آشا
اسلم جمشید پوری
(ادب سلسلہ شمارہ ایک سے مواد حاصل ہوا)
آشا
وہ خصوصی طور پر آسمان سے نہیں اتری تھی۔ اسی گاؤں میں پیدا ہوئی۔ بڑی ہوئی اور اب گاؤں کی پہچان بنی ہوئی تھی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ گاؤں کی پہلی لڑکی تھی جس نے ظلم سہا اور آہستہ آ ہستہ خود کو ظلم کے خلاف کھڑا بھی کیا۔ ۔ وہ عام سی لڑکی تھی۔
وہ، ماتا دین اور شربتی کی اکلو تی اولاد تھی۔ بچپن ہی سے وہ لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ وہ بہت خوبصورت تو نہیں تھی لیکن نین نقش ایسے کہ چہرے پر، کشش اور بھولپن ہمیشہ طاری رہتا۔ دس با رہ سال کی عمر تک تو وہ توتلی بھی تھی۔ زیادہ تر لوگ اسے سننے کے لیے بے سبب بھی چھیڑتے۔
’’کہاں دالی ہے لڑ تی؟‘‘ گاؤں کے چاچا ایشر نے اسے چھیڑا۔
’’ کہیں نا دالی، بت‘‘اس کے جواب پر لوگ ہنس پڑے۔
’’ الے کوٗ دانت پھار لیے ہو؟‘‘ وہ تھو ڑا طیش میں آ گئی۔
ایشر چاچا، را مو، جو گندر، مو ہن سب مزید ہنسنے لگے۔
’’ میں تھمالی چھکایت کلوں گی۔ بابا چھے ‘‘ وہ ان کی ہنسی سے تنگ آتے ہوئے بو لی۔
’’ دا بول دے، بابا چھوٗ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
رامو اس کی نقل کرتے ہوئے بو لا تو سب ایک بار پھر ہنس پڑے۔ اتنے میں ماتا دین وہاں آ گیا۔ ماتا دین بھنگی تھا۔ اسے ویسے بھی گاؤں کے لوگ بہت کمتر سمجھتے تھے۔ اکثر تو اس سے دور دور ہی رہتے۔ ماتا دین بڑا محنتی اور ایماندار تھا۔ وہ گاؤں کے گھروں میں کام کرتا تھا۔ اس کی بیوی شربتی بھی گاؤں میں کام کیا کرتی تھی۔ دونوں نے اپنی بیٹی کو بڑے جتن سے پا لا تھا۔ وہ دونوں اپنی بیٹی کو، اپنے کام سے دور رکھنا چا ہتے تھے اور اسے پڑھا نا بھی چا ہتے تھے۔ بڑی منت سماجت کے بعد انہوں نے اپنی بیٹی کا نام گاؤں کے اسکول میں لکھوا دیا تھا۔ آشا، ہاں یہی نام تھا اس کا۔ آشا اسکول جانے لگی تھی۔ عمر میں تو وہ سات آ ٹھ سال کی ہو گی جب اسے اسکول میں بٹھایا گیا۔ اپنی کلاس میں وہ سب سے بڑی تھی۔
’’ بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیتھو۔ یہ سب مدے تنگ کر لے ہیں۔ ‘‘ آشا نے ماتا دین کو دیکھ کر آواز لگائی۔ ماتا دین نے چاچا البشر اور دوسرے لڑکوں سے نر می سے کہا۔
’’ اسے تنگ نہ کرو، جاؤ اپنا کام کرو۔ ‘‘
اور سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ آشا محنت کرنا جانتی تھی۔ اسکول میں بھی وہ خوب دل لگا کر پڑھتی۔ لیکن دوسرے بچے اسے دھتکارتے رہتے۔ کبھی کبھی تو استاد بھی اس کے خلاف ہو جاتے۔
’’ سل، دیتھو، یہ مندو(منجو) مجھے تنگ کل لئی ہے۔ ‘‘
اس نے منجو نامی اپنی کلاس میٹ کی شکایت ٹیچر سے کی۔ منجو گاؤں کے مکھیا کی بیٹی تھی۔ مکھیا کا گاؤں پر راج تھا۔ اس کے دو ہٹے کٹے بیٹے تھے، پھر چار پانچ مشٹنڈے بھی ہر وقت بیٹھک پر پہرہ دیتے رہتے تھے۔ مکھیا گری راج برہمن تھا اور اس کے پاس قریب سو بیگھے زمین تھی۔ اتنی زمین تو گاؤں کے اور بھی کئی لو گوں کے پاس تھی، مگر گری راج دبنگ قسم کا آدمی تھا۔ وہ کئی بار سے الیکشن جیت رہا تھا۔ گاؤں کے آدھے سے زیادہ لوگ اس کے ووٹر تھے۔ باقی ماندہ، غریب، مزدور اور کمین، اس کے رعب داب کے آگے آواز تک نہیں نکال سکتے تھے۔ ماتا دین تو بے چا رہ غریب گاؤں کی گندگی صاف کرنے کا کام کرتا تھا۔ کام کے بدلے لوگ اسے اناج دیتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک چیز اور دیتے تھے نفرت، حقارت اور پھٹکار۔ ماتا دین اور اس کی بیوی شربتی ایسی ہی بے عزتی، نفرت اور حقارت کے نوالے اپنے پیٹ میں اتار اتار کر زندگی گذار رہے تھے، مکھیا تو اسے اکثر ذلیل کرتا رہتا تھا۔
’’ کیوں بے ماتا دین، دو دن سے صفائی کے لیے نہیں آیا۔ کہاں مر گیا تھا۔ ‘‘
’’ سرکار، میں شربتی کے گاؤں چلا گیا تھا، کچھ کام تھا۔ ‘‘
’’ بتایا کیوں نہیں۔ یہ کام کون کرے گا تیرا باپ۔ ‘‘
’’ ہمیں کریں گے سرکار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اور وہ مکھیا کے گھر کے ٹائلٹ اور باتھ روم صاف کر کے ہی گھر وا پس جاتا۔ گاؤں میں اب ترقی ہونے لگی تھی۔ گاؤں کی سڑ کیں بھی اچھی ہو گئی تھیں، کھیتی بھی اب بیلوں کے بجائے ٹریکٹر اور دوسری مشینوں سے ہونے لگی تھی۔ گاؤں کے مکھیا اور اس جیسے امیر گھروں میں نیا فیشن آ گیا تھا۔ موٹر سائیکلیں، کاریں، کولر وغیرہ لگ گئے تھے۔ ٹائلٹ اور باتھ روم بن گئے تھے۔ اب دیر سویر مردوں، عورتوں کو جنگل جانا نہیں پڑ تا تھا۔ لیکن گاؤں کی تقریباً نصف سے زیادہ آ بادی آج بھی سو سال پیچھے ہی تھی۔ گاؤں میں ایک ہی اسکول تھا۔ اسکول کے لیے بھی گری راج ہی نے سرکار کو زمین دی تھی۔ اسکول کے ما سٹر بھی مکھیا کو سلا می مارتے تھے۔ مکھیا کی بیٹی منجو اور آشا ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھیں۔ منجو کا اسکول میں سکہ چلتا تھا۔ وہ سب پر سوا ری کرتی تھی۔ ماسٹر بھی اسے کبھی کچھ نہیں کہتے۔ بچے بھی اس کی شکایت ما سٹر سے کرنے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ وہ آ شا کو اکثر چھیڑ تی رہتی تھی۔ ایک بار آ شا نے جب منجو کی شکایت ماسٹر سے کی تو منجو کو بہت غصہ آیا۔ اسنے ما سٹر کے سامنے ہی آشا کی چٹیا پکڑ کر اسے زمین پر گرا دیا۔ آشا کو اس اچا نک حملے کی امید نہیں تھی۔ وہ گر تو گئی پر اٹھتے ہی اس نے منجو کے بال پکڑ لیے۔ اس سے قبل کے منجو، آ شا کے قابو میں آ جا تی، ماسٹر نے منجو کو بچا لیا اور آشا کو پکڑ لیا۔ آشا کے ما سٹر کی گرفت میں آ تے ہی منجو نے آشا کو ایک زبردست گھو نسہ رسید کر دیا۔ آشا کی ناک سے خون نکل آیا۔ ما سٹر نے بیچ بچاؤ کراتے ہوئے آشا کو ڈانٹا۔
’’ تم بے کار میں لڑنے لگتی ہو___‘‘
’’ سل اس نے میلی لبل توڑ دی تھی اور یہ مجھے دھولتی رہتی ہے۔ ‘‘ (اور یہ مجھے گھورتی رہتی ہے )
’’ مجھے منجو نے بتایا تم نے اسے گا لی دی تھی۔ ‘‘
’’ اب آئندہ اگر کسی سے بھی لڑیں خاص کر منجو سے تو تمہارا نام کاٹ دیا جائے گا۔ ‘‘
آشا ہکّا بکّا سی ما سٹر کو دیکھ رہی تھی۔ ایک تو اس کی غلطی نہیں تھی۔ دوسرے اسی کو ما را بھی گیا اور ما سٹر کی ڈانٹ بھی اسی کے حصے میں۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب کیا ہے ؟ اسے پتہ نہیں تھا کہ سماج میں کیا ہو رہا ہے ؟ کون بڑا ہے، کون چھوٹا؟ اس کے بابا اور ماتا کو گاؤں میں سب برا کیوں سمجھتے ہیں ؟ آشا ان باتوں سے بے خبر تھی۔ اسے تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ مکھیا کیا ہوتا ہے ؟ کیوں ہوتا ہے ؟ پھر منجو کیوں اس کو ہمیشہ برا سمجھتی ہے۔ اس سے دور دور رہتی ہے۔
گھر آ کر جب اس نے اپنی ماں سے سب کچھ بتایا تو شربتی نے اسے سمجھایا۔
’’ بیٹا تم اپنے کام سے کام رکھو۔ ‘‘
’’ وہ مدے ما لتی ہے۔ میں بھی اُتھے ما لوں گی۔ ‘‘
’’ نہیں بیٹا، اس کے پاپا مکھیا ہیں۔ ان کے پاس طاقت ہے ‘‘
’’ میلے پاپا بھی تا کت ول ہیں۔ میں بھی تم نہیں ہوں۔ مجھ میں بھی تا کت ہے۔ ‘‘
وہ بے چا ری وہی سوچ اور کہہ رہی تھی، جو جانتی تھی۔ اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ طاقت کیا ہو تی ہے۔ گاؤں کا مکھیا یا پردھان کتنا طاقت ور ہوتا ہے۔ اسے علم ہی نہیں تھا۔ شر بتی نے اپنی بیٹی کو لپٹا لیا اور بے تحاشہ پیار کرنے لگی۔ اس کے زخم کو اپنے دو پٹے سے صاف کرنے لگی۔ ۔ بیٹی کو پیار کرتے کرتے شربتی کا پاؤں ماضی کے آنگن میں جا پھسلا۔
٭٭٭
گر می کے دن تھے۔ دن میں لو چلتی تھی۔ راتیں بھی گرم تھیں۔ ایسے میں گیہوں کے کٹائی کے دن بھی آ گئے۔ دن دن بھر تپتی دو پہر میں کھیت کا ٹنا آسان کام نہ تھا۔ ماتا دین، اس کے بابا طوطا رام، شربتی اور ان کی اکلو تی بیٹی آشا۔ ماتا دین اور طوطا رام تو پو پھٹنے سے پہلے ہی کھیتوں میں پہنچ جاتے اور کٹائی شروع کر دیتے۔ شربتی، سورج نکلنے کے بعد گھر کا کام کاج نپٹا کے اور کھانا تیار کر کے آشا کو گود میں لے کر کھیت پر جاتی تو اسے پیڑ کی چھاؤں میں بٹھا دیتی۔ وہ کھیلتی رہتی اور سب کھیت کاٹنے میں مصروف ہو جاتے۔ مکھیا کے کھیت میں کام کرتے یہ ان کی تیسری پیڑھی تھی۔ بارہ مہینہ، تیسوں دن کام۔ کبھی کھیت کی جتائی تو کبھی بوا ئی___کبھی سردی کی ٹھٹھرتی راتوں میں پانی لگانا، فصل کاٹنا، اناج نکالنا۔ کام تھا کہ ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔ اسی کام اور کھیت میں ماتا دین کے دادا، ان کے بھائی اور ماتا دین کے چاچا اور بابا نے عمریں کھپا دیں تھیں۔ وہ دنیا سے رخصت ہو گئے مگر کام تھا کہ قابو میں ہی نہیں آتا تھا۔ کبھی کبھی ماتا دین سر پکڑ کر سو چا کرتا، بھگوان کا بھی کیا نیائے ہے۔ ؟ہمیں نسل درنسل دوسروں کی غلامی اور مزدوری، اور مکھیا کے خاندان کو نسلوں سے نوابی اور عیش___ ہے بھگوان یہ کیا ہے ؟ کیا ہم اور ہماری نسلیں اسی پر کار دوسروں کے گھر اور کھیت پر کام کرتے کرتے مٹی میں مل جائیں گے۔ کیا ہماری نسل میں کوئی پڑھا لکھا نہیں ہو گا۔ ؟
’’ارے ماتا دین، کہاں کھو گیا۔ دیکھ تیری مانگ تو پیچھے رہ گئی۔ ‘‘
اور ماتا دین سوچ کی بستی سے باہر آ جاتا۔ جلدی جلدی اپنے حصے کی مانگ پو ری کرتا۔ سر کا پسینہ خود راہ بناتے، پورے جسم کا سفر طے کرتے کرتے تا نگوں تک پہنچ جاتا۔ سورج دیوتا کو ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ کم از کم تھوڑی دیر کے لیے بادلوں میں منہ چھپا لے۔ ہمیشہ آگ برسا تا رہتا۔ وہ اور شربتی تھو دی دیر سستا نے کے لیے پیڑ کے نیچے بچی کے پاس چلے گئے تھے۔ طوطا رام کام کرتے رہے۔ ماتا دین نے کمر سیدھی کرنے کو خود کو زمین سے ملا دیا تھا۔ پیڑ کی چھاؤں، ہلکی ہلکی پچھوا ہوا، ویسے تو ہوا گرم تھی لیکن پیڑ کے نیچے آ رام پہنچا رہی تھی، ماتا دین کو نیند آ گئی تھی۔
ماتا دین خواب کی حسین وادیوں میں تھا۔ وہ گاؤں کا مکھیا تھا۔ اس کی بڑی سی بیٹھک پر مجمع لگا ہے۔ گاؤں کے امیر اور رئیس بیٹھے ہیں۔ گری راج بھی ایک کونے میں بیٹھا ہے۔ ماتا دین نے گری راج کو پکارا۔
’’ گری راج___وہاں کیوں بیٹھا ہے۔ ادھر آ۔ ‘‘
’’ جی سرکار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
گری راج کے پاس آنے پر ماتا دین نے اپنا داہنا پاؤں اس کے کندھے پر ٹکا دیا۔
’’ لے داب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اور گری راج پاؤں دابنے لگا تھا۔
’’ اور گری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کل سے تم گھر کا کام بھی سنبھال لو۔ میری ما لش کا کام تم خود کرو گے۔ اپنے بیٹوں کو بھی لگا لینا۔ ‘‘
’’ جی حضور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ اور اپنی لوگائی کو بھی مالکن کی کھدمت کے لئے بھیج دینا۔ ‘‘
گری راج کی گردن ہل ہل کر جی کہہ رہی تھی۔
اچانک ایک زور کی آواز ہو ئی۔ ماتا دین درد سے بلبلاتا ہوا جاگ پڑا تھا۔ مکھیا کے آدمی ادھر آ گئے تھے اور ان میں سے ایک نے اس کے بہت زور کی لات ماری تھی۔
’’ کیوں بے حرام خور، کام چھوڑ کے مزے سے سو رہا ہے۔ ‘‘
بے چا رہ درد سے کراہتا ہوا اٹھ بیٹھا۔
’’ حرام کی توڑ تا ہے اور اپنی لو گائی کو بھی آرام کراتا ہے۔ ‘‘
’’ معاپھ کر دو۔ جرا سی آنکھ لگ گئی تھی۔ ‘‘ ماتا دین گڑ گڑا یا۔
اس سے قبل کے مکھیا کے دوسرے آدمی کی لات ماتا دین کے جسم کو چاٹتی، شربتی بیچ میں آ گئی اور گڑ گڑا تے ہوئے بولی۔
’’ ہجور گلطی ہو گئی۔ ہم ابھی کام پر جا رہے ہیں۔ ‘‘
اور شربتی نے جلدی سے آشا کو اٹھا یا، ماتا دین کا ہاتھ پکڑا اور چلچلاتی دھوپ میں بابا طوطا رام کی طرف چل پڑی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ ماتا دین سے پہلے طوطا رام اور ان کے پتا جی بھی اسی طرح کی زندگی گذار چکے تھے۔ ہر وقت کام ہی کام۔ کام کے بد لے بس، با سی اور بچا کھچا، کھانا___لیکن محنت کے بعد تو یہ کھانا بھی ایسا ہی لگتا جیسے من و سلویٰ ہو۔ ایسے ہی بے شر می کے لقمے تہہ در تہہ اپنے پیٹوں میں اتار کر ماتا دین کی پو ری نسل پہلے جوان، پھر بوڑھی اور پھر اپنی انتم یا ترا تک پہنچی تھی۔
’’ ماں، او ماں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تھا نا دو نا، بھوت لدی ہے۔ ‘‘
آشا کے جملوں نے شربتی کو ماضی کے آنگن سے نکال کر حال کے کمرے میں لا دیا۔ آج جب اس کی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تو اسے اپنے آپ پر بہت غصہ آیا۔ اسے بھگوان پر بھی غصہ آیا۔
ہے بھگوان تو نے ہمیں، اتنا چھوٹا کیوں بنایا۔ ہمیں بھی برہمن بنا دیتا تو تیرا کیا بگڑ جاتا۔ دنیا ہمیں بھنگی کہتی ہے۔ زبردستی کام کرواتی ہے۔ مزدوری بھی پو ری نہیں دیتے۔ اوپر سے نفرت کرتے ہیں۔ حقارت سے دیکھتے ہیں۔ ہے بھگوان کیا ہمارا خون اور ان کا خون الگ ہے۔ کیا ہماری کا ٹھی اور ان کی کا ٹھی میں فرق ہے۔ ہے بھگوان میں نے بہت سہہ لیا۔ تو نے نیچ ذات میں پیدا کیا، میں کچھ نہیں بو لی۔ تو نے ماتا دین سے بیاہ دیا، جس کے گھر کوئی سکھ نہیں ملا، میں کچھ نہیں بو لی۔ اپنی نظروں سے پتی کو جوتوں سے پٹتے دیکھا، میں کچھ نہیں بو لی۔ لیکن آج میری بیٹی کو مارا گیا ہے۔ اب حد ہو گئی ہے اب میں بولوں گی۔ میں اپنی بیٹی کی بے عزتی نہیں سہہ سکتی۔ میں اپنی بیٹی کو غلام نہیں بننے دوں گی۔ اسے پڑھاؤں گی، لکھاؤں گی۔ یہ پڑھ لکھ کر بڑی بنے گی۔ کسی کے گھر بے گار نہیں کرے گی۔ ایک دن لوگ میری بیٹی کے آ گے پیچھے گھومیں گے۔
آشا کی دو بارہ آواز پر وہ وا پس ہوئی اور اسے کھانے کو دیا۔
اگلے دن شربتی، آشا کو چھوڑنے اسکول گئی تو ما سٹر سے الجھ گئی۔
’’ ماسٹر صاحب! کل آپ نے میری بیٹی کو پٹوا یا۔ ‘‘
’’ ارے شربتی، تجھے پتہ ہے تو کیا بول رہی ہے۔ مکھیا کی بیٹی ہے وہ۔ ‘‘
’’ ہاں ! ہاں ! مجھے پتہ ہے پر میری بیٹی کا کوئی کسور ہو تب نا__‘‘
شر بتی اپنا احتجاج درج کرا کے جا چکی تھی۔ اسے وہ دن بھی یاد آ رہا تھا جب اس نے آشا کے داخلے کے لیے ماسٹر سے بات کی تھی۔ پہلے تو ماسٹر نے منع ہی کر دیا تھا۔ پھر جب اس نے ماسٹر کی خوشا مد کی تو وہ تیار ہوا۔ لیکن مکھیا سے پوچھنے کے بعد داخلہ لینے کی بات کی اور ایک دن جب مکھیا اسکول میں آئے تو ما سٹر نے آشا کے داخلے کی بات رکھی۔
’’ہا۔ ہا۔ ۔ ۔ بھئی واہ۔ اب یہ بھی پڑھیں گے۔ چلو یہ بھی کر لو۔ ما سٹر کر لو بھئی داخلہ۔ پڑھ کر کیا کریں گے۔ ہم بھی دیکھیں گے۔ کرنا تو ہماری غلامی ہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
مکھیا کے لہجے میں تمسخر اور حقارت تھی۔
شربتی کو اس سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ تو آشا کا داخلہ چاہتی تھی بس۔ شروع شروع تو آشا کواسکول میں بڑی پریشانی ہو ئی۔ ایک تو اس کا توتلہ لہجہ، دوسرے سب کچھ نیا نیا۔ پھر کچھ دنوں بعد آشا کا دل پڑھائی میں لگنے لگا تھا۔
٭٭
وقت گذرتا گیا۔ چار پانچ سال کیسے ہوا ہوئے، پتہ نہیں چلا۔ اب آشا جوانی کی دہلیز پر پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس کا رنگ سانولا ضرور تھا مگر چہرے کی ساخت غضب کی تھی۔ آنکھیں بڑی حسین تھیں۔ ایک کشش تھی اس کی آنکھوں میں گو یا کوئی مقناطیسی قوت بھری ہو۔ قد بھی اچھا تھا۔ کھلے بال جب ہوا کے دوش پر لہراتے تو نہ جانے کتنے دلوں پر بجلی گرتی۔ گاؤں میں آشا کے چرچے ہونے لگے تھے۔ گاؤں کے آوا رہ لڑکے اسے دیکھ کر آ ہیں بھرتے۔ لیکن مجال ہے کسی کی جو اس سے کچھ کہہ دے۔ آشا مضبوط قوت ارادی کی لڑکی تھی۔ وہ ہمیشہ ظلم کے خلاف لڑنے کو تیار ہو جاتی تھی۔ بچپن سے جوانی تک بہت سے واقعات تھے جب آشا نے دوسروں کی مدد کی۔ لڑکیوں کو لڑکوں سے بچا نا اور دبے کچلوں کی مدد کرنا، اس کا شوق تھا۔ وہ کبھی کسی سے ڈرتی نہیں تھی۔ ایک بار وہ اسکول سے لوٹ رہی تھی۔ اس نے دیکھا راستے میں گاؤں کے دو آوارہ لڑکے، اس کی چچا زاد بہن مینا کو پریشان کر رہے تھے۔ آشا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، وہ ان لڑکوں میں سے ایک سے بھڑ گئی۔ اس نے اس پر گھونسوں کی با رش کر دی۔ دوسرا لڑکا بھیڑ جمع ہو تے دیکھ رفو چکر ہو لیا تھا۔
شربتی کو بیٹی کی جوانی سے خوف آنے لگا تھا۔ وہ جانتی تھی زمانہ کتنا خراب ہے۔ دوسرے نچلے ذات کی عورتوں اور لڑکیوں کو تو لوگ مالِ مفت سمجھتے ہیں۔ اسے اپنی جوانی یاد آ گئی تھی۔ جب وہ جوانی کی دہلیز پر تھی تو اس کے گاؤں کے پردھان کے بیٹے کی نظر اس پر پڑی تھی۔ بس پھر کیا تھا۔ وہ ہر وقت اس کے پیچھے پیچھے رہا کرتا۔ شربتی، پردھان کے گھر کام کاج کے لیے جاتی تھی۔ اپنا بہت خیال رکھتی لیکن طاقت کے آ گے سب بے سود ہوتا ہے۔ پردھان کے بیٹے نے ایک دن اس کا منہ دبا کر اپنے کمرے میں بند کر لیا۔ وہ رو تی رہی اور اس کی قسمت اس پر ہنستی رہی۔ طاقت کے نشے نے اس کے چپے چپے پر تباہی مچائی تھی۔ اسے تو کچھ بھی ہوش نہیں تھا۔ ہوش آنے پر وہ بے سدھ سی پڑی تھی۔ پردھان کا لڑکا سامنے تھا۔ اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔
’’ کسی سے کہا تو تجھے اور تیرے خاندان کو خاک میں ملا دوں گا۔ ‘‘
اور شربتی نے اس معاملے کو اپنے گناہ کی طرح چھپا لیا تھا۔ اسے پتہ تھا پردھان اور اس کے بیٹے کتنے طاقت ور ہیں۔ کچھ مہینوں بعد اس کی شادی ماتا دین سے ہوئی تو وہ مرسینا گاؤں سے فراد پور آ گئی تھی۔ غریبی، بے بسی اور بے غیرتی اس سے چمٹی یوں چلی آئی تھیں گو یا وہ اس کے جہیز کا حصہ ہوں۔ ماتا دین کے گھر کے لوگ بھی مزدور پیشہ تھے اور مکھیا گری راج کے یہاں کام کرتے تھے۔ شادی کے کچھ دن بعد ہی شربتی کو بھی مکھیا کے گھر کام کاج کے لیے جانا پڑا تھا۔ نیا ہمیشہ نیا ہوتا ہے، وہ بھی نئی نویلی دلہن ہی تو تھی۔ اس پر بھی دلکشی سوار تھی۔ جو بن پھوٹا پڑ رہا تھا۔ مکھیا نے اسے ایک بار دیکھا، تو دیکھتا ہی رہ گیا۔
’’ ماتا دین تیری جورو تو بڑی شاندار لگے ہے۔ تو نے بتایا نہیں تیرا، وواہ کب ہوا؟‘‘
ماتا دین شرماتا ہوا اپنے اندر سمایا جا رہا تھا
’’ جی سرکار، بس پچھلے ہفتے ہی تو ہوا ہے۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے آج رات اسے یہیں چھوڑ دو۔ مالکن کی خدمت کے لیے۔ ‘‘
ماتا دین نے تو روبوٹ کی طرح ہر حکم پر سر ہلانا سیکھا تھا۔ کیا کرتا۔ شربتی اسے التجا بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ مگر سب بے سود تھا۔
اور وہ رات مالکن کے بجائے، اسے مالک کی خدمت کرنی پڑی۔ غم، غصہ اور جنون اس کے اندر ابال مار رہا تھا۔ پر کیا کرتی۔ بڑے لوگوں سے ٹکرا نا، خود ریزہ ریزہ ہو جانا ہے۔ یہ تو دنیا میں نہ جانے کب سے چلے آ رہے سلسلے ہیں، غریب بے چارہ مجبور و بے کس ہوتا ہے۔ صحیح کہا ہے کہ غریب کی جورو سب کی جورو ہو تی ہے۔ اگلے دن جب وہ گھر پہنچی تو ماتا دین نے پو چھا۔
’’ مالکن کی کھدمت کی نا تم نے۔ ‘‘
’’ ہاں مالک نے خوب کھدمت لی ہے۔ ‘‘
بے چا رہ ماتا دین سمجھتے ہوئے بھی نا سمجھ بن گیا تھا کہ یہی چا رہ تھا وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ مالک کی خدمت کیا ہوتی ہے۔ مالکن کی خدمت تو بہانا ہوتا ہے۔ مکھیا اس سے قبل بھی اس کی برادری کی کئی بہوؤں، بیٹیوں سے خدمت لے چکا تھا۔ ماتا دین کے دل میں کبھی کبھی بہت جوش آ تا۔ غصے کے مارے اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا، ہاتھوں کی مٹھیاں بھنچ جاتیں۔ جی چاہتا مکھیا کے کئی ہزار ٹکڑے کر دے اور با ہر میدان میں چیل کوؤں کے آ گے ڈال دے۔
وقت دبے قدموں پرواز کرتا رہا۔ شربتی ایک بچی کی ماں بنی۔ بچی کا نام آشا رکھا۔ آشا تھی تو سانولی لیکن چہرہ بہت دلکش تھا۔ آشا، ماتا دین، بابا طوطا رام اور شربتی کے کاندھوں، کاندھوں بڑی ہو تی گئی۔ شروع شروع میں اسے تتلا ہٹ نے کا فی پریشان کیا بعد میں وہ بھی گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہو گئی۔
٭٭
آشا جب سولہ سال کی ہوئی تو اس کی جوانی کے چرچے گاؤں میں پھیل گئے تھے۔ اس نے دسویں کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ پر اب آگے کی پڑھائی کی بات تھی۔ آشا چاہتی تھی آ گے پڑھے۔ لیکن ماتا دین اس کا بیاہ کرنا چاہتا تھا۔ اسی دوران یہ ہوا کہ گاؤں کے پنڈت مدن کا لڑکا چندر موہن اس کی طرف بڑھنے لگا۔ آشا کا دل بھی چندر موہن کے لیے دھڑکنے لگا۔ دونوں اسکول، گھر، کھیت، کھلیان میں چھپے چو ری ملنے لگے۔
’’ آشا۔ ‘‘
’’ ہوں۔ ‘‘
’’تم بہت خوبصورت ہو۔ ‘‘
’’ جھوٹے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ مجھے پتہ ہے میں کتنی خو بصورت ہوں۔ ‘‘ آشا چندر مو ہن کو ٹکا سا جواب دیتی۔
’’ آشا، خوبصورتی صرف رنگ کی نہیں ہو تی۔ خوبصورتی من کی ہو تی ہے۔ پھر رنگ ہے ہی کیا، اصل تو نین نقش ہو تے ہیں، بناوٹ ہو تی ہے، روپ ہوتا ہے اور اس میں تم لا جواب ہو۔ پھر تمہارا نام، لاکھوں کروڑوں میں ایک ہے۔ ‘‘ چندر مو ہن حسن کے دریا کو عبور کر رہا تھا۔
’’ اچھا۔ کیا ہے میرے نام میں۔ ‘‘ آشا مزے لیتی ہوئی بو لی۔
’’ آشا۔ یعنی امید، بھرو سہ، قرار۔ ایک ایسی امید تمہارے نام میں چھپی ہے کہ نا امیدیں رفو چکر ہو جاتی ہیں۔ جگ کی آشا ہو تم۔ نراشا کے اندھیارے میں ایک کرن ہو تم، ایک روشنی ہو، نراش لوگوں کے لیے۔ جہاں ناکامی اپنے جھنڈے گاڑ دیتی ہے، جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آ تا وہاں تم ایک روشنی بن کر آ تی ہو۔ تم سنسار کی ناکا می، نا مرادی، مایوسی، نا امیدی اور کم ہمتی کے لیے را ستہ بن جاتی ہو۔ آشا یعنی نراشا کے ایک یگ کا خاتمہ۔ آشا یعنی نئے یگ کی شروعات۔
’’اچھا بابا بس کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم تو کویتا لکھنے لگے۔ ‘‘
اور پھر دو بے چین روحیں، فا صلے برداشت نہ کر سکیں۔ ان کے اس وصال سے موسم تبدیل ہو گیا، ہوا مہک گئی۔ چرند پرند مست ہو کر جھو منے لگے۔
٭٭
مکھیا کی بیٹھک پر مجمع لگا تھا۔ ایک تازہ مسئلہ زیر بحث تھا۔
’’ مکھیا جی۔ ماتا دین کی لڑکی اور پنڈت مدن کے لڑکے میں جبر دست اشک چل رہا ہے ‘‘ گاؤں کے ایک ادھیڑ کنور سین نے بتایا۔
’’اوہ! یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لونڈیا کے پر نکل آئے ہیں۔ ‘‘
’’ سرکار دونوں اکثر ادھر ادھر دکھائی دیتے ہیں۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھومتے رہتے ہیں۔ ‘‘
’’ جاؤ ماتا دین کو بلا لاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ مکھیا کے حکم پر اس کے مشٹنڈوں میں سے ایک، ماتا دین کے گھر چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں ماتا دین ہاتھ جوڑے حا ضر تھا۔
’’ ہاں بھئی ماتا دین، ہم کیا سن رہے ہیں، تیری لونڈیا پنڈت کے لڑکے سے عشق لڑا رہی ہے۔ ‘‘
’’ سرکار ہم سمجھا دیں گے اسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ ہاں اسے سمجھا دے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ورنہ تو ہمیں جانتا ہے۔ ‘‘
’’ جی سرکار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
ماتا دین نے گھر آ کر شربتی کو سب کچھ بتایا۔ شربتی دونوں کے معاملات سے وا قف تھی۔ اسے چندر موہن اچھا لگتا تھا۔ لیکن وہ معاملے کے انجام سے بھی ڈرتی تھی۔ اس نے کئی بار آشا کو سمجھایا تھا۔
’’ آشا۔ بیٹا تمہارا یہ خواب پو را نہیں ہو پائے گا۔ ایسے خواب مت دیکھو۔ ‘‘
’’ ماں، چندر موہن کچھ دن بعد با ہر پڑھنے چلا جائے گا۔ میں بھی چلی جاؤں گی۔ پھر ہر خواب پو را ہو گا۔ ‘‘
آشا کے حوصلوں کے آ گے شربتی جھک جاتی تھی۔ وہ چندر موہن سے بھی بات کر چکی تھی۔ چندر مو ہن اٹل تھا۔ وہ تو سماج سے لڑ جانے کو بھی تیار تھا۔ شربتی نے مکھیا وا لی بات بھی دونوں کو بتا دی تھی۔ دونوں نے جلد ہی گاؤں چھوڑنے اور شہر جا کر پڑھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
٭٭
ایک دن شام کا وقت تھا۔ آشا اور چندر مو ہن گاؤں کے با ہر کھیت میں گھوم گھوم کر باتیں کر رہے تھے۔ مکا، جوار اور باجرے کے کھیت اب بھرے بھرے لگنے لگے تھے۔ پورے علاقے میں ایک خوشبو سی پھیلی ہوئی تھی۔ موسم سہانا تھا۔ گرمی رخصت ہو رہی تھی اور برسات کی آمد آمد تھی۔ دو ایک بار بارش ہو چکی تھی۔ آسمان پر بادل کے چھوٹے موٹے ٹکڑے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ چاند آہستہ آہستہ روشن ہو رہا تھا، چندر موہن آشا کے پاس تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا گویا چندر موہن چاند ہے اور وہ چاندنی اور چندر مو ہن سے نکلتے ہوئے، وہ سارے سنسار پر چھائی ہوئی ہے۔ سب کو دودھیا کر رہی ہے۔ وہ چندر مو ہن کو پا کر بہت خوش تھی۔ اس کی اندھیری زندگی میں چندر نے جو چاندنی پھیلائی تھی، وہ اسے منور اور مخمور کیے ہوئے تھی۔ ڈھلتی سہانی شام کا مدھم ہوتا اجالا رات سے گلے ملنے کو بے تاب تھا۔ پرندے اپنے ٹھکانوں کی جانب لوٹ چکے تھے۔ ہوا بھی رکی رکی سی تھی۔ کھیتوں پر خاموشی کی ایک چادر سی بچھی تھی۔ گاؤں کے راستے پر اکا دکا بیل گاڑی اور کسان آ تے جاتے دکھائی دے رہے تھے۔ چندر موہن آج زیادہ ہی رو مانی ہو رہا تھا۔ آشا آؤ، اپنے چاند میں سماجاؤ اور آشا نے، نہیں چاندنی نے، خود کو چاند میں سمو دیا تھا۔ ابھی کوئی پل ہی گذرا ہو گا کہ اچانک منظر بدل گیا۔ ایک برق رفتار گاڑی وہاں آ کر رکی۔ بریک کی آواز نے سناٹے کے تھپڑ رسید کر دیا تھا۔ گاڑی میں سے چار پانچ ہٹے کٹے غنڈہ نما لڑکے اترے اور عجیب تیوروں سے دونوں کی جانب بڑھنے لگے۔ چندر موہن اور آشا کی زندگی پر اچانک کثیف با دلوں کے سائے لہرا نے لگے۔ دونوں نے خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ وہ لوگ قریب آئے تو پتہ چلا ان میں دو مکھیا کے بیٹے اور باقی ان کے ساتھی تھے۔ دونوں خطرہ بھانپتے ہوئے ایک طرف کو بھاگنے لگے لیکن وہ کہتے ہیں نا بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ان لوگوں نے دونوں کو گھیر لیا۔ دو تو چندر موہن پر ایسے جھپٹے، جیسے چیل اپنے شکار پر لپکتی ہے، دونوں نے چندر مو ہن کو لاتوں اور گھونسوں کی زد پر لے لیا۔ اس سے قبل کہ آشا کی چیخیں خاموشی کا قتل کرتیں، باقی لڑکوں نے آشا کو دبوچ کر اس کا منہ دبا دیا اور شا ہرا سے دور ایک گنے کے کھیت کی طرف لے گئے۔ چندر موہن کو بے ہوشی کی حا لت میں چھوڑ کر وہ بھی مشن میں شامل ہو گئے۔ آشا آسانی سے ہار ماننے وا لی نہیں تھی۔ اس نے پو ری طاقت لگا کر ایک لڑکے کے لات ماری۔ دوسرے کے ہاتھ میں کاٹ لیا۔ مگر تعداد پھر بھی اہم ہو تی ہے اور پھر مرد کے مقابلے صنفِ نازک۔ آشا بھی مشٹنڈوں کے گھونسوں اور تھپڑوں کے آ کے زیر ہو گئی تھی اور پھر چاروں پانچوں نے آشا کی آشاؤں کو نراشا میں بدلنا شروع کر دیا۔ ہوس کا شیطان اپنا سفر طے کرتا رہا۔ آشا روندی جاتی رہی بالآخر وہ بے ہوش ہو گئی۔ کافی دیر بعد کسی کسان نے انہیں نیم مردہ حا لت میں دیکھ کر شور مچا نا شروع کیا۔ سارا گاؤں، کھیتوں کی طرف دوڑ پڑا۔ ماتا دین اور شربتی کی دنیا ویران ہو چکی تھی۔ آشا مردہ حا لت میں بے سدھ سی پڑی تھی۔ کچھ ہی دوری پر پنڈت مدن کا لڑکا چندر موہن بھی زخم خوردہ، مردہ سا پڑا تھا۔ گاؤں کے لوگوں نے دونوں کو گاڑی میں ڈال کر شہر کے سرکاری اسپتال میں داخل کرا دیا۔ پو لیس بھی حر کت میں آ گئی تھی۔ شربتی کو ہوش نہیں تھا۔ اس کا سب کچھ خاک میں مل گیا تھا۔ ہوش آنے پراس نے پولیس چوکی پر رپورٹ لکھوا دی تھی۔ رپورٹ تو بے نام تھی۔ لیکن سب کو شک بلکہ یقین تھا کہ یہ کام مکھیا کے بیٹوں کا ہی ہے۔ پو لیس نے چھان بین شروع کر دی تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ پو لیس کپتان پچھلے ہفتے ہی بدلا تھا۔ اس نے سارے تھانوں کی پولیس کو ٹائٹ کر دیا تھا۔ معاملہ دبانے کی بھی کوششیں جاری تھیں۔ لیکن بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جا رہی تھی۔ اگلے دن اخبارات کی سرخی پر بھی آشا کے زخم اور چندر مو ہن کے خون کے قطرے نظر آ رہے تھے۔ مکھیا اور اس کے بیٹے گھر چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ پو لیس نے دن رات محنت کر کے ایک مجرم کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس نے تھرڈ ڈگری سے گذرتے ہوئے سب کچھ بتا دیا تھا کہ کس طرح مکھیا اور اس کے بیٹوں نے آشا کے ساتھ اس گھنونے کھیل کا منصوبہ بنایا تھا۔
شربتی اتنی ٹوٹ چکی تھی کہ اب کچھ بچا نہیں تھا۔ آشا زیر علاج تھی۔ شربتی نے ٹھان لیا تھا کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ وہ اپنی لڑائی لڑ رہی تھی۔ گاؤں کے اس کی برادری کے لوگ اس کے ساتھ تھے۔ سب ایک ہو گئے تھے آس پاس کے گاؤں کے دلت بھی ساتھ آ گئے تھے اور ایک طاقت بن چکے تھے۔ آہستہ آ ہستہ معاملہ تحریک بنتا جا رہا تھا۔ پولیس پر دباؤ بڑھنے لگا تھا اور پھر ایک دن سارے مجرم گرفتار ہو کر جیل چلے گئے تھے۔
٭٭
اِدھر آشا اور چندر مو ہن صحت مند ہو کر شہر ہی میں پڑھنے لگے تھے۔ آشا نے گرلز کالج میں داخلہ لے لیا تھا اور ہوسٹل میں رہنے لگی تھی۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ پہلے وہ تعلیم حا صل کرے گی پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہو کر سماج میں پھیلے درندوں سے لڑے گی۔ چندر موہن نے انجینئرنگ کالج جوائن کر لیا تھا۔ دونوں کی کبھی کبھار ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ مکھیا کے تیور ڈھیلے پڑ نے لگے تھے۔ اس نے ماتا دین اور شربتی پر سمجھوتے کا دباؤ بنایا۔ لالچ بھی دیا۔ جب کوئی ترکیب کام نہ آئی تو دھمکیاں دیں۔ یہی نہیں ایک بار عدالت میں تاریخ کے وقت شربتی پر قاتلانہ حملہ بھی کروا یا گیا۔ وہ تو شربتی کی زندگی تھی، جو وہ بچ گئی۔
وقت مسکراتا ہوا فراد پور سے گذرتا گیا۔ آشا نے کسی طرح گریجویشن کر لیا تھا، بی ایڈ بھی مکمل کر چکی تھی۔ اسی دوران پردھانی کے الیکشن آ گئے۔ فراد پور گاؤں ایس سی ایس ٹی کے لیے ریزرو کر دیا گیا تھا۔
ماتا دین کی برادری کے لوگوں نے میٹنگ کی۔
’’ بھئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب بہت ہو گیا اب ہم اور اپمان نہیں سہیں گے۔ چناؤ سر پر ہیں۔ سیٹ بھی ریزرو ہو گئی ہے۔ ہمیں اپنا امیدوار کھڑا کرنا ہے۔ مشورہ دو کسے کھڑا کیا جائے۔ ‘‘
بابا لکھی رام نے برادری کی میٹنگ میں جب شروعات کی تو سب میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ کئی نام آئے پر اتفاق نہیں ہو پایا۔
’’ کوئی یوا نام ہو____‘‘ دھرم جاٹو بو لا
’’ارے، آشا کو کھڑا کرو۔ وہ پڑھی لکھی بھی ہے __
’’ہاں ! ہاں !‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں بلند ہوئیں۔
’’ پر وہ تو شہر میں ہے۔ کیا وہ تیار ہو جائے گی‘‘ ایک آواز ابھری۔
’’ ہاں کیوں نہیں ہم منا لیں گے اسے ‘‘ ایک بزرگ نے بات سنبھالی۔
آشا کے سامنے جب بات آئی تو اس نے بہت غور کیا۔ اسے لگا اب اس کے مشن کا صحیح وقت آ گیا ہے۔ اس نے برادری وا لوں کی آشا کو پو را کرنے کے لیے حا می بھر لی۔ فراد پور گاؤں میں تقریباً دو ہزار ووٹ تھے۔ 700 سے زیادہ دلت ووٹ تھے جب کہ برہمن، پنڈت، گو جر ووٹ بھی آٹھ سو کے آس پاس تھے۔ مسلمان بھی ایک آدھ سو تھے۔ مالی، کمہار اور گڑریے ملا کر دو ہزار بائیس ووٹ بنتے تھے۔ مکھیا کے زیر اثر برہمن، پنڈت اور گو جر تو تھے ہی۔ رعب داب کی وجہ سے ما لی گو جر، کمہار اور مسلمان بھی اسے ووٹ دیتے تھے۔ پر اس بر نقشہ بدل چکا تھا۔ دلتوں کے ساتھ مسلمان بھی آ گئے تھے۔ مالی، کمہار بھی بھی مکھیا سے پریشان تھے۔ گوجر اور پنڈت برادری کے کیچھ لوگ اندر اندر مکھیا کو ہرانا چاہتے تھے۔ گاؤں میں دو ہی امیدوار کھڑے ہوئے۔ مکھیا نے اپنے امید وار کے لیے بہت کوششیں کیں، بڑی زور آزمائی ہو تی رہی۔ الیکشن کے دن خون خرابے کے بھی مواقع تھے لیکن چپے چپے پر موجود پو لیس نے حالات پر قابو رکھا۔ ریزلٹ آ تے ہی آشا کا پرچم بلند ہو گیا تھا۔ مکھیا کے ارمانوں اور آشاؤں کو آشا نے نراشا کے اندھیرے میں بدل دیا تھا۔ اب سیاسی طاقت پسماندہ لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔ ریاست میں بھی، اقتدار میں تبدیل ہوئی تھی اور دلت حمایت والی سرکار، حکومت میں آ گئی تھی۔
٭٭
شربتی، ماتا دین اور اس کی برادری کے لوگوں میں نیا جوش آ گیا تھا۔ دوسری طرف مقدمات میں الجھتے الجھتے مکھیا گری راج کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی گئی۔ پہلے بیٹوں اور اس کے ساتھیوں کو عمر قید ہوئی پھر زمینیں بکنی شروع ہو گئیں۔ دن بہ دن مکھیا کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا تھا۔
آشا نے گاؤں کو ہر طرح سے سدھارنے کی کوشش کی تھی۔ اسکول کو خوب فروغ دیا۔ لڑکیوں کا الگ سے ایک اسکول بھی بنوایا۔ فراد پور آس پاس کے ضلعوں میں بھی مشہور ہو گیا تھا۔ لوگ اسے آشا کے نام سے پہچانتے تھے۔ بہت دنوں بعد، ایک دن آشا کی چندر موہن سے ملاقات ہوئی۔ ’’تم، آج بھی آشا بن کر سب کو موہ رہی ہو۔ ‘‘
’’شاعری نہیں کرو، یہ بتاؤ یہ چاند آج کل کس کے آنگن میں چمک رہا ہے۔ ‘‘
‘‘کہیں نہیں۔ اسے آج بھی آنگن کی تلاش ہے۔ اور اسی تلاش میں چاند، اپنی چاندنی تک آیا ہے۔ ‘‘
’’اوہ یہ بات ہے۔ ‘‘آشا کے چہرے پر خوشی کے ہلکے سے سائے تھے۔
’’میں اپنے بابا سے مشورہ کروں گی‘‘
’’کیوں یہ تو تمہارا ذاتی معاملہ ہے۔ ‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے۔ لیکن ہم لوگ ابھی اتنے ایڈوانس نہیں ہے۔ ‘‘
اب آشا صرف ماتا دین کی بیٹی نہیں تھی، بلکہ پوری برادری کی بیٹی اور شان تھی، جس کی شادی برادری کے لئے بہت اہم تھی۔ اسی لئے ماتا دین نے برادری کے بزرگوں کے سامنے آشا اور چندر مو ہن کی شادی کی بات رکھی تو برادری کے لوگوں میں ابال آ گیا تھا۔ فوراً ایک میٹنگ رکھی گئی۔ برادری کے ایک بزرگ نے کہا
’’آشا ہماری شان ہے۔ آن اور بان ہے اس کی شادی غیر برادری میں کیسے ہو سکتی ہے ‘‘
سب خاموش ہو گئے تھے۔ ایک پڑھے لکھے نو جوان نے کہا۔
’’ آشا پڑھی لکھی ہے۔ شادی میں اس کی مرضی شامل ہونی چاہیے۔ ‘‘
بہت دیر کے بحث و مباحثے کے بعد برادری نے ماتا دین کو سمجھا دیا تھا کہ برادری برادری ہوتی ہے اور اس سے باہر جانا نہ صرف برادری سے غداری ہے بلکہ صدیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے۔
اور آشا کے آکاش پر سیاہ کثیف بادلوں نے چاند اور چاندنی کے درمیان ہمیشہ کے لئے دیوار اُٹھا دی تھی۔
٭٭٭
تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، ادب سلسلہ، شمارہ ایک ۔ جنہوں نے جریدے کی فائل فراہم کی جس سے اس برقی کتاب کا متن حاصل ہوا۔
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید