FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

صراحی

 

 

 

 

محمد اشفاق چغتائی

 

 

 

 

انتساب

 

 

محمدطہمان فاتح کے نام

 

 

 

 

دیباچہ

 

منصور آفاق

 

اشفاق بھائی عمر میں مجھ سے چار سال بڑے تھے۔ بچپن سے بہت ذہین تھے، مذہب سے گہرا لگاؤ تھا اور مجھ سے ہمیشہ نالاں رہتے تھے۔ میری مذہبی بے راہ روی کی وجہ سے۔ میں زندگی کے ہر معاملے میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا تھا۔ سوائے مذہبی معاملات کے۔۔۔ سوشاعری بھی انہی کی پیروی میں شروع کی۔ انہوں نے شروع شروع میں مجھے باز آ جانے کی بہت تلقین کی مگر میں بھی بہت ضدی تھا مجبوراً میرا ساتھ دینے لگے۔۔ میں نے جو پہلی غزل لکھی تھی۔ اس کی اصلاح اشفاق بھائی نے کی تھی اور پھر وہی غزل جب میں نے مشاعرے میں سنائی تو میانوالی کے ایک بزرگ شاعر انوار ظہوری نے کہا ’’ یہ لونڈا اتنی اچھی غزل کس سے لکھوا کر لے آیا ہے ‘‘ میں نے اس وقت تو بزرگ سے کچھ نہیں کہا مگر غصے سے کھولتا ہوا جیسے ہی گھر پہنچا تو اشفاق بھائی کے سامنے اس بزرگ شاعر کی ایسی تیسی کر دی اشفاق بھائی نے میرا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے مجھے مشورہ دیا کہ شاعر جب کسی کو گالی دیتے ہیں تو وہ بھی شعر کی زبان میں ہوتی ہے اور پھر مجھے فردوسی کا واقعہ سنایا کہ محمود غزنوی نے اسے شاہنامہ فردوسی لکھنے کا کہا اور ساتھ یہ آفر بھی دی ہے کہ ہر شعر کے عوض اسے ایک اشرفی دے گا فردوسی نے کئی ہزار شعر کہہ دیے مگر محمود نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا جس پر فردوسی کو بہت تکلیف ہوئی اور اس نے محمود غزنوی کی ایک ہجو لکھی جس میں کہا کوؤں کے انڈے بازوں کے نیچے رکھ دئیے جائیں تو کو ے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ میں نے فوراً اس بات کو گرہ میں باندھ لیا اور فردوسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انوار ظہوری کے خلاف ایک ہجو لکھ دی مگر اب اشفاق بھائی اسے درست کرنے پر تیار نہیں تھے۔ گھر میں مسئلہ پیدا ہو گیا۔ ہم دونوں میں انتہائی سخت جنگ ہوئی۔ معرکۂ پورس و سکندر میں پورس فتح یاب ہو گیا۔ یعنی میں نے زبردستی اشفاق بھائی سے وہ ہجو درست کرالی لیکن جو گالیوں بھرے مصرعے اشفاق بھائی نے اس میں سے نکال دئیے تھے۔ ان کا دکھ مجھے آج بھی ہے۔ اس کی چند لائنیں جوا بھی تک یاد ہیں۔

 

اے عدد اے کم نظر اے تنگ دل اے فتنہ خو

شرم آتی ہے مجھے ہوتا ہے جب تو روبرو

 

تجھ کو کیوں اکسارہی ہے تیری یہ زخمی انا

چاند پر جو تھوکتا ہے خود بھی ہوتا ہے فنا

 

تو انا کا زخم خوردہ ہے بڑا بیمار ہے

تیری ساری شاعری ہر دور میں بے کار ہے

 

شعر وہ کہتا ہے جو ہو درد دل سے آشنا

جس کی پلکوں پر سجا ہو کوئی اشک دلربا

 

اور بھی بہت سے شعر تھے آخر ی شعر یہ تھا۔

 

جس کی سب سسکاریاں یادوں کی ہو جائیں امیں

اس سے بہتر تو مری جاں کوئی کہہ سکتا نہیں

 

اشفاق بھائی شاعر اور نثر نگار ہونے کے علاوہ بہت اچھے مقرر بھی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے سکول میں پہلی تقریر کی تھی تو وہ بھی اشفاق بھائی نے لکھ کر دی تھی۔ اس کا ایک جملہ اس وقت بھی میرے دماغ میں گونج رہا ہے ’’ تاریخ کے سینے پہ دستِ تحقیق رکھ کر دیکھئے آپ کو ہر دھڑکن سے چند گھوڑوں کے سموں کے شور میں سینکڑوں بے قرار روحوں کی چیخیں سنائی دیں گی ‘‘ اور پھر جب میں سچ مچ کا شاعر ہو گیا تو اشفاق بھائی نے مجھے زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی طرف راغب کیا۔ سودا، میر، مصحفی، ذوق،درد اور آتش کے اچھے شعر زبانی یاد کر لینے کا مشورہ دیا۔ میں نے یہ مشورہ سن کر اشفاق بھائی سے کہا تھا ’’ آپ نے غالب اور اقبال کا نام نہیں لیا ‘‘ توہنس کے کہنے لگے ’’ میں جانتا ہوں وہ تمہیں یا د ہیں ‘‘ خاص طور پر جب میں نے انگریزی زبان سیکھنے کے لیے سید نصیر شاہ کے پاس ٹیوشن پڑھنی شروع کی تو میں اشفاق بھائی کے لیے ایک مسئلہ بن گیا۔ سید نصیر شاہ انگریزی کے علاوہ عربی، فارسی، اردو پنجابی اور سنسکرت کے عالم تھے۔ اور الحاد ان کے رگ و پے میں دوڑتا تھا۔ کیمونزم کے بہت بڑے حامی تھے ( اللہ تعالیٰ ان کی زندگی دراز کرے ) وہ میرے اندر آزاد خیالی کی تحریک پیدا کرتے تھے۔مجھے مذہب کے حوالے سے ایسے سوال سمجھاتے تھے جن کا جواب کسی عالم دین کے بس کا روگ نہیں ہوتا تھا اور میں وہ سوال آ کر اشفاق بھائی سے کرتا تھا۔ وہ میرے سوالات کے جواب ڈھونڈنے کے لئے کئی کئی دن کتابیں پڑھتے رہتے تھے لیکن کسی مسئلہ کی گہرائی میں اتر کر اس کی حقیقت تک ضرور پہنچ جاتے تھے۔ سید نصیر شاہ،شاعر بھی تھے۔ سو شاعری میں شاہ صاحب کا پلہ بہت بھاری تھا۔اشفاق بھائی بھی اس سلسلے میں ان سے رجوع فرما لیتے تھے۔ میں نے ایک دن پوچھا ’’ اشفاق بھائی آپ کے نزدیک تو نصیر شاہ صاحب کا فر ہیں، شرابی ہیں مگر آپ ان کا اتنا احترام کیوں کرتے ہیں تو کہنے لگے میں ان کے نظریات کا نہیں، ان کے علم کا احترام کرتا ہوں اور صرف میں ہی نہیں مولانا عبدالستار خان نیازی بھی جب کبھی سیدنصیر شاہ آئیں تو ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں نے جب فسٹ ائیر میں داخلہ لیا تو وہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں سٹوڈنٹ یونین کے صدر تھے۔ انہوں میری دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے میرے مضامین فلسفہ اور اردو اعلیٰ رکھوا دئیے۔ فلسفے کے پروفیسر ان دنوں میانوالی سے اپنا تبادلہ کرانا چاہ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی فلسفے کا مضمون کوئی طالب علم نہیں لے گا اور ان کا کسی اور کالج میں تبادلہ ہو جائے گا مگر مجھے دیکھ کر ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ بہت مشکل مضمون ہے،میرے بس سے باہر کی بات ہے مگر مجھے تو سچ مچ فلسفے سے دلچسپی تھی سو میں نے ڈرنے سے انکار کر دیا۔ اور انہوں نے غصے میں آ کر کورس کی تینوں کتابیں مبادیاتِ  نفسیات، منطقِ استخراجیہ اور منطقِ استقرار یہ ایک ساتھ پڑھانی شروع کر دیں۔ منطق سے درسِ نظامی کی وجہ سے کچھ نہ کچھ میری واقفیت تھی مگر نفسیات میرے لیے بالکل نیا موضوع تھا۔ اشفاق بھائی نے یہ تینوں کتابیں مجھے پڑھانی شروع کیں اور میں حیران رہ گیا کہ اشفاق بھائی کا یہ کبھی سبجیکٹ نہیں رہا تھا، مگر وہ جس انداز میں مجھے گھر میں پڑھا دیتے تھے،میرے پروفیسر کو پریشانی لاحق ہو جاتی تھی اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ جب میرے پروفیسر کو کہا گیا کہ آپ کا تبادلہ ممکن ہے تو انہوں نے کہا میں اپنے اکلوتے طلب علم کو راستے میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔میری زندگی میں ایسا عجیب و غریب طالب علم کبھی نہیں آیا کہ جسے میں جو بھی پڑھانے لگتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ پہلے ہی اسے معلوم ہے۔ انہیں کیا علم کہ یہ سب میرا نہیں، اشفاق بھائی کا کمال تھا۔ میں نے کالج کے دنوں، اشفاق بھائی کے ساتھ مل کر ایک رسالہ بھی نکالا تھا جس کا نام ’’ پیغامِ سروش ‘‘ تھا۔ اس رسالے کی کچھ کاپیاں ابھی تک میرے پاس محفوظ ہیں۔یقین کیجئے میں اس رسالے کو اب بھی دیکھتا ہوں تو وہ مجھے کسی بڑے علمی و ادبی میگزین سے کم نہیں لگتا۔ پھر اشفاق بھائی ایم اے اردو کرنے پنجاب یونیورسٹی لاہور چلے گئے۔ وہاں طلبا کی ایک تنظیم ( انجمن طلبائے اسلام ) کے پنجاب کے ناظم اعلیٰ بنا دئیے گئے مگر طالب علمی کی سیاست میں بھی لکھنے پڑھانے کا رجحان کبھی کم نہیں ہوا۔ اقبال کے ساتھ ان کی بہت دوستی تھی، جس طرح اقبال مولانا رومی کو اپنا مرشد قرار دیتے تھے اسی طرح اشفاق بھائی اقبال کو اپنا روحانی مرشد سمجھتے تھے۔انہیں فارسی اور اردو کا تقریباً تمام کلام زبانی یا دتھا۔ اقبال کے حوالے سے اپنی ایک غزل کے قطعہ بند میں کہتے ہیں۔

 

میرے منصور وہاں آتے ہیں سر مد میرے

پیر رومی سے بھی کچھ دیر وہاں بات ہوئی

بولتے مجھ سے رہے ہیں جدِ امجد میرے

 

کہہ دیا میں نے بھی جو کہنا نہیں تھا مجھ کو

کیا کروں حضرت اقبال ہیں مرشد میرے

 

ایم اے اردو اور ایم اے اسلامیات کرنے کے بعد انہوں نے ایل ایل بی میں داخلہ لے لیا۔ ان دنوں وہاں ان کے پرانے دوست پروفیسر طاہر القادری پڑھایا کرتے تھے۔ طاہر القادری سے ان کی اس زمانے کی دوستی تھی جب وہ گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل میں پڑھاتے تھے۔ وہ جب بھی جھنگ سے میانوالی آتے تھے تو ہمارے گھر میں قیام کیا کرتے تھے۔۔۔ انہی دنوں جب طاہر القادر ی لاء کالج میں پڑھاتے تھے تو ان کی دوستی نواز شریف کے والد میاں شریف سے ہو گئی اور انہوں نے ان کے گھرکے قریب اتفاق مسجد میں جمعہ پڑھانا شروع کیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہاں اتفاق اکیڈمی کی بنیاد رکھی گئی۔ اشفاق بھائی اس سارے عمل میں طاہر القادری کے ساتھ تھے۔ اشفاق بھائی اتفاق اکیڈمی کے پہلے ناظم اعلیٰ بنائے دیے گئے۔ انہوں نے وہ تمام بنیادیں رکھیں جن پر طاہر القادری نے بعد میں ’’ منہاج القران‘‘ کی عمارت استوار کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہی میں جب میانوالی سے ان کے پاس لاہور جاتا تھا تو وہ ایک بڑے سے دفتر میں بیٹھے ہوتے تھے۔ نواز شریف جوان دنوں پنجاب کے وزیر خزانہ تھے عصر کی نماز کے بعد روز ان کے پاس آ کر بیٹھتے تھے اور دیر تک اشفاق بھائی کی گفتگو سنتے رہتے تھے۔ میاں شریف سے تو ان کی بہت دوستی تھی لیکن رفتہ رفتہ اشفاق بھائی پر شریف فیملی کی سرمایہ دارانہ ذہنیت کھلتی چلی گئی اور وہ ان کے مخالف ہوتے چلے گئے۔ اشفاق بھائی کو غصہ کچھ زیادہ آتا تھا۔ ایک دن میاں شریف سے سرمایہ و محنت کے موضوع پر گفتگو ہوئی کہ(ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات) میاں شریف کا اس سلسلہ میں یہ نظریہ تھا کہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد جتنی دولت ہو وہ جائز ہے جب کہ اشفاق بھائی قران کی زبان میں کہتے تھے (اپنی اوسط ضروریات سے زائد جو کچھ ہے دے دو ان کو جن کا حق ہے ) اور انہیں ایسی آیتیں سناتے تھے۔ ( اور جو لوگ مال و دولت جمع کر تے ہیں انہیں خوشخبری سنا دو ایک عظیم عذاب کی جس دن تپائی جائیں گی ان کی پیٹھیں کروٹیں اور پیشانیاں کہ پس چکھو مزا دولت کو سینت سینت کر رکھنے کا ) اور پھر اسی بحث میں ایک دن بات گالی گلوچ تک چلی گئی۔ اشفاق نے اتفاق اکیڈمی چھوڑ دی اور پھر ادھر کبھی نہیں گئے۔ جن دنوں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوتے تھے۔ان دونوں میری ان سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ میں اشفاق چغتائی کا بھائی ہوں اس پر انہوں نے مجھے بہت عزت دی اور کہا کسی بھی صورت میں اشفاق بھائی کو لے کر میرے پاس آؤ۔ میں نے اشفاق بھائی کی بہت منتیں کی مگر انہوں نے اقبال کی زبان میں یہ کہہ کہ انکار کر دیا۔

 

دولت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول

جب کہا اس نے کہ ہے میری خدائی کی زکوٰۃ

 

طاہر القادری کو بھی اشفاق بھائی بہت جلد پہچان گئے تھے۔ ایک دن میں ان کے پاس گیا تو بہت پریشان تھے۔میں نے پوچھا کیا بات ہے تو کہنے لگے ’’ میں طاہر القادری کو ایسا نہیں سمجھتا تھا ‘‘ میں نے پھر پوچھا ’’ کیوں کیا ہوا ہے ‘‘ تو کہنے لگے ’’ تمہیں پتہ ہے جب طاہر القادری کسی وجہ سے جمعہ پڑھانے نہیں آسکتے تو ان کی جگہ میں تقریر کیا کرتا ہوں ‘‘ میں نے کہا ’’ ہاں ‘‘ تو بولے ’’ اس جمعہ کو پھر انہوں نے کہیں جانا ہے مگر انہوں نے مجھے کہا ہے کہ تم نے اپنی تقریر کا ٹیمپو میری تقریر سے زیادہ نہیں رکھنا اور فلاں فلاں موضوعات پر تقریر نہیں کرنی۔ ‘‘ تو میں نے اشفاق بھائی سے کہا ’’ آپ نہیں جانتے مگر یہ سچ ہے کہ آپ طاہر القادری سے اچھی تقریر کر لیتے ہیں اور اس کے شریف فیملی کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی جگہ کوئی اور سنبھال لے ‘‘ تو اشفاق بھائی نے کہا ’’ مجھے بھی ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بھی دنیا کی تلاش میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ‘‘ بقول اشفاق بھائی۔

 

فروغ دین میں کرتے ہیں مال و زر کی تلاش

عجب ہے باغ محبت میں ہے ثمر کی تلاش

 

اشفاق بھائی کی مولانا عبدالستار خان نیازی سے بھی بڑی عقیدت تھی۔ ان کے ساتھ اشفاق بھائی کا بہت وقت گزرا ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر جب وہ کام کرانا چاہتے تھے تو انہوں نے اشفاق بھائی سے کہا اور اشفاق بھائی نے تمام کام کر کے دیا۔ مولانا نیاز ی کی وہ کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ مولانا نیازی، اشفاق بھائی کے علم و فضل کے بہت مداح تھے۔ انہوں نے اپنی کئی کتابوں کے دیباچے بھی اشفاق بھائی سے لکھوائے۔ مولانا نیازی جب نواز شریف کی حکومت میں منسٹر بن گئے تو اشفاق بھائی کو بہت دکھ ہوا اور انہوں نے مولانا نیازی کو کہا ’’ ہم دنیا میں اپنا رہبر ور راہنما آپ کو سمجھتے تھے مگر آپ نے اپنا رہنما نواز شریف کو بنا لیا ہے۔اب بتائیے کہ ہم کیا کریں ‘‘ مولانا نیازی کے پاس ان کی بات کا کوئی جواب نہیں تھا سو وہ خاموش ہو گئے تھے۔ اشفاق بھائی فوت ہوئے تو مولانا نیازی نے ان کا نماز جنازہ پڑھایا اور نماز جنازہ سے پہلے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک عاشق رسول کے نماز جنازہ پڑھانے کا اعزاز مل رہا ہے۔ مولانا نیازی کے ساتھ اشفاق بھائی کی محبت کا یہ عالم تھا کہ انہیں بہت دنوں تک اس بات کا دکھ رہا کہ میں الیکشن میں مولانا نیازی کے مقابلے میں ڈاکٹر شیر افگن کے ساتھ تھا۔ تصوف سے اشفاق بھائی کو صرف مطالعہ کی حد تک رغبت نہیں تھی۔ وہ دنیائے تصوف کی عملی شخصیت تھے۔محی الدین ابن عربی سے بہت متاثر تھے۔انہوں نے ایک بار محی الدین ابن عربی کی ایک کتاب شاید ’’ فتوحات مکیہ ‘‘ مجھے پڑھنے کے لئے دی۔ میں نے جب کتاب پڑھ کر انہیں واپس دی تو پوچھا ‘‘ کچھ حاصل ہوا ‘‘ تو میں نے کہا ’’ اور تو خیر کچھ سمجھ میں نہیں آیا، البتہ ایک شعر اس کتاب کی وجہ سے ضرور ہوا ہے۔

 

مجھے پسند ہے عورت نماز اور خوشبو

انہی کو چھینا گیا ہے مرے حوالوں سے

 

تو کہنے لگے ’’ جو جس نیت سے کچھ پڑھتا ہے اسے وہی کچھ حاصل ہوتا ہے اور تمہارے ذہن سے ابھی عورت ہی نہیں اتری ‘‘ ساتھ ہی علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ دیا۔

 

ہند کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس

ہائے بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

 

اور جب سید نصیر شاہ نے مجھے مکمل طور پر اپنے رنگ میں رنگ لیا یعنی میں بھی دہریت کی منزل پر پہنچ گیا تو اشفاق بھائی نے ایک دن مجھے کہا ’’ تم پپلاں جاتے رہتے ہو۔اب کبھی جانا تو مجھے بھی ساتھ لے جانا۔ میں نے وہاں کسی سے ملنا ہے۔ ‘‘ ( پپلاں میانوالی سے تیس میل دور ایک شہر ہے ) اور پھر ایک جمعہ کے روز میں اشفاق بھائی کو ساتھ لے کر پپلاں گیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ ہم نے مولانا حضرت مظہر قیوم کی محفل میں بیٹھنا ہے۔سو میں صبح ساڑھے نو بجے وہاں پہنچ گیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد جب ہم وہاں سے اٹھے تو ساڑھے بارہ بج رہے تھے، یہ کیا ہوا، ایک شخص کی محفل میں تین گھنٹے گزرے اور مجھے یوں لگا کہ میں وہاں صرف آدھا گھنٹہ رہا ہوں۔ میرے لیے بہت حیران کن تھا۔ یوں میری اس شخص میں دلچسپی بڑھ گئی اور پھر کئی ایسے مافوق الفطرت واقعات ہوئے کہ جو میری زندگی کا حاصل ہیں اور میں مسلما ن ہو گیا۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اشفاق بھائی اس محفل میں اس روز مجھے ہی لے گئے تھے۔ ان کا وہاں اور کوئی کام نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہی ایک شخص ہیں جو مجھ سے جیسے گم کردہ راہ کو راستے پر واپس لاس کتے ہیں بقول اشفاق بھائی۔

 

عجیب لوگ ہیں بس اک نگاہ سے دل کو

مقام عرش علیٰ میں بدل کے دیکھتے ہیں

 

اشفاق بھائی کے ایک دوست غازی غلام رسول سیالوی ہوتے تھے۔ وہ کسی زمانے میں میانوالی بہت آتے تھے۔ ان کا قیام بھی ہمارے گھر ہوا کر تا تھا۔فلسفہ وحدت الوجود کے بڑے پر جوش حامی تھے۔ ایک دن اشفاق بھائی نے مجھ سے کہا ’’ غازی صاحب سے کوئی سوال کرو ‘‘ میں نے غازی صاحب سے بہت سے سوال کیے۔ وہ ہر سوال کا جواب اتنی آسانی سے دیتے تھے کہ آدمی حیران رہ جاتا تھا کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ انہوں نے منصور حلاج کی کتاب طاسین کے کئی باب پڑھ دئیے ہیں۔ اشفاق بھائی کی ذات میں تصوف کا عملی رجحان بڑھانے میں ان کا بہت ہاتھ تھا۔بحیثیت انسان بھی غازی صاحب بہت بڑے آدمی تھے۔ مجھے کہا کرتے تھے کہ نماز پڑھا کرو۔ایک دن میں نے کہہ دیا کہ آج میں بھی نماز پڑھتا ہوں تو فوراً پانی کا لوٹا لے کر  آ گئے اور خود مجھے وضو کرایا اور ان کی دوستی میں اشفاق بھائی کے دل و دماغ پر فلسفہ وحدت الوجود کے جو اثرات مرتب ہوئے، زندگی بھر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور اشفاق بھائی ہمیشہ ایک پر جوش وجودی رہے۔ اپنی تحریروں میں بھی اور اپنے عمل میں بھی۔ ان کے دو شعر دیکھئے۔

 

بے شکل جلوہ گہ کا ٹھکانہ ملے مجھے

اشفاق مرا آئینہ خانہ ملے مجھے

 

تُو اپنی اصل سے اشفاق کیوں گریزاں ہے

تجھے خدا سے محبت نہیں تعجب ہے

 

عربی شاعری میں اشفاق بھائی کو ابو العلاء معری بہت پسند تھے معری کی کتاب ’’ الزومیات ‘‘ ان کی پسندیدہ کتاب تھی۔ کہا کرتے تھے کہ اس کتاب میں معری نے بڑی جرات مندی کے ساتھ بہت سے الوہی سچ بولے ہیں۔ انہیں معری کا وہ شعر بہت اچھا لگتا تھا جس میں معری کہتے ہیں کہ یہ زندگی ایک کوفت اور تھکن سے بھری ہوئی ہے مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو طویل عمری کے طلب گار ہوتے ہیں۔ وہ اکثر اوقات عربی زبان کا یہی شعر گنگنا یا کرتے تھے۔ عربی زبان کا ایک اور شاعر زہیر بھی انہیں پسند تھا میرے نوجوان شاعر دوست سلیم شہزاد کو صرف اس لئے پسند کرتے تھے کہ وہ عربی نہیں جانتا اور اس کا خیال عربی زبان کے عظیم شاعر زہیر سے جا ٹکرایا ہے۔زہیر کا کوئی شعر ہے جس میں وہ موت کو اندھی اور پاگل اونٹنی قرار دیتا ہے اور سلیم شہزاد نے بھی تقریباً اردو زبان میں یہی کچھ کہا ہے۔

 

دشت جاں میں تعاقب کر ے کیوں مرا

موت وحشت زدہ اونٹنی کی طرح

 

فارسی زبان کے شعراء میں سے اشفاق بھائی کو حافظ شیرازی سے بہت شغف تھا انہوں نے مجھے حافظ کی ایک غزل کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کر کے دیا تھا جامی کی بھی کئی نعتوں کے انہوں نے اردو زبان میں منظوم تراجم کئے تھے۔ جامی کے ایک نعتیہ کا ترجمہ مجھے یاد آ رہا ہے۔

 

جس نے دیکھے لب لعلیں تو پکارا دل سے

حق نے کیا خوب تراشا ہے عقیق یمنی

 

خیام کی رباعیاں انہیں بہت پسند تھیں کہتے تھے کہ رباعی کا وزن ایسا ہے کہ اس سے لطف اٹھانا آسان نہیں ہوتا مگر عمر خیام کی رباعیوں میں ایسی لذت ہے کہ آدمی یک لخت ایک انجانے سرور سے بھر جاتا ہے۔ خود اشفاق بھائی نے بھی بہت خوبصورت رباعیاں کہی ہیں۔ سعدی، فردوسی اور رومی کے بہت قائل تھے۔ رومی کے بارے میں کبھی کبھی سوچتے تھے کہ مولائے روم نے مثنوی معنوی میں جب کہیں کوئی جنسی کہانی پیش کی ہے تو بات بہت لطف لے لے کر کیوں کی ہے۔ روسی نژاد افسانہ نگار چیخوف اور گورکی کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ مارکس ازم نے دنیا کو اور کچھ دیا ہے یا نہیں ادب عالیہ کے بہت بڑے بڑے شاہکار ضرور دئیے ہیں۔ مارکس کے بارے میں وہ اپنے مرشد علامہ اقبال کے ہم خیال تھے کہ نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب۔یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر سوشلزم میں خدا کو شامل کر لیا جائے تو وہ اسلام بن جاتا ہے۔ یونانی فلسفے کے ساتھ ساتھ یونانی دیو مالائی کرداروں سے بھی انہیں بہت شغف تھا۔وہ افلاطون کی فکر میں قدیم اعتقادات کے ماخذ تلاش کرتے ہوئے، اکثر اوقات یونانی دیو مالائی کرداروں پر بحث کیا کرتے تھے۔ اشفاق بھائی انتہائی سچے اور کھرے آدمی تھے۔ جن دنوں وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے لڑکوں کو ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پسند نہ آئی اور انہوں نے اشفاق بھائی پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اشفاق بھائی خاصے زخمی ہو گئے مگر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا۔ میں اس وقت میانوالی میں ہوتا تھا۔ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اسلامی جمعیت طلبہ کے دو لڑکوں کو جواباً میانوالی میں بری طرح زد و کوب کیا۔ جب اس بات کا اشفاق بھائی کو پتہ چلا تو وہ سخت ناراض ہوئے اور ہمیں مجبور کیا کہ ہم ان لڑکوں کے پاس جائیں اور ان سے معافی مانگیں جو ہمیں مانگنی پڑی۔ سچ یہ ہے کہ میں بچپن ہی سے ان سے بہت زیادہ متاثر تھا۔85 ء میں جب میں نے اپنی پہلی کتاب ’’ چہرہ نما شائع کی تو اس میں ان کے متعلق بھی ایک مضمون شامل کیا میں نے اس میں لکھا تھا ’’میرا عہد اپنے اردگرد بیسیوں زندگیاں بنتا رہتا ہے چہروں پر تہہ در تہہ خول چڑھانے والے لوگ اتنے صورت آشنا ہو چکے ہیں کہ اب ایک ایک غلاظت آلود پتھر خالص سونے کا ڈھلا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن یہ مصنوعی تقدس مآب چہرے اپنی قماش کے دوستوں سے اپنا باطن نہیں چھپا سکتے اور میں نے تو اشفاق بھائی کے ساتھ لڑکپن کو جوانی میں بدلا ہے، ان کی پوری زندگی میرے ساتھ بے نقاب ہے۔ اس دوہری اور دوغلی زندگی بسر کرنے والے ظاہر و باطن کے ہولناک تضاد کا شکار عہد میں پھر کوئی ایسی شخصیت جو اندر اور باہر سے ایک ہو تو وہ دور سے نظر آ جاتی ہے سو اس صورت حال میں مجبور ہوں کہ اپنے بھائی محمد اشفاق چغتائی کو ایک عظیم شخص قرار دوں۔ بچپن سے اب تک اس کی رفاقت صداقتوں کی علمبردار رہی ہے۔ ہمیشہ اس سے مل کر ایک فرحت کا احساس ہوا ہے۔‘‘

 

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ

آ پ نے دیکھے نہ ہوں شاید مگر ایسے بھی ہیں

 

میں نے اس کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالی ہے۔وہ مجھے محبوب تر نظر آیا ہے۔اس کی شخصیت کی بے پناہ جاذبیت اسے ہر محفل میں ممتاز رکھتی ہے۔ اس کی شہد آمیز گفتگو کانوں میں رس گھولتی ہے۔ لیکن اس کی آواز میں شراب ناب کا خمار نہیں۔ خوابیدہ ذہنوں کو جگانے والی پکار ہے۔ اشفاق بھائی ایک اچھا شاعر اور خوبصورت ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سحربیاں مقرر بھی ہے۔اس کی گھمبیر آواز چھا جانے کے فن سے پوری طرح آگاہ ہے۔ مت پوچھیے اندازِ گل افشانی گفتار۔وہ جب بولتا ہے تو شعلہ سالپک جاتا ہے اس کے باطن میں مراقبوں اور کشفوں کی کیفیات مکمل طور پر دھڑکتی ہیں۔ مضبوط ارادوں اور سچے عملوں والے اس شخص کی آنکھیں ہر وقت مجھے اپنے وجود میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ زندگی سے بھر پور چہرہ زندگی کو کچھ سوچنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ وقت اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ٹھہر سکتا ہے۔ لمحے رک سکتے ہیں۔ وہ اپنے اندر جذبوں کے طوفان رکھتا ہے۔ اس میں کچھ کر گزرنے کی طاقت ہے۔میں اس کی روح میں اترنا چاہتا ہوں۔ مگر جہاں وہ نجانے کب سے جاگ رہا ہے۔ جاگتی آنکھوں اور جاگتے خوابوں کی بستی میں رہنے والا وہاں جاگ رہا ہے جہاں کا ر زار حیات کو پہچاننے والے حیات کا زنداں توڑنے میں مصروف عمل ہیں۔جہاں سوچ کے مجاہدے زندگی بن کر بکھر رہے ہیں۔ وہ محبت کرنے والا آدمی ہے جب کبھی مجھ سے بغل گیر ہوتا ہے تو مجھے اپنے دل کی دھڑکن سنائی دینے لگتی ہے۔۔ وہ میرا بھائی ہے۔ میرا ساتھی ہے۔ میرا ہم سفر ہے۔ میرا دوست ہے۔ ‘‘ اپنی سچائی کی وجہ سے اشفاق بھائی نے بے شمار نقصان اٹھائے اگر وہ تھوڑے سے بھی دنیا دار ہوتے تو بہت بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوسکتے تھے مگر ساری زندگی کالج اور اس کے بعد یونیورسٹی میں طالب علموں کو پڑھاتے رہے۔میں نے انہیں ایک بار کہا کہ آپ میرے ساتھ ڈاکٹر شیرا فگن کے پاس چلے آئیں، وہ آپ کو حکومت میں کوئی اچھا عہدہ لے دیں گے۔ میری ان سے بات ہوئی ہے تو اقبال کا یہ شعر پڑھ کر مجھے خاموش کر دیا۔

 

اے طاہر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

 

میں نے جب اپنا پہلا نعتیہ مجموعہ ’’ آفاق نما‘‘ شائع کرایا تو ان سے بھی ایک فلیپ لکھوایا تھا۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا۔ ’’ نعت اگر رسمانہ لکھی گئی ہو بلکہ کسی باطنی کر ب کے اظہار کا ذریعہ کر سامنے آئے تو پڑھنے والے پر ایک جدا تاثر چھوڑتی ہے۔ ایسی نعت داغ محبت رکھنے والے ہر دل کو وہی کیفیت عطا کرتی ہے جو اس کے خالق پر لمحات تخلیق میں طاری ہوتی ہے۔ محمد منصور آفاق کی نعتیں اس کے طواف عقیدت کا سلسلہ جمیل ہیں۔ تحدیثِ نعمت کا دلکش اسلوب ہیں۔ سنت اللہ کا حسین اتباع ہیں۔ اپنی احتیاج و ضرورت کا خوبصورت اظہار ہیں اور اس کے ساتھ عصر حاضر کی اذیت رسانیوں کے خلاف بارگاہ رسالت مآب میں استغاثہ ہیں۔ یہی میری نگاہ میں اس کتاب کی نمایاں ترین خصوصیت ہے۔۔ آفاق نما دنیائے شعر و ادب میں منصور آفاق کی اولین پہچان بن کر آ رہی ہے۔ میری دعا ہے کہ رب کریم اسی نسبت کواس کی دائمی پہچان بنا دے۔ آمین ثم آمین‘‘ اشفاق بھائی کی فکر کا جو میری نعتیہ شاعری پر سب سے زیادہ اثر تھا، وہ انہی کی زبان میں ( عصر حاضر کی اذیت رسانیوں کے خلاف بارگاہ رسالت مآب میں استغاثہ ہے ) حضورؐ کے حضور دنیا کے غم بیان کرنے کا انداز میں نے انہی سے سیکھا تھا اس کے بعد تو پھر ایک عہد نے اسی انداز میں نعتیہ شاعری کی۔۔۔ اشفاق بھائی کے دو نعتیہ شعر دیکھیے

 

ہیں سجدہ ریز کہاں کجکلاہ امت کے

غلام آپ کے ہوتے تھے شاہ امت کے

 

حضور (ص)پاؤں میں رکھ لیجئے خیال و خواب

بھٹکتے پھرتے ہیں قلب و نگاہ امت کے

 

اسی زمیں میں میرا خیال ہے۔محمد اظہار الحق نے بھی کوئی نعت یا غزل کہی ہے۔ فقیرانہ عنصر ان کے مزاج میں بہت زیادہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کا ایک مصرعہ میانوالی کے ایک اور شاعر نے اپنی غزل میں استعمال کر لیا تو انہوں نے اپنے شعر ہی کو کاٹ دیا۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ کیا بات ہوئی توہنس کر کہنے لگے۔ چلو یہ سمجھو کہ یہ مصرعہ خیرات میں چلا گیا ہے ‘‘ اصولاً تو مجھے اس شاعر کا نام اور وہ مصرعہ یہاں لکھ دینا چاہئے مگر مجھے پتہ ہے کہ اشفاق بھائی اسے پسند نہیں کریں گے سوان کے احترام میں نہیں لکھ رہا۔انہوں نے بہت سی غیر منقوط نعتیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی ایک غیر منقوط نعت جب ’’ ماہ نو‘‘ میں شائع ہوئی تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مظفر علی سید نے مجھ سے کہا تھا میں نے بہت سے شاعروں کی غیر منقوط شاعری پڑھی ہے مگر اس نعت کو پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ یہ شخص اگر کوشش کرے تو اردو ادب کو کوئی زندہ جاوید غیر منقوط شعر دے سکتا ہے۔اردو ادب میں کوئی ایسا غیر منقوط شعر موجود نہیں جس میں زندہ رہنے کی قوت ہو۔ اشفاق بھائی کی غیر منقوط شاعری پر رمضان کے مہینے میں، میں نے ایک کالم لکھا تھا درج کر رہا ہوں۔ ’’خاتم المرسلین کی خیرو برکت سے رمضان کے پر سعادت مہینے نے میرے گھر کی فضاؤں کو پاکیزگی کے پھولوں سے بھر رکھا ہے، مجھے اپنے بھائی محمد اشفاق چغتائی کے کشتِ رباعی میں کھلے پھول یاد آرہے ہیں۔ نیکی کے عبادت کے خزینے کو کہیں جیون میں سعادت کے قرینے کو کہیں ہے تزکیۂ نفس کی جنت اشفاق رمضان ثوابوں کے مہینے کو کہیں ثوابوں کا یہ مہینہ جب بھی آتا ہے مجھے اشفاق بھائی شدت سے یاد آنے لگتے ہیں۔ وہ بھائی جس نے اپنی تمام زندگی اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لئے صرف کر دی۔ اسلام کے حوالے سے ایسی زندہ جاوید شاعری کی کہ ان کے اشعار کے مصرعے جب نعروں کی صورت میں مسجدوں میں گونج رہے ہوتے ہیں تو میرا سرفخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ یہ نعتیہ شاعری اس دور کی ہے جب اشفاق بھائی نوجوان تھے اور انجمن طلبائے اسلام پنجاب کے ناظم ہوا کرتے تھے۔ یہ سانس اک فریب ہے یہ جان ایک بھول ہے جو عشق مصطفی نہ ہو تو زندگی فضول ہے یہ جاہ اور جلال کیا، یہ مال اور منال کیا غلامیِ رسول میں تو موت بھی قبول ہے بتول کے، نواسۂ رسول کے غلام کے ہیں مدنیہ تیرے ایک ایک پھول کے غلام ہیں جبیں پہ داغ دین کے، گلے میں طوقِ مصطفی غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں اس وقت میرا موضوع اشفاق بھائی کی نعتیہ شاعری ہے مگر تمام نعتیہ شاعری کا احاطہ کرنے کے لئے تو کئی دفتر درکار ہوں گے میں صرف ان کی غیر منقوط نعتیہ شاعری کے بارے میں کچھ لکھنا چاہ رہا ہوں غیر منقوط شاعری کا سب سے زیادہ رواج نعت کے باب میں ہوا، جب جب یہ سوچا گیا کہ : بے عیب شاہکار ہے ربِ جلیل کا نقطہ بھی ناگوار محمد (ص) کے نام پر تب تب یہ خیال بھی آیا کہ احترام کا تقاضا تو یہ ہے کہ نعت میں کوئی بھی ایسا لفظ نہیں آنا چاہئے جس پر نقطہ کا بوجھ پڑا ہوا ہو۔ یقیناً ایسی نعتیں لکھنا بہت محنت طلب کام ہے مصرعہ تو کجا مجھے تو صرف ایک ایسا جملہ تخلیق کرنا بھی مشکل لگ رہا ہے۔ جس میں تمام حروف غیر منقوط ہوں۔ لیکن اس باب میں بھی بڑے لوگوں نے بڑے بڑے کمال کیے ہیں۔ اکبر بادشاہ کے مشہور درباری ابوالفضل نے عربی زبان میں قرآن حکیم کی غیر منقوط تفسیر لکھی ہے۔ ولی محمد رازی نے اردو زبان میں پوری سیرت رسول اللہ غیر منقوط تحریر کی ہے۔ شاعری کے میدان میں انشا للہ خان سے لے کر محمد اشفاق چغتائی تک بہت سے ایسے نام موجود ہیں جنہوں نے یہ مشکل ترین کام کیا مگر ان کی تعداد بھی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ محمد اشفاق چغتائی میرے بڑے بھائی تھے چوالیس سال کی عمر میں فوت ہو گئے مگر چوالیس سالوں میں وہ جو کچھ لکھ گئے ہیں ان کے لئے کئی زندگیاں بھی کم ثابت ہوسکتی ہیں وہ ایک بہت اچھے شاعر، ادیب اور مقرر تھے۔ان کی زیادہ تر شاعری نعت کے علاوہ وحدتِ امت مسلمہ کے موضوع پر ہے۔ غیر منقوط شاعری میں بھی حمد و نعت کے ساتھ ساتھ دوسرے موضوعات پر بھی اشعار موجود ہیں۔ ان کی غیر منقوط شاعری کے کچھ حوالے پیش کرتا ہوں۔

طلسم اسمِ  محمد (ص) کا دائرہ ہے کوئی

مری دعا کی کمائی کا سلسلہ ہے کوئی

 

کرم کی راہ سے آئے کسی سحر کی طرح

اسے کہو در امکاں کھلا ہوا ہے کوئی

 

وصال و وصل کی گرمی اسی کے دم سے ہے

طلوع مہر مسلسل کا آسرا ہے کوئی

 

دکھائی دے کسی صحرا سے گل کدہ کس کا

ہوا کمال کی ہے اور ہرا ہرا ہے کوئی

 

کہا کہ ہے مرا اللہ احد و واحد

گلی گلی کہے، لولاک صدا ہے کوئی

 

سوائے سرورِ عالم کے اور اے عالم

مرا سوال ہے کہ درد کی دوا ہے کوئی

٭

 

اللہ کے احساس کا احساں کوئی کم ہے

سارا ہی کم اس درِ  والا کا کرم ہے

 

حاصل ہے اسی محرم اسرار کے دم سے

وہ سرورِ لولاک ہے، سردار امم ہے

 

ہے وردِ  مہ و سال وہی اسم گرامی

ہر عہدِ سحر اسم محمد (ص) کا کرم ہے

 

اک درد کا لمحہ اسے سرکار عطا کر

دل سادہ و معصوم ہے، محروم الم ہے

٭

 

دل کہے حوصلے والا ہے، سحر کا موسم

وہ مگر کس لیے کالا ہے سحر کاموسم

 

اے مری حدِ گماں ! مہر مسلسل ہے ادھر

کہ محمد (ص) کا حوالہ ہے سحر کا موسم

 

آسماں اور سحر اور کوئی اور سحر

اک سما وار رسالہ ہے سحر کا موسم

 

ہے کوئی ردِ عمل کہ کوئی معصوم طلوع

ہاں مگر حاصلِ لالہ ہے سحر کا موسم

٭

 

اشفاق بھائی کی وسعتِ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ انہیں کوئی شعر سنایا جاتا تو وہ اسی خیال کے عربی، فارسی اور اردو میں جتنے شعر کہے گئے ہوتے تھے،سب سنا دیتے تھے۔ میرے کہنے پر ایک بار انہوں نے ‘‘ مسافر خیال ‘‘ کے نام سے ’’ فنون ‘‘ میں ایسا ایک مضمون بھی لکھا تھا جس میں ایک خیال کے بہت سے بڑے شاعروں کے شعر درج کیے تھے۔ وہ اس موضوع پر ’’ مسافر خیال ‘‘ کے نام سے ایک پوری کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر ہم سب اللہ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانتے ہیں۔ جب انہوں نے یہ شعر کہا تھا تو مجھے اس خیال کے بہت سے دوسرے شعر سنائے :

 

کوئی گزر ہو میرا محمد (ص) کے دور سے

اے کاش روشنی کا زمانہ ملے

 

مجھے ان میں سے عربی اور فارسی کا تو کوئی شعر یاد نہیں رہا اردو کے بھی تمام اشعار یاد نہیں رہے جو دو شعر یاد رہ گئے ہیں درج کرتا ہوں :

 

تو نے کس دور میں کھولی ہیں ظہوری آنکھیں

ان کو دیکھا نہ انہیں دیکھنے والے دیکھے

 

گل نے تو دیدۂ بلبل کے ہی نالے دیکھے

تجھ کو دیکھا نہ ترے چاہنے والے دیکھے

 

اس کے علاوہ شاید اشفاق بھائی نے مجھے اسی خیال کے ابو نواس، بیدل، محسن کاکوروی اور ایک دو اور شاعروں کے شعر سنائے تھے۔ پچھلے دنوں زاہد فخری نے بھی اسی خیال کو بہت ہی خوبصورت انداز میں ادا کیا ہے۔ ساری صدیوں پہ جو بھاری ہے وہ لمحہ ملتا کاش سرکار دو عالم کا زمانہ ملتا قدرت نے اشفاق بھائی کوئی ایسی چیز ضرور دے رکھی تھی جو ہم عام لوگوں کے پاس نہیں ہوتی۔اس کا ایک تجربہ تو مجھے یہ ہوا کہ زندگی میں جب بھی انہوں نے مجھے کسی شخص کے متعلق یہ کہہ دیا کہ یہ اچھا آدمی نہیں ہے تو وقت نے ثابت کیا کہ وہ آدمی اچھا نہیں تھا اور خاص طور پر جس بات نے ان کی روحانیت سے پردہ اٹھا دیا ہے وہ ان کا وہ آخری خط ہے جو انہوں نے مرنے سے تقریباً ایک ماہ پہلے مجھے لکھا تھا۔اس میں اشفاق بھائی لکھتے ہیں : ’’ مجھے لگ رہا ہے کہ اب میں دنیا سے جانے والا ہوں شاید یہ سال میری زندگی کا آخری سال ہو۔ میں نے اپنا ایک قطعہ تاریخ نکالا ہے۔ہوسکتا ہے دوسرا نکالنے کی ضرورت پیش نہ آئے :

 

سفر نہیں ہے ہمارا بہار سے آگے

چلے نہ سانس سن دو ہزار سے آگے

میں کہہ رہا ہوں خود اپنا یہ قطعۂ تاریخ

حیات غوث کی ہم ’’ ہم مزار سے آگے

 

میں نے خط پڑھ کر سوچا تھا کہ اشفاق بھائی شاید ذہنی اعتبار سے بہت زیادہ ڈسٹرب ہیں مگر جب وہ ہسپتال میں داخل ہوئے تو میرے دل میں ہول اٹھنے لگا کہ کہیں یہ قطعۂ تاریخ درست ہی ثابت نہ ہو ا اور وہ انتقال فرما گئے۔ اپنی موت سے پہلے یہ کہنا کہ اب میرا وقت پورا ہے۔ وہ حیرت انگیز بات جسے اتفاق کہنے پر جی نہیں مانتا کیونکہ اگر کوئی ستر،اسی سال کا آدمی ایسی بات کرتا ہے اور وہ صحیح ثابت ہوتی ہے۔ تو اسے اتفاق کہا جا سکتا ہے۔ مگر ایک شخص جس کی عمر چوالیس برس ہو، اس کی طرف سے اپنی موت کی پیش گوئی اتفاق نہیں کہی جا سکتی۔ پھر انکی شاعرانہ عظمت کا مجھے اس وقت اور زیادہ احساس ہوا جب میں نے ان کا قطعہ تاریخ نکالا۔ میرے نکالے ہوئے دونوں قطعاتِ تاریخ لفظی باز گری دکھائی دیتے ہیں۔ مگر ان کے قطعۂ تاریخ میں روانی، سادگی اور وہ سب کچھ ہے جو کسی سرزد ہو جانے والی شاعری میں ہوتا ہے۔ مگر قطعۂ تاریخ سرزد نہیں ہوسکتا۔ یہ طے شدہ بات ہے میرے کہے ہوئے قطعات یہ ہیں۔

 

قطعۂ تاریخ وفات (محمد اشفاق چغتائی)

 

گونجتا ہے نغمۂ اسم محمد

ہو رہی ہے وسعتِ  آفاق فرخ

منتظر ہیں صاحبِ مکی و مدنی

آسماں تک ’’ رحلتِ اشفاق فرخ ‘‘

 

قطعۂ تاریخ وفات (محمد اشفاق چغتائی)

 

تجھے دیکھا نہیں ہے آخری پل

یہی دکھ ہے قیامت زاد اشفاق

مرے دل میں رہے گی زندگی بھر

یہی ظالم ’’ خلش آباد اشفاق ‘‘

 

ایک بات کا مجھے بہت دکھ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنا شعری مجموعہ مرتب نہیں کیا۔میرے پاکستان میں نہ ہونے کی وجہ ان کی چیزیں بھی مکمل طور پر جمع نہیں ہوسکیں۔ اس سلسلے میں اسد مصطفی نے بہت کام کیا ہے لیکن ابھی ان کی بہت سی چیزیں نہیں ملیں۔ کچھ غزلوں کے ایک یا دو تین شعر درج کر رہا ہوں۔

 

حاصل حیات کا ہے فقط عشق مصطفی

باقی جو ہے کباڑ ہے ٹوٹے مکان کا

 

سینے کے بیچ رکھا ہوا ہے خیال ہے

ٹکڑا ہے ایک پاس مرے آسمان کا

 

ہے ایک پل صراط پہ چلنے کا واقعہ

کردار گر پڑا تھا مری داستان کا

 

پھر رہا ہوں بستیوں میں دیر سے

آدمی سے بات کرنا چاہتا ہوں

 

آپ کی ذات سے آگے نہیں سپنے میرے

میرے ماں باپ فدا آپ پہ بچے میرے

 

میرا ظاہر میرے باطن سے ملا جاتا ہے

ملتے جاتے ہیں یہ آپس میں کنارے میرے

 

میں مدینے کا گدا ہوں میں محمد کا فقیر

سنگ باری نہ کرو مجھ پہ خرد مندی کی

 

چاک دامان وفا آنکھ سے سینے کو چلیں

فصل گل آئی ہے ہم آؤ مدینے کو چلیں

 

گنبد خضرا کا اشفاق کریں مل کے طواف

جامِ عرفان چلو دوستو پینے کو چلیں

 

عین ممکن تھا کہ مل جاتی مجھے میری مراد

اس مسافت پہ طبعیت نہیں آئی میری

 

مجھے گلوں کا نہیں تجربہ ذرا اشفاق

بہار میرے گلستان سے دور رہتی ہے

 

یہ سچ ہے مل گئی تھی بہاروں کی سلطنت

یہ اور بات خار حکومت میں آ گئے

 

حواسِ  خمسہ معطل تھے ہر طرف اشفاق

عجیب لالہ و گل تھے عجیب خوشبو تھی

 

کنارِ خواب مچلتی تھیں خواہشیں لیکن

مجھے خیال تھا اشفاق رتجگوں کا بہت

 

مسافتیں تو زیادہ نہیں تھیں منزل کی

میں ہم سفر رہا پر بیچ راستوں کا بہت

 

فصیل شہر گرائی بڑے طریقے سے

کہیں دریچے کہیں در بنا دئیے ہم نے

 

خبر مل تھی طلسمی سپاہ کی اشفاق

گھروں کو خوف سے تالے لگا دئیے ہم نے

 

اجل کے شہر میں رہنے کا یہ قرینہ تھا

قیام گاہ فنا کو بنا لیا میں نے

 

کسی سے ملنے گئے اور خود سے مل آئے

شب وصال عجب واقعہ ہوا ہم میں

 

تمام بوجھ اتارے ہیں پھر بھی وحشت ہے

نجانے کون ابھی ہے پڑا ہوا ہم میں

 

دیار دوست کی صورت کسی بلا سی تھی

کہیں ملال کہیں غم کہیں اداسی تھی

 

تمنا تھی کہ اسے سوچتے کبھی اشفاق

خیال و خواب کی وسعت مگر ذراسی تھی

 

موت کا خواب آ رہا ہے کوئی

زندگی زہر لگ رہی ہے مجھے

 

محی الدین ابن عربی اشفاق بھائی کی سب سے پسندیدہ شخصیت تھے۔ وہ اکثر اوقات مجھے ان کی زندگی کے واقعات سناتے رہتے تھے۔ جن میں تمثیلی انداز میں فکر کا ایک جہاں آباد ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ان سے میاں محمد بخش کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی تو میں نے انہیں کہا کہ میاں صاحب کے اس شعر:

خاصاں دی گل عاما ں اگے نئیں مناسب کرنی

مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی

اس پر اعتراض کرتے ہوئے معروف نقاد ڈاکٹر طاہر تو نسوی نے لکھا ہے ’’ میاں محمد بخش کے اس شعر سے اس بات کا احساس ابھرتا ہے کہ وہ علم کی وسیع ترسیل کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا یہ شعر طبقاتی تقسیم کا عکاس ہے۔ وہ شاید عام آدمی تک علم نہیں پہنچانا چاہتے تھے کیونکہ علم حاصل کرنے کے بعد عام آدمی عام آدمی نہیں رہتا، اس کا شمار خواص میں ہونے لگتا ہے ‘‘ تو انہوں نے مجھے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ بظاہر اس شعر کا یہی مفہوم ہے اور اس سے یہی کچھ اخذ کیا جا سکتا ہے لیکن میرے خیال میں یہ اس شعر کا صحیح مفہوم نہیں ہے۔ اس شعر کا تعلق تصوف کی دنیا سے ہے مجھے اس حوالے سے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا ایک واقعہ یا د آ رہا ہے۔ ابن عربی کبھی کسی سے بھی فلسفیانہ زبان میں بات نہیں کرتے تھے،چاہے کوئی جاہل مطلق ہویا کوئی بہت بڑا عالم۔ جو لوگ ان کی صحبت سے فیض یاب ہوتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ عام زندگی کے چھوٹے چھوٹے موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے تھے۔ دعوتیں ہوتی تھیں۔ انہیں اپنے ساتھ سیر پرلے جاتے تھے۔ ان سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ آپ کیسے کسی کو علم دے سکتے ہیں۔ آپ نے تو کبھی علم سکھانے کی بات ہی نہیں کی تو آپ نے اس سے کہا کہ ایک آدمی نے درخت کے نیچے کچھ سونا دفن کیا تھا کہ یہاں محفوظ رہے گا جب وہ واپس اسے نکالنے کے لیے گیا تو سونا غائب تھا۔کسی نے جڑوں کو کھود کر وہ خزانہ چرا لیا تھا۔بیچارہ بہت پریشان ہوا اور شہر کے سب سے بڑے دانش مند کے پاس گیا۔ اسے اپنی پریشانی بتائی اور مایوسی کے عالم میں کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اب میرا خزانہ مجھے واپس نہیں مل سکتا۔دانش مند نے اسے کہا کہ میرے پاس کچھ دن کے بعد آنا۔ اس دوران دانشمند نے شہر کے سب حکیموں سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ کسی نے فلاں درخت کی جڑوں کا نسخہ تو کسی کو لکھ کر نہیں دیا۔ ایک حکیم نے اپنے ایک مریض کو اس درخت کی جڑوں کا نسخہ لکھ کر دیا تھا۔دانشمند نے اس مریض کو بلایا اور اس سے خزانہ لے کر اصل مالک کو واپس کر دیا۔ اسی طرح مجھے بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ میرے کس پیرو کار کو کس چیز کی تلاش ہے اور میں اس کی ضرورت پوری کر دیتا ہوں۔ یعنی برگزیدہ لوگ جب کسی سے بات کرتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ جس سے ہم کلام ہیں وہ کون ہے کس حد تک بات کو سمجھتا ہے کیونکہ سننے والے کے اندر بھی کئی قسم کے تعصبات موجود ہوتے ہیں۔’’ مجھے اسی مفہوم میں اشفاق چغتائی کی ایک رباعی یاد  آ رہی ہے۔ یقیناً یہ رباعی انہوں نے ابن عربی سے متاثر ہو کر کہی تھی۔

 

اعجاز طلب کس میں ہے طالب ہے کون

عرفان کسے چاہئے، کاذب ہے کون

پس دیکھتا ہوں ظرف کی وسعت اشفاق

یہ سوچتاہوں میرا مخاطب ہے کون

 

طالب کے ظرف کے حوالے سے ابن عربی کے مرید خاص جعفر بن یحییٰ کا ایک واقعہ بھی اشفاق بھائی نے مجھے سنایا تھا کہ وہ جب اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ کی تلاش میں سپین سے مکہ پہنچا تو وہاں اسے سبز جبہ پوش اجنبی ملا۔اس نے جعفر بن یحییٰ کے کچھ کہنے سے پہلے اسے کہا ’’ تم جس سب سے بڑے شیخ کی تلاش میں مشرق میں آئے ہو وہ زمانے کا استاد تو مغرب میں موجود ہے اور تمہاری تلاش میں ایک کمی بھی ہے جہاں سے آئے وہاں واپس چلے جاؤ۔ وہ وہیں ہے۔ حاتم طائی کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے العربی کا بیٹا ہے اور اس کا نام محی الدین ہے ‘‘ جعفر نے جبہ پوش کی بات سن کر واپسی کا سفر اختیار کر لیا۔ طائی قبیلہ سے محی الدین کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اسے ڈھونڈ تے ڈھونڈتے ایک درسگاہ میں پہنچا اور وہاں موجود ایک شخص سے محی الدین کا پوچھا تو اس نے ایک طالب علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ وہ محی الدین ہے ‘‘ وہ طالب علم درسگاہ کے ایک کمرے سے عجلت میں نکل رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ جعفر نے اس نوجوان کو حیرت سے دیکھا اور روک کر پوچھا ’’ اس زمانے کا سب سے بڑا استاد کون ہے ‘‘ تو محی الدین نے کہا ’’ مجھے اس سوال کا جواب دینے کے لئے کچھ وقت چاہئے ’’ جعفر نے اس سے پوچھا ’’ تم ہی طائی قبیلے کے العربی کے بیٹے محی الدین ہو ‘‘ تو اس نے کہا ’’ ہاں میں ہی ہوں ‘‘ جعفر بولا تو مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ تقریباً تیس سال کے بعد جعفر اس ہال میں داخل ہوا،جہاں ابن عربی تقریر کر رہے تھے۔ انہوں نے جعفر کے اندر داخل ہوتے ہی کہا ’’ جعفر بن یحییٰ اب جب میں تمہارے اس سوال کا جواب دینے کے قابل ہوں جوتم نے آج سے تیس سال پہلے مجھ سے پوچھا تھا تو تمہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ تیس سال پہلے جعفر کو میری ضرورت نہیں تھی،کیا اب بھی اسے میری ضرورت نہیں ہے ؟ جس سبز جبہ پوش نے تیس سال پہلے تمہاری تلاش میں کسی کمی کا تذکرہ کیا تھا وہ کمی وقت اور جگہ کے تعین کی تھی ‘‘ یعنی کہ حاصل کے لیے صحیح وقت اور صحیح جگہ کا تعین ضروری ہے۔ اگر طالب کا سوال زمان و مکان کو مد نظر نہیں رکھتا تو اس کی جستجو نا تمام قرار پاتی ہے۔ ہر طالب کے لئے طلب کے مطابق ظرف لازم ہے وگرنہ صورت حال وہی میاں محمد بخش والی ہو جاتی ہے (مٹھی کھیر پکا محمد کتیا ں اگے دھرنی ) پیمانہ اگر ظرف سے زیادہ بھر دیا جائے تو چھلک جاتا ہے۔ اسی حوالے سے ابن عربی کا ایک اور واقعہ بھی اشفاق بھائی نے کئی جگہوں پر درج کیا ہے کہ ایک شخص عراق کے شہر موصل سے ان کے پاس آیا اور انہیں کہا کہ میں نے حضرت معروف کرخی کو خواب میں دیکھا کہ وہ جہنم کی آگ کے مرکز میں بیٹھے ہوئے ہیں۔یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ ایک اتنے بڑے روحانی مرتبے پر فائز شخصیت جہنم کی آگ میں کیسے ؟ تو ابن عربی نے اسے کہا کہ تمہارے اندر کی حالت اور معروف کرخی کی باطنی حالت کے درمیان ایک رکاوٹ ہے۔ وہی رکاوٹ تمہیں آگ کی صورت میں نظر آئی ہے اگر تم معروف کرخی کے باطنی اوج کو سمجھنا چاہتے ہو تو تمہیں وہ رکاوٹ پھلانگنی ہو گی۔ تمہارے باطن میں جو کمی ہے اسے دور کرنا ہو گا۔ تمہاری غلطی یہ ہے کہ تم یہ نہیں سمجھ سکے کہ جسے تم نے خواب میں دیکھا ہے وہ واقعی حضر ت معروف کرخی تھے اور وہ آگ واقعی جہنم کی آگ تھی ؟ جو نقش دکھائی دے رہا ہو ضروری نہیں کہ اس کے معنی بھی وہی ہوں اور نقش کو دیکھ اصل معنی تصور کرنا ان لوگوں کو شیوہ ہے جنہیں صراط مستقیم تک رہنمائی حاصل ہو چکی ہوتی ہے۔ یعنی ابن عربی یہ کہہ رہے ہیں کہ تمہارے اندر کی دنیا اتنی وسیع نہیں کہ تم حضرت معروف کرخی کے مقام کو سمجھ سکو۔اشفاق بھائی سے سنی ہوئی یہ باتیں میں اکثر اوقات اپنے کالموں میں لکھتا رہتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں میرے لکھے ہوئے حرف کے پیچھے ان کی دانش کا م کرتی ہے۔ ابن عربی کے ساتھ ساتھ یونانی فلاسفر فلوطینس سے اشفاق بھائی متاثر تھے۔ مجھے اشفاق بھائی کی رباعیوں میں فلوطینس کا فلسفہ بہت نظر آتا ہے۔ فلوطینس سے میری پہلی ملاقات ان دنوں ہوئی جب میں نے طے کر لیا تھا کہ افلاطون نے الوہیت اعلیٰ اور مادیت کے درمیان رابطے کا نظریہ قدیم اعتقادات سے اخذ کیا ہے اور اس موضوع پر پاکستان میں عربی زبان کے سب سے بڑے نثر نگار اور یونانی فلسفے کے ایک بڑے ماہر سید نصیر شاہ سے طویل گفتگو کی تھی۔ انہوں نے میری توجہ فلوطینس کی طرف مبذول کرائی اور جب میں نے فلوطینس کی کتاب نورتن سے تفصیلی بات چیت کی ( فلو طینس کے چون مقالوں پر مشتمل یہ کتاب مجھے اس کے شاگرد پار فری سے مستعار ملی تھی ) تو مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ وہ جدید افلاطونیت کا بانی ہے۔اس نے افلاطون کے فلسفے کو ایک ایسی تفہیم دی ہے کہ اس کی تعلیم تشکیک سے نکل کر ایک نئے مذہبی خیال میں ڈھل گئی ہے۔ وہ مجھے اہل تشکیک کی اس بات سے بھی متفق نظر آیا کہ افلاطون کی وہ تعلیم جو مادیت سے مبرا ہے، اسے سمجھنے کے لئے ابھی اور علم کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ انسان کے پاس وہ علم موجود ہے لیکن اس علم سے آگاہی کے لیے روح کو آسمانوں سے آگے کے کچھ سفر درپیش ہیں۔ اس کے نزدیک نظریات کوئی جامد شے نہیں بلکہ مسلسل ارتقائی عمل کا نام ہیں۔ اس نے اپنے نظریاتی ارتقاء کا ایک نظام وضع کیا ہے۔میں نے اس کے نظریاتی ارتقاء کی روشنی میں اس کو بڑے غور سے دیکھنے کی کوشش کی تو وہ مجھے اور بھی خوبصورت لگا۔مجھے اس کے نظریاتی ارتقاء میں وحدتِ کل کی جانب سے قدرت کاملہ کی مخلوق تک مختلف وسیلوں سے مسلسل اور مستقل ترسیل دکھائی دی اور وسیلۂ اول یعنی ادراک عظیم ( الوہی و باطنی خرد) سے روحِ کائنات رواں ہوتی ہوئی نظر آئی جہاں سے انسان و حیوان کی روحیں خارج ہو رہی ہیں اور مادہ وجود میں آ رہا ہے۔ فلوطینس نے روحانی آفاقیات کا جو پیچیدہ نظام پیش کیا ہے وہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ وحدتِ کل، فہم و ادراک اور روح۔ اور وہ ان تینوں کے اتصال کا نتیجہ وجود یا ہستی کو قرار دیتا ہے۔ اپنے اس روحانی نظام میں ادراک کے استغراق یعنی مراقبے کو اس نے ایک بار آور اصول کی حیثیت دی ہے جس کے باعث ہر موجود ایک مطلق حقیقت بن جاتا ہے یعنی کثرت وحدت میں بدل جاتی ہے۔اس کے نزدیک الوہیت ظاہر فطرت میں موجود ہے۔ اگرچہ وہ نظریۂ وحدت الوجود کو حتمی طور پر ماننے والوں میں سے نہیں ان سے زیادہ دور بھی نہیں بس اتنا بنیادی فرق ہے کہ اس کا نظریاتی نظام عدم سے تخلیق کے خیال کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ کہتا ہے ’’ جب انسان وجود سے بھی ترقی کر کے آگے نکل آتا ہے تب اس میں ذاتِ حق کا نور جھلکنے لگتا ہے۔یہی اس کی تنہائی اور یکجائی کا نور ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں تنہائی تنہائی سے ہم آغوش ہوتی ہے۔ اور ایک دن جب اشفاق بھائی نے مجھے اپنی یہ رباعی سنائی :

 

اک نور کی یکجائی ہم آغوش ہوئی

اس ذات کی رعنائی ہم آغوش ہوئی

انسان جو اس جسم سے باہر نکلا

تنہائی سے تنہائی ہم آغوش ہوئی

 

تو میں نے انہیں کہا یہ تو فلوطینس ہے تو کہنے لگے ’’ ہاں یہ بھی اپنے ہی مزاج کا شخص تھا۔ اس پر تھوڑا کام کرو۔اردو کی کسی کتاب میں اس کے متعلق کہیں مکمل معلومات موجود نہیں کہ وہ کب پیدا ہوا تھا، کہاں پیدا ہوا تھا وغیرہ وغیرہ،اور فلوطینس سے میری دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب میں نے کئی ماہ اس کے ساتھ لائبریریوں میں گزارے تو پتہ چلا کہ وہ رومن فلاسفر نہیں مصری فلاسفر تھا۔ اس نے 204 عیسوی میں مصر میں جنم لیا تھا۔چوبیس پچیس سال کی عمر میں اسکندریہ چلا گیا تھا،جہاں اس وقت کے معروف فلسفی ’’ عمونیئس ساکس ‘‘ نے اس کی علم کے لیے تڑپتی ہوئی بے چین روح کو سیراب کرنے کی کوشش کی مگر علم کے پیاسے فلوطینس نے بادشاہ کے ہمراہ ایران کا سفراختیار کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہاں کے فلسفیوں سے استفادہ کیا جائے۔ بادشاہ کو راستے میں قتل کر دیا گیا تو فلوطینس ایران جانے کی بجائے واپس روم آ گیا جہاں اس نے اپنا ایک فلسفے کا سکول قائم کیا۔ وہ بہت سحرانگیز گفتگو کرتا تھا۔ اس کے سننے والوں پر اس کی گفتگو کا اس قدر گہرا اثر ہوتا تھا کہ لوگ اپنی دولت غریبوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ غلاموں کو آزاد کر دیتے تھے اور زندگی زہد و تقویٰ کے لیے وقف کر دیتے تھے۔اس وقت کا رومن بادشاہ بھی اس کی گفتگو کے اسیروں میں سے تھا۔ اس نے بادشاہ کی اجازت سے اشتراکی سماج قائم کرنے کا ایک منصوبہ بھی بنایا تھا جو بادشاہ کے مشیروں کی مخالفت کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ اس نے روم ہی میں 270 عیسوی میں انتقال کیا۔ وہ آخری سانس تک لوگوں کو اپنے الوہی فلسفے سے سیراب کرتا رہا۔ اس کا تحریری کام اس کے مرنے کے بعد اس کے شاگرد ’’ پار فری ‘‘ نے مرتب کیا۔ چھ حصوں پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دی اور ہر حصے میں نو باب شامل کیے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپنی کتاب کے متعلق یہ ترتیب خود فلوطینس کی اپنی ہے۔ میں نے جب یہ تمام معلومات جمع کر کے اشفاق بھائی کو دیں تو انہوں نے میری طرف شاہد غزنوی کی ایک کتاب بڑھا دی جس میں فلوطنیس کے بارے میں اردو زبان میں سب کچھ موجود تھا۔ مجھے بڑا غصہ آیا اور میں نے کہا میں اتنے دن لائبریریوں کی خاک کیوں چھانتا رہا ہوں۔ آپ یہ کتاب پہلے مجھے نہیں دے سکتے تھے تو کہنے لگے ’’ لائبریریوں کی خاک نہیں چھانتے رہے،کتابوں کی گرد صاف کرتے رہے ہو تمہیں تو پتہ ہے کہ یہاں اور کون ہے جو الماری سے کتاب نکالنے کا سلیقہ بھی جانتا ہو۔ پچھلے دنوں فلوطینس سے میری تیسری ملاقات برطانیہ میں سید حسن عسکری کی وساطت سے ہوئی تو مجھے اشفاق بھائی بہت شدت سے یاد آئے۔سید حسن عسکری کی کتاب مراقبۂ ذات ‘‘ فلوطینس کی تصنیف کے اقتباسات کے حوالے سے تالیف و ترجمہ پر مشتمل ہے۔یہ کتاب پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کسی ’’ ہمدمِ دیرینہ ‘‘ یعنی اشفاق بھائی سے ملاقات ہو گئی ہو۔کہتے ہیں کہ ہمدم دیرینہ کا ملنا بہتر ہے ملاقاتِ  مسیحا و خضر سے۔ وہ بھی بڑی باکمال کتاب ہے۔ میں نے جب اسے پڑھنا شروع کیا تو مجھے یوں احساس ہوا جیسے میں 250 عیسوی میں روم کی گلیوں میں فلوطینس کے ساتھ پھر رہا ہوں اور وہ اپنی جادو بھری آواز میں میرے ساتھ محوِ گفتگو ہے۔راز کن فکاں کھولنے کی کوشش جاری ہے۔ The One کی تفہیم کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔ ماہیتِ روح زیرِ بحث ہے روح کے حصۂ زیریں اور حصۂ بالا کے درمیان رابطے کی صورت دکھائی دے رہی ہے۔ خیر مطلق کے قربِ مسلسل کے احساس کا اظہار ہو رہا ہے۔ صاحبِ معرفت کی خبر مل رہی ہے۔ اور سب سے بڑی بات جو سید حسن عسکری کی کتاب سے طلوع ہو رہی ہے۔ اس کا فلوطینس کے مراقبۂ ذاتِ احد کو اسلام کے توحیدی مزاج سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ان کی کتاب پڑھ کر کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کتاب میں فکر سے مراقبے تک کہیں کوئی ایسی فلسفیانہ بات موجود ہے جو دائرۂ اسلام سے باہر ہو اور یہی با ت اشفاق بھائی کہا کرتے تھے۔ مجھے اشفاق بھائی کی جن جن رباعیوں میں فلوطینس کی فکر دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہیں : اس عالم ناسوت میں آئی کیوں ہے اس قریۂ طاغوت میں آئی کیوں ہے اشفاق کوئی روح سے پوچھے اتنا اس جسم کے تابوت میں آئی کیوں ہے ہے خاک سے کچھ بیر، مجھے لگتا ہے یہ میرا حرم دیر مجھے لگتا ہے اشفاق جدا اصل سے کرنے والا یہ جسم کوئی غیر مجھے لگتا ہے اشفاق بھائی برٹینڈ ر سل کے بھی بہت قائل تھے، لیکن اس کی دہریت کی بنیاد پر کبھی اسے مکمل طور پر مسترد کر دیتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ رسل کا یہ خیال کہ ’’ انسان قدرت کا ایک حصہ ہے۔ قدرت سے مخالفت میں نہیں۔ اس کی سوچ اور جسمانی حرکات اسی انداز میں ہیں جس طرح ستاروں اور ایٹموں کی حرکت ہے۔ انسانی سوچ اور جسمانی حرکات بھی انہی قوانین کے تحت متحرک ہیں قطعاً درست نہیں اور خود اس کے بنائے ہوئے نظام فکر کی نفی کرتا ہے۔برٹینڈرسل کے پاس فطرت ایک مادر مشین کی طرح ہے سواس صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان یا کوئی دوسری مخلوق آزاد ہے۔میکانکی قوانین، آزادی کو مصلوب کر دیتے ہیں اور آزادی کے بغیر انسان کا علم دماغ کے کیمیائی رد عمل کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اچھائی اور برائی محض لفظ ہیں جنہیں انسانی دماغ نے کسی رد عمل کے طور پر زبان پر جاری کر دیا ہے۔رسل ہمیں خدا سے محروم اور جس دنیا سے آشنا کرتا ہے اس میں آزادی، اخلاقیات اور جوازِ علم کا کوئی امکان موجود نہیں۔ حالانکہ خود رسل آزادی، اخلاقیات اور علم کا علمبردار ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اشفاق بھائی مجھ سے یہ باتیں 1990 کے اردگرد کیا کرتے تھے۔ جب وہ سرگودھا کے ایک کالج میں پڑھایا کرتے تھے اور میں میانوالی سے لاہور ہجرت کرنے پر پر تول رہا تھا لیکن 1996 میں رالف اے سمتھ نے برٹینڈ رسل کے 1925 میں لکھے ہوئے مضمون ’’ میں کس بات پر یقین رکھتا ہوں ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے تقریباً یہی بات لکھی ہے۔اشفاق بھائی نے شاید 1990 ہی میں یہ رباعی بھی کہی تھی۔ مجبور قوانین کی، قدرت کی غلام ہے ردِ عمل کوئی نہ طاقت کی غلام آزاد ہے یہ ذہن ازل سے اشفاق انسان کی حرکت نہیں فطرت کی غلام اشفاق بھائی کا خیال تھا کہ خدا کو ماننے والے لوگ درست علم کی ایک ہی قسم ( عقلی ذہانت پر یقین رکھتے ہیں۔حالانکہ علم کی تین اقسام ہوتی ہیں۔کہتے تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ علم کی پہلی قسم یہی عقلی ذہانت کی قسم ہے جسے عقلیت پسندی کہا جاتا ہے۔یہ علم معلومات اور حقائق کو جمع کر کے کسی عقلی نتیجے کا  نام ہے۔ ان کے خیال میں علم کی دوسری قسم مختلف حالتوں کا علم ہے جس میں جذباتی احساسات اور ایسی ذہنی حالتیں بھی شامل ہیں جب انسان یہ سوچتا ہے کہ اسے کوئی بہت بڑی چیز حاصل ہو رہی ہے۔ مگر وہ اس چیز کو مکمل طور پر سمجھنے، حاصل کرنے اور استعمال کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ وہ اس علم کو جذباتیت کا نام دیتے تھے۔ علم کی تیسری قسم کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ اصل علم ہے اور اسے ’’ اصل کے علم ‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ان کے نزدیک علم کی یہ قسم انسانی سوچ اور انسانی حسیات سے ماورا یعنی ان کی حدود سے باہر سچ اور صحیح کے حصول اور پہچان کی قدرت کا نام ہے۔ اس کی وضاحت یوں کرتے تھے۔عالم اور سائنس دان عقلیت پسندی کو فکر کا حاصل سمجھتے تھے۔تجربہ کار لوگ علم،جذباتیت اور عقلیت کو مل کر ایک متبادل علم کی صورت میں استعمال کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جن پر حق ظاہر ہو جاتا ہے اور جنہیں سب سے بڑی سچائی کے ساتھ اپنے آپ کو ملانے کی قدرت حاصل ہوتی ہے وہ پہلی دونوں اقسام سے بلند ہو جاتے ہیں اور یہی لوگ صوفی اور درویش کہلاتے ہیں۔ جنہیں حقیقت میں اپنی منزل مل جاتی ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایک بار انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ علم کی یہ تینوں اقسام مجھے محی الدین ابن العربی نے بتائی ہیں کچھ اور باتیں بھی مجھے ان کی یاد ہیں جن کے بارے میں کہا تھا کہ یہ باتیں میں نے ابن عربی سے لی ہیں۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ کہاں تک ابن عربی کی باتیں ہیں اور کہاں سے ان میں اشفاق بھائی کی فکر شامل ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے ایک قطعہ کہا تھا : جل بجھی فصل کی تلاش میں ہوں گمشدہ وصل کی تلاش میں ہوں ڈھونڈتا ہے خدا مجھے اشفاق اور میں اصل کی تلاش میں ہوں جب میں نے اس قطعہ کی وضاحت چاہی تو کہنے لگے ابن عربی نے کہا ہے عام محبت کرنے والا اپنے ثانوی ادراک کو محترم جانتا ہے مگر میں اصل سے محبت کرتا ہوں۔ ابن عربی کے حوالے ایک اور بات جو انہوں نے ایک دن تقریر میں سنائی تھی۔اللہ تعالی کی شان بیان کرتے ہوئے مجھے وہ آج بھی یاد ہے۔ فرمایا تھا اس کے حسن کے سامنے ہر حسن و خوبصورتی خاموش ہے۔اس کے بارے میں سوچنا بھی اس کی نزاکت اور لطافت سے بھری ہوئی پر سراریت کو گزند پہنچاتا ہے۔عقل ویسے ہی کھردری نفاست سے عاری جھوٹی اور کم تر شے ہے۔ وہ اس کے ادراک کی کس طرح متحمل ہوسکتی ہے۔اسے ایک بھونڈی سی بھدی سی آنکھ جیسی چیز کیسے دیکھ سکتی ہے۔ اس کے حیران کرنے والے کمالات سوچ کی گرفت سے باہر ہیں نظر کی وسعت اسے مقید نہیں کر سکتی اس کے بارے میں وضاحت کی ہر کوشش اس کے سامنے مغلوب ہو جاتی ہے کیونکہ ایسا کرنا تحدید کے مترادف ہے اس کی وسعت کو کم کرنے کے مترادف ہے اسے محدود کرنا ہے اگر کوئی اس کی تلاش میں عام محبت کے انداز میں اسے چھونے کی خواہش میں اپنی امنگ اور اپنے اشتیاق کو کم درجہ کا بناتا ہے تو اس کی قسمت مگر ایسے بھی بہت سے موجود ہیں جوایسا کبھی نہیں کریں گے۔ رباعیات کی دنیا میں بھی اشفاق بھائی کسی سے کم نہیں۔ رباعی بہت پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ایک پسندیدہ صنفِ ادب ہے۔ آج کے دور میں کم ہی شاعر رباعی لکھتے ہیں۔ فارسی زبان سے شغف رکھنے والوں کی اس میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔ رباعی لفظ تو عربی زبان کا ہے مگر عربی زبان میں اس نام کی کوئی صنفِ ادب موجود نہیں، رباعی کی ابتدا فارسی زبان سے ہوئی اور اس کی صنف کو سب سے زیادہ شہرت عمر خیام کی وجہ سے ہوئی۔ عیش پسندی کے پس منظر میں اس کی انسان دوستی اس کی رباعیات کی مقبولیت کا سبب سمجھی جاتی ہے۔ فارسی زبان کے تقریباً تمام بڑے شعرائے کرام نے اس صنف میں کچھ نہ کچھ اظہار خیال ضرور کیا ہے لیکن شیخ سعدی(رح)، قاشانی اور فرید الدین عطار نے اس صنف میں خاصا کام کیا۔ فرید الدین عطار نے چھ ہزار رباعیات کہی ہیں۔ ہندوستان میں امیر خسرو نے فارسی زبان میں بہت لازوال رباعیات لکھیں اگر تسلسل سے دیکھا جائے تو رباعی کے حوالے سے ایک بات یہ نظر آتی ہے کہ اس صنف میں زیادہ ترفلسفیانہ انداز میں شاعری کی گئی ہے یعنی مسائلِ  تصوف ہی زیر بحث رہے ہیں گرچہ بظاہر ساغر و بادہ کی گفتگو ہے مگر حقیقت میں مشاہدہ حق کا مضمون باندھا گیا وہی غالب والی بات : ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر اردو زبان میں اس صنف کو زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی اس کے وجہ شاید ایک تو اس کے مشکل اوزان ہیں دوسرا اردو زبان پر غزل کی گرفت بہت زیادہ مضبوط ہے۔ اس صنف میں انہی لوگوں نے زیادہ تر شاعری کی جو فن شاعری کے اسرار و رموز سے پوری طرح واقف تھے۔ ولی دکنی، سودا، حسرت، انیس و دبیر، مصحفی، میر تقی میرا ور مومن خان مومن کے ہاں رباعیاں ملتی ہیں، اقبال نے کچھ رباعیات کہیں مگر زیادہ ترفارسی زبان میں اور ان کے اوزان کے حوالے سے ایک بحث بھی ہے کہ یہ قطعات ہیں یا رباعیات۔ ماضی قریب میں جوش اور فراق کے پاس بھی رباعیاں نظر آتی ہیں مگر کہیں رباعیات کی تعداد اتنی نہیں کہ انہیں اس حوالے سے کوئی بڑی اہمیت حاصل ہو۔ سید نصیر الدین گولڑی نے رباعی کے میدان میں بہت کام کیا ہے۔اشفاق بھائی نے بھی اپنی رباعیات میں ان تمام لوازمات کا پوری طرح خیال رکھا ہے جو اعلیٰ درجہ کی رباعی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ان کی رباعیات کے زیادہ تر موضوعات تصوف فلسفہ اور منطق سے تعلق رکھتے ہیں جو ان کے فکری رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے اپنی رباعیات میں اپنے نظریات کا بھی کھل کر اظہار کیا ہے اور انتہائی الجھے ہوئے فلسفیانہ موضوعات کو اس طرح شاعری میں تبدیل کر دیا کہ کہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ نظریہ ابھر کر سامنے آ گیا ہے اور شاعری کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ وہ عمر خیام کی رباعیات کے بہت مداح تھے اور شاید اسی وجہ سے انہوں نے اس صنف کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ان کی یہ رباعی مجھے عمر خیام کے بہت قریب محسوس ہوتی ہے۔

 

امید، سیہ خاکِ قفس چھونے لگی

اٹھو کہ سحر تارِ نفس چھونے لگی

وہ رات کے بے رحم محل کی چھت پر

دیکھو کہ کرن پہلا کلس چھونے لگی

 

عمر خیام بھی اپنی ایک رباعی میں کہتا ہے ’’ جاگو کہ سورج نے رات کے میدان میں اپنے سے پہلے جتنے ستارے تھے سب کو بکھیر دیا ہے اور ساتھ ساتھ رات کو بھی بھگاتا جا رہا ہے۔ اور اس نے اپنی روشنی سے سلطان کے مینار کو چھو لیا ہے ‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اشفاق بھائی کی رباعی شاعرانہ اعتبار سے اپنے کمال پر ہے۔رات کے بے رحم محل کی چھت اور کرن کے پہلے کلس کو چھونا، یہ سب مل کر ظلم کے خلاف ایک استعارہ کی صورت میں ڈھلتے چلے جا رہے ہیں۔ امیر کی یہ رباعی اپنے پس منظر میں ہزار سالہ پرانا عمر خیام رکھتی ہے۔ مگر اپنے پیش منظر میں وائٹ ہاؤس کے کلس تک کو لے آئی ہے۔ سفید محل سے نکلتی ہوئی تاریکی کے بارے میں اشفاق بھائی کی ایک اور رباعی بھی قابل داد ہے :

 

کیا قوم کہیں حامل تہذیب ہوئی

بارودی سرنگوں کی ہے تنصیب ہوئی

پھر امن کا بندوق سے پرچار کیا

تعمیر کے پھر نام پہ تخریب ہوئی

 

اشفاق بھائی نے بھوک اور مفلسی کی گپھاؤں میں ڈوبی ہوئی دنیا کا بھی مشاہدہ کیا تھا۔ روٹی کے لیے ہوتے ہوئے بلوے بھی ان کی نگاہ میں تھے اور وہ یہ بھی سوچتے تھے کہ ان کے لیے آسمانوں سے من و سلویٰ کیوں نہیں اترتا ان کی ایک رباعی دیکھئے :

 

موسیٰ نے کہیں طور کا جلوہ دیکھا

لوگوں نے اترتا من وسلویٰ دیکھا

روٹی کے لئے شہر میں شب بھر اشفاق

کب خون میں ڈوبا ہوا بلوہ دیکھا

 

بارودی سرنگیں دنیا کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں۔ اس وقت دنیا میں معصوموں کے مارنے کے لیے اتنی بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں کہ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ انہیں مکمل طور پر صاف کرنے لیے تقریباً نصف صدی درکار ہے مگر اس طرح کی اندھیروں بھری صورتحال میں اشفاق بھائی نا امید کہیں نظر نہیں آتے۔ امید اشفاق بھائی کے ہاں بہت واضح دکھائی دیتی ہے۔ وہ دکھ کی بات کرتے ہیں، رات کا قصہ بیان کرتے ہیں مگر سویروں سے ہم آغوش ہونے کے واقعات بھی سناتے ہیں بلکہ موت جیسے ہولناک موضوع پر اتنی خوب صورتی سے بات کرتے ہیں کہ اس میں بھی گلیمر پیدا ہو جاتا ہے، ان کی رباعی دیکھئے :

 

اک نور کی یکجائی ہم آغوش ہوئی

اس ذات کی رعنائی ہم آغوش ہوئی

انسان جو اس جسم سے باہر نکلا

تنہائی سے تنہائی ہم آغوش ہوئی

 

تخلیق کے بارے میں ان کا رویہ بھی علامہ اقبال سے ملتا جلتا ہے کہ خون جگر سے تربیت پاتی ہے سخنوری مگر اشفاق نے اس موضوع پر بہت کھل کر سیدھی سیدھی بات کی ہے کہ اعلیٰ معیار کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ ایسے موضوعات پر اظہار خیال کیا جائے جن میں دکھ کی فراوانی ہو۔ اپنی ایک رباعی میں کہتے ہیں۔ رنگوں سے کبھی درد کو تصویر کریں تیشے سے کبھی خواب کی تعبیر کریں تخلیق کریں جب کوئی خوش کن نغمہ غمگین خیالات کی تشہیر کریں انگلش زبان میں اس بات کو تقریباً ہر بڑے شاعر نے کہا ہوا ہے بلکہ انگریزی کا مقولہ ہے کہ عظیم شاعری ٹریجڈی سے نمودار ہوتی ہے، کامیڈی سے نہیں۔ غالب نے بھی کہا تھا : من از خویشتن بادل درد مند نوائے غزل برکشیدہ بلند زندگی اور موت کے بارے میں محمد اشفاق چغتائی کا نظریہ بھی بحث طلب ہے۔ وہ سقراط سے سچائی کی بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ موت کے بارے میں اس کے ساتھ بزم سوالات منعقد کرتے ہیں ان کی ایک رباعی دیکھئے۔

 

سچائی پہ موہوم سی کچھ بات ہوئی

بس موت پہ ہی بزم سوالات ہوئی

یہ بات الگ میں نہیں یونان گیا

سقراط سے کچھ دیر ملاقات ہوئی

 

سقراط کے ساتھ موت کے موضوع پر گفتگو کیوں ؟ اس کے پیچھے ایک کہانی موجود ہے کہ جب سقراط کو سزائے موت سنائی گئی تھی تو قانون کے مطابق سقراط کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر زہر کا پیالہ پینا تھا مگر مقدس دیوتاؤں کا جہاز دوسرے جزیروں کے دورے پر گیا ہوا تھا سو اس کی واپسی تک انتظار ضروری تھا۔ سقراط کو مہینہ بھر جیل میں رکھا گیا۔مہینہ بھر جیل میں محفلیں سجتی رہیں۔سقراط کے دوستوں نے جیل سے فرار کا منصوبہ بھی بنایا مگر سقراط نے انکار کر دیا اور موت اور روح کی لافانیت پر گفتگو کرتا رہا۔ سقراط کے شاگردوں نے اس گفتگو کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے مگر بہت سے سوال اور بھی ہیں جنہیں شاید اشفاق سقراط سے پوچھنا چاہتے تھے۔ محمد اشفاق چغتائی کو شاید علم ریاضی سے بھی دلچسپی تھی۔ ریاضی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ریاضی کا آغاز خارجی دنیا پر عددی تبصرے اور معروض کی گنتی اور پیمائش سے ہوتا لیکن ریاضی چونکہ ایک قائم بالذات زبان کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے مکمل طور معروضی دنیا یعنی فطرت کی پابند نہیں رہتی اور ادب جو امکانی وسیلوں سے آگے بڑھتا ہے۔ اسے ریاضی پر منتج نہیں کیا جا سکتا مگر اشفاق بھائی نے اپنی ایک رباعی میں ادب اور ریاضی کو آپس میں ہم آغوش کر دیا ہے۔ کہتے ہیں۔ اقلیدس سے علم ریاضی سے پوچھا منصور سے کی گفتگو قاضی سے پوچھا ہوتی ہے محبت میں مثلث آخر کیوں پوچھا خدا سے، عشق کے ماضی سے پوچھا ریاضی کے موضوع پر میری نظر سے اس سے پہلے صرف صادقین کی ایک رباعی گزری ہے۔صادقین نے ریاضی اور خطاطی کے باہمی رشتوں کو سامنے رکھتے ہوئے، وہ رباعی کہی ہے۔وہ کہتے ہیں۔

 

کچھ وصلیاں  میں اور سجا لایا ہوں

بالکل ہی نئے جوڑے بنا لایا ہوں

استادوں کی قید ریاضی میں تھے وہ

اس قید سے ابجد کو چھڑا لایا ہوں

 

صادقین کی رباعی سے اشفاق بھائی کی ایک اور رباعی یاد آ گئی ہے۔ بظاہر تو ان کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں، قافیے کی مناسبت کے سوا مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں رباعیوں کے درمیان کوئی مزاج کی ہم آہنگی ایسی ہے جس سے مجھے یہ رباعی یاد ہو گئی ہے۔

 

میں حرف ہوں لفظوں سے چھڑائے کوئی

میں لفظ ہوں جملے سے بچائے کوئی

اشفاق عمارات بھری ہیں لیکن

مفہوم کتابوں کا بتائے کوئی

 

رباعی کے چوبیس وزن ہیں اور ان میں کئی بہت مشکل بھی ہیں۔ میرے علم میں اردو زبان کا کوئی ایسا شاعر نہیں جس نے رباعی کے تمام اوزان کو استعمال کیا ہو، سوائے اشفاق بھائی کے۔ میرے اس دعویٰ کا سبب میرے مطالعہ کی کمی بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے۔ اساتذۂ فن اوزانِ رباعی کے دو شجرے بناتے ہیں۔ پہلا شجرہ اخرب اور دوسرا شجرہ اخرم۔ دونوں شجروں میں بارہ بارہ بحریں ہیں۔شجرہ اخرب کا پہلا رکن مفعول ہے۔اس کی پہلی بحر مقبوض ابتر ہے جس کے ارکان ہیں ( مفعول، مفاعلن، مفاعیلن، فع ) اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے۔

 

دنیا کو نیا نصاب دینا ہو گا

ہر جھوٹ کا اب حساب دینا ہو گا

کس نے ہے بھرا دروغ اتنا تجھ میں

تاریخ ! تجھے جواب دینا ہو گا

 

اس رباعی سے ایک اور بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اشفاق بھائی کو تاریخ سے بھی خاصی دلچسپی تھی اور انہوں نے تاریخ کے سمند ر میں اتر کر اس بات کا بھی ادراک کر لیا تھا کہ تاریخ سچائی کے ساتھ ساتھ جھوٹ کا ایک پلندہ بھی ہے۔تاریخ کو جانچنے کے لیے اب جو پیمانے بنائے گئے ہیں انہوں نے بہت سے تاریخی مسلمات کو غلط ثابت کیا ہے اور اس میدان میں ہونے والی ترقی یقیناً آنے والے ادوار میں اور بہت سی تاریخی سچائیوں کو غلط ثابت کر دے گی۔

 

شجرہ اخرب کی دوسری بحر مقبوض زلل ہے۔اس کے ارکان ہیں ( مفعول، مفاعلن، مفاعیلن، فاع) اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے۔

 

خورشید سے آشکار ہے کس کا عکس

ہر پھول میں نوبہار ہے کس کا عکس

اشفاق نہیں کوئی اگر تو پھر بول

آئینے میں بے قرار ہے کس کا عکس

 

خدا کے وجود کے حوالے سے یہ کیا عجیب رباعی ہے۔ اپنے ہونے کو جس طرح اشفاق بھائی نے خدا کے ہونے کا ثبوت بنایا ہے، اس کی مثال پہلے کہیں کم ہی نظر آتی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ وہ علم کے پانچ دروازوں یعنی حواس خمسہ پر گفتگو کر رہے تھے کہ افق پر زمین اور آسمان کا ملاپ جو نظر آتا ہے،ویسا نہیں ہے یعنی حسِ بصارت جھوٹ بولتی ہے۔ گاڑی کے شور میں ہم سفر کی گفتگو صحیح سنائی نہیں دیتی یعنی حسِ سماعت بھی ناقابلِ اعتبار ہے۔ رس بھرے گلاب جامن کھانے کے بعد میٹھی چائے کی پیالی بھی پھیکی لگنے لگتی ہے،جیسے حسِ ذائقہ ختم کر رہ گئی ہو۔ بخار میں تپتا ہوا ہاتھ نسبتاً کم حدتوں کو خنکیاں ٹھہرا جاتا ہے جیسے حسِ لامسہ مفلوج ہو گئی ہو اور رات کی رانی کی خوشبو جب صحن میں گھلتی ہے تو باقی پھول فقط رنگ ہو کر رہ جاتے ہیں یعنی حس شامہ پر بھی یقین نہیں رکھا جا سکتا۔ تو میں نے پوچھا تھا کہ اگر ہمارے حواس سچ نہیں بولتے ہیں تو پھر سچائی کیا ہے اور کہاں سے آتی ہے تو انہوں نے کہا تھا ’’ ہاں یہ علم کے پانچ دروازے نہیں ظن و تخمین کی تشکیک آور کھڑکیاں ہیں۔سچائی علم کا چھٹا دروازہ ہے جو باہر کو نہیں اندر کو کھلتا ہے یعنی ہر انسان کے باطن میں ہوتا ہے۔ اسی سے انسان کو اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔وہی اپنے اندر کسی اور کی موجودگی کی خبر دیتا ہے۔ آئینۂ ذات میں کسی کا عکس دکھائی دیتا ہے جو ایک طرح سے ہماری اپنی صورت بھی ہوتی ہے مگر اسے اپنی صورت پر تشبیہ دینا کفر ہے کہ وہ ذات حدود و قیود سے ماورا ہے اور اسے کسی شے میں مقید کرنا شرکِ عظیم ہے۔

 

شجرہ اخرب کی تیسری بحر مقبوض مکفوف مجبوب ہے۔ اس کے ارکان یوں ہیں ( مفعول، مفاعلن، مفاعیل فعل ) اس بحر میں اشفاق بھائی نے یہ حمدیہ رباعی کہی ہے۔

 

اس میری زمیں کو تو نے آفاق کیا

اس ذہن رسا کو پل میں براق کیا

تجسیم خیالوں کودی کچھ خواب بنے

اشفاق کو تو نے ہی تو اشفاق کیا

 

اس رباعی سے اشفاق بھائی کے نظریۂ حیات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ وہ زندگی کو کیا سمجھتے تھے۔ اشفاق کا اشفاق ہونا ان کے نزدیک کیا تھا یہی کہ خیالوں کو تجسیم کرنا اور خوابوں کو بننا۔ یعنی اشفاق بھائی کے خیال میں زندگی کی حقیقت خیال و خواب میں پنہاں ہے، فر و آگہی ہے، سوچنے کے عمل کا نام ہے۔سوچنے کے عمل کو وہ براق سے تشبیہ دیتے ہیں۔براق تو انسانی معراج کی سوار ی ہے۔

 

شجرہ اخرب کی چوتھی بحر مقبوض مکفوف اہتم ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں (مفعول، مفاعلن، مفاعیل، فعول ) اس بحر میں اشفاق بھائی نے ابتدائے آفرینش کی یادداشت کا مرثیہ کہتے ہوئے یہ رباعی کہی:

 

وہ نقل مکانی تو مجھے یاد نہیں ہے

جنت کی کہانی تو مجھے یاد نہیں ہے

ہے یادشِ مختصر یہی خاک نژاد

ماضی کی کہانی تو مجھے یاد نہیں ہے

 

یہ بحث صدیوں سے ہوتی چلی آ رہی ہے کہ انسان کی ابتداء کیا تھی۔ اس سلسلے میں صوفیائے کرام کا نقطۂ نظریہ ہے کہ انسان پہلے جمادات تھا پھر نباتات میں تبدیل ہوا پھر حیوانات کی شکل اختیار کی اور اس کے بعد انسان کی صورت میں وارد ہوا۔ مولانا روم نے مثنوی معنوی میں یہ ساری باتیں لکھی ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر یہی سچ ہے تو پھر قرآن حکیم میں جو قصۂ ابلیس و آدم آیا تھا۔ وہ کیا ہے۔ صوفیا کا اس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے تمثیلی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو یادداشت خاک نژادوں کو حاصل ہوسکی ہے۔ اس میں صوفیائے کرام کی کہی ہوئی بات سچ دکھائی دیتی ہے۔ یعنی ڈارون وغیرہ کا نظریہ مگر بحث کہیں ختم نہیں ہوتی۔ اشفاق بھائی کی یہ رباعی اسی کہانی کو بیان کرتی ہے۔ کہ میرے پاس تو وہی مختصر سی خاک نژاد یا موجود ہے۔ باقی سب کچھ میں بھول گیا ہوں۔ میں نے اسی موضوع پر ایک نظم کہی تھی عنوان تھا ’’ صرف خواص کے لیے ‘‘۔ ہست قرآں در زبان پہلوی کی ایک آیت اور ہم ابتدائے آفرینش کی کوئی ساعت۔۔۔ جماداتی زمانہ نیلم و الماس کے ڈھیروں میں حرکت کی طلسماتی نمو پہلے نباتاتی تغیر کا فسوں پہلے وجودیت کی پھر تجسیم کا ری جسم حیوان کے مسلسل ارتقاء کی آخری حد آدمیت کا جنم فکری و ذہنی سفر کے راستوں پر گامزن آدمی مٹی کی کچھ تبدیل ہوتی حالتوں کا اک ظہور آدم  و حوا کا قصہ ایک تمثیلی شعور اشفاق بھائی نے یہ نظم سن کر مجھے کہا تھا کہ تم نے فتویٰ صادر کر دیا ہے۔ آدم و حوا کے قصے کے بارے میں۔ اور تم یہ فتویٰ دینے کی حیثیت نہیں رکھتے کوئی نہیں رکھتا حتی کہ صوفیائے کرام بھی نہیں رکھتے ہیں کیونکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ بے شک ہم اسے سمجھنے کی کوشش میں غلطی بھی کرسکتے ہیں کیونکہ انسان ہیں مگر اس کلام کے بارے میں کوئی ایسی بات حرف آخر کے طور پر نہیں کہہ سکتے جس سے اس کی سچائی پر کہیں ذراسا بھی حرف آنے کا اندیشہ ہو۔

 

شجرہ اخرب کی پانچویں بحر احزم ابتر ہے اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعول، مفاعیلن، مفعولن، فع) اس بحر میں اشفاق بھائی کی یہ رباعی موجود ہے :

 

صورت ہو بے صورت کی ناممکن ہے

اک دید شہادت کی ناممکن ہے

ہم عرش سے اونچے بھی ہوسکتے ہیں

تسخیر اس وحدت کی ناممکن ہے

 

اس رباعی میں بہت سی باتیں جمع ہو گئی ہیں۔ ایک بار میں نے ایک نعتیہ شعر کہا تھا۔

 

مجھے معلوم ہے تسخیرِ یزداں کا عمل منصور

کرم خاک مدینہ کا مری دیدہ وری پر ہے

 

تو اشفاق نے اس میں سے دو غلطیاں نکالی تھیں۔ ایک تو یہاں دیدہ کی ’’ ہ ‘‘ نہیں بولنی چاہئے، دوسرا کہنے لگے کہ اقبال نے جو تسخیر یزداں کی بات کی ہے وہاں اس کے کہنے کا وہ مفہوم نہیں تھا جو تمہارے یہاں پیدا ہو رہا ہے اس پر تھوڑی سی محنت اور کرو کیونکہ وحدت کی تسخیر ناممکن ہے۔دوسری بات جو اس رباعی میں حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’ ہم عرش سے اونچے بھی ہوسکتے ہیں۔میرے خیال میں یہ مصرعہ کہتے ہوئے ان کے مد نظر ور فعنا والی آیت تھی کہ ہم نے تیرے ذکر کو بلند کر دیا۔ یقیناً یہ بات قدوس ذوالجلال عرش پر کہہ رہا ہے تو حضورؐ  کا ذکر عرش سے بلند ہو رہا ہے۔ قَابَ قوسین کا مقام یقیناً عرش سے بہت بلند تر ہے جہاں حضور (ص) معراج کی رات کو پہنچے۔ اشفاق بھائی کی رباعیات پڑھ کر اس بات پر یقین آ جاتا ہے کہ بحیثیت ایک فنکار شاعری ان کے گھر کی کھیتی تھی، مگر وہ ہمیشہ اپنے عجز کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے ’’ اظہار عجز ہو گئی ہے میرے فن کی بات ‘‘میں نے پوچھا کیوں کیا ہوا، ’’ تو انہوں نے کسی کا نام لیا جو مجھے اب یاد نہیں اور کہا کہ اس کی ایک بات بہت اچھی لگی تھی مگر رباعی کے اوزان میں نہیں لا سکا اور میں نے بھی تمہاری طرح ایک آزاد نظم کہہ دی ہے اور یہ بات کہ وہ آزاد نظم شاید مجھے کبھی نہ بھولے نظم کا عنوان رکھا تھا ‘‘ تین حواس ‘‘ اور اس میں یہ چھ لائنیں تھیں :

 

بے پردہ دوکان کہیں

ہر بات سنو،  ہر آن سنو

دو پردہ دار نگاہوں کی تفہیم کہے

دیکھو لیکن ہر لمحہ ہر چیز نہ دیکھو

اور دو، دروازوں کے پیچھے ایک چھپی خاموش زبان کہے

ہونٹوں اور دانتوں کے سخت کواڑ مقفل رہنے دو

 

لیکن آزاد نظم انہوں نے بہت کم کہی۔ایک طویل آزاد نظم انہوں نے کہی تھی جس میں سر کارِ دو عالم کی آمد سے پہلے عرب معاشرہ کا نقشہ کھینچا گیا تھا۔وہ کہیں شائع شدہ ہے مگر ابھی تک مجھے مل نہیں سکی اور کچھ آزاد نظمیں انہوں نے قرآن حکیم کی آیتوں کے تراجم کرتے ہوئے کہی تھیں ہاں تو بات رباعیات کے حوالے سے ہو رہی تھی ۔

 

رباعی کے شجرہ اخرب کی چھٹی بحر احزم زلل ہے اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعول، مفاعیلن، مفعولن، فاع ) اس بحر میں بھی اشفاق نے کچھ رباعیات کہی ہوئی ہیں۔مثال کے طور پر

 

یہ پھول پرندے اور دریا ہیں کون

کس کی ہیں ہوائیں، یہ صحرا ہیں کون

ہم لوگ نہیں لگتے ان سے اشفاق

اب اپنے بزرگوں کا ورثہ ہیں کون

 

اس رباعی سے ایک اور عجیب بات سامنے  آ رہی ہے کہ یہ پھول پرندے دریا ہوائیں اور صحرا ہمارے بزرگوں کا ورثہ ہیں۔ فطرت یقیناً ہمیں وراثت میں ملتی ہے۔ بلکہ آنے والی نسلوں کا قرض ہوتی ہے اور یہ ہمارے فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ جس حالت میں یہ ہمیں ملی ہے۔ اسی حالت میں اسے اپنے بچوں تک پہنچائیں۔یہاں اشفاق بھائی نے یہ نقطہ اٹھایا کہ ہم اپنے بزرگوں جیسے نہیں ہیں یعنی ہمارے کام ان جیسے نہیں رہے، وہ کچھ اور تھے ہم کچھ اور ہیں اس صورت میں اب ہمارے بزرگوں کا ورثہ کون ہیں۔اب یہ پھول پرندے کون ہیں،کس کے رشتہ دار ہیں۔ ان ہواؤں کا وارث کون ہے۔ دریا و صحرا کون ہیں،کچھ لگتے ہیں ہمارے یا نہیں۔ بہر حال اس عجیب رباعی کے کئی اور بھی مفہوم ہوسکتے ہیں مگر میرے خیال میں قریب ترین مفہوم یہی ہے۔

 

شجرہ اخرب کی ساتویں بحر مجبوب ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعول، مفاعیلن، مفعول فعل)  اس بحر میں اشفاق بھائی کی یہ رباعی موجود ہے۔

لمحہ بھر کی ہستی ہے کچھ سوچ سمجھ

کہنے کو یہ مستی ہے کچھ سوچ سمجھ

اشفاق جسے دنیا ہم لوگ کہیں

پستی ہی بس پستی ہے کچھ سوچ سمجھ

 

یہ رباعی اشفاق بھائی کی زندگی کی مکمل طور پر عکاس ہے۔ انہوں نے ساری زندگی دنیا داری نہیں کی۔ دنیا کو پستی سمجھا۔ دوزخ کی پستی۔ کہتے تھے حضرت علی جب خلیفہ بنے اور انہوں نے پہلا خطبہ دیا تو اس میں کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ گھرانوں میں زر کا ارتکاز ہو رہا ہے۔ میں یہ ساری دولت ان سے چھین کرامتِ مرحومہ کے افراد میں تقسیم کر دوں گا یہ نہ سمجھنا کہ ابو طالب کے بیٹے نے کوئی زمانے سے نرالا جرم کیا ہے بلکہ یہ سمجھنا کہ اس نے تمہیں دوزخ کی پستیوں سے اٹھایا ہے۔

 

شجرہ اخرب کی آٹھویں بحر آہتم ہے اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعول، مفاعیلن، مفعول، فعول ) اس بحر میں اشفاق بھائی نے زلفِ سیاہ کے موضوع پر رباعی کہی ہے اور زلف سیاہ کا مفہوم بدل دیا ہے۔

 

ظلمت کے پگھلنے کی صورت ہی نہیں ہے

اس رات کے ڈھلنے کی صورت ہی نہیں ہے

اشفاق قیامت ہے وہ زلف سیاہ

اب دن کے نکلنے کی صورت ہی نہیں ہے

 

اشفاق بھائی نے اس رباعی میں زلفِ سیاہ کو انسانیت کی مظلومیت سے بھری ہوئی صدیوں میں رکھنے والے ظالم میں بدل دیا ہے یعنی اس نظام زرکو زلفِ سیاہ سے تشبیہ دی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام سے انہیں بہت نفرت تھی۔بہت پرانی بات ہے شاید ان دنوں میں کالج میں پڑھتا تھا میں نے ایک نعتیہ نظم کہی تھی۔ ’’یہ دو رنگی ہے کربِ جاں مولا ‘‘ اس میں چار پانچ بند تھے جن میں رسول اللہ کے عمل اور عہد موجود میں مسلمانوں کے عمل میں جو تفاوت ہے اس کا اظہار تھا کہ تم نے چکی جہیز میں دی تھی عہد میرا فلور مل مانگے تم نے برتن دئیے تھے پانی کے یہ فرج اور زرکی سل مانگے مگر نظم کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچتی تھی۔اشفاق بھائی نے نظم سن کر فوراً اس میں آخری بند کا اضافہ کر دیا اور وہ نظم اسی آخری بند کی وجہ سے نظم قرار دی جا سکتی ہے۔ وہ آخری بند یہ تھا :

 

تم مساوات کے پیمبر ہو تم تفاوت مٹانے آئے ہو

اور تقسیم رزق کا مولا ایک دلکش نظام لائے ہو

واعظوں کا مگر لبِ اظہار ساری تعلیم مسخ کرتا ہے

روز و شب یہ فرازِ منبر ہے حق میں باطل کا رنگ بھرتا ہے

 

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظام کو تقسیم رزق کا بہترین نظام سمجھتے تھے اور وہ نظام ان کے نزدیک مساوات محمدی تھا کہ جنہوں نے زندگی پر موت کو سرفراز فرماتے ہوئے،یہ یادگار الفاظ کہے تھے کہ’’ اے خدا تو گواہ رہ کہ محمد جب تم سے ملنے آیا تو اس کے گھر میں درہم و دینار نہیں تھے‘‘ ان کے خیال کے مطابق تقسیم رزق ہی خوبصورت زندگی کی بنیاد ہے اور یہی مقصود حقیقی بھی ہے اور یہی انسانی سرشت بھی کہ بیشتر اعمال کے پس منظر میں رزق کا فلسفہ دھڑک رہا ہوتا ہے۔ اشفاق بھائی کی اس موضوع پر ایک رباعی ہے :

 

ہر ایک گھڑی کن کی روانی کیا ہے

یہ آدمی کی نقل مکانی کیا ہے

اشفاق فقط رزق کا ہے یہ قصہ

تہذیب و تمدن کی کہانی کیا ہے

 

شاید اسی طرح کی کوئی بات بیدل نے بھی کہیں کی ہوئی ہے۔فارسی زبان سے زیادہ شدبد نہ ہونے کی وجہ سے فارسی کے شعر مجھے بہت بھول جاتے ہیں،جب تک اشفاق بھائی کے ساتھ ہوتا تھا فارسی شعر کے زبردستی یاد رکھنے پڑتے تھے۔ان کا یہ خیال تھا کہ اگر میں نے شاعر بننا ہے تو مجھے فارسی زبان سیکھنی ہو گی۔ فارسی کے ہزاروں شعر یاد کرنے ہونگے مگر ایک حد سے زیادہ فارسی سے میرا تعلق شاید میری قسمت میں نہ تھا۔

 

شجرہ اخرب کی نویں بحر مکفوف ابتر ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعول، مفاعیل، مفاعیلن، فع)اس بحر میں اشفاق بھائی کی یہ رباعی موجود ہے۔

 

کیا ذات کے بازار میں ہم رہتے ہیں

یوں لگتا ہے دیوار میں ہم رہتے ہیں

معلوم نہیں ہوتا ہے صدیوں ہم کو

تہذیب کی کس غار میں ہم رہتے ہیں

 

اس رباعی میں روح کی جس بے کراں تنہائی اور جس تعجب خیز بے بیگانی کا اظہار فرد سے ہوتا ہوا پورے معاشرہ پر محیط ہوتا ہے،اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے جو صوفیائے کرام لیتے ہیں۔ خود اشفاق بھائی نے بھی کئی جگہ پر تنہائی کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے مگر اس رباعی میں یہ صدیوں کی تنہائی،یہ قرنوں کی خاموشی اور یہ تعجب بھری بیگانگی مثبت نہیں منفی ہے اور اپنے متعلق اشفاق بھائی یہ کہہ رہے ہیں کہ معلوم نہیں صدیوں سے ہم تہذیب کی کس غار میں رہتے ہیں۔ یہ اپنے تہذیبی زوال پر نوحہ خواں ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تہذیبی زوال کس کا ہے۔ پاکستانی تہذیب کا یا اسلامی تہذیب کا۔اس سلسلے اشفاق بھائی کا نقطۂ نظر بہت واضح ہے۔وہ ایک شعر میں کہہ چکے ہیں۔

 

کچھ کہو حسن ترتیب میں کیا ہوا

یہ محمد (ص) کی تہذیب میں کیا ہو

اسلامی تہذیب کے عروج و زوال کی داستان بہت طویل ہے۔میں اس سلسلے میں یہاں اشفاق بھائی کی ایک اور رباعی کو ٹ کرتا ہوں حالانکہ بظاہر اس رباعی کا اس موضوع سے کوئی واسطہ نہیں لیکن میرے خیال میں اشفاق بھائی کے نزدیک اسلامی تہذیب کے زوال کا سبب وہی ہے :

 

اسلام وہی اور رسالت ہے وہی

جو ایک ہو دنیا میں حکومت ہے وہی

اشفاق مدینہ ہے وفاقی مرکز

اس امتِ مسلم کی ضرورت ہے وہی

 

شجرہ اخرب کی دسویں بحر مکفوف زلل ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعول، مفاعیل، مفاعیلن، فاع) اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی وسعتِ ظرف کے حوالے سے ہے۔اس بارے میں پہلے تفصیل سے لکھ چکا ہوں

 

اعجاز طلب کس میں ہے طالب ہے کون

عرفان کسے چاہئے کاذب ہے کون

میں دیکھتا ہوں ظرف کی وسعت اشفاق

میں سوچتاہوں میرا مخاطب ہے کون

 

شجرہ اخرب کی گیارہویں بحر مکفوف مجبوب ہے اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعول، مفاعیل، فعل ) اس بحر میں اشفاق بھائی کی یہ رباعی موجود ہے :

 

اپنے دل ناکام سے کیا بات کریں

غم ہائے سیہ فام سے کیا بات کریں

اشفاق یہ خاموش ہے اپنے دکھ سے

اسی درد بھری شام سے کیا بات کریں

 

شام کا درد اور دلِ ناکام کا درد جب ایک ہو جاتا ہے تو خاموشی ہی گفتگو بن جاتی ہے۔ اشفاق بھائی نے اپنی اس درد بھری رباعی میں شام کے سکوت پر باطنی خود کلامی کا بوجھ محسوس کرتے ہوئے چپ رہنے کا جو فیصلہ کیا ہے کیایہ وہی فیصلہ نہیں لگتا جس کے تحت انہوں نے اپنا قطعۂ تاریخ وفات کہہ دیا تھا۔

شجرہ اخرب کی آخری یعنی بارہویں بحر مکفوف اہتم ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعول، مفاعیل، مفاعیل، فعول ) اس بحر میں اشفاق بھائی نے وحدت الوجود کے موضوع پر بہت سی رباعیات کہی ہیں :

 

تخلیق و عدم، لو ح و قلم صرف خیال

ہر سمت جہاں میں ہے بہم صرف خیال

محسوس کرو خود کونہ اشفاق جہاں میں

موجود کوئی اور ہے ہم صرف خیال

 

کثرت میں وحدت کا جو جلوہ اس رباعی میں دکھائی دے رہا ہے وہ ہر آنکھ کی قسمت میں نہیں ہوسکتا۔لوح جہاں پر ازل سے ابد تک جو کچھ ہونا ہے وہ لکھا ہوا ہے اور قلم جس نے لکھا ہے وہ صرف خیال ہے تخلیق جو کن کے عمل سے جاری ہوئی اور عدم جو نہیں بھی ہے اور ہے بھی، صرف خیال ہے جہاں میں جو شے بھی بہم ہے۔ وہ صرف خیال ہے اور موجود صرف خد اکی ذات ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کس کا خیال ہے تو یقیناً یہی کہا جائے گا کہ اللہ کا خیال ہے مگر یہاں یہ نکتہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ کا خیال ہوسکتا ہے تو پھر اللہ کا قلم بھی ہوسکتا ہے۔ پھر اللہ کی لوح بھی ہوسکتی ہے یعنی یہاں خیال کا مطلب اللہ کا خیال نہیں بلکہ صرف یہ وہم ہے، عکس ہے،ہیولا ہے یعنی موجودگی نہیں ہے۔

اور اب رباعی کا دوسرا شجرہ یعنی شجرہ اخرم اس شجرے کا پہلا رکن مفعولن ہے اس میں بھی بارہ بحریں ہیں اور یہ تمام بھی رباعیات اشفاق میں ملتی ہیں شجرہ اخرم کی پہلی بحر کا نام اشتر ابتر ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں (مفعولن، فاعلن، مفاعیلن، فع) اس میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے

 

اس دل سے تو جدا نہیں لگتی

وہ خوابوں سے بھی خفا نہیں لگتی

وہ اس کی کوئی ہوسکتی ہے مجبوری

مجھ کو تو بے وفا نہیں لگتی

 

وہ بظاہر تو یہ ایک عام سی اور عامیانہ سی رباعی ہے مگر غور کیا جائے تو اس میں ایک نزاکت ایسی موجود ہے جو پہلی بار پڑھنے پر ہاتھ نہیں آتی۔ اور اسی چیز کو شاعری کہتے ہیں کہ کسی بات کی سطح کو اس طرح بلند کرنا کہ وہ عام سی بات بھی رہے اور اس میں گہرائی بھی آ جائے۔ مجھے یا د آتا ہے کہ بات کو شاعری میں کیسے بدل دیا جاتا ہے، اس پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مجھے کہا تھا کہ دیکھو اگر تمہارے ذہن میں صرف اتنی سی بات ہے کہ انہیں بھول جانا بھی مشکل ہے اور یہ بھی نہیں لگتا کہ کبھی ہم بھی انہیں یاد آئیں گے تو اسے شعر میں ڈھالنے کے لئے اس بات پر غور کرو کہ اس میں ذومعنی بات کونسی ہوسکتی ہے اور کیسے ہوسکتی ہے مثال کے طور پر ( ہم ان کو بھول جائیں ) اب اس جملے میں دو طرح کی بات موجود ہے یہ پتہ چل رہا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم خود ہی ان کو بھول جائیں یا کہ ان کے ذہن سے ہم محو ہو جائیں۔ اب اگر اس جملے کا استعمال اس طرح کیا جائے کہ اس سے دونوں مفہوم برآمد ہوں تو یہ شاعری ہو گی مثال کے طور پر کیسے بھلا ہے ممکن ہم ان کو بھول جائیں اشفاق بھائی نے اس چھوٹی سی بحر میں مجھے شاعری سمجھاتے ہوئے جو شعر کہا تھا غور کیا جائے تو اس میں ایک اچھے شعر کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ ہمیں بھول سکیں اور اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ان کو بھول جائیں۔

 

شجرہ اخرم کی دوسری بحر کا نام اشتر زلل ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعولن، فاعلن، مفاعیلن، فاع) اس میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے :

 

عریاں عریاں سا جسم تہذیب طلسم

طاقت ور کا ہے اسم تہذیب طلسم

کتنی صدیوں گم رہتے ہیں ہوش و حواس

ایسا ویسا طلسم تہذیب طلسم

 

تہذیب کے طلسم کا احساس ہر شخص کو نہیں ہوسکتا۔ہر دور میں کسی ایک تہذیب کا طلسم دنیا کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے اور اس طلسم کی گرفت صدیوں میں جا کر کمزور ہوتی ہے۔ اس وقت دنیا مغربی تہذیب کی گرفت میں ہے ایک ایسی تہذیب ہے جس کا جسم برہنہ ہے اور اس کی طباشیری رنگت سے روشنی پھوٹتی ہے۔ میزائلوں کے میوزک پر اس کے رقص کرتے ہوئے پاؤں نئی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے اس کے خلائی شٹل ایک نئے جغرافیے کی تلاش میں ہیں۔ یہ طاقت وروں کی تہذیب ہے اور ہر دور میں طاقت کی تہذیب ہی طلسم ہوا کرتی ہے۔۔ دیکھتے ہیں اور کتنی دیر ہے یہ تہذیب۔

 

شجرہ اخرم کی تیسری بحر کا نام مکفوف مجبوب ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعولن، فاعلن، مفاعیل فعل ) اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے :

 

دل پہ دیمک سا تبصرہ کون کرے

اپنے دکھ کا مقابلہ کون کرے

مجھ کو قسطوں میں زندگی بخش نہیں

دھیرے دھیرے معاملہ کون کرے

 

اس رباعی میں قسطوں میں زندگی کی بات سے مجھے بیدل حیدر ی کی ایک نظم یاد آ گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں : آج کے اس سماج میں بیدل یعنی ظلمت کے راج میں بیدل میرے جیسے مڈل کلاس کے لوگ دور کے لوگ، آس پاس کے لوگ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لئے کبھی کاغذ کبھی خطوں کے لئے اور کبھی سِگرٹوں کے لئے کبھی دو گھونٹ چائے کی خاطر کبھی بس کے کرائے کی خاطر خون میں انگلیاں ڈبوتے ہیں روز قسطوں میں قتل ہوتے ہیں بیدل حیدری کی یہ جذباتی نظم زندگی کی تلخیوں کا احاطہ کرتی ہے مگر اشفاق بھائی کی رباعی میں تو کوئی اور دھیرے دھیرے ہونے والا معاملہ دکھائی دیتا ہے یہ اور بات ہے کہ ا س معاملہ کو مجاز سے حقیقت تک پھیلایا جا سکتا ہے۔

شجرہ اخرم کی چوتھی بحر کا نام مکفوف اہتم ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعولن، فاعلن، مفاعیل، فعول ) اس میں اشفاق بھائی کی نعتیہ رباعی نہ صرف ان کے فنکارانہ کمال کی عکاس ہے بلکہ نعتیہ شاعری میں بھی اس رباعی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا :

 

ناقہ ! تیرے غبار پہ لاکھوں سلام

صحرا تیری بہار پہ لاکھوں سلام

ریتوں سے اٹھ رہی ہے وہ صبح شعور

صدیوں کے غم گسار پہ لاکھوں سلام

 

اس کی فنی خوبصورتی تو یہ ہے کہ اس میں چاروں مصرعوں میں مفعولن فاعلن مفاعیلن فعول بھی باندھا ہوا اور مفاعیل فعول بھی۔۔ لیکن اس رباعی کی شاعرانہ حیثیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اردو دنیائے نعت میں اعلیٰ حضر ت احمد رضا خان بریلوی کی جمیل و جلیل نعت ’’ مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام ‘‘ سے زیادہ مقبولیت کسی نعت کو حاصل نہیں ہوئی۔اس کے سامنے رکھتے ہوئے جب آدمی اس رباعی کو پڑھتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اشفاق بھائی کا دل بھی محبت رسول کی کمیں گاہ تھا۔

شجرہ اخرم کی پانچویں بحر کا نام اخرب ابتر ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعولن، مفعول مفاعیلن،فع) اس میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے :

 

راتوں میں تاروں کی چمک کب سے ہے

سورج میں گرمی کی لپک کب سے ہے

ہے غم کی تاریخِ پیدائش کیا

گردش میں بے رحم فلک کب سے ہے

 

غم کی تاریخِ پیدائش کیا ہے۔اس سوال کا جواب اشفاق بھائی ہی دے سکتے تھے کہ غم کا آغاز بے رحم فلک کی گردش کے ساتھ ہوا۔

شجرہ اخرم کی چھٹی بحر کا نام اخرب زلل ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعولن، مفعولن مفاعیلن فاع) اس میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے۔

 

میں کیسا ہوں جسم کا مایا ہے کیسا

کیسی ہے یہ روح یہ سایہ ہے کیسا

مٹی، پانی اور ہوا سے اشفاق

کوزہ گر نے نقش بنایا ہے کیسا

 

اس رباعی سے مجھے اس کی ایک بات یاد آتی ہے۔ انہیں پیٹنگ میں بھی خاص دلچسپی تھی۔صادقین کی کوئی پینٹنگ دیکھ رہے تھے۔کہنے لگے دیکھ صادقین صاحب نے مٹی پانی اور ہوا کو کس طرح تجسیم کیا ہے۔ شاید روح کی شکل بنانے کی کوشش کی ہے۔پینٹنگ کے حوالے مغرب سے قطعاً متاثر نہیں تھے۔ جب نظم کی وساطت سے مونالیز ا کی پینٹنگ کا ذکر ہوا تو کہنے لگے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تصویر بہت خوبصورت ہے مگر وہ ورلڈ کلاس کی چیز نہیں۔ اگر کسی مشرقی یا ایشیائی مصوروں کی بنائی ہوتی تو شاید کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ اس حوالے سے وہ استاد اللہ بخش کے کام کے بہت معترف تھے اور انہیں دنیا کے چند بڑے مصوروں میں شمار کرتے تھے۔ مونالیزا کے حوالے سے ان کے ساتھ بڑی لمبی گفتگو ہوئی تھی مگر اس سے پہلے میری وہ نظم جس کی وجہ سے مونالیزا زیر بحث آئی ہے:

 

آج ہی کی بات ہے یہ دس بجے کا وقت تھا

اور میں بالکل اکیلا تھا ڈرائنگ روم میں

ایک فوٹو پر اچانک پڑ گئی میری نظر

فکر کی آوارگی پر راستے کھلتے گئے

ذہن ماضی کی گپھاؤں میں ہوا تحلیل یوں

اک تھکے سورج کی کرنیں استراحت کے لئے

رات کے بستر پہ جیسے جسم اپنا پھینک دیں

اور میں بہتا گیا پھر ماضیِ مرحوم میں

چار بھیڑیں، ایک بکری، ایک گائے، ایک بھینس

ان کی رکھوالی کو چوراہی کی آشفتہ نگاہ

سندھ کے ساحل کی مر مر ساز ریشم ریت میں

بن رہی تھی ہر قدم پر نور کا اک دائرہ

اور دائیں ہاتھ میں شیشم کی کومل شاخ تھی

گم تھے سرگم لاکھ اس کے چہر ۂ معصوم میں

میری خواہش تھی کہ اس تصویر کو اب چوم لوں

میں بڑھا آگے بڑے دلبر نما انداز میں

پھر مگر میرے قدم پتھرا گئے یہ دیکھ کر

آ گئی ہے کوئی چرواہی ڈرائنگ روم میں

 

اشفاق بھائی کا یہ خیال تھا کہ مونالیزا کی اس تصویر پر نظم کہنے کا مفہوم یہ ہوا کہ اس تصویر کے بارے میں مغرب کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈا کا ہم لوگ بھی شکار ہو گئے۔ یہ تصویر کسی طرح بھی اتنی بڑی تصویر نہیں جتنا اسے ثابت کیا جا رہا ہے۔ کہاں سے بات کہاں آنکلی ہے۔میرا خیال ہے رباعیات کی طرف واپس جانا چاہئے۔

شجرہ اخرم کی ساتویں بحر کا نام اخرب مکفوف مجبوب ہے اور ا سکے ارکان یہ ہیں ( مفعولن، مفعول، مفاعیل، فعل ) اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی کر بلا کے حوالے سے ہے :

 

تیروں کی تحریر تجھے یاد نہیں

پانی کی تصویر تجھے یاد نہیں

بادل کے قالین پہ سونے والے

کربل میں شبیر تجھے یاد نہیں

 

شجرہ اخرم کی آٹھویں بحر کا نام اخرب مکفوف اہتم ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ( مفعولن، مفعول مفاعیل، فعول ) اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی شاید ان دنوں کی ہے جب وہ لاہور ہوتے تھے :

 

فریادی کا شوخیِ تحریر سے پوچھ

اور خالق کا پیکرِ تصویر سے پوچھ

مولائے لاہور ہے اب کون فقیر

ہجویری سے پوچھ میاں میرسے پوچھ

 

اس رباعی کے پہلے دنوں مصرعے دیوانِ غالب کے پہلے شعر سے نکالے گئے ہیں۔ کیوں ؟ میرا ذہن اس کا کوئی جواب نہیں دے سکا۔میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بھی کوئی بات ضرور ہے۔ ورنہ اشفاق بھائی کے لیے دو مصرعے کہنا کوئی بات ہی نہیں تھی۔پھر رباعی کا موضوع اس کا بھی غالب سے کوئی تعلق نہیں بنتا کیونکہ رباعی تو اس موضوع پر ہے کہ اس وقت مولائے لاہور یعنی لاہور میں اس زمانے کی سب سے بڑی روحانی شخصیت کونسی ہے۔ لگتا ہےاس رباعی میں وہ کسی کو کسی سوال کا جواب دے رہے ہیں۔ یقیناً ان سے کسی نے پوچھا ہے کہ مولائے لاہور ہے اب کون فقیر۔ تب ہی تو وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بتانا میرا کام نہیں تو داتا گنج بخش سے پوچھ یا میاں میر سے سوال کر۔ یہاں ایک اور سوال یہ ابھرتا ہے کہ کچھ لوگ اشفاق بھائی کے بارے میں یہ سمجھتے تھے کہ ان سے اگر یہ سوال کیا جائے تو وہ اس کا جواب دینے کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی روحانی طور پر اتنے بلند ہیں۔

 

شجرہ اخرم کی نویں بحر کا نام ابتر ہے اور ا سکے ارکان یہ ہیں ( مفعولن، مفعولن مفعولن، فع ) اس میں اشفاق بھائی کی

رباعی ہے :

جگ ہیرہ منڈی ہے آہستہ چل

دنیا اک رنڈی ہے آہستہ چل

پستی میں گرنے کا خطرہ بھی ہے

کچی پگڈنڈی ہے آہستہ چل

 

اس رباعی میں دنیا کے بارے میں وہی بات کی ہے جو پہلے بھی ایک رباعی میں کر چکے ہیں مگراس میں دنیا کے خلاف بات کرتے ہوئے ان کا لہجہ اور زیادہ جارحانہ ہو گیا ہے۔ یہ دراصل تقویٰ کی منزل ہے حضرت عمر فاروق نے کہا تھا دنیا کانٹوں بھر ا،ایک راستہ ہے اور اس ے دامن بچا کر چلنا تقویٰ ہے۔

شجرہ اخرم کی دسویں بحر کا نام زلل ہے اوراس کے ارکان یہ ہیں ( مفعولن، مفعولن، مفعولن، فاع) اس میں اشفاق کی رباعی ان کے مزاج سے مختلف ہے بلکہ رباعی کے مزاج ہی سے لگا نہیں کھاتی مگر رباعی کے مروجہ قوانین کے مطابق ہے۔ شاید انہوں نے یہ رباعی اس لئے کہی ہے کہ رباعی یوں بھی کہی جا سکتی ہے :

 

آنکھوں میں نیندیں تھیں نیندوں میں خواب

خوابوں میں یادیں تھیں یادوں میں خواب

ٹوٹے پھوٹے کرچی کرچی پر آب

شیشے کے ٹکڑے تھے ٹکڑوں میں خواب

 

شجرہ ازم کی گیارہویں بحر کا نام اخرب مجبوب ہے اوراس کے ارکان یہ ہیں ( مفعولن، مفعولن مفعولن، فعل ) اس میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے :

 

پنجرے میں توتا تھا کچھ یاد نہیں

شہزادہ روتا تھا کچھ یاد نہیں

اک دوجے میں ہوتی تھی جان مگر

پہلے کیا ہوتا تھا کچھ یاد نہیں

 

اردو زبان میں الف لیلوی کہانیوں کو بنیاد بنا کر تو شاعری کی گئی مگر اپنی لوک داستانوں کے پس منظر میں کچھ نہیں کہا گیا۔اس رباعی میں لوگ کہانیوں کی ایک خاص بات کہ فلاں کی جان فلاں تو تے میں تھی یا فلاں مینا میں تھی کو اشفاق بھائی نے علامتی سطح پر لیا ہے کہ یہ بات ان کی آپس میں محبت کو ظاہر کرتی ہے یہ ہمارے زمانے میں ختم ہو چکی ہے۔

شجرہ اخرم کی بارہویں بحر کا نام اخرب اہتم ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں (مفعولن، مفعولن مفعولن، فعول) اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے

 

مکھن کی چاٹی کو دیوار نہ جان

اس زرزن گھاٹی کو دیوار نہ جان

اس من کی لاہوتی آغوش میں ڈوب

اس تن کی ماٹی کو دیوار نہ جان

 

یہ رباعی یہ پیغام دے رہی ہے کہ فنا فی الذات ہونے میں جسم یا دنیا کوئی رکاوٹ نہیں ہے دنیا میں رہتے ہوئے دنیا داری کرتے ہوئے بھی آپ اللہ کی ذات میں اپنی ذات کو گم کر سکتے ہیں اور یہی اسلام کا صحیح فلسفہ ہے۔وہ کہتے تھے کہ منصو ر حلاج بھی یہی کہتے ہیں مگر ان کی فکر کو کچھ مورخین نے صحیح پیش نہیں کیا کیونکہ اس دور کے زیادہ مورخین بادشاہوں کے درباروں سے منسلک رہے ہیں۔اشفاق بھائی نے منصور حلاج کے متعلق جو کچھ مجھے بتایا وہ بالکل اس سے مختلف جو اکثر سنتے ہیں۔میں نے انہی سے سنی ہوئی معلومات کو بنیاد بنا کر منصور حلاج کے بارے میں لکھا تھا۔ ’’بغداد میں صدیوں پہلے میرے ایک ہم نام شاعر کو سولی چڑھایا گیا تھا مگر تاریخ آج تک اس منصور کی لاش پر بین کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ میں نجانے کتنے منصوروں کی لاشیں بغداد کی گلیوں سے اٹھائی گئی ہیں۔ پتہ نہیں تاریخ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔ منصور حلاج کے بارے میں بے شمار کتابوں میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کی صوفیانہ سرمستی حدِ نبوت اور مقام ربوبیت کو چھونے کی مرتکب ہوئی مگر وقت نے ان الزامات کو تسلیم نہیں کیا اور آنے والے ادوار میں حق کے لئے قربان ہونے والوں میں سقراط، عیسیٰ اور حسین کے بعد منصور کا نام لیا جانے لگا۔

ممکن ہے کہ اکیسویں صد ی کا بغداد تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ اور نام بھی دے جائے۔ بش سے بلیئر تک اور اسامہ سے صدام تک ناموں کی کوئی کمی نہیں بقول اشفاق بھائی:

 

تاریخ کو ہے پھر کسی منصور کی تلاش

پھر دار ڈھونڈتی ہے کوئی اور زندگی

 

اشفاق بھائی کی تحقیق کے مطابق وہ ایک مزدور باپ کا بیٹا تھا جب اس نے تمام علوم و فنون خاص طور پر قرآن، حدیث، فقہ اور تصوف پر مکمل دسترس حاصل کر لی تو شاہی دربار میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی بجائے استحصال زدہ غریب مسلمانوں کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔ کرنبائی قبیلے کے غلاموں کی قیادت سنبھال لی۔ غلاموں کے مظاہرے فوجی قوت کے ساتھ کچل دئیے گئے۔منصور کو گرفتار کر لیا گیا اور ہزاروں افراد بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کر دئیے گئے۔ منصور کی اس پہلی بغاوت کے ہولناک انجام نے منصور کے حوصلوں اور ارادوں کو اور زیادہ مضبوط کیا۔ حکومتی اہلکاروں کی تبدیلی کے ساتھ منصور کو رہائی ملی اور وہ حج کی نیت سے مکہ روانہ ہو گیا جہاں ایک سال تک روزہ،خاموشی، تنہائی اور عمرہ کا عمل جاری رکھا۔منصور کہا کرتا تھا میرا ناپسندیدہ فعل سونا، کھانا اور بولنا ہیں ’’ باطنی دنیا کے اس پہلے سفر میں منصور پر انسان، کائنات خارجی اور خدا کے ارتباط کے کچھ نئے راز منکشف ہوئے۔منصور جب مکہ سے واپس بغداد آیا تو اس نے بغداد کے نچلے طبقے کی پسماندہ آبادی میں قیام کیا اور عباسی حکمرانوں کے خلاف اپنی روحانی تحریک شروع کر دی۔ وہ شخصی بادشاہت کو نہیں مانتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پولیس نے حضرت جنید (رض) بغدادی کے آستانے کی بھی نگرانی شروع کی ہوئی تھی۔ بہت کم وقت میں عوام منصور کے اردگرد جمع ہو گئے مگر ریاستی اقتدار کے جبر کا شکار ہو کر اسے تقریباً پانچ سال جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔ وہ پانچ سال کے بعد ’’ اہواز‘‘ میں اسوقت وارد ہوا،جب ریاستی اداروں کے نگران بدل چکے تھے لیکن بغداد آنے کے بجائے اس نے اپنے چارسوپیروکاروں سمیت مکہ جانے کا فیصلہ کیا۔یہ منصور کا سب سے طویل سفر تھا۔وہ وسطی ایشیا سے ہندوستان کی طرف آیا۔ دریائے سندھ کے کنارے پر چلتا ہوا ملتا ن پہنچا اور پھر ملتا ن سے کشمیر تک آیا جہاں سے تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ شمال مشرق میں اس نے دیوارِ چین عبور کی اور ایک بڑا عرصہ چین میں قیام کیا۔ اس دوران منصور نے جین مت، بدھ مت، ہندوازم اور کنفیوشس کا مطالعہ کیا۔ وہاں سے مکہ آیا، تیسرا جج کیا، کچھ باطنی فیصلے ہوئے اور منصور واپس بغداد آ گیا۔ وہاں منصور کے خلاف مقدمے کی کاروائی شروع ہو گئی مگر قاضی ابن صریح کے فتویٰ کی وجہ سے وہ قتل ہونے سے بچ گیا مگر زیادہ عرصہ تک بغداد میں سکون سے نہ رہ سکا۔ بادشاہتیں اسے اپنے اقتدار کے لیے ہمیشہ سے ایک خطرہ سمجھتی چلی آ رہی تھیں۔حالات نے پلٹا کھایا اور منصور کو پھر روپوش ہونا پڑا تین سال کی روپوشی کے بعد حکومتی اہل کاروں نے اسے تلاش کر لیا۔ ا س کے بعد تقریباً نوسال تک منصور بغداد کی جیل میں رہا اس عرصہ میں ایک واقعہ یہ ہوا کہ عوام نے بغاوت کر دی اور جیل پر قبضہ کر کے اس کے دروازے منصور پر کھول دئیے مگر منصور نے باہر نکلنے سے انکار کر دیا اور پھر حکمرانوں نے زیادہ انتظار نہیں کیا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد منصور کو خانہ کعبہ کو تباہ و برباد کرنے کی سازش میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت دے دی۔ جس ثبوت پر اسے سزا سنائی گئی وہ اس کی ایک تحریر تھی جس میں لکھا ہوا تھا کہ ’’ کعبہ اللہ دل کے کعبے میں ہے،اس کے اردگرد انسان کو ہر وقت طواف کرنا چاہئے ‘‘ منصور نے اپنے گھر میں خانہ کعبہ کی ایک تصویر بھی لگائی ہوئی تھی، جس کے بارے میں کہا گیا کہ منصور نے اپنے گھر میں اپنا کعبہ بنایا ہوا ہے۔ بقول اشفاق بھائی : تھا راکھ راکھ اس کو منانے کے جرم میں منصور دل کو کعبہ بنانے کے جرم میں اشفاق بھائی کے خیال میں منصور کی باتوں کی غلط تشریحیں کی گئیں۔ اس کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا کہ وہ کہتا ہے ’’ میرے اندر دو روحیں ہیں۔ ایک میری اور ایک میرے خدا کی ‘‘۔ حالانکہ سچ یہ نہیں وہ اس بات کا علمبردار تھا کہ ہر شخص کو اپنے اندر خدا کو محسوس کرنا چاہئے۔ اس لیے وہ کہتا تھا میں اپنے اندر اپنے خدا کو محسوس کرتا ہوں۔ میرے وجود میں میرا خدا موجود ہے۔ یہ وہی بات ہے جو حدیث میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ اس نے جب انا الحق کہا تو شور برپا ہو گیا کہ منصور نے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے حالانکہ حق کا مفہوم سچ ہے یعنی وہ کہتا تھا میں سچ ہوں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ منصور سچ تھا۔اسی لیے تو آج منصور کے لفظ کا مترادف ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کی کرامات دیکھ کر دشمن اسے جادو گر کہتے تھے لیکن چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ جب اس کا سرکاٹ دیا گیا تو اس کے جسم سے انا الحق کی آواز آتی تھی پھر جسم کے کئی ٹکڑے کئے گئے مگر ہر ٹکڑے سے وہی آواز سنائی دیتی تھی پھر تمام ٹکڑوں کو آگ لگا دی گئی اور منصور کی راکھ کو اس خوف سے دریا میں بہا دیا گیا کہ کہیں اس راکھ سے بھی انالحق کی آواز نہ آنے لگے۔ میں نے اپنے ایک ماہر نفسیات دوست سے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے، تو کہنے لگا اگر وہ کچھ دیر اور راکھ دریا میں نہ بہاتے تو انہیں اس راکھ سے بھی انا الحق کی صدا سنائی دینے لگتی۔دراصل وہ آواز انہیں منصور کے جسم کے ٹکڑوں سے نہیں آتی تھی۔ منصور کے مارنے والوں، ماننے والوں دونوں کو اس کی سچائی پر اتنا یقین تھا کہ انہیں خود اپنے دماغوں سے وہ آواز سنائی دینے لگتی تھی۔ بقول اشفاق بھائی سچائی پر یقین کی ہے دسترس وہی جو سوچتا ہے آدمی ہوتا ہے بس وہی صوفیوں میں بھی منصور کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ اس نے صوفی ازم کے مروجہ قوانین سے بغاوت کی تھی جوانی ہی میں ’’ حرفہ‘‘ ( صوفیوں کا لباس ) اتار کر عام لوگوں کا لباس پہنا شروع کر دیا تھا۔ صوفی ہر شخص کو اس بات کا اہل نہیں سمجھتے کہ وہ معرفت حاصل کر سکتا ہے۔اس کے برعکس منصور چاہتا تھا کہ ہر شخص اللہ کی ذات میں جذب ہو کر اس مقام تک پہنچے جو انسان کی معراج ہے۔ اس کے خیال میں واقعۂ معراج صرف اس لیے ہی نہیں ہے کہ اس سے حضور (ص) کی اس سنت پر عمل پیرا ہو کر قاب قوسین کے مقام تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ منصور نے جب اللہ کی وحدانیت میں گم ہو جانے کی بات کی تھی تو اس وقت صوفیا  نے کہا تھا کہ وہ روحانی اسرار سے پردے اٹھانے لگا تھا۔ اس لیے اسے مار دیا گیا مگر اس کے بعد محی الدین ابن عربی نے ہمہ اوست کے اسی فلسفے کو صوفی ازم کا اہم ترین حصہ بنا دیا۔ بقول اشفاق بھائی

 

جس پہ منصور چڑھایا گیا سولی اشفاق

ہم نے وہ راز ہمہ اوست میں تبدیل کیا

 

اشفاق بھائی کو منصور حلاج کی شاعری بھی بہت پسند تھی۔وہ اس کا اردو زبان میں ترجمہ کرنا چاہتے تھے لیکن عمر نے وفا نہ کی۔ منصور حلاج کا شعری مجموعہ ’’ دیوانِ منصور ‘‘ ہے سنا ہے۔ اب کسی نے اس کا ترجمہ کر د یا ہے۔ منصور سے میری دوستی بچپن سے ہے۔ گھر والوں نے میرا نام ہی محمد منصور آفاق رکھا تھا۔میں جب چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا تو میں نے امی سے پوچھا کہ آپ نے میرا نام منصور کیوں رکھا ہے تو امی نے مجھے منصور حلاج کی کہانی سنائی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منصور حلاج کی جو کہانی میں نے آپ لوگوں کو سنائی ہے۔ اس کہانی میں اور امی کی کہانی میں بہت فرق تھا۔اس منصور حلاج نے شہزادے کے مردہ طوطے کو زندہ کر دیا تھا۔ بادشاہ برسوں سے ایک بخار میں مبتلا تھا،منصو ر نے ایک دن کے علاج میں اس کے بخار کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا تھا۔وہ منصور ایک لمحہ میں ہزاروں میل کا سفر طے کر لیتا تھا اور اس کو شش میں تھا کہ وقت کو روک دے۔ اچانک ایک دن اسے علم ہوا کہ وہ مرنے والا ہے تو اس نے اسی مجذوبانہ کیفیت میں شور مچانا شروع کر دیا تھا کہ لوگو! مجھے بچاؤ میرا خدا مجھے مار دینا چاہتا ہے۔ مگر جب اسے خبر ہوئی کہ موت قربِ خداوندی کی آخری انتہا ہے تو بادشاہ نے جو سولی اس کے لیے سجائی تھی وہ اس پر خوشی کے ساتھ چڑھ گیا وہ زندہ رہنا چاہتا تھا سوخدا نے اسے آج تک زندہ رکھا ہوا ہے کتابوں سے لے کر دماغوں تک ہر جگہ اس کی روح موجود ہے،وہ ہر سچے آدمی کے جسم میں دل کی طرح دھڑکتا ہے۔۔ تم جب بڑے ہو جاؤ گے تو تمہیں بھی وہ اپنے دل کے قریب محسوس ہو گا۔ ‘‘یہ وہ کہانی تھی جو منصور کے بارے میں میرے اور اشفاق بھائی کے درمیان ایک لکیر کی طرح تھی۔ میں کہتا تھا کہ امی کی کہانی میرے نزدیک سچی ہے کیونکہ کسی تاریخ پر اعتبار نہیں کرتا خود تاریخ کے بارے میں اشفاق بھائی کی ایک رباعی ہے : دنیا کو نیا نصاب دینا ہو گا ہر جھوٹ کا اب حساب دینا ہو گا کس نے ہے بھرا دروغ اتنا تجھ میں تاریخ! تجھے جواب دینا ہو گا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ تاریخ ایک سائنس ہے۔ صحیح تحقیق کرنے کہ بعد آدمی سچائی تک پہنچ سکتا ہے کہ تاریخ میں کونسی بات درست لکھی ہوئی ہے اور کونسی جھوٹ کا پلندہ ہے۔

منصور آفاق

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے طالبِ تہذیبِ  عدم اوڑھ الف

اے شام بدن، قریۂ غم اوڑھ الف

پھر تجھ میں سمٹ آئیں گے دونوں عالم

تُو میم پہن، میرے قلم اوڑھ الف

 

 

اے لالہ و گل، برگ و سمن میم پہن

اے کشف بھری صبحِ چمن میم پہن

اشفاق کہے نور کی معراج اسے

اے حسن صفت، حمد بدن میم پہن

 

 

 

 

 

اے دیدۂ زر تار سحر اوڑھ الف

اے رات کی بے نور نظر اوڑھ الف

اک موسمِ گل پوش ازل تک ہو گا

موہوم بہاروں کے شجر اوڑھ الف

 

 

 

تخلیق و عدم، لوح و قلم صرف خیال

ہر سمت جہاں میں ہے بہم صرف خیال

محسوس کرو خود کو نہ اشفاق یہاں

موجود کوئی اور ہے ہم صرف خیال

 

 

 

 

 

ہر لمحہ ہوا آپ (ص) کا توحید بدست

مخلوق ہوئی آپ (ص) سے تمجید بدست

توصیف کریں آپ (ص) کی دونوں عالم

آفاق نما آپ(ص) ہیں خورشید بدست

 

 

 

اس رات کے ڈھلنے میں بڑی دیر ہوئی

سورج کے نکلنے میں بڑی دیر ہوئی

اشفاق کئی توڑے ہیں ایٹم دل نے

پتھر کو پگھلنے میں بڑی دیر ہوئی

 

 

 

 

 

الحمد کے پَر شوق مسافر مجھ میں

لاہوتی فضاؤں کے ہیں طائر مجھ میں

صحرائے عرب دل میں ہے میرے اشفاق

اونٹوں کی قطاروں کے مناظر مجھ میں

 

 

ہے علم مجھے ٹوٹ گیا ہوں اس سے

ہے مجھ میں کہیں، اور جدا ہوں اس سے

اشفاق اسے میری ضرورت کب ہے

میں اپنے لیے بول رہا ہوں اس سے

 

 

 

 

 

تقدیر کے پابند کو معلوم نہیں

کچھ پیرِ خرد مند کو معلوم نہیں

یہ اپنی بصارت ہے فسانہ اشفاق

کچھ چشمِ  نظربند کو معلوم نہیں

 

 

 

یہ چاک گریبانی یہ دامن پہ لکیر

کافی نہیں یہ وقت کے جوبن پہ لکیر

تُو نے تو پہن رکھا ہے صوفی کا لباس

اب کوئی لگا سرخ سی گردن پہ لکیر

 

 

 

 

تسلیم یہاں جام بھی ساقی بھی ہے

تحقیق تری دید فراقی بھی ہے

تعمیر تُو کر آئینہ خانہ لیکن

یہ دیکھ کہ کچھ آنکھ میں باقی بھی ہے

 

 

 

اک حسنِ  دل آویز پہ مر لیں ہم لوگ

اک خوابِ ابد آنکھ میں بھر لیں ہم لوگ

وہ پھونک نہ دے صورِ سرافیل کہیں

کچھ دیر چلو نیند ہی کر لیں ہم لوگ

 

 

 

 

 

کس ذات کے بازار میں ہم رہتے ہیں

یوں لگتا ہے دیوار میں ہم رہتے ہیں

معلوم نہیں ہوتا یہ صدیوں ہم کو

تہذیب کی کس غار میں ہم رہتے ہیں

 

 

 

اس عالمِ ناسوت میں آئی کیوں ہے

اس قریۂ مبہوت میں آئی کیوں ہے

اشفاق کوئی روح سے پوچھے اتنا

اس جسم کے تابوت میں آئی کیوں ہے

 

 

 

 

ہر ایک گھڑی کن کی روانی کیا ہے

یہ آدمی کی نقل مکانی کیا ہے

اشفاق فقط رزق کا ہے یہ قصہ

تہذیب و تمدن کی کہانی کیا ہے

 

 

 

افلاک کی تنویر نظر آتی ہے

ادراک میں تقدیر نظر آتی ہے

جب شکل بناتی نہیں منطق تو پھر

کیوں ذہن میں تصویر نظر آتی ہے

 

 

 

 

 

اپنے دلِ ناکام سے کیا بات کریں

غم ہائے سیہ فام سے کیا بات کریں

اشفاق یہ خاموش ہے اپنے دکھ سے

اس درد بھری شام سے کیا بات کریں

 

 

 

آنکھوں نے کوئی خواب گنوایا کب ہے

دنیا کو لہو اپنا دکھایا کب ہے

چہرے پہ لکھی میں نے رباعی اشفاق

کاغذ پہ کوئی نقش بنایا کب ہے

 

 

 

 

 

اک چاند ستارہ سا علم میں رکھنا

آزاد خیالی کو دھرم میں رکھنا

اشفاق تجھے ربِ محمد(ص) کی قسم

سچائی کی طاقت کو قلم میں رکھنا

 

 

 

اسلام وہی اور رسالت ہے وہی

جو ایک ہو دنیا میں حکومت ہے وہی

اشفاق مدینہ ہے وفاقی مرکز

اس امتِ مسلم کی ضرورت ہے وہی

 

 

 

 

کیا قوم کہیں حاملِ تہذیب ہوئی

بارودی سرنگوں کی ہے تنصیب ہوئی

پھر امن کا بندوق سے پرچار ہوا

تعمیر کے پھر نام پہ تخریب ہوئی

 

 

 

نیکی کے، عبادت کے خزینے کو کہیں

جیون میں سعادت کے قرینے کو کہیں

ہے تزکیۂ نفس کی جنت اشفاق

رمضان ثوابوں کے مہینے کو کہیں

 

 

 

 

برسات میں، اشکوں کے مہینے میں آ

دھڑکن کی طرح درد کے سینے میں آ

اشفاق نکل کفر سے باہر کچھ دیر

آ اپنی محبت کے مدینے میں آ

 

 

 

سچائی نظربند نہیں ہے کوئی

اللہ کا فرزند نہیں ہے کوئی

فرعون ہو عیسیٰ ہو کہ مریم اشفاق

انسان خداوند نہیں ہے کوئی

 

 

 

 

 

کچھ اور نہیں، کہیں کوئی سایہ تھا

کہتی ہے ز میں، کہیں کوئی سایہ تھا

سورج سے بھری ہوئی گلی ہے اشفاق

کل رات یہیں کہیں کوئی سایہ تھا

 

 

 

برسات ہے اور جسم بھی گیلا سا ہے

بارش کا ثمر کڑوا کسیلا سا ہے

کشمیر کی وادی میں ہوں زندہ اشفاق

سردی سے بدن شام کا نیلا سا ہے

 

 

 

 

 

اعجازِ طلب کس میں ہے طالب ہے کون

عرفان کسے چاہیے، کاذب ہے کون

میں دیکھتا ہوں ظرف کی وسعت اشفاق

میں سوچتا ہوں میرا مخاطب ہے کون

 

 

 

مجبور قوانین کی، قدرت کی غلام

ہے ردِ عمل کوئی نہ طاقت کی غلام

آزاد ہے یہ ذہن ازل سے اشفاق

انسان کی حرکت نہیں فطرت کی غلام

 

 

 

 

ہر چیز کے انکار میں موجود ہے وہ

اس روح کے اسرار میں موجود ہے وہ

اشفاق عدم سے ہوئی وارد تخلیق

موجود کے اظہار میں موجود ہے وہ

 

 

 

اک نور کی یکجائی ہم آغوش ہوئی

اس ذات کی رعنائی ہم آغوش ہوئی

انسان جو اس جسم سے باہر نکلا

تنہائی سے تنہائی ہم آغوش ہوئی

 

 

 

 

 

احساس کے تمثال سے باہر دیکھا

افعال سے اعمال سے باہر دیکھا

مطلوبِ حقیقی ہے جو اپنا اشفاق

اس حسن کو اشکال سے باہر دیکھا

 

 

 

کیا گیت میں سنگیت میں ڈھالا جائے

کیا پھول سے چہرے کو اچھالا جائے

اعمال نظر آتے ہیں خال و خد سے

کیا حسن، تناسب سے نکالا جائے

 

 

 

 

کیا عرشِ علیٰ طور پہ دیکھا جائے

کیا خواب نیا طور پہ دیکھا جائے

کہسار سیہ آگ سے ہیں وہ اب تک

اللہ کو کیا طور پہ دیکھا جائے

 

 

 

ہے خاک سے کچھ بیر مجھے لگتا ہے

یہ میرا حرم دیر مجھے لگتا ہے

اشفاق جدا اصل سے کرنے والا

یہ جسم کوئی غیر مجھے لگتا ہے

 

 

 

 

احساس کی یکسوئی ضروری تو نہیں

شعلے کے لیے روئی ضروری تو نہیں

اشفاق بدن خاک بنا لے اپنا

ہونے کے لئے دوئی ضروری تو نہیں

 

 

 

پانی میں کوئی شمع جلائی تو نہیں

پھر طور کی تحریک چلائی تو نہیں

اشفاق کسی تازہ تجلی کے لیے

سورج کی طرف آنکھ اٹھائی تو نہیں

 

 

 

 

امید، سیہ خاکِ قفس چھونے لگی

اٹھو کہ سحر تارِ نفس چھونے لگی

وہ رات کے تاریک محل کی چھت پر

دیکھو کہ کرن پیلا کلس چھونے لگی

 

 

 

موسیٰ نے کہیں طور کا جلوہ دیکھا

امت نے اترتا من و سلوی دیکھا

روٹی کے لئے شہر میں شب بھر اشفاق

کب خون میں ڈوبا ہوا بلوہ دیکھا

 

 

 

 

رنگوں سے کبھی درد کو تصویر کریں

تیشے سے کبھی خواب کی تعبیر کریں

تخلیق کریں جب کوئی خوش کن نغمہ

غمگین خیالات کی تشہیر کریں

 

 

 

سچائی پہ موہوم سی کچھ بات ہوئی

بس موت پہ ہی بزمِ سوالات ہوئی

یہ بات الگ میں نہیں یونان گیا

سقراط سے کچھ دیر ملاقات ہوئی

 

 

 

 

میں حرف ہوں لفظوں سے چھڑائے کوئی

میں لفظ ہوں جملوں سے بچائے کوئی

اشفاق عمارات بھری ہیں لیکن

مفہوم کتابوں کا بتائے کوئی

 

 

 

دنیا کو نیا نصاب دینا ہو گا

ہر جھوٹ کا اب حساب دینا ہو گا

کس نے ہے بھرا دروغ اتنا تجھ میں

تاریخ ! تجھے جواب دینا ہو گا

 

 

 

 

خورشید سے آشکار ہے کس کا عکس

ہر پھول میں نو بہار ہے کس کا عکس

اشفاق نہیں کوئی اگر تو پھر بول

آئینے میں بے قرار ہے کس کا عکس

 

 

 

اس میری زمیں کو تُو نے آفاق کیا

اس ذہنِ رسا کو پل میں براق کیا

تجسیم خیالوں کو دی، کچھ خواب بنے

اشفاق کو تُو نے ہی تو اشفاق کیا

 

 

 

 

وہ نقل مکانی تو مجھے یاد نہیں

جنت کی کہانی تو مجھے یاد نہیں

ہے یادشِ مختصر یہی خاک نژاد

ماضی کی نشانی تو مجھے یاد نہیں

 

 

 

صورت ہو بے صورت کی ناممکن ہے

اک دید شہادت کی ناممکن ہے

ہم عرش سے اونچے بھی ہوسکتے ہیں

تسخیر اس وحدت کی ناممکن ہے

 

 

 

 

یہ پھول، پرندے اور دریا ہیں کون

کس کی ہیں ہوائیں، یہ صحرا ہیں کون

ہم لوگ نہیں لگتے ان سے اشفاق

اب اپنے بزرگوں کا ورثہ ہیں کون

 

 

 

ظلمت کے پگھلنے کی صورت ہی نہیں ہے

اس رات کے ڈھلنے کی صورت ہی نہیں ہے

اشفاق قیامت ہے وہ زلفِ تیرہ

اب دن کے نکلنے کی صورت ہی نہیں ہے

 

 

 

 

دل پہ دیمک سا تبصرہ کون کرے

اپنے دکھ کا مقابلہ کون کرے

مجھ کو قسطوں میں زندگی بخش نہیں

دھیرے دھیرے معاملہ کون کرے

 

 

 

ناقہ تیرے غبار پہ لاکھوں سلام

صحرا تیری بہار پہ لاکھوں سلام

ریتوں سے اٹھ رہی ہے وہ صبحِ  شعور

صدیوں کے غم گسار پہ لاکھوں سلام

 

 

 

 

راتوں میں تاروں کی چمک کب سے ہے

سورج میں گرمی کی لپک کب سے ہے

اشکوں کی پیدائش کی تاریخ ہے کیا

گردش میں بے رحم فلک کب سے ہے

 

 

 

میں کیسا ہوں، جسم کا مایا ہے کیسا

کیسی ہے یہ روح، یہ سایہ ہے کیسا

مٹی، پانی اور ہوا سے اشفاق

کوزہ گر نے نقش بنایا ہے کیسا

 

 

 

 

تیروں کی تحریر تجھے یاد نہیں

پانی کی تصویر تجھے یاد نہیں

بادل کے قالین پہ سونے والے

کربل کا شبیر تجھے یاد نہیں

 

 

 

فریادی کا شوخی ٔ تحریر سے پوچھ

اور خالق کا پیکرِ تصویر سے پوچھ

مولائے لاہور ہے اب کون فقیر

ہجویری سے پوچھ، میاں میر سے پوچھ

 

 

 

 

جگ ہیرہ منڈی ہے آہستہ چل

دنیا اک رنڈی ہے آہستہ چل

پستی میں گر جانے کا خطرہ ہے

کچی پگڈنڈی ہے آہستہ چل

 

 

 

آنکھوں میں نیندیں تھیں، نیندوں میں خواب

خوابوں میں یادیں تھیں یادوں میں خواب

ٹوٹے پھوٹے کرچی کرچی،پُر آب

شیشے کے ٹکڑے تھے ٹکڑوں میں خواب

 

 

 

 

پنجرے میں طوطا تھا۔۔ کچھ یاد نہیں

شہزادہ روتا تھا۔۔ کچھ یاد نہیں

اک دوجے میں ہوتی تھی جان مگر

پہلے کیا ہوتا تھا۔۔ کچھ یاد نہیں

 

 

 

مکھن کی چاٹی کو موجود نہ جان

اس زر زن کی گھاٹی کو موجود نہ جان

اُس من کی لاہوتی آغوش میں ڈوب

اس تن کی ماٹی کو موجود نہ جان

 

 

 

 

تزئین گل و لالہ پہ پابندی تھی

بس مہر بلب رہنا خرد مندی تھی

حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھی دنیا

میں بول پڑا تھا کہ زباں بندی تھی

 

 

 

یہ زنگ زدہ کالی صراحی تیری

یہ خواب سمے والی صراحی تیری

کچھ اِس کے لیے ڈھونڈھ شرابِ کہنہ

پھر بول پڑی خالی صراحی تیری

 

 

 

 

ٹوٹے ہوئے نیزے کا قلم تھام لیا

مردوں کی طرح دامنِ غم تھام لیا

سچائی کی تحریر پہن لی میں نے

ہارے ہوئے لشکر کا علم تھام لیا

 

 

 

اک صبح صدا آئی یہ مے خانے سے

اب چھین ہی لو درد کو دیوانے سے

اشفاق یہ ہے آخری امیدِ کرم

شاید کہ علاج اس کا ہو مر جانے سے

 

 

 

 

سیلابِ  سفر آنکھ کے اندر بھی ہے

پتوار بھی کشتی بھی سمندر بھی ہے

معلوم ہے منزل ہے گریزاں پھر بھی

اشفاق مقدر کاسکندر بھی ہے

 

 

 

پرواز کا اعجاز کہاں سے لاؤں

معصوم سا انداز کہاں سے لاؤں

تصویر تو کاغذ پہ بنا دی میں نے

چڑیا تیری آواز کہاں سے لاؤں

 

 

 

 

وحشت زدہ انسان ابھی ہے شاید

ظلمات کا سامان ابھی ہے شاید

جس روز اتر آئے گا چھت پر سورج

اس صبح کا امکان ابھی ہے شاید

 

 

 

چہرہ کہیں شاداب نہیں ہے کوئی

خوش دیدۂ اعصاب نہیں ہے کوئی

اشفاق عجب دور میں پہنچیں آنکھیں

نیندیں ہیں جہاں خواب نہیں ہے کوئی

 

 

 

 

برکت بھرے لب، حمد و ثنا سی باتیں

خوشبو بھرے الفاظ، صبا سی باتیں

اشفاق تہجد کی گلی میں ہر روز

آتی ہیں کہاں سے یہ دعا سی باتیں

 

 

 

وحشت کے ہیں آثار ابھی تک مجھ میں

گرتی ہوئی دیوار ابھی تک مجھ میں

اثبات کا امکانِ مسلسل اشفاق

ہر چیز سے انکار ابھی تک مجھ میں

 

 

 

 

مایوس زمانوں کی ہوا میں صدیوں

ہم سرد جہنم کی سزا میں صدیوں

اک پل کے سویرے کی طلب میں اشفاق

رہتے رہے تاریک فضا میں صدیوں

 

 

 

الفاظ میں اعجازِ ہنر کیسا ہے

افکار میں سورج کا سفر کیسا ہے

اتری ہے کہاں سے تری تازہ منطق

اشفاق یہ اندازِ نظر کیسا ہے

 

 

 

 

ہم عابد و معبود جہاں سے پہلے

ہم ساجد و مسجود جہاں سے پہلے

اشفاق چمکتا تھا کہیں کوئی ستارہ

ہم لوگ تھے موجود جہاں سے پہلے

 

 

 

اک عرصۂ امکان صراحی میں ہے

افلاک کا عرفان صراحی میں ہے

اک بار اتر روح کے اندر اشفاق

لاہوت کا دالان صراحی میں ہے

 

 

 

 

اک فطرتِ ادراک پہن لی ہم نے

اک دانشِ چالاک پہن لی ہم نے

مٹی کی کثافت میں کرامت کیا تھی

افلاک پہ ہی خاک پہن لی ہم نے

 

 

 

ہے نور کی پہچان سحر ہونے تک

ہے آس کا سامان سحر ہونے تک

تم دن کے اندھیروں سے شناسا کب ہو

ہے صبح کا امکان سحر ہونے تک

 

 

 

 

تحقیق ! غلط میرا تھا اندازہ بھی

کچھ میں نے سنا شہر کا آوازہ بھی

اشفاق مجھے بھی، گھر جانے کی جلدی

زنجیر بکف، یار کا دروازہ بھی

 

 

 

آدم میں، کھلونے میں کوئی فرق نہیں

اس جاگنے سونے میں کوئی فرق نہیں

ہے ایک طرح کثرت و وحدت اشفاق

ہونے میں نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں

 

 

 

شیخ فرید الدین عطار کے نام

 

ہر تخم مرادوں کا ثمر بار سہی

تعبیر کا ہر خواب سزاوار سہی

جنت سے تعاقب میں چلی آتی ہے

اشفاق تجھے موت سے انکار سہی

 

 

بیدل کے نام

 

یہ آگ بھرا نسخۂ شر، حرفِ  غلط

یہ خیر کا مجموعۂ زر حرفِ غلط

اک لفظِ نفس سے ہے عبارت تخلیق

اشفاق صحیفۂ بشر حرف غلط

 

 

 

میر تقی میر کے لیے

 

ہر عصر کا ہم ذات رہا ہوں برسوں

میں منزلِ آیات رہا ہوں برسوں

غالب سے مراسم ہیں زیادہ لیکن

میں میر کے بھی ساتھ رہا ہوں برسوں

 

 

 

اک شمع تھی۔۔ تعبیر پڑی تھی دن کی

اک موم میں تنویر پڑی تھی دن کی

اشفاق اندھیرے سے بھرا تھا کمرہ

بس میز پہ تصویر پڑی تھی دن کی

 

 

 

 

ویران تھی یادوں کی گلی خالی تھی

ٹوٹے ہوئے وعدوں کی گلی خالی تھی

میں رات بڑی دیر تلک پھرتا رہا

وہ خواب نژادوں کی گلی خالی تھی

 

 

 

کچھ اور ملا رنگِ کفن سے موسم

آباد رہا دار و رسن سے موسم

اشفاق پرندوں کی گرفتاری کا

جاتا ہی نہیں اپنے وطن سے موسم

 

 

 

 

اس کھیل میں ہم مات بڑی دیر سے ہیں

ٹوٹے ہوئے یہ ہاتھ بڑی دیر سے ہیں

مجذوب بدلتا ہی نہیں ہے کپڑے

موسم کے یہ حالات بڑی دیر سے ہیں

 

 

 

کچھ خواب مرے ساتھ بڑی دیر سے ہیں

وحشت کے خیالات بڑی دیر سے ہیں

کترا کے نکل جاتی ہے دنیا مجھ سے

آنکھوں میں سوالات بڑی دیر سے ہیں

 

 

 

 

تعمیر کرے تاج محل، خواب سفر

تحریر کرے صبحِ غزل، خواب سفر

افیون کہے لاکھ زمانہ اشفاق

کچھ اور کرے تیز عمل، خواب سفر

 

 

 

فردوس چنبیلی میں سمٹ آئے ہیں

آفاق، حویلی میں سمٹ آئے ہیں

طیبہ کے فقیروں کے عمل سے اشفاق

افلاک ہتھیلی میں سمٹ آئے ہیں

 

 

 

 

چھیدوں بھری جھولی کا تدارک ہی نہیں

بندوق کی بولی کا تدارک ہی نہیں

الفاظ برت سوچ سمجھ کر اشفاق

نکلی ہوئی گولی کا تدارک ہی نہیں

 

 

 

اس آگ کے صندوق کو پھٹنا کب ہے

خورشید کو نیزے پہ پلٹنا کب ہے

اشفاق قیامت کو ابھی دیر ہے کتنی

بھونچال سے دھرتی کو الٹنا کب ہے

 

 

 

 

جھونکوں سے درختوں کی جھڑائی نہیں ہوتی

بس شور مچانے سے بڑائی نہیں ہوتی

اشفاق سے کہنا کہ کوئی فوج بنائے

دوچار پیادوں سے لڑائی نہیں ہوتی

 

 

 

اک چاہئے سانسوں میں خرامِ  عالم

اک روح میں رکھنا ہے قیامِ  عالم

کچھ پاس نہیں دیدۂ بینا کے سوا

تشکیل کروں کیسے نظامِ عالم

 

 

 

 

آنکھوں کو کوئی میت دکھائی دیتا

اعجاز بکف گیت دکھائی دیتا

سُر بانسری سے ایسا نکلتا کوئی

اشفاق کا سنگیت دکھائی دیتا

 

 

 

پانی میں کوئی شخص دکھائی دیتا

سورج پہ کوئی عکس دکھائی دیتا

اشفاق بگولوں کی طرح دامنِ دل میں

طوفان نما رقص دکھائی دیتا

 

 

 

عمر خیام کے نام

 

تشکیک و یقیں حدِ نفس تک محدود

یہ کفر یہ دیں حدِ نفس تک محدود

اشفاق اسی سانس میں رکھ جنتِ ارضی

ہے عمرِ حسیں حدِ نفس تک محدود

 

 

 

یہ خاک سے آزاد بدن کیسے ہیں

یہ دار پہ بھی شاد بدن کیسے ہیں

یہ کیسا تعلق ہے فلک سے ان کا

یہ فرش پہ آباد بدن کیسے ہیں

 

 

 

 

لکھتی ہے ہوا خاک پہ موسم کی خبر

تحریر کرے اوس شبِ غم کی خبر

مژگاں پہ رقم کیوں نہیں کرتے اشفاق

بے چہرگیِ ذات کے ماتم کی خبر

 

 

 

 

انداز یہ تجسیم کرامت کے ہیں

اعجاز عجب نغمۂ قامت کے ہیں

دنیا مری، جلوؤں سے بھری ہے لیکن

تیرے لب و رخسار قیامت کے ہیں

 

 

 

اک حسنِ دل آویز کی رعنائی میں

اک زلفِ  سیہ کار کی برکھائی میں

اشفاق نہیں اور دکھائی دیتا

آباد ہمی عرش کی تنہائی میں

 

 

 

 

صبحوں سے عداوت کا مقدمہ ہم پر

سورج سے بغاوت کا مقدمہ ہم پر

بازار لگا رکھا ہے جج نے لیکن

توہین عدالت کا مقدمہ ہم پر

 

 

اک جرأتِ انکار سے نکلا ہوا دن

ظلمات کے انبار سے نکلا ہوا دن

اشفاق اندھیروں سے بھرا ہوتا ہے

اک جیل کی دیوار سے نکلا ہوا دن

 

 

 

 

تخلیق کی تفصیل ہے قَابَ قوسین

بس آخری تمثیل ہے قَابَ قوسین

کچھ اور بڑھی جسم کی عظمت اشفاق

انسان کی تکمیل ہے قَابَ قوسین

 

 

 

اک صبحِ  ہدایت سے بھر ی ہیں آنکھیں

اک جلوۂ رحمت سے بھری ہیں آنکھیں

تکمیل میں انسان کہاں تک پہنچا

کثرت کی بھی وحدت سے بھری ہیں آنکھیں

 

 

 

 

اظہار صداقت کا بھلا کون کرے

انکار عبادت کا بھلا کون کرے

اشفاق خیالات تلک ہیں محکوم

اعلان بغاوت کا بھلا کون کرے

 

 

 

احساس میں اک چشمِ غزالی کا مزار

انوار میں اک صبح جمالی کا مزار

اس خاک کا معراج یہی ہے اشفاق

ہے خاک پہ کونین کے والی کا مزار

 

 

 

 

فردوس بدن، لال گلابی موسم

سجدوں بھرے، پُر حمد کتابی موسم

ویران ہے مے خانۂ وحدت اشفاق

رندوں کے کہاں کھوئے شرابی موسم

 

 

 

اس پر یہ دستار نئی ہے شاید

اس ہاتھ میں تلوار نئی ہے شاید

ہے پاؤں کی زنجیر پرانی لیکن

انکار کی جھنکار نئی ہے شاید

 

 

 

 

ہر روز یونہی ہاتھ ہلانے سے ملا

کچھ دیکھنے سے اور دکھانے سے ملا

اس وصل کے پیچھے ہیں ہزاروں سجدے

اشفاق کوئی ملنے ملانے سے ملا

 

 

 

گرتے ہوئے پاتال کہاں آ پہنچے

مٹی کے یہ سُر تال کہاں آ پہنچے

ممکن ہے الٹ جائے یہ میری دھرتی

اشفاق یہ بھونچال کہاں آ پہنچے

 

 

 

 

اِترائی ہوئی خاک سے کہہ دے کوئی

افلاک کے تیراک سے کہہ دے کوئی

فرعون ہے عبرت کا نمونہ اشفاق

یہ طاقتِ سفاک سے کہہ دے کوئی

 

 

 

شاہوں کے محلات کہاں تک موجود

بابل کے وہ باغات کہاں تک موجود

اس وقت کے اعجاز کو سمجھو اشفاق

اک طرح کے حالات کہاں تک موجود

 

 

 

 

اک صبحِ مدارات نہ ہونے دینا

تنویر کی برسات نہ ہونے دینا

دے اور شبِ غم کو طوالت کچھ روز

سورج سے ملاقات نہ ہونے دینا

٭٭٭

 

ماخذ: وکی بکس

 

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید