FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

ارمغان ابتسام

 

شمارہ ۱۱، اپریل تا جون ۲۰۱۷ء

                   مدیر: نوید ظفر کیانی

 

مشاورت

کے ایم خالد

خادم حسین مجاہدؔ

روبینہ شاہین

محمد امین

 

 

حصہ سوم

 

 

 

 

قسطوں قسط

 

پانچ کروڑ لے لو!

 

                   حافظ مظفر محسن

 

آج بارہ سال بعد اُس کا فون آیا۔ اس دوران میری نہ تو اُس سے کبھی ملاقات ہوئی نہ ہی فون پہ بات، ان بارہ سالوں میں کوئی دن ایسا نہ تھا جب میں نے اُسے یاد نہ کیا ہو۔ اُس کا فون آیا تو میں نے ’’ہیلو‘‘ کہا تو اُس کا مخصوص قہقہہ اُس کا تعارف کرانے کے لیے کافی تھا۔

کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ہماری گفتگو دو چار منٹ تک قہقہوں کے تبادلے پر ہی ختم ہو گئی۔۔ ۔ تیرہ سال پہلے اُس نے مجھے رات ایک بجے فون کیا اور حکم دیا کہ جتنے پیسے تیرے پاس ہیں وہ کسی کاروبار میں لگا لو ذرا بھی تاخیر مت کرنا ورنہ ساری زندگی پچھتاؤ گے کیونکہ اس وقت تمہارا ’’ستارہ‘‘ بارہ سال بعد پھر عروج پر آ گیا ہے۔

ایک رات جب میں اُس سے ملنے گیا تو ملازمہ نے آہستہ سے کہا ’’بی بی جی اوپر ہیں، آپ چلے جائیں ‘‘

شدید گرمی کے موسم میں میں چھت پر چلا گیا وہ جائے نماز پر بیٹھی ایک بڑے سائز کی تسبیح پر کچھ ورِد کر رہی تھی، مجھے دیکھا تو مسکرائے اور ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔ میں چھت پہ بڑی دو کرسیوں میں سے بائیں طرف والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اِس دوران آنکھیں بند کیے وہ آہستہ آواز میں کچھ پڑھتی رہیں نہ جانے کب ٹیک لگائے شدید گرمی کے باوجود میری آنکھ لگ گئی۔ جب میری آنکھ کھولی تو وہ دائیں کرسی پر بیٹھی مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

آج اُس کا فون آیا تو اُس نے دو تین قہقہوں کے بعد محبت سے مجھے کہا ’’بھائی فوت ہو گیا ہے وہی جو کسی انٹرنیشنل بینک میں مینیجر تھے ؟‘‘

’’ہاں ہاں وہی طارق بھائی۔۔ ۔ مجھ سے بڑے تھے عمر میں اُن کو کینسر تھا جب آخری اسٹیج میں تھے تو میرے پاس آ گئے یا یوں کہہ لو کہ مجھے اُنہوں نے مجبور کر دیا کہ میں اُنھیں اپنے پاس بلا لوں۔ ۔۔ میرا یہ بھائی بڑا صحتمند اور جوان ہمت تھا لیکن کینسر نے اُسے کہیں کا نہ چھوڑا۔۔ ۔ میری بے بسی اور اُس کی پریشان حالی دونوں نے میرے گھر کو قبرستان جیسا بنا رکھا تھا۔ آپ کے کئی فون آئے لیکن میں جواب نہ دے سکی کیونکہ میں نے سوچ لیا تھا کہ اپنی رنگین زندگی کو ’’تالا‘‘ لگا کے کسی سمندر میں پھینک دوں۔ اس دوران فائیو اسٹار ہوٹلوں سے رات گئے میری دوستوں کے فون آتے رہے لیکن میں اُن میں سے کسی سے بھی رابطہ قائم نہ کر سکی کیونکہ میں نے سوچا تھا اگر کبھی میں اپنی یہ قسم توڑوں گئی تو سب سے پہلے آپ سے رابطہ کروں گی۔۔ ۔ اس دوران کینسر نے طارق کو کچل کر رکھ دیا آخری دنوں میں تو اُس کی گردن ٹیڑھی ہو گئی تھی سنا ہے ہڈیوں کا کینسر جب آخری اسٹیج میں ہوتا ہے تو انسان کی ہڈیاں میں سینکڑوں نہیں ہزاروں لاکھوں کریکس (Cracks) آ جاتے ہیں اور ڈاکٹروں نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی جو جو ہڈی ٹیڑھی ہوتی جائے گی اُس کو سیدھا کرنے کی کوشش مت کیجئے گا ان کو کہیں زیادہ اذیت کا شکار ہونا پڑے گا بلکہ کہہ لیں ناقابل برداشت اذیت برداشت کرنا ہو گی۔ اس دوران وہ جب للچائی ہوئی اذیت سے بھرپور نظروں سے مجھے دیکھتا تو میں گھبرا جاتی ڈاکٹر کے مطابق میں ٹیکہ نکال کے بھائی کو خود ہی لگا لیتی کہ اُس کی درد میں کمی اور اذیت کا احساس کم ہو جائے۔

اس دوران ایبٹ آباد والے سردار نے مجھ پر کئی طرح کے وار کئے تم تو جانتے ہو سردار کس قدر ظالم آدمی ہے اُس نے مجھ سے شادی کے لیے کس طرح کا پریشر نہیں ڈالا؟ لیکن میں پوری ہمت سے اُس کا مقابلہ کرتی رہی اس دوران عصر کے بعد میری گردن کے پٹھے کچ جاتے اور جسم پر نیلے نشان پڑ جاتے میری دادی اماں بتایا کرتی تھیں کہ یہ جادو کی علامات ہیں۔

ایبٹ آباد کا سردار جادو ٹونے کا خود بھی ماہر ہے اور اُس نے کئی عورتیں اس کام کے لیے بھی رکھی ہوئی ہیں میرے سامنے جب میں ایک دفعہ اُسے PC Bhurban ملنے گئی تو وہاں اُس کے پاس میں نے اونٹ کا خون آلود دل دیکھا جس میں وہ چھریاں مار مار کے کچھ پڑھتا چلا جاتا تھا جو اس بات کا غماز تھا کہ وہ کسی بیچارے کا بیڑہ غرق کرنے پر تلا ہوا ہے اُس نے بتایا تھا کہ وہ ارب پتی محض دنیاوی کاروبار کرنے سے نہیں ہوا اُس کے دنیا بھر میں سفلی علوم کے ماہرین سے تعلقات ہیں خاص طور پر ملائشیا اور انڈنیشا میں بسنے والے چینی جادو گر اُس کو پسند کرتے ہیں اور اس نے کئی گُر اُن چینی جادو گروں سے بھی سیکھے تھے نیلم بلاک کی انور مائی اور فیصل آباد کے ریاض سائیں سے اُس کے دیرینہ تعلقات تھے۔ ۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مذہبی لحاظ سے کسی ایک سلسلے سے وابستہ نہیں ان کا دین ایمان پیسہ ہے ان کو بے تحاشہ دولت چاہئے اُس کے لیے چاہے اُن کا اپنا یا کسی دوسرے کا بیڑہ غرق ہی کیوں نہ ہو جائے اُنھیں کسی کو اذیت دے کے خوشی محسوس ہوتی ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسے علوم اور ایسی چیزوں پر اندھا اعتقاد سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہ وہ دلدل ہے جس میں پھنس جانے والے کبھی بھی ہم نے باہر آتا نہیں دیکھا ایسے لوگ اب اس معاشرے میں آپ کو جگہ جگہ دکھائی دیں گے ایسے لوگوں کے موکل بھی لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں اور اُن کے نظریات بھی تقریباً تقریباً اُن سفلی علوم کے ماہرین کی طرح کے ہی ہیں اور وہ بھی ہر صبح کی نئے ’’ بابے ‘‘ یا ’’ٹونے ٹوٹکے ‘‘ کے ماہر کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور عقل کے ان اندھوں کو کسی اگلے موڑ پہ ایسا نام نہاد ’’سائیں ‘‘ یا ماہر علمیات مل جاتا ہے گویا دونوں منفی قوتیں ایک دوسرے کو مل ہی جاتی ہیں اور دونوں کے من کی مراد پوری ہو جاتی ہے۔

ایبٹ آباد کے سردار کے پاسپورٹ پر میں نے بھارت، نیپال، ماریشس جیسے ممالک کے کئی کئی ویزے لگے ہوئے دیکھے وہ کہتا تھا کہ لوگ سمجھتے ہیں بنگال کے جادو گر دنیا میں اپنے کام کے ماہر سمجھے جاتے ہیں جبکہ اُس کے بقول نیپال، انڈونیشیا اور ملائیشیا میں ایسے کاموں کے ماہرین بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اُن کے موکل پاکستان سے کہیں زیادہ موجود ہیں اُس کے بقول انڈونیشیا، ملائیشیا اور نیپال میں تقریباً ہر دوسرا شخص ایسے منفی کاموں میں دلچسپی لیتا دکھائی دیتا ہے اگر وہ جادو ٹونے والوں کا گاہک نہیں تو اُسے کم از کم ہر دو چار ماہ بعد کسی ماہر نجوم یا پامسٹ کی تلاش ضرور کرنا ہوتی ہے پاکستان کے دو شہروں گجرات اور وزیر آباد کے ماہرین جو بنیادی طور پر چند نسل پہلے علم الاعداد کے ماہر سمجھے جاتے تھے جو اب پیسے کے لالچ میں انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں جا بسے ہیں اور ان ممالک کے توہم پرست لوگ ان کو مخفی علوم کا سب سے بڑا ماہر یا نجومی سمجھتے ہیں اور اُن کے بتائے ہوئے راستوں پر آنکھیں موندھے چلتے رہتے ہیں چاہے یہ راستہ اُنھیں موت تک لے جائے یا اُن کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ رہے لیکن وہ ہر حال میں من مرضی کی بات جاننا چاہتے ہیں یا اپنے دشمنوں کو ہر حال میں نیست و نابود کر دینے کی خواہش لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اور کبھی بھی ہار نہیں مانتے، ہمت نہیں ہارتے …

یہ باتیں کرتے ہوئے فاطمہ کو محسوس ہوا کہ بات کافی لمبی ہو گئی ہے اس لیے اُس نے مجھے اپنے ساتھ نیچے آنے کو کہا جہاں اُس نے ایک الماری کا تالا کھولا جس میں ایک بہت بڑا شاپر تھا کالے رنگ کے اس شاپر میں جب اُس نے اُس کو کھولا تو لاکھوں روپے کے نوٹ موجود تھے۔ ۔۔ اُس نے خاصی سنجیدگی سے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور میری آنکھوں میں گھورتے ہوئے مجھے آہستہ سے پوچھا ’’تم لو گئے یہ پانچ کروڑ؟‘‘

(باقی آئندہ)

٭٭٭

 

 

 

 

 

انشائیہ

 

کاروبارِ نوٹس

 

                   اقبال حسن آزادؔ

 

جب میں نے مندرجہ بالا عنوان پر خامہ فرسائی کا ارادہ ظاہر کیا تو میرے دوست جناب قیصر اقبال ہتھّے سے اُکھڑ گئے۔ کہنے لگے کہ کاروبارِنوٹس کی ترکیب غلط ہے کیونکہ کاروبار فارسی کا لفظ ہے اور نوٹس انگریزی کا۔ میں نے عرض کیا کہ حضور!آپ کس زمانے کی بات کر رہے ہیں۔ زمانۂ قدیم میں کبھی یہ رسم رہی ہو گی۔ جب سے ہندوستان کی سر زمین پر غیر ملکیوں کے قدم پڑنے لگے تب ہی سے بین النسل، بین المذاہب اور بین الفرقہ تراکیب ظہور پذیر ہونے لگیں تھیں۔ ہمارے وہ بزرگ حضرات جو حصولِ علم کے لئے انگلستان جایا کرتے تھے ، ڈگری کے ساتھ ساتھ ایک عدد میم لانا بھی فرض خیال کیا کرتے تھے اور تاویل یہ پیش کرتے تھے کہ صاحبِ کتاب سے نکاح جائز ہے۔ ۔ آج جو یہ گورے گورے ، لمبے لمبے ، نیلی آنکھوں والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہاں وہاں نظر آتے ہیں وہ اِسی ترکیب کے نتیجے ہیں اور جہاں تک اردو شاعری کا تعلق ہے تو حضرت ولی ؔدکنی نے ، جنہیں ولیؔ اورنگ آبادی اور ولیؔ گجراتی بھی کہا جاتا ہے اور جن کے مزار کو گجرات کی دنگائی حکومت نے را توں رات پاٹ کر اس پر ایک شاہراہ تعمیر کر دی تھی، انہوں نے آج سے تقریباً تین سو سال قبل فارسی اور ہندی الفاظ کی ترکیب سے ایسے خوبصورت اشعار نکالے ہیں کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی ان کی سادگی اور تازگی دامنِ دل کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ موصوف کی وضع کردہ تراکیب ملاحظہ فرمایئے۔ شیریں بچن، تیغ پلک، صدائے بانسلی، چندن بدن وغیرہ۔ میرے دوست ڈاکٹر آفتاب احمد نے ایک دفعہ اردو فورم کی نشست میں ایک انشائیہ پڑھا جس میں ایک جگہ ’’سالِ شمسی‘‘ کی ترکیب استعمال کی گئی تھی۔ بعد میں انہوں نے فرمایا کہ میں نے سالِ شمسی ترکیب غلط استعمال کی کیونکہ سال فارسی کا لفظ ہے اور شمسی عربی کا۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ آپ نے ترکیب بھلے غلط استعمال کی مگر آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح انہوں نے شمسی نام کے ایک شخص سے اپنا کوئی حساب چکتا کیا تھا اور ان کے کہنے کا مطلب ’’سالے شمسی‘‘ تھا۔ اب تو خیر زمانہ کافی ترقی کر گیا ہے۔ PURITY MUST BE MAINTAINED کہنے والے تو خال خال ہی ملتے ہیں۔ آج ’’ترکیب‘‘ کے لئے کسی نسل، قوم اور مذہب کی قید نہیں رہی۔ آج سید جلا ہے سے ، شیخ کنجڑے سے ، ملِک پٹھان سے ، ہندو مسلمان سے اور بابا مُٹُک ناتھ اپنی شاگردہ سے مل کر مرکب ہو سکتے ہیں تو بھلا فارسی کا لفظ انگریزی سے کیوں نہیں ؟

میری بات سن کر وہ چپ ہو رہے مگر ان کا چہرہ دیکھ کر صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ میرے خیال سے متفق نہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ زبان کے معاملے میں موصوف کا رویّہ کسی سخت گیر حاکم کی طرح ہے۔ اگر غلطی سے وہ کسی ایسی محفل میں پھنس جاتے ہیں جہاں غلط سلط زبان بولی جا رہی ہو تو اچانک ان کا نرم دکھائی دینے والا چہرہ کرخت ہو جاتا ہے ، داڑھی اور سر کے بال کڑے ہو جاتے ہیں ، چشمے کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی مہربان آنکھیں کچھ بڑی دکھائی دینے لگتی ہیں اور ان میں شعلے کوندنے لگتے ہیں۔ عام طور پر پر سکون دکھائی دینے والی ناک شدت غیظ سے پھڑکنے لگتی ہے اور ہونٹوں کو بھینج کر وہ اتنی زور سے مٹھّیاں جکڑتے ہیں کہ لگتا ہے کہ اردو کی مٹّی پلید کرنے والے کو ابھی اُٹھ کر دو جھانپڑ رسید کر دیں گے۔ موصوف کے سامنے میں اپنے پاسبانِ عقل کو اپنی زبان کے آگے بٹھا دیتا ہوں تاکہ ان کے سامنے میرے منھ سے بہاری اردو کے الفاظ نہ جھڑنے لگیں اور ان کے چہرے پر خفگی کے آثار نمایاں ہونے لگیں، لیکن ہر عاشقِ اردو کا رویّہ ایسا نہیں ہوتا۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اردو کی درگت بنانے والے کی ہی درگت بنا دیتے ہیں۔ میرے برادر ڈاکٹر منظر اعجاز کا رویّہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ البتہ ان کا APPROACHکچھ ہٹ کر ہے۔ ایک دفعہ آپ کسی مشاعرے میں شریک تھے۔ اسٹیج پر ایک شاعر ہاتھ کو جھٹکے دے دے کر شعر پڑھ رہا تھا اور اشعار کو سامعین کی جانب یوں پھینک رہا تھا، جیسے کوئی پتھر پھینکتا ہے۔ اس پر طرّہ یہ کہ اس کے ہر مصرع میں ’’سکتہ‘‘ تھاجسے سن کر با ذوق سامعین کو جھٹکے پر جھٹکے لگ رہے تھے۔ وہ شعر ہی کیا جس میں ترنم اور روانی نہ ہو۔ اچھا شعر تو وہ ہے جو اگر تحت میں بھی پڑھا جائے تو موسیقی کا احساس ہو جیسے میرے اردو فورم کے معزز رکن مرزا مشکور بیگ پڑھتے ہیں مگر ان جیسا ہر شاعر نہیں۔ اپنے ہی شہر میں ایک شاعر اپنے بے وزن اشعار کو وزن میں لانے کے لیے ترنم کاسہارا لیتے ہیں ، جسے سن کر بھائی قیصر اقبال اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ یہ حضرات وزن اور بحر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ شتر گربہ کا عیب تو عام ہے۔ مصرعہ اولیٰ میں ’’ہم‘‘ ہے تو مصرعہ ثانی میں ’’میں ‘‘۔ البتہ یہ حضرات ردیف اور قافیہ خوب سمجھتے ہیں اور ان کا سارا زور انہی دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ کچھ شعراء اس انداز سے توڑ توڑ کر شعر پڑھتے ہیں جیسے قصائی گوشت کی بوٹی بوٹی کرتا ہے۔ انہیں دیکھ کر کسی لکھنوی شاعر کا مندرجہ ذیل شعر یاد آ جاتا ہے ؎

یہ دل ہے ، یہ گردہ، یہ کلیجی

قصائی لایا ہے سوغات کیا کیا

بہر کیف اس شاعر نا پختہ نے ایک بالکل ہی لنگڑا لولا شعر پڑھا تو جناب منظر اعجاز سے نہ رہا گیا اور اور انہوں نے زور دار آواز میں داد دی۔

’’واہ !واہ!کیا خوب کہا ہے۔ مکر ر، مکر ر۔ ‘‘شاعر نے جھک کر سلام کیا اور حسب فرمائش شعر کو دوبارہ پڑھا۔ موصوف نے پھر ہانک لگائی۔ ’’ایک بار پھر، ایک بار پھر۔ ‘‘شاعر کمر کے بل خم ہوا اور اس نے شعر کو پھر سے پڑھا۔ اس طرح موصوف نے بیچارے شاعر سے وہ شعر پندرہ مرتبہ پڑھوایا۔ یہاں تک کہ سامعین کے ساتھ ساتھ شاعر بھی بور ہو گیا اور عاجزانہ انداز میں پوچھنے لگا ’’جناب عالی!اس شعر میں ایسی کیا بات ہے جو آپ بار بار مجھ سے پڑھوا رہے ہیں ؟‘‘ موصوف نے تڑ سے جواب دیا ’’سالے جب تک صحیح نہیں پڑھو گے پڑھواتا رہوں گا۔ ‘‘

ہاں تو بات ہو رہی تھی کاروبارِ نوٹس کی۔ در اصل چند روز قبل عرفان صدیقی کا ایک شعر کہیں نظر آ گیا ؎

بھلا یہ عمر کوئی کاروبارِ شوق کی ہے

بس اک تلافیِ مافات کرتا رہتا ہوں

اب میں میری عمر بھی کاروبارِ شوق کی نہیں رہی اس لئے تلافی ٔ مافات کے لئے کاروبار نوٹس کرتا ہوں۔ اللہ اللہ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب نوٹس کے نام سے طلباء کے کان نا آشنا تھے۔ لکچرار حضرات صرف لکچر دیا کرتے تھے۔ ہر لکچرار کے لکچر دینے کا انداز جداگانہ تھا۔ علّامہ جمیل مظہری ، پٹنہ یونیورسٹی کے دربھنگہ ہاؤس میں آرام کرسی پر نیم دراز ، ہونٹوں میں سگریٹ دبائے ، شیروانی اور پائجامہ زیب تن کئے آنکھیں موندے لکچر دئے جا رہے ہیں اور تشنگانِ علم ان کے ذریعہ ادا کئے گئے ایک ایک لفظ کو آب حیات سمجھ کر ہونٹوں سے لگائے جا رہے ہیں۔ حضرت کلیم عاجز، اللہ ان کی عمر دراز کرے ، کرسی پر سیدھے بیٹھے ، سر پر ترچھی ٹوپی ڈالے ، کھڑ کھڑ کرتا پائجامہ پہنے ، اس قدر آہستگی کے ساتھ علم کے موتی لٹاتے کہ بہرہ تو بہرہ کان والا بھی ان سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا تھا مگر پھر بھی پوری کلاس میں ایک مقدس خاموشی چھائی رہتی، جیسے تکریم کا وقت یہی ہو۔ اگر چچا غالبؔ ان کے شاگرد ہوتے تو بے اختیار کہہ اٹھتے۔ ؎

بہرہ ہوں میں تو چاہیے دونا ہو التفات

سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر

پروفیسر یوسف خورشیدی اپنے لکچرز کو گل افشانیِ گفتار کی جگہ اشعارِ گہر بار سے سجاتے تھے اور ہر شعر کے بعد فرماتے۔ ’’دیکھیؤ؟‘‘ یعنی دیکھا؟ان کا دعویٰ تھا کہ وہ پورے پیریڈ میں صرف اشعار پر مشتمل لکچر دے سکتے ہیں۔ مولانا آزاد کالج کلکتہ کے پروفسر شاہ مقبول احمد، جن کا کلاس ہمیشہ دو بجے کے بعد ہوتا تھا، ان کا انداز یہ تھا کہ ’’داستان تاریخ اردو ‘‘ کھول کر بیٹھ گئے اور با آواز بلند کوئی باب پڑھنا شروع کیا۔ ادھر ہم لوگ ڈائمنڈ ہوٹل سے شکم سیر ہو کر لوٹنے کے بعد کھڑکی سے آ رہی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں نیند کے جھونکے لیا کرتے۔

تو یہ وہ زمانہ تھا جب لڑکے لکچر سن کر دماغ میں محفوظ رکھتے تھے اور پھر امتحان گاہ میں بقدر پیمانۂ تخیل اپنے اپنے طور پر جوابات حل کرتے۔ ہر لڑکے کی تحریر ایک دوسرے سے جدا ہوتی اور اسی اعتبار سے انہیں نمبر دئے جاتے۔

پھر زمانہ بدلا اور تعلیم کا معیار گھٹنے لگا تو طلباء نے اساتذہ سے فرمائش کرنی شروع کی کہ آپ جو جو کچھ بھی ارشاد فرماتے ہیں اگر اسے لکھوا دیا جائے تو بہتر ہوتا۔ چنانچہ اب یہ ہونے لگا کہ اُدھر لکچر ہو رہا ہے اور اِدھر لڑکے اسے سرعت کے ساتھ اپنی کاپی میں اتارتے جا رہے ہیں۔ یہ زمانہ بھی ختم ہوا اور اب انہوں نے یہ مطالبہ کرنا شروع کیا کہ ، سر!آپ ہی نوٹس بنا کر لکھوا دیں۔ ہم سے یہ کام نہیں ہو پا رہا ہے۔ چنانچہ اساتذہ اب نوٹس تیار کرنے لگے۔ اب یوں ہونے لگا کہ استاد نوٹس لکھوا رہا ہے اور لڑکے لکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد زمانے نے ایک اور کروٹ لی اور وہ یہ کہ اب لڑکوں کو DICTATION لینے میں تکلیف ہونے لگی۔ لہٰذا اب ان کا مطالبہ یہ ہوا کہ سر!آپ ہمیں نوٹسد ے دیں ، ہم اتار لیں گے۔ یہ زمانہ بھی رخصت ہوا اور فوٹو اسٹیٹ کا زمانہ سامنے آ گیا۔ اب نقل کرنے کی زحمت کون گوارا کرے بس نوٹس پر نوٹس چھپنے لگے اور طلباء ہر غم و فکر سے آزاد ہو گئے۔

یادش بخیر !جب ہم ایم اے میں پڑھتے تھے تو ’’ہم‘‘ یعنی ہم اور میرے دوست جناب فاراں شکوہ یزدانی ، جو آج کل متھلا یونیورسٹی میں استاد کے فرائض انجام دیرہے ہیں ، نے بہت سارا خون جگرکھپا کر اورآدھی رات کا چراغ جلا کر ایم۔ اے۔ کے نوٹس تیار کئے جس کا خاطر خواہ صلہ ملا اور ہم دونوں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہو گئے۔ بندہ فرسٹ کلاس فرسٹ اور فاراں فرسٹ کلاس سیکنڈ۔ رزلٹ نکلنے کے بعد ایک صاحب نے عاجزانہ لہجے میں مجھ سے وہ نوٹس طلب کئے۔ میں نے سوچا کہ جب ڈگری ہاتھ میں اور پڑھا لکھا دماغ میں محفوظ ہے تو پھر بھلا اب نوٹس کی کیا ضرورت؟ اور میں نے بے دریغ اپنا سارا مال و متاع ان کے حوالے کر دیا۔ چند ماہ بعد جب میں دوبارہ پٹنہ گئے تو معلوم ہوا کہ میں میرے نوٹس HOT CAKEکی طرح فروخت ہو رہے ہیں۔ پہلے تو مجھے بہت غصہ آیا پھر میرے کاروباری دماغ میں یہ خیال آیا کہ اچھا !اس طرح بھی پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔ آپ کو لفظ ’’کاروبار‘‘ پر ہنسنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیﷺ بھی کاروبار ہی کا فرمایا کرتے تھے۔ بہر کیف! جب میں اس شہر من گیر میں وارد ہوا تو یہاں کی صورت حال دیکھ کر ایک واقعہ یاد آ گیا۔ دو مختلف جوتوں کی کمپنی نے اپنے اپنے سیلزمین ایک جزیرے پر بھیجے تاکہ وہاں جوتوں کے بزنس کے امکانات کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جا سکے۔ دونوں پانی کے جہاز سے وہاں پہنچے۔ وہاں کوئی بھی شخص جوتے نہیں پہنتا تھا۔ یہ دیکھ کر پہلے سیلزمین نے اپنی کمپنی کو تار بھیجا ’’یہاں کوئی جوتے نہیں پہنتا ہے۔ میں واپس آ رہا ہوں۔ ‘‘دوسرے سیلزمین نے اپنی کمپنی کو لکھا ’’یہاں کوئی جوتے نہیں پہنتا ہے۔ اگلے جہاز سے دس ہزار جوڑے جوتے بھجوا دیں۔ ‘‘

تو میں جب اس شہر میں پہلے پہل آیا تو پایا کہ یہاں اردو کے اساتذہ تو موجود ہیں مگر پڑھاتا کوئی نہیں ہے۔ پڑھاتے بھی کسے ؟ اسکول سے نکل کر کالج تک پہنچنے والے طلباء اردو سے نا بلد اور تہی دست ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ مغز پچی کرنے کے لئے کوئی پروفیسر روادار نہ تھا۔ سو میں نے میدان خالی دیکھ کر کاروبارِ نوٹس شروع کر دیا اور INTRODUCTRY OFFERکے تحت کافی دنوں تک مفت خدمت خلق انجام دیتا رہا۔ پھر مارکیٹ ڈیمانڈ کے پیش نظر نوٹس کی تجارت شروع کی۔ آپ نے ایسے اشتہارات ضرور دیکھے ہوں گے جن میں کہا جاتا ہے کہBUY THREE GET ONE FREE یا پھر ٹوتھ پیسٹ کے ساتھ برش فری، صابن کے ساتھ شیمپو فری۔ کاش بیوی کے ساتھ ایک عدد سالی بھی فری ملتی تو بیوی کو ڈھونے کا غم کچھ کم ہو جاتا۔ بہر کیف اسی طرح میں نے بھی اردوآنرس کے ساتھ M.B. فری کر رکھا ہے۔ میرے بعض کرم فرما یہ سمجھتے ہیں کہ اردو کے پروفیسر حضرات کا کام محض خدمت خلق انجام دینا اور قوم کے بچوں کو مفت میں اردو کی تعلیم دینا ہے۔ ایک صاحب کہنے لگے۔

’’آپ کو شرم نہیں آتی؟نوٹس بیچتے ہیں۔ ‘‘

بندے نے عرض کیا کہ جناب والا!جب ڈاکٹر حضرات سیمپل کی دواؤں کے ساتھ ساتھ انسانوں کا خون اور گردے تک بیچ رہے ہیں ، انجینیئر حضرات سرکاری سمنٹ اور بالو بیچنے میں نہیں چوک رہے ہیں ، PRINT MEDIA اور ELECTRONIC MEDIA سچی جھوٹی خبریں بیچ رہے ہیں ، ا علیٰ افسران اور جج صاحبان اپنا ضمیر بیچ رہے ہیں اورسیاست داں اپنا دھرم اور ایمان بیچ رہے ہیں تو ایسے میں اگر میں اپنی محنت سے تیار کیا گیا نوٹس بیچ رہا ہوں تو اس میں کون سا گناہ ہے ؟ اور پھر میں اپنے نوٹس پان ، بیڑی ، سگریٹ کی طرح نہیں بیچتا ہوں ، طالب علموں کی باضابطہ کلاس لیتا ہوتا ہوں۔ ان کی زبان درست کرتا ہوں۔ ان کا املا اور جملہ صحیح کرتا ہوں۔ انہیں تذکیر و تانیث اور جمع واحد کا فرق سمجھاتا ہوں۔ صحیح قرأت کے ساتھ اشعار پڑھنے اور انہیں تقطیع کرنے کا طریقہ سمجھاتا ہوں اور پھر انہیں داغؔ کا یہ شعر سناتا ہوں ؎

نہیں داغ ؔآسان یاروں سے کہہ دو

کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

آپ کو شاید معلوم نہیں کہ چند پروفیسر حضرات تو ’کاٹو اور ساٹو، یعنی CUTTING AND PASTINGپر یقین رکھتے ہیں۔ اِدھر ادھر سے چَر چُر کر نوٹس تیار کر لیتے ہیں اور پھرکسی پبلشر کی مدد سے اسے شائع کرا لیتے ہیں جس کے سر ورق پر جلی حرفوں میں تحریر ہوتا ہے ‘ ’’ایک تجربہ کار پروفیسر کے قلم سے۔ ‘‘امتحان میں شریک ہونے والے طلباء امتحان کے روزسے خریدتے ہیں ، اور کام نکل جانے کے بعد اس کے ٹکرے ٹکرے کر کے وہیں پھینک دیتے ہیں ؎

اک دل کے ٹکرے ہزار ہوئے

کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا

ایک دفعہ میرے پاس ایک طالبہ آئی اور اس نے دریافت کیا ’’سر !آپ بی۔ اے آنرس پارٹ ون کے نوٹس کے کتنے پیسے لیتے ہیں ؟‘‘

میں نے کہا ’’بی بی!میں پڑھاتا ہوں ، اپنے نوٹس نہیں بیچتا اور جو مجھ سے پڑھتا ہے اسی کو نوٹس دیتا ہوں۔‘‘

اس نے کہا ’’اردو تو اپنا لینگوئج ہے۔ اس میں پڑھنا کیا؟‘‘

میں نے جواب دیا ’’تو پھر میرے نوٹس کی ضرورت بھی کیا؟بک کارنر میں چھپے چھپائے نوٹس دستیاب ہیں۔ جا کر خرید لو۔ ‘‘‘

میں نے جس وقت اپنا کاروبار شروع کیا تھا اس وقت فوٹو اسٹیٹ کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ غنیمت تھا کہ طلباء نوٹس کی کاپی کر لیا کرتے تھے۔ پھر یوں ہوا کے میرے نوٹس کی تجارت دوسروں کے ذریعہ ہونے لگی۔ اس راز کا انکشاف اس وقت ہوا جب ایک اجنبی لڑکا میرے پاس آیا اور اس نے کچھ جھجھکتے ہوئے ، کچھ شرماتے ہوئے مجھ سے کہا کہ سر! ذرا آپ یہ نوٹس چیک کر لیجئے۔ پہلے تو جی میں آیا کہ اسے چلتا کر دوں۔ نہ جانے کس کا نوٹس اٹھا لایا ہے ، لیکن یہ میرے تجارتی اصول کے خلاف تھا۔ چنانچہ میں نے نوٹس اس کے ہاتھ سے لے لئے اور اسے چیک کرنے کے لئے اس پر نظریں دوڑائیں۔ سوال دیکھ کر ہی سر پیٹ لینے کو جی چاہا۔ لکھا تھا، مومن کی ہزل گوئی پر روشنی ڈالئے۔ مجھے یاد آیا کہ میرے شاگردوں میں ایک کوMODERN ARTسے کافی دلچسپی تھی اور وہ حروف کو اپنے تئیں خوبصورت بنانے کے چکر میں گھما گھما کر لکھتا تھا۔ مجھے شک ہوا کہ کہیں یہ میرے تیار کردہ نوٹس تو نہیں ؟میں نے جب آگے پڑھنا شروع کیا تو میرا شک یقین میں بدل گیا اور ساتھ ہی ساتھ دوبارہ سر پیٹ لینے کو جی چاہا۔ میری تحریر مختلف ہاتھوں سے گزرتی ہوئی کسی عمر رسیدہ، سرد و گرم چشیدہ اس آبرو باختہ عورت کی طرح ہو گئی تھی جس کے خد و خال امتداد زمانہ سے اس قدر مسخ ہو گئے ہوں کہ اسے پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ مومن پر تیار کیا گیا نوٹس نہ جانے کن کن حادثات و سانحات سے گزرتا ہوا خواجہ میر درد کے اس شعر کی تفسیر بن گیا تھا ؎

دل زمانے کے ہاتھ سے سالم

کوئی ہو گا کہ رہ گیا ہو گا

میں نے اس سے دریافت کیا کہ تمہیں معلوم ہے یہ کس کا لکھوایا ہوا نوٹس ہے ؟

اس نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جواب دیا ’’جی سر!آپ کا۔ ‘‘

’’تمہیں کہاں سے ملا؟‘‘

’’فلاں لڑکے سے خریدا ہے۔ ‘‘

’’مجھ سے براہ راست کیوں نہیں پڑھا؟‘‘

’’وہ کہہ رہا تھا کہ سر بہت پیسہ لیتے ہیں۔ ‘‘

میں نے نوٹس اس کے منھ پر پھینکا اور پروفیسر مہدی علی کے تیور میں بزبان انگریزی گرجا ’’گیٹ آؤٹ۔‘‘

طالب علموں کی سہولت کا خیال کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ ایک کمپیوٹر خرید لیا جائے اور اس پرنوٹس ٹائپ کر کے ان کے حوالے کر دیا جائے تاکہ انہیں نہ نقل کرنے کی زحمت اٹھانی پڑے نہ مجھے چیک کرنے کی صعوبت۔ مگر اس میں ایک قباحت یہ ہو گئی کہ ایک روز سوئے اتفاق میں ایک فوٹو اسٹیٹ کی دکان پر پہنچ گیا۔ یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ اس دکان کا مالک مسلمان تھا اور اسے بھی اتفاق ہی کہیے کہ وہ اردو داں بھی تھا۔ اس نے اپنی دکان پر ایک اشتہار چسپاں کر رکھا تھا۔

’’یہاں اردو پاس؍آنرس کے COMPUTERISED نوٹس اور SUGGESTIONSملتے ہیں۔ ‘‘

میں نے سوچا کہ یہ تو VIDEO PIRACYجیسی کوئی چیز ہو گئی۔ میں اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہنے لگا کہ کون سی ایسی ترکیب آزمائی جائے کہ میرے نوٹس بازار میں آنے سے محفوظ رہیں۔ جہاں چاہ وہاں راہ۔ آخر نظام صاحب، کہ میں ان کا شاگرد ہوں اور وہ میرے ، وہ اس طرح کہ وہ میرے کالج میں بی۔ اے اردو آنرس کے طالب علم ہیں اور میں ان کے دائرۂ علم میں داخل ہو کر ان سے کمپیوٹر کے رموز و نکات سیکھتا رہتا ہوں ، انہوں نے مجھے ایک ایسا نادر طریقہ بتایا کہ اب جو پرنٹ میرے کمپیوٹر سے نکلے گا اس کی فوٹو کاپی کرنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ میں نے اس قیمتی نسخے پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے مگر ان کوؤں سے ڈر لگتا ہے جو کہتے ہیں کہ تو ڈال ڈال توہم میں پات پات۔ ہو سکتا ہے کہ وہ میرے نوٹس کی نقل کرنے کا کوئی نیا طریقہ ڈھونڈ نکالیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

کالم گلونچ

 

ہیجڑے۔ شاہی محل سے شاہی محلے تک

 

ہائیڈ پارک۔ میم سین بٹ

 

اِس مغل بادشاہوں کے زمانے میں محل سراکے اندر زنان خانے میں گھریلو خدمات سرانجام دینے والے ملازمین کو ’’خواجہ سرا‘‘ کہا جاتا تھا خواجہ سرا بنیادی طور پر ترک زبان کا لفظ ہے یہ چوبدار، داروغہ، میر مطبخ جیسا شاہی دربار کی جانب سے مقرر کیا جانے والا شاہی محل کا ایک عہدہ تھا گویا ’’خواجہ سرا‘‘ شاہی محل میں زنان خانے کے ملک، چوہدری یا سردار تھے جو بیگمات اور شہزادیوں کی سکیورٹی کے بھی ذمہ دار ہوتے تھے خواجہ سرا کے عہدے پر تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے افراد کو مقرر کیا جاتا تھا یا پھر اس عہدے کے لیے میرٹ پر تعیناتی کی خاطر بیچارے نوخیز لڑکوں کو نربان بنا کر ان کا ازدواجی مستقبل تباہ و برباد کر کے رکھ دیا جاتا تھا، احمد شاہ ابدالی کے دلی پر قبضے کے زمانے میں لاہور کے صوبے دار معین الملک عرف میر منو کی وفات کے بعد اس کی بیوہ مغلانی بیگم اپنے کمسن بیٹے امین خاں کے نام پر لاہور کی حکمران بن گئی تھی وہ اپنے احکامات ارجمند، محبت اور خوش فہم نامی تین ’’خواجہ سراؤں ‘‘ کے ذریعے جاری کرتی رہی تھی، زمانہ گزرا تو بادشاہوں کے ساتھ ہی ان کے شاہی دربار اور شاہی حمام سمیت محل سرا بھی ختم ہو کر تاریخ کی کتابوں میں بند ہو گئے لیکن اس دور کے محل سرا کے عہدے ’’خواجہ سرا‘‘ کو پہلے ادب اور بعد ازاں صحافت نے زندہ رکھا ہوا ہے۔

اُصولی طور پر اب ہیجڑوں کو ’’خواجہ سرا‘‘ کہنا اور لکھنا کم علمی ہے کیونکہ اس طبقے کے فرائض کی نوعیت ہی تبدیل ہو چکی ہے صدیوں پہلے ان سے بادشاہ تنخواہ پر اپنے حرم میں شاہی خواتین کی ذاتی خدمت کا کام لیتے تھے، بادشاہوں کا زمانہ گزرنے کے بعد نوابی مزاج کے لوگوں نے ان کی خدمات سے استفادہ کر لیا تھا اور ہیجڑوں نے شادی بیاہ اور پھر اس کے نتیجے میں کاکے، کاکیوں کی پیدائش پر ناچ گا کر رزق حلال کمانا شروع کر دیا تھا اب جدید دور میں شادیاں میرج ہالز اور بچوں کی پیدائش میٹرنٹی ہومز میں ہونے کی وجہ سے ہیجڑوں کا روزگار مندے کا شکار ہوتا جا رہا ہے جس کے باعث وہ دھندہ تبدیل کرتے جا رہے ہیں، صدیوں پہلے شاہی محل میں رہنے والی یہ تیسری مخلوق اب شاہی محلے میں رہتی ہے اور ان کی وجہ سے لاہور کی ہیرا منڈی اب ہیجڑا منڈی کہلاتی ہے۔

پنجاب میں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والوں کو عرف عام میں زنخے، زنانے بلکہ کھسرے کہا اور لکھا و پکارا جاتا ہے یہ لوگ صدیوں سے خوشی کی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے میوزیکل گروپ بنا کر روزگار کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ان کی مخصوص بول چال ہوتی ہے یہ عموماً عورتوں کے بھڑکے لیے لباس پہنے رہتے ہیں اور الٹے استرے سے شیو بنانے کے بعد شوخ میک اپ کر کے عورتوں جیسا حلیہ اپنائے رکھتے ہیں، خواتین میں یوں گھل مل جاتے ہیں جیسے حقیقتاً ان میں سے ہی ہوں، کمسن لڑکے ان سے یوں دور بھاگتے ہیں جیسے انہیں بچھو سمجھتے ہوں تاہم جوان مرد ان کے آگے پیچھے پھرتے رہتے ہیں البتہ بابوں کو ہیجڑے نجانے کیوں پسند نہیں کرتے حالانکہ بیچارے بزرگ انہیں ہی نہیں کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ وہ ہیجڑوں کے بڑے ہمدرد ہوتے ہیں انہیں بھی بزرگوں سے دلی ہمدردی ہونی چاہیے، ہندی کا ایک قدیم شاعر کہہ گیا ہے ’’جس تن لاگے وہی یہ دکھڑا جانے ‘‘

ہیجڑوں کو بعض بلکہ اکثر لوگ بس ایویں ہی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ان کی غلط فہمی ہے سب پروفیشنلز تکنیکی طور پر ہیجڑے نہیں ہوتے ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ان میں ’’شوقیہ فنکاروں ‘‘کی بھی بہت بڑی تعداد شامل ہو چکی ہے، ظاہر ہے جب بیروزگار نوجوانوں کو نوکری نہیں ملے گی تو وہ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے کوئی تو کام دھندہ کریں گے، شادی بیاہ، بچوں کے جنم اور ان کے ختنے یا عقیقے پر ہونے والی والی تقریبات میں ناچ گانا کر کے ان کی گزر بسر ہو جاتی ہو گی ویسے بھی چوری، ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں کرنے سے تو ناچ گا کر کمانا لاکھ درجے بہتر کام ہے، ہیجڑے بڑے خوش اخلاق، ملنسار اور امن پسند ہوتے ہیں، ملکی قوانین کا مکمل احترام کرتے ہیں کسی کیس کے حوالے سے ان کا نام سننے میں نہیں آیا میڈیکل سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود میٹرنٹی کیس کے سلسلے میں تو کبھی نہیں آیا، پولیس والے بھی ان کا خاص خیال رکھتے ہیں کوئی ہیجڑا کبھی پولیس مقابلے میں نہیں مارا گیا البتہ پولیس تشدد نے کئی لوگوں کو ہیجڑا ضرور بنا ڈالا ہو گا۔ ہیجڑوں کا تو ڈبل سواری یا ٹریفک کے کسی دوسرے قانون کی خلاف ورزی پر چالان تک نہیں ہوا ہو گا۔ اُنہیں زیادہ سے زیادہ اخلاقی حدود و قیود کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے، اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا اپنا ریکارڈ بھی اچھا نہیں ہوتا۔ وہ اگر ہیجڑوں کو پکڑ کر حوالات میں بند بھی کر دیتے ہوں گے تو ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کرتے ہوں گے، اُنہیں صبح سویرے رہا کر دیتے ہوں گے۔

تیسری جنس کے نام بھی ان کی طرح بڑے عجیب و غریب ہوتے ہیں اپنی شخصیت کی طرح یہ نام بھی بیک وقت مونث اور مذکر رکھتے ہیں ان کے نام غالباً پشتو زبان کی گرائمر کے مطابق ماسی خدا بخش، آنٹی مراد بخش، استاد ببلی، بو بو یوسف اور باؤ زلیخاں قسم کے ہوتے ہیں، یہ نک نیم بھی گڑیا، رانی، مانو، بلی، پنکی، ٹنکی طرز کے رکھتے ہیں، ہیجڑوں نے کوئی فلمی نام بھی نہیں چھوڑا تاہم نقل کے حوالے سے صرف ہیروئینوں کا انتخاب کرتے ہیں ان میں بھی ثناء، ریما، میرا، زارا، نور، ریشم وغیرہ پائے جاتے ہیں البتہ فلمی ہیروئینوں کے برعکس ہیجڑوں کے سکینڈلز منظر عام پر نہیں آتے شاید اس لئے کہ بیچارے صرف منہ زبانی محبت کر سکتے ہیں، ہیجڑوں کے حوالے سے گزشتہ دنوں شائع ہونے والی آزاد نظم نے حساس دل افراد کو تڑپا کر رکھ دیا تھا۔

دیکھ کر آئینے میں اپنا سراپا اکثر

اپنے ماں باپ کی قسمت پہ ہنسی آتی ہے

ہائے ! میں جن کے لئے فخر کا باعث نہ ہوا

ہائے !میں جن کے لئے باعثِ ذلت ٹھہرا

میرے حصے میں نہ خدمت، نہ شہادت آئی

ملک اور قوم کا احساں نہ چکایا میں نے

میرے رازق کی عنایت ہے کہ جی لیتا ہوں

پیٹ بھر لینے کو مل جاتی ہے روٹی کسی طور

میری فطرت میں ودیعت ہے مجھے غم کا مزاج

سو میرے لب پہ فغاں کل تھی نہ فریا دہے آج

دنیا والو! مرا احساس کرو، سوچو تو

اپنی مرضی سے تو ایسا نہیں ہوتا کوئی

میں بھی دل رکھتا ہوں سینے میں جگر بھی، مجھ کو

طنزو تشنیع کے نشتر نہ چبھوئے جائیں

میرے زخموں کا مداوا تو مگر ہو کہ نہ ہو

اے خدا تجھ سے شکایت تو مجھے کرنی ہے

میرے صناع مجھے تو نے بنایا ہے مگر

ایسی عجلت میں کہ اِس سے نہ بنایا ہوتا

چند برس قبل ہیجڑوں کے حقوق کے لیے عدلیہ میں دائر ہونے والے ایک کیس کا بڑا چرچا رہا ہے تاہم حکومت نے اس حوالے سے جاری ہونے والے عدالتی فیصلے پر مکمل عمل نہیں کیا، انہیں صرف کراچی کنٹونمنٹ بورڈ نے نا دہندگان سے ریکوری کے لیے عارضی بنیادوں پر ملازمت فراہم کی تھی یا پھر شاید نادرا کے اعلیٰ افسروں نے انہیں کچھ نوکریاں دی تھیں، ہیجڑوں کو عام سرکاری اداروں میں نوکریاں، خاندانی جائیداد میں حصہ اور دیگر اہم حقوق نہیں مل سکے اگر انہیں انصاف نہ ملا تو شاید پورے ملک میں احتجاج کرتے ہوئے تالیاں بجاتے پھریں، سپریم کورٹ کو چاہیے کہ ہیجڑوں کو ماتحت عدلیہ میں بطور ’’ چوبدار ‘‘اہلکار بھرتی کرنے کے احکامات جاری کر دیں یہ نہ صرف تالیاں بجا تے ہوئے ملزموں کے گھروں میں جا کر عدالتی سمن کی تعمیل کراسکتے ہیں بلکہ سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت کے دروازے پر کھڑے رہ کر احاطہ میں موجود پیشی پر آئے ہوئے مدعیوں اور ملزموں کے نام پکارنے کا فریضہ بھی بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

دوا خانے کے اداکار

 

                   کے ایم خالد

 

کوئی دور تھا کہ جب اداکار صرف تھیٹر، ٹی وی ڈرامہ یا فلموں میں ہی پائے جاتے تھے مگر فی زمانہ اداکاروں کی ہر شعبہ ہائے زندگی میں ان کی بہتات ہے حتیٰ کہ میڈیا کا سب سے خشک شعبہ نیوز اور حالات حاضرہ بھی اس سے محفوظ نہیں تین دہائیوں قبل تک پی ٹی وی کے ان شعبوں میں ان شخصیات کا قبضہ تھا جنہیں شاید کبھی نہیں ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا اب میڈیا کے ان شعبوں میں جو جتنی ’’جولی اور ہولی ‘‘( جولی انگلش اور ہولی پنجابی زبان کا لفظ ہے )طبیعت کا مالک نیوز کاسٹر یا اینکر ہو وہ اتنا ہی کام یاب ہو گا۔

ماضی میں چونکہ پبلسٹی کا مناسب انتظام نہیں تھا اور طب کے شعبے میں تو خاص طور پر اس حکیم کو بری نظر سے دیکھا جاتا تھا جو کسی مریض کو بھی اپنی تعریف دوسروں تک پہچانے کے لئے راضی کرتے تھے کسی حکیم کی شہرت سینہ بہ سینہ ہی پھیلتی تھی اور یہ شہرت بھی مریض کی مرض سے شفا یابی سے مشروط ہوتی تھی اور حکیم صاحب کی شہرت کے اس پھیلاؤ میں برسوں درکار ہوتے تھے۔ زمانہ بدلا اور نیم حکیم اخباروں اور ویگنوں، گاڑیوں میں بانٹے جانے والے اشتہارات کے ذریعے مریضوں تک پہنچنے لگے لیکن اس میں بھی اصل حکیم سے زیادہ نیم حکیم شامل تھے۔ جن کا مقصد ہی مریضوں کی جیب خالی کرنا تھا۔

مختلف چینلز پر چلنے والے حکیموں کے اشتہارات بے دھڑک اور بلا روک ٹوک لمبے لمبے دورانیہ کے اشتہارات دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے ان چینلز کی ملکیت انہی حکیموں کی ہے اور ان کی چوبیس گھنٹے کی ’’حکیمانہ نشریات ‘‘ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان دو چار عطائیوں کے پاس ہی دنیا کی ہر بیماری کا علاج ہے اور ان نشریات کی بدولت پی آئی اے سمیت پوری دنیا کی ائر لائنز کی چاندی ہو گئی ہے اور دنیا بھر سے مریض جوق در جوق پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔

نہ جانے ان حکما ء کے پاس اپنی پبلسٹی کے اتنا پیسہ کہاں سے آ گیا کہ وہ چینلز پر اپنے ایک گھنٹے کے اشتہار کے بعد دوسرے گھنٹے ایک نئی بیماری کی علامات، علاج، پرہیز کا پھر ’’رٹا ‘‘ لگا کر آ دھمکتے ہیں حکیم صاحب خود بھی اداکاری کے شوقین محسوس ہوتے ہیں جو کہ شاید فلموں یا ڈراموں میں اداکاری کے جوہر نہ دکھا سکنے کے باعث اپنا اداکاری کا شوق بھی حکیمی کے ساتھ ہی پورا کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائے دیتے ہیں۔ اپنی اداکاری کے ساتھ ان عطائی حضرات نے پورے ملک کے خاص شہروں سے علاقائی بیمار محسوس ہونے والے اداکار بھی دریافت کرتے ہیں ان میں مرد وزن کی کوئی قید نہیں بلکہ جتنا مریض اداکار بوڑھا ہو گا اتنا ہی وہ کامیاب ہو گا جو کہ اپنی علاقائی زبان میں پہلے تو حکیم صاحب تک پہنچے تک کا حال بیان فرمائیں گے اس کے بعد اپنی بیماری میں مبتلا ہونے اور پھر حکیم صاحب سے علاج اور پھر چند ہی ہفتوں میں اس سے شفا یابی کی نوید سنائیں گے یہ علاقائی اداکارانہ اشتہار آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے کا بھی ہو سکتا ہے اس میں اس علاقائی مریض کی اداکاری کی داد تو بنتی ہے جو خوشی، غمی کے سارے تاثرات اپنی اداکاری میں سمو دیتا ہے۔

ان اداکاروں کے علاوہ اس حکیمانہ اشتہاری دوڑ میں ماضی کے وہ اداکار بھی شامل ہیں جن کا فلموں میں توتی بولتا تھا اب وہ ان حکیمانہ اشتہاری فلموں میں طوطے کی طرح بول رہے ہیں ان کی اشتہاری فلموں میں کام کی سمجھ تو یہ ہی آتی ہے چونکہ اب فلمیں نہیں بن رہی تو وہ اپنا صرف فلمی ٹھرک ہی پورا کرنے کے لئے ان اشتہاری فلموں میں کام کر رہے ہیں جب کہ آٹو گراف دیتے وہ جوانی سے لے کر اب تک وہ اپنی فٹنس کا سبب حکیم صاحب کی دوائیوں کو ہی گردانتے ہیں جیسے وہ حکیم صاحب کی دوائی جوانی سے ہی استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ایک اداکار گلو بادشاہ ہیں جن کے خیال میں حکیم صاحب کی دوائی سے ان کا نہ صرف معدہ ٹھیک رہتا ہے بلکہ ان کے جوڑوں میں رہنے والا درد بھی رفو چکر ہو چکا ہے۔ ’’ماچس تو ہو گی آپ کے پاس ‘‘ کو پہچان کا روپ دینے والے اداکار فالج کی اداکاری کرتے ہوئے حکیم صاحب کی دوائی سے تندرستی کا اظہار کرتی اداکاری سے حکیم صاحب کا دل موہ لیتے ہیں۔ ان اداکاروں کے علاوہ بھی بہت سے صف اول کے اداکار ان حکماء کا ’’چورن ‘‘ بیچنے میں پیش پیش ہیں۔

مریض تو بے چارے مرض کے ہاتھوں دیوانے ہوتے ہیں ماضی کی فلموں کے شوخ وشنگ اداکاروں کے علاوہ اپنی علاقائی زبان میں علاقائی اداکار مریض کو اپنی اداکاری سے گرفت میں لے لیتے ہیں اور اس پر حکیم صاحب کی چرب زبانی، مریض بس اسی حکیم کو مسیحا سمجھتے ہوئے اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

٭٭٭

 

سفر وسیلۂ ظفر

 

لندن ایکسپریس

(باب سوم)

 

                   ارمان یوسف

 

ذکر کچھ ملتان کا

 

ملتان کا شمار نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ اس کا ذکر شاہنامہ فردوسی میں بھی ملتا ہے۔ ملتان کی دھرتی کئی خون ریز جنگوں کی چشم دید گواہ رہ چکی ہے۔ یہاں پر ہندو اور سکھ ہزار سال تک حکمرانی کر چکے ہیں، ہندوؤں کے بقول یہ شہر ان کے دیوی، دیوتاؤں کا مرکز رہا ہے۔ آثار سے پتہ چلتا ہے کہ ملتان، ہڑپہ اور موہنجودڑو قریب تین ہزار سال قبل ایک ہی زمانے میں تہذیب و تمدن کا مرکز تھے۔ سنا ہے کہ سکندرِ اعظم فتح کی غرض سے ملتان تک آ پہنچا تھا مگر شہر کو فتح کرنے کا خواب دل میں لئے نہ صرف ملتان بلکہ دنیا ہی سے کوچ کر گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ دورانِ جنگ زہر سے بجھا ایک تیر اسے آ لگا اور یہی اس کی موت کا سبب بنا۔

مدینۃ الاولیا کہلایا جانے والا یہ شہر ماضی میں ہندوؤں اور سکھوں کی عبادت گاہوں کی کثرت کی وجہ سے بھی نمایاں مقام رکھتا تھا۔

ملتان کو اسلامی عہدِ حکومت میں خاص شہرت ملی۔ نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم نے ۷۱۲ء میں شہر کو فتح کیا، کوئی دس ہزار عرب آباد کئے اور شہر میں ایک جامع مسجد بھی تعمیر کرائی۔ تیسری صدی ہجری تک ملتان اور مضافات میں مدارس اور مساجد کا جال پھیل گیا اور یہ شہر علم و ادب کا گہوارہ بن گیا۔ چوتھی صدی ہجری میں اسے محمود غزنوی نے فتح کیا۔ اسی زمانے میں البیرونی یہاں آیا اور پانچ سال سے زیادہ عرصہ تک یہاں قیام پذیر رہا، اس کی تصنیف ’’کتاب الہند‘‘ میں بھی ملتان کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔

ملتان کومدینۃ الاولیا اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں اکابر اولیا کرام کے مزارات ہیں جن میں حضرت بہاء الدین زکریا، شیخ صدر الدین عارف، شیخ رکن الدین، حضرت شمس تبریز، شاہ گردیز، شاہ حسین آگاہی، سید موسیٰ پاک شہید اور سلطان احمد قتال قابلِ ذکر ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد ملتان نے خاصی ترقی کی۔ شہر کی آبادی لگ بھگ پندرہ لاکھ ہے، جن میں بیس پچیس کو تو ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں جبکہ دیگر کے قول و فعل کے ذمہ دار نہیں۔ پرانا شہر تو اب بھی اپنی تنگ گلیوں اور بازاروں سمیت چھ دروازوں میں گھرا ہوا ہے جن میں دہلی گیٹ، بوہڑ گیٹ، لوہاری گیٹ، حرم گیٹ، پاک گیٹ اور دولت گیٹ شامل ہیں۔ اندرونِ شہر تو مزید گنجائش نہ تھی البتہ بیرونِ شہر پھیلتا اور بڑھتا چلا گیا۔ کنٹونمنٹ کا علاقہ بہت خوبصورت اور جدید ہو گیا ہے۔ نئی بستی گلگشت کی جدید طرز اور کشادہ بازار قابلِ ذکر ہیں۔ جھیلیں اور پارک بھی ملتان کا خاصا ہیں۔ گو ہمیں آج تک کسی نے نہیں دئیے مگر ملتان کے تحفے بہت مشہور ہیں، جن میں شامل ہیں گرما، ہاتھی دانت کی چوڑیاں، آرائشی سامان اور سوہن حلوہ۔

ملتان کے مشہور سیاست دانوں اور دیگر شخصیات میں احمد سعیدؔ کاظمی، ڈاکٹر اسلم انصاری، اصغر ندیمؔ سیّد، کرکٹر انضمام الحق، یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی اور سید فخر امام شامل ہیں۔

اور ہاں ملتان کا اصل تعارف تو ہم کرانا ہی بھول گئے تھے، اس شعر میں ملاحظہ کیجئے ؎

چہار چیز است تحفۂ ملتان

گرد، گرما، گدا و گورستان

موت کی سواری، مون کی موٹر بائک

’’اب کیا ارادہ ہے ‘‘؟

مون نے چائے کی آخری چسکی لیتے ہوئے کہا۔ ہم نے کھڑکی کا پردہ سرکاتے ہوئے باہر کے موسم کا جائزہ لیا۔ آنکھوں کو چندھیا دینے والی تیز دھوپ نے خبر دار کیا کہ ابھی باہر مت نکلو!سو ہم نے ملتانی ملاقاتیں کچھ دیر کو مؤخر کر دیں۔

’’ذرا سورج کو شام کی اوڑھنی اوڑھ لینے دو، پھر نکلتے ہیں ‘‘

مون نے بھی اس تجویز پہ اتفاق کیا۔

طے یہ ہوا تھا کہ صحافی، محقق اور شاعر جناب محبوبؔ تابش سے ہوتے ہوئے ڈاکٹر مختارؔ ظفر کے ہاں سلامی دیں گے اور پھر صابرؔ انصاری کے پاس چلیں گے۔

شام ڈھلے مون نے موٹر بائک نکالی اور سٹارٹ کرنے کی جد و جہد شروع کر دی۔ اس نے سنگل سٹینڈ پہ ہی کھڑی بائک کو بائیں ٹانگ سے کِک لگائی اور دائیں ہاتھ سے ریس دی۔

’’دائیں پیر سے کِک لگاؤ نا، تمہیں پتا نہیں کہ دایاں ہاتھ پیر چلانا شیوۂ مسلمانی ہے ‘‘

ہم نے تجویز دی

مگر کافر بائک پھر بھی نہ مانی۔

’’یار ایک حادثے میں دائیں ٹانگ کو نقصان کو پہنچا تھا اس لئے زیادہ زور نہیں لگا سکتا‘‘۔

’’اور یہ حادثہ بھی اسی بائک پر پیش آیا تھا کیا‘‘؟ ہم نے احتیاطاً پوچھ لیا۔

’’نہیں وہ پرانی بائک تھی‘‘ مون نے جواب دیا۔

’’تھی توبائک ہی نا!‘‘

ہمیں تشویش لاحق ہوئی۔ سنا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور اگر آج وہی حادثہ پھر ہو گیا تو؟کہیں برطانیہ کی سیر محض ایک خواب ہی نہ رہ جائے۔

’’جو بھی ہو گا، دیکھا جائے گا‘‘ ہم نے خود کو تسلی دی۔ بچ رہے تو لندن گوریاں جاتاڑیں گے اور اگر خدانخواستہ شہید ہو گئے تو جنت میں حوریں منتظر ہوں گی۔

لگتا تھا کہ دوبارہ جی اٹھنے کے لئے بائک ہمارے ’’قم‘‘ کہنے کی منتظر تھی۔ مون نے بائک پر بیٹھ کر دائیں ہاتھ سے ریس دی اور ہم نے پچھلی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے دائیں پاؤں کے ساتھ زور دار کِک لگائی۔ اگلے ہی لمحے کمال ہو گیا۔ بائک سٹارٹ ہو گئی۔

کچھ دیر میں حالات نے ثابت کر دیا کہ ہم بائک پر نہیں بلکہ ملک الموت کے کاندھوں پہ سوار ہیں۔ جس راستے سے چیونٹی بھی پر سمیٹ کے گزرے اُس راستے سے بائک سمیت ہم دونوں کا گزر جانا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔

’’بھئی کچھ تو احتیاط کرو کیوں موت کے منہ میں لئے جاتے ہو‘‘ ہم نے ایک بار پھر احتیاطی تدابیر کا راگ الاپا۔

’’میرے چندا گھبراؤ مت کچھ بھی نہیں ہو گا‘‘ مون نے بھی پھر وہی جواب دیا۔

ہمیں کئی خدشات نے گھیر لیا۔ آگے ایک تنگ سی گلی آ گئی، وہ بھی یک طرفہ ٹریفک کے لئے۔

’’نو انٹری میں کیوں گھس آئے ‘‘؟

ملتان کی گلی گلی سے واقف ہوں، گھبراؤ نہیں سیدھا ڈاکٹر مختارؔ کے ہاں جا نکلیں گے ‘‘

’’موت کی گلی سے بھی خوب واقف ہو میاں ! اس لئے تو موٹر سائکل کی نمبر پلیٹ پر سرخ لفظوں میں لکھوا رکھا ہے کہ سواری اپنی جان کی حفاظت خود کرے، ڈرائیور کی خیر ہے ‘‘

ہم نے اسی دوران ایک راز دار دوست کو فون کیا:

’’بھئی یونس دیکھو، اس وقت ہم وصیت نامہ لکھنے کی حالت میں نہیں لہذا جو کچھ کہیں پلے باندھ لو۔ ہمارے کمرے میں جو ایک بڑا سا صندوق ہے اس میں ایک اور چھوٹا صندوق ہو گاجس میں کلثومی کی تصویر یں اور خط رکھے ہیں۔ خطوط اور تصاویر کو دریا برد کر دینا اور اس کے دئیے ہوئے چند تحفے بھی ہوں گے وہ تم اپنے استعمال میں لے آنا یا پھر بیچ کے ہمارے لئے قرآن خوانی کروا دینا‘‘ساتھ ہی ایک صحافی دوست کو بھی اطلاع دے دی کہ ہمارے مرنے کی خبر ہر صورت جلی حروف میں چھپنی چاہئے، نیلے کوٹ اور گلابی ٹائی والی تصویر بھی لگانی ہے۔ ایک مولانا کو بھی بتا دیا کہ ہماری حادثاتی موت کی صورت میں شہادت کا فتویٰ تیار رکھیں۔

حسین آگاہی چوک سے نکلے تو سینما کی دیوار پر کسی ہندوستانی فلم کے اشتہار لگے تھے۔ ہم دونوں کی نظریں آنے جانے والی ٹریفک سے زیادہ فلمی حسیناؤں کی نیم عریاں تصویروں پر تھیں کہ ایک ریڑھی والا جو برف لادے جا رہا تھا، نے خبر دار کیا ورنہ حادثہ یقینی تھا۔ نو نمبر چوں گی جا پہنچے، اوور ہیڈ پل تعمیر ہونے کی وجہ سے سڑکیں پتھروں سے اٹی تھیں اور فضا دھُول سے۔

کونے میں پھولوں کی ایک دکان دکھائی دی۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب کو پھول پیش کرنے کے لئے تازہ گلابوں کا ایک گلدستہ لیا اور گلگشت کو چل دئیے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے آفس میں موجود تھے، چائے اور بسکٹ سے ہماری تواضع کی گئی۔ ذکر چل نکلا ملکی حالات کا، ڈاکٹر صاحب خاصے مایوس دکھائی دیتے تھے، کہنے لگے : ’’حالات ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ بحیثیت مجموعی ہم حالات کی خرابی کے ذمہ دار ہیں اور ساتھ ہی درستگی ٔ احوال کا کوئی سنجیدہ رویہ بھی نہیں اپنایا جا رہا الٹا حالات کا رونا رویا جاتا ہے، ایسے میں بہتری کی کوئی بھی توقع عبث ہے ‘‘

گرما گرم چائے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی حکیمانہ گفتگو نے بھی لطف دیا۔ ان سے اجازت لی اور صابرؔ انصاری کی طرف چل دئیے۔ پر پیچ گلیوں سے ہوتے ہوئے دولت گیٹ جا پہنچے۔ معمول کے مطابق ٹریفک کا رش، مٹی دھول کی فراوانی کے ساتھ ساتھ کھانے کی اونچی اونچی دکانیں بھی دیکھنے کو ملیں۔ کوئی کڑاہی گوشت میں ماہر تو کوئی حلوہ پوری میں اور کوئی ٹکا ٹک میں۔ مٹی کے برتنوں کی دکانیں بھی تھیں اور فٹ پاتھ پر برف کے پھٹے بھی لگے تھے۔ دولت گیٹ سے محلہ آغا پورہ کو مڑے، تھوڑا آگے پہنچے تو سڑک مٹیالے رنگ کے پانی سے بھری تھی۔

’’بھئی یہ تو کوئی مقدس مقام معلوم ہوتا ہے، دیکھو نا چشمہ ابل پڑا ہے ‘‘

’’یہ قدرتی چشمہ نہیں بلکہ بارش کا پانی ہے ‘‘ مون نے جواب دیا۔

’’مگر ان دنوں تو کوئی بارش نہیں ہوئی‘‘

’’ہوئی تھی نا پچھلے ماہ‘‘

’’تو پانی اب تک کھڑا ہے ؟‘‘ ہماری تشویش بجا تھی۔

’’یہ ایک نشیبی علاقہ ہے آس پاس کے اونچے علاقے کا پانی بھی یہاں جمع ہو جاتا ہے ‘‘

’’تو انتظامیہ کیا کرتی ہے ‘‘؟

’’انتظامیہ۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘؟ مون نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر ڈالا۔ پھر خود ہی بولا ’’شہر کی انتظامیہ اونچے اونچے مکانوں میں رہتی ہے اور بڑے بڑے محلات کے خوابوں کی تعبیر میں مصروف رہتی ہے، نیچے والوں پہ نظر ہی نہیں پڑتی‘‘

ہم ابھی اسی کشمکش میں تھے کہ یہ دریا سا کیسے عبور کیا جائے، اتنے میں دور سے ایک دیہاتی سر پہ مٹی کے برتن اٹھائے پانی میں چل کے آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے ایک ہاتھ سے سر پر مہارت سے رکھے گھڑے کو تھام رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے لنگوٹی کو سنبھالے ہوئے تھا۔ جیسے جیسے پانی گہرا ہوتا جاتا ویسے ویسے وہ لنگوٹی اوپر کرتا جاتا۔ ایک جگہ شاید گڑھا تھا، پانی کمر تک آ پہنچا اور لنگوٹی تقریباً سینے تک۔ اگلے ہی لمحے قدرے اونچی جگہ تھی، اب کے پانی گھٹنوں تک تھا اور لنگوٹی بدستورکمر سے اوپر۔ دیکھنے والوں کے ہاتھ تماشہ آ گیا، کوئی بے شرم اور بے غیرت کہے جا رہا تھا تو کوئی محض ہنسے جا رہا۔ دیہاتی بیچارہ ایسا گھبرایا کہ بغل میں دبے چمڑے کے جوتے بھی پانی میں گر گئے۔ جوتے بچانے کے لئے وہ جھکا ہی تھا کہ گھڑے والا ہاتھ بھی پھسل گیا اور وہ گھڑا بھی ملت کی ڈولتی کشتی کی طرح پانی میں ہچکولے کھانے لگا۔

’’پتلی گلی سے نکلتے ہیں ‘‘ مون کو راستہ سوجھا۔

’’اس کی مدد ہی کر دیتے ‘‘

’’وہ کون سا ڈوب چلا ہے ‘‘

’’کچھ دیر ٹھہر کے اس کے ڈوبنے کا انتظار کر لیتے ہیں ‘‘

مون نے سُنی اَن سنی کر دی اور دائیں جانب بائک موڑ دی۔ سامنے مٹھائی کی ایک دکان نظر آئی، سوچا دوست احباب جمع ہوں گے منہ میٹھا کر لیں گے۔ مون نے سڑک کے کنارے بائک روکی اور ہم شیشے کا دروازہ کھول کر دکان میں داخل ہو گئے۔ کئی مٹھائیاں شو کیس میں سجی تھیں، ہماری مطلوبہ چیزیں سیلز میں نے صفائی والے میلے سے ایک کپڑے کے ٹکڑے سے ہاتھ پونچھ کر پیک کرنی شروع کر دیں۔

’’یار کوئی چمٹا وغیرہ استعمال کر لیتے یا کم از کم پولیتھین کے دستانے ہی ہاتھوں پہ چڑھا لیتے ‘‘

ہم نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، مگر دکان والا برہم ہو گیا۔

’’حضرت تھوڑا صفائی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے نا‘‘

یہ کہنے کی دیر تھی کہ مٹھی بھر داڑھی والے وہ صاحب چیخ اٹھے (یعنی کسی مسلمان سے صفائی کا خیال رکھنے کی تلقین کر کے ہم ایک ناقابلِ تلافی جرم کے مرتکب ہوئے تھے )کہنے لگے ’’بھائی صاحب ! آپ کی داڑھی اسلام کے مطابق نہیں اور آپ بات کرتے ہیں صفائی کی!‘‘

ان دنوں ہم نے خشخشی سی داڑھی رکھی ہوئی تھی جو بعض مولویوں کے نزدیک کسی شمار و قطار میں نہیں آتی۔

’’ہماری داڑھی کو چھوڑئیے آپ کی تو پوری زندگی اسلام کے مطابق نہیں ‘‘ ہم نے دل ہی دل میں یہ کہا اور مٹھا ئی خریدنے کا پروگرام کینسل کر دیا۔ ہمارے اس فیصلے پر دکاندار یوں خوش ہوا جیسے میدان جنگ میں اسلام کا جھنڈا لہرا دیا ہو۔

صابرؔ انصاری کے ہاں خاصا رش تھا۔ کئی شعرائے کرام تشریف فرما تھے (سامع ایک بھی نہیں تھا)دیوار پہ ٹنگے پَینا فلیکس پر ہماری شاعری کی کتاب کے تعارف سمیت موٹے حروف میں ہمارے اوصافِ حمیدہ بیان کئے گئے تھے اور ’’انصارِ ادب‘‘ کے زیرِ اہتمام ’’ایک شام ارمان یوسف کے نام‘‘ کی گئی تھی۔

’’اس تکلف کی کیا ضرورت تھی!‘‘ ہم نے صابر انصاری کے کان میں سرگوشی کی۔

’’بس جلدی میں کچھ خاص نہ کر سکا۔ ‘‘ انصاری کے جواب نے ہمیں مطمئن کر دیا۔

کرسیِ صدارت پر مہربان، شفیق اور ہر دلعزیز شخصیت ارشدؔ ملتانی براجمان تھے۔ ریڈیو کے معروف کمپیئر اور میز بان ڈاکٹر شوذبؔ کاظمی، استاد فداؔ ملتانی، نبیل طورؔ، محمد اسلم ہمدمؔ، رحمتؔ انصاری اور کئی دوسرے شعرا بھی موجود تھے۔

ایک صاحب نے مسکراتے ہوئے ہماری طرف ہاتھ بڑھایا اور بولے ’’خاموش ‘‘

ہم نے آدھا سلام کیا ہی تھا کہ چپ سادھ لی۔ حکم بھی یہی تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ صاحب تھے مہر محمد اجمل اور’ ’خاموشؔ‘‘ اُن کا تخلص ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیسی لمرک

 

باربی

 

اُس کو کوہِ قاف سے بھٹکی پری سمجھا تھا میں

اور اُس کی سب بہاریں سرمدی سمجھا تھا میں

کل کو خوبانی تھی جو

آج خربوزہ ہے وہ

اب ہنسی آتی ہے کس کو باربی سمجھا تھا میں

 

                   نوید ظفرؔ کیانی

٭٭٭

 

 

فیس بک موج میلا

 

موجِ غزل میں مزاح کا عنصر

 

                   روبینہ شاہین بیناؔ

 

موجِ غزل فیس بک کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کا مقصد شعری ادب کا فروغ ہے۔ اس ادبی گروہ کے منتظمین کی اَن تھک محنت اور جدت طرازیوں کے طفیل یہ گزشتہ کئی برسوں سے کامیاب طرحی مشاعروں کا انعقاد کر چکا ہے۔ نوجوان شعراء کے ساتھ ساتھ بہت سے نامی گرامی شعراء اِن مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں اور اُردو کے شعری ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ نوجوان شعراء و شاعرات کو یہاں رہنمائی اور اصلاحِ سخن کے مواقع بھی میسر ہیں۔ اس ادبی گروہ کے منتظمِ اعلیٰ جناب ہاشم علی خان ہمدمؔ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں اور نوجوان شعراء و شاعرات کی خصوصی حوصلہ افزائی کے شدت سے قائل ہیں۔

اس ادبی گروہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے منعقد کردہ ہفتہ وار طرحی مشاعروں میں ہر بار باقاعدگی سے شرکت کرنے والوں میں طنزیہ و مزاحیہ شعراء و شاعرات کی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی ہے اور دئے گئے طرحی مصرعوں پر اپنے زعفران زار فن کے جادو جگاتی ہے۔ یہی نہیں، بلکہ یہاں بسا اوقات طنز و مزاح پر مبنی مشاعروں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے جس میں کسی بھی مزاحیہ شاعر کے کلام سے مصرع کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ان مشاعروں میں تمام شعراء طنز و مزاح پر مبنی کلام پیش کرتے ہیں۔ ایسے شعراء بھی مزاح گردی کرتے نظر آتے ہیں جن کے اپنے خیال کے مطابق وہ مزاح تخلیق نہیں کر سکتے۔

اس سہ ماہی کے دوران بھی دو عدد مزاحیہ مشاعروں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پہلا مشاعرہ ۱۹؍جنوری ۲۰۱۷ء بروز ہفتہ منعقد ہوا۔ اس شعری نشست کے لئے معروف مزاحیہ شاعر جناب انور مسعود صاحب کی غزل کے درج ذیل شعر میں سے مصرع لیا گیا تھا ؎

ہے آپ کے ہونٹوں پہ جو مسکان وغیرہ

قربان گئے اس پہ دل و جان وغیرہ

اس مشاعرے میں جن شعراء و شاعرات نے شرکت کی اُن کے اسمائے گرامی تھے جناب عامر حسنی، جناب عادل اشرف، جناب افضل مرکزی، جناب زین علی احمر، جناب علیم اسرار، ڈاکٹر امواج الساحل صاحبہ، جناب احمد علی برقی اعظمی، محترمہ دلشاد نسیم، جناب محمد فہیم، جناب غضنفر علی، جناب گوہر رحمٰن گہر مردانوی، جناب ہاشم علی خان ہمدم، جناب عرفان قادر، محترمہ جیا قریشی، جناب ڈاکٹر منظور احمد، جناب انعام الحق معصوم صابری، ڈاکٹر مظہر عباس رضوی صاحب، جناب محمد محمود، جناب محمد علی بٹ، محترمہ نور جمشید پوری، جناب نوید ظفر کیانی، جناب عمر عامر، محترمہ رعنا حسین، جناب رمز جلال آبادی، جناب ساگر کاشمیری، جناب سالک جونپوری، جناب شاہین فصیح ربّانی، جناب شاہد دلنوی، ڈاکٹر شاہد رحمٰن صاحب، محترمہ شہناز رضوی، ڈاکٹر محمد تبسم پرویز صاحب، محترمہ ذہینہ صدیقی، جناب ذیشان فیصل شان، جناب ذوالفقار نقوی، محترمہ قدسیہ ظہور، جناب نعمت مالکی، محترمہ رابعہ بصری اور راقمہ الحروف۔ چند منتخب اشعار پیشِ خدمت ہیں :

مت جانا بشیراں کی دکاں پر بھی عزیزو

جائے نہ کہیں ہاتھ سے ایمان وغیرہ

شاہد دلنوی

لائیں گے ترے واسطے توشیبہ کا ٹی وی

چاہے ہمیں جانا پڑے جاپان وغیرہ

اب "مار نہیں، پیار” کا قانون ہے لاگو

کھنچتے نہیں اسکول میں اب کان وغیرہ

شاہین فصیح ربّانی

ممکن ہے جوانی تمہیں پھر راس نہ آئے

سردی میں تو تم پہن لو بنیان وغیرہ

ذہینہؔ صدیقی

کھاتے ہیں کبھی وہ جو کہیں پان وغیرہ

بہتر ہے رکھیں پاس اگلدان وغیرہ

انعام الحق معصومؔ صابری

کالج میں کیوں جائیں کہ باہر ہی پڑے ہیں

یہ میر تقی میر کے دیوان وغیرہ

ڈاکٹر امواج الساحل

یوں پھیلتا جاتا ہے کوئی فضلِ خدا سے

تنگ پڑنے لگے کمرہ و دالان وغیرہ

اُس شخص کی کج فہمی کے انداز تو دیکھو

لیڈر کو سمجھتا ہے جو انسان وغیرہ

نوید ظفر کیانی

اک قائد اعظم کی جھلک کافی ہے ان کو

روکیں جو کہیں راستہ دربان وغیرہ

مہنگائی کے اس دور میں سوچا ہے یہ مظہر

بس کھائیں ہوا چھوڑ دیں سب نان وغیرہ

 

ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

دسویں کے ہمیں نے کئے حل پرچے تمہارے

تم نے کبھی مانا نہیں احسان وغیرہ

 

عادل اشرف

پھر اس نے لگانا ہے دوبارہ کوئی چکر

رکھے ہیں یہی سوچ کے گلدان وغیرہ

پانامہ کے بزنس تو پنپتے ہی رہیں گے

روتے ہیں تو روتے رہیں عمران وغیرہ

 

روبینہ شاہین بینا

کیا آپ کو یہ بات بھی معلوم نہیں تھی

سرکار میں ہیں آپ کے دربان وغیرہ

 

علیم اسرار

ہر ایک کو سی پیک سے ایسی ہوئی الفت

لگتا ہے چنے بیچیں گے جاپان وغیرہ

یہ سوچ کے لبرل تو سبھی باپ ہیں ان کے

چھٹی پہ چلے جاتے ہیں شیطان وغیرہ

 

ذیشان فیصل شان

غائب جو ہوا جیب میں دھیلا نہیں چھوڑا

ظالم تھا وہ اک اور بھی مہمان وغیرہ

 

گوہر رحمٰن گہر مردانوی

دیوانہ بہت سوچ کے دیوانہ ہوا ہے

سمجھو نہ اسے آپ یوں نادان وغیرہ

 

رمز جلال آبادی

پنجاب کی پولیس جنہیں ڈھونڈ رہی ہے

رہتے ہیں کراچی میں کہاں ڈان وغیرہ

بلو سے مٹکا ہے کبھی پینو سے پنگا

پینڈو کا مقدر نہیں ایان وغیرہ

 

ہاشم علی خان ہمدم

یہ عشق مری جان ترا روگ نہیں ہے

سودائے محبت میں ہے نقصان وغیرہ

 

جیا قریشی

ہر حال میں کرنا ہے ادا، جتنا بھی مانگیں

ہے ٹیکس بھی شاید کوئی تاوان وغیرہ

ہر چوَل کی اک خاص نشانی ہے کہ ہر وقت

ہے اپنے خیالوں میں ہی لُقمان وغیرہ

 

عرفان قادر

چہرے پہ جو لادا ہے یہ سامان وغیرہ

‘‘قربان گئے اس پہ دل و جان وغیرہ ’’

بیگم کا چلے ہاتھ، نکل پتلی گلی سے

ہو جائے نہ دیدہ کوئی سنسان وغیرہ

 

عامر حسنی

مے خانے میں کیا کام ہے ان کا یہ بتاؤ

خود کو جو بتاتے ہیں مسلمان وغیرہ

 

شہناز رضوی

تم مجھ سے الجھتے ہو بڑے شوق سے لیکن

سن میرے قبیلے سے ہیں یہ ڈان وغیرہ

 

سالک جونپوری

گاڑی میں تو مشکل سے یہ بچے ہی گھسیں گے

رکھیں گے کہاں اپنا یہ سامان وغیرہ

 

محمد فہیم

کیا خوب نئی آن نئی شان وغیرہ

ہوتی ہی نہیں آپ کی پہچان وغیرہ

ڈاکٹر منظور احمد

رکھتا نہیں ہوں اس لئے اے یار مقفل

گھر میں نہیں میرے کوئی سامان وغیرہ

ذوالفقار نقوی

وعدے ہیں سیاسی، کبھی پورے نہیں ہوتے

ٹی وی پہ بہت سنتے ہیں اعلان وغیرہ

قدسیہ ظہور

دوسرے مزاحیہ مشاعرہ کے لئے چلبلے اور شگفتہ لہجے نے خوبصورت شاعر جناب عبدالحکیم ناصف صاحب کی غزل کے درج ذیل شعر میں سے مصرع لیا گیا تھا ؎

مدت ہوئی کہ دیکھا نہیں ہم نے آئینہ

خود سے نظر ملائے کئی سال ہو گئے

اس مشاعرے میں جن شعراء و شاعرات نے شرکت کی اُن کے اسمائے گرامی تھے جناب عامر حسنی، جناب عادل اشرف، جناب افضل مرکزی، جناب محمد فرحت اللہ خان، جناب علیم اسرار، ڈاکٹر امواج الساحل صاحبہ، ڈاکٹر شوکت شفا شیداؔ، محترمہ دلشاد نسیم، جناب محمد فہیم، جناب غضنفر علی، جناب گوہر رحمٰن گہر مردانوی، جناب ہاشم علی خان ہمدم، جناب عرفان قادر، محترمہ جیا قریشی، جناب ڈاکٹر منظور احمد، جناب انعام الحق معصوم صابری، ذکیہ شیخ میناؔ، جناب محمد محمود، جناب محمد رضا کریم رہبر، محترمہ نور جمشید پوری، جناب نوید ظفر کیانی، جناب عمر عامر، محترمہ رعنا حسین، جناب رمز جلال آبادی، جناب ساگر کاشمیری، جناب سالک جونپوری، جناب شاہین فصیح ربّانی، جناب شاہد دلنوی، ڈاکٹر شاہد رحمٰن صاحب، محترمہ شہناز رضوی، جناب ریاض انزنو، محترمہ ذہینہ صدیقی، جناب ذیشان فیصل شان، جناب شکیل رشڑوی، محترمہ قدسیہ ظہور، جناب نعمت مالکی، محترمہ رابعہ بصری اور راقمہ الحروف۔ چند منتخب اشعار پیشِ خدمت ہیں :

چیں بہ جبیں پڑوسی تھے شوقِ ریاض پر

سو ہم کو ہنہنائے کئی سال ہو گئے

اب واپسی کا ذکر بھی کرتے نہیں ہیں وہ

آئے تھے بِن بلائے کئی سال ہو گئے

نوید ظفر کیانی

گاڑی چلا رہے ہیں دس کی سپیڈ پر

ٹکر کسی سے کھائے کئی سال ہو گئے

ڈاکٹر شاہد رحمٰن

وہ ملک میں ہے اور یہاں چین سے ہیں ہم

بیگم کی ڈانٹ کھائے، کئی سال ہو گئے

برقعہ بغیر اپنا نکلنا محال ہے

قرضے یہاں اٹھائے، کئی سال ہو گئے

محمد فرحت اللہ خان

خود سے نظر ملائے کئی سال ہو گئے

تیری نظر میں آئے کئی سال ہو گئے

محمد ریاض علیم

خوابوں میں تیرا آئے، کئی سال ہو گئے

یوں بے سبب ستائے، کئی سال ہو گئے

شکیل رشڑوی

کیا ذائقہ ہے آپ کے ہاتھوں میں ہائے ہائے

نان و کباب کھائے کئی سال ہو گئے

معصوم صابری

تجھ کو جو دیکھوں عید ہو جاتی ہے پھر مری

اب عید بھی منائے کئی سال ہو گئے

احمد مسعود قریشی

آئی ہے عقل مجھ کو بڑی مشکلوں کے ساتھ

دنیا سے مار کھائے کئی سال ہو گئے

سسرالیوں سے رشتے بھی لوہے کے ہیں چنے

ہم کو مگر چبائے کئی سال ہو گئے

روبینہ شاہین بیناؔ

رخ سے نقاب اٹھائیے محفل کے درمیاں

محفل کو جگمگائے کئی سال ہو گئے

ذکیہ شیخ مینا

گالوں سے اس کے آج تک سرخی نہیں گئی

تھپڑ کسی کا کھائے کئی سال ہو گئے

کیا پوچھتے ہو مجھ سے پنامہ کے کیس میں

دولت کہیں چھپائے کئی سال ہو گئے

ہاشم علی خان ہمدمؔ

بیگم گئی ہُوئی ہیں کئی سال سے مَیکے

دل کا سُکوں لُٹائے کئی سال ہو گئے

شہناز رضوی

پیسے کی ڈھونڈنے سے بھی ملتی نہیں ٹریل

مٹی میں سب دبائے کئی سال ہو گئے

ذیشان فیصل شان

مسجد سے دم دبائے کئی سال ہو گئے

جوتا اسے چرائے کئی سال ہو گئے

محمد رضا کریم رہبر

ان دو مشاعروں کے علاوہ ہر ہفتے کی شام کو فی البدیہہ طرحی مشاعروں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں دوسرے شعراء کے علاوہ مزاح گو شعراء و شاعرات کا ایک عنصر پھلجڑیاں چھوڑتا رہتا ہے۔ ۱۴؍جنوری ۲۰۱۷ء کی شام کو بھی موجِ غزل کے ۳۹ ویں طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ اس مشاعرے میں شریک ہونے والے مزاحیہ شاعروں کا کلام درج ذیل ہے۔

رہے ہیں زوجۂ اوّل سے ناکوں ناک مگر

اِک اور عقد کا سودا ہمیشہ سر میں رہا

یہی ہے آج کے شوہر کا نامۂ اعمال

خدا کے ڈر میں نہیں بیوی کے اثر میں رہا

نوید ظفر کیانی

سکڑ کے ہو گئی شوہر کی سلطنت اتنی

کہ جیسے بن کے گلہری کسی شجر میں رہا

نصیب شان میں لکھی تھی شاعری لیکن

پھنسا یہ پیاز میں آلو میں یا مٹر میں رہا

ذیشان فیصل شان

گرا تھا شام کو اک سُست آدمی اُس میں

تمام رات خوشی سے پڑا گٹر میں رہا

خُدا کا شُکر فضا میں نہیں اُڑا بالکل

جنابِ صدر کا ہر شعر بحر و بر میں رہا

عرفان قادر

۲۸؍جنوری ۲۰۱۷ء کو موجِ غزل کے ا۴ ویں طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ اس مشاعرے میں کا طرحی مصرع جناب غضنفر علی کی ایک منفرد غزل سے لیا گیا تھا۔ مشاعرے میں شریک ہونے والے مزاحیہ شاعروں کا کلام درج ذیل ہے۔

بچوں کو کوئی کر نہ سکا زینہار چپ

آنکھیں دکھا دکھا کر کہا بار بار چپ!

یاروں میں جس کو چپ بھی کرانا محال تھا

سسرال میں ہے صورتِ سنگِ مزار چپ

جب صور پھونکا جائے گا تو ہڑبڑائیں گے

ورنہ ہے صدرِ مملکت کی شاہکار چپ

نوید ظفر کیانی

سو سُکھ ہوں ’’ایک‘‘ چُپ ہو، اگر یہ درست ہے

کیسا سکون ہو جو رہیں ’’چار چار‘‘ چُپ

ویسے تو تھا جواب، مرے ہر سوال کا

ہے کون زن مُرید؟ ہوئے بے شمار چُپ

عرفان قادر

حیرت زدہ تھی دیکھ کے منظر نظر مری

بیٹھی تھیں ایک کمرے میں خاتون چار چپ

ویسے تو خوب چلتی ہے دن رات ہی مگر

شاید زباں پہ کرتی ہے رہ کر وہ دھار چپ

نور جمشید پوری

اِسی طرح ۱۱؍فروری ۲۰۱۷ء کو موجِ غزل کے ۴۳ ویں طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ اس مشاعرے میں طرحی مصرع محترمہ فاخرہ انجم کی ایک غزل سے لیا گیا تھا۔ مشاعرے میں شریک ہونے والے مزاحیہ شاعروں کا کلام درج ذیل ہے۔

یہ جون ایلیا سے بن کے رہ گئے ہو کیوں ؟

تمھارے شہر میں کیا قحط ہے غذائی میاں

کچھ اس ادا سے طلب کی ہے فیس ظالم نے

وہ ڈاکٹر مجھے لگنے لگا قصائی میاں

نوید ظفر کیانی

وہ برقعے والی کو بیگم سمجھ کے پاس گئے

اسی لئے تو سڑک میں ہوئی پٹائی میاں

بنا کے تجھ کو وہ رکھیں گے دیکھنا نوکر

کبھی نہ رہنا وہاں بن کے گھر جمائی میاں

نور جمشید پوری

بھلا بتاؤ اسے ڈیٹ کون کہتا ہے

وہ ساتھ لے کے چلی آئی اپنی تائی میاں

میں لوڈ کرتا ہوں ہر روز دس روپے کا مگر

چرا رہا ہے کوئی میرا وائی فائی میاں

یہ تایا،  ماموں کی لڑکی سے شادیاں نہ کرو

ہماری بیوی بھی کہتی ہے ہم کو ’’بھائی میاں ‘‘

غضنفر علی

اب ایسے چور کو کس قید میں لیا جائے

چرا کے دل مرا جس نے نظر چرائی میاں

تو معترف نہیں اس کے سیاسی باؤنسر کا

اگرچہ خان نے تیری وکٹ گرائی میاں

روبینہ شاہین بینا

۱۸؍فروری ۲۰۱۷ء کو موجِ غزل کے ۴۴ ویں طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ اس مشاعرے کے صاحبِ طرح شاعر جناب مختار احمد تھے۔ مشاعرے میں شریک ہونے والے مزاحیہ شاعروں کا کلام درج ذیل ہے۔

جو اہلِ مسند و دستار کے ہیں کاسہ لیس

اُنہیں کے قول نصابوں میں مستند کیے جائیں

رقیب روزپھنساتا ہے اک نئی لڑکی

اور اپنا کام یہی ہے کہ بس حسد کیے جائیں

تلور کے عوض آتا ہے کوئی قطری خط

وہ اتنے نیک نہیں ہیں یونہی مدد کیے جائیں

نوید صدیقی

اسامی بانگ بھی دینے کی ہو تو ہٹتے نہیں

فقط وہ اپنے ہی چوزوں کو نامزد کئے جائیں

وہ اپنی ٹانگ ہمیں کھینچنے جو دیتے نہیں

تو کیوں نہ اُن سے بھلا عمر بھر حسد کئے جائیں

نوید ظفر کیانی

عروضیوں سے فقط اتنی سی گزارش ہے

سبب خفیف بڑھا کر نہ یوں وتد کیے جائیں

سرائے اہل ادب کا یہ حال ہے بینا

کہ کام کچھ نہ کریں اور بس حسد کیے جائیں

روبینہ شاہین بینا

عروض دان مرے شعر مسترَد کئے جائیں

غزل میں اپنی مگر درد کو درَد کئے جائیں

نہیں خرید سکے کوئی قیمتی تحفہ

اکاؤنٹ میرے رقیبوں کے منجمد کئے جائیں

ہیں دو ہی اچھّے، اگرچہ ہوں ایک درجن بھی

کہا ہے کس نے ؟ کہ پیدا ہی دو عدد کئے جائیں

عرفان قادر

۴؍مارچ ۲۰۱۷ء کو موجِ غزل کے ۴۶ ویں طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ مشاعرہ مرحوم باقی صدیقی کے نام تھا۔ اِس طرحی مشاعرے کے لئے جس مصرع کا انتخاب کیا گیا تھا وہ اُن کے درج ذیل شعر سے اخذ شدہ تھا۔

ہر کنارے کی طرف صورتِ دریا دیکھو

راستہ روک بھی لیتے ہیں سفر کے ساتھی

مشاعرے میں شریک ہونے والے مزاحیہ شاعروں کا کلام درج ذیل ہے۔

ایسی منزل پہ بھی لے آتی ہے شامت اکثر

جس جگہ کام نہیں آتے قطر کے ساتھی

جس طرح خاک میں رُل کر بھی ہے زندہ بھٹو

ویسے ہی زندہ ہے تجھ پر کوئی مر کے ساتھی

نوید ظفر کیانی

جام پیتے ہیں کرپشن کے جیے جاتے ہیں

دختِ رز کے نہیں ہیں دخترِ زر کے ساتھی

جس نے پیدا کیا، اُس کا نہ کبھی ہو پایا

ساری دنیا کے شیاطین بشر کے ساتھی

روبینہ شاہین بینا

دیکھ کرسمت ہوا کی وہ بدل جاتے ہیں

یعنی کچھ لوگ اِدھر کے نہ اُدھر کے ساتھی

جاں مصیبت میں ’’شریفوں ‘‘ کی پھنسی جب بھی نویدؔ

آ گئے ان کے تحفظ کو ’’قطر‘‘ کے ساتھی

نوید صدیقی

’’جو بھی ہے جیب میں، فوراً ہی نکالو‘‘ کہہ کر

’’راستہ روک بھی لیتے ہیں سفر کے ساتھی‘‘

میک اپ کر کے نکلنا ہے نری دھوکا دہی

’’چار سو بیس‘‘ نہ بن اتنا سنور کے، ساتھی

عرفان قادر

۱۱؍مارچ ۲۰۱۷ء کو موجِ غزل کے ۴۷ ویں طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ مشاعرہ خوبصورت لب و لہجے کے شاعر جناب سعود عثمانی کے نام تھا۔ مشاعرے میں شریک ہونے والے مزاحیہ شاعروں کا کلام درج ذیل ہے۔

رکھوں گا ترقی کی طرف پہلا قدم میں

جس روز طبیعت کو میں درباری کروں گا

اس وہم سے باہر نہیں نکلے کبھی سسرے

میں جب بھی کروں گا کوئی فنکاری کروں گا

نوید ظفر کیانی

آنکھوں کا مقدمہ بھی عدالت میں چلے گا

ہاں دل کی وکالت بھی میں سرکاری کروں گی

یہ خانگی دنیا کی روایت ہے میاں جی

ہر کام کا فرمان بھی میں جاری کروں گی

شادی ہے مری نند کی، مجھ کو ہے سنورنا

دلہن سے کہیں بڑھ کے میں تیاری کروں گی

روبینہ شاہین بینا

نقصان اٹھایا ہے محبت میں ہمیشہ

اب اُن کے کریڈٹ سے خریداری کروں گا

یہ نام دغا بازی قمرؔسارے جہاں میں

مشہور رہے کوششیں میں ساری کروں گا

قمر رضا مطلبی

مجنوں نے کہا، دشت میں آزاد ہُوں آزاد

چاہوں گا جہاں، پان کی پچکاری کروں گا

کر کر کے سفر ڈوب نہ جائے تُو گھڑے پر

اے سوہنی! بُک تیرے لئے لاری کروں گا

اوروں کی ’’زمینوں ‘‘ پہ کئے جاؤں گا قبضہ

یہ کام بحیثیّتِ پٹواری کروں گا

عرفان قادر

۱۸؍مارچ ۲۰۱۷ء کو موجِ غزل کے ۴۸ ویں طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ مشاعرہ موجِ غزل کی خوبصورت شاعرہ محترمہ شہناز رضوی کے اعزاز میں رکھا گیا۔ اُن کے جس خوبصورت شعر میں سے طرحی مصرعے کا انتخاب گیا گیا وہ کچھ یوں تھا ؎

پھر اس کے بعد نیند کو آنکھیں ترس گئیں

اِک شخص میرے خواب میں آیا تھا اور بس

مشاعرے میں شریک ہونے والے مزاحیہ شاعروں کا کلام درج ذیل ہے۔

بیوی سے پوچھئے کبھی شوہر کی حیثیت

اک جانور تھا جس کو سدھایا تھا اور بس

ویسے اُنہیں پسند تو فیض و فراز تھے

پر تائی کے نصیب میں تایا تھا اور بس

نوید ظفر کیانی

کتنی نجانے گالیاں سننی پڑیں مجھے

آنٹی کو میں نے خالہ بلایا تھا اور بس

غالب چچا بھی خواب میں آ کر ڈرا گئے

اک شعر ہی تو اُن کا چرایا تھا اوربس

سالک ادیب

’’پھر اس کے بعد نیند کو آنکھیں ترس گئیں ‘‘

اے سی کا ایک بار بل آیا تھا اور بس

تب سے بھگت رہی ہے عوام اپنے دیس کی

گنجوں کو حکمران بنایا تھا اور بس

محمد خلیل الرحمن، خلیل

ہابیل کے بھی قتل کو تسلیم کر لیا

تھانے کا ایک چکر چکر لگایا تھا اور بس

اب قوم کا نصیب نہیں کالا باغ بھی

لیڈر نے سبز باغ دکھایا تھا اور بس

روبینہ شاہین بینا

اس دن کے بعد سے وہ پڑے ہسپتال میں

ہم نے بنا کے کھانا کھلایا تھا اور بس

لے کر وہ گوبھی آ گئے لوٹے جو شام کو

جوڑے کا ان سے پھول منگایا تھا اور بس

نور جمشید پوری

۲۵؍مارچ ۲۰۱۷ء کو موجِ غزل کے ۴۹ ویں طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ طرحی مشاعرہ خوبصورت شاعرہ محترمہ زہرہ نگاہ کے ایک خوبصورت مصرع پر رکھا گیا تھا۔ جو کچھ یوں تھا ؎

حرف حرف گوندھے تھے طرز مشکبو کی تھی

تم سے بات کرنے کی کیسی آرزو کی تھی

مشاعرے میں شریک ہونے والے مزاحیہ شاعروں کا کلام درج ذیل ہے۔

آج بیٹے کو کیسے زن مرید کہتی ہیں

آرزو بھلا کس کو چاند سی بہو کی تھی

کھائے جاتی تھی بیگم یوں دماغ میرا کیوں ؟

کس قدر میں چارہ تھا، کس قدر وہ بھوکی تھی

نوید ظفر کیانی

حال ’’دردِ دل‘‘ کا تھا، جس کو ہم نے بتلایا

بعد میں کھلا عقدہ، ڈاکٹر ’’فلُو‘‘ کی تھی

شاعری دسمبر پر سُن کے ہو گئی شاداں

قوم جو ہوئی ماری گرمیوں کی لُو کی تھی

عرفان قادر

ٹاک شو میں طوطوں نے ایسی گفتگو کی تھی

جس کو سن کے لوگوں نے خوب ہاؤ ہو کی تھی

ہر گلی میں پھینکے تھے جان بوجھ کے ریپر

پاپڑوں کی مشہوری ہم نے کوُ بکو کی تھی

روبینہ شاہین بیناؔ

٭٭٭

 

 

 

 

جستہ جستہ

 

ذکر خانساماؤں کا

 

پڈنگ بنا تے بنا تے انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ ’’ میں نے بارہ سال انگریزوں کی جوتیاں سیدھی کی ہیں اس لئے اکڑوں بیٹھ کر چولہا نہیں جھونکوں گا‘‘ مجبوراً کھڑے ہو کر پکا نے کا چولہا بنوا یا۔ ان کے بعد جو خانسا ماں آیا اس نے کہا ’’میں چپاتیاں بیٹھ کر پکاؤں گا برادے کی انگیٹھی پر‘‘ چنا نچہ لو ہے کی انگیٹھی بنوائی۔ تیسرے کے لئے چکنی مٹّی کا چولہا بنوا نا پڑا۔ چو تھے کے مطالبے پر مّٹی کے تیل سے جلنے والا چولہا خریدا اور پانچواں خانسا ماں اتنے سارے چولہے دیکھ کر ہی بھاگ گیا۔

اُس ظالم کا نام نہیں یاد آ رہا البتہ صورت اور خد و خال اب تک یاد ہیں، ابتدائے ملازمت سے ہم دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھا تا بلکہ پابندی سے ملباری ہوٹل میں اکڑوں بیٹھ کر دو پیسے کی چٹ پٹی دال اور ایک آنے کی تندوری روٹی کھا تا ہے۔ آخر ایک دن ہم سے نہ رہا گیا اور ہم نے ذرا سختی سے ٹوکا کہ گھر کا کھا نا کیوں نہیں کھا تے ؟ تنک کر بولا ’’صاحب ! ہاتھ بیچا ہے زبان نہیں بیچی ‘‘

آبِ گم از مشتاق احمد یو سفی

٭٭

 

وہابی

 

ایک زمانے میں وہابی بھی اچھی خاصی گالی تھی۔ صوبۂ سرحد کے ایک مولوی صاحب کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایک ہندو دکاندار گھسیٹامل سے ناراض ہو گئے تو کہہ دیا کہ گھسیٹا مل ’’وہابی‘‘ ہے اِس لئے کوئی شخص اس سے لین دین نہ رکھے۔ گھسیٹا مل کو معلوم ہوا تو مولوی کے قدموں پر آ گرا۔ اب کے مولوی صاحب نے وعظ کیا تو اس میں ایک فقرہ یہ بھی تھا کہ گھسیٹامل نے ’’وہابیت‘‘ سے توبہ کر لی ہے۔

حرف و حکایت از چراغ حسن حسرت

٭٭

 

لڑائیاں

 

مرزا صاحب بچّوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا سخت ناپسند تھا۔ حالانکہ ان کی بیگم سمجھاتیں کہ مسلمان بچّے ہیں، آپس میں نہیں لڑیں گے تو کیا غیروں سے لڑیں گے۔ ایک روز ہم لڑ رہے تھے، بلکہ یوں سمجھیں رونے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ یوں بھی رونا بچّوں کی لڑائی کا ٹریڈ مارک ہے۔ اِتنے میں مرزا صاحب آ گئے۔

’’کیوں لڑ رہے ہو‘‘

ہم چپ ! کیونکہ لڑتے لڑتے ہمیں بھول گیا تھا کہ کیوں لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیں خاموش دیکھا تو دھاڑے ’’ چلو گلے لگ کر صلح کرو!‘‘ وہ اتنی زور سے دھاڑے کہ ہم ڈر کے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ اس بار جب میں نے لوگوں کو عید ملتے دیکھا تو یہی سمجھا کہ یہ سب لوگ بھی ہماری طرح صلح کر رہے ہیں۔

افرا تفریح از ڈاکٹر محمد یونس بٹ

٭٭

 

خربوزے

 

عملی زندگی میں کئی سال لگاتار ’’جھک‘‘ مارنے کے بعد ہم بالآخر اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صورتحال خواہ کچھ بھی ہو، خربوزے، بیوی اور ڈرائیور کی کبھی تعریف نہیں کرنی چاہئے۔ یہ تینوں لوگ تعریف سنتے ہی ’’چوڑ‘‘ ہو جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا ہم نے چند روز پہلے خربوزے کو اپنے کالمانہ قصیدے کا موضوع بنایا۔ ہمارا خیال تھا کہ اِس حوصلہ افزائی کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ سلسلۂ مٹھاس یونہی جاری و ساری رہے گا مگر یقین کیجئے، وہ دن اور آج کا دن، مذکورہ کالم چھپتے ہی یہ ’’سبزی نما پھل‘‘ اپنا اصلی رنگ جمانے لگا۔ آج کل جس قماش کے خربوزے آ رہے ہیں اس سے کم از کم ہمیں تو یہی گمان گزرتا ہے کہ جیسے پورے ملک کو شوگر ہو گئی ہے اور ہمارے کسان اور زمیندار بھائی انتہائی حکیمانہ طور پر محتاط کاشتکاری کر رہے ہیں۔

خربوزے از آفتاب اقبال

٭٭

 

داد و سلام

 

جوشؔ ملیح آبادی کے صاحبزادے سجّاد کی شادی کی خوشی میں ایک بے تکلف محفل منعقد ہوئی جس میں جوشؔ صاحب کے دیگر دوستوں کے ساتھ ساتھ اُن کے جگری دوست ابن الحسن فکر بھی موجود تھے۔ ایک طوائف نے جب بڑے سُریلے انداز میں جوش صاحب کی ہی ایک غزل گانی شروع کی تو فکر صاحب بولے ’’اب غزل تو یہ گائیں گی اور جب داد ملے گی تو سلام جوشؔ صاحب کریں گے۔ ‘‘

٭٭

 

کولہے سے کولہا

 

اسّی کی دہائی کا ذکر ہے۔ نیشنل سینٹر حیدرآباد میں ایک مذاکرہ ہو رہا تھا جس کا موضوع تھا ’’قومی ترقی میں خواتین کا کردار۔ ‘‘ اس مذاکرے کے مہمانِ خصوصی ایک سندھی دانشور تھے۔ مذاکرہ چونکہ اردو میں تھا اس لئے مہمانِ خصوصی نے بھی اپنی صدارتی تقریر اردو ہی میں کی۔ بہت ہی پر جوش اور دھواں دھار تقریر تھی۔ بول تو وہ ٹھیک ہی بول رہے تھے لیکن جہاں جہاں اردو میں اٹکتے وہاں حسبِ ضرورت انگریزی یا سندھی لفظ کا پیوند لگا دیتے تھے۔ سندھی میں کندھے یا شانے کو کُلھا کہتے ہیں۔ کُلھا کا تلفظ اردو لفظ کولھا کے بہت ہی قریب سمجھئے۔ بس ذرا سا واؤ کو دبا دیجئے تو کلھا ہو جائے گا۔ چنانچہ ایک مقام پر جب انہیں اردو لفظ کندھا بروقت یاد نہ آیا تو اسی سندھی لفظ سے کام لیا اور فرمایا۔ ’’ ہماری قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی ہے جب تک کہ ہمارے مرد اور عورتیں کولھے سے کولھا ملا کر نہیں چلیں گے۔ ‘‘

آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ سن کر سامعین کے چہروں پر مسکراہٹوں کا گراف کس بلندی تک گیا ہو گا۔

٭٭

 

جوش کا کلام

 

جوش ملیح آبادی ایک مشاعرے میں شریک تھے۔ مشاعرے کے دوران ایک نوجوان شاعر نے جو کلام سنایا وہ کم و بیش جوش کے اشعار کا چربہ تھا۔ ان ہی کے مضامین، وہی ترکیبات، وہی لفظیات۔ یعنی معمولی سے رد و بدل کے ساتھ تقریباً پورے پورے مصرع جوش کے تھے۔ مشاعرے میں موجود سینئر شعرا اور سخن فہم سامعین سر جھکائے خاموشی سے سنا کئے اور کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ کسی نے کچھ نہیں کہا۔ مشاعرے کے اختتام پر جب جوش ؔملیح آبادی کے پڑھنے کی باری آئی تو اناؤنسر نے انہیں دعوت کلام دیتے ہوئے کہا۔ ’’ خواتین و حضرات ! اب آپ جوشؔ صاحب کا کلام خود ان کی زبانی سنیئے۔ ‘‘

٭٭

 

ذکی الحِس۔ نئی دہلوی

 

اوائلِ جوانی میں (لگاتار سگریٹ اور چاء نوشی سے ) کافی بیزار رہے پھر آہستہ آہستہ عادت پڑ گئی۔ ۶۰ کی دہائی میں ایک دن اچھے بھلے بیٹھے تھے۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ یکایک نقاد بن گئے۔ تب سے نقاد ہیں اور کافی ہاؤس یا چاء خانوں میں رہتے ہیں۔ کبھی کبھار حجامت کے سلسلے میں اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔ ادبی رسائل کے شروع شروع کے پچیس تیس صفحات آپ کی تنقیدوں کے لئے مخصوص ہو چکے ہیں۔ (جنہیں ایم۔ اے اردو کے طلباء کو مجبوراً پڑھنا پڑتا ہے )۔ ۶۷ء میں کسی نے کہا کہ اردو ادب پر ان کی تنقیدوں کے صفحات تلوائے جائیں اور پھر سارے ادب کا وزن کیا جائے تو تنقیدیں کہیں بھاری نکلیں گی۔ آپ اسے شاباش سمجھ کر بہت خوش ہوئے اور رفتار دُگنی کر دی۔ یہ اردو نثر کی خوش قسمتی ہے کہ آپ اسے زیادہ نہیں چھیڑتے۔ آپ کا بیشتر وقت اردو شاعری کی خبر لینے میں گزرتا ہے۔ ان دنوں پی ایچ ڈی کے لئے مقالہ لکھ رہے ہیں جس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ غالب کی شاعری پر رنگین کا اثر غالب ہے۔ رنگین نے بیشتر موضوع مصحفی سے اخذ کئے۔ مصحفی کی شاعری کا ماخذ میر کا تخیل ہے جنہوں نے بہت کچھ سراج دکنی سے لیا۔ سراج دکنی نے ولی دکنی سے اور ولی دکنی نے سب کچھ دکن سے چُرایا۔ (چونکہ مقالہ رسائل کے لئے نہیں، یونیورسٹی کے لئے ہے، اس لئے آپ نے شعراء کو اتنا بُرا بھلا نہیں کہا جتنا کہ اکثر کہا کرتے ہیں )۔ اگر چاء اور سگرٹوں میں غذائیت ہوتی تو آپ کبھی کے پہلوان بن چکے ہوتے مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کی صحت کو دیکھ کر بڑی آسانی سے عبرت حاصل کی جا سکتی ہے۔ در اصل آپ کے رویے (اور تنقید) کا دارومدار سگرٹوں اور چاء کی پیالیوں کی تعداد پر ہے۔ روزانہ پچاس سگرٹوں اور پچیس پیالیوں تک تو آپ شاعری کے گناہ معاف کر سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد آزاد شاعری تک کو نہیں بخشتے۔ ۶۸ء میں آپ کو یونہی وہم سا ہو گیا تھا کہ آپ عوام میں مقبول نہیں ہیں لیکن چھان بین کرنے کے بعد ۶۹ء میں معلوم ہوا کہ وہم بے بنیاد تھا۔ فقط وہ جو انہیں اچھی طرح نہیں جانتے انہیں نظر انداز کرتے ہیں۔ لیکن جو جانتے ہیں وہ باقاعدہ ناپسند کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو (پتہ نہیں کیوں ) مظلوم اور ستایا ہوا سمجھتے ہیں اور اکثر زندگی کی محرومیوں کی داستان(کافی ہاؤس میں ) سنایا کرتے ہیں، جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے ’’ پہلے ان کے خواب تمام ہوئے۔ پھر دانت تمام ہوئے۔ پھر دوست تمام ہوئے (کم از کم آپ کا یہی خیال تھا کہ وہ دوست تھے )۔ اکثر کہا کرتے ہیں کہ آپ کو بنی نوعِ انسان سے قطعاً نفرت نہیں۔ فقط انسان اچھے نہیں لگتے۔ کھیل کُود کو انٹلکچوئل پنے کا دشمن سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ لمبے لمبے سانس لینے سے بھی نفرت ہے۔ ۶۹ء میں وزن کرتے وقت مشین سے کارڈ نکلا جس پر وزن پونے اُنتالیس سیر کے علاوہ یہ لکھا تھا ’’ ابھی کچھ امید باقی ہے۔ غیر صحت مند حرکتیں چھوڑ کر ورزش کیجئے۔ صحیح غذا اور اچھی صحبت کی عادت ڈالئے اور قدرت کو موقع دیجئے کہ آپ کی مدد کر سکے۔ ’’آپ نے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا۔ حالانکہ اگر کسی مشین نے کبھی سچ بولا ہے تو اُس وزن کی مشین نے ۶۹ء میں بولا تھا۔

ایک فرضی خاکہ از ڈاکٹر شفیق الرحمٰن

٭٭

 

علامتی شاعری

 

حمید پائپ سلگا رہا تھا کہ وہی کرنل کمرے میں داخل ہوئے۔ حمید نے عہدے کے لحاظ سے احتراما اپنا پائپ چھپانا چاہا۔

’’ اوہ۔۔ نو نو ڈئیر۔۔ کیری آن اسموکنگ۔ میرا نام اے ایچ عشقی ہے ‘‘

اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا ’’میں ساجد حمید ہوں جناب!‘‘

’’ آئی نو۔۔ آئی نو۔ تعریف سن چکا ہوں تمہاری۔ بہت زندہ دل آدمی ہو، ادبی ذوق بھی رکھتے ہو‘‘۔

حمید کی جان نکل گئی آخری جملے پر۔۔ ۔ نام ہی سے شاعر معلوم ہوئے تھے یہ حضرت۔ اب کیا ہو گا۔

’’چلو کینٹین میں بیٹھیں ‘‘

’’چلئے ‘‘۔ حمید اٹھتے ہوئے بولا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کینٹین میں پہنچ کر کہیں بیاض نہ نکل آئے۔ کینٹین زیادہ فاصلے پر نہیں تھی۔ چھوٹے سے ہال میں چند آدمی میزوں پر نظر آئے

ہلکی آواز سے ریکارڈ بج رہا تھا:۔

گرمیِ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں

ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

دفعتاً کرنل صاحب نے قہقہہ لگایا اور حمید حیرت سے انہیں دیکھنے لگا۔

’’ذرا ملاحظہ ہو‘‘ کرنل صاحب نے کرسی سنبھالتے ہوئے کہا۔ ’’ اگر ہم فوجی اس قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں کریں تو کسی حد تک درست ہو سکتا ہے لیکن یہ خالص قسم کے شاعر۔۔ ۔ ارے میاں ! حسرت میں گرمی کہاں ہوتی ہے ؟ حسرت تو بیچارگی کی پیداوار ہے اور وہ بھی حسرت ناکام یعنی یخ کا تودہ۔۔ ۔ اور شاعر صاحب ہیں کہ چراغ بن گئے، ہوئی نا میر صاحب سے آگے چھلانگ لگانے کی حسرت ناکام۔۔ ہونہہ۔ لاحول ولا۔۔ ‘‘

’’جی ہاں ! واقعی۔ ‘‘ حمید نے بات ٹالنے کے لیے بے دلی سے ہنس کر کہا۔ وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں یہ اپنا کوئی شعر نہ ٹھونگ ماریں۔ کرنل صاحب نے اشارے سے ویٹر کو بلا کر کافی کا آڈر دیا اور حمید سے بولے : ’’ شاعری جزو یست از پیغمبری۔ اس کے لیے پیغمبرانہ شعور و ادراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں یار لوگ یہی نہیں جانتے کہ حسرت میں ٹھنڈک ہوتی ہے یا گرمی اور میاں میں تو علامتی شاعری کا قائل ہوں۔ ‘‘

’’ اوہ۔۔ اچھا۔ ‘‘ حمید خالی الذہنی کے عالم میں بولا۔

’’ ذرا ایک شعر سنو‘‘

حمید نے ٹھنڈی سانس لی

انہوں نے شعر رسید کر دیا:۔

ان کا شیوہ نہیں چٹاخ چھنن چھیڑ بیٹھے تھے ہم پٹاخ چھنن

حمید نے سنی ان سنی کر کے ستائشی انداز میں سر کو جنبش دی۔

’’ کیا سمجھے ‘‘

’’ بہت خوب۔ سبحان اللہ‘‘

’’ میں پوچھ رہا ہوں کیا سمجھے ‘‘۔ کرنل صاحب نے کڑے تیوروں کے ساتھ کہا

’’در اصل‘‘

’’ تم قطعی نہیں سمجھے ‘‘ کرنل صاحب کا موڈ خراب ہو گیا ’’ سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یہاں تو بس وہی پرانی لکیریں پیٹی جا رہی ہیں۔ ‘‘

’’ جی ہاں، بالکل‘‘

’’مثلاً‘‘

’’جی‘‘

’’کوئی مثال پیش کرو پرانی لکیر پیٹنے کی‘‘

’’وہ۔۔ کیا کہتے ہیں۔ ۔ لکیر کا فقیر‘‘

’’ جی نہیں ‘‘۔۔ کرنل خشک لہجے میں بولے۔ ’’لکیر کا فقیر محاورہ ہے۔ ‘‘

’’محاورہ بھی تو پرانی لکیر ہے ‘‘

’’لیکن وہ مجبوری ہے۔ محاورے بہرحال رائج رہیں گے ‘‘

’’میں مجبوری کا قائل نہیں۔ ‘‘ حمید بھی برا سا منہ بنا کر بولا

’’تو تم محاوروں کے بغیر بھی۔۔ ۔ ‘‘

’’جی ہاں، قطعی۔۔ محاورے بھی کوئی چیز ہوئے۔ لاحول ولا۔ ‘‘

’’ تم پتا نہیں کیسی باتیں کر رہے ہو، میں تو تمہیں خوش ذوق آدمی سمجھ رہا تھا‘‘

’’ مجھے جہنم میں جھونکیے، میں آپ کے شعر کا مطلب سمجھنا چاہتا ہوں ‘‘

’’غالب کا وہ شعر سنا ہے کبھی‘‘:

دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن

’’واہیات شعر ہے ‘‘ حمید برا سا منہ بنا کر بولا

’’ہے نا واہیات۔ ‘‘ کرنل صاحب چہکے۔ اس کے مقابلے میں میرا شعر ہے :

ان کا شیوہ نہیں چٹاخ چھنن چھیڑ بیٹھے تھے ہم پٹاخ چھنن

حمید نے ناک بھوں پر زور دے کر یہ شعر دوبارہ سنا، اور کچھ کہنے ہی والا تھا کہ کرنل صاحب بولے :

’’ دھول دھپے میں وہ بات کہاں جو چٹاخ چھنن میں ہے۔ ۔۔ یہ ہے علامتی شاعری۔۔ چٹاخ تھپڑ کی آواز اور چھنن چوڑیوں کی جھنکار۔ ‘‘

’’ایہام الصوت کہتے ہیں اسے، یہ علامتی شاعری کہاں سے ہوئی۔ ‘‘ حمید نے جی کڑا کر کے کہا۔

’’فضول باتیں نہ کرو، تم کچھ نہیں جانتے ‘‘

اتنے میں کافی آ گئی اور حمید نے کہا ’’قطعی شاعری کرنے والوں میں پیش دستی کی جرات ہی نہیں ہوتی، اس لیے وہ شاعری بھی علامتی کرتے ہیں۔ غالب کا پیشہ سپاہ گری تھا، وہ میری طرح آنریری کیپٹن نہیں تھے۔ ‘‘

’’ تم مجھ پر چوٹ کر رہے ہو کیپٹن حمید‘‘

’’جی نہیں، میں خود بھی علامتی شاعری کرتا ہوں ‘‘

’’ اچھا تو سناؤ کچھ، میں بھی دیکھوں ‘‘ کرنل صاحب غرائے

حمید نے کافی کے دو کپ تیار کیے اور ایک کرنل صاحب کی طرف بڑھاتا ہوا بولا:

دیکھو تو عجیب ماجرا ہے

فانوس پہ فالسہ دھرا ہے

’’مطلب‘‘

’’مطلب کسی ماہر نفسیات سے پوچھیے۔ اگر یہاں سنسر نے شاعر کو اجازت دی ہوتی تو علامتی شاعری کیوں کرتے ‘‘

’’تم میرا مذاق اڑا رہے ہو‘‘

’’ جی نہیں، بلکہ آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کی شاعری علامتی ہرگز نہیں، آپ محض اس وہم میں مبتلا ہیں کہ آپ کی شاعری علامتی ہے ‘‘

مہلک شناسائی از ابن صفی

٭٭

 

یہ بزرگ

 

میں ایک چھوٹا سا لڑکا ہوں۔ ایک بہت بڑے گھر میں رہتا ہوں۔ زندگی کے دن کاٹتا ہوں۔ چونکہ سب سے چھوٹا ہوں اس لیے گھر میں سب میرے بزرگ کہلاتے ہیں۔ یہ سب مجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ انھیں چاہے اپنی صحت کا خیال نہ رہے، میری صحت کا خیال ضرور ستاتا ہے۔ دادا جی کو ہی لیجیے۔ یہ مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے کیونکہ باہر گرمی یا برف پڑ رہی ہے۔ بارش ہو رہی ہے یا درختوں کے پتے جھڑ رہے ہیں۔ کیا معلوم کوئی پتّہ میرے سر پر تڑاخ سے لگے اور میری کھوپڑی پھوٹ جائے۔ ان کے خیال میں گھر اچھا خاصا قید خانہ ہونا چاہیے۔ ان کا بس چلے تو ہر ایک گھر کو جس میں بچے ہوتے ہیں سنٹرل جیل میں تبدیل کر کے رکھ دیں۔ وہ فرماتے ہیں بچوں کو بزرگوں کی خدمت کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے وہ ہر وقت مجھ سے چلم بھرواتے یا پاؤں دبواتے رہتے ہیں۔

دادی جی بہت اچھی ہیں۔ پوپلا منھ، چہرے پر بے شمار جھریاں اور خیالات بے حد پرانے۔ ہر وقت مجھے بھوتوں جنوں اور چڑیلوں کی باتیں سنا سنا کر ڈراتی رہتی ہیں۔ ’’ دیکھ بیٹا مندر کے پاس جو پیپل ہے اس کے نیچے مت کھیلنا۔ اس کے اوپر ایک بھوت رہتا ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اس پیپل کے نیچے کھیل رہی تھی کہ یک لخت میری سہیلی بے ہوش ہو گئی۔ اس طرح وہ سات دفعہ ہوش میں آئی اور سات دفعہ بے ہوش ہوئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے چیخ کر کہا ’’بھوت‘‘ ! اور وہ پھر بے ہوش ہو گئی۔ اسے گھر پہنچایا گیا جہاں وہ سات دن کے بعد مر گئی اور وہاں، پرانی سرائے کے پاس جو کنواں ہے اس کے نزدیک مت پھٹکنا۔ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے۔ وہ بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے۔ اس چڑیل کی یہی خوراک ہے۔ ‘‘

ماتا جی کو ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ پر ماتما نہ کرے مجھے کچھ ہو گیا تو کیا ہو گا؟ وہ مجھے تالاب میں تیرنے کے لیے اس لیے نہیں جانے دیتیں کہ اگر میں ڈوب گیا تو؟ پٹاخوں اور پھلجھڑیوں سے اس لیے نہیں کھیلنے دیتیں کہ اگر کپڑوں میں آگ لگ گئی تو؟ پچھلے دنوں میں کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا۔ ماتا جی کو پتا لگ گیا۔ کہنے لگیں، کرکٹ مت کھیلنا۔ بڑا خطرناک کھیل ہے۔ پرماتما نہ کرے اگر گیند آنکھ پر لگ گئی تو؟

بڑے بھائی صاحب کا خیال ہے جو چیز بڑوں کے لیے بے ضر رہے چھوٹوں کے لیے سخت مضر ہے۔ خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں لیکن اگر کبھی مجھے پان کھاتا دیکھ لیں فوراً ناک بھوں چڑھائیں گے۔ پان نہیں کھانا چاہیے۔ بہت گندی عادت ہے۔ سنیما دیکھنے کے بہت شوقین ہیں لیکن اگر میں اصرار کروں تو کہیں گے، چھوٹوں کو فلمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

بڑی بہن کو گانے بجانے کا شوق ہے۔ ان کی فرمائشیں اس قسم کی ہوتی ہیں ’’ہارمونیم پھر خراب ہو گیا ہے اسے ٹھیک کرا لاؤ۔ ستار کے دو تار ٹوٹ گئے ہیں اسے میوزیکل ہاؤس لے جاؤ۔ طبلہ بڑی خوفناک آوازیں نکالنے لگا ہے اسے فلاں دکان پر چھوڑ آؤ۔ ‘‘ جب انھیں کوئی کام لینا ہو تو بڑی میٹھی بن جاتی ہیں۔ کام نہ ہو تو کاٹنے کو دوڑتی ہیں۔ خاص کر جب ان کی سہیلیاں آتی ہیں اور وہ طرح طرح کی فضول باتیں بناتی ہیں، اس وقت میں انھیں زہر لگنے لگتا ہوں۔

مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ از کنہیا لال کپور

٭٭

 

رشتے

 

خونی رشتے وہ ہوتے ہیں جو ایک ہی خون سے ہوتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ سب کے خون کا گروپ بھی ایک ہی ہو۔ البتہ اکثر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے ہیں اور کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو باقاعدگی سے خون پیتے ہیں کبھی اپنا تو کبھی دوسروں کا۔ ایک رشتے اور بھی ہوتے ہیں جو شادی سے بنتے ہیں انہیں قانونی رشتے کہا جاتا ہے حالانکہ سب سے زیادہ لاقانونیت پھیلانے میں اکثر انہی کا ہاتھ پایا جاتا ہے مثلاً سسٹر اِن لا، برادر اِن لا، مدر اِن لا اور فادر اِن لا۔ یہ رشتے کروانے میں ماسیاں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انسان کا شمار یہ رشتے قائم ہونے کے بعد زندوں میں تو ہوتا ہے لیکن ہوتے تو مردہ ہی ہیں۔ شاید اسی لیے موت کو عرف عام میں خالہ کہا جاتا ہے۔ ان رشتوں کے درمیان ایک اور قسم کے رشتے ہوتے ہیں جنہیں سٹیپ رشتے کہتے ہیں۔ خونی رشتے خدا اور سٹیپ رشتے ماں باپ بناتے ہیں۔ صرف قانونی رشتے انسان اپنی مرضی سے بنا سکتا ہے۔

سید ممتاز علی بخاری

٭٭

 

عربی بولنا کیا مشکل ہے

 

جن لوگوں کو عربی نہ آتی ہو اُن پر اپنی عربی دانی کا رعب بٹھانا کیا مشکل ہے۔ پنجاب کے ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب بنگالی ہندو تھے۔ اُنہوں نے ایک دن دو مسلمان طالبِ علموں سے پوچھا ’’کیا تم لوگوں کو عربی بچپن میں ہی سکھا دی جاتی ہے ؟‘‘

لڑکوں نے جواب دیا ’’جی ہاں !‘‘

ہیڈ ماسٹر صاحب کہنے لگے ’’ اچھا! ذرا عربی میں باتیں کر کے دکھاؤ!‘‘

ایک لڑکا بولا ’’الحمد للہ رب العالمین۔ ‘‘

دوسرے نے کہا ’’الرحمٰن الرحیم۔ ‘‘

اور اس طرح دونوں نے سورۂ فاتحہ ختم کر دی۔

حرف و حکایت از چراغ حسن حسرت

٭٭

 

گھوڑے کا اعتراض

 

علامہ تاجور نجیب آبادی بڑے تن و توش کے بزرگ تھے۔ ایک دن اُنہوں نے دیال سنکھ کالج سے نکلتے ہوئے خالی تانگہ والے کو آواز دی اور کوچوان سے پوچھا ’’انارکلی تک جانے کے کتنے پیسے لو گے ؟‘‘

’’سالم تانگا ہو گا جناب؟‘‘ اُس نے جواباً پوچھا۔

’’ہاں ہاں، میں کرایہ پوچھ رہا ہوں۔ ‘‘

’’ایک روپیہ حضور!‘‘

تاجورؔ صاحب نے اپنی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’نہیں، بارہ آنے، یہی ہم روزانہ دیتے ہیں !‘‘

کوچوان نے سواری کے موٹے جسم کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ’’چلئے یہی سہی مہربان! لیکن ذرا گھوڑے کی نظر بچا کر پچھلی طرف سے اگلی سیٹ پر آ جائیے، اس بے زبان کو کہیں اعتراض نہ ہو۔ ‘‘

٭٭

 

آزادیِ رائے

 

ایک علاقے کے چند کھاتے پیتے، تعلیم یافتہ نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ الیکشن کے موقع پر کسی قسم کے جھرلو کے دام میں نہیں آئیں گے بلکہ رائے عامہ کو آزاد اور بیباکانہ طور پر اثر انداز کرنے کا جہاد کریں گے۔ اس علاقہ کے مستقل اور سند یافتہ عزت مآب وزیر نے یہ خبر سُن کر بہت واہ واہ کی۔ تعلیمی ترقی اور جمہوری آزادی کے عنوان پر بڑے خوشگوار قصیدے گائے اور ان نوجوانوں کے نیک ارادوں پر حکومتِ وقت کی خیر سگالی کا اسٹیکر چپکانے کے لئے وزیر صاحب نے اُن سب کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو فرمایا۔ پُرتکلف دعوت اُڑی۔ ہنسی مذاق کی باتیں ہوئیں اور جب وہ نوجوان کافی کی پیالیاں لے کر آرام سے صوفوں پر بیٹھ گئے تو یکایک کمرہ بند کر کے باہر سے قفل لگا دیا گیا۔ ایک یا دو روز بعد جب الیکشنوں کی مہم اچھی طرح سر ہو گئی تو یہ بلند ہمت نوجوان بھی رہائی پا کر خیر سے بدھو گھر کو لوٹے۔

شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب

٭٭

 

پاکستان بنانے کی ضرورت

 

جگن ناتھ آزادؔ کے پہلی دفعہ پاکستان پہنچنے پر مدیر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل صاحب نے اُن کے اعزاز میں دعوت دی، جس میں احتراماً صرف سبزیاں ہی رکھی گئی تھیں۔ کھانا ختم ہونے کے بعد جگن ناتھ آزادؔ نے محمد طفیل کو مخاطب کر کے کہا ’’اگر آپ نے سبزیاں ہی کھلانی تھیں تو پھر آپ کو پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

٭٭

 

کتابیں اور انعامات

 

ہمیں استاد لاغر مراد آبادی کا ایک قولِ برحق یاد آ رہا ہے، فرماتے ہیں ’’یہ دن بھی ہمیں دیکھنا تھا کہ جن کتابوں پر جرمانہ ہونا چاہیئے اُنہیں انعامات ملتے ہیں۔

خامہ بگوش از مشفق خواجہ

٭٭

 

اشتہار

 

ایک معروف کمپنی کو چند قابلِ اعتماد اور ہنرمند سیلز میں کی ضرورت ہے جو موسمِ سرما میں ہماری کمپنی کے اُبلے ہوئے انڈے اور سبز قہوہ گلیوں میں بیچ سکیں۔ تنخواہ حسبِ قابلیت بشمول کمیشن فی انڈا۔

نوٹ: انڈا اُبالیں گے ہم۔ چھلکا آپ اُتاریں گے قہوہ بنائیں گے ہم۔ کپ دھوئیں گے آپ۔ تھرماس اور کولر کمپنی فراہم کے گی۔

ارسلان بلوچ

٭٭

 

ردّیات

مختار الدین احمد کراچی گئے تو پاکستانی ادیبوں نے اُنہیں تحفے کے طور پر کتابیں پیش کیں۔ وہ سب کتابیں احمد صاحب سجا کر میز پر رکھتے گئے۔ مشفق خواجہ کمرے میں داخل ہوئے تو میز کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور بولے ’’احمد صاحب، آپ نے کافی ردّیاتِ کراچی جمع کر لی ہیں۔ ‘‘

٭٭

 

فرموداتِ زُبید بھائی

 

زُبید بھائی بتا رہے تھے کہ شادی سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھ لینا اچھی بات ہے۔ بلکہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کیونکہ شادی سے پہلے ہی ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ لینے سے بندہ شادی سے بچ سکتا ہے۔

اعظم نصر

٭٭

 

دل لگانا

 

محبت کے بارے میں لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ محبت وہ بیماری ہے جو شادی کا کڑوا گھونٹ پینے ہی سے ختم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں دل لگانے کا مشورہ بہت ہی چھوٹی عمر میں مل جاتا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں۔

’’بیٹا دل لگا کر پڑھا کرو۔ ‘‘

نظام الدین

٭٭

 

شاعری کا تارا مسیح

 

امروہہ میں مشاعرہ بہت سکون سے چل رہا تھا۔ مجمع سے ایک بہت معقول شخصیت والے صاحب اُٹھے اور عادلؔ لکھنوی صاحب کی طرف اشارہ کر کے بشیر بدر سے بولے ’’ڈاکٹر صاحب، وہ شاعر جن کی صورت ہو بہو تارا مسیح (جس جلاد نے سابق وزیرِ اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی) جیسی ہے، اُنہیں پڑھوا دیجئے۔ ‘‘

بشیر بدر نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ عادلؔ لکھنوی کو دعوتِ سخن دیتے ہوئے کہا ’’میں شاعری کے تارا مسیح سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ تشریف لائیں اور امروہہ کے ذوالفقار علی بھٹو کا کام تمام کر دیں۔ ‘‘

٭٭٭

تشکر: نوید ظفر کیانی جنہوں نے اس کی مکمل فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید