FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

افتخار عارف۔۔۔ ایک شاعر

 

 

               شگفتہ الطاف

جدید ادب، جرمنی کے شمارہ ۲ سے ماخوذ

 

 

 

 

 

اردو ادب کے آغاز ہی سے تبصرہ نگار فن اور فنی تقاضوں پر انفرادی نظریات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مغربی دانشوروں نے بھی فن اور نظریۂ فن پر مفصل اظہار رائے کا حق محفوظ رکھا۔ کسی نے فطری رجحانات کی تربیت کے بعد تخلیق ہنر کو فن کہا تو کسی کے نزدیک تخیل اور ادراک انسانی کا فنون لطیفہ کی جہت میں تخلیقی اظہار یہ ہی فن پارے کی تمثیل کے مصداق ٹھہرا۔ لانجاسن کہتا ہے۔

’’فن کا کمال یہ ہے کہ وہ فطرت معلوم ہو اور فطرت کی کامیابی اس میں ہے کہ اس میں فن چھپا ہوا ہو۔‘‘

یعنی فطرت اور تخلیق کا ر دونوں لازم و ملزوم ہوئے۔ فطرت تخلیق کا ر کی پاسدار اور تخلیق کار فطرت کا امانت دار۔ گویا فطرت اور آدمیت کا باہمی ربط ہی بقائے کائنات ہے۔ یوں بھی فطرت محض کائنات کی دکھائی دینے والی بنت تک ہی محدود نہیں بلکہ فطرت کے پس منظر میں وہ طاقتور احساسات بھی مزین ہیں جو کسی شاعر کے ہاں اس کی شاعری کے فطری تیور دریافت کرتے ہیں۔ دراصل کسی شاعر کا شخصی کھوج لگانا ہو تو اس کے شعری اسلوب کی پرتیں تلا ش کر لیجئے شاعر کی مکمل شخصیت دریافت کی جا سکتی ہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ شاعر کا تخلیقی عمل اور صلاحیت قدرت بیان کے مختلف درجات شعر کہنے والوں کا مقام و مرتبہ متعین کرنے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اس لیے فیض ا حمد فیضؔ اچھے شعر اور فنی معیار کا منفرد نظریہ قائم کرتے ہیں۔ بقول ابو اللیث صدیقی

’’فیضؔ نے کسی جگہ اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ شعر کی مجموعی قدریں جمالیاتی خوبی اور سماجی افادیت دونوں شامل ہیں۔ اس لیے مکمل طور پر اچھا شعر وہ ہے جو فن کے معیار پر نہیں زندگی کے معیار پر پورا اترےَ۔ ‘ ‘۲

اور زندگی کے معیار پر پورا اترنے والے اشعار کی دریافت میں ’مُہر دو نیم‘ اور ’حرف بار یاب‘ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ افتخار عارفؔ نے اس بھید کو پا لیا ہے جس کا کنارہ فیض احمد فیضؔ نے منکشف کیا تھا۔ ۱۹۴۴ء کی ہتھیلی پر روشن ہونے والے افتخار عارفؔ کی شاعری کی آواز اپنے ہمعصروں کی دیگر آوازوں سے کہیں منفرد معلوم ہوتی ہے۔ اس کی شعری اثر آفرینی اور تخلیقی ہنر مندی سراسر ودیعت خداوندی ہے لیکن اس سرمایۂ خدا دا د پر انفرادی مزاج کا رنگ اس کا اپنا انفرادی مزاج کا رنگ اس کا اپنا ہے وہ کلاسیکل شاعری اور جدید شاعری کے تیسرے سنگم کا پاسدار ثابت ہوا ہے جو کسی کی آواز کی پیروی کیے بغیر نئے لفظ و معانی کے جہان آباد کر رہا ہے۔

افتخار عارف کا Dictionقطعی جدا ، آواز الگ اور مفہوم تر و تازہ ہے مگر اس سارے سفر میں اس کی شاعری کو ایک ہی سانس میں دہرا لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی مضطرب شاعر کی شاعری ہے جس کے سخن میں مزاحمت اور سودائے جنوں بھی ہے مگر اس کی تخلیقی تربیت نے اس کے باطنی انقلاب کو بھی سدھار لیا ہے ورنہ تو یہ شاعر ایک ایسا جہان اضطراب ہے کہ جس کے بارے میں ممتاز مفتی نے کہا تھا۔

’’ صاحبو! افتخار عارف کو دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھو جب وہ اکیلا بیٹھا ہو۔جب اسے یقین ہو کہ گرد و پیش میں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ اس وقت اس کا سینہ شق ہو جاتا ہے۔ اس میں سے ایک ٹوٹ نکلتی ہے۔ ایک ویرانی ایک خلاء۔ افتخار عارف کو جان لینا چاہیے کہ ایک چیز ہے جو اسے خلاء کی دست بردسے بچا سکتی ہے۔ تخلیق!تخلیق!تخلیق! ‘‘ ۳

اسی مرحلہ تخلیق پر افتخار عارفؔ دریا فتوں کے مصرعے تحریر کر تا ہے۔ وہ کائنات کی وسعتوں کے تسلسل نظم و ضبط اور ہم آہنگی کے خالق کو تلاش کرتا ہے اور پھر اپنے لفظ و بیان کے اضطراب کو خدائے برتر کے ظہور کی آرزو کرتا دکھائی دیتا ہے۔

’’ تو کون ہے وہ جو لو ح آب رواں پہ سورج کو ثبت کرتا ہے

اور بادل اچھالتا ہے

جو بادلوں کو سمندروں پر کشید کرتا ہے

اور بطن صدف میں خورشید ڈھالتا ہے

وہ سنگ میں آگ، آگ میں رنگ،

رنگ میں روشنی کے امکان رکھنے والا

وہ خاک میں صوت، صوت میں حرف، حرف میں زندگی کے سامان رکھنے والا

نہیں کوئی ہے۔

کہیں کوئی ہے

کوئی تو ہو گا۔ ٗ ‘ ۴

ظہور و انکشاف کے قریب قریب افتخار عارف کے سلگتے ہوئے کرب کی آنچ اس کی ذات کی ٹوٹ پھوٹ اور شکستگی ور یختگی لمحہ بھر میں سخن ہو جاتی ہے۔افتخار عارف کی غزلیں اور نظمیں یونہی پُر اثر نہیں ہیں ان کی تخلیق میں احساس ذات کا ا یسا ناقابل تردید تجربہ موجود ہے جس کا ہر عکس اس کی خواہشات کے خلا پر منضبط ہو رہا ہے۔ شاعر کی زندگی اور معاشرہ سراسر امتحان کی صورت طلوع ہوئی ہیں قدرتی طور پر مصائب و مشکلات کا سامنا۔ ملک بدری اور بے گھری اسیے آسیبوں کی یکجائی میں افتخار عارف کی ذات کی بحالی کسی معجزے سے کم نہیں لیکن اس سارے تجربے میں اس کا رشتہ محسوسات اور قریۂ غم سے بہم استوار ہو گیا ہے جس کے طفیل اس کے کلام میں شکستگی کی لفظی تصویر عکس پذیر اور زمانے کے انبوہ میں با آسانی اپنے اثاثے کو پکارنے لگا ہے۔

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے

آنکھیں بھی مری خواب پریشاں بھی مرا ہے

 

وارفتگی صبح بشارت کو خبر کیا

اندیشہ ء صد شام غریباں بھی مرا ہے

 

جو ہاتھ اٹھے تھے وہ سبھی ہاتھ تھے میرے

جو چاک ہوا ہے وہ گریباں بھی مرا ہے

 

تمام شہر مکرم بس ایک مجرم میں

سو مرے بعد مرا خوں بہا نہ مانگے کوئی

 

وہ جس کے چاک گریباں پہ تہمتیں ہیں بہت

اسی کے ہاتھ میں شاید ہنر رفو کا بھی ہو

 

میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں

عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو

 

کاروبار میں اب کہ خسارا اور طرح کا ہے

کام نہیں بڑھتا مزدوری بڑھتی جاتی ہے

 

کسی پندار شکستہ کا بھرم رہ تو گیا

اب یہ بات اور کہ خود قیمت پندار گری

 

افتخار عارف کی شعری شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا حصار بہت اونچا اور بہت مضبوط ہے ایک ایسے صحرا کی طرح جس کی وسعتیں ہی وسعتیں ہیں مگر پھیلاؤ کا سدباب نہیں لیکن ابھی صحرا کے آسیب میں افتخار عارف کی شاعری میں جبر کا استعارہ پوری قوت اور تمام تر جبری استبداد سمیت روبرو ہو تا ہے۔

جبر۔۔۔حق کی ضد ہے اور جبرسچائی کا اختلاف۔ ایک ایسا اضطراب جو رد عمل کو للکارتا ہے۔افتخار عارف کے ہاں جبر کی صورت بڑی انہونی اور بہت مختلف ہے۔ وہ زمانے بھر میں ہونے والی ہر نا انصافی کو جبر تصور کرتا ہے۔ یہ وہ جبر ہے جو صداقتوں کو قطع کرتے ہوئے شخصی آزادی سے انکارکرتا ہے۔ یہی جبر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث ہے اور ’’فریاد‘‘ ’’ قیمت خلعت‘‘ اور’’ دستار کی توقیر ‘‘ نہیں کرتا جو’’ عدل کے ہاتھ پر تلوار ‘‘اور بصیر ذہنوں کوسر عام سزا دینے کا جواز ٹھہرتا ہے۔ افتخار عارف ایسا حساس شاعر ایسے جبر کو برداشت نہیں کر پاتا اور وہ چیخ اٹھتا ہے۔

 

ویرانہ مقتل پہ حجاب آیا تو اس بار

خود چیخ اٹھا میں کہ یہ عنواں بھی مرا ہے

۱۰

کسی کے جو رو ستم یاد بھی نہیں کرتا

عجیب شہر ہے فریاد بھی نہیں کرتا
نہ جانے کیسی قیامت گزر گئی اب کے

غریب شکوۂ بیداد بھی نہیں کرتا ۱۱

 

سخن حق کو فضیلت نہیں ملنے والی

صبر پہ داد شجاعت نہیں ملنے والی

 

زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار

اس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی ۱۲

 

قیمت خلعت از بر سر بازار گری

جس کے ہر پیچ میں نخوت تھی وہ دستار گری

 

وقت کی تیغ جگر دار پہ ہے عدل کا ہاتھ

آنکھ جھپکی تھی کہ چلتی ہوئی تلوار گری ۱۳

 

ہم اہل جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں

سروں کی فصل جب اتری تھی تب سے واقف ہیں

 

کبھی بجھے ہوئے خنجر کبھی کھچی ہوئی تیغ

سپاہ ظلم کے ایک ایک ڈھب سے واقف ہیں۱۴

 

جبر میں اختیار کی خواہش ضرور ہوتی ہے لیکن اگر طاقت اختیار، دائرہ اختیار میں نہ ہو تو جبر کے خلاف آواز اٹھانا بالکل ایسے ہی ضروری ہے جیسے کسی عذاب میں فطری کتھار سس کے لیے گریۂ بے تاب۔ اسی طرح ردعمل کا اظہار بھی گویا جبر کو سہارنے کا ایک عمل ہے جس کے بغیر بلا جواز جبر کا عذاب برداشت کرنا نا ممکنات کے مصداق ہے۔ افتخار عارف جس جبر سے گزرتا ہے اسے تسلیم کرنے کا روادار نہیں۔ لہٰذا وہ اس جبر کا رد عمل پیش کرتا ہے۔ رد عمل کی یہ تحریک احتجاج بھی ہے اور بغاوت بھی۔ اس احتجاج میں اگر کوئی ہنر منفرد ہے تو وہ یہ کہ افتخار عارف اس احتجاج میں بھی خون خرابے اور تشدد کا روا دار نہیں بلکہ اس کا اسلوب صرف جبر کو رد کرتا ہے اور پھر اس تردید کا انداز بھی بہت سلجھا ہوا اور محبت والا ہے۔
لوگ پہچان نہیں پائیں گے چہرہ اپنا

اب نہ بدلے تو بدل جائے گا نقشہ اپنا

 

بول اے بے سروسامانیء گلشن کچھ بول!

خلقت شہر طلب کرتی ہے حصہ اپنا ۱۵

 

پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سر دست

بساط عافیت جاں الٹ کے دیکھتے ہیںٍٍ            ۱۶

 

یہ بار بار کنارے پہ کس کو دیکھتا ہے

بھنور کے بیچ کوئی حوصلہ اچھال کے دیکھ        ۱۷

 

گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا

جو دل میں ہے اب اس کا تذکرہ کرنا پڑے گا

 

نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو

مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا ۱۸

 

افتخار عارف کے ہاں جبر کے خلاف رد عمل کا استعارہ ہی آخری استعارہ نہیں ہے۔ ابھی تو اسے خارجی عوامل کے بعد داخلی عوامل کا سامنا ہے۔ یہاں ایک دوسری دنیا آباد ہے۔ یہاں دکھوں کے عنوان بدل گئے ہیں۔جبر کے خلاف اپنے فرمان جاری کرنے والا شاعر یہاں ایک گھر کی تلاش میں بھٹکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں اس کے بے تعبیر خواب ہیں جن کا کوئی دیس نہیں ہے۔ افتخار عارف کی پرورش و تربیت چونکہ ایک بزرگ نے کی جو رشتے کے اعتبار سے ان کے نانا تھے۔ افتخارعارف نے بھلے ان کی شفقت کی چھاؤں میں سکون محسوس کیا لیکن داخلی احساسات کے طفیل اس کی ذات میں حقیقی گھر کا استعارہ ہمیشہ زور پکڑتا رہا اور یہ وہ استعارہ ہے جس سے افتخار عارف نے کبھی انکار نہیں کیا۔ غالباً یہ وہی گھر ہے جو تاثیر میں ماں کی گود جیسا ہے جو اینٹ پتھر کی تعمیر نہیں بلکہ امن و محبت کا گہوارہ ہے۔ افتخار عارف نے اسی گھر کو بار ہا تلاش کیا وہ جبر و استبداد کے ماحول سے نکل کر کسی پارک میں جانے کی آرزو نہیں کرتا بلکہ گھر تلاش کرتا ہے اسے معلوم ہے خانہ بدوشی دیر تک ساتھ نہیں دیتی اور خانہ بدوش بھی تو آخر اپنے گھر ہی لوٹ جاتے ہیں۔

 

تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات

سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں ۱۹

 

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا

تمام عمر چلے اور گھر نہیں آیا ۲۰

 

ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں تیرے خانہ بدوش

عذاب در بدری کس کے گھر میں رکھا جائے ۲۱

 

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے ۲۲
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے۲۳

 

یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا

میں جس میں رہ رہا تھا وہی گھر مرا نہ تھا ۲۴

 

سچے سائیں ہمارے حضرت مہر علی شاہؒ بابا!

ہم نے گھر نہیں دیکھا بہت دنوں سے۲۵

 

وحشت گھر سے فرار کے باوجود بھی گھر کی تلاش اور تلاش معاش کا پہلو افتخار عارف کے ہاں صاف دکھائی دیتا ہے اسے رزق کی ضرورت اور اس کی حقیقی قیمت کا پورا پورا احساس ہے۔ اسے خبر ہے کہ شکم کی آگ آدمی کو قریہ بہ قریہ اور شہر در شہر لیے پھرتی ہے اسے معلوم ہے کہ ایک لقمۂ تر آدمی سے اس کا دبنگ لہجہ چھین لیتا ہے لیکن اس کے باوجود حقیقی منظر نامے میں افتخار عارف اپنے سخن کو قصیدۂ بے جا سے مملو نہیں کرتا اور اس کی غیرت اور سخن سے محبت ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔

 

روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے سا تھ

ر زق بر حق ہے یہ خدمت نہیں ہو گی ہم سے ۲۶

 

ہو س لقمۂ تر کھا گئی لہجے کا جلال

اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی۲۷

 

شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر

سگ زمانہ ہیں ہم کیا، ہماری ہجرت کیا۸۲

 

مالک یہ آب و خرما، یہ نان و نمک نہ دے

تیری رضا نہ ہو تو مجھے خاک تک نہ دے ۲۹

 

کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے

بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے ۳۰

 

تاریخ سخن دیکھیے تو ایک افتخار عارف ہی نہیں بلکہ اکثر شعراء کو رزق اور تلاش معاش کے مسائل و مصائب کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ میر تقی میرؔ، آتشؔ لکھنوی، اور مرزا غالبؔ ایسے نامور شعراء اور اسی طور پر دیگر بے شمار شعراء کو اپنی زندگی میں عذاب معاش سے گزرنا پڑا اور اس کرب کا اظہار بھی ان کے کلام میں ہوا۔ یہی احوال افتخار عارف کا بھی ہے لیکن ان تمام حالات پر ڈیلٹا کا گراف بنانے والی ایک چیز اور ہے اور وہ ہے شاعر کے وجود میں اترا ہوا خوف جو اس کا تعاقب کرتا ہے اور اسے نا مکمل رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

کسی خوف زدہ آدمی کی نسبت نڈر انسان معاملات زندگی کا سامنا آسانی سے کر سکتا ہے لیکن افتخار عارف کے ہاں عجیب تضاد ہے وہ بیک وقت بہادر بھی ہے اور مبتلائے خوف و ہراس بھی۔وہ اکیلا ہی اپنی ذات کے سبھی دکھ سمیٹ بھی رہا ہے اور خوف سے لرز بھی رہا ہے۔ وہ آنسوؤں کو ماں کا درجہ دینے والا۔ وہ مٹی ماں اور مالک کے نافرمان کو باغی کہنے والا، کسی کمسن بچے کی طرح ہے جو بھیڑ میں اپنی ماں سے کھو گیا ہے اور اب شام ڈھلے اس کی آنکھیں خوف سے بھر گئی ہیں۔

 

سمندر اس قدر شوریدہ سر کیوں لگ رہا ہے

کنارے پر بھی ہم کو اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے

 

در و دیوار اتنے اجنبی کیوں لگ رہے ہیں

خود اپنے گھر میں آخر اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے ۳۱

 

وقت نے ایسے گھمائے افق آفاق کہ بس

محور گردش سفا ک سے خوف آتا ہے

 

شکل بننے نہیں پاتی کہ بگڑ جاتی ہے

نئی مٹی کو نئے چاک سے خوف آتا ہے ۳۲

 

ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

آنسو بھی تو ماؤں جیسی باتیں کرتے ہیں ۳۳

 

مالک سے اور مٹی سے اور ماں سے باغی شخص

درد کے ہر میثاق سے رو گردانی کرتا ہے۳۴

 

خوف کی اس لہر میں افتخار عارف کا اعتبار بھی رخصت ہو ا۔ اپنے ارد گرد رہنے والوں پر اعتبار کی ساکھ قائم ہونا بہت ضروری ہے لیکن افتخار عارف کی شاعری میں شاعر کا اعتبار کسی پر نہیں رہا وہ ہر اس شخص کو اپنا نہیں جانتا جو اس سے مل کر بچھڑ جائے اور اگر اعتبار کا سلوک اس کے وجود میں شامل ہو بھی تو افتخار عارف اسے آسیب اعتبار کے نام سے تحریر کرتا ہے۔

 

فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں

وہ اہل ہجر کہ آسیب اعتبار میں ہیں۳۵

 

میں وہ ہوں کہ میرے چہار سمت غنیم اور

مجھے اعتباریسار کا نہ یمین کا ۳۶

 

ہم تو دیوانے ہیں رمزیں نہ کنایہ جانیں

جز غم عشق ہر اک زخم کو مایا جانیں

 

آج کے بعد تو ہم پر بھی یہ لازم ہے کہ ہم

اپنی بوئی ہوئی فصلوں کو پرایا جانیں۳۷

 

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں ۳۸

 

بے اعتباری کے عذاب میں افتخار عارف کے ہاں دو طرح کے موضوعات تخلیق ہوئے ایک شکایت زمانہ اور دوسراحب وطن۔ ہر دو موضوعات میں سے اول الذکر کا احوال ایک افتخار عارف ہی کا حوالہ نہیں بلکہ دور قدیم اور دور جدید۔ ہر دو ادوار میں اکثر شعراء کے ہاں یہ موضوع شامل سخن رہا ہے فرق صرف انفرادی نقطہ نظر اور تجربۂ ذات پر منحصر ہے۔ اسی تجربہ ذات کے اختیار میں افتخار عارف کی چشم بینا پر بھی بے شمار انکشافات وارد ہوئے ہیں۔ بالخصوص ۱۹۷۷ء کے مارشل لاء کے دور میں وطن سے دوری کا تجربہ افتخار عارف کے لیے تکلیف دہ واقع ہوا تھا۔ وہ اپنی زمین اور اپنی مٹی کی محبت سے رچا بسا ہوا شاعر وطن سے دور رہ کر اور بھی نمایاں ہو گیا ہے۔جبھی تو پروین شاکر نے لکھا ہے۔

’’ مٹی کی محبت افتخار کے گرد پورے چاند کے مہربان ہالے کی طرح ہمہ وقت رقصاں ہے؟‘‘ ۳۹

افتخار عارف خود بھی اسی مہربان ہالے کو اپنا آخری حوالہ سمجھتا ہے اور اسی حوالے کی تقدیس کے لیے کبھی کبھی تو اس نے وہ قرض بھی چکائے ہیں جن کا وہ مقروض نہیں تھا۔ وہ اسی بے نام قرض کا جواز ڈھونڈتا ہے اور وطن سے اپنی انمول محبت کا جواب چاہتا ہے۔

 

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے۴۰
کبھی مرے نام سے بھی کوئی سند وفا

کبھی مرے حق میں بھی فیصلہ ہو زمین کا
کبھی کھل کے لکھ جو گزر رہا ہے زمین پر

کبھی قرض بھی تو اتار اپنی زمین کا ۴۱

 

میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرا خدا

اجاڑ دے میری مٹی کو در بدر کر دے

 

مری زمین مرا آخری حوالہ ہے

سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کر دے ۴۲

 

مٹی سے محبت کا تحفہ بھی خداوندی ہے جو کسی شعوری کوشش کا محتاج نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے افتخار عار ف سخن کے ہر محاذ پر سچائی کا سبز پرچم اٹھائے ہوئے ہے جو اس کی سرخروئی کا باعث ہے اور اس کی صداقتوں کا آئینہ دار۔ افتخار عارف کی سچائیوں میں ایک عظیم ترین سچائی واقعہ کربلا کی بھی ہے۔ واقعہ کربلا جو انسانی تاریخ کا دل خراش المیہ ہے اور جو شاعر کی پلکوں آنسوؤں کی طرح ہے۔ اہل بیت کے لیے پانی کی بندش کا کفر نامہ ہر صاحب دل کی طرح افتخار عارف کے لیے بھی باعث اذیت ہے وہ امام عالی مقامؑ کے تاریخی خطبے کی گونج سن سکتا ہے کہ جس میں اصحاب بیت کو کھلا اختیار دیا گیا کہ اگر وہ واپس جانا چاہیں تو شب کی تاریکی میں لوٹ جائیں۔ افتخار عارف کے بہت سارے معروف اشعار میں منفرد اشعار وہی ہیں جو واقعہ کربلا سے منسوب ہیں۔

 

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے

 

صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا رن

راتوں رات چلا جائے جس جس کو جانا ہے

 

دریا پر قبضہ تھا جس کا اس کی پیاس عذاب

جس کی ڈھالیں چمک رہی تھی وہی نشانہ ہے ۴۳

 

افتخار عارف کی عمومی شعری شخصیت میں ایک انفرادی پہلو اس مخصوص لہجے کا ہے جسے ہم دور جدید کا جدید لہجہ کہہ سکتے ہیں۔ اس لہجے کے سارے تیور، سارے بھاؤ اور سب اظہاریے اس کے اپنے ہیں۔ افتخار عارف کی جدید شاعری کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

۱۔ جدید موضوعات۔

۲۔ منفرد لب و لہجہ

اول الذکر کے ذیل میں افتخار عارف کے ہاں تخیل کی پرواز نہایت طاقتور ہے جس کی بنا پر بیشتر نئے اور تازہ موضوعات دکھائی دیتے ہیں یہاں تک کہ روایتی مضامین کو بھی جدید اسلوب اور جدید آہنگ میں ڈھال کر بالکل نیا کر دیا گیا ہے۔ افتخار عارف کے جدید موضوعات ہی سے ا س کی شاعری کو ایسا منفرد لب و لہجہ ملا ہے کہ قاری اکثر اشعار پڑھ کر ایک دم چونک جاتا ہے۔

 

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

یہ کون بول ر ہا تھا خدا کے لہجے میں۴۴

 

یہ جو پتھروں میں چھپی ہوئی ہے شبیہ یہ بھی کمال ہے

وہ جو آئینے میں مہک رہا ہے وہ معجزہ بھی تو دیکھتے ۴۵

 

نجانے خلق خدا کون سے عذاب میں ہے

ہوائیں چیخ پڑیں التجا کے لہجے میں ۴۶

 

کس قیامت خیز چپ کا زہر سناٹے میں ہے

میں جو چیخا ہوں تو سارا شہر سناٹے میں ہے ۴۷

 

ایک ذرا سی جوت کے بل پر اندھیاروں سے بیر

پاگل دیئے ہواؤں جیسی باتیں کرتے ہیں ۴۸

 

محرابوں سے محل سر ا تک ڈھیروں ڈھیر چراغ

جلتے جاتے ہیں بے نوری بڑھتی جاتی ہے ۴۹

 

دئیے کی مناسبت سے ہوا، چراغ اور بے نوری، چپ اور چیخ ایسے بے شمار متضاد عناصر، افتخار عارف کے شعری موضوعا ت کی تاثیر میں شدت پیدا کرتے ہیں اور اس کے لہجے کو تو انا بناتے ہیں۔ محض اسی پر ہی اکتفا نہیں افتخار عارف کے ہاں موضوعات کا تنوع اس کی فکری بصیرت اور اس کے دور رس تخیل کو آشکار کرتا ہے اکثر اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی ایک شاعر کے ہاں چند موضوعات ایسے بھی موجود ہوتے ہیں جن سے وہInspireہوتا ہے اور بعض اوقات تو وہی مضامین ہی بار بار اس کے کلام کا حصہ بنتے رہتے ہیں لیکن افتخار عارف کے ہاں ایسے اتفاقات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

موضوعات سخن بے شمار سہی مگر رنگ سخن اس وقت تک تکمیل پذیر نہیں ہوتا جب تک اس میں رجائیت اور رومانویت موجود نہ ہو۔ افتخار عارف کی شعری شخصیت کی قوس قزح بھی رومانویت اور رجائیت کے امتزاج سے نکھار پاتی ہے۔ ’ مہر دو نیم‘ اور ’ حرف باریاب ‘ کی شعری فضا میں ارتقائی مراحل کا اثر واضح دکھائی دیتا ہے البتہ رومانوی شاعری ’حرف باریاب ‘ کی نسبت ’ مہر دو نیم ‘ میں کہیں زیادہ موجود ہے جو افتخار عارف کی سر سبز سوچ کو منعکس کرتی ہے۔

 

نرم نرم شاخوں پر ننھے ننھے پھول

کیسے تم کو دیکھ رہے ہیں دیکھو تو

 

دھنک کنج سے آنے والے رنگ سفیر

ڈالی ڈالی جھول رہے ہیں دیکھو تو

 

میں نے تمہاری قربت کی سرشاری میں

کیسے اچھے شعر لکھے ہیں دیکھو تو ۵۰

 

پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے

تو جو آئے تو مرے گھر میں خدا بھی آئے ۵۱

 

وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے

گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو

 

وہ خواب دیکھے تو دیکھے مرے حوالے سے

مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو ۵۲

 

افتخار عارف کا تعارف ایک فقرے میں کرانا ہو تو ہم اسے مضبوط و توانا لہجے کا جدید شاعر کہہ سکتے ہیں۔ پختہ اسلوب کی اس مسند پر اس کی غزل تو تخت نشیں ہے ہی، اس کی نظم کا معیار بھی کم نہیں گویا غزل اور نظم دونوں ہی افتخار عارف کی فنی پختگی اور ا ثر آفرینی کی مثالیں ہیں۔ غزل کا رچاؤ اور نظم کا سجھاؤ موضوعات میں مختلف سہی لیکن آواز ایک ہی رکھتے ہیں۔

 

’’مالک! میری گڑیا کے سب رنگ سلامت رکھنا۔ مجھ کو ڈر لگتا ہے

کچے رنگ تو بارش کی ہلکی سی پھوار میں بہہ جاتے ہیں

ایک ذرا سی دھوپ پڑے تو اڑ جاتے ہیں

مالک میری گڑیا کے سب رنگ سلامت رکھنا۔ مجھ کوڈر لگتا ہے۔‘‘          ۳۵

 

نظم کی خوبصورتی اس کی تاثیر میں ہے اور افتخار عارف کی نظم کو یہ کمال بدرجہ اتم نصیب ہو گیا ہے اس کی نظموں میں بچپن کے رنگ، بسنت، کرکٹ اور کرکٹ سے ہونے والی شیشوں کی توڑ پھوڑ، پتنگوں کی اصطلاحیں۔ گناہ و ثواب، خوف کی وارداتیں، نفسیاتی عوامل، اجداد کا احترام ، کائنات کا عمومی مشاہدہ او ر تنبیہی انداز موجود ہے۔’’ایک تھا راجہ چھوٹا سا‘‘’’ انتباہ‘‘ ’’پتہ نہیں کیوں‘‘ ’’ ٹیمز کے ساحل پر ‘ ‘ اور ’’ بن باسی ‘‘ ایسی بہت سی نظموں کے ساتھ ساتھ افتخار عارف کی نظم ’ ’بارھواں کھلاڑی‘ ‘ زندگی میں انسان کے ضروری ہونے اور نہ ہونے کا خوبصورت اظہار ہے۔ اسی طرح بعض نظموں کے عنوانات مذہبی حوالہ جات کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ ’’ فتکلمو تعرفو ‘‘ ’’ان وعداللہ الحق ‘‘ ’’ھل من ناصراً ینصرنا‘‘ ’’العلم حجاب الاکبر‘‘ وغیرہ اور کچھ عنوانات مذہبی شخصیات سے وابستگی کی بنا پر انہی کے ناموں سے وابستہ کر دیے گئے ہیں جیسے ’’بحضور سید الشہداء ‘‘’ ’ اسامہ بن زیاد کے نام ایک نظم ‘‘ ’’ ابو طالب کے بیٹے ‘‘ اور ’’ ابوذر غفاری کے لیے ایک نظم‘‘ وغیرہ اسی طرح حبیب جالبؔ اور فیضؔ کے احترام میں بھی نظمیں کہی گئی ہیں۔ افتخار عارفؔ، میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ اور فیضؔ سے عقیدت ضرور رکھتے ہیں لیکن پیروی انہیں میرؔ کی بھی گوارا نہیں۔ وہ کہتے ہیں۔

 

اور کا ذکر تو کیا میرؔکا بھی سایہ نہ ہو

وہ سخن کر جو کسی اور نے فرمایا نہ ہو۵۴

 

غزل بعد از یگانہ سرخرو ہم سے رہے گی

مخاطب کوئی بھی ہو گفتگو ہم سے رہے گی

 

انیسؔ آتشؔ یگانہؔ محرمان عالم حرف

اور اب اس سلسلے کی آبرو ہم سے رہے گی۵۵

 

افتخار عارف کی شعری بصیرت پر اللہ رب العزت کا اتنا کرم تو ہوا کہ اس کے کلام پر میرؔ کا سایہ معلوم نہیں ہوتا اگرچہ اسے اس بات کا احساس بھی ہے کہ اس کے ہمعصروں میں شعر کہنے والوں کے ہاں لہجے تروتازہ نہیں ہیں او ر اگر وہ بھی عام لوگوں کی طرز اختیار کرتا تو کلام لکھ لکھ کر انبار لگا سکتا تھا۔

 

سبک ظرفوں کے قابو میں نہیں لفظ

مگر شوق گل افشانی بہت ہے

 

شگفتہ لفظ لکھے جا رہے ہیں

مگر لہجوں میں ویرانی بہت ہے ۵۶

 

جیسے سب لکھتے رہتے ہیں غزلیں نظمیں گیت

ویسے لکھ لکھ کر انبار لگا سکتا تھا میں

 

کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل کچھ شعر

اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں ۵۷

 

افتخار عارف ، میثاق تیرگی، کتاب مساوات، کاسۂ شام، اجرت عشق، اہل تذبذب ، حبس شب، وارث گل، وارفتگی صبح بشارت، فروغ خورشید ، قہر ماں بستی، سبک ظرف ، ہجر انگیز ، خیمۂ صبر اور میثاق ہجر جیسی بے شما جدید اور تازہ تراکیب بنانے والا شاعر حضرت علیؑ کے اس قول پر ایمان رکھتا ہے کہ ’’فتکلموفتعرفو‘ ‘ کلام کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔

افتخار عارف کو یقین ہے کہ کلام ہی آدمی کی پہچان ہے۔ وہ اسی قول کو ’مہر دونیم ‘ کی ابتداء اور اپنی ایک نظم کا عنوان بناتا ہے۔ اس کا کلام عصر حاضر کی شاعری میں سے باآسانی الگ کیا جا سکتا ہے۔ وہ یقیناً دور جدید کے جدید شعراء میں سے نہایت خوبصورت شعر کہنے والا شاعر ہے جس کے کلام کی تاثیر دیر تک زندہ رہے گی اور اس پر بھی وہ تو ہمہ وقت اپنے رب دو جہاں سے دعا کرتا دکھائی دیتا ہے۔

 

مرے خدا مرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو

اسی شکستہ وبستہ زباں میں ظاہر ہو

 

زمانہ دیکھے مرے حرف بار یاب کے رنگ

گل مراد ہنر دشت جاں میں ظاہر ہو

 

میں سرخرو نظر آؤں کلام ہو کہ سکوت

تری عطا مرے نام و نشاں میں ظاہر ہو۵۸

 

ٹھہراؤ انسان کے ذہنی سفر کو ختم کر دیتا ہے۔ سخن میں اسرارورموز کا ہمہ وقت ظہور ہی شعری شخصیت کی بقا اور ارتقاء کا ضامن ہے۔ زندہ شاعری، زندہ جذبات اور زندہ دعاؤں کی مرہون ہے اور افتخار عارف کے دل و دماغ شہر سخن میں زندگی سے لبریز ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

حوالہ جات

 

 

۱:سجاد باقر رضوی۔ ’مغرب کے تنقیدی اصول۔‘ کتابیات۔ لاہور۔ طبع اول ۱۹۶۶ء ص۔۱۱۷

۲: ڈاکٹر ابواللیث صدیقی۔ ’آج کا اردو ادب۔‘ فیروز سنز لمٹڈ۔ لاہور۔ بار اول ۱۹۷۰ء ص۔۱۹۰

۳:ممتاز مفتی۔ ’تخلیق کار ‘ شمارہ چہار سو۔ جولائی اگست ۱۹۹۵ءص۔۳۸

۴:افتخار عارف۔ ’مہر دو نیم۔‘ مکتبہ دانیال۔ وکٹوریہ چیمبرز۔ عبداللہ ہارون روڈ۔ صدر۔ کراچی تیرھویں بار۔ (پاکستان) ۱۹۹۹ء ص۔ ۳۶

۵:افتخار عارف۔ ’مہر دو نیم‘ ایضاً ص۔ ۶۲،۶۳

۶: ص۔ ۷۶

۷:ص۔ ۶۴

۸:ص۔۷۱۴۸۹:

۹: افتخار عارف۔ ’ حرف بار یاب۔‘ مکتبہ دانیال۔ ۲وکٹوریہ چیمبرز عبداللہ بارون روڈ۔ کراچی چھٹی بار ۲۰۰۰ء ص۔۱۰۴

۱۰:مہر دو نیم۔۔ص۔۶۳

۱۱: حرف بار یاب۔۔ص۔۱۰۲

۱۲:حرف بار یاب۔۔ص۔۹،۱۰

۱۳: ص۔۱۰۴

۱۴:ص۔۱۰۰

۱۵:مہر دو نیم۔ ص۔۱۲۷

۱۶:حرف بار یاب۔ص۔۱۱

۱۷:ص۔۳۵

۱۸:ص۔۴۷

۱۹:ص۔۱۱

۲۰: مہر دو نیم۔ص۔۸۷

۲۱:ص۔۴۰

۲۲:ص۔۱۴۴

۲۳: ص۔۵۷

۲۴: ص۔ ۱۷۰

۲۵: ص۔۶۱

۲۶: ص۔ ۴۷

۲۷: افتخار عارف۔ حرف بار یاب۔ایضاً۔ ص ۱۰

۲۸: مہر دو نیم۔ ص۴۶

۲۹: حرف بار یاب۔ص۴۹

۳۰: مہر دو نیم۔ص۳۹

۳۱: ص۷۲

۳۲: حرف بار یاب۔ص۳۳

۳۳: مہر دو نیم۔ص۷۳

۳۴:حرف بار یاب۔ص۲۱

۳۵: ص۴۵

۳۶ :ص۱۱۳

۳۷: ص۱۱۲

۳۸: ص۹۵

۳۹: پروین شاکر۔ ’چپ دریا ‘۔ ’شمارہ چہارسو۔‘ جولائی اگست ۱۹۹۵ء ص۵۲

۴۰: افتخار عارف۔ ’ مہر دو نیم ‘۔ ص۵۶

۴۱: ص۱۱۴

۴۲ : ص۵۸

۴۳: ص۴۳

۴۴: ص۱۱۲

۴۵:حرف بار یاب۔ ص ۷

۴۶: مہر دو نیم۔ص۱۱۲

۴۷: ص۱۷۵

۴۸:ص۷۳

۴۹: ص۱۴۸

۵۰: ص۱۰۹،۱۱۰

۵۱: ص۱۱۶

۵۲: ص۵۸،۸۶

۵۳: ص۱۰۵

۵۴: حرف بار یاب۔ ص۹۶

۵۵: ص۹۸،۹۹

۵۶: مہر دو نیم۔ ص۹۶

۵۷: حرف بار یاب ص۱۳،۱۴

۵۸: ص۱۹

٭٭٭

ماخذ:

http://punjud.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید