FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ہم نے سیکھا نہیں ہے ہارنا

 

 

 

 

 

ون اردو رائٹرس سوسائٹی

 

 

دو حرف

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

السلام علیکم۔

"Failure is a word unknown to me”

Quaid e Azam Muhammad Ali Jinnah

 

ون اُردو سالگرہ” اور ون اُردو رائٹڑز سوسائٹی ” کے لئے کچھ منفرد سوچتے سوچتے میری نظر قائد اعظم محمد علی جناح کے اس قول پر پڑی۔ ایک دم سے سب کچھ واضح ہو گیا۔ میں نے سوچ لیا کہ اس بار ہم سب اسی قول کو لیکر کچھ لکھیں گے۔ "ون اُردو رائٹرز سوسائٹی” کی پہلی پیشکش کو لازمی بانی پاکستان کی سوچ کے حوالے سے ہونا چاہئے تھا تاکہ آئندہ کے راستے روشن و تاباں رہیں۔

مگر مسئلہ تھا کہ اس کو اُردو میں کیا رنگ دیا جائے۔ میں اس کو لیکر اپنے گروپ کے پاس گئی۔ سب نے اس خیال کی تائید کی۔ دانیہ نے فوراً مندرجہ ذیل ترجمہ پوسٹ کیا، گویا کہ ہم سب کے دل کی بات کہہ دی۔۔۔۔۔

"ہم نے سیکھا نہیں ہے ہارنا”

ہماری طرف سے اسے پیغام سمجھیں یا آنے والے دنوں کی نوید۔۔۔

اس کے ساتھ ہی میں یہ تمہید بس کرتی ہوں۔ لیجئے حاضر ہے ہم سب کی طرف سے یہ پہلی کاوش۔

آپ تک یہ ناولٹ پہنچانے میں ان سات ممبران نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔

سمارا

ساحرہ

دانیہ

آمنہ احمد

کائنات

در نایاب

وش

 

ہمارے تمام جذبے پاکستان کے لئے جس نے ہمیں اردو زبان کی محبت دی۔۔۔۔

آمنہ احمد

 

 

 

 

۱

 

بیلا کے ہاتھوں کی لرزش اور پیروں کی لڑکھڑاہٹ سے اس کا خوف اور بےبسی صاف ظاہر ہو رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کمرے کی بے جان چیزیں بھی اس کی تکلیف کو محسوس کر رہی ہیں۔

” کیوں نہ بابا سے بات کئے بنا ہی واپس پلٹ جاؤں”۔

اسے یقین تھا کہ ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی اپنا مقدمہ ہار جائے گی، بنا دلائل دئے اور لئے۔ بہتر تھا کہ وہ اپنی ہار مان لے اور اپنے اداس کمرے میں واپس لوٹ جائے۔ کوئی نئ الجھن اپنے دامن میں سمیٹے بنا کہ یہی اس کا مقدر تھا۔

"”کاش امی زندہ ہوتیں تو مجھے اکیلے اتنے غم نہ اٹھانے پڑتے”۔

بے بسی کے احساس سے اس کی آنکھیں بھر آئیں، ابھی وہ ایک سال کی تھی جب اس کی امی اللہ میاں کے پاس چلی گئیں،آیا اسے روز بہلاتی رہی۔ امی کے آنے کی جھوٹی کہانیاں سناتی رہی۔ امی کو نہ آنا تھا نہ آئیں مگر اسے بذات خود اچھی طرح یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ اب اس کی امی کبھی واپس نہیں آئیں گی۔

اسےان کی شکل بھی یاد نہیں تھی بس سہیلیوں سے ان کی امیوں کی باتیں سن کر اس عظیم ہستی کی اہمیت کا احساس ہوتا تھا۔

اس نے بی اے میں پورے صوبے میں ٹاپ کیا تھا اور اب پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتی تھی مگر اچھی طرح جانتی تھی بابا کبھی نہیں مانیں گے۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے سخت خلاف تھے۔یونیورسٹی کا فارم اس کے ٓانسوؤں سے بھیگا جا رہا تھا مگر وہ خود میں اتنی ہمت نہیں پاتی تھی کہ وہ اتنے جاہ و جلال والے بابا کا نہ صرف سامنا کرتی بلکہ ان سے ان کی مرضی کے خلاف کچھ مانگنے کی جرات بھی کر لیتی۔

وہ دو بار بابا کے کمرے کے دروازے سے لوٹ آئی تھی اور اب تیسری بار پھر دروازے پر کھڑی تھی۔ لیکن خود میں اندر جانے کی ہمت نہیں جمع کر پا رہی تھی۔ وہ پھر اپنے کمرے میں لوٹ آئی اور بستر پر اوندھی لیٹ کر نہ جانے کتنی دیر تک آنسو بہاتی رہی۔ پھر ذہن میں ایک خیال آنے پر اٹھی اور ایک کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئی۔

**

 

روشائل تھکی تھکی گھر میں داخل ہوئی۔ سامنے صحن میں میز پر پڑے نئے کمپیوٹر کو دیکھ کر اُس کی ساری تھکن دُور ہو گئی۔ وہ دوڑتی ہوئی کمپیوٹر کے پاس گئی اور اُسے چھو کر اُس کے ہونے کا یقین کرنے لگی۔ اسی بے یقینی کے عالم میں اُس نے اپنی اماں اور بابا کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں نمی لیے مُسکرا رہے تھے۔ اُس کی چھوٹی بہن اور بھائی بھی ایک طرف کھڑے تھے۔ کوئی کچھ بول نہ رہا تھا لیکن خاموشی محوِ گُفتگو تھی۔ اسی خاموشی کو روشائل نے توڑا۔

"بابا۔” اس سے آگے وہ کچھ کہہ نہ پائی۔ اور جا کے اماں کے گلے لگ گئی۔ ماں کی مامتا نے اُس کے سارے آنسو سمیٹ لیے اور پھر وہ مُسکراتی ہوئی بابا کے پاس گئی اور اُنہوں نے اُس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر دُعا دی۔

نذیر احمد ایک اوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ دن کے وقت ایک دفتر میں ٹائپسٹ تھے اور شام میں کسی وکیل کے پاس بھی ٹائپسٹ کی ہی نوکری کرتے تھے۔ ایک نہایت ہی شفیق باپ اور نیک دل انسان تھے۔ اُن کی زندگی کا محور اُن کی بیوی اور تین بچے تھے۔ روشائل سب سے بڑی بیٹی جو بی اے کرنے کے بعد قریبی اسکول میں پڑھا رہی تھی۔ روشائل سے چھ سال چھوٹی 17 سالہ روہین اور سب سے چھوٹا 13 سالہ احمر۔ اِن کی اچھی پُرسکون زندگی تھی کہ نذیر صاحب کی بیماری سے اس جھیل میں کنکر آ گرا اور تلاطم پیدا کر گیا۔

ایک رات نذیر صاحب سو رہے تھے کہ اچانک اُنھیں بائیں طرف درد سا اُٹھا۔ پہلے تو وہ برداشت کرتے رہے لیکن جب بات بڑھ گئی تو اُنہوں نے حمیدہ بیگم کو اُٹھا دیا۔ پچھلے دو سال میں یہ دل کا دوسرا دورہ تھا۔ جس نے اُنہیں انتہائی لاغر کر دیا تھا۔ اتنا کہ وہ کافی عرصے تک بستر سے نہ اُٹھ سکے۔ ایسے میں روشائل نے گھر بار سنبھالا۔ جاب تو وہ پہلے بھی کرتی تھی لیکن اب اُس کی ذمہ داری بڑھ گئی تھی۔ کیونکہ نذیر صاحب ایک پرائیوٹ فرم میں کام کرتے تھے اور اب کام نہ کر سکنے کی وجہ آمدن نہ ہونے کی برابر تھی۔

اب روشائل پہلے اسکول میں پڑھاتی اور واپس آ کر کچھ بچوں کو بھی ٹیوشنز دینے لگی تھی۔ لیکن آمدنی کا یہ ذریعہ بھی ناکافی تھا۔ اُس نے بابا سے کہا کہ وہ وکیل صاحب سے بات کریں کہ اگر وہ گھر بیٹھے اُن کی ڈاکومنٹس بنا دیا کرے تو۔ نذیر صاحب کو تھوڑی مشکل ہوئی لیکن اُنہوں نے وکیل صاحب کو راضی کر لیا۔ وہ ہر پل خُدا کا شکر ادا کرتے کہ اگر خُدا نے انہیں اتنا بے بس کر دیا تھا تو اس کڑے وقت میں اُن کا سہارا بننے کے لیئے روشائل جیسی بیٹی بھی دی تھی۔

چھ ماہ سے وہ پہلے اسکول اور شام میں ٹیوشن اور ٹائپنگ کا کام کر رہی تھی۔ روہین بھی بچوں کو پڑھانے میں اُس کی کافی مدد کرتی۔ نذیر صاحب کئی بار اپنے بچوں کو دیکھ کر خُدا کے ہاں سجدہ ریز ہو جاتے کہ اتنی نیک اولاد سے نوازا۔ چھ مہینے کی سخت محنت کے بعد وہ اس قابل ہوئے تھے کہ گھر کا خرچ چلا پاتے۔ پچھلی کچھ جمع شُدہ رقم سے نذیر صاحب نے روشائل کے لیے ایک کمپیوٹر خرید لیا تاکہ اُسے ٹائپ کرنے میں آسانی ہو اور یوں بھی ٹائپ رائٹر بہت پُرانا تھا اور اب کے جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھا۔

**

 

السلام علیکم بابا جانی!

سب سے پہلے تو آپ سے معافی کی طلب گار ہوں کہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے یوں آپ سے مخاطب ہوں۔ بابا پنجاب بھر میں اوّل آنے پر مجھے اسکالرشپ مل رہا ہے۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو آگے پڑھنے کے لئے میں یونیورسٹی میں ایڈمشن لینا چاہتی ہوں۔

آپکی بیٹی

بیلا

٭٭٭

 

اُس نے کتنی ہی بار اس خط کو پڑھا اور پھر وہ کاغذ کا ٹکڑا بابا کے کمرے میں دروازے کے نیچے سے ڈال کر واپس پلٹ آئی۔ اُس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ وہ ایسی ہی تھی۔ جلد ڈر جانے والی، ذرا ذرا باتوں پر بوکھلا جانے والی، جانتی تھی کچھ ہی دیر میں اُسے فیصلہ سُنا دیا جائے گا۔ کبھی اُسے لگتا کہ بابا مان جائیں گے اور کبھی وہ مایوسی کے اندھیرے میں بھٹکنے لگتی۔ وہ اسی کشمکش میں تھی جب بابا نے اُسے پکارا۔

"بیلا۔”

وہ ڈرتے ڈرتے کمرے میں داخل ہوئی۔ بابا نے اس کا لکھا ہوا مختصر سا خط ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور بیلا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر دونوں کے مابین خاموشی رہی۔ پھر گویا ہوئے۔

"کیا ہے یہ؟” اُنہوں نے پوچھا۔

"بابا! وہ میں آپ سے اجازت لینا چاہتی تھی کہ۔۔ ۔ ” اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔

"کہ کیا۔۔؟” اُنہوں نے مزید کُریدا۔

"کہ میں یونیورسٹی میں داخلہ لے لوں؟” بالآخر اُس نے مدعا بیان کر ہی دیا۔

دونوں کے مابین گہری خاموشی دوبارہ چھا گئی۔

"ہمم۔ بیٹھو۔” اُنہوں نے کُرسی کی طرف اشارہ کر کے اُسے بیٹھنے کو کہا۔

"میں۔۔ تعلیم کے خلاف نہیں ہوں۔مجھے بھی پڑھی لکھی اور پُر اعتماد بچیاں اچھی لگتی ہیں۔ جو زندگی کو جی سکتی ہوں۔ عورت کو اُس کی ذات کا اعتماد دینے کے لیے میں نے آج سے کئی سال پہلے سب کی مخالفت کے باوجود اپنی چھوٹی بہن کو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے بھجوایا تھا۔ اُس میں اعتماد اور ہمت دونوں ہی آ گئے تھے۔اس کے بعد اُس نے خاندان بھر کے خلاف جا کر اپنے ایک کلاس فیلو کے ساتھ شادی کر لی۔ اُس نے اپنی ذات پر اعتماد حاصل کر لیا تھا لیکن میرے اعتبار کی قیمت پر۔” وہ رُکے۔

بیلا سر جھکائے بابا کی باتیں سُن رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ پھر بولے۔

"اگر اب میں تم پر یا بچیوں پر اعتبار نہ کروں تو اس کا ذمہ دار کون ہوا؟ میں؟۔۔ یا خود ایک عورت ہی؟ لیکن پھر بھی میں تمہیں ایک موقع دوں گا۔ ایڈمشن لینا ہے تو لے لو۔ لیکن یاد رکھو اعتبار توڑنے کی سزا وہی ہو گی جو تمہاری پھپھو کو ملی تھی۔ میں کبھی تمہاری شکل نہ دیکھوں گا نہ اپنی دکھاؤں گا۔ جاؤ جا کر سو جاؤ اور کل میرے ساتھ جا کر داخلہ کروا آنا۔” اُنہوں نے اپنی بات ختم کر کے نظریں اپنی کتاب پر جما لیں۔ بیلا جو بے یقینی کے عالم میں آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے بیٹھی تھی وہ پھر سے لفظوں کی ادائیگی سے قاصر تھی۔ تب زندگی میں پہلی بار اُسے اندازہ ہوا کہ تحریر کتنی پر اثر ہو سکتی ہے۔

اُس نے خُدا کا شکر ادا کیا کہ وہ لکھنا جانتی تھی۔

**

 

"کہاں جا رہے ہو صبح صبح شہزادے”

جمی نے دروازہ کھول کر نکلتے سمیر کو دیکھ کر آواز لگائی۔

"ارے گرلز کالج لگنے کا ٹائم ہو گیا ہے۔ ۔بھابی کو کالج چھوڑنے جا رہا ہو گا ہمارا یار”

بلال نے جمی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے ہوئے کہا۔

سمیر نے نظریں اٹھا کر دونوں کی طرف دیکھا اور کسی بھی تاثر کا اظہار کئے بغیر دوسری جانب چل پڑا۔ جمی اور بلال بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ جب کافی تک سمیر کچھ نہ بولا تو جمی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ہلکا سا دباؤ ڈالا۔ سمیر رک کر استہفامیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

"کچھ پریشان ہو۔ بات کیا ہے بتاؤ‘”جمی بولا

” نہیں کچھ نہیں۔۔اور جاؤ تم لوگ میں دکان تک جا رہا ہوں” سمیر نے رکھائی سے جواب دیا اور آگے بڑھ گیا

جمی اور بلال کچھ دیر کھڑے اسے دیکھتے رہے پھر کندھے اچکا کر اپنی راہ لی۔

سمیر، بیلا کا بڑا بھائی تھا۔ خلیل صاحب کی سب سے بڑی اولاد۔ عمر پچیس برس ہونے کو تھی مگر وہ اب تک زندگی کی دوڑ میں شامل ہی نہ ہوا تھا۔ پہلے پڑھائی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر عام زندگی میں بھی وہ ایک ناکام شخص ہی تھا۔ تعلیمی لحاظ سے وہ محض انٹر تھا۔ کسی دفتر میں تو اسے نوکری نہ ملی اور جو نوکری ملی وہ اسے اپنے قابل نہیں لگی۔ بی اے کے امتحان میں چار مرتبہ فیل ہونے کے بعد اب وہ پڑھائی کا ارادہ ہی ترک کر چکا تھا۔ اس کے ساتھ کے لڑکے تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکریوں پر تھے۔ جب خلیل صاحب اس بات کا تذکرہ کرتے تو فرسٹریشن کا شکار ہو جاتا۔ جو خود اعتمادی کبھی اس کی ذات کا حصّہ ہوا کرتی تھی وہ اس سے بھی ہاتھ دھو چکا تھا۔ آج بھی صبح جب خلیل صاحب نے اسے بستر پر کروٹیں بدلتے دیکھا تو بڑبڑانا شروع کر دیا۔ پہلے تو سمیر کا دل کیا انہیں جواب دے پھر کچھ سوچ کر وہ اٹھ گیا اور گھر سے نکل پڑا۔ اس کا رخ ایک انٹرنیٹ کیفے کی جانب تھا

***

 

بیلا کی زندگی تو جیسے یکدم کھل اٹھی ہو۔ وہ اب تک بے یقینی کی کیفیت میں تھی کہ کیا بابا جان نے واقعی یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت دے دی ہے۔ اسے زندگی میں پہلی بار بابا کا پھپھو سے رشتہ نہ رکھنے اور ان کی طرف سخت رویہ اپنانے کی وجہ سمجھ میں آئی۔

” میں آپ کا اعتبار کبھی نہیں توڑوں گی بابا جانی۔ مر جاؤں گی لیکن آپ کے نام پر حرف نہیں آنے دوں گی”۔اس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا۔ فارم جمع کراتے ہوئے اسے سب کچھ خواب سا لگ رہا تھا۔

***

 

سمیر نے انٹرنیٹ کیفے پر پہنچ کر دروازے پر دباؤ ڈالا اور کھلنے پر اندر داخل ہو گیا۔ کیفے میں روشنی نا کافی تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا اور کاؤنٹر کی جانب بڑھ گیا۔

"کیفے ابھی کھلا نہیں کیا؟”

اس نے کاؤنٹر پر بیٹھے لڑکے سے سوال کیا۔

"”صاحب کھلا ہے تبھی تو آپ اندر آئے ہو”

کاؤنٹر بوائے نے اس کا مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔

"اچھا مجھے تھوڑی دیر کمپیوٹر استعمال کرنا ہے۔ یہ پیسے پکڑو اور کہاں بیٹھوں؟”اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا”

"صاحب اتنی صبح کون آتا ہے۔ خالی ہی ہے کہیں بھی بیٹھ جاؤ” کاؤنٹر بوائے نے پیسے لے کر دراز میں رکھتے ہوئے کہا

سمیر آہستگی سے چلتا ہوا جا کر آخری کونے پر جا کر بیٹھ گیا۔ کمپیوٹر پہلے سے کھلا ہوا ہی تھا۔ اس نے ای میل کرنے کے لئے براؤزر کھولا اور اپنے مطلوبہ پیج کا ایڈریس ٹائپ کیا اور اپنے پرانے دوست فہیم مرزا جو کہ دبئی میں ملازمت کر رہا تھا اس کو ای میل کرنے لگا

"فہیم۔

کیسے ہو۔ تم نے کہا تھا اگر میرا موڈ بنے تو تم میری مدد کر سکتے ہو۔ میں اب یہاں بہت تنگ آ گیا ہوں۔ کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں ملتی اب تم کوشش کرو مجھے وہاں بلانے کی تو میں تمہارا بہت مشکور ہوں گا”

یہ لکھ کر اس نے سینڈ پر کلک کیا اور لاگ آؤٹ کر کے اٹھنے لگا کہ پہلے سے کھلے ایک پیج پر اس کی نگاہ اٹک گئی۔وہ ایک کمپنی کی جانب سے دیا گیا اشتہار تھا جس میں خوبصورت لفظوں کو استعمال کر کے امریکہ کے ویزہ کی گارنٹی اور مناسب جاب دلانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا بس چند سو ڈالرز کے عوض۔۔

سمیر کو وہ اشتہار اتنا پر کشش لگا کہ وہ دوبارہ لاگ ان ہو کے ایک ای میل اس ادارے کو بھی کر بیٹھا جس کی جانب سے وہ اشتہار دیا گیا تھا۔

شکاری کے پھیلائے گئے جال میں ایک اور پنچھی پھنس چکا تھا

***

 

 

 

۲

 

 

 

جیا گائے تارا را را رم

گوری ناچے چھم چھم چھم

آج کل روشائل کے من کی بھی کچھ یہی کیفیت تھی،

اک نامحسوس سی خوشی وہ اپنے من میں پا رہی تھی۔

کمپیوٹر گھر میں کیا آیا، روشائل کو ایسے لگا جیسے اس کی روز مرہ کی زندگی میں ایک مسکراتی ہوئی بہار داخل ہوئی ہے۔ روزمرہ، یکسانیت سے ہٹ کر کوئی روشن درز کھل گیا ہے۔ زندگی گزر تو پہلے بھی رہی تھی کہ اپنی مسافت تو اس نے ہر حال طے کرنی ہی تھی۔ اس چیز سے بے خبر کہ مسافر اپنی دھن میں بے نیاز چلا جا رہا ہے یا ہر قدم سہج سہج کر رکھ رہا ہے۔

بابا کی بیماری نے ان سب پر ایک بے یقینی کی سی کیفیت طاری کر دی تھی اور روپے پیسے کی جدوجہد نے انھیں جیسے ایک محاذ پر کھڑا کر دیا تھا۔حالانکہ کبھی ان کا گھر ایک آئیڈیل فیملی کی طرح تھا، پیاری سی بہن روہین اور اپنی عمر کے مطابق کھلنڈرا سا بھائی احمر اور مشفق بابا اور اماں تھے۔

گھر میں سکون، اطمینان اور ٹھہراؤ  محسوس ہوتا تھا۔ وہ گھر میں بہن، بھائی سے بڑی تھی اس لیے زندگی کا سامنا بھی اسے ہی پہلے کرنا پڑا، اور اماں بابا کا سہارا بھی بننا پڑا، اچانک ہی بابا کی بیماری ایک ان دیکھے طوفان کی طرح ان سب کی زندگیوں میں داخل ہو گئی تھی۔

وہ یہ سوچ نہیں رکھتی تھی کہ ان کے گھر کو کسی کی نظر کھا گئی، کیونکہ زندگی خود ایک امتحان ہے، پتہ نہیں کب اس کا پرچہ اچانک حل کرنا پڑ جائے۔ بس ہر وقت اس امتحانی پرچے کے لئے تیار رہنا چاہیئے، قلم ہاتھ میں ہی رہے تو بہتر ہے۔ زندگی میں کٹھنائیاں ضرور چلی آ رہی تھیں لیکن والدین کی طرف سے ملے اعتماد نے اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ اور سہارا دیا تھا۔

کاش وہ مزید پڑھ پاتی یہ خواہش اکثر اس کے دل میں اک حسرت جگا دیتی۔ پتہ نہیں ہم اپنی آنکھوں میں اتنے خواب کیوں سجا لیتے ہیں کہ جب وہ پورے نہیں ہو پاتے تو ان کی ٹوٹی کرچیاں بھی آخر ہمیں ہی چبھتی ہیں۔ وہ کبھی کبھی سوچا کرتی تھی۔

***

 

"کیا!” میرے کانوں کو یقین نہیں آ رہا۔ چچا جان نے اجازت کیسے دے دی تمہیں؟ وہ تو یونیورسٹی کی تعلیم کے سخت خلاف تھے”۔

"ایسا ہو چکا ہے صبیح اور میں بہت خوش ہوں کہ اب میری زندگی بھی کچھ معنی رکھتی ہے”۔ بیلا کی خوشی اس کے چہرے پر رقص کر رہی تھی۔ صبیح نے بیلا کو اتنا خوش کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک لمحے کو اس کے چہرے پر بکھرے رنگ دیکھ کر وہ دنگ رہ گیا۔ خوبصورت تو وہ ہمیشہ سے تھی مگر آج کی کیفیت ہی نرالی تھی۔ یہ ہمیشہ کی ڈری ڈری، کچھ کہتی نہ کہتی ہوئی خاموش سی لڑکی، آج کیا غضب ڈھا رہی تھی۔

"مگر یہ یونیورسٹی کیوں جا رہی ہے؟ اسے تو کوئی دیکھے تو دیکھتا رہ جائے۔ ہوم اکنامکس کالج میں بھی داخلہ لیا جا سکتا ہے۔ آخر یونیورسٹی ہی کیوں؟” دل میں وسوسے نے سر اٹھایا۔ اکنامکس میں ایم اے اور ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرنے کے باوجود تنگ نظری صبیح کی سرشت میں شامل تھی۔

وہ بیلا سے محبت کرتا تھا مگر بیلا کی یونیورسٹی تعلیم کے حق میں نہیں تھا۔ اسے گھر بار سنبھالتی ہوئی لڑکیاں اچھی لگتی تھیں۔ جو صرف اور صرف گھر شوہر اور بچوں کی ہو کر رہیں۔

آج کل جو لڑکیوں میں کمپیوٹر اور موبائل ٹرینڈ نکلا تھا وہ اسے سخت برا لگتا تھا۔ ہر وقت چیٹنگ یا کان سے موبائل لگا کر گھومنا۔ "ہم!۔۔ یہ سارے بہانے ہیں کہ ہم کمپیوٹر لٹریٹ ہیں۔ مگر اس کے پیچھے کام کچھ اور ہی ہو رہے ہیں۔”

***

شام میں بیلا نے یونیورسٹی میں داخلے کی خبر خبر روشائل کو دی تو وہ خوشی سے بیلا سے لپٹ گئی۔

"میں کہتی تھی نا تھوڑا اپنے آپ میں خود اعتمادی پیدا کرو، سارے راستے خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔ تم اتنی ذہین ہو کر چھوئی موئی کی طرح رہو گی تو آگے کیسے بڑھو گی۔ انکل کا رویہ بھی حالات کا تقاضہ تھا۔۔ چلو چھوڑو ان باتوں کو اب ٹریٹ کب دے رہی ہو آخر کو ہماری اکلوتی حسین، ذہین۔ فطین سہیلی ہو”۔

روشی خود یونیورسٹی تک نا پہنچ سکی تھی مگر دل میں اعلی تعلیم کی خواہش رکھتی تھی۔ یہی خواہش اس کی بیلا کے لئے بھی تھی۔ جن حالات سے گزر کر یہ دونوں بچپن کی سہیلیاں یہاں تک پہنچی تھیں اس کا دونوں کو خوب اندازہ تھا اور ان حالات نے ہی انہیں ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا تھا۔

بیلا ماں نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تنہائی اور چھوٹے چھوٹے دکھ سکھ روشی سے بانٹ لیا کرتی تھی۔ روشی بھی کھلے دل سے بیلا کا غم بٹاتی۔ خلیل صاحب بھی روشی اور اس کی فیملی کو جانتے تھے دونوں بچپن کی سہیلیاں تھیں اور نذیر صاحب سے بھی سلام دعا کا سلسلہ تھا۔

***

 

سمیر جیسے ہی گھر میں داخل ہوا۔ خلیل صاحب نے اس کا گھیراؤ کر لیا۔

"صاحبزادے، کدھر بے نتھے بیل کی طرح پھرتے رہتے ہو۔ ؟ سارا دن سوائے سڑکیں ناپنے کے کوئی اور کام ہی نہیں تمہارے پاس ” خلیل صاحب حسب عادت سمیر سے مخاطب ہوئے۔

انھیں اپنے اس انداز گفتگو کی کبھی پرواہ نہیں ہوئی تھی اس لئے احساس کرنا تو دور کی بات تھی۔ سمیر دل ہی دل میں اس طرح بلائے جانے پر چیں بہ چیں تو ہوا۔ مگر لاپروائی اب اس کی سرشت میں بھی داخل ہو چکی تھی، اس لیے وہ بھی لاپروائی سے بولا ” بابا، آپ نے خود ہی تو مجھے دس کام گنوائے تھے اور پانچ کاموں سے بھیجا تھا جن میں سے تین کر کے آ رہا ہوں۔ ”

خلیل صاحب خود ہی اپنی بات کی گرفت میں آ گئے تھے اس لئے کچھ جزبز تو ہوئے مگر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ اور بولے” اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے بڑے کام والے بنے ہوئے ہو کبھی اپنے بے تکے حلیے کو بھی دیکھ لیا کرو، بیلا سے بڑے ہو مگر کوئی بڑے والی بات نظر نہیں آتی صاحبزادے میں ” وہ طنزیہ مسکرائے۔

وہ یونیورسٹی پہنچ گئی ہے اور یہ وہیں کے وہیں، وہ تم سے تو کچھ سیکھ نہ سکی اب تم ہی اس سے کچھ سیکھ لو۔”

خلیل صاحب کبھی بہت روشن خیال اور ہر کسی سے پیار محبت سے بات کرنے والے انسان ہوا کرتے تھے۔ اُنہیں خود اعتماد بچیاں پسند تھیں جو عزت اور اعتماد سے زندگی جینے کا ڈھنگ جانتی ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بیلا سے کبھی کبھی چڑتے یا خفا رہتے کیونکہ اعتماد نام کی اُس میں کوئی چیز نہیں تھی۔ اور نہ ہی کبھی خلیل صاحب نے ایسی کوئی کوشش کی تھی۔

اپنی بہنوں کو اُنہوں نے بہت پیار سے پالا تھا اور اُن پر اندھا اعتبار کیا تھا۔ لیکن جب اُن کے اعتبار کو ٹھیس لگی کو تو اُنہیں لگا کہ خرابی اُن کے رویے میں ہی تھی۔ اگر وہ بہنوں کو بے جا لاڈ اور آزادی نہ دیتے تو یہ سب نہ ہوا ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس کے بعد سے اُنہوں نے اپنے اوپر سنجیدگی کا ایک خول چڑھا لیا۔

اس خول میں تب تھوڑی دراڑیں پڑی تھیں جب وہ زیب النساء بیگم کو بیاہ کر گھر لائے تھے۔ وہ ابھی واپس بے یقینی سے یقین کے سفر میں ہی تھے کہ اُن کو پھر دھوکہ ملا۔ اُن کی رفیق حیات اُن سے ساتھ نبھانے کے سارے وعدے توڑتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

زیب النساء کی وفات کے بعد وہ وہ واپس اپنی تنہائی کی دُنیا میں چلے گئے۔ کبھی نہ نکلنے کے لیے۔

***

 

بیلا کا آج یونیورسٹی کا پہلا دن تھا، سمیر کو اس نے رات کو ہی کہہ دیا تھا کہ وہ صبح تیار رہے تاکہ اس کو پوائنٹ تک چھوڑ کر آ سکے۔ لیکن سمیر صبح ہی صبح نہ جانے کہاں غائب تھا۔ وہ پورے گھر میں اسے آوازیں دیتی پھر رہی تھی۔ بالآخر وہ خود ہی یونیورسٹی کے لئے روانہ ہو گئی۔ بابا سے کہنے کا مطلب تھا کہ وہ اس کو جانے سے ہی منع کر دیتے۔ اور یہ وہ چاہتی نہ تھی۔ دن کا آغاز ہی ٹھیک نہ ہوا تھا۔

یونیورسٹی میں لوگوں کی گہما گہمی عروج پر تھی۔ بڑی مشکل سے وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ پہنچی۔ کلاس میں صرف ڈین صاحب نے تعارف کروایا اور کوئی خاص پڑھائی نہ ہوئی۔ باقی تمام کلاسیں فارغ تھیں۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اب کیا کرے، رکے یا گھر جائے۔ اس کی کلاس کی باقی لڑکیاں گرلز کامن روم کی طرف جا رہی تھیں، وہ بھی ان کے ہمراہ ہو لی۔

گرلز کامن روم میں سینئر لڑکیوں کا جیسے قبضہ تھا۔ وہاں وہ جونئیر لڑکیوں کی ریگنگ کر رہی تھیں۔ اسے علم ہوتا تو وہ وہاں کبھی نہ جاتی۔ لیکن اب تو آ چکی تھی۔

"ہے یو۔” ایک سینئر لڑکی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"جی!” اس نے کہا۔

"سامنے آؤ۔” اس لڑکی نے اس کو آگے آنے کا اشارہ کرتے

ہوئے کہا۔

"جی کہیے۔” اس نے آگے آتے ہوئے کہا۔

"نام بتاؤ۔”

"بیلا۔”

"کس کی بیلا، بیلا کیا ہوتا ہے بیلا سے ملتے جلتے نام بتاؤ۔” ایک اور سینئر لڑکی نے کہا۔

"جی۔۔۔۔” وہ حیران ہوئی، ” بیلا تو بیلا ہوتا ہے یہ میرا نام ہے، اس سے ملتے جلتے نام کیسے، کیا مطلب۔”

"بحث نہیں۔ جو کہا ہے وہ کرو۔” سینئر لڑکیوں کے گروہ میں سے ایک اور لڑکی بولی۔

وہ چپ رہی۔

"چپ ہونے کا نہیں کہا ہے، بیلا سے ملتے جلتے نام بتانے کا کہا ہے۔ اتنا سا بھی نہیں ہوتا تم سے۔”

"جج۔۔جی۔۔۔ کیسے بتاؤں۔۔۔۔” وہ اب گھبرا گئی تھی۔

"ب سے بیلا۔۔۔پ سے پیلا۔۔۔ت سے تیلا۔۔۔۔” اسی سینئر لڑکی نے قافیے سے قافیہ ملانا شروع کیا۔

اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ روتے ہوئے کامن روم سے باہر بھاگی۔ اس کے بھاگنے پر لگائے جانے والے قہقہے کی آواز اسے باہر تک سنائی دی۔ اس کے بعد وہ یونیورسٹی میں رکی نہیں، سیدھی گھر چلی آئی۔ اس کا یونیورسٹی کا پہلا دن بہت برا رہا تھا۔ اس میں پہلے ہی اعتماد کی کمی تھی، آج اس میں مزید کمی آ گئی۔ ایسی لڑکیوں کو وہ جواب نہیں دے سکی، ان کی عام سی باتوں کو فیس نہیں کر سکی تو زندگی میں وہ کیا کرے گی۔ کیا وہ کبھی کچھ کر بھی سکے گی۔۔۔وہ یہی سوچے جا رہی تھی۔

شام کو روشائل اس سے یونیورسٹی کی روداد سننے آئی تو وہ اس کے گلے لگ کر بری طرح رو پڑی۔

"کیا ہو بیلا۔ ادھر دیکھو چندا۔ بتاؤ مجھے۔” روشائل چونکہ گھر میں بڑی تھی اس لیے ہر کسی کے ساتھ اُس کا انداز یونہی مشفقانہ ہوتا تھا۔ وہ اُسے اپنے ساتھ لگائے سر پر ہاتھ پھیرتی پیار سے پوچھ رہی تھی۔

"مجھے نہیں جانا دوبارہ سے یونیورسٹی۔ وہاں کوئی کسی کا احترام نہیں کرتا۔ سب دوسروں پر ہنستے اور مذاق کرتے ہیں۔

"کیا ہوا بیلا۔ کسی نے کچھ کہہ دیا ہے کیا؟”

"وہ سب میرا نام بگاڑ رہی تھیں۔ میرے گرد سب یوں گھیرا ڈال کر کھڑی ہو گئیں جیسے مجھے کبھی جانے نہیں دیں گی۔ میں نہیں جاؤں گی اب کبھی اُن سب کے بیچ۔” بیلا نے روتے روتے جواب دیا۔

"بیلا یہ تو ریگنگ ہوتی ہے کافی کالجز اور یونیورسٹیز میں تو بہت زیادہ۔ ابھی میں خبروں میں سُن کر آئی ہوں کہ پنجاب یونیورسٹی میں ہنگامہ کر دیا ہے اسٹوڈنٹس نے۔ حالات خراب ہیں، کچھ دن کے لئے یونیورسٹی بند کر دی گئی ہے۔ اچھا ہے تمہیں بھی خود کو سنبھالنے کے لیے کچھ وقت مل گیا۔ میری پیاری دوست یوں ہمت نہیں ہارا کرتے۔ یہ تو ابھی شروعات ہے۔ تمہیں زندگی میں جو موقع ملا ہے اُسے تم یوں رو دھو کر گنوا نہیں سکتی۔ ہمت کرو بیلا۔ ابھی آگے بہت طویل راستہ ہے۔” اور پھر وہ یوں ہی اُسے کتنی دیر تک سمجھاتی رہی۔

***

 

گھر آنے کے بعد بھی روشائل کا ذہن بیلا میں اُلجھا ہوا تھا۔ بیلا یونیورسٹی تو پہنچ گئی تھی لیکن اُس کی سوچ ابھی بہت کچی تھی اور معصومیت تو بالکل بچوں کی سی تھی۔ روشائل اُس کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن جانتی تھی ہر وقت کی نصیحتیں اپنا اثر کھو دیتی ہیں۔ اُس نے پھر کمپیوٹر آن کیا اور ٹائپنگ کرنی شروع کی۔

***

 

"پہلے تو تمھیں یونیورسٹی جانے والی اور جاب کرنے والی لڑکیوں پر بہت اعتراض ہوتا تھا اور اب تم اسی سے شادی کر رہے ہو۔” بڑی بھابھی کے لہجے میں کچھ عرصے سے تیزی کچھ زیادہ ہی آ گئی تھی۔

"شاید بھابھی ہمیشہ سے ہی ایسی تھیں۔ میں نے ہی کبھی غور نہیں کیا یا پھر اماں اور بہنیں ہی ذکر نا کرتی ہوں۔۔۔”۔ اس نے سر جھٹک کر سوچوں کو پرے دھکیلا۔

” بھابھی معذرت کے ساتھ یہاں انسانوں کو بدلتے گھڑی لگتی ہے، سوچ تو ویسے بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدل جاتی ہے۔” اس نے بمشکل اپنے لہجے کی تلخی پر قابو پایا تھا۔

بڑی بھابھی غصے میں بولتی ہوئی اوپر کی سیڑھیاں چڑھ گئیں۔

"بیٹا ایسے نا بولا کرو بڑی بھابھی کے ساتھ۔۔۔۔” اماں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

"کیا سارے احترام ہمارے لئے رہ گئے ہیں۔۔۔ اماں یاد ہے آپ کو ہم کتنے چاؤ اور محبت سے بھابھی کو بیاہ کر لائے تھے کہ ہماری خالہ زاد بھی ہیں تو گھر میں محبت کی فضا قائم رہے گی۔” صبیح نے سات آٹھ سال پہلے کی بات یاد کی۔۔۔

"اور جب سمیع بھائی نے اپنی یونیورسٹی کی کلاس فیلو سے شادی کا ارادہ ظاہر کیا تھا تو ہم سبکو کتنا غصہ آیا تھا۔۔۔” وہ اب درمیان والے بھائی کی بات کر رہا تھا۔

” ہاں بیٹا ہم سمجھتے تھے کہ باہر کی آئے گی، یونیورسٹی کی پڑھی ہوئی تو ہمیں منہ بھی نہیں لگائے گی۔” اماں نے پشیمانی سے کہا۔

"بھائی سچ تہنیت بھابھی جب اس بار آئیں تھی تو سارا گھر انہوں نے ہی سنبھالا تھا۔۔۔ مجھے اور باجی کو تو کام ہی نہیں کرنے دیا تھا۔”

"زارا تمھیں تو موقع چاہئے تہنیت بھابھی کے زمین آسمان کے قلابے ملانے کا۔” صبیح نے اسے چھیڑا۔

"اگر وہ یہاں رہتی تو تمھارا دماغ تو ضرور درست کر دیتیں”

” کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔” زارا نے زور زور سے انکار میں سر ہلایا۔

آجکل صبیح کی شادی کی گھر میں بات چیت چل رہی تھی۔ ایسے میں بڑی بھابھی کچھ زیادہ ہی تلخ ہو گئیں تھیں۔ "شاید اپنی کوئی بھانجی بھتیجی لانے کا خیال ہو۔” یہ زارا کا خیال تھا۔

***

 

"روشائل بیٹا کہاں ہو۔” بابا نے گھر میں داخل ہوتے ہی اُسے پُکارا۔

"جی بابا جانی۔ یہ لیں پانی پیئیں۔” وہ بابا جانی کو پانی کا گلاس پکڑا کر وہیں صحن میں ایک کُرسی پر بیٹھ گئی۔

"بیٹا آج وکیل صاحب کہہ رہے تھے کہ آپ اتنا کرایا لگا کر یوں میرے پاس کام لینے اور واپس کرنے آتے جاتے ہیں تو گھر میں انٹرنیٹ لگوا لیں۔ یہ ڈاکیومنٹس لینے دینے کا کام تو نیٹ پہ بھی ہو جاتا ہے۔ کیا خیال ہے تمھارا۔” انہوں نے بیٹی سے مشورہ کیا۔

"بابا جانی بات تو اُن کی ٹھیک ہی ہے۔ یہ کام تو نیٹ پہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن مجھے نیٹ کا استعمال ابھی اتنا نہیں آتا۔ وہ سیکھنے میں وقت لگے گا۔” روشائل نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ "لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ بیلا نے تھوڑا بہت کمپیوٹر سیکھا ہوا ہے۔ میں اُس سے سیکھ لوں گی۔”

"یہ تو اچھا ہو گیا۔ چلو پھر میں کسی کمپیوٹر والے بندے کو بُلا کر لاتا ہوں کہ ٹیلی فُون لائن پہ نیٹ کنیکٹ کر دے۔ چلو اب مجھے کھانا لا دو۔”

***

 

سمیر نے بے تابی سے کمپیوٹر کھولا اور جیسن جیمز کی ای میل چیک کرنے لگا۔ اس نے ایک ہفتہ پہلے ہی ایک بیرون ملک جاب کا دلکش اشتہار دیکھ کر ان لوگوں کو پانچ سو ڈالر فیس بھجوائی تھی اور آج ان کی طرف سے ویزے کے لئے انٹرویو کی ڈیٹ دی جانا تھی۔ امریکہ جانے کا شوق پورا کرنے کے لئے اسے اپنی والدہ مرحومہ کے کچھ زیور چرا کر بیچنے بھی پڑے تھے۔ بابا سے مانگتا تو نہ تو اجازت ملتی اور نہ ہی پیسے۔

جانے نوجوان نسل اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنے کی بجائے ہمیشہ شارٹ کٹ کیوں ڈھونڈتی رہتی ہے جسکا نتیجہ ہمیشہ منفی ہی نکلتا ہے۔

وہ آج بھی پوری رات خواب میں خود کو گوری میموں کے ساتھ دیکھتا رہا تھا۔

"واہ۔۔۔۔ کتنا مزہ آئے گا۔ پورے معاشرے میں میری عزت ہو گی۔سب لوگ مجھ سے جلیں گے حتی کہ بلال اور جمی بھی جل کر رہ جائیں گے۔ میں کسی گوری میم سے شادی کر لوں گا”

خوابوں کا سلسلہ دراز کہیں رکھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا کہ اچانک اسے ایک جھٹکا سا لگا اور وہ لا شعوری طور پر خوابوں خیالوں کی دنیا سے نکل کر جیسے حقیقی شعور کی دنیا میں آ گیا۔ اس نے پھٹی پھٹی آنکوں سے اس سرور ایرر کا میسج دیکھا جو بتا رہا تھا کہ اس نام کی کوئی کمپنی انٹر نیٹ پر موجود ہی نہیں جبکہ وہ پچھلے کئی مہینے سے ان لوگوں کے ساتھ اسی ویب ایڈریس پر خط و کتابت میں مصروف تھا اور پیسے بھی یہیں بھیجے تھے۔

” نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا”

اس کا دل یقینی اور بے یقینی کے درمیان کسی پنڈولم کی طرح ڈولنے لگا۔ دل کے دھڑکنے کی تیز آواز خود اسے اپنے کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔

ایک بار

دوسری بار

تیسری بار حتی کہ پچاس بار بہت دھیان سے ایڈریس ٹائپ کرنے پر بھی جب وہ سائٹ مل کر نہ دی تو ایک لمحے کے لئے جیسے وہ سانس لینا ہی بھول گیا۔ وہ جانتے بوجھتے عقل رکھتے انٹرنیٹ فراڈ کا حصہ بن گیا تھا۔ سب سے زیادہ غم کی بات یہ تھی کہ وہ لٹنے والوں میں شامل تھا۔

” لوزر۔۔۔۔۔۔” جیسے ان دیکھے جیمز کا طنزیہ قہقہہ اس کے کانوں میں گونجا۔

"نہیں” نہیں” وہ اپنی بے بسی اور غصے کی شدت سے جیسے رو سا دیا۔ اپنے بوڑھے باپ کی مجبوریاں اور دھوکے کا احساس اسے مارے ڈال رہا تھا۔ اپنی بہن کے جہیز کے لئے رکھے گئے زیورات چرانے کا خیال اسے اپنی نظر میں انسانیت کے درجے سے گرانے کو کافی تھا۔

پہلے وہ صرف یہی سوچ کر چوری کر لایا تھا کہ امریکہ میں نوکری ملتے ہی اس کے وارے نیارے ہو جائیں گے وہ بابا کے لئے بہت سے پیسے کما لائے گا۔ بیلا کی شادی دھوم دھام سے کرے گا۔ دیگر لوگوں کی طرح امریکہ کے بارے میں اس کا تاثر بھی یہی تھا کہ امریکہ میں پیسے درختوں پر اگتے ہیں جسے صرف توڑنے کی محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ تو پھر امریکہ میں رہنے والے ہی جانتے ہیں کیسے خون پسینہ ایک کرنے کے بعد انکو رات میں چند گھنٹے بھی سونا نصیب ہو جائے تو بہت بڑی بات ہے ورنہ زیادہ تو دو دو نوکریاں کرنے کی وجہ سے ایک گھنٹہ بھی سو نہیں پاتے۔

آج اس کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے تھے۔ دل ٹوٹ گیا تھا اور غم کے اندھیروں نے اسے نگل کر مایوسی کی اس حد پر پہنچا دیا تھا جس حد کے پار جانے والے عرف عام چور ڈاکو یا قاتل کہلائے جاتے ہیں اور پیچھے مڑ کر دیکھنے والے پتھر کے بن جایا کرتے ہیں۔

***

 

بابا نے ایڈمشن کراتے ساتھ ہی بیلا کو کمپیوٹر اور نیٹ کنکشن دلوا دیا تھا تاکہ اُسے نوٹس وغیرہ بنانے میں کوئی کمی محسوس نہ ہو۔ بیلا نے سمیر کی طرح کبھی نیٹ کا غلط استعمال نہیں کیا تھا۔ آج کل وہ یونیورسٹی سے چھٹی پر تھی لیکن کیونکہ پڑھنے کی شوقین تھی اس لیے وقت ضائع کرنے کی بجائے اُس نے پنجاب یونیورسٹی کی سائٹ سے سلیبس ڈاؤن لوڈ کر کے کچھ کتابیں منگوائیں اور مزید نیٹ پر سرچ کر کر کے نوٹس بنانے شروع کر دئیے۔ نیٹ کا وہ بس اتنا ہی استعمال کرتی تھی اگر اُس دن روشائل اُس سے نیٹ سیکھنے نہ آتی تو۔

"السلام علیکم۔ کیا ہو رہا ہے۔” روشائل نے اندر داخل ہوتے ہی سلام کے ساتھ سوال بھی کر ڈالا۔

"کچھ خاص نہیں، بس کتابیں منگوائیں تھیں پڑھنے کے لیے اور یہاں نیٹ پر سرچ کر کے نوٹس بنا رہی ہوں۔ آ جاؤ تم۔” روشائل اُس کے برابر میں بیٹھ گئی۔

"میں بھی یہی تو سیکھنے آئی ہوں۔ بابا بھی نیٹ لگوا کر دے رہے ہیں تاکہ جو ڈاکیومینٹل کام میں کرتی ہوں وہ ای میل کے ذریعے ہی وکیل صاحب تک پہنچا دیا کروں۔ اس کے لیے تمہاری مدد درکار ہے۔”

"ہاں ہاں کیوں نہیں۔ بہت ہی آسان ہے۔ یہ دیکھو ای میل کرنے کے لیے۔۔ ۔ ”

پھر بیلا نے روشائل کو ای میل کرنا اور نیٹ سرفنگ کرنا دونوں ہی سکھا دیں۔ روشائل کے لیے یہ بڑا دلچسپ کام تھا۔ دونوں جب سیکھ سیکھ کر تھک گئیں تو روشائل نے کہا "اچھا اب سیکھنا سکھانا چھوڑو کچھ دلچسپ دیکھتے ہیں۔”

"دلچسپ کیا؟” بیلا نے دریافت کیا۔

"کچھ شاعری وغیرہ ڈھونڈتے ہیں۔ وہ کیا بتایا ابھی تم نے۔ گُوگل پہ ڈھونڈوں جو بھی ڈھونڈنا ہو۔ یہ کھولا گوگل اور یہ لکھا urdu poetry۔” اُس نے بیلا کے بتائے ہوئے طریقے سے سرچنگ شروع کی اور سرچ رزلٹ آنے پر ذرا پریشان ہوئی۔ اتنے سارے لنکس۔ اُس نے دو تین لنکس اوپن کیئے لیکن کچھ خاص نہ ملا۔ تیسرا لنک کھولتے ہی اکاؤنٹ بنانے کا صفحہ کھُل گیا۔ "یہ کیا۔” وہ بولی۔

یہاں پر اکاؤنٹ بنا کر ہی داخل ہو سکو گی۔ کچھ سائٹس سکیورٹی کے لیے اکاؤنٹ انفو مانگتی ہیں۔” بیلا نے بتایا۔

"اچھا پھر کیا کروں۔ بنا لوں؟” روشائل کے لیے کیونکہ یہ سب نیا تھا تو وہ فیصلہ نہ کر پا رہی تھی کہ یہ سب ٹھیک ہے یا نہیں۔

"پتہ نہیں۔ میں نے کبھی ایسی سائٹس جوائن نہیں کیں۔” بیلا نے بتایا۔

"اچھا ٹرائی کرتے ہیں۔ روشائل بہت خوش تھی انٹر نیٹ کا استعمال سیکھ جانے پر۔

پھر تھوڑی ایکسائٹمنٹ اور ڈر کے ساتھ اُس نے اکاؤنٹ بنا ڈالا۔ روشی کے نام سے۔” بن گیا اکاؤنٹ۔ اُس نے ساتھ بیٹھی دیکھ رہی بیلا کو بتایا۔

"وہ مُسکرائی۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے اس سب سے۔ بابا نے دیکھ لیا تو؟ وہ مجھ پر اعتبار کرتے ہیں روشائل۔ میں اُن کے اعتبار کو کبھی کبھی ٹھیس نہیں لگوانا چاہتی۔” بیلا ڈری ہوئی اور حد سے زیادہ محتاط ہو رہی تھی۔

"لیکن ہم کچھ غلط تو نہیں کر رہیں بیلا۔ یہاں تو ہم شاعری ڈھونڈتے ڈھونڈتے آئے ہیں اور مقصد تو صرف مطالعہ ہی ہے۔ یہ بھی تو وہی سب ہے جو تم کتابوں میں پڑھ رہی ہو۔ فرق بس یہ ہے کہ یہ اُردو ادب ہے اور تم انگریزی ادب پڑھ رہی ہو۔” روشائل نے اُس کو سمجھایا۔

"لیکن بس مجھے ڈر لگتا ہے۔ تم کھول لو۔ لیکن میں نہیں کھولوں گی۔” بیلا نے کہا۔

"اچھا نہ کھولنا۔ ابھی تو یہاں آؤ۔ یہ دیکھو۔ کتنی زیادہ شاعری ہے یہاں۔ میں تو باقاعدگی سے پڑھا کروں گی۔ چلو دیکھتے ہیں اور کیا کیا ہے۔” روشائل سائٹ کو بغور دیکھنے میں مگن تھی۔ بیلا بھی دلچسپی لے رہی تھی لیکن اُس کا ڈر اُس کے شوق کو ظاہر ہونے سے روک رہا تھا۔

"یہ دیکھو یہاں تو کتنے زیادہ ناولز بھی ہیں۔” روشائل نے خوشی کے مارے بُلند آواز میں کہا۔

"اچھا۔ ہاں واقعی۔” بیلا بھی خوش ہوئی۔

"ایک کاغذ دو مجھے۔ میں اس سائٹ کا نام لکھ کر لے جاؤں۔

پھر جب گھر پر نیٹ لگے گا تو میں پڑھوں گی۔” اور اُس نے ایک کاغذ پر بڑا بڑا www.oneurdu.com

لکھ لیا۔

***

 

دو دن بعد ہی روشائل کے گھر بھی نیٹ لگ گیا۔ سب بہت خوش تھے۔ نیٹ کی دُنیا ایک نئی ہی دُنیا تھی۔ کمرے میں بیٹھے بیٹھے پوری دُنیا کی سیر کرا دیتی تھی۔ روشائل، اس کے بہن بھائی اور ماں جی اکٹھے بیٹھ کر نیٹ کی دُنیا کی رعنائیوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ بے شُمار تصاویر، معلومات اور روشائل کی من پسند شاعری اور ناولز۔ وہ سب سے پہلے اپنے کام ختم کرتی پھر سائٹ کھول کر شاعری اور ناولز پڑھتی۔

***

 

سمیر آجکل عجیب الجھن میں تھا۔ گھر میں قدم رکھتے وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں بابا کو زیور چوری کا نا پتا چل جائے۔ پہلے اس نے زیور بیچے، پھر کیفے کے مالک کی منت سماجت کر کے اس کا کریڈٹ کارڈ استعمال کیا۔کیفے کے مالک نے پہلے تو اسے منع کرنے اور سمجھانے کی کوشش مگر پھر اس کے اصرار پر اس نے بھی پیسے سامنے رکھوا کر اسے کارڈ استعمال کرنے دیا۔ جب وہ آن لائن پیمنٹ کر رہا تھا تو کیفے کا مالک اشرف اس دوران اس کے سر پر کھڑا پیسے گنتا رہا۔ اشرف جن مشکوک نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اسے ابھی بھی یاد تھیں۔

"یار کہیں ڈاکا ڈالا ہے ورنہ تمھارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے” اشرف نے جب اسے یہ کہا تو اس کے ماتھے پر پسینہ آ  گیاتھا۔

اپنے گھر میں چوری پہلی بار کی تھی۔ بابا زیادہ نا سہی تھوڑے بہت پیسے تو دے ہی دیتے تھے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ وہ گھر کی خریداری میں سے اکثر پیسے رکھ لیتا تھا۔ بابا کا غصہ اس کے باہر آنے جانے اور نا پڑھنے پر ہوتا تھا اور اسی پر اسے باتیں سننی پڑتی تھیں۔

"مگر بابا نے ہمیشہ مجھ پر اعتبار کیا ہے” سمیر کو اس بات کا خیال پہلی بار آیا کہ اس کے والد شاید روک ٹوک کے معاملے میں سچے ہی تھے۔

"اب میں کیا کروں۔۔۔۔؟” اس کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔

کبھی کبھی زندگی کمان سے نکلا تیر بن جاتی ہے، کبھی نا واپس آنے والا تیر۔۔۔۔۔

***

 

خلیل صاحب کمپیوٹر پر آ کر بیٹھے اور کچھ اخبارات پڑھنے کے بعد اُٹھنے سے پہلے ہسٹری چیک کر رہے تو پہلی بار وہاں کچھ ویب پیجز دیکھے۔ اُسے کھولنا چاہا تھا سائٹ نے آئی ڈی اور پاسورڈ مانگا۔

"بیلا۔” اُنھوں نے اُسی وقت بیلا کو آواز دی۔

بیلا دوڑی دوڑی آئی۔ "جی بابا۔”

"یہ کیا ہے؟” اُنہوں نے اکاؤنٹ مانگتے ویب پیج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

جی۔ ۔ یہ۔۔ وہ۔” بیلا کچھ غلط نہ ہونے پر بھی گڑبڑا گئی۔

"یہ وہ کیا؟” اُنہوں نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"جی وہ کل روشائل آئی تھی تو بتا رہی تھی یہ اردو ادب کی بہت بڑی ویب سائٹ ہے۔” اُس نے جلدی سے جواب دیا۔ سمیر جو پیچھے ٹی وی کے سامنے بیٹھا اپنے خیالوں میں مگن تھا وہ اُن دونوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔

"یہاں اگر ادبی ہی چیزیں ہیں تو اتنی سکیورٹی میں کیوں ہیں؟ کھولو اسے۔” انہوں نے کہا۔

بیلا نے کیونکہ روشائل کے مشورے سے اکاؤنٹ بنایا تھا تو اس نے سائٹ پر لاگ ان کر دیا۔ سمیر بھی خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ کافی دیر تک خلیل صاحب بیٹھ کر سائٹ کے مختلف سیکشنز دیکھتے رہے جب ان کی تسلی ہو گئی تو کہنے لگے”

"ٹھیک ہے۔ استعمال کرتی ہو تو کر لیا کرو۔ کتابیں پڑھنا اچھی بات ہے۔ لیکن جب کچھ پڑھو تو اس کا معیار ذہن میں رکھو۔ ہر قسم کا علم بھی فائدہ نہیں دیتا۔ کچھ باتیں آپ کے اندر سرکشی اور بغاوت کے احساسات پیدا کرتی ہیں۔ اب آپ عمر کے اس حصے میں ہو جہاں غلط اور درست کا فیصلہ کر سکو۔” اُنہوں نے اُٹھتے ہوئے کہا اور بیلا کو حیرانی کے سمندر میں اُتار دیا۔

وہ بہت خوش تھی۔ اُس کا دل چاہا کہ دوڑ کے روشائل کے پاس جائے اور اُسے بتائے کہ اسے یہ سائٹ استعمال کرنے کی اجازت مل گئی۔ وہ وہاں ہی کُرسی پر بیٹھ گئی۔

"کون سی سائٹ ہے یہ؟” سمیر کو تشویش ہوئی۔

"یہ۔۔ ناولز، شاعری وغیرہ پڑھنے کے لیے ہے۔” بیلا نے بتایا۔

"دکھاؤ مجھے۔” اُس نے غیر مطمئن انداز میں کہا۔ بیلا کُرسی سے اُٹھ گئی اور سمیر بیٹھ کر سائٹ وزٹ کرنے لگا۔

"ہے تو ٹھیک لیکن تمھیں کیا ضرورت ہے اس سب کی۔ اپنی پڑھائی پر دھیان دو نا۔” وہ لاشعوری طور پر بیلا کو کسی ایسے دھوکے سے بچانا چاہ رہا تھا جو اُس کے ساتھ ہو چُکا تھا۔

"جی بہت بہتر۔” بیلا کا مُنہ لٹک گیا۔

"نہیں کبھی کبھی استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ بس کسی سے بات چیت مت کرنا وہاں۔” اُس کو اُس پر ترس آ گیا۔

"جی ٹھیک۔” بیلا پھر سے خوش ہو گئی۔

***

 

بیلا روشائل کے آنے پر سموسے تل رہی تھی۔ اور روشائل اُس کے انتظار میں اُس کے کمپیوٹر پر بیٹھ کر ناول پڑھ رہی تھی کہ سمیر اُسے دیکھ کر اُس کے پاس آ گیا۔

"السلام علیکم۔” سمیر نے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔” روشائل کچھ پزل ہوئی لیکن اپنے چہرے سے عیاں نہیں ہونے دیا۔

"کیسی ہیں آپ؟”

"میں ٹھیک ہوں اللہ کا شکر۔ آپ سنائیں۔ بیلا بتا رہی تھی آج کل آپ کچھ پریشان رہتے ہیں۔” روشائل کے نرم لہجے میں تشویش تھی۔

"نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ بس چھوٹے موٹے مسئلے ہوتے رہتے ہیں۔ میں نے آپ سے کہنا تھا کہ بیلا نے کوئی سائٹ جوائن کی ہے۔ اور وہ بتا رہی تھی آپ نے ہی وہ ڈھونڈی تھی اور اب آپ دونوں ہی وہاں وزٹ کرتی ہیں؟”

"ہاں وہ ایک بے ضرور سے سائٹ ہے مطالعہ کے لیے۔ آپ کو کوئی اعتراض ہے؟” بیلا نے پوچھا۔

"نہیں اعتراض تو نہیں۔ لیکن میں چاہوں گا کہ آپ لوگ ذرا محتاط رہیئے گا۔ آج کل کی دُنیا اعتبار کے قابل نہیں۔” وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔

روشائل کے لیے سمیر کا یہ رُوپ بالکل نیا تھا۔ وہ حیرانی سے اُس کو جاتا دیکھتی رہی۔

***

 

 

 

۳

 

 

سمیر آج کل اس سوچ میں تھا کہ اپنی نامکمل تعلیم اور محدود وسائل سے وہ کیا کام شروع کر سکتا ہے۔ ہر طرف پیسے کی دوڑ تھی۔ اس جیسے بہت سے نوجوان دن دھاڑے پستول کی نوک پر ڈاکے ڈالنے لگ گئے تھے۔ اس کے بھی ایسے چند دوست تھے جو اسے ورغلاتے رہتے تھے۔ ابھی تک وہ انہیں ٹالتا آیا تھا۔

"میں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہوں۔۔۔۔!” اس نے سڑک پر دوڑتی تیز رفتار گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے سوچا۔

"تعلیم نا مکمل، متوسط طبقے سے تعلق، بوڑھا باپ اور جوان بہن۔۔۔۔۔کسی ناول افسانے ڈرامے کی روایتی کہانی میری زندگی کا سچ ہے۔”

وہ ایک دم چونک گیا۔۔۔۔ سامنے سے گزرنے والی چمکیلی گاڑی میں جانا پہچانا چہرہ تھا۔

"یہ تو روشائل کا منگیتر ہے۔۔۔۔۔۔نئی گاڑی اور اس میں نئی لڑکی۔۔۔۔۔!”

” تم نے اسے پہلی بار تو کسی لڑکی کے ساتھ نہیں دیکھا۔۔۔۔ مگر یہ روشائل کا منگیتر ہے”

"پھر کیا؟۔ ۔۔تم کونسے بہت شریف ہو۔۔۔لڑکیوں کے کالج کے آگے تمھارا بھی تو ڈیرا رہا ہے”

"مگر میں نے کبھی کسی کو دھوکہ تو نہیں دیا۔”

وہ بہت دیر خود سے سوال جواب کرتا رہا اور الجھتا رہا۔

***

 

بیلا بہت دنوں کے بعد روشائل کی طرف آئی تھی۔ گھر میں ایک نا معلوم سی خاموشی تھی۔ وہ روشائل کو آوازیں دیتی ہوئی برآمدے تک آ گئی۔ خالہ تخت پوش پر بیٹھی خاموشی سے سبزی کاٹ رہی تھیں۔ بیلا نے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔آؤ بیٹی” وہ زبردستی مسکرائیں۔ "روشی اندر ہے۔۔۔۔”۔

وہ اندر چلی گئی۔۔۔

کمرے میں نیم تاریکی تھی۔

روشائل کتاب لئے خاموشی سے بیٹھی تھی۔ پتا نہیں اس کا دھیان کہاں تھا۔

"السلام علیکم،۔ ۔۔۔۔۔کیا حال ہے روشائل۔۔۔۔۔کیا ہوا؟” اس کی خاموشی سے گھبرا کر بیلا خود سے ہی سوال کرتی چلی گئی۔

"وعلیکم السلام۔۔۔بیلا تم” وہ چونکی جیسے اسے پہلی بار دیکھا ہو۔

بیلا کو لگا کہ جیسے وہ پریشان ہو۔

"کیا ہوا۔۔۔۔؟” اس نے پریشان ہو کر پھر پوچھا۔

"کچھ نہیں۔ ۔۔تم بیٹھو تو۔”

بیلا بھی اس کے رویے کو دیکھ کر خاموش ہو گئی۔ تھوڑی دیر میں روشائل چائے بنا لائی۔ بیلا اب بھی اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔

"ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔۔ اچھا اب تم سے کیا چھپانا، ویسے بھی سب کو پتا چل جائے گا کچھ دنوں میں، خالد نے منگنی توڑ دی ہے،۔ ۔۔۔اس کی شادی کنیڈین نیشنل سے ہو رہی ہے،۔ کچھ دنوں میں وہ باہر چلا جائے گا۔” اس نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا اور اب سکون سے بیٹھی چائے پی رہی تھی، جیسے سب بوجھ اتار پھینکا ہو۔۔۔

بیلا اس کے اطمینان اور سکون کو دیکھ کر دل ہی دل میں ہول رہی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ روشائل کا دماغ صدمے سے ماؤف ہو گیا ہے۔

مگر روشائل کی کسی بات سے نہیں لگ رہا تھا کہ اس پر کسی بات کا اثر ہے۔ وہ آرام سے بیلا سے ون اردو پر نئے افسانہ نگاری کے مقابلے میں شامل ہونے کے بارے میں رائے مانگ رہی تھی۔ بیلا کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس کے رویے کو کیا نام دے۔

***

 

صبیح کا خلیل صاحب کے ہاں کافی آنا جانا تھا۔ بھتیجا ہونے کے ناطے وہ اس سے پیار بھی بہت کرتے تھے۔ صبیح پڑھائی مکمل کر کے ایک فرم میں اچھے عہدے پر فائز تھا۔ ساتھ ہی وہ جانے کب سے بیلا کو دل میں بسا چکا تھا۔ مگر کبھی اس کا اظہار نہیں کیا تھا۔ وہ چچا کے گھر کے چکر بھی بیلا کی ہی وجہ سے لگاتا تھا۔ بیلا کو اس کے بارے میں کچھ اندازہ تو تھا مگر اس نے کبھی اس بات کا اظہار ہونے نہیں دیا۔

اس بار صبیح آیا تو خلیل صاحب کے کمرے میں جاتے ہوئے اس کی نظر لاؤنج میں رکھے کمپیوٹر پر پڑ ی۔کافی حیران سا ہوا پھر خلیل صاحب سے پوچھ ہی لیا،”چچا یہ کمپیوٹر۔ ”

"ہاں بیلا یونیورسٹی جانے لگی ہے تو میں نے لے دیا پڑھائی میں کام آئے گا۔”

"خلیل صاحب نے چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھاتے بے فکری سے جواب دیا۔

"مگر یہ انٹرنیٹ تو کوئی مناسب چیز نہیں ہے لڑکیوں والے گھر میں آپ نے کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔ "صبیح نے ہمت کر کے کہہ ہی دیا۔

"تم کہنا کیا چاہتے ہو صبیح صاف صاف کہو ” خلیل صاحب اب سنجیدہ ہو کر اس کی جانب متوجہ ہو گئے۔

"چچا، راشد میرا بہت عزیز دوست تھا۔ وہ بھی نئے زمانے کے دھوکے میں گھر میں کمپیوٹر لے آیا تھا۔ گھر میں دو بہنیں بھی تھیں۔ انہوں نے بھی کمپیوٹر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اور جانے کیسے پتا نہیں کس سائٹ پر ان کی کسی لڑکے سے دوستی ہو گئی اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

"بس صاحبزادے خاموش ہو جاؤ ”

"مجھے بیلا پر پورا بھروسہ ہے۔ تم بھی اسے بچپن سے دیکھ رہو ہو اس کے عادات و اطوار سے واقف ہو اور بیلا مجھ سے چھپا کر کمپیوٹر استعمال نہیں کرتی۔ تم دیکھ ہی رہے یہ گھر میں سب سے نمایاں جگہ رکھا ہے۔ میں اور سمیر ہمہ وقت ادھر ہی ہوتے ہیں۔ مجھے اپنی تربیت پر پورا بھروسہ ہے ”

خلیل صاحب نے یہ کہہ کر اسے خاموش کروا دیا۔

صبیح گھونٹ گھونٹ چائے پیتا رہا اور پھر اجازت لے کر اٹھ گیا۔

بیلا لاؤنج میں سے یہ ساری گفتگو سن رہی تھی۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور صبیح کو آواز دے کر روک لیا

صبیح نے بیلا کو پکارتے سنا تو چلتے چلتے ٹھٹک کر رک گیا۔ بے یقینی سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بیلا کو اپنی ہی طرف دیکھتا پا کر حیران رہ گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب بیلا نے اپنی مرضی سے اسے مخاطب کیا تھا ورنہ وہ تو اس کو دیکھ کر اکثر کمرے میں چلی جاتی یا کبھی ہوں ہاں سے زیادہ بات نہیں کرتی تھی۔

"کیا مجھے پکارا تم نے بیلا؟ "خوشی صبیح کے چہرے سے پھوٹی پڑ رہی تھی مگر بیلا کے چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی دیکھ کر سٹپٹا گیا اور سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔

"پلیز ایک منٹ ادھر آئیے گا۔ کمپیوٹر میں وائرس کا سائن بلنک کر رہا  ہے پلیز ایک نظر دیکھ کر بتا دیں میں کچھ غلط نہ کر بیٹھوں” یہ بات اس نے کافی اونچی آواز میں کہی تھی جو بابا نے بھی سن لی۔

وہ جب کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا تو وہاں ایسا کوئی سائن نظر نہیں آیا بلکہ ون اردو کی سائٹ اوپن تھی۔ اس نے استفسارانہ نظروں سے مڑ کر بیلا کو دیکھا تو وہ بہت دھیمے مگر روٹھے روٹھے لہجے میں بولی،”میں وائرس خود بھی دیکھ لوں گی مگر پہلے آپ یہ سائٹ اچھی طرح دیکھ لیں کہ آپکے تمام وسوسے ختم ہو جائیں اور آپ میرے بابا کو میرے خلاف بی جمالو کی طرح پٹیاں پڑھانے سے باز ٓا جائیں۔”

صبیح کو بے اختیار ہنسی آ گئی اور وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے دوبارہ کمپیوٹر اسکرین کی طرف متوجہ ہو گیا۔

سب سے پہلی نظر پڑی تو وہاں کرکٹ پر رائے دہی کا کوئی تھریڈ چل رہا تھا۔ سارے لڑکے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ گفتگو کے سارے تھریڈز بہت شائستہ اور انسانی ذہن کی مثبت پرورش کرنے کا نظریہ لئے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

کہیں پر کوئی اپنے چچا کی بیماری کے لئے دعا کروا رہا تھا، کہیں پر کوئی اپنے کسی دوست کی یاد میں تھریڈ بنا کر بیٹھا آہیں بھر رہا تھا۔

کہیں پر لڑکیاں بے دھڑک اپنی گپیں لگا رہی تھیں۔ جس بات نے صبیح کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ تمام لوگوں کا ایک دوسرے کو بھائی یا بہن کہ کر مخاطب کرنا تھا۔ یعنی غلط فہمی کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی گئی تھی۔ کہیں نئے نئے کھانے پکانے سیکھائے جا رہے تھے اور کہیں سلائی کڑھائی کے موضوعات زیر بحث تھے۔

اسے اس سائٹ کو دیکھ کر سخت حیرت ہوئی اور وہ سوچنے لگا "کیا کسی نے انٹرنیٹ پر ایسی سائٹ کا تصور کیا ہو گا ؟” یہ تو محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کسی انتہائی پرانے زمانے کی کوئی بڑی سی حویلی یا گھر ہے جہاں سب لوگ مل جل کر ہنسی خوشی رہتے ہیں۔

سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہیں۔ وہ حیرت سے پڑھتا جا رہا تھا۔ ” ایسا کہاں ہوتا ہے انٹرنیٹ کی دنیا میں "ایک کا دکھ سب کا دکھ اور ایک کی خوشی باقی سب مل کر مناتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ایک سے ایک اچھی کتابیں اور شاعری وہاں موجود تھی۔

"یہ سائٹ۔۔۔۔!”

وہ ایک دم گڑبڑا گیا اور اپنی سوچ پر شرمندہ سا ہو کر بولا” اوہ سوری۔۔۔بیلا مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا یہ ایسی سائٹ ہو گی میں تو سمجھا عام سی چیٹینگ سائٹ ہو گی بس اسی لئے مناسب نہیں سمجھ رہا تھا۔۔مگر اب تو بہت حیران ہوا ہوں اور خوش بھی کہ کہ چلو اس بہانے تمھارا دل بہل جائے گا اور تمھاری تنہائی بھی کم ہو جائے گی۔”

وہ اٹھ کر جاتے جاتے پلٹ کر بولا "اچھا سنو۔۔۔۔!”

"یہاں سے اچھے اچھے کھانے پکانے بھی ضرور سیکھ لینا۔۔۔۔”

” مگر کیوں؟” وہ ایسی اچانک فرمائش پر ہکا بکا رہ گئی اور حیرت سے بولی۔

وہ کمرے سے باہر جاتے جاتے ذرا سا رکا اور شرارت سے اس پر تقریباً جھکتے ہوئے بولا،” تمھیں تو پتہ ہے مجھے اچھے کھانے بہت پسند ہیں اور یہ تو تم نے بھی سنا ہی ہو گا شوہر کے دل کا راستہ سیدھا اس کے معدے سے ہو کر گزرتا ہے۔”

پہلے سیکنڈ میں تو بیلا کو اس بات کا مطلب ہی سمجھ میں نہیں آیا اور جب آیا تو وہ بری طرح بلش کر گئی اس کو یہ اندازہ تو تھا کہ صبیح اسے پسند کرتا ہے مگر کسی دن اتنی دیدہ دلیری سے اس کا اظہار بھی کر سکتا ہے۔ یہ تو اس نے کھبی خوابوں میں بھی نہیں سوچا تھا۔

***

 

آج بہت دنوں بعد اس کے قدم انٹر نیٹ کیفے کی طرف اٹھے تھے۔ اشرف اسے دیکھ کر کھل اٹھا۔

"آ ہا میرا امریکی باؤ آیا ہے۔۔۔۔”

"یار مذاق نا اڑا۔۔۔” سمیر نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔

” کیا ہوا، کیا کام نہیں بنا۔۔۔۔”

سمیر نے صرف انکار میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔

"میں نے تجھے سمجھایا تھا نا۔۔۔۔مگر ہر بندہ اپنے تجربے سے سیکھتا ہے۔ ایسے بہت ہاتھ لگ چکے ہیں مجھے بھی۔” اشرف نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"اب کیا پروگرام ہے۔۔۔۔”

سمیر نے کندھے اچکائے۔

"میرے ساتھ کام کرو گے۔۔۔مجھے ایک اعتباری بندہ چاہئے۔”

سمیر نے حیران ہو کر اشرف کی طرف دیکھا۔

"دیکھ یار میں بھی پہلے تیری ہی طرح نکما تھا، پھر بہت سا پیسہ باہر جانے پر برباد کیا۔۔۔مگر مجھے کمپیوٹر کا ہمیشہ سے شوق تھا۔ دو چار کورس کیے، پھر یہ کیفے بنا لیا۔ اب اللہ کا کرم ہے اور میں ایک نیا کیفے شروع کرنا چاہتا ہوں جس کے لئے مجھے اعتبار والے بندے کی ضرورت ہے۔”

"وہ تو ٹھیک ہے۔۔۔مگر۔۔” وہ ایک دم خاموش ہو گیا،

"مگر کیا؟”

"یار یہ کام کچھ ٹھیک نہیں۔۔۔۔ میرے جیسے لوگ اس میں پڑ کر اپنا آپ برباد کر لیتے ہیں،۔ جس کام سے مجھے تکلیف پہنچی ہو وہ دوسرے کو کیوں بتاؤں۔”

"کام تو کوئی برا نہیں یار۔ ۔۔ طریقہ برا ہوتا ہے۔ کیا تو نے میرے کیفے میں کبھی کوئی بے ہودگی دیکھی۔۔۔کبھی چھوٹے بچوں کو کمپیوٹر استعمال کرتے دیکھا۔”

"نہیں۔۔۔”

"پھر یار اگر تیری سوچ بدل گئی ہے تو میرے ساتھ کام شروع کر۔۔۔ ہم مل کر کم از کم اپنے محلے کے بچوں اور نوجوانوں کو تو صحیح راہ پر لگا سکتے ہیں۔”

سمیر حیرانی سے سوچ رہا تھا کہ اشرف جیسے لوگ جنہیں وہ صرف ضرورت کے وقت ہی منہ لگاتا تھا، بھی اچھی سوچ رکھ سکتے ہیں۔

"پھر کیا سوچا۔۔۔۔۔”۔

"ہاں کچھ نہیں۔۔۔ایک دو دن دے یار سوچ کر جواب دوں گا، ان شاء اللہ۔”

"سچ بولنے کا وقت آ گیا ہے۔” سمیر نے دل میں سوچا اور گھر کی راہ لی۔۔۔۔۔

***

 

صبیح کچھ عرصہ پہلے تک بھابھی کے ایسے طعنوں پر گڑبڑا جاتا تھا کیونکہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ اور یونیورسٹی سے پڑھی لڑکیوں کو کچھ ناپسند کرتا تھا اور بیلا یونیورسٹی جانا شروع کر چکی تھی۔ مگر پھر بابا کی بیماری نے سب کچھ بدل دیا۔ اماں تو پہلے ہی جوڑوں کے درد کی تکلیف میں مبتلا تھیں مگر گھر احسن طریقے سے چل رہا تھا۔ سب بھائی بر سرروزگار تھے اور بابا کی پینشن بھی آ رہی تھی۔ ماہا کی شادی ہو چکی تھی اور گھر میں صرف زارا ہی کالج جانے والی تھی۔ زارا ہوم اکنامکس کالج جاتی تھی۔

ایسے میں جب بابا کو گردے کی تکلیف کی وجہ سے کچھ دن ہسپتال رہنا پڑا تو سب گڑ بڑ ہو گئی۔ صبیح کو پہلی بار پتا چلا کہ بابا سب کچھ بچوں پر لگا چکے ہیں اور بس کچھ پیسہ اس کی اور زارا کی شادی کے لئے الگ سے رکھا ہوا ہے۔پینشن ریٹائرمنٹ کا پیسہ باقی بچوں کی شادی اور گھر مکمل ہونے میں لگ چکا تھا۔ ایک حلال کی کمائی کرنے والے سرکاری افسر کے پاس اس کے علاوہ ہو بھی کیا سکتا ہے چاہے وہ بائیسویں گریڈ کا ہی افسر کیوں نا ہو۔

ایسے میں جب سبکو ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت تھی تو بڑے بھیا نے الگ ہونے کا فیصلہ سنا دیا۔ حالات ایک دم سے بدل گئے۔ بیشک کے صبیح کی نوکری اچھی تھی اور گاڑی بھی ملی ہوئی تھی مگر ڈاکٹر اور دوائیوں کے خرچے نے اس کے ہوش ٹھکانے لگا دیئے۔

مگر بڑے بھیا اس کی پرواہ نا کرتے ہوئے اوپر کے حصے کو مکمل طور پر اپنے استعمال میں لے آئے یہ کہتے ہوئے کہ ” آخر اس گھر پر میرا بھی تو حق ہے اور سب سے زیادہ ہے کیونکہ میں تو تب سے کما رہا ہوں جب یہ گھر بننا شروع ہوا تھا۔۔۔میرے خون پسینے کی کمائی اس میں لگی ہے۔” بڑی بھابھی جو سب کی پسند پر اس گھر میں آئی تھیں، ایک نئے روپ میں نظر آنے لگیں۔

سمیع کو اس سب کا تب پتا چلا جب تہنیت اپنے بھائی کی شادی پر یہاں آئی۔ وہ دونوں پچھلے کئی سال سے دوبئی میں تھے اور ایک ملٹی نیشنل کنسٹرکشن کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔صبیح کو سمیع کا اسطرح پاکستان چھوڑ کر باہر جا بسنا ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ وہ اس کی ذمہ داری بھابھی تہنیت پر ڈالتا تھا جو کہ سمیع کی طرح خود بھی آرکیٹیکٹ انجینئر تھی۔

” آپ کو ہم سے یہ سب نہیں چھپانا چاہئے تھا۔” تہنیت نے اماں سے شکوہ کیا تھا۔اماں کیا کہتی، انہیں تو وہ وقت نہیں بھولتا تھا جب وہ بہت بے دلی سے تہنیت کو بیاہ کر لائیں تھیں۔تہنیت کو کسی نے نا زیادہ وقت دیا تھا اور نا ہی سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ اب جو اسے قریب سے جانا تو سب کے اندازے اور مفروضے ملیامیٹ ہو گئے۔

سمیع کے بر وقت پیسہ بھیجنے سے حالات کافی بہتر ہو گئے تھے مگر صبیح کو یہ اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ ماں باپ کے پاس ہوتے ہوئے وہ ان کی کفالت اچھے طریقے سے نہیں کر پائے۔اب وہ بھی اسی دوراہے پر ٹھہر گیا تھا جہاں چند سال پہلے سمیع کھڑا تھا۔ "ایک پڑھی لکھی سمجھدار بیوی میرا مقدر ہو گی یا پھر مغرور اور سر پھری لڑکی جسے اپنی تعلیم کا زعم ہو گا!”

***

 

” وہ آجکل تمھاری دوست نظر نہیں آ رہی ہے۔” سمیر نے جھجھکتے ہوئے بیلا سے پوچھا۔

"کچھ مسئلہ چل رہا ہے اس کے گھر میں۔۔۔۔” بیلا نے حیران ہو کر بھائی کی طرف دیکھا۔

"کیا مسئلہ۔۔۔۔”

"اس کی منگنی ٹوٹ گئی”

"وہ تو اچھا ہوا!”

"بھائی ایسے کیوں کہہ رہے ہیں۔” بیلا کو ناگوار گزرا۔

"اسلئے کہ خالد تو کب سے باہر جانے کے چکروں میں تھا۔ تمھیں شاید پتا نہیں ہے کہ خالد اور اس کے ماں باپ کئی بار نذیر صاحب سے پیسوں کا تقاضا کر چکے تھے۔سب سے آسان اور شارٹ کٹ تو سسرال سے پیسے نکلوانا ہی ہے نا”۔ سمیر یہ کہہ کر کچھ گڑبڑایا۔ پھر سنبھل کر بولا ” ویسے بھی خالد جیسا لڑکا روشائل کے قابل نہیں تھا۔” یہ کہ کر وہ رکا نہیں اور اٹھ کر اندر چلا گیا۔

"یہ بھائی کو کیا ہوا۔۔۔ کبھی کسی معاملے میں اتنے حساس ہوئے تو نہیں۔” بیلا نے حیران ہو کر سوچا پھر سر جھٹک کر چائے پینے لگ گئی۔

خلیل صاحب بہت دیر سے کھڑکی سے باہر دونوں بہن بھائی کو باتیں کرتا دیکھ رہے تھے۔ آج عرصے بعد ان کے دل کو ملال نے آ گھیرا تھا۔

"میں اپنے دکھ میں اپنی ہی اولاد کو بھول گیا۔۔۔ میں نے بہت لاپرواہی برتی دونوں کی طرف سے، خاص طور پر سمیر کے معاملے میں۔” وہ آج اپنا تجزیہ کرنے بیٹھے تھے اور آئینہ انہیں جو عکس دیکھا رہا تھا وہ انہیں دکھ دے رہا تھا۔

"بھلا اولاد کو بھی کوئی ایسے بھول جاتا ہے کہ اپنی ذات اور اپنے دکھوں کو ہی زندگی کا حاصل سمجھ لے۔”

” بیلا تو چھوٹی تھی مگر سمیر کو تو ماں یاد تھی نا،۔۔۔۔ اگر میں اس کے جانے سے ٹوٹ گیا تھا تو وہ تو صرف بچہ ہی تھا نا۔۔۔۔”۔

جب وہ روتا تو وہ اس کو جھڑک دیتے، جب وہ ان سے لپٹتا تو وہ اسے جھٹک دیتے۔ وہ پانچ چھ سال کے بچے سے توقع رکھتے تھے کہ وہ ماں کا غم بھول جائے۔

انہیں یاد آنے لگا کہ سکول کے شروع کے دو سال وہ انتہائی ذہین طالب علم تھا۔ زیب النساء کے مرنے کے بعد انہوں نے کبھی اس کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی تھی نا ہی کبھی اس کی رپورٹس چیک کی تھیں۔وہ خود ہی رو دھو کے پڑھ لیتا۔

پھر سمیر نے خود بخود ہی بیلا کی ذمہ داری بھی اٹھا لی۔ سکول سے آنے کے بعد وہ اسے اٹھائے اٹھائے پھرتا تاکہ اس کے رونے کی آواز سے باپ ناراض نا ہو۔ انہیں یاد تھا کہ وہ آیا سے بھی لڑ پڑتا تھا کہ وہ بیلا پر توجہ نہیں دیتی۔پھر اس نے بیلا کے سکول کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھ لیا۔

جب وہ ہائی سکول میں آیا تو اس نے آرٹس رکھنے کی اجازت مانگی مگر انہوں نے اسے نالائق اور نا جانے کیا کچھ کہہ کر ڈانٹ دیا۔ ٹیوشن رکھنے کا کہا تو انہوں نے اس کی بے عزتی کی کہ ” نا پڑھنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔۔۔” کیا کیا یاد نہیں آ رہا تھا انہیں۔

اب بھی انہیں شاید یہ سب یاد نا آتا اگر اشرف انہیں آ کر سمیر کی گھر سے باہر زندگی کی بہت سی تفصیل نا بتا دیتا۔

چند دن پہلے جب اشرف آیا تھا تو وہ حیران ہوئے تھے۔ اکثر لوگ اس کے کام کو پسند نہیں کرتے تھے۔

اشرف نے انہیں کہا تھا۔۔۔۔

"خلیل صاحب، سمیر اچھا لڑکا ہے۔ آپ اسے ایک موقع اور دیں سنبھل جائے گا۔”

” میں خود اس سب میں سے باپ کے مرنے کے بعد گزرا ہوں۔ میں کشمیر سے لیکر افغانستان تک ہر جگہ سے ہو آیا ہوں۔ یہاں کوئی کسی کے لئے کچھ نہیں کر رہا۔ ہر کوئی اپنی سیاست کی دوکان چمکا رہا ہے۔ ایسے میں سمیر جیسوں کا لاپتہ ہو جانا یا بگڑ جانا بڑی بات نہیں۔۔۔۔اب کی بار بچ گیا ہے، اگلی بار ضروری نہیں۔۔۔”

"میں نے اسے اپنے ایک سنار دوست کی دوکان پر دیکھا تھا، پھر وہ میرے کیفے میں آیا۔۔۔۔میں دونوں واقعات کی کڑی نا جوڑ سکا یا پھر شاید میں نے توجہ ہی نا دی۔۔۔۔ کچھ دن پہلے وہ پھر سے کیفے آیا تو کافی شکستہ لگ رہا تھا۔۔میں نے سوچا آپ سے بات کر لوں۔”وہ یہ سب کہہ کر خاموش ہو گیا تھا مگر خلیل صاحب کا ذہن ہل کر رہ گیا تھا۔

***

 

سمیر ابھی تک یہ طے نہیں کر پا رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اُس کا ضمیر اُسے معاف کرنے پر تیار نہیں تھا یہاں تک کہ وہ کسی سے یہ سب کہہ دیتا؟

"یُوں تو میں جی نہیں پاؤں گا۔ کیا کروں میں۔ کیسے کروں اس غلطی کی بھرپائی؟ کیا کبھی میری ماں مجھے معاف کر پائے گی کہ جس شوہر کو وہ اتنا چاہتی تھیں اُن سے میں نے میری ماں کے احساس کی آخری نشانی بھی لے لی۔ کیا میرا باپ مجھے معاف کر سکے گا؟” سمیر چھت پر بے چینی سے ٹہلتے ہوئے سوچ رہا تھا۔

"کیا میں یہ سب چھوڑ کر بھاگ جاؤں؟ لیکن میں اپنے ضمیر کی آواز سے کہاں چھپوں گا؟” اُس نے مزید سوچا۔ "لیکن یہ سب کہوں بھی کس سے؟ میں نے تو آج تک کوئی ایسا دوست بھی نہیں بنایا جو مشکل کے وقت میرے کام آتا یا مجھے کوئی اچھا مشورہ دیتا۔

کیا بیلا سے کہہ دوں؟” اُس نے خود سے سوال کیا۔ "نہیں! بیلا نہیں۔ وہ بہت کمزور دل کی ہے۔ وہ تو سُنتے ہی رونا شروع کر دے گی۔” اُس نے خود کو جواب دیا۔ "یا بابا سے کہوں؟” لیکن بابا تو ہمیشہ دور ہی رہے۔ کبھی دوست نہیں بنے، کبھی راہبر نہیں بنے۔ آخر کیا کروں میں؟”

اُس نے طیش میں آ کر دیوار پر ایک مُکّا دے مارا۔ تبھی اُسے دروازے پر گھنٹی بجنے کی آواز آئی۔ گھر پر صرف وہ اور بیلا تھے۔ اُس نے خود جا کر دروازہ کھولنا مناسب سمجھا اور تیزی سے سیڑھیاں اُتر کر نیچے آیا۔ دروازہ کھولتے ہی اُسے لگا کہ اُسے اُس کے تمام سوالات کے جواب مل گئے کہ وہ اپنا مسئلہ کس سے کہے۔

"السلام علیکم۔” روشائل نے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔” اُس نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔

"آج کیا اندر نہیں آنے دینا؟” وہ اسے مسلسل سامنے کھڑا اور اپنی طرف یوں دیکھتا دیکھ کر برجستگی سے بولی۔

"اوہ۔ بہت معذرت۔ مجھے خیال ہی نہیں رہا۔” سمیر نے اُسے راستہ دیتے ہوئے کہا۔

"بیلا کہاں ہے؟ روشائل نے اندر آ کر اُسے ڈھونڈتے ہوئے پوچھا۔

"وہ شاید نہا رہی ہے۔ آپ بیٹھیں۔” اُس نے صحن میں پڑی کُرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ روشائل کچھ جھجکی لیکن پھر بیٹھ گئی۔ سمیر بھی کچھ دُور ایک کُرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ کافی کنفیوز اور پریشان لگ رہا تھا۔

"بیلا کو۔۔” وہ رُکا۔ "بیلا کو جب بھی کوئی مسئلہ ہو وہ آپ کے پاس کیوں بھاگی جاتی ہے؟” اُسے سمجھ نہ آئی کہ وہ اُس سے اپنا مسئلہ کیسے کہے تو اُس نے سوال کر ڈالا۔

"جی۔” روشائل اس عجیب سے سوال پر اُس کا منہ دیکھنے لگ گئی۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر مُسکرائی اور بولی۔ "انسان کو جس پر اعتبار ہوتا ہے اور اُسے لگتا ہے کہ یہ انسان میرا مسئلہ حل کر دے گا تو اُس سے وہ کہتا ہی ہے۔” اُس نے جواب دیا۔

"تو کیا آپ اُس کے مسئلے حل کر دیتی ہیں؟” ایک اور سوال۔

"حل نہ بھی کر پاؤں تو تسلی اور حوصلے کے دو حرف ہی کبھی کبھی بہت ہوتے ہیں۔” روشائل شاید اُس کے دل کی حالت کو سمجھ رہی تھی۔ وہ جان رہی تھی کہ اس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے اور وہ کہہ نہیں پا رہا۔

سمیر کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر اُٹھ کر جانے لگا۔

"کیا آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے؟” روشائل نے اُسے جاتا دیکھ کر خود سوال کیا۔

سمیر نے اُس کی طرف دیکھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ روشائل سے کس رشتے سے سب کہے۔ محض اس لیے کہ اُسکا دل چاہ رہا تھا؟

"وہ کیا سوچے گی میرے بارے میں۔” اُس نے خود سے پوچھا۔

"اگر آپ کے ساتھ کچھ مسئلہ تو آپ بلا جھجھک مجھ سے کہہ سکتے ہیں۔ کبھی کبھی دوسرے مدد تو نہیں کر پاتے لیکن وہ اپنے لفظوں سے آپ کو ایسی ہمت دے جاتے ہیں کہ آپ میں اُس مشکل سے نبٹنے کا حوصلہ آ جاتا ہے۔” روشائل شاید اُس سے سب اُگلوا لینے کے موڈ میں تھی۔ وہ خود نہیں جانتی تھی کہ آخر وہ کیوں سمیر کا مسئلہ سُننا اور اس کی مدد کرنا چاہتی ہے۔ وہ مُسلسل سمیر کی جانب دیکھ رہی تھی۔

"روشائل!” سمیر نے اُس کا نام لیا۔

"جی۔” اُس نے جواب دیا۔

"اگر کوئی انسان بہت بُرا ہو۔ اُس نے کچھ ناقابلِ معافی جرم کیا ہو۔ تب بھی اگر وہ پچھتائے اور واپس پلٹنا چاہے تو کیا یہ معاشرہ، یہ لوگ اُسے معاف کر سکتے ہیں؟”

"اُس کا اللہ اُسے معاف کر سکتا ہے۔” روشائل نے جواب دیا۔

"لیکن انسان کو رہنا تو اس معاشرے کے بیچ ہی ہوتا ہے نا۔”

"لیکن رہتا تو وہ اللہ کی زمین پر ہی ہے نا۔”

"یہ لوگ نہیں اپناتے روشائل۔”

"جسے اُس کا رب معاف کر دے، اپنا لے اُسے دھتکارنے والے یہ لوگ کون ہوتے ہیں۔ آپ کیوں لوگوں کا سوچتے ہیں۔؟”

"آپ اپنا لیں گی؟”

"میں دھُتکارنے والی کون ہوتی ہوں؟”

سمیر کو سب جواب مل گئے۔ اُس کی آنکھیں نم تھیں۔ وہ ایک لڑکی کے سامنے۔۔ یا کم سے کم وہ روشائل کے سامنے نہیں رونا چاہتا تھا۔ وہ اُٹھ کر دروازے سے باہر نکل گیا۔ روشائل سب سمجھ کر بھی انجان بنی بیٹھی رہی۔

***

 

سمیر ایک لمحے کے لئے بابا کے کمرے کے باہر رکا پھر ہلکی سی دستک کے بعد اندر داخل ہو گیا۔

"السلام علیکم۔۔۔” اس کا لہجہ دھیما اور نظریں نیچی تھیں۔

خلیل صاحب نے ہاتھ میں پکڑی کتاب نیچے رکھ دی اور بلاوجہ عینک صاف کرنے لگے۔

"وعلیکم السلام۔۔۔” اگر سمیر ذہنی طور پر پریشان نا ہوتا تو وہ ان کے لہجے کی شکستگی محسوس کر لیتا۔ شاید دنوں ہی اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے، بظاہر ایک کمرے میں ہوتے ہوئے۔

"بابا مجھے کچھ بتانا تھا آپ کو۔۔۔”

خلیل صاحب کے چہرے کی جھریاں اور نمایاں ہو گئی تھیں۔جوان بیٹا اتنا شکستہ ہو تو باپ کے کندھے تو خود بخود جھک جاتے ہیں۔ انہیں اب ایک فیصلہ کرنا تھا۔ یا تو وہ سمیر کا سر ساری زندگی کے لئے جھکا دیتے یا پھر باپ ہونے کا ثبوت دیکر اسے سر بلند کر دیتے۔اس دن کا انہیں انتظار تھا کہ وہ کب چل کر ان کے پاس آتا ہے۔

” بابا۔۔۔ مجھ سے ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔۔۔۔۔” اس نے گلا صاف کر کے پھر سے بولنے کی کوشش کی۔۔۔

"ہاں مجھے بھی تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔ پہلے میں بات کر لوں پھر تم اپنا قصہ سنا لینا۔” انہوں نے لہجے کو ہموار کرتے ہوئے اس کی بات کاٹ کر کہا۔

” ذرا میری الماری کھولو اور اس میں سے وہ نیلا ڈبہ اٹھا لاؤ۔۔۔۔”

سمیر نے کچھ کہنے کو منہ کھولا اور پھر بند کر لیا۔

الماری سے ڈبہ نکالتے ہوئے اس کی قوت فیصلہ ایک بار پھر جواب دے رہی تھی۔

سمیر جب ڈبہ لیکر بابا کے پاس آیا تو انہوں نے اسے بیٹھنے کو کہا۔

"اسے کھولو”

سمیر نے ڈبہ کھولا تو اس کو لگا کہ اس کی سانس رک گئی ہو۔ اس کی ماں کا زیور اس کے سامنے تھا۔

” میں بہت دنوں سے انتظار میں تھا کہ تم دونوں کے درمیان تمھاری ماں کا زیور آدھا آدھا بانٹ دوں۔۔۔۔بیلا، بیٹا ذرا ادھر آنا۔۔۔” خلیل صاحب نے بیلا کو بلند آواز میں پکارا۔ وہ جان بوجھ کر سمیر کو سنبھلنے کا وقت دے رہے تھے۔

سمیر بالکل ساکت تھا۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کوئی معجزہ ہے یا آنکھوں کا دھوکہ۔۔۔

بیلا کی کمرے میں آتے ہی پہلی نظر زیور پر پڑی۔

"ہائے کتنا خوبصورت زیور ہے۔۔۔۔” وہ بے ساختہ ڈبے کی جانب لپکی۔

” آرام سے۔ ۔۔پہلے بڑے بھائی کو پسند کرنے دو۔۔۔۔”

"ارے بھائی کیا کریں گے زیوروں کا۔۔۔”

"کیوں بھائی کی دلہن کو بغیر زیوروں کے لاؤ گی۔۔۔”

"ارے یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔۔۔۔ پھر تو سارے بھائی کے۔۔۔” بیلا نےپاس بیٹھتے ہوئے پیار سے بھائی کے کندھے پر چہرہ ٹکا دیا۔

"اب اتنا سخی بننے کی بھی ضرورت نہیں۔۔۔ تم بھی اپنی مرضی سے کچھ پسند کر لو۔” خلیل صاحب کا خوشگوار موڈ دونوں کو حیران کر رہا تھا۔

” یہ سب بیلا کا حق ہے۔۔۔۔” سمیر نے ڈبہ بہن کے ہاتھ میں دے دیا۔

” بیٹا یہ ڈبہ الماری میں رکھ دو۔۔۔ بس یہ ہی بتانا تھا کہ یہ تمھاری ماں کی امانت ہے میرے پاس۔ ۔تم دونوں انصاف سے بانٹ لینا۔”

"بیلا بیٹا چائے تو پلاؤ۔۔۔”

"اچھا بابا۔۔۔” بیلا خوشگوار موڈ میں چائے بنانے چل دی۔

"بابا آپ۔۔۔۔” سمیر نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔۔۔

” جو ہو چکا سو ہو چکا۔۔۔ اب آگے کے بارے میں سوچو۔۔۔ میں تمھارا سر ہمیشہ اونچا دیکھنا چاہتا ہوں، جھکا ہوا نہیں۔”

بابا کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ سمیر بھی ان کی تقلید میں کھڑا ہو گیا۔

"بابا۔۔۔” وہ بے ساختہ باپ کی جانب بڑھا۔

خلیل صاحب نے برسوں کے بعد بیٹے کو سینے سے لگا لیا۔

بیلا جو چائے کے ساتھ لوازمات کا پوچھنے آ رہی تھی، حیران ہو کر دونوں کی شکل دیکھنے لگی۔۔

"نا ہم بچوں کی صحیح تربیت کرتے ہیں اور نا ہی درگزر کی تعلیم دیتے ہیں۔۔۔ پھر چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اعلیٰ ظرف اور ذمہ دار بنیں۔۔۔ جو بویا نہیں وہ کاٹیں گے کیسے۔۔۔ نئی نسل سے شکایت مگر خود پر نظر نہیں۔۔۔۔پنتالیس ہزار کے زیور کی کیا وقعت ہے بیٹے کے مان کے آگے۔۔۔۔؟” خلیل صاحب سمیر کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے نم آنکھوں سے سوچے جا رہے تھے۔

***

 

آج بیلا روشائل کے گھر آئی تو روشائل کو ونڈو کی سی ڈی پکڑے کمپیوٹر کے ساتھ الجھتے ہوئے پایا۔

"کیا کر رہی ہو؟” اُس نے دریافت کیا۔

"ارے تم۔ آؤ آؤ۔ یہ میں کمپیوٹر پر اُردو انسٹال کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔”

"اُردو انسٹال۔ وہ کیوں؟” بیلا کو حیرانی ہوئی۔

"وہ وہاں۔۔ ۔ تمھیں بتایا تھا نا ون اُردو پر افسانوی تحریروں کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ سوچا اس بار کیوں نا ایک کوشش کر لوں۔ سب سے اچھی بات یہ کہ اُس میں نام نہیں بتانا کسی کو۔ تو اگر اچھا ہوا تو ٹھیک ہے ورنہ وہ تحریر گم نام ہی رہے گی۔” روشائل نے اپنی بات کہی۔

"لیکن اُس کا اُردو انسٹالیشن سے کیا تعلق؟”

"افسانہ اُردو میں ہی ٹائپ کرنا ضروری ہے نا۔” اُس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

"اچھا چلو آؤ مل کر کر لیتے ہیں۔” بیلا نے سی ڈی روم میں سی ڈالی اور انسٹالیشن شروع کی۔

"تم بھی آج ہی انسٹال کر لینا اور افسانہ بھی لکھ لینا۔” روشائل نے ایسے کہا جیسے معمول کا کوئی کام ہو۔

"کیا! کیا کہا۔ میں اور افسانہ لکھوں؟ روشائل مجھے لگتا ہے تمھارے دماغ پہ اثر ہو گیا ہے۔” بیلا کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ روشائل اُسے ایسا کچھ کرنے کو کہہ سکتی ہے۔

"اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا بات ہے بیلا؟ یہی سب تو پڑھتی بھی ہو تم، ادب تمھارا شوق ہے تو قلم اُٹھانے میں ڈر کیسا۔ ایک کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟ کامیاب نہ بھی ہوئی تو کوئی تمہیں جانتا نہیں ہو گا۔ بس تم لکھو گی اور بس۔” روشائل نے تو اُس کے پاس کوئی راستہ ہی نہ چھوڑا تھا۔ چاہتے نہ چاہتے بیلا نے حامی بھر لی۔

***

 

روشائل اپنا افسانہ لکھ کر جمع کروا چُکی تھی۔ اُردو ٹائپ کرنے میں اگرچہ اُسے دشواری پیش آ رہی تھی لیکن اُسے یہ کام دلچسپ لگ رہا تھا اور پھر اُسے اس میں مزا آنے لگا۔ وہاں وہ دیگر سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی۔ نہ صرف خود بلکہ بیلا کو بھی ہر جگہ اپنے ساتھ ساتھ شامل رکھتی۔

ہر بحث مباحثے میں حصہ لیتی اور بیلا کو میسج کرتی کہ تم بھی یہاں اپنی رائے دو۔ شروع شروع میں تو بیلا چارو ناچار لکھتی، کیونکہ وہ کبھی روشائل کو منع نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن پھر اُسے بھی لفظوں سے کھیلنے میں اور سوچ کو تحریری شکل دینے میں مزا آنے لگا۔ یہ سب باتیں، زندگی کے مختلف پہلوؤں کو دیکھنا اُس نے یہاں سے ہی سیکھا تھا۔ اور یہ سب باتیں اُس کی پڑھائی میں بھی بہت مدد کرتیں۔

افسانہ نگاری کے مُقابلے میں بھی اُن دونوں کے افسانوں کو تمام ممبران سے بہت ستائش اور حوصلہ افزا رائے مل رہی تھی۔ جس سے اُن کا حوصلہ اور شوق مزید بڑھا۔ بیلا دنوں میں بدل رہی تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس تبدیلی کا محرک روشائل کی باتیں تھیں، اُسکی تعلیم اور درسگاہ یا یہ سائٹ۔ یا سب کچھ مل کر اُس کو خود شناسی اور اُس کی ذات کی پہچان کی طرف لا رہا تھا۔ وہ کیا تھی اور وہ کیا کر سکتی تھی،وہ اب یہ جان رہی تھی۔

اُسے یہ بھی احساس ہو رہا تھا کہ اب اُس کے بابا اُس سے بہتر طریقے سے بات چیت اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیوں کر لیتے ہیں۔ اب وہ پہلے کی طرح کانپتی اور روتی بسورتی شکل لے کر اُن کے سامنے نہیں جاتی تھی بلکہ اعتماد اور ٹھہراؤ سے اپنی بات کہتی۔ چند مہینوں نے بیلا کو کیا سے کیا بنا دیا۔

***

 

بیلا کمپیوٹر کے سامنے جامد و ساکت بیٹھی تھی۔ اُس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ submit message کا بٹن دبائے۔ کتنی بار سوچا سب لکھا ڈیلیٹ کر دے۔ یا پھر روشائل کو بُلا لائے کہ وہ ہی سینڈ کر دے لیکن اُس کے ذہن میں بار بار روشائل کے کہے گئے الفاظ گونجتے "بیلا زندگی میں کب تک دوسروں پر اتنا انحصار کرو گی؟ خود کو پہچانو۔ تم بھی اس زندگی میں ایک مقصد لے کے آئی ہو نہ کہ ڈرتے رہنے اور ہمت ہارتے رہنے کے لیے۔”

جب بھی وہ کہیں کمزور پڑتی اُس کے ذہن میں روشائل کے یہ الفاظ گونجتے اور وہ کسی بھی کام کو کرنے کی ہمت کر جاتی۔ اب بھی اُس نے ہمت کی اور سینڈ کا بٹن دبا دیا۔ دل تیز تیز دھڑک لینے کے بعد اب نارمل ہو رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں چمک اور لبوں پر ایک مُسکراہٹ اُبھری۔

***

 

صبیح کو بیلا میں آئی تبدیلی کا تھوڑا بہت اندازہ تو تھا لیکن کسی عورت کی سوچ کی تہہ کو چھُو لینا اُس جیسے مردوں کے بس کی بات نہیں تھی۔ صبیح نے بیلا کے کمپیوٹر پر وہ سائٹ دیکھنے کے بعد وہاں کی ممبرشپ حاصل کر لی تھی۔ وہ ہر وقت بیلا پر نظر رکھتا کہ وہ کس سے بات کر رہی ہے۔ کس طرح کی طرزِ گُفتگو اپنائے ہوئی ہے لیکن کبھی اُسے کوئی قابل اعتراض بات نہیں نظر آئی۔

وہ بیلا کو بہت چاہتا تھا۔ اور چونکہ بیلا کی طرف سے کوئی عہد و پیماں نہیں تھے تو اُسے لگتا تھا کہ کہیں وہ اُس پر کسی اور فوقیت ہی نہ دے دے۔ اُس کا یہ خیال خود ہی بیلا کو لے کر اُسے غیر محفوظ بنا دیتا تھا۔ اُسے کبھی کبھی بیلا کے بارے میں مشکوک رہنے پر شرمندگی بھی ہوتی تھی لیکن اس کا خود پر بھی بس نہیں چلتا تھا۔

***

 

بیلا روشائل کو بابا میں ہونے والی تبدیلی اور سمیر کے راہ راست پر آنے کا بتا رہی تھی۔

"نہ جانے بابا کو ایک دم سے کیا ہوا ہے۔ وہ بالکل پہلے جیسے نہیں لگتے۔ مجھ سے بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات کر لیتے ہیں۔ بھائی سے بھی محبت سے بات کرتے ہیں اور بالکل نہیں ڈانٹتے۔” بیلا نے حیران ہو کر روشائل کو بتایا۔

"اچھا۔ یہ تو واقعی حیران کُن بات ہے۔ لیکن تم یہ بھی تو دیکھو نا تبدیلی تو تم میں بھی آئی ہے۔ اب تم بھی تو اُن کے قریب جاتی ہو۔ اُنہیں وقت دیتی ہو۔ اُن سے مختلف موضوعات پر بات کرتی ہو۔ اور سمیربھائی کی بھی تو وہ آوارہ گردی اور وقت برباد کرنے کی عادتیں سب چھُوٹ گئیں ہیں۔ اور بابا بھی بدل گئے۔ اچھی تبدیلی کے لیے ہر ایک کا اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہوتا ہے بیلا۔ تم سب نے اب اپنا کردار پہچانا اور ادا کیا تو فرق دیکھ لو۔” روشائل نے اُسے احساس دلایا کہ کوئی بھی تبدیلی یوں ہی یک دم نہیں آ جاتی۔

"کہتی تو تم ٹھیک ہو روشی۔ پہلے کبھی ہم نے ایک دوسرے کی قریب آنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ کسی نے بھی نہیں۔” بیلا ہمیشہ کی طرح اس بار بھی روشی سے متفق تھی۔

***

 

آج سمیر کا اشرف بھائی کے ہاں کام پر پہلا دن تھا۔ وہ صبح تیار ہو کر بابا سے پیار اور دُعائیں لے کر گھر سے نکلا۔ بیلا اور سمیر کے اوقات مختلف تھے وہ پوائنٹ تک بابا کے ساتھ جاتی تھی اور آگے سے یونیورسٹی کی بس میں ہی چلی جایا کرتی تھی۔

گھر سے نکلتے ہی سمیر کی نظر بڑی سی چادر میں لپٹی روشائل پر پڑی۔ وہ بھی گھر سے نکل کر کہیں جا رہی تھی۔ وہ اُس سے تھوڑا پیچھے چلتا رہا اور اپنی گلی سے باہر مین سڑک پر آتے ہی اُس کے برابر آ کر سلام کیا۔

"السلام علیکم۔”

"وعلیکم السلام۔” روشائل پہلے تو گھبرائی لیکن پھر سمیر کو دیکھ کر مطمئن ہو گئی لیکن اُس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اُسے سمیر کا یوں سرِ عام مخاطب کرنا پسند نہ آیا۔

"وہ میں۔ ۔ ۔ آج میری جاب کا پہلا دن ہے۔ مجھے گُڈ لک وِش نہیں کرو گی؟”

"اوہ۔۔ خُدا آپ کو کامیاب کرے۔ آمین” اُس نے دل سے دُعا دی

"آمین۔ اور دھیان سے جانا۔ اللہ نگہبان۔”

"اللہ حافظ۔” وہ اُسے تب تک دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا۔ آج کل سمیر کو لے کر وہ عجیب سی کشمکش میں مُبتلا تھی۔ کچھ تو تبدیلی آئی تھی سمیر کے رویے میں۔ اُس کی آنکھوں کی تحریر میں اور خود روشائل کے انداز میں۔

***

 

یونیورسٹی میں آج پریزینٹیشن ڈے تھا۔ پروفیسر شکیل نے سب لوگوں کو الگ الگ ٹاپک پر پریزینٹیشن دینے کی اسائنمنٹ دی تھی۔ آج بیلا کی باری تھی۔ اس نے بہت دل لگا کر اسائنمنٹ کی تیاری کی تھی بلکہ گھر میں روشائل کے سامنے پریزینٹیشن کی پریکٹس بھی کافی کی تھی، اور تو اور اس نے ون اردو پر بھی اپنے دوستوں کو اپنی پریزینٹیشن کے بارے میں بتا دیا تھا اور وہاں سے اسے کافی مددگار مشورے بھی ملے تھے۔

لیکن اس کے باوجود وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ وہ پڑھائی میں تو اچھی تھی لیکن کلاس کے دوران اگر کوئی ٹیچر اس سے کچھ پوچھ لیتا تو گھبرا جاتی اور آج وہ پریزینٹیشن کے دوران سوالوں کے جواب کیسے دے گی یہ سوچ کر ہی وہ پریشان ہو رہی تھی۔ کلاس روم میں آج معمول سے زیادہ رش تھا۔ سینئر طلبہ بھی موجود تھے شاید سب ہی اس کو پریشان کرنے کے ارادے سے آئے ہوئے تھے۔ اس کی بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ سے سب ہی واقف تھے۔

اس نے دل میں اللہ کا نام لیا پروجیکٹر پر سلائڈ رکھی اور اپنا ٹاپک بیان کرنے لگی۔

Respected Professors and Dear Friends.

Assalam-o-Alalikum

The topic I’m going to present today is:

Significance of the character of Mephistopheles in the play "Doctor Faustus” by Christopher Marlowe. Mephistopheles is also called Lucifer’s vice-regent and is treated as a villain in the play but if we go deep down into the facts then the study will reveal that Faustus himself with the extreme pride and inordinate ambition is the root cause of his damnation.  As Mephistopheles’ lines in play reveal that when they (evil spirits) hear anybody twisting and distorting the name of God or rejecting the faith in the Bible and holy books and Christ, they only rush to him to get hold of his soul.

These lines help us to realize that it was Faustus’ own evil and his endless desires which took him to the ways of Hell and not Mephistopheles۔ He was just a companion on his way to Hell and the one who made his way steady so that Faustus will not turn back.

کلاس روم کی بھنبھناہٹ آہستہ آہستہ گہری خاموشی میں بدلنے لگی۔ سب حیران تھے کہ ایک ڈرپوک سی لڑکی آج اتنی با اعتماد کیسے؟

اس نے اپنے اندر مزید اعتماد محسوس کیا۔

پروفیسر شکیل نے درمیان میں روک کر اس سے سوال کیا۔

Sorry to interrupt you Miss Bela but do you mean that it was not the Mephistopheles who mislead Dr. Faustus?

بیلا،

In my opinion, not at all sir. Everybody in this Universe is responsible for his own acts. But now we people, even we in our normal lives are looking for a Mephistopheles, on whom we can put the burden of our wrong doings. ”

وہ بڑی مہارت سے شیطان کی جگہ خود انسان کو ہی اُس کی غلطیوں کا امین قرار دے رہی تھی۔

پروفیسر شکیل،” ویری گڈ آنسر بیلا۔”

پریزینٹیشن کے اختتام پر کلاس روم تالیوں سے گونج اٹھا۔ اب سوالات کی باری تھی۔ اور کسی کے سوالات کا سامنا کرنا اس کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔

پروفیسر شکیل کلاس کی طرف متوجہ ہو گئے اور طلبہ سے بیلا کی پریزینٹیشن پر سوال پوچھنے کا کہنے لگے۔ چند سینئر طلبہ نے کچھ سوالات کئے۔ حیرت انگیز طور پر وہ ان کا جواب دینے میں بھی کامیاب رہی۔ اس کی پریزینٹیشن بہت اچھی رہی تھی اور وہ اپنے اعتماد پر خود بھی حیران تھی کہ آخر اس میں اتنے لوگوں کا سامنا کرنے کی ہمت کہاں سے آ گئی۔ اس کی سوچ اتنی واضح کیسے ہو گئی کہ اس نے اتنے مشکل سوالوں کے جوابات اتنی آسانی سے دے دئیے۔

وہ بہت خوش تھی اور اب جلد از جلد گھر پہنچ کر اپنی خوشی روشائل سے شئیر کرنا چاہتی تھی۔ نا صرف روشائل سے بلکہ ون اردو پر بھی، اور خصوصی طور پر ان ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی جنہوں نے اس پریزینٹیشن بنانے میں اس کی مدد کی تھی۔ اور ساتھ ہی لوگوں کو ڈیل کرنے کا طریقہ بھی بتایا تھا۔

***

 

روشائل پچھلے دو گھنٹوں سے دفتر کے برآمدے میں بیٹھ کر اپنے بُلائے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔ آخر کار اُسے اندر بُلا ہی لیا گیا۔ اُس نے دروازے پر دستک دی۔

"مے آئی کم ان سر؟” اس نے اجازت طلب کی۔

"آئیں آئیں مس روشائل۔ تشریف رکھیں۔” ایڈیٹر صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھتے ہوئے کہا۔

"شُکریہ۔” وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔

"جی تو اس سے پہلے آپ کا کسی تنظیم کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے؟”

"نہیں سر۔ میں نے ابھی ابھی ہی لکھنا شروع کیا ہے۔”

"نئے مصنفوں کے لیے اپنی جگہ بنانا آسان نہیں مِس روشائل۔”

"جانتی ہوں سر۔ لیکن اس ڈر سے میں اپنی کوشش نہیں چھوڑ سکتی۔”

"ٹھیک ہے ہم سنڈے میگزین میں آپ کو ایک کارنر دے دیتے ہیں اپنی تحریر کے لیے۔ کچھ عرصہ تک دیکھیں گے۔ اگر اچھا رسپانس رہا تو ایک باقاعدہ کانٹریکٹ سائن کر لیں گے۔ اُمید تو ہے کہ آپکی تحاریر اپنا آپ منوا لیں گی لیکن پھر بھی وقت سے پہلے کچھ کہنا محال ہے۔”

"مجھے منظور ہے سر۔”

"آپ اس سنڈے میگزین کے لیے تحریر اس آئی ڈی پر بھیج دیں۔” ایڈیٹر نے اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہا۔

"تھینک یو سر۔ بہت بہت شُکریہ آپ کا۔” روشائل کی آواز بھرا گئی۔ اور اُس نے جذبات سے لرزتے ہاتھوں سے وہ کارڈ پکڑا۔ اور خُدا حافظ کہہ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔ کھُلے آسمان تلے آ کر اُس نے چہرہ اوپر کو اُٹھا کر آنکھیں بند کیں اور اپنے ماضی میں جھانکنے لگی۔ وقت بھی کیسے پنکھ لگا کر اُڑ جاتا ہے نا۔

ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ اُس نے کتنا ڈرتے ڈرتے ون اُردو پر پہلی بار افسانہ لکھا تھا اور آج ایک مشہور اخبار کا ایڈیٹر اُس کی تحریر سے اتنا متاثر ہوا تھا کہ اُسے سنڈے میگزین میں جگہ دے رہا تھا۔ اُسے اپنا آپ ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ آج اُس نے خود کو پایا تھا۔ اُس نے اپنی زندگی کے مقصد کو پہچان لیا تھا، اپنی راہیں متعین کر لیں تھیں۔ اب وہ جانتی تھی اُسے کہاں جانا ہے۔

***

 

سمیر اب اپنی زندگی سے کچھ مطمئن ہونے لگا تھا۔ نیٹ کیفے کا کام اب چل پڑا تھا۔ اس نے اس کام میں اپنی اچھی ساکھ بھی بنا لی تھی۔کیونکہ وہ اپنے نیٹ کیفے میں دیکھی گئی سائٹس پر کنٹرول رکھتا تھا اس لئے محلے کے بزرگ بھی اس سے مطمئن تھے اور اپنے بچوں کو وہاں بھیجنے میں اعتراض نہیں کرتے تھے۔

ایک دن جب سمیر بیٹھا کیفے میں ہونے والی آمدنی کا حساب کر رہا تھا۔ وہ چونک سا گیا۔ وقت ایسے گذرا کہ اسے احساس تک نہ ہوا۔ گھر میں یبلا خلیل صاحب سب اس کے اس کام سے خوش تھے۔ مستقل آمدنی بھی تھی اور سمیر نے جمی جیسے دوستوں کی صحبت سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا تھا۔

رات کو جب وہ کیفے بند کر کے گھر لو ٹ رہا تھا تو اس کی نظر نذیر صاحب کے بند دروازے پر پڑی۔ روشی کی تصویر اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے پھر سی گئی۔ اس کے دل میں اس کی پرانی خواہش نے واپس سر اٹھانا شروع کر دیا جسے وہ جھٹک کر سلا چکا تھا۔

"نہیں میں روشی کے قابل نہیں ہوں۔ میں اس کے پاسنگ بھی نہیں ہوں نہ پڑھائی میں نہ کام میں۔ اس کا پہلا منگیتر اتنی اچھی جاب پر تھا میں اگر اپنا رشتہ اس کے ہاں بھجوا بھی دیتا ہوں تو صاف انکار ہی ہو گا”۔ انھی سوچوں میں گم سمیر گھر میں داخل ہوا۔ ۔اسے آتا دیکھ کر بیلا نے کھانے کا پوچھا۔

اُس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا،”نہیں کھانا ایک دوست کے ساتھ کھا لیا تھا۔ اب میں سونے جا رہا ہوں۔ "یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ بیلا بھی واپس مڑ گئی۔

کمرے میں جا کر بھی سمیر سو نہ سکا۔۔ وہ کچھ نیا کام کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ انٹرنیٹ کیفے کا کام اچھا تو چل رہا تھا لیکن سمیر اب اپنا ذاتی کام کرنے کے بارے میں سوچنے لگا تھا جس میں کسی کی شراکت داری نہ ہو۔ یوں بھی انٹرنیٹ کیفے کا مستقبل اسے زیادہ روشن نظر نہیں آتا تھا۔ اب تقریباً ہر گھر میں ہی کمپیوٹر موجود تھا اور انٹرنیٹ کنیکشن بھی مناسب داموں میں دستیاب تھا۔

اس نے اپنے پاس موجود پیسوں کا حساب کتاب کیا۔ گذشتہ سات آٹھ مہینوں میں اس نے بہت کم خرچ کیا تھا اور پیسے جمع ہی کرتا رہا تھا۔ اسے لگا اگر کرائے پر دکان لے لے تو وہ کمپیوٹرز کی شاپ کھول سکا ہے۔ یہ خیال آتے ہی وہ بستر سے اٹھ بیٹھا اور مشورے کے لئے خلیل صاحب کے کمرے کا رخ کیا۔

***

 

 

 

۴

 

"روشی” بیلا نے اپنی دوست کو بہت پیار سے پکارا جو خود اسی کے بیڈ پر آڑھی ترچھی لیٹ کر یونی میں ہونے والے شاعری کے مقابلے کے لئے ایک نظم لکھ رہی تھی۔

"کیا بات ہے بیلی” روشائل نے اپنی الماری میں کپڑوں کو سلیقے سے تہہ کر کے رکھتے پوئے پیچھے مڑ کر دیکھا” وہ کبھی کبھی لاڈ سے بیلا کو بیلی کہا کرتی تھی۔

"میں سوچ رہی ہوں ون اردو نے ہم لوگوں کو کتنا بدل دیا ہے۔ تم تو خیر پہلے بھی خود پر بہت بھروسہ کرتی تھی مگر یاد کرو۔۔۔۔۔۔! میں کتنی دبو سی ہوا کرتی تھی پہلے۔ کسی نہ اگر کوئی سوال پوچھ ہی لیا تو جواب دینے کی بجائے گلے میں کانٹے سے پڑ جاتے تھے”

"ہاں اور تمھاری جگہ بھی اکثر مجھے ہی جواب دینے پڑتے تھے لوگوں کو۔۔۔۔۔۔اور اب دیکھو تو ماشا اللہ تم اتنی تیز ہو گئی ہو کہ میرے ہی کان کترنے لگی ہو اور مجھے تمھارے تمام سوالوں کے جواب دینے کے لئے کبھی ڈکشنری اور کھبی فلسفے کی کتابوں پر ریسیرچ کرنی پڑتی ہے۔”

اس بات پر دونوں کھلکھلا کر ہنس دیں۔

***

 

بیلا اسٹیج پر بے یقینی کی کیفیت میں بالکل سن سی کھڑی تھی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ پورا ہال اس کے لئے تالیوں سے گونج رہا تھا۔ اس کی نظم کو پہلا انعام ملا تھا۔ نہ صرف یہ کہ اس کی نظم مقابلے میں اول آئی تھی بلکہ اس کی ادب میں دلچسپی دیکھتے ہوئے ڈین نے اسے اپنے رسالے کی مدیرہ بننے کی دعوت بھی دی تھی۔ یہ ذمہ داری سنبھالنے کے لئے اسے یونیورسٹی سے ماہانہ کچھ رقم کی پیشکش بھی ہوئی تھی۔

وہ بہت خوش تھی۔ اس خیال سے اس کا دل ہواؤں میں اڑ رہا تھا کہ وہ کچھ کما سکتی تھی۔ اپنے بابا کی مدد کر سکتی تھی۔

سمیر بھائی کے لئے بھی کوئی تحفہ خرید سکے گی۔

"ہاں میں ان پیسوں سے سمیر بھائی کو دو نئی پینٹ اور شرٹس لے کر دوں گی۔ بچارے کیسے بار بار وہی گھسے پٹے کپڑے پہن کر دکان پر چلے جاتے ہیں اور روشی کو بھی تو کچھ دوں گی” وہ ذہن پر زور دے کر روشی کی کوئی من پسند چیز سوچنے لگی

” ہاں اس کا سب سے پسندیدہ پرفیوم جو بہت مہنگا ہونے کی وجہ سے اس کی امی لے کر نہیں دے سکتی ہیں۔ میں لے کر دوں گی اپنی دوست کو”

سٹیج پر کھڑے کھڑے اسی لمحے میں اس نے دل ہی دل میں خوابوں کے ہزاروں تاج محل بنا ڈالے۔

نا چاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھوں میں خوشی کےآنسو آ گئے۔ وہ دل ہی دل میں امی کو بہت مس کر رھی تھی۔ کاش ان کو یہ خوشخبری سنا پاتی۔ امی کا خیال آتے ہی اس کا دل غم سے بھر گیا۔ بابا اور سمیر بھائی بھی تو بہت خوش ہوں گے اور روشائل تو خوشی سے جھوم ہی اٹھے گی۔ کتنی خوش نصیب تھی بیلا جیسے روشائل جیسی سہیلی ملی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔جس نے اس کی زندگی کا پورا سیٹ اپ ہی بدل دیا تھا۔

وہ یونیورسٹی سے واپسی پر گھر جانے کی بجائے روشی کے پاس چلی گئی۔ اور اس کے گلے لگ کر رونے لگی۔

” ارے ارے کیا ہوا، بیلی میری جان۔ ۔۔! کچھ تو بتاؤ ؟ گھر میں سب خیریت ہے نا؟ ” روشی اس اچانک افتاد کے لئے تیار نہ تھی۔ اس کا بوکھلانا فطری تھا۔

” ہاں میں ٹھیک ہوں بس یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔میں تمھارا شکریہ ادا کرنے آئی تھی۔ یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے۔ اگر تم شروع سے ہر قدم پر میری رہنمائی نہیں کرتی تو ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ تم نے ہر پریشانی ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا ہے۔ آج جو مجھے یونیورسٹی والوں نے میگزین کی مدیرہ بنا دیا ہے تو اس کی وجہ بھی تم ہو۔میں تمھارا شکریہ کیسے ادا کروں گی روشی؟”

"واؤ تمہیں میگزین کی مدیرہ بنا دیا گیا۔ بہت بہت مبارک ہو۔ مجھے پتہ تھا تم سب کام کر سکتی ہو۔ تمھیں خود صرف اس کا احساس نہیں تھا۔ میں نے کچھ نہیں کیا سوائے تمھارے دل میں اس احساس کو جگانے کے یوں سمجھ لو کہ پہلے تم کو تراشا نہیں گیا تھا تو تم ایک پتھر کی طرح بے قیمت تھیں اور اب تراش خراش کر ایک ہیرے میں بدل چکی ہو وہ بھی کوہ نور”

"میں یہ چاہتی ہوں تم زندگی بھر میرے ساتھ رہو۔ کھبی مجھ سے دور نہ جاؤ۔ ویسے بھی بقول تمھارے میں کوہ نور ہوں تو میرے بغیر تم کتنی غریب ہو جاؤ گی۔ کیا تم ہمیشہ میرے گھر میں نہیں رہ سکتی میری۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔” بیلا کچھ کہتے کہتے رک گئی۔ اسے بھی خیال آ گیا کہ شاید روشی کو یہ بات اچھی نہ لگے کہ وہ اپنے کم پڑھے لکھے بھائی کے لئے اس کی خواہش رکھتی تھی”

دوسری طرف روشی نے بھی فوراً بات کا موضوع بدل دیا کیونکہ وہ بھی اس بارے میں کچھ بھی کہنے سننے سے ڈرتی تھی اس لئے بولی چلو اس خوشی میں کڑھی چاول کھاتے ہیں۔” میں نے ابھی ابھی بنایا ہے”

” نہیں جناب میں آج بہت خوش ہوں مجھے کڑھی چاول پر ٹرخانے کی کوشش نہ کرو اور مابدولت کے لئے اچھی سی چائے اور بہت سےا سنیکس ایک ساتھ پیش کئے جائیں۔ میں آج بہت خوش ہوں اور اس خوشی کو منانا چاہتی ہوں”

***

 

” یار صبیح چل نا۔ ۔۔اب اٹھ بھی، واپسی پر چائینیز چلیں گے۔” وصی نے اپنی طرف سے اسے باہر کھانے کا لالچ دیا۔ اصل میں تو اسے یونیورسٹی میں اپنے چھوٹے بھائی کے داخلے کے لئے کسی تگڑی سفارش کی ضرورت تھی۔ ایسے میں کہیں سے اس نے سن لیا کہ صبیح کا ایک دوست پی ایچ ڈی کر کے یونیورسٹی میں آ کر لگا ہے۔

"یار تم کہتے ہو تو چلتا ہوں ورنہ جانتا ہوں کہ افتخار یہ کام نہیں کرنے والا۔”صبیح کار کی چابی اٹھا کر چل پڑا۔ آخر ایک جگہ کام کرتے ہوئے دشمنی بھی نہیں پالی جاس کتی تھی۔

"وہ بھی تو وہاں ہو گی شاید”۔ اس نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے سوچا۔

افتخار کے آفس کے آگے وہ ایک دم رک گیا۔ افتخار کمرے کا دروازہ کھولے کھڑا کسی لڑکی سے بات کر رہا تھا۔وہ بیلا تھی۔ وہ اسے دیکھ کر ذرا سا مسکرائی۔

"السلام علیکم ” کہتے ہوئے اس کا جواب سنے بغیر پاس سے نکلتی چلی گئی۔

"وعلیکم السلام۔ ۔۔۔۔” اس نے جیسے خود کو جواب دیا۔ "پہلے تو یہ مجھے یونیورسٹی یا بازار میں جاننے پہچاننے سے بھی انکار کر دیتی تھی۔۔۔۔۔۔” وہ حیرت میں گم تھا۔

” یار لگتا ہے وار کر گئی۔۔۔۔” وصی نے ہمیشہ کی طرح بے تکے پن کا مظاہرہ کیا۔

صبیح اور افتخار دونوں کے گھورنے پر ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے بولا "لگتا ہے ہمارا یار

اسے جانتا تھا۔”

"یہ ہماری اعزازی لیکچرر ہیں اور ان خواتین میں سے ہیں جن کی وجہ سے عورت کی قدرو منزلت اور بڑھ جاتی ہے۔” افتخار نے سخت لہجے میں وصی کو سنانے کی کوشش کی۔

صبیح مکمل تعارف سے پہلے ہی وصی کی بونگیوں سے نالاں نظر آ رہا تھا۔ مگر مدعا بیان کرنا بھی ضروری تھا۔

"چھوڑو یار کام کی بات کریں۔۔۔۔۔افتخار یار ہم تمھارے پاس ایک کام سے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” صبیح اسے کام کی تفصیل بتانے لگا۔

افتخار کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اسے بات پسند نہیں آئی۔

"تم کاغذات چھوڑ جاؤ۔۔۔ میرٹ بہت زیادہ ہے۔۔۔۔ کام مشکل ہی بنے”

"پھر سفارش کا کیا فائدہ” وصی نے بولنا ضروری سمجھا۔

"سفارش کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔۔۔ اپنی محنت سے داخلہ ہو تو بات بنتی ہے۔۔۔ ویسے آپ خوشحال لگتے ہیں۔”

” پیسے کی کمی نہیں۔۔۔جتنا مرضی بولیں، ہم دینے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

” پھر تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔۔۔۔سیلف فائنینس سے داخلہ لے لیں۔” افتخار نے وصی کی بات کاٹ کر اپنی بات کہی اور اٹھ کھڑا ہوا۔

"یار صبیح معذرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کلاس لینی ہے، پھر کسی دن ملتے ہیں۔” وہ صبیح سے ہاتھ ملانے کے بعد اپنا لیپ ٹاپ وغیرہ اٹھانے میں لگ گیا۔

واپسی پر سارا راستہ وہ بیلا کے متعلق سوچتا آیا وصی کے خراب موڈ کی پرواہ کیے بغیر۔

"یہ لڑکی مجھے ہمیشہ حیران کرتی ہے۔ ۔۔۔۔”۔

صبیح کمپیوٹر کے آگے بیٹھا بے مقصد سکرین کو گھور رہا تھا۔

"مجھے رشتے کی بات حتمی ہونے سے پہلے بیلا سے بات کر لینی چاہئے۔ اب کی بیلا اور پہلے کی بیلا میں بہت فرق ہے۔ اگر اس نے ملازمت کر لی تو گھر کون سنبھالے گا”۔

"مگر اس کی ملازمت سے فائدہ بھی تو ہو گا۔”

"لاحول ولا قوۃ۔۔۔۔ یعنی اب تم عورت کی کمائی کھانے کا سوچو گے۔”

بے خیالی میں وہ ون اردو پر لاگ آن ہو گیا۔ پہلی پوسٹ جو اسے نظر آئی وہ تھی عورت کا معاشرے میں مقام پر۔۔۔۔۔

"یعنی حد ہو گئی۔۔۔ ہر طرف ایک ہی مسئلہ ہے۔” اس نے لاگ آف ہونے کا سوچا مگر ایک دم رک گیا۔ سامنے بیلا کی ایک پوسٹ نظر آ رہی تھی۔ عورت کی ملازمت کے حق میں دلیل دیتی ہوئی۔۔۔

اس سے پہلے کہ اس کا موڈ خراب ہوتا، اس کی نظر اس کی اگلی پوسٹ پر پڑی۔

"میں جب سال کی تھی تو میری امی کا انتقال ہو گیا تھا۔ پہلے میری دادی جان اور پھر آیا نے میری دیکھ بھال کی۔ میرا بھائی مجھ سے پانچ سال بڑا تھا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے بھائی کو اپنے چھوٹے چھوٹے کام کرتے دیکھا۔اس کے دیکھا دیکھی میں بھی کام کرنے لگ گئی۔ جب میں آٹھ سال کی تھی تو بھائی کے ساتھ مل کر آملیٹ اور فرنچ ٹوسٹ بنا لیتی تھی۔ جب میں دس سال کی ہوئی تو سکول کے بعد گھر آ کر اپنے اور بھائی کے لئے کھانا خود بنا لیا کرتی تھی۔ہائی سکول آنے تک میں نے کچن کا کام مکمل سنبھال لیا تھا۔ اب میں سکول سے آ کر شام میں اگلے دن کا بھی کھانا بنا لیتی تھی۔ ہر دوسرے دن صفائی کرتی تھی اور کپڑے چھٹی والے دن دھوتی تھی۔اس سب کے ساتھ میں نے بی اے میں صوبے بھر میں ٹاپ کیا تھا۔ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ملازمت کرنے والی عورت گھر کو نہیں سنبھال سکتی؟؟؟ اگر میں اتنی کم عمری میں سکول، کالج،اور یونیورسٹی کے دوران پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کے کام کر سکتی ہوں تو ملازمت اور گھر داری تو میرے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ بس اس سب میں مجھے یہ سہولت حاصل تھی کہ میرا بھائی میری ہر طرح سے مدد کرتا تھا، میرا ہر طرح سے ساتھ دیتا تھا اور میرے بابا نے میرے کسی الٹے سیدھے کھانے پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ کیا آپ میں اتنا حوصلہ ہے۔۔۔۔اگر ہے تو پھر آپکی بہن بیٹی بیوی اور ماں گھر کے اندر اور گھر کے باہر بھی کامیاب ہو سکتی ہیں۔”

یہاں صبیح منہ کھولے بیلا کا اتنا لمبا لیکچر پڑھ رہا تھا تو دوسری طرف سمیر حیرت سے بہن کے اس اقرار کو پڑھ رہا تھا کہ وہ کیسے اپنی محنت کا کریڈٹ اس کو دے رہی تھی اور بابا کے لا پرواہ رویے کو کس خوبصورتی سے اپنی مرضی کا رنگ دے کر پیش کر رہی ہے۔

***

 

سمیر گھر میں داخل ہوا تو بیلا، روشائل، اور روہین برآمدے میں کتابیں اور نوٹس بکھرائے بیٹھی تھیں۔

"آ ہا آج تو ہماری چھوٹی سی بہن آئی ہے۔۔۔۔۔۔” سمیر روہین کو دیکھ کر خوش ہو گیا۔ بچپن میں اس نے روہین اور احمر کو بھی اپنے سائیکل پر بہت گھمایا تھا۔

” السلام علیکم۔۔۔” روہین سمیر کے لئے کھڑی ہو گئی۔

سمیر اس کا سر تھپتھپا کر اندر جانے لگا۔ روشی اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔

"بھائی یہ روشی اور روہین مجھ سے نوٹس لینے آئی ہیں۔۔۔۔”

"پھر۔۔۔۔” سمیر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

"پھر یہ کہ ابھی روشی کہہ رہی تھی کہ آپ بی اے کا پرائیویٹ امتحان دینے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔”

اس نے حیران ہو کر روشائل کو دیکھا۔ اس نے گڑبڑا کر نظریں نیچی کر لیں۔

” ارے اب کیسے دے سکتا ہوں۔۔۔۔ اتنے سال ہوئے پڑھائی چھوڑے ہوئے۔۔۔۔”

"بھائی میرے بی اے کے سب نوٹس پڑے ہیں۔۔۔۔میں آپکو انگلش کی تیاری کروا دوں گی۔”

"اور میں سائیکالوجی اور آپی اکنامکس کی۔۔۔۔۔۔۔۔” روہین نے معاملہ طے کر دیا۔

” ہائیں۔۔۔۔۔ تم لڑکیوں کے دماغ خراب ہو گئے ہیں کیا”۔

” دماغ خراب کی کیا بات ہے۔۔۔۔کیا اس سے پہلے لوگ پرائیویٹ بی اے یا ایم اے نہیں کرتے رہے۔۔۔۔ یہ دیکھیں روشی میرے ماسٹرز کے نوٹس لیکر جا رہی ہے۔ پارٹ ون کے پیپر دے چکی ہے، اب پارٹ ٹو کے دے گی۔۔۔۔اس کے بعد اس کا لاء کالج میں داخلہ لینے کا ارادہ ہے۔۔۔۔۔” بیلا اپنے میں مگن بولے جا رہی تھی اور سمیر روشائل کو دیکھ رہا تھا جو اسے بڑی امید افزاء نظروں سے دیکھا رہی تھی۔

” کیا زیادہ پڑھے لکھوں کے درمیان کم پڑھے لکھوں کا گزارہ نہیں ہو سکتا ؟” دیکھ وہ روشی کو رہا تھا مگر بظاہر سوال سب سے کر رہا تھا۔

"زیادہ خواتین میں تو کم مردوں کا بھی گزارہ نہیں ہو سکتا”۔ دروازے سے اندر آتے ہوئے صبیح نے آواز لگائی۔

” اوہ شکر ہے کوئی میرا بھی ووٹ آیا۔”

"السلام علیکم”۔

"وعلیکم السلام” کورس میں جواب ملا۔

” اچھا بھائی تم بتاؤ کیا مجھے بی اے کے پیپر پھر دینے چاہئے جبکہ بورڈ والے میرا نام پڑھ پڑھ کر تنگ آ چکے ہیں۔”

"یار میں تو تمھیں کب سے کہہ رہا ہوں کہ پیپر دے لو پھر کچھ کمپیوٹر کورس بھی کر لو۔۔۔۔”

” لو میں سمجھ رہا تھا کہ تم میرا ساتھ دو گے، یہاں تو الٹا حساب ہے۔” سمیر نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

"یار سر پر اتنا ہاتھ نا پھیرا کر، پہلے ہی بال تھوڑے ہیں۔۔۔یہ نا ہو کہ بنتی بات بگڑ جائے۔” صبیح نے معنی خیز نگاہوں سے روشی کی طرف دیکھا۔

"مارے گئے۔۔۔۔” سمیر منہ ہی منہ میں بولا "یار زیادہ بکواس نا کیا کر۔”ایک دفعہ صبیح کے ساتھ باہر کھانا کھاتے ہوئے اس کے استفسار پر سمیر نے کہیں کہ دیا تھا کہ ” ہے کو ئی پسند اور تم جانتے بھی ہو اسے۔۔۔مگر نام نہیں بتاؤں گا ابھی۔” تب صبیح نے کہا تھا کہ کہیں اسی لئے تو پیپر نہیں دیئے جا رہے۔

"مگر پچھلی بار تو تم کہہ رہے تھے کہ تم نے انگلش پاکستان سٹڈیز اور اسلامیات کے پیپر دیئے ہیں۔۔۔۔۔ کیا فیل ہو گئے؟” صبیح نے بات کا منقطع سلسلہ جوڑتے ہوئے مشکوک نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

"کیا!” سب لڑکیوں کے منہ سے حیرت سے کھل گئے۔

"یار تم تو لڑکیوں سے بھی گیے گزرے ہو۔۔۔کچھ نہیں رہتا تمھارے پیٹ میں۔” سمیر نے اسے ایک دھپ جمائی۔

” یار رحم کر، تمھاری طرح پہلوان نہیں ہوں میں۔۔۔۔ ” صبیح نے اس کے کسرتی صحت مند وجود پر نظر ڈالی۔

"یار اگر تم زرافہ مارکہ ہو تو کم از کم دوسروں کو تو نظر نہ لگاؤ۔”سمیر نے بازو کے مسلز بناتے ہوئے اس کے لمبے قد اور ہلکے جسم پر چوٹ کی۔

"بھائی بات کو نا ٹالیں۔۔۔پیپرز کا بتائیں۔” بیلا حیرت پر قابو پا کر غصے سے بولی۔

"کیا بتاؤں۔۔۔” سمیر نے معصوم سی صورت بنائی۔ اسے لگا جیسے روشی نے سانس روک رکھی ہو۔

"بولو بھی۔۔۔” صبیح نے اسے گھورا۔

” وہ پیپر تو پاس کر لئے، اب اگلوں کی فکر ہے، ویسے نوٹس تو تمھارے ہی استعمال کیے تھے۔” سمیر نے لاپر واہی سے بیلا کو کہا۔

ایک بار پھر لڑکیاں حیرت سے چلا پڑیں۔

"مگر میرے انگلش اسلامیات کے نوٹس تو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” بیلا نے حیران ہو کر روہین کو دیکھا ” تو روہین کے پاس تھے۔”

” مگر میں نے تو نہیں دیئے سمیر بھائی کو۔۔۔۔”

روشی نے نظریں چرا لیں بیلا سے۔۔۔”پھر کس نے۔۔۔۔”

"کسی مہرباں نے آ کے میری زندگی بنا دی۔ "صبیح نے کان پر ہاتھ رکھ کر قوالوں کے سے انداز میں گانے کا ستیاناس کیا۔

"پھر کس نے۔۔۔۔۔۔روشی۔۔۔۔ یعنی تم۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی بھائی” اس نے احمقوں کی طرح دونوں کو دیکھا۔

"میرے دل کی دھڑکنوں۔۔۔۔”

"ارے آپ تو یہ بے سرا راگ بند کریں۔۔۔۔ میں ذرا ان دونوں کو تو پوچھ لوں” بیلا کا غصے کے مارے برا حال تھا۔

"ارے فن کی کوئی قدر ہی نہیں۔۔۔۔ یار انکو اب اللہ ہی پوچھے گا۔۔۔اگر کسی کو پوچھنا ہی ہے تو مجھے پوچھو۔۔۔۔۔” پھر صبیح نے سمیر کو چھیڑا۔

” یار لوگ تو بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔۔۔ پیپر تم دے رہے ہو،۔۔۔۔پاس تم ہو رہے ہو۔۔۔۔اور خوشی لوگوں کو ہو رہی ہے۔۔۔۔علم سے ایسی محبت کبھی دیکھی نا سنی۔” صبیح کو لگتا تھا آج برسوں بعد موقع ملا ہو جنم جنم کے بدلے لینے کا۔ وہ معنی خیز نگاہوں سے کبھی سر جھکائے روشی کو اور کچھ کچھ مطمئن سے سمیر کو دیکھ رہا تھا۔

"ارے تم بھی کبھی میرے لئے ایسے خوش ہو جایا کرو۔۔۔۔” سمیر کی نظر بچا کر جو کسی کا فون سن رہاتھا، اس نے آہستہ سے بیلا کو بھی بیچ میں گھسیٹ لیا جو ابھی تک اپنے احمق پن پر غور کر رہی تھی۔

” ہوں۔ ۔۔تو جناب بھی کم فنکار نہیں۔۔۔۔ میں بھی کہوں یہ گرے گاڑی کس کی ہر وقت گلی میں موجود رہتی ہے۔”روشی نے بھی بدلا چکایا۔

” اھم اھم۔۔۔مابدولت ابھی موجود ہیں۔ ۔۔حد ادب۔۔۔۔ گستاخ اور بے ادب نوجوانوں۔۔۔۔۔پتا نہیں یہ والدین کی اس عمر میں قریب کی نظر عینک کے باوجود اتنی کمزور کیوں ہوتی ہے۔” روہین ان سبکو واپس حقیقی دنیا میں لانے کے لئے زور سے کھنکھاری۔۔۔

***

 

صبیح واپس جا چُکا تھا اور بیلا روہین کو کچھ سمجھانے میں مگن تھی جب روشائل نے کہا کہ وہ سب کے لیے پکوڑے بنا کر لاتی ہے۔ یہ گھر بھی اُس کے اپنے ہی گھر جیسا تھا۔ کون سی چیز کہاں پڑی ہوتی ہے روشائل کو سب پتہ تھا اور اسی طرح بیلا کو روشائل کے کچن میں پڑی ہوئی چیزوں کی جگہوں کا پتہ تھا۔

وہ پکوڑوں کے لیے مکسچر بنا چُکی تھی جب سمیر کچن میں آیا۔

"روشائل۔” اُس نے اُسے پُکارا۔

"جی۔” وہ اپنے کام سے چونکی۔

"وہاں سب میری وجہ سے آپ کا نام آیا۔ آپ کو بُرا تو نہیں لگا؟” وہ فکرمند تھا۔

"نہیں۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں۔” وہ بنے ہوئے مکسچر کو مزید گھولنے میں لگ گئی۔

"میرا رزلٹ آ گیا اور میں آپ کو بتا بھی نہیں سکا۔ آپ کو بُرا تو لگا ہو گا کہ آپ کے کہنے پر پیپر دیئے وہ بھی آپ ہی سے نوٹس لیکر، پڑھ کر اور رزلٹ یوں بتایا۔” اُس نہ جانے کون کون سے واہمے ستا رہے تھے۔

"آپ ایسا کیوں سوچ رہے ہیں۔ میں آپ کی شُکرگزار بھی کہ آپ نے میری نصیحت کو مانا اور آگے امتحان دیا۔ میرے نزدیک آپ کی کامیابی اہم تھی۔ اُسے آپ نے حاصل کیا، میں خوش ہوں۔ اس سے زیادہ میں کیا توقع رکھ سکتی ہوں؟” اُس نے جانے کیا حق پانے کے لیے سوال پوچھا۔

"ہمم۔۔ اس سے زیادہ کوئی کیا توقع کرے گا جب اُسے کوئی غرض ہی نہیں۔” سمیر اُس کے جواب سے مایوس ہو کر واپس پلٹ آیا۔

***

 

"السلام علیکم حُضور۔” صبیح نے سمیر کی دُکان میں شامل ہوتے ہوئے اُونچی آواز میں کہا۔

"وعلیکم السلام۔” سمیر ایک دم چونکا۔” ویلکم جناب آج آپ یہاں کیسے؟” اُن نے بھی خوش دلی سے اُس کا استقبال کیا۔

"کیوں جی ہم اپنے دوست کے پاس کیا یہاں نہیں آ سکتے؟”

"آ سکتے ہیں بالکل۔ آؤ بیٹھو۔ کیا لو گے۔”

"نہیں یار بس کچھ نہیں۔ ایک کام تھا تم سے۔ گھر پہ نہیں کہہ سکتا تھا۔ سوچا یہیں آ کر بات کر لوں۔” صبیح نے سنجیدہ صُورت بناتے ہوئے کہا۔

"خیریت۔ ایسی کیا بات ہو گئی۔” سمیر کو فکر ہوئی۔

"بات ایسی ہے یار کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم مجھے غلط نہ سمجھو۔ اس لیے کہنے میں تھوڑا جھجھک رہا ہوں۔” صبیح نے اپنے خدشات بیان کیے۔

"نہیں صبیح تم نے جو کہنا ہے کہو۔ میں تمہیں بالکل غلط نہیں سمجھوں گا۔ جس انسان نے اپنی غلطیاں دیکھ لی ہوں نا اُسے پھر باقی کم ہی غلط لگتے ہیں۔ اور تُم تو میرے اچھے دوست ہو۔” اُس نے صبیح کی کمر تھپتپائی۔

"سمیر! دراصل بات یہ ہے کہ آج کل گھر والوں کا دباؤ بہت بڑھ گیا ہے کہ اب شادی کر لوں۔ تعلیم بھی مکمل ہے اور اللہ کا شکر ہے روزگار میں بھی کوئی مشکل یا تنگی نہیں۔” وہ اتنا کہہ کر خاموش ہوا۔

"تُم نے تو ڈرا ہی دیا تھا۔ تو اس میں کیا مسئلہ ہے یار۔ کر لو شادی۔” وہ بات کے پتہ لگنے پر قدرے مطمئن انداز میں بولا۔

"بات یہ ہے کہ میں اس معاملے میں اپنی ایک رائے رکھتا ہوں۔” وہ مُدعے کی طرف آیا۔

"رائے رکھتا ہوں مطلب پسند؟ واہ یار کبھی پتہ تک نہیں لگنے دیا۔ کون ہے وہ؟”سمیر بیک وقت خوش اور متجسس ہوا۔

صبیح خاموش رہا۔

"بتاؤ نا۔” سمیر نے بے چینی سے پوچھا۔

"سمیر! وہ میں۔۔ ۔ امی کو رشتے کے لیے اگر تمہاری طرف۔۔ ۔ ” وہ جملہ مکمل نہ کر سکا۔

سمیر کے چہرے سے تمام ہنسی غائب ہو گئی اور وہ سنجیدگی سے صبیح کی طرف دیکھنے لگ گیا۔

"تمھارا مطلب ہے بیلا؟” اُس نے یقین کرنا چاہا۔

"اگر تمھیں اور چچا جان کو کوئی اعتراض نہ ہو تو۔” اُس نے نظریں نیچی کرتے ہوئے کہا۔

سمیر سوچنے کے انداز میں کچھ دیر اُس کی طرف دیکھتا رہا۔

دونوں کے بیچ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔

"تم بیلا کے لیے ایک اچھا انتخاب ہو صبیح۔ میں بابا تک تمھاری بات پہنچا دوں گا۔ لیکن ہم بیلا کی رضامندی کے بغیر یہ فیصلہ نہیں لے سکتے۔” سمیر نے جواب دیا۔

"نہیں۔ بیلا کی مرضی کے خلاف تو میں بھی نہیں چاہوں گا۔ کئی بار سوچا کہ اُس سے پوچھ کر ہی تم سے بات کروں لیکن اُس سے بات کرنا موزوں نہیں لگا۔”

"ٹھیک ہے صبیح میں کوشش کروں گا کہ فیصلہ تمھارے حق میں ہی ہو لیکن پھر بھی کوئی وعدہ نہیں کر سکتا۔”

"بہت شُکریہ سمیر۔ تم نے میری بہت بڑی پریشانی دُور کر دی۔ اب میں چلوں گا۔” صبیح نے اُٹھتے ہوئے کہا۔

"کچھ کھا پی لو نا۔ کچھ خاطر مدارت کا موقع ہی نہیں دیا تم نے تو۔”

"پھر کبھی سہی۔ ابھی ذرا کام ہے۔ پھر ملیں گے۔ اللہ حافظ۔”

اوکے پھر۔ دھیان سے جانا۔ میں کوشش کروں گا جلد ہی تمھیں تمھارا جواب دے دوں۔ اللہ حافظ۔” سمیر نے اُس سے گلے ملتے ہوئے کہا۔

***

 

رات کے تین بجنے والے تھے۔ روشی اپنے بستر پر لیٹی بے چینی سے کروٹیں بدل رھی تھی۔ بیلا کا ادھورا جملہ بار بار اس کے کانوں میں گونج رہا تھا۔

روشی نے اپنا دامن بچانے کی بہت کوشش کی تھی مگر نجانے کب کیسے محبت کی چھوٹی سی چنگاری اس کے دل میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے بڑھتے شعلہ بن گئی تھی۔ بالکل ایسے جیسے کچن کے کسی کونے میں پہلی بار شیشے کی چھوٹی سی بوتل میں لگائے جانے والی منی پلانٹ کی بیل کچھ سالوں میں ہی پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہوتی ہے۔ ایسے ہی آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقے سے وہ بیلا پر اپنی محبت لٹاتے لٹاتے اس کے پورے خاندان کو جیسے اپنا ہی بیٹھی تھی۔ ان لوگوں سے دور جانے کا وہ خود بھی اب تصور نہیں کر سکتی تھی۔ ”

مگر یہ سب کیسے ہو گا”۔”

وہ اپنے آپ سے تمام سوال جواب کر رہی تھی۔ وہ جانتی تھی اس محبت کی تپش سمیر کے دل تک پہنچ چکی ہے مگر وہ لڑکا ہو کر بھی جانے کیوں اظہار نہیں کر پا رہا تو میں پہل کر کے خود کو بے مول کیوں کروں؟۔ لڑکی تو نازک آبگینے جیسی ہوتی ہے، اس میں ذرا سی بھی شک و شبہے یا بے وقعتی کی ٹھیس اسے کوڑیوں کے مول سستا کر سکتی ہے اور ایک مڈل کلاس لڑکی کے پاس اپنی عزت انا اور وقار کے سوا ہوتا ہی کیا ہے آخر جسکے بل بوتے پر وہ ساری دنیا فتح کرنے چل پڑے۔

"کاش کہ بیلا اس ادھورے جملے کو مکمل کر دیتی۔ میں تو کب سے خود بھی یہ سننے کو منتظر ہوں۔ میں بھی کب تک بے نیازی کا خول چڑھا کر خود کو اور ان سب کو دھوکہ دیتی رہوں گی” وہ خود ہی بلند آواز میں سوچنے لگی تو گڑبڑا کر خاموش ہو گئی اور دعا مانگنے لگی کہ کسی اور نے نہ سن لیا ہو۔

"اگر اس نے ابھی بھی اظہار نہیں کیا تو وہ مجھے کھو دے گا۔ کون اسے یہ بات جا کر بتائے گا کہ اگر آج وہ مجھ سے تھوڑا کم پڑھا لکھا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کے پاس بزنس کا تجربہ تو مجھ سے زیادہ ہے اور پھر وہ بعد میں بھی تو مزید پڑھ سکتا ہے۔ وہ کیوں خود کو مجھ سے کمتر سمجھتا ہے جبکہ باہر کی دنیا میں اتنی اچھی طرح مقابلہ کر رہا ہے۔ میں آخر اس کو کیسے بتاؤں وہ میرے لئے کتنا اہم ہو چکا ہے۔ ” یہی سب سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔

***

 

دوسری طرف سمیر بھی اسی کشمکش میں مبتلا تھا۔ اسے بہت احساس کمتری تھا کہ وہ اس سے زیادہ پڑھی لکھی اور سمجھدار ہے۔ پھر اس کی کمزوری سے بھی واقف ہے۔

"میں بھی کتنا پاگل ہوں مجھے بھی پوری دنیا میں کوئی اور رازدار نہ ملا تھا جو اپنی ہی محبت کو اپنی کمزوری بتا بیٹھا وہ اپنی بےوقوفی پر خود اپنے آپ کو کوسنے لگا۔۔”

مگر دل میں اسے بھی یقین سا تھا کہ روشی اس کے لئے اپنے دل میں کوئی نہ کوئی نرم گوشہ ضرور رکھتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اس کی ذات میں اتنی دلچسپی کیوں لیتی؟۔ اسے آگے پڑھنے پر مجبور کیوں کرتی؟ اور سب سے بڑی بات بہت پر اعتماد ہونے کے بعد بھی اسے دیکھ کر ہمیشہ نظریں کیوں چرا لیتی ہے؟

"”اگر وہ مجھ سے شادی کر لے تو زندگی کتنی خوشگوار اور حسین ہو جائے گی اور بیلا کی تو وہ ہے بھی پکی سہیلی۔ ہمارے گھر میں کبھی عام گھروں کی طرح نند بھابھی کے لڑائی جھگڑے بھی نہیں ہوں گے”۔

ان دونوں کو اپنے تصور میں بلیوں کی طرح لڑتا دیکھ کر وہ بے اختیار مسکرانے لگا۔۔۔۔۔۔۔

ا”ٓہممم۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کس بات پر اتنا مسکرایا جا رہا ہے بھائی۔ ”

بیلا نے اچانک سامنے آ کر اس کی چوری پکڑ لی تو وہ بری طرح جھینپ گیا۔

مجھے لگ رہا ہے کوئی بہت خوشگوار خیال ٓا رہا ہے دل میں اور بہت خوبصورت بھی بالکل روشی کی طرح”۔

"نہیں نہیں وہ میں تو کام کے بارے میں سوچ رہا تھا”

"کمال ہے۔۔! کام کے بارے میں سوچ کر اتنا مسکراتے پہلی بار دیکھا ہے کسی کو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کام کا نام کہیں ر سے تو شروع نہیں ہوتا”

اس بات پر سمیر گڑبڑا گیا۔

اب آپ مزید میری آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ مجھے سب علم ہو چکا ہے بلکہ مجھے تو آپ کو شکریہ کہنا تھا جو آپ میرے بچپن کا ایک خواب پورا کرنے والے ہیں ”

بیلا شرارت سے مسکرائی ـ

***

 

"زندگی کی رفتار کبھی کبھی بہت تیز ہو جاتی ہے۔ بیلا نے یونیورسٹی کے سٹاف لاؤنج میں بیٹھے ہوئے سوچا۔”

بھلا اس نے کہاں سوچا تھا کہ رزلٹ آنے سے پہلے ہی اسے جاب کی آفر ہو جائے گی۔ مسز صبا الطاف کے پی ایچ ڈی کے لئے جانے کی وجہ سے جگہ خالی ہو گئی تھی۔ ہیڈ آف دا ڈیپارٹمنٹ نے اسے فون کر کے بلایا تھا اور اب اسے لیکچرر کے طور پر کام کرتے ایک سال ہو گیا تھا۔ رزلٹ آ چکا تھا اور حسب توقع اس نے ٹاپ کیا تھا۔ جلد ہی اسے پی ایچ ڈی کے لئے سکالر شپ ملنے والا تھا۔

"آج تو گھر جلدی جانا تھا۔” وہ جلدی جلدی اپنی چیزیں سمیٹ کر اٹھی۔

سمیر نے کل رات ہی تو اس سے بات کی تھی کہ کچھ لوگ آنا چاہ رہے ہیں اس کے رشتے کے سلسلے میں۔

"بیلا تم تین سالوں سے یونیورسٹی جا رہی ہو۔۔۔۔اپنا اچھا برا سمجھتی ہو۔ اگر تمھاری اپنی پسند ہو کوئی تو بتا دو۔”سمیر نے کہا تھا۔

"بھائی یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ اول تو ایسا کچھ ہے ہی نہیں اور کیا آپ بابا کی بات بھول گئے کہ انہوں نے یونیورسٹی کے داخلے کے وقت کیا کہا تھا۔”

"ہاں ٹھیک ہے مگر اب میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم با شعور ہو اپنا برا بھلا خود سمجھ سکتی ہو تو تمھاری رائے کیوں نا لی جائے۔ رہی بات بابا کی تو یہ بات میں نے انہیں بھی سمجھا دی ہے۔”

بیلا حیران ہو کر بھائی کی شکل دیکھتی رہی۔

"بابا کو بھی تم پر اعتماد ہے اور وہ بھی تمھاری رائے جاننا چاہتے ہیں۔ اور اگر تمھاری کوئی پسند نہیں تو پھر ہمیں اجازت دو کہ ہم اپنی پسند سے تمھارا رشتہ طے کر دیں۔”

"ارے اتنی جلدی کیا ہے آپ لوگوں کو۔۔۔ابھی تو میں نے پی ایچ ڈی کرنی ہے۔۔۔۔اور۔۔۔۔”

"ہاں پی ایچ ڈی کی ہی وجہ سے تو ہم شادی جلدی کرنا چاہتے ہیں تاکہ تم اپنے شوہر کے ساتھ ہی جاؤ۔۔۔” سمیر نے بڑے آرام سے مستقبل کی منصوبہ بندی کر دی اس کے لئے۔

بیلا کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ” بھائی آپ بھی ناں۔۔۔۔”

"یار تم جاؤ گی تو کچھ ہمارا بھی کام بنے گا۔۔۔ ورنہ وہ خاتون بلند ارادہ اور محترمہ عظیم و حوصلہ و فولاد و آہن ڈگریوں پر ڈگریاں لیتی جائے گی اور میں بیچارہ اس کی ڈگریوں کے برابر آنے کے چکر میں مزید گنجا ہو جاؤں گا۔” سمیر نے مسخرے پن سے سر پر ہاتھ پھیرا۔

"اچھا جی تو یہ بات ہے۔۔۔۔”

"ہا ں جی یہی بات ہے۔۔۔۔”

"پھر بابا کو کہہ دوں کہ جو ان کی مرضی۔۔۔۔”

"جی۔۔۔۔” بیلا کو ایک دم احساس ہوا کہ وہ بہت بے تکلفی سے بھائی اپنی شادی پر بات چیت کر رہی ہے۔

"پھر بھائی آپ روشی کے لئے بابا سے بات کریں گے؟” بیلا نے بات بدلتے ہوئے کہا۔

"کہہ تو دوں مگر اب اس نے لاء کالج میں داخلہ لے لیا ہے اور ساتھ میں اخبار میں بھی کام کر رہی ہے۔” سمیر پر سوچ انداز میں بولا۔

"تو پھر بھائی وہ تو اسی طرح پڑھتی ہی رہے گی، خالہ تو اس کے لئے پھر سے رشتے دیکھ رہی ہیں۔۔۔۔یہ نا ہو کہ۔۔۔۔۔”وہ بھائی کی شکل دیکھ کر ایک دم خاموش ہو گئی۔

"کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔ بابا تو پہلے ہی اسے بہو بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں، شاید مجھے کہنے کی ضرورت ہی نا پڑے۔۔۔۔۔” سمیر کی آنکھوں میں کچھ پا لینے کی چمک تھی۔ جب سے اس کا کمپیوٹر کا کاروبار کامیاب ہوا تھا اس کے انداز ہی بدل گئے تھے۔

سمیر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔

"ایک منٹ۔۔۔۔ یہ میں نے کیا کیا۔” بیلا نے خود کو کہا۔

"کیا تمھیں ایک پل کو بھی اس کا خیال نا آیا۔”

"پھر کیا۔۔۔۔ اگر وہ قسمت میں ہوتا تو مل جاتا۔۔۔۔آخر وہ کس بات کے انتظار میں تھا اتنے عرصے سے۔۔۔اب تو اس کی شکل دیکھے بھی مدت ہو گئی۔۔۔۔یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا۔” پیچھے جب وہ چچا کی طرف گئی تھی تو شام تک رکنے کے باوجود اس سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ اس نے سر جھٹک کر سونے کی کوشش کی تھی۔

"اور آج وہ لوگ آ رہے ہیں۔۔۔۔” اس نے رکشے میں بیٹھتے ہوئے سوچا۔

صبح سمیر نے اسے جلدی آنے کو کہا تھا کیونکہ خاص مہمان آ رہے تھے۔

***

 

گھر میں قدم رکھتے ہی وہ ٹھٹھک گئی۔ چچا چچی، زارا ماہا اور ماہا کا میاں جواد، سمیع بھائی تہنیت بھابھی، بڑے بھائی صفی اور فریدہ بھابھی سب صحن میں براجمان تھے۔

"یہ لوگ آج کہاں سے آ گئے۔۔۔۔” وہ کچھ حیران ہوتی ہوئی آگے بڑھی۔

بابا ان کے ساتھ باتوں میں مشغول تھے۔ وہ سب کو سلام کر کے چچا اور چچی کی جانب بڑھی۔

"جیتی رہو” چچا اور چچی ہمیشہ ہی پیار سے ملتے تھے مگر اس بار انداز میں کچھ خاص تھا۔بیلا حیران ہو کر سب سے مل کر اندر کی طرف بڑھی۔

"تھا جسکا انتظار وہ شاہکار آگیا۔” ستون کے ساتھ کھڑے صبیح نے گنگنانا اپنا فرض سمجھا۔

اس سے پہلے کہ بیلا کچھ کہتی کچن میں سے روہین نکل آئی۔ "چلئے جناب، آپ لڑکے والوں کے ساتھ جا کر بیٹھیں۔۔۔اب آپ کا داخلہ یہاں بند ہے۔” روہین نے صبیح کو آنکھیں دکھائیں۔

بیلا نے اندر سے آتے سمیر کو دیکھا جو اسے حیران پریشان دیکھ کر ہنس رہا تھا۔

"اُف یہ بھائی بھی ناں۔۔۔۔” پتا نہیں آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے یا۔ ۔۔۔

وہ سمیر کو ایک طرف دھکیلتی ہوئی اندر چلی گئی اور سمیر ارے ارے ہی کرتا رہ گیا۔

"دیکھا تمھارے سرپرائز کے چکر نے میری بہن کو ناراض کر دیا۔۔۔۔” سمیر بیلا کو سنانے کے لئے اونچی آواز میں بولا۔

وہ کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے روشی زرق برق کپڑے پھلائے کھڑی تھی۔

"اچھا تو تم بھی ان سب کے ساتھ شامل تھیں۔”

"ارے ارے مجھے کہاں بیچ میں گھسیٹ رہی ہو۔۔۔۔مجھے تو سمیر نے فون کر کے دفترسے بلایا ہے۔”

"سچ کہہ رہی ہو۔۔۔۔” اس نے مشکوک نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

"اور نہیں تو کیا۔۔۔بلکہ میں تو تم سے ناراض ہو نے والی تھی مگر انہوں نے کہا کہ تمھیں اس بارے میں کچھ۔۔۔۔۔”

"ہائیں۔۔۔۔ یہ انہوں کنہوں کی بات ہو رہی ہے” بیلا کو اپنی بھول گئی۔

"باز آ جاؤ بیلی۔۔۔۔” روشی نے اسے آنکھیں دکھائیں "اور جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ ۔۔۔تمھارے سسرال والے رسم کر کے جانا چاہتے ہیں۔۔۔یہ سب بھی وہی لائے ہیں۔”

"مگر۔۔۔۔”

"اگر مگر کچھ نہیں۔۔۔اللہ کا شکر ادا کرو جو چاہا پا لیا۔”بیلا کی آنکھیں ڈبڈبائیں تو روشی نے اسے پیار سے لپٹا لیا۔

***

 

” اف بیلا جلدی کرو۔۔۔۔ یہ بابا جان بھی نا۔۔۔ ارے ابھی تک تمھارے بال گیلے ہیں۔۔۔۔ اف روہین تم زارا اور ماہا کو بلا لاؤ۔۔۔۔”۔

"ارے کیا ہوا ہے۔۔۔۔کچھ مجھے بھی تو بتاؤ۔” بیلا روشی کو پریشان دیکھ کر گھبرا گئی۔

"ارے کچھ نہیں ہوا، بس یہ میرے بابا کا نیا شوشہ۔۔۔۔ خلیل چچا نے بابا کو مشورے کے لئے بلایا تھا کہ ہاں کی جائے تو آج منگنی ہو یا پھر کچھ اور وقت مانگا جائے اور پھر شادی چند ماہ بعد۔۔۔ بابا نے دو منٹ لگائے فیصلہ کرنے میں کہ نا ہاں نا منگنی۔۔۔ بس نکاح اور رخصتی کر دی جائے کیونکہ سنت یہی کہتی ہے۔۔۔۔لڑکا گھر کا ہے۔ پچھلے ستائیس سال سے آپ اسے دیکھ پرکھ رہے ہیں پھر دیر کاہے کی۔۔۔۔”۔

"یہی بات تو میں کہتا ہوں۔۔۔کوئی سنتا ہی نہیں۔” سمیر مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا۔اس کا احساس کمتری اور سنجیدگی نہ جانے کہاں رخصت ہو گئی تھی۔

روشی صرف اس کو گھور کر رہ گئی۔

” ایسے کیا گھور رہی ہو۔ ۔۔ بابا کے کان میں ڈال آیا ہوں، شاید آدھے گھنٹے بعد ہمارا بھی نکاح ہو رہا ہو۔۔۔۔ اس لئے اب یہ تڑی شڑی کسی اور کو دینا۔” سمیر بہت چہک رہا تھا۔

شاید منزل پانے کا یقین ایسے ہی لوگوں کو بدل دیتا ہے۔ ” روشی نے آسودگی سے سوچا۔” اس کو پر اعتماد دیکھنا اس کا بھی تو خواب تھا۔

” بیٹھو بیلا۔۔۔۔” سمیرنے بہن کو ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر بیڈ پر بیٹھا لیا۔

چند لمحے وہ اس کا سر اپنے کندھے سے لگائے بیٹھا رہا۔ دونوں کی آنکھیں آبدیدہ تھیں۔ دونوں کو ماں کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔

” بیلا اس فیصلے پر اعتراض تو نہیں۔۔۔۔”

"مگر بھائی اتنی جلدی کیوں۔۔۔۔”اس نے احتجاج کیا۔

” جلدی تو چچا نذیر نے مچائی ہے، شاید اس تھانے دارنی سے تنگ آ گئے ہیں۔” سمیر نے ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کی کوشش کی۔

"تفصیل تمھیں صبیح سے پتا چل جائے گی۔۔۔ بس میں تو تم سے اجازت لینے آیا ہوں کہ آج ہی نکاح کر دیا جائے۔۔۔کاغذات بنوانے میں بہت ٹائم لگتا ہے۔”

"جیسے آپ سب کی مرضی مگر۔۔۔۔۔” اس کی بات نا مکمل ہی رہ گئی۔ روہین، زارا، ماہا، اور تہنیت کمرے میں آ چکی تھیں۔

***

 

"لو بھئی یہ تمھارا لیپ ٹاپ اور یہ تمھارا انٹر نیٹ کنیکشن بھی لگ گیا۔۔۔۔شکر الحمد للہ اب میں چین سے سو سکوں گا۔۔۔۔ ورنہ تو محترمہ ون اردو کے بغیر شاید فوت ہی ہو جاتیں۔”صبیح اسے چڑانے کو اونچا بول رہا تھا مگر یہاں کسے پرواہ تھی۔

"شکریہ بہت بہت بہت شکریہ۔۔۔۔” بیلا خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ لیپ ٹاپ لیکر بیٹھ گئی۔

"ایمان سے ایسی ظالم بیوی کہیں نہیں دیکھی۔۔۔۔ میں تو تمھارے خلاف ون اردو پر مہم شروع کرنے لگا ہوں۔۔۔۔”

"اس کی ضرورت نہیں۔ ۔۔یہاں پہلے ہی عورتوں کے ستائے ہوئے بہت ہیں بشمول خواتین ممبرز کے۔۔۔۔” بیلا نے کھنکتے لہجے میں جواب دیا۔ صبیح اس کے پر سکون چہرے کو دیکھ کر مسکرا دیا اور خود ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں لیکر صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔

بیلا لاگ آن ہوتے ہوئے پچھلے چند ماہ کے واقعات کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ کیسے آناً فاناً سب کچھ ہوا تھا۔ صبیح تو اب بھی چچا نذیر کو دعائیں دیتا تھا جن کی عملی اور دینی سوچ نے دونوں گھروں کو بے جا اصراف سے بچا لیا تھا۔ وہی پیسہ اب ان کے کام آ رہا تھا۔

بیلا کو یاد آ رہا تھا کہ نکاح کے بعد جو اس نے رونا شروع کیا تھا تو گھر پہنچنے سے لیکر اپنے کمرے تک اس کا رونا نہیں بند ہوا تھا۔ تہنیت بھابھی نے تنگ آ کر صبیح کو آواز دے تھی۔۔۔۔

"دیور جی سنبھالیں اپنی دلہن کو۔ ۔۔۔ بھئی آپکے پاس اب لائسنس ہے انہیں چپ کروانے کا۔ اپنی مہارت کا کچھ مظاہرہ کریں۔۔۔میں تو چلی۔”

"السلام علیکم” یہ کہہ کر خاموشی چھا گئی تھی۔ بیلا جو مزید کسی جملے کے لئے خود پر قابو پانے میں بے حال ہو رہی تھی، اس خاموشی سے پریشان ہو گئی تھی۔

سر اٹھا کر دیکھا تو صبیح کمپیوٹر کے آگے کھڑا تھا، "میں نے سوچا ایک نیا تھریڈ بنا دوں، "بیلا کو شادی کی بہت بہت بہت بہت مبارک” ایسے ہی اعلانات ہوتے ہیں نا تمھارے ون اردو پر۔” صبیح بہت سنجیدگی سے کچھ ٹائپ کرنے لگا۔

"نہیںںںںں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” بیلا کی نہیں بہت لمبی اور اونچی تھی۔ بہت تیزی سے وہ بیڈ سے اتر کر میز کی طرف آئی۔ اسے رونا دھونا سب بھول چکا تھا۔

صبیح کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ بیلا کو اپنی حماقت کا احساس کمپیوٹر کی سادہ سکرین دیکھ کر ہوا۔

"یار میری زندگی بہت آسان ہو گی۔۔۔۔ ادھر کوئی مسئلہ ہوا، اُدھر میں ون اردو کو درمیان میں لے آیا۔۔۔ مسئلہ دو منٹوں میں حل۔۔۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ کی طرف لے آیا۔

پھر وہ اسے بہت دیر تک اسے اپنے پچھلے دنوں کی مصروفیت کے بارے بتاتا رہا کہ کیسے اس نے بھی پی ایچ ڈی کے لئے اپلائی کیا تاکہ وہ دونوں ایک ساتھ جا سکیں۔ کیسے اس نے سمیع بھائی کو راضی کیا کہ وہ چند سالوں کے لئے امی بابا کے لئے یہاں کی برانچ میں ٹرانسفر کروا لیں یا پھر اپنے ساتھ لے جائیں۔

"اب تمھیں اکیلا بھیجنے کا بھی تو رسک نہیں لے سکتا تھا۔” صبیح اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔

” یہ اکیلا بھیجنے کا مسئلہ تھا یا پھر پی ایچ ڈی کا۔۔۔۔ اتنے سالوں کے بعد کہیں اس لئے تو خیال نہیں آیا کہ میری ڈگریاں آپ سے زیادہ ہو جائیں گی۔”بیلا بات کی تہہ تک پہنچ رہی تھی شاید۔۔۔۔

"ایک تو تم عورتیں بات کی کھال۔۔۔۔۔

"اوں ہوں۔۔۔۔بال کی کھال۔۔۔۔” بیلا نے ٹوکا۔

” وہی تو۔۔۔بات سمجھ میں آ گئی ہے نا”

"میری بات کا جوب نہیں دیا۔۔۔”

"تمھاری بات کا جواب یہ ہے کہ تمھارا دماغ ون اردو نے بہت خراب کر دیا ہے۔۔۔۔” صبیح کی آنکھوں میں چمک تھی۔

"کیا کیا۔ ۔۔کیا کہا ون اردو کو۔۔۔۔”

"اللہ رحم کر میرے حال پر۔۔۔۔میری بیوی کو اس وقت مجھ سے زیادہ ون اردو کی فکر ہے۔۔۔۔ کیا زمانہ آ گیا ہے۔۔۔۔”اس سے پہلے کہ صبیح کی بے وقت کی راگنی شروع ہو جاتی، بیلا نے بیساختہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔

صبیح نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ جما دیا تھا۔

یہ سب باتیں یاد کرتے بیلا کو ایک دم کچھ خیال آیا "اف۔۔۔۔یعنی ہائیں۔۔۔۔” پچھلے کئی مہنے ایسے مصروفیت میں گزرے تھے کہ کسی بات کا ہوش نہیں رہا تھا۔ پہلے اس کا اچانک نکاح پھر ہفتے بعد سمیر اور روشائل کی شادی۔۔۔۔۔پھر اس کے بعد کاغذات، ویزے، ٹکٹوں کا بندوبست کرنے اور آنے کی تیاریوں میں کچھ یاد نہیں رہا تھا اسے۔

اب اتنے دنوں بعد فرصت میں خیال آیا تو وہ ایک دم صبیح کی طرف پلٹی،”یاد ہے آپ نے شادی کی رات ون اردو کے متعلق کچھ کہا تھا”۔

"تو۔۔۔” صبیح سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

"آپ کو کیسے اتنی تفصیل سے پتا تھا اس کے بارے میں۔۔۔۔”بیلا کڑی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"مارے گئے۔۔۔۔” صبیح کراہا۔ اب کم از کم آدھے گھنٹے کی کلاس لگے ہی لگے۔ اس نے کشن اٹھا کر منہ پر رکھ لیا۔

***

 

سمیر غسل خانے سے نکلا تو روشی کی پھرتیاں دیکھ کر ٹھنڈی سانس لیکر رہ گیا۔ایک بازو میں اس نے بیٹے کو دبوچا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے کمپیوٹر پر کچھ ٹائپ کر رہی تھی۔ جب ٹائپ کے درمیان وقفہ آیا تو پہلے اس نے بستر کی چادر سیدھی کی پھر برش بالوں میں پھیرنے لگی۔

"اے اکیسویں صدی کے فرزند ارجمند تیری عظمت کو سلام۔۔۔” یہ کہتے ہوئے سمیر نے ولید جو مزے سے ماں کے ساتھ لٹکا ہوا تھا، کو روشی کے چنگل سے رہائی دلائی۔

” کچھ رحم کریں زوجہ محترمہ۔۔۔۔ اور ہم غریبوں کو بھی کوئی صدقہ خیرات دے دیں۔”

” پتا نہیں آپ کو کتنے اہم موضوع پر بحث ہو رہی ہے۔”باہر جانے والےپاکستانی واپس جانا پسند نہیں کرتے”، جبکہ بیلا اور صبیح تو۔۔۔ ویسے بھی بیلا ابھی لاگ آف ہو جائے گی، پھر شام میں بمشکل بات ہو گی۔” وہ جملہ درمیان میں چھوڑ کر ہمیشہ کی طرح تاویلیں دلیلیں دینے لگی۔

"ہاں دنیا کے قائم رہنے کا دارومدار تم دونوں کی اس جھگڑا نما گفتگو پر ہی تو ہے۔۔۔۔”۔ سمیر نے ولید کو ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا۔ڈیڑھ سال کا ولید خوشی سے قلقاریاں مار رہا تھا۔

"چلیں میں دیتی ہوں ناشتہ۔۔۔۔” روشائل لاگ آف ہو کر کمرے سے باہر نکل گئی۔

سمیر ولید کو اٹھائے اس کے پیچھے چل دیا۔مگر ابھی اس کے صبر کا امتحان باقی تھا۔

"سمیر بیٹا ذرا ادھر تو آنا۔۔۔۔۔ دیکھنا تو سکینر کو کیا ہوا۔” آجکل وہ پرانے ادبی نسخے سکین کرنے پر لگے ہوئے تھے۔

"سکینر بیچارا کہاں تک یہ ظلم برداشت کرے۔۔۔۔۔” سمیر نے جل کر منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ روشی کو ہنسی آ گئی۔

"روشی بیٹا نذیر بھائی سے پوچھنا تو، کیا انہیں کتاب کا لنک مل گیا۔۔۔۔میں نے کل ساری سکین کر دی تھی۔” سمیر نے بے بسی سے اپنی گود میں چڑھے ولید کو دیکھا۔

ولید پہلے باپ، پھر ماں، اور آخر میں کمرے میں بیٹھے دادا کو دیکھ کر کھکھلایا۔روشی مطمئن سی کچن کی جانب چل پڑی۔ آج اتوار تھا، تھوڑی دیر میں روہین اپنے شوہر سمیت موجود ہونی تھی۔ بابا اور بابا کا بحث و مباحثے کا دور چلنا تھا۔ چچا جان کی طرف سے بھی سبکے آنے کا ارادہ تھا۔ ایسے میں امی اور چچی جان نے مل کر سب لڑکیوں کے سگھڑاپے پر نقطہ چینیاں کرنی تھی۔ اس نے اور تہنیت نے کچن میں گھس کر ہنسنا تھا اپنی اپنی جاب کے مسائل پر گپیں لگانی تھیں۔

"بیلا میں تمھیں بہت یاد کرتی ہوں۔۔۔۔بس اب آ جاؤ۔” روشی نے فرج میں سے سامان نکالتے ہوئے بیلا کو شدت سے یاد کیا۔

***

 

روشائل نے گردن موڑ کر اپنے ساتھ سوتے سمیر اور پھر بے بی کاٹ میں سوئے ولید پر ایک نظر ڈالی۔ جب دنوں کی ہموار سانسیں دیکھ کر اس کو تسلی ہو گئی تو وہ خاموشی سے باہر نکل آئی۔ سمیر نے آنکھیں کھول کر اسے جاتے دیکھا پھر مسکرا کر کروٹ بدل کر سوتا بن گیا۔

"سودا مہنگا نہیں ہے۔ ۔۔۔ بھلا عورت کو کیا چاہئے؟ یہ یقین ہی نا کہ اس کا ساتھی اس کو سمجھتا ہے، اس پر اعتماد کرتا ہے، اور اس کی خوشی میں خوش ہے!۔۔۔۔ جواب میں وہ اپنی وفا، محبت، محنت، لگن سب اپنے گھر کے نام کر دیتی ہے۔۔۔۔ پھر اگر عورت روشائل جیسی پارس ہو جو چھوتے ہی پتھر کو سونا بنا دے تو پھر اسے میں اپنی خوش قسمتی نا سمجھوں تو اور کیا۔”

سمیر نے آسودگی سے سر تکیے پر ٹکا دیا۔

***

 

روشی کچھ دیر بیٹھی کچھ سوچتی رہی۔۔۔۔پھر اسے نے ٹائپ کرنا شروع کیا۔۔۔۔

ہم نے سیکھا نہیں ہے ہارنا

"سفر پر تو سب ہی نکلتے ہیں مگر منزل کے ملنے کی کوئی ضمانت تو نہیں۔ کیا گُر ہے۔۔۔ کیا فارمولا ہے کہ ایک منزل پا جاتا ہے اور دوسرا زاد راہ کے ساتھ ساتھ نشان منزل بھی کھو بیٹھتا ہے؟؟؟

آج سے تقریباً آٹھ سال پہلے میں نے اور بیلا نے عہد کیا تھا کہ ہم اپنی زندگی کو بدل لیں گے، اسے سنوار دیں گے۔ بہت اونچی سوچ تھی، بہت بلند آدرش تھے! اور جب ہم یہ سب سوچ رہی تھیں تو ہم دونوں لکڑی والے چولہے کے آگے دسمبر کی کڑی سردی میں باہر صحن میں بیٹھیں تھیں۔۔۔۔۔کیوں؟

کیونکہ گیس کی لوڈ شیڈنگ ہوتے ہوتے تقریباً گیس بند ہو گئی تھی۔ رمضان کے دن تھے اور سحری کا ٹائم۔۔۔۔ ہمارے گھر میں لکڑی کا چولہا تھا اور بیلا کو لکڑی کے چولہے میں آگ جلانا نہیں آتی تھی۔ہماری آنکھیں دھوئیں سے بھر چکی تھی اور وقت تھوڑا رہ گیا تھا۔ بیلا نے اس وقت کہا تھا، یار یہ ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں۔۔۔۔کیا دیا اس ملک کو ہم نے۔ ۔۔اس نے کسی پر الزام نہیں لگایا اور نا ہی کسی پر انگلی اٹھائی تھی۔ میں حیران ہو کر اپنی اس کامنی سی بیوقوف دوست کو دیکھنے لگ گئی جو بے خبری میں بڑی گہری بات کر گئی تھی۔

میں یہ سب کچھ بدل دینا چاہتی ہوں، بدل دوں گی۔۔۔۔ اس نے جوش سے کہا تھا۔ میرے سامنے وہ ایسے ہی اعتماد سے بولتی تھی۔ باقی سب کے سامنے اس کی آواز لرزتی تھی اور آنکھیں پانیوں سے لبریز ہو جاتی تھیں۔

"ہاں ہم اس سب کو بدل دیں گے ان شاء اللہ ” میں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا، "اگر پہلے ہم چولہا جلانے میں کامیاب ہو گئے اور امی کی جوتیوں سے بچ گئے۔”میں نے مسخرے پن سے اس کی بات کا جواب دیا تھا۔

"تم میری بات کو مذاق میں لے رہی ہو” اس نے مجھے سنجیدگی سے کہا تھا۔ "سنو روشی بات تو ایک موقع، ایک ساعت کی ہے نا، اس ساعت کی جب میرے دل کے ان دیکھی تار دعاؤں کو وہاں آسمان کی وسعتوں تک لے جا رہی ہوتی ہے۔۔۔بس تب کہیں وہ اللہ کن کہہ دیتا ہے۔۔۔۔ پھر سب کچھ ہو جاتا ہے۔۔۔۔ہار جیت میں بدل جاتی ہے۔۔۔۔ پھر کوئی کچھ۔۔۔۔”

"ارے لڑکیو کیا بنا۔۔۔۔۔” سمیر کی آواز دیوار پار سے آئی تھی۔

اس صبح میں فجر کی نماز کے بعد بہت دیر ساکت بیٹھی بیلا کی باتوں کے متعلق سوچتی رہی تھی۔ "اچھا واقعی ایک کن کی ہی دیر ہے تو پھر۔۔۔۔پھر دیر تو نا ہوئی۔ اے اللہ کیا میرے دل کی تار تجھ تک نہیں پہنچ پاتی۔۔۔۔ کیا ہم سب کے دل تک تیری رسائی نہیں ہے کیا؟ کیوں ہیں پھر یہ آزمائشیں۔۔۔۔” میرے شکوے شکایات کا دفتر کھل گیا تھا کیونکہ انہی دنوں بابا کو دوسرا دل کا دورہ پڑا تھا۔ملک کے حالات ابتر ہوتے جا رہے تھے۔ ارد گرد ہر طرف مایوسی پھیلتی جا رہی تھی۔ ایسے میں میرے ذہن پر بھی کہر کی چادر تننے لگی تھی۔

"ایک منٹ۔ ۔۔۔یہ بیلا کیوں کوئی شکوہ نہیں کرتی۔۔۔ اکیلے میں روتی ہے مگر اللہ سے اسے اتنی زیادہ امید کیوں ہے؟ شاید اسے اپنی نجات کا وسیلہ پتا ہے، شاید وہ اپنے جنت کے راستے کو جان گئی ہے۔”

اس دن میں نے جانا تھا کہ لکڑی کے چولہے پر روٹیاں رو دھو کر اور زمانے سے لیکر حکومت کو کوس کر بھی بنائی جا سکتی ہیں یا پھر آنے والے وقت کے لئے خوش گمان ہو کر بھی۔

اسی دن سے میں نے اپنا ہر عمل بدل لیا تھا۔ اس دن میں نے سوچ لیا تھا کہ اب میں کبھی نہیں ہاروں گی۔۔۔کبھی نہیں شکوہ کروں گی۔ میں ہار جیسے لفظ کو اپنی زندگی سے نکال پھینکوں گی۔ مگر یہ سب کہنا جتنا آسان تھا، کرنا اتنا ہی مشکل۔

بیلا جیسے لوگ تو بندوں سے مایوس ہو کر "ہائیر اتھارٹی” سےبراہ راست رابطے میں رہتے ہیں اور وہ تو اپنے اسی یقین کی بنا پر منزل پر پہنچ گئی، مگر مجھے تو جستجو کرنی تھی۔ یقین کا سفر آسان اور جستجو کا پر خار ہوتا ہے، یہ مجھے دیر سے پتا چلا!

میں منزل تک پہنچنے کے لئے بہت بار رکی، بہت بار تھک کر بیٹھ گئی مگر اللہ کا احسان کہ گری کبھی نہیں۔پھر ایسے میں میری راہگزر پر ایک ایسا شخص آ گیا جسے قدم قدم پر پر اپنی راہ کھوٹی کرنے کی عادت تھی، بار بار گرنے کا شوق تھا۔۔۔۔ سمیر۔۔۔۔ میرا سب سے بڑا امتحان!

کئی بار دل میں خیال آیا کہ راہ بدل لوں، دامن بچا لوں مگر اس نے تو شاید میرے قدموں کے نشان سے ہی اپنی منزل پانی تھی۔ جب پلٹ کر دیکھتی، وہ میرے پیچھے ہوتا۔۔۔۔۔ اب بندہ کب تک دامن بچائے۔اب سوچتی ہوں شاید اس کو منزل تک پہنچانے کے لئے میرے رستے آسان ہوتے چلے گئے!!!

میں چند قدم رکی تو وہ میرے برابر آ گیا اور ہم منزل کی طرف گامزن ہو گئے۔ دیر تو ہوئی مگر سفر شوق تو ایسا ہی ہوتا ہے!”

***

 

"ہوں میرا خیال ہے اتنا ہی کافی ہے،۔۔۔اب بلاگ میں پوسٹ کر دیتی ہوں۔”

"ارے محترمہ وکیل صاحبہ۔۔۔۔ یہ آپ کا سپوت میرے دلائل ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال رہا ہے۔۔۔۔ اگر "ون اُردو” کا مقدمہ طویل ختم ہو گیا ہو تو آپ جناب بھی آرام فرما لیں، صبح بیلا صبیح کو لینے ائیر پورٹ بھی جانا ہے۔۔۔۔۔”

روشی نے گھبرا کر بابا جان کے دروازے کی طرف دیکھا پھر گھڑی کی طرف۔

"اُف رات کے تین بج گئے، پتا ہی نہیں چلا۔۔۔۔ یہ بندہ تو ہمسائیوں کو بھی جگا کر رہے گا اور امی سے بھی صبح ڈانٹ پڑے گی کہ رات سمیر کیوں۔۔۔۔۔” وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ اپنے میاں کو دینے کو خاموش رہنے کی دلیلیں سوچتی ہوئی کمرے کی طرف لپکی۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

ماخذ:

اردو پبلک لائبریری

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید