FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

ڈاکٹر محمد حسن

سچ کا زہر

 

کورس    :سچ مرا دیوتا

سچ ہے انجیل، قرآن، گیتا، خدا

سچ ہے سقراط، عیسیٰ، محمدؐ

سچ شہیدوں کا خوں پیار کا  حوصلہ!

سچ ہے خون کا وہ قطرہ جو مصلوب ہے جس کا سر سولیوں پر چڑھا

بے گناہی کی پاداش میں

زندگی!زندگی!! چیختا

مر رہا ہے

سچ ہے زہریلی ناگن جو ڈستی ہے انسان کے صبر و سکون کو کہ پھر زندگی بھر تڑپتے گزرتی ہے  اور  ایک کانٹا نہیں ایک بھالا۔ نہیں ایک تلوا رہے جس کو تم نے پکارا ضمیر اس کو مانو

سچ وہ بچہ ہے جس کا سر و سینہ نیزوں کی نوکوں سے مجروح ہے پھر بھی ہونٹوں پہ ایک ہلکی مسکان سی ناچتی ہے

وہ سچ اب کہاں ہے

چلو ہم اسے آج دنیا میں ڈھونڈھیں کہیں دیکھو سقراط کی طرح وہ قید خانے میں بیٹھا

زہر کا پیالہ پیتا نہ ہو

کہیں شاہراہوں پہ وہ

کسی تنگ و تاریک چورا ہے پر

پرانی سولی پر لٹکا نہ ہو اور

اس کی ہتھیلی میں کیلوں کے سوراخ ہوں

وہ شاید کسی کربلا میں

کسی شمر کے خنجروں کے تلے

خون میں لتھڑا ہوا

زندگی کے لئے خون بہا دے رہا ہو

جسے آج سچ سے محبت ہو اب بھی

مرے ساتھ آئے

قبل اس کے کہ جھوٹ آئے  اور

ہم سب کو نگل لے

ہیرا لال  :مجھے سزا دیجئے سپرنٹنڈنٹ صاحب۔ مجھے سزا دیجئے۔ آپ نہیں جانتے میں کون ہوں۔ میرا نام ہے ہیرا لال میں آپ کے شہر کے ہر چورا ہے پر پچھلے دس سال سے زہر بیچ رہا ہوں۔ جی ہاں زہر!ہر روز چورا ہے پر سیکڑوں آدمی میری چکنی چپڑی باتیں سنتے رہتے ہیں۔ میں کبھی تو لکڑ توڑ چورن کے نام پر لسوڑھے کی پسی ہوئی پتیاں بیچتا ہوں۔ کبھی دانتوں کو ہر مرض سے بچانے  اور  ہر درد کو دور کرنے کا منجن بیچتا ہوں۔ جس میں پسی ہوئی کھریا کے سوا  اور   کچھ نہیں ہوتا۔ کبھی ریلوے یارڈ کی مٹی کی پڑیاں باندھ باندھ کر آنکھوں کا سرمہ کہہ کر بیچتا ہوں۔ میں کہتا ہوں میں مجرم ہوں میں نے جنتا کی تندرستی برباد کر کے اپنی جیبیں بھری ہیں۔ مجھے کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے۔ میں نے پاپ کیا ہے سپرنٹنڈنٹ صاحب! میں پاپی ہوں۔ آپ سن رہے ہیں سپرنٹنڈنٹ صاحب میں سچ کہتا ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ         :سن رہا ہوں۔

ہیرا لال  :تو پھر مجھے ہتھکڑی پہنائیے۔ جیل خانے بھیجئے۔ مجھے اپنے پاپ کی سزا ملنی چاہئے۔

سپرنٹنڈنٹ         : (گھنٹی بجاتا ہے) ارے کوئی ہے ؟

اردلی     :سرکار!

سپرنٹنڈنٹ         :انھیں باہر نکال دو!

ہیرا لال  :آپ کیا کر رہے ہیں ؟میں اپنے جرم کی سزا مانگتا ہوں  اور  آپ مجھے پھر جرم کرنے کے لئے آزاد چھوڑ رہے ہیں۔ میں سچ کہتا ہوں۔ میں پاپی ہوں۔ دھوکے باز ہوں مجھے سزا دیجئے۔

سپرنٹنڈنٹ         :دیکھتے کیا ہو۔ ۔ ۔ لے جاؤ!

اردلی     :چلئے !

ہیرا لال  :میری بات توسن لیجئے !

سپرنٹنڈنٹ         :کیا کوئی  اور  بات بھی کہنا چاہتے ہو؟

ہیرا لال  :جی ہاں ؟کیا آپ کے خیال میں یہ کوئی سنگین جرم نہیں ہے۔ لوگوں کو دھوکا دینا، ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنا، انھیں طرح طرح کے بھلاوے دینا، کوڑا کرکٹ کو مرہم  اور  منجن کا نام دے کر انھیں بیوقوف بنانا، ان کی تندرستی تباہ کرنا دھوکا نہیں ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ         :ہے۔ ضرور ہے۔

ہیرا لال  :تو آپ کے خیال میں میں سچ نہیں بول رہا ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ         :سچ کا نام نہ لیجئے۔ میرے سامنے یہ لفظ بھی زبان سے مت نکالئے۔ آپ جانتے ہیں اس شہر میں تین دن سے ہر مرد عورت بچے جوان بوڑھے کو سچ کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ ہر آدمی سچ بول رہا ہے۔ اپنے زندگی بھرکے گناہ بیان کر کے ہم سے سزا چاہ رہا ہے آپ جانتے ہیں اس کا کیا نتیجہ ہوا ہے ؟

ہیرا لال  :کیا کوئی بہت برا نتیجہ نکلا ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ         :جی ہاں۔ برا  اور  بہت برا!اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے ہیرا لال جی کہ ہماری جیل  اور  حوالات میں تل رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ عدالتوں میں مقدموں کی تعداد دس گنی ہو گئی ہے۔ اسٹامپ  اور  واٹر مارک بازار سے غائب ہو گئے ہیں  اور  آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں آپ کو جیل بھیج دوں۔

ہیرا لال  :کیا ہمارا شہر پاپیوں  اور  مجرموں سے بھرا ہوا تھا؟

سپرنٹنڈنٹ         :جی ہاں !ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ کسی کو گمان بھی ہو سکتا تھا کہ اس شہر کا ہر دسواں آدمی پاپی ہے !اس کا نتیجہ ہے کہ ہمارے شہر کی عزت آبرو مٹی میں مل گئی ہے۔ سارا ملک بلکہ یوں کہئے ساری دنیا اسے پاپیوں کا شہر سمجھتی ہے۔ اس سچ نے ہمیں غارت کر دیا ہے۔ جائیے ہیرا لال جی جائیے اس سچ کے چکر میں نہ پڑئیے۔

ہیرا لال  :ہری اوم!ہری اوم!!ہری اوم!!!

سپرنٹنڈنٹ         :ہری اوم کیا ہنومان چالیسا پڑھئے ہنومان چالیسا!اگر اسی طرح سچ بولتی رہی جنتا تو مجھے بتائیے کہ دنیا کا کاروبار کیسے چلے گا۔

ہیرا لال  :تو آپ کے خیال میں دنیا جھوٹ کے سہارے چلتی ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ         :جی ہاں، بالکل یہی خیال ہے میرا۔ دیکھئے جب سے اس شہر پر سچ بولنے کا دورہ پڑا ہے وکیلوں کے گھر فاقے ہو رہے ہیں۔ ان کے بیوی بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔

ہیرا لال  :کیوں ؟

سپرنٹنڈنٹ         :اس لئے کہ ان کے گھر والے جھوٹ بولنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کے موکل جھوٹ بولنے کو تیار نہیں ہیں۔

ہیرا لال  :ہری اوم!ہری اوم!!

سپرنٹنڈنٹ         :اس لئے کہتا ہوں ہیرا لال جی، رام رام کیجئے  اور  اپنے گھر جائیے۔

ہیرا لال  :نہیں سپرنٹنڈنٹ صاحب۔ میری آتما کو شانتی نہیں ملے گی۔ مجھے سزا دیجئے۔ مجھے جیل بھیج دیجئے۔

سپرنٹنڈنٹ         :جیل میں جگہ نہیں ہے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے مجرم کے لئے بالکل جگہ نہیں ہے۔

ہیرا لال  :سزا مجرم کا پیدائشی حق ہے۔ میں واپس جانے سے انکار کرتا ہوں۔ آپ مجھے اردلیوں سے اٹھوا کر باہر بھی پھنکوا دیں گے تومیں پھر لوٹ آؤں گا۔

سپرنٹنڈنٹ         :میں پھر باہر پھنکوا دوں گا۔

ہیرا لال  :ایسا کیجئے میں انتظار کرتا ہوں۔ مجھے یہیں بیٹھا رہنے دیجئے گا۔ جب حوالات میں جگہ خالی ہو جائے مجھے بھیج دیجئے گا۔

سپرنٹنڈنٹ         :کوئی امید نہیں۔

ہیرا لال  :اس میں آپ کا کیا نقصان ہے۔ مجھ پر آپ کی بڑی کرپا ہو گی۔ میں پھر دھوکا دینے کے لئے سزا کے بغیر دنیا میں واپس جانا نہیں چاہتا۔

سپرنٹنڈنٹ         :اچھا آپ کی مرضی۔ بیک روم میں بیٹھ جائیے۔

ہیرا لال  :شکریہ۔

سپرنٹنڈنٹ         :اردلی۔ ۔ ۔ دیکھو اب کسی کو اندر مت آنے دینا۔

اردلی     :جو حکم سرکار!

سپرنٹنڈنٹ         :چاہے کوئی کتنا ہی سچ بولے۔ ڈنڈے مار مارکر سب کا سچ نکال دو۔ خبردار جو کسی کو اندر گھسنے دیا!

(تھوڑی دیر بعد اردلی گھبرایا ہوا داخل ہوتا ہے۔ )

اردلی     :صاحب!صاحب ڈاکٹر شرما!

ڈاکٹر شرما           :معاف کیجئے گا سپرنٹنڈنٹ صاحب بغیر اطلاع کے آنا پڑا۔

سپرنٹنڈنٹ         :ڈاکٹر صاحب۔ آپ شرمندہ کر رہے ہیں۔ آپ کے خادم ہیں۔ فرمائیے کیسے تکلیف فرمائی۔ میں آپ کی کیا سیوا کر سکتا ہوں۔

ڈاکٹر      :پہلی سیوا تو یہ ہے سپرنٹنڈنٹ صاحب کہ مجھے آج سے ڈاکٹر نہ کہئے۔

سپرنٹنڈنٹ         :تو کیا آپ بھی۔ ۔ ۔

ڈاکٹر      :آپ جانتے ہیں آج تک میں نے کیا کیا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ         :میں کیا سارا شہر جانتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ۔ آپ نے اس شہر کے بے شمار آدمیوں کو شفا دی ہے۔ اس شہر میں کیا آس پاس کے کئی شہروں میں آپ سے بڑا ڈاکٹر۔ ۔ ۔

ڈاکٹر      :مگر  اصلیت یہ ہے کہ میں انسانوں کے دکھ درد سے ان کی بیماری آزاری سے چاندی بناتا رہا ہوں میں نے انسان کے دک درد کی تجارت کی ہے۔

سپرنٹنڈنٹ         :یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟

ڈاکٹر      :میری بغل میں آئیڈیل فارمیسی کے نام سے دواؤں کی جو دوکان ہے وہ بھی میری ہی ہے آپ جانتے ہیں کیوں ؟اس لئے کہ میں اس دوکان کے ذریعے ذخیرہ اندوزی  اور  نفع بازی کرنا چاہتا ہوں اس دوکان کو ہر قسم کی دواؤں کے لائسنس مل گئے ہیں اس دوکان کی ساری دوائیں جعلی ہیں ان میں ملاوٹ ہے۔ اسٹرپٹومائی سین میں کھریا پیس کر ملائی گئی ہے۔ اصلی شیشیاں خالی کر کے ان شیشیوں میں ملاوٹ والی دوائیں انجکشن کی سوئی کے ذریعے داخل کی گئی ہیں۔ میں نے اس  بے ایمانی کے دھندے سے جنتا کو دھوکا دیا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ         :ناممکن ہے آپ ایسا دھر ماتما یہ سب نہیں کر سکتا۔ آپ نے شہر کی دھرم شالا بنوائی ہے داؤ جی کے مندر کے لئے سب سے بڑا دان آپ ہی نے دیا تھا۔ مجھے وشواس نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر      :میں سچ کہتا ہوں بھگوان کی سوگند کھا کر کہتا ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ         :آپ جانتے ہیں یہ جرم ہے بہت بڑا جرم ہے۔

ڈاکٹر      :جانتا ہوں  اور  اس جرم کی سزا پانے کے لئے تمہارے پاس آیا ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ         :سوچ لیجئے ڈاکٹر صاحب۔

ڈاکٹر      :اچھی طرح سوچ لیا وشواس کرو۔ ۔ ۔ میں وہی ڈاکٹر شرما ہوں جس نے ایک ہزار روپیہ لے کر سیٹھ دلی چند کی بیوی کو زہر کے انجکشن لگائے تھے۔ کیونکہ اس کی زندگی کا بیمہ ہو چکا تھا  اور  سیٹھ دلی چند میری مدد سے اسے موت کے گھاٹ اتار کر انشورنس کی ساری رقم وصول کرنا چاہتا تھا۔

سپرنٹنڈنٹ         :آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟

ڈاکٹر      :جو کچھ کہہ رہا ہوں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہہ رہا ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ         :یہ تو سراسر قتل ہے !

ڈاکٹر      :میں نے قتل کیا ہے !

سپرنٹنڈنٹ         :تو مجھے آپ کو گرفتار کرنا پڑے گا۔

ڈاکٹر      :گرفتار کرو ضرور کرو!بلکہ مجھے پھانسی پر چڑھا دو۔ جب ہی میرا ضمیر تسکین پائے گاجو زندگی جنتا کی سیوا میں کٹنی چاہئے تھی وہ دھوکا  اور   جعل سازی میں کٹ گئی۔ کتنے جھوٹے سرٹیفکٹ لکھے۔ کتنے جھوٹے پوسٹ مارٹم کی رپورٹیں بنائیں۔ کتنوں کو جان بوجھ کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مجھے پھانسی ہی ہونی چاہئے۔

سپرنٹنڈنٹ         :یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔ ۔ ۔ یہ تو بتائیے سیٹھ دلی چند کہاں ہیں ؟

ڈاکٹر      :اس نے خودکشی کر لی۔

سپرنٹنڈنٹ         :چلئے اچھا ہی ہوا۔ (گھنٹی بجاتا ہے) اردلی! ہتھکڑی لاؤ!

اردلی     :یہ لیجئے حضور!

سپرنٹنڈنٹ         :مجھے بہت افسوس ہے ڈاکٹر شرما(ہتھکڑی پہناتا ہے) اردلی! سپاہیوں کو بھیجو حوالات سے لے جائیں۔

اردلی     :بہت اچھا۔ حضور!

سپرنٹنڈنٹ         : اور  دیکھو۔ ایک سپاہی کو ہماری کوٹھی پر بھیجو۔ یہ معلوم کر کے آئے کہ میم صاحب مسوری سے آ گئیں یا نہیں۔ وہ اپنے بیٹے نریندر سے ملنے مسوری گئی تھیں۔ آج آتی ہوں گی۔

اردلی     :بہت اچھا حضور!

(ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہے، بجتی رہتی ہے سپرنٹنڈنٹ اس کا جواب دیتا ہے۔ )

سپرنٹنڈنٹ         :ہیلو!۔ ۔ ۔ بول رہا ہوں۔ ۔ ۔ کیا کہا۔ ۔ ۔ دودھ والے تھانے کو گھیرے کھڑے ہیں۔ ۔ ۔ ؟کیا کہتے ہیں۔ ۔ ۔ ؟(ہنستا ہے) سزا چاہتے ہیں۔ دودھ میں پانی ملانے کی۔ ۔ ۔ کیا کہا؟۔ ۔ ۔ نہیں نہیں۔ ۔ ۔ جیل میں بالکل جگہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ پچاس پچاس جوتے لگاؤ اور  چھوڑ دو۔ (غصے سے ٹیلیفون کا ریسیور رکھ دیتا ہے) کم بخت سب کے سب اسی مرض میں مبتلا ہیں سچ بولنے کی بیماری!ہونہہ!!بڑے آئے ایماندار کہیں کے !

(باہر سے شور کی آواز آتی ہے۔ )

اردلی     :نہیں جا سکتے !صاحب کا حکم ہے۔

پرنسپل    :مجھے کوئی نہیں روک سکتا!

اردلی     :نہیں جانے دوں گا۔ منع کر دیا ہے سنتے نہیں ؟

پرنسپل    :جانتا ہے کس سے بات کر رہا ہے ؟کالج کے پرنسپل کا راستہ روکتا ہے۔ نالائق!

سپرنٹنڈنٹ         :اندر آنے دو۔ پرنسپل صاحب کو اندر آنے دو۔

پرنسپل    :نمستے سپرنٹنڈنٹ صاحب!

سپرنٹنڈنٹ         :معاف کیجئے گا پرنسپل صاحب میرا اردلی نرا اجڈ ہے۔ بڑا جنگلی ہے کمبخت۔ آدمی دیکھ کے بات نہیں کرتا۔ میں تو خود آپ کے پاس آنے والا تھا۔

پرنسپل    :لیجئے میں آ گیا  اور  آگیا لایا گیا ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ         :پرسوں سے جو واقعات اس شہر میں ہو رہے ہیں۔ ان سے میری عقل چکرا گئی ہے۔ میں آپ جیسے کسی عالم فاضل سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر  سچ کیا ہے۔ وہ جو مصیبت میں ڈالے یا  انسانوں کو مصیبت سے نکالے۔

پرنسپل    :یہ میں کچھ نہیں جانتا کپتان صاحب۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ ضمیر کے اندرجو کالا ناگ چھپا رہتا ہے۔ آتما کا جو زہر ہے وہی سچ ہے  اور   آج وہی کالا ناگ مجھے آپ کے پاس تک کھینچ لایا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ         :تو کیا آپ بھی؟

پرنسپل    :میں نہیں جانتا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ مجھے جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ میں تو یہ بتانے آیا ہوں کہ جسے آپ عالم فاضل کہتے ہیں۔ علم کا اوتار  اور  گیان کا دیوتا جانتے ہیں وہ ایک فریبی ہے فراڈ ہے !

سپرنٹنڈنٹ         :میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔

پرنسپل    :آج تک میرے کالج میں جتنے لیکچر ر رکھے گئے ہیں۔ سب کے سب میرے رشتے دا رہیں یا میرے کسی رشتے دار کے رشتہ دار ہیں۔ ہر جگہ کے لئے ایک سے ایک قابل آدمی نے درخواست دی لیکن کوئی ہماری کسوٹی پرپورا نہیں اترا۔

سپرنٹنڈنٹ         :لیکن اس میں آپ کا کیا  قصور ہے۔ تقرر سلیکشن کمیٹی کرتی ہے۔

پرنسپل    : اور  سلیکشن کمیٹی ہم مقرر کرتے ہیں۔ اس کے ممبروں میں ہمیشہ میں نے ان لوگوں کو رکھا ہے جو میری ہاں میں ہاں ملا سکیں جنھیں آموں کے زمانے میں آٹھ دس ٹوکرے آم بجھوا سکوں یا ان سے وصول کر سکوں۔ جن کی کمیٹیوں میں خود جا کر ان کی ہاں میں ہاں ملا سکوں۔ ان سب کو میں نے رشوت سے زیر کر رکھا تھا۔ کنبہ پروری  اور  جعل سازی کیا پاپ نہیں ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ         :ضرور ہے۔ لیکن آپ نے انٹرویو کر کے تقرر کئے ہیں۔

پرنسپل    :انٹرویو بھی فراڈ ہے جس کو لینا ہوتا ہے۔ اس کے ہر جواب پر پورا بورڈ جھوم جاتا ہے۔ میرے کالج کے استاد اس کے نام سے مقالہ لکھتے  اور   چھپواتے۔ اس کے لئے ریسرچ کا خاکہ تیار کرتے  اور  کہہ سن کر (Examiner)   سے اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری دلواتے تھے۔ یہی نہیں ہماری سانٹھ گانٹھ اوپر بورڈ تک رہتی تھی۔ ہم دوسرے تیسرے سال نصاب کی نئی کتاب اپنے ہی ذمے لے لیتے  اور  بک سیلروں سے رشوت لے کر پرانی کتاب کی جگہ ان کی کتابیں نصاب میں داخل کر دی جاتی تھیں  اور  ہمارے وارے نیارے ہو جاتے تھے۔ کیا آپ کے نزدیک یہ پاپ نہیں ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ         :آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟

پرنسپل    :میں آپ سے سزا چاہتا ہوں۔ کپتان صاحب!سخت سے سخت سزا چاہتا ہوں۔ میں مجرم ہوں۔ میں نے کنبہ پروری نفع خوری  اور  بے ایمانی ہی نہیں کی ہے۔ میں نے قوم کی امانت میں خیانت کی ہے۔ میں نے آنے والی نسل کی زندگی برباد کر دی ہے۔ انھیں اپنی سیاست میں استعمال کرنے کی غرض سے ان کے گروہ بنا کر انھیں غنڈہ گردی سکھائی۔ انھیں اپنے گروہ کی طاقت بڑھانے کے لئے استعمال کیا ہے۔ میں نے انھیں صرف خود غرضی ہوس  اور  غنڈہ گردی کی تعلیم دی ہے۔ میں نے انھیں گیان کے نور کے بجائے جہالت کا اندھیرا ہی دیا ہے۔ کیا قوم مجھے سزا نہ دے گی؟مجھے سزا  دیجئے کپتان صاحب سزا دیجئے ؟

سپرنٹنڈنٹ         :سزا دینا میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں صرف آپ کو گرفتار کر سکتا ہوں۔

پرنسپل    :شکریہ! آپ نے میرے دل کا بہت بڑا بوجھ دور کر دیا!

سپرنٹنڈنٹ         : (گھنٹی بجاتا ہے) اردلی! ہتھکڑی لگا کے حوالات لے جاؤ!

اردلی     :جو حکم حضور!

(پچھلے کمرے سے ہیرا لال کی آواز آتی ہے۔ )

ہیرا لال  :میرے لئے کوئی جگہ خالی ہوئی کپتان صاحب؟

سپرنٹنڈنٹ         :سن رہے ہو ہیرا لال!غضب خدا کا انصاف  اور   تعلیم ہی پورے سماج میں سب سے اعلیٰ محکمے تھے۔ ان کا یہ حال ہے۔ اے خدا۔ ہے بھگوان!

ہیرا لال  :تو پھر میرے لئے کیا حکم ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ         :بیٹھے رہئے خاموشی سے۔

(باہر سے کار کا ہارن سنائی دیتا ہے۔ )

اردلی     :صاحب!صاحب!!

سپرنٹنڈنٹ         :کوئی بھی ہو کسی کو اندر مت آنے دو!

اردلی     :مگر  صاحب سیٹھ چھبیل داس جی ہیں۔

سپرنٹنڈنٹ         :وہ خود!؟

اردلی     :جی ہاں وہ خود آئے ہیں اپنی کار میں بیٹھ کر۔ بلا لاؤں سرکار؟!

سپرنٹنڈنٹ         :بلا لو۔

سیٹھ      :نمسکار۔ کپتان صاحب۔ کہئے کیا حال ہیں ؟

سپرنٹنڈنٹ         :نمسکار۔ آپ کی کرپا ہے سیٹھ جی۔ آپ نے کیسے تکلیف کی؟

سیٹھ      :آپ کو ذرا سی تکلیف دینی ہے۔

سپرنٹنڈنٹ         :جی فرمائیے میں کیا سیوا کر سکتا ہوں ؟

سیٹھ      :آپ کے پاس دیا سلائی ہو گی؟

سپرنٹنڈنٹ         :دیا سلائی؟جی ہاں یہ لیجئے۔ یہ رہی دیا سلائی!

سیٹھ      :میں اپنا آخری سگار جلانا چاہتا ہوں۔ اصلی کرونا ہے۔ آپ بھی پی لیجئے۔

سپرنٹنڈنٹ         :شکریہ!

سیٹھ      :یہاں نہیں ملنا۔ خاص کیوبا کا بنا ہوا ہے بلکہ اسپیشل میرے ہی لئے بنتا ہے  اور  خاص میرے لئے اسمگل ہوتا ہے۔ ورنہ آپ کی سرکار درآمد کرنے دیتی ہے کسی اچھی چیز کو؟

سپرنٹنڈنٹ         :اسمگل؟

سیٹھ      :جی ہاں۔ سیٹھ چھبیل داس جس نے دھرم شالائیں۔ تین ودھوا آشرم  اور   پانچ اناتھ آشرم کھولے ہیں۔ آپ کے ملک کے اسمگلر کنگ ہے۔ اسمگلر کنگ!!بڑی حیرانی ہو رہی ہے آپ کو۔ جی ہاں آپ سوچتے ہوں گے جس کے دو روز نامے نکلتے ہیں۔ تین ہفتہ وار اخبار اور  پچیس اخبار جس کی تعریف میں روز کوئی نہ کوئی خبر چھاپتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب اس کے کارخانوں کے اشتہاروں پر چلتے ہیں۔ وہ شخص جس کے اشارے پر پارلیمنٹ کے ایک دو نہیں دس بارہ ممبر ناچتے ہیں۔ بھلا ایسا آدمی اسمگلر کیسے ہو سکتا ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ         :سگاروں کی اسمگلنگ خاصی بے ضر ر چیز ہے !

سیٹھ      :جی نہیں صرف سگاروں کی کیوں ؟کوکین کی اسمگلنگ، افیم کی اسمگلنگ، غرض ہراس چیز کی اسمگلنگ، اناج  اور  چاول کی اسمگلنگ، دواؤں کی اسمگلنگ غرض ہر چیز کی اسمگلنگ جس کا کاروبار ہو سکتا ہے۔ جو فارن ایکسینج پورے ملک نے خون پسینہ ایک کر کے جمع کیا تھا۔ وہ میں نے پانی کی طرح بہا دیا۔ اگر آپ آج پتہ لگانا چاہیں تو نیویارک،  لندن، سوئزر لینڈ کے بنکوں میں میرا حساب ایک نہیں کئی کئی ناموں سے ملے گا۔ یہ سب روپیہ چوری کا ہے۔ یہ سب کھلم کھلا دھوکے بازی کا روپیہ ہے !

سپرنٹنڈنٹ         :آپ ٹھیک کہتے ہیں۔

سیٹھ      :میرے ذخیروں میں آج بھی لاکھوں من اناج لاکھوں من شکر اور   لاکھوں من دوسری ضرورت کی چیزیں جمع ہیں۔ ۔ ۔  ان کی قیمتیں چڑھ رہی ہیں۔ جنتا فاقوں سے مر رہی ہے۔ میں اس کے خون سے سونا بنا رہا ہوں۔ مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ بنگال کا سا قحط ایک بار پھر پڑنے والا ہے۔ مہنگائی اپنے پورے زور پر ہے۔ میں لکھ پتی سے کروڑ پتی  اور   کروڑ پتی سے ارب پتی ہونے والا ہوں۔ لیکن میں باپ کی کمائی کھانا نہیں چاہتا۔ آج میں اپنے گوداموں کی کنجیاں آپ کے حوالے کرنے آیا ہوں۔ یہ لیجئے !!

(کنجیاں دیتا ہے۔ )

سپرنٹنڈنٹ         :دھنیہ واد!آج میرے دل میں انصاف آ ہی گیا۔

سیٹھ      :آج میرے دل کے انصاف سے کیا ہوتا ہے میری پچھلی زندگی کے پاپ تو اس سے نہیں دھل سکتے۔ آپ جانتے ہیں۔ میں نے آج تک کبھی انکم ٹیکس کی پوری کیا آدھی رقم بھی ادا نہیں کی۔ میں مجرم ہوں۔ پاپی ہوں۔ میرے سارے بہی کھاتے جعلی حساب بنانے میں ماہر ہیں۔

سپرنٹنڈنٹ         :آپ کو خوشی ہو گی کہ وہ سب ماہرین اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کر چکے ہیں۔

سیٹھ      :مجھے معلوم ہے۔ لیکن آپ کو سب معلوم نہیں ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میری پندرہ بڑی بڑی ملیں  اور  کارخانے ہیں۔ ان میں پانچ ہزار سے زیادہ مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کو اور   ان کی یونینوں کو قابو میں رکھنے کے لئے میرے پاس غنڈوں کی ایک فوج ہے۔ جس سے کبھی کبھی میں ہندو مسلم فسادات بھی کراتا ہوں۔ ان ہی غنڈوں میں بعض مشہور ڈکیت ہیں جن کی ڈکیتوں میں مجھے بھی حصہ ملتا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ         :وہ سب ڈکیت خود کو گرفتار کرا چکے ہیں۔

سیٹھ      :مجھے معلوم ہے۔ جس انکم ٹیکس آفیسر نے میرے حسابات کی جانچ پڑتال کر کے بلیک کے روپیہ کی رپورٹ لکھی تھی  اور  ایک لاکھ روپیہ انکم ٹیکس کی بقایا نکالی تھی۔ آپ جانتے ہیں میں نے اس کاکیا کیا؟

سپرنٹنڈنٹ         :رشوت دی؟

سیٹھ      :مگر  اس نے رشوت نہیں لی۔

سپرنٹنڈٹ          :اسے ڈرایا دھمکایا!

سیٹھ      :وہ پھر بھی نہیں مانا۔ میں نے اسے چلتی گاڑی میں قتل کرا دیا۔ مجھے اس طرح نہ دیکھو میں نے اسے قتل کرا دیا۔ سنتے ہو میں نے اسے قتل کرا دیا! میں قاتل ہوں !سیٹھ چھبیل داس قاتل ہے۔ اسے گولی ماردو !!

سپرنٹنڈنٹ         :آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟آپ جانتے ہیں اسے اقبال جرم سمجھا جائے گا۔

سیٹھ      :اچھی طرح جانتا ہوں۔ لیکن میں تمہیں رشوت نہیں دوں گا۔ میرے چار بنک ہیں۔ ان میں سے ایک کا دیوالہ میں نے جان بوجھ کر نکالا تھا۔ ان سب کا روپیہ جمع کرنے والوں سے لیتا ہوں  اور  اپنے بزنس میں لگاتا ہوں۔ لیکن اب میں اس رقم میں سے ایک پیسے کا بھی حقدار نہیں ہوں۔ میں تمہیں رشوت نہیں دوں گا۔ میرا اقبال جرم لکھو۔ میرے اوپر مقدمہ چلاؤ۔ میں ذلت و رسوائی  اور  موت کا مستحق ہوں۔ مجھے موت دے دو۔ میرے دل پرسے یہ بوجھ اسی وقت اٹھے گا۔

سپرنٹنڈنٹ         : (زور سے کئی بار گھنٹی بجاتا ہے)اردلی!سیٹھ جی کا بیان لکھواؤ اور  ان کی کار گیراج میں بند کر دو!

اردلی     :جو حکم سرکار!

سپرنٹنڈنٹ         :تم سے کتنی بار کہا  جائے کسی کو مت آنے دو سمجھے ؟!

اردلی     :جی سرکار۔

سپرنٹنڈنٹ         :جی سرکار!جی سرکار!!کیا لگا رکھی ہے۔ اب میں کسی سے نہیں ملوں گا۔ ہر گز ہر گز نہیں ملوں گا!!

اردلی     :مگر  سرکار۔ ۔ ۔

سپرنٹنڈنٹ         :اگر مگر  کیا کرتا ہے ؟

اردلی     :حضور میم صاحب!

سپرنٹنڈنٹ         :آ گئی ہیں ؟

اردلی     :جی سرکار!

سپرنٹنڈنٹ         :تو بھیجو انھیں جلدی اندر بھیجو۔

اردلی     :بہت اچھا سرکار!

سپرنٹنڈنٹ         :اوہ ڈارلنگ!شما کرنا اس گدھے اردلی کوتو تم جانتی ہو۔ بالکل بیوقوف ہے۔ آج کام بہت تھا۔ میں نے کہہ دیا تھا آج میں کسی سے نہیں ملوں گا۔ اس کم بخت نے تمہیں بھی روک لیا۔ تم اتنی خاموش کیوں ہو۔ سفر کی تکان ہے۔ شاید چائے پیو گی؟

بیوی      :نہیں۔

سپرنٹنڈنٹ         :تم اتنی اداس کیوں ہو؟خیریت توہے نریندر تو اچھا ہے ؟

بیوی      :ہاں۔ اچھا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ         :پھر کیا بات ہے ؟

بیوی      : (پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے) نریندر  کامنی سے شادی کر رہا ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ         :ہمارا بیٹا نریندر شادی کر رہا ہے ؟

بیوی      :کامنی سے !

سپرنٹنڈنٹ         :کامنی؟ارے وہی اپنے یار جوگندر سنگھ کی لڑکی؟نریندر اس سے شادی کر رہا ہے تو کرنے دو۔ اس میں ایسی گھبرانے کی کیا بات ہے ڈارلنگ! میں تو ڈر گیا تھا۔

بیوی      :بڑا انیائے ہو جائے گا۔

سپرنٹنڈنٹ         :تمہارا مطلب ہے ذات برادری کا فرق ہے۔ میں نہیں مانتا ذات برادری کے ڈھکوسلوں کو۔

بیوی      :نہیں !تم سمجھتے کیوں نہیں۔ وہ دونوں سگے بہن بھائی ہیں ؟

سپرنٹنڈنٹ         :کیا کہا؟تو کیا نریندر میرا بیٹا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تم بھی مجھ سے دغا بازی کرتی رہی ہو۔ تم میرے دوست جوگندر سنگھ کے ساتھ گلچھرے اڑاتی رہی ہو!میں برداشت نہیں کر سکتا۔ (چیخ کر) نکل جاؤ! نکل جاؤ!میرے سامنے سے دور ہو جاؤ!میں کہتا ہوں چلی جاؤ!!

بیوی      :میں تم سے کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتی۔ میں  اور  جوگندر کالج کے زمانے سے ایک دوسرے سے پریم کرتے تھے۔

سپرنٹنڈنٹ         : (بات کاٹ کر) بند کرو، پریم کہانی۔ میں کچھ سننا نہیں چاہتا۔ نکل جاؤ!

بیوی      :میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میں نے زندگی میں کبھی تم سے محبت نہیں کی۔ میں تمہاری محبت کے قابل نہیں تھی۔ میں نے ہر بار تمہیں فریب دینے کی کوشش کی۔ میں نے جوگندر سے پریم کیا۔ میں نے تمہیں دھوکا دیا ہے۔ میں نے ایک لمحے کے لئے بھی تمہیں نہیں چاہا۔ میں دھوکے باز ہوں مجھے سزا دو!بھگوان کی قسم میں سچ کہہ رہی ہوں۔ بالکل سچ کہہ رہی ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ         :سچ سے مجھے نفرت ہے سنا تم نے ؟مجھے سچ سے نفرت ہے۔ سچ بولنے والوں سے نفرت ہے۔ سچ زہریلا ناگ ہے جو زندگی بھر کے سکھ  اور   شانتی کو ڈسے لے رہا ہے (زور سے گھنٹی بجاتا ہے  اور  چیختا ہے) اردلی! اردلی!!

اردلی     :جی سرکار!

سپرنٹنڈنٹ         :میم صاحب کولے جاؤ۔ ان کا بیان قلم بند کراؤ۔ ۔ ۔  لے جاؤ!!

اردلی     :بہت اچھا حضور!

(دونوں چلے جاتے ہیں)

سپرنٹنڈنٹ         :تو یہ ہے اس ڈرامے کا انجام!میں یہ توہین برداشت نہیں کروں گا۔ اس کا علاج موت ہے صرف موت!!

(وقفہ)

ہیرا لال  :حوالات میں کوئی جگہ خالی ہوئی کپتان صاحب!(گولی کی آواز ہوتی ہے۔ )ارے یہ کیا؟کپتان صاحب!آپ نے یہ کیا کیا۔ آتم ہتیا۔ ۔ ۔  اردلی!سپاہیو!کپتان صاحب نے خودکشی کر لی۔ ۔ ۔ پستول سے گولی مار لی!!دیکھتے ہو سچائی کیسی بھیانک ہے ؟کیسی خطرناک ہے۔ ۔ ۔  اعلان کر دو آج سے کوئی سچ نہ بولے۔ ۔ ۔  آج سے کوئی جھوٹ کو برا نہ کہے۔ ۔ ۔ سچائی بڑی بھیانک ہے !!

(پردہ)

***

ماخذ: ’’مورپنکھی‘‘ ( اور  دوسرے ڈرامے)

مکتبۂ دین و ادب

لکھنو

 

 

ڈاکٹر محمد حسن

 

تماشا  اور  تماشائی

(غالبؔ پر ایک اسٹیج ڈرامہ)

 

(غالب کی غزلوں کے مختلف ٹکڑے گاتے ہوئے مختلف لوگ اسٹیج سے گزرتے ہیں ان میں کوئی ٹکڑا کتھک کے رقص کا ہے تو کوئی فلمی موسیقی کا۔ کوئی قوالی کا ہے تو کوئی کسی ڈرامے کا۔ )

(دروازے پر دستک۔ غالب دروازے کے قریب جاتے ہیں۔ غالب دروازہ کھولنے لگتے ہیں۔ )

مرزا      : (اسٹیج کے بازو سے آواز دیتے ہیں نظر نہیں آتے) دروازہ مت کھولو۔

غالب    :آخر کیوں ؟دیکھتا ہوں کون لوگ ہیں ؟

مرزا      : (آواز) مجھے معلوم ہے۔

(دستک پھر ہوتی ہے۔ )

غالب    :تو بتاتے کیوں نہیں ؟یہ سلسلہ کیا ہے ؟

مرزا      : (آواز) یہ لوگ برسی منا رہے ہیں۔

غالب    : (پھر دروازے کی طرف بڑھتا ہے) تو پھرکیا حرج ہے ؟

مرزا      : (entry)  (پھر ٹوک لیتے ہیں) پہلے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ لوگ کس کی برسی منا رہے ہیں۔ میری یا تمہاری؟

غالب    :ظاہر ہے برسی غالب کی منائی جا رہی ہے شاعر غالب کی۔

مرزا      :نہیں۔ برسی مرزا اسداللہ خاں عرف مرزا نوشہ کی ہے، ۱۰۵ سال پہلے میری موت ہوئی تھی۔

غالب    :تم سے کسی کو کیا دلچسپی ہے۔ تم تو  محض ایک امیر زادے تھے۔

مرزا      : اور  تم؟

غالب    :میں شاعر غالب۔ میرا ایک ایک  شعر آج بھی زندہ ہے۔

مرزا      :کس کی بدولت؟میری  اور  صرف میری۔

غالب    :یہ جھوٹ ہے۔ شاعر امیر زادے کے محتاج نہیں۔ تم فقط میرا جسم تھے۔ میری روح میری شاعری تھی۔

مرزا      :مت بھولو، میں نے تمہیں نام دیا، ہستی دی، ہنستے ہوئے ہونٹ، روتی ہوئی آنکھیں دیں۔ ترستا ہوا دل  اور  آسمانوں سے بھی زیادہ بلند پرواز کرنے والا دماغ دیا۔

غالب    :سارے امیر زادے اسی طرح بول بولا کرتے ہیں۔ یہ صحیح ہے مرزا نوشہ مرے تم تھے زندگی بھر مرے، کبھی کسی کو مار رکھا، کبھی خود مر گئے۔

مرزا      :تمہاری قسمت میں موت کہاں ؟

غالب    :میں بے چارا اپنا آپ تماشائی تھا، لے دے کے زندگی میں کوئی آرزو کی بھی تو صرف اتنی:

تھالے دے کے زندگی میں کوئی آرزو کی بھی تو

مرزا      :تو گویا میرے بغیر تمہاری ہستی، تمہاری حسرتیں  اور  ارمان تمہاری شاعری باقی رہتی؟

غالب    :نہیں۔ لیکن تمہارے گناہ میرے نام کیوں لکھے جائیں۔

مرزا      :ٹھیک کہتے ہو، لوگ آج کل میرے پیچھے پڑے ہیں۔ مرزا نوشہ کہاں پیدا ہوا اس نے اپنے سالے کی موت پر خوشی کاکیوں اظہار کیا، اس مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا قصیدہ کیوں لکھا۔ انگریزوں کی مدح سرائی کیوں کی اس نے اپنے دوست صدر الدین آرزدؔ کی بیوی کی پنشن رکوا کر نواب رام پور سے اپنے لئے پنشن حاصل کرنے کی کوشش کیوں کی؟

غالب    :یہی نہیں  اور  سنو۔ مولوی ذکاء اللہ نے لکھا:

’’غالب کا حال یہ ہے کہ سوائے شاعر ہونے کے کوئی خوبی اس میں نہ تھی۔ حسد اس قدر تھا کہ کسی کی عزت کو دیکھ نہ سکتا۔ تنگ دل ایسا کہ سارے بھائی بندوں کا حق مارنے میں اس کی عار نہ تھا۔ ذوقؔ مرگیا تو خوش ہو کر کہتا تھا آج  بھٹیاروں کی بولی بولنے والا مرا۔ شرابی ایسا کہ کہا کرتا تھا صہبائیؔ شعر کہنا کیا جانے، نہ اس نے شراب پی، نہ معشوقوں کے ہاتھ سے جوتیاں کھائیں، نہ جیل خانے میں پڑا۔ لالچی ایسا کہ ایک ایسا قصیدہ دس دس جگہ بیچتا تھا۔ ‘‘

مرزا      : (دروازے سے لگ کر کھڑا ہو جاتا ہے  اور  دستک ہونے پربھی غالب کو دروازہ کھولنے نہیں دیتا)نہیں دروازہ مت کھولو۔ پہلے یہ طے ہو جائے کہ وہ کس کی برسی منانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مرزا نوشہ خودغرض تھا۔ لالچی تھا تنگ دل تھا۔

غالب    :کیا غلط کہتے ہیں۔

مرزا      :لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے :

یہ جانتا تو آگ لگاتا نہ گھر کو میں

غالب    :گھر، میرا کوئی  گھر نہیں۔

مرزا      :نہیں، غالب بھولتے ہو۔ غالب کے نام سے پہچانے جانے سے پہلے صرف میں تھا مرزا اسداللہ بیگ  اور  میں نے آگرے میں آنکھیں کھولی ہیں ۱۷۹۸ء کا آگرہ۔ یہاں نظیر اکبر آبادی کے ’’شہر آشوب‘‘ کا آگرہ۔ جہاں میری خاندانی حویلی تھی  اور  دیوان خانے میں راجہ بنسی دھر کے ساتھ شطرنج کی بازی جمتی تھی۔

 

 

FLASH BACK – I

بنسی      :چال چلو مرزا۔

مرزا      :چلتا ہوں بنسی دھر۔

بنسی      :جی ہاں شطرنج ہے، بچوں کا کھیل نہیں ہے۔

مرزا      :ہمارے لئے تو بچوں کا کھیل ہی ہے۔ لیجئے فرزیں تو گیا۔

بنسی      :میاں صاحبزادے ہوا بھی، کچھ خاندان کی پرانی رسم و راہ کا پاس کرتا ہوں۔ ورنہ مات پلا کر نوشیرواں بنٍا دیتا۔ سوچتا ہوں تمہارے نانا ہمارے نانا ایک ساتھ فوج میں نوکر ہوئے۔ ایک ساتھ نوکری چھوڑی، ایک ساتھ زندگی گزاری۔ اگر دوچار مات پلا دی تو کہو گے کہ پشتوں پرانی دوستی کا پاس نہ کیا۔

مرزا      :واہ۔ ۔ ۔ واہ۔ ۔ ۔ میاں بنسی دھر کیا کہنے ہیں عمر میں مجھ سے دو ایک برس بڑے یا چھوٹے ہی ہو گے باتیں کرتے ہو تو نانا دادا سے کم نوالہ نہیں توڑتے۔

بنسی      :خیر جی مرزا۔ یہ بازی تمہیں اٹھا لو۔ ہمیں مانے لیتے ہیں اچھا چلو دوسرے بازی لگاتے ہیں۔

مرزا      :بس جناب۔ دوسری بازی نہیں۔ آج بلوان سنگھ سے پتنگ کے پیچ لڑانا ہے۔

بنسی      :کون؟راجہ بلوان سنگھ وہی گڈریوں کے کٹرے والا وہ بھی عمر بھر بچہ رہے گا  اور  تمہارا بھی یہی حال ہے۔

مرزا      :جی بس شطرنج کے سوا تو سارے کھیل گویا لڑکپن ٹھہرے تم بھی ذرا پیچ لڑاؤ تو جانیں۔

بنسی      :اماں توبہ کرو۔ میری سنو تو لعنت بھیجو پتنگ بازی پر۔ راجہ بلاس رائے کی حویلی میں مشاعرہ ہے، چلے چلتے ہیں۔ بھئی میری تو جان جاتی ہے ان مشاعروں پر۔ اکبر آباد کے شاعر ایران کے شاعروں کو شرماتے ہیں  اور  اپنے میاں نظیرؔ کا کلام بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔

مرزا      :کہو گے خودستائی کر رہا ہے۔ بخدا دوچار شعر تو ریختے میں ہم نے بھی کہنے شروع کر دئیے ہیں۔

بنسی      :سچ۔

مرزا      :پتنگ پر ایک قطعہ لکھا ہے۔ بخدا داد دینے میں کنجوسی نہ کرنا۔ عرض کیا ہے :

ایک دن مثل پتنگ کاغذی

لے گے دل سر رشتہ آزادگی

خود بخود کچھ ہم سے کنیانے لگا

اس قدر بگڑا کہ سر کھانے لگا

میں کہا اے دل ہوائے دل براں

بسکہ تیرے حق میں رکھتی ہے زیاں

دل یہ سن کر کانپ کر کہا پیچ و تاب

غوطے میں جا کر دیا کٹ کر جواب

(شعر کے بیچ ہی میں بول اٹھتے ہیں۔ )

غالب    :یہی لمحہ میری پیدائش کا تھا مرزا نوشہ سے غالب بننے کا لمحہ جب پہلی بار شاعر بیدار ہوا تھا۔

مرزا      :مگر  اس لمحے کی سالگرہ کوئی نہیں مناتا۔ میری برسی سب مناتے ہیں۔

غالب    :شاید اس کی ضرورت بھی نہیں۔ شمع روشنی دیتی ہے  اور  جل بجھتی ہے اس کی سالگرہ کون مناتا ہے۔

مرزا      :احساس فراموش ہو۔

غالب    :میں۔

مرزا      :ہاں تم، میرا احسان نہیں مانتے کہ غالب کے لئے مرزا نوشہ نے کیا کیا نہیں کیا، ذلتیں سہیں، ہر کس و ناکس کے آگے دامن پسارا، خوشامدیں کیں دست طلب دراز کیا، اپنوں کو اپنا نہیں سمجھا، تا کہ شاعر غالب کو فرصت کا ایک سانس میسر آ جائے، تم فکر سخن کے لئے ذرا سی آسودگی پا سکو۔

غالب    :آسودگی  اور  چین  اور  تم سے ؟تم نے مجھے زندگی بھر بے قرار رکھا۔ وہ دن یاد نہیں تمہیں۔

مرزا      :کون سادن۔

غالب    :جب مدتوں بعد میرے بچپن کا یار بنسی دھر گلی قاسم جان کے چورا ہے پر پتہ پوچھتے پوچھتے میرے گھر پہنچا تھا۔

 

FLASH BACK – II

(گلی قاسم جان کے قریب ایک چوراہا، رات کا وقت مشعلیں روشن ہیں، بنسی دھرکی عمر اب ۳۵۔ ۳۰ برس کی ہے۔ غالب ان سے پانچ سات سال بڑے ہیں۔ داستان گو داستان سنا رہا ہے۔ )

داستان گو           :جب شہر کے دروازے پر آیا ایک نعرہ لگایا قفل کو تبر سے توڑا  اور   نگہبانوں کو ڈپٹ کر للکارا کہ اپنے خاوند کو جا کر کہو کہ بہزاد خان ملکہ مہر نگار اور   شہزادہ کامگار کو جو تمہارا داماد ہے، ہانکے پکارے کے لئے جاتا ہے اگر مردمی کا کچھ نشہ ہے تو باہر نکلو اور   ملکہ کو چھین لو۔ یہ نہ کہو کہ چپ چاپ لے گیا نہیں تو قلعے میں بیٹھے آرام کیا کرو۔

(چاوش  اور  چوب دار اور  کچھ سپاہی آگے آگے دوڑے آتے ہیں۔ بر قندازوں کے ہاتھوں میں مشعلیں ہیں ’’ہٹو بچو۔ دور باش فرنگی ریزیڈنٹ بہادر کی سواری آتی ہے۔ ‘‘ کئی آوازیں لگاتے ہیں۔ بگھی گزرنے کی آواز آتی ہے۔ داستان کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ )

مجمع سے ایک مولانا:صاحبو ملاحظہ فرمایا آپ نے۔ فرنگی نے جو اشقلہ اٹھایا  اور   قلیم میں جو غضب ڈھایا ہے آپ حضرات نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ دن رات نہ جانے کتنے ہندو مسلمان بے دین ہو رہے ہیں۔ مدرسے تباہ، خانقاہیں ویران، دہلی کالج میں علم دین کی جگہ گٹ پٹ سکھائی جا رہی ہے۔

بنسی دھر            : (ایک تماشائی سے)مجھے نواب اسداللہ بیگ کا مکان پوچھنا ہے۔

ایک  اور  تماشائی:اماں یہ اسداللہ بیگ کون ہوئے۔

داستان گو           :اماں وہی، مرزا الٰہی بخش معروف کے داماد اسداللہ خاں۔ گلی میں سیدھے جا کر الٹے ہاتھ کو مڑ جانا، وہیں سب پتہ و نشان معلوم ہو جائے گا۔ وہی تو ہیں جن کا ایک بھائی یوسف مرزا پاگل ہو گیا ہے۔ آگرے سے دہلی آئے ہیں۔

(دہلی کے لفظ پر مجمع سے اچانک یوسف مرزا اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ )

یوسف مرزا         :دلی مر گئی، مر گئی دلی۔ اب صرف میرا بھائی اسداللہ دلی ہے۔ تم سب باطل ہو۔ کاغذی تصویر و زمانہ تم سب کو مٹا  ڈالے۔ (بنسی دھر کو شاید پہچان کران کو کندھوں سے پکڑ لیتا ہے۔ )تم کون ہو؟

بنسی      :میرا نام بنسی دھر ہے۔

یوسف مرزا         :پھر تمہاری بنسی کہاں ہے ؟برادرم، یہ دلی ہے۔ دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب۔ یہاں دن رات کٹھ پتلی کا تماشہ ہوتا ہے۔ سب ناچتے ہیں۔ لال قلعہ بھی ناچتا ہے اس کے اندر بیٹھا ہوا عالم پناہ بھی ناچتا ہے فرنگی فرنگن بھی ناچتے ہیں۔ کون نچاتا ہے ؟خاموش یہ مت پوچھو۔ آؤ ہم تم بھی ناچیں۔

(اتنے میں چوبدار یوسف مرزا کو تلاش کرتے ہوئے نکل آتے ہیں۔ )

چوبدار    :چھوٹے مرزا، چھوٹے مرزا چلئے گھر چلئے۔

یوسف    :ہمیں چھوڑ دو۔ ہم جا رہے ہیں۔

(چلے جاتے ہیں۔ )

بنسی دھر            :اسداللہ کہاں ہیں ؟

چوبدار    :لمبی کہانی ہے۔ سب بتاؤں گا۔ دوپہر رات گئی۔ انگریزی عملداری ہے دلی کی حالت خراب ہے، گھر چلئے۔

بنسی      :میں اس طرح گھر نہیں جانے کا۔ مجھے بتاؤ اسداللہ کہاں ہے ؟ کس حال میں ہے ؟

چوبدار    :کیا عرض کروں بندہ پرور، دلی اس خاندان کو راس نہ آئی۔ پورا خاندان تباہی میں آ گیا۔ سوچا تو یہ تھا کہ مرزا نوشہ رسالداری پائیں گے شادی کے بعد آل اولاد کا سکھ ملے گا تو باپ  اور  چچا کا غم بھی جی سے دھل جائے گا۔

بنسی      :کیا ہوا جلد بیان کرو۔ مرزا نوشہ خیریت سے تو ہیں ؟

چوبدار    :پہلے سرکار فرنگی سے حکم ہوا دس ہزار سالانہ مرحوم رسالدار نصراللہ بیگ کے عزیزوں کو ملا کر لے۔ پھر حکم ہوا فقط پانچ ہزار سالانہ ملے  اور  اس میں سب وارث شریک ہوں۔ اتنا بڑا خاندان  اور  اتنی تھوڑی رقم کیسے پورا ہوتا۔ پھر ایک نہیں دو نہیں سات اولادیں ہوئیں مگر  کوئی ڈیڑھ سال سے زیادہ نہ جیا۔ بہو بیگم کیا کیا تڑپی ہیں کہ دیکھانہ جاتا تھا۔ پھر چھوٹے بھائی نواب یوسف مرزا کی شادی ہوئی مگر  سکھ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ بچارے مصیبتیں جھیلتے جھیلتے پاگل ہو گئے۔

بنسی      : اور  مرزا نوشہ کیسے ہیں ؟

چوبدار    :نہ پوچھو سرکار۔ شاعری ہے  اور  وہ ہیں۔ مشاعرے پڑھتے ہیں۔ غزلیں کہتے ہیں۔ گلی گلی کوچے کوچے شاعر مشہورہیں  اور  بس۔ اب کیا کہوں۔ آخر سرکار کا پرانا نمک خوار ہوں۔

بنسی      :کہو۔ تمہیں قسم دیتا ہوں، مجھ سے کچھ نہ چھپانا۔

چوبدار    :دکھ سہا نہیں گیا ان سے۔ بس اب شراب منہ کو لگی ہے  اور  سنتا ہوں کہ ایک ڈومنی بچی پرفریفتہ ہو گئے ہیں۔ اب دیکھو دوپہر رات گئی ابھی واپس گھر نہیں پہنچے ہیں۔

(اسی اثنا میں غالب ہوا دار میں سوار نشے کی حالت میں گنگناتے ہوئے گزرتے ہیں۔ کہاروں کے ہاتھ میں مشعلیں ہیں۔ غالب چوبدار کی آواز کو پہچان لیتے ہیں۔ )

غالب    :ہوادار یہیں رکھ دو۔ (چوبدار سے) اتنی رات گئے یہاں کیا کر رہے ہو۔

چوبدار    :ناظر بنسی دھر بھیا اکبر آباد سے آئے ہیں۔

غالب    :بنسی دھر تم ہو تو  پھر آؤ میرے ساتھ ہوا دار میں بیٹھ جاؤ(کہاروں کو اشارہ کرتے ہیں۔ بنسی دھر بیٹھ جاتے ہیں)بنسی دھر دلی لٹ گئی۔ اب یہاں مرزا نوشہ کا کلام سمجھنے والا کوئی نہیں۔ بڑے بڑے سخن سنج طرہ و دستار والے کہتے ہیں مرزا نوشہ مہمل بکتا ہے کس کے دل میں اپنا دل ڈالوں کہ میری دھڑکنیں سمجھے۔ میرے لفظوں کی تہہ تک پہنچے۔ میرے خون جگر کی تراوش پاوے۔ چلو گھر چلیں۔ تم بھی ان باتوں کو نہیں سمجھو گے۔ میری جان انھیں سمجھنے کے لئے پتھر کا کلیجہ چاہئے۔ زندگی بڑی ظالم ہے دوست  اور  اس سے نکل بھاگنے کے لئے کوئی نہ کوئی پناہ، کوئی نہ کوئی چور دروازہ تو چاہئے :

کچھ تو دے اے فلک نا انصاف

آہ و فریاد کی فرصت ہی سہی

 

FLASH BACK – III

(نسوانی آواز ابھرتی ہے۔ )

رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو  اور   ہم زباں کوئی نہ ہو

بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہئے

کوئی ہم سایہ نہ ہو  اور   پاسباں کوئی نہ ہو

پڑئیے گر بیمار تو کوئی ہو تیمار دار

اور   اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

(نو وارد دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ گانا بند ہو جاتا ہے۔ آداب تسلیم کے بعد نو وارد ایک دم ماں سے مخاطب ہو جاتا ہے  اور  لڑکی کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ )

نو وارد   :میں کہتا ہوں اب انتہا ہو چکی۔ بات گھر سے نکلی کوٹھوں چڑھی۔ شہر میں بدنامی ہو رہی ہے۔ بچے بچے کی زبان پر تمہاری بیٹی  اور   مرزا نوشہ کے قصے ہیں۔ توبہ توبہ، اب میری بات مانو اس کے ہاتھ پیلے کر دو۔ )

ماں       :کیا کروں بیرن؟کچھ بس نہیں چلتا، تم جانو پھوٹی آنکھ کا دیدہ ایک ہی تو بچی ہے، اس کا دل بھی نہیں توڑا جاتا۔ اتی بڑی ہو گئی ہیں، میں نے کبھی جواس کا جی میلا کیا ہو۔ اچھے سے اچھا کھلایا، اچھے سے اچھا پہنایا۔ کبھی اس کا کہا نہ ٹالا۔ اس بڑھاپے میں چونڈے میں کالک لگتی تھی۔

نو وارد   :ہر گھر میں ایسے قصے ہو جاتے ہیں بہن مگر  آخر بزرگ کس دن کے لئے ہوتے ہیں۔ بچی ناسمجھ ہے۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ ذرا خبر کرنا پڑے گا۔ سب ٹھیک ہو جائے گی۔

ماں       : اور  جو میری چاند سی بیٹی کو کچھ ہو گیا؟

نو وارد   :بہن کیسی باتیں ارے شادی بیاہ کے بعد ارمانوں میں لگ جائے گی۔ یاد بھی نہیں رہے گا کہ تھے کوئی مرزا نوشہ بھی۔ اپنی آنکھوں کے سامنے ایسے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں تماشے دیکھ لئے  اور  پھر ذرا دل میں سوچو ڈومنی ذات ہمیشہ سے عزت دار،  غیرت والی مشہور ہے۔ ہم کوئی نیچ ذات ہیں کہ جس نے چاہا ہاتھ ڈال دیا۔ یہ قصہ ہو گیا تو ہمیشہ کے لئے ڈومنی ذات بھی کسی باجنے لگے گی۔

ماں       :تم میری بٹیا کو نہیں جانتے۔ وہ بڑی ہٹیلی ہے وہ چاند کے لئے بھی مچلے گی تو اسے لے کر چھوڑے گی یا اپنا جی کھو دے گی۔

نو وارد   :بالک ہٹ ہے مگر  ہٹ کے آگے ہار گئیں تو سر پکڑ کر روؤ گی، بچی ہاتھ سے نکل جائے گی۔ ذرا سوچو مرزا نوشہ اچھے گھرانے کا نواب زادہ، جیب میں کوڑی نہیں، خرچ لمبا، بیوی ہے، گھربار ہے، شاعری سے تو پیٹ پلتا نہیں۔ اول تو وہ گھر ڈالے گا کیسے  اور  گھر ڈال بھی لے تو یہ ننھے والی بات نہیں۔ آخر اس کی بیوی بھی نواب الٰہی بخش کی بیٹی، نواب لوہارو کی بھتیجی ہے، ناک چنے چبوا دے گی۔

ماں       :میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

نو وارد   :میرا کہا مانو تو اس جوکھم سے نکلو گی(جیب سے سونے کی مہریں نکال کر رکھتا ہے)یہ دو توڑے سونے رکھ لو۔ بڑی قسمت والی ہے تمہاری بیٹی۔ کوتوال کی نظروں میں ایسی جچی ہے کہ نہ پوچھو، بولو منظور ہے ؟باقی میں نمٹ لوں گا۔ تم ایک ذرا حامی بھر لو اور   پھر دیکھو چٹکی بجاتے ہی سب تصفیہ ہو جائے گا۔ شام ہوتے ہوتے منگنی کا جوڑا آ جائے گا۔

ماں       :میں اتنی جلدی کیسے حامی بھروں۔

(لڑکی کی سب کچھ سن لیتی ہے، غصے میں بھری ہوئی جالی تک آئی ہے۔ )

لڑکی       :اماں !ان سے کہئے یہاں سے چلے جائیں۔

ماں       :بیٹی!تیرے ماموں ہیں، ان کی اس طرح توہین نہیں کرتے۔

لڑکی       :میں کوئی کارچوب کی گڑیا نہیں ہوں کہ دو توڑے سونے میں بک جاؤں گی۔ یہ کون ہیں میرا مول لگانے والے، مجھے نیلام پر چڑھانے والے۔

نو وارد   :بیٹی!میری بات سنو۔ تمہاری بھلائی کے لئے کہتے ہیں۔

لڑکی       :خبردار جو مجھے بیٹی کہا۔ میں آپ کے کوتوال صاحب کو تلووں سے مسل کر پھینک دوں ان سے کہہ دیجئے گا۔

نو وارد   :میں کچھ نہیں کہوں گا۔ بڑھاپے نے کبھی جوانی سے قول نہیں ہارا۔ تم غصے میں ہو، جوش ٹھنڈا ہو جائے۔ ذرا معاملے پر غور کر لو، میں تھوڑی دیر بعد آؤں گا۔ سوچ لو، اچھی طرح سوچ لو۔

لڑکی       :مجھے نہیں سوچنا۔ آپ کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔

نو وارد   : (ہنستا ہے) بچی نادان ہو۔ میں ان باتوں کا برا نہیں مانتا۔ سوچنے سے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگڑا۔

(چلا جاتا ہے۔ )

لڑکی       : (جالی کے دوسری طرف آ کر) یہ آپ کیا کھچڑی پکایا کرتی ہیں اماں ؟ ہر وقت شادی، ہر وقت منگنی بیاہ۔ آپ کے نزدیک دنیا میں اس کے سوا  اور   کچھ ہے ہی نہیں۔ آپ سمجھتی کیوں نہیں ؟آپ مجھے جان بوجھ کر کیوں تڑپاتی ہیں۔ (رونے لگتی ہے) جائیے میں آپ سے نہیں بولوں گی۔

ماں       : (گلے لگا کر) بوڑھی گئی ہوں سٹھیا گئی ہوں بھول جاتی ہو، تو کچھ خیال مت کیا کرو۔

لڑکی       :بہت بڑی بھول ہے اماں۔ تم نے سوچا یہ بات انھیں معلوم ہو گئی تو ان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا شاعر کا دل ہے اماں۔ صدیوں میں ایسا انمول دل کسی کو ملتا ہے۔ دولت نہیں، حکومت نہیں، مشاعرے کی واہ واہ تک نہیں شیشے سے زیادہ نازک  اور  ہیرے سے زیادہ انمول دل کو تم چاہتی ہو کہ میں بھی ٹکڑے کر ڈالوں۔ یہ بہت بڑا پاپ ہے ماں۔

بنسی دھر            :اس طرح بے اطلاع اندر چلا آیا، معاف کیجئے گا۔ مجھے دو باتیں کرنی ہیں میرا نام بنسی دھر ہے اکبر آباد سے آیا ہوں۔ مرزا نوشہ کا بچپن کا دوست ہوں۔

لڑکی       : (بے قرار ہو کر جالی کی دوسری طرف آ جاتی ہے ماں اٹھ کر چلی جاتی ہے)فرمائیے، کیا مرزا صاحب نے کوئی پیغام بھیجا ہے ؟کیا کہا ہے انھوں نے ؟کیسے ہیں وہ؟خود ہی کیوں نہ چلے آئے۔

بنسی      :آتے ہوں گے۔

لڑکی       :تشریف رکھئے۔

بنسی      :بہن!مرزا کے بچپن کے دوست ہوں۔ ساتھ شطرنج کھیلنے میں راتیں سیاہ کی ہیں، باہم قصے کہانیاں کہی سنی ہیں۔ پتنگیں لڑائیں  اور  بازیاں ہاری جیتی ہیں۔ اس خاندان کو اپنی نظروں کے سامنے پامال ہوتے دیکھا ہے اکبر آباد میں آج بھی عبداللہ بیگ خاں  اور  مرزا کے چچا نصر اللہ بیگ خاں  اور  مرزا کے نانا غلام حسین خاں کا نام باجتا ہے۔ کوئی رسالدار، کوئی میدان میں نے اس خاندان کا وقار اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ان کی آن بان کا سورج میرے سامنے ڈوبا ہے۔

لڑکی       :میں کچھ سمجھی نہیں۔

بنسی      :آپ کو ایک نظر دیکھا تو مرزا کے حسن نظر کی داد دی۔ بخدا خالق نے اپنے ہاتھ سے نور کے پتلے میں جان ڈال دی ہے  اور  جادو بھری آواز بخشی ہے پھر مرزا نوشہ نے جان نچھاور  کر دی تو کیا تعجب۔ اس کی جگہ کوئی  اور  ہوتا تو کئی جانیں نچھاور  کر ڈالتا۔ مجھے یہ بھی بھروسہ ہے کہ اس نورانی پیکر میں ایسا ہی نازک،  لطیف  اور  ہمدرد دل بھی ہے جو دوسروں کے درد سے تڑپ اٹھتا ہو گا۔

لڑکی       :میں کچھ نہیں سمجھی۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟

بنسی      :میں نہیں مانتا۔ مرزا نوشہ کے شعر سمجھنے والی اتنی سیدھی سی بات نہ سمجھے میں نہ مانوں گا۔

لڑکی       :خدارا پہیلیاں نہ پوچھئے۔

بنسی      :لے دے کے اس گھرانے کے پاس تھوڑی سی آن بان بچی ہے آپ چاہیں تو یہ آن بان قائم رہ جائے۔

لڑکی       :میں چا ہوں ؟میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے بھائی صاحب۔ دنیا میری مرضی پر چلتی تو مرزا صاحب کا نام آفتاب و ماہتاب کی طرح رات دن عالم پر چمکتا۔ انھیں اپنے کلام کی داد ملتی، ان کی صداؤں پر لوگ سر دھنتے میرے بس میں تو کچھ بھی نہیں۔

بنسی      :میں آپ ہی سے کچھ مانگنے آیا ہوں۔ آپ اس گھرانے کی آبرو بچا سکتی ہیں آپ نے مرزا  نوشہ کو دیکھا مگر  اس گھرکی خوشی، اس خاندان کی آبرو مندی، اس کے گھربار کی ذمہ داریوں کا خیال نہیں کیا۔ مرزا نوشہ نے اپنا سب کچھ آپ پر وار دیا مگر  آپ نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ کوئی  اور   عورت آپ ہی کی طرح نازک، آپ ہی کی طرح دردمند عورت اپنا سب کچھ مرزا پر وار چکی ہے  اور  اسے وہ پیار بھی نہیں ملا جو خوش قسمتی سے آپ کومل گیا۔

لڑکی       :میں بھی انسان ہوں، میرے سینے میں بھی دل ہے، پتھر نہیں ہے بھائی صاحب۔ مجھے بھی جینے کا حق ہے۔

بنسی      :میں نے سنا تھا محبت قربانی دیتی ہے قربانی لیتی نہیں۔

لڑکی       : (غصے سے) آپ نے غلط سنا تھا، بالکل غلط سنا تھا آپ نے۔ عورت بھی انسان ہوتی ہے ہم گانے وٍا لیاں بھی انسان کا دل رکھتی ہیں۔

بنسی      :آپ ٹھیک فرماتی ہیں مگر  بڑی بیگم بھی عورت ہیں  اور  ان کا دل بھی انسان کا دل ہے۔

لڑکی       :میں کچھ نہیں جانتی۔ میں نے صرف اتنا سوچا تھا کہ درد سے چور شاعر کے دل کو اپنے پیار سے بھر دوں۔ پھر دل سوچا سمجھا کہاں مانتا ہے اس کی تو اپنی ڈگر ہے اپنی راہ ہے۔ پھر میں اسے سمجھانے والی کون؟ یہ سب مقدر کا پھیر ہے بھلا کبھی خواب میں بھی سوچا تھا کہ جس شاعر کے کلام کو اس طرح جی جان سے گاتی رہی ہوں کبھی اسے دیکھ بھی پاؤں گی، کبھی اس سے بات بھی کرپاؤں گی۔ ہائے کیسے اچنبھے کی بات ہے۔

بنسی      :ذرا سوچئے، ایک گھر تباہ ہو جائے گا۔ آپ پسند کریں گی یہ تباہی آپ کے نام لکھی جائے۔ ایک نامور گھرانا تاراج ہو جائے  اور  اس تباہی کی لپٹوں میں ایک عورت کا دل، اس کا سہاگ ہی نہیں اجڑے گا بلکہ ایک ہونہار شاعر کا مستقبل بھی جل جائے گا۔

لڑکی       :یہ سب مجھ سے کیوں کہتے ہیں آپ اپنے دوست کو سمجھائیے۔

بنسی      :وہ نہیں سمجھے گا اسی لئے تو آپ کو زحمت دینے حاضر ہوا ہوں، ذرا سوچئے پورے خاندان کا دار و مدار مرزا نوشہ پر ہے۔ وہ جوانی دیوانی کے نذر ہو گئے تو یہ با عزت خاندان بھیک مانگے گا۔ سرکار انگریزی میں پینشن کے کاغذات پیش ہیں وہاں اس قصبے کی سن گن پہنچی تو کیا ہو گا سرکار بھی یہی سوچے گی کہ نصراللہ بیگ کی پنشن الللے تللوں میں اڑائی جاتی ہے اب میں اس میں اضافہ بے محل ہے جسے آپ حافظ و خیام کے مرثیے پر دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ ایک انسان بھی توہے ایک مفلوک الحال امیرزادہ بھی توہے۔ میں آپ سے اس کے وقار، اس کی زندگی کی بھیک مانگتا ہوں۔

(دامن پھیلا دیتا ہے۔ تھوڑی دیر خاموشی رہتی ہے لڑکی چلی جاتی ہے اسٹیج پر ذرا دیر تاریکی۔ جب دوبارہ روشنی ہوتی ہے تو بنسی دھر جا چکے ہیں  اور  لڑکی ستار لئے خاموش سوچ میں گم سم بیٹھی ہے۔ )

(بہت دیر تک خاموش بیٹھی کچھ سوچ رہی ہے اسی عالم میں ماں پکارتی ہے تو چونک پڑتی ہے۔ )

ماں       :بیٹی!اب ستار رکھ دو چلو کھانا کھا لیں۔ دیر ہو رہی ہے۔

لڑکی       : (ایک دم چونک کر) اماں۔

ماں       :ہاں بیٹی! ڈر گئی۔

لڑکی       :اماں میں نے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ماں       :بیٹی!!

(خوشی سے)

لڑکی       :ماموں ٹھیک کہتے ہیں۔ انھیں بلاؤ ان سے کہو کہ منگنی کا جوڑا لائیں میں اس جوڑے میں کیسی لگوں گی۔ اماں تم نے میری شادی کے جوڑے تو سیئے ہیں میری بات مانوں گی؟

ماں       :کہو بیٹی۔

لڑکی       :مجھے دلہن بنا دو۔ مجھے شادی کا جوڑا پہناؤ، میرے ہاتھ چوڑیوں سے بھر دو، میری مانگ میں افشاں چن دو، آج سے میں نئی زندگی شروع کروں گی۔ چلو اماں چلو۔

(ماں کو گھسیٹتی ہوئی لے جاتی ہے۔ )

ماں       :پاگل ہوئی ہے۔ ذرا دم لے۔

لڑکی       :میری اچھی اماں اب دیر نہ کر۔ میری اچھی اماں۔

(دونوں چلی جاتی ہے۔ )

ماں       :ارے دوڑو۔ ۔ ۔ لوگو میں لٹ گئی۔ ارے لوگو میری بچی۔ ۔ ۔  ارے کوئی آؤ دیکھو میری چاند سی بٹیا کو کیا ہوا۔ ارے لوگو!میں لٹ گئی۔ ۔ ۔  ارے لوگو میں لٹ گئی۔ میں کیا جانتی تھی کہ میری بچی اس لئے دلہن بن رہی ہے۔ میں رنڈیا باتوں میں آ گئی۔ ۔ ۔ ہائے میں کیا کروں، کہاں جاؤں۔ ہیرے کی انگوٹھی میں زہر چھپا رکھا تھا۔ زہر کھٍا لیا میری بلو نے۔ ۔ ۔  ہائے، تیرے وارے جاؤں میری لاڈلی۔ تیرے بدلے مجھے کیوں نہ موت آئی۔

غالب    :تم امیر زادے تھے۔ عورت کی محبت کو بھی کھیل جانتے تھے۔

مرزا      :نہیں، تم محض شاعر تھے  اور  شعر میں گرمی  اور  سوز پیدا کرنے کے لئے تم نے ایک عورت کی جان لے لی۔

غالب    :یہ غلط ہے۔

مرزا      :یہ بالکل صحیح ہے۔

خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار

کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں

غالب    :چلو، اس بہانے تمہیں شعر تو یاد آنے لگے۔

مرزا      :تمہارے شعروں میں کیا؟میری زندگی ہی توہے۔ مجھے یاد نہ ہوں گے تو کسے یاد ہوں گے۔

غالب    :توسنو، تم نے اس عورت کو چاہا امیر زادے کے دل سے۔ تم نے اسے داشتہ کی نظر سے دیکھا یا نہیں یہ میں نہیں جانتا مگر  تم جیسے امیر زادے فقط آج کے نہیں بلکہ ابھی کے لمحے میں زندہ رہتے ہیں۔ زخم نہیں کھاتے فقط پھول چنتے ہیں۔

مرزا      : اور  آپ؟

(انتہائی طنز سے۔ )

غالب    :شاعر کے دل نے اس سے درد کی دوا پائی، درد لا دوا پایا۔ میں نے اسے چاہا  اور   اس میں زندگی کا ایک نیا روپ دیکھا۔ میں نے اسے نہ چاہا ہوتا اس کا سہارا نہ ڈھونڈا ہوتا تو میں پاگل ہو جاتا۔

مرزا      :معلوم ہے ان دنوں سخت پریشانی تھی۔ پنشن تھوڑی رہ گئی تھی۔ ایک دو نہیں سات بچے پے درپے مر چکے تھے۔ چھوٹے بھائی یوسف پاگل ہو چکے تھے  اور  ان کے گھربار کا بوجھ بھی میرے سر تھا۔

غالب    :اس وقت اس لڑکی نے مجھے سہارا دیا میری غزلوں کو گنگنایا  اور   میرے شاعرانہ وجود کو ہلا ڈالا۔

مرزا      :اسی زمانے سے شراب منہ کو لگی  اور  انہی دنوں جوئے کی عادت ہوئی۔

(لڑکی کی قریب آ جاتی ہے  اور  ان دونوں کو الزام دینے کی نظر سے دیکھتی ہے جیسے گریبان پکڑنا چاہتی ہو۔ )

لڑکی       :تم دونوں میں سے مرزا نوشہ کون ہے ؟

غالب    :

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

مرزا      :اچھا ہوا تم خود آ گئیں، ہم تمہارے پاس آ رہے تھے۔

لڑکی       :کیوں ؟

مرزا      :کچھ پوچھنا تھا۔

لڑکی       :۔ ۔ ۔ آپ دونوں میں سے مرزا نوشہ کون ہیں ؟

مرزا      :جی فرمائیے مجھے مرزا نوشہ کہتے ہیں۔

غالب    :تم غلط آدمی کو پوچھ رہی ہو، شاید تم غالب سے ملنا چاہتی ہو۔ شاعر غالب جس کی غزلیں تم نے گنگنائیں۔ جس کی زندگی میں تم نے تھوڑی دیر کے لئے سکون کی چاندنی فراہم کر دی۔

لڑکی       :بولو۔ میرے قتل کا ذمہ دار کون ہے۔ میرا خون کس کی گردن پر ہے ؟

غالب    :شاید وہ شاعر جس کا قتل زمانے کی گردن پر ہے۔

لڑکی       :میں کہتی ہوں تم دونوں میرے قاتل ہو۔ ۔ ۔ میرے قاتل!ایک نے میری آواز کا سودا کیا دوسرے نے میری خوب صورتی کا  اور   تم سے کسی نے بھی اس عورت کو نہیں دیکھا جو قربانی دے کر صرف محبت کی طلب گار تھی۔ میں کہتی ہوں تم نے مجھے کیا دیا؟

غالب    :محبت سودا نہیں۔

لڑکی       :تمہارے لئے سودا ہی تو تھی۔ شاعر، تم کو پناہ چاہئے تھی۔ کٹھور زندگی سے اپنے خیالوں میں پناہ چاہئے تھی وہ تم نے ڈھونڈ نکالی  اور  تم یہ نہ دیکھ پائے کہ میرے سینے میں بھی دل تھا، میں بھی آرزوؤں کی جھولی پھیلائے کھڑی تھی۔ مگر  تم کو میری نہیں اپنے تصور کی ضرورت تھی  اور   اپنے تصور کی چاہت میں تم نے مجھے روند ڈالا۔

غالب    :یہ جھوٹ ہے۔

لڑکی       :شاعروں کو اکثر جھوٹ سے پیار ہوتا ہے مگر  عورت ایسی سچائی ہے جسے شاعروں نے اپنی شاعری کے ذریعے جھوٹ بنا دیا ہے۔ میں بھی عورت ہوں۔ میں آج تم سے انصاف مانگنے آئی ہوں۔

غالب    :انصاف  اور  مجھ سے ؟جو زندگی بھر بے انصافی کا شکار رہا۔

لڑکی       :ہاں تم سے، میرے شاعر۔ آج جب دنیا تمہاری شہرت سے گونج رہی ہے۔ کیا کوئی ایک لمحے کے لئے بھی مجھے یاد کرتا ہے، جس کی پوری ہستی ایک کسک بن کر تمہاری شاعری کو جاوداں بنا گئی۔ ۔ ۔ بتاؤ میری فریاد کون سنے گا؟

مرزا      :تم دونوں مجھے الزام دو۔ سب مجھے الزام دیتے ہیں۔ تم میں سے کوئی مجھے نہیں جانتا۔ دس بارہ سال کی عمر میں ایک امیرزادہ دہلی آیا  اور   اس کے اوپر آسمان ٹوٹ پڑا۔ ایک دم پورے خاندان کا بوجھ سرپر، پھر ایک نہیں دو نہیں سات بچوں کا انتقال، چھوٹے بھائی پران حالات نے وہ ستم توڑا کہ پاگل ہو گیا۔ میں بھی خوان  اور  خوبصورت آدمی تھا۔ اگر شاعری، عشق و قمار بازی میں پناہ ڈھونڈی تو کیا گناہ ہو گیا  اور  اسی بے قراری میں تمہارا دامن پکڑا  اور  نتیجہ رسوائی، بے عزتی  اور  بے اندازہ غم۔

لڑکی       :میں جانتی تھی۔

غالب    :تم شرم  اور رسوائی سے خاک میں جا چھپیں، جس کا آسرا میں نے ڈھونڈا وہ موت کے پردے میں چھپ گیا۔ تم نے موت کی پناہ ڈھونڈ لی، مجھے یہ پناہ بھی نہ ملی۔ تم میری شاعری میں درد بن کر زندہ رہیں  اور  اس درد کو مجھ سے کوئی نہ چھین سکا۔

لڑکی       :میں نے بھی کبھی کبھی یہی سوچا ہے کہ میں شاعری کا ایک تصور تھی۔ محض ایک تصور جس سے تم نے پیار کیا وہ تمہارا تصور، تمہارا تخیل،  تمہاری اپنی تصویر تھی اسی لئے تم نے مجھے کوئی نام دیا  اور  وہ درد شاعری بن کر بکھر گیا۔ یاد رکھنا میں حشر میں دامن گیر ہوں گی۔ میرا خون فریادی ہو گا  اور   یہ فریاد زمین و آسمان کو نہیں عرش معلیٰ کو ہلا ڈالے گی۔ انصاف کی پکار تمہاری شہرت کے سارے فانوس گل کر دے گی۔

(ایک لمحے کے لئے اسٹیج کی ساری روشنیاں گل ہو جاتی ہیں۔ )

مرزا      :سنا تم نے ؟

غالب    :سن تومیں نے بھی لیا، لیکن وہ یہ سب کچھ تم سے کہہ رہی تھی۔

مرزا      :میں اس کا قاتل نہیں ہوں۔

غالب    :ہاں، تم صرف اسی کے نہیں ہم دونوں کے قاتل ہو۔ امیر زادے کے ہاتھوں وہ نازک سی لڑکی بھی قتل ہوئی  اور  شاعر غالب بھی۔

مرزا      :اپنے سارے الزام میرے سر منڈھ دو۔

غالب    :تم کس کس سے انکار کرو گے۔ تمہیں وہ دن یاد ہے جب شاعر نے مالی مشکلات کا حل نکال لیا تھا  اور  تم نے مجھے روک دیا۔

مرزا      :میں نے روک دیا!

غالب    :ہاں، امیر زادے۔ تمہیں نے مجھے روکا تھا!

 

(۴)

(پردہ اٹھتا ہے غالب دیوان خانے میں مسہری پر نیم دراز ہیں جیسے غم و اندوہ سے بے حال ہو گئے ہیں اچانک یوسف مرزا سرہانے جا پہنچتے ہیں۔ )

یوسف مرزا         :جہان آباد کا شاعر اعظم اسداللہ غالب۔ سرکاری بولی باسٹھ روپئے، ہے کوئی لینے والا۔ باسٹھ روپئے ایک، باسٹھ روپئے دو۔ ۔ ۔

غالب    : (چونک کر) یوسف مرزا، تم کب آئے، آؤ بیٹھو۔

یوسف مرزا         :بہت تکلیف ہے کیا؟

غالب    :تکلیف! کیسی تکلیف؟

یوسف مرزا         :ہم سب جانتے ہیں۔ جو جانتے ہیں وہ بولتے نہیں، جو بولتے ہیں وہ جانتے نہیں۔

(پس منظر سے ایک فقیر کی آواز ابھرتی ہے آہستہ آہستہ یہ فقیر کھڑکی کے پاس آ جاتا ہے۔ ہاتھ پھیلاتا ہے مرزا خالی صندوقچے سے دوچار پیسے نکال کراس کی ہتھیلی پر رکھ دیتے ہیں۔ فقیر یہ غزل گا رہا ہے 🙂

 

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں سنائے کیوں

دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں

بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

(مرزا فقیر کے ہاتھ پر پیسے رکھ دیتے ہیں۔ )

فقیر       : (دعا  دیتے ہوئے)بابا۔ اقبال بلند، دولت زیادہ!!

(مرزا کھڑکی بند کر دیتے ہیں۔ یوسف مرزا جو ابھی تک پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے اچانک قہقہہ مارکر ہنس پڑتے ہیں  اور   طنز سے دہراتے ہیں  اور  باہر نکل جاتے ہیں۔ )

یوسف مرزا         :اقبال بلند، دولت زیادہ!!اقبال بلند، دولت زیادہ!!

غالب    : (خودکلامی)اقبال بلند، دولت زیادہ، خوب!!اقبال اتنا بلند کہ بھکاری غزلیں گائیں  اور   عالم، فاضل، امیر، بادشاہ ہمت افزائی سے باز رہیں۔ رہی دولت تو اس کا یہ حال کہ ساری دنیا کا قرضدار متھرا داس درباری مل، خوب چند جین، سب تمسک مہری لے کر چاٹیں۔ ایک دن قرض خواہوں کا ہاتھ ہے  اور  یہ گردن۔ انجام موت ہے یا بھیک مانگنا کسی دکان سے دھتکارے گئے۔ کسی دروازے سے کوڑی پیسہ مل گیا۔ (اچانک نظر بیگم پر پڑتی ہے جو دیوان خانے میں آ گئی ہیں) بیگم، تم!دیوان خانے میں !!

بیگم       :آپ کو محل سرا میں آنے کی فرصت کہاں !مجھی کو آنا پڑا۔

غالب    :کہو۔

بیگم       :کیا کہوں ؟

غالب    :کہو گھر میں خرچ کی تکلیف ہے۔

بیگم       :ہاں۔

غالب    :کہو کہ قرض خواہوں کے تقاضوں سے تنگ آ گئی ہوں کہ پنشن کے باسٹھ روپیوں میں مہینے کا خرچ پورا نہیں ہوتا۔ اس طرح کب تک کام چلے گا گھرکا۔

بیگم       :پھر اس کا کچھ انتظام؟

غالب    :مجبوری۔

بیگم       :تو پھر اس امیر الامرائی کو سلام کیجئے، آن بان ختم کیجئے، محنت مزدوری ہی سہی گزر بسر تو ہو۔

غالب    :اسی لئے پنشن کی وا گزاری کے لئے کلکتے کا سفر کیا۔ کمپنی کو درخواست دی، سرکار دربار میں صدا لگائی مگر ن تیجہ کچھ نہیں۔

بیگم       :آخر کام کیسے چلے گا؟قرضہ دار سود جدا، چوبدار، نوکرانی، یوسف مرزا کی دوا دارو، کھانا پینا، مکان کا کرایہ۔ یہ سب کہاں سے آئے گا۔

غالب    :کہاں سے گنجائش نکالوں۔ سنو صبح کی تبرید موقوف، رات کی شراب گلاب موقوف، چاشت کا گوشت آدھا۔

بیگم       :اس طرح پیٹ کاٹ کر کیا ملے گا؟

غالب    :جو ملے غنیمت ہے۔

بیگم       :خدا جانے میرے نصیبوں کا سکھ چین کہاں چلا گیا۔ گھر میں نہ اچھا پہننے کو نہ اچھا کھانے کو۔ نہ اولاد کا سکھ نہ دل کا چین۔

غالب    :کوئی تدبیر بن نہیں پڑتی۔ میں نے خود کو اپنا غیر تصور کر لیا ہے جو دکھ مجھے پہنچتا ہے کہتا ہوں لو غالب کے ایک جوتی  اور  لگی۔ بہت اتراتا تھا کہ میں بڑا شاعر اور  فارسی داں ہوں۔ آج دور تک میرا جواب نہیں۔ لے اب قرض داروں کو جواب دے۔ ایک قرض خواہ کا گریبان ہاتھ میں ایک بھوک سنا رہا ہے میں اس سے پوچھ رہا ہوں اجی حضرت نواب صاحب آپ سلجوقی  اور  افراسیابی ہیں یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے کچھ تو اکسو کچھ تو بولو۔

بیگم       :تم اپنے کو غیر تصور کر لو میں تم کو غیر تصور نہیں کر سکتی۔

غالب    :میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔

بیگم       :کوئی مطلب نہیں ہے۔ کبھی تم نے یہ بھی سوچا ہے کہ تمہاری زندگی میں میں بھی شریک ہوں۔

غالب    :کیا کہہ رہی ہو بیگم؟

بیگم       :میں بھی انسان ہوں، تمہارے دکھ سکھ کی ساتھی ہوں۔ کیا میرا صرف اتنا ہی حق ہے کہ تم سے روٹی روزی، نان نفقہ چاہوں  اور  بس اس کے سوا میرا کوئی حق نہیں ؟

غالب    ۔ :کون ساحق چاہتی ہو تم؟

بیگم       :تمہیں کیا بتاؤں۔ کبھی تم نے یہ بھی سوچا ہے کہ تمہاری شاعری میں کوئی ایک شعر ایسا بھی ہے جو میرے لئے کہا گیا ہو۔ اصلی  اور  فرضی محبوباؤں کے ذکر ہیں، ہجر  اور  فراق کے چرچے ہیں۔ میں پوچھتی ہوں کہ وہ عورت ان شعروں میں کہاں ہے جس نے ہر دکھ سکھ میں تمہارا ساتھ دیا  اور  کچھ نہیں مانگا۔ کیا اس کا تمہاری شاعری پر کچھ حق نہیں ہے۔

غالب    :یہ اشعار کس کام کے ؟یہ شہرت کس گون کی۔ عاشقوں میں کوئی مجنوں  اور   فرہاد کی سی شہرت پالے تو کیا۔ شاعروں میں کوئی حافظ  اور  خیام سے زیادہ مشہور ہو جائے تو کیا۔ آخر کو تو مسئلہ وہی دو سانس چین سے گزار لینے کا ہے۔

یوسف مرزا         : (ایک دم داخل ہوتے ہیں۔ دیوانہ وار قہقہہ) جمشید کی میراث جمشید کی اولاد کو۔ آدم کی میراث رسوائی، اندوہ  اور  بہشت  اور  گناہ۔ ہم سب نیلام پر چڑھاتے ہیں  اور  گیہوں کا ایک دانا چاہتے ہیں۔ کوئی ہے جو اس ایک دانے کا سودا کر لے ؟

غالب    :یوسف مرزا خدا کے لئے خاموش ہو جاؤ۔

یوسف مرزا         : (بہت آہستہ سے)میں خاموش ہوں۔ لو میں خاموش ہو جاتا ہوں۔ اب چراغوں کا خدا حافظ۔

(چلے جاتے ہیں۔ )

غالب    :گھبراؤ نہیں بیگم!جلد کوئی صورت نکلے گی۔ کوئی صورت نکالنی پڑے گی۔

کاظم علی :قبلہ حاضر ہو سکتا ہوں ؟(آواز سن کر بیگم اندر محل سرا کی طرف جاتی ہیں انتظام الدولہ کا داخلہ۔ )غلام کاظم علی کورنش بجا لاتا ہے، مرزا صاحب۔ نصیب دشمنان مزاج تو بخیر ہے کہ حضور نیم دراز ہیں۔

غالب    :آؤ کاظم علی، کیسے آنا ہوا؟

کاظم       :غلام کا کیا آنا جانا۔ حضور کو سلام کرنے کبھی کبھار چلا آتا ہوں  اور   جائیں بھی کہاں۔ اب تو دہلی وہ اندھیر نگری ہے کہ خدا کی پناہ۔ اپنی قسم کھا کر عرض کرتا ہوں مرزا صاحب کہ قدم قدم پر تو جاسوس ہیں۔ فرنگیوں کے جاسوس، مرہٹوں کے جاسوس، روہیلوں کے جاسوس  اور   خدا معلوم کہاں کہاں کے کس کس کے جاسوس۔ پھر وہابیوں نے غدر مچا رکھا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے حکیم مومن خاں جیسا رند با صفا جہاد کی باتیں کرنے لگا۔ اب آپ سے بھی کیا چوری ہے مرزا صاحب قبلہ، میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ وہابیوں سے فرنگی حکومت تک پریشان ہے۔ خفیہ خفیہ کمپنی بہادر کو پرچہ لگا ہے کہ یہ لوگ انگریزوں کے خلاف جہاد بولنے والے ہیں۔ حکم ہوا ہے کہ ان کی نگرانی رکھی جائے۔

غالب    :باتیں کرتے کرتے کبھی دم بھی لے لیا کرو۔

کاظم       :آپ تو ناچیز  کو شرمندہ کرتے ہیں مرزا صاحب۔

غالب    :اپنی کہو، کیسی گزر رہی ہے ؟

کاظم       :کچھ نہ پوچھئے مرزا صاحب قبلہ، حال پتلا ہے۔ ہمارا دھندا تو آپ جانتے ہیں امیر زادوں کے ساتھ بندھا ہوا اترا ہے۔ کچھ سیر و تفریح، کچھ عیش و نشاط کا چرچا ہو تو بندۂ درگاہ کے ہاتھ بھی کچھ لگ جاتا ہے۔ ادھر اس کم بخت کوتوال شہر نے وہ ناک میں دم کر رکھا ہے کہ توبہ بھلی۔ دہلی کے شریفوں کودو چار پانسے پھینکنے  اور  دوچار بازیاں تک لگانا محال ہو گیا ہے پھر اپنی پتی کہاں ؟

غالب    :تمہیں بھلا اس کاروبار میں کیا مل جاتا ہے ؟

کاظم       :ہم بھی پچھ لگوؤں میں ہیں حضور والا۔ مگر  اصل حصہ تو اس کا ہے جس کے گھر پر جمے اس کی چاندی ہے۔ آپ کا محلہ ماشاء اللہ کوتوال کی نظروں سے بچا ہوا ہے اگر یہاں کوئی ٹھکانہ مل جائے تو بگڑی بن جائے۔

غالب    : (ڈر کر) کیسی باتیں کرتے ہو کاظم علی۔

کاظم       :ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ آخر اپنی عمر بھی اسی کاروبار میں گزری ہے اگر کسی کو کانوں کان خبر ہو جائے تو قبلہ کاظم علی انتظام الدولہ کا سر قلم کرا دیجئے گا۔ بس ایک بار ہاں، کر دیجئے۔ سب انتظامات چٹکی بجاتے میں مکمل کرا دوں گا۔ سچ پوچھئے تو مرزا صاحب، اب دھندا ہی کونسا رہ گیا ہے۔ دربار سے خلعت  اور  منصب بند ہیں جاگیریں ختم ہو چکیں، نوکری ملتی نہیں۔ اب  آخر گزارا چلے تو کیسے چلے۔ آپ ذرا اشارہ کیجئے واللہ سارے قرضے ایک ہی مرتبہ ادا ہو جائیں گے، پھر آپ دوسروں کے قصیدے نہیں لکھیں گے دوسرے آپ کے قصیدے پڑھتے پھریں گے۔

غالب    :انتظام الدولہ!!

کاظم       :بس میری خاطر، ایک بار!

غالب    :نہیں۔ ۔ ۔ اب تم جاؤ، مجھے بھی ایک جگہ جانا ہے۔

کاظم       :بہت بہتر، حضور۔ بندہ پھر حاضر ہو گا۔ آداب بجا لاتا ہوں۔

غالب    : (چوبدار کو آواز دیتے ہیں)ارے کوئی ہے، ہوا دار تیار کراؤ۔

چوبدار    :کہاں جانا ہے ؟

غالب    :دلی کالج۔

 

(۵)

مرزا      : (قہقہہ لگاتا ہے۔ )

غالب    :ہنستے ہو۔

مرزا      :آگے کی داستان مجھے معلوم ہے۔

غالب    :کیا جانتے ہو تم؟

مرزا      :یہی کہ تم ہوا دار میں سوار ہو کر دلی کالج پہنچے۔ تمہیں نوکری کا پروانہ مل چکا تھا۔ دلی کالج میں فارسی پڑھانے کی خدمت تمہارے سپرد ہو چکی تھی۔ تم نوکری کرنے گئے تھے  اور  اس امید پر ہوادار میں بیٹھے رہے کہ کالج کا سربراہ تمہارے استقبال کو آئے گا۔ تمہارے استقبال کو کوئی نہیں آیا  اور   تم واپس چلے آئے۔

(ہنستا ہے۔ )

غالب    :جانتے ہو کیوں ؟

مرزا      :تم نے یہی کہا تھا کہ نا کہ  ’’نوکری اس لئے کرنا چاہی تھی کہ عزت بڑھے۔ اس لئے نہیں کہ عزت  اور  کم ہو جائے۔ ‘‘

غالب    :جانتے ہو یہ لفظ کس کے ہیں ؟

مرزا      :کہو۔

غالب    :یہ لفظ تمہارے تھے۔ شاعر قصیدے لکھ کر پیٹ پال سکتا ہے۔ بہت آگے بڑھے تو مدرسی کر کے پڑھا لکھا کر جی سکتا ہے میں نے نوکری کرنی چاہی  اور  امیر زادے نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں۔ تم نے مجھے عزت کا واسطہ دیا جھوٹی عزت کا واسطہ، تم نے خاندانی شان کی قسمیں دلائیں۔ جھوٹی شان کی جھوٹی قسمیں۔ امیر زادے تم نے مجھے دلی کالج کے دروازے سے واپس لوٹا دیا۔

مرزا      :میں نے روکا تھا تمہیں۔ تم نے دلی کالج کے سربراہ انگریز کی شان میں زوردار قصیدہ پڑھا ہوتا۔

غالب    :تم میرے ہمزاد تھے میری ذات کا حصہ تھا تمہیں کس طرح اپنے وجود سے کاٹ پھینکتا۔ تم نے میرے دل پروہ گھونسا مارا کہ میں جھوٹی عزت کی خاطر دلی کالج کی نوکری کا خیال چھوڑ کر گھر لوٹ آیا۔ پھر وہی کنج قفس۔

 

(۶)

غالب    : (چغہ اتار کر چوبدار کو دیتے ہیں۔ نظر انتظام الدولہ کاظم علی پر پڑتی ہے۔ )

کاظم       :قبلہ، آداب بجا لاتا ہوں۔ کب سے آپ کے انتظار میں بیٹھا ہوں ؟

غالب    :کیوں ؟میں نے تم سے انتظار کرنے کوکب کہا تھا؟

کاظم       :آپ نے تو نہیں فرمایا تھا مگر  میرا دل کہتا تھا کہ مجھے انتظار کرنا چاہئے۔

غالب    :کیا کہنا چاہتے ہو؟

کاظم       :وہی پرانی بات ہے قبلہ، اپنا نہیں تو میرا خیال کیجئے آخر ایک مدت سے آپ کانیاز مند ہوں۔ ایک بار ’ہاں‘ کر دیجئے۔ وارا نیارا ہو جائے گا۔ کوتوال شہر کی کیا مجال ہے کہ آپ کی حویلی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ لے۔ اس کے فرشتوں کو خبر تک نہ ہو گی۔

غالب    :میں مجبور ہوں کاظم علی۔ مجھے منظور ہے۔

کاظم       : (خوشی سے اچھل پڑتا ہے۔ ) مبارک ہو۔ مرزا صاحب، بس اب آپ کے سارے قرضے بے باق ہو جائیں گے۔ بس اب تو چاندی ہے چاندی۔ آج شام تک پانسہ پلٹ جائے گا۔

شرابی     :اپنا میر کاظم علی بھی خدا کی قسم۔ برق ہے۔ کیا جگہ ڈھونڈ نکالی ہے۔ کوتوال شہر کے خواب و خیال میں بھی نہیں گزر سکتی۔

دوسرا جواری        :بس اب بات چیت موقوف، نقدی نکالو اور  بازی سنبھالو۔

تیسرا جواری        :نال کی رقم مرزا صاحب کی۔

کاظم علی :مرزا صاحب قبلہ، گستاخی معاف۔ سنتا ہوں آپ بھی بے نظیر کھیلتے ہیں اجازت ہو تو دو بازیاں ذرا بد کے ہو جائیں۔

غالب    :اچھا، یوں ہی سہی۔

دوسرا جواری        :اچھا تو بازی شروع، نقدی نکالو یارو نقدی!

شرابی     :نقدی، یہ لو نقدی، ہر جگہ نقدی کی پکا رہے۔ نقدی نہ ہوئی نعوذ باللہ خدا ہو گئی۔

جواری    :اجی حضرت، اسی کی دھن پر خدائی ناچتی ہے۔

شرابی     :ناچتی ہے تو ناچے ہم ایسی کو ٹھوکر مارتے ہیں۔

(دستک)

غالب    :کون، اس وقت کون ہے ؟

باہر سے آواز       :سواریاں آئی ہیں۔

کاظم       :کوئی بات نہیں آپ اطمینان سے دروازہ کھول دیں  اور  کھیل جاری رکھیں۔

(دروازہ کھلتا ہے۔ )

کوتوال    :خبردار میں کوتوال شہر کی حیثیت سے تم سب کو قمار بازی کے جرم میں گرفتار کرتا ہوں۔ مرزا صاحب قبلہ مجھے افسوس ہے۔ سپاہیو سب کو حراست میں لے (ڈانٹتا ہے۔ ) لے چلو۔

یوسف مرزا         : (اچانک داخلہ) خبردار!جو کسی نے آگے قدم بڑھایا۔ میرے بھائی کو چھوڑ دو۔ نہیں تو ایک ایک کو قتل کر دوں گا۔ (لوگ ان کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔ )تم سب دیوانے ہو۔ میرا ہاتھ روکتے ہو۔ انھیں کچھ نہیں کہتے جو ہاتھ قلم کرتے ہیں  اور  منصف کہلاتے ہیں۔ جو گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالتے ہیں  اور  خداوند کہے جاتے ہیں۔ میرا کیا ہے۔ آفتاب کو قتل کر دو، ماہتاب کو زنجیریں پہنا دو، پھولوں کو شاخوں سے نوچ لو۔ نسیم سحر کو پاؤں میں گھنگھرو پہنا کر نچاؤ، شاہراہوں پر خون دل کا چھڑکاؤ کرو، لبوں پر مہریں لگا دو، آنکھوں میں دہکتی ہوئی سلاخیں ڈال دو۔ میرا کیا ہے میں اپنے رستے جاتا ہوں۔

(چلے جاتے ہیں۔ )

غالب    :تمہارے ہاتھوں مجھے پہلی شکست ہوئی۔ ایک امیر زادے نے شاعر کو ہرا دیا۔

مرزا      :امیر زادے ہمیشہ شاعروں کو ہراتے ہیں۔

غالب    : اور  آج۔ جب میرا جشن منایا جا رہا ہے امیرزادہ کہاں ہے، آج نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسداللہ خان بیگ سب مر گئے ہیں، ان کی ہڈیاں گل سڑ کر خاک میں مل گئیں۔ صرف غالب زندہ ہے۔ صرف غالب۔

مرزا      :چلو جیل خانے کا تجربہ بھی اچھا تھا۔

غالب    :ہاں تمہارے کپڑے میلے کچیلے تھے کھانے میں مٹی  اور  کنکر تھے مگر  میرے ہونٹوں پر شعرتھے تمہاری روح زخمی تھی  اور  میرے لبوں پر نغمہ تھا۔

مرزا      : اور  وہاں سے واپسی پر تم نے مجھ سے انتقام لے لیا۔

غالب    :یعنی آخر مغل بادشاہ بہادر شاہ نے مجھے اپنا استاد مقرر کر کے تمہیں زک دے دی۔

مرزا      :یوں پوچھتے ہو جیسے تمہیں اس کی خبر ہی نہیں ؟

غالب    :مجھے خبر ہے میں نے ہی تو کہا تھا:

غالب وظیفہ خوار ہو دو بادشاہ کو دعا

وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

مرزا      :مٹتی ہوئی دلی میں مٹتے ہوئے شہنشاہ کے استاد۔

(طنزیہ ہنسی)

غالب    :امیرزادہ ہار گیا، شاعر جیت گیا۔

مرزا      :میرے اوپر طنز کرتے ہو۔

غالب    :لوگوں کو زمین کے کونے، کھنڈروں میں خزانے ملتے ہیں۔ مجھے یہ خزانہ قید خانے کے ایک گوشے میں ملا۔

مرزا      :خزانہ؟

غالب    :ہاں خزانہ یہ تھا کہ سرشاری  اور  سرخوشی وہ ہے جو دکھ درد سے ڈر کر نہیں اس کے باوجود حاصل ہو نسان، وہ غم ساری تلخی  اور  ترشی کو زندگی کا حصہ سمجھ کر اسے نشاط و کیف کا جزو بنا لے میں نے اپنا ساغر سرشار صبح محشر کی ہل چل سے ڈھال لیا۔ میں نے اپنی محرومیوں پر ہنسنے کا حوصلہ پایا اس کے بعد سب کچھ ہیچ تھا۔

مرزا      :پھر یہ قصیدہ نگاری؟

غالب    :یہ بھی ہیچ تھی قصیدہ بھی اک طرح کا جوا  تھا محض بھیک کا پیالہ۔

مرزا      : اور  اسی لئے ایک نام کاٹ کر دوسرے ممدوح کا نام لکھتے رہے۔

غالب    : (طنزیہ ہنسی) مٹتی ہوئی دلی کے ایک مفلس شاعر کو اتنی آزادی بھی نہ دو گے۔ میں نے اسی خزانے کے پا لینے کے بعد ہنسنا سیکھ لیا۔

مرزا      :تم بہادر شاہ کے مورخ بنے۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں تم نے اپنا روزنامچہ لکھا۔ دستنبو نام اچھا تھا مگر  تم نے اپنے بھائی کے ساتھ نا انصافی کی۔

غالب    :کیسی بے انصافی؟

مرزا      :کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ تمہارا بھائی بخار میں مبتلا ہو کر نہیں مرا فرنگی سپاہیوں نے اسے گولی کا نشانہ بنایا۔

غالب    :معلوم ہے۔

مرزا      :تو پھر؟

غالب    :جو کچھ ہوا تم دیکھو گے سنو گے۔

مرزا      :ضرور۔

(غالب دیوان خانے میں بیٹھے ہیں کہ یکایک شور و غوغا سنائی دیتا ہے۔ توپوں کی گھن گرج، شور، نالہ و فریاد رونے چیخنے کی آوازیں۔ غالب کا چوبدار گھبرایا ہوا داخل ہوتا ہے  اور  دروازہ بند کرنا چاہتا ہے۔ )

غالب    :کیا ہوا؟

چوبدار    :غضب ہو گیا حضور، فرنگی سپاہی شہر میں گھس آئے ہیں۔ شہر میں فرنگیوں  اور  باغیوں کے بیچ ہنگامہ مچا ہوا ہے، مکان لوٹے جا رہے ہیں، لوگ مارے جا رہے ہیں۔

(شور پھر بڑھتا ہے۔ دین دین۔ دھرم دھرم کی آوازیں، ایک انگریز کی آواز Fire   گولیوں کی آوازیں۔ )

یوسف مرزا         : (ایک دم آگے بڑھتے ہیں  اور  دروازہ کھول کر باہر جانا چاہتے ہیں۔ )

غالب    :یوسف مرزا کیا کرتے ہو، باہر جانے میں خطرہ ہے۔

یوسف مرزا         :اب آئے ہیں کھیلن ہوری (گاتے ہوئے) اب آئے ہیں کھیلن ہوری۔ ۔ ۔

غالب    : (دوبارہ روکتے ہوئے) یوسف مرزا۔

یوسف مرزا         :وہ سب بلا رہے ہیں دلی مجھے بلا رہی ہے، کب سے چلا چلا کر بلا رہی ہے، دلی کی فریاد کوئی نہیں سنتا۔ کوئی بھی نہیں سنتا۔ (یہ کہتے ہوئے ایک دم دروازہ کھول کر باہر چلے جاتے ہیں۔ ) ملک خدا کا، خلق غالب کی، حکیم یوسف مرزا بہادر کا فرنگی مرگیا، دلی جاگ گئی۔

(Fire)  کی آواز کے ساتھ یوسف مرزا کی بھیانک چیخ  اور  شور)

غالب    : (دروازہ کھول کر دیکھتے ہیں۔ چوبدار یوسف مرزا کی لاش کو اندر لاتا ہے خون بہہ رہا ہے۔ ) گولی ماردی۔ اسے کیوں گولی ماردی؟وہ کون سے ملک کا بادشاہ تھا۔ کیا کیا تھا اس نے۔ میرے دیوانے بھائی نے ان ظالموں کا کیا بگاڑا تھا۔ (بیگم لاش پر آہ  و بکا کرنے لگتی ہیں۔ غالب انھیں روکتے ہیں۔ ) نہ روؤ بیگم۔ اب رونے سے کیا ہو گا۔ میرا دیوانہ بھائی اب اس دنیا میں نہیں۔ سب کچھ لٹ گیا۔ خدا نے اسے ایک زندگی دی تھی وہ بھی لوٹ لی۔ ایک بار اس دنیا میں آنا  اور   اس قدر ناکامی و نامرادی سے رخصت ہونا، زندگی کا ایسا انمول تحفہ  اور  اتنی بڑی سزا۔ ایسا بیش بہا موتی  اور  اس طرح کیچڑ میں بہا دیا جائے۔

مرزا      :مگر  پھر تم نے ۱۸۵۸ء کے اپنے فارسی روزنامچے میں یہ سب کیوں نہیں لکھا۔

غالب    :تم نے مجھے کہاں لکھنے دیا امیر زادے نے میرے ہاتھ سے قلم چھین لیا۔ شاعر تو مجاہد بھی بن سکتا تھا مگر  امیر زادہ بزدل ہوتا ہے اسے تو اپنے حلوے مانڈے سے کام تھا اسے تو انگریزوں کے دربار کی اگلی صف میں جگہ چاہئے تھی خطاب درکار تھا جھوٹی عزت چاہئے تھی تم میری کمزوری تھے  اور  میں نے جھوٹ لکھ دیا کہ میرا دیوانہ بھائی بخار میں مبتلا ہو کر مرگیا۔ میں یہ نہ دیکھ سکا کہ انگریز سپاہیوں نے اسے گولی ماردی تھی۔ یہ بھی نہ لکھ سکا کہ میں نے بہادر شاہ کی حکومت دوبارہ قائم ہو جانے پر ’’سکہ‘‘ کہہ کر دیا تھا۔

مرزا      :الزام میرے سر رکھتے ہو تمہیں اندازہ نہیں تھا کہ حالات اس طرح پلٹا کھائیں گے۔

غالب    :امیر زادے کو ان حالات کا پتہ ہونا چاہئے تھا۔ شاعر تو اپنی  دنیا آپ ہے میں صرف شعر گنگنا کر خاموش ہو گیا:

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں

بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، کوئی ہمیں اٹھائے کیوں

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

مرزا      :شاعر اچھے ہو غالب۔

غالب    :قدر افزائی کا شکریہ ظل سبحانی نے بھی ایک بار غزل سن کر فرمایا، مرزا پڑھتے خوب ہو۔

مرزا      :یہ بتاؤ کہ زندگی ایسی بے دردی سے گزارنے کے بعد ایسے بے پناہ شعر کیسے کہہ لئے تم نے مجھے خبر بھی نہیں دی۔

غالب    :امیر زادوں کوکس کی خبر ہوتی ہے، تم جانتے نہیں یا جان بوجھ کر انجان بنتے ہو میں اگر کامیاب ہو جاتا پنشن پا لیتا، خلعت  اور  منصب مجھے مل جاتا میں بھی اپنے باپ چچا کی طرح رسالدار ہو جاتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تومیں امیر زادوں ہی کی باتیں کرتا کھوکھلی بے سر و پا سطحی، مگر  درد نے مجھے اس دلدل سے نکال کر پورے زمانے کے انسانوں کی صف میں لا کھڑا کیا میں نے اپنے زمانے کا درد لے لیا میں اپنے دور کے سبھی انسانوں کو عبرت  اور  عظمت کا مرقع بن گیا میں نے کہا ہے۔

مرزا      :پھر شعر سناؤ گے۔

غالب    :نہیں، شعر فہمی تم میں کہاں، تمہیں ترجمہ سناتا ہوں۔ ’’اس نے چہرہ بے نقاب کر دیا۔ میرے بے ہودہ بکنے والے ہونٹوں پر مہر لگا دی ہے میرا دل لے لیا  اور   دیکھنے والی دو آنکھیں دے دیں میرے ہاتھ سے بادشاہان عجم کا نشان لے لیا گیا  اور  اس کے بدلے میں خزانے بخشنے والا قلم دے دیا۔ ‘‘یہ شاعری جس کی تم کبھی کبھی تعریف کرتے ہو اور  سمجھتے ہو کہ اس کا حق ادا ہو گیا ہے یہ شاعری میری پوری زندگی کے دکھ درد کا مول ہے۔

مرزا      :دکھ درد کی بات نہ کرو۔ مزے سے شراب پیتے ہو، چین سے خط لکھتے ہو، بڑھاپے میں بھی تمہارے اوپر جان چھڑکنے والے دوست  اور   شاگرد سبھی موجود ہیں۔

غالب    : اور  قاطع برہان کے ہنگامے پر گالیاں دینے والے ؟

مرزا      :اس ہنگامے میں تم خواہ مخواہ پڑ گئے اپنا علم و فضل جتانے کے لئے۔

غالب    :شاعر کو لفظ  اور  لغت پر اظہار خیال کی آزادی نہیں دو گے۔

مرزا      :تمہاری اکثر رائیں غلط تھیں۔

غالب    :کیا مجھے غلط رائے رکھنے کا حق نہیں تھا۔

مرزا      :ہو گا، میں کہہ رہا تھا کہ بڑھاپے میں تمہیں سبھی عیش مل گئے تھے شہرت بچوں کا سکھ،  عارف کے بچے کیا کیا مزے کرتے تھے۔ پلنگ کی صاف چادروں پر میلے میلے پاؤں لے کر چڑھتے، کیا کیا تنگ کرتے تھے۔

غالب    :ہاں انھیں کو تو میں نے اپنے خطوں میں ہتھکڑیاں کہا ہے۔ انھوں نے زندگی کا موہ پیدا کر دیا۔

مرزا      :پھر نواب رام پور جیسے قدردان جو برابر سے ملتے تھے  اور  سلوک کرتے تھے۔

غالب    :میری مسرتوں کو روپے پیسے، دوستوں  اور  خاندان کے دکھ سکھ سے ناپتے ہو، بڑے نادان ہو۔

مرزا      :احسان فراموش ہو، امیر زادے نہ ہوتے تو زندگی سے پیار کرنا سیکھتے، عیش کا مطلب نہ سمجھتے، عزت کی تڑپ سے واقف نہ ہوتے۔

غالب    : اور  ان نعمتوں کے لئے جب تڑپتا ہوں تو تم ہنستے ہو، زندگی بھرمیں روتا رہا  اور  تم ہنستے رہے۔ ۔ ۔ تم نے زندگی سے بے پناہ پیار سکھایا مگر  فقط اس کا لالچ دیا، اس کا عرفان نہیں دیا۔ شاعری کیا ہے مرزا، صرف زندگی  اور   حسن سے بے پناہ پیار۔ اس کی لذت، اس کی بے پناہ خوبصورتی سے لگاؤ۔ پھر اپنی تنگ دامنی کو دیکھتا ہوں تو تڑپتا ہوں، اپنی مجبوری پر روتا ہوں، اپنی نارسائی پر اگر کوئی مستی  اور   محرومی کا شاعری ہو سکتا ہے تو میں ہوں، مرزا۔  اور  محرومی کے اس دورا ہے پر بانکپن سے اپنی ٹوپی ٹیڑھی کرتا ہوں  اور  غم پر قہقہہ لگاتا ہوں، درد کے زہر کو مسکراتے مسکراتے شراب ناب کی طرح پی جاتا ہوں۔ میں نے آبگینے کے ٹکڑے گلا کر شراب میں ڈال لئے ہیں کہ سینہ زخمی ہوا  اور  لب مسکراتے رہیں۔

مرزا      :یہ ہمت!

غالب    :یہ ہمت ہی میرے  اور  تمہارے درمیان مشترک ہے۔ یہ ہمت ہی میرے  اور  آج کے زمانے کے درمیان ہے۔ یہ ہمت ہی مجھے زندہ رکھتی ہے میں دیکھتا ہوں آج کے نوجوان کے چہرے مرجھائے ہوئے  اور   اداس ہیں مگر  میں نے دیکھا ہے کہ جب میرا دیوان پڑھتے ہیں۔

مرزا      :وہی چھوٹا سا رد  دیوان!

غالب    :جی ہاں وہ پڑھتے ہیں تو ان کے چہروں پراک حوصلہ ابھرتا ہے یہ کہ وہ زندگی سے ہاریں گے نہیں، یہ کہ وہ آرزومندی کی تڑپ سے دامن نہیں بچائیں گے، وہ پھر چاہیں گے دل کی گہرائیوں سے، پھر تمنا کریں گے  اور   پھر ٹوٹتی آرزوؤں کی جہنموں سے گزریں گے۔

مرزا      :تمہارا شکوہ پورا ہوا مگر  میں۔

غالب    :تمہارا کیا ہے تم ہزاروں لاکھوں امیر زادوں کی طرح ایک امیر زادے تھے عیش کئے یا عیش کی تمنا کی  اور   واپس چلے گئے۔

مرزا      :ہر وجود ایک سوال ہے، میرا وجود ایک ایسے زمانے میں جب تمام چیزیں جو مجھے عزیز تھیں مٹ رہی تھیں۔ بہت بڑا سوال تھا۔ تمہیں کیا حق تھا کہ اس طرح مجھ سے کھیلو، جو مجھے عزیز تھا وہ مجھ سے چھین لیا  اور   جو کچھ آنے والا ہے اسے قبول کرنے پر مجھے مجبور کرو۔ صبح کے وقت تم نے کبھی چراغوں کی بے بسی دیکھی ہے۔ تم تو شاعر ہو۔ ۔ ۔ کیا تم بھی اس ادھورے پن کو محسوس نہ کر سکے  اور  آج اس ادھورے انسان پر رونے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ تمہارے سب پجاری ہیں شاعر غالب کے سب شیدائی ہیں لیکن مرزا نوشہ کا کوئی ہمدم، کوئی دوست، کوئی آشنا نہیں۔

(دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ غالب کھولنے جاتے ہیں۔ اس بار مرزا نوشہ نہیں روکتے۔ دروازہ کھولنا چاہتے ہیں پھر کچھ سوچ کر خود ہی دروازہ کھولنے کا ارادہ ملتوی کر دیتے ہیں۔ )

(پس منظر سے غزل کے اشعار ابھرتے ہیں۔ )

آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

عاشقی صبر طلب  اور   تمنا بے تاب

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

(پردہ گرتا ہے۔ )

***

ماخذ: ادارۂ تصنیف

ڈی!۷، ماڈل ٹاؤن

دہلی

۱۹۷۵ء؁

 

 

ڈاکٹر محمد حسن

 

خوابوں کا سوداگر

 

(بس تیزی سے قریب آنے  اور  گزر جانے کی آواز)

نرمل     :خواہ مخواہ دوڑ رہے ہیں لوگ۔ نہیں رکے گی۔

گردھاری            : (دوڑنے کی آواز) کنڈکٹر بس روکو۔ بس روکو۔

(بس گزر جاتی ہے۔ )

نرمل     :میں نے کہا تھا نہیں رکے گی۔

گردھاری            :روکو!روکو!!

(دور تک دوڑتا چلا جاتا ہے بس گزر جاتی ہے۔ گردھاری ہانپتا ہوا واپس آتا ہے۔ )

گردھاری            :دیکھا آپ نے۔ کیسے لا پرواہ ہوتے ہیں یہ ڈرائیور۔

مولانا     :اجی قبلہ۔ آپ نے ناحق زحمت کی۔ پہلے ہی عرض کیا جا رہا تھا کہ نہیں رکے گی۔

نرمل     :ہاں جی۔ بڑے ظالم ہوتے ہیں کسی کی جان بھی چلی جائے تو گاڑی نہیں روکیں گے۔

گردھاری            :مجا آتا ہے ستانے میں۔

مولانا     :اجی حضرت دراصل یہ سواری ہی نہایت نامعقول ہے۔ واللہ ایسی سواری پر بزرگ لعنت بھیج گئے ہیں جس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہ ہو گویا ہماری آپ کی سب کی جان نعوذ باللہ اس کنڈیکٹر بلکہ کیا کہتے ہیں اس ڈرائیور کے ہاتھ میں ہے چاہے ٹکر مار دے۔ یہ بھی کوئی سواری ہے۔

گردھاری            :مگر  جناب۔

مولانا     :قطع کلام معاف۔ پھر یہ بھی کیا بات ہوئی کہ استغفراللہ عورتیں تک شرفا کے کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھی ہیں۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے شریفوں کے لئے۔

گردھاری            :تو پھر جناب بس میں سفر کرنا۔

مولانا     :جی ہاں سراسر ظلم ہے، ستم ہے۔

گردھاری            :مگر  مولانا!بس میں نہ بیٹھیں تو روز پندرہ میل آنا  اور   پندرہ میل جانا! پیدل آتے جاتے جوتیاں خود گھس کر آدھے رہ جائیں گے۔

مولانا    :ہاں صاحب یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ سفر نہ کرے تو کیا کرے۔ ٹیکسی والوں کے دماغ نہیں ملتے۔ موٹر اسکوٹر ہمارے آپ کے پاس ہونے سے رہا لے دے کے غریبوں کی چشم و چراغ یہی ایک بس ہے۔

نرمل     :یہ بھی ٹھیک ہے۔ مزا یہی ہے یارو کہ اس زندگی کی ہر بات ٹھیک بھی ہے  اور  غلط بھی۔ چلو چھوڑو یارو۔ بس تو گزر گئی کوئی زندگی تو نہیں گزر گئی۔

گردھاری            :واہ صاحب واہ!یہاں دوڑتے دوڑتے پلیتھن نکل گیا  اور   آپ کے نزدیک کچھ ہوا ہی نہیں۔ آخر ذرا دھیان کیجئے کہ کوئی ایسا ہی ضرور کام رہا ہو گا۔ نہیں تومیں بھی انتظار کر سکتا تھا۔

نرمل     :ہاں صاحب یہ توہے۔

مولانا     :جی ہاں جناب کوئی اپنے اختیار سے راستے کی دھول پھانکنے آتا ہے۔ مجبوری نہ ہو تو اپنا گھر کسے برا لگتا ہے۔ مجبوری نہ ہو تو کوئی اس نامعقول سواری میں قدم رکھے۔ بے بس کر دیتی ہے کمبخت  اور  لطف یہ ہے کہ نام رکھا ہے بس۔ قدرت کی ستم ظریفی ہے۔ شاعر کہہ گیا ہے :

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

نرمل     :تو گویا بس نہ ہوئی دنیا ہو گئی۔ کوئی اپنی خوشی سے آتا ہے ؟

مولانا     :واہ برخوردار!کیا بات پیدا کی ہے۔ کوئی اپنی خوشی سے نہیں آتا  اور   واپس جانے کے لئے بہت انتظار کرنا پڑتا ہے۔

نرمل     :مگر  واپس تو خود بھی جا سکتا ہے۔

مولانا     :بے اس کے حکم کے پتا نہیں ہل  سکتا جس کی جس وقت لکھی ہے اس وقت آئے گی۔

نرمل     :میں آج خودکشی کرنے کا ارادہ کر لوں تو سامنے قطب مینار سے ایک چھلانگ لگا کر ہمیشہ کے لئے !

مولانا     :خدا نہ کرے۔ برخوردار ایسی باتیں کیوں زبان سے نکالتے ہو۔ توبہ توبہ!!

گردھاری            :آپ لوگوں کو شاعری سوجھ رہی ہے۔ وہ دیکھئے دوسری بس آنے والی ہے۔

جی نہیں موبائل کورٹ ہے۔

مولانا     :یعنی۔

نرمل     :چلتی پھرتی عدالت۔ بس میں بلا ٹکٹ سفر کرنے والوں کا چالان کیا جاتا ہے۔

مولانا     :بہت خوب۔ گویا پہلے تو بس میں سفر کرنے  پر مجبور کئے جاتے ہیں۔ پھر بلا ٹکٹ  سفر کرنے کی گنجائش پیدا کی جاتی ہے۔ پھر چالان کر کے کیفر کردار تک پہنچائے جاتے ہیں :

قرباں ہجوم رحمت پروردگار کے

(بس قریب سے گزر جاتی ہے۔ )

گردھاری            :ہماری بس ابھی تک نہیں آئی۔

نرمل     :اجی اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ بس آتے آتے ہی آئے گی ذرا دم لیجئے۔

گردھاری            :میں زندگی بھر دم لینے کو تیار ہوں۔ مگر  کوئی دم لینے تو دے۔ بچے کی دوا آنی ہے۔ پھر سودا سلف لے جا کر گھر والی کے حوالے کرنا ہے۔ پھر دفتر کی راہ لینی ہے۔ ذرا سا وقت ہے اس میں اتنے بہت سے کام کیسے ہوں گے۔

نرمل     :سچ کہتا ہوں (مسکرا کر)مجھ سے زندگی بدل لیجئے۔ میرے پاس وقت ہے۔ وقت بے کراں سمندر ہے۔ بے  اور  چھور کا ریگستان ہے۔ خرید لیجئے۔ میں وقت بیچتا ہوں  اور  اب تک کسی نے یہ بے بہا خزانہ خریدا نہیں ہے۔ میں ابھی تک بیکار ہوں۔

مولانا     :خدا نے چاہا تو نوکری مل جائے گی۔

نرمل     :نہیں مولانا۔ میں اب زیادہ انتظار نہیں کر سکتا۔ بہت دیر ہو چکی ہے۔

گردھاری            :آپ بھاگیہ وان ہیں بھائی!یہاں ایک طرف دفتر کا چکر ہے۔ پانچ منٹ دیر ہو گئی تو ہیڈ کلرک آنکھیں نکال رہا ہے۔ ساتھی سنگی چغلی کھا رہے ہیں۔ گھر پہنچو تو نون، تیل، لکڑی کا چکر۔ گھر والی منہ پھلائے بیٹھی ہے۔ ایک بچہ بیمار ہے۔ پچھلے ہفتے دوسرا جھولے سے نیچے گر پڑا ہے۔ اس سے پچھلے ہفتے سب سے چھوٹے کو دانت نکلنے میں بخار آ گیا۔

مولانا     :تو آپ کے چار بچے ہیں۔

گردھاری            :جی آپ کی کرپا سے۔

مولانا     :ارے بھائی۔ میں نام بھولا آپ کا۔

گردھاری            :گردھاری لال۔

مولانا     :ارے بھائی گردھاری لال جی!پہلے سے کیوں نہیں بتایا آپ نے۔ پچھلے تین دن سے پریشان ہو رہا ہوں۔ بیس ہزار کا معاملہ ہے کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جس کے چار بچے ہوں۔

گردھاری            :بیس ہزار کا!

مولانا     :جی ہاں جناب بیس ہزار کا۔ اچھا تو جناب یہ بتائیے کہ جن والدین کے چار بچے ہوتے ہیں ان کی پانچویں بچے سے کیا ہوتی ہے ؟!

گردھاری            :میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا؟

مولانا     :اوہو۔ عاقل بالغ ہیں آپ ماشاء اللہ۔ سیدھی سی بات ہے۔ یہ بتائیے کہ آپ کو اپنے پانچویں بچے سے کیا ہے۔ نفرت، محبت، چاہت، ہیبت، راحت، مروت۔

گردھاری            :میں نے کہاتا کہ میرے چار بچے ہیں۔

مولانا     :وہ تومیں سمجھ گیا۔ میں پوچھتا ہوں آپ کو پانچویں بچے سے کیا ہے ؟

گردھاری            :مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی۔

مولانا     :نہیں سمجھے آپ۔ ارے بھائی معمے کا اشارہ ہے۔ آپ سے بہتر بھلا کون بتا سکتا ہے۔ ذرا دماغ پر زور ڈالے۔ ذرا دھیان سے سوچئے۔ یعنی آپ کو اپنے پانچویں بچے سے کیا ہے۔ آ پ نے ٹھیک ٹھیک بتا دیا تو بخدا اول انعام کہیں نہیں گیا ہے۔ صاف بیس ہزار روپے ہاتھ جائے گا۔ ہاں تو کیا ہوتی ہے ؟

گردھاری            :مجھے کچھ نہیں ہوتی پانچویں بچے سے،  اور  ہوتی بھی ہے تو نہیں بتاتا۔

مولانا     :اوہ آپ تو نا حق ناراض ہو گئے۔ بھائی، گردھاری لال صاحب۔ واللہ آپ کا بڑا احسان ہو گا آخر آپ کا حرج ہی کیا ہے بتانے میں۔

گردھاری            : اور  جو میں نہ بتانا چاہوں۔

مولانا     :تو نا حق آپ کے سر بہت سی ذمہ داریاں آ جائیں گی آپ کے نہ بتانے سے بیس ہزار روپیہ کا نقصان ہو گا۔ میرے قرض خواہوں کا قرضہ ادا نہ ہو گا۔ مالک مکان سال بھرکا کرایہ نہ لے سکے گا۔ بیوی کے زیور گروی پڑے رہیں گے  اور  آپ جانتے ہیں اس سارے عذاب کی ذمہ داری آپ کی گردن پر ہو گی۔

گردھاری            :یہ تو آپ سراسر انیائے کر رہے ہیں۔

مولانا     :کاش مجھے صحیح اشارہ معلوم ہوتا۔

گردھاری            : اور  باقی اشارے۔

مولانا     :باقی سب اشارے مجھے معلوم ہیں  اور  ان تک کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکتا۔

نرمل     :مولانا!معمہ جیتنا بہت ضروری ہے۔ لیکن کبھی کبھی ہار میں بھی مزا ہوتا ہے۔

مولانا     :نہایت ضروری ہے برخوردار۔ نہایت ضروری ہے۔ میں سارے اشارے حل کر چکا ہوں۔

نرمل     :دنیا کا ہر مذہب، ہر فلسفہ یہی کہتا آیا ہے کہ مولانا کہ اسے زندگی کے معمے کے سارے اشارے معلوم ہیں  اور  ان تک دوسرا کوئی نہیں پہنچ سکتا مگر  ایک آخری اشارہ پھر بھی باقی رہ جاتا ہے اسے کوئی نہیں جانتا۔ وہ لفظ کسے معلوم ہے جو زندگی کے معمے کو حل کر سکے شاید اس لفظ کو کوئی نہیں جانتا۔ یہی ایک لفظ ہم سب کی تقدیر ہے۔

مولانا     :حضرت!آپ خواہ مخواہ دخل در معقولات کر رہے ہیں۔

گردھاری            :وہ ٹھیک کر رہے ہیں۔ مجھے کوئی اشارہ نہیں آتا۔ مجھے آتا تو میں اس طرح بس کے پیچھے دوڑ دوڑ کر ہلکان ہوتا۔ میرے پاس بھی کار ہوتی۔ میں بھی آرام سے رہتا  اور  آپ سب پر ہنستا ہوا زوں سے کار میں گزر جاتا۔

مولانا     :دھول اڑاتا ہوا!

گردھاری            :جی؟

مولانا     :تو کیا سچ مچ کوئی ایسا نہیں ہے جو یہ اشارہ حل کر سکے۔

نرمل     :شاید کوئی نہیں۔ کوئی بھی نہیں۔

گردھاری            :اس ۱۷ نمبر بس کی سروس نہایت خراب ہے بہت دیر سے آتی ہے  اور   جب آتی ہے تو بھری ہوتی ہے۔

مولانا     :بسیں کم ہیں مسافر زیادہ ہیں۔

گردھاری            :اس لئے برتھ کنٹرول پر زور دیا جا رہا ہے کہ بسیں زیادہ  اور  آدمی کم ہو جائیں گے۔ تب سب آرام سے سفر کر سکیں گے۔

نرمل     :اجی سب بکو اس ہے گردھاری لال جی۔ پیدائش پر کنٹرول۔ مگر  زندہ رکھنے پر اصرار۔ میں کہتا ہوں کروڑوں اربوں انسان جن کی زندگی کے مسئلوں کی کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے انھیں مرنے کی آزادی کیوں نہیں دی جا سکتی۔

مولانا     :میاں صاحبزادے !تم بہت خوفناک باتیں کرتے ہو۔ مجھے موت سے نہایت ڈر معلوم ہوتا ہے۔

نرمل     :اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے مولانا۔ ہم سب بچے جواں، بوڑھے، مرد، عورت سب کے سب ایسے مجرم ہیں جنھیں سزائے موت دی جا چکی ہے۔ مگر  پھانسی کی تاریخ مقرر نہیں ہوئی ہے جس دن وہ تاریخ آ جائے گی جلاد ہماری کوٹھری میں چپکے سے داخل ہو کر ہمیں ساتھ لے جائے گا  اور  پھر ایک لمحے میں سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ پانی پانی میں، ہوا ہوا میں، مٹی مٹی میں، آگ آگ میں مل جائے گی۔ اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔

مولانا     :موت کا نام نہ لو برخوردار۔

گردھاری            :کچھ  اور  باتیں کرو بھائی۔

نرمل     :موت سے بڑی  اور  کوئی بات اس زندگی میں نہیں ہو سکتی۔ آپ اتنے گھبراتے کیوں ہیں۔ موت کی بھی ایک خوشبو ہوتی ہے جو انسان کو اختیار کا سبق سکھاتی ہے، بتاتی ہے کہ اس کے لئے بس کا انتظار کرنا ضروری نہیں ہے۔

مولانا     : (غصے سے) لاحول و لا قوت میاں صاحبزادے تم اس نامراد ذکر سے باز نہیں آؤ گے۔

نرمل     : (لطف لے کر) مجھے اس ذکر میں مزا آتا ہے۔

مولانا     :لاحول ولاقوۃ۔ بلکہ استغفراللہ۔ میاں جوانی میں لوگ عشق و عاشقی کی باتیں کیا کرتے ہیں۔ مرتے تو ہیں مگر  کسی پر مرتے ہیں۔

نرمل     :جی، آج کے زمانے میں ؟!

مولانا     :میاں، ہر زمانے میں۔ آج زمانے میں کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں ہر زمانے میں نوجوان عشق کرتے رہے ہیں  اور  جب تک دنیا قائم ہے کرتے رہیں گے۔

نرمل     :آپ بھولتے ہیں مولانا!آج کا نوجوان عشق  اور   پریم سے بے خبر ہے اسے آپ نے روزگار، تعلیم  اور  گھربار کے جنجال میں اس طرح پھنسا دیا ہے کہ اس کے لئے زندگی کی ساری برکتیں بے معنی ہو کر رہ گئیں ہیں۔ وہ بس اسٹاپ پر چند لمحوں کی نظر بازی یا ایک مسکراہٹ ہی کو سب سے بڑی دولت جان کر خوش ہو لیتا ہے۔ اسے عشق کی آگ میں تپنے کا مزا معلوم ہی نہیں۔ اس کے لئے یہ دلاسا ہی بہت ہے۔

مولانا     :دنیا اب بھی بہت رنگین ہے صاحبزادے۔

گردھاری            :یہ تو ٹھیک کہہ رہے ہو مولانا!میں نے تو اپنی زندگی میں کبھی لڑکیوں کو بے آستین کے قمیض پہنے نہیں دیکھا تھا۔

مولانا     :تو صاحبزادے مہرولی جا کر قیام کرنے کا ارادہ ہے یا قطب مینار کی لاٹ پر رہائش اختیار کرو گے۔

نرمل     :ابھی میں نے کچھ طے نہیں کیا ہے۔ آپ کے پاس قلم ہو گا۔

گردھاری            :ہاں یہ لیجئے۔

نرمل     :مجھے ایک ضروری خط لکھنا ہے۔

مولانا     :عجیب آدمی ہو، استاد!بس اسٹاپ پر خط و کتابت یعنی چہ معنی دارد؟

(تھوڑی دیر خاموشی رہتی ہے۔ )

نرمل     :آپ دونوں مجھے اس طرح گھور گھور کر کیوں دیکھ رہے ہیں۔

(خاموشی قائم رہتی ہے۔ )

نرمل     : (ایک دم چیخ کر)آپ کیا جاننا چاہتے ہیں۔ میں خودکشی کر رہا ہوں میں پاگل ہوں۔ میری زندگی اکارت ہے  اور  میرے اس ارادے سے مجھے کوئی بھی روک نہیں سکے گا۔ جائیے آپ پولیس کو اطلاع کر دیجئے، قانون سے کہئے وہ جس بیکار نوجوان کو جینے حق نہ دے سکا اس سے مرنے کا حق بھی چھین لے۔ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟

مولانا     :کچھ نہیں !

گردھاری            :کچھ بھی تو نہیں !

نرمل     :آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اپنا دل چیر کر اپنے زخم آپ کو گنواؤں۔ آپ کو دلیل  اور  ثبوت سے سمجھاؤں کہ میرے لئے موت کیوں ضروری ہے۔ میں کوئی دلیل نہیں دوں گا۔ میرے دل کے ناسور، میرے ساتھ چتا میں جل جائیں گے آپ ان کونہ دیکھ سکیں گے۔ آپ مجھ سے دلیل مانگتے ہیں میں آپ سے اس سوال کا جواب چاہتا ہوں ’’آپ کیوں زندہ ہیں ؟‘‘،  ’’آپ کو اس طرح زندہ رہنے کا کیا حق ہے ؟‘‘بولئے جواب دیجئے۔

مولانا     :ہم مر نہیں سکتے۔

گردھاری            :موت بھیانک ہے۔

نرمل     :زندگی اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔

گردھاری:کمبخت یہاں کوئی نلکا بھی نہیں ہے سخت پیاس لگی ہے۔

مولانا     :یہیں کہیں ہوا کرتا تھا نل۔ حلق تو میرا بھی خشک ہو رہا ہے۔ چلئے دیکھتے ہیں۔

گردھاری            :چلئے۔ مگر  چلنے سے پہلے۔

مولانا     : (نرمل سے)دیکھو میاں صاحبزادے ہم لوگوں کی موجودگی میں تم نہ مر سکو گے۔ ابھی ہمارے اندر اتنا دم ہے کہ ایک آدمی کو مجبوراً زندہ رکھ سکیں۔

نرمل     :بہتر ہو اگر آپ میری فکر چھوڑ دیں۔

مولانا     :نہیں چھوڑیں گے۔

ایک آواز            : (دور سے)مولانا۔ مولانا۔

مولانا     :افوہ۔ برے پھنسے۔

گردھاری            :کیا ہوا۔

مولانا     :مالک مکان کا کارندہ۔

منشی       :کیا خوب آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے آنکھیں پتھرا گئیں۔ آج صبح سے آپ کے گھر پر پہرہ دے رہا ہوں بس جناب ہو چکی یاری۔ سیدھے ہاتھ سے سال بھرکا کرایہ نکالئے۔ ورنہ چل کر مکان خالی کر دیجئے۔

مولانا     :بات تو سنئے۔

منشی       :میں نہیں سنتا بات وات۔ سال بھر سے آپ ٹالے بالے بتا رہے ہیں۔ بس اب میری رقم ڈھیلی کیجئے۔ مالک مکان نے صاف صاف کہہ دیا کہ یا تو  رقم وصول کر کے لاؤ یا سامان مکان سے باہر پھینک دو۔

گردھاری            :دیکھئے۔

منشی       :آپ خواہ مخواہ بولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ سے کیا مطلب ہے۔

گردھاری            :اب اس وقت بس اسٹاپ پر جیب میں کوئی کرایہ لئے پھر رہے ہیں۔

منشی       :میں کچھ نہیں جانتا۔ مجھے جواب چاہئے۔

مولانا     :پھروہی مرغے کی ایک ٹانگ۔

منشی       :مرغے ہو گے تم۔ میں کہوں ہونے لگا مرغا۔ میاں سیدھے سادے کرایہ ادا کر دو۔

مولانا     :مجھ سے ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمائی جائے گی۔ آپ کر لیجئے جوہو سکے۔

منشی       :اچھا تو آج ہی لو۔ ابھی لو۔ سامان گھرکے باہر پھنکوائے دیتا ہوں۔ تم جیسے کرایہ داروں سے بھگتنا میں خوب جانتا ہوں۔

نرمل     :ادھر بات سنو منشی۔

منشی       :ہم پہ نیلی پیلی آنکھیں نکالنے والا کون ہوتا ہے تو۔

نرمل     :مولانا جائیے آپ پانی پی آئیے (کارندے سے) سنئے منشی جی۔ مجھے سمجھائیے معاملہ۔

منشی       :اجی معاملہ کیا ہے۔ سال بھرکا کرایہ ان کے ذمہ نکلتا ہے۔ کرایہ دلوا دیجئے۔

نرمل     :اچھا رسید بک نکالئے۔ میں دیتا ہوں ان کی طرف سے پورا کرایہ۔

منشی       :آپ۔ آپ کون صاحب ہیں۔ خیر کوئی ہوں۔ مجھے کرایہ چاہئے۔

نرمل     :رسید نکالئے  اور  سنئے آپ ریس کھیلنے کب سے نہیں گئے۔

منشی       :آپ نے کیسے جانا کہ میں ریس کھیلتا ہوں۔

نرمل     :مجھے آپ کے ماتھے پر سب کچھ پڑھنا آتا ہے۔

منشی       :سچ۔ تو آپ بتا سکتے ہیں۔

نرمل     :سب کچھ بتا سکتا ہوں۔

منشی       :کیا جیتنے والے گھوڑے کے نمبر بھی۔

نرمل     :ہاں۔ مگر  اسے ہر ایک کو نہیں بتایا جاتا۔

منشی       :بڑی مہربانی ہو گی آپ کی۔ مجھے بتا دیجئے۔ میری بگڑی بن جائے گی۔ میں آپ کا زندگی بھراحسان مند رہوں گا۔ تا عمر آپ کو یاد کروں گا۔

(سپیرے کے بین کی آواز)

نرمل     :سپیرے، سپیرے۔

سپیرا      :جی حضور۔ ہم کا بلاوا کا؟

نرمل     :دیکھو سپیرے۔ ہمارا کوٹ پہن لو۔

سپیرا      :ہم سے کا مسخری کرت  ہو صاحب۔ ہم دو کوڑی کے منئی کیا صاحب لوگ کا کوٹ پہن سکت ہیں۔

نرمل     :لے جاؤ۔ خوشی سے لے جاؤ۔ پہن لو۔ میرے لئے بیکا رہے۔

سپیرا      : (ہنستا ہے) اچھا تو پہن دیکھت ہیں۔

نرمل     : (ہنس کر)تم تو سچ مچ جنٹلمین لگ رہے ہو۔ اچھا اسی بات پر ذرا سانپ کا تماشا بھی دکھا دو۔

سپیرا      :ارے ہم کا حضور اس دفعہ کا سانپ ذرا بکٹ رہے۔

نرمل     :ہمیں اب کسی بکٹ وکٹ سے ڈر نہیں لگتا۔ کھولو۔ پٹاری کھولو۔ تنک دم لو۔

(بین کا نغمہ)

سپیرا      :اے کا کرت ہو صاحب۔ اے کا کرت ہو۔ سانپ کونہ پکڑو کاٹ لئے ٹھور مر جات۔

نرمل     : (قہقہہ لگاتا ہے) ہمیں موت سے ڈر نہیں لگتا۔

سپیرا      :رکھدو صاحب۔ سانپ کو نیچے رکھ دو صاحب۔

نرمل     :نہیں میں اسے منشی جی کے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں۔

منشی       :ارے۔ یہ کیا آپ غضب کر رہے ہیں۔ اسے پیچھے ہٹائیے (چیخ کر) پیچھے ہٹائیے۔

نرمل     :میں اسے آپ کی گردن میں ڈالے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ (قہقہہ لگا کر) آپ بھی کسی سانپ سے کم نہیں ہیں۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ دو زہریلے سانپ جب ایک دوسرے کو ڈستے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔

منشی       :رحم کیجئے میں مر جاؤں گا۔

نرمل     :رحم آپ کو کرنا ہے منشی جی۔ میری طرف دیکھئے مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا۔ مجھے اپنی زندگی پیاری نہیں ہے۔ ایسا آدمی سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ مجھے رسید چاہئے۔ آپ سمجھ گئے۔

منشی       :جی سمجھ گیا۔ رسید دینے کو میں منع تھوڑے ہی کرتا ہوں۔ لیکن رقم۔

نرمل     :مجھے آپ کی دستخطی سال بھرکے کرایہ کی رشید درکا رہے۔

منشی       : اور  اگر میں نہ دوں تو۔

نرمل     :میں ڈال دوں گا۔ پھر یہ کبھی نہ اترے گا۔

(منشی چیختا ہے۔ )

نرمل     :رسید۔

منشی       :نہیں۔

(چیختا ہے۔ )

نرمل     :رسید۔

منشی       :اچھا بابا۔ ذرا دم لیجئے میں رسید بھی دیئے دیتا ہوں۔ آپ تو واقعی بڑے خطرناک ہیں۔ آپ تو آدمی کی جان بھی لے سکتے ہیں۔

نرمل     :میں تمہیں راز کی بات بتاتا ہوں۔ اب سے کچھ دیر بعد ایک آدمی کی جان لینی ہے  اور  اس آدمی کا نام ہے نرمل کمار۔

منشی       :یہ لیجئے رسید۔

نرمل     :ٹکٹ، دستخط۔

منشی       :سب موجود ہے جناب۔ اچھا اب مجھے اجازت ہے۔ اب میں چلوں۔

نرمل     :ہر طرف خاموشی۔ زندگی تیرا بندھن کتنا کمزور  اور   کیسا مضبوط ہے۔

ولی چند  :رام رام۔ یاں کوئی گردھاری لال تو نہ آیو؟

نرمل     :گردھاری لال۔

ولی چند  :ہاں جی۔ ٹھگنا سا ہے۔ یہی ہو گا۵۰۔ ۴۵ ورش کا۔ بڑے دفتر میں کلرک لگا ہوا ہے۔ ابھی گھر سے پتہ لگا سی کہ بس اسٹاپ پر گیا ہوا سی۔

نرمل     :میرا نام تو گردھاری لال نہیں ہے۔

ولی چند  :بس سے چلا گیا معلوم پڑے ہے آگے کو۔

نرمل     :کام کیا ہے آپ کو۔

ولی چند  :کام۔ اجی کام ہی کیا ہے دہی اپنا دھندا ہے اپنی بہن کے بیاہ میں کچھ روپیہ سود پر لیا سی اس نے۔ اب تک اس کا بھگتان نہیں کیا سی۔ اب بولو بھلا کوئی کب تک انتظار کر سکے سی۔ روپیہ والا تو سر پر ڈنڈا مار وصول کرے گا وہی سی۔

نرمل     :ٹھیک ہے۔

ولی چند  : اور  میری سنو تو بیاج کے روپے سے جو بیاہ کرو وہ کبھی پروان نہ چڑھے سی۔ گردھاری لال کا اس بیاہ میں بھٹا بیٹھ گیا سی۔ پرنتو اس کی بہن کی اپنے پتی سے بن کے ہی نادی۔

نرمل     : اور  آپ کا بیاج پھر بھی گردھاری لال کو دینا ہے۔

ولی چند  :بروبر۔ جو روپیہ دیتا ہے میں نے کہا نا سی وہ تو مار ڈنڈا سر توڑ وصول کر لے گا ہی سی۔

نرمل     :آپ مت کیجئے۔ گردھاری لال غریب کلرک ہے۔

ولی چند  :اجی ہمیں سنت سادھوؤں کی باتیں مت سمجھاؤ سی۔ اچھا توہم اب چلے۔

نرمل     :جانے کا آپ کو اختیار ہے۔ مگر  گردھاری لال یہاں موجود ہیں ذرا پانی پینے چلے گئے ہیں۔

ولی چند  :تو پھر ایسا بولو سی۔

نرمل     :میں چاہتا ہوں کہ اس کا سارا قرضہ ادا ہو جائے۔

ولی چند  :ہم بھی یہی چاہتے ہیں جی۔ اصل تو سارا ادا کر دیا سی پرنتو بیاج بھی تو کوئی بھرے گاجی۔

نرمل     :تو بیاج آپ معاف کر دیجئے نا۔ آپ لکھ پتی آدمی ہیں۔ آپ کے لئے  کیا فرق پڑتا ہے۔

ولی چند  :یہ کیسی بات کرتے ہو۔ ہم بیاج معاف کرنے لگیں تو پھر کھائیں گے کیا جی۔

نرمل     :میں اس کا بھی انتظام کر دوں گا۔ آپ کچھ نہیں جانتے۔ میں نے اس دنیا کو دیکھا  اور  برتا ہے۔ مجھے اب سے آدھ گھنٹہ کے اندر اندر مر جانا ہے  اور  آپ نے سنا ہو گا کہ مرنے سے پہلے آدمی کی آنکھ دنیا کے آنے والے واقعات پڑھ سکتی ہے۔ میں بھی اس وقت آپ کی قسمت کا لکھا آئینہ کی طرح دیکھ سکتا ہوں۔

ولی چند  :سچ۔

نرمل     :ہاں اس لئے کہ میں اپنی موت کے لئے تیار ہوں۔ میں اس سے آنکھیں چار کر سکتا ہوں۔

ولی چند  :تو پھر مجھے کچھ بتائیے مہاراج۔

نرمل     :جو بتاتا ہے وہ کچھ نہیں جانتا۔ جو جانتا ہے وہ کچھ نہیں بتاتا۔

ولی چند  :تو پھر، ہمیں کی فائدہ سی۔

نرمل     :میں آپ کی قسمت میں روپیہ ہی روپیہ دیکھ رہا ہوں۔ مگر  اس کے لئے راستہ کٹھن ہے۔

ولی چند  :کٹھن ہے۔

نرمل     :ہاں !مایا آپ کی تلاش میں ہے۔ ساکشات لکشمی آپ کے گھر کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے مگر  آپ کی لالسا نے اس کا راستہ روک لیا ہے۔

ولی چند  :تو پھر۔

نرمل     :مشکل کام ہے مگر  میں اس کام کو پورا کر سکتا ہوں۔ آپ کے مکان کے بہت پاس ایک ایسی جگہ ہے جہاں دولت گڑی ہوئی ہے۔ ہر رات کو دو بجے کے قریب اس دولت کے اوپر بیٹھا ہوا سانپ دولت پانے والے کو آواز دیتا ہے  اور  ہر رات کو تھک کر واپس لوٹ جاتا ہے۔

ولی چند  :انداز سے بھلا کتنی دولت ہو گی۔

نرمل     :لاکھوں میں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔

ولی چند  :سچی۔

نرمل     :مجھے اس جگہ کا پورا پورا پتہ نشان معلوم ہے مگر  وہ ایسے سیٹھ کے ہاتھ آ سکتی ہے جو دیالو ہو۔

ولی چند  :یہ تو بڑی کٹھنائی  ہے بھئی۔

نرمل     :گردھاری لال کا قرضہ معاف کر دیجئے تومیں آپ کو اس کا پتہ بتاتا ہوں۔

ولی چند  : اور  یدی وہاں نہ نکلی مایا۔

نرمل     :تومیں اس کا ذمہ دار ہوں۔ گردھاری لال کا قرضہ میں دوں گا۔

ولی چند  :تو پھر لکھ  دو تحریر۔

نرمل     :ہاں۔ اس میں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں گردھاری لال کا سارا قرضہ اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ اب آپ کا ایک پیسہ بھی گردھاری لال کے ذمہ باقی نہیں رہا ٹھیک ہے نا۔

ولی چند  :ہاں بالکل ٹھیک ہے  اور  یدی مایا نہ نکلی تو۔

نرمل     :میرا گیان دھیان کبھی غلطی نہیں نکلتا۔ مایا نکلے گی۔ جائیے جا کر اپنے مکان کا سامنے والے میدان کا دکھنی کنارہ کھودئیے۔ جائیے !دیر نہ کیجئے مایا آپ کا انتظار کر رہی ہے۔

ولی چند  :اچھا تو میں چلوں تنک، گردھاری لال سے کہہ دیجئے گا کہ مجھ سے مل لیں۔

نرمل     :اب ان کے ملنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ قرض دار میں ہوں۔ گردھاری لال نہیں ہے۔ اگر مایا نہ ملے تومیں رقم ادا کروں گا۔ مل جائے تو قرضہ بے باق۔

ولی چند  :یہ ٹھیک سی۔

نرمل     :اچھا نمسکار۔

ولی چند  :نمسکار۔

نرمل     : (ہنستا ہے)پاگل کتے ہڈی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں  اور   اسے زندگی سمجھتے ہیں (ہنستا ہے) ہر ایک پرچھائیں کو چھونا چاہتا ہے  اور  اسے مسرت کہتا ہے۔ انسان تو قدرت کا سب سے بڑا عجوبہ ہے۔

نرملا       :معاف کیجئے گا ۱۷ نمبر کا بس اسٹاپ یہی ہے۔

نرمل     :جی ہاں۔

نرملا       :کیا بس بہت دیر میں آتی ہے۔ مجھے بہت جلدی ہے کیا یہاں کوئی  اور   سواری نہیں مل سکتی۔

نرمل     :نہیں۔ اس وقت یہاں  اور  کوئی سواری نہیں ملے گی آپ اس قدر گھبرائی ہوئی کیوں ہیں۔

نرملا       :کچھ نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں۔ گرمی بہت زیادہ ہے۔ یہاں ٹیکسی اسٹینڈ بھی نہیں ہے کہیں ؟!

نرمل     :نہیں۔ یہاں کے لوگ شارٹ کٹ پر یقین نہیں کرتے۔ یہاں سب کام سیدھے سادے راستوں سے ہوتے ہیں۔ بے ایمانی بھی  اور   ایمانداری بھی۔

نرملا       :آپ شاعر ہیں۔

نرمل     :نہیں فقط انسان ہوں  اور  وہ بھی پتہ نہیں کب تک۔

نرملا       :میں پریشانی میں ہوں۔ آپ میری مدد کیجئے۔

نرمل     :کیا پریشانی ہے آپ کو۔ ویسے میں اتنا پریشان رہ چکا ہوں کہ مجھے دوسروں کی پریشانیوں میں مزا آنے لگا ہے۔

نرملا       :بھگوان کے لئے مجھ سے انکار نہ کیجئے۔ اس بچے کو گود میں لے لیجئے۔

نرمل     :جی بچے کو گود میں لے لوں۔

نرملا       :جی ہاں !بچہ کس آرام سے سو رہا ہے۔

نرمل     :لائیے۔ مجھے دے دیجئے۔

نرملا       :وہ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔ وہ مجھ سے پوچھتے ہیں اس بچے کا باپ کون ہے۔ انھوں نے میری نیند حرام کر دی ہے۔ میں ہسپتال سے بھاگ آئی ہوں۔

نرمل     :اچھا اوہوہ۔ یہ بات ہے  اور  تمہارے پتا جی!

نرملا       :پتا جی نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ عزیز رشتے دار، سب مجھے کلموہی، کلنکنی کہتے ہیں۔ آپ ہی کہئے سچ مچ میں نے پاپ کیا ہے ؟

نرمل     :اس بچے کو  دیکھو کیسا پھول ایسا خوب صورت ہے۔ کیا پاپ اتنا سندر ہوتا ہے۔

نرملا       : (روتے ہوئے) میں لٹ گئی، برباد ہو گئی، برباد ہو گئی۔ میں نہیں جانتی کہاں جاؤں۔ بھگوان مجھے موت بھی نہیں دیتا۔ میرا کوئی سہارا نہیں۔

نرمل     :زندگی کے تجربات بڑے ستم ظریف ہیں۔ کسی کو پاگل، کسی کو مسخرا، کسی کو صرف تماشا بنا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک تماشا بھی ہے تماشائی بھی۔

نرملا       :یہ باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ وہ آئیں گے وہ آپ سے پوچھیں گے اس بچے کا باپ کو ن ہے۔

نرمل     :تو کیا مجھے سچ بولنے کی اجازت ہے۔

نرملا       :سچ میرے بھگوان!کیا آپ مجھے دھوکہ دے کر چلے جائیں گے۔

نرمل     :ہاں سچ تو یہی ہے کہ میں اس بچے کا باپ نہیں ہوں بلکہ اس بچے کے باپ کو جانتا بھی نہیں۔ مگر  اتنی بات جانتا ہوں کہ تم پاپن نہیں ہو۔ مجھے نہیں معلوم پاپ کیا ہے۔ بدی کسے کہتے ہیں۔ کیا من کی بات ماننا پاپ ہے۔

نرملا       :ایشور کرے جلدی سے بس آ جائے۔

نرمل     :ڈرو مت۔ مجھے ڈرپوک آدمیوں سے نفرت ہے۔

نرملا       :مگر  بس آ بھی جائے گی تو بے کا رہے۔ میں کہاں جاؤں گی جہاں جاؤں گی وہ مجھے ڈھونڈ نکالیں گے۔

نرمل     :ایسی باتیں مت کرو۔

نرملا       :میرا کوئی سہارا نہیں ہے۔ کہاں جاؤں گی۔ اس بھری دنیا میں میں اکیلی ہوں۔

نرمل     :یہاں سب اکیلے ہیں۔

نرملا       :میرا بچہ کس کے سہارے جئے گا۔ اس کا کیا ہو گا؟

نرمل     :میں نے کہانا ایسی باتیں مت کرو۔ کیا تم میرے اندر پھر زندگی کی خواہش کو جگانا چاہتی ہو۔

نرملا       :آپ نے مجھ سے کچھ کہا!

نرمل     :ہاں تم سے کہا آنسو پونچھ ڈالو۔

نرملا       :میرا دل بہت دکھی ہے بابو۔

نرمل     :مجھے بابو مت کہو۔ میرا نام نرمل ہے۔

نرملا       :میں سچ مچ بہت دکھی ہوں۔ اس پتھروں کے شہر میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو میری مدد کر سکے۔ سب کی نظریں مجھے اس طرح گھورتے ہیں جیسے مجھے کھالیں گے۔ نگل لیں گے۔ کیا یہاں انسانوں کی کوئی بستی نہیں ہے۔

نرمل     :کبھی تھی، مگر  اب وہ سب پتھر ہو گئے ہیں۔

نرملا       : (سسکنے لگتی ہے۔ )

نرمل     :روؤ نہیں۔ میں تمہاری مدد کر سکتا تو ضرور کرتا۔ میں تمہارا درد بانٹ لیتا۔ مگر  میرے پاس بہت کم وقت ہے۔

نرملا       :کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ یہ لو وہ آ گئے۔

نرملا کا باپ          : (ہانپتے کانپتے ہوئے) یہ کون ہے ؟

نرمل     :آپ کس کو ڈھونڈ رہے ہیں۔

نرملا کا باپ          :اس بچے کا باپ کون ہے ؟میں اس کا سر توڑ دوں گا۔ جس نے ہمارے خاندان کی عزت پر بٹہ لگا دیا۔ جس نے اس بھولی بھالی لڑکی کو دھوکا دے کر اپنے پاپ کا پھل اس کے سر تھوپ دیا۔ میں اس کا خون پی لوں گا۔

نرملا       :پتا جی!

نرمل     :کہنے دو انھیں۔ بزرگوں کے کہنے کا برا نہیں مانتے۔ پتا جی۔

نرملا کا باپ          :خبردار جو مجھے پتا جی کہا۔ تجھے شرم نہیں آتی پاپی۔

نرمل     :اس بچے کی طرف دیکھئے۔ کیا پاپ اتنا سندر ہو سکتا ہے !

نرملا کا باپ          :میں بچے کو نہیں دیکھ سکتا۔ میں صرف تیرے پاپ کو دیکھتا ہوں۔ میں تجھے اس پاپ کا مزا چکھانے آیا ہوں۔

نرمل     :یہاں سڑک پر؟!

نرملا کا باپ          :تو نے بھی تو ہماری عزت سڑک پر نیلام کی ہے۔ ہم آج تیری آبرو مٹی میں ملا دیں گے۔ پھر کسی کو ایسا پاپ کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔

نرمل     : (شانتی سے) ایک بات پہلے سمجھ لیجئے۔ میں اسے اپنی دھرم پتنی بنانے کو تیار ہوں۔ یہ بچہ میرا بچہ ہے۔ ہمارا ایک چھوٹا سا گھر ہو گا۔ جس کے کچے آنگن میں یہ بچہ پل کر بڑا ہو گا۔ لیکن اگر آپ نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو سمجھ لیجئے۔ جاپانی کشتی جو جت سوکے پینترے مجھے یاد ہیں کہ آپ ابھی زمین پر الٹے پڑے نظر آئیں گے۔

نرملا کا باپ          :دھمکی دیتا ہے۔ بدمعاش کہیں کا۔

نرملا       :پتا جی اب جانے دیجئے۔ غصہ تھوک دیجئے۔ یہ اپنی غلطی مان رہے ہیں۔

نرملا کا باپ          :تو چپ رہ کلموہی۔ تیری ہی وجہ سے ہمارا منہ پہ کالک پتی۔ تو ہی بڑھ بڑھ کر باتیں بنا رہی ہے۔

نرملا       :آپ ان پر ہاتھ اٹھائیں گے۔ یہ پاپی نہیں دھرماتما ہیں۔

نرملا کا باپ          :دھرماتما(طنزیہ ہنسی) میں ابھی اس دھرماتما کی مرمت کرتا ہوں۔ دھرماتما دیکھتے کیا ہو پکڑ لو اسے۔

نرملا       :میں ہرگز ان ہر پاتھ نہیں اٹھانے دوں گی میں جان دے دوں گی پتا جی آپ کو بچے کا واسطہ۔

(بچہ رونے لگتا ہے۔ ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔ )

نرمل     :خبردار جو آپ آگے بڑھے۔ میں آخری بار آپ کو ہوشیار کرتا ہوں۔

نرملا کا باپ          :ایسی تیسی تیری ہوشیاری کی۔ تو نے سمجھا کیا ہے ؟

نرملا       :پتا جی! انھیں چھوڑ دیجئے۔

نرملا کا باپ          : (لپٹ جاتا ہے) خون پی کر چھوڑ دوں گا۔ دوسروں کی عزت پہ ہاتھ ڈالتے تجھے غیرت نہیں آئی۔

نرمل     :جو جت سو کا ہاتھ سنبھالو۔

نرملا کا باپ          :ہائے۔

(گر پڑتا ہے۔ )

گردھاری            :یار نل کا پانی پی تو لیا پر اچھا نہیں کیا  اور   بس بھی آ کر نکل گئی ہو گی۔

مولانا     :کنوئیں پرجاؤ پانی پیو گے تو یہی انجام ہو گا۔

گردھاری            :ابلا ہوا پانی مل جاتا تو اچھا تھا۔

مولانا     :اماں لعنت بھیجو اخبار والوں پریہ بھی کوئی بات ہوئی کہ زندگی ابلا ہوا پانی پیتے پیتے گزر جائے۔

گردھاری            :مگر  مولانا۔

مولانا     :اگر مگر  کیا ہوتی ہے۔ خدا کے فضل سے چونچال بلکہ کیا کہتے ہیں ہٹے کٹے رہو گے کیا بیکار کے شک شبہے دل میں لاتے ہو۔ کنوئیں سے نکال کروہ ڈگ ڈگا کے پانی پیا کہ واللہ مزا آ گیا۔ بڑے زور کی پیاس لگی ہوئی تھی۔

گردھاری            :ہم تو صاحب اب کبھی بے ابلا پانی نہ پیں گے یہ بڑا خطرہ مول لینا ہے  اور   ابلنے میں لگتا ہی کیا ہے۔ دمڑی کی لکڑی ہی کاتو خرچہ ہے۔ کب تک ابلا پانی پینا ہو گاہے رام۔

مولانا     :ماشاء اللہ اب ہم ہندوستانی بھی خاصے لا مذہب ہوتے جا رہے ہیں آج پانی ابال کر پینے لگے ہیں۔ کل حکم ہو گا کہ ہوا کو بھی چھان کر استعمال کرو۔ یعنی جو ہمارے پرکھے دندناتے ہوئے زندگی گزار گئے۔ تو صاحب کیا یہ سب ابلا ہوا پانی پیتے تھے کہ سو سو سوا سو برس کی عمریں پائیں  اور  قوت کا یہ حال کہ زمین پر ٹھوکر ماریں تو خدا کی قسم پانی نکل آئے۔ مجھے اب کوئی بتا دے کہ انھیں کنوئیں کے پانی نے کیا نقصان کیا جو ہمیں کرے گا۔

گردھاری            :آپ بے کار کی بات کر رہے ہیں مولانا۔ ہمیں آگاہی دی گئی ہے کہ پانی ابال کر پئیں تو ہماری ذمہ داری ہے۔

مولانا     :اجی ہم نہیں جانتے ذمہ داری ومہ داری سب بکو اس ہے۔ میاں آگاہی تو ہمیں یہ بھی دی گئی ہے کہ شیطان ہمارا دشمن ہے، آرزو شیطان کی خالہ ہے۔ مگر  سارے پیر پیغمبر، پولیس، فوج، ملا، برہمن، قانون، عدالتیں کوئی بھی آدمی کی آرزو کے چنگل سے بچا پاتا ہے۔ ہمیں بھیا سیدھے سادے جینے میں مزا آتا ہے۔

گردھاری            :جلدی قدم بڑھاؤ۔ پتہ نہیں بس آ گئی ہے کہ نہیں۔

مولانا     :اجی تمہیں بس کی پڑی ہوئی ہے۔ مجھے اس سرپھرے لونڈے کی فکر ہے کہیں سچ مچ وہ قطب مینار سے پھاند نہ پڑا ہو۔

گردھاری            :اجی نہیں مولانا۔ جان دینا ایسا کوئی سہل ہے ہاتھ بھر کا کلیجہ چاہئے۔

مولانا     :تم نے ناپا ہے اس کا کلیجہ۔ بے ڈھب لونڈا ہے لالہ جی! یہ آج کل کی نسل ہماری تمہاری طرح نہیں ہے۔ ان کی کھوپڑی میں اول تو کچھ بات آتی نہیں ہے  اور  جو گھس جاوے ہے تو پھر نکلنا مشکل ہی ہے۔

گردھاری            :تو چلئے ذرا قدم بڑھاتے ہوئے چلئے۔

(لڑائی کا شور  شغب سنائی دیتا ہے۔ )

مولانا     :ارے غضب یہ کیا قصہ ہے۔ ارے ٹھہرو! روکو ذرا دم لو۔ اس ایک بے گناہ پرکیوں ٹوٹ پڑے ہو۔

گردھاری            :کیا قصہ ہے ؟

نرملا کا باپ          :قصہ کیا ہے میں اس کا آج سارا حساب چکا کر دم لوں گا۔

گردھاری            :الگ ہٹ جائیے۔

نرملا کا باپ          :نہیں۔ دیکھتا ہوں کون مائی کا لال مجھے الگ ہٹاتا ہے۔

مولانا     :گردھاری آؤ ہم دونوں مل کر پکڑ کر انھیں ایک طرف ہٹا دیں۔

گردھاری            :خبردار جو ہاتھ اٹھایا ٹھا کر صاحب۔ لو بس اب شانت ہو جائیے۔

مولانا     :بتائیے تو قصہ کیا ہے۔ بیٹی تم بھی ایک طرف بیٹھ جاؤ۔ بچہ روتا ہے۔ اسے دودھ دے دو۔

نرملا       :ان کی تو خیر خبر لیجئے۔

مولانا     :تم فکر مت کرو۔ ہم سب ٹھیک کر لیں گے۔ معلوم ہوتا ہے ہمارے پیچھے بہت کچھ ہو گزرا۔

گردھاری            :بس تو نہیں آئی تھی۔

نرملا       :نہیں۔ ابھی بس نہیں آئی۔

مولانا     :برخوردار آخر بتاؤ  تو سہی قصہ کیا ہے ؟

نرمل     :کچھ نہیں مولانا ساری ذمہ داری، سارا قصور میرا ہے۔ مجھ سے کسی کو بے آسرا نہیں دیکھا جاتا مولانا۔ ایک بے آسرا عورت نے پھر میرے دل میں جینے کی امنگ پیدا کر دی۔ یہ میری بیوی ہے  اور   یہ میرا بچہ ہے۔

نرملا کا باپ          :جھوٹا ہے یہ۔ اس نے میری بچی کو دھوکہ دیا ہے۔

گردھاری            :آپ ٹھہر جائیے۔ جھوٹ سچ کا فیصلہ ہوتا رہے گا۔

نرمل     :میرے دل میں پھر امنگ جاگی کہ اس بے آسرا عورت کو پناہ دوں۔ میرا بھی ایک گھر ہو۔ میرا بھی ایک کچا آنگن ہو۔ میری بھی زندگی کا ایک مقصد ہو۔ میرا پھر زندہ رہنے کو جی چاہنے لگا۔ میں زندہ رہوں گا۔

مولانا     :تم سچ کہہ رہے ہو نرمل۔

نرمل     :ہاں۔ سچ اب ہم کبھی جدا نہ ہوں گے۔

نرملا کا باپ          :یہ انیائے رہتی دنیا تک نہیں ہو گا۔ نرملا!ابھی میرے ساتھ جائے گی۔

گردھاری            :بس آنے والی ہے مولانا۔ بس آ رہی ہے۔

مولانا     :اس دفعہ خالی معلوم ہوتی ہے۔ اس دفعہ یہاں ضرور رکے گی۔

نرملا کا باپ          :جائے گی کیسے نہیں۔ تجھے میرے ساتھ جانا ہو گا۔

نرملا       :میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ مجھے کہیں نہیں جانا۔

نرملا کا باپ          :جائے گی کیسے نہیں۔ تجھے میرے ساتھ جانا ہو گا۔

نرملا       :مجھے مجبور نہ کرو پتا جی۔ تم مجھے اپنے گھر سے نکال چکے تو پھر میرے راستے میں کیوں آتے ہو۔ میں نرمل کے ساتھ جاؤں گی۔

نرملا کا باپ          :خبردار اس کا نام نہ لینا۔

نرمل     :مولانا یہ لو تمہاری رسید۔

مولانا     :یہ کیا؟

نرمل     :ملک الموت سے رہائی۔ تمہارا مالک مکان سال بھرکے کرائے کی وصولی کی رسید دے گیا ہے۔

مولانا     :سچ!

نرمل     :اب تم آرام سے معمے کا آخری اشارہ حل کر سکتے ہو۔

مولانا     :یہ تو معجزہ کر دکھایا استاد تم نے۔ مان گئے قسم خدا کی۔ حد ہو گئی۔

نرمل     :گردھاری، یہ تمہارے قرضے کی بیباقی کی تحریر۔

گردھاری            :کیا، وہ کمبخت یہاں بھی آیا تھا۔

نرمل     :ہاں،  اور  اس نے تمہارا سارا قرضہ بیباق کر دیا اب تم دونوں نمبر ۱۷ بس میں سوار ہو سکتے ہو۔

(بس آہستہ آہستہ آتی ہے  اور  تھوڑی دیر کے لئے رک جاتی ہے۔ )

نرملا کا باپ          :نرملا پاگل ہو گئی ہے۔ اس فریبی کے ساتھ جائے گی؟

نرملا       :ہاں میں انھیں کے ساتھ جاؤں گی۔

نرملا کا باپ          :ہاں۔ اچھا۔ تومیں بچے کو لئے جاتا ہوں۔

(نرملا  اور   اس کے باپ میں کشمکش۔ بچے کی رونے کی آواز)

نرملا       :ایسا نہ کرو پتا جی!ایسا نہ کرو پتا جی!!

نرملا کا باپ          : (بچے کولے کر) بچہ میں نے لے لیا اب جا تو جہاں تیرا جی چاہے۔

نرملا       : (روتے ہوئے) نہیں پتا جی!میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔ میں چلتی ہوں۔

(بس چلتی ہے۔ )

نرمل     :نرملا۔ نرملا۔ کنڈکٹر۔ کنڈکٹر۔ بس روکو۔ روکو۔

(بس چلتی رہتی ہے۔ )

نرملا       :نرمل نرمل(خوفزدہ آوازیں) ٹرک، ٹرک، بچو، بچو۔

نرمل     : (بھاگتے ہوئے) روکو، روکو۔

(تصادم کی آواز)

(نرملا کی چیخ) بس ایک ساتھ جھٹکے سے رکتی ہے۔

گردھاری            :نرمل ٹرک کے نیچے آ گیا۔

دوسری آواز         :بھیجا پاش پاش ہو گیا۔ او بھگوان دیکھا نہیں جاتا۔

تیسری آواز         :زمین خون سے رنگ گئی۔

(نرملا کے رونے کی آواز ابھرتی ہے۔ )

مولانا     :دیکھتے کیا ہو؟چہرے پر چادر ڈھک دو!آج ایک بڑا آدمی گیا!! ایک عظیم الشان !!!

***

ماخذ:’’مور پنکھی‘‘( اور  دوسرے ڈرامے)

مکتبۂ دین و ادب

لکھنو

 

 

اوپندر ناتھ اشک

 

پڑوسن کا کوٹ

 

مقام      :دلی کی ایک ’’پاش‘‘ کالونی میں شری سی بی کے بنگلے کا ڈرائنگ روم۔ جس میں کھانے کی میز کرسیاں، سائڈ بورڈ بھی ہے، ریفریجریٹر بھی رکھا ہے۔ کوچ، سنٹر ٹیبل  اور  کوچوں کے ساتھ چھوٹی تپائی وغیرہ۔ دو دروازے ہیں۔ ایک برآمدے میں کھلتا ہے۔ دوسرا کچن میں جاتا ہے۔

وقت     :۱۹۷۸ء۔  سردیوں کی ایک شام۔

کردار

نیلما       :مرکزی وزارت عوامی فلاح و بہبود کے جوائنٹ سکریٹری شری سی بی کھیڑا کی بیوی۔ عمر ۳۵ سال، نہ زیادہ موٹی نہ پتلی دبلی، درمیانہ قد، گورا رنگ، کٹے ہوئے بال، بتیسی ذرا سی باہر کو نکلی ہوئی۔ مسکراتی ہے تو خوبصورت لگتی ہے۔ غصے میں چہرہ بناتے ہوئے چلاتی ہے تو چہرے پر دانت ہی دانت ابھر آتے ہیں  اور  اسے خوفناک بنا دیتے ہیں۔

مسز گنجو  :عمر ۳۵ سال۔ لیکن ۴۰ کی لگتی ہے۔ تیکھے ناک نقشے والی۔ گوری چٹی، گورے بدن کی کشمیری خاتون۔

مسز حنیف          :گنجو کی سہیلی۔ گول مٹول۔ ہلکے سانولے رنگ کی۔

مسز سلوجا           :نیلما کی سہیلی۔ اوپر سے اعلیٰ  اور  جدید طبقے سے متعلق خاتون کا خول چڑھائے ہوئے، لیکن باطن میں پرانے خیالات کی عورت۔

پاروتی    :اسی عمر کی گوری چٹی خادمہ۔

سی۔ بی   :شری چندر بدن کھیڑا،  نیلما کے آئی اے ایس شوہر۔ عمر ۴۵ سال۔ دوست احباب  اور  بیوی صرف سی بی کہتے ہیں۔ فربہی کی طرف مائل بدن کے دنیا دار  اور  ملنسار آدمی۔ چہرے پر کچھ ایسا جذبہ جو امیر باپ کی بیٹیوں کے زن مرید شوہروں کے چہروں پر آ جاتا ہے۔

رام ادھار            :چپراسی۔ عمر چالیس سال۔

خانساماں             :جیسا کہ سخت گیر مالکن کے خانساماں کو سنجیدہ ہونا چاہئے۔

 

منظر      : (پردہ اٹھتے وقت مسز نیلما کھیڑا جو اپنی سہیلیوں میں نیلو یا نیلی کے نام سے پکاری جاتی ہے، ڈرائنگ روم میں بیٹھی سوئیٹر بن رہی ہے۔ جبھی چپراسی ایک ہاتھ میں ٹفن کیریر اور  دوسرے میں اپنے صاحب کا ہینڈ بیگ لئے ہوئے داخل ہوتا ہے۔ )

نیلما       :سی بی نہیں آئے رام ادھار۔

رام ادھار            :آئن ہن میم صاحیب  ملا رستوا ماں  اتر گئن۔

نیلما       :راستے میں !کہاں ؟

رام ادھار            :پی سی صاحب آپن  بنگلا کے گیٹ پر کھڑا رہن۔ انہی صاحب کے بلائی لیہن۔ ایہی سے اوہی اتر گئن۔ آؤر ہم کا ڈرائبر کے سنگ پٹھائے دہن۔

نیلما       :آنے کے بارے میں۔ ۔ ۔

رام ادھار            :ہم سے تو کچھؤ  ناہیں کہن میم صاحب!

نیلما       : اور  میں یہاں چائے کا پانی چڑھائے بیٹھی ہوں۔ (بنا ہوا سوئیٹر کوچ پر پٹک کر اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ ) سی بی یہی خامی ہے۔ اتنے بڑے افسر ہیں  اور  ٹائم سنس ذرا نہیں۔

(بے چینی سے کمرے میں گھومنے لگتی ہے۔ اسی وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ )

نیلما       :دیکھو رام ادھار کون ہے۔

رام ادھار            : (ٹیلیفون کا ریسیور اٹھاتے ہوئے) ڈبل سک نین نین نین جی میں رام ادھار بول رہا ہوں۔ ۔ ۔ جی ہیں۔ ۔ ۔ جی دیتا ہوں۔ (نیلما کی طرف دیکھ کر) صاحیب کے فون ہے میم صاحب۔

(نیلما تنتناتی ہوئی دوہی قدموں میں بڑھ کر چپراسی سے ریسیور جھٹک لیتی ہے۔ رام ادھار ٹفن  اور  ہینڈ بیگ کچن  اور   سٹڈی میں رکھنے کے لئے چلا جاتا ہے۔ )

نیلما       : (غصے سے) سی بی تم وہیں راستے میں رک گئے  اور  میں چائے کا پانی چڑھائے تمہاری راہ تک رہی ہوں۔ یہ کیا وتیرہ ہے تمہارا کہ دفتر سے گھر آتے آتے راستے ہی میں دوستوں کے ہاں جا بیٹھے ہو۔ چائے ناشتے کے بعد شام کو غپ نہیں ہو سکتی؟۔ ۔ ۔ ہاں ہاں سن رہی ہوں۔ ۔ ۔  اچھا۔ ۔ ۔ (نرمی سے اکساتے ہوئے) تم تو ذرا دھیرا سے کہنا کہ خود ہی نہیں، بلکہ اپنی پڑوسنوں سے بھی کہہ دیں کہ وہ کلب کے سالانہ چناؤ میں ہمارا ساتھ دیں۔ ۔ ۔ ہاں ہاں کیا حرج ہے۔ گرین پارک کی لیڈیز کیوں ممبر نہیں بن سکتیں ؟تم پی سی سے کہنا کہ دھیرا اگر ہماری مدد کرے گی تومیں اپنی جگہ سکریٹری شپ کے لئے اس کے نام پر زور دوں گی۔ ا بار شہلا کا جادو توڑ دینا ہے۔ ۔ ۔ ہاں !۔ ۔ ۔ تم انھیں سمجھانا کہ شہلا صدر ہے  اور  نیلما سکریٹری دونوں میں پٹتی نہیں  اور  کلب کا کام سفر (Suffer)   کرتا ہے نیلما صدر ہو  جائے  اور  دھیرا سکریٹری تو کام مزے میں چلے گا۔ ۔ ۔ وہ تو ہئی ہے۔ وہ تو ہئی ہے۔ تم ذرا اپنی طرف سے دونوں کو اچھی طرح سے سمجھا دینا۔ ۔ ۔ پی سی ان لوگوں کے بھی تو دوست ہیں۔ شہلا کے لئے ان کے دل میں وہ کچھ ذرا نازک سا۔ ۔ ۔  (ہنستی ہے)۔ ۔ ۔ اسی لئے، سمجھتے ہونا۔ ۔ ۔  ہاں ہاں !۔ ۔ ۔ (ذرا ہنس کر) میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ مجھے محترمہ وحترمہ مت کہا کرو۔ ۔ ۔  دوستوں میں ایسا دکھاتے ہو کہ جیسے میرے بغیر۔ ۔ ۔  کیا گھر جلدی آنے کا ارادہ نہیں ہے جو اتنا مکھن لگا رہے ہو۔ ۔ ۔ ہاں ہاں چائے تو تم وہیں پیو گے۔ ۔ ۔ میں جانتی تھی۔ ۔ ۔  مسز گنجو  اور  بیگم حنیف کا انتظار کر رہی تھی۔ ۔ ۔  نہیں۔ ۔ ۔ اب اکیلے ہی پی لوں گی!

(چپراسی ٹفن کیریر اور  ہینڈ بیگ رکھ آتا ہے  اور  چپ چاپ دروازے کی طرف جانے لگتا ہے کہ فون پر بات کرتے کرتے  نیلما ٹوکتی ہے۔ ۔ ۔ )

نیلما       :ٹھہرو!تم سے ذرا بات کرنی ہے۔ (فون میں) نہیں۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔  تم سے نہیں کہا سی بی میں چپراسی سے کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ اچھا تواب تم وہیں نہ بیٹھ رہنا۔ ۔ ۔ بات کر کے جلدی آنا۔ ذرا پاراشرز کے ہاں  ہو آئیں گے۔ ۔ ۔  ہاں کیا حرج ہے۔ ۔ ۔ موہن بھائی کو میری یاد دلانا  اور  ساتھ لانا۔ (فون رکھ دیتی ہے۔ ۔ ۔ رام ادھار سے) خانساماں سے کہو۔ صاحب نہیں آئیں گے۔ چھوٹی کیتلی میں دو پیالی چائے میرے لئے بنا لائے !

(چپراسی چلا جاتا ہے۔ نیلما ریفریجریٹر سے ایک سیب نکالتی ہے  اور   سائڈ بورڈ سے پلیٹ لے کراس پر رکھ دیتی ہے۔ سائڈ بورڈ کے خانے سے بسکٹوں کا ڈبہ نکال کراس میں سے کچھ بسکٹ دوسری پلیٹ میں رکھتی ہے  اور  دونوں پلیٹیں کھانے کی میز پر سجاتی ہے۔ پھر ایک کرسی پر بیٹھ جاتی ہے۔

اسی وقت آگے آگے رام ادھار اور  پیچھے پیچھے خانساماں چائے کی ٹرے لے آتا ہے۔ خالی ٹرے میز پر رکھتا ہے۔ چپراسی ادب سے ایک طرف کھڑا ہو جاتا ہے۔ خانساماں ایک پیالی میں چائے انڈیلتا ہے۔ )

نیلما       : (غصے بھرے لہجے میں)یہ شکر دانی پوری کی پوری بھر لائے ہو۔ تم سے کہا نہیں رام ادھار نے کہ صرف میں چائے پیوں گی۔

خانساماں             :وہ جی۔ ۔ ۔ جی وہ صاحب آنے والے تھے۔

نیلما       :ہاں صاب آنے والے تھے، لیکن جب نہیں آئے  اور   صرف مجھے ہی چائے پینا تھی تو شکر واپس نہیں رکھی جا سکتی۔ ہزار بار تم سے کہا ہے کہ جتنے چمچے درکار ہوں، اتنے ہی گن کر شکر دانی میں ڈالا کرو۔ خانساماں کے ہاتھوں کی چابکدستی اڑانے میں ہی نہیں، بچانے میں بھی ہوتی ہے۔

(چائے کی پیالی اپنے سامنے کرتی ہے۔ خانساماں واپس کچن کی طرف چلا جاتا ہے۔ نیلما پلیٹ سے ایک بسکٹ اٹھا کر کترتی ہے  اور  چائے کی چسکی لیتی ہے۔ پھر چپراسی کی طرف مڑتی ہے۔ )

نیلما       :تم نے پاروتی سے باتیں کیں رام ادھار؟

رام ادھار            :کرے رہن میم صاحب!

نیلما       :تو؟

رام ادھار            :او بات ای ہے میم صاحیب کہ سیلا میم صاحیب اوکے چھوڑے کا تیار ناہیں ہیں۔

نیلما       : (قہر و غضب سے)چھوڑنے کو تیار نہیں۔ کیا شہلا نے خرید لیا ہے اسے۔ جب وہ کام کرنا نہیں چاہے گی تو وہ اسے کیسے زبردستی رکھ لے گی۔

رام ادھار            :بات ای ہے میم صاحیب کہ پاربتی کے اوہاں نوکری کرت بہت دن ہوئے گئن۔ ٹکو بابا او سے بہت ملے ہن۔ اوہو کے من ماں ممتا ہے۔ آپ جیسے سمجھائے رہن وئیسے ہم پاربتی کے سیلا میم صاحیب سے بات کرئے بدلے کہے رہے۔

نیلما       : (بے خبری سے)پھر؟

رام ادھار            :او او کے پندرہ روپیہ کی ترکی دے دہن۔

نیلما       : (قدرے جھٹکا لگتا ہے) ایک ساتھ۔

رام ادھار            :جی میم صاحیب!

نیلما       :لیکن پاروتی نے مجھے کیوں نہ بتایا۔ میں دھیرا سے کہہ کر دو روپے زیادہ ہی دلا دیتی۔

رام ادھار            :جی میم صاحیب! او دھیر میم صاحیب کے ایہاں ناہیں چائے چاہت۔

نیلما       :کیوں ؟

رام ادھار            :پتہ نہیں اوسے کے کہہ دہس کہ دھیرا میم صاحیب بہت کھٹ کھٹ کرت ہیں۔

نیلما       : (چمک کر) آیا نے کہا ہو گا۔ وہ آیا ایک ہی بد ذات ہے۔ اسی کی جگہ تو وہ پاروتی کو رکھنا چاہتی ہیں۔

رام ادھار            :بات ای ہے میم صاحیب، پاربتی عورت جات ہے، او کرے من ماں بھئے بیٹھ گاہے۔ سیلا میم صاحیب آپ کے سامنے تو رہت ہن۔ روج آپ سے ملت ہن۔ آپ ہی کا ہے ناہیں کہہ دیتن کہ اوکے چھوڑے دیں۔

نیلما       :تم تو احمق ہو۔ میں شہلا سے کیسے کہہ سکتی ہوں۔

(چائے کی پیالی وہیں چھوڑ کر کمرے میں چکر لگاتی ہے۔ پھر چپراسی کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ )

نیلما       :دیکھو رام ادھار۔ ۔ ۔ ایک بات سمجھ لو۔ ۔ ۔ اگر تمہاری بیوی شہلا کے گھر کام کرنا نہیں چھوڑتی تو تم نہ صاحب کے دفتر میں کام کر سکتے ہو نہ ہمارے بنگلے میں رہ سکتے ہو۔

(رام ادھار چپ رہتا ہے۔ )

نیلما       :تم فاقے کرتے تھے، جب میں نے تمہیں اپنے کالج میں چپراسی رکھوا دیا۔ یاد ہے ؟

(رام ادھار کوئی جواب نہیں دیتا۔ )

نیلما       :جب تین سال بعد صاحب سے میری شادی ہو گئی  اور  ہم دلی سے جانے لگے تومیں نے تمہیں ساتھ چلنے کے لئے کہا تھا یاد ہے ؟

(رام ادھار صرف خاموش رہتا ہے۔ )

نیلما       :لیکن تم پاربتی کے چکر میں پڑے تھے، نہیں گئے  اور  نہ ڈپٹی کلکٹروں  اور   کلکٹروں کے چپراسی مالکوں سے زیادہ مزے کرتے ہیں۔ لیکن میری بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ تم یہاں رہ گئے، بیمار پڑ گئے۔ گاؤں چلے گئے۔ چھے مہینے وہاں پڑے رہے۔ پیچھے تمہاری نوکری چھوٹ گئی۔ واپس دلی آئے۔ پھر تمہاری کوئی پکی نوکری نہیں لگی۔ جب تین سال پہلے صاحب جوائنٹ سکریٹری ہو کر یہاں آئے  اور  تم ایک دن اچانک کناٹ  پیلیس میں سامنے پڑ گئے تومیں تمہیں پہچان تک نہ سکی۔ اتنی بری حالت تھی تمہاری۔ تمہیں نے پہچانا یاد ہے ؟۔ ۔ ۔ ارے بولتا کیوں نہیں۔

(رام ادھار بدستور خاموش رہتا ہے۔ )

نیلما       :لگتا تھا جیسے ہفتوں سے تمہارے منھ میں دانا نہیں گیا۔ میں نے صاحب سے کہہ کر تمہیں ان کے دفتر چپراسی بھرتی کرا دیا۔ کوئی پوسٹ نہیں تھی۔ پھر بھی عارضی طور پر تم چپراسی بنے چلے آ رہے ہو۔ وہاں نہال چند کے کتنی گندی غلیظ اندھیری  اور رسیلی کوٹھری میں تم لوگ رہتے تھے۔ وہاں سے لا کر تمہیں بنگلے میں جگہ دی۔

رام ادھار            : (عاجزی آمیز سختی سے)سبتے یاد ہے میم صاحیب۔ ہمؤ آپ کے سیوا ماں کوتوں کسر ناہیں اٹھاوت رہے۔ تنکھا دپتر سے پائت ہے، لیکن سبیرے چارے بجے سے دس بجے راتے تک آپے کا ڈیوٹی وئیت ہے۔ پاربتی سیلا میم صاحیب کے ایہاں پورے مہینہ کی تنکھا پاوت ہے۔ تبھؤ جب آپ کا کام پڑت ہے، دوڑی آوت ہے۔

نیلما       :وہ سب ٹھیک ہے، لیکن میں کب سے کہہ رہی ہوں کہ پاروتی کو کسی  اور   جگہ نوکری کرنے کے لئے کہو۔ دھیرا کے یہاں نہ سہی، دوسرے دس گھروں میں اسے اتنے پر، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ پر۔ ۔ ۔

رام ادھار            : (پیترا بدل کر)ہم تو مناؤت رہت ہیں میم صاحیب کہ بھگوان آپے کا گودی بھرے  اور  پاربتی آپ کے بچوا کے کھلا وے۔ آپ دس دیئیں یا کچھو نہ دیتیں۔

نیلما       :تم باتیں بہت کرنا سیکھ گئے ہو رام ادھار۔ دیکھو اگر پاروتی سامنے کے گھر میں کام چھوڑ دے گی، تو جیسے بھی ہو گا میں تمہاری نوکری پکی کرا دوں گی۔ نہیں چھوڑے گی تو تم لوگ مجھے جانتے ہو۔ ۔ ۔ (باہر کال بل بجتی ہے) دیکھو کون ہے ؟بنا مجھ سے پوچھے مت بول دینا کہ۔ ۔ ۔  (آ کر پھر ڈرائنگ ٹیبل پر بیٹھ جاتی ہے۔ ۔ ۔ زور سے آواز دیتی ہے۔ ) خانساماں !

خانساماں             : (کچن سے) جی میم صاب!

نیلما       :یہ پیالی ٹھنڈی ہو گئی۔ ایک پیالی  اور  بناؤ۔

(پیالی کی چائے واش بیسن میں گراتا ہے۔ تھوڑا سا چائے کا پانی ڈال کر کر پیالی گرم کرتا ہے، پھر تازہ چائے ڈالتا ہے۔ رام ادھار باہر کے دروازے سے داخل ہوتا ہے۔ )

رام ادھار            :میم صاحب!گنجو میم صاحیب  اور  بیگم حنیف ہئین۔

نیلما       :انھیں ادھر بھیج دو  اور   تم جاؤ اور  پاروتی  کو سمجھاؤ۔ (خانساماں سے) چائے کا پانی  اور  چڑھا دینا۔

(خانساماں چلا جاتا ہے۔ نیلما جلدی جلدی ہاتھ کا  بسکٹ ایک ساتھ کھا کر چائے پیتی ہے۔ رام ادھار کے پیچھے پیچھے مسز گنجو  اور   مسز حنیف آتی ہیں۔ )

نیلما       :یہ ساڑھے پانچ بجے شام آئی ہو۔ پورا آدھا گھنٹہ  انتظار کر کے اکیلی چائے پینے لگی تھی۔ (رام ادھار کو واپس جاتے دیکھ کر) رام ادھار میری بات یاد رکھنا۔ (مہمانوں سے) آؤ۔ آؤ۔  ادھر ہی آ جاؤ (پلیٹ آگے کر کے) لو، اتنے میں ایک ایک  بسکٹ لو۔

(اٹھ کر ریفریجریٹر سے دو سیب  اور  نکال کر، ایک پلیٹ میں کچھ دال موٹھ دوسری میں نمک پارے  اور  تیسری میں ریفریجریٹر سے رس گلے نکال کر پلیٹیں اپنی سہیلیوں کے آگے رکھتی ہے۔ )

مسز گنجو  :ہم تو عین وقت پر پہنچ جاتے کہ تم سے وعدہ کیا تھا، لیکن سوچا راستے میں ذرا پاراشرز کے یہاں ہوتے چلیں۔

نیلما       :میں خود سوچ رہی تھی کہ سی بی آ جائیں تومیں بھی مسز پاراشر کے یہاں ہو آؤں (سرگوشی میں) کچھ اندازہ کیا، ہوا کا رخ کدھر ہے ؟

مسز گنجو  :ہم تو دو تین دن سے گھوم رہے ہیں۔ جو سب کا حال ہے وہی مسز پاراشر کا ہے۔

نیلما       :کیا مطلب؟

مسز گنجو  :مطلب یہی کہ کچھ پتہ نہیں چلتا۔ کہتی سب یہی ہیں کہ آپ جو کہیں گی، ویسے ہی کریں گی، لیکن کسی کی بات چیت  اور  اشارے کنائے سے ان کے من کا اندازہ نہیں ہوتا۔ چناؤ کے سلسلے میں لوگ بہت چالاک ہو گئے ہیں۔

مسز حنیف          :کسی نے جواب میں بھی خیال نہیں کیا تھا کہ ۷۷ میں اندرا ہار جائیں گی  اور  اس بری طرح ہار جائیں گی۔ رشیدہ کانگریس میں ہے۔ ان دنوں کنویسنگ کرتی تھی۔ اسی سے معلوم ہوا کہ کنویسر جب پہنچتے تو تو لوگ دانت نکال کر سر ہلا دیتے کہ جیسا آپ کہتی ہیں ویسا ہی ہو گا۔ کہ ہم بھی یہی سوچتے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلا، یکدم نیچے کا اوپر ہو گیا۔

مسز گنجو  :اب بھئی بات یہ ہے کہ وہ لوگ بھی چپ نہیں بیٹھے ہیں۔ سنہا  اور   شیلا۔

نیلما       :شہلا کہو شہلا۔ سنہا کو یہی نام پسند ہے  اور  تو اور   اب شیلا بھی اپنے آپ کو شہلا کہنے لگی ہے۔

مسز حنیف          :شہلا یا شیلا؟ لکھتی تو وہ ایس۔ ایچ۔ ای۔ آئی۔ ایل۔ اے ہے۔

نیلما       :کوئی شہلا کہتا ہے، کوئی شیلا، کوئی شیلا مگر  ہمارے پڑوسی کی بیوی تو اسے ہمیشہ سیلا کہتی ہے۔

(تینوں تکلف سے تھوڑا ہنستی ہیں۔ )

مسز گنجو  :میں تو اسے شیلا ہی پکارتی ہوں  اور  میرے سامنے تو اس نے کبھی یوں بننے کی کوشش نہیں کی۔ بہرحال میں کہہ یہ رہی تھی کہ وہ دونوں پھرکی طرح گھوم رہے ہیں۔

مسز حنیف          :اب میاں بیوی کے پاس اپنی اپنی کار ہے تو۔ ۔ ۔ ہماری طرح تو نہیں کہ میاں دفتر سے آئیں تو کار میں جانا نصیب ہو۔

مسز گنجو  :سنہا صاحب کی اتنی بڑی فرم ہے۔ چار ہزار ان کی تنخواہ مکان  اور   کار  اور   دو نوکر کمپنی کی طرف سے۔ پھر واہی تباہی منافع۔ شیلا کا دل بھی دریا ہے۔ اتنے تحفے تحائف بانٹتی رہتی ہے کہ پچھلے دس برس سے کلب کی ممبر بنی چلی آ رہی ہے۔

نیلما       : (مسکراتے ہوئے۔ ذرا طنز سے) اپنا روپیہ کون اڑاتا ہے۔ ہزاروں روپیہ چندے میں اکٹھا ہوتا ہے۔ ہزاروں کی سرکار سے مدد ملتی ہے۔ سماج سیوا بھی ہو جاتی ہے  اور  بزنس بھی بڑھتا ہے۔ ایسے ہی تو پھرکی کی طرح ان کی کاریں نہیں گھوم رہی ہیں۔

مسز حنیف          : (سرگوشی سے) آپ تومسز  کھیڑا سال بھر سے کلب کی سکریٹری ہیں۔ دیکھا کچھ ادھر ادھر کرتے شہلا کو؟

نیلما       : (ہاتھ چمکا کر) میرے رہتے کچھ ایسا ویسا ہو سکتا ہے کیا؟اسی لئے تو میں شہلا کو ایک آنکھ نہیں بھاتی(جھلا کر اٹھتی ہے) اس خانساماں کمبخت کو کیا ہو گیا ہے۔ ابھی تک چائے نہیں لایا۔

مسز گنجو  :ارے نیلو! تم بیکار تکلف کرتی ہو۔ چائے توہم پاراشرز کے۔ ۔ ۔

نیلما       :چائے پر جب میں نے بلایا تھا تو وہاں کیسے پی آئیں۔ رکو میں منٹ بھر میں آئی۔

(خانساماں !خانساماں !پکارتی ہوئی کچن کی طرف نکل جاتی ہے۔ )

مسز گنجو  : (آنکھوں کی بھویں اوپر اٹھا کر، دھیرے سے) مسز پاراشر کیا کہتی تھیں۔ ۔ ۔

مسز حنیف          :یہی کہ کب کا روپیہ خرد برد کرنا چاہتی ہے۔ شہلا نے ساتھ نہیں دیاتو اس کے پیچھے پڑ گئی ہاتھ دھوکر۔ اب اس کا مالک اتنا کماتا ہے۔ بڑے باپ کی بیٹی ہے، اسے کیا ضرورت ہے کلب کا روپیہ  ہڑپنے کی۔

مسز گنجو  : (سرگوشی سے) دیکھو بانو!تم اپنی طرف سے کچھ نہ کہنا۔ بس ۷۷ کے و وٹروں کی طرح سر ہلا دینا۔ (ہنستی ہے) میں تو اس کے ساتھ پڑھتی تھی۔ یہ سخت کینہ پرور عورت ہے۔ کھیڑا یوں بھی خاصے بدنام آدمی ہیں۔ دلی آنے سے پہلے جہاں تھے وہاں ان پر رشوت کے بڑے الزامات تھے۔ انکوائری تک بیٹھ گئی تھی۔ سرکار نے بال  اور   پر نوچ کر سنٹر میں بٹھا دیا۔

مسز حنیف          :ہاں بھائی اپنی عزت اپنے ہاتھ!بغیر کچھ کئے ہاتھ چلتے یں۔ کرنے پر تو۔ ۔ ۔

مسز گنجو  :ارے ہم کچھ کیوں کریں گے۔ باڑھ کے دکھیاروں کے لئے دن رات ایک کر کے روپیہ اکٹھا کیا ہے۔ ہمارے لئے تو کانی کوڑی بھی حرام ہے۔

(آگے آگے نیلما پیچھے پیچھے چائے کی ٹرے لئے خانساماں داخل ہوتا ہے۔ نیلما پیالوں میں چائے ڈالتی ہے۔)

نیلما       :چینی گنجو؟

مسز گنجو  :میرے پیالے میں چینی نہیں۔

نیلما       :سیکرین کی گولی ڈال دوں۔ کھیڑا صاحب کے بلڈ میں ڈاکٹر نے کچھ شک ظاہر کیا تھا سو۔ ۔ ۔

مسز گنجو  :نہیں نہیں، اس کا ذائقہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اب تو بغیر چینی کے پینے کی عادت ہو گئی ہے۔

نیلما       : اور  آپ بانو؟

مسز حنیف          :بس ڈیڑھ چمچ۔

نیلما       :تم تو گنجو میٹھا لو گی نہیں۔ یہ نمک پارے اور دال موٹھ لو(دونوں پلیٹ مسز گنجو کے آگے کرتی ہے)تمہارے لئے میں بانو سیب چھیلتی ہوں۔ اتنے میں تم  بسکٹ یا رس گلے لو۔

مسز گنجو  :ارے تم فکر نہ کرو۔ ہم لے لیں گے۔

(فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ )

نیلما       : (زور سے چلا کر) خانساماں ذرا فون دیکھو۔

(خانساماں بھاگا بھاگا آتا ہے  اور  فون اٹھاتا ہے۔ )

خانساماں             :ہیلو!جی کھیڑا صاحب کے بنگلے سے بول رہے ہیں۔ ۔ ۔ نہیں صاحب گھر پر نہیں ہیں۔ ۔ ۔ کون صاحب بول رہے ہیں۔ ۔ ۔  ذرا رکئے بتاتے ہیں۔ (ریسیور پر ہاتھ رکھ کر) میم صاحب کوئی آر بی کھیڑا ہیں۔ آپ کو پوچھ رہے ہیں۔

نیلما       :کہو وہ نہیں ہیں۔

خانساماں             :میم صاحب یہیں تھیں۔ پڑوس کے بنگلے میں چلی گئی ہیں۔ آپ نمبر دے دیجئے۔

(خانساماں فون رکھ دیتا ہے۔ )

نیلما       :فون نمبر وہاں پیڈ پر نوٹ کر دو۔

خانساماں             :انھوں نے کہا وہ پھر فون کریں گے۔

(واپس چلا جاتا ہے۔ )

نیلما       : (سیب چھیل کر پلیٹ مسز حنیف کے سامنے رکھتے ہوئے) دیکھو گنجو! تم سے کوئی پردہ نہیں۔ تم میری کلاس فیلو رہی ہو۔ پھر گنجو صاحب  اور   کھیڑا صاحب اکٹھے کام کرتے ہیں۔ تم پر میرا حق ہوتا ہے۔

مسز گنجو  :کیوں نہیں۔ ۔ ۔  کیوں نہیں۔ !

نیلما       :میں یہ جانتی ہو ں کہ شہلا سے آپ لوگوں کی اچھی راہ و رسم ہے۔ لیکن میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ سے دور نہیں۔ یوں دوستی کی شرط میں یہ مانتی ہوں کہ دوست آپ کے لئے کچھ کرے۔ اتنے برسوں سے شہلا صدر بنی ہوئی چلی آ رہی ہے، اس نے تمہیں گنجو ایگزیکٹیو میں تو نہیں لیا۔ ۔ ۔

مسز  گنجو :میں نے کبھی چاہا بھی نہیں۔

نیلما       :تمہارے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ میں صدر ہو جاؤں تو دیکھوں تم کیسے میری ایگزیکٹیو میں نہیں آتیں بلکہ میں تو تمہارا نام سکریٹری کے طور پر پروپوز کرنے کی سوچتی ہوں۔ کیوں گنجو کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم صدارت کے لئے میرے نام کی۔ ۔ ۔

مسز گنجو  :بھائی دیکھو تم مجھ سے اپنا نام پروپوز وروپوز، مت کراؤ باقی ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

نیلما       :آپ بانو!(فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ زور سے آواز دیتی ہے)خانساماں !

(خانساماں بھاگا بھاگا آتا ہے۔ فون اٹھاتا ہے۔ )

خانساماں             :ہیلو۔ ۔ ۔ جی ہاں۔ ۔ ۔ میں خانساماں بول رہا ہوں۔ ۔ ۔ ابھی دیکھ کر بناتا ہوں۔ کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ (ریسیور پر ہاتھ رکھ کر) کانتا میم صاب کا فون ہے۔

نیلما       :کہدو میم صاحب ابھی پانچ منٹ میں آپ کو فون کریں گی۔

خانساماں             :میم صاب، ابھی پانچ منٹ میں آپ کو فون کرتی ہیں۔

(خانساماں ریسیور رکھ دیتا ہے۔ )

مسز گنجو  :اچھا تو نیلو ہم چلتے ہیں۔

نیلما       :ارے بیٹھو پانچ منٹ۔ ہاں تو بانو صاحبہ۔ ۔ ۔ میں کچھ امید کروں۔

مسز حنیف          :ہم تو خادم ہیں۔

نیلما       :کلب کی ایگزیکٹیو میں مائنورٹی کمیونٹی کی نمائندگی بہت کم ہے۔ میں صدر بنی تو آپ کو میرے ساتھ ایگزیکٹیو میں کام کرنا ہو گا۔

مسز گنجو  :تم بانو کی طرف سے بے فکر رہو۔ یہ دوستوں کی دوست ہیں۔ (اٹھتی ہے۔ مسز حنیف بھی اٹھتی ہیں) اچھا تو نیلو، اب اجازت دو۔

مسزحنیف           :یہ کوٹ تو آپ نے مسز کھیڑا بہت شاندار بنوایا ہے۔ کیا ولایتی کپڑا ہے ؟

نیلما       :نہیں۔ او سی ایم کا ہے۔ انھوں نے ولایت والوں کی طرز پر لیڈیز کوٹنگ کا یہ ڈیزائن نکالا ہے۔ کھنہ کہتا تھا کہ طرح طرح کی شالیں چل جانے سے کوٹوں کا رواج کم ہو رہا ہے۔ اس لئے انھوں نے ایک ہی تھان منگایا تھا۔ گرمیوں میں پہاڑ پر جاتے ہیں۔ کوٹ کے بغیر کام تھوڑی چلتا ہے۔

مسز حنیف          : (چلتے چلتے) کتنے میں بن گیا ہو گا؟

نیلما       :یوں تو ڈھائی پونے تین سو میں بن جانا چاہئے۔ لیکن اس کی لائننگ ذرا قیمتی ہے۔ این ایس احمد آباد کی۔ کھنہ کہتا تھا کہ درزی تو اتنی مہنگی لائننگ لگاتے نہیں  اور  لائننگ کو خرید کر درزی کو دینے کی زحمت کوئی مول لیتا نہیں۔ سو دو تھان انھوں نے اپنے ہی لئے منگائے تھے۔ میرے زور دینے  پر کھنہ نے کوٹ کو لائننگ دے دی۔ پچاس زیادہ لگ گئے۔ (کوٹ کے بٹن کھول کر اندر کی لائننگ دکھاتی ہے۔ ) دیکھو نا کتنی شاندار ہے، کتنی ملائم  اور  پھر رنگ  اور  ڈیزائن کیسا خوبصورت ہے۔

مسزحنیف           : (کوٹ کے کپڑے  اور  لائننگ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے) جی چاہتا ہے کہ مل جائے تو ایک کوٹ ایسا ہی میں بھی بنوا لوں۔ (اٹھتی ہے۔ نیلما بھی اٹھتی ہے) نہیں نہیں اب آپ بیٹھئے۔

نیلما       :ذرا خیال رکھئے گا  اور  اپنی سہیلیوں سے بھی کہئے گا۔ تم بھی گنجو۔

مسز گنجو  :ضرور ضرور!(چلتی ہیں۔ نیلما دروازے تک چھوڑنے جاتی ہے۔ نیلما کو وہیں۔ روک کر) اب تم بیٹھو۔ بائی۔ ۔ ۔ بائی۔ ۔ ۔

(نیلما ہاتھ اٹھا کر بائی کہتی ہے۔ دونوں سہیلیاں چلی جاتی ہیں۔ نیلما دروازہ بند کر کے پلٹتی ہے۔ فون کی گھنٹی پھر بجتی ہے۔ )

خانساماں             : (اندر سے آ کر فون اٹھاتا ہے) جی میں خانساماں بول رہا ہوں۔ ۔ ۔  جی ذرا رکئے (ریسیور کے آگے ہاتھ رکھ کر) کانتا میم صاحب کا فون ہے۔

نیلما       :بولو، آتی ہیں۔

خانساماں             :جی آ رہی ہیں۔

(ریسیور تپائی پر رکھ دیتا ہے۔ کچھ لمحے بعد نیلما ریسیور اٹھاتی ہے۔ خانساماں کچن میں چلا جاتا ہے۔ )

نیلما       :میں تمہیں فون کرنے ہی والی تھی کانتا۔ ۔ ۔ ارے نہیں سچ!گنجو  اور  بانو آ گئی تھیں۔ ۔ ۔ اب کیا بتا سکتی ہوں۔ انھیں کہہ دیا ہے  اور  انھوں نے وعدہ بھی کر لیا ہے لیکن میں ان پر بینک نہیں کر سکتی۔ بینک تومیں تم پر، دھیرا پر اور   دوسری دوستوں پر کرتی ہوں۔ ۔ ۔ ہاں میرے ساتھ پڑھی ہے گنجو۔ ۔ ۔ لیکن شہلا سے بھی اس کا بہت میل جول ہے۔ اب بھئی شہلا اتنی پڑھی لکھی نہیں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ بی اے ہے۔ لیکن بی اے تو آج کل چپراسی بھی ہوتے ہیں۔ یہ ڈی فل  اور  ڈی لٹ قسم کی چیزیں شہلا کے لئے بہت بڑی توپ ہیں۔ یہ اس کے ہاں جاتی ہیں تو ان کی بڑی خاطر تواضع کرتی ہے۔ خودی عزت  اور  آبرو کا خیال  اور   سوفسکیشن تو شہلا میں ہے نہیں۔ ان کے آگے بچھ بچھ جاتی ہے۔ ان کی انا کو بھی تسکین ملتی ہے۔ میرے تو برابر کی ہے گنجو میں تو وہ سب نہیں کر سکتی۔ ۔ ۔  ہاں ہاں وہ توہے۔ ۔ ۔ وہ توہے۔ ۔ ۔  وہ کہہ تو گئی ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ۔ ۔ نہیں، پروپوز، وہ نہیں کرے گی۔ ۔ ۔ (باہر کے دروازے پر کال بل بجتی ہے) ایک منٹ رکو کانتا باہر کوئی آیا ہے۔ (فون کے آگے ہاتھ رکھ کر خانساماں سے جو کچن سے آ گیا ہے) دیکھو خانساماں کون ہے ؟(خانساماں دروازے کی طرف جاتا ہے)  اور  سنو کوئی صاحب کو پوچھ رہا ہو تو نام پتہ لے لینا  اور  چلتا کر دینا۔ کوئی مجھ سے ملنے والا ہو تو ادھر برآمدے میں بٹھانا۔ ۔ ۔  اور  دیکھو مجھے بات کرتے ہوئے ڈسٹرب مت کرنا۔ ۔ ۔

خانساماں             : (تسلیم کرتے ہوئے سر ہلا کر) جی میم صاب۔

(چلا جاتا ہے۔ )

نیلما       : (ریسیور سے ہاتھ ہٹا کر) تومیں کہہ رہی تھی کہ ’’پروپوز‘‘ تو میرا نام تم کو یا  دھیرا کو کرنا پڑے گا۔ اب تم دونوں مل کر طے کر لو۔ (قدرے دھیمی آواز میں)دیکھو کانتا۔ ہم کو گٹ تو بنانا ہی پڑے گا۔ جب ملک کی  سیاسی پارٹیوں کا، ملک کی سرکار کا کام گٹوں کے بغیر نہیں  چلتا تو ہمارا ہی کیسے چلے گا۔ ہم ایک دوسرے کو سپورٹ کریں گے، جبھی کچھ کر سکیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم خزانچی بنو۔ ۔ ۔ ارے نہیں کیا۔ ۔ ۔  بینک کے منیجر کی بیوی ہو اور  خزانچی بننے سے گھبراتی ہو۔ ہم سارا اکاؤنٹ تمہارے مہروترا  صاحب کے بنک میں ٹرانسفر کر دیں گے۔ مانو نہ مانو۔ بناگٹ بنائے۔ بنا ایک جٹ ہوئے کام چلے گا  نہیں۔ ۔ ۔  سی بی بتاتے تھے کہ سماجی فلاح و بہبود کے شعبے میں بہت سی ایسی ا سکیمیں ہیں جن سے غریبوں کو راحت پہنچانے کے لئے سرکار روپیہ دیتی ہے۔ ۔ ۔  اب یہ تو صدر اور  خزانچی کوہی معلوم ہونا چاہئے کہ کہاں کتنا خرچ ہوا۔ (طنز سے) کون کتنا رکھتا ہے یہ۔ ۔ ۔ (فوراً لہجہ بدل کر) نہیں نہیں میں یہ نہیں کہتی کہ شہلا ایسا کرتی ہے۔ ۔ ۔  لیکن بغیر کسی فائدہ کے وہ یوں ہی تو اس عہدے سے نہیں چمٹی ہوئی۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ہزار دو  ہزار اپنے پاس سے بھی خرچ کر دیتی ہو گی۔ ۔ ۔ لیکن یہ تو  دیکھو کہ جن غریبوں میں وہ روپیہ بانٹتی ہے ان کے ووٹ کنٹرول کرتی ہے۔ ۔ ۔   اور  سیاست میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ ۔ ۔  ہاں ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ سنہا صاحب کارپوریشن کے چناؤ میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔ ۔ ۔  تو بس تم خود ہی سوچ لو۔ ۔ ۔ ہاں ہاں اثر و رسوخ کی بات بھی ہے ہی۔

(خانساماں چپ چاپ کھڑا ہو جاتا ہے کہ نیلما اپنی بات ختم کرے تو وہ اپنی کہے۔ )

نیلما       :تومیں تم پر  بینک کروں۔ یقین رکھو اگر میں صدر ہوتی ہوں، دھیرا سکریٹری، تم خزانچی  اور  ایگزیکٹیو میں ہماری اکثریت ہوتی ہے تو مہروترا صاحب کا بھی اس میں یقیناً بہت فائدہ ہو گا۔ ٹھیک ہے تم سوچ لینا میں کل شام چھ بجے تمہاری طرف آؤں گی(ہنستی ہے) سعیدہ بانو! ارے وہ تو مسز  گنجو کی ضمیمہ ہے۔ گنجو  جو کرے گی وہی بانو کرے گی۔ ۔ ۔  میرے کوٹ کی بڑی تعریف کر رہی تھی  اور  خود بھی بنوانا چاہتی ہے۔ ۔ ۔  ہاں ہاں۔ ۔ ۔ تم نے بھی کی تھی۔ ۔ ۔ دیکھوں گی اگر کپڑا مل گیا تو تمہارے لئے ایک کوٹ کا ضرور لاؤں گی۔ ۔ ۔ اچھا بائی۔ ۔ ۔ کوئی باہر ملنے کے لئے آیا ہوا ہے۔ او۔ کے۔

(ریسیور رکھ دیتی ہے۔ )

نیلما       :کو ن ہے ؟

خانساماں             :سلوجا میم صاب ہیں۔

نیلما       :سرلا!۔ ۔ ۔ ارے تولے آتے۔

خانساماں             :آپ ہی نے کہا تھا کہ آپ سے کوئی ملنے آئے تو۔ ۔ ۔

نیلما       اسے ادھر بٹھانے کو تھوڑی کہا تھا۔ مگر  ٹھیک ہے ادھر کے برآمدے میں سبھی آ جاتے ہیں  اور  میں نہیں چاہتی کہ سلوجا کو شہلا کی کوئی دوست یا پڑوسن یہاں دیکھے۔ کوئی آئے تو باہر بٹھانا۔ یہ مت کہنا کہ ادھر بیٹھی ہوں۔ کہنا کہ دیکھ کر بتاتا ہوں۔ پڑوس میں نہ نکل گئی ہوں۔

خانساماں             :جی بہتر میم صاب۔

(نیلما باہر جاتی ہے۔ خانساماں دروازے کی چٹخنی چڑھا کر کھانے کی میز صاف کرتا ہے۔ پھلوں  اور رس گلوں کی پلیٹیں ریفریجریٹر میں  اور  نمکین وغیرہ کی طشتریاں سائڈ بورڈ پر ٹکا کر چائے کی پیالی  اور   ٹی پاٹ وغیرہ ٹرے میں رکھ کچن کو لے جاتا ہے۔ کچھ لمحوں کے بعد کال بل بجتی ہے۔ خانساماں باورچی خانے سے بھاگا آتا ہے  اور  دروازہ کھولتا ہے۔ جناب چندر بدن کھیڑا جو دوست احباب  اور  قریبی رشتے داروں  اور   عزیزوں میں سی بی کے نام مشہور ہیں داخل ہوتے ہیں۔ )

سی بی     : (بیوی کو آواز دیتے ہوئے) محترمہ نیلما جی!

خانساماں             :میم صاب سلوجا میم صاب کے ساتھ ادھر کے برآمدے میں بیٹھی ہیں۔ بلا لاؤں صاب؟

سی بی     :انہیں بیٹھنے دو۔ تم پانی کا ایک گلاس لے آؤ(پیچھے کی طرف مڑ کر) آؤ موہن آؤ۔

(موہن ایک خوش پوش نوجوان۔ سی بی صاحب کے پیچھے داخل ہوتا ہے۔ ٹھیکے دا رہے۔ قومی فلاح و بہبود کے ڈپارٹمنٹ سے ٹھیکے لیتا ہے۔ تاہم سی بی صاحب سے عمر میں دس سال چھوٹا ہے۔ لیکن ان سے خاصا بے تکلف ہے۔ )

سی بی     : (موہن سے)محترمہ نیلما جی تو ادھر برآمدے میں اپنی اس چڑیا کی بیگم جیسی سہیلی کے ساتھ بیٹھی ہیں۔ تم آرام سے بیٹھو موہن۔ میں بہت تھک گیا ہوں، ذرا لیٹوں گا۔

موہن    : (جو کوچ پر بیٹھ گیا تھا مگر  سی  بی صاحب کی بات سن کر ذرا سا اٹھتا ہے  اور   دونوں ہاتھ بڑھا کر کہتا ہے) ہاں ہاں آپ آرام کیجئے۔

(سی بی صاحب لمبے کوچ پر لیٹ جاتے ہیں  اور   لیٹنے سے پہلے تپائی سے ویکلی اٹھا کر موہن کی طرف پھینکتے ہیں۔ )

سی بی     :تم ذرا ویکلی دیکھو۔ خشونت سنگھ کاتو پتا کٹ گیا۔ تازہ سنڈے میں اس کے بیٹے راہل  کا بیان چھپا ہے کہ مالکوں نے کیسے ان سیریمونئیلی اس کو چلتا کر دیا  اور   یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایمرجنسی میں جو آواز بند ہو گئی تھی، اسے آزاد کر دیا گیا ہے  اور  سنسر شپ ہٹا دی گئی ہے۔

(بغل سے گڈی اٹھا کرسر کے نیچے رکھتے ہیں  اور  سر کو ذرا سا ٹھیک کر کے آرام سے لمبے کوچ پر دراز ہو جاتے ہیں  اور  اخبار پڑھنے لگتے ہیں۔ )

موہن    :تب تو ایک ورگھیز کو لے  کر ہائے توبہ مچی تھی۔ اب تو تین تین ایڈیٹروں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہندی روزنامے کے جس ایڈیٹر کو عمر کی بنا پر ریٹائر کیا گیا ہے، ایڈیٹر اس سے کئی سال بڑا ہے۔

(سی بی فرمائشی قہقہہ لگاتے ہیں۔ موہن ویکلی کے صفحے پلٹتا ہے۔ خانساماں پانی کا گلاس لے کر آتا ہے تپائی رکھ جاتا ہے۔ اسی وقت نیلما کے تیز تیز چلنے  اور   چلانے کی آواز آتی ہے۔ دوسرے لمحے دروازہ پٹاخ سے کھلتا ہے۔ پاروتی کا بازو پکڑے چلاتی ہوئی آگے آگے نیلما، پیچھے رام ادھار اور  سرلا داخل ہوتے ہیں۔ نیلما  پاروتی کو گھسیٹتی ہوئی کمرے کے عین وسط میں آ جاتی ہے۔ ۔ ۔ پاروتی خوبصورت ہے، جس نے بالکل نیلما جیسا کوٹ پہن رکھا ہے۔ پانوں میں اس کے آلتا ہے۔ چاندی کی پازیب  اور  صاف ستھری سوتی ساڑی پہنے ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کا سارا  وجود اس کے نوکرانی ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ رام ادھار وہاں دروازے کے پاس رک جاتا ہے۔ سرلا بڑھ کر دوسرے سنگل کوچ پر بیٹھ جاتی ہے۔ )

نیلما       :تیری جرأت ہوئی کیسے، میرے بنگلے میں رہ کر میرا مقابلہ کرنے کی!

(نوکرانی کا بازو چھوڑ کر کمرے کا چکر لگاتی ہے۔ معاً اس کی نگاہ کوچ پر لیٹے اپنے شوہر پر جاتی ہے جو اچھل کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ )

نیلما       :اچھا ہوا سی بی تم آ گئے۔ تم ہمیشہ اس پاروتی کی طرف داری کرتے ہو  اور   مجھ پر الزام لگاتے ہو۔ دیکھو ذرا اس بدتمیز عورت کی حرکت۔

(پھر پاگلوں کی طرح کمرے میں چکر لگاتی ہے۔ )

سی بی     :ہوا کیا محترمہ؟

نیلما       : (بالکل شوہر کے پاس جا کر جیسے اس کے سر پر سوار ہو کر گرجتے ہوئے) ہوا میرا سر۔ کبھی توسیریس رہ کر بات کیا کرو۔ تمہیں ہر وقت مذاقی سوجھتا ہے۔

سی بی     : ( اور  بھی گھبراتے ہوئے) کچھ بتاؤ بھی!

موہن    :کیا ہوا بھابی؟

نیلما       : (ذرا سا مڑ کر دونوں کو سناتے ہوئے) میں کانتا سے بات کر رہی تھی کہ سرلا نے کال بیل بجائی۔ مجھے ڈسٹرب نہ کرنے کے خیال سے خانساماں اسے ادھر کے برآمدے میں لے گیا۔

سی بی     : (سرلا کی طرف دیکھتے ہوئے) عجب احمق ہے۔

نیلما       : (جیسے سرلا کو صفائی دیتے ہوئے) میں نے ہی کہا تھا کہ وہ مسز پلے آئے تو ادھر کے برآمدے میں بٹھانا۔ یہ سرلا کو ہی ادھر بٹھا آیا۔ فون رکھنے پر جب مجھے پتہ چلا تو میں بھاگی گئی۔ ابھی ٹھیک سے بیٹھی بھی نہ تھی کہ پاروتی سجی بجی رام ادھار کے ساتھ کوٹھری سے نکلی  اور   میرے سامنے سے ہو کر گیٹ کی طرف۔ ۔ ۔

رام ادھار            :باہر جائے کے دوسر کونو رستہ ناہنا میم صاحب۔

نیلما       :سوال دوسرے راستے کا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس نے یہ کوٹ سلایا کیسے ؟

(پھر کمرے میں گھومنے لگتی ہے۔ )

رام ادھار            : (صفائی دیتے ہوئے) میم صاحیب!پاربتی ناہیں۔ ۔ ۔

سی بی     :کون سا کوٹ؟

نیلما       : (پلٹ کر) تم نے کیا آنکھیں بند کر رکھی ہیں سی بی۔ (پاروتی کے پاس جا کراس کے کوٹ کا دامن کھینچ کر شوہر کو دکھاتے ہوئے) یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ!دیکھتے نہیں، عین مین میرا والا کپڑا ہے۔ اسے یہ سلانے کی ہمت کیسے ہوئی؟

سی بی     :تم نے پیسے دیئے تھے ؟

نیلما       : (بے طرح چڑ کر) تمہیں کیا ہو گیا ہے سی بی اس نے اپنے پیسے خرچ کئے ہوں تو بھی کیا اسی کپڑے کا کوٹ اسے سلانا چاہئے، جواس کی مالکن پہنتی ہے۔ ۔ ۔ کیوں سرلا۔ ۔ ۔ موہن؟

سرلا       : (جیسے شاستروں میں لکھی ہوئی کوئی صداقت بیان کر رہی ہو) نوکروں کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔۔ ۔

نیلما       : اور  کیا!

موہن    :لیکن بھابی۔ ۔ ۔

رام ادھار            : (صفائی دیتے ہوئے) میم صاحب پاربتی۔ ۔ ۔

نیلما       : (جا کر جیسے ان کو اپنے وجود سے چھاتے ہوئے)میم صاب پاروتی۔ ۔ ۔ میم صاب پاروتی۔ ۔ ۔ میم صاب پاروتی۔ ۔ ۔ کیا!۔ ۔ ۔  تیری یہ اوقات ہے کہ تو اپنی بیوی کو اپنی مالکن جیسا کوٹ پہنچائے۔ اسی کے بنگلے میں رہ کر!۔ ۔ ۔  دن تو سارا اس کا برتن مانجھنے، بچہ کھلاتے، کپڑے دھوتے گزرتا ہے،  اور  چلی ہے مقابلہ کرنے اپنی مالکن کا۔ (منھ بچکا کر) بانڈی بستیاں شہیتروں سے گل بہیاں۔

سی بی     :محترمہ نیلما جی۔ ۔ ۔

موہن    : (سمجھانے  اور  پھسلانے کے انداز میں) بھابی!۔ ۔ ۔

(لیکن نیلما نہیں سنتی، غصے میں کمرے کا چکر لگاتی ہے۔ )

رام ادھار            :میم صاحب!اسی خودے  ناہی سیائس۔ ۔ ۔

نیلما       : (بیچ ہی سے مڑ کر) اس نے نہیں سلایا تو کیا آسمان سے ٹپک پڑا؟

رام ادھار            :سیلا میم صاحب سیائے دہن۔

نیلما       :کیا کہتے ہو۔ او سی ایم کا کپڑا  اور  این ایس احمد آباد کی لائننگ۔ ۔ ۔  دو سو روپئے تو کپڑے پر لگ جاتے ہں  اور  شہلا نے اسے سلا دیا۔

رام ادھار            :آپ کھانساماں کو بھیج کے پچھوایٔ  لیؤ۔ پچھلا مہینہ جب آپ نوا کوٹ بنوائے رہن۔ ہم کہے رہے کہ ہجواری پران والا پاربتی کے دے دیؤ۔ تب آپ منع کر دہن کہ تینو برس ناہیں بھوا اے کے سیائے۔

پاروتی    :ہم سیلا میم صاحیب سے کہا کہ سردی آئے گئی با۔ کونو پران دھران کوٹ دے دیؤ۔ تب سیلا میم صاحیب کہن پران دھران کا، تے پہن تو نوا سلائے دیئی۔ ہم ناہیں چاہت تے پران دھران کوٹ پہن کے ٹکو بابا کے کھلاوت پھرے۔  اور  بچہ کے جنم دن پر۔ ۔ ۔

نیلما       : (گرج کر) اس نے تین سو کا کوٹ سلا دیا۔

رام ادھار            :آپ کھانساماں کا بھیج کے پچھوائی لیؤ۔

نیلما      :لیکن جب انھوں نے کپڑا پسند کیا  تھا تو تم سے کہا نہیں گیا کہ اس کپڑے کا کوٹ میم صاحب پہنتی ہیں۔ آپ کوئی دوسرا لے دیجئے۔

پاروتی    :اون کپڑے دکھائے ناہیں میم صاحب۔ درجی کے بلائی کے ناپ لے لیہن۔  اور  کوٹ بن کے آئی تو پہرائی دہن۔

نیلما       :تو جاؤ، اسے ابھی جا کر شہلا کو واپس کر کے آؤ۔

موہن    :بھابی! اس میں اس بے چاری کا کیا قصور ہے ؟

نیلما       :قصور۔ ۔ ۔ اس کاکیوں نہیں ہے ؟

سی بی     :محترمہ نیلما جی! آپ زیادتی کرتی ہیں۔

نیلما       :تم چپ رہو سی پی۔ ۔ ۔ جو بات تم نہیں سمجھتے اس میں ٹانگ مت اڑاؤ۔

موہن    :لیکن بھابی! یہ کوٹ واپس دینے جائے گا تو اس میں شہلا کی بے عزتی نہیں ہو گی۔

نیلما       :یہی تومیں چاہتی ہوں۔

سی بی     :لیکن۔ ۔ ۔

نیلما       : (غصے سے) تم یہ نہیں سمجھتے کہ پاروتی یہ کوٹ پہنے گی تومیں کیسے پہن سکتی ہوں۔ تم ہی نے اسے اتنی لفٹ دے رکھی ہے کہ آج یہ میرے مقابلے پرآ کھڑی ہوئی ہے۔ اسے میرے بنگلے میں رہنا ہے تو اسے کوٹ ابھی اسی وقت جا کر واپس کرنا ہو گا۔

پاروتی    :ہم تو میم صاحب کہے رہے سیلا میم صاحیب سے کہ ہم گریب متئی ہئی سرکار، برتن بھانڈا کرت ہے، اتنا مہنگا کوٹ ناہیں پہر سکت۔ میم صاحیب بولیں :نوکر مالک میں کونو پھرک ناہیں۔ کل تور تین لاکھ کی لاٹری نکل آوے توکاتے برھیا کوٹ نہ سلوائے لیبے۔ تے محنت کرت ہے۔ کونوکھیرات ناہیں پاوتے۔ ٹکو بابا کے ساتھ جاوا کرتوالے ہی ہی کوٹ پہرا کر۔ ہم لاکھ کہامیم صاحیب لیکن او ایکو نہ سنائن۔ ۔ ۔  ہم ابہن ٹکو بابا کے ہی کھلاوے جات رہے۔

نیلما       :تو جاؤ، انھیں کے گھر جا کر رہو۔

(نہ پاور  تی ہلتی ہے نہ رام ادھار۔ ایک لمحے کی خاموشی)

نیلما       : (زور سے چلا کر) تم تو یہ کوٹ واپس نہیں کرو گی(دونوں میں کوئی نہیں ہلتا) رام ادھار!میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ پاروتی سامنے کے بنگلے کا کام نہیں چھوڑ سکتی تو تم یہاں نہیں رہ سکتے۔ تم دونوں اسی وقت میرا بنگلہ خالی کر دو۔ جاؤ۔ ۔ ۔ جاؤ(پاروتی تذبذب میں ہے) جاؤ۔ ۔ ۔

رام ادھار            :چلو پاربتی۔

(اچانک رام ادھار بڑھ کراس کا بازو پکڑتا ہے  اور  اسے لے جاتا ہے۔ )

نیلما       : (اس وقت جب وہ دروازے میں ہی ہوتے ہیں)  اور  سی بی تم نے اس احسان فراموش کو اگر کل دفتر سے نہ نکالا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔

سی بی     :میں نے تمہارے ہی زور دینے پر اسے رکھا تھا(کندھے جھٹکاتے ہوئے) تم کہتی ہو تو کل نکال دوں گا۔ لیکن سوچ لو۔ آج کلاس فور کے افسر۔ ۔ ۔ یعنی یہ چپراسی۔ ۔ ۔  اپنے آپ کو کلاس ون کے افسروں سے کم نہیں سمجھتے۔ رام ادھار جیسا بھلا چپراسی جلدی میں نہیں مل سکتا۔

نیلما       :میں  اور  اب کچھ برداشت کر سکتی ہوں لیکن احسان فراموشی برداشت نہیں کر سکتی۔ اک دم بیکار اور  بھوکا مرتا تھا۔ جب میں نے کالج میں اسے نوکری دی تھی۔ پھر جب اس کی نوکری چھوٹ گئی  اور  یہ کناٹ پلیس میں۔ ۔ ۔

سی بی     :لیکن محترمہ نیلما جی، وہ صبح سے رات گیارہ بجے تک ہماری خدمت اسی لئے تو کرتا ہے۔ صبح سویرے اٹھ کر ایک میل جا کر وہ بھینس کا دودھ دوا کر لاتا ہے۔ مارکیٹ میں جا کر سبزی ترکاری لاتا ہے۔ کمرے صاف کرتا ہے۔ مہمان آ جاتے ہیں تو گیارہ گیارہ بجے رات بیرے کا۔ ۔ ۔

نیلما       :مجھ سے بحث مت کرو سی بی اس نے میری بات نہیں مانی  اور  وہ میرے بنگلے میں نہیں رہ سکتا۔

موہن    :لیکن بھابی اتنے ون ان لوگوں نے آپ کی خدمت کی ہے۔ مکان پڑے ہوئے نہیں ملتے۔ یہ کہاں جائیں گے۔ بے چارے۔ ۔ ۔

نیلما       :میری طرف سے جہنم میں جائیں۔ ایسے احسان فراموشوں کو میں اپنے بنگلے میں نہیں رہنے دوں گی۔

سرلا       : (سی بی سے) نیلما ٹھیک کہتی ہے بھائی صاحب۔ جب شہلا سے اس کی ٹھن گئی ہے تو اگر آپ کو نوکر یا اس کی بیوی اس کے ہاں کام کرتے ہیں تو سمجھئے اس کا ایک جاسوس دن رات آپ کے ہاں رہتا ہے۔ پھر سرکاری نوکری بھائی صاحب آج کل گری پڑی نہیں مل جاتی۔ بی اے، ایم اے پڑھے چپراسی ہونے کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ دو مہینے بے کار رہے گا تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا  اور  پھر آ کر آپ کے پاؤں پرسر رگڑے گا۔

(خانساماں کچن سے تیز تیز داخل ہوتا ہے۔ )

خانساماں             :صاحب وہ رام ادھار  اور  پاربتیا اپنا سارا سامان اٹھا کر سامنے کے بنگلے میں جا رہے ہیں۔

نیلما       : (غصے  اور  حیرت سے) کیا۔ ۔ ۔ !

خانساماں             :رام ادھار کہتا گیا ہے کہ میم صاب ہماری نوکری لیوا چاہت ہیں۔ ہماری نوکری کی کونو کمی ناہیں نا۔

سرلا       : (اک دم اٹھ کر) میں کہتی ہوں یہ سب شہلا کی سازش ہے۔ اس کا خانساماں دیس جا رہا ہے۔ اسے یقیناً رام ادھار کی ضرورت ہو گی  اور   اس نے۔ ۔ ۔

موہن    :چناؤ سر پر ہے۔ بھابی آپ نے نوکروں کو نکال کر اچھا نہیں کیا۔ نہ جانے یہ ساری لوکیلیٹی میں کیا کیا کہتے پھریں گے۔ ۔ ۔

سی بی     :محترمہ نیلما جی، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری پڑوسن نے صرف ایک گرم کوٹ سلوا کر تمہارے دونوں نوکر چھین لئے۔ میں نہ کہتا تھا کہ۔ ۔ ۔

نیلما       : (غصے سے بے قابو ہو کر) تم چپ رہو سی بی!تم چپ رہو!

(لاچار سی ہو کر کرسی میں دھنس جاتی ہے۔ اچانک سی بی کی نظر پانی کے گلاس پر جاتی ہے۔ وہ چپ چاپ گلاس اٹھا کر پانی پینے لگتے ہیں۔ جب فوراً پردہ گرتا ہے۔ )

’’پڑوسن کا کوٹ اور  دوسرے یک بابی ڈرامے ‘‘

نیا ادارہ

الہ آباد

 

***

تشکر: مصنف اور ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے ان پیج فائل فراہم ہوئی۔

ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید