FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

حال کی چار مربوط کہانیاں

 

 

                   مشرف عالم ذوقی

 

 

 

 

 

۱۔ تواریخ سے پرے ایک دنیا کی جاسوسی۔ ۔ ۔

 

 ایک سراغ رساں کی نوٹ بک

 

ابھی حال ہی میں میرے پاس ایک کیس آیا ہے۔ پرائیویٹ ڈکٹیٹیو ہوتے ہوئے بھی جانتا ہوں کہ میں اس کیس کو حل کرنے کے لئے کوئی مناسب شخص نہیں ہوں۔ میرے سامنے کئی رکاوٹیں ہیں۔ جن سے گزرنا آسان نہیں۔ جنہیں پار کرنا دنیا کے ساتوں سمندر کو پار کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ مثال کے لئے آپ کو آسمان کی وسعتوں میں جگمگاتے بیشمار تاروں کو گننے کے لئے کہہ دیا جائے اور  آپ جانتے ہیں کہ  یہ  کام ناممکنات میں سے ایک ہے۔ تاریخ کے زندہ صفحات ظلم و  بربریت کی ہولناک داستانوں سے آج بھی تھرتھراتے ہیں۔ ان میں پہلی اور  دوسری جنگ عظیم کی تباہیاں بھی شامل ہیں۔ ان جنگوں کا ذائقہ کچھ ایسا تھا کہ ایک زمانے تک اندھی اور بیمار نسلوں کو ان تباہیوں کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ لیکن اب جو کیس میرے ہاتھ میں ہے، اسے دیکھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ نئے واقعات اور  حادثات کی روشنی میں ان تباہیوں کا افسانہ کچھ زیادہ اثر انگیز نہیں ہے۔ مثال کے لئے توپوں سے زندہ انسانوں کو اڑا دینا، بھوکے شیر کے پنجروں میں چیختے ہوئے زندہ غلاموں کو ڈال دینا، نازیوں کا گیس چیمبر، جہاں مجرموں کی کراہیں سخت اور  پتھریلی دیواروں میں شگاف کر دیتی تھیں۔ آگے بڑھیئے تو تاریخ کے نئے باب میں داعش اور  طالبان جیسی دہشت گرد تنظیموں کی خوفناک وارداتیں شامل ہیں۔ انسانی کٹے ہوئے سر کو ظالمانہ انداز سے فٹ بال کی طرح اچھالنا یا معصوم ننھے بچوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر قہقہہ لگانا۔ ۔ ۔ ۔ انقلاب کی ایسی ہزاروں تاریخ کے صفحے پلٹئے تو ان خوفناک واردات کی کڑیوں کو آپس میں جوڑنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ان کہانیوں میں ہر تانا شاہ ایک بیڈ مین، ایک ظالم حکمراں، ایک ویلن ہے۔ مگر معاف کیجئے گا، اچانک تاریخ نے ندی کی طرح اپنا رُخ بدل دیا۔ سب کچھ اُلٹ پلٹ ہو گیا۔ تعریفیں بدل گئیں۔ نظر یہ  بدل گیا۔ بیڈ مین نے اصلی ہیرو کی جگہ لے لی۔ مجرم، معصوم بن گیا۔ معصوم، مجرم بن گئے۔ انصاف کی عمارتوں پر سیاہ کہرا چھا گیا۔ ایک سراغ رساں ہوتے ہوئے تازہ واردات کی کڑیاں جوڑنا چاہتا ہوں تو سوائے ناکامی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ ان کڑیوں کو جوڑتے ہوئے میں جن نتائج پر پہنچنا چاہتا ہوں وہاں گہری دھند ہے یا وقت کی دھول جمی ہے۔ نہ ختم ہونے والا اندھیرا ہے۔ اور  جیسا میں نے کہا۔ ۔ ۔ ۔ تاریخ اُلٹ پلٹ ہو گئی ہے۔

 

تاریخ کا ظالمانہ رس

 

میں اب تک اسے شک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ  سچ ہے کہ ان دنوں میں بیکار تھا۔ اور  مجھے کام کی ضرورت تھی۔ لیکن سامنے جو شخص تھا، اسے دیکھتے ہوئے ایسا بالکل نہیں لگ رہا تھا، کہ  یہ  شخص میری بیکاری کو ختم کر سکے گا۔

کہانی کی ایک کڑی کو دوسری کڑی سے وابستہ کرنا میرے لئے مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ گھر کی سفیدی جھڑتی چھت کو دیکھتے ہوئے میں نے صرف اتنا کہا—’ یہاں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے، جسے ہم پہلے سے نہیں جانتے ‘  یہ  بات میں نے اس قدر آہستہ سے کہی کہ سامنے بیٹھے شخص کو بھی میری آواز سنائی نہیں پڑی۔ میں نے سگار سلگایا۔ اجنبی کو غور سے دیکھا … پھر پوچھا۔

’تم چاہتے ہو میں تمہاری ماں کو تلاش کروں …؟‘

’ماں نہیں ماتا … ‘

’ ایک ہی بات ہے … ‘

’ ایک ہی بات نہیں ہے سر… اجنبی کی آنکھوں میں خوف تھا…’ماں اور  ماتا میں فرق ہوتا ہے۔ ‘

’میرے خیال سے نہیں۔ کچھ لوگ ماں کہتے ہیں، کچھ لوگ ماتا … ‘

ماتا غائب ہوئی ہے …’اجنبی کا چہرہ اب لاش کی طرح سرد تھا… ’آپ شاید اخبار نہیں پڑھتے — ٹی وی نہیں دیکھتے …؟‘

’دیکھتا ہوں۔ اخبار بھی پڑھتا ہوں۔ ‘میں نے پھر الجھن بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا— لیکن ابھی تم کہہ رہے تھے کہ تمہارے پاس پیسہ بھی نہیں …‘

’ہم تو غریب ہیں صاحب … ’کمیٹی اور  کمیشن کی رپورٹ پڑھ لیجیے … دلدل میں ہیں صاحب، پیسہ کہاں سے آئے گا۔ ‘

’پھر میری فیس کیسے دو گے ؟ ‘

’ وہ ایک تنظیم دے گی۔ ۔ . ‘

’تنظیم—‘اس بار میں بیٹھے بیٹھے تقریباً اپنی جگہ سے اچھل گیا۔

’تمہاری تنظیم بھی ہے ؟ ‘

میری نہیں صاحب… لیکن ہے۔ وہ لوگ ہمارا مقدمہ لڑتے ہیں۔ ‘

’کون لوگ؟

’وہی تنظیم والے۔ ‘

میرے کانوں کے پاس دھڑا دھڑ بارود کے گولے پھٹ رہے تھے۔

’تم تنظیم کے لئے کام کرتے ہو؟‘

’ارے نہیں صاحب۔ ۔ . ہم تو معمولی لوگ ہیں۔ لیکن وہ لوگ بہت اچھے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں پر آتے ہیں۔ سفیدچمچماتے کڑک کپڑے ہوتے ہیں۔ کمال ہے کہ آپ ان کے لباس پر ایک بھی داغ دکھا دیں۔ وہ جب بھی آتے ہیں، ہماری کچھ نہ کچھ مدد کر کے جاتے ہیں۔ ‘

’کیسی مدد؟‘

’وہ ہمارے لئے کپڑے اور  گھریلو سامان لاتے ہیں۔ کبھی کبھی پیسے کوڑی سے بھی ہماری مدد کرتے ہیں۔ ‘

میں نے کچھ سوچ کر پوچھا— ’آپ پولیس کے پاس کیوں نہیں گئے ؟‘

’پولیس کے پاس جا کر کیا ہوتا صاحب؟ ‘

 

میں نے جو کچھ سنا وہ مجھے حیرت میں ڈالنے جیسا تھا۔ میں جانتا تھا، ایک پوری دنیا بدل چکی ہے۔ وقت تاریخ کو اپنے طور پر رقم کرتی ہے۔ ہم ایک نئی کارپوریٹ دنیا کا حصہ ہیں۔ یہاں جتنا کچھ آرگنائزڈ ہے، اس سے کہیں زیادہ بکھرا ہوا ہے۔ غریبوں کی جھونپڑیوں سے مختلف ایک بلند اٹھتی ہوئی سول سوسائٹی بھی ہے۔ اس نئی دنیا میں زبان، علامت، دلیلیں سب اسی حساب سے تیار کی جا رہی ہیں۔ سیاست، سماج، مذہب کے اپنے معیار ہیں۔ اور یہاں جہاں کھربوں کی دولت ہے، وہیں ایک سہمی ہوئی بلی بھی ہے، جو مسلسل بھاگتے ہوئے ماری جا رہی ہے۔ میں  یہ  بتا دوں کہ میں اکیلے رہتا ہوں۔ اکیلے رہنا مجھے پسند ہے۔ اور  اس وجہ سے میں نے شادی نہیں کی۔ جاسوس ہونا میرا پیشہ بھی ہے شوق بھی۔ میں نے اپنے لئے ایک گرم کافی تیار کی اور  فلیٹ کی بالکنی پر آ گیا۔ سامنے ہرے بھرے درختوں کی قطار تھی۔ پارک بھی نظر آ رہا تھا جہاں بچے کھیل رہے تھے۔ کافی کی چسکی لیتے ہوئے میں ان واقعات کو شامل کرنا چاہتا تھا جو معلومات مجھے اس شخص سے ملی تھیں۔ اس شخص کا نام اسلم شیخ تھا اور  وہ اندھا تھا۔ وہ پیدائشی اندھا نہیں تھا، بلکہ کچھ دن پہلے ہی آنکھوں میں چوٹ لگنے کی وجہ سے اس کی بینائی چلی گئی تھی۔ اس کے باپ دادا کسان تھے۔ وہ بھی ایک کسان کا بیٹا تھا۔ اس نے کالج تک تعلیم حاصل کی تھی، پھر پڑھائی چھوٹ گئی۔ پڑھائی چھوٹی نہیں، بلکہ دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے اسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ جب وہ جیل سے باہر آیا تو صدمے میں اس کے ماں باپ دونوں گزر چکے تھے۔ گھر کی دیکھ بھال اس کا غیر شادی شدہ چچا کرتا تھا۔ اسے میرے پاس لے کر آنے والا اس کا چچا تھا۔

کڑیاں جڑنے لگیں تو آزادی کے 70 سال سامنے تھے۔ بقول اسلم شیخ،  یہ  کہانی اس وقت کی ہے جب میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن تاریخ کے صفحات پلٹیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج کے واقعات کوئی نئے نہیں ہیں، ان کی دھمک تو آزادی کے وقت سے ہی آنی شروع ہو گئی تھی۔

میں اس کا نام سن کر پہلی بار چونکا تو وہ ہنس دیا… ’ یہ  نام پہلی بار پوری دنیا کو چونکاتا ہے سر۔ اب امریکہ میں دیکھئے۔ آپ مسلمان ہیں تو ڈائل پیڈ پر نمبر گھما کر سسٹم کو بتائیے۔ وقت نے ہمیں نمبر بنا دیا ہے۔ ایسا نمبر جو لوگوں کو ڈرانے کے کام آتا ہے۔ ‘

اسلم شیخ ہنسا۔ ’ہم مفرور ہیں صاحب۔ ایک جگہ چین سے نہیں بیٹھتے۔ دیکھئے 70 سال پہلے ہم اچھے بھلے جی رہے تھے۔ سارے ملک میں فساد کرا دیا۔ ایک مختلف ملک بنوا دیا۔ مفرور بھاگ کر اپنے ملک پہنچ گئے۔ کچھ یہاں رہ گئے۔ بھاگنا ہی تھا تو سب بھاگتے۔ کچھ کو یہاں رہنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کی سزا تو ملنی ہی تھی۔ ملی بھی۔ جانتے ہیں کیا ملی؟‘

اسلم شیخ کی اندھی آنکھوں میں اس وقت میں، غضب کی چمک دیکھ رہا تھا۔ وہ ذرا دیر کے لئے رکا۔ پھر کہنا شروع کیا۔

’بھگوڑوں پر یقین نہیں کیا جاتا۔ ہم پر بھی نہیں کیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہماری نسلیں جوان ہوتی رہیں، لیکن ہم شک کے دائرے میں رہے۔ مفرور ڈرپوک ہوتے ہیں سر۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ گاندھی جی سے اندرا گاندھی اور  راجیو گاندھی کے قتل تک— خبر آئی نہیں کہ مسلمان اپنے گھروں میں دبک گئے۔ ملک ان 70 سالوں میں ڈرتا رہا کہ مفرور کہیں پھر سے دوسرا ملک نہ بنا لیں۔ شک اور  غیریقینی کے درمیان ایک لکشمن جھولا تھا، جس پر ہم جھول رہے تھے۔ اور  اب بھی جھول رہے ہیں … وہ ایک لمحے کو رکا۔ ۔ .

’آپ کو بابری مسجد، رتھ یاترائیں،  یہ  سب تو یاد ہیں نا؟‘

’ہاں۔ ‘

’تب میرے بڑے چچا مارے گئے تھے۔ فساد میں ابا ایک ہی بات کہتے تھے۔ بھگوڑوں کو چپ چاپ خاموش زندگی گزانی چاہیے۔ ‘وہ اچانک ٹھہرا۔ ’اس سے پہلے ہم میرٹھ تھے۔ ہاشم پورہ میں۔ وہ تصویر آپ نے دیکھی ہو گی۔ سی آر پی والے کچھ لوگوں پر بندوق تانے ہوئے ہیں۔ ان میں میرے چھوٹے چچا بھی تھے۔ بھگوڑوں کی تاریخ نہیں ہوتی۔ یہ  کہنا زیادہ بہتر ہے کہ تاریخ بھگوڑوں کو اپنی کتابوں میں جگہ دینا پسند نہیں کرتا۔ ‘

اسلم شیخ نے پھر بولنا شروع کیا۔ میں تو جیل میں تھا سر۔ لیکن اس وقت میرا خاندان دادری میں تھا۔ جس کا قتل ہوا، میں اسے بھی جانتا تھا سر۔ ایک نمبر کا جادوگر تھا۔ جادو سے مٹن اور  چکن کیا نوٹوں کو بھی بدل دیتا تھا یا غائب کر دیتا تھا۔ وہاں سے بھگوڑے بھگائے گئے تو میرا خاندان وزیرآباد آ گیا۔ یہاں ایک چھوٹا سا مٹی کا گھر تھا۔ اور  جو واقعات ہوئے، ان کی کہانی اسی وزیرآباد سے ملتی ہے۔ ‘

 

بکھری ہوئی غیر انسانی تاریخ کو ادھر ادھر سے جوڑ کر وہ کیا کہنا اور  بتانا چاہتا تھا،  یہ  میری سمجھ سے باہر تھا۔ اسے ایک تنظیم نے میرے پاس بھیجا تھا۔ بقول اسلم شیخ، مجھے اس کی ماں کو تلاش کرنا ہے۔ لیکن اب بھی کہانی کے کئی ایسے پیچ تھے، جسے سمجھنا اور  جاننا ضروری تھا۔ جاسوس ہونے کے ناطے ہم تاریخ کی پرتیں ضرور ادھیڑتے ہیں۔ مگر تاریخ کے اندر کے پوشیدہ درد کا احساس کرنا ہمارے کام میں شامل نہیں ہوتا۔ اس دن وہ میرے سامنے صوفے پر بیٹھا تھا۔ میں نے سگار کا کش لیا۔ گہری آنکھوں سے اس کی اندھی آنکھوں میں جھانکا۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ عمر 35 اور  40 کے درمیان۔ رنگ گندمی، قد اوسط سے کچھ زیادہ۔ جسم دبلا پتلا، اگر وہ باتیں نہیں کرتا تو کسی لاش کی طرح بے جان یا پتھر کا مجسمہ نظر آتا۔ میں نے پھر اس کی طرف دیکھا۔

’ہاں۔ تم کہہ رہے تھے کہ تم جیل گئے تھے …؟‘

’ ہاں، گیا تھا نا، پورے آٹھ سال جیل میں گزارے … ‘

’ وجہ کیا تھی۔ ؟‘

اسلم شیخ زور سے ہنسا۔ ’اونچی پروازوں کے درمیان ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔ ہم تاریخ کے بیکار کل پرزوں کی طرح ہیں۔ اب دیکھئے تھوڑے برسوں میں کتنے پرزے بیکار ہو گئے۔ فلاپی، کیسٹ، پیجر، گراموفون، ٹیلی گرام، پبلک فون بوتھ، ٹی وی انٹینا، ٹائپ رائٹر، وقت بتانے والی گھڑیاں۔ ہم بھول گئے تھے کہ تاریخ نے ہمیں بھی ردی کے گودام میں چپکے سے ڈال دیا ہے۔ اور  اس وجہ سے کوئی بھی پرواز ہمارے لئے نہیں ہے۔ میں کیریئر بنانے چلا تھا۔ ‘وہ ہنس رہا تھا۔ ’ ایک لیپ ٹاپ لے آیا۔ آپکی نئی گلوبل دنیا سے جڑنا چاہتا تھا۔ فیس بک، گوگل، ٹوئٹر … دوست بنا رہا تھا۔ لیکن وقت بتانے والی گھڑی بند تھی۔ ہم پیچھے چلے گئے تھے۔ ‘

’آگے کیا ہوا بتاؤ۔ ؟‘

’ ایک دن دروازے پر دستک ہوئی۔ دو تین پولیس والے تھے۔ وہ دھڑدھڑاتے ہوئے اندر آ گئے۔ میرا نام پوچھا…گھر کے سامانوں کی تلاشی لی۔ میں باقاعدہ پوری دلچسپی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ پھر ایک پولیس والا میرا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔ وہ اپنے فن میں ماہر تھا۔ اس نے پتہ نہیں کیا کاریگری کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے میرا لیپ ٹاپ مسلمان ہو گیا۔ ‘

’ لیپ ٹاپ مسلمان ہو گیا؟ ‘

اسلم شیخ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی… ’اسکرین پر اچانک ایمان تازہ ہو گیا سر۔ دنیا بھر کی اسلامی فوٹوز میرے لیپ ٹاپ کے اسکرین پر جھلملا رہی تھیں۔ کچھ چہرے بھی تھے۔ پولیس والے نے میرا پاس ورڈ پوچھا۔ میں نے بتا دیا۔ نہ بتانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ کچھ دیر تک پورے انہماک سے وہ اپنا کام انجام دیتا رہا۔ پھر میرے والدین سے کہا آپ سب کو میرے ساتھ تھانے چلنا پڑے گا۔ ‘

’کیوں ؟‘

اسلم شیخ نے الجھن سے میری طرف دیکھا۔ ’آپ واقعی جاسوس ہیں یا مجھے غلط آدمی کا پتہ بتایا گیا؟ یہ  آپ کو بتانا پڑے گا کہ میں کیوں تھانے لایا گیا۔ پہلی بار مجھے لگا کہ میرے پاس اس سوال کا بھی جواب نہیں ہے کہ میں کیوں پیدا ہوا۔ میرے والدین کو اسی شرط پر چھوڑا گیا کہ میں اپنا گناہ قبول کر لوں۔ اور  مجھے اعتراف کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ مجھے جیل ہو گئی۔ دو سال پہلے تنظیم والے مجھ سے ملے۔ میرا مقدمہ انہوں نے اپنے ہاتھ میں لیا۔ رہا ہونے سے پہلے جیل میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔

’کیسا واقعہ؟؟

’وہ جہادی تھے سر۔ تعداد میں آٹھ۔ مختلف بیرکوں میں تھے۔ لیکن سب ایک دوسرے سے ملتے رہتے تھے۔ ان میں سے دو جلد رہا ہونے والے تھے۔ باقی بھی کچھ دنوں بعد قید کی رہائی سے آزاد ہونے والے تھے۔ میں ان سب کو جانتا تھا۔ ان میں کسی کو بھی رہائی پسند نہیں تھی۔ جیل میں پکنک کا ماحول تھا۔ ان لوگوں نے پوری منصوبہ بندی کی۔ پہلے چالیس چادریں حاصل کیں۔ چالیس شیٹس کی رسیاں تیار کرنے میں ہی کئی گھنٹے لگ گئے۔ جیل کی دیواریں اتنی سخت اور  بلند تھیں کہ پرندہ بھی پر نہ مار سکے۔ چالیس چادریں بن گئی۔ جیل کے برتنوں سے، چمچ کانٹے سے ڈھول بجاتے ہوئے باہر نکلے۔ ایک پہریدار تھا۔ مذاق سے اس کے سر پر برتن دے مارا۔ مگر وہ شوگر کا مریض نکلا۔ اور  مر گیا اور  اس درمیان ان لوگوں نے ٹوتھ برش اور  لکڑی سے جیل کا تالا کھولنے والی چابی تیار کر لی تھی۔ بیرک سے نکلے۔ ٹوتھ برش کی چابی سے دروازہ کھول دیا۔ بجلی کے تار والی دیوار پر رسی پھیکی۔ دیوار پر چڑھ گئے۔ باہر گئے، پھر ایک چٹان پر جمع ہو گئے۔ ‘

’بس کرو…‘میں زور سے چلایا۔ ’یہاں میں تمہاری فنتاسی سننے کے لئے نہیں آیا ہوں …‘

’آپ حقیقت کوفنتاسی مانتے ہیں ؟‘ مجھے اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی جھلک نظر آئی تھی۔

مجھے یاد آیا، دنیا میں ہونے والے اس طرح کے کئی واقعات نے فینٹم، اسپائڈرمین تک کی فینٹسی کو صفر بنا دیا ہے۔ حقیقت کی عالیشان دنیا میں وہ سب ممکن ہے، جسے کل تک ہم فنتاسی کا نام دیا کرتے تھے۔

میرا سر بوجھل تھا۔ ’ آگے کیا ہوا؟ ‘

’میرے خلاف جو ثبوت تھے، وہ کمزور نکلے۔ میں رہا ہو کر باہر آیا تو معلوم ہوا، میرے والدین دادری سے وزیرآباد آ چکے ہیں۔ ان کو تلاش کرتا ہوا میں ایک اجنبی گھر میں آیا۔ کمزور مٹی کا بنا ہوا چھوٹا سا گھر۔ گھر کے باہر چھوٹی سی جگہ جسے لکڑی کی شہتیروں اور  گھاس پھونس سے گھیر کر رہنے کے لئے جگہ بنائی گئی تھی۔

’’ ایک منٹ ٹھہرو … ‘میں نے اچانک چونک کر اسلم شیخ کو دیکھا… کس کے لئے جگہ بنائی گئی تھی …‘

’ماتا کے لئے۔ ‘

’ماتا؟ ‘

’ہاں، دو ماتاؤں کے لئے۔ ‘

’لیکن تم نے کہا، تمہارے والدین گزر گئے۔ ‘

’ہاں اور  یہ  میرے چچا ہیں۔ جن کے ساتھ آیا ہوں۔ ‘

’تو پھر  یہ  ماں کا کیا چکر ہے ؟ ‘اچانک میرے دماغ میں کچھ اتھل پتھل سا ہوا…کہیں تم گایوں کو؟‘

اسلم شیخ اچھلا۔ ’ماتا کہیے سر۔ آپ جانتے نہیں کہ ماں کے لئے کتنی سیکورٹی بڑھ چکی ہے۔ بڑھنی بھی چاہیے۔ سارے ملک میں قتل ہو رہے ہیں۔ ہونا بھی چاہیے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا؟ ویسے بھی ماں کے گم ہونے تک میں اتنے سارے عذاب سے گزر چکا ہوں کہ آپ کو بتا نہیں سکتا۔ آپ نے سنا نہیں، ملک بھی ماں ہے۔ یہاں بھی ان لوگوں پر مصیبت آئی ہوئی ہے، جو ملک کو باپ مانتے ہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جو بھی کہا جا رہا ہے، اسے مان لینا چاہیے۔ آپ بھی نام نہ لیجئے۔ آپ پر بھی مصیبت آ سکتی ہے۔

میں اب اسلم شیخ کو حقارت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ’تم نے میرا وقت برباد کیا۔ تم معمولی گایوں کی گمشدگی کے بعد چاہتے ہو کہ میں تلاش کروں۔ ‘

اس کی بجھی ہوئی آنکھوں میں نفرت تھی۔ ’کیا آپ اسے معمولی کام سمجھ رہے ہیں ؟ اور  یہ  کام اتنا پیچیدہ نہیں ہوتا تو میں آپ کے پاس کیوں آتا؟‘

اس کی آنکھوں سے خوف جھلک رہا تھا۔ ’میری جان کو خطرہ ہے۔ میں بھاگا بھاگا چل رہا ہوں۔ وہ لوگ کبھی بھی میرا قتل کر سکتے ہیں۔

اس بار میں واقعی چونک گیا تھا۔

 

دور جدید کا مزاح رس

 

کتوں پر بنی ہوئی ایسی کئی فلمیں مجھے یاد تھیں، جہاں کسی صاحب بہادر کے گمشدہ کتے کی تلاش طنز و مزاح کے نئے رنگوں کو جنم دیتی تھی۔ کچھ سال پہلے ایک سیاستداں کی کھٹال سے بھینسوں کے فرار ہونے کا واقعہ بھی سامنے آیا تھا۔ اکثر ظلم کے واقعات کا جہاں ایک افسوس ناک پہلو ہوتا ہے، وہیں حکمرانوں کی پراسرار شخصیت اور  زندگی کے کئی پہلو ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں چونکا دیتے ہیں۔ تیمور کے لنگڑے ہونے، نپولین کے چھوٹے قد اور  ہٹلر کی مونچھوں نے بھی شہرت حاصل کی تھی۔ ملک، تہذیب اور  مذہب کی بلند دیواروں کے درمیان اب یہاں ایک ’گائے ‘آ گئی تھی۔ موجودہ تاریخ کے بہت سے سیاق و سباق ایسے تھے جہاں ظلم کے ساتھ خوف اور  طنز و مزاح کے عناصر دونوں ایک ساتھ ایک جگہ جمع ہو گئے تھے۔ لیکن یہاں مزاح کا رس چارلی کے کردار کی طرح تھا، جس کی کہانیاں اکثر ملک اور  سیاست پر رلا بھی دیتی ہیں اور  ہنسا بھی دیتی ہیں۔

اسلم دادری سے وزیرآباد آیا تو حالات بہت حد تک بدل چکے تھے۔ بقول اسلم، جب حکومت کی طرف سے  یہ  طے کیا جائے کہ آپ کو کیا کھانا ہے، کیا بولنا ہے، تو سمجھ لیجئے، مسئلہ سنگین ہے۔ ایک جاسوس ہونے کے ناطے میں اس سے اب مکمل کہانی جاننے کا خواہش مند تھا۔ اس نے بتایا۔

’وزیرآباد میں اچانک ایک دن کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ سامنے دو شخص کھڑے تھے۔ انہوں نے گایوں کے سلسلے میں پوچھا اور  کہا تم تو جانتے ہو وقت بدل چکا ہے۔ ایک سیدھا سا مشورہ ہے کہ ان گایوں کو ہمیں بیچ دو۔ وہ اپنی بات پر اڑے تھے اور  خود کو گایوں کا سرپرست بتا رہے تھے۔ وہ ملک، مذہب اور  ثقافت کی باتیں کر رہے تھے۔ ان کا براہ راست سوال تھا، ہماری ماتا تمہارے پاس محفوظ کس طرح رہ سکتی ہے ؟ جبکہ تم ناپاک بھی رہتے ہو۔ اور  اس میں بھی شک نہیں کہ تم گوشت خور ہو۔ ایسے ماحول میں تم کو کس طرح اس بات کی اجازت دی جائے کہ اگر تم ہماری ماتا سے اپنی روزی روٹی چلاؤ— جاتے وقت ان دونوں میں سے ایک کا لہجہ سخت تھا۔ ’ہم تین دن بعد آئیں گے۔ اس درمیان سوچ لینا، ورنہ ہم زور زبردستی ماتا کو یہاں سے لے جائیں گے۔ ‘

اسلم نے بتایا۔ ’تب تک میری آنکھیں تھی۔ آنکھیں جن سے ہم دنیا کو دیکھ سکتے تھے۔ اخبار پڑھ سکتے تھے۔ ٹی وی دیکھ سکتے تھے۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا مذہب نے انسانوں کے ساتھ جانوروں کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ وہ صحیح تھے۔ وہ اپنی ثقافت اور  ملک کی سلامتی چاہتے تھے۔ یہ ان کا حق بھی تھا مگر گائے ہماری رزق تھی۔ میں نے چچا سے مشورہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سے پہلے وہ گایوں کو اپنے ساتھ لے جائیں، ہمیں انہیں فروخت کر دینا چاہیے۔ ہمیں ایک ڈیری فارم کے مالک کے بارے میں معلوم ہوا جو وزیرآباد سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر رہتا تھا۔ یہ  پتہ جیت رام نے بتایا جو ہمارا پڑوسی تھا۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

’جیت رام نے کہا کہ ان دنوں خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس لئے ٹرک یا گاڑی میں ہم گایوں کو لے کر بالکل نہ جائیں۔ کیونکہ ملک بھر میں ایسی کئی حادثے سامنے آ چکے ہیں۔ وہ قدم قدم پر ہیں۔ اور  ذرا بھی بے احتیاطی برتی تو جان بھی جا سکتی ہے۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ ہم گایوں کو لے کر پیدل ہی تاجر کے پاس جائیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ ایک کلو میٹر سے کچھ زیادہ چلے ہوں گے کہ اچانک ہماری گائیں رک گئیں۔ کچھ فاصلے پر گؤ رکشک ٹرک سے اتار کر دو افراد کو بری طرح مار رہے تھے۔ دونوں شخص ٹرک پر گائے لے جا رہے تھے۔ اسلم شیخ نے لمبی سانس لی— ’مجھے لگ گیا، موت سامنے ہے۔ لیکن اسی وقت کشمکش میں چچا نے مجھ سے پوچھا کہ گائیں کہاں ہیں۔ ہماری دونوں گائیں غائب تھیں۔ ہم آگے نہیں جا سکتے تھے۔ مسئلہ  یہ  تھا کہ اگر گائیں نہیں ملیں تو ہم پر گؤ قتل سے لے کر کوئی بھی الزام لگایا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ  بھی سوال تھا کہ اتنی دیر میں گائیں کہاں گئیں ؟ جہاں ہم کھڑے تھے، اس کے دائیں بائیں دونوں طرف راستہ تھا۔ یعنی گائیں دونوں راستوں سے ہو کر بھاگ سکتی تھیں۔ اس سے پہلے کہ گؤ رکشکوں کی نظر ہم پر پڑے، چچا اور  میں نے دونوں نے گایوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تیزی سے گھر کی طرف بھاگنا شروع کیا۔ جب ہم دروازے پر پہنچے، وہاں وہ دونوں شخص پہلے سے موجود تھے۔

’گائے کہاں ہیں ؟‘

چچا نے بتایا۔ ’گائیں گم ہو گئیں۔ ‘

ان میں سے ایک شخص نے چچا کو ایک تیز چانٹا لگایا۔ ’گم ہو گئیں۔ یا مار ڈالا؟ ‘

دوسراغصہ میں اسلم کی جانب مڑا ’گؤ ماتا کو کھا تو نہیں گئے ؟ ‘اتنی دیر میں اس نے آس پاس کے لوگوں کو جمع کر دیا۔ بھیڑ نے ہم دونوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔

اسلم شیخ ذرا ٹھہرا۔ میری طرف دیکھا۔ ’کیا اب بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ میری آنکھیں کس طرح چلی گئیں ؟ ان میں سے ایک نے میری دونوں آنکھوں پر حملہ کیا تھا۔ وہ جاتے ہوئے دھمکی دے گئے کہ ایک ہفتے کے اندر اندر گائیں نہیں ملیں تو وہ ہمیں جان سے مار ڈالیں گے۔ اس رات، اس واقعہ کی جانکاری ملنے پر تنظیم کا ایک رکن میرے پاس آیا تھا۔ ‘

اسلم شیخ نے پھر میری طرف دیکھا۔ ساری دنیا اسی طرح چل رہی تھی، جیسے پہلے چل رہی تھی۔ مگر تنظیم کا رکن  یہ  ماننے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے بتایا کہ ہم آدھی آبادی سے زیادہ جیلوں میں ہیں۔ اس نے  یہ  بھی بتایا کہ ہمیں برباد اور  ختم کرنے کی ایک منصوبہ بند سازش اس وقت رچی جا چکی ہے۔ اور  میرے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک نتیجہ بھر ہے۔ اس نے یہ  بھی بتایا کہ گائیں نہ ملنے پر خطرناک نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ اور  ان کا اثر مجھ جیسے ہزاروں خاندانوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ تو سب سے پہلی ضرورت گایوں کی تلاش کی ہے۔

اسلم شیخ چپ ہوا تو میں خاموشی سے بغیر کچھ کہے، لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کی بتائی تنظیم کی ویب سائٹ دیکھی تو  یہ  سمجھنا آسان ہو گیا کہ ایسی تنظیمیں دراصل سیاسی جماعتوں کی آڑ میں اپنے لئے فنڈ اکٹھا کرتی ہیں۔ ان کے پاس بین الاقوامی پیسوں کی کانوں سے بھی فنڈ آتے ہیں، جس میں کچھ کا سیاسی استعمال تنظیمیں شیخ جیسے لوگوں کو مہرہ بنا کر کرتی ہیں۔ ایسی تنظیمیں ہر جگہ ہیں۔ مگر سوال تھا کہ گایوں کو کیسے تلاش کیا جائے ؟

یہ  بھی سوال تھا کہ جب تک کوئی خاص نشانی نہ ہو، کیا ایک جیسے نظر آنے والے جانوروں کو تلاش کیا جا سکتا ہے ؟ کانن ڈائل سے اگا تھا کرسٹی اور  خود میری زندگی میں واقع ہونے والی جاسوسی کی کئی کہانیاں میرے سامنے زندہ ہو گئیں تھیں۔ لیکن ان کہانیوں میں کہیں کسی گمشدہ گائے کا تذکرہ نہیں تھا۔ کچھ سوچ کر میں نے پوچھا۔

’کیا تمہارے پاس ان گایوں کی تصویریں ہیں۔ ‘

مجھے امید تھی کہ اس کا جواب مجھے نہیں میں ملے گا۔ مگر اسلم شیخ کے چچا نے موبائل نکال کر ایک تصویر میرے آگے کر دی۔ یہ ایک سیلفی تھی، جس میں اسلم شیخ اپنی دونوں گایوں کے ساتھ نظر آ رہا تھا۔ اس نے میرے موبائل پر سیلفی بھیج دی۔ مجھے تب تک پتہ نہیں تھا کہ اس پوری ملاقات اور  واقعات کو سننے کے بعد جو کہانی لکھی جانے والی ہے، وہ صیغہ حال کے مزاح رنگ سے اچانک نکل کر خوف میں ڈوبی وقت کی نئی تصویر بن جائے گی۔

جیسا میں عام طور پر کرتا ہوں۔ میں نے دن، تاریخ کے حساب سے واقعات کا ایک سلسلہ وار نوٹ تیار کیا۔ اس سے چھوٹی چھوٹی کچھ باتوں کی جانکاری حاصل کی۔ جائے حادثہ، گھر کا پتہ اور  نمبر نوٹ کیا۔ پھر اسلم شیخ سے کہا کہ جب تک ضرورت نہیں ہو گی، ہم ملنے سے پرہیز کریں گے۔ بہت ہوا تو نمبر پر ایک دوسرے کو کال کر لیں گے۔ اور  اس کے لئے بھی بہتر  یہی ہے کہ جب تک خطرہ ٹل نہیں جاتا، وہ تنظیم کے ہی کسی رکن کے گھر اپنا ٹھکانہ بنا لے۔

٭٭

 

ایک کہانی یہاں سے بھی شروع ہوئی تھی۔

یہ  بلگام چوراہا تھا۔ موبائل میپ لوکیشن سے مجھے اس جگہ پر پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ ہائی وے والی سڑک یہاں سے کئی کلومیٹر آگے تھی۔ یہاں درختوں کی ایک لمبی قطار دور تک چلی گئی تھی۔ یہ  سوال بے معنی تھا کہ گائیں اب تک میرے انتظار میں وہاں ہوں گی؟ اس وقت وہاں سناٹا تھا۔ کچھ دور پر دو پولیس اہلکار ٹہل رہے تھے۔ دائیں طرف ایک پان سگریٹ کی گمتی تھی۔ وہیں سے ایک کچی سڑک اندر تک چلی جاتی تھی۔ دور کچھ مکانات بنے نظر آ رہے تھے۔

گمتی اب خالی تھی۔ یہ ایک تیس پینتیس سال کا نوجوان تھا۔ میں نے اس سے سگریٹ طلب کیا۔ پھر پوچھا۔

’یہاں کچھ دن پہلے کوئی واقعہ ہوا تھا؟ ‘

’ہوتا رہتا ہے۔ ‘

’نہیں، میرا مطلب ہے، گایوں کو لے کر کوئی واقعہ؟ ‘

’کئی بار ہو چکا ہے۔ ‘

میں نے دن تاریخ کا حوالہ دیا تو وہ سوچ کر بولا۔ ’ہاں، دو لوگ تھے — سلامتی کمیٹی والوں نے کافی مارا۔ مار کر وہاں پھینک دیا تھا؟ ‘اس نے اشارے سے بتایا۔

’پھر پولیس آئی ہو گی؟ ‘

’پولیس ان معاملات میں نہیں پڑتی۔ کچھ دیر بعد ایک گاڑی والے کو ان پر رحم آ گیا۔ وہ گاڑی میں ان دونوں کو اپنے ساتھ لے گیا۔ ‘

’کیا وہ دونوں زندہ ہوں گے ؟ ‘

’پتہ نہیں صاحب۔ مر بھی گئے ہوں تو کیا کرنا ہے۔ ‘

میں نے سگریٹ جلایا۔ ’اچھا بتاؤ اس واقعہ کے بعد کیا کوئی لا وارث گائے ؟ ‘

میں نے موبائل پر تصویر دکھائی۔ دکاندار نے انکار کر دیا۔ اس نے نہیں دیکھا تھا۔

اب میں اس علاقے کی پولیس سے بھی ملنا چاہتا تھا۔ تھانے میں ایک ایس پی او اور  دو سپاہیوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ ایس پی صاف مکر گیا کہ اس علاقے میں ایسی کوئی واردات بھی ہوئی تھی۔ اس نے بتایا، پولیس مذہبی معاملات سے الگ رہتی ہے۔

میں نے اپنی نوٹ بک کھولی۔ کچھ لکھنے کے بعد، نوٹ بک جیب میں رکھ لی۔ اسلم شیخ کی معلومات درست تھی۔ واردات تو ہوئی تھی۔ تھانہ پاس ہوتے ہوئے بھی پولیس مدد کو نہیں پہنچی۔ پولیس کے اس رو یہ  پر میں پریشان نہیں تھا۔ میں نے آس پاس کے کئی علاقوں میں اپنی چھان بین جاری رکھی۔ مگر تفتیش کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

اس کے ٹھیک دوسرے دن میں نے اسلم شیخ کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ اس کا گھر ویران تھا۔ باہر ایک پولیس اہلکار کی گاڑی لگی تھی۔ کھٹال خالی تھا۔ چار پولیس والے تھے، جن کی ڈیوٹی گھر کے باہر لگائی گئی تھی۔

میں نے پولیس والوں سے بات کی۔ پولیس والوں کا بیان اس بیان سے بالکل مختلف تھا، جو اسلم شیخ نے مجھے دیا تھا۔ پولیس کے مطابق ’سالا فساد کروانا چاہتا تھا۔ گؤ رکشکوں سے پہلے بھی کئی بار اس کا سامنا ہو چکا تھا۔ وہ کہتا تھا، گایوں کو مار کر باہر پھینک دے گا۔ دیکھیں کون کیا کرتا ہے۔ دو بھلے لوگ اس کے پاس آئے۔ سمجھایا کہ گؤ ہتیا جرم ہے۔ گایوں کو ہمیں بیچ دو مگر وہ آخر تک گؤ ہتیا اور  کھانے کی بات کر رہا تھا۔ بھیڑ اکٹھی ہو گئی تھی۔

’تب آپ کیوں نہیں آئے ؟ ‘

’مطلب۔ ‘

’یعنی آپ آئے ضرور لیکن ان میں ایک کی آنکھیں پھوٹ جانے اور  دوسرے کے زخمی ہونے کے بعد؟ ‘

ایک پولیس والے نے شک سے میری طرف دیکھا ’آپ کون ہیں۔ ؟‘

’صحافی۔ ‘

وہ ہنسا۔ ’کس کے لئے صحافت کرتے ہیں ؟ ‘

’آپ کے لئے۔ حکومت کے لئے۔ میں نے ہنس کر جواب دیا۔

وہ اس بات پر مطمئن تھا—’پھر ٹھیک ہے۔ ‘

’لیکن پتہ چلا کہ آپ لوگ اس رات بھی نہیں آئے۔ دوسرے دن آئے۔ ‘

’اس رات آ کر کیا کرتے۔ آپ تو سب جانتے ہیں۔ ‘

’اس کی گائے کا کچھ پتہ چلا؟ ‘

’نہیں۔ لیکن یہاں کے لوگ بہت ناراض ہیں۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ جانتے ہیں نا، مذہب کا معاملہ ہے۔ ‘

پولیس والوں سے ملنے کے بعد میں جیت رام سے بھی ملا۔ وہ کافی گھبرایا ہوا تھا۔ اور  اس نے کچھ بھی بولنے بتانے سے صاف انکار کر دیا۔

اس رات اسلم شیخ کا فون آیا تھا۔ وہ کافی ڈرا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ زیادہ دن تک تنظیم والوں کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ وہ ہماری جنگ تو لڑ سکتے ہیں، لیکن ہمیں رکھنے کو تیار نہیں۔

’پھر تم کہاں جاؤ گے ؟ ‘

’میں کہہ نہیں سکتا۔ لیکن گائیں مل جائیں تو میں اپنے آپ کو بے قصور ثابت کر کے دوبارہ اپنے گھر واپس آ سکتا ہوں۔

٭٭

 

میں اس کہانی سے اس حد تک بیزار ہو چکا تھا کہ اب اس باب کو بند کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کھٹال کی پالتو گائیں کیا اب تک اپنے مالک کے انتظار میں ہوں گی؟ گائیں تو اب تک مارکیٹ میں پہنچ چکی ہوں گی۔ میرے پاس ایک راستہ اور  تھا۔ لیکن یہ  راستہ تکلیف دہ تھا۔ اور  میں اس راستے سے زیادہ واقف نہیں تھا۔ پھر بھی کوشش کر کے میں نے فیک آئی ڈی سے اسلم شیخ اور  گایوں کی سیلفی انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر دی۔ میرا یقین تھا کہ اگر بے لگام چورا ہے کے آس پاس کسی نے گایوں کو دیکھا ہو تو وہ ضرور خبر کریں گے۔ موبائل تو ان دنوں گاؤں شہروں کی تمام سرحدیں توڑ چکا ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آخر میں کس طرح کے نتائج کی امید کر رہا ہوں۔

نتیجہ یہ  آیا کہ اپ لوڈ ہوتے ہی تصویر وائرل ہو گئی۔ وزیر آباد گاؤں کے کسی شخص نے اسلم شیخ کو پہچان لیا۔ اس نے وہی تفصیل پوسٹ پر ڈالی جو مجھے پولیس والے نے بتائی تھی۔ یعنی اسلم شیخ نے ان دونوں گایوں کو مار ڈالا۔

پہاڑ جیسے خدشات نے میرے اب تک کے کارناموں اور  میرے پیشے پر سوال یہ  نشان لگا دیا تھا۔ اس رات تنظیم سے کسی رکن کا فون آیا۔ اس نے نام نہیں بتایا، صرف اتنا پوچھا۔

’اسلم کے چچا نے تصویر آپ کے موبائل پر بھیجی تھی۔ کیا انٹرنیٹ پر بھیجنے کا کارنامہ آپ کا ہے ؟ ‘

’ہاں۔ ‘میں آگے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اس نے روک دیا۔

’آپ جانتے ہیں، اسلم کے گھر کا کیا ہوا؟‘

’نہیں۔ ‘

’دنگائیوں نے گھر میں آگ لگا دی۔ اسلم کے پیچھے کافی لوگ پڑے ہیں۔

’اب وہ کہاں ہے ؟ ‘

’ابھی تک میرے پاس ہے۔ لیکن میں اب اس ہنگامے کے بعد اپنے گھر نہیں رکھ سکتا۔ پولیس ہم تک پہنچ گئی تو غیر ضروری بہت سے سوالات کے جواب ہم نہیں دے پائیں گے۔ ‘

فون رکھتے ہوئے اس نے کہا ’آپ نے اچھا نہیں کیا۔ آپ نے اس کی جان کو پہلے سے کہیں زیادہ خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ‘

٭٭

 

پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ زندگی کے ’سسٹم میں آنے والی ڈیجیٹل اور  جدید زندگی سے میرا کوئی تعارف نہیں ہے۔ میں کسی سی ڈی، پیجر، فلاپی کی طرح ایک بڑے جدید معاشرے اور  مارکیٹ سے کاٹ دیا گیا ہوں۔ کسی فلاپ شو کی طرح میرا پیشہ ایک فلاپ پیشے میں بدل چکا ہے۔ میں اس پیشہ کے جدید استعمال سے مکمل طور انجان ہوں۔ اس رات مجھے نیند نہیں آئی۔ انٹرنیٹ پر نئے میسج دوسرے دن میرا انتظار کر رہے تھے۔ ان میں بے چین ہوتے سماج و معاشرہ کا کردار، اشتعال انگیز بیانات کے طور پر درج تھا۔ میں کڑیاں جوڑتا تھا تو ملک اور  ثقافت سے ہوتی ہوئی کہانی، وہاں پہنچ رہی تھی جہاں بڑی بڑی اونچی کرسیوں پر موجود افراد کے نام نہیں لئے جا سکتے۔

میں اس چیلنج میں اسی طرح ناکام تھا، جیسے میرا پیشہ۔ جرم کی ساری سوئیاں سفید کالر سے ہو کر اسلم شیخ جیسے لوگوں کو نشانہ بنا رہیں تھیں۔ یہاں ہنگامہ تھا۔ بھیڑ تھی، ثقافت اور  ملک کے محافظ تھے۔ اور  اسلم جیسے لوگ غیر محفوظ ہوتے ہوئے بھی مجرم۔

اس رات میں نے تنظیم کے اسی رکن کو فون کیا، جس کا فون میرے پاس آیا تھا۔

اس کے لہجہ میں غصہ تھا۔ ’کیا ہے ؟‘

’ ایک آئیڈیا میرے پاس ہے ؟ ‘

’آج کل آئیڈیا سب کے پاس ہے۔ ‘

’پھر بھی میرا آئیڈیا سن لیجئے۔ ‘

’بتائیے۔ ‘

اس درمیان اسلم شیخ والی سیلفی اور  گایوں کو میں نے بار بار زوم کر کے دیکھا تھا۔ مجھے یقین تھا، گائیں ساری ایک جیسی ہوتی ہیں۔

میں نے گلا کھنکھارا اور  کہنا شروع کیا۔ ’آپکی تنظیم کے پاس بہت پیسے ہیں۔ پھر آپ لوگ اسلم شیخ کی جان بھی بچانا چاہتے ہیں۔ کیا اسلم کے لئے دو نئی گائیں نہیں خریدی جا سکتیں ؟ وہ نئی گایوں کو گمشدہ گائے بتا کر اپنے گھر تو جا ہی سکتا ہے ؟ ‘

’اب کیا آپ ہماری جان لینا چاہتے ہیں ؟ ‘

دوسری طرف لہجہ غصہ سے بھرا ہوا تھا۔ ’میرے انکار کرنے پر بھی اسلم اور  اس کے چچا دونوں گھر سے نکل گئے۔ دونوں مارے گئے۔ آپ کہاں رہتے ہیں ؟ ٹی وی نہیں دیکھتے کیا؟ پولیس کو دونوں کی لاشیں مل گئی ہیں۔ ‘

میں گہرے سناٹے میں تھا۔ کچھ دیر کے لئے  یہ  یقین کرنا مشکل تھا کہ  یہ  حادثہ سچ مچ میں ہو چکا ہے۔ یہ  میری زندگی کا اب تک کا سب سے دل دہلا دینے والا حادثہ تھا۔ میری آنکھوں میں اب تک اسلم شیخ کا چہرہ ناچ رہا تھا۔ ’کیا آپ اسے معمولی واقعہ سمجھتے ہیں ؟‘وہ واقعیسچ بول رہا تھا۔ لیکن اس وقت مجھے چکر آ رہا تھا۔ اچانک ساری دنیا گھومتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ وقت نے ہیرو اور ویلن کی، اب تک کی تمام تعریفوں کو بدل ڈالا تھا۔ ہم اس گلوبل تہذیب میں معنی کے نئے طول و عرض کا اضافہ کر رہے تھے۔

ایک دھند ہے /

اس دھندسے باہر ہمارا قتل ہو رہا ہے /

اس دھند میں کچھ بھی باقی نہیں ہے /

اس سیاہ دھند میں زندہ رہنا

اب تک کا سب سے بڑا جرم ہے /

٭٭

 

اس رات میں نے اپنی نوٹ بک میں صرف ایک جملہ لکھا۔ ’اور جاسوس مر گیا۔ ‘

میری آنکھوں کے آگے اس وقت بھی دھند کا ایک جنگل آباد تھا۔ اس دھند کے آر پار کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

۲۔ گلیشیئر ٹوٹ رہے تھے اورمیں خواب کی زمین پر چل رہا تھا۔ ۔ ۔

 

ڈسکلیمر

 

زندہ سچائی، زندہ واقعات اور زندہ لوگوں سے اس کہانی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ کہ اس کہانی کا مردہ لوگوں سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔

۰۰

 

ہم جاگتے ہوئے بھی نیند میں ہوتے ہیں۔ جیسے نیند میں ہوتے ہیں تو ہم زیادہ جاگتے ہیں۔ جیسے آنکھوں کے آگے دور تک پھیلی ہوئی نہ ختم ہونے والی دھند ہوتی ہے۔ یہ دھند ہمیں گلیشیئر پر تیرتے خواب سے برآمد کرتی ہے۔ ۔ ۔ یا گلیشیئر میں تیرتے خواب، دھند سے ہمیں دریافت کر لیتے ہیں۔

دھند میں سارے ملک ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اور ان کی حقیقت فرضی ہوتی ہے۔ اور یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ کہانی اتنی ہی فرضی ہے جتنا کوئی ملک یا حکمراں۔ ۔ ۔ ۔

فرض کیجئے، اس دن گلیشیئر ٹوٹ رہے تھے اور میں خواب کی زمین پر چل رہا تھا۔ مگر اصل واقعہ یوں ہے کہ سورج کی شعاعوں کے کمرے میں داخل ہوتے ہی جب میں بستر سے اٹھا اور پاؤں زمین پر رکھے تو دھم سے آواز ہوئی اور میں اوندھے منہ زمین پر گر پڑا۔ مسلسل دو تین بار گرنے کے اس عمل کے بعد میرا حیران ہونا واجب تھا کہ اچانک ایک رات میں، سات آٹھ گھنٹے کی مختصر بیداری یا نیند کے دوران میرے پاؤں میں کچھ گڑبڑی آ گئی تھی۔ اور یہ گڑبڑی کفکا کے میٹامارفوسس سے کہیں الگ تھی۔ یہ یقین کرنا مشکل تھا، مگر آئینہ میں خود کے سراپا کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا شدت سے احساس ہو گیا کہ رات ہی رات میرا ایک پیر، دوسرے سے بڑا، یا دوسراپیر پہلے سے کہیں چھوٹا ہو گیا ہے۔ اور اسی لئے جسم کا توازن بگڑ چکا ہے۔ جسم کے توازن کو قائم رکھنے کے لئے کسی لاٹھی، ڈنڈے، اسٹیک، ہاکی یا دیوار کا سہارا لینا ضروری تھا۔ اپنی صبح کی تمام ضروریات سے فارغ ہونے کے لئے مجھے مسلسل سہارے کی ضرورت تھی۔ دوبارہ گرنے کا خوف ایسا تھا کہ میں نے خاموشی سے جسم کو سمیٹا۔ ہاتھوں کو دیوار پر رکھا اور اچک کر بستر پر بیٹھ گیا۔ در اصل میں اس بات کا یقین کرنا چاہتا تھا کہ اب بھی میں کسی خواب میں قید ہوں۔ گلیشیئر پر چل رہا ہوں۔ ۔ ۔ یا گلیشیئر میرے پاؤں کے وزن سے ٹوٹ رہے ہیں۔ اور یہ سارا عمل خواب میں وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ یہ یقین کرنے میں مجھے کافی وقت لگا کہ یہ خواب نہیں ہے، اور اچانک برسوں کی طویل مسافت کے بعد یہ حادثہ میرے ساتھ رونما ہو چکا ہے کہ میرا ایک پاؤں دوسرے سے چھوٹا یا دوسرا اچانک پہلے سے بڑا ہو گیا ہے۔

۰۰

 

نیند میں کچھ لوگوں نے جادوگر کا قتل کر دیا۔

کیا میں بھی ان میں سے ایک تھا؟ ایسے سوال اور جواب دونوں دھند کی آغوش میں ہیں۔ جادوگر کا ایک پریشان کن ماضی تھا۔ بچپن میں وہ بوٹ پالش کرتا تھا۔ جادو کے نئے نئے تماشے دیکھ کر اسے بھی جادو گر بننے کا شوق پیدا ہوا۔ لیکن اس میں اور دوسرے جادوگروں میں فرق تھا۔ جب اسے جادو کے کئی چھوٹے موٹے تماشے دکھانے آ گئے تو اپنی محنت سے وہ اس مقام پر پہنچا جہاں اس نے جادو گری میں کمال کی مہارت حاصل کر لی۔ اس کے ایک اشارے پر گاؤں کے گاؤں جل جاتے تھے۔ اس کے ایک اشارے پر لوگوں کی جیب سے نوٹ اور سکّے غائب ہو جاتے تھے بلکہ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک بینک کے قریب سے اس کا گزر ہوا تو بینک میں بھگدڑ مچ گئی۔ بینک کا سارا کیش غائب تھا۔ رجسٹر، فائلیں ہوا میں اڑ رہے تھے اور جل رہے تھے۔ جادوگر کے اس نئے تماشے سے لوگ اب بھی ناواقف تھے۔ بلکہ ایک دن تو اس کے تماشے پر سونے کے شوقین مرد اور زیورات پر جان دینے والی عورتیں حیران رہ گئیں۔ ایک بڑا سا ہال تھا۔ کھچاکھچ لوگ جمع تھے۔ ہال میں اندھیرا تھا۔ اسٹیج پر روشنی کے دائرے میں بڑا سا گول ہیٹ لگائے جادوگر مسکرا رہا تھا۔ روشنی کے دائرے میں اس کا ہاتھ چمکا۔ ۔ ۔ ۔ تاریکی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے ہوش اڑ گئے۔ یہ اس کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی تھی۔ روشنی کے دائرے میں اس کی ہتھیلی سے سرخ خون نکل رہا تھا۔ جادوگر کا ایک اسسٹنٹ ایک پلاسٹک کی بالٹی لے آیا۔ شو کو کامیاب بنانے کے لئے جادوگر نے خوف زدہ، پر اسرار آوازوں، چیخ اور سسکیوں کاسہارا لیا تھا۔ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اس نے قہقہہ لگایا اور ہتھیلیوں سے نکلنے والی خون کی دھار سے بالٹی بھرنے لگی۔ پھر بالٹی لبالب بھر گئی۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر یوں ہوا کہ بالٹی سے اچھل اچھل کر خون اسٹیج پر بہنے لگا۔ اور خون کی دھار صرف اسٹیج تک نہیں رُکی لکہ اس وقت لوگوں کی چیخ نکل گئی جب ہال میں جمع تمام لوگوں نے محسوس کیا کہ سرخ خون کی لہریں اسٹیج سے ہو کراب آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ دیکھنے والوں کے ہوش ٹھکانے لگ گئے۔ افرا تفری مچ گئی۔ جس کسی کو جہاں کوئی دروازہ نظر آیا، گرتے پڑتے اسی دروازے کی طرف دوڑ لگائی۔ جب وہ باہر آئے تو باہر کی کھلی فضا میں بھی جادوگر کے قہقہے ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ پھر ایک آواز آئی۔ جاتے جاتے اپنی جیبوں کی تلاشی لے لیجئے۔ آپ گھڑیاں پہنتے ہیں تو تو وقت دیکھ لیجئے۔ عورتوں کے گلے میں زیور ہو تو وہ پہلے اطمینان کر لیں کہ یہ زیور اب بھی موجود ہیں یا نہیں۔ تلاشی لی گئی اور جیساکہ جادوگر نے کہا تھا، کچھ بھی محفوظ نہیں تھا۔ سونے اور چاندی کے زیورات گم تھے۔ یہاں تک کہ ہاتھوں کی انگوٹھیاں بھی غائب تھیں۔ جیب میں پڑے ہوئے چھوٹے بڑے روپئے اور سکے غائب تھے۔ ۔ ۔ ۔ تماشہ یہ کہ ان سب کی نظروں کے سامنے جادوگر ہال سے باہر آیا۔ اس وقت اس کے بدن پر کافی مہنگا لباس تھا۔ وہ مہنگی گاڑی میں بیٹھا اور اُڑن چھو ہو گیا۔

’یہ کیسا تماشہ ہے ؟‘

بہت تھوڑے لوگوں کی ناراضگی کے باوجود سڑک پر اس وقت ایک ہجوم ایسا بھی تھا جو جادوگر کی شان، محبت اور حمایت میں نعرے لگا رہا تھا۔

کسی نے کہا۔ ہماری جیب کٹ گئی۔

ایک خاتون کی آواز آئی۔ میرے زیورات بہت قیمتی تھے

ہجوم خاصہ ناراض تھا۔ سب قربان کر دیجئے جادوگر پر۔ اور بتائے، کیا آپ میں سے کسی نے اس سے قبل جادو کا ایسا کوئی تماشہ دیکھا تھا؟‘

یہ جادوگر کے بھکت تھے۔ اور کسی میں بھی لٹنے اور ٹھگے جانے کے باوجود یہ ہمت نہیں تھی کہ جادوگر کے خلاف ایک لفظ بھی زبان پر لا سکیں۔

دیکھنے والے دم بخود تھے۔ اچانک ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا۔ وہ کچھ جادوگر کے بارے میں کہنا چاہتا تھا مگر یہ دیکھ کر ہجوم میں خوف سرایت کر گیا کہ جادوگر کے ایک بھکت نے ایک جھٹکے سے اس کی زبان کھینچ لی تھی۔ کٹی ہوئی زبان زمین پر کسی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔ کچھ عورتوں کی چیخ نکل گئی۔ ایک شخص آگے بڑھا۔ میں اسے پہچانتا تھا۔ وہ ایک اخبار میں صحافی کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ اس نے اس حادثہ کو محفوظ کرنے کے لئے موبائل نکالا تو ایک بھکت نے اس کا موبائل جھپٹ لیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ اپنے ہاتھوں سے محروم تھا۔

دونوں ہاتھ کاٹ ڈالے گئے تھے۔

’ کیا یہاں پولس آئے گی؟‘

میرے لئے یہ سوچنا مشکل تھا، کیونکہ اسی لمحہ جادوگر اپنی قیمتی گاڑی میں لوٹ آیا۔ وہ شاہانہ شان سے گاڑی سے اترا۔ گاڑی سے اترتے ہی کچھ بھکتوں نے قومی ترانہ چھیڑ دیا۔ ہیبت اور خوف میں ڈوبے ہوئے لوگ اپنی جگہ منجمد ہو گئے۔ اب سب مل کر قومی ترانہ گا رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔

۰۰

 

میں نے یہ تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے بلکہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جو تماشہ دیکھنے ہال میں جمع ہوئے تھے۔ خون کی بڑی بڑی تیز اور موٹی دھار کو اچھل اچھل کر اپنی طرف بڑھتے ہوئے میں نے بھی دیکھا تھا۔ اور یہ کوئی خواب یا وہم نہیں تھا، میرے کپڑے اس وقت بھی بھیگے ہوئے تھے اور سرخ تھے۔ میں ان کچھ لوگوں میں سے ایک تھا، جو اس وقت جادوگرسے شدید قسم کی نفرت محسوس کر رہے تھے۔ یہ لوگ خوفزدہ تھے اور اس بات سے ڈرے ہوئے بھی کہ جادوگر کہیں بھی ہو، ان کی آنکھوں میں اتری ہوئی نفرت کو محسوس کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جادوگر کا تماشہ اور کھیل کے باوجود جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔ اس لئے میں ان بہت تھوڑے لوگوں میں سے ایک تھا، جسے یہ خیال آیا تھا کہ جادوگر کا قتل ضروری ہے۔ ورنہ خون کی یہ دھار پھیلتے پھیلتے کہاں تک پھیل جائے گی، کہنا مشکل ہے۔ اور یہ سوچ بھی غلط نہیں تھی کہ جادوگر اپنے عزائم سے اپنے تمام باغیوں کو کنگال بنا سکتا ہے۔ مثال کے لئے، جیسے آج ہی عورتوں کے زیورات گم ہو گئے۔ مردوں کے چاندی کے سکے کھو گئے۔

میں تماشہ گاہ سے نکل کر گھر آیا تو گھر کا ماحول بدلا ہوا تھا۔ ڈرائنگ روم میں وقت بتانے والی گھڑی بند تھی۔ بلکہ یہ دیوار گھڑی پچھلے تین برس سے بند تھی۔ اور دن تاریخ کے یاد رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اسی دن اسی تاریخ میں جادوگر اپنے نئے تماشوں سے گفتگو کا موضوع بنا تھا۔ میں نے یہ بات گھر میں کئی بار دہرائی کہ بند گھڑی کو گھر میں رکھنا مناسب نہیں۔ اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان کا چلتا ہوا وقت رک جاتا ہے۔

میں نے پہلی بار باپ کو غصہ میں دیکھا تھا۔ وہ چیخ رہے تھے۔ ’ سُنا تم نے۔ دیوار گھڑی کو باہر پھینک آؤ۔ ‘

’مگر کیوں۔ ‘

جواب ماں نے دیا۔ ’ کیونکہ وقت ٹھہر گیا ہے۔ کلینڈر سے مہینے غائب ہو گئے۔ اب گھڑیال کے گھنٹوں اور گھڑیوں کی ضرورت نہیں۔ ‘

میری بہن اداس تھی۔ اس نے وجہ بتائی۔ اس نے بڑی محنت سے گولڑ میں سکے اور روپئے جمع کئے تھے۔

’پھر؟‘

’غائب ہو گئے۔ ‘

ماں نے بتایا۔ وہ آج بینک گئی تھی۔ پچھلے کئی برسوں سے وہ بینک کے لاکر میں زیورات جمع کر رہی تھی۔ ‘

یہ بات سارے گھر کو پتہ تھی۔ ماں زیورات گھر میں نہیں رکھتی تھی۔ اس نے لاکر خرید رکھا تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح بینک جاتی۔ اپنا لاکر کھولتی۔ اور زیورات جمع کرا دیتی۔

میں نے اداسی سے پوچھا۔ پھر کیا ہوا۔

’لاکر خالی تھا۔ وہاں بھیڑ جمع تھی۔ بینک کے سارے لاکر خالی تھے۔ سونے اور چاندی کے تمام زیورات غائب تھے۔ ‘

باپ نے سیاہ چائے کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔ ’ اور سُنو۔ یہاں تجوری سے سارے کیش غائب ہیں۔ میں بینک بھی گیا تھا۔ لمبی قطار تھی۔ جب قطار پار کرتا ہوا میں اپنا پیسہ نکالنے گیا تو معلوم ہوا، میرا نام بینک کے اکاؤنٹ، رجسٹر، کمپیوٹر، آن لائن ریکارڈ کہیں بھی شامل نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘

باپ کی آواز دم توڑتی ہوئی اور کمزور تھی۔ سنا تم نے۔ ہم برباد ہو گئے۔

میں دھّم سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ سارا گھر اس وقت مجھے گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ یہ سب یقیناً جادوگر کا کیا دھرا تھا۔ مگر تعجب یہ کہ گھر میں بھی کوئی جادوگر کا نام لینے کے لئے تیار نہیں تھا۔

میں نے دیکھا، باپ خاصہ اداس تھے۔ ان کے چہرے پر اچانک جھرّیوں کا جال پھیل گیا تھا۔ وہ اٹک اٹک کر بول رہے تھے۔ ان کا لب و لہجہ بھاری اور زندگی سے بے زار تھا۔

میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔ آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ کیش اور گہنے غائب ہو گئے تو کیا ہوا، سنگاپور، نارتھ کوریا، گھانا، فجی، فیلپائن۔ ۔ ۔ ۔ یہ دنیا گھومتے گھومتے کیش لیس تہذیب میں داخل ہو گئی ہے۔

میں نے باپ کو اتنے غصے میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ دہاڑتے ہوئے اٹھے اور میز پر پڑا ہوا پیپر ویٹ میری طرف اچھال دیا۔ ’ کیش لیس تہذیب کے لئے کیش تو ہونا چاہئے نا۔ ۔ ۔ ۔ ‘

۰۰

 

یہی وہ لمحہ تھا جب پیپر ویٹ اچھل کر میرے سرپر لگا۔ سر سے ٹکرانے کے بعد، زمین پر گرنے سے آواز ہوئی۔ اور اس آواز سے میں بیدار ہوا تھا۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے دیکھا کہ سورج کی شعاعیں میرے کمرے میں داخل ہو چکی ہیں اور بستر سے اٹھنے کی کوشش میں، میں نے محسوس کیا تھا کہ میرا ایک پیر دوسرے پیر سے چھوٹا ہو گیا ہے۔ میں نے دوبارہ اٹھنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ اس وقت تک ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگ چکا ہوتا ہے۔ اور باپ کو یہ بات بالکل بھی پسند نہیں کہ ناشتہ کے لئے بار بار آواز دی جائے۔ ۔ دو بار آواز آ چکی تھی۔ خود کو بحال کرتے ہوئے میں نے جواب دیا تھا۔ بس پانچ منٹ میں آ رہا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ لیکن سوال تھا کہ اس طرح لڑکھڑاتے ہوئے میں گھر والوں کا سامناکیسے کروں گا۔ میں نے پانچ منٹ فریش ہونے میں لگایا۔ اس درمیان ایسا کئی بار ہوا جب میں گرتے گرتے بچا۔ دیوار، دروازے کا سہارا لیتے ہوئے میں اپنا جوتا تلاش کر رہا تھا۔ جوتے میں کپڑے کی ایک موٹی تہہ چڑھانے کے بعد میں نے پیر ڈالے تو یہ سوچ کر خوش ہوا کہ جسم کا توازن قائم ہو چکا ہے۔ ہاں جوتے کے تلّے میں کپڑے کی موٹی تہہ ہونے کی وجہ سے مجھے چلنے میں تھوڑی پریشانی ہو رہی تھی۔ مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں اس پریشانی کو اس وقت قبول کر لوں۔

میں ناشتہ کی میز پر آیا تو گھر والے ناشتہ شروع کر چکے تھے۔ میں نے باپ کی طرف دیکھا۔ ان کے چہرے پر گہری اداسی پسری ہوئی تھی۔ ایک لمحہ کے لئے انہوں نے میری طرف دیکھا۔ پھر پوچھا

’تم نے اخبار دیکھا؟‘

’نہیں۔ ‘

’ کل کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ‘

’کس جرم میں۔ ‘

باپ نے ایک نوالہ روٹی کا توڑا۔ منہ میں رکھا۔ ’ کچھ باغی نیند میں جادوگر کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘

’ نیند میں ؟‘

باپ میری طرف دیکھ کر ہنسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’ کیا تم اسے چھوٹی بات سمجھتے ہو، ان کا لہجہ سنجیدہ تھا۔ ’ قتل، قتل ہے۔ اصلیت میں کیا جائے یا نیند میں۔ ‘

۰۰

 

میرے لئے یہ تمام مکالمے بوجھل تھے۔ یہ تمام تفصیلات تھکا دینے والی تھیں۔ اب میں ایک نئے سفر پر نکلنے والا تھا۔ مجھے ان خوفناک، خوفزدہ، سہمے ہوئے ماحول سے خود کو باہر نکالنا تھا لیکن کیا یہ ممکن تھا۔ ممکن نہیں تھا۔ لیکن مجھے ممکن بنانا تھا۔ چہرے سے سنجیدگی کی گرد ہٹانی تھی۔ اور اس کی جگہ رومانیت کے تصور کو دینا تھا۔ میرے سامنے للی تھی۔ اسے ہمیشہ اس بات کی شکایت تھی کہ میں کبھی وقت پر نہیں آتا۔ وہ ہمیشہ میرے ہاتھوں کو تھام کر کہتی تھی۔ کیسے محبوب ہو کہ ہمیشہ تاخیر ہو جاتی ہے۔ مجھے ہی انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس نے دھمکی بھی دی تھی کہ آئندہ تاخیر ہوئی تو وہ بریک اپ کر لے گی۔ محبت کے لمحوں میں محبت کے سوا کوئی بھی دوسری بات للی کو گوارہ نہیں تھی۔ اور وہ اس بات پر خوش ہوتی تھی کہ میں محبت کرنا جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ محبوبہ پر رومانی باتوں سے کیسے جادو کیا جا سکتا ہے۔

للی سے ملنے سے قبل پہلا مسئلہ یہ تھا کہ مجھے اپنے حلیہ کو درست کرنا تھا۔ للی کو اچھے لباس پسند تھے۔ چھینک، کھانسی، زکام، لنگڑانا اسے بالکل پسند نہیں۔ ناشتہ سے فارغ ہونے کے بعد میں نے اپنے کمرے تک آنے کے لئے سیڑھیوں کا سہارا لیا تو ایک بار پھر چونک گیا۔ بائیں پیرکے جوتے کے تلے میں رکھا کپڑا نکل گیا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ کپڑا للی کے سامنے بھی نکل سکتا تھا۔ اسلئے للی کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے مجھے اپنے پاؤں کے لئے کچھ بہتر انتظام کرنے تھے۔ اس بہتر انتظام کے لئے ضروری تھا کہ میں سڑک کے اس پار فٹ پاتھ پر جو موچی بیٹھتا ہے، اس سے مشورہ کروں۔

مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس وقت موچی کے جوتا بنانے والی جگہ کے پاس ایک لمبی قطار تھی۔ میں نے ایسی کوئی قطار اس سے قبل موچی کے پاس کبھی نہیں دیکھی تھی۔ قطار میں کھڑے لوگوں کے پاس ایک ہی موضوع تھا، یہ لوگ ان باغیوں کو کوس رہے تھے جو نیند میں جادوگر کا قتل کرنا چاہتے تھے۔ ۔ دھول، گرد، بدبو کا سامنا کرتے ہوئے ایک گھنٹے کے بعد میرا نمبر آیا۔ اس سے قبل کہ میں چھوٹے بڑے پیر کے بارے میں بتاؤں، موچی نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔

وہ زور سے ہنسا۔ ’ آج امید سے کہیں زیادہ کسٹمر آئے ہیں۔ دیکھئے، آپ کے پیچھے بھی لمبی قطار ہے۔ ‘

’ ہاں۔ ‘

’ سب کا ایک ہی مسئلہ ہے۔ گھبرائیں نہیں۔ ‘

’پھر آپ کیا کریں گے۔ ‘

’میں جوتے کے تلّے میں چمڑے کی موٹی تہہ بیٹھا دوں گا۔ پھر آپ کو چلنے میں پریشانی نہیں ہو گی۔ ‘

۰۰

 

کافی ہاؤس جب میں للی کے پاس پہنچا تو وہ جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ میرے کافی منانے کے باوجود بھی وہ ایک منٹ ٹھہرنے کو راضی نہیں تھی۔ مگر یہ کرشمہ تھا کہ موسم کا حال سنانے پر وہ دوبارہ اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔

’ ہاں بہت برا موسم ہے۔ ‘

’ امید سے کہیں زیادہ بُرا۔ ‘

للی نے دو کافی کا آرڈر دیتے ہوئے غور سے میری طرف دیکھا۔ ’اچھا سُنو۔ جب تم میری طرف آ رہے تھے، اگر میں غلط نہیں ہوں تو تم تھوڑا سا لنگڑا رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ‘

’ موسم بہت بُرا ہے۔ ‘ میں نے بات بدلنے کی کوشش کی۔

’ہاں بُرا ہے۔ مگر تم لنگڑا رہے تھے۔ ‘

’ خنکی بڑھ گئی ہے۔ ‘

’ہاں بڑھ گئی ہے۔ مگر تم لنگڑا رہے تھے۔ ‘

’میری بات چھوڑو للی۔ دیکھو کافی آ گئی۔ کافی پیو۔ بتاؤ کافی کیسی ہے۔ ۔ ۔ ۔ للی نے کافی کا پہلا گھونٹ لیا۔ اس کے لہجے میں ناراضگی تھی۔ کافی اچھی ہے۔ مگر تم۔ ۔ ۔ ۔ ‘

اس کی بات سے پتہ نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں زور سے چیخا۔ ’ ٹھگنی عورت۔ ہاں میں لنگڑا رہا تھا۔ آج سبھی لنگڑا رہے ہیں۔ تم بھی بہت جلد لنگڑا کر چلو گی۔ اور ذرا مجھ پر اعتراض کرنے سے قبل اپنے دانتوں کا جائزہ لو۔ دانت پیلے پڑ چکے ہیں۔ اور ہاں میرا خیال ہے کہ تمہیں اینمیا ہے۔ تمہارے جسم میں خون کا قطرہ دکھائی نہیں دیتا۔ تم جب بولتی ہو تو بدبو کا ریلا اٹھتا ہے۔ ‘

میں کچھ اور بھی کہتا، لیکن اچانک دیکھا، للی اپنی جگہ سے اٹھ گئی تھی۔ وہ کافی غصے میں تھی۔ میں نے اسے تیز تیز پاؤں پٹکتے ہوئے کافی ہاؤس کے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا۔ میں حیران تھا۔ یہ اچانک مجھے کیا ہو گیا تھا۔ محبت کے ان حسین لمحوں میں یہ کون تھا، جو میرے اندر آ گیا تھا۔ میری روح کی چھال میں۔ میرے جسم کی کینچلی میں۔ میرے منہ کی بدبو میں۔ کیا یہ الفاظ میرے تھے ؟ للی تو میرے محبت بھرے مکالموں کی دیوانی تھی۔ ۔ ۔ پھر میری جگہ یہ کون تھا۔ ۔ ؟‘

۰۰

 

ہم جاگتے ہوئے بھی نیند میں ہوتے ہیں۔ جیسے نیند میں ہوتے ہیں تو زیادہ جاگتے ہیں۔ ۔ ۔ جیسے آنکھوں کے آگے دور تک پھیلی ہوئی، نہ ختم ہونے والی دھند ہوتی ہے۔ یہ دھند ہمیں گلیشیئرس میں تیرتے خوابوں سے برآمد کرتی ہے۔ ۔ ۔

اچانک کچھ لوگوں کے چیخنے کی صدا آئی۔

’ باہر بھاگو۔ بھیانک طوفان ہے۔ ‘

میں اس اچانک حملے کے لئے تیار نہیں تھا۔ لیکن ابھی تو موسم میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ میں نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ آسمان اچانک زرد اور سیاہ ہو گیا تھا۔ تیز ہوا گرج کے ساتھ موسم کے بدل جانے کی اطلاع دے رہی تھی۔ کافی ہاؤس خالی ہو گیا۔ میں لڑکھڑاتے ہوئے گرتا پڑتا کافی ہاؤس سے باہر آیا۔ تیز طوفان کی وجہ سے اچانک سڑکوں پر گاڑیاں رُک گئی تھیں۔ ہوا کی شدّت اتنی زیادہ تھی کہ کچھ لوگ سڑک پر گرے ہوئے نظر آئے۔ میں نے غبار سے بچنے کے لئے دیوار کا سہارا لیا۔ وہاں بابا سیمنٹ کا ایک بورڈ پڑا تھا۔ میں نے بورڈ کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ سڑک پر شور اور ہنگامہ برپا تھا۔ اس ہنگامے میں ٹھہر ٹھہر کر جادوگر کا نام بھی لیا جا رہا تھا۔ ٹھیک اسی وقت دو پولیس والوں کو وردی میں، میں نے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ ان سے بچنے کے لئے ایک ہی راستہ تھا کہ میں خود کو بابا سیمنٹ کے بورڈ کے پیچھے چھپا لوں، میں نے ایسا ہی کیا اور طوفان کے رُکنے کا انتظار کیا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن جلد ہی مجھے اس بات کا احساس ہو گیا کہ یہ طوفان جلد رُکنے والا نہیں ہے۔ بھیانک طوفان ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ طوفان کا اثر کب ختم ہو گا۔

سڑکوں پر افراتفری کا ماحول تھا۔ جسے دیکھو بھاگا جا رہا ہے۔ میں نے کچھ چھوٹی گاڑیوں کو ہوا میں تیرتے اور اڑتے ہوئے دیکھا۔ یہاں سے چلنے اور آگے بڑھنے کی کوشش کی تو جوتا پاؤں سے نکل گیا۔ میں نے ہوا میں اپنے جوتوں کو اُڑتے ہوئے دیکھا۔ لنگڑاتے ہوئے میں جوتوں کو پکڑنے کے لئے دوڑا۔ جوتے اُڑتے ہوئے سامنے والے پٹرول پمپ کی دیواروں سے ٹکرائے تھے۔ مگر پٹرول پمپ کی دیوار تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ گاڑیاں ؍موٹرسائیکل اب بھی تیز طوفانی ہوا میں اچھل اچھل کر ادھر اُدھر گر رہے تھے۔ ان کے گرنے سے دھماکہ ہوتا۔ کچھ گاڑیاں ایسیبھی تھیں، جو ایک دھماکہ کے ساتھ گرتیں اور پھر ان گاڑیوں سے شعلے اٹھتے ہوئے نظر آتے۔ ۔ ۔ ۔ گرتے پڑتے، توازن کو قائم رکھتے ہوئے، میں کسی طرح پٹرول پمپ تک آ چکا تھا۔ مگر یہاں جوتے نہیں تھے۔ جوتے غائب تھے۔ پٹرول پمپ سے بینک تک جانے والی قطار بھی طوفانی ہوا کا شکار ہو گئی تھی۔ اندھیرے کے باوجود پٹرول پمپ کے اندر بنے کمرے میں مجھے روشنی نظر آ رہی تھی۔ دھند اور دھیرے دھیرے پھیلتے اندھیرے کے باوجود میں اندر بنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے کچھ لوگوں کو دیکھ سکتا تھا۔ وہ سب ٹائی اور سوٹ میں تھے۔ ۔ ۔ ۔ انہیں طوفانی ہوا، جھکڑ، آسمانی آفت کی ذرا بھی پرواہ نہیں تھی۔ میں اچانک چونک گیا۔ ایک بار پھر وہ دونوں پولیس والے میری طرف بڑھ رہے تھے۔ اب ان پولیس والوں سے بچنا ضروری ہو گیا تھا۔

لڑکھڑاتے ہوئے تیزی کے ساتھ میں نے وہاں سے بھی بھاگنا شروع کیا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ اس بُرے موسم میں، مجھے گھر پہنچنے میں کامیابی ملے گی۔ ۔ سڑکوں کا برا حال تھا۔ کمزور اور کچے گھر طوفان میں گر گئے تھے۔ سڑکوں پر جا بجا ٹوٹے ہوئے گھروں کا ملبہ پڑا تھا۔ یقیناً ان میں انسان بھی دبے ہوں گے۔ سڑک پر اب بھی چیخ پکار کا عالم تھا۔ میں جب گھر میں داخل ہوا تو یقین کرنا مشکل تھا کہ میں اس خوفناک طوفان سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھر والوں کو میری آمد سے زیادہ فرق نہیں پڑا تھا۔

’ طوفان تیز ہے۔ دروازہ بند کر دو۔ ‘

باپ کا لہجہ سرد تھا۔

میں نے دروازہ بند کیا۔ طوفان کا شور اس قدر زیادہ تھا کہ کان کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔

باپ نے دوبارہ کہا۔ طوفان کے تھمنے کے آثار نہیں ہیں۔

’ہاں۔ ‘

’ کافی تباہی ہوئی ہے۔ آگے بھی ہو گی۔ ‘

باپ پریشانی کے عالم میں کمرے میں ٹہلنا شروع کر دیتے تھے۔ اس وقت بھی وہ ٹہل رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ وہ اچانک میری طرف مڑے۔

’ کیا جادوگر کی کوئی خبر ملی۔ ؟

’ نہیں۔ ‘

’ مجھے بھی نہیں ملی۔ ‘ انہوں نے ٹہلنا جاری رکھا۔ پھر میری طرف دیکھا۔ ‘ ہاں تمہیں بتانا بھول گیا۔ تمہاری تلاش میں دو پولیس والے آئے تھے۔ ‘

’پولیس والے۔ ۔ ۔ ۔ ‘

’ہاں۔ ‘وہ تمہارے پاؤں کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ ۔ ۔ ‘ میں اپنی جگہ پر تیزی سے اچھلا۔ مگر کیوں۔ ۔ ۔ ۔

’ تفتیش چل رہی ہے۔ کچھ باغی اور بھی ہیں جو نیند میں جادوگر کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ رات ہی رات ایسے باغیوں کے پیر چھوٹے بڑے ہو گئے۔ ‘ ’وہ ہنس رہے تھے۔ کیا یہ ممکن ہے ؟‘

ٹھیک اسی وقت پڑوس کے گھر سے تیز آواز آئی۔ وہاں ٹین کی چھت تیز ہوا میں اڑ گئی تھی۔ ۔ ۔ ۔

’ طوفان تیز ہے۔ ‘

ہاں۔ مجھے احساس ہوا۔ باپ ٹہلتے ہوئے رُک گئے ہیں۔ ان کی آنکھیں غور سے میرے ننگے پاؤں کا جائزہ لے رہی ہیں۔ وہ کچھ بولے نہیں، مگر ایسا احساس ہوا، جیسے وہ پوچھنا چاہتے ہوں کہ میرا جوتا کہاں ہے ؟وہ شک سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔

اسی درمیان دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔

باپ کی آواز میں تلخی آ گئی تھی۔ ’ لگتا ہے وہ پھر سے آ گئے ہیں۔ ‘

٭٭٭

 

 

 

۳۔قطار میں ایک چہرہ

 

No matter what cause one defends, it will suffer permanent disgrace if one resorts to blind attacks on crowds of innocent people.

 

Albert Camus

 

’ جو نہیں دیکھتے؍ جو نہیں بولتے ؍جو نہیں سوچتے ؍وہ مر جاتےہیں۔ ۔ ۔ ‘

 

                   (1)

 

یہ میری اس سے پانچویں ملاقات تھی۔ لیکن ان ملاقاتوں کے باوجود ہمارے درمیان اجنبیت برقرار تھی۔ ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کی شکل و صورت میں بھی کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ اسے یاد رکھا جائے۔ مگر اس کے تعلق سے یکے بعد دیگرے جو واقعات سامنے آئے، کہیں نہ کہیں میں خود کو بھی ان واقعات و حادثات کا ایک حصہ تصور کر رہا تھا۔ ان دنوں بہت کچھ ایسا ہوا تھا، جس کی تفصیل بتا دینا ضروری ہے۔ یہ انہی دنوں کا تذکرہ ہے جب اچانک ہماری گول گول دنیا میں بہت کچھ الٹا سیدھاہونے لگا تھا۔ مثال کے لئے ہماری کالونی کے ایک بچے نے کچھ شرارتی بچوں کے ساتھ یہ کہہ کر شور مچایا کہ وہ جس چھوٹی سی بال سے کھیل رہا تھا، وہ اچانک بڑی ہو کر غبارے کی طرح پھول گئی اور اب اس غبارے سے عجیب و غریب آوازیں آ رہی ہیں۔ ظاہر ہے بچوں کی ان باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت کسی نے بھی محسوس نہیں کی۔ میرے ایک پڑوسی کا ڈیری فارم کا بزنس تھا۔ اسے شکایت تھی کہ اچانک گایوں نے دودھ دینا بند کر دیا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی مگر گایوں کو لے کر اس کی تین شکایتیں ایسی تھیں، جس پر یقین کرنا مشکل تھا۔ اس نے بتایا کہ گائیں اچانک انسانوں کی طرح پوجا پاٹھ کرنے لگی ہیں۔ دوسری شکایت یہ کہ گایوں کی آنکھیں اچانک سرخ ہو گئی ہیں، جیسے ان میں خون اتر آیا ہو۔ تیسری شکایت یہ تھی کہ اچانک گایوں کے جسم میں انگنت سینگیں نمودار ہو گئی ہیں۔ پڑوسی پر پہلے بھی پاگل پن کا دورہ پڑ چکا تھا اس لئے اس کی دیوانگی بھری باتوں پر توجہ دینا میں نے ضروری نہیں سمجھا۔ لیکن اس رات اچانک یہ بتا کر اس نے حیران کر دیا کہ گائیں اچانک ڈیری سے غائب ہو گئیں۔

’ غائب ہو گئیں یا رسی توڑ کر بھاگ گئیں۔ ؟‘

’ نہیں رسیاں تو انہوں نے پہلے ہی کھول لی تھیں۔ کیونکہ پوجا پاٹھ میں پریشانی ہوتی تھی۔ ‘

’یعنی گائیں کھونٹوں سے بندھی ہوئی نہیں تھیں ؟‘

’ بالکل بھی نہیں۔ انہوں نے اپنی مرضی سے دودھ دینا بند کر دیا اور پھر کھونٹوں سے خود کو آزاد کر لیا۔ ‘

’ایسا کیسے ممکن ہے ؟‘

’’مجھے معلوم ہے کہ کو ئی یقین نہیں کرے گا۔ مگر سچ یہی ہے۔ ‘پڑوسی نے رازدارانہ انداز میں بتایا۔ ’میرے کئی دوست جو ڈیری فارم کے مالک ہیں ان کے یہاں بھی اسی سے ملتے جلتے واقعات پیش آئے ہیں۔ ‘جاتے جاتے وہ اچانک ٹھہر گیا۔ میری طرف غور سے دیکھا۔ پھر کہا۔ آپ نہ مانیں مگر۔ ۔ گایوں کے اچھے دن شروع ہو گئے ہیں۔ جیسے ہمارے بُرے دن۔ ۔ ۔ ۔ ‘

اس کے بعد وہ رُ کا نہیں، دروازے سے اوجھل ہو گیا۔ ٹھیک یہی وقت تھا، جب میں نے بیوی کی غصے سے لبریز آواز سنی۔

’ فریج میں تو مٹن پڑا ہے۔ تم تو چکن لینے گئے تھے۔ ؟

’ میں نے چکن لایا تھا۔ ‘

’تو فریج میں جا کر چکن مٹن ہو گیا؟یہ دیکھو۔ ‘

میں جو کچھ دیکھ رہا تھا، اس پر یقین کرنا مشکل تھا۔ مگر اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں تھی کہ میں نے چکن ہی لایا تھا۔ اور صبح جب بیوی نے چکن لانے کی فرمائش کی تو میں چکن مارکیٹ میں ہی گیا، جہاں صرف چکن کا ہی گوشت ملتا ہے۔ افغانی چکن، لالی پاپ چکن، ہاف فرائی چکن، چکن اطالوی، کڑھائی چکن، بون لیس چکن۔ میری آواز کانپ رہی تھی۔ ۔ ۔ ’میں نے چکن ہی لایا تھا۔ ،

’ تم آج کل بھولتے جا رہے ہو۔ ‘

’ نہیں بالکل بھی نہیں۔ اچھا ٹھہرو۔ صبح تم نے مجھے کتنے پیسے دیئے تھے ؟‘

’ ہاں میں نے گن کر دیئے تھے۔ ‘

’ وہی تو۔ ۔ ‘

’ تم نے اپنے پاس سے لگائے ہوں گے۔ ‘بیوی غصے سے بولی اور تم یہ بھی بھول گئے کہ محض اس بات پر پورے گھر کو جیل ہو سکتی ہے۔ ‘

میں ایک لمحہ کے لیے چونک گیا۔ لیکن بیوی نے جو کہا، وہ صداقت پر مبنی تھا۔ حکومت کی طرف سے انسانی صحت وسلامتی اور تحفظ کے لئے جو ہدایات جاری ہوئی تھیں، ان پر عمل کرنا ضروری تھا۔ ان ہدایات کو باضابطہ پارلیمنٹ میں، قانونی شکل میں منظوری مل گئی تھی۔ ان ہدایات کے مطابق صبح سویرے آپ کو آن لائن ایک فارم بھرنا ہوتا تھا، جس میں کئی باتوں کی تفصیلات دینی ہوتی تھیں۔ مثلاً آج آپ کیا کر رہے ہیں ؟کہاں جا رہے ہیں ؟ اور گھر میں بریک فاسٹ، لنچ اور ڈنر میں کیا کھانے کا پروگرام ہے۔ ان کے کل اخراجات کتنے ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ان ہدایات کا پابند ہر شہری تھا۔ بیوی ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے غصہ کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ ’صبح فارم میں، میں نے چکن بھرا تھا۔ اب ہدایت والے فارم میں آن لائن جا کر دوبارہ یہ لکھنا ہو گا کہ ہم ڈنر میں مٹن کھانے جا رہے ہیں۔ ‘

’کیا انتظامیہ اس بات کو تسلیم کر لے گی؟‘

’ کہا نہیں جا سکتا۔ ‘

’کیا انہیں یہ دلیل نہیں دی جا سکتی کہ چکن اچانک فریج میں آ کر مٹن بن گیا۔ ‘

’بالکل دی جا سکتی ہے۔ ‘’ بیوی نے غضب ناک ہو کر میری طرف دیکھا۔ ’ وہ گھر کو جیل بنا دیں گے۔ دلیل دیں گے کہ چکن مٹن ہو سکتا ہے تو گھر جیل کیوں نہیں ؟ اب اس کے ہونٹوں پر کافی دیر بعد ذراسی مسکراہٹ آئی تھی۔ ’ گھر میں بچے ہیں۔ بچے بھی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں۔ اور ہاں سن لیجئے۔ ہم ان ہدایات کے خلاف نہیں جا سکتے۔ ‘

’بچے کہاں ہیں۔ ‘

’ اپنے کمرے میں ہیں، پڑھ رہے ہیں۔ ‘

میں بچوں کے کمرے میں آیا تو ایک بار پھر دنیا کے تیزی سے بدلنے کا انکشاف ہوا۔ مجھے خود پر حیرانی تھی۔ میں آخر سرکاری ہدایات پر عمل کرنا کیسے بھول گیا۔ ؟ ایک معمولی سی غلطی بھی ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ بچے سو چکے تھے۔ مگر یہ کیا۔ بچوں کی میز خالی تھی۔ کہیں آس پاس کوئی کتاب نظر نہیں آ رہی تھی۔ مجھے یاد آیا۔ یہاں بچوں کے اسکول کے بیگ ہوا کرتے تھے – بیگ بھی ندارد تھے۔ کتابوں کے بغیر بچوں نے کیا پڑھائی کی ہو گی؟میں دوبارہ بیوی کے پاس آیا اور بچوں کی کتابوں کے بارے میں دریافت کیا تو اس بار وہ آتش فشاں کی طرح پھٹ گئی۔

’ پاگل ہو گئے ہو یا یادداشت چلی گئی ہے۔ ‘

’کیوں۔ ؟‘

’تمہیں پتہ نہیں کہ بچے اسمارٹ فون سے پڑھتے ہیں، فیس بک پر فرینڈس بناتے ہیں اور پے ٹی ایم سے پزا، برگر اور آئس کریم خرید تے ہیں۔ ‘

’ لیکن ابھی کچھ دن پہلے تک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘

بیوی کا لہجہ سفّاک اور سرد تھا۔ ’تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ اس بار پریشان کیا تو میں آن لائن تمہاری شکایت کر دوں گی۔ ‘

مجھے یقین تھا۔ بیوی ایسا کر سکتی ہے۔ کیوں کہ اس بدلی بدلی ہوئی دنیا میں احکام و ہدایات کی پابندی نے سب کو الگ الگ اکائی میں تبدیل کر دیا تھا۔ یہاں خاندان کا فرسودہ اور روایتی نظام کب کا ختم کیا جا چکا تھا۔ گھر کا تصور باقی ضرور تھا مگر اس تصور میں ہر کوئی ایکدوسرے کے لئے اجنبی تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرصت کس کو تھی۔ گھر میں الگ موبائل اسکرین پر الگ الگ دنیائیں آباد تھیں۔ لیکن یہ بات سب کو پتہ تھی کہ اس کی دنیا پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ اس کی ایک مثال تو اسی وقت سامنے آ گئی جب اچانک بیل بجنے کی آواز سن کر میں نے دروازہ کھولا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ میرا دوسرا پڑوسی تھا۔ خفیہ محکمہ میں بڑا افسر تھا۔ اس کی بیوی ایک نوجوان کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور وہ مزے لے لے کر اس بات کا تذکرہ کرتا تھا کہ وہ اس حقیقت سے واقف تھا۔ بلکہ سوبار سے زیادہ گھر کے خفیہ سی سی ٹی وی کیمرے پر وہ اپنی بیوی اور اس کے بوائے فرینڈ کی فوٹیج سے لطف اندوز ہو چکا تھا۔

خفیہ افسر ہنستا ہوا ڈرائنگ روم کے صوفہ پر آ کر دھنس گیا۔ میری طرف دیکھ کر قہقہہ لگا یا۔

’ تو آج چکن، مٹن بن گیا۔ ‘

میں اچانک چونک گیا۔ ’ کیا میری بیوی نے فارم پر آن لائن انتظامیہ کو چکن کی جگہ مٹن بنانے کی اطلاع دے دی ہے ؟‘ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ خفیہ افسر کیسے جانتا ہے اور اگر ایسا کیا ہے تو انتظامیہ آئندہ ہمارے لئے سخت رویہ اپنا سکتی ہے۔ ‘

’ ہا۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ کیا سوچنے لگے ‘ خفیہ افسر ہنس رہا تھا۔

’ تمہیں کیسے پتہ چلا؟‘

’ ہمیں سب پتہ ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں سب کی آواز کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ ‘

’ فون ٹیپنگ؟‘ ( میں نے اس لئے پوچھا کہ ان دنوں جاسوسی اور فون ٹیپنگ کے واقعات بہت سننے کو مل رہے تھے۔ )

اس نے پلٹ کر پوچھا۔ ۔ ۔ ’کیا یہ خبر تم نے کسی کو فون پر بتائی؟‘

’ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘بالکل نہیں۔ ‘

مگر ہمارے پاس ریکارڈ میں ہے۔

’کیسے ؟‘ اب چونکنے کی باری میری تھی۔

خفیہ افسر ہنس رہا تھا۔ ہمارے محکمے نے ہر عورت کے پیچھے ایک سایہ لگا رکھا ہے۔ ‘

’یعنی جاسوسی۔ ؟‘

’ہاں۔ ‘

مرد کے پیچھے کیوں نہیں۔ ‘

وہ زور سے ہنسا۔ مرد کے پاس راز کہاں ہوتا ہے۔ مرد سارا راز عورتوں میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ‘

وہ ٹیبل پر طشت میں رکھے پھلوں میں سے ایک کیلا اٹھا کر اس کے چھلکے اتار رہا تھا۔ ’ کسی کی کوئی بھی حرکت ہم سے پوشیدہ نہیں ہے اور سنو۔ ‘ جاتے ہوئے اس نے ٹھہر کر کہا۔ ’ کیلا میٹھا نہیں ہے۔ اس کی آن لائن شکایت کر دینا اور ہاں آئندہ خیال رہے۔ چکن مٹن نہ ہو جائے۔ ورنہ پڑوسی ہونے کا خیال نہیں کروں گا۔ ‘

٭٭

 

یہ ان بہت سارے واقعات میں سے تھوڑی بہت تفصیل ہے، جو میں نے جمع کی ہے اور جمع اس لئے کی ہے کہ ان کا تعلق اس کہانی سے ہے، جو آگے میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں۔ ایک مہذب دنیا میں ہم پابندیوں اور ہدایات سے بندھے ہوتے ہیں۔ تاریخ کی کتابیں جنگ عظیم کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں۔ جب جنگیں اس لئے ناگزیر ہوئیں کہ ہماری حسین دنیا تھکی تھکی اور سوئی سوئی لگ رہی تھی۔ تھکنے اور سونے کا عمل ایسا ہے کہ دنیاوی حسن غارت ہو جاتا ہے اور حسن کے معیار کو قائم رکھنے کے لئے، دوسری صورت میں سجانے، سنوارنے اور نکھارنے کے لئے جنگوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بعض حکومتیں اس کے لئے سخت گیری کا مظاہرہ کرتی ہیں جو ان کا حق ہوتا ہے اور اس کے لئے وہ خواص اور عوام کے لئے الگ الگ ہدایات جاری کرتی ہیں اور اس میں حیرت کرنے جیسی کوئی بات نہیں کہ ہماری یہ دنیا ابھی بھی خواص اور عوام کے درمیان تقسیم ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مثال کے لئے سکوں اور نوٹوں کو ہی لیجئے تو بڑے سکے اور نوٹ خواص کے لئے اور چھوٹے سکے عوام کے لئے رائج کئے گئے۔ ممکن ہے تاریخ اس بات کو بھی یاد رکھے کہ کبھی ان چھوٹے بڑے سکوں کے لئے بھی غیر اعلانیہ طور پر جنگوں کا اعلان ہوا تھا اور جیسا کہ ہر جنگ میں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ مارے جاتے ہیں۔ حقیقت کی دنیا میں آیئے تو کچھ لوگ یہاں بھی مارے گئے۔ دنیا کو حسین اور خوبصورت بنائے رکھنے کے لئے ایسی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب یہاں بھی ایک کنفیوژن ہے اور یہ کنفیوژن بھی تاریخ نے تمام جزئیات اور اعداد و شمار اور سابقہ واقعات و حادثات کو سامنے رکھ کر پیدا کیا ہے۔ اس کنفیوژن کو لے کر کئی نکتے ہیں، جن کو جاننا ضروری ہے۔ مثال کے لئے حکومت نے محسوس کیا کہ دنیا کے حسن کو بچانے کے لئے ان آوازوں کو خاموش کرنا ہو گا، جو عام طور پر فنکاروں اور دانشوروں کی طرف سے اٹھتی رہی ہیں، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی خوفناک دانشورانہ آوازوں نے ہمیشہ سلطنت اور حکومت کے کاموں میں دخل دینے کی کوشش کی ہے۔ حکومت نے آسانی سے ان فنکاروں کے مقابلے اپنے فنکار نمائش میں اتار دئے اور اتنی بڑی تعداد میں اتار دیئے کہ باغی دانشور اور فنکار اپنے اپنے گھر میں نیند کی گولی کھا کر سوگئے۔ ایک پریشانی بدنما، بد ہیئت اور تعداد میں کم لوگوں سے تھی۔ ایک ساتھ ان کا صفایا مشکل تھا۔ لیکن حکومت نے عدلیہ کا سہارا لے کر اس کام کو بھی آسان بنا دیا۔ اب تیسرا محاذ خزانوں کا تھا۔ خواص نے خزانوں کی حفاظت کے لئے ملک کی سرحد پار کے علاقے چنے تھے اور اچانک سلطنت میں خزانے کی کمی کا احساس ہوا تو خفیہ ایجنسیوں کو تحقیقات کا کام سونپا گیا۔ تفتیش سے ایک نئی بات نکل کر سامنے آئی اور اس بات نے یقیناً حکومت کو حیران بھی کیا اور پریشان بھی۔ کیونکہ اصل خزانے تو عام کہے جانے والے لوگوں کے خفیہ تہہ خانوں میں موجود تھے۔ تضاد یہ تھا کہ یہ عام آدمی حکومت سے وابستہ خواص کو خزانوں کا مالک بتا کر اپنی جنگ لڑ رہا تھا۔ جبکہ اصلیت یہ تھی کہ خزانے عام آدمیوں کے تحویل میں تھے۔ حکومت نے عام آدمیوں کو بحفاظت خزانہ جمع کرانے کا اعلان سنا دیا۔ اس کے بعد ملک کے تمام گوشوں میں خزانہ جمع کرنے کے لئے میلوں لمبی قطار دیکھی گئی۔ اور جیسا عام طور پر ہوتا آیا ہے، کچھ لوگ اس قطار میں مارے گئے۔ لیکن ملک کی ایک بڑی آبادی کو ان مرنے والوں کا افسوس نہیں تھا۔ کیونکہ حکومت نے ان لوگوں کو ’’ ہماری دنیا خوبصورت ہو رہی ہے ‘‘ کا ایک ایسا نشہ گھول کر پلا دیا تھا، جس کے خمار میں یہ آبادی اب بھی ڈوبی ہوئی تھی۔

میں نے اس بارے میں اپنے تیسرے پڑوسی مسٹر ناگارجن سے استفسار کیا تو وہ زور سے ٹھہاکا مار کر ہنس پڑے۔

’ اب دیکھ لیجئے خزانہ کہاں ہے۔ ‘

’ لیکن یہ تو معمولی لوگوں اور غریبوں کے پیسے ہیں اور دنیا کی تاریخ میں شاید ایسا پہلی بار ہوا کہ غریب اپنے ہی پیسوں کے لئے قطار میں ہے۔ ‘

’مسٹر ناگارجن ہنسے۔ ’ تو کیا غریب کو دوسروں کے پیسوں پر ہاتھ صاف کرنے کے لئے قطار میں ہونا چاہئے تھا ؟

’ لیکن آپ انہیں قطار میں بھی مار رہے ہیں۔ ‘

ناگارجن نے بڑا سا منہ بنایا۔ ’وہ اپنی موت مر رہے ہیں اور وہ اسی لائق ہیں۔ ‘

’ کیا آپ کو ان کی موت سے فرق نہیں پڑتا ؟

’ آپ کو پڑتا ہے ؟‘ ناگارجن کا لہجہ سرد تھا۔ ’ آپ باغبانی کرتے تو آپ کو پتہ ہوتا کہ باغ کی خوبصورتی قائم رکھنے کے لئے کمزور، کمہلائے پودوں کو بھی کبھی کبھی جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا پڑتا ہے۔ ‘

’ باغ کی خوبصورتی کے لئے آپ سکوں کی جگہ پلاسٹک لے کر آ گئے۔ ؟

ناگارجن زور سے ہنسے۔ ۔ ۔ ۔ پلاسٹک کا زمانہ ہے صاحب۔ سوال نہ کیجئے۔ کیا آپ نے نئے احکام پر غور نہیں کیا۔ مخالفت دیش دروہ ہے اور اس وقت بھی کوئی نہ کوئی کیمرہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اس لئے اچھی، مناسب اور خوبصورت زندگی چاہتے ہیں تو بس ہدایات پر خاموشی سے عمل کرتے جائیے۔ ‘

میں نے کمزور آواز میں پوچھا۔ ’کیا آپ کو لگتا ہے یہ کسان اور مزدور آئندہ برسوں میں پلاسٹک سے کھیل سکیں گے۔ ؟مجھے نہیں لگتا۔ ‘

’کیا آپ کو لگتا ہے، ایک خوبصورت باغ کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ ؟ناگارجن ہنسے۔ ’یہ تہذیب پلاسٹک کی ہے صاحب۔ زیادہ زور دیں گے تو پلاسٹک مڑے گا نہیں، ٹوٹ جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹوٹ جائے گا تو کسی کام کا نہیں ہو گا۔ ‘

ناگارجن کے آخری جملے سے میں قدرے مطمئن تھا۔ ایک خوبصورت باغ کی تعمیر کے لئے ایسے لوگوں کی چنداں ضرورت نہیں، جو حکومت کی سخت گیر ہدایات کے باوجود پلاسٹک کھیلوں کا ذوق نہ رکھتے ہوں اور قطار میں مرنے کے لئے چلے آتے ہوں۔ اب میں اصل کہانی پر آتا ہوں۔

 

یہ کہانی مجھے اسی قطار میں ملی اور یہ میری اس سے پہلی ملاقات تھی۔ وہ اپنا خزانہ جمع کرنے حکومت کی ہدایت کے مطابق قطار میں کھڑا تھا۔ قطار میں یوں تو بہت سے لوگ تھے۔ مگر اس میں کچھ نہ ہونے کے باوجود، ایساکچھ ضرور تھا، جو اس کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہا تھا۔ مثال کے لئے وہ ایک کمزور بوڑھے کو دیکھ کر بار بار ہنس رہا تھا اور اس قدر زور زور سے ٹھہاکا لگا رہا تھا کہ گھومتے ہوئے پولیس اہلکار بھی چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگے تھے۔ موسم ابر آلود تھا۔ خنکی میں اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ ایک بار پھر چلایا۔

’ میں پھر کہتا ہوں۔ اس کو قطار سے نکالو۔ یہ مر جائے گا۔ ‘

’کیوں مرے گا؟‘

’ کیونکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مرنے کے لئے ہی یہاں آیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘ اس نے ایک بھدا سا قہقہہ لگایا۔

کچھ لوگوں کو بوڑھے پر رحم آ رہا تھا۔ وہ اس سے دریافت کر رہے تھے کہ وہ کب سے قطار میں کھڑا ہے۔ کس لئے کھڑا ہے۔ ؟ اور اسے اچانک خزانہ نکالنے یا جمع کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ جس وقت ہجوم بوڑھے کی بے بسی کا جائزہ لے رہا تھا۔ ٹھیک اسی وقت خزانہ جمع کرنے والا دروازہ بند کر دیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ آہنی دروازے سے ایک سرکاری ملازم نے ذرا سر باہر نکال کر اعلان کیا کہ اب دروازہ کل کھلے گا۔ کب کھلے گا؟ اس کے لئے حکومت کی ہدایت اور حکم کا انتظار ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا، جب بوڑھا غش کھا کر زمین پر گرا اور ایک بار پھر اس آدمی کے قہقہہ کی آواز سنائی دی۔

’ میں کہتا نہ تھا یہ مر جائے گا۔ اب اٹھا ؤ اسے۔ یہ مر چکا ہے۔ ‘

بوڑھے کی لا وارث لاش اٹھانا بھی سرکاری فرائض کی مجبوری تھی۔ کیونکہ عام آدمی اس کے لئے تیار نہیں تھا۔ بھیڑ آہستہ آہستہ چھٹ گئی۔ پولیس والے نے کسی سے موبائل پر رابطہ کیا۔ کچھ دیر بعد لا وارث لاش اٹھانے والی گاڑی آئی۔ میں اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اب بھی وہیں تھا۔ وہ کلین شیو تھا۔ لیکن میں نے محسوس کیا اتنی دیر میں اس کے گالوں پر چھوٹے چھوٹے بال پھیل گئے تھے اور اب یہ چہرہ مجھے جانا پہچانا لگ رہا تھا۔ مگر اسے کہاں دیکھا ہے، یہ آخر تک مجھے یاد نہیں آیا۔ اس نے بوڑھے کی لاش اٹھانے میں مدد کی اور اس کے بعد وہ اچانک غائب ہو گیا۔

اس سے دوسری ملاقات بھی قطار میں ہوئی تھی۔ آج قطار اور بھی لمبی تھی۔ ان میں عورتیں بھی تھیں اور بزرگ بھی۔ بلکہ کچھ لوگ تو دوپہر اور رات کے کھانے بھی باندھ کر لائے تھے۔ اتفاق سے آج میڈیا والے بھی تھے۔ میڈیا والے اس کو گھیرے ہوئے کھڑے تھے۔ وہ زور زور سے اپنی بات کہہ رہا تھا۔

’یہاں جشن کا ماحول ہے صاحب۔ بلکہ میں کہتا ہوں، پکنک کا ماحول ہے۔ حاکم سے کہئے یہاں سب مزے کر رہے ہیں۔ تھکے ہوئے لوگوں کو مدت سے ایسی تفریح کی ضرورت تھی اور حاکم اس بات کا بالکل خیال نہ کریں کہ کچھ لوگ اس جشن میں مارے جا رہے ہیں۔ ایسے لوگ ہر جگہ مارے جاتے ہیں۔ گلیوں میں، کوچوں میں، سڑکوں پر۔ جیسے کیڑے مر جاتے ہیں یا مار دیئے جاتے ہیں۔ لیکن ہم بہت خوش ہیں صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’ کیوں خوش ہیں ؟‘ ایک میڈیا والے نے دریافت کیا۔

’ کیونکہ حاکم خوش ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘ اس نے قہقہہ لگایا۔ ۔ ۔ ۔ ہم کام کرتے کرتے، روزگار اور دو روٹی کی فکر کرتے کرتے تھک گئے تھے۔ اب کوئی روزگار نہیں۔ سب دھندے بند اور قطار میں عیش کر رہے ہیں۔ گانا گا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ‘

اس نے ایک بے سُرا گانا شروع کیا تو میڈیا والے نے روک دیا۔ ’بس، اتنا کافی ہے۔ ‘

’ اتنا کافی نہیں ہے۔ ‘ وہ ایک بار پھر چلایا۔ زور سے قہقہہ بلند کیا۔ ۔ ۔ ’ یہاں جو قطار دیکھ رہے ہیں، یہ سب مارے جائیں گے۔ ان میں کوئی زندہ نہیں بچے گا۔ مگر پریشان نہ ہوں۔ ہم ایک نہ ختم ہونے والی تفریح اور جشن کا حصہ ہیں۔ جشن میں مارے جانے والوں کا افسوس کیا کرنا۔ ۔ ۔ ‘ وہ دوبارہ چلایا۔ ۔ ۔ ۔ ہم بہت خوش ہیں۔ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ ہم بہت  خوش ہیں۔ ‘

 

میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔ اخبار نہیں پڑھتا۔ اس لئے یہ معلوم کرنے سے قاصر رہا کہ میڈیا نے بریکنگ نیوز میں اس شخص کو پروگرام کا حصہ بنایا یا نہیں۔ مگراس دوسری ملاقات میں اس کی گفتگو میرے اندر تک اتر گئی تھی۔ وہ غلط نہیں تھا۔ اس وقت پورا ملک ایک نہ ختم ہونے والے سرور اور جشن میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ سیلفیوں کا دور تھا۔ خزانے کے دروازے سے باہر آنے والا ہر شخص کسی فاتح کی طرح اپنی سیلفی لیتا اور اسے سوشل ویب سائٹس پر ڈال کر اپنی کامیابی کے قصے کو عام کرنے کی کوشش کرتا۔ اس لئے دوسری ملاقات میں اس نے جشن اور تفریح کے نام پر جو کچھ بھی بیان دیا۔ اسے غلط نہیں کہا جا سکتا۔

یہ میری ذاتی سوچ تھی کہ میں ایک آسان زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہوں۔ ایسا سوچنے والوں کی تعداد ملک میں یقیناً ہو گی، مگر میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ احکام، ہدایات، خفیہ ایجنسیوں کے سائے اور گھروں میں آویزاں سی سی ٹی وی فوٹیج کے دائرے میں زیادہ غور و فکر کرنا عام شہر کے حقوق میں شامل نہیں تھا اور جیسا کہ خفیہ محکمہ کے افسر نے بتا یا تھا کہ ہماری آواز اور گھر میں ہونے والے واقعات بھی حکومت کے ریکارڈ میں شامل ہیں تو اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا، جس پر نظر نہ رکھی جا رہی ہو اور جہاں معمولی معمولی باتوں کو بھی آن لائن حکومت کے ریکارڈ میں شامل کیا جا رہا ہو، وہاں زندگی گزارنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ جو کہا جا رہا ہے آپ اس پر عمل کرتے جایئے۔ تاریخ کی قبر گاہ میں ایسے ہزاروں قصے آپ کو آسانی سے مل جائیں گے، جہاں حاکم کے قائم کردہ دستور اور ہدایات پر عمل کرنا آسان زندگی کا پیش خیمہ رہا ہے۔ اس بادشاہ کی مثال کافی ہے، جس نے مسکراتے ہوئے عوام سے کہا۔ بس اپنی زندگی مجھے دے دیجئے۔ آپ وہی دیکھئے جو میں دکھانا چاہتا ہوں۔ آپ وہی سُنیئے جو میں بیان دیتا ہوں۔ آپ وہی بولیئے، جو میں آپ کو سکھاتا ہوں۔

٭٭

 

قصہ کوتاہ جشن میں ڈوبے ہوئے ملک کو دس دن گزر گئے تھے۔ اچانک ایک سبزی منڈی میں اس سے ملاقات ہو گئی۔ یہ اس سے تیسری ملاقات تھی۔ سبزی منڈی میں عام طور پر چلنے والوں کے لئے جگہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ آواز کا شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ کچھ پل کھڑا رہنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس دن نہ شور تھانہ ہنگامہ۔ اکا دکا لوگ تھے جو سر مارے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ اچانک میری نظر اس پر پڑ گئی۔ وہ ایک دکان کے آگے کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک بڑا نوٹ تھا۔ جس کو وہ نچا نچا کر زور زور سے کہہ رہا تھا۔

’ آخری بار دیکھ لو۔ پھر نہیں دیکھ پاؤ گے۔ ‘

دکاندار سمجھا رہا تھا۔ جیب میں رکھ لو۔ پولیس آ گئی تو تمہارے ساتھ میری بھی شامت آ جائے گی۔

’ کیوں رکھ لوں ؟‘

’ کیونکہ ان نوٹوں کو رکھنا جرم ہے۔ ‘

’ لیکن میرے پاس تو یہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی سکّہ نہیں۔ ‘

میں اس کے قریب آ گیا۔ غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔ پھر پوچھا۔ ’تو یہ نوٹ نہیں چلا۔ ؟

’ نہیں۔ نوٹوں کو چلنا کہاں آتا ہے، ۔ اس بات پر وہ پھر زور سے ہنسا۔

’ لیکن اس دن تو آپ قطار میں جشن کی باتیں کر رہے تھے ؟‘

’ اب بھی کر رہا ہوں۔ بڑے نوٹ کا پاس میں ہونا کیا کسی جشن سے کم ہے۔ ؟ اچانک وہ رک گیا۔ ۔ ۔ ۔ دیکھئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’ کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘

’ غور سے دیکھئے۔ نوٹ بڑا ہو رہا ہے۔ ایک زمانے میں، تاریخ گواہ ہے جب جانور ’پاگیٹ‘ بن گئے تھے۔ مکڑیاں، چھپکلی، معمولی کیڑے مکوڑے اچانک پھیل کر بڑے ہو گئے۔ اچانک اتنے بڑے کہ انسان ڈر کر اپنے اپنے گھروں سے بھاگنے لگا۔ ۔ ۔ ‘ وہ ہنس رہا تھا۔ دیکھئے۔ ۔ ۔ ۔ یہ نوٹ پھیل رہا ہے۔ بڑا ہو رہا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے واقعی احساس ہوا کہ بڑا نوٹ اچھل اچھل کر پھیل رہا ہے۔ پھیلتے۔ ۔ ۔ ۔ پھیلتے۔ ۔ ۔ ۔ نوٹ کا سائز اس عام آدمی سے زیادہ ہو گیا۔ اب وہ آدمی غائب تھا۔ مگر وہ گیا کہاں ؟ میں اسے چاروں طرف تلاش کر رہا تھا۔ عجیب بے تکا آدمی تھا۔ چھلاوا تھا کہ یکایک غائب ہو گیا۔ میری آنکھوں کے سامنے نوٹ تھا اور نوٹ پھیلتے پھیلتے ایک ہلکی آواز کے ساتھ غبارے کی طرح پھٹ گیا۔

یہ میری اس سے تیسری ملاقات تھی۔ جب نوٹ اور وہ دونوں ہوا میں غائب تھے۔ تیسری ملاقات میں اس کی داڑھی کچھ کچھ بڑھ چکی تھی۔ ممکن ہے قطار میں کھڑا رہنے کی وجہ سے اس نے چہرے پر دھیان نہیں دیا ہو۔ مگر چوتھی ملاقات ایسی تھی جب میں زیادہ سنجیدگی سے اس کے بارے میں غور کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ کالونی میں کسی کا انتقال ہو گیا تھا۔ یہ وہی ڈیری فارم کا مالک تھا، جس کی گایوں نے اچانک پوجا پاٹھ شروع کر دیا تھا۔ اور ایک دن اچانک ڈیری فارم سے گائیں باہر نکل کر خدا جانے کہاں غائب ہو گئیں۔ اس سانحہ سے میرا پڑوسی اتنا ٹوٹ گیا کہ بالآخر اس نے رسّی کا پھندہ گلے میں ڈال کر خود کشی کر لی۔

میں نگم بودھ گھاٹ آیا ہوا تھا۔ گھاٹ پر ایک قطار سے کئی انسانی جسم جل رہے تھے۔ انسانی لاشوں کی مہک فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ مہک سے بچنے کے لئے میں نے چہرے کو رو مال سے محفوظ کر لیا تھا۔ اچانک میری نظر اس پر پڑی۔ مجھے تعجب تھا کہ وہ یہاں کیا کر رہا ہے۔ اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ آج غائب تھی۔ ۔ ۔ ۔ وہ الگ الگ سلگتی لاشوں کے قریب جا کر کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آج میں نے اسے غور سے دیکھا اور اچانک خوف کی ہلکی ہلکی سرسراہٹ میں نے اپنے جسم میں محسوس کی۔ اس کی داڑھی بڑھ گئی تھی۔ اور اب اس چہرے کو پہچاننا میرے لئے مشکل نہیں تھا۔

مگر حیرت انگیز طور پر دو چہروں میں اتنی مشابہت کیسے ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ مجھے خیال آیا کہ عام طور پر بڑے بڑے لیڈروں کے جلوس میں، سبھاؤں میں عوام کچھ مشہور لوگوں کے ماسک لگا کر اپنی حمایت کا اعلان کرتی ہے۔ ایک مفکر کا خیال تھا کہ کبھی کبھی ماسک غائب ہو جاتا ہے اور ماسک کا چہرہ ہی عوام کا چہرہ بن جاتا ہے۔ میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔

’ کیا تلاش کر رہے ہو؟‘

اس نے میری طرف دیکھا پھر آگے بڑھ گیا۔ یہاں لاش کو آگ دی جا رہی تھی۔

’ میں تمہیں پہچاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ‘

’ شی۔ ۔ ۔ ۔ ‘اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔ ’ یہاں بھی کیمرہ ہے۔ پاگل ہو گئے ہو کیا؟‘

’لیکن تم کس کو تلاش کر رہے ہو؟‘

اس نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ کل رات میں سویا نہیں تھا۔ دیر تک سڑکوں پر بھٹکتا رہا۔ پھر شمشان گھاٹ چلا آیا۔ یہاں آ کر مجھے کافی سکون ملا۔ ۔ ۔ ۔ میں نے طے کر لیا کہ مجھے رات یہیں گزارنی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہریدار کو نوٹ دیا تو اس نے لے لیا۔ اسے معلوم بھی نہیں کہ ہماری دنیا میں کیا کیا ہو چکا ہے۔ ایک لمحہ کے لئے وہ رُکا۔ بڑی زور کی نیند آئی۔ ’ اس نے اشارہ کیا۔ میں وہاں سویا تھا۔ نہیں شاید وہاں۔ ۔ ۔ نہیں میں یہاں سویا تھا۔ ‘ وہ دوبارہ ہنسا۔ شاید میں اب بھی یہیں سورہا ہوں۔ ۔ ۔ ‘

اس بار اس کی آواز سرد تھی۔ اس سے پہلے کہ میں اسے دیکھ پاتا۔ وہ میرے سامنے سے غائب تھا۔ یہ اس سے چوتھی اور آخری ملاقات تھی۔ میں اس سے کہنا چاہتا تھا کہ اس بھاگم بھاگ میں تم نے اپنے چہرے کو بد نما بنا لیا ہے۔ تم پھر سے کلین شیو ہو جاؤ تو اچھے لگنے لگو گے۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس سے قبل کہ میں اپنی بات مکمل کرتا، وہ اپنی جگہ سے غائب تھا۔

اور یہ پانچویں ملاقات تھی۔ ایک چونکانے والی ملاقات، جس کی تفصیل کہانی کی شروعات میں، میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ یعنی اس شب فریج میں رکھا ہوا چکن اچانک مٹن بن گیا۔ بیوی میری خطا پر ناراض تھی۔ جب وہ سونے کے لئے اپنے کمرے میں آئی تو اس وقت بھی اس کی ناراضگی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ بیڈ کے قریب ہی ایک سنگار دان تھا جس پر ایک بڑا سا شیشہ جڑا تھا۔ میری نظر اچانک شیشہ کی طرف چلی گئی۔ بیوی اسی وقت بولتی بکتی ہوئی کسی کام سے کمرے سے باہر گئی تھی۔ میں اچانک چونک گیا۔ میں نے کئی بار آنکھیں مل مل کر شیشہ کی طرف دیکھا۔ مجھے یہ بھی خیال تھا کہ یہ میرا وہم ہو سکتا ہے۔ خود کو غلط ثابت کرنے کے لئے میں نے اپنے تیز ناخنوں کا سہارا لیا۔ مگر یہ کوئی خواب نہیں تھا۔ آئینہ میں میرا چہرہ نہیں تھا۔ آئینہ میں اس آدمی کا چہرہ آ گیا تھا۔ اور اب اس شخص کا چہرہ بھی غائب تھا۔ چہرے کی جگہ داڑھی موجود تھی۔ صرف داڑھی۔ ۔ ۔ ۔ وہی داڑھی جو اس کے چہرے کو بدنما بنا رہی تھی۔ میں نے شیشہ کی طرف پلٹ کر دیکھا تو میرا چہرہ داڑھی میں سما گیا تھا۔ آئینہ کے عکس میں اب میں ایک داڑھی والا اجنبی تھا۔ اچانک وہ جانے کہاں سے نکل کر میرے برابر میں کھڑا ہو گیا۔ وہ ہنس رہا تھا۔

’ تم بدل رہے ہو۔ ‘

’ ملک بدل رہا ہے۔ ‘ وہ ہنس رہا تھا۔ غور سے آئینہ میں دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘

’دیکھ لیا۔ یہ میرا چہرہ نہیں ہے۔ ‘

غائب ہونے سے پہلے اس کا آخری جملہ تھا۔ کیا میرا چہرہ، میرا چہرہ تھا؟

’ ارے سنو تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘

لیکن وہ غائب تھا۔ بیوی کمرے میں آئی اور آئینہ کی طرف دیکھا تو اس نے زور کی چیخ ماری۔ میں آئینہ کی طرف دیکھ کر حیران تھا۔

مجھے داڑھی کے ساتھ اپنی بیوی کسی طور پر قبول نہیں تھی۔

’یہ کیا ہو رہا ہے۔ ‘بیوی زور سے چیخی۔

’ نہیں معلوم۔ ‘

’یہ تمہارے چہرے پر داڑھی کیسے آ گئی۔ ؟

’ کہاں ہے ؟‘

’ لیکن آئینہ میں تو ہے۔ ‘

’ ہاں۔ ‘

’ اور آئینہ میں تمہارے نازک چہرے پر بھی یہ داڑھی موجود ہے۔ ‘

وہ گھبرا کر ایک بار پھر چیخی۔ ’ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ‘

میری آواز پھنسی پھنسی تھی۔ میں نہیں جانتا یہ کیا ہو رہا ہے۔ پہلے جو کچھ بدلا گیا، کیا ہم اس کے لئے تیار تھے۔ ؟ اب چہرہ بھی بدل گیا ہے۔ ‘

’ کچھ تو کرنا ہو گا۔ ‘ بیوی خوفزدہ تھی۔

’ ہاں کچھ تو کرنا ہو گا۔ ایک کام کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘ میری آواز اب کمزور تھی۔ ۔ ۔ ’۔ آئینہ کا رخ دیوار کی طرف کر دیتے ہیں۔ ‘

پھر خود کو کیسے دیکھیں گے ؟۔ ‘

سنگار دان گھماتے ہوئے اور شیشہ کا رخ دیوار کی طرف کرتے ہوئے میری آواز پہلے سے کہیں زیادہ کمزور تھی۔ ۔ ۔ ’ کیا خود کو دیکھنے کی ضرورت ہے ؟‘

 

                   (2)

 

’انہیں یقین ہے کہ خوفناک شیر کی دہاڑ انہیں بزدل نہیں بنائے گی؍

جیسے انہیں یقین ہے کہ سرپٹ دوڑتے گھوڑے انہیں روندنے میں ناکام رہیں گے …

جیسے انہیں اس بات کا بھی یقین ہے

کہ ایک دن ان کی خاموشی چپ چاپ ان کا قتل کر دے گی‘

 

میرے لیے ان تمام واقعات و حادثات کا تجزیہ کوئی مشکل کام نہیں تھا، جو ادھر پچھلے دس پندرہ دنوں میں تیزی کے ساتھ پیش آئے۔ گو ان کی شروعات کافی پہلے سے ہو چکی تھی۔ مگر اس رات شیشے والے حصے کو دیوار کی طرف کرتے ہوئے مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ میرے بدن میں ان گنت چیونٹیاں رینگ رہی ہیں۔ کیا یہ محض احساس تھا یا اس بات کی پیشگی اطلاع کہ عنقریب میرے ساتھ کچھ بھیانک ہونے جا رہا ہے۔ اس رات خوف کا احساس کچھ اس قدر شدید تھا کہ کمرے میں اندھیرے کی جگہ میں نے ٹیوب لائٹ کو جلتا چھوڑ دیا۔ نیم شب میری بیوی کسمائی ہوئی حالت میں، کچھ ڈھیر ساری الجھنوں کے پیش نظر اچانک اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پھر میری طرف اشارہ کیا…

’تم کچھ آواز سن رہے ہو؟‘

’ہاں …‘

’یہ کہاں سے آ رہی ہے …‘

کچھ بھن بھن کرتی آوازیں تھیں جیسے شہد کی مکھیوں کا شور ہوتا ہے۔ میں نے پلٹ کر سنگھار دان کی طرف دیکھا۔ بوسیدہ لکڑی کا گھسا ہوا حصہ میرے سامنے تھا۔ لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے بار بار سنگھار میز کو ہلانے کی کوشش کی جا رہی ہو…

بیوی کا لہجہ خوف سے پر تھا۔ ’’کچھ دنوں سے عجیب عجیب حرکتیں ہو رہی ہیں۔ کیا خفیہ محکمے ان حرکتوں سے واقف ہیں۔ ‘‘

’ہاں۔ ‘ مجھے ہنسی آئی۔ ’ ان کے پاس سارے ریکارڈ ہوتے ہیں۔ ‘

پھر وہ کیا کر رہے ہیں۔ ؟

’ابھی ان کی تحقیق چل رہی ہے۔ سو جاؤ۔ ان کی تفتیشی ایجنسیاں گھروں پر خصوصاً ہم جیسوں کے گھروں پر خاص نگرانی رکھتی ہیں۔ ‘

مجھے احساس تھا کہ عالمی سطح پر آنے والی بڑی تبدیلیوں میں خاموشی سے ہمیں بھی شریک کر لیا گیا تھا۔ ہم اچانک ہونے والی تبدیلیوں کے بڑے بازار کا حصہ تھے۔ اور اس بڑے بازار نے ہمیں چھوٹے موٹے روبوٹ یا مشین میں تبدیل کر دیا تھا۔ بچے بھی مشین میں کام آنے والے کل پرزے تھے۔ اور اس مشین پر اختیار کسی اور کا تھا۔ یعنی اس وقت ہماری کوئی حیثیت نہیں تھی۔ دوسرے دن مجھے اپنے بہت سارے سوالوں کا جواب مل گیا تھا، جب اچانک بیل کی آواز کے ساتھ ہمارے پڑوسی خفیہ افسر نے مسکراتے ہوئے گھر کے اندر قدم رکھا۔

میز پر ایک طشت میں کچھ فروٹس رکھے ہوئے تھے۔ اس نے نارنگی کا انتخاب کیا اور اس کے چھلکے ادھیڑنے لگا۔ اچانک اس نے کچھ ناگواری کے انداز میں میری طرف دیکھا۔

’آپ نے محسوس کیا؟ کچھ اسمیل آ رہی ہے …‘

’نہیں۔ میں نے محسوس نہیں کیا۔ ‘

’یہ اسمیل باہر سے ہوتی ہوئی آپ کے گھر کا حصہ بن گئی ہے۔ کچھ تو گڑ بڑ ہے۔ ‘وہ مسکرایا۔ ’آپ کے نام گرفتاری کا وارنٹ ہے۔ مجھے آپ کے گھر کی تلاشی لینی ہے۔ ‘

’وارنٹ‘ میں خوف سے نہا گیا۔ کس بات کا وارنٹ…؟

وہ مزے سے نارنگی کھا رہا تھا۔ ادھر کچھ دنوں سے آپ لگاتار کئی واردات کو انجام دیتے رہے ہیں۔ ‘

’واردات…؟

’ہاں۔ ہمارے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج ہے۔ باضابطہ ہر بات کا ریکارڈ ہے۔ ‘

وہ مسکرایا… پہلے بچوں کے پارک کو ہی لیجئے۔ چھوٹی سی گیند اچانک غبارہ بن گئی۔ ‘

’ہاں۔ یہ افواہ سنی تھی۔ ‘

افواہ نہیں۔ سچائی ہے۔ وہاں آپ تھے، آپ کی فوٹیج موجود ہے۔ اور آپ کی وجہ سے ایسا ہوا؟‘

’مطلب؟‘ میری وجہ سے معمولی سی گیند غبارے میں تبدیل ہو گئی۔ ؟‘

’بالکل سہی۔ ‘

’یہ کیا منطق ہوئی۔ ‘

وہ زور سے ہنسا۔ ہماری تحقیقات میں کسی منطق یا دلیل کو دخل نہیں ہوتا۔ گیند کا اچانک غبارہ بن جانا دہشت گردی ہے۔ آپ وہاں تھے  اس لیے مسئلہ زیادہ سنگین ہے۔ ‘

میرا دماغ بے قابو ہوا جا رہا تھا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ ادھر چند دنوں میں جو تفصیلات میں نے جمع کی تھیں، اسے میرے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس وقت خفیہ افسر یہی کر رہا تھا۔

اس بار اس نے طشت سے ایک سیب اٹھا لیا۔ میری طرف دیکھا۔ آپ اس وقت ڈیری میں موجود تھے جب گائیں پوجا کر رہی تھیں۔ آپ جانتے ہیں نہ کہ گائے کے ہونے کا مطلب کیا ہے ؟ اور کسی کی پوجا میں دخل دینا کتنا بڑا جرم ہے۔ ؟

مجھے یاد آیا، اس صبح پڑوسی کو دیکھنے کے بہانے اچانک میرے قدم ڈیری کی طرف اٹھ گئے تھے۔ میں نے گایوں کو دیکھا مگر یہ دیکھنا نظر بھر سے زیادہ نہیں تھا۔

’’ان گایوں نے اپنی سینگوں سے کچھ شاطر بدمعاشوں کو ہلاک کیا تھا۔ پھر یہ گائیں گم ہو گئیں۔ ‘‘

’تو انہیں تلاش کیجئے۔ ‘

’نہیں۔ یہ آپ کی وجہ سے گم ہوئیں۔ آپ ڈیری میں گئے اور یہی وقت تھا جب گایوں کی گمشدگی کا قصہ شروع ہوا۔ ‘

’یہ کیا منطق ہے ؟‘ میں زور سے چلایا۔

اس بار اس کی آواز سرد تھی۔ میں نے کہا نا۔ تفتیش میں کوئی منطق کام نہیں آتی۔ ہم فیصلہ سناتے ہیں منطق کا آگا پیچھا نہیں دیکھتے۔ ‘

سیب کھاتے ہوئے اس نے تیسرا حملہ کیا۔ اس دن چکن اچانک مٹن نہیں بنا۔ اس کے پیچھے بھی آپ کی سازش تھی۔ یہ سب باتیں ہمارے ریکارڈ میں ہیں۔ لیکن یہ بڑے الزامات نہیں ہیں۔ ان چھوٹے موٹے الزامات کے لیے آپ کو بس کچھ برس کی سزا ہو سکتی ہے۔ مگر بڑا الزام…‘

خفیہ افسر نے غور سے میری طرف دیکھا۔ اس دن بھی آپ قطار میں پائے گئے، جس دن ایک بزرگ منافع خور زمین پر گر کر مر گیا۔ ‘ اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ اب اصل بات پر آتا ہوں۔ آپ اس آدمی کو پہچانتے ہیں جو بوڑھے کی موت پر ہنس رہا تھا۔ ۔ ۔ ؟۔ اس نے بوڑھے کی لاش گاڑی تک پہنچانے میں بھی ہماری مدد کی تھی۔ ‘

’جی۔ ‘

’شکریہ۔ اب آپ تفتیش میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔ پھر تو آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ وہ کہاں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟

’جی۔ بالکل بھی نہیں۔ ‘

’دیکھیے۔ ہمارے پاس پوری رپورٹ ہے۔ اس دن میڈیا والے بھی تھے۔ اور آپ بھی۔ آپ ہنس رہے تھے۔ یعنی یہ حادثہ گایوں کی گمشدگی کے تین چار دن بعد ہی سامنے آیا۔ ‘

’اس واقعہ کا گائے کی گمشدگی سے کیا تعلق؟۔

خفیہ افسر زور سے ہنسا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ گایوں کا تعلق ہر واقعہ سے ہے۔ آپ کو بھلے تعلق نہ ہو، ہمیں گایوں کی اس گمشدگی کا خیال ہے۔ ‘ اس نے اس بار جلتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ تیسری بار آپ اس آدمی سے سبزی منڈی میں ملے تھے۔ ‘

’جی ہاں۔ ‘

’سبزی منڈی میں اس کے ہاتھ میں ایک نوٹ تھا۔ کالا دھن…‘ خفیہ افسر اس بار زور سے چلایا۔ اچانک نوٹ کہاں چلا گیا۔ اور اس کے بعد آپ شمسان گھاٹ گئے تھے۔ نوٹوں کو جلانے یا انسان کو جلانے ؟‘

خفیہ افسر شک کی نگاہوں سے میری طرف دیکھا تھا۔ وہ آدمی اس دن بھی آپ کے ساتھ تھا۔ اور اس دن کے بعد سے وہ غائب ہے۔ کہاں گیا؟‘

’میں نہیں جانتا۔ لیکن ایک بات سے میں بھی پریشان تھا۔ ‘

’کس بات سے ؟‘

آپ نے سی سی ٹی وی کیمرے میں اس کی فوٹیج دیکھی ہو گی۔ اچانک اس درمیان اس کا چہرہ بدل گیا تھا۔ اور اس کے چہرے پر داڑھی آ گئی تھی۔ ٹھیک اسی طرح کی داڑھی جیسے …‘

خفیہ افسر اس بار اتنے زور سے چلایا کہ مجھے کان کے پردے تک پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے …

’داڑھی کا کوئی ذکر نہیں۔ ‘

’مگر کیوں ؟‘

’میں نے کہانا۔ داڑھی کا کوئی ذکر نہیں۔ ‘اچانک اس نے ناک سکوڑتے ہوئے منہ بنانے کی کوشش کی۔ اسمیل بڑھ گئی ہے۔ مجھے آپ کے گھر کی تلاشی لینی ہو گی۔ آئیے میرے ساتھ…

ادھر ادھر دیکھتا ہوا اب وہ میرے ساتھ میرے بیڈروم میں تھا۔

وہ آنکھیں نچا نچا کر سنگار میز کو دیکھ رہا تھا۔ اور یہ میری آنکھوں کا دھوکہ نہیں تھا، سنگھار میز اب تک ہل رہا تھا۔ اسی طرح جیسے نیم شب میں نے ہلتے ہوئے دیکھا تھا۔

’اس کے پیچھے کیا ہے ؟‘ خفیہ افسر زور سے چیخا…

’پیچھے کچھ نہیں ہے ‘

’میں کہتا ہوں پیچھے کچھ ہے۔ ‘

وہ غصے میں آگے بڑھا۔ دونوں ہاتھ سے سنگھار میز کو تھام کر اپنی طرف کھینچا۔ اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ میرے لیے بھی چونکانے والا تھا۔ اس کے ہاتھ اچانک سیلیوٹ کے لیے اٹھ گئے، شیشے کا رخ دوبارہ اس نے دیوار کی طرف کر دیا۔ وہ تھر تھر کانپ رہا تھا یا خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ مگر ایک لمحے کے لئے میں نے اس کی آنکھوں میں خوف کی جھلک محسوس کی تھی۔

دوبارہ ڈرائنگ روم میں آنے تک وہ خود کو بحال کر چکا تھا۔ میری زبان گنگ تھی۔ ہوش وحواس گم تھے۔ اس نے سر کو ایک جھٹکا دیا اور میرا ہاتھ تھام لیا۔

’آپ کو ابھی اسی وقت میرے ساتھ پولیس اسٹیشن چلنا ہو گا۔ ‘

 

سر آئینہ میرا عکس ہے، پس آئینہ کوئی اور ہے

 

مجھے معلوم تھا کہ موجودہ حالات میں مجھ پر جو الزامات لگائے گئے ہیں، ان الزامات سے باہر نکلنا میرے لیے مشکل ثابت ہو گا۔ مجھے جینے کی طرح اس سزا کو قبول کرنا ہو گا، جو ان حالات میں عدالت مجھے سنائے گی۔ مجھے اس بات پر بھی کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ فیصلے کی پہلی سنوائی میں جج نے دو بار میرا نام کیوں لیا۔ مجھے یقین ہے، اس درمیان اس نے غور سے میری طرف دیکھ کر سرکاری ہدایات کا بغور جائزہ لیا ہو گا۔ سزا ملنے کے ایک ہفتہ بعد بیوی جیل میں مجھ سے ملنے آئی تھی۔ اس کے چہرے پر کسی طرح کی کوئی شکن موجود نہیں تھی۔ الجھنوں کے باوجود اس کے چہرے پر سکون اور طمانیت کی جھلک میں نے محسوس کی۔ اس نے بتایا، سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ ٹی وی خراب ہو گیا تھا اس لیے اس نے بیچ دیا۔ اخبار کا بل زیادہ آنے لگا تھا۔ اس لیے اس نے اخبار بند کر دیا۔ بچے مزے میں ہیں۔

’اس نے دبے لفظوں میں بتایا۔ ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ وہ ہے۔ اور وہ کبھی کبھی بچوں کے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ بچے اس سے مانوس تو نہیں ہوئے لیکن بچوں نے اسے قبول کر لیا ہے …‘

اس کے بعد وہ ٹھہری نہیں چلی گئی۔ ۔ ۔ ۔

میں نے جیل کی سلاخوں کے پار دیکھا۔ ۔ ۔ مجھے یقین تھا، کوئی مجھے اس وقت بھی دیکھ رہا ہے۔ ۔ ۔ قید خانے میں مچھر پریشان کر رہے تھے اور مجھے زور کی نیند آ رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

۴۔  قدیم آوازوں کی کٹنگ پیسٹنگ

 

 

’ آوازیں زندہ رہتی ہیں ‘

It’s impossible to live in a country as wild where the people are assassinated over political questions (Montiel’s widow)

کسی ایسے جنگلی ملک میں رہنا ناممکن ہے جہاں عوام کو سیاسی وجوہات کی بنا پر قتل کر دیا جاتا ہو۔

_گابریٹل گارسیا مارخیزد

 

                   توہمات، مفروضے، حقیقت

 

یہ ایک نیا اور نادیدہ تصور تھا کہ میں ان کھنڈرات میں ان آوازوں کو سن سکتا ہوں جو صدیوں کی قید مسلسل کا شکار ہو کر باہر آنے کو بیتاب ہیں۔ آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران زندگی میں پیش آنے والے ایسے واقعات کی کوئی کمی نہیں تھی، جہاں اچانک خوفزدہ کرنے والے احساس نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔ مبادا اس صورت میں تجسّس اور نئی دریافت سے نکلنے والے عجائب کا خیال نہ ہو تو غیر مرئی پیکر اور آواز یں آپ کو بیمار کر سکتی ہیں۔ میرے نوجوان راہب دوست کا خیال تھا کہ آواز ایک ارتعاش ہے۔ اس کی رفتار تغیر پذیر اور صدیوں پر محیط۔ وقت کے کسی بھی حصے میں آوازیں کبھی گم نہیں ہوتیں، بلکہ آہستہ آہستہ ویرانے اور کھنڈرات میں اپنی جگہ بنا لیتی ہیں۔ ‘

’ کیا ایسا ممکن ہے ؟‘

مجھے یاد ہے، اس موقع پر میرا سوال سننے کے بعد نوجوان راہب کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔ وہ ہنسا۔ میری طرف دیکھا پھر کہنا شروع کیا۔ ’’ روس کا معروف علاقہ وادی قاف تھا۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کھدائی کر رہے تھے۔ اچانک انہیں احساس ہوا، کچھ عجیب و غریب آوازیں انہیں اپنی طرف بلا رہی ہیں۔ وہ جب اس مقام پر گئے تو لکڑی کے کچھ بوسیدہ ٹکرے ملے جو کشتی نوح کے جدا شدہ ٹکروں میں سے ایک تھے۔ ۔ ۔ ‘‘

راہب ایک بار پھر مسکرایا۔ ’’ ابھی حال میں چین کے پہلے خلا باز کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ خلائی سفر میں اچانک خلائی جہاز کو کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ خلائی سفر سے واپس لوٹنے کے بعد بھی چین کے خلا باز پر اس آواز کا جادو برقرار رہا۔ یہ آوازیں ہیں جو خلا میں بھی تیرتی رہتی ہیں۔ ‘‘

میں ادھر کچھ دنوں سے جن حقائق اور تجربوں سے گزر رہا تھا، وہ میرے لئے خوفزدہ اور ناقابل یقین حد تک چونکانے والے تھے۔ کھدائی سے قبل محکمہ نے تفتیش و تحقیق کا سارا کام مکمل کر لیا تھا۔ تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ یہاں صدیوں پرانی نشانیاں آج بھی محفوظ ہیں۔ اراضی کے اطراف میں کچھ میل کے فاصلے پر اس سے قبل بھی جو باقیات ملے تھے، ان کا تعلق قدیم تہذیب و ثقافت سے تھا۔ اس لئے گمان غالب تھا کہ اس بار بھی باقیات سے عہد قدیم کی کوئی نہ کوئی نشانی تاریخ کے ساتھ تہذیب و ثقافت کے باب میں اضافہ ضرور کرے گی۔ سات آٹھ مہینوں کی مسلسل کھدائی کے بعد کچھ بوسیدہ لکڑی اور پتھر کے ٹکرے برآمد ہوئے تھے، جن کو محکمہ میں وقت کا تعین کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تھا۔ اور اس کے بعد ناقابل یقین حد تک چونکا دینے والی کچھ ایسی باتیں سامنے آئی تھیں، جس کی وضاحت کے لئے مجھے اپنے راہب دوست کو بلانا پڑا۔ ان میں سب سے اہم بات کا تعلق آوازوں سے تھا۔ نوجوان راہب نے اس تعلق سے کئی اہم انکشافات کئے۔

’ آسمان کی فضاؤں سے آنے والی پُراسرار آوازیں کبھی کبھی محفوظ رہ جاتی ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے مختلف اوقات میں حیرت انگیز اور پُر اسرار آوازیں سنی ہیں۔ بلکہ کچھ سال قبل ہی بیلا روس کے ایک سنیما فوٹو گرافر نے ان آوازوں کو ریکارڈ کیا تھا، اس وقت تک یہ جدید ٹکنالوجی بھی نہیں آئی تھی۔ ابھی حال میں کنیڈا کی ایک خاتون نے بھی ان آوازوں کو ریکارڈ کیا۔ پھر اسے پتہ چلا کہ آواز ایک عورت کی ہے، جس کا قتل کر دیا گیا تھا۔ ماہر ارضیات بھی بتاتے ہیں کہ ان آوازوں کو آسانی سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ ‘

نوجوان راہب نے میری طرف دیکھا۔ ’ تم کبھیSchizophrenia کے مریضوں سے ملے ہو ؟‘

’ نہیں۔ ‘

’ میں ایسے کئی مریضوں سے ملا۔ یہ مرض ایک ناکارہ کر دینے والی ذہنی کیفیت ہے۔ مریض کے لئے حقیقی اور خیالی دنیا میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں ایک بشپ سے ملا تھا۔ وہ غیر موجود کو دیکھ سکتا تھا۔ غیر مرئی آوازوں کو سن سکتا تھا۔ بلکہ وہ اکثر ایسی طاقتوں سے گفتگو کیا کرتا تھا۔ ‘

’ ہاں میں نے ایسا سنا ہے۔ ‘ میں ذرا توقف کے لئے ٹھہرا۔ ’’ چاند پر جانے والے خلا بازوں نے بھی ایسی آوازیں ریکارڈ کی تھیں۔ یہ سیٹی بجنے جیسی آواز تھی۔ ‘ میں نے اپنی فکر کا خلاصہ کیا۔ ۔ ۔ لیکن کیا ان آوازوں کو واقعی ریکارڈ کیا جا سکتا ہے ؟‘‘

’ ہاں۔ کیوں نہیں۔ ‘راہب کا مختصر جواب تھا۔

میں اس جواب سے مطمئن نہیں تھا۔ لیکن مزدوروں، انجینئر اور اطراف میں رہنے والوں کی طرح مجھے بھی اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ آثار قدیمہ کی کھدائی سے کچھ ایسے باقیات ضرور حاصل ہوں گے، جو ہمارے لئے تاریخی اعتبار سے اہم ہوں گے۔

٭٭

 

کھدائی کا کام پچھلے سال بھر سے چل رہا تھا۔ یہاں سے ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر آج سے پانچ برس قبل کچھ ایسے باقیات حاصل ہوئے تھے، جن سے اس بات کی امید پیدا ہوئی تھی کہ یہاں ہزاروں سال پیشتر کسی بسے بسائے شہر کے ہونے کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کافی گہری کھدائی ہو جانے کے بعد مزدور یہ دیکھ کر چونک گئے کہ مٹی کا رنگ بادامی سے سیاہ ہو گیا تھا۔ اس مٹی میں پودے کے ٹکرے بھی شامل تھے۔

یہ بھی اشارہ ملا کہ ہزاروں برس قبل یہاں کاشتکاری ہوتی ہو گی۔ تحقیق سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ یہاں کی آبادی پانچ سے دس ہزار نفوس کے درمیان ہو گی۔ کچھ قدیم پتھروں کے زیورات ملے تھے جو اس بات کا اشارہ کرتے تھے کہ عورت کی عبادت ہوتی ہو گی۔ اور یہاں کے شہر باضابطہ گلیوں سے منسلک ہوں گے۔ آس پاس ندی ہونے کے بھی امکانات تھے۔ اسی کی بنیاد پر تحقیق کا کام مزید آگے بڑھا تو اس طرف کھدائی کا عمل شروع ہو گیا۔

کھدائی کا عمل شروع ہونے کے بعد ہی جیساکہ مزدور اور آس پاس کی بستیوں کے کچھ پرانے لوگ، گھر میں کام کرنے والی کچھ عورتیں اور علی الصباح خچروں پر سامان لاد کر لے جانے والے گجروں کے منہ سے جو کچھ بھی سننے میں آیا، وہ نہ صرف حیرت انگیز بلکہ انسانی کھال کے اندر خون کو منجمد کرنے والے واقعات تھے اور یہ سلسلے جو شروع ہوئے تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ صبح ادھر سے گجروں اور کچھ تاجر پیشہ لوگوں کا قافلہ گزرتا تھا، جو خچروں پر اور گھوڑوں پر سامان لادے دور بستیوں میں تجارت کے سامان فروخت کیا کرتے تھے۔ ایک صبح حیرت انگیز طور پر ان کے گھوڑے اور خچر رک گئے۔ آسمان میں بدلیاں چھائی تھیں۔ دور تک پھیلی ہوئی دھندلی سیاہ روشنی میں سامنے جو منظر تھا، وہ دل دہلا دینے والا تھا۔ دھند میں ہزاروں گھوڑوں کی تعداد تھی اور ان سواروں کے چہرے صاف نہیں تھے لیکن گھوڑوں کو ایڑ لگاتے ہوئے یہ برابر چیخ رہے تھے اور حملہ کرنے کے لئے کہہ رہے تھے۔ آواز میں ارتعاش اور گھوڑوں کی ٹاپ سے اڑنے والی مٹی کا رنگ سفید تھا۔ گجر برادری کے کچھ تاجر پیشہ حضرات اس قدر خائف ہوئے کہ خچروں گھوڑوں کے ساتھ واپس لوٹنے میں ہی بھلائی سمجھی۔ ان میں سے کچھ بخار میں مبتلا ہوئے اور کچھ ہفتوں تک اس طرف آنے میں خوف محسوس کرتے رہے۔ اس کے بعد نہ وہ گھوڑوں کا ہجوم نظر آیا نہ گھوڑ سوار مگر چشم دید گواہوں کے مطابق فاصلہ چند قدموں کا تھا اور ایسا لگتا تھا گویا وہ شب خون مارنے کی تیاری سے آئے ہوں۔ اس اطراف میں جنگوں کی خونچکاں تاریخ کے قصے بھی عام ہیں۔ اس لئے بستی کے پرانے لوگوں نے جنگجو سواروں کے بارے میں وہی قصہ دہرایا کہ دراصل یہ وہ لوگ تھے جو جنگوں میں ہلاک ہوئے مگر ان کی چیخیں ابھی بھی سیاہ رات کے سینے کو چیرتی ہوئی کبھی کبھی سنائی دے جاتی ہیں۔

 

اسی طرح گھروں میں کام کرنے والی کچھ عورتوں کو عقب میں کچھ سائے نظر آئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے پر وہ سائے غائب ہو جاتے تھے۔ ایک عورت کے مطابق غیر مرئی سائے گھر جلدی سے جلدی خالی کرنے کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ ایک بزرگ خاتون نے بتایا کہ ایک سفید عورت اچانک سامنے آ گئی۔ اس عورت کے چہرے پر خوفزدہ کرنے والی کیفیت تھی وہ بار بار یہی کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ سب کچھ ختم ہو گیا۔ اب یہاں سے تم لوگ بھی بھاگ چلو۔

ان آسیبی کہانیوں کے درمیان کھدائی کرنے والے مزدوروں کے بیانات بھی تھے جو اکثر دوپہر کے بعد کچھ عجیب عجیب آوازوں کو سن کر چونک جاتے تھے۔ ان آوازوں میں بچوں اور عورتوں تک کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ کبھی کبھی مجھے احساس ہوتا تھا کہ یہاں گمشدہ آوازوں کا ایک شہر آباد ہے۔ بستی کے زندہ لوگوں کے علاوہ ایک بستی اور بھی ہے۔ یہاں جنگجو گھوڑ سوار ہیں اور خوفزدہ عورتیں، مرد، بچے۔ یہ لوگ دن رات سائے کی طرح ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ اور بات کہ روحیں نظر نہیں آتیں۔ ہاں کبھی کبھی کسی کو دکھائی ضرور دے جاتی ہیں۔

کچھ دن اور اسی طرح گزارے۔ دوپہر کا سورج جب آسمان سے آگ برسا رہا تھا، کچھ مزدور بھاگتے ہوئے ہماری طرف آئے۔ اس وقت میں انجینئر اور کچھ لوگوں سے گھرا ہوا تھا اور اسی بات پر تبادلۂ خیال کر رہا تھا کہ اکثر جن باتوں کو ہم واہمہ قرار دیتے ہیں، کیا حقیقت سے ان کا تعلق نہیں ہوتا؟ توہمات کی جڑوں کو حتمی اور کلی حد تک ذہن و دل سے ختم کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ میرے قابل انجینئر دوست کا خیال تھا کہ دراصل جسے ہم واہمہ کہتے ہیں، وہ علم نفسیات کی زبان میں تسلی ہے۔ یہ حقیقت ہم خود بھی جانتے ہیں کہ ان گنت ارواح ہمارے ساتھ چلتی پھرتی ہوتی ہیں۔ اس نے مردہ تہذیبوں کے ستارہ شناسوں اور کاہنوں کی پیشین گوئیوں کی ان گنت کہانیوں کو سناتے ہوئے بتایا کہ سائنس بھلے ان مشاہدات و نظریات کو رد کر دے، مگر ان کاہنوں کا خیال تھا کہ ہم مرنے کے بعد بھی زندہ رہیں گے اور تمہارے آس پاس ہی ’ چرتے ‘ اور سیر کرتے رہیں گے۔ ٹھیک یہی ساعت تھی جب بھاگتے ہوئے مزدوروں نے تیز سانسوں کے درمیان رُک رُک کر اور خوفزدہ انداز میں بتایا کہ وہ آوازیں صاف ہیں۔ اور آپ بھی سن سکتے ہیں۔ مزدوروں کے مطابق ایک سخت دیوار ہے۔ دیوار کے پیچھے یقیناً لوہے کا ایک دروازہ ہو گا۔ کیونکہ آوازوں کے ساتھ کبھی کبھی دروازے کو پیٹنے کی صدا بھی سنائی دے جاتی ہے۔ گہری سرنگ کے باوجود ہوا کا زور ہے۔ اور آوازیں ہوا میں لہرا رہی ہیں۔ خوفزدہ کرنے والے الفاظ میں مزدوروں نے بتایا کہ آگے کھدائی کا کام دشوار ہے۔ وہ اپنی جان نہیں دے سکتے۔ وہ بضد تھے اور اس وقت انہوں نے کام روک دیا تھا۔

 

یقیناً یہ واہمہ نہیں تھا۔ آوازیں تھیں بلکہ آوازوں کا ہجوم تھا۔ ایک شور تھا جہاں بہت سی آوازیں ایک دوسرے میں خلط ملط ہو گئی تھیں۔ آنکھیں بند کر کے بھی ان آوازوں کو سمجھنا مشکل تھا۔ کہیں کوئی چیخ، کسی کے رونے کی صدا، کتوں کے بھونکنے کی آوازیں، بوٹوں کی ٹاپ، گھوڑوں کے ہنہنانے اور سناٹی رات میں کہیں دور جنگل سے آنے والی بھیڑیوں کی خوفناک آوازیں۔ ٹھہر ٹھہر کر کسی عورت کے رونے کی آواز۔ پھر تیز تیز بھاگنے کی آوازیں۔ اور یہ آوازیں اس دیوار سے بلند ہو رہی تھیں جو اس وقت نظروں کے سامنے تھی۔ ذرا ٹھہر کر میں نے وہ آواز بھی سنی، جس کے بارے میں مزدوروں کا بیان تھا کہ پس دیوار لوہے کا ایک دروازہ ہے۔ لوہے کے دروازے پر پڑنے والی تھاپ مختلف ہوتی ہے۔ ایسالگتا تھا کہ کچھ لوگ باہر آنے کے لئے دروازہ پر دستک دے رہے ہوں۔ اس دن سب اتنے خوفزدہ تھے کہ مزدوروں کو چھٹی دے دی گئی تاہم انہیں یہ ضرور کہا گیا کہ خوفزدہ ہونے کی بات نہیں ہے۔ کھدائی ضرور ہو گی۔ مگر اس موقع پر ان کی زندگی اور تحفظ کا خیال رکھتے ہوئے سیکورٹی بحال کر دی جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ اس موقع پر ہم سب لوگ بھی موجود ہوں گے۔ ضرورت پڑی تو حفاظتی دستہ بھی بلا لیا جائے گا۔

بعض توہمات، مفروضے وقت کا طویل سفر طئے کر کے حقیقت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس رات کھانے کی میز پر میری بیوی نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور بتا یا کہ وہ پچھلی تین راتوں سے خواب میں نوح کی کشتی کو دیکھ رہی ہے۔ کوئی اسے آواز دے رہا ہے کہ دنیا ختم ہونے والی ہے۔ بہتر ہے کہ وہ کشتی میں آ جائے۔

’ میرا خیال ہے تمہیں کشتی پر بیٹھ جانا چاہئے تھا۔ گو جملے کی ادائیگی میں نے مسکراتے ہوئی کی تھی۔ مگر بیوی اس عمل سے ناراض ہو گئی۔ اس نے پھر میری طرف دیکھا۔

’ بہت کچھ ہو رہا ہے، جو ٹھیک نہیں ہے۔ ‘

’ شاید‘

’ کبھی کبھی لگتا ہے ہم چلتے پھرتے مردوں کے درمیان ہیں۔ ‘

’یہ سب واہمہ ہے۔ ‘ کہتے ہوئے میں ٹھہر گیا۔ دراصل میں بیوی کو کھدائی کے دوران پیش آنے والے حیرت انگیز واقعات کی تفصیلات بتانے والا تھا۔ وہ واہمے میں گھر چکی تھی۔ اس لئے میں نے ارادہ بدل لیا۔ کھانے کی میز سے اٹھتے ہوئے بیوی نے بتایا کہ کل بیٹا کسی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ وہ اکثر کسی کے ساتھ کھیلتا ہے جو نظر نہیں آتا۔ ‘

’یہ اس فلم کا اثر ہے جو اس نے کچھ دن پہلے دیکھی تھی۔ بیٹے کو زیادہ انکریج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اسے بتایا کرو کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ‘

’ کیا تم واقعی تسلیم کرتے ہو کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ؟ ‘

وہ میرے جواب کے لئے رکی نہیں۔ آگے بڑھ گئی۔ میں اب سلسلہ وار ان بکھری ہوئی کڑیوں کو جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بیوی کی بات کسی حد تک درست تھی۔ کہ ہم چلتے پھرتے مردوں کے درمیان ہیں۔ کاہن اور ستارہ شناسوں کی پیشین گوئیوں کے حوالہ سے یہی بات مجھے میرے انجینئر دوست نے بتائی تھی۔ کھدائی کے دوران پیش آنے والے واقعات اسی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ موجود سے زیادہ بڑی بستی نا موجود کی ہے اور خوفزدہ مزدوروں کے بیانات سننے کے بعد گمشدہ آوازوں کے نرغے میں، میں خود بھی شامل تھا۔

دوسرے روز صبح سویرے جب میں نے اپنے نوجوان راہب دوست کو تازہ تفصیلات سے آگاہ کیا، تو وہ بغیر کسی حیرانی کے، مجھ سے مخاطب ہوا۔

’ تم چاہو تو ان آوازوں کو ریکارڈ کر سکتے ہو۔ ‘

’ مگر کیسے ؟‘

جیسے آوازیں ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ ‘کچھ توقف کے بعد اس نے کہا۔ ’’مگر، تاریخ کی تہہ تک جانا چاہتے ہو تو پھر ان آوازوں کی کٹنگ پیسٹنگ کرنی ہو گی۔ ‘‘

’ مطلب ایڈیٹنگ؟‘

’ ہاں۔ ‘ نوجوان راہب کی آنکھیں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ’یہ کہنا مشکل ہے کہ کون سی آواز کس صدی کی ہے ؟ وقت کے کس فریم میں کب کس وقت کونسا حادثہ پیش آیا؟ کبھی کبھی یہ آوازیں مل جاتی ہیں تو ایک تاریخ دوسری تاریخ میں گم ہو جاتی ہے۔ ‘ وہ مسکرایا۔ ’ ’ ایسا ہوتا بھی ہے تو پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ قابیل بن آدم کی تاریخ سے لے کر اب تک صرف زمانہ بدلا ہے۔ تاریخ کی حیثیت ایک جیسی رہی ہے۔ ‘‘

’ مطلب؟‘

نوجوان راہب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ’’کبھی کبھی قدیم تاریخ کی کٹنگ پیسٹنگ سے قابیل بن آدم کے قبیلے کے بش، اوباما، ٹرمپ اور ٹانی بلیئرجیسے لوگ بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ اس نے چیخ کر کہا۔ ’’ میں ایسے کچھ اور نام بھی لے سکتا ہوں مگر ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں یہ سفر تمہارے لئے دلچسپ ہو گا۔ ‘‘

نوجوان راہب نے امیتو گھوش نام کے ایک بنگالی ساؤنڈ ریکارڈسٹ کا حوالہ دیا، جو ایسے کاموں میں ماہر ہے۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ بنگال کے لوگ ایسے کاموں کے ماہر ہوتے ہیں۔ امیتو کو اس کام میں دلچسپی تھی۔ اس نے بتایا کہ ساؤنڈ ریکارڈسٹ کے طور پر وہ بنگال کی کئی فلموں میں اپنی خدمات دے چکا ہے۔ پیسوں سے زیادہ دلچسپی اسے اس کام میں تھی۔ گمشدہ آوازوں کو ریکارڈ کرنے کا تجربہ اس کے لئے بھی پہلا تھا۔ وہ متجسّس بھی تھا اور خائف بھی۔

اس دن میری بیوی نے بیٹے کی دوبارہ شکایت کی۔ اس نے بتایا کہ بیٹا اپنے دوست کے ساتھ باہر جانا چاہتا ہے۔

‘ باہر؟‘

’بیوی اس بار زور سے چیخی۔ ’’تم سمجھ نہیں رہے ہو۔ بیٹے کو وقت دو۔ اسے سمجھاؤ کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ بات تم نے ہی کہی تھی۔

’ کیا تم بھی ایسا مانتی ہو؟‘

’ میرے ماننے یا نا ماننے سے کیا ہوتا ہے۔ لیکن اسے سمجھاؤ۔ اب میں اس کی باتوں سے ڈرنے لگی ہوں۔ ‘

ایک خوفزدہ لکیر میرے چہرے کو چھوتی ہوئی گزر گئی تھی۔

گمشدہ آوازیں

یہ کھدائی کا آخری مرحلہ تھا۔ نوجوان راہب اور بنگالی ساؤنڈ ریکارڈسٹ کے علاوہ آرکیالوجیکل سروے کے اسٹاف، فوٹو گرافر اور مزدوروں کا عملہ بھی اس وقت ہمارے ساتھ تھا۔ سامنے ایک وسیع و عریض ملبہ نما دیوار تھی۔ قیاس لگائے جا رہے تھے کہ عمارت کے اندر چٹان کو کاٹ کر کمرے بنائے گئے ہوں گے۔ اندرون غار نما کمرے اور اندھیری گلیاں بھی ہوں گی۔ مزدوروں کے پھاوڑے آواز کر رہے تھے۔ آوازوں کا ارتعاش اس قدر خوفناک تھا کہ جو بھی چہرے تھے، سہمے ہوئے تھے۔ مزدوروں پر بھی خوف کا اثر غالب تھا۔ اس خوفناک ماحول کو امیتو گھوش کے جملے نے راحت پہنچانے کا کام کیا۔ ۔ ۔ ۔

’ بندھو۔ ۔ ۔ ہماری دنیا ان آوازوں سے زیادہ پھوفناک ہے۔ ڈرنا کیا ہے۔ ‘

‘ خوفناک‘۔ راؤ نے اصلاح کرتے ہوئے آہستہ سے کہا۔ ’پھوفناک نہیں ‘

میں نے دیکھا۔ ۔ ۔ ’ خوف سے اس کے دانت اب بھی کٹکٹا کر بج رہے تھے۔ انجینئر نے ٹھہاکا لگایا۔ ایک زور کی آواز کے ساتھ بھر بھری مٹی کی پرت تیزی سے زمین پر گری۔ سامنے لوہے جیسی کسی دھات کا بنا قوی ہیکل دروازہ نظر آنے لگا تھا۔ دو تین گھنٹوں کی زور آزمائش کے بعد اب سارا منظر صاف تھا۔ قوی ہیکل دروازے پر مٹی کی موٹی پرت جمی تھی اور ایک عجیب سا بہت بڑا تالا جھول رہا تھا۔ آرکیا لوجیکل سروے کے ایک نمائندے نے قیاس لگایا کہ کوئی بہت بڑی بلا یا آسمانی آفت نازل ہوئی ہو گی اور بستی کے لوگ یہاں سے فرار ہوئے ہوں گے۔ آفات کا شکار وہ باہر کی دنیا میں نہ ہوں، اس لئے یہاں آسیبی شکل کا بنا ہوا تالا لگا دیا گیا۔ دروازہ کی حیثیت شہر میں داخل ہونے کی ہو گی۔ یہیں سے تجارت اور دوسرے کاموں سے باہر کے لوگ بھی آتے ہوں گے۔ یقیناً یہ صدر دروازہ رہا ہو گا۔ ایک عجیب سی بدبو یا گیس غار نما فصیل کے اندر پھیلی ہوئی تھی۔ ہمارے ساتھ حفاظتی دستہ اور ڈاکٹر بھی تھے۔ اس وقت سب نے ماسک سے اپنے چہروں ک حفاظت کی ہوئی تھی۔ ہمارے پاس ٹارچ کے علاوہ بھی روشنی کا انتظام تھا۔ یقیناً محکمہ آثار قدیمہ سے وابستہ عملوں کو ایک بڑی کامیابی ملنے کی امید تھی۔

اب ہم خوفناک آوازوں کی دنیا میں تھے۔ عجیب عجیب آوازیں۔ جیسے کوئی رو رہا ہو۔ ۔ چیخ رہا ہو۔ ۔ پھر آوازیں یکسر تبدیل ہو جاتیں۔ جیسے جنگ کا ماحول ہو۔ توپیں داغی جا رہی ہوں۔ گھوڑوں کی ہنہناہٹ کے ساتھ ہاتھیوں اور دوسرے جانوروں کی خوفناک آوازیں بھی تھیں۔ جیسے ہاتھیوں کی فوج انسانوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہو۔ اندر داخل ہوتے ہی مکڑیوں کے بے شمار جالے نظر آئے۔ زمین پر کائی جمی تھی۔ آگے کچھ خندق بنے ہوئے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ مشعل رکھنے کے لئے خانے بنے ہوئے تھے۔ چھپکلیوں اور رینگنے والے سانپوں کی سرسراہٹ کے شور بھی آوازوں کا حصہ تھے۔ گھوش نے اپنا سسٹم کھول لیا۔ فوٹو گرافر تصویریں اتارنے لگے۔ آرکیالوجیکل سروے والے اپنی تحقیق میں مصروف ہو گئے۔ میں اب بھی چاروں طرف نظر ڈال رہا تھا۔ قدیم شہر کی شکست خوردہ فصیل کے صدر دروازے سے اندر کا حصہ اس قدر آسیبی اور ڈراؤنا تھا کہ پسینے نکل آئے تھے۔ ایک عظیم کھنڈر جس کے حصار شکستہ اور چاروں طرف ویرانی اور بربادی کے آثار۔ خدا معلوم کسی بڑے حادثہ یا آفت کا ظہور یہاں ہوا ہو۔ دائیں طرف ایک ٹوٹا ہوا مجسمہ تھا۔ ایک بت کے سینے پر سرطان نما پھوڑے نظر آئے۔ پھر ایسا ہوا کہ مجھے اس شکستہ بت میں تھوڑی سی ہلچل نظر آئی۔ شاید ہم واہموں کے درمیان گھر گئے تھے۔ چاروں طرف مٹی کے تودے یا ملبے۔ حد فصیل سے آگے بے ہنگم چٹانوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ کیا آسمان سے عذاب نازل ہوا ہو گا؟ اب ایسی آوازوں کا شور تھا جیسے کچھ لوگوں کا قتل کیا جا رہا ہو۔ ان میں بچوں کی آوازیں سب زیادہ نمایاں تھیں۔ اچانک یہ آوازیں گم ہو گئیں۔ اب موسلا دھار بارش کی آواز تھی۔ سیلاب اور تیز اٹھتی ہوئی لہروں کا شور تھا۔ ۔ ۔ جیسا شور عام طور پر سونامییاسمندر میں آنے والے جوار بھاٹا سے پیدا ہوتا ہے۔ اس شور میں انسانی آوازیں بھی تھیں۔ ۔ ۔ میں بنگالی ساؤنڈ ریکارڈسٹ اور اس کے ساتھی کو انہماک سے اپنے کام میں مصروف دیکھ رہا تھا۔

قصہ مختصر، ان کھنڈرات سے جو باقیات و نوادرات حاصل ہوئے وہ شعبۂ تحقیق کے حوالہ کر دئے گئے۔ ایک ہفتہ کی مسلسل تحقیق کے دوران آوازوں کے شور میں غیر معمولی گراوٹ آئی۔ اور آہستہ آہستہ آوازیں گم ہو گئیں۔ ممکن ہے، جیسا قیاس لگایا گیا کہ دروازہ کھلنے کے عمل کے دوران آہستہ آہستہ یہ آوازیں فضا میں تحلیل ہوتی چلی گئیں۔ مجسمے، لکڑی کے کندے، برتن، اوزار جیسی تمام اشیا پر اب شعبۂ تحقیق کا حق تھا۔ امیتو گھوش نے گھنٹوں کے حساب سے ریکارڈنگ کی تھی۔ اور اب مسئلہ ایڈیٹنگ اور کٹنگ پیسٹنگ کا تھا۔ میں ابھی بھی اس شک میں مبتلا تھا کہ ان غیر مرئی پُر اسرارآوازوں کی ریکارڈنگ ہوئی بھی ہو گی یا نہیں۔ مگر بقول امیتو، جدید صوتی آلات خلائی دھڑکنوں کو بھی محفوظ کر سکتے ہیں۔

 

سو گھنٹے سے زائد کی فُٹیج کو دوبارہ سننے کا خیال ہی رونگٹے کھڑے کرنے والا تھا۔ ایک مسئلہ اور بھی تھا۔ ، کبھی کبھی کھنڈرات سے ملنے والے باقیات کی تحقیق میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ جب تک تحقیق سے وقت اور صحیح حالات و واقعات کی تفصیلات سامنے نہ آئیں، کیا ہم کسی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ یہ خیال بھی تشویش میں مبتلا کرنے والا تھا۔ ایڈیٹنگ کے عملے میں ایسے بھی لوگ تھے جو ایک زمانے سے قدیم زبانوں پر کام کر رہے تھے۔ ساتھ دینے کے لئے نوجوان راہب بھی اب اس عملہ کا حصہ تھا۔ امیتو کا خیال تھا کہ غیر مرئی آوازوں کا رشتہ مختلف تہذیب، ادوار اور واقعات سے ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اب یہ ریکارڈنگ مختلف ادوار اور حادثات کا ایک کولاژ ہے۔ ممکن ہے، مختلف مواقع پر کائنات کی پرتوں میں بکھری قدیم، صدیوں پرانی آوازوں نے ایک جگہ بسیرا کر لیا ہو۔ اس لئے تاریخ کی روشنی میں سلسلہ وار ان آوازوں کو الگ کرنا ایک پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔ تاہم ناممکن ہرگز نہیں۔ اس کی صلاح تھی کہ پہلے اکیلے اس کو اوراس کی ٹیم کو کام کرنے کا موقع دیا جائے کہ اپنی صلاحیت اور بصیرت کے مطابق ان غیر مرئی آوازوں کی ایڈیٹنگ کر کے الگ الگ خانوں میں ڈالا جا سکے۔ اسطرح یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے اس صوتی کولاژ میں کتنے حادثات و واقعات کی تفصیلات درج ہیں۔ امیتو کے لفظوں میں، صرف زمانہ بدلتا ہے۔ ظلم کے طریقے بدلتے ہیں۔ مرنے کا عمل ایک جیسا ہوتا ہے۔

٭٭

 

ایک ماہ کی غیر معمولی محنت اور مشقت کے بعد امیتو نے غیر مرئی آوازوں کو کولاژ سے نکال کر الگ الگ کہانیوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ مسٹر راؤ جولنگوئسٹک کے استاد تھے اور اردو شاعری کا ذوق رکھتے تھے، ان کا خیال تھا، یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے۔ اس لئے لامحدود وقت کے فریم میں کون سی آواز کہاں کی ہے، اس کو سمجھنا مشکل ہے۔

سمندر کی طغیانی اور شور کے ساتھ شروعات میں کچھ ایسی آوازیں تھیں جو جنگ کے ماحول کو پیش کر رہی تھیں۔ وہ اچانک ٹھہرے۔

’ غور سے سنئے۔ یہ لشکر کی آوازیں ہیں۔ ممکن ہے معرکہ کا دن آ گیا ہو۔ یہ نقارے کی چوٹ پڑی اور یہ چیخیں۔ یہ چیخیں بتاتی ہیں کہ فوجیں ایک دوسرے سے صف آرا ہیں۔ گھمسان کا رن پڑا ہے۔ بچے رو رہے ہیں اور عورتوں کے رونے کی آوازوں میں ہاتھیوں اور گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ اچانک یہ آوازیں قتل عام کے شور میں تبدیل ہو گئیں۔ اس شور ہنگامے کے دوران ایک ایسی آواز ابھری کہ نوجوان راہب ٹھہر گیا۔

’یہ آواز۔ ۔ ۔ ۔ ؟

’ ہاں یہ آواز کچھ جانی پہچانی سی ہے۔ ‘

’ مگر یہ کیسے ممکن ہے۔ لنگوئسٹک کے ماہر راؤ نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ ۔ ۔

’ آہ، ہر دور میں یہ آوازیں ایک جیسی رہی ہیں۔ ‘ نوجوان راہب کی آنکھیں بند تھیں۔ کچھ توقف کے بعد اس نے آنکھیں کھول دی۔ امیتو گھوش کو کہا کہ وہ ریکارڈنگ کو ذرا پیچھے لے جائے۔ آواز اب صاف تھی۔ شاید یہ جشن کا ماحول تھا۔ جنگوں کے بعد کے جشن کا ماحول۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ آواز صاف تھی۔ امیتو نے ایک بار پھر ریکارڈنگ کا یہ حصہ دوبارہ سنایا۔ ۔ ۔

’یقینی طور پر یہ ہمارے یہاں لڑی جانے والی جنگیں نہیں ہو سکتیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘ راؤ کا خیال تھا۔

کیوں نہیں ہو سکتیں ؟ نوجوان راہب کی نظریں جھکی تھیں۔

’ ممکن ہے یہ قدیم جنگوں کی آوازیں ہوں۔ صلیبی جنگیں بھی ہو سکتی ہیں۔ منگول حکمراں بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ حکمراں جن شہروں میں پہنچے، وہاں ظلم و بربریت کی انتہا کر دی۔ ۔ ۔ ۔ ‘

’ مگر ٹھہرو۔ ۔ ۔ یہ لہروں کی آوازیں۔ ۔ ۔ کیا یہ آوازیں دریائے سندھ کی ہیں۔ ۔ ۔ ‘

مجھے خیال آیا، کچھ روز قبل میری بیوی نے حضرت نوح کی کشتی کو لے کر ایک خواب دیکھا تھا۔ کیا ہزاروں سال پرانی آوازیں۔ ۔ ۔ ؟

نوجوان راہب نے میرے دل کی بات پڑھ لی تھی۔ وہ مسکرایا۔ ۔ ۔ ۔ ’ آوازیں کبھی نہیں مرتیں۔ وہ افق میں، خلا میں، کائنات میں تیرتی رہتی ہیں۔ ‘

’ پھر تو ہم ان آوازوں کا سراغ نہیں لگا سکتے۔ ۔ ۔ ‘ میں نے پرتجسس نظروں سے راؤ کو دیکھا۔ راؤ نے میری طرف دیکھا۔ ’ ایک بات جان لیجئے۔ آثار قدیمہ سے حاصل ہونے والے باقیات اور گمشدہ آوازوں کے درمیان کسی طرح کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ جو باقیات ملے وہ کسی ایک عہد کی ترجمانی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان آوازوں میں بیک وقت بہت سی آوازیں شامل ہیں۔ ‘

امیتو گھوش نے قہقہہ لگایا۔ اور کوئی ضروری نہیں کہ آواز میچنگ کے ساتھ میں نے سلسلہ وار جو کچھ بھی ایڈٹ کیا ہے، وہ صحیح ہو۔ ہم ساؤنڈ سسٹم میں صرف آواز میچ کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر یقین کر لیتے ہیں کہ یہ آوازیں کسی مخصوص عہد سے وابستہ ہیں۔ اکثر و بیشتر بڑا سے بڑا ساؤنڈ ریکارڈسٹ اس عمل میں دھوکہ کھا جاتا ہے۔ ۔ ۔

’ ٹھہرو۔ ۔ ۔ ‘ نوجوان راہب نے روکا۔ ۔ ۔ جیسے یہ آواز۔ ۔ ۔ یہ جانی پہچانی آواز۔ ۔ ۔ ‘ وہ مسکرایا۔ ۔ ۔ پھر یہ آواز دریائے سندھ کی موجوں میں غوطہ کیوں لگا رہی ہے ؟ ذرا فاروڈ تو کرو۔ ۔ ۔

میتھیو نے حکم کی تعمیل کی۔ اب منظر بدل گیا۔ بدلی بدلی ہوئی آوازیں تھیں۔ ان آوازوں میں گرجا گھر کے گھنٹوں کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ اس کے بعد تیز دوڑنے بھاگنے کی آوازیں۔ ۔ ۔ زنجیریں توڑنے ہلانے کے دوران کچھ خفیف سی آوازیں تھیں جن کے بارے میں راؤ کا خیال تھا کہ یہ فرانسیسی لوگ ہیں۔ ممکن ہے خونی انقلاب فرانس کے وقت کی آوازیں ہوں۔ جب پورے فرانس میں فسادات پھوٹ پڑے۔ چرچ مسمار ہوئے۔ محلات لوٹ لئے گئے۔ مشتعل عوام نے حکمرانوں نے خلاف بغاوت کر دی۔ ‘

نوجوان راہب مسکرایا۔ ۔ ۔ ’ کچھ برسوں تک فرانس ری پبلک رہا۔ پھر نپولین نے تخت سنبھال لیا۔ انیسویں صدی کے آغاز تک نیپولین زیادہ تر یوروپ پر قبضہ کر چکا تھا۔ ۔ ۔ اب ان آوازوں کو سنیئے۔ ۔ ۔ ‘ وہ مسکرایا۔ یہ موسیقی کی آواز ہے۔ جنگ اور دل دہلا دینے والی چیخوں کے درمیان بانسری کی آواز۔ کیا یہ نیرو ہے جو بانسری بجا رہا ہے۔ ؟ اور ابھی جو نسوانی چیخیں تھیں، وہ ممکن ہے، نیرو کی ماں کی آواز ہو جس کا اس نے بے رحمی سے قتل کر دیا۔ یا اپنی بیویوں میں سب سے زیادہ محبوب بیوی کی، جس پر وہ تشدد کے پہاڑ توڑ تا تھا۔ ۔ ۔ اب یہ آوازیں سنیئے۔ یہ جلتے ہوئے روم کی بھی ہو سکتی ہیں۔ انقلاب فرانس کی بھی۔ ۔ ۔ بلکہ میں کہتا ہوں۔ ۔ ۔ بغاوتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ حکمراں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ اب یہ آواز سنیئے۔ ‘

’یہ تو وہی آواز ہے۔ ‘ راؤ چونک گئے تھے۔ ۔ ۔

’ جان پہچانی آواز۔ ۔ ۔ ‘

نوجوان راہب نے کہا۔ ۔ ۔ اور ایسا لگتا ہے یہ آواز ابھی کی ہے۔ پھر یہ آواز عہد گم گشتہ تک کیسے پہنچی۔ ۔ ۔ ؟‘

٭٭

اس روز دیر رات تک ہم اس پُر اسرار آواز کے تعاقب میں رہے جو وقت کے ہر فریم میں موجود تھی۔ کیا وہ شخص ہنس رہا تھا؟ کیا وہ آواز کسی حکمراں کی تھی جو ہر ظلم، زیادتی اور بربریت کے بعد کبھی ٹھہاکا لگانے اور بانسری بجانے پر مجبور تھا۔ ؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی آواز صدیوں پر محیط وقت کے ہر فریم میں رقص کرتی پھر رہی ہو؟ گھر آنے کے بعد میں نے سب سے پہلے لباس اتارا۔ غسل کیا۔ غسل سے فارغ ہو کر آیا تو بیوی نے ڈنر لگا دیا تھا۔ وہ میرے سامنے ہی بیٹھ گئی۔ ۔ ۔ بیٹا اس درمیان سوگیا تھا۔ بیوی نے بتایا کہ بیٹے کا دوست ناراض ہو کر چلا گیا۔

’ چلا گیا، مطلب؟‘ کھاتے ہوئے میں اچانک چونک گیا۔

’ تمہیں بتایا تھا نا۔ وہ بیٹے کو باہر لے جانے کی ضد کر رہا تھا۔ ‘

’ ہاں۔ ‘

’ بیٹا ساتھ نہیں گیا تو وہ ناراض ہو کر چلا گیا۔ ‘

’ اس کا مطلب اب وہ اس گھر میں نہیں ہے ؟‘

کیا تم بیٹے کی بات کا یقین کرتے ہو؟ بیوی مسکرائی۔ ’ پہلے مجھے بھی ڈر کا احساس ہوا تھا۔ پھر لگا، وہ کہانیاں بناتا ہے۔ ‘

’ اگر یہ کہانی نہ ہوئی تو؟‘

میں واقعی خوفزدہ تھا۔ وقت کے فریم میں اگر غیر مرئی آوازیں رہ سکتی ہیں تو گمشدہ غیر مرئی چہرے کیوں نہیں ؟ میں محسوس کر رہا تھا کہ کوئی ہے، جو اس وقت بھی ہماری باتیں سن رہا ہے۔ جیسے وہ آواز، جو وقت کے ہر فریم میں موجود تھی اور ایک جیسی تھی۔

٭٭

 

دوسرے دن ایڈیٹنگ روم میں پستہ قد راؤ لوبان اور پوجا کے سامان لے کر پہنچے تھے۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ گمشدہ خوفناک آوازوں نے کسی حد تک راؤ کو خوفزدہ کر دیا تھا۔ راؤ کو پوجا کرتے ہوئے دیکھ کر امیتو گھوش کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ فلم انڈسٹری میں کیمرے کی پوجا کے بغیر شوٹنگ کا آغاز ہی نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے ناریل پھوڑے جاتے ہیں۔ نوجوان راہب ان باتوں سے قطع نظر اب بھی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ گیارہ بجے سے کام شروع ہو گیا۔ ہم اس بار کچھ الگ طرح کی آوازوں کے نرغے میں تھے۔ جیسے شور کرتا ہوا باغیوں کا ایک ہجوم ہو۔ بلوہ ہو گیا ہو۔ ڈری سہمی انگریز عورتوں کی چیخیں تھیں۔ دوڑتے بھاگتے قدموں کی تیز آوازیں ان میں شامل ہو گئی تھیں، اب جو آوازیں تھیں ان کو سن کر ایسا لگ رہا تھا جیسے جیل یا قید خانے کی دوسری دیواروں کو توڑا جا رہا ہو۔ پھر کچھ انگریز افسران کی چیخیں تھیں۔ جیسے انہیں قتل کیا جا رہا ہو۔ اس کے بعد توپیں داغنے کی آوازیں تھیں ایسی آوازیں جیسے بے رحمی سے انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہو۔ چاروں طرف سے چیخیں بلند ہو رہی تھیں۔

راؤ نے ہماری طرف دیکھا۔ لیکن بولے کچھ نہیں۔

نوجوان راہب نے گہرا سانس لیا۔ ’ دلی کی تباہی کا منظر۔ اٹھارہ سو ستاون کا غدر۔ ۔ ۔ راؤ نے سراثبات میں ہلایا۔ ۔ پہلی آواز میرٹھ سے آنے والے باغیوں کی تھی۔ ان میں پیادہ اور سوار دونوں تھے۔ سپاہیوں نے کپتان کے ساتھ کئی انگریزوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ فوجیں جمع ہو کر قلعہ میں پہنچیں۔ افسوس، اس میں بزرگ بادشاہ کی آواز قید ہونے سے رہ گئی۔ بادشاہ کو احساس تھا کہ انگریز آسانی سے اس بغاوت کو کچل ڈالیں گے۔ ۔ ۔ ‘

راؤ نے راہب کی طرف دیکھا۔ اور اس کے بعد کی آوازیں انگریزوں کی طرف سے لئے گئے انتقام کی آوازیں ہیں۔ بادشاہ گرفتار کئے گئے۔ شہزادوں کو گولیاں ماری گئیں۔ انگریزی فوجیں دلی میں داخل ہوئیں تو شہر کے باشندوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔

’ بھیانک۔ ‘ مسٹر راؤ نے آہستہ سے کہا۔ ۔ ۔ اس کے بعد اچانک جو آواز ابھری، اسے سن کر وہ گھبرا گئے تھے۔

’ وہ یہاں بھی ہے۔ ‘

وہی مانوس سی آواز۔ ۔ ۔ نوجوان راہب نے گول گول آنکھیں گھماتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ ۔ ۔ امیتو نے آواز کو ایک مقام پر روک دیا۔ اب وہ آواز لگاتار دھمک کے ذریعہ ہم تک پہنچ رہی تھی۔ اس آواز میں ایک مخصوص تھرتھراہٹ تھی۔ ۔ ۔ گولیوں کے شور، توپ کی آوازوں، انسانی چیخ اور مرنے والوں کی دلخراش آوازوں نے بھی ہمیں اتنا متاثر نہیں کیا تھا، جس قدر یہ آواز ہمیں پریشان کر رہی تھی۔

 

یہ چائے کا وقفہ تھا۔ کمرے میں خاموشی چھائی تھی۔ نوجوان راہب اب بھی اپنی سوچ میں غلطاں و پیچاں تھا۔ جبکہ راؤ کے چہرے پر خوف کی لکیر ابھر کر سامنے آ گئی تھی۔ وہ آہستہ سے بولا۔ ’ یہاں کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ ‘

نوجوان راہب نے آنکھیں کھول کر راؤ کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ ’پہلے فریم سے آخری فریم تک دیکھ لیجئے۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر عوام کا قتل۔ ۔ ۔ ‘

میرے سامنے مارخیز کی کہانی روشن تھی۔ ۔ ۔ ’وہ سوال جو مونیٹل کی بیوی سے اس کی بیٹی نے اپنے خط میں کیا تھا۔ ۔ کیا ایسے ملک میں رہنا ممکن ہے ؟‘

’ ریوائنڈ کرو۔ ‘ راؤ نے امیتو کی طرف دیکھا۔ ۔ ویری گڈ۔ اب فاسٹ فاروڈ کرو۔ ہم آوازوں کے ہجوم میں گم تھے۔ ۔ ۔ اب روک دو۔ راؤ نے ایک بار پھر ہمارے چہرے کا جائزہ لیا۔

’ ملک کی آزادی سے پہلے کی ایک خوفناک ریہرسل۔ لیکن ملا کیا؟ بغاوت کچل دی گئی۔ لاشیں بچھ گئیں۔ ‘

’ لیکن ان ڈیڈ باڈی سے گزرنے کے بعد ہمیں آزادی تو ملی؟ ‘ امیتو نے راؤ کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔

نوجوان راہب نے دونوں کی طرف غور سے دیکھا۔ تانا شاہی سے جمہوری نظام اور حکومت تک کیا سچ مچ کوئی تبدیلی آئی ہے ؟‘ راہب نے قہقہہ لگایا۔ ہمیں آپ وقت کے کسی بھی فریم میں کھڑا کر دیجئے۔ ہم عوام ہیں تو ہماری اصلیت زیرو ہے۔ ‘

قہقہہ لگاتے ہوئے امیتو نے مخصوص بنگالی لب و لہجہ میں کہا۔ اور ہم پر یہ آوازیں سو بار ہیں۔ ‘

’سوبار نہیں سوار۔ ‘ راؤ نے آہستگی سے کہا۔

٭٭

 

اچانک آوازیں بدل گئی تھیں۔ کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی آواز تھی، جس کو سننے کا حوصلہ ہم میں سے کسی کو نہ تھا۔ امیتو کے فاسٹ فارورڈ کرنے کے باوجود ہم دہلا دینے والی آوازوں کی زد میں تھے۔ چائے کے مختصر وقفہ کے بعد جب دوبارہ ہم یکسوئی کے ساتھ بیٹھے تو خوفناک شور اور دھماکے کی آواز نے ہمیں اپنی جگہ منجمد کر دیا۔ دھماکہ کی آواز رکتے ہی ایک ساتھ لاکھوں افراد کے چیخنے، چلّانے، کراہنے کی آوازوں نے ہم سب کو اپنی جگہ خوفزدہ کر دیا۔ ۔ ۔

راؤ نے خوفزدہ نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ اس وقت آئن اسٹائن کے الفاظ یاد آ رہے ہیں۔

I fear the day that technology will surpass our human interaction. The world will have a generation of idiots

میں نے راؤ کی طرف دیکھا۔ ’ جب ایک بڑی دنیا جنگ جنگ چلا رہی تھی، وہ امن کی باتیں کر رہا تھا۔ ‘

نوجوان راہب نے ہماری طرف دیکھا۔ ’ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آوازیں تاریخ کی دو تباہ کن جنگوں کی ہیں۔ پہلی جنگ عظیم جب ایک کروڑ سے زیادہ ہلاکتیں سامنے آئیں۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست پر ہٹلر کو افسوس تھا۔ لیکن ایک حکمراں کی طاقت کا انجام کیا ہوا۔ ۔ ۔ ؟‘

ہم ایک بار پھر خوفناک آوازوں کی زد میں تھے۔ چیخ، کراہوں کا بازار گرم تھا۔

راؤ نے بلند آواز میں کہا۔ بے وقوفوں کی نسل۔ ۔ ۔ انجام کیا ہوا۔ امریکہ نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملہ کر دیا۔ ان آوازوں میں جنگیں قید ہیں یا انسانی تباہی۔ ‘

نوجوان راہب مسکرایا۔ ’ اس بے رحم تاریخ کے ایک صفحے پر مسولینی کو پھانسی دیئے جانے کا واقعہ درج ہے تو دوسرے صفحے پر ہٹلر کی خود کشی کی داستان۔ حکمراں کبھی عبرت نہیں لیتے۔ ہاں ایک بات اور ہوئی۔ ‘

راہب نے راؤ کی طرف دیکھا۔ ’ ان جنگوں سے ہندوستان کو فائدہ ہوا۔ برطانیہ کمزور ہوا اور ہندوستان کی آزادی کا راستہ صاف ہو گیا۔ ‘

’ ڈو ایڈیڈ انڈیا۔ ‘ امیتو پر مذاق لہجے میں بولا۔ ہم کو کیا ملا۔ آزادی کی پچھل،

’ پچھل نہیں۔ پونچھ۔ ‘ راؤ مسکرایا ضرور لیکن اس کی آنکھیں ابھی بھی فکر میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ’ ایک بات محسوس کیا؟ ان خوفناک آوازوں میں محبت کہیں نہیں ہے۔ محبت دلوں میں رہتی ہے۔ ‘

’ ممکن ہے۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ محبت کم ہو گئی ہو۔ اتنی کم کہ نہ وہ ہمیں دکھائی دیتی ہے نہ سنائی۔ وہ ہمارے ساتھ ہی مر جاتی ہے جبکہ بدی نہیں مرتی۔ وہ تیرتی رہتی ہے۔ ‘ نوجوان راہب بولتے بولتے اچانک رک گیا۔ راؤ نے چونک کر میری طرف دیکھا۔

پھر وہی مانوس سی آواز۔ راؤ اس بار غصّے میں اٹھ کھڑے ہوئے۔

’ آج بس یہیں تک۔ یہ آواز ہمیں پاگل کر دے گی۔ ‘

٭٭

 

مانوس مگر پُراسرار آواز دیر رات تک مجھے پریشان کرتی رہی۔ ایڈیٹنگ سے فارغ ہو کر میں گھر آیا تو میرا بارہ برس کا بیٹا پڑھائی میں مشغول تھا۔ میں نے اسے پیار کیا۔ اور کچھ سوچ کر اس کے قریب بیٹھ گیا۔ کچھ جاننے کے لئے میں نے اس کی کتابوں میں دلچسپی دکھائی۔ اس کی ہینڈ رائٹنگ کی تعریف کی۔ وہ خوش ہو کر بتانے لگا کہ میم بھی اس کی ہینڈ رائٹنگ کی تعریف کرتی ہیں۔ میں نے اچانک بات کا رخ اس کے نئے دوست کی طرف موڑ دیا۔ اچانک اس کے چہرے کی مسکراہٹ گم ہو گئی۔ اس نے، جہاں میں بیٹھا تھا، اس کے بائیں طرف اشارہ کیا۔ میں سرعت سے گھوما مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔

بیٹا مطمئن تھا۔ ’ وہ نظر نہیں آئے گا۔ ‘

’ کیوں ؟‘

’ وہ سب کو دکھائی نہیں دیتا۔ مجھے دکھائی دیتا ہے۔ اور اس وقت وہ کمرے میں ہے۔ ‘

میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ایسا نہیں ہوتا بیٹے۔ یہ تمہارا وہم ہے۔ بلکہ میں اسے ایڈیٹنگ سے فارغ ہونے کے بعد نفسیاتی معالج سے دکھانے کے بارے میں غور کر چکا تھا۔

بیٹے نے اپنی بات جاری رکھی۔ وہ ہے۔ اور کبھی کبھی مجھے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہتا ہے میں نہیں جاتا ہوں تو وہ غصّہ ہو کر کچھ دنوں کے لئے گم ہو جاتا ہے۔ ‘

میں نے پلٹ کر بیوی کے چہرے کو دیکھا تو وہ خوفزدہ نظر آئی۔ مجھے نوجوان راہب کی بات یاد آ رہی تھی۔ محبت اتنی کم ہو گئی ہے کہ نہ دکھائی دیتی ہے نہ سنائی۔ محبت کے ناکارہ کل پرزوں میں تقسیم ہو کر بیٹا، میں اور بیوی صرف رسم بن کر رہ گئے تھے۔

٭٭

 

ہم آہستہ آہستہ اس مکمل کہانی یا غیر مرئی آوازوں کے انجام تک پہنچ رہے تھے۔ کئی سوال تھے جنہوں نے مجھے پریشان کر رکھا تھا۔ کیا یہ الگ الگ کہانیاں غیر مرئی آوازوں کے ذریعہ کوئی پیغام دینا چاہتی ہیں۔ ؟امیتو گھوش نے اتنی ہشیاری سے آوازوں کے ہر فریم کو ایک کہانی میں کیسے تبدیل کر لیا۔ ؟ کیا ہم کہانیوں کی حقیقت کاسراغ لگا پانے میں کامیاب ہیں ؟ ممکن ہے کٹنگ پیسٹنگ میں امیتو سے کوئی غلطی ہوئی ہو اور اس نے ایک آواز کا سرا دوسرے سے جوڑ دیا ہو۔ میں مطمئن تھا اگر ایسا ہے بھی تو ان تمام رونگٹے کھڑے کرنے والی کہانیوں میں کوئی تفریق نہیں۔ وقت کے لامحدود فریم میں ہر کہانی کہیں نہ کہیں ایک دوسری سے ٹکرا رہی ہے۔ شاید اسی لئے یہ کہاوت بھی سامنے آئی کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرایا کرتی ہے۔

اس بار بہت کچھ پہلے کی آوازوں سے مختلف تھا۔ اس بار بارود کے دھماکے نہیں تھے۔ ہم اس وقت چوک گئے جب اس بات کا احساس ہوا کہ ان غیر مرئی آوازوں کے درمیان مکالمے بھی سنے جا سکتے ہیں۔ ریکارڈنگ کی شروعات میں کسی بازار یا سبزی مارکیٹ سے ابھرنے والی آوازیں تھیں۔ کچھ لوگوں کی رسمی گفتگو تھے۔ یہ شہر کے باشندے تھے۔ ، جو صبح صبح عام طور پر گھر کی دیگر ضروریات سے فارغ ہو کر کام پر نکل جاتے ہیں۔ مزدور پیشہ، کالج کے طالب علم۔ ۔ ۔ تجارت سے وابستہ۔ ۔ ۔ جیساکہ ایک چھوٹے سے شہر کی عام زندگی ہوتی ہے۔ رکشہ، ٹیمپو، بس کے ہارن کی آوازیں بھی مکالموں کے درمیان ابھر رہی تھیں۔ مسٹر راؤ کا خیال تھا۔ یہ چھوٹا سا شہر یا قصبہ ہو سکتا ہے۔ ایسا قصبہ، جہاں کے لوگ ایک خوشگوار، ٹھہری ہوئی زندگی گزار رہے ہوں۔ شہروں کی زندگی میں اتنا ٹھہراؤ نہیں آتا۔

آواز تبدیل ہو گئی تھی۔ پھیری والے اور سبزی والوں کے شور تھے۔ اس کے ساتھ ہی ندی کی لہروں کی آواز بھی تھی جو دیگر آواز اور مکالموں پر حاوی تھی۔ راؤ کا ذاتی خیال تھا کہ اس آخری کولاژ میں ایسا کچھ بھی نہیں جس پر تبادلۂ خیال ممکن ہو۔ یہ ایک شہر کی آپ بیتی ہے۔ اور ایسے شہر ہندوستان میں بڑی تعداد میں ہیں۔ اس نے امیتو کو مشورہ دیا کہ فارورڈ کر کے دیکھے۔ امیتو نے حکم کی تعمیل کی۔ اگلے ہی لمحہ ہم جن آوازوں کی زد میں تھے، اس نے ہم سب پر سکتہ طاری کر دیا تھا۔

راؤ زور سے چیخے۔ ’ روائنڈ کرو۔ ‘ راؤ نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا تھا۔ ‘ ’مائی گاڈ۔ ۔ ۔ آپ جانتے ہیں یہ کیا تھا؟ لیکن میں سمجھ رہا ہوں۔ بہتر ہے کہ ہم شروع سے تمام آوازوں کو سننے کی کوشش کریں۔ اب سنئے۔ ۔ ۔ یہ کوئی اسکول ہے۔ ۔ ۔ بچوں کی آوازیں ہیں۔ بچے پرارتھنا کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اب یہ آواز سنئے۔ ۔ ۔ یہ مندر کی گھنٹی کی آواز ہے۔ اور یہ دیکھئے اذان ہو رہی ہے۔ ۔ ۔ اور اب۔ ۔ پانی کی رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بہت تیز آواز ہے۔ ۔ ۔ امیتو۔ ۔ پلیز روائنڈ۔ ۔ ۔ یہ کچھ لوگ باتیں کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ امیتو۔ ۔ کیا یہ آوازیں صاف ہو سکتی ہیں۔ ؟‘

’ کوشش کرتا ہوں۔ ‘

پانی کی آواز، لہروں کے شور کے درمیان اب آواز کسی حد تک صاف اور سنی جا سکتی تھی۔ ۔ ۔

راؤ نے اشارہ کیا۔ ان کی باتوں پر دھیان دیجئے۔ ۔ ۔ مائی گاڈ۔ سات سو سال پرانا شہر۔ ۔ کچھ لوگ اسی شہر کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ والیوم بڑھاؤ امیتو۔ ۔ ۔ ہاں اب ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ جو لوگ باتیں کر رہے ہیں ان کی آواز میں غم و غصہ کی لہریں ہیں۔ یہ لوگ اپنے ہی گھر کو توڑنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ سات سو برس پرانے شہر کے باسی بھلا اپنے ہی گھروں کو توڑنے کی باتیں کیوں کر رہے ہیں ؟ اب یہ آواز سنو۔ ۔

’ ردّی لے لو۔ ۔ ۔ ۔ ردّی لے لو۔ ۔ ۔ ۔ ‘

نوجوان راہب نے پلٹ کر راؤ کو دیکھا۔ ’ ایسا لگتا ہے جیسے یہ ردّی والے سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ مگر ایسا کیوں ہے۔

’ امیتو۔ ۔ ۔ پلیز روائنڈ کرو۔ اور ایک بار پھر تمام آوازیں سناؤ۔ ‘

ہم بغور دھیان لگائے سننے میں مصروف تھے۔ درمیان میں پاور پلانٹ سے نکلنے والی آوازوں کی گھن گرج بھی شامل تھی۔ مرد عورتوں کی فلک شگاف چیخیں تھیں۔ اب پھاوڑے اور کدال کی آوازیں صاف تھیں۔

نوجوان راہب نے گہرا سانس لیا۔ افسوس۔ ۔ ۔ لوگ خود ہی اپنا بسا بسایا گھر ڈھا رہے ہیں۔ عمارتیں زمین بوس ہو رہی ہیں۔ ایک کے بعد ایک گھر ٹوٹ رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک لرزہ دینے والی آواز۔ ۔ ۔ یہ بسی بسائے عمارتوں کی چیخیں ہیں۔ کبھی یہ عمارتیں شہر کے سینے پر تن کر کھڑی رہتی ہوں گی۔ اب ملبے میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ ۔ ‘

’ ردّی لے لو۔ ۔ ۔ ردّی بیچو۔ ۔ ‘

اس کے ساتھ ہی ٹرک اور ٹریکٹر کی آوازیں تھیں۔ سامان اتارنے اور چڑھانے کی آوازیں تھیں۔ ایسی آوازیں کہ لوگ اپنے ضروری سامان، یہاں تک کہ دروازے کھڑکیاں تک ردی کے کاروباریوں کے ہاتھوں فروخت کر رہے ہوں۔ ایک کے بعد ایک ٹرک اور ٹریکٹر کے جانے کی آوازیں۔ اس کے بعد دوڑتے بھاگتے لوگوں کی آوازیں تھیں جو دلوں میں خوف برپا کر رہی تھیں۔ اب کچھ لوگوں کے باتیں کرنے کی آوازیں تھیں۔ امیتو نے رک کر والیوم بڑھا کر آواز کو کسی حد تک صاف کرنے کی کوشش کی۔ درمیان میں کچھ جملے ایسے تھے، جنہیں سمجھنے میں پریشانی ہو رہی تھی۔ لیکن اب آواز صاف تھی۔ ۔ در اصل یہ کسی میٹنگ کی آواز تھی۔ ہم ہمہ تن گوش ہو کر ان آوازوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ایک: کیا یہ آسان ہے۔ ۔ ۔

دو۔ کوئی پراجیکٹ آسان نہیں ہوتا۔ اس پراجیکٹ پر پچاس سال سے زائد کا وقت خرچ ہو چکا ہے۔ ۔ ۔

( کچھ آوازیں صاف نہیں تھیں )

تین: کیا ہم ایک فرضی مستقبل کی بات نہیں کر رہے۔ ۔ ۔

( لائنیں سنی نہیں گئیں لیکن ان میں ہم بمشکل پاور پلانٹ، ڈریم اور پراجیکٹ کا ذکر سن سکے )۔

چار: انفارمیشن ٹکنالوجی کی نئی تاریخ میں ہم ایک مرتے ہوئے شہر کے ذمہ دار ہوں گے۔

پانچ: گھر بار، زمین، زبان، تہذیب، تاریخ۔ ۔ ۔ ایک شہر کے مرنے کا مطلب جانتے ہیں۔ ؟

ایک: پراجیکٹ کے لئے اس سے فرق نہیں پڑتا۔

چھ: ملک، شہر، انسانیت کے ساتھ قدرت، جنگل، انوائرنمنٹ کو بھی اس کی بڑی قیمت چکانی ہو گی۔ کچھ اندازہ ہے آپ کو، کہ کتنے جنگل تباہ ہوں گے ؟ سینچائی کی کتنی لاکھ ہیکٹئر زمین پانی میں ڈوب جائیں گی۔ ؟‘

ایک: پراجیکٹ فائنل ہو چکا ہے۔

سات: کیا یہاں سے ہجرت کرنے والوں کو بسانا آسان ہو گا؟

ایک: معاوضہ دیا جائے گا۔

آٹھ: ایک شہر کی موت کا معاوضہ کتنا ہو سکتا ہے ؟

( نہیں سنی گئی آوازیں۔ ماسٹرپلان، ڈیم اور پاور پراجیکٹ کا ذکر۔ پھر ہنسنے کی آوازیں، جیسے تاش کا گیم کھیلا جا رہا ہو)

اس کے بعد پانی کی لہروں کی آواز تھی۔

راؤ کی آواز میں تھرتھراہٹ تھی۔ ’ ہم گواہ ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں ایک شہر نے جل سمادھی لے لی۔ ۔ ۔ ‘

’ ایک تباہی سے نکل کر دوسری تباہی کی طرف۔ ہم انجان ہیں لیکن اس وقت بھی کوئی نہ کوئی ہے، جو ہمارے لئے ’جل سمادھی‘ کا انتظام کر رہا ہے۔ ‘ میں آہستہ سے بولا۔ ریکارڈنگ میں خفیف سی گڑگڑاہٹ کے ساتھ اچانک وہی مانوس سی آواز ابھری۔ راؤ تقریباً اپنی جگہ سے اچھلا۔ ۔ ۔ ’ یہ آواز یہاں بھی۔ ۔ ۔ ‘

ہم اپنی جگہ منجمد، حواس باختہ اور گم گشتہ آواز کی زد میں تھے۔ کمرے میں حبس بڑھ گیا تھا۔ انسانی تباہی کے کولاژ کے آخری فریم نے ہمیں اپنی جگہ ششدر اور مبہوت کر دیا تھا۔ کیا ایک ہنستی مسکراتی دنیا میں ایسا ممکن ہے۔ کیا کسی ماسٹر پلان، کسی ڈیم، کسی بجلی پراجیکٹ کے نام پر ایک قدیم شہر کو زمین بوس کیا جا سکتا ہے ؟ کمرے میں حبس بڑھنے لگا تھا۔ ۔ ۔ نوجوان راہب کی آنکھیں بند تھیں۔ امیتو گھوش سرجھکائے بیٹھا تھا۔ راؤ کی آنکھیں اسٹو ڈیو کی چھت کو دیکھ رہی تھیں۔

اس کے بعد ہم میں سے کوئی بھی کچھ نہیں بولا۔ پہلے راؤ کمرے سے نکل کر گئے۔ اس کے بعد نوجوان راہب بھی اٹھ کر چلا گیا۔ کمرے میں اب میرے ساتھ صرف امیتو رہ گیا تھا۔ کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ ہم میں سے کوئی کچھ نہیں بولا۔ ذرا توقف کے بعد امیتو گھوش نے میری طرف دیکھا

’ کیا ویسا ہوا ہو گا؟ ‘

’ ایسا ہو رہا ہے۔ ‘ میری آواز کانپ رہی تھی۔

’ اب اس کے بعد کیا کریں ؟‘ امیتو نے میری طرف دیکھا۔

میں گہرے سنّاٹے میں تھا۔ حضرت نوح کی کشتی، انقلاب فرانس، جنگ عظیم کی تباہیوں کے بعد اب ایک زندہ شہر کو مرتے ہوئے دیکھنا میرے لئے آسان نہیں تھا۔

میری آواز میں تھرتھراہٹ تھی۔ ’ان تمام آوازوں کو ڈیلیٹ کر دو۔

 

میں کمرے سے نکل کر باہر کی کھلی فضا میں آیا تو آسمان پر بدلیاں چھا چکی تھیں۔ سڑکوں پر پاگل کر دینے والا ٹریفک تھا۔ ٹریفک کے شور اور بے ہنگم آوازوں کی دنیا سے میں باہر نکلنا چاہتا تھا۔ وقت کے ہر فریم میں موجود وہ مانوس سی آواز ابھی بھی مجھے پاگل بنا رہی تھی۔ میں جب گھر کی طرف روانہ ہوا، اس وقت بھی میں ان غیر مرئی آوازوں کی زد میں تھا۔ بیوی نے میرے جلد آنے پر حیرت کا اظہار کیا۔ میں نے بیٹے کے بارے میں پوچھا تو اس کا چہرہ اتر گیا۔

’ وہ ڈر گیا ہے۔ ‘

’ کیوں ؟ ‘

’ اس کا دوست کہیں گم ہو گیا ہے۔ اب وہ نظر نہیں آتا۔ ‘

’یہ تو اچھی بات ہے ‘

’ نہیں۔ اب بیٹا جہاں کہیں بھی ہوتا ہے، اس کی آوازیں سنتا ہے۔ ‘

آسمان میں بجلی گرجی۔ اس درمیان اتنا ہوا کہ بارش شروع ہو گئی۔ مجھے سارا شہر پانی میں جل سمادھی لیتا ہوا نظر آ رہا تھا۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کتاب کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید