FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

رئیس صدیقی : بچوں کا فن کار

 

 

 

مختلف ادباء

 

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

(رئیس صدیقی کی کتاب ’باتونی لڑکی‘ سے ماخوذ)

 

 

 

 

 

تشکر:

 

www.idealideaz.com

www.kitaabapp.com

 

 

 

 

 

رئیس صدیقی : ایک نظر میں

 

قلمی نام: رئیس صدیقی

پورا نام: محمد رئیس صدیقی

مقام و تاریخ پیدائش: ۲۷؍دسمبر۱۹۶۳ء، لکھنؤ

تعلیم: ایم۔ اے (ہندی، اردو، انگریزی) بی ایڈ، ڈپلوما اِن ماس میڈیا

اعزازات: سہیل عظیم آبادی اعزاز برائے بچوں کا ادب (ساہتیہ سنسد، پٹنہ)

دہلی اُردو اکادمی اُردو الیکٹرانک میڈیا ایوارڈ (ریڈیو؍ٹی وی)

پدم شری ایوارڈ

انگریزی ویکلی دوارکا سٹی کا بیسٹ میڈیا پرسن ایوارڈ

دُوردرشن کے سالانہ اعزازات وغیرہ

مطبوعات: شیروں کی رانی، ننھا بہادر، شیرازی کہانیاں، باتونی لڑکی، جان پہچان، اچھا خط کیسے لکھیں ؟ اُردو لرننگ کورس، زبان اُردو (قاعدہ، حصہ اوّل، حصہ دوم)

ترجمہ نگاری:دو سائنسی کتابوں کے ہندی سے اُردو ترجمے : (۱) کرشموں کا راز

(۲) آیوڈین کے سپاہی

انگریزی، فارسی و ہندی سے کہانیوں و مضامین کے اردو ترجمے۔

صحافت : ہفت روزہ عمل کانپور، ہندی ماہنامہ دِویہ کُنج دہلی، انگریزی ماہنامہ اِٹرنل انڈیا دہلی، ریڈیو؍ٹی وی : بچوں کے لیے کہانیاں، ڈرامے مضامین اور نظامت وغیرہ۔

ملازمت:۱۹۹۱ء میں UPSCکے ذریعہ ریڈیو؍ٹی وی کے لیے Programme Executiveمنتخب ہوئے۔

۲۰۰۷ء تک آل انڈیا ریڈیو کے اُردو مجلس پروگرام کے نگراں رہے۔ آج کل دوردرشن کے ڈی ڈی اُردو سے وابستہ ہیں۔

‎‎‎٭٭٭

 

 

 

 

رئیس صدیقی سے میری جان پہچان۔ سمیرالحق

 

نئی دہلی کے صفدر ہاشمی روڈ، نزد منڈی ہاؤس میں واقع شری رام سینٹر میں، دہلی اردو اکادمی کے سالانہ جلسۂ تقسیم ایوارڈ کی تقریب تھی اور دہلی کی وزیر اعلیٰ محترمہ شیلا دِکشت نے دہلی ریڈیو اسٹیشن کے اردو مجلس پروگرام کے نگراں جناب رئیس صدیقی کو اس پروگرام میں الیکٹرانک میڈیا ایوارڈ۲۰۰۴ء سے نوازا تھا۔ اس ایوارڈ میں انھیں اکیس ہزار روپے، توصیف نامہ، شیلڈ اور شال پیش کی گئی تھی۔ گزشتہ بیس برسوں کے دوران دہلی اردو اکادمی نے اپنے اس زمرہ کے چوتھے ایوارڈ سے رئیس صدیقی کو نوازا تھا۔ میں اِس پروگرام میں خاص طور پر اُن کے لیے حاضر ہوا تھا۔

رئیس صدیقی گذشتہ ۲۵ برسوں سے الیکٹرانک میڈیا (ریڈیو، ٹی وی) میں سرگرمِ عمل ہیں۔

رئیس صدیقی اُردو زبان و ادب اور الیکٹرانک میڈیا کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ ان کا تعلق اتر پردیش کے شہر لکھنؤ سے ہے۔ ایم اے (اردو، ہندی، انگریزی) اور بی ایڈ کرنے کے بعد صحافت میں دلچسپی کے باعث انہوں نے ایڈوانسڈ ڈپلوما اِن ماس میڈیا کیا۔ اس کے بعد رئیس صدیقی اردو، ہندی اور انگریزی صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ دو برس تک انگریزی ماہنامہ اِٹرنل انڈیا (Eternal India)دہلی، ایک سال تک ہندی ماہنامہ دِویہ کنج(pya Kunj)دہلی اور چار برس تک ہفتہ وار عمل (کانپور) کے نائب مدیر و ریڈیو؍ٹی وی کالم نگار رہے۔

علاوہ ازیں، ان کی دس کتابیں شیروں کی رانی (بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ)، ننھا بہادر (بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ)، شیرازی کہانیاں (بچوں کے لیے ۴۰؍ کہانیاں )، جان پہچان (بچوں کے ادیبوں اور شاعروں سے انٹرویوز)، اچھا خط کیسے لکھیں ؟، اُردو لرننگ کورس (ہندی سے اُردو سکھانے کی مکمل گائڈ)، زبانِ اُردو قاعدہ، زبانِ اُردو حصہ اول، زبانِ اُردو حصہ دوم، کرشموں کے راز (ترجمہ) اور آیوڈین کے سپاہی (ترجمہ) شائع ہو چکی ہیں۔

غزلیں، افسانے، ادبی موضوعات، فلم، کھیل، سائنس اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے انٹرویوز، تراجم اور بچوں کے لیے کہانیاں و مضامین وغیرہ ملک و بیرون ملک سے شائع ہونے والے تقریباً تمام اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔

ہمہ گیر شخصیت کے مالک رئیس صدیقی۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۰ء تک بطور فری لانسر (Freelancer) اسٹیج، ریڈیو اور ٹی وی پر اپنے فن کا جوہر دکھا چکے ہیں۔

دلی دوردرشن پر گھریلو نسخے، یوا منچ، آئینہ، بزم، ساتھ ساتھ، ننھی دنیا، آس پاس، سماچار ڈائری وغیرہ پروگرام پیش کرنے کے ساتھ ہی، آسمان کیسے کیسے ؟، آزادی کی کہانی، بھیڑ میں ایک چہرہ، رمتے روما، جیسے سیریل اور سُمکھی، غریبی، خواہش وغیرہ ٹیلی فلموں، آپس داری اور سڑک کا بیٹا وغیرہ مختصر فلموں میں اپنے فنِ اداکاری کا مظاہرہ بھی کر چکے ہیں۔

رئیس صدیقی کی ادبی میڈیا کی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف ادارے انہیں کئی اعزازات سے سرفراز کر چکے ہیں۔ مثلاً دہلی اردو اکادمی کا الیکٹرانک میڈیا ایوارڈ۲۰۰۴ء، راشٹریہ سہیل عظیم آبادی شِکھر ساہتیہ پُرسکار پٹنہ، پرم شری ایوارڈ دہلی، انگریزی ویکلی دوار کاسٹی کابیسٹ میڈیا پرسن ایوارڈ، دوردرشن کے سالانہ اعزازات وغیرہ۔

اُردو، ہندی اور انگریزی اخبارات و رسائل میں اکثر ان پر لکھی گئی آراء اور ان سے لیے گئے انٹرویوز شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں یونین پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ آل انڈیا ریڈیو؍دور درشن میں پروگرام ایگزیکیوٹیو کی حیثیت سے ان کا تقرر  ہوا۔

آکاشوانی بھوپال، آل انڈیا ریڈیو کی بیرونی نشریات (اردو و ہندی سروس) اور بارہ برس تک آکاشوانی دہلی کے اُردو مجلس پروگرام کے سربراہ رہنے کے بعد آج کل آپ ڈی ڈی اردو دوردرشن دہلی سے وابستہ ہیں۔

آپ ویکلی پروگرام ’’گفتگو۔ واک دا ٹاک‘‘ (Guftgoo: Walk the Talk) کے اینکر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں جو ڈی ڈی اُردو پر ہر اتوار رات 9:30 بجے نشر ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بچوں کے کہانی نگار : رئیس صدیقی۔ مخمور سعیدی

 

 

جناب رئیس صدیقی بڑوں کے لئے بھی لکھتے ہیں اور بچوں کے لئے بھی عام طور پر ہمارے قلمکار بچوں کے لئے لکھنے سے گریز کرتے ہیں اور ایسا غالباً یہ سمجھ کر کرتے ہیں کہ بڑوں کے ادب کے مقابلے میں بچوں کے ادب کی اہمیت نسبتاً کم ہے لیکن اس کی ایک اور وجہ بھی ہے جو زیادہ حقیقی ہے۔ در اصل بچوں کے لئے لکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ اِس کے لئے بچوں کی نفسیات اور اُن کی دلچسپیوں کو سمجھنا اور ایسا طرزِ تحریر اختیار کرنا جو اُن کے لئے قابلِ قبول ہو، بہت ضروری ہے اور ان تقاضوں سے ایک پُختہ کار ادیب ہی عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔ اقبال ہمارے زمانے کے سب سے بڑے شاعر ہیں، اگر بچوں کے لئے لکھنا کوئی کمتر درجہ کا کام ہوتا تو وہ ہر گز اس طرف متوجہ نہ ہوتے، انہوں نے بچوں کے لئے ایسی نظمیں لکھیں جو نہ صرف برسوں سے نصابی کتابوں کی زیب و زینت بڑھا رہی ہیں بلکہ بچے انہیں بے حد ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔

جناب رئیس صدیقی کی جو کہانیاں ہیں وہ بچوں کی نفسیات اور ان کی پسند دونوں کو ملحوظ رکھ کر لکھی گئی ہیں اور رئیس صاحب نے طرزِ تحریر بھی ایسا سادہ، سلیس اور رواں دواں اختیار کیا ہے جو بچوں کے لئے ان کہانیوں کو اور بھی زیادہ قابل مطالعہ بنا دیتا ہے۔ ان کہانیوں کی ایک اور خوبی اخلاقیات کا وہ درس ہے جو ایک موجِ تہہ نشیں کی طرح قدم بہ قدم ساتھ چلتا ہے۔ یہ پہلو اگر موج تہہ نشیں کی طرح نہ ہو کر نمایاں ہو کر سطح پر آ جاتا تو نہ صرف یہ کہ کہانیاں، کہانیاں نہ رہ کر، پند و موعظت کا دفتر بن جاتیں بلکہ ان کی دلچسپی بھی یکسر ختم نہیں تو کم ضرور ہو جاتی اور یہ ان کا ایک بڑا نقص ہوتا۔ یہ رئیس صدیقی صاحب کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ اپنے اصلاحی نقطۂ نظر کے باوجود وہ اس نقص سے دامن بچا لے گئے ہیں۔

مجھے اُمید ہے کہ رئیس صاحب کی کہانیوں کو بچوں میں بھی اور ادبِ اطفال کے قدرشناسوں میں بھی خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

بچوں کے ادیب : رئیس صدیقی۔ مظفر حنفی

 

 

از بس کہ میری ادبی زندگی کا آغاز ہی بچوں کے لیے لکھنے سے ہوا ہے، بڑوں کے لیے تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی کام تو میں نے بعد میں انجام دیے اور اس کڑوی سچائی کا سامنا ہوا کہ عصرِ حاضر میں ہر چند کہ تخلیق کار عموماً تنقید کی نا اِنصافیوں، جانب داریوں اور بالا دستیوں کا شکار ہیں، اور نقادوں کی بے اعتنائی نے سب سے زیادہ ضرر بچوں کے ادیبوں اور شاعروں کو پہنچایا ہے۔ فی زمانہ اردو جس کساد بازاری سے نبرد آزما ہے، اس کے نتیجے میں کتابیں اور رسالے خریدنے کی روایت اردو والوں میں بے حد ضعیف ہو گئی ہے۔ درسی کتب ہی اردو پڑھنے والے بچوں کو مشکل سے دستیاب ہوتی ہیں، بے چارے ادبی کتابیں کہاں سے خریدیں گے۔ لے دے کر ان کے کام کا معاوضہ، شہرت اور تنقیدی اعتراف کے ذریعہ ہی ممکن ہے لیکن ان کا احوال سطورِ بالا میں عرض کر چکا ہوں۔ نقادوں کو میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ سے فرصت ملے تو دوسری جہتوں پر نظر کریں۔

اِس تناظر میں رئیس صدیقی کی بچوں کے لیے تخلیقی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔ رئیس صدیقی چونکہ شروع سے ہی بچوں کے لیے لکھتے رہے ہیں، اس لیے ان کی گفتگو بڑی مسبوط، مربوط اور بچوں کے ادب کے مختلف الابعاد مرتکز نظر آتی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اردو کے ادبی حلقوں میں رئیس صدیقی کے اس کام کی بھی قدر کی جائے گی۔

اقبال چیئر، کلکتہ یونیورسٹی، کولکاتہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

ادب اطفال میں گلابی اُردو اور رئیس صدیقی۔ پروفیسر محمد شاہد حسین

 

 

ادبِ اطفال کے سیاق و سباق میں یہ بات اہم ہو جاتی ہے کہ ادبِ اطفال تخلیق کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے بالغ نظری اور بالغ ذہنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خصوصاً ہمارے عہد کے بچوں کے لیے لکھنا جو جگنو کو دن کے وقت پکڑنے پہ بضد ہیں۔ در اصل اس سوپر سانک عہد کے بچے کا ذہن اتنا بالیدہ ہو چکا ہے کہ ہر چیز کا عقلی جواز چاہتا ہے۔ چنانچہ اس کی نفسیاتی ضرورتوں کو پورا کرتا ہوا ادب تخلیق کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

ناقدینِ ادب، ادبِ اطفال اور اس کے خالقوں کو بہ نظر کم دیکھتے ہیں۔ حالانکہ ادبِ اطفال بچوں کی ذہن سازی کرتا اور ان کے کردار کو جِلا بخشتا ہے۔ ان کے ذہن پر کوئی مثبت نقش ثبت کر کے مستقبل کو تابناک بنا سکتا ہے، اچھا انسان بننے میں معاون ہو سکتا ہے۔ اس سب کے باوجود اردو میں ادبِ اطفال کی طرف سے بے اعتنائی عام ہے۔

ایسے میں رئیس صدیقی کا دم غنیمت ہے جو ستائش اور صلے سے بے نیاز اور ادبِ اطفال میں اپنی دلچسپی اور انہماک کا مسلسل مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ادبِ اطفال میں تنوع ہونا چاہیے۔ ایک ہی طرز اور ایک انداز کی چیزیں اس کے ذہن پر بار ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ موضوع کے ساتھ ساتھ اس کے اسلوب، ہیئت اور تکنیک میں بھی رنگا رنگی ہونی چاہیے۔ رئیس صدیقی کی کہانیاں موضوع کے تنوع کی وجہ سے خاصی دلچسپ ہو گئی ہیں۔ اس میں ’’ننھا بہادر‘‘ بھی ہے۔ ’’بلی رانی‘‘ بھی ہے۔ ’’وفادار راجا‘‘ بھی ہے۔ ’’بزدل ساتھی‘‘ بھی ہے۔ ’’چالاک مرغا ‘‘ بھی ہے۔ ’’عقلمند سوداگر‘‘ بھی اور ’’حاضر جواب لڑکا ‘‘ بھی۔ ان میں وہ بیانیہ کا بھی استعمال کرتے ہیں اور مکالموں کا بھی۔ کہیں کہیں انھوں نے فلیش بیک کی تکنیک بھی استعمال کی ہے اور حیوانوں کو انسانوں کی طرح بات چیت کرتے ہوئے بھی دکھایا ہے۔

رئیس صدیقی کی ان کہانیوں کا جزوِ اعظم ان کا اخلاقی عنصر ہے۔ وہ اسے اس سلیقے سے برتتے ہیں کہ کہانی پند و نصیحت نہ بن کر کہانی ہی رہتی ہے اور اخلاقی عنصر کا نور پردے کے پیچھے سے چھن چھن کر عیاں بھی ہوتا رہتا ہے۔ بچوں کی دلچسپی اور پسندیدگی کے پیشِ نظر وہ حیرت و استعجاب کے عناصر کو بھی بہت ہنر مندی سے لاتے ہیں۔

برائی پر نیکی کی فتح بچوں کے معصوم ذہن کو بہت بھاتی ہے۔ وہ اچھائی کو فتح دلانے والے ہیرو کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھتے ہیں۔ اس عنصر نے بھی ان کی کہانیوں کو چار چاند لگایا ہے۔

بچوں کے ذہن سے مطابقت رکھتا ہو اسلوب ادبِ اطفال کی مقبولیت میں بنیادی رول ادا کرتا ہے۔ رئیس صدیقی کو بھی اس سے کافی فائدہ پہنچا ہے کیوں کہ ان کی کہانیوں کا اسلوب بھی نہایت سادہ اور رواں ہے۔ اس میں گلابی اردو کی لطافت ہے۔ مزید یہ کہ وہ بات کو سیدھے سادھے انداز میں براہِ راست کہتے ہیں تاکہ بچوں کے ذہن پر بار نہ ہو۔

جانوروں کی کہانیاں ہمیشہ سے بچوں کی دلچسپی کا باعث رہی ہیں۔ ان میں جب وہ جانوروں کو انسانوں کی طرح کام کرتے اور بات چیت کرتے دیکھتے ہیں تو حیرت واستعجاب میں ڈوب جاتے ہیں۔ چنانچہ رئیس صدیقی نے بھی جانوروں کے کردار پر مبنی کئی کہانیوں کو دلچسپ بنا کر پیش کیا ہے۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بہ اعتبار موضوع، ہیئت، تکنیک، افادیت اور بہ اعتبار اسلوب یہ کہانیاں ادبِ اطفال میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔

٭٭٭

 

 

 

میری نظر میں : رئیس صدیقی۔ ڈاکٹر شمع افروز زیدی

 

ہمارے یہاں بچوں کے ادب پر ادیبوں نے بہت کم توجہ دی ہے بلکہ یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ بچوں کے ایسے ادیب آٹے میں نمک کے برابر ہیں جنہوں نے خالصتاً بچوں کے لیے ادب تخلیق کیا ہو۔ شاید ہمارے ادیب اس جانب توجہ دینا ضروری نہیں سمجھتے جتنی کہ بڑوں کے ادب کی جانب دیتے ہیں۔ در اصل بچوں کے لیے لکھنا زیادہ دشوار مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ بچوں کے لیے لکھتے وقت ان کی ذہنی سطح پر اترنا اشد ضروری ہوتا ہے۔ مصنف کو ایسے الفاظ تراشنا پڑتے ہیں جو قابلِ فہم اور آسان ہوں اور ان میں اصلاحی پہلو بھی کار فرما ہو اور بچوں کی دلچسپی کا سامان بھی موجود ہو۔

بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لیے صالح اور پاکیزہ ادب کی ضرورت سے کسی بھی طرح ان کار نہیں کیا جا سکتا البتہ نفسِ مضمون تبلیغ کی صورت اختیار نہ کرے تو بہتر ہے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ رئیس صدیقی صاحب یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں اور بچوں کے ادب میں نو بہ نو اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ رئیس صدیقی کی توجہ ابتدا سے ہی بچوں کی جانب رہی ہے۔ انہوں نے اوائل عمر سے ہی بچوں کے لیے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ یہ دور الیکٹرانک میڈیا کا ہے، اس کے باوجود بچے نانی دادی سے بھی کہانیاں سننا پسند کرتے ہیں اور پڑھنا بھی چاہتے ہیں۔ پڑھنے کی اہمیت کسی دور میں بھی کم نہیں ہوتی۔ بچے آج بھی اچھی کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہیں کہ لفظوں کی اہمیت اور تقدس ہر دور میں رہا ہے۔ کتابوں میں لکھا اور پڑھا ہوا ذہنوں میں تا عمر محفوظ ہو جاتا ہے اور بچوں کی ذہنی بالیدگی کو حسن عطا کرتا ہے۔

رئیس صدیقی قابلِ مبارکباد ہیں کہ میڈیا سے منسلک رہنے اور بے پناہ مصروف ہونے کے باوجود بچوں کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ بچے ہی ہمارے مستقبل کے معمار ہیں۔

مدیر اعلیٰ ماہنامہ ’’بیسویں صدی‘‘

نئی دہلی۔

٭٭٭

 

 

ادبِ اطفال کا سالار : رئیس صدیقی۔ ڈاکٹر معصوم شرقی

 

 

ہندوستان کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں اردو میں ادبِ اطفال کی کم مائے گی کا احساس ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ ایسے ادیب و شاعر خال خال ہیں جنہوں نے بچوں کے لئے کہانیاں اور نظمیں تخلیق کرنے میں اپنی تخلیقی زندگی وقف کر دی ہو۔ افسوس کا مقام ہے کہ بچوں کے ادیبوں اور شاعروں کو ہمارے نقادوں نے یکسر نظر انداز کیا۔ انہیں آج تک وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق ہیں۔ ایسے ادباء و شعراء کے تئیں یہ بے اعتنائی ادبی جرم کے مترادف ہے۔

رئیس صدیقی ادبِ اطفال کے سالار ہیں۔ وہ اُردو زبان و ادب اور الیکٹرانک میڈیا کے فعال ادیب و شاعر ہیں۔ ان کی ادبی و ثقافتی اور میڈیا کی خدمات قابلِ تحسین ہیں۔ وہ گزشتہ ربع صدی سے بچوں کے ادب پر مختلف انداز سے کام کر رہے ہیں اور آئندہ بھی نت نئے پروجیکٹ پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ رئیس صاحب بچوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں۔ زبان سادہ، سلیس اور رواں دواں ہے۔ ان دنوں ان کا میدانِ عمل صرف ادب اطفال ہی ہے جس پر اب تک ان کی کئی کتابیں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔

(ماہنامہ پالیکا سماچار، نئی دہلی، اگست ۲۰۱۱ء)

٭٭٭

 

 

 

ادبِ اطفال کا مشاق کھلاڑی: رئیس صدیقی۔ رئیس الدین رئیس

 

 

جیسا کہ سبھی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ بچوں کے لیے لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے، حقیقت پر مبنی ہے۔ کچھ اہل قلم تو بچوں کے لیے قلم اٹھانے سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ یہ کام انھیں اپنے شایانِ شان نہیں معلوم ہوتا مگر جو لوگ ادبِ اطفال کی تخلیق میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ عملی طور پر جانتے ہیں کہ بڑوں اور بچوں میں ذہنی طور پر خاصا فرق ہوتا ہے۔ بچوں کے ادیب یا شاعر کو اس کام کے لیے اپنی ذہنی سطح سے نیچے اتر کر بچوں کی ذہنی سطح کے قریب آنا پڑتا ہے۔ بچوں کی زبان، ان کی طرزِ فکر اور ان کی دلچسپیوں کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے اور ساتھ ہی بچوں کو بالواسطہ نیکی کا پیغام دیا جائے اس بات کا بھی التزام و اہتمام روا رکھنا پڑتا ہے۔

رئیس صدیقی بطور بچوں کے ادیب چونکہ ان تمام مراحل سے بخیر و خوبی گزر چکے ہیں اس لیے اس فن میں وہ ایک مشاق کھلاڑی کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ بچوں کو کئی کتابیں عطا کر چکے ہیں، ان میں ان کی بچوں کی کہانیوں کی کتاب ’’شیروں کی رانی‘‘ اور ’’ننھا بہادر‘‘ شرفِ قبولیت سے سرفراز ہو چکی ہے اور اب بچوں کی کہانیوں پر مشتمل ان کی نئی کتاب ’’شیرازی کہانیاں ‘‘ جلوہ گہ آفاق پر جلوہ افروز ہو کر خراجِ تحسین وصول کر رہی ہے۔

اِن کی سبھی کہانیاں بچوں کی زبان، ان کا مزاج اور ان کی دلچسپی کو ملحوظ خاطر رکھ کر تخلیق کی گئی ہیں اور اس بات کو بھی ذہن میں رکھا گیا ہے کہ کہانیوں کے وسیلے سے بچوں میں مذہب کی عظمت، قومیت اور حب الوطنی کے جذبات بیدار ہوں۔ ان کی پیش کردہ ہر کہانی بچوں میں انسانیت نوازی اور تہذیب و اخلاق کی روح پھونکنے کا کام انجام دیتی ہے۔

خوبی کی بات یہ بھی ہے کہ اس درس و تدریس کو انھوں نے پند و نصائح اور وعظ و موعظت نہیں بننے دیا۔ ان کی تبلیغ و نصیحت اور درس و تدریس موجِ تہہ نشیں کی طرح کہانی میں اندر ہی اندر رواں رہتی ہے جس سے کہانی کہانی ہی بنی رہتی ہے، تبلیغی مضمون بن کر طبیعت پر بارِ گراں نہیں بنتی۔

الغرض ساری کی ساری کہانیوں میں انسانیت اور شرافت کا سبق دے کر بچوں کو ایک اچھا انسان اور ایک اچھا شہری بنانے میں مثبت کردار نبھاتی ہیں۔

رئیس صدیقی میڈیا کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ آل انڈیا ریڈیو کے پروگرام ’’اردو مجلس ‘‘ نے انھیں ایک با وقار شناخت عطا کی ہے۔ اس وقت وہ دُوردرشن کے اُردو چینل سے وابستہ ہیں۔ رئیس صدیقی کی شناخت صرف ایک صحافی کی حیثیت سے نہیں ہے۔ وہ ایک ادیب بھی ہیں اور بالخصوص بچوں کے ادب کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ اب تک ان کی متعدد کتابیں شائع ہو کر اہلِ علم سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔

میں نے بچوں کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور ان سے لطف اندوز بھی ہوا ہوں لیکن جو لطف مجھے ان کی کہانیوں میں ملا وہ شاید اور کہیں نہیں ملا۔ کتاب اس قدر دلچسپ ہے کہ جب میں نے اس کی قرات شروع کی تو ایک ہی نشست میں پوری کتاب ختم کر دی۔

رئیس صدیقی کی کہانیوں کی متعدد خصوصیات ہیں اور وہ تمام خصوصیات اس مجموعہ میں بھی موجود ہیں۔

بچوں کا ادب تخلیق کرنا آسان نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے ادیب بھی بچوں کا ادب نہیں لکھ پاتے۔

رئیس صدیقی جب بچوں کے لیے لکھتے ہیں تو وہ خود کو بچہ بنا لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں بچوں اور بڑوں، دونوں کو بے حد پسند آتی ہیں۔

(ماہنامہ ایوانِ اُردو، دہلی، ستمبر ۲۰۱۲ء)

٭٭٭

 

 

 

 

بچوں کے ادیب : رئیس صدیقی۔ بسمل عارفی

 

رئیس صدیقی اپنے فرض منصبی کی مصروفیات کے باوجود جس جذبے اور انکسار کے ساتھ اردو زبان و ادب کی آبیاری میں مصروف ہیں اور تصنیف و تالیف کا جو عمدہ ذوق اپنا رکھا ہے، وہ انہیں ممتاز رکھنے کے لیے کم نہیں ہے۔ ان کی ہمہ جہت صلاحیتوں کا اعتراف اُردو دُنیا پہلے ہی کر چکی ہے اور اُنہیں سرکاری اور غیر سرکاری ایوارڈ سے نوازا بھی جا چکا ہے۔ رئیس صدیقی ریڈیو سے باضابطہ طور پر منسلک ہونے سے قبل ہی بچوں کے پروگرام ترتیب دینے کی وجہ سے ریڈیو آرٹسٹ کے طور پر معروف ہو چکے تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بہت سے پروگرام ترتیب دیے جن میں انہوں نے اداکاری بھی کی ہے۔ پروگرام کے توسط سے انہیں بچوں سے ملنے جلنے اور ان کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا، یہیں انہیں بچوں کی دلچسپیاں معلوم ہوئیں، ان کی نفسیات تک رسائی ہوئی اور انہیں بچوں کے لیے لکھنے کی تحریک بھی یہیں سے ملی، جسے بعد میں انہوں نے مشن بنا لیا۔

رئیس صدیقی کی ادبی زندگی کی شروعات بچوں کی کہانیوں سے ہوئی اور انہوں نے بہت سی کہانیاں لکھیں۔ ان کہانیوں میں طبع زاد اور ترجمہ دونوں شامل ہیں۔ رئیس صدیقی نے جتنی بھی کہانیاں لکھیں، خواہ وہ طبع زاد ہوں یا تراجم، اس بات کا خیال ضرور رکھا کہ بچوں کی نفسیات پر اس سے بُرے اثرات نہ پڑیں اور نہ ہی کہانی دلچسپیوں سے خالی ہو بلکہ کہانی ختم ہوتے ہوتے کوئی ایسا سبق آموز نقطہ ضرور قائم کر جائے، جو بچوں کی کردار سازی میں معاون ہو اور آگے چل کر ان کے روشن مستقبل کی ضامن بنے۔ رئیس صدیقی کی کہانیاں تخلیق کے ابتدائی دنوں سے ہی اخبار و رسائل میں شائع ہونے لگیں اور انہیں بچوں کے ادیب کے طور پر جانا پہچانا جانے لگا جس کا شہرہ ان کی کہانیوں کی پہلی کتاب ’’شیروں کی رانی‘‘ کی اشاعت کے بعد ہوا۔

’’شیروں کی رانی‘‘ نے خاصی مقبولیت حاصل کی۔ اس مقبولیت کے بعد رئیس صدیقی کی کہانیوں کا انتظار کیا جانے لگا۔ مدیر ان و قارئین کے اس تقاضے سے انہیں وہ قوت حاصل ہوئی، جو ہر فنکار کو اپنے فن کی داد ملنے کے بعد حاصل ہوتی ہے اور وہ مسرور ہو کر مزید خود سپردگی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہو جاتا ہے۔ بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے لکھتے رئیس صدیقی ان کی نفسیات کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل میں بھی دلچسپی لینے لگے اور پھر اردو زبان نے انہیں سنجیدہ کر دیا۔ انہیں شدت سے احساس ہوا کہ اردو زبان کی ابتدائی درسی کتابیں موجود ہیں، ان میں اضافہ کرنے اور انہیں نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا انہوں نے ’’زبانِ اردو‘‘ قاعدہ، حصہ اول اور حصہ دوم ترتیب دے کر شائع کی، ظاہر ہے، ان کی یہ پیش کش بھی بچوں ہی کے لیے تھی۔

ان درسی کتابوں کی پذیرائی کے بعد ان کے حوصلے بلند ہوئے اور اس سے آگے کی منزل پر کام آنے والی کتاب ’’اچھا خط کیسے لکھیں ‘‘ جس کا تعلق بھی بچوں ہی سے ہے، ترتیب دی اور بچوں کو خط لکھنے کی طرف راغب کرنے اور انہیں اس بہانے مشق کرانے کی سبیل پیدا کی۔ زبان کے معاملے میں رئیس صاحب ایسے اور اتنے سنجیدہ ہوئے کہ ایک اور کتاب ’’اردو لرننگ کورس‘‘ بھی ترتیب دے ڈالی جو ہندی سے اردو سیکھنے والوں کے لیے بیش قیمت تحفہ ثابت ہوئی۔

ان کی کتاب ’’جان پہچان‘‘ دہلی اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہو چکی ہے۔ انٹرویوز کے اس مجموعہ میں ان بیس شاعر و ادیب کے انٹرویوز شامل ہیں، جو بچوں کے ادیب کے طور پر معروف ہیں۔ انٹرویو کے لیے سوالوں کو ترتیب دیتے وقت رئیس صدیقی نے بچوں کے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کو اہمیت دی ہے، جس نے انٹرویو کو دلچسپ اور معلوماتی بنا دیا ہے۔

بچوں کی کہانیوں سے ادبی زندگی کا آغاز کرنے والے جب اردو زبان و ادب کی بقا کے لیے سنجیدہ ہوئے، تو ایسے ہوئے کہ کئی کتابیں ترتیب دے ڈالیں۔

رئیس صدیقی بطور بچوں کے ادیب چونکہ ان تمام مراحل سے بخیر و خوبی گزر چکے ہیں اس لیے اس فن میں وہ ایک مشاق کھلاڑی کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ بچوں کو کئی کتابیں عطا کر چکے ہیں۔ اب بچوں کی کہانیوں پر مشتمل ان کی نئی کتاب ’’ننھا بہادر‘‘ جلوہ گہہِ آفاق پر جلوہ افروز ہو کر خراجِ تحسین وصول کر رہی ہے۔ قریب سو صفحات پر محیط رنگین و حسین سرورق سے آراستہ اس کتاب کو مکتبہ پیامِ تعلیم، جامعہ نگر، دہلی جیسے معیاری مطبع گھر نے شائع کیا ہے جو بچوں کی معیاری کتب شائع کرنے میں شہرت رکھتا ہے۔ کتاب میں ۲۵؍ کہانیاں پیش کی گئی ہیں۔

بچوں کے لیے خود کو وقف کر دینے والے رئیس صدیقی کا قلمی سفر جاری ہے اور شیخ سعدی شیرازی کی گلستاں و بوستاں سے ماخوذ ۴۰؍ کہانیوں پر مشتمل کہانیوں کا مجموعہ ’’شیرازی کہانیاں ‘‘ کے بعد اب ۲۵؍ کہانیوں پر مبنی نیا مجموعہ ’’باتونی لڑکی‘‘ منظر عام پر آ رہا ہے۔

پس رئیس صدیقی کی اس خود سپردگی کے بعد یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ وہ بچوں کے ادیب ہیں، جن کا سفر جاری ہے اور ماضی کی روشن لکیروں کو دیکھتے ہوئے بچوں کو ان سے مزید دلچسپ اور سبق آموز کہانیوں کی توقعات رکھنی چاہئیں۔

نائب مدیر، ماہنامہ ملّی اتحاد، نئی دہلی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

رئیس صدیقی : اہل فکر و نظر کے آئینہ میں

 

 

بچوں کا ادب اور رئیس صدیقی۔ ڈاکٹر تنویر احمد علوی

 

رئیس صدیقی ایک اچھے دوست، اچھے انسان اور بہت اچھے منتظم ہیں۔ انہوں نے اپنی ان صفتوں پر ایک اور صفت کا پچھلے چند برسوں میں اضافہ کر لیا ہے، جو ہر طرح لائقِ تحسین اور قابل قدر ہے۔

یہ ان کا تصنیف و تالیف کا شوق ہے۔ اور اس کی بھی ایک سمت سفر ہے جس کو انہوں نے چُنا ہے اور ایک نہایت اہم اور ضروری کام کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اور یہ اردو ان کی محبت اور اردو زبان کی ترویج وترقی سے ان کی دل چسپی کا نتیجہ ہے۔ بچوں کے لئے لکھنا بظاہر جتنا آسان ہے، اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ بچوں کی اپنی زبان ہوتی ہے، انداز بیان ہوتا ہے، ان کی سیکھی اور بنائی ہوئی لفظیات ہوتی ہیں۔ اور اس میں باتیں کرنا اور دوسروں کی کہی ہوئی بات کو سمجھنا ان کے لئے ایک فطری عمل ہے۔ اور ایک ایسی قدرتی حد ہے، جس کو وہ پار نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ عمر کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ اس میں ماحول کے اچھے بُرے اثرات بھی شامل رہتے ہیں۔

بچے کے لئے اُس کی مادری زبان یا اُس کے ماحول کی بات چیت کی بولی، اظہار کا سلیقہ اور طریقہ اس کے لئے سیکھنے سمجھنے اور خود اپنی گفتگو اور جستجو کو اُس کے ذریعہ آگے بڑھانے کا موقع ایک قدرتی دین کے طور پر ہوتا ہے۔

شروع شروع میں بچہ جو کچھ سیکھتا ہے، وہ اپنی مادری زبان کے ہی ذریعہ سیکھتا ہے۔ چاہے وہ جغرافیہ ہو، تاریخ ہو، سماجی معلومات ہو یا سائنسی معلومات۔ وسیلہ مادری زبان یا اس کے ماحول میں ہونے والی یا پائی جانے والی گفتگو ہوتی ہے لیکن آج کل لوگ مادری زبان کو سیکھنے اور سمجھنے پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ تلفظ اور املا کے بارے میں بھی ہماری معلومات ضرورت کی سطح سے بھی بہت نیچی ہوتی ہے۔

پہلے تو اردو زبان کو پڑھایا ہی نہیں جاتا تھا۔ اب سے دو سو برس پہلے اس وقت کے انگریز حکمرانوں نے اردو کی تعلیم و تدریس پر بھی توجہ دی اور ایسی کتابیں لکھی گئیں جن کی وجہ سے ہندوستان کی اس عام زبان کو سیکھنے، اس کے محاورے کو سمجھنے اور اس کے الفاظ کو درستگیکے ساتھ ادا کرنے میں سہولت ہو۔ مگر اُس وقت بھی بچوں کو یہ زبان کیسے سکھائی جائے، اس خاص مقصد سے کوئی کام نہیں ہوا۔ دھیرے دھیرے اس پر ہماری توجہ بھی مبذول ہوئی اور ایسا لٹریچر بھی سامنے آیا جو بچوں کے لئے لکھا گیا تھا۔ اور ان کی نفسیات اور تعلیمی ذوق و شوق کو پیشِ نظر رکھ کر کچھ تخلیق پارے تیار کئے گئے تھے۔ مولانا محمد حسین آزادؔ، حالیؔ اور سرسیّد بھی اس طرف توجہ فرما ہوئے لیکن سب سے زیادہ کام مولانا اسمٰعیلؔ میرٹھی نے کیا۔ اس کے بعد اس ضرورت کو محسوس کرنے والے کچھ اور ادیب بھی پیدا ہوئے۔ اب سے کچھ پہلے جامعہ کے شفیع الدین نیر صاحب نے پوری زندگی اس کام کے لئے وقف کر دی۔

بچوں کے لئے ایسی چھوٹی سادہ اور سلیس زبان میں کتابیں لکھنا جن تک بچے، نسبتاً آسانی سے پہنچ جائیں، اس سلسلے میں ایک نہایت اہم اور ضروری کام ہے جو نسبتاً زیادہ محنت اور خلوصِ خاطر کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ آسان نہیں ہے کم سے کم پڑھے لکھے طبقہ کے لئے کہ وہ مشکل الفاظ کا سہارہ لئے بغیر اپنی بات کہہ جائیں اور اس طرح کہہ جائیں کہ وہ بچوں کو ذہن نشین اور خاطر نشاں ہو جائے۔ انگریزی میں ہم ایسی بہت سی پرکشش کتابیں دیکھتے ہیں جن میں بچوں کے لئے بہت کچھ لکھا اور شائع کیا گیا۔ اس میں اس زبان کے عالمی چلن اور اس کی پذیرائی کو بھی دخل ہے۔ اُردو میں اس کام کی انجام دہی ایک گہری دلچسپی، خلوصِ نیت اور علمی خدمات سے سرتاپا تعلق کے بغیر اردو زبان کے لئے یہ کام کون کرے جس میں چند در چند اُلجھنیں اور مشکلات درپیش ہیں۔

رئیس صدیقی کی یہ کوشش قابل تحسین ہے کہ انہوں نے پچھلی ربع صدی میں اس کام سے اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور بچوں کے لئے کتابیں لکھیں۔ چھوٹی چھوٹی مگر خوبصورت کتابیں، صاف ستھرا انداز اور سادہ شگفتہ الفاظ، اُردو زبان کی ساخت الف، ب، ت، ث، سکھانے کی کوشش اس انداز سے عمل میں آئی ہے، جس پر اس سے پیشتر اس طرح غور و فکر نہیں کیا گیا۔ ’’قاعدہ بغدادی‘‘ اُن بچوں کے لئے تھا اور ہے جنہیں ’’قرآن پاک‘‘ پڑھنے کی غرض سے بٹھایا جاتا تھا، اردو سیکھنے اور سکھانے کے لئے کچھ کتابچے بھی تھے، مگر حروف و الفاظ کو الگ اور ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر کیسے سیکھا اور سکھایا جائے، اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا سکی۔

زبانِ اُردو حصہ اوّل میں سب سے پہلے اردو حروف تہجی لکھے گئے ہیں اور ان کی ترتیب وہ ہی رکھی گئی ہے جو ہماری زبان میں مروج ہے۔ اس کے بعد ان حروف کی فہرست دی گئی ہے، جو ہائے دو چشمی کے ساتھ مخلوط ہو کر آتے ہیں، اگرچہ اردو میں ایک خاص سطح پری، ن م، و بھی ہماری قصباتی اور دیہاتی زبان میں ہاکار آوازوں کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں مگر وہ ہمارے حروف تہجی میں داخل نہیں۔ رئیس صدیقی نے بھی اپنے ہاں ان کو شامل نہیں کیا ہے۔

بچوں کی سہولت کے پیش نظر انہوں نے ہم شکل حروف کو ایک دوسرے کے ساتھ لکھا ہے۔ اس طرح کو تحریری طور پر اپنے قلم سے لکھنا نئے سیکھنے والوں کے لئے سہولت کا باعث بن سکتا ہے۔ عربی اور فارسی کے لئے چودہ حروف الگ سے دئے گئے ہیں، یہ صحیح ہے لیکن جہاں تک آوازوں کا معاملہ ہے اردو کی طرح فارسی میں بھی بہت سی آوازیں اپنی نہیں ہیں، وہ عربی ہی سے ماخوذ ہیں۔

رئیس صدیقی صاحب نے اردو حروف کی لکھائی میں سکھانے کی غرض سے کچھ ہدایات بھی حروف کے ساتھ لکھی ہیں۔ اصل مسئلہ ’’املا‘‘ کا ہے۔ اور اس پر رئیس صدیقی نے زیادہ تفصیل سے نظر ڈالی ہے۔ جو ایک محنت طلب کام ہے اور عملی دُشواریوں اور دقتوں سے اس کا گہرا واسطہ ہے انہوں نے اعراب کو لکیر کھینچ کر دکھایا ہے تاکہ بات کو سمجھنے اور سمجھانے میں سہولت ہو۔

علامت جزم، مد، تشدید اور تنوین کو بھی سمجھایا گیا ہے اور یہ کام غالباً پہلی مرتبہ اردو زبان کی تدریسی ضرورتوں کے پیشِ نظر سامنے آیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ پہلا حصہ بے حد اہم ہے۔ املائی نقطۂ نظر سے کہاں کس حرف یا کس علامت کو استعمال کیا جائے اس کے متعلق جو اشارہ اور اشارات اور ہدایات رئیس صدیقی صاحب کے ہاں ملتی ہیں، وہ قابل توجہ ہیں۔

رئیس صدیقی صاحب نے حصہ دوم میں بچوں کا ذخیرۂ الفاظ بڑھانے کے لئے ایسے الفاظ کا سہارا لیا ہے جس سے آج کل کی زندگی میں ان کو واسطہ پڑتا ہے۔ یہ ایک مناسب طریقہ کہا جا سکتا ہے۔

ہمارے گھروں میں جن باتوں کے متعلق کوئی تصور یا ذہنی تصویر نہیں پائی جاتی، بچوں کے لئے اس کو سمجھنا مشکل ہے۔ رئیس صدیقی صاحب نے اس کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی یہ بات قابلِ تعریف ہے۔

رئیس صدیقی صاحب نے اس سلسلے میں مذہبی معلومات اور تعلیم کے ساتھ وابسطہ اخلاقی تقاضوں کو بھی سامنے رکھا ہے اور بچوں کے اپنے رویے، فکری پیمانے اور انداز نظر کے مطابق بھی کچھ باتوں کو شامل کیا ہے۔

اُردو لرننگ کورس رئیس صدیقی صاحب کی ایک اور کتاب ہے۔ اُسے بھی انہوں نے بہت سوچ بچار کے ساتھ ترتیب دیا ہے اور مختلف مسائل پر جو اُردو سیکھنے والوں کو پیش آتے ہیں، خصوصیت کے ساتھ الگ الگ عنوان قائم کر کے روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہندی کے ذریعہ اردو سکھانے کی ایک قابلِ تحسین کوشش کی گئی ہے۔

اُردو کا مسئلہ ہندی والوں کے لئے کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے کہ دونوں کی قواعد ایک ہے۔ حروف، افعال اور افعال کے متعلق زمانہ کی تقسیم ایک ہے۔ دُشواری صرف پیش آتی ہے وہ یہ ہی کہ اُردو میں جو آوازیں عربی اور فارسی سے ماخوذ ہیں اور اُن الفاظ کے ساتھ آئی ہیں جو براہِ راست عربی یا فارسی کے ذریعہ اُردو کو منتقل ہوئے ہیں، ان کا الگ الگ تلفظ تو مشکل ہے لیکن حرف اور لفظ کی صورت میں پہچان ضروری ہے کہ اس کے بغیر مزاج نہیں بنتا۔

رئیس صدیقی صاحب نے مختلف علامتوں والے حروف و الفاظ کو الگ الگ لکھ کر ان لوگوں کو ذہن نشین کرانے کے لئے سلسلہ در سلسلہ ان الفاظ اور حروف کو پیش کیا ہے جو ان کے تلفظ کو پوری طرح نہیں جانتے اور املائی سہولتوں کی حد تک رئیس صاحب نے حرف و صوت کے اس پیچیدہ مسئلے کو سلجھانے کی ایک سنجیدہ و علمی کوشش کی ہے۔

اگر ہم غور سے رئیس صدیقی صاحب کے کام کو دیکھیں اور اس کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ اندازہ ضرور ہو گا کہ انہوں نے بچوں کو اردو سکھانے کے طریقے اور سلیقے پر اپنے طور سے غور کیا ہے اور اس کا امکان ہے، جو لوگ اس سطح پر زبان سیکھنے یا سکھانے کے مرحلے میں ہیں، ان سے مشورہ بھی کیا ہو۔

ان کی ایک اور چھوٹی سی کتاب ہے۔ اس میں اس امر کی کوشش کی گئی ہے کہ نئے لکھنے پڑھنے والوں کو خط لکھنے کے کچھ آداب اور طریقے سکھائے جائیں۔ اس خوب صورت کتاب کا نام ہی انھوں نے ’’اچھا خط کیسے لکھیں ؟‘‘ رکھا ہے۔ اس میں زیادہ تر خط وہ ہیں جو رشتہ داروں کے نام ہیں یہ ایک ضروری کام بھی ہے۔ اور اس سلسلے میں رئیس صدیقی کا مشورہ بھی قابلِ توجہ اور لائق تعریف ہے۔

رئیس صدیقی صاحب بچوں کے لئے کہانیاں بھی لکھتے رہتے ہیں اور پھر یہ کہنے کا موقع ہے کہ ایسی کہانیوں کے لئے عام سلیقہ و طریقہ کام نہیں آتا۔ کہانی کا نام اس کے کردار اور ان کا تعارف ایک الگ آرٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ رئیس صدیقی صاحب نے اپنی کہانیوں کے ذریعہ اُسے سمجھنے اور سلجھانے کی کوشش کی ہے۔

ڈاکٹر تنویر احمد علوی

شعبۂ اُردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی

(ماہنامہ پیش رفت، دہلی، اگست ۲۰۰۳ء)

 

 

 

 

 

بچوں کا بڑا ادیب : رئیس صدیقی۔ انور شمیم انورؔ فیروز آبادی

 

ایک مہذب اور صاف ستھرے سماج اور ملک و ملت کے زریں مستقبل کے لیے ادبِ اطفال کی جتنی ضرورت ہمیں کل تھی، آج بھی ہے، بلکہ کل سے زیادہ آج ہے، لیکن ادبِ اطفال کی حرماں نصیبی یہ ہے کہ اس موضوع کو جس درجہ اہمیت ملنی چاہیے تھی، افسوس اسے کبھی نہ مل سکی۔

جملہ وجوہات میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں بچوں کے لکھنے والے ادیبوں کو ادب میں (اردو ادب نوازوں میں بھی) وہ مقام نہیں دیا جاتا جو غیر ممالک کے ادب میں ادبِ اطفال کے ادیبوں کو حاصل ہے۔ اس کے با وصف کچھ شعرا و مصنّفین نے عملی طور پر اپنی ذمہ داری محسوس کی اور پوری توجہ، محنت، لگن اور خلوص و دیانتداری سے اپنے فرض کی انجام دہی میں پورا پورا حصہ لیا۔ شعرا نے عمدہ نظمیں اور مصنّفین نے اچھی اچھی کہانیاں تخلیق کیں، لیکن بدلتی ہوئی قدروں کے اس دور میں نونہالانِ وطن کے لیے لکھنے والے ادیبوں کی ذمہ داری پہلے سے بڑھ گئی ہے، جب کہ ادبِ اطفال کی تخلیق پہلے سے کم بلکہ بہت کم ہو گئی ہے۔ خصوصاً اُردو ادبِ اطفال میں، جس کے سبب بچوں کی ذہن سازی و تربیت میں شائستگی اور خود داری میں کمی آئی ہے۔ اُردو ادبِ اطفال کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے، لیکن بڑھتے ہوئے ان اندھیروں میں بھی روشنی کے دھارے ان ہی اندھیروں سے مسلسل محوِ جنگ دِکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں ایک نام رئیس صدیقی کا ہے۔ وہ ایک با شعور و عمیق النظر شاعر بھی ہیں۔ ان کی مرصع غزلیات ملک و بیرون ملک کے رسائل میں ممتاز مقام پاتی ہیں۔ تاہم ادبِ اطفال سے انہیں خصوصی لگاؤ ہے۔ حالانکہ ان کی شدید مصروفیات کے باوجود ان کے گل فشاں قلم سے نونہالانِ وطن کے لیے تعمیری اور دلچسپ کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں، جن سے بچے خاصے محظوظ ہوتے ہیں۔

بچوں کے نئے اور پرانے قلم کاروں سے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ’’جان پہچان‘‘ ایک علاحدہ اور انوکھا لطف دینے والی کتاب ہے۔ اس سے قبل ’’اچھا خط کیسے لکھیں ‘ (فنِ خطوط نگاری)، اردو کورس (ہندی اور اردو سکھانے والی مکمل گائڈ) زبانِ اردو (قاعدہ) زبان اردو (حصہ اول) زبان اردو (حصہ دوم) شیروں کی رانی، ننھا بہادر، شیرازی کہانیاں، کرشموں کے راز، آیوڈین کے سپاہی‘‘ وغیرہ درجنوں کتابیں ہیں۔ نیز رسائل میں شائع ہوئے منظور و منشور مضامین مستزاد ہیں۔

رئیس صدیقی نے جاگتے ہوئے ذہن کے ساتھ ادبِ اطفال کے سفر میں جا بجا خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی کہانیوں میں وعظ و پند کا شور نہیں بلکہ دوستی اور خلوص کی دھیمی دھیمی اور بھینی بھینی مہک ہے۔ ان کی تحریر میں مجموعی طور پر بچوں کی زبان سے بھی پوری پوری آگہی پائی جاتی ہے جس کے سبب ان کی کہانیوں میں اصلیت اور تاثیر بھرنے کا سلیقہ بھی بولتا محسوس ہوتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ اپنی کہانی میں اصلیت اور تاثیر بھرنے کا ایسا جنون بھی نہیں کہ ان کا بیان سپاٹ پن کا شکار ہو جائے۔ ہر حال میں ان کا قلم تابع اعتدال ہی رہتا ہے۔

عام کہانیوں کے مقابلے ان کی کہانیوں کو درجہ اسناد اس لیے بھی حاصل ہے کہ ان کے یہاں لفظیات کے پھولوں سے کشیدہ کیے گئے عطر کی جو خوشبو ہے وہ بڑی خوشگوار دل نواز ہے۔ جس کے باعث ان کا اسلوب مزید تازگی اور شادابی کا حامل بن گیا ہے۔

رئیس صدیقی کی کہانیوں میں کردار نگاری کی جو دلکش جگمگاہٹ ہے، اس کا تعلق صرف کہانیوں سے نہیں، زندگی کی سچائیوں سے بھی اس کی گہری وابستگی ہے۔ اسی لیے ان میں محض کاغذی زیب و زینت نہیں بلکہ زندگی کے مشاہدات کا نور بھی جلوہ ریز ہے اور جذبات کی صداقت بھی۔ مثلاً کتاب ’’ننھا بہادر‘‘ کی افتتاحی کہانی جس کا عنوان ہے ’ننھا بہادر‘، اور دوسری کہانی ’دلیر انسان‘ دونوں کہانیوں میں اصلیت بھی ہے، زندگی کی سچائی اور مشاہدات کا نور بھی ہے، نیز زندگی کی قابلِ قدر سچائی اور لائقِ تحسین جذبات کی صداقت بھی، لیکن بشمول ان کی ان دونوں کہانیوں کے ان کی ساری کہانیوں کا قابل تعریف پہلو کہانیوں کا اختصار بھی ہے۔ کیونکہ لمبی لمبی کہانیوں کا وہ زمانہ اب نہیں۔ اب تو قارئین بچے بھی اور سامعین بچے بھی لمبی لمبی کہانیوں سے اُوب جاتے ہیں۔ اس لیے بچے چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ اس لیے ایک طویل کہانی کے مقابلے تین مزیدار کہانیاں اچھی رہیں گی۔

ان مختصر کہانیوں کا ایک افادی پہلو یہ بھی ہے کہ مختصر کہانی انہیں حفظ بھی ہو جاتی ہے اور بچوں کا وقت بھی کم خرچ ہوتا ہے۔ گویا آم کے آم گٹھلیوں کے دام یا ایک ٹکٹ دو مزے کے مصداق ہے اور یہ ایک بڑی بات ہے۔ کیونکہ رئیس صدیقی نے یہ چیلنج قبول کیا کہ یہ زمانہ ٹی۔ وی اور انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اس مقناطیسی کشش میں بچوں (اور بڑوں میں بھی) الیکٹرانک میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

یہ دَور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ تفریح کا خواہشمند ہے، مثلاً کرکٹ دیکھنے کے شیدائی بھی پانچ روزہ کرکٹ میچ دیکھتے دیکھتے اُوب جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے 50-50 اورز پر مشتمل ایک روزہ (ون ڈے میچ) جو اپنے اختصار کے باعث زیادہ بہتر اور مسرت آگیں محسوس ہوتا ہے، جبکہ ٹونٹی ٹونٹی (20-20) اورز پر مشتمل میچ اس سے بھی زیادہ نشاط انگیز اور خوشگوار معلوم ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرزِ انداز پر رئیس صدیقی کی کہانیاں ہیں۔ جو الف لیلہ، ہزار داستان سے زیادہ ناول اور ناول سے زیادہ افسانہ اور افسانے سے بھی زیادہ مختصر لیکن زیادہدلچسپ اور لطف آگیں ہوتی ہیں اور پڑھنے والوں کا وقت بھی کم خرچ ہوتا ہے۔

رئیس صدیقی نے سارے حقائق پر سرِتسلیم خم کرتے ہوئے بچوں کے ادب کی ایک نئے انداز کی تعمیر و تشکیل کی اور ایک خاص انداز کے ساتھ بچوں کے ادب کا ایک مستحسن سلسلہ شروع کیا اور ان کی عملی جد و جہد رنگ لائی۔ یہ مختصر کہانیاں بچوں میں مقبولیت پانے لگیں۔

میری نظر میں ان کی کتابوں کی خوبی اور بھی ہے، جس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ ان کا خلوصِ دل ان کی ہر کتاب میں بولتا محسوس ہوتا ہے۔ کہانی کار کو کم سے کم الفاظ کا سہارا لے کر اپنی بات کو پوری کرنے پر مکمل عبور حاصل ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جو کہانی کو اختصار اور تاثیر عطا کرتی ہے۔ ہر اچھی کہانی میں موضوع کی زبردست اہمیت ہوتی ہے۔ کہانی کی پہلی دوسری سطور سے ہی تجسس کی فضا قائم کر دی جاتی ہے۔ کہانی کے اختتام میں قاری کے ذہن و دل پر چونکا دینے والی ایک دلکش معنوی خوشبو کی کشش چھا جاتی ہے۔

الغرض رئیس صدیقی کی ہر کہانی موضوع اور انداز بیان کے باعث دلچسپ ضرور ہوتی ہے۔

انور شمیم انورؔ فیروز آبادی

(ماہنامہ ’’بزم سہارا‘‘، دہلی، مارچ ۲۰۱۳ء)

 

 

تعمیری فکر کا بچوں کا ادیب : رئیس صدیقی۔ اقبال انصاری

 

میرے پیارے دوستو!

رئیس صدیقی سے میں ایک زمانے سے واقف ہوں۔ یہ واقفیت نزدیکی بھی ہے، تفصیلی بھی۔ ان کے جس وصف نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، ان کی تحریروں سے بھی زیادہ، وہ یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ نہیں بولتے، لیکن جب بھی بولتے ہیں تعمیری بولتے ہیں، اور صرف بولتے ہیں نہیں، لکھتے بھی تعمیری ہی ہیں۔ اگر ان کے منہ سے کبھی کسی کی تنقید بھی سنی تو محسوس ہوا کہ اس کے پس منظر میں بھی مثبت سوچ اور تعمیری جذبہ کار فرما ہے۔ یہ مثبت سوچ اور تخلیقی منشا ان کی تحریروں میں بھی نمایاں ہے۔

میرے لئے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ میں انہیں بہتر شاعر سمجھوں یا بہتر ڈرامہ نویس، بہتر مترجم سمجھوں یا بہتر زبان داں (Linguist)سمجھوں یا بچوں کا بڑا ادیب۔ ان کی شاعری تراجم اور لسانیات وغیرہ پر گفتگو پھر کبھی۔ یہاں چند سطور میں بچوں کے ادیب کی حیثیت سے ان کا سر سری جائزہ لینا مقصود ہے کہ ان کا ’’ننھا بہادر‘‘ پیش نظر ہے۔ مکتبہ پیامِ تعلیم، جامعہ نگر نئی دہلی کی شائع کردہ کتاب رئیس صدیقی کے فعال قلم سے لکھی گئی پچیس کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ادیب رئیس صدیقی کے فن پر اردو ادب کی قد آور شخصیات نے خامہ فرسائی کی ہے جو رئیس صدیقی کے فنی اوصاف کو بڑے والہانہ خلوص کے ساتھ عیاں کرتی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ بچے چاہے جس عمر کے ہوں، ان کے لئے لکھی گئی کتابوں کی زبان اتنی سادہ، سلیس اور دلچسپ ہونی چاہئے کہ بچے ایک بار کتاب شروع کرنے کے بعد اس میں کھو جائیں اور اسے ختم کئے بغیر رکھنے سے گریز کریں۔ اگر کسی کتاب کو بچے ایک نشست میں ہی ختم کر ڈالتے ہیں تو ہم اسے کتاب کی کامیابی بھی جانیں گے اور مصنف کی کامیابی بھی۔ ’’ننھا بہادر‘‘ ہمارے خیال میں ایک ایسی ہی کتاب ہے جسے بچے ایک نشست میں ختم کر ڈالیں گے۔ مجموعے میں شامل یہ پچیس کہانیاں دلچسپ تو ہیں ہی ایک افادیت کی حامل بھی ہیں، جنھیں ان کے اختصار نے صرف متوجہ کن اور خوب صورت ہی نہیں کیا ہے بلکہ ہر کہانی اگلی کہانی کو پڑھنے کی ترغیب بن گئی ہے۔ مشکل الفاظ سے گریز اور طویل جملوں کے فقدان نے بھی ان کہانیوں کو دلچسپ بنانے اور خوب صورت کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ رئیس صدیقی کی یہ کتاب بھی ان کی دوسری کتابوں کی طرح بچوں میں خاصی قبول ہو گی اور بچوں کی ذہنی ارتقا میں معاون ثابت ہو گی۔

ــــ اقبال انصاری

( ہفت روزہ ’’مسرت‘‘، نئی دہلی، ۱۵؍ستمبر۲۰۱۲ء)

٭٭٭

 

 

 

بچوں کی نفسیات کا ماہر کہانی کار : رئیس صدیقی۔ سہیل انجم

 

رئیس صدیقی کا قلم انتہائی صاف ستھرا، سادہ و سلیس اور رواں دواں ہے۔ وہی تحریر کامیاب تحریر مانی جاتی ہے جو عام فہم زبان میں ہو اور براہ راست دل میں اُتر جانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ ’’ننھا بہادر‘‘ کی تمام کہانیاں عام فہم ہیں اور دلوں میں اُترنے والی ہیں۔ پہلی کہانی ’’ننھا بہادر‘‘ ہے۔ قاری جب اس کہانی کو پڑھ کر ختم کرتا ہے تو بے ساختہ چونک اٹھتا ہے، کیونکہ اس کا مرکزی کردار محسنِ انسانیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کردار ہے۔ اس کہانی میں غضب کی نصیحت پوشیدہ ہے۔ اسی طرح ’’دلیر انسان، اثر کڑوے پانی کا، انسانیت کا پاک چہرہ، عقلمند سوداگر، ایک چھوٹا سا گھر، چھپا دُشمن‘‘ اور ’’عقلمند کسان‘‘ بھی ایسی کہانیاں ہیں جو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ باقی کہانیاں بھی غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں یہ کہانیاں انتہائی آسان زبان میں ہیں وہیں یہ طوالت سے لبریز نہیں ہیں۔ کئی کہانیاں تو ایک ڈیڑھ صفحہ پر ختم ہو جاتی ہیں لیکن کئی صفحات کے اثرات چھوڑ جاتی ہیں۔ ان میں ہلکا پھلکا مزاح بھی ہے جو دلچسپی کو برقرار رکھتا ہے۔ ایک اور بہت خاص بات یہ ہے کہ رئیس صدیقی کسی بھی کہانی میں مبلّغ اور مقر ر نہیں بنے ہیں۔ وہ جو پیغام دینا چاہتے ہیں اس کو انھوں نے قاری کے اوپر تھوپا نہیں ہے۔ بلکہ وہ بین السطور میں موجِ تہ نشین کی شکل میں موجود ہے جب کہانی ختم ہوتی ہے تو وہ پیغام از خود سطح آب پر اُبھر آتا ہے۔ رئیس صدیقی کو کہیں بھی پروپیگنڈہ نہیں کرنا پڑا ہے اور اسی لیے کہانیاں اپنے مشن میں کامیاب ہیں۔ کچھ کہانیاں تو بے حد ہلکی پھلکی ہیں لیکن ان میں بھی کوئی نہ کوئی ایسا سبق موجود ہے جو بچوں کے کردار میں تعمیری رنگ بھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر اتنا خوبصورت اور تعمیری کہانیوں کا مجموعہ شائع کرنے پر رئیس صدیقی اور مکتبہ جامعہ نئی دہلی مبارکباد کے مستحق ہیں۔

ــــ سہیل انجم

(ماہنامہ ’’کتاب نما‘‘، دہلی، دسمبر ۲۰۱۲ء)

 

 

ادبِ اطفال کا پارس۔ رئیس صدیقی۔ ایم رحمن

 

’’ننھا بہادر‘‘ بچوں کی پچیس کہانیوں کا مجموعہ ہے جس کے مصنف معروف ادیب و فکشن نگار جناب رئیس صدیقی ہیں۔ اس کتاب کو مکتبہ پیام تعلیم جامعہ نگر نئی دہلی نے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ فاضل تخلیق کار نے بچوں کی فلاح و اصلاح کے لیے اپنے دردمند دل کی آواز کو عام بچوں تک پہچانے کے لیے صرف اور صرف قلم کا سہارا لیا ہے، کیوں کہ میرا ماننا ہے کہ شعور کی روشنی جلائے بغیر کوئی حقیقی کام نہیں کیا جا سکتا۔

 

یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ ملک اور قوم کے مستقبل کا انحصار بچوں کی تعلیم و تربیت پر ہے۔ بچے جو من کے سچے ہوتے ہیں انھیں نگاہِ کرم چاہیے۔ یہ بچے بچیاں قومی امانت ہیں، جس سانچے میں انھیں ڈھالیں وہ ڈھل جائیں گے۔ اسی اہم کام کو رئیس صدیقی نے اپنی کہانیوں سے انجام دیا ہے کہ بچو آؤ تم ان قصے کہانیوں کو پڑھو اور تعمیری ذہن کے لیے دریچے کھول دو۔ یہ بھی سچ ہے کہ نئی صدی کا دور ہے جہاں دنیا سکڑ گئی ہے اور فاصلے کم ہو گئے ہیں مگر ہمارے بچے ان کم فاصلے میں ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو ایک بڑا المیہ ہے، جس پر والدین کو خود غور کرنے کی ضرورت ہے۔

رئیس صدیقی صاحب ’’ میرے دل کی بات ‘‘کے عنوان سے کتاب کے صفحہ ۱۱؍ پر رقم طراز ہیں۔

’’بچپن سے دُوسرے بچوں کی طرح میرے مزاج میں بھی کچھ عجیب سی بے چینی اور بے قراری رہی ہے۔ در حقیقت میں عام بچوں کی طرح ہوتے ہوئے بھی ’کچھ خاص بچہ‘ بننا چاہتا تھا۔ دل میں کچھ ایسا کر گزرنے کی خواہش تھی جس سے میرے اور میرے ماں باپ کا نام روشن ہو‘‘۔

یہ ایک ایسی ٹھوس بنیاد بنی جسے فاضل مصنف نے اپنی زندگی میں تعمیری کاموں سے باندھ رکھا ہے اور یقیناً وہ ادب اطفال کی سکڑتی دنیا کو رنگ دینا پسند کرتے ہیں کہ زندگی عمل کا نام ہے۔ اچھی سوجھ بوجھ کا نام ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا نام ادبِ اطفال کے لکھنے والوں کے صف اول میں شمار ہوتا ہے۔

تمام کہانیاں بچوں کے ذہن کو روشن کرنے میں کامیاب ہیں۔ یہ تو سلیقہ اور قرینہ ہے رئیس صدیقی کا جو کہنے کا ہنر جانتے ہیں اور کہانی معتبر کرداروں کو یکجا کرتے ہوئے عظمت کی موتیوں کی لڑیاں تیار کرتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کے اندر اپنے اسلاف و اکابرین کی محبت پیدا ہو۔ جہاں تک میں نے یہ کتاب پڑھی ہے بڑے ہی وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کی علمی خدمات نے رئیس صدیقی کو پارس بنا دیا ہے۔

ـــ ایم رحمن

( ہفت روزہ ’’ہماری زبان، دہلی، یکم جنوری۲۰۱۳ء)

٭٭٭

 

 

 

 

بچوں کے ادب کا شہ سوار : رئیس صدیقی۔ شمس تبریزی

 

ایک مشہور دانشور اور ادیب سے اس کے ایک دوست نے اس کی طویل تحریروں کے تعلق سے کہا کہ آپ اختصار سے کام لیا کیجئے، آپ کی تحریریں بہت لمبی ہوتی ہیں۔ تو اس دانشور نے کہا کہ اختصار سے لکھنے کا فن مجھے نہیں آتا کیونکہ اس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ اس مختصر سے واقعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کم الفاظ میں اپنی بات کو مکمل کرنا گویا ایک فن ہے۔ بچوں کے ادب کے معاملے میں بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ کیوں کہ بڑوں کے لئے لکھی گئی تحریر تو ان کے لئے دانستہ ہوتی ہی ہے لیکن بچوں کے لئے لکھا گیا ادب بچوں کے ذہنی سطح پر جا کر لکھا جاتا ہے۔ یعنی ایک پختہ کار ادیب کو اپنی ذہنی دسترس سے نیچے آ کر بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے لکھنا ہوتا ہے جو ایک دشوار گزار مرحلہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ادبِ اطفال کے لکھنے والے انگلیوں پر شمار کئے جا سکتے ہیں۔

رئیس صدیقی اس میدان کے ان شہہ سواروں میں ہیں جو کم و بیش پچیس برسوں سے بچوں کے لئے نہایت پابندی سے لکھ رہے ہیں اور نہ صرف لکھ رہے ہیں بلکہ ان کی تحریروں اور ان کی کتابوں کو نوٹس بھی کیا جا رہا ہے۔ جس کے لئے ان کی خدمات کا گاہے بہ گاہے اعتراف بھی کیا گیا ہے۔

رئیس صاحب کی حالیہ کتاب ’’ننھا بہادر ‘‘ ہے جس میں کم و بیش بچوں کی 25کہانیاں شامل ہیں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سبھی کہانیاں بچوں کو کوئی نہ کوئی سبق دیتی ہیں۔ اور ان کی اصلاح کا ذریعہ بنتی ہیں۔ رئیس صاحب کو پتہ ہے کہ بچے لکھا ہوا پڑھ کر جس جذبے سے اسے ذہن نشین کرتے ہیں وہ تمام زندگی ان کے ذہنوں میں محفوظ رہتا ہے اور یہی نکتہ ان کی تحریروں کو بچوں کے لئے با عمل ہونے کا محرک بناتا ہے۔

نہایت مسرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کو ادارہ مکتبہ پیام تعلیم نے از خود شائع کیا ہے جو ادبِ اطفال کی اشاعت کا ایک قومی ادارہ ہے اور جس کی کتابیں اس بات کی غماز ہیں کہ ہر عمر کے بچے ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

’’ننھا بہادر‘‘ بچوں کے لئے تحریر کیا گیا رئیس صدیقی کا ایک بہترین پروجیکٹ ہے جس کے لئے جناب رئیس صدیقی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔

ـــ شمس تبریزی

مدیر سہ ماہی جمنا تٹ، ہریانہ

(شمارہ جنوری تا مارچ ۲۰۱۲ء)

٭٭٭

 

 

 

 

بچوں کا قابلِ ذکر ادیب : رئیس صدیقی۔ توقیر راہی

 

یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ ماضی کا ادبِ اطفال ہمارے لیے ایک قیمتی اثاثہ و سرمایہ ہے۔ نیز ماں، نانی اور دادی کی گود ان کا پہلا مکتب ہے اور ان کی لوریاں و گیت بچوں کی متلاشی نظروں اور بے نام جستجو کے لیے پر مغز غذا ہے۔ آج کے جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے منظر نامے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ادبِ اطفال تخلیق کرنا ہو گا، یہ وقت کا تقاضا ہے۔

ادب اطفال کی فہرست میں یوں تو بہت سے شعرا و ادبا شامل ہیں لیکن نمایاں نام اسٰعیل میرٹھی، افسر میرٹھی، ڈاکٹر ذاکر حسین، شفیع الدین نیر، ابنِ انشا، حامد اللہ افسر، حفیظ جالندھری اور حال میں رئیس صدیقی قابل ذکر ہیں۔

رئیس صدیقی محتاج تعارف نہیں۔ وہ عرصۂ دراز سے الیکٹرانک میڈیا (ریڈیو، ٹی وی) سے منسلک ہیں۔ آج کل دوردرشن ڈی۔ ڈی۔ اُردو سے وابستہ ہیں۔ ان کی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ مثلاً ’شیروں کی رانی‘(بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ) وغیرہ۔

ادبِ اطفال کے لیے مختلف اعزازات و ایوارڈز سے سر فراز ہو چکے ہیں۔

ننھا بہادر اٹھاسی (۸۸) صفحات پر مشتمل ہے جو کہ مکتبہ پیام تعلیم، نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے ’’آپ بیتی‘‘ کو جگ بیتی بنایا ہے اس سے کس کو ان کار ہے کہ شاعر و ادیب خلا میں جنم نہیں لیتا، بلکہ ہمارے ہی درمیان پیدا ہوتا ہے اور اسی ماحول کا پروردہ ہوتا ہے۔ اسی انسانی معاشرے سے شاعری کے لیے موضوعات و مواد کا انتخاب کرتا ہے۔ ’ننھا بہادر‘ کی کہانیوں میں مصنف کی بھولی بسری یادیں اور تہذیبی قدریں پورے طور پر نظر آتی ہیں۔ یہی چیزیں رئیس صاحب کو ادب اطفال کا تخلیق کار بناتی ہیں۔

پہلی کہانی ’’ننھا بہادر‘‘ شجاعت و صداقت کا جہاں درس دے رہی ہے، وہیں کہانی ’دلیر انسان‘ اخلاص اور رب کائنات کے لیے مرنے جینے اور مارنے کا فلسفہ پیش کرتی ہے۔ ’بلی رانی‘ کی کہانی بڑی دلچسپ اور معنی خیز ہے یہ کہانی ایثار و قربانی پر مبنی ہے جو کہ آج کل عنقا ہے۔ آج کی مصروف زندگی میں انسان ایک مشین ہو گیا ہے کہ سڑک پر پڑے مظلوم بلبلاتے، چیختے، کراہنے کی صدا کو نظر انداز کر دیتا ہے، حیوانات پر رحم کھانا بعید از قیاس ہے۔ اسی طرح ’وفادار راجا‘ میں کتے کی وفاداری بیان کی گئی ہے جو کہ بچے کی ذہن سازی کے لیے اچھی کہانی ہے۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹا سا گھر، شرارت، قلم چور، چھپا دشمن، بزدل ساتھی، عقل مند کوئل، چالاک مرغا، عقلمند کسان، شکاری شکار ہو گیا، عقلمند سوداگر، حاضر جواب لڑکا، قصہ ایک آئینہ کا، چوہیا رانی، آدم خور اور بھول بھلیاں، دان اثر کڑوے پانی کا، موت کے لمبے ہاتھ، آغا صاحب کی ایک شرارت، کہانی میں کہانی، فیصلہ، انسانیت کا پاک چہرہ، جیسی کہانیاں اس کتاب میں شامل ہیں جن میں مذکورہ خصوصیات ہیں اور ہر ایک کہانی سبق آموز ہے نیز بچے جو کہ گیلی مٹی کی طرح ہیں، خوشنما برتن بن سکتے ہیں، نہ جانے ان کی بھینی بھینی خوشبوؤں سے کتنے جہاں معطر ہو سکتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ پیغامات و نصائح کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ زبان عام فہم اور سلیس ہے۔ اسلوب بیان فطری، سادہ و پر تاثیر ہے۔

رئیس صدیقی بھی ’تارے زمین پر‘ کی طرح بہت ٹمٹماتے، جھلملاتے ستاروں کو صفحۂ قرطاس پر اُتار لائے ہیں۔

ـــ توقیر راہی

(ماہنامہ اُردو دُنیا، نئی دہلی، اگست ۲۰۱۳ء)

٭٭٭

 

 

 

سبق آموز کہانیوں کا خالق : رئیس صدیقی۔ ڈاکٹر ظفر مرادآبادی

 

بچوں کی ذہنی نشو و نما کی آبیاری ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہم عموماً خود بڑے ہو جانے کے بعد توجہ نہیں دیتے کیوں کہ ہم اس عمر سے آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن اگر ہم تھوڑا سا اپنے موجودہ مسائل سے ہٹ کر ماضی میں اپنے بچپن کی حالت پر غور کریں تو ہمیں محسوس ہو گا کہ ہمیں اپنی زندگی کے اس دور میں کن کن مسائل سے سابقہ پڑا اور یہی ماضی پرستی بچوں کے لئے کچھ خدمات انجام دینے پر مجبور کرتی ہے۔

ماحول، خاندان اور حیثیت کے سبب ہر شخص کا بچین جدا گانہ ہو سکتا ہے لیکن فطرت میں تجسس کا مادہ تقریباًیکساں ہوتا ہے اور ہر بچے کا مزاج ہر نئی چیز کو جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے اس کو مد نظر رکھ کر ہی ہمیں اپنے بچوں کے لئے ادب تخلیق کرنا چاہئے۔ رئیس صدیقی اس وصف سے آراستہ ہیں اور آپ بچوں کے مزاج اور ذہنی سطح کو مد نظر رکھ کر ہی بچوں کے لئے لکھتے رہے ہیں۔

ننھا بہادر، اسی سلسلے کی ایک اور کڑی ہے جس میں بچوں سے متعلق پچیس کہانیاں موجود ہیں۔ ان کہانیوں میں رئیس صدیقی نے یہ التزام رکھا ہے کہ ہر کہانی نصیحت آموز ہونے کے ساتھ دلچسپ اور مختصر ہو کیوں کہ بچوں کی فطرت طویل کہانیوں کو پسند نہیں کرتی، زبان کی سادگی ہر موضوع میں دلچسپی کو قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

کرشموں کا راز اور آیوڈین کے سپاہی ابھی زیر طبع ہیں جس سے یہ اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ آپ مسلسل اس خدمت میں مصروف ہیں۔

ہمیں یقین ہے کہ رئیس صدیقی اپنی معاشی مصروفیتوں کے ساتھ بچوں کے لئے مزید صحت مند کتابیں لکھتے رہیں گے اور وہ سراہی جاتی رہیں گی۔

ــــ ڈاکٹر ظفر مرادآبادی ( ہفت روزہ اخبار نو، دہلی، ۱۲؍ نومبر۲۰۱۲ء)

٭٭٭

 

 

عام فہم زبان کا بچوں کا کہانی کار : رئیس صدیقی ۔۔ ڈاکٹر منور حسن کمال

 

رئیس صدیقی اردو زبان و ادب اور الیکٹرانک میڈیا کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ وہ بچوں کی کہانیوں کے حوالے سے بھی معروف ہیں۔ ابتدا میں ان کی کہانیاں ’پیام تعلیم‘، کھلونا، ’امنگ‘ اور ماہنامہ ’چند اگری میں شائع ہوتیں اور قبولِ عام کی سند حاصل کرتیں۔

’’ننھا بہادر‘‘ ان کا دوسرا مجموعہ ہے۔ اس سے قبل بچوں کے لیے ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’شیروں کی رانی‘ مقبول ہو چکا ہے۔

بچوں کے ادیبوں کی اس دور میں بڑی کمی محسوس کی جاتی ہے، موجودہ دور میں بچوں کے لیے لکھنے والے ہندوستان جیسے اتنے بڑے ملک میں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔

اس کتاب میں ۲۵ کہانیاں ہیں۔ پہلی کہانی ’ننھا بہادر‘ ہے، جس میں انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک واقعہ کی جانب اشارہ کیا ہے۔ دیگر کہانیوں میں وفادار راجہ، قلم چور، بزدل ساتھی، چالاک مرغا، عقل مند سوداگر، موت کے لمبے ہاتھ، کہانی میں کہانی اور انسانیت کا پاک چہرہ خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔

رئیس صدیقی کی زبان سادہ اور عام فہم ہے، انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں اسی طرح لکھی ہیں، جیسے وہ بچوں سے ہی مخاطب ہوں۔

ـــــ ڈاکٹر منور حسن کمال

(روزنامہ سہارا، بزم ادب، اُمنگ، نئی دہلی، ۷؍اکتوبر۲۰۱۲ء)

٭٭٭

 

 

بچوں کی دلچسپ کہانیاں اور رئیس صدیقی۔ محفوظ الرحمن عزیزی

 

’’ننھا بہادر‘‘ بچوں کے لیے لکھی گئی رئیس صدیقی کی کہانیوں کا مجموعہ ہے جس میں چھوٹی بڑی پچیس کہانیاں شامل ہیں۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں میں رئیس صاحب کا نام قابلِ ذکر ہے۔ اس سے قبل بھی ان کی کتابیں بچوں کے حوالے سے منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔

رئیس صدیقی کی شخصیت اور ان کے ادبی سروکار کے حوالے سے اس کتاب میں تنویر احمد علوی، مخمور سعیدی، مظفر حنفی اور بسمل عارفی کے مختصر مگر جامع مضامین شامل ہیں جن سے ان کی ادبی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مخمور سعیدی لکھتے ہیں ’’رئیس صدیقی کی کہانیاں بچوں کی نفسیات اور ان کی پسند دونوں کو ملحوظ رکھ کر لکھی گئی ہیں اور رئیس صاحب نے طرز تحریر بھی ایسا سادہ، سلیس اور رواں دواں اختیار کیا ہے جو بچوں کے لیے اِن کہانیوں کو اور بھی زیادہ قابلِ مطالعہ بنا دیتا ہے۔ ‘‘

بقول بسمل عارفی ’’ رئیس صدیقی نے جتنی بھی کہانیاں لکھیں خواہ وہ طبع زاد ہوں یا تراجم، اس بات کا خیال ضرور رکھا کہ بچوں کی نفسیات پر اس کے بُرے اثرات نہ ہوں اور نہ ہی کہانی دلچسپی سے خالی ہو بلکہ کہانی ختم ہوتے ہوتے کوئی ایسا سبق آموز نکتہ ضرور قائم کر جائے جو بچوں کی کردار سازی میں معاون ہو اور آگے چل کر ان کے روشن مستقبل کی ضامن بنے ‘‘۔

رئیس صدیقی کی کہانیوں کو پڑھنے کے بعد مذکورہ بالا آراء سے اتفاق کی پوری گنجائش نکلتی ہے۔ بچوں کے ذہن کو سامنے رکھ کر لکھی ان کہانیوں میں دلچسپی کے ساتھ کوئی نہ کوئی پیغام بھی ہے جو یقیناً ننھے ذہنوں کے لیے بہت ہی مفید ہے کیونکہ بچپن میں جب بچوں کا ذہن خالی اور ہر طرح کی تعصب سے پاک ہوتا ہے، اس زمانے میں بچوں کے ذہن میں کوئی اچھی بات بٹھا دی جائے تو پوری عمر نہ صرف وہ بات اسے یاد رہتی ہے بلکہ اس کے اثرات اس کی زندگی کو با مقصد بنا دیتی ہے۔ وہ اس راہِ مستقیم پر چلنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے جس کی اسے بچپن میں ترغیب دی گئی ہو۔

اُمید کہ ان کی کہانیوں سے بچے نہ صرف لطف اندوز ہوں گے بلکہ ان سے سبق بھی حاصل کریں گے۔

ــــــ محفوظ الرحمن عزیزی

(ماہنامہ ملّی اتحاد، نئی دہلی، جون ۲۰۱۳ء)

٭٭٭

 

 

 

 

ماہرِ اطفال : رئیس صدیقی

 

’’ننھا بہادر‘‘: زیرِ نظر تصنیف رئیس صدیقی کی ہے، جو بچوں کی پچیس کہانیوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ رئیس صدیقی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے انہیں ماہرِ اطفال کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیوں کہ اکثر و بیشتر ان کی کہانیاں ملک و بیرون ملک میں شائع ہوتی رہی ہیں اور بے حد پسند کی جاتی رہی ہیں۔ یہ ان کا ساتواں مجموعہ ہے، اس قبل ’شیروں کی رانی‘ کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ بچوں کی نفسیات اور ان کی دل چسپیوں کا خیال رکھتے ہوئے، سادہ سلیس اسلوب اختیار کیا ہے تاکہ بچے اس کتاب کا مطالعہ کر کے لطف اندوز ہو سکیں۔ ان کی کہانیوں کے مطالعہ سے بچوں کی بہتر تربیت بھی ممکن ہو پاتی ہے کیوں کہ وہ بچوں کی کہانیوں کے ذریعہ اخلاقیات اور برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ بلی رانی، چھپا دشمن، قلم چور، موت کے لمبے ہاتھ جیسی دلچسپ کہانیاں اس مجموعے میں شامل ہیں۔

ـــــ سید عین عین علی حق

(سنڈے انقلاب، نئی دہلی، ۱۲؍ فروری۲۰۱۲ء)

٭٭٭

تشکر: کتاب ایپ

)رئیس صدیقی کی کتاب ’باتونی لڑکی‘ سے ماخوذ)

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید