FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

پطرس بخاری

 

انجام بخیر

 

م۔ ۔ ن۔ ۔ ظ۔ ۔ ر : (ایک تنگ و تاریک کمرہ جس میں بجز ایک پرانی سی میز  اور  لرزہ بر اندام کرسی کے  اور  کوئی فرنیچر نہیں۔ زمین پر ایک طرف چٹائی بچھی ہے، جس پر بے شمار کتابوں کا انبار لگا ہے، جہاں جہاں کتابوں کی پشتیں نظر آتی ہیں، وہاں شیکسپیئر، ٹالسٹائی، ورڈزورتھ وغیرہ مشاہیر ادب کے نام دکھائی دے جاتے ہیں۔

باہر کہیں پاس ہی کتے بھونک رہے ہیں، قریب ہی ایک برات اتری ہوئی ہے۔ اس کے بینڈ کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے جس کے بجانے والے دق، دمہ، کھانسی  اور  اسی قسم کے دیگر امراض میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ ڈھول بجانے والے کی صحت البتہ اچھی ہے۔

پطرس نامی ایک نادر معلم میز پر کام کر رہا ہے، نوجوان ہے لیکن چہرے پر گذشتہ تندرستی  اور  خوش باشی کے آثار کہیں کہیں باقی ہیں۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے ہوئے ہیں، چہرے سے ذہانت پسینہ بن کر ٹپک رہی ہے، سامنے لٹکی ہوئی جنتری سے معلوم ہوتا ہے کہ مہینے کی آخری تاریخ ہے۔

باہر سے کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، پطرس اٹھ کر دروازہ کھول دیتا ہے۔ تین طالب علم نہایت عمدہ لباس میں زیب تن کئے اندر داخل ہوتے ہیں۔ )

پطرس    :حضرات اندر تشریف لائیے، آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس ایک کرسی ہے، لیکن جاہ و حشمت کا خیال پوچ خیال ہے، علم بڑی نعمت ہے۔ لہٰذا میرے فرزندو اس انبار سے ضخیم کتابیں انتخاب کر لو،  اور  ان کو ایک دوسرے کے اوپر چن لو، پھر ان پر بیٹھ جاؤ۔ علم ہی تم لوگوں کو اوڑھنا  اور  علم ہی تم لوگوں کا بچھونا  ہونا چاہئے۔

(کمرے میں پراسرار نور سا چھا جاتا ہے، فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ )

طالب علم           : (تینوں مل کر) اے خدا کے برگزیدہ بندے، اے ہمارے محترم استاد، ہم آپ کاحکم ماننے کو تیا رہیں، علم ہی لوگوں کا اوڑھنا ہے  اور  علم ہی بچھونا ہونا چاہئے۔

(کتابوں کو جوڑ کر ان پر بیٹھ جاتے ہیں۔ )

پطرس    :کہو، اے ہندوستان کے سپوتو!آج تم کو کون سے علم کی تشنگی میرے دروازے تک کشاں کشاں لے آئی۔

پہلا طالب علم       :اے نیک انسان!ہم آج تیرے احسانوں کا بدلہ اتارنے آئے ہیں۔

دوسرا طالب علم     :اے فرشتے !ہم تیری نوازشوں کا ہدیہ پیش کرنے آئے ہیں۔

تیسرا طالب علم     :اے ہمارے مہربان!ہم تیری محنتوں کا پھل تیرے پاس لائے ہیں۔

پطرس    :یہ نہ کہو، یہ نہ کہو۔ یہ میری محنت کا پھل ہے۔ کالج کے مقررہ اوقات کے علاوہ جو کچھ میں نے تم کو پڑھایا، اس  کا معاوضہ مجھے اس وقت وصول ہو گیا جب میں نے تمہاری آنکھوں میں ذکاوت کی چمک دیکھی، آہ!کیا تم جانتے ہو کہ تعلیم و تدریس کیسا آسمانی پیشہ ہے ؟ تاہم تمہارے الفاظ میرے دل میں ایک عجیب مسرت سی بھرگئے ہیں، مجھ پر اعتماد کرو اور  بالکل مت گھبراؤ،  جو کچھ کہنا ہے تفصیل سے کہو۔

پہلا طالب علم       : (سرو قد اور  دست بستہ کھڑا ہو کر)اے محترم استاد!ہم علم کی بے بہا دولت سے محروم تھے۔ درس کے مقررہ اوقات سے ہماری پیاس نہ بجھ سکتی تھی، پولیس  اور  سول سروس کے امتحانات کی آزمائش کڑی ہے، آپ نے ہماری دست گیری کی،  اور  ہمارے تاریک دماغوں میں اجالا ہو گیا۔ معزز استاد!آپ جانتے ہیں آج مہینے کی آخری تاریخ ہے، ہم آپ کی خدمتوں کا حقیر معاوضہ پیش کرنے آئے ہیں، آپ کے عالمانہ تجربے  اور  بزرگانہ شفقت کی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتا، تاہم اظہار تشکر کے طور پر جو کم مایہ رقم ہم آپ کی خدمت میں پیش کریں اسے قبول فرمائیں۔ ہماری احسان مندی اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔

پطرس    :تمہارے الفاظ سے ایک عجیب بے قراری میرے جسم پر طاری ہو گئی ہے۔

(پہلے طالب علم کا اشارہ پا کر باقی دو طالب علم بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ باہر بینڈیک لخت بجنے لگتا ہے۔ )

پہلا طالب علم       : (آگے بڑھ کر)اے مہربان مجھ حقیر کی نذر قبول فرمائیے۔

(بڑے ادب و احترام کے ساتھ اٹھنی پیش کرتا ہے۔ )

دوسرا طالب علم     : (آگے بڑھ کر)اے نیک انسان!مجھ ناچیز انسان کو متفّخر فرما۔

(اٹھنی پیش کرتا ہے۔ )

تیسرا طالب علم     : (آگے بڑھ کر)اے محترم استاد!مجھ ناچیز انسان کو متفّخر فرما۔

(اٹھنی پیش کرتا ہے۔ )

پطرس    : (جذبات سے بے قابو ہو کر)رقت انگیز آواز سے، اے میرے فرزندو! خدا کی رحمت تم پر نازل ہو، تمہاری سعادت مندی  اور   فرض شناسی سے میں بہت متاثر ہوا ہوں، تم کو اس دنیا میں آرام  اور   آخرت میں نجات نصیب ہو،  اور  خدا تمہارے علم کے نور سے سینوں کو منور کرے۔

(تینوں اٹھنیاں اٹھا کر میز پر رکھ لیتا ہے۔ )

طالب علم           : (تینوں مل کر)اللہ کے برگزیدہ بندے !ہم فرض سے سبکدوش ہو گئے، اب ہم اجازت چاہتے ہیں کہ گھر پر ہمارے والدین ہمارے لئے بے تاب ہوں گے۔

پطرس    :خدا تمہارا حامی و ناصر ہو،  اور  تمہاری علم کی پیاس  اور  بھی بڑھتی رہے۔

(طالب علم چلے جاتے ہیں۔ )

پطرس    : (تنہائی میں سر بسجود ہو کر)باری تعالیٰ تیرا لاکھ لاکھ  شکر ہے کہ تو نے مجھے اپنی ناچیز محنت کے ثمرے کے لئے بہت دنوں انتظار میں رکھا، تیری رحمت کی کوئی انتہا نہ رہی، لیکن ہماری کم مائگی اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے  اور  یہ تیرا ہی فضل و کرم ہے کہ تیرے وسیلے سے  اوروں کو بھی رزق ملتا ہے،  اور  جو ملازم میری خدمت کرتا ہے اس کا تو کفیل مجھ کو بنا رکھا ہے۔ تیری رحمت کی کوئی انتہا نہیں،  اور  تیری بخشش ہمیشہ ہمیشہ جاری رہنے والی ہے۔

(کمرے میں ایک بار پھر ایک پر اسرار سی روشنی چھائی ہے  اور  فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد پطرس سجدے سے سر اٹھاتا ہے  اور  ملازم کو آواز دیتا ہے۔ )

پطرس    :اے خدا کے دیانت دار  اور  محنتی بندے !یہاں تو آؤ۔

ملازم      : (باہر سے) اے میرے خصال آقا! میں کھانا پکا کر آؤں گا۔ تعمیل شیطان کا کام ہے۔

(ایک طویل وقفہ جس کے دوران درختوں کے سائے دوگنے لمبے ہو گئے ہیں۔ )

پطرس    :آہ!انتظار کی گھڑیاں کس قدر شیریں ہیں۔ کتوں کے بھونکنے کی آواز کس خوش اسلوبی سے بینڈ کی آواز کے ساتھ مل رہی ہے۔ ۔ ۔

(سر بسجود گرتا ہے۔ پھر اٹھ کر میز کے سامنے بیٹھ جاتا ہے، اٹھنیوں پر نظر پڑتی ہے، ان کو فوراً کتاب کے نیچے چھپٍا دیتا ہے۔ )

پطرس    :آہ!مجھے زر و دولت سے نفرت ہے، خدایا میرے دل کو دنیا کے لالچ سے پاک رکھیو۔

(ملازم اندر آتا ہے۔ )

پطرس    :اے مزدور پیشہ انسان۔ ۔ ۔ !مجھے تجھ پر رحم آتا ہے کہ ضیائے علم کی ایک کرن بھی تیرے سینے میں داخل نہ ہوئی۔ خداوند تعالیٰ کے دربار میں تم ہم سب برابر ہیں۔ تو جانتا ہے آج مہینے کی آخری تاریخ ہے، تیری تنخواہ کی ادائیگی کا وقت سر پرآ گیا، خوش ہو  کہ آج تجھے تیری مشقت کا معاوضہ مل جائے گا، یہ تین اٹھنیاں قبول کر،  اور  باقی ساڑھے اٹھارہ روپئے کے لئے کسی لطیفہ غیبی کا انتظار کر۔ ۔ ۔  دنیا امید پر قائم ہے  اور   مایوسی کفر ہے۔

(ملازم اٹھنیاں زور سے زمین پر پھینک کر گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔ )

(بینڈ زور سے بجنے لگتا ہے۔ )

پطرس    :خدایا!تکبر کے گناہ سے ہم سب کو بچائے  اور  ادبی طبقے کے لوگوں کا سا غرور ہم سے دور رکھ۔

(پھر کام میں مشغول ہو جاتا ہے۔ )

(باورچی خانے سے کھانا جلنے کی بو آ رہی ہے۔ ۔ ۔ ایک طویل وقفہ، جس کے دوران میں درختوں کے سائے پہلے سے چوگنے لمبے ہو گئے ہیں۔ بینڈ بدستور بج رہا ہے۔ یک لخت باہر سڑک پر موٹروں کے آ کر رک جانے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد کوئی شخص دروازے پر دستک دیتا ہے۔ )

پطرس    : (کام پرسے سر اٹھا کر) اے شخص تو کون ہے ؟

ایک آواز            : (باہر سے) حضور میں غلاموں کا غلام ہوں،  اور  باہر دست بستہ کھڑا ہوں کہ اجازت ہو تو اندر آؤں  اور  عرض حال کروں۔

پطرس    : (دل میں) میں اس آواز سے ناآشنا ہوں، لیکن لہجے سے پایا جاتا ہے کہ بولنے والا کوئی شائستہ شخص ہے۔ (بلند آواز سے) اندر آ جائیے۔

(دروازہ کھلتا ہے  اور  ایک شخص لباس فاخرہ پہنے اندر داخل ہوتا ہے، گو چہرے سے وقار ٹپک رہا ہے لیکن نظریں زمین دوزہیں،  اور  ادب و احترام سے ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ )

پطرس    :آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک ہی کرسی ہے، لیکن جاہ و حشمت کا خیال بہت ہی پوچ خیال ہے۔ علم بڑی نعمت ہے۔ لہٰذا اے محترم اجنبی! اس انبار میں سے چند ضخیم کتابیں انتخاب کر لو،  اور  ان کو ایک دوسرے کے اوپر چن کر بیٹھ جاؤ۔ علم ہی لوگوں کا بچھونا  اور  علم ہی لوگوں کا اوڑھنا ہونا چاہئے۔

اجنبی      :اے برگزیدہ شخص! میں تیرے سامنے کھڑے رہنے میں ہی اپنی سعادت سمجھتا ہوں۔

پطرس    :تمہیں کون سے علم کی تشنگی میرے دروازے تک کشاں کشاں لے آئی؟

اجنبی      :اے ذی محترم!آپ میری صورت سے واقف نہیں، میں محکمہ تعلیم کا افسر اعلیٰ ہوں  اور  شرمندہ ہوں کہ کبھی آج تک نیاز حاصل کرنے کے لئے حاضر نہ ہوا۔ میری اس کوتاہی  اور  غفلت کو اپنے علم و فضل کے صدقے معاف کر دو۔

(آبدیدہ ہو جاتا ہے۔ )

پطرس    :اے خدا، یہ سب کیا وہم ہے، یا میری آنکھیں دھوکہ کھا رہی ہیں ؟

اجنبی      :مجھے تعجب نہیں کہ تم میرے آنے کو وہم سمجھو، کیونکہ آج تک ہم نے تم جیسے برگزیدہ انسان سے اس قدر غفلت برتی کہ مجھے خود اچنبھا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن مجھ پر یقین کرو، میں فی الحقیقت یہاں تمہاری خدمت میں کھڑا ہوں  اور  تمہاری آنکھیں تمہیں ہرگز دھوکہ نہیں دے رہی ہیں، اے شریف  اور  غمزدہ انسان، اگر یقین نہ ہو تو میرے جسم پر چٹکی لے کر میرا امتحان کر لو۔

(پطرس اجنبی کے چٹکی لیتا ہے،  اور  اجنبی زور سے چیختا ہے۔ )

پطرس    :آپ فرمائیے میں سن رہا ہوں، گو مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ عالم بیداری ہے۔

(اجنبی تالی بجاتا ہے، چھ خدام چھ بڑے بڑے صندوق اٹھا کر اندر داخل ہوتے ہیں،  اور  زمین پر رکھ کر بڑے ادب سے کورنش بجا کر چلے جاتے ہیں۔ )

اجنبی      : (صندوقوں کے ڈھکنے کھول کر)’’میں بادشاہ معظم شاہزادہ ویلز‘‘ ویسرائے ہند اور  کمانڈر انچیف ان چاروں کے ایماء پر ہدیۂ تحائف آپ کی خدمت میں آپ کے علم و فضل کی قدردانی کے طور پر لے کر حاضر ہوا ہوں۔ (بھرائی ہوئی آواز سے) ان کو قبول کیجئے  اور  مجھے مایوس نہ کیجئے ورنہ ان سب کا دل ٹوٹ جائے گا۔

پطرس    : (صندوقوں کو دیکھ کر) سونا! اشرفیاں !جواہرات!مجھے یقین نہیں آتا۔

(آیۃ الکرسی پڑھنے لگتا ہے۔ )

اجنبی      :ان کو قبول کیجئے  اور  مجھے واپس نہ بھیجئے۔

(آنسو ٹپ ٹپ گرتے ہیں۔ )

گانا۔ ۔ ۔ ’’آج موری انکھیاں پل نہ لاگیں۔ ‘‘

پطرس    :اے اجنبی!تیرے آنسو کیوں گر رہے ہیں،  اور  تو گانا کیوں گا رہا ہے، معلوم ہوتا ہے تجھے اپنے جذبات پر قابو نہیں ہے، یہ تیری کمزوری کی نشانی ہے۔ خدا تجھے تقویت دے  اور  ہمت دے، میں خوش ہوں کہ تو  اور   تیرے آقا علم سے اس قدر محبت رکھتے ہیں۔ بس اب ہمارے مطالعے کا وقت ہے کل کالج میں اپنے لیکچر سے ہمیں چار پانچ سو روحوں کو خواب جہالت سے جگانا ہے۔

اجنبی      : (سسکیاں بھرتے ہوئے) مجھے اجازت ہو تو میں حاضر ہو کر آپ کے خیالات سے مستفید ہوں ؟

پطرس    :خدا تمہاری حامی و ناصر ہو،  اور  تمہارے علم کی پیاس  اور  بھی بڑھتی رہے۔

(اجنبی رخصت ہو جاتا ہے، پطرس صندوق کو کھوئی ہوئی نظروں سے دیکھتا رہتا ہے  اور  پھر یک لخت مسرت کی ایک چیخ مارکر گر پڑتا ہے،  اور   مر جاتا ہے۔ کمرے میں ایک پر اسرار نور چھا جاتا ہے  اور  فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ باہر بینڈ باجہ بج رہا ہے۔ )

***

ماخذ: پطرس کے مضامین

ادبی دنیا، اردو بازار

دہلی۔

 

 

کرشن چندر

 

دروازہ

 

 

پہلی بار:دہلی ۱۷/اگست ۱۹۴۰ء؁

ڈرامے کے افراد  اور  اداکار

ماں :چندر کرن چھایا

کانتا:خورشید بیگم

شانتا:سرلا دیوی

مالک مکان:محمد حسین

اجنبی:تاج محمد

زمانہ :حال

(کھڑکی زور سے کھلتی ہے۔ بادل کی گرج ہلکی سی  اور  ہوا کے فراٹے کے ساتھ بارش کی آواز کمرے کے اندر سنائی دیتی ہے۔ )

ماں       :اب تو بارش بھی شروع ہو گئی بیٹی۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔  اور  یہ ہوا کا طوفان۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔ اب کون آئے گا۔ اس طوفان کے اندھیارے میں۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔  کانتا بیٹی۔ اب کیا وقت ہو گا؟

کانتا        :مجھے نہیں معلوم۔

ماں       :بتا بھی دے بیٹی(آبدیدہ ہو کر)اگر آج میری آنکھیں ہوتیں تومیں خود دیکھ لیتی۔

کانتا        :گھڑی شانتا کے میز کے اوپر پڑی ہے۔ شانتا میز پرسے ہلے تومیں وقت معلوم کروں۔

ماں       :شانتا بیٹی۔

شانتا      : (کمرے کے دوسرے کونے سے آواز) ساڑھے آٹھ بجے ہیں۔

(وقفہ)

ماں       :ساڑھے۔ ۔ ۔ آٹھ۔ ۔ ۔ رات ہو گئی۔ رات  اور  طوفان۔ اس طوفان میں اب کون آئے گا؟

شانتا      :میں نے ونود سے کہا تھا۔

ماں       :ونود کیوں ہمارے گھر آنے لگا۔ ونود کیوں کسی غریب بہن سے راکھی بندھوائے گا۔ شانتا تم نے ونود سے کب کہا تھا؟

شانتا      :صبح ہی۔ ابھی وہ پوجا پاٹ سے فارغ ہوا تھا کہ اس کی بہن نے اس کے راکھی باندھ دی تھی  اور  اس نے اسے ایک پونڈ دیا تھا سچ مچ کا پونڈ سونے کاپونڈ۔ جب میں ونود کے گھر گئی تو اس وقت وہ ہنس ہنس کر اپنی بہن سے باتیں کر رہا تھا۔ لال چندن کا تلک اس کے ماتھے پرتھا۔ بال پانی سے بھیگے ہوئے تھے۔ ہاتھوں پر سنہری تاروں سے گندھی ہوئی راکھی۔ میں نے اس سے کہا بھیا راکھی بندھوا لو(آبدیدہ ہو کر) اس نے کہا شانتا  تم گھر چلو میں ابھی چلا آتا ہوں۔ اب ساڑھے آٹھ بجے ہیں۔ ۔ ۔ رات ہو گئی۔

ماں       :رات  اور  طوفان۔

(شانتا سسکیاں لیتی ہے۔ )

ماں       :رو نہیں بیٹی۔ ادھر آ میرے پاس۔ اگر اس وقت تیرا بھائی ہوتا میرا پیارا چاند!ہائے برا ہو ان ڈاکوؤں کاجو میرے چاند کو اٹھا کر لے گئے۔ (کھڑکا) کون ہو؟

شانتا      :ونود!؟

(بلی کا بولنا۔ )

کانتا        : (کمرے کا دروازہ کھول کر)نہیں بلی ہے۔ بارش سے پناہ مانگ رہی ہے۔

(میاؤں میاؤں۔ )

ماں       :کانتا اسے اندر لے آ۔

کانتا        :لیکن ہم اسے کھلائیں گے کیا۔ گھر میں تواب کچھ بھی نہیں۔

ماں       :صبح کی ایک روٹی بچی تھی۔

شانتا      : (شرمسار ہو کر)مجھے بھوک لگی تھی ماں، میں نے کھالی۔

(میاؤں میاؤں۔ )

ماں       :اگر تمہارے پتا اس وقت زندہ ہوتے۔ ۔ ۔

کانتا        : (طنز سے)اگر ۔

ماں       :کیا کہا؟

کانتا        :کچھ نہیں۔

ماں       :کچھ تو کہا بیٹی۔ اندھی ماں کونہ بتاؤ گی؟

کانتا        : (چڑ کر) کچھ کہا ہو تو بتاؤں۔ تمہارے کان تو جیسے ہوا میں ہر وقت کسی کی آواز کو سنتے رہتے ہیں۔

ماں       :لیکن مجھے وہ آواز کبھی نہیں سنائی دیتی۔ جب میرا پیارا چاند مجھے کہا کرتا تھا ماں۔ ماں۔ مجھے بھوک لگی ہے۔ ماں مجھے ماسٹر نے مارا ہے۔ ماں مجھے پیشہ دو۔ اس کا وہ گورا گورا ہر وقت ہنستا ہوا چہرہ۔

کانتا        : (ناراضگی سے) ماں۔

ماں       : (ان سنی کر کے)جب وہ ہنستا تھا تو اس کے داہنے گال پر ایک عجیب خم سا پڑتا تھا؟جو مجھے بہت بھلا معلوم ہوتا تھا  اور  جب ہمیں اس کے بال سنوار کر اسے ٹوپی پہناتی تھی۔ اس وقت میں اندھی نہ تھی بیٹا!

کانتا        :ماں !!

ماں       :ایک دن وہ سکول سے دوڑتا دوڑتا گھر پہنچا کہنے لگا ماں آج قصبہ میں جگہ جگہ اشتہار لگے ہوئے ہیں۔ کہ آج یہاں ڈا کہ پڑے گا۔ قصبے کے سب لوگ پریشان ہو رہے ہیں۔ ماسٹر جی نے ہمیں جلد چھٹی دے دی ہے۔ پھر کچھ دیر کے بعد چاند کے پتا جی بھی آ گئے۔ انھوں نے بھی یہی بات سنائی۔ وہ دن ہم نے جس پریشانی میں گزارا۔ ۔ ۔  تم تو اس وقت پیدا ہی نہ ہوئی تھیں۔ اچھا ہوا۔ ورنہ ڈاکو تمہیں بھی اٹھا لے جاتے  اور   پھر وہ رات۔ وہ کالی بھیانک رات۔

کانتا        :ماں !!

ماں       : (چیخ کر)میرا آٹھ سال کا بچہ۔ پلا پلایا۔ میرا لاڈلا۔ اکلوتا چاند۔ ہائے وہ سب کچھ لے گئے تھے۔ لیکن میرے بچے کو تو نہ لے جاتے۔ میں نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے۔ اپنے بال کھول کران کے پاؤں پر دھرے لیکن انھوں نے ایک نہ سنی۔ کہتے تھے۔ کہ ایک مہینہ کے اندر پانچ ہزار روپئے ادا کر دو گے۔ تو تمہارا چاند تمہیں واپس مل جائے گا۔ میری ان آنکھوں کے سامنے وہ میرے لال کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ تمہارے پتا رسیوں سے جکڑے ہوئے چارپائی پر پڑے تھے۔ چاند چلا رہا تھا۔ ایک ڈاکو نے اسی کے منہ پر زور سے طمانچہ مارا  اور   اس کے لبوں سے خون کی دھار پھوٹ کر بہنے لگی۔ وہ میرے سامنے میرے لال کولے گئے۔ کاش میں جنم اندھی ہی پیدا ہوتی۔ ۔ ۔ یوں کڑ کڑ کر میرے نصیبوں میں لکھا تھا۔ تمہارے پتا جی اسی سوچ میں گھل گھل کر مر گئے۔ کہ کہیں سے پانچ ہزار روپیہ اکھٹا نہ ہوا۔

(بادل کی گرج۔ بارش کی آواز تیز ہو جاتی ہے۔ )

کھڑی کی بند کر دو کانتا ہوا کے تیز فراٹے میرے رخساروں کو جیسے چیر رہے ہیں۔

شانتا      :شانتا بہن کھڑکی کھلی رہنے دو۔ شاید ونود بھیا آتے ہوں کھڑکی بند دیکھ کر واپس چلے جائیں گے۔

کانتا        : (دور سے کھڑکی کے قریب جا کر سر باہر نکالتے ہوئے) کوئی بھی نہیں آ رہا۔ گلی سنسان پڑی ہے۔ چورا ہے پر پولیس کا سپاہی جیپ کے نیچے کھڑا بارش میں بھیگ رہا ہے۔ اب کون آئے گا شانتا بہن تم نے ایک ونود سے کہا تو میں نے کتنوں سے کہا رام بھروسے سے شنکر لال سے ودیا ناتھ سے لیکن سبھی ٹال گئے سبھی کہتے تھے گھر آ کر بندھوائیں گے دیکھو کوئی اس وقت پہنچا؟کون آئے گا؟کسے ضرورت ہے کہ غریب بہنوں کا بھائی بنے۔ مفت کا خرچ  اور  پھر ہماری راکھی بھی کیا ہے ؟ کچے سوت کا لال دھاگا جس میں نہ زری کے تار نہ موتیوں کی جھلک۔ نہ ریشم کے مسکراتے ہوئے پھول۔ ہماری راکھی بھی ہماری زندگیوں کی طرح پھیکی۔ اداس  اور  بے رنگ و  بو ہے۔ اس راکھی کو کون پسند کرے گا؟ تم ونود پر آس لگائے بیٹھی رہو۔ میں کھڑکی بند کئے دیتی ہوں۔

کانتا        : (طنز سے) تو جا کر اس پولیس مین کے راکھی باندھ آؤ جو چورا ہے پر کھڑا ہے۔

ماں       :ناحق غصہ کرتی ہو کانتا بیٹی۔

شانتا      :آج تمہیں کیا ہوا ہے ؟

کانتا        :تمہارے ونود بھیا جو ابھی آ رہے ہیں۔ ہاہاہاہا۔ ونود بھیا۔

ماں       :کانتا!کانتا!!

کانتا        : (بلند آواز میں) تومیں کیا کروں ؟جیسے میں نے پنڈت بنارسی داس کے بیٹے کو کہا ہی نہیں۔ جیسے میں چترویدی جی کے لڑکے سے ہاتھ جوڑ کر التجا نہیں کی کہ آئے  اور  ہم سے راکھی بندھوا جائے لیکن کوئی آئے بھی تو۔ اس گھر میں کون آئے گا  اور  کوئی یہاں آئے بھی کیوں ؟راکھی بندھوا کر اسے کون سی دکشنا مل جاتی۔ یہی سوکھی ہوئی روٹی  اور  باسی دال  اور  اب تو یہ گھر بھی ہمارا نہ رہے گا۔ میں نے تمہیں بتایا نہیں کہ مالک مکان آج دوپہر کو مجھے  گھر سے باہر ملا تھا۔ کہہ رہا تھا آج تیسرا مہینہ شروع ہو گیا ہے۔ لیکن کرایہ ابھی تک نہیں پہنچا۔ کہتا تھا اگر ایک مہینہ تک کرایہ ادانہ کیا تو اس مکان سے باہر نکلنا ہو گا۔

ماں       :ہے بھگوان۔ ان لوگوں کا خون کس قدر سفید ہو گیا ہے لیکن سبھی لوگ تو ایسے نہیں ہوتے۔ سبھی لوگوں کے دل  تو ایسے کٹھور نہیں ہوتے۔ راکھی کی کتھا میں شرون کمار کا بھی  برنن ہے۔ شرون کمار بھی تو ایک براہمن کے بیٹے تھے۔ لیکن انھوں نے اپنے اندھے ماں باپ کی کتنی سیوا کی دن رات انہیں ڈولی میں اٹھائے کاندھوں پر اٹھائے پھرے  اور   سارے بھارت ورش کی جاترا کرا دی۔ یہی شرون کمار جینتی کا دن ہے  اور  آج کوئی غریب بہن کو راکھی بھی نہیں باندھنے دیتا کہ شاید مرجادا کا پالن کرنا پڑے۔ آج راکھی کا پوتر تہوار ہے  اور  اشنان  اور  پوجا پاٹ کے بعد وید منتروں کا اچارن  اور  ہون کے ساتھ لوگ پرانے جنیو بدلتے ہیں۔ گویا زندگی کا ایک نیا چولا، نیا روپ بدلتے ہیں  اور  میری بچی کی کوئی راکھی قبول نہیں کرتا۔

کانتا        : (تلخی سے)یہ بھی تو ایک نیا روپ ہے۔

شانتا      :ماں۔ کیوں اپنے جی کا ہلکان کرتی ہو کانتا تو بھی کیوں کچوکے پر کچو کے دئے جاتی ہے۔ ماں !!ا س جی جلانے سے کیا حاصل؟ اب سو جاؤ۔

ماں       :میں سوتی رہوں یا جاگتی رہوں۔ میرے سونے  اور  جاگنے میں فرق ہی کیا ہے۔ میرے لئے توکل دنیا اسی دن ایک کالی رات بن گئی تھی جس دن میرا لال مجھ سے چھینا گیا تھا۔ پھر جب  پتی مر گئے تو زندگی کی آخری کرن بھی غائب ہو گئی۔ میرے لئے تو اس جنم میں اندھیارا ہی اندھیارا ہے۔ یہ وہ کالی رات ہے بیٹی  جس کی کوئی صبح نہیں۔ وہ درد ہے جس کی کوئی دوا نہیں۔ وہ دکھ ساگر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ (ہوا کا جھونکا روزنوں میں گزر کر ایک دردناک سیٹی پیدا کرتا ہوا گزرتا ہے) یہ کس نے آواز دی؟

شانتا      :کوئی نہیں ہے ماں۔ گلی بالکل خالی ہے۔ یہ ہوا روزنوں میں سے آواز پیدا کرتی ہوئی گزر رہی ہے۔

کانتا        :سو جاؤ ماں  اور  اپنے ان گیلے رخساروں کو پونچھ ڈالو۔ اٹھو ماں۔

ماں       :بہت اچھا بیٹی۔ بہت اچھا بیٹی۔ چلو مجھے اوپر سونے کے کمرے میں لے چلو۔

(فرش پر لکڑی ٹیکنے کی آواز۔ قدموں کی آواز۔ )

(کانتا گنگناتی ہے  اور  پھر آہستہ آہستہ پر سوز لے میں گاتی ہے۔ )

 

نیر بھرے نینن کی پنچھی

کس بدھ پیاس بجھاؤں

من کی بنسیا ٹوٹ چکی

اب کیسے اسے بجاؤں

چھوٹی سی نینن کی نیا

بیچ سمایو ساگر

پلکوں کے پتوار لگا کر

کس بدھ پار لگاؤں

پنچھی کس بدھ پیاس بجھاؤں

ہردے میں دکھ درد بہت ہے

گھاؤ بہت ہیں پیڑ بہت ہے

پھر بھی یہ سونی ہے بستی

کیسے اسے بساؤں

پنچھی کس بدھ پیاس بجھاؤں

پنچھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شانتا      :کانتا بہن تم رو رہی ہو۔

کانتا        : (کھڑکی کھول کر) مہینہ تھم گیا ہے۔

(دروازے پر دستک)

کانتا        :تمہارے بھیا ونود ہوں گے۔

شانتا      :نہیں پنڈت ودیا ناتھ ہوں گے۔

آواز       :دروازہ کھولو۔

(دروازہ کھولنے کی آواز)

کانتا        :اخاہ، آپ ہیں۔ تشریف رکھئے۔ کہئے اس وقت کیسے آنا ہوا؟غالباً آپ راکھی بندھوانے کے لئے آئے ہیں۔ ذرا ٹھہرئیے میں ابھی لال رنگ کا دھاگا لائی۔

مالک مکان         :میں۔ ۔ ۔ ار۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ راکھی۔ ۔ ۔  اور ۔ ۔ ۔ میں حاضر ہوا تھا یہ کہنے کے لئے کہ آپ نے تین ماہ کا کرایہ ادا نہیں کیا ہے۔ ۔ ۔ میں ار۔ ۔ ۔  ار۔ ۔ ۔ راکھی نہیں بندھواؤں گا میں تو کبھی کا بندھوا چکا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اگر آپ نے پرسوں تک کرایہ ادانہ کیا تو آپ کو اس مکان سے نکلنا ہو گا۔

کانتا        :اچھا یہ بات ہے۔ آج صبح ایک ہفتہ کی میعاد ملی تھی۔ اب دو دن رہ گئے۔ شریمان جی آج راکھی کے دن بھی آپ کو ایسی بات کرتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ ٹھہرئیے میں لائی لال سوت لاتی ہوں۔

مالک مکان         :ار۔ ار۔ نہیں نہیں میں یہی کہنے کے لئے حاضر ہوا تھا۔ اب میں چلتا ہوں۔ مجھے ضروری کام ہے۔

(دروازہ زور سے بند ہو جاتا ہے۔ )

(وقفہ)

شانتا      :گیا!

کانتا        :نہیں سمجھو سر پر ایک  اور  مصیبت آئی۔

شانتا      :اب کیا ہو گا۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔ کانتا بہن۔ ۔ ۔ وقفہ۔ ۔ ۔ کانتا بہن! یہ تم کھڑکی میں کھڑی کسے دیکھ رہی ہو؟

کانتا        :اپنے آنے والے دنوں کو۔

شانتا      :میں نے جو بستر کی چادر کاڑھ کر دی تھی اس کے مجھے صرف آٹھ آنے ملے ہیں۔

کانتا        :دو روپیہ کرایہ کے لئے میں نے بھی بچا رکھے ہیں۔

شانتا      :یہ تو اڑھائی روپئے ہوئے۔ ابھی چھ روپئے  اور  چاہئیں۔

کانتا        :ہاں چھ روپئے  اور  چاہئیں۔

شانتا      :اب کیا ہو گا!پرسوں تک چھ روپے کہاں سے آئیں گے ؟مجھے تو کوئی امید نظر نہیں آتی۔ چاروں طرف اندھیارہ ہی اندھیارہ دکھائی دیتا ہے۔

کانتا        : (طنز سے) ماں کی اندھی آنکھوں کی طرح؟

شانتا      :کانتا بہن تم مذاق کرتی ہو بے ہودہ مذاق۔ مجھے تمہاری یہ عادت مطلق پسند نہیں۔ اپنی ماں کے متعلق یہ الفاظ؟تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ میں تو پوچھتی ہوں کہ یہ چھ روپئے ہم پرسوں تک کہاں سے لائیں گے۔

کانتا        :سوچو!دماغ پر زور دو۔

شانتا      :مجھے تو کچھ نہیں سوجھتا۔

کانتا        :جب سب دروازے بند ہو جائیں اس وقت بھی عورت کے لئے ایک دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا رہتا ہے۔

شانتا      :تم کیا کہہ رہی ہو؟

کانتا        :اس دنیا میں مرد مالک ہیں  اور  عورتیں غلام۔ مرد خریدار ہوتے ہیں  اور   عورتیں جنس خرید۔ مرد کتے ہیں  اور  عورتیں ہڈیاں۔ مرد راکھی بندھوانا پسند نہیں کرتے۔ وہ راکھی توڑنا پسند کرتے ہیں۔

شانتا      :کانتا بہن تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟

کانتا        :سنو۔ اس کھڑکی کے ایک دوسری کھڑکی ہے۔ اس میں سے ایک اوباش مزاج نوجوان مجھے اکثر گھورا کرتا ہے۔ وہ ایک لحاظ سے خوبصورت بھی ہے ور دولت مند بھی  اور  پھر اس مکان کے نیچے گیرج میں اس کی ایک موٹر بھی ہے۔ اس نے کئی بار مجھے پریم پتر لکھے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کا جواب نہیں دیا۔ مجھے اس کی کھڑکی میں سے ابھی تک روشنی نظر آ رہی ہے۔

شانتا      :کانتا بہن کھڑکی بند کر لو۔

کانتا        :تمہاری سب آشائیں پوری ہو سکتی ہیں۔ سبھی۔ ۔ ۔ چھ روپئے نہیں سینکڑوں روپئے۔ ہزاروں روپئے بولو۔

شانتا      :کانتا بہن کھڑکی بند کر دو۔ ۔ ۔ کھڑکی سے پرے ہٹ جاؤ نہیں مجھے خود ہی اسے بند  کرنا ہو گا۔

(کھڑکی بند ہونے کی آواز)

کانتا        :تم نے کھڑکی بند کر دی۔ بھولی شانتا لیکن میں اس کھڑکی سے باہر تو نہ کود سکتی تھی۔ میں تو جب جاؤں گی سامنے کا دروازہ کھول کر جاؤں گی۔

(فرش پر چلنے کی آواز۔ )

(فرش پر تیز تیز قدموں سے بھاگنے کی آواز کسی جسم کے دروازے سے زور سے لگنے کی آواز۔ )

کانتا        :ہٹو مجھے جانے دو۔

شانتا      :نہیں، میں نہیں جانے دوں گی۔

کانتا        :دروازہ کھول دو۔

شانتا      :نہیں میں دروازہ کبھی نہیں کھولوں گی۔

کانتا        :میں کہتی ہوں دروازہ کھول دو، دروازہ کھول دو۔

شانتا      :نہیں، نہیں۔ کبھی میں۔

کانتا        :معلوم ہوتا ہے۔ تم ایسے نہیں ہٹو گی۔

(کشمکش کی آواز۔ شانتا کے منہ سے ایک بلند چیخ نکلتا ہے لیکن کانتا فوراً ہی اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی ہے۔)

(وقفہ)

(دروازہ پر دستک۔ زور زور سے دستک)

(وقفہ)

آواز       :دروازہ کھولو۔

(وقفہ)

کانتا        : (سرگوشی سے) دروازہ کھول دو۔ اب تو۔

(دروازہ کھلنے کی آواز)

(ایک اجنبی اندر داخل ہوتا ہے۔ )

اجنبی      :اوہ میں سمجھا۔ کوئی خون خرابہ ہو رہا ہے۔ میں باہر سے گزر رہا تھا کہ میں نے ایک چیخ سنی۔

کانتا        :چیخ یا قہقہہ؟

اجنبی      :کچھ سمجھ لو بہن۔ لیکن مجھے تو چیخ ہی سنائی دی۔

شانتا      :بیٹھ جائیے۔ تشریف رکھئے۔

اجنبی      :شکریہ۔ (وقفہ)کیا آپ دونوں بہنیں یہاں اکیلی رہتی ہیں ؟

کانتا        :یہ آپ نے کیسے جانا کہ ہم دونوں بہنیں ہیں ؟

اجنبی      : (ہنستے ہوئے) آپ کے چہروں سے۔

شانتا      :جی ہاں ہم اپنی ماتا جی کے ساتھ یہاں رہتی ہیں۔

اجنبی      :اگر آپ برا نہ مانیں۔ پوچھوں کہ جھگڑا کس بات پر ہو رہا تھا؟

کانتا        :راکھی تیوہار پر۔

اجنبی      :اچھا آج راکھی ہے۔

کانتا        :آپ کو معلوم نہیں ؟

اجنبی      :میں بہت مدت سے سفر میں ہوں اس جگہ ابھی ابھی وارد ہوا ہوں۔ سفر میں آدمی بہت سی باتیں بھول جاتا ہے۔ ۔ ۔ اچھا تو پھر کیا ہوا؟

کانتا        :یہ کانتا کہہ رہی تھی کہ راکھی کا تیوہار اچھا ہے،  اور  میں کہہ رہی تھی کہ مجھے اتنا پسند نہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم دونوں بہنوں کو آج بہت مایوسی ہوئی ہے۔ آپ دیکھئے ہمارا کوئی بھائی نہیں۔

کانتا        : اور  میں بہن شانتا سے کہہ رہی تھی کہ دروازہ کھول دے سامنے کے مکان۔ ۔ ۔

شانتا      :خاموش کانتا!۔ ۔ ۔  تو کیسی بچوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ (وقفہ)ہوں۔ یہ بات ہے۔

(وقفہ)

اجنبی      :کانتا لاؤ۔ تم۔ مجھے راکھی باندھ دو اور  شانتا بہن تم بھی!

کانتا        :کیا آپ راکھی بندھوائیں گے سچ مچ؟

شانتا      :لیکن آپ تو پردیس میں ہیں۔

اجنبی      :پردیسی بھی بھائی بن سکتے ہیں۔ بہن۔

کانتا        :میں ابھی لال دھاگا لائی۔

شانتا      :آپ کا نام کیا ہے ؟

اجنبی      :مجھے اجے کمار کہتے ہیں۔

کانتا        :لیجئے ہاتھ بڑھائیے۔ شانتا تم بھی۔ ۔ ۔ دوسری کلائی پر۔

شانتا      :اجے بھیا۔

(سیڑھیوں سے اترنے کی آواز)

شانتا      :یہ کیا؟پونڈ!سچ مچ کے پونڈ۔ ۔ ۔ سونے کے پونڈ۔

اجنبی      :غریب بھائی کی طرف سے یہ نذر قبول ہو۔

(لکڑی ٹیکنے کی آواز قریب ہو جاتی ہے۔ )

شانتا      : (سرگوشی سے) ماں جی ہمیں۔

ماں       :کون ہے !یہ کیا جھگڑا ہو رہا ہے ؟

شانتا      : (سرگوشی سے) آپ ٹکٹکی لگائے ان کی آنکھوں کی طرف کیوں تک رہے ہیں ؟انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

کانتا        :ہم راکھی باندھ رہے تھے  اور  شانتا خوشی سے ناچ رہی تھی۔

ماں       :کیا ونود آ گئے ؟

شانتا      :نہیں ماں۔ یہ اجے بھیا ہیں (سرگوشی میں) ماتا جی کو پرنام کرو۔

اجنبی      :ماتا جی پرنام۔

ماں       :جیتے رہو بیٹا۔ تم کون ہو؟ ادھر کیسے آئے ؟

اجنبی      :جی میں باہر سے گزر رہا تھا۔ اس کمرے میں ان دونوں بہنوں کے جھگڑنے کی آواز سنی۔ دروازے پر دستک دی  اور  (ہنس کر) اندر چلا آیا۔ یہاں ان دونوں شریر لڑکیوں نے مجھے راکھی سے باندھ دیا۔

ماں       :بہنیں ہیں بیٹا یہ تمہاری بہنیں۔ اس عمر میں راکھی باندھنے کی بہت چاہ ہوتی ہے۔ اچھا بیٹا تم اس شہر میں کیسے آ رہے ہو؟

اجنبی      :یونہی ڈھونڈتا ہوا آ رہا ہوں۔ کھوج نکالنے کے لئے نکلا ہوں۔

ماں       :کسے ڈھونڈ رہے ہو بیٹا؟

اجنبی      :اپنے ماں باپ کو،  مدت ہوئی مظفر گڑھ سے مجھے ڈاکو اٹھا لے گئے تھے، بہت مدت تک ان کے ساتھ رہا۔ پھر ایک دن ان کے چنگل سے نکل بھاگا۔ بمبئی جا کر ملازمت اختیار کر لی۔ پھر ماں باپ کا پتہ لگانے نکلا۔ مظفر گڑھ گیا۔ معلوم ہوا!پتا جی کا انتقال ہو گیا ہے پھر اس شہر کا کسی نے پتہ دیا۔  اور  میں ادھر سے۔ ۔ ۔

ماں       : (اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہے، لکڑی زمین پر گر جاتی ہے۔ )ادھر آؤ بیٹا اجے کمار، ذرا میرے قریب آؤ۔ میں تمہیں اپنی اندھی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہوں۔ (قدموں کی آواز) اور  قریب آؤ بیٹا۔ تمہارا چہرہ کہاں ہے ؟کہاں ہو تم اجے کمار بیٹا۔ یہ آنکھیں تمہیں پہچان نہیں سکتیں۔ لیکن ماں کی انگلیاں تمہیں پہچان لیں گی۔ ہاں یہ وہی ناک ہے وہی ہونٹ یہ کان کے پاس وہی تل میرے لال میرے چاند۔ میری چھاتی سے لگ جاؤ بیٹا۔ تم نے مجھے بہت دکھ دیا ہے۔

(سسکیوں کی آواز۔ )

اجنبی      :ماں !

کانتا،  شانتا           :بھیا!

ماں       :ہاں ہاں وہی توہے تمہارا چاند۔ وہی گھنگرالے بال ہیں جن میں کنگھی کر کے تمہیں ٹوپی پہنایا کرتی تھی۔ وہی ابرو اور  یہاں زخم کا نشان، بیٹا مجھے اچھی طرح پکڑ لو۔ مجھے گرنے نہ دینا اپنے طاقتور بازوؤں کا سہارا دو۔ میرے چاند۔ میری اندھی آنکھوں کے روشن ستارے۔ میری اجڑی زندگی کے اجیارے۔ ۔ ۔

اجنبی      :ماں۔

(پردہ)

***

ماخذ: ’’دروازہ‘‘

آزاد بک ڈپو

پالبازار، امرتسر

 

 

کرشن چندر

بیکاری

 

پہلی بار:لا ہور۔ اکتوبر۱۹۳۷ء؁

ڈرامے کے افراد  اور  اداکار

بھیا لال:کنہیا لال

شیام سندر:کے۔ سی

اظہر:چتر بھج

سپاہی:چودھری

(ہندو ہوسٹل میں ۴۴ نمبر کا کمرہ گندہ، خاک آلودہ، دوچار پائیوں پر میلے بستر، ایک میز پر بہت سی کتابیں، سگریٹوں کا ڈبہ، قلمدان  اور  تھوڑی سی نقدی۔ ایک چارپائی پر شیام سندر بال بکھیرے غمگین صورت بنائے بیٹھا ہے  اور  سگریٹ کے کش لگا کر دھوئیں کے مرغولے سے ہوا میں چھوڑ رہا ہے۔ یکایک دروازے سے بھیا لال داخل ہوتا ہے۔ لمبا، دبلا، پتلا، جوان ہے۔ گال اندر پچکے ہوئے، زرد رو، ایم اے پاس)

بھیا لال   : (چارپائی پر بیٹھ کر) آج وہ بدلہ لیا کہ ساری عمر یاد رکھے ہی رکھے گی۔ یہ اونچے طبقے کے لوگ نہ جانے ہمیں کیوں کیڑوں مکوڑوں سے بھی بدتر خیال کرتے ہیں۔

شیام سندر           : (ایک حزیں مسکراہٹ کے ساتھ) کیا بات ہوئی؟ کس سے بدلہ لیا؟ وہ بدقسمت کون ہے ؟

بھیا لال   :وہی توہے ڈاکٹر گھنشیام لال کی بیوی جمنا۔ اوہ مگر  تم اسے نہیں جانتے۔ موٹی سانولی سی ہے۔ دو بچے ہو جانے پربھی ایف اے میں پڑھتی ہے۔ میں آج تین مہینے سے اسے تواریخ پڑھا رہا ہوں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ عورتوں کو تواریخ کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں تو چاہئے چولہا چاہئے۔ خیر ہمیں تو اپنے پیسوں سے کام ہے۔ دو گھنٹے پڑھاتا ہوں۔ پندرہ روپئے ملتے ہیں۔

شیام سندر           :غنیمت جانو۔

بھیا لال   : (ایک نقلی آہ بھرکر) ٹھیک ہے مگر ۔ ۔ ۔ میری شکل و صورت میں اسی بارے میں تم سے مشورہ کرنے آیا تھا کہ۔ ۔ ۔

شیام سندر           : (بات کاٹ کر)مگر  تم سے کس مسخرے نے کہہ دیا کہ میں حسن کا جراح ہوں۔

بھیا لال   : (بات ان سنی کر کے)ا وہ!میں اپنی صورت کو کیا کہوں۔ میرا رنگ قدرتی طور پر زرد ہے۔ جس سے ہر شخص کو مجھ پر تپ دق کا مریض ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ اب بتاؤ میں کیا کروں۔ جس دن سنڈے ٹائمز میں اشتہار دیکھا اسی دن عرضی لے کر ڈاکٹر گھنشیام لال کے پاس چلا گیا۔ وہ تو وہاں نہیں تھا  اور  آخر پڑھنا بھی تو اس کی بیوی ہی کو تھا۔ مجھے دیکھتے ہی گھبرا گئی۔ کہنے لگی آپ کچھ بیمار تو نہیں رہتے  اور  یہ اس نے کچھ ایسے ہمدردانہ لہجہ میں پوچھا کہ مجھ سے انکار نہ ہو سکا۔ جھوٹ موٹ کہ دیا ’’جی ہاں ‘‘ وہ اس پر کچھ  گھبرا سی گئی۔ رکتے رکتے بولی ’’اوہ۔ ۔ ۔ آپ۔ ۔ ۔ آپ کو کیا بیماری تھی۔ میں نے ایک قدم اس کے قریب بڑھ کر کہا ’’تب۔ محرقہ۔ ٹائیفائیڈ‘‘ وہ یہ سن کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ کہنے لگی ’’تب محرقہ؟‘‘ گویا اسے اب بھی یقین نہیں آتا تھا کہ میرے جیسا متین صورت بھی کبھی تب محرقہ میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ میں نے سوچا بچاری نہایت ہمدرد اور   غریب نواز معلوم ہوتی ہے۔ آؤ لگے ہاتھوں اس کا فائدہ اٹھا لیں۔ چنانچہ میں نے  اور  بھی مسکین بن کر کہا جی ہاں ٹائیفائیڈ۔ پچھلے چار مہینے بستر پر پڑا رہا ہوں۔ اب کہیں جا کر افاقہ ہوا ہے۔ آپ کا اشتہار پڑھا کہ آپ کو ایک استاد کی ضرورت ہے جو دو گھنٹے روزانہ تواریخ کا درس دے سکے۔ اسی لئے حاضر ہوا ہوں۔ فیس وغیرہ طے کر لیجئے یہ رہے سرٹیفکٹ۔ باقی رہی ذہنی قابلیت تو اس کے لئے میرا صرف یہ ہی کہہ دینا مگر  وہ جلد ہی یبچ میں بول اٹھی ’’نہیں نہیں ‘‘ اس نے مجھے پریشان نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ اتنی جلدی کیا پڑی ہے۔ آپ کو کم از کم دو تین ہفتے آرام کرنا چاہئے۔ آپ۔ ۔ ۔  آپ دو تین ہفتوں کے بعد ضرور تشریف لائیے۔ اے یار خیال یار کیا کرنا تھا  اور  کیا کر دیا تھا۔ ۔ ۔  میں نے اپنے آپ کو بہت بہت کوسا۔ مگر  اب لکیر پیٹنے سے کیا ہوتا تھا۔ ناچار واپس چلا آیا  اور   پھر دوسرے دن ڈاکٹر گھنشیام لال کے ایک جگری دوست سے سفارش بہم پہنچائی۔

’’مگر  وہ تو بیمار معلوم ہوتے تھے۔ ڈاکٹر کی بیوی نے سفارش کے جواب میں کہا۔ انھوں نے مجھے خود بتایا کہ انہیں تب محرقہ تھا۔ ‘‘

میری سفارش کرنے والے نے ہنس کر کہا۔ میں نے اسے آج تک کبھی بیما رہی نہیں دیکھا۔ اس بچارے کی شکل ہی ایسی ہے۔ ۔ ۔  اور  یہ ہے بھی ٹھیک۔ ۔ ۔  میں اسے مدت سے جانتا ہوں۔ یہ بھی ٹھیک تھا۔ ۔ ۔

تواب تین مہینے سے اسے پڑھا رہا ہوں۔ بالکل کوڑ مغز ہے۔ دل میں مدت سے کسک تھی کہ اس سے بدلہ لوں۔ سو آج موقع مل گیا۔

شیام سندر           :کیا ہوا؟

بھیا لال   : (جیسے اس نے سوال سنا ہی نہیں) یوں تو اس میں اب مجھے بھی کچھ شک نہیں کہ صورت سے میں تپدق کا مریض دکھائی دیتا ہوں مگر  کیا تم نے وہ انگریزی ضرب المثل نہیں سنی۔ کہ صورتیں اکثر دھوکا دیتی ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں پانچویں جماعت میں تھا اس وقت بھی ایسا ہی دبلا پتلا تھا ا ور جماعت میں ہمیشہ ہر مضمون میں اول رہا کرتا تھا۔ چنانچہ حسب عادت پانچویں جماعت میں بھی اول ہی رہا۔ جب سالانہ جلسہ پر انعام تقسیم ہونے لگے تو میرے حصہ میں بہت سے انعام آئے۔ ان دنوں میں میری جماعت میں ایک  اور  لڑکا بشنداس بھی پڑھا کرتا تھا۔ نہایت ہی خوبصورت وجیہہ توانا تھا۔ نہایت اچھا گلا پایا تھا۔ کمبخت نے اسے بھی موسیقی میں اول رہنے پر تمغہ ملا۔ مجھے یاد ہے وہ مجھے تپقی کہا کرتا تھا۔ اس دن جلسہ پر اس کی خوبصورت بہنیں بھی آئی ہوئی تھیں  اور  میری دبلی پتلی بہنیں بھی  اور  جب میں بہت سے انعام سمیٹ کر لے گیا تو بشنداس کی بہنوں نے میری بہنوں کو اونچی آواز میں سنا کر کہا آہ  بچارا بھیا لال۔ یہ سب انعام اس کے کس کام کے جب کہ اس کو تپدق ہے۔ مجھے یاد ہے میری بہنوں نے بہت برا مانا تھا۔ مگر  قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو میں ابھی تک زندہ سلامت ہوں  اور   بچارا شکیل و توانا بشنداس دو سال ہوئے تپدق سے بیمار ہو کر چل بسا۔ آہ صورتیں کس قدر دھوکا دیتی ہیں۔ وہ بہت اچھا آدمی تھا  اور  جب کبھی میں پچھلے سالوں میں اپنے گاؤں گیا ہوں۔ وہ ہمیشہ مجھ سے میری صحت، میری کھانسی، میری حرارت عزیزی کے متعلق سوال کیا کرتا تھا  اور   یہ سوال توہر الو کا پٹھا جو مجھے دیکھ لے ایک دم سے جڑ دیتا ہے۔ مثلاً اگر میں کسی ڈاکٹر کے پاس چلا جاؤں  اور  اس سے کہوں کہ مجھے خفیف سی کھانسی آتی ہے۔ تو وہ میری شکل دیکھ کر بے اختیار کہہ اٹھتا ہے :

’’آپ کورات کو پسینہ تو نہیں آتا؟‘‘

’’جی نہیں۔ البتہ دن کو ضرور آتا ہے۔ خصوصاً جبکہ ورزش کرتا ہوں۔ ‘‘

’’کیا آپ کو کھانسی کے ساتھ خون بھی آتا ہے ؟‘‘

’’نہیں جی۔ خون تو نہیں۔ مگر  بلغم ضرور نکلتا ہے۔ ‘‘

’’اوہ۔ ۔ ۔ بخار؟‘‘

’’ابھی تک تو نہیں۔ ۔ ۔ لیکن اگر آپ کے سوالوں کی یہی رفتار رہی تو عین ممکن ہے کہ جلدی۔ ۔ ۔ ‘‘

ڈاکٹر(قطع کلام کر کے) آپ کمرے سے باہر تشریف لے جائیں۔

بس تقریباً جس ڈاکٹر کے پاس جاؤ یہی ہوتا ہے۔ اب میں صلاح کر رہا ہوں کہ ڈاکٹر یار محمد سے اپنی چھاتی  اور  پھیپھڑوں کا ایکس رے فوٹو گراف لے کر ہمیشہ پاس رکھوں۔ تا کہ جب کوئی نیا ڈاکٹر یا پرانا حکیم سوال کرے آپ کو پسینہ تو نہیں آتا؟خون نکلتا ہے ؟ بخار کب سے ؟ تو جھٹ یہی ایکسرے فوٹو اس کے ہاتھ میں دے دوں  اور   کہوں۔ بھلے مانس کل میں نے ذرا آچار زیادہ کھا لیا تھا اس لئے صرف کھانسی کی دوا چاہئے۔

شیام سندر           :نیک خیال ہے۔

بھیا لال   :بچارے ڈاکٹر لوگ تو الگ رہے۔ خود میرے استاد۔ ۔ ۔ کیا کہوں ؟۔ ۔ ۔  بہت دنوں کی بات ہے۔ میں ان دنوں نئی نئی ورزشیں سیکھ رہا تھا۔ چاہتا تھا کہ اپنے نحیف جسم کو فربہ بنا لوں  اور  چہرے کی زرد رنگت کو گلاب کی سرخی میں تبدیل کر دوں چنانچہ خوب ڈنڈ پیلتا تھا  اور   دودھ پیتا تھا۔ تین چار مہینے یہی کیفیت رہی۔ اس کے بعد ہمارا جغرافیہ کا ٹیچر جو ساڑھے تین مہینے کی چھٹی لے کر اپنی لڑکی کا بیاہ کرنے کے لئے جنڈیالہ گیا ہوا تھا۔ واپس آ گیا  اور  مجھے دیکھتے گراؤنڈ کے قریب ملا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا اوہ تم بہت کمزور ہو گئے ہو۔ کیا بیمار ہو گئے تھے۔ میں نے دل میں سوچا بیمار تو نہیں رہا البتہ ورزش ضرور کرتا رہا ہوں۔ اس دن سے لے کر آج تک میں نے پھر ورزش نہیں کی۔ بھلا ورزش کا فائدہ ہی کیا ہے۔ جب یہ دوسروں کو مغالطہ میں ڈال دے  اور  پھر مفت میں اپنے جسم کو تکلیف دینا۔ قید با مشقت نہیں تو اور  کیا ہے۔

شیام سندر           :نہیں آپ ورزش سے اپنے جسم کو صحت ور بنا سکتے ہیں۔ ورزش سے جسم میں چشتی آتی ہے۔ بہت ہلکا پھلکا۔ ۔ ۔

بھیا لال   :مجھے بتاتے ہو، شیام سندر؟ تیسری جماعت کا سبق دہرا رہے ہو۔ اس میں تو اور  بھی کئی نکمی  اور  جھوٹی باتیں لکھی ہیں مثلاً ورزش نہایت اچھی ہوتی ہے، جھوٹ بولنا گناہ ہے، دیانتداری بڑی نعمت ہے، دوسرے کی چیز پر نگاہ نہ ڈالو۔ سب بکو اس، سفید جھوٹ۔

شیام سندر           :تم ڈاکٹر گھنشیام لال کی بیوی کا ذکر کر رہے تھے۔ جسے تم پڑھاتے رہے ہو۔

بھیا لال   :ہاں میں جمنا کا ذکر کر رہا تھا۔ مگر  تم نے کبھی سوچا کہ میری بدصورتی میں میرا کتنا قصور ہے۔ میرے ماں باپ بھی ایسے ہی تھے۔ قصور تو ان کا ہے کہ اپنی بدصورتی کو جانتے ہوئے بھی مجھے جنم دیا۔

شیام سندر           :یہ تو محض حسن اتفاق تھا۔

بھیا لال   :مجھے تو اس میں خاک بھی ’’حسن اتفاق‘‘ نظر نہیں آتا  اور  یوں دیکھا جائے تو اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ ذرا خیال تو کرو۔ قدرت نے دو کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں، نتھنوں  اور  ہونٹوں کے مجموعہ سے انسانوں کے کتنے نمونے ایجاد کئے ہیں کہ ایک کی شکل دوسرے سے نہیں ملتی۔ بجانے اس کے قدرت کی طباعی  اور  فنکاری کی داد دی جائے۔ لوگ مجھ پر ہنستے ہیں۔ کتنی بے وقوفی ہے۔ آج انسانوں میں کوئی بڑے سے بڑا آرٹسٹ قدرت کے اس شاندار تنوع کی ایک مثال پیدا کر دے۔ تو میں جانوں۔

شیام سندر           :بے شک۔ بے شک، مگر  وہ ڈاکٹر کی بیوی۔ ۔ ۔

بھیا لال   :ارے بھائی۔ اب اس کی بیوی کی کون سی بات رہ گئی۔ میں اسے تین مہینے سے پڑھا رہا ہوں  اور  اس عرصہ میں وہ کوئی پندرہ بار بیمار پڑی ہو گی  اور  کوئی اس دس با رہی اس کے ڈاکٹر خاوند کو موسمی بخار کا شکار ہونا پڑا ہے۔ کبھی دیکھو تو سر میں درد ہے، کبھی پیٹ میں، کبھی بخار، کبھی نزلہ  اور   مجھ دیکھو تو ان تین مہینوں میں ایک چھینک بھی نہیں آئی۔ آج جب میں پڑھانے گیا تو کل کی طرح پھر کہنے لگی ’’مجھے زکام کی شکایت ہے۔ ‘‘میں نے کہا آپ کی بھی عجیب صحت ہے۔ آپ ڈاکٹر لوگ جب پرہیز نہیں کریں گے تو اور   کون کرے گا۔ مجھے دیکھئے اپنی صحت کا خیال رکھتا ہوں۔ کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے پاتی۔

شیام سندر           :خوب بدلہ لیا۔

(اظہر کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ درمیانہ قد۔ دہرے بدن کا جوان ہے۔ نیلا سوٹ پہن رکھا ہے۔ ہاتھ میں ایک تا رہے۔ )

اظہر       :ہیلو شیام! ہیلو تب دق!

شیام سندر           :ہیلو اظہر!یہ تار کیسا ہے ؟

اظہر       :امجد نے بھیجا ہے۔ لکھا ہے کہ بی ٹی کی ڈگری مل گئی ہے  اور  اب وہ الہ آباد جا رہا ہے۔ جہاں میونسپل سکول میں اسے پینتیس روپئے کی آسامی مل گئی ہے۔

شیام سندر           :مگر  ایم اے، بی ٹی  اور  صرف پینتیس۔

اظہر       :میں اسے مبارک باد کا خط لکھ رہا ہوں۔ اس دور مہاجنی میں تم  اور   کر بھی کیا سکتے ہو۔

بھیا لال   :کل مجھے کیلاش ناتھ ملا تھا۔ وہ جو بی اے میں ہمارے ساتھ پڑھا کرتا تھا  اور  فیل ہو گیا تھا۔ اب اپنے باپ کے کارخانہ میں منیجر ہو گیا ہے اپنی کار میں بیٹھا ہوا تھا۔ میری طرف ترحم آمیز نگاہوں سے دیکھ کر کہنے لگا ’’آج کل کیا کرتے ہو؟۔ ۔ ۔  اور   یہ وہی شخص ہے جو انگریزی کا جواب مضمون مجھ سے خوشامدیں کر کے ٹھیک کرایا کرتا تھا۔ ‘‘

شیام سندر           : (اداس لہجے میں) جانے دو ان باتوں کو۔ مجھے مسعود کا فکر ہو رہا ہے۔ تم جانتے ہو۔ بچارہ  دو مہینے سے میرے پاس رہتا ہے۔ مگر  ابھی تک نوکری کہیں نہیں ملی۔ کل سے واپس نہیں آیا۔

اظہر       :واپس گاؤں کو چلا گیا ہو گا۔

شیام سندر           : (رکتے ہوئے) شاید!مگر  اس کا ٹرنک  اور  بستر یہی ہیں۔

بھیا لال   :کوئی ضروری کام ہو گا(زیادہ حوصلہ افزا لہجہ میں)شاید کوئی نوکری مل گئی ہو گی  اور  آج تمہیں پتہ دینے کے لئے آ جائے۔

شیام سندر           : (رکتے ہوئے)شاید۔

اظہر       : (سر ہلاتے ہوئے) کتنی بے کاری ہے  اور  کتنی جہالت ہے ؟کل میں موتی لال میں پروفیسر روچانند کا لیکچر سننے گیا۔ فاضل مقرر جو ایک روئی کے کارخانہ میں تین سو حصوں کا مالک نہایت پر جوش لہجہ میں گریجوٹیوں کی کم عقلی کا ماتم کر رہا ہوں کہ موجودہ بے کاری اقتصادی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ طبقہ کی آرام پسندی کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ اس نے چند نہایت درد مندانہ تجاویز سامعین کے سامنے پیش کیں۔ مثلاً یہ کہ گریجویٹ چھوٹے موٹے کاروبار کو اپنے ہاتھوں میں لیں۔ بوٹ پالش کرنا، ایک تھوک فروش سے جوتے ادھار لے کر گلیوں میں چکر لگا کر انہیں بیچنا، گھی کی دوکان کھولنا، مونگ پھلی کی تجارت۔ ۔ ۔

شیام سندر           : (تلخ لہجہ میں) چنا جور گرم۔

بھیا لال   :بے کاری دور کرنے کے ایسے کئی گر مجھے یاد ہیں۔

اظہر       :مثلاً۔

بھیا لال   : (وا سکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے)مثلاً تم  اور  شیام سندر انگریزی میں اچھا لکھ سکتے ہو۔ اخبار نکال لو۔

اظہر، شیام سندر    :مگر  روپیہ!

بھیا لال   :اچھا کچھ  اور  سہی۔ ایک عمدہ ہوٹل کھول لو۔ نفیس کمرے، عمدہ کھانے، تھوڑا کرایہ، واجبی نرخ۔

شیام، اظہر           :مگر  روپیہ۔ ۔ ۔ ؟

بھیا لال   : (ہنس کر  اور  وا سکٹ کی جیب سے ہاتھ نکالتے ہوئے) اچھایہ بھی سہی، لو اب میں تمہیں وہ گر بتاتا ہوں جو کبھی خطا نہیں ہو سکتا۔

شیام سندر           :وہ کیا ہے ؟

بھیا لال   :عورت۔

شیام سندر           :عورت؟

بھیا لال   :ہاں۔ ہاں، عورت۔ ایک عورت کا انتخاب کر لوجو نہایت جاہل ہو۔ ایک نہایت مالدار آدمی کی اکلوتی بیٹی ہو۔

شیام سندر           :پھر؟

بھیا لال   :پھر اس سے شادی کر لو۔

اظہر       :بھئی کیا خوب۔ تم تو تواریخ جاننے کے علاوہ عقل مند بھی ہو۔

شیام سندر           : (دونوں آنکھیں میچ کر)ہوں۔ ۔ ۔ ہوں۔

اظہر،  بھیا لال       :’’ہوں۔ ہوں ‘‘ کا کیا مطلب ؟

شیام سندر           : (آنکھیں بند کئے ہوئے) ایک ایسی عورت بالکل میری نگاہ میں ہے۔

بھیا لال   : (گہری دلچسپی سے)کیا وہ ایک مالدار آدمی کی لڑکی ہے ؟

شیام سندر           : (سر ہلاتا ہے) ہاں تو۔ ۔ ۔

بھیا لال   : اور ۔ ۔ ۔  اور ۔ ۔ ۔ اکلوتی لڑکی۔

شیام سندر           :ہاں اکلوتی بیٹی۔ بالکل اکلوتی۔

بھیا لال   :ارے یار بتاؤ۔ اس کی شکل کیسی ہے ؟ خوبصورت ہو گی؟

شیام سندر           :وہ نہایت خوبصورت ہے، حسین جیسے چاند کی کرن، نازک جیسے کنول کی پتی، حیا پرور جیسے لاجونتی کی ڈالی۔ بس کائی سی صورت ہے۔ میں اس سے محبت کرتا ہوں  اور  وہ مجھ سے محبت کرتی ہے  اور  اس کا مالدار باپ اپنی ساری دولت مجھے جہیز میں دے دینا چاہتا ہے۔

بھیا لال   : (بہت دلچسپی  اور رشک و حسد کے ساتھ) ارے بتاؤ وہ کون ہے ؟ کہاں رہتی ہے ؟ اس کا نام کیا ہے ؟

شیام سندر           : (یکایک آنکھیں کھول کر) اوہ وہ کدھر چلی گئی۔ وہ کون تھی؟ اس کا نام کیا تھا؟

(شیام سندر، اظہر، بھیا لال تینوں یکایک قہقہہ لگا کر ہنستے ہیں  اور   ایک دو منٹ تک ہنستے رہتے ہیں۔ )

(ایک ب اور  دی پولیس کا سپاہی آتا ہے۔ )

سپاہی     :آپ میں شیام سندر کون ہے ؟

(شیام سندر اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ )

سپاہی     : (ایک لفافہ آگے بڑھاتے ہوئے)سول ہسپتال میں چل کر ایک لاش کی شناخت کر لیجئے۔ وہ ریل گاڑی کے نیچے آ کر مرگیا ہے۔ ا س کی جیب سے آپ کا پتہ نکلا ہے۔

شیام سندر           :مسعود۔ ۔ ۔  آہ۔

(اپنے ہاتھوں سے منہ چھپا کر کہتا ہے۔ )

(پردہ گرتا ہے)

***

ماخذ: ’’دروازہ‘‘

آزاد بک ڈپو پالبازار، امرتسر

راجندر سنگھ بیدی

نقل مکانی

 

کردار

نفیس:ایک معمولی آدمی جو محکمۂ نہر میں ملازم ہے۔

عذرا:نفیس کی قبول صورت بیوی۔ ۔ ۔  گانے کا شوق رکھتی ہے

مراتب:کاٹھ بازار کا پنواڑی

سیاں :ایک آوارہ  اور  ذہین طالب علم جس کا اصل نام امجد حسین ہے

بنواری لال:محلہ دار۔

مرزا شوکت :محلہ دار۔

سب انسپکٹر مائکل

دو سپاہی

شیو برت:ایک عیاش رئیس

 

 

پہلا منظر

(محلہ کاٹھ بازار کا ایک مکان، نفیس  اور  اس کی بیوی عذرا اس مکان میں نئے آئے ہیں۔ ابھی ان کا سامان ادھر ادھر پڑا ہے جسے دونوں میاں بیوی قرینے سے دھرنے میں مصروف ہیں۔ )

عذرا      : (آرام کے لیے رکتے ہوئے) توبہ کتنی خاک چھانی  اور  جو ملنے کو آیا مکان تو کیسے جھٹ سے مل گیا۔

نفیس     : (چارپائی پر بیٹھ کر اپنا نیا جوتا اتار دیتا ہے  اور   اپنے پاؤں سہلاتا ہے) ہاں اسی بات پر تومیں حیران ہو رہا ہوں۔ دراصل مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے کہ میں کسی  اور   مکان میں بیٹھا ہوا ہوں۔ ۔ ۔ پاؤں ابھی تک دکھ رہے ہیں۔ ایک سارے دن کی دوڑ دھوپ، دوسرے نیا جوتا۔ ۔ ۔ (پلٹ کر) عذرا تھوڑا پانی تو گرم کر دوبھائی۔

عذرا      :معلوم ہوتا ہے حمام کا پیندا، اس ادلا بدلی میں ٹوٹ گیا ہے۔ لیکن پانی گرم ہو جائے گا۔

نفیس     :جب بوجھے کو سر پر سے پھینک دیا جاتا ہے توکتنی دیر یوں معلوم ہوتا ہے جانے کوئی اوپر کی طرف اٹھ رہا ہے۔ اتنی تھکن  اور  تکلیف کے ہوتے ہوئے بھی ایک طرح کے سبک اپنے۔ ۔ ۔

عذرا      :چشم بد دور۔ بس ان ہی دو کمروں کی ضرورت تھی  اور  اتنا ہی کرایہ دینے کی توفیق۔ مہنگائی کے ان دنوں میں سولہ روپیہ بھی بھلا کوئی کرایہ ہے ؟

(پھر کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ )

نفیس     :اندازہ کرو، وہ حویلی بکائن والے ان کمروں کے پچاس روپیہ بتاتے تھے۔ شاید انھیں سمجھنے والا نہیں کوئی۔ میں نے تو کہہ دیا تھا کہ تنخواہ قرق کر لیا کرو صاحب۔ سوچو اتنے کمروں کی ہمیں ضرورت بھی کیا تھی؟

عذرا      : اور  جونئی آبادی میں کمرے دیکھے تھے، یاد ہیں ؟سیل کتنی دور چھت کی طرف لپک رہی تھی  اور  پڑوس کی جرانی  بضد تھی کہ ہم اوپلے دیوار پرہی تھاپیں گے۔ ۔ ۔ لے بھئی تواب تھاپلے اوپلے جی بھرکر(رک کر) لیکن اگر میں وہاں رہ جاتی تو اسے بتا  دیتی ایک بار۔

نفیس     :ہاں وہ تو تمہاری بات ہی ہے۔

عذرا      : اور  وہ کوڑا کرکٹ جلانے والی چمنی بھولی گئے۔ ۔ ۔ اف۔ ۔ ۔ اوف۔ ۔ ۔  کتنی بو آتی تھی۔ ۔ ۔

(ناک پر دوپٹہ رکھ لیتی ہے۔ )

نفیس     :اس پنواڑی نے کس آرام سے چابیاں تھما دیں میرے ہاتھ میں (ایک دم رک کر)مجھے تو کچھ دال میں کالا نظر آتا ہے۔

عذرا      : اور  کہہ رہا تھا مہینے بھر سے خالی پڑا ہے۔ مکان۔ کوئی گاہک نہیں لگا ہو گا۔ اس مہینہ بھرمیں بھلا؟

نفیس     :خدا جانے کیا معاملہ ہے ؟یہ دیواریں کچھ خراب ہیں لیکن۔ ۔ ۔

(دیوار کو چھوتا ہے۔ )

عذرا      :کہاں خراب ہیں دیواریں ؟۔ ۔ ۔ بس ذرا سا شک پڑا دیواریں خراب نظر آنے لگیں۔ چھت بھی گرتی ہوئی دکھائی دینے لگی۔ کواڑ بھی پرانے ہیں۔ تم کہنے لگو گے بالکل ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ (پڑھا کے اوپر  اور   نیچے سیاہ نشان دیکھتے ہوئے) شاید شمع دان بنا رکھا تھا ہم سے پہلے ادھر رہنے والوں نے۔ ۔ ۔ میں کہتی ہوں یہاں بجلی نہیں ہے ؟

نفیس     :ہے تو لیکن وہ لوگ شاید استعمال نہ کرتے ہوں۔

عذرا      : (ہنس کر) شاید اندھیرا پسند کرتے ہوں۔

نفیس     :تمہیں اندھیرے کے معجزوں کا کیا پتہ۔ جب اندھیرا ہوتا ہے تو بہت سی خدائی کا ایک طرح سے دن شروع ہوتا ہے۔ (میز کو کونے کی طرف سرکاتے ہوئے، کونے میں پڑے ہوئے گھنگھرو نفیس کے ساتھ ٹکراتے ہیں)۔ ۔ ۔ ارے یہ کہاں سے آئے۔

عذرا      : (میز رکھ کر) دکھاؤ۔

نفیس     :ہم سے پہلے رہنے والے انھیں یہیں بھول گئے۔

عذرا      :ان میں سے کوئی ناچتا ہو گا۔

نفیس     :تمہارے لیے چھوڑ گئے معلوم ہوتے ہیں لیکن انھیں کیا معلوم کہ نئے آنے والوں میں بھی کافی گانے کا شوق رکھتی ہے  اور  گاہے ما ہے۔

عذرا      :گاہے ما ہے کیا؟

نفیس     :تھرک بھی جاتی ہے۔

عذرا      :اوہو، جانتے ہی نہ ہوں بھلا۔

نفیس     :ذرا پاؤں میں باندھو اور ۔ ۔ ۔

عذرا      :ہونہہ اسباب جوں کاتوں بکھرا ہوا ہے  اور  آپ کو اپنی پڑی ہے۔ میں سوچتی ہوں اس شمع دان میں سرسوں کا تیل جلانے والے اتنے با مذاق تھے ؟

نفیس     :تو کیا خوش مذاقی کا امیر لوگوں نے اجارہ لے رکھا ہے۔ (عذرا کے سامنے میز پر بیٹھ جاتا ہے) اپنی طرف دیکھو تم۔ ۔ ۔

عذرا      : (شرما کر) چلو ہٹو۔

نفیس     :بات یہ ہے کہ تم بھی عام آدمیوں کی طرح باہر کی ٹیپ ٹاپ دیکھتی ہو میں اگر اچھی شکل والا ہوتا  اور  اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہوتا تو شاید مکان کے لیے مجھے اتنا پریشان نہ ہونا پڑتا۔ جس کے سامنے جا کر مکان کے لیے سوالی ہوا اس نے پہلے مجھے سر سے پاؤں تک ناپا  اور   پھر جھٹ سے کہہ دیا کون زمانے کی بات کرتے ہو میاں، راستہ پکڑو۔ ۔ ۔  گویا میں اٹھائی گیرا ہوتا ہوں۔ (غصے کے ساتھ میز پر سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ )بعض دفعہ جی چاہتا ہے اٹھائی گیرا ہی تو ہو جائے آدمی۔ ۔ ۔  (عذرا کی طرف دیکھتا ہے تو غصہ اتر جاتا ہے۔ ) دور کیوں جاؤں میں اپنی عذرا کے لیے وامق نہ ہوا۔ ۔ ۔

عذرا      :یہ وامق کون احمق تھا؟۔ ۔ ۔  اور  پھر اس بات کا تقاضا کرنا بھی تو سنک ہے کہ کوئی آدمی کو اندر سے دیکھے  اور  باہر سے نہ دیکھے۔ تمہارا کیا خیال ہے۔ روح جسم کو خوبصورت یا بدصورت نہیں بناتی؟

نفیس     :یہ الگ بحث ہے عذرا۔ ۔ ۔  لاؤ ذرا ہتھوڑی پکڑانا، کھڑکی پر کیل گاڑ دوں۔ (کھڑکی کی طرف بڑھتے ہوئے) میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تم کسی کی شکل دیکھ کر اس کی طینت کے متعلق شک کرو تو اس شخص کی بددیانتی پر افسوس نہیں کر سکتیں۔ ۔ ۔

عذرا      :دیکھو، دیکھو، دیکھو۔ ۔ ۔ یہ باہر جو کھڑکی کھلتی ہے، پان کی پیک سے بھری ہوئی ہے۔ ادھر ہاتھ مت بڑھانا۔ میں کہتی ہوں۔ ۔ ۔ یہ پان کی پیک، یہ شمع دان۔ ۔ ۔ میرا ما تھا ٹھنکتا ہے۔ ذرا بلانا تو پٹواری کو۔

نفیس     :مراتب کو؟۔ ۔ ۔ میں بلاتا ہوں۔ تو بھی دیا جلا دے شام ہو رہی ہے۔

عذرا      :دیا تو نہیں ہے لیکن اس کٹوری سے دینے کا کاجل جائے گا۔

نفیس     :ہاں، ہاں اس کٹوری کو شمع دان پر رکھ دو۔

عذرا      :میں تو نہ رکھوں شمع دان پر کٹوری۔ ۔ ۔  تم مراتب کو بلاؤ۔ یا تو اس جگہ چھوت کی بیماری کا کوئی مریض رہا ہے  اور  یا۔ ۔ ۔ یا۔ ۔ ۔

نفیس     :ورنہ آج کل جنگ کے دنوں میں اتنی دیر مکان خالی رہنے کے کیا معنی؟۔ ۔ ۔  (دروازے سے باہر جھانک کر) مراتب۔ ۔ ۔  میاں مراتب۔ ۔ ۔  ذرا ادھر آنا بھائی۔

پنواڑی    :آیا صحیب۔

نفیس     : (عذرا سے)جانے کیا ماجرا ہے ؟۔ ۔ ۔ چھوت کی بیماری کے علاوہ کیا اندازہ لگانے لگی تھیں تم؟

عذرا      :اس مکان میں کوئی پیر رہتا ہوتا  اور  یہاں رہنے والے اس کا دیا جلاتے ہونگے  اور   جہاں تک میرا خیال ہے ہفتہ میں ایک دو دن ضرور پیر کا دیا جلانا پڑتا ہو گا، نہیں تو بجلی والے اس مکان میں سرسوں کا تیل جلانا کیا مطلب رکھتا ہے ؟

نفیس     :اب تمہیں بھی اس مکان میں نقص نظر آنے لگے۔ ۔ ۔ ایک برس ہوا ہمیں مکان کی تلاش کرتے ہوئے تب کہیں جا کر یہ دو اچھے کمرے ملے ہیں۔

عذرا      :میں خود اسے پسند کرتی ہوں لیکن۔

نفیس     :میں لیکن ویکن کچھ نہیں جانتا۔ مجھ سے اب مکان تبدیل نہ ہو گا یہ سمجھ رکھو۔ ۔ ۔ چھوت کا مریض رہا ہو گا تو فرش فنائل سے دھولیں گے۔ سفیدی کروا لیں گے۔ دیواریں کھد وا کر نیا پلسٹر کروا لیں گے۔ ۔ ۔  پیر ہوا تو سرسوں کا دیا جلا لیں گے۔

(دروازے میں مراتب نظر آتا ہے۔ )

مراتب   :حکم سرکار؟

نفیس     :بڑے میاں، ہمیں ایک بات پوچھنا ہے۔

عذرا      : (ڈرتے ہوئے) ہاں بڑے میاں ٹھیک ٹھیک بتا دو۔ تم نہیں بتاؤ گے تو ایک دن ہمیں اپنے آپ پتہ چل جائے گا۔ کیا یہاں کوئی بیمار رہا ہے ؟ یا کوئی پیر ہے جس کا دیا جلانا پڑتا ہے ؟ یا  اور   کوئی بات ہے۔ دیکھو جھوٹ مت بولنا آخر تم بھی بال بچوں بچے دار ہو۔

پنواڑی    :دیکھے سرکار جھوٹ بولنا اپنا اپنا اصول نہیں ہے  اور  پھر یہ مکان کون میرا اپنا ہے جس کی خاطر ایمان گروی رکھوں۔ ۔ ۔ آپ سے پہلے یہاں شادو رہتی تھی۔

نفیس     :شادو رہتی تھی، کون شادو؟

پنواڑی    :شادو۔ شمشاد بائی۔(عجیب سی ہنسی ہنستا ہے)آپ اسے نہیں جانتے ؟ واہ اس شہر میں کون بابو لوگ ہے جو شادو کو نہیں جانتا؟

نفیس     : (کچھ برہم ہو کر اپنے ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ٹھونس لیتا ہے۔ ) میں جھوٹ تھوڑے ہی کہہ رہا ہوں بڑے میاں۔ ہمیں تمہاری شادو سے کبھی واسطہ نہیں پڑا۔

پنواڑی    :اجی بابو صاحب۔ شادو کے قصے اخباروں میں چھپ گئے۔ اس کے نام کے اشتہار بازاروں میں لگ گئے  اور  آپ کہتے ہیں پتہ ہی نہیں۔ ۔ ۔  نہیں نہیں آپ دراصل مجھے بنا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ہیں نا؟شادو یہاں ’’جس طرح مجھ کو لگی ہے میرے اللہ کسو کی‘‘ گایا کرتی تھی  اور   بڑے بڑے لوگ اس کا مجرا کرواتے تھے وہ بڑی امیر تھی لیکن تھی بڑی کنجوس۔ ۔ ۔  آخر اسے سمجھ آ گئی کہ بنا چوک میں جائے دھندہ نہیں ہو گا۔

عذرا      :تو شمشاد بائی کوئی طوائف تھی؟۔ ۔ ۔

پنواڑی    :جی ہاں طوائف ہی تو تھی۔ ۔ ۔ اس کے مقدمے کی بابت بھی آپ نے کچھ نہ پڑھا۔ وہ دراصل بہت بڑی رنڈی تھی جو ’’میرے اللہ کسو کی‘‘ گایا کرتی تھی۔ ۔ ۔  شادو!کاٹھ بازار کے بیچ میں سرکار نے بھی پسند نہ کیا  اور   اسے نوٹس دیا۔ پولیس بھی آئی لیکن شادو کو کوئی ہلا نہ سکا۔ پھر وہ اپنی مرضی سے چلی گئی۔ ۔ ۔

نفیس     :تم نے پہلے اس بات کا ذکر نہیں کیا۔

پنواڑی    :مجھے اس بات کا خیال ہی نہ آیا  اور  میرا خیال تھا آپ جانتے ہوں گے۔ دراصل آپ نے اتنی جلدی کی۔ چار بجے شام آپ نے چابیاں لیں  اور  چھ بجے یہاں آ دھمکے۔ اب کیا بگڑ گیا ہے مکان پر آپ  کی مہر تو لگ ہی نہیں گئی۔

عذرا      :لیکن اب ہم کہاں جائیں، جو مکان ہم نے خالی کیا اس کے بیسیوں گاہک تھے، ادھر ہم نے سامان نکالا ادھر انھوں نے رکھ لیا۔

نفیس     :یہ بات چابیاں دیتے ہی بتا دیتی تھی مراتب صاحب۔

پنواڑی    :میں تو سمجھتا تھا آپ اس قصے کو جانتے ہوں گے۔

نفیس     : (چمک کر) پھروہی بات۔ کیا ہمیں بھی ایرے غیرے سمجھتے ہو؟ جو یہ جانتے ہوئے بھی چلے آئیں۔ ۔ ۔ جاؤ کتھا چونا لگاؤ  اور  شادو کے گیت گاؤ۔ ۔ ۔ معلوم ہوتا ہے تمہیں بھی شریف  اور  بدمعاش میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔

پنواڑی    :دیکھئے ذرا سنبھل کر بات کیجئے۔ کسی کے ماتھے پر شریف تھوڑی ہی لکھا ہوتا ہے میں نے جانا جیسے دوسری دنیا ہے ویسے ہی آپ ہوں گے۔

عذرا      :اب زیادہ باتیں بنانے کی ضرورت نہیں بڑے میاں۔

پنواڑی    :میں نے کوئی بری بات نہیں کہی سرکار۔ دوسرے لوگ کہیں جیب کترے نہیں ہیں۔ آپ کی مرضی ہے آپ رہیں، نہیں مرضی نہ رہیں۔ ۔ ۔  چابیاں میرے والے کر دیں،  اور  نیا مکان تلاش کر لیں۔ میں جاتا ہوں۔ شام ہی کا وقت تو ہوتا ہے۔ کمانے کا۔ ۔ ۔

(جاتا ہے۔ )

عذرا      : (مایوسی سے) اب کیا کریں۔

نفیس     : (سرد آہ بھرکر)چلو یہ طلسم بھی ٹوٹ گیا۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ تمام دنیا ایک سی نہیں ہے۔ کم سے کم ایک ایسا آدمی ہے جس نے ہماری شرافت کی قدر کی ہے۔ ۔ ۔ (کھڑکی کی طرف جاتا ہے۔ )پان کی پیک سے بھری ہوئی یہ کھڑکی بتا رہی ہے کہ شادو اس پنواڑی کی آمدنی کا ذریعہ تھی  اور  اس کے چلے جانے کا مراتب کو افسوس ہے۔ ۔ ۔  (سوچتا ہے۔ ) عذرا ان گھنگھروؤں کو وہاں رکھ دو اور  آؤ بیٹھ جاؤ۔

عذرا      : (ادھر ادھر دیکھ کر)خدا جانے یہاں کیا کچھ ہوتا رہا ہے !

(سہم کر نفیس کی بغل میں بیٹھ جاتی ہے۔ )

نفیس     :جانے کون کون جاگیریں اجڑتی رہی ہوں گی  اور  کن کن کے سہاگ کا مذاق اڑایا گیا ہو گا۔

عذرا      :بھانت بھانت کے آدمی آتے ہوں گے یہاں۔ ۔ ۔

نفیس     :یونہی تھوڑے ہمارا سنگ اسود کالا  اور  کثیف ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن دیکھو عذرا اب جو کچھ ہونا تھا ہو چکا۔ طوائفوں کی بستی جب شہر کے بڑھنے سے باہر چلی جاتی ہے تو ان کی جگہ تمہاری ایسی گرہستنیں ہی تو رہتی ہیں۔

عذرا      : (سمٹ کر) یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن مجھے ڈرا سا آتا ہے جیسے میرا دل کسی بات کو مان نہیں رہا۔

نفیس     :مجھے تو اس بوڑھے کی بے وقوفی پر ہنسی آتی ہے۔ (ہنس کر)’’تم شادو کو نہیں جانتے ؟لیکن عذرا جب تک اپنا دل صاف ہے ہمیں کسی سے نہیں ڈرنا چاہئے دوسروں کے گنا ہوں کا حساب ہمیں تھوڑا دینا ہے۔ ۔ ۔  میں بستر کھولتا ہوں تم دیا سلائی سے بتی ذرا اوپر کر دو۔ ۔ ۔

عذرا      :یاد آیا تم نے گرم پانی کے لیے کہا تھا۔ شاید ٹوکری میں کوئلے ہوں۔ ۔ ۔  مجھے یہ سارا گھر جائے پیاری کے کیڑوں سے پٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ۔ ۔  میں کیا کروں میرا دل یونہی کانپ رہا ہے۔

نفیس     :عذرا۔ ۔ ۔  میری جان!اب ایک نیا مکان تلاش کرنا خالہ جی کا باڑہ تو ہے نہیں۔ یہاں سب طرح کی صفائی ہو جائے گی۔ ۔ ۔  فنائل سفیدی۔ سب ٹھیک ہو جائے گا  اور  پھر جس جگہ پر بیٹھ کراللہ کا نام لیں گے وہ جگہ پاک  اور  صاف ہو جائیں گی۔ میرا مطلب ہے۔ ۔ ۔

(دروازے پر دستک سنائی دیتی ہے۔ )

عذرا      :یہ کون ہوا بھلا؟

نفیس     :خدا جانے کون ہے۔ اور  اسے ہمارے یہاں ہونے کا کیسے پتہ چل گیا؟

عذرا      :ذرا دیکھو تو۔ ۔ ۔ کہیں تمہارا بھانجا ہی نہ ہو۔ میں نے کہا تھا ادھر ہم نئے ہیں، ذرا خبر لیتے رہنا  اور  تمہاری بھانجی کی شادی طے ہو گئی ہو گی۔ ۔ ۔  نصیرہ کی۔ ۔ ۔ دیکھو تو۔ ۔ ۔

(نفیس جاتا ہے  اور  دروازہ کھولتا ہے۔ )

نفیس     :آئیے صاحب۔

سیاں      :السلام علیکم۔

نفیس     :وعلیکم السلام۔ ۔ ۔ کہئے کیسے تشریف لائے، آپ کا نام۔

(عذرا اندر چلی جاتی ہے۔ )

سیاں      :میرا نام؟۔ ۔ ۔ میرا اصلی نام امجد حسین ہے۔ میں یہاں طالب علم ہوں۔ ۔ ۔ یہاں کا مطلب یہ مکان نہیں میری مراد اس شہر سے ہے۔ ۔ ۔  لیکن مجھے سب سیاں کے نام سے پکارتے ہیں۔

نفیس     :کہیں آپ اس مکان کے مالک تو نہیں۔

سیاں      :نعوذ باللہ۔ ۔ ۔ نہیں !۔ ۔ ۔ لیکن ایک طرح سے مالک ہی سمجھئے۔

نفیس     :معاف کیجئے میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکا۔ ۔ ۔   اور  نہ آپ کے اس وقت تشریف لانے کا مدعا جان سکا ہوں۔

سیاں      :دیکھئے ایک وقت میں ایک ہی سوال کیجئے تا کہ نہ آپ کو سوال کرتے ہوئے الجھن ہو اور  نہ مجھے جواب دیتے ہوئے کوفت محسوس ہو۔ یہی تو ظلم ہوتا ہے میرے ساتھ کہ ایک سانس میں لوگ مجھ پر بیسیوں سوال کر جاتے ہیں۔ کالج میں، گھر میں، بازار میں ہر جگہ یہی ظلم ہوتا ہے۔ ۔ ۔  تو پہلے آپ میرا نام پوچھ رہے تھے۔

(آگے جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن نفیس اسے اشارے سے وہیں چارپائی پر بٹھا دیتا ہے۔ )

نفیس     :جی ہاں، نام پوچھ رہا تھا۔ ۔ ۔ اگر آپ کو زحمت نہ ہو۔

سیاں      :میں نے عرض کیا نا، میرا اصل نام امجد حسین ہے۔

نفیس     :نہیں صاحب اس سے پہلے نام کے بارے میں قطعاً کوئی بات نہیں ہوئی۔

سیاں      : (پر شکوک  انداز میں) کوئی بات نہیں ہوئی۔ ۔ ۔ مگر  اس کا مطلب کیا ہے ؟آج نام کیوں پوچھا جا رہا ہے ؟۔ ۔ ۔  خیر میرا نام امجد حسین ہے لیکن مجھے سب سیاں کے نام سے پکارتے ہیں۔

نفیس     :آپ کی ماں بھی آپ کو سیاں کے نام سے پکارتی ہو گی۔

سیاں      :جی ہاں (کچھ سمجھتے ہوئے) لیکن۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ سو آپ سے درویش صورت انسان بھی یہاں۔ ۔ ۔  سچ ہے بابا سب سچ ہے۔ ۔ ۔

(اٹھ کر اندر جانے کی کوشش کرتا ہے۔ )

نفیس     :آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ۔ ۔  دیکھئے آپ زبردستی اندر جا رہے ہیں۔ آپ پئے ہوئے ہیں۔

سیاں      :ش ش خاموش۔ میں سیاں ہی تو ہوں، جاؤ اندر جا کر شادو کو اطلاع کر دو۔

نفیس     :دیکھئے سیاں صاحب، اب آپ کی شادو یہاں نہیں رہی۔ یہ شریف آدمیوں کے رہنے کی جگہ ہے۔

سیاں      :شکل سے تو آپ شریف ہی نظر آتے ہیں اللہ اجی میں ہر روز تھوڑے ہی ادھر آتا ہوں۔ جب ڈپٹی صاحب منی آرڈر بھیجتے ہیں  اور  امتحان کے دن نزدیک آتے ہیں۔ ۔ ۔ اوہ ڈپٹی صاحب کے نام سے ڈر گئے۔ ارے بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا تم یہ بازو راستے سے ہٹا دو۔

نفیس     :دیکھو، دیکھو، صاحبزادے تم کیا کیا کر رہے ہو۔ ؟

(پکڑ کر چار پائی  پر بٹھا دیتا ہے۔ )

سیاں      :سو تم ویرکا کے رئیس ہو، تمہی نے شادو کو گھر میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ناکام رہے۔ تم نے اسی گھرکو اپنا گھر بنانا اچھا سمجھا۔ میں سمجھ گیا۔ میں سب کچھ سمجھ گیا۔

نفیس     :دیکھو، زیادہ باتیں مت بناؤ کہے دیتا ہوں، فوراً یہاں سے نکل جاؤ۔ ورنہ میں شور مچاؤں گا۔

سیاں      :شور مچاؤ گے  اور  لوگوں کا اکٹھا کرو گے ؟اسی بات سے تمہاری شرافت کا پتہ چلتا ہے۔ کیا تم خود بدنام نہ ہو گے۔ لوگ آٹھ مجھے کہیں گے  اور   دس تمہیں سنائیں گے۔ لوگوں کو سچ  اور  جھوٹ کی طرف ہٹ جانے کا ملکہ ہے۔ ارے کبھی شریف لوگ بھی شور مچاتے ہیں، وہ ہر قسم کی ذلت چپکے سے برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ وہ شریف ہیں۔ ۔ ۔ (ایک ہچکی آتی ہے نفیس کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سیاں اسے روک لیتا ہے۔ )۔ ۔ ۔  میرے باپ کی کچہری میں روز عزت کے لیے مقدمے لڑے جاتے ہیں  اور  عزت چاہنے والوں کی خوب بے عزتی ہوتی ہے ان کی ماں  اور   بہن کے متعلق وہ کچھ کہا جاتا ہے کہ سن کر کانوں کے پردے پھٹ جاتے ہیں، اسی لیے شریف آدمی اپنی بیٹی کی بے حرمتی دیکھ کر عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے۔

نفیس     :میاں صاحبزادے یہ سب درست ہے اسی لیے میں تمہیں منت سے ٹل جانے کے لیے کہتا ہوں۔ ورنہ مجھے شور مچانے کی ضرورت بھی نہ پڑے۔

(سیاں کو دھکیلتا ہے۔ )

سیاں      :دیکھو مجھے دھکیلو مت، باتیں کرنے سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا (قدرے بلند آواز میں) شادو، مجھ سے یہ بدسلوکی دیکھ کر تم چپ بیٹھی ہو(اندر دیکھتے ہوئے)تم اتنی دبلی کیوں ہو شاید میری آنکھوں کا قصور ہے (لرزتی ہوئی آواز میں)مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ۔ ۔  کتابیں لکھنے والوں نے ایک ہی چیز کے بارے میں متضاد باتیں لکھ کر میرے دماغ کو الجھاؤ میں ڈال دیا ہے۔ ۔ ۔  میری آنکھوں میں نقص ہے۔ (ڈر جاتا ہے۔ )وہی چیز جسے میں دیکھنا چاہتا ہوں نظر نہیں آتی۔ ۔ ۔  اردگرد کی سب چیزیں دکھائی دیتی ہیں لیکن وہ چیز جس پر میں نگاہ ڈالتا ہوں، درمیان سے غائب ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔  کیا اس سے بڑی بیماری بھی ہے کہ تم جو چاہو تمہیں دکھائی نہ دے  اور  جو نہ چا ہو نظر آتا رہے۔ دیکھو تم پھر دھکیلنے لگے۔ باتیں سننے میں کیا حرج ہے بھائی؟شادو!تمہیں ویرکا کے اس رئیس نے گھر ڈال لیا ہے (کیا یہ سچ ہے کہ خبیث تمہیں باہر کی روشنی نہیں دکھاتا  اور  اسی لیے تم اتنی مریل ہو گئی ہو۔ لیکن تمہارا رنگ  اور   بھی کھل گیا ہے۔ ۔ ۔ نہیں مجھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ ۔ ۔ تمہیں ویرکا کے اس رئیس نے نہیں تمہیں اس بڑے ویرکا کے رئیس نے مجھ سے چھین لیا ہے۔ ۔ ۔ خدا نے بے رحم خدا نے۔ ۔ ۔

(رونے لگتا ہے۔ )

نفیس     :خدا جانے میں تمہاری باتیں کیوں سنتا جا رہا ہوں ؟شکل سے شریف خاندان کے لڑکے نظر آتے ہو شاید اس لیے لیکن تم ہو کہ برابر شور مچائے چلے جا رہے۔ لوگ سن کر کیا کہیں گے ؟

سیاں      :لوگ؟لوگ کیا کہیں گے۔ ۔ ۔  دیکھو مجھے گھورو مت ہر جگہ مجھے یہی ’’لوگ‘‘ گھورتے نظر آتے ہیں۔ ان ’’لوگوں ‘‘ نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ انھوں نے میرے ایک دوست کو پاگل کر دیا ہے۔ ذہین تھا۔ بلا کا ذہین۔ ۔ ۔ اسے ’’لوگوں ‘‘ نے بتایا کہ عورت کا ننگا جسم ایک ناپاک شئے ہوتی ہے اسے مت دیکھو۔ اپنی آنکھیں بند کر لو خوبصورت چیز کو دیکھنے کی خواہش کو دبا دو، کچل دو۔ ۔ ۔ انھوں نے کہا پھول کو کپڑے پہنا دو، یہ آرٹ۔ ۔ ۔ میرے دوست نے پانی میں چند کلیوں کو نہاتے دیکھا، اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ایک درخت کی آڑ میں کھڑے ہو کر اس نے پھر ان کلیوں کو شیتل شبنم میں نہاتے دیکھا، پھر آنکھیں بند کر لیں، دیکھا آنکھیں بند کر لیں۔ ۔ ۔  خواہش نے آنکھیں کھولیں، لوگوں نے بند کیں۔ ۔ ۔ کھولیں بند کیں، کھولیں بند کیں۔ ۔ ۔   اور  آج اس کی آنکھیں پل میں سو بار کھلتی  اور  بند ہوتی ہیں۔ ۔ ۔  وہ ان کا کوئی علاج نہیں کر سکا۔ ۔ ۔  (آناً فاناً)شادو مجھے اس شہدے سے بچاؤ۔ ۔ ۔ مجھے تمہارے پاس نہیں آنے دے رہا ہے۔ پھر تم نہیں گاؤ گی؟

سیاں توری گودی میں گیندا بن جاؤں گی

(نفیس سیاں کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن سیاں برابر اپنی بات کہے جا رہا ہے۔ )

سیاں      :امتحان سے ڈر کر آج میں نے بے انداز پی (لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے)شراب میرا کلیجہ چٹ کر رہی ہے۔ میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے ہیں۔ مجھے بھوک لگی ہے۔ ۔ ۔  تم بھول گئیں۔ ۔ ۔

جو تورے سیاں کو بھوک لگے گی

لڈو، پیڑا، جلیبی بن جاؤں گی

سیاں توری گودی میں

(نفیس سیاں کو دروازے تک دھکیلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، لیکن سیاں مضبوطی سے دروازہ پکڑ لیتا ہے۔ )

سیاں      :میں کرسی  اور  پلنگ کے درمیان دیکھ رہا ہوں۔ ۔ ۔  اور  تمہاری پرچھائیں نظر آتی ہے۔ مجھ سے اندھا اچھا ہے شادو۔ ہائے یہ سب کچھ نظر آ رہا ہے  اور  نہیں بھی آ رہا ہے۔ ۔ ۔ میرے اللہ۔ ۔ ۔

نفیس     : (دروازے کے ایک طرف منھ نکالتے ہوئے) مراتب۔ ۔ ۔ مراتب میاں۔

(دروازے پر عذرا نمودار ہوتی ہے۔ وہ کچھ دیر کے لئے رک جاتی ہے، لیکن پھر ایک عزم کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ )

عذرا      :صاحب آپ کون ہیں۔ ۔ ۔ آپ باہر کیوں نہیں جاتے۔ یہ شریف آدمیوں کا مکان ہے۔ شادو نے یہاں سے مکان تبدیل کر لیا ہے۔ آپ جائیے فوراً یہاں سے۔ ۔ ۔

سیاں      : (پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے) یہ آواز بھی گھر اور  بازار کی آوازوں میں کھو کر رہ گئی۔ یہ شادو کی آواز نہیں، اس سے اچھی ہو گی لیکن یہ شادو کی آواز نہیں۔ یہ شادو کی آواز نہیں۔ ۔ ۔

مراتب   :ابے کون ہے ؟۔ ۔ ۔ نکل باہر شہدے کمینے۔ ۔ ۔

نفیس     :گالی مت دوا سے فقط باہر نکال دو۔ ۔ ۔

عذرا      :دیکھو مارو نہیں۔ ۔ ۔ گمراہ طالب علم ہے بے چارہ۔

مراتب   :کئی بے چارے گمراہ طالب آتے تھے اسی کے یہاں۔ ۔ ۔ نکل باہر چھوکرے۔ ۔ ۔

(کشمکش، مراتب سے دھکا دے کر باہر گرٍا دیتا ہے۔ لڑکے کے گرنے کی آواز کے ساتھ ہی دروازہ بند ہوتا ہے۔ )

پردہ

 

دوسرا منظر

(اسی مکان کے سونے کا کمرہ۔ رات کا وقت ہے  اور  نفیس باہر سے آ کر کپڑے بدل رہا ہے۔ عذرا اس کا کوٹ اس کے موزے وغیرہ لے کر مناسب جگہوں پر رکھ رہی ہے۔ )

عذرا      :بہت تھکے ہوئے نظر آتے ہو۔ آج بہت کام تھا کیا؟

نفیس     :دفتر میں کوئی کام نہیں۔ البتہ دوسری باتیں تھوڑی ہیں پریشانی کے لیے۔

عذرا      :دوسری باتیں کوئی  اور  مکان دیکھا؟

نفیس     :مکان کے لیے بہت کوشش کی لیکن کوئی ہو تو بات بنے۔ یہ غریب ہونا بھی تو ایک لعنت ہے ورنہ ایسے ہی دو کمرے پینتیس روپیہ میں ملتے تھے۔

عذرا      :پینتیس توہم کسی صورت نہیں دے سکتے۔ ۔ ۔ کھانا؟

نفیس     :تمہارا خیال ہے میں ابھی تک بھوکا ہوں گا۔ دفتر کی ٹی شاپ سے بہتر الم غلم  کھا لیا  اور  چائے پی لی۔ اس دفعہ بل بھی بہت بن جائے گا۔ جب کوئی گھبراہٹ ہوتی ہے تومیں کھانے پر زور دیتا ہوں۔

عذرا      : اور  مجھے کھانا پینا سب بھول جاتا ہے (کچھ  یاد کرتے ہوئے) میں نے تو بیس بار کہا ہے پراٹھے ساتھ لے جایا کرو۔

نفیس     :کون مصیبت میں پڑے (چارپائی پر بیٹھتے ہوئے)  اور  پھر دفتر میں لیمو نچوڑ بابو ہے۔

عذرا      :لیموں نچوڑ بابو۔

نفیس     :ہاں، اپنا ایک لیموں کسی کی دال میں نچوڑ کر برابر کا حصہ بن جاتا ہے۔

(دونوں خفیف سی ہنسی ہنستے ہیں۔ )

عذرا      :تو پھر دو باتیں تو ہو نہیں سکتیں کہ بل بھی نہ بنے  اور  بھوک بھی اتر جائے۔

(نفیس اپنا منھ دونوں ہاتھوں میں دے لیتا ہے۔ )

عذرا      :کیوں چپ چاپ بیٹھ گئے ؟

نفیس     :تو اور  کیا شور مچاؤں۔ دیکھو مجھے یوں تنگ نہ کرو عذرا مجھے آرام سے سو جانے دو۔

عذرا      :آئے ہائے۔ ۔ ۔ راستہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں پک جاتی ہیں۔ شادو کے گاہکوں کے ڈر کے مارے دن بھر کواڑ بند کیے پڑی رہتی ہوں  اور   اب۔ ۔ ۔

نفیس     : (چڑ کر) نہ اندر پڑی رہا کرو۔ میں دیکھنے آتا ہوں کیا۔ خوب رنگ رلیاں منایا کرو۔ مجھ سے یہ ناز برداری نہیں ہونے کی۔

عذرا      : (رونکھی ہو کر)تم بھی یوں کہو گے تو زندہ نہ رہوں گی۔

نفیس     : اور  میں کون زندوں میں ہوں۔ مردوں سے بدتر ہوں۔ محلہ والے الگ بدنام کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک شادو گئی  اور  اس کی جگہ دوسری شادو آ گئی۔

عذرا      :محلہ والے جو چاہے کہتے پھریں۔ تمہارے سوا میں کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں۔ اگر تم بھی ایسی باتیں کرنے لگے تو میرا کون ٹھکانا ہے ؟۔ ۔ ۔  اب جو لوگ آتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ میں تھوڑے کسی کو بلانے جاتی ہوں۔

نفیس     :یہی تمہاری بھول ہے کہ تم میرے آگے جواب دہ ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم خودکشی میں حق بجانب ہیں۔ ہم اپنے کو نہیں مار سکتے اگر چہ یہ جسم ہمارا اپنا ہے، اس کے لیے ہم حکومت کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ۔ ۔  اس جسم کے علاوہ ہمارا ایک اخلاقی جسم بھی ہوتا ہے جسے پامال کرنے کے لیے ہم گلی کوچے کے ہر کتے، بلی، بچے بوڑھے کے حضور جواب دہ ہیں۔ ۔ ۔

عذرا      :لیکن ہم نے کون اخلاقی خودکشی کی ہے۔

نفیس     : اور  تم تو کچھ بھی نہیں جانتیں۔ تم نے سنا ہے خلق کی آواز خدا کا نقارہ ہوتی ہے۔ بس وہ نقارہ بج رہا ہے اگر تمہارے کانوں میں اس کی آواز نہیں گونجتی تو تم بہری ہو۔ اس میں تمہارے کانوں کا قصور ہے۔

عذرا      :اس کا یہ مطلب ہوا کہ چار آدمی تمہیں اٹھ کر برا کہنے لگیں تو تم برے ہو گئے ؟۔ ۔ ۔

نفیس     :برا نہیں ہوا لیکن برائی سے آلودہ ضرور ہو گیا۔ میرا ایمان ہے دس آدمی مل کر تمہیں کہیں تمہارے چہرے پر ناک نہیں ہے تو ضرور سمجھ لو خدا نے تمہارا چہرہ بغیر ناک کے بنایا ہے اگر چہ آئینہ اس کے خلاف ہی گواہی دے۔

عذرا      : (زہر خند سے) اچھی بات ہے۔ ۔ ۔  اگر ان دس آدمیوں نے کسی کو پاگل کر دینے کی سازش کی ہو تو۔

نفیس     :نہیں نہیں، تم اسے مذاق میں ٹالنے کی کوشش نہ کرو۔ جس آدمی کو یہ بات کہنے کے لیے دس آدمی اکٹھے ہوں گے اس آدمی میں ضرور کوئی نہ کوئی نقص ہو گا۔ کم از کم وہ اس قابل  ضرور ہو گا اس کا مذاق اڑایا جائے۔ ۔ ۔   اور  جب یہ ہو جائے تو پاگل پنے  اور   ناک کے نہ ہونے میں صرف عقیدے کا فرق ہے نا۔ ۔ ۔ دیکھو تم پھر ہنس رہی ہو۔ ۔ ۔

عذرا      :اچھا اگر تمہیں میرا ہنسنا ناگوار گزرتا ہے تومیں نہیں ہنستی لیکن اس میں میرا کیا قصور ہے  اور  اگر میرا قصور ہے تو تم بھی اس قصور میں برابر کے حصہ دار ہو۔

نفیس     :آہ۔ ۔ ۔

(سرد آہ بھرکر لیٹ جاتا ہے۔ )

عذرا      :دیکھو اب جانے دو۔

نفیس     :نہیں نہیں، میں ہنس نہیں سکتا جب کہ میرا دل رو رہا ہے۔ محلہ والوں نے ہمارے خلاف ایک سازش کر رکھی ہے۔

عذرا      :آج کی سازش ہے وہ۔ دو مہینے ہم کو یہاں ہو گئے۔ ۔ ۔  تب سے یہ باتیں ہو رہی ہیں۔

نفیس     :تمہارے خیال میں تو صرف باتیں ہو رہی ہیں۔

عذرا      : اور  نہیں تو کیا ہو رہا ہے ؟

نفیس     :چہ میگوئیوں کی حدسے گزر کر محلے کے معتبر آدمیوں نے ایک جلسہ کیا ہے جس میں یہ طے پایا ہے کہ ہمیں یہاں سے چلے جانے کا مشورہ دیا جائے۔

عذرا      : (گھبرا کر) سچ۔

نفیس     : اور  تو کیا میں جھوٹ کہہ رہا ہوں۔

عذرا      :نہ جائیں تو وہ کیا کریں گے۔

نفیس     :کوئی ایک طریقہ ہے تنگ کرنے کا۔ وہ کئی طریقوں سے ہمیں پریشان کر سکتے ہیں۔

عذرا      :مثلاً۔

نفیس     :مثلاً۔ ۔ ۔ مثلاً وہ حاکمان شہر سے شکایت کر سکتے ہیں کہ مکان میں در پردہ فحاشی ہوتی ہے جو شادو  کا کوئی گاہک آئے تو وہ پولیس کی معرفت ہمیں پکڑوا سکتے ہیں۔ وہ ہمارا حقہ پانی بند کر سکتے ہیں۔

عذرا      :حقہ پانی کی تومیں پروا نہیں کرتی ہاں دوسری باتیں البتہ۔ ۔ ۔ لیکن تمہیں ان باتوں کے لیے لڑنا چاہئے۔ میں نہیں مان سکتی، قانون ایسا ہی موم کی ناک ہے کہ ان کی مرضی کے مطابق۔ ۔ ۔

نفیس     :دماغ میرا بھی ان باتوں کو نہیں قبول کرتا۔ لیکن جب ٹھنڈے دل سے غور کرتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ اگر دفتر والوں تک بھی یہاں کی باتیں پہنچ گئیں تومیں منھ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔ ۔ ۔  کتنے آدمی ہوں گے جو سمجھیں گے کہ یہ شریف انسان ہے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہو گی جو یہی سمجھیں گے کہ اپنی بیوی۔ ۔ ۔

عذرا      :بس چپ رہو۔ ۔ ۔ کسی طرح یہاں سے نکل جاؤ خواہ ہمیں کسی چھپر کھٹ کے نیچے ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔

نفیس     :ہاں میں چلا جاؤں گا۔ میں اپنی عزت کے لیے لڑوں گا نہیں، شور نہیں مچاؤں گا۔ میں شریف انسان ہوں۔ تم جانتی ہو جب ہم نئے نئے اس مکان میں آئے تھے تو اس روز ایک طالب علم۔ ۔ ۔ کیا نام ؟۔ ۔ ۔ نام یاد نہیں رہا۔ بہرحال ایک طالب علم شادو سے ملنے آیا تھا  اور  اس نے کہا تھا کہ شریف آدمی اپنی بیٹی کی بے حرمتی دیکھ کر بھی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے۔ ۔ ۔ بس اس کے الفاظ میں آدمی کی جگہ خاوند  اور  بیٹی کی جگہ بیوی کر لو۔ ۔ ۔

عذرا      :شرابی چھوکرے کی باتوں پر جاتے ہو؟

نفیس     :باتیں بڑے کام کی کرتا تھا وہ شرابی چھوکرا۔

عذرا      :اپنی عزت بچانے میں دامن پر جو داغ لگ جاتے ہیں وہ مبارک ہیں۔ ۔ ۔  تم زیادہ پرواہ نہ کیا کرو۔ آؤ میں تمہیں کچھ سنا دوں جی بہل جائے گا ذرا۔ ۔ ۔

نفیس     :گویا پڑوسیوں کو اس بات کا ثبوت دیں کہ یہاں یہی دھندہ ہوتا ہے۔

عذرا      :آئے ہائے۔  اور  تو کیا بالکل گھٹ کے مر جائیں۔

(طنبورہ لے آتی ہے  اور  اسے چھیڑتی ہے۔ )

نفیس     :عذرا تم نہیں سوچتیں ہم یہاں پردیسی ہیں۔ کل کلاں کو کوئی بات ہوئی تو ہماری حمایت میں یہاں ایک آدمی بھی کھڑا نہ ہو گا۔

عذرا      :کوئی نہ ہو۔ ۔ ۔ خدا ہمارے ساتھ ہے۔

نفیس     :خدا بہت دور کی بات۔ ۔ ۔ عذرا ٹھیرو۔ ۔ ۔ یہ آواز کدھر سے آ رہی ہے ؟

(کھڑکی سے باہر دو آدمی بات کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی شکلیں بھی دھندلی دھندلی نظر آتی ہیں۔ )

بنواری    :دیکھ لو میں نہ کہتا تھا صاف آواز آ رہی ہے۔ ۔ ۔ اندر کوئی آدمی بھی ہے۔

مرزا شوکت        :ہاں،  اور  کوئی ساز معلوم ہوتا ہے، ستار کے موافق۔

بنواری    :میں نہ کہتا تھا ان کا یہاں ہونا ہماری بہو بیٹیوں کے لیے بہت خراب ہے مشکل سے شادو کو یہاں سے نکالا تھا۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔ تواب کیا ارادہ ہے ؟

مرزا شوکت        :میرے خیال میں اندر چل دو۔ ۔ ۔ جو روکا تو محلے کے نام پر شور مچا دیں گے  اور  جو نہ روکا تو ہمارا کام بنا بنایا ہے۔ ۔ ۔  عورت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ تم نے اس دن اسے لفافہ خریدتے ہوئے دیکھا تھا۔

(مل کر ہنستے ہیں۔ )

مرزا شوکت        :اب کرو ذرا ہمت۔ ۔ ۔

(نفیس یہ سن کر کھڑکی کی طرف آتا ہے۔ )

نفیس     :خبردار کسی نے کھڑکی پر آنے کی کوشش کی۔ یہاں اب نہ شادو رہتی ہے  اور   نہ کوئی ایسی عورت۔

بنواری    : (آہستہ سے)صاحب ہمیں شادو سے کوئی خاص وہ نہیں ہے۔

مرزا شوکت        :ہم تو دو گھڑی۔ ۔ ۔

نفیس     :میں کہتا ہوں کہ یہاں سے بھاگ جاؤ۔ ۔ ۔  اب شادو کی جگہ یہاں گرہستی رہتے ہیں  اور  ان کے متعلق آپ کا اندازہ سراسر غلط ہے۔

بنواری    :اماں چلو یار۔ ۔ ۔  چل دو۔ ۔ ۔  جانے کی کیا مصیبت ہے۔

مرزا شوکت        :یوں ہی چل دیں ؟اس محلے میں چراغ تلے اندھیرا ہم نہیں دیکھ سکتے۔ بلکہ ہم کل امام صاحب کو بھی ساتھ لے لیں گے، پھر دیکھیں گے لوگ کس طرح محلے میں بدکاری کر سکتے ہیں۔ (کچھ سوچ کر) لیکن یار تم یونہی ڈر گئے۔ جتنا یہ آدمی، اچھل اچھل کر آتا ہے مجھے اتنا ہی دال میں کالا معلوم ہوتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا ڈھنگ ہوتا ہے  اور  میری بات سنو۔

(کانوں میں کچھ کہتا ہے جو نفیس  اور  عذرا کو سنائی نہیں دیتا۔ )

نفیس     :بے ہودہ لوگ ہیں، کب تک ان کی باتیں سنے جائے آدمی؟

عذرا      :میں کہتی ہوں سن کر بھی کچھ نہیں سننا چاہئے۔ کسی کا منھ تھوڑے ہی باندھا جاتا ہے۔ چپکے سے سو جاؤ۔

نفیس     :ہاں سو جاؤ۔

(آہستہ آہستہ دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ )

لیکن یہ ہولے ہولے زنجیر ہلا رہا ہے کوئی

عذرا      :وہی لوگ ہوں گے۔ ۔ ۔   اور  ہوا کریں۔

نفیس     :ہاں سو جاؤ۔

عذرا      :لیکن مجھے نیند نہیں آتی۔

نفیس     :تمہیں فکر کس بات کی ہے ؟گہنا پاترا اپنے پاس نہیں ہے۔ کواڑ بند ہی ہیں کھپ کھپا کر چلے جائیں گے۔

عذرا      :خود مریں کھپیں۔ ہمیں ناحق پریشان کرتے ہیں۔ ۔ ۔ جب تک چلے نہ جائیں مجھے تو نیند آنے کی نہیں۔

نفیس     :جو تمہارا مطلب ہے کہ فساد بپا کیا جائے تومیں اس کے حق میں نہیں ہوں۔ ۔ ۔ البتہ اسرار کرو گی توسر پھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ ۔ ۔

(اٹھنا چاہتا ہے۔ )

عذرا      :نہیں نہیں۔ پڑے رہئے چپکے سے۔ میں تو یونہی کہہ رہی تھی کہ مجھے نیند نہیں آتی۔ آپ تو سارا دن دفتر میں کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ آپ سو جائیں۔ ۔ ۔ (کچھ دیر بعد ڈر کر) میں کہتی ہوں جی۔ کواڑ ہل رہے ہیں جیسے کھل گئے ہیں۔

نفیس     :ہیں۔ ۔ ۔ سنو!قدموں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ گویا کوئی ڈیوڑھی میں کھڑا ہے، یا۔ ۔ ۔ اندر چلا آ رہا ہے۔ (بلند آواز)۔ ۔ ۔ کون ہے ؟

مرزا شوکت        :ہم ہی ہیں صاحب۔ ۔ ۔  آپ کے محلہ دار بنواری لال  اور  مرزا شوکت۔ ۔ ۔

نفیس     :آپ کیسے اندر چلے آئے۔ ۔ ۔ ؟آپ کو یہاں آنے کی اجازت کس نے دی؟۔ ۔ ۔

بنواری لال          : (گھبرا کے) ہم کیسے اندر چلے آئے ؟۔ ۔ ۔ ہم یونہی اندر چلے آئے۔

(کھسیانی ہنسی ہنستا ہے۔ )

مرزا شوکت        :ہم آپ کے پڑوسی ہیں، ہمیں امام صاحب نے بھیجا ہے۔

نفیس     :لیکن یہ کون سا وقت ہے یہاں آنے کا؟۔ ۔ ۔  اور  میرے خیال میں دروازہ بند تھا جس کا مطلب ہے آپ دروازہ توڑ کر داخل ہوئے ہیں۔

(عذرا سہمی ہوئی نظر آتی ہے۔ )

بنواری    :ہم نے دروازہ توڑا نہیں۔ ۔ ۔  بس دھکیلا تھا کہ وہ باہر آ گیا۔ بات یہ ہے کہ پرانے کواڑ ہیں۔ ۔ ۔

نفیس     :آپ محلے دار ہوتے تو ہر گز ایسا نہ کرتے۔ آپ یقیناً چور ہیں۔ ۔ ۔   اور   مداخلت بے جا کر رہے ہیں۔ آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس وقت کسی شریف آدمی کے مکان پر اجازت کے بغیر چلے آئیں۔ میں نے کھڑکی سے آپ کی گفتگو سن لی تھی۔ ۔ ۔ میں ایک سرکاری ملازم ہوں  اور   اپنی بیوی کے ساتھ یہاں رہ رہا ہوں۔ ۔ ۔ میری بیوی ایک گرہستن ہے کوئی بھگائی ہوئی عورت نہیں، داشتہ نہیں۔ (قریب پڑی ہوئی لاٹھی اٹھا لیتا ہے۔ ) یہاں سے فوراً چلے جائیے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔

بنواری    :دیکھئے صاحب، ہم یوں چلے جائیں گے، لیکن ہم آپ کی دھمکی سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔

مرزا شوکت        :بابو صاحب۔ ۔ ۔ ہم سب معاملہ سمجھتے ہیں (ذرا درشت لہجے میں) آپ نے بہو بیٹیوں والے محلے میں یہ اڈا بنا رکھا ہے۔ محلے والے سب آپ کو جانتے ہیں۔ آپ ایسا ہر آدمی یوں اپنے آپ کو گرہستی ہی کہتا ہے۔

عذرا      : (گھبرائے ہوئے) اللہ مارو۔ اللہ کے قہر سے ڈرو۔ ہم گرہستی لوگ ہیں ہمیں یوں تو نہ بدنام کرو۔ ۔ ۔  تم لوگوں کے بھی کوئی ماں ہو گی، بہن ہو گی۔ اندازہ کرو اگر کوئی۔ ۔ ۔

مرزا شوکت        :اجی ہم خوب سمجھتے ہیں یہ باتیں۔

بنواری    :ہم یہاں تھوڑی دیر بیٹھنے کے لئے آئے تھے  اور  ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہ تھی۔

نفیس     :میں کہتا ہوں چلے جاؤ یہاں سے نکل جاؤ ورنہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔

عذرا      : (نفیس کو روکتے ہوئے) خدا کے لیے۔ ۔ ۔ پروردگار لیے۔

بنواری  اور  مرزا شوکت:   پہلے یہ لاٹھی رکھ دیجئے پھر ہم سے بات کیجئے۔

(دروازے سے پولیس انسپکٹر مائیکل  اور  ایک کانسٹبل داخل ہوتے ہیں۔ )

سب انسپکٹر مائیکل:   ٹھہر جاؤ، رک جاؤ تم سب لوگ حراست میں ہو۔

نفیس     : (لاٹھی چھوڑ کر)مدد۔ ۔ ۔ مدد۔ میں کہیں کا نہ رہا انسپکٹر صاحب۔ (تقریباً روتے ہوئے۔ ) میں منھ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ مجھے  اور   میری بیوی کو حراست میں لے لیجئے ہم دونوں آپ کی حراست میں اس آزادی سے اچھے رہیں گے۔

عذرا      :میں آپ کے پاؤں پڑتی ہوں انسپکٹر صاحب(جھکتی ہے) ہمیں اس مصیبت سے بچائیے۔ ہم بے گناہ ہیں۔

سب انسپکٹر مائیکل: دیکھئے خاموش رہئے۔ میرے پاؤں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

کانسٹبل   :یہ سب عیاری ہے انسپکٹر صاحب، ا ن سے پوچھئے کہ یہ کون آدمی ہیں۔

سب انسپکٹر مائیکل:پوچھنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو صاف ظاہر ہے آج تک میں نے کسی مجرم۔

نفیس     : (وحشیانہ انداز میں) کون مجرم انسپکٹر صاحب میں مجرم ہوں  اور   میری بیوی۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل:نفیس صاحب آپ ہی ہیں۔

مرزا شوکت        :جی ہاں، یہ انہی کی نفاست ہے۔

سب انسپکٹر مائیکل:آپ چپ رہئے۔

نفیس     :نفیس میرا ہی نام ہے۔ ۔ ۔ لیکن میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی رو سے میں مجرم گردانا جاؤں۔ یوں جیسا کہ میں نے غرض کیا آپ کی قید میں آنے کے لیے تیار ہوں۔

بنواری    :جھگڑے کی نوبت یہی ہے جناب کہ بہو بیٹیوں کے اس محلے میں۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل:بکو مت!ان لوگوں کو میں تم سے زیادہ سمجھتا ہوں۔ یہ درست ہے ان لوگوں نے اس مکان کو فحاشی کا اڈہ بنا رکھا ہے۔ لیکن آپ اس وقت یہاں کیسے تشریف لائے ؟کیا آپ دن کے وقت ان لوگوں کو اخلاق کا سبق نہیں پڑھا سکتے تھے ؟

نفیس     :فحاشی کا اڈہ۔ ۔ ۔  یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟

مرزا شوکت        :دن کے وقت؟۔ ۔ ۔ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ہم لوگ دن بھر اپنے کام دھندے میں مشغول رہتے ہیں۔

کانسٹبل   :دن کے وقت محلے دار انھیں کس طرح پکڑ سکتے ہیں ؟

سب انسپکٹر مائیکل:اگر اس کمرے میں محلہ داروں کے علاوہ کوئی  اور  شخص ہوتا جس کی بابت ان لوگوں کو تفصیلات نہ پتہ ہوتیں تو یہ لوگ مجرم لیکن اب یہ محلے دار بغیر کسی بین ثبوت کے اندر چلے آئے ہیں  اور  مداخلت بے جا کے مرتکب ہوئے ہیں۔

نفیس     :جناب والا! میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

عذرا      :ہائے میرے اللہ۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل: (نفیس  اور  عذرا سے) میں آپ سے بات کرتا ہوں (بنواری لال سے)آپ کا نام کیا ہے ؟

بنواری لال          : (ادھر ادھر دیکھ کر) میرا نام ہے لیکن میں تو۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل:میں آپ کو نگلے نہیں جا رہا ہوں۔ ۔ ۔  میں صرف نام پوچھ رہا ہوں، اتنا گھبرائیے مت۔

بنواری لال          :میرا نام ب۔ ۔ ۔ بنواری لعل ہے۔

سب انسپکٹر مائیکل: (مرزا شوکت سے) آپ کا اسم گرامی؟

مرزا شوکت        :لیکن انسپکٹر صاحب ہمارا گناہ کیا ہے ؟طوائف کے دروازے تو خلق خدا کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ ہم جو اندر چلے آئے تو کیا جرم کیا۔ ۔ ۔ ؟

سب انسپکٹر مائیکل:خوب!۔ ۔ ۔ یہ خلق خدا کے الفاظ کا بھی خوب استعمال ہوا ہے۔ لیکن صاحب آپ تو محلے  دار کی حیثیت سے تشریف لائے تھے تا کہ یہ اڈا اٹھوا کر محلے کے لوگوں کی بہو بیٹیوں کی آبرو بچائی ہے۔

مرزا شوکت        : (گھبرا کر)نہیں میرا مطلب ہے۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل:آپ اپنا نام بتائیے ؟

بنواری لعل         : (ڈرتے ہوئے) مرزا شوکت ہے۔

(مرزا شوکت غصہ سے بنواری لال کی طرف دیکھتا ہے۔ )

مرزا شوکت        :لکھ لیجئے۔ میں کوئی ڈرتا تھوڑی ہوں۔ ہمیں امام صاحب نے بھیجا ہے تا کہ اس کی تحقیق کی جائے۔

سب انسپکٹر مائیکل:چلئے اس بات کی بھی تصدیق ہو جاتی ہے (کانسٹبل سے) سردار حسین انھیں باہر لے جاؤتا کہ دوسرے محلہ داروں کے ساتھ ان کی بھی گواہیاں پیش کی جائیں۔

مرزا شوکت        :لیکن ایک بات کاخ یال رکھئے۔ ہم با عزت شہری ہیں  اور ۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل:جی ہاں میں جانتا ہوں آپ تشریف لے جائیے۔

(کانسٹبل مرزا شوکت  اور  بنواری لال کو باہر لے جاتا ہے۔ )

(نفیس سے)۔ ۔ ۔ نفیس صاحب آپ کے آبائی گھر اور  دفتر کا پتہ میرے پاس ہے۔ آپ پہلے جس جیوری ڈکشن میں رہتے تھے، وہاں تفتیش کی جا چکی ہے اس جگہ آپ کب سے رہ رہے ہیں۔

نفیس     :عرصہ دو ماہ سے۔

سب انسپکٹر           :نہیں آپ کو غالباً یہاں آئے دو ماہ  اور  چودہ دن ہوئے ہیں۔

عذرا      :جی ہاں بس اتنے ہی دن ہوئے ہیں۔

سب انسپکٹر مائیکل: (نفیس سے) جب آپ یہاں آئے تھے تو آپ کو پتہ نہیں تھا کہ اس مکان میں شمشاد بائی طوائف رہتی تھی؟

نفیس     :نہیں صاحب میں بنا جانے بوجھے اسباب اٹھوا کر ادھر چلا آیا تب سے ہر روز یہی قصہ ہوتا ہے۔ کوئی نہ کوئی ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتا ہی رہتا ہے  اور   محلے والوں کو ہم پر شک کرنے کا موقع دیتا ہے  اور  یہ چپقلش جاری ہے۔

سب انسپکٹر مائیکل:چپقلش سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟

نفیس     :یہی۔ ۔ ۔  نیا مکان تلاش کرنے  اور  نہ ملنے کی مرزا شوکت  اور  بنواری ایسے لوگوں کے ساتھ جھگڑنے کی۔ آج تک میں یہی سمجھتا آیا تھا کہ ہمیں اپنے ہی گنا ہوں کا حساب دینا ہوتا ہے لیکن نقل مکانی کے اس تجربے بے ثبات کر دیا کہ انسان اپنے بچوں، اپنے ماں باپ، اپنے بھائی بہن، بیوی کے کردار کا بھی ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ اپنے پڑوسیوں کے قول و فعل کے لیے بھی گردن زدنی ہے۔

عذرا      :تمام دن ہمارا دروازہ بند رہتا ہے۔ ۔ ۔ ہم ڈر کے مارے کواڑ کھولتے ہی نہیں، آپ کواڑ دیکھ کر پتہ کر لیجئے کہ یہ لوگ دروازہ اکھاڑ کر اندر آئے ہیں یا نہیں۔ ۔ ۔  اور  ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ۔ ۔  جتنا ہم زیادہ بولتے ہیں اتنا ہی گناہگار معلوم ہوتے ہیں۔ ۔ ۔  اگر آپ بھی ہمیں قصوروار سمجھتے ہیں تو جو سلوک آپ چاہیں کریں۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل:آج کا واقعہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ۔ ۔  میں سب معاملہ کی جانچ پڑتال کر چکا ہوں۔ آپ بے حد شریف ہیں  اور  یہی آپ کا جرم ہے۔ ۔ ۔ (نفیس سے)کل آپ تھانے میں تشریف لائیے نفیس صاحب  اور   نیک چلنی کی ضمانت داخل کیجئے۔ ۔ ۔

نفیس     :نیک چلنی کی ضمانت؟

عذرا      :نیک چلنی کی ضمانت؟۔ ۔ ۔ (روکر) میرے اللہ۔

نفیس     :انسپکٹر صاحب!۔ ۔ ۔ مجھے بد چلن ہی سمجھ لیجئے لیکن میں نیک چلنی کی ضمانت نہیں داخل کر سکوں گا۔ اس سے پہلے رشتہ داروں میں یہ بات نہیں پھیلی پھر ان میں بھی پھیل جائے گی۔ آپ مجھے گرفتار کیوں نہیں کر لیتے ؟میں حاضر ہوں (دونوں ہاتھ بڑھا دیتا ہے) میرے پاس کوئی ضامن نہیں۔ اس محلہ میں میرا کوئی واقف نہیں۔ کوئی ہمدرد نہیں۔

(عذرا بدستور رو رہی ہے۔ )

سب انسپکٹر مائیکل:آپ سمجھتے نہیں ہیں۔ ۔ ۔ صرف ایک کاغذی کاروائی مکمل کرنی ہے اگر کوئی ضامن نہ ملا تو میں آپ کو مہیا کر دوں گا۔ ۔ ۔ آپ محلے والوں سے ڈریں نہیں۔ ۔ ۔ میں آپ کی پوزیشن کو خوب سمجھتا ہوں مجھے آج سے اپنا ہی سمجھئے۔

نفیس     :یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں انسپکٹر صاحب ہم آپ کے قابل نہیں ہیں۔ ۔ ۔  آپ نہیں جانتے ہم آپ کے کتنے ممنون ہیں۔

سب انسپکٹر مائیکل:آپ خوف نہ کھائیے میں ہر طرح سے آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔ ۔ ۔ (عذرا سے)میری بیوی بھی آپ کی طرح گانے بجانے کا شوق رکھتی ہے۔ (نفیس سے)کیا آپ دونوں پیر کے روز میرے ساتھ چائے پی سکتے ہیں ؟

عذرا      :ہم آپ کے بہت شکر گزا رہیں۔ آپ ان محلے والوں سے ہماری خلاصی کرا دیجئے۔ آپ کو بڑا ثواب ہو گا۔ ۔ ۔ مجھے خود آپ کی بیگم صاحبہ سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہو گیا ہے، آپ جب چاہیں گے ہم آپ کے گھر پہنچ جائیں گے۔

سب انسپکٹر مائیکل: (قدرے گھبرا کر) چائے گھر پر ممکن نہ ہو سکے گی۔ ۔ ۔  دیکھئے نا ذرا میری بیوی بیمار رہتی ہیں۔ چائے باہر پی سکیں گے کہیں۔ ۔ ۔  پھر سیر تماشا ہو جائے گا، بہرحال میں عرض کروں گا، کل آپ تھانے تشریف لا رہے ہیں ؟میں چلتا ہوں۔ خدا حافظ!

(جاتا ہے۔ )

نفیس     :جی ہاں کل صبح ضرور حاضر ہو جاؤں گا۔ ۔ ۔  خدا حافظ!

(وقفہ)

نیک چلنی کی ضمانت۔ ۔ ۔ چائے کی دعوت۔ ۔ ۔  کہیں اس سے بڑا گڑھا تو نہیں کھودا جا رہا ہے ؟

عذرا      :میں کیا جانوں۔ ۔ ۔ ہائے میرے اللہ!

پردہ

تیسرا منظر

(وہی کمرہ جو پہلے منظر میں نظر آتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب سب چیزیں قرینے سے رکھی ہیں۔ کونے میں طنبورا پڑا ہے۔ تپائی پر ایک نفیس پاندان رکھا ہے جس کے قریب گھنگرو پڑے ہیں۔ عذرا اس وقت کچھ کپڑے صندوق میں ڈال رہی ہے۔ کپڑے ڈالنے کے بعد وہ صندوق کو چارپائی کے نیچے ڈھکیل دیتی ہے تا کہ جگہ  اور   کشادہ ہو جائے نفیس ایک کھڑکی کے پاس بیٹھا ہے۔ کبھی کبھی بازار میں جھانک لیتا ہے۔ گویا کسی کے آنے کا منتظر ہے۔ )

عذرا      :اب بالکل سر پر آ گئی تمہاری بھانجی کی شادی۔ ۔ ۔

نفیس     :ارے ہاں۔ ۔ ۔ میں تو بالکل غافل ہی تھا۔ ۔ ۔ کب بیاہی جا رہی ہے نصیرہ؟

عذرا      :ہفتہ  اور  ہفتہ، آٹھ  اور  آٹھ  اور  آٹھ  اور  سولہ  اور  تین دن اوپر۔ ۔ ۔  آج سے بیسویں روز شادی ہے بلاوے پر بلاوا آ رہا ہے  اور  تمہیں کوئی خبر نہیں ہے۔

نفیس     :تم نے یہ جتا کر مجھے پھر فکر میں مبتلا کر دیا۔

عذرا      :تین سے کم جوڑے دو گے تو عزت نہیں رہے گی  اور  ایک سوٹ دولہا کے لئے کہیں گے دس بر سے ماموں کما رہا ہے  اور  اتنا بھی نہ ہوا جو بھانجی کو جوشن ہی بنوا  دیتا۔

نفیس     :دو جوڑے۔ ایک سوٹ  اور  پھر ایک جوشن۔ ۔ ۔  یہ کیا بات کر رہی ہو تم۔ ہم مسلمانوں میں۔ ۔ ۔

عذرا      :میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ ہم ٹھیک مسلمان ہیں۔ لیکن راجپوت ہونے کی وجہ ے ہماری تمام رسمیں تو ہندوانہ ہیں نا۔

نفیس     :میں کوشش کر رہا ہوں عذرا، لیکن دیکھنے والے اندھے ہیں کیا؟ تمہارے اپنے پہننے کو کپڑا نہیں ہے، اوپر سے سردیاں منھ پھاڑے آ رہی ہیں۔ مجھ سے جوہو گا وہ بنوا دوں گا۔

عذرا      :یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس سے کم میں عزت نہ رہے گی۔ کہے دیتی ہوں۔ آپا کہے گی۔ ۔ ۔ بھانجی کا بیاہ کب روز روز ہو گا۔ ۔ ۔  اس سلسلے میں تو ہمیں تھوڑے بہت ادھار سے بھی نہیں ڈرنا چاہئے۔ ۔ ۔  بہت نہیں تو گزارے موافق ہی سہی۔

(وقفہ)

نفیس     :دیکھو میں کچھ انتظام کرتا ہوں۔ ۔ ۔  دراصل میں تمہارے متعلق ایک عرصے سے سوچ رہا تھا۔

عذرا      :میرے متعلق مت سوچو۔ میرا تو گزارہ ہوہی رہا ہے۔ ۔ ۔  میں کہتی ہوں تم بھی بھلا دفتر کے دوسرے لوگوں کی طرح کیوں نہیں ہو جاتے ؟۔ ۔ ۔  اس تنخواہ میں گزارہ تو ہونے سے رہا۔ کبھی کبھار پیسے لے لینے سے کیا ہو جاتا ہے۔ یہ غریبی بھی تو سو گنا ہوں ایک گناہ ہے۔

نفیس     :رشوت کے نام پر جسے اسرافیل کا صور سنائی دینے لگے وہ کیا کرے ؟ مر کر ہمیں خدا کو جواب دینا ہے۔

عذرا      :تمہارا کیا خیال ہے باقی خدائی تمہاری طرح ہی ہے ؟وہ لوگ آخر کیا جواب دیں گے۔ جو جواب وہ دیں گے وہ تم بھی دے لینا۔ پھر تم اسے اپنی عادت نہ بناؤ ہو ایک آدھ بار کسی سے کچھ لے لیا۔ جب کام نکل گیا پھر منھ نہ لگایا کسی کو۔

نفیس     :ہاں عذرا میں تم سے پہلے اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا بلکہ ٹھیکیدار عرفانی کا گانٹھ لیا تھا اس نے یہاں چھ بجے آنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اس وقت ساڑھے چھ بجے ہیں  اور  اس کی شکل تک نظر نہیں آتی۔

عذرا      : (قدرے آسائش کے ساتھ) کتنے پیسوں کی امید ہے۔

نفیس     :یہی سات آٹھ سوکی ارے ایک پل کا ٹھیکہ توہے کہیں بڑے صاحب سے براہ راست نہ لے لے میں نے پہلے نہیں بتایا کہ تم مجھے برا بھلا نہ کہو، بلکہ مجھے یہ فکر دامن گیر تھی کہ تمام بات کھل جانے پر میں کیا منھ دکھاؤں گا۔ ۔ ۔ کچھ تمہیں حیران کر دینے کا ارادہ بھی تھا۔ ۔ ۔  اب تم خود ہی اس کی تعریف کر رہی ہو۔

عذرا      : (کھڑکی کی طرف جاتے ہوئے) کس قسم کا آدمی ہے ؟ٹھہرو میں دیکھتی ہوں۔

نفیس     :یہی دبلا پتلا سا آدمی ہے۔ ۔ ۔  لوکی سر پر ایک ڈھیلی ڈھالی ڈگمگاتی ہوئی ہیٹ پہنتا ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ پائجامہ کے ساتھ ہیٹ۔

عذرا      : (کھڑکی سے جھانکتے ہوئے) ابھی تک تو دور گلی سے اس سرے پربھی کوئی نظر نہیں آ رہا ہے۔

نفیس     : (سوچتے ہوئے) عذرا تمہاری اس تائید کے بدلے ایک قسم کی تسکین ضرور ہو گئی ہے لیکن مجھے ایک طرح کا رنج بھی ہوا ہے۔

عذرا      : (ہنستے ہوئے) نفیس تم ساری زندگی اس قدر شریف رہے، مجھے بتاؤ تمہیں اس سے کیا حاصل ہوا۔ یہاں محلے میں جوہ ماری بدنامی ہوئی ہے  اور  اب تک رسوائی ہے اس کے لیے ہماری شرافت ہی تو ذمہ دار ہے۔ ۔ ۔  ابھی کل ہی امام باڑے کی ایک عورت سے میری لڑائی ہوئی اس نے جو کچھ کہا۔ ۔ ۔ الٰہی پناہ!اللہ دے  اور  بندہ لے۔ لیکن اب تو یہ باتیں دل پر اثر ہی نہیں کرتیں۔ ۔ ۔  (پان لگاتے ہوئے) یہاں آ کر ہمیں بھی پان کھانے کی عادت ہو گئی ہے۔

نفیس     : (پان لیتے ہوئے) تم نے تو مجھے بتایا ہی نہیں عذرا۔

عذرا      :کیا نہیں بتایا؟

نفیس     :یہی لڑائی کے متعلق۔

عذرا      :تم دفتر سے تھکے ماندے آتے ہو۔ میں نہیں چاہتی کہ تمہیں اس قسم کی باتیں سنا کر پریشان کیا کروں اور وہ عورت خود محلے بھرمیں مشہور ہے پہلے پہل لوگوں نے اس کے متعلق واویلا کیا لیکن جب اس نے سب کی ماں بہن کو دھر لیا تو سب چپ ہو گئے۔ اب اس سے کوئی الف سے ب تک نہیں کہتا۔ ۔ ۔

نفیس     :یہ ہم ہی ہیں جنھوں نے سب کچھ شرافت سے سن لیا۔ ۔ ۔   اور  اس لیے انھیں ہمارے منھ آنے کا موقع مل گیا۔

عذرا      : (کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے) ٹھہرو گلی میں کوئی آ رہا ہے۔ ۔ ۔  ٹھیکیدار عرفانی۔ ۔ ۔ میں دیکھتا ہوں۔ ۔ ۔ (کھڑکی کی طرف جاتا ہے۔ ) اوں ہوں۔ یہ تو کوئی کبوتر باز ہے۔ دونوں ہاتھوں میں کبوتر تھامے  اور   گامے شاہی جوتا پہنے جا رہا ہے۔ حمیدو کا پٹھا ہے۔ حمیدو پہلوان کا۔ ۔ ۔  (وقفہ) اب تو کافی دیر ہو گئی۔ عرفانی نے کہا تھا جو میں چھ بجے تک پہنچ گیا تو بہتر ورنہ نہیں آؤں گا(مایوسی سے) شاید بڑے صاحب کومل گیا ہو۔

(مایوسی سے) ہاں شاید بڑے صاحب سے مل گیا ہو گا۔ پیسہ ہماری قسمت میں نہیں ہے۔

نفیس     :تواب کیا ہو گا؟۔ ۔ ۔ نصیرہ کی شادی پر۔ ۔ ۔

عذرا      : (منھ لمبا کرتے ہوئے) تو گویا اب وہ نہیں آئے گا؟

نفیس     :معلوم تو یہی ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اچھا اگر کل دفتر میں وہ مجھ سے ملنے آیا تو میں ٹھیکے سے انکار کر دوں گا۔ صاف کہہ دوں گا میں نے ٹھیکہ وکرم سنگھ کو دے دیا ہے۔

عذرا      :یہ وکرم سنگھ کون ہے ؟

نفیس     :یہ دوسرا ٹھیکیدار ہے۔

عذرا      :وہ کچھ نہیں دے گا؟

نفیس     :اگر عرفانی نے کچھ نہ دیا تو پھر میں وکرم سنگھ سے کچھ نہیں لوں گا میں ہر ایک آدمی کو نہیں گانٹھ سکتا۔ اس سے میری نوکری خطرے میں پڑ جاتی ہے  اور  خود بھی میں۔ ۔ ۔

عذرا      :ہاں یہ درست ہے۔

نفیس     :اچھا وہ کون تھی امام باڑے والی عورت؟

عذرا      :اجی وہی قاضی صاحب کی دوسری بیوی تھی۔ گز بھرکی لمبی زبان والی خود گھر گھر جھانکتی پھرے  اور  میرے منھ آئے۔ ۔ ۔  میں کیا پرواہ کرتی ہوں۔

نفیس     :تم نے کچھ سنا دی ہوتیں۔

عذرا      : اور  تو کیا میں کم کرتی ہوں۔ ۔ ۔  اب نہیں میں ڈرتی کسی سے۔

(دروازے پر دستک سنائی دیتی ہے۔ )

لو تمہارے عرفانی آ گئے۔ ٹھہرو کھڑکی سے دیکھتی ہوں۔

نفیس     :نہیں نہیں میں جاتا ہوں۔ ۔ ۔

(جاتا ہے۔ )

عذرا      :یہ تمہارا عرفانی نہیں ہے۔ ۔ ۔ یہ تو کوئی  اور  ہی ہے موٹا سا آدمی سیاہ چشمہ لگائے ہوئے۔

نفیس     : (دروازے میں رک کر) ہیں !۔ ۔ ۔ ٹھہرو میں خود دیکھتا ہوں۔ ۔ ۔

(جاتا ہے۔ )

عذرا      :جانے یہ کون بلا آ گئی پھر۔ ۔ ۔  ہاں شاید عرفانی نے اپنا کارندہ بھیجا ہو۔ لیکن شکل سے تو کارندہ نہیں دکھائی دیتا۔ ۔ ۔  اوہ یہ چادر کس میلی ہے ؟

(اٹھ کر کمرے کو درست کرنے لگتی ہے۔ جلدی جلدی ایک صاف چادر بچھا  دیتی ہے۔ کچھ دیر بعد نفیس گھبرایا سا داخل ہوتا ہے۔ )

نفیس     :ارے بھئی یہ کوئی  اور  ہی صاحب ہیں۔ سیٹھ شیوبرت نام ہے۔

عذرا      :عرفانی کے کارندے نہیں ؟

نفیس     :نہیں۔ ۔ ۔ کہتے ہیں کہیں ایک برس بعد آتا ہوں۔

عذرا      :اس شہر میں ؟

نفیس     :ہاں۔ ۔ ۔  اور  شادو کے یہاں۔

عذرا      :تو آپ نے انھیں بتا دیا ہوتا۔ ۔ ۔

نفیس     : (وقفہ)۔ ۔ ۔ (کچھ مجرمانہ انداز میں) میں کہتا ہوں۔ ۔ ۔

عذرا      :کہو۔ ۔ ۔

نفیس     :ادھر لے آؤں۔ ۔ ۔ دوسرے کمرے میں بٹھا رکھا ہے انھیں۔

عذرا      :ادھر کس لیے ؟۔ ۔ ۔ خدا کے لیے یہاں سے مکان تبدیل کرو۔ ۔ ۔  پہلے اسے نکال دو۔

نفیس     :اتنا امیر آدمی ہے، میں اسے یوں ہی کیسے نکال دوں۔ ۔ ۔ (ڈرتے ہوئے) سیٹھ کوئی چور تو نہیں ہے۔ اسے کچھ دیر عزت و تکریم سے بٹھاتے ہیں۔ ا س کے بعد خود چلا جائے گا۔

عذرا      :تو بٹھا دو یہاں۔ ۔ ۔ میں دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہوں۔ ۔ ۔  اول تو تمہیں معلوم ہی ہے محلے میں۔ ۔ ۔

نفیس     :تمہیں نے کہا تھا کبھی کبھار رشوت لینے سے کیا ہو جاتا ہے۔ یہ غریبی بھی تو سو گناہوں کا ایک گناہ ہے۔

عذرا      :اچھا تو یہ بھی ٹھیکیدار قسم کا آدمی ہے  اور  اس سے بھی رشوت ممکن ہے۔

نفیس     :نہیں ایسی رشوت نہیں۔

عذرا      : (گھبرا کر)تو پھر کیا ہے ؟

نفیس     :تمہیں نے کہا تھا۔ ’’تم ساری زندگی اس قدر شریف رہے ہو مجھے بتاؤ تمہیں اس سے کیا حاصل ہوا۔ ‘‘محلے میں جو بد نامی ہوئی اس کے لیے ہماری شرافت ہی تو ذمہ دا رہے۔

عذرا      :تو پھر تمہارا مطلب کیا ہے ؟

نفیس     : (ڈرتے ہوئے)میں کہتا ہوں۔ ۔ ۔ ایک گانا سنا دو۔ سیٹھ صرف گانے کا شوقین ہے، سو ایک روپیہ ہو جائے گا گانا گانے میں کیا حرج ہے ؟

عذرا      :یہ تمہیں کیا ہو گیا؟۔ ۔ ۔ لوگ کیا کہیں گے ؟

نفیس     :لوگ پہلے کیا کچھ نہیں کہتے ؟۔ ۔ ۔ پھر ابھی تم کہہ رہی تھیں میں کسی سے نہیں ڈرتی۔ آہستہ سے کچھ سنادینا۔

عذرا      :نہیں، میں کہتی ہوں تم بھی۔

نفیس     :ارے صرف گانا ہی توہے۔ ۔ ۔ دیکھنا پتہ نہ چلے ذرا اچھی طرح پیش آنا (آواز دیتے ہوئے) سیٹھ جی!

(شیوبرت اندر چلے جاتے ہیں۔ )

شوبرت  :آداب عرض کرتا ہوں۔

عذرا      : (سخت گھبراہٹ میں)آداب عرض۔ ۔ ۔ آپ (کچھ سوچ کر تپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ادھر بیٹھ جائیے۔

نفیس     : (پلنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) تشریف رکھئے۔

شیوبرت : (بیٹھتے ہوئے)کہئے مزاج اچھے ہیں ؟۔ ۔ ۔ (بغیر جواب کا انتظار کیے) سال میں ایک بار شمشاد کے یہاں آتا ہوں۔ ۔ ۔ اب کے پتہ چلا اس کی جگہ آپ تشریف رکھتی ہیں۔ ۔ ۔   اور   آپ کے سازندے کہاں ہیں ؟

نفیس     : (مجرمانہ گھبراہٹ کے ساتھ)دراصل ان کی طبیعت اچھی نہ تھی اس لئے سازندوں کو رخصت کر دیا۔ (طنبورہ اٹھا کر عذرا کے ہاتھوں میں تھما دیتا ہے۔ ۔ ۔ عذرا کانپتے ہوئے ہاتھوں سے طنبورہ لے لیتی ہے۔ ) لیکن آپ جب کہ تشریف لے آئے۔ ۔ ۔

عذرا      : (گھبرا کر) میں نہیں گا سکوں گی۔

نفیس     :ذرا وہ سنا دو۔ ۔ ۔ جلد آ جا کہ جی ترستا ہے

(عذرا بڑی کوشش سے طنبورہ چھیڑتی ہے۔ دروازے میں مراتب نمودار ہوتا ہے۔ )

مراتب   : (خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ) پان درکار ہوں گے سرکار کو؟

(پردہ گر جاتا ہے)

***

ماخذ: ’’نئے ڈرامے ‘‘

پروفیسر محمد حسن

انجمن ترقی اردو (ہند)

دہلی

 

 

ڈاکٹر محمد حسن

 

محل سرا

 

افراد      :

نواب صاحب:کسی زمانے میں بڑے جاگیردار تھے۔ عمر تقریباً ۶۸ سال۔ چہرے سے وجاہت ٹپکتی ہے۔ رنگ گورا  اور   نقشہ تیکھا اس عمر میں بھی پوری بتیسی موجود ہے  اور   تندرستی اچھی ہے۔

منظور:نواب صاحب کا بڑا لڑکا جو جائداد کا سارا کاروبار سنبھالتا ہے۔ جاگیر داری ختم ہونے کے بعد فارم وغیرہ کی نگرانی کرتا ہے  اور  مکانات  اور   شہری جائداد کا کرایہ وصول کرتا ہے۔ عمر تقریباً چالیس سال۔ شکل و صورت سے رعب داب ٹپکتا ہے۔ عام طور پر مغربی لباس کا دلدادہ ہے۔

شاہانہ:نواب صاحب کی بڑی بیگم منظور کی ماں۔ بوڑھی ستر سالہ عورت ہے۔ سب بال سفید منھ میں ایک دانت بھی نہیں۔ چھوٹا قد،  تندرستی خراب، پتلا دبلا جسم ہے جب بیٹھتی ہے تو بالکل گٹھری سی لگتی ہے۔ لباس میلا ہی پہنے رہتی ہے۔ چہرے پر مظلومیت کا بڑا اثر چھایا رہتا ہے۔

ریحانہ: منظور کی بہن۔ عمر تیس سے پینتیس سال کے درمیان۔ قبول صورت لڑکی ہے۔ لباس میلا  اور   بے ترتیب۔ قد نکلتا ہوا۔

سلیم:شاہانہ بیگم کا بھانجا۔ مصور ہے  اور  ان دنوں مہمان آیا ہوا ہے۔ عمر تقریباً تیس سال۔ خاصا وجیہہ نوجوان ہے جسم گٹھا ہوا۔ ناک نقشہ تیکھا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک خواب آگیں کیفیت ہر وقت چھائی رہتی ہے۔

خادم:ایک بوڑھا۔ مگر  تنو مند نوکر جو اس گھرانے کا وفادار  اور  قدیمی خدمت گا رہے  اور  جس سے گھر بھر میں کوئی پردہ نہیں کرتا۔

زمانہ:موجودہ

مقام:یو۔پی کا کوئی شہر

اس ڈرامہ کو اسٹیج کرنے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگے گا  اور   مخصوص موسیقی، روشنی  اور  صوتی اثرات کی ضرورت پڑے گی۔

پہلا سین

(پرانے زمانے کے ایک مکان کا وسیع صحن، جس کے ایک طرف دالان کے درد کھائی دے رہے ہیں،  اور  دوسری طرف باورچی خانہ ہے۔ باورچی خانہ کے کواڑ بند ہیں  اور   دالان کے باہر چوکی کی پر جانماز بچھی ہوئی ہے۔ ایک دو پلنگ صحن میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان پر میلی چادریں بچھی ہوئی ہیں۔ ایک پلنگ پر شاہانہ بیگم بیٹھی ہوئی چھالیہ کتر رہی ہیں۔ بہت بوڑھی عورت ہیں۔ اونچی پیشانی  اور  کھلتی ہوئی رنگت سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی خوبصورت رہی ہوں گی۔ )

شاہانہ بیگم           :ریحانہ۔ ۔ ۔ ریحانہ(پھر چھالیہ کترنے لگتی ہیں)ریحانہ۔ ۔ ۔  کہاں ہے بیٹی!

ریحانہ    : (دور سے آواز آتی ہے) آئی امی جان آئی۔

بیگم       :ارے بیٹی منظور آتا ہو گا  اور  چائے ابھی تک تیار نہیں ہوئی۔

(ریحانہ دالان کی طرف سے صحن میں داخل ہوتی ہے۔ میلے کپڑے، بے دھلا سر جس سے کچھ لٹیں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ دوپٹہ آدھے سے سر ہی کو ڈھکے ہوئے۔ ہاتھ میں صرف ایک چوڑی پڑی ہے۔ عمر ڈھلنے لگی ہے،  اور  چال میں وہ ٹھسک پیدا ہو گئی ہے جو جوانی کے اخیر ایام کی نشانی ہے۔ )

ریحانہ    :امی!آج میری آنکھوں میں درد ہے  اور  ابھی دھوپ بھی نہیں اتری۔

بیگم       :نہیں بیٹا منظور اب آتا ہی ہو گا۔ چاہئے تیار نہ ہو گی تو الٹے پاؤں واپس لوٹ جائے گا۔

ریحانہ    :امی آخر میری بھی تو طبیعت خراب ہے۔ میں کیا کروں۔

بیگم       :میری اچھی بیٹی میں اتنے چائے کے برتن لگاتی ہوں تو پانی رکھ دے۔

(ریحانہ باورچی خانہ میں داخل ہوتی ہے۔ کیتلی اٹھاتی ہے۔ برابر کے نل سے پانی بھرنے لگتی ہے۔ اتنے میں دروازے سے منظور داخل ہوتا ہے۔ یہ اس ویران ماحول میں اجنبی سا لگتا ہے۔ اس وقت ڈریسنگ گاؤن پہنے ہوئے ہے مگر  بال ترتیب کے ساتھ بنے ہوئے ہیں۔ آنکھوں پر موٹے فریم کا چشمہ۔ ہاتھ میں اخبار ہے۔ )

منظور     :ریحانہ بی!چائے تیار ہو گئی؟

ریحانہ    :ابھی لائی بھائی جان۔

منظور     : (اخبار پڑھنے لگتا ہے۔ صحن میں پڑے ہوئے تخت پربیتھ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد) امی!(شبانہ بیگم جو برابر پلنگ پر بیٹھی ہیں۔ ۔ ۔  اور  اندیشہ کے احساس کے ساتھ متوجہ ہو جاتی ہیں) سنی نواب صاحب کی باتیں۔

بیگم       : (گھبرا کر)کیا کہا انھوں نے ؟

منظور     :صاف بات ہے۔ کان کھول کر سن لیجئے۔ آپ ہوں یا آپ کے شوہر نامدار۔ میں طعنے تشنے نہیں سنوں گا۔ میں نے جائداد کے کام میں خون پسینہ ایک کر دیا۔ آپ کا ہزاروں کا قرضہ قریب قریب  ادا ہی کر چکا ہوں۔ دن رات پلا رہتا ہوں  اور  پھر بھی مجھ ہی کو برا بھلا سننا پڑتا ہے۔

بیگم       :آخر بتاؤ تو سہی اللہ میرے۔ کیا کہہ دیا انھوں نے ؟

منظور     :اس جائداد پر قرضہ کرنے کا ذمہ دار کون ہے ؟میں یاوہ؟انھوں نے راتوں مجرے  اور  دنوں عیاشیاں کی ہیں یا میں نے ؟انھوں نے رام رنگی کی محفلیں  اور  اندر سبھا کے اکھاڑے سجائے ہیں یا میں نے ؟

بیگم       : (ایک آہ سرد کے ساتھ) میں جانتی ہوں۔

منظور     : اور  میری تعلیم پر ایک پیسہ خرچ کیا گیا ہوتا تو آج میں بھی کسی بڑے عہدے پر ہوتا۔ ۔ ۔ میری پرداخت پر اتنی توجہ ہوتی تو میں بھی یوں تمہاری جائداد کی نچوڑی ہوئی ہڈی کو پھر سے چچوڑنے پر مجبور نہ ہوتا۔ میری تعلیم کے پردے میں ہوس کو پورا کیا گیا۔ میرے لیے جو استانیاں رکھی گئیں ان سے عشق لڑایا گیا  اور  جب میں جوان ہوا۔ ۔ ۔

بیگم       :منظور بیٹا۔ ۔ ۔ ان باتوں سے کیا فائدہ۔ ۔ ۔ ؟

منظور     :امی، مجھ سے نہیں سہا جاتا۔ میں اس لیے جوان ہوا تھا کہ تمہاری جائداد کا غم اپنے کمزور کاندھوں پر اٹھا لوں  اور  اب وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں انھیں فاقے مار رہا ہوں۔ میں ان کے پھٹے پرانے کپڑوں کو رفو کرانے کے لیے بھی پیسے نہیں دیتا۔ مجھے طعنے دیے جاتے ہیں کہ میں ان کی بیوی  اور  بیٹی سے پکانے والی  اور  نوکرانی کا کام لیتا ہوں۔

بیگم       :وہی تو کہتے ہیں ہم تو نہیں کہتے۔ میرے لال۔ ان کے کہنے کا کیوں  برا مانتا ہے۔

منظور     :۲۴ گھنٹے تمہارے کام میں دوڑ دھوپ کرتا ہوں۔ کچہری جاتا ہوں۔ کاغذات سے مغز پچی کرتا ہوں  اور  اس کا انعام یہ ہے۔ ۔ ۔ (بیگم کی طرف گھورتے ہوئے) میں تمہارے لیے اپنی کھال کی جوتیاں بھی بنوا کر دوں تو بھی یہی انعام ملے گا۔ میں تمہیں فاقے مارتا ہوں میں۔ ۔ ۔

بیگم       :ارے توبہ ہے تو بھی کیا قصہ لے کر بیٹھ گیا۔

منظور     :نہیں امی وہ ہوں یا تم یا کوئی  اور   میں کسی کو فاقہ نہیں مارتا۔ میں کسی سے نہیں کہتا کہ نوکرانی مت رکھو اور  مجھے کھانا کھلاؤ۔ میں ہی فاقے مر جاؤں گا۔ میں آج ہی فوج میں نام لکھا سکتا ہوں کما کھا سکتا ہوں۔ جائداد کے پیچھے پھرنے والے کتے کوئی  اور   ہوں گے۔

(ریحانہ چائے لاتی ہے۔ چائے تخت پر رکھ دیتی ہے  اور  خاموش کھڑی ہو جاتی ہے۔ )

بیگم       :اب یہاں کھڑی کیا ہو۔ اگالدان اٹھا کر لاؤ۔ سچ مچ میرا کام سبھی کو بھول جاتا ہے۔ آج انھوں نے کہا ہے کل تم لوگ کہو گے۔ نہیں مجھے منظور نہیں۔

(ریحانہ اگالدان لا کر رکھ دیتی ہے۔ قریب پلنگ پر بیٹھ جاتی ہے۔ )

(سلیم اندر داخل ہوتا ہے۔ آدرش وادی، خواب پرست نوجوان مصوری کا شوقین۔ )

سلیم       :ارے کیا ہوا منظور بھائی۔ کیا منظور نہیں آپ کو ہم منظور کیے لیتے ہیں۔

منظور     :آؤ بھائی سلیم چائے پیو۔

سلیم       :بنائیے۔ شکر ڈیڑھ چمچہ۔ لیکن یہ آپ منظور نا منظور کیا کر رہے تھے۔

منظور     :کچھ نہیں، ریحانہ کا ایک رشتہ آیا تھا۔

سلیم       :اوہ۔ میں سمجھا۔ آیا تھا یا آیا ہے۔

منظور     :تفصیل بتاؤں گا تو ریحانہ ابھی یہاں سے بھاگ جائے گی۔

سلیم       :نہیں منظور بھائی مجھے  اور  کچھ جاننے کی ضرورت بھی نہیں۔ رشتہ آیا تھا ذات پات میں کھوٹ رہی ہو گی۔ آپ نے نامنظور کر دیا ہو گا ا ور بس بہت کافی ہے۔

(شاہانہ مسکراتی ہے۔ پھر چھالیہ کترنے میں مشغول ہو جاتی ہے۔ ریحانہ فیصلہ نہیں کرپاتی ہے کہ بیٹھی رہے یا چلی جائے۔ تھوڑی دیر کے بعد شاہانہ بیگم اٹھ کر چلی جاتی ہیں،  اور   دالان کی طرف غائب ہو جاتی ہیں)

منظور     :آدمی یار تم عقل مند ہو۔ آپ کے شاہکار کاکیا حال ہے۔

سلیم       :آپ میری تصویر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ اس نمائش سے پہلے ہی مکمل ہو جائے گی۔

منظور     :تم نے حسن مغموم کا یہ تصور لیا کہاں سے۔

سلیم       :بھائی وہ تصویر پوری ہو جائے تو دیکھئے گا۔ (ریحانہ کی طرف دیکھ کر) خیر یوں حسن مغموم کا تصور تو عام ہے بلکہ حسن بیمار کا بھی۔ ہاں مجھے ان دو آنکھوں سے یہ منظر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اب اگر ’’موت‘‘ کی تصویر بھی بناؤں گا تو اسے کسی کامنی کی شکل ہی میں تصور کرونگا۔ فانی کا وہ شعر یاد ہے تمہیں :

ادا سے آڑ میں خنجر کا منھ چھپائے ہوئے

مری قضا کو دہ لائے دلہن بنائے ہوئے

منظور     :ہاں بہت سنا ہے۔

سلیم       :یہ بھی کہہ دو مجروں  اور رقص گا ہوں میں۔ بد مذاقی کی حد ہو گئی(رک کر) یاس حسن کی انتہا ہے  اور  موت زندگی کی یاس  اور  زندگی حسن  اور   موت یہی میرا فن ہے۔ تم بہی کھاتوں  اور  کھتونی والے اسے کیا سمجھو گے۔ ریحانہ بہن تم بہت کچھ سمجھیں اس فلسفے کو۔

ریحانہ    : (جواب کھڑی ہوئی مکھیاں جھل رہی ہے بڑی معصومیت سے سر ہلا دیتی ہے)نہیں سلیم بھائی میں نہیں سمجھی۔

سلیم       : (اسی طرح ریحانہ کو دیکھتے ہوئے (تم سمجھ سکتی ہو) مگر  منظور کی طرف اشارہ کر کے) تم نہیں۔ ہر گز نہیں جس دن تم نے حسن  اور  غم، محبت  اور   ایثار کو سمجھ  لیا حسن خودکشی کرے گا۔ خوبصورتی اپنے ہاتھ سے اپنا گلا گھونٹ لے گی  اور   آرٹ دم توڑ دے گا۔

منظور     :باتیں کم کیا کرتے ہیں۔ (سگریٹ دیتا ہے) لو سگریٹ لو۔

سلیم       : (سگریٹ لیتا ہے اسے جلاتا ہے)شکریہ۔

منظور     :جی مگر  وہ ہمارے ا سکیچ کا کیا ہوا۔

سلیم       :لاؤ ابھی کھینچ دیں۔ طبیعت موزوں ہے۔ لو”Sitting”

منظور     :جی نہیں معاف کیجئے آج مجھے کا م ہے۔

سلیم       :لعنت ہے تمہارے کام پر۔ سچ کہتا ہوں اس وقت طبیعت رواں ہے۔

منظور     :اس وقت تو کسی  اور  پر مشق ستم کیجئے۔ میں تو یہ چلا۔

(اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ )

سلیم       :ریحانہ بہن کی تصویر کھینچ دیں۔

منظور     :ہاں بھائی ریحانہ کی تصویر کھینچو۔ مگر ا سکیچ نہیں تصویر، عمدہ، صاف ستھری۔

سلیم       :ان سے اچھی ہوئی تو بات ہے۔

ریحانہ    :شکریہ، میں نہیں کھنچواتی تصویر۔

سلیم       :لیجئے  اور  سنئے۔

منظور     :نہیں ریحانہ کھنچوا بھی لو۔ اس میں حرج ہی کیا ہے۔ ۱۵۔ ۲۰ منٹ کی بات ہے۔

سلیم       :ہاں بس خاکہ تیار ہو جائے پھر ہوتا رہے گا۔

ریحانہ    :نہیں بھائی ہم سے نہیں بیٹھا جائے گا۔

سلیم       :میری اچھی ریحانہ۔

ریحانہ    :آپ نہیں سمجھتے کھانے میں دیر ہو جائے گی۔

منظور     :ہو جانے دو آج ذرا دیر ہی سے کھالیں گے۔ تم جانتی نہیں ہو، سلیم بھی بہت بڑا آرٹسٹ ہے۔ یہ موقع روز روز تھوڑا ہی آتے ہیں۔

ریحانہ    :اللہ، سلیم بھائی۔ آپ کتنا پریشان کرتے ہیں۔ اچھا لیجئے بیٹھ گئی۔

سلیم       :شکریہ۔ بھئی منظور نیچے سے میرا کچھ سامان بھجوا دینا۔ اس دن سے وہیں پڑا ہے۔

منظور     :اچھا۔

(جاتا ہے۔ )

بیگم       : (باہر آتی ہے)ریحانہ۔

ریحانہ    : (سلیم سے) دیکھا آپ نے (ذرا زور سے) جی امی۔

بیگم       :دال دھو لی ہے نا۔

ریحانہ    :ہاں امی۔

بیگم       :اچھا تومیں نیچے سے ذرا سا پودینہ توڑ لاؤں۔

(بیگم چلی جاتی ہے۔ خادم سامان لے کر آتا ہے  اور  سلیم تصویر بنانے کے لیے سامان درست کرتا ہے۔ پنسل اٹھاتا ہے  اور  خاکہ بنانا شروع کرتا ہے ریحانہ تخت پر بیٹھی ہوئی ہے۔ )

سلیم       :بھئی ہلو مت۔ ادھر دیکھو۔ پھر ہلیں۔ تمہیں ڈر لگ رہا ہے کیا؟

ریحانہ    :نہیں تو سلیم بھائی۔

سلیم       :تو پھر ادھر کیوں نہیں دیکھتیں۔

ریحانہ    :میری آنکھوں میں تکلیف ہے میں دھوپ کی طرف نہیں دیکھ سکتی۔

سلیم       :اوہ!مگر  تم تو ابھی باورچی خانہ میں تھیں۔

ریحانہ    :وہ تو کام کی مجبوری تھی۔

سلیم       : اور  یہ فن کی مجبوری ہے۔ اچھا خیر۔ نہ دیکھو(Profile)   ہی سہی میں چاہتا تھا تمہاری تصویر مونا لزا اسٹائل میں بناتا۔

ریحانہ    :کیا اسٹائل۔

سلیم       :مونالزا اسٹائل۔ یہ ایک بہت بڑے فن کار کی تصویر ہے۔ ایک عورت تھی مونالزا۔ وہ جب تصویر کھنچانے بیٹھتی تو اس کے چہرے کے نقوش میں کوئی بات بھی مصور کوInspire   نہ کر سکی مگر  جب ایک روز مصور نے اس کے لیے۔ ۔ ۔ بہار کے شاداب ترین تازہ پھول اکٹھے کیے۔ ساون کے سب سے بیٹھے سب سے پیارے گیت صرف کیے تب اس کے لبوں پروہ مسکراہٹ کھیلی جو مصور کو ایک غیر فانی شاہکار کے لیے آمادہ کر سکی  اور  اس نے اس مسکراہٹ کو اسیر کر دیا۔ بہار کے حسین ترین پھولوں سے پیدا کی ہوئی مسکراہٹ، موسم گل کے سحر آلود نغموں سے جگمگاتی ہوئی مسکان۔

ریحانہ    : (وہ بے اختیار ہنس پڑتی ہے  اور  اس کی آنکھوں سے آنسو کے دو قطرے ٹپک پڑتے ہیں  اور  اس کے رخسار پر بہنے لگتے ہیں۔ اس کی آواز رندھی ہوئی ہے) میں مسکرا نہیں سکتی سلیم بھائی۔

سلیم       : (بے خبری میں تصویر پر نظر جمائے ہوئے) یہ میں جانتا ہوں (پھر نظر اٹھا کر ریحانہ کو دیکھتا ہے  اور  اب اس کی آواز میں حیرت ہے) مگر  یہ تم رو کیوں رہی ہو۔

ریحانہ    :آپ جانتے ہیں ؟

سلیم       :ہاں جانتا ہوں۔ مگر  تم رویا تو نہیں کرتیں۔

ریحانہ    :مگر  آج۔ ۔ ۔  (سسکی بھرتی ہے) جب آپ میری تصویر کھینچ رہے ہیں۔ یہ میری خوبصورت یا بدصورت شکل کو محفوظ کر رہے ہیں، تو سوچتی ہوں میں بھی ایک عورت تھی۔ میں بھی ایک انسان تھی  اور  میں بھی زندہ رہنا چاہتی تھی۔

سلیم       :تم کو زندہ نہیں رہنے دیا گیا۔ میری تصویر ’’گلفام‘‘ دیکھی ہے تم نے، وہ جسے کنویں میں قید کر دیا گیا تھا۔

ریحانہ    :میں تصویروں کی زبان نہیں سمجھتی اپنی آواز پہچانتی ہوں۔ پیدائش سے لے کر آج تک میں اس گھرکے قید خانے میں سزا بھوگ رہی ہوں عمر قید کی سزا۔ میرے ہاتھوں پر مصالحے کی مہندی رچی ہے۔ میرا سر ابابیل کا گھونسلا بنا ہوا ہے  اور  میرے کپڑے صافی کی رنگت کے ہیں۔ میرے کندھوں پر رات دن پکانے کا بوجھ ہے  اور  خوراک میں وہ سڑی دالیں  اور  جو ملے ہوئے آٹے کی روٹی۔ میں بھی پہننا چاہتی تھی۔ میں بھی ہنسنا چاہتی تھی۔ میں جینا چاہتی تھی  اور  مجھے زندہ دیوار میں چن دیا گیا کہ میں ایک بڑے جاگیردار کے گھرانے کی بیٹی ہوں۔

سلیم       : (ایک برش اٹھاتا ہے  اور  اسے اپنے گال سے لگا کر بیٹھا ہوا ریحانہ کو تکتا رہتا ہے پھر زیرِ لب کہتا ہے) حسن مغموم۔ یاس  اور  حسن۔ ۔ ۔

ریحانہ    : (اپنی بات جاری رکھتے ہوئے)سلیم بھائی آپ میری تصویر بنا رہے ہیں اس دنیا کے لیے جسے میں نے نہیں دیکھا۔ جس کی سیر نہیں کی (اس کی آواز میں تندی ابھر آئی ہے) میں اس دنیا میں اپنی یادگار بھی کیوں رہنے دوں۔ ریحانہ کوئی نہیں تھی۔ وہ کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ اس نے دنیا میں قدم نہیں رکھا۔

سلیم       :ریحان بہن۔ میں تمہاری یہ تصویر بناؤں گا۔ ۔ ۔ ضرور بناؤں گا۔

ریحانہ    :نہیں سلیم بھائی۔ آپ کی تصویر پوری نہیں ہو گی(اٹھتی ہے  اور   سروتے سے کنویس کو چیر ڈالتی ہے) نہیں سلیم بھائی نہیں ! ریحانہ کا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا۔ میں نہیں چاہتی کوئی مجھے دیکھے ریحانہ کو جو وہ تھی  اور   اس ریحانہ کو نہ دیکھ سکے جو وہ بننا چاہتی تھی۔

(اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیتی ہے  اور  دالان کی طرف دوڑتی ہوئی چلی جاتی ہے  اور  ایک سسکی کے ساتھ پلنگ پر گر پڑتی ہے  اور  تکیے میں منہ چھپا کر رونے لگتی ہے۔ )

سلیم       : (گھبرایا ہوا کچھ دیر اپنے کنویس کو  دیکھتا رہتا ہے۔ پھر سگریٹ کا ایک کش لیتا ہے  اور  دالان کی طرف جاتا ہے۔ ادھر سے شاہانہ بیگم آ جاتی ہیں۔ سلیم بھی دالان میں جا کر پنکھے سے ہوا کرنے لگتا ہے۔ )

بیگم       ریحانہ بیٹی!

سلیم       :خالہ جان ادھر آئیے۔

بیگم       :کیا ہوا؟

سلیم       :ریحانہ بہن کی طبیعت یکایک خراب ہو گئی ہے۔

بیگم       :اوہ، میری بچی کو پھر دورہ پڑ گیا۔ بیٹا سلیم۔ سلیم۔ تم ذرا پانی لیتے آؤ۔ میں گلاب چھڑکتی ہوں۔ پنکھا کہاں ہے۔ اے ہے خدایا اپنا فضل  کیجیو۔

(سلیم پانی لاتا ہے بیگم پانی کے دو ایک چھینٹے اس کے منھ پر دیتی ہیں  اور   گلاب سنگھاتی ہیں۔ سلیم پنکھا جھلتا ہے۔ )

(اتنے میں قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ نواب صاحب داخل ہوتے ہیں۔ ایک کالی ریشمی شال اوڑھے ہوئے آنکھوں پر سونے کے فریم کا چشمہ ہے۔ آواز میں شاہانہ وقار ہے۔ )

نواب     : (دروازے ہی سے) بیگم، بیگم، کہاں ہو۔

(سلیم کے ہاتھ پنکھا ایک لمحہ کے لیے رک جاتا ہے۔ بیگم صاحبہ اپنے ہوش و حواس کو پھر یک جا کر لیتی ہیں  اور ریحانہ کی طرف سے بے خبر ہو کر نواب صاحب کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں جیسے ریحانہ کو کچھ ہوا ہی نہیں ہے  اور  نواب صاحب کی آمد اس سے کہیں زیادہ اہم بات ہے۔ چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمایاں ہیں۔ آخر گھبرا کر پلنگ سے اٹھ جاتی ہیں  اور  نواب صاحب کی طرف چلتی ہیں۔ )

نواب     :بیگم یہ لو عظیمہ کا خط آیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ اسے تمہارے ہاتھ کا بنا ہوا حلوہ بہت پسند آیا ہے۔

بیگم       : (اس طرح جیسے سنا ہی نہیں)ریحانہ کی طبیعت یکایک خراب ہو گئی ہے۔

نواب     :ریحانہ کیسی ہے ریحانہ؟وہی دورہ پڑ گیا ہو گا۔

بیگم       :ہاں میں نیچے پودینہ لینے گئی تھی اسے میرے پیچھے ہی دورہ پڑ گیا۔ آپ کے پاس کوئی مجرب دوا ہو گی۔

نواب     :ہاں بھتیجا ہوں۔ ۔ ۔ (ہاتھ میں جو خط ہے اسے پڑھتے ہیں) مگر  دیکھو یہ عظیمہ نے لکھا ہے کہ مجھے تمہاری بیگم کے ہاتھ کا بنا ہوا حلوہ بہت ہی پسند آیا دیکھا تم نے بڑی ہی شریر ہے یہ تمہاری بیگم کے ہاتھ بنا ہوا، گویا تم اس کی کچھ ہوہی نہیں۔ اس نے لکھا ہے۔ ہمارے علاقہ میں ان دنوں شکار کی بڑی کثرت ہے۔ تمہیں بھی تو شکار کو گئے ہوئے بہت دن ہو گئے ہیں، ادھر آ جاؤ تو بہت اچھا ہو تمہارے ساتھ ہی چلی چلوں گی۔ اب تو منظور میاں کا غصہ بھی اتر گیا ہو گا۔

بیگم       :ریحانہ کو ابھی تک ہوش نہیں آیا۔ تم ذرا جلدی جا کر کوئی۔ دوا بھیج دو۔

نواب     :ہاں بیگم۔ مگر  تم نے یہ خلوص کسی میں نہ پایا ہو گا۔ لاکھ تمہاری سوکن ہے مگر  تمہارے حلوے کی کتنی تعریف لکھی ہے اس نے تمہاری طبیعت کو پوچھا ہے  اور  لکھا ہے کہ :

(خط دیکھنے لگتے ہیں۔ )

(اتنے میں سلیم پانی لینے کے لیے باہر آتا ہے۔ )

سلیم       : (پانی کا گلاس ہاتھ میں  اور  کچھ گھبرایا ہوا ہے) خالو میاں آداب۔ (بیگم سے) خالہ ریحانہ ابھی تک بے دم پڑی ہوئی ہے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی آپ۔ ۔ ۔ !

نواب     :ارے میاں سلیم جیتے رہو۔ بھئی یہ تمہاری دوسری خالہ کا خط آیا ہے۔ ایک رشتہ سے تو عظیمہ بھی تمہاری خالہ ہی ہوئی۔ تمہاری ماں کے رشتے سے نہ سہی ہمارے رشتے سے سہی۔ دیکھو تو سہی اسے تم ابھی تک یاد ہو۔ لکھا ہے کہ سلیم میاں نے ابھی تک میری تصویر نہیں بنائی۔

سلیم       :نواب صاحب بناؤں گا ضرور تصویر بناؤں گا۔

(پانی لے کر چلا جاتا ہے۔ )

نواب     :سنو تو میاں سلیم(سلیم چلا جاتا ہے) اس نے یہ ایک تصویر بھی بھیجی ہے۔ لو جی بیگم تم دے دینا سلیم کو میں جاتا ہوں۔ خط لانے والا جواب کے انتظار میں بیٹھا ہے  اور  سنو۔ ریحانہ کی دوا بھیجوں۔

بیگم       :ہاں ضرور۔ ۔ ۔ !

(چلے جاتے ہیں۔ )

(ریحانہ کو بھی ہوش آ گیا ہے  اور  اب وہ دو تکیوں سے لگی بیٹھی ہے۔ )

سلیم       :ریحانہ اب کیسی ہو۔

ریحانہ    :آپ پریشان نہ ہوں سلیم بھائی۔ یہ دورہ مجھے کبھی کبھی  پڑ جاتا ہے۔ ابھی ٹھیک ہوئی جاتی ہوں۔

سلیم       :خالہ جان اس کو باقاعدہ علاج کی ضرورت ہے۔

بیگم       : (تھوڑی دیر چپ رہتی ہے) جانتی ہوں مگر  دیکھا نہیں تم نے۔ تم نے کچھ نہیں سنا۔ بیٹی بے ہوش پڑی تھی  اور  ابا اپنی نئی نویلی دلہن کا خط سناتے پھر رہے تھے  اور  ہاں (میز پرسے تصویر اٹھاتی ہیں) میں تو بھول ہی گئی۔ ان کی تصویر بنانی ہے تمہیں۔

سلیم       : (تصویر لے لیتا ہے  اور  اسے غور سے دیکھتا ہے)تصویر بنانا ہی میرا پیشہ ہے مگر  خالہ اس صورت میں کون سی ایسی دلکشی ہے جو بوڑھے دل سے اولاد کی مامتا چھین سکتی ہو۔

ریحانہ    : (مسکراتی ہے) سلیم بھائی۔ تصویر بنانے والوں پریہ باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ یہ بات دیکھنے والوں پر چھوڑئیے۔

بیگم       :ایک اولاد کی مامتا کیا؟گھر کا چین زندگی کا سکھ  اور ۔ ۔ ۔ !

ریحانہ    :آپ ٹھیک نہیں کر رہی ہیں امی۔ ایک کو سارا الزام دے کر باقی سب کو بے گناہ ٹھہرانا ٹھیک نہیں۔ یہ عظیمہ ہے۔ اس سے پہلے صغیرن، مشتری  اور ۔ ۔ ۔  اور ۔ ۔ ۔

(انگلی کاٹ لیتی ہے۔ )

بیگم       :ٹھیک ہے میاں سلیم۔ جب اپنے ہی گھر کو آگ لگی ہو تو بجلی کو کیوں کوسیں۔ ان کا ہی دماغ ٹھیک نہیں۔ انھیں رنگ رلیوں سے فرصت نہیں۔ نہیں تو۔

سلیم       : (دہراتا ہے)نہیں تو۔ ۔ ۔ !

بیگم       :نہیں تو میرے گھر میں بھی شہنائیاں بجتیں۔ میری لڑکی کے ہاتھ پیلے ہوتے۔ میں بھی منظور کی بہو اور   بیٹوں کو دیکھتی۔ اپنے آنگن میں نواسوں  اور  پوتوں سے گود بھرے بیٹھتے اس گھرکی نیو کس منحوس گھڑی پڑی تھی کہ یہاں اندھیرا منڈلاتا ہے۔ دکھ  اور  درد کے سوا۔ ۔ ۔ !

ریحانہ    :امی ہم نے ایک مرگھٹ میں جنم لیا ہے۔

سلیم       :مگر  جائیداد کا انتظام تو منظور کے ہاتھ میں ہے ؟

(ریحانہ کی آنکھیں چھلک جاتی ہیں۔ )

بیگم       :ہاں۔ ۔ ۔ اسی لیے جائیداد کی آمدنی اسی کے لیے ہے۔

سلیم       : اور  وہ چاہیں۔

بیگم       :مگر  وہ کیوں چاہیں۔ وہ جو چاہتے ہیں انھیں ملتا ہے اچھے سے اچھے کپڑے  اور  پوشاک سواری کو بگھی  اور  عیاشی کے لیے روپیہ  اور  ہمارے لیے بس ان کے پاس فصل میں بھروا دینے کے لیے جنس ہے  اور  گیہوں چنے کی ملی ہوئی روٹی۔

سلیم       :آپ ان سے کہتی کیوں نہیں ہیں۔

بیگم       :تم ابھی یہاں نئے نئے ہو۔ جو کچھ ملتا ہے وہ بھی بے مانگے نہیں ملتا۔ (کھانسی اٹھ جاتی ہے  اور  دیر تک کھانستی رہتی ہیں) ایک نوکرانی نہیں جو کھانا پکا سکے۔

سلیم       : (خالی نظروں سے گھرکی اونچی دیواروں کو دیکھنے لگتا ہے) مجھے یقین نہیں آتا۔

(ریحانہ ہنس پڑتی ہے۔ )

بیگم       :تم ابھی بچے ہو سلیم،  مگر  ایک کام یاد رکھنا۔

سلیم       :کیا؟

(ریحانہ اٹھنے لگتی ہے۔ )

سلیم       :ریحانہ تم کہاں جا رہی ہو؟

ریحانہ    :اب رات کی دیگچیوں کے لیے مصالحہ پیسوں گی۔

سلیم       :خالہ انھیں مت جانے دیجئے۔ طبیعت زیادہ خراب ہو جائے گی۔

بیگم       :بیٹی میں پیس لوں گی تو مت جا۔ ٹھہر جا۔ ابھی۔

ریحانہ    :امی ٹھنڈے پانی میں ہاتھ کروں گی تو تمہاری کھانسی پر زور ہو جائے گا۔

(امی منھ پھیر کر سلیم سے باتیں کرنے لگتی ہیں  اور  سلیم ریحانہ کو باورچی خانے کی طرف جاتے دیکھتا رہتا ہے۔ )

بیگم       :ہاں بیٹا سلیم ایک کام یاد رکھنا۔ یہ تصویر عظیمہ کی ضرور بنا دینا۔ جلدی بنا دینا۔ وہ تم ہی سے نہیں مجھ سے بھی خفا ہو جائیں گے۔

سلیم       :کیوں ؟

بیگم       :کہ شاید میں نے ہی تم کو بنانے سے روکا ہو گا۔

سلیم       :آپ۔ ۔ ۔ انہیں شادی کرنے سے نہ روک سکیں (گھنٹہ پانچ بجاتا ہے)تو مجھے تصویر بنانے سے کیوں روکیں گی؟

بیگم       :وہ اسے نہ سمجھیں گے۔

سلیم       :وہ تو وہ، میں بھی اسے نہیں سمجھ سکتا۔

بیگم       :تم ابھی یہاں نئے نئے ہو۔

سلیم       :خالہ جان۔ خدا نہ کرے میں کبھی اس دیس میں پرانا ہو جاؤں۔ آپ خالو جان کی حالت دیکھتی ہیں  اور   انھیں خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی آگ میں جلتی ہیں  اور  ان پر پھول چڑھاتی ہیں۔ ان کے زہر کو اپنے ہی میں نہیں۔ اس کی ایک ایک اینٹ میں سموتی ہیں  اور  ان کی پوجا کرتی ہیں۔ اس مندر کو مرگھٹ بنانے کی ذمہ دار آپ ہیں خالہ جان آپ۔

بیگم       : (چہرے پر غصہ کے آثار پیدا ہوتے ہیں،  مگر  ضبط کرتی ہیں۔ برابر سے پاندان اٹھا لیتی ہیں  اور   پان لگانے میں دھیان لگاتی ہیں) مجھے چھوٹوں کی زبان سے طعنے سننے کی عادت نہیں سلیم۔ ہمدردی کرنے سے گئے  اور   میرے ہی کلیجے میں کچوکے لگانے آئے ہو۔

سلیم       :خالہ جان۔ میں یہ سب کچھ نہیں جانتا، ہو سکتا ہے میں ہی غلط کہتا ہوں۔

بیگم       :بالکل، تم عورت کا فرض نہیں جانتے ؟

سلیم       :نہیں جانتا، پتھروں کے سامنے انسانوں کے سر کاٹ کر چڑھا دینے کا رواج زمانہ ہوا اٹھ گیا۔ آپ اسے فرض کہتی ہیں یہ فریب ہے، بہت بڑا فریب جس کے آسرے پر پچھلی نسل نے آنے والی نسل کی جوان ہڈیوں پر اپنا محل چنا  اور   آج یہ نسل پھر اسی فریب کو دہرانا چاہتی ہے۔ لفظ انسان کا ایجاد کیا ہوا سب سے بڑا فریب ہے۔ محبت؟فرض؟؟  اور   قربانی؟؟؟لفظوں کے رنگین جال!مجھے ان بے ہودگیوں سے نفرت ہے، ہمدردی نہیں۔ آپ نہیں جانتیں خالہ جان،  مگر  میرے آرٹ کی یہی پرتگیا ہے کہ وہ انسان کو ان لغو توہمات سے آزاد کرائے۔ انسان آزاد پیدا ہوا ہے  اور  اسے ساری ہی زنجیریں شکست کرنی ہیں۔

(خادم داخل ہوتا ہے۔ بوڑھا نوکر ہے۔ قمیض  اور  پاجامے میں ملبوس ہے جو زیادہ صاف ستھرے نہیں ہیں۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ خادم کوکسی طرح مضحک کردار نہ بنایا جائے۔ نہ اس کی شکل پر غریبی، نفاست یا زیادہ سے زیادہ بڑھاپے کے آثار پیدا کر کے اسے قابل رحم بنانے کی کوشش کی جائے۔ یہ ایک معمولی نوکر ہے جس میں مضحکہ یا ہمدردی پیدا کرنے والی کوئی صفت نہیں ہے۔ خادم کے ہاتھ میں دوا کا پیکٹ  اور  شیشی ہے۔ )

خادم      :بیگم صاحب۔ نواب صاحب نے دوا بھیجی ہے۔

(بیگم دوا لے لیتی ہے۔ )

خادم      : (سلیم سے) آپ کو منظور میاں بلا رہے ہیں۔

سلیم       :ابھی آتا ہوں۔

خادم      :انھوں نے کہا ہے کہ ساتھ ہی لے کر آنا۔

سلیم       :اچھا۔

(سلیم چلا جاتا ہے۔ )

 

دوسرا سین

(منظور کی اسٹڈی کا کمرہ۔ نہایت آراستہ و پیراستہ۔ لکھنے کی بھاری میز کے سامنے گھومنے والی کرسی پر منظور بیٹھا ہوا ہے۔ دونوں طرف مختلف فائل  اور  کاغذات ہیں جن پر خوش رنگ پیپرویٹ ہیں، بیچ میں نیلے رنگ کے شیڈ کا ایک ٹیبل لیمپ رکھا ہے۔ اس کے برابر قلم دان  اور   دوسری مختلف چیزیں آفس کی گھنٹی وغیرہ ہیں۔ برابر ہی چھوٹا سا شلف کتابوں سے پر ہے۔ دوسری طرف ایک چھوٹی سی میز پر مختلف کتابیں جن میں دو ایک کھلی ہوئی رکھی ہیں۔ یہ سب کتابیں بہت ضخیم ہیں  اور   قانون کے مختلف موضوعات پر ہیں۔ جس وقت سلیم داخل ہوتا ہے منظور کا ٹیبل لیمپ روشن ہو چکا ہے  اور  وہ اپنے ہاتھ میں ایک قلم لیے ہوئے ہے  اور   اس کا اوپری حصہ اس کے گال کو چھو رہا ہے۔ اس کے سامنے ایک فائل ہے۔ کپڑے اس وقت سادہ پہنے ہوئے ہے۔ اسٹیر پہن رکھا ہے نائٹ کیپ برابر میز پر رکھی ہے۔ چشمہ لائبرتری ریم کا لگا ہوا ہے۔

میز کے سامنے دو کرسیاں پڑی ہوئی ہیں  اور  ایک کرسی دائیں طرف  اور   اوپر سے روشن دانوں میں ہلکی روشنی ہے جواس اثنا میں مدھم ہو جاتی ہے  اور  بعد کو بجلی  اور  بارش کے اثرات انھیں کے ذریعہ دکھائی دیتے ہیں۔ قدموں کی چاپ ہوتے ہی منظور فائل سے نظریں اٹھاتا ہے، چشمہ اتارتا ہے۔ )

منظور     :اما آدمی ہویا افلاطون۔ ڈیڑھ گھنٹے سے تمہیں بلا رہے ہیں۔ ایک بڑا با ذوق آدمی آیا تھا۔ تمہاری کچھ تصویروں کا سودا کر دیتے۔

سلیم       :مگر  مجھے تو ابھی اطلاع ملی۔

منظور     :خیر جانے دو۔ تمہاری قسمت؟میں نے تو اسے اتنی دیر روکے رکھا کہ شاید تم آ جاؤ۔ بھئی بات یہ ہے کہ یہ ہیں شہر کے مشہور رئیس بابو جگن ناتھ شراب کی ہول سیل کی دکان ہے۔ درآمد برآمد کاروبار ہے۔ اس قصبے سے گزر رہے تھے مجھ سے ملنے چلے آئے تھے۔ بڑا خوش مزاج آدمی ہے یار۔

سلیم       :سچ؟

منظور     :اس کا ڈرائنگ روم دیکھو گے تو طبیعت خوش ہو جائے گی۔ بڑے بڑے فن کاروں کے شاہکار ملیں گے۔ میں نے ’’امرت سہگل‘‘ کی سب سے پہلی تصویر اسی کے ڈرائنگ روم میں دیکھی تھی  اور  ہاں ریحانہ کی تصویر بنائی تم نے ؟

سلیم       : (سگریٹ منھ کو لگاتے ہوئے) نہیں۔

(بادل کی گرج  اور  کڑک سنائی دیتی ہے۔ روشن دانوں سے یہ باہر کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ بارش ہونے لگتی ہے  اور  اس کی بوندیں روشندانوں کے ذریعہ اندر بھی آنے لگتی ہیں۔ )

منظور     :کیوں ؟

سلیم       :منظور سن رہے ہو بادل کس زور و شور سے گرج رہے ہیں۔

منظور     :روشن دان بند کر دوں۔

(خادم دوڑتا ہوا اندر آتا ہے۔ )

خادم      :حضور، حضور۔

منظور     : (اس سے پہلے کہ خادم کچھ کہے)روشن دان بند کرو خادم۔

(خادم ڈوری کھینچ دیتا ہے  اور روشن دان بند کر دیتا ہے۔ )

خادم      :حضور سونے کے کمرے کی چھت ٹپکنے لگی ہے۔

منظور     :بے وقوف کہیں کے، اس وقت کیا کیا جا سکتا ہے۔ ضروری چیزیں اس جگہ سے ہٹا دو(خادم جانے لگتا ہے)  اور  سنو(سلیم کی طرف مخاطب ہو کر) میں سمجھتا ہوں ٹھنڈ کافی ہے ہاتھ تمہارے بھی ٹھٹھر رہے ہیں۔

سلیم       :کیوں ؟

منظور     :ہاں دو پیالی چائے چاہئے۔ تم یہ کام کرو۔ ریحانہ بی بی سے کہہ دینا دے جائیں گی۔

خادم      :بہت اچھا حضور۔

(جاتا ہے۔ )

(سلیم کے چہرے کے سامنے سے گویا ایک سایہ گزر جاتا ہے۔ )

منظور     :ہاں تو سلیم صاحب۔ آپ نے وہ تصویر نہیں بنائی وہ بات ادھوری رہ گئی۔

سلیم       :جی نہیں۔

منظور     :مگر  کیوں نہیں بنائی؟یہی تو پوچھتا ہوں۔

سلیم       : (لائٹر سے سگریٹ جلاتا ہے) تمہیں معلوم نہیں ریحانہ بہن کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔

منظور     : (ایک خشونت کے ساتھ)وہی دورہ پڑ گیا ہو گا۔ یہی بات ہے نا؟

سلیم       :ہاں وہ کافی دیر تک بے ہوش رہیں۔ تمہیں کوئی فکر نہیں۔

منظور     : (سامنے لگے ہوئے کلنڈر کو دیکھتے ہوئے) نہیں کنواری لڑکیوں کے اختلاج کے دورے ڈھکوسلے ہوتے ہیں۔ نرے ڈھکوسلے۔

سلیم       :تم یہ کہہ رہے ہو منظور؟

منظور     :ہاں سلیم۔ تم اس گھر کو پہچانتے نہیں۔

سلیم       :یہ بات تو اس سے پہلے بھی سن چکا ہوں۔ تم پہچانتے ہو شاید۔ میں تم سے پوچھتا ہوں آخر تم اس کی شادی کیوں نہیں کر دیتے ؟

منظور     :میں ؟اونہہ، میں شادی کرنے والا کون؟تم نواب صاحب کو فراموش کر رہے ہو سلیم۔

سلیم       :جی نہیں۔ تم ہر ایک بات میں اپنے اختیار پر ناز کرتے ہو۔ یہ اعلیٰ سگرٹوں کے ٹن، یہ سگاروں کے ڈبے۔ یہ تکلفات کے انبار، تمہاری ڈنر پارٹیاں  اور  شکار کی ضیافتیں تم با اختیار ہو مگر  جب ایک لڑکی کو اس کا حق دینے کا سوال اٹھتا ہے تو۔ ۔ ۔

منظور     :میں اس کے حق سے انکاری نہیں۔

سلیم       :میں اقرار انکار کا سوال نہیں کرتا۔ میں مسئلے پر جذباتی بن کر غور نہیں کر رہا ہوں۔ جذباتی کو میں اندھا سمجھتا ہوں۔

منظور     :اخلاقی نقطہ نظر سے ؟

سلیم       : (بات کاٹ کر) نہیں میں تمہاری اخلاقی قدروں کو تسلیم نہیں کرتا۔ آگ لگاؤ ان اخلاقی قدروں کو ایک بچے کی نازک پیٹھ پر باپ کے بیجا حق کا بوجھ رکھتی ہیں  اور  اسے قربان کر دیتی ہیں۔ چھوٹے کو بڑے کی قربان گاہ پر نذر کر دیتی ہیں۔ میں سیدھی بات جانتا ہوں کہ انسان آزادی کا حق رکھتا ہے  اور  عورت انسان ہے اسے تم ہاتھ پیر باندھ کر رکھ رہے ہو۔

منظور     :نہیں سلیم، میں نے کسی کے ہاتھ پیر نہیں باندھے۔

سلیم       : (سگریٹ کا ایک کش لیتا ہے) سوال یہ ہے کہ تم ریحانہ کی شادی کیوں نہیں کرتے ؟

منظور     :بات یہ ہے سلیم۔ تم نے جب تذکرہ چھیڑا ہے توسنو۔

سلیم       :کہو۔

منظور     :پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا کوئی ڈھنگ کا پیام ہی نہیں آتا۔ تم چاہتے ہو کہ میں بھائی ہو کر کسی ایسے ویسے جاگیردار کے ہاتھ سونپ دوں جس کی آمدنی کا کوئی بھروسہ نہ ہو، جس کی ذات پات میں کھوٹ ہو اور   جو ہماری سی عزت وقار نہ رکھتا ہو۔

سلیم       : (ہنس کر) نہیں۔ منظور بھائی تمہارے ذات پات کے ڈھکوسلے نہ جائیں گے۔

منظور     :میں سماج میں رہ کر باغی نہ ہو سکوں گا۔ میں تمہاری طرح عورت کی بے راہ روی  اور  مزاج کا قائل نہیں ہوں۔ عورت ایک ہیرا ہے  اور   اسے محفوظ ہونا چاہئے۔

سلیم       :الفاظ۔ محض الفاظ۔

منظور     :اس کے علاوہ تم میری مالی حالت دیکھتے ہو۔ شادی وہ چیز ہے جس کے لیے وافر روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے  اور   میرے پاس روپیہ نہیں۔ شاید تم کہہ دوکہ اپنے خرچ کے لیے میرے پاس روپیہ ہے مگر  ریحانہ کے لیے نہیں کہہ سکتے ہو۔ مگر  مجھے ایک گھرکی ناموس برقرار رکھنا ہے۔ آج بگھی بیچ ڈالوں قصبہ بھرمیں نوابوں کے گھرانے کا نام ڈوب جائے گا آج کوٹھی کے ساز و سامان پروہ ویرانی رکھو جو حرم سرا میں ہے تو لوگ میرے گریبان میں تھوکیں۔

سلیم       : اور  اگر زہرہ سے۔

منظور     :میں بھولا۔ تم میرے اس راز سے بھی واقف ہو۔ (مسکراتا ہے مگر  یہ فکر آلود ہے)ہاں اگر زہرہ کے پاس نہ جاؤں تو میرا دماغ اس پاگل خانے میں کس طرح کام کرے۔ ایک ستر سالہ بوڑھا جو ایک نئے رومان میں مبتلا ہے۔ عظیمہ کا خط تم نے بھی سنا ہو گا  اور   ایک ۶۵ سالہ بڑھیا جو دمے کے دائمی  اور  مہلک مرض میں مبتلا ہے  اور  ایک اختلاجی لڑکی۔ ۔ ۔  اور  زہرہ میری زندگی کا اکیلا راز ہے۔ وہ گاتی ہے۔ وہ ناچتی ہے۔ وہ مجھے سکون  اور  محبت کے سارے خزانے بخش دیتی ہے  اور  کچھ نہیں لیتی۔ وہ مجھ پر اپنی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتی روپیہ  اور  صرف۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ اگر وہ مجھے نہ ملی ہوتی تو اس جاگیر میں کتے لوٹتے  اور   اس محل میں لاشیں سڑا کرتیں۔

سلیم       :میں جانتا ہوں۔ تم جاگیردار ہو۔ پھر کیوں گھر والوں کو سالہا سال سے دالیں کھانا پڑ رہی ہیں  اور  یہ گیہوں چنے کی روٹیاں، تم دو بندوں کو اچھی طرح نہیں رکھ سکتے۔ تم ایک ماں کو تندرستی نہیں دے سکتے۔ تم ایک لڑکی کو مسرت نہیں دے سکتے (پھر کچھ سوچ کر وہی سلسلہ شروع کر دیتا ہے)مگر  ریحانہ کا وہ سوال ہے جس کا تم نے جواب نہیں یا۔

منظور     : اور  کیا جواب دوں۔

سلیم       : اور  اگر میں یہ کہہ دوں کہ تم ذات کی کھوٹ  اور  خاندان کی عزت کے لیے نہیں بلکہ۔

منظور     : اور  کیا چیزہو سکتی ہے ؟

سلیم       :اس لیے کہ تمہاری جاگیر کا  حصہ تقسیم ہو جائے گا۔ تمہیں کھانے پکانے لیے ماما  اور  کام کاج کے لیے نوکرانی رکھنا پڑے گی، تم خالص لالچ  اور   ذاتی نفع کے خیال سے اس کی شادی نہیں کر رہے ہو۔

منظور     : (ہنس دیتا ہے) کہہ سکتے ہو۔

(اتنے میں قدموں کی چاپ ہوتی ہے  اور ریحانہ چائے کی ٹرے لیے داخل ہوتی ہے۔ کپڑے  اور  حلیہ وہی ہے جو پہلے ایکٹ میں تھا۔ صرف ذرا بھیگ گئی ہے بالوں میں پانی کے قطرے چمک رہے ہیں۔ منظور اسی طرح بیٹھا رہتا ہے۔ صرف ذرا فائل کی طرف توجہ کرنے لگتا ہے۔ سلیم کے چہرے سے رنگ اڑ جاتا ہے۔ وہ آتی ہے۔ )

ریحانہ    :بھائی جان چائے کہاں رکھوں ؟چاروں طرف تو کتابیں بکھیر رکھی ہیں آپ نے۔

منظور     : (دو تین فائلیں ہٹا لیتا ہے) یہاں رکھ دو۔

(چائے رکھ دیتی ہے  اور  برابر والی کرسی پر بیٹھ جاتی ہے۔ )

سلیم       :ریحانہ بہن کیا بارش ابھی تک ہو رہی ہے۔

ریحانہ    :اوہ!کچھ نہ پوچھئے۔ قیامت کا طوفان ہے۔

سلیم       :سچ۔

ریحانہ    :آپ بال دیکھ رہے ہیں میرے، ان میں تمام پانی بھر گیا ہے، اب جا کر چائے پیوں گی۔

سلیم       :یہیں کیوں نہیں پی لیتیں۔

منظور     : (جیسے بات سنی ہی نہ ہو)بھئی ریحانہ تمہاری خاطر کے لیے تو یہ کیک  اور    بسکٹ بھی لے آئیں۔

ریحانہ    :مجھے تو معلوم بھی نہ تھا کہ سلیم بھائی یہاں ہیں۔

سلیم       :ہاں بھئی بارش کی وجہ سے اتنی دیر رکنا پڑا۔ جب چائے آ گئی تو تکلف کیسا ’’لیڈیز ٹو سرو‘‘۔

منظور     : (ہنس پڑتا ہے) تم ابھی یورپ سے نہیں لوٹے سلیم۔ میں چائے بناتا ہوں۔

سلیم       : (خاموش ہو جاتا ہے  اور  ایک نظر اور  پھر ریحانہ کی طرف دیکھتا ہے۔ )

منظور     : (چائے بنا کر دیتے ہوئے)لو(چائے کی پیالی سلیم کو دیتا ہے  اور   پھر کیک کی پلیٹ سلیم کی طرف بڑھاتا ہے) آج تو تم سے بہت دنوں بعد اتنی باتیں ہوئیں۔ ہاں یار یہ تو بتاؤ تم اپنی شادی کب کر رہے ہو؟

سلیم       :میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا؟

منظور     :میں نے کہا تم شادی کب کر رہے ہو؟

سلیم       :ہونہہ۔ ضروری ہے کہ شادی کروں۔

منظور     :قطعی۔

سلیم       :میں ان ڈھکوسلوں میں یقین نہیں رکھتا۔ اگر شادی سے مراد نکاح بیاہ ہے جس میں چغد کی طرح بیٹھ کر میں بھی فلاں بنت فلاں کو اتنے معجل  اور   اتنے غیر معجل کے عوض منظور کروں تومیں کبھی شادی نہیں کروں گا۔

منظور     : اور  کیا کرو گے ؟

سلیم       :ہاں اگر شادی سے مراد ایک عورت کا ہم رفیق ہوتا ہے تو ایک عورت میرے ساتھ ضرور رہے گی۔ تم اسے بھابی بھی کہہ سکتے ہو۔

منظور     :پاگل ہو گئے ہو سلیم۔

سلیم       :نہیں کوئی غیر معمولی بات تو نہیں۔

منظور     :بہت غیر معمولی بات ہے۔ یہاں نہ رہنے پاؤ گے۔

سلیم       :نہ رہوں گا، میں ٹوٹ سکتا ہوں، جھک نہیں سکتا۔

(باہر بجلی کی کڑک تیز ہو جاتی ہے  اور  خادم اندر داخل ہوتا ہے دروازے کا پٹ چھوڑ دیتا ہے جو زور سے بند ہو جاتا ہے۔ )

خادم      :حضور۔ حضور۔ گاؤں سے منشی جی آئے ہیں۔

منظور     :اچھا۔ ان سے کہو بیٹھیں۔ میں ابھی آتا ہوں۔

خادم      :بہت اچھا۔

(جاتا ہے۔ )

منظور     : (چائے کی پیالی ختم کر کے میز پر رکھ دیتا ہے۔ منھ رومال سے پونچھتا ہے)اچھا بھائی سلیم تم چائے پیو،  میں اتنے منشی جی سے بات کر آؤں۔

سلیم       :ضرور۔

(منظور اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ بارش کے قطرے بڑی تیزی سے روشن دان سے ٹکرا رہے ہیں۔ )

سلیم       :آج بارش نہیں طوفان ہے۔

ریحانہ    :سلیم بھائی۔ کیا شادی کے بارے میں آپ کا سچ مچ وہی خیال ہے جو آپ ابھی کہہ رہے تھے۔

سلیم       :ہاں ریحانہ میں کہتا ہوں کہ!!۔ ۔ ۔ نکاح کے دو بولوں میں آخر رکھا ہی کیا ہے۔ شاید تم سے مجھ کو یہ باتیں نہیں کہنا چاہئیں۔

ریحانہ    :نہیں سلیم بھائی۔ اب مجھ عورت پر لڑکیوں جیسی شرم نہیں پھبتی۔

سلیم       :شادی یا بے شادی۔ انسان، مرد اور   عورت کی آزادی بڑا مسئلہ ہے اسے کردار کی نشو و نما کا موقع ملنا چاہئے۔ اپنے کو بنانے  اور   طاقتوں کو آزمانے کا موقع ملنا چاہئے۔ تم چائے پیو ریحانہ۔ اب تو ایک پیالہ بھی خالی ہو گیا ہے میں ابھی اسے دھوئے دیتا ہوں۔

(اسے گلاس میں رکھے ہوئے پانی سے دھو لیتا ہے۔ پھر چائے بنانے لگتا ہے۔ اس عرصے میں ریحانہ اس کو خاموش نظروں سے دیکھتی رہتی ہے۔ )

ریحانہ    :سلیم بھائی۔

سلیم       :کیوں ریحانہ۔

(چائے دیتا ہے، وہ پیالی بے خیالی میں تھام لیتی ہے۔ )

ریحانہ    :کیا واقعی دنیا بہت بڑی ہے ؟

سلیم       :ہاں ریحانہ بہت بڑی ہے۔ ۔ ۔ تم نے الف لیلیٰ پڑھی ہے ؟

ریحانہ    :نہیں، کچھ کہانیاں سنی ہیں۔

سلیم       :سند باد کا سفر سنا ہے۔

ریحانہ    :نہیں۔

سلیم       :سند باد بہت بڑا سیاح گزرا ہے۔

ریحانہ    :کیا گزرا ہے ؟

سلیم       :سیاح!ملکوں ملکوں گھومتا پھرتا تھا۔ وہ ایک ویران پہاڑی پر اترا۔ جہاں روزانہ ایک بہت بڑا ہیبت ناک جانور آیا کرتا تھا۔ رخ۔ یہ رخ جانور بہت بڑا تھا۔ جب وہاں سے نکلنے کی کوئی تدبیر نہ بن پڑی۔ ۔ ۔  تو سندباد نے ایک گوشت کے ٹکڑے میں خود کو لپیٹ لیا  اور   وہ رخ اسے گوشت سمجھ کر اڑا لے گیا  اور  اسے آبادی میں اتار دیا۔

ریحانہ    :پوری کہانی سنائیے۔

سلیم       :کہانی پوری ہو گئی ریحانہ۔ میرا جی چاہتا ہے ریحانہ کہ میں بھی ایک رخ بن جاؤں۔

ریحانہ    : (ہنس پڑتی ہے) آپ واقعی بچے ہیں۔

سلیم       :ہاں۔

ریحانہ    :الف لیلیٰ کی کہانیاں کوئی بڑے سنا کرتے ہیں۔

سلیم       :ہاں۔ مگر  تم  سند باد  بننا نہیں چاہتیں۔ تم ایک ویران پہاڑی پر پڑی ہو۔ اس پہاڑی کی وادیوں میں لاشیں سڑ رہی ہیں  اور  گدھ منڈلا رہے ہیں۔

ریحانہ    : اور رخ؟

سلیم       :ہاں ریحانہ میں رخ بننا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ چلو۔ میں تمہیں دنیا دکھاؤں گا۔ میں بہتے ہوئے آبشاروں  اور  کھلتے ہوئے پھولوں کے پس منظر میں تمہاری تصویریں بناؤں گا۔ وہ تصویریں۔ ۔ ۔  جنھیں تم چاک نہ کر سکو گی  اور  تم دنیا پر بہار کے گیت کی طرح چھا جاؤ گی۔ ۔ ۔ اوہ!اس دن میں کتنا خوش ہوں گا۔

ریحانہ    :کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں ؟

سلیم       :ہاں ریحانہ چلو گی میرے ساتھ۔

ریحانہ    :یہ بھی کوئی کہانی ہے۔ بھلا آپ میرے ساتھ اپنی زندگی کیوں خراب کرنے لگے۔

سلیم       :نہیں ریحانہ سچ۔

ریحانہ    :کیا آپ مجھ سے شادی۔ ۔ ۔ ؟

سلیم       :شادی نہیں۔ شادی نہیں۔ تمہیں میرے ساتھ بھاگ کر چلنا ہو گا۔

ریحانہ    :یہ کیوں۔ وہ راضی ہو جائیں گے۔

سلیم       :ہرگز راضی نہ ہوں گے۔ تم ابھی ان لوگوں کو نہیں جانتیں۔ میرے ساتھ صرف وہی عورت خوش رہ سکے گی جو آگ میں تپ کر آئے گی، جو جہنم پارکر کے آئے گی۔ تم انسان ہو طوفان سے ٹکرا سکتی ہو۔ اگر ٹکرانے کے لیے کچھ نہ ہو تو انسان فولاد نہ بنے موم بن کر پگھل جائے  اور   اگر ٹکرانے والی چیز طاقتور نہ ہو تو  ٹکرانے والے کی توہین ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم سر بلند ہو۔ تم سر اٹھاؤ بادلوں سے اونچا۔ ستاروں سے بھی بلند۔ تم آخر کس لیے ڈرتی ہو۔

ریحانہ    :خاندان کی عزت سے۔

سلیم       :میں جانتا ہوں خاندان نے تمہیں کون سی عزت دی ہے جس کی عزت کا تم کو اتنا پاس ہو۔ ڈرپوک نہ بنو ریحانہ۔ ظالم  اور  مظلوم میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا  اور  بزدل کی سزا ہے عمر قید۔ ان ہی بے رحم دیواروں سے راستہ مانگتے مانگتے مر جاؤ گی  اور  یہ ایک انچ نہ ہٹیں گی۔ اسی قید خانے میں تمہاری جوانی دم توڑ دے گی  اور  خاندان کی عزت کا دامن بھیگے گا بھی نہیں۔

ریحانہ    :اوہ میرے خدا!

سلیم       :آج کی رات،  اور  آج ہی کی رات اس کا فیصلہ ہونا ہے میں آج رات کے دو بجے یہاں سے چلا جاؤں گا۔ میں چور دروازے پر تمہارا انتظار کروں گا، بولو تمہارا کیا فیصلہ ہے ؟

ریحانہ    : (سراسیمہ ادھر ادھر دیکھتی ہے، پھر نیچی نظریں کر لیتی ہے) مجھے سوچ لینے دیجئے۔ خدارا مجھے سوچ لینے دیجئے۔

(منظور کا داخلہ)

منظور     :کوڑی کام کے نہیں۔ حرام خور کہیں کے۔ جس کام کو بھیجو بہانہ بنا کر لے آتے ہیں۔

سلیم       :کیا بات ہوئی؟

منظور     :ریحانہ تم جاؤ۔

(ریحانہ جو چائے کے برتن اکٹھا کر رہی تھی چلی جاتی ہے۔ )

منظور     :بارے میاں وہی الو کے پٹھے منشی جی ہیں ان سے کہا تھا ذرا زہرہ کو بلا لاؤ۔ سوچا تھا تم آئے ہو۔ آج کی رات جشن رہے گا۔

سلیم       :پھر کیا خبر لائے ؟

منظور     :کہتے ہیں گوٍا لیار گئی ہوئی ہے۔ لاحول ولاقوۃ جی چاہتا ہے ان سب کو گولی ماردی جائے۔

(نواب صاحب داخل ہوتے ہیں۔ )

(ہاتھ میں تسبیح ہے۔ گھبرائے ہوئے ہیں، بال سونے کی عینک کی گرفت میں پھڑک رہا ہے وہی قیمتی شال اوڑھے ہوئے ہیں۔ )

نواب     :ارے میاں سلیم تم یہاں بیٹھے ہو۔

سلیم       :منظور نے بلٍا  لیا تھا۔

نواب     : اور  وہ عظیمہ کی تصویر بنائی تم نے۔

سلیم       : (حیرت سے ان کا منھ تکتا ہے) جی، جی، ابھی تو نہیں۔

نواب     :لاحول ولاقوۃ۔ توبہ۔ اس وقت سے بے کار وقت ضائع کر رہے ہو، تصویر ہی بنا لیتے۔

منظور     :ابا جان۔ خادم نے سونے والے کمرے سے کچھ سامان ہٹا دیا تھا۔ کمرہ ٹپک رہا ہے۔

نواب     : (گرج کر) میرا اس گھر میں کوئی سامان نہیں (سلیم سے) عظیمہ کی تصویر کہاں ہے سلیم۔

(سلیم میز سے تصویر اٹھا کر دیتا ہے وہ تسبیح والے ہاتھ سے تصویر سنبھال لیتے ہیں۔ )

نواب     :بس اب مجھے کچھ نہیں چاہئے۔

(باہر چلے جاتے ہیں۔ بادل کی گرج  اور  بجلی کی کڑک  اور  بھی تیز ہو جاتی ہے۔ )

تیسرا سین

(رات کی تاریکی چھا گئی ہے۔ دالان کے اندر کا کمرہ جس پر ایک پلنگ پر شاہانہ بیگم سو رہی ہے  اور  دوسرے پلنگ پر ریحانہ لیٹی ہوئی ہے، سرہانے بڑا مدھم  اور  دھندلا بلب روشن ہے، کمرہ سیلا ہوا ہے ایک طرف مچان پر کچھ صندوق  اور  کپڑے  اور  گٹھریاں ہیں۔ ایک طرف نماز پڑھنے کی چوکی بچھی ہوئی ہے  اور  اس پر ایک لوٹا رکھا ہوا ہے دوسری طرف کپڑے ٹانگنے کی کھونٹیاں ہیں اوپر ایک چھوٹے سے مچان پر قرآن مجید رکھا ہوا ہے، ریحانہ کے پلنگ کے ایک طرف وہ تصویر پھٹی پڑی ہوئی ہے جو سلیم نے بنائی تھی۔ ریحانہ صاف شفاف کپڑے پہنے ہوئے، بال بھی سلیقے کے ساتھ بنے گئے ہیں، بیگم صاحبہ کو کبھی کبھی رہتی ہے تو ریحانہ کروٹ بدلتی ہے۔ ایک طرف سنگھار میز اور   اس پر ایک بڑا آئینہ رکھا ہوا ہے۔ )

بیگم       :ابھی بجلی بند نہیں کی ریحانہ بیٹی!

ریحانہ    :امی تمہیں کھانسی بہت اٹھ رہی ہے نا۔ اسی سے جلتی رہنے دی۔ تم آرام سے سو جاؤ۔

بیگم       :اری پگلی۔ کھانسی تو دم کے ساتھ ہے۔ تو ابھی تک سوئی نہیں۔

ریحانہ    :مجھے نیند نہیں آتی امی۔

بیگم       :سو جا بیٹی تیری طبیعت خراب ہو جائے گی۔ آج صبح ہی دورہ پڑ چکا ہے۔

(رضائی میں منھ لپیٹ کر کروٹ بدل لیتی ہے۔ دورے کے لفظ پر پس منظر کی چونکا دینے والی موسیقی شروع ہوتی ہے۔ )

ریحانہ    :دورہ پڑ جائے گا۔ دورہ پڑ جائے گا(آہستہ سے پلنگ سے اٹھتی ہے  اور   بڑے آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہو جاتی ہے  اور  غور سے اپنی شکل آئینے میں دیکھنے لگتی ہے۔ پیچھے سے آواز آتی ہے۔ )ریحانہ تمہارے پاس رکھا ہی کیا ہے۔ تندرستی مٹ چکی ہے۔ جوانی ختم ہو گئی۔ خوبصورتی (ہنستی ہے)خوبصورتی نے بدصورتی  اور  بڑھاپے کا روپ لے لیا۔ کس بھروسے پر کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دو گی۔ کس آسرے پر۔

بیگم       : (پھر کروٹ لیتی ہے) ریحانہ بیٹی۔ دروازہ بند کرنا نہ بھول جانا۔

ریحانہ    :اچھا امی۔ بھلا میں کبھی دروازہ بند کرنا بھولتی ہوں۔

بیگم       :نہیں بھولتی تو نہیں کبھی۔ پر یاد دلا دینا تو اچھا ہوتا ہے۔ خدا تجھے خوش رکھے۔

(رضائی میں منھ لپیٹ کر دوسری کروٹ بدل لیتی ہیں۔ پس منظر میں ہلکی سی موسیقی ابھرتی ہے جس میں شہنائی کی آواز بھی شامل ہے جو کہیں دور بج رہی ہے۔ )

ریحانہ    : (بڑبڑاتی ہے)تجھے اچھا رکھے خوش رکھے۔

(ہلکے قدم اٹھاتی ہوئی اپنے پلنگ پر آتی ہے۔ وہ تصویر اٹھا لیتی ہے جو ادھوری رہ گئی ہے  اور   جسے اس نے سروتے سے چیر دیا تھا۔ پھر آپ ہی آپ ہنستی ہے۔ پس منظر کی آواز پرچھا جاتی ہے۔ )

آواز       :یہ تم نے کیا کیا سلیم۔ اتنی بڑی دولت بے کہے بے مانگے میری گود میں ڈال دی۔ ساری دنیا کے دروازے میرے لیے کھول دیے۔ میرے در پر پہلی بار اور  آخری بار محبت نے دستک دی۔ میں بھی جیوں گی میں بھی زندگی کو خوشیوں سے بھر دوں گی۔ کوئی کچھ بھی کہے مجھے کیا! میں جاؤں گی۔ میں اس بار دروازہ بند نہیں کروں گی۔ ہر رات میں دروازہ بند کرتی رہی ہوں۔ آج نہیں۔ آج ہرگز نہیں۔

(پس منظر کی موسیقی چھناکے کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ )

بیگم       :آج تو سوئے گی نہیں ؟

ریحانہ    :نیند نہیں آ رہی تھی میں نے سوچا ذرا منھ دھولوں طبیعت ٹھیک ہو جائیگی!

بیگم       :جب تک تو نہیں سوتی مجھے بھی نیند نہیں آتی۔

ریحانہ    :مجھے کب تک ساتھ باندھے باندھے پھرو گی امی۔ مجھ سے اتنی محبت نہ کرو کہ مجھے جینا دو بھر ہو جائے۔

بیگم       :ٹھیک ہی تو کہتی ہے مجھے تو کتنا ارمان تھا کہ تجھے پیار سے رخصت کرتی مگر  کیا کروں بچی، قسمت کا کس سے بس چلا ہے (کھانسی دیر تک) میری زندگی میں خوشی کہاں۔

ریحانہ    :ٹھیک ہی توہے امی۔ عورت سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہی تو بنی ہے وہ خود کوئی قربانی نہیں مانگتی۔

بیگم       :کیا الٹی سیدھی باتیں سوچنے لگی۔ جا۔ سوجا۔ میں بھی سوتی ہوں۔

(پھر رضائی سے منھ لپیٹ کر کروٹ لے لیتی ہے۔ )

ریحانہ    :امی۔

بیگم       :کیا ہے ؟پھر باتیں شروع کر دیں۔

ریحانہ    :آج رات سلیم بھائی جا رہے ہیں۔

بیگم       :ہاں شام کو رخصت لینے آیا تھا۔ بڑا اچھا لڑکا ہے میرے دل سے سدا اس کے لیے دعا نکلتی ہے۔ خدا کرے ہمیشہ خوش رہے۔ خدا کرے اسی کی طرح کوئی قابل  اور  خوبصورت بیوی ملے۔

ریحانہ    : اور  انھوں نے قابل  اور  خوبصورت کی جگہ پھوہڑ، بدصورت  اور  جاہل لڑکی کو پسند کیا تو؟

بیگم       :خدا نہ کرے وہ کوئی پاگل ہے۔

ریحانہ    :تم نے سنا نہیں۔ فاروقی صاحب کا لڑکا تو ولایت پاس کر کے آیا تھا۔ پانسو۔ سات سو روپیہ کی آمدنی بھی ہے اس نے تو اپنی رفو سے شادی کی ہے۔

بیگم       :رفو کی عمر کیا ہو گی؟

ریحانہ    :میری سی عمر ہو گی اس کی۔ پڑھی لکھی تو بس یونہی سی ہے قرآن مجید تو اسے تم ہی نے ختم کرایا تھا امی، کچھ یونہی سی اردو لکھ پڑھ لیتی ہے۔

بیگم       :ہاں بیٹی قسمت کے کھیل ہیں۔

ریحانہ    : اور رفو کو  کوئی کہتا ہے مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔

بیگم       :ہاں جج صاحب کے لڑکے کے ساتھ بڑا ظلم ہوا۔ اپنی رفو کو ایسا نہ چاہئے تھا۔ وہ لڑکا اس کا اتنا خیال رکھتا تھا تو اس کی زندگی اس طرح تباہ نہ کرنی تھی۔

ریحانہ    :مگر  امی اس لڑکے نے تو خود کہا تھا۔

بیگم       :اس نے اچھا کیا تھا مگر  رفو کا بھی کچھ فرض تھا۔ اسے تو کچھ سوچنا چاہئے تھا۔

ریحانہ    : (اعصابی تسبیح کے آثار، آواز کچھ بلند) کیا سوچنا چاہئے تھا اسے یہی کہ وہ آرام سے زندگی نہ گزارے، وہ عمر بھرتڑپ تڑپ کر، بلک بلک کر جان دیتی رہے۔ وہ آزادی کا سانس نہ لے۔ وہ کبھی تازہ ہوا کا سانس نہ لے۔ اس نے بڑا پاپ کیا تا کہ جج صاحب کے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی۔ جیتے جی گھرکی دیواروں میں چنی رہتی تو بڑا ثواب ہوتا۔

بیگم       : (حیرت سے)بیٹی۔

ریحانہ    :ٹھیک کہہ رہی ہوں نا؟

بیگم       :نہیں میں تو یہ کہہ رہی تھی کہ اسے لڑکے کا بھی دھیان کرنا چاہئے تھا۔

ریحانہ    :کیا دھیان کرنا چاہئے تھا۔

بیگم       :رفو ادھیڑ تھی۔ بیمار تھی۔ ان پڑھ تھی۔ اس کے لڑکے نے اپنی شرافت میں اسے پسند کیا  اور  اپنا سکھ چین رفو پر قربان کرنے پر راضی ہو گیا۔

ریحانہ    :توا س میں رفو کا کیا قصور ہے ؟

بیگم       :اس نے اپنی خوشی کے لیے جج صاحب کے لڑکے کی خوشی قربان کر دی نا، تو سمجھتی ہے وہ اس کے ساتھ خوش رہ سکے گا۔ وہ ان پڑھ، بیمار، بوڑھی بیوی کو گلے میں باندھ کر کب تک خوش رہ سکے گا۔ رفو گردن کا طوق بن جائے گی۔ وہ پاؤں کی بیڑی بن جائے گی۔ یہ بات ٹھیک ہے نا؟

ریحانہ    :میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ میری کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔

بیگم       :اچھا اب بہت باتیں ہو چکیں اب مجھے سونے دے۔

(پھر رضائی میں منہ لپیٹ کر کروٹ لے لیتی ہے۔ ریحانہ پھر آہستہ آہستہ پلنگ سے اٹھتی ہے  اور  آئینہ کے سامنے دوبارہ آ کر کھڑی ہو جاتی ہے وہ دیر تک اسے گھورتی رہتی ہے۔ پیچھے سے اس کے لہجے میں، مگر  ذرا بھاری آواز میں کوئی کہتا ہے۔ )

آواز       :بوڑھی۔

(ریحانہ تکلیف سے اثبات میں سر ہلا  دیتی ہے۔ )

آواز       :بیمار۔

(ریحانہ پھر سر ہِلا  دیتی ہے۔ )

آواز       :وہ دورے جو تمہیں بار بار پڑتے ہیں  اور  سارے گھرکو پریشان کر دیتے ہیں وہ تمہاری زندگی کے ساتھ ہیں۔

(ریحانہ بے قراری  اور  کرب کی حالت میں اسی طرح کھڑی رہتی ہے۔ )

آواز       :ان پڑھ۔ جاہل۔ ۔ ۔ ایک کمزور لمحے میں اس نے تمہیں بلایا۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم اپنے بیمار۔ بدصورت  اور  ان پڑھ وجود سے اس کی زندگی تباہ کر دو۔ تم اسے کیا دے سکو گی۔ اسے اتنی بڑی سزا نہ دو۔ خدارا اسے پیار کی اتنی بڑی سزا نہ دو۔ (ریحانہ دونوں ہاتھوں سے کان بند کر لیتی ہے)تم تو انھیں دیواروں میں گھٹ گھٹ کر مر جانے کے لیے پیدا ہوئی ہو۔ تم ایک لاش ہو۔ لاشوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ زندہ انسانوں کے گلے کا طوق بن جائیں۔

(تھوڑی دیر تک ریحانہ اپنے پلنگ پر دونوں ہاتھوں سے اپنا منھ چھپا کر بیٹھی رہتی ہے۔ سسکی کی آواز کبھی کبھی سنائی دیتی ہے شاہانہ بیگم اسی طرح بے خبر پڑی رہی ہیں۔ پھر ذرا ہمت  اور  عزم کے ساتھ چہرے سے دونوں ہاتھ ہٹاتی ہے۔ سفید دوپٹے کے آنچل سے آنسو پونچھتی ہے۔ بستر میں تکیے کے نیچے سے کنجی نکالتی ہے  اور   ارادہ  اور   قوت کے ساتھ قدم اٹھاتی ہے۔ اتنے میں گھنٹہ دو بجاتا ہے جس کی جھن جھناہٹ دیر تک قائم رہتی ہے۔

آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی ہوئی دہ کمرے سے باہر نکلتی ہے۔ ہر قدم پر پیانو کے مدھم سر سنائی دیتے ہیں۔ دالان والے دروازے کی بجلی ابھی تک جل رہی ہے۔ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس دروازے تک پہنچتی ہے۔ آنچل سے دوبارہ آنسو خشک کرتی ہے۔ آنگن  اور  دالان کی طرف نگاہ واپسیں ڈالتی ہے۔ دروازے کے اندر داخل ہو کر دو قدم آگے بڑھتی ہے  اور  لوٹ آتی ہے۔ ایسے قدموں سے جیسے کوئی مردہ چل رہا ہو۔ بجلی بجھاتی ہے۔ دروازہ بند کرتی ہے  اور  اس کی گنڈی میں پڑے ہوئے نالے کو اٹھا کر بند کر دیتی ہے۔ پھر چند لمحے کے لیے اس سے سہارا لے کر روتی رہتی ہے۔ پس منظر میں غمناک موسیقی  اور  دالان کے اندر والے کمرے سے آتی ہوئی مدھم روشنی اس منظر کو  اور   زیادہ ویران و المناک بنا  دیتی ہے۔

پھر آہستہ آہستہ پلنگ پر واپس آتی ہے۔ پلنگ پر بیٹھتی ہے اتنے میں شاہانہ بیگم کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ )

بیگم       :کیا ہے ریحانہ۔ کیا ہے بیٹی؟

ریحانہ    : (رندھی ہوئی آواز میں) کچھ نہیں امی دروازہ بند کرنے گئی تھی۔ میں نے بند کر دیا دروازہ۔

(دور بگھی کے پہیوں کی آواز سنائی دیتی ہے  اور  اسٹیج روشنیاں بجھنی شروع ہو جاتی ہیں۔ پردہ آہستہ آہستہ گرتا ہے  اور  سارا اسٹیج اندھیرے میں دفن ہو جاتا ہے۔

***

ماخذ: ’’میرے اسٹیج ڈرامے ‘‘

ادارۂ فروغ اردو نمبر

۳۷ امین آباد پارک

لکھنؤ