FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

آنکھوں سے کہو

               شہر یار

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

مغنی تبسم کے لئے

اے عزیز از جان مغنی

تیری پرچھائیں ہوں لیکن کتنا اتراتا ہوں میں

اعظمی کا مرنا

نجمہ کا بچھڑنا

تیرے بل بوتے پر یہ سب سہہ گیا

بھول کر بھی یہ خیال آیا نہیں مجھ کو

کہ تنہا رہ گیا

تیری الفت میں عجب جادو اثر ہے

تیری پرچھائیں رہوں جب تک جیوں

یہ چاہتا ہوں

اے خدا!

چھوٹی سی کتنی بے ضرر یہ آرزو ہے

آرزو یہ میں نے کی ہے

اس بھروسے پر کہ تو ہے

٭٭٭

 

کلکتہ۲۰۱۰

اے میری امید کے خوابوں کے شہر

میری آنکھوں کی چمک،

آنے والے خوبصورت روز و شب کے اے امیں

سن کہ اب مخلوق تجھ سے خوش نہیں

میرے حق میں یہ سزا تجویز بس ہونے کو ہے

میں تجھے ویران ہوتے دیکھنے کے واسطے

اور بھی کچھ دن ابھی زندہ رہوں

٭٭٭

 

زمین سے دور

اس خلاء سے زمیں کا ہر گوشہ

جتنا دلکش دکھائی دیتا ہے

اس نے خوابوں میں بھی نہیں دیکھا

وہ نہیں آئے گا زمین پہ اب

٭٭٭

 

سفر کی ابتدا نئے سرے سے ہو

سفر کی ابتدا نئے سرے سے ہو

کہ آگے کے تمام موڑ وہ نہیں ہیں

چیونٹیوں نے ہاتھیوں کی سونڈ میں پناہ لی

تھکے تھکے سے لگ رہے ہو،

دھند کے غلاف میں، ادھر وہ چاند ریگِ آسمان سے

تمہیں صدائیں دے رہا ہے، سن رہے ہو

تمہاری یادداشت کا کوئی ورق نہیں بچا

تو کیا ہوا

گزشتہ روز و شب سے آج مختلف ہے

آنے والا کل کے انتظار کا

سجاؤ خواب آنکھ میں

جلاؤ پھر سے آفتاب آنکھ میں

سفر کی ابتدا نئے سرے سے ہو

٭٭٭

خواب کو دیکھنا کچھ برا تو نہیں

برف کی اجلی پوشاک پہنے ہوئے

ان پہاڑوں میں وہ ڈھونڈھنا ہے مجھے

جس کا میں منتظر ایک مدت سے ہوں

ایسا لگتا ہے، ایسا ہوا تو نہیں

خواب کو دیکھنا کچھ برا تو نہیں

٭٭٭

 

خلیل الرحمان اعظمی کی یاد میں

دھول میں لپٹے چہرے والا

میرا سایہ

کس منزل، کس موڑ پر بچھڑا

اوس میں بھیگی یہ پگڈنڈی

آگے جا کر مڑ جاتی ہے

کتبوں کی خوشبو آتی ہے

گھر واپس جانے کی خواہش

دل میں پہلے کب آتی ہے

اس لمحے کی رنگ برنگی سب تصویریں

پہلی بارش میں دھل جائیں

میری آنکھوں میں لمبی راتیں گھل جائیں

٭٭٭

 

نیند سے آگے کی منزل

خواب کب ٹوٹتے ہیں

آنکھیں کسی خوف کی تاریکی سے

کیوں چمک اٹھتی ہیں

دل کی دھڑکن میں تسلسل نہیں باقی رہتا

ایسی باتوں کو سمجھنا نہیں آسان کوئی

نیند سے آگے کی منزل نہیں دیکھی تم نے

٭٭٭

 

بدن کے آس پاس

لبوں پہ ریت ہاتھوں میں گلاب

اور کانوں میں کسی ندی کی کانپتی صدا

یہ ساری اجنبی فضا

میرے بدن کے آس پاس آج کون ہے

٭٭٭

 

شنکھ بجنے کی گھڑی

آنکھ مندر کے کلش پر رکھو

شنکھ بجنے کی گھڑی آ پہنچی

دیو داسی کے قدم رک رک کر

آگے بڑھتے ہیں

زمیں کے نیچے

گائے کو سینگ بدلنے کی بڑی جلدی ہے

بوالہوس آنکھوں نے پھر جال بنا

خون ٹپکاتی زباں پھر سے ہوئی مصروفِ سفر

سادھنا بھنگ نہ ہو اب کے بھی

زور سے چیخ کے اشلوک

پجاری نے پڑھے

آنکھ مندر کے کلش پر رکھو

٭٭٭

میں نہیں جاگتا

میں نہیں جاگتا، تم جاگو

سیہ رات کی زلف،

اتنی الجھی ہے کہ سلجھا نہیں سکتا

بارہا کر چکا کوشش میں تو

تم بھی اپنی سی کرو

اس تگ و دو کے لئے خواب میرے حاضر ہیں

نیند ان خوابوں کے دروازوں سے لوٹ آتی ہے

سنو،

جاگنے کے لئے ان کا ہونا

سہل کر دے گا بہت کچھ تم پر

آسماں رنگ میں کاغذ کی ناؤ

رک گئی ہے اسے حرکت میں لاؤ

اور کیا کرنا ہے تم جانتے ہو

میں نہیں جاگتا، تم جاگو

سیاہ رات کی زلف

اتنی الجھی ہے کہ سلجھا نہیں سکتا

٭٭٭

 

نیا امرت

دواؤں کی الماریوں سے سجی

اک دوکان میں

مریضوں کے انبوہ میں مضمحل سا

اک انساں کھڑا ہے

جو اک کبڑی  شیشی کے

سینے پہ لکھے ہوئے

اک اک حرف کو غور سے پڑھ رہا ہے

مگر اس پہ تو زہر لکھا ہوا ہے

اس انسان کو کیا مرض ہے

یہ کیسی دوا ہے

٭٭٭

 

لمبی چپ کا نتیجہ

میرے دل کی خوف حکایت میں

یہ بات کہیں پر درج کرو

مجھے اپنی صدا سننے کی سزا

لمبی چپ کی صورت میں

میرے بولنے میں جو لکنت ہے

اس لمبی چپ کا نتیجہ ہے۔

٭٭٭

 

لمبے بوسوں کا مرکز

وہ صبح کا سورج جو تیری پیشانی تھا

میرے ہونٹوں کے لمبے بوسوں کا مرکز تھا

کیوں آنکھ کھلی، کیوں مجھ کو یہ احساس ہوا

تو اپنی رات کو ساتھ یہاں بھی لایا ہے

٭٭٭

 

جاگنے کا لطف

تیرے ہونٹوں پہ میرے ہونٹ

ہاتھوں کے ترازو میں

بدن کو تولنا

اور گنبدوں میں دور تک بارود کی خوشبو

بہت دن بعد مجھ کو جاگنے میں لطف آیا ہے۔

٭٭٭

 

سچ بولنے کی خواہش

ایسا اک بار کیا جائے

سچ بولنے والے لوگوں میں

میرا بھی شمار کیا جائے

٭٭٭

 

اسعد بدایونی کی موت پر

خواہشِ مرگ کی سرشاری میں

یہ بھی نہیں سوچا

جینا بھی ایک کارِ جنوں ہے اس دنیا کے بیچ

اور لمبے انجان سفر پر چلے گئے تنہا

پیچھے کیا کچھ چھوٹ گیا ہے

مڑ کے نہیں دیکھا

٭٭٭

 

سوارِ   بے سمند

زمین جس سے چھٹ گئی

باب زندگی کا جس پہ بند ہے

وہ جانتا ہے یہ کہ وہ سوارِ بے سمند ہے

مگر وہ کیا کرے،

کہ اس کو آسماں کو جانے والا راستہ پسند ہے

٭٭٭

 

منظر کتنا اچھا ہوگا

میں صبح سویرے جاگ اٹھا

تو نیند کی بارش میں بھیگا، تنہا ہوگا

رستہ میرا تکتا ہوگا

منظر کتنا اچھا ہوگا

٭٭٭

 

جینے کی ہوس

سفر تیری جانب تھا

اپنی طرف لوٹ آیا

ہر اک موڑ پر موت سے سابقہ تھا

میں جینے سے لیکن کہاں باز آیا

٭٭٭

 

بدن پاتال

ہوس آکاش کے نیچے بھی اتروں

بدن پاتال میں تا دیر ٹھہروں

میں اپنے آپ کو جی بھر کے دیکھوں۔

٭٭٭

 

تجھے کچھ یاد آتا ہے

میں تیرے جسم تک کن راستوں سے

ہوکے پہنچا تھا

زمیں، آواز اور گندم کے خوشوں کی مہک

میں ساتھ لایا تھا

تجھے کچھ یاد آتا ہے۔

٭٭٭

 

جینے کی لت

مجھ سے ملنے آنے والا کوئی نہیں ہے

پھر کیوں گھر کے دروازے پر تختی اب ہے

جینے کی لت پڑ جائے

تو چھوٹتی کب ہے

٭٭٭

 

ازل کی نغمگی

چھپائی اس نے نہ مجھ سے کبھی کوئی بھی بات

میں رازدار تھا اس کا، وہ غم گسار مرا

کئی جنم کا بہت پائدار رشتہ تھا

میرے سوا بھی ہزاروں سے اس کی قربت تھی

شماخت اس کی اگر تھی تو بس محبت تھی

سفر میں زیست کے وہ تیز گام تھا اتنا

رکا نہ واں بھی جہاں پر قیام کرنا تھا

خبر یہ مجھ کو ملی کتنی دیر سے کہ اسے

ازل کی نغمگی مسحور کرتی رہتی تھی

دلِ کشادہ میں اس نے اجل کو رکھا تھا

عذابِ ہجر مقدر میں میرے لکھا تھا

سو باقی عمر مجھے یہ عذاب سہنا ہے

فلک کو دیکھنا ہر دم، زمیں پر رہنا ہے

خبر یہ مجھ کو ملی کتنی دیر سے کہ اسے

اجل کی نغمگی مسحور کرتی رہتی تھی

٭٭٭

 

عجیب کام

ریت کو نچوڑکر پانی کو نکالنا

بہت عجیب کام ہے

بڑے ہی انہماک سے یہ کام کر رہا ہوں میں

٭٭٭

 

کس طرح نکلوں

میں نیلے پانیوں میں گھر گیا ہوں

کس طرح نکلوں

کنارے پر کھڑے لوگوں کے ہاتھوں میں

یہ کیسے پھول ہیں؟

مجھے رخصت ہوئے تو مدتیں گزریں۔

٭٭٭

 

رینگنے والے لوگ

چلتے چلتے رینگنے والے یہ لوگ

رینگنے میں ان کے وہ دم خم نہیں

ایسا لگتا ہے کہ ان کو ذلتیں

مستحق مقدار سے کچھ کم ملیں

٭٭٭

 

ایک سچ

شور سماعت کے در پہ ہے، جانتے ہو

موت کے قدموں کی آہٹ پہچانتے ہو

ہونی کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا

یہ اک ایسا سچ ہے، تم بھی مانتے ہو

٭٭٭

 

زندہ رہنے کی شرط

ہر ایک شخص اپنے حصے کا عذاب خود سہے

کوئی نہ اس کا ساتھ دے

زمیں پہ زندہ رہنے کی یہ ایک پہلی شرط ہے

٭٭٭

 

دیر تک بارش ہوئی

شام کو انجیر کے پتوں کے پیچھے

ایک سرگوشی برہنہ پاؤں

اتنی تیز دوڑی

میرا دم گھٹنے لگا

ریت جیسے ذائقے والی کسی مشروب کی خواہش ہوئی

وہ وہاں کچھ دور ایک آندھی چلی

پھر دیر تک بارش ہوئی

٭٭٭

 

اس اداس شام تک

لذتوں کی جستجو میں اتنی دور آ گیا ہوں

چاہوں بھی تو لوٹ کے جا نہیں سکوں گا میں

اس اداس شام تک

جو میرے انتظار میں

رات سے نہیں ملی

٭٭٭

 

میں ڈرتا ہوں

میں ڈرتا ہوں،

میں ڈرتا ہوں، ان لمحوں سے

ان آنے والے لمحوں سے

جو میرے دل اور اس کے اک اک گوشے میں

بڑی آزادی سے ڈھونڈیں گے

ان خوابوں کو، ان رازوں کو

جنہیں میں نے چھپا کر رکھا ہے اس دنیا سے

٭٭٭

 

میرے حافظے میرا ساتھ دے

کسی ایک چھت کی منڈیر پر

مجھے تک رہا ہے جو دیر سے

مرے حافظے مرا ساتھ دے

یہ جو دھند سی ہے ذرا، ہٹا

کوئی اس کا مجھ کو سراغ دے

کہ میں اس کو نام سے دوں صدا

٭٭٭

 

جو انسان تھا پہلے کبھی

شہر سارا خوف میں ڈوبا ہوا ہے صبح سے

رتجگوں کے واسطے مشہور ایک دیوانہ شخص

ان سنی، ان دیکھی خبریں لانا جس کا کام ہے

اس کا کہنا ہے کہ کل کی رات کوئی دو بجے

تیز یخ بستہ ہوا کے شور میں

اک عجب دل دوز، سہمی سی صدا تھی ہر طرف

یہ کسی بت کی تھی جو انسان تھا پہلے کبھی

٭٭٭

 

سحر کا خوف

شام کا ڈھلنا نئی بات نہیں

اس لئے خوفزدہ ہوں اتنا

آنے والی جو سحر ہے اس میں

رات شامل نہیں

یہ جانتا ہوں

٭٭٭

 

عذاب کی لذت

پھر ریت بھرے دستانے پہنے بچوں کا

اک لمبا جلوس نکلتے دیکھنے والے ہو

آنکھوں کو کالی لمبی رات سے دھو ڈالو

تم خوش قسمت ہو، ایسے عذاب کی لذت

پھر تم چکھوگے

٭٭٭

 

پانی کی دیوار کا گرنا

بامِ خلا سے جاکر دیکھو

دور افق پر سورج سایہ

اور وہیں پر آس پاس ہی

پانی کی دیوار کا گرنا

بولو تو کیسا لگتا ہے؟

٭٭٭

 

سزا کی خواہش

میں نے تیرے جسم کے ہوتے

کیوں کچھ دیکھا

مجھ کو سزا اس کی دی جائے

٭٭٭

 

سزا پاؤ گے

بیچی ہے سحر کے ہاتھوں

راتوں کی سیاہی تم نے

کی ہے جو تباہی تم نے

کس روز سزا پاؤ گے

٭٭٭

 

تسلسل کے ساتھ

وہ، ادھر سامنے ببول تلے

اک پرچھائیں اور اک سایہ

اپنے جسموں کو یاد کرتے ہیں

اور سرگوشیوں کی ضربوں سے

اک تسلسل کے ساتھ وجد میں ہیں

٭٭٭

 

صحرا کی حدوں میں داخل

صحرا کی حدوں میں داخل

جو لوگ نہیں ہو پائے

شہروں کی بہت سی یادیں

ہمراہ لئے آئے تھے

٭٭٭

 

صبح سے اداس ہوں

ہوا کے درمیان آج رات کا پڑاؤ ہے

میں اپنے خواب کے چراغ کو

جلا نہ پاؤں گا یہ سوچ کے

بہت ہی بدحواس ہوں

میں صبح سے اداس ہوں

٭٭٭

 

فرقہ پرستی

نیم پاگل لوگ

اس تعداد میں

کچھ اثر آئے مری فریاد میں

٭٭٭

 

اے تنہائی!

کچھ لوگ تو ہوں جو سچ بولیں

یہ خواہش دل میں پھر آئی

ہے تیرا کرم، اے تنہائی!

٭٭٭

 

خواب کا در بند  ہے

میرے لئے رات نے

آج فراہم کیا ایک نیا مرحلہ

نیندوں نے خالی کیا

اشکوں سے پھر بھر دیا

کاسہ میری آنکھ کا

اور کہا کان میں

میں نے ہر اک جرم سے

تم کو بری کر دیا

میں نے سدا کے لئے

تم کو رہا کر دیا

جاؤ جدھر چاہو تم

جاگو کہ سو جاؤ تم

خواب کا در بند ہے

٭٭٭

وقت

نقش ہیں ہم پیروں کے اس کے

جب ہی پیچھے چھوڑ گیا ہے

اپنی راہ چلا جاتا ہے

ہم اور تم احساس کے پتلے

سوچ رہے ہیں

شاید دیکھے مڑ کے ادھر بھی

ہم سا وہ نادان نہیں ہے

وہ کوئی انسان نہیں ہے

٭٭٭

 

عرفان

میں اس راستے پر کھڑا ہوں جہاں سے

کسی آشنا کے گزرنے کی امید بالکل نہیں ہے

مجھے اپنی، اور اپنے جیسے

سیہ بخت انسانوں کی جستجو ہے

ازل سے ابد تک کی لمبی مسافت

اسی جستجو کے سہارے

مجھے کرنی ہو گی

مرے پاس سے جب بھی گزرا ہے کوئی

تو پوچھا ہے میں نے

مجھے اپنی، اور اپنے جیسے سیہ بخت انسانوں کی جستجو ہے

خدا کے لئے مجھ کو اتنا بتا دو

کہ اس راستے پر

مجھے منزلِ آخری کی تمنا میں

یوں ہی بھٹکنا ہے کب تک

مرے ہاتھ میں ہاتھ لے کر وہ بولا

مجھے اجنبی کیوں سمجھتے ہو

میں بھی

تمہاری طرح منزلِ آخری کی طلب میں

بھٹلتا ہوں، لیکن

تمہاری طرح منزلِ آخری کی حقیقت کو

تسلیم کرنے کو راضی نہیں ہوں

٭٭٭

 

نیا دن نیا عذاب

سرد شاخوں پہ اوس کے قطرے

ہیں ابھی محوِ خواب

اور سورج

رتھ پہ اپنے سوار آتا ہے

٭٭٭

 

فریب در فریب

دن کے صحرا سے جب بنی جاں پر

ایک مبہم سا آسرا پا کر

ہم چلے آئے اس طرف۔۔۔ اور اب

رات کے اس اتھاہ دریا میں

خواب کی کشتیوں کو کھیتے ہیں

٭٭٭

 

سائے کی موت

دن کا دروازہ ہوا بند، شبِ تار آئی

راستے کروٹیں لینے لگے

گلیوں میں اداسی چھائی

سارے ہنگامے، وہ سب رونقیں )دن کی ہمراز(

گونگی جیلوں میں ہوئیں قید

چلو اب دیکھیں

اپنی تنہائی کے اس خول سے باہر

دیکھیں

اپنا سایہ کہاں جاتا ہے شبِ تار میں آج

کون سی یادوں کو چمکاتا ہے

کس پل کو صدا دیتا ہے

آج کیا کھوتا ہے

کیا پاتا ہے

کس طرح بڑھتا ہے، گھٹتا ہے، بکھر جاتا ہے

کیسے مر جاتا ہے

٭٭٭

 

خوابوں کا بھکاری

اپنے معمول کے مطابق ہم

آج بھی روز کی طرح یوں ہی

وادیِ شام سے گزرتے ہوئے

رات کی سرحدوں کو چھو لیں گے

نیند کے در کو کھٹکھٹائیں گے

لاکھ روئیں گے، گڑگڑائیں گے

کاسۂ چشم میں مگر اک خواب

آج کی رات بھی نہ پائیں گے

٭٭٭

 

عرفان کی آخری منزل

کوئی رنگ اور زاویوں کی زباں جانتا ہے

کوئی تال سم کی فغاں جانتا ہے

کوئی لفظ و معنی کے جادو کو پہچانتا ہے

کوئی پتھروں میں چھپی داستانوں کے اسرار سے آشنا ہے

کوئی جسم کی مد بھری وحشتوں، کھردری کروٹوں کی ادا جانتا ہے

مگر کوئی اس سے سوا جانتا ہے

مگر کوئی خود کو خدا جانتا ہے

٭٭٭

 

لازوال سکوت

مہیب لمبے گھنے پیڑوں کی ہری شاخیں

کبھی کبھی کوئی اشلوک گنگناتی تھیں

کبھی کبھی کسی پتے کا دل دھڑکتا تھا

کبھی کبھی کوئی کونپل درود پڑھتی تھی

کبھی کبھی کوئی جگنو الکھ جگاتا تھا

کبھی کبھی کوئی طائر ہوا سے لڑتا تھا

کبھی کبھی کوئی پرچھائیں چیخ پڑتی تھی

اور اس کے بعد مری آنکھ کھل گئی۔۔۔۔ میں نے

سرہانے رکھے ہوئے تازہ روزنامے کی

ہر ایک سطر بڑے غور سے پڑھی، لیکن

خبر کہیں بھی کسی ایسے حادثے کی نہ تھی

اور اس کے بعد میں دیوانہ وار ہنسنے لگا

اور اس کے بعد ہر اک سمت لا زوال سکوت

اور اس کے بعد ہر اک سمت لا زوال سکوت

٭٭٭

 

آشوبِ آگہی

اک گھنیرے شجر کے سائے میں

دو گھڑی بیٹھ کر یہ بھول گئے

قرض ہائے جنوں چکانے ہیں

ہم کو سورج کے ناز اٹھانے ہیں

٭٭٭

 

ہم سفرو

تشنہ لب، پا شکستہ ہمسفرو

اس طرف دیکھو میری بات سنو

دل میں امید کو جگائے رہو

مشعلِ ہجر کو جلائے رہو

پاؤں پڑتی ہیں جو صدائیں، انہیں

سر پٹکتی ہیں جو ہوائیں، انہیں

مڑ کے مت دیکھو۔۔ مڑ کے مت دیکھو

دو قدم اور۔۔ دور ہے کتنا

شب کے صحرا سے صبح کا دریا

٭٭٭

 

وہ کون تھا

وہ کون تھا، وہ کون تھا

طلسمِ شہرِ آرزو جو توڑ کر چلا گیا

ہر ایک تار روح کا جھنجھوڑ کر چلا گیا

مجھے خلا کے بازوؤں میں چھوڑ کر چلا گیا

ستم شعار آسماں تو تھا نہیں

اداسیوں کا راز داں تو تھا نہیں

وہ میرا جسمِ نا تواں تو تھا نہیں

تو کون تھا

وہ کون تھا؟

٭٭٭

 

ایک نظم

مائل بکرم ہیں راتیں

آنکھوں سے کہو۔۔۔ کچھ مانگیں

خوابوں کے سوا… جو چاہیں

٭٭٭

٭٭٭

ماخذ: کوتا کوش ڈاٹ آرگ (ہندی)، مزید ٹائپنگ: اعجاز عبید

ہندی رسم الخط سے ٹرانسلٹریشن بذریعہ

http://uh.learnpunjabi.org/default.aspx

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید