تصویر بنا دیتی ہے۔

۱۱۔     بات سے بات

             ’’بات سے بات‘‘ کا موسم اشاعت ۲۰۰۷ء ہے اوردوست پبلی کیشنز، اسلام آباد نے اس کو شائع کیا ہے۔ انتساب محمد جواد اظفر، گل زیبا جواد، داور، سُباتا اور عاطرہ کے نام ہے۔ یہ ۳۰نثری تخلیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ ہلکے پھلکے طنزیہ و مزاحیہ مضامین ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ریڈیو پاکستان کے لیے لکھے گئے تھے۔ ان مضامین کی زبان خالص ادبی ہے لیکن لفظوں پر انور مسعود کا اختیار اسی طرح ہے جیسے طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں حرفوں کی لگامیں ان کی مکمل دسترس میں رہتی ہیں۔ ہر مضمون کسی نہ کسی معاشرتی وسماجی مسئلے کو جامع اختصار سے پیش کرتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے باتیں نکال کر ان کی ترتیب و توازن سے بلند و بالا خیالات کا محل تعمیر کرنا انور مسعود کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور اس کتاب سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے۔

             ’’دیکھتا چلا گیا‘‘ بات سے بات کا پہلا مضمون ہے۔ اس میں ان باتوں اور واقعات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جن کو ہم عام زندگی میں بظاہر معمولی جان کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً پنواڑی کی دکان پر ماچس کی ڈبیا کا دھاگے سے بندھا ہونا، شاہراہوں کے آس پاس پانی کی سبیلوں کے ساتھ گلاس کو زنجیر بکف پانا، کریانہ کی دکانوں پر گھی کے ڈبوں کے گرد آہنی سلاخوں سے جال بُن کر ڈبوں کو تالے میں رکھنا اور پارکوں وغیرہ میں برقی بلب کے آہنی قفس کے ساتھ ننھا سا تالا۔ انور مسعود نے ایسے ہی واقعات کی جمع آوری کر کے ان کے گرد بندھی ہوئی رسیوں، زنجیروں اور تالوں کو زبان دے دی ہے اور ان کی زبانیں جب بیک وقت ہمارے ذہن کی سماعتوں پر حملہ آور ہوتی ہیں تو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ جب ایک غیر ملکی لائٹر کے ساتھ بندھی ہوئی رسی دیکھ کر مصنف سے اس رسی کا جواز پوچھتا ہے تو مصنف سٹپٹا جاتا ہے۔ پہلے وہ اسے ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے مختلف باتوں میں اُلجھاتا ہے لیکن وہ کئی باتوں کے بعد پھر وہی سوال کرتا ہے تو اس موقع پر مصنف کچھ یوں گویا ہوتا ہے:

 ’’بہرحال اتنے عرصے میں مَیں اپنی دفاعی حیثیت مضبوط کر چکا تھا۔ میں نے فوراً پوری تفصیل سے جواب دیا۔ ’’ محترم، یہ رسی اس لیے باندھی گئی ہے کہ ضرورت کے وقت لائٹر فوری طور پر دستیاب ہو جائے۔ ڈھونڈنے میں دقت نہ ہو، گاہکوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ۔ ۔ ۔ اور وقت ضائع نہ ہو۔ ‘‘ وقت کے ضائع ہونے پر میں نے  خاص طور پر زور دیا اس لیے کہ وقت کا بیش قیمت ہونا ایک عالمگیر سچائی ہے۔ میرے اس جواب پر وہ شخص مطمئن ہو گیا لیکن میرے دل میں ایک عجیب چبھن چھوڑ گیا۔ مجھ پر اس حساس لمحے میں انکشاف ہوا کہ سب سے زیادہ مشکل کام تو اپنے آپ کو مطمئن کرنا ہے۔ ‘‘ [۷۷]

            مضمون کے آخر تک آتے آتے مصنف کو یہ رسی ہر جانب بندھی دکھائی دینے لگتی ہے۔ اس کی مختلف صورتیں دیکھ کر وہ چونک چونک جاتا ہے۔ اس کو بنیان کے اندر لگی جیب کی زنجیر، رات کو چوکیدار کی ’ہوشیار باش‘ کی آواز اور مسجد کے صحن میں کنندہ یہ عبارت کہ یہاں اپنے جوتے کی حفاظت خود کریں، سب اسی رسی کی صورتیں محسوس ہوتی ہیں۔ یہ مضمون ہمارے معاشرے میں چوری جیسی قبیح عادت پر بھرپور طنز ہے۔

            دوسرا مضمون ’’ایک مشاعرہ ناروے کا‘‘ ہے۔ اس میں واقعات کے بیان کے ساتھ بات سے بات نکال کر مزاح کی کیفیت پیدا کی گئی ہے۔ لیکن کہیں کہیں مصنف کے قلم میں شدید کڑواہٹ پیدا ہو جاتی ہے اور وہ لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے شکار پر پل پڑتے ہیں۔ ایک اندازِ دگر ملاحظہ ہو:

 ’’۔ ۔ ۔ ہمارے علمائے دین ان دیاروں میں بھی اپنے تعصبات ساتھ لے کر گئے ہیں اور ان تعصبات میں اتنی شدت ہے جو بسا اوقات تشدد کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ اقبال نے حضرتِ مُلاّ کے بارے میں کتنا درست کہا تھا کہ۔ ۔ ۔ خوش نہ آئیں گے اسے حورو شراب و لبِ کشت۔ اس لیے کہ۔ ۔ ۔ بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت۔ ۔ ۔ صد حیف کہ واعظ اپنا منھ اس طرح کھولے کہ مسجد کے دروازے پر تالا پڑ جائے!‘‘ [۷۸]

            اسی طرح کے اٹھائیس(۲۸) مزید مضامین سے مزین ’’بات سے بات‘‘ اردو نثر میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ اس میں شامل مضامین کے عنوانات درج ذیل ہیں :

            ۱۔         دیکھتا چلا گیا                                 ۲۔        ایک مشاعرہ ناروے کا

            ۳۔        ہر کوئی نمبردار                             ۴۔        عیادت مند

            ۵۔        کرایہ دار                                   ۶۔        چھوٹے بڑے

            ۷۔        مسقط میں ایک مشاعرہ                  ۸۔        موسمی پیش گوئی

            ۹۔         گراں فروش                               ۱۰۔       مالک مکان

            ۱۱۔        بسکہ دشوار ہے سفر کرنا                 ۱۲۔ پروفیسر بخشی علی انور کی علامہ اقبال سے ملاقاتیں

            ۱۳۔       نام بدلنے سے تقدیر بدل جاتی ہے   ۱۴۔       بھاگم بھاگ

            ۱۵۔       جس کی لاٹھی۔ ۔ اس کی بھینس       ۱۶۔       ملاقاتی

            ۱۷۔      شاعر اور شجر                               ۱۸۔       ملاوٹ

            ۱۹۔       کچھ لطیفے شاعروں اور مشاعروں کے            ۲۰۔     آواز دوست

            ۲۱۔       اُمورِ داخلہ                                 ۲۲۔      کار

            ۲۳۔      یوں نہ بھی ہوتا تو کیا ہوتا               ۲۴۔      کبیرا۔ ۔ ۔ اسلام آباد میں

            ۲۵۔      چوریاں                          ۲۶۔      ہاتھی کے دانت

            ۲۷۔     گٹّر                               ۲۸۔      راز

            ۲۹۔      باتیں روزمرہ کی              ۳۰۔      رائی کا پربت:پربت کی رائی

            ان تیس(۳۰) مضامین کی حامل یہ کتاب صرف ۱۳۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے مضامین جہاں طبیعت کو شاداں و فرحاں کرتے ہیں وہاں اس کا لفظ لفظ شدید چبھن کا احساس بھی پیدا کرتا ہے۔

۱۲۔    روز بروز

            یہ شعری مجموعہ اخبار میں روزانہ شایع ہونے والے قطعات پر مشتمل ہے۔ اس کے نام ’’روزبروز‘‘ کی وجہِ تسمیہ بھی یہی ہے۔ مجموعے کے ابتدایئے میں انور مسعود لکھتے ہیں :

 ’’اپریل ۲۰۰۵ء کے آخری ہفتہ میں مجھے روزنامہ ’جناح‘ کے لیے روزانہ ایک قطعہ لکھنے کے لیے دعوت دی گئی۔ میں نے یہ دعوت بہ خوشی قبول کر لی اور اس کام کا آغاز کر دیا۔ یہ سلسلہ ۳ نومبر ۲۰۰۸ء تک جاری رہا(اس کے بعد انور مسعود نے روزنامہ’ایکسپریس‘ میں قطعات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا)۔ [۷۹]

            ۲۳۲ صفحات کی حامل یہ کتاب پہلی مرتبہ ۲۰۱۰ء میں شایع ہوئی۔ اسے دوست پبلی کیشنز نے اسلام آباد سے شایع کیا۔ قیمت تین سو روپے ہے۔ کتاب کا انتساب ’’عوام کے نام‘‘ ہے۔ اس شعری مجموعے میں ساری شاعری قطعات کی ہیئت میں ملتی ہے، اس لیے ہم بجا طور پر اسے قطعات کا مجموعہ کہہ سکتے ہیں۔ اس میں شامل قطعات کی تعداد چار سو چھیاسٹھ ہے۔

            روز بروز میں شامل قطعات ملکی اور عالمی واقعات ومسائل کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہ زیادہ تر ہنگامی صورتِ احوال کے تذکروں اور مشاہدات پر مبنی ہیں۔ ان قطعات میں سے چند کے عنوانات درج ذیل ہیں :

            اس طرح تو ہوتا ہے، کہو آمین، احسانِ عظیم، ستاون سال گذرے، تحمل، جدیدیت، ریلوے کا نظام، حقائق، تدبیر، درسِ حیاتِ قائد اعظم، احتیاط، سمجھوتا، امریکی ایئر پورٹ پر پاکستانی، تعطیل در تعطیل، بلوچستان، عید کا تہوار، اسرائیل سے رابطہ، زلزلہ، استقبالِ رمضان، کالا باغ ڈیم۔ روز بروز سے صرف تین منتخب قطعات ملاحظہ ہوں :

امریکہ اور ہم

ہے مدّت سے یہی اس کا رویہ

ہم اس کے اس رویے کے ہیں عادی

کبھی اس نے چھڑی ماری ہے ہم کو

کبھی اس نے ہمیں گاجر کھلا دی

                                                                        [۶فروری ۲۰۰۶ء]

کمر پر بوجھ

اس کا اندازہ ذرا سا بھی نہیں سرکار کو

بوجھ لوگوں کی کمر پر کس قدر ڈالا گیا

پھر خبر آئی بلائے نا گہانی کی طرح

پھر اضافہ گیس کے نرخوں میں کر ڈالا گیا

                                                                        [۲۷ مئی ۲۰۰۶ء]

مسئلہ کشمیر

برف کتنی جم گئی اس مسئلے کے اردگرد

دوستو اس برف کو اب تو پگھلنا چاہیے

سرد مہری ختم ہونی چاہیے اس ضمن میں

کوئی اس کا منصفانہ حل نکلنا چاہیے

                                                                        [۲۹ جنوری ۲۰۰۷ء]

            درج بالا کُتب کے علاوہ انور مسعود کے انٹرویوز کی ایک بڑی تعداد مختلف قومی و بین الاقوامی رسائل و جرائد میں شائع ہو چکی ہے۔ ان میں سے اہم انٹرویوز کی تفصیل درج ذیل ہے:

نمبر شمار       مجلہ                              مقام                             میزبان                   تاریخ

۱۔         روز نامہ ’’جنگ‘‘             لندن، انگلستان               ظفر تنویر           ۱۷ جولائی ۱۹۹۶ء

۲۔        روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘   اسلام آباد                      راشد حمید           یکم اکتوبر ۱۹۹۶ء

۳۔        ماہنامہ ’’چہار سُو‘‘            راولپنڈی                       گلزار جاوید         مارچ، اپریل۱۹۹۷ء

۴۔        سہ ماہی ’’فنون‘‘ لاہور                            شاہین مفتی         جنوری تا اپریل ۲۰۰۳ء

۵۔        ماہنامہ ’’دنیائے ادب‘‘     کراچی                           اوجِ کمال           اگست ۲۰۰۶ء

۶۔        روزنامہ ’’ڈان‘‘ اسلام آباد                      نصیر احمد            ۲۳اکتوبر۲۰۰۸ء

            انور مسعود کی شخصیت اور فن پر کئی رسائل نے خاص نمبر شائع کیے ہیں اوربیسیوں مضامین ان کے علاوہ ہیں۔ بڑے بڑے نامی گرامی ادیبوں اور شاعروں نے ان کو خراجِ تحسین پیش کیا جس کی تفصیل اس مقالے میں ممکن نہیں لیکن ان کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ان پر لکھے گئے چند اہم مضامین کی فہرست درج ذیل ہے:

نمبر شمار  مضمون نگار                    عنوان                           مجلہ

۱۔         احمد ندیم قاسمی                پنجابی دا نظیر اکبر آبادی          ماہنامہ ’’چہار ُسو‘‘ راولپنڈی، مارچ اپریل ۹۷ء

۲۔        پروفیسرچودھری فضل حسین               ماہِ منور   ایضاً

۳۔        خورشید رضوی                    حالِ مست قلندر             ایضاً

۴۔         اسلم سراج الدین                 میلہ اکھیاں دا                  ایضاً

۵۔        عطیہ افروز                          گہر ہونے تک                  ایضاً

۶۔        سیّد ضمیر جعفری       شاعروں کا دلیپ کمار                   ایضاً

۷۔        طیب منیر               انور مسعود کی قطعہ نگاری                    مجلہ ’’مشاعرہ زندہ دلاں ‘‘ دبئی ۹۴ء

۸۔        ڈاکٹر افضل اعزاز       مائی ٹیلنٹڈ کزن                           ایضاً

۹۔         افتخار عارف                    انور مسعود ’’زندہ باد‘‘      ایضاً

۱۰۔       مسعود مفتی                             پہلی لہر                           ایضاً

۱۱۔        حکیم محمد سعید                  محمد انور مسعود کی شاعری   ایضاً

۱۲۔       محترمہ نجمہ خاں    پروفیسر انور مسعود کی سماجی حقیقت نگاری     ایضاً

۱۳۔       جمشید مسرور       انور مسعود۔ ۔ ۔ قادر الکلام ترمورتی           ایضاً

۱۴۔       کبیر احمد خان       تھری فیز جنریٹر                            ایضاً

۱۵۔       پروفیسر شریف کنجاہی       انور مسعود دے مکھانے    ہُن کیہ کریے، ۱۹۹۶ء

۱۶۔       شریف کنجاہی      نویکلی آواز                                میلہ اکھیاں دا، ۱۹۷۴ء

۱۷۔      میرزا ادیب                    عوامی شاعر                     میلہ اکھیاں دا، ۱۹۷۴ء

۱۸۔       ڈاکٹر اسلم انصاری            مزاحیہ شاعری کا فیملی چینل           درپیش، ۲۰۰۵ء

۱۹۔       امجد اسلام امجد    ماحولیات کے موضوع پر پہلا شعری مجموعہ   میلی میلی دھوپ، ۲۰۰۶ء

۲۰۔      پروفیسرڈاکٹر رؤف امیر    انور مسعود:ادبی اور سماجی حیثیات    گندھارا، ایف جی ڈگری کالج، واہ کینٹ۲۰۰۱ء

۲۱۔       محمد شعیب      انور مسعود کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا سنجیدہ مطالعہ  سہ ماہی ’’پیغام آشنا‘‘ اسلام آباد، شمارہ ۳۱، ۲۰۰۷ء

            درج بالا مضامین کے علاوہ ان کی شعری و ادبی صلاحیتوں کے اعتراف میں درج ذیل شخصیات نے خصوصی طور پر انور مسعود کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے:

۱۔         مشتاق احمد یوسفی              ۲۔        احمد فراز

۳۔        ڈاکٹر جمیل جالبی              ۴۔        مختار مسعود

۵۔        اصغر سودائی                    ۶۔        جلیل عالی

۷۔        پروفیسر احسان اکبر          ۸۔        ڈاکٹر توصیف تبسم

۹۔         عطا ء الحق قاسمی               ۱۰۔       عبدالرحمٰن عبد

۱۱۔        ڈاکٹر انور نسیم                  ۱۲۔       محترمہ بے نظیر بھٹو(بحیثیت وزیرِ اعظم پاکستان)

۱۳۔       فاروق احمد لغاری(بحیثیت صدرِ پاکستان)     ۱۴۔       میاں محمد نواز شریف(بحیثیت اپوزیشن لیڈر)

            انور مسعودکی شخصیت اور فن کے متعدد پہلوؤں پر مختلف جامعات میں اس سے پہلے تین مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ یہ سب مقالات ایم۔ اے لیول پر لکھے گئے۔ ان میں سے دو مقالات انور مسعود کی اردو شاعری پر جب کہ ایک مقالہ ان کی پنجابی شاعری کے جائزے پر مکمل ہوا۔ ان مقالات کی فہرست ملاحظہ کیجیے:

نمبر شمار              عنوان               مقالہ نگار                       جامعہ    سال

۱۔ انور مسعود کی مزاح نگاری ’’قطعہ کلامی‘‘ کے حوالے سے     نرگس بانو        نمل، اسلام آباد            ۱۹۹۷ء

۲۔ انور ؔمسعود کی اردو شاعری                 خالد نذیر بھٹی     اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور            ۲۰۰۲ء

۳۔ انور ؔمسعود دی پنجابی شاعری              نیلم قمر دین         پنجاب یونیورسٹی، لاہور     ۲۰۰۴ء

               ۱۰۔     اعزازات

            انور مسعود کو مختلف سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کو ملنے والے اہم اعزازات کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱۔         پنجاب رائٹرز گلڈ ایوارڈ                             ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ پر

۲۔        ہجرہ ایوارڈ(۱۹۹۹ء)                                ’’ہُن کیہ کریے؟‘‘ پر

۳۔        عجمی ایوارڈ                                              ’’اِک دریچہ اِک چراغ‘‘ پر

۴۔        پرائڈ آف پرفارمنس (۲۳ مارچ۲۰۰۰ء)    مجموعی خدمات کے اعتراف میں

۵۔        لوحِ اعزاز(۴ نومبر ۲۰۰۰ء)                     ایوانِ علم وفن کی طرف سے

۶۔        میاں محمد ایوارڈ(۹۹-۱۹۹۸ء)                   مجلس میاں محمد کی جانب سے

۷۔        نشانِ سپاس(اپریل ۲۰۰۹ء)                    عالمی اردو مرکز جدہ کی جانب سے

۸۔        برمنگھم ایوارڈ برائے ادب             بزمِ علم و ادب برمنگھم کی طرف سے

            ان تمام اعزازات کے باوجود انور مسعود کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ ان کی عظمت اور عزت عوام کے ہر طبقہ میں پائی جاتی ہے۔ ان کی نظمیں، قطعات اور غزلیات کے اشعار زبان زدِ خاص و عام ہیں اور کروڑوں لوگوں کے حافظے میں ان کا اندازِ سحر بیانی محفوظ و زندہ ہے۔ وہ سمندر پار تک اپنی شعری کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔

٭٭٭

                حوالہ جات

۱۔         ضمیمہ نمبر ۱ ’’گواہی نامۂ کار آموزی زبان و ادبیات فارسی، دانشگاہ سپاہیان انقلاب ایران‘‘

۲۔        ضمیمہ نمبر۲ ’’شجرہ نسب‘‘

۳۔        انور مسعود، میلہ اکھیاں دا، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۸۔ اے، خیابان سہروردی، پوسٹ بکس ۲۹۵۸،

             چودھواں ایڈیشن ۱۹۹۸ء، ص۱۱

۴۔        انور مسعود، ’’کرم بی بی عاجز‘‘ ، ماہ نامہ ’’چہار سُو‘‘ ، مدیرِ اعلیٰ:سید ضمیر جعفری، جلد ۵، شمارہ مارچ، اپریل ۱۹۹۷، راولپنڈی،         /D.1۵۳۷، ویسٹریج III، الٰہ آباد، ص۱۹

۵۔         ایضاً۔ ص۲۱

۶۔        ایضاً، ص۲۰

۷۔         ایضاً، ص۲۱

۸۔        ایضاً، ص۲۱

۹۔         ایضاً، ص

۱۰۔       ایضاً، ص

۱۱۔        ایضاً، ص

۱۲۔       ایضاً، ص

۱۳۔       خالد نذیر بھٹی، انور مسعود کی اردو شاعری، مقالہ برائے ایم۔ اے اردو(غیر مطبوعہ)، بہاول پور، اسلامیہ یونیورسٹی،  ۲۰۰۲ء، ص۵

۱۴۔       ضمیمہ نمبر۴(میٹرک کی سندکی نقل) اور ضمیمہ نمبر ۳(شناختی کارڈ کی نقل)

۱۵۔       عطیہ افروز، گہر ہونے تک، ماہ نامہ ’’چہار سُو‘‘ ، ص۵

۱۶۔       خالد نذیر بھٹی، انور مسعود کی اردو شاعری، ص۱۶

۱۷۔      محمد افضل اعزاز، ڈاکٹر، انور مسعود۔ ۔ مائی ٹیلنٹڈ کزن، دبئی، یاد گار مجلہ با اعزاز انور مسعود، منتظم اعلیٰ :

             ڈاکٹر اظہر زیدی، ۱۹۹۶ء، ص۶۰

۱۸۔       ظفر تنویر، میزبان، انٹرویو، انور مسعود، لندن، روزنامہ ’’جنگ‘‘ ۱۷ جولائی ۱۹۹۷ء، ص ۸۔

۱۹۔       عطیہ افروز، گہر ہونے تک، ماہ نامہ ’’چہار سُو‘‘ ، ص۵

۲۰۔      ضمیمہ نمبر۴(میٹرک کی سند)

۲۱۔       محمد افضل اعزاز، ڈاکٹر، انور مسعود، مائی ٹیلنٹڈ کزن، ص۶۰، ۶۱

۲۲۔      ضمیمہ نمبر۵(ایف۔ اے کی سندکی نقل)

۲۳۔ محمد افضل اعزاز، ڈاکٹر، انور مسعود، مائی ٹیلنٹڈ کزن، ص۶۱

۲۴۔ ضمیمہ نمبر ۸ ’’سرٹیفیکیٹ فرام پرائز ڈسٹریبیوشن کمیٹی‘‘

۲۵۔      ضمیمہ نمبر۶(بی۔ اے کی ڈگری کی نقل)

۲۶۔      گلزار جاوید، براہِ راست(انٹرویو:انور مسعود)، ماہ نامہ ’’چہار سُو‘‘ ، ص۱۴

۲۷۔     نیلم قمردین، انور مسعود دی پنجابی شاعری، مقالہ برائے ایم اے (پنجابی)، لاہور، گورنمنٹ

             اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی، ۲۰۰۴ء، ص۸

۲۸۔      گلزار جاوید، براہِ راست(انٹرویو:انور مسعود)، ماہ نامہ ’’چہار سُو‘‘ ، ص۱۴

۲۹۔      ضمیمہ نمبر۷(ایم۔ اے کی ڈگری کی نقل)

۳۰۔       ضمیمہ نمبر۹(کالج یونین کا لیٹر)

۳۱۔        نثار احمد قریشی، ڈاکٹر، دنیا جن سے روشن ہے، اٹک کینٹ، پنجابی ادبی سنگت، ۲۶۲۔ محمد نگر، مرزا روڈ،

            مارچ ۲۰۰۳ء، ص۹۲

۳۲۔      ایضاً، ص۹۳

۳۳۔     ایضاً، ص۹۴

۳۴۔      ایضاً، ص۹۴، ۹۵

۳۵۔      ایضاً، ص۹۵

۳۶۔      ایضاً، ص۹۷

۳۷۔     رؤف امیر، پروفیسر، انور مسعود:ادبی اور سماجی حیثیات، مشمولہ گندھارا(شخصیت نمبر)، مدیر:نوید انجم، واہ کینٹ ، فیڈرل گورنمنٹ ڈگری کالج برائے طلباء،         ۲۰۰۰۔ ۲۰۰۱ء، ص۲۶

۳۸۔     نیلم قمر دین، انور مسعود دی پنجابی شاعری، مقالہ ایم۔ اے پنجابی، ص۱۰

۳۹۔      مکالمہ راقم از انور مسعود، اسلام آباد، I-9/1، ۱۶ /اکتوبر۲۰۰۸ء

۴۰۔      مکالمہ راقم از جواد اظفر، اسلام آباد، I-9/1، ۱۹ مارچ ۲۰۰۹ء

۴۱۔       احمد ندیم قاسمی، پنجابی دا نظیر اکبر آبادی، مشمولہ میلہ اکھیاں دا، انور مسعود، ص۱۷

۴۲۔      میرزا ادیب، عوامی شاعر، مشمولہ میلہ اکھیاں دا، انور مسعود، ص۲۲

۴۳۔     مشتاق احمد یوسفی، سادگی و پُرکاری، مشمولہ غنچہ پھر لگا کھلنے، انور مسعود، اسلام آباد، ، دوست پبلی کیشنز، ۸۔ اے، خیابان سہروردی، پوسٹ بکس ۲۹۵۸، تیسرا ایڈیشن۱۹۹۹ء، ص۱۵

۴۴۔     طیب منیر، انور مسعود کی قطعہ کلامی، یاد گار مجلہ با اعزاز انور مسعود، مشاعرہ زندہ دلاں، منتظم اعلیٰ اظہر زیدی،  دبئی، ۱۹۹۶ء، ص۷۲، ۷۳

۴۵۔     جمیل جالبی، ڈاکٹر، فلیپ، فارسی ادب کے چند گوشے، انور مسعود، لاہور، گورا پبلشرز(پرائیویٹ لمیٹیڈ)،   ۲۵۔ لوئر مال، ایڈیشن دوم، ۱۹۹۷ء

۴۶۔      انور مسعود، فارسی ادب کے چند گوشے، ص۹

۴۷۔     مرزا سلیم بیگ، پروفیسر، کُتب انسائکلو پیڈیا، ماہنامہ دنیائے ادب، کراچی، سی بی ۴۵، شاہ فیصل کالونی،

              اگست ۲۰۰۶، ص۴۶

۴۸۔     افتخار عارف، فلیپ، غنچہ پھر لگا کھلنے، انور مسعود

۴۹۔      احمد فراز، فلیپ، ہُن کیہ کریے، انور مسعود، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۸۔ اے، خیابان سہروردی،  پوسٹ بکس ۲۹۵۸، دوسرا ایڈیشن ۱۹۹۸ء

۵۰۔      انور مسعود، تقریب، لاہور، گورا پبلشرز(پرائیویٹ) لمیٹڈ، ۲۵۔ لوئر مال، اشاعت اوّل۱۹۹۷ء، ص۹

۵۱۔       ایضاً، ص ۲۰، ۲۱

۵۲۔      ایضاً، ص ۳۵

۵۳۔     ایضاً، ص ۴۹

۵۴۔     ایضاً، ص ۵۳، ۵۴

۵۵۔     ایضاً، ص ۷۹

۵۶۔      ایضاً، ص ۹۱

۵۷۔     ایضاً، ص ۱۱۷

۵۸۔     ایضاً، ص ۱۲۹

۵۹۔      ایضاً، ص ۱۴۰

۶۰۔      ایضاً، ص ۱۵۱

۶۱۔       ایضاً، ص ۱۶۲، ۱۶۳

۶۲۔      ایضاً، ص ۱۷۱

۶۳۔      ایضاً، ص ۱۸۷

۶۴۔      ایضاً، ص ۱۶۶

۶۵۔      ایضاً، ص ۲۰۲

۶۶۔      ایضاً، ص ۸۴

۶۷۔     ایضاً، ص ۰۱ا

۶۸۔      ایضاً، ص ۱۲۴

۶۹۔      انور مسعود، شاخِ تبسم، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۸۔ اے، خیابان سہروردی، پوسٹ بکس ۲۹۵۸،

            اشاعت اوّل ۲۰۰۰ء، ص۹

۷۰۔     ایضاً، ص۲۱

۷۱۔      ایضاً، ص۶۸، ۶۹

۷۲۔     ایضاً، ص۱۵۵

۷۳۔     ایضاً، ص۲۳۱

۷۴۔     ایضاً، ص۲۶۳

۷۵۔     انور مسعود، درپیش، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۸۔ اے، خیابان سہروردی، پوسٹ بکس ۲۹۵۸،

            اشاعت اوّل، ۲۰۰۵ء، ص۱۶

۷۶۔     انور مسعود، بات سے بات، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۸۔ اے، خیابان سہروردی، پوسٹ بکس ۲۹۵۸،   اشاعت اوّل۲۰۰۷ء، ص۱۲

۷۷۔      ایضاً، ص۱۵

۷۸۔     ایضاً، ص۱۷

۷۹۔      انور مسعود، روزبروز، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۲۰۱۰ء، ص۱۵

٭٭٭٭

 

 

 باب دوم: انور مسعود کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری

 

 

               ۱۔ طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا سنجیدہ مطالعہ

            انور مسعود کی طبع جواں، خوش کُن اور مزاح سے لبریز ہے، لیکن ان کا شعر سننے کے لیے جگر کو تھام کر بیٹھنا پڑتا ہے، کیوں کہ کلیجہ چھلنی کر دینے والے طنز کے تیر کسی بھی لمحہ سامع کے دل سے پار ہونے کا خدشہ بہر حال موجود رہتا ہے۔ خوش وخرم دکھائی دینے والے اس عبقری کا دل قوم و ملک کے درد سے ٹوٹا پڑتا ہے اور یہ ضروری بھی نہیں کہ ہر خوش مزاج اندر سے دل فگار نہ ہو۔ اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ ایسا شخص اپنے ماحول میں پائی جانے والی ناہمواریوں سے نفرت کرتے ہوئے، ان کو سرِ عام عریاں کر کے لوگوں کو اُن کی اپنی تصویریں دکھاتا ہے، جن پر لوگ پہلے ہنستے ہیں اور پھر پشیمان ہو کر اپنے گریبانوں میں جھانکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ’’امبڑی‘‘ کا بشیرا جب اپنے ہم جماعت اکرمے کا، ماں پر تشدد کرنے کا واقعہ منشی جی کوسناتا ہے، تو وہ دراصل معاشرے کے ہر گھر کی کہانی بڑے واشگاف الفاظ میں سب کے گوش گزار کر رہا ہوتا ہے۔ اس نظم کو سناتے ہوئے انور مسعود کی آنسوؤں میں رندھی ہوئی آواز اس کے دل کی صحیح ترجمان بن جاتی ہے اور محفل میں سسکیوں کی ڈوبتی اُبھرتی آوازیں، اس مزاح گو شاعر کے فن کا بے ساختہ اعتراف ہوتا ہے کہ وہ دل شکستہ و دلِ صد چاک ہے۔ بقول فرمان فتح پوری:

 ’’۔ ۔ ۔ جو شخص ظرافت کی پھلجھڑیاں چھوڑتا ہے اور افراد و معاشرے کی غمناکی کو لُطف و نشاط میں بدل دینا چاہتا ہے، کیا وہ شخص فی الواقع دوسروں کے مقابلے میں زیادہ خوش و خرم و آسودہ حال اور غم و آلام سے آزاد ہوتا ہے؟ تھوڑی دیر کے لیے دِل خوش کرنے اور تفریح طبع کے لیے لطیفہ گوئی کی حد تک تو اس بات کا جواب اِثبات میں دیا جا سکتا ہے، ورنہ صورتِ حال عام طور پر اس کے بر عکس ہوتی ہے۔ جسے ہم سنجیدہ ظرافت نگار یا طنزو مزاح کے حوالے سے فنکار کہتے ہیں، عموماً وہ اندر سے اوروں کی نسبت زیادہ حسّاس ہونے کے سبب زیادہ دکھی ہوتا ہے۔ سماجی ناہمواریوں اور نا انصافیوں کو طنزو مزاح کا ہدف بنانا ہی اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہدف بنانے والے کی نظر میں یہ چیزیں ناپسندیدہ ہیں۔ ان سے اسے تکلیف پہنچتی ہے۔ وہ انھیں دیکھ دیکھ کر کُڑھتا ہے، ان سے نفرت کرتا ہے اور جو لوگ ناہمواریوں اور نا انصافیوں کا شکار ہیں، ان سے ہمدردی رکھتا ہے، ان کے دُکھ کا مداوا کرنا چاہتا ہے۔ لیکن جب عملاً ایسا نہیں کر پاتا تو اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کبھی ان چیزوں کا مذاق اُڑاتا ہے، کبھی ہجوِ ملیح کا نشانہ بناتا ہے اور کبھی طنزو مزاح کے نشتر توڑتا ہے کہ اس کی نگاہ میں سماجی ناہمواریوں سے نپٹنے کی یہ بھی ایک کار گر صُورت ہے۔ اس صورت گری کی بنیاد اگر غم و غصّہ یا حقارت و نفرت پر ہوئی تو وہ ریختی، ہجو نگاری و فحش گوئی کا روپ دھار لیتی ہے۔ اور اگر اس کی بنیاد ہمدردی و غم خواری اور چارہ گری و دم سازی پر ہُوئی تو وہ شائستہ و معیاری ادب کا جزو بن کر معاشرے کے حق میں مستقل وسیلۂ اصلاح و تعمیر بن جاتی ہے۔ ‘‘ [۱]

            مزاح انور مسعود کے مزاج کا جزوِ خاص ہے۔ شعری محافل میں اپنے چہرے سے خوش و خرم اور بذلہ سنج دکھائی دینے والے اس شخص کی باتیں ادبی میلے لوٹ لیتی ہیں۔ بچے، بوڑھے اور نوجوان مرد و خواتین یکساں طور پر اس منفرد مزاح گو شاعر کی شاعری سے محظوظ ومسرورہوتے ہیں۔ انور مسعود کا یہ رنگ صرف محافل کے لیے مخصوص نہیں ہے، بلکہ نجی ملاقاتوں میں بھی ان کی خوش بیانی اپنی مثال آپ ہے۔

            انور مسعود مشاعرہ پڑھتے وقت اکثر یہ کہتے ہیں کہ میں عوامی آدمی ہوں، اس لیے عام بسوں میں سواری کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ بس میں ایسی ہی بھیڑ میں ایک آدمی اپنے بازو کو کھجلاتا ہے، تو دوسرا اس سے کہتا ہے ’’بھائی جی !ایہہ میری بانہہ جے‘‘ ۔ انور مسعود کا یہ واقعہ سنانا ایک طرف ہنسی کا باعث ہے، تو دوسری طرف عوام کے اس پورے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے، جو تمام عمر آرام وسکون کی زندگی گزارنے کے خواب دیکھتے ہوئے قبر کی دہلیز تک پہنچ جاتے ہیں۔ گاڑیوں کے یہ دھکے اُن سب مسائل کی عکاسی کرتے ہیں، جو پیدایش سے اِن کا مقدر ہوتے ہیں۔ بات صرف غور کرنے کی ہے، کہ کہیں منی بس ہمارا معاشرہ تو نہیں، جس میں کچھ لوگ بڑی تمکنت سے نشستوں پر براجمان ہیں اور زیادہ تر سروں کو جھکائے یا دروازوں پر لٹکے اختتامِ سفر کے منتظر ہیں۔ نشستوں پر گردنیں اکڑائے بیٹھنے والے غنودگی کا شکار ہیں اور ایک پاؤں پر بمشکل کھڑے ہونے والے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اور اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ سب ٹانگیں اور سب بازو اُسی ایک طبقے کے ہیں، جن کے لیے بیٹھنے والوں میں سے کوئی بھی نشست خالی نہیں کرتا۔ ’’اے مرے ہم سفر تُو میں ہے، میں تُو ہوں ‘‘ اسی پِسے ہوئے محنت کش و مزدور طبقے کا بالا دستوں سے خطاب ہے۔

            انور مسعود صرف ہنساتا نہیں، بلکہ خون کے آنسورُلانے میں بھی وہ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ان کی ظرافت میں طنز اس طرح پوشیدہ ہے، جیسے شکر میں لپٹی کونین کی کڑوی کسیلی گولیاں ہوں۔ اصلاح اور معاشرتی سدھار انور مسعود کی تمنا اور منزل ہے۔ وہ طنز کو ظرافت کا لبادہ پہنا کر عالمی سفاکی، قومی تنزل، معاشرتی بے حسی، تعلیمی پسماندگی، اخلاقی بے راہ روی، اقتصادی نا انصافی وغیرہ پر جرأت و بے باکی سے ایسے شائستہ وار کرتے ہیں کہ سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی سلامت رہتی ہے۔ ان کے فن کے ایسے معجزے ہمارے نصاب میں شامل ہو کر طنزو مزاح کی حرمت کو مالا مال کیے ہوئے ہیں اور ہنسنے ہنسانے کا یہ عمل طنزو مزاح کی اُس تعریف کا معیار ٹھہرتا ہے، جس کو محققین نے وضع کیا ہے:

 ’’۔ ۔ ۔ ہنسنے ہنسانے کا یہ عمل صرف وقتی خوش طبعی اور بے ضرر دل لگی تک محدود ہو تو عموماً اسے ظرافت کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن جب اس ظرافت کی تہ میں شعوری یا لاشعوری طور پر، کوئی دل آزارانہ یا اصلاحی مقصد پوشیدہ ہو تو اسے طنز سے موسوم کرتے ہیں۔ یہی سماجی و معاشرتی ناہمواریاں اور بے اعتدالیاں جن کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے، جب ہمدردانہ شعور اور فنکارانہ طرزِ اظہار کے ساتھ کسی خلّاق شاعر یا ادیب کے ہاتھوں، نثر یا نظم میں ظہور پذیر ہوتی ہیں تو ادبی شاہ کار بن جاتی ہیں اور کسی قوم کی ذہانت و ذکاوت اور خوش ذوقی و شائستگی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ لیکن کسی زبان و ادب میں طنزو مزاح کا یہ بلند معیار کئی ارتقائی مدارج طے کرنے اور ظرافت کی متعدد صالح و غیر صالح روایات سے گزرنے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘ [۲]

            انور مسعود کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری زیادہ تر تین شعری اصناف کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ملتی ہے۔ یہ تین اصناف قطعہ، نظم اور غزل ہیں۔ ان تینوں میں سے جس صنف میں ان کا سب سے زیادہ شعری سرمایہ موجود ہے، وہ قطعہ ہے۔ انور مسعود کی اردو شاعری کا پہلا مجموعہ صرف قطعات پر مشتمل ہے اور اسی وجہ سے اس مجموعے کو ’’قطعہ کلامی‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان کے قطعات کے چوتھے مصرعے میں تضمین و تحریف کی صورت گری کے فنکارانہ نمونے عام ہیں اور اساتذہ کے کلام سے لیا گیا کوئی مشہور اور زبانِ  زد عام مصرع تمام قطعے میں ایسی برجستگی و رنگارنگی پیدا کر دیتا ہے کہ پڑھنے اور سننے والا تا دیر موضوع اور فن کی گرفت سے نکل نہیں سکتا۔ مثلاً:

دل کی بیماری کے اِک ماہر سے پوچھا میں نے کل

یہ مرض لگتا ہے کیوں کر آدمی کی جان کو

ڈاکٹر صاحب نے فرمایا توقف کے بغیر

 ’’دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘

لطفِ نظارہ ہے اے دوست اسی کے دم سے

یہ نہ ہو پاس تو پھر رونقِ دنیا کیا ہے

تیری آنکھیں بھی کہاں مجھ کو دکھائی دیتیں

میری عینک کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

             ان کے شعری مجموعے ’’قطعہ کلامی‘‘ میں ۱۳۶ قطعات، ’’غنچہ پھر لگا کھلنے‘‘ میں ۶۱، ’’در پیش‘‘ میں ۷۷ ’’میلی میلی دھوپ‘‘ میں ۴۹ اور ’’روز بروز‘‘ میں چارسو چھیاسٹھ قطعات شایع ہو چکے ہیں۔ روز نامہ ’’جناح‘‘ اسلام آبا د میں ساڑھے تین سالوں کے دوران تقریباً ’’۱۲۷۵‘‘ قطعات شائع ہوئے۔ نومبر۲۰۰۸ء سے روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں ان کے اسی طرح کے قطعات شایع ہو رہے ہیں۔ اخبارات میں شایع شدہ قطعات ہنگامی نوعیت کے ہیں جو معاشرتی، سیاسی، اقتصادی اور اسی طرز کے موضوعات پر تبصرہ کی ذیل میں آتے ہیں۔ روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں ماہِ نومبر۲۰۰۸ء میں طبع ہونے والے ایسے ہی دو قطعات درج ذیل ہیں، جن سے اس ماہ رونما ہونے والے واقعات کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے:

اس کا بیان بھی تو ضروری ہے دوستو

یہ واقعہ ہے عشق و محبت کے باب کا

سوہنی گھڑے کے ساتھ ہے مدت سے منتظر

 بھارت  نے روک رکھا  ہے پانی چناب کا

                                                                        (۰۸نومبر۲۰۰۸ء)

ہوا  ہے   یہ  جو  امریکی  الیکشن

تفاوت  کا  حوالہ  بن  گیا ہے

یہاں  بنتا  نہیں  ہے  ڈیم کالا

 وہاں     پر     صدر     کالا      بن     گیا      ہے

                                                                        (۱۳نومبر۲۰۰۸ء)

            قطعہ انور مسعود کی پسندیدہ صنفِ شاعری ہے اور انھوں نے اپنی شاعری میں اس صنف کو بھر پوراستعمال کیا ہے۔ قطعہ نگاری اور خاص طور پر انور مسعود کی قطعہ نگاری پر ڈاکٹر طیب منیر کا تبصرہ ملاحظہ کیجیے:

 ’’قطعہ نگاری ایک مشکل فن ہے۔ چار مصرعوں میں بات کو اس طرح سمیٹنا کہ فنی تقاضے بھی مجروح نہ ہوں اور بات کے تمام رُخ، ذائقے اور زاویے اپنی تمام بلاغتوں کے ساتھ قاری تک پہنچ جائیں۔ ان(انور مسعود) کے ہاں چوتھے مصرعے کو بڑی اہمیت حاصل ہے، پہلے تین مصرعے اخفائے راز کے طور پر آتے ہیں اور آخری مصرع افشائے راز کا آئینہ دار ہے۔ بعض قطعات میں پہیلی اور کہہ مکرنی کا انداز اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۳]

            اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف ہمیشہ غزل ہی رہی ہے۔ صنف غزل اب عورتوں کے ساتھ بات چیت کی حدود پھلانگ کر حیات و کائنات کے تمام مسائل و موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ عشقِ حقیقی و مجازی، معاشرتی و سماجی رسوم و رواج، ملکی و عالمی سیاسی و ثقافتی حالات و واقعات وغیرہ جیسے موضوعات اردو غزل کی وسعت نظری میں اضافہ کر رہے ہیں۔

            انورمسعود کی طنزیہ و مزاحیہ اردو شاعری میں غزل کا کافی عمل دخل ہے۔ انھوں نے غزل میں قافیہ و ردیف کی جدت اور مضامین کے جداگانہ طرز سے احساس مزاح پیدا کیا ہے۔ مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے تقابل اور ٹکراؤ کے ساتھ جدت کی اندھا دھند تقلید پر طنز ان کی غزل میں نمایاں ہے۔ معاشرے کی بے اعتدالیاں ان کا خصوصی ہدف ہیں اور ان پر طنز کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے۔ ان کی طنزیہ و مزاحیہ غزل کا ایک نمونہ دیکھیے:

طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا

اب یہ بھی کوئی کام ہے لکھنا کتاب کا

کھایا ہے سیر ہو کے خیالی پلاؤ آج

پانی پھر اس کے بعد پیا ہے سراب کا

دیکھی ہے ایک فلم پرانی تو یوں لگا

جیسے کہ کوئی کام کیا ہے ثواب کا

شوگر نہ ہو کسی بھی مسلماں کو اے خدا

مشکل سا اک سوال ہے یہ بھی حساب کا

انور مری نظر کو یہ کس کی نظر لگی

گوبھی کا پھول مجھ کو لگے ہے گلاب کا

            عام طور پر نثر کے مقابلے میں شاعری کو ’’ نظم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس طرح ہر وہ صنف جس میں شاعری کی جا سکتی ہو، نظم کہلائے گی۔ اس کے برعکس ہیئت کے اعتبار سے نظم میں بیت، مسمط، مثلث، مربع، رباعی، قطعہ، مخمس، مسدس، ترکیب بند، ترجیع بند، معرا اور آزاد نطم شامل ہیں۔ آج کل نظم کی ایک اور قسم ’’نثری نظم ‘‘ کے نام سے زیرِ بحث ہے، جو ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہے۔ انور مسعودکے ہاں ’’پابند نظم‘‘ اور ’’آزاد نظم‘‘ کی ایک ایک مثال درج ذیل ہے :

                                    قیس بنی عامر اور لیلیٰ کی ماں             (پابند نظم)

میری لیلیٰ کو ورغلاتا ہے

تیرا مردہ خدا خراب کرے

سوکھ جائے تو بید کی مانند

کبھی تیرے نصیب ہوں نہ ہرے

تو گرفتار ہو شبے میں کہیں

کوئی تیرا نہ اعتبار کرے

تو ڈکیتی میں دھر لیا جائے

دوسروں کے کئے بھی تو ہی بھرے

کسی تھانے میں ہو تری چھترول

تجھ پہ جھپٹیں سپاہیوں کے پرے

چاہے بھرکس نکال دیں تیرا

کوئی فریاد پر نہ کان دھرے

تو کچہری میں پیشیاں بھگتے

کوئی منصف تجھے بری نہ کرے

نکلے گھر سے ترے کلاشنکوف

تو پولِس کے مقابلے میں مرے

                                    ایک جدید ترین نظم          (آزاد نظم)

                        فرشتوں نے پرچھائیاں اوڑھ لی ہیں

                        درختوں کی شاخوں پہ ناخن اُگے ہیں

                        اس آوارہ خوشبو کو زنجیر کر لو

                        کہ سَم سَم کھلے

                        وہ برگد سے لٹکی ہوئی آنکھ دیکھو

                        ادھر بھی نظر ہو

                        کہ چائے کی پیالی میں سگرٹ کی دو چار لاشیں پڑی ہیں

                        ازل سے دما دم چلی آ رہی ہے

                        مرے پیچھے پیچھے

                        یہی کان سے سونگھنے کی تمنا

                        یہی آنکھ سے چکھنے چھونے کی خواہش

                        میں ہوں سر بزانو

                        سرِ خوانِ یغما

                        لبوں پر دعا ہے

                        کہ کوئی تو آئے

                        شرابوں کو پھر شکلِ انگور دیدے

                        کبابوں کو بچھڑے میں تبدیل کر دے

                        خدا جانے کب تک

                        یہ جسموں کے ہینگر

                        نئے سوٹ لٹکائے پھرتے رہیں گے

                        اُڑا ہے غبارہ

                        تو کیسا تحیر

                        یہ کیا معرکہ ہے جو سر ہو رہا ہے

                        خلا سے خلا تک

                        سفر ہو رہا ہے

                ۲۔     فنّی خصوصیات

            طنزو مزاح صرف مشاہدے اور بیان کا نام نہیں ہے۔ یہ سنجیدہ شاعری کی نسبت جان جوکھوں کا کام ہے اور اس میں مہارت کے لیے کئی حربوں سے آگاہی اور ان کے استعمال میں کمال کی سلیقہ مندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ادب کے تمام شعبوں میں ترقی کی طرح طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے فن میں بھی بہت سی نئی خصوصیات پیدا ہوئیں۔ ان تمام خصوصیات کو برتنے اور ان پر عبور رکھنے والے شعرا ہی فنِ مزاح میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ ہنسنے ہنسانے کے مختلف روپ ہیں اور یہ سب طنزو مزاح پیدا کر کے معاشرے میں پائی جانے والی تلخیوں اور گراوٹ کو ملاحت و حلاوت میں تبدیل کرتے ہیں۔ ہنسنے ہنسانے کے روپ اور مدارج میں فرق کو ڈاکٹر فرمان فتح پوری یوں بیان کرتے ہیں :

 ’’ہنسنے ہنسانے کے مختلف رُوپ اور مدارج ہیں۔ مثلاً مسکراہٹ، قہقہہ، خندۂ زیرِ لب اور زہر خند وغیرہ مدارج کے ذیل میں آتے ہیں جبکہ ہجو، پھبتی، پھکّڑ پن، ہزل، مزاح، طنز، ظرافت، لطیفہ گوئی، رمز، ریختی، چٹکلہ بازی، بذلہ سنجی اور پیروڈی وغیرہ ہنسنے ہنسانے کے مختلف روپ اور اصطلاحی نام ہیں۔ لیکن ظرافت کا دائرہ انھی تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہر وہ بات یا عمل جس سے قاری، سامع یا ناظر کی حسِ مزاح حرکت میں آتی ہے، ظرافت کے ذیل میں آتی ہے، خواہ اس عمل یا بات کا تعلق ہنسنے ہنسانے کی رکیک سے رکیک سطح ہی سے کیوں نہ ہو۔ ‘‘ [۴]

            انور مسعود کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا توانا اسلوب فنی پختگی کی معراج پر پہنچا ہوا ہے اور زبان وبیان کی شستگی نے اس پر وہی کام کیا ہے، جو سونے پر سہاگے کا ہوتا ہے۔ ذیل میں ان کی مزاحیہ شاعری کی نمایاں فنی خصوصیات پیش ہیں :

i۔      تحریف نگاری

 ’’۔ ۔ ۔ ۔ تحریف کسی مشہور فن پارے میں جزوی تبدیلی کر کے اسے نیا مفہوم عطا کرنے کا نام ہے۔ اس کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ مثلاً اس مشہور فن پارے کا مذاق اُڑانا یا اس کے وسیلے سے ایک الگ طنزیہ مفہوم پیدا کرنا یا محض ہنسنے ہنسانے کے مقصد سے ترمیم کرنا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۵]

            انور مسعود کی مزاحیہ شاعری میں تحریف کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور انھوں نے اس حربے سے اپنی شاعری میں بہت سارا سامان اکٹھا کیا ہے۔ ان کے ہاں زیادہ تر میر، غالب اور اقبال  کے شعری فن پاروں سے نئے اور دلچسپ مطالب کا حصول ممکن بنا کر تحریف کے فن کو قابلِ تکریم بنا یا گیا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے اردو کے کئی مشہور و معروف اشعار اور غزلوں کو منتخب کیا ہے۔ تحریف کے مقصد کے لیے ایک ہی شعر یا مصرع دو دو مرتبہ بھی ان کا نشانہ ٔ تحریف بنا ہے۔ کلامِ انور سے تحریف کی ایک مثال دیکھیے:

چلو گمان کی حد سے گذر کے دیکھتے ہیں

کنویں میں کیا ہے کنویں میں اتر کے دیکھتے ہیں

وہ کہہ رہے ہیں اچھوتا سا کام کر دیکھو

سو چھے کو پانچ سے تفریق کر کے دیکھتے ہیں

اب ایسی فلم بھی شاید ہی کوئی ہو کہ جسے

اکٹھے بیٹھ کے افراد گھر کے دیکھتے ہیں

اب اس کے خال سے چلتے ہیں گیسوؤں کی طرف

سِمٹ کے دیکھ لیا ہے بکھر کے دیکھتے ہیں

فلک پر جتنے مَلک ہیں وہ اپنے چینل پر

شبانہ روز تماشے بشر کے دیکھتے ہیں

اب اور کیا سرِ بازار دیکھنا انور

کسی دُکان پہ چشمے نظر کے دیکھتے ہیں

ii۔      لفظی بازی گری

            لفظی بازی گری کی بہت سی شکلیں ہیں جن کے مناسب استعمال سے مزاحیہ شعرا نے اپنی شاعری کو پُر بہار بنایا ہے۔ انورمسعود کے ہاں اس حربے کا استعمال نہایت سلیقے سے ہوا ہے۔ زبان دانی میں مہارت کے با وصف انور نے لفظوں کو اس خوب صورتی سے اشعار کے سانچے میں ڈھالا ہے کہ وہ چلتی پھرتی صورتیں بن کر قارئین کے سامنے آ کر انھیں مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ صنعت گری، لفظوں کی تکرار، دوسری زبانوں کے الفاظ کابر محل برتاؤ، محاورات، ضرب الامثال اور لفظوں کا اُلٹ پھیر وغیرہ لفظی بازی گری کے جدید ہتھیار ہیں۔ انور مسعود اشعار میں لفظوں کے اُلٹ پھیر سے بڑے عمدہ طریقے سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پریہ قطعہ دیکھیے:

آفت کو اور شر کو نہ رکھو جدا جدا

دیکھو انھیں ملا کے شرافت کہا کرو

ہر اک لچر سی چیز کو کلچر کا نام دو

عریاں کثافتوں کو ثقافت کہا کرو

            آفت اور شر کے ملاپ سے ’’شرافت‘‘ ، کلچر سے ’’لچر‘‘ کی آمد اور کثافتوں سے ’’ثقافت‘‘ کی بازیافت، انورمسعود کے زرخیز ذہن ہی کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ محاورات کے قالب میں ہلکے سے رد و بدل اور ان کی بناوٹ میں تبدیلی کے ذریعے طنزو مزاح کی کشید بھی ان کا شوق ہے۔ مثلاً:

تیور دکاندار کے شعلے سے کم نہ تھے

لہجے    میں  گونجتی    تھی   گرانی     غرور    کی

گاہک سے کہہ رہا تھا ذرا آئنہ تو دیکھ

کس منہ سے دال مانگ رہا ہے مسور کی

فارسی سے کس قدر رکھتی ہے گہرا رابطہ

تیل کی سیال نعمت اور اس کی سیل بھی

کشورِ ایران اپنا وہ برادر ملک ہے

بولتا ہے فارسی بھی، بیچتا ہے تیل بھی

            لفظی بازی گری کے چند متفرق نمونوں سے اس حربے پرا نور مسعود کی دسترس کا اندازہ کیجیے:

جسے کہتے ہیں پنجابی میں وتّر

وہ اس مائع کو واٹر پڑھ رہا ہے

کوئی انگریز کو سمجھاؤ انور

کہ دُختر لکھ کر ڈاٹر پڑھ رہا ہے

کہا اُس نے اُردو مجھے آ گئی ہے

بہت ٹھیک جملے بنائے ہیں میں نے

مجھے ایک پانی کا لقمہ پِلا دو

پلاؤ کے دو گھونٹ کھائے ہیں میں نے

پیش ہوئے جب دونوں ملزم

یوسف رمزی، ایمل کانسی

جھٹ پٹ، جھٹ پٹ مُنصف بولا

یوسف قید اور ایمل پھانسی

iii۔ مکالماتی مزاح

            مکالماتی انداز کے توسط سے بھی شاعری میں طنزو مزاح پیدا کیا جاتا ہے۔ انور مسعود نے اردو کی نسبت ،پنجابی زبان میں اس حربے کے استعمال سے بہت زیادہ فائدہ اُٹھایا ہے۔ ان کی پنجابی نظمیں ’’امبڑی، اَج کیہ پکایے، لسّی تے چاء، انار کلی دیاں شاناں، جہلم دے پُل تے، تندور، حال اوئے پاہریا، پِٹ سیاپا، رکشے والا ‘‘ اور ’’ اَوَازار‘‘ مکالماتی انداز کے شاہ کار ہیں۔ ان کے مکالماتی شاہ کاروں میں کبھی صرف ایک کردار سے واسطہ پڑتا ہے اور کہیں مختلف کردار آپس میں گفتگو سے طنزو مزاح کی موسلا دھار بارش سے سارے منظر کو جل تھل کر دیتے ہیں۔ نظم ’’انار کلی دیاں شاناں ‘‘ میں شاعر خود بھینس کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے اور بے زبان بھینس اپنی خاموشی کے باوجود ساری نظم میں چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ ’’امبڑی‘‘ میں ماسٹر اور بشیرا صرف دو کردار ہیں اور ان کے درمیان ایک ہی مکالمہ ہوتا ہے، جو اتنا جان دار ہے کہ قاری زبان و بیان کی لطافتوں کے باوجود اپنے آنسوؤں کی برسات میں ڈوب جاتا ہے۔ انور مسعود کی نظم ’’ایران میں پاکستانی‘‘ میں مزاح پیدا کرنے کے مکالماتی حربے کا ایک انداز ملاحظہ ہو:

اُسے اُس وقت فوری طور پر درکار تھا دھاگا

محلے کی دکاں تک اس غرض کے واسطے بھاگا

دکاں والے نے پوچھا آپ کو کیا چاہیے بھائی

طلب کس چیز کی میری دکاں پر آپ کو لائی

کہا آقا مجھے درپیش اک کارِ مرمت ہے

اور اس کے واسطے رِشتے کی ہنگامی ضرورت ہے

اُسی کی کھوج میں نکلا ہوں آقا آج میں گھر سے

اگر موجود ہے رشتہ اُٹھا لاؤ نا اندر سے

دکاں والا بہت جلد اُس کی فرمائش بجا لایا

اُٹھا اور اِک سوّیوں سے بھرا پیکٹ اُٹھا لایا

iv۔ صورتِ واقعہ سے مزاح

            طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں زیادہ تر شعری پیکر، واقعات کے مشاہدے سے جنم لیتے ہیں۔ ان واقعات کو ہو بہ ہو شعر کی صورت میں پیش کرنا ایک مشکل فن ہے، اس کے باوجود جدید مزاحیہ شعرا نے اپنی شاعری میں واقعہ نگاری کی بے شمار مزاحیہ صورتیں اُبھاری ہیں۔ واقعاتی مزاح کب پیدا ہوتا ہے؟ اس کا جواب خواجہ محمد زکریا اس طرح دیتے ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ ۔ واقعاتی مزاح اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی واقعہ بجائے خود مضحکہ خیز ہو اور اس کو مضحک بنانے کے لیے لفظی الٹ پھیر سے مدد لینے کی ضرورت نہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۶]

             انور مسعود بھی اس مزاحیہ حربے کو کثرت سے اپناتے ہیں۔

وہی تھا اس کے چہرے پر تکدر

تشنج کی گھٹا چھائی ہوئی تھی

ضروری بات پھر کرنی تھی اُس سے

اُسے پھر چھینک سی آئی ہوئی تھی

مشقت ہی کچھ ایسی تھی کہ اس کو

پسینے پر پسینہ آ رہا تھا

عجب منظر تھا اک ہوٹل میں گورا

چھری کانٹے سے پاپڑ کھا رہا تھا

v۔ تضاد و تقابل

’’مزاح نگار اکثر اوقات تضاد و تقابل کے ذریعے مزاح پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ دو متضاد چیزوں کو دیکھ کر ہنسی خود بخود پھوٹ نکلتی ہے اس لیے فن کار مزاح پیدا کرنے کے لیے اس حربے سے ضرور کام لیتا ہے۔ تضاد کو ہنسی کا محرک تسلیم کرنے ہی کا سبب ہے کہ سرکس میں کرتب دکھانے والا اپنا کمال دکھا کر چلا جاتا ہے تو جوکر اس کی نقل کر کے لوگوں کو ہنساتا ہے۔ یا اگر ایک دروازے سے دو افراد داخل ہوں جن میں متضاد جسمانی خصوصیات ہوں۔ مثلاً ایک بہت موٹا اور دوسرا بالکل دبلا ہو یا ایک بلند قامت اور دوسرا پستہ قامت ہو تو دیکھنے والے ہنسی روک نہیں سکتے۔ جب تضاد اور تقابل سے ہنسی کا پیدا ہونا لازم ہے تو مزاح و طنز لکھنے والوں کا اس حربے سے استفادہ کرنا بھی ضرور(ی)ہے۔ ۔ ‘‘ [۷]

            انورمسعود نے تضاد و تقابل کے حربے سے طنزو مزاح کے بڑے مضحکہ خیز پیکر تراشے ہیں۔ مثلاً:

راوی کا بیاں ہے کہ مرے سابقہ پُل پر

چیونٹی کوئی کہتی تھی کسی فیلِ رواں سے

بے طرح لرز جاتا ہے یہ لوہے کا پُل بھی

جس وقت بھی ہم مل کے گذرتے ہیں یہاں سے

وہ چکھ سکتی نہیں ہے ایک ماشہ بھی سموسے کا

میں کھا سکتا نہیں رتی برابر بھی شکر قندی

ترے آزاد بندوں میں مری زوجہ نہ میں مولا

نمک کی اُس کو پابندی مجھے میٹھے کی پابندی

vi۔ اپنی ذات پر طنز

            طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں سب سے مشکل کام اپنی ذات پر طنز ہے۔ اس حربے کے ذریعے بہ ظاہر اپنی ذات کو ہدفِ طنز ظاہر کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کا نشانہ افرادِ معاشرہ ہی ہوتے ہیں۔ جبر اور حبس کے ادوار میں اس حربے کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور مزاحیہ شعرا ظلم و بربریت کے مقابل کلمۂ حق کہنے کے لیے اپنی ذات کو پیش کر کے لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کرتے ہیں۔ معاصرین پر طنز کے لیے بھی یہ حربہ کارآمد سمجھا جاتا ہے۔ الغرض اپنی ذات پر طنز کے ذریعے شاعر ہمہ گیر مقاصد کا حصول ممکن بناتا ہے۔

            انور مسعود نے اپنی شاعری میں طنزو مزاح کو مؤثر بنانے کے لیے اس حربے سے بڑا کام لیا ہے۔ اپنی ذات پر طنز کرتے ہوئے وہ اپنے اِرد گرد کی اشیا، ماحول اور گھریلو زندگی پر طنز کر کے اس حربے کے کینوس کو مزید وسعت بھی عطا کرتے ہیں :

آپ کی وِگ بھی یہاں رہ گئی بتیسی بھی

اپنا سامان کسی روز اُٹھا لے جاؤ

بزم میں بیٹھ کے مت دانت نکالو انور

یوں نہ ہو دانت کے مانند نکالے جاؤ

شین اور قاف کسی طور ہو بہتر میرا

کسی حیلے میرے لہجے کی درستی ہو جائے

کس قدر صحتِ لفظی کا ہے لپکا مجھ کو

پان کھاتا ہوں کہ اردو مری شُستی ہو جائے

               ۳۔      متنوّع موضوعات

 

 

            طنزیہ و مزاحیہ شاعری اپنے ابتدائی دور میں بہت قلیل موضوعات میں سمٹی بیٹھی تھی۔ شیخ، بیوی، فیشن اور مہنگائی کے علاوہ کسی موضوع کو ہاتھ لگانا ممنوع سمجھا جاتا رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طنزیہ و مزاحیہ شعرا کو معاشرے میں پھیلی بے اعتدالیوں کا شدید احساس ہوا اور وہ ان ناسوروں پر طنز کرنے پر مجبور ہو گئے، جنھوں نے ایک بڑے طبقے کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ عوامی طبقے کی مجبوریاں، معاشی تنگ دستی، سماجی بے وقعتی وغیرہ نے ادیبوں اور شعرا کے ذہنوں کو اپنی جانب متوجہ کر کے ان کی تخلیقات کو وسیع موضوعات سے ہم کنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

            انور مسعود اُس عہد کا شاعر ہے، جب طنزیہ و مزاحیہ شاعری انسانی زندگی کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر بہت سارے چیلنجز کا سنگِ میل عبور کر رہی تھی۔ یہ سنگِ میل عبور کرنے کے لیے طنزیہ و مزاحیہ شاعری نے علاقائی اور قومی سرحدیں پھلانگ کر بین الاقوامی معاملات تک میں دخل اندازی شروع کر دی تھی۔ اس دخل اندازی نے شاعری کو سیکڑوں موضوعات کا تحفہ دیا، جس سے یہ عوام و خواص میں معتبر قرار پائی۔ انور مسعود نے طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے موضوعات کو وسعت دینے کے لیے خصوصی کردار ادا کرتے ہوئے اس کو شائستگی اور شرافت کے لبادے سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ ان کے ہاں موضوعات کی فراوانی کے بارے میں ممتاز مفتی کہتے ہیں :

 ’’انور مسعود نے طنز کا سہارا لیا ہے اور ہمارے بیمار اور جاں بلب معاشرے کی ہر دکھتی رگ سے موضوع ڈھونڈے ہیں۔ مذہب میں جاہل علما کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف، کبھی لاؤڈ سپیکر کے جبر اور کبھی عید کا چاند دیکھنے کی شعبدہ بازی کے حوالے سے احتجاج کیا ہے۔ کہیں سڑکوں پر ٹریفک میں قتلِ عام پر توجہ دلائی ہے۔ کہیں دکانداروں کی فرعونیت اور گرانی کی یلغار کے خلاف دُہائی دی ہے۔ کہیں بیورو کریسی کی خدائی اور رشوت کی حاکمیت کے خلاف شکوہ ہے اور کہیں کلچر کے نام پر لچر پن پر تین حرف بھیجے ہیں۔ ‘‘ [۸]

i۔       معاشرت وسماجیات

            ہمارے ہاں تہذیب، ثقافت، معاشرت، سماجیات اور کلچر وغیرہ کو ایک ہی معنی میں استعمال کیا جا تا ہے۔ یہ سب اپنے اندر ایک وسیع معانی کا سمندر سموئے ہوئے ہیں۔ کچھ فرق کے ساتھ ان سب الفاظ کا مطلب زندگی گزارنے کا عمل، اس کی ترقی، لوگوں کے رویّے، مروجہ علوم و فنون، عقائد، تصوّرات، مزاج، فکر، قانون، اخلاقیات، خیالات، سوچ، رسم و رواج اور رہن سہن کا انداز وغیرہ لیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ سب الفاظ اپنے اپنے الگ معانی کے حامل ہیں، اگرچہ ان میں بہت معمولی فرق ہے۔ تہذیب کی کئی تعریفیں بیان کی گئی ہیں مثلاً :

 ’’۔ ۔ ۔ کوئی قوم اجتماعی طور سے جن عادتوں کو اپناتی ہے یا جو طرزِ عمل اختیار کرتی ہے وہی طرز عمل آہستہ آہستہ رقیق ہو کر معاشرے کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنے لگتا ہے اور تہذیب کہلاتا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘ [۹]

            مختلف اقوام کی تہذیب ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ آزادی سے پہلے مسلمانوں اور ہندوؤں کے اکٹھے رہنے کے باوجود ان کی سوچ، فکر، عقائد اور رسوم و رواج وغیرہ میں تضاد نے ان کو الگ الگ رہنے پر مجبور کیا، کیوں کہ ان کی تہذیب ایک دوسرے سے مختلف تھی۔ مسلمان طویل عرصے تک ہندوستان کے حکمران رہے، لیکن ہندو مسلم تہذیب و ثقافت اتنے طویل عرصے میں بھی مکمل طور پر مشترک نہ بن سکی۔ انگریزوں کے قبضے کے بعد ایک تیسری تہذیب ہندوستان میں وارد ہوئی، جو پہلے سے موجود دونوں تہذیبوں سے جدا تھی۔ مسلم تہذیب نے اپنی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے جب کوئی اور تدبیر نہ پائی تو الگ وطن کا مطالبہ کر دیا، تاکہ اپنی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کرنے کے ساتھ اس کو پروان چڑھایا جا سکے۔ مسلمانوں کے جان و مال کی قربانیاں رنگ لائیں اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کی صورت میں ایک الگ مملکت کا وجود عمل میں آیا۔ حصول پاکستان کے بعد اپنی تہذیب اور کلچر کو آزادی کے ساتھ ترقی دینا ساری قوم کا فرض تھا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ ابتدائی چند سالوں ہی میں معاشرے میں اپنی اقدار اور مذہب سے دوری نے جڑیں پکڑ لیں، وحدت کا جذبہ کمزور پڑنے لگا، جس کی وجہ سے تہذیبی خلا پیدا ہوتا چلا گیا۔

            ایسے ہی معاشرے میں انور مسعود نے اپنی شاعری کا چراغ روشن کیا، جو اپنی روایات، تاریخ اور تہذیب سے دور ہو رہا تھا۔ اخلاقیات کا تصوّر اپنے معنی بدل رہا تھا اور دیسی ثقافت پر تابڑ توڑ حملے ہو رہے تھے۔ جب سنجیدہ کلمات اور نصیحتیں سننے کے لیے کوئی تیار نہ ہو، تو اس کو اسی کی زبان میں سمجھایا جا سکتا ہے۔ انور مسعود کی شاعری قوم کو ایک سچی اور کھری راہ دکھاتی ہے، جس پر چل کر ہمارا معاشرہ ذلت و خواری کی دلدل سے نکل کر انھی روایات کا امین ثابت ہو سکتا ہے، جن پر چل کر ہمارے اسلاف نے دنیا پر حکومت کی اور اب ان کے اخلاق کو غیروں نے اپنا کر ہمیں زیر کر رکھا ہے۔ انور مسعود نے اجتماعی شعور واحساس کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے عہد کے عوام کی کرداری تعلیم کا فریضہ انجام دے کر اپنی شاعری کو قومی شاعری کی صف میں لا کھڑا کیا ہے اور ایسی ہی شاعر ی کو قومی شاعری کہا جاتا ہے، جو صرف گذشتہ روایات کی گمشدگی کا ماتم کرنے ہی نہ بیٹھ جائے، بلکہ ان روایات کا رشتہ اپنے عہد سے جوڑ کر افراد کی ذہنی تربیت کا بھی اہتمام کرے۔

            انور مسعود نے سنجیدگی کے بجائے طنزو مزاح کو سامانِ نصیحت بنایا، جس کو دیگر مزاح گو شعرا کی طرح پذیرائی ملی۔ تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں کافی وسعت ملتی ہے۔ سوچی سمجھی سازش کے تحت معاشرے میں پھیلائی جانے والی بے حیائی، خواتین کی بے پردگی، اسلام کے خلاف لوگوں کا طرز عمل وغیرہ انور مسعود کے خاص موضوعات ہیں۔ اخلاقیات اور اسلامی اقدار سے دوری کا ماتم درج ذیل چند قطعات میں واضح ہے:

روح پرور تھے دعاؤں کے مقدس زمزمے

ہر حسیں صورت جوابِ آفتاب و ماہ تھی

ایک رومانی اور اسلامی سا منظر تھا وہاں

دوستو اک فلم کی کل رسمِ بسم اللہ تھی

بہت نہیں ہے نئی طرزِ پیراہن سے گلہ

مجھے تو اس سے فقط ایک ہی شکایت ہے

بٹن وہاں ہے ضرورت نہیں بٹن کی جہاں

وہاں نہیں ہے جہاں پر بڑی ضرورت ہے

نکل آئی ہے اک ترکیب آخر

ذرا سا غور کرنے، سوچنے سے

کمر باریک ہو گی ڈائیٹنگ سے

اور ابرو موچنے سے نوچنے سے

            کوئی بھی تہذیب اور معاشرہ اپنی زبان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور تہذیب و ثقافت کی ترقی کے لیے قومی زبان کی ترقی سب سے زیادہ معاون و مدد گار ہوتی ہے۔ کسی تہذیب کو مٹانے کے لیے اس کی زبان کو کم تر ثابت کرنے کے ساتھ اس کا مقام دوسری زبانوں کو دے کر معاشرے سے اس کا تعلق کمزور کیا جاتا ہے۔ قومی تہذیب و ثقافت کے عروج کا راز ہمیشہ سے اس کی مشترکہ زبان میں مضمر رہا ہے۔ جن قوموں نے دنیا پر حکمرانی کی اور آج بھی جو اقوام ترقی کی شاہراہ پر دوسری قوموں سے آگے ہیں، انھوں نے سب سے زیادہ توجہ اپنی زبان پر دی۔ مفید علوم کو اپنی زبان میں منتقل کر کے ہر خاص وعام کے لیے معاشرے میں ترقی کی راہیں کھولی گئیں۔ اسی لیے وہ روٹی، کپڑے اور بنیادی ضروریات زندگی کے پیچھے دوڑنے کے بجائے آج دنیا کو یہ چیزیں فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی تہذیب ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتے ہوئے معاشرے کے لیے مسرت و شادمانی کا باعث ہے۔ انھوں نے زبان کو تیسرے درجے کی چیز سمجھنے کے بجائے اس کو ہر ترقی کی بنیاد قرار دیا ہے، جس کی وجہ سے ان میں اتحادو اتفاق اور ان کے طرز عمل میں مثبت پیش رفت ملتی ہے۔

            قیامِ پاکستان کے وقت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہو گی۔ اس کے برعکس حکمران اور بالادست طبقے نے اردو زبان کے ساتھ معاندانہ رویہ اپنائے رکھا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ انگریزوں کے عہدِ اقتدار میں اپنی قوم کے خلاف، انگریزوں کے لیے کام کرنے والوں کو بڑی بڑی جاگیریں الاٹ کی گئیں۔ اپنے ہم وطنوں کے لہو لہان جسموں پر حویلیاں تعمیر کرنے اور خطاب پانے والے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے پاکستان کے قیام کی زبر دست مخالفت کی، لیکن ان کی امیدیں اس وقت خاک میں مل گئیں، جب عوام کی اکثریت نے غلامی کی زندگی پر لعنت بھیجتے ہوئے آزادی کو ترجیح دی۔ پاکستان ایک حقیقت کے طور پر سامنے آیا اور عامۃ الناس کے دلوں میں امیدوں کی شمعیں جھلملانے لگیں۔ مفاد پرست سیاستدانوں نے جوبدستور انگریزوں کی ذہنی غلامی میں جکڑے ہوئے تھے، دولت کے بل بوتے پر ایوانِ حکومت پر قابض ہو گئے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے پاکستانی مدارس سے دور رکھا اور ناجائز کمائی کی بہتات سے ان کو یورپی ممالک کے اعلا انگریزی تعلیمی اداروں کی راہ دکھائی، جہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد یہ کالے انگریزنسل در نسل ہم پر مسلط ہوتے رہے۔ ان لوگوں کی تہذیب اور ثقافت، پاکستانی تہذیب و ثقافت سے یک سر مختلف تھی۔ مادر پدر آزادی کے ماحول میں پرورش پانے والوں نے اپنے آقاؤں کی زبان سیکھی۔ اس لیے انھوں نے قومی زبان اردو کو ترقی کے قابل نہ سمجھا اور مکمل منصوبہ بندی کے تحت معاشرے کے دیگر طبقوں سے قومی زبان کو چھیننے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ ان ذہنی غلاموں نے اپنے آپ کو عوام سے ایک مخصوص فاصلے پر رکھا اور ان کے مسائل کے حل کو ایک طرف رکھ کر ہمیشہ مصائب کی نئی نئی راہیں نکالیں، جس سے پاکستانی قوم پر ہر شعبے میں ترقی کی راہیں مسدود ہوتی چلی گئیں۔ تہذیب و ثقافت کا جنازہ نکل کر رہ گیا۔ یہ تعلیم یافتہ طبقہ زبان کے معاملے میں آج بھی اس نظریے کا حامی ہے کہ انگریزی زبان سیکھے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا، یہ صرف زبان سے نہیں بلکہ تمام تہذیبی اور مذہبی روایات سے بغاوت کا پیش خیمہ ہے۔

            معاشرے میں انگریزی زبان کی فعالیت اور اس کے نقصانات کا اندازہ ہر ذی شعور کو ہے۔ انور مسعود نے اپنی شاعری میں قومی زبان کی اہمیت اور انگریزی زبان کی بے جا تقلید پر طنز کے شدید وار کیے ہیں۔ ان اشعار کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ فرنگی زبان کے پھیلاؤسے معاشرے کا کوئی ایک پہلو ہی نہیں، بلکہ ہر فرد متاثر ہوتا ہے۔ یہ تہذیب  و ثقافت کو بدل کر رکھ دیتی ہے اور معاشرے کی ثقافتی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا سبب ہے۔ اردو کی بے بسی اور اس کی حمایت میں لکھنے کے ساتھ، انور مسعود انگریزی زبان کی مخالفت بلا خوف و خطر سرِ عام کرتے ہیں۔ اُن کی آخری خواہش یہی ہے، کہ کسی دن کوئی انگریز اُردو میں لکھا ہواسرکاری فارم اُٹھائے میرے پاس آئے اور درخواست کرے کہ اس کو پُر کر دیں۔ تہذیب و ثقافت کے اس اہم پہلو اور پاکستانیت کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے قومی زبان کی دربدری اور انگریزی کی منہ زوری کا احوال بہ زبانِ انور ملاحظہ ہو:

دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے

فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیے

ملتی نہیں نجات پھر اس سے تمام عمر

اچھی نہیں یہ چیز ذہن میں دھنسی ہوئی

انگلش کی چوسنی سے ضروری ہے اجتناب

 ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘

کبھی پھر گفتگو ہو گی کہ یہ سوغاتِ افرنگی

عموماً آدمی کی ذہنیت کیسی بناتی ہے

ابھی اتنا کہے دیتا ہوں انگریزی کے بارے میں

کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کمبخت آتی ہے نہ جاتی ہے

            اردو زبان سے نفرت کرنے وا لے اُردو کے رائج نہ ہونے کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ یہ ترقی میں معاشرے کی معاونت نہیں کر سکتی اور دیگر معاملات مثلاً:تعلیم، معاش، ترقی وغیرہ میں بھی اردو زبان پنپنے کے قابل نہیں ہے۔ حالاں کہ انھوں نے اس زبان کا کبھی تجربہ کیا ہی نہیں۔ پاکستان میں اردو زبان کی بے وقعتی پر انورمسعود کی نوحہ گری کے چند اور مناظر دیکھیے:

بچو یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گا

وہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہر گز نہیں سوتی

عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا

اُردو وہ زباں ہے کہ جو نافذ نہیں ہوتی

 ’’میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے‘‘

مجھ سے وطن کی طرزِ بیاں چھین لی گئی

 ’’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘

میں وہ ہوں جس سے اُس کی زباں چھین لی گئی

            روز مرہ معمولات میں پیش آنے والے انتہائی چھوٹے چھوٹے واقعات جن کو بہ ظاہر معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، ان کی اہمیت انور مسعود کے مشاہدے میں آ کر بڑھ جاتی ہے اور یہ واقعات نمایاں ہو کر افرادِ معاشرہ کو ان کی اصل صورت دکھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے معاشرے میں بزرگوں کو ہمیشہ عزت اور احترام حاصل رہا ہے، لیکن جدید دور میں جب اولاد پڑھ لکھ کر اپنے طرزِ زندگی کو پُر آسائش بنا لیتی ہے۔ کوٹھی، کار اور بینک بیلنس کے مالک بننے کے بعد ان کے دلوں سے والدین اور بزرگوں کی عزت و احترام کا مادہ ختم ہو جاتا ہے۔ بوڑھے والدین صرف گھر کے کام کاج اور نواسوں کو پالنے تک محدود کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات ملتے ہیں کہ جب دوست احباب گھر میں آئیں، تو والدین کو ان سے ملنے نہیں دیا جاتا، بلکہ دور سے ان کا تعارف نوکر کی حیثیت سے کرایا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی قدریں آہستہ آہستہ دولت کی ریل پیل میں بہتی چلی جا رہی ہیں، جن کا اظہار انور مسعود نے کھل کر کیا ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں :

بھینس رکھنے کا تکلف ہم سے ہو سکتا نہیں

ہم نے سوکھے دودھ کا ڈبّا جو ہے رکھا  ہوا

گھر میں رکھیں غیر محرم کو ملازم کس لیے

کام کرنے کے لیے اَبا جو ہے رکھا ہوا

ذرا سا سونگھ لینے سے بھی انور

طبیعت سخت متلانے لگی ہے

مہذب اس قدر میں ہو گیا ہوں

کہ دیسی گھی سے بُو آنے لگی ہے

            انور مسعود کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں روحِ عصر کی پرچھائیں بہت نمایاں ہیں۔ ان کی مزاحیہ شاعری میں عصری ثقافت کا موازنہ اس بنیادی فکر کے ساتھ کیا جاتا ہے، جو ہماری اسلامی تہذیب سے سرسبزو شاداب ہو۔ جب ثقافت کا مذہبی پہلو متاثر ہونے لگتا ہے اور صدیوں سے رائج آداب و اطوار اپنی پختگی کے باوجود ڈگمگانے لگتے ہیں، تو انور مسعود کی مزاح نگاری میں مرثیہ کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ مرکزی جزوِ ثقافت میں اخلاقیات بھی شامل ہے اور میل جول کے سبھی دھارے اسی کے تابع ہوتے ہیں۔ جدیدپاکستانی تہذیب میں اسلامی اخلاقیات کی توڑ پھوڑ کا عمل کسی ایک طبقہ کے منحرف ہونے کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اعلا سے ادنا طبقات کی جانب بہنے والی جدیدیت کی غلیظ مغربی لہریں ہی اسلامی اخلاقیات اور آداب و اطوار کوپاکستانی معاشرے سے نکال باہر کرنے کا شاخسانہ ہیں، جن میں نادانستہ طور پر بہہ کر فکر  و فن کے تمام زاویے ناپختگی کی جانب رواں دواں ہیں۔ انور مسعود ان غلیظ لہروں کا رُخ موڑ کر مرکزی اسلامی فکر کو فروغ دے کر دوبارہ اپنی مشرقی تہذیب سے رشتہ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی نفسا نفسی، خود نمائی، بے فکری، سُستی، کام چوری، رشوت، سفارش، ڈاکہ زنی، اقربا پروری، ملاوٹ، بدمعاشی، سیاسی ہیرا پھیری وغیرہ پر انور مسعود تڑپ اُٹھتے ہیں۔ جس معاشرتی برائی پر چوٹ کرتے ہیں، اس کی مکمل تصویر نگاہوں کے سامنے لا کر پہلے تو دیکھنے والے کو اس پر خندہ زن ہونے کا موقع دیتے ہیں،  لیکن جلد ہی تماشائی گھبرا کر اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ابتداًمساجد کے ہمسایہ میں آباد لوگ بڑے خوش قسمت سمجھے جاتے تھے، کہ ان کو تمام نمازیں با جماعت ادا کرنے میں بڑی آسانی رہتی تھی۔ جب سے لاؤڈ اسپیکر ایجاد ہوا، ان لوگوں پر ہر لمحہ امتحان بن کر نازل ہوتا ہے۔ اذان کے علاوہ بھی علما ا ور واعظین وقت بے وقت مسجد کے قریب بسنے والے لوگوں کوستانے کی تگ و دو میں منہمک رہتے ہیں۔ بچوں کے امتحانات، بیماروں کے آرام، دن بھر کے تھکے ہارے محنت کشوں کے سستانے کا خیال کیے بغیر، سارا سارا دن مساجد میں فرقہ ورانہ تقاریر اور نعرے بازیاں معمول بن چکا ہے۔ ایسے ہی معمولات کی مصوری انور مسعود کچھ یوں کرتے ہیں :

درپے تقریر ہے اک واعظِ گنبد گلو

لاؤڈ اسپیکر بھی اس کے سامنے موجود ہے

نیند کا طالب ہے اک بیمار بھی ہمسائے میں

 ’’کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے‘‘

            پہلی تاریخ کوسرکاری ملازمین سرکار سے تنخواہیں پاتے ہیں۔ یہ تنخواہ ایمان دار شخص کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوتی ہے۔ تنخواہ کی وصولی کے بعد مسائل کے مقابلے میں وسائل کو دیکھ کراس کی پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ پہلی تاریخ کو لگنے والی اس چوٹ کے بعد اُس کو جو ضربِ  کرب ناک لگتی ہیں، جن میں بچوں کی فیسیں، کاپیاں، کتابیں، کپڑے، جوتے، سامانِ خورد و نوش، مہمانوں کی آمد، گاڑیوں کے کرائے وغیرہ شامل ہیں ان پر سرکاری ملازم تلملا اُٹھتا ہے، مگر ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا اور یکے بعد دیگرے اُس کے سر پر پانی، بجلی، گیس اور فون کے بلوں کا وبال آن پڑتا ہے۔ انور مسعود کے بقول اتنے زیادہ بِل دیکھ کر سرکاری ملازم بلبلا اُٹھتا ہے۔ بل کے ساتھ ’’بل بلا‘‘ کی لفظی مطابقت قطعے میں مزاح کی مقدار میں کئی گنا اضافہ کا موجب بنتی ہے:

جو چوٹ بھی لگی ہے وہ پہلی سے بڑھ کے تھی

ہر ضربِ کربناک پہ میں تِلمِلا اُٹھا

پانی کا،  سوئی گیس کا،  بجلی کا،  فون کا

بِل اتنے مل گئے ہیں کہ میں بلبلا اُٹھا

            اخلاقی اقدار کے بے سروسامانی نے ہمارے معاشرے میں ملاوٹ، رشوت، سفارش اور جھوٹ جیسی لعنتوں کو عام کر دیا ہے۔ قوموں کو تباہ کرنے والی ان برائیوں پراس وقت سب نے اپنے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ انور مسعود اِن برائیوں کا قلع قمع کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ افرادِ معاشرہ کی توجہ کے لیے اُن سے مزاح کے پردے میں خطاب کرتے ہیں۔

            دودھ کا استعمال بچے، بوڑھے اور جوان سب کرتے ہیں اس لیے یہ جنس خالص ملنی چاہیے، تاکہ کسی کی صحت کو اس سے فائدے کے برعکس نقصان نہ پہنچ جائے۔ بچے اور بوڑھے کم قوتِ مدافعت کی وجہ سے ملاوٹ شدہ اشیا کے استعمال سے فوراً بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ہسپتالوں پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں بچوں اور بوڑھوں کی کثرت ملاوٹ کے عام ہونے کا راز فاش کرتی ہے۔ محکمہ خوراک کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے فوڈ انسپکٹر دیانت داری اور باقاعدگی سے اشیائے ضروریات پر نظر رکھیں، تو خالص اجناس نہ ملنے کی کوئی وجہ نہیں۔ جس ملک میں دودھ کی دس دس قیمتیں متعین ہوں اور ایک سیر دودھ کی قیمت سے ایک لیٹر مِنرل واٹر کی قیمت زیادہ ہو، وہاں ماضی کی یادیں یوں ستاتی ہیں :

آؤ اس کے اصل گورے رنگ سے

اب تصوّر میں ملاقاتیں کریں

آؤ پھر ماضی کی یادیں چھیڑ دیں

آؤ خالص دودھ کی باتیں کریں

            دودھ سے ایک قدم آگے ’’چائے کی پتی‘‘ کی طرف آئیں، تو یہاں صورت حال بد سے بدتر دکھائی دیتی ہے۔ انسانی صحت سے کھیلنے والے تاجر مضرِ صحت کیمیائی عناصر کی ملاوٹ سے خود نفع کماتے ہیں اور گاہکوں کو ہسپتالوں کی نظر کرتے ہوئے ذرا شرم نہیں کرتے:

کام کرنا ہو تو پھر کیجے ذرا ترکیب سے

کچھ نہ کچھ ہر بات میں درکار ہے ذوقِ ہنر

صرف تھوڑا سا ملاوٹ کا قرینہ چاہیئے

چائے کی پتی سے کٹ سکتا ہے بندے کا جگر

            گندم ہمارے ملک کی اپنی پیداوار ہے۔ زیادہ منافع کے لالچ میں بڑے بڑے تاجر اور سرمایہ دار چھوٹے کسانوں سے گندم خرید کر مہنگے داموں دوسرے ممالک کو اسمگل کر دیتے ہیں۔ گندم کا زیادہ حصہ باہر چلے جانے سے ملک میں اس کی قلت پیدا ہو جاتی ہے، جس سے آٹے کا بحران جنم لیتا ہے۔ اس موقع پر بھی سرمایہ دار اور منافع خور طبقہ ملاوٹ شدہ آٹا بازاروں میں لا کر عوام کی جانوں پر ظلم کرتا ہے۔ کوئی شخص اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا اور آٹے کی قلت کی وجہ سے لوگ مجبوراً ملاوٹ والا ناقص آٹا مہنگے داموں خریدتے ہیں :

یقیں کرو کہ یہ آٹا بہت ہی عمدہ ہے

سنو یہ تحفۂ نادر سنبھل کے لے جانا

اب اس سے بڑھ کے بھلا اور کیا تسلی دوں

اگر مروڑ نہ اُٹھے بدل کے لے جانا

            اسلام میں رشوت لینے اور دینے والوں کو جہنمی قرار دیا گیا ہے۔ اس واضح حکم کے باوجود رشوت کی کارستانیاں ہر جگہ اپنا کام دکھا رہی ہیں۔ رشوت دے کر بڑے بڑے کام نکلوا لیے جاتے ہیں۔ کوئی اسے نذرانے کا نام دیتا ہے اور کوئی مٹھائی کے نام پر جہنم خریدتا ہے۔ رشوت کے حوالے سے سب سے بدنام محکمہ پولیس کا ہے۔ ہر چند کہ دوسرے محکموں میں رشوت کا کاروبار پولیس سے زیادہ عروج پر ہے، مگر عام آدمی اسی محکمے سے متاثر ہوتا ہے، اس وجہ سے پولیس اور رشوت ہم معنی ہو چکے ہیں۔ رشوت کے مختلف طریقوں پر انور مسعود کی شوخیاں ملاحظہ کریں :

آپ بے جرم یقیناً ہیں مگر یہ فدوی

آج اس کام پہ مامور بھی ، مجبور بھی ہے

عید کا روز ہے کچھ آپ کو دینا ہو گا

 ’’رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے‘‘

راز داری سے یہ سب فضل و کرم ہوتا ہے

کیا عجب کل کو مرے پاس بھی کار آ جائے

اس طرح ہاتھ لگے میرے متاعِ رشوت

 ’’جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے‘‘

            سفارش کے ناسور سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ نا اہل لوگ بلند مناصب حاصل کر لیتے ہیں۔ حق دار کو اس کا جائز حق نہیں ملتا اور معاشرہ جرائم کی طرف چل نکلتا ہے۔ سفارش نے ہماری سماجی زندگی میں اپنی جڑیں بڑی گہری کر لی ہیں اور اب حق دار کو اپنے حق کے حصول کے لیے بڑے جتن کرنا پڑتے ہیں۔ تعلیم کا میدان قوموں کو دنیا میں سربلند کرتا ہے، جب اس میں بھی سفارش کا عمل دخل ہو جائے تو مصنوعی پن کے ایسے واقعات اکثر دیکھنے میں آتے ہیں، جن کا تذکرہ انور صاحب یوں کرتے ہیں :

تحسین و آفرین کی بوندیں ٹپک پڑیں

گھر پر مبارکوں کی گھٹا آ کے چھا گئی

فرزندِ ارجمند کے نمبر ہیں دل پسند

والد کی دوڑ دھوپ بڑے کام آ گئی

            جھوٹ کی آمد معاشروں میں انصاف اور سچ کو روند ڈالتی ہے۔ جھوٹے آدمی سے لوگوں کا اعتماد و اعتبار اُٹھ جاتا ہے اور اُس کی کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ انور مسعود رشوت اور جھوٹ کو ایک ہی ترازو میں تولتے ہیں :

یہی تو ہے بڑی خوبی ہماری

کہیں اس ملک میں رشوت نہیں ہے

اور اس سے بڑھ کے ہے اک اور خوبی

کسی کو جھوٹ کی عادت نہیں ہے

            کام چوری ترقی کی راہ کا سب سے بڑا پتھر ہے۔ سستی اور کاہلی، کام چوری کو جنم دے کر فرد کو معاشرے کا عضوِ معطل بنا دیتی ہیں۔ آج کا کام کل پر چھوڑنے سے اس کی ابتدا ہوتی ہے اور کرتے کرتے سب کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔ انور مسعود بڑی خوب صورتی سے کام چوروں کی نفسیات کو بیان کرتے ہیں :

لازم ہے احترام بزرگوں کے حکم کا

دل سے خیالِ حکم عدولی نکال دے

انور نہ ڈال کل پہ کبھی کام آج کا

میرے عزیز تو اسے پرسوں پہ ڈال دے

             انور مسعود کا سب سے بڑا موضوع تہذیب و تمدن اور معاشرت وسماجیات ہے۔ انھوں نے بڑی باریک بینی سے اپنے معاشرے کی خامیوں کا تجزیہ کیا ہے۔ غلط بات کو غلط کہنے کا حوصلہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے اور انور مسعود ایسی باتیں معاشرے کے منہ پر کہتا ہے، چاہے کسی کو اچھی لگیں یا بُری۔ حق بات پر ڈٹ جانا اِن کی سرشت میں شامل ہے جس نے انور مسعود کو سخن ورانِ طنزو مزاح میں نمایاں مقام پر پہنچا دیا ہے۔

ii۔ سیاسیات

            سیاسیات بہت وسیع موضوع ہے۔ انورمسعودنے اس موضوع کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں پہلی قسم قومی سیاست ہے، جو ملکی سیاست میں وراثت کے رواج، سیاستدانوں کے پارٹیاں بدلنے، بڑے بڑے دعوے کرنے، عوام کو سبز باغ دکھا کر اپنا اُلو سیدھا کرنے، الیکشن اور جمہوریت وغیرہ کا احاطہ کرتی ہے۔ دوسری قسم بین الاقوامی سیاست کی خود غرضی کا پردہ چاک کر کے حقیقتوں کی روشنی پھیلاتے ہوئے قارئین کی سیاسی بصیرت کا راستہ متعین کرتی ہے۔

            پہلے قومی سیاست کے موضوع پر کی گئی شاعری کو لیتے ہیں، جس میں قیامِ پاکستان کے بعد پیش آنے والے مختلف اہم واقعات کو صحیح معنوں میں دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا الم ناک واقعہ مشرقی پاکستا ن کے الگ ہونے کا ہے جس پر وطن پرست شعرا نے دل کھول کر آنسو بہائے۔ اس واقعے کے چند سال بعد ایک بڑے طبقے نے سقوطِ ڈھاکہ سے نظریں پھیر کر دل اور ذہنوں کو قفل لگا دیے۔ ان کی سرگرمیاں اور مشاغل اس ناقابلِ فراموش سانحے پر ایسی تھیں جن کو دیکھ کر حساس دل رکھنے والے خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔ انور مسعود نے انھی سرگرمیوں کی طرف قوم کی توجہ مبذول کرائی ہے اور ملک ٹوٹنے کے شدید دکھ کے احساس کو زندہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے:

کس طرح کا احساسِ زیاں ہے جو ہوا گم

کس طرح کا احساسِ زیاں ہے جو بچا ہے

ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چپ سی لگی ہے

اک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے

             پاکستان میں شروع ہی سے طاقت کا سرچشمہ گنے چنے خاندان رہے ہیں۔ حکومت ہو یا دولت، یہی خاندان عوام کو بے وقوف بنا کر اِن پر ہمیشہ سے مسلط رہے ہیں۔ نسل در نسل حکمرانی کرنے والے یہ شاہی خاندان قربانیاں دینے والے افراد کو اُوپر اُٹھنے کا کبھی موقع نہیں دیتے اور ذہین لوگ ساری زندگی ترقی کے خواب دیکھتے موت کے منہ میں جا گرتے ہیں۔ پاکستان کی بد حالی کے ذمہ دارسیاستدان لوٹ مار اور عوام کے نام پر حاصل کی جانے والی غیر ملکی امدادسے اپنی جائیدادوں اور بینک بیلنس میں تو بہت اضافہ کر لیتے ہیں، لیکن مفلس عوام کی حالت نہیں بدلتی۔ باپ کی جگہ بیٹا علاقے کی سیاست پر قابض ہو جاتا ہے اور کسی کا بیٹا نہ ہو تو بیٹی بھی عوام پرمسلط ہونے سے گریز نہیں کرتی:

افسوس کہ کچھ اس کے سوا ہم نہیں سمجھے

دیکھے ہیں علاقے کی سیاست کے جو تیور

’جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں ،

والد کی جگہ لینے کو آ جاتی ہے دختر

            پاکستان میں انتخابات کھیل اور مذاق بن چکے ہیں۔ ان میں حصہ لینے والوں پر کسی طرح کی پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ہر بدمعاش، قاتل، ڈاکو، لٹیرا، غاصب اور شاطر شخص حکومت میں شامل ہونے پر تیار ہوتا ہے۔ انتخابات میں سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے نام پر لاکھوں روپے فیس وصول کرتی ہیں، جسے سیاسی رشوت کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ جو لوگ سیاسی جماعتوں کویہ رشوت نہیں دے پاتے، وہ اپنے طور پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ انور مسعودکا آزاد امیدوار پر ظریفانہ تبصرہ ملاحظہ ہو:

شاعرانہ اور ظریفانہ ہو گر ذوقِ نظر

زندگی میں جا بجا دلچسپ تشبیہیں بھی ہیں

ریل گاڑی اور الیکشن میں ہے اک شے مشترک

لوگ بے ٹکٹے کئی اِس میں بھی ہیں اُس میں بھی ہیں

            جس معاشرے کے سیاستدان چور، ڈاکو اور بے ایمان ہوں، وہاں کے ووٹروں میں ہیرا پھیری کا پایا جانا کچھ عجب نہیں۔ الیکشن میں ’’ پولنگ کے عملہ سے ووٹر کی فریاد ‘‘ سارے معاشرے میں سرایت کر جانے والے ایک ناسور پر انور مسعود کی ایک کاری ضرب ہے:

غضب ہے آپ کا عملہ بڑی سُستی سے بھُگتاتا ہے لوگوں کو

حضور احساس ان کی کاہلی کا آپ نے ان کو دلانا ہے

گذارش ہے ہمارے ووٹ لے کر ہم کو فارغ کیجیے جلدی

ہمیں اس سلسلے میں دوسرے پولنگ سٹیشن پربھی جانا ہے

            الیکشن کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ آتا ہے۔ وراثتی سیاست دان جب عوام کے نمائندے بن کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں، تو بڑی بے شرمی سے اپنی پارٹیاں بدل کر اقتدار میں آنے والی جماعت کی رکنیت حاصل کر لیتے ہیں۔ ان لوگوں کو طاقت ور انتظامیہ، ملک دشمن بیرونی ایجنسیوں اور بیرونی ممالک کی حمایت حاصل ہوتی ہے، اس لیے عوام اپنے ووٹوں کی عصمت دری کرنے پر ایسے بکاؤ سیاستدانوں کے گریبانوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ اس طرح کے سیاسی لوگ اپنے مفاد کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہاتے ہیں اور منتخب ہونے پر سب کچھ مع سُود حاصل کرتے ہیں۔ جس ملک میں سیاست کا یہ چلن ہو وہاں عوامی خوشحالی و ترقی کی امید رکھنا خام خیالی ہی نہیں، بلکہ بے وقوفی ہے:

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں

گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں انسان وغیرہ

ووٹوں سے کہ نوٹوں سے کہ لوٹوں سے بنے ہے

یہ راز ہیں ایسے جنھیں کھولا نہیں کرتے

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں

اندر کی جو باتیں ہیں ٹٹولا نہیں کرتے

            معیشت کی تباہی میں بہت سارے دوسرے عوامل کی موجودگی میں سب سے بڑا کردار قرض کا ہے۔ عالمی ادارے اور بڑی طاقتیں قرض دے کر چھوٹے ملکوں کو اپنے اپنے مفادات کے شکنجوں میں بُری طرح جکڑ لیتی ہیں۔ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمران بڑی خوشی کے ساتھ قرض کی لعنت کو گلے کا ہار بناتے ہیں۔ اس رقم کی سُود در سُودواپسی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے، ٹیکسوں کی شکل میں وصول کر کے کی جاتی ہے اور خوش حالی ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے:

یہی درماں ہے میری اقتصادی تیرہ بختی کا

مرے اندر کوئی پھوٹے کرن خود احتسابی کی

مری منصوبہ بندی میں چھُپی ہے قرض کی دیمک

 ’’مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘

            انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ اور عالمی بینک جیسے سُود خور ادارے تیسری دنیا کے ممالک میں مہنگائی، بے روزگاری اور افراطِ زر جیسے بحران پیدا کر کے ان کی بنیادوں کو ہلا ڈالتے ہیں۔ عوام ان کے غلام بن جاتے ہیں اور حکمران ایسے اداروں کی ظالمانہ شرائط ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں :

تیسری دنیا میں کچھ بھی تو نہیں ہے پائیدار

ہاں مگر اک مستقل بحران پایا جائے ہے

            جب نام نہاد عوامی حکمران عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اُترتے اور حالات پہلے سے بھی دگرگوں ہونے لگتے ہیں تو وہ اپنی نا اہلیت، بے تدبیری اور بد انتظامی کا سارا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈال کر صاف بچ نکلتے ہیں۔ اس دوران میں ایسے ایسے لطیفے جنم لیتے ہیں، جو حکمرانوں کی طفلانہ سوچ کے غماز ہیں :

ہم تو بھگت رہے ہیں اُنھی کا کیا دھرا

اس واقعے میں اُن کی سیاست کا دخل ہے

بچّے کے ہاتھ سے جو دہی گر پڑا ہے آج

اِس میں تمام پچھلی حکومت کا دخل ہے

            اب سیاسیات کے دوسرے حصے ’’بین الاقوامی سیاست‘‘ کی طرف آتے ہیں۔ اس باب میں انور مسعود کے ذہن اور قلم دونوں میں بڑی روانی ملتی ہے۔ وہ بڑی بے باکی سے عالمی قوتوں پر یلغار کرتے ہیں۔ یہاں وہ ایک نڈر لیڈر کی طرح دشمن قوتوں کو للکارتے ہیں اور ان کی دوغلی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ کشمیر، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک دیرینہ مسئلہ ہے، جس پر عالمی انصاف کے ٹھیکے داروں نے مجرمانہ چُپ سادھ رکھی ہے۔ انور مسعود کے خیال میں اگر عراق کی طرح کشمیر میں کوئی تیل کا چشمہ ہوتا، تو یہ مسئلہ عرصہ پہلے حل ہوچکا ہوتا۔ کیوں کہ اس مسئلے کے حل میں کسی بڑی طاقت کو اپنا فائدہ دکھائی نہیں دیتا، اس لیے یہ اب تک لٹکا ہوا ہے:

اپنے لشکر لے کے اب تک وہ یہاں پہنچا نہیں

کچھ سبب ہو گا نا انکل سام کی تاخیر کا

انور اس وادی میں کوئی تیل کا چشمہ نہیں

اس لئے لٹکا ہوا ہے مسئلہ کشمیر کا

کس میں جرأت ہے کہ پوچھے ہم سے حملے کا جواز

بس مفاد اپنا ہمیں منظور ہے اس کھیل میں

کتنے پانی میں ہے کوئی یہ نہیں ہم دیکھتے

دیکھتے ہیں صرف یہ ہے کون کتنے تیل میں

            ہر مہذب ملک کے افراد اقوامِ متحدہ کے کردار پر تنقید کرتے ہیں۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد دنیا کے تمام ممالک کو منصفانہ اور یکساں حقوق فراہم کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔ اپنے قیام کے بعد جلد ہی یہ ادارہ طاقت ور قوتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن گیا۔ بڑی طاقتوں کو نوازتے ہوئے انھیں ویٹو کا حتمی اختیار دے دیا گیا، جس کے تحت وہ کسی بھی مسئلہ کو ویٹو کر کے ایجنڈے سے خارج کر دیتے ہیں۔ اس غیر منصفانہ حق نے اقوامِ عالم میں ’’جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس‘‘ کے تصور کو تقویت دی ہے:

تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے

اب اس لاٹھی کی زد میں جو بھی آئے سو ہمارا ہے

مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے

تمھارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے

            بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے مختلف حربے استعمال کرتی ہیں۔ ان مفادات کے لیے وہ ساری دنیا کے ممالک میں اپنے گماشتوں کے ذریعے طاقت کے مراکز پر قبضہ کرتی ہیں۔ ان کا سب سے بڑا ہدف حکومتوں میں شامل سیاستدان ہوتے ہیں، جن کے ذریعے یہ آسانی سے اپنے مقاصد حاصل کر لیتے ہیں۔ جس ملک کا حکمران ان کی بات نہ مانے اُس پر کئی طرح کا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اگر وہاں بادشاہت ہے، تو جمہوریت کا راگ الاپ کر اُس مخالف حکمران کو راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مخالف اسلامی ملک میں جمہوریت ہو، تو جمہوریت کے یہ علم بردار وہاں سے جمہوریت کا بستر گول کرنے سے نہیں چوکتے۔ ان طاغوتی طاقتوں کو اسلام کی حکمرانی ایک آنکھ نہیں بھاتی:

اُنہیں ضد ہے ، ہوا اسلامیوں کی

کسی گاڑی کے ٹائر میں نہ ہووے

انھیں جمہوریت اچھی لگے ہے

اگر یہ الجزائر میں نہ ہووے

            طاقتور ممالک چھوٹے ممالک کے معاملات میں ہمیشہ سے مداخلت کے مرتکب ٹھہرتے رہے ہیں۔ پس ماندہ ملکوں کی حکومتیں بنانے اور بگاڑنے میں عوام سے زیادہ اِن بین الاقوامی غنڈوں کا کردار ہوتا ہے، جو چھوٹے ملکوں کو قرض کے شکنجوں میں جکڑ لیتے ہیں :

برداشت کسی طور بھی ہوتا نہیں اب تو

ہے اس کے تقاضوں کا فشار زیادہ

میں اُس کے ہر حکم کی ڈوری سے بندھا ہوں

ہے میری طرف اُس کا ادھار اتنا زیادہ

            بدقسمتی سے پاکستان کے زیادہ تر حکمران امریکیوں کے کاسہ لیس رہے ہیں۔ وہ ہمارے حکمرانوں کو ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ ہدایات دے کر عوامی بھلائی کے کاموں سے دور کرتے اور انھیں رسوا ئی کی تاریکیوں میں پھینک دیتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہنود و یہود کسی طرح ہمارے خیر خواہ نہیں ہو سکتے اور اِن کا گٹھ جوڑ ازلی ہے۔ انور مسعود امریکہ کی دوغلی پالیسی پر کہتے ہیں :

ہمیں کہتا ہے اپنا اتحادی

مگر بھارت پہ کتنا مہرباں ہے

کوئی یہ بات امریکہ سے پوچھے

ترے انڈے کہاں، کُڑ کُڑ کہاں ہے؟

            سیاسیات کے باب میں ان کے قلم کی روانی دریاؤں کی سی ہے۔ مزاحیہ شعرا میں بے خوفی سے ڈنکے کی چوٹ پر حق بات کہنے کا حوصلہ کبھی سرد نہیں پڑا اور انور مسعود اس وصف سے بہرہ مند ہیں۔ عوامی جذبات کی اِسی ترجمانی کی وجہ سے ان کی طنزیہ و مزاحیہ سیاسی شاعری کو سنجیدہ حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

iii۔     سرکاری و نجی محکمہ جات اور ان کے متعلقات

            جس ملک کے حکمرانوں اور بالائی طبقے میں خرابیاں پیدا ہو جائیں، وہاں کے عوام بھی سُستی، کام چوری، لاپرواہی اور بے حسی کو اپنا کر ملک و قوم کی بدنصیبی کا باعث بنتے ہیں۔ وطنِ عزیز کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہاں کے عوام و خواص کی ایک سی ذہنیت ہے۔ ہر کوئی راتوں رات امیر و کبیر بننے کے خواب دیکھنے میں مشغول ہے۔ عمل کی قوت مفقود ہو چکی ہے اور ہر شخص حقیقت سے نظریں چرا کر اپنی خیالی جنت میں خدا بنا بیٹھا ہے۔

             سرکاری و نجی کی تفریق سے قطع نظر ہمارے ملک میں موجود تقریباً تمام محکمہ جات ایک ہی راہ کے راہی ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے ملازم سے لے کر بڑے سے بڑے افسرتک، سب کا مزاج ایک سا ہے۔ قومی کاموں کو ایک طرف رکھ کر سارا دن گپیں ہانکنا اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا ان کا دستور ہے۔ ملازمین دفتری و عوامی کاموں سے جی چرا کر اپنے ذاتی کاموں کو اوّلیت دیتے ہیں۔ سرکاری ملازمین تو زیادہ تر افسران کے گھروں پر کام کر کے ملک و قوم پر بار بنے ہوئے ہیں۔ ہر محکمہ میں کام نکلوانے کے لیے سفارش، رشوت اور واقفیت ضروری خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے بغیر برس ہا برس تک جائز کام کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

            انور مسعود نے محکمہ جاتی بے اعتدالیوں کا محاکمہ دو طریقوں سے کیا ہے۔ ایک طرف تو براہِ راست محکمہ پر طنز کرتے ہیں اور اس کے قیام کے مقاصد کا اس کے کام کے نتائج سے موازنہ کرتے ہیں مثلاً: واپڈا، روئیت ہلال، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن، سی۔ ڈی۔ اے وغیرہ۔ دوسرے طریقے میں محکمے کے ملازمین ان کی طنز کا نشانہ بنتے ہیں، جیسے محکمۂ پولیس کے سپاہی، محکمۂ صحت کے ڈاکٹرز اور تمام محکموں کے کلرک و افسران وغیرہ۔ ذیل میں اس کی تفصیل پیش ہے:

            واپڈا جو ’’واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ ا تھارٹی‘‘ کا مخفف ہے، پاکستان میں بجلی کی تنصیب اور فراہمی کا ضامن ہے۔ انور مسعود نے اس کی جو تصویریں کھینچی ہیں، ان سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ جب سے اس محکمے نے بجلی کی فراہمی کی ذمہ داری سنبھالی ہے، اس وقت سے ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ان قطعات میں پورے محکمے کا محاکمہ اس طرح ملتا ہے کہ بجلی کا میٹر لگوانے سے لوڈ شیڈنگ تک کے تمام مراحل نظروں کے سامنے متحرک ہو جاتے ہیں۔ قطعات کے آخر میں تضمین کا مصرع واپڈا کے تمام صارفین کے دل کی آواز بن کر قیامت ڈھا دیتا ہے:

پنکھے کی رکی نبض چلانے کے لئے آ

کمرے کا بجھا بلب جلانے کے لئے آ

تمہیدِ جدائی ہے اگرچہ ترا ملنا

 ’’آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ‘‘

کچھ نہ پوچھو اُداس ہے کتنا

کتنا سہما ہوا سا رہتا ہے

دل پہ سایہ ہے لوڈشیڈنگ کا

 ’’شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے‘‘

            پاکستان میں چاند کی شہادت کے لیے جس چھوٹے سے محکمے کو ایک کمیٹی کی صورت میں قائم کیا گیا ہے وہ روئیت ہلال کے نام سے بدنام ہے۔ اس کا قیام اس لیے عمل میں آیا تھا کہ مسلمانانِ پاکستان کو متفقہ طور پر اسلامی تہوار منانے اور اعمال کی ادائیگی کا موقع مل سکے۔ انور مسعود نے اس پر طنز کا جو تیر چلایا، اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ روئیت ہلال کمیٹی لوگوں میں اتفاق کے بجائے نفاق ڈالنے کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ اس کمیٹی کے فیصلوں پرکسی کو اعتماد نہیں رہا، کیونکہ اس کو جب بھی اہم موقع پر ذمہ داری سونپی گئی، اس نے کام دکھا دیا۔ رمضان اور عید کے مواقع اس کمیٹی کا خاص ہدف ہیں۔ عید کا مرحلہ تو ہمیشہ سے اس کمیٹی کے ہاتھ چڑھ کر بدمزہ ہوتا رہا ہے۔ معتکف حضرات رات گئے تک اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ شاید صبح عید ہو جائے، لیکن ہلال کمیٹی کے فیصلے کے انتظار میں انھیں مسجد میں ہی رات گزارنی پڑتی ہے۔ اس کمیٹی کی انھیں حرکات کی وجہ سے اس وقت پاکستان میں باقاعدہ طور پر چار چار عیدیں منائی جاتی ہیں اور ساری دنیا ہم پر ہنستی ہے:

چاند کو ہاتھ لگا آئے ہیں اہلِ ہمت

اُن کو یہ دھُن ہے کہ اب جانبِ مریخ بڑھیں

ایک   ہم   ہیں  کہ  دکھائی    نہ    دیا    چاند   ہمیں

ہم اسی سوچ میں ہیں عید پڑھیں یا نہ پڑھیں

نکلتا ہے کہ آدھی رات تک روپوش رہتا ہے

ہمیں معلوم ہو کیسے کہ اس کا مدعا کیا ہے

مناسب ہے یہی اب تو کہ ہر اک عید سے پہلے

کمیٹی چاند سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟

            پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کا مقصد عوام تک تفریح، تعلیم، ثقافتی سرگرمیاں اور معلومات بہم پہنچانا ہے۔ اب تو اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے اہل پاکستان سے بجلی کے بلوں کے ساتھ مستقل طور پر ۳۵ روپے ٹی وی بل کی مد میں وصول کیے جا رہے ہیں اور کئی شہروں میں ٹیلی ویژن کے علاقائی مراکز قائم ہیں جن میں ملازمین کی فوج موجود ہے۔ یہ محکمہ اپنے قیام کا کوئی بھی مقصدتسلی بخش طریقے سے پورا نہیں کرتا۔ تفریح کے نام پر ڈیپریشن، تعلیم کے نام پر انگریزی زبان کا فروغ، ثقافت کے نام پر بے حیائی و عریانی اور معلومات کی فراہمی کے بجائے حکومت وقت کے قصیدے اس کا اولین سرمایہ ہیں۔ انور مسعود کے بقول اگر بھولے سے کوئی ایسا ڈرامہ ٹیلی کاسٹ کر ہی دیا جائے جس میں لوگوں کی دلچسپی ہو تو پندرہ منٹ کے ڈرامے کے دوران پون گھنٹہ کے اشتہارات سے لوگوں کو ڈیپریشن کا شکار کیا جاتا ہے:

وقفہ گذر گیا کہ قیامت گذر گئی

دس، بیس، تیس بار مجھے دیکھنے پڑے

ٹی۔ وی پہ رات خیر ڈرامہ جو تھا سو تھا

لیکن جو اشتہار مجھے دیکھنے پڑے!

ہیر نکلی جس گھڑی رانجھے کے سنگ

اُس کا ماما آن ٹپکا خواہ  مخواہ

چل رہے تھے اشتہار اچھے بھلے

اک ڈرامہ آن ٹپکا خواہ مخواہ

میری آنکھوں کو یہ آشوب نہ دکھلا مولا

اتنی مضبوط نہیں تابِ تماشا میری

میرے ٹی وی پہ نظر آئے نہ ڈسکو یارب

 ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘

            ٹی وی کے کمپیئر اور پروگراموں میں بلائے جانے والے مہمان، انگریزی کے زیادہ سے زیادہ الفاظ بولنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ناظرین پر اپنی قابلیت کا رُعب ڈال سکیں۔ اسی روش پر عمل کرتے ہوئے ڈرامہ نگار اپنے ڈرامے کے کرداروں سے انگریزی کا بہت زیادہ استعمال کراتے ہیں، جس کو دیکھ کر عوام میں بھی اس سوغاتِ فرنگی سے لگاؤ پیدا ہو رہا ہے۔ اس بھیڑ چال پر ’’ٹھمریہ‘‘ کے عنوان سے شوخیِ انورمسعودکا ایک اور رنگ دیکھیے:

لاگا چسکا موہے انگریجی کا

میں تو انگلس میں ہی لب کھولوں رے

لاگے لاج موہے اس بھاشا سے

تو سے اردو میں، میں نہیں بولوں رے

            انور مسعود کو ایک مرتبہ سی۔ ڈی۔ اے (کیپیٹل ڈیویلپمنٹ ا تھارٹی)سے کوئی کام پڑا، جس کے لیے انھوں نے کئی دن تک دفاتر کے چکر لگائے، لیکن کام بن نہ پایا۔ بہت د ل برداشتہ ہوئے اور آخر کار ایک کاغذ پر درج ذیل قطعہ لکھ کر اس افسر کی میز پر چھوڑ آئے، جس کے پاس کام پھنسا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ اگلے دن میرا کام ہو گیا، لیکن اس آدمی کا کیا حال ہوتا ہو گا جو شاعری کے ہنرسے نابلد ہو اور رشوت و سفارش بھی اس کے بس کا کام نہ ہو:

تیری خواہش ہے اے مرے دشمن

عین جنگل میں مجھ کو شام پڑے

لے مری بد دُعا بھی سنتا جا

جا تجھے سی۔ ڈی۔ اے سے کام پڑے

            مفادِ عامہ کے محکمے عوام کے مفاد کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے۔ اگر ایک محکمہ کوئی کام کر بھی دے، تو مزید کام کے بہانے کوئی دوسرا محکمہ اس کو فوراً بگاڑ دیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سڑکیں اور گلیاں ہیں، جن کے بنتے ہی کبھی کیبل ڈالنے کے بہانے اور کبھی کوئی پائپ لائن بچھانے کے لیے ان کو بے دردی سے کھود دیا جاتا ہے۔ بارش ہو جائے تو یہی سڑکیں اور گلیاں گزر گاہ کا کام دینا تو درکنار سیلاب کا منظر پیش کرتی ہیں۔ دراصل ناقص منصوبہ بندی اور ان محکموں کا آپس میں رابطے کا فقدان تمام مسائل کی جڑ ہے۔ اگر تمام محکمے آپس میں مل کر ایک ہی مرتبہ تمام کاموں کی ترتیب پر غور کر لیں، تو ایسے مسائل بارِ دگر سامنے نہ آئیں۔ انور مسعود کہتے ہیں کہ سڑکوں کی بار بار کھدائی سے تو یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے کمیٹی والے ان کے نیچے سے قارون کا خزانہ نکالنا چاہتے ہیں :

رہتی ہے اسی تاک میں اپنی یہ کمیٹی

سڑکوں کی کھدائی کا ملے کوئی بہانہ

شاید یہ کمیٹی کو خبر دی ہے کسی نے

ہے دفن اسی شہر میں قاروں کا خزانہ

            اسی نوعیت کے ایک اور قطعے میں سڑک میں موجود گڑھوں پر محکمہ کی خبر اس طرح لیتے ہیں :

مرے گھر کے سامنے ہے جو سڑک کہاں بنے گی

کوئی کب سیاہ مرہم سے بھرے گا اس کے گھاؤ

مرے دوستو یہ مصرع تمھیں لکھ رہا ہوں جل کر

 ’’انھیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ‘‘

            اب ان محکموں کی جانب آتے ہیں جن کے کام کی وجہ سے عوام میں تذبذب پایا جاتا ہے۔ ان میں لائف انشورنس اور محکمہ بہبودِ آبادی نمایاں ہیں۔ انور مسعودنے اپنے کئی اشعار میں ان پر طنز کی ہے۔ بیمہ ایجنٹ کی ہوشیاری و چالاکی کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ الٹا اس کے اپنے گلے پڑ جاتی ہے۔ قطعہ کے پہلے تین مصرعوں میں اس کی تیزی و طراری ظاہر کی ہے کہ وہ اپنے دام میں پھانسنے کے لیے کس طرح سبز باغ دکھاتا ہے، لیکن چوتھا مصرع بیمہ ایجنٹ کی ساری ہوشیاری اور تیزی پر پانی پھیر دیتا ہے کیوں کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انشورنس کا سارا فائدہ بعد کی نسلوں کو ہوتا ہے اور انشورنس زدہ شخص کی موت اس کے لیے ضروری ہے:

آپ کرائیں ہم سے بیمہ چھوڑیں سب اندیشوں کو

اِس خدمت میں سب سے بڑھ کر روشن نام ہمارا ہے

خاصی دولت مل جائے گی آپ کے بیوی بچوں کو

آپ تسلی سے مر جائیں باقی کام ہمارا ہے

            انور مسعود محکمہ بہبودِ آبادی کو محکمہ ضبطِ تولید کہہ کر اس کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ زیرِ نظر قطعہ میں بہت دور کی کوڑی لائی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی ہر شے فانی ہے اور ہر چیز نے ایک دن مٹ جانا ہے۔ قیامت برحق ہے اور اس کی تردید ممکن نہیں۔ لیکن قیامت کے باوجود بھی ایک محکمے کا منشور باقی رہے گا اور اس طرح اس محکمے کا نشان ہمیشہ زندہ رہے گا، وہ محکمہ ضبطِ تولید ہے کہ قیامت کے بعد انسانوں کی مزید پیدائش کا سلسلہ رک جائے گا:

ہر اک چیز فانی ہے مٹ جائے گی

ہے یارا کسے اس کی تردید کا

مگر پھر بھی باقی رہے گی جو شے

وہ ہے محکمہ ضبطِ تولید کا

            اسی محکمے کے مقاصد کا طنزیہ و مزاحیہ جائزہ اس طرح لیتے ہیں کہ بے اختیار سوچ کے در وا ہونے لگتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس محکمے نے وہ تمام باتیں اپنا لی ہیں جن کے خواہش مند ایک زمانے میں مرزا غالب رہے ہیں۔ تضمین کے دو مصرعوں کے ماہرانہ استعمال کے ساتھ قطعہ میں پائی جانے والی گہرائی ملاحظہ کیجیے:

شعبۂ ضبطِ ولادت کا یہ مقصد ہے فقط

دل گرفتہ، غمزدہ، آزردہ جاں کوئی نہ ہو

 ’’پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار

اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو‘‘

            اسی طرز کا ایک اور قطعہ دیکھیے جس میں واقعہ نگاری اور تضمین کا حسین امتزاج محکمۂ بہبودِ آبادی کی تمام کوششوں پر پانی پھیر کر مزاح کی نمو کرتا ہے:

کل اِک بچوں کی مجلس میں کہا اِک شوخ بچے نے

ہماری تاک میں دشمن بڑے ہشیار بیٹھے ہیں

عزیزو، ساتھیو منصوبہ بندی کے زمانے میں

 ’’غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں ‘‘

            مغربی ممالک میں اسی منصوبہ بندی کے طفیل ملکی معیشت کا اہم کردار یعنی نوجوان گم ہو کر رہ گیا ہے اور پیرانہ سالی تک پہنچنے والے افراد کی اتنی کثرت ہو گئی ہے کہ "Old Houses”میں مزید گنجایش نہیں رہی۔ بچوں کی پیدائش میں کمی کی وجہ سے ان لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ انور مسعود نے اس طویل موضوع کو چار مصرعوں میں اس مہارت سے بیان کر دیا ہے کہ آخری مصرع پڑھتے ہی بے اختیار ہنسی کے شانہ بشانہ ایک مکمل سنجیدہ مضمون ذہن کے گوشوں پر دستک دینے لگتا ہے:

ہے اب بچوں کی قلت پر پریشاں مغربی دنیا

وہاں بوڑھوں کی کثرت ہو گئی ہے پیر خانوں میں

عمل بہبودِ آبادی پہ کر کے دیکھ لو تم بھی

 ’’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ‘‘

            ہمارے ملک کا ایک اور بدنام محکمہ صحت کا ہے۔ حکومت کے زیرِ نگرانی چلنے والے ہسپتالوں میں صحت کی سہولتوں کا اتنا فقدان ہے کہ غریب مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں اور ڈاکٹر حضرات انھیں دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے یہی ڈاکٹر جب اپنے ذاتی کلینک پر بیٹھتے ہیں، تو ان کا رویہ بالکل بدلا ہوا ہوتا ہے۔ ان کے لہجے کی مٹھاس اور چیک اَپ کا انداز ان کی مسیحائی کا منہ بولتا ثبوت نظر آتا ہے اور گماں تک نہیں ہوتا کہ یہ وہی ڈاکٹر ہے، جو سرکاری ہسپتال میں مریضوں کے ساتھ بات کرنا اپنی توہین سمجھتا تھا۔ ہسپتال میں ایک گولی تک لکھ کر دینے سے کترانے والا یہی ڈاکٹر ذاتی دوا خانے پر دواؤں کی ایک لمبی فہرست لکھ دیتا ہے، چاہے ان کی ضرورت نہ بھی ہو۔ انور مسعود نے ’’نسخہ‘‘ کے نام سے اسی نوعیت کی ایک نظم میں ان پارٹ ٹائم مسیحاؤں کی مسیحائی پر طنز کی بڑی جچی تلی ضربیں لگائی ہیں :

اک ڈاکٹر سے مشورہ لینے کو میں گیا

ناسازیِ مزاج کی کچھ ابتدا کے بعد

کرنے لگے وہ پھر مرا طبّی معائنہ

اک وقفۂ خموشیِ صبر آزما کے بعد

ضرباتِ قلب و نبض کا جب کر چکے شمار

بولے وہ اپنے پیڈ پہ کچھ لکھ لکھا کے بعد

ہے آپ کو جو عارضہ وہ عارضی نہیں

سمجھا ہوں میں تفکرِ بے انتہا کے بعد

لکھا ہے ایک نسخہِ اکسیر و بے بدل

دربارِ ایزدی میں شفا کی دعا کے بعد

لیجے نمازِ فجر سے پہلے یہ کیپسول

کھائیں یہ گولیاں بھی نمازِ عشا کے بعد

سیرپ کی ایک ڈوز بھی لیجے نہار منہ

پھر ٹیبلٹ یہ کھایئے پہلی غذا کے بعد

ان سے خلل پذیر اگر ہو نظامِ ہضم

پھر مکسچر یہ پیجئے اس ابتلا کے بعد

لازم ہے پھر جناب یہ انجیکشنوں کا کورس

اُٹھیں نہ ہاتھ آپ کے گر اس دوا کے بعد

تجویز کر دیئے ہیں وٹامن بھی چند ایک

یہ بھی ضرور لیجئے ان ادویہ کے بعد

پھر چند روز کھائیں یہ ننھی سی ٹیبلٹ

کھجلی اٹھے بدن میں اگر اس دوا کے بعد

چھے ماہ تک دوائیں مسلسل یہ کھایئے

پھر یاد کیجیے گا حصولِ شفا کے بعد

اک وہم تھا کہ دل میں مرے رینگنے لگا

اُن کے بیانِ نسخہِ صحت فزا کے بعد

کیمسٹ کی دکان بنے گا شکم مرا

ترسیلِ ادویات کی اس انتہا کے بعد

میں نے کہا کہ آپ مجھے پھر ملیں گے کب

روزِ جزا سے قبل کہ روزِ جزا کے بعد

            کلرک اور افسر ہر شعبے کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ افسروں کا کام انتظامی نوعیت کا ہوتا ہے اور کلرک دفتری کام کو سلیقے سے نبھانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ مفادِ عامہ کے شعبوں میں ان دونوں طبقات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن ہمارے ملک میں زیادہ تر کلرک اور افسران لوگوں کے کاموں کو نمٹانے کے برعکس ہمیشہ تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں۔ کلرک کے پاس پھنسا ہوا کام نکلوانا حقیقتاً جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اگر کسی کلرک سے کام نکلوا بھی لیں، تو ان سے آگے اتنے مراحل درپیش ہوتے ہیں کہ لوگوں کی عمریں  ایک فائل کی نظر ہو جاتی ہیں :

کلرکوں سے آگے بھی افسر ہیں کتنے

جو بے انتہا صاحبِ غور بھی ہیں

ابھی چند میزوں سے گزری ہے فائل

 ’’مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں ‘‘

            آج کل دفاتر میں لوگوں کی سہولت کے لیے خصوصی طور پر ڈیلنگ کلرک کی آسامی پیدا کی گئی ہے۔ پہلے براہِ راست متعلقہ شخص سے بات ہو جاتی تھی، لیکن جب سے اس نئے ڈیلنگ کلرک نے دفاتر میں چارج سنبھالے ہیں، لوگوں کے مسائل نے مصائب کی صورت اختیار کر لی ہے۔ یہ کلرک لوگوں کے کاموں کو درست طریقے سے ڈیل کرنے کے برعکس انھیں "Delay” کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور زیادہ تر تو اپنی نشستوں ہی سے غائب رہتے ہیں :

اک اسم ہے کہ جس کا مسمٰی کہیں نہیں

ہر گوشہ ہم نے دیکھ لیا ہے ’’سپیس‘‘ کا

ڈھونڈا اسے بہت ہے پہ عنقا نہیں ملا

ڈیلنگ کلرک ہو گا پرندوں کے دیس کا

            ان کلرکوں کے اُوپر جو افسر تعینات ہیں ان کی لایعنی مصروفیات اتنی وسیع ہیں کہ ان سے وقت لے لینا ہی بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ ان سے ملنے والے سائل یہی جواب پاتے ہیں کہ صاحب میٹنگ میں ہیں۔ یہ میٹنگز زیادہ تر اخبار پڑھنے، کھانا کھانے، سرکاری ٹیلی فون پر عزیزوں سے گپیں ہانکنے وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہیں۔ انور مسعود نے ان افسران کی خودساختہ مصروفیت کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ ان سا مصروف سارے زمانے میں کوئی نہیں ہے۔ یہ گھر اور دفتر میں تو ملتے ہی نہیں اور پوچھنے پر بتایا جاتا ہے کہ صاحب یا تو دورے پر ہیں یا پھر میٹنگ میں مصروف ہیں۔ ان کے میٹنگ سے اُٹھنے اور دورے پر جانے کا تسلسل کبھی نہیں ٹوٹتا چاہے سائل بھاڑ میں جائے:

اُن سا کوئی مصروف زمانے میں نہ ہو گا

گھر پر کبھی ٹھہرے ہیں نہ دفتر میں رکے ہیں

دورے سے جو لوٹے ہیں تو میٹنگ میں ہیں صاحب

میٹنگ سے جو اُٹھے ہیں تو دورے پہ گئے ہیں

            وکلا نظامِ عدل کا ایک حصہ ہیں اور پاکستان میں ان کے بغیر کوئی مقدمہ دائر کرنا ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ جس طرح ہر معاشرے میں اچھے اور دیانتدار لوگ موجود ہوتے ہیں اسی طرح وکلا میں بھی مخلص اور غریب پرور افراد کی کمی نہیں۔ اس کے باوجود کثرت اُن وکلا کی ہے، جو ہر وقت اس تاک میں رہتے ہیں کہ کوئی مؤکل کسی طرح اُن کے شکنجے میں پھنسے سہی، پھر اُس کا وہ حال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد تک بیچنے کے بعد بھی اِن سے چھٹکارا نہیں پا سکتا۔ اسی نوعیت کے واقعہ پر انورمسعود کے ترکشِ طنز سے ایک تیر کی آب داری ملاحظہ ہو:

قبضہ دلا دیا مجھے میرے مکان کا

میرے جو تھے وکیل عدیم النظیر ہیں

فیس ان کی پوچھتے ہو تو اب اس مکان میں

خود حضرتِ وکیل رہائش پذیر ہیں

iv۔        رشتے ناتے اور کردار

            مزاح پیدا کرنے کے لیے کرداروں کا وجود ناگزیر ہے۔ مختلف اوقات میں تو واقعات کا بیان ایک سے زائد کرداروں کے بغیر مکمل نہیں ہو پاتا۔ مزاحیہ شاعری میں ابتدا ہی سے بیگم، مولوی اور اسی طرح کے دوسرے کرداروں سے کام لیا جاتا رہا۔ انور مسعود کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں اس نوعیت کے جو کردار عام ہیں ان میں واعظ، مہمان، اُستاد، شاگرد، خواتین وغیرہ شامل ہیں۔ اُستاد شاگرد کے مکالمے میں بڑے فنکارانہ طریقے سے جمعہ کی اس فضیلت کو اُجاگر کرتے ہیں، جو اسلام میں موجود ہے، لیکن آج کا معاشرہ اس سے ناواقف ہوتا جا رہا ہے۔ آج کے نوجوان کے نزدیک جمعہ کی اہمیت کی جو وجہ رہ گئی ہے اس کو زبانِ انورسے سنیے:

اُستاد نے شاگرد سے اک روز یہ پوچھا

ہے جمعہ مُبارک کی فضیلت کا تجھے علم

کہنے لگا شاگرد کہ معلوم ہے مجھ کو

ریلیز اسی روز تو ہوتی ہے نئی فلم

            تقریباً تمام گھروں میں آپس کے لڑائی جھگڑے اور بچوں کی مار کٹائی روز مرہ کا معمول ہے۔ اس طرح کے واقعات کے پسِ منظر میں انور مسعود معاشرے کے بہت سے گھرانوں کا موازنہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں، جس کی حقیقت سے کسی کو انکار ممکن نہیں :

آئی ہے ایک بات بہت کھل کے سامنے

ہم نے مطالعہ جو کیا ہے سماج کا

اک مسئلہ ہے سارے گھرانوں میں مشترک

ہر گھر میں ایک فرد ہے ٹیڑھے مزاج کا

            مہنگائی کے اس زمانے میں، جب آدمی اپنے خاندان کا بوجھ بڑی مشکل سے برداشت کر رہا ہے، اگر کوئی مہمان کئی دنوں کے لیے نازل ہو جائے، تو وہ باعثِ رحمت کے بجائے تمام خاندان کے لیے زحمت کا باعث ہوتا ہے۔ دورِ جدید کے تقریباً تمام نامور شعرا نے مہمان پر خصوصی طبع آزمائی کی ہے۔ انور مسعود کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں کسی کا یار بھی زیادہ عرصے قیام کر لے تو میزبان اس سے نالاں ہو جاتا ہے:

اس طرح کر رہا ہے حقِ دوستی ادا

اُس کا خلوص ہے مجھے حیراں کئے ہوئے

مدّت سے ہے اناج کا دشمن بنا ہوا

 ’’مدّت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے‘‘

            مشرق کی روایت ہے کہ مہمان خدا کی رحمت ہوتا ہے اور اپنے حصے کا رزق اپنے ساتھ لاتا ہے۔ انور مسعود کو بھی اس سے انکار نہیں۔ وہ مہمان کو اپنی سانس سے بھی زیادہ عزیز کہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی شرط لگاتے ہیں کہ مہمان گھرانے کا فرد ہی نہ بن بیٹھے اور صرف اپنے حصے کی دال روٹی پر اکتفا کرے۔ ساتھ ہی یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ مہمان آ گیا ہے تو چلا بھی جائے :

عین راحت ہیں ہمیں سب اس کی خاطر داریاں

دال روٹی اس کے حصے کی جو ہے، کھاتا رہے

سانس کی مانند ہے انور ہمیں مہماں عزیز

عرض اتنی ہے کہ بس آتا رہے جاتا رہے

            ’جس گھر میں مہمان آئیں، وہاں بڑی برکت رہتی ہے‘، یہ کہاوت عام ہے۔ انور مسعود اس بارے میں کہتے ہیں :

آپ نے صورتِ احوال اگر پوچھی ہے

ہم بڑی موج میں ہیں آپ کو بتلاتے ہیں

ایسی برکت ہے کبھی گھر نہیں رہتا خالی

کچھ نہ ہو گھر میں تو مہمان چلے آتے ہیں

            مہمانوں کی کثرت اور تسلسل کے ساتھ آمد میزبانوں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ:

ابھی ڈیپو سے آ جاتی ہے چینی

گوالا گھر سے اپنے چل پڑا ہے

حضور اب چائے پی کر جائیے گا

ملازم لکڑیاں لینے گیا ہے

            واعظ، مزاحیہ اردو شاعری کا سب سے اہم، قدیم اور مستقل کردار ہے۔ یہ صورتیں بدل بدل کر میدانِ مزاح میں بدنام ہوتا ہے اور شعرا، اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے اپنے دل اور ذہن کا غبار اُتارتے ہیں۔ واعظ، شعرا کو غلط راہ کا راہی سمجھتے ہوئے، انھیں عشق و محبت سے باز رکھنے کے لیے درس دیتا ہے، جس پر یہ اُسے کھری کھری سناتے ہوئے شبہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ تو مسلمان ہونے والوں کو بھی کافر کرنے کی تدبیریں کرتا رہتا ہے:

کوئی ہو جائے مسلمان تو ڈر لگتا ہے

مولوی پھر نہ بنا دے اُسے کافر بابا

            زبانِ عام میں پیٹ کو دوزخ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ انور مسعود نے اس عام سی بات کو واعظ پر طنز کے لیے استعمال کیا ہے۔ زیادہ تر مولویوں اور واعظین کی توندیں اتنی زیادہ نکلی ہوتی ہیں کہ انھیں دیکھ کر ہی ہنسی نکل جاتی ہے۔ صنعت تضاد کے برتاؤ کے ساتھ انور مسعود کی پُرکاری کا ایک انداز ملاحظہ ہو:

دونوں کے درمیان ہیں بے انت دوریاں

امکانِ اتصال کہاں خوب و زشت میں

واعظ کی توند دیکھ کے آتا ہے یہ خیال

دوزخ کو لے کے جائے گا کیسے بہشت میں

            زاہد و ملاّ پر طنز کے دو اور پہلو دیکھیے، جن میں اس کی ہیئت اور عقل پر وار کیے گئے ہیں :

مشاہدے میں ہے جو کچھ کتاب میں وہ کہاں

نگاہ چاہیئے تفہیمِ این و آں کے لئے

جنابِ شیخ کی ڈاڑھی سے یہ ہوا معلوم

 ’’بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کے لئے‘‘

مسلک ہے مرا سادگیِ شیوۂ اظہار

اندازِ بیاں میں نہیں رکھتا میں روا پیچ

کچھ عقل ہی واعظ کی نہیں موردِ تحسین

دستارِ فضیلت کے بھی ڈھیلے ہیں ذرا پیچ

            واعظین اپنے خطاب میں دلچسپی اور تاثیر پیدا کرنے کے لیے ترنم کا سہارا لیتے ہیں۔ اس تناظر میں ایک گلو کارہ کی زبانی کہا گیا ہے کہ اگر مولوی ترنم کے بغیر تقریر کر کے دکھا دے تو وہ گانا چھوڑ دے گی۔ دوسرے لفظوں میں مولوی اور گائیکہ دونوں کی یہ خاصیت مشترک ہے کہ وہ ترنم کے بغیر اپنا فن نہیں منوا سکتے۔ زیرِ نظر قطعہ میں اسی ترنم کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے :

بر سبیلِ تذکرہ اِک روز میڈم نے کہا

اپنے شوخ و شنگ اندازِ تکلم کے بغیر

میرا وعدہ ہے کہ گانا چھوڑ دوں گی میں اگر

مولوی تقریر فرمائے ترنم کے بغیر

            لفظی بازی گری سے مزاح کشید کرنا بڑا مشکل فن ہے۔ انور مسعود نے الفاظ کے رد و بدل سے اپنے پیشتر قطعات میں قارئین کی دلچسپی کے لیے کئی رنگ پیدا کر دیے ہیں۔ نیک لوگوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں تو بالکل فرشتہ ہے۔ انور مسعود نے ان الفاظ کو بدل کر ذو معنی بنا دیا ہے :

جو ہے اوروں کی وہی رائے ہماری بھی ہے

ایک ہو رائے سبھی کی، یہ کچھ آسان نہیں

لوگ کہتے ہیں فرشتہ ہیں جنابِ واعظ

ہم  بھی  کہتے   تو   یہی   ہیں  کہ   وہ   انسان   نہیں

            بیگم، بیوی اور زوجہ کا کردار مزاحیہ اردو شاعری کو قہقہوں سے رنگین کیے ہوئے ہے۔ انور مسعود، بیگم کے موضوع پر وہ رویہ اختیار نہیں کرتے، جو شائستگی کی حدوں کو پار کرنے لگے۔ اس لیے انھوں نے اس موضوع پر جو کہا وہ بہت کم ہے، مگر اس موضوع کی قدر مجروح نہیں ہونے پاتی۔ درج بالا قطعہ میں جہاں مولوی پر طعن کا مضمون موجود ہے، وہاں ’’بیوی‘‘ بھی پیش پیش ہے۔ ایک اور قطعہ میں ’’لا ثانی زنانی‘‘ کے عنوان سے کہتے ہیں :

اپنی زوجہ کے تعارف میں کہا اک شخص نے

دل سے ان کا معترف ہوں میں زبانی ہی نہیں

چائے بھی اچھی بناتی ہیں مری بیگم مگر

مُنہ بنانے میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں

v۔      ماحولیات

            اردو شاعری میں ماحولیات کو باقاعدہ طور پر کبھی موضوع نہیں بنایا گیا۔ اوّل تو ماحول کی اصلاح کا احساس ہی مشرق کے بجائے پہلے مغرب میں بیدار ہوا۔ تیسری دنیا کے ممالک ابھی تک افلاس کے تاریک سایوں سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکے اور روٹی، کپڑے کے چکر نے ان کو دوسرے مسائل کی جانب سوچنے کا موقع نہیں دیا۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے ترقی یافتہ ممالک اور اقوامِ متحدہ کے دباؤ کی وجہ سے تمام دنیا میں ماحول پر توجہ دی جانے لگی اور حکومتوں نے اس کے لیے ’وزارتِ ماحولیات‘ کا محکمہ قائم کیا۔ ہمارے ملک میں لوگوں کی اکثریت کا تعلق پسماندہ طبقوں سے ہے اور دیہاتوں میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث خاندانوں کے خاندان گذشتہ چند عشروں میں نقل مکانی کر کے شہروں میں آ بسے ہیں۔ اس سے شہروں میں دوسرے مسائل کے ساتھ ماحولیات میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ ذرائع آمدورفت میں غیر معمولی اضافہ نے دھوئیں اور شور کو جنم دیا۔ آبادی بڑھنے سے گندگی اور بیماریاں پھیلیں۔ اس موضوع کو ہمارے ہاں شاعری تو دور کی بات ہے، نثر میں بھی بے توقیر و بے وقعت سمجھا گیا اور کسی ادیب و شاعر نے اس کی جانب رغبت نہ دکھائی۔ انور مسعود نے پہلی مرتبہ اس خاص موضوع پر پورا مجموعۂ کلام سامنے لایا ہے۔ اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے امجد اسلام امجد نے لکھا ہے:

 ’’ماحولیات بظاہر ایک بہت خشک اور غیر دلچسپ موضوع ہے جس پر اصلاحی، تعمیری اور معلوماتی قسم کا مضمون تو لکھا جا سکتا ہے مگر اسے شاعری اور پھر عمدہ اور دلچسپ شاعری کی زبان میں بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس طرح کے کام کے منفرد، تکنیکی اور افادی حوالے تو اپنی جگہ، پہلی سطح پر یہ موضوع ہی ہماری شاعری کی مجموعی فضا کے لیے ایک اجنبی اور غیر شاعرانہ موضوع ہے کہ درختوں ، پھولوں ،پودوں ، سرولبِ جو اور بیدِ مجنوں کے حوالے سے رومانی اور عشقیہ شاعری تو کی جا سکتی ہے۔ ۔ ۔ مگر انھیں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے بیان کرنا اور پھر اس بیان کو دلچسپ اور بامعنی بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘ [۱۰]

            دور حاضر کا انسان جہاں بے شمار مسائل و آلام میں جکڑا ہوا ہے، وہاں اس کا سب سے بڑا مسئلہ، جس کا دنیا کو اس وقت شدّت سے احساس ہو رہا ہے، ماحولیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں بھیجتے وقت اس کی ضروریات کا بھی اہتمام فرمایا اور اس کو شعور کی دولت سے مالامال کیا، تاکہ یہ اپنے نفع اور نقصان کا ادراک کر سکے۔ انسان نے ذہن جیسے عطیۂ خداوندی کے استعمال سے اپنی سہولیات کے لیے انواع واقسام کی اشیا، ایجاد ودریافت کیں، جن کی وجہ سے انھیں کئی تکالیف سے نجات ملی۔ ہر شے اپنے اندر دو قسم کے پہلو رکھتی ہے: ایک مثبت اور دوسرا منفی۔ مثبت پہلوؤں کو مدّ نظر رکھ کر ہی اشیا کی قدر و قیمت کا فیصلہ کیا جانا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے جدید انسان مشینی اشیا کے زیادہ استعمال سے اپنی عادات و اطوار کو بھلا کر خود بھی مشینوں کے سانچے میں ڈھل گیا اور صرف اپنی ذات میں مقیّد ہو کر دوسروں کی زندگیوں میں مسائل کا باعث بننے لگا۔ کسان وافر غلّے کی پیداوار کے لالچ میں مضرِ ماحولیات مصنوعات کا استعمال کرنے لگا۔ صنعت کاروں نے صنعتوں کو دن رات چلانے کا عمل شروع کر کے فضا کو دھوئیں، زمین کو تیزاب اور ایسی ہی لاتعداد زہروں سے نیم مردہ کر دیا۔ انسان اس وقت پیسہ کمانے کی مشین بن چکا ہے اور اسی دوڑ میں اس نے قدرتی وسائل کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، اب ان وسائل نے کئی مسائل کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس کے متعلق انورمسعود ’’سنگِ راہ‘‘ کے عنوان سے ایک قطعے میں کہتے ہیں :

ہم اپنی بے قرینہ کاوشوں سے

خود اپنی رَہ میں حائل ہو گئے ہیں

ہمیں قدرت نے بخشے جو وسائل

مسائل در مسائل ہو گئے ہیں

            انور مسعود نے اپنی شاعری میں آلودگی کے پھیلاؤ میں معاون بہت سارے محرکات کی نشاندہی کی ہے۔ ذیل میں مختلف عنوانات کے تحت ان کی ’’ماحولیاتی شاعری‘‘ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش ہے:

۱۔       فضائی آلودگی

            فضائی آلودگی کی حدود کافی وسیع ہیں۔ ہماری زمین کے اوپر سانس لینے والے تمام جاندار اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہوا میں ہر وقت مختلف ذرّات لاکھوں کی تعداد میں موجود ہوتے ہیں، جو ہمیں آنکھ سے دکھائی تک نہیں دیتے اور سانس لینے پر ہمارے جسم میں داخل ہو کر زندگی کو موت کی گہرائیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ فضائی آلودگی کا سب سے بڑا موجب دھواں ہے۔ دھواں صرف ایک قسم کا نہیں ہوتا اور اس سائنسی دور میں تو سگریٹ کا دھواں، گاڑیوں کا دھواں، فیکٹریوں کا دھواں، کوڑے کرکٹ کو جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں، ایٹمی تجربات کے دوران پیدا ہونے والا دھواں اور متفرق کیمیائی عوامل سے بننے والا دھواں دنیا کو تباہی کے دہانے پرلے کر جا رہا ہے۔ دھوئیں میں راکھ بھی شامل ہوتی ہے، جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ اس راکھ میں ایسی ایسی اشیا شامل ہوتی ہیں کہ بڑے شہروں میں سانس لینے والے افراد کو ان کی صورتیں نظر آ جائیں، تو وہ شہروں سے بھاگ کھڑے ہوں۔ انور مسعود نے دھوئیں پر اپنے مخصوص مزاحیہ اسلوب میں نظمیں اور قطعات کہے ہیں۔ یہ مزاحیہ شاعری پڑھنے اور سننے میں جتنا لطف دیتی ہے، اس سے کہیں زیادہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ مثلاً:

شام تک شام ہی سی رہتی ہے

صبح  آتی  ہے  پر  نہیں  آتی

بڑھ گیا شہر میں دھُواں اتنا

’کوئی  صورت  نظر  نہیں  آتی‘

تبصرے ہوں گے مرے عہد پہ کیسے کیسے

ایک مخلوق تھی میراثِ رواں چھوڑ گئی

پھُونکتی رہتی تھی پیٹرول بھی تمباکو بھی

ہائے کیا نسل تھی دنیا میں دھُواں چھوڑ گئی

ہر چند ضروری ہے ذکر اُن کا کیا جائے

ہیں اپنے کریڈٹ پر کچھ معرکے ایسے بھی

بس ایک یہِ سگرٹ ہی ہم چھوڑ نہیں پائے

چھوڑے ہیں بہت ورنہ شوشے بھی پٹاخے بھی

             انورمسعودپاکستان میں ٹائر کا مصرف کچھ یوں بیان کرتے ہیں :

یہی ہے مقصدِ تخلیقِ ٹائر

یہ گاڑی کو چلانے کے لیے ہے

مگر ہم تو یہی سمجھے ہوئے ہیں

کہ سڑکوں پر جلانے کے لیے ہے

            غزل، لطیف جذبات کے اظہار کا اہم ذریعہ ہے۔ غزل کے پیرائے میں شعرا، اپنے محبوب کو لبھانے کے لیے پہلے اس کے شہر کی خو ب صورت اور دلربا ہواؤں اور فضاؤں کے تذکرے کرتے تھے اور اس کے بعد اپنے مطلب کی طرف آتے۔ انور مسعود نے طرز تو وہی اختیار کی، لیکن ان کے شہر کی ہواؤں اور فضاؤں پر دھوئیں نے شب خون مار کر کچھ اس طرح تباہی و بربادی پھیلائی ہے کہ شاعر کا لہجہ دھوئیں کے زہر سے زہر خند ہو گیا ہے:

سر پر دھوئیں کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو

آلودگی کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اک دوسرے کو اب کوئی پہچانتا نہیں

گرد و غبارِ شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

ہم سے ہوائے شہر کی بابت نہ پوچھئے

رگ رگ میں ایک زہر ہے اور ہم ہیں دوستو

            دھوئیں کی ایک اور ضربِ کرب ناک دیکھیے:

اب اُس کے سراپے سے دھُواں لپٹا ہے، جسکی

تعمیر میں زیبائی تھی حافظ کی غزل کی

مر مر کی سِلوں کی وہ چمک مر گئی ساری

پہلی سی وہ رعنائی کہاں تاج محل کی

            انور مسعود کو اپنے ماحول سے بہت گلہ ہے۔ وہ اپنے آس پاس دھوئیں کی ایک ایسی لہر دیکھتے ہیں، جس میں گرد و غبار کے ریلے مطلوبہ شے کو دیکھنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس ماحولیاتی ابتری کی موجودگی میں وہ آنکھوں کا احسان لینا فضول سمجھتے ہیں اور ایسے دیکھنے سے نہ دیکھنا بہتر خیال کرتے ہیں :

کیا دیکھنا ہے کچھ بھی دکھائی نہ دے اگر

کیا فائدہ کہ دید کا احساں اُٹھائیے

ملتا ہے اک غبار دھُوئیں میں مِلا ہوا

اک دھُند رُو برو ہے جو مِژگاں اُٹھائیے

            صنعتوں اور کارخانوں کی اسی لاپرواہی اور ماحول سے بے اعتنائی پر طنز کا ایک اور پہلو اختیار کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ صنعتی پیش رفت کے صدقے ہمیں بہت خوشگوار موسم میسر آیا ہے اور اب دھوپ کے وقت بھی دھوئیں کے بادل کی وجہ سے سارا دن سایہ سا رہتا ہے:

صنعتی پیش رفت کے صدقے

موسمِ خوشگوار پایا ہے

شہر پر اب دھُوئیں کی برکت سے

ایسا لگتا ہے اَبر چھایا ہے

            ’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں ‘کا ایک تازہ مفہوم ملاحظہ ہو:

اک غبارستان برپا کر گئی ہیں موٹریں

گرد کی موجیں اُٹھیں اور ایک طوفاں ہو گئیں

راہرو جتنے تھے سب آنکھوں سے اوجھل ہو گئے

’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں ‘

            فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والے اہم مسائل میں آنکھوں کی جلن، سانس میں رکاوٹ، ناک، گلے اور پھیپھڑوں کی بیماریاں، سر درد، چکر آنا، اسہال، قوتِ مدافعت میں کمی، بلڈ پریشر کا ابنارمل ہونا، درختوں اورپودوں کی افزائش پر بُرا اثر، عمارتوں کی سطح کا بدنما اور کمزور ہونا، دھاتوں کا زنگ آلود ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بیماریاں اور مسائل فضا میں چھوڑی جانے والی گیسوں، گردو غبار، ٹھوس ذرات اور متفرق اقسام کے دھوئیں وغیرہ سے جنم لیتے ہیں۔ ان مسائل و مصائب سے نجات کے لیے ماحول کی حفاظت اور اس کی تعلیم کی جانب توجہ بہت ضروری ہے۔

۲۔      جنگل، درخت اور سبزہ وغیرہ

            انور مسعود کی ماحولیاتی شاعری میں جنگل، درخت اور سبزے کا ذکر تسلسل کے ساتھ آتا ہے۔ یہ تینوں خوشگوار اور صحت افزا ماحول کی علامتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مقدس کتاب ’’قرآن کریم‘‘ میں درختوں کی اہمیت بیان کی ہے۔ جنت میں خوب صورت اور ہرے بھرے درختوں کا ذکر بار بار آیا ہے۔ زیتون، انار اور انگور وغیرہ کے نام قرآن میں جگہ پا کر درختوں کی حفاظت پر اُکساتے ہیں۔ درخت قدرت کا ایک انمول تحفہ ہیں۔ درخت ماحول کو سنوارکر حیات کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ آکسیجن مہیا کر کے سانسوں کو مشکبار کرتے ہیں اور سخت دھوپ میں ٹھنڈے سائے کا سامان کرتے ہیں۔ ان کی لکڑی کبھی بیٹھنے کے لیے آرام دہ نشستیں فراہم کرتی ہے، تو کہیں سونے کے لیے خواب آور پلنگ مہیا کرتی ہے۔ انور مسعود درختوں کی داستان بیان کرتے ہوئے رنجیدہ ہو کر کہتے ہیں :

اب ان کا حالِ پریشاں نہ پوچھئے ہم سے

کہ راحتیں ہیں بہت جن کی چھتریوں کے تلے

دھُواں دھُواں ہے درختوں کی داستاں انور

کہ جنگلوں میں پلے اور بستیوں میں جلے

            جس طرح بچوں سے خالی گھر بیابان ہوتا ہے، اسی طرح جہاں درخت اور پودوں کی ہریالی نہیں ہوتی، وہاں اُجڑے پن کا احساس غالب آ جاتا ہے۔ درختوں اور پودوں کی اسی نا گزیریت کو اجاگر کرتی، انور مسعود کی ماحولیاتی جہتوں پر چھائی ایک غزل پیش ہے:

وہاں امکانِ خوشحالی بہت ہے

جہاں پیڑوں کی ہریالی بہت ہے

نہیں ہے برگِ سبز آنگن میں جس کے

وہ گھر خالی ہے اور خالی بہت ہے

جو پامالی سے گلشن کو بچائے

بہت ہے ایک وہ مالی بہت ہے

درختوں کی نگہبانی کئے جا

یہ محنت منفعت والی بہت ہے

پیامِ امن دینا ہو جو انور

تو اک زیتون کی ڈالی بہت ہے

            انورمسعود درختوں کی کٹائی کو ان کے قتل سے تشبیہ دیتے ہیں۔ بے شک کہ راستے کی کشادگی ضروری ہوتی ہے، لیکن یہ کون سی عقل مندی ہے کہ لاشیں گرا کر، ان پر سڑکیں بچھائی جائیں :

قالین بھی زمین پہ بِچھتے رہے ضرور

آرے جو ساتھ ساتھ چلے ہیں نہ پوچھئے

سڑکیں تو ہو گئی ہیں کشادہ بہت مگر

کتنے درخت قتل ہوئے ہیں نہ پوچھئے

            پیڑ کے کٹنے پر، جنگل کی اداسی کا ایک منظر دیکھیے:

طاری ہر اک نہال پہ بوجھل سا اِک سکوت

ہر ایک برگِ شاخِ شجر محوِ یاس ہے

وہ بھی تو ایک سبز قبیلے کا فرد تھا

اک پیڑ کٹ گیا ہے تو جنگل اُداس ہے

۳۔     پانی پرآلودگی کے اثرات

            اللہ تعالیٰ نے انسان کو پانی جیسی عظیم نعمت عطا کر کے بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔ انسان کی تخلیق کا ایک جزو یہی پانی ہے۔ پانی کے سیکڑوں استعمال ہیں اور جہاں سے پانی ختم ہو جائے، وہاں سے زندگی کا نام و نشان تک مِٹ جاتا ہے۔ زمانۂ قدیم میں لوگ پانی کے کنارے آبادیاں قایم کرتے تھے اور اب بھی جہاں قدیم تہذیبوں کا سُراغ ملا ہے، وہ پانی کے کناروں پر آباد تھیں۔ پانی انسان کو پاک کرتا ہے اور یہ اس کی پیاس بھی بجھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآنِ کریم میں اپنی اس نعمت کا بار بار ذکر کر کے اس کی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔ پانی کے کئی سرچشمے ہیں۔ بارش، ندی نالے، چشمے، دریا، سمندراور زیرِ زمین اس کے خزانے پکار پکار کر اللہ کا شکر ادا کرنے پر مائل کرتے ہیں۔ پانی کے ان ذخیروں میں موتی، مونگے، مچھلیاں وغیرہ اس کے علاوہ ہیں، جب کہ سمندروں میں بڑے بڑے جہازوں سے سفر اور تجارت کا کام لیا جاتا ہے۔

            افسوس کا مقام ہے کہ انسان نے پانی کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ شہروں میں پینے کے صاف پانی کو پائپوں کے ذریعے لوگوں کے گھروں تک پہنچایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ایک بار یہ پائپ بچھا کر دوبارہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ جب نالیوں اور سیوریج کے لیے بنائے جانے والے گندے نالے بنائے جاتے ہیں، تو وہ صاف پانی کے پائپوں کے اوپر سے گزرتے ہیں۔ یہ پائپ مضروب ہو کر گندے پانی کو اپنے اندر شامل کر کے گھروں تک پہنچ کر لوگوں کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اس حوالے سے انور مسعودکا مشاہدہ نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے:

پانیوں میں ہی اس زمانے میں

اک ذرا اتحاد رہتا ہے

آبِ شیریں رواں نہیں تنہا

گندا نالا بھی ساتھ بہتا ہے

ایسے ہی چند اور مشاہدات ملاحظہ کریں :

ایک گریہ سنائی دیتا ہے

سارے دریاؤں کی روانی میں

آدمی نے وہ زہر گھولا ہے

مچھلیاں مر رہی ہیں پانی میں

اب تو مچھلی اُس کے پانی میں پنپتی ہی نہیں

اُس میں پیدا اب کہاں عکسِ رُخِ مہتاب ہے

اب کہاں شفّاف موجوں کے وہ دلکش لہریئے

اب تو راوی آبِ آلودہ کا اک تالاب ہے

            انسان کی جدت پسندی اچھی چیز ہے، لیکن یہ مثبت سمت میں ہونی چاہیے۔ جب ماحول اس جدت پسندی کا شکار ہونے لگ جائے تو یہ جدّت پسندی پینے کے پانی کے لیے بھی ترسانے لگتی ہے۔ زمین، فضا اور دریاؤں پر آلودگی پھیلانے کے بعد اس کا رُخ سمندر کی جانب مڑنے پر انور مسعود اس جدت پسندی پر اس طرح ضربِ مزاح لگاتے ہیں :

حضرتِ انساں ہُوں میں اور ہوں بہت جدّت پسند

نو بہ نو تازہ بہ تازہ تجربے میرا ہدف

خشکیوں پر میں بہت پھیلا چکا آلودگی

اب مری ساری توجہ ہے سمندر کی طرف

            سمندر ہمیں کئی ضروریاتِ زندگی سے ہم کنار کرتا ہے۔ اس کا ذکر قرآن میں کئی جگہ پر آیا ہے اور اس کے فوائد کی کچھ تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ سمندروں میں گھومنے والے جہازوں، ان میں موجود مختلف النسل مچھلیوں اور قیمتی موتیوں وغیرہ کی مثالیں دے کرسمندر کی اہمیت انسانوں پر واضح کی گئی۔ سمندروں میں پائے جانے والے خزانوں اور اس سے حاصل ہونے والی خوراک (جس میں نمک بھی آتا ہے)پر انور مسعود اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں :

اللہ اللہ سخاوتیں اُس کی

اور خزانے زر و جواہر کے

اُس سے حسنِ سلوک لازم ہے

ہم نمک خوار ہیں سمندر کے

۴۔      شور و غل

            ماحول کو آلودہ کرنے میں شور کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ذہنی امراض اور ڈیپریشن جیسے مسائل پیدا ہو کر انسانی زندگی کو وبالِ جان بنا دیتے ہیں۔ قوتِ سماعت کمزور پڑ جاتی ہے اور قریب کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ بڑے شہروں کے مکین شور کے ہاتھوں تنگ آ کر دیہی علاقوں اور دور دراز سیرگاہوں کا رُخ اس لیے کرتے ہیں، تاکہ کچھ وقت کے لیے اپنے آپ کو شور سے محفوظ رکھ سکیں۔ شور پیدا کرنے کے کئی ذرائع ہیں۔ گاڑیوں اور رکشوں کی آوازیں، ان کے ہارن بجنے کا شور، موسیقی اور بے ہنگم ریکارڈرکا شور، فیکٹریوں میں مشینوں سے پیدا ہونے والا شور وغیرہ تو عام ہیں۔ گلیوں محلوں میں گھوم پھر کر چیزیں فروخت کرنے والوں کی گرجدار آوازیں اور لاؤڈاسپیکروں پر دن بھر ہونے والے اعلانات و تقاریر رہائشیوں کا سکون و آرام تباہ کر کے ان کی سماعتوں پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔

            انور مسعود نے اپنے گرد و پیش شور مچاتی آوازوں پر طنز و مزاح کا رنگ چڑھا کران کی نقش گری کی ہے۔ انھوں نے اس راہ میں واعظ کو نشانہ طنز بنانے سے ابتدا کی ہے کہ جب وہ مساجد میں پورا لاؤڈ اسپیکر کھول کر حقِ ہمسائیگی پر گھنٹوں درس دے گا، تو اس کے پڑوس میں دن بھر کی مشقت کاٹ کر آرام کی غرض سے لیٹنے والا مزدور کیسے سو سکے گا:

یہ واعظ کا طرزِ بیاں اللہ اللہ

بلند اُس کا آہنگ ہوتا رہے گا

جو بولے گا یوں حقِ ہمسائیگی پر

’تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا‘

            شور و غل کے موضوع پر کئی قطعات میں سے انتخاب دیکھتے چلتے ہیں :

ہر بس ہے ایک حشر کا ساماں لیے ہوئے

بھونپو عجیب طرح کے ایجاد ہو گئے

سُن کر یہ شور صُورِ سرافیل نے کہا

’لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہو گئے‘

مخلصانہ مشورہ اک دے رہا ہوں آپ کو

ورنہ لوٹیں گے وہاں سے کان سہلاتے ہوئے

آڈیو کیسٹ کی رستے میں دکانیں ہیں بہت

ٹھونس لیجے کان میں روئی اُدھر جاتے ہوئے

گویّوں کے یہ دہشت ناک جتھّے

کہ چلّاتے ہیں گانے کے بجائے

دھماکے ہیں کہ موسیقی ہے یارو

ہمیں اس پاپ سے اللہ بچائے

۵۔     زمینی آلودگی

            زمینی آلودگی کی حدیں بڑی وسیع ہیں اس کو متاثر کرنے والے عناصر میں قدرتی اور مصنوعی دونوں طرح کے ذرائع اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ قدرتی ذرائع میں زمین کا کٹاؤ، سیم و تھور اور قدرتی آفات(سیلاب، زلزلے، آتش فشاں وغیرہ) شامل ہیں۔ مصنوعی ذرائع انسانی ترقی کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ زہریلے صنعتی فضلات کے اخراج، مصنوعی کھادوں کے استعمال، انسانی آبادیوں کی آلائشیں اور ایٹمی دھماکوں وغیرہ سے زمین آلودگی کا شکار رہتی ہے۔

            انور مسعود زمینی آلودگی کی بھیانک اشکال یوں دکھاتے ہیں :

ہم کو درپیش ہیں اب اتنے مسائل انور

ان کو گننے بھی جو بیٹھیں تو زمانے لگ جائیں

کوئی تدبیر اِسی ایک پریشانی کی

یہ جو بکھرے ہوئے شاپر ہیں ٹھکانے لگ جائیں

صنعت کا زمانہ ہے زراعت کا نہیں

سبزے کا نشاں تک بھی زمینوں سے مٹا دو

جس کھیت سے دہقان کو روزی ہے میسّر

اُس کھیت میں فضلاتِ مشینی کو بہا دو

جب درختوں کی جڑیں کاٹی گئیں

کیمیائی کھاد جب ڈالی گئی

کھیت میں مومی لفافے پھینک کر

تہ بہ تہ آلودگی پھینکی گئی

کھیتوں کے دامنوں میں ہر برس

اک طرح کی فصل ہی بوئی گئی

یہ ستم بھی جب روا رکھا گیا

آبِ ناقص سے زمیں سینچی گئی

پھر مری اس بات کو مت بھولنا

پھر گئی مٹی کی زرخیزی گئی

۶۔     جدیدیت کے منفی اثرات

            دنیا کی آبادی میں کثیر اضافے کی وجہ سے لوگوں کا شہروں کی جانب نقل مکانی کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اب تو شہر بھی پھیلتے پھیلتے دیہاتوں اور قصبوں کی حدود کو چھونے لگے ہیں۔ آبادی کے دباؤ کی وجہ سے شہروں میں موجود سہولیات، بود  وباش کے طریقوں اور روزگار کی جدت کی وجہ سے ماحول پر گہرے اور منفی اثرات پڑے ہیں۔ تنگ و تاریک مکانوں اور گلیوں سے ہوا کا گزر نہیں ہوتا اور غلیظ و بدبو دار گیسیں پھیل کر ماحولیاتی آلودگی پیدا کر رہی ہیں۔ ان گلیوں میں اُبلتے ہوئے گٹّر اور نالیوں میں رُکا ہوا پانی جانداروں میں سینکڑوں بیماریاں اور انواع واقسام کے کیڑے مکوڑوں کی افزائش کے مراکز بن چکے ہیں۔ مناسب منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر تعفن کے گڑھ بن چکے ہیں۔

            شہروں کی بگڑتی اور ناقابلِ اصلاح ہوتی ہوئی ماحولیاتی کیفیات کو انور مسعود نے اپنی ایک نظم ’’جب ترے شہر سے گزرتا ہوں ‘‘ میں بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے، نظم کا ایک بند پیش ہے:

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

کس بلندی پہ گندگی پہنچی

ڈھیر کوڑے کے پربتوں جیسے

زلزلے پردۂ سماعت پر

پاپ میوزک کی بے سُری لَے سے

ایسے ماحول میں بھی جینے پر

لوگ مجبور ہو گئے کیسے

کب تک آلودگی میں بیتے گی

کیسے گزرے گی زندگی ایسے

ڈرتے ڈرتے سوال کرتا ہوں

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

            جدیدیت نے انسان سے جو سب سے بڑ ی چیز چھین لی ہے وہ اس کا احساس و شعور ہے۔ جدیدیت کے فوائد سے کماحقہٗ مستفید ہونے کے لیے تہذیب، تعلیم اور شعور ضروری ہیں۔ ان کے بغیر فوائد سے زیادہ نقصانات کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس پسِ منظر میں ۲۷ فروری ۲۰۰۹ء کو روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں شائع ہونے والا یہ اداریہ قابلِ توجہ ہے:

 ’’ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے اور ماحول کو صاف ستھرارکھنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں بھرپور کام کیا جاتا ہے اور آلودگی سے پاک ماحول کی صورت میں اس کے اچھے نتائج بھی سامنے آتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ماحولیاتی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں صنعتوں کا مضرِ صحت فضلہ کھلے عام پھینکنے کی روش بھی عام ہے جس کے نتیجے میں گھروں سے باہر کھیلتے ہوئے بچے کئی مرتبہ حادثات کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ چند روز قبل کراچی میں پیش آیا جہاں سائیٹ ایریا کے رہائشی علاقے عابد آباد کے قریب نامعلوم افراد نے کچھ صنعتی فضلہ پھینک دیا جس سے کرکٹ کھیلتے ہوئے دو بچے جھلس کر شدید زخمی ہو گئے۔ ادارہ تحفظ ماحولیات کی جانب سے نہ صرف ذمے دار فیکٹری کے خلاف کاروائی ہونا چاہیے بلکہ اس امر کو یقینی بھی بنایا جانا چاہیے کہ آئندہ کوئی فیکٹری اس طرح کا خطرناک مادہ سرِعام نہ پھینک سکے تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔ بعض فیکٹریوں کی جانب سے مضرِ صحت مادہ ماحول میں شامل کرنے کی وجہ سے صرف اس نوعیت کے انفرادی حادثات ہی جنم نہیں لیتے بلکہ ان مادوں کی وجہ سے مجموعی طور پر انسانی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ صنعتی یونٹوں کے فاضل مادوں کی وجہ سے ہوا اور زیرِ زمین پانی دونوں آلودہ ہو رہے ہیں۔ اس آلودگی اور اس کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ صنعتی یونٹوں کو فاضل مادوں کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے موجودہ قوانین کا پابند بنایا جائے۔ ‘‘ [۱۱]

             انسان نے ذاتی اور وقتی فوائد کے لیے قدرتی ماحول کومستقل خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ صنعتوں اور کارخانوں سے اُٹھنے والے دھوئیں کے بادل، کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کو ٹھکانے لگانے سے لاتعلقی، سیوریج اور نالیوں کے پانی کا بے تدبیری کی وجہ سے گلیوں اور سڑکوں پر بہنا، فصلوں پر کیمیائی کھادوں اور ادویات کا بے دریغ چھڑکاؤ، گاڑیوں اور موسیقی وغیرہ کا شور و غوغا ہمارے ماحول کو تباہ کر کے زمین سے انسانی زندگی کے خاتمے کا باعث بن رہے ہیں جن سے نپٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں انور مسعود کی ماحولیاتی کاوشیں اس جانب پہلا قدم ہیں اور اب حکومت سمیت ہر شہری کا یہ فرض ہے کہ ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

vi۔    متفرق

            انور مسعود نے درج بالا بڑے بڑے موضوعات کو جزئیات کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کئی ایسے واقعات کو اپنے موضوعات میں باندھا ہے جن کا سامنا ہمیں روز مرہ زندگی میں اکثر ہوتا رہتا ہے۔ اس نوعیت کے چھوٹے بڑے اہم موضوعات کا جائزہ درج ذیل ہے۔

            انسانی زندگی میں بہت سے حادثات تیز رفتاری کے سبب پیش آتے ہیں۔ مسافروں کو سڑک پار کرتے دیکھ کر ہمارے ڈرائیور حضرات رفتار کم کر کے انھیں گزرنے کا موقع دینے کے برعکس گاڑی کی رفتار مزید بڑھا دیتے ہیں، جس سے حادثات جنم لیتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ اس برائی میں سب سے بڑھ کر ہے اور ان میں سفر کرنے والے لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سفر کرتے ہیں۔ ڈرائیوروں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست نہ ہونا، ڈرئیونگ لائسنس کا بغیر معیار کے اجرا، اخلاقی رویوں کا فقدان وغیرہ مل کر آئے روز قیمتی جانوں کے زیاں کا باعث بنتے ہیں۔ خاندانوں کے خاندان ڈرائیوروں کی ذرا سی لاپرواہی سے اُجڑ جاتے ہیں۔ ایسے ہی حادثات کا پیش خیمہ بننے والے عام سے واقعہ پر انور مسعود یوں گویا ہوتے ہیں :

اِک زخمی شدید دمِ مرگ کہہ گیا

وقت اس کے پاس گرچہ بہت ہی قلیل تھا

بس پر سوار ہو کے میں فارغ ہوا شتاب

 ’’ورنہ سفر حیات کا بے حد طویل تھا‘‘

            پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک اور رُخ دکھا کر عوامی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں :

اے راہرو گذرتی ہوئی ویگنوں میں دیکھ

انساں کی با وقاریاں، با  اختیاریاں

کیا اِس میں جھوٹ ہے کہ اسی ایک روٹ پر

مرغا بنی ہوئی ہیں ہزاروں سواریاں

            گندم اور جنت کا ذکر آتے ہی حضرت آدمؑ و حواؑ کی جنت سے بے دخلی کا واقعہ ذہن کے نہاں خانوں سے نکل کر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ شاعری میں ان دونوں حروف کی آمد تلمیح کو جنم دیتی ہے۔ انورمسعودکہتے ہیں کہ گیہوں میں حضرتِ انسان کی پوری کہانی گوندھی ہوئی  ملتی ہے۔ گندم، گیہوں، روٹی اور نان کی لفظی مناسبتوں نے زیرِ نظر قطعے کو جاندار بنا کر معنویت سے مالا مال کر دیا ہے:

جنت سے نکالا ہمیں گندم کی طلب نے

گوندھی ہوئی گیہوں میں کہانی ہے ہماری

روٹی سے ہمیں رغبتِ دیرینہ ہے انور

یہ ’نان۔ کومٹ منٹ‘ پرانی ہے ہماری

            مزدور ہر معاشرے کا اہم طبقہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے مملکت کے ہر محکمے کے مشکل اور جسمانی محنت والے کام تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں موجود بے عملی، سستی اور کام چوری نے مزدور طبقے کو براہِ راست متاثر کر کے اس میں کچھ ایسی عادات اور ذہنی کیفیات پیدا کر دی ہیں کہ زمانہ ترقی کی کتنی ہی منازل کیوں نہ طے کر جائے، مزدور کا انداز وہی رہے گا جس میں دیہاڑی پر کام کرنے پر وہ ایسے حربے استعمال کرتا ہے جو کام کے مکمل ہونے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ آٹھ گھنٹوں میں مزدور تین مرتبہ چائے، ایک مرتبہ لنچ اور کئی مرتبہ سگریٹ نوشی اور گپوں میں وقت گزار کر اپنی راہ لیتا ہے۔ لیکن دوسری جانب یہی کام جس کو وہ دس دن میں بمشکل مکمل کرتا ہے، ٹھیکے پر دے دیا جائے تو صرف دو یا تین دن ہی میں ختم کر کے حیران کر دیتا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ دیہاڑی مخصوص معاوضے پر مشتمل ہوتی ہے اور ٹھیکے میں معاوضہ تو اتنے دنوں کا ہی ہوتا ہے لیکن کام مزدور کی مرضی پر چھوڑ دیا جاتا ہے چاہے وہ اسے ایک دن میں کام مکمل کرے یا کئی دنوں  میں۔ مزدور کے اس انداز پر انور مسعود کہتے ہیں :

بدلا ہے نہ بدلے گا یہ مزدور کا انداز

سو بار بدلنے کو بدل جائے زمانہ

ہو کام دہاڑی پہ تو سستی میں ہے بے مثل

ٹھیکے پہ ہو گر کام تو پھرتی میں یگانہ

             ’’مٹی پلید کرنا‘‘ اردو کا ایک محاور ہ ہے۔ انور مسعود نے اس محاورے کو شاعری کے قالب میں بڑی بے تکلفی سے ڈھال دیا ہے۔ شہروں میں پانی کی کمی کی وجہ سے مزدور ریت، سیمنٹ اور بجری وغیرہ کو یکجان کرنے کے لیے آلودہ پانی کوہی استعمال کر ڈالتے ہیں۔ اس ضرورت کے لیے نالیوں کا غلیظ پانی استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ ایسے ہی واقعہ کی جھلک اس قطعہ میں دکھائی دیتی ہیں :

گارا بنا رہا تھا جو مزدور راہ میں

پوچھو نہ بے تکلفی اس مہربان کی

نالی کا اس میں آبِ نجس بھی ملا گیا

            تفصیل سے اغماض برتتے ہوئے اسی طرز کے مزید متفرق نمونے پیش ہیں :

چلی سمت غیب سے اک ہوا، نہ رہا وہ رنگ خلوص کا

کہ صحافتوں کی دکان پر کوئی جنس بھی نہ کھری رہی

کسی سطر میں نہ خبر ملی، فقط اشتہار پڑھا کئے

ہمیں روز نامے سے کیا ملا، جو رہی سو بے خبری رہی

ہمیں ایسے پڑھے لکھے ملازم کی ضرورت ہے

ورق گردانیِ پیہم سے جو ہر گز نہ تھکتا ہو

ہمیں درکار ہے اک مرد صاحبِ جستجو ایسا

جو اخباروں کی خبروں کے بقیے ڈھونڈ سکتا ہو

تلّون مزاجی ہے اپنا شعار

ہر اک شے ہمیں بور کر جائے گی

حکومت فرشتوں کی لے آیے

 ’’طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی‘‘

کل قصائی سے کہا اک مفلسِ بیمار نے

آدھ پاؤ گوشت دیجے مجھ کو یخنی کے لیے

گھور کر دیکھا اسے قصاب نے اس طرح

جیسے اس نے چھیچھڑے مانگے ہوں بلی کے لیے

اپنے یہاں جو سب سے زیادہ جملہ بولا جاتا ہے

میں اس سوچ میں تھا وہ جملہ کون مجھے بتلائے گا

اتنے میں آواز کسی کی میرے کان سے ٹکرائی

دے جا سخیا راہِ خدا ترا اللہ ہی بوٹا لائے گا

ٹوٹتی، چیختی، چٹختی ہیں

ہڈیاں، پسلیاں بچاروں کی

روزہ خوروں سے عید ملتے ہیں

شامت آئی ہے روزہ داروں کی

کتاب سے ہے عزیزوں کا رابطہ قائم

وہ اس سے اب بھی فائدہ اٹھاتے ہیں

کبھی کلاس میں آتے تھے ساتھ لے کے اسے

اب امتحان کے کمرے میں لے کے جاتے ہیں

یہ حالت ہو گئی خلقِ خدا کی

کہ مہنگائی کے ہاتھوں مر رہی ہے

نرالی ہے معیشت بھی ہماری

کہ یہ پھر بھی ترقی کر رہی ہے

            انور مسعود کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں موضوعات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ کوئی واقعہ، منظر یا خیال ان کے نوکِ قلم سے بچ نہیں پاتا۔ ہم انور مسعودکو ایک مصور کہہ سکتے ہیں، وہ بات کرتے ہیں تو تصویر بنا دیتے ہیں۔ انھوں نے معاشرے کے لاتعداد پہلوؤں کی مصوری کر کے اپنے عہد کو صدیوں کے لیے نقش بر کتاب کر دیا ہے۔ ان کے موضوعات صرف تفنن طبع کا وسیلہ نہیں بنتے بلکہ قاری کو آئینہ دکھاتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

انور مسعود اور نظیر اکبر آبادی ( تقابلی جائزہ)

               ۱۔       شخصیت کا تقابلی مطالعہ

            انور مسعود اور نظیر اکبر آبادی کی صرف شاعری میں اشتراک نہیں ہے بلکہ ان دونوں کی شخصیت میں بھی حیرت انگیز حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ البتہ کہیں کہیں ایسے تضادات سامنے آتے ہیں جہاں دونوں ایک دوسرے سے بہت دور کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ذیل میں دونوں کی شخصیت کا مختلف حوالوں سے جائزہ پیش ہے۔

i۔      وضع قطع

            انور مسعوددرمیانے قد کے مالک ہیں۔ رنگ گندمی، متناسب چہرہ، آنکھوں میں نمایاں چمک اور چوڑی پیشانی پہلی نظر میں ان کی ذہانت پر قائل کرتی ہیں۔ ڈاڑھی صاف اور پست مونچھیں جبکہ ناک درمیانہ، بہت بلند نہ بہت چھوٹی۔ عہد شباب میں جسم بھرا بھرا تھا، بڑھاپے میں جوانی والی صورت نہیں رہی۔ چال سے متانت اور وقار جھلکتا ہے۔ ذوقِ خوش لباسی جوانی سے اب تک قائم ہے۔

            اب نظیر کی وضع قطع کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ’’کلیاتِ نظیر‘‘ میں نظیر اکبر آبادی کی جو تصویر کشی ملتی ہے وہ کچھ یوں ہے:

 ’’رنگ گندم گوں، قد متوسط، پیشانی بلند اور چوڑی، آنکھیں چمکدار، ناک بلند، داڑھی خشخشی مونچھیں بڑی، لباس وہی جو محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں دہلی کے اندر رائج تھا یعنی کھڑکی دار پگڑی، گاڑھے کا انگرکھا سیدھاپردہ نئی چولی، اُس کے نیچے کُرتا، ایک برکا پاجامہ، گھتیلی جوتی، ہاتھ میں شام دار چھڑی، انگلیوں میں فیروزے اور عقیق کی انگوٹھیاں۔ ‘‘ [۱۲]

            دونوں کی وضع قطع کے درج بالا مطالعے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی شکل و شباہت میں کافی حد تک مطابقت پائی جاتی ہے۔ ایک اور مماثلت دیکھیے کہ دونوں اپنی اپنی صدی کے چوتھے عشرے میں متولد ہوئے۔ نظیر کی پیدائش ۱۷۳۵ء اور انور مسعود کی پیدائش ۱۹۳۵ء میں ہوئی۔ دو صدیوں کے فرق کے باوجود دونوں کا سالِ پیدائش ایک ہی ہے۔ ٹھیک دوسو سال بعد ایک ہی مزاج کا دوسرا شخص تخلیق کرنا قدرت کی صناعی کا حسین نمونہ ہے۔

ii۔     عوامی مزاج

            کئی ایسی شخصیات ہوتی ہیں جو شکل و شباہت میں تو ایک دوسرے کے مماثل ہوتی ہیں لیکن ان کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ لیکن نظیر اور انور کی شکل و شباہت میں موجود مماثلت ان کے مزاج میں بھی کافی حد تک موجود ہے۔ عوام سے قربت ان کو میلوں ٹھیلوں میں یکجا کرتی ہے۔ انور مسعود دیہی پسِ منظر میں کبھی ’’اَج کیہ پکائیے ‘‘ میں چودھری اور رحماں کا مکالمہ سنتے ہیں تو کہیں ’’انار کلی دیاں شاناں ‘‘ میں ایک بھینس سے مخاطب ہو کر بڑے بازاروں کی رونقوں کو نگاہوں میں بسا دیتے ہیں جہاں امیر کبیر اشیا خریدتے ہیں اورمفلس اپنی جھولیاں خالی کی خالی واپس لے جاتے ہیں۔ کہیں جہلم کے پُل کے اُوپر کھڑی لاریوں میں گھوم پھر کر اشیا فروخت کرنے والوں کی وارداتوں کا مفصل احوال بیان کر کے عوامی زندگی کو بیان کرتے ہیں تو کہیں شہروں میں پھیلے گردو غبار، شور شرابے، درختوں کی پامالی وغیرہ کو ’’میلی میلی دھوپ‘‘ میں مقید کر دیتے ہیں۔ یہی خاصیتیں انور مسعود کے عوامی مزاج کا پتا دیتی ہیں۔

            جب نگاہ نظیر اکبر آبادی کے مشاغل کی جانب اُٹھتی ہے تو وہ نہ صرف لوگوں کی مصروفیات کا جائزہ لیتے ہیں بلکہ خود بھی ان میں شریک ہو کر پورا پورا لُطف اٹھاتے ہیں۔ ہولی، دیوالی، دسہرہ، بسنت، عید، محرم، شب برات، عرس، میلے وغیرہ پر نظیر  کی نظمیں اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ ان تہواروں کے چھوٹے سے چھوٹے جز کو نظر انداز نہیں کرتے اور معلومات کے سمندر میں زباندانی کے کرشمے ملا کر واقعے کو مجسم بنا دیتے ہیں۔ ان کے موضوعات وہی ہیں جو اُن کے ارد گرد بسنے والے لوگوں کی روزمرہ سرگرمیوں میں موجود تھے۔ اسی وجہ سے راہ چلتے اشعار اور نظمیں کہہ ڈالتے جو زیادہ تر فرمایشی ہوتی تھیں اور انھیں کی بدولت نظیر کی شہرت دور دور تک جا پہنچی تھی۔

iii۔    قناعت پسندی

            انور مسعود کے کردار کی ایک نمایاں خوبی اِن کی قناعت پسندی ہے۔ عالمی شہرت کے باوجود فقیرانہ اور عوامی مزاج ان کو ریا کاری، ہوس، لالچ وغیرہ سے کوسوں دور کھڑا کیے ہوئے ہے۔ اب تک اُسی مکان میں رہائش پذیر ہیں جو پہلی مرتبہ زمین خرید کر تعمیر کرایا تھا۔ مزاح گوئی میں یکتائی کے باوجود ہر مشاعرے میں بلا حیل و حجت چلے جانا ان کے کردار کو جان دار بنا دیتا ہے۔

            نظیر اکبر آبادی میں حد درجہ قناعت پائی جاتی تھی۔ جہاں بیٹھ گئے وہیں ڈیرہ جما لیا۔ کھانے کی فکر نہ روپے کا لالچ۔ نظیر کی قناعت پسندی پر عبد المومن الفاروقی لکھتے ہیں :

 ’’۔ ۔ ۔ نظیر مفلس تھا مگر بڑا قانع تھا۔ اس کی قناعت اس کی زندگی کا ایک مستقل اور نہایت دلچسپ باب ہے۔ اس کی قناعت کا درجہ اس لیے بہت بلند ہے کہ اس کی قناعت مجبوری کا دوسرا نام نہیں بلکہ ان تمام پاکیزہ اجزا سے مرکب ہے جو اس صفت کا لازمہ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ دنیا کے بہت سے اربابِ کمال زندگی بھر مفلس رہے ہیں مگر خود اختیاری مفلسی کا شرف بہت کم کو حاصل ہوا ہے۔ جو نفس، نظیر کی طرح جہاد کرے گا وہی قناعت کے اتنے بلند مرتبے پر فائز ہو سکتا ہے۔ ‘‘  [۱۳]

            اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ دونوں شاعر قناعت پسندی کی دولت سے مالا مال رہے۔ مصنوعی شاہانہ زندگی سے لاتعلقی، عوام کے شانہ بشانہ وقت گزارنا اور حسد و کینہ کا خیال تک دل میں نہ لانا ان کو ہر طبقہ میں باعثِ تکریم بنا دیتے ہیں۔

iv۔     مذہب و اخلاقیات

 

 

            انور مسعود کا تعلق مذہبی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد درویش صفت آدمی تھے اور گھر میں نماز، روزہ وغیرہ کی پابندی تھی۔ انور مسعود بھی پانچ وقت کے نمازی ہیں۔ بڑھاپے میں جب اعضا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں تو سستی غالب آ جاتی ہے لیکن انور مسعود ہر صورت نماز ادا کرتے ہیں۔ حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ محبت و اخلاص سے پیش آتے اور چھوٹوں پر خصوصی شفقت فرماتے ہیں۔ میرا اُن کے ساتھ جتنی مرتبہ ملنا ہوا، بڑی خندہ پیشانی سے ملے اور تواضع میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ باتیں کر رہے ہوں تو گھنٹوں اُٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ان کی اردو اور پنجابی شاعری بھی مذہب و اخلاقیات کے مضامین سے مزین ہے۔

            نظیر اکبر آبادی مذہبی رسومات کے پابند تھے اور اس کے لیے بہت سا روپیہ صرف کرتے۔ محرم کی مجالس میں خصوصی طور پر شرکت کرتے تھے۔ تذکروں سے نماز کی ادائیگی کا علم بھی ہوتا ہے۔ اخلاقیات کے متعلق عبدالمومن فاروقی اپنی رائے دیتے ہیں :

 ’’میاں نظیر میں حلم بہت آ گیا تھا۔ خلیق و متواضع بے حد تھے جس مجلس میں بیٹھتے اخلاق کے نور سے شمعِ انجمن معلوم ہوتے۔ نادرہ سنج ایسے تھے کہ کوئی بات لطیفہ سے خالی نہ تھی جو بات ہوتی نظم میں مخمس ہوتی، احباب اور ہم صحبتوں کو اپنی لطافت سے شگفتہ کر دیتے جود و احسان میں بھی کبھی کمی نہ کی۔ میاں نظیر کے اخلاق کی ان کی زندگی میں دور دور شہرت ہو گئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۲۰]

v۔      درس و تدریس

 

 

            انور مسعود نے اپنے رزق کے حصول کے لیے درس وتدریس کو وسیلہ بنایا۔ ابھی تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی کہ گھریلو حالات ناگفتہ بہ ہونے پر بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ تعلیم کے اختتام پر اسی پیشے سے مستقل طور پر وابستہ ہو گئے اور اپنی تمام زندگی اسی شعبے میں گزا ردی۔ فارسی زبان اور شعرو ادب کے حوالے سے ان کی درسی خدمات کئی عشروں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ابتداً انگریزی بھی پڑھاتے رہے۔ چار زبانوں اردو، فارسی، انگریزی اور پنجابی میں مہارت کی بدولت ان کا محاورہ بے مثال ہے۔

            میاں نظیر کا مشغلہ معلمی تھا۔ اُس زمانے میں امرا اپنے بچوں کی تربیت کے لیے اساتذہ کو ڈھونڈ کر اپنے پاس رکھتے تھے۔ اس طرح نظیر کو کئی بڑے بڑے لوگوں کے بچوں کو پڑھانے کا موقع ملا۔ نظیر اپنے درس میں عام لوگوں کے بچوں کو بھی شریک کیا کرتے تھے۔ سیروسیاحت کے شوق نے انھیں چلتے پھرتے مدرسے کی صورت دے رکھی تھی۔ کبھی ایک جگہ ٹھکانہ رکھ لیتے اور کبھی گلیوں گلیوں لوگوں میں گھل مل کر ان کے علم میں اضافہ کرتے۔ بقول عبدالمومن فاروقی:

 ’’پرانی کمائی پاس تھی۔ مکتب داری کا شغل لے بیٹھے۔ کچھ روز کو متھرا گئے۔ پھر لوٹ آئے۔ یہاں قلعہ دار مرہٹہ ’’بہاؤ‘‘ تھا اُس نے بلایا اور آپ سے پڑھنا شروع کیا۔ یہاں سے چھُٹے تو نواب محمد علی خان امرائے آگرہ سے تھے، مکان مائی تھان میں تھا۔ اُن کے یہاں لڑکوں کو پڑھانے جانے لگے۔ یہیں سے لالہ بلاس رائے کھتری سے راہ ورسم ہو گئی۔ جب نواب کے یہاں سے جدا ہوئے تو رائے صاحب نے سرآنکھوں پر بٹھایا اور اپنے بچوں کو سپردگی میں دیا اور ان کی جملہ ضروریات کی کفالت اپنے ذمہ لی۔ لالہ کے چھ لڑکے من سکھ رائے، گوز بخش، ہر بخش، مولچند، بنسی دھر اور شنکر داس زیرِ تعلیم تھے۔ ‘‘ [۱۴]

            دونوں نامور شعرا کی شخصیت کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اُن کا خمیر ایک ہی مٹی سے اُٹھا تھا۔ دونوں کے مشاغل ایک، پیشہ مشترک، طبیعت میں شگفتگی اور عوامی مزاج نے انھیں لوگوں کے دلوں کے قریب کر کے عمرِ خضرؑ عطا کر دی ہے۔

               ۲۔      شاعری کا تقابلی مطالعہ

i۔      جدّت طرازی

 

 

            انور مسعود زبان میں جدت و اختراع کے حامی ہیں۔ ان کے کلام اور بیان میں الفاظ موتیوں کی لڑی کی طرح پروئے ہوتے ہیں۔ ہر لفظ اور محاورہ اس طرح اپنی جگہ پر جما ہوتا ہے جیسے اس کے لیے اِس سے زیادہ مناسب جگہ کوئی اور نہ ہو۔ ضرب الامثال اور محاورات کو استعمال کرنے کے لیے ایک پورے ا سٹیج کا اہتمام کرتے ہیں۔ کلامِ انور سے اس کی چند امثال ملاحظہ کیجیے:

ایویں میں قران دیاں قسماں نئیں چکدا

دلوں جے مکائیے نہ تے وہم نئیں جے مکدا

جنتری دا گاہک ایتھے کوئی وی نئیں دسدا

چوراں دا جو مُٹھا ہووے کسے تے نئیں وِسدا

نہ کوئی سیرت نہ کوئی صورت مونہہ کوئی نہ متھا

توں تے انجے جاپیں جیونکر جن پہاڑوں لتھا

دیس پرائے رانی خاں دی توں سالی بن بیٹھی

منگن آئی اگ تے آپوں گھر والی بن بیٹھی

            نظیر کی جانب نظر ڈالیں تو اُن کے ہاں جدت و اختراع کی کھیتی بڑی شاداب ہے۔ زبان پر دسترس کا اظہار اس خوبی سے کرتے ہیں کہ خیال مزید نکھر جاتا ہے۔ اردو، فارسی اور ہندی زبانوں کے اختلاط سے نہیں چونکتے اور تینوں کے الفاظ کو یکجا کر کے معانی کے دریا بہاتے ہیں۔ محاورات کے استعمال میں دلچسپی کی مثالیں تو بے شمار مل جاتی ہیں :

 ’’نظیر میں جدت و اختراع کا مادہ بھی بہت تھا، جس کی مثالیں اس کے کلام میں بہت مل سکتی ہیں۔ اس زمانہ میں مسلسل غزلیں کہنے کا رواج تھا۔ ۔ ۔ ۔ صرف ایک محاورے یا ضرب المثل کے لیے پوری غزل کہہ ڈالنا نظیر ہی کی جدت تھی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۱۵]

            نئے نئے قافیے نظیر کی غزل کو بے نظیر بنا دیتے ہیں۔ مثلاً:

گلہ لکھوں میں اگر تیرے غم کے چُہلوں کا

تو ہو نباہ نہ پچھلوں کا اور نہ پہلوں کا

سنے سے نام محبت کا تھرتھراتے ہیں

یہ کچھ تو حال ہے تیرے ستم کے دہلوں کا

کہا جو یار سے اک دن گر دل یہ چاہے ہے

طریق جیسے ہے عشرت کے اہلے گہلوں کا

یہ سن کے اُس نے کہا یہ تو وہ مثل ہے نظیر

کہ سوویں جھونپڑے میں خواب دیکھیں محلوں کا

ii۔     عوامی موضوعات

            انور مسعود کے شعری موضوعات بسوں، لاریوں، دفاتر، سبزی و گوشت فروشوں کی دکانوں، میلوں ٹھیلوں، سکولوں کالجوں، گھریلو مسائل اور لوگوں کے رویوں سے جنم لیتے ہیں۔ نظم ’’جہلم دے پُل تے‘‘ عام مسافروں کے سفر کی روداد کے ایک حصے کو سامنے لاتی ہے۔ ’’جمعہ بازار‘‘ اور ’’انارکلی دیاں شاناں ‘‘ بازار نما میلوں کا منظر بیان کرتی ہیں تو ’’پِٹ سیاپا‘‘ میں ساس اور بہو کے روایتی جھگڑوں کا تذکرہ ہے۔ ان کی شاعری میں عوام کی دلچسپی اور مقبولیت کی ایک اہم وجہ عوامی موضوعات کی ریل پیل ہے۔

            ڈاکٹر جمیل جالبی نے نظیر کو ’’ عوا م کا اکلوتا شاعر‘‘ کہا ہے۔ اس کی نظمیں عوام کے ایک ایک دُکھ کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ ’’کوڑی کی فلاسفی، روپے کی فلاسفی، زر کی فلاسفی، افلاس کا فوٹو، آٹے دال کی فلاسفی، روٹی کی فلاسفی، چپاتی کی فلاسفی، پیٹ کی فلاسفی، آدمی کی فلاسفی‘‘ وغیرہ میں مشاہدات کے پیچھے تجربات کی تلخیاں صاف دکھائی دے جاتی ہیں جن سے عام آدمی کی طرح نظیر بھی متاثر تھے۔ وہ بڑی بے باکی کے ساتھ سب تصاویر کی گٹھڑیاں کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:

 ’’نظیر  نے ایک عام آدمی کی طرح بھرپور زندگی گزاری۔ ہر کھیل تماشے اور بازی، تہوار۔ ۔ ۔ میں حصہ لیا۔ ہر وہ کام کیا جو اس معاشرے کا فرد کرتا تھا نظیر نے کیا اور طبقۂ خواص کی طرح چھپایا کچھ نہیں۔ اسی سے ان کی شاعری میں توانائی اور اثر و تاثیر پیدا ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ وہ عوام کے آدمی تھے اور ساری عمر ان سے جڑے رہے اور ساتھ ہی اپنی زندگی کو کھلے انداز میں بیان کرتے رہے۔ ۔ ۔ ۔ اردو شاعری میں یہ عوامی پہلو اس تیور کے ساتھ پہلی بار اُبھرا اور نمایاں ہوا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۱۶]

             ’’مفلسی کی فلاسفی‘‘ سے دو بند دیکھیے جن میں مفلس کی حالت کو ایک وسیع تناظر میں مثالوں کے ذریعے سلیس زبان میں باندھا گیا ہے:

جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی

کس کس طرح سے اُس کو ستاتی ہے مفلسی

پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی

بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی

یہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مفلسی

جو اہلِ فضل عالم و فاضل کہاتے ہیں

مفلس ہوئے تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں

پوچھے کوئی الف تو اُسے بے بتاتے ہیں

وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں

اُن کی تو عمر بھر نہیں جاتی ہے مفلسی

iii۔    زبان دانی اور معلومات

 

 

            شاعری کے لیے زبان دانی اور معلومات بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ انور مسعود اپنی شاعری میں جس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہیں اُس کی تمام تر تفصیلات کو بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ ’’جمعہ بازار‘‘ جیسی نظم بیٹھے بٹھائے تخلیق نہیں ہو جاتی، اس کے لیے بازاروں کے سینکڑوں چکر لگا کر معلومات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ معلومات کے حصول کے بعد ان کو کاغذ پر اُتارنے کا عمل ڈھنگ، سلیقہ اور زبان دانی کا متقاضی ہوتا ہے۔ انور مسعود معاصر زبانوں پر دسترس کے باعث مضمون کو لفظوں میں قید کر دیتے ہیں۔ ’’جمعہ بازار‘‘ کے اختتام کا منظر دیکھیے جو اِن کی انشا پردازی اور معلومات کا منہ بولتا ثبوت ہے:

شامیں سستے ویچن لگ پئے سودے ویچن والے

ایہو موقع ویکھ رہے سن کئی خریدن والے

ایدوں بعد ملنگاں وانگوں بیٹھے بیٹھن والے

سودے والی خالی پیٹی بال کے سیکن والے

رات، ہنیرا، بھانبھڑ، تارے جمعہ بزارے ویکھے

کیسے کیسے عجب نظارے جمعہ بزارے ویکھے

            یہ انداز صرف ایک نظم کا نہیں ہے۔ ان کی تمام نظمیں معلومات اور زبان دانی کے سلیقے کا برملا اظہار کرتی ہیں۔ یہ انداز عوامی زندگی کی جزئیات سے آگہی اور تجربے کی بھٹی سے گزرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔

            نظیر کی زندگی کے واقعات کا عکس اُن کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ وہ اپنے عہد کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی رُجحانات سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ ان کی نظموں کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ایک شخص مختلف مناظر دیکھتے ہوئے اُن پر رواں تبصرہ کر رہا ہے اور اُس کی نظر سے کوئی چیز چھپی نہیں ہے۔ کھیلوں کے رموز ہوں یا مذاہب کے ارکان، نظیر ان کے ایک ایک جز پر غیر معمولی رائے زنی کرتے ہیں جس سے اُن کی معلومات و زبان دانی کا قائل ہونا پڑتا ہے:

 ’’۔ ۔ ۔ ان (زبان اور معلومات) میں سوائے انشا کے کوئی دوسرا شاعر نظیر کا مقابل نہیں ٹھہرتا۔ نظیر جس چیز کا ذکر کرتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تمام متعلقات اور ضروری چیزیں اس کے گردو پیش کھڑی ہوئی ہیں اور وہ ان کو دیکھ دیکھ کر اشعار میں نظم کرتا جاتا ہے۔ ان میں اکثر چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کو دوسرے لوگ جاننا تو کیسا پہچانتے بھی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ’’[۱۷]

iv۔     ہمہ گیریت

            انور مسعود کی شاعری معاشرے کے اُس بڑے طبقے کی سرگرمیوں، رُجحانات اور تہذیب و تمدن سے جنم لیتی ہے جو رعایا کہلاتا ہے۔ ان کی تکالیف، مسائل، غم اور خوشیاں انور مسعود کے مشاہدے میں آ کر کاغذ پر اس طرح نقش ہو جاتے ہیں جیسے کسی سفید کپڑے پر مختلف رنگوں کے نشان ہوں۔ ان کے اشعار میں آنے والے واقعات روزمرہ زندگی سے جنم لے کر عوامی زبان و لہجے سے ہم آہنگ ہو نے کے بعد مانوسیت کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے موضوعات ہمہ گیر ہیں اور ایک مزدور سے لے کر جدیدسائنسی مباحث تک کا احاطہ کرتے ہیں۔

            نظیر کی شاعری کئی عشروں کے حالات و واقعات کی عکس بندی ہے۔ ہر وہ واقعہ اور منظر جو اُن کی نگاہ میں آتا ہے، ایک دم شعری روپ دھار لیتا ہے۔ نظیر نے اپنی زندگی میں بہت سے مشاغل اختیار کیے اور انھیں امرا کی صحبتیں بھی میسر آئیں۔ ان سب کا احوال ان کی شاعری میں ہمہ گیریت کا عنصر پیدا کرتا ہے۔ ’’کلیات نظیر‘‘ ہمہ گیریت کا ایک بیش قیمت خزانہ ہے جس میں ہر شخص کی پسند کا موضوع جزئیات کے ساتھ موجود ہے:

 ’’۔ ۔ ۔ اس(نظیر)کا کلیات ایک ایسا نایاب ذخیرہ ہے کہ زندگی کا کوئی پہلو معیشت و معاشرت کا کوئی انداز اور احساسات و تاثرات کا کوئی منظر ایسا نہیں ہے جو اس میں موجود نہ ہو۔ امیر و غریب، شاہ  و گدا، زاہد و رند، سنجیدہ  وغیر سنجیدہ، ہندو مسلمان۔ ۔ ۔ ۔ سب کی دلچسپی کا سامان اس میں موجود ہے اور عالمِ محسوسات کی شاید ہی کوئی چیز ایسی ہو جس کا ذکر کسی نہ کسی نہج سے نظیر نے نہ کیا ہو۔ مشاغلِ زندگی، ضروریاتِ انسانی مظاہرِ تمدن میں ’’مقطع‘‘ اور ’’ہنسوڑ قسم کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے نظیر نے چھوڑ دیا ہو اور جس پر پورے اہتمامِ شاعرانہ کے ساتھ تمام ممکن صنائع و بدائع لیے ہوئے قلم نہ اُٹھایا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۱۸]

v۔      شوخی و ظرافت

            انور مسعود کو طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں خصوصی مقام حاصل ہے۔ ان کی شاعری میں پائی جانے والی شوخی و ظرافت نے انھیں عوام و خواص میں ہر دل عزیز بنا دیا ہے اور یہی شاعری ان کی پہچان بن چکی ہے۔ خود انور مسعود کو اس بات کا اعتراف ہے کہ لوگ ان کے ہاں طنزو مزاح کو دیکھ کراس کے پیچھے چھپے ہوئے درد و الم کو بھول جاتے ہیں :

میں رہیا انور سدا زخماں تے پردے تاندا

لوک بھلیں پے گئے بُلھاں تے ہاسا ویکھ کے

            شوخی و ظرافت انور مسعود کے مزاج کا حصہ ہے۔ اُن کی ہر بات مزاح کے پیرائے میں ہوتی ہے اور بڑے سے بڑے المیے کا اظہاراس سُرعت سے طنزو مزاح میں کر جاتے ہیں کہ اُس کا اثر دوبالا ہو جاتا ہے۔ بعض الفاظ کے اُلٹ پھیر کی مدد سے کرداروں اور واقعات کی ایسی ایسی مضحک تصاویر پیش کر جاتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والوں کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آ جاتی ہے۔

            نظیر کی ظرافت انور مسعود کے مقابلے میں پست ہے۔ عریانی نے نظیر کی طبیعت میں پائی جانے والی شوخی و ظرافت کو گہنا دیا ہے۔ عبدالمومن فاروقی، نظیر کی شگفتگی میں پائے جانے والے ابتذال و عریانی کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 ’’نظیر کی طبیعت میں ظرافت کا مادہ بہت نمایاں تھا۔ اس ظرافت کا اثر اس کے فن میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ ظریف  و صاحبِ مزاح ہے لیکن مضحک اور ہنسوڑ نہیں، نظیر کے فن میں عریانی حد سے زیادہ واقعیت پسندی کے سبب سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مقصد بھانڈ پن یا پھکڑ پن نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۱۹]

            نظیر مزاحیہ واقعات کو شاعرانہ رنگ دینے میں باکمال تھے۔ مولانا عبدالمومن فاروقی ’’کلیاتِ نظیر ‘‘ کے مقدمہ میں اسی نوعیت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں :

 ’’میاں نظیر دوپہر کا کھانا رائے صاحب ہی کے یہاں کھاتے ایک روز بیسنی روٹی بھی کھانے میں شامل تھی۔ اچار کے لیے جی چاہا۔ گھر میں بچا نہ تھا۔ بھولا رام پنساری کا لڑکا بھی اُن کے پاس پڑھنے آ بیٹھتا تھا۔ اس سے کہا لالہ جا اپنے چاچا سے کہیو میاں نے آم کا اچار منگایا ہے۔ وہ لپکا ہوا پھُلٹی آیا۔ دکان پر گاہکوں کی بھیڑ لگی تھی۔ لڑکے نے میاں نظیر کا نام لیا کہ اچار منگا رہے ہیں۔ بھولا رام نے مٹکی میں سے چنگل بھر دونے میں رکھ لڑکے کو حوالے کیا اور سودا دینے میں لگ گیا۔ یہ لیے استاد کے پاس پہونچا(پہنچا) منتظر بیٹھے تھے۔ دونہ کھول کر جو دیکھا تو چوہا مصالحہ میں لت پت تھا۔ انھوں نے اس کو رکھوا دیا۔ شام کو رائے صاحب آئے اُن سے کہا بھولا کو بھی بلوا لو ایک لطیفہ ہے۔ وہ آیا تو ایک نو تصنیف مخمس پڑھا:

پھر گرم  ہوا  آن کے  بازار  چوہوں کا

ہم نے بھی کیا خوانچہ تیار چوہوں کا

سر پاؤں کچل کوٹ کے دوچار چوہوں کا

جلدی سے کچومر سا کیا مار چوہوں کا

کیا زور مزیدار ہے اچار چوہوں کا

اول تو چوہے چھانٹے ہوئے قد کے بڑے ہیں

اور سیر سوا سیر کے مینڈھک بھی پڑے ہیں

چکھ دیکھ مرے یار یہ اب کیسے کڑے ہیں

چالیس برس گزرے ہیں تب ایسے سڑے ہیں

کیا زور مزیدار ہے اچار چوہوں کا

آگے تھے کئی اب تو ہمیں ایک ہیں چوہے مار

مدت سے ہمارا ہے اس اچار کا بیوپار

گلیوں میں ہمیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں خریدار

برسے ہے پڑی کوڑی، روپئے پیسوں کی بوچھاڑ

کیا زور مزیدار ہے اچار چوہوں کا

بھولا رام بولا، میاں کہیں چوہوں کا اچار بھی ہوا ہے۔ کہنے لگے تم ہی تو بیچتے ہو اور دونہ منگا کر سامنے رکھ دیا۔ وہ بیچارہ بڑا خفیف ہوا اور سب نے فرمائشی قہقہہ لگایا۔ ایسی اکثر باتیں مشہور ہیں۔ ‘‘ [۲۰]

vi۔     ڈرامائی انداز

            انور مسعود کی پنجابی نظمیں ڈرامائی انداز کی حامل ہیں۔ جس طرح ڈرامائی تشکیل کا انحصار پلاٹ، کہانی، کردار اور مکالموں پر ہوتا ہے بالکل اسی طرح انور مسعود کی نظمیں جاندار پلاٹ، کہانی کے عام چلتے پھرتے زندہ کرداروں اور ان کے درمیان دلچسپ مکالمات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان کی نظم ’’اَج کیہ پکایے‘‘ ڈرامائی تشکیل کے بعدپاکستان ٹیلی ویژن سے ٹیلی کاسٹ ہو چکی ہے۔ ’’جہلم دے پُل تے، حال اوئے پاہریا، تندور‘‘ اور ’’رکشے والا‘‘ ڈرامائی عناصر سے بھرپور نظمیں ہیں۔ ان کے کردار متحرک ہیں اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بات کرتے ہیں۔ ’’اَج کیہ پکایے‘‘ کے چودھری کے لہجے سے رُعب و دبدبہ صاف دکھائی دیتا ہے جبکہ اس کا ملازم ’’رحماں ‘‘ اپنی باتوں سے ہی دیہات کا چاپلوس ملازم معلوم ہوتا ہے جس کا فرض چودھری کی ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کچھ نہیں۔ ’’پٹ سیاپا‘‘ میں انجام وہی دکھایا گیا ہے جو ہمارے معاشرے کے زیادہ تر گھروں میں بہو کی شکست پر منتج ہوتا ہے۔ ان کی نظموں کے کردار عملی زندگی کے کردار ہیں جن کو شاعر نے اپنے آس پاس گھومتے پھرتے، باتیں اور لڑائی جھگڑے کرتے دیکھا ہے۔ ڈرامے کی طرح نظموں کے آغاز میں قارئین کی توجہ بے اختیار حاصل کر لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے اُن کی دلچسپی، انہماک اور محویت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ نظموں کے واقعات میں آغاز سے انجام تک ربط وتسلسل کی وجہ سے روانی پائی جاتی ہے۔ انور مسعودنظم کے قصے میں دلچسپی کا عنصر برقرار رکھنے کے لیے جو غیر متوقع حالات پیدا کرتے ہیں اسے ڈرامے کی اصطلاح میں ’’کشمکش‘‘ پیدا کرنا کہتے ہیں۔ یہ سب دلائل ثابت کرتے ہیں کہ انور مسعود کی شاعری میں ڈرامائی پہلوؤں کی فراوانی ہے۔

            نظیر کی نظموں میں ڈرامے کی طرح پلاٹ پر بہت زور ہے۔ ان کی نظموں کی کہانیوں سے باآسانی ڈراموں کے سین ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ کردار نگاری خام ہے لیکن کرداروں کا حلیہ، بناؤ سنگار اور قد کاٹھ بیان کرتے ہوئے قاری کو اُس کے سحر میں لے لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر نظم ’’خواب کا طلسم‘‘ میں ’’کافر سی مہ لقا‘‘ کا حلیہ بیان کرتے ہوئے مخمس کے آٹھ بند کہ گئے ہیں۔ دو بند ملاحظہ ہوں :

خون ریز ابرو، جان کی قاتل ہر اک نگاہ

مژگاں وہ برچھیوں کو لیے تل رہی سپاہ

مہندی سے انگلیوں نے کیے خون بے گناہ

آنکھوں میں کھچ رہا تھا وہ کاجل غضب سیاہ

پڑ جائے جس سے دل میں فرشتوں کے ہڑبڑی

زلفیں وہ مشک ناب سی، چہرہ وہ چاند سا

جگنوں رہا گلے میں ستارہ سا جگ مگا

گہنے کا وصف یا کہ بدن کی کہوں صفا

جاتا تھا سرخ جوڑے میں تن یوں جھمک دکھا

گویا شفق میں آن بجلی چمک پڑی

            عبدالمومن فاروقی، نظیر کی ڈرامہ نگاری کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں :

 ’’نظیر نے زندگی کا مطالعہ مختلف زاویوں سے کیا ہے۔ مشاہدۂ حیات کے وقت اُس پر اکثر غیر جانبداری اور بے خودی کا عالم طاری رہتا ہے۔ نظیر مختلف طبائع اور نوع بہ نوع ادوار و کیفیاتِ حیات کو پیش کرتا ہے۔ ہستی کا مرقع دیکھنا ہو تو ’’طفلی‘‘ ۔ ’’بچپن‘‘ ۔ ’’بڑھاپا‘‘ ۔ ’’جوانی‘‘ ۔ ’’فقراء کی شان ‘‘ ۔ ’’من موجی‘‘ ۔ ’’بے خبری کا عالم‘‘ ۔ ’’کوڑی نہ رکھ کفن کو‘‘ ۔ ’’پیسہ ہی سب کچھ کرتا ہے‘‘ ۔ ’’ہر حال میں خوش‘‘ ۔ ’’مفلسی‘‘ ۔ ’’ہائے رے افلاس‘‘ وغیرہ نظمیں ملاحظہ فرمائیں۔ ان نظموں میں کردار نگاری کی بہت سی خام و پختہ مثالیں آپ کو ملیں گی۔ اگر نظیر ڈرامہ لکھتا تو اسی مواد سے بہت سے مشخص کردار پیدا کر لیتا۔ ‘‘ [۲۱]

            انور مسعود اور نظیر اکبرآبادی کے فن و شخصیت کے اس مختصر سے مطالعے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ فنی و فکری اور شخصی حوالے سے دونوں میں کافی اشتراک پایا جاتا ہے۔ اس مماثلت کے باوجود کئی اختلافی پہلو بھی نکلتے ہیں جو انور مسعود کو نظیر سے جدا کرتے ہیں۔ نظیر کی شاعری میں ابتذال کا عنصر پایا جاتا ہے اور کلامِ انور اس خامی سے مبرا ہے۔ انور مسعود کی کردار نگاری نظیر سے کئی درجے بہتر ہے۔ انور مسعود کی شاعری ایجاز و اختصار کی عمدہ مثال ہے جبکہ نظیر کی نظمیں طویل ہیں۔ منظر نگاری کے میدان میں نظیر، انور مسعود سے آگے بڑھ جاتے ہے لیکن شگفتگی میں پھر مات کھا جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ شخصیت کے حوالے سے دونوں شعرا ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور نظیر کی اردو شاعری کی طرح انور مسعود کی پنجابی شاعری میں عوامی رُجحان غالب ہے جس کے بارے میں وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ:

 ’’۔ ۔ ۔ پنجابی میں خاص طور پر میں نے لوگوں کے ہونٹوں سے باتیں لے کر اُن کے کانوں کو واپس کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۲۲]

            اس جائزے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چند مستثنیات کو چھوڑ کر ہم انور مسعود کو پنجابی شاعری کا نظیر اکبر آبادی کہہ سکتے ہیں۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

حصہ دوم یہاں ملاحظہ کریں