FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

ارمغان ابتسام

 

شمارہ ۱۱، اپریل تا جون ۲۰۱۷ء

 

                   مدیر: نوید ظفر کیانی

 

مشاورت

کے ایم خالد

خادم حسین مجاہدؔ

روبینہ شاہین

محمد امین

 

حصہ دوم

 

 

 

 

 

چوکے

 

                   محمد انس فیضی

 

بیگم کے پاس

 

شادی کے بعد زندگی مصروف تر ہوئی

اب اپنے دوستوں سے بھی ملتے نہیں ہیں ہم

امی بھی روز کہتی ہیں کچھ دیر گھوم آؤ

بیگم کے پاس بیٹھ کے ہلتے نہیں ہیں ہم

 

پرپوز

 

ہوتی نہیں ہے ٹھیک یہ تاخیر عشق میں

دل میں لگی ہوئی کو بھی ایکسپوز کیجیے

بازی کہیں نہ مار لے پھر دوسرا کوئی

اب وقت آ گیا ہے کہ پرپوز کیجیے

 

 

گے رجحان

 

میں جانتا ہوں کیسا ہے رجحان پوت کا

کچھ دیر سوچ کر ہی نتیجے پہ آ گیا

میرا خیال تھا کہ بھتیجی سے ہو نکاح

لختِ جگر کا دل تو بھتیجے پہ آ گیا

 

 

شؤر

 

کمزور نظر آتا ہوں کمزور نہیں ہوں

گفتار کا شوقین ہوں منہ زور نہیں ہوں

میں بھی تیری الفت میں بہا دوں کئی دریا

فرہاد کی مانند مگر ’’ شؤر‘‘ نہیں ہوں

 

 

نئے سال کی دعا

 

دل سے دعائیں دیتا ہوں مسٹرلطیف کو

اس سال بھی میاں کی طبیعت ہری رہے

مولا نواز دے اِنہیں اولاد پھر کوئی

پھر سے مسز لطیف کی گودی بھری رہے

 

چاچی نواز دے

 

بستر ٹٹولتے ہیں چچا جان ساری رات

ان کی خموشیوں کے لیے کوئی ساز دے

مولا ترے کرم کے ہیں وہ بھی تو منتظر

اس سال تو چچا کو بھی چاچی نواز دے

 

دیکھتے رہے

 

ہم کو میاں خبر تھی حرام و حلال کی

دیوانہ وار ہوکے مگر دیکھتے رہے

پلو کو اس نے آگے سے دوہرا کیا تو کیا

ہم بھی نظر جما کے اُدھر دیکھتے رہے

 

مولوی

 

پھرتی رہتی ہیں نیم کپڑوں میں

غیر سے بھی خطاب کرتی ہیں

مولوی جی کو دیکھ کر لیکن

رخ پہ فوراً نقاب کرتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

                   احمد علوی

 

نسخۂ کارگر

 

پتھروں سے نہ یہ مانے گا بہت ضدی ہے

سنگ بے سود رہے ہیں اسے سمجھانے کو

بھیڑ کو لیلہ نے بندوق تھما کر یہ کہا

’’کوئی پتھر سے نہ مارے مرے دیوانے کو‘‘

 

 

اِک ذرا انتظار۔۔ ۔

 

کچھ بھی نہیں ہے پاس مرے خالی ہاتھ ہوں

تینوں طلاق لے گئی مجھ سے قمر جہاں

میری نظر میں یوں تو جہاں کے حسین ہیں

’’اب ٹھہر تی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں ‘‘

 

 

اُردو زبان

 

شوگر کے عارضے میں ہوں مدت سے مبتلا

ہر طرح کی مٹھاس سے خطرے میں جان ہے

ہندی میں لکھ کے لاتا ہوں میں اس لئے غزل

رس گلے سے بھی میٹھی یہ اردو زبان ہے

 

مودی کی ڈگری

 

کب گدھے کو بخش دے یارو وہ گھوڑے کی سند

سامنے قدرت کے چلتی آپ کی مرضی نہیں نہیں

آپ کے سر کی قسم فرضی ہوں میں سر تا قدم

صرف اک بی اے کی ہی ڈگری مری فرضی نہیں

٭٭٭

 

 

 

                   تنویر پھولؔ

 

زر اور شر

 

زر ہے لُوٹا براہِ شر تم نے

اب غریبوں کی آئی شامت ہے

قوم کو خوب لُوٹنے والو !

یہ شرافت ہے یا شرارت ہے ؟

 

ٹر ٹر

 

اے کہ تیرا نشان ہے ہاتھی

ہاتھی والوں کے حشر سے تُو ڈر

اہل عالم کی آنکھ میں حیرت

سُن رہے ہیں ٹرمپ کی ٹر ٹر

 

 

ایشیاء

 

اگر گوروں کو اتنی ایشیا والوں سے نفرت ہے

بتائیں پھر وہ کیسے مانتے ہیں ابن مریم کو

تعلق ایشیا سے وہ بھی رکھتے تھے، حقیقت ہے

اگر وہ سامنے آئیں، رویّہ اِن کا پھر کیا ہو؟

 

ساتا توار

 

ایک لڑکا کر رہا تھا یہ دعا

اے خدا ! بیڑے ہمارے پار ہوں

بارش و طوفاں سدا دنیا میں بھیج !

تاکہ ہر ہفتے میں ساتا توار ہوں

٭٭٭

 

 

 

                   ڈاکٹر عزیزؔ فیصل

 

درخواست

 

ذرا سا یہ تحرک کیجیے گا

اس آفر کو سپیشل لیجیے گا

پنگوڑے میں غزل رکھی ہے میں نے

بزرگو!!! آ کے جھولا دیجیے گا

 

نثری نظم

 

سماعت کی بڑی بد قسمتی ہے

نہایت نامناسب گائیکی ہے

ترنم سے سنا، مت نثری نظمیں

یہ نثری نظم کی بے حرمتی ہے

 

نقادوں سے

 

ذرا سا یہ تحرک کیجیے گا

اس آفر کو سپیشل لیجیے گا

پنگوڑے میں غزل رکھی ہے میں نے

بزرگو!!!! آ کے جھولا دیجیے گا

 

پاکستان کی فریاد

 

جان چھوٹے گی کب مری جانے

بد تمیزوں کی چھیڑ خانی سے

وہ بھی آنکھیں مجھے دکھاتے ہیں

ڈرتے رہتے ہیں جو زنانی سے

 

 

برائلر گائے

 

یورپی چینلوں نے پھیلائی

یہ خبر زور شور سے، ہائے

جلد ایجاد ہونے والی ہے

ایشیا میں ’’برائلر‘‘ گائے

 

۱۴ فروری

 

سوچتا رہتا ہے ’’انور‘‘ آج کل

کب ملے گی مجھ کو میری ’’انوری‘‘

اس برس بھی وصل کا ناغہ نہ ہو

آ رہی ہے پھر سے چودہ فروری

٭٭٭

 

 

 

                   ڈاکٹر مظہرؔ عباس رضوی

 

دل لگی

 

بولے رو کر یہ عاشقِ ناکام

اب نہیں ہوتی عاشقی ہم سے

دل لگانے کی جب بھی کوشش کی

وہ لگے ہم سے دل لگی کرنے

 

ہار

 

سوچ کر یہ آپ آزردہ نہ ہوں

آپ کا دل کیوں میں گرماتا نہیں

آپ آئے ہیں یہاں پر جیت کر

اِس لئے میں ہار پہناتا نہیں

 

بے بس

 

دیکھئے تو یہ کاروبارِ ہوس

بس کی اک سیٹ پہ ہیں بیٹھے دس

چشم و لب بھی ہلا نہیں سکتے

بس میں بیٹھے ہیں اور ہیں بے بس

 

 

میں

 

انا پرستی کی حد ہو گئی کہ اب ہم لوگ

کسی کو جانتے ہیں اور نہ کچھ سمجھتے ہیں

ہے گرچہ صورتِ انساں، صدا ہے بکری کی

جسے بھی دیکھو وہی کر رہا ہے ’’ میَں میَں میَں ‘‘

 

 

زردہ

 

ہے لت پڑی ہوئی کہ کروں ایک کو میں دو

دولت کا شوق ہے میں کماتا ہوں اِس لئے

میٹھے کا کوئی شوق نہیں ہے مجھے جناب

زردہ میں زر ہے دس دفعہ، کھاتا ہوں اِس لئے

٭٭٭

 

 

 

 

                   محمد خلیل الرّحمٰن

 

انگریزی

 

زمستانی ہوا میں تھی عجب مستی عجب تیزی

نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی اندازِ بلا خیزی

مرے آداب افرنگی، مرے اطوار بھی اعلیٰ

مگر سب کو پریشاں کر گئی تھی میری انگریزی

 

ابّا۔۔ ۔

 

مری آپا کو چاہے مال و زر دے

بڑے بھائی کو بھی اپنا ہنر دے

مرے ابا مری خواہش یہی ہے

حویلی بس یہ میرے نام کر دے

٭٭٭

 

 

 

                   نوید ظفرؔ کیانی

 

انصاف

 

سچوں سے بڑھ کے کیوں نہیں پُر اعتماد ہم

کیوں جھوٹ بولتے ہوئے ہکلا انا چاہیئے

اہلِ ہوس کے ہاتھ میں آیا ہوا ہے وہ

انصاف کو کچھ آپ بھی شرمانا چاہیئے

 

نیوز چیلنز

 

نیوز چینلز کا ہے یہ دعویٰ

ہم فقط آگہی پھیلاتے ہیں

ہم بھی تائید کرتے ہیں اِن کی

یہ تو بس ’’آگ ہی‘‘ پھیلاتے ہیں

 

 

نثری نظم

 

ہائے مجنوں ہیں بھلا کیوں بیکس

کھولے بیٹھے ہیں دلوں کے بکلس

اپنے سیل فون کو رکھیں چوکس

مانگ سکتی ہے صبا بھی بیلنس

 

 

کراچی

 

کراچی بلدۂ اربابِ دانش

مگر ہے بلدیہ اس کی عجب شے

بنا ڈالا ہے ’’کوڑا دان‘‘ اس کو

کراچی کو ’’کوڑاچی‘‘ کر دیا ہے

 

 

مذّمت

 

یہ دہشت گرد کہتا پھر رہا تھا

ہے ظالم کاروائی بھائیوں کی

کمر ہی توڑ دیتے ہیں حکمراں

مذّمت کر کے دہشت گردیوں کی

٭٭٭

 

 

 

قہقہہ نواز

 

احمد علوی کی ظرافت

 

                   ڈاکٹر مظہر علی

 

ظرافت انتہائی نازک مگر پیچیدہ فن ہے۔ گویا ظرافت نگار پلِ صراط پر چلتا ہے کہ اگر اس کے فکر و فن میں ذرا بھی لغزش در آئی تو انجام معلوم۔ بناوٹ یا مسخرہ پن اس نوع کے ادب کے لیے سمِ قاتل کا درجہ رکھتا ہے۔ مشہور نقاد پروفیسر محمد حسن نے طنز و مزاح میں مسخرے پن کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

’’طنز و مزاح کا سب سے بڑا دشمن ہے مسخرا پن۔ جسے مسخرے پن کی جتنی فکر ہو گی اتنی ہی وہ طنز و مزاح کی پست سے پست سطح تک اُترے گا۔ اعلیٰ طنز و مزاح درّا کی، قوتِ مشاہدہ اور قوتِ اظہار کا مرہونِ منّت ہوتا ہے اس کے مسخرے پن کا نہیں۔ طنز نگار یا مزاح نگار سر کے بل کھڑا ہو کر دوسروں کو ہنسانے کی کوشش کرنے کے بجائے صرف دیکھنے والی آنکھ کے سامنے سے پردہ اُٹھاتا ہے کہ وہ ارد گرد کی ناہمواریوں کو دیکھ سکے اور ان کے مضحک پہلوؤں پر ہنس سکے۔ ‘‘

موجودہ عہداسی مسخرے پن سے عبارت ہے۔ اور یہی وجہ ہے طنز و مزاح کا معیار روز بروز گرتا جا رہا ہے۔ طنز و مزاحیہ شاعر مسخرے پن میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے ہیں اور یوں اپنے ہی فن کے قاتل بنے ہوئے ہیں۔ ایسے پر آشوب دور میں احمد علوی کی طنز و مزاحیہ شاعری اپنے موضوعات کے تنوع، طنز اور مزاح کے دیرینہ اور نت نئے حربوں کے برجستہ استعمال اور فکری ہم آہنگی کی وجہ سے ہماری توجہ کی مستحق ہے۔

’’ہنسے توپھنسے ‘‘ احمد علوی صاحب کا تیسرا مجموعۂ طنز و مزاح ہے۔ اس سے قبل ان کی دو کتابیں ’’طمانچے ‘‘ اور ’’پین ڈرائیو‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آ کر قبولِ عام کی سند حاصل کر چکی ہیں۔ احمد علوی کا فن طنز اور مزاح دونوں میں کمالات دکھاتا ہے۔ اس فن کے لیے جو قوتِ مشاہدہ، باریک بینی اور قوتِ اظہار کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں بدرجۂ اتم موجود ہے اور انھیں بروئے کار لا کر وہ بیک وقت فرد وسماج کی کمیوں اور خامیوں پر طنز کے تیر برساتے ہیں اور طنز کے وسیلے سے اصلاح کی طرف گامزن بھی ہوتے ہیں۔ آئیے ’’ہنسے تو پھنسے ‘‘ کا ایک تجزیاتی جائزہ لیں۔

احمد علوی انتہائی بے باک ظرافت نگار ہیں۔ وہ اپنے آس پاس کی ناہمواریوں، کمیوں اور بے اعتدالیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ بطور خاص وہ سرکاری ادارے جو اردو کی ترویج و ترقی کے لیے قائم پر اُن کی کئے گئے ہیں، ان میں در آنے والی ناہمواریوں اور نا انصافیوں گہری نظر ہے۔ نام نہاد ادیب و شاعر ایسے اداروں پر قابض ہیں۔ اقربا پر وری، چاپلوسی، خدمت گاری جیسے عیوب عام ہو گئے ہیں۔ سیمیناروں، مشاعروں میں اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے ایسے میں ایک حساس طنز و مزاح نگار کیوں کر خاموش رہ سکتا ہے۔ چنانچہ احمد علوی ایسے اداروں کو اپنے طنز کا نشانہ بنانے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ متذکرہ مجموعۂ کلام میں چند نظمیں ان ہی موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان میں ’’کچا چٹھا‘‘، ’’مشاعرہ جشنِ جمہوریت‘‘، ’’ مشاعرے کا شاعر‘‘، ’’ آج کا ادبی منظر نامہ‘‘ اور ’’ایکسپرٹ‘‘ خاص اہمیت کی حامل ہیں۔

طنز و مزاح اعتدال، متانت اور سنجیدگی کا فن ہے۔ اس میں ذرا سی لغزش طعن و تشنیع بن جاتی ہے۔ احمد علوی کا فن کہیں کہیں اس زمرے میں داخل ہونے لگتا ہے۔ مگر موصوف بھی کیا کریں کہ ان کے تجربات و مشاہدات اتنے تلخ و ترش ہیں کہ ان کے اظہار کے لیے قلم کو زہر میں ڈبونا ہی پڑتا ہے۔ ہماری تو صرف یہی دُعا ہے کہ ان کی یہ زہر ناکی معتدل ہو جائے تاکہ ان کے قلم سے ظرافت کے اعلیٰ نمونے صفحۂ قرطاس کی زینت بنیں۔

اس نوع کی تیز و تلخ نظموں کے علاوہ احمد علوی کے اس مجموعے میں قطعات، بند، ہزلیات وغیرہ کا ذخیرہ وافر مقدار میں موجود ہے۔ ان تخلیقات میں طنز و مزاح کے تمام حربوں کو انھوں نے بحسن و خوبی برتا ہے۔ موضوعات کے علاوہ پیروڈی اور تضمین سے بھی مزاح نگاری کی گئی ہے۔

اُردو کی ظریفانہ شاعری کی روایت میں مزاحیہ غزل جسے احمد علوی نے ’’ہزل‘‘ کا عنوان دیا ہے، ابتدا ہی سے موجود رہی ہے۔ انھوں نے بھی اس میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنی ذہانت سے نت نئے موضوعات کا اضافہ بھی کیا ہے۔ ان غزلوں کی فضا نہایت شگفتہ ہے۔ شگفتہ نگاری کی ایسی مثالیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں چنانچہ ان کی اہمیت یوں بھی دوچند ہو گئی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

کرتی ہے پولس اس سے پہاڑوں کو برآمد

جس چور نے رائی بھی چرائی نہیں ہوتی

اس دن نہیں ملتی مرے لہجے میں ظرافت

جس دن مری بیگم سے لڑائی نہیں ہوتی

میک اپ چڑھا کے چہرے پہ کہتی ہے دوستو

کر دے کوئی اس حسن کے ملبے کو خرد برد

کھا کھا کے سیمیناروں میں بریانی قورمہ

ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے

چوتھا شعر فیضؔ کے مصرعے کی عمدہ تضمین ہے۔ یوں بھی احمدؔ علوی کو تضمین سے خاص دلچسپی ہے۔ وہ اپنے طنزیہ و مزاحیہ قطعات میں اساتذہ کے مصرعوں کی تضمین کر کے اور اُن کے مصرعوں کی معنوی کیفیت تبدیل کر کے کامیاب مزاح نگاری کرتے ہیں۔ بظاہر یہ طریقۂ کار آسان نظر آتا ہے مگر ایسا ہے نہیں۔ اس کے لیے اردو شاعری کی روایت سے واقفیت، اساتذہ کے اشعار کی بروقت ضرورت اور ان کے تہہ در تہہ موضوعات کی ندرت کا پارکھ ہونا ضروری ہے اور احمد علوی کے یہاں یہ خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ چنانچہ وہ مزاح کے اس حربے کو برتنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ چند مثالیں ؎

مساوی ہے چاروں پہ نظرِ عنایت

کئی مرحلے قابلِ غور بھی ہیں

ابھی ایک بیوی سے ہے ایک بچہ

مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

بیوی کی قبر کو نہ بھگو آنسوؤں سے یار

سالی بھی نوجوان ہے کچھ اعتبار رکھ

ساس اور سسر کے ہاتھ میں لا کر کمائی دے

پیوستہ رہِ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ

کل رات ڈرتے ڈرتے یہ بیگم سے کہہ دیا

کچھ دیر سیل فون کا پیچھا بھی چھوڑ دے

شوہر سے بھی ضروری ہے مانا یہ سیل فون

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

پہلے دو قطعے خاص مزاحیہ ہیں جب کہ تیسرے قطعہ میں عہد جدید کی بظاہر نعمتوں مگر بباطن زحمتوں پر طنزیہ وار کیا ہے اور ایسا کرتے ہوئے تضمین کو بطور حربہِ فن استعمال کیا ہے۔ تضمین کے علاوہ احمدؔ علوی کے یہاں ’’ پیروڈی‘‘ کا فن بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ پیروڈی بھی نہایت نازک فن ہے کہ اس میں خود شاعر ہی نہیں بلکہ وہ شاعر بھی جس کی تخلیق کی پیروڈی کی جا رہی ہے، دونوں کی جان خطرے میں ہوتی ہے۔ چند الفاظ کے اُلٹ پھیر سے سنجیدہ تخلیق میں طنز و مزاح کی بجلیاں بھر دینا پیروڈی کا فن ہے۔ احمد علوی نے بھی چند عمدہ اور کامیاب پیروڈیاں تخلیق کی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے طنز و مزاح کے مختلف حربوں اور موضوعات کو برتا ہے۔ ان کی مزاح نگاری شوہر و بیوی کی مضحک تعلقات و معاملات کے اردگرد گھومتی ہے۔ چنانچہ ذیل کے قطعات میں یہ موضوعات پیروڈی کے ذریعے اور بھی دو آتشہ ہو گئے ہیں ؎

بیلن کو دیکھتے ہی غائب ہوئے ہم ایسے

پایا نہ کئی ہفتے نام و نشاں ہمارا

بیگم سے پٹنے والے اے آسماں نہیں ہم

سو بار لے چکا ہے تو امتحاں ہمارا

بڑھاپے میں ہوا جو بدگماں تیرا ہے یا میرا

اگر مجھ پر فدا ہے یہ زیاں تیرا ہے یا میرا

تنک کر میری بیوی سے یہ فرمایا پڑوسن نے

مجھے فکرِ میاں کیوں ہو میاں تیرا ہے یا میرا

شوہر تری زندگی پہ دل ہلتا ہے

تُو تو چوبیسوں گھنٹے پِلتا ہے

بولا شوہر کہ اس زمانے میں

یہ بھی اعزاز کسے ملتا ہے

احمد علوی کی ظریفانہ شاعری میں موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے۔ خانگی مزاح کے علاوہ انھوں نے سماج کے دیگر موضوعات پر بھی طبع آزمائی کی ہے اور کہیں طنز کے ذریعے تو کہیں مزاح کے ذریعے سماج کی کجیوں پر گرفت لگائی ہے۔ ایک کامیاب ظرافت نگار اپنی قوتِ مشاہدہ اور باریک بینی سے عام موضوعات میں بھی تازگی اور ندرت پیدا کر دیتا ہے اور یہ صلاحیت احمد علوی میں موجود ہے۔ مہنگائی اور رہنمایانِ قوم پر طنز سے آراستہ یہ قطعات ہمارے دعویٰ کو دلیل فراہم کر رہے ہیں۔

کل ہند شاعروں کی پریشاں ہیں بیویاں

آتے ہیں خالی ہاتھ کچھ لے کر نہیں آتے

جس روز سے بے انتہا مہنگائی بڑھی ہے

اسٹیج پر اب انڈے ٹماٹر نہیں آتے

الیکشن میں نظر آتے ہیں جو گلیوں محلوں میں

الیکشن جیت کے تیرے نہ میرے درمیاں ہوں گے

اُڑن چھو اس طرح ہوں گے کہیں ڈھونڈے نہ پاؤ گے

یہ اگلے پانچ برسوں تک نشانِ بے نشاں ہوں گے

مزاح نگاری کے لیے جس بذلہ سنجی، بے ساختگی اور شوخی کی ضرورت ہوتی ہے وہ احمد علوی کے یہاں موجود ہے۔ وہ بات میں سے بات نکالنا جانتے ہیں۔ واقعات و موضوعات کی مضحکہ خیزی انھیں مزاح نگاری کی طرف مائل کرتی ہے۔ وہ فکرِ رسا رکھتے ہیں اور اسی لیے مزاح نگاری میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ چنانچہ ایسے برجستہ اور پُر مزاح قطعات ان کے دامن میں بے شمار ہیں ؎

واسطے زلفوں کے رہتے تھے ہمیشہ فکر مند

پھر اچانک یہ ہوا زلفوں پہ اِترانے لگے

دو سگی بہنوں سے دو گنجوں کی شادی ہو گئی

اور یہ بے زلف بھی ہم زلف کہلانے لگے

عہد حاضر کی شاعری کی لفظیات و علامات نئی ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے زمانے میں ان سے متعلق اصطلاحات نے بھی شاعری میں جگہ بنا لی ہے۔ بطور خاص طنز و مزاحیہ شاعری میں یہ سلسلہ مضحک موضوعات کے برتنے میں معاون ثابت ہوا ہے اور ہمارے ظریف شاعر کو نئے پیرائے میں اظہارِ خیال کی آزادی دیتا ہے۔ احمد علوی کے یہاں بھی ان اصطلاحات کا استعمال بطور شعری علامت ہوا ہے۔ یہاں صرف ایک بند ملاحظہ فرمائیں۔

انکار ہو گا اور کبھی اقرار نیٹ پر

ہو گا سبھی حسینوں کا دیدار نیٹ پر

ہم بھی کریں گے عشق کا اظہار نیٹ پر

ہو گا جواں بڑھاپے کا یہ پیار نیٹ پر

اپنوں کو کھلے گا نہ رقیبوں کو کھلے گا

اک ساتھ عشق سات حسینوں سے چلے گا

غرض شوخی و ظرافت سے مزین احمد علوی کی طنز و مزاحیہ شاعری لق و دق صحرا میں نخلستان کی طرح ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اب طنز و مزاحیہ شاعری پر زوال کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ چند ناموں کو چھوڑ کر اس نوع کی شاعری کی طرف اب توجہ نہیں دی جا رہی ہے نیز مشاعروں کی نام نہاد ضرورتوں (مجبوریوں ) کی وجہ سے بھی معیار روز بروز گرتا جا رہا ہے۔ ہم نے مضمون کی ابتدا میں محمد حسن صاحب کا ایک اقتباس نقل کیا ہے کہ مسخرا پن طنز و مزاح کی شاعری کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے اور یہ مسخراپن اب عام ہوتا جا رہا ہے ایسے پُر آشوب دور میں چند آوازیں ہیں جو اپنی انفرادیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ ایسی ہی آوازوں میں احمد علوی کا بھی نام شامل ہے۔ ہم تو اُن کے لیے یہی دعا کر دیں گے کہ ؎

ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی

اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ولایتی زعفران

 

 

ہزاروں خواہشیں ایسی

 

                   جینی کروس / نوید ظفرؔ کیانی

 

بیشتر دیگر امریکیوں کی طرح میرا یعنی جینی اور میرے شوہر جارج کالائف سٹائل بھی محض کھانے، سونے اور ٹی وی دیکھنے کی حد تک ہی محدود ہے۔ جونہی ہماری پشت صوفے سے لگتی ہے، ہماری توندیں کسی جیلی مچھلی کی طرح پھیل جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں تھی۔ ہم نے سوچا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ کچھ کیا جائے، کچھ ایسا، جس سے ہم اس دلدلی توندوں کی صورتِ حال سے چھٹکارا پا سکیں۔ اس کے لئے خاصے غور و خوض کے بعد ہم دونوں میاں بیوی نے اپنا ’’ جارج اینڈ جینی ڈائٹ پلان‘‘ وضع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ماہرینِ غذا اکثر اپنے پہلے سے گھڑے ہوئے نام نہاد ’’ڈائٹ پلان‘‘ کو دوسروں کی زندگیوں میں ٹھونسنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہاتھی کے ڈائٹ کا منصوبہ چیونٹی کے ڈائٹ پلان کے لئے زیادہ مفید نہیں ہو سکتا، لیکن ماہرینِ غذا پر جائیں تو وہ اِس امر کو بھی ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ہر قسم کا پلان ہر قسم کی زندگی پر تھوپا جا سکتا ہے، چنانچہ ہم نے خود انحصاری کو ہی بہتر روش جانا اور وزن گھٹانے کا شاندار منصوبہ بنا لیا جس کا ابتدائی ڈھانچہ حسبِ ذیل ہے :

’’جارج اور جینی کا وزن گھٹانے کا منصوبہ‘‘

۱۔ وزن گھٹانے کے بارے میں کتابیں خریدی جائیں اور اپنی سہولت سے اُن کو پڑھا بھی جائے۔

۲۔ غیر صحتمندانہ غذاؤں کو نکال باہر کیا جائے۔

۳۔ اُن کی جگہ غذا آور غذائیں خریدی جائیں۔

۴۔ غذا آور غذائیں کھائی جائیں۔

۵۔ یوں وزن گھٹایا جائے اور زندگی کا صحیح لطف اُٹھایا جائے۔

۶۔ کھانے سے بچت شدہ ہوئی رقوم کپڑوں کی خریداری پر لگائی جائے۔

کتابوں کی دکانوں پر متوازن غذا کے موضوع پر کتابوں کا ایک طوفان برپا تھا۔ پہلے تو یہی جی میں آئی کہ ’’اکڑ بکڑ بھمبے بھو” کا فارمولہ اپلائی کیا جائے اور کتاب کا انتخاب کیا جائے، لیکن پھر عقل کو ہاتھ مارا تو یہی سوجھا کہ ’’کلیرینس سیل‘‘والے ریک پر ہاتھ صاف کیا جائے کیونکہ اس ریک پر کتب ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ کتابوں کی کتابیں اور بچت کی بچت۔ کتابوں کا انتخاب کرتے کرتے ہمارے شیطانی دماغ نے پھر پلٹا کھایا اور یہ سوالات اُٹھائے کہ:

یہ کتابیں کلیرنس سیل والے ریک پر کیوں ہیں ؟

کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اِن کتابوں میں جو متوازن غذا کا بیان ہے اُس نے کام نہ کیا ہو اور لوگ مزید پھیل پھول گئے ہوں۔

کیا پتہ لوگوں نے اِن کلیرنس سیل پر موجود کتب سے پرہیز کی روش اختیار کی ہو اور بہتر متوازن غذا پا گئے ہوں۔

متوازن غذا کے باب میں سستی کتابیں ’’نیم حکیم، خطرۂ جان‘‘ کی مثال ہو سکتی تھیں۔ کامیاب نسخہ جات کے حصول کے لئے ہم نے پوری قیمت میں پانچ موٹی موٹی کتابیں خریدیں اور گھر کا رُخ کیا۔

اگلے چند دنوں تک ہم کتابوں کو پڑھنے کے بجائے اُن کی ورق گرانی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کتابوں کے رنگین صفحات پر ایسی ایسی اشتہا انگیز کھانوں کی تصاویر بنی ہوئی تھیں کہ بس دیکھتے جائیے۔ ایک تو اِن کھانوں کے نام بھی خاصے مشکل تھے۔ جانے ماہرینِ غذا اِن ناموں کو دنیا کی کس جناتی زبان سے اخذ کرتے تھے۔ جن جن غذاؤں کے ہجے کرنے میں دشواری محسوس ہوئی، اُن کو معدے کے لئے ضرر رساں خیال کرتے ہوئے نظر انداز کرنا ہی ضروری سمجھا ورنہ ہمارے معدے نے تو ان کے ہجوں کی ادائیگی کی اذیت کو ہی گیسٹک اثرات میں تبدیل کر دینا تھا۔ اِسی طرح ایسی تمام غذاؤں سے اجتناب کرنا بھی ضروری تھا جن کی تیاری میں پندرہ منٹوں سے زیادہ وقت درکار تھا۔ بھلا اِس کمپیوٹر کے عہد میں ایسی ماٹھی غذا کھا کر ہماری صحت نے کون سی ترقی کرنی تھی۔

ہم نے ایسی تمام غذاؤں کو اپنے باورچی خانے سے نکال باہر کیا جو ہمارے جسم کے غبارے میں مزید پھونکیں بھر سکتی تھیں۔ آپ بھی متجسس ہوں گے کہ ایسی کون سی غذائیں ہیں جنہیں ہم نے ’’غیر صحتمندانہ‘‘ کے زمرے میں اِس کامیابی سے ڈال دیا۔ اس معاملے میں ہمیں زیادہ رد و کد نہیں کرنا پڑا کیونکہ ایسی غذاؤں کے استعمال کا ہمارا خاصا وسیع تجربہ تھا جن کے استعمال سے ہمارے چند ڈائٹ فوبیا میں مبتلا دوست مدتوں سے روکتے رہے ہیں۔ مثلاً سنیکس، میٹھی اشیاء اور وہ تمام اشیاء جو ذائقے کے اعتبار سے بے مثال ہوتی ہیں اور جنہیں کھانے کی طرف یہ بے ایمان دل بے ساختہ راغب ہو جاتا ہے۔ خصوصاً رات کے کھانے کے بعد جب تھوڑی بہت فراغت نصیب ہو تو ایسی چیزیں از خود اُڑ اُڑ کر منہ کی طرف لپکتی ہیں۔ چلو اب چھٹی ہوئی، نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بنسری۔

اب ہم نے اپنے ریفریجریٹر سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اِس مہم میں ہم نے دو بڑے کوڑے والے شاپر بیگ بھر ڈالے جو میں نے اپنے بیٹے کوری کو عطیہ کر دئے جو ایسی غیر صحتمندانہ غذاؤں پر مرتا تھا۔ ویسے اُس کے باریک جسم کو ایسی غذا کی فوری ضرورت تھی بھی کیونکہ اُس کی ہڈی پر ماس نام کی کوئی شے موجود نہیں تھی، ہاں البتہ یوں لگتا تھا جیسے تھوڑی بہت ماس بوٹی کہیں مانگ تانگ کر جسم پر منڈھ رکھی ہو۔ اب ہمارے پاس جو پارچہ جات رہ گئے تھے اُس کی تفصیل کچھ یوں تھی۔

’’صحت مندانہ غذا کے پارچہ جات‘‘

چند تازہ گاجریں

نازک اندام سرخ مرچیں

پیاز

انڈے

گرینی سمتھ والوں کے معصوم صورت سیب

سیاستدانوں جیسے کے لیے

اور پانی

اب ظاہر ہے کہ ہمیں ریفریجریٹر کے خلا کو متوازن اور صحتمندانہ غذاؤں سے پُر کرنا تھا کیونکہ ہم بہتر اور صحتمندانہ زندگی کے حصول کے پاکیزہ مشن پر تھے اور مجاہدانہ پیش قدمی کئے جا رہے تھے۔ مقامی ڈیپارٹمینٹل سٹور پر اشیاء کی خریداری شروع ہو گئی۔ جارج نے ڈبل روٹی کا ایک بڑا سا پیکٹ خریداری والی ٹوکری میں ڈالا۔

’’یہ تو صحت بخش غذا نہیں ! ‘‘ میں نے معترض ہو کر کہا۔

جارج غالباً کچھ زیادہ ہی جلدی میں تھا اور سٹور سے ساری کی ساری خریداری اگلے پانچ منٹوں میں ختم کرنا چاہتا تھا۔

’’یہ صحت بخش غذا ہے، دیکھ لو، یہ لکھا ہوا ہے۔ ۔۔ ‘‘ اُس نے ڈبل روٹی کے ریپر کی طرف اشارہ کیا۔ واقعی وہاں واضع لفظوں میں ’’صحت بخش غذا‘‘ کی تحریر موجود تھی۔

’’اِس میں تو گندم اور میدہ ہوتا ہے جو جسم کو موٹا کرتا ہے ‘‘ میں نے کہا۔

اب میں نے ایک نسبتاً فربہ (قریباً پندرہ پونڈ والی) لیکن محفوظ ڈبل روٹی کا انتخاب کیا جس پر ’’ڈائٹ‘‘ کے الفاظ نمایاں طور پر کندہ تھے، جو ہمارے وزن گھٹانے کے مشن کو آسودگی فراہم کرنے کے لئے کافی تھے۔ میں نے جونہی اُسے خریداری والی ٹوکری میں ڈالا، اُس نے پہلے سے ڈالے گئے میٹھے میٹھے انگوروں پر اپنا وزن ڈالا اور اُنہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔

’’اب ذرا دلیے کا پیکٹ ہو جائے۔ ‘‘ جارج نے کہا۔

وہ اپنی مردانہ لا اُبالی روش سے اُس ریک کی طرف بڑھا جہاں مختلف کمپنیوں کے سیریل کے پیکٹ سجائے گئے تھے۔ میں نے اُس کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کی ترقی پذیرانہ کوشش کی لیکن میں چونکہ خریداری والی ٹوکری کو بھی گھسیٹ رہی تھی اور اُس کا وزن ڈبل روٹی کے اضافے کی وجہ سے خاصا بڑھ چکا تھا (لیکن ظاہر ہے کہ ہمارے وزن سے زیادہ نہیں ) اِس لئے ہزار کوششوں کے باوجود بھی من حیث العورت بھی اُس کو نہ پکڑ سکی۔ یوں بھی ڈبل روٹی کے وزن نے ٹوکری کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا تھا، بلکہ اُس کا ایک ٹائر تو احتجاجاً ٹیڑھا میڑھا ہو کر چل رہا تھا۔

جارج نے ریک کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا اور ایک پیکٹ کا انتخاب کیا۔۔ ۔۔ ’’یہ ہے ایک متوازن اور صحت افزا غذا کا جزوِ لانیفک!‘‘

’’جارج! تم نے اس کے اجزا پڑھے ہیں ‘‘ میں نے معترض ہو کر کہا ’’ اس کے چودہ اجزا میں چینی کا ایک بڑا عنصر بھی شامل ہے، اس کے اندر تو اتنی مٹھاس بھری ہوئی ہے جو ایک سفری غبارے کو بھی پھلا دینے کے لئے کافی ہے، سوچو تو ہمارا کیا حال کرے گی!‘‘

’’اچھا؟‘‘ جارج نے کمزور پڑتے ہوئے کہا ’’لیکن اس پر تو لکھا ہے کہ یہ صحت بخش غذا کا جزوِ لانیفک ہے !‘‘

’’صحت سے کمپنی والوں کی مراد غالباً ٹیکسی کو ٹرالا بنا دینے والا عمل ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ غیر صحت بخش غذا کا جزوِ لانیفک اجزا پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں از خود صحت افزا غذا والی غذا درکار ہو گی تاکہ اس کے مضر اثرات کو زائل کیا جا سکے، بالکل اُسی طرح جیسے دواؤں کے خمیازے کو بھگتنے کے لئے مزید دواؤں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ‘‘

’’تو اب تم کیا چاہتی ہو۔۔ ۔ میں کیا کروں ؟‘‘ جارج نے جھنجھلائی ہوئی آواز میں کہا۔

’’میں چاہتی ہوں کہ تم پھلوں اور سبزیوں کے انتخاب میں میری مدد کرو۔ ‘‘ میں نے باربی کی طرح لہجے میں ٹنوں کے حساب سے شیرینی گھولتے ہوئے کہا۔

یہی وہ حربہ تھا جس کو استعمال کر کے میں نے جارج جیسے ترکھے بندے کو اگلے دس سے پندرہ منٹوں تک مصروف رکھا لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اپنی تیز روی کی سرشت سے یکسر تائب ہو گیا ہے۔ محض چار منٹوں کے قلیل عرصے میں وہ پالک، گوبھی، اروی، آلوؤں، ٹماٹروں، گاجروں اور تین عدد گنے کے سٹوں سے لدا پھندا برآمد ہوا۔

’’یہ گنا کس کے لئے ہے ؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

’’اس میں فائبر ہوتا ہے جو صحت کے لئے بہت ضروری ہے، اور غالباً نظامِ انہضام کو درست رکھنے میں بھی معاون ہوتا ہے۔ ‘‘ جارج نے گویا میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔

ہم نے خریداری پر دو سو پونڈ کی خطیر رقم خرچ کر دی۔ پچاس ڈالر واگزار بھی ہو سکتے تھے لیکن اس کا انحصار اس امر پر تھا کہ میں صحت مند ہوتی اور میری یادداشت میرا ساتھ دیتی تو میں ممبر شپ والا کارڈ ساتھ لاتی اور رعایت کی مستحق ٹھہرائی جاتی۔

ہم دونوں گھر پہنچے اور تمام اشیاء کو سلیقے سے اُن کی متعلقہ جگہوں پر سجا دیا۔

جب کچھ آرام سے بیٹھ لئے تو میں نے کہا ’’اب ہمیں ٹنوں کے حساب سے پانی پینا ہو گا، اسی سے ہماری توندوں کو اپنے صحیح مقام پر پہنچنے میں مدد ملے گی۔ ‘‘

’’لیکن مجھے پانی بالکل بھی پسند نہیں۔ ‘‘ جارج نے اعتراض کیا،

’’پسند نہیں، کیا مطلب؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا ’’پانی کا تو کوئی ذائقہ ہوتا ہی نہیں۔ ‘‘

’’یہ میرے حلق میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ ‘‘ جارج نے کہا۔

’’مذاق مت کرو جارج، بھلا ایسی شے جس کا نہ کوئی ذائقہ ہو اور نہ اُس میں کوئی ایسا کثیف جزو ہو جسے نگلنے میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے، وہ بھلا حلق میں کیسے پھنس سکتی ہے، تمھاری بات کچھ پلے نہیں پڑی۔ ‘‘

دو ہفتوں تک تو ہم دونوں پوری شد و مد کے ساتھ متوازن غذاؤں کے نسخہ جات پر عمل پیرا رہے۔ میں دوپہر کا کھانا گول کر جاتی تھی، کلی طور پر سادہ غذاؤں پر انحصار کرتی رہی۔ میٹھے اور ایسے کاربوہائڈریڈز سے یکسر پرہیز کرتی رہی جس سے میری صحت کو کسی قسم کی بدگمانی لاحق ہو پاتی، مثلاً کوکیز، کیک اور کسٹرڈ اور دوسری ایسی میٹھے کی چیزوں سے مکمل طور پر اغماض برتا، پہلے جس سے چشم پوشی کو ہی گناہِ کبیرہ سمجھتی تھی۔

پھر ایک دن ایسا بھی آیا، غالباً تیرہ مارچ کا دن تھا، جب، مجھے احساس ہوا کہ ہمارا ’’جارج اینڈ جینی منصوبہ‘‘ اب ہم میں نہیں رہا۔ پتہ نہیں کیوں ؟

ہم دونوں میں اس سلسلے میں سیر حاصل گفتگو بھی ہوئی۔

میں نے کہا ’’جارج، اس سے تو کام نہیں چلا!‘‘

’’کس سے ؟‘‘ جارج نے پوچھا۔

میں نے جارج کی طرف شکوہ بھری نظروں سے دیکھا۔ مجھے گمان تک نہ تھا کہ وہ مرحوم کو اِتنی جلد بھول جائے گا۔ ’’ہم لوگ پھر سے الا بلا کھا رہے ہیں۔ میری پتلونیں کولہے اور کمر سے نبرد آزما ہیں۔ قمیضیں جسم کے گوشت میں دھنستی جا رہی ہیں۔ خود تمھاری توند بھی مزید لڑھک چلی ہے۔ ‘‘

’’اوہ اچھا یہ۔۔ ۔ ‘‘ جارج نے اپنی توند پر نظر ڈالتے ہوئے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔

مختصر یہ کہ اب میں پچاس کے پیٹھے میں ہوں لیکن زندگی میں کوئی کشش نہیں رہی۔ مجھے اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے خاصی جد و جہد کرنی چاہیئے تھی، خوب ورزش کرنی چاہیئے تھی لیکن ایسا نہیں ہو پا رہا۔ میرے کپڑوں اور دواؤں کا حجم بڑھتا جا رہا ہے اور اب مجھے یہ فکر ستائے جا رہی ہے کہ پچاس کے پیٹھے میں یہ حال ہے تو جب میری عمر کا ساٹھواں برس شروع ہو گا تو پھر کیا ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہنسپتالیات

 

ناک کان گلا

 

                   ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

 

اگرچہ انسانی چہرے پہ ناک کان اور گلا الگ الگ اعضا ء ہیں مگر ان کا اندرونی باہمی تعلق، انہیں ایک ہی اسپیشلسٹ کے سایۂ عاطفت میں رہنے کا موقع بہم پہنچاتا ہے۔ اس تعلق کو ڈاکٹر مظہر عباس نے اپنی اس نظم میں بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔

 

تھری اِن ون

کیجئے کیسے جسم و جان الگ

کر نہیں سکتے ناک کان الگ

لفظ کچھ اِس طرح سے بل کھائے

کان اُلٹائیں ناک بن جائے

اور ان سے نہیں الگ ہے گلا

اس لئے کر دیا انہیں یک جا

ہے مقام ان کا اعلیٰ و ارفع

یہ ٹریفک ہے بھائی سہ طرفہ

ہیں جراثیم ایک جیسے یہاں

تینوں اطراف بس یہی ہیں رواں

ہو گلے کا مرض کسی کو اگر

ناک اور کان میں بھی پھیلے شر

’’سوزشِ ناک‘‘ سے جو ہوں چھینکیں

حلق سے بھی نکلتی ہیں چیخیں

دونوں اپنی جگہ پہ ہوں بے کل

ناک ہو بند، کان ہو جل تھل

’’ٹانسل‘‘ میں اگر ہو ’’ انفیکشن ‘‘

پھیلے یہ ناک، کان میں فوراً

ہے بنی اس طرح کی صورتِ حال

تینوں اعضاء کا ایک ہی ہے مآل

ہوں بہم مبتلائے بیماری

تینوں اعضاء میں ہے بہت یاری

بولے اسپیشلسٹِ ’’ای۔ این۔ ٹی‘‘

ہے سراسر ہمیں خسارا ہی

بِل الگ ان کا دے نہیں سکتے

فیس بھی پوری لے نہیں سکتے

ایک نسخہ کرے انہیں اچھا

اِک دوا ہے علاج تینوں کا

ایک میں تین کا اُٹھائیں مزا

سب مریضانِ ناک، کان، گلا

 

ناک

سید محمد جعفری نے اپنی اک نظم میں ناک کے بارے میں کہا تھا

ناک وہ ناک خطرناک جسے کہتے ہیں

اگرچہ شعبۂ طب میں ناک کی ساخت اور اس کے افعال و امراض پر ہزاروں کتابیں تصنیف کی جا چکی ہیں مگر شاعرانِ کرام اپنے اپنے طریقے سے ناک کی ناک پکڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جناب انور مسعود ناک کے جغرافیے پہ اس طرح رقم طراز ہیں ؎

چہرے کو یہ دو حصوں میں کر دیتی ہے تقسیم

یہ ناک نہیں ہے خطِ تنصیف ہے بلکہ

ناک، زکام اور فلو

ناک کے امراض میں نزلہ اور فلو اس قدر عام ہیں کہ موسم سرما آیا اور اکثر بچے بوڑھے اور جوان اس مرض کا شکار ہوئے۔

چمن ہے ابر ہے ٹھنڈی ہوا ہے کیا سمجھے

اسی سے آپ کو نزلہ ہوا ہے کیا سمجھے

عنایت علی خان

سکوں سے بیٹھ کے کیا ہم سے گفتگو کرتے

وہ ناک پونچھتے آئے فلو فلو کرتے

چونچال سیالکوٹی

فلو کے اثرات کو عاشقِ نامراد کی ہیئت کذائی سے جوڑتے ہوئے معروف مزاحیہ شاعر جناب سرفراز شاہد فرماتے ہیں۔

شکستہ جسم تھا اور دردِ سر بھی

رواں آنکھوں سے بھی اک سیلِ جُو تھا

میں آغازِ محبت جس کو سمجھا

حقیقت میں وہ آغازِ فلو تھا

فلو نے جو انفلوینزا وائرس کا شاخسانہ ہے اکبر الہ آبای کو بھی نہیں بخشا ؎

انفلوائنزا چڑھا ہے چوگاں بازی اب کہاں

اسپتالی ہو رہے ہیں اسپ بازی اب کہاں

چارے کی قلت ہوئی تو بیل بھی مرنے لگے

انفلوئنزا جب ہوا تو نیل بھی مرنے لگے

ہدایت اللہ ناظر ٹونکی اپنی ’’مرض بیتی‘‘ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔

وید جی نے نبض پکڑی اور کہا کیا حال ہے

عرض کی میں نے کہ سارے جسم میں بھونچال ہے

حلق سوکھا جائے ہے اور دل گھمیری کھائے ہے

ہائے ظالم انفلوئنزا کیوں مجھے تڑپائے ہے

جسم پر ہر دم پسینہ جیسے ساون کی پھوار

بجلیاں ہی سر میں چمکیں سینہ گرجے بار بار

دل تو گھونٹے کھائے ہے کھانسی ملہار گائے ہے

کالی مرچیں سونٹھ پیپل اور منقیٰ سوختہ

داب دینا گوڈری سے تا پسینہ دیں بہا

ہائے اللہ مار ڈالا جان نکلی جائے ہے

ڈاکٹر نے فیس لی اور ڈٹ کے میرے روبرو

بولا کچھ اس طرح What can I do sir for you

میں نے ڈر کر یہ کہا بیگم یہ کیوں برّائے ہے

جدید ترین دور کے متعدد مزاح نگاروں نے نزلہ زکام اور فلو پر قلمی موشگافیاں کی ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں ؎

بہہ رہی ہے رات بھر سے ناک، سر میں درد ہے

اور کچھ سنتے نہیں ہیں کان باقی خیر ہے

سید فہیم الدین

وزارت میں اس کو فلو ہو گیا تو

وہ سرکاری خرچے پہ امریکہ جاسی

شاہدہ ناز

کچھ تو سبب ہے جو مجھے آتی ہے چھینک رات دن

رہتے ہیں آپ ہر گھڑی شاید مرے خیال میں

شوکت جمال

اور ڈاکٹر مظہر عباس رضوی نے تو اس مرض پر ’’ زکامی غزل‘‘ کے عنوان سے بالکل نئے انداز میں مضحک صورت حال کا ذکر کیا ہے، اپنی کتاب ہنسپتالی شاعری میں لکھتے ہیں ’’شدید نزلہ زکام میں ایک دن غزل پڑھنے لگے تو کچھ اس قسم کی صورتحال بن گئی۔ ‘‘

دل فدا ہے ترے رخسارِ حسیں پر، ’’آچھیں !‘‘

یاد کرتا ہوں تجھے چھینک کے دلبر، ’’آچھیں !‘‘

تشنگی روح کی بجھ جائے گی آ جاؤ صنم

جوشِ جذبات سے لبریز ہے ساغر، ’’آچھیں !‘‘

آنکھ ہی تر نہیں میری، تری یادوں کے طفیل

ناک بھی گریہ کناں اب ہے برابر، ’’ آچھیں !‘‘

تو سمجھتا ہے کہ آئی ہے یہ برکھا کی پھوار

بے خبر دیکھ یہ کچھ اور ہے منہ پر، ’’آچھیں !‘‘

جب بھی چاہا کہ کروں بات میں دل کی تجھ سے

آیا بے ساختہ اُس دم مرے لب پر، ’’آچھیں !‘‘

ایک رو مال پہ ہے سینکڑوں چھینکوں کا وصال

دے ٹشو مجھ کو بہت سے مرے دلبر، ’’آچھیں !‘‘

پھول مہکیں نہ کہیں غنچے کھلیں اب کی بہار

ورنہ ہم کرتے رہیں گے یہاں دن بھر ’’آچھیں !‘‘

ہم تو آئے تھے دبے پاؤں تری محفل میں

چھینک نے آ کے بپا کر دیا محشر، ’’آچھیں !‘‘

صرف مطلع ہی سمجھ میں ہمیں آیا ان کا

ورنہ ہر شعر پہ کرتے تھے سخنور، ’’آچھیں !‘‘

ڈر قیامت سے بھی اُس کو نہ لگے گا مظہرؔ

دیکھ لے جو کوئی اس چھینک کا منظر، ’’آچھیں !‘‘

 

کینسر

جناب عنائت علی خان صاحب کے والد جناب ناظرؔ ٹونکی آخری عمر میں ناک کے کینسر کا شکار ہو گئے اور بالآخر اسی مرض میں جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی مگر درج ذیل شعر میں اس مرض کی خطرناکی کے باوجود ناظرؔ صاحب نے ظرافت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

ناک کے زخم سے ہے ناک میں دم ناظرؔ کا

خوبصورت تھی کبھی اب ہے خطرناک یہ ناک

نکسیر

ناک سے خون کا جاری ہو جانا ایک عام سی بیماری ہے۔ اگرچہ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر نکسیر کی اس قدر شاعرانہ و ظریفانہ وجہ ڈاکٹر حضرات کی تشخیص میں نہیں آ سکتی۔ مشہور مزاحیہ شاعر جناب ظریف لکھنوی کے بقول

شمیمِ زلف مشکیں سونگھ کر نکسیر پھوٹی ہے

ترے بالوں کی بو سے ناک میں آیا ہے دم میرا

کان

کان وہ عضو سماعت ہے کہ جس سے دنیائے حرف و صوت میں ساز و آواز کے جلترنگ سنے جاتے ہیں۔ لیکن شاعرانِ ظرافت انسان کے علاوہ بھی کان کی کان دریافت کر لیتے ہیں

ایسے دیوار کے بھی کیا ہوں گے

جیسے ہمسایہ کان رکھتا ہے

نذیر احمد شیخ

ہے شبِ وصل بولو آہستہ

چارپائی بھی کان رکھتی ہے

جگت موہن

جب کہ انورؔ مسعود غوغائے دہر سے بہت پریشان نظر آتے ہیں۔

چاروں طرف ہیں گوش خراشی کے سلسلے

اک شور آٹھ پہر ہے اور ہم ہیں دوستو

کس امتحان میں ہے سماعت نہ پوچھئے

غوغائے بزمِ دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

کان کی ساخت

بہت کم حضرات کو شاید معلوم ہو کہ درمیانی کان کے حصے میں تین باریک ہڈیاں ہوتی ہیں جنہیں ossicles کہتے ہیں۔ ظریف ڈاکٹر شاعر مظہر عباس اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں ؎

اُستخواں ہیں بدن میں ہر جانب

گوشِ خانہ خراب میں ہڈّی

اور جناب امیرالاسلام ہاشمی کان کے پردے کا ذکر چھیڑتے ہیں تو انہیں کچھ اور بھی یاد آ جاتا ہے۔

کان مت دھرنا کہیں ذکر جو پردے کا چھڑے

ورنہ جو باقی ہے وہ بھی نہ رہے گا باقی

نام تک پردے کا سننے کو ترس جاؤ گے

کم سے کم ہے تو ابھی کان کا پردہ باقی

کان کا درد

یہ تجھے چین کیوں نہیں پڑتا

درد زیادہ ہے تیرے کان میں کیا

سید فہیم الدین

بہرہ پن

ثقلِ سماعت کی بیماری صرف مریض کو ہی متاثر نہیں کرتی بلکہ اکثر پورے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ معاشرتی روئیے مریض اور اس کے لواحقین کے لئے اکثر شدید پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔ مزاحیہ شعرا ء اس مشکل صورت حال میں بھی تفنن طبع کا پہلو نکال لیتے ہیں۔ مثلاً دو بہرے شناساؤں کی ملاقات کا احوال دیکھئے۔ جناب ضمیر جعفری فرماتے ہیں ؎

اُس نے کہا آداب کرتا ہوں کہو کیا حال ہے

اِس نے کہا ٹھیلے ہیں دو رو مال ہیں، اک تھال ہے

اُس نے کہا بیمار ہے بیگم گزشتہ رات سے

اِس نے کہا اچھی کہی دل خوش ہوا اس بات سے

ایک موضوع پہ اگر بہت سے لوگ لکھیں تو کبھی کبھی ایک ہی طرح کی چیزیں سامنے آ جاتی ہیں۔ تضمینی اشعار میں اس کا امکان زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ نقل ہی ہو۔ البتہ شعری زبان میں اسے توارد کہا جاتا ہے جس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے

آپ بہرے ہیں تو ہم ہوں آپ سے کیا بہرہ مند

’’ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے کیا‘‘

عاصی اختر

کچھ مداوا کیجئے بہرے پن کا آ کرتا بہ کہہ

’ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے کیا ‘

عظیم عباسی

پچھلے زمانے میں کہ جب مشاعرے صرف شعرا پرہی مشتمل نہیں ہوتے تھے اور سامعین بھی اس میں شرکت فرما لیتے تھے، داد دینے کے مختلف طریقے اپنائے جاتے تھے۔ داد و تحسین، واہ واہ، کیا کہنے، سبحان اللہ، اجی کیا بات ہے، کیا نکتہ آرائی ہے، کیا عمدہ خیال باندھا ہے، سے بڑھتے بڑھتے وارفتگی میں یوں تبدیل ہو جاتی کہ ہائے ہائے مار ڈالا، واللہ گھائل کر دیا جیسے خطرناک جملے بھی سننے میں آ جاتے تھے۔ شاعر کی حوصلہ افزائی کے لئے مکر ر، یا دوبارہ ارشاد فرمائیں بہت عام سا جملہ بن گیا تھا۔ انورمسعود کی طبیعت کی شوخی نے مکرر اور دوبارہ کے ملاپ سے ایک نئے لفظ دوبرّر کو جنم دیا۔ مکرر کے بارے میں ایک سچا واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مشاعرے کی صدارت کوئی فوجی جرنیل صاحب فرما رہے تھے انہیں مکرر مکرر سمجھ نہ آیا۔ وضاحت پر صاحبِ صدر نے مائیک سنبھالا اور جرنیلی حکم دیتے ہوئے بولے کہ آپ لوگ ایک ہی بار توجہ سے تمام اشعار سنیں۔ یہ شعرا آپ کے باپ کے نوکر نہیں ہیں کہ بار بار آپ کو ایک ہی شعر سناتے رہیں ؎

دوبارہ وہی بات کیوں پوچھتے ہو

اگر تم کو ثقلِ سماعت نہیں ہے

جوش ملیسانی

ثقلِ سماعت کے فوائد کوئی عاشق ہی سوچ سکتا ہے۔ عظیم عباسی اور ڈاکٹر مظہر عباس اس بارے میں کہتے ہیں

مرا ثقلِ سماعت پردہ دار رازِ الفت ہے

وہ محفل میں بھی مجھ سے بات کرتے ہیں اشاروں میں

عظیم عباسی

بیوی مجھ پر چیختی ہے تم تو کچھ سنتے نہیں

میں ہوں بہرا یا فقط بیوی کا یہ الزام ہے

ڈاکٹر سن کر یہ بولے کیجئے شکُرِ خدا

آپ پر اللہ کا یہ تو بڑا انعام ہے

ڈاکٹر مظہر عباس

ثقل سماعت کا علاج آلۂ سماعت سے ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس مشکل سے نجات پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، مگر ڈاکٹر مظہرعباس اس آلے کی اور بہت سی خوبیاں بھی جانتے ہیں۔

کیجئے جب چاہیں ہر آوازِ ناہنجار بند

اب سماعت پر ہے صاحب آپ کو کُل اختیار

اک سوئچ کے فاصلے پر یہ سہولت پیش ہے

تنگ کر سکتی نہیں بیگم کی اب ’’چیخ و پکار‘‘

گلا

گلا انسان کا ہو یا قمیص کا کبھی کبھار یوں باعث مصیبت بھی بن جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر مظہر عباس۔

پکڑ کر لے گئے تھانے میں اس کو کچھ پولِس والے

کہا درزی نے جب کاٹا گلا تھا میں نے صاحب کا

ہوئی چھترول درزی کی، بڑھی تفتیش کچھ آگے

تو صاحب کے بجائے اُن کے کُرتے کا گلا نِکلا

بچوں کو گلے سے یہی گلہ ہے اور گلے کی سب سے بڑی خرابی بھی یہی ہے کہ وہ اکثر ذرا سی کام و دہن کی لغزش سے خراب ہو جاتا ہے۔ گالی کی تخلیق ذہن میں ہوتی ہے اور زبان کے ذریعے گلے یا حلق سے نکلتی ہے۔ موسیقی کے کومل سُر جب بے خود کرتے ہیں تو نغمہ و آہنگ کی جوت یہیں پہ جلتی ہے۔ درد جب حد سے سوا ہو جائے تو آہ و کراہ یہیں پہ ہاتھ ملتی ہے۔ غرض حلق آوازوں کی آماجگاہ ہے۔ ہر قسم کا صوت و آہنگ نرخرے سے جنم لیتا ہوا حلق سے ہی برآمد ہوتا ہے۔ خراٹے سونے میں بولنے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ کہ ثانی الذکر کیفیت کچھ دیر وقوع پذیر ہونے کے بعد ختم ہو جاتی ہے مگر خراٹے ہیں کہ مسلسل سمع خراشی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ اور پھر اگر یہ خراٹے شب وصل اپنا رنگ دکھانے لگیں تو بے بسی دیدنی ہوتی ہے۔ شاعرِ خوش فکر نذیر احمد شیخ اس منظر کو یوں احاطۂ نظم میں لاتے ہیں۔

عجب صورت ہے ٹوٹے ہیں شبِ ہجراں کے سناٹے

محبت جاگتی ہے اور صنم بھرتا ہے خراٹے

جوانی کی سلگتی رات کوئی کس طرح کاٹے

کہاں تک آدمی سوئی ہوئی قسمت کا منہ چاٹے

کبھی نتھنوں میں چڑیا چہچہاتی اور پھڑکتی ہے

کبھی بادل گرجتا ہے کہیں بجلی کڑکتی ہے

ابھی سیٹی بجی تھی لیجئے گاڑی کھڑکتی ہے

ذرا چھیڑو تو پھر یہ آگ تیزی سے بھڑکتی ہے

قیامت ہیں بھری برسات کی بھیگی ہوئی راتیں

یہاں پہ حسن کا عالم کہیں سر ہے کہیں لاتیں

بچارا ناک ہی کرتا ہے ہم سے پیار کی باتیں

برستی ہوں کسی پتھر زمیں پر جیسے برساتیں

ڈاکٹر جہاں مرض کی تشخیص کرتا ہے وہیں اس کے علاج کی تلاش میں بھی کوشاں رہتا ہے۔ جدید سائینسی تحقیق پر جب شاعر ظریف جناب دلاور فگار کی نظر پڑی تو ان کو ایک اور تشویش لاحق ہو گئی ؎

روس خراٹوں کا رستہ روکتا تو ہے مگر

رخ بدل کر ہو گیا خارج یہ خراٹا تو پھر

زبان

لذتِ کام و دہن ہو یا آواز ساز و سخن، زبان ہر جگہ اپنے جوہر دکھاتی ہے۔ بقول جوشؔ ملیح آبادی

لب ہلے تو کشتیاں چلنے لگیں اعجاز کی

فکرِ انساں کو سواری مل گئی آواز کی

مگر غالب کے شکوہ کو ڈاکٹر مظہر عباس بہ زبانِ مریض اس طرح بیان کرتے ہیں۔

تھرمامیٹر سے بند کر کے منہ

نسخہ لکھنے کی یہ ادا کیا ہے

’’ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

کاش پوچھو کہ مُدّعا کیا ہے ‘‘

زبان رواں ہو تو اس کی سبک خیزیاں اور جولانیاں اپنے جوبن پہ ہوتی ہیں۔ مگر کبھی کبھی اس میں لڑکھڑاہٹ آ جائے یا تلفظ اپنا اصل برقرار نہ رکھ سکے تو توتلاپن اور ہکلاہٹ مریض اور سامع دونوں کے لئے بہ یک وقت باعث پریشانی ہو جاتی ہیں۔

توتلاہٹ

ان کا دل جیتا ہے ہم نے تو زباں کے زور پر

چلبلا انداز ان کو بھا گیا، اچھا لگا

ناز تتلاہٹ پہ بتلاؤ ہمیں کیونکر نہ ہو

لڑکیاں کہتی ہیں تیرا بولنا اچھا لگا

ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

ہکلاہٹ

ہماری نظروں سے دو شعرا کی ہکلی غزلیں گزری ہیں جو پیش خدمت ہیں۔

رَ رَ ریڈیو سے جَ جنگ کی خَ خبر سَ سن کے مگن نہ ہو

صَ صفیر طائرِ خوشنوا نَ نفیر زاغ و زغن نہ ہو

مَ مجھ میں اور تَ تَ تجھ میں جو رَ رَ ربط اور ضَ ضَ ضبط ہے

بَ بَ بلبل اور گَ گَ گل میں بھی مَ میانۂ چَ چمن نہ ہو

نَ نَ نامہ بر شَ شو پنج میں مَ مَ مجھ سے ہے پہ پہ پوچھتا

کَ کمر تو ان کی ھ ہے نہیں کہ کہ کیا کروں جو دہن نہ ہو

ح حقیقتمم منتظرل لباس میںم مجاز کے

ج جدید طرز کاشعر ہےک ک کوئی صنف سخن نہ ہو

َرَ رقیب روسیاہ بزم سے نَ نکل گیا تورَرو پڑا

م مزا تو جب ہے پہ پٹ کے بھی مَ مَ ماتھے پرش شکن نہ ہو

نہ نہ جائے رَر رقیب کے گھَ گھَ گھر خدا کے وَ واسطے

رَ رفیق اس کو نہ جانئے جو مَ مجھ سا نیک چلن نہ ہو

شَ شَ شیخ شہر کو کیا کہوں سَ سمجھ لیں آپ بَ بس یہی

مَ مَ مقبروں کا ہو پاسباں کَ کسی لحد میں کفن نہ ہو

سید محمد جعفری

ک کَ کیا گلہ زَ زَ زندگی جو صعوبتوں کا سفر ہوئی

غَ غَ غم نہیں تہہ آسماں جَ جَ جس طرح بھی بسر ہوئی

د دَ دردناک غضب کی تھی دَ دَ داستانِ الم مری

ک کَ کوئی بھی تو نہ تھا وہاں جَ جَ جس کی آنکھ نہ تر ہوئی

چ چَ چپکے چپکے چلا کیا چَ چَ چشم ناز سے سلسلہ

نہ کسی کو بھی کسی بات کی کَ کَ کانوں کان خبر ہوئی

ر رَ روشنی بھی ذرا ذرا تَ تَ تیرگی بھی ذرا ذرا

کک کچھ بھی مجھ کو خبر نہیں شَ شَ شام ہے کہ سحر ہوئی

ہے نمود فصلِ بہار کی جَ جَ جا بجا مَ مَ مختلف

ل لَ لال چہرہٗ گل ہوا سَ سَ سبز شاخ شجر ہوئی

غ غَ غیر کو بھی وہی ملا جو ترا نصیب تھا انورا

یَ یَ یار کی نظر کرم نہ ادھر ہوئی نہ ادھر ہوئی

انور مسعود

اسپیچ تھیریپی

تتلاہٹ اور ہکلاہٹ جیسے امراض کے لئے زبان کی ورزشیں کرائی جاتی ہیں اور اس عمل کواسپیچ تھراپی کہا جاتا ہے۔

چلائے بچہ جو ہم سے زباں تو ہم ڈانٹیں

کہ اچھا لگتا نہیں اُس کا گڑبڑی کرنا

زباں چلانے کی دیتے ہیں تربیت وہ یہاں

اور اِس کو کہتے ہیں اسپیچ تھیریپی کرنا

ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

٭٭٭

 

 

 

ہزلیات و شگفتیات

 

                   شوکتؔ جمال

 

پڑا ڈاکا گلی میں دن دیہاڑے

پولس والے مگر آئے نہ آڑے

 

اکڑتا ہے عدو شہ پر تمہاری

وگرنہ وہ ہمارا کیا بگاڑے

 

تمہیں وہ دن بھی یاد آتے تو ہوں گے

رٹا کرتے تھے جب ہم تم پہاڑے

 

’’پروموٹر‘‘ ہوئے ٹی وی کے ’’اینکر‘‘

کریں برپا سیاست کے اَکھاڑے

 

یہ طے ہے ہم نہ چھوڑیں گے ترا در

رگیدے ’’خان‘‘ ہم کو یا پچھاڑے

 

لکھا کرتے تھے جن پر نام عاشق

حکومت نے شجر وہ سب اُکھاڑے

 

رہے دنیا میں تم شوکتؔ مگر یوں

بنائے کام کم، زیادہ بگاڑے

 

                   منیر انورؔ

 

 

 

 

مزاجاً جب کریلا ہو گیا ہے

ترا شاعر اکیلا ہو گیا ہے

 

خلائی شاعری اک مہ جبیں کی

جھمیلے پر جھمیلا ہو گیا ہے

 

مقدر سے ملی جو ایک بیوی

مرے گھر میں بھی میلہ ہو گیا ہے

 

یہی دل تھا کبھی اخروٹ جیسا

تجھے پا کر جو کیلا ہو گیا ہے

 

تری میں میں بتاتی ہے کہ تو بھی

کسی لیلیٰ کا ’’لیلا‘‘ ہو گیا ہے

 

تمہارا نام آیا تھا زباں پر

مرے اطراف میلہ ہو گیا ہے

 

تمہارے دل میں رونق ہے تو کیا غم

ہمارا دل بھی ’’بیلا‘‘ ہو گیا ہے

 

نہ پوچھو کاروبارِ زیست انورؔ

جو تھا اسٹور، ٹھیلہ ہو گیا ہے

 

                   احمدؔ علوی

 

سنا جاتا ہے قاری صاب سے قرآن ٹی وی پر

ترو تازہ ہوا کرتا ہے اب ایمان ٹی وی پر

 

مراتب بڑھ گئے ہیں ان کے بیگم کی نگاہوں میں

نظر آنے لگے ہیں مولوی منان ٹی وی پر

 

تلاش چاند کرتے تھے کبھی ہم آسمانوں میں

مگر ہوتا ہے اب تو عید کا اعلان ٹی وی پر

 

طوائف زادیوں کے دوستو کوٹھے ہوئے سونے

غزل پر رقص فرماتی ہیں صاحب جان ٹی وی پر

 

بڑا ہے جانور پردہ بہت چھوٹا ہے ٹی وی کا

بتائیں اونٹ کو کیسے کریں قربان ٹی وی پر

 

بلاوے آئیں گے ان کو یقیناً ساری دنیا سے

مسلمانی اگر کرنے لگیں سلمان ٹی وی پر

 

سکوں سے نیند بھر کے سو رہا ہے دوستو اب تو

بھروسہ کر رہا ہے کس قدر شیطان ٹی وی پر

 

                   عتیق الرحمٰن صفیؔ

 

 

پہلے پیار کی پہلی باتیں یاد دلانے آیا ہوں

ڈنڈے سوٹے مُکّے لاتیں یاد دلانے آیا ہوں

 

جہاں پہ ہم تم ملتے تھے وہ سارے منظر بدل گئے

ڈَڈُّو چھپڑ اور برساتیں یاد دلانے آیا ہوں

 

یاد ہے نا ہم رات گئے تک باندر کلّا کھیلتے تھے

جوتے پڑنے والی راتیں یاد دلانے آیا ہوں

 

اِک دوجے پر سبقت کتنی بے معنی سی ہوتی تھی

سچی جھوٹی جیتیں ماتیں یاد دلانے آیا ہوں

 

شہر میں آ کر بھول گئے جو اپنے سارے رشتوں کو

اُن کو اُن کی اصلی ذاتیں یاد دلانے آیا ہوں

 

                   ڈاکٹر عزیزؔ فیصل

 

چالبازوں نے چالبازی کی

حسبِ منصب شکم نوازی کی

 

ایک با ذوق صاحب دل نے

عمر بھر شاعرات سازی کی

 

اس نے بیوی کے منہ پہ مجبوراً

مہ جبینوں سے بے نیازی کی

 

کیس میں ایکڑوں زمین بکی

بات تھی چند فٹ اراضی کی

 

کس نے بیٹے کو عشق سے روکا؟

دے کے اپنی مثال ماضی کی

 

کہہ کے مجھ کو شریف، لوگوں نے

مری توہین امتیازی کی

 

رنگے ہاتھوں غریب پکڑا گیا

شہر بھر نے زباں درازی کی

 

                   ڈاکٹر عزیزؔ فیصل

 

 

لب پہ رکھی سدا ہنسی میں نے

آنسووں کی نہ اک سنی میں نے

 

ہجر کا بھی بجٹ بنایا ہے

سیکھ کے گُر کفایتی میں نے

 

رٹ لیئے ہیں جوا۔ب شکوہ کو

چند شکوے روایتی میں نے

 

پال رکھے ہیں چند ٹکوں پر

کتنے سستے حمایتی میں نے

 

سب مراعات لوٹ کے بھی سدا

خود کو رکھا شکایتی میں نے

 

اس کو ’’ مس ورلڈ‘‘ کہہ دیا آخر

دے کے نمبر رعایتی میں نے

 

۔۔ ق۔۔

 

وصل کی بات اس سے پکی کی

بذریعۂ سفارشی میں نے

 

دل پہ تالا لگا کے پیتل کا

دی بشیراں کو جا کے ’’کی‘‘ میں نے

۔۔ ۔۔ ۔

 

اپنے دیسی وجود پر فیصلؔ

سوٹ پہنا ولایتی میں نے

 

                   عرفان قادرؔ

 

خوش نہیں اتنا وہ شیطاں کی گرفتاری پر

جتنا دلشاد ہے رمضان میں افطاری پر

 

زن مریدی کی وبا پھیلتی جاتی ہے بہت

’’کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر‘‘

 

خوابِ خرگوش کے لیتا ہے مزے جو دن میں

سامنے باس کھڑا پائے گا بیداری پر

 

آشیانے کی جگہ خود ہی پرندے ڈھونڈیں

ہم غریبوں کو نہ اکساؤ شجر کاری پر

 

پہلے رفتار ہوا کرتی ہے بیلن کی سلو

اور تیزی سے چلاتی ہے مری زاری پر

 

دیس کو لوٹ لیا خادمِ اعلیٰ بن کر

جاؤں قربان تری ایسی اداکاری پر

 

کر چکا میری ’’زمیں ‘‘ دوسرے شاعر کو الاٹ

کس عدالت میں کروں کیس مَیں، پٹواری پر

 

پار کرتی ہو گھڑے پر ہی جو ہر بار چناب

ہیڈ مرالہ سے ہے آسان، چلو لاری پر

 

                   عرفان قادرؔ

 

سو رُپے ایڈوانس لے کر، اب دغا دینے لگے

تھا غزل کا کنٹریکٹ، اِک ماہیا دینے لگے

 

چڑھ گیا جب پیڑ پر ہاتھی تو پھونکیں مار کر

"جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے ”

 

سامنے آئیں نہ تاکہ کچھ کرپشن کے ثبوت

سب کے سب اک دوسرے کو آسرا دینے لگے

 

جب یہ جانا ایک شے ہے، مارکیٹنگ کا ہے فرق

نان چھولے بھی ہیں پززے کا مزا دینے لگے

 

دو مہینوں سے نہ کھانے کو دیا کنجوس نے

دانت کے کیڑے بھی آخر بد دُعا دینے لگے

 

کون ظالم ہیں جو "شیشے ” کی شکل میں زہر ہی

نوجوانوں کو برائے شپ شپا دینے لگے

 

ہم نے دیکھی اُن کے گھر کی راہ گوگل ارتھ پر

پھر نہ جانے کیوں غلط گھر کا پتا دینے لگے

 

جُڑ سکا ایلفی سے بھی سو بار جب اُن سے نہیں

تب ہمیں ویلڈنگ کو دِل ٹوٹا ہُوا دینے لگے

 

کیا بنے اُس قوم کا جو ہو گئی اتنی کرپٹ

کام جائز کی بھی رشوت جا بجا دینے لگے

 

                   تنویر پھولؔ

 

 

لِسٹ میں بیگم! نئی شلوار لکھ

آ رہا ہے عید کا تہوار لکھ

 

چور اُچکّے بن گئے شب زندہ دار

اور چوکیدار ہے بیمار لکھ

 

اُس کی آنکھیں مثل اُلّو گول گول

وہ ہے لومڑ کی طرح مکّار لکھ

 

پیر صاحب کا رویّہ دیکھ کر

سب مرید اُن سے ہوئے بیزار لکھ

 

مرغیوں کا تو بہاتا رہ لہو

کتنے چرغے ہو گئے تیار ؟ لکھ

 

رشوتیں کھا کر ہے پھیلی اُس کی توند

پھٹنے والی اُس کی ہے شلوار لکھ

 

ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے گوبھی کے پھول

پھولؔ جی لائے ہیں وہ تلوار لکھ

 

                   تنویر پھولؔ

 

 

اپنے مُکھڑے پہ سجا کر وہ نقاب آتا ہے

ڈالنے ڈاکا یہاں خانہ خراب آتا ہے

 

منظرِ کُرسی میں لیڈر کی ہیں الجھی ہیں

سامنے جیسے شرابی کے کباب آتا ہے

 

مُکھڑا جیسا بھی نظر آئے، اُسے ہم دیکھیں

کون ہے وہ جسے حوروں ہی کا خواب آتا ہے

 

ساس جو تیری ہے، دیتی ہے سسر کو الزام

روز ہاتھوں میں لئے جامِ شراب آتا ہے

 

پیر صاحب کی سیہ ریش معمہ تو نہیں

روز و شب ان کے لیے کالا خضاب آتا ہے

 

مہرباں آج ہے، سالے کی عنایت دیکھو!

ہاتھ میں تھامے ہوئے کھیر کا قاب آتا ہے

 

نام ہے اُس کا حجاب، آئی وہ ہولے ہولے

پھولؔ سے بولی حجاب، اب تو حجاب آتا ہے

 

                   محمد ایوب صابرؔ

 

 

ابھی تک ہے جواں اُس کو ابھی آنٹی نہیں کہنا

کرو سب سے بیاں اُس کو ابھی آنٹی نہیں کہنا

 

ابھی تو عقل کی اک داڑھ بھی اُس کی نہیں نکلی

وہ ہو گی بدگماں اُس کو ابھی آنٹی نہیں کہنا

 

کسی کونے میں چُھپ جاؤ وہ تم کو ڈھونڈ لائے گی

ملے کیسے اماں اُس کو ابھی آنٹی نہیں کہنا

 

یہ آنٹی لفظ نے اُس کا ہے جینا کر دیا مشکل

وہ اب جائے کہاں اُس کو ابھی آنٹی نہیں کہنا

 

کرائے دار کو وہ پاؤں کی ٹھوکر پہ رکھتی ہے

وہ ہے مالک مکاں اُس کو ابھی آنٹی نہیں کہنا

 

اگر بھولے سے بھی تم نے کبھی جو کہہ دیا آنٹی

وہ کھینچے زباں اُس کو ابھی آنٹی نہیں کہنا

 

ابھی تک اُس کا غصہ تم نے دیکھا ہی نہیں صابرؔ

وہ اک آتش فشاں، اُس کو ابھی آنٹی نہیں کہنا

 

                   ابنِ منیب

 

 

اے سی نہ سہی پنکھا چلانے کے لئے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ

 

کب سے تِری حدت سے ہے محروم زمانہ

روٹی پڑی توّے پہ پکانے کے لئے آ

 

اب تو مِرے بچے مجھے کہنے لگے "سائیں ”

کچھ اور نہیں منہ ہی دُھلانے کے لئے آ

 

لیڈر ہے تُو، باہر ہے تُو، تڑپیں تِرے ور کر

تُو ہم سے خفا ہے تو خزانے کے لئے آ

 

بھرتا ہے مِرا پیٹ تِرا جوشِ خطابت

تقریر وہی پھر سے سنانے کے لئے آ

 

کرتی ہے بہت خوار رہِ شہرِ تمنا

اِک روڈ وہاں تک بھی بنانے کے لئے آ

 

دفتر میں ذرا دیر ہو، چِلّائے ہے بیگم

ابّا ہے تُو، بچوں کو ڈرانے کے لئے آ

 

ہتھیار کیے تیز، نگہ، غمزہ و اَبرو

چُپکے سے کبھی دل کو اٹھانے کے لئے آ

 

ڈھونڈے ہے تجھے رویتِ خوباں کی کمیٹی

اے ماہ جبیں عید کرانے کے لئے آ

 

                   نویدؔ صدیقی

 

بعد فیشل کے عجب رنگِ جواں ہوتا ہے

ہر مذکر پہ مؤنث کا گماں ہوتا ہے

تیری جانب سے کروں صاف میں کیسے دل کو

دل پہ لکھا ہوا ڈیلیٹ کہاں ہوتا ہے

ڈھونڈ لیتا ہے بہرحال وہ معشوقہ کو

عاشقِ زار بھی جغرافیہ داں ہوتا ہے

گھر میں ہوتی نہیں جب اہلیہ اس دم وہ گھر

لوگ کہتے ہیں کہ فردوس نشاں ہوتا ہے

درمیاں نیوز کے آ جاتا ہے جب آئیٹم سانگ

سامنے ٹی وی کے ہر خورد و کلاں ہوتا ہے

اس کے شعروں میں روانی نہیں ہوتی لیکن

کھا کے کچھ ’’انڈے، ٹماٹر‘‘ وہ رواں ہوتا ہے

یوں توبزنس میں بھی کم کم ہے گزارا اس سے

پرسیاست میں دیانت سے زیاں ہوتا ہے

ہم جو فرمائیں توبکواس سمجھتے ہیں سبھی

ان کی بکواس بھی دلچسپ بیاں ہوتا ہے

داد پاتے ہیں مرے وزن سے خالی اشعار

اوریوں لطفِ سخن نالہ کناں ہوتا ہے

واقعی رکھتا ہے وہ حفظِ مراتب کا خیال

ناظمِ بزم اگر مرتبہ داں ہوتا ہے

فیس بک پر جو چڑی بن کے ستاتی ہے نویدؔ

اکثر اوقات حقیقت میں وہ ’’کاں ‘‘ ہوتا ہے

 

                   نویدؔ صدیقی

 

 

 

ایک بیگم نے کہا ’’میرا میاں ‘‘ ہے زندگی

سن کے شوہر نے کہا ’’کوہِ گراں ہے زندگی‘‘

 

حکرانوں کی گزرتی ہے مگر آرام سے

گو عوام الناس کی آہ و فغاں ہے زندگی

 

گیس کی موجودگی میں زندگی ہے واہ وا!

اور نہ ہو تو گیلی لکڑی کا دھواں ہے زندگی

 

آئینے میں دیکھتا ہوں خود کو بوڑھا ہو گیا

پارلر میں جا کے دیکھوں تو جواں ہے زندگی

 

نیٹ بھی موسم کی طرح بگڑا ا ہوا ہے آج کل

بس اِنہیں دوگڑبڑوں کے درمیاں ہے زندگی

 

جانتا ہے اک سیاست دان یہ اچھی طرح

روز اخباروں میں اک جھوٹا بیاں ہے زندگی

 

                   ڈاکٹر مظہرؔ عباس رضوی

 

 

تہذیب کے غلاف سے آگے نہیں بڑھے

ہم اِک ’’اٹوگراف‘‘ سے آگے نہیں بڑھے

وہ شاعری کی شین سے واقف نہ ہو سکی

ہم قافیے کی قاف سے آگے نہیں بڑھے

کیا بات اُن سے کیجئے عمرے کی حج کی اب

بیگم کے جو طواف سے آگے نہیں بڑھے

شادی کا سخت میچ ہوا آخرش draw

وہ اپنے اپنے ’’ ہاف ‘‘ سے آگے نہیں بڑھے

تخمینے ہی لگاتے رہے ہم تمام عمر

لیکن کبھی گراف سے آگے نہیں بڑھے

لیڈر یہ چاہتے ہیں ترقی خود اُن کی ہو

اور قوم اختلاف سے آگے نہیں بڑھے

میدان میں جہاد کے کیسے وہ جائیں گے

جو صرف اعتکاف سے آگے نہیں بڑھے

کچھ لوگ پڑھتے رہ گئے ’’منٹو کہانیاں ‘‘

بد فکر کچھ ’’لحاف‘‘ سے آگے نہیں بڑھے

شاعر مزاح کے بنے کچھ تو کامیڈئین

کچھ لاف اور گزاف سے آگے نہیں بڑھے

ہیں اپنی ’’گَل‘‘ پہ چودھری صاحب اڑے ہوئے

ہم اپنی شین قاف سے آگے نہیں بڑھے

تسلیم کر لیا کہ ہے دہشت گری غلط

ہم اپنے اعتراف سے آگے نہیں بڑھے

 

                   ڈاکٹر مظہرؔ عباس رضوی

 

 

 

دیکھ کر بھاگا ہوں میں کفگیر اُس کے ہاتھ میں

آ گئی ہے اب مری تقدیر اُس کے ہاتھ میں

فیس بُک پہ لوڈ کی تھیں جھوٹی تصویریں تمام

آ گئی یہ کون سی تصویر اُس کے ہاتھ میں

اُس کے سب قانون اُس کے فائدے کے واسطے

وہ ہے حاکم اور ہے تعذیر اُس کے ہاتھ میں

اِک منٹ میں وہ ہجومِ بیکراں لے آئے گا

آ گیا ہے نعرۂ تکبیر اُس کے ہاتھ میں

پاس مشکل سے ہوا میٹرک تو ٹیچر بن گیا

الحذر ہے قوم کی تعمیر اُس کے ہاتھ میں

وہ اسے تاریخی مخطوطہ سمجھتا رہ گیا

ڈاکٹر کی تھی جو اک تحریر اُس کے ہاتھ میں

برف کو برفی بنا کر بیچ دے گا شیخ اب

میڈیا اس کا ہے اور تشہیر اُس کے ہاتھ میں

اب کچن کے سارے برتن روز دھلواتی ہے وہ

اک دفعہ چاٹی تھی ہم نے کھیر اس کے ہاتھ میں

شاعرِ رنگیں نوا تحریف کے درپے ہوا

آ گئے اقبالؔ و فیضؔ و میرؔ اُس کے ہاتھ میں

ہم نے دیکھا ہے یہ مظہرؔ جو ریٹائیر ہو گیا

اپنا مجموعہ ہے یا تفسیر اُس کے ہاتھ میں

 

                   ہاشم علی خان ہمدمؔ

 

اس کو بھی ’’سولہوائے ‘‘ کئی سال ہو گئے

مجھ کو بھی ’’سٹھیائے ‘‘ کئی سال ہو گئے

شادی کے بعد دھوپ سی رنگت رہی مری

چہرے پہ رنگ آئے کئی سال ہو گئے

منی بھی اپنی فلم کے چلبل کی ہو گئی

دل کو بھی چلبلائے کئی سال ہو گئے

کیا پوچھتے ہو مجھ سے پنامہ کے کیس میں

دولت کہیں چھپائے کئی سال ہو گئے

اب تو وہ ڈھیٹ پن میں شریفوں کا باپ ہے

عزت اسے گنوائے کئی سال ہو گئے

لائے تھے آسمان سے تارے اتار کر

آنکھوں کو برقیائے کئی سال ہو گئے

دل سے شباب یار کا جوتا نہیں گیا

نقش وفا مٹائے کئی سال ہو گئے

شادی کے بعد اس نے بھی بھائی کہا مجھے

باجی اسے بنائے کئی سال ہو گئے

صحرا میں بھی پلاٹ کا قبضہ نہیں ملا

مجنوں کے در پہ آئے کئی سال ہو گئے

میری لغت میں اب نئے الفاظ بھی تو ہیں

انگلش کو میریائے کئی سال ہو گئے

تحفے میں کمپنی کا کریڈٹ دیا انہیں

وہ جن کو قطریائے کئی سال ہو گئے

بے چارے عام لوگ تو کنگال ہی رہے

دولت کو قومیائے کئی سال ہو گئے

اب تو ہمارا نام تک سنتا نہیں کوئی

ہمدمؔ غزل سنائے کئی سال ہو گئے

 

                   ہاشم علی خان ہمدمؔ

 

تاریخ کا حصہ ہیں وہ سلطان وغیرہ

ہیرو ہیں مرے دیس کے اب شان وغیرہ

پنجاب کی پولیس جنہیں ڈھونڈ رہی ہے

رہتے ہیں کراچی میں کہاں ڈان وغیرہ

بلو سے مٹکا ہے کبھی پینو سے پنگا

پینڈو کا مقدر نہیں ایان وغیرہ

وہ زیر کفالت ہیں بزرگوں کے ابھی تک

کیوں شور مچاتے ہیں یہ عمران وغیرہ

یہ لمس کی شدت ہے کہ سردی کا اثر ہے

یا مس نے مروڑے ہیں ترے کان وغیرہ

رشوت کی کمائی سے افاقہ نہیں ہوتا

معدے میں سلگتے ہیں چنے نان وغیرہ

فیشن سے ہوئے وصل کے امکان زیادہ

لپٹے ہیں حسینوں سے کئی تھان وغیرہ

اک پاپ ہی لگتا ہے مجھے پاپ میوزک

کھنچتے چلے جاتے ہیں جو سُر تان وغیرہ

وہ میچ مگر اور کوئی جیت گیا ہے

جس میچ میں کھیلے نہیں کپتان وغیرہ

اب کون بجٹ ساز انہیں دور کرے گا

مہنگائی سے آتے ہیں جو بحران وغیرہ

یہ گفٹ کسی اور ہی سودے کا ثمر ہے

رشوت کا لبادہ ہیں یہ احسان وغیرہ

گنتے ہیں ہمیں لوگ وغیرہ کے لقب سے

پی آر وغیرہ ہے نہ پہچان وغیرہ

دھندہ ہے یہ نقادِ سخن سوز کا ہمدمؔ

رہتے ہیں کسے یاد یہ اوزان وغیرہ

 

                   نوید ظفرؔ کیانی

 

وہ زلف ہے لہراتے ہوئے ’’لام‘‘ کی صورت

بھونڈوں کے لئے ہے کسی پیغام کی صورت

 

بھیا ہوں تمھارے یا وہ رقباء ہوں ہمارے

کرتے ہیں حجامت کسی حجام کی صورت

 

لالے نے جو لی ہے تو عجب مست ہوا ہے

نسوار کی چٹکی بھی ہے اِک جام کی صورت

 

کیوں پیشِ مسز دیکھا تھا مس نے متبسم

مسٹر کے لئے گھر میں ہے ہنگام کی صورت

 

اُس بُت کے اگر سرد رویے کا بیاں ہو

ملتان میں مل جاتی ہے کالام کی صورت

 

جرمانۂ میک اپ تو بھرا ہو گا میاں نے

یونہی نہیں وہ جلوۂ گلفام کی صورت

 

جو گھر میں بنے رہتے ہیں نوابِ زمانہ

سسرال میں ہیں بندۂ بے دام کی صورت

 

اُس عمر میں ہیں جس میں نظر آنے لگی ہے

دشنام کی صورت ہمیں اکرام کی صورت

 

سب جاب کے کلے سے بندھے رہتے ہیں دن بھر

اب ڈیڈ کی صورت نہ کہیں مام کی صورت

 

ہم بحث بھی کرتے ہیں تو بن جاتی ہے مِن مِن

وہ عرض بھی کرتے ہیں تو احکام کی صورت

 

                   نوید ظفرؔ کیانی

 

کسی نیوز چینل پہ تکرار کیا تھی

دماغون کی لسی سی بیکار کیا تھی

 

جو ڈیٹنگ میں میری معاون رہی ہے

گدھا گاڑی کے بھیس میں کار کیا تھی

 

بڑے مان سے آئے تھے ہم فدائی

ترے ہاں رقیبوں کی بھرمار کیا تھی

 

سگِ کوئے لیلیٰ جو پیچھے لگا تھا

تو بجلی سی مجنوں کی رفتار کیا تھی

 

وہ تہمد تمھارا سمجھ میں نہ آیا

کہ پتلون تھی یا وہ شلوار کیا تھی

 

اگر کارِ سائینس تھا راکٹ بنانا

تو پھر خان صاحب کی نسوار کیا تھا

 

وہ گنجوں کی کیوں آنیاں جانیاں تھیں

وہ ہاتھوں میں کھجلی سی ہر بار کیا تھی

 

میں اظہارِ الفت کی رکھتا تھا نیت

جواباً وہ کرنے کو تیار کیا تھی

 

یہ دس فٹ بھی ہوتی تو بیکار ہوتی

کوئی تیرے تاڑو کو دیوار کیا تھی

 

تری چونچ ہے نہ مری دُم سلامت

تری جیت کیوں تھی مری ہار کیا تھی

 

کئی عاشقوں کے سُجائے تھے بوتھے

ملیٹینٹ تھی، کوئی مٹیار کیا تھی

 

                   محمد خلیل الرحمٰن

 

(ظفر اقبال کی زمین پر کھیتی باڑی)

 

 

سر پھٹوّل گھر کے اندر روز ہوتی ہے مگر

’’یہ تماشا اب سرِ بازار ہونا چاہیے ‘‘

 

روز برتن دھوتے دھوتے ایسی عادت پڑ گئی

اب تو ہم کو خواب سے بیدار ہونا چاہیے

 

اب وہی کرنے لگے ہیں اک نئی شادی کی بات

جو کبھی کہتے تھے بس اِک بار ہونا چاہیے

 

’’جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ‘‘

آدمی کو بس ذرا ہشیار ہونا چاہیے

 

پھر سے بنیادیں نئی ہم کھود ڈالیں گے خلیلؔ

شیخ چلّی کا محل مسمار ہونا چاہیے

 

                   محمد خلیل الرحمٰن خلیلؔ

 

چار سو وہ نظر بھی رکھتے تھے

اس نے کتے بھی سب سدھائے تھے

 

چار سالوں نے مل کے پیٹا تھا

دیکھ لو کتنے ان کو پیارے تھے

 

اس نے تھپڑ رسید کر ڈالا

میں نے پھاڑے فقط غبارے تھے

 

اک سہیلی نے راز فاش کیا

پھر تو دیکھے زمیں پہ تارے تھے

 

جن کو لڑکی سمجھ کے چھیڑا تھا

وہ تو ہجڑے بھی غم کے مارے تھے

 

دیکھی دلہن تو خود کشی سے مرا

شامیانوں میں اب شمارے تھے

 

چار بلیوں کے پیرہن سے لگے

ایسے بوتیک پر غرارے تھے

 

اُن دنوں تانک جھانک کرتے تھے

جب جوانی کے دن گزارے تھے

 

قد میں بونے مگر تھیں جورو بانس

ساتھ چلتے دکھے چھوہارے تھے

 

نا دہندہ رہا ہے عشق ترا

کب خلیل ؔایسے گوشوارے تھے ؟

 

                   نورؔ جمشیدپوری

 

 

گھر میرے، خدا بھیج دے مہمان وغیرہ

آئے تو کوئی گھر مرے انجان وغیرہ

 

قربان گئے جن پہ دل و جان وغیرہ

ہم ساتھ اٹھا لائے وہ گلدان وغیرہ

 

وہ جا کے سیاست میں بھی کچھ کر نہیں پایا

اب بیٹھ گیا کھول کے دکان وغیرہ

 

ہم ہو کے شکم سیر دعا اور بھی دیں گے

بریانی ملے، قورمہ ہو، نان وغیرہ

 

کچھ کام نہ آئے گا وہاں بیچ کے جانا

بیکار سیاست میں ہے ایمان وغیرہ

 

غزلیں ہی سنا تا رہا وہ صبح تلک بس

اے کاش!کھلا دیتا ذرا پان وغیرہ

 

اے یار تری بزم میں تو نورؔ بہت ہے

خوشبو بھی ملے سلگے جو لوبان وغیرہ

 

                   جہانگیر نایابؔ

 

اِس قدر پھولے کہ پنکچر ہو گئے

ہم کزن سے ان کے شوہر ہو گئے

 

اور تو کچھ ہو نہ پائے ہم کبھی

اِک عدد بیوی کے شوہر ہو گئے

 

انگلیوں پر وہ نچاتی ہے ہمیں

گھر کے ہم مالک تھے نوکر ہو گئے

 

قبل از شادی تھے دلبر ہم مگر

چھ مہینے ہی میں "الٹر” ہو گئے

 

نصف بہتر ہے مِری اب وہ مگر

ہم ہی ان کے نصف بدتر ہو گئے

 

سالیاں مثلِ ’’کرن بیدی‘‘ ہوئیں

اور سالے سارے ’’گبّر‘‘ ہو گئے

 

بھائی ہیں انجینئر اپنے سبھی

ہم نکمّے تھے سخنور ہو گئے

 

تھی تڑپ ہم میں سمندر کی طرح

سوکھ کر ہم آج پوکھر ہو گئے

 

ڈیڈ نے لے لی جگہ ہے باپ کی

محترم سے اب تو مسٹر ہو گئے

 

ہے تغیّر وقت کا نایابؔ یہ

جتنے غنڈے تھے منسٹر ہو گئے

 

                   روبینہ شاہین بیناؔ

 

اک بار ووٹ مانگنے آیا تھا اور بس

لیڈر نے سب کو اُلو بنایا تھا اور بس

ہابیل کے بھی قتل کو تسلیم کر لیا

تھانے کا اُس نے چکر لگایا تھا اور بس

اب قوم کا نصیب نہیں کالا باغ بھی

لیڈر نے سبز باغ دکھایا تھا اور بس

قیمت پھلوں کی پوچھ کے بیچارگی کے ساتھ

حسرت سے ہاتھ اُس نے لگایا تھا اور بس

سالن میں مرچیں یونہی کہاں تیز ہو گئیں

نند نے ہمارا ہاتھ بٹایا تھا اور بس

وہ مونچھوں والا بھائی نکل آیا دیکھ لو

ایف بی پہ ہم نے بہن بنایا تھا اور بس

لیبل ہے زن مرید کا اس پہ لگا ہوا

اک بار اس نے کھانا بنایا تھا اور بس

بیگم کے ڈھیٹ پن میں نہ آئی کبھی کمی

شوہر نے میکے جا کے منایا تھا اور بس

بیگم نے ڈائیٹنگ کی ہدایات جاری کیں

وہ تو خوشی سے پھولا پھلایا تھا اور بس

پھر اس کے بعد سارا کچن اس کو مل گیا

چولہے کو ایک بار جلایا تھا اور بس

اس نے ہر اِک کُڑی کو ہی باجی بنا لیا

میڈم نے پیار اس کو سکھایا تھا اور بس

چھینا کسی نے پرس تو احسان یہ کیا

پاکٹ میں لوٹنے کا کرایہ تھا اور بس

بیناؔ مشاعرے کی خبر ہی نہیں رہی

دیوان میں نے اپنا سنایا تھا اور بس

 

                   روبینہ شاہین بیناؔ

 

 

ہوئی نہ دل کے کٹہرے میں گر صفائی میاں

تمھارے کام نہ آئے گی یہ کمائی میاں

چھپا رہے ہو اثاثے جو ساری دنیا میں

ذلیل کر کے رہے گی یہ منہ چھپائی میاں

اب ایسے چور کو کس قید میں لیا جائے

چرا کے دل مرا جس نے نظر چرائی میاں

یہ تیرا کام تھا لیکن ہوا نہیں تجھ سے

کرے گا کون کرپشن کی یہ کٹائی میاں

تو معترف نہیں اس کے سیاسی باؤنسر کا

اگرچہ خان نے تیری وکٹ گرائی میاں

ذرا قریب سے دیکھو نا اپنے کاسے میں

کھلے گی دل کی عدالت میں پارسائی میاں

یہ اقتدار کی دولت یونہی نہیں رہے گی

تجھے تو مار ہی ڈالے گا تیرا بھائی میاں

ثبوت کوئی نہیں ہے تو مال کس کا ہے

یا تیرے سارے اثاثے ہیں ماورائی میاں

دکھائی دیتے ہیں لیکن دکھائی دیتے نہیں

کسی کو کیوں نہیں دیتے ہیں یہ دکھائی میاں

جگہ جگہ پہ نشاں ہیں تری کرپشن کے

گلی گلی میں پڑی ہے تری کمائی میاں

دکھائی دینے لگا ہے جو چشم بیناؔ سے

کسی کو کیوں نہیں دیتا ہے وہ دکھائی میاں

 

                   عابد محمود عابدؔ

 

 

ہر جگہ سب سے ہیں اپنی یاریاں

روز ملتی ہیں ہمیں افطاریاں

 

زخم میرے بھر چکے ہیں اس لئے

تازہ پھینٹی کی کریں تیاریاں

 

لُوٹنے کے واسطے اس ملک میں

چل رہی ہیں لیڈروں کی باریاں

 

اِک سواری رہ گئی ہے، آؤ جی!

دینہ، جہلم، لالہ موسیٰ، کھاریاں

 

فیس بُک پر بیٹھے رہتے ہیں فضول

قوم کی کب جائیں گی بیکاریاں

 

پارکوں میں کالجوں میں دھرنوں میں

پھیلتی ہیں عشق کی بیماریاں

 

گھر میں ٹھس کر جائیں بیوی کے حضور

تھانے داروں کی یہ تھانیداریاں

 

                   عابد محمود عابدؔ

 

گھِس چُکے انتظار کے جوتے

دِل میں آ جا اُتار کے جوتے

 

میں نے مانگا ثبوت چاہت کا

جو دیا اس نے مار کے جوتے

 

عشق کے حکم پر بنائے ہیں

اپنے چمڑے سے یار کے جوتے

 

ایک فرشی مشاعرہ ہو گا

شعر ہوں گے اتار کے جوتے

 

سُنتی ہو روٹی مت پکانا تم

کھا کر آیا ہوں یار کے جوتے

 

شک کے کانٹے مجھے چبھے کیوں کہ

پھٹ چکے اعتبار کے جوتے

 

چور نے سب قبول فرمایا

اُترے جب تھانے دار کے جوتے

 

اپنے گُل دان میں سجاؤں گا

جان سے پیارے یار کے جوتے

 

گُھس گیا ہے دماغ میں مچھّر

کھائیے اہل کار کے جوتے

 

اعلیٰ افسر بنایا ہے یارو!

ابّا نے مجھ کو مار کے جوتے

 

حادثہ رونما ہُوا عابدؔ

اُترے جیسے ہی کار کے جوتے

 

                   اسانغنی مشتاق رفیقی

 

 

زور سے بول سنائی نہیں دیتا باشاہ

مجھ کو دن میں بھی دکھائی نہیں دیتا باشاہ

 

پھینک جاتا ہے مرے چہرے پہ میرا بیٹا

ہاتھ میں لا کے کمائی نہیں دیتا باشاہ

 

دوست ہے میرا، مگر نقد رقم مانگتا ہے

ڈاکٹر قرض دوائی نہیں دیتا باشاہ

 

جب سے شادی ہوئی بیگم کے سوا دنیا میں

مجھ کو کچھ اور سجھائی نہیں دیتا باشاہ

 

گھی بنانے کے لئے اُس کو اُٹھا لیتا ہے

چائے والی بھی ملائی نہیں دیتا باشاہ

 

جب سے ’’ شک کر ‘‘ کی وبا پھیلی ہے گاؤں میں مرے

تحفے میں کوئی مٹھائی نہیں دیتا باشاہ

 

یوں تو چرچے ہیں رفیقی کی سخاوت کے مگر

روپیہ کیا ہے وہ پائی نہیں دیتا باشاہ

 

                   اسانغنی مشتاق رفیقی

 

کون کہتا ہے کہ شیطان سے ڈر لگتا ہے

مجھ کو واعظ ترے ہذیان سے ڈر لگتا ہے

 

تری با توں سے میں مرعوب نہیں ہو سکتا

ہاں ترے منہ میں چھپے پان سے ڈر لگتا ہے

 

کیا پتہ چائے میں کیا گھول کے تو رکھ دے گا

چائے والے ترے احسان سے ڈر لگتا ہے

 

وہ بھی کیا دن تھے ترے ہونٹ کنول لگتے تھے

اب تو جاناں تری مسکان سے ڈر لگتا ہے

 

ووٹ کی شکل میں اک دن اسے تو مانگے گا

حاکم شہر تری دان سے ڈر لگتا ہے

 

کسی گونگے سے کوئی خوف نہیں ہے لیکن

جاگتے بولتے انسان سے ڈر لگتا ہے

 

کیا پتہ کب مجھے وہ پھاڑ کے کھا جائے گا

بھیس بدلے ہوئے انسان سے ڈر لگتا ہے

 

پوجا کرتے ہوئے دیکھا ہے کنول کو جب سے

مجھ کو کافور سے لوبان سے ڈر لگتا ہے

 

طنز گوئی میں رفیقیؔ تری ہے بات ہی اور

ہر کسی کو ترے دیوان سے ڈر لگتا ہے

 

                   سیّد فہیم الدّین

 

 

کس طرح اب میرا جیون ہو بسر شام کے بعد

تیری گلیوں میں اُبلتے ہیں گٹر شام کے بعد

 

ہم کبھی رُکتے ہیں دفتر میں اگر شام کے بعد

کیونکہ افسر کو لگاتے ہیں بٹر شام کے بعد

 

رفتہ رفتہ تیرے چہرے سے جو میک اپ اُترے

حُسن تیرا بھی نظر آئے کھنڈر شام کے بعد

 

عین ممکن ہے کسی شک میں ہی اندر کر دے

تم پولیس کو جو کبھی آئے نظر شام کے بعد

 

اب تو گلیوں میں فہیم ہم ہی نظر آتے ہیں

اور دُبکے ہیں لحافوں میں نڈر شام کے بعد

 

                   سیّد فہیم الدّین

 

 

کس قدر سرد ہو گیا ہے وہ

پیٹ کا درد ہو گیا ہے وہ

 

بن کے بیوی کے پیر کی جوتی

واہ! کیا مرد ہو گیا ہے وہ

 

کل رقیبوں نے اس قدر پھینٹا

راہ کی گرد ہو گیا ہے وہ

 

دیکھ کر اپنی ساس کا چہرہ

دفعتاً زرد ہو گیا ہے وہ

 

روز آتا ہے مانگنے قرضہ

گھر کا اِک فرد ہو گیا ہے وہ

٭٭٭

 

 

 

 

مزاحچے

 

جگت پور کا پیر

 

                   ارشاد العصر جعفری

 

ایف ایس سی کے پیپرز ہو چکے تھے اور ہم سب دوست سر جوڑے بیٹھے تھے۔ کم از کم تین ماہ کی فراغت تھی اور ہم سوچ رہے تھے کہ یہ تین مہینے کیسے گزریں۔ اس سال گرمی بھی کچھ زیادہ پڑ رہی تھی جس کی وجہ سے گروپ مصروفیات یعنی شرارتوں میں بھی کمی آ چکی تھی۔

’’کیسے کٹیں گے یار، یہ اڑھائی تین ماہ۔ سوچو۔ ذہن لڑاؤ‘‘ عامر نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔

’’میرا خیال ہے کہ ہمیں کوئی مفید کاروبار کر لینا چاہئے ‘‘ شاہد نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا۔

’’میں یہ لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ تمہاری کاروباری دہنیت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ آج کل گرمی کی شدت کی وجہ سے چلتے ہوئے کاروبار مندے پڑے ہوئے ہیں اور تم نیا کاروبار کرنے کا مشورہ دے رہے ہو‘‘ عامر نے شاہد پر گرمی نکالتے ہوئے کہا۔

’’بھئی مانا کہ گرمیاں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے مزاج میں بھی گرمی شامل ہو جائے ‘‘ ذوالفقار نے عامر کو ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا۔

’’اس کی بات بھی تو دیکھو۔ اس کے پاس ہے سرمایہ۔ جو یہ کاروبار شروع کرے گا‘‘ عامر نے کہا۔

’’اچھا تم بتاؤ۔ ان فراغت کے دنوں میں، اور شدید گرمیوں میں کیا کیا جائے ‘‘ صدیق نے عامر سے پوچھا۔

’’کسی ٹھنڈے علاقے میں چلتے ہیں ‘‘ عامر نے اپنی سیاحتی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہا۔

’’ٹھنڈے علاقوں میں جانے کے لئے بھی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تمہارے پاس ہے سرمایہ؟‘‘ شاہد نے کہا۔

’’یار۔ سب مل کر سوچتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔ اگر گرمیوں کے یہ تین مہینے ہم فارغ رہ گئے تو یقیناً پاگل ہو جائیں گے ‘‘ طارق نے کہا اور پھر واقعی سب سوچ میں ڈوب گئے۔

ہم اتنی دیر سے ان کی باتیں خاموشی سے سن رہے تھے۔ سب سوچ میں گم ہوئے تو ہمارے ذہن میں ایک خیال بجلی کی مانند کوندا اور ہماری آنکھوں میں چمک ابھر آئی۔

’’غالباً قیس چلبلائی کے ذہن میں کوئی ترکیب آ گئی ہے ‘‘ شاہد نے ہمارے چہرے کی طرف دیکھا تو کہا۔ باقی ساتھیوں نے بھی چونک کر ہماری طرف دیکھا۔ ہمارے چہرے مسکراہٹ تھی۔

’’ہاں۔ ایک ترکیب آئی ہے میرے ذہن میں۔ اگر کامیاب رہی تو تفریح بھی ہو جائے گی اور پیسہ بھی آ جائے گا۔ اس کے بعد ہم مہینہ سوا مہینہ کسی پہاڑی علاقے میں بھی گزار سکیں گے ‘‘ ہم نے کہا۔

’’اچھا۔ ایسی کون سی ترکیب ہے ‘‘ طارق حیرت سے بولا۔ باقی بھی حیران دکھائی دے رہے تھے۔

’’کسی گاؤں میں چلنا پڑے گا‘‘ ہم نے کہا۔

’’کیوں۔ کیا آم چوری کرنے کا ارادہ ہے ‘‘ ذوالفقار نے کہا۔

’’اگر میری ترکیب کامیاب رہی تو اس کی نوبت نہیں آئے گی۔ آم کی پیٹیاں خودبخود چل کر ہمارے پاس آئیں گی‘‘ ہم نے مسکراتے ہوئے کہا تو ان سب کی حیرت میں اضافہ ہو گیا۔

’’اچھا۔ کیا جن قابو کرنے کا ارادہ ہے ‘‘ ندیم نے حیرت بھرے لہجے میں کہا تو ہم نے گھور کر اسے دیکھا۔

’’میں جن تو قابو نہیں کر سکتا البتہ تمہیں جن ضرور بنا سکتا ہوں ‘‘ ہم نے ندیم سے کہا۔

’’وہ کیسے ؟‘‘ صدیق نے پوچھا۔

’’تم لوگ بات تو پوری سنتے نہیں ہو درمیان میں بول پڑتے ہو۔ اب میری بات غور سے سنو‘‘ ہم نے ان سے کہا اور ان سب کی طرف دیکھا۔ وہ سبھی ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھ گئے تھے۔

’’میں بن جاتا ہوں پیر۔ مجھے کچھ تعویذ لکھنے آتے ہیں کیونکہ میں نے دو سال پہلے پورا ایک مہینہ ایک پیر کے ساتھ گزارہ ہے۔ اس کا چیلا بن کر اور اس دوران میں نے اس کی حرکتیں بہت غور سے دیکھی تھیں۔ اس لئے مجھے یقین ہے کہ میں یہ کردار بخوبی نبھا لوں گا۔ ہم یہاں سے نزلہ، زکام، کھانسی، بخار وغیرہ کی گولیاں پیس کر لئے چلیں گے اور انہیں چینی میں مکس کر کے اور چینی پر دم کر کے مریدوں کو دیں گے۔ ایک آدمی جاسوسی کرے گا۔ وہ گاؤں کے ہر گھر کا پتا کرے گا کہ اس گھر کے کیا مسائل ہیں۔ گاؤں کے کسی گھر کی جاسوسی کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ جاسوس زیرو زیرو ایٹ۔ وہ تمام تفصیل معہ گھر کے افراد کے کوائف مجھے بتائے گا۔ اس طرح میں ان کے مسائل سے آگاہ ہو جاؤں گا اور ان پر پریشر پڑے گا۔ اگر کوئی بندہ میرے لئے پریشانی کا باعث بنے گا تو اسے باقی ساتھیوں نے سنبھالنا ہو گا۔ انہیں سنبھالنے کے لئے ہمیں ماسک میک اپ کا سہارا لینا پڑے گا۔ جب تم خوفناک ماسک میک اپ کر کے رات کے وقت کسی کو ڈرانے جاؤ گے تو معصوم اور سیدھے سادھے دیہاتی فوراً ڈر جائیں گے۔ اس کے علاوہ تم سب نے مختلف ذرائع سے اس گاؤں میں میری پبلسٹی کرنی ہے۔ ایک بار میں مشہور ہو جاؤں پھر نوٹ ہی نوٹ اور عیش ہی عیش۔ ہم نے انہیں اپنی شیطانی ترکیب سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔

’’ترکیب تو بہت ہی اچھی اور شاندار ہے ‘‘ طارق نے خوش ہو کر کہا۔ باقیوں نے بھی اقرار میں سر ہلایا۔

’’پھر اس شیطانی پروگرام پر کب سے عمل ہونا چاہئے ‘‘ شاہد نے بے چینی سے پوچھا۔

’’نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہئے۔ اس لئے پہلے تو یہ بتاؤ کہ تم میں سے کسی کے رشتے دار رہتے ہیں کسی گاؤں میں ‘‘ ہم نے ان سے پوچھا۔

’’یہاں سے چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں ہے جگت پور۔ وہاں میرے رشتے دار رہتے ہیں۔ میں وہاں کبھی کبھی جاتا ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جگت پور کے قبرستان کے بالکل قریب ایک پرانا اور ویران سا مکان بھی ہے۔ جسے تم اپنا مسکن بنا سکتے ہو‘‘ عامر نے چہک کر کہا۔

’’ویری گڈ۔ اس مکان میں جن بھوت تو نہیں رہتے ‘‘ ہم نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’ابے فراڈئیے پیر۔ جنوں سے ڈرتا ہے ‘‘ صدیق نے ہمارا مذاق اڑاتے ہوئے کہا اور قہقہہ بھی لگایا۔

’’خاموش گستاخ۔ پھونک مار کر آگ لگا دوں گا۔ ہمارے سامنے زبان چلاتا ہے ‘‘ ہم نے بھاری آواز میں کہا۔

’’اس مکان میں پہلے جن رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں، اب تو ہیں گے نا‘‘ عامر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’او کے۔ تم جاؤ اور تمام تفصیلات اس طرح حاصل کرو کہ گاؤں والوں کو ذرا بھی شک نہ ہو اور ہمارا ذکر بھی چھیڑ دینا کہ ایک پہنچا ہوا پیر قیس چلبلائی اس گاؤں میں آنے والا ہے۔ اتنے میں ہماری تھوڑی سی شیو بھی بڑھ جائے گی۔ ویسے بھی ایک ہفتے سے ہم نے شیو نہیں کی۔ ذرا چہرہ نورانی ہو جائے گا‘‘ ہم نے عامر سے کہا تو اس نے اثبات کے انداز میں سر ہلا دیا۔

٭٭٭٭

’’حق، حق، حق، اللہ ہو۔ حق، حق، حق، اللہ ہو‘‘۔۔ ۔ ہم آنکھیں بند کئے ورد کر رہے تھے۔ کبھی ہماری آواز آہستہ ہو جاتی اور کبھی تیز۔ عامر داڑھی، وگ اور ماتھے پر بڑے سے مسے کا میک اپ کئے ہمارے پاس بیٹھا تھا۔ آنکھوں میں اس نے لینز لگا کر آنکھوں کی رنگت بھی تبدیل کر لی تھی۔ اسے دیکھ کر کوئی پہچان ہی ہیں سکتا تھا۔ آج ہمیں جگت پور میں اپنا ڈیرہ بنائے پہلا دن تھا۔ ایک دن پہلے عامر اس گاؤں کے بارے میں تمام تفصیلات معلوم کر کے آیا تھا۔ اس نے ایک ایک گھر کے بارے میں ایسی تفصیلی معلومات دیں کہ ہم حیران رہ گئے۔ ہم نے اس گاؤں میں رہنے والے تمام افراد کے کوائف اور مسائل ایک کاپی میں لکھ لئے تھے اور آپس میں اشارے طے کر لئے تھے تاکہ جیسے ہی کوئی آئے عامر مخصوص اشارے سے ہمیں بتا دے کہ یہ کون ہے اور اس کے کیا مسائل ہیں۔ اس طرح ہمیں پیر بننے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہو سکتا تھا۔ عامر نے میک اپ اس لئے کیا تھا تاکہ گاؤں میں کوئی آدمی اسے پہچان نہ لے۔ اس نے اپنے جاننے والوں میں ہماری کچھ زیادہ ہی تعریف بھی کر دی تھی اور یہ اشارہ بھی دے دیا تھا کہ ایک دو دنوں میں ہم اسی گاؤں میں آنے والے ہیں۔

ورد کو جب پندرہ بیس منٹ گزر گئے تو ہم نے آنکھیں کھولیں۔ ہمارے سامنے ایک بزرگ عورت، ایک جوان عورت اور ایک بچی بیٹھے ہوئے تھے۔ انہیں دیکھنے کے بعد ہم نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا اور عامر کی طرف دیکھا۔ اس نے 9 نمبر کا مخصوص اشارہ کیا تو کاپی میں لکھے ہوئے 9 نمبر کے تمام کوائف اور مسائل ہماری نظروں کے سامنے آ گئے۔

’’حق۔ اللہ ہو‘‘ ہم نے نعرہ بلند کیا اور جوان عورت کو گھور کے دیکھا۔

’’تم شریفن بی بی ہو‘‘ جیسے ہی ہم نے اس کا نام لیا۔ اس نے حیرت سے ہماری طرف دیکھا۔

’’حیران ہونے کی ضرورت نہیں شریفن بی بی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمہارا شوہر تم پر بہت ظلم کرتا ہے۔ تمہیں بہت ستاتا ہے اور کچھ کماتا بھی نہیں ‘‘ ہم نے پر رعب لہجے میں کہا۔

’’پیر سائیں۔ ۔۔ پیر سائیں۔ آپ تو سب کچھ جانتے ہیں۔ مجھے بچائیں سائیں ورنہ میں مر جاؤں گی۔ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ مجھے بچا لیں۔ اسے ٹھیک کر دیں ‘‘ شریفن بی بی نے روتے ہوئے کہا اور پھر اس نے آگے بڑھ کر ہمارے پاؤں پکڑ لئے۔

’’فکر نہ کر بچہ۔ وہ انسان کا پتر بن جائے گا۔ ایسا ٹھیک ہو گا کہ پھر کبھی تمہارے سامنے زبان بھی نہیں ہلا سکے گا‘‘ ہم نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

’’مہربانی پیر سائیں۔ مہربانی۔ میں عمر بھر آپ کی باندی بن کر رہوں گی۔ بس اس کے ظلم و ستم بند کرا دیں ‘‘ اس نے اس انداز میں کہا جیسے اس کا شوہر ظلم و ستم کرتا بھی ہمارے حکم سے ہو۔ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد اس نے ہمارے پاؤں دبانا شروع کر دئیے تو ہم نے اپنی ٹانگیں مزید پھیلا دیں۔ شریفن بی بی زور زور سے ہمارے پاؤں دبانے لگی۔ ہم سوچنے لگے کہ اگر وہ اسی جوش و خروش سے اپنے شوہر کی خدمت کرے تو اس کا شوہر بھی اس پر تشدد نہ کرے۔ سوچتے سوچتے ہم نے عامر کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں گھور رہا تھا۔ ہم نے بمشکل اپنی ہنسی روکی۔

’’تم اس کی ماں ہو‘‘ کچھ دیر کے بعد ہم نے بزرگ خاتون سے پوچھا۔

’’ہاں بیٹا۔ میں اس دکھیاری کی ماں ہوں ‘‘ بزرگ خاتون نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔

’’یہ بچی بیمار ہے ‘‘ ہم نے بچی کی طرف دیکھتے ہوئے بزرگ خاتون سے پوچھا۔

’’جی جی سائیں۔ آپ تو جانتے ہیں۔ اسے بخار رہتا ہے ‘‘ بزرگ خاتون نے کہا۔

’’ہاں۔ پیر قیس چلبلائی جانتا ہے۔ بھلا اس سے کون سی بات چھپی رہ سکتی ہے۔ ادھر آؤ بچی‘‘ ہم نے فخریہ انداز میں پہلے بزرگ خاتون سے کہا پھر بچی کو اپنے قریب بلایا۔

ہم نے اس کی نبض دیکھی۔ ہمارے ایک انکل مجنوں بیزار ڈاکٹر ہیں اور ہم اپنا فارغ وقت ان کے ساتھ کلینک پر گزارتے ہیں۔ ڈسپنسر کا کورس بھی ہم نے کیا ہوا ہے۔ ہم نے بخار کی ایک دو علامات پوچھیں۔

’’تم جاؤ اور چینی لے آؤ۔ ہم چینی پر دم کر دیں گے۔ یہ بچی انشاء اللہ ٹھیک ہو جائے گی اور تمہاری بڑی بیٹی کے لئے تعویذ لکھ دیں گے۔ تمہارے داماد کا دماغ بہت جلد ٹھکانے پر آ جائے گا اور وہ ایسا زن مرید بنے گا کہ اسے بیوی کے سوا دنیا میں اور کچھ دکھائی بھی نہیں دے گا‘‘ ہم نے بزرگ خاتون سے کہا تو وہ اٹھ کر جانے لگی۔

’’انہیں بھی ساتھ لے جاؤ۔ اب ان کی ضرورت نہیں ‘‘ ہم نے اس کی بیٹیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’تم نے سازش کی ہے۔ پیر خود بن گئے ہو جبکہ پیر مجھے بننا چاہئے تھا‘‘ ان کے جانے کے بعد عامر نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا تو ہمیں ہنسی آ گئی۔

’’چلو پیر نہ سہی۔ پیر کے چیلے تو بن ہی گئے ہو‘‘ ہم نے ہنستے ہوئے کہا۔ پھر ایک تعویذ لکھا اور بزرگ خاتون کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد وہ آتی ہوئی دکھائی دی تو ہم نے ورد شروع کر دیا۔

’’حق، حق، حق، اللہ ہو، اللہ ہو، حق، حق‘‘ وہ آئی اور ہمارے سامنے بیٹھ گئی۔ ہم اسے ورد میں مشغول ملے۔ کچھ دیر بعد ہم نے اپنا ورد ختم کیا اور اس کی طرف دیکھا۔

’’یہ لو سائیں۔ میں چینی لے آئی ہوں ‘‘ اس نے چینی ہمیں تھما دی۔ ہم منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگے اور پھر چینی پر دو تین پھونکیں ماریں۔ اس کے بعد چینی دوسرے کمرے میں لے گئے اور اس میں پسی ہوئی بخار کی گولیاں ملا دیں۔

’’یہ لو۔ اس چینی کو دن میں تین مرتبہ بچی کو کھلانا ہے اور یہ تعویذ ہے اسے اپنے گھر میں موجود درخت کی ٹہنی پر باندھ دو۔ انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘ ہم نے چینی اور تعویذ بزرگ خاتون کو دیتے ہوئے کہا۔

’’پیر سائیں۔ ہم غریب لوگ ہیں اس لئے یہ حقیر سا نذرانہ قبول کرو‘‘ بزرگ خاتون نے سو سو کے تین نوٹ ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا لیکن ہم نے انکار میں سر ہلایا۔

’’سائیں۔ یہ نذرانہ قبول کر لو۔ میں خوش ہو جاؤں گی‘‘ بزرگ خاتون نے منت کرتے ہوئے کہا۔

’’ہم نذرانے والے پیر نہیں ہیں اماں جی‘‘ ہم نے ناراض لہجے میں کہا تو بزرگ خاتون مایوس ہو گئی۔

’’پیر سائیں۔ اگر آپ نذرانہ قبول نہیں کریں گے تو اماں جی کا دل وٹ جائے گا اور سائیں کسی کا دل تو نہیں توڑنا چاہئے ‘‘ اس مرتبہ عامر نے منت بھرے لہجے میں کہا۔

ہم جانتے تھے کہ عامر ظاہراً منت بھرے لہجے میں بات کر رہا ہے جبکہ وہ دل ہی دل میں گالیاں دے کر کہہ رہا ہو گا کہ اے جلدی سے پیسے وصول کر۔ کہیں خاتون کا ارادہ ہی نہ بدل جائے۔

’’جی جی۔ پیر سائیں۔ میرا دل نہ توڑ۔ یہ نذرانہ قبول کرو‘‘ بزرگ خاتون نے کہا۔

ہم نے دایاں ہاتھ آگے بڑھا کر نوٹوں پر رکھا اور پھر بزرگ خاتون سے کہا۔

’’اگر تمہاری خوشی ہے تو پھر یہ نوٹ ہمارے خلیفے کو دے دو‘‘ ہم نے لاپرواہی سے کہا تو اس نے وہ نوٹ عامر کو دے دئیے اور پھر دعائیں دیتے ہوئے چلی گئی۔

’’اگر تمہارے انکار پر وہ پیسے دینے کا ارادہ بدل دیتی تو پھر‘‘ عامر نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا۔

’’بچہ۔ ہم جانتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا‘‘ ہم نے مسکرا کر کہا۔

’’اگر کبھی ایسا ہوا تو یاد رکھنا میں تمہارے حصے کی رقم سے کٹوتی کر لوں گا۔ ہاں ‘‘ عامر نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تو ہم نے اسے گھور کر دیکھا لیکن اسے ہمارے گھورنے کی پرواہ ہی کب تھی۔

’’تمہارا ایک کیس اور آ رہا ہے۔ ساس بہو والا جھگڑا ہے نمبر ۱۳‘‘ عامر نے دروازے سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔

ہم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور پھر زور زور سے ورد شروع کر دیا۔ چند لمحوں بعد ایک لڑکی کمرے میں داخل ہوئی۔ ہم نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ ورد بھی کر رہے تھے۔ لڑکی نے کالے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔

’’آ گئی ہو نگہت بی بی۔ ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے ‘‘ چند لمحوں بعد ہم نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔

’’جج۔۔ ۔ جج۔۔ ۔ جی پیر سائیں جی‘‘ ہماری توقع کے عین مطابق وہ حیران ہوتے ہوئے بولی۔

’’ہم جانتے تھے کہ تم ضرور آؤ گی۔ ساس کی ستائی ہوئی ہو۔ ہمارے پاس نہیں آؤ گی تو پھر کہاں جاؤں گی‘‘ ہم نے اسے مزید حیران کر دیا۔ اب حیرت کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھوں میں عقیدت بھی پیدا ہو گئی تھی۔

’’آپ۔ آپ تو پہنچے ہوئے ہیں سائیں۔ بہت پہنچے ہوئے۔ میں آپ کی سدا کنیز۔ مجھے میری ساس سے نجات دلا دیں پیر جی‘‘ نگہت نے ہاتھ باندھتے ہوئے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔

’’کیا تم چاہتی ہو کہ تمہاری ساس مر جائے ‘‘ ہم نے اسے سرخ سرخ آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا تو وہ ڈر گئی۔

’’نن۔ نا۔ نہ پیر سائیں۔ میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ مجھے اس کے ظلم سے نجات مل جائے۔ وہ میرے ساتھ محبت اور پیار سے پیش آئے ‘‘ اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’لیکن تم بھی تو اس کے ساتھ لڑتی رہتی ہو۔ جھگڑا تو دونوں طرف سے ہوتا ہے نا‘‘ ہم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

’’میں مجبور ہوتی ہوں نا سائیں۔ پھر لڑتی ہوں۔ انسان ہوں آخر کب تک صبر کر سکتی ہوں۔ اگر ساس مجھ سے نہ لڑے تو میں بھی کبھی اس سے نہ لڑوں ‘‘ نگہت سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔

’’تمہاری ساس ٹھیک ہو جائے گی لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔ کیونکہ تمہاری دشمن، جو پہلے تمہارے شوہر کی منگیتر تھی، اس نے تمہاری ساس پر کالا جادو کیا ہوا ہے تاکہ تم میں جھگڑا ہوتا رہے اور پھر تمہیں طلاق ہو جائے ‘‘ ہم نے کہا۔

’’اوہ۔ اوہ سائیں آپ تو سب کچھ جانتے ہیں۔ میں آپ کی باندی، آپ کی کنیز۔ مجھے اس کے شر سے بچا لیں۔ وہ کم بخت تو تعویذ گنڈوں کی ماہر ہے۔ یقیناً اس نے کالے جادو کے کسی عامل کے ساتھ تعلق استوار کئے ہوں گے اور پھر میری ساس پر کالا جادو کرایا ہو گا‘‘ نگہت نے بھی ہمارے پاؤں پکڑتے ہوئے کہا۔

’’عامل کے ساتھ تعلقات استوار کئے ہوں گے۔ کیا مطلب ہے تمہارا‘‘ ہم نے حیران ہو کر کہا۔ ویسے ہم اس کی بات سمجھ چکے تھے۔

’’اوہ۔ آپ بہت معصوم ہیں پیر سائیں۔ آپ ان بری عورتوں کو نہیں جانتے۔ یہ اپنا مطلب نکالنے کے لئے مردوں سے یاریاں لگاتی ہیں اور پھر ان کے ساتھ اپنا منہ کالا کرتی ہیں ‘‘ نگہت نے کہا۔

’’کیا مطلب۔ میں سمجھا نہیں۔ مردوں کے ساتھ مل کر اپنا منہ کالا کیسے کرتی ہیں۔ کیا یہ مردوں سے کہتی ہیں وہ مرد ان کے چہرے پر توے کی سیاہی لگا دیں یا یہ کالی روشنائی سے منہ کالا کراتی ہیں ‘‘ ہم نے بدستور حیرت بھرے لہجے میں کہا۔

’’سائیں جی۔ آپ اس بات کو رہنے دیں۔ نگہت بی بی شرمیلی لڑکی ہیں۔ یہ آپ کو صاف صاف نہیں بتا سکتیں۔ بس آپ ان کے مسئلے کا کوئی حل سوچیں ‘‘ عامر نے جلے کٹے لہجے میں کہا۔

’’وہ تو ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس کی ساس ٹھیک ہو جائے گی‘‘ ہم نے عامر کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔ اس نے اتنی پر لطف گفتگو روک دی تھی۔

’’مہربانی پیر سائیں۔ مہربانی۔ مجھے بتائیں کہ مجھے کیا کرنا ہو گا‘‘ نگہت نے ایک بار پھر ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔

’’ہم تمہیں تعویذ لکھ کر دیتے ہیں۔ اسے لے جاؤ اور اپنے گھر کے چولہے میں دفن کر دینا۔ تین دن بعد ایک اور تعویذ لینے کے لئے آنا۔ تمہیں تین بار ہم سے تعویذ لینا ہو گا‘‘ ہم نے کہا اور اسے ایک تعویذ لکھ کر دیا۔

’’بہت مہربانی سائیں۔ حکم کریں کیا نذرانہ پیش کروں ‘‘ نگہت نے انتہائی مؤدبانہ لہجے میں پوچھا۔

’’ہم نذرانے کے قائل نہیں ہیں لڑکی۔ لیکن یہ کالو جادو کا مسئلہ ہے اس لئے ہمیں کچھ چیزیں شہر سے منگوانی پڑیں گی اس پر خرچہ ہو گا۔ تم ایسا کرو کہ فی الحال دو ہزار دے دو۔ باقی جیسے جیسے خرچہ ہو گا وہ ہم تم سے لیتے رہیں گے ‘‘ ہم نے کہا۔

’’ٹھیک ہے سائیں۔ یہ تین ہزار روپے رکھ لیں اور خرچے کی بالکل پرواہ نہ کریں۔ پیسے کی ہمارے پاس کوئی کمی نہیں ہے۔ بس میری ساس کو مجھ سے محبت ہو جائے ‘‘ نگہت نے تین ہزار روپے ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’محبت کیا، تمہاری ساس تمہاری نوکرانی بن جائے گی اور تمہارا شوہر تمہارا غلام‘‘ ہم نے کہا۔

’’سائیں۔ شوہر تو پہلے ہی میرا غلام ہے۔ اگر ساس بھی کنیز بن جائے تو زندگی کا مزہ آ جائے گا‘‘ نگہت نے خوش ہو کر کہا۔

’’ہمارے پاس آ گئی ہو تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اب جاؤ اور عیش کرو‘‘ ہم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’شکریہ سائیں ‘‘… نگہت نے کہا۔ پھر اس نے سلام کیا اور جانے لگی۔

’’سنو نگہت‘‘ ہم نے اسے آواز دی تو وہ رک گئی اور اس نے مڑ کر دیکھا۔

’’جی سائیں۔ کوئی غلطی ہو گئی ہے سائیں ‘‘ نگہت نے پریشان لہجے میں پوچھا تو ہم نے انکار کے انداز میں سر ہلایا۔

’’نہیں۔ تم سے کوئی غلطی نہیں ہوئی بلکہ آج تم نے ہمارے لئے کھانے کا انتظام کرنا ہے۔ شام میں بھنی ہوئی مرغی، دیسی گھی کی چوری، اور کچھ آم بھیج دینا‘‘ ہم نے تحکمانہ لہجے میں اس سے کہا۔

’’جی بہتر سائیں۔ یہ تو میری خوش قسمتی ہے کہ میں آپ کی میزبانی کروں ‘‘ نگہت نے کہا اور پھر وہ چلی گئی۔

٭٭٭٭

اُن دونوں نے شاید ہماری تعریف کچھ زیادہ ہی کر دی تھی کیونکہ اگلے دن صبح سے ہی ہمارے دربار میں رش لگ گیا۔ دوپہر تک سر کھجانے کی فرصت نہ ملی۔ گرمی کی شدت ہوئی تو لوگوں کا رش ٹوٹا۔ اب میں اور عامر اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔

’’میرے خیال میں اب تمہیں دائرہ جاسوسی اردگرد کے دیہاتوں تک پھیلا دینا چاہئے اور اس کام میں تم اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی شامل کر لو‘‘ ہم نے عامر سے کہا۔

’’کیوں۔ میں کوئی قربانی کا بکرا ہوں ‘‘ عامر نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ اسے پیر کی بجائے چیلا بننے کا افسوس تھا۔

’’تمہیں ٹی اے ڈی ملے گا اور یہ جتنی رقم جمع ہو رہی ہے ہم سب کے کام آئے گی۔ میں تنہا تو اس کا مالک نہیں ہوں۔ تمہیں پتا ہے کہ ہم نو، دس ہزار روپے کما چکے ہیں اور شام کی شفٹ ابھی لگے گی اور جیسے جیسے ہماری شہرت پھیلے گی ہماری آمدنی میں اضافہ ہو گا‘‘ ہم نے عامر کو سجھاتے ہوئے کہا۔

’’ہاں۔ کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو۔ اوکے۔ میں اپنے کام کا دائرہ بڑھا دیتا ہوں ‘‘ عامر نے کہا۔

’’ہوشیار۔ کچھ لوگ ریڑھی پر آ رہے ہیں ‘‘ عامر نے باہر دیکھتے ہوئے کہا تو ہم نے آنکھیں بند کیں اور ورد شروع کر دیا۔

’’حق، حق، اللہ ہو، اللہ ہو، حق، حق‘‘۔۔ ۔

’’کرم دین کا گھرانہ ہے۔ لڑکی کو دورے پڑتے ہیں ‘‘ عامر نے آہستہ سے کہا اور ہمیں کیس نمبر تین یاد دلایا۔ ہم نے اثبات کے انداز میں گردن ہلائی۔ کچھ دیر بعد ریڑھی ہمارے ٹوٹے پھوٹے دروازے کے قریب آ کر رک گئی۔ ریڑھی دس گیارہ سال کا لڑکا چلا کر لایا تھا۔ دو ادھیڑ عمر عورتوں نے ایک بے ہوش لڑکی کو ریڑھی سے اتارا اور اسے اٹھا کر کمرے میں داخل ہوئیں۔ ہم حسب معمول نیم وا آنکھوں سے ان کا جائزہ لے رہے تھے اور زبان سے ورد بھی جاری تھا۔ کچھ دیر بعد ہم خاموش ہوئے اور پھر آنکھیں کھولیں۔

’’کرم دین خود کیوں نہیں آیا۔ کیا اسے اپنی بیٹی کی جان عزیز نہیں ‘‘ ہم نے ناراض لہجے میں ایک عورت سے کہا۔

’’وہ۔ وہ سائیں شہر گیا ہوا ہے ‘‘ دوسری عورت نے جواب دیا۔ شاید وہ کرم دین کی بیوی تھی۔

عامر نے ہمیں بتایا تھا کہ کرم دین دوسری شادی کے چکر میں ہے جبکہ اس کی اپنی لڑکی کی عمر نکلتی جا رہی ہے اور کرم دین نے اس کی شادی نہیں کی کیونکہ وہ دیہاتوں کے رواج کے مطابق وٹہ سٹہ پر اپنی دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ کرم دین کی لڑکی کی سہیلیوں کی شادیاں بہت عرصہ ہوا، ہو چکی ہیں او اسے دورے پڑنے کی وجہ بھی شاید یہی ہو کہ اب تک اس کی شادی نہیں ہوئی۔

’’سائیں۔ آپ تو سب کچھ جانتے ہیں۔ اب میں آپ سے کیا کہوں ‘‘ کرم دین کی بیوی نے کہا۔

’’ہونہہ۔ یہ بتاؤ کہ تمہاری لڑکی چاندنی کو جن کب آتے ہیں ‘‘ ہم نے کرم دین کی بیوی سے پوچھا۔

’’سائیں۔ کوئی خاص دن مقرر نہیں ہے۔ جب ان کی مرضی ہوتی ہے آ جاتے ہیں ‘‘ کرم دین کی بیوی نے کہا۔

’’ٹھیک ہے۔ اسے دوسرے کمرے میں لے چلو۔ ہم اس کے جنوں سے بات کرتے ہیں ‘‘ ہم نے کہا تو کرم دین کی بیوی اور دوسری عورت نے لڑکی کو اٹھایا اور دوسرے کمرے میں لٹا دیا۔

اب ہم نے لڑکی کو غور سے دیکھا تو ہمارے ہوش اڑ گئے۔ وہ نام ہی کی چاندنی نہیں تھی بلکہ روپ کی بھی چاندنی تھی۔ لمبے لمسے سیاہ بال، سرخ و سفید رنگت، ستواں ناک، عنابی ہونٹ، میک اپ کے بغیر اتنا حسین چہرہ اس سے پہلے کبھی حقیقت میں تو نہیں دیکھا تھا البتہ رومانوی ناولوں کی ہیروئن کے بارے میں ضرور پڑھا تھا کہ وہ اتنی حسین ہوتی ہیں۔ ایسا دلفریب حسن دیکھ کر ہمارا دل واقعی فریب کھانے لگا بلکہ یہ کہا جاتے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ غٹرغوں غٹرغوں کرنے لگا۔ ہم نے لاحول ولا پڑھ کر اور خود کو تھپڑ مار کر دل کی یہ غٹرغوں بند کی۔ بے شک ہمارا نام قیس چلبلائی تھا اور ہم خود کو مجنوں کا ہم پلہ ہی سمجھتے تھے لیکن ہم پستیوں میں گرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس لئے ہم پہلے کمرے میں آ گئے۔

’’اس کے جن کافی زور والے ہیں لیکن کوئی بات نہیں ہم انہیں قابو کر لیں گے۔ اس سے پہلے کرم دین کو ٹھیک کرنا پڑے گا‘‘ ہم نے کرم دین کی بیوی سے کہا۔

’’سائیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔ اگر آپ کرم دین کو ٹھیک کر دیں تو میں عمر بھر آپ کو دعائیں دوں گی‘‘ کرم دین کی بیوی نے کہا اور چادر سے اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔

’’اس کا تو باپ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ بس تم دو تین دن اور صبر کر لو‘‘ ہم نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

اس کے بعد ہم نے پانی کا ایک گلاس لیا اور دوسرے کمرے میں آ گئے اور پانی کے چھینٹے چاندنی کے چہرے پر مارے۔ چند لمحوں بعد اس نے آنکھیں کھول دیں۔ پہلے تو وہ ادھر ادھر دیکھتی رہی پھر قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔ اس کے قہقہے سے ہم نے محسوس کیا کہ وہ اداکاری کر رہی ہے اور یہ محسوس کرتے ہی ہم نے اسے ایک زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔ تھپڑ کی آواز دوسرے کمرے تک گئی کیونکہ کرم دین کی بیوی اور دوسری عورت دوڑتی ہوئیں اس کمرے میں آ گئیں۔ تھپڑ کھا کر پہلے تو چاندنی نے ہمیں گھورا پھر اس نے پہلے سے بھی زیادہ بلند آواز میں قہقہہ لگایا۔

’’تم جا کر ریڑھی پر بیٹھو۔ ہم اس کے جن قابو کرتے ہیں ‘‘ ہم نے سخت لہجے میں کرم دین کی بیوی سے کہا۔

’’اچھا سائیں۔ اچھا‘‘ کرم دین کی بیوی نے جلدی جلدی کہا اور پھر وہ اپنی ساتھی عورت کے ہمراہ چلی گئی۔

چاندنی بدستور قہقہے لگا رہی تھی۔ ہم نے لڑکی کی طرف دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں مقناطیسی کشش تھی۔ ہمارے ہاتھ کانپنے لگے اور ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے سینکڑوں چیونٹیاں ہمارے جسم میں رینگ رہی ہوں۔ ہم نے دل میں ایک بار پھر لاحول ولا پڑھا اور چاندی کو مزید ایک تھپڑ جڑ دیا۔

ہم جانتے تھے اور اکثر اخبارات میں پڑھتے بھی رہتے تھے کہ جعلی پیر جن نکالنے کے بہانے اپنی مریدنیوں کو بے آبرو کر دیتے تھے اور بعض تو ان میں ایسے سنگدل ہوتے تھے کہ اپنا مذموم مقصد حاصل کرنے کے بعد لڑکی کا گلا گھونٹ کر مار دیتے تھے اور اس کارستانی کو جنوں کے کھاتے میں ڈال دیتے تھے لیکن ہم کوئی پیشہ ور پیر نہیں تھے اور نہ ہی ہمارا دل اتنا سخت تھا کہ ہم کسی لڑکی کو بے آبرو کرتے۔ ویسے تو ہم قیس چلبلائی تھے اور عشق ہماری نس نس میں سمایا ہوا تھا۔ ہر حسین چہرے کو دیکھ کر ہمیں لویریا ہو جاتا تھا لیکن ہم کسی کی عزت کے قاتل نہیں بننا چاہتے تھے اور ایسے موقع پر عزت کا قتل تو معصوم اور بیگناہ عورت کے قتل پر مجبور کر دیتا تھا۔ عزت کا قاتل اپنا جرم چھپانے کے لئے جان کا قاتل بھی بن جاتا تھا۔

’’تم مکر کرتی ہو اور وہ بھی ہمارے سامنے ‘‘ ہم نے جلال بھری آواز میں کہا لیکن چاندنی نے ہماری بات پر کوئی توجہ نہ دی۔ وہ قہقہے لگاتی رہی۔ ہمیں غصہ تو بہت آیا لیکن ہم برداشت کر گئے۔

’’ہمیں سب معلوم ہے کہ تمہارے من کا دیوتا کون ہے ‘‘ جیسے ہی ہم نے کہا چاندنی نے چونک کر ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے اندھیرے میں جو تیر چلایا تھا وہ صحیح نشانے پر لگا تھا۔ چاندنی کچھ دیر تک ہمیں دیکھتی رہی۔

’’آپ تو پہنچے ہوئے ہو سائیں۔ لیکن بات آپ نے پرانی کی ہے۔ اب میرے من کا کوئی دیوتا نہیں ‘‘ چاندنی نے کہا۔

’’کیوں۔ اب کیا ہو گیا ہے ‘‘ ہم نے کہا۔

’’آپ جانتے نہیں ہیں یا میری زبان سے سننا چاہتے ہیں ‘‘ چاندنی نے ہمارے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

اس کی نظروں میں ایسا جادو تھا جو زاہدِ صد سالہ کا زہد بھی توڑ سکتا تھا اس لئے ہم نے فوراً اپنی نظریں جھکا لیں۔

’’ہاں۔ ہم تمہاری زبان سے سننا چاہتے ہیں ‘‘ ہم نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔

’’میرے من کا دیوتا اب کسی اور کے من کا دیوتا بن گیا ہے۔ میرے والد کے مسلسل انکار کی وجہ سے اس کے والدین نے اس کی منگنی کہیں اور کر دی ہے اور میرا والد میرے وٹے پر اپنی شادی کرنا چاہتا ہے۔ سائیں ! یہ مرد ہمیں بھیڑ بکری کیوں سمجھتا ہے۔ میری بکری لے لو اس کے بدلے میں اپنی بکری دے دو کیونکہ میری بکری مجھ پر حرام ہے تم پر حلال ہے اور تمہاری بکری تم پر حرام ہے اور میرے لئے حلال ہے۔ لہذا آؤ آؤ تبادلہ کر لیں۔ دونوں بکریوں کو حلال کر لیں ‘‘ چاندنی نے بڑے جذباتی لہجے میں کہا اور اس کا سوال ایسا تھا کہ میں جواب نہیں دے سکتا تھا کیونکہ میرے پاس اس کے سوال جواب تھا ہی نہیں۔

’’میرا وعدہ ہے چاندنی۔ میں تمہارے ساتھ ایسا نہیں ہونے دوں گا‘‘ ہم نے چاندنی سے کہا۔

’’سائیں۔ آپ کیا کرو گے۔ میرے باپ پر تو دوسری شادی کا بھوت سوار ہے ‘‘ چاندنی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

’’میرا نام قیس چلبلائی ہے اور ایسے بھوت اتارنے کا فن مجھے آتا ہے ‘‘ ہم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’پھر بھی کوئی فائدہ نہیں سائیں۔ میرے دیوتا تو کسی اور مندر میں آباد ہو گیا ہے ناں ‘‘ چاندنی نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔

’’ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ صرف منگنی ہوئی ہے شادی تو نہیں ہوئی۔ میں تمہارے باپ کو انسان کا پتر بناتا ہوں۔ اس کے بعد تم اپنے من مندر کے دیوتا کو کہنا کہ اگر اس کی محبت سچی ہے تو وہ اپنے ماں باپ کو دوبارہ تمہارے گھر بھیجے ‘‘ ہم نے کہا۔

’’سائیں۔ کیا واقعی میرا باپ اپنا ارادہ ترک کر کے میری خوشی میری جھولی میں ڈال دے گا‘‘ چاندنی نے بے یقین لہجے میں کہا۔

’’اس کا مطلب ہے کہ تمہیں ہم پر یقین نہیں ہے ‘‘ ہم نے غصیلے لہجے میں کہا تو وہ ڈر سی گئی۔

’’نن۔ نن۔ نہیں سائیں۔ ٹھٹھ۔ ٹھیک ہے سائیں ‘‘ چاندنی نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

’’اب ہم تمہیں تمہاری ماں کے ساتھ بھیج رہے ہیں۔ ہم نے تمہارے جن ٹھکانے لگا دئیے ہیں لہذا اب تم نے ڈرامے بازی نہیں کرنی۔ گھر میں بالکل ٹھیک ٹھاک طریقے سے رہنا ہے ‘‘ ہم نے کہا۔

’’آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر سائیں۔ اب میں بالکل ٹھیک ہوں ‘‘ چاندنی نے اس مرتبہ مؤدبانہ لہجے میں کہا۔

ہم اٹھ کر پہلے والے کمرے میں آ گئے۔ ہم نے کرم دین کی بیوی کو آواز دی۔ وہ ریڑھی سے اتر کر اندر آ گئی۔

’’ہم نے بتایا تھا کہ اس کے جن بہت زور والے ہیں لیکن ہم نے پھر بھی انہیں مار بھگایا ہے۔ اب چاندنی بالکل ٹھیک ہے۔ اسے لے جاؤ۔ انشاء اللہ تمہارا شوہر بھی ایک دو روز میں ٹھیک ہو جائے گا‘‘ ہم نے کرم دین کی بیوی سے کہا۔

’’مہربانی سائیں مہربانی‘‘ کرم دین کی بیوی نے کہا پھر اس نے اپنے پلو سے پانچ پانچ سو کے کچھ نوٹ کھولے اور ہماری طرف بڑھائے۔ چاندنی کے حسن و جمال کو دیکھتے ہوئے ہمارا دل تو چاہا کہ نذرانہ قبول کرنے سے انکار کر دوں لیکن پھر سوچا کہ اگر گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو بھوکا مر جائے گا اور ویسے بھی عامر ہمیں دھمکی دے چکا تھا کہ اگر ہم نے کسی کا نذرانہ قبول کرنے سے انکار کیا تو وہ ہمارے حصے سے کٹوتی کر لے گا۔

’’بی بی۔ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے لیکن چونکہ تمہاری بیٹی کے جن بہت زور والے تھے اور ہم نے انہیں بھگا بھی دیا ہے۔ انہیں بھگانے کے بعد ہم نے کچھ صدقات دینے ہیں اس لئے یہ رقم لے رہے ہیں۔ تم یہ رقم ہمارے خلیفے کو دے دو‘‘… ہم نے کرم دین کی بیوی سے کہا تو اس نے وہ رقم عامر کے حوالے کی اور پھر وہ چلی گئیں۔

’’عامر۔ اپنے ساتھیوں کو کال کرو۔ وہ جنوں والے ماسک میک اپ لیتے آئیں۔ ان دنوں ہمارے پاس جو کیس آئے ہیں ہم وہ کیس حل بھی کر دیں تاکہ ہماری شہرت اور دولت میں اضافہ ہو‘‘ ہم نے عامر سے کہا۔

پھر اسی رات سب دوستوں نے ماسک میک اپ کئے اور گاؤں کے ان گھروں میں پہنچ گئے جن کی شکایات ان کے عزیز و اقارب نے کی تھیں۔ انہیں جنوں کے روپ میں ڈرایا گیا اور پھر اپنے احکامات سنائے گئے۔ ان میں سے کسی میں بھی اتنی جرأت نہ ہوئی کہ ہماری بات ماننے سے انکار کرتا۔

اگلے دن صبح ہی صبح کرم دین تقریباً دوڑتا ہوا ہمارے پاس آیا اور آتے ہی ہمارے پاؤں میں پڑ گیا۔

’’سائیں، سائیں۔ مجھے بچا لیں سائیں جی۔ وہ مجھے مار ڈالیں گے ‘‘ کرم دین نے ہمارے قدموں میں لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے کہا۔ ہم نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا پھر وہ الٹ گیا اور رونے لگا۔

’’رات تمہیں جن اٹھا کر لے گئے تھے۔ وہ آج بھی آئیں گے اور تمہارا خون پی کر جائیں گے ‘‘ ہم نے درشت لہجے میں کہا۔

’’اوہ۔ آپ تو جانتے ہیں سائیں۔ سب جانتے ہیں۔ مجھے بچا لیں میں مرنا نہیں چاہتا‘‘ اس نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔

’’تمہیں مر ہی جانا چاہئے کرم دین۔ تم انسان نہیں ہو بیوپاری ہو۔ اپنی بیٹی کے بیوپاری۔ اسے بیچ کر اپنی شادی کرنا چاہتے ہو۔ تم بے غیرت انسان ہو۔ میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ دفع ہو جاؤ‘‘ ہم نے غصے سے کہا۔

’’اوہ۔ سائیں آپ تو یہ بھی جانتے ہیں۔ ٹھیک ہے سائیں۔ اب یہ نہیں ہو گا۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ مجھے معاف کر دیں۔ اب جہاں اس کی ماں چاہے گی وہیں اس کی شادی ہو گی‘‘ کرم دین نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔

’’اگر تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو ہم تمہاری مدد ضرور کریں گے۔ تمہیں ان خونخوار جنوں سے نجات دلائیں گے ‘‘ اس مرتبہ ہم نے نرم لہجے میں کہا تو کرم دین کے چہرے کے تاثرات پھیل گئے۔

’’مہربانی سائیں جی۔ بہت بہت مہربانی‘‘ کرم دین نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو ہم نے اسے ایک تعویذ لکھ دیا۔

’’یہ لو۔ یہ تعویذ اپنے گلے میں ڈال لو۔ اس کا اثر تین دن رہے گا۔ ان تین دنوں میں تم اپنی بیٹی کی شادی کر دو۔ اس کے بعد ہم آ کر ہم سے ایک اور تعویذ لینا۔ اس کا اثر مستقل ہو گا‘‘ ہم نے کہا۔

’’شکریہ سائیں جی۔ شکریہ۔ میں غلام ہوں آپ کا‘‘ کرم دین نے کہا اور پھر اس نے تعویذ اپنی جیب میں رکھ لیا۔

’’سائیں۔ کچھ نذرانہ بھی ہے ‘‘ اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

’’تمہارا کیا خیال ہے ہم پھونک ماریں گے اور وہ خوفناک جن بھاگ جائیں گے۔ ہم نے تمہیں تعویذ لکھ دیا ہے اب وہ تمہارے پاس نہیں آئیں گے لیکن اپنا غصہ نکالنے کے لئے وہ ہم پر حملہ کریں گے اور ہمیں ان سے بچاؤ کے لئے بہت سے عمل کرنے پڑیں گے۔ شہر سے بہت سی چیزیں منگوانی پڑیں گی جن پر بہت خرچہ آئے گا‘‘ ہم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

’’سائیں۔ یہ ایک ہزار ہے۔ یہ رکھ لیں ‘‘ کرم دین نے کہا اور پھر اس نے جیب سے ہزار ہزار کے تین نوٹ نکالے اور ان میں سے ایک بوسیدہ نوٹ الگ کر کے ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’یہ ہزار روپیہ رکھو اپنے پاس۔ تم نذرانہ نہیں دے سکتے تو کوئی بات نہیں ‘‘ ہم نے منہ بنا کر کہا۔

’’شکریہ سائیں۔ بہت بہت شکریہ۔ میں اب جاؤں سائیں ‘‘ اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔

’’ہاں۔ تم اب جاؤ اور ہم نے تمہیں جو تعویذ دیا ہے وہ واپس دیتے جاؤ۔ ہمارا دماغ خراب ہے کہ ہم اپنے خرچے پر تمہاری جان بچاتے پھریں ‘‘ ہم نے غصیلے لہجے میں کہا تو اس کا منہ لٹک گیا۔

’’اچھا سائیں یہ دو ہزار رکھ لیں ‘‘ کرم دین نے لٹکے ہوئے منہ کے ساتھ دو نوٹ ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’پانچ ہزار کا سامان آئے گا اور ایک کالا بکرا۔ سمجھے تم۔ اگر بندوبست ہو سکتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ جاؤ اور ہمارا وقت برباد نہ کرو‘‘ ہم نے بدستور غصیلے لہجے میں کہا تو اس نے تینوں نوٹ ہماری طرف بڑھائے۔

’’سائیں۔ اس قوت تو میرے پاس یہی تین ہزار ہیں۔ دو ہزار میں پھر دے جاؤں گا‘‘ کرم دین نے کہا۔

’’تمہارے گھر میں کالا بکرا موجود ہے وہ اور دو ہزار ابھی دے جاؤ تاکہ ہم آج رات ہی عمل کر لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں دیر ہو جائے اور جن اپنا وار کر جائیں۔ ‘‘ ہم نے کہا۔

’’ٹھیک ہے سائیں۔ جیسے آپ کا حکم‘‘ کرم دین نے کہا اور پھر اس نے مؤدبانہ انداز میں سلام کیا اور چلا گیا۔

٭٭٭٭

ہمارا دربار خوب چل رہا تھا اور درجنوں کی تعداد میں لوگ روزانہ اپنے مسائل لے کر آ رہے تھے۔ ہماری شہرت اس گاؤں سے نکل کر اردگرد کے دیہات اور شہر تک بھی پہنچ چکی تھی۔ شہری خواتین کی بڑی تعداد ہمارے پاس آ رہی تھی۔ شہری خواتین سے تو ہم خوب رقم بٹور رہے تھے۔ ہم اپنی چکنی چپڑی با توں سے انہیں خوب لوٹتے۔ اب زیادہ تر ایسے لوگ آ رہے تھے جنہیں ہم جانتے نہیں تھے لہذا انہیں ان کے حالات اور مسائل کے بارے میں نہیں بتا سکتے تھے۔ اب ہم فیس ریڈنگ کرتے تھے اور اس کے مطابق محتاط انداز میں بات کرتے تھے۔ آنے والے افراد کے مسائل میں تقریباً پچاس فیصد مماثلت تھی۔ اس لئے بھی ہماری گاڑی نہ صرف چل رہی تھی بلکہ فل سپیڈ سے دوڑ رہی تھی۔ ہم روزانہ ہی دس پندرہ ہزار روپے کما لیتے تھے۔ کھانا پینا گاؤں کے لوگ کرتے تھے۔ روز دیسی گھی میں پکے ہوئے دیسی مرغ، دیسی گھی کی چوری، آم، مکھن، لسی، غرضیکہ خوب عیش ہو رہے تھے۔

ایک دن ہم دربار لگائے بیٹھے تھے۔ پانچ خواتین اور تین چار مرد ہمارے سامنے بیٹھے تھے۔ ایک مرد ہماری ٹانگیں دبا رہا تھا اور ایک مرد ہمارے کندھے دبانے میں مصروف تھا۔ اتنی خدمت ہوتے دیکھ کر عامر کا موڈ خراب تھا۔ وہ اب اکثر کہا کرتا تھا کہ اسے چیلا بننے کی بجائے پیر بننا چاہئے تھا۔ ہمیں ٹانگیں اور کندھے دبوانے کے ساتھ ساتھ ان عورتوں اور مرد پر غصے بھی ہو رہے تھے۔

اچانک دروازے کے قریب ایک کار آ کر رکی۔ کار سے زلفی اور شاہد اتر کر تیزی سے ہماری طرف آئے۔

’’سائیں۔ جلدی سے ہمارے ساتھ چلو۔ ایک ایمرجنسی ہے۔ اٹھو اٹھو۔ ‘‘ شاہد نے ہمارے بازو پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔

’’جلدی چلو۔ پولیس آ رہی ہے ‘‘ شاہد نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا تو ہمارے ہوش اڑ گئے۔

’’چلو چلو۔ تمہارے مریض کے جن نکالنے ہیں ہم نے ‘‘ ہم نے اونچی آواز میں کہا اور دروازے کی طرف بڑھے۔

ہم چاروں جلدی سے کار میں بیٹھے اور پھر کار آگے بڑھی۔

’’تمہیں کیسے پتہ چلا کہ پولیس یہاں آ رہی ہے ‘‘ ہم نے شاہد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’تم جانتے ہو میرے چاچو اے ایس آئی ہیں۔ میں ان سے ملنے تھانے گیا ہوا تھا۔ وہاں مجھے معلوم ہوا کہ کسی نے اس گاؤں میں جعلی پیر کی اطلاع دی ہے۔ پولیس پارٹی ریڈ کی تیاری کر رہی تھی کہ میں شاہد کے پاس پہنچا اور ہم نے کرائے پر کار لی اور تمہارے پاس آ گئے ‘‘ زلفی نے کہا۔

’’اب یہ وگ اور چوغہ بھی اتار دو۔ ایسا نہ ہو کہ پولیس کی گاڑی ہمیں راستے میں ہی مل جائے اور پھر صرف تم دو کی بجائے ہم چاروں دھر لئے جائیں ‘‘ شاہد نے کہا تو ہم نے جلدی سے بڑے بڑے بالوں والی وگ اور چوغہ اتار کر کار کی کھڑکی سے باہر پھینک دئیے اور پھر بیک مرر میں دیکھ کر اپنے ہاتھوں سے اپنے بال سیٹ کرنے لگے۔ ہم جیسے ہی گاؤں کی حدود سے نکل کر میں روڈ پر آئے ہمیں پولیس کا ڈالہ نظر آیا جو گاؤں کے کچے راستے پر اتر رہا تھا۔زذلفی نے کار کی رفتار بہت تیز کر دی۔

٭٭٭

 

 

 

 

دانو اپنے اپنے

 

                   حنیف سید

 

کتنے سال ہوئے ہماری شادی کو ؟‘‘وھائٹ اِسٹون نے میزپرکینوس بچھاتے ہوئے اپنی وائف اسنوہِل سے دریافت کیا۔

’’پورے گیارہ سال، پرکیوں۔ ؟‘‘ اِسنوہِل نے کلرز ٹیبل پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔

’’تم نے اپنے بواے فرینڈسے ملوایانہیں آج تک، مجھ کو!‘‘

’’میرا ہے ہی کہاں بوائے فرینڈ، کوئی۔ ؟‘‘

’’پیار ہی نہیں کیا آج تک تم نے کسی سے ؟‘‘ وھائٹ اِسٹون نے رنگوں میں پانی ڈالنا شروع کیا۔

ہاں ڈارلنگ، کیا تو تھا، ایک سے۔ ‘‘

’’پھر؟‘‘ وھائٹ اِسٹون نے رنگوں میں پانی ملایا۔

’’لات ماردی، اُس کے۔ ‘‘

’’پرکیوں ؟‘‘کینوس پراُس نے ایک جگہ پیلا رنگ اُنڈیلا۔

’’عزت لوٹنا چاہتا تھا، شادی سے پہلے ہی۔ ‘‘

’’مورکھ تھا یار! بہت ہی مورکھ؛ پر رہتا کہاں ہے وہ ؟‘‘ پھر نیلا رنگ دوسری جگہ۔

’’دریا پار۔ ‘‘

’’نام کیا ہے اُس کا؟‘‘ ہرا رنگ تیسری جگہ۔

’’پرمود۔ ‘‘

’’پرمود ملہوترا ؟‘‘ لال رنگ چوتھی جگہ۔

’’ہاں وہی ؛پر تم کیسے جانتے ہو، اُس کو ؟‘‘

’’بس۔ !یوں ہی۔ ‘‘ وھائٹ اِسٹون نے ہاتھ کے پنجے سے ایک ایک کر کے رنگ کینوس پر لگانا شروع کر دِیے۔

’’یہ بنا کیا رہے، ہو ڈارلنگ؟‘‘

’’نقشہ، زندگی کا، اوبڑ کھابڑ، بے ہنگم، اور دل آویز بھی۔ ‘‘

’’پر ہے کس کی زندگی کا یہ؟‘‘ اِسنوہِل، اِسٹول پر بیٹھ گئی۔

’’مورکھ ہو یار ! ‘‘وھائٹ اِسٹون نے مذاق اُڑایا۔

’’کیوں ڈارلنگ ؟‘‘

’’تم پوچھتا ہے کس کی زندگی کا!سب کی زندگی کا، ساری دنیا کے لوگوں کی زندگی کا نقشہ ہے، یہ۔ ‘‘

’’کیا تمھاری زندگی بھی ایسی ہی ہے، ڈارلنگ ؟‘‘

’’ہاں۔ ۔۔ !ہے، بالکل ہے۔ ہنڈرڈپرسنٹ، ایسی ہی۔ اِسی نقشے کی طرح خوب صورت اور رنگین بھی۔ تم۔۔ ۔ !میری زندگی ایسی محسوس نہیں کرتیں کیا؟‘‘

’’کرتی ہوں یار۔ !لیکن صرف تمھاری۔ پر میری زندگی توایسی ہے نہیں !‘‘

’’ہے کیوں نہیں ڈارلنگ! لیکن تم کو اپنی زندگی کا رنگ دیکھنا نہیں آتا۔ میں دکھاتا ہوں تمھاری زندگی، تم کو۔ یہ دیکھو اپنی زندگی!ہے نا اِسی طرح کالی، اندھیری اورسونی بھی؟‘‘وھائٹ اِسٹون نے کینوس پر ایک جگہ کالا رنگ ڈال کر جلدی جلدی لیپ دیا۔

’’ٹھیک کہتے ہو ڈارلنگ۔ !ہے ایسی ہی میری زندگی، بالکل ایسی ہی!‘‘ اِسنوہِل اُداس ہو گئی۔

’’لیکن تم چاہو تو اپنی زندگی کو رنگین بناسکتی ہو، یار!‘‘

’’وہ کیسے ؟‘‘

’’یہ بتاؤ۔۔ ۔ !سارے رنگوں میں تم کو کالا رنگ ہی کیوں پسندآیا ؟‘‘وھائٹ اِسٹون نے دریافت کیا۔

’’کیوں کہ ایسی ہی زندگی ہے میری۔ کالی، اُوبڑ، کھابڑ اور اندھیری بھی۔ پر میں جس زندگی کا رنگ دیکھنا چاہتی ہوں، وہ تو ہے ہی نہیں، اِس میں !‘‘ اِسنوہِل نے افسردگی ظاہر کی۔

’’ہے کون سارنگ وہ، جواِس میں نہیں ہے ؟اگر نہیں ہے، تو جو چاہو اُنڈیل لو، اِس میں۔ ‘‘

’’ڈارلنگ!‘‘اِسنوہِل کی آنکھوں میں نشہ چھا گیا اور وہ اُٹھ کر وھائٹ اِسٹون کی گود میں جھُول گئی، پھر وھائٹ اِسٹون نے اُس کو پہلو میں لیتے ہوئے کینوس اُوڑھ لیا۔ مانو رات کی سنہری چاندنی نے اُن کو اپنی آغوش میں جکڑ لیا ہو، مانو اُن کی رُوحیں سینکڑوں بے باک تتلیوں، پریوں، جگنوؤں اور خوش بوؤں کے گلستاں میں دل آویزموسیقی کی دھنوں پر رقص کر رہی ہوں۔

’’کیا ہماری دنیا سنہری ہو گئی ؟‘‘کچھ دیربعداِسنوہل نے کینوس ہٹاتے ہوئے پوچھا۔

’’رَب جانے، لیکن تم بد رنگی ضرور ہو گئیں۔ ‘‘وھائٹ اِسٹون نے اپنالباس درست کیا۔

’’اور تم بھی۔ ‘‘اِسنوہِل نے بھی خود کو سنبھالا۔

’’کون کتنا بد رنگا ہے ؟یہ تو آئینہ بتائے گا۔ ‘‘وھائٹ اِسٹون نے کہا اور دونوں ایک دوسرے کے سہارے اُٹھ کر آئینے کے رو بہ رو پہنچ گئے۔ پھر دونوں نے ایک دوسرے کو آئینے میں دیکھ کر قہقہوں سے سنسان حویلی کی دھجیاں اُڑا دیں۔

’’ڈارلنگ!ہمارے ساتھ ہنسنے والی تیسری کلکاری بھی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا؟‘‘اِسنوہل سنجیدہ ہو گئی

’’ہاں۔ ۔۔ !یہ توہے۔ اور اگر نہیں ہے، تو؟‘‘

’’تو کیا خاک زندگی ہے، یہ ؟اوبڑ کھابڑ اور بد رنگی بھی!‘‘

’’اُوبڑ کھابڑ، بد رنگی، کھٹّی۔ کچھ میٹھی، یعنی کہ کھٹ مِٹھّی، یہی تو زندگی ہے، یار! ‘‘ وھائٹ اِسٹون نے سمجھایا۔

’’ہُنہ۔ !اُوبڑ کھابڑ، کھٹ مِٹّھی۔ زندگی !‘‘اِسنوہِل نے بھر پور طنزک یا۔ ‘‘

’’ہاں۔ ۔ !یہی زندگی ہے، یار!اچھا دیکھو۔۔ ۔ !جب تم سے چکّر چلا تھا میرا، توہم دونوں کالج چھوڑ کر کہاں جاتے تھے ؟‘‘

’’لالو چاٹ والے کے یہاں۔ ‘‘

’’ہاں ! اور تم وہاں مرچ منگوڑے، بریڈ پکوڑے اور دال کچوڑے، یعنی کہ سبھی کچھ گڈ مڈ کر کے اور کھٹ مِٹھی چٹنی ڈال کر کھایا کرتی تھیں نا۔۔ ۔ ! یا کہ نہیں ؟‘‘وھائٹ اِسٹون نے اِسنوہِل کو یاد دلایا۔

’’وہی توپسند تھی، مجھ کو۔ ‘‘

’’اِسی لیے نا!کہ گڈ مڈ اور کھٹ مِٹّھی تھی، وہ۔ ‘‘

’’یہ توہے۔ ‘‘

’’ہاں یار!سب آسانیاں ہوں تو زندگی دشوار ہو جائے، اب دیکھوناپہاڑسے برف پگھل کرپانی آبشار کی شکل میں گِرتا ہے، پتھروں سے ٹکراتا ہے، دھوپ، دھول سے گزرتا ہے، کتنا میٹھا ہوتا ہے۔ ہوتا ہے نا؟‘‘

’’ہوتا ہے۔ ‘‘اِسنوہِل نے افسردگی سے کہا۔

’’ہاں !جِس کو ہر کوئی شوق سے پیتا ہے۔ ٹھنڈا ٹھنڈا کول کول۔ اِس کے برعکس تالاب کا سڑا جل، جِس کو جانور بھی پیناپسند نہیں کرتے۔ ہے نا ؟‘‘

’’ہاں، ہے۔ ‘‘

’’اسی طرح تمھارے چہرے پر بنی یہ اندر دھنش؛ تمھاری بیوٹی کو کتناسوئٹی بنا رہی ہے، یار!‘‘وھائٹ اِسٹون کا مُنہ اِسنوہِل کے گالوں کی جانب لپکا۔

’’ہٹو ڈارلنگ۔ !مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ‘‘

’’اچھا، یہ آرٹ دیکھو !‘‘وھائٹ اِسٹون نے کینوس کے پاس آتے ہوئے آگے کہا ’’اِس میں ہے کیا ؟کچھ بھی تو نہیں، لیکن تم جانتی ہویار کہ یہ پینٹنگ لاکھوں کی پسندبنے گی، کیوں کہ اِس میں سب کی پسند کے اپنے اپنے رنگ ہیں، کوئی ہرا رنگ دیکھے گا، تو کوئی نیلا۔ کوئی لال دیکھے گا، تو کوئی پیلا اور کوئی گلابی دیکھے گا، تو کوئی کالا بھی۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’کیوں کہ بدلاؤ چاہتی ہے، یہ دنیا۔ آج تم اسکرٹ ٹاپ میں  کتنی پیاری لگ رہی ہو۔ ‘‘

’’اُس دِن تو بولا تھا جینز شرٹ میں پیاری لگتی ہو۔ ‘‘

’’اچھا، تو تم نے میری برتھ ڈے پر مجھے ساڑی بلاؤز نہیں پہنایا تھا، کیا؟‘‘وہ مسکرایا۔

’’ساڑی بلاؤز میں تو تم بہت پیارے لگے تھے، یار۔ کیا خوب تھے کانوں کے کنڈل اور ماتھے کی بندی۔ لپ اسٹک تو کیا خوب بول رہی تھی، ہونٹوں پر۔ اور تمھاری چوٹی دیکھ کر تو کتنے غضب کا طوفان چڑھ گیا تھا میرے دِل و دماغ میں، تم اِسے کٹوانا کبھی مت۔ ‘‘

’’تم بھی چوٹی میں بہت پیاری لگو گی، یہ بوائے کٹ بال، تو چبھنے لگے ہیں مجھ کو، اَب۔ ‘‘

’’اِسی لیے تو اَنجلی کی برتھ ڈے پر اُس لمبے بالوں والی کو بڑے چاوسے گھور رہے تھے، تم۔ ‘‘

’’نہیں یار۔ !تم غلط سوچتی ہو، اچھا بتاؤ۔ !کیا میں تم سے پیار نہیں کرتا؟‘‘ وھائٹ اِسٹون نے سارے دانت نکال دیے۔

’’کرتے ہو۔ ‘‘

’’تمھاری ہر خواہش کا خیال نہیں رکھتا ؟‘‘

’’رکھتے ہو۔ ‘‘

’’دولت، گاڑی اور بنگلا نہیں ہے تمھارے پاس؟‘‘

’’پر ٹونی چاہیے مجھے تو۔ ‘‘

’’وہ بھی مل جائے گا۔ ‘‘

’’پر کب ؟‘‘ گیارہ سال تو ہو گئے ہیں، شادی کو۔ ‘‘

’’ابھی بارہ تو نہیں ہوئے، یار؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’ پہلے بارہ تو ہونے دو۔ ‘‘

’’یہ تو تم ہر سال، ایک سال بڑھا دیتے ہو۔ ‘‘

’’یہ تو وہی بڑھاتا ہے۔ ‘‘

’’کون؟‘‘

’’وہی جُوتِشی۔ ‘‘

’’وہ تو لالچ میں بڑھا دیتا ہو گا۔ تم ایک دم سے زیادہ کیوں نہیں دے دیتے اُس کو رقم۔ ‘‘

’’اچھا تو ابھی دے کر آتا ہوں۔ ‘‘

٭٭٭٭٭

’’دے آئے ؟‘‘وھائٹ اِسٹون، جب جُوتِشی کے یہاں سے لوٹا تو اِسنو ہِل نے چہک کردریافت کیا۔

’’دے آیا۔ ‘‘

’’کیا کہا، اُس نے ؟‘‘

’’اُس نے کہا: ’’سال بھر کے اندر آ جائے گا ٹونی۔ ‘‘

’’قسم سے ؟ ‘‘

’’بائی گاڈ۔ ‘‘

’’اور کیا کہا، اُس نے ؟‘‘

’’اور کہا:اپنے پرانے دوستوں سے سمبند ھ بنا کر رکھو۔ !لابھ ہو گا۔ ‘‘وھائٹ اِسٹون نے بتایا۔

’’یہ کیا ہے ہاتھ میں ؟‘‘

’’تصویریں۔ ‘‘

’’مگر ہیں کِس کی؟‘‘

’’گرلز فرینڈز کی۔ ‘‘

’’پر تھیں کہاں یہ؟‘‘

’’فوٹوگرافر کے یہاں۔ ‘‘

’’لائے کیوں، ان کو؟‘‘

’’سمبندھ بڑھانے کے لیے۔ کمرے میں سجانے کے لیے، لابھ ہو گا۔ ‘‘ وھائٹ اِسٹون نے بنا جھجک بتایا۔

’’اے، بھگوان !کیا واقعی تمھارے سمبندھ رہے، اتنی لڑکیوں سے ؟‘‘اِسنو ہل نے تصویریں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

ہاں ہاں، رہے تو !‘‘

’’اِس میں شادی سے پہلے کی کتنی ہیں ؟‘‘

’’کوئی بھی نہیں، سب بعد کی ہیں۔ ‘‘

’’تم تو کہتے ہو، تم ہی سے پیار کرتا ہوں۔ ‘‘

’’وہ تو کرتا ہوں۔ ‘‘

’’تو یہ سب کیا ہے ؟‘‘

’’روز روز بریانی اچھی لگتی نہیں، یار۔ !کبھی کبھی چٹنی کو بھی دِل کرتا ہے، ہے کہ نہیں ؟‘‘

’’ہاں، ہے تو !پر ہے غلط یہ۔ ‘‘

’’ غلط ولط کچھ نہیں یار۔ اب دیکھو۔ !اپنے مکان میں ساری کی ساری چیزیں وہی ہیں۔ ہیں نا وہی ؟‘‘

’’ہاں ہیں۔ ‘‘

’’لیکن جِس دن تم گھر کا ڈیکوریشن چینج کرتی ہو، سُوَرگ ہو جاتا ہے یہ گھر۔۔ ۔ ہے کہ نہیں ؟‘‘

’’یہ تو ہے !‘‘اِسنوہِل کا مُنہ جیسے کڑوا ہو گیا ہو۔

’’بس اِسی طرح ساری دنیا چاہتی ہے بدلاؤ، اب دیکھو نا! بوائز، اپنی گرلز فرینڈز کو اور گرلز، اپنے بوائز فرینڈز کو لبھانے کے لیے اپنے اپنے لباسوں اور رکھ رکھاؤ میں کس قدر بدلاؤ لا کر اپنی اپنی زندگی کو خوش گوار بنا رہے ہیں۔ تمھارا بوائے فرینڈ مورکھ تھا۔ آج شام اُس کے یہاں چلیں گے۔ ‘‘

’’نہیں؛ میں نہیں جاؤں گی، وہاں۔ ‘‘

’’جاؤ گی کیوں نہیں، یار! جُوتِشی نے کہا ہے؛ پرانے دوستوں سے سمبندھ بنا کر رکھو!لابھ ہو گا۔ یہی تو مزہ ہے زندگی کا، کہ جیو اور جینے دو۔ اور سنا ہے کہ دریا پار کرو تو سب پاپ دھُل جاتے ہیں۔ ویسے میں نے ملہوترا کوفون بھی کر دیا ہے، کہ ہم دونوں آ رہے ہیں، سنڈے کو۔ ‘‘

٭٭٭٭٭

’’کون ؟‘‘

’’میں ہوں، وھائٹ اِسٹون۔ یعنی کہ اِسنوہِل کا ہسبینڈ۔ اِسنوہِل بہت سیدھی ہے، بے چاری اور وفا دار بھی۔ شادی کے گیارہ سال بعد بھی نہیں بھولی آپ کو۔ ‘‘وھائٹ اسٹون نے اندر داخل ہوتے ہوئے پرمود ملہوترا کو تفصیل سے بتایا۔

’’اچھا اچھا، آئیے۔ آئیے صاحب!‘‘پرمود نے دونوں کو بلا کر کمرے میں بڑی عزت سے بٹھا لیا۔

’’اور یہ ہیں، راگنی۔ یعنی کہ میری وفا دار بیوی۔ ‘‘پرمود نے بتایا اور راگنی مسکراتی ہوئی بیٹھ گئی۔

’’معاف کیجیے ! کہیں دیکھا ہے، آپ کو !‘‘اِسنوہِل نے راگنی سے دبے لہجے میں دریافت کیا۔

’’سوال ہی نہیں ہوتا۔ یہ کل ہی تو آئی ہیں، امریکاسے۔ یعنی کہ پورے دس سال بعد، اپنے بھائی کے پاس سے۔ ‘‘پرمود نے بتایا، اور راگنی، وھائٹ اِسٹون کو دیکھ کر مسکرا دی۔

’’اگلے سنڈے کو آئیں، آپ لوگ بھی۔ ‘‘گپ شپ اور چائے وغیرہ کے بعد وھائٹ اِسٹون نے اُٹھتے ہوئے کہا۔

’’اچھا اچھا ضرور آئیں گے ہم دونوں، اگلے سنڈے کو۔ ‘‘راگنی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

٭٭٭٭٭

’’پرمود کے آنے سے پہلے راگنی کی تصویر ہٹا دو، ورنہ پہچان لے گا، وہ۔ ‘‘

’’پراُس نے تو ہٹائی نہیں تھی، تمھاری تصویر۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حالاتِ مس حاضرہ

 

چہ نسبت را با عالمِ خاک

 

                   محمد نور خان

 

کچھ لوگوں کو ہر بات میں خواہ مخواہ کیڑے نکالنے کی عادت ہوتی ہے اور وہ بغیر سوچے سمجھے جو منہ میں آئے، بکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ہمارے مخدوم اور صوفی منش وزیرِ اعظم کی سواری کراچی آئی تو حسبِ عادت و روایت ہماری ایجنسیوں کے حفاظتی اہل کار اپنی درجنوں گاڑیوں کے گھیرے میں لے کر انہیں ان کی منزل پر پہچانے کی جنونی کیفیت میں مبتلا نظر آئے۔ ان کی اس بیچارگی پر اظہارِ ہمدردی کی بجائے اعتراضات کی بھر مار سے ایک گو نہ بیزاری سی محسوس ہوئی اور لوگوں کی بے حسی پر رونا آ گیا۔ اس وقت یہ تلخی مزید بڑھ گئی جب شام کو ایک حکومت مخالف چینل نے اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے نہ صرف جنابِ وزیر اعظم کی اسمبلی کے فلور پر وہ تقریر دکھانا شروع کر دی جس میں انہوں نے حلفاً کہا تھا کہ وہ صرف تین چار گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ سرکاری سفر کرتے اور ڈرائیونگ بھی خود کرتے ہیں اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس زمانے میں ایسی بے لوث بے اعتنائی شاید ہی دنیا کا کوئی اور فرمانروا دِکھا پائے گا۔

لیکن بجائے اس کے کہ اس پر ان کی تعریف کی جاتی اور وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دعوے داروں کو اس روشن مثال کو گرہ میں باندھنے کا مشورہ دیا جاتا، مذکورہ چینل نے کراچی میں ان کے حالیہ سفر پر درجنوں پولیس اور دوسری ایجنسیوں کی رنگ برنگی جلتی بجھتی بتیوں والی گاڑیوں کو اس طرح دکھانا شروع کر دیا جیسے بے شمار ستارے اور سیارے اپنے مرکز کے مدار میں والہانہ گردش کر رہے ہوں۔ صرف اس وِڈیو ہی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ پسِ پردہ صوتی اثرات یعنی رَننگ کمنٹری بھی جاری رہی:

’’ دیکھئے ناظرین !ان گاڑیوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے جو انہیں اپنے جلو میں لئے ہٹو بچو کا ہوٹر بجاتی معصوم شہریوں کو خوفزدہ کر رہی ہیں اور یہ بھی دیکھئے ناظرین کہ جنابِ وزیر اعظم خود ڈرائیونگ اس لئے کر رہے ہیں کہ انہیں بیش قیمت گاڑیوں کی ڈرائیونگ کا بے انتہا شوق ہے۔ بتائیے ناظرین انہیں کس نے حق دیا ہے کہ وہ شہر قائد کی سڑکوں پر فاتحانہ قبضہ کر کے بے بس شہریوں کو یرغمال بنائیں ؟ ٹریفک میں پھنسے بے بس عوام، بوڑھوں، عورتوں اور گرمی اور حبس سے بلبلاتے شِیر خوار بچوں کی حالت زارملاحظہ کریں اور ذرا یہ دیکھئے کہ ایدھی کے ایمبولینس میں کراہتے مریض اور تڑپتی حاملہ خاتون کا کیا حال ہو گیا ہے۔ کیسی بے چارگی… کیسی بے بسی ہے یہ…؟‘‘

جب اس نیوز ریڈر نما اینکر اور اس کے پروڈیوسر نے یہ محسوس کیا کہ بات اب بھی نہیں بنی تو ایک قدم اور آگے جاتے ہوئے انہوں نے ’’۱۰۔ ڈاؤننگ اسٹریٹ‘‘ پہ ریکارڈ شدہ کسی برطانوی وزیر اعظم کی رخصت کا منظر دکھانا شروع کر دیا کہ ’’ دیکھئے ! تاجِ برطانیہ کی یہ سادگی اور ہم جیسے غریب اور خیرات پر پلنے والے ایک مسکین ملک کے مسکین وزیر اعظم کی یہ شان و شوکت۔ ‘‘اس سے پہلے کہ اس چینل کی اس چھچھوری حرکت پر کوئی تبصرہ کیا جائے ’’۱۰۔ ڈاؤننگ اسٹریٹ‘‘ کے بارے میں اتنا جاننا کافی ہے کہ یہ امریکی وائٹ ہاؤس، پاکستانی ایوانِ وزیر اعظم یا ۷۰۔ کلفٹن اور ۹۰۔ عزیزآباد قبیل کی چیز ہے۔ عام فہم زبان میں اسے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ کہا جاتا ہے۔ مزید وضاحت کے لئے اسے سرکاری ایوان یا محل سمجھ لیں جِسے فارسی میں ’’کاخ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اگر اسے اُلٹ کر پڑھیں تو لفظ ’’خاک‘‘ وجود میں آتا ہے۔ اتنا جاننے کے بعد آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارے پاکستانی محلات اور کروفر کے مقابلے میں ’’۱۰۔ ڈاؤننگ اسٹریٹ‘‘ پر خاک ہی ڈالنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر اس تفصیل سے یہاں ہم اُس مشہور مثل کی یاد دلانا چاہتے ہیں جو صدیوں پہلے کسی دیسی ناسٹراڈیمس (فرانسیسی مفکر) نے ایک سچی پیش گوئی بطور مثل کے زبان زد عام کر ڈالی تھی۔ وہ مشہور مثل ’’ چہ نسبت خاک را با عالم پاک‘‘ ہے یعنی خاک کو عالم پاک یعنی آسمان سے کیا نسبت؟ شروع شروع میں یہ ’’ خاک‘‘ کی بجائے ’’کا خ‘‘ یعنی برطانوی محل کی طرف واضع اشارہ تھا جو غلط العوام کی وجہ سے صدیوں بعد ’’خاک‘‘ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ تاہم مفہوم اب بھی واضع ہے کہ برطانوی محل یعنی ’’۱۰۔ ڈاؤننگ اسٹریٹ‘‘ اورپاکستانی محلات میں کیا نسبت؟ یعنی خاک(برطانیہ) پاک (پاکستان) کی برابری کر ہی نہیں سکتا۔

اسلئے اے بھائیو! ان بے جا اعتراضات کو چھوڑو اور ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو کہ آخر اقوامِ عالم میں ہمیں بھی اپنی عزت و حرمت اور رعب و دبدبہ دِکھانا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے یہاں دِکھانے کو بہت کچھ ہے مگر ہم تو کسی کو ٹھینگا بھی نہیں دکھا سکتے۔ اس لئے اسے ہماری مجبوری سمجھو اور ان پُر شکوہ سواریوں پر معترض ہو کر بلاوجہ ’’ ضمیر ضمیر‘‘ نہ کھیلو کیونکہ بقول استا ذی عطاء الحق قاسمیؔ ’’ ضمیر کسی غلط کام پر روکتا نہیں، صرف اس کا مزا کر کرا کر دیتا ہے۔ ‘‘

پھر یہ بھی سوچو کہ ہمارے رہبرانِ قوم اس عالمِ دہشت گردی کے ماحول میں اپنی جان ہتھیلی پر لئے عوام کے درد کا درماں کرنے نکلتے ہیں تو کیا ہمارا اتنا بھی فرض نہیں بنتا کہ ہم چند سڑکوں پر چند گھنٹوں کی رکاوٹ برداشت کر لیں ؟ ایسے میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایمبولینس میں کسی مریض اور رکشے میں درد زِہ سے تڑپتی کسی خاتون کی بے بسی دکھا کر احساسِ ترحم و بیزاری بڑھا کر دنیا والوں کو ہم کوئی اچھا پیغام نہیں دے رہے۔ دوچار گھنٹوں میں کوئی آ سمان نہیں ٹوٹ پڑتا۔ اگر خدا نخواستہ کوئی ضدی بچہ اس دنیا میں وارد ہونے کی جلدی میں ایک رکشے ہی کا انتخاب کر لے تو تالیفِ قلب کے لئے ایسے بچوں کے والدین کی پہلے بھی سرکاری امداد کی جا چکی ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہمارے حکمران اس معاملے میں کسی کنجوسی سے کام نہیں لیں گے۔ آخر انواع و اقسام کے ٹیکس کیوں وصول کئے جاتے ہیں !

تاہم ہمیں ایک شبہ ہے۔ کہیں ایسے مریض اور اس طرح کی خواتین جانتے بوجھتے کسی شاہی سواری، معاف کیجئے، سرکاری سواری کے منتظر تو نہیں رہتے کہ اسی بہانے سرکارِ عالی دربار سے دو چار لاکھ روپے اینٹھ سکیں ؟ اس لئے ان جیسوں کی حوصلہ شکنی کے لئے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وی آئی پیز کی نقل و حرکت کے لئے شہری حدود میں ہیلی کاپٹرز استعمال کئے جائیں۔ ویسے تو ہیلی کاپٹر ہر جگہ اتر سکتے ہیں تاہم کسی جگہ ہیلی پیڈ کا مسئلہ ہو تو اس کا بھی ایک آسان حل ہے۔ کریں یہ کہ ایک وسیع و عریض مصنوعی ہیلی پیڈ زنجیروں سے باندھ کر چند دیو ہیکل ہیلی کاپٹرز آگے آگے اُڑیں اور جہاں ظلِ سبحانی اور ان کے درباریوں کا دربار لگا نا مقصود ہو، وہاں آناً فاناً یہ ہیلی پیڈ نصب کر دیئے جائیں۔ اللہ اللہ، خیر صلیٰ!

لو جی! ان ہڈ حرام مریضوں اور ہر معاملے میں امداد مانگ کر عالیجاہوں کی خلوت و جلوت کے مزے کِرکِرا کرنے والی عورتوں کے شر سے چھٹکارے کا ہم نے ایک بہترین حل پیش کر دیا ہے۔ مگراللہ کرے اس کا بھی وہی حشر نہ ہو جو کوئلے سے گیس بنا کر بجلی پیدا کرنے کا مشورہ دینے اور اس کے لئے فنڈز لینے والے سائنس دانوں کی کوششوں کا ہو رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ڈوب مرنا چاہیئے

 

                   ضیا اللہ محسنؔ

 

پچھلے دنوں ہمیں راوی کنارے جانے کا اتفاق ہوا، اپنے ریڈیو پروگرام سے فارغ ہو کر ہم چند دوستوں کے ہمراہ پک اپ میں سوار ہوئے، سردی اپنے عروج پہ تھی، ہماری منزل تقریباً ۴۰کلومیٹر دور تھی، شمالی اور جنوبی پنجاب کے سنگم پہ واقع یہ مشہور زمانہ دریائے راوی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ، اور فیصل آباد کو سرزمینِ ساہیوال سے جدا کرتا ہوا گزرتا ہے۔ دریائی علاقوں کے آس پاس رہنے والے باشندے بھلے مفلوک الحال ہوں، مگر خوش مزاجی اور زندہ دلی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ اپنے پسماندہ علاقے کی مناسبت سے وہ بڑے فخر کے ساتھ ’’ راوی۔۔ ناں کوئی آوی۔۔ ناں کوئی جاوی ‘‘ کے نعرے الاپتے ہیں۔ (یعنی ایسا علاقہ جہاں نہ کوئی آئے نہ کوئی جائے )

اِس یاترا سے قبل ہمارے ایک قیافہ شناس دوست سکندر نے ہمیں بتایا کہ ’’دوستو! خوشخبری یہ ہے کہ بھارتی اور چند پاکستانی سیاستدانوں کی پوری کوشش کے باوجود ابھی بھی راوی میں کچھ کچھ پانی دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘ مگر۔۔ یہ کیا، ہم موقع پر پہنچے تو سب کچھ اس کے برعکس نکلا۔

پانی پانی کر گئی مجھ کو سکندر کی وہ بات

کنارے پہ پہنچ کے دریا پر ہم نے ایک طائرانہ نظر دوڑائی۔ پانی کی عدم دستیابی کے باوجود ہمیں یوں لگا کہ جیسے بے چارے سکندر پہ گھڑوں پانی پڑ چکا ہو، راوی کے جھومتے، گاتے اور اچھلتی لہروں کے نظارے تو دور کی بات، چُلو بھر پانی بھی وہاں دستیاب نہ تھا، بلکہ خشک اور بے جان دریا ہمارا منہ چڑا رہا تھا، وہ تو بھلا ہو ہمارے ان شاعر حضرات کا جو ایسی نازک صورت حال میں بھی ڈوبنے کے نت نئے مقام دریافت کرتے رہتے ہیں ؎

اُس کی آنکھیں تو سمندر سے بھی گہری تھیں وصی ؔ

تیرنا آتا تھا لیکن، ڈوبنا اچھا لگا

صد افسوس کہ ماضی میں ہماری قوم سے کئی بار جانے انجانے میں شاعر موصوف جیسی ’’حرکتیں ‘‘سر زد ہوتی رہی ہیں۔ اور تو اور آج بھی وطن کے لئے جان نثاری و وفا شعاری کے دعوے تو خوب ہیں، مگر عمل ندارد۔۔ ۔ ایک طرف تو کٹ مرنے اور ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کے نعرے۔ ۔ تودوسری جانب ملکی صورت حال پہ محض ڈوب مرنی کا ’’ جذبہ ‘‘بھی ہماری قوم میں سے ختم ہو چکا۔ حالانکہ ایسے کاموں میں زبانی کلامی ایک آدھ پیالہ پانی سے زیادہ کچھ خرچ نہیں آتا، مگر یوں لگتا کہ قوم پہ منحوسی کے بعد اب کنجوسی کے سائے بھی گہرے ہونے لگے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہماری قوم چُلو بھر پانی کا خرچ کرنے کو بھی تیار نہیں۔ ورنہ ماضی میں ایساجذبہ ہر حساس دل میں مقید ہوا کرتا تھا۔ یقین نہ آئے ذرا اپنے محاوروں پہ ہی نظر دوڑا لیجئے۔ کئی بار ہم اپنی حرکتوں سے وطن عزیز کو یہ باور کروا چکے کہ

ہم تو ڈوبے ہیں ’’وطن‘‘ تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے

مندرجہ بالا سطور میں پانی کا ایک پیالہ تو ہم نے تکلفاً عرض کر دیا، حالانکہ یہاں تو بغیر پانی کے ڈوب مرنے کی مثالیں بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں۔ آپ ۲۰۰۷ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کو ہی دیکھ لیجئے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے گورے کوچ باب وولمر نے دن رات محنت کر کے ٹیم کو دنیا کی تیسری بہترین ٹیم بنا دیا تھا۔ لیکن جب پھل کھانے کا موسم آیا تو پوری ٹیم نے ’بے وفائی ‘کے وہ ریکارڈ بنائے کہ بے چارا باب وولمر غیرت کھا کر ’’ ڈوب‘‘ مرا۔ اس کام میں کسی ایک کھلاڑی نے بھی اس کا ساتھ نبھانے کی کوشش نہیں کی۔ اس سے ایک بات تو واضح ہوئی کی احساس زیاں یا اپنی حالت زار پہ ڈوب مرنے کا جذبہ جن قوموں میں مفقود ہو جائے وہ ترقی کے سہانے سپنے دیکھنے کی اہل نہیں ہوا کرتیں۔

خیراس پہلو کو اگر کسی اور تناظر میں دیکھا جائے، تو ہو سکتا ہے یہ ہماری قوم کی دوراندیشی ہو، اور شاید اسی لئے ملک میں پانی کی قلت کے باعث قوم محاورۃً بھی ’’ڈوب مرنے ‘‘کی متحمل نہ ہو سکتی ہو۔ اس دن راوی کنارے پاؤں پسارے یہی بات بار بار ہمارے دل و دماغ پہ دستک دیتی رہی۔ ہمیں ڈاکٹر اقبالؒ بہت یاد آئے، نہ جانے کیا سوچ کر انہوں نے فرمایا ہو گا ؎

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

اقبال جیسا دانشور جو ایک بار اسکول سے ہونے والی تاخیر کو بھی اپنے کھاتے میں امر کر گیا، ایسا دانشور آج اگر زندہ ہوتا تو معذرت کے ساتھ اپنا یہ شعر واپس لے چکا ہوتا۔ وجہ معلوم کہ فی زمانہ موجوں میں اضطراب تو درکنار، موجوں کا منبع و ماخذ یعنی پانی ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، تو باقی کیا بچا، مطلب جب موجیں ہی نہیں تو اضطراب کیسا۔۔ ؟ ہاں۔ ۔ البتہ موجیں اگر کہیں ہیں تو اس کی نشاندہی ہم کیے دیتے ہیں۔ بقول ہمارے اپنے ہی، (اقبال سے معذرت کے ساتھ)

ملک قائم ربط ڈالر کے سوا، اب کچھ نہیں

موج ہے سرکا رکی، دریاؤں میں تو کچھ نہیں

بات دور نکل گئی، دوران سیر ہماری ایک دو مقامی راوین سے بات ہوئی تو بولے ’’جناب ! راوی کی شان و شوکت معدوم ہو رہی ہے، مگر حکومت کا راوی فی الحال چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ ‘ لیجئے آپ کو مزے کی ایک اور بات بتاتے جائیں، پچھلے پچاس سال سے یہاں کے مقامی لوگ حکومتوں سے یہی مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ بہتے راوی پہ ہمیں ایک عدد پل بنا دیا جائے، جو ساہیوال اور فیصل آباد کی دھرتی کو آپس میں ملا کر فاصلوں کو کم کر دے، لوگوں کو شکایت تھی کہ اس مطالبے کے باوجود کسی حکومت کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ ‘ ان سادہ لوح لوگوں کو کوئی بتائے کہ حکومت کے کان اتنے فارغ تھوڑی ہیں۔ اگر ہوں بھی تو بھلا حکمرانوں کے سر میں جوئیں کہاں سے آئیں گی۔ ؟ جو ان کے کان پہ رینگ سکیں۔ ‘‘

شاید حکمرانوں کو راوی کے سوکھنے کا انتظار تھا۔ چناں چہ جب لوگ اپنی مدد آپ کے تحت پانی کی غیر موجودگی میں خشک دریا کو عبور کرنے لگے تو جلدی سے احسان عظیم کرتے ہوئے دریا کے اوپر بھاری بھرکم پل کھینچ دیا گیا۔ واہ رے سرکار، ، تیری پھرتیاں۔ گزشتہ سے پیوستہ دور حکومت میں کچھ ایم این ایز نے دریائے راوی کی حالت زار پہ کافی واویلا مچا رکھا تھا۔ مگر ان کے منہ کو ’شوربہ ‘‘لگا کر سب کی بولتی بند کرا دی گئی، فوجی حکومت کی طرف سے گوادر پلاٹوں کی منڈی لگی تو راوی کے ان ’’ہمدردوں ‘‘نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ یہاں تک کہ میڈیا کو بھی کہنا پڑ گیا ؎

اپنے سبھی تعلق، حکومت کے ساتھ رکھ

پیوستہ رہ صدر سے امید پلاٹر کھ

خیر جیسے تیسے ہم کڑوا گھونٹ بھرے راوی یاترا کے بعد واپس لوٹے۔ اگلے ہی روز حکومت کے ایک وزیر محترم کی جانب سے اہل پاکستان کو خبر دار کیا گیا کہ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ انتہائی کم رہ گیا ہے وجہ ٹمبر مافیا ہے جس نے اس معاملے میں اپنا مکروہ دھندا شروع کر رکھا ہے، ‘‘ دھت تیرے کی۔۔ اگلے چند ہفتوں بعد ایک اور وزیر با تدبیر کا فرمان آنکھوں کو ’’فرحت‘‘ بخش گیا۔ ’’پاکستان میں جلد ہی پانی کے شدید بحران کا خدشہ ہے۔ ‘‘ یا اللہ خیر۔۔ یقین جانیے ارض وطن پہ جنگلات اور پانیوں کے سب بڑے دشمن توہم خود ہی ہیں، شاید اسی لئے

دشت تو دشت، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

پھر اسی پہ بس نہیں۔ ۔۔ حرکتیں بھی اپنی عجیب سی ہیں۔

اور سینٹ میں بھی دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے

حرفِ آخر یہی کہ جس دن ہماری قوم نے اپنی حالت پہ شرم سے ڈوب مرنا سیکھ لیا، سمجھ جائیے اس روز ’’کارواں کے دل میں احساس زیاں پیدا ہو جائے گا، اسی روز ہم ترقی کا اصل مفہوم سمجھ پائیں گے۔ پھر تقدیر بھی انہیں قوموں کی بدلتی ہے۔

دیس کی عظمت کی خاطر، کچھ تو کرنا چاہئے

ہیں بہت بگڑے، مگر اب تو سدھرنا چاہئے

خشک ہو گئے سارے دریا بے حسی کی دھوپ سے

دھرنے والو! اس طرف بھی ایک دھرنا چاہئے

اک منسٹر نے یوں کی، تعریف انکل سام کی

جس کا کھاتے ہو، اسی کا دم بھی بھرنا چاہئے

ایٹمی طاقت ہیں محسنؔ، ہاتھ میں کشکول ہے

ایک پیالہ لے کے پانی، ڈوب مرنا چاہئے

٭٭٭

 

 

نظمالوجی

 

شاہد آفریدی

 

                   عابد محمود عابد

 

میداں میں آیا شاہد خان

اب روئے گا دشمن کپتان

بالر کی بھی جائے گی جان

آدھے گھنٹے کا ہے مہمان

لیکن اس آدھے گھنٹے میں

رنوں کا لائے گا طوفان

شاہد مارے چوکے چھکے

بالر کیسے روکے چھکے

اُونچی شاٹیں جھٹ پٹ کھیلے

شاہد ہُک کھیلے کٹ کھیلے

روئے نہرا اور بالا جی

اتنا مت مارو لالہ جی

کچھ میچوں میں ٹل جاتا ہے

لیکن جب یہ چل جاتا ہے

ہر بالر کودَل جاتا ہے

دُھونی کتنا جل جاتا ہے

پہلے ففٹی کرنا لالہ

تم پھر تیزی کرنا لالہ

٭٭٭

 

 

 

 

دو بیویوں کا شوہر

 

                   نیلوفر فصیح نور

 

ہائے ہائے صد افسوس کہ تم پر ظلم یہ کیوں ڈھایا

کتنا چاہتی ہو تم اور میں تم پرہی سوکن لے آیا

پہلی محبت کی ریکھا ہو، میری پہلی بیوی ہو

میرے بچوں کی ماں ہو تم، میرے گھر کی رانی ہو

میرے سنگ جو گزرا ہے وہ دور سنہری یاد کرو

دیکھو تم رویا نہ کرو یوں آنکھیں نہ برباد کرو

ہاں ہاں آج بھی پیار تو سجنی ایک تمھیں سے کرتا ہوں

لیکن یہ ہے بات جدا کہ گھر میں کم کم گھستا ہوں

تم کو کیا معلوم کہ میرا دل تو یہیں پہ رہتا ہے

مِل آؤ اِک بار چلو ہر روز مجھے یہ کہتا ہے

میں پردیس میں خوش رہتا ہوں یہ کیا بات کہی تم نے

تم بس تم ہی رہتی ہو ہر آن خیالوں میں میرے

بچوں کی یاد آتی ہے، اِس گھر کی یاد ستاتی ہے

تم مجھ کو یاد آتی ہو، ہر بات مجھے تڑپاتی ہے

دِل تو بھر پایا نہیں لیکن جانا بہت ضروری ہے

مرد جو ٹھہرا میرا آج کمانا بہت ضروری ہے

چلو جی تم اب ہنس بھی دو، ہنس ہنس کر اللہ حافظ ہو

میں بھی سدھاروں، تم بھی دیکھو گھر کی ذمہ داری کو

۔۔ ۔۔

او میری دو نمبر بیوی تو کیوں خفا ہے یوں مجھ سے

جب سے گاؤں سے لوٹ کے آیا ہوں میں ملنے کو تجھ سے

ہر ہر بات پہ موڑ کے منہ کو چپ کیوں سادھ سی لیتی ہو

کیوں یوں آڑھی تِرچھی ہو کر منہ کو ڈھانپ سی لیتی ہو

مانا گاؤں گیا تھا لیکن دِل تو یہیں پر چھوڑ گیا

بس یہ سمجھ لینا تھا پگلی خود سے رشتہ توڑ گیا

لمحہ لمحہ مجھے ترا چہرہ ہی دِکھائی دیتا تھا

تیرے پہلو میں آنے کو دِل یہ دھائی دیتا تھا

تیری جواں قربت کی گرمی یاد آتی تھی ہر ہر پل

تیری باتیں تیری ہنسی بھی یاد آتی تھی ہر ہر پل

لطف نہیں تھا کسی بھی پہلو بات کوئی کیا خوش آتی

اُس بڑھیا کے پاس تو جانا سمجھو تھی اک خودسوزی

تیری خاطر جا ٹکرایا میں اپنوں بیگانوں سے

جیسے کشتی کوئی نکالے بپھرے ہوئے طوفانوں سے

تم جو میکے چلی گئیں تو رسوا ہو جاؤں گا میں

جانے دو جانے کی باتیں، کیسے بہل پاؤں گا میں

مان بھی جاؤ ظلم نہ ڈھاؤ مجھ پرایسے جانم جی

ارے یہ چہرہ تو دکھلاؤ، ہم ہیں تمھارے خصم جی

۔۔ ۔۔

کبھی یہاں اور کبھی وہاں پر جو میں آتا جاتا ہوں

کبھی میں ایسے کبھی میں ویسے دِل اپنا بہلاتا ہوں

کبھی میں اُس کو کبھی میں اِس کو بیوقوف بناتا ہوں

دِل میں چھپا ہے میرے کیا، سپنے کیا کیا دِکھلاتا ہوں

پہلے پہل کے چند دِن تو ہنستا ہنساتا ہوں سب کو

رفتہ رفتہ پھر بیزار بھی میں ہو جاتا ہوں یارو!

نمبر دو کے پاس جو جاؤں تو پہلی کی یاد آئے

پہلی کے پہلو میں ہوں تو دوجی کی بھی یاد آئے

دونوں کو یکجا رکھنے میں خانہ جنگی کا ڈر ہے

بیچ بچاؤ میں میری جان کے جانے کا خطرہ ہے

شادی ایک ہو یا ہوں دو سمجھو جنجال ہے اس جی کا

دِل کا بھید جو کھل جائے، خطرہ ہے ٹنڈ کی صافی کا

بات تو ہے پردے کی لیکن پھر بھی بتائے دیتا ہوں

پیار بہت ہے مجھ کو لیکن پیار میں خود سے کرتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

مزا شادی کا یہ آیا

 

                   انجینئر عتیق الرحمٰن

 

ہمارا شوق شادی کا ہوا ہے اس طرح پورا

کہ اب اک فرش ہی کیا ناک بھی رگڑائی جاتی ہے

کوئی ہم کو کرے نہ تنگ، دکھتا ہے ہمارا انگ

کہ سارے گھر کی جھاڑو ہم سے ہی لگوائی جاتی ہے

مہارت میں اضافے سے بڑھی عزت ہماری ہے

ہو مرغی یا ہو مچھلی ہم سے ہی تلوائی جاتی ہے

نظر کی گو حفاظت مستقل کروائی جاتی ہے

مگر پھر بھی حسیں چہروں پہ ہی یہ پائی جاتی ہے

پریشاں کیوں ہو تم، ہنڈیا ہی تو پکوائی جاتی ہے

یہاں تو منے کی لنگوٹ بھی دھلوائی جاتی ہے

ہنر مندی میں اپنا ہم کوئی ثانی نہیں رکھتے

ہمیں ہے علم نیپی کس طرح بدلائی جاتی ہے

نہیں جو جانتے تھے فن وہ ہم پہ کھل گئے سارے

ہوا معلوم بیوی کس طرح ٹرخائی جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

فیس بک کی نظم

 

                   افتخار حیدر

 

تمام دنیا میں ہو کا عالم تھا

سب سخنور مرے پڑے تھے کہ نیند کا، نصف موت کا

وقت ہو چکا تھا

ادھر کسی شاعرہ نے ایف بی پہ نظم ٹانکی

وہ نظم کیا تھی فضول بے ربط، بے معانی سی چند سطریں

کہ جن کا سر تھا نہ کوئی پاوں

مگر کچھ ایسی چمک تھی اس میں

کہ سب سخنور، ادب کے بے لوث کارکن

ہڑبڑا کے اٹھے کہ جیسے بستی میں صور پھونکا ہو شاعرہ نے

کسی نے اس نظم کو زمانے کا درد لکھا

کسی نے اس سے نئے جہانوں کی بات ڈھونڈی

کسی نے اس پر برائے تفریح ایسے لکھا کہ جس سے وہ

مہ جبیں، لچکتی ہوئی

ادائیں دکھا دکھا کر دفاع میں بات کر رہی تھی۔۔ ۔

بہت ہی پر مغز گفتگو تھی کہ آخرش بات علم کی تھی

عروسِ شعر و سخن سجانے کا مسئلہ تھا۔۔

اچانک افتاد ایسی آئی کہ شاعرہ جس کی نظم تھی

اس کے گھر کی بجلی چلی گئی اور

وہ سب سخن کے مجاہدوں کو بنا سلام و دعا کیئے

اپنے گرم بستر میں گھس گئی تھی۔۔

اور اب یہ منظر کہ ایک شاعر نے نظم لکھی ہے

فیس بک پر لگا بھی دی ہے

تمام بستی میں ہو کا عالم ہے سب سخنور مرے پڑے ہیں

٭٭٭

 

 

 

ہٹ دھرمی

 

                   احمد علوی

 

پھوڑوں گا میں عوام کی تقدیر روک لو

جھوٹی کروں گا روز میں تقریر روک لو

باپو کو ڈائری سے ہٹایا ہے جس طرح

چھاپوں گا اپنی نوٹ پہ تصویر روک لو

سرحد پہ فوجیوں کو کھلاؤں گا پتلی دال

کاجو کی روز کھاؤں گا میں کھیر روک لو

جو میری بے وقوفی سے رکھے گا اختلاف

ڈالوں گا اس کے پاؤں میں زنجیر روک لو

گلمرگ میں، میں لاؤں گا کیرل کی گرمیاں

کیرل میں لے کے جاؤں گا کشمیر روک لو

بیگم کو اپنی لایا نہ سسرال سے کبھی

بیگم کو میں سمجھتا ہوں ہمشیر روک لو

اخبار ہو خلاف یا چینل کوئی خلاف

توتا ہمارا پھوڑے گا نکسیر روک لو

انصاف کی اڑاؤں گا ہر روز دھجیاں

خود ساختہ بنوں گا جہانگیر روک لو

٭٭٭

 

 

 

شوہر کے فرائض

 

                   نشتر امروہوی

 

جو فرض ہے ہمارا ہم وہ نبھا رہے ہیں

بیگم تھکی ہوئی ہیں ٹانگیں دبا رہے ہیں

 

برتن بھی دھو چکے ہیں کپڑے بھی دھو لئے ہیں

دو چار ساڑیاں ہیں دو چار تولئے ہیں

بچّوں کے پوتڑے بھی اب دھونے جا رہے ہیں

جو فرض ہے ہمارا ہم وہ نبھا رہے ہیں

 

صبح کے وقت گھر میں کچھ ایسی ہڑبڑی ہے

بیگم کو بھی ہے جلدی بچوں میں بھگدڑی ہے

اسکول بس پہ لے کر بچّوں کو جا رہے ہیں

جو فرض ہے ہمارا ہم وہ نبھا رہے ہیں

 

تنخواہ ہے نہ ہم کو ملتی ہے کوئی پنشن

پر نوکری کی کوئی ہم کو نہیں ہے ٹینشن

بیگم کما رہی ہیں ہم عیش اُڑا رہے ہیں

جو فرض ہے ہمارا ہم وہ نبھا رہے ہیں

 

روٹین بس یہی ہے ہر روز کا ہمارا

گھر سے اُنہیں بٹھایا آفس میں جا اُتارا

پہنچا کے آ گئے تھے اب لینے جا رہے ہیں

جو فرض ہے ہمارا ہم وہ نبھا رہے ہیں

 

چلّی چکن سے رغبت بیگم کو ہے ہماری

بچّے یہ کہہ رہے ہیں ہم کھائیں گے نہاری

اس واسطے ہی دو دو ہنڈیاں بنا رہے ہیں

جو فرض ہے ہمارا ہم وہ نبھا رہے ہیں

 

اب رات ہو گئی ہے بیوی تو سورہی ہے

بیٹا تو سو گیا ہے پر بیٹی رو رہی ہے

ہم رات بھر ہر اک کو سو سو کرا رہے ہیں

جو فرض ہے ہمارا ہم وہ نبھا رہے ہیں

 

چھٹّی ہے آج یوں بھی سب دیر سے اٹھیں گے

کب ناشتہ کریں گے اور لنچ کب کریں گے

سنڈے ہے اس لئے سب چھٹّی منا رہے ہیں

جو فرض ہے ہمارا ہم وہ نبھا رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

چوہا کہیں کا

 

                   گوہر رحمٰن گہر مردانوی

 

آج کرنی ہے بات چوہے کی

ڈھیٹ کتنی ہے ذات چوہے کی

 

نصف بہتر جو رکھ گئی سالن

جیسے آئی بارات چوہے کی

 

کچھ تو نزدیک ہی نہیں آیا

اور تھی کچھ حیات چوہے کی

 

ڈر کے مارے نکل کے آیا نہیں

بل میں گزری تھی رات چوہے کی

 

بھاگ جاتا ہے دیکھ کر بلی

بس ہے اتنی بساط چوہے کی

 

ہم بھی سوٹی پکڑ کے بیٹھے ہیں

آج پکی ہے مات چوہے کی

 

ناک میں دم کیا گہرؔ اس نے

یاد نسلیں ہیں سات چوہے کی

٭٭٭

 

 

 

انصاف

 

                   ڈاکٹر عزیزؔ فیصل

 

دوستو!

اب آپ سے کیا پردہ

جب بھی عشق کی رنگین گاڑی میں سفر کرنے کا موقع ملا

ہمیشہ ہجر کی بو گی میں ہی جگہ مل پائی

کبھی وصال کی تسکین آور سیٹ پر چند لمحے بھی بیٹھنے کا موقع نہیں ملا

نامراد سفر کی اِنہیں صعوبتوں کے سبب

معدے کی بنجر دیواروں پر السر اُگ ائے

تیزابیت کو تو چیونگم سمجھ کر بے چارہ معدہ کب سے چبا رہا تھا

اوجھڑی کے دھان پان وجود پر بھی چربی چڑھا بیٹھا

اور اب

سوزش جگر کی طرف کامیابی سے بڑھ رہا ہوں

پتے اور گردے میں پتھریوں کو اٹھانے کی سکت تو نہیں تھی

با امرِ مجبوری

اپنے اُترے ہوئے کاندھوں پر

میر تقی میر کی طرح یہ دہرے پتھر اٹھائے پھرتا ہوں

بڑی اور چھوتی آنتیں میری بسیار خوری پر آگ بگولہ نہیں ہوتیں

کیونکہ اُنھیں تو میرے فربہ وجود کے گراونڈ میں

(رگبی کے گراونڈ جتنی کشادہ جگہ )

باہم اٹکھیلیاں کرنے کے لئے میسر ہے

دانتوں کے شہر میں کچھ پینڈو کیڑے

میری بد پرہیزی پر مجھے ہمہ وقت دعائیں دینے میں

مصروف رہتے ہیں

میرے دشمنوں کی کم ظرفی ملاحظہ ہو

آہ، حیف، تف

سب نے مجھے مریض مشہور کر رکھا ہے

دوستو!

انصاف آپ کریں

اگر میں واقعی بیمار شمار ہوتا

تو گزشتہ تیس برسوں سے شہر کے مرکزی حصے میں

مریضوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا مطب کس طرح چلا رہا ہوتا؟؟

اور شہر بھر مجھے

معدہ، جگر، پتہ، گردہ اور دانتوں کے امراض کا مشترکہ (فائیو ان ون)سپیشلسٹ تو نہ سمجھتا

٭٭٭

 

 

 

 

شوہر کی فریاد

 

                   محمد خلیل الرّحمٰن

 

ایک لڑکا بگھارتا ہے دال

دال کرتی ہے عرض یوں احوال

ایک دِن تھا کہ سورہا تھا تُو

وقت کو یوں ہی کھو رہا تھا تُو

گھر تِرا تھا سکوں کا گہوارہ

اور تھا یہ گھر تجھے بہت پیارا

چائے پی پی کے تُو تھا لہراتا

دھوپ لیتا کبھی ہوا کھاتا

ایک امّاں تھی مہربان ترِی

دِل سے کھانا تجھے کھِلاتی تھی

یوں تو گھر میں سبھی تھے، ماں باوا

تجھ سے کرتے تھے نیک برتاوا

جب کیا تجھ کو پال پوس بڑا

کوئی تجھ پر کچھ ایسے آن پڑا

گئی تقدیر یک بیک جو پلٹ

زندگانی کو کر دیا تلپٹ

یک بیک طے ہوئی ترِی شادی

تیری دلہن تھی یا کہ شہزادی

ہو گئی دَم کے دَم میں بربادی

چھِن گئی ہائے تیری آزادی

ایک ظالِم سے یوں پڑا پالا

جِس نے کولہو میں ہے تجھے ڈالا

کیا کہوں میں کہاں کہاں کھینچا

جیسے منڈی میں تجھ کو جا بیچا

پہلی تاریخ کو کمال کیا

تیری تنخواہ کو حلال کیا

نہ سنی تیری آہ اور زاری

خوب بیوی نے کی خریداری

پھر مقدر تجھے جو گھر لایا

اُس نے یاں اور بھی غضب ڈھایا

دھکّے دے کر کچن میں بھیج دیا

کام سارا ترے سپرد کیا

بولی امّاں سے، اے مرِی اماں !

یاں پہ بیٹھو ذرا، چلی ہو کہاں

کام کچھ بھی نہ اب کرو گی تُم

تھک چکی ہو تو سو رہو گی تُم

ڈالیں مرچیں نمک لگایا خوب

کی شکایت، تو جی جلایا خوب

ہاتھ دھو کر پڑی تھی پیچھے یوں

تجھ کو کرنا تھا یوں ہی خوار و زبوں

تُو نے رو کر طلب کیا انصاف

ہائے بیگم، مِرا قصور معاف

کہا لڑکے نے میری پیاری دال

تجھ کو معلوم ہے مِرا سب حال

وہ تو رتبہ مِرا بڑھاتی ہے

جو پکاتا ہوں میں، وہ کھاتی ہے

نہ ستانا، نہ جی جلانا تھا

یوں مجھے آدمی بنانا تھا

٭٭٭

 

 

 

مشینی حاضری

 

                   ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

 

کیا وہ بھی زمانے تھے

آزاد دل و جاں تھے

ہاتھوں کی لکیروں سے

ہم اگلے زمانوں کی

کھوج میں رہتے تھے

ہاتھوں کی لکیروں نے

اب ہم کو کیا رسوا

قسمت بھی ہوئی کھوٹی

اور وقت کی بیڑی نے

پابند کیا ہم کو

ارشاد تھا افسر کا

اے شاعرِ مستانہ

تُو دیر سے آیا ہے

تنخواہ کٹے گی اب

٭٭٭

 

 

 

شاعری کا کریش کورس

 

                   شوکت جمال

 

ٹھانی ہے گر، کریں گے بہر طور شاعری

اِس کے سبھی شروط کی لازم ہے پیروی

لہجے میں درد و رنج کی شدّت بڑھائیے

زلفوں کی جس قدر ہو طوالت بڑھائیے

جاری ہو منہ میں پان تمباکو کا کاروبار

اَچکن کسی بزرگ سے لے لیجیے ادھار

بچّوں کو گھر میں شور مچانے نہ دیجیے

بیگم سے جھگڑے مفت کے مت مول لیجیے

مشقِ سخن کا ہوتا ہے اس بات پر مدار

’’آمد‘‘ کے واسطے ملے ماحول سازگار

استاد شاعروں کی کتابیں ہوں طاق پر

پڑھنے کی اُن کو کوئی ضرورت نہیں مگر

غلطی سے بھی نگاہ نہ ڈالیں عروض پر

رہ جائیں گے بھٹکتے ہی ورنہ اِدھر اُدھر

پائیں گے داد آپ گلوکار ہوں اگر

بے وزن شعر لحن سے ہوتا ہے معتبر

برپا کریں محافل شعر و سخن مدام

جن میں صحافیوں کو بھی ہو دعوتِ طعام

اہلِ سخن سے ملنے میں لازم ہے اہتمام

کچھ ہوں قریب، کچھ کو فقط دور سے سلام

پزم سخن کہاں ہے، خبر واں کی لائیے

مدعو پھر اپنے آپ کو کروا کے آئیے

جلدی کا کام ہوتا ہے شیطان کا سدا

تاخیر سے پہنچنا ہے پنڈال میں ذرا

ناظم کو بار بار یوں آنکھیں دکھائیے

جیسے کہ کہہ رہے ہوں، ’’ابھی مت بلائیے ‘‘

انجام کار جلسے میں آئے گا وہ مقام

دی جائے گی حضور کو جب زحمتِ کلام

ایسے اٹھیں کہ آپ کی تھی منتظر عوام

اور یوں چلیں کہ جیسے ہو دریا سبک خرام

وہ شان ہو کہ جیسے غزل کے ہوں بادشاہ

ہو حاضرین کو بھی عطا سرسری نگاہ

جھک جھک کے سامعین کو آداب کیجیے

پھر صدر محترم کی اجازت بھی لیجیے

ناز و ادا سے لیجیے دیوان ہاتھ میں

جیسے ہو شاعری کا دبستان ہاتھ میں

دیکھیں اُلٹ پلٹ کے اُسے پھر ورق ورق

اُستاد شاعروں کا ہے پیدائشی یہ حق

مائک پہ جا کے زور سے کھنکھاریے حضور

اعلان اپنے آنے کا فرمائیے حضور

پہلے بیان اپنے کچھ اوصاف کیجیے

دو چار بار اپنا گلا صاف کیجیے

مطلع اور ایک شعر کا کہہ کر مرے جناب

چھ سات تو گزار دیں غزلیں بلا حجاب

کہہ کر ’’ہوئی ہے آج ہی نازل نئی غزل‘‘

ناظم کو گھوریں، بیچ میں ڈالے نہ وہ خلل

جاری رہے پھر آپ کی غزلوں کا سلسلہ

پانی کا بیچ بیچ میں کیجے مطالبہ

’’بس‘‘ کا بھی گر اشارہ کریں صدرِ محترم

اُس وقت تک سنائیے جب تک ہو دم میں دم

کشکول بھی گلے میں کوئی ٹانگ لیجیے

ویسے ملے نہ داد تو پھر مانگ لیجیے

٭٭٭

 

 

 

 

اُف یہ بیویاں

 

                   ڈاکٹر سعید اقبال سعدی

 

پہلے تو اپنا ویٹ بڑھاتی ہیں بیویاں

پھر جم میں جا کے اس کو گھٹاتی ہیں بیویاں

پچاس کی بھی ہو کے یہ لگتی ہیں تیس کی

میک اپ کا ایسا جادو جگاتی ہیں بیویاں

کالج کے وقت میں تھیں وہ بے حد obedient

شوہر کو یہ بتا کے جلاتی ہیں بیویاں

کرتی ہیں پہلے عقل کا اندھا میاں کو یہ

پھر ان کو اپنے رُخ پہ چلاتی ہیں بیویاں

روتی ہیں ایک بار ہی خود رخصتی پہ یہ

شوہر کو ساری عمر رُلاتی ہیں بیویاں

بیٹے جو اپنی ماں کے اطاعت گزار ہوں

ان کو اپنی ماں سے لڑاتی ہیں بیویاں

غصے میں جن کے میاں ٹماٹر سے لال ہوں

ان سب کی گھر میں چٹنی بناتی ہیں بیویاں

ایسے تو ان کی ماں نے بھی ڈانٹا نہیں کبھی

شوہر کو جیسے ڈانٹ پلاتی ہیں بیویاں

شوہر نہیں ہیں بچے ہیں اُن کے جنے ہوئے

یوں شوہروں پہ حکم چلاتی ہیں بیویاں

جن ماہ رُخوں کو لائے تھے بیحد خوشی کے ساتھ

اُن سب کو دن میں تارے دکھاتی ہیں بیویاں

جاتی ہیں نوکری پر جو بچوں کو چھوڑ کے

شوہر سے اُن کی نیپی کراتی ہیں بیویاں

چلنے نہ دیں گھروں میں یہ شوہر کی شوہری

گھر میں یوں مارشل لاء لگاتی ہیں بیویاں

٭٭٭

 

 

 

روزہ خور سے مکالمہ

 

                   ڈاکٹر سعید اقبال سعدی

 

میں نے کہا کہ روزے رکھو گے تم اس دفعہ

بولا کہ اِتنی بھوک کا قائل نہیں ہوں میں

 

میں نے کہا کہ سحری کا کھانا ثواب ہے

بولا کہ اس ثواب پہ مائل نہیں ہوں میں

 

میں نے کہا کہ ہم پہ تراویح فرض ہے

بولا کہ اس نماز کا قائل نہیں ہوں میں

 

میں نے کہا کرو گے تم افطار بھی نہیں

بولا اب اِتنا کافرِ کامل نہیں ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

نہلے پہ دھلا

 

                   ڈاکٹر سعید اقبال سعدی

 

آلودگی کے مارے ہوئے ایک شخص نے

جا کر کہا حکیم سے سنئے مری بھی بات

 

ہے منفرد سا کیس مرا غور سے سُنیں

کچھ مسئلوں میں الجھی ہوئی ہے مری حیات

 

کھانے کے بعد بھوک ہی لگتی نہیں مجھے

سو کر اُٹھوں تو نیند نہ آئے تمام رات

 

ہوتی ہے کام کرنے سے پہلے تھکن مجھے

اِس خوف سے ہلاتا نہیں میں ذرا بھی ہاتھ

 

بولا حکیم پاؤ گے تم جلد ہی شفا

بس آج ہی سے دھوپ میں بیٹھو تمام رات

٭٭٭

 

 

 

ردیفے

 

                   محمد عارف

 

اوپر پنکھا سوتا ہے

نیچے منا روتا ہے

اب یہ اکثر ہوتا ہے

٭

والد، بیٹا، پوتا ہے

جمہوری سمجھوتا ہے

اب یہ اکثر ہوتا ہے

٭

چڑے کی جا پر ہیں کوّے

بکرے کی جا کھوتا ہے

اب یہ اکثر ہوتا ہے

٭

مجھ کو تو جانو کہتی ہے

تم کو کہتی ہو گی لالا

جلنے والے کا منہ کالا

٭

کل کی خبر نہیں تو کیا ہے

منصوبے تو ہیں صد سالہ

جلنے والے کا منہ کالا

٭

تم ’’چیچو کی ملیاں ‘‘ والے

میرے نام پہ ’’عارف والا‘‘

جلنے والے کا منہ کالا

٭٭٭

تشکر: نوید ظفر کیانی جنہوں نے جریدے کی مکمل فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید