FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

جنت کی زندگی

 

اورنگزیب یوسف

 

 

 

تمہید

کہتے ہیں کہ اسلام کے عروج کے دور میں بغداد کے قاضی اپنے شاندار گھوڑے پر سوار بازار میں جا رہے تھے کہ ایک غریب یہودی موچی نے ان کو روکا اور ان سے کہا کہ تم کہتے ہو کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ دیکھو اپنی سواری ، اپنا گھر، اپنا منصب اور اپنی عزت و جاہ۔۔۔۔۔کیا یہی قید خانہ ہے۔۔۔۔؟اور میری حالت دیکھو۔۔۔ کس غربت اور کسمپرسی میں زندگی گزار رہا ہوں۔۔۔کیا یہی جنت ہے ؟

آپ نے اسے جواب دیا ارے نادان! اگر میں اللہ کے ہاں کامیاب ہو گیا اور مجھے جنت مل گئی تو یہ سب جس کا تم نے ذکر کیا ہے ، اس کے مقابلے میں ایک قید خانہ سے زیادہ نہیں۔۔۔۔اور اگر تو کفر و شرک پر مر گیا اور جہنم میں ڈالا گیا تو اس کے مقابلے میں تیری یہ حالت جس میں تو آج ہے تیرے لیے جنت سے کم نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ارے ناسمجھ! دنیا کی کسی بہت بڑی سلطنت کی بادشاہی بھی جنت کی نعمتوں کے مقابلے میں کسی قید خانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔

 جنت اپنے بندوں کے لیے اللہ کا انعام ہے جس کی صحیح تصویر کھینچنے  کے لیے کسی انسانی زبان میں ایسے الفاظ موجود نہیں کہ ان کا بیان کیا جا سکے :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ،نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی بشر کے دل پر ان کا خیال گزرا (پھر آپ نے فرمایا) اگر تم چاہو تو  (اس کے استدلال میں) یہ آیت پڑھ لو:

سورة السجدة   (32 )

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِیَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْیُنٍ جَزَاء بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ {17}

پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اُن کے اعمال کی جزا میں اُن کے لیے چھپا کر رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔

(صحیح بخاری،جلد دوم ،باب مخلوقات کی ابتدا کا بیان، حدیث479)

ظاہر ہے جس کھانے کو ہم نے کھایا نہیں، اس کا ذائقہ ہم کیا جانیں؟ جس پھل کو ہم نے نہ دیکھا نہ چکھا، اس کی لذت ہمیں کیا معلوم؟ جس نعمت کو ہم جانتے ہی نہیں اس کا خیال دل میں کیسے گزرے۔بس یہ سمجھ لیجیے کہ دنیا میں ہمیں جو کچھ ملا ہے آزمائش کے درجے میں ہے اور ہم اسی میں گم ہو جاتے ہیں۔ جنت میں جو کچھ ملے گا نعمت کے درجے میں ہو گا اس کا اندازہ کر لیجیے۔۔۔۔؟ مگر اے اہل ارباب و دانش! سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا وہ خدا جس نے ایسی حسین دنیا بنائی  اس سے بہت زیادہ حسین جنت نہیں بنا سکتا؟ کیا جس نے ایسے لذیذ پھل پیدا کیے وہ ان کی لذت کو بڑھا نہیں سکتا؟ جس نے اتنے حسین درخت اور پھول پیدا کیے کیا وہ انہی جیسے محل نہیں بنا سکتا۔ جس نے ہمارے سامنے پانی کے سمندر پیدا کر کے رکھ دیے اور دریا بہا دیے کیا وہ دودھ، شہد اور طرح طرح کے شربتوں کے چشمے اور دریا نہیں بہا سکتا؟جس نے دنیا میں ایسی ایسی نعمتیں پیدا کیں وہ ان سے بہت اعلی نعمتیں پیدا نہیں کر سکتا؟۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں نہیں جبکہ وہ تو خلاق العلیم ہے۔

جنت کی خوبصورتی، دلکشی  اور سرسبزی کی تصویر کشی میں  قرآن حکیم اور احادیث ہمیں  یہ بتلاتی ہیں کہ گھنے سرسبز باغات ہیں جن میں چشمے ابلتے ہیں اور جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی،ہمیشگی کی زندگی وہاں حاصل ہو گی، پاکیزہ بیویوں کی رفاقت حاصل  ہو گی، وہاں کے پھل دائمی اور سایے لازوال ہیں، بے حساب رزق وہاں عطا فرمایا جائے گا اور وہاں اللہ کی خوشنودی حاصل ہو گی:

سورة آل عمران  (  3  )

۔۔۔ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ بَصِیرٌ بِالْعِبَادِ {15}

جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں، اُن کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی  حاصل ہو گی، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔ اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہے۔

سورة الرعد   ( 13 )

مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ أُكُلُهَا دَآئِمٌ وِظِلُّهَا تِلْكَ عُقْبَى الَّذِینَ اتَّقَواْ وَّعُقْبَى الْكَافِرِینَ النَّارُ {35}

خدا ترس انسانوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال۔ یہ انجام ہے متقی لوگوں کا۔ اور منکرینِ حق کا انجام یہ ہے کہ ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔

سورة غافر   (40)

۔۔۔ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِكَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ یُرْزَقُونَ فِیهَا بِغَیْرِ حِسَابٍ {40}

اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔

جنت سکونت کے لیے ایک عظیم الشان سچے بادشاہ کے نزدیک بہت ہی عزت کا مقام ہے :

 سورة القمر   (54 )

إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ {54} فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیكٍ مُّقْتَدِرٍ {55}

نافرمانی سے پرہیز کرنے والے یقیناً باغوں اور نہروں میں ہوں گے ، سچی عزت کی جگہ، بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب۔

دنیا میں تو انسان کی طبعیت نعمتوں سے بھی اکتا جاتی ہے لیکن وہاں کبھی کسی کا یہ جی نہ چاہے گا کہ ان نعمتوں سے نکل کر کہیں اور چلا جائے :

سورة الكهف   ( 18 )

إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا {107} خَالِدِینَ فِیهَا لَا یَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا {108}

وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ، ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس جگہ سے نکل کر کہیں جانے کو اُن کا جی نہ چاہے گا۔

‍ قران حکیم اور احادیث مبارکہ میں جنت کا جو حسین نقشہ کھینچا گیا ہے یقین جانیے کہ وہ انسان پر سحر طاری کر دیتا ہے۔چلئے قرآن و حدیث کی روشنی میں ذرا تفصیل کے ساتھ اسی جنت کی سیر کو چلتے ہیں۔

 سب سے پہلا مرحلہ تو وہ ہے جب کہ جنتی جنت میں داخل ہوں گے۔ ذرا یہ نظارہ دیکھیے :

 

 

جنتیوں کے جنت میں داخلے کا منظر

کچھ احادیث مبارکہ کے مطابق جنت میں داخل کیے جانے سے پہلے ہی اہل جنت کو ابدی حسن،صحت و جوانی عطا کی جائے گی، گناہوں سے پاک کر دیا جائے گا، ان کی برائیوں کو ان سے دور کر دیا جائے گا، کسی کے دل میں جو بھی نفرت و کدورت ہو گی اسے مٹا دیا جائے گا اور تھوک، بلغم،پیشاب وغیرہ کی گندگیوں کو دور کر دیا جائے گا اور یوں جنتی سلامتی کے اس گھر میں اس طرح داخل ہوں گے کہ حسین و جوان صحت مند ہوں گے ، قد کاٹھ آدم علیہ السلام کا یعنی ساٹھ ہاتھ ہو گا، گندگیوں، گناہوں،برائیوں ، نفرتوں، کدورتوں سے  پاک ہوں گے ، پسینہ مشک جیسا خوشبودار ہو گا اور ان کے دل آلائشوں سے ایسے صاف ہوں گے کہ نرمی میں پرندوں کے دلوں کے مانند ہوں گے۔

غور فرمائیے کیا اللہ کے لیے یہ ناممکن ہے ؟کیا وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا؟ آج اگر اللہ ہی کے حکم سے ہماری جوانی دس یا بیس برس کی ہے تو کیا خدا اس مدت کو بڑھا  کر ابدی و سرمدی نہیں کر سکتا؟ آج اگر ہماری جسمانی نظام ٹھیک کام کر رہے ہیں تو اس میں ہمارا کیا کمال ہے یا ہمارا کتنا عمل دخل ہے ؟ ہم نے تو اپنے ہی پہلو میں وہ دل بھی نہیں دیکھا جو ہمارے بہت ہی قریب ہے ، کبھی آرام نہیں کرتا، سوتا نہیں، ہم سوتے جاگتے ہیں اور وہ اللہ کے حکم سے کتنے ہی برس تک مسلسل اپنا کام سرانجام دیتا ہے۔ کیا اللہ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اسے چند برس کے بجائے لامحدود مدت تک کام کرنے کا اہل بنا دیے ؟کیا خد اکے لیے یہ ممکن  نہیں کہ وہ ہمارے جسمانی نظاموں میں کچھ تبدیلی فرما سکے ؟اگر اللہ پھول کو خوشبو دیتا ہے تو کیا پسینے کو نہیں دے سکتا؟ بلی(کیوں نہیں) اللہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔اور بے شک ایسا ہی ہونے والا ہے جیسا رب نے ہمیں بتا دیا ہے۔

اب اس موقع پر قرآن حکیم  ہمارے سامنے جنتیوں کے جنت میں داخلے کا منظر پیش کرتا ہے اور بتلاتا ہے کہ  فرشتے ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے ،تحیات اور سلام پیش کریں گے اور اس کامیابی پر مبارکباد دیں گے۔ جنت کے دروازے ان کے لیے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے اور جنتیوں سے کہا جائے گا کہ بلا خوف و خطر سلامتی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہو جاؤ۔اور یہ نعمت پانے پر جنتی لوگ اللہ کا شکر ادا کریں گے۔

اللھم انا نسالک الجنۃونعوذبک من عذاب النار

(اے اللہ ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

سورة الزمر   (  39  )

وَسِیقَ الَّذِینَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاؤُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِینَ {73} وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ نَشَاء فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِینَ {74}

اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے ، اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے ، تو اُس کے منتظمین اُن سے کہیں گے کہ ’’سلام ہو تم پر، بہت اچھے رہے ، داخل ہو جاؤ اِس میں ہمیشہ کے لیے۔‘‘ اور وہ کہیں گے ’’شکر ہے اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا، اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔‘‘پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے۔

سورة الرعد   ( 13 )

۔۔۔ وَالمَلاَئِكَةُ یَدْخُلُونَ عَلَیْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ {23} سَلاَمٌ عَلَیْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ {24}

ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے اور اُن سے کہیں گے ’’تم پر سلامتی ہے ، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو‘‘_______پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر!

سورة إبراهیم  (  14 )

وَأُدْخِلَ الَّذِینَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ تَحِیَّتُهُمْ فِیهَا سَلاَمٌ {23}

جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہیں گے ، اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارکباد سے ہو گا۔

سورة الفرقان   ( 25 )

۔۔۔وَیُلَقَّوْنَ فِیهَا تَحِیَّةً وَسَلَامًا {75} خَالِدِینَ فِیهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا {76}

آداب و تسلیمات سے اُن کا استقبال ہو گا۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور وہ مقام۔

اس استقبال اور مبارکباد کے ساتھ کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر جنت میں داخل ہو جاؤ:

سورة الحجر  ( 15 )

إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ {45} ادْخُلُوهَا بِسَلاَمٍ آمِنِینَ {46}

یقیناً متقی لوگ  باغوں اور چشموں میں ہوں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ داخل ہو جاؤ ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر۔

سورة الزخرف    ( 43)

یَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ {68} الَّذِینَ آمَنُوا بِآیَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِینَ {69} ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ {70}

اُس روز اُن لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے تھے اور مطیعِ فرمان بن کر رہے تھے کہا جائے گا کہ ’’اے میرے بندو، آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تمہیں کوئی غم لاحق ہو گا۔ داخل ہو جاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں، تمہیں خوش کر دیا جائے گا۔‘‘

فطرت انسانی نے ہمیشہ باغات، ہریالی ،سبزے ، درختوں، پھولوں اور بہتے پانی کو پسند کیا ہے اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جس انسان کو اس کی طاقت، وسائل اور دولت ملی تو اس نے یہ نعمتیں حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بڑے بڑے بادشاہوں نے دریاؤں کے کنارے شہر آباد کیے اور اپنے محلوں کے گرد و پیش کو  باغات، پھولوں  اور بہتے پانی سے سجانے کی کوشش کی۔ یہ حقیقتاً انسانی فطرت کی وہ مانگ ہے جو اللہ نے جنت کی صورت میں پوری کی ہے  اور  دنیوی زندگی کو آزمائش قرار دے کر جنت کو پانے کا معیار اور طریقہ کار بتلا دیا ہے لیکن انسان اسے دنیا میں  ہی پانے کی خواہش کرتا ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے تو اپنے لیے یہی آسائشیں  تلاش کرتا ہے۔حالانکہ یہاں اول تو وہ نعمت اس درجے میں مل ہی نہیں سکتی اور کچھ تھوڑا بہت مل بھی جائے تو کیا،اگر کوئی اور زوال نہ بھی آئے تو بالآخر موت آ کران ساری نعمتوں کو مٹا دیتی ہے۔خوش نصیب تو درحقیقت وہی لوگ ہیں جو اللہ  کی رحمت سے جنت کے مستحق ہو جائیں۔

جنت کے لفظی معنی ہی "باغ”کے ہیں  اور پوری کی پوری جنت باغات کا مجموعہ گویا ایک وسیع و عریض باغ ہی ہے جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔آئیے جنت کے باغات کی کیفیت ، اس کے درختوں کی چھاؤں،جنت کے گھروں، اس کے چشموں اور اس کی نہروں کے بارے میں جانتے ہیں۔

 

 

گھنے باغات اور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں

سورة النساء (4)

وَالَّذِینَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا لَّهُمْ فِیهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَنُدْخِلُهُمْ ظِـلاًّ ظَلِیلاً {57}

اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاؤں میں رکھیں گے۔

سورة المرسلات   (   77   )

إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی ظِلَالٍ وَعُیُونٍ {41}

 متقی لوگ آج سایوں اور چشموں میں ہیں۔

سورة الرعد   ( 13 )

۔۔۔أُكُلُهَا دَآئِمٌ وِظِلُّهَا۔۔۔

{35} اس (جنت)کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال۔

سورة الواقعة   ( 56 )

وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ {30} وَمَاء مَّسْكُوبٍ {31}

اور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں ، اور ہر دم رواں پانی۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ایک درخت ایسا ہے کہ جس کے سایہ میں ایک سوار سو سال تک چلے تو بھی طے نہ کر سکے۔

(صحیح بخاری،جلد دوم ،باب مخلوقات کی ابتدا کا بیان، حدیث486)

بڑے درخت فطرتی حسن کی علامت ہوتے ہیں اور ان کی خوبصورتی اور ان کی چھاؤں میں بیٹھنے کا لطف جداگانہ ہی ہوتا ہے۔ان سحر انگیز لمحات کے بارے میں آپ کسی ایسے فرد سے پوچھ دیکھیے جو کہیں گاؤں یا پہاڑوں کا رہنے والا ہو اور جس نے کبھی کہیں بڑے درختوں کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر کچھ وقت گزارا ہو۔

اندازہ کر لیجیے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی اس جنت میں کتنے  کتنے بڑے درخت ہیں اور کیسی گھنی اور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں ہے اور نجانے انہی درختوں پر کہیں پرندوں کے گھونسلوں کی مانند جنتیوں کے محل بھی ہوں۔(واللہ اعلم)

اللھم انا نسالک الجنۃونعوذبک من عذاب النار

(اے اللہ ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

 

 

جنت کی نہریں اور دریا

سورة البروج   ( 85 )

إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِیرُ {11}

جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ، یقیناً اُن کے لیے جنت کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ ہے بڑی کامیابی۔

سورة محمد   (  47 )

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِیهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاء غَیْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِن لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِینَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى وَلَهُمْ فِیهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوا مَاء حَمِیمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءهُمْ {15}

پرہیزگار لوگوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی، نہریں بہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہو گا،نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی، نہریں بہ رہی ہوں گی صاف شفّاف شہد کی۔ اُس میں اُن کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور اُن کے رب کی طرف سے بخشش۔ (کیا وہ شخص جس کے حصہ میں یہ جنت آنے والی ہے ) اُن لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے جو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں تک کاٹ ڈالے گا۔

یہ تو محض چند ہی آیا ت ہیں اسی مضمون کے ساتھ آپ کو بے شمار آیات مل جائیں گی جن میں جنت کے باغات کا تذکرہ ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔عربی زبان میں نہر کے معنی دریا کے ہیں۔اندازہ کر لیجیے کہ وہاں کا کوئی باغ ایسا نہیں کہ جس میں یہ نہریں نہ بہہ رہی ہوں۔دنیا میں بھی حسین ترین خطے وہی ہیں جہاں بہتا پانی ہو اور وافر ہو۔ وہ کیا ہی حسین سرزمین ہو گی جہاں ایک طرف تو گھنے سر سبز باغات ہیں اور انہی ہرے ہرے باغات میں ، صاف ستھرے پانی،سفید رنگ کے دودھ ، شہد اور قسم قسم کے رنگوں کے طرح طرح کے شربتوں کے دریا بہتے ہوں گے۔کیا یہ نظارہ بھی چشم تصور میں لایا جا سکتا ہے ؟اور (واللہ اعلم)ہو سکتا ہے کہ اس خلاق العلیم ہستی نے ایسے خاص درخت بھی پیدا کر رکھے ہوں کہ جن کو سیراب بھی دودھ، شہد اور شربتوں ہی سے کیا جاتا ہو اور جن کے پھلوں میں بھی ان کا اثر جاتا ہو۔سوچیے کہ اگر ایسا ہو تو ان درختوں کے پھلوں کا کیسا ذائقہ ہو گا جو دودھ اور شہد اور شربتوں سے سیراب کیے جاتے ہوں۔ ہمیں اللہ نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے ذرا غور کیجیے کہ جو خدا پانی کے دریا بہا سکتا ہے کیا اس کی قدرت کاملہ دودھ، شہد اور شربتوں کے دریا نہیں بہا سکتی۔کیوں نہیں۔یہ ساری چیزیں بھی تو اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں جو کم مقدار میں پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے اسے مقدار بڑھانے میں کتنی دیر لگے گی اور اس کے پاس کسی کام کو کرنے کے سینکڑوں ،لاکھوں نہیں ان گنت طریقے ہیں۔جس نے یہاں دودھ جانوروں کے تھنوں سے اور شہد ایک مکھی کے پیٹ سے نکالا ہے وہ یقیناً جب چاہے تو دودھ، شہد اور شربتوں  کے دریا بھی ویسے ہی بہا دے گا جیسے آج ہماری آنکھوں کے سامنے اس کے پانی کے دریا بہتے ہیں۔

بخاری ہی کی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب اللہ سے مانگو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا افضل و بلند ترین حصہ ہے۔ اسکے اوپر(خدائے ) رحمان کا عرش ہے اور اسی میں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔

اب ایک نظر جنت کے چشموں پر ڈال دیجیے کہ جن سے خاص قسم کے مشروبات نکلتے ہیں اور ان میں سے بعض کی شاخیں مومنین کے گھروں میں بھی جاتی ہیں۔اور قرآن کا حکم یہ ہے کہ اگر مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو ان نعمتوں کے حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرو۔

 

جنت کے چشمے

سورة الذاریات   (51 )

إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ {15} آخِذِینَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِینَ {16}

 بے شک متقی لوگ  اس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے ، جو کچھ ان کا رب انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے۔

سورة الغاشیة   ( 88 )

فِیهَا عَیْنٌ جَارِیَةٌ {12}

 اُس(جنت) میں چشمے رواں ہوں گے

سورة الإنسان   (  76   )

وَیُسْقَوْنَ فِیهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِیلًا {17} عَیْنًا فِیهَا تُسَمَّى سَلْسَبِیلًا {18}

ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہو گی، یہ جنت کا ایک چشمہ ہو گا جس سَلسبیل کہا جاتا ہے۔

سورة الإنسان   (  76   )

إِنَّ الْأَبْرَارَ یَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا {5} عَیْنًا یَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ یُفَجِّرُونَهَا تَفْجِیرًا {6}

نیک لوگ( جنت میں)شراب کے ایسے ساغر پیئیں گے جن میں آبِِ کافور کی آمیزش ہو گی، یہ ایک بہتا چشمہ ہو گا جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے شراب پیئیں گے اور جہاں چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں نکال لیں گے۔

سورة المطففین   ( 83 )

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِی نَعِیمٍ {22} عَلَى الْأَرَائِكِ یَنظُرُونَ {23} تَعْرِفُ فِی وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِیمِ {24} یُسْقَوْنَ مِن رَّحِیقٍ مَّخْتُومٍ {25} خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِی ذَلِكَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ {26} وَمِزَاجُهُ مِن تَسْنِیمٍ {27} عَیْنًا یَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ {28}

بے شک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے ، اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے ، ان کے چہروں پر تم خوشحالی کی رونق محسوس کرو گے۔ ان کو نفیس ترین سر بند شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی مہر لگی ہو گی۔جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اِس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں۔ اُس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہو گی، یہ ایک چشمہ ہے جس کے پانی کے ساتھ مقرب لوگ شراب پیئیں گے۔

 

پاکیزہ قیام گاہیں اور منزل پر منزل بنے ہوئے مکانات

انسانوں کو ہمیشہ سے ہی منزل بہ منزل بنے مکانات اچھے لگے ہیں، بادشاہوں نے بھی اونچے اونچے محل تعمیر کیے اور بالائی منزلوں کو رہائش کے لیے زیادہ پسند کیا۔ آج بھی جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں اور گھر بنواتے ہیں تو بیڈ رومز بالائی منزلوں پر ہی رکھتے ہیں۔قرآن یہ نقشہ پیش کرتا ہے کہ جنت کے باغوں اور نیچے بہتی  نہروں میں مومنین کی پاکیزہ قیام گاہیں اور محل منزل بہ منزل بنے ہوئے ہوں گے۔آیات ملاحظہ ہوں:

سورة العنكبوت   ( 29  )

وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِینَ {58}

جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارتوں میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ، کیا ہی عمدہ اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے۔

سورة الزمر   (  39  )

لَكِنِ الَّذِینَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِّن فَوْقِهَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّةٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَعْدَ اللَّهِ لَا یُخْلِفُ اللَّهُ الْمِیعَادَ {20}

البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈر کر رہے اُن کے لیے بلند عمارتیں ہیں منزل پر منزل بنی ہوئی، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

سورة التوبة   ( 9 )

وَعَدَ اللّهُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَمَسَاكِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ {72}

مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اُن سدا بہار باغوں میں اُن کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہو گی۔ یہی بڑی  کامیابی ہے۔

سورة الصف   (61)

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آَمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنجِیكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ {10} تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ {11} یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَیُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ {12}

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذابِ الیم سے بچا دے ؟  ایمان لاؤ  اللہ اور اس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔

اور محل بھی سونے ، چاندی، ہیروں ، موتیوں، زمرد ،یاقوت اور نجانے کس کس چیز کے بنے ہوئے۔ سوچیے جس خدا نے اتنی زیادہ مٹی ، ریت اور پتھر ہماری زمین پر پیدا کر دی کیا وہ سونے ، چاندی اور ہیرے جواہرات کو اتنی مقدار میں پیدا نہیں کر سکتا۔جنت میں تو ایک ایک موتی اور ہیرے سے بنی قیام گاہ کا عرض میلوں تک ہو گا:

سیدنا عبداللہ بن قیسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ جنت میں ایک خواب دار موتی کا خیمہ ہے اور اس خیمہ کا عرض ساٹھ میل کا ہے۔”

(صحیح بخاری)

یوں گھنے سرسبز باغات میں پانی ،دودھ ، شہد، اور شراب کی نہروں اور چشموں میں جنتیوں کی قیام گاہیں ہوں گی اور ہر جنتی اپنے جنت والے گھر سے بخوبی آگاہ ہو گا:

سیدنا ابو سعید خدریؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :’’قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے کہ ہر شخص اپنے گھر (مسکن) کو جنت میں اس سے زیادہ پہچان لے گا جس طرح وہ اپنے مسکن کو دنیا میں جانتا تھا۔ ‘‘

(صحیح بخاری)

انسانوں نے بھی ڈیزائننگ کی ہے لیکن جیسا مصور خود اللہ سبحانہ و  تعالی ہے ویسا کوئی اور کہاں ؟ پھولوں کی بناوٹ پر ہی غور کر لیجیے ، بعض پرندوں اور تتلیوں  کے پروں پر رنگوں کا کمال  نفاست بھرا حسین امتزاج جو  انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔۔سوچیے یہ کس کا کمال ہے ؟ آزمائش کے درجے میں ایسا حسن بکھیرنے والا جب اپنی نعمت سجائے گا تو کون ہے جو اس کاریگر کی کاریگری کے کمال کا تصور بھی کر سکے۔ ہیرے ، موتیوں، یاقوت و زمرد، سونے چاندی  سے بنے ہوئے ان گھروں اور ان کے نقشوں کے بارے میں ہمارا خیال بھی ان کے حسن کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا۔جنت کے مقابلے میں دنیا کتنی حقیر ہے ملاحظہ ہو:

نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:

"تم میں سے کسی کی بہشت میں کمان بھر جگہ یا چابک بھر جگہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔”

(صحیح بخاری براویت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ)

غرض یہ وہ جنت ہے جس کے لیے قرآن میں یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ:

سورة الإنسان   (  76   )

وَإِذَا رَأَیْتَ ثَمَّ رَأَیْتَ نَعِیمًا وَمُلْكًا كَبِیرًا {20}

وہاں جدھر بھی تم نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت کا سر و سامان تمہیں نظر آئے گا۔

 

جنت کا موسم

اور اس عظیم سلطنت کا موسم ایسا  معتدل ہے کہ :

سورة الإنسان   (  76   )

۔۔۔ لَا یَرَوْنَ فِیهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِیرًا {13}

نہ انہیں دھوپ کی گرمی ستائے گی نہ جاڑے کی ٹِھر۔

 

 

نہ محنت و مشقت نہ تھکاوٹ

جنت  کی زندگی ایسی فارغ البالی کی زندگی ہے کہ جس میں نہ تو کسی قسم کی محنت و مشقت و تھکاوٹ ہے ، نہ  ہی کسی قسم کا کوئی رنج و تکلیف اور  نہ ہی بڑھاپا و بیماری۔ غرض ایسی کوئی چیز نہیں جو انسان کی پر سکون زندگی میں کوئی خلل ڈالے یا کسی چیز کے حصول کے لیے مشقت اٹھانی پڑے یا کسی نعمت کے چھن ہی جانے کا کوئی ڈر ہو:

سورة الحجر  ( 15 )

لاَ یَمَسُّهُمْ فِیهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِینَ {48}

انہیں نہ وہاں کسی مشقت سے پالا پڑے گا اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔

سورة فاطر   ( 35 )

لَا یَمَسُّنَا فِیهَا نَصَبٌ وَلَا یَمَسُّنَا فِیهَا لُغُوبٌ {35}

(جنتی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہیں گے کہ)اب یہاں نہ ہمیں کوئی مشقت پیش آتی ہے اور نہ تکان لاحق ہوتی ہے۔

کچھ احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ (جنت میں)ایک پکارنے والا پکارے گا کہ (اے اہل جنت)تمہارے لیے یہ مقرر ہو چکا ہے کہ تم صحت مند رہو گے کبھی بھی بیمار نہیں ہو گے ، تم زندہ رہو گے کبھی بھی نہیں مرو گے ، تم جوان رہو گے کبھی بھی بوڑھے نہیں ہو گے ، تم عیش و آرام میں رہو گے کبھی بھی رنج و تکلیف کا شکار نہیں ہو گے۔

(صحیح مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ ہی سے روایت کردہ ایک اور حدیث مبارکہ کچھ اس طرح ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جنت میں داخل ہو جائے گا وہ ہمیشہ عیش میں رہے گا، اسے کوئی رنج و تکلیف نہیں پہنچے گی۔ نہ اس کے کپڑے پرانے ہوں گے اور نہ ہی اس کا شباب فنا ہو گا۔

(صحیح مسلم)

 

جنت کی وسعت

نعمتوں بھری اس جنت کی وسعت کے بارے میں قرآن حکیم ہمیں یہ بتلاتا ہے

 عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ

کہ اس کی وسعت زمین و آسمانوں جیسی ہے۔

ذرا غور کیجیے کہ محض ہماری معلوم کائنات میں ہی کتنا زیادہ مادہ ہے اور یہ سب کس کا ہے ؟ تنہا ایک ہی سورج میں 13 لاکھ زمینیں سما سکتی ہیں۔ سورج محض ایک ستارہ ہے اور اس سے بہت بہت زیادہ بڑے ستارے موجود ہیں اور صرف ہماری کہکشاں(ملکی وے ) میں ہی  ایک اندازے کے مطابق دو سو بلین سے چار سو بلین تک ستارے ہیں۔ ہماری کہکشاں کے قریب ترین کہکشاں(Andromeda Galaxy) 2500000نوری سال کے فاصلے پر ہے (ایک نوری سال 6 کھرب میل کا فاصلہ ہے )اور ایسی کہکشائیں بھی ہیں جن کی روشنی کو ہماری کہکشاں تک پہنچنے کے لیے اربوں نوری سال درکا ر ہیں۔ یہ کہکشائیں کو ئی سو یا ہزار نہیں  بلکہ سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق اربوں کی تعداد میں ہیں۔ اربوں کہکشائیں ، ان میں اربوں کھربوں ستارے ، اور نجانے کتنے ہی ستارے ایک ایک نظام شمسی ہیں جن کے گرد چکر لگاتے سیارے اور سیاروں کے گرد گھومتے چاند۔۔۔سوچیے یہ سارے فاصلے اور خزانے کس کے ہیں اور کتنا ہی میٹیریل ہے اللہ کے ان خزانوں میں۔۔۔اور اس پر بھی غور کیجیے کہ ہماری زمین بھی تو اسی میٹیریل کے ٹھنڈا کیے جانے سے ہماری زندگی کے لیے سازگار بنائی گئی ہے۔کیا وہ قادر مطلق جس نے زمین کو ہمارے لیے گھروندا بنا دیا اور جو ان کہکشاؤں میں موجود اس سارے مادے یا میٹیریل کا مالک ہے وہ  انہی کو زمین کی طرح ہماری زندگی کے لیے سازگار جنت میں نہیں بدل سکتا یا کیا اس کے پاس صرف یہی ذخائر ہیں ؟ یہ مادہ تو اس نے اپنی نشانیوں کے طور پر ہمارے اردگرد پھیلا دیا ہے وگرنہ اس کے خزانے تو بے حد و حساب ہیں  جنہیں خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سوچیے جس نے یہ زمین پیدا کر کے اس پر ہمیں آزمائش کے لیے بھیجا وہ اس جیسی یا اس سے بہت بہتر پیدا نہیں کر سکتا؟ جس نے کھربوں ستارے پیدا فرمائے ہیں وہ کھربوں زمینیں پیدا نہیں کر سکتا ؟ کیوں نہیں وہ تو زمین و آسمانوں سی وسعت والی جنت کو پیدا فرما چکا ہے۔جس کے ایک درجے سے دوسرا درجہ ایسا بلند ہے کہ جیسے ہمارے مقابلے میں وہ  ستارے ہیں  جنہیں ہم آسمان پر دیکھتے ہیں۔اور اسی عظیم الشان سلطنت کو پانے کے لیے ہمیں قرآن میں یہ حکم دیا جا  رہا ہے کہ” اس کی طرف دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو” جو وسعت و کشادگی میں زمین و آسمانوں جیسی ہے :

سورة آل عمران  (  3  )

وَسَارِعُواْ إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ {133}

دوڑ کر چلو اُس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے ، اور وہ پرہیزگار لوگوں کے لیے مہیّا کی گئی ہے۔

سورة الحدید   ( 57 )

سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاء وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ یُؤْتِیهِ مَن یَشَاء وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ {21}

دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو  اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے ، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

اتنی ہی وسعت والی جنت  ہو گی جس میں ادنی سے ادنی درجے کے جنتی کو بھی دنیا سے کئی گنا بڑی جنت عطا فرمائی جائے گی۔  اس کے بارے میں یہ حدیث مبارکہ بھی پڑھ لیجیے :

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خداﷺ نے فرمایا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ یہ ایک ایسا شخص ہو گا جو اوندھے منہ دوزخ سے نکلے گا۔ پھر اللہ اس سے فرمائے گا کہ جا کر جنت میں داخل ہو جا۔ پس وہ جنت کے پاس آئے گا تو اس کا یہ خیال ہو گا کہ یہ تو بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ جائے گا اور عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا اس پر اللہ تعالی فرمائے گاجا کر جنت میں داخل ہو جا۔پھر وہ اس کی طرف آئے گا تو اسے یہی خیال گزرے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ پس وہ جا کر پھر عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا اس پر اللہ تعالی (تیسری بار)فرمائے گا کہ جا کر جنت میں داخل ہو جا،تیرے لیے تو وہاں دنیا کے برابر جگہ ہے اور اس سے دس گنا زیادہ ہے۔(اس یقین نہ آئے گا اور وہ سمجھے گا کہ شاید اس سے مذاق کیا جا رہا ہے ) چنانچہ وہ عرض کرے گا کہ اے خدا تو بادشاہ ہو کر مجھ سے مذاق کر رہا ہے (اس حدیث کے راوی بتاتے ہیں کہ) پھر میں نے رسول خداﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔ (راوی یہ بھی بتاتے ہیں کہ )کہا جاتا تھا کہ یہ شخص اہل جنت میں سب سے کم رتبے والا ہو گا۔

(بخاری)

اب تک ہم نے جنت کے باغات،چھاؤں، نہروں، چشموں اور قیام گاہوں ، موسم اور وسعت کے بارے میں کچھ آیات اور احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا۔اب چلیے کھانے پینے کی کچھ اور نعمتوں کے بارے میں جانتے ہیں۔

 

جنت کی شراب  اور اس کی خاصیت

ہم نے پڑھا کہ جنت میں صاف شفاف پانی، دودھ، شہد اور قسم قسم کی شراب کی نہریں  اور دریا بہتے ہیں اور چشمے پھوٹتے ہیں۔ اب یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ جنت کی شراب دنیا کی شراب سے کس قدر مختلف ہے۔اس بات کی وضاحت اتنی ضروری تھی کہ اللہ نے قرآن حکیم میں اس کی خصوصیات کا تذکرہ فرمایا تاکہ ان کج فہم لوگوں کی غلط فہمی دور کر دی جائے جو چھانٹے ہوئے بہترین انسانوں کے پاکیزہ معاشرے یعنی جنت کو دنیا کے کسی شراب خانے کی مانند سمجھتے ہیں جہاں کچھ شرابی پی کر جھوم رہے ہیں اور غل غپاڑہ مچا رہے ہیں۔

جنت کی شراب کی قرآنی وضاحت حسب ذیل ہے۔

 پہلی بات تو یہ کہ وہ شراب پھلوں اور غلوں کو گلا سڑا کر اور قدموں تلے روند کر کشید کی گئی  بدبو دار اور سڑاند والی شراب نہیں بلکہ اللہ کی قدرت سے نہروں اور چشموں کی شکل میں جاری ہے اور ایسی صاف ستھری اور نفیس کہ چمکتی ہے اور یہ حسین نہریں جنتیوں کی قیام گاہوں اور جنت کے باغوں کے نیچے بہتی ہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔

 دوسری بات یہ کہ جنت کی شراب صحت و عقل کے لیے مضر نہیں ہو گی کہ اس سے  آدمی کی صحت خراب ہو یا سر چڑھ جائے اور اس سے درد سر لاحق ہو یا پھر آدمی بہک جائے ،  ہوش گوش سے بیگانہ ہو جائے اپنے گھر والوں کو پہچاننے سے بھی قاصر ہو اور اول فول بکنے لگے۔جنت کی شراب میں ان میں کوئی بھی خرابی نہ ہو گی۔دنیا میں تو لوگ شراب کی لذت کے لیے یہ سارے نقصانات برداشت کرتے ہیں،  جنت کی شراب میں ان میں سے کوئی بھی نقصان اور قباحت تو نہیں ہو گی لیکن لذت و سرور میں  دنیا کی شراب اور جنت کی شراب میں کوئی نسبت ہی نہیں۔اس ضمن میں کچھ آیات ملاحظہ فرمائیے :

سورة الصافات   (  37  )

یُطَافُ عَلَیْهِم بِكَأْسٍ مِن مَّعِینٍ {45} بَیْضَاء لَذَّةٍ لِّلشَّارِبِینَ {46} لَا فِیهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا یُنزَفُونَ {47}

شراب کے چشموں سے ساغر بھر بھر کر ان کے درمیان پھرائے جائیں گے۔ چمکتی ہوئی شراب ، جو پینے والوں کے لیے لذّت ہو گی۔نہ اُن کے جسم کو اُس سے کوئی ضرر ہو گا اور نہ ان کی عقل اس سے خراب ہو گی۔

سورة الطور   ( 52 )

یَتَنَازَعُونَ فِیهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِیهَا وَلَا تَأْثِیمٌ {23}

وہ ایک دوسرے سے جام شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں گے جس میں نہ بے ہودگی ہو گی نہ بد کرداری۔

سورة الواقعة   ( 56 )

عَلَى سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ {15} مُتَّكِئِینَ عَلَیْهَا مُتَقَابِلِینَ {16} یَطُوفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ {17} بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِیقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِینٍ {18} لَا یُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا یُنزِفُونَ {19}

مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ اُن کی مجلسوں میں اَبدی لڑکے شرابِ چشمۂ جاری سے لبریز پیا لے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑ تے پھرتے ہوں گے جسے پی کر نہ اُن کا سر چکرائے  گا نہ اُن کی عقل میں فتور آئے گا۔

 

جنت کے پھل

جنت کے گھنے سرسبز باغات اور گھنی چھاؤں کے بارے میں تو ہم پڑھ آئے ہیں اب کچھ تذکر ہ جنت کے پھلوں کا بھی ہو جائے۔ اس بارے میں قرآن ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ جنت کے پھل کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں، وہ ہر وقت جنتیوں کے بس میں ہوں گے اور بلا روک ٹوک ملتے رہیں گے۔جنت کے درخت ان پھلوں سے ایسے لدے ہوئے ہوں گے کہ ان کی ڈالیاں جھکی جاتی ہوں گی اور جنتی لوگ جو پھل چاہیں گے حاضر کر دیا جائے گا۔ قرآن حکیم میں  بہت سے پھلوں کا نام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے مثلاً انگور، کھجور، انار، کیلے ، بیر وغیرہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے پھل جنتیوں کو کھانے کو دیے جائیں گے :

سورة المرسلات   (   77   )

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ {41} وَفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ {42} كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ {43} إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنينَ {44}

متقی لوگ آج سایوں اور چشموں میں ہیں اور جو پھل وہ چاہیں (اُن کے لیے حاضر ہیں)۔کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اُن اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔ ہم نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔

سورة الحاقة   ( 69 )

فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ {22} قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ {23} كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ {24}

عالی مقام جنت میں،جس کے پَھلوں کے گچھے جھکے پڑ رہے ہوں گے۔(ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ اور پیو اپنے اُن اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے ہیں۔

سورة البقرة    (  2  )

وَبَشِّرِ الَّذِين آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ هَـذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُواْ بِهِ مُتَشَابِهاً وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ {25}

اور اے پیغمبرؐ، جو لوگ ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں، انہیں خوشخبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اُن باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔ اُن کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔

سورة الإنسان   (  76   )

وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَالُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلًا {14}

جنت کی چھاؤں ان پر جھکی ہوئی سایہ کر رہی ہو گی، اور اس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں ہوں گے (کہ جس طرح چاہیں انہیں توڑ لیں)۔

سورة الواقعة   ( 56 )

وَفَاكِهَةٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُونَ {20}

اور وہ(خدمتگار) ان کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چن لیں۔

سورة الرحمن   ( 55 )

فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ {68}

ان میں بکثرت پھل اور کھجوریں اور انار۔

سورة الرحمن   ( 55 )

فِيهِمَا مِن كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ {52} فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ {53} مُتَّكِئِينَ عَلَى فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ {54}

دونوں باغوں میں ہر پھل کی دو قسمیں۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ جنتی لوگ ایسے فرشوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے ، اور باغوں کی ڈالیاں پھلوں سے جھکی پڑ رہی ہوں گی۔

سورة الواقعة   ( 56 )

 وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ {32} لَّا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ {33}

اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھل۔

 

جنت کا گوشت

جنتیوں کی خدمت میں صرف پھل ہی نہیں پیش کیے جائیں گے بلکہ ان کی خدمت میں پرندوں کے اور دیگر ہر قسم کے گوشت بھی پیش کیے جائیں گے تاکہ جو گوشت وہ پسند کریں کھائیں۔

سورة الواقعة   ( 56 )

وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ {21}

اور(خدمتگار جنتیوں کی خدمت میں) پرندوں کے گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں ۔

سورة الطور   ( 52 )

وَأَمْدَدْنَاهُم بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ {22}

ہم ان کو ہر طرح کے پھل اور گوشت ، جس چیز کو بھی ان کا جی چاہے گا، خوب دیے چلے جائیں گے۔

بخاری اور مسلم کی چند احادیث مبارکہ میں اہل جنت کے پہلے کھانے  کے طور پر مچھلی کے کلیجے پر جو ٹکڑا لگا ہوتا ہے اس کا اور بیل کے گوشت کا بھی ذکر ہے۔

سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت میں جانے والے کھائیں پئیں گے لیکن نہ تھوکیں گے ، نہ ناک صاف کریں گے اور نہ پیشاب کی حاجت ہو گی۔ لیکن ان کا کھانا کستوری کی مشک جیسا ایک ڈکار ہو گا (بس ڈکار اور پسینہ سے کھانا تحلیل ہو جائے گا)۔ انہیں تسبیح و تحمید (یعنی سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنا) کا ایسے ہی الہام ہو گا جیسے سانس کا الہام ہوتا ہے۔

 

جنتیوں کا لباس

ایک نظر جنتیوں کے لباس پر بھی ڈال لیجیے کیونکہ کھانے پینے کے بعد اہم ترین ضرورت لباس ہی ہے۔جنت میں لباس اور دیگر پہننے کی چیزیں بھی اللہ ہی کی طرف سے عطا فرمائی جائیں گی۔دنیا میں اللہ کی اس نعمت کی ایک چھوٹی سی مثال ہمارے کپڑوں کے علاوہ ہمارے سر ، ابروؤں، پلکوں وغیرہ کے وہ بال  بھی ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں، جن لوگوں سے یہ لباس چھن جاتا ہے اس نعمت کی قدر انہی سے پوچھئے۔اس طرف بھی نگاہ جائے کہ اسی دنیا میں رنگ برنگے پرندوں، درختوں اور پھولوں کو کیسا حسین لباس  رب نے پہنایا ہے۔جنت تو نعمتوں بھری  بہت بڑی سلطنت ہے جس کو پانے والا ہر جنتی ایسی بہترین زندگی گزارے گا کہ دنیا کی کسی بڑی سے بڑی سلطنت کا بادشاہ بھی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔جنتی لوگ ریشم اور اطلس و دیبا  کے لباس پہنیں گے اور انہیں سونے چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ہیرے موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا۔اسی لیے نبیﷺ نے فرمایا کہ جس مرد نے دنیا میں ریشم اور سونا پہن لیا وہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا۔

جو لباس اور پہننے کی چیزیں جنتی استعمال کریں گے وہ کبھی بوسیدہ نہ ہوں گی ان کا قرآنی تذکرہ پڑھیے اور چشم تصور میں لانے کی کوشش کیجیے کہ اہل جنت کے پہناوے  کیسی شاندار ہو ں گے :

سورة الحج   ( 22  )

إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ  فِيهَا حَرِيرٌ {23}

جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اُن کو اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہاں وہ سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیے جائیں گے اور ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔

سورة الكهف   ( 18 )

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا {30} أُوْلَئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا {31}

وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں، تو یقیناً ہم نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔ ان کے لیے سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے ، باریک ریشم اور اَطلس و دِیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے ، اور اونچی مسندوں پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے ، بہترین اجر اور اعلیٰ درجے کی جائے قیام!

سورة فاطر   ( 35 )

جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ {33}

ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں  گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا، وہاں ان کا لباس ریشم ہو گا۔

سورة الدخان    (44)

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ {51} فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ {52} يَلْبَسُونَ مِن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَقَابِلِينَ {53}

خدا ترس لوگ امن کی جگہ میں ہوں گے۔ باغوں اور چشموں میں، حریرو دیبا کے لباس پہنے ، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

سورة الإنسان   (  76   )

عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ۔۔۔ {21}

اُن کے اوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں گے ، ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔

 

جنت کی معاشرتی زندگی

انسان کو اچھی اور بھرپور زندگی گزارنے کے لیے ایک انسانی معاشرے کی ضرورت پڑتی ہے۔دنیا میں زندگی کی بہت بڑی نعمتوں میں سے والدین، بیویاں، اولاد، رشتہ دار، اچھے پڑوسی اور دوست ہیں۔دنیا کی ساری نعمتیں ہوں مگر خوشیاں بانٹنے کے لیے کوئی نہ ہو اور انسان تنہا ہو تو وہی ساری چیزیں کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں۔ نعمتوں کا لطف تب ہی آتا ہے جب آپ کے اپنے پیارے آپ کے ساتھ ہوں۔اور یہ بات بھی ہم سب جانتے ہیں کہ اردگرد رہنے والے انسانوں کا معاشرہ جتنا اچھا ہو ہماری  زندگی بھی اتنی ہی اچھی گزرتی ہے۔اچھی صاف ستھری طبعیت، شائستگی اور ذوق سلیم رکھنے والے لوگوں کے لیے بدتمیز و بد زبان،  جھگڑے فساد والے ، گالم گلوچ کرنے والے ، غیبت و حسد کرنے والے ،جھوٹے اور بے حیا  لوگوں کے درمیان رہنا ایک  بڑے عذاب سے کم نہیں ہوتا۔جنت نعمتوں کا گھر ہے اور جنت کی نعمتیں کمال ہیں۔ جب ہم  ان عظیم الشان نعمتوں کے بارے میں پڑھتے ہیں تو سمجھ نہیں آتی کہ کس نعمت کو کس درجے میں رکھا جائے کیونکہ وہاں تو ہر نعمت ہی ایسی ہے کہ جسے چھوٹا نہیں کہا جا سکتا۔جنت کی انہی کمال بے مثال نعمتوں میں سے ایک بہت ہی بڑی نعمت وہاں پہنچنے والے  بہترین انسانوں کا امن و محبت والا پاکیزہ معاشرہ ہے۔جنت کے جس معاشرے کی تصویر قرآن  حکیم اور احادیث مبارکہ میں ہمارے سامنے رکھی گئی ہے وہ اتنی پر کشش ہے کہ بے اختیار یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ بن جائیں۔آپ دیکھیے کہ دنیا کی چند سالہ زندگی اپنی سمجھ کے مطابق بہتر اور خوشحال گزارنے کے لیے لوگ اپنا  گھر، اپنا وطن، اپنا خاندان، رشتہ دار سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں، برسوں تک غریب الوطنی کاٹتے ہیں کہ امیگریشن مل جائے۔۔۔کتنی بڑی قربانی ہے۔۔۔کس کے لیے ؟ عارضی ، فانی  دنیا کے لیے اور عین ممکن ہے کہ وہ”اچھی دنیا "درحقیقت آپ کے لیے اچھی بالکل نہ ہو۔کل کو وہاں آپ ہی کے بچے آپ کا بوجھ اٹھانے اور آپ کی تیسری نسل آپ کا نام بھی پہچاننے سے انکار کر دے ، اور شاید بہت سارے اپنوں کے لیے گمراہی کی راہ کھولنے پر آپ آخرت میں بھی ناکام ہو جائیں۔

آئیے ذیل کی سطور میں ہم ایک ایسے بہترین معاشرے کے بارے میں جانتے ہیں جس کی خوبی و حسن کا ہم صحیح تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جہاں دائمی و ابدی خوشحالیاں ہیں، جہاں داخلے کی کامیابی جس کو مل گئی وہ وہاں کا درجہ اول کا مستقل باشندہ  ہے جسے نہ تو کبھی وہاں سے نکالا جائے گا اور نہ پھر کبھی اسے کوئی ناکامی نہیں ملے گی۔ چلیے اس آئیڈیل معاشرے کے بارے میں جاننے کے لیے قرآن و حدیث سے رہنمائی لیتے ہیں،  شاید یہی جاننا ہمارے دل میں اس کے پانے کی تڑپ بیدار کر دے اور ہم اپنے رب سے اس کے چنے ہوئے بہترین لوگوں کے معاشرے کی شہریت مانگ لیں، شاید اسے حاصل کرنے کی خواہش میں ہم اس کے لیے کچھ کوشش اور قربانی بھی کر سکیں جس رب قبول کر لے اور ہمیں سچی کامیابی مل جائے۔

جنت سلامتی کا گھر ہے جہاں نہ نفرت و کدورت ہے ، نہ حسد و بغض و عداوت، نہ ہی برائی و بے ہودگی و بدکرداری اور نہ ہی جنگ و جدل و قتل و غارت گری۔ جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے ، جہاں انسانیت کے چھانٹے ہوئے بہترین لوگ رہتے ہیں جن کے دلوں میں کوئی آلائش نہیں اور جن کی برائیاں ان سے دور کر دی گئی ہیں۔ دنیا میں ہی اگر کسی کو اچھا پڑوس اور اچھے رفقاء مل جائیں تو کتنی بڑی نعمت ہے ، کتنی اچھی زندگی گزرتی ہے۔ ہماری کتنی خواہش ہوتی ہے کہ کاش کسی نبی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا، کاش کسی رسول کی رفاقت میسر آئی ہوتی۔رسولﷺ کے کس امتی کی خواہش نہیں کہ آپ ﷺ سے شرف ملاقات ہو جائے۔ ہاں  یہ  خواب حقیقت بن سکتا ہے اگر ہم اللہ کی جنت کے مستحق ہو جائیں تو ایسے ہی اعلی لوگوں کی دائمی رفاقتیں مل سکتی ہیں  کیونکہ جنت ہی تو وہ آئیڈیل اعلی ترین معاشرہ ہے جہاں رفاقت کے لیے انبیاءؑ اور صدّیقین اور شہداء اور صالحین جیسے بہترین رفقاء ہیں:

سورة النساء (4)

وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا {69} ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّهِ وَكَفَى بِاللّهِ عَلِيمًا {70}

 اور جو لوگ اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاءؑ اور صدّیقین اور شہداء اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسّر آئیں۔ یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لیے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے۔

 

اہل جنت کی برائیوں کا دور کر دیا جانا

آئیے اب ہم جنت کے سارے وارثوں کی کچھ مشترکہ خوبیوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ قرآن حکیم میں اس بارے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ اہل جنت کی برائیاں جنت میں داخلے سے پہلے ہی ان سے دور کر دی جائیں گی اور ان کے دلوں میں سے برائی کو خدائی انتظام کے ذریعے مٹا دیا جائے گا۔اور یوں اہل جنت آپس میں محبت کرنے والے بھائیوں کی طرح رہیں گے۔ کچھ آیات ملاحظہ ہوں:

سورة الفتح   ( 48)

لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَكَانَ ذَلِكَ عِندَ اللَّهِ فَوْزًا عَظِيمًا {5}

تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اُن کی برائیاں اُن سے دور کر دے ____ اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے۔

سورة التغابن   ( 64 )

يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {9}

جب اجتماع کے دن وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا۔ وہ دن ہو گا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا۔ جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل کرتا ہے ، اللہ اس کی برائیاں اس سے دور کر دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔

 

نہ بغض و کینہ، نہ نفرت و عداوت

دلوں کی نفرت اور باہمی تعلقات کی خرابی انسانی دکھوں میں سے بہت سے دکھوں کی جڑ ہے۔بعض اوقات بڑی بڑی نعمتوں میں رہنے والے اپنے قریب رہنے والے انسانوں کے رویوں سے اس قدر دل برداشتہ ہوتے ہیں کہ خودکشیاں تک کر بیٹھتے ہیں۔جو لوگ دلوں میں دوسروں کے خلاف نفرتیں اور بغض رکھتے ہیں ان کی زندگی  اور سوچ  کبھی صحت مند نہیں ہوتی۔ جنت نام ہی بہترین زندگی کا  ہے پھر بھلا یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہاں کے رہنے والے نفرتیں اور کدورتیں رکھتے ہوں یا وہاں بے ہودگی اور بدتمیزی کا کوئی گزر بھی ہو۔

جنتیوں کے دلوں میں اگر کسی کے خلاف بغض و عداوت  اور نفرت و دشمنی ہو گی بھی تو اس کو مٹا دیا جائے گا۔جنت کے کسی بھی باشندے سے کسی دوسرے کو برائی، خطرے اور دشمنی کا کوئی امکان نہیں ہو گا :

سورة الحجر  ( 15 )

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ {47}

اُن کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کپٹ ہو گی اسے ہم نکال دیں گے ، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔

سورة الأعراف  (  7  )

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الأَنْهَارُ وَقَالُواْ الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَـذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلا أَنْ هَدَانَا اللّهُ لَقَدْ جَاءتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ وَنُودُواْ أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ {43}

ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہو گی اسے ہم نکال دیں گے۔ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور وہ کہیں گے کہ ’’ تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا، ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے۔” اس وقت نِدا آئے گی کہ” یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں اُن اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے۔”

 

نہ بے ہودہ کلام ،نہ جھوٹ، نہ ہی گناہ کی کوئی بات

جنت کی بڑی نعمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں کوئی  ایسی بات نہ ہو گی جو بے ہودگی، جھگڑے ،جھوٹ ، گالی،  لغویات، لعن طعن، بہتان، غیبت، چغلی، تمسخر، طنز، بدتمیزی، بدزبانی یا گناہ کے کسی زمرے میں آتی ہو:

سورة الواقعة   ( 56 )

لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا {25} إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا {26}

وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے  جو بات بھی ہو گی ٹھیک ٹھیک ہو گی ۔

سورة الغاشية   ( 88 )

لَّا تَسْمَعُ فِيهَا لَاغِيَةً {11}

کوئی بیہودہ بات وہاں نہ سنیں گے۔

سورة النبأ   ( 78  )

لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا {35}

وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے۔

سورة مريم   ( 19 )

لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا {62} تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيًّا {63}

وہاں وہ کوئی بے ہُودہ بات نہ سُنیں گے ، جو کچھ بھی سُنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے۔ اور ان کا رزق انہیں پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔ یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اُس کو بنائیں گے جو پرہیزگار رہا ہے۔

دنیوی زندگی کی بہت بڑی تکالیف میں سے یہ چند ہیں جن سے انسان کو جنت میں  مکمل نجات مل جائے گی۔آپ خود غور فرمائیے کہ جن مسائل کی وجہ سے دشمنیاں،نفرتیں اور فساد وجود میں آتے ہیں  جب وہ مسائل جنت میں ہوں گے ہی نہیں تو نفرت و عداوت کیوں آئے گی۔ جب ہر ایک اپنی جنت میں بادشاہ کی طرح رہے گا ،جسے کبھی کوئی رنج و تکلیف نہ پہنچے گی، جس کی ہر خواہش پوری کی جائے گی اور جو کچھ اس کے خدا نے اس کو دیا ہو گا وہ اس پر راضی اور مطمئن ہو گا، جسے کسی بھی نعمت کے چھن جانے کا کوئی ڈر نہ ہو گا تو پھر کسی دوسرے سے نفرت اور دشمنی کا کیا سوال؟ جب کسی دوسرے کی احتیاج ہی نہیں ہو گی تو برائی کیسی؟ ویسے بھی اہل جنت وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں  اہل خیر تھے اور جن سے بہت برے حالات میں بھی اچھائی ہی کی توقع کی جاتی تھی۔ جو اللہ کو دیکھے بنا اس کو راضی کرنے کے لیے خود کو تکلیف میں ڈال کر دوسروں کی ضروریات پوری کرتے تھے اور دوسروں کو سکھ پہنچاتے تھے ان سے کوئی کیونکر یہ توقع کرے گا کہ وہ اللہ سے ملاقات کے بعد اس کی جنت میں رہتے ہوئے فساد کریں، اور جنت جیسی نعمت عظیم پانے کے بعد بے ہودہ کلام، جھوٹ یا گناہ کی کوئی بات کریں ؟  یوں بھی ہم اوپر یہ پڑھ آئے ہیں کہ جو برائی بھی جس جنتی میں تھی وہ جنت میں داخل کیے جانے سے پہلے ہی  اس سے دور کر دی جائے گی اور اگر کسی جنتی کو کسی  شخص کے ساتھ دشمنی تھی بھی تو اللہ تعالی اپنی تخلیقی کارفرمائی سے ہی دلوں کو برائیوں ، بے ہودگیوں، نفرتوں اور عداوتوں سے پاک و صاف کر دے گا۔وہاں ان کی صدائیں سلامتی کی ہوں گی اور ان کی زبانیں اللہ کی پاکی اور تعریف بیان کریں گی۔

سورة يونس  ( 10 )

دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلاَمٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ {10}

وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ ’’پاک ہے تو اے خدا‘‘، اُن کی دعا یہ ہو گی کہ ’’سلامتی ہو‘‘ اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہو گا کہ ’’ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔”

رسولﷺ نے فرمایا کہ اہل جنت کے درمیان کوئی مخالفت نہیں ہو گی، نہ ان میں ایک دوسرے کے لیے بغض ہو گا۔ سب کے  دل (باہمی الفت و محبت کے باعث مل کر گویا) ایک دل ہو گئے ہوں گے۔ وہ صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کریں گے۔

(مسلم)

یہ سلامتی اور امن و عافیت والا وہ پاکیزہ معاشرہ ہے جہاں  کسی بھی نوعیت کے دکھ ، رنج و غم یا تکلیف نام کی  کسی  چیز کا کوئی وجود نہیں۔ اسی نعمت کدے کا نام جنت ہے اور اسی کی طرف ہمارا مہربان رب ہمیں دعوت دے رہا ہے :

سورة يونس  ( 10 )

وَاللّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلاَمِ وَيَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ {25}

(تم اِس نا پائیدار زندگی کے فریب میں مُبتلا ہو رہے ہو) اور اللہ تمہیں دار السّلام کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ (ہدایت اُس کے اختیار میں ہے ) جس کو  وہ چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔

اللہ سے دعا کیجیے کہ خدا ہمیں بھی سلامتی کے اسی گھر میں جگہ عطا فرمائے (آمین)

اللھم انا نسالک الجنۃونعوذبک من عذاب النار

(اے اللہ ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

 

اہل جنت کی خاندانی زندگی

ہم نے یہ جانا کہ جنت سلامتی کا گھر ہے جس کا معاشرہ انسانیت کے بہترین لوگوں کا معاشرہ ہو گا جہاں کسی کے دل میں  کسی کی نفرت یا دشمنی نہ ہو گی، اہل جنت کی برائیوں کو دور کر دیا جائے گا اور جنت میں کوئی بے ہودہ  کلام یا  گناہ کی بات نہ سنی جائے گی۔انہی اعلی صفات والے لوگوں کا معاشرہ  جنت کہلائے گا۔

اب ہم جنت کی خاندانی زندگی کے بارے میں قرآن و حدیث سے جاننے کی کوشش کریں گے۔اس بارے میں پہلی بات تو یہ ہے جنت میں کوئی بھی جنتی اکیلا نہیں رہے گا بھلے وہ مرد ہو یا عورت۔زندگی کے حسن کا رشتہ یعنی رشتہ ازدواج وہاں بھی ہو گا۔جنتی مرد ہوں یا عورتیں ہمیشہ جوان اور میاں بیوی کی حیثیت میں ہی رہیں گے۔

رسولﷺ نے ارشاد فرمایا

"وما فی الجنۃ اعزب۔۔”

اور جنت میں کوئی بغیر جوڑے کے نہ  ہو گا۔

صحیح مسلم، کتاب الجنۃ، باب 6

 جنتی مردوں کی یہ بیویاں حوروں کے علاوہ ہوں گی اور چونکہ یہ دنیا کی آزمائش سے گزر کر اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کی بنا پر جنت کی مستحق ہوئی ہوں گی اس لیے ان کو حوروں پر فضیلت حاصل ہو گی یوں سمجھ لیجیے کہ جنتی بادشاہ کی ملکہ کی حیثیت انہی کو حاصل ہو گی۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ”میں نے رسول اللہﷺ نے پوچھا، یا رسول اللہ، دنیا کی عورتیں بہتر ہیں یا حوریں؟حضورﷺ نے جواب دیا، دنیا کی عورتوں  کو حوروں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو ابرے کو استر پر ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا کس بنا پر؟ فرمایا اس لیے کہ ان عورتوں نے نمازیں پڑھی ہیں، روزے رکھے ہیں اور عبادتیں کی ہیں۔”

(طبرانی)

جنتی عورتیں اپنی مرضی اور پسند کے مطابق یا تو اپنے سابق جنتی شوہروں کی زوجیت میں آئیں گی یا پھر کسی دوسرے جنتی کی زوجیت میں جبکہ فریقین یہ رفاقت پسند کریں۔قرآن حکیم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جنتیوں کی ہر خواہش پوری کی جائے گی اس لیے وہاں ابدی رشتۂ ازدواج میں منسلک کیے جانے سے پہلے فریقین کی رضامندی، خواہش اور خوشی کو اصل اہمیت حاصل ہو گی۔احادیث مبارکہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو میاں بیوی دنیا میں مومن رہے ہوں اور آخرت میں جنت کے مستحق ہو جائیں تو اگر دونوں چاہیں گے تو ان کا یہ رشتہ وہاں ابدی و سرمدی ہو جائے گا اور اگر نہ چاہیں تو اللہ ان کا جوڑ کسی اور جنتی سے لگا دے گا۔ جس جوڑے میں سے کوئی ایک جنتی اور دوسرا جہنمی نکلا تو جنتی کو اس کی رضامندی سے اہل جنت میں سے کسی کے رشتہ ازدواج میں دے دیا جائے گا، اسی طرح ان مردوں اور عورتوں کے ساتھ بھی معاملہ کیا جائے گا جو دنیا میں شادی سے پہلے ہی مر گئے تھے۔ اس معاملے میں ایک سادہ سی بات ہمیں یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جنت کے مستحق لوگ چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں اللہ کے پسندیدہ ہوں گے اور انہیں رب کی طرف سے ہر خوشی دی جائے گی اور اہل جنت کی خوشیوں کے لیے ان کے حق میں اللہ سے بہتر چننے والا اور فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔اللہ کامل علم والی ہستی ہے ، دل و دماغ اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں، جو جوڑا اللہ ان کے لیے چنے گا وہ ان کے لیے بہترین ہو گا اور اسی میں اللہ ان کی بھرپور خوشی، محبت اور رضامندی بھی رکھ دے گا۔

کچھ آیات ملاحظہ ہوں:

سورة الزخرف    ( 43)

يَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ {68} الَّذِينَ آمَنُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ {69} ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ {70} يُطَافُ عَلَيْهِم بِصِحَافٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ وَأَنتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ {71} وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ {72}

اُس روز اُن لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے تھے اور مطیعِ فرمان بن کر رہے تھے کہا جائے گا کہ ’’اے میرے بندو، آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تمہیں کوئی غم لاحق ہو گا۔ داخل ہو جاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں، تمہیں خوش کر دیا جائے گا۔’’اُن کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کرائے جائیں گے اور ہر مَن بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی چیز وہاں موجود ہو گی۔ ان سے کہا جائے گا،’’تم اب یہاں ہمیشہ رہو گے۔ تم اِس جنت کے وارث اپنے اُن اعمال کی وجہ سے ہوئے ہو جو تم دنیا میں کرتے رہے۔

سورة يس   ( 36 )

إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ {55} هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِؤُونَ {56} لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُم مَّا يَدَّعُونَ {57} سَلَامٌ قَوْلًا مِن رَّبٍّ رَّحِيمٍ {58}

آج جنتی لوگ مزے کرنے میں مشغول ہیں۔وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوں میں ہیں مسندوں پر تکیے لگائے ہوئے ، ہر قسم کی لذیذ چیزیں کھانے پینے کو ان کے لیے وہاں موجود ہیں، جو کچھ وہ طلب کریں ان کے لیے حاضر ہے ، ربِِ رحیم کی طرف سے ان کو سلام کہا گیا ہے۔

اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوکن کو ناپسند کرنا اور اس سے نفرت کرنا تو عورت کی فطرت میں ہے تو جنت میں جہاں رقابت کے لیے حوریں  اور دوسری بیویاں بھی ہوں گی تو پھر جنتی بیویاں  کیونکر خوش رہ سکیں گی؟ اس کا جواب ہم مضمون کے تیسرے حصے میں پڑھ آئے ہیں کہ اہل جنت کے دلوں میں نفرت و کدورت، بغض و عداوت اور حسد و رقابت  کا داعیہ ختم کر دیا جائے گا اور یہ برائیاں ان سے دور کر کے انہیں پاکیزہ بنا دیا جائے گا۔دوسری بات یہ کہ ان کے دلوں میں اللہ صرف انہی کی محبت ڈالے گا جن کی زوجیت میں وہ دی جائیں گی ،وہ اپنے اپنے خاوندوں ہی کی عاشق ہوں گی اور ان کی ساری دلچسپیاں اور محبتیں انہی سے وابستہ ہوں گی۔ وہ نگاہیں بچانے والی ، شرمیلی ، ہم عمر پاکیزہ لڑکیاں ہوں گی، جنہیں اللہ رب العالمین جوان اور کنواریاں بنا دے گا بھلے وہ دنیا میں بوڑھی ہو کر مری ہوں۔وہ ایسی حسین ہوں گی جیسے چھپا کر رکھے ہوئے ہیرے اور موتی، ایسی آبرو والی ہوں گی کہ جنہیں ان کے خاوندوں کے علاوہ کسی نے نہ چھوا ہو گا اور ایسی حیا دار ہوں گی کہ انہیں اپنے خاوند کے علاوہ کسی سے کوئی دلچسپی نہ ہو گی۔ہم پہلے ایک حدیث پڑھ آئے ہیں جس میں یہ بیان تھا کہ ادنی ترین جنتی کو بھی زمین سے دس گنا بڑی جنت دی جائے گی اب آپ خود سوچیے کہ ایسی سلطنتوں کے وارثوں کی بیویاں کیا ان سے خوش نہ ہوں گی جب کہ وہاں انہیں کوئی  تکلیف دیے جانے  کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بیویوں کی باہم نفرت و رقابت کا یہ تصور محض دنیا کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہے جنت کی زندگی میں اس کا کوئی تصور نہیں بالکل اسی طرح جیسے کہ اللہ نے ہمیں ہماری ماؤں کے پیٹوں میں کئی مہینے تک منہ کے ذریعے سے نہیں بلکہ براہ راست ماں کے خون سے رزق  دیا اور اسی سے ہماری بنیاد بنی لیکن دنیا میں آنے کے بعد وہ تصور ختم ہو جاتا ہے اور ہم منہ کے ذریعے کھانا پینا شروع کر دیتے ہیں۔ایسے ہی کئی ایک تصورات محض دنیا کی زندگی کے مرحلے سے وابستہ ہیں جنت کی زندگی میں ان کا کوئی وجود نہیں  مثلاً موت ،بیماری، بڑھاپا، تکلیف، رنج و غم، نفرت و کدورت، حسد و دشمنی،  برائی و بے ہودگی، گندگی ، بے ہودہ کلام وغیرہ دنیا سے وابستہ ہیں۔جنت کی زندگی میں ان کا کوئی تصور موجود نہیں۔یہ اتنی اہم بات ہے کہ اگر یہ سمجھ میں آ جائے تو جنت کی حیات کے بارے میں بہت سی باتیں سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔

ہاں زوجین میں مباشرت کا تصور وہاں موجود ہے کیونکہ حلال دائرے میں رہ کر مباشرت کرنا نہ ہی گناہ  یا برائی ہے  اور نہ ہی ناپسندیدہ ہے بلکہ فریقین کے لیے ایک نعمت اور جائز لطف ہے۔

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس یہودی آئے اور پوچھا "اے ابا القاسم آپ کا یہ گمان ہے کہ جنت میں لوگ کھائیں پیئیں گے اور ان کی بیویاں ہوں گی ؟ ” تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

"نعم والذي نفس محمد بيده إن أحدهم ليعطى قوة مائة رجل في الأكل والشرب والجماع "

ہاں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے جنتی مردوں میں سے ہر ایک کو کھانے پینے اور ہم بستری کرنے میں ایک سو آدمیوں کے برابر قوت دی جائے گی۔
یہودی نے کہا "جو کھاتا پیتا ہے اسے (پیشاب پاخانے کی) حاجت ہوتی ہے اور جنت میں تو کوئی تکلیف (دہ معاملہ ) نہیں ہے "
تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا

 "تكون حاجة أحدهم رشحا يفيض من جلودهم كرشح المسك فيضمر بطنه”

جنتی کی حاجت اس کی جلد سے بہنے والا مسک جیسا(خوشبودار) پسینہ ہو گا (جب وہ پسینہ نکلے گا ) تو اس کا پیٹ فارغ ہو جائے گا

المعجم الکبیر ، المعجم الاوسط ، صحیح ابن حبان ،حدیث ، مسند احمد ، امام الھیثمی نے  مجمع الزوائد  میں اسے صحیح قرار دیا۔

جنت کی زندگی کے بارے میں قرآن حکیم جنت کی بیویوں کی وہ خصوصیات بیان کرتا ہے جو ظاہری اور باطنی حسن کا کمال ہیں۔

 

اہل جنت کی بیویوں کی خصوصیات

نفرتوں، کدورتوں، حسد، گندگی، بے ہودگی اور فاسد خیالات سے پاک بیویاں:

سورة النساء (4)

وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَنُدْخِلُهُمْ ظِـلاًّ ظَلِيلاً {57}

اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاؤں میں رکھیں گے۔

سورة البقرة    (  2  )

۔۔۔ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ {25}

اُن کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔

بڑی بڑی آنکھوں والی،شرمیلی، نگاہیں بچانے والی، ہم عمر،  ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے ہیرے اور موتی، خوبصورت اور خوب سیرت بیویاں۔

سورة النبأ   ( 78  )

إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا {31} حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا {32} وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا {33} وَكَأْسًا دِهَاقًا {34} لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا {35} جَزَاء مِّن رَّبِّكَ عَطَاء حِسَابًا {36}

یقیناً متقیوں کے لیے کامرانی کا ایک مقام ہے ، باغ اور انگور، اور نوخیز ہم سِن لڑکیاں، اور چھلکتے ہوئے جام۔ وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے۔جزا اور کافی انعام تمہارے رب کی طرف سے۔

سورة الصافات   (  37  )

وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ {48} كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ {49}

اور ان کے پاس نگاہیں بچانے والی ، خوبصورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی، ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جِھلّی۔

سورة الدخان    (44)

۔۔۔ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ {54}

اور ہم گوری گوری آہُو چشم عورتیں ان سے بیاہ دیں گے۔

سورة ص   ( 38 )

وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ {52}

اور ان کے پاس شرمیلی ہم سِن بیویاں ہوں گی۔

 سورة الرحمن   ( 55 )

فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ {70} فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ {71}

ان نعمتوں کے درمیان خوب سیرت اور خوبصورت بیویاں۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟

کنواریاں، اپنے شوہروں کی عاشق اور ہم عمر جنہیں ان کے خاوندوں سے پہلے کسی نے نہ چھوا ہو گا۔

سورة الواقعة   ( 56 )

إِنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاء {35} فَجَعَلْنَاهُنَّ   أَبْكَارًا {36} عُرُبًا أَتْرَابًا {37}

ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انہیں کنواریاں بنا دیں گے ، اپنے شوہروں کی عاشق  اور عمر میں ہم سِن۔

سورة الرحمن   ( 55 )

فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ {56} فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ {57} كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ {58}

ان نعمتوں کے درمیان شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی جنہیں ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہو گا۔ ا پنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی۔

 

جنت کی حوریں

جنتی بیویوں کے علاوہ  قرآن حکیم میں جنتیوں کے لیے حوروں کا ایک نعمت کے طور پر تذکرہ کیا گیا ہے اور یہ بتلایا گیا ہے کہ ان کو بھی اہل جنت کی زوجیت میں دیا جائے گا۔

سورة الواقعة   ( 56 )

وَحُورٌ عِينٌ {22} كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ {23}

اور ان کے لیے خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہو ں گی ، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

سورة الطور   ( 52 )

۔۔۔وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ {20}

اور ہم خوبصورت آنکھوں والی حوریں ان سے بیاہ دیں گے ۔

سورة الرحمن   ( 55 )

فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ {70} فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ {71} حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ {72} فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ {73} لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ {74} فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ {75}

 ان نعمتوں کے درمیان خوب سیرت اور خوبصورت بیویاں۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ خیموں میں ٹھیرائی ہوئی حوریں۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے ان کو نہ چھوا ہو گا۔

جنتی بیویوں اور حوروں کے بارے میں یہ آیات پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے اہل جنت کی بیویاں جو دنیا کی عورتیں ہوں گی تو ان کے ساتھ ملکہ کی حیثیت سے محلوں میں رہیں گی جبکہ ان کی سیر گاہوں میں ان کی بیویاں خیموں میں ٹھہرائی ہوئی جوان و حسین و جمیل حوریں ہوں گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ و ہ معصوم لڑکیاں ہوں جو بلوغت سے پہلے ہی فوت ہو گئیں اور جن کے والدین جنت کے مستحق نہ ہو سکے کہ وہ ان کی اولاد کی حیثیت سے ان کے ساتھ رہتیں۔اور اللہ انہیں حسین و جمیل لڑکیاں یعنی حوریں بنا کر جنت میں رکھے۔(واللہ اعلم بالصواب)

بہرحال جنت کی عورتیں اور حوریں  شرم و حیا کی بہترین  نسوانی صفات سے متصف اپنے شوہروں کی چاہنے والیاں ہوں گی اور ان کے حسن و جمال کا یہ عالم ہو گا کہ:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا :’’ اگر اہل جنت میں سے کوئی عورت  زمین والوں کی طرف جھانک لے تو وہ تمام فضا کو جو آسمان و زمین کے درمیان ہے ، روشن کر دے اور اس کو خوشبو سے بھر دے اور بے شک اس کا دوپٹہ جو اس کے سر پر ہے۔ تمام دنیا والو ں اور جو کچھ اس میں ہے سے بہتر ہے۔ ‘‘

(بخاری)

حوروں ہی کے تعلق سے ایک سوال کچھ لوگ یہ کرتے ہیں کہ ” جی مردوں کے لیے تو حوریں ہوں گی عورتوں کے لیے کیا ہو گا؟”

اس سوال کے دو معنی ہیں۔ ایک تو سیدھا سادہ یہ ہے کہ جنتی عورتوں کی زندگی کیسی ہو گی، ان کا جوڑا  ہو گا یہ نہیں اور اگر ہو گا تو کون ہو گا؟

اگر اس سوال کا مطلب یہ ہے  تو جواب واضح ہے کہ ان کے لیے خاوند ہوں

 گے جن کی وہ عاشق ہوں گی۔ قرآن حکیم میں لفظ”زوج” استعمال کیا گیا ہے جس کے لفظی معنی سپاؤز spouseکے ہیں یعنی بیوی کے لیے خاوند اور خاوند کے لیے بیوی۔ اس کا جواب ہم اوپر تفصیل سے پڑھ آئے ہیں کہ جنت میں بغیر جوڑے کے کوئی نہ ہو گا اور کس طرح خدائی انتظام کے ذریعے ان کی رضامندی سے اہل جنت مرد اور عورتوں  کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کیا جائے گا۔تو سیدھا جواب یہ ہے کہ جس طرح جنتی مردوں کے لیے ان کی جنتی بیویاں ہوں گی جو اہل دنیا میں سے ہوں گی اسی طرح ہر جنتی عورت کے لیے اس کا اپنا شوہر ہو گا۔گویا جنتی مرد اگر وہاں اپنی جنت کا بادشاہ ہو گا تو اس کی ملکہ اس کی بیوی ہو گی۔

اس سوال کا دوسرا معنی کج فہمی پر مشتمل ہے اور یہ کچھ بیمار ذہن لوگوں کی سوچ کی پیداوار ہے کہ جنت میں مردوں کی "عیاشی”کے لیے تو حوریں ہوں گی عورتوں کی "عیاشی ” کے لیے کیا ہو گا۔ اس معنی کے ساتھ یہ سوال کرنے والے حقیقتاً انتہائی نادان اور جنت کی زندگی کے بارے میں کچھ بھی نہ جاننے والے لوگ ہیں  اور انہی میں سے بعض کے نزدیک جنت غلیظ شرابیوں کا مئے کدہ  اور عیاشی کا  اڈہ ہے۔کاش انہیں یہ معلوم ہو کہ جنت اللہ کی عظیم  الشان نعمت اور سلامتی کا وہ گھر ہے جہاں انسانیت کے بہترین لوگ یعنی انبیاء، صدیقین، شہدا، صالحین اور ان کے پاکیزہ رفقاء رہتے ہیں۔ جہاں کسی نفرت و کدورت یا برائی اور بے ہودگی  کا سرے سے وجود ہی نہیں۔جہاں ادنی ترین جنتی کی عزت، بادشاہی اور نعمتوں کا بھی وہ مرتبہ اور مقام ہے کہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑے بادشاہ  بھی اس کا تصور تک بھی نہیں کر سکتا۔اب ایسے بادشاہوں کی نفرت و کدورت اور برائیوں سے پاک ان کی عاشق بیویوں سے کون یہ توقع کر سکتا ہے کہ رب کی رضا کی جنت میں پہنچنے کے بعد بھی، اپنے اللہ کی طرف سے بہترین جوڑ عطا کیے جانے کے بعد،انہیں بھی اپنے خاوندوں کے علاوہ  کسی دوسرے کی ضرورت ہو گی جبکہ ان کے اپنے خاوند ان کے ہم عمر جوان  ہوں اور ان کی ہر جسمانی اور مادی ضرورت بدرجۂ اتم پوری کی جا رہی ہو۔حقیقت یہ ہے کہ جنتی بیویوں کے دل میں اللہ صرف ان کے خاوندوں کا عشق بٹھا دے گا اور وہ صرف اپنے خاوندوں کی مشتاق ہوں گی۔آپ کسی عاشق سے پوچھ دیکھیے کہ کیا اسے اپنے محبوب کے سوا کسی دوسرے کی کوئی خواہش ہوتی ہے ؟ دنیا میں ہی ،جہاں برائی کا امکان بہرحال موجود ہے ، ذرا کسی صاحب کردار عزت دار عورت سے جو اپنے شوہر کی عاشق ہو  پوچھ دیکھیں کہ اس کی خوشی کس میں ہے اپنے خاوند میں یا کہیں اور۔نعوذ باللہ من ذلک کیسی بدگمانی ہے  ایسی عظیم الشان جنت کے وارث خاوندوں کی اہل جنت بیویوں کے بارے میں  کہ انہیں بھی اپنے خاوندوں کے علاوہ کچھ درکار ہو گا جبکہ ہم یہ پڑھ چکے ہیں کہ جنت میں داخل کیے جانے سے پہلے ہی ہر جنتی کی ہر برائی اس سے دور کر دی جائے گی اور جنتی عورتوں میں ایسی بے حیا کوئی نہ ہو گی جو اپنے خاوند کے علاوہ کچھ اور چاہے۔جنتی بیویاں ہوں یا حوریں ہوں قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ ہوں گی یعنی شرم و حیا کا پیکر، نگاہیں بچانے والیاں جنہیں صرف اپنے ہی خاوندوں سے عشق ہو گا وہ نہ کسی اور کو دیکھنا گوارا کریں گی اور نہ ہی یہ چاہیں گی کہ کوئی اور انہیں دیکھے۔

 

والدین اور اولاد کا ملا دیا جانا

والدین اور اولاد ہی خاندان کی اکائی ہیں۔والدین اولاد سے اور اولاد والدین سے دور ہوں تو نعمتوں کا حسن و لطف برقرار نہیں رہتا۔ جنت نعمتوں کا گھر ہے وہاں بھی والدین اور اولاد دونوں کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے اللہ جنتی والدین اور اولاد کو باہم اکٹھا کر دے گا۔اور یہ جنت کی زندگی کی ایک اور بہت ہی بڑی نعمت ہے۔ہاں شرط یہ ہے کہ والدین بھی جنتی ہوں اور اولاد بھی جنتی ہوں۔ یعنی  ہر ایک اپنے اپنے ایمان و عمل کی بنا پر جنت میں پہنچا ہو۔وگرنہ جنت میں پہنچانے کے لیے رشتہ داری نہیں چلے گی۔ جو اپنی کمائی سے جہنم کا مستحق ہو گیا اسے باپ دادا یا اولاد کی خاطر جنت میں نہ پہنچایا جائے گا۔ کیونکہ انہی آیات کے ساتھ یہ تذکرہ آ رہا ہے کہ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔ہاں جو اپنے ایمان و عمل کی بنا پر وہاں پہنچ گیا اس پر اللہ کا مزید کرم یہ ہو گا کہ والدین اور اولاد میں سے جس کا مرتبہ اعلی ہو گا سب کو وہی درجہ دیا جائے گا تاکہ خوشیوں کے لیے سارے اکٹھے رہیں لیکن اکٹھے رہنے کے باعث کسی کے اجر میں کوئی  کمی یا گھاٹا  نہ ہو۔یاد رہے کہ یہ اس اولاد کا تذکرہ ہے جو بالغ ہوئی اور جس نے اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان لا کر عمل صالح کیے اور جنت کے مستحق ہوئی رہی جنتیوں کی  وہ اولاد جو بلوغت کو پہنچنے سے پہلے ہی مر گئی تھی تو وہ تو بہرحال جنت ہی میں جائے گی اور اپنے جنتی والدین ہی کے ساتھ رہے گی۔

آیات ملاحظہ ہوں:

سورة الطور   ( 52 )

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ {21}

جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد بھی کسی درجۂ  ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اس اولاد کو بھی ہم(جنت میں)ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔

سورة الرعد   ( 13 )

جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ۔۔۔{23}

یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور اُن کے آباؤ اجداد اور ‎ اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔

‍ قرآن حکیم میں حاملین عرش فرشتوں کی مومنین کے حق میں یہ دعا بھی مذکور ہے جس میں وہ اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ:

سورة غافر   (40)

رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُم وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ {8}

اے ہمارے رب ، اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے  والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔اور ان کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں(اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے )۔ تو بلا شبہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے۔

جیسا ہم نے اوپر پڑھا اہل جنت کے حق میں یہ دعا اللہ رب العالمین قبول فرمائے گا۔اللہ ہمیں بھی اس دعا میں حصہ دار بنائے ،ہمیں بھی اپنے آباء و والدین اور اولاد کے ساتھ وہاں جمع فرمائے اور اپنے پیاروں کے ساتھ اکٹھے رہنے کی نعمت عطا فرمائے۔یہ بھی نہ بھولیے کہ آباء و اجداد ہوں،والدین یا اولاد، وہاں سارے ہی جوان ہوں گے اور ہم عمر ہوں گے بوڑھا کوئی نہ ہو گا۔اور یہ ہو گی اس نعمت پر ایک اور نعمت۔دنیا میں اس نعمت سے کس طرح آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کی شادیاں وقت پر ہوئی ہوں  اور جن کی اولاد ان کی جوانی میں ہی جوان ہو جائے اور ان کے ساتھ چلنے پھرنے لگے۔

بس ہمیں یہ خیال رہے کہ کہیں جنت میں والدین اور اولاد کے ساتھ اکٹھے رہنے کی یہ نعمت چھن نہ جائے اسی لیے قرآن اس پر زور دیتا ہے کہ جس جنت میں خود جانا چاہتے  ہو وہیں اپنے پیاروں کو بھی پہنچانے کی کوشش کرو:

سورة التحريم   ( 66 )

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ  لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ {6}

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے ، جس پر نہایت تُند خُو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں۔

 

اہل جنت کی محفلیں

جنت کی معاشرتی زندگی کی نعمتوں میں ایک نعمت یہ بھی ہو گی کہ وہاں اپنے جنتی احباب سے ملاقاتیں اور محفلیں ہوں گی۔غور فرمائیے کہ اللہ الْحَيُّ الْقَيُّومُ یعنی زندہ اور قائم رہنے والی مبارک ہستی ہے اور اس کی محبت و اطاعت کی بنا پر جو تعلق قائم ہوتا ہے وہ اس دنیا میں بھی مضبوط ترین تعلق ہے اور آخرت میں بھی قائم رہے گا بلکہ حدیث مبارکہ میں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ آدمی انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا جن سے وہ محبت کرتا ہے۔ اور قرآن حکیم قیامت کے ہولناک مناظر کے بیان میں اہل ایمان کے رشتے کے بارے میں یہ فرماتا ہے کہ الْأَخِلَّاء يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ "اس روز متقین کو چھوڑ کر باقی سب دوست ایک دوسرے  کے دشمن ہو جائیں گے۔” جبکہ کافر کہے گا کہ يَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا "ہائے میری بربادی، کاش میں نے اس شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا” اور پھر یہ جہنمی جہنم میں یہ آپس میں جھگڑیں گے وَهُمْ فِيهَا يَخْتَصِمُونَ اور کہیں گے رَبَّنَا مَن قَدَّمَ لَنَا هَذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِي النَّارِ "اے ہمارے رب، جس نے ہمیں اس انجام کو پہنچانے کا بندوبست کیا اُس کو دوزخ کا دوہرا عذاب دے۔” اور پچھتائیں گے کہ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا "کاش ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی۔”

اب ایک طرف جہاں اہل جہنم مبتلائے عذاب ہوں گے ،ایک دوسرے پر لعن طعن کر رہے ہوں گے وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا ، آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ (بے شک یہ بات سچ ہے ، اہلِ دوزخ میں یہی کچھ جھگڑے ہونے والے ہیں)،حسرتوں، ندامتوں اور پچھتاوے سے يَا لَيْتَنَا، يَا لَيْتَنَى کاش ،کاش ، کاش کہہ رہے ہوں گے وہیں دوسری طرف یہ نقشہ ہو گا کہ اہل جنت اونچی مسندوں ، سجے ہوئے مرصع تختوں اور نفیس فرشوں پر تکیے لگائے بیٹھے  جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے ، باہم ملاقاتیں و بات چیت کر رہے ہوں گے اور دنیا کے دنوں کو یاد کرتے ہوں گے۔چلیے یہ  سارے مناظر بھی قرآن کے آئینے میں دیکھ لیتے ہیں اور آغاز جنت کے وارثوں کی نشست گاہوں سے  کرتے ہیں:

 

اہل جنت کی نشست گاہیں

سورة الغاشية   ( 88 )

 فِيهَا سُرُرٌ مَّرْفُوعَةٌ {13} وَأَكْوَابٌ مَّوْضُوعَةٌ {14} وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌ {15} وَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌ {16}

اُس کے اندر اونچی مسندیں ہوں گی، ساغر رکھے ہوئے ہوں گے ، گاؤ تکیوں کی قطاریں لگی ہوں گی اور نفیس فرش بچھے ہوئے ہوں گے۔

سورة المطففين   ( 83 )

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ {22} عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ {23} تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ {24}

بے شک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے ، اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے ، ان کے چہروں پر تم خوشحالی کی رونق محسوس کرو گے۔

سورة الرحمن   ( 55 )

مُتَّكِئِينَ عَلَى فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ {54}

جنتی لوگ ایسے فرشتوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے ، اور باغوں کی ڈالیاں پھلوں سے جھکی پڑ رہی ہوں گی۔

سورة الرحمن   ( 55 )

مُتَّكِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ {76}

وہ جنتی سبز قالینوں اور نفیس و نادر فرشوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے۔

سورة الواقعة   ( 56 )

عَلَى سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ {15} مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ {16}

مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔

سورة الواقعة   ( 56 )

وَفُرُشٍ مَّرْفُوعَةٍ {34}

اونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔

سورة الطور   ( 52 )

مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَّصْفُوفَةٍ۔۔۔ {20}

وہ آمنے سامنے بچھے ہوئے تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے

سورة ص   ( 38 )

مُتَّكِئِينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ {51}

ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے ، خوب خوب فواکہ اور مشروبات طلب کر رہے ہوں گے۔

سورة الطور   ( 52 )

يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ {23}

وہ ایک دوسرے سے جام شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں گے جس میں نہ یا وہ گوئی ہو گی نہ بد کرداری۔

 

اہل جنت کے خدمتگار لڑکے

اب جہاں قرآن حکیم میں جنتیوں کے اس باہم مل بیٹھنے کا اور گفتگو کا ذکر ہے وہیں ان کے  خدمتگاروں کا تذکرہ بھی ہے جو خوبصورت لڑکے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے اور ایسے حسین ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے موتی ہوں۔

سورة الواقعة   ( 56 )

عَلَى سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ {15} مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ {16} يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ {17} بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ {18} لَا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنزِفُونَ {19}

مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ اُن کی مجلسوں میں اَبدی لڑکے شرابِ چشمۂ جاری سے لبریز پیا لے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑ تے پھرتے ہوں گے جسے پی کر نہ اُن کا سر چکرائے  گا نہ اُن کی عقل میں فتور آئے گا۔

سورة الإنسان   (  76   )

وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا {19}

 ان کی خدمت میں ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں۔

سورة الطور   ( 52 )

وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ {24}

اور ان کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو انہی(کی خدمت) کے لیے مخصوص ہوں گے ، ایسے خوبصورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

قرآن حکیم میں اکثر مقامات پر جہاں جنتیوں کی ایسی محفلوں کا ذکر کیا گیا جن میں وہ اپنے اہل ایمان دوست احباب سے ملاقاتیں کریں گے تو وہاں ان خدمتگار لڑکوں کا ذکر بھی کیا گیا۔معلوم ہوا کہ وہاں خدمت کے لیے ہر جنتی کے خدمتگار لڑکے ہوں گے جو اسی(کی خدمت) کے لیے مخصوص ہوں گے جیسا کہ دنیا میں بادشاہوں کے خدمتگار ہوتے ہیں۔ یہ خدمتگار اس کی خدمت اس کے محلوں اور قیام گاہوں میں بھی کریں گے اور جب اس کے مہمان آئیں گے تو ان کی  ملاقات اور خدمت کے لیے جو محفلیں ہوں گی ان میں بھی وہی لڑکے اس کے مہمانوں کی خدمت کریں گے۔گویا شاہی محفلوں میں شاہی مہمانوں کی خدمت کے لیے شاہی خدمتگار۔ایک بات اور ان آیات سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنت میں غیر محرم مردوں اور عورتوں کی مخلوط محفلیں نہیں ہوں گی۔کیونکہ قرآن میں جہاں بھی اہل جنت کی اپنے دوست احباب سے ملاقات و گفتگو کا ذکر آیا ہے وہاں خدمتگاروں کے طور پر ان لڑکوں کا تذکرہ کیا گیا۔جنت سلامتی کا گھر ہے اور فطرت سلیم کی ہر خواہش وہاں پوری کی جائے گی۔ بیویاں اور حوریں جس جنتی کے  نکاح میں دی جائیں گی وہ صرف اسی کے لیے مخصوص ہوں گی اور وہ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ یعنی نگاہیں بچانے والیاں ہوں گی۔ فطرت اگر اپنی اصل پر قائم ہو تو کوئی مرد کبھی یہ نہیں چاہتا کہ اس کی بیوی غیر محرم لوگوں کے سامنے جائے اور عورت کی حیا کی فطرت اگر باقی ہو تو وہ کبھی یہ پسند نہیں کرتی کہ غیر نظریں اسے دیکھیں۔فطرت کی اس مانگ کے مطابق نہ تو ان کے خاوند یہ چاہیں گے اور نہ ہی ان کی اپنی خواہش یہ ہو گی کہ کسی ایسی محفل میں جائیں جہاں ایسے لوگ موجود ہوں جو دنیا میں ان کے غیر محرم رہے ہوں۔جنت اسلام کا معاشرہ ہے جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے اور کسی فتنے کا کوئی اندیشہ نہیں اسی لیے وہاں گناہوں سے پاک جنتیوں کے پاکیزہ مہمانوں کی خدمت بھی یہ پاکیزہ لڑکے کریں گے جن کا اوپر ذکر آیا۔(واللہ اعلم بالصواب)

(تفہیم القرآن سے اس کے متعلق ایک اقتباس)

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت  حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ اہل دنیا کے وہ بچے ہیں جو بالغ ہونے سے پہلے مر گئے ، اس لیے نہ ان کی کچھ نیکیاں ہوں گی کہ ان کی جزا پائیں اور نہ بدیاں ہوں گی کہ ان کی سزا پائیں۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ اس سے مراد صرف وہی اہل دنیا ہو سکتے ہیں جن کی جنت نصیب نہ ہوئی ہو۔ رہے مومنین صالحین ، تو ان کے بارے میں اللہ تعالی نے خود قرآن میں یہ ضمانت دی ہے کہ ان کی ذریت ان کے ساتھ جنت میں  لا ملائی جائے گی(الطور، آیت 21)اسی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو ابو داؤد طیالسی، طبرانی، بزار نے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ بن جندب سے نقل کی ہے۔ اس میں نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ مشرکین کے بچے اہل جنت کے خادم ہوں گے۔

یہ روایات اگرچہ سنداً ضعیف ہیں، لیکن متعدد دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بچے سن رشد کو نہیں پہنچے وہ جنت میں جائیں گے۔پھر یہ بھی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن بچوں کے والدین جنتی ہوں گے وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہیں گے تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اس کے بعد لامحالہ وہ بچے رہ جاتے ہیں جن کے ماں باپ جنتی نہ ہوں۔ سو ان کے متعلق یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے کہ وہ اہل جنت کے خادم بنا دیے جائیں۔(واللہ اعلم بالصواب)

اس کے متعلق تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری اور عمدۃ القاری، کتاب الجنائز، باب ما قیل فی اولاد المشرکین رسائل و مسائل، جلد سوم، صفحہ 177تا187)

(تفہیم القرآن از سید ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ تفسیر سورہ واقعہ حاشیہ9، تفسیر سورۃ صافات حاشیہ 26)

 

اہل جنت کی باہم گفتگو

اب ذرا اہل جنت کی ان گفتگوؤں پر ایک نظر ڈالیے جو وہ اپنی ملاقاتوں میں کریں گے۔ہمارے سامنے قرآن یہ منظر پیش کرتا ہے کہ جہاں اہل جنت ایک طرف نفرت و کدورت سے پاک،بھائی بھائی بنے ، اعلی ترین نشست گاہوں اور سجائے گئے تختوں پر بیٹھ کر مختلف نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے وہیں وہ باہم پاکیزہ بات چیت بھی کر رہے ہوں گے ، دنیا کی آزمائش کے دنوں کو یاد کرتے ہوں گے اور عظیم الشان جنت عطا کیے جانے پر اللہ کی حمد و ثنا کر رہے ہوں گے۔آیت ملاحظہ ہوں۔

سورة الحجر  ( 15 )

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ {47}

اُن کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کپٹ ہو گی اسے ہم نکال دیں گے ، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔

سورة الواقعة   ( 56 )

لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا {25} إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا {26}

وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے  جو بات بھی ہو گی ٹھیک ٹھیک ہو گی ۔

سورة الطور   ( 52 )

وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءلُونَ {25} قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ {26} فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ {27} إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلُ نَدْعُوهُ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ {28}

یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میں گزرے ہوئے ) حالات پوچھیں گے۔ یہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے گھر والوں میں ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے ، آخر کار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسا دینے والی ہوا کے عذاب سے بچا لیا۔ ہم پچھلی زندگی میں اُسی سے دعائیں مانگتے تھے ، وہ واقعی بڑا ہی محسن اور رحیم ہے۔

سورة يونس  ( 10 )

دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلاَمٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ {10}

وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ ’’پاک ہے تو اے خدا’’، اُن کی دعا یہ ہو گی کہ ’’سلامتی ہو”اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہو گا کہ ’’ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔”

چونکہ جنتیوں کی ملاقاتوں اور محفلوں کا تذکرہ چل رہا ہے اس لیے اس موقع پر مناسب ہو گا کہ وہ احادیث بھی پڑھ لی جائیں جن میں جنت کے بازاروں کا ذکر ہے :

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایک بازار ہے جس میں جنتی لوگ ہر جمعہ کو آیا کریں گے ، پھر شمالی ہوا چلا ئی جائے گی جو کہ وہاں کا گرد و غبار (جو کہ مشک و زعفران کی صورت میں ہو گا)جنتیوں کے چہروں اور کپڑوں پر اڑا کر ڈال دے گی جس سے جنتیوں کے حسن و جمال میں اور اضافہ ہو جائے گا،پھر جب وہ اس حالت میں واپس اپنے گھر والوں کے پاس آئیں گے کہ ان کا حسن و جمال زیادہ بڑھ چکا ہو گا تو ان کے اہل خانہ ان سے کہیں گے کہ ہمارے پاس سے جانے کے بعد تو تم اور بھی زیادہ حسین و جمیل ہو گئے ہو تو وہ جواب میں کہیں گے کہ خدا کی قسم ہمارے جانے کے بعد تمہارے حسن و جمال میں بھی تو اور اضافہ ہو گیا ہے۔

(صحیح مسلم)

اسی مضمون کی ایک  طویل حدیث ابن ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس میں اللہ تعالی کی زیارت اور ملاقات کا ذکر ہے۔اور پھر یہ ذکر ہے کہ اس ملاقات کے بعد ایک بادل ان جنتیوں کو ڈھانپ لے گا اور ان پر ایسی خوشبو برسائے گا جس کی مہک پہلے کبھی نہ پائی گئی ہو گی۔پھر یہ جنتی اس بازار میں سے بغیر خرید و  فرو‍خت کے ایسی چیزیں لیں گے جو نہ پہلے دیکھی گئی ہوں گی، نہ سنی گئی ہوں گی اور نہ ہی کسی دل میں ان کا خیال گزرا ہو گا۔اس بازار میں اہل جنت ایک دوسرے سے ملیں گے۔پھر واپس آئیں گے تو ان کی بیویاں ان سے کہیں گی کہ تمہارا حسن و جمال اور خوشبو پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے ، وہ جواباً کہیں گے کہ ہمیں ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ ہم اپنے پروردگار سے مل کر آرہے ہیں۔

اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ ہمیں بھی جنت  کی یہ محفلیں نصیب فرمائے اور انبیاء، صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھ جنت کے  ان بازاروں میں جمع فرمائے۔(آمین)

 

اہل جنت کی اہل جہنم سے گفتگو

دنیا میں جاہل اور گمراہ لوگ اہل ایمان کا مذاق ضرور ہی اڑاتے ہیں حتی کہ انسانیت کے چنے ہوئے بہترین لوگوں اور عزت و شرف انسانی کے پیکروں یعنی رسولوں اور انبیاء علیہم السلام کا بھی مذاق اڑایا گیا اور ان کو بھی نشانۂ  تضحیک بنایا گیا۔ایک دوسرا منظر جنتیوں کی گفتگوؤں کا قرآن میں یہ بیان گیا ہے کہ وہ اہل جہنم سے بھی گفتگو کریں گے۔اور انہیں دنیا کی باتیں یاد دلائیں گے اور یہ بھی کہ کیا رب کے و عدے سچے نہیں نکلے۔آیت ملاحظہ ہوں۔

سورة الصافات   (  37  )

فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءلُونَ {50} قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ {51} يَقُولُ أَئِنَّكَ لَمِنْ الْمُصَدِّقِينَ {52} أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَئِنَّا لَمَدِينُونَ {53} قَالَ هَلْ أَنتُم مُّطَّلِعُونَ {54} فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاء الْجَحِيمِ {55} قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدتَّ لَتُرْدِينِ {56} وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ {57} أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ {58} إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ {59} إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {60} لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلْ الْعَامِلُونَ {61}

پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر حالات پوچھیں گے۔ اُن میں سے ایک کہے گا،’’دنیا میں میرا ایک ہم نشین تھا جو مجھ سے کہا کرتا تھا، کیا تم بھی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ کیا واقعی جب ہم مر چکے ہوں گے اور مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائیں گے تو ہمیں جزا و سزا دی جائے گی؟اب کیا آپ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ صاحب اب کہاں ہیں؟” یہ کہہ کر جونہی وہ جھکے گا تو جہنم کی گہرائی میں اُس کو دیکھ لے گا اور اس سے خطاب کر کے کہے گا ’’خدا کی قسم، تُو تو مجھے تباہ ہی کر دینے والا تھا۔ میرے رب کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو  آج میں بھی اُن لوگوں میں سے ہوتا جو پکڑے ہوئے آئے ہیں۔ اچھا تو کیا اب ہم مرنے والے نہیں ہیں؟موت جو ہمیں آنی تھی وہ بس پہلے آ چکی؟ اب ہمیں کوئی عذاب نہیں ہونا؟”

یقیناً یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔

سورة الأعراف  (  7  )

وَنَادَى أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا قَالُواْ نَعَمْ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَن لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ {44} الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُم بِالآخِرَةِ كَافِرُونَ {45} وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلاًّ بِسِيمَاهُمْ وَنَادَوْاْ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ {46} وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاء أَصْحَابِ النَّارِ قَالُواْ رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ {47} وَنَادَى أَصْحَابُ الأَعْرَافِ رِجَالاً يَعْرِفُونَهُمْ بِسِيمَاهُمْ قَالُواْ مَا أَغْنَى عَنكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ {48} أَهَـؤُلاء الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لاَ يَنَالُهُمُ اللّهُ بِرَحْمَةٍ ادْخُلُواْ الْجَنَّةَ لاَ خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلاَ أَنتُمْ تَحْزَنُونَ {49} وَنَادَى أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُواْ عَلَيْنَا مِنَ الْمَاء أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ {50} الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ كَمَا نَسُواْ لِقَاء يَوْمِهِمْ هَـذَا وَمَا كَانُواْ بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ {51}

پھر یہ جنت کے لوگ دوزخ والوں سے پکار کر کہیں گے ،’’ ہم نے اُن سارے وعدوں کو ٹھیک پایا جو ہمارے  رب نے  ہم سے کیے تھے ، کیا تم نے بھی اُن وعدوں کو ٹھیک پایا جو تمہارے رب نے کیے تھے ؟” وہ جواب دیں گے ’’ہاں”۔ تب ایک پکارنے والا ان کے درمیان پکارے گا کہ ’’خدا کی لعنت ان ظالموں پر جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے اور اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے تھے اور آخرت کے منکر تھے۔”

 ان دونوں گروہوں کے درمیان  ایک اوٹ حائل ہو گی جس کی بلندیوں (اعراف) پر کچھ اور لوگ ہوں گے۔ یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ’’سلامتی ہو تم پر۔” یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے  مگر اس کے امیدوار ہوں گے۔ اور جب اُن کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے، ’’اے رب، ہمیں اِن ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجیو۔”پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ ’’دیکھ لیا تم نے ، آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ ساز و  سامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے۔ اور کیا یہ اہلِ جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اِن کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ نہ دے گا؟ آج انہی سے کہا گیا کہ داخل ہو جاؤ جنت میں ، تمہارے لیے نہ خوف ہے نہ رنج۔”

اور دوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اسی میں سے کچھ پھینک دو۔ وہ جواب دیں گے کہ ’’ اللہ نے یہ دونوں چیزیں اُن منکرینِ حق پر حرام کر دی ہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بھُلا دیں گے جس طرح وہ اِس دن کی ملاقات کو بھولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔”

سورة المدّثر   ( 74 )

كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ {38} إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ {39} فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءلُونَ {40} عَنِ الْمُجْرِمِينَ {41} مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ {42} قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ {43} وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ {44} وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ {45} وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ {46} حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ {47}

ہر شخص اپنے کسب کے بدلے رہن ہے ، دائیں بازو والوں کے سوا، جو جنتوں میں ہوں گے۔ وہ مجرموں سے پوچھیں گے ’’تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟” وہ کہیں گے ’’ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے ، اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے ، اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے ، اور روزِ جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے ، یہاں تک کہ ہمیں اُس یقینی چیز سے سابقہ پیش آ گیا۔”

دنیا میں جو”سیانے ” لوگ اہل ایمان کو دیوانہ اور بے وقوف قرار دے کر ان کا تمسخر اڑاتے ہیں انہیں آخرت کا یہ منظر ہرگز نہ بھولنا چاہیے جو قرآن حکیم ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ اہل ایمان جنت کی نعمتوں میں بیٹھے ان پر ہنس رہے ہوں گے ۔

سورة المطففين   ( 83 )

إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُواْ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ {29} وَإِذَا مَرُّواْ بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ {30} وَإِذَا انقَلَبُواْ إِلَى أَهْلِهِمُ انقَلَبُواْ فَكِهِينَ {31} وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاء لَضَالُّونَ {32} وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ {33} فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُواْ مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ {34} عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ {35} هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ {36}

مجرم لوگ دنیا میں ایمان لانے والوں کا مذاق اُڑایا کرتے تھے۔ جب اُن کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مار مار کر ان کی طرف اشارے کرتے تھے ،اپنے گھر والوں کی طرف پلٹتے تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے تھے ، اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے تھے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں، حالانکہ وہ ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔ آج ایمان لانے والے کفار پر ہنس رہے ہیں، مسندوں پر بیٹھے ہوئے اُن کا حال دیکھ رہے ہیں، مل گیا نا کافروں کو اُن حرکتوں کا ثواب جو وہ کیا کرتے تھے ؟

یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ کہاں زمین و آسمان جیسی وسعت والی جنت اور کہاں جہنم، بھلا اتنے زیادہ فاصلوں سے ایسا دیکھا جانا اور اہل جنت اور اہل جہنم کے باہم مکالمے کیونکر ممکن ہیں۔ کم از کم آج کے دور میں، جب ہم دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے میں کمپیوٹر پر آمنے سامنے گفتگو کرتے ہیں، یہ اشکال پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اللہ کے پیدا کردہ انسان اس کی دی ہوئی عقل کو استعمال کر کے ایسا ممکن بنا سکتے ہیں تو فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ آپ کا کیا گمان ہے رب العالمین کے بارے میں وہ جو الخلاق العلیم ہے کیا نہیں کر سکتا۔ ہم انسان تو پھر بھی کسی ذریعے کے محتاج ہیں لیکن اللہ کی قدرت تو کسی ایسے ذریعے کی محتاج بھی نہیں، کیا وہ اسے ممکن نہیں بنا سکتا کہ اہل جنت اپنی نشستوں پر بیٹھے بیٹھے نہ صرف اہل جہنم میں سے جس کو چاہیں دیکھ سکیں بلکہ اس سے بات بھی کر سکیں، اور اسے دنیا کی کوئی بات یاد بھی دلا سکیں۔ کیا اللہ کی قدرت سے یہ بعید ہے ؟

غور فرمائیے کیا ہماری ہی  آنکھیں ہزاروں، لاکھوں میل دور کے ستاروں کو نہیں دیکھتیں۔یقیناً دیکھتی ہیں تو اس قوت ،فوکس اور زوم کو گھٹانا بڑھانا کیا پیدا کرنے والے پروردگار کے لیے کوئی مشکل ہو گا۔اب اگر کوئی ناں کہے اور اسے بعید از عقل سمجھے تو یہ ہماری عقل کی اور سمجھ کی تنگی ہو سکتی ہے اللہ کی قدرت اتنی تنگ نہیں کہ ایسا کرنا اس کے لیے دشوار ہو۔

 

اہل جنت کی ہر خواہش کا پورا کیا جانا

اب اس بات  کا تذکرہ ہونے چلا ہے کہ جس کا دنیا کی زندگی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔دنیا میں کسی بہت بڑی سلطنت کا فرمانروا بھی جو چاہے حاصل نہیں کر سکتا، نہ ہی من چاہی زندگی جی سکتا ہے اور نہ ہی اپنی ہر خواہش پوری کر سکتا ہے لیکن جنت کی دائمی  وراثت پانے والے ایسے خوش نصیب ہوں گے کہ جو دل پسند زندگی جئیں گے ، جو چاہیں گے ان کو ملے گا  اور ان  کی ہر خواہش پوری کی جائے گی۔اس بارے میں چند آیات ملاحظہ ہوں۔

سورة فصلت   (41)

۔۔۔وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ {31} نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ {32}

وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہو گی، یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔

سورة الشورى   (42)

۔۔۔وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ لَهُم مَّا يَشَاؤُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الكَبِيرُ {22}

جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ جنت کے گلستانوں میں ہوں گے ، جو کچھ بھی وہ چاہیں گے اپنے رب کے ہاں پائیں گے ، یہی بڑا فضل ہے۔

سورة الأنبياء   ( 21 )

۔۔۔ وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنفُسُهُمْ خَالِدُونَ {102}

اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے۔

سورة النحل  ( 16 )

۔۔۔وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ {30} جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَآؤُونَ كَذَلِكَ يَجْزِي اللّهُ الْمُتَّقِينَ {31}

بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا، دائمی قیام کی جنتیں، جن میں وہ داخل ہوں گے ، نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اور سب کچھ وہاں عین اُن کی خواہش کے مطابق ہو گا۔ یہ جزا دیتا ہے اللہ متقیوں کو۔

سورة الفرقان   ( 25 )

۔۔۔ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاء وَمَصِيرًا {15} لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاؤُونَ خَالِدِينَ كَانَ عَلَى رَبِّكَ وَعْدًا مَسْؤُولًا {16}

ابدی جنت جس کا وعدہ خدا ترس پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے جو اُن کے عمل کی جزا اور اُن کے سفر کی آخری منزل ہو گی، جس میں اُن کی ہر خواہش پوری ہو گی، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، جس کا عطا کرنا تمہارے رب کے ذمّے ایک واجب الادا وعدہ ہے۔

ہر خواہش کے پورا کیے جانے کے متعلق ہمیں صحیح بخاری میں یہ حدیث مبارکہ ملتی ہے جس میں ایک جنتی کی ایک خواہش اور اس کے پورا کیے جانے کا ذکر ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ایک دن یہ بیان فرما رہے تھے اور(اس وقت) آپﷺ کے پاس ایک گاؤں کا آدمی بیٹھا ہو ا تھا :’’ایک شخص اہل جنت میں سے اپنے پروردگار سے کھیتی کرنے کی اجازت طلب کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ کیا تو جس حا لت میں ہے اس میں خوش نہیں ہے َ‘‘ وہ عرض کر ے گا کہ ہاں خوش تو ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ کھیتی کروں۔ آپﷺ نے فرمایا :’’پھر وہ بیج بوئے گا تو اس کا اگنا اور بڑھنا اور کٹنا پلک جھپکنے سے پہلے ہو جائے گا اور اس کی پیداوار کے ڈھیر پہاڑوں کے برابر ہو جائیں گے تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے ابن آدم ! تو کسی چیز سے سیر نہیں ہو تا۔ ‘‘تو وہ اعرابی کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ! آپ ایسا شخص کسی قریشی یا انصاری کو پائیں گے اس لیے کہ وہی لوگ کاشتکار ہیں اور ہم تو کاشتکار نہیں ہیں۔ اس پر نبیﷺ مسکرانے لگے۔

(صحیح بخاری)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کا جنت میں ادنی ترین مرتبہ یہ ہو گا کہ اس سے کہا جائے گا کہ تمنا کر۔پس وہ تمنا کرے گا اور تمنا کرے گا(یعنی اپنی ہر خواہش بیان کر دے گا) پھر اس سے کہا جائے گا کہ کیا تو تمنا کر چکا۔ وہ کہے گا کہ جی ہاں۔ پھر اس سے کہا جائے گا  کہ جو جو تو نے خواہش کی ہے سب تجھے دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اتنا ہی اور بھی۔

(مسلم)

اسی مضمون کی کچھ دوسری روایات  میں تمنا سے دس گنا زیادہ دیے جانے کا ذکر ہے۔

 

کبھی نہ ختم ہونے والا رزق اور نعمتیں

اہل جنت کو ملنے والی یہ ساری نعمتیں جن کے بارے میں ہم پڑھتے آ رہے ہیں ان کو بے روک و ٹوک،صبح و شام، ہمیشہ ہمیشہ ملتی رہیں گی اور ان کے ملنے میں کبھی کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو گی۔ یہ رب کا وہ رزق ہے جو ختم ہونے والا نہیں، اور عَطَاء غَيْرَ مَجْذُوذٍ یعنی انہیں ایسی بخشش ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا۔

سورة مريم   ( 19 )

لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا {62} تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيًّا {63}

وہاں وہ کوئی بے ہُودہ بات نہ سُنیں گے ، جو کچھ بھی سُنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے۔ اور ان کا رزق انہیں پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔ یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اُس کو بنائیں گے جو پرہیزگار رہا ہے۔

سورة ص   ( 38 )

إِنَّ هَذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِن نَّفَادٍ {54}

یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں حساب کے دن عطا کرنے کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔

 

ان  ساری نعمتوں سے بڑی چیز اللہ کی خوشنودی

اور ان ساری نعمتوں سے بڑی نعمت یہ کہ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ أَكْبَرُ اہل جنت کو ہمیشہ کے لیے اللہ کی خوشنودی  اور پسندیدگی حاصل ہو جائے گی۔ اللہ ان سے ایسا راضی ہو جائے گا کہ پھر کبھی ناراض نہ ہو گا۔

سورة التوبة   ( 9 )

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ {71} وَعَدَ اللّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {72}

مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقینًا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہو گی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔

اسی کے متعلق حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو:

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل جنتی لوگوں سے فرمائے گا کہ اے جنتیو! پس وہ کہیں گے کہ اے رب! ہم خدمت میں حاضر ہیں اور سب بھلائی تیرے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تم راضی ہوئے ؟ وہ کہیں گے کہ ہم کیسے راضی نہ ہوں گے ، ہمیں تو نے وہ دیا کہ اتنا اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا میں تمہیں اس سے بھی کوئی عمدہ چیز دوں؟ وہ عرض کریں گے کہ اے رب! اس سے عمدہ کونسی چیز ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے تم پر اپنی رضامندی اتار دی اور اب میں اس کے بعد کبھی تم پر غصہ نہ ہوں گا۔(مسلم)

 

اللہ کا دیدار اور ملاقات عظیم ترین نعمت

سورة ق   ( 50 )

 لَهُم مَّا يَشَاؤُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ {35}

وہاں ان کے لیے وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے ، اور ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی بہت کچھ ان کے لیے ہے۔

اوپر پیش کردہ آیت میں یہ کہا گیا ہے کہو َلَدَيْنَا مَزِيدٌ۔ اس آیت کا ایک معنی تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے پاس اہل جنت کے لیے ایسی ایسی نعمتیں موجود ہیں جن کو بیان کرنے سے انسانی زبان قاصر ہے لہذا بس اتنا کہہ دیا گیا کہ ہمارے پاس ان کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے۔ اسی مضمون کی ایک  آیت اور ایک حدیث بھی ہم پڑھ آئے ہیں کہ اہل جنت کے لیے ایسی ایسی نعمتیں اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان  تیار کیا گیا ہے کہ جن کی کسی کو کوئی خبر نہیں۔

اسی آیت کا ایک دوسرا مفہوم مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ جنت میں  اللہ سے ملاقات اور اس کا دیدار جنت کی تمام ہی نعمتوں بڑھ کر ہو گا  اور اسی کے معنی وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ کے ہیں۔ جب تک جنتی اللہ سے ملاقات اور اس کا دیدار کریں گے یہ ایسی عظیم نعمت ہو گی  کہ اس دوران جنت کی کسی اور نعمت کا خیال نہ رہے گا۔ اور یقینا ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔اتنا سوچ لیجیے کہ دنیا ہی کی زندگی میں آزمائش کے درجے میں اپنی قوت تخلیق سے ایسا لاجواب حسن بکھیرنے والا خود کیسا پرکشش اور حسین و جمیل ہو گا، اسے دیکھے بنا کون اس کا تصور کر سکتا ہے۔وہ جس سے ہمارا رشتہ والدین کے رشتے سے بھی بڑھ کر اولین یعنی خالق اور مخلوق کا رشتہ ہے ، اپنے اس محبوب ترین اولین رشتے یعنی اپنے خالق و مالک سے ملاقات اور اس کا دیدار کیسی بڑی  نعمت ہو گی اس کا لطف تو اسے پانے والے ہی جان سکیں گے۔دنیا سے ہی ایک مثال لیجیے کہ ماں کی گود بچے کے لیے کتنی بڑی نعمت ہے اور بچہ اپنی ماں کی آغوش میں کتنا سکون محسوس کرتا ہے۔والدین نے تو  صرف تولید کیا ہے ، اللہ تو وہ ہستی ہے جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے اور ہمارے لیے جس کی محبت  ہماری ماؤں کی محبت سے ستر گنا سے بھی زیادہ ہے۔اسے بنا دیکھے اس کی نشانیوں سے ہی پہچان کر تھوڑا سا جان لینے والے بھی اس کی محبت میں اس کے لیے اپنی جان تک قربان کر دیا کرتے ہیں۔ اتنا پیار کرنے والی ہستی سے ملاقات، اسے دیکھنا ،اس کے پاس بیٹھنا اور اس سے بات کرنا کتنی ہی بڑی نعمت ہو گی۔یقیناً جنت کی سب سے بڑی نعمت۔ اسی لیے تو کافروں کی ایک بڑی محرومی یہ بیان کی گئی ہے کہ كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ہر گز نہیں ! بالیقین اُس روز یہ اپنے رب کی دید سے محروم رکھے جائیں گے۔

آپ غور فرمائیے کہ جو فرد کبھی بھی اپنے والدین سے نہ ملا ہو اسے کتنی خواہش ہو گی کہ وہ انہیں دیکھے ، ان سے بات کرے اور ان کے پاس بیٹھے۔غور کیجیے کہ کیسے ہی بدنصیب وہ لوگ ہوں گے جو اپنے پیدا کرنے والے کو دیکھ بھی نہ سکیں گے۔ہمیں اپنے رب سے ملاقات کا شوق رکھنا چاہیے کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔

غرض جنتی اللہ کا دیدار کریں گے اور اللہ سے ملاقات کریں گے۔

ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ ایک طویل حدیث ہے جس میں اللہ سے ملاقات اور اللہ کے دیدار کا ذکر ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ جنتی اللہ تعالی کی زیارت کریں گے اور کوئی ہجوم نہ ہو گا جیسے سورج اور چودہویں کے چاند کو دیکھنے کے لیے کوئی ہجوم اور جھگڑا نہیں کرنا پڑتا۔ جنتی نور، موتیوں، یاقوت، زبرجد، سونے اور چاندی کے منبروں پر اور مشک اور کافور کے ٹیلوں پر بیٹھیں گے اور اس مجلس میں کوئی ایسا باقی نہ رہے گا جس سے اللہ تعالی نے مخاطب ہو کر بات نہ کی ہو۔پھر وہ اس محفل سے ایک نئی خوشبو لے کر، پہلے سے زیادہ حسن و جمال پا کر اور جنت کے بازار سے بہت سارے انعام و اکرام کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔

اللہ ہمیں بھی جنت میں اپنا دیدار اور اپنی ملاقات نصیب فرمائے۔(آمین)

 

موت کا نہ آنا

موت زندگی کی ہر خوشی اور لطف کو مٹا دیتی ہے۔ غور فرمائیے ،دنیا  کی زندگی میں پہلی بات تو یہ ہے کہ نعمتوں کی محض تجلی ہوتی ہے اور ان کی تکمیل ہو ہی نہیں سکتی لیکن اگر کسی کو خدا نے بہت کچھ بھی دے رکھا ہو اور دنیا کی زندگی میں وہ جتنی بھی نعمتوں میں جتنا بھی عرصہ جی لے آخر کار موت سب کچھ چھین لیتی ہے۔ اور وہ سب کچھ کسی اور کا ہو جاتا ہے۔تاریخ پر نگاہ ڈالیے :

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے

مکیں ہو گئے لامکاں کیسے کیسے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے

اجل نے نہ کسری ہی چھوڑا نہ دارا

اسی پہ سکندر فاتح بھی ہارا

ہر اک چھوڑ کے کیا حسرت سدھارا

پڑا رہ گیا سب یہیں کھاٹ سارا

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

دنیا کی زندگی محض آزمائش ہے جو بادشاہ کے گھر میں پیدا ہوا وہ بھی آزمائش میں ہے اور جو فقیر کے گھر وہ بھی آزمائش میں۔یوں سمجھ لیجیے کہ سارے کمرۂ  امتحان میں ہیں۔کوئی کہیں اور کوئی کہیں بیٹھا امتحان دے رہا  ہے۔

 سورة العنكبوت   ( 29  )

۔۔۔ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ {64}

اور اصل زندگی کا گھر تو  آخرت کا گھر ہے ، کاش یہ لوگ جانتے۔

کامیاب تو بس وہی ہیں جنہیں اللہ اپنی رحمت سے جہنم کی آگ سے بچا لے گا اور جنت کی نعمت عطا فرمائے گا کیونکہ ہر جنتی کی جنت ایمان و عمل کے میرٹ پر ملنے والی اس کی مستقل ملکیت ہے جس سے اسے کبھی کوئی بے دخل نہ کرے گا اور نہ ہی اسے کبھی وہاں سے کسی طرح نکالا جائے گا۔

 آخرت میں اہل جنت کے لیے ایک بڑا انعام یہ ہو گا کہ انہیں موت  کی صورت میں نعمتوں کے چھن جانے کا کوئی ڈر نہ ہو گا کیونکہ موت کو ختم کر  دیا جائے گا جس سے اہل جنت کی خوشی اور بڑھ جائے گی۔

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ قیامت کے دن موت ایسے مینڈھے کی صورت میں لائی جائے گی ، جو چت کبرا ہو گا ، پھر ایک پکارنے والا پکارے گا کہ اے بہشت والو ! وہ گردن اٹھائیں گے اور ادھر دیکھیں گے تو وہ ( فرشتہ ) کہے گا کہ کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ وہ کہیں گے ہاں یہ موت ہے اور سب نے اسے ( اپنے مرتے وقت ) دیکھا تھا ( اس لیے پہچان لیں گے ) پھر وہ پکارے گا کہ اے دوزخ والو ! وہ بھی گردن اٹھا کر ادھر دیکھیں گے تو وہ ( فرشتہ ) کہے گا کہ کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟وہ کہیں گے ہاں یہ موت ہے ، ان سب نے بھی ( مرتے وقت ) اسے دیکھا تھا پھر اسی وقت موت ذبح کر دی جائے گی او ر وہ ( فرشتہ ) کہے گا کہ اے اہل جنت ! تم اب ہمیشہ جنت میں رہو گے ، کسی کو موت نہ آئے گی اور اے اہل دوزخ ! تم اب ہمیشہ دوزخ میں رہو گے کسی کو موت نہ آئے گی ( تب اس وقت دوزخی حسرت کریں گے )۔ ‘‘ پھر ( رسول اللہﷺ نے ) یہ آیت پڑھی۔ وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ (39)’’ ( اے محمد !) ان لوگوں کو اس حسرت و افسوس کے دن سے ڈرائیے جبکہ کام انجام کو پہنچا دیا جائے گا اور یہ لوگ غفلت ہی میں رہ جائیں گے۔ ‘‘یعنی دنیا کے لوگ غفلت میں پڑ ے ہوئے ہیں۔ ‘‘ اور وہ ایمان نہیں لاتے۔ ‘‘( سورۂ مریم : ۳۹)

(صحیح بخاری)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب جنت والے جنت میں چلے جائیں گے اور دوزخ والے دوزخ میں تو موت لائی جائے گی اور جنت اور دوزخ کے بیچ میں ذبح کی جائے گی، پھر ایک پکارنے والا پکارے گا کہ اے جنت والو! اب موت نہیں اور اے دوزخ والو! اب موت نہیں۔ جنت والوں کو یہ سن کر خوشی پر خوشی حاصل ہو گی اور دوزخ والوں کو رنج پر رنج زیادہ ہو گا۔

(مسلم)

صحیح مسلم ہی کی کچھ دوسری روایات میں یہ اضافہ ہے کہ موت کو جنت اور دوزخ کے درمیان ایک دنبے کی شکل میں لا کر ذبح کر دیا جائے گا اور پھر جو آدمی جس حالت میں ہو گا ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا۔

آیت ملاحظہ ہو:

سورة الدخان    (44)

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ {51} فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ {52} يَلْبَسُونَ مِن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَقَابِلِينَ {53} كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ {54} يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ آمِنِينَ {55} لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَى وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ {56} فَضْلًا مِّن رَّبِّكَ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {57}

خدا ترس لوگ امن کی جگہ میں ہوں گے۔ باغوں اور چشموں میں، حریرو دیبا کے لباس پہنے ، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ یہ ہو گی اُن کی شان۔ اور ہم گوری گوری آہُو چشم عورتیں ان سے بیاہ دیں گے۔ وہاں وہ اطمینان سے ہر طرح کی لذیذ چیزیں طلب کریں گے۔ وہاں موت کا مزہ وہ کبھی نہ چکھیں گے۔ بس دنیا میں جو موت آ چکی سو آ چکی۔ اور اللہ اپنے فضل سے اُن کو جہنم کے عذاب سے بچا دے گا، یہی بڑی کامیابی ہے۔

اور جنتی لوگ بے پناہ خوشی سے پکار اٹھیں گے :

سورة الصافات   (  37  )

أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ {58} إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ {59} إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {60} لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلْ الْعَامِلُونَ {61}

اچھا تو کیا اب ہم مرنے والے نہیں ہیں؟موت جو ہمیں آنی تھی وہ بس پہلے آ چکی؟ اب ہمیں کوئی عذاب نہیں ہونا؟”یقیناً یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔

 

جنت کی ہمیشگی

اور یہ کامیاب زندگی اور یہ ساری نعمتیں کوئی چند دن یا چند سالوں کے لیے نہیں ملیں گی بلکہ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًاوہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔یعنی جو جنت میں داخل ہو گیا وہ اس مملکت کا باسی بن گیا جہاں سے کبھی بھی نکالا نہ جائے گا کیونکہ وہی اس کی دائمی وراثت ہے۔وہ  ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نعمتوں بھری زندگی میں داخل ہو کر کامیاب ہو گیا،  اسے پھر کبھی کوئی تکلیف یا اذیت نہ پہنچے گی اور اسے کبھی موت نہ آئے گی کیونکہ موت کو بھی موت آ چکی ہو گی۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص جنت میں جائے گا، وہ سکون سے ہو گا اور بے غم رہے گا۔ نہ کبھی اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ اس کی جوانی مٹے گی (یعنی سدا جوان ہی رہے گا کبھی بوڑھا نہ ہو گا)۔

یوں نعمتوں بھرے سلامتی کے اس گھر میں جنتی ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس مضمون کی قرآن میں بہت زیادہ آیات آئی ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:

سورة النساء (4)

وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {13}

جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے  گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔

سورة هود    ( 11 )

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُواْ إِلَى رَبِّهِمْ أُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ الجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ {23}

بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے رب ہی کے ہو کر رہے ، تو یقیناً وہ جنتی لوگ ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں  گے۔

سورة الفرقان   ( 25 )

۔۔۔ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاء وَمَصِيرًا {15} لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاؤُونَ خَالِدِينَ كَانَ عَلَى رَبِّكَ وَعْدًا مَسْؤُولًا {16}

ابدی جنت جس کا وعدہ خدا ترس پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے جو اُن کے عمل کی جزا اور اُن کے سفر کی آخری منزل ہو گی، جس میں اُن کی ہر خواہش پوری ہو گی، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، جس کا عطا کرنا تمہارے رب کے ذمّے ایک واجب الادا وعدہ ہے۔

سورة إبراهيم  (  14 )

وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلاَمٌ {23}

ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو ایسے باغوں میں داخل کیا جائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہیں گے ، اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارکباد سے ہو گا۔

سورة الأحقاف    (46)

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ {13} أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ {14}

یقیناً جن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے ، پھر اس پر جم گئے ، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ایسے لوگ جنت میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اپنے اُن اعمال کے بدلے جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں۔

اب چند آیات جن میں خَالِدِينَ فِيهَا پر أَبَدًا کا اضافہ ہے یعنی یہ کہ اہل جنت ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے :

سورة الطلاق   ( 65)

وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا {11}

اور جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ، اللہ اُسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ اُن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق رکھا ہے۔

سورة النساء (4)

وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَنُدْخِلُهُمْ ظِـلاًّ ظَلِيلاً {57}

اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاؤں میں رکھیں گے۔

سورة البينة   ( 98 )

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ {7} جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ {8}

جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ، وہ یقیناً بہترین خلائق ہیں۔ اُن کی جزا اُن کے رب کے ہاں دائمی قیام کی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی،وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہ کچھ ہے اُس شخص کے لیے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو۔

سورة التغابن   ( 64 )

يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {9}

جب اجتماع کے دن وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا۔ وہ دن ہو گا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا۔ جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل کرتا ہے ، اللہ اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔

اور یہ نعمتیں نَعِيمٌ مُّقِيمٌ قائم رہنے والی نعمتیں ہیں:

سورة التوبة   ( 9 )

الَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللّهِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ {20} يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ {21} خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ {22}

اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا۔ وہی کامیاب ہیں۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں۔ یقینًا اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کو بہت کچھ ہے۔

اب غور فرمائیے کہاں چند برس کی دنیوی زندگی اور کہاں ابدی زندگی، کوئی نسبت ہی نہیں، ابدیت اور ہمیشگی کی چند برس سے اتنی نسبت بھی نہیں جو صدیوں کو چند لمحوں سے ہو سکتی ہے کیونکہ بہرحال لمحے ہوں یا صدیاں حساب میں تو آتے ہیں۔کہاں ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی اور کہاں انگلیوں پر گنے جا سکنے والے چند سال؟

آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کی حقیقت و حیثیت تو ہمیں یہ آیت بتلاتی ہے :

سورة الزخرف    ( 43)

وَلَوْلَا أَن يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَجَعَلْنَا لِمَن يَكْفُرُ بِالرَّحْمَنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِّن فَضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ {33} وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا عَلَيْهَا يَتَّكِؤُونَ {34} وَزُخْرُفًا وَإِن كُلُّ ذَلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ عِندَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ {35}

اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے تو ہم خدائے رحمان سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں، اور ان کی سیڑھیاں جن سے وہ اپنے بالا خانوں پر چڑھتے ہیں، اور ان کے دروازے ، اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں ، سب چاندی اور سونے کے بنوا دیتے۔ یہ تو محض حیاتِ  دنیا کی متاع ہے ، اور آخرت تیرے رب کے ہا ں صرف متقین کے لیے ہے۔

اسی بارے میں ہی کچھ احادیث بھی ملاحظہ ہوں:

سیدنا مستور اخی بنی فہر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم دنیا آخرت کے سامنے ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی یہ انگلی دریا میں ڈالے (اور یحییٰ نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا)، پھر دیکھے کہ کتنی تری دریا میں سے لاتا ہے (تو جتنا پانی انگلی میں لگا رہتا ہے وہ گویا دنیا ہے اور وہ دریا آخرت ہے۔ یہ نسبت دنیا کو آخرت سے ہے اور چونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت دائمی باقی ہے ، اس واسطے اس سے بھی کم ہے )۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ذوالحلیفہ کے میدان میں تھے کہ اچانک ایک مردہ بکری نظر آئی جو(سوج جانے کے باعث)اپنے پاؤں اٹھائے ہوئے تھی۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ کہ بکری اپنے مالک کی نگاہ میں ذلیل؟ پھر فرمایا پس قسم ہے اس ذات کی  جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جتنی یہ بکری اپنے مال کے نزدیک ذلیل ہے اس سے زیادہ دنیا اللہ تعالی کے نزدیک ذلیل ہے۔ اور اگر اللہ تعالی کے نزدیک دنیا ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن رکھتی ہوتی تو اللہ تعالی کبھی اس میں سے کسی کافر کو ایک قطرہ (پانی)بھی نہ دیتا۔

کچھ اور احادیث میں یہ ذکر آیا ہے کہ دنیا میں اس طرح رہ گویا تو پردیسی مسافر ہے۔اور یہ حدیث بھی ہم پڑھ آئے ہیں کہ جنت میں چابک یا کمان بھر جگہ کا حاصل کر لینا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔

سچ یہ ہے کہ جنت کا حاصل کر لینا ہی ایسی حقیقی کامیابی  ہے جو ہمیشہ رہنے والی ہے اور جس کے پانے کے بعد ناکامی کا کوئی تصور نہیں۔

اب اس پر بھی بات ہو جائے کہ اللہ کے لیے کسی چیز کو ہمیشگی اور خلود بخش دینا کتنا آسان کام ہے ؟غور فرمائیے کہ ہر عمر کی چیزیں رب نے ہمارے گرد و پیش پیدا کر رکھی ہیں۔ کہاں ہم ایسی مخلوق بھی دیکھتے ہیں جس کی عمر چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی اور کہاں اللہ کی عظمت کے نشان سورج ، چاند اور ستارے بھی ہمیں نظر آتے ہیں کہ جن کی عمر ان کے پیدا کرنے والے کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہیں ہم بھی رہتے ہیں جن کی عمر چند برس پر مشتمل ہوتی ہے اور یہیں وہ درخت اور پتھر بھی پائے جاتے ہیں جو ہزاروں سال تک جیتے ہیں۔فہم کی نظر سے دیکھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کسی بھی چیز کی عمر کو گھٹانا بڑھانا یا اس کی ایک حد مقرر کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں بلکہ آپ کو اس پر حیرت ہو گی کہ حقیقتاً کسی چیز کو خلود یا  ہمیشگی بخش دینا اس کی موت  سے زیادہ آسان ہے۔زمین ، سورج ،چاند، ستاروں اور کہکشاؤں کو حرکت دے کر اللہ نے وقت اور موت(الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ) کو پیدا کیا اور اتنے بڑے بڑے نظاموں کو اپنی بے پناہ طاقت اور کامل قدرت سے یوں حرکت میں کر دیا کہ ہم چند چھوٹے چھوٹے گیندوں کو بھی یوں حرکت نہیں دے سکتے۔اتنے عظیم الشان نظام میں ہر کرہ  حیرت انگیز رفتار سے حرکت کر رہا ہے لیکن اس سے کسی بھی قسم کی کوئی آلودگی پیدا نہیں ہوتی۔ نہ شور نہ دھواں۔

اسی حرکت کے باعث اس نے وقت اور موت کو پیدا کیا۔اب سائنس یہ کہتی ہے کہ اگر اسی حرکت کی رفتار کو وہ کچھ زیادہ بڑھا دے یا بالکل روک دے تو ہمیشگی اور خلود وجود میں آ سکتے ہیں۔ اب آپ خود سوچیے کہ کسی چیز کو حرکت دینا اور پھر حرکت میں رکھنا آسان ہے یا اس کو کسی ایک ہی جگہ پر روک کر رکھ دینا۔اور یہ تو محض ہمارے اندازے ہیں وگرنہ اللہ ایسا علم اور ایسی قدرت  رکھنے والا ہے  اور اس کی شان خلاقی ایسی کامل ہے کہ ایک ہی چیز کو تخلیق کرنے کے لیے اس کے پاس لامحدود طریقے ہیں۔اسی پر سوچ لیجیے کہ وہ کتنی مخلوقات کو ماں کے پیٹ سے پیدا کرتا ہے اور کتنی ہی مخلوقات کو کچھ تبدیلی کے ساتھ انڈے سے پیدا کرتا ہے۔زمین پر بسنے والے ہم اربوں لوگ، ہیں تو سارے انسان پر ہر ایک کواس نے الگ شناخت دی ہے پھر کس طرح نر اور مادہ کو ایک دوسرے کا مکمل اور بہترین جوڑ بنایا۔

دنیا کی زندگی کا الوہی قانون ہم وقتی تغیر، گزرتا وقت اور پھر موت ہے ، لیکن کچھ دوسرے قوانین کے طابع کر کے اللہ نے جنت اور دوزخ کو پیدا فرمایا ہے اور ان کو دوام بخشا ہے اور یہی دوام ہمارے حصے میں بھی آنے والا ہے۔کل کی ایک دائمی زندگی ہماری منتظر ہے جو اگر جنت کی ہوئی تو ایک بہت بڑی نعمت ہے لیکن اللہ نہ کرے اگر دوزخ کی ہوئی تو پھر اس سے بڑا عذاب کوئی نہیں کیونکہ وہاں موت نہیں آنی۔اس زندگی کی تیاری کی کوشش کیجیے اور اللہ سے دعا کیجیے کہ ہمارا یہ دوام  جنت کی زندگی کا دوام ہو نہ کہ جہنم کی زندگی کا۔

دوام اور ہمیشگی کی بات میں ایک  فرق ہمیں ضرور معلوم ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ ہم فانی ہیں اور  اللہ غیر فانی ہے ہماری ہمیشگی اور جنت و دوزخ کی ہمیشگی اللہ کے چاہنے سے ہو گی جبکہ اللہ خود ہی اپنی ذات میں زندہ اور قائم ہے۔ ہم اللہ کے قائم رکھنے سے آج  ایک محدود زندگی جیتے ہیں اور کل کو ہمیشگی کی زندگی جئیں گے لیکن اللہ وہ زندہ اور قائم ہستی ہے جو کسی دوسرے کے قائم رکھنے سے قائم نہیں  بلکہ خود ہی زندہ اور قائم ہے اور رہنے والا ہے۔

 

کوئی جنتی کبھی یہ نہ چاہے گا کہ اس کا حال بدل جائے

دنیا میں نعمتیں چونکہ آزمائش کے درجے میں ہیں اس لیے یہاں کسی بھی نعمت سے تسلی نہیں ہوتی اور دنیا میں تو انسان کو نعمتوں سے بھی اکتا ہٹ ہونے لگتی  ہے لیکن جنت نعمتوں کا وہ گھر ہو گا جس میں نعمتوں کی ایسی تکمیل ہو گی کہ جہاں سے کسی جنتی کا کبھی نکل کر کہیں اور جانے کو جی نہ چاہے گا۔

سورة الكهف   ( 18 )

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا {107} خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا {108}

وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ، ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس جگہ سے نکل کر کہیں جانے کو اُن کا جی نہ چاہے گا۔

اب مضمون کے آخر میں یہ اقرارو اعتراف کہ جنت اور اس کی نعمتوں کے بارے میں اپنی دانست میں بہت کچھ پڑھ اور جان لینے کے باوجود اب بھی ہم اس بچے کی مانند ہیں جس کے لیے شادی  کی خوشیوں کا مفہوم چمچوں، پلیٹوں ، برقی قمقموں اور چند کھانوں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا،یا جسے ماں کے پیٹ میں باہر کی دنیا کا کچھ علم نہیں ہوتا کیونکہ جنت  اور اس کی نعمتیں ایسی ہیں کہ دنیا کی کسی زبان میں ایسے الفاظ موجود نہیں جو جنت کا حقیقی نقشہ کھینچ سکیں۔ہم اب بھی جنت کی نعمتوں کی حقیقت اور تفصیلات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

اس موقع پر بہتر ہے کہ ہم ذیل کی حدیث اور آیت ایک بار پھر پڑھ لیں:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ،نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی بشر کے دل پر ان کا خیال گزرا (پھر آپ نے فرمایا) اگر تم چاہو تو (اس کے استدلال میں) یہ آیت پڑھ لو:

سورة السجدة   (32 )

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ {17}

پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اُن کے اعمال کی جزا میں اُن کے لیے چھپا کر رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔

(صحیح بخاری،جلد دوم ،باب مخلوقات کی ابتدا کا بیان، حدیث479)

 

خلاصۂ  کلام

خلاصۂ  کلام یہ کہ دنیا مچھر کا پر ہے اور دھوکے کا گھر ہے۔دنیا امتحان کا گھر ہے جس کا دورانیہ بڑا ہی مختصر ہے اور اس تھوڑے سے وقت میں رسول اللہﷺ کی پیروی میں اللہ کی اطاعت و بندگی ہی جنت کے حصول کا صحیح ذریعہ ہے اور یہی وہ کامیابی ہے جس کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے ، اسی نعمت کے حصول کے لیے مقابلہ کرنے والوں کو مقابلہ کرنا چاہیے اور اسی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

جنت وہ حسین سرزمین ہے جہاں ابدی راحت و سکون ہے ، جہاں دکھ اور تکلیف نام کی بھی کوئی چیز نہیں، جہاں نہ بغض و عداوت ہے ، نہ جنگ و جدل ہے نہ خونریزیاں، نہ تھکاوٹ و بیماری ہے نہ بدصورتی و بڑھاپا اور نہ ہی موت۔جہاں صرف امن اور سلامتی ہے ، جہاں گھنے سر سبز باغات ،رنگ برنگے پھولوں ، پھلوں اور پودوں میں صاف پانی ، دودھ ، شہد اور طرح طرح کے شربتوں کے دریا بہتے ہیں اور چشمے پھوٹتے ہیں۔جہاں کبھی نہ ختم ہونے والا رزق ہے۔جہاں کے باسی ہیرے موتیوں، یاقوت و زمرد اور سونے چاندی کے محلات میں رہتے ہیں اور اس سرزمین میں اکٹھے ہونے والے خاندان کبھی جدا نہ ہوں گے۔جہاں انبیاء علیہم السلام، صدیقین، شہداء اور صالحین کی صحبت میسر ہے۔جہاں دلوں میں صرف محبت ہے ، ہمیشہ کی جوانی، خوبصورتی ، نو عمری اور تندرستی ہے۔جہاں ہر تمنا کا پورا کیا جانا ہے ،جہاں اللہ کی دائمی رضا و خوشنودی ہے اور جہاں اپنے پیدا کرنے والے کا دیدار اور اس سے ملاقاتیں ہیں۔جہاں کی زندگی وہ زندگی ہے جس کے پانے والا کبھی کچھ اور نہ چاہے گا۔

جنت تو نعمتوں کا گھر ہے ، جہاں رزق کی فراوانی ہے ،جہاں رہنے کے لیے باغات اور محلات ہیں جن کے نیچے طرح طرح کی نہریں بہتی ہیں، انسان کو اگر صحت،جوانی، تندرستی، بے فکری اور عافیت میں اپنے خاندان کے ساتھ ہمیشہ رہنے کو اگر ایک غار بھی مل جائے تو دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت بھی اس کے سامنے ہیچ ہے۔ اپنے بچپن ہی کا تصور کر دیکھیے جب ہم بے فکرے ہوتے ہیں ، ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی اور نہ ہی خدشات اور سوچیں۔زندگی کے اس حصے کا لطف پھر کبھی نہیں آتا بھلے آپ بعد میں کیسی ہی نعمتوں میں کیوں نہ ہوں۔اپنی آج کی زندگی پر ہی غور کر لیجیے ، اول تو محرومیاں  اور اگر ساری نعمتیں ہوں پھر بھی خدشات انسان کو پریشان کیے رکھتے ہیں۔ جنت میں ایسی کوئی فکر اور پریشانی نہ ہو گی اور زندگی کا حقیقی لطف تو وہی لوگ اٹھائیں گے جو جنت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل فرمائے جن کو وراثت میں ایسی حسین جنت اور جینے کو ایسی بہترین زندگی ملے گی۔ آمین ثم آمین

یہی دائمی سلامتی کا وہ گھر ہے جس کی طرف ہمارا مہربان رب ہمیں بلا رہا ہے :

سورة يونس  ( 10 )

وَاللّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلاَمِ وَيَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ {25}

(تم اِس نا پائیدار زندگی کے فریب میں مُبتلا ہو رہے ہو) اور اللہ تمہیں دار السّلام کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ (ہدایت اُس کے اختیار میں ہے ) جس کو  وہ چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔

اسی کی طرف دوڑنے ، مسابقہ کرنے اور اسے پا لینے کی ترغیب ہمیں قرآن حکیم میں دی جا رہی ہے :

سورة آل عمران  (  3  )

وَسَارِعُواْ إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ {133}

دوڑ کر چلو اُس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے ، اور وہ پرہیزگار لوگوں کے لیے مہیّا کی گئی ہے۔

سورة الحديد   ( 57 )

سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاء وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ {21}

دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو  اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے ، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

آئیے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کا راستہ اختیار کرتے ہیں کہ یہی جنت کو جانے والا سیدھا راستہ ہے۔حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے تین بار اللہ سے جنت طلب کی اور تین مرتبہ دوزخ سے پناہ چاہی اس کے حق میں یہ گواہی قیامت کے روز جنت اور دوزخ بھی دیں گے۔ آئیے اپنے بے انتہا مہربان رب سے توبہ کرتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں معاف فرما دے اور ہماری کوتاہیوں اور گناہوں سے درگزر فرما کر جنت کو ہمارا ابدی ٹھکانا بنا دے :

اللھم انا نسالک الجنۃ الفردوس ونعوذبک من عذاب النار

(اے اللہ ہم تجھ سے جنت الفردوس کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

اللھم انا نسالک الجنۃ الفردوس ونعوذبک من عذاب النار

(اے اللہ ہم تجھ سے جنت الفردوس کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں) اللھم انا نسالک الجنۃ الفردوس ونعوذبک من عذاب النار

(اے اللہ ہم تجھ سے جنت الفردوس کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

 

جنت اور اس کی نعمتیں کس پر حرام ہیں؟

پچھلے صفحات میں ہم نے جنت کی نعمت بھری زندگی کے بارے میں جانا۔اب آئیے یہ جانتے ہیں کہ وہ کون بدنصیب لوگ ہیں جن پر جنت اور اس کی نعمتوں کو حرام کر دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں بھی قرآن عظیم نے ہمیں رہنمائی سے محروم نہیں رکھا بلکہ ان لوگوں اور ان کے جرائم و صفات کے بارے میں بتلا دیا ہے جو کبھی بھی جنت میں داخل نہ ہوں گے۔آئیے قرآن کی اس رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہیں تاکہ اگر کہیں ہم بھی انہی لوگوں کے راستے پر جا رہے ہوں تو توبہ کر لیں اور پلٹ آئیں۔

•        وہ کافر جنھوں نے کفر کیا اور پھر کفر پرہی  مر گئے

جو لوگ کفر کرتے ہیں اور کافر ہی مرتے ہیں قرآن حکیم ان کے بارے میں ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ ان کا یہ گناہ کبھی معاف نہ کیا جائے گا اور وہ جنت میں کبھی نہ جائیں گے :

سورة محمد   ( 47)

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ {34}

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا پھر کفر ہی کی حالت میں مر گئے ان کو اللہ ہرگز معاف نہ کرے گا۔

سورة البقرة    ( 2 )

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ {161} خَالِدِينَ فِيهَا لاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنظَرُونَ{162}

جن لوگوں نے کفر کیا اور کفر کی حالت میں ہی مر گئے ، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، نہ ان کی سزا میں کوئی تخفیف ہو گی اور نہ انہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جا‎ئے گی۔

سورة آل عمران  ( 3 )

 إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الأرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ أُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ {91}

یقین رکھو،جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں جان  دی، ان میں سے کوئی اگر اپنے آپ کو سزا سے بچانے کے لیے روئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں دے تو اسے قبول نہ کیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا تیار ہے اور وہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔

ان کافروں سے قیامت کے روز کہا جائے گا کہ:

سورة الأحقاف    ( 46)

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَفْسُقُونَ {20}

پھر جب یہ کافر آگ کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا:’’تم اپنے حصّے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کر چکے اور ان کا لُطف تم نے اُٹھا لیا، اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں اُن کی پاداش میں آج تم کو ذلّت کا عذاب دیا جائے گا۔

•        شرک کرنے والوں پر جنت حرام ہے

اللہ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے ، وہی ہمیں رزق دیتا ہے ، اسی کی بنائی زمین و کائنات میں ہم رہتے ہیں اور ہماری زندگی کے تمام اسباب و وسائل اسی نے مہیا کیے ہیں، ان نعمتوں پر مزید یہ کہ اس نے ہمیں سوچنے سمجھنے والے دل اور عقل عطا فرمائی۔غرض خدا کی نشانیوں میں غور و فکر کیجیے تو جانیں گے کہ کائنات میں  بلا شرکت غیرے بس اللہ ہی کی حکومت،بادشاہی اور فرمانروائی چل رہی ہے اور ہماری زندگی کا ایک ایک سانس خالص اسی کی عطا، کرم اور مہربانی ہے جس میں کسی دوسرے کی کوئی شرکت نہیں اور اسی اقرار و عہد کا وہ ہم سے مطالبہ بھی کرتا ہے کہ ہم بس اسی کی بندگی اور اطاعت کریں اور اس کی ذات، صفات، حقوق بندگی، اختیارات، ارادوں، فیصلوں،بادشاہی اور حکومت میں کسی کو شریک نہ کریں۔اب اس ایک ہی اللہ کی تخلیق ہو کر، اس کا دیا ہوا رزق کھا کر اور اس کے بنائے زمین و آسمان کی حدود میں رہ کر جب ہم اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں تو یہ وہ انتہائی سنگین جرم ہے جس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ(بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے )  اور یہ بات قرآن میں اپنے محبوب بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کی زبانی ہمیں بتلائی گئی جن کو اللہ نے حکمت عطا فرمائی تھی:

سورة لقمان  (31 )

وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ {12} وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ {13}

ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکر گزار ہو۔ جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔ اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے۔

یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اُس نے کہا ’’ بیٹا ! خُدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا،  حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔”

اسی مضمون پر کچھ احادیث مبارکہ بھی ملاحظہ ہوں:

سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر اپنے والد (سیدنا ابو بکر)ؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس تھے ، آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو بڑا کبیرہ گناہ نہ بتلاؤں؟ تین بار آپﷺ نے یہی فرمایا (پھر فرمایا کہ)اللہ کے ساتھ شرک کرنا (یہ تو ظاہر ہے کہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ ہے ) دوسرے اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرنا، تیسرے جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔ اور رسول اللہﷺ تکیہ لگائے بیٹھے تھے ، آپﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور بار بار یہ فرمانے لگے (تاکہ لوگ خوب آگاہ ہو جائیں اور ان کاموں سے باز رہیں) حتیٰ کہ ہم نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپﷺ خاموش ہو جائیں۔ (تاکہ آپ کو زیادہ رنج نہ ہو ان گناہوں کا خیال کر کے کہ لوگ ان کو کیا کرتے ہیں)۔

(صحیح مسلم)

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سات گناہوں سے بچو جو ایمان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
 1۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔
 2۔ جادو کرنا۔
 3۔ اس جان کو مارنا جس کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے ، لیکن حق پر مارنا درست ہے۔
4۔ سود کھانا۔
 5۔ یتیم کا مال کھا جانا۔
 6۔ اور لڑائی کے دن کافروں کے سامنے سے بھاگنا۔
 7۔ اور شادی شدہ ایمان دار ، پاک دامن عورتوں کو جو بدکاری سے واقف نہیں، تہمت لگانا۔

(صحیح مسلم)

اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا بہت بڑا ظلم اور بدترین جرم ہے۔یہ ایسا بھیانک و گھناؤنا کام اور ایسی خوفناک غلطی ہے کہ جو شخص شرک میں ملوث رہا اور توبہ کیے بغیر مر گیا اور اللہ کے ہاں اس حال میں حاضر ہو کہ ساتھ میں شرک لیے ہوئے ہے تو اس کا یہ گناہ اس دوزخ میں لے جائے گا کیونکہ یہ اللہ کی کتاب میں ناقابل معافی گناہ ہے اور اس کے مرتکب پر اللہ نے  جنت حرام کر دی :

سورة النساء (4)

إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا {48}

اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔

سورة النساء (4)

إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا {116}

اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے ، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔

سورة المائدة  ( 5 )

إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ {72}

جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے او ر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔

شرک کی معافی کیوں نہیں اور مشرک پر جنت کیوں حرام ہے ،علماء نے اس بات کو سمجھانے کے لیے بڑی خوبصورت مثالیں دی ہیں۔جن میں سے ایک مثال میاں بیوی کے رشتے کی دی گئی ہے۔وہ اس طرح کہ ایک  سلیم الفطرت شخص کبھی اپنی بیوی میں دوسرے کی شراکت برداشت نہیں کر سکتا۔ایک طرف تو وہ اپنی بیوی کے لیے دن رات محنت کر کے کما رہا ہو، اسے کھلا پلا رہا ہو اور اسے  ہر سہولت فراہم کر رہا ہو، دوسری طرف  اگر اسے یہ معلوم ہو کہ اس کی بیوی کی دلچسپی ، محبت اور تعلق اس کے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور کے ساتھ ہے یا وہ ان حقوق میں جو خاص اس کے لیے ہی ہیں کسی دوسرے کو بھی شریک کرتی ہے تو اپنی بیوی کی یہ غلطی وہ کبھی معاف نہ کرے گا ہاں باقی جتنی بھی خامیاں ہوں وہ معاف کی جا سکتی ہیں اور ان کوتاہیوں کے ساتھ بھی یہ تعلق تمام عمر نبھ سکتا ہے اور نبھتا ہے لیکن ایک بیوی کی طرف سے شوہر کے خاص حقوق میں دوسروں کی شراکت ایک ایسی غلطی ہے جس کو ایک  ایساشوہر جس کی فطرت مسخ نہ ہو چکی ہوکبھی معاف نہ کرے گا۔

اب یہ تو بات سمجھانے کے لیے محض ایک مثال ہے اور ایک ایسے انسانی رشتے کا حال ہے جو چند لفظوں سے ٹوٹ جاتا ہے اور جس رشتے کی خالق و مخلوق کے رشتے سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ غور فرمائیے کہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق خالق اور مخلوق کا ہے جو کہ ہمارا سب سے پہلا اٹوٹ رشتہ ہے۔ ہم اللہ کو اپنا خالق و مالک و رب مانیں یا نہ مانیں وہ بہرحال ہمارا خالق و مالک و رب ہے۔جس طرح کوئی اپنے والدین  کے رشتے سے انکار نہیں کر سکتا اسی طرح اپنے خالق کے رشتے کا بھی انکار بھی نہیں کر سکتا۔اسی مثال سے علماء نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں کسی دوسرے کی شرکت کے بغیر پیدا تو اللہ کرتا ہے ، رزق دیتا ہے ، ہم ساری زندگی اسی کے انتظام پر جیتے ہیں اور کہیں ایک لمحے کے لیے بھی کوئی دوسرا حقیقتاً ہماری زندگی برقرار رکھنے کے عمل میں شریک نہیں ہوتا تو بھلا خدا کی غیرت کیوں یہ گوارا کرے کہ ہم اس کی مخلوق ہو کر اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کریں۔ ہمیں زندگی وہ عطا کرے اور ہماری نیاز مندیاں دوسروں کے لیے وقف ہوں، ہم رزق کھائیں اللہ کا، زندہ رہیں اللہ کی مہربانی سے اور ہمارا خوف اور ہماری امیدیں دوسروں سے وابستہ ہوں، ہمیں سب کچھ عطا اللہ فرمائے  اور ہم سر جھکائیں اوروں کے دروں پر جو خود ہمارے ہی جیسی بے بس کمزور مخلوق ہیں۔ شرک کی بنیاد میں  ہی یہ خیال اور یہ عنصر کارفرما ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف کسی کمزوری ، محتاجی اور عیب کو منسوب کیا جائے  حالانکہ وہ ہر کمزوری، محتاجی اور عیب سے پاک ہے اور یہ اللہ کی توہین ہے کہ اسی کا ساختہ پرداختہ کوئی شخص اٹھ کر اسی کی مخلوق میں سے کسی کو اس کے ساتھ شریک کرے۔ اور اللہ کی یہ توہین ایک ایسا گناہ ہے جسے وہ کبھی معاف نہ کرے گا۔

بس یہی وہ جرم عظیم ہے کہ خدا کی بارگاہ میں جس کی معافی کوئی نہیں جیسا کہ اوپر آیات میں ذکر آیا اور یہ معاملہ ایسا حساس ہے کہ:

سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ایک شیخ نے نبیﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ دو واجب کر دینے والی چیزیں کیا کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: جس کو اس حال میں موت آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں جائے گا اور جس کو اس حال میں موت آئے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔

(صحیح مسلم)

اور نیتوں اور دلوں کے خیالات اور وسوسے تک جاننے والا اللہ صرف وہ اعمال قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کے لیے کیے جائیں۔ وہ کوئی بھی ایسا عمل قبول نہیں کرتا جس میں اس کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کیا جائے۔جو کوئی ایسا عمل کرے تو پھر اپنے عمل کی جزا کی جھوٹی توقع بھی اسی سے رکھے جسے اس نے اس عمل میں  اللہ کے ساتھ شریک کیا۔خدا کے ہاں اس کا یہ عمل مردود ہے۔ حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو:

سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اور شریکوں کی نسبت شرک سے بہت زیادہ بے پروا ہوں۔ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو بھی ملایا اور شریک کیا تو میں اس کو اور اس کے شریک کیے کام کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (یعنی اللہ اسی عبادت اور عمل کو قبول کرتا ہے جو اللہ ہی کے واسطے خالص ہو دوسرے کا اس میں کچھ حصہ نہ ہو)۔

(صحیح مسلم)

سارے اعمال کو برباد کر دینے والے اسی گناہ  یعنی شرک سے بچنے کے لیے سارے انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کی طرف یہ وحی کی گئی کہ:

سورة الزمر   (  39  )

وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ {65} بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنْ الشَّاكِرِينَ {66}

(اے نبیؐ )تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا اور تم خسارے میں رہو گے۔ لہٰذا  تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔

شرک وہ نجاست اور گندگی ہے جس کے ساتھ کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی:

سورة التوبة   ( 9 )

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ۔۔۔ {28}

اے ایمان لانے والو!مشرکین ناپاک ہیں۔

شرک جنت کو حرام کر دینے والا ناقابل معافی  گناہ ہے اس لیے اے ایمان والو شرک سے بچنا:

سورة يوسف (12 )

وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ {106}

ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح  کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں۔

اور اگر اب تک اس جرم میں مبتلا رہے ہیں تو زندگی کی اگلی سانس سے پہلے ہی توبہ کر لیجیے کہ توبہ ہر گناہ کو مٹا دیتی ہے :

سورة مريم   ( 19 )

إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا {60}

البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عملی اختیار کر لیں وہ جنّت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہو گی۔

•        اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے اور ان کے مقابلے میں سرکشی کرنے والے

سورة الأعراف  (  7  )

إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُواْ عَنْهَا لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ {40} لَهُم مِّن جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِن فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ {41}

یقین جانو جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے  اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے۔ ان کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا۔ مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے۔ ان کے لیے تو جہنم کا بچھونا ہو گا اور جہنم ہی کا اوڑھنا۔ یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں۔

•        دین کو کھیل تماشا اور مذاق بنا لینے والے وہ لوگ جو اللہ کی باتوں اور احکامات کی توہین کرتے ہیں اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں

سورة الأعراف  (  7  )

وَنَادَى أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُواْ عَلَيْنَا مِنَ الْمَاء أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ {50} الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ كَمَا نَسُواْ لِقَاء يَوْمِهِمْ هَـذَا وَمَا كَانُواْ بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ {51}

اور دوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اسی میں سے کچھ پھینک دو۔ وہ جواب دیں گے کہ ’’اللہ نے یہ دونوں چیزیں اُن منکرینِ حق پر حرام کر دی ہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بھُلا دیں گے جس طرح وہ اِس دن کی ملاقات کو بھولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔”

•        کسی مومن کو ناحق جان بوجھ کر قتل کرنے والے

سورة النساء ( 4)

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا {93}

جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

علماء نے  اس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جو شخص کسی مومن کے ناحق قتل کو جائز سمجھ کر اسے قتل کرتا ہے وہ اس زمرے میں آتا ہے نہ کہ وہ جس سے غلطی یا اتفاقی غصہ کی بنا پر یہ جرم سرزد ہو جائے۔( واضح رہے کہ حق کے ساتھ قتل کیا جانا اسلامی حدود و قوانین کے نفاذ میں قتل کیا  جانا ہے مثلاً قصاص میں قتل کیا جانا، شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جانا  وغیرہ)۔

ایک مومن کی جان اللہ کی نگاہ میں کس قدر قیمتی ہے اس کا اندازہ آپ اوپر کی آیت سے لگا لیجیے۔یہ وہ سخت ترین سزا ہے (جہنم میں ہمیشہ رہنا، اللہ کا غضب ،  اللہ کی لعنت اور عذاب عظیم) جو کسی ایک گناہ کی قرآن میں بیان کی گئی ہے لہذا اس آیت سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے گا کیونکہ آج کے پر فتن دور میں وہ تمام لوگ جو اہل ایمان کے قتل ناحق کو جائز سمجھتے ہیں، اس کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر اس پر عمل درآمد کرتے ہیں اس آیت کی زد میں آتے ہیں۔ بھلے وہ حکومتی اقتدار کو استعمال کر کے دشمنوں کو خوش کرنے کے لیے مسجدوں کے اندر اپنے کلمہ گو بھائیوں، بیٹوں اور بیٹیوں کو شہید کرنے والے ظالم ہوں ،محض اپنا رعب و دبدبہ بٹھانے کے لیے سر عام سڑکوں پر عام لوگوں پر فائرنگ کرنے والے ہوں، خوف و ہراس پھیلانے کے لیے ٹارگٹ کلنگ کرنے والے ہوں، دوسروں کو محض اس لیے قتل کر دینے والے ہوں کہ وہ ہمارے فرقے یا پارٹی سے تعلق نہیں رکھتا، مسجدوں کو غیر محفوظ بنانے والے ہوں، یا پھر دشمن کے آلۂ کار بن کر چوکوں ، چوراہوں اور عام لوگوں کی مصروف گزر گاہوں پر دہشت پھیلانے کے لیے بم دھماکے کر کے معصوم اہل ایمان کی ناحق جان لینے والے ہوں۔ان سب کو قرآن کی اس آیت کے آئینے میں اپنا چہرہ اور انجام دیکھ لینا چاہیے۔

اسی بارے میں کچھ روایات میں تو اس طرح آیا ہے کہ مومن کی جان کی حرمت بھی ویسی ہی ہے جیسی کہ کعبۃ اللہ کی حرمت، اور یہ کہ مومن کو ناحق قتل نہ کیا جائے بھلے زمین و آسمان جلا دیے جائیں۔

مومن کی جان تو کیا اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ کسی ایسے کافر کو ناحق قتل کیا جائے جو ذمی ہو۔ حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو:

سیدنا عبداللہ بن عمر وؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص کسی ذمی کا فر کو نا حق قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا اور بے شک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت سے معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

(صحیح مسلم)

انسانی جان اسلام کی نگاہ میں اتنی قیمتی ہے کہ قرآن نے ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے :

سورة المائدة  ( 5 )

مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا۔۔۔ {32}

جس نے کسی انسان کو خُون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

اسلام تو اپنی جان لینے کو یعنی خود کشی کو بھی سخت قابل مذمت فعل اور حرام موت قرار دیتا ہے۔ احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

سیدنا جندبؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ ایک شخص کے کچھ زخم لگ گیا تھا، اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’میرے بندے نے مجھ سے سبقت کی (یعنی اپنی جان خود دے دی)  لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔”

(صحیح مسلم)

 سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص اپنی جان گلا گھونٹ کر دیتا ہے وہ اپنا گلا دوزخ میں برابر گھونٹا کرے گا اور جو شخص زخم لگا کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے وہ دوزخ میں برابر اپنے آپ کو زخم لگایا کرے گا۔”

(صحیح مسلم)

•        سود کھانے والے جو توبہ نہ کریں

 سورة البقرة  (  2  )

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىَ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ {275}

جو لوگ سُود کھاتے ہیں ، اُن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے ، جسے شیطان نے چھُو کر باوٴلا کر دیا ہو۔اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں:’’تجارت بھی تو آخر سُود ہی جیسی چیز ہے ‘‘، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سُود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سُود خوری سے باز آ جائے ، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا ، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے ، وہ جہنمی ہے ، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔

•        دماغوں میں بسی جھوٹی بڑائی  اور تکبر کے باعث سچائی کو نہ ماننے والے ، اللہ کے احکامات کی پروا نہ کرنے والے اور دوسروں کو حقیر جاننے والے مغرور اور متکبر لوگ
سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رتی برابر بھی غرور اور گھمنڈ ہو گا۔ ایک شخص بولا کہ ہر ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا(اوروں سے ) اچھا ہو، (تو کیا یہ بھی غرور اور گھمنڈ ہے ؟) آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی پسند کرتا ہے۔ غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق کرے (یعنی اپنی بات کی پچ یا نفسانیت سے ایک بات واجبی اور صحیح ہو تو اس کو رد کرے اور نہ مانے ) اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔

(صحیح مسلم)

متکبرین کے متعلق اللہ کے یہ فرامین بھی ذہن میں رہیں:

سورة الأعراف  (  7  )

سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا وَإِن يَرَوْاْ سَبِيلَ الرُّشْدِ لاَ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلاً وَإِن يَرَوْاْ سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلاً ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَكَانُواْ عَنْهَا غَافِلِينَ {146} وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَلِقَاء الآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ {147}

میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کِسی حق کے زمین میں  تکبر کرتے ہیں (بڑے بنتے ہیں)، وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لائیں گے ، اگر سیدھا راستہ اُن کے سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے ، اس لیے کہ اُنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھُٹلا یا اور ان سے بے پروائی کرتے رہے۔ ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھُٹلا یا اور آخرت کی پیشی کا اِنکار کیا اُس کے سارے اعمال ضائع ہو گئے۔ کیا لوگ اِس کے سِوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں؟

سورة النساء ( 4)

إِنَّ اللهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا {36}

یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔

سورة لقمان  (31   )

إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ {18}

بے شک اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔

سورة الحديد   ( 57 )

وَاللهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ {23}

اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر  جتاتے ہیں۔

کچھ احادیث مبارکہ:

سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عزت اور بڑائی اللہ تعالیٰ کی چادر ہے (یعنی یہ دونوں اس کی صفتیں ہیں) پھر اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ جو کوئی یہ مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا، میں اس کو عذاب دوں گا۔

(صحیح مسلم)

سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنا کپڑا غرور سے زمین پر کھینچے (گھسیٹے )۔

(صحیح مسلم)

کچھ احادیث مبارکہ اہل جنت کے بارے میں:

سیدنا حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’کیا میں تمہیں جنتی لوگوں کی خبر نہ دوں (کہ وہ کون لوگ ہوتے ہیں )؟ جنتی ہر وہ شخص جو دنیا والوں کی نظر میں حقیر و ذلیل ہو اور اللہ کے بھروسے پر کسی بات کی قسم کھا لے تو اللہ اس کو پورا کر دے اور کیا میں تمہیں دوزخیوں کی خبر نہ دوں ( کہ وہ کون لوگ ہوتے ہیں )؟ دوزخی شریر،مغرور،اور متکبر لوگ ہوتے ہیں۔ ‘‘

(صحیح بخاری)

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:’’ دوزخ اور جنت نے آپس میں بحث کی۔ دوزخ نے کہا کہ میں متکبر اور ظالم لوگوں کو عذاب دینے کے لیے مخصوص کر دی گئی ہوں اور جنت نے کہا کہ معلوم نہیں کیا وجہ ہے کہ مجھ میں تو وہ لو گ آئیں گے جو(دنیا کے لحاظ سے )  غریب ، محتاج ، نظر سے گرے ہوئے ہوں گے۔

(صحیح بخاری و مسلم)

متکبر ہونا صرف اللہ کی صفت ہے اور تکبر صرف اللہ ہی کو جچتا اور زیب دیتا ہے۔اب کوئی اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگے تو ہم کہتے ہیں کہ مغرور ہو گیا۔غرور کے لفظی معنی ہیں دھوکہ۔ یعنی کوئی تکبر کرنے لگے تو مطلب یہ ہوا کہ وہ دھوکے میں پڑ گیا ہے۔دنیا کی زندگی بھی متاع الغرور یعنی دھوکے کا سامان ہے۔مخلوق تو نام ہی محتاجی اور کمزوری کا ہے اور مخلوق کی بڑائی اکڑنے میں نہیں بلکہ اس میں ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک پروردگار  کے سامنے جھک جائے ، اس کا تقوی اور عاجزی اختیار کرے کیونکہ اسی میں مخلوق کی عزت ہے۔

تکبر بدبختی کا نام ہے بعض سلف نے کہا ہے کہ غرور کرنے والا علم اور معرفت سیکھ ہی نہیں سکتا۔داعیان الی اللہ کی  زندگی کا تجربہ ہے کہ جو لوگ متکبر و مغرور ہوتے ہیں انہیں حق بات کی سمجھ نہیں آتی کیونکہ ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ چکی ہوتی ہے کہ ہم بڑے ہیں اور دوسروں سے افضل ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور یوں یہ لوگ سچائی کی رہنمائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔حالانکہ صحیح رویہ یہ ہے کہ حکمت کے موتی جہاں سے بھی ملیں اپنی جھولی میں ڈال لینے چاہییں۔

تفسیر ابن کثیر سے تکبر کی مذمت میں کچھ جملے ملاحظہ فرمائیے :

انسان اپنے غرور اور خود پسندی میں بڑھتے بڑھتے اللہ کے ہاں جباروں میں لکھ دیا جاتا ہے۔پھر اپنی نافرمانی کے عذاب میں پھنس جاتا ہے۔تکبر کی مذمت میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں انسان کی پیدائش کے بیان میں فرمایا کہ دو شخصوں کی پیشاب گاہ سے نکلتا ہے اور اس طرح اس بیان فرمایا کہ سننے والے گھن کرنے لگے۔حضرت حسن کا مقولہ ہے کہ وہ انسان جو ہر دن میں دو مرتبہ اپنا پاخانہ ہاتھ سے دھوتا ہے وہ کس بنا پر تکبر کرتا ہے۔امام محمد بن حسین فرماتے ہیں کہ جس دل میں جتنا گھمنڈ اور تکبر ہوتا ہے ، اتنی ہی عقل اس میں کم ہوتی ہے۔(بحوالہ تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ لقمان آیت 18)

غور کیجیے کہ جو انسان زندگی کی ایک ایک سانس کے لیے اپنے خالق کا محتاج ہے جو اپنے پیٹ میں پاخانہ لیے گھومتا ہے اسے بھلا تکبر کیونکر  زیب دے سکتا ہے۔

تکبر شیطان کی سب سے بڑی غلطی ہے جس نے اسے مقرب سے مردود کر دیا۔دل میں اگر اپنی بڑائی کا کیڑا پڑ جائے تو اللہ کی ہدایت کے راستے بند ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہم نے اوپر آیت میں پڑھا۔انسان کی خیر، بھلائی اور فلاح  اللہ کے سامنے جھک جانے میں اور اللہ کی غلامی قبول کر لینے میں ہے۔اسلام اور ہدایت بندگیِ رب کا اور بس اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا نام ہے۔دلوں کو تکبر کا مرض لگ جائے تو یہ انسان کو جھکنے نہیں دیتا اور شیطان کے راستے اور انجام پر ڈال دیتا ہے۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی اور رسول کی مخالفت کرنے والے اس معاشرے کے متکبر کھاتے پیتے لوگ اور سردار تھے۔ اللہ ہمیں اس خطرناک مرض سے محفوظ رکھے۔

مختصراً یہ کہ

•        کفر

•        شرک

•        اللہ کی آیات کو جھٹلانا، ان کے مقابلے میں سرکشی کرنا، ان کی توہین کرنا اور ان کا مذاق اڑانا۔

•        کسی مومن کا ناحق قتل

•        سود کھانا

•        غرور و تکبر اور دوسروں کو حقیر جاننا

یہ سب وہ خطرناک ترین گناہ ہیں کہ اگر ان سے توبہ نہ کی جائے اور ان پر انسان کو موت آ جائے تو یہ انسان کو جنت اور ا س کی نعمتوں سے محروم کر دیتے ہیں۔

یہ بھی واضح رہے کہ کسی جرم کی سزا اس کے دورانیے پر نہیں بلکہ  نوعیت پر ہوتی ہے اور اوپر پیش کردہ  جرائم خدا کی نظر میں ایسی سنگین نوعیت کے ہیں کہ جو انسان کے لیے جنت سے محرومی اور جہنم کی سزا کی صورت میں بہت بڑے نقصان اور خسارے  کا باعث بن جاتے ہیں۔

آئیے اللہ کے حضور توبہ کریں تاکہ اگر ہم سے جانے یا انجانے میں یہ گناہ سرزد ہوئے ہوں تو اللہ ہمیں معاف فرما دے  اور دعا کریں کہ  اللہ آئندہ ہمیں ان تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہم پر جنت کو حرام کر نے کا باعث بن سکتے ہیں۔(آمین)

اللھم انا نسالک الجنۃونعوذبک من عذاب النار

(اے اللہ ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

اللھم انا نسالک الجنۃونعوذبک من عذاب النار

(اے اللہ ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

اللھم انا نسالک الجنۃونعوذبک من عذاب النار

(اے اللہ ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے ورڈ فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید