FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

سہ ماہی

 

ادب سلسلہ

 

اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ

کتابی سلسلہ (۲)

جلد :۱                              جولائی تا دسمبر۲۰۱۶                                     شمارہ: ۳

 

حصہ سوم

 

مدیر

محمد سلیم (علیگ)

مدیر اعزازی

تبسم فاطمہ

 

مجلس مشاورت: پروفیسر اصغر علی انصاری، سہیل انجم، ساحر داؤد نگری، محمد عمران، حشمت اللہ عادل، یوسف رانا، مظہر عالم،   ڈاکٹر تنویر فریدی، ڈاکٹر مشتاق خان، ڈاکٹر شمس العارفین، اخلاق احمد، نسیم اللہ خاں ، زوبینہ سلیم

E-mail: adabsilsila@gmail.com Contact : 8588840266

 

 

 

وحشت اور مامتا کی داستان: مشک پوری کی ملکہ

جمیل حیات

 

محمد عاطف علیم کے  مختصر ناول ’’مشک پوری کی ملکہ’‘  کو اگر فطرت کے  حسین نظاروں  کی تفسیر کہا جائے  تو بے  جا نہ ہو گا۔ آغاز ہی سے  یہ ناول قاری کو اپنے  سحر میں  گرفتار کرنے  کی پوری اہلیت رکھتا ہے۔ ناول نگار نے  آغاز اتنا عمدہ کیا ہے  کہ پہلے  جملے  سے  ہی ناول میں  قاری کی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے  اور وہ سطر سطر پڑھتے  اس طلسمِ حیرت کا اسیر ہو جاتا ہے۔ عاطف علیم نے  جنگل کی خوفناک زندگی کا نقشہ اتنی مہارت سے  کھنچا ہے  کہ تمام مناظر آنکھوں کے  سامنے  وا ہو جاتے  ہیں۔ فطرت کی عکاسی ناول نگار کا مقصد نہیں  لیکن یہ ناول کا اہم حصہ ہے۔ ناول نگار نے  انسانی جبلت اور صدیوں  قدیم اس وحشت کو پیش کیا ہے  جو ہر انسان یا ہر جاندار کے  اندر چھپی ہے  اور زندگی بچانے  کی شدید خواہش کے  جذبے  کے  تحت ابھر کر سامنے  آتی ہے۔ ناول کا دوسرا اہم حصہ یا دوسرا مرکزی خیال جسے  ناول نگار نے  پیش کیا ہے  اور کمال کیا ہے  وہ ماں  کی مامتا کی عکاسی ہے۔ ماں  چاہے  انسان کی ہو یا کسی چوپائے  کی ماں  ہوتی ہے  اور وہ اپنے  بچوں  کی حفاظت کی خاطر کچھ بھی کرنے  کو تیار ہو جاتی ہے  جیسا کہ اس ناول کا موضوع ہے  گلدار کی فطرت ہے  کہ وہ تنہائی پسند ہوتا ہے  اور انسانوں  سے  دور رہتا ہے  کیونکہ وہ فطری طور پر شرمیلا ہے  لیکن جب انسان اس کے  بچوں  کو پکڑ کر لے  جاتے  ہیں  تو ماں  جوشِ انتقام میں  اندھی ہو جاتی ہے  اور اس میں  گناہ گار اور بے  گناہ کی تمیز ختم ہو جاتی ہے  یہی وجہ ہے  کہ کئی بے  گناہ انسان ملکہ ماں  کے  اندھے  انتقام کی نظر ہوئے۔ انہی میں  سے  ایک گلابے  بھی ہے۔ قدرت کی شاہکار تخلیق، نور محمد کی محبوبہ اور ہونے  والی بیوی۔ چنانچہ سیدھا سادا نور محمد بھی جبلت کے  تقاضوں  کے  تحت وحشی ہو جاتا ہے۔ چونکہ وہ انسان ہے  اور فطرتِ سلیم رکھتا ہے  اس لیے  وہ کسی بے  گناہ کو نقصان نہیں  پہنچاتا۔

ناول کا آغاز ایک ماں  کی اپنے  کھوئے  ہوئے  بچوں  کی تلاش سے  ہوتا ہے  اور اس تلاش میں  اسے  بھوک کے  ہاتھوں  بدن کی کمزوری کی پرواہ بھی نہیں  ہے۔ جنگل کے  تمام جانور جو کہ ملکہ ماں  کے  قہر اور غضب سے  آشنا تھے  اس کی زندگی کے  بے  بس لمحات کے  بھی چشم دید گواہ بنے  اور ان لمحات میں  وہ پھرتیلے  بن گئے۔ ناول کی ایک خوبی شعور کی رو کا استعمال بھی ہے۔ آغاز سے  جنگل کی منظر کشی اور ملکہ ماں  کی بے  بسی کا ذکر کرنے  کے  بعد ماں  اور بچوں  کے  ساتھ رہنے  کی عکس بندی کی جاتی ہے  اور پھر اس کے  بعد عاطف علیم قاری کو اس منظر کی طرف لے  آتے  ہیں  جو ملکہ ماں  اور اس کے  بچوں  کے  درمیان جدائی کا سبب بنتا ہے۔

عاطف کی نثر سادگی سے  مملو ہے۔ انہوں  نے  تشبیہات کا استعمال برجستگی سے  کیا ہے۔ ناول کے  آغاز میں  دیکھیے  کتنی خوب صورت تشبیہات ہیں۔ یوں لگتا ہے  نثر میں  شاعری ہو رہی ہے :

’’پوری رات کا چاند ایک طویل اور اکتا دینے  والے  سفر کے  بعد افق کی کگر پر ذرا سا ٹکا تھا اور گلیات کی خوابیدہ وسعتوں  سے  چاندنی کو سمیٹ پاتال میں  گم ہونے  کی فکر میں  تھا۔ رات کا دمِ واپسیں  تھا۔ کوئی دیر گزرتی کہ جنگل کے  سحر خیز مکین اپنی گہری نیند سے  جاگ اٹھتے۔ سو کاہلی سے  ٹمٹماتے  ستاروں  نے  بھی ماند پڑنے  سے  پہلے  بوجھل پلکوں  یونہی ذرا کی ذرا غار کی تاریک گہرائی میں  جھانکا جہاں  اندھیرے  میں دو بیقرار آنکھیں  فروزاں  تھیں۔ ‘‘

[مشک پوری کی ملکہ، ص ۹

مضمون کے  اقتباس سے  ظاہر ہے  کہ یہ ناول فطرت کے  حُسن کی کہانی بیان کرتا ہے  جہاں  مرکزی کردار ایک مادہ گلدار ہے  جو کہ بلی(Big Cat) کی نسل کا ایک جانور ہے۔ اس ناول کے  اہم کرداروں  میں مرکزی کردار ملکہ ماں  کے  علاوہ، اس کے  دو گلدار بچے، ایک شکاری ثانی، ڈپٹی فاریسٹ آفیسر، حاجی نثار عباسی، ایک دیہاتی نور محمد، اس کی محبوبہ گلابے  اور نام نہاد پیر، پیر بادشاہ شامل ہیں۔ ان کے  علاوہ بہت سے  ثانوی کردار بھی اس ناول کے  حُسن میں  اضافہ کرتے  ہیں۔

عاطف علیم نے  جنگل میں  موسمِ سرما اور موسمِ بہار کا خوب صورتی سے  تذکرہ کیا ہے۔ دونوں  موسموں  کے  بیان میں  منظر کشی کمال کی ہے۔ موسمِ بہار کے  آغاز کا منظر دیکھیے :

’’کھُلے  میں  پہنچ کر وہ یہ دیکھ بشاش ہو گئے  کہ ان کے  سامنے  پھیلی ساری کائنات مسکرا رہی تھی جب کہ جنگل کی ہنسی تھی کہ تھمنے  میں  نہیں  آ رہی تھی چیڑ، صنوبر، دیودار اور بن خور کے  بلند درختوں  پر کھلے  تازہ بتازہ سبزے  نے  لینڈ سکیپ میں  زندگی کے  رنگوں  میں  کچھ زیادہ ہی شوخی بھر دی تھی۔ اور پھر وہاں  تا حدِ نگاہ پھولدار جھاڑیاں  تھیں  جن پر کھلے  سفید، سرخ اودے، نیلے، پیلے  اور بنفشی پھولوں  نے  ایک آفت سی مچا رکھی تھی۔ ایک طرف رنگوں  کی چہکار تھی تو دوسری طرف طرح طرح کی آوازوں  کا غوغا تھا۔۔۔۔ وہ حیران تھے  کہ وہ جس جاڑے  کو اصل حیات سمجھے  ہوئے  تھے  اسے  بہارنے  پسپا کر کے  یہاں  سے  جانے  پر مجبور کر دیا تھا۔ اب وہ تھے  اور اس جنگل کا کھُلا پن تھا جہاں  ہر طرف چہکار سی چہکار اور ہر سو مہکار سی مہکار تھی۔ ‘‘

(ص ۱۴)

گلدار کی یہ خصوصیت ہے  کہ وہ انسان سے  خوفزدہ ہوتا ہے  اس لیے  بلاوجہ انسان کے  راستے  میں  نہیں  آتا۔ حاجی نثار عباسی کے  لوگ ملکہ کے  دو بچوں  کو پکڑ کر لے  جاتے  ہیں  اور ملکہ ماں  کو گولی مار کر زخمی کر دیتے  ہیں جس کی وجہ سے  ملکہ انتقام کی آگ میں  جھلس کر دو پاؤں  والے  جانور(انسان) کی جان کی دشمن بن جاتی ہے۔ اس دشمنی کی آگ میں  سادہ لوح نور محمد کی معصوم محبوبہ جو چند دنوں  بعد اس کی بیوی بننے  والی تھی ملکہ ماں  کے  اندھے  انتقام کا نشانہ بنتی ہے  جو اس کا خون پینے  کے  بعد اسے  پکڑ کر لے  جاتی ہے۔ جب معاملہ حد سے  بڑھ جاتا ہے  اور انسانوں  کے  غائب ہونے  کا سلسلہ جاری رہتا ہے  تو علاقے  کے  مکین احتجاج کرتے  ہیں۔ عاطف علیم نے  موجودہ پاکستانی معاشرے  کی عکاسی بہت خوب صورتی سے  کی ہے۔ احتجاج جس طریقے  سے  کیا گیا اس کو عاطف علیم نے  ان الفاظ میں  بیان کیا ہے :

’’دھرنا ہوا اور اس شان سے  ہوا کہ اگلی صبح پو پھٹتے  ہی گلیات سے  ہزاروں  کی تعداد میں   عورتیں، مرد، بوڑھے  اور بچے  ہاتھوں  میں  دھاتی برتن اٹھائے  دو مخالف سمتوں  میں  قافلہ در قافلہ نکلے  اور دونوں  شاہراہوں  پرجا بیٹھے۔ اب جو انہوں  نے  برتنوں  کو بجانا شروع کیا تو اس کا شور دور پشاور اور اسلام آباد کے  سرکاری ایوانوں  تک جا پہنچا۔ ‘‘ [ص ۲۲

اس صورت حال کو دیکھ کر حکومت، ثانی کو، جو کہ مشہور شکاری ہے  گلدار کو مارنے  کا فریضہ سونپتی ہے۔ دوسری طرف علاقے  کے  مکین جو کہ پیر بادشاہ کے  ستم کا شکار ہوتے  ہیں۔ انہیں  پیر بادشاہ اور علاقے  کی مقتدر شخصیت حاجی نثار عباسی کی طرف سے  یہ بتایا جاتا ہے  کہ یہ ملکہ ماں  حقیقت میں  بد روح ہے  اس لیے  وہ ثانی کو یہاں  سے  نکالیں  اور پیر بادشاہ کو چندہ دیں  تاکہ بد روح کو رام کیا جا سکے۔ نام نہاد پیر کے  اندھے  عقیدت مند بھی بہت ہیں  لیکن اس کی چالاکیوں  کو طشت از بام کرنے  والے  سر پھرے  بھی موجود ہیں  ناول میں  عاطف علیم نے  ایسے  ہی ایک کردار کا تعارف کرایا ہے۔ یہ ملکہ ماں  کے  انتقام کا نشانہ بننے  والی گلابے  کا عاشق نور محمد ہے  جو پیر کے  اصل روپ سے  واقف ہے  اس لیے  وہ اس کی باتوں  کو کوئی اہمیت نہیں  دیتا۔

ملکہ ماں  موقع ملتے  ہی حاجی نثار عباسی کی حویلی میں  گھس جاتی ہے  اور اسے  شدید زخمی کر کے  اپنے  بچوں  کو وہاں  سے  نکال لیتی ہے  لیکن ایک بچہ محافظ کی گولیوں  کا نشانہ بن جاتا ہے۔ ثانی اور نور محمد کے  ساتھ ڈپٹی ملکہ کو مارنے  کی ترکیب کرتے  ہیں  اور نام نہاد پیر کی طرف سے  ملنے  والی دھمکیوں  کی مطلق پرواہ نہیں  کرتے  اور بالآخر ملکہ اور اس کے  بچے  کو مار دیتے  ہیں۔

بہت عمدہ ناول ہے  کردار نگاری خوب ہے۔ عاطف نے  کرداروں  کے  ساتھ مکمل انصاف کیا ہے۔ گلابے  کی محبت میں  سرشار نور محمد انتقام کے  جذبے  سے  سرشار ہے۔ جب انہیں  گلابے  کی باقیات ملتی ہیں  تو اس وقت نور محمد کا جو حال ہوتا ہے  اس کی عکاسی بہت عمدگی سے  کی گئی ہے :

’’وہ تھوڑا آگے  بڑھے  تو انھیں  گلابے  کا تار تار لباس دکھائی دیا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں  مادہ لیپرڈ نے  کچھ دیر رک کر اس کا خون پیا اور پھر اسے  لے  کر آگے  بڑھ گئی تھی۔ نور محمد نے  جھپٹ کر لباس کی دھجیاں  اٹھا لیں  اور دیر تک سحر زدگی کے  عالم میں  انھیں  آنکھوں  کے  سامنے  پھیلائے  دیکھتا رہا۔۔۔۔ پھر وہ تھکے  ہوئے  انداز میں  دو قدم پیچھے  ہٹا۔۔۔ انھوں  نے  برف کی کچی تہہ ٹوٹنے  جیسی آواز سنی اور دیکھا کہ نور محمد کے  پورے  بدن پر شاخ در شاخ دراڑوں  کا جال پھیلا اور وہ کرچیوں  میں  بٹ گیا۔ ‘‘ ص ۷۳

کتنی مہارت سے  عاطف علیم نے  سوچوں  میں  الجھے  ہوئے  نور محمد کی کیفیت بیان کی ہے۔ ناول ایک طرف تو ملکہ ماں  کے  انتقام اور پھر ردِ عمل میں  نور محمد کے  انتقام کی وجہ سے  ہیجانی اسلوب کی خوبی رکھتا ہے  تو دوسری طرف فطرت کے  مناظر کی دلکشی بھی اپنے  اندر سموئے  ہوئے  ہیں۔ دونوں  حیثیتوں  میں  عاطف علیم نے  موضوع کے  ساتھ انصاف کیا ہے۔ دولت مندوں  کی ہوس کیا کیا رنگ دکھاتی ہے  عاطف علیم کا قلم اس موضوع پر بھی خوب چلا ہے۔ ایک طرف بد روح کا قضیہ کھڑا کر کے  حاجی نثار عباسی نے  لوگوں کے  کاروبار بند کرائے  اور ان کے  ہوٹل خریدنے  کی کوشش کی تو دوسری طرف نام نہاد پیر نے  چندہ بٹورنے  میں  کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ناول میں  مکافاتِ عمل کا منظر بڑا لرزہ خیز ہے  جب مشک پوری کی ملکہ اپنے  بچوں  کو حاجی نثار عباسی کے  چڑیا گھر سے  آزاد کرانے  پہنچتی ہے  تو بد نصیبی کا مارا حاجی اس کی واپسی کی راہ میں  حائل ہوتا ہے  اور شدید زخمی ہو جاتا ہے۔

عاطف علیم نے  ارضی حقیقتوں  کی سفاکی کو اتنی خوبصورتی سے  بیان کیا ہے  کہ رونگٹے  کھڑے  ہو جاتے  ہیں۔ لینڈ اسکیپ ایسا ہے  جہاں  نہ ڈاکٹر میسر ہے  نہ کوئی روزگار نہ ہی تعلیم کی سہولت ہے  اور نہ ہی صاف پانی اور نہ ہی بجلی اور گیس فراہم ہیں۔ جنگل کی ہولناک خاموشی میں  بدلتے  موسم کے  تیور کو عاطف علیم کی شاعرانہ حُسن سے  مملو نثر نے  دو آتشہ کر دیا:

’’ بوجھل سکوت کی آغوش میں  اونگھتے  موسم کی نیند کا خمار بھی ٹوٹ گیا سہج سے  چلتی ہوا کو عقب میں  آتے  مضبوط بدن جھونکوں  نے  اتاؤلے  پن سے  دھکا جو دیا تو فضا خشک پتوں  کی اڑان سے  بھر گئی۔ اور پھر دیکھتے  ہی دیکھتے  دھواں  دھواں بادلوں  کی نمی چاٹتے  خشک پتے  تالیاں  پیٹتے  ہوئے  لچکیلی شاخوں  کے  تیز جھولے  لینے  لگے۔۔۔ جنگل کا سکون تہہ و بالا ہواتو لمحہ بھرمیں  سارے  معمولات منسوخ ہوئے  اور مخلوقات  اپنے  محفوظ ٹھکانوں  میں  پناہ گزیں  ہو گئیں۔ مضبوط دیودار کی تنو مند شاخوں  کے  ساتھ ایک سہمے  چپکے  ہوئے  بندر ٹولے  کے  جہاندیدہ سربراہ نے  گردن بڑھا کر دیکھا کہ شوریدہ ہوائیں  جانے  کہاں  سے  کالے  اور  سرمئی بادلوں  کے  غصیلے  لشکر دھکیل دھکول کر وہاں  لے  آئی تھیں۔ ‘‘ ص ۱۰۲

مشک پوری کی ملکہ کے  غیض و غضب کا اظہار مقصود ہو، نور محمد کی انتقام سے  جھلسی ہوئی شخصیت کا اظہار کرنا ہو، حاجی نثار عباسی کے  مکروہ چہرے  سے  پردہ اٹھانا ہو یا نام نہاد پیر کا کالے  کرتوتوں  کا تذکرہ کرنا ہو؛ گلیات کے  حُسنِ بلا خیز کے  تذکرے  ہو ں  یا جنگل کی مہیب اداسی اور خاموشی کا بیان ہو؛ پبلک ٹرانسپورٹ میں   سفر کرنے  والے  پاکستانی مسافروں  کی حالتِ بے  بسی کا اظہار کرنا ہو یا ثانی کی جہاں  گردی کا تذکرہ چھڑا ہو، عاطف علیم نے  اتنی مہارت سے  ہر نقشہ کھنچا ہے  کہ ان کے  فن کی داد دینا پڑتی ہے۔ عاطف علیم حُسن پرست ہے  اس لیے  اس نے  جنگلی حُسن اور فطرت کی رنگینی کا عمیق نظر سے  مشاہدہ کیا ہے  اور پھر اس مشاہدے  کو شاعرانہ حسن سے  مملو نثر میں  صفحۂ قرطاس پر یوں  بکھیرا ہے  کہ قاری کے  دل کی دھڑکنیں  بھی تحریر کی خوبصورتی میں  رقص کناں  ہو جاتی ہیں۔

ناول کا اختتامی حصہ بھرپور ہے  جہاں  ایک طرف ملکہ ماں  اپنے  بچے  کی ہلاکت پر سراپا انتقام بنی ہوئی ہے  تو دوسری طرف نور محمد بھی گلابے  کے  غم میں  اندھے  انتقام کی راہ پر چل پڑا ہے۔ دونوں  کا آمنا سامنا ہوتا ہے  تو نور محمد ہر احتیاط کو بالائے  طاق رکھ دیتا ہے۔ اس وقت اس کے  سر پر ایک ہی دھن سوار ہے  اپنی گلابے  کے  قاتل کو ختم کرنا چنانچہ وحشت اور جبلت جیت جاتی ہے۔ عاطف علیم نے  آخری دو پیرا گراف میں  ناول کو جس طرح سمیٹا ہے  وہ لاجواب ہے۔ زندگی بچانے  کی دھن ہر خطرے  سے  دونوں  کو ملکہ ماں  کو بھی اور نور محمد کو بھی بے  نیاز کر دیتی ہے۔

بہت عمدہ اور خوب صورت ناول ہے۔ ملکہ ماں  اور نور محمد جیسے  کردار اردو ادب میں  یادگار رہیں  گے  اور عاطف علیم کا نام بھی زندہ رہے  گا۔

٭٭٭

 

 

 

دو ہزار تیرہ تک کے  چند اردو ناول

ابوبکر عباد

 

کسی بھی عمدہ اور معیاری ناول کا مطالعہ اپنے  قاری کو لطف و انبساط اور حیرت و تجسس سے  گزارتے  ہوئے  ایک نئی سوچ، نئی شخصیت، نئی زندگی اور ایک نئی دنیا کی تعمیر پر آمادہ کرتا ہے۔ کہنے  کی اجازت دیجیے  کہ جو لوگ ناول نہیں  پڑھتے  ہیں وہ انسان، اس کے  جذبات و احساسات، اس کی نفسیات اور اس کے  روحانی تقاضوں  کو اچھی طرح نہیں  سمجھ سکتے۔ نٹشے  جیسے  فلسفی نے  کہا ہے  کہ ’’انسانی نفسیات کے  بارے  میں  جو کچھ بھی مجھے  سیکھنا تھا، وہ مجھے  دستوئفسکی سے  حاصل ہوا۔’‘

ناول نگار کسی بھی فرد، سماج، فرقے، خطے، ملک یا عہد میں  ہونے  والی اتھل پتھل، وہاں  کے  حالات و واقعات اور ان کی کمزوریوں اور اچھائیوں  کوFictionکے  فارم میں اُس ایمانداری اور سچائی کے  ساتھ بیان کرتا ہے، جس کی ہمتFactکی فارم میں  لکھنے  والا تاریخ داں  سچائی کے  تمام تر دعووں  کے  باوجود نبھانے  سے  بالعموم قاصر رہتا ہے۔ کسی بھی زبان کا معیاری اور معقول ناول اپنے  سماجی، سیاسی اور تہذیبی زندگی کا تاریخ بھی ہوتا ہے  اور اپنے  عہد کا ترجمان بھی۔ جیسے  چارلس ڈکنس کا ’’اے  ٹیل آف ٹو سٹیز’‘  اور ’’ڈیو ڈکاپر فیلڈ’‘ ، گورکی کا ناول ’’ماں ‘‘ ، ڈپٹی نذیر احمد کا ’’ابن الوقت’‘ ، مرزا محمد ہادی رسوا کا ’’امراؤ جان ادا’‘ ، قرۃ العین حیدر کا ’’آگ کا دریا’‘  اور آخر شب کے  ہم سفر ‘‘ وشواس پاٹل کا ’’جھاڑاجھڑی’‘ ، الیاس احمد گدی کا ’’فائر ایریا’‘ ، کملیشور کا ’’کتنے  پاکستان’‘  یا شمس الرحمان فاروقی کا ’’کتنے  چاند تھے  سرِ آسماں  ‘‘ وغیرہ۔ اور یقین جانیے  کہ جتنی چیزیں  جس سہل طریقے  سے  ناول سے  حاصل کی جا سکتی ہیں  اتنی چیزیں  اس آسانی سے  کہیں اور یا کسی اکیلے  سبجیکٹ سے  ممکن نہیں۔ اس میں  کوئی شبہ نہیں  کہ ٹولسٹوئے  کا ’’جنگ اور امن’‘ (War and Peace)نپولین کے  بارے  میں ، جنگ کے  طریقوں  کے  بارے  میں، تاریخ کے  تصور پر اور خود روس کی سماجی زندگی سے  متعلق لکھی ہوئی کتابوں  کی ایک پوری الماری پر بھاری ہے۔ لیکن ناول کے  قاری کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں  رکھنی چاہیے  کہ ناول کے  بیانیے  اور اس کے  متن پر مکمل ایقان کے  باوجود ناول نگار پر اعتبار لازم نہیں۔

ناول نگار کو غیر مستند یا ناول کے  متن سے  اسے  بری الذمہ اس لیے  سمجھنا چاہیے  کہ ناول کا بیانیہ اور اس کا پورا بیان ناول نگار کا ’اپنا‘ نہیں  بلکہ اس’ راوی‘ کا ہوتا ہے  جسے  ناول نگار، ناول لکھنے  سے  پہلے  یا اس کے  ساتھ ہی خلق تو کرتا ہے  لیکن اسے  اپنا مطیع یا فرمانبردار بنانے  سے  قاصر ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے  کارل مارکس نے  بالزاک کے  بارے  میں  کہا تھا کہ ’’اس کے  شاہ پرستانہ اعلانات کو بھول جائیے  اور اس کے  ناولوں  میں  سرمائے  کی تباہ کاریوں  کا معائنہ کیجیے۔ ‘‘

ناول کا متن زندگی کا وہ آئینہ ہوتا ہے  جس میں انفرادی اور اجتماعی نفسیات، سماجی اور سیاسی صورت حال، کسی بھی ملک، عہد اور معاشرے  کی صحیح اور سچی تصویریں بھی نظر آتی ہیں، ان کے  بدلتے  ہوئے  مناظر بھی دکھائی دیتے  ہیں  اور مختلف تحریکات و رجحانات اور بعض تصورات و نظریات کے  نقوش بھی ظاہر ہوتے  ہیں۔ اردو ناول بھی ہندوستان اور ہندوستان سے  باہر رونما ہونے  والی سیاسی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی تبدیلیوں  کے  نتیجے  میں پیدا ہونے  والے  رجحانات کی نمائندگی کرتا آ رہا ہے۔ تکنیکی سطح پر نئے  نئے  تجربات اور طرح طرح کے  موضوعات کا بیان اس بات کا ثبوت ہیں  کہ اردو ناول نگار بھی بدلتے  ہوئے  حالات اور انسانی نفسیات سے  کسی فلسفی، مفکر اور دانشور کی طرح ہی با خبر رہا ہے۔

بیسویں  صدی کے  اردو ناول میں  رومانیت، حقیقت نگاری، ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے  رجحانات اپنے  اپنے  عہد میں  غالب تھے۔ جن کے  تحت زندگی سے  فرار، موت سے  پیار، حقیقت کا اکہرا بیان، سامراج دشمنی، وطن دوستی، وجودیت، لا یعنیت، قدروں  کا زوال، احساس شکست اور بیگانگی کا اظہار ناول کے  موضوعات تھے۔ لیکن اکیسویں  صدی کا اردو ناول اس لحاظ سے  بالکل الگ ہے  کہ آج کے  ناول میں  سماجی ڈسکورس اور زندگی سے  جڑے  ہوئے  مسائل کو بیان کرنے  میں  سب سے  بڑا فرق یہ آیا ہے  کہ آج کا ناول بالکل آزاد ہے۔ آزاد اس طرح کہ یہ ناقدوں  کے  بنائے  ہوئے  فارمولوں، قاری کے  مطالبوں، مذہبی ٹھیکے  داروں  کے  خوف اور کسی بھی آئیڈیالوجی کی پابندی کیے  بغیر فطری پن کے  ساتھ اپنا اظہار کر رہا ہے۔ سو، ہم کہہ سکتے  ہیں  کہ مابعد جدیدیت، نسائی حسیت، حقیقت کا ہمہ جہت بیان، دلت کے  مسائل، قومی اور عالمی سیاستدانوں  کی چالبازیوں  کا انکشاف، تدریس ومدرسین کی گراوٹ اور رشتوں  کی حرمت کا بدلتا تصور اس صدی کے  ناول کے  اہم موضوعات ہیں۔

اگر چہ گفتگو کا حوالہ اکیسویں صدی کی ناول نگاری ہے، لیکن ان تیرہ برسوں  میں  لکھے  گئے  ناول در اصل پچھلے  بیس برسوں  میں  تیزی سے  بدلتے  عالمی منظر نامے  کا نتیجہ ہیں۔ جس میں  ایک طرف ترقی یافتہ ملکوں  کا ترقی پذیر ملکوں  پر اجارہ داری کا رجحان بڑھا ہے، عالمی دہشت گردی کے  نام پر کئی ملکوں  کو غیر ضروری جنگوں  کا حصہ بنایا گیا، معاشی فائدے  کے  لیے  لاکھوں  بے  گنا ہوں کا خون بہایا گیا اور دنیا کے  دو بلاکوں  میں  جاری رہنے  والی جنگ کو ایک بلاک کے  خاتمے  کے  بعد اسے  دو تہذیبوں  کی جنگ میں  تبدیل کر دیا گیا، جس کے  عمل اور رد عمل کے  نتیجے  میں  تہذیبی آئڈینٹٹی پر اصرار بڑھا اور عوامی اور حکومتی سطح پر ایک نئی طرح کی انتہا پسندی کا آغاز ہوا۔ دوسری طرف ہندوستان میں  علاقائی اور ملکی سطح پر سیاسی اقتدار کے  حصول کے  لیے  گنگا جنمی تہذیب کو جس طرح ختم کرنے  کی کوششیں  کی گئیں، ذات پات کے  نام پر ووٹ بینک بنائے  گئے ، دھرم کے  نام پر نفرت اور دہشت پھیلائی گئی، یا مذہب کے  نام پر خون خرابہ کیا گیا اس کی بہت ہی سچی اور عمدہ عکاسی ہمارے  ناولوں  میں  کی گئی ہے۔ اس کے  علاوہ سیاستدانوں  کی مکاری، سرکاری محکموں  کی رشوت ستانی، دلت کے  مسائل، عورت کے  تشخص کا مسئلہ، روزگار کی تلاش میں  دوسرے  ملکوں  کی طرف ہجرت، تعلیمی اداروں  میں  ایجوکیشن مافیاؤں  کا تسلط اور کمپیوٹر اور انٹر نیٹ اکسس کرنے  والی نئی نسل کا جنسی جرائم کی طرف رغبت جیسے  موضوعات کو اردو ناول میں  شامل کر کے  اس صنف کو زمانے  کی رفتار اور ہر طرح کی تبدیلی سے  ہم آہنگ رکھا گیا ہے۔

فیمنزم یا کہیے  کہ نسائی حسیت کے  حوالے  سے  بھی اس صدی کے  ناول میں  کافی کچھ لکھا جا رہا ہے۔ آج کی ہندوستانی عورت شعوری طور پر کافی حد تک بیدار ہو چکی ہے ، وہ مرد ماتحت نظام سے  باہر آ چکی ہے ، جبرو استحصال کے  خلاف پوری طاقت سے  لڑ رہی ہے، سماجی اور قومی سطح پر اپنا قائدانہ کردار نبھا رہی ہے  اور اپنے  وجود کو منوانے  کی ہر کوشش میں  مصروف ہے۔ آج کے  اردو ناول میں  جو عورت نظر آتی ہے  وہ مردو ں کے  اشاروں  پر چلنے  والی، معشوقہ کا کردار نبھانے  والی یا بہت بولڈ ہوئی تو محض سوال قائم کرنے  والی نہیں بلکہ اس سے  بہت آگے  کی صاحب اختیار اور خود فیصلہ لینے  والی عورت ہے  جو اپنی اہمیت اور اپنے  حقوق سے  پوری طرح با خبر ہے۔ اس کا خوبصورت اظہار ثروت خان کے  ناول ’’اندھیرا پگ’‘  اور شائستہ فاخری کے  ناول ’’نادیدہ بہاروں  کے  نشاں… ‘‘ میں  ہوتا ہے۔ راجستھان کے  مرد اساس معاشرے  کے  پس منظر میں عورتوں  کی زبوں  حالی پر لکھا گیا ثروت خان کا ناول در اصل صدیوں  سے  عورتوں  کی جنسی اور ذہنی محکومی سے  تانیثی بغاوت کا اعلان نامہ ہے، تو شائستہ فاخری کے  ناول کی مرکزی کردار علیزہ تعلیم یافتہ، متمول اور مہذب سماج میں  چلے  آ رہے  عورت کے  ہمدردانہ استحصال کو ختم کر کے  اس کے  صاحب فیصلہ اور خود مختار ہونے  کا اعلان کرتی ہے۔ شائستہ فاخری کا ناول زبان و بیان اور فنی ٹریٹمنٹ کے  اعتبار سے  عمدہ ہے۔ بالعموم اس طرح کے  موضوع کے  بیانیے  میں  جو ایک نوع کی انتہا پسندی، جذباتی ابال اور مردوں  کے  تئیں  حقارت کو کلیدی حوالے  کے  طور پر پیش کیا جاتا ہے  انھیں  شائستہ فاخری نے  کمال ہنر مندی کے  ساتھ شائستگی، سنجیدگی اور عورت کے  وقار میں  تبدیل کر دیا ہے۔ ناول کی ہیروئن خود کو نہ تو انتقام اور منفی رد عمل کا شکار ہونے  دیتی ہے، نہ خود ترحمی اور غیر متوازن رویے  کا۔ اسے  ناول اور ناول گار دونوں  کی خوبی سمجھنا چاہیے۔ یہاں  2004میں شائع ہونے  والے  ترنم ریاض کے  ناول ’’مورتی’‘  اور صادقہ نواب سحر کے  2008میں  منظر عام پر آنے  والے  ناول ’’کہانی کوئی سناؤ متاشا’‘  کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ترنم ریاض نے  اپنے  ناول کو ازدواجی زندگی کا پس منظر فراہم کیا ہے  اور خانگی زندگی کے  انتشار، اس کی ناکامی اور اس کی شکست و ریخت کے  اسباب و علل پر روشنی ڈالی ہے۔ ’’مورتی ‘‘ کی محدود گھریلو دنیا کے  مقابلے  میں ’’کہانی کوئی سناؤ متاشا’‘  کے  کینوس پر ایک پورا معاشرہ جلوہ گر ہے  جس میں  عورت کا کرب، اس کی بے  بسی اور اس کا استحصال زخم خوردہ پھولوں  کی صورت اپنی بہار دکھا رہے  ہیں۔ ترنم ریاض اور صادقہ نواب سحر اپنے  سادہ سے  مرکزی کرداروں  کو زیادہ خوبصورت، پاور فُل اور پیچیدہ بنا سکتی تھیں  جن سے  کہانیوں  کے  تاثرات اور ناولوں کے  وقار میں  مزید اضافے  کی گنجائش تھی۔

اس بات سے  انکار نہیں  کیا جا سکتا کہ آج کی اس نئی عورت کو ہمت اور حوصلہ خواتین ناول نگار دے  رہی ہیں  اور کافی حد تک ان کے  حقوق کی لڑائیاں  بھی لڑ رہی ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے  کہ اپنے  حقوق سے  واقف یہ عورت خواتین ناول نگاروں  کے  مقابلے  میں  مرد ناول نگاروں  کے  یہاں  کہیں  زیادہ ہمت، حوصلے  اور قوت کے  ساتھ سامنے  آئی ہیں، اس کی سامنے  کی مثالیں  پیغام آفاقی کے  ناول ’’مکان’‘  کی ’نیرا‘ اور شمس الرحمان فاروقی کے  ناول ’’کتنے  چاند تھے  سر آسماں ‘‘ کی وزیر بیگم ہے۔

جدید اردو ناول میں  ایک رجحان تعلیمی اداروں  میں  کرپشن سے  متعلق فکر مندی کا بھی ہے۔ جہاں  کے  صاحب اختیار حضرات باصلاحیت نوجوانوں کا حق نا اہلوں  اور خوشامد پسندوں کو بیچ دیتے  ہیں، یا انھیں ان کا حق دینے  کی بھاری قیمت وصول کرتے  ہیں، یا پھر اپنے  کوتاہ قد کو قدرے  اونچا بنائے  رکھنے  کے  لیے  درس گا ہوں  میں  علمی بونوں  کا تقرر کرتے  ہیں۔ چنانچہ کالجز اور یونیورسٹیز میں  بہت سے  ایسے  اساتذہ نظر آنے  لگے  ہیں  جو استاذ کی صفات سے  عاری ہیں۔ غضنفر کے  ناول ’’شوراب’‘  میں  اردو لیکچر ر کے  امیدوار سے  اکسپرٹ اس نوع کے  سوالات پوچھتے  ہیں :’’میر نے  کتنے  عشق کیے ؟ ’’ان کی معشوقاؤں  کے  نام کیا ہیں ؟ ’’غالب کتنے  بھائی بہن تھے ؟ ’’اقبال ناشتے  میں  کیا لیتے  تھے ؟۔ ‘‘ وغیرہ۔ اور بحال ہوئے  ٹیچروں  کا حال یہ ہے۔ :’’زیادہ تر سپر وائزروں  کی نگاہیں  وشیے  کے  بجائے  ریسرچ اسکالر کو ملنے  والے  وظیفے  کی رقم پر ہوتی، یا ریسرچ اسکالر اگر صنف نازک سے  تعلق رکھتا ہے  تو اس کے  جسم کے  اتار چڑھاؤ پر کیندرت ہوتی۔ ‘‘

غضنفر اپنے  ناولوں  میں  دانستہ ہندی کے  الفاظ کثرت سے  لاتے  ہیں۔ حالات و واقعات کے  مطالبے  کے  تحت اور کردار کی زبان کی صورت میں  ایسا کرنا نہ تو ممنوع ہے  نہ معیوب۔ لیکن غیر ہندی داں  راوی کا اردو متبادل کے  ہوتے  ہندی الفاظ کے  استعمال پر مصر ہو نا اردو لسانیات کے  مزاج سے  بھلے  ہی ممنوع نہ ہو ادبی بیان کے  لحاظ سے  اسے  معیوب سمجھا جانا چاہیے۔

اس سلسلے  کا ایک اور ناول 2013 میں  شائع ہونے  والا غیاث الدین کا ’’زوال آدم خاکی’‘  ہے۔ ناول کا مرکزی کردار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ’جاوید‘  ریاست مہاراشٹرا میں  مسلم ٹرسٹ کے  تحت چلنے  والے  ایک اقلیتی کالج میں  اردو کا استاذ ہے   جسے  وہاں  سترہ سالہ قیام کے  دوران متعدد بار کرایے  کے  مکان کے  لیے  طرح طرح کے  لوگوں  سے  ملنا پڑتا ہے، جن میں  کالج کے  ’پرفیسر‘ بھی ہیں  مسجد کے  امام بھی، مذہبی جماعت کے  نمائندے  بھی ہیں  فوج کے  کے  افسر بھی، کپڑے  کے  تاجر بھی ہیں  بلڈر بھی، انجان آدمی بھی ہے  اور دوست بھی۔ لیکن مدد کرنے  والے  یہ مختلف طرح کے  لوگ معاملات میں  ایک جیسے  اور ایک ہی اخلاقی سطح پر فائز ہیں۔ مرکزی کردار کی زندگی کا دوسرا حوالہ اس کا کالج ہے، جہاں  کے  اساتذہ پبلشر سے  درسی کتابیں  لا کر طلبہ کو بیچتے  ہیں، روح افزا کی ایجنسی لے  کر دور دراز علاقوں  میں  شربت کی بوتلیں  پہنچاتے  ہیں، امتحان میں  بچوں  کو نقل کرواتے  ہیں، شاگرد کی دکان سے  مفت کپڑے  خریدتے  ہیں، کلرکوں  اور پرنسپل کی خوشامدیں  کرتے  ہیں  اور پرنسپل اور ٹرسٹی کی تمام جہالتوں  اور نالائقیوں  کے  باوجود انھیں  محسن قوم، سر سید ثانی اور خادم ملت جیسے  خطابوں  سے  نواز کر ا ن فرعون صفتوں  کے  سامنے  ان کے  قصیدے  پڑھتے  ہیں۔ علم و اخلاق، عدل و مساوات اور جرأت و بے  باکی کا درس دینے  والے  یہ اساتذہ تعصب، عیاری، حسد، خوشامد اور خوف کی جس نچلی سطح پر مطمئن زندگی جی رہے  ہیں  اور اقلیتی اداروں  کو جس طرح گُھن کی مانند کھوکھلا کر رہے  ہیں اسے  ’زوال آدم خاکی‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ ناول کے  اخیر کا وہ حصہ ڈرامائیت سے  بھرپور ہے  جب مرکزی کردار جاوید کا ایک یونیورسٹی میں  بحیثیت پروفیسر تقرر ہو جاتا ہے  تو کالج سے  ریلیونگ لیٹر دینے  کے  لیے  پرنسپل، نائب پرنسپل اور اساتذہ کی کمیٹی کیسے  اسے  ذہنی اذیتوں  میں  مبتلا کرتی اور کس بازارو پن پر اتر آتی ہے۔ زبان و بیان اور فن کے  اعتبار سے  ناول کو بہت اچھا نہیں  کہا جا سکتا ہے  لیکن واحد غائب کی تکنیک میں  لکھا ہوا یہ سوانحی ناول اداروں  اور افراد کے  ناموں (غالباً بدلے  ہوئے  ) کے  حوالے  سے  اپنی صداقت پر اصرار کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے  اور ایک مخصوص قومی ادارے  اور اس سے  متعلق افراد کے  ظاہر و باطن کو بے  نقاب کر کے  انھیں  غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔

نائن الیون کے  واقعے  نے  جہاں  ایک طرف دنیا کی تاریخ کا ایک نیا بٹوارہ کیا وہیں  فلم اور فکشن کو ایک نیا موضوع بھی دیا اور سنجیدہ لوگوں  کو دہشت گردی کے  بارے  میں  دیانتداری سے  سوچنے  پر مجبور بھی کیا۔ چنانچہ عراق اور افغانستان کے  حوالے  سے  اب تک یہ طے  نہیں  ہو پایا کہ اصل دہشت گرد، انتہائی غیر مہذب،  کہی جانے  والی حکومت اور وہ چند لوگ تھے  جن کے  بارے  میں  بتایا گیا کہ انھوں  نے  ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا اور جن کا جرم آج تک ثابت نہیں  کیا جا سکا، یا پھر بے  حد مہذب ہونے  کا دعویٰ کرنے  والی وہ حکومتیں  اصل دہشت گرد ہیں  جنھوں  نے  غیر ثابت شدہ جرم کی پاداش میں ہزاروں  معصوموں  کو موت کی نیند سلا دیا، لاکھوں  کو اپاہج، یتیم، بیوہ اور بے  سہارا بنایا۔ اور یہ کہ اصل ٹیر رسٹ وہ تانا شاہ تھا، جس کے  بارے  میں یہ خبر پھیلائی گئی کہ اس کے  پاس دنیا کو نیست و نابود کرنے  والے  ہتھیار ہیں، یا اصل ٹیر رسٹ وہ سیکولر حکومت ہے  جس نے  یہ جانتے  ہوئے  کہ یہ سب جھوٹ ہے  ایک پورے  ملک کو تہس نہس کر دیا۔

نائن الیون نے  صرف تاریخ کا ایک نیا باب ہی نہیں  لکھا بلکہ دونوں  طرف کے  لوگوں  کی نفسیات بھی بدلی (ان کی بھی جو صاحب بہادر کے  شانہ بہ شانہ ہیں اور ان کی بھی جو صاحب بہادر کے  نشانے  پر ہیں )اور بہت سے  ملکوں  کے  سیاسی اور معاشی حالات بھی بدلے  اور وہاں  رہنے  والوں  کے  نظریات و تصورات بھی۔ اردو فکشن میں اس کا کئی طرح سے  جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس موضوع پر 2002ء میں  چھپنے  والا شفق کا ایک خوبصورت ناول ’’بادل’‘  ہے۔ ناول ۱۱ ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے  والے  حملے  کے  ذکر سے  شروع ہوتا ہے۔ فرد واحد پر غیر ثابت شدہ الزام کی بنیاد پر کس طرح تمام مسلمانوں کو نفسیاتی دباؤ اور مجرم ضمیری کے  احساس میں  مبتلا کرنے  کی کوششیں  کی گئیں، ہندوستان میں  اس کا کیا اثر ہوا اور ہندوستانی مسلمانوں  کو اس حوالے  سے  کن کن سوالوں  سے  جوجھنا پڑا، ان کی زندگی اور ان کے  رویوں  میں  کیا تبدیلی آئی اور وہ کس طرح کے  خوف اور اندیشوں  میں  مبتلا ہوئے ، ان تمام چیزوں  کا بڑا ہی سلیقے  مند، سچا اور سہما ہوا بیان اس میں ہے۔ ناول کی خوبی یہ ہے  کہ جنگ، فسادات اور خوف کے  ماحول کو عشق اور محبت کی ایک مرکزی کہانی کے  حوالے  سے  دکھایا گیا اور تاریخ کی بے  اعتباری سے  بچنے  کے  لیے  اسے  فکشن کے  استناد میں  محفوظ کر لیا گیا ہے۔

اسی موضوع پراور تقریباً انھیں  واقعات کے  حوالے  سے  2003میں صلاح الدین پرویز نے  اپنا ناول ’’وار دی جرنلس’‘  تحریر کیا تھا۔ اس میں  ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے  دونوں  ٹاوروں  کی تباہی کو بنیاد بنا کر افغانستان اور عراق میں  پیدا کی جانے  والی بھیانک صورت حال بالخصوص بچوں  کی لاچاری اور مجبوری کو بیان کیا گیا ہے اور  ساتھ ہی گجرات کے  انسانیت سوز فساد کو بھی ناول کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ناول کا متن کسی حد تک شاعرانہ نثر کا حامل ہے۔

جنگ کس طرح بچوں  پر اثر انداز ہوتی ہے، کیسے  ان کے  حال اور مستقبل کو کربناک بناتی ہے  اور کیسے  بے  ماں  باپ کے  یہ بیکس اور معذور بچے  نا مساعد حالات سے  نبرد آزما ہوتے  ہوئے  زندگی کرتے  ہیں  اس کا بڑا ہی پُر حوصلہ، دردناک اور خوبصورت بیان ایرانی فلم Turtle can flyہے، جو ایران عراق جنگ کے  ہولناک نتیجے  پر مبنی ہے۔ کاش اردو میں  اس طرح کا کوئی ناول لکھا جاتا۔

نائن الیون کی طرح گجرات کا فساد بھی ہمارے  ملک کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اردو فکشن میں  اسے  کئی طرح سے  پیش کیا گیا ہے۔ 2002ء میں  احمد صغیر کا ’’دروازہ ابھی بند ہے ‘‘ کے  نام سے  ایک ناول شائع ہوا۔ یہ ناول گجرات میں  ہونے  والے  فساد، مسلمانوں  کے  ساتھ ظلم و زیادتی، ان کی عورتوں  کی بے  حرمتی، اپنے  ہی ملک کی پولس کی جانبداری، ایک خاص نظریہ رکھنے  والے  لوگوں  کی مان سِکتا اور سیاستدانوں  کے  رویوں  کو بیان کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ظلم اور بربریت کے  اندھیرے  میں  سوہن داس جیسے  انسان کو بھی دکھاتا ہے، جو اپنی فیملی کے  ساتھ ایک مسلم لڑکی کی حفاظت کرتا ہے، اپنے  گھر میں  اسے  پناہ دیتا ہے  اور آخرکار اسے  اس کے  لٹے  پٹے  اپنے  خاندان سے  ملواتا ہے۔ ظلم و زیادتی سہنے  کی کہانی لکھتے  ہوئے  ایسا متوازن رویہ اپنانا ناول نگار کی انسان دوستی پر یقین کو عیاں  کرتا ہے۔

اردو فکشن میں  سیاست کا بیان پہلے  بھی ہوتا تھا آج بھی ہو رہا ہے۔ پریم چند کے  ناول میدان عمل، گئو دان اور گوشۂ عافیت میں  اس کی خاصی شمولیت ہے۔ حیات اللہ انصاری کا ناول ’لہو کے  پھول‘ سیاسی تاریخ سے  بھرا ہوا ہے۔ لیکن تب مثبت سیاست کا بیان ہوتا تھا، شاید تب ویسی ہی سیاست رہی ہو۔ اب منفی سیاست کا بیان ہو رہا ہے، کہ سیاست اب  ایسی ہی ہے۔ ایسی سیاست جو ملک کو کمزور کر نے  والی ہے  اور اسے  فاشزم کی طرف لے ئی جا رہی ہے۔ جس کے  نتیجے  مرادآباد، میرٹھ، ملیانہ، ہاشم پورہ، مؤناتھ بھنجن، بھاگلپور، ممبئی، گجرات، آسام اور مظفر نگر کے  نفرت انگیز اور انسانیت سوز فسادات کی صورت میں  ظاہر ہو رہے  ہیں۔ یا پھر دھوکہ دھڑی اور دوغلے  پن کی وہ سیاست جس کے  نتیجے  میں  بڑے  بڑے  اسکَیم سامنے  آ رہے  ہیں، ملک کی دولت چوری کر کے  باہر چُھپائی جا رہی ہے، ذات پات اور مذہب کے  نام پر اقتدار حاصل کرنے  کی سازش رچی جا رہی ہے  اور علاقائیت کے  بہانے  روایتی بھائی چارے  کو ختم کرنے  اور نفرت کو فروغ دینے  کی کوششیں  کی جا رہی ہیں۔ اردو فکشن منفی سیاست کے  اس زہر اور اس سے  پیدا ہونے  والے  مہلک اثرات کو تمام حقیقتوں  کے  ساتھ پیش کر رہی ہے۔ 2003میں  چھپنے  والا شموئل احمد کا ناول’’ مہا ماری’‘  اور 2004ء میں  عبدالصمد کا ’’دھمک’‘  اس کی عمدہ مثالیں  ہیں۔

’’دھمک ‘‘ میں  سیاست کے  گندے  کھیل، کرپشن اور سیاستدانوں  کی شرمناک حرکتوں  کے  کئی رنگ دکھائے  گئے  ہیں۔ ناول کا آغاز گاؤں  کی دلت لڑکیوں  کے  اجتماعی زنا بالجبر کا بدلہ لینے  کی بات سے  ہوتا ہے۔ جس کا ماحول ایک انقلابی نوجوان بنانے  کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن بعد میں  وہ انقلابی نوجوان سیاستدانوں کے  چکر ویوہ میں  پھنس کر رہ جاتا ہے۔ اس ناول میں  سیاست کے  گلیاروں  کے  اندھیرے  اجالے  کو بے  حد سادہ اور عام فہم زبان میں  بیان کیا گیا ہے۔

شموئل احمد کا ناول ’’مہا ماری’‘  در اصل بہار کی اس حکومت کا پوسٹ مارٹم ہے  جوMYسمیکرن کے  نام پر چلائی جا رہی تھی۔ لیکن یہ بیانیہ ہراس حکومت پر صادق آتا ہے  جس کا سماجی، سیاسی اور افسر شاہی سسٹم اپنی سڑاند سے  صحت مند معاشرے  میں  مہاماری پھیلا رہا ہے۔ ناول میں  ذات پات کے  کھیل، رشوت کے  لین دین، جنسی استحصال، عہدوں  کے  لالچ اور چھوٹے  بڑے  اختیارات کی بربریت کو عمدہ طریقے  سے  پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بی۔ جے۔ پی کے  دور اقتدار کے  گودھرا اور گجرات کے  انسانیت سوز سانحے  اور تابوت گھوٹالے  کے  واقعے  کو شامل کر کے  ناول کو ایک مخصوص عہد کا اعلامیہ بنایا گیا ہے۔ یہ ناول اپنی حقیقت بیانی کے  باعث تاریخ سے  اس حد تک قریب ہو گیا ہے  کہ اس  پر کبھی کبھی فکشن کے  بجائے  فیکٹ کا گمان ہونے  لگتا ہے  لیکن شموئل احمد نے  بڑی فنکاری کے  ساتھ ناول کے  بیانیے  کو تاریخ کا یک رخا باب بننے  سے  بچا کر اسے  فکشن کا تعمق اور اس کی تہہ داری بخشی ہے۔

یہ المیہ ہی ہے  کہ آزادی کے  بعد سے  لے  کر اب تک مسلمان اپنے  ہی ملک میں شک کے  سائے  اور الزامات کے  گھیرے  میں  جیتا آ رہا ہے۔ مسلمانوں  کو غدار وطن، پاکستانی ایجنٹ، ہیومن بم اور دہشت گرد اتنی بار اور اتنے  طریقوں  سے  کہا گیا کہ اب خود مسلمانوں  کی ایک بڑی تعداد کے  نزدیک بھی ’دہشت گرد‘ کے  معنی مسلمان ہو کر ہی رہ گیا ہے، اور وہ ہر دہشت گرد کاروائی کے  بعد ایک نفسیاتی خوف میں  مبتلا ہو جاتی ہے۔ 2002میں  شائع ہونے  والا محمد علیم کا ناول ’’میرے  نالوں  کی گمشدہ آواز’‘  تاریخ کے  اسی جبر اور مسلسل استحصال کی داستان ہے۔ یہ ناول شہر کے  بجائے  گاؤں  کے  پس منظر میں  لکھا گیا ہے، جس میں  وہاں  کے  کھیت کھلیان، وہاں  کی زندگی اور گاؤں  کے  بدلتے  ہوئے  حالات کا خوبصورت بیان ہے۔ زبان کسی حد تک گالی آمیز اور لہجہ علاقائی ہے  جو ناول کی فضا کو اعتبار بخشتے  ہیں  اور اسے  حقیقت سے  قریب کرتے  ہیں۔ کس طرح میڈیا کے  ذریعے  ملک میں مسلمانوں  کے  خلاف ذہن سازی کی گئی ہے  اور کس طرح اس سوچ کو عوامی ذہن کا حصہ بنانے  کی کوشش کی جا رہی ہے، ناول کے  بس دو حوالوں  سے  اندازہ لگائیے  :

’’لکھا ہے  کہ نیک محمد بھائی آئی۔ ایس۔ آئی کے  ایجنٹ ہیں۔ نیپال کے  مسلم اگروادیوں  کے  ساتھ مل کر آتنک وادی کاروائیوں  میں  ملوث رہے۔ ‘‘

’’اڈونی کا بھی بیان آیا ہے، اُو، کل رہا رتھا کہ نارتھ بہار میں  نیپال سیما کے  پاس آئی۔ ایس۔ آئی کی گتی ودھی بڑھ گئی ہے۔ ہم کو تو سالا معلوم نہیں  کہ یہاں  کوئی آئی۔ ایس۔ آئی کا ایجنٹ رہتا ہے۔ اُس کو کیسے  معلوم ہو جا تا ہے۔ ‘‘

سیاسی معاشرتی تاریخ کے  حوالے  سے  اس صدی میں  لکھے  گئے  تین ناول قابل ذکر ہیں۔ 2006میں شائع ہونے  والا شمس الرحمان فاروقی کا ’’کئی چاند تھے  سر آسماں  ‘‘ ، 2011میں  آنے  والا پیغام آفاقی کا ’’ پلیتہ ‘‘ اور ترنم ریاض کا ’’برف آشنا پرندے ‘‘ جو 2009میں  منظر عام پر آیا۔ شمس الرحمان فاروقی کے  ناول ’کئی چاند تھے  سر آسماں ‘کی وزیر بیگم مغل اور انگریزوں  کے  اختلاط سے  بننے  والی تہذیب سے  تعلق رکھتی ہے۔ لیکن ذاتی طور پر وہ اپنے  عہد کی مشرقی خواتین کے  اطوار و افکار اور مرد مرکزی نظام سے  نہ صرف متنفر بلکہ اس سے  باغی بھی ہے، وہ ایک انگریز افسر مارسٹن بلیک کی زوجیت میں  ہونے  کے  باوجود ہندوستانیوں  سے  انگریزوں  کی حقارت کی بنا پر انگریز قوم سے  نفرت کرتی ہے۔ وہ حد درجے  بے  باک، بے  خوف اور بلند ہمت ہے، وہ خود اعتمادی کی دولت سے  مالا مال اور اپنے  نسوانی وجود کی انفرادیت کے  احساس سے  سرشار ہے۔ یہ کردار اگرچہ اٹھارہویں  اور انیسویں  صدی کے  ہندوستان کے  تاریخی اور سیاسی پس منظر سے  ابھرتا ہے  لیکن نمائندگی یہ اکیسویں  صدی کے  خواتین کی کرتا ہے۔ اگر اسے  اردو ناول کا پہلا تانیثی کردار اور feminist تحریک کا اولین نمائندہ کہا جائے  تو شاید غلط نہ ہو گا۔

’’پلیتہ’‘  کی کہانی خالد سہیل کی پر اسرار موت کی تحقیق سے  شروع ہوتی ہے۔ وہی خالد سہیل جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے  اور جو اپنے  مرحوم دادا امیر علی کی کتابِ زندگی سے  ان کی اسیری والا باب پڑھنے  انڈمان جاتا ہے، جہاں  ہندوستان کے  انگریز حاکم وطن کے  چاہنے  والوں  کو کالا پانی کی سزا بھگتنے  کے  لیے  مصائب کے  اندھے  غار میں چھوڑ آتے  تھے۔ خالد سہیل کو وہاں  اپنے  دادا کے  خلاف مقدمے  کی جانچ پرکھ کے  دوران ایک ایسا مقدمہ ہاتھ لگتا ہے  جو اسے  ہزارہا افراد کی اندوہناک زندگیوں  کی داستان سناتا ہے  اور ظلم و جبر کی ایک ان دیکھی دنیا کی دریافت میں  مدد کرتا ہے۔ ناول کا موضوع نیا ہے، اس میں  فلسفہ، سیاست اور سازش سبھی کچھ ہے۔ یہ اچھا ناول ہو سکتا تھا، لیکن اس پر غالباً نظر ثانی نہیں  گئی، نہ اسے  ناول کے  منضبط فارم میں  ڈھالنے  کی کوشش کی گئی۔ شروع میں  مرکزی کردار کی تقریر کو نئی دریافت کے  طور پر بے  حد اہم، فکر انگیز اور دنیا میں  تہلکہ مچا دینے  والا بتایا گیا ہے، لیکن چند سطروں  بعد اس تقریر کا متن بڑا ہی باسی اور معمولی ہے۔ اس طرح کے  تضادات اور غیر منضبط ہیئت نہ صرف ناول نگار کی سہل انگیزی، عجلت پسندی اور لاپروائی کی غماز ی کرتی ہیں  بلکہ اس رویے  سے  اپنے  ہی ناول کے  ساتھ نگار کے  بُرے  برتاؤ کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

’’برف آشنا پرندے ‘‘ کشمیر کی تہذیبی تاریخ کا افسانوی بیانیہ ہے۔ اس میں  کشمیر کی تہذیب، وہاں  کی سیاست، کشمیریوں  کے  مسائل اور ان کے  مصائب کا بیا ن سلیقے  سے  ہوا ہے۔ ناول نگار نے  سماج، معاشرے  اور تہذیب و ثقافت کو نمایاں  کرنے  کے  لیے  منظر کشی، واقعات بیانی اور جزئیات نگاری سے  کام لیا ہے  اور سیاست کو حاوی موضوع بننے  سے  روکنے  کے  لیے  اس ضمن میں  اجمال بیانی اختیار کی ہے  یا پھر اشارے  اور کنائے  کا استعمال کیا ہے۔ ناول میں  جتنی خوبصورتی سے  کشمیر کے  مناظر اور وہاں  کے  حالات بیان کیے  گئے  ہیں، اُتنی ہی سنجیدگی اور بلاغت سے  اس کے  ماضی اور مسائل کی جانب اشارے  بھی کیے  گئے  ہیں۔ مثلاً یہ کہ :

’’سن رسیدہ کشمیریوں  کو یاد ہے  کہ پنڈت جی نے  آدھ صدی قبل اس بات کو لال چوک میں  دہرایا تھا کہ کشمیری اپنے  مستقبل کا فیصلہ خود کریں  گے ‘‘ ۔ (ص، 270)

’’صوبۂ جموں  میں  ایک لاکھ سے  زیادہ مسلمانوں  کو تہہ تیغ کیا گیا ہے۔ اس سے  دوگنی تعداد کو جموں  و کشمیر سے  پاکستانی کنٹرول والے  علاقے  میں  دھکیل دیا گیا ہے۔…صوبۂ جموں  جو ایک مسلم اکثریت والا صوبہ تھا، اب ایک مسلم اقلیتی صوبے  میں  تبدیل ہو گیا تھا۔ ‘‘ (ص، 272)

اس حوالے  سے  2000میں  شائع ہونے  والا علی امام نقوی کا ’’بساط’‘  عمدہ ناول ہے۔ اس میں  کشمیر کے  مسائل کو ایک الگ تناظر میں  پیش کیا گیا ہے  اور اس کے  مسائل کے  اسباب و عوامل کو جاننے  کی کوشش کی گئی ہے۔ ناول کا حسن یہ ہے  کہ ان متنازع اور سلگتے  ہوئے  مسئلوں  کا محاکمہ اور ان کے  پس پردہ کار فرما عناصر کا تجزیہ نہ تو سیاسی نقطۂ نظر سے  کیا گیا ہے، نہ صحافیانہ نقطۂ نگاہ سے، بلکہ انھیں  ادبی زاویۂ نظر سے  دیکھنے  اور سمجھنے  کوشش کی گئی ہے۔ شاید اسی لیے  اس ناول نگار نے  مرکزی کردار کی تخلیق کے  لیے  ایک ایسے  ادیب کا انتخاب کیا ہے  جو سماجی آگہی بھی رکھتا ہے  اور سیاسی بصیرت بھی۔ کہانی کی ایک اور خوبی یہ ہے  کہ کشمیر کے  سیاسی مسائل کو گھریلو مسائل کے  تناظر میں  پیش کر کے  اس کی شدت، سنگینی اور سنجیدگی کو ابھار ا گیا ہے۔

مشرف عالم ذوقی نئی سوچ، نئی نسل، انوکھی نفسیات اور نئی تکنیک کے  فکشن نگار ہیں۔ یہ نئی فکر، نئے  واقعے، نئی تبدیلی اور نئے  کردار کو ناول کے  سانچے  میں  بڑی خوبصورتی اور سلیقے  سے  ڈھالتے  ہیں۔ ان کا نیا ناول ’’آتش رفتہ کا سراغ’‘  ہندوستان میں  فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ، نفرت کی سوداگری، اس کی سازش اور اس سلسلے  میں  کام کرنے  والی ایک پوری ذہنیت کوبڑی جرأت اور بے  باکی سے  بیان کیا ہے۔ یہاں ان کے  دو اور ناولوں  کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ ایک 2004میں  شائع ہونے  والے ’’پوکے  مان کی دنیا کا’‘  اور دوسرے  2011میں  چھپنے  والے  ناول ’’لے  سانس بھی آہستہ’‘ کا۔ ’’پوکے  مان کی دنیا ‘‘ پرانی سنسکرتی پر ناز کرنے  والے  ہندوستان میں ایک بالکل نئی تہذیب کے  جنم لینے  کی کہانی ہے۔ ناول کا پس منظر نئی ٹکنا لوجی کے  استعمال اور کنزیومر ورلڈ کی عطا کردہ تنہائی ہے۔ مرکزی حوالہ بلوغت کی جانب ان بڑھتی عمر کے  بچوں  کو بنایا گیا ہے  جن کے  ماں  باپ کو اپنے  آفسوں، کاروبار اور دوسری پیشہ ورانہ مصروفیتوں  کی وجہ سے  ان کی دیکھ بھال کے  لیے  وقت یا تو بالکل نہیں  یا بہت کم مل پاتا ہے، اور بچوں  کو اکیلے  اور آزاد رہنے  کا زیادہ سے  زیادہ موقع فراہم ہوتا ہے۔ نتیجتاً تنہائی دور کرنے  کے  لیے  وہ کمپیوٹر اور ویب سائٹس پر ممنوعہ ویڈیوز دیکھتے  ہیں  اور ان میں کھیلے  گئے  لذت انگیز جنسی کھیل کو اپنی حقیقی زندگی میں  دہرانے  کی کوشش کرتے  ہیں، جس کی وجہ سے  وہ جنسی جرائم کی طرف نہ صرف راغب ہوتے  ہیں  بلکہ موقع ملتے  ہی ان کا ارتکاب بھی کر گزرتے  ہیں۔ ظاہر ہے  یہ بچوں  کے  موضوع پر پہلا ناول نہیں  ہے  اس سے  پہلے  کرشن چندر ’’دادر پُل کے  بچے ‘‘ اور علی امام نقوی ’’تین بتی کے  راما’‘ لکھ چکے  ہیں۔ لیکن ’پوکے  مان کی دُنیا‘ ان سے  بالکل الگ اور نئی طرز کا ناول یوں  ہے  کہ ناول نگار نے  سماج میں  طویل عرصے  سے  موجود برائی یا قدیم استحصال کی نقاب کشائی نہیں  کی، بلکہ جنم لے  رہے  ایک بالکل نئے  خطرے  کی آہٹ کو موضوع بنایا ہے۔ یہ ناول غریب بچوں  کی داستان نہیں  بلکہ کھاتے  پیتے  امیر گھرانوں کے  بچوں  کی کہانی ہے۔ دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے  کہ دہلی کے  سولہ دسمبر 2012 والے  ریپ کیس کے  بعد جو سرویز آئے  ہیں  وہ یہ کہ پچھلے  دس پندرہ سال میں  ملک کے  بڑے  شہروں  میں  جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے  والوں  میں سب سے  بڑی تعداد ’جوینائل ‘کی ہے۔ اور مزید حیرت کی بات یہ ہے  کہ ان جرائم کی طرف کم عمر لڑکوں  کی رغبت کے  بیشتر اسباب وہ ہیں  جو ’’پوکے  مان کی دنیا’‘  میں  بیان کیے  گئے  ہیں، یہ ناول تب لکھا گیا تھا جب دوسرے  سماجی اداروں  نے  کم از کم اس خطرے  کی طرف سنجیدگی سے  سوچنا شروع نہیں  کیا تھا۔ سو، اس بات پر ایقان مزید مستحکم ہوتا ہے  کہ فنکار مستقبل کی آہٹ کو سب سے  پہلے  اور سب سے  زیادہ شدت سے  محسوس کرتا ہے۔

’’لے  سانس بھی آہستہ’‘  میں  مسلمانوں  کی دم توڑتی تہذیب، جدید ٹکنالوجی، نئے  سماجی شعور اور رشتوں  کی حرمت کی تشکیل نو کو موضوع بنایا گیا۔ ہمارے  معاشرے  میں  میاں  بیوی، طوائف اور اس کے  گاہک اور عاشق و معشوق کے  علاوہ جنسی یا جسمانی رشتہ کسی اور صورت میں  قابل قبول نہیں  رہا ہے۔ نہ حقیقی دنیا میں  نہ فکشن کی دنیا میں۔ یہاں  تک کہ فلموں  میں  بھی نہیں۔ انل کپور اور سری دیوی پر فلمائی گئی فلم ’’لمحے ‘‘ کو لوگوں  نے  صرف اس لیے  نا پسند کیا تھا کہ اس میں  ہیرو اور اس کی مرحوم محبوبہ کی بیٹی کے  درمیان عشق کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سہیل عظیم آبادی اپنی تمام تر ترقی پسندی کے  باوجود اپنے  افسانے ’’بے  جڑ کے  پودے  ‘‘ میں  بچپن کے  بچھڑے  بھائی بہن کی جو نوجوانی میں  ایک دوسرے  سے  عشق کرنے  لگتے  ہیں یہ حقیقت معلوم ہونے  کے  بعد کہ در اصل یہ دونوں  بھائی بہن ہیں ؛ شادی نہیں  کروا سکے۔ منٹو کو اردو قارئین کا ایک بڑا حلقہ اب تک اس لیے  معتوب کرتا ہے  کہ ’’کھول دو’‘  میں  مسلسل زنا بالجبر کی شکار سکینہ کو ‘کھول دو ‘ کے  الفاظ سن کر لاشعوری طور پر اپنی شلوار کمر سے  نیچے  کھسکاتا دیکھ کر اس کا باپ خوشی سے  کیسے  چلا سکتا ہے  کہ ’میری بیٹی زندہ ہے ‘۔ ایسی مضبوط روایت کی موجودگی میں  مشرف عالم ذوقی کا اپنے  ناول ’لے  سانس بھی آہستہ‘ میں  سگی باپ بیٹی کے  درمیان جنسی یا جسمانی تعلقات دکھلانا، بلکہ میاں  بیوی کے  رشتے  میں  باندھنا اور پھر اپنی ہی سگی بیٹی کی بیٹی کا باپ بننے  تک کا ایک پورا عرصہ بیان کرنا فکشن کے  موضوع میں  ایک نئے  باب کا اضافہ ہے۔ ناول میں  باپ بیٹی کے  درمیان کا یہ جنسی یا جسمانی رشتہ نہ تو کوئی حادثاتی یا نا گہانی واقعہ ہے، نہ کسی غلطی یا ہوس کا نتیجہ، جیسا علی سردار جعفری کے  افسانے  ’’پاپ’‘  میں  ہوتا ہے۔ نہ ہی اسے  جدت کے  شوق اور اسٹنٹ سے  تعبیر کیا جا سکتا ہے ، کہ ناول میں  سگی باپ بیٹی کے  جسمانی رشتے  کا جواز فراہم کیا گیا ہے، واقعات کا منطقی ارتقا دکھایا گیا ہے  اور حالات کی ستم ظریفی کو قبول کرنے  کا استدلال پیش کیا گیا ہے۔ ناول نگار نے  سگی بیٹی کے  جوان جسم کی تازگی، تنو مندی اور جنسی طلب کے  ساتھ باپ کے  روحانی کرب، اس کی بے  چارگی اور ذہنی اذیت کو ایک بے  حد المناک لیکن قابل جواز حقیقت کے  بیانیے  میں  ڈھالنے  کی کوشش کی ہے۔

2013میں  رحمٰن عباس کے ’’ تین ناول’‘  کے  عنوان سے  ’خدا کے  سائے  میں  آنکھ مچولی‘، ’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘ اور ’نخلستان کی تلاش‘ منظر عام پر آئے۔ نو واردوں  میں  رحمٰن عباس کی حیثیت ایک Reactionaryناول نگار کی ہے۔ یہ ملک کی سیاست، معاشرے  کے  بطون، سماج کی تبدیلیوں  اور انسانی نفسیات کا مطالعہ گہرائی اور باریک بینی سے  کرتے  ہیں اور جرات مندی سے  انھیں  ناول کے  بیانیے  میں  ڈھالتے  ہیں۔ ان کے  ناولوں  کے  بیانیے  قدرے  فلسفیانہ ہوتے  ہیں اور اظہار میں  ایک نوع کی بے  باکی ہوتی ہے۔ ’’خدا کے  سائے  میں  آنکھ مچولی’‘  ایک ایسے  معاشرے  کا بیان ہے  جو دراصل ویسا نہیں  ہے  جیسا وہ دکھائی دیتا ہے۔ یا یوں  کہیے  کہ ناول میں  ایک مخصوص معاشرے  کے  اہم اوصاف ایسے  لوگوں  نے  اوڑھ رکھے  ہیں جو اِن اوصاف کے  اہل یا حقدار ہیں  ہی نہیں۔ پاکدامنی کا لبادہ ہو، یا علم کا، یا مذہب کا، یا فن کا، یا انتظامی امور کا، سب اُن لوگوں  نے  غصب کر رکھے  ہیں  جو اِن کی حرمت سے  واقف نہیں  ہیں۔ چنانچہ معاشرہ اپنی اصل اور معروف شناخت کی وجہ سے  نہیں  بلکہ ان غاصبوں  اور ریا کاروں  کی وجہ سے  بدنام ہے ، یا یوں  کہیے  کہ در اصل یہ ریاکاروں  کا ہی معاشرہ ہے، جس کا بڑا ہی جرأت مندانہ بیان اس ناول میں  ہوا ہے۔

کافی دنوں  بعد’’ ایک ممنوعہ محبت کی کہانی ‘‘ کے  روپ میں عشق کے  بیانیے  کو ناول کے  حرم میں داخلے  کی اجازت ملی ہے۔ یہ ناول ایک خاص علاقے  کے  بدلتے  ہوئے  کلچر اور اس کے  جبر کا اثر انگیز بیان ہے۔ آج ہم جس سیاست، دہشت اور ریاکاری کے  صحرا میں بھٹک رہے  ہیں  ایسے  میں  محبت کی یہ دلکش کہانی پُر سکون ٹھنڈے  نخلستان میں  جا پہنچنے  کا خوشگوار احساس دلاتی ہے۔ ناول میں مذہبی شدت پسندی کا جواز تو سمجھ میں  آتا ہے ، لیکن مہاراشٹر کے  ایک مخصوص علاقے  کی تہذیب کو اردو زبان اور اردو تعلیم سے  مکدَر !متشدّد ہوتے  ہوئے  دکھایا گیا ہے، جس کا نہ تو ناول میں  کوئی جواز ہے ، نہ بیانیے  سے  اس کا تعلق استوا ر ہوتا ہے۔ رحمٰن عباس کا تیسرا ناول (جو تاریخی اعتبار سے  پہلا ہے ) ’’نخلستان کی تلاش’‘  ہے۔ ہندوستان کی موجودہ دوغلی سیاست، کھوکھلی جمہوریت، بے  ایمان پولس سسٹم، متعصب میڈیا، فرقہ پرست تنظیم اور عقیدے  کے  تحفظ کے  نام پر وجود میں  آنے  والی جماعت کا بہت ہی سچا اور خوبصورت بیانیہ ہے۔ مستقبل کے  ملک میں  اہم کارنامے  انجام دینے  والے  پڑھے  لکھے  ذہین اور سوچنے  والے  مسلم نوجوانوں  کو دہشت گردی کے  نام پر پولس والوں کے  ذریعے  اٹھا لے  جانا اور بیشتر صورتوں  میں  ان کے  نام و نشان تک کا پتہ نہ چلنا اب محض ایک خبر نہیں، بلکہ یہ کاروائی ہے  ایک پوری قوم کو خوف کی نفسیات اور احساس کمتری میں  مبتلا کر کے  انھیں  علم، دولت اور اقتدار سے  محروم کرنے  کی۔ یہ ناول دراصل انھی حقائق کو بیان کرتا ہے۔ غالباً یہ اس موضوع پر اردو میں پہلا ناول ہے۔ اہم بات یہ ہے  کہ اسے  صحافتی انداز سے  بچا کر سلیقے  سے  افسانوی بیانیے  میں  ڈھالا گیا ہے  اور عصری حقائق سے  اسے   متصف کرنے  کے  وسائل بروئے  کار لائے  گئے  ہیں۔

نئی صدی کے  ان تیرہ برسوں میں  اور بھی بہت سے  ناول منظر عام پر آئے  ہیں  جن میں  رتن سنگھ کا ’’سانسوں  کا سرگم’‘ ، خالد جاوید کا ناول ’’موت کی کتاب’‘  عبدالصمد کا ’’بکھرے  اوراق’‘  وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کے  علاوہ تقریباً نصف درجن ناول اور بھی ہیں، لیکن اس مختصر سی صحبت میں ہر ایک کے  تعلق سے  گفتگو ممکن نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

خالد طور کے  ناول’ بالوں  کا گچھا‘ پر ایک طائرانہ نظر

 

نورین علی حق

 

’’بالوں  کا گچھا ‘‘ پاکستان کے  خالد طور کا ناول ہے۔ اس ناول کا موضوع اوہام پرستی ہے ، جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے  بر صغیر ایشیا کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اوہام پرستی کی بے  شمار قسمیں  ہیں۔ لیکن اس کا خمیر بہر حال خوف اور ڈر ہے ، جس کے  شکار دنیا میں  سب سے  زیادہ برصغیر ایشیا کے  لوگ ہیں ، جس سے  انکار نہیں  کیا جا سکتا۔ یہ الگ بات ہے  کہ میں  ذاتی طور پر نہ مذہب کو اور نہ ہی دعا و تعویذ کو فسادات کی جڑ سمجھتا ہوں۔ اسی دنیا میں  بے  شمار ایسے  عاملین ہیں، جن کی دعائیں  اور تعویذات پُر اثر ہیں۔ لیکن ان سے  بہت زیادہ تعویذ کی دکانیں  ایسی ہیں ، جہاں  سے  بدعنوانیاں  اور معاشرتی بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔

ناول میں  پاکستان کے  شمالی پنجاب کے  علاقے  اٹک کھوڑ، چکوال، جہلم، بلکسر، میگھاپتن وغیرہ کا تذکرہ ہے۔ ناول نگار نے  ایسا سماں  باندھا ہے  کہ اسے  چھوڑنے  کا دل بھی نہیں  چاہتا اور ان واقعات پر جو ناول میں  درج ہیں  یقین کرنے  کو جی بھی نہیں  چاہتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے  کہ ہمارے  ہندوستان میں  شاید دعا و تعویذ کے  نام پر دہشت گردی نہیں  پھیلائی جاتی، نہ ہی دعا و تعویذ ہماری زندگیوں  کا لازمی حصہ ہیں۔ ہم تو دعا و تعویذ کی اتنی ہی ضرورت محسوس کرتے  ہیں ، جتنی دواؤں  کی یا شاید اس سے  بھی بہت کم۔ کوئی بیماری نہ ہو تو دواؤں  کی ضرورت نہیں  اسی طرح دعا و تعویذ کی بھی ضرورت نہیں۔ اس کے  ساتھ یہ بھی کہنا چاہئے  کہ ہمارے  یہاں  نہ اشرافیہ طبقہ اس کا شکار ہے  نہ ہی پسماندہ، نہ دیہی اور ناخواندہ طبقہ۔ جبکہ ناول کے  مطالعہ سے  احساس ہوتا ہے  کہ پاکستان کے  دیہی اور قصباتی علاقے  اوہام پرستی کے  جال میں  بری طرح پھنسے  ہوئے  ہیں۔ وہاں  کے  عیار اور مکار قسم کے  عاملین اور ملنگو ں  نے  دعا و تعویذ کو زندگی کا جزو لاینفک بنا دیا ہے  اور اس کے  ذریعہ وہ عوام کو اپنا شکار بناتے  ہیں  اور بے  چارے  غریب عوام ڈر اور خوف کی وجہ سے  اوہام پرستی کے  جال میں پھنستے  چلے  جاتے  ہیں۔

’’ملنگ اور کیا کہتے  ہیں  بچے  کی ماں  کو؟ میں  نے  پوچھا، گداؤ نے  میری طرف دیکھا۔ کہنا کیا ہے  صاحب۔۔۔ ‘‘ اس نے  کہا ’’جتنے  سال بچے  کی جان کو خطرہ ہوتا ہے ، اتنے  سال کے  لئے  میگھا پیر کی رکھ حفاظت کے  لئے  رکھوا دیتے  ہیں۔ جب بچے  کی جھنڈ(عقیقے  پر بچے  کے  بال مونڈنا)اترتی ہے  تو تالو پر بال چھوڑ دیتے  ہیں۔ ان بالوں  پر میگھا پیر کا دم کیا ہوا پانی قطرہ قطرہ ٹپکایا جاتا ہے۔ یہ پانی پیر جی کے  دربار کے  کنویں  سے  لایا جاتا ہے۔۔۔ ‘‘ ۔ گداؤ کچھ سوچنے  لگا۔ ’’ہاں۔۔۔ اس نے  یوں  کہا، جیسے  اسے  کوئی بات یاد آئی ہو۔

’’اگر بچہ شیعہ ہو تو پانچ قطرے، اگر بچہ سنی ہو تو آٹھ قطرے۔۔۔ جتنے  سال کے  لئے  رکھ رکھی گئی ہو، ماں  کو اتنے  برس بچے  کے  سر کے  دوسرے  بال منڈوانے  پڑتے  ہیں ، بس رکھ ہی بڑھتی رہتی ہے۔ رکھ کی وجہ سے  بد روحیں  اور کالی بلا، بچوں  پر حملہ نہیں  کرتی۔ ’’ گداؤ نے  پھر بے  چینی سے  شاہ پور جانے  والی سڑک کی سمت دیکھنا شروع کیا۔ ‘‘

اس اقتباس سے  پتہ چلتا ہے  کہ رکھ کا کاروبار عارضی نہیں  مستقل ہے۔ اس کاروبار کے  لئے  پورا ماحول تیار کیا گیا ہے  کہ جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اس پر بد روحیں  اور کالی بلا چکر لگاتی ہیں۔ ظاہر ہے  کہ یہ ایسا خوف ہے ، جس سے  ہر ماں  کا خوف زدہ ہو جانا عام سی بات ہے ، کم پڑھے  لکھے  عوام کو اس طرح کی اوہام پرستی کے  جال میں  پھانس کر دعا و تعویذ کی تجارت چمکانا اس علاقے  میں  عام سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ان دنوں  اس طرح کے  کاروبار کے  لئے  متعدد طریقے  اختیار کئے  جاتے  ہیں۔ اس کی تشہیر کے  لئے  بھی پرنٹ میڈیا سے  لے  کر الیکٹرانک میڈیا تک کا سہارا لیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس کے  خاتمے  کی کوششیں  بھی اپنے  عروج پر ہیں۔ حقیقت یہ ہے  کہ دونوں  تحریکیں  اور دونوں  ہی طرح کی کوششیں  توازن و اعتدال کی راہ سے  ہٹی ہوئی ہیں۔ ملک و قوم کی خطیر رقم اس طرح کے  غیر ضروری امور کی انجام دہی پر صرف کی جا رہی ہیں  اور اصل حقدار محرومیوں  کے  شکار ہیں۔ رکھ کو رکھنا اور متعینہ مدت کی تکمیل کے  بعد رکھ کاٹنا کچھ آسان کام نہیں ہے۔ رکھ ہمارے  ہندوستان میں  متعارف نہیں  ہے  البتہ دعا و تعویذ کے  نام پر یہاں  بھی اربوں  کھربوں  روپئے  خرچ کئے  جاتے  ہیں۔ رکھ کے  کٹنے  کے  وقت جو نذرانے  پیش کئے  جاتے  ہیں  وہ ناول میں  کچھ یوں  رقم ہے۔

’’ سال پورے  ہو جانے  پر کیا ہوتا ہے ؟ گداؤ میرے  اس سوال پر کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے  میری طرف دیکھا۔

’’ہونا کیا ہے ، رکھ کاٹ دی جاتی ہے۔ گداؤ نے  کہا، ’’ اور پھر رکھ کے  بالوں  کو تولا جاتا ہے۔ جتنا وزن ہو اس کے  مطابق سونا یا چاندی پیر کے  دربار میں  ہدیے  کے  طور پر دی جاتی ہے۔

’’سونا یا چاندی؟ میں  نے  چونک کر کہا۔

’’ہاں  صاحب’‘  گداؤ بولا۔ ’’پیر نور شریف بچے  کے  ماں  باپ کی حیثیت دیکھ کر ہی فیصلہ کرتے  ہیں  کہ ہدیہ سونا ہو گا یا چاندی۔ اگر کوئی بہت غریب ہو تو وہ بالوں  کے  وزن کے  مطابق روپئے  بھی دے  سکتا ہے۔ روپئے  خالص چاندی کے  تو ہوتے  نہیں۔۔۔ ‘‘

اس طرح کی کوئی بات کسی مذہبی کتاب میں  ہے  نہ ہی کسی نص میں۔ اس کے  باوجود مسلم معاشرے  میں  دھڑلے  کے  ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ سوال یہ نہیں  ہے  کہ آخر ملنگوں  کی اتنی ہمت کیسے  ہو گئی۔ سوال یہ ہے  کہ ہمارے  عوام کی ہمت سونے  اور چاندی نذرانے  میں  پیش کرنے  کی کیسے  ہوتی ہے۔ درحقیقت ہم آج بھی اکیسویں  صدی میں  خیالی جنتوں  میں  جینے  کے  عادی ہیں، اس طرح کے  مکار اور عیار لوگ ہمارے  معاشرے  میں  عزت کی نگاہوں  سے  دیکھے  جاتے  ہیں۔ وہ خود تو گوشہ نشین نظر آتے  ہیں  مگر ان کے  کارندے  جو ملنگ اور دیگر متعدد ناموں  سے  جانے  جاتے  ہیں۔ وہ معاشرے  میں  خوف اور ڈر کا بزنس کرتے  ہیں۔ عوام کو ورغلا کر اور انہیں  خوف میں  مبتلا کر کے  یا اپنے  آقا کی جھوٹی تعریفیں  کر کے  قائل کرتے  ہیں  اور پھر ان سے  ان کے  خون پسینے  کی کمائی حاصل کرتے  ہیں  اور اگر ان کا کوئی وار خالی جاتا ہے  یا ان کی پلاننگ فیل ہوتی نظر آتی ہے  تو اس طرح کا کوئی دوسرا حربہ استعمال کر لیتے  ہیں۔

’’انتہائی سرعت سے ، ملنگ کے  ہاتھ میں  اوپر کی سمت جنبش ہوئی، پھر اس نے  بل کھاتی رسی کو گھما کر چارپائی پر پھینکا۔ نشانہ اس قدر درست تھا کہ بل کھاتی رسی چارپائی پر گاؤ تکئے  اور گدے  کے  درمیان گری۔۔۔  اس کے  ساتھ ہی ’’ہال اوئے ‘‘ کی قدرے  بلند آواز ابھری اور ملنگ دیوار کے  پیچھے  کی سمت گرا۔ گداؤ کی اینٹ کا م کر چکی تھی ! میں  چھلانگ لگا کر اٹھا، ٹارچ جلائی، سیڑھیوں  کی سمت گیا، ٹارچ سے  صحن روشن ہو گیا۔۔۔ اس کے  ساتھ ہی پھنکار سنائی دی۔ ایک کوبرا پھن پھیلائے  چار پائی پر نظر آیا۔ ‘‘

ناول میں  اس طرح کے  منظر سے  نبرد  آزمائی کے  لئے  تیاریاں  پہلے  کی جا چکی تھیں ، جس کی وجہ سے  ناول کے  کسی کردار کی موت نہیں  ہوئی۔ لیکن یہ بہت ہی حساس موضوع ہے  ہمارے  معاشرے  کا، جسے  نظر انداز نہیں  کیا جا سکتا۔ البتہ اتنے  حساس موضوع کو اختیار کرتے  ہوئے  ناول نگار کہیں  بھی غیر جانب دار نظر نہیں  آتا۔ ان کا مقصد صرف یہ ہے  کہ کسی طرح اس قسم کی رسوم ختم ہو جائیں۔ مگر ان کا نقطہ نظر اتنا ظاہر اور مبلغانہ ہے  کہ کہیں  کہیں  ایسا لگتا ہے  کہ یہ ناول کم ملنگوں  کی مخالفت میں  لکھی گئی بوطیقا زیادہ ہے  اور بات اگر ملنگوں  کی مخالفت تک محدود ہوتی تب بھی قارئین کی ایک بڑی تعداد اسے  بخوشی گوارہ کر لیتی اور ملنگوں  کی مخالفت کے  لئے  خود کو آمادہ بھی کر لیتی۔ لیکن قیاس کی بنیادوں  پر پیروں  اور پیروں  کے  آباؤ اجداد سب کو کٹہرے  میں  کھڑا کر دیا گیا ہے  اور اس سے  بھی آگے  بڑھ کر مذاہب کو ہی مجرم قرار دیا گیا ہے  کہ اگر مذاہب نہ ہوتے  تو شاید اس طرح کی گمراہیاں  ہمارے  معاشرے  میں  نہ ہوتیں۔ کئی مقامات ایسے  ہیں ، جہاں  مذہب، مذہبی شخصیات اور مذہب کے  نام پر تجارت کرنے  والوں  کی نفرت و عداوت اور دشمنی کے  خمیر سے  تیار شدہ یہ ناول بن جاتا ہے  اور ظاہر ہے  کہ ایک ہی ڈنڈے  سے  سب کو نہیں  ہانکا جا سکتا۔

تو ہم پرستی کی اس کہانی کے  متوازی ایک محبت کی کہانی بھی چلتی رہتی ہے ، جس سے  قاری بور ہونے  اور اکتانے  سے  بچ جاتا ہے۔ اس محبت کا انجام بھی وہی ہوتا ہے ، جو عام طور پر محبت میں  ہوتا ہے۔ یعنی فراق و مہجوری، جسمانی کمزوری اور لڑکی کا کسی اور کے  نام ہو جانا۔ اس کے  باوجود ناول نگار نے  محبت کو بھی بالکل حقیقی رنگوں  میں  باندھنے  کی بھرپور کو شش کی ہے ، جس سے  قاری متاثر ہوئے  بغیر نہیں  رہ پاتا۔ مگر ناول کے  آخری صفحات میں  میٹرک کے  طالب علم اور ناول کے  مرکزی کردار سے  جس طرح کی فلسفیانہ باتیں  کی گئی ہیں۔ وہ داستانوں  میں  تو ممکن ہے۔ ناول اس کا متحمل نہیں  ہو سکتا۔ لیکن محبت کو پروان چڑھانے  والے  مناظر، ماحول کو تیار کرنے  میں  ناول نگار کو ید طولیٰ حاصل ہے۔ وہ باتیں  کرتے  کرتے  اپنے  آس پاس کی چیزوں  کو تشبیہ اور استعارہ کی شکل میں  اختیار کر لیتا ہے۔ ایک ضخیم ناول لکھتے  ہوئے  ناول نگار کے  ہاتھ جو حقیقت آئی ہے ، وہ بہت ہی کرب ناک ہے  اور یہی صورتحال ہمارے  معاشرے  کی بھی ہے۔ ہم سب، سب کچھ جانتے  ہیں  مگر کسی کو روکتے  نہیں ، جو پس رہا ہے ، پسنے  دیتے  ہیں  یہی ہماری ذہنیت اور معاشرے  کی سوچ بن گئی ہے۔

’’کیا تم اب بھی خوف زدہ ہو؟ میں  نے  پوچھا اور رقیہ مسکرائی۔

مجھے  اب کسی کا ڈر نہیں  ہے۔ اس نے  کہا، ’’میں  بد روحوں  اور کالی بلا کا بھید جان چکی ہوں ، کیا تم نے  اپنی جاننے  والی عورتوں  کو بتایا ہے  کہ پیر نور شریف دھوکے  باز ہے  ؟ میں  نے  پوچھا۔ کیسے  بتاؤں  ویر جی ! رقیہ نے  آہستہ سے  کہا۔ ’’ آپ کی بھرجائی بی بی جی نے  منع کر دیا ہے۔ ویسے  بھی یہاں  کی عورتیں  پاگل ہیں ، جیسے  میں  پاگل تھی۔۔۔  پچھلے  ہفتے  دتے  تیلی کی بیوی گاماں  کے  گھر بیٹا پیدا ہوا ہے۔۔۔  ملنگ نہیں  آئے  تو وہ رکھ رکھوانے  میگھاپتن چلی گئی تھی ‘‘ ۔

میں  پریشان سا ہو گیا۔

تم نے  اسے  روکا نہیں  ؟ بتایا نہیں  کہ پیر نور شریف فریبی ہے، دھوکہ باز ہے ؟

میں  نے  کہا۔ ’’کیسے  روکتی ؟ رقیہ کے  چہرے  پر بھی پریشانی سی تھی۔ ’’ کیسے  روکوں ؟  یہ علاقہ پیر نور شریف کے  مریدوں  کا ہے۔ ہر مرد کے  گلے  میں  اس کا دیا ہوا تعویذ لٹک رہا ہے۔ عورتیں  اس سے  پانی دم کرا کے  اپنے  گھروں  میں  اونچی جگہ پر رکھتی ہیں۔ ہر طرف پیر کی دہشت ہے۔ کس سے  کہوں ، کیسے  روکوں ؟ رقیہ کی آنکھوں  میں  پریشانی کے  ساتھ ساتھ بے  بسی کی کیفیت نمایاں  ہو گئی۔ کیا کروں  میں۔۔۔  ایک اکیلی۔۔۔ کمزور عورت۔۔۔ ‘‘

ناول بالوں  کا گچھا اسلوبی سطح پر بھی بہت ہی کامیاب ہے۔ ناول نگار کو زبان و بیان پر درک حاصل ہے۔ یہاں  صورتحال کچھ یوں  ہے  کہ مصنف کے  سامنے  جملے  اور الفاظ ہاتھ باندھے  کھڑے  نظر آتے  ہیں  کہ ہمیں  استعمال کیا جائے۔ ناول میں  خوبصورت زبان تو خیر استعمال کی ہی گئی ہے۔ پاکستان کے  شمالی پنجاب کی علاقائی زبان کا بھی ناول میں  خاص عمل دخل ہے۔ کئی مقامات پر ایسے  الفاظ استعمال ہوئے  ہیں  کہ اگر ان کی تشریح نہ کی جاتی تو دیگر علاقوں  اور ممالک میں  قیام پذیر اردو والے  علاقائی زبان کو سمجھ نہ پاتے  لیکن ناول نگار نے  ان الفاظ کی حاشیے  میں  تشریح کر دی ہے۔

علامات، استعارات اور تشبیہات کا استعمال تو ہوا ہے  لیکن وہ عبارت کو گنجلک نہیں  بناتیں۔ ندیوں  کے  پانی کی طرح اس ناول کی عبارت سے  ایسی عبارت تراشی گئی ہے ، جس میں  بے  پناہ قوت جذب ہے۔ قاری کو باندھ لینے  کی صلاحیت ہے۔ خاص طور پر ہمارے  ہندوستان میں  ناقدین کو عام طور پر یہ شکوہ رہتا ہے  کہ ہمارے  فکشن سے  گاؤں  اور دیہات غائب ہوتے  جا رہے  ہیں۔ جب کہ بالوں  کا گچھا کے  اکثر مناظر دیہات میں  ہی تشکیل پاتے  ہیں۔

دیہات کی چھوٹی بڑی تمام خصوصیات یہاں  موجود ہیں۔ اس پر مستزاد یہ ہے  کہ ناول نگار کئی اہم مقامات پر تشبیہ کے  لئے  بھی دیہات اور گاؤں  سے  وابستہ چیزوں  کو اٹھاتا ہے۔ یہ عبارت دیکھیں۔

’’ کھیت میں  اگر دو پودے  ہوں ، دونوں  قریب قریب اگے  ہوئے  ہوں ، تو بھی وہ آپس میں  مل نہیں  پاتے۔ کسی جانور کے  پیروں  سے  ٹوٹ کر وہ ایک دوسرے  پر گر تو سکتے  ہیں ، مل نہیں  سکتے۔۔۔ پکنے  پر جب ان کا رنگ سبز سے  سنہری ہو جاتا ہے  تو وہ کٹ جاتے  ہیں۔ ان کے  خوشوں  سے  جو دانے  نکلتے  ہیں ، وہ کھلیان میں  پھینک دیے  جاتے  ہیں ، پھر انہیں  ڈھیروں  کی شکل دے  دی جاتی ہے  لیکن وہ آپس میں  پھر بھی نہیں  مل پاتے۔ ہر دانہ الگ الگ رہتا ہے۔ وہ آپس میں  تب ملتے  ہیں  جب ان کو چکی میں  پیس دیا جاتا ہے۔ ا ن کی انفرادی حیثیت ایک دانے  کی صورت میں  ختم ہو جانے  پر وہ آٹے  کی صورت میں  اپنی پہچان حاصل کر لیتے  ہیں ، جو گندھ جائے  تو پیڑا بن جاتی ہے، ، تنور میں  جائے  تو روٹی بن جاتی ہے، تنور میں  گر جائے  تو جل کر خاکستر ہو جاتی ہے۔۔۔ یہ بات سمجھ کیوں  نہیں  لیتے  کہ ہم کھیت میں  اگے  ہوئے  دو پودے  ہیں۔۔۔ یا پھر یہ کیوں  نہیں  جان لیتے  کہ ہم دو خوشوں  سے  نکلے  ہوئے  دانے  ہیں  جب تک چکی میں  پس نہ جائیں  گے ، مل نہ پائیں  گے۔ ‘‘

عشق کی سوزش اور تپش کو تسلی دینے  کے  لئے  ایک عاشق خود کو بہلا رہا ہے۔ اور یہ کہنا چاہتا ہے  کہ عشق کی تکمیل اور اس کا عروج اس وقت تک نہیں  ہو سکتا، جب تک عاشق و معشوق، عشق کی بھٹی میں  جل کہ خاکستر نہ ہو جائیں۔ قابل تعریف یہ ہے  کہ ناول نگار نے  بالکل سامنے  کی چیز سے  تشبیہ تراش لی ہے  اور بڑی خوبصورتی کے  ساتھ اپنا مدعا کہہ گئے  ہیں۔

ناول کی عمارت چھوٹے  چھوٹے  واقعات اور جزئیات نگاری پر ٹکی ہوئی ہے۔ یہاں  اکتا دینے  والی علامات، استعارات اور تشبیہات تو نہیں  ہیں  مگر ایک واقعہ سیدھا سیدھا نہیں چلتا۔ ذہن کی کیفیت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ حسن و جمال اور خوف و ڈر کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں۔ کبھی دل کٹ کٹ کر گرنے  لگتا ہے  اور کبھی سمٹنے  لگتا ہے  اور یہ ذمہ داری جزئیات نگاری ادا کرتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں  کو ناول نگار نظر انداز نہیں  کر پاتا۔ ان میں  حسن نکھارتا ہے  پھر اسے  بکھیر دیتا ہے۔ حد تو یہ ہے  کہ نالی اور گندگی بھی یہاں  جزئیات کے  طور پر موجود ہیں۔

’’ وسطی پکے  گھروں  کے  علاوہ جھاوریاں  کا ہر علاقہ کچے  گھروں  پر مشتمل تھا۔ گارے  اور بھوسے  سے  لپی دیواریں ، کچی گلیاں، جن میں  دونوں  جانب پانی کے  نکاس کی گندی نالیاں  نظر آئیں، جن میں  لڑھکتی ہوئی گندگی آہستہ آہستہ بہتی جا رہی تھی۔ یہ گندگی جنوب سے  شمال کی طرف بہہ رہی تھی، اس سے  احساس ہو رہا تھا کہ جنوب کی سمت جھاوریاں  کا قصبہ قدرے  اونچائی پر ہے  نالیوں  کے  کنارے  سیاہ تھے  اور تعفن کا احساس بھی نمایاں  تھا۔ ‘‘

کم از کم میں  نے  تو اس طرح کی جزئیات نگاری پہلی بار پڑھی ہے  کہ ناول نگار جس علاقے  کا تعارف کرا رہا ہو یا اسے  جس جگہ سے  متعلق کہانی لکھنی ہو وہاں  کی نالیوں  کو بھی وہ نہیں  بھولتا۔ اس طرح کی بے  شمار جزئیات نگاری کی مثالوں  سے  ناول بھرا پڑا ہے۔ اس اقتباس کو تو خیر پڑھ کر کئی لوگ اپنی ناگواری کا اظہار کریں  گے  لیکن کئی مقامات ایسے  بھی ہیں ، جہاں  طبیعت باغ باغ ہو جاتی ہے۔

ناول نگار محسوسات اور تنہائی کے  خیالات کو بھی بھر پور طریقے  سے  پیش کرتا ہے۔ محبوب کی تصویر فضا میں  بناتا ہے۔ مرکزی کردار سوچنے  لگتا ہے  اور اس کے  خیالات بہتے  چلے  جاتے  ہیں۔ البتہ اس سوچ اور خیال کے  درمیان جتنی لمبی گفتگو ہوتی ہے  وہ خاصی بور اور تصنع سے  پر معلوم ہوتی ہے۔ یہاں  آ کر قاری کی طبیعت مکدر ہونے  لگتی ہے  ایسے  ناول نگار نے  قاری کی طبیعت کو تکدر سے  محفوظ رکھنے  کی کوشش تو پوری کی ہے۔ لیکن آخر کے  سو ڈیڑھ سو صفحات میں  وہ خود کو سنبھال نہیں  سکے  ہیں۔ عزت نفس کے  حوالے  سے  جو لمبی چوڑی گفتگو کی ہے  وہ بالکل ناگوار خاطر ہے، جس کی شاید کوئی تاویل بھی نہ کی جا سکے۔ عزت نفس نے  وہ بے  غیرتی کا مظاہرہ کیا ہے  کہ حساس قاری ایسی عزت نفس سے  تو بہر حال خود کو دور ہی رکھنا پسند کرے  گا۔ اس کی سب سے  بڑی وجہ مرکزی کردار کی طبیعت کی پختگی ہے  کہ وہ جو کچھ کہتا ہے  اسے  جوتوں  کے  زور پر ثابت کرنے  کی کوشش کرتا ہے۔ حالاں  کہ اس کی وجہ سے  اسلوب میں  خرابی پیدا ہوتی ہے۔

ناول میں  بے  شمار کردار ہیں ، جو اپنی اپنی ذمہ داریاں  ادا کرتے  ہیں۔ کچھ کردار ایسے  ہیں، جو ناول میں  از اول تا آخر موجود ہیں  اور کچھ موقع بہ موقع آتے  ہیں  اور نظروں  سے  اوجھل ہو جاتے  ہیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار میٹرک کا طالب علم خالد ہے ، جو معاشرتی بگاڑ کو برداشت نہیں  کر پاتا اور اس کے  خاتمے  کے  لئے  ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ ایک طرح سے  یہ ناول مرکزی کردار کا سفر نامہ ہے، جو اس نے  موسم گرما  اور موسم سرما  کی چھٹیوں  کے  دوران اپنے  بڑے  بھائی کے  یہاں  سفر کیا ہے۔ اس کے  بڑے  بھائی ملازمت کے  لئے  جھاوریاں  میں  مقیم ہیں۔ وہ وہاں  چھٹیاں  گزارنے  جاتا ہے  وہیں  رکھ سے  اس کا تعارف ہوتا ہے  اور وہیں  گلنازی کے  عشق میں  بھی یہ گرفتار ہو جاتا ہے۔ مرکزی کردار خالد، اس کی معشوقہ گلنازی، خالد کے  بڑے  بھائی، ان کی دو بہنوں  عصمت، زیبا، گلنازی کی ماں  ماسی جیراں  بڑے  بھائی کے  گھر کا نوکر گداؤ یعنی گدا حسین، بشیر نعل بند، ہاسپٹل کا کمپاؤنڈر، بھائی کے  دوست ڈاکٹر صاحب، گلنازی کی متعدد سہیلیوں  کے  کرداروں  پر خصوصی توجہ دی گئی ہے  اور جن کرداروں  کا جو حق ہے، انہیں  وہ دیا گیا ہے۔ ان کے  علاوہ بوبا، بوبے  کی ماں  رقیہ، پیر نور شریف، پیر کے  کئی ملنگوں  کو بھی کردار کی حیثیت حاصل ہے۔ کردار نگاری کے  وقت ناول نگار کی خصوصی توجہ کرداروں  کی نفسیات کے  مطالعے ، ان کے  اٹھنے  بیٹھنے ، رہن، سہن اور ان کی زندگی کے  وہ واقعات جو ناول کا حصہ بن سکتے  ہیں  ان پر ہوتی ہے۔ کرداروں  کی زبان، ان کی رہائش اور زندگی گزارنے  کے  طریقوں  پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ البتہ پیر اور ملنگوں  سے  چوں  کہ مرکزی کردار کو پیدائشی نفر ت و عداوت ہے ، اس لئے  کئی جگہ پر کردار نگاری مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔

ناول کا راوی واحد متکلم ہے  جو مرکزی کردار بھی ہے۔ اس کی نظر بہت ہی گہری اور باریک بیں  ہے۔ اس کی نظر سے  چھوٹی سے  چھوٹی کوئی چیز محو نہیں  ہوتی وہ تمام مناظر کو، گلنازی کے  حسن کو، نشست و برخواست کو، اپنے  ماں  باپ اور بڑے  بھائی کے  غصے  اور ناراضگی کو، بھابھی اور بہنوں  کی محبتوں  اور ان کی فطرتوں  اور عادتوں  کو، گلنازی کی سہیلیوں  کی پریشانیوں  کو، نچلے  طبقے  کے  لوگوں  کی نفسیات کو بیان کرتا چلا جاتا ہے، بس کے  سفر، آنکھوں  سے  مناظر کے  گزرنے ، دل کی تکلیف کو بڑی ہی قدرت کے  ساتھ روایت کرتا ہے  اور اس سے  بڑی بات یہ ہے  کہ ایک انسان کے  اندر جس طرح کی توڑ پھوڑ، الٹ پھیر، خوشی کے  موقع پر دل کی کیفیات اور غم کے  موقع پر جس طرح کی صورت حال پیدا ہوتی ہے  اس کی روایت پر راوی کو بڑا درک حاصل ہے۔ ندی کے  پانی کے  بہاؤ کو بیان کرنا اور دلچسپ بنا دینا، عورت کے  ننگے  جسم کو بیان کرنا اور خود کو لطف اندوز ی سے  دور رکھنا بڑی بات ہے  اور بالوں  کا گچھا کے  راوی نے  یہ سب کچھ کر دکھایا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

میرے  کچھ پسندیدہ ناولز۔ ایک جائزہ

سیمیں کرن

 

جیسا کہ عنوان سے  ظاہر ہے  کہ میں  آپ کو ناول کی تعریف اس کی اقسام، اس کے  ارتقائی سفر اور دیگر اصطلاحات میں  الجھانے  والی نہیں۔ اس مضمون کا مقصد تو اپنی بک شیلف میں  پڑے  چند ان ناولوں  پہ جو مجھ پہ اثر انداز ہوئے، مجھ پہ اپنے  دیر پا اثرات چھوڑ گئے، یہ اپنے  تاثرات اور ان عظیم لکھاریوں  کو خراج عقیدت پیش کرتا تھا، یہاں  میرے  لیے  مشکل انتخاب خاص طور پر جدید اور کلاسیکل ادب و ناول پہ!

پھر سوچا کہ وہ نام جو امر ہو گئے  بہت لکھا جا چکا ان  پہ لکھا جاتا رہے  گا، عصر حاضر پہ عصر حاضر کے  ادیب کا زیادہ حق ہے۔

سو ناولوں  کے  انتخاب سے  آپ میرے  رجحان کو متعین کرنے  کی کوشش نہ کیجئے  گا کہ یہ ادب کی ’’وہ’‘  قسم  ہے  یا ’’یہ’‘

مستنصر حسین تارڑ نے  ایک دفعہ ترقی پسند ادب کے  سوال کا جواب دیتے  ہوئے  کہا ’’مجھ سے  تعریف مت پوچھئے  میں  نصابی شخصیت نہیں  ہوں، مجھے  تواتر سے  روشن خیال اور ترقی پسند کہا جاتا رہا ہے  تو اک روز تنگ آ کر کہا کہ ہاں  میں  ہوں  روشن خیال اور ترقی پسند۔۔۔  آخر میں  تاریک خیال کیسے  ہو جاؤں۔ ‘‘

تو بس میں  بھی اک غیرنصابی شخصیت ہوں ! میرے  پاس تعریف (Definition) اور توضیع نہیں  کہ یہ ناول ادب کی ’اِس‘ یا ’اس‘ صنف سے  ہے۔

میں  لفظ پہ ایمان رکھنے  والے  لوگوں  میں  ہوں !سچے  لفظ میں  کن کا شمہ موجود ہوتا ہے  اور کسی ایٹم کسی ذرے  کی طرح جب اس خورشید کا جگر پھٹتا ہے  تو روشنی طلوع ہوتی ہے۔

پھر کیسے  ممکن ہے  کہ یہ روشنی سچے  قاری کے  قلب کو منور نہ کرے۔

تو بس یہ مضمون ان لفظوں  کے  جوہر سے  کشید کی گئی روشنی اور خوشبو کا سفر ہے  کہ روشنی و خوشبو کے  مقدر میں  رکھ دیا گیا ہے  کہ وہ بکھر جائیں  گی، قلب و جاں  کو منور و معطر ہی کرتی رہیں  گی، یہاں  اک اور اعتراف کر لینے  دیجئے  کہ یہ عصر حاضر کے  چند نام ہیں، بلا شبہ ان کے  علاوہ اور بہت سے  لوگ ہیں  کچھ کو میں  نے  پڑھا کچھ کو نہیں  پڑھ سکی، میں  اس بک شیلف میں  ابھی مزید اضافہ کرنا چاہتی ہوں، چاہتی رہوں  گی۔

جن لوگوں  کو میں  شامل نہیں  کر پائی اسے  آپ ناپسندیدگی کی بجائے  میری کم علمی کے  کھاتے  میں  ڈال دیجئے۔

مگر اس بات سے  آپ بھی اتفاق کریں  گے  کہ عصر حاضر میں  اردو ناول میں  مستنصر حسین تارڑ کا نام فہرست میں  سب سے  اوپر آئے  گا۔ وہ اردو ادب کو ایسے  کئی شاہکار ناول دے  چکے  جو آنے  والے  وقتوں  میں  آب و تاب سے  چمکتے  دمکتے  رہیں  گے ! بسیار نویس ہیں، پچاس سے  زیادہ کتب کے  مصنف، سفرنامے، ناول ڈرامہ، افسانہ، کالم ہر صنف میں  طبع آزمائی کی۔ مگر جو ناول ان کے  موئے  قلم سے  تخلیق پا چکے  وہ شاہکار ہیں  لازوال ہیں۔

’’پیار کا پہلا شہر’‘  ان کا وہ میرے  لیے  پہلا ناول تھا جس نے  مجھے  ان کا گرویدہ کیا، معصوم سی ایک پیار کہانی، فرانس کا پس منظر اور لنگڑی پا سکل دریائے سئن کا کنارا، سلونا سا ہیرو جس میں  تارڑ خود بار بار جھلملاتا تھا۔ قربت مرگ میں  محبت کے  چمکتے  دمکتے  کردار، دریا نے  سندھ کے  اوپر بہتی کشتی، کناروں  پہ بسی بستیاں ا ور ان کی تہذیبیں، سرکنڈوں  کی سرسراہٹ، اور موت کی آہٹ میں  محبت کی آرزو مستنصر حسین تارڑ کا مشاہدہ ایسا ہے  کہ پتھروں  پہ رینگتے  کوڑھ کرلے، چھپکلیاں  ان کے  اوقات بھی محفوظ کر لیتے  ہیں، منظر نگاری اس عروج پہ ہے  کہ آپ دریائے  سندھ کے  پاپنوں  پہ ان سرکنڈوں  کے  بیچ، دلدلوں  میں، خود کو گھرا پائیں  گے !سورج کی تمازت و حبس محسوس ہونے  لگے  گا۔

تین انوکھی عورتیں، تین انوکھے  جیتے  جاگتے  کردار یادداشت کے  کیمرے  میں محفوظ رہنے  والے، جو قربت مرگ میں  محبت کی آرزو میں  مبتلا ہو گئے، ان مذکورہ بالا ناولز میں  مصنف خود ہی ہیرو ہے  اس کی جھلک آپ کو ناول میں  خود نظر آ جائے  گی یہ تارڑ کی شخصیت کا سحر ہے  کہ ناول موت سے  ایک موت بھرے  کمرے  سے  شروع ہوتا ہے  جہاں  موت کی بو پھیلی ہے، اک ایسا ہیرو جو ساٹھ سال کا ہو چکا ہے  وہ اپنی بد ہیئتی، اپنی جسمانی کمزوریوں  خامیوں  کا کھل کر اعتراف کرتا جاتا ہے  اور تین انوکھی عورتیں  اس کی محبت کے  سحر میں  مبتلا ہیں، قربت مرگ میں  محبت کی آرزو۔۔۔  پکھی ہے  دراوڑی نسل کی نمائندہ عورت اور بقول مصنف کی پاروشنی کا عکس۔۔۔  پاروشنی جو بہاؤ کی ہیروئن ہے، یوں  وہ اپنے  ناول کو اپنی دوسری تحریر سے  جوڑ دیتے  ہیں، تارڑ ایک ڈرامہ نگار بھی ہیں  پی ٹی وی کی اس عہد کی طاہرہ نقوی کی موت، اس عہد کی مزید اداکارائیں  بھی آپ کو یہاں  نظر آ جائیں  گی، موت کی آہٹ و سوال بھی ملیں  گے، دریاؤں  میں  پانی کم، دریاؤں  کی موت کا خوف بھی سوال بن کے  کھڑا ہے  اور اڑتے  پنچھی!

یہ تارڑ کا کمال فن ہے  کہ وہ اپنی زندگی کے  عام و خاص واقعات کو گرد جھاڑ، تراش خراش کر اک ماہر کاریگر یوں  ناول میں  پرو دیتے  ہیں، جیسے  کوئی ماہر سنگ تراش پتھر میں  مجسمہ دیکھ لے، اور فالتو مٹی و پتھر اتار کر شاہکار سامنے  رکھ دے۔

یہی تجربہ راکھ میں  بھی نظر آتا ہے، وہ اپنے  بچپن کے  ایام لکشمی مینشن میں  سعادت حسن منٹو کے  پڑوس میں  گزرے  وقت کو کسی دستاویز کی طرح پرو دیتے  ہیں، انگلینڈ، یورپ میں  گزرے  وقت کے  تجربے  بھی جا بجا نظر آتے  ہیں  اور ناول کو انجانے  دیسوں  میں  لے  جانا ان کے  لیے  سہل پسند اس لیے  بھی رہتا ہے  کہ وہ ایک مسافر اور آوارہ گرد روح ہیں  بقول ان کے ! راکھ میں  راوی اور قادر آباد ہیڈ کے  پرندے  تارڑ کے  ساتھ محو سفر ملیں  گے  مشرقی پاکستان اور قیام پاکستان کے  فسادات میں  اکٹھی کی گئی راکھ بھی بکھری ملے  گی۔

اور چار چیزیں۔۔۔  شکار، قادر آباد کے  آس پاس، کامران کی بارہ دری سے  رگ کر بہتا ہوا راوی اور وادی سوات کا منظر۔۔۔ سلیٹیٗ منظر اور چوک چکلہ۔

اور چار مرغابیاں  ہیں  جو اقرار کرتی ہیں  کہ ان کا خوشی سے  کوئی تعلق نہیں۔

مجھے  یو ں لگا پڑھتے  سمے  چار مرغابیاں  زندگی کی چاروں  بھری سمتیں  ہو جیسے  اگر چار سمتیں  بھری ہوں  تو خوشیوں  کی کھڑکی کیا پھر بھی وا نہیں ہو سکتی ہے ؟ کیا ایسے  لوگوں  کو کسی پانچویں  سمت کی تلاش ہوتی ہے ؟

’’خس و خاشاک زمانے ‘‘ بھی مستنصر حسین تارڑ کے  قلم سے  اک ایسا شاہکار ہے  جن کو زوال نہیں ! انہیں  سو تیس کے  زمانوں  سے  شروع ہونے  والا ناول اکیسویں  صدی میں  داخل ہو جاتا ہے ! ’’خس و خاشاک زمانے ‘‘ ان زمانوں  کی کہانیاں  و حقائق و کردار ہیں  جو آپ نے  میں  نے  اپنی نانیوں، دادیوں، پر دادیوں  سے  سنے  ہوں  گے  مگر اتنے  چمکتے  دمکتے  اور خوبصورت کردار جنہیں  زمانے  کی گرد چھو بھی نہیں  سکتی، جو آپ کو آج بھی اپنے  عشق میں  گرفتار کرنے  کی پوری اہلیت رکھتے  ہیں۔

چناب کا شفاف پانی، اس کے  گھنے  جنگل بیلے  ان کے  سایوں  سے  سیاہ ہوتا پانی، گہرے  سمندروں  جیسا دریا جسے  سوکھنے  کا خوف لاحق نہ ہو اور ان پر اڑتے  انوکھے  سست رنگ پرندے، اور مستنصر حسین تارڑ نے  اپنے  اس ناول کو منسوب بھی تو عطار کے  پرندوں  اور نئے  آدم کے  نام کیا ہے۔

لوک داستانوں، چناب کے  پانیوں  کے  کنارے  بستی زمینوں  پہ سانس لیتی زندگیوں، عطار کے  پرندوں  اور نئے  آدم کی نوید دیتا یہ ناول آپ کے  ذہن و دل پہ گہرا عکس چھوڑے  گا۔

خس و خاشاک زمانے  اک عہد کی دستاویز ہے، بقول مستنصر حسین تارڑ ان کے  گرد بسے  جیتے  جاگتے  ان کے  اجداد کے  کردار، مگر یہ عہد اتنا رنگیلا اور چمکدار ہے  کہ اک طلسم کدہ کھل جاتا ہے، آپ اس طلسم کدے  کے  سامنے  بے  بس کسی خس و خاشاک کی طرح بہ جاتے  ہیں، یہ ناول اگلے  کئی زمانوں  میں  زندہ رہے  گا، اردو ادب میں  ہمیشہ زندہ رہے  گا۔

مستنصر حسین تارڑ کے  بعد جن ناولز نے  ونڈر لینڈر کے  دروازے  مجھ پہ کھول دیے، وہ مشرف عالم ذوقی کے  ناولز ہیں، نالہ شب گیر ایک ایسا ہی ناول ہے، یہ ناول نہیں  ہے  یہ صدیوں  کا سفر ہے، صدیوں  کے  سفر کی ناقابل تردید گواہی یہ ناول نہیں ہے  سوالوں  کی پٹاری ہے  جسے  آپ کھول بیٹھتے  ہیں  تو یہ آپ کے  گرد دھمال ڈالنے  لگتے  ہیں۔

مگر کمال یہ ہے  کہ مشرف عالم ذوقی سوال کو جنم دیتے  ہیں  اور پھر اس کے  حل بھی پیش کرتے  ہیں۔

ناول perception to conceptionکا سفر طے  کرتا ہے۔ ذوقی اس ناول میں  اک انوکھا تجربہ کرتا ہے، وہ اک مثالی انسان کا تصور پیش کرتا ہے، مگر ٹھہر جائیے  یہ مثالی اور عظیم انسان جس میں  اگلی صدیوں  تک اپنی آواز پہنچانے  کی ہمت ہے، کوئی مرد نہیں  اک عورت ہے۔ جی ہاں  اک عظیم عورت جو اک عظیم فلسفی کی طرح معاشرے  کی نبض پہ ہاتھ رکھ کر یہ جان لیتی ہے  کہ مرد کو آدھی قوت پہ لفظ عطا کرتے  ہیں  اور۔۔۔  اور پھر وہ ان زہر گھولتے  حروف کی بدرو کو صاف کرنے  کی مہم انجام دیتی ہے ! اک ایسا کردار جو فطرت سے  ہی جنگ پہ آمادہ نظر آتا ہے  جو اپنے  مالک سے  سوال کرتی ہے  کہ اتنا کمزور کیوں  بنا دیا عورت کو جسم سے  بڑی بھوک کیوں  بنا دی۔

سوال ہی سوال رکھ دیے  ہیں  ذوقی نے  اس ناول میں  اور دل چاہتا ہے  کہ ان سے  پوچھا جائے  کہ مشرف عالم ذوقی نے  کیسے  عورت کے  من میں  بیٹھ کر اس کے  ہر خوف اور زخم کو کھوجا ہے  اور بے  باکی سے  بیان بھی کر دیا ہے۔ لفظ ان کے  نزدیک کیا اہمیت رکھتا ہے ؟ کیا وہ لفظ ’’کن’‘  کی طاقت سے  واقف ہیں، جو زخم مٹا کر مرہم بنانا چاہتے  ہیں ؟

لے  سانس بھی آہستہ، بھی مشرف عالم ذوقی کا ایک ایسا ہی ناول ہے  ایک پیچیدہ ناول ایک موضوعی نہیں، متنوع موضوعات کا اک وسیع کینوس ہے۔ ذوقی اس ناول میں  ان مقامات کو چھو آتے  ہیں  جو مقام ہے  کہ سانس بھی آہستہ لیا جائے۔

اک طرف کہانی تقسیم کے  بعد اک منہدم ہوتی تہذیب کو لے  کر چل رہی ہے۔ مسلم معاشرے  کے  توہمات، ان کی تہذیبی اقدار مصنف کا بچپن و ماحول جو اس کے  حساس ذہن پہ کیسے  اثر انداز ہوا یہ سب آپ کو نظر آئے  گا، تقسیم کے  بعد مسلم معاشرے  کے  مسائل جیتے  جاگتے  ملیں  گے۔

اور اک نور محمد ہے  بظاہر اک سادہ سا عام سا کردار، حالات اس کو وہاں  پہنچا دیتے  ہیں، جہاں  حرمت اور کراہت اپنے  معنی بدل لیتی ہے، یہ معنی بدلنے  چاہئیں، یہیں  سے  اک نیا آدم طلوع ہوتا ہے  کراہت کیا ہے ؟ کیا کراہت اپنی کثرت میں  کسی شریعت کی محتاج نہیں ؟ کیا ہندو اور مسلم کراہیت میں  فرق نہیں  ہے ؟ کیوں  اک ہندو گوشت سے  کراہت کھاتا ہے  اور کیوں  اک مسلم شوق سے  ہڈی چباتا ہے ؟ حرمت کے  رشتے  بھی شریعت متعین کرتی ہے، کیونکہ بقا و ارتقا انسان کے  لیے  یہ ضروری تھا، مگر نسل انسانی کی تاریخ میں  اور اب بھی ایسے  قبیلے  ہیں  جہاں  حرمت و کراہیت کے  معنی کچھ اور ہیں۔ نور محمد اک ایسی ہی بند سرنگ میں  کھڑا ہے، جہاں  ذوقی کمال مہارت سے  اس کے  وجود سے  اک نئے  آدم کو جنم دیتے  ہیں۔ اور دل میں  سوال جنم لیتا ہے  کہ جب پاگل پہ سے  شریعت اٹھا لی جاتی ہے، حتی کہ قانون اسے  قانونی انسان بھی تسلیم نہیں  کرتا تو یہ جنم ہی کیوں  لیتے  ہیں، مگر یہاں  ذوقی کے  فن کی داد نہ دینا نا انصافی ہو گی کہ اک نئے  آدم کی صورت میں  سرنگ کے  آس پاس روشنی ہے، یہاں  نئے  آدم کی تخلیق کے  لیے  وہی اصول استعمال کیا گیا ہے  جو رب نے  آدم و حوا کے  لیے  وضع کیا تھا۔

’’ آتش رفتہ کا سراغ ‘‘ اک اور بے  باک اور زندہ جاوید رہنے  والا ناول ہے، اک ایسا ناول جہاں  پہ ہندو انتہا پسند سوچ نے  انڈین مسلمانوں  کو کیسے  اک بند گلی میں  دھکیل دیا ہے، جہاں  مسلمان ہونا ہی اک گالی بن کر رہ گیا ہے۔

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر سے  شروع ہونے  والا ناول، بابری مسجد کی شہادت تک پھیل جاتا ہے۔ گریہ ناول انہی واقعات کو لے  کر چلتا تو شاید اک صحافتی و دستاویزی ناول بن جانا، مگر یہ مشرف عالم ذوقی کی چابکدستی ہے  کہ وہ اس سانحے  کی جڑیں  تقسیم سے  پہلے  دیکھتے  ہیں۔

حسب معمول ان کا سفر سوال کے  حل کی جانب ہے، اسامہ کا مضبوط کردار مسلم معاشرے  کے  لیے  ہی نہیں  ہندوستان کی پیچیدہ سیاست میں  ہی اک نئی امید ہے۔

مندروں  کے  باہر کاروبار کرتے  مسلم و انتہا پسندی کے  منہ پر ویسا ہی طمانچہ ہے  جیسے  ہم سعودیہ سے  چائنا و جاپان کی امپورٹ کی تسبیحوں  کو اندھی عقیدت سے  آنکھوں  سے  لگاتے  ہیں  تو معیشت کا خدا ہنستا ہے  ہم پہ! آتش رفتہ کا سراغ صرف انڈین مسلم کا نہیں  بلکہ ہر ایسی کمیونٹی کا المیہ ہے  جو کہ بند گلی میں  دھکیل دی گئی ہے۔

پوکے  مان کی دنیا، بھی ان کا چونکا تا ناول ہے  جو آج کے  نوجوان اور کم سن بچوں  پہ کار ٹونز اور سیکسی مواد تک آسان رسائی کے  مضر اثرات کو لے  کر بڑی مہارت سے  بنا گیا ہے، اور کہانی کے  ارد گرد بھارت کی سیاست کی غلاظت کو بڑی خوبصورتی سے  بیان بلکہ عیاں  کیا گیا ہے۔ ذوقی تلخ سے  تلخ حقائق کو بہت دلیری و بے  باکی سے  قلمبند کرنے  میں  ذرا بھی نہیں  جھکتا، اور موضوع کی امکان وسعت تک اس کے  تانے  بانے  بنتا چلا جاتا ہے۔

جہاں  سے  نئی تعبیریں  و فلسفہ جنم لیتا ہے  اور وجدان پہ نئے  پرندے  اپنی پرواز بھرتے  ہیں۔

مستنصر حسین تارڑ اور مشرف عالم ذوقی دو ایسے  ناول نگار ہیں  جو بلا شبہ اردو ناول کو ایک بین الاقوامی حیثیت دے  سکتے  ہیں۔ یہ اشتراک ان دونوں  کے  ناولز میں  پایا جاتا ہے۔

خیر اشتراک تو ان دونوں  مین اور بھی ہیں  جو ان کا باریک بین قاری ان کو پسند کرنے  والا قاری محسوس کرتا ہے۔

دونوں  ناول نگار کسی خاص نظریے  کے  پرچارک نہیں۔

ناولز میں  تنوع بھی اشتراک ہے۔

دونوں  کے  ناولز کا کینوس بڑا ہے  پیچیدہ ہے، ان کے  ناولز کو ہم اک موضوعی نہیں  کہہ سکتے، متنوع موضوعات کو اکٹھا کر کے  بڑے  سوال و مسائل کی نشان دہی کرتے  ہیں۔

دونوں  اپنے  ناولز میں  ایک مضبوط حیثیت و کردار موجود ہوتے  ہیں، لیکن ناول کی بنت، فلاسفی و تکنیک میں  تارڑ صاحب اور ذوقی صاحب میں  بہت تضاد بلکہ کہنا چاہیے  کہ دونوں  اپنی طرز کے  مختلف اور عظیم ناول نگار ہیں۔

مستنصر حسین تارڑ کے  ناولز میں  دریا، پرندے  اور موت پہ رکھے  سوال ایک اشتراک ہے۔

ذوقی صاحب کے  ناولز و افسانوں  میں  اک مضبوط، باغی عورت اتنی مضبوط کہ محبت کے  اظہار میں  بھی غالب ہے، آپ کو بڑی آسانی سے  نظر آ جائے  گی، ایک مضبوط باغی عورت ، بیوی اور ایک بچہ یہ ان کی اک مرغوب تکون ہے  مگر یہاں  میں  ذوقی کے  اک قاری و پرستار کی حیثیت سے  ان کو یہ مشورہ دوں  گی کہ ان کے  ناولز پہ تحقیق ہو رہی ہے۔۔۔  مزید ہو گی یہ ہر لحاظ سے  جانچے  جائیں  گے، جب مشرف عالم ذوقی کے  ناولوں  کے  نسوانی کردار زیر بحث آئے  تو وہاں  سے  ایک عورت برآمد ہو گی وہ صورت جو انکے  دل کے  صنم کدے  میں آن بان سے  سجی ہے۔

مستنصر حسین تارڑ کے  ناولوں  پہ موضوع کی اہمیت و سنجیدگی کے  باوجود ایک رومان پرور فضا غبار کی طرح چھائی رہتی ہے۔ جبکہ ذوقی صاحب کی شناخت ایک دانشور و فلسفی کے  طور پر ابھرتی ہے  مگر کیا مستنصر حسین تارڑ کے  ناولز کو ہم کہہ سکتے  ہیں  کہ وہ فلسفے  سے  خالی ہیں ؟ نہیں  وہ بہت نرمی و آہستگی سے  اپنے  جملوں  سے  کرداروں  سے  حیات و ممات کے  فلسفے  بیان کرتے  چلے  جاتے  ہیں۔

ان دو عظیم ناول نگاروں  کے  بعد میں  جس ناول نگار کا تذکرہ کرنا چا ہوں  گی وہ گو کہ نظم کے  اک عالمی شہرت یافتہ شاعر ہیں  مگر مجھ سے  ان کی تحریر کا پہلا تعارف ان کے  ناول ’مندری والا‘ سے  ہوا جو کہ دراصل ان کا دوسرا ناول تھا۔

ہم ’مندری والا‘ پہ پہلے  بات کرتے  ہیں  کہ نقش اول کو نقش قدیم پہ اک فوقیت تو ہے۔ بہت ضخیم ناول نہیں  ہے  مندری والا مگر دل پہ جو سوالات کی کیفیت اترتی ہے  وہ بڑی دیرپا ہے  قاری کے  لیے  سوچنے  سوال کرنے  کو بہت سا مواد ہے  اور کسی تخلیق کے  بڑا ہونے  کے  لیے  یہ سند کا فی ہے  میرے  نزدیک! ناول کے  آغاز میں  ’مندری والا‘ کے  نیچے  ’Jamal Syndrome‘ رکھا ہے  جو اک ذو معنی اور سوال اٹھاتی اصطلاح ہے  کہ ناول کے  ہیرو کا نام بھی جمال ہے۔ مگر کون بتائے  کہ ہیرو مندری والا ہے  یا جمال؟ آپ دمِ آخر یقین نہیں  کر پاتے۔

جمال پرستی اکسنڈروم ہے  مگرکس کا جمال سنڈروم! کیا جمال کا؟ کیا مندری والے  کا؟ یا پھر کالی پہاڑی تخیل کا جمال سنڈروم ہے۔ سوالوں  کے  جواب کے  لیے  ناول پڑھنا پڑے  گا۔

اور کالی پہاڑی کیا ہے ؟ اک عجیب جگہ اک خواب ہے  دنیا کے  پار اک اور دنیا ہے  یا پھر دنیا کے  پہیے  میں  اک الٹا پہیہ، جہاں  گھڑی ہمیشہ گیارہ بج کر سات منٹ دکھاتی ہے، گو یا یہاں  وقت رک گیا ہے، کیا کالی پہاڑی تخیل کی وہ پرواز ہے  جو بقول رائٹر jamal syndrome کی طرف سفر کر رہی ہے، اور یہ سفر میجک ریلزم کے  دروازے  پہ دستک دیتا ہے  اکالی پہاڑی مصنف کے  میجک ریلزم کا کمال ہے، کمال جب عروج کو چھولے  تو پھر جمال میں  ڈھلتا ہے، یہ تکنیک آپ کو ان کے  دونوں  ناولز میں  نظر آئے  گی، دونوں  ناولز مین وقت پہ حکومت کی آرزو ہی ملے  گی، مگر وقت تو شاید خود اک خدا ہے، خدا پہ حکومت یا خدا کو اپنی مرضی کے  تابع کر لینا تخیل کی ہی پرواز ہو سکتی ہے ؟ ہاں  تصوف میں  اس رضا کے  معنی ضرور بدل جائیں  گے۔

’’زینو’‘   ڈاکٹر وحید احمد کا ایک اور  شاہکار ناول ہے، زینو، ارسطو کے  زمانے  کا زینو۔۔۔  جو وقت کے  ساتھ سفر کرتا ہے  یہاں  سونے  کی بھری کشتی لیے  زینو سکندر، دارا سے  ملا، ٹیکسلا میں  کوتلیہ اچاریہ چانکیہ سے  ملا، یہ سفر صدیوں  کے  سفر پہ محیط ہو گیا جب زینو غرقاب برفوں  میں  دفن ہو کر موجودہ دور میں  دوبارہ زندہ کر لیا جاتا ہے  یہاں  میجک ریلزم کی تکنیک سے  مصنف نے  اپنی آرزو کے  ساتھ خوب انصاف کیا ہے۔ زینو کے  پاس ہر مسئلے  کے  لیے  حل موجود ہے، وہ ہر اہم دروازے  پہ دستک دیتا ہے، وہ سرمایہ دارا نہ نظام سے  لے  کر کمیونزم کے  محاسن و معیوب کو کسی ماہر سرجن کی طرح کھول کر رکھ دیتا ہے۔

زینو صدیوں  کی مسافت طے  کر کے  آج کے  عہد میں  پہنچا ہے  تو انسانی حرص و ہوس اسی حساب سے  بڑھ چکا ہے۔ دولت، لالچ سب کچھ خرید لینے  اور ساری دنیا پہ حکومت کی آرزو دارا اور سکندر سے  ہوئی آج کی سپرپاورز تک منتقل ہو چکی ہے۔ اب وحید احمد کے  پاس ہر بڑے  مصنف کی طرح صدیوں  کی مسافت طے  کرتے  ہوئے  اس مسئلے  کا حل بھی ہے  وہ مرض کی نشاندہی ہی نہیں  کرتا بلکہ اس کا علاج بھی تجویز کرتا ہے۔ وہ علاج کیا ہے ؟ کہ انسان کو دوبارہ بنانا پڑے  گا وہ انسان جو اپنے  مستقبل کو سوچنے  پہ مجبور ہے  کیونکہ انسانی دماغ میں  فیوچر سینٹر سب سے  مضبوط حصہ ہے  جو انسان کی تمام ذہنی اور جسمانی توانائیوں  پہ حکومت کرتا ہے  اور اس مسئلے  کا حل زینو کی برسوں  کی تحقیق و ایجاد ہے۔ گو کہ بظاہر نا تمام آرزو۔۔۔  اک فرار ہے۔۔۔  آپ اس فرار کو میجک ریلیزم کا نام دے  دیجئے، مگر اک لمحے  کو رکیے۔۔۔  کیا ہر بڑی ایجاد، تحقیق، دریافت صدیوں  کی ناآسودہ شدید آرزو کا نتیجہ نہیں  ہے، کیا آپ کو پریوں  جنوں  کی وہ کہانیاں  یاد ہیں  جہاں  اڑن کھٹولے  تھے، اڑن قالین، جام نما تھا جس میں  دور کے  دیسوں  کی خبر مل جاتی تھیں، کیا آج کے  دور میں  یہ آرزوئیں  حقیقت نہیں  گئیں ؟ تو کیا خبر کہ ہم اک بہتر آدم کی تخلیق میں  بھی کامیاب ہو سکیں، بہر حال یہ ناول ایسا ہے  کہ آپ کے  ذہن کو اک مدت تک اپنی گرفت میں  رکھے  گا۔

علامہ ضیا حسین ضیا اک منفرد اسلوب کے  شاعر، صوفی دانشور و فلسفی ہی نہیں  زرنگار جیسے  جریدے  کے  مدیر بھی ہیں، ان کی بیس تصانیف میں  ان کے  دو ناولز دروازہ گل اور مابین ان ناولز میں سے  ہیں  جو میرے  ذہن و دل پہ گہرے  نقوش چھوڑ گئے۔

دروازہ گل بیک وقت ایک نفسیاتی رومانی، جنس اور فلسفہ و تصوف جیسے  موضوعات کا گھیراؤ کرتا ناول ہے۔ زبان و بیان کا ایک انوکھا آہنگ، اک کلاسیکل احساس جو آپ کو اک عجیب جہاں  میں  لے  جائے  گا، لفظ حرف اور جملے  پرت در پرت کھیلیں  گے، ہر بار اک نئے  معنی کا لطف دیں  گے، انوکھی دقیق اصطلاحات پہلے  پہل تو آپ کو اجنبیت کا احساس دیں  گی مگر علامہ کا قاری جانتا ہے  کہ یہ اسلوب نہ صرف ان کی تحریر کا ہے  بلکہ گفتار کا بھی ہے۔ ناول پہلے  باب سے  ہی قاری کو اپنی گرفت میں  لے  لیتا ہے  اور وہ اپنے  کثیف بدن کو چھوڑ کر بدن لطیف کے  سا تھان کی بنت کی ہوئی تصویر میں  اتر جاتا ہے۔

جی ہاں  پہلے  باب سے  ہی ملتا ہے  کہ یہ کوئی حسین خواب ہے  کوئی خوبصورت منظر تصویر کیا گیا ہے، کیا رومان اور وہ بھی میاں  بیوی کا، کہیں  اس درجہ کا بھی ہو سکتا ہے  اک خوبصورت خواب رفاقت کا، محبت کا، رومان اور جنس اس ناول میں  آپ کو ہاتھوں  میں  ہاتھ ڈالے  دور تک ملیں  گے  مگر یہ کیسا جنسی ناول ہے  جہاں  ستا بازاری پن کہیں  دودور تک نظر نہیں  آتا، جہاں  عورت کو بازار جنس کی جنس سمجھ کر بدن کو زیر بحث نہیں  لایا گیا، اس کے  برعکس یہ رومان اور جنس تو اپنی پہلی بیوی عطیہ اور پھر دوسری بیوی ڈاکٹر انیلا کے  گرد گھومتے  ہیں، گویا ضیا حسین ضیاء لاشعوری طور پہ اپنی جنسی حدود کو متعین کر کے  چلتا ہے۔

اور عطیہ کون ہے ؟ عطیہ اک پہلی ہے  باریک بین قاری ضرور کچھ مقامات پہ بھٹک جائے  گا اور عطیہ کو کھوجے  گا۔

کیا یہ خود لذتی جیسے  حساس موضوع پر ہے ؟ اس موضوع کو چھیڑنا مہارت و مشاقی کا طلبگار ہے  ورنہ دماغوں اور بدنوں  سے  اٹھنے  والا تعفن ناک سڑا دے  مگر علامہ صاحب کے  پاس یہ دونوں  ہنر وافر موجود ہیں، مگر جب آپ ناول کے  ساتھ سفر کرتے  ہیں  تو احساس ہوتا ہے  کہ یہ تو مرد عورت کی تکمیل، روحانی تکمیل کا سفر ہے۔

اک فلسفی کا خواب ہے  جو محبت و حسن سے  تکمیل کر کے  اک ایسی اکائی کو جنم دے  رہا ہے  جو معرفت حق کو پا لیتی ہے  اک غیر معمولی شخص جس کی اپنی جنسی حسی شریعت و قانون ہیں۔ جہاں  اس کا اپنا جنسی اجتہاد، چلتا ہے۔ ناول پڑھ کر احساس ہوتا ہے  کہ ڈاکٹر راجہ کا کردار مصنف نے  لاشعوری طور پہ خود کو سامنے  رکھ کر تراشا ہے، وہ ہمہ دانیت، فلسفہ و تصوف اور علمی قابلیت کے  عوامل سے  سجا یہ کردار بہت زندہ اور خوبصورت ہے۔

یہی وجہ ہے  کہ رائٹر نے  اس کردار کو بہت گنجائش دی ہے  ورنہ اس طرح کے  نفسیاتی کردار اپنی وجاہت و علمیت کھو دیتے  ہیں، ان کے  اطراف ان کے  عوارض کی خبر دیتے  ہیں۔ مگر یہاں  آپ کو اطراف کے  کرداروں  کی بھیڑ نہیں  ملے  گی، بڑے  تنہا اور یکتا کردار ہیں  یہ اسرار کی دھند میں  لپیٹتے، لاہور کے  پس منظر میں  لکھا گیا ناول مگر جانے  کیوں  لگتا ہے  کہ ایران کے  گلابی جاڑے  اور مہکتی شامیں  بھی گھل مل گئیں  ہیں۔

لمس اک آفاقی علامت ہے  علامہ کے  ہاں، یہاں  اپنے  تمام تر وسیع مفہوم میں  کارگر ملے  گا آپ کو، آئینہ در آئینہ اعتبارات و تعینات کی وسعت و ماہیت آپ کو ان کے  روحانی تجربات کی خبر دے  سکتی ہے۔ اپنے  ہمزاد کے  نام منتسب ناول آغاز میں  خبر دیتا ہے  کہ یہ ایسے  شخص کی کہانی ہے  جو مفروضے  سے  محال ہدف بھی شکار کر لیتا تھا۔۔۔ اس کا راستہ تو دلیل بھی نہ روک سکی اور اچانک ایک دن اسے  وجودی برہان، نے  آ لیا۔

’’مابین’‘ علامہ ضیا حسن ضیاء کا دوسرا ناول ہے  جس نے  مجھے  اپنے  سحر میں  مبتلا کر دیا، یہ ناول میدان حشر سے  شروع ہوتا ہے۔ اک طویل ریاضت اور خوف کے  بعد جب نجم آفندی کا نام مغفرت کا امتیاز پانے  والوں  میں  ہوا تو یہ اس کے  اک نئے  سفر کا آغاز ہے۔

آفندی جو اک عالم ہے  اک دانشور ہے  اس کا پہلا مطالبہ ہی یہ ہے  کہ مجھے  ہمیشہ پوچھ گچھ میں  رکھا جائے  اور میری ہر قسم کی ضرورتوں  اور ان کی تکمیل کی آرزو کو زندہ رکھا جائے  گویا اک عالم کی تشکیک کو زبان دے  دی گئی کہ ہمیشگی اس سے  فکر و فقر چھین لے  گی مقصد چھین لے  گی۔

علامہ نے  میدان حشر اور جنت کا جو نقشہ کھینچا ہے  اور جس زبان و بیان میں  اسے  ادا کیا ہے  یوں  لگتا ہے  کہ اپنی باطنی آنکھ سے  نظارہ کر کے  لکھا ہے۔ یہ شاعرانہ نثر ہے  یا نثر میں  شاعری۔ یہ فرزند آدم نجم آفندی کا جنت میں  نامیائی شعور کے  فقدان پہ اک استدلالی نوحہ ہے۔

اور جنت میں  قیام کے  دوران نجم آفندی کی علامہ اقبال، غالب، رومی، ملا صدر اور ابن عربی سے  ناقابل فراموش ملاقاتیں  اور مباحثہ و مکالمہ اس ناول کا ماحصل ہیں۔

فرشتوں  سے  ذوق، تخلیقیت، آرٹ، فلسفہ، شاعری اور مصوری یہ مکالمہ و گفتگو سوالوں  کے  نئے  زاویے  وا کرتی ہے  اور آپ سوچنے  پہ خود کو مجبور پاتے  ہیں  کہ یہ سب کیا رب کی منشا کے  مطابق ہو رہا ہے  اور کیا جنت میں  بھی ظاہر و باطن کی اصطلاحات قائم رہیں  گی؟

اور پھر نجم آفندی کا شجر ممنوعہ کو دریافت کر لینا۔ ناول کا اختتام آپ کو یہ سوال سوچنے  پر مجبور کر دے  گا کہ پہلا پھول اپنی نسلی بقا کے  لیے  اور دوسری بار آدم اپنی تخلیقی بقا کے  لیے  شجر ممنوعہ دریافت کر لے  گا کیا جنتی زندگی کا یہ ارتقائی سفر ہے  کہ ہزاروں  سال بعد پھر ہم کسی منطقہ پر اپنے  ذوقی تخلیق کے  لیے  پھینک دیے  جائیں  گے۔ ؟

اک اور ناول جو کہ گو اب کلاسکس میں  شامل ہو چکا مگر مصنفہ ابھی حیات ہیں  اور میری دعا ہے  کہ اللہ بانو قدسیہ کو تا دیر ہمارے  لیے  زندگی صحت دے، اپنے  پسندیدہ ناولز میں  راجہ گدھ کا ذکر نہ کرنا میرے  لیے  ممکن ہی نہیں۔ اس ناول کو جتنی بار پڑھا روحانیت فلسفہ و انسانی نفسیات کے  نئے  در وا ہوتے  مجھ پہ۔

سیمی شاہ، آفتاب، قیوم اور پروفیسر سہیل ناول کے  اساسی کردار ہیں، بظاہر ناول اپنی سمت ابتدائی ابواب میں  ہی طے  کر کے  چلتا ہے  مگر تجسس مزید آگے  جاننے  کی لگن تا دم آخر قائم رہتی ہے، جملے  نہیں  گویا نگینے  ہیں  ہر نگینے  سے  دانش کے  لیے  بہا خزینے  ہاتھ لگتے  ہیں۔ سیمی شاہ بظاہر اک ماڈرن گلبرگی معاشرے  کی پروردہ، اس ناول کی ہیروئن جس کے  عشق میں  ناول کے  تینوں  کردار مبتلا تھے  اور سیمی شاہ کا اپنا عشق لا حاصل۔ اور یہی عشق لا حاصل بقول بانو آپا کے  پاگل پن کو جنم دیتا ہے  اور پاگل پن کو وہ مثبت اور منفی بتاتی ہیں۔

میں  نے  اپنے  ایک افسانے  ’’کھاتا’‘  میں  اسی  مثبت پاگل پن پہ بات کی تھی ایک جملہ ’’یہ سارے  سائنسدان، ولی، شہید، پیغمبر، ان سب کا ایک ہی قبیلہ ہے، سچ تو ہے  اک قبیلے  کی ہی درجہ بندی ہے ‘‘ ، اور پھر اس ناول کا وہ تخیلاتی علامتی حصہ دیکھئے  جو سیمرغ کی سربراہی میں  ہوا جہاں  دنیا جہان کے  پرندے  شرکت کو آئے  ہیں، اور سیمرغ جب چودہ سال پرانے  بڑ کے  درخت پہ جا بیٹھا تو جانے  کیوں  مجھے  عطار کی ’منطق الطائر‘ یاد آ گئی۔ اسی اجلاس میں  گدھ جاتی کی سرشت اور پھر رزق حرام سے  سرشت بدلنے  پہ بحث ہوئی۔

دیکھئے  بات کو کہاں  سے  کہاں  پہنچا دیا بانو آپا نے، رزق حرام کیسے  سرشت پر اثر انداز ہوتا ہے، سوالات کی اک طویل شجر کاری ہے  گدھ جاتی اس کائنات کے  خاکروب پرندے  ان کا وجود اسی طرح اہم جیسے  خیر کے  ساتھ شرکا؟ کیا شر کو ختم کیا جا سکتا ہے  مسئلہ کہاں  سے  اٹھا، قضا و قدر اور شیطان و رحمان کی حساس و ممنوعہ چوکھٹ میں  داخل ہو گیا۔

عشق لاحاصل کی مختلف جہتیں  نظر آئیں  گی آپ کو اس ناول میں  اور اسی طرح اپنی سوسائٹی کی منڈیروں  پہ بیٹھے  بہت سے  راجہ گدھ بھی ملیں  گے  آپ کو۔ یہ چند ناولز ان بہت سے  ناولز میں  سے  ہیں  جو میرے  دل کے  بہت قریب ہیں  یہ وہ کتب ہیں۔ جن کو میں  بار بار پڑھنا چاہتی ہوں۔ جتنی بار پڑھتی ہوں  کچھ نیا دریافت کرتی ہوں۔ اور ایک اور بات۔۔ ان لکھاریوں  کو آپ پڑھیں  تو اک اشتراک ملے  گا آپ کو ان سب میں۔۔۔  یہ وجدان کی اس سطح پہ اپنے  قاری کو لے جانے، پکارنے  کی صلاحیت رکھتے  ہیں  جسے  پرندوں  کی بولی کہا جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

گوشہ۔ ۳

 

ضیاء حسین ضیاء کی ادبی خدمات

 

لفظوں  کا غیر معمولی استعمال

 

ظفر اقبال (پاکستان)

 

ضیاء حسین ضیاء کی شخصیت کا مضبوط ترین حصہ اس کی نثر ہے۔ اس کے  ہاں  الفاظ کا انتخاب اور استعمال مثالی اور حیران کن ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ اس کی نثر بھی شاعری سے  الگ کوئی چیز نہیں  ہوتی۔ ذخیرۂ الفاظ کا یہ عالم ہے  کہ اسے  ایک ’’چلتی پھرتی لغت’‘  کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے  باوجود وہ شاعری سے  بھی باز نہیں  آیا۔ نظمیں  لکھیں  تو کشتوں  کے  پشتے  لگا دیئے۔ اسے  بھی کافی نہ سمجھا تو آستینیں  چڑھا کر غزل کا رخ کر لیا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے  کیونکہ نظم گو شعراء غزل کو کچھ زیادہ منہ نہیں  لگاتے۔

ضیاء حسین ضیاء  کے  بارے  میں  پوری سہولت سے  یہ بات کہی جا سکتی ہے  کہ یہ مضمون کا شاعر ہے  اور اپنے  فلسفیانہ تفکر کی وجہ سے  دل کو پگھلا دینے  والے  اشعار اس کے  ہاں  کم کم ہی دستیاب ہیں۔ چنانچہ پہلی قرأت میں  تن آسان قاری کو گوہر مقصود ہاتھ نہ بھی آئے  تو دوسری بار پڑھنے  سے  یہ شاعری اپنا آپ کھولنا شروع کر دیتی ہے  اور پھر چل سو چل۔ بیشک یہ شاعری ایسی ہے  کہ محبوبہ کو خط لکھنے  کے  لیے  اس میں  سے  اشعار نہ بھی ملتے  ہوں، یہ آپ کو سوچ اور سمجھ کے  ایک اور ہی راستے  پر ضرور ڈال دیتی ہے۔

چنانچہ یہ کہنا بے  جان نہ ہو گا کہ نام نہاد تغزل کی یبوست زدہ فضا میں  یہ شاعری ایک تازہ ہوا جھونکے  کی حیثیت کی حامل ہے۔ یہ شاعری عام آدمی کے  لیے  نہیں  ہے۔ شاعری عام آدمی کے  لیے  ہوتی بھی نہیں۔ اس کا ڈکشن انوکھا ہے  نہ پیرایہ اظہار۔ یہ اگر انوکھی ہے  تو اپنے  مواد اور موضوعات کے  حساب سے۔ فیض نے  ن م راشد کے  بارے  میں  کہا تھا کہ اس کا دماغ مجھ سے  بڑا ہے۔ چنانچہ ضیاء کی شاعری بڑے  دماغ کی شاعری ہے  اور اس کا ذائقہ فیض سا نہیں  بلکہ راشد کی طرح کا ہے۔

’’زمیں  اور زماں  اور’‘  آپ کے  سامنے  ہے۔ ضیاء حسین ضیاء کے  اشعار میں  لفظ کا غیر معمولی استعمال اور تصرف کی غیر متوقع صورت حال دیکھیں  کہ اسے  اس پر کتنا کمال حاصل ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ضیاء حسین ضیاء :حیرت انگیز اسلوب کا مالک

 

ڈاکٹر ریاض مجید

 

اظہار تک باریابی اور حقیقت تک راز یابی کے  سفر میں  اہل علم اور اہل قلم نے  کئی صدیوں  کا سفر کیا۔ مبارک ہیں  وہ ممتاز اور منفرد صاحبان علم و ادب اور ’’واقفانِ حال’‘  جن کی کاوش اور ریاضت نے  اس سفر میں  نئے  راستے  تلاش کیے  اور ہجوم سے  ہٹ کر اور انبوہ سے  کٹ اپنے  باطن کے  اظہار کے  لیے  انفرادی لب و لہجہ اور لحن و صدا کا نظام وضع کیا۔ علم و ادب کے  معاصر منظر نامے  میں  ضیاء حسین ضیاء ایک ایسی ہی انفرادیت اور اعتبار رکھنے  والی شخصیت ہیں، ان کی کتابیں  نام سے  مندرجات تک ایک ’’جہانِ دیگر’‘  کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ان کی آواز میں  الہامی صحائف کی تعلیمات سے  پھوٹنے  والے  مسائل و مضامین کی بازگشت ہے، اگر ان مسائل و موضوعات کی گہرائی اور وسعت میں  جھانکنے  کی کوشش کی جائے  تو ان کے  ڈانڈے  صوفیائے  کرام کے  ملفوظات اور اقوال سے  جنم لینے  والے  مباحث سے  جا ملتے  ہیں علم و دانش، فقر، تصوف، فلسفہ ذات و کائنات اور اخلاقیات کے  رموز و غوامض اور محبت کی پرت در پرت کھلتی معنویت پر مشتمل مکالمے، اذہان کو منور اور قلب و وجدان کو معطر کرتی ہوئی روشنی و خوشبو کی ایک ایسی سرمدی محبت کا سفر ہیں۔۔۔  جن میں  قاری دنیا و مافیہا سے  بے  خبر اپنی ذات کے  ازلی اور ابدی منابع کی طرف رجوع کرتا ہے۔۔۔  ضیاء حسین ضیاء کی آواز ’’عصر’‘  کی آواز سے  مختلف اور ان کے  مضامین میں  آج کی ’’منفرد حسیات’‘  سے  متعلق ہیں۔۔۔  صداؤں  کے  موجود ہنگاموں  میں  ان کا اسلوب حیرت انگیز اور بہجت خیز حد تک مختلف ہے۔۔۔ بچی کھچی مگر مہنگی قدروں  سے  انسلاک رکھنے  والے  ان کے  مخاطبہ اقدار میں  کم ہو سکتے  ہیں  مگر علمی ’’نیابت و وراثت’‘  کے  صحیح امانت دار وہ ہی کم لوگ ہیں۔

ضیاء حسین ضیاء کا تخلیقی سرمایہ ایک سنجیدہ اور جداگانہ مطالعہ کا متقاضی ہے۔ یہ واردات و مشاہدات کا وہ ذائقہ ہے  جس کے  متعلق کبیر نے  کہا تھا:

’’گونگے  نے  گڑ کھا لیا اب کیا کہے  کہ کیا؟’‘

ضیاء حسین ضیاء کی پسلیوں  میں  جو آگ سلگ رہی ہے  وہ کس حد تک لفظوں  میں  اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔۔۔ ؟ یہ الفاظ کیسے  اسلوب کو جنم دے  سکتے  ہیں۔۔۔ ؟ اور یہ اسلوب کن سماعتوں  کا طالب ہے۔۔۔ ؟ یہ ورق در ورق حیرت بڑھاتی لکنت کا سفر ہے۔۔۔  لکنت جو اپنی معنویت معصومیت اور تاثر میں  شروح و تفاسیر سے  زیادہ بلیغ اور پر تاثیر ہوتی ہے۔۔۔

خدا ضیاء حسین ضیاء کو ’’راست فکر’‘  رکھے  علامہ اقبال کے  لفظوں  میں  اس ’’صاحب ساز’‘  کی طرح جو سروش کی گاہ گاہے  کی غلط آہنگی سے  بھی ’’باخبر’‘  ہوتا ہے۔۔۔  احوال کی اس ترجمانی میں  ضیاء حسین ضیاء کے  ’’احوط’‘  رہنے  کی توقع ہے۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

جادو نگری کے  اسرار۔۔۔

ڈاکٹر رشید امجد

 

ضیاء حسین ضیاء کی کہانیوں  کو وہ سطحوں  پر انفرادیت کے  ساتھ دیکھا جا سکتا ہے  اول واقعات اور ان کی بنت کا طریقہ کار یعنی وہ کیسے  واقعہ کو افسانہ کی شکل عطا کرتے  ہیں  ان ان کا یہ تخلیقی پہلو بڑا پیچیدہ اور بظاہر الجھا ہوا ہے  کہ ایک جملے  سے  دوسرے  جملے  تک پہنچتے  ہوئے  ایک ترفع کی صوت سامنے  آتی ہے، پڑھنے  والا سوچتا ہے  کہ اس کہانی کو سیدھے  طور سے  بھی بیان کیا جا سکتا تھا تو پھر کہانی کار نے  پیچیدہ راستہ کیوں  اختیار کیا، اس کا جواب اختتام پر ملتا ہے  کہ کہانی کے  ان موڑوں  میں  کیا رمز پوشیدہ تھی اور کہانی کار نے  کہانی بیان کرنے  کے  اس انداز سے  کیا معنوی گہرائی پیدا کی ہے، کہانی کی بنت پر ان کی گرفت آغاز سے  ہی قائم ہو جاتی ہے  اور جوں  جوں  آگے  بڑھتے  جائیں  اس جادو نگری کے  اسرار کھلتے  جاتے  ہیں  اور اختتام پروہ کیفیت سامنے  آتی ہے  جسے  پریم چند نے  جذبات کی تطہیر کہا ہے۔ ہر اچھا فن پارہ کتھارسس کرتا ہے  یعنی قاری کا تزکیہ نفس کر کے  اس کے  اندر انسانیت کا کوئی نہ کوئی پہلو اجاگر کرتا ہے۔ ادب آدمی کو انسان بناتا ہے۔ ضیاء حسین ضیاء کی کہانیاں  یہ فریضہ بدرجہ احسن ادا کرتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

دانش افروزی

ڈاکٹر طاہرہ اقبال

 

علامہ کے  بیشتر کردار نفسیاتی مطالعے  ہیں، کہیں  انسان، ہسٹری ہیں  افسانہ نگار کی یہی کامیابی ہے  کہ وہ عمومیت میں  سے  خصوصیت اور معروضیت میں  سے  داخلیت ڈھونڈ نکالتا ہے۔ اگرچہ علامہ کا بیانیہ بھی مضبوط ہے  اور فضا بندی بھی۔ لیکن ان کی اصل کامیابی انہی کرداروں  کا من و عن تعارف ہے۔ ان کے  افسانوں  کی منفرد پلنک اور چونکا دینے  والے  عنوانات بھی ان کے  فن کی مضبوط بنیادیں  ہیں  یہ تکنیک نہ تو علامتی چیستان ہے  اور نہ ہی فرسودہ بیانیہ۔ یہاں  بیانیہ میں  ایک تازہ کاری کا احساس ملتا ہے، کرداروں  کے  نفسیاتی مطالعے  ایک جدت فراہم کر دیتے  ہیں۔ ان افسانوں  میں  دوسرا اہم موضوع دانش افروزی ہے۔ یہ دانش کبھی فلسفہ عشق کو پھرولتی ہے، فلسفہ موت پر حیرت زدہ ہے، کبھی انسانی نفسیات پر انگشت بدنداں  ہے  کبھی معاشرتی و انسانی کجرویوں  پر ماتم کناں  ہے، کبھی پروفیسر گیلانی کے  علمی تفوق کے  نفسیاتی بگاڑ کی خبر لیتی ہے۔ یہ دانش افروزی کتاب کی ہر ہر کہانی میں  کسی نہ کسی انداز سے  اپنا حصہ ضرور ڈالتی ہے  ’’لیکن پوچھ داچھ کرنا بے  کار ہے ‘‘ اور ’’ہاں  ہاں  کا آوازہ آنا چاہیے ‘‘ جیسے  افسانے  مثال کے  طور پر پیش کیے  جا سکتے  ہیں۔ علامہ ضیاء حسین ضیاء کا فن جدت و روایت کا خوبصورت امتزاج ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

علامہ ضیاؔ کی شعری ریاضت

ڈاکٹر ستیہ پال آنند

 

علامہ ضیا سے  میری واقفیت بہت پرانی نہیں  ہے، تو بھی اب یہ رفاقت اور دوستی میں  بدل چکی ہے۔ مجھے  پہلے  صرف یہ احساس تھا کہ موصوف ایک عالم ہیں، پاکستان کی ادبی صحافت میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے  ہیں، رسالہ ’’زر نگار’‘  کے  مدیر ہیں  اور تلاشِ بسیار کے  بعد کچھ ایسے  قلمکاروں  کے  نام پر اپنے  انتخاب کی مہر ثبت کرتے  ہیں، جن کے  فن اور شخصیت پر انہیں  ایک خاص نمبر ترتیب دینا ہوتا ہے۔ میں  ان کی شخصیت کی اس خصوصی جہت سے  واقف نہیں  تھا کہ وہ ایک اچھے  نظم گو شاعر بھی ہیں۔ اس کی وجہ ایک تو اپنے  ہم عصر شعرا کے  بارے  میں  میری کم آگاہی تھی، اور دوسری یہ بھی تھی کہ میرے  انٹرویو کو مرتب کرنے  کے  طویل تر عرصے، میں ، یعنی لگ بھگ ایک برس اور لا تعداد پیغامات (جن کی ایلچی گری آج کل ’ای میل‘  سے  ہوتی ہے )  کے  تبادلے  کے  باوجود، اپنی تہذیبی کسر نفسی کی وجہ سے ، نہ تو انہوں  نے  ہی اپنے  تشخص کی اس جہت کا ذکر کیا اور نہ ہی میں  نے  ان سے  یہ استفسار کیا۔ آج میں  ان کی طرف سے  معرضِ اخفا میں  رکھی ہوئی اس دولت سے  آگاہ ہو چکا ہوں  تو مجھے  یہ سطریں  لکھتے  ہوئے  روحانی خوشی ہو رہی ہے۔ ’روحانی خوشی‘ کیوں ؟  اس بات کا جواب میں  اس مختصر نوشت کے  آخر تک ملفوف رکھنا چاہتا ہوں۔

علامہ ضیا ایک معیاری اور با صلاحیت تخلیق کار ہیں۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے  کہ تخلیقی قوت اور علمیت میں  خدا واسطے  کا بیر ہے۔ ایک خدا داد ہے  اور دوسری  ’خود زاد‘  اگر نہیں  ہے  تو ’خود  داد ‘  ضرور ہے۔ ہے۔ ا ن دونوں  کا ایک ہی حسّیت میں  قیام کسی گھر میں  دو جھگڑالو  افراد کی رہائش کی طرح ہے  جس میں  تعاون کم اور تنازعہ بیش ہوتا ہے۔ علمیت اگر حاوی ہو جائے  تو اس کا اثر مثبت سے  زیادہ منفی نتائج کی شکل میں  رو نما ہوتا ہے۔ نقد و نظر سے  گہری دوستی کی وجہ سے  تخلیق کار خود ہی اپنی نگارشات کو شک و شبہ کی نظروں  سے  دیکھنے  لگتا ہے  اور تخلیقی قوت کی کار کردگی کو آزادانہ پھلنے  پھولنے  نہیں  دیتا۔ جامعات کی سطح پر ادب کا استاد ہونے  کی وجہ سے  خود مجھے  بھی اس تنازعہ کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن میں  نے  اب اس کا ایک آسان حل دریافت کر لیا ہے۔ نظم لکھتے  ہوئے  میں  اپنے  طلبا کا ہوم ورک صحیح کرنے  والے  ’استاد کے  تشخص کو جیسے  خود سے  خارج کر دیتا ہوں۔ ایک بچے  کی طرح اونچی آواز میں  سطریں  موزوں  کرتا ہوں، کئی لمحے  ایسے  بھی آتے  ہیں  کہ میں  ہنستا ہوں  یا اونچی آواز میں  گالی بکنے  سے  بھی دریغ نہیں  کرتا (میں  ایک بڑے  گھر میں  اکیلا رہتا ہوں  !) جب نظم مکمل ہو جاتی ہے  تو ہاتھ سے  لکھ کر یا کمپیوٹر میں  محفوظ کرنے  کے   بعد پانچ سات دنوں  کے  لیے  اُسے  بھول جاتا ہوں۔ یعنی اُس کے  ابتدائی خام متن کو معرض التوا میں  رکھ دیتا ہوں  اور جب دوبارہ اٹھاتا ہوں  تو اپنے  اُس خوابیدہ تشخص کو بیدار کرتا ہوں  جسے  میں  نے  ’استاد‘ کہا ہے  اور جو نصف صدی تک انڈیا، یورپ، کینیڈا اور امریکا کی جامعات میں  ادبِ عالیہ پڑھاتا رہا ہے۔

سوچتا ہوں  کہ علامہ ضیا بھی جو ایک بے  بدل عالم ہیں  (استاد بھی رہے  ہیں  کہ نہیں ، مجھے  اس بات کا علم نہیں  ہے !)، شاید کسی ایسے  ہی دورانیے  کو ایک چِلّے  کی طرح کاٹتے  ہیں  اور کہیں  طاق نسیاں  پر رکھی ہوئی اپنی نظم کو دوبارہ کھول کر دیکھنے  کی شدید خواہش کے  باوجود  انتظار کی اس مدت کے  عذاب کو پوری طرح جھیلتے  ہیں۔

یہ غلط نہ ہو گا اگر میں  کہوں  کہ اپنی نظموں  میں  علامہ ضیا اپنی انفرادیت نہ صرف موضوعات اور مضامین کی شناخت اور صحیح انتخاب کی وجہ سے  بنا سکے  ہیں، بلکہ اس میں  ان کی ڈکشن اور اسلوب کی توانائی بھی کام آئی ہے۔ انتشار، اقدار کی شکست و ریخت، بد حالی، بد امنی  اور اس طرح کے  مسائل تو ہر صنف شعر کو لپیٹ میں  لے  لیتے  ہیں، لیکن ان کا اظہار جس تفصیل سے  صنف نظم میں  کیا جا سکتا ہے، وہ اسی کا حصہ ہے۔ علامہ ضیا کے  یہاں  دنیا کے  درد و غم، ذاتی کرب اور اقدار کے  زوال کا نوحہ تو ملتا ہے، لیکن ساتھ ساتھ وہ اپنے  ملک  اور سماج کی تہذیب و ثقافت سے  بھی گہری وابستگی کا احساس کراتے  ہیں۔

اب آئیں، ان حوالہ جات سے  ان کی کچھ نظموں  کے  مختصر حصص کو دیکھیں :

جو استعاروں  کو موت آئے  تو میں  بھی

معنی کا رنگ دیکھوں   !

اَلم کشائی میں  دل کی حالت کا عکس دیکھوں

تو آئینے  کی فضیلتوں  کے  کرم نہ بھگتوں

میں  ڈوبنے  پر محیط پانی کا ذکر چھیڑوں

کٹے  کناروں ،

جلے  درختوں،

بھنور کے  سارے  ناگفتہ انداز

قاتلوں  کے  ہنر نہ جانوں،

کھلے  بدن سے

اکہرے  مطلب کی چال چل کر

بہت سی آسودہ رفعتوں  کے  مزاج پوچھوں،

لغات کی لغزشوں  میں  جھاتیں  نہ مارنے  کا

افادۂ عام مل سکے  تو

سکون سے  اپنے  دل سے  مل لوں ،

وفا کو چوموں

جزا کو چا ہوں

میں  ہجر اور وصل کی اس سزا کو دیکھوں

جسے  لغات  فدا کاری نے

استعاروں  کی بھینٹ دے  کر

بہت سے  معنی چھڑا دیئے  ہیں

بہت سے  محسوسِ ذاتِ اول

کے  سبز دفتر جلا دیئے  ہیں

جو استعاروں  کو موت آئے  تو میں  بھی

معنی کا رنگ دیکھوں   !

ضیا صاحب کے  یہاں  یہ ایک ایسا تنقیدی رویہ ہے  جو نظم و نثر میں  ہر ایک ایسی شعبدہ بازی کی مخالفت کرتا ہے  جس میں  معانی کے  حسن کو ڈھانپنے، یا انہیں  نگہِ عام و خاص سے  اوجھل رکھنے  کے  لیے  استعاراتی حجابات کا استعمال صرف ایک شعار ہی نہیں، ایک قانون بنا دیا گیا ہو۔ یعنی اگر محل نظر انسانی شناخت و اقدار کے  ختم ہونے  کا المیہ ہے  تو شاعر کو، استعارے  کی زبان میں  بھی، ترسیل کی سطح پر، کم از کم اس قدر ہموار رکھنے  کی ضرورت ہے، جس سے  قاری تک وہ پہنچ سکے۔ ’’۔۔۔ جسے  لغاتِ فدا کاری نے   !  استعاروں  کی بھینٹ دے  کر  !  بہت سے  معنی چھڑا دیے  ہیں۔ ‘‘  اور پارینہ داستانوں   میں  سنائی گئی ایک فقیر کی بد دعا کی طرح شاعر اپنا عندیہ صاف صاف لفظوں  میں  بیان کر دیتا ہے۔ ’’جو استعاروں  کو موت آئے   تو میں  بھی معنی کا رنگ دیکھوں !’‘   یہ صنف شعر میں  صنف شعر کی ہی ایک جہت کا محاسبہ ہے۔ اس کا تعلق ایک ایسے  طریق کار سے  ہے  جسے  ایذرا پاؤنڈ نے  analytical creative self   کہا ہے۔ جہاں  شاعر کا ذہن کسی بھی تخلیق کو من و عن قبولیت کے  لائق نہیں  سمجھتا، بلکہ وہ تنقیدی اصول کو پیش نظر رکھتے  ہوئے  کسی بھی فن پارے  کو اصولِ نقد کی کسوٹی پر رکھ کر اس کی صحیح تفہیم کرنے  پر مصر ہے۔

یہاں  یہ  پوچھا جا سکتا ہے  کہ علامہ ضیا کا یہ شعری جواب کیا جدیدیت کی تحریک اور اردو شاعری پر اس کے  مثبت یا منفی اثرات سے  متعلق ہے ؟  یہ عین ممکن ہے۔ کچھ دیگر پُر گو غزل کہنے  والوں  کی  ہزاروں  کی تعداد میں  کہی گئی غزلوں   میں  ٹانکی گئی ’اسٹیریو  ٹائپ‘  شاعری کی جگالی پر بھی ایک ’کامینٹ ‘ کی صورت میں  باور کیا جا سکتا ہے۔ جدیدیت، ہم سب جانتے  ہیں، ایک در آمد شدہ تحریک تھی جس کے  مکروہ اثرات کے  تحت شعرا نے  جان بوجھ کر داخلیت پسندی اور ابہام گوئی کو فروغ دیا۔ یہ وہ درد کرب نہ تھا جس سے  ایک ذی حس شاعر خود گذرتا ہے۔ یہ ’’بھو گی ہوئی’‘  واردات نہ تھی، جس کو نظمایا جا رہا تھا۔ یہ آپ بیتی نہیں  تھی، یا جیسے  کہ پنجابی میں  کہا جاتا ہے  یہ ’’ہڈ بیتی’‘  نہیں  تھی، مغربی زبانوں  میں  بطور رواج مستعمل انتشار پسندی اور لا یعنی ہیجان کو اردو کا لباس پہنا دیا گیا تھا۔ علامہ ضیا اس قماش کی شاعری سے  دور اسی لیے  رہے  کہ اس میں  جو سوز و گداز تھا وہ نقلی تھا، مصنوعی تھا۔ اخبار کی کسی نوجوان کی خود کشی کی خبر کو خود پر لادنے  کی سعی تھی۔  دوسرے  سوال کا جواب بھی نفی میں  اس لیے  ہے  کہ تھوک کے  بھاؤ غزلیں  کہنے  والے  اصحاب کی شاعری اس نثر سے  بہتر نہیں  تھی جسے  اخبارات کے  کالموں  میں  برتا جاتا ہے۔ پانچ سو اشعار میں  اگر گنتی کے  ایک دو شعر کام کے  نکل بھی آئیں  تو یہ عمل کوڑے  کے  ڈھیر کو انگلیوں  سے  الٹ پلٹ کر چھاننے  کے  علاوہ اور کچھ نہیں  ہے۔

کچھ نظمیں  ایسی ہیں  جو شاعر کے  شعری معتقدات پر مہر ثبت کرتی ہیں۔ ان کی شاعری کا سفر ایک دائرے  کی طرح ہے  جو پیکریت اور تجسیم سے  شروع ہوتا ہے، اجتماعی تصورات اور عقائد سے  بھی کچھ روشنی حاصل کرتا ہے، کہیں  کہیں  خارج سے  باطن اور پھر، جیسے  یکلخت ایک چھلانگ سے  واپس خارج کی طرف مراجعت اختیار کرتا ہے۔ اسی گامزن چڑھائی اور پسپائی کے  دوران  جہاں نظریہ مسلم تھا وہاں  مکاشفانہ آگہی سے  حقائق کے  ادراک کا سلسلہ شروع ہونے  لگتا ہے۔ آئیے ، دیکھیں :

مرحلہ پہلا تو یہ ہوتا ہے

آنکھیں  حرمتِ غم میں  مکمل خود کفیلی راحتوں  سے  چور ہوں

مرحلہ

ہاں  مرحلہ پھر وہ بھی آتا ہے  کہ

مشکیزے  میں  کوئی تیر لگتا ہے

تو سب یادیں

جو آتی ہیں  پرستاں  کی پہیلی وادیوں  سے

یا انہیں  خون جگر ٹپکا کے  جاتا ہے ،

خون میں  بہتی ہوئی تصویر سی جمنے  کو آتی ہے

اک کھرنڈ جمنے  کو آتا ہے

کہ زخمِ صد رسائی  بے  رسائی میں

کہیں  اک زاویہ تبدیل کرتا ہے

یہاں  پر غم کا پہلا مرحلہ تکمیل ہوتا ہے  !

 

خارج سے  باطن اور پھر، یکلخت ایک چھلانگ میں  ہی واپس خارج کی طرف…یہ رویہ شاعر کی عادتِ ثانیہ تو نہیں  ہے، لیکن ایک سے  زیادہ نظمیں  میں  اس کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے۔

علامہ ضیا کی شاعری تجسس سے  عبارت تو ہے  لیکن اس میں  تحیر اور خوفزدگی کا وہ عنصر نہیں  ہے  جو جدید (’’جدیدیت زدہ’‘  بھی کہا جا سکتا ہے !) شعرا کے  ہاں  ملتا ہے۔ اسی لیے  علامہ ضیا اپنے  شخصی تجربات کے  اظہار کی خاطر جب الفاظ کے  انتخاب میں  مصروف کار ہوتے  ہیں  تو دوسروں  سے  متمیز ہونے  کی کوشش کرتے  ہیں  اور اس سعی میں  اکثر و بیشتر کامیاب رہتے  ہیں، لیکن کچھ تجربے  ایسے  بھی ہوتے  ہیں، کچھ احساس جدید فکر سے  مملو اس طرح کی شباہت رکھتے  ہیں  کہ ان کے  شعری اظہار کے  لیے  الفاظ ناکافی دکھائی دیتے  ہیں۔ ان کے  لیے  تو ….

بیا  تا گل بیفشانیم  و مے  در ساغر اندایزیم

فلک را سقف بشگافیم و طرحِ دیگر اندازیم

میں  سمجھتا ہوں  کہ اس کوشش میں ، جس کا ذکر بکمال استعارہ اس شعر میں  کیا گیا ہے، علامہ ضیا کسی دوسرے  اردو نظم نگار سے   (بشمولیت راقم الحروف) پیچھے  نہیں  ہیں۔

اگر میں  غلطی پر نہیں  ہوں  تو یہ کہنے  کی جرات ضرور کرنا چا ہوں  گا کہ داخل اور خارج، اندرون اور بیرون کا یہ دوستانہ محاکمہ نظم کے  بیانیہ میں  ہی گتھم گتھا ہو کر ایک وجود، یا کم از کم ایک ہیولائی پیکر اختیار کر لیتا ہے۔ یہ الفاظ کی کیمیا گری ہے  جن کی مجموعی پیوند کاری ایک ایسا نقشہ پیش کرتی ہے  جو انگلیوں  کے  لمس سے  بعید ہے  لیکن ذہن میں  منکشف ہونے  میں  اُسے  دیر نہیں  لگتی۔ اگر یہ کہا جائے  کہ کسی متن کی تفہیم ہر بار صرف تجزیے  کی بنیاد پر ہی اپنا وجود رکھتی ہے، تو غلط نہ ہو گا کیونکہ الفاظ کی پیوند کاری خود میں  ہی اکتشاف کی قوّتِ ثانیہ رکھتی ہے  اور نظم کی قرات کے  دوران میں  ہی، یعنی اس کا تاثر ختم ہو جانے  سے  پیشتر ہی، لاشعور کھیل کھیلتا ہے  اور متن کی ابعاد روشن ہوتی چلی جاتی ہیں۔ تخلیقی قوت کی کار کردگی کے  مجموعی عمل میں  یہی ایک رشتہ ہے  جو شاعر اور قاری کے  درمیان ہمیشگی کا سبب بنتا ہے۔ خلقی ماہیت کو سمجھنے  اور ہضم کرنے  کے  لیے  کوئی بیرونی امداد درکار نہیں، وہ اشارات جو متن میں  جلی اور خفی دونوں  حالتوں  میں  موجود ہیں، تفاعل کو متین کرنے  کے  لیے  کافی ہوتے  ہیں۔

کیا وجہ ہے  کہ علامہ ضیا نے   واحد متکلم کی سمیہ کیفیت ’ First Person Pronoun’میں ‘‘ کے  چوکھٹے  میں  بہت کم نظمیں  لکھی ہیں ؟  لیکن کچھ ایسی ضرور ہیں  جن میں  یہ واحد متکلم کھل کر سامنے  آتا ہے۔ بطور مشتے  از خروارے  تو نہیں، لیکن یکے  از خروارے  یہ نظم دیکھیں  تو کیا سمجھ میں  آتا ہے :

آ،

ترے  جی کی فصد کو کھول دوں

زخم پر

آواز کا مرہم رکھوں

پنبۂ نایاب سے  خونیں  فضا کو

صاف کر کے

بازوؤں  کی ساری اکڑن پھینک دوں

آ کبھی میرے  قریب

مجھ کو طبیبِ جاں  سمجھ!

خود پر جو ہے  اپنا بھروسہ

اسے  یوں  بانٹ دو

میں  تری رگ رگ میں  حکمت ساز آوازوں  سے

خوں  کے  سالموں  کو

بانسری کے  زور پر

اتنا سبک سارانہ کر دوں

ساربانوں  کا کوئی ہو قافلہ جیسے  رواں !

آ،

طلسمِ مرہمِ نایاب تجھ پر پھونک دوں

روزن ہستی پہ تارِ عنکبوتِ بے  یقیں  کو

توڑ دوں  !

 

من و تو کے  اس فارمیٹ میں  یہ نظم متقاضی ہے  کہ ’’من’‘  اور ’’تو’‘  کا شناختی پروانہ دیکھ لیا جائے۔ آئیں  یہ فرض کر کے  چلیں  کہ ’’من’‘   شاعر کی تخلیقی بصیرت ہے، اس کی تیسری آنکھ ہے، وہ شکتی ہے  جسے  ’آکاش بانی ‘ کو اپنی طرف راغب کر کے  اسے  بولنے  پر مجبور کرنا ہے۔ یہ آدمی کے  اندر کی ’’کنڈالنی’‘  ہے، جسے  جگانے  کی دیگر سب کوششیں  بیکار ہیں، جب تک اسے  روبرو ہو کر مخاطب نہ کیا جائے۔  ’’تو’‘  کون ہے ؟ یقیناً یہ صنف غزل کا روایتی معشوق نہیں  ہے۔ وہ نہیں  ہے  جس کی خوبروئی، شان  دلبری اور بے  وفائی کے  قصیدے  یا شکوے  لکھے  جاتے  ہیں۔ میرا خیال ہے  کہ کوئی فردِ دیگر نہ ہو کر یہ شاعر کی تخلیقیت کے  جہان کی روحِ عصر ہے، وہ پرچھائیں  ہے  جو قوس قزح سی جھلمل جھلمل کرتی ہوئی شاعر کے  creative self میں  موجود ہے۔ اس پرچھائیں  کی اپنی ایک آزادانہ روش ہے، یہ کسی خارجی تحرک کی محتاج نہیں۔ اس کے  پاس روح عصر کا  ادراک ہے  اور کہنے  کا سلیقہ، گفتار کا قرینہ بھی ہے۔ شاعر اس سے  اکتسابِ فیض تو لیتا ہے  اور اس سے  مکالمہ بھی کرتا ہے۔ لیکن جب یہ فیاض ہوتی ہے  تو وہی کچھ ہوتا ہے  جس کا شاعر متقاضی ہے۔ اس نظم میں  شاعر اسے  فعال کرنے  کی کوشش میں  واحد متکلم کے  طور پر بنفس نفیس خود طبیب کی طرح سامنے  آتا ہے۔ ’فصد کھولنے ‘  یعنی blood letting  کی بات کرتا ہے، جو فاسد خون کو نکال کر اس کو پھر رو بصحت کر نے  میں  معاون ہو گی۔ اس نظم کی آخری سطریں  اس بات کی بعینہ گواہ ہیں۔

ابھی چادر اترنے  کا زمانہ اور ٹھہرے  گا

ابھی اک حادثے  کے

اور پاؤں  دھو کے  پینے  ہیں

تجربات جہاں

دہلیز کی رونق نہیں  ہوتے

تمہیں  معلوم ہونا چاہیئے

کہ یوں

مصافحہ آنکھ کا ہر خواب سے

سچا نہیں  ہوتا  !!!

 

راقم الحروف نے  اب تک احباب کی اندازاً تیس کتابوں  کے  دیباچے  تحریر کیے  ہیں۔ اس سے  دگنی کتابوں  کے  فلیپ کے  لیے  اپنی آراء لکھی ہیں۔ ہر بار جب کوئی مسودہ کھولتا ہوں  تو پہلا تاثر یہی ملتا ہے  کہ یا تو شاعر ترقی پسند تحریک کے  بچے  کھچے  آثار قدیمہ کی طرح طبقاتی تقسیم، پیٹ کی آگ، بچوں  کی پرورش کے  لیے  عصمت فروشی پر مجبور عورتوں  اور دیگر سماجی، اقتصادی کشمکش کے  اظہار کے  دائروں  میں  مقید ہے  اور اسی کے  زیر اثر اُس نے  اپنی فکر و نظر کی انفرادیت کو جماعت کے  تبلیغی پیغام کی طرف موڑ دیا ہے  اور یا  ہمارا مصنف روایتی غزل کے  محبوب کی جدائی کے  غم میں  گھلتا چلا جاتا ہے….یہ ایک عجیب بات ہے  کہ علامہ ضیاؔ کی نظموں  میں  نہ تو مجھے  ترقی پسندی کے  آثار قدیمہ کی جھلک دکھائی دی اور نہ جدیدیت کی اکھاڑ پچھاڑ، اور، بقول شخصے، ’’تین اینٹوں  پر پانچ اینٹوں  اور ان پر سات اینٹوں  کی دیوار کھڑی کر سکنے  کا مداری پن ‘‘ نظر آیا۔ علامہ ضیاؔ کے  یہاں  ماحول کی بت پرستی کی جگہ بت شکنی کا جذبہ ضرور ہے ، یہاں  تک کہ کئی نظموں  میں  ان کو اپنے  اندر اور باہر، دونوں  جگہوں  پر خلا نظر آتا ہے … ایک ایسا خلا جو زندگی کو بے  مقصد سمجھتا ہے۔ یہ خلا ہی ہے  جو اس کے  بدلنے  کی موجودہ تگ و دو کو بے  سود فرض کر تا ہے  اور فرد کو ایک مکمل شعر کی اکائی سمجھنے  کی جگہ ایک بے  ترتیب نثر پارہ سمجھ کر کچھ نہ کرنے  یا کچھ نہ کر سکنے  کی ترغیب بھی اسی خلا کی دین ہے، لیکن اگر علامہ ضیا کی سب نظموں  کو بنظر غور پڑھا جائے  تو جو مجموعی تاثر ملتا ہے  وہ یہ ہے  کہ وہ کسی نظم کے  احاطے  میں  بھی تحدیدات اور روایات کے  اسیر نہیں  ہیں۔ شاعری کی حرکیات پر ان کی گہری نظر ہے۔ نئے  نئے  رجحانات سے  بھی آگاہی ہے۔ ان کی نظمیں  مکمل تفکر اور تدبر کی آئینہ بردار ہیں۔ سب نظموں  میں  جو عنصر میں  نے  مجموعی طور پر غیر حاضر پایا وہ خالصتاً ذاتی واردات و کیفیات کی عکاسی ہے۔ تنہائی، روز و شب کی رائیگانی، بطون ذات میں  نومیدی کے  زہریلے  پودے  کا اُگنا، اپنی جوع میں  بے  رنگ اور بے  کیف ہونے  کا حزنیہ…ان موضوعات کی ذاتی سطح پر کار کر دگی کہیں  نظر نہیں  آتی۔

کچھ نظموں  کے  چیدہ چیدہ حصص اور دیکھتے  ہیں  اور انفرادی طور پر ان کی نمایاں  خوبیوں  کو بھی پہچاننے  کی کوشش کرتے  ہیں۔

زمانے  انتقاماً بولتے  ہیں   !  یہاں  جو سرسراہٹ ہے   !کہ جیسے  سانپ  !  ماہ و سال کی گردش میں  لپٹے  چل رہے  ہیں

وہ ہم کو آئینہ کی سرخ منڈی کا  !  سبھی بھاؤ بتاتے  ہیں   !  فلک سے  تاؤ کی تفسیر کرتے  ہیں

کیلنڈر چپ ہے   !  دیواریں  مسلسل بولتی ہیں   !  یہ نئے  ابلاغ کی تعیین  نو ہے

وہ ہاتھوں  کی لکیروں  سے  نکلتا ہے    !  جسے  ہم چھو نہیں  پاتے

زمانے  انتقاماً بولتے  ہیں    !  کردہ، نکردہ سبھی اسرارِ خفتہ کھولتے  ہیں

ہری شاخوں  کو سانپوں  نے  نئی پوشاک پہنائی  !  دریچہ ریشمی سانپوں  سے  کیسے  بھر گیا ہے

اُترنے  کے  لئے    !  اب بالا خانے  سے  کوئی زینہ نہیں  آتا!

 

وقت، دورانیہ، زمان، استمرار، عرصہ…کس کس نام سے  اسے  دیکھیں  اور پہچانیں۔ شاعر نے  یہاں  یوماً و فیوماً اس کی رفتار کا لیکھا جوکھا نہیں  کیا۔ ’’اب اور تب’‘  کے  حوالہ جات سے  بھی گریز کیا ہے، اول تا آخر یا علی الدوام سے  بھی شاعر دامن بچا کر گذرا ہے، لیکن پھر بھی صرف ایک استعارے  سے  خدا جانے  کیا کیا کہہ گیا ہے، ہمارا شاعر! سانپ، جو ماہ و سال کی گردش میں  لپٹے  ہوئے  چلتے  ہیں، سانپ، جو ریشمی ہیں  اور ہر دریچے  میں  سرسراتے  ہوئے  رینگ رہے  ہیں، جنہوں  نے  ہر ی شاخوں  کو نیا لباس دیا ہے۔ مرورِ وقت آخر ہے  کیا؟ ہفتہ، مہینہ یا سال بھی نہیں  ہے  اور…یقیناً..مختتمہ بھی نہیں  ہے۔ سانپ کی سی خاموش سرسراہٹ اور رفتار سے  چلنے  والا  وقت… مرحلہ، عہد، عصر…کچھ بھی نہیں  جانتا۔ صرف یہ جانتا ہے  کہ وہ  ’’ہے ‘‘ …  اور اسی طرح چلتا رہے  گا۔ اور ہم، جو اس کے  قیدی ہیں، بالا خانہ سے  ہمارے  اترنے  کے  لیے  اب کوئی زینہ میسر نہیں  ہے۔

 

آئیے ، ایک اور نظم دیکھیں۔

 

اِدھر اُدھر کے  بعد بھی  !  وہیں  پہ مرتکز ہیں  ہم  !  کہ جس مقام نے  نہ ناپ تول کم کیا

نہ’’ کیف و کم’‘  کو خم کیا  ! جہاں  کی بات تھی وہیں  جمی رہی ! اِدھر ادھر نظارتِ مہ و نجوم

دل، نظر کی عاصیانہ مرضیوں  سے  ایک تھی  ! سو وقفۂ جمال نے   ! ادھورے  خواب کی زمیں  میں  نیند گاڑ دی

ہری کچور آنکھ   ! وُسعتِ نظر کو پنکھ مار کے  جلی رہی ! اِدھر اُدھر کے  بعد بھی ! میں  خود سے  دور کب گیا _____؟

 

ہراس _____!  زندگی کی قید کا فسون ہے   !  تو خواب _____  ! زندگی کے  خوف کا زوال ہے

بس ایک سمت سے  تو مہَ نشیں  فلک نشست ہے   !  اسی نشست گاہ سے  !حکم  صد جمال سے

جہاں  پرست ہو گئے   !  کبھی کے  مست ہو گئے   !  مگر۔۔  !  اِدھر اُدھر کے  بعد کوئی بُعد ہے

جو آنکھ کی زکوٰۃ میں  فقیر  حق کا نور ہے   !  کبھی کبھی تو دل کو سادھ اَور دھڑکنیں  جئیں

کبھی کبھی تو خوف باندھ  !  آسماں  کے  دوسرے  کنار تک بہے  چلیں   !  کبھی خدا سے  ہو معانقہ تو یہ کھلے

کہ کس کے  دل میں    !  کس کی چاہ کا بھید آرزو میں  تھا  !  لگن کے  ساتھ کون کس نصیب کے  جتن میں  تھا

 

پہلی نظر میں  تو غیر آگاہ قاری کو یہی محسوس ہو گا کہ اس نظم میں  کبھی تو یقین سے  ابہام کی طرف اور کبھی ابہام سے  یقین کی طرف کا سفر ساتھ ساتھ طے  ہو رہا ہے۔ گویا یہ ایک دو رویہ حرکت ہے  جو متوازی بھی ہے  اور مراجعت کا راستہ بھی اختیار کر لیتی ہے۔  میں  نے  ’’غیر آگاہ قاری’‘  کہا، لیکن یہی احساس راقم الحروف کا بھی، یعنی ایک ’آگاہ‘ قاری کا بھی ہے۔ یہ نظم واقعی ایک سطح پر تو شدّت تاثر اور کرب نا رسائی کی مثال ہے  اور دوسری طرف سب عقیدوں  کو تہ و بالا کرتے  ہوئے  تشکیک اور یقین کے  درمیان ایک پُل کی تعمیر کا بھی پتہ دیتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے  (اور شاعر ہونے  کے  ناتے  سے  میں  خود اس کا گواہ ہوں ) کہ مختصر، سہل اور آسانی سے  سمجھ آ سکنے  والی زبان کے  پیمانے  میں  انڈیلی ہوئی نظم، جو ساتھ ساتھ زندگی کی حقیقتوں  کو بھی اجاگر کرے، شاعر کے  لیے  تو ایک مشکل کام ہے  ہی، قاری تک اس کی ترسیل بھی کم آسا ن نہیں۔ ایسی نظم میں  بھی شاعر کو ’’آنکھ کی زکاۃ’‘  جیسے  استعارے  استعمال کرنا پڑتے  ہیں۔ ایسی نظم وہ شاعر ہی لکھ سکتا ہے  جس کے  پاس کسی برگد کے  نیچے  لمبی تپسیا کاٹنے  کا گُن ہو اور جو گوتم بدھ کی طرح اس بھٹی میں  پہلے  خود تپ کر سونا بن چکا ہو۔ ایسی نظمیں  وہ ہوتی ہیں  جن کے  معانی ان میں  برتے  گئے  الفاظ سے  ماورا ہوتے  ہیں، اور اگر کوئی قاری انہیں  بہ آواز بلند صرف اپنے  لیے  پڑھے  تو یہ سماعت کو پاش پاش کرتی ہوئی کہیں  نیچے  اس کی روح و جوع تک پہنچے  گی۔ اور ہمارا شاعر اب ایک صدائے  عام دیتا  ہے  :

نئی نظموں  کے  خوگر !

راز میں  اک راز پیدا کر

کہیں  فرہاد کی دستار پیدا کر

کہیں  مجنوں  سے  مل کر

دشت کی ساری مسافت اوڑھ کر آؤ

کہیں  بکھرے  ارادوں  میں  پڑے

نا شستہ خوابوں  کی حسیں  تدوین لے  آؤ

جہاں  پر زخم پر اک زخم کا ہر بار خم آئے

اسی کو رَسم کہتے  ہیں !

اسی کو نظم کہتے  ہیں !

فطرت کیا ہے ؟ کیا یہ اشیاء اور حوادث کا ارتقائی مجموعہ ہے ؟خیال پرستوں  کے  نزدیک یہی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس کے  برعکس جدلیت نواز مفکر یہ سمجھتے  ہیں کہ فطری واقعات اور حادثات ایک دوسرے  سے  متعلق ہیں۔ جدلیت کا قانون محض فطری حادثات کے  ارتقاء پر ہی منطبق نہیں، بلکہ انسانی معیشت اور انسانی تاریخ کے  ارتقاء میں  اس کا عمل دخل موجود ہے۔ تو کیا ہمارے  خطے  کو اُس جدلیاتی تبدیلی کی آب و ہوا راس نہیں  آئی جو یورپ اور ایشیا کے  کئی ملکوں  میں، دوسری جنگ عظیم کے  فوراً بعد معرض وجود میں  آ گئی تھی اور جس کے  تحت ذرائع پیداوار، کسی فردِ واحد یا ایک طبقے  کی نہیں، بلکہ اجتماعی ملکیت قرار پا چکے  تھے ، سرمایہ دار اور غریب طبقے  کی تفریق اگر کلیتاً نہ بھی مٹائی جاتی تو کم از کم اس میں  اس قدر تضاد نہ ہوتا جتنا کہ اب ہے۔

یہ ایک عجیب سی بات ہے  لیکن مجھے  محسوس ہوتا ہے  کہ شاعر کے  درونِ دل کہیں  ایک ایسا شخص بھی بیٹھا ہوا ہے، جسے  ماضی قریب میں  یہ امید تھی کہ زمانہ بدلے  گا۔ ایک تبدیلی ایسی ہو گی، اتھل پتھل کا ایک دورانیہ ایسا آئے  گا، جس سے  موجودہ سماج کے  زمین و آسمان تہ و بالا ہو جائیں  گے۔ کیا یہ اشتراکی نظام کی امید تھی؟ کیا یہ مزدوروں  اور کامگاروں  کی فتح کی خواہش تھی۔ کیا  یہ آئندہ کے  اُس زمانے  کا ذکر تھا جب ’تخت گرائے  جائیں  گے ‘  یا  ’تاج اچھالے  جائیں  گے ‘؟  لیکن ہوا کچھ بھی نہیں  اور ایسے  خواب دیکھنے  والے  پہاڑوں  پر چڑھ کر اس نہ بدلنے  والی دنیا سے  دور جا بیٹھے۔ تارک الدنیا ہو گئے۔ اس دورانیے  کو اپنے  سر کے  پیچھے  کھلنے  والی آنکھوں  سے  دیکھیں   تو  اس نظم میں  بہت کچھ نظر آئے  گا۔

اُترنے  دے  ہمیں  زینہ  !  ہمیں  خود ساختہ  !  یہ چرخِ امیدِ جہاں ہی  !  مار ڈالے  گا

ہمیں  وہ آئینہ اندر تلک تلوار مارے  گا  !  جسے  ہم کا کل و رخسار سے   !  ہر آرزو کے  بعد دل کا غسل دیتے  ہیں

کہانی سے  نکلنے  دے  !  !  کہانی میں  میری موجودگی  !  کردار کی معراج بنتی جا رہی ہے

ماجرے  سلجھے  الجھتے  جا رہے  ہیں   !  اور افسانہ کسی کے  ہاتھ کی تسطیر سے  !   باہر نکلتا جا رہا ہے

ہمیں  اب انگبیں  سے  لاگ آتی ہے    !  بہت سی تلخ کامی یا کہ شیریں  کار مہمانی  !

سبھی چڑھتے  ہوئے  زینے  ہیں   !  جن پر پاؤں  پڑتا ہے  تو لذت چیخ اٹھتی ہے

ہمیں  اس آشیانے  سے  اترنے  دے   !  ہمیں  ادراک ہونے  دے

کہ ہم ادراک کرنے  کے  بھی اب قابل نہیں  ٹھہرے

ہم اپنی خود پہ اتری سلطنت کے  نام پر  !  اس نفس کا زینہ بناتے  ہیں

کبھی معراج کرتے  ہیں    !  کبھی تنزیل کرتے  ہیں  !  ہمیں  انسان رہنے  دے

ہمیں  زینہ اترنے  دے  !  !  اترنے  دے  کوئی زینہ  !  کوئی چہرہ مقابل آ کے  اپنی خستگی کی داد تو پائے

کوئی محمل غبارِ ناقہ کی رفتار سے  آگے  نکل جائے   !  بلندی کے  سفر نے  پستیوں  کے  بوجھ کو مشکل کیا ہے

ہمارے  سامنے  گاڑا گیا نیزہ   !  ہماری پشت سے  باہر نکلتا ہے

کمیں  پہلو کے  بل پر آزمائی جا رہی ہے    !  اور ہم دستور میں   !  آگے  نکلتے  جا رہے  ہیں

اور نظر اب بھی بلندی پر ہے   !  پاؤں  کٹ رہے  ہیں

کمیں  گا ہوں  پہ رکھے  چیختے  ہیں    !  سارے  اندازے

کبھی زینہ بہ زینہ اور کبھی اس اونچی آہٹ سے

جسے  آواز بننا تھا  !  مگر سرگوشیوں  نے  قاتلوں  کے  دل خریدے  تھے

عجب زینہ _____؟  !  ترا زینہ  _____مرا زینہ

کہانی موڑ کوئی ڈھونڈتی ہے    !  اور پستی کی حقیقت سے  سبھی کردار  !  واقف ہیں

گنہ کے  وار خالی ہیں   !  لب و رخسار خالی ہیں   !  سبھی بازار خالی ہیں ___ !!

 

یہ نظم در حقیقت ایک ’بڑی‘ نظم ہے۔ اردو کے  شعری ادب میں  سراپا نگاری کی تو ایک طویل روایت ہے  ہی، لیکن انسانی تاریخ کی سراپا نگاری تصویر سازی کا ایک ایسا فن ہے  جس میں  کثرت استعمال سے  اپنا رنگ و روغن کھو چکے  الفاظ، تلمیحات اور تشبیہات اب کارگر ثابت نہیں  ہو سکتے۔  اس نظم کے  تن و توش سے  کہیں  زیادہ اس کے  اندرونِ دل میں  تازہ خیالی کا ایک گلستان آباد ہے۔ کچھ دیگر نظموں  کی طرح اس میں  خود خیالی تو ہے  لیکن خود کلامی نہیں  ہے۔ لیکن جو جوت اس میں  جگمگ جگمگ کرتی ہوئی نظر آتی ہے  وہ باہر کی دنیا کو (اور خصوصی طور پر دورِ حاضر و موجود کو)ایسے  منور کرتی ہے  کہ لگتا ہے  نظم کی ہر سطر ایک وجود شکن ضرب کی طرح اس پر حملہ آور ہو رہی ہو۔ کہیں  بھی غزل کے  شاعر کا انکسار، یا اس کی کسر نفسی، بے  بضاعتی کا نشان نہیں  ملتا۔ یہ ایک ایسا اعلامیہ ہے  جو اس نظم کی جڑواں  تخلیق سے  مہمیز پاتا ہے۔ مندرجہ ذیل نظم میں  بھی، مندرجہ بالا نظم کی طرح ایک باز دید تاسف تو ہے  لیکن استعارہ اور علامت کی سطح پر اس کا سماں  صدف در صدف گہر بار ہے۔ آئیے، اس نظم کو دیکھیں  جس کا عنوان ’’پرانی کروٹ کا نیا خواب’‘  ہے۔

 

اتر آؤ پہاڑوں  سے   !  گمانوں  کی بلندی سرخرو ہوتی نہیں   !  ہاں مگر

رختِ سفر بڑھ جاتا ہے  ایسے  جھمیلوں  سے  !  کہ جیسے  ممکناتِ دہر کی زنجیر کھل جائے

نئی تعبیر جس پر وقت کا امضاء رہے  ثابت  !  میسر ہی نہیں  ہوتی

(نئی تشویش کھل جاتی ہے  دل میں  چھید پڑنے  سے )

 

اُتر آؤ پہاڑوں  سے۔۔  !  وہاں  پر آسماں  کچھ اور نیلے  رنگ کی

تنہا کشادہ راہ میں    !  تنبو کو کھینچے ، !  مصرعۂ تسلیم جاں  کو مانگتا جھکتا چلا آئے

زمانوں  کے  نمک کو جھاڑتے    !  ہنستا چلا جائے   !  اور ایسی بے  بسی پر چشم بھرائے

تو کچھ بھی ہاتھ نہ آئے۔۔ !!

 

اِدھر دیکھو، !  زمیں  پر یہ اُچھلتے ، بھاگتے  کردار  !  تم کو آستیں  کا بھید لگتے  ہیں _____  ؟

تمہیں  کہہ کر نکلتے  ہیں   !  تمہیں  چھو کر گزرتے  ہیں  !  یہی میداں  ہے  تیری اور میری رسم بازی کا

پرانی دشمنی کا  !  اور نئی، زانوں  پہ رکھی  !  دوستی کا  !  عاشقی کا  !  زندگی کا

بس یہیں  پر اپنے  ہونے  اور نہ ہونے  کا سارا عندیہ  !  تقسیم کر ڈالو

یہاں  پر جو بھی بازی ہے   !  اسے  تسلیم کر ڈالو !  !  گماں  کی سر فرازی دشت کی لمبی مسافت ہے

جدھر ہم ہانپنے  کے  ماسوا کچھ بھی نہیں  پاتے

ادھر آؤ ______

پہاڑوں  سے  پیمبر لوگ آتے  ہیں    !  تو روحِ آدمیت کو نئی پرواز دیتے  ہیں

جو لو گاں  بے  تکلم ہیں    !  انہیں  آواز دیتے  ہیں   !  مقامِ روح کے  اک تزکیے  کو عام کرتے  ہیں

کہ جیسے  اہتمام  روح کی تفسیر کرتے  ہیں   !  کہ جیسے  خالق کون و مکاں  کے  ’’کن’‘  کی

نہ سمجھی ہوئی تعبیر کرتے  ہیں

 

اُتر آؤ پہاڑوں  سے۔۔ !  پہاڑ اَندر کی جانب بھی نکلتے  ہیں

ندّی، نالے ، سمندر   !  باطن  جاں  کے  نگینے  ہیں   !   انہی کے  بھید بھی سمجھو

انہی کے  راز بھی جانو   !  یہی ہوتا رہا ہے  قصۂ معلوم کی کردار سازی میں   !!!

 

واقعی، اس جیسی کئی اور نظمیں  بھی ہیں  اس کتاب میں !  خدا لگتی کہوں  تو یہ ہو گا کہ جس شاعر کا نام علامہ ضیا ہے  وہ واقعی ایک سچا، نخالص، دل دوز، با ہوش اور با کمال شاعر ہے۔ میں  نے  بلا وجہ موصوف کی تعریف میں  یہ جملہ نہیں  لکھا۔ یہی میری روحانی خوشی کی وجہ ہے۔ یہ اعتراف اس سوال کا جواب بھی ہے  جسے  میں  نے  اس  دیباچہ کے  شروع میں  تشنۂ  تکمیل چھوڑ دیا تھا۔ یہ مضمون علامہ ضیا کی شاعری کے  تفاعل اور اس کی تفہیم میں  اگر معاون ثابت ہو تو مجھے  خوشی ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

عقل و عقیدہ کے  ’’مابین’‘

(ضیا حسین ضیا کے  ناول کا جائزہ)

شہزاد نیّر

 

اِلٰہیاتی نظامِ فکر پر فلسفہ و منطق کا اطلاق عباسی دورِ خلافت ہی میں  شروع ہو گیا تھا۔ اس پر امّتِ مسلمہ میں  بہت اختلافات برپا ہوئے۔ اکثر علما ء کا خیال تھا کہ مذہبی فکر کی اُلوہی حقیقت کو زمینی علوم و دلائل کی روشنی میں  پرکھنا اور عقلی بنیادوں  پر جانچنا سراسر غلط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دو یکسر مختلف نظام ہائے  فکر ہیں  اور ایک پر دوسرے  کے  اطلاق سے  استناد کی کوئی صورت نہیں  نکل سکتی۔ بایں  ہمہ انہوں  نے  فلسفیانہ افکار کی جانچ پڑتال اور ردّ و قبول کے  لیے  دینی علوم سے  رجوع کرنے  کو برا نہ جانا !

معتزلہ، اشاعرہ، اخوان الصّفا وغیرہ کی تحریکیں  دراصل مذہبی علومِ نقلی کو فلسفیانہ علومِ عقلی کی روشنی میں دیکھنے  سے  عبارت ہیں۔ اور بعض مواقع پر، ہر دو کے  ادغام سے  ایک ایسا نظامِ ایقان و عمل مرتّب کرنے  کی کوشش جو سوچنے  والے  ذہن کی تشفی کر سکے۔ اس طرح دینی مسلّمات کو بغیر سوچے  سمجھے  ماننے  والے  عامۃ المسلمین اور تقلیدی علماء کے  شانہ بشانہ، مسلم عقلیات کا بھی اِرتقا ہوتا رہا۔

اسلامی دورِ حکومت میں  اندلس اِس فکر کا بڑا مرکز بنا۔ اندلسی مسلم فلاسفہ کے  پیشِ نظر یونان کی عظیم الشان روایتِ فلسفہ تھی۔ اس علمی فکر سے  بھرپور استفادہ کرتے  ہوئے  مسلم فلسفیوں  نے  ایسے  نظام ہائے  فکر تشکیل دیئے  جن کی بنیادیں  عقلی علوم منطق و فلسفہ پر استوار تھیں۔ ابنِ رشد، ابنِ مسکویہ، ابنِ طفیل، ابنِ باجہ وغیرہم ایسے  ہی فلسفی تھے۔ دوسری طرف مذہبی اعتقادات خصوصاً اصولِ دین پر کسی بھی فکری سر گرمی کے  مخالف علما ء تھے  مثلاً ظاہر یہ (جو متن کی فقط لفظی تعبیر کے  قائل تھے )۔ ایسے  علما ء نے  آزادانہ فکری سر گرمی کی بنا پر مذہبی متون کی تشریح و تاویل کو کفر، الحاد اور زندقہ کے  مترادف قرار دیا۔ نتیجتاً منطقی طرزِ استدلال سے  استخراجِ نتائج کرنے  والے  سینکڑوں   نابغے  موت کے  گھاٹ اتار دیئے  گئے۔

دوسری طرف اندلس ہی میں  شیخ الاکبر، محی الدین ابنِ عربی نے  متصوفانہ علوم میں  بے  مثال کام کیا۔ ان کے  پیش کردہ نظریۂ و حدت الوجود کو سرمدی نفوذ حاصل ہوا۔ اس نظریے  سے  وابستہ صوفیا و مفکرین کو تاریخ کے  مختلف ادوار میں  کفر و الحاد کے  فتاویٰ کا سامنا رہا پھر بھی فکر کا یہ زاویہ آج تک پھل پھول رہا ہے۔ فلسفیانہ تصوّف کی بنیاد ’صوفیانہ تجربہ‘ پر استوار ہوئی۔ یہ الگ بات کہ ایسے  تجربے  کے  منطقی استناد کا مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔ علامہ اقبال کے  خطبات میں  بھی یہ مسئلہ سر اُٹھا کر لاینحل رہتا ہے۔ عام طور پر ظاہری دلیل و مدلول کے  طریق پر صوفیا نہ کشوف کو پرکھنے  کی روایت موجود نہ رہی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے  کہ متصوفانہ روش  پر چلنے  والے  انفرادی سطح پر ہی رہے  اور یہ طریق تعمیم پر اُتر کر عوامی سطح پر بھی نہ آ سکا اور نہ ہی شخصی صداقت، عمومی صداقت بن سکی۔ اس کے  بر عکس سائنسی منہاج، عقلی استدلال کے  باعث زیادہ مقبول ہوئی کیوں  کہ اِس میں  علّت و معلول کا مربوط نظام ہے۔ اب جو بھی چاہے، بیٹھ کر ایٹم بم تک کا فارمولا سمجھ لے !

انسان کے  فکری و عملی ارتقا میں  ایک بڑا دھماکہ یورپی نشاۃِ ثانیہ کی صورت میں  ہوا۔ اس کے  بعد تو، گویا دبستاں  کھل گیا۔ نہ صرف یہ کہ قدیم علوم و فنون میں  بے  پناہ ترقی ہوئی بلکہ علمی تخصُّص کے  رجحان نے  بے  شمار نئے  علوم و فنون کو جنم دیا۔ ایک بار پھر نئے  سرے  سے  مذہبی اعتقادات و توضیحات، سائنسی وجوہ کی زد پر آ گئے۔ یہ عہد اب تک جاری ہے  اور دلیل و منطق (’کیوں ‘؟ کا سوال) اس کی علمی منہاج بن گئی۔ علمی دباؤ اس حد تک بڑھا کہ تقلیدی علماء بھی مذہبی احکام و اعمال کی’ حکمت‘ تلاش کرنے  کے  نام پر’ مصروفِ تحقیق ‘ ہو گئے۔

اگر چہ یہ کام بمشکل ہی منطقی حریت فکر کے  زمرے  میں  آ سکتا ہے  کیونکہ اس میں  تحقیق کے  نتائج پہلے  سے  متعیّن کر لیے  جاتے  ہیں۔ اس کے  برعکس خالص علمی طریق میں  دیانت دارانہ عقلی سرگرمی اور علمی اخلاص پر اعتماد کا اظہار ہوتا ہے  اور یوں  نتیجہ آخر میں  ہاتھ لگتا ہے  جو ضروری نہیں  کہ ماقبل نتائج سے  تطابق بھی رکھتا ہو۔ ان دنوں  مذہبی اعمال و عقائد کی تشریح میں  سائنسی و عقلی علوم سے  بے  پناہ استفادہ کیا جاتا ہے  لیکن عقل و سائنس کی برتری کا خیال بھی دل میں  نہیں  لایا جاتا!

اس عہدِ دلیل میں  مشاہدہ و اعتقاد کا ٹکراؤ ابھر کر سامنے  آیا ہے۔ استدلالی طرزِ فکر، سکّہ جاریہ بنی، تشکیک، علمی خاصہ بن کر اُبھری۔ کہیں  کہیں  مذاہب کی الٰہیاتی حیثیت پر بھی سوالیہ نشان لگے۔ نئے  علوم و فنون کی روشنی میں  قدیم متون کا از سرِ نو جائزہ لینے  کی روش عام ہوئی۔ ادب میں  اس کی دلچسپ مثال۔۔ ’’تانیثی تنقید’‘  کی صورت سامنے  آئی۔ عورت کی حیثیت کو مدّ نظر رکھ کر جب قدیم بیانوں  کا جائزہ لیا گیا تو غیر  متوقع نتائج سامنے  آئے  جن کی تفصیل کا محل نہیں۔ صرف اس قدر کہ فارسی ادبیات کے  ایک محقق نے  جب قدیم ادب کو کھنگالا تو اسے ’’ ماں ‘‘ کے  موضوع پر کوئی ادب پارہ نہ ملا!

اردو ادب میں، جہاں  مشاہدہ اور علم تاریخیات، مسلّمات و عقائد سے  ٹکراتے  ہوئے  محسوس ہوئے  وہاں  بجائے  براہِ راست ٹکراؤ کے، بات کو پہلو سے  نکال کر سوچ کو مہمیز دی گئی۔ کچھ اِسی نوع کی کشمکش کا بیانیہ ہے، ضیا حسیں ضیا کا ناول’ ’مابین’‘ ۔

ناول کا منظر جنت کا ہے۔ فردوسی زندگی کی یکسانیت، غیر تخلیقی، غیر ارتقائی طرزِ زیست میں  کشش نام کو نہیں۔ دکھ، افسوس، دادو تحسین، جدوجہد کچھ پانے  کی خوشی، کچھ کھونے  کا غم کچھ بھی نہیں۔

یہ بیانیہ، ضیا حسین ضیا نے  اس فنی مہارت سے  ترتیب دیا ہے  کہ مسلّمہ عقائد پر زد بھی نہیں  پڑتی اور انسان کی جبلت کا المیہ بھی سامنے  آ جاتا ہے۔ جبلت جو جنت میں  آسودہ نہیں  ہے !اب یہ موضوع اپنے  اندر ہی بہت بڑا ہے  اور پھر جس ادبی و فکری انداز میں  پیش کیا گیا ہے  وہ بھی چھوٹا نہیں۔

مشرقی و مغربی ادبیات میں  سیرِ افلاک کی روایت خاصی قدیم ہے۔ حال ہی میں  صوفی محقق محمد شفیع بلوچ (اب مرحوم ہو چکے ) نے  مکشوفی و معراجی تجربات کے  ادبی بیان کا ذکر اپنی کتاب۔ ’سیرِ آفاق‘ میں  تفصیل سے  کیا ہے۔ قدیم سومیری ادب (انا کا سفرِ ظلمات)، انبیاء کرام کی معراجیں ’ابنِ عربی کی ’فتوحاتِ مکّیہ‘ میں  اسفار آسمانی کا بیان، ابوالعلا معرٰی کا ’رسالۃ الغفران‘ دانتے  کی ’ڈیوائن کا میڈی‘ زرتشی موبد ’ارادی ویروف‘ کی سیرِ افلاک، عہد نامہ جدید میں  یوحنا عارف کا مکاشفہ، اقبال کی کتاب جاوید نامہ وغیرہ۔ اِن سب میں  اپنے  اپنے  مذہب و ماحول کے  آرکی ٹائپ کو بروئے  کار لا کر آسمانوں  میں  جنت کی تجسیم کی گئی ہے۔ لیکن ایک بات کم و بیش سب میں  مشترک ہے  کہ آسمانوں  کی سیر کرنے  والوں  کا بیانہ مجرد مشاہدات پر مشتمل ہے۔ سیر کرنے  والے  کی آسمانوں  میں  تخلیقی شراکت نہیں  ہے !

ضیاء حسین ضیاء تو عہدِ موجود کا متلاشی و متجسّس ذہن رکھتے  ہیں۔ وہ جنت کے  باسی کو بھی طرزِ استدلال سے  مالامال دکھاتے  ہیں  اور ناول کا مرکزی کردار، ایک مقام پر، جنت میں  اصلاحات کا باقاعدہ مطالبہ پیش کر دیتا ہے۔

اس ناول کی تعمیر اور فضا بندی میں  یقیناً مذہب اسلام کے  جملہ آر کی ٹائپ کو بروئے  کار لایا گیا ہے۔ یعنی جس طرح ایرانی موبد، ارادی ویروف، جہنم میں  برف کا عذاب یا اطالیہ کا دانتے  سمندری طوفان دیکھتے  ہیں، اسی طرح جنت کی تخلیقی منظر کشی کرتے  ہوئے  پاکستانی انداز کی ساخت کو مدِ نظر رکھا ہے۔

اس مقام پر مناسب محسوس ہوتا ہے  کہ ناول کا خلاصہ بیان کر دیا جائے۔

ناول کا آغاز عرصۂ محشر سے  ہوتا ہے۔ مرکزی کردار نجم عباس آفندی، اپنے  مرشد کریم آغا جان کی معیّت میں  مراحلِ حشر سے  گذر جاتا ہے  تو نویدِ مغفرت ملتی ہے۔ وہ شکر سے  بھرا ہوا جنت میں  پہنچ جاتا ہے۔ وہاں  وہ دیدارِ الٰہی سے  مشرف ہوتا ہے۔

جنت میں اُسے  قصرِ احمر، حور و غلمان کے  علاوہ’ ’شاہ خیر’‘  نامی ایک مشکی گھوڑا بھی عطا ہوتا ہے ( آر کی ٹائپل وجوہ کی بنا پر گاڑی نہیں  مل پاتی!)۔ ناول کے  دوسرے  باب ہی سے  وہ قضیہ شروع ہو جاتا ہے  جسے  ناول کے  اختتام تک چلنا ہے۔ نجم آفندی کے  بقول:

’’میرا ذوق کہاں  گیا؟‘ میں  اُس ذوق کی بات کر رہا ہوں  جس سے ، جمال و کمالِ دل کے  مطابق میں فنی محاکمہ کرتا تھا۔ کہانی کہتا تھا، شعر کہتا تھا اور تصویر کشی کرتا تھا، بدونِ نیتِ شرک، مجسمہ سازی کرتا تھا۔ بکھرے  ہوئے  عقلی قضیہ جات کی ترتیب سے  صورتوں  کی تصدیق یا تردید کرتا تھا۔ یہاں  تو عجوبہ بھی یافت ہی کی شکل میں  ہے، دریافت کہاں  چلی گئی؟ میری ایجاد کہاں  چلی گئی؟ میری تخلیقی صلاحیت کہاں  گئی جو میرے  ذوقِ فکر و نظر کی نقیب تھی’‘ ۔

ناول کے  بقیہ ابواب میں یہی ایک مسئلہ مختلف صورتوں  میں  اور پہلوؤں  سے  زیرِ بحث آتا ہے، اور بے  جا تکرار کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔

نجم آفندی کئی مسلم فلاسفہ اور صوفیاء سے  اُن کے  جنّتی محلاّت میں  ملاقاتیں  کر کے  ان کے  روبرو’’ مسئلہ ارتقا در فردوس’‘  پیش کرتا ہے۔ اُس کی ملاقات، البتہ، کسی غیر مسلم فلسفی و دانشور سے  نہیں  ہوتی۔ دیگر اسفارِ افلاک میں  البتہ ایسا ہوا ہے  مثلاً جاوید نامہ میں  اقبال، ’’ فرزانۂ المانوی’‘  جرمن فلسفی و شاعر نطشے  سے  ملتے  ہیں۔

کسی بھی شخصیت سے  اُسے  تسلّی بخش جواب نہیں  ملتا۔ دراصل نجم آفندی جنتی زندگی میں  یکسانیت سے  اُکتا جاتا ہے۔ وہ غور کرتا ہے  کہ فردوسی حیات میں  نعمتوں  کی تو افراط ہے  لیکن انسانی فعّالیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ اپنی کنیز ’’ حور العین’‘  کی روبوٹی (Robotic)

خوئے  تسلیم میں  بھی انکار دیکھنے  کا متمنی ہے ! وہ اسی بنا پر حور کے  جسمانی قرب سے  بھی کنارہ کش ہو جاتا ہے  تاوقتیکہ کہ وہ ’’استدلالی فکر’‘  کی خوگر نہیں  ہو جاتی۔ اُسے  ایک طوطا بتاتا ہے  کہ زمین پر وہ اپنی مرضی سے  چہکار پیدا کرتا تھا لیکن جنت میں  اُس پر جبر لاد دیا گیا ہے !

ناول کا اہم تریں  حصّہ نجم کی فلسفیوں  اور دیگر شخصیات سے  ملاقاتوں  اور مکالموں  پر مشتمل ہے۔ صاحبِ ذوق دیہاتی کاشتکار، منشا عزیز، جو جنت میں  بھی شوقیہ کاشتکاری اپناتا ہے، نجم کو بتاتا ہے  کہ زمیں  پر کاشتکاری کا زیادہ مزا تھا جبکہ فصل پکنے  نہ پکنے، وقت پر بارش ہونے  نہ ہونے، بیج کے  ضائع ہونے  کا دھڑکا رہتا تھا، جنت میں  بغیر کسی تردد کے  فصل پک جاتی ہے  اور تجربات سے  سیکھنے  سکھانے  کا کوئی موقع نہیں  ملتا!

نجم اپنے  مرشد کریم آغا کے  ساتھ صوفی جان محمد کے  محل میں  جاتا ہے  جو زمینی حیات میں، ساہیوال کے  دور افتادہ قصبے  میں  موچی کا کام کرتے  تھے  (’’شہاب نامہ ‘‘ کا جھنگ کا موچی) وہ نجم کا معاملہ سنتے  ہیں لیکن آخر میں  نجم سے  اُس کا جوتا برائے  مرمت لے  لیتے  ہیں  جو نجم کے  بقول تنگ ہو چکا تھا! اِس طرح صوفی جان محمد بھی اپنے  ذوق کو سینے  سے  لگائے  ہوئے  تھے۔

پھر نجم الگ الگ خیابانِ رومی اور خیابانِ اقبال کا مسافر ہوتا ہے۔ ہر دو سے  اپنا سوال دہراتا ہے  لیکن اُس کی تسلّی نہیں  ہوتی۔ ناول میں  اقبال کا فکری قد و قامت رومی سے  کہیں  بڑا ہو کر آیا ہے  حالانکہ اقبال رومی کو اپنا مرشد مانتے  تھے ! شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ رومی نے  زیادہ سے  زیادہ یہ کیا کہ الٰہیات کی چار دیواری سے  نکل کر تصوّف کے  باغ کی سیر کر لی یا علم الکلام سے  معاملہ کر لیا جبکہ اقبال نے  منطق، سائنس اور جدید مغربی فلسفے  کی گلیوں  میں  بھی چہل قدمی کی اور یوں  اقبال کی سوچ کثیر جہتی ہو چکی تھی ! اقبال کے  عہد تک ذہنِ انسانی کی متنوع کارکردگی اور عقل و شعور کی فعّالیت اپنے  بھرپور مظاہر دکھا چکی تھی(اور اب تو اور زیادہ دکھا رہی ہے ) شاید اسی لیے  یہ فکری قضئے  ہمہ جہت بھی ہیں  اور عملی نوعیت کے  بھی ! ویسے  بھی پورے  ناول میں  اقبال کی نظم ’’خفتگان خاک سے  استفسار۔ ‘‘ کے  سوالات چلتے  پھرتے  نظر آتے  ہیں۔

یہاں  تک پہنچ کر نجم آفندی اپنے  ارتقا کے  خیال پر اتنا پختہ ہو چکا ہوتا ہے  کہ مرشد آغا جان کے  سامنے  جنت میں  اصلاحات کا ۱۴ نکاتی ایجنڈا پیش کر دیتا ہے۔ ( قائد اعظم کے  چودہ نکات!)

مرزا غالب سے  نجم کی ملاقات بہت دلچسپ رہتی ہے۔ وہ نجم کا مسئلہ سن کر اُس سے  متفق ہوتے  ہیں  اور دوسری بار مرنے  کو تیّار ہو جاتے  ہیں !

ابنِ عربی سے  ملاقات میں  بہت سی علمی گفتگو ہوتی ہے  اور پھر ابنِ عربی کو نجم میں  ’’آدم ثانی’‘  کے  آثار نظر آتے  ہیں، اِسے  جنت کا روحانی مکاشفہ کہنا چاہئیے۔

ایک دن متکلم و فلسفی، ملا صدر الدین شیرازی خود نجم سے  ملنے  اُس کے  محل سرا میں  آتے  ہیں  اور اُس سے  مسئلہ ذوق پر گفتگو کے  متمنی ہوتے  ہیں۔ نجم کی بات وہ تسلیم کرتے  ہیں  اور اُسے  فقط دعا کی تلقین کر کے  رخصت ہو جاتے  ہیں۔

آخری باب میں  نجم آفندی اُسی شجر ممنوعہ کا کھوج لگا کر، بغیر ترغیبِ ابلیس کے، اس کا پھل کھا لیتا ہے  جس کا ابو البشر آدم نے  کھایا تھا۔ عہد نامہ قدیم میں  اسے  ’’جاننے  کے  درخت کا پھل’‘  کہا گیا ہے۔ اُسے  ایک نئے  منطقے  پر پھینک دیا جاتا ہے  اور کہا جاتا ہے  کہ اپنا شیطان، اپنے  ذوقِ تخلیق سے  خود پیدا کرو۔

یہاں پر ضیا ء حسین ضیاء کا حیرت کدہ ختم ہو جاتا ہے۔

پورے  ناول کی مکالماتی فضا الٰہیاتی اور صوفیانہ طرزِ فکر سے  بُنی گئی ہے۔ مرکزی کردار نجم (ناول گار)کہیں  بھی تشکیک کی روش  اختیار نہیں  کر سکتا کہ بہرحال وہ جنت میں  ہے  بلکہ اُس نے  جا بجا دنیا میں  تشکیک اور انکار رکھنے  والوں  کی بظاہر علمی تنقیص کی ہے۔ یوں  نجم بار بار اﷲ سے  رجوع کرتا اور رہنمائی کا طلب گار ہوتا ہے ! وہ نعمتوں  کے  تواتر کو رضائے  الٰہی کی دلیل بناتا ہے۔ حالانکہ یہی دلیل دنیا میں  لا ادری اور ناستک بھی دے  سکتے  ہیں  اور دیتے  بھی ہیں !

ساختیاتی حوالوں  سے  جائزہ لیں  تو ناول کی تعمیر میں  وہی ساختئیے  (کوڈز اور کنویشنز) کام آئے  ہیں جو ہمارے  آرکی ٹائپل صوفیا نہ مشرقی ادب میں  رہے  ہیں۔ جب ہم نَجم کے  آئینہ خانے  میں  جا کر خود کو عکس در عکس دیکھنے  اور وادیِ ناسوت میں  جانے  کی ساختیائی کھدائی کرتے  ہیں  تو نیچے  سے  فرید الدین عطار کی مثنوی’’ منطق الطیر’‘  کے  اجزا بر آمد ہوتے  ہیں۔ اسی طرح جہاں  نجم کی ملاقات الاؤ کے  گرد بیٹھے  چار فقیروں  (فرشتوں ) سے  ہوتی ہے  تو قصّۂ چہار درویش بولتا ہے۔ جنت کی فضا بندی اور حور و قصور کے  ذکر میں  قرآن اور فتوحات مکّیہ کا مواد کام آیا ہے۔ یعنی یہ ناول اپنے  خمیر میں  مشرقی ادبیات (الٰہیاتی و غیر الٰہیاتی) اور علم الکلام پر مبنی ہے۔ ناول پڑھتے  ہوئے  سب سے  دلچسپ وہ موازنہ ہے  جوقاری لا شعوری طور پر جنت کے  پیش کردہ ماحول اور موجودہ (پاکستانی) ماحول میں  کرتا رہتا ہے۔ جنت اور پاکستان کو ایک تطابق بھی ہے !ساہیوال کا موچی، علامہ۱قبال اوپن یونیورسٹی میں  علومِ اسلامیہ کا پروفیسر، تباہ کن زلزلہ وغیرہ پاکستان کے  جنتی حوالے  ہیں ! اسی مقام پر ناول میں  سماجی حقیقت نگاری کی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے، یا پھر بعض کرداروں  کی نفسیاتی ضروریات میں :

ناول، سبک رواں، دواں  نثر نہیں  بلکہ ادبی شان رکھنے  والی مرصّع نثر پر مشتمل ہے۔ اس میں  مذہبی، صوفیانہ اور فلسفیانہ اصطلاحات کی کثرت ہے۔ عربی و فارسی سے  بے  پناہ استفادہ ہے  اس طرح یہ ناول سوچنے  سمجھنے  والے  تربیت یافتہ قاری کے  زیادہ قریب ہے۔ ایسا قاری جو فکری ارتقا کی تاریخ سے  بھی واقف ہو۔ فقرہ بندی میں، البتہ، زیادہ مہارت سے  ترسیل بہتر ہو سکتی تھی۔

فنی اعتبار سے  بھی چند تسامحات ناول میں  در آئے  ہیں۔ جیسے  مرکزی کردار نجم آفندی کو پورے  ناول میں  شاعر، ادیب، مصوّر دکھایا گیا ہے  لیکن اختتام سے  ذرا قبل پتہ چلتا ہے  کہ وہ زمین پر ماہر زراعت بھی تھا۔ یہ ضرورت اِس لیے  پیش آئی کہ شجر ممنوعہ کو پہچاننے  کے  لیے  یہ علم درکار تھا۔ ناول نگار کو یہ گنجائش پہلے  سے  رکھنی چاہیے  تھی۔

دوسرا مسئلہ یہ اُٹھتا ہے  نجم کی حادثاتی موت اور قیامِ قیامت تک کے  عرصے  میں  ہونے  والا مفروضہ ارتقا ناول سے  غائب ہے۔ یہ اس لیے  بھی اہم ٹھہرتا ہے  کہ نجم کے  اعتراضات میں  سے  ایک یہ بھی تھا کہ ابھی اُس کا ارتقا جاری تھا اور وہ مر گیا!

تیسرا یہ کہ جنت کے  لا زمانی تصوّر پر سیر حاصل گفتگو موجود نہیں  حالانکہ محشر کے  بعد وقت کے  لا مختتم تسلسل کا سوچیں  تو سانس رُکنے  لگتی ہے۔

جستجوئے   استدلال پر کھڑے  اس ناول میں  شیطان کو آگ میں  جلتا ہوا بتایا گیا ہے۔ ، جس کی تخلیق ہی آگ سے  ہو ( جو خود نار ہو) اُس کے  لیے  آگ کا عذاب بے  معنی ہے  ! شیطان کے  لیے  عذاب یہ ہو سکتا ہے  کہ اُسے  سیاچن گلیشر میں  گاڑ دیا جائے۔

اسی طرح منشا عزیز کے  روبرو نجم کہتا ہے  کہ اُسے  فارسی زیادہ نہیں  آتی، لیکن مولانا روم کو بتاتا ہے  کہ وہ ان کا کلام ذوق و شوق سے  پڑھتا رہا ہے  بلکہ مثنوی کا پہلا شعر بھی سنا دیتا ہے۔ دیگر تسامحات سے  صرفِ نظر کرتے  ہوئے  یہاں  مناسب محسوس ہوتا ہے  کہ ہر من ہیس کے  نوبل انعام یافتہ ناول’’ سدھا رتھ’‘  کا ذکر کیا جائے۔ مذکورہ ناول میں  گوتم بدھ کو نہیں، بلکہ انہی کے  عہد کی ایک اور پاور فل شخصیت ’’ سدھا رتھ’‘  کو مرکزی کردار بنایا گیا ہے۔ وہ مہاتما بدھ سے  ملتا تو ہے  لیکن تلاشِ حقیقت کا اپنا ہی راستہ اختیار کرتا ہے، ناول کا مرکزی خیال ہی یہ ہے  کہ ہر طالبِ حق کا اپنا اپنا طریقہ اور اپنا اپنا جلوہ ہے۔ سدھارتھ کی زبان البتہ نہایت سادہ، علمی مسائل کی پیش کش عام فہم، ہے  اور دانش پاروں  پر اصطلاحات کا بوجھ نہیں  ڈالا گیا۔ اس کے  برعکس۔ ’’مابین’‘  کی زبان، بیانیہ اور متن خالص علمی بن جاتا ہے  جو کسی بھی ناول کی کمزوری کہا جا سکتا ہے۔

بہر حال، ضیا حسین ضیا نے  بہت جگہوں  پر اعلیٰ ادبی انداز سے  معیارات بھی بنائے  ہیں۔ اہم سوالات کھڑے  کیے  ہیں۔ علم کو ادب میں  ڈھالا ہے۔ اپنے  علم الکلام اور  تبحّر علمی سے  بہت استفادہ کیا ہے، میرے  خیال میں  اس ناول کا کم از کم فارسی میں  ضرور ترجمہ ہونا چاہیے۔

انوکھی جنتی فضا، محکم و مرصّع زبان و بیان، فلسفیانہ مکالموں  اور بعض نئے  افکار و سوالات کے  باعث۔ ’’ مابین’‘  اُردو ناول کی تاریخ میں  نئی جہت کا اضافہ کرتا نظر آتا ہے  اور اسی وجہ سے  اہم ٹھہرتا ہے  یہ ناول اس وجہ سے  بھی اہم ہے  کہ ناول میں  بہت سی اَن کہی موجود ہے  اور یہ ان کہی تیسری آنکھ والوں  کو ہی نظر آتی ہے۔ تیسری آنکھ جو الٰہیات کی چار دیواری سے  باہر کھلتی ہے۔ کسی نے  کہا ہے  کہ دنیا انہی کے  دم سے  ترقی کرتی آئی ہے  جو اس کی مخالفت میں  زور لگاتے  ہیں۔ کیا خبر کل کلاں  کو ضیا حسین ضیا  الٰہیاتی نظامِ فکر پر دائرہ منقولات سے  باہر کھڑے  ہو کر بھی تیسری آنکھ سے  نگاہ ڈالیں۔

٭٭٭

 

 

 

دروازہ گل: ایک اجمالی جائزہ

سیمیں کرن

 

’’دروازہ گل’‘  علامہ ضیاء حسین ضیاء کا ایک ادبی کارنامہ اس لحاظ سے  کہا جا سکتا ہے  کہ علم، دانش، فکرو فلسفہ اور اپنے  نئے  اجتہاد و اعتبارات کو روحانی، باطنی تجربوں  کی بھٹی میں  پکا کر ایک بہت بڑی فکر، ایک دھماکہ دار باطنی تجربے  کو ناول میں  پیش کرنا کوئی آسان امر نہ تھا مگر وہ اس سفر میں  کامیاب رہے  ہیں۔

’’دروازہ گل’‘  ایک بڑے  تخلیق کار کا بڑا کام ہے۔ دستک دیجئے  ’’دروازہ گل’‘  پہ اور ایک انوکھی دنیا میں  داخل ہو جائیے۔ جہاں  قدم بقدم آپ کو ٹھٹھکنا پڑے  گا، منجمد حیرتیں  آپ کو اپنی گرفت میں  لے  لیں  گی، ایک عجیب ڈکشن آپ کا استقبال کرے  گا، زبان و بیان کی نئی اصطلاحیں  آپ پر منکشف ہوں  گی۔ ضیاء حسین ضیاء اپنی ذات میں  ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں، وہ بیک وقت اپنی ذات میں  ایک ادیب، شاعر، مفکر، دانشور، مذہبی، اسکالر و صوفی ہیں  اور ادبی مجلہ ’’زرنگار’‘  کے  مدیر بھی، نفسیات فلسفہ اور تصوف خاص طور پر ان کا کار میدان ہے۔ ان کے  ادبی سرمائے  پہ بہاول پور یونیورسٹی اور فیصل آباد جی سی یونیورسٹی میں  ایم فل کی ڈگری دی جا رہی ہے۔

’’دروازہ گل’‘  بیک وقت ایک نفسیاتی، رومانی و جنسی ناول ہے  جہاں  تصوف اس طرح باہم گلے  ملتا ہے  کہ اسے  جدا دکھنا آپ کے  لیے  ممکن نہیں  رہتا۔

زبان و بیان کا ایک انوکھا آہنگ ایک کلاسیکل احساس ابتداء میں  اجنبیت اور مشکل لگتا ہے  مگر علامہ کا قاری جانتا ہے  کہ یہ اسلوب ان کی تحریر کا ہی نہیں  گفتار کا بھی ہے، اور عادی ہو کر یہ ڈکشن حرف و معنی کے  اک نئے  جہان کے  در وا کرتا ہے !حرف و لفظ اور جملے  پرت در پرت کھلیں  گے۔ ہر بار اک نئے  معنی کا لطف دیں  گے۔ محسوس ہو گا کہ یہ لفظ اس تخلیق کار پر کسی وحی کی صورت اتر تے  ہیں۔

انوکھی و دقیق اصطلاحات کے  باوجود ناول اپنے  پہلے  باب سے  ہی قاری کو اپنی گرفت میں  لے  لیتا ہے اور  وہ اپنے  کثیف بدن کو چھوڑ کر بدن لطیف کے  ساتھ رکھاری کی پینٹ کی نیوٹی تصویر میں  اتر جاتا ہے  !

جی ہاں  پہلے  باب سے  ہی لگتا ہے  کہ یہ کوئی حسین خوال ہے  کوئی خوبصورت منظر تصویر کیا گیا ہے۔ کیا رومان اور وہ بھی میاں  بیوی میں  اس درجے  کا بھی ہو سکتا ہے ؟اک خوبصورت رفاقت کا خواب، محبت کا جوہر حساس دل بلا تخصیص مرد وزن اپنی آنکھوں  میں  سجاتا ہے !

دروازہ گل نظر یہ محبت کو خدا مان کر اس کے  عوارضات کو دور تک بر کیر چلتا ہے  !خیال کا اک نیا معبد تعمیر کر دیا گیا نئے  اشارے  اور تمثیلات !جہاں  وجود کی ایک کروٹ اور لمس کی ایک سہ لوٹ سے  ہی معنی آفرین وسیع دسترخوان بچھا دیا گیا ہے  !

رومان اور جنس اس ناول میں  آپ کو دور تک ہاتھوں  میں  ہاتھ ڈالے  ملیں  گے  مکر یہ کیسا جنسی ناول ہے  جہاں  سٹا بازاری بن پن کہیں  دور دور تک نظر نہیں آتا، جہاں  عورت کو ’’بازار جنس’‘ کی جنس سمجھ کر اس کے  بدن کو زیر بحث نہیں  لا گیا۔ اس کے  برعکس یہ رومال اور جنس کو اپنی پہلی  بیوی عطیہ اور ہر ’’دوسری’‘ بیوی ڈاکٹر انیلا کے  گرد گھومتے  ہیں ، گویا ضیا حسین ضیا لا شعوری طور پر اپنی جنسی حدود کو مستعین کر کے  چلتا ہے  !اور ناول کی زبان و بیان اور پیرائے  آپ کو احساس دلاتا ہے  کہ یہ کام سیکس اور عام محبت سے  بہت دور معیار اسے  کھیلتا، نئے  معیارات تعمیر کرتا اک دروازہ ہے  جو خوشبو  کی سیاحت کی خبر دیتا ہے  !

اور میرا یہ ماننا ہے  کہ عملی تنقید سے  اس ناول کی فضا کو نہیں  سمجھا جا سکتا ! بالکل ویسے  ہی جیسے  کسی اچھے  شعر کو بھی عام اصطلاح میں  مفید نہیں  کیا جا سکتا!

یہ کوئی عام سی محبت کی کہانی نہیں  ہے ، یہ نظر یہ تحویلیت کیا ہے  علامہ صاحب کی زبان میں  دیکھئے

’’اگر کوئی بھی نظر خواہ اقتصادیات کا ہو یا شماریات کا، لوگ اس کی شاخوں  کو زندگی کے  تمام واقعات پر منطیق کرنے  کی بے  تکی کوشش کرتے  ہیں !مگر وجودی سطح پر ہر وجود کسی دوسرے  وجود کی قید یا تحویل میں  ہوتا ہے۔ اثرات میں  ہوتا ہے ، اس کے  مدارج بنتے  ہیں ‘‘ گویا بقول ضیا حسین ضیا نظر یہ تحویلیت و محبت مجاز کی سیڑھی چڑھتے  ہوئے  محبت اور خدا کے  بارے  میں  خود سپردگی کی شکل ہے !

یہ کہانی اک عقلی اور نفسیاتی راہنما کی ہے

اک نفسیاتی سائنسدان کے  محبت پہ تجربوں  الیموں  کی داستان ہے

’’عکس اور آئینہ’‘ کے  بات میں  اسی ضمن میں  ضیا حسین ضیا رقم طراز ہیں

’’آئینے  !جیسے  سائنسی ایجادات کی وسعت اور ضرورت ختم نہیں  ہو سکتی ویسے  نفسیاتی ایجادات کی ہی بے  محرم اور غیر اخلاقی نہیں  کہا جا سکتا۔۔۔  ہاں  میں  یہ بات ضرور تسلیم کرتا ہوں  کہ عامی لوگ اس نفسیاتی شریعت میں  نہ داخل ہوں  اور نہ اس کے  ارکان پہ ایمان لائیں۔۔۔ یہ نفسیاتی سائنسدانوں  کا کام ہے  کہ وہ دیکھیں  کس طرح نوع بشر کو ذہنی بیماریوں  سے  نجات مل سکتی ہے۔۔ کس طرح سے  بے  چینی روحوں  کے  لئے  سکون کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے ، یہ بھی انسانیت کی خدمت ہے  یہ تصورات کی توسیع ہے ، یہ نگریات کی افزائش ہے۔۔۔

اور یہ بھی یاد رکھو !نئے  تجربات اصل رشتوں  میں  نہیں  کر رہا ہوں  بلکہ نقلی رشتوں  میں  اصلی رشتوں  کی پیوند کاری کر کے  ازدواجی درخت کی نئی بنت اور اس کی روئیدگی کا شاخ در شاخ پتوں  پھولوں  اور پھلوں  کی تبدیلیوں  کا تجربہ کرنا چاہ رہا ہوں !۔۔۔ اور اگر اس تجربہ میں  میر ی بیوی عطیہ میرا ساتھ دے  رہی ہے  تو غیرت بے  جا کا مقدمہ کھڑا کر کے  میری تحقیق میں  رکاوٹ بننے  کی مرتکب نہ بنو’‘

یہ ایک ایسے  فلسفی اور نفسیاتی سائنسدان کی رومانوی داستان ہے  جو اپنا جنسی اجتہاد کرتا ہے  اپنی جنسی جیسی شریعت مرتب کرتا ہے  اور اک طرفہ یہ دعوی کرتا ہے  کہ ’’مجھے  اپنی ذہنی محبت یہ اجازت دیتی ہے  کہ میں اپنے  لحاف اور کمبل کے  اندر اپنی شریعت اور نفسیاتی دین سے  الگ بنا سکوں۔۔۔ جاہل آئینے  !مجھے  کا ہے  کو کوسے  جا رہے  ہو تمہیں پتہ ہی نہیں، ہر کمبل اور ہر لحاف اور ہر بیڈروم کی اپنی اپنی دینی شریعت اور الگ الگ نفسیاتی تبلیغ ہوتی ہے  جس میں  آپ وہ نبی آپ کتاب اور آپ امتی ہوتا ہے ‘‘

اور دوسری طرف آئینہ اور عکس کے  بات میں  یہ لا تنزیہی دیکھے

’’تم نے  نفسیاتی کی سرزمین میں  وہ پودا بھی لگایا جو بیج اور پھل دینے  کی طرف نہیں  جائے  گا بلکہ اس بیج سے  جتنی شاخیں  پھوٹیں  گی اس سچ سے  جتنی بھی روئیدگی ہو گی سبزہ نکلے  گا وہ آسمان کی طرف نہیں  جائے  گا بلکہ خو د ہی اپنے  ارد گرد لپیٹا ڈال لے  گا۔۔۔ نہ خود میں  حالت ہو گی نہ غیر کے  لیے  حکم ہو گا۔۔۔ اجنبی پودا۔۔۔ استفادہ کے  لیے  محال۔۔۔ ایسے  ہی جیسے  کوئی خول۔۔۔ سر افگندہ۔۔۔ اور منفرد سا ہو جائے۔ پروفیسر تمہارا لحاف اور تمہارا ذہن تقسیم ہو گیا۔۔۔ تمہارے  اعتبارات اور تسلیمات کا چہرہ سرکس کے  کسی انبار مل آدمی کی طرح بڑھ گیا ہے۔۔۔ تم انسان کے  حاصل اعتبار میں  نقب لگا چکے  ہو، کم رشتوں  میں  نئی گرہیں لگا رہے  ہو’‘

آپ نے  غور کیا، اک نفسیاتی سائنسدان اعتراف کر رہا ہے  کہ یہ اس کے  انفرادی تجربے ، یہ غیر کے  لیے  بے  حکم۔۔۔ اور ناول کا انجام بھی اس بات کا اصرار کرتا ہے  کہ صدیوں  سے  طے  شدہ تعبیرات اور اعتبارات کو چھیڑنے  سے  انسانیت کی عمارت زمین بوس ہو جائیگی۔

مگر علامہ صاحب کی تمام تر مشاقی کے  باوجود اس فلسفی اور نفسیات دان کی آڑ میں  چھپے  صوفی کو باریک بین قاری دریافت کر ہی لیتا ہے !

بقول ضیا حسین ضیا یہ تجربہ تو اصل رشتوں  میں  نہیں ، حرمت کے  اصلی رشتوں  میں  پیوند کاری نہیں ، اپنی بیوی عطیہ کے ساتھ الگ الگ پیالوں کی بجائے  ایک ہی برتن میں  جام محبت پینے  کی آرزو ہے !

اک ہمہ گیر اور بڑا ذہن اپنی بیوی سے  گر ایسی ہمہ جہت محبت مانگتا ہے  تو اس میں  ایسی انوکھی بات کیا ہے ؟؟

مگر ناول کا بغور مطالعہ خود اس سوال کا جواب دیتا ہے  ! لمس اک آفاقی علامت ہے  علامہ کے  ہاں  اور یہاں  ان کے  تجربوں  نے  ان کے  ہاتھ معرفت کے  وہ پھول گل و گلزار بکھیرے  ہیں کہ وہ دروازہ گل وا کرنے  میں  کامیاب ٹھہرے  ہیں  مگر اک صوفی جانتا ہے  کہ اس کا تجربہ انفرادی محبت ہی رہے  گا، وہ حکم یا نص نہیں  بن سکتا!

وہ جانتا ہے  کیفیت نے  اس کا جام لباب بھر دیا ہے  مگر وہ اس جام میں  کسی کو شریک نہیں  ٹھہرا سکتا!

وہ آئینے  کے  روبرو اعتراف کرتا ہے  کہ اس کے  نتائج سچ ہیں اس کا علم بھی سچ! اس سچ سے  روئیدگی اور سبزہ بھی پھوٹے  گا مگر اپنے  تجربوں کو وہ چھپا کر کہتے  ہیں  کہ یہ آسمان کو نہیں  جائیگا۔

باب مزاج گل شاخ گل سے  پوچھو

وہ ایسا کیوں  کہتے  ہیں ؟ ناول میں  اسی سوال کا جواب بطور اک صوفی ضیا حسین ضیا یوں  دیتا ہے۔

’’میرا کہنے  کا مقصد یہ ہے  کہ گر کسی شخص کو تجلی حق ہونے  کا دعویٰ ہو جائے  تو اس کا ثابت کرنے  کے  لیے  اس کے  پاس کیا ذرائع ہیں  مرحلہ اول میں  وہ اپنی واردات میں  کسی شریک بھی نہیں  کر سکتا مرحلہ دوم میں  اگر وہ اس کو بیان کرتا ہے  تو اس کی نظائر اور تائید کی نصوص کہاں  سے  لائے  گا اور تیسرا اس بات کو ثابت کیسے  کرے  گا کہ وہ جو کہہ رہا ہے  وہ جھوٹ نہیں  کہہ رہا نہ ہی شیطانی شوشہ کے  زیر اثر کہہ رہا ہے۔ شیخ ابن عربی جیسے  فاضل کا مسئلہ ہی یہ ہے  کہ وہ نفس انسانی کے  پاتال میں  اترے  اور انسانی نفس کی سفلی اور تنزیہی صفات کا مطالعہ کیا اور دوسری طرف انہوں  نے  نفس مطمئنہ کی منڈیر پہ بیٹھ کر ذات حق کو تجلی میں  جذب کیا۔ ‘‘

تو ضیاء حسین ضیا ء نے  بھی یہ سفر انسانی نفس کے  ساتھ کیا اپنے  ہمزاد کے  ساتھ کیا۔ ناول کا انتساب بھی اپنے  ہمزاد کے  نام ہی ہے۔

آغاز میں  درج ہے، یہ اس شخص کی کہانی ہے  جو مفروضے  سے  محال ہدف بھی شکار کر لیتا تھا، اس کا راستہ تو دلیل بھی نہ روک سکی، اچانک ایک دن اسے  وجودی برہان نے  آ لیا اور پھر۔ ‘‘

پروفیسر راجہ، عطیہ اور انیلا انہی تین کرداروں  کے  گرد گھومتا ہے  یہ ناول اور عطیہ کون ہے ؟ عطیہ ایک پہیلی ہے  اپنے  قاری کو مجبور کرے  گی کہ وہ لمحہ بہ لمحہ ٹھٹھک جائے، رک جائے، عطیہ یا عطا رفاقت کا وہ دھڑکتا خواب ہے  جو بہت سے  سینوں  میں  چھپا کنڈلی مارے  بیٹھا ہے، یہ مصنف کا بھی خواب ہے  مگر اس خواب کو زبان دینے  کی ہمت و وسعت جو علامہ صاحب کے  ہاں  نظر آئی وہ بے  نظیر ہے۔

آپ سوال اٹھا سکتے  ہیں  کہ ناول کی پہلی اوپری سطح پہ کہ کیا یہ خود لذتی پہ مبنی ہے ؟ خود لذتی جیسے  حساس موضوع کو چھیڑنے  کے  لیے  جس مہارت و مشاقیت کی ضرورت وہ ضیاء حسین ضیاء کے  پاس وافر ہیں  ورنہ ذاتوں  اور بدنوں  سے  اٹھنے  والا تعفن ناک سڑا دے۔ مگر مطالعہ گر گہرائی سے  کیا جائے  تو آپ کے  ہاتھ تصوف کا ایک جہاں  لگتا ہے  جہاں  محبت کی اکائی وحدت الوجود کی گھاس کاٹتی نظر آتی ہے۔

باب جسم کی منڈیر پر۔

راجہ اور انیلا کا یہ مکالمہ ملاحظہ ہو۔

’’چلو اچھی بات ہے، اگر تم مجھ پر ایمان رکھتی ہو، ہم محبت کا ایک مضبوط خدا بنا سکتے  ہیں  اور اس کی پوجا اپنی مرضی سے  کر سکتے  ہیں، سر کہیں  نہ کہیں  میں  آپ کی ’’روح شریک’‘  ہوں، آپ نے  جو آخری بات کی ہے۔ یہ وجودی تصوف کے  اطراف میں  اگی گھاس کھا کر جوان ہوئی ہے۔ ‘‘

ناول پڑھ کر آپ کو علامہ ضیاء حسین ضیاء کے  دوران جھانکنے  کا پورا دروازہ وا ملتا ہے  اور لگتا ہے  کہ پروفیسر راجہ کے  کردار کو علامہ نے  لاشعوری طور پہ خود کو سامنے  رکھ کر تراشا ہے۔ اتنا مضبوط کردار کہ جس کی عظمت کے  آگے  مصنف خود سر نگوں  ہے۔ ہمہ دانیت فلسفہ و تصوف اور علمی قابلیت کے  عوامل سے  سجا یہ کردار بہت زندہ اور خوبصورت ہے، ہر بڑا رائٹر اپنے  کسی نہ کسی کردار میں  ہی چھپا مل جاتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے  کہ اس کردار کو لکھاری نے  بہت گنجائش دی ہے  ورنہ اس طرح کے  نفسیاتی کردار اپنی وجاہت اور علمیت کھو دیتے  ہیں  ان کے  اطراف ان کے  عوارض کی خبر دیتے  ہیں  مگر یہاں  آپ کو کرداروں  کی بھرمار نہیں  ملے  گی، بڑے  تنہا و یکتا کردار ہیں  اسرار کی دھند میں  لیٹے۔

لا ہور کے  پس منظر میں  لکھا گیا یہ ناول جانے  کیوں  لگتا ہے  کہ ایران کے  گلابی جاڑے  اور مہکتی شامیں  گھل مل گئی ہیں۔ علامہ ضیاء حسین ضیاء کا ڈکشن، اسلوب، بیانیہ منفرد اور حیرت انگیز ہے  مگر کہیں  کہیں  اس پر شکوہ بیانیے  میں  پنجابی کے  الفاظ کچھ اجنبی اور گراں  گزرتے  ہیں  کہ وہ بیانیے  سے  میل نہیں  کھاتے۔ اسی طرح انگلش اصطلاحات کے  غلط Spelling بھی تحریر کے  تاثر کو خراب کرتے  ہیں، اگلے  ایڈیشن میں  ان جگہوں  پہ اور جہاں  کرداروں  کی کچھ تکنیکی غلطیاں  ہیں  جیسے  کمرہ امتحان میں  پیپر لینے  میں  آدھا گھنٹہ ہے  اور اگلے  لمحے  وقت غلط بتایا گیا، ان امور پہ توجہ دی جانی چاہیے۔ اسی طرح پروفیسر راجہ کا کردار علم و معرفت کی جن بلندیوں  کو چھو آتا ہے  اور اس کے  ارد گرد موجود دونوں  عورتیں  انتہائی مضبوط، تعلیم یافتہ ہیں، ڈاکٹر انیلا تو ان کی کولیگ (College)ہیں، خودمختار، اپنی گاڑی ہی نہیں  زندگی میں  بھی ڈرائیونگ سیٹ پہ ہیں، وہاں  کچھ مکالمات ایسے  ہیں  جو عورت کے  باب میں  تحقیری رویہ اختیار کر لیتے  ہیں  جو قاری کے  لیے  اک دھچکا باعث ہوتے  ہیں  جیسے۔

’’اری نادان عورت! تو فلسفی کیوں  نہ ہو جائے  آخر کو تو جذبات کی دیوی ہی نکلے  گی۔ تیرا اپنا تصور یہ ہے  کہ اپنے  وجود اور نفسیات کی متضاد قدروں  میں  ایک ہی وقت میں  مصر ہو جاتی ہو، پھر کبھی توہین کرواتی ہو، کبھی جہالت کے  ہاتھوں  زد و کوب بھی ہو جاتی ہو مگر اول و آخر تمہارا مدعا اور چرچا جذبات کا پیش منظر ہی ہوتا ہے۔ ‘‘

اور اسی طرح

’’انیلا! اول و آخر تو وہ عورت ہی ہوتی ہے  نا! اور وہ نشیب ہے  اور نشیب کو کوہساروں  کو منہ چڑھانے  کی عادت نہیں  رکھنی چاہیے۔ لیکن جب تک تم راضی نہ ہو، کا یہ مکالمہ دیکھیے، عطیہ راجہ سے  مخاطب ہے۔

’’راجہ! مرد عورت کے  علم، فضل اور کمال کو محبت سے  سنتا ہے  اور قبول کرتا ہے  کیونکہ عورت جب بھی فضل و کمال کی بات کرے  گی مرد کو عور ت کے  ذمہ لگاتے  ہوئے  دوسرے  کام یاد آنے  لگتے  ہیں  اور مرد نے  طے  کر رکھا ہے  کہ وہ عورت کی علمی دسترس اور اپروچ کو نہیں  مانے  گا۔ ‘‘

اسی طرح

’’مرد کب تک راجہ علم کا جواب عورت کو وجود اور جسم کی رشوت دیکر دیتا رہے  گا۔ ‘‘

’’آنسوؤں  میں  جلتی لویں ‘‘ باب کے  یہ جملے  میں  بھی دیکھیے

’’مرد نے  ہمیشہ دوسری عورت کو کار خیر کی طرح سمجھا ہے۔ دوسری عورت کو دیکھ کر مرد کو اپنی ذہنی بدنی ضرورتیں  بہت یاد آتی ہیں  ایسی ضرورتیں  جن کی تکمیل اگر نہ بھی ہوتی تو اس کی کاملیت میں  کوئی فرق نہیں  پڑنا ہوتا۔ ‘‘

کیا ان مکالموں  سے  یہ انداز نہیں  ہوتا کہ اک مفکر بدن سے  اوپر ہو کر عورت و مرد کی نفسیاتی کمزوریوں  اور ہمارے  سماج کے  معروف رویوں  کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ؟

یہ ایک ایسے  دماغ کی کہانی ہے  جو

’’بدن کی کشتی پہ اگر ذہن جیت جائے  تو وہ رہن عام آدمی کا نہیں  ہو سکتا، وہ کسی مرد کامل اور فقر کے  مرد اسلوب کا ہو سکتا ہے۔ ‘‘

اور وہ اعتراف بھی کرتا ہے  کہ

’’وجود کو خواہش اور خواہش کو وجود سے  کب تک روکا جا سکتا ہے۔ ‘‘

اور وقت آتا ہے  کہ و اس کے  ذہن و بدن کی کشتی دو عورتوں  کے  درمیاں  پھنس جاتی ہے۔ عطیہ، اس کی ہمزاد ہم نشیں، اس کی محبوبہ، اس کے  جنسی اجتہاد میں  برابر کی شریک۔۔۔  اک کیفیت کی عورت ہے !

انیلا موجودہ زمانے  کی پڑھی لکھی ماڈرن، کلچرڈ عطیہ ہے  ایک قدم آگے  اس لیے  کھڑی ہے  کہ راجہ کی آرزو پہ اس کو بچہ دینے  کی اہل ہے۔ وہ ڈاکٹر راجہ جو بچے  کی شدید آرزو میں  ’’وجودی برہان’‘  سے  ٹکرا گئے۔ انیلا میرے  ذہن کی حکومت بہت بڑی ہے۔۔۔  وہاں  اس سے  بھی بڑے  بچے  پیدا ہو چکے  ہیں۔ تم بس وجود میں  اچانک بسا مجھے  میرا ’’تیرا’‘  ’’لادو’‘  مگر راجہ کے  ذہن پر تاوقت آخر حکومت عطیہ کی ہی رہی۔

’’ وہ عورت پریشان نہیں  ہو گی راجہ تو اور کیا ہو گی؟ جس کا شوہر دس سالہ رفاقت اور کئی سالہ ’’جنسی اجتہاد’‘  کرنے  کے  بعد نئی بیوی لانے  کے  چکر میں  بے  وفا ہو جائے  اسے  سزا تو ملنا ہے  مگر طریق کار مختلف ہو سکتا ہے۔ ‘‘

چوکیدار کا بار بار کہنا ’’الہی رحم کرنا بڑا کتاب خواں  آدمی ہے۔ ‘‘

اور آخر میں  ناول کا اختتام گو کہ منطقی ہے، راجہ اک ذہن کا نام جسم پہ فتح روح اور ذہن نے  ہی پانی تھی، وجودی برہان کے  متصادم کھڑے  اعتبارات کا یہی انجام ہونا تھا۔ مگر ڈاکٹر راجہ کا ڈاکٹر انیلا کو ایک رات کی سہاگن بنا کر عمر بھر کے  لیے  ایک جوگن و بیراگن بنا کر اک غیر فطری زندگی کے  حوالے  کر دینا، قاری کے  لیے  اک رنج و غصے  اور خلش کا سب بنتا ہے  کہ ڈاکٹر انیلا کے ساتھ سچائی وکردار کی عظمت دعویٰ کرنے  والا، اس رشتے  کی بنیاد ہی اک جھوٹ پہ رکھتا ہے  اختتام بالکل ایسے  ہے  کہ جیسے  راجہ نے  یہ سب سوچ رکھا تھا، پھر انیلا کیا محض ایک چارہ تھی؟ ایا کسی کمزور لمحے  میں  عطیہ جیت گئی اور المناک انجام کو ڈاکٹر راجہ گلے  لگا بیٹھا؟

یہ خلش باقی رہتی ہے ! ناول کے  اختتام کے  بعد بھی دل میں  خراش ڈالتی ہے۔ بہر حال اک بظاہر رومانوی کہانی کا سہارا لے  کر علامہ ضیاء حسین ضیاء نے  فلسفہ، نفسیات و تصوف کے  اپنے  باطنی تجربوں  کو ناول میں  جا بجا ایسے  پرویا ہے  کہ یہ عمل بالکل مینا کاری کے  مترادف ہے۔

’’پرندوں  کی بولی’‘  سے  یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے۔

مگر اول و آخر اس گھر میں  محبت نے  خدا کے  صفاتی اسماء سے  رحم و کرم اور رحمان و ودود کی صفات کے  پرچم اٹھا رکھے  تھے۔۔۔  اس گھر میں  خدا جب بھی بولا محبت کی زبان بولا اور محبت بھی اس گھر میں  بولی خدا کی زبان میں  بولی۔۔۔  اس گھر میں  تکوینی آثار محبت تھے  اور شرعی اعتبارات محبت بھی تھے۔ ‘‘

اسی باب کی چند اور لائنز ملاحظہ کیجئے۔

’’عطیہ اسکیس اور علم کے  مابین پرندوں  کی بولی ہے۔ جو معنویت کی بولی ہے۔۔۔  یہ وہ وقت ہوتا ہے  کہ برے  سے  برا مرد اور بری سے  بری عورت بھی اپنے  لاکرز کو آن لاک کرنے  پہ مجبور پاتی ہے۔ اسے  اپنی لمحوں  میں  پکڑ لو حسیات سے  پکڑ لو اور علم تک لاؤ۔۔۔  علم کو لمس کی بھٹی میں  ڈالو۔۔۔  اور محسوس تک لاؤ۔۔۔  میں  اسے  پرندوں  کی بولی کہتا ہوں۔

’’حاشیہ اپنی زباں  بول گیا’‘ باب سے  چند لائنز

’’اس مکالمہ آمیز ٹیبلو میں  میں  نے  یہ حقیقت پیش کرنے  کی کوشش کی ہے  کہ انسانی اعتبارات، دینی احترامات، رسوم و رواج اور ذہن انسانی میں  ان کی تہہ شدہ تقسیم اور تبویب کسی بھی خارجی عامل کے  آنے  سے  خراب ہو سکتی ہے۔ ‘‘

ایک مضمون میں  شاید اس ناول میں  بند سارے  گوہر پاروں  کو سارے  نگینوں  کی چمک دکھلانا میرے  بس میں  نہیں  ہے۔ اپنی چند تکنیکی خامیوں  کے  باوجود بلا شبہ دروازہ گل ایک بڑا ناول ہے  جس کو اردو ادب میں  وہ مقام نہیں  ملا جس کا یہ اہل ہے۔

٭٭٭

 

 

 

افسانہ

 پانچ نہیں۔۔۔ چھ !!

ضیاء حسین ضیاء

 

سبھوں  کے  چہروں پر حیرت سراسیمگی اور خوف میں  تبدیل ہو رہی تھی۔ کلام مسلسل اپنی دھار کو آزما رہا تھا۔۔۔ کئی سماعتوں  کی رگیں  اس سے  کٹ رہی تھیں۔۔۔ مگر حیرت خوف کا کمبل اوڑھنے  کو تیار تھی مگر شوقِ سماعت سے  دستبردار ہونے  کو تیار نہ تھی۔۔۔ سو قصۂ مردانِ حُر بھی جاری تھا اور مقتل اور اس میں  دوڑتے  سرپٹ گھوڑوں  کے  نعل بھی بج رہے  تھے۔۔۔ یہ بیان و کلام اور سماعت و شنوائی کا قصہ تھا۔۔۔ سب سماعتیں  ایک دوسرے  سے  جڑی کلا م و بیان کے  رشتوں  سے  اپنی اپنی تاثر قبولی کا سامان قائم رکھے  ہوئے  تھیں۔۔۔

چبوترے  پر سادھو شاہ دین دیوار سے  ٹیک لگائے  بیٹھا تھا۔۔۔ اس کے  اردگرد اس کے  کلام و بیان کے  مشتاق اور رسیا گاؤں  کے  لونڈے  جمع تھے۔۔۔ یہ وہ لونڈے  نہیں  تھے۔۔۔ جو گلیوں  کی آوارگی کی شہادت ہو جاتے  ہیں۔۔۔ یہ وہ لونڈے  تھے  جو قصہ و تمثیل اور واقعہ و بیان کے  عاشق اور کسی سچے  حرف اور کسی معجزانہ واردات کی رونمائی دیکھنے  کے  لیے  کسی بھی وقت اپنی چشمِ تماشا اور حیرت کی کوکھ ہوا کے  سرد ہاتھوں  یا موسمِ گرما کی لو کو دان کر سکتے  تھے۔۔۔

سادھو شاہ دین کو کہانی کہنے  اور بیان کا تھان کھولنے  کا فن آتا تھا۔۔۔ کہانی گرم لفظوں  کی بھٹی میں  ڈھالتے  ڈھالتے  خوف اور موت کا وہ ذکر آلود مقام آ گیا کہ سادھو شاہ کو رُکنا پڑا۔۔۔ موت اور اس کا انتقام اس وقت کہانی کے  مرکز میں  سے  پوری طرح نکل آیا تھا۔۔۔ اور مشتاق مگر ڈری ہوئی سماعتوں  کو کھا رہا تھا۔۔۔

سادھو شاہ دین کو انسانی وجود کی’ خبریت‘ کی کہانی پتہ نہیں  کون پڑھا گیا تھا۔۔۔ اور اسے  لفظوں  کی نسبت اور زبان کی دسترس پتہ نہیں  کہاں  سے  مِلی تھی۔۔۔ مگر جہاں  سے  بھی ملی تھی سادھو شاہ نے  ’’وجود’‘  کو اخبار بنا دیا تھا۔۔۔ وہ وجود سے  جڑی روز ایک کہانی اپنے  ساتھیوں  اور دوستوں  کو سناتا۔۔۔ رات گئے  تک یہ محفل برپا رہتی۔۔۔ اور گھروں  کو جاتے  وقت کہانی سننے  کے  سارے  دیوانے  خوف کی بوجھل چادروں  کو اوڑھے  گھروں  کو سدھارتے۔۔۔ کچھ ایسے  بھی تھے  جن کو ان کے  دوست گھر پہنچا کر آتے۔۔۔

سادھو شاہ دین چٹا اَن پڑھ نوجوان تھا۔۔۔ مگر بڑی زرخیز اور معرفت خیز گفتگو کرتا تھا۔۔۔ وہ سارا دِن چوہدری شکورے  کے  کھیتوں  میں  کام کرتا اور رات کو چبوترے  پر آ کر بیٹھ جاتا۔ گاؤں  کے  اَدھ پڑھے  اور تھوڑا پورے  پڑھے  لڑکوں  نے  سادھو شاہ کو ابتداء میں  بالکل جاہل، گنوار گردانا۔۔۔ مگر جب سادھو شاہ سے  سنی باتیں  وہ اپنے  استادوں  سے  پوچھتے  تو وہ تصدیق کرتے  کہ یہ کسی عام پڑھے  لکھے  بندے  کا کلام و بیان نہیں۔۔۔ سو تب سے  معرفت میں  ڈھلا ایک کہانی کار اور بیان آثار گاؤں  کے  علم دوست اور کہانی پسند لڑکوں  کو بھا گیا تھا۔۔۔ خیر صلا سے  کبھی سادھو شاہ کہانی کہتا اور کبھی گہری ڈونگی باتوں  کی سان پر چڑھا بیان بولتا۔۔۔ سادھو شاہ کو حیرت پیدا کرنے  اور سننے  والوں  کے  حواس ضبط کرنے  میں  یدِ طولیٰ حاصل تھا۔۔۔ وہ جوان تھا۔۔۔ داڑھی بڑھی ہوئی۔۔۔ اور کپڑے  ہمیشہ ملگجے  رہتے۔۔۔ کوئی گھربار اور رشتہ و پیوند گاؤں  میں  اس کا نہیں  تھا۔۔۔ وہ کہا کرتا تھا کہ کچھ رشتہ دار اس کے  ساہیوال کے  ایک گاؤں  میں  رہتے  ہیں۔۔۔ اور بس!!

افضل کموکا، اشرف، مجیدآرائیں، عبداللہ، اشرف اور سجاد تو اس کے  پکے  سامعین تھے۔۔۔ اور سادھو شاہ کے  ایک ایک حرف پر یقین اور اعتبار رکھتے  تھے۔۔۔ انھوں  نے  اگرچہ سادھو شاہ کو نہیں  بتایا تھا مگر آپس میں  ان کی متفقہ رائے  تھی کہ وہ بہت بڑا گیانی، ولی اور مرشد بننے  کے  عمل سے  گزر رہا ہے۔۔۔ کسی بھی وقت اس کو ’بڑ کا گیان ‘مِل سکتا ہے۔۔۔ سو سادھو شاہ کے  سامنے  ادب سے  بولنا اور حضوریت سے  سننا ان کی مجبوری ہو گیا تھا۔۔۔ سادھو شاہ اپنے  رنگ اور نیاز میں  اپنی ہی بولی اور اپنا ہی قول بنانے  کا ماہر تھا۔۔۔

آج چودھویں  کی رات تھی۔۔۔ رات کے  دس بجے  کا وقت۔۔۔ گاؤں  کی نیم پختہ اور کچی چھتوں  پر چاند نے  اپنی چاندنی کا لیپ پھیر دیا تھا۔۔۔ اب خاکی مٹی چاندنی رنگ ہو کر سونے  کے  ہلکے  رنگوں  کا تماشا دے  رہی تھی۔۔۔

کہانی خوف کے  ایک مقام پر آک رُک گئی تھی۔۔۔ سبھوں  کے  چہرے  پر وحشت اور خوف چھایا ہوا تھا۔۔۔ سادھو شاہ نے  دور چاند کے  پیٹ میں  اپنی اُنگلی گھسیڑتے  ہوئے  کہا۔

’’بھائیو! آج میں  کہانی مکمل نہیں  کر سکوں  گا۔۔۔ اس کی جگہ آج میں  آپ کو موت کی واردات اور آمد کا احوال بتاتا ہوں۔۔۔ پہلی بات تو یہ کہ ہر شخص کی موت الگ ہوتی ہے  دوسرے  سے، اگرچہ دونوں  کو ایک ہی طرح موت کیوں نہ آئے۔۔۔ بیماری سے  یا قتل سے۔۔۔ موت کا ذائقہ شروع میں  تلخ ہوتا ہے، ناقابلِ بیان، ناقابلِ شناخت مگر دُرد اور تکلیف کی انتہا میں  جب انسان سے  اس کا اپنی حفاظت کرنے  کا ارادہ چھٹ جاتا ہے۔ اس وقت موت اس پر آسان ہونا شروع ہو جاتی ہے۔۔۔ یہ جو بعض بڈھے  دو دو دِن موت سے  کشتی کھیلتے  رہتے  ہیں۔۔۔ اور سانسوں  کی تسبیحیں  رولتے  رہتے  ہیں۔۔۔ ان کے  بہت اندر سے  جینے  کی خو نہیں  جاتی۔۔۔ ارادہ نہیں  مرتا۔۔۔ زندگی کا پیار نہیں  جاتا۔۔۔ اس لیے  ان سب کو یہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔۔۔ ‘‘

بیان اپنی پیک پر جا کر رک گیا اور سننے  والے  لڑکوں  کو لگا کہ سادھو شاہ کسی درخت کی مچان پر چڑھ گیا ہے  اور ان کے  کان خوف کی سائیں  سائیں  میں  تحلیل ہوتے  جا رہے  ہیں۔ افضل کموکا ہمت کر کے  بولا  :

’’سادھو شاہ! جو بڈھے  آن کی آن میں  ہاتھوں  ہاتھوں  میں  موت کھا جاتے  ہیں۔۔۔ وہ کیوں  اتنی آسانی سے  چھوٹ جاتے  ہیں ؟’‘

سادھو شاہ نے  اپنے  ایک ہاتھ کی مکی بنائی۔۔۔ پھر اس کو ہونٹوں  پر فٹ کر کے  کھانسنے  لگا۔۔۔ ماحول پر ایک ایک لمحہ جست کر کے  وار کرنے  لگا۔۔۔ سادھو شاہ نے  پھر چاند کی طرف اپنی نظر اُتاری اور چاند کی ناف میں  رگڑ کی۔۔۔ پھر بولا:

’’او کملیا! یہی تو میں  سمجھا رہا تھا کہ ایسے  بڈھے  یا ایسے  لوگ زندگی میں  ہی اپنا ہاتھ موت کے  سپرد کر دیتے  ہیں۔ اس لئے  ان کی سانسیں  وجود کی چادر سے  جلدی اُتر جاتی ہیں۔ ‘‘

قریب ہی دو کتوں  نے  بھونک کر آپس میں  تصادم کی کیفیت پیدا کر لی۔۔۔ آوازوں  کی آمد کو اندھیرا نہیں  روک سکتا تھا۔۔ سو سب نے  محسوس کیا کہ کسی بڑے  کتے  نے  چھوٹے  کتے  کو اچانک بغیر پروگرام کے  کاٹ کھایا ہے  اور وہ اس پر شور مچا رہا ہے۔

عبداللہ نے  اُٹھ کر ایک ڈھیلا زور سے  کتوں  کی طرف پھینکا اور وہ دفع ہو گئے۔۔۔

سادھو شاہ چپ ہو گیا تھا مگر موضوع اتنا گرم اور خوفزدہ کرنے  والا تھا۔۔۔ کہ لڑکوں  سے  چپ نہ بیٹھا گیا۔۔۔

عبداللہ دُور اندھیرے  میں  گھورتے  ہوئے  بولا  :

’’سادھو شاہ! پار سال جب بابا عزیز ٹی بی کا شکار ہو کر مرا تھا تو اس کی جان نکلتے  وقت میں  بھی اس کے  گھر کے  پاس تھا۔۔۔ اور تو بھی وہیں  تھا۔۔۔ یاد کر! بابا عزیز کی بیٹیاں  رور ہی تھیں  اور اپنے  باپ کے  ہاتھ پاؤں  دبا رہی تھیں۔۔۔ بابا عزیز کی آنکھیں  سامنے  کچی دیوار کو گھور رہی تھیں۔۔۔ اور کھانسی کا آخری ’’اُتھو’‘  اس کے  حلق میں  پھنسا ہوا تھا۔۔۔ سادھو شاہ! تم بتا سکتے  ہو کہ آخری وقت میں  بابا عزیز کیا محسوس کر رہا تھا۔۔۔ ؟’‘

سادھو شاہ دین عبداللہ کی بات سن کر مست انداز میں  ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسا۔۔۔ پھر بولا  :

’’بڑی شئے  ہے  تو عبداللہ۔۔۔ یاد ہے  تجھے  وہ سردی اور کورے  میں  ڈھکی رات جب بابا عزیز اللہ کو پیارا ہوا۔۔۔ میرا خیال ہے  ان باقی چاروں  میں  سے  کوئی بھی اس وقت بابا عزیز کے  گھر نہیں  تھا۔۔۔ صرف میں  اور عبداللہ تھے۔ ‘‘

’’ہاں  سادھو شاہ! عجیب رات تھی وہ بھی۔۔۔ اس رات ملنگی کے  کتے  نے  گھر واپس آتے  ہوئے  مجھے  پلی پر سے  گزرتے  ہوئے  کاٹا تھا۔۔۔ ابھی تک نشان پڑا ہوا ہے۔ ‘‘

’’اَوکھی رات کاٹی تھی بابا نے۔۔۔ اوئے  بھلیا لوکا! کسی نے  کیا موت کی رات بھی کبھی سکون سے  کاٹی ہے۔۔۔ ؟ رُوح اور بدن کا ایک دوسرے  سے  اپنے  ہاتھ چھڑوانا آسان نہیں  ہوتا۔۔۔ ملک الموت کا کلیجہ پتھر کا ہے  جو یہ کام کرتا ہے۔۔۔ ‘‘

’’سادھو شاہ یہ تو تو نے  بتایا نہیں  کہ بابا عزیز آخری سانسوں  میں  کیا کہہ رہا تھا۔۔۔ ؟’‘

سادھو شاہ نے  ہنستے  ہوئے  پھر ٹانگیں  پسار دیں  اور پاس بیٹھے  اشرف کے  کندھے  پر دھپ سے  ہاتھ مارا۔۔۔ مگر اشرف اتنے  انہماک سے  بات میں  کھویا ہوا تھا کہ اس نے  مطلق توجہ نہ کی، مگر جب سادھو شاہ نے  بابا عزیز کا نام لیا تو اشر ف کی گردن اُوپر کو اُٹھ کر سادھو شاہ کے  چہرے  پر گڑ گئی۔۔۔

’’عبداللہ! بابا عزیز نے  کشٹ کی رات میں  اپنے  آپ سے  جو جملہ آخری بار کہا تھا وہ بس یہ تھا۔۔۔ اس کے  بعد مجھے  کچھ سنائی نہ دیا۔۔۔ وہ کہہ رہا تھا۔۔۔

’’عزیز! ڈھگہ بن جا اور لگا دے  زور۔۔۔ چلا دے  ہل میری جان میں ، پھاڑ ڈال اس دھرتی کا سینہ اور میری جان سوکھی کر۔۔۔

اور پھر بابا عزیز کی جان سوکھی ہونی شروع ہو گئی تھی۔۔۔ بڑا ہل چلایا تھا ساری زندگی بابا عزیز نے  اپنے  کھیتوں  میں۔ اپنے  بیلوں  کی جوڑی کے  ساتھ۔۔۔

اشرف نے  جو ایف۔ اے  تک پڑھا ہوا بھی تھا۔۔۔ پوچھا  :

’’سادھو شاہ جن لوگوں کو گلے  میں  رسہ ڈال کر پھانسی لٹکایا جاتا ہے۔۔۔ موت ان کو کیسی محسوس ہوتی ہے۔۔۔ ؟’‘

سادھو شاہ نے  اپنی آنکھیں  موند لیں۔۔۔ جیسے  وہ کسی پھانسی گھاٹ پر جا پہنچا ہو۔۔۔ اور اب دل و دماغ اور آنکھ کسی پھانسی پانے  والے  کے  وجود میں  داخل کر رہا ہو۔۔۔ جب وجود میں  سادھو شاہ مکمل فٹ ہو گیا۔۔۔ تب اس کی آواز آئی جیسے  وہ بیلے  میں  کھدے  ہوئے  پرانے  کنوئیں  کے  اندر سے  بول رہا ہو۔۔۔

’’بھائیو! جس شخص کو رسہ دے  کر پھانسی دی جاتی ہے، جب اسے  پہلا جھٹکا لگتا ہے  تو اس کی گردن کا منکا ٹوٹنے  کے  لیے  ایک گول ڈبی میں  جس میں  کھولتا ہوا لیکویڈ ہوتا ہے۔۔۔ جسم اس کی مدد لیتا ہے۔۔۔ گول ڈبی کے  ایک کونے  میں  سوراخ ہو جاتا ہے  اور ڈبی میں  موجود پانی ایک طرف بہہ نکلتا ہے۔۔۔ بہت گرم پانی ہوتا ہے  یہ مرنے  والے  کو لگتا ہے  کہ کہ یہ اس کے  کانوں  اور حلق سے  بہنے  لگا ہے۔۔۔ تب اتنی دیر میں  گلے  میں  پھنسی رسّی سانس کی نالی کو کس کر باندھ دیتی ہے۔۔۔ جب انسان اس حالت میں  تڑپتا ہے  تو سینے  سے  نچلا دھڑا اور معدہ اُچھل اُچھل کر دل کی طرف جانے  کی کوشش کرتے  ہیں۔۔۔ دو ہاتھ ایک کشمکش میں  چلے  جاتے  ہیں۔۔۔ ایک دِل کا ہاتھ اور ایک وجود کا ہاتھ۔۔۔ دونوں  آپس میں  ملنے  میں  بے  قرار لگے  رہتے  ہیں۔۔۔ مگر مِل نہیں  پاتے۔۔۔ جب ہوا سانس کی نالیوں  میں  باہر سے  نہیں  آتی۔۔۔ تو انسان اپنے  بدن کے  اندر جمع شدہ ہوا کی اُبکائیاں  اور اُلٹیاں  کرنی شروع کرتا ہے۔۔۔ اس سے  اسے  تھوڑا سکون ملتا ہے۔۔۔ مگر اس کے  بعد آنکھوں  میں  سرخ رنگ بھر جاتا ہے۔۔۔ تب انسان موت کے  جنگلے  سے  نکلنے  کے  لیے  اپنے  ہی بدن اور اس کی جارحیت سے  بچنے  کے  لیے  اپنے  وجود کا دروازہ تلاش کرنا شرو ع کرتا ہے۔۔۔ تاکہ وہ اس اذیت سے  بھاگ سکے۔۔۔ جب تک دماغ اور اس میں  موجود شعور جاگتا ہے  تب تک انسان اپنی کوشش کو نہیں  چھوڑتا۔۔۔ آخری سانسوں  میں  انسان کی اپنی کوشش پنجۂ اَجل کے  ساتھ مِل کر کوشش شروع کر دیتی ہے  اور پھر آہستہ آہستہ دماغ اندھیروں  میں ڈوب جاتا ہے  اور وجود ختم ہو جاتا ہے۔۔۔ ‘‘

سجاد نے  اپنے  لرزتے  ہوئے  وجود اور کانپتی زبان سے  ہولے  سے  عبداللہ سے  کہا ؛

’’ آج تو سادھو شاہ عزرائیل کی کتاب اُٹھا لایا ہے۔۔۔ جس میں  سے  پڑھ پڑھ کر سنا رہا ہے۔۔۔ اگر موضوع نہ بدلا تو میں  تو کھسک جاؤں  گا۔۔۔ ‘‘

عبداللہ چپ چاپ بیٹھا رہا پھر سجاد بولا۔ :

’’مجھے  گھر تک کون چھوڑنے  جائے  گا۔۔۔ ؟’‘  مگر سب چپ ر ہے۔۔۔

سادھو شاہ دین نے  لفظوں  کی بنی آگ کی رسّی کو جلتے  جلتے  گانٹھ باندھ کر سب کی سماعتوں  میں  پھینک دیا تھا۔۔۔ رسّی سننے  والوں  کے  کانوں  میں  چپکی پڑی تھی۔۔۔ کان جل رہے  تھے۔۔۔ لو دے  رہے  تھے۔۔۔ مگر کمر اور بازوؤں  کے  رگ و ریشے  میں  خوف کے  سائے  بھاگ رہے  تھے۔۔۔ سائے  ٹھنڈے  ہوتے  ہیں۔۔۔ سامعین کے  جسم و جاں  ٹھنڈے  ہو گئے  تھے۔

سادھو شاہ نے  گلا کھنکارا تو سب کو یوں  لگا جیسے  موت نے  ہر ایک سامع سے  اس کا نام پوچھا ہے۔۔۔ سب کے  گھٹنے  اور ٹانگیں  پھر سکڑنے  لگیں۔۔۔

مجید آرائیں  خلاف توقع بولا  :

’’سادھو شاہ دین! تم کو موت کے  راز کون بتاتا ہے۔۔۔ ؟کیونکہ جو موت کے  عمل میں  سے  گزرتا ہے  وہ تو اپنا تجربہ بتانے  کے  قابل ہی نہیں  رہتا۔۔۔ ‘‘

سادھو شاہ نے  اب کے  ایک ٹھنڈی سانس لی اور بولا:

’’چلو تم آرائیوں  میں  علمی خو بو تو جاگی۔۔۔ او سجنو! جب خون بہتا ہے  کسی کا بھی۔۔۔ سب کو اس کا رنگ نظر آتا ہے۔۔۔ لال رنگ۔۔۔ مگر مجھے  اس میں  ہنستے  روتے  بچے، جوان بڈھے، کڑیاں  منڈے  نظر آتے  ہیں۔۔۔ میں  ذبح ہوتے  ہوئے  بکرے  کے  پاس بیٹھ کر اس کی کہانی سن لیتا ہوں۔۔۔ ایک دفعہ قربانی کے  موقع پر ایک دُنبہ میں  نے  اپنے  ہاتھ سے  ذبح کیا تو اس کے  بہتے  ہوئے  خون سے  یہ آخری پکار آ رہی تھی۔۔۔

’’اللہ سے  پوچھوں  گا کہ دُنیا میں  ’حیوان‘ ہونے  کا فائدہ ہمیں  کیا ملا ؟’‘

چپ اور حیرانی دونوں  گلے  مِل چکی تھیں۔۔۔ چاند کے  سامنے  چھوٹے  سے  بادل کا ٹکڑا آیا تو پورے  چاند نے  اپنی کرنوں  سے  بادل کے  ٹکڑے  کو چھینٹ کا دوپٹہ کر دیا تھا۔۔۔ سادھو شاہ کو اب چپ لگ گئی تھی۔۔۔ افضل کموکا بولا:

’’سادھو شاہ! جس طرح تم کو موت کے  ذائقے  معلوم ہیں  کیا ہم کو اسی طرح زندگی کے  ذائقے  معلوم ہیں۔۔۔ ‘‘

’’کموکا جیوندارِہ۔۔۔۔۔۔ !! وَڈی گل کیتی ای۔۔۔۔۔۔ ! یہاں  بھی زندگی کے  ذائقے  ہر شخص کے  الگ الگ ہیں۔۔۔ کوئی بندہ دوسرے  کو اپنے  حالت اور لذت اور تکلیف کی حقیقی صورت اور اس کی مقدار نہیں  بتا سکتا۔۔۔ یہ سب خیال اور وہم کے  گھوڑے  ہوتے  ہیں۔۔۔ ‘‘

’’سادھو شاہ! پانی میں  ڈوب کر مرنے  سے  انسان کیا محسوس کرتا ہے۔۔۔ ؟’‘

یہ سوال اشرف  قریشی نے  کیا تھا۔۔۔

اچانک سادھو شاہ نے  قریشی کے  کندھے  پر ہاتھ رکھ کر بڑی لجاجت سے  کہا :

’’ اوئے  قریشی ! بلھے  دے  دو بول تاں  سنا دے  اَج مینوں۔۔۔ میرا من بڑا اداس ہو گیا اِے۔۔۔ ‘‘

اشرف قریشی نے  ایک ہاتھ کان پر رکھا اور دردمند آواز میں  بلھے  شاہؒ کا کلام گانے  لگا۔۔۔

بلھے  شاہ اَساں  مرنا ناہیں           تے  گور پیا کوئی ہور

بات تین چار شعروں  میں ہی ختم ہو گئی۔۔۔ سادھو شاہ کے  رُخساروں  پر دو موٹے  موٹے  آنسو تیر گئے۔۔۔ پھر وہ خود کلامی میں  بولا:

’’حیلہ کر سادھو شاہ! زخم کو کھرنڈ جم گیا تو کہانی کون سنایا کرے  گا۔۔۔ ؟

شا ماں  نمانیاں  راتاں  دے  پیریں  رُل جاندیاں  نیں۔۔۔ ‘‘

ماحول پر عجیب سی اُداسی چھا گئی تھی۔۔۔ محفل اپنی برخاست کا آپ اعلان ہونے  والی تھی۔۔۔ اچانک سادھو شاہ بولا:

’’یا روتے  بیلیو! آخری بات بھی سن لو! قریشی یہ نہ کہے  کہ میرے  سوال کا جواب نہیں  دیا۔۔۔ ‘‘

پھر وہ اشرف قریشی کی طرف منہ پھیر کر متوجہ ہوا اور ایک نظر اس کے  چہرے  پر اُڑس ڈالی۔۔۔ خلاؤں  میں  گھورنے  لگا۔۔۔ پھر آہستہ سے  بولا:

’’تم نے  یہ ہی پوچھا تھا ناں  !کہ جو بندہ دریا یا نہر میں  ڈوب کر مرتا ہے  وہ کیسا محسوس کرتا ہے  خود کو۔۔۔ تو سن لو۔۔۔ جب کوئی بندہ پانی میں  ڈوبتا ہے  تو ایک دو منٹ تک وہ اپنی جان بچانے  کی کوشش کرتا ہے۔۔۔ وہ پانی میں  بنی لہروں  اور موجوں  کو جھاڑیاں  یا چارپائیوں ا ور پلنگوں  پر بچھی چادر یں  سمجھ کر تھام لینے  کے  در پے  ہو جاتا ہے۔۔۔ جب پانی اس کے  پیٹ میں  داخل ہوتا ہے  تو وہ منہ کا پانی ناک سے  اور ناک کا پانی منہ سے  نکالنے  میں  مگن ہو جاتا ہے۔۔۔ اسی کشمکش میں  ایک لمبی سریلی چیخ درد ناک اس کی ہڈی کو چھری کی طرح چیر جاتی ہے۔۔۔ ڈوبنے  والا محسوس کرتا ہے  کہ ناک سے  گہرا خون نکل رہا ہے۔۔۔ پھر کان جب پانی سے  بھر جاتے  ہیں  تو پھیپھڑے  اندر تھال بجانا شروع کر دیتے  ہیں۔۔۔ سانس اور گھٹتا ہے  تو ذہن اپنے  صحن میں  پٹاخوں  کی آواز سنتا ہے  اور ساتھ ہی کالی اندھیری کا دباؤ سانسوں  پر پہاڑ بن کر چڑھ جاتا ہے۔۔۔ ڈوبنے  والا دُعائیں  مانگتا ہے  کہ اس کے  پھیپھڑے  مزاحمت نہ کریں  مگر وہ کرتے  ہیں  اور اسی سے  سانس نہ آنے  اور ہوا بند ہونے  کی اصلی تکلیف شروع ہوتی ہے۔۔۔ اسی مزاحمت میں  تکلیف دہ گھٹن کی وہ کیفیت آتی ہے۔۔۔ جب جینے  کی تمنا کرنے  کی جبلت بھی رخصت ہو جاتی ہے۔۔۔ تب چمکتا ہوا اندھیرا آنکھوں  میں  اُترتا محسوس ہوتا ہے۔۔۔ جو چھری کے  وار کا کام کرتا ہے  اور شہ رگ کٹتی محسوس ہوتا ہے۔۔۔ یہاں  تک بندہ کے  حواس کام کرتے  ہیں۔۔۔ آگے  کا کام موت کا فرشتہ کرتا ہے  اور اس کا وہ ’’معاون خاص’‘  جو جسم کے  اندر ہی موجود ہوتا ہے۔۔۔ ‘‘

سادھو شاہ نے  اپنے  بیان کا آخری پلّو بھی جھاڑ دیا تھا۔۔۔ سجاد شاہ سب سے  پہلے  اُٹھ کر کھڑا ہوا۔۔۔ اور کہا :

’’سادھو شاہ! بس کرور نہ جان نکل جائے  گی۔۔۔ اوئے  کوئی خدا کا بندہ مجھے  گھر چھوڑ آئے  گا۔۔۔ ؟صبح کو لسّی کا ناشتہ نہر کے  پل پر بگو کے  ہوٹل پر میں  کرواؤں  گا۔۔۔ ‘‘

عبداللہ بولا ’’تیری نس نس میں  خو ف بھرا ہوا ہے۔۔۔ تو سادھو شاہ کا بیان سن کر خوفزدہ ہو گیا ہے  اگر کبھی زندگی میں  کوئی موت کا چہرہ دکھا گیا تو موت سے  پہلے  مر جائے  گا۔۔۔ مُوت نکل جائے  گا تیرا۔۔۔ چل اُٹھ ٹھگنے ! تجھے  گھر پہنچا دوں۔۔۔ ‘‘

دونوں  چھلانگیں  مارکر چبوترے  سے  نیچے  اُترے  اور سردی کی بڑھتی ہوئی لہروں سے  بچنے  کے  لیے  اپنی چادروں  کی بکل کو ٹھیک کرنے  لگے۔۔۔ اب سارہ چبوترہ ہی خالی ہو گیا تھا۔۔۔ بس سادھو شاہ ہاتھوں  کو سرہانا بنائے  سیدھا ہوا پڑا تھا۔۔۔ اس کے  ہونٹوں  پر یہ ہی شعر مچل رہا تھا۔۔۔

بلھے  شاہ اساں  مرنا ناہیں

تاں گور پیا کوئی ہور

چاند بامِ آسماں  پر چہلک کرتا عین وسطِ آسمان آویزاں  ہو کھڑا تھا۔۔۔ سب لوگ اپنے  گھروں  کو سدھارے  تو رات اپنے  خیموں  کی طنابیں  گاؤں  کی فضا میں  اور گہری ٹھونک چکی تھی۔ سب لوگ اپنے  اپنے  خلا چھوڑ گئے۔۔۔ ہوا میں  تھوڑی دیر پہلے  چلنے  والے  قصہ و تمثیل کی تصویر اور آواز پھر سے  چلنے  آنے  لگی۔۔۔ دُور کتوں  کے  مسلسل بھونکنے  کی آواز آئی۔۔۔ جو ذخیرے  کی سمت کا پتہ دیتی تھی۔

اگلی صبح سویرے  نور کا تڑکا مونگی بنگلے  کی نہر کے  پر پل پر ہنگامہ مچا گیا۔۔۔ جوں  جوں  سورج اپنے  محاذِ شرق پر بلند ہو رہا تھا توں  توں  خلق خدا آواز ۂ عام میں  ڈھلتی گئی۔۔۔ ایک زمانہ نہر کے  پل پر جمع تھا۔۔۔ حیرت اور خوف نے  ایک نئے  خاکے  کو جنم دیا تھا۔۔۔ اور اب ہر شخص اس خاکے  میں  اپنے  اپنے  قیاس سے  رنگ بھر رہا تھا۔۔۔

ایک حادثہ وقت کے  اندھے  جبڑوں  سے  پھسل پڑا تھا۔۔۔

ایک سانحہ خوفناک مگر مچھوں  نے  جنم دیا تھا۔۔۔

ایک واقعہ لوگوں  کی آنکھوں  سے  پوچھ رہا تھا کہ کیا مجھ کو صرف ’’واقعہ’‘  کہنا کافی ہو گا۔۔۔ ؟

صبح کے  سات بج چکے  تھے  اور خبر جنگل کی آگ کی طرح اطراف و جوانب میں  پھیلتی جا رہی تھی۔۔۔ گاؤں  کا گاؤں  اُمنڈا پڑا تھا۔۔۔ بچے  بوڑھے  جوان مرد عورتیں  سب حیرت سمانی ہو گئے  تھے۔۔۔ ایک گروپ کی شکل میں  عبداللہ، افضل کموکا، اشرف قریشی، مجید ارائیں  اور سجاد کھڑے  تھے۔۔۔ ان کی آنکھوں  میں  بہت بے  بس خوف تھا۔۔۔ ایسے  جیسے  کس نے  ان کی آنکھوں  کے  برف خانے  میں  خوف کو منجمد کر دیا ہو۔۔۔

’’میرے  خدا یہ سب کیا ہے ؟’‘  عبداللہ بار بار کہہ رہا تھا۔۔۔

اشرف قریشی کی آنکھوں  میں  آنسو تھے۔۔۔ رات کے  سامعین دِن کی روشن میں  عجیب منظروں  کے  ’ناظرین‘ ہو گئے  تھے۔۔۔

خوف قیاسی آرائیوں  کی شکل میں  ہر چہرے  کی جیب میں  کھنک رہا تھا۔۔۔

منظر جس نے  سب کو مبہوت کر دیا تھا۔۔۔ بس اتنا تھا۔۔۔ سادھو شاہ دین کی لاش پلی کی سب سے  قریبی ٹالی کے  درخت سے  لٹکی ہوئی تھی۔۔۔ اس کے  ہاتھ کمر کے  پیچھے  باندھے  گئے  تھے۔۔۔ سادھو شاہ کا پیٹ پھول کر کپا ہو گیا تھا۔۔۔ اس کے  منہ اور ناک سے  پانی بہہ رہا تھا۔۔۔

سیانے  لوگوں  کی متفقہ رائے  تھی کہ کسی نے  سادھو شاہ کو پہلے  نہر کے  پانی میں  ڈبو کو بے  ہوش کیا۔۔۔ کئی گھنٹے  اس کی لاش پانی میں  ڈوبی رہی۔۔۔ فجر کے  وقت اس کو درخت پر لٹکا کر کسی نے  پھانسی دے  دی۔ مگر کس نے  ؟یہ ایک سوال تھا جو حیرت کی گود میں  مچل رہا تھا۔۔۔ قریبی چوکی میں  اس قتل کی اطلاع کر دی گئی تھی۔۔۔ اور اب پولیس کی ایک پرانی سی گاڑی پل پر آ کر رُک گئی۔۔۔ جسے  دیکھ کر سب لوگوں  نے  راستہ کھول دیا۔۔۔

عبداللہ نے  سجاد سے  کہا  :

’’سجاد! کیا سادھو شاہ کے  حصے  میں  موت کا ویسا ہی ذائقہ آیا ہو گا جیسے  وہ رات بتلا رہا تھا۔۔۔ ‘‘

اور سب دوستوں  کی آنکھیں  جواب میں  نفی کی زبان بول رہی تھیں۔۔۔

آخر سجاد بولا  :

’’موت کا ذائقہ بھی ہر شخص کی اپنی چاہت ہے۔۔۔ اس میں  کوئی شریک نہیں  ہو سکتا۔ ‘‘

ہوا نے  کروٹ بدلی تو سادھو شاہ کی مصلوب شدہ لاش پر پتوں  نے  مل کر وہی شعر پڑھا جو سادھو شاہ کو بہت پسند تھا۔

بلھے  شاہ اساں  مرنا ناہیں            تاں  گور پیا کوئی ہور

سادھو شاہ دین کی ڈیلوں  سے  باہر گری پڑی آنکھیں  پانچوں  دوستوں  پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔ جیسے  کہہ رہی ہوں  ؛

’’جو ہم کہتے  ہیں  وہ کر کے  بھی دکھاتے  ہیں ‘‘ ۔۔۔۔

مگر سوال یہ تھا کہ یہ سب کیسے  ہوا اور کس نے  کیا ؟یہ سوال پانچوں  دوستوں  کے  دماغ سے  نہیں  نکل رہا تھا۔۔۔۔ پانچوں  دوست اداس ہو کر نہر کے  کنارے  گھاس پر بیٹھ گئے۔۔۔ عبداللہ تنکے  اٹھا اٹھا کر پانی میں  ڈال رہا تھا۔۔۔ پھر اس نے  کموکا اور اشرف قریشی کی طرف منہ کر کے  کہا:

’’سارے  سچ کہنا، رات ہم پانچ کے  علاوہ کوئی اور بھی ہمارے  ساتھ بیٹھا تھا۔۔۔ ؟’‘

’’نہیں  تو ہم بس پانچ ہی تھے۔۔۔ یہ ہی سب جو اَب ہیں ‘‘

سب نے  بیک وقت جواب دیا۔۔۔

عبداللہ سوچ میں  چلا گیا اور چہرے  پر تازہ حیرت کی زچگی دھوتے  ہوئے  بولا:

’’نہیں  دوستو ! رات ہم پانچ نہیں  ’’چھ ‘‘ تھے۔ چھٹا ہم کو نظر ہی نہ آ سکا۔۔۔ البتہ سادھو شاہ نے  اسے  دیکھ لیا تھا۔۔۔ اس کی نظر بہت تیز تھی۔۔۔ ‘‘

حیرانی سے  سب کی آنکھیں  پھٹ گئیں۔۔۔

’’کون تھا چھٹا۔۔۔ ؟’‘

’’موت۔۔۔ ‘‘

’’عبداللہ نے  دُور نہر کے  کنارے  کو آنکھوں سے  ناپتے  ہوئے  کہا اور باقی چاروں  دوستوں  کے  منہ یوں  کھل گئے۔۔۔ جیسے  سادھو شاہ دین کے  قتل کا راز مقفل کرنا ضروری ہو۔۔۔

مگر عبد اللہ دل ہی دل میں  یہ بات لئے  گھر چلا آیا کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے  کہ اس وقت ہم جو دیکھ رہے  ہیں  وہ نظر آنے  والا حقیقی سچ ہے  کہ کوئی خواب ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ضیاء حسین ضیاء کی منتخب نظمیں

 

اَضافتوں  سے  عاری

 

جو استعاروں  کو موت آئے  تو میں  بھی

معنی کا رنگ دیکھوں   !

اَلم کشائی میں  دل کی حالت کا عکس  اصلِ اصیل دیکھوں

تو آئینے  کی معاونت کے  کرم نہ بھگتوں

میں  ڈوبنے  پر محیط پانی کا ذکر چھیڑوں

کٹے  کناروں،

جلے  درختوں،

بھنور کے  سارے  ناگفتہ انداز

قاتلوں  کے  ہنر تو جانوں،

کھلے  بدن سے

اکہرے  مطلب کی چال چل کر

بہت سی آسودہ رفعتوں  کے  مزاج پوچھوں،

لغات کی لغزشوں  میں  جھاتیں  نہ مارنے  کا

افادۂ عام مل سکے  تو

سکون سے  اپنے  دل سے  مل لوں ،

وفا کو چوموں

جزا کو چا ہوں

میں  ہجر اور وصل کی اس سزا کو دیکھوں

جسے  لغات  فدا کاری نے

استعاروں  کی بھینٹ دے  کر

بہت سے  معنی چھڑا دیئے  ہیں

بہت سے  محسوسِ ذاتِ اول

کے  سبز دفتر جلا دیئے  ہیں

جو استعاروں  کو موت آئے  تو میں  بھی

معنی کا رنگ دیکھوں   !

 

بنام تفہیم

اور کتنا کھلا زمانہ بنا سکو گے

بنام شرحِ متین

کتنا کھلا فسانہ سنا سکو گے

بنام تزئین حرفِ عالی

تعیناتِ زماں  کے  کتنے

عظیم معبد گرا سکو گے

سفر کے  ایسے  نحیف و بیمار راستوں  سے

پلٹ کے  دیکھو

ستارہ وار

آسماں  میں  کتنے  قمر الجھتے  دکھائی دیں  گے

اس آنکھ کو پشت پر اکہری نظر کے  منظر

کو جھیلنے  دو

ہوائے  محسوس کو بیاں کے  کھلے  مکانوں  سے

یوں  گزرنے  کا عندیہ دو

حواس کو اپنی ایک باری ہی کھیلنے  دو

یہ زعم الفاظ،

اور تعبیر کا زمانہ

حصول معنی کی ایک ضد ہے

خدا کا نہ جاننا بھی آخر کو ایک حدّ ہے

جو استعاروں  کو موت آئے  تو میں  بھی

معنی کا رنگ دیکھوں   !

ذرا سا ٹھہرو !

میں  روحِ ابجد سے  بات کر لوں

میں  خوفِ الفاظ سے  نکل لوں

میں  شوق تعبیر سے  بھی بچ کر

جو ہے ، جہاں  ہے

سے ، اس کی مرضی کی بات کر لوں  !

میں  خالد و جاوداں  سے  لے  کر

بقا، فنا کے  سبھی قرینوں  کا ڈھنگ دیکھوں

جو استعاروں  کو موت آئے  تو میں  بھی

معنی کا رنگ دیکھوں   !

 

 

(۲)

جلوہ گاہ سے  واپسی

 

ادھر کتنے  زمانے

جلوۂ مشہود کی عینی سند سے  بات کرنے  میں

گزارے  تھے

گزارے  تھے۔۔۔

بِتائے  تھے  کہ بیتے  تھے

یا گزرے  تھے   ؟

مکمل یاد ہی کب ہے  _____!!۱

 

سنا کرتے  تھے  روحوں  پر اک ایسا موسمِ تخلیق آتا ہے

کہ جب ان کو پروں  سے

پاؤں  سے

اور بازوؤں  سے

دے  کے  تلواریں  زمیں  پر بھیج دیتے  ہیں

خدا کے  آخری نزدیک تر اعیان کھلتے  ہیں

 

زمیں  اک جنت حکمت نشاں  ہے

جہاں  پر بال و پر،

حرکت،

سکونِ جانفزا روحوں  میں  بھر کر

سوچ کے  قابل بنایا جاتا ہے

 

بڑی فیاض قدرت ہے

بڑا انعام کرتی ہے

اگر تخلیق کی نعمت بھی صلب آدم خاکی

کی ایک تحریر کہلائے۔۔ !

جئے  ہم اس زمانے  میں

جئے  ہم اس زمانے  میں

________

زمانے  دیکھ !

کہ ہم بھونچکے  سے  رہ گئے  ہیں

ہمیں  اچھا بھی لگتا ہے  جہانِ نازنیں

مگر وجدان پر اک زخم کی آری بھی چلتی ہے

یہاں  سے  کوچ بھی چاہتے  ہیں

نہ جانے  پہ بھی ضد ہے

یہیں  جینا بھی چاہتے  ہیں

یہیں  مرنا بھی چاہتے  ہیں

بہت سی ڈوریاں  ہاتھوں  سے  اکثر یوں  پھسلتی ہیں

کہ جیسے  ناؤ کو طوفان اپنے  جوف میں

صیدِ گرفتارِ بلا کر کے

بنامِ ساحلِ بے  کس

کوئی جامِ فتح تجویز کرتا ہے

اسی آئندہ تقدیم و تاخر میں

ہم اپنے  نقشۂ نایاب کو کھو کر

زمانے  کے  نشاں  کو ڈھونڈتے  ہیں

وہ نشاں

جو باطنِ شہرِ فراموشاں  میں

اپنی ہی فراموشی کا پہلا جرم ہوتا ہے

جو اقرار الستِ آسمانی کا ثمر ٹھہرا  !!

_______

ادھر ہم آئینے  سے  اس طرح مخلوط ہو بیٹھے

نہ اپنی شکل ملتی ہے

نہ خدوخال ملتے  ہیں

نہ غازہ لب پہ سجتا ہے

نہ رہرو گرد میں  پلتا ہوا رہوار بنتا ہے

کہیں  الٹی پڑی شامت کے  ہم کردار ٹھہرے  ہیں

ہمیں  خود میں  پلٹ جانے  کا تھوڑا حوصلہ درکار ہے

اور نیند بھی آنے  لگی ہے

اور یہ سب ہست و بود

تجرباتِ زیست کا کاٹھ و کباڑ

ہاں  مگر اب جو بھی ہے

ہشیار باشی کی صدا میں

یا کسی مست و أنا میں

ڈھونڈنی ہے  مسکنی جنت

جسے  کردار کہتے  ہیں

کبھی دستِ مشیت کا کھلا دربار کہتے  ہیں

یہ میں  ہوں  ______

عقل کا مارا

یہ میں  تھا صلب کا ہارا

مری تقدیر میں  چکر ہے

اور صبح

خرامِ نیستی کے  ختم کرنے  کو

مجھے  چکر تو آتے  ہیں

مگر

٭٭٭

 

 

 

(۳)

 

 سبھی بازار خالی ہیں ___ !!

 

اُترنے  دے  ہمیں  زینہ

ہمیں  خود ساختہ

یہ چرخِ امیدِ جہاں ہی

مار ڈالے  گا

 

ہمیں  وہ آئینہ اندر تلک تلوار مارے  گا

جسے  ہم کا کل و رخسار سے

ہر آرزو کے  بعد دل کا غسل دیتے  ہیں

 

کہانی سے  نکلنے  دے  !

کہانی میں  میری موجودگی

کردار کی معراج بنتی جا رہی ہے

ماجرے  سلجھے  الجھتے  جا رہے  ہیں

اور افسانہ کسی کے  ہاتھ کی تسطیر سے

باہر نکلتا جا رہا ہے

ہمیں  اب انگبیں  سے  لاگ آتی ہے

بہت سی تلخ کامی یا کہ شیریں  کار مہمانی

سبھی چڑھتے  ہوئے  زینے  ہیں

جن پر پاؤں  پڑتا ہے  تو لذت چیخ اٹھتی ہے

 

ہمیں  اس آشیانے  سے  اترنے  دے

ہمیں  ادراک ہونے  دے

کہ ہم ادراک کرنے  کے  بھی اب قابل نہیں  ٹھہرے

ہم اپنی خود پہ اتری سلطنت کے  نام پر

اس نفس کا زینہ بناتے  ہیں

کبھی معراج کرتے  ہیں

کبھی تنزیل کرتے  ہیں

ہمیں  انسان رہنے  دے

ہمیں  زینہ اترنے  دے  !

اترنے  دے  کوئی زینہ

کوئی چہرہ مقابل آ کے  اپنی خستگی کی داد تو پائے

کوئی محمل غبارِ ناقہ کی رفتار سے  آگے  نکل جائے

بلندی کے  سفر نے  پستیوں  کے  بوجھ کو مشکل کیا ہے

ہمارے  سامنے  گاڑا گیا نیزہ

ہماری پشت سے  باہر نکلتا ہے

کمیں  پہلو کے  بل پر آزمائی جا رہی ہے

اور ہم دستور میں

آگے  نکلتے  جا رہے  ہیں

اور نظر اب بھی بلندی پر ہے

پاؤں  کٹ رہے  ہیں

 

کمیں  گا ہوں  پہ رکھے  چیختے  ہیں

سارے  اندازے

کبھی زینہ بہ زینہ اور کبھی اس اونچی آہٹ سے

جسے  آواز بننا تھا

مگر سرگوشیوں  نے  قاتلوں  کے  دل خریدے  تھے

عجب زینہ _____؟

ترا زینہ  _____مرا زینہ

کہانی موڑ کوئی ڈھونڈتی ہے

اور پستی کی حقیقت سے  سبھی کردار

واقف ہیں

گنہ کے  وار خالی ہیں

لب و رخسار خالی ہیں

سبھی بازار خالی ہیں ___ !!

زمانے  انتقاماً بولتے  ہیں

 

زمانے  انتقاماً بولتے  ہیں

یہاں  جو سرسراہٹ ہے

کہ جیسے  سانپ

ماہ و سال کی گردش میں  لپٹے  چل رہے  ہیں

وہ ہم کو آئینہ کی سرخ منڈی کا

سبھی بھاؤ بتاتے  ہیں

فلک سے  تاؤ کی تفسیر کرتے  ہیں

 

کیلنڈر چپ ہے

دیواریں  مسلسل بولتی ہیں

یہ نئے  ابلاغ کی تعیین  نو ہے

وہ ہاتھوں  کی لکیروں  سے  نکلتا ہے

جسے  ہم چھو نہیں  پاتے

 

زمانے  انتقاماً بولتے  ہیں

کردہ، نکردہ سبھی اسرارِ خفتہ کھولتے  ہیں

 

ہری شاخوں  کو سانپوں  نے  نئی پوشاک پہنائی

دریچہ ریشمی سانپوں  سے  کیسے  بھر گیا ہے

اُترنے  کے  لئے

اب بالا خانے  سے  کوئی زینہ نہیں  آتا

سروں  کے  سوچ سے  معمور کاسے

پھٹ رہے  ہیں

جگر کے  راستے

احساسِ نو سے  کٹ رہے  ہیں

دریچے  میں  یہ کنڈلی مار کر

عفریت زادے

اپنی اپنی دسترس پر ناز کرتے  ہیں

جدھر زینہ پڑا ہے

اس طرف پاؤں  نہیں  جاتے

کہ نقشِ پا بنانے  میں  کبھی کاوش نہیں  ڈالی

سو رستے  اک تحیر ہیں

تحیر کو زمانوں  کی نئی تعبیر سے  جب آشنا کر لو

تماشا ہاتھ سے  باہر نہیں  جاتا

وگرنہ

چپ مسلسل عرصۂ  تعذیب ہے

بیمار رہتی ہے۔

کوئی موسم صدائے  نغمہ سنجی پر نہیں  آتا

رفو گر

زخم کے  سارے  ارادے  تولتے  ہیں

اور زمانے  انتقاماً بولتے  ہیں

 

ابھی دستار کا اک پیچ باقی ہے

ابھی کرنے  کے  کاموں  کا

اصولی بھید باقی ہے

زمانے  انتقاماً بولتے  ہیں

اور چپ آنسو بہاتی ہے   !!

٭٭٭

 

 

 

 

(۴)

بیمارِ قیس

 

پھلجڑی اب جلا ،

ما تھا ٹیکے  ہوئے  آہ و زاری گزار !

پاس سے  جھانکتی آنکھ کو اپنا تیور دکھا

فکر سے  دوستی

اب مداوا طلب مرضِ امراض ہے۔

 

اپنے  دل سے  نکل

آ منڈیروں  پہ بیٹھ

کاگ سرکار کا راگ پھر سے  سنا

وجہِ مقصودِ نظم

تم سے  پوچھے  گا کون

حرف کی صوتیات

ذات کی ذاتیات

گل کی تقسیم کا خامہ خامہ بدن

تم سے  پوچھے  گا کون ؟

یہ اذیت کا ماتم سہے  کون کون ؟

 

اب اکیلی دکاں  کی پریشانیاں !

کون جانے  گا

سب لوگ اٹھنے  کو ہیں

کچھ کو ہجرت نے  مارا تو کافی ہوئے

کچھ نئے  زاویوں  کی طرف چل دیئے

سونی سونی دکاں  ہے

جو گاہک کی شکلوں  کو پہچاننے  میں  مگن ہے

 

ابھی شہر میں  میری پہچان ہے

بھوک  رونق بنانے  سے  تائب ہوں  میں

سیر شکمی سے  ذوقِ نظر دور ہے

جنگلوں  میں  نکل جاؤں  گا ایک دن

عرضِ ناشر لئے

رزقِ حاضر لیئے

حکمِ جابر لیئے

ذوق کی آخری شرط کا مرحلہ

تم بھی جیتے  رہو

میں  بھی جیتا رہوں

ذوق کی زندگی

اب حواسوں  میں  ہے

یا قیاسوں  میں  ہے

بالا خانوں  میں  ہے

شتربانوں میں  ہے

تھوڑا جی کر زیادہ دکھا جائیں  گے

ہم نئی نظم کو امر کر جائیں  گے  !!

٭٭٭

 

 

 

 

(۵)

اَور دریا ہنس رہا ہے   !!!

 

دیکھتے  ہی دیکھتے

ہاتھوں  سے  جاں  جانے  لگی

سرمئی سانسوں  کو

کالے  پھیپھڑے  آزاد کرتے  ہی نہیں

چشم میں  خوں  بارگی ہے

سارے  منظر

خون کی آوارگی میں  دھت ہوئے

اور شفق کا تھال الٹا بہہ گیا

دیکھتے  ہی دیکھتے  دل

دھڑکنوں  کی تیرگی کو سہہ گیا

 

آ،

مرے  پاس آ

دل کے  دروازے  کی تنگی میں  تنفس سرد ہے

آہ بھی اب گرم رو آتی نہیں

یہ شب  مسموم  سب کو آ رہے  گی

کاگ کی آواز کا مہمان کون ؟

 

وقت کے  پاگل سمے  میں

ہوش کی آواز کو سب سن رہے  تھے

اور اداسی کے  تھرکتے  بول میں

آواز کا جوہر نہ تھا

جھونکا جھونکا خود فراموشی چلی

ہوش کے  تیور گئے

سرکنڈوں  میں

آگ کی خوشبو نے  جادو کر دیا

زندگی پہنی مگر پوری نہ تھی

آستینوں  میں  گھسے  ہم رہ گئے

سرد موسم اپنی چالیں  دیر تک چلتا رہا

آخرش

لرزیدہ پیروں  میں  تپک بڑھنے  لگی

شام سے  پہلے  کوئی تو فیصلہ ہونے  کو تھا

دل اچھل کر یوں  ہتھیلی پر پڑا

موج نے  جیسے  کسی ناؤ کو دھکا دے  دیا

 

دیکھتے  ہی دیکھتے

ہاتھوں  سے  جاں  جانے  لگی

خود سے  ملنے  کے  لیئے   جانا تو ہے

یہ مگر

کیسا اندھیرا فاصلہ ہے

دشت میں  کشتی گھسیٹے  چل رہا ہوں

اور دریا ہنس رہا ہے   !!!

٭٭٭

 

 

 

 

(۶)

 

’’کبھی کبھی ‘‘ ضرور ہے  !!

 

اِدھر اُدھر کے  بعد بھی

وہیں  پہ مرتکز ہیں  ہم

کہ جس مقام نے  نہ ناپ تول کم کیا

نہ’’ کیف و کم’‘  کو خم کیا

جہاں  کی بات تھی وہیں  جمی رہی

اِدھر ادھر نظارتِ مہ و نجوم

دل، نظر کی عاصیانہ مرضیوں  سے  ایک تھی

سو وقفۂ جمال نے

ادھورے  خواب کی زمیں  میں  نیند گاڑ دی

ہری کچور آنکھ

وُسعتِ نظر کو پنکھ مار کے  جلی رہی

اِدھر اُدھر کے  بعد بھی

میں  خود سے  دور کب گیا _____؟

 

ہراس _____

زندگی کی قید کا فسون ہے

تو خواب _____

زندگی کے  خوف کا زوال ہے

بس ایک سمت سے  تو مہَ نشیں  فلک نشست ہے

اسی نشست گاہ سے

حکم  صد جمال سے

جہاں  پرست ہو گئے

کبھی کے  مست ہو گئے

مگر۔۔

اِدھر اُدھر کے  بعد کوئی بُعد ہے

جو آنکھ کی زکوٰۃ میں  فقیر  حق کا نور ہے

کبھی کبھی تو دل کو سادھ اَور دھڑکنیں  جئیں

کبھی کبھی تو خوف باندھ

آسماں  کے  دوسرے  کنار تک بہے  چلیں

کبھی خدا سے  ہو معانقہ تو یہ کھلے

کہ کس کے  دل میں

کس کی چاہ کا بھید آرزو میں  تھا

لگن کے  ساتھ کون کس نصیب کے  جتن میں  تھا

ملا نظر کہ شائبۂ قرب و بعد کھل سکے

’’اِدھر اُدھر ‘‘ کے  بعد تو

’’کبھی کبھی ‘‘ ضرور ہے  !!

٭٭٭

 

 

 

 

(۷)

اِسی کو نظم کہتے  ہیں  !!

 

چلیں  گھر سے  تو اپنی ہی گلی کو بھولتے  جائیں

نئی تشکیک میں  ڈوبیں

نئے  ابہام سے  ابھریں

معاصر کو جھٹک ڈالیں

اَساطیری حوالوں  سے

نئے  انسان سے  پورِ بدن کا ناپ لے  کر

پورے  قد کی لوح پر لکھیں

کہیں  اَجداد پورے  ہوں

کہیں  پر نسل ناقص ہو

کسی پر خامشی پھینکیں

کسی پر زور سے  چیخیں

عزیزو !

قصۂ ابجد کی پہلی خواندگی میں  یہ تو طے  کر لو

اسی کو نظم کہتے  ہیں  !!

 

اسی کو نظم کہتے  ہیں۔۔

قبا پوری نہ آتی ہو چمن کے  جس زمانے  پر

وہیں  پہ پھول کا سرمستیانہ رقص ملتا ہے

فقیری موسموں  کو جب بہاریں  روپ دیتی ہیں

وہیں  پر نقش  دل کا آستانہ رقص کرتا ہے

اگر مالی سے  بارہ ہاتھ آگے  کی طرف

روشن ہو

ہر جانب

خیابان  تمنا

پھول سے  آراستہ۔۔

آتے  زمانوں  کا کوئی رستہ

تو یوں  سمجھو۔۔

نئے  شبدوں  میں  کشت نظم میں

اک تخم پلتا ہے

جبیں  پر زخم آتے  ہیں

جگر آسودہ ہوتا ہے  !!

 

ہمیشہ نظم کو تجریدیت آگے  بڑھاتی ہے

وگرنہ

معنی  جاں  آستیں  میں  جا نکلتے  ہیں

تمدن کی حقیقت

اور علامت کی قبا دوزی

اِسی فرہاد سے  کوہِ جتن کا راز پاتی ہے

 

نئی نظموں  کے  خوگر !

راز میں  اک راز پیدا کر

کہیں  فرہاد کی دستار پیدا کر

کہیں  مجنوں  سے  مل کر

دشت کی ساری مسافت اوڑھ کر آؤ

کہیں  بکھرے  ارادوں  میں  پڑے

نا شستہ خوابوں  کی حسیں  تدوین لے  آؤ

جہاں  پر زخم پر اک زخم کا ہر بار خم آئے

اسی کو رسم کہتے  ہیں

اسی کو نظم کہتے  ہیں۔۔ !!!

٭٭٭

 

 

 

زرنگار کے  اداریے

 

نئے  ادبی مسائل کیوں  پیدا نہیں  ہوتے !

 

ادبی تخلیق اپنی جنس میں  ہمیشہ اظہار، تدفع، ترسیل، ایصال، انشراح، ابلاغ، رسائی، اعلان، اعلام، تشہیر، شور، صدا، رمزیات اور لفظ و معنیٰ کی ترسیل کی ساری پرتوں  سے  اپنی علتِ غالی کے  طور پر ثابت اور طے  شدہ ہے۔۔۔  تخلیق کو مرکزۂ شعور کے  ان راستوں  سے  روشنی ملتی ہے  جن میں مشاہدہ اور تجزیہ راہ پاتے  ہیں۔ کبھی تخلیق خارجی مؤثرات سے  پیٹ ہوتی ہے  اور کبھی نفسیاتی ادراک کے  کم و کیف کے  ذریعے  منصۂ شہود پر آتی ہے۔۔۔  تنقید، نقد، انتقاد، بحث، تحقیق، نکتہ رسی اور فنی زمزمہ سنجی کے  سب رموز تخلیق و تولید، قبل پیدائش اور بعد پیدائش کے  نتائج و موجبات پر مشتمل ہوتے  ہیں۔

ایک وقت تھا کہ ادب کے  حوالے  سے  یا اس کی فنی ترجیحات کے  مدِ نظر یا اس کے  محاسن و معائب کے  نقطۂ نظر سے  اجتماعی سطح پر نظری سوال اٹھائے  جاتے  تھے۔ پھر ان کے  جواب ڈھونڈے  جاتے  تھے۔ ابحاث کے  نتیجے  میں  کئی اصولوں  کے  تعین کی نوبت آتی تھی اور اصول طے  پائے  جاتے  تھے، اور بعض اصول برحق ہو کر دیوار سے  لگ جاتے  تھے۔ اور ایک قابل لحاظ مدت کے  انتظار میں  رہتے  تھے  جو ان اصولوں  کو ناقابل تردید بنا دیتی۔ یا یہ نظریہ محبت کی قبا پہننے  کے  لائق ہو جاتے۔ دراصل یہ ادب کے  علوم نظریہ کی فقہ کی طرز پر جمع آوری تھی۔ کبھی فتویٰ کی تحریک، کبھی امضاء، کبھی توقیع اور کبھی اجماع دانش۔ پھر ادب کے  نئے  سے  نئے  پھولوں  کی شگفتگی اور پھر گلستاں  کی رونقوں  پر حرف و معنیٰ کی علمی سیر و چال جاری رہتی تھی۔

جس طرح غزل میں  نیا مضمون پیدا کرنا کارِ دار ہے  اسی طرح ادب کے  اندر کسی نئے  مسئلہ کی نشاندہی اور پھر اسی پر بحث کا در وا کرنا ایک مشکل امر ہے۔ سو تنقیدی صورت حال کے  تناظر میں  چونکہ جدت آثار اور متکبرانہ تخلیقی رویوں  کا مسلسل فقدان پایا جاتا ہے  اس لئے  علمی، ادبی، مسائل پیدا ہی نہیں  ہو رہے۔ ہم تنقید کے  باب میں  بھی پرانا آموختہ بلا تحقیق و تجزیہ دہرائے  چلے  جا رہے  ہیں۔۔۔  مگر ادب کی جدید تنقیدی نظری خوش وضعی کو تو اصطلاحاً ہم اپنے  ہاں  اٹھا لاتے  لیکن اس طرح کے  تخلیقی تجربوں  سے  ہم عاری ہیں  جس طرح کے  تخلیقی تجربات مغربی ادب میں  کئے  گئے  یا جاری ہیں۔ یہی وجہ ہے  کہ یہ ابحاث بھی ہمیں  کوئی واضح اصول نہیں  دے  سکیں۔ الا ماشاء اللہ کہ یورپ کی بعض اصطلاحات کو معروف عند الناس کیا گیا۔۔۔  جس میں  قاری متن اور مصنف کی اصطلاحوں  کو فوقیت حاصل رہی۔ یا ساختیات یا پس ساختیات کا نظام ہے۔۔۔  یہ دل فریب تنقیدی مسائل کیا تخلیقی سطح پر ہمارے  تخلیق کاروں  کے  خون کے  سالموں  کو تخلیقی قوت بھر سکے۔۔۔ ؟ یا یہ اصطلاحات تجزیاتی نظریوں  کے  مطالعات میں  نظریات کی غیر منطقی ورزش کے  علاوہ کوئی شعار عام کر سکیں ؟۔ قاری یا مصنف پر خود ان کے  ہنر کی شفقت کھول سکیں ؟ کیا کسی شاعر یا ادب نے  ان تنقیدی تجزیوں  سے  وجدانی فصاحت کی یہ تجزیاتی، ساختیاتی نظر کے  باطنی زاویوں  کی غیر افزوں  یہ کاوش کسی منزل پر اپنے  قاری کو ٹھہرا سکیں ؟۔ کیا ہمارے  درمیان علم و ادب اور تنقید کی نفسیات کا یکساں  نصاب اور ماحول نافذ ہے  جس سے  وحدت نتائج کی طرف جانے  کی راہ نکلے ؟۔۔۔   تو اس کا جواب راقم کے  پاس تو نہیں  ہے۔ اگر کسی کے  ہے  تو لائے ’’زرنگار’‘  ایسے  نظری خوش پوشوں  سے  ملاقات کے  لئے  اپنے  دروازے  ہمیشہ وا رکھتا ہے۔۔۔  سو ان کے  جوابات کو شوق سے  شائع کرے  گا تاکہ نظریاتی بحثوں  کی ’’اصطلاحی خود لذتی’‘  کے  کرومز (Croms) اور سیلز کو چیک کیا جا سکے۔

یہاں  پر توجہ پھر ان تخلیقی تجربات کی بندش، انسداد یا اغلاق پر لگی ہوئی ہے  جس کی وجہ سے  بڑی تنقید اپنی زمینی اور عصری تہذیب کے  رد عمل میں  تخلیقی عمامہ پہن سکے۔ یا ان تخلیق کاروں  کو نمایاں  کر سکے  جن کے  ہاں  بڑے  تجربات کے  کچھ تخلیقی جواہر پارے  پڑے  ہیں۔

تخلیقی تجربوں  کو بھی بقول شاعر ناصح کی ضرورت ہیں  ہوتی بلکہ کسی غمگسار اور چارہ ساز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ چارہ سازی اور غمگساری تخلیقی مزاج کو بھی میسر آئیگی جب ہمارے  ہاں  تنقید کا نظام اغلاق کی کوکھ سے  پیدا نہ ہوا ہو۔۔۔  اغلاق کی کوکھ سے  پیدا شدہ تنقیدی حامیوں  کی قوت کم ہوتی ہے۔ ان کے  نشان گویائی و ذوقی، بصری اور استشمامی وحشی نظام پر تخلیقی گواہیوں  کی بالواسطہ مہر ثبت ہونی چاہئے۔

یہاں  پر ہماری مراد اور ان تنقید نگاروں  کا مساحت فن کا وہ جامہ پہننا مقصود ہے  جس سے  تنقیدی معیارات فلیپ کی بے  صلب دانش سے  محفوظ ہو سکیں۔۔۔  ہم شعرو سخن سے  دلبستگی کے  نام پر سنجیدہ مذاق نہ کریں۔ بین السطور ان کاوشوں  کو مذکور کریں۔۔۔  اور اس عدم دسترس کا تذکرہ  جدھر سے  ظہورِ فن نے  چشم پوشی کی اور ان امکانات کا ذکر کریں  جو آ سکتے  تھے، نہیں  آئے۔۔۔  نادانہ فرائض کی تدوین بھی ایک تنقیدی معروضہ ہے۔

 

جمالیتِ ادب کی جنس کیا ہو سکتی ہے ؟

 

قارئین ادب کردار!

بقول شخصے  بات کو کہیں  سے  بھی شروع کر لیا جائے  اگر آپ کا موضوع منطقی حقیقتوں  پر مبنی ہے   تو وہ اپنے  مطلب کے  نتائج پر طلوع کے  آثار دے  سکتا ہے ! ادب اپنی تسطیر میں  جس خام مواد سے  ظہور کرتا ہے۔۔۔  اس کے  عددی اور فکری جغرافیہ کا تعین نہیں  کیا جا سکتا۔۔۔  نہ ان کی ہیئت اور جنس پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے  نہ ہی جمال کشائی میں  کمیت اور کیفیت کا کوئی نصاب مقرر کیا جا سکتا ہے۔۔۔  سوال یہ بھی ہے  کہ ادب کا کتنا حصہ ارشادی اور بظاہری افادی ہے  اور کتنا معنوی اور سمت نمائی سے  تعلق رکھتا ہے۔۔۔  شعر و ادب ناز و نعمت ہی سہی مگر اس کے  مصارف کی بھی عقلی گنجائش موجود ہے۔۔۔  جمال کے  قافیے  نہ اپنی فطرت میں  مختصر ہیں  اور نہ ہی تنگ کئے  جا سکتے  ہیں۔ تہذیب اپنی جنس میں  طرز عمل ہے  مگر حواس کے  قرینوں  میں  جمال ہے، شعرو ادب لسانی فطرت میں  جذبات کے  متوازی لفظی و معنوی قطع و برید ہی سہی مگر یہ ہی کتر بیونت لباسِ شعر و ادب کا داخلی تقاضا ہے۔۔۔  دراصل شعرو ادب میں  موجود تراش خراش ہمیں  ان داخلی جذباتی موسموں  کے  عوارضات پر منطبق کرنا ہوتی ہے  جو لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلتے  ہیں ، پیرہن بدلتے  ہیں، جنس نہ بھی بدلیں  مگر نوعیت میں  ڈھلنے  کیلئے  مصر رہتے  ہیں۔۔۔  جمال اپنی فطرت میں  انشائی رویوں  کا طلب گار ہے۔۔۔  اور استفادہ کے  لئے  اپنی بانہیں  کھول کر رکھتا ہے۔۔۔  سوال یہ بھی ہے  کہ کیا ادب کی جمالیات کو نعرہ اور خطبہ بنایا جا سکتا ہے  یا صرف یہ نظری راہنما ہے۔۔۔  جواب یہ بھی ہو سکتا ہے  کہ نظریہ سازی اگر حقیقی استفادہ تک جانے  کی راہ نہیں  کھولتی تو یہ بھی ایسے  ہی  ہے  جیسے  مجذوب کو کسی جماعت کی امامت سونپ دی جائے۔۔۔

کسی بھی معاشرہ میں  ذوق جب جبلت کے  زیر اثر جمالی یا افادی راستوں  کی طرف جائے  گا تو تبھی اس میں  زوال آمادگی ظاہر ہوتی ہے۔۔۔  تب جمال اپنے  عطفی جوہر سے  ہٹ کر ان رویوں  کی جانب جا نکلتا ہے  جہاں  کھیل تماشا ذہنی کی بجائے  جسمانی آسودگی میں  ڈھل جاتا ہے۔۔۔  جمال اور ادب کے  صنفی رویے  ایک دوسرے  کے  خستہ اور نرم رویے  تلاش کرتے  ہیں  اور پھر انہیں  اوڑھ لیتے  ہیں۔۔۔  تب ایک نیا موسم طلوع ہوتا ہے  جس کی ایک شکل علم کا ٹھوس رویہ بھی ہے۔۔۔  تہذیب اور اخلاق کا سنجیدہ راستہ بھی ہے۔۔۔  دل، تمنا اور جنس کا ملغوبہ اسلوب بھی۔۔۔  جس میں  انسان کا مرد و زن ہونا اور ایک دوسرے  کو بار بار بدلنا اور قبول کرنا بھی شعر و ادب کی سانسوں  کا ضامن ہے۔۔۔  فنون لطیفہ کے  دیگر شعبوں  میں  بھی اس کی جلوہ کاری دیکھی جا سکتی ہے۔۔۔

رہی بات اس امر کی کہ ادب کو جمال میں  نعرہ اور خطبہ ہونا چاہئے  یا نہیں  تو اس بات سے  صرف نظر نہیں  کیا جا سکتا کہ انسانی جذبات جب اپنی متناہیت کے  قبضہ میں  جا تے  ہیں  تو حدت کا جوالا مکھی پھوٹ پڑتا ہے۔۔۔  نظریہ کے  طور پر نہ سہی نظیر کے  طور پر ہی قبول کیجئے  کہ ادب کا نعرہ ہو سکتا ہے  جمال پر کسی کو بھی کسی ضرورت سے  زور سے  پکارا جا سکتا ہے، متوجہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔  ادب میں  ندبہ، ندائیہ، فجائیہ کی حسیات اگر موجود ہیں  تو نظریہ میں  ادب کے  نعرہ اور اسی قبیل پر خطبہ کی گنجائش بھی موجود ہے۔۔۔  شرط یہ ہے  کہ نعرہ اور خطبہ جمال کی نظری اور حسی شرطوں  پر پورا اترتے  ہوں۔

صاحبان! جن مظاہر کی ہسٹری، کیمسڑی اور مسڑی ناقابل پیمائش ہو ان کی صلاحیت اور قابلیت سے  منحرف نہ ہوں ، جمال کی ریزش و ارزش اپنی لطافت کا جواز کبھی کبھی کثیف مواد یا طریقہ کار سے  بھی لیتی ہے۔۔۔

غالب بھی جمال اور لطافت کی پیدائش کے  لئے  کثافت جو شرط کہتے  ہیں

(ع)      لطافت بے  کثافت جلوہ پیدا کر نہیں  سکتی

٭٭

 

’’زرنگار’‘  نے  تو علم و ادب کے  گم گشتہ قائموں  کی از سرِ نو تشکیل کی ہے۔۔۔  کلاسیکل ادب کے  چراغ جلائے  ہیں۔۔۔  اپنے  صفحات میں  سطر بہ سطر ایک ظاہر اور مخفی بنیاد رکھ چھوڑی ہے۔۔۔  کہ یہ دلہن جیسی اردو آپ کی زبان ہے۔ اس کے  زیورات آپ کا اثاثہ ہیں  اور دلہنوں  کو اپنے  ارمان پورے  کرنے  کے  لیے  مجوہرات کی بڑی آرزو ہوتی ہے۔۔۔  گہنوں  اور زرباف پار چوں  سے  ہی عروسی کے  ماحولیات قائم ہوتے  ہیں۔ مقام گریہ و ماتم ہو یا نشاط افزا محل، نفسیاتی حسی اور تہذیبی آداب کو تو قائم کرنا ہے۔ ’’زرنگار’‘  میں  چھپنے  والی تحریروں، افسانوں  اور تنقیدی مضامین کی زبان وہی ہے  جو پہلے  سے  استعمال ہو رہی ہے۔۔۔  آپ اپنی غزلیں، نظمیں، خط، انشائیے  خود اپنی منتخب کردہ زبان میں  لکھ رہے  ہیں۔ زر نگاری مدیر آپ کے  ذوق اور زبان کے  منہ میں  لقمہ نہیں  ڈالتا۔۔۔  یہ سب ’’ادبی تماثیل’‘  آپ کے  اپنے  کرداروں  سے  سجی ہیں۔ ساری آنکھوں  میں  آپ کے  خواب بھرے  ہیں، زرنگار تو ایک نوبت ہے۔۔۔  استعاراتی نقارہ ہے۔۔۔  زبان کی سج دھج کا ’’مقدمۃ الجیش’‘  ہے  جو آپ کو احساس دلاتا ہے  کہ آپ کی زبان کے  تاریخی اعتبارات کیسے  تھے۔۔۔  لفظ و معنی کے  حدود اور اکناف پر اردو کے  ارکانِ خمسہ کی رخش پیمائی کیسی تھی۔۔۔  آپ کی زبان کی ثروت مندی میں  عربی زبان کا شکوہ اور فارسی کی شیریں  سخنی کیسے  آئی تھی۔۔۔  غالب کی لسانی تہذیب نے  کیسے  جنم لیا۔ اقبال کی فکری ساختیات نے  حرف و معنی کے  غول بیابانی کو کیسے  سدھایا اور اپنے  کام میں  خرچ کیا، خدارا ہوش کے  ناخن لو، سہولت کو نعرہ سمجھ کر قبول نہیں  کیا جا سکتا جب تک یہ فن نہ بن جائے۔ حرف و معنی کی آسانیاں  زبان کی رخصت ہوتی ہیں  اس کی عزیمت نہیں۔ اپنا نصاب کہاں  ڈھونڈنے  جائیں  گے  آپ۔۔۔ ؟ کیا آپ نے  غالب کو کھونے  کی قسم کھا لی ہے۔۔۔  کیا اقبال کی فارسی شاعری اب آپ کے  ذوقی اور قومی مطالبات کا حصہ ہی نہیں  رہی۔۔۔  آپ کے  پہلے  ’’پنج سالہ منصوبے ‘‘ کی طرح آخر لوگ آپ کے  غالب و اقبال کو بھی اٹھا کر لے  جائیں  گے۔۔۔  کہہ دینا آپ پھر۔۔۔  ہم سے  ان کی ’’مشکل اردو’‘  اٹھائی نہ گئی۔۔۔  ہمارے  گھروں  سے  لغات اور فرہنگ رخصت ہو گئی تھی۔۔۔  ہم محض اپنا گریڈ بنانے  کے  چکر میں  کالجز اور یونیورسٹیوں  میں  ایم فل اور پی ایچ ڈی کے  مقالے  لکھتے  رہے۔

ببیں  تفاوت راہ از کجا ست تا بہ کجا

معزز قارئین!! زرنگار آپ کے  پاؤں  کا قالین ہے، کون آپ کو اپنی چال چلنے  سے  روکتا ہے۔ زخم کے  کناروں  پر اگر شدت کا چراغ جلانا چاہتے  ہیں  آپ۔۔۔  یا دعائے  سحر گاہی کی کیفیت میں  زمزمہ پرداز ہونا چاہتے  ہیں  تو کون آپ کو روکتا ہے۔۔۔  جب آپ کہتے  ہیں :

’’اے  مِری ہم رقص مجھ کو تھام لے          زندگی سے  بھاگ کر آیا ہوں  میں ‘‘

تو سب لب و لہجے  آپ کی ہی وجدانی میراث ہوتے  ہیں۔۔۔  ’’زرنگار’‘  تالیاں  پیٹتا ہے۔ بیان رقص کرتا ہے  اور کانوں  میں  سماعت زاویوں  کے  طربیہ سر جادو جگانے  لگتے  ہیں۔ ’’زرنگار’‘  تو آپ کی زبان کا منادی ہے  اردو کی نجابت اور اصیل نسل اقراریت کا پہریدار ہے۔۔۔  اہل غیرت کے  گھروں  میں  فاقہ مستی بھی آ جائے  تو گھروں  سے  دربان رخصت نہیں  کیا کرتے  کہ گھر کی حفاظت ضروری ٹھہرتی ہے۔۔۔  سو  ’’زرنگار’‘  کو اپنی ذمہ داریاں  ادا کرتے  رہنا ہے۔ کہیں  ایک ایک کر کے  آپ کے  استعارے، کنائے، محاورے  ہی رخصت نہ ہو جائیں۔ آپ کا منبر ذات ہی خالی نہ ہو جائے۔۔۔  کوئی جذبہ منبر پر چڑھ کر آپ سے  خطاب ہی نہ کر سکے  اور کوئی غنچہ چٹک کر نئے  استعاروں  کو جنم دینے  کے  قابل ہی نہ رہ جائے۔ خدا نخواستہ ایسا وقت کبھی نہ آئے۔

معزز قاری!! یہ باغ آپ کا۔۔۔  یہ ایاغ آپ کا ہے۔ مے  کش آپ کے  ہیں  میخانہ آپ کا ہے۔۔۔  زرِ حیف بھی آپ کا اور رزقِ نشاط آپ کا۔ ‘‘

دیکھیں  مدیر صاحب! ہمیں  نصیحتیں  نہ کریں۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش آپ کی اور ہمیں  درس دے  رہے  ہیں۔۔۔  خط کشیدہ دانش و معنی سمجھا رہے  ہیں۔ اس ملک میں  ایک سے  بڑھ کر ایک قابل ادیب، شاعر فلسفی اور محقق موجود ہے۔ ان کو بھی پتہ ہے  کہ زبان و بیان کو کیسے  بچانا ہے  آپ کیوں  توپچی بنے  ہوئے  ہیں۔ ‘‘

شمِ ماروشن دل ماشاد

صبا میرے  ان مہمان قارئین سے  کہہ دو۔۔۔

آ عندلیب مل کے  کریں  آہ و زاریاں

تو ہائے  گل پکار میں  چلاؤں  ہائے  دل

مدیر صاحب! ہم ایسے  بھی بے  فکرے  نہیں  جنہیں  مذاقِ گل نہیں  نہ ہو۔ ایک حلقے  نے  آپ کی اس ’’زر نگاری کاوش’‘  کو محبوب ترین بھی تو قرار دیا ہے۔۔۔  آپ کے  اسلوب اور طرز کو ستائش بھی تو بخشی ہے۔  ’’زرنگار’‘  کے  لیے  پیغامات تہنیت بھی تو بھیجے  ہیں، مگر کہیں  کہیں  پر ’’زر نگاری تحریروں ‘‘ میں  اغلاق کا مسئلہ بھی تو پیدا ہوتا ہے  عام قاری کو سمجھنے  میں  دقت ہوتی ہے  کچھ اس کا بھی بندوبست کریں۔ ‘‘

جی صاحبو، بند نوازو۔۔۔  میری آنکھ کی پتیلیو۔۔۔  یہ ایک علمی بات ہے۔ اغلاق اور ابہام کے  فرق کو سمجھیں  یہاں  جو اغلاق آپ کہہ رہے  ہیں۔ وہ اغلاق نہیں، ایک حصہ دھندکا ہے  اور رومانی جزیروں  میں  دھند ضرور ہوتی ہے، تخیلاتی کہساروں  کی صبا آثار وادیوں  میں  اگر مطلع سارا صاف ہو جائے  گا تو آنکھ کو تو بس آپ ایک منظر، ایک خواب اور بس ایک تعبیر ہی دکھا سکیں  گے۔۔۔  کہاں  جائے  گا اتنا وسیع ادب اور ہمالہ آثار شعری اثاثہ، خدارا ریاضی اور ادب کے  حسیاتی، جنیاتی مزاج کے  فرق کو سمجھنے  کی کوشش کریں۔۔۔  حرف و معنی کی وسیع تجسیم اور تعریف میں  ابہام خود بخود در آنے  والی چیز ہے  اور اس چیز کو نہ بھولیں  کہ ہر علم کی اصل جبلت شاعری کے  منہاج سے  اٹھی ہے۔۔۔  سو تعبیرات، تعینات اور متمیزات کی گرفت کے  لیے  ٹافیاں  بیچنے  والی لفظیات استعمال نہیں  ہو سکتیں۔۔۔  جمال اس وقت تک جمال ہی نہ کہلا سکتا جب تک اس کی تجسیم میں  دیکھنے  والی آنکھوں  کا فیصلہ آپس میں  مختلف نہ ہو۔ ہزار آنکھوں  کو ایک منظر پر تقسیم کیا جا سکتا ہے  ہزار منظروں  کو ایک آنکھ پر نہیں۔

مدیر بھائی! زرنگار میں  شعراء گرامی کا کلام شائع کرتے  ہوئے  آپ نے  پچھلے  پرچے  میں  سینیارٹی کا خیال نہیں  رکھا، بہت سے  شعراء کو ٹھیس لگی، آپ کو ادھر بھی توجہ دینی چاہئے۔

یقیناً یہ ایک اہم ہی نہیں  مہم مسئلہ ہے  لیکن سوچنا پڑے  گا کہ یہ تو اسی طرح کی الجھن ہے  جس طرح ایک وقت میں  زیادہ مفتیوں  اور مجتہدوں  میں  سے  ’’اعلم’‘  کے  فتوے  پر عمل کا مسئلہ ہے۔ اب کیسے  اجماع ہو اس بات پر کہ کون اعلم ہے۔ اس کا ایک حل یہ نکالا گیا کہ اعلم کی بجائے  ’’اتقی’‘  کی تقلید کی جائے  یعنی جو زیادہ متقی ہو۔۔۔  تو کیا زیادہ متقی شاعر پر اجماع اور حجت ٹھہر سکتی ہے ؟ (احباب کی خصوصی توجہ درکار ہے ) کیا سینیارٹی کے  لیے  عمر کو معیار اور کسوٹی بنا لیا جائے ؟ کیا جس شاعر کے  دیوان زیادہ شائع ہوئے  ہوں  وہ سینئر سمجھا جائے  یا جو شاعر لحن سے  شعر پڑھتا ہو اسے  فوقیت ملنی چاہیے۔۔۔  یا اگر فیصلہ نہ ہو پا رہا ہو تو جو شاعر زیادہ خوبصورت اور جمیل ہو تو اسے  منزلت و کبریائی کی مسندِ اول پیش کی جائے۔ اس کا حل چند ایک صورتوں  کے  علاوہ نہ پہلے  نکلا ہے  اور نہ اب نکل سکتا ہے۔ مثلاً

۱۔ ابجدی ترتیب سے  شعراء کے  کلام کو ترتیب دیا جائے۔

۲۔ جس شاعر کا کلام سب سے  پہلے  دفتر ’’زرنگار’‘  آئے  وہ ہی ’’مقدمۃ الجیش’‘  بننے  کا اہل ہو۔۔۔

۳۔ تین معتبر شعراء سے  ترتیب کی ہر بار گواہی لی جائے۔۔۔

۴۔ اسے  مدیر کا علیٰ وجہ البصیرت ’’صوابدیدی اختیار’‘  سمجھا جانا چاہیے۔

۵۔ ہر بار شاعری کے  جمالیاتی اور تنقیدی آثار متعین کرنے  کے  لیے  کوئی میکنزم تلاش کیا جائے۔

۶۔ یا پھر سب شاعروں  کے  اسماء گرامی کو قرعۂ فال کی کرامات سے  گزارا جائے۔

آپ احباب ہی اس مشکل کا حل تجویز فرمائیں  یہ مسئلہ اب آپ کی کورٹ میں  ہے۔

اس کا تو احباب مل کر کوئی بھی حل نکال لیں  گے۔

مہمانو!، حرف نژادو! اب میں  کچھ آپ کی خدمت میں  چند گزارشات پیش کر لوں۔۔۔ ؟

آپ کو حق ہے  مدیر صاحب بات کرنے  کا آپ کریں، مگر ہمیں  لگتا ہے  کہ باتوں  ہی باتوں  میں  آپ تو زرنگار کا اداریہ لکھ رہے  ہیں۔

شاید آپ سے  براہ راست کرنے  والی باتیں  ’’اداریہ’‘  ہی ہوتی ہیں، اپنے  ارد گرد ادبی مسائل کی نشاندہی اور شخصی ائتلاف کے  سانحات پر تعزیت گزاری ہی اداریہ کا نفسِ مضمون ہوتا ہے۔۔۔  سو میں  بھی چند معروضات کو آپ کی نرم سماعتوں  اور معنی کشا آنکھوں  میں  پیش کر رہا ہوں  امید ہے  کہ آپ محبت فرمائیں  گے۔

کہو جی کیا کہنا ہے  آپ نے ؟

بھائی! جب آپ اپنی نگارشات بغرض اشاعت ارسال فرماتے  ہو تو آپ تئیں  یہ احساس کیوں  جمع ہونے  لگتا ہے  کہ اسے  فوری شائع ہونا چاہیے۔ اور اگر تاخیر یا باری کے  امکانات ہوں  تو آپ پر ایک نفسیاتی یبوست اور پژمردگی چھا جاتی ہے۔۔۔  ایسا نہیں  ہونا چاہیے۔ یہ صرف نوجوان لکھاریوں  کا ہی رویہ نہیں  بلکہ بعض بزرگ تخلیق کاروں  کا بھی ہے۔

ہر مجلے  کی ایک اپنی پالیسی ہوتی ہے  اور اسے  اس پر چلنا بھی ہوتا ہے۔ ہمارے  بعض بزرگوں  کا کہنا ہے  کہ کچھ نوجوانوں  کا کلام غیر معیاری ہوتا ہے  اسے  شائع نہ کیا جائے۔ ’’زرنگار’‘  کی کوشش ہے  کہ ان نوجوانوں  کو ’’نئے  جوہر کی تلاش’‘  کے  عنوان سے  پڑھ لیا کریں  اور ان کے  فنی محاسن یا اسقام کی نشاندہی بھی فرما دیا کریں۔ اگر مجلہ کو شاعری کے  حوالے  سے  ’’انتہائی معیارات’‘  کا حامل بنا دیا گیا تو اس سے  ’’زرنگار’‘  کی ہیبت میں  تو اضافہ ہو جائے  گا مگر ان نوجوانوں  کے  ساتھ انصاف نہیں  ہو گا جن کو اجارہ داری میں  پلنے  والے  پرچے  اپنے  ہاں  جگہ نہیں  دیتے  اور ہاں  صاحب، مجھے  ان کریم لوگوں  کا شکریہ ادا کرنا ہے  جنہوں  نے  زرنگار کا سالانہ ’’زرِ تعاون’‘  ارسال فرمایا۔ آنے  والے  دنوں  میں  ہم ’’زرنگار’‘  کی معاونت کرنے  والے  دوستوں  کے  ناموں  کا اعلان بھی کریں  گے  اور ہاں  ’’زرنگار’‘  ان ادبی جوّادوں  اور شہہ سواروں  کی طرف بھی دیکھ رہا ہے  جنہوں  نے  زرنگار کا ’’زرِ تعاون’‘  ابھی تک ارسال نہیں  کیا ہے۔ زرنگار کے  لیے  ’’زر تعاون’‘  کا سوال کرنے  پر میری شخصی شہامت پر کوئی اثر اندازی نہیں  ہو گی۔ مرحوم سر سید احمد خاں  نے  کہا تھا کہ علی گڑھ اسکول کے  لیے  اگر مجھے  سڑک پر کھڑے  ہو کر چندہ بھی مانگنا پڑا تو میں  اس بھی دریغ نہیں  کروں گا۔

’’زرنگار’‘  ایک ادبی تحریک ہے  جو کہ ہر زبان کے  ادبیات، خصوصاً اردو ادبیات کے  فروغ کے  لیے  کم بستہ ہے۔ یہ وہ رسالہ ہے  جو ایک ہی وقت میں  اسلامی میراث کے  علمی اور ادبی سرمائے  کو بھی منظر عام پر لا رہا ہے، کلاسیکل امتیازات کی بازیافت میں  بھی مصروف ہے  اور نئی ’’ادبی اور لسانی فتوحات’‘  کے  لیے  اپنے  چاک چوبند گھوڑوں  کا ہر اول دستہ بھی آپ کے  لیے  مہیا کر رہا ہے۔ ادب کی نماز کے  واجبات اور فرائض کے  ساتھ اس کے  نوافل اور مستحبات کو بھی پڑھنا ہو گا تاکہ ’’ادبی تقویٰ’‘  کی میزان قائم ہو سکے۔ زبانوں  کے  حوالے  سے  ہی تہذیب اور کلچر کے  فروغ کے  امکانات نکلتے  ہیں۔ قوموں  کی عمرانی نفسیات کا پتہ چلتا ہے، تمدن کے  خطوط واضح ہوتے  ہیں، حرف و معنی کی حرمتوں  کے  چراغ جلتے  ہیں۔ کیا آپ اس ادبی تحریک میں  شامل ہیں  جس کا نعرہ ’’روحِ ادب اور جمالِ حرف و معنی کا استعارہ’‘  ہے  اس جریدے  کی کسی بھی نظریاتی جماعت سے  وابستگی نہیں، کسی فرقہ پرستی سے  کوئی علاقہ نہیں۔۔۔  کسی مخصوص جغرافیائی خطے  کی نمائندگی مقصود نہیں۔ ادارہ کا منشور ادیبوں  اور شاعروں  کا ’’اجتماعی شعور’‘  ہے۔ اس کے  علاوہ کچھ نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

جہاں  بینی میری فطرت ہے  لیکن:: کسی جمشید کا ساغر نہیں  میں

 

ذوقی

 

اردو رسائل میں  عام طور پر خصوصی نمبر اور گوشوں  کی اشاعت ہوتی رہتی ہے۔ ایک مختصر ترین گوشہ ضیاء حسین ضیاء سے  قلبی عقیدت اور ان کی ادبی کاوشوں  کو ملحوظ رکھتے  ہوئے  شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ نام پہلی بار پاکستان کی مشہور افسانہ نگار سیمیں  کرن کے  توسط سے  سننے  کا موقع ملا۔ میں  جب تک کسی کو پڑھ نہ لوں، کوئی نتیجہ اخذ نہیں  کرتا۔ مگر علامہ کے  نام میں  ایک جادو تھا کہ انہیں  جاننے  اور پڑھنے  کا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا۔ پھر سیمیں  کے  ذریعہ مجھے  ان کی کتابوں  کو پڑھنے  کا موقع ملا۔ سب سے  پہلے  دروازہ گل (ناول) کا مطالعہ کیا۔ پھر مابین کا ان کے  اداریے  پڑھ ڈالے۔ غزلیں، نظمیں، یہاں  تک کہ ادب سے  وابستہ جن حضرات سے  انہوں  نے  انٹرویو لیے، وہ بھی پڑھ ڈالے۔ الفاظ کے  دریا کی روانی دیکھ کر حیرت زدہ تھا۔ میں  نے  جی میل پر ایک مختصر پیغام ان کے  نام لکھا۔ فوراً جواب آیا۔

پیارے  ذوقی بھائی

تحیاتِ مسنونہ۔

آپ کی محبت اور دلآویز صلۂ دوستی کا اظہار اس حد تک موثر ہے  کہ بیان کروں  تو بے  ربط ہونے  کا ڈر ہے۔ بخدا آپ کی تعریف ادنیٰ پروری اور ریزہ افزودگی ے  ورنہ سرِ آئینہ کھڑے  ہونے  کی جرات نہیں۔ آپ کے  عظیم قلم اور وجدانِمنعقدہ سے  ایسے  جملوں  کا صدور و فتوح میرے  لیئے  ناختم اعزاز کی بات ہے۔۔۔  مجھے  سمجھ نہیں  آتی کہ اپنی ادنی بضاعتوں  سے  کیسے  آپ کے  متسرفات کا اثبات و اقرار کروں۔۔۔

آپ کا تذکرہ عزیزہ سیمیں  کرن اس تواتر اور خلوص سے  کرتی ہیں  کہ میری آنکھیں  فرطِ عقیدت سے  نم ہو جاتی ہیں۔۔۔  آپ کی ادبی علمی بضاعتوں  کا پرانا معترف ہوں  ہر چند رابطہ استوار نہیں  ہو سکا۔

میری طبیعت کا استسقا ہے  کہ میں  آپ ایسے  صاحب مشرب و مسلک سے  فیض اٹھاتا رہوں  اور اپنے  ادبی او نفسیاتی مخاطرات سے  شہودی آبناؤں  کی طرف کوچ کر جاؤں۔۔۔  میرے  آقا فقیر آدمی ہوں  نہ شہرت کی تمنا نہ بازارِ نعمت دنیا میں  نفس کی کسی تعیش کوشی کی۔۔۔  آپ ایسے  دوستوں  سے  محاورۂ ذات ہوتا رہے  تو زیست کا جواز اور معنی و لفظ کا استخدام ملتا رہتا ہے۔۔۔

مولا سے  دعا گزار ہوں  کہ آپ کے  گھر میں  صحت کا تمکن ہو، خوشی کا قرار، اور عرفانی زاویوں  کی مجلس نشینی آپ کو حاصل رہے۔۔۔  زرنگار میرا جنون ہے  اور کوشش ہے  عامی خامہ گزاریوں  سے  اسے  بچا کر لے  جاؤں۔۔۔

مولا آپ کی توفیقات میں  تزاید و تضاعف عطا فرمائے۔۔۔ شکریہ۔

نیاز مند

ضیاء حسین ضیاء

میں  نے  جواب دیا۔

’’خط کیا ہے  ایک دنیا آباد۔۔۔ بلکہ پوشیدہ اور مخفی دنیاؤں  کا ادراک بھی ممکن اگر بصیرت قلب سے  دیکھنے  کی کوشش کی جائے۔۔۔ گر بہ بینی یک نفس حسن و دود۔ جیفہ بینی بعد ازیں  این شراب را۔۔۔ محبوب حقیقی کی تجلیات کا ایک لمحہ میں  مشاہدہ کر لیں  تو یہ جان آتش محبت کی نذر…میں  نے  آپکے  حق کلمات کو دل سے  محسوس کیا اور یہ جان آپکی نذر۔۔۔

سچ کہوں ، تو مجھے  لکھنے  کہاں  آتا ہے ، اس عمر میں  بھی سیکھنے  کی منزل پر ہوں …میں  بھلا لفظوں  کے  پرستان سے ، یا روحانی وادیوں  سے  وہ شاہانہ الفاظ کہاں  سے  لاؤں ، جو آپکی میراث ٹھہرے  بلکہ لفظ آپ کے  اشاروں  پر رقص کرتے  ہیں۔۔۔ میں  انتہائی معمولی انسان جسے  ادب کی دولت کن نیکیوں  کی معرفت ملی، یہ بھی نہیں  جانتا۔۔۔ اور یہ دولت بھی نہ ملتی تو کون جانے ، خدا کی سلطنت لازوال میں  کہاں  گم رہتا…اوڈیسی  کا ایک کردار جب سفید داغوں  کا شکار ہو کر ایک قبیلے  میں  پناہ حاصل کرتا ہے  اور اسکا ایک دوست مدت بعد اس سے  ملنے  آتا ہے  تو وہ کہتا ہے۔۔۔ جو ہوتا ہے  اچھے  کے  لئے  ہوتا ہے .میں  یہاں  نہ آتا تو تم سے  ملاقات نہ ہوتی۔۔۔ شاید یہی منظور، ادب کے  قبیلے  کا فرد نہ ہوتا تو آپ جیسی دولت کہاں  ملتی۔۔۔ سیمیں  نے  ایک بڑی ذمہ داری میرے  حوالے  کی ہے۔۔۔ وہ بھی روح کی مخفی دنیا کی مسافر۔۔۔ اور آپ مناجات و سرگوشی کے  اس مقام خاص پر اپنے  محبوب کے  ساتھ، جس کا شرف سب کو حاصل نہیں  ہوتا۔۔۔  میں  اس کا گنہگار بندہ۔۔۔ پھر بھی کوشش کرونگا کہ آپکے  خیالات تک رسائی حاصل کر سکوں۔۔۔ جو ممکن نہیں۔۔۔ تین مختصر جملوں  میں  کہوں  تو۔۔۔ آپ کو پڑھا۔۔۔ آپ کو جانا اور آپا ہو گیا۔۔۔

آپکی کتاب کا مطالعہ  میرے  لئے  آسان نہیں۔۔۔ ایک ایک لفظ.. ایک ایک سطر.. آسمان سے  اترنے  والے  صحیفوں  پر مجھ جیسے  حقیر کی رائے   کیا ہو گی؟ حیرت کہ اب ادبی صحیفے  بھی آسمان سے  اترتے  ہیں ..آپکے  الفاظ حیران کرنے  والے  وہ ستارے   ہیں  جنہیں  سائنس دان اب تک دریافت نہ کر سکے ..جمیز جوایز نے  یولیسیز کے  بعد دوسری کتاب لکھی تو  کہا گیا.. ایک صدی کے  لئے  ایک کتاب کافی. کیا ناول.. کیا نظمیں ..تنقیدی مضامین…اور اب اس کتاب کا پیش لفظ۔۔۔ حسن الفاظ کی انتہا ہے  کہ ضیاء ہو جائیے۔۔۔.

آگے  کچھ بھی لکھنے  کی جرات نہیں۔۔۔

٭٭

ادب کی خانقاہ میں  ایسے  لوگ بھی ہیں ، جو برسوں  سے  ریاضت میں  لگے  ہیں .اور بے  نیازی ایسی کہ انھیں  اس فانی دنیا سے  کسی حاصل یا انعام کی پرواہ نہیں۔۔۔ جگر کے  لفظوں  میں  کہوں  تو۔۔۔ ان کا پیغام محبت ہے  جہاں  تک پہنچے۔۔۔

دروازہ گل ما بین کیا کبھی آپ کا کسی ایسے  باغ میں  جانا ہوا ہے ، جہاں  تاریکی میں  ہزاروں  جگنو ایک ساتھ جھلملا رہے  ہوں۔۔۔ کسی ایسے  مقام پر جہاں  خوشبوؤں  کا بسیرا ہو…پھول جھڑنے  کا محاورہ صرف کتابوں  میں  پڑھا۔۔۔  لفظوں  سے  ایسے  پھول جھڑتے  ہوں  کہ وادی حیرت کا ایک انجانا دروازہ، کھل جا سم سم کہے  بغیر آپ کو ایک ایسی طلسمی دنیا میں  لئے  جاتا ہو جہاں  سے  واپس آنے  کا دل نہ کرے۔۔۔ خوشبو ایسے  ہم سفر ہو کہ آپ اس کی اسیری سے  آزاد نہ ہونا چاہیں۔۔۔ اور محسوس ہو کہ صفحہ قرطاس پر لفظوں  کی جگہ لا تعداد جگنوؤں  نے  لے  لی ہو۔۔۔ اور جگنوؤں  کے  پروں  سے  نکلتی شعاعوں  نے  آپ کی نگاہوں  کو خیرہ کر دیا ہو۔۔۔

میں  نے  اس سے  قبل لفظوں  کا ایسا انتخاب کہیں  نہیں  نہیں  دیکھا۔۔۔ حسرت نے  کہا تھا۔۔۔ جب سے  دیکھی ابو الکلام کی نثر۔۔۔ لیکن یہاں  بھی معاملہ کچھ کم نہیں۔۔۔ ایک دریا رواں  ہے۔ ایک آبشار ہے  جو تھمتا نہیں …دنیا کی حسین موسیقی جو باطن میں  رس گھول رہی ہے ..ان دونو ں  ناولوں  میں  اگرچہ موضوع مختلف ہیں ، لیکن اس حقیر دنیا کو جاننے  اور سمجھنے  کی جو کوشش نظر آتی ہے ، اس نے  مجھے  وجد کی کیفیت میں  پہچا دیا ہے ..ہمیں  کیا خبر کہ آسماں  کی طرف کیا ہو رہا ہے ..ارواح جو نفس سے  رابطہ گناہ میں  ہیں ، انکا انجام کیا ہو گا ؟ دنیا کے  قید خانے  اور خواہشات نفس کی غلامی کا بار اٹھانے  والے  اصل چمن کی لذّت سے  کیوں  کر واقف ہوں …ایک نہ ختم ہونے  والا مکالمہ ہے …جسم سے  روح، ظاہر سے  باطن کی نہ ختم ہونے  والی پرواز ہے …ہر سطر آپ کو روکتی ہے ..ہر صفحہ آپ کو ٹھہرنے  اور سوچنے  پر مجبور کر دیتا ہے …

دروازہ گل تخیل کے  آسمان پر ذہن انسانی کی اڑان ہے ، ما بین فرزند آدم نجم آفندی کی کہانی جو قوت تخیل سے  جنت کے  نئے  گوشوں  کا احوال سناتا ہے ..

حلم کی تلوار لوہے  کی تلوار سے  زیادہ تیز…نئی نسل کو ضیاء صاحب سے  سیکھنے  کی ضرورت ہے ..وہ خاموشی اور بے  نیازی سے  ادب کی خدمت میں  مصروف ہیں …ادب کی خدمات خاموشی سے  کی جاتی ہے۔۔۔

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ جنہوں نے جریدے کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید