ہیرو
امین صدرالدین بھایانی
دروازے کے باہر دو تین بار موٹر سائیکل کا ہارن بجا، اُسے سنتے ہی کھلی چھت والے چھوٹے سے صحن میں بچھے تخت پر بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہوئے بہزاد نے جلدی جلدی چائے کے گھونٹ بھرنے شروع کر دیئے۔ چنگیر میں سے پراٹھے کا آخری ٹکڑا اٹھا کر پلیٹ میں پڑے رات کے سالن کو اچھی طرح سے صاف کر کے منّہ میں ٹھونسا اور چائے کی پیالی میں بچی کھچی چائے کو منّہ میں انڈیل کر تیز تیز چباتے ہوئے تیزی سے دروازے کی طرف دوڑ پڑا۔
پھر کچھ خیال آنے پر دوبارہ پلٹا اور تخت پر ہی بیٹھیں ہوئیں اماں کو خدا حافظ کہا اور ان کے ساتھ ہی کھڑی اپنی بیوی کی طرف مسکرا کر دیکھا ہی تھا اور ابھی کچھ کہنا ہی چاہ رہا تھا کے ایک بار پھر باہر گلی میں سے ہارن کی آواز سنائی دی اور وہ مڑ کر باہر کی طرف دوڑ پڑا۔
گھر کے دروازے پر ہی سرفراز اپنی نئی نویلی سُرخ بھُوم بھُوم آوازیں نکالتی ہونڈا 70 پر سوار دروازے ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بہزاد فوراً ہی موٹر سائیکل کے پیچھے سوار ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی سرفراز نے کلچ کو دبا کر گیئر لگا دیا۔
"سرفراز بھائی، معافی چاہتا ہوں، آج پھر سے ذرا سی دیر ہو گئی۔ وہ بس میں ناشتہ کر رہا تھا”۔
بہزاد شرمندہ ہوتے ہوئے بولا۔
"ارے نہیں بھئی، ویسے بھی ہم ہمیشہ کی طرح وقت سے کافی پہلے ہی نکل گئے ہیں، انشاءاللہ دفتر صحیح وقت پر پہنچ جائیں گے”۔
یہ کہ کر سرفراز نے رفتار قدرے بڑھا دی۔ موٹر سائیکل کی رفتار بڑھتے ہی بہزاد کے گھنے بال ہوا میں لہرانے لگے۔
موٹر سائیکل فردوس کالونی کی گلیوں سے باہر نکلی اور ناظم آباد پہلی چورنگی سے ہوتی گلبہار بالمعروفِ العام گولیمار نمبر۲ اور پھر نمبر۱ کے بعد لسبیلہ پُل اور چوراہے سے گزر کر دائیں طرف مڑ کر نشتر روڈ میں داخل ہوئی۔ تین ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے بائیں جانب گارڈن روڈ پر مڑ گئی۔ گاندھی گارڈن کے عقبی حصّے سے گزرتی ہوئی کچھ دیر یونہی چلتی رہی اور پھر دائیں طرف رینو سنیما والی رینڈل روڈ پر مڑی اور چند ہی لمحات کی مسافت کے بعد دائیں طرف والی سڑک پر مٹر کر وحید مراد روڈ پر داخل ہوئی۔ کچھ دیر چلے کے بعد جوبلی سنیما والی سڑک سے بائیں سے فوری طور پر دائیں طرف مڑ کر ایم اے جناح روڈ پر دوڑتے ٹریفک کے اژدہام میں داخل ہو گئی۔
سارے سفر کے دوران بہزاد اپنی گردن ادھر اُدھر گھما پھرا کر ہر گزرنے والی سڑک اور اُس کے ایک ایک کونے کو اِسطرح سے بغور دیکھتا چلا جا رہا تھا جیسے وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اسکین کر رہا ہو۔
ریڈیو پاکستان کی عمارت کے عین ساتھ بہادر شاہ ظفر مارکیٹ اور اس کے آگے ٹائر مارکیٹ والی گلی سے ہوتی ہوئی جب موٹر سائیکل اردو بازار سے چل کر رابنس روڈ سے آگے بڑھی اور پھر کورٹ روڈ پر داخل ہوئی تو اچانک ایک کونے پر لگے ہجوم کو دیکھ کر بہزاد چونک اٹھا۔
کسی اندرونی خیال کے تحت اُس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور موٹر سائیکل کے کیریئر میں رکھے دونوں ہاتھ اٹھا کر اُس نے سرفراز کو کندھوں سے ہلاتے ہوئے با آوازِ بلند کہا:۔
"رک جائیں، سرفراز بھائی، رکیں، رکیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!”۔
اِس اچانک افتاد پر سرفراز بوکھلا گیا اور موٹر سائیکل لہرا سی گئی، لیکن فوراً اُس پر قابو پایا اور فٹ پاتھ کے ساتھ روک دی۔
"اوہ بھائی، کیا ہوا، سب ٹھیک تو ہے؟”۔
سرفراز نے سر گھما کر پیچھے کی طرف دیکھا لیکن اتنی دیر میں تو بہزاد موٹر سائیکل سے اتر بھی چکا تھا اور وہ تیزی سے ہجوم کی طرف بڑھ رہا تھا۔ لمحے بھر کو وہ مڑا اور اس نے چلاتے ہوئے کہا”۔
"سرفراز بھائی، آپ کو دیر ہو جائے گی، آپ چلے جائیں، میں خود ہی دفتر چلا جاؤں گا”۔
اتنا کہہ کر وہ تیزی سے دوڑ کر بھیڑ کو چیرتا ہوا ہجوم میں غائب ہو گیا۔ سرفرازبس ارے ارے سنو تو ہی کہتا رہ گیا، کچھ دیر وہ وہاں اِسی طرح سے گومگو کی کیفیت میں کھڑا رہا۔ پھر رکی ہوئی موٹر سائیکل کو کک لگا کر اسٹارٹ کیا اور ہجوم کی جانب دیکھتے ہوئے افسوس کے ساتھ اپنا سر ہلایا اور آگے بڑھ گیا۔
اُس کا دفتر آئی آئی چندریگر روڈ پر کاٹن ایکسچینج بلڈنگ میں تھا اور وہ روزانہ بہزاد کو کو اُس کے دفتر جو چند قدم کے فاصلے ہی پر قمر ہاوس میں تھا، تک لفٹ دیا کرتا تھا۔
دفتر پہنچ کر وہ اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہو گیا۔ شام پانچ بجے جب وہ دفتر کی عمارت سے باہر آیا تو لوگوں اور ٹریفک کا ایک اژدہام سڑک پر موجود تھا۔ لوگ باگ دفتروں سے نکل نکل کر پیدل، موٹرسائیکلوں، اسکوٹروں، کاروں، بسوں اور ویگنوں میں سوار ہو ہو کر اپنے گھروں کا رخ کر رہے تھے۔ لیکن اُس وقت گھر سرفراز کی منزل نہ تھا۔
آئی آئی چندریگر روڈ سے سرفراز نے اپنی موٹر سائیکل کا رُخ جوڑیا بازار کی طرف موڑ دیا۔ نیو چالی سے ہوتا ہوا سٹی کورٹ کی عمارت کے فوراً بعد دائیں والی گلی میں مڑا اور پھر دو ایک اور گلیوں کے موڑ مڑ کر ایک بڑے سی گودام نما دکان پر آ کر رُکا جس کی پیشانی پر لگے بورڈ پر جلی حرفوں میں لکھا تھا:
محمد صدیق اینڈ سنز
آڑھتیان
گندم، چاول، مکئی، دالیں اور دیگر متفرق اجناس
رام بھارتی اسٹریٹ، جوڑیا بازار
کراچی-74000
دروازے کے عین سامنے اُس نے اپنی موٹر سائیکل کو لاک کیا اور اندر داخل ہو گیا۔
سرفراز محمد صدیق اینڈ سنز میں عرصہ ِ پانچ سال سے جز وقتی اکاونٹینٹ کے طور پر روزانہ شام چھے سے رات نو بجے تک کام کرتا تھا۔
رات نو بجے جب وہ وہاں سے نکلا تو اس کا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا۔ سر میں بھی کافی درد ہو رہا تھا، حالانکہ دفتر میں اس نے پچھلے تین گھنٹوں میں دو بار چائے بھی پی تھی لیکن شاید یہ دن بھر کی ذہنی محنتِ شاقہ کا نتیجہ تھا۔
گھر کے سارے راستے اُس کے ذہن میں بس بیوی کے ہاتھوں کا بنا لذیذ کھانا ہی گھوم رہا تھا۔ سارے دن کی جان توڑ محنت کے بعد جب وہ رات تقریباً 10 بجے گھر پہنچتا تواس کے تینوں بچے تو علی الصبح اسکول جانے کے سبب کافی دیر ہوئے سو چکے ہوتے مگر اُس کی بیوی ثمینہ گرما گرم کھانا تیار کر کے اس کا انتظار کیا کرتی۔ حالانکہ گھر میں ڈائننگ ٹیبل بھی تھی لیکن اُس کی عادت اور پسند کے عین مطابق زمین پر دسترخوان بچھا ہوا ہوتا جس پر آلتی پالتی مار کر دونوں میاں بیوی کھانا کھانے کے ساتھ خوب مزے لے لے کر دن بھر کی باتیں کرتے۔ کھانا سے فارغ ہو کر یا تو ٹی وی کے سامنے جا بیٹھتا یا پھرکسی کتاب کے مطالعے میں مشغول ہو جاتا۔ اِس دوران ثمینہ اپنے اور اُس کے لیئے بھاپ اڑاتی چائے مگ میں لے آتی۔ اگر وہ کتاب پڑھ رہا ہوتا تو وہ بھی کوئی نا کوئی کتاب کھول کر بیٹھ جاتی وگرنہ دونوں ٹی وی دیکھنے لگتے۔
گھر پہنچ کر اُس نے گھڑی دیکھی تو کوئی پونے دس بج رہے تھے۔ موٹر سائیکل کو گھر کے آگے نصب آہنی دروازے کے پاس کھڑا کیا اور اگنیشن میں لگے چابیوں کے گچھے کو نکال کر اس میں سے ایک چابی منتخب کی اور آہنی دروازے سے متصل ایک دوسرے چھوٹے آہنی گیٹ پر لگے دونوں اطراف سے کھلنے والے تالے میں ڈال کر دروازہ کھول دیا اور پھر موٹر سائیکل سٹینڈ سے اتار کر ہاتھوں سے اس کے ہینڈل کو تھام کر آھستگی سے اندر داخل کیا اور صحن کے کنارے لگیں بیلوں کے ساتھ دوبارہ اسٹینڈ پر کھڑا کر دیا۔
گھر کے مرکزی دروازے کو کھلا پا کر وہ کچھ حیرت میں پڑ گیا اور تیز تیز قدم اٹھاتا اندر داخل ہو گیا۔ دہلیز پار کرتے ہی دائیں جانب ہی سادگی سے سجا ہوا ڈرائینگ روم تھا جسپر نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹک کر رک گیا۔ سامنے صوفے پر بہزاد کی اماں اور بیوی بیٹھیں ہوئیں تھیں اور اُنکے چہروں سے پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ سامنے والے چھوٹے صوفے پر اس کی بیوی بھی بیٹھی نظر آئی۔
"السلام و علیکم”۔
سرفراز نے انہیں سلام کرتے ہوئے اپنی جانب متوجہ کیا۔
بہزاد کی اماں اور بیوی نے چونک کر سر گھمایا اور جیسے ہی اُنکی نظریں سرفراز پر پڑیں وہ دونوں میکانکی انداز میں صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور اُس کی طرف لپکیں۔
"ہائے بیٹا سرفراز اب تو تم ہی بہزاد کو بچا سکتے ہو”۔
بہزاد کی اماں نے سرفراز کے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے کہا۔
سرفراز حیران تھا کے آخر ماجرا کیا ہے وہ کبھی بہزاد کی اماں کو دیکھتا تو کھبی اپنی بیوی کے چہرے کو تکتا لیکن جب کوئی وضاحت نہ ملی تو حیرت زدہ سی آواز میں بولا”۔
"آخر کوئی مجھے کچھ بتائے بھی تو ہوا کیا ہے؟”۔
لیکن اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا اچانک ایک اندیشہ سا اس کے ذہن میں لہرایا:۔
"اماں خدانخواستہ کہیں بہزاد کسی حادثے کا تو شکار نہیں ہو گیا؟”۔
"نہیں سرفراز بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، اسے تو پولیس نے پکڑ رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔
بہزاد کی اماں روہانسی ہو کر بولیں۔
"کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، بہزاد کو پولیس پکڑ کے لے گئی ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، لیکن یہ کیسے ہو گیا، آخر بات کیا ہوئی جو اُسے پولیس پکڑ کر لے گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔
سرفراز کو جیسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔
"مجھے کچھ پتہ نہیں ہے، بس شام 7 بجے اس کا فون آیا تھا کے اُسے تھانے میں پولیس نے پکڑ کر بیٹھا رکھا ہے اور وہ کہہ رہا تھا کہ کسی طرح سے بھی سرفراز بھائی کو وہاں بھیج دیں”۔
بہزاد کی اماں کی آواز میں پریشانی اور دکھ کی آمیزش تھی۔
"تو آپ نے میرے موبائل پر اُسی وقت فون کیوں نہیں کر دیا۔ میں فوراً تھانے چلا جاتا”۔
سرفراز نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے فون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"مجھے معلوم تھا کے تم اُس وقت اپنے پارٹ ٹائم والے دفتر میں ہو گے، لہذا میری ہمت نہ ہوئی کہ میں وہاں تمھیں فون کر کے پریشان کرتی، اسی لیئے 9 بجے سے یہیں آ کر بیٹھ گئی تھی کہ تم جب آؤ گے تو تم سے خود درخواست کروں گی کے تم بہزاد کو تھانے سے چھڑا لاؤ”۔
شدتِ غم سے اماں کی آواز پھٹی جا رہی تھی۔
"ارے نہیں اماں، آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں، بہزاد میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح سے ہے، آپ فکر نہ کریں میں ابھی جا کر اسے تھانے سے چھڑ کرا لے آتا ہوں، کون سا تھانہ بتایا تھا آپ نے؟”۔
سرفراز نے اپنی بیوی کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور اسے سرگوشی میں کچھ کہا۔ وہ فوراً اندر گئی اور جلد ہی واپس آ گئی اور اسنے ایک لفافہ سا سرفراز کو پکڑایا جو اسنے جلدی سے اپنے کرتے کی بغلی جیب میں رکھ لیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ اپنی موٹر سائیکل پر سوار تھانے کی طرف اڑا جا رہا تھا۔
جس برق رفتاری سے اس کی موٹرسائیکل اڑی جا رہی تھی اُسی رفتار سے سوچیں اُس کے ذہنی انتشار میں اضافہ کرتی چلی جا رہی تھیں۔
بہزاد کو وہ بچپن ہی سے تو جانتا تھا۔ اُس کے سامنے وہ پل بڑھ کر جوان ہوا تھا اور پھر کچھ ہی عرصہ قبل تو اس کی شادی ہوئی تھی۔ محلے کے شریف لڑکوں میں اس کا شمار ہوتا تھا اور وہ کبھی کسی ایسے معاملے میں ملوث نہ ہوا تھا کہ جسے قابلِ دست اندازیِ پولیس قرار دیا جا سکتا تھا۔ تو پھر ایسی کیا بات ہو گئی کہ اُسے پولیس نے پکڑ رکھا تھا؟۔
پھر اُسے سرفراز کی وہ بات یاد آئی جو اسے سخت نا پسند تھی لیکن اُس نے کبھی اُس بات کو لے کر بہزاد کو ٹوکا نہ تھا۔
بہزاد کو ہیرو بنے کو بہت شوق تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔
فلمی ہیرو نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، اصلی تے وڈا ہیرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔
بہزاد ہمیشہ ہی اِس کوشش میں رہتا کے کوئی ایسا کام کر گزرے کہ وہ لوگوں کی نظروں میں ہیرو بن جائے، ملک بھر کے اخبارات، نیوز چیلنز میں اُس کے کارنامے کی دھوم مچ جائے، اسے ٹی وی چینلز کے مارننگ اور ٹاک شوز میں مدعو کیا جائے اور وہ ملک بھر میں ایک عوامی اور سیلیبریٹی شخصیت بن کر اُبھرے۔ اس پر انعام و اکرام کی برسات ہونے لگے اوراُسے کوئی بڑا عہدہ مل جائے اور پھر اس کے بعد تو بس اُس کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہو۔
اُس کے جنون کو مہمیز کرنے میں نیوز چینلز کے رپورٹروں اور کیمرہ ٹیموں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جب وہ دیکھتا کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں یہ رپورٹر اور کیمرہ ٹیمیں بجلی کی رفتار سے جائے وقوع پر آن موجود ہوتی ہیں، پھر اُس واقعے میں شامل افراد چند ہی گھنٹوں میں عوام الناس کے جانے پہچانے چہرے ٹھہرتے ہیں اور جو اگر اس واقعے میں شامل کوئی شخص ذرا سی بھی غیر معمولی ہمت و جرات کو مظاہرہ کر جائے تو بس پھر تو ان نیوز چینلز والوں کی جیسے بن آتی ہے۔ وہ اُسے بریکنگ نیوز میں سب سے پہلے مذکورہ خبر کو اپنے ناظرین تک پہنچانے کا واویلا کر کر کے اس کا سہرہ اپنے سر باندھ کر اتنا اُچھالتے ہیں کہ بس اللہ کی پناہ اور پھر سارے ملک کے ٹی وی چینلز کے مارننگ اور ٹاک شوز کے اینکرز اُسے اپنے پروگرام میں بلا کر سب سے پہلے انٹرویو نشر کرنے کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے کے لیئے بےتاب و بےچین نظر آتے ہیں۔
ابھی چند ہفتوں قبل ہی تو بہزاد نے گھر سے دفتر جاتے ہوئے سرفراز کو بتایا تھا کہ گذشتہ روز اُس کے دفتر کی عمارت میں جب ایک نامعلوم فون پر یہ اطلاع دی گئی تھی کہ عمارت میں ایک بہت بڑی طاقت کا بم نصب ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے تو بس جیسے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ہو۔ اُس نے سوچا کہ اگر وہ عمارت میں نصب اس خُفیہ بم کو تلاش کر لے تو بیٹھے بٹھائے ہی ہیرو بن جائے گا۔ ملک بھر کے اخبارات، نیوز چینلوں، مارننگ و ٹاک شوز پر اسے ہی مدعو کیا جائے گا۔ ممکن ہے کہ اتنے بڑے کارنامے کو سرانجام دینے کے اعتراف میں اسے حکومت کی جانب سے تمغۂ جرات سے بھی نواز دیا جائے۔ اُس خیال کے آتے ہی اس نے چشمِ تصور میں یہ دیکھنا بھی شروع کر دیا کہ وہ ایوانِ صدر اسلام آباد کی ایک بڑی ہی عالیشان اور پُر وقار تقریب میں مدعو ہے، اس کا نام پکارا جا رہا ہے اور وہ اپنی نشست سے اٹھ کر سینہ تانے، بڑے ہی وقار، اعتماد اور رعب و دبدبے کے ساتھ چلتا ہوا صدرِپاکستان کے پاس جاتا ہے اور ان سے اپنے سینے پر تمغۂ جرات لگوا رہا ہے۔
وہ تو اُس نامراد بم ڈسپوزل اسکواڈ کے کپتان کا خانہ خراب ہو، جس نے اُسے عمارت کی دوسری منزل پر اِدھر اُدھر تاکتے جھانکتے دیکھ لیا اور اپنے پاس بلا کر بڑی ہی کڑک آواز میں دریافت کیا:۔
"اوے کاکا توں کونڑں ایں، اتھے کیں کردا پیاں ایں، تینوں ملوم نیں ایس عمارت دے وچ وڈا تے خطرناک بمب لگا ہویا ایں”۔
"جی جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، اسی لیئے تو جناب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! میں یہاں ٹھہر گیا ہوں کہ میں بم کی تلاش میں آپ کی مدد کرسکوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔
"اوئے تو نے بھلا کیا ہماری مدد کرنی ہے، اوئے تو کوئی سپر مین ہے۔ اوئے کاکا تو نے کیا شہری دفاع کا کورس شورس کر رکھا ہے؟”۔
اور جیسے ہی اُس نے یہ کہا کہ اس نے تو کبھی محکمہ شہری دفاع کی شکل تک نہیں دیکھی تو کپتان صاحب نے اُسے ایک پولیس کے سنتری کے حوالے کرتے ہوئے یہ تاکید کی کہ اِسے عمارت سے باہر لے جا کر لگائی گئی خطرے کی نشان دہی کرتی پیلی پٹیوں سے باہر نکال دیا جائے۔
بہزاد کوئی چار گھنٹے تک ان پیلی پٹیوں سے لگا اخباری نمائندوں اور ٹی وی چینلوں کے جانے پہچانے رپورٹروں اور کیمرہ ٹیموں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتا رہا جو خطرے والی پیلی پٹیوں کی دوسری طرف کپتان صاحب اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ہر چھوٹے بڑے اہلکار کے ساتھ ساتھ وہاں موجود معمولی سے معمولی پولیس سپاہی کا دھڑا دھڑ انٹرویو کیئے چلے جا رہے تھے اور وہ انٹرویوز متعلقہ نیوز چینلز پر لائیو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کیا جا رہے ہوں گے۔
کوئی چار گھنٹوں کے لگ بھگ یہ ڈرامہ جاری رہا اور آخر کار کپتان صاحب نے با آوازِ بلند یہ اعلان کر دیا کہ "بمب” کی اطلاع جھوٹی ثابت ہوئی ہے اور انہوں نے بڑی شانِ بے نیازی کے ساتھ عمارت کو عوام الناس کے لیے خطرے سے پاک قرار دے دیا۔
بقول بہزاد کہ اُسے جتنی بھی بد دعائیں اور گالیاں یاد تھیں وہ اُس نے کپتان صاحب کو جی بھر بھر کر دے ڈالیں۔ ارے بھلا کوئی اُن سے پوچھے کہ بم تو انہیں کوئی ملا نہیں۔ اگر وہ اُس سے تھورا سا تعاون ہی کر لیتے اور عمارت سے باہر نہ نکالتے تو شاید اگلے روز کے سارے قومی اخبارات اور نیوز چینلز پر اُسے ایک با ہمت و بہادر نوجوان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہوتا جو کہ اس قدر خوفناک بم کی دھمکی کو بھی خاطر میں نہ لایا اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے عمارت میں بم تلاش کرتا رہا۔
"تو کیا بہزاد پھر ویسی ہی کوئی حرکت کر بیٹھا جو ابکی بار پر اُسے پولیس والے دھر کے تھانے ہی لے گئے؟”۔
سرفراز نے مسلسل آتی سوچوں کو جھٹکتے ہوئے خود ہی سوال کیا۔
لیکن اُس کے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اور وہ اپنے اسی سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیئے جلد از جلد تھانے پہنچ جانا چاہتا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد اس کی موٹر سائیکل نحوست سی پھیلاتے ہوئے زرد بلبوں کی روشنی میں نہائی تھانے کی پیلے رنگ والی عمارت کے بڑے سے نیلے آہنی دروازے کے سامنے آ رکی، دروازہ بند ہونے کے سبب اُس نے اپنی موٹر سائیکل کو ایک طرف دیوار کے ساتھ کھڑا کیا اور آہنی دروازے کے چھوٹے سے پھاٹک پر کھڑے سپاہی کو بتایا کہ اُس کے محلے کا ایک لڑکا تھانے میں بند ہے۔ سپاہی نے پکڑے جانے والے کا حدود اربعہ دریافت کیا اور سرفراز کے بتائے گئے حلئے پر اُس کے چہرے پر ایک عجیب سے مسکراہت دوڑ گئی اور اس نے اُسے تھانہ محرر کے کمرے میں جانے کا راستہ بتا دیا۔
سرفراز جیسے ہی محرر کے کمرے میں داخل ہوا تو اُسے سامنے ہی ایک لمبی سے بینچ پر بہزاد بیٹھا نظر آیا۔ اس کے چہرے کی رنگت اڑی ہوئی، بال بُری طرح سے بکھرے ہوئے، کپڑے بے ترتیب اور جوتے دھول مٹی سے اٹے ہوئے تھے۔ سرفراز کو دیکھ کر اُس کی مایوس آنکھوں میں امید کی چمک لہرائی۔
سرفراز سیدھا محرر کی میز پر پہنچا جہاں ایک دبلا پتلا لمبا سا شخص سر جھکائے دو سفید کاغذوں کے بیچ نیلے رنگ کا کاربن پیپر اڑسے، بال پین کو خوب خوب دبا دنا کر اردو میں کچھ لکھ رہا تھا۔
سرفراز کو اب اتنا کہاں ہوش تھا کہ وہ غور کرتا کہ محرر اس کاغذ پر کیا رام کتھا لکھ رہا ہے، اس نے کھنکار کر اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔
محرر نے جیسے ہی سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تو وہ فوراً ہی بول پڑا کہ جیسے اُس کی واحد وجہِ پیدائش محرر سے ہمکلام ہونا ہی تو ہو۔
"جی میں بہزاد احمد خان کے سلسلے میں حاضر ہوا ہوں”۔
سرفراز نے سامنے بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:۔
"اچھا جی، تو تم ہو اس اندیشۂ نقصِ امن اور کارِسرکاری میں مداخلت کرنے والے کے حمایتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !”۔
محرر کی آواز میں ایک شرارتی سا طنز تھا۔
"آخر بہزاد نے ایسا کیا جرم کر دیا ہے جو آپ نے اِس تھانے میں بٹھا رکھا ہے؟”۔
سرفراز محرر کی میز کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا۔
"او بابو صاحب، سرکاری کام میں مداخلت کرنا اور اندیشۂ نقص امن کوئی معمولی جرم نہیں ہوتا، میاں صاحبزادے کو جیل بھی ہو سکتی ہے۔ یہ تو ہمارے ایس ایچ او صاحب کی رحم دلی ہے کہ یہ جیل کی ہوا کھانے سے بچ گیا اور انہوں نے اِس پر ترس کھا کر مجھے کہا کہ اِس کے گھر والوں کو فون کر کے بلوا کر اس معاملے کو رفع دفع کرو”۔
محرر نے اپنی بائیں آنکھ کو بڑی فنکاری کے ساتھ دباتے ہوئے کہا۔
سرفراز اپنی کرسی سے ذرا سا اٹھا اور اپنا منّہ محرر کے کان تک لے گیا اور اُس کے کان میں کچھ کہا جو بہزاد سمجھ تو نہ سکا البتہ اس نے اتنا ضرور دیکھا کہ اُس کے جواب میں محرر کے چہرے پر ایک بڑی ہی معنیٰ خیز سی مسکراہٹ چمک اٹھی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے سرفراز کے کان میں کوئی سرگوشی کی۔ اس کے فوراً بعد سرفرازنے وہی لفافہ جو اُس کی بیوی نے اسے دیا تھا کُرتے کی بغلی جیب سے نکالا اور بڑی تیزی اور راز داری کے ساتھ محرر کی طرف بڑھا دیا۔ محرر نے اور بھی زیادہ برق رفتاری کے ساتھ لفافہ سرفراز کے ساتھ سے اُچک لیا اور اپنی کرسی سے فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا اور ساتھ والے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
چند منٹوں کے وقفے کے بعد اُس کی واپسی ہوئی تو اُس کے چہرے پر ایک عجیب سی بشاشت سی تھی۔ آتے ہی وہ پھر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور سرفراز سے مخاطب ہوا:۔
"دیکھو بابو صاحب، تمہارے اِس میاں صاحبزادے کا جرم تو کافی سنگین ہے لیکن میں نے ابھی جا کر ایس ایچ او صاحب کو اُس کی بےگناہی سے متعلق تمھارے فراہم کردہ شواہد پیش کیئے۔ حالانکہ وہ شواہد ناکافی تھے لیکن اُنہیں اِس کی جوانی پر رحم آ گیا اور اُنہوں نے اِسے اِس بار محض تنبیہ کر کے چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ویسے بھی آپ کو پتہ ہی ہو گا کہ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی”۔
اتنا کہہ کر محرر کھی کھی کھی کرتا ہوا ہنس پڑا۔
سرفراز یہ سنتے ہی تیزی سے اُٹھا اور اُس نے بہزاد کو فوراً اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور وہ دونوں کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح سے تھانے کی عمارت باہر سے آ گئے۔ سرفراز نے اپنی موٹر سائیکل کو کک مار کر اسٹارٹ کیا اور جیسے ہی بہزاد پیچھےسوار ہوا اُس نے موٹر سائیکل پوری رفتار پر چھوڑ دی اور سیدھا اپنے گھر جا پہنچا۔
گھر میں داخل ہوتے ہوئے وہ بہزاد سے بولا:۔
"میرے ساتھ اندر چلو، میں تم سے چند ضروری باتیں کرنا چاہتا ہوں”۔
جیسے ہی وہ دونوں گھر کے اندر داخل ہوئے تو ڈرائینگ روم میں ثمینہ صوفے پر ہاتھ میں تسبیچ لیئے بیٹھی نظر آئی۔ اُن دونوں کو دیکھ کر اُس کے چہرے پر ایک رونق سی نمودار ہوئی۔ وہ فوراً ہی صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی:۔
"اللہ کا شکر ہے کہ آپ دونوں آ گئے۔ میں نے بہزاد کی اماں اور اُس کی بیوی کو سمجھا بجھا کر گھر روانہ کر دیا تھا کہ جیسے ہی سرفراز آتے ہیں میں آپ کو خبر کرتی ہوں”۔
"یہ تم نے بہت اچھا کیا، اب ایسا کرو کہ جب تک میں اور بہزاد ہاتھ منّہ دھو لیتے ہیں تم پہلے فون کر کے بہزاد کے گھر اُس کی خیریت کی اطلاع دے دو اور پھر میرے اور بہزاد کے لیئے کھانا گرم کر دو مجھے شدید بھوک لگ رہی ہے اور بہزاد نے بھی صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ ویسے کھانا تو تم نے بھی نہ کھایا ہو گا؟”۔
جب سرفراز اور بہزاد دسترخوان پر بیٹھے تو گرما گرم بھاپ اڑاتا ہوا کھانا چنا ہوا تھا۔ ان تینوں نے خاموشی سے کھانا کھایا۔ کھانے کے اختتام پر سرفراز نے ثمینہ کو چائے بنانے کا اشارہ کیا۔
"اچھا، بہزاد اب بتاؤ ہوا کیا تھا”۔
سرفراز نے بہزاد کی طرف بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
"سرفراز بھائی، میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا”۔
"ارے چھوڑا بہزاد اس بےکار کے تذکرے کو، مجھے تم یہ بتاؤ کہ آخر ہوا کیا تھا؟”۔
"بس کیا بتاؤں، سرفراز بھائی، اپنی تو قسمت ہی خراب ہے، اُس روز بم ڈسپوزل اسکواڈ کے کپتان نے اور آج اِن کمبختوں نے مجھے بریکنگ نیوز بنے سے روک دیا، آپ کو یاد تو ہو گا کہ آج صبح رابنس روڈ اور کورٹ روڈ کے سنگم پر ایک ہجوم کو دیکھ کر میں نے آپ کو رکوایا تھا۔ جب میں اس ہجوم میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں دو رکشے آپس میں ٹکرا کر الٹے پڑے ہوئے تھے اور اُن کے مسافر اور ڈرائیور الٹے ہوئے رکشوں کے نیچے دبے چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ دیگر لوگوں کی طرح سے چند پولیس والے بھی کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ میں ان دبے ہوئے لوگوں کی مدد کو آگے بڑھا ہی تھا کہ اچانک چند نیوز چینلوں کے نمائندے اور کیمرہ ٹیمیں وہاں آ پہنچے۔ اُن کو دیکھتے ہی پولیس والے حرکت میں آئے اور انہوں نے مجھے پکڑ کر زبردستی پولیس کی گشتی وین میں ٹھونس اور خود بڑھ چڑھ کر امدادی کاروائیوں میں حصہ لینے لگے اور نیوز چینلوں کے رپورٹروں اور کیمرہ ٹیموں نے آگے بڑھ بڑھ ان کی رپورٹیں فلم بند کرنا شروع کر دیں”۔
انتا کہہ کر بہزاد یوں اپنے یوں ہاتھ ملنے لگا جیسے کوئی خزانہ اس کے ہاتھ لگتے لگتے رہ گیا ہو۔
سرفراز اُس کی بات سن کر کچھ سوچنے لگا۔ کچھ دیر کی مہیب خاموشی کے بعد اس کی ایک گہری سانس نے خاموشی کے آسیب کو کچھ کم کیا۔
"بہزاد آج میں تم کو ایک راز کی بات بتانا چاہتا ہوں”۔
سرفراز کی آنکھوں میں ایک پراسرار سی گہرائی تھی۔
"راز، کیسا راز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟”۔
بہزاد بےتابی کے ساتھ سرفراز کے کچھ اور قریب ہو کر بولا۔
"تم ذرا صبر تو کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، کوئی ایک راز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، آج میں تم پر کئی ایک راز افشاں کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!! "۔
سرفراز کے چہرے پر ایک بڑی ہی پراسرار سی مسکراہٹ تھی۔
"تم کو ہیرو بنے کا بہت شوق ہے نا اور تم چاہتے ہو کہ تم بریکنگ نیوز میں آؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! یہ ہی چاہتے ہو نہ تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ لیکن کیا تم یہ جانتے ہو کہ خود ہمارے اِس محلے میں کتنے ہیرو رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
سرفراز کی آواز کی پراسراریت بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
"شاید تم نہ جاتے ہو کہ ہمارے محلے میں بھی بہت بڑے اور عظیم ہیرو رہتے ہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ انہیں تمہاری طرح سے بریکنگ نیوز پر آنے کا کوئی شوق نہیں۔ تمھاری نظر میں ہیرو صرف وہ ہوتا ہے جو بہادری کے کارنامے سر انجام دیکر بریکنگ نیوز پر آئے۔ لیکن بہزاد یہ سچ نہیں ہے۔ اچھا بتاؤ کیا شہاب الدین صاحب، قمر نظامی صاحب، خالد قریشی صاحب، ممتاز علوی صاحب، سکندر لودھی صاحب اور ارشد نظامی صاحب یہ سب تمھاری نظر میں ہیرو نہیں ہیں؟
"ہیرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟، بھلا یہ سب کیسے ہیرو ہوسکتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ انہیں جانتا ہی کون ہے۔ یہ سب تو ہمارے محلے کے چند نہایت ہی عام سے لوگ ہیں، بھلا یہ کب اور کیسے ہیرو بن گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟”۔
"اگر یہ ہیرو نہیں ہیں تو پھر دنیا کوئی بھی بہادر آدمی میری نظر میں ہیرو نہیں ہے، بہزاد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !, یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اپنے گھروں اور گھر والوں کی سر کی ٹھنڈی چھاؤں ہیں۔ میرے بھائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، تم پر سب سے پہلا حق تمھارے اپنے گھر والوں اور پھر تمھارے محلے والوں کا ہے۔ اگر تم کچھ کرنا ہی چاہتے ہو تو سب سے پہلے اپنے گھر والوں اور محلے والوں کے لیئے کچھ کرو۔ تم اپنی بیوہ ماں کا واحد سہارہ ہو، اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو۔ تمھارا پہلا فرض اپنی ماں ، بہن اور بیوی کے لیئے سر کی چھاؤں بنکر رہنا ہے۔ میں نے ابھی ابھی جو نام تم کو گنوائے ہیں، یہ سب اس نفسانفسی کے دور میں اپنے گھر اور گھر والوں کے سر پر ایک ایسی چھت بن کر تنے ہوئے ہیں، ایک ایسا سایہ دار درخت بنکر لہرا رہے ہیں جو ان پر کبھی دھوپ کی تپش اور بارش کی نمی نہیں آنے دیتے۔ تمھارے سامنے میری بھی مثال موجود ہے میں روزانہ دو نوکریاں کر کے اپنے گھر اور بال بچوں کی ہر ممکن نگہداشت میں مصروف رہتا ہوں”۔
انتا کہہ کر سرفراز سانس لینے کو روکا اور پھر دوبارہ گویا ہوا:۔
"میرے ایک سوال کا جواب دو۔ تم خالہ زینب کو تو جانتے ہی ہونا؟ خالہ زینب کو 70 سال کی عمر میں اس کے جوان بیٹے محض اِس لیئے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے ہیں کہ اُس نے اپنے مرحوم خاوند کی وصیت کے عین مطابق اُس کی زندگی بھر کی محنت اور جمع پونجی سے بنایا ہوا گھر اپنے بیٹوں کے نام کرنے سے انکار کر دیا اور وہ نا خلف خالہ زینب کو اُس ظالم دنیا میں اکیلا چھوڑ کر اپنی اپنی دنیاؤں میں جا بسے۔ تمھیں معلوم بھی ہے کہ اِس اکیلی مفلس بیوہ کی زندگی کیسے گزر رہی ہے۔ اُس کے گھر چولہا کیسے جلتا ہے اور راشن کہاں سے آ رہا ہے، اس کے گھر کے گیس بجلی کے بل کیسے ادا ہو رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ میرے بھائی یہ سارے اخراجات وہ تمام لوگ مل جل کر اٹھا رہے ہیں جن کے بارے میں تم ابھی کہہ رہے تھے کہ انہیں کون جانتا ہے؟ اور یہ کب اور کیسے ہیرو بن گئے؟ اور آج تمھیں چھڑوانے کے لیئے وہ لفافہ جس میں پندرہ ہزار کی رقم تھی وہ کہاں سے آئی؟ وہ رقم ہمارے اِسی خاموش گروپ کے تمام تر ممبران کے ذاتی چندے سے جمع کی گئی وہ رقم تھی جو میرے پاس اِس خاموش گروپ کے خازن کے طور پر رہتی ہے اور ہم اِسے اِس خاموشی کے ساتھ محلے کے ان ضرورتمندوں کی مدد میں اِسطرح سے استعمال کرتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔ نہ کوئی اخباری نمائندہ آتا ہے نا کوئی بریکنگ نیوز بنتی ہے اور مدد کرنے والے مدد بھی کرتے ہیں اور مدد لینے والے کی عزتِ نفس پر کوئی حرف تک نہیں آتا۔ اب تم بتاؤ کیا یہ سب لوگ ہمارے اس محلے، اس شہر اور ہمارے وطنِ عزیز کے اصل ہیرو ہیں کہ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ اور کیا انہیں کسی بریکنگ نیوز یا کسی مارننگ شو میں آنے کی قطعاً کوئی ضرورت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟”۔
سرفراز سانس لینے کے لیئے رکا ہی تھا کہ اچانک محلے کی قریبی مسجد سے فجر کی ازان کی آواز نے دونوں کو چونکا دیا۔ اُنہیں اندازہ ہی نہ ہوا کہ کتنا وقت گز چکا تھا۔
"چلو بہزاد آج تم بھی میرے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے چلو”۔
یہ کہہ کر سرفراز نے بہزاد کا ہاتھ پکڑا اور گھر سے باہر نکل کر مسجد کی طرف چل پڑے۔
مسجد جاتے ہوئے سارے راستے بہزاد مسلسل سوچ رہا کہ شاید آج ہی تو اسے احساس ہوا تھا کہ اصل ہیرو کون تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، اور ہیرو ہوتا کون ہے اور کیوں کر ہیرو بنتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید