FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

آنکھ میں لکنت

 

 

حصہ اول: غزلیں

 

                   غضنفر

 

 

 

 

انتساب

 

 

شریکِ حیات

بشریٰ

کے

نام

 

 

 

نظر بھی حال مرے دل کا کہہ نہیں پاتی

زباں کی طرح مری آنکھ میں بھی لکنت ہے

 

 

 

 

 

 

غضنفر :    ایک فطری تخلیق کار

 

                   ڈاکٹر واحد نظیرؔ

 

تخلیقی اظہار کے بیشتر ادبی وسائل کا ہنر مندانہ استعمال ہر فن کار کا مقدر نہیں ہوتا۔ فکشن اور شاعری کی مختلف صنفوں کو اپنے احساس کی خلعت بنانے کے لیے صرف تخلیقیت نہیں، ، مشق و مزاولت بھی درکار ہوتی ہے۔ تخلیقی صلاحیت مشقِ پیہم کے بغیر نزع کی شکار ہو جاتی ہے اور اس صلاحیت کے فقدان کی صورت میں مشق سے وجود میں آنے والی تخلیق پر ’حساب کتاب ‘ کی سی کیفیت نمایاں رہتی ہے۔ گویا تخلیقی کارناموں کی انجام دہی کے لیے بار بار تخلیقی عمل سے گزرنے کی خو فن کار میں ہونی چاہیے۔ ایسا تب ہی ممکن ہے کہ یہ عمل لذت کا باعث ہو نہ کہ جبر کا۔ جبر کی صورت میں تخلیق تو وجود میں آتی ہے لیکن یہ سفر دیر اور دور تک قائم نہیں رہتا۔ جب کہ لذت تکرارِ عمل میں مزید اور مزید کا حوصلہ عطا کرتی ہے اور سفر جاری وساری رہتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ مشاقی سے تخلیقی صلاحیت میں تخلیقی بصیرت کا انجذاب ہوتا ہے جس سے تخلیق خوب سے خوب تر ہوتی جاتی ہے۔ تخلیقی عمل کے دوران ایک ہی خیال کے کئی روپ تخلیق کار کے سامنے آتے ہیں، جہاں لفظ کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تخلیق کار سوچ کچھ رہا ہوتا ہے لیکن ایسا لفظ سامنے آ جاتا ہے کہ فکر یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایسے موقعے سے تخلیقی بصیرت ہی رہنمائی کرتی ہے کہ کیا ردّ کرنا ہے اور کیا قبول۔ یہ بصیرت جس فن کار میں جس قدر ہو گی، اس کا فن اسی قدر کمتر یا بہتر ہو گا۔ اسی صلاحیت کا رشتہ انتقادی شعور سے ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ ناقد تخلیقی صلاحیت رکھتا ہو ضروری نہیں لیکن تخلیقی بصیرت ضرور رکھتا ہے جب کہ تخلیقی صلاحیت کے ساتھ تخلیقی بصیرت کے بغیر کوئی تخلیق کار بڑا نہیں ہو سکتا۔

غضنفر کی تحریریں کیفیت اور کمیت دونوں لحاظ سے یہ اعتراف کراتی ہیں کہ تخلیق کار بے پناہ تخلیقی صلاحیت کا مالک ہے۔ فکشن میں ناول، افسانہ اور شاعری کی کئی صنفوں میں طبع آزمائی اور مسلسل اشاعت اس مکر ر تخلیقی عمل کو بھی ظاہر کرتی ہے جس کی خو جبر نہیں لذت سے پیدا ہوتی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ درجن کتابوں سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ غضنفر ایک ایسے فطری تخلیق کار ہیں جنھیں نثرو نظم کے مختلف تخلیقی پیرایۂ اظہار پر قدرت حاصل ہے۔

’’آنکھ میں لکنت‘‘ غضنفر کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ، حمد، نعت، غزل اور نظم پر مشتمل ہے۔ نظموں میں پابند، آزاد اور نثری نمونے شامل ہیں۔ مجموعے کا آغاز حمد یہ اور نعتیہ کلام سے ہی ہونا شاعر کے طبعی میلان اور فکری و فنی رجحان کو واضح کرتا ہے۔ یہاں حمد و نعت سے مبارک آغاز محض روایت کی تقلید میں نہیں ہوا ہے۔ ان کے اشعار باطنی کیفیات کے مظہر ہیں۔ حمدیہ کلام کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں :

نظر پڑتے ہی بھر جاتی ہے بینائی بصیرت سے

غلافِ سیاہ کتنا نور برساتا ہے مکّے میں

غضنفر یہ ہے محبوب و محب کے بیچ کا رشتہ

کہ ہر جانب مدینہ ہی نظر آتا ہے مکّے میں

عام طورسے مذہبی شاعری کے حوالے سے یہ رائے قائم کر لی جاتی ہے کہ یہاں شعریت کا فقدان ہوتا ہے۔ تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اس قبیل کی شاعری میں چوں کہ حقائق کا بیان ہوتا ہے لہٰذا شاعر کے لیے فکری بلند پروازی کے امکانات محدود ہوتے ہیں۔ تعلیمات و واقعات کے شعری اظہار پر اس رائے کا انطباق تو ہو سکتا ہے لیکن جذبہ، احساس اور کیفیت کو نظم کرنے کی صورت میں شعریت کی اتنی ہی گنجائش یہاں بھی موجود ہے جتنی دوسری قبیل کی شاعری میں۔ مذکورہ پہلے شعر کی لفظیات پر غور کریں تو نظر، بینائی، بصیرت اور نور جیسے لفظوں کی یکجائی ایک خاص جذبے کی ترجمانی کرتی ہے۔ اس یکجائی سے مناسباتِ لفظی کی خوبی واضح ہے لیکن شعریت یہ ہے کہ شاعر ان تمام نوری مناسبت کا سر چشمہ غلافِ سیاہ کو قرار دیتا ہے۔ چیزوں کو محسوس کرنے کا یہی رویہ شاعر کو عام انسان سے ممیز کرتا ہے۔ دوسرے شعر میں بھی یہی شعری رویہ کار فرما ہے صرف مضمون الگ ہے۔ مکّے میں ہر طرف مدینے کی جلوہ فرمائی در اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات و تعلیمات کے اثرات کے مشاہدے سے محسوس ہو رہی ہے۔ دونوں شعر میں وصفِ مشترک یہی ہے کہ نگاہیں ظاہر پر  مرکوز ہیں لیکن ذہن و دل باطنی اسرار کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ منظر کو وسیلہ بنا کر پورے تاریخی پس منظر کی تصویر چند لفظوں میں پیش کرنے کا یہ ہنر غضنفر کی تحریروں کا بنیادی وصف ہے۔ ناولوں اور افسانوں میں حال کے چہرے پر ماضی کے خد و خال ابھارنا کسی قدر آسان ہے لیکن شاعری میں یہ ہنر مطالعہ، مشاہدہ اور ریاضت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہاں ایجاز اور آہنگ کے تقاضے بہت کچھ کرنے سے روکتے رہتے ہیں۔ غضنفر نے ان کا استعمال نظموں میں بھی کیا ہے اور غزلوں میں بھی۔

’بنے کس طرح خامے سے مرے، خاکا محمد کا، ۵۳ اشعار پر مشتمل ایک نعتیہ نظم ہے۔ دورانِ حج بارگاہِ رسول میں حاضری کی شرف یابی کے بعد شاعر جن احساسات اور کیفیات سے گزرتا ہے ان کا شعری اظہار قابل داد ہے۔ نظم گنبدِ خضریٰ پر نظر پڑنے سے شروع ہوتی ہے اور خواب میں دیدارِ رسول کی تمنا پر ختم ہوتی ہے۔ خوبصورت تراکیب اور تازہ فکر کی مثالیں اس نظم میں اول تا آخر بکھری پڑی ہیں :

نگہ سے روح تک شادابیوں کی فصل لہرائی

نظر جس وقت آیا گنبدِ خضرا محمد کا

 

عجب اک چاندنی کے عکس سے بھرتی رہیں آنکھیں

عجب اک چاند میں ڈھلتا رہا سایہ محمد کا

 

عجب ٹھنڈک سی جسم و جان میں پڑتی رہی میرے

عجب اک دشت میں بہتا رہا دریا محمد کا

 

کوئی تو بات ہے ایسی کہ اس کوچے میں آتے ہی

سراپا ہوش ہو جاتا ہے دیوانہ محمد کا

 

ان اشعار میں دید، احساس، جذبہ اور تخیل کی ترتیب اس اساس پر قائم ہوئی ہے جو ایمان، عقیدہ اور عقیدت کی پروردہ ہے۔ گنبدِ خضرا(سبز گنبد)کی زیارت سے نگاہ سے روح تک شادابیوں کی فصل کے لہلہانے کو صرف مناسباتِ لفظی کے اہتمام سے تعبیر نہیں کر سکتے۔ احساس کی یہ شدت تب ہی نصیب ہوتی ہے جب دل محبتِ رسول کا سرمایہ دار ہو۔ دوسرے شعر میں احساسِ لطافت کی ایسی پاکیزہ مثال قائم ہو گئی ہے کہ دل بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے ’ ایں سعادت بزور بازونیست‘۔ روشنی کی لطیف شکل چاندنی ہے، چاندنی سے بھی لطیف چاندنی کا عکس ہے۔ یہ کلیہ ہے کہ کسی بھی نقش سے زیادہ لطیف اس کا عکس ہوتا ہے۔ اس شعر میں شاعر نے اپنے دیدوں میں چاندنی کے عکس کو بھرا ہے۔ پھر کمالِ لطافت تو یہ ہے کہ عکس سے بھی لطیف، یعنی سایہ، مذکور ہوا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ سایہ عکس سے بھی لطیف ترین ہے۔ اب جو جمالِ مصطفوی کا چاند تصور میں ابھرتا ہے وہ انتہائے لطافت کی مثال نہیں بے مثل ہے۔ چاند عکس ہے جس کا نقش بہ شکلِ مصطفی روئے زمین پر ہے اور عکس بہر حال نقش کا محتاج ہوتا ہے۔

تیسرے شعر میں جسم و جان کی سیرابی کا ذکر اس لیے ندرت کا حامل ہو گیا ہے کہ شاعر نے مکمل وجود اور فیضانِ رسول کا ذکر کیے بغیر اس سلیقے سے بات کہی ہے کہ دشت اور دریا سے وجود کی ویرانی اور فیضان کی بارانی کی تصویر ابھر کر سامنے آ گئی ہے۔ چوتھا شعر ’با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار‘ کی فکری تصدیق بھی ہے اور اس کیفیت کا اظہار بھی کہ فرقت میں شدتِ اضطراب کے باعث دیوانگی تو روا ہے لیکن قربت کے آداب از خود رفتگی کی اجازت نہیں دیتے۔ اس طرح ان دو مصرعوں میں وفورِ حبِ رسول اور آداب بارگاہِ رسول کا مکمل نصاب پیش کر دیا گیا ہے۔

’مکالمہ‘، ’ مہابھارت‘ اور ’بے اعتمادی‘ جیسی طویل اور ’نارسائی‘، ’مٹی سے رشتہ اور ’سبب‘ جیسی مختصر نظموں میں شاعر نے بعدِ زمان و مکان کی لکیروں کو بڑی خوبصورتی سے مٹایا ہے۔ کبھی ماضی کے چہرۂ زیبا سے عارضِ حال کی گلگونی کا سامان مہیا کرنے کی کوشش کی ہے اور کبھی دونوں چہروں کے موازنے سے تاسف کا رنگ ابھارا ہے۔ یہاں طوالت کی گنجائش نہیں، مثال کے لیے سات چھوٹے بڑے مصرعوں پر مشتمل نظم ’’سبب‘‘ پیش ہے :

ہمارے پاس نہ دولت ہے

اور نہ ہی طاقت

پھر بھی لوگ ہم سے عداوت رکھتے ہیں

وجہ سمجھ میں نہیں آتی

کہیں اس کا سبب یہ تو نہیں

کہ ہمارے پاس کچھ ایسا ضرور ہے

کہ دوسروں کو تو دکھائی دیتا ہے، ہمیں نہیں

 

اس نظم میں نہ صرف وہ اجمال موجود ہے جس کی تفصیل سے تاریخ کے کئی باب وجود میں آ سکتے ہیں بلکہ وہ نفسیات بھی سامنے لادی گئی ہے جو تبدیلیِ اقتدار سے دنیا کی قوموں میں رسّہ کشی کا سبب بن جاتی ہے۔ اچھی تخلیق کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں ایسی گنجائش موجود ہو کہ ہر قاری اپنے مزاج اور نظریے کے مطابق ذہنی انسلاک کا سبب تلاش کر سکے۔ شاعر نے ایک مصرعے ’’ہمارے پاس کچھ ایسا ضرور ہے ‘‘ کہہ کر فکری تحدید کے امکانات ختم کر دیے ہیں جس سے ہر قاری اپنی ترجیحات کے مطابق سبب متعین کر سکتا ہے۔ معلومات اور مشاہدے کو ماضی کی آگہی کا ذریعہ بنا دینے کا رویہ غضنفر کی نظموں کا خاص وصف ہے۔

نظم ’’ہجرت ‘‘ میں ماضی کی آگہی کی ایک دوسری نوعیت پیش کی گئی ہے۔ ہجرت کے تکلیف دہ عمل سے رسول اور صحابہ کے چہروں پر بھی عکسِ ملال ابھرا لیکن موجودہ دور میں ترکِ وطن سے نہ صرف مہاجر بلکہ اس کا پورا کنبہ مسرت کا اظہار کرتا ہے۔ تلاشِ معاش میں سات سمندر پار کا سفر کرنے پر مجبور آج کے انسان کی مسرت در اصل مسرت نہیں بلکہ بے کاری اور بے روزگاری کی وہ شدت ہے جو ہجرت کے احساس سے بھی محرومی کا سبب بن گئی ہے۔

غضنفر کی نظمیں زندگی کے مختلف خوبصورت اور بد صورت پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان کے سوچنے کا اپنا مخصوص انداز ہے۔ کرداروں کو لفظ میں ڈھالنا اور لفظ کو ہی کردار بنا دینا دو الگ الگ رویے ہیں۔ غضنفر کے یہاں آخرالذکر رویہ بہت ہی موثر اور فنکارانہ ہے۔ ’’کل زبان نام کا اک تماشا ہوا، لفظ لوگوں کے گھر کھا گئے ‘‘(اخبار بینی) روزنامچہ، کے عنوان سے انسانی زندگی کے تین اہم پہلو ایسی خوبصورتی سے نظم کے قالب میں ڈھلے ہیں کہ شاعر کی جزئیات فہمی کی داد دینی پڑتی ہے۔ افسانے کا لطف اور شعری ذائقے کے خوبصورت امتزاج کی کیفیت غضنفر کی نظموں کو امتیازی شناخت عطا کرتی ہے۔

مجموعے میں شامل غزلوں کی جو خوبی قرأت کے ابتدائی مرحلے میں ہی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے وہ ہے اسلوب اور خیال کی ہم آہنگی۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ عصری افکار کا بیان کلاسیکی پیرایۂ اظہار کا مرہون ہوا ہو یا روایتی مضامین کو نئے لباس میں پیش کر کے ان کی کہنگی چھپانے کی کوشش کی گئی ہو۔ غضنفر ایک فطری تخلیق کار کی طرح خیال کے ترسیلی تقاضوں کو ہمہ دم ملحوظ رکھتے ہیں۔ نتیجتاً کربِ ذات کا معصومانہ اظہار ان سادہ دلوں کا ترجمان ہو جاتا ہے جو تصنع کے ہتھکنڈوں کا استعمال نہیں جانتے۔ غضنفر کربِ ذات کو کربِ کائنات اور کربِ کائنات کو کربِ ذات بنانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ ان کے یہاں اشیا اور حقائق کے راز ہائے پنہاں کا ایسا درک موجود ہے جو ظاہر کے فریب میں نہیں آتا۔ ایسا درک جو پھولوں کے ساتھ خوشبو اور شعلوں کے ساتھ حرارت کو بھی دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی دید کے لیے دیدوں کی نہیں چشمِ بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے جہاں نہ روشنی کو محتاجی ہوتی ہے اور نہ ہی دیدہ و دیدار کے درمیان تیر گی حائل ہوتی ہے۔ نہ آنکھیں کھلی رکھنے کی قید اور نہ ہی بند کرنے سے کوئی خلل:

آ گیا وہ بھی نظر تھا جو نگاہوں سے نہاں

میری آنکھوں میں گھلا اب کے اندھیرا ایسا

دنیا کو جب بھی دیکھنا چاہا قریب سے

بتّی بجھا کے کے آنکھ کو ظلمت سے بھر لیا

دیکھنے کا یہی سلیقہ اور انداز ہے جو ظاہر کے دامِ فریب میں نہیں آتا بلکہ ظاہری لوازمات اور تزئین کاری کو شکست دے کر جہانِ باطن کی فاتحانہ سیر کرتا ہے۔ اوڑھی ہوئی زندگی اور قلعی چڑھے ہوئے چہرے سے جس تضادِ حیات کا مشاہدہ کرتا ہے اسے شاعری بنا کر انسانی کرب کا مداوا تلاش کرنا ہی شاعر کا ذاتی کرب ہے :

سرخیاں اوڑھ کے سڑکوں پہ نکلتا ہو گا

ورنہ وہ شخص تو کمرے میں دھواں لگتا ہے

 

اپنی زردی کو رنگ لیا ہو گا

اس کا چہرہ جو اب بھی دھانی ہے

 

اذانوں کا یہ سارا مسئلہ ہے

نہیں ہے بات کچھ بھی مسجدوں کی

 

یہ پیاسے، پاس پانی اور پہرہ

وہی منظر ہے پھر سے کربلا کا

 

غضنفر کی غزلیہ شاعری حیات و کائنات کے مشاہدے کی رنگارنگی کا ایسا مجموعہ ہے جس میں دنیا کے کئی روپ سامنے آتے ہیں۔ حق تلفی، بے انصافی، مصلحت کو شی‘ ضمیر فروشی اور رشتوں کی پامالی کا کرب زیادہ شدید ہے۔ شاعران حقائق کا مشاہدہ بھی کرتا ہے، ان کے اسباب پر غور بھی کرتا ہے اور ان کے حل کی تدبیریں بھی نکالتا ہے۔ یہ سب کچھ اس منطقی ربط اور خوش اسلوبی کے ساتھ ہوتا ہے کہ فلسفیانہ موشگافیاں لطیف شعر میں ڈھل جاتی ہیں :

بے وزن تھے جو لوگ وہ سکّوں میں تُل گئے

مصنف تمھارے عدل کے سب پول کھُل گئے

 

سامانِ عیش یوں تو ہمیں سارا دے گیا

لیکن ہمارے منھ سے زباں کاٹ لے گیا

 

اور کسی کی گود میں جا کر بیٹھ گئی وہ دنیا بھی

جس دنیا کے شوق میں میں نے خود کو اک دلّال کیا

 

نا اہلوں کی پذیرائی کے ذکر سے یہ بات از خود سامنے آ گئی ہے کہ حق دار کو حق سے محروم کیا گیا اور وجہ یہ ہے کہ منصف اپنے منصبی تقاضوں سے پھر گیا ہے۔ اس کے نتائج واضح ہیں، ذراسی مراعات نے نطق جیسی نعمت جو صرف انسان کا وصفِ خاص ہے، سے محروم کر دیا۔ یہ مقام عبرت ہے کہ جس دنیا کے حصول کے لیے انسان دلّالی کی حد تک گر جاتا ہے وہ کبھی کسی کی نہ رہی۔ نئی گود کی تلاش اس کا پیشہ ہے۔

غضنفر کے یہاں ایسے اشعار کی کثرت ہے جوانسانی رشتوں پر خود غرضی کی چھائی ہوئی دھُند سے متعلق ہیں۔ خصوصاً مرد اور عورت کے رشتوں کا مشاہدہ ایک ایسے اذیت ناک عہد سے تعارف کراتا ہے جہاں عشق کی سلطنت پہ عقل کی ایسی حکمرانی ہے کہ بے تابی، تحیر، کیف اورسوز کی جگہ ضرورت، مصلحت اور خود غرضی نے لے لی ہے :

عشق کی سرحد میں شاید عقل داخل ہو گئی

کوئی بے تابی نہیں، اب کوئی حیرانی نہیں

 

نہ کیفِ وصل میسر نہ اب وہ سوزِ فراق

کہ جیسا حال ہے سب کا ہوا ہمارا بھی

 

بس تماشا ہے اک ضرورت کا

نام دیتے ہیں جس کو چاہت کا

 

موبائل پر محبت بک رہی ہے

بس ایک جنبش میں چاہت بک رہی ہے

 

گویا ’’آنکھ میں لکنت‘‘ کے مشمولات موجودہ عہدہ کے فکری، ذہنی اور لسانی رویوں کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ یہی وہ بڑے دائرے ہیں جو زندگی ترتیب دیتے ہیں اور جن کے طواف سے زندگی کی خوبصورتی اور بد صورتی کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ غضنفر نے زندگی اور اس کے شب و روز کا مشاہدہ ایک حقیقی فنکار کی طرح ترجیحات یا تعصبات کی عینک لگائے بغیر کیا ہے۔ دنیا ان کی تخلیقی صلاحیت اور تخلیقی بصیرت کا اعتراف فکشن کے توسط کر چکی ہے۔ توقع ہے کہ ان کی شعری تخلیقات بھی تفہیم کے نئے راستے ہموار کریں گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عجب توحید کا نشہ نظر آتا ہے مکّے میں

کفن پہنے ہوئے ہر شخص لہراتا ہے مکّے میں

 

نہ جانے کون سی دولت یہاں تقسیم ہوتی ہے

کہ سب کچھ چھوڑ کر انساں چلا آتا ہے مکّے میں

 

نظر پڑتے ہی بھر جاتی ہے بینائی بصیرت سے

غلافِ سیاہ کتنا نور برساتا ہے مکّے میں

 

فقط اک آن میں انسان بن جاتا ہے پروانہ

شرارہ عشق کا اس طرح گرماتا ہے مکّے میں

 

عجب فوکس ہماری روح کے پردے پہ پڑتا ہے

کہ پوشیدہ عمل بھی سامنے آتا ہے مکّے میں

 

رضائے حق کی خاطر کیسے فرزانہ بھی سر اپنا

بڑے ہی شوق سے اک روز منڈواتا ہے مکّے میں

 

کھلے سر دھوپ میں دن بھر کھڑا رہنا پڑا رہنا

محبت کا یہ منظر بھی نظر آتا ہے مکّے میں

 

شرف بخشا یہ ابراہیم کے ایثار کو رب نے

کہ اس کو آج بھی انسان دہراتا ہے مکّے میں

 

کسی کی امتیازی حیثیت باقی نہیں رہتی

بشربس آدمی بن کر نظر آتا ہے مکّے میں

 

غضنفرؔ یہ ہے محبوب و محب کے بیچ کا رشتہ

کہ ہر جانب مدینہ ہی نظر آتا ہے مکّے میں

٭٭٭

 

 

 

 

مری آنکھوں نے دیکھا جس گھڑی روضہ محمدؐ کا

ابھر آیا دل و جاں میں عجب نقشہ محمدؐ کا

 

نگہ سے روح تک شادابیوں کی فصل لہرائی

نظر جس وقت آیا گنبدِ خضرا محمدؐ کا

 

عجب وارفتگی کی کیفیت چھائی رہی مجھ پر

عجب گھیرے رہا دل کو مرے ہالہ محمدؐ کا

 

عجب اک جھر جھری سی جسم میں ہوتی رہی پیہم

رگِ جاں میں عجب گھلتا رہا نشہ محمدؐ کا

 

عجب اک چاندنی کے عکس سے بھرتی رہیں آنکھیں

عجب اک چاند میں ڈھلتا رہا سایہ محمدؐ کا

 

عجب ٹھنڈک سی جسم و جان میں پڑتی رہی میرے

عجب اک دشت میں بہتا رہا دریا محمدؐ کا

 

بھلا بیٹھا میں اپنے آپ کو بھی آ کے طیبہ میں

عجب بے خود کیا مجھ دل کو میخانہ محمدؐ کا

 

عجب اک عشق کی گرمی رگ و پے میں رہی جاری

عجب شدّت سے گرماتا رہا شعلہ محمدؐ کا

 

عجب ٹھنڈک سی پڑتی ہے نظر میں ، جسم میں ، جاں میں

کہ ملتا سبز گنبد سے ہمیں سر مہ محمدؐ کا

 

عجب اک چھاؤں چھنتی ہے چھتوں سے رحمتوں والی

ہماری دھوپ پہ پڑتا ہے جب سایہ محمدؐ کا

 

کھلا عقدہ یہ دل پر وادیِ پر فیض میں آ کر

کہ جاری کیوں رہا ہر دور میں سکّہ محمدؐ کا

 

تمازت خود پناہیں ڈھونڈنے لگتی ہے گھبرا کر

سکونِ قلب والا پھوٹتا چشمہ محمدؐ کا

 

زمینیں سب سمٹ آتی ہیں اک مرکز پہ لمحے میں

کشش رکھتا عجب اک دل نشیں کوچہ محمدؐ کا

 

ہر اک دیدے میں پتلی مضطرب پھرتی ہے رہ رہ کر

کہ مل جائے کسی صورت کوئی کونا محمدؐ کا

 

ہزاروں بار اس چکّر میں پھرتا ہے ہر اک زائر

کہ آ جائے نگاہوں میں کبھی حجرہ محمدؐ کا

 

وہ ساری عمر پھر اک وجد کے عالم میں رہتا ہے

جو سن لیتا کبھی اک بار بھی قصّہ محمدؐ کا

 

کوئی تو بات ہے ایسی کہ اس کوچے میں آتے ہی

سراپا ہوش ہو جاتا ہے دیوانہ محمدؐ کا

 

نہیں رہتی کسی منزل کی خواہش پھر کبھی اس کو

پکڑ لیتا ہے کوئی شخص جو رستہ محمدؐ کا

 

رگوں میں جذب و مستی کی ترنگیں بھرتی جاتی ہیں

سناتے ہیں کسی منبر سے جب خطبہ محمدؐ کا

 

پہاڑی ہو کہ میدانی ریگستانی کہ دریائی

سبھی کو باندھتا اک ڈور میں رشتہ محمدؐ کا

 

فضائیں روح پر ور کیوں نہ ثابت ہوں مدینے کی

عیاں جو ہے در و دیوار سے جلوہ محمدؐ کا

 

ملائک بھی سماعت کے لیے تشریف لاتے ہیں

کسی بھی بزم میں ہوتا ہے جب چرچا محمدؐ کا

 

تھی نبیوں کی تمنا آپ کی امت میں پیدا ہوں

بلند اللہ نے ایسا کیا رتبہ محمدؐ کا

 

سبھی چاہیں کہ جنت کی کیاری ہی میں رہ جائیں

عجب بے خود بناتا ہے ہمیں کوچہ محمدؐ کا

 

خطائیں بھاگتی ہیں جسمِ انسانی کی سرحد سے

اثر رکھتا ہے ایسا عاصیو! خِطّہ محمدؐ کا

 

بھلا پھر کون روکے گا اسے جنّت میں جانے سے

جو مل جائے کسی کو حشر میں زینہ محمدؐ کا

 

طبیعت مضطرب جس کی بھی ہو فوراً چلا آئے

کھُلا رہتا ہے روز و شب درِ والا محمدؐ کا

 

مری امّت کے اک اک فرد کی قسمت سنور جائے

ہمارے واسطے لوگو! یہ ہے جذبہ محمدؐ کا

 

مدینہ ہو کہ مکہّ ہو کہ پھر عرشِ معلی ہو

مکاں سے لامکاں تک ہر جگہ شہرہ محمد کا

 

لبوں پہ ربِّ ھب لی امتی جاری رہا ہر دم

یہ امت سے ہے اپنی کون سا رشتہ محمدؐ کا

 

ہزاروں طرح کی دولت ہر اک جھولی میں آ جاتی

ہمیشہ فیض برساتا ہے گنجینہ محمدؐ کا

 

نہ دکھ پہنچے کسی کو روک لیتے ہیں سواری کو

مدینے کے مکینوں میں ہے یہ اسوہ محمدؐ کا

 

مدینے سے چلو تو راہِ مکّہ دیکھ کر لگتا

کہ دینِ حق کی خاطر خوں جلا کتنا محمدؐ کا

 

ستم کتنے اٹھائے ہیں زمیں طائف کی شاہد ہے

لہو سے تر بتر کیسا ہوا جامہ محمدؐ کا

 

نبی نے خون سے اپنے اسے سیراب کر ڈالا

بڑا ہی سخت تھا ورنہ تو یہ مکّہ محمد کا

 

نبی کی خوبیاں ایسی کہ ہر خوبی قلم رو کے

بنے کس طرح خامے سے مرے، خاکا محمدؐ کا

 

کہ جس تخلیق پہ خود خالقِ کون و مکاں نازاں

بیاں مخلوق سے کیا ہو بھلا رتبہ محمدؐ کا

 

خود اپنا ہوش بھی باقی نہیں رہتا کسی لمحہ

مدینے جا کے چڑھتا ہے عجب نشّہ محمدؐ کا

 

ہزاروں فٹ کی اونچائی پہ جاتے تھے وحی سننے

ذرا سوچو تو کتنا سخت تھا دورہ محمدؐ کا

 

ذراسا عکس پڑ جائے تو ظلمت نور ہو جائے

تجلی سے بھرا ہے کس قدر سینہ محمدؐ کا

 

جہاں جس سمت بھی جاتا ہے ہریالی بچھا دیتا

لیے چلتا ہے دریا ساتھ میں جادہ محمدؐ کا

 

مدینے کی تراوٹ اور بھی دل کے قریب آئی

ملا مکّے میں کچھ نزدیک سے دریا محمدؐ کا

 

یہ صحرائے دل و جاں بحر میں تبدیل ہو جائے

جو آ جائے کسی کے ہاتھ میں کوزہ محمدؐ کا

 

محبت کی حرارت پھر کبھی نیچے نہیں آتی

جو چڑھ جائے کسی کی روح میں پارہ محمدؐ کا

 

عجب فہم و فراست کا یہ عالم ہے کہ دنیا میں

وظیفہ بن گیا امّت کا ہر نکتہ محمدؐ کا

 

جو فقرہ بھی نکلتا فلسفے کا روپ لے لیتا

مفکّر سوچ میں گم دیکھ کر فقرہ محمدؐ کا

 

معانی کا جہاں رکھتا ہے اک اک لفظ میں اپنے

زبانِ پاک سے نکلا ہوا جملہ محمدؐ کا

 

کتابیں پر کتابیں بن گئیں اقوالِ زرّیں کی

پر اس کے بعد بھی مخفی رہا ورثہ محمدؐ کا

 

اک امّی کے علومِ دین و دنیا پر سبھی حیراں

کسی کی عقل پہ کھلتا نہیں عقدہ محمدؐ کا

 

ستم سہنا، کرم کرنا، محبت بانٹنا سب کو

خدایا بخش دے ہم کو بھی یہ شیوہ محمدؐ کا

 

گنہ سے پاک ہو جائیں دل و جاں صاف ہو جائیں

ہمیں اے کاش مل جائے یہی تحفہ محمدؐ کا

 

نکل جائے کوئی ایسی بھی صورت فضلِ ربّی سے

کہ تھوڑی سی جگہ دے دے ہمیں طیبہ محمدؐ کا

 

خدا ایسا کرم کر دے کبھی عاصی غضنفرؔ پر

کہ دیکھے خواب میں وہ بھی کبھی چہرہ محمدؐ کا

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں

 

 

 

 

 

یقین جانیے اس میں کوئی کرامت ہے

جو اس دھوئیں میں مری سانس بھی سلامت ہے

 

نظر بھی حال مرے دل کا کہہ نہیں پاتی

زباں کی طرح مری آنکھ میں بھی لکنت ہے

 

جو ہو رہا ہے اسے دیکھتے رہو چپ چاپ

یہی سکون سے جینے کی ایک صورت ہے

 

میں اس کے جھوٹ کو بھی سچ سمجھ کے سنتا ہوں

کہ اس کے جھوٹ میں بھی زندگی کی قوت ہے

 

یہ کس کی آنکھ ٹکی ہے اداس منظر پر

یہ کون ہے کہ جسے دیکھنے کی فرصت ہے

 

کوئی بعید نہیں یہ بھی اشتہار چھپے

ہمارے شہر میں جلّاد کی ضرورت ہے

 

سپر تمام بدن کے حواس ڈال چکے

بس ایک آنکھ ہے جس میں ابھی بغاوت ہے

 

دل و دماغ میں رشتہ نہیں جہاں کوئی

اک ایسے جسم میں جینا ہماری قسمت ہے

 

کہیں بھی جائیں سزائیں ہمیں ہی ملنی ہیں

عدالتوں کی ہماری عجیب حکمت ہے

 

ہمارے بیچ یہ عقدہ نہ کھل سکا اب تک

کسے وصال کسے ہجر کی ضرورت ہے

 

اسی کو سونپ دیا ہم نے منصفی کی زمام

کہ جس کے خواب میں بھی عکسِ غاصبیت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

حصارِ رنگ و نکہت کی اسیری روک دیتی ہے

فقیری چاہتا ہوں ، پر امیری روک دیتی ہے

 

بہت جی چاہتا ہے آدمی کو آئینہ کر دوں

مرے خامے کو پر طرزِ نظیری روک دیتی ہے

 

نظر کہتی ہے سارے منظروں کو نوچ کر رکھ دوں

مگر مجھ کو مری پیری فقیری روک دیتی ہے

 

فضا ایسی کہ اک اک شخص سے میں دشمنی کر لوں

مگر دل کو کوئی بانگِ کبیری روک دیتی ہے

 

جو غصّہ پھوٹتا ہے درد کی شدّت سے برسوں میں

تعجب ہے بس اک روٹی خمیری روک دیتی ہے

 

نئی گِل میں لگاتے وقت اکثر میرے ہاتھوں کو

کیاری سے جو اُکھڑی ہے پنیری، روک دیتی ہے

 

جہاں زیبی کی خواہش بھی تو اٹھتی ہے مرے دل میں

مگر اس کو ہوائے ملک گیٖری روک دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

سامانِ عیش سارا ہمیں یوں تو دے گیا

لیکن ہمارے منہ سے زباں کاٹ لے گیا

 

دفتر میں ذِہن، گھر میں نگہ، راستے میں پاؤں

جینے کی کا وشوں میں بدن ہاتھ سے گیا

 

سینے سے آگ، آنکھ سے پانی، رگوں سے خون

اک شخص ہم سے چھین کے کیا کیا نہ لے گیا

 

لب پر سکوت، دل میں اداسی، نظر میں خوف

میرا عروج مجھ کو یہ سوغات دے گیا

 

خوابوں کا اک طلسم بچا تھا دماغ میں

اب کے برس اسے بھی کوئی توڑ لے گیا

 

پھنکارتا ہوا مجھے اک اژدہا ملا

جب بھی کسی خزانے کا در کھولنے گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ تمنّا نہیں کہ مر جائیں

زندہ رہنے مگر کدھر جائیں

 

ایسی دہشت کہ اپنے سایوں کو

لوگ دشمن سمجھ کے ڈر جائیں

 

وہ جو پوچھے تو دل کو ڈھارس ہو

وہ جو دیکھے تو زخم بھر جائیں

 

بچ کے دُنیا سے گھر چلے آئے

گھر سے بچنے مگر کدھر جائیں

 

اک خواہش ہے جسم سے میرے

جلد سے جلد بال و پر جائیں

 

اب کے لمبا بہت سفر ان کا

ان پرندوں کے پر کتر جائیں

 

سوچتے ہی رہیں گے ہم شاید

وہ بلائیں تو ان کے گھر جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

عمارت بن نہ پائے گی، نہیں ایسا نہیں ہو گا

مگر دل میں جو نقشہ ہے مکاں ویسا نہیں ہو گا

 

شجر کاری میں ناحق خون تو اپنا جلاتا ہے

ترے ہاتھوں کے پیڑوں کا کبھی سایہ نہیں ہو گا

 

زمیں کچھ اس طرح لپٹی ہوئی ہے پاؤں سے گھرکی

کہ چاہیں بھی تو قد اپنا کبھی اونچا نہیں ہو گا

 

ہماری لڑکھڑاہٹ پر عبث رنجیدہ ہوتے ہو

لدا ہے بوجھ جو سر پر کبھی ہلکا نہیں ہو گا

 

ابھی کچھ ہی پلوں میں ایسا موسم آنے والا ہے

مرے اپنے ہی کاندھوں پر مرا چہرہ نہیں ہو گا

 

اندھیرے میں اگر ہم چل سکے تو چل سکے ورنہ

ہمارے سامنے روشن کوئی رستہ نہیں ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

مٹاؤ ہم کو یہ سارا فساد ہم سے ہے

فضائے دہر میں ہر گرد باد ہم سے ہے

 

یقین جانیے موسم کا کوئی ہاتھ نہیں

ہمارے بیچ کا یہ انجماد ہم سے ہے

 

جدا صلیبوں سے ہونے کی بات کیوں سوچیں

کہ اس جہان میں عیسیٰ کی یاد ہم سے ہے

 

قصور وار فقط ایک ہم کو مت جانو

ابھی تلک جو کوئی نامراد ہم سے ہے

 

ہم اپنے آپ کو شاید کہیں پہ کھو آئے

کہ آج شہر کا ہر فرد شاد ہم سے ہے

 

ہماری تنگ زمینی پہ وہ بھی ہنستے ہیں

وہ جن کی ذات کا بست و کشاد ہم سے ہے

 

ہمیں سنبھال کے رکھو کہ ہے پتا تم کو

تمھارے کام کی جو کچھ ہے داد، ہم سے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جب کوئی چادر رخِ شفّاف پر تانی گئی

تب کہیں جا کر ہماری شکل پہچانی گئی

 

خوش گمانی ہے کہ اس دنیا سے من مانی گئی

سچ تو یہ ہے دیدۂ حیراں سے حیرانی گئی

 

عقل و دانش کی کمی کا رنج ہے سب کو مگر

غم زدہ میں ہوں کہ میرے گھر سے نادانی گئی

 

اب کنارے پر پہنچنے کا مزہ باقی کہاں

کشتیاں سیدھی ہوئیں دریا سے طغیانی گئی

 

روشنی، پہچان، لذّت، ولولہ، سب کچھ گیا

میں نے سمجھا تھا فقط اک اوڑھنی دھانی گئی

 

شاید آ جائے ہماری راہ میں کچھ روشنی

اب تو اپنے جسم و جاں سے خوئے انسانی گئی

 

روشنی تھی کس قدر اس کے بدن کی تابناک

گھور کہرے میں بھی جس کی شکل پہچانی گئی

 

پوچھیے اس ملک کے راجا سے اس کا حال چال

جس کے قبضے سے نکل کر صرف اک رانی گئی

 

دوست کو دشمن سمجھ کر دشمنی کرتے رہے

کیا اسی مقصد سے یہ چادر یہاں تانی گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی تو موند لیں آنکھیں، کبھی نظر کھولیں

کسی طرح سے کوئی روشنی کا در کھولیں

 

ہوائیں سرد ہیں، اوپر سے تیز بارش ہے

پرند کیسے بھلا اپنے بال و پر کھولیں

 

ہمارے سامنے اب ایسا وقت آ پہنچا

کہ ہم دماغ کو باندھیں، دل و جگر کھولیں

 

بجائے آب ہو شوراب سے نمو جن کی

وہ پیڑ کیسے بڑھیں، کیسے برگ و بر کھولیں

 

یقین کیسے دلائیں وفا شعاری کا

دلوں کو چاک کریں یا کہ ہم جگر کھولیں

 

نہیں ہے کچھ بھی مگر دل یہ چاہتا ہے بہت

کہ ایک روز ذرا چل کے اپنا گھر کھولیں

 

ہر ایک سمت ہے دیوار سر اٹھائے ہوئے

کوئی بتائے کہ ہم کھڑکیاں کدھر کھولیں

 

ہر ایک آنکھ کی پتلی ہے موتیا کی شکار

کسے کمال دکھائیں، کہاں ہنر کھولیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سجا کے ذہن میں کتنے ہی خواب سوئے تھے

کھلی جو آنکھ تو خود سے لپٹ کے روئے تھے

 

چہار سمت بس اک بیکراں سمندر ہے

بتائیں کیا کہ سفیٖنے کہاں ڈبوئے تھے

 

تہوں میں ریت ابلتی ہے کیا پتا تھا ہمیں

زمیں سمجھ کے زمینوں میں بیج بوئے تھے

 

سیاہ رات میں بچّے کی طرح چونک پڑے

تمام دن جو اجالوں سے لگ کے سوئے تھے

 

عجیب بات ہمارا ہی خوں ہوا پانی

ہمیں نے آگ میں اپنے بدن بھگوئے تھے

 

ہمارے ہاتھ سے وہ بھی نکل گیا آخر

کہ جس خیال میں ہم مدتوں سے کھوئے تھے

٭٭٭

 

 

 

تمام جسم شرابور ہے پسینے میں

سنا کہ ڈوب گیا کل کوئی سفینے میں

 

بھگت رہے ہیں اسی کا ہم آج خمیازہ

ذراسی دیر لگا دی تھی زہر پینے میں

 

نہ عاقبت ہی سنواری نہ فکرِ دنیا کی

تمام عمر گئی زخمِ دل کو سینے میں

 

وہ رنگ جس سے اتر تا تھا زرد رنگ مرا

سمٹ کے رہ گیا وہ بھی کسی کے سینے میں

 

چلے تو آئے مگر ہاتھ کچھ لگے گا کیا

کہ سانپ زر سے زیادہ ہیں اس دفینے میں

 

نہ حال پوچھیے اس عارضی ملازم کا

علیل ہوتا ہے جب وہ کسی مہینے میں

 

دھوئیں کے رنگ کا نقشہ ہی اور ہوتا ہے

کبھی جب آگ سلگتی ہے سرد سینے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تاریکی میں نور کا منظر سورج میں شب دیکھو گے

جس دن تم آنکھیں کھولو گے دنیا کو جب دیکھو گے

 

دھیرے دھیرے ہر جانب سنّاٹا سا چھا جائے گا

سوجائیں گی رفتہ رفتہ آوازیں سب دیکھو گے

 

کھمبے سارے ٹوٹ چکے ہیں چھپر گرنے والا ہے

بنیادوں پر جینے والو اوپر تم کب دیکھو گے

 

شاید تم بھی میرے جیسے ہو جاؤ گے آنکھوں سے

سہمے چہرے، گنگ زبانیں، زرد بدن جب دیکھو گے

 

وہ تو بازی گر ہیں ان کا مقصد کھیل دکھانا ہے

تم تو فرزانے ہو صاحب، کب تک کرتب دیکھو گے

 

پہلے تو سر سبز رہو گے، پھر پیلے پڑ جاؤ گے

جس دن تم بھی رنگ نگر میں سرخ کوئی لب دیکھو گے

 

بیٹھے بیٹھے گھر میں یوں ہی پل پل گھُٹ گھُٹ مرنا ہے

یا نکلو گے گھر آنگن سے، جینے کا ڈھب دیکھو گے

 

کل تک جو شفّاف تھے چہرے، آوازوں سے خالی تھے

آڑی، ترچھی سرخ لکیریں ان پر بھی اب دیکھو گے

 

کھمبے تو یہ گاڑ چکے ہیں رسّی بھی اب تانیں گے

یہ بھی کھیل ہی کھلیں گے ان کے بھی کرتب دیکھو گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دن گئے شامیں گئیں پھر خوں چکاں راتیں گئیں

رفتہ رفتہ جینے مرنے کی سبھی باتیں گئیں

 

ہے ابھی تک سنگ کی صورت جبینِ آسماں

کیسی کیسی درد میں ڈوبی منا جاتیں گئیں

 

روز ہی ملتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے مجھے

میرے اس کے درمیاں کی سب ملاقاتیں گئیں

 

قید تھے ان میں جو جاری تھا سفر کا سلسلہ

لوگ جامد ہو گئے جب سے حوالاتیں گئیں

 

کچھ عجب انداز سے مجھ کو مری منزل ملی

سارے غم باقی رہے ساری مداراتیں گئیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کھولی تھی آنکھ جس نے نوابوں کے شہر میں

بابو بنا پڑا ہے حسابوں کے شہر میں

 

گھٹنے لگا ہے ذہن کتابوں کے شہر میں

ڈالے گئے ہیں ایسے نصابوں کے شہر میں

 

بیٹے کی باپ، باپ کی بیٹے سے رنجشیں

کوئی نہیں کسی کا حسابوں کے شہر میں

 

کیسے ہو امتحان ہمارے حواس کا

گم صم پڑے ہوئے ہیں ثوابوں کے شہر میں

 

دشمن ہے کون؟ دوست کون؟ کس کو کیا پتا

سب لوگ رہ رہے ہیں نقابوں کے شہر میں

 

رنگ ہے ہمارے پاس، نہ خوشبو، نہ تازگی

کہنے کو رہ رہے ہیں گلابوں کے شہر میں

 

مانا کہ تھا فریب مگر زندگی تو تھی

رہتے کچھ اور دیر سرابوں کے شہر میں

 

افلاس، بھوک، پیاس، گھٹن، درد، اضطراب

اب اور کیا ملے گا عذابوں کے شہر میں

 

کتنے سوال بھی تو غضنفر کے ساتھ ساتھ

پھرتے ہیں نامراد جوابوں کے شہر میں

٭٭٭

 

 

 

 

یہ مجھ سے آپ سے دنیا جو کٹ گئی ہے میاں

ضرور ہم سے کوئی شے چمٹ گئی ہے میاں

 

تری طرف ہیں یہ مہرے یہ شہ بھی تیری مگر

سجی بساط بھی یکسر الٹ گئی ہے میاں

 

کمی نہیں ہے کشش میں کسی کی آنکھوں کی

پہ کیا کروں کہ طبیعت اچٹ گئی ہے میاں

 

مرا مقام مرا مرتبہ وہی اب بھی

یہ اور بات کہ اوقات گھٹ گئی ہے میاں

 

رمق ہے رخ پہ اُداسی بھی سرخ آنکھوں میں

قریب آکے کوئی شے پلٹ گئی ہے میاں

 

غبار ہے کہ ابھی پتلیوں پہ چھایا ہے

گمان ہے کہ گھنی دھند چھٹ گئی ہے میاں

 

پتنگ اب بھی بلندی پر اڑ رہی ہے تری

پہ تیرے ہاتھ کی تو ڈور کٹ گئی ہے میاں

 

کسی پلاٹ میں جمّن نہ کوئی الگو ہے

کہانیوں کی بھی کایا پلٹ گئی ہے میاں

٭٭٭

 

 

 

 

ملنے کی اس سے اب ہمیں فرصت نہیں رہی

یا یوں کہیں کہ اس کی ضرورت نہیں رہی

 

اب بھی کئی گلاب سے چہرے ہیں آس پاس

لیکن ہماری دید کی عادت نہیں رہی

 

کھا کر شکست ایسا گرا ہوں زمیٖن پر

اپنی نظر میں اپنی ہی عزّت نہیں رہی

 

کیسے کٹے حیات کہ حدِّ نگاہ تک

جینے کی آج کوئی بھی صورت نہیں رہی

 

کیوں کر کوئی سنبھال کے رکھّے متاعِ جاں

اِس شے کی اِس جہان میں قیمت نہیں رہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جس دن سے میں نے اپنا ہتھیلی پہ سر لیا

دشمن کی تیغِ تیز کو مُٹھّی میں کر لیا

 

یہ کیا پتا تھا اور بھی جھُلسیں گے جسم و جاں

میں نے تو کچھ سکون سے رہنے کو گھر لیا

 

دنیا کو جب بھی دیکھنا چاہا قریب سے

بتّی بجھا کے آنکھ کو ظلمت سے بھر لیا

 

اس کی صدا پہ ہاتھ بڑھا جیب کی طرف

اپنی صدا نے بڑھ کے مگر قید کر لیا

 

رسماً ہی ہم کلام ہوا غیر سے وہ کیوں

دل نے ذرا سی بات کا کتنا اثر لیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بدلا بدلا جو مرے دل کا سماں لگتا ہے

اک نئے درد کی آمد کا نشاں لگتا ہے

 

آج ہر شاخ پہ ہوتا ہے گماں خنجر کا

آج ہر پھول مجھے سنگِ گراں لگتا ہے

 

کتنا ساکت ہے ذرا نیچے اتر کر دیکھو

دوڑتی ریل سے منظر جو رواں لگتا ہے

 

وہ وہی ہے ہمیں تسلیٖم مگر شام کے وقت

صبح جس رنگ میں دیکھا تھا،  کہاں لگتا ہے

 

سرخیاں اوڑھ کے سڑکوں پہ نکلتا ہو گا

ورنہ وہ شخص تو کمرے میں دھواں لگتا ہے

 

دل کے زخموں کی عنایات ہیں ہم پر ورنہ

ایسے موسم میں کہاں کوئی جواں لگتا ہے

 

وحشت آباد ہے اس میں بھی کبھی جا دیکھو

سبز رنگوں میں نہایا جو مکاں لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اک تو کاغذ کا تھا مکاں اپنا

اس پہ دشمن تھا آسماں اپنا

 

چھاؤں کے واسطے بنا تھا مگر

دھوپ دیتا تھا سائباں اپنا

 

دیپ دونوں کے دم سے روشن تھا

نور اس شخص کا دھواں اپنا

 

ایک تارا بھی دسترس میں نہیں

یوں تو کہنے کو آسماں اپنا

 

ہم تو چو کس بھی تھے سیانے بھی

لٹ گیا کیسے کارواں اپنا

 

خوش گمانی ہماری دنیا میں

ساتھ دے گی کہاں کہاں اپنا

 

پھول کھلتے ہی توڑ لیتا ہے

دور اندیش باغباں اپنا

 

اے غضنفر کسے سناتے ہو

کون بیٹھا ہے اب یہاں اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اب کسی بھی حادثے پر ہم کو حیرانی نہیں

ہاں یہ حیرت ہے کہ اِس پر کیوں پریشانی نہیں

 

اک سے اک دریا دیارِ دشت میں موجود ہیں

پر کسی کی کوکھ میں بھی تخمِ طغیانی نہیں

 

مسئلہ یہ بھی بڑا سنگین کہ دل کے قریب

کوئی بے کیفی نہیں، کوئی پریشانی نہیں

 

ہیں اسی باعث ملائک کی طرح بے دست و پا

جسمِ خاکی میں ہمارے وصفِ شیطانی نہیں

 

عشق کی سرحد میں شاید عقل داخل ہو گئی

کوئی بے تابی نہیں، اب کوئی نادانی نہیں

 

اور کچھ پتّھر اٹھا کر پھینک مارو جسم پر

اس سمندر کی ابھی تک موج طوفانی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

لہو میں اب وہ نہیں کیف و کم کا نشّہ بھی

چلو کہ ختم ہوا خواب کا تماشا بھی

 

کسی کے پاس نہیں ہے یہاں غموں کا علاج

الجھ رہا ہے مریضوں سے اب مسیحا بھی

 

وہ کہنہ سال شجر ٹس سے مَس نہیں ہوتا

ہوائے تیز نے اُس کو ہلا کے دیکھا بھی

 

گماں گزیدہ ہیں ہم کیا عجیب عالم ہے

کہ لطفِ زیست ہمیں مل رہا ہے تنہا بھی

 

نہ کیفِ وصل میّسر نہ اب وہ سوزِ فراق

کہ جیسا حال ہے سب کا ہوا ہمارا بھی

 

مقامِ کہر سے آگے نہ جا سکے گا کوئی

دیارِ نور سے آیا اگر بلاوا بھی

٭٭٭

 

 

 

 

خلا کے دشت سے اب رشتہ اپنا قطع کروں

سفر طویل ہے، بہتر ہے گھر کو لوٹ چلوں

 

بلند ہوتا ہے جب جب بھی شور نالوں کا

خیال آتا ہے دل میں کہ میں بھی چیخ پڑوں

 

تمھارے ہوتے ہوئے لوگ کیوں بھٹکتے ہیں

کہیں پہ خضر نظر آئے تو سوال کروں

 

مآل جو بھی ہو جس طرح بھی کٹے یہ عمر

تمھارے ناز اٹھاؤں، تمھارے رنج سہوں

 

ادھوری، ان کہی بے ربط داستانِ حیات

لہو سے لکھ نہیں سکتا تو آنسوؤں سے لکھوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس سے پہلے تو نہ تھا رنگ تمھارا ایسا

کیا ہوئی بات کہ سنولا گیا چہرہ ایسا

 

آگے جانا بھی کٹھن پیچھے پلٹنا بھی محال

منتخب میں نے کیا جان کے رستہ ایسا

 

مجھ کو ہر حال میں کہنا ہی پڑا جھوٹ کو سچ

دے رہا تھا وہ صفائی میں حوالہ ایسا

 

آ گیا وہ بھی نظر تھا جو نِگاہوں سے نہاں

میری آنکھوں میں گھلا اب کے اندھیرا ایسا

 

اس کو پہچان کے کرنا پڑا انکار مجھے

تھا نگاہوں میں کسی شے کا تقاضا ایسا

 

خواب تو خواب حقیقت سے بھی محروم ہوئے

دن کے سورج نے کیا رات پہ حملہ ایسا

٭٭٭

 

 

 

 

 

موبائل پر محبّت بک رہی ہے

بس اک جنبش میں چاہت بک رہی ہے

 

نہیں فرقت کا کوئی خوف باقی

کہ اب اُس کی قرابت بک رہی ہے

 

کوئی کب تک بھروسا کر سکے گا

ہر اک لمحہ عقیدت بک رہی ہے

 

نہیں پیری میں اب اپنوں کی خواہش

کہ ہر خواہش کی خدمت بک رہی ہے

 

عجب صورت کہ ہم بھی شادماں ہیں

ہماری ہی وراثت بک رہی ہے

 

ملی تو تھی کہ میں آرام کر لوں

مگر میری وہ فرصت بک رہی ہے

 

جہاں داری تو بکتی تھی، سنا تھا

سنا ہے اب طریقت بک رہی ہے

 

وہی بڑھ چڑھ کے بولی دے رہا ہے

اسی کے گھر کی عورت بک رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بس تماشا ہے اک ضرورت کا

نام دیتے ہیں جس کو چاہت کا

 

گھر میں بیٹھے ہیں اور آنکھوں میں

عکس ٹھہرا ہے خوف و دہشت کا

 

پل میں ہنستا ہوں ،  پل میں روتا ہوں

ہے عجب رنگ اب طبیعت کا

 

جسم سونا لُٹا رہا ہے اُدھر

دل پہ پہرہ اِدھر قناعت کا

 

پھول، شبنم، شفق، گھٹا، بجلی

عکس سب میں اسی کی رنگت کا

 

یاد اِس میں بھی وہ نہیں آیا

ایک لمحہ یہی تھا فرصت کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

دفتر میں گھر، گھر میں دفتر ہوتا ہے

ہم جیسوں کے ساتھ یہ اکثر ہوتا ہے

 

ہم تو سو جاتے ہیں لیکن سنتے ہیں

ہم میں اک جا گا سا منظر ہوتا ہے

 

اس امید پہ دم سادھے ہم سا گر میں

اُترے ہیں کہ اندر گوہر ہوتا ہے

 

گھر میں جس سے صاف ہوائیں آتی ہیں

دیواروں میں وہ کیسا در ہوتا ہے

 

ہیرا جان کے جس کی جانب بڑھتے ہیں

کانچ کا ٹکڑا یا وہ پتّھر ہوتا ہے

 

کتنا سچّا جھوٹ گڑھا ہے دنیا نے

جو بھی ہوتا ہے وہ بہتر ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نگاہِ یار کیا بدلی ہوئی ہے

طبیعت آج کچھ سنبھلی ہوئی ہے

 

نہ رنگ و بو نہ کوئی تاز گی ہے

ہماری فکر بھی مسلی ہوئی ہے

 

سطر اک اک کتابِ زندگی کی

حدِ مِسطر سے کچھ نکلی ہوئی ہے

 

پلٹ کر اب کہاں آئے گی نیچے

وہ اوپر گیند جو اچھلی ہوئی ہے

 

سیاہی روز بڑھتی جا رہی ہے

یہ کیسی روشنی پھیلی ہوئی ہے

 

سرا سیٖمہ ہیں ساری شاہ راہیں

سواری کس کی یہ نکلی ہوئی ہے

 

یہ اپنی زندگانی بھی غضنفرؔ

کہ جیسے شے کوئی کُچلی ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجب صورت ہے خونی سلسلوں کی

زبانیں تھک گئی ہیں خنجروں کی

 

میں اپنے گھر کو اپنا گھر نہ سمجھوں

یہ کیسی مصلحت ہے دوستوں کی

 

سلاخیں دیکھ لیں آنکھوں میں ہم نے

علامت کھل گئی ہے آنسوؤں کی

 

اذانوں کا یہ سارا مسئلہ ہے

نہیں ہے بات کچھ بھی مسجدوں کی

 

جہاں پرچم گڑے ہیں رام جی کے

وہاں بھی حکمرانی راونوں کی

 

مری آنکھوں سے نیندیں لے تو لی ہیں

بہت قیمت ہے لیکن رت جگوں کی

 

تمھارے سارے اوور ہو چکے ہیں

یہ لو، باری ہے اب ہم سر پھروں کی

 

وہیں گھرتے ہیں جل تھل جس جگہ ہے

عجب سازش ہے صاحب بادلوں کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

رستے سارے ہم نے ہیں امکانی دیکھے

تیور لیکن سب کے ہی طوفانی دیکھے

 

منظر سبز، سنہرے جن میں رہتے تھے

آج کوئی ان آنکھوں کی ویرانی دیکھے

 

باہر ہی جب اتنی گہری ہلچل ہو

کیسے کوئی اندر کی طغیانی دیکھے

 

کس کس سے یہ آس لگائے بیٹھی ہیں

کوئی میری آنکھوں کی نادانی دیکھے

 

دریاؤں کے سینے کب کے سوکھ چکے

آنکھ ہماری اب بھی ان میں پانی دیکھے

 

فوق الفطری بات کوئی پھر پیدا ہو

ایک زمانہ بیت گیا حیرانی دیکھے

 

صحراؤں میں ڈھونڈ رہے ہیں چھاؤں گھنی

کوئی اہلِ دانش کی نادانی دیکھے

٭٭٭

 

 

 

 

جو کنارے بھی مرے حصّے میں ہیں

سب کے سب سیلاب کے قبضے میں ہیں

 

پھر یزیدی قافلے کوفے میں ہیں

پھر حسین ابنِ علی نرغے میں ہیں

 

ہم کہاں جائیں گے بچ کر آپ سے

سب ٹھکانے آپ کے نقشے میں ہیں

 

بے سبب روتے ہیں ہنستے بے سبب

ہم کسی آسیب کے سائے میں ہیں

 

کون کس کا ہے کسی کو کیا خبر

ایک جیسے لوگ ہر خیمے میں ہیں

 

آدمی کوئی نہیں ہے ان دنوں

سب مسافر ہیں کسی درجے میں ہیں

 

ہیں حکومت میں، عدالت میں بھی ہم

پھر بھی لگتا ہے کسی خطرے میں ہیں

 

گھر میں رہتے ہیں مگر کچھ اس طرح

رات دن جیسے کسی گھیرے میں ہیں

 

آخری منزل بھی دیکھو آ گئی

اور ہم ہیں کہ ابھی رستے میں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ دردِ دل کا نسخہ جانتا ہے

مگر کیا درد میرا جانتا ہے

 

کسے مرنا کسے جینا ہے اب کے

یہ ان کا گوشوارہ جانتا ہے

 

مرا اک مسئلہ یہ بھی کہ مجھ سے

مرا بچہ زیادہ جانتا ہے

 

زباں اک اک کی کٹتی جا رہی ہے

جو خاک و خوں کا قصّہ جانتا ہے

 

تعجب ہے کہ ہے رستے میں وہ بھی

جو ہر منزل کا رستہ جانتا ہے

 

کہاں جاؤں گا اس سے بچ کے صاحب

وہ میرا ہر ٹھکانہ جانتا ہے

 

ہمیں بھی زندگی کرنی یہیں ہے

غضنفرؔ صرف اتنا جانتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مدّت سے ڈھو رہے ہیں گزارا ہوا نصیب

یعنی کسی کسی کا اتارا ہوا نصیب

 

کل تک جو تھا ہمارا، تمھارا ہوا نصیب

بچنا کہ مل گیا تمھیں ہارا ہوا نصیب

 

لوگوں کو اس زمین سے کیا کچھ نہیں ملا

بس ایک ہم کہ صرف گزارا ہوا نصیب

 

دیوار و در سے مٹی ادھڑتی چلی گئی

ایسا مرے مکان کا کھارا ہوا نصیب

 

آنکھوں سے اپنی سارے مناظر نکل گئے

جس دن سے اک نظر کا نظارہ ہوا نصیب

 

کب تک رہِ حیات میں دیتا ہمارا ساتھ

اک ضربِ بے زبان کا مارا ہوا نصیب

 

کثرت سے آنسوؤں کی چمک تھی سرِ نگاہ

سمجھا گیا کہ کوئی ستارا ہوا نصیب

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایسا خشک ہوا موسم کہ کیا بولیں

نطق میں ہے وہ خارِ الم کہ کیا بولیں

 

ایسا شور شرابہ شب کے آنگن میں

حیراں ہیں سب لوح و قلم کہ کیا بولیں

 

اک جلوے کے حصّے بخیے کرنے میں

الجھے ہیں یوں دیر و حرم کہ کیا بولیں

 

سیدھی سادی باتوں میں بھی لوگوں کی

ایسے ایسے پیچ و خم کہ کیا بولیں

 

امن و اماں کی دنیا میں بھی ہم نے تو

دیکھے ہیں وہ ظلم و ستم کہ کیا بولیں

٭٭٭

 

 

 

 

منہدم ہوتا ہے خوابوں کا مکاں ،  اچھا ہے

ختم ہو جائے سرابوں کا سماں اچھا ہے

 

گر سلگتا ہے مرا دل تو سلگنے دوں اسے

بن کے اڑ جائے ہر اک زخم دھواں اچھا ہے

 

کچھ نہ کچھ چاہیے آخر ہمیں جینے کا جواز

سر پہ رہتا ہے اگر بارِ گراں ، اچھا ہے

 

پاؤں بھٹکیں گے تو رستے بھی بنائیں گے نئے

مٹ رہے ہیں جو منازل کے نشاں ، اچھا ہے

 

لاکھ دھوکا ہی سہی پھر بھی یونہی رہنے دیں

ریگِ بے آب پہ پانی کا گماں ، اچھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

مت سوچو کچھ یہ لمحات نہ کھونے دو

ہونا ہے جو ہوکے رہے گا ہونے دو

 

جاگا تو پھر نئے کھلونے مانگے گا

مشکل سے سویا ہے بچّہ سونے دو

 

کھیتوں کا جب ہاتھ تمھارے ہاتھ نہیں

جو بھی جو کچھ بونا چاہے بونے دو

 

مانگے کی لوری سے کیوں کر آنکھ لگے

بیداری تقدیر ہے اپنی ڈھونے دو

 

گریے کو گر روک دیا، مر جائیں گے

اپنے دکھ کا حل ہے رونا، رونے دو

٭٭٭

 

 

 

 

غیر گو خوش ہے کہ وہ تیرو تبر رکھتا ہے

کیا ہوا تو بھی تو شبّیر سا سر رکھتا ہے

 

میری بربادی پہ کل جشن منایا اس نے

یہ بھی کیا کم ہے کہ وہ میری خبر رکھتا ہے

 

اِس حقارت سے نہ درویش کو دیکھو صاحب

وہ بھی گدڑی میں کئی لعل و گہر رکھتا ہے

 

حال اس کا بھی کوئی ٹھیک نہیں ہے یارو

اس خرابے میں کوئی شخص جو گھر رکھتا ہے

 

دشمنی اُس سے مری یہ کہ مری بستی کی

وہ بھی کچھ میری طرح خیر و خبر رکھتا ہے

 

کھیل میرا تو اُسی شخص کے ہاتھوں بگڑا

وہ جو ہر کام بنانے کا ہنر رکھتا ہے

 

کاش یہ راز عیاں مجھ پہ نہ ہوتا کہ مرا

دوست بھی دل میں مرے واسطے شر رکھتا ہے

 

لوگ اس پہ بھی ہیں برہم کہ غضنفر کیوں کر

زخم کو پھول بنانے کا ہنر رکھتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مشورہ اچھّا ہے کوئی کام کرنا چاہیے

کیا مگر اس کام میں حد سے گزرنا چاہیے

 

ہے تو وہ اچھّا مگر جی چاہتا ہے، جانے کیوں

اک ذراسا اور بھی اس کو نکھرنا چاہیے

 

ٹھیک ہے دریاؤں سے ملتے نہیں سب کو گُہر

پر ہمیں ایک بار تو ان میں اترنا چاہیے

 

غمزدہ صورت کسی محبوب کو بھاتی نہیں

عشق میں عاشق کو بھی بننا سنورنا چاہیے

 

جس طرف جاتے ہوئے سب لوگ ڈرتے ہیں یہاں

اس طرف سے بھی کبھی ہم کو گزرنا چاہیے

 

درد کا احساس دل میں ہے یہی کافی نہیں

عکس اس کا دل کے باہر بھی ابھرنا چاہیے

 

پتھروں کی تیز بارش میں بھی سب خاموش ہیں

پتّھروں کی چوٹ کھا کر تو بپھرنا چاہیے

 

اس گھنے جنگل میں بے باکی بہت اچھی نہیں

جانور رہتے ہیں اس میں ان سے ڈرنا چاہیے

 

یہ بھی اک صورت غضنفر زندگی کرنے کی ہے

عمر کوئی ہو کسی صورت پہ مرنا چاہیے

٭٭٭

 

 

 

 

منظر جو آس پاس مرے محوِ رقص تھا

عقدہ کھلا تو صرف تصور کا عکس تھا

 

یہ بھی تو ایک موڑ پے چکرا کے گر پڑا

اپنے خیال و خواب کا رو میں جو رخس تھا

 

اعضا تھرک رہے تھے مگر بے دلی کے ساتھ

کیسا عجیب محفلِ جاناں میں رقص تھا

 

جس پر بڑی امید سے ٹھہری ہوئی تھی آنکھ

سورج نہیں تھا وہ تو فقط اس کا عکس تھا

 

ہر آن یہ یقین کہ اپنے کو پا لیا

ہر موڑ پر گمان کوئی اور شخص تھا

 

دھندلے نقوش اور نگاہیں بجھی بجھی

جس سمت دیکھتا تھا وہی ایک عکس تھا

 

آنکھوں میں خواب اور سمندر لیے ہوئے

رستے پہ قہقہوں میں گھرا کون شخص تھا

 

کچھ تو ضرور تھا کہ رہے عمر بھر مقیم

مانا کہ اُس مکاں میں قیامت کا حبس تھا

٭٭٭

 

 

 

 

جتنے تھے خواب سارے حقیقت میں ڈھل گئے

لیکن ہماری زیست کے معنے بدل گئے

 

پیچھے بہت تھے ہم سے جو دنیا کی دوڑ میں

ایسی چلے وہ چال کہ آگے نکل گئے

 

اس بات پر بھی لوگوں کو حیرت نہیں ہوئی

اب کے برس تو سانپوں کو مینڈک نگل گئے

 

نکلے تھے گھر سے آگ بجھانے پڑوس کی

کیا یاد آ گیا کہ ارادے بدل گئے

 

کیچڑ میں اتنے سال رہے ہم کہ ایک دن

باہر نکل کے آئے تو یک دم پھِسل گئے

 

خوشبو، گلاب، رنگ، شفق چاند، آفتاب

اک ساتھ آپ سیکڑوں سانچے میں ڈھل گئے

 

پتھّر یہ کس نے ایسا گرایا کہ دفعتاً

اک ساتھ کئی سمت سمندر اُچھل گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی کے نرم تخاطب پے یوں لگا مجھ کو

کہ جیسے سارے مسائل کا حل مِلا مجھ کو

 

کسی مقام پہ وہ بھی بچھڑ گئی مجھ سے

نگاہِ شوق جو دیتی تھی حوصلہ مجھ کو

 

کہ ہم سفر کو سمجھنے لگا خضر اپنا

ضرورتوں نے کچھ ایسا سفر دیا مجھ کو

 

تمام لوگ ہی دشمن دکھائی دیتے ہیں

کوئی بتائے کہ آخر یہ کیا ہوا مجھ کو

 

میں تیری کار کا اکھڑا ہوا کوئی پرزہ

سکوں طلب ہے تو میری جگہ پہ لا مجھ کو

 

مرا وجود بھی ققنس سے کم نہیں ہے میاں

یقیں نہ آئے تو پوری طرح جلا مجھ کو

 

میں ایسا نرم طبیعت کبھی نہ تھا پہلے

ضرور لمس کوئی اس کا چھو گیا مجھ کو

 

میں چاہ کر بھی تجھے قتل کر نہ پاؤں گا

یہ کس کا دے دیا تو نے بھی واسطہ مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھ کو تو تھی گلستاں کی ہوس

اور خوابوں میں اُگے بس خار و خس

 

ایک جیسی زندگی دونوں جگہ

آشیانہ ہو کہ ہو کوئی قفس

 

ضرب پڑتی ہے کہاں مضراب کی

بولتا ہے کس جگہ تارِ نفس

 

لٹ گیا غفلت کا مارا کارواں

سر پٹکتی رہ گئی بانگِ جرس

 

ہر طرح سے جان، جانی ہے جناب

اِس طرف یخ ہے تو اُس جانب اُمس

 

ایک بار آور برس کی آس میں

جا چکے ہیں ہاتھ سے صد ہا برس

٭٭٭

 

 

 

 

چاند بھی اس کے تغافل سے ہے لر زیدہ سا

اک عجب خوف سے سورج بھی ہے سہما سہما

 

آخرش عشق کے صحرا میں جھلسنا ہی پڑا

بچ نکلنے کے لیے راستہ کو ئی بھی نہ تھا

 

تھا ارادہ کہ سمندر کو بھروں میں اس میں

میری نادانی تھی مٹّی کا گھڑا ٹوٹ گیا

 

بڑھ گئی اور بھی شبنم کی پھوہاروں سے جلن

میں نے سوچا تھا شراروں سے گزر جاؤں گا

 

کاش آ جاتا کسی طرح میرے قابو میں

ناگ جو سرخ سمندر میں ہے وہ دور کھڑا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ خلش یہ اضطرابی شور و شر کا زور کیوں

آہ و زاری کس لیے یہ چشمِ تر کا زور کیوں

 

زندگی جس سے ملے گی ہم اسے اپنائیں گے

یہ ہمارے راستے میں خیرو شر کا زور کیوں

 

ہیں حدِ پرواز سے آگے ہماری منزلیں

یہ صعوبت کس لیے، یہ بال و پر کا زور کیوں

 

ایک پتّا بھی نظر آتا نہیں ہے شاخ پر

اِس خرابے میں ہوائے تیز تر کا زور کیوں

 

آندھیاں تو سب کی سب اُس سمت میں ہیں موجزن

اِس طرف کی کشتیوں میں نوحہ گر کا زور کیوں

 

جب مآلِ زندگی صبر و قناعت، سادگی

پھر ہمارے ذہن و دل پر مال و زر کا زور کیوں

٭٭٭

 

 

 

 

جب سے میں نے آنکھیں کھولیں کانوں کو با ہوش کیا

ایک کریہہ المنظر دیکھا، ایک بھیانک شور سنا

 

سخت جان تھے ہم تو ہم نے جھیل لیا پر بچّوں کا

گرم بگولوں والے اِس بے سمت سفر میں کیا ہو گا

 

لوگ وراثت میں پاتے ہیں دولت، عزّت شہرت، نام

اور ہم کو ورثے میں اپنے ایک گراں گھر بار ملا

 

اس کا جیون، کیسا جیون، دنیا کیسی، کیسا دین

پاؤں سے جس کے دھرتی غائب سر پر جس کے صرف خلا

 

بر فیلی یا گرم فضا ہو اب بھی آنکھیں سوتی ہیں

کہنے کو تحریکیں اٹھّیں، اک اک دل بیدار ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

ایسا موسم ہوا نے عنایت کیا کچھ پرندوں کے سرکٹ گئے

کچھ کے بازو بدن سے جدا ہو گئے اور باقی کے پر کٹ گئے

 

بے ہنر تر کشوں سے اچھا لے گئے تیر اتنے ہماری طرف

کہ ہمارے سبھی چاق چو بند مشّاق دستِ ہنر کٹ گئے

 

ایک ندّی نہ جانے کہاں سے مری راہ میں آ کھڑی ہو گئی

پاؤں حیرت زدہ رہ گئے رفتہ رفتہ ہمارے سبھی ہم سفر کٹ گئے

 

ایک ضدّی سیاست کی بھڑ کی ہوئی بے سری جنگ میں کود کر

آن کی آن میں کتنے سلجھے ہوئے اہلِ دانش بشر کٹ گئے

 

چاق چوبند بڑا سخت پہرہ بٹھایا گیا تھا مگر کس طرح

باغ میں تیز آرے چلے، جتنے پھل دار تھے سب شجر کٹ گئے

 

راہ میں ایک بلّی کے آنے سے اکثر ہوا ایسا بھی حادثہ

اُڑ گئے علم و دانش کے پرزے سبھی، عقل کے بال و پر کٹ گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دھوپ میں دوڑیں ذرا خود کو تھکائیں آؤ

تلخ راتوں کے لیے نیند بنائیں آؤ

 

پھر کنارے سے تمّوج کا تماشا دیکھیں

پہلے دریا میں کوئی سنگ گرائیں آؤ

 

لذّتِ قرب ہے احساسِ دوئی میں مخفی

فاصلہ بیچ کا کچھ اور بڑھائیں آؤ

 

اپنے ہی خون سے سر سبز کریں اپنے بدن

تشنگی اپنی اسی طرح بجھائیں، آؤ

 

دادو تحسین سے ہم جھولیاں اپنی بھر لیں

قصۂ درد زمانے کو سنائیں آؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

سیدھے رستے پر بھی چلنا دو بھر ہے

کتنا بھاری بوجھ ہمارے سر پر ہے

 

کیسے اپنے ہاتھ لگے کچھ دنیا سے

جہاں جہاں ہیں دفن دفینے، اجگر ہے

 

جو گی اپنا جوگ کہاں پر سادھے گا

اِس دھرتی پر چاروں اور چَلتّر ہے

 

صحرا ہے اِس بستی کے ہر آنگن میں

اور یہاں سے میلوں دور سمندر ہے

 

کبھی جھلستا، کبھی ٹپکتا رہتا ہے

جیون کیا ہے، مفلس کا اک چھپّر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چہرے سے رنگ آنکھ سے نیندیں اُڑا گئی

کیسے کہوں کہ زندگی کس سے ملا گئی

 

لڑتا رہا میں جس سے ہزاروں لڑائیاں

اک روز وہ انا بھی مری مات کھا گئی

 

وہ جو تمام لوگوں میں مجھ کو عزیز تھا

کیوں اس کی جیت آج مرا دل دکھا گئی

 

دونوں ہی شادماں ہیں تعلق کو توڑ کر

رشتوں کے درمیان عجب راہ آ گئی

 

چبھنے لگی ہے جسم میں اپنی نگاہ بھی

دنیا مرے وجود کو کیسا بنا گئی

 

خاموشیوں کا دشت بڑا ہی مہیب تھا

سینے کی چیخ پھر بھی سماعت میں آ گئی

 

دنیا کو کیسے روک کے رکھا ہے کیا پتا

تم کو تو لگ رہا ہے کہ قابو میں آ گئی

 

یادوں کا اک چراغ بچا تھا، سو اس برس

آندھی کہیں سے آئی، اسے بھی بجھا گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

بے وزن تھے جو لوگ وہ سکّوں میں تُل گئے

منصف تمھارے عدل کے سب پول کھُل گئے

 

پُتلی پہ چاند تارے ٹکے تھے کہ دفعتاً

بادل کہیں سے ٹوٹ کے آنکھوں میں گھل گئے

 

غوغا تھا جب تو اپنی سماعت پہ بار تھا

اب ہو رہا ملال کہ کیوں شور و غل گئے

 

دن رات جن کو جان بچانے کی فکر تھی

کچھ تو ہوا کہ جان وہ دینے پہ تل گئے

 

سہتے تھے بوجھ بیڑے لگاتے تھے پار جو

اس بار کی دھمک میں وہ مضبوط پُل گئے

 

جن سے توقعات تھیں روشن نگاہ میں

وہ حرفِ اعتبار بھی چہروں سے دھُل گئے

 

آئی ہوا نہ پھر بھی غضنفر مکان میں

اک ایک کر کے سارے دریچے بھی کھل گئے

٭٭٭

 

 

 

عجیب شخص ہے پہلے مجھے ہنساتا ہے

پھر اس کے بعد بہت دیر تک رلاتا ہے

 

وہ بے وفا ہے، ہمیشہ ہی دل دکھاتا ہے

مگر یہ کیا کہ وہی ایک ہم کو بھاتا ہے

 

نہ خوش گمان ہو، اس پر تو اے دلِ سادہ

سبھی کو دیکھ کے وہ شخص مُسکراتا ہے

 

وہ ہوش گوش کا انساں ہے پھر بھی صحرا میں

کسی دیوانے کی صورت صدا لگاتا ہے

 

عجیب چیز ہے یہ وقت جس کو کہتے ہیں

کہ آنے پاتا نہیں اور بیت جاتا ہے

 

خضر تو آتے نہیں ہیں مرے خرابے میں

یہ کون ہے جو مجھے راستہ دکھاتا ہے

 

ہمارے حرف بھی بے مدعا ہو جاتے ہیں

خلا میں جیسے کوئی انگلیاں گھماتا ہے

 

ہر ایک رات کہیں دور بھاگ جاتا ہوں

ہر ایک صبح کوئی مجھ کو کھینچ لاتا ہے

 

کبھی وہ مجھ کو اڑاتا ہے آسمانوں میں

کبھی زمین پہ لا کر مجھے گراتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

صورتِ سیماب ہے ایک اک نفس

ماہیِ بے آب ہے ایک اک نفس

 

زہر جیسے گھل گیا ہو جسم میں

اس طرح بے تاب ہے ایک اک نفس

 

ہے بپا سیلاب اور سیلاب میں

لقمۂ گرداب ہے ایک اک نفس

 

مثلِ رستم ہے زمانہ اِن دنوں

اور اب سہراب ہے ایک اک نفس

 

اک کتابِ بے بسی ہے زندگی

بے دلی کا باب ہے ایک اک نفس

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کسی سینے میں خنجر بھونکتا ہوں

میں اکثر خواب میں یہ دیکھتا ہوں

 

میں اپنے دست و بازو کاٹ ڈالوں

نہ جانے کیوں میں ایسا سوچتا ہوں

 

مجھے معلوم ہے منزل کہاں ہے

پتا پھر بھی میں سب سے پوچھتا ہوں

 

مرا انداز دنیا سے نرالا

میں آنکھیں بند کر کے دیکھتا ہوں

 

میں چپ رہتا ہوں لیکن یہ سنا ہے

کہ سوتے میں بہت کچھ بولتا ہوں

 

مری آنکھوں کا مرکز تو نہیں ہے

میں تجھ سے بھی پرے کچھ دیکھتا ہوں

 

میں کتنا بے بدن لگتا ہوں خود کو

کبھی جب دوسروں سے تولتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

پہلو سے میں نے مانا مرے جان و دل گئے

لیکن کسی کے دشت میں کچھ پھول کھل گئے

 

ہوتے نہیں تھے آندھیوں میں بھی جو ٹس سے مس

ہلکی ہوا کی مار پہ وہ جڑ سے ہل گئے

 

اک اشکبار بچّے کو کل کیا ہنسا دیا

بے رنگ جسم و جاں میں مرے پھول کھل گئے

 

نکلا تو تھا صدائیں لیے احتجاج کی

لیکن قریب جا کے مرے ہونٹ سِل گئے

 

آسیب تو ہر سمت اسی طرح سلامت

تم تو بتا رہے تھے مکانات کلِ گئے

 

پھوٹے جو کچھ تو ان کو پرندوں نے چُگ لیا

کچھ بیج اپنے آپ ہی مٹی میں مِل گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ کس کی کوکھ سے خنجر کی کونپلیں پھوٹیں

ہمارے شہر کے قاتل کی دھڑکنیں ٹوٹیں

 

کسی کی چیخ کی پرسش میں زمزمے تھے شریک

ترقّیوں نے پڑوسی کی عادتیں لوٹیں

 

فضا میں پھر سے صداؤں کے زلزلے جاگے

فلک کے ہاتھ سے دھرتی کی گردنیں چھوٹیں

 

نفس نفس میں اندھیرے کے تیر ٹوٹ گئے

ضیائے صبح سے خوابوں کی جب رگیں ٹوٹیں

 

بنا کے ہم نے زمانے میں آہنی پنجے

خود اپنے ہاتھ سے ہاتھوں کی عزّتیں لوٗٹیں

 

یہ کس نے زخمِ غضنفر پہ رکھ دیا مرہم

کہ آج چونک کر آنکھوں سے حیرتیں ٹوٹیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی جلنا تو کوئی آگ پہ چلنا چاہے

کس لیے آج ہر اک شخص پگھلنا چاہے

 

آتشِ ہجر میں دل پھر سے سلگنا چاہے

سردیِ وصل کی یلغار سے بچنا چاہے

 

ایک میں ہوں کہ سدا اس سے پناہیں مانگوں

ایک وہ ہے کہ ہمہ وقت لپٹنا چاہے

 

عزم ایسا کہ کبھی راہ میں ٹھہرے نہ قدم

راہ ایسی کہ قدم پیچھے پلٹنا چاہے

 

آسماں خشک ہوا اور زمیں بے پانی

ایسے موسم میں کوئی شاخ جو پھلنا چاہے

٭٭٭

 

 

 

 

بات کرنا آپ سے اچھا لگا

آپ کا لہجہ بہت پیارا لگا

 

لفظ سادہ تھے مگر ہر لفظ میں

موجزن رنگوں کا اک دریا لگا

 

 

جیتنے نکلے تھے لیکن جنگ میں

ہار جانا بھی بہت اچھا لگا

 

ایسے کچھ لمحے بھی آئے درمیاں

جھوٹ بھی اس کا مجھے سچّا لگا

 

پاس سے دیکھا تو دوری درمیاں

دور سے دیکھا تو اک رشتہ لگا

 

کی بیاں روداد میں نے خوں چکاں

سننے والوں کو مگر قصّہ لگا

 

بھیڑ تھی پسری ہوئی چاروں طرف

گوشہ گوشہ پر مجھے سونا لگا

 

اس میں گہرائی، روانی، آب و تاب

آدمی تھا اور مجھے دریا لگا

٭٭٭

 

 

 

 

کیچوے کے سر پہ پھن کو دیکھیے

اپنی مٹّی کے چلن کو دیکھیے

 

کس پہ کتنی گرد ہے بیٹھی ہوئی

اپنے اپنے پیر ہن کو دیکھیے

 

سر کٹا کر بھی سدا بڑھتی رہی

دوٗب کی سچّی لگن کو دیکھیے

 

آپ کی لاٹھی پکڑ کر بڑھ گیا

شیخ صاحب برہمن کو دیکھیے

 

جیت لی لنگڑے نے بازی ریس کی

پاؤں والوں کے پتن کو دیکھیے

 

کس قدر لپٹے ہیں دل سے اضطراب

میرے بستر کی شکن کو دیکھیے

 

جا رہا ہے آب پیاسے کے قریب

پیاس پانی کے چلن کو دیکھیے

 

پھر نظر کا میری شکوہ کیجیے

پہلے اپنے تن بدن کو دیکھیے

 

دھونکنی ہیں سب کے سب لوہار کی

جس طرف بھی جس بدن کو دیکھیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کس پہ خنجر کے وار ہوتے ہیں

اور کس دل کے پار ہوتے ہیں

 

زخم میرے ہیں درد میرا ہے

آپ کیوں اشکبار ہوتے ہیں

 

کچھ تو ایسے بھی حادثے ہیں جو

راہ میں بار بار ہوتے ہیں

 

دل کو کہیے کہ گُل سے دور رہے

گل کے پہلو میں خار ہوتے ہیں

 

اور جی چاہتا ہے رونے کو

پاس جب غم گسار ہوتے ہیں

 

ایک رستہ نہیں ہے جینے کا

راستے بے شمار ہوتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مری نگاہوں میں اپنے گھر کی تمام آنکھیں کھلی ہوئی ہیں

دل و نظر کی اداسیوں کی سیاہیاں سب گھلی ہوئی ہیں

 

دلوں کے اندر سخن کے دریا امڈ رہے ہیں مگر زبانیں

عجیب دھاگوں سے مصلحت کے بہت ہی پختہ سلی ہوئی ہیں

 

ہوائیں ایسی کہ دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے ان کا تیور

بدن سے پیڑوں کی چھال تک بھی اُتارنے پر تلی ہوئی ہیں

 

میں اپنے خوابوں کو توڑ دیتا کہ ان سے جینا ہے اور مشکل

مگر یہ مشکل کہ ان میں اوروں کی خواہشیں بھی ملی ہوئی ہیں

 

عجیب حیرت کی بات لوگو گھٹن گھروں میں اگر چہ باہر

ہوا میں کوئی کمی نہیں اور کھڑ کیاں بھی کھلی ہوئی ہیں

 

ہم ایک ایسے مکاں کے اندر نگاہ میٖچے پڑے ہوئے ہیں

چھتوں میں جس کی شکستگی ہے، بِنائیں جس کی ہِلی ہوئی ہیں

 

میں ایسے کتنے ہی سرخ چہروں کو جانتا ہوں کہ جن کے بھیٖتر

ہر ایک رگ میں سیاہ پیلی رطوبتیں بھی گھلی ہوئی ہیں

 

بِنا اجازت کے کیسے کوئی پہنچ سکے گا کسی کنارے

کہ شاہ رہ سے تمام راہیں اِدھر اُدھر کی ملی ہوئی ہیں

 

یقین جانو غلاظتوں سے سنے ہوئے ہیں وہی زیادہ

قبائیں جن کی ہیں صاف زیادہ، چمک رہی ہیں دھلی ہوئی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تیز ہوتی جا رہی ہے کس لیے دھڑکن مری

ہو رہی ہے رفتہ رفتہ آنکھ بھی روشن مری

 

ذہن کے خانوں میں جانے وقت نے کیا بھر دیا

بے سبب ہونے لگی اک ایک سے ان بن مری

 

جیسے جیسے گُتھّیوں کی ڈور ہاتھ آتی گئی

کچھ اسی رفتار سے بڑھتی گئی الجھن مری

 

ایسا لگتا ہے کہ میری سانس پھر گھٹ جائے گی

پھر انا کی نوک پر اٹھنے لگی گردن مری

 

کیا کوئی سایہ طلوع ہونے لگا ہے پھر اُدھر

پھر سے کیوں ہونے لگی ہے دودھیا چلمن مری

٭٭٭

 

 

 

 

 

مانا ہم نے آنکھ ہماری بالکل بچوں جیسی تھی

لیکن اِس سے دنیا ہم کو کتنی اچھّی لگتی تھی

 

جانے کیا افتاد پڑی کہ پتھّر میں تبدیل ہوئی

کل کی بات ہے اپنے اندر غنچوں جیسی نرمی تھی

 

تشنہ لبی کے مٹ جانے کی کم سے کم اُمّید تو تھی

مانا ریت کو آب سمجھنا صرف مری خوش فہمی تھی

 

جانے کیسی آندھی آئی سارا کچھ برباد ہوا

پھولوں جیسے لوگ تھے سارے ¸ گلشن جیسی بستی تھی

 

شہزادہ جب گھِر جاتا تھا خضر بچانے آتے تھے

نانی میری ایسی ایسی روز کہانی کہتی تھی

 

منّی بھی اب چپ رہتی ہے خواہ تماشا کیسا ہو

کل کی بات ہے اس بچّی کی گڑیا تک بھی ہنستی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کئی ایسے بھی رستے میں ہمارے موڑ آتے ہیں

کہ گھر آتے ہوئے اپنے کو اکثر چھوڑ آتے ہیں

 

ہمیں رشتوں سے کیا مطلوب ہے آخر کہ روزانہ

کسی سے توڑ آتے ہیں، کسی سے جوڑ آتے ہیں

 

نہ جانے کس طرح بستر میں گھس کر بیٹھ جاتی ہیں

وہ آوازیں جنھیں ہم روز باہر چھوڑ آتے ہیں

 

کوئی تو مصلحت ہو گی کہ ہم خاموش بیٹھے ہیں

ہمیں بھی ورنہ اُن کے ٹوٹکوں کے توڑ آتے ہیں

 

چبھن سہتے ہیں ان کی پر اُنھیں کھُلنے نہیں دیتے

ہمارے درمیاں ایسے بھی کچھ گٹھ جوڑ آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

عکس یادوں کا نگاہوں میں ذرا رہنے دے

زندہ رہنے کے لیے کچھ تو ضیا رہنے دے

 

اور کچھ کام نکل جائیں اسی حیلے سے

اور کچھ دیر یوں ہی اس کو خفا رہنے دے

 

بھیگ جائیں تو ذرا جسم سکھالیں اپنا

دیکھ صحرا کو سمندر سے ملا رہنے دے

 

جانتا ہوں کہ فقط آب کا دھوکا ہے مگر

تودۂ ریت پے پانی کی ردا رہنے دے

 

پاؤں بھٹکیں گے تو رستے بھی بنائیں گے نئے

راہِ بے سمت کو بے سمت بنا رہنے دے

 

صاف دکھتا ہے ہر اک چیز کا چہرہ ان سے

ان اندھیروں کا کو مرے گھر میں گھلا رہنے دے

 

لوٹ کر پھر یہیں آنا ہے غضنفر تجھ کو

اپنے اس گھر کا کوئی در تو کھلا رہنے دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ دنیا بڑی مشکلوں سے بسی تھی

بہت سال پہلے کہانی سنی تھی

 

جہاں پر مکمّل خموشی رہی تھی

وہیں سے فضا میں بغاوت اٹھی تھی

 

وہاں سے ہوئی واپسی ایک پل میں

جہاں تک پہنچنے میں مدّت لگی تھی

 

ترسنے لگے ہاتھ آنے کو مجھ تک

مری دوستی جب عداوت بنی تھی

 

خوشی لے کے آنکھوں میں لوٹے سبھی تھے

دلوں میں اگر چہ وہی بے کلی تھی

 

فرشتوں کی مانند چہرے تھے سارے

نگاہوں میں لیکن عجب کھلبلی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

مری چاہت کو ہے اک کشمکش کا سامنا اب کے

کہ آنکھوں میں کوئی اس سے بھی بہتر آ گیا اب کے

 

سمندر پار کرنا ہے کہ اس میں ڈوب جانا ہے

بہر صورت یہ کرنا ہے ہمیں ہی فیصلہ اب کے

 

ہماری پیاس ایسی ہے کسی صورت نہیں بجھتی

یہ سننا تھا کہ سنّاٹے میں دریا آ گیا اب کے

 

کہیں بھی جاں فروشوں کا کوئی خیمہ نہیں دکھتا

پکارے بھی تو کس کو یہ زمینِ کربلا اب کے

 

عجب شدت کی حدّت ہے دل و جاں میں کہ لگتا ہے

کوئی سوٗرج سوا نیزے پہ جیسے آ گیا اب کے

 

بڑھایا ہے قدم آگے فقط ہم نے نہیں اپنا

گھٹا یا اس نے بھی ہے بیچ کا کچھ فاصلہ اب کے

 

نہ جانے مجھ میں ایسا کیا نظر آیا کہ پتھر بھی

عجب بدلا ہوا کچھ موم کی صورت ملا اب کے

 

مسیحائی کو نکلے تھے بنے عیسیٰ غضنفر جی

مریضوں نے انھیں بھی دار پہ لٹکا دیا اب کے

٭٭٭

 

 

 

 

منظر شہادتوں کا سہانا حسین سے

رنگیں ہے کربلا کا نظارا حسین سے

 

حق کا زمیں پہ آج ترانہ حسین سے

قائم صداقتوں کا زمانہ حسین سے

 

راہِ خدا میں امن و صداقت کے نام پر

سیکھے کوئی حیات لٹا نا حسین سے

 

کتنا بھی زور مند یزیدی سپاہ ہو

آساں نہیں نِگاہ ملانا حسین سے

 

شمر و زیاد کون سی گنتی میں ہیں جناب

کھاتا ہے خوف سارا زمانہ حسین سے

 

گردن بھی کٹ پڑے تو غضنفر گلہ نہیں

سیکھا ہے میں نے خون بہانا حسین سے

٭٭٭

 

 

 

 

خواب گہہ سے خارزاروں میں چلیں

زندگی کے پھول سے دامن بھریں

 

دے رہا ہے ایک وحشی یہ صدا

مارنے والے مجھے زندہ رہیں

 

دن میں جتنی دل شکن باتیں ہوئیں

رات آ جائے تو پھر گنتی کریں

 

مصلحت کا اب تقاضا ہے یہی

دوستوں سے کچھ قدم پیچھے رہیں

 

التجا ہے سوچنے والوں سے یہ

عقل کی سنتے ہیں، دل کی بھی سنیں

 

اس میں بھی کچھ ہے وفا کی چاشنی

بے وفا چاہیں تو وہ لکھّا کریں

٭٭٭

 

 

 

پھر یقیں آج دھند پر کر لوں

اپنی آنکھوں کو بے نظر کر لوں

 

پھر پکاروں کسی ستمگر کو

جسم کو خوں سے تر بتر کر لوں

 

کیا پتا نیند کب چلی جائے

مختصر خواب کا سفر کر لوں

 

ذہن و دل سونپ دوں مقدر کو

اور ہاتھوں کو بے ہنر کر لوں

 

آج بھی یاد کوئی آ جائے

آج کی رات بھی بسر کر لوں

 

سنگ آنے سے پیشتر ہی میں

کیوں نہ پیڑوں کو بے ثمر کر لوں

 

یہ بھی قسمت نہیں کہ میں اپنا

قصۂ عمر مختصر کر لوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آخر منگرو بھی تو جھگرو ہی کا بیٹا ہے

لیکن وہ کیوں میرے منّے سے لڑ پڑتا ہے

 

میں کیوں بول نہیں پاتا ہوں جھگرو سے لیکن

میرا منّا منگرو کے سنگ کھیلا کرتا ہے

 

اتنے لوگ پتا کے لے کر کیوں چلّا تے ہیں

ہم کو بھی بتلاؤ کیا کچھ ہونے والا ہے

 

ایسی بھیڑ تو آئے دن لگتی ہی رہتی ہے

چھوڑو بھائی یہ سب تو اک کھیل تماشا ہے

 

اِس میں بھی سب چورا چکے ہی تو رہتے ہیں

یاں پھر باپو کا یہ فوٹو کیوں کر رکھّا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بے امانی، بے بساطی، بے دلی محسوسنا

گھر کے اندر بیٹھ کر بھی بے گھری محسوسنا

 

آنکھ، پیشانی، لب و رخسار سب کے باوجود

آئینے کے سامنے بے چہرگی محسوسنا

 

فکر کا اک زاویہ یہ بھی ہے اپنے دور کا

اچھی خاصی نیکیوں میں کچھ بدی محسوسنا

 

کوئی بیماری ہے شاید یہ بھی اپنی آنکھ کی

اپنے جینے کی ضرورت میں کمی محسوسنا

 

یہ بھی کچھ جادو گری سے کم نہیں کہ دھند میں

روشنی کو دیکھنا اور زندگی محسوسنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایسا بھی کوئی لمحہ بسر ہونا چاہیے

اک بار اس کی گود میں سر ہونا چاہیے

 

پہلے تو کوئی پاس شجر ہونا چاہیے

پھر سوچنا کہ اس پہ ثمر ہونا چاہیے

 

کچھ ٹھیک نہیں راہ میں اس درجہ دلیری

دنیا ہے میاں تھوڑا سا ڈر ہونا چاہیے

 

کوئی تو بات ہے کہ اُدھر ہم نہیں گئے

یہ جانتے ہوئے کہ اُدھر ہونا چاہیے

 

مانا کہ کچھ نہ چاہیے راہِ حسین میں

شانوں پہ کوئی سر تو مگر ہونا چاہیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنی نظر میں بھی تو وہ اپنا نہیں رہا

چہرے پہ آدمی کے ہے چہرہ چڑھا ہوا

 

منظر تھا، آنکھ بھی تھی، تمنائے دید بھی

لیکن کسی نے دید پہ پہرہ بٹھا دیا

 

ایسا کریں کہ سارا سمندر اچھل پڑے

کب تک یوں سطح آب پہ دیکھیں گے بلبلہ

 

برسوں سے اک مکان میں رہتے ہیں ساتھ ساتھ

لیکن ہمارے بیچ زمانوں کا فاصلہ

 

مجمع تھا، ڈگڈگی تھی، مداری بھی تھا مگر

حیرت ہے پھر بھی کوئی تماشا نہیں ہوا

 

آنکھیں بجھی بجھی سی ہیں بازو تھکے تھکے

ایسے میں کوئی تیر چلانے کا فائدہ

 

وہ بے کسی کہ آنکھ کھلی تھی مری مگر

ذوقِ نظر پہ جبر نے پہرہ بٹھا دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ اُدھر آبِ بقا زہراب سا

اور اِدھر اک تشنہ لب بے تاب سا

 

اشک کے قطرے کو کیا کہیے کہ جب

آنکھ سے نکلا، لگا سیلاب سا

 

یا اسے کچھ یا مجھے کچھ ہو گیا

اس کا چہرہ کیوں لگا بے آب سا

 

آنکھ کھلتے ہی ہوا ہو جائے گا

بند پلکوں میں جو ہے اک خواب سا

 

کون سی منزل فقیری کی ہے یہ

بوریا لگنے لگا کمخواب سا

 

ہے سفینہ سطحِ دریا پر تو پھر

لگ رہا ہے کیوں مجھے غرقاب سا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

انکُر کسی بھی بیج سے کیوں پھوٹتا نہیں

بارش میں بھیگ کر بھی بدن ٹوٹتا نہیں

 

بس ایک اپنے یار میں خامی کہ ہم سے وہ

خفگی کے با وجود کبھی روٹھتا نہیں

 

چھوٹے وفا شناس کئی ہاتھ، ہاتھ سے

اک بے وفا کا ہاتھ مگر چھوٹتا نہیں

 

ہاتھوں میں سب کے آج کمانیں تنی ہوئیں

لیکن یہ کیا کہ تیر کوئی چھوٹتا نہیں

 

آیا ہے لوٹنے کے ارادے سے وہ مگر

کیا مجھ میں دیکھ کر وہ مجھے لوٹتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

درد کی کون سی منزل سے گزرتے ہوں گے

خواب کے پاؤں زمینوں پہ اترتے ہوں گے

 

ہم کہ مربوط ہوئے اور شکستہ ہو کر

ٹوٹ کر کیسے بھلا لوگ بکھرتے ہوں گے

 

ہم کہ ساحل کے تصور سے سہم جاتے ہیں

لوگ کس طرح سمندر میں اترتے ہوں گے

 

جانے کیا سوچتی ہوں گی وہ اندھیری راتیں

چاند جب ان کی نگاہوں میں ابھرتے ہوں گے

 

تم جھلستے ہو چٹانوں پہ مگر جانے دو

کتنے ہی لوگ مکانوں میں سنورتے ہوں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رفتہ رفتہ آنکھوں کو حیرانی دے کر جائے گا

خوابوں کا یہ شوق ہمیں ویرانی دے کر جائے گا

 

دیکھ کے سر پر گہرا بادل خشک نگاہیں کہتی ہیں

آج ہمیں یہ ابر یقیناً پانی دے کر جائے گا

 

کچھ ٹھہراؤ تو بے شک اس سے میرے گھر میں آیا ہے

لیکن اک دن مجھ کو وہ طغیانی دے کر جائے گا

 

آئے گا تو اک دو پل مہمان رہے گا آنکھوں میں

جائے گا تو اک قِصّہ طولانی دے کر جائے گا

 

کاغذ کے یہ پھول بھی اپنے چہروں کو فق پائیں گے

اب کے موسم اِن کو بھی حیرانی دے کر جائے گا

 

خوش منظر پہ آنکھ جمائے بیٹھے ہیں کہ لگتا ہے

رنگ کوئی بے رنگ نظر کو دھانی دے کر جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

اس سے بچھڑتے وقت بھی ایسا مجھے لگا

جیسے سفر میں کوئی مسافر سے ہو جدا

 

سوکھا ہوا درخت تھا، بے کار تھا مگر

سب لوگ چیخ اُٹھے زمیں پر وہ جب گرا

 

آنکھوں سے جب کبھی مری آنسو، رواں ہوئے

اک ہاتھ سا خلا میں ابھرتا ہوا لگا

 

گھر سے نکل تو آیا پڑوسی کی چیخ پر

لیکن ذراسی دور بڑھا اور رک گیا

 

ہر شے دکھائی دینے لگی مجھ کو اجنبی

جس رات میں نے خود کو بدن سے جدا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

اک عجب خوف فضاؤں میں گھلا ہے بابا

مجھ سا نڈر بھی تو اب سہما ہوا ہے بابا

 

بس اسی خوف سے جاگے نہ کبھی غفلت سے

جاگنے والوں کا انجام برا ہے بابا

 

ہم کو اس پیڑ کے نیچے بھی کڑی دھوپ ملی

سایہ برگد کا سنا تھا کہ گھنا ہے بابا

 

جانے کیا بات کہ پتھّر کا مکاں بھی اپنا

کچھ نہ کچھ روز ہی محور سے ہٹا ہے بابا

 

وقتِ فرصت جو کبھی جسم ٹٹولا اپنا

کوئی خنجر یا کوئی تیر ملا ہے بابا

 

کوئی زنجیر نہیں پھر بھی نہ جانے کیسے

چلنے والے کا یہاں پاؤں بندھا ہے بابا

 

ایک ہی پیڑ کے پتّے ہیں مگر رنگ تو دیکھ

کوئی پیلا تو کوئی خوب ہرا ہے بابا

 

ایسی مخلوق بھی دیکھی ہے اسی بستی میں

سر کہیں ہے تو کہیں پاؤں پڑا ہے بابا

 

آگے بڑھتے ہیں بہت دور تلک چلتے ہیں

پھر بھی لگتا ہے سفر ٹھہرا ہوا ہے بابا

٭٭٭

 

 

 

 

 

آب صحرا میں ڈھونڈتا ہے کوئی

کیسا دیوانہ ہو گیا ہے کوئی

 

خار ہی خار، پھول کوئی نہیں

یہ بھی جینے کا راستہ ہے کوئی

 

وہ جو اپنا سا لگ رہا تھا کبھی

اب جو دیکھا تو دوسرا ہے کوئی

 

خالی گھر میں بھی کیوں لگے ہے مجھے

اس خرابے میں بس رہا ہے کوئی

 

خوش گمانی میں ڈالے رکھتا ہے

کیا سرابوں کا سلسلہ ہے کوئی

 

پل میں لگتا کہ کوئی دوری نہیں

پل میں لگتا کہ فاصلہ ہے کوئی

 

کوئی منزل نہیں ہے اُس جانب

پھر بھی اس سمت جا رہا ہے کوئی

 

پھول کی جستجو میں دیکھو تو

ایک پتھّر سے جا ملا ہے کوئی

 

اشک آنکھوں سے بہنے لگتے ہیں

جب مرا حال پوچھتا ہے کوئی

 

میں تو رستے میں ہوں مگر میرے

گھر کی چوکھٹ تک آ گیا ہے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

آدمی ہے کہ آئینہ ہے کوئی

سچ جو شعروں میں کہہ رہا ہے کوئی

 

فون آتا نہیں تو لگتا ہے

اس سے قربت کا سلسلہ ہے کوئی

 

رنگ آنکھوں کا کہہ رہا ہے تری

عکس اُٹھ کر ابھی گیا ہے کوئی

 

کیسے مانوں کہ میرے بارے میں

کچھ تو اچھا بھی سوچتا ہے کوئی

 

کچھ دنوں سے یہ لگ رہا ہے مجھے

آگ سینے میں رکھ گیا ہے کوئی

 

جھوٹ کو سچ بنا کے رکھ دینا

یہ بھی اُس شوخ کی ادا ہے کوئی

 

خوب چھا جائے پر نہ برسے کبھی

سرپہ ایسی مرے گھٹا ہے کوئی

 

درد بھی، لطف بھی، کشاکش بھی

تیٖر دل میں عجب چبھا ہے کوئی

 

پہلے لگتا ہے اس کی آہٹ ہے

پھر یہ احساس کہ ہوا ہے کوئی

 

جس کو سادہ سمجھ رہا تھا بہت

پیچ اس میں بھی تو چھپا ہے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

بگولا تھا میں تو ہَوا ہو گیا

بہت جلد بیتا ہُوا ہو گیا

 

پڑوسی سے کہتے تھے کس شان سے

ہمارا بھی بچّہ بڑا ہو گیا

 

ٹرائل میں تھا کہ میں ہوں باہری

سنا ہے کہ اب فیصلہ ہو گیا

 

ہوا میں رہے یا زمیں پر گرے

شجر سے تو پتّا جدا ہو گا

 

ہمیں میں تھا وہ بھی مگر دیکھیے

ہمارے لیے اب خدا ہو گیا

 

یہاں آگ کا قہر کم تھا میاں

کہ پانی کا بھی سلسلہ ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ابر جتنے ہیں سب میں پانی ہے

آگ کی پھر بھی حکمرانی ہے

 

اپنی زردی کو رنگ لیا ہو گا

اس کا چہرہ جو اب بھی دھانی ہے

 

حق تمھارا تمھیں دلائیں گے

ہے تو وعدہ مگر زبانی ہے

 

یاس، حسرت، کراہ، محرومی

دل یہ بھارت کی راج دھانی ہے

 

خاندانوں کو روندتا ہے وہی

جس کو کہتے ہیں خاندانی ہے

 

دل کہیں اور ہے دماغ کہیں

کس مصیبت میں زندگانی ہے

 

ناؤ منجدھار میں اُتر آئی

ناخدا! کیسی بادبانی ہے

 

قول کچھ اور ہے عمل کچھ اور

حکم کی خوب ترجمانی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

آب پر آگ سے لکھا کیا ہے

اے سمندر ذرا بتا کیا ہے

 

پِٹنے والے کو مل رہی ہے سزا

’’یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ‘‘
کوئی جاتا نہیں ہے ملبے تک

سب یہی پوچھتے گرا کیا ہے

 

آگ اِس سمت ہے دھواں اُس اُور

کون بولے یہ سلسلہ کیا ہے

 

نام پانی پہ لکھ رہا ہے کوئی

لکھنے والے کا مدعا کیا ہے ؟

 

باغ میں رہ کہ بھی پتا نہ چلا

نکہت و رنگ کا مزہ کیا ہے

 

جس نے مارا اُسی کو روتا ہے

آخر اس شخص کو ہوا کیا ہے

 

اُنگلیاں کیوں ابھی سے کانوں میں

تم نے اب تک میاں سنا کیا ہے

 

لوگ کیوں پوچھتے ہیں رہ رہ کر

کون سا وقت ہے بجا کیا ہے ؟

 

بکریاں آ کے چاٹتی ہیں بدن

اے غضنفرؔ تجھے ہوا کیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خوش تھے ہم کہ خواب سجا کر آنکھوں کو خوش حال کیا

یہ تو ہم نے دیر سے جانا پتلی کو پامال کیا

 

بہتر ہے چپ چاپ گزر جا آگ دبائے سینے میں

ٹانگ دیا سولی پر اس کو جس نے چہرہ لال کیا

 

سینہ ہے کہ نوکِ سناں سے اب بھی چھلنی چھلنی ہے

کیسی ہم نے فوج بنائی، کس کو اپنی ڈھال کیا

 

ہم تو سادہ لوح تھے بابا کس نے اپنے جادو سے

ہم کو بھی بیتال بنایا، ہم کو بھی چنڈال کیا

 

یہ کیسا انصاف ہے بھائی ایک کو یوں ہی چھوڑ دیا

اپنے اپنے جرم کا جب کہ دونوں نے اقبال کیا

 

اور کسی کی گود میں جا کر بیٹھ گئی وہ دنیا بھی

جس دنیا کے شوق میں میں نے خود کو اِک دلال کیا

 

دیکھو صاحب ہم نے بھی تو کیسی خوب ترقی کی

ساڑی کو اسکرٹ بنایا، گمجھے کو رو مال کیا

 

سُر میں اِک اِک صوت تھی لیکن جانے کیسی ضرب لگی

جس نے اِک اِک تار کو توڑا سب کو بے سُر تال کیا

 

خون میں لت پت دیکھ کے منظر آنکھیں اتنی حیراں کیوں

آئینوں میں صاف لکھا ہے سبز کو کس نے لال کیا

 

مجھ سا مورکھ اور بھی کوئی ہو گا کیا اس بستی میں

غیر کی خاطر جسم کو اپنے جس نے اک ٹکسال کیا

 

جیسے وہ بھی لطف و کرم ہو اس کی طرف سے میرے لیے

میں نے اس کے جور و ستم کا ایسے استقبال کیا

 

کیا پانا تھا؟ کیا کرنا تھا؟ کیوں کرنا تھا؟صاف نہ تھا

ایک جنوں نے تم کو ہم کو، دونوں کو بدحال کیا

 

اپنا اصلی رنگ گیا نہ اپنے جسم و جاں سے دور

کہنے کو تو ہم نے خود کو غوث، قطب، ابدال کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مانا کہ کبھی آپ اندھیرا نہیں کرتے

یہ بات بھی سچ ہے کہ اُجالا نہیں کرتے

 

اوّل تو کبھی وصل کا وعدہ نہیں کرتے

کرتے بھی ہیں معشوق تو پورا نہیں کرتے

 

اِس سے تو کئی اور بھی کھُد جاتی ہیں قبریں

بھائی! گڑے مردے کو اُکھاڑا نہیں کرتے

 

لاٹھی سے لپٹ کر وہ چلا آتا ہے سر تک

ہلکے سے کسی سانپ کو مارا نہیں کرتے

 

تشخیص ہے، نسخہ ہے دوائیں بھی ہیں موجود

بیمار کو پھر بھی تو ہم اچھا نہیں کرتے

 

کچھ بات ہے ان میں کہ کوئی بات ہے ہم میں

اس حال میں ہم سے جو کنارا نہیں کرتے

 

بچے بھی سمجھتے ہیں مرے حال کو شاید

مجھ سے وہ کسی شے کا تقاضا نہیں کرتے

 

کیا خاک محبت میں مزا ہم کو ملے گا

ہم سے وہ کسی بات پہ روٹھا نہیں کرتے

 

نکلے تو جھلس جائے نگاہوں کا نشیمن

اس طرح کسی خواب کو پالا نہیں کرتے

 

ماں باپ کی آنکھوں میں ہیں پھر کس لیے آنسو

کہتے ہیں بڑے لوگ تو رویا نہیں کرتے

 

جڑ سے جو اُکھڑ جائے شجر، اُس کو غضنفرؔ

جی جان سے اتنا بھی سنبھالا نہیں کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

جو ہوتا ہوں میں دفتر میں چلا جاتا ہے دل گھر میں

جو گھر میں پانو رکھتا ہوں تو جابستا ہوں دفتر میں

 

کہ میں نے شوق سے اک آن میں سر رکھ دیا آگے

نہ جانے کون سا جادو تھا اُس چشمِ ستم گر میں

 

جنھیں ہم روز باہر چھوڑ آتے ہیں مکانوں سے

وہ آوازیں چلی آتی ہیں جانے کیسے بستر میں

 

جو سر سے پانو تک سارے بدن کو ڈھانپ لے، ڈھک لے

کہاں گنجائشیں اتنی کسی مفلس کی چادر میں

 

نجومی تو نہیں لیکن ہمیں معلوم ہے صاحب

کہ ہے کیا کیا الم لکھا ہوا اپنے مقدر میں

 

وہ نامہ بھی لہو میں ہو گیا اک آن میں لت پت

بندھا تھا جو بڑے ارمان سے پائے کبوتر میں

 

مری آنکھوں میں وہ بھی ہے جو مجھ پر خوف طاری ہے

نظر آتا نہیں منظر جو میرے پیش نظر میں

٭٭٭

 

 

 

 

اثر ہوتا نہیں کچھ بھی دعا کا

یہ جادو ہے کسی کالی بلا کا

 

یہ کس کمرے میں ہم کو رکھ دیا ہے

کبھی آتا نہیں جھونکا ہوا کا

 

زمیں کی خشک پپڑی پوچھتی ہے

رہے گا کب تلک روزہ گھٹا کا

 

جھروکے، کھڑکیاں، در، سب کھلے ہیں

مکاں میں حبس ہے پھر بھی بلا کا

 

خدا والے تو ہیں پر کام دیکھو

کہیں بھی خوف ہے ان کو خدا کا

 

ہلاہل بس چکا ہے تن بدن میں

اثر کیا خاک ہو گا اب دوا کا

 

یہ پیاسے، پاس پانی اور پہرہ

وہی منظر ہے پھر سے کربلا کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر طرف دھند کی برسات کہاں جاؤ گے

دن میں بھی پھیلی ہوئی رات کہاں جاؤ گے

 

کس سے چھاتی کی جلن اپنی دکھاؤ گے میاں

ہر طرف سرد ہیں جذبات کہاں جاؤ گے

 

کون سے شہر میں ڈھونڈو گے پناہیں جا کر

کس کے اندر نہیں خدشات کہاں جاؤ گے

 

ہر طرف خشت ہے، فولاد ہے، پتھّر ہے میاں

لے کے شیشے کے خیالات کہاں جاؤ گے

 

کوئی تیرتھ ہو کہ درگاہ کہ انصاف کا گھر

ہر بھلے گھاٹ پے ہے گھات، کہاں جاؤ گے

 

گھر سے نکلے ہو کہ اب جیت کے لوٹیں گے جہاں

کھا گئے تم جو کہیں مات، کہاں جاؤ گے

 

مطمئن تھے کہ دعاؤں سے ملے گی منزل

لوٹ آئی پہ مناجات، کہاں جاؤ گے

 

کس سے کرنی ہے ملاقات غضنفر تم کو

کس کے بگڑے نہیں حالات کہاں جاؤ گے

٭٭٭

تشکر: نسترن احسن فتیحی جنہوں نے اس کتاب کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید