FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

آئیں دیدارِ مصطفی کر لیں

 

(کیفیۃ الوصول لزیارۃ سیدنا الرسول)

 

 :تصنیف لطیف :

شیخ حسن محمد عبداللہ شدادبن عمرباعمر حضرمی رحمہ اللہ ورضی عنہ

 

 : ترجمہ و تحقیق :

محمد افروز قادری چریاکوٹی

نظر ثانی       :        علامہ محمد عبد المبین نعمانی قادری  مد ظلہ النورانی

تحریک         :        فضیلت مآب محمد ثاقب رضا قادری عطاری ضیائی

 

 

٭٭٭

اس کتاب کی صرف ایک تہائی پروف ریڈنگ ممکن ہو سکی ہے۔ قارئیں نوٹ فرما لیں کہ اس کا متن قابل اعتبار نہیں۔

 

٭٭٭

 

 

 

 

شرفِ اِنتساب

 

اُس چہرۂ  والضحیٰ کے نام

جو ایک ایسی تابندہ حقیقت ہے

کہ خواب میں بھی نظر آ جائے

تو عین حقیقت ہے۔

 

 

توئی تسکینِ دل آرامِ جاں صبر و قرارِ من

رُخِ پر نور بنُما بے قرارم  یارسول اللہ

 

 

:  مشتاقِ جمالِ نبوی  :

محمد افروز قادری چریاکوٹی

 

 

 

 

روئے سخن

 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَصَلِّ اللّٰہُمَّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ

وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ أجْمَعِیْنَ۔

 

خواب میں وہ جو نظر آئیں تو آنکھیں نہ کھلیں

ایک مدت سے یہ منصوبہ بنا رکھا ہے

یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ کل کائنات کی بادشاہت دولتِ دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔  جن اِقبال مندوں کو مکین گنبد خضرا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا شرفِ غلامی نصیب ہو گیا، وہ نہ شاہانِ زمانہ کے سامنے جھکے، نہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں بکے،  بلکہ آفتابِ رسالت کی کرنوں کی خیرات لے کر پھلتے پھولتے چلے گئے، اور کرۂ  گیتی پر ہرسمت چھا گئے۔

جن بخت آور آنکھوں کو اُس چہرۂ  والضحیٰ کی ایک جھلک نصیب ہو گئی، حسن کائنات کی ساری دلربائیاں اُن کے روبرو ہیچ پڑ گئیں۔  کروڑوں سلام ہو ایسے مبارک چہرے والے مصطفیٰ جانِ رحمت اپر۔ تاجدارِ کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رخِ روشن کی بات کرتے ہوئے اِک قلندر کی گوہر پاشیاں پڑھیے اور وجد میں سر دھنیے  :

’چہروں کی کائنات میں ہر چہرہ ایک الگ کائنات ہے۔ ہر چہرہ الگ مضمون ہے الگ صفت ہے۔ چہرہ مظہرِ اَنوار بھی ہے، حدتِ نار بھی۔۔۔ چہرہ فرشتہ صفت بھی ہے،شیطان صورت بھی۔۔۔ چہرہ رحمانی بھی، حیوانی بھی۔۔۔ شیر کی طرح دلیر چہرہ،سہما ہوا بزدل چہرہ۔۔۔ آئینہ رو چہرہ،بے کیف پتھر چہرہ۔۔۔ خوش خبر چہرہ،بد شگون چہرہ۔۔۔ محتاج چہرہ،غنی چہرہ۔۔۔ خوش حال چہرہ، پائمال چہرہ۔۔۔ آسودہ چہرہ، آزردہ چہرہ۔۔۔ دل میں بسنے والا گلاب چہرہ،آنکھوں میں کھٹکنے والا خار چہرہ۔۔۔ مشتاق چہرہ،بے زار چہرہ۔۔۔ اپنا چہرہ،بیگانہ چہرہ۔۔۔ کافر چہرہ،مومن چہرہ۔۔۔ کرگس چہرہ،شہباز چہرہ۔۔۔ گلنار چہرہ، بیمار چہرہ۔۔۔ خوابیدہ چہرہ، شب بیدار چہرہ۔۔۔ غرضیکہ ہر چہرے کی ایک صفت ہے اور ہر صفت کا ایک چہرہ،  لیکن خوش شکل چہرہ قدرت کی طرف سے عطا ہونے والا ایک پاکیزہ رِزق ہے۔

چہروں کی کائنات میں سب سے زیادہ حسین چہرہ اُس مقدس ہستی کا ہے جس پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں۔  آپؐ کا چہرۂ  مبارک صورتِ حق کا آئینہ ہے۔ آپؐ کا روے اَنور اتنی حقیقت ہے کہ خواب میں بھی نظر آئے تو عین حقیقت ہے۔ جس نے آپؐ کے چہرے کو دیکھا اُس نے چہرۂ  حق دیکھا۔

آپؐ کا چہرۂ  مبارک دیکھنے کے لیے اگر اللہ آنکھ عطا فرمائے تو بات ہے،  ورنہ ہر آنکھ کی رسائی اُس چہرے کی رعنائی تک کہاں ؟۔ہر مسلمان کی مرتے وقت آخری خواہش یہی ہوتی ہے کہ میرے مولا! مجھے آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ دکھا، رحمت و شفقت،اور اَنوار و برکات سے بھرپور چہرہ،جو موت کی دہشت و کرب ناکیوں سے ہمیں محفوظ کر جائے۔

نہ اُس چہرے سے بہتر کوئی چہرہ ہے، نہ اُس چشم حق بیں سے بہتر کوئی آنکھ۔ آپؐ نے چہرۂ  حق دیکھا اور چشمِ حق میں بس آپؐ ہی محبوب ہیں۔  پس سلام و درود ہو والضحیٰ والے چہرے کے لیے، اور تعظیم و سجدہ آپؐ کے بنانے اور چاہنے والے احسن الخالقین کے لیے۔(۱)

وصف رخِ اَنور اور توصیفِ حسن پیغمبر کے حوالے سے سب سے اچھی اور فیصلہ کن بات حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کی ہے،  مگر پھر بھی حق تو یہ ہے کہ حق اَدانہ ہوا   ؎

وَ أحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ     ٭        وَ أجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَائٗ

خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ     ٭         کَأنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَائٗ

یعنی آپ سے زیادہ حسن و کشش رکھنے والا پیکر کبھی میری آنکھوں نے دیکھا ہی نہیں۔  آپ سے بڑھ کرحسین و جمیل مولود کبھی کسی ماں نے جنا ہی نہیں۔  آپ ہر عیب و نقص سے پاک ہیں، گویا آپ اپنی من چاہی صورت میں پیدا کیے گئے۔

اِس مفہوم کو حسان الہند محدثِ بریلوی نے کیا خوب نباہا ہے   ؎

وہ کمالِ حسن  حضور  ہے کہ گمانِ نقص  جہاں نہیں

یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

اور مردِ سیالکوٹ اپنے عارفانہ رنگ میں یوں گہر باری کرتا ہے    ؎

’رخِ مصطفیٰ ہے وہ آئینہ کہ اَب ایسا دوسرا آئینہ

نہ کسی کے چشم و خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں

ایک عربی شاعر نے بھی مدحت رخِ مصطفیٰ کا عجیب مضمون باندھا ہے   ؎

وجہک المحمود حجتنا                ٭      یوم  یأتي الناس بالحجج

یعنی چہرۂ  ساقی کوثر بروزِ محشر ہمارے لیے بہت بڑی دلیل کا کام دے گا،  جس دن لوگ اپنی اپنی دلیلیں لے کر حاضر ہوں گے۔

یہ خوبصورت اِقتباسات یہاں اس لیے نقل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ یہ کتاب دراصل اُسی چہرۂ  والضحیٰ کو دیکھنے کے فوائد و وظائف پر مشتمل ہے۔ وہ چہرہ آج بھی والضحیٰ کی تابانیاں لیے ہوئے ہے، اور وہ سرمگیں آنکھیں آج بھی مازاغ کی اَمین ہیں۔  دیکھنے والی آنکھوں کے سامنے کوئی پردہ نہیں ہوتا، وہ ہر رنگ میں محبوب کو پہچان لیتی ہیں۔  اور چشم گستاخ کے لیے پردہ ہی پردہ ہے، اور حجاب ہی حجاب!۔

ع :  کافر کی نظر اور ہے مومن کی نظر اور

ایک دیکھنے والی آنکھ وہ بھی تھی جو حجابِ موت کے پَرے سے بھی آفتابِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ضیا بار کرنوں کو ہر شب دیکھتی رہی۔(۲) اور بے نور آنکھیں تو اُس وقت بھی چہرۂ  حق نما دیکھنے سے محروم رہیں جب وہ مہر نبوت ٹھیک خط نصف النہار پر تھا۔

دلِ بینا رکھنے والوں کا عالم تو یہ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی لذتِ دید سے اُن کی آنکھیں سرشار ہیں،  اور ایک لمحے کے لیے بھی اُس چہرۂ  دل رُباسے دوری کا عذاب برداشت نہیں کرسکتیں،  اور بے تابانہ کہہ اُٹھتی ہیں کہ’ اگر وہ رخِ روشن ایک لمحے کے لیے بھی ہماری نگاہوں سے اُوجھل ہو جائے تو ہم اُس لمحہ خود کو مؤمن تصور نہ کریں۔ (۳)

دِل کے آئینے میں ہے تصویرِ  یار    ٭     جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

بلکہ اہل نظر اور دیدہ ور کے نزدیک تو معاملہ اِس سے بھی آگے کا ہے، وہ تو حالت بیداری ہی میں اُس مکین گنبد خضرا کی زیارت سے شرف یاب ہوتے رہتے ہیں،   مگر کور چشموں اور ظاہر بینوں کو کوئی کیسے سجھائے اورسمجھائے۔  شاعر مشرق عاشق صادق علامہ اِقبال نے اپنے ایک خط میں اِس راز سے پردہ اُٹھایا ہے،  وہ رقم طراز ہیں  :

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت مبارک ہو، اس زمانہ میں یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندہ ہیں،  اور اِس زمانے کے لوگ بھی آپ کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابۂ  کرام ہوا کرتے تھے،  لیکن اِس زمانہ میں اِس قسم کے اِعتقاد کا اِظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہو گا،  اس لیے خاموش رہتا ہوں۔ (۴)

اس عقدے کی تشفی بخش تحلیل شیخ الاسلام والمسلمین اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا محدث بریلوی کے ملفوظات میں یوں ملتی ہے،  وہ فرماتے ہیں  :

انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کی حیات حقیقی، حسی اور دنیاوی ہے۔ وعدۂ  الٰہی کے مطابق اُن پر محض ایک آن کے لیے موت طاری ہوتی ہے، اور فوراً بعد ان کو حیات عطا فرما دی جاتی ہے۔ اس حیات پر وہی اَحکاماتِ دنیاوی ہیں : ان کا ترکہ نہ بانٹا جائے گا، ان کی اَزواج کو نکاح حرام، نیز اَزواجِ مطہرات پر عدت نہیں،  وہ اپنی قبور میں کھاتے پیتے ہیں،  نمازیں پڑھتے اور حج کرتے ہیں،  مٹی اُن کو نہیں کھا سکتی، اللہ تعالیٰ ان کو حیاتِ ابدی کے ساتھ زندگی بخش دیتا ہے یعنی ان کی یہ حیات دنیا کی سی ہے۔(۵)

تو  زندہ  ہے  واللہ  تو  زندہ  ہے  واللہ

مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں بھی وہ پاکیزہ اور تاب دار آنکھیں عطا کرے جو خواب کے کینوس پر دیدارِ نبوی کی سعادت بخشنے کے ساتھ ساتھ جیتے جی بھی جمالِ یار کے دیدار سے بہرہ ور کرسکیں۔ آمین یارب العالمین۔

صاحب کتاب : سرزمین یمن اپنی گوناگوں خصوصیات و اِمتیازات کے باعث صدیوں سے اہل محبت کے دلوں کی دھڑکن بنی ہوئی ہے۔ اور اہل یمن سے محبت و شیفتگی اہل ایمان کے جذبۂ  دروں کا اَٹوٹ حصہ ہے۔ پیارے آقا رحمت سراپا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ’(اے باشندگانِ یمن!) میں تم میں سے ہوں۔ (۶) اور بسا اَوقات مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یمن کی جانب روئے مبارک کر کے فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں یمن کی طرف سے رحمت کی ہوا آتی ہوئی محسوس کرتا ہوں۔ ‘‘

کچھ شخصیات جگہوں سے پہچانی جاتی ہیں جب کہ کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں جن کی شناخت شخصیتوں سے کی جاتی ہیں۔  یمن یقیناً ایسی ہی جگہوں میں شامل ہے جسے عاشق صادق، محب رسول حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے قدموں کے لمس نے جگ جگ روشن و مشہور کر دیا ہے۔ حضرموت اُسی یمن کا ایک عظیم شہر ہے جہاں سے علم و فن اور فضل و کمال کے بہت سے آفتاب و ماہتاب طلوع ہو کر ایک دنیا کو نوروسرور کی خیرات بانٹ گئے ہیں۔  مصنف کتاب علامہ شیخ فقیہ حسن محمد عبداللہ شداد بن عمر با عمرعلیہ الرحمہ کا تعلق خیر سے اسی مردم خیز اور علم نواز خطے سے ہے۔ وہ شافعی المذہب، اورسلسلہ رفاعیہ کے عظیم شیخ طریقت ہیں،  شہر محبت مدینہ الرسول میں مدتوں انھیں شرفِ قیام حاصل رہا ہے۔

سالِ گزشتہ علامہ شیخ حبیب عمر بن سالم الحفیظ  مدظلہ العالی  کیپ ٹاؤن تشریف لائے تو ان کے ساتھ کئی ملاقاتیں رہیں،  بلکہ ایک محفل میں ان کے خطاب کی انگریزی زبان میں ترجمانی کرنے کا شرف بھی ملا۔ پھر عشائیے میں تا دیر مختلف موضوعات زیر بحث رہے۔ شیخ حبیب عمر شریعت و طریقت میں حضرموت تریم کی سربرآوردہ شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔  عجب اِتفاق کہ موصوف محمود کے توسط سے کچھ فوائد و وظائف بھی اس کتاب کی زینت ہیں،  تو دورانِ ترجمہ اُن کی یہ باتیں وہ یادِ ماضی تازہ کر گئیں۔  حضرموت، تریم کے اندر موصوف کا  مشہور و معروف اِدارہ ’دار المصطفیٰ‘  علم ظاہرو فقہ باطن کے فروغ میں ناقابل فراموش خدمات انجام دے رہا ہے۔

شیخ حسن محمد عبداللہ شداد کی کچھ کتابوں کے اَسماے گرامی حسب ذیل ہیں،  اِن کتابوں کا آپ صرف نام پڑھیں،  تو آپ کو اندازہ ہو چلے گا کہ مصنف محمود کو عشق رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کیسی فنائیت نصیب ہے،اور ایسا لگتا ہے جیسے اُن کا قلم سیرتِ احمد مختار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہٹ کر چلنا ہی نہیں چاہتا، اور توصیف پیغمبر علیہ السلام کے سوا کچھ رقم ہی نہیں کرنا چاہتا، گویا جملہ حقوق برائے عشق رسول محفوظ  :

٭        فیض الأنوار في سیرۃ النبي المختارﷺ۔

٭        خصائص الأسرار في نظم الاستغفار وصلوات علی النبي المختارﷺ

٭        نفحات الفوز والقبول في الصلوٰۃ علی الرسول ﷺ۔

٭        الفتح التام للخاص والعام في الصلوٰۃ والسلام علی سیدنا محمد خیر الأنام

٭        الرحمۃ الشاملۃ في الأربعین الفوائد الحاصلۃ لمن صلیٰ وسلم علیہ

٭        البشر والابتہاج في قصۃ الإسراء والمعراج

٭        الکنوز المخفیۃ في مدح خیر البریۃ علی نمط الہمزیۃ

٭        الصلوٰۃ مفتاح الجنۃ فیما جاء في الکتاب والسنۃ

٭        سر الوصول في الصلوٰۃ والسلام علی الرسول علی الحروف المہملۃ

٭        نیل الشفاء في سیرۃ المصطفیٰ ﷺ

٭        الغنیمۃ في المبشرات العظیمۃ

٭        المسک والطیب في مدائح الحبیب ﷺ

٭        الحبل المتین في المواطن الأربعین في الصلوٰۃ علی النبي الأمین (نظما)

٭        المورد الأہنیٰ في نظم أسماء الحسنیٰ

٭        اللؤلؤ والمرجان في نظم أسماء حبیب الرحمٰن ﷺ

٭        حلیۃ الدنیا والدین في مدح الأولیاء والصالحین

٭        النور الراسخ في إسناد الوالد من السادات والمشائخ

٭        الکوکب الساعي في ترجمۃ وسیرۃ سیدي أحمد الرفاعي

٭        فوز الدارین في مناقب أبي العلمین

٭        الفضل والإمداد في ترجمۃ الوالد الشیخ محمد عبد اللہ شداد۔

یہ جملہ گراں مایہ کتابیں اس لائق ہیں کہ انھیں اُردو میں منتقل کیا جائے، اور اُن سے اِستفادے کا دائرہ وسیع کیا جائے۔  ع:   مردے از غیب بروں آید وکارے بہ کند۔

اِن میں سے بیشتر کتابیں دنیائے نشر و اِشاعت کے معروف مکتبہ ’دار الکتب العلمیۃ بیروت،  لبنان،  نیز دیگر مشہور و ممتاز اِداروں سے شائع ہو چکی ہیں۔

اِس کتاب کی اہمیت کا اَندازہ اُن معرکۃ الآرا تقاریظ سے ہوتا ہے جو مقتدر اکابر و اَساطین اُمت نے نثر و نظم میں اِس کتاب کے حوالے سے تحریر فرمائی ہیں : مثلاً شیخ محمد بن علوی المالکی الحسنِی۔۔۔ شیخ عبدالقادر بن احمد السقاف۔۔۔ شیخ حبیب احمد مشہور الحداد۔۔۔ شیخ محمد بن احمد بن عمر شاطری،جدہ۔۔۔ شیخ عبد الرحمن بن سالم البیض،جدہ۔۔۔ شیخ کمال عمر اَمین، مدینہ منورہ۔۔۔ شیخ عبد القادر جیلانی سالم خرد۔۔۔ شیخ صالح الشیخ العباسی،شام ۔۔۔شیخ احمد البدوی شیخ بن شیخ عثمان البراوی، براوہ۔۔۔ شیخ عبد الرحمن بن احمد بن عبد اللہ بن علی الکاف الہجرانی۔۔۔شیخ محمد بن سعید بن عبد اللہ بن سالم باعلوی وغیرہ۔ یہ شخصیتیں اپنی ذات میں ایک اِدارے کی حیثیت رکھتی ہیں اور عالم عرب میں ا تھارٹی سمجھی جاتی ہیں۔

یہ معرکۃ الآرا کتاب ہمیں برادرِ دینی و یقینی فضیلت مآب محمد ثاقب رضا قادری کی عنایت سے موصول ہوئی۔ پہلی فرصت میں اس کا مطالعہ کیا، اور پھر اس کی اہمیت و وقعت کو دیکھتے ہوئے اسے جامہ اُردو پہنانے کا فیصلہ کر لیا،  کیوں کہ ایسے موضوعات پر خامہ فرسائی میری ترجیحات میں سے ہے جن سے ذخیرۂ  اُردو ابھی تک مالا مال نہیں ہوا۔

قبل اَزیں ’وقت ہزار نعمت۔’مرنے کے بعد کیا بیتی؟۔’بچوں کی اَخلاقی تربیت کے لیے کہانیوں کے ساتھ چالیس حدیثیں وغیرہ کی شکل میں ہم اپنے اس دعوے پر روشن ثبوت فراہم کر چکے ہیں۔  چند ماہ کے اندر ان کتابوں کا پہلا ایڈیشن ختم ہو جانا اور معاً پاکستان میں اُن کتابوں کا اِشاعت پذیر ہو کر تمغہ قبولیت پا لینا یقیناً کرشمہ فضل الٰہی اور عنایت رسالت پناہی ہی ہے۔فلہ الحمد والمنَّۃ۔

میری اپنی ناقص معلومات کے تئیں دیدار مصطفیٰ اور زیارتِ نبوی کے وظائف و فوائد کے تعلق سے اُردو میں شاید کوئی مستقل کتاب نہیں۔  بس اِسی اِحساس کو مد نظر رکھ کر کوئی ٹال مٹول کیے بغیر ۱۸/ شوال کو میں نے ترجمے کا آغاز کر دیا۔ اس بیچ دیگر مصروفیات بھی رہیں،   مگر بفضلہ تعالیٰ ہفتہ دس دن کے اندر ہی یہ کام مکمل ہو گیا۔

حلقہ اُردو داں اور بزم یارانِ نکتہ داں ہر دو طبقہ کی خدمت میں یہ عاجزانہ کوشش پیش کی جا رہی ہے۔ کتاب کے فوائد کو پڑھ کر اگر کوئی مقصود آشنا ہو گیا، اور اسے چہرۂ  والضحیٰ کی زیارت وسعادت نصیب ہو گئی تو ہم سمجھیں گے کہ ہماری کوشش ٹھکانے لگ گئی ہے۔

مشکور ہوں اُن شخصیات کا جنھوں نے اس کوشش کو پایۂ  تکمیل تک پہنچانے میں کسی طرح کا بھی علمی وفکری تعاون پیش کیا، اور میرے ہر قلمی سفر کے دوران حضور نعمانی صاحب قبلہ کی جو شفقتیں اور عنایتیں توشہ و زادِ راہ کا کام کرتی رہتی ہیں اُن کے لیے شکرو سپاس کے جو جذبات درونِ دل پنہاں ہیں حرف و صوت سے اُن کی تعبیر ممکن نہیں،  بس اللہ ہی اُن کی بے لوث خدمات کا انھیں بے اِنتہا اَجر عطا فرمائے، اور ان کی سرپرستی کا سحابِ کرم تا دیر ہم پر چھائے رکھے۔

اے رب مصطفیٰ اور خدائے محمد! ہمیں بھی زیارتِ نبوی اور دیدارِ مصطفوی کی دولت بے دار سے ہمکنار فرما، اور بار بار فرما۔ کریم آقا! بہت جی چاہتا ہے کہ کبھی اُس چہرے کو دیکھیں جسے تو نے والضحیٰ کہا، اور اُن زلفوں کی زیارت کریں جنھیں تو نے واللیل کہہ کے یاد فرمایا۔ مولا! وہ چہرہ کتنا عظیم چہرہ ہے کہ جب آسمان کی طرف اُٹھتا ہے تو وحی الٰہی اس کی ناز برداری کے لیے اُتر آتی ہے: قَدْ نَریٰ تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ۔ پروردگار! اس چہرے کو دکھا کر ہمارے تاریک تن من کو درخشاں اور نور بداماں فرما دے۔آمین۔

اللّٰہُمَّ إنِّي آمَنْتُ بِسَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَلَمْ أرَہٗ فَلاَ تَحْرِمْنِي فِي الْجِنَانِ رُؤیَتَہٗ،  وَارْزُقْنِي صُحْبَتَہٗ وَتَوَفَّنِي عَلیٰ مِلَّتِہْٖ وَاسْقِنِي مِنْ حَوْضِہٖ مَشْرَبًا رَوِیًّا سَائِغًا ھَنِیْئًا لاَّ نَظْمَأ أبَدًا إنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْرٌ۔

 

محمد افروز قادری چریاکوٹی

دلاص یورنیوسٹی، کیپ ٹاؤن،افریقہ

یکم ذی قعدہ: ۱۴۳۳ھ۔مطابق ۳۰/اکتوبر۲۰۱۱ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)       دل دریا سمندر،واصف علی واصف:۹۱،  ۹۲۔

(۲)      الذخائر المحمدیہ، سیدعلوی مالکی: ۲۔

(۳)     لواقح الانوار فی طبقات الاخیار، معروف بہ طبقات کبریٰ، امام شعرانی: ۲/۱۳۔صاحب واقعہ شیخ احمد ابوالعباس المرسی علیہ الرحمہ ہیں۔

(۴)     مکاتیب اقبال بنام نیاز الدین خان، خط نمبر:۱۲صفحہ:۴۰بحوالہ بیداری میں زیارتِ مصطفیٰ:۱۹۔

(۵)     ملفوظات شریف:۳/۳۲۔

(۶)  ترمذی:۱۴/۱۲۲حدیث:۴۳۲۸۔۔۔ جامع الاحادیث سیوطی: ۱۰/ ۴۳۹ حدیث: ۹۹۹۲۔۔۔ مسند احمد بن حنبل:۴/۱۲۹حدیث: ۱۷۲۰۶۔۔۔ مسند ابو یعلی موصلی:۱۵/۱۹۳ حدیث: ۷۲۲۲۔

٭٭٭

 

 

 

 

تقریظ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

الحمد للّٰہ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید المرسلین سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہٖ أجمعین، أما بعد!

 

فإن فضیلۃ الشیخ حسن محمد شداد من الرجال المخلصین في الدعوۃ إلی اللّٰہ وجمع القلوب علی الحبیب المحبوب بکتبہ وقصائدہ ومذاکرتہ۔

                        وقد کان والدہ رحمہ اللّٰہ إماما من الأئمۃ، وعلما من أعلام السنۃ، عاش کل عمرہ داعیاً ومعلما ومرشداً وواعظاً وسائحا في سبیل اللّٰہ۔

                        ولاشک أن ولدہ حسن ہٰذا من برکۃ عملہ الصالح نسأل اللّٰہ أن یوفقہ ویسدد خطاہ و أن یوفقہ لما فیہ رضاہ۔

وصلی اللّٰہ علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وسلم۔

کتبہ:

محمد بن علوي المالکي الحسني

 

 

مکۃ  المکرمۃ

 

 

تقریظ جلیل

 

محدثُ الحرمین الشریفین حضرت علامہ سیدمحمد بن علوی مالکی علیہ رحمۃ اللہ القوی

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے شروع

خطبہ مسنونہ کے بعد!

فضیلۃ الشیخ حسن محمد شداد اُن سعادت نصیبوں میں سے ہیں جو خالصۃً لوجہ اللہ الکریم دعوتِ دین کے عمل سے وابستہ ہیں۔  اور اپنی کتب و قصائد اور مجالس ذکر و فکر سے ہر ممکن کوشش کر کے لوگوں کے دلوں کو نقطہ محبت رسول پر جمع فرما رہے ہیں۔

آپ کے والد گرامی رحمہ اللہ کا شمار اَکابر ائمہ میں ہوتا تھا۔ اہل سنت کے وہ ایک عظیم ستون تھے۔ ساری عمر داعیانہ گذاری، لوگوں کو زیورِ علم سے آراستہ کیا، راہِ ہدایت سجھائی، پند و نصیحت کی بساط بچھائی، اور فی سبیل اللہ دورے کرتے رہے۔

اُن کا یہ بیٹا حسن محمد شداد بے شک اُن کے عمل صالح کی برکت کا عطیہ ہے۔ خدا کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اِنھیں توفیق خیر سے نوازے، اِنھیں ثبات قدمی نصیب فرمائے، اور اپنی رضا کے کام کرنے کی توفیق اُن کے رفیق حال کر دے۔

کتبہ

سیدمحمدبن علوی مالکی حسنی

مکہ معظمہ

 

 

 

نوٹ:      اِس طرح اجلہ علما و مشائخ کی بیسیوں تقاریظ اس کتاب کی زینت ہیں،   مگر ہم نے بطورِ برکت صرف ایک کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے نیز طوالت سے بچتے ہوئے بقیہ کو قصداً حذف کر دیا ہے۔ ہاں ! ان مقرظین کے اسمائے گرامی لکھ دیے ہیں۔  شائقین حضرات اصل کتاب کی طرف رجوع فرمائیں۔             چریاکوٹی

 

 

 

 

مقدمہ کتاب

 

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

الحمد للّٰہ الذي غمر العباد باللطائف والإنعام وعمر القلوب بالتعلق لحضرۃ صاحب المقام، وغذی الأرواح بذکرہ المنیف في طول الدوام، حتیٰ انسجمت الأرواح خیر الانسجام، وأضاء لہا النور التام، وأفضل الصلوٰۃ وأزکی السلام علیٰ سیدنا محمد خیر الأنام، القائل: من رآني في المنام فقد رآني حقا،  فإن الشیطان لا یتمثل بي۔ 

اللّٰہم صل وسلم علیٰ ہٰذا النبي العربي الہاشمي الیثربي وعلیٰ آلہ وأصحابہ وأنصارہ وأحبابہ وأتباعہ وأحزابہ، الذین تعلقوا بہ صدقا حتیٰ تلذذوا بلذیذ خطابہ، وسقاہم من شرابہ، وارتووا من میزابہ، وتخلقوا بأخلاقہ، وتأدبوا بآدابہ، واعتکفوا حول أعتابہ، ووقفوا علیٰ فناء بابہ، وتفیؤا تحت ظل رحابہ، والتابعین لہم بإحسان إلی یوم الدین، والحمد للّٰہ رب العٰلمین۔

تحفہ حمد و نعت پیش کرنے کے بعد عرض ہے کہ کتنے ہی خوش بخت ایسے ہیں جو ہمہ  وقت مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت و تعلق کا دم بھرتے، اور دیوانہ وار بابِ نبوت کے پھیرے لگاتے رہتے ہیں۔  رحمت الٰہی ایسے لوگوں کا نہ صرف اِستقبال کرتی ہیبلکہ اُن اِقبال مندوں کے لیے پردے بھی اُٹھا دیے جاتے ہیں (اور پھر وہ کھلی آنکھوں دیدارِ یار سے ہمکنار ہوتے ہیں )۔

کچھ عقیدت مندوں نے مجھ سے دیدارِ مصطفیٰ علیہ السلام کی سعادت پانے کے تعلق سے ایک عمدہ کتاب لکھنے کا مطالبہ کیا، تاکہ اُس کی روشنی میں وہ اپنا گوہر مراد حاصل کر لیں۔  دراصل اُن کا گمان ہے کہ میں علم کا بڑا دھنی شخص ہوں،  بلکہ کچھ تو یہاں تک سمجھ بیٹھے ہیں کہ میں علم کا سمندر ہوں،   حالانکہ میری حقیقت پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں،   تاہم کسی کے بارے میں حسن ظن رکھنا اچھی خو ہے، خواہ وہ میری ہی بابت کیوں نہ ہو!۔

(پھر کیا تھا!) میں نے اِس تعلق سے جب اِستخارہ کیا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کارِ خیر کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور میرے دل میں فرحت کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ چنانچہ ذاتِ خداوندی پر بھروسہ کر کے اِس کام کو کر گزرنے کا میں نے عزم کر لیا، اِس اُمید پر کہ شاید لوگوں کی نیک دعائیں میری دنیا و آخرت کے کام بنا جائیں۔  اور اَجرو ثواب کی توقع محض اللہ جل مجدہ ہی سے رکھی جا سکتی ہے، بے شک وہی بے اِنتہا کرم و عطا کرنے والا ہے۔

تکمیل کتاب اور اپنے مقصد و مراد میں کامیابی عطا ہونے کے بعد میں نے اس کا یہ نام تجویز کیا: ’مغناطیس القبول في الوُصول إلی رؤیۃ سیدنا الرسُول صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعلیٰ آلہٖ وصحبہ الفحول‘۔ بس دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ میری اِس عاجزانہ کاوِش کو اپنے کریمانہ قبول سے سرفراز فرمائے۔آمین۔

وصلی اللّٰہ علی سیدنا محمد وعلیٰ اٰلہٖ وصحبہٖ وسلم

والحمد للّٰہ رب العالمین۔

 

۱۲/ربیع الانور ۱۴۰۸ھ

مصنف:  حسن محمد عبد اللہ شداد بن عمر باعمر

مترجم:  محمد اَفروز قادری چریاکوٹی

 

 

 

 

مقدمہ طبع دوم

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ َہَدَانَا لِہٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِيَ لَولاَ أنْ ہَدَانَا اللّٰہُ والصلوٰۃ والسلام علیٰ برج الکمال في سمآء اللّٰہ سیدنا محمَّد بن عبد اللّٰہ وعلیٰ آلہٖ وأصحابہٖ ومن والاہ۔۔۔وبعد !۔۔۔

 

جس خوش بخت کو خیر سے کوئی شیریں پنگھٹ نصیب ہو جائے، وہ وہاں سے سیراب ہو کر کیوں نہ اُٹھے!۔ رسولِ گرامی وقار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے  :

إنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَإنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئٍ مَّا نَوَی۔  (۱)

یعنی اَعمال کا مدار نیتوں پر ہوتا ہے، اور ہر کوئی اپنی نیت کے مطابق پاتا ہے۔

(اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ) یہ اِس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ اس کتاب کی پذیرائی اور لوگوں میں مقبولیت کا راز اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسے اپنے کریمانہ قبول سے بہرہ ور کر دیا ہے۔ اور وہ مالک ومولاجس پرجتنا چاہے فضل فرما دے، اس کے فضل کی نہ کوئی حد ہے، نہ ٹھکانہ۔

تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت وعقیدت کا چراغ لوگوں کے دلوں میں فروزاں کرنے کی غرض سے یہ ایک ادنیٰ سی کاوش تھی،  (اس کی ضرورت کچھ اس لیے بھی محسوس کی گئی کہ ) عظمتِ نبوت کے گن گائے، اور محبتِ رسول کے شہد چکھے بغیر نہ کسی کا اِیمان کامل ہو سکتا ہے،  اور نہ ہی ثمر آور،  بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ بھی کیا اِیمان ہوا جو محبت و عشق رسول سے خالی ہو!۔

سید محمد سعید بیض نے اس کتاب کی تقریظ میں مندرجہ ذیل مصرعی کے ذریعہ مجھے اس کی بشارتِ قبولیت پیش کی ہے   ؎

’لمغناطیس باعمر القبول

یعنی شیخ (حسن محمد شداد)باعمر کی کتاب یقیناً تمغہ قبولیت سے سرفرازہو گی۔

اِس کتاب کے اندر زیارتِ نبوی اور دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے سے کیا کچھ جواہر پارے پوشیدہ ہیں وہ قارئین با تمکین پر مخفی نہ ہو گا۔ اور پھر یہ شرف بھی کیسا عظیم شرف ہے!، نہ اِس سے بڑھ کر کسی سعادت کا تصور ہو سکتا ہے!!، اور نہ ہی اِس سے سربلند کوئی رتبہ !!!۔

اَمر واقعہ  یہ ہے کہ اِس کتاب کی برکت سے اہل صدق و صفا کی مراد بر آئی۔ اَربابِ عشق و محبت فلاح یاب ہوئے، اوراِس کے ذریعہ انھیں ’ یوسفِ گم شدہ کا پتا چل گیا۔ پھر کیا ہوا!اُن کے حال اَحوال بدلنا شروع ہو گئے، ظاہر و باطن سنور نکھر گئے، اور اُمیدوں کے دیے جل اُٹھے، جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے پردۂ  خواب پر دیدارِ محبوبِ کردگار سے اُن کی آنکھیں ٹھنڈی فرما دیں۔

کتاب کا پہلا ایڈیشن طبع ہونے کے بعد میں ملک شام کے دورے پر تھا کہ کچھ اَحباب نے آ کر مجھے بتایا کہ اِس کتاب کے فوائد پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں اللہ جل مجدہ نے انھیں خواب میں دیدارِ مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دولت بے بہا سے سرفراز کر دیا ہے۔

ایک مصنف کے لیے اِس سے بڑھ کر شرف و اِعزاز اور کیا ہو سکتا ہے! (اگر اُس کی کاوشوں کے نتیجے میں کسی کی آنکھیں جلوۂ  ماہتابِ نبوت ا کی خیرات پالیں )۔ قابل مبارک باد ہیں وہ لوگ جن کے نفس پاکیزہ اور دل کی دہلیز شفاف ہے،  کیوں کہ ایسے ہی لوگ نوازے اور سرفراز کیے جاتے ہیں۔

مستزاد یہ کہ بعض اَحباب نے اِس کتاب کو (عالمی زبان) انگریزی میں منتقل کرنے کی مجھ سے اِجازت طلب کی،  تاکہ اِس سے اِستفادے کا دائرہ مزید وسیع ہو سکے توہم نے اِفادۂ  عام کی غرض سے اس کی منظوری دے دی، اور نیتوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔

اب اِس دوسرے ایڈیشن میں ہمیں اِحساس ہوا کہ اِس کتاب کا نام کچھ مختصر ہونا چاہیے تو پھر یہ تجویز پایا: کیفیۃ الوُصول إلی رؤیۃ سیدنا الرسولﷺ۔

مقصد صرف اِتنا ہے کہ جس طرح خواص نے اِس کتاب سے بھرپور فائدہ اُٹھایا، یوں ہی عوام بھی اس کے فیوض و برکات سے مالامال ہوں،  اور دور قریب ہر ایک کے لیے اس سے اِستفادہ عام ہو۔ اور یقیناً اس کا فیضان ہر اُس شخص تک پہنچے گا ’جو صاحبِ دل ہے (یعنی غفلت سے دوری اور قلبی بیداری رکھتا ہے) یا کان لگا کر سنتا ہے(یعنی توجہ کو یکسو اور غیر سے منقطع رکھتا ہے) اور وہ (باطنی)مشاہدہ میں ہے (یعنی حسن اُلوہیت اور جمالِ نبوت کی تجلیات میں گم رہتا ہے)۔(۲)

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہماری باتوں پر گواہ ہے، اور راہِ راست کی ہدایت بس اُسی کی طرف سیہے۔ وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ و اصحبہٖ وسلم۔

۔۔۔۔۔

(۱)       صحیح بخاری:۱/۳حدیث:۱۔۔۔ سنن ابوداؤد:۶/۱۱۸حدیث: ۱۸۸۲۔۔۔ سنن ابن ماجہ:۱۲/ ۲۷۴ حدیث: ۴۲۱۷۔۔۔ معجم اوسط طبرانی:۱/۴۳ حدیث: ۴۰۔۔۔ مسند حمیدی:۱/۲۷ حدیث: ۳۱۔۔۔ مسند شہاب قضاعی: ۴/۲۸۰ حدیث: ۱۰۸۵۔۔۔ معرفۃ السنن والآثار بیہقی:۶/۴۲۹۔

(۲)      سورۂ  ق:۵۰/۳۷۔

٭٭٭

 

 

 

آغاز

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمْدُ للّٰہ ربِّ العٰلمین، والصلوٰۃ والسَّلام علیٰ من أرسلہ اللّٰہ

    رحمۃ للعٰلمین، سیدنا محمَّد وعلیٰ آلہ وصحبہٖ أجمعین

اے میرے پروردگار! تیری حمد و ثنا کا سہارا لے کر تیرے ہی مبارک نام سے آغاز کر رہا ہوں ۔۔۔ تجھی سے مدد کا طلب گار ہوں ۔۔۔ تیرے ہی محبوب و مکرم رسولِ مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درودوسلام نچھاور کرتا رہتا ہوں ۔۔۔ بس تجھی سے ہر خیر اور بھلائی کا اُمیدوار ہوں ۔۔۔ تیری ہی رضا و خوشنودی کے لیے (کارزارِ حیات میں ) تگ و دو کر رہا ہوں ۔۔۔ تیرے کرم کے طفیل حتیٰ المقدور نیکیوں پر عمل پیرا ہوتا چلا آ رہا ہوں ۔۔۔ تجھی پر میرا ایمان ہے۔۔۔ اور اگر تو نے چاہ لیا تو میرے لیے عذاب سے اَمان ہے۔۔۔ اگر بھروسہ ہے تو بس تجھ پر ہے۔۔۔ تیری ہی مضبوط رَسی تھام رکھی ہے۔۔۔ تیرے دشمنوں سے پناہ مانگتا ہوں ۔۔۔ تیرے فضل واِحسان کاخواستگار ہوں ۔۔۔ تیری ہی رحمت میں مجھے دلچسپی ہے۔۔۔ تیرے عذاب کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔

میں نے ہمیشہ صرف تیرا ہی دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔ اور تیری ہی بارگاہ میں حمد و شکر کے ترانے پیش کیے۔۔۔ جو کچھ بھی تجھ سے اُمیدوآس رکھی ہمیشہ بھرپور ملی۔۔۔ لہٰذا اے میرے پروردگار! آئندہ بھی اپنے فضل و نوال کا یہ سلسلہ میرے لیے قائم و دائم رکھنا۔۔۔ بس تو ہی تو ہمارا رب ہے اور کتنا اچھا رب !۔۔۔ تو ہی مشکلیں چھانٹنے والا، اور ہر لمحہ بھروسے کے قابل ہے۔

اے میرے مالک و مولا! تجھ سے بس تیرا سوال ہے۔۔۔تجھے  تیرے محبوب کا واسطہ! ہم اُن سے اِسی لیے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں کہ تو نے انھیں اپنا محبوب بنایا ہے۔۔۔ اور نہ صرف تو اُن پر درودوسلام بھیجتا ہے بلکہ ہمیں بھی تو نے اُن پر صلوٰۃ وسلام پڑھتے رہنے کا حکم اپنی آخری آسمانی کتاب میں اُتار دیا ہے۔۔۔  اور ایسا کیوں نہ ہو کہ تو نے انھیں اپنے خطاب کی لذت سے مشرف کیا ہے۔۔۔ تو وہ تیرے محبوب و مقرب ترین ہوئے۔۔۔ جن کے لیے تو نے اپنی بادشاہت کے دروازے کھول دیے۔۔۔ رفعتوں کے در کشادہ فرما دیے۔۔۔ اور  اپنی جناب میں حضوری کا شرف عطا کیا۔۔۔ سو وہ بہ ہزار جان تجھ پر نثار ہوئے۔۔۔ اور صدق و اِخلاصِ نیت کے ساتھ تیری بارگاہ میں حاضر ہوئے۔

پھر تو نے اُن کی ہر حاجت بر لائی۔۔۔ اُن پر اور اُن کی اُمت پر لطف خاص کا معاملہ کیا۔۔۔ اور پھر اُن میں،  اور اُن کی آل و اَصحاب و ذرّیت میں تو نے برکتوں کی نہریں بہا دیں ۔۔۔ اُن کی کل اُمت کو تو نے شرف و منزلت سے ہمکنار کیا۔۔۔ اور پھر اپنے محبوبِ عالی وقار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوحسن اَخلاق اور اَوصافِ حمیدہ کی خلعت و کرامت سے بہرہ ور کرنے کے بعد اپنی بے پایاں نعمتوں سے بھی مشرف کیا،  کیوں کہ تیری نگاہ میں اُن کی تعظیم و توقیر اور اِجلال و تکریم بہت زیادہ ہے۔۔۔ تیرے مقدس کلام قرآنِ عظیم کے اندر تیرا یہ فرمان موجود ہے  :

إنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (سورۂ  احزاب:۳۳/۵۶)

بیشک اللہ اور ا س کے(سب) فرشتے نبیِ(مکرم ا) پر درود بھیجتے رہتے ہیں  اے ایمان والو! تم(بھی) ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ فِي کُلِّ وَقْتٍ وَّحِیْنٍ وَّعَدَدَ الاٰلاَفِ وَمَلَایِیْنَ المَلَایِیْنَ وَعَلیٰ اٰلِہٖ وَأصْحَابِہٖ الْمَیَامِیْنَ وَالتَّابِعِیْنَ لَہٗ إلٰی یَومِ الدِّیْنِ، وَسَلاَمٌ عَلَی المُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ۔

کریما، کارسازا،بندہ نوازا، اے رحمن و رحیم، اے قدیم الاحسان، اے ذوالفضل والامتنان، اے فتاح و خلاق و منان، اے وہ ذات جس پر زمین وآسمان اور زمان و مکان کی کوئی چیز مخفی نہیں !۔۔۔ اے گنہ گاروں سے بخشش و غفران، ناکاروں سے فضل واِحسان اور قصور واروں سے عطا و اِنعام کے ساتھ ملنے والے!۔۔۔ تیرا جود و کرم سب پر فائق ہے۔۔۔ تیرا فضل سب پر غالب ہے۔۔۔ تیرا اِحسان ہراِحسان سے بلند تر ہے۔۔۔ اے بندگانِ نیکوکار کو صاحبانِ فضل و عرفان ہونے کی بشارت دینے والے!کہ ہر زمان و مکان میں وہ تیرے مضبوط قلعے میں محفوظ ہوتے ہیں،   اور تو نے شیطان رجیم سے کہا تھا: ’میرے کچھ ایسے بندے بھی ہیں جن پر تیرا بس نہیں چلنے والا!۔(۱)

تو یقیناً یہ وہی بندگانِ خدا ہیں (جن کی بابت تیرے کلام مقدس میں آتا ہے کہ خدائے) رحمن کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب اُن سے جاہل(اکھڑ) لوگ(ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ ’سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے)ہیں۔  اور(یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لیے سجدہ ریزی اور قیامِ (نیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں۔  اور(یہ) وہ لوگ ہیں جو (ہمہ وقت حضورِ باری تعالی میں ) عرض گزار رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے دوزخ کا عذاب ہٹا لے، بے شک اس کا عذاب بڑا مہلک(اور دائمی) ہے۔(۲)

قرآن مجید کی سورۂ  فرقان کی یہ آیاتِ کریمہ اِنسانوں کو دعوتِ فکر دیتی ہیں،   لہٰذا اے عقل  و شعور رکھنے والے اِنسان! پوری تن دہی کے ساتھ اُن بندگانِ خدا کی تعلیمات و ہدایات پر جادہ پیما ہو جا جنھوں نے محسن اِنسانیت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نقش قدم کی پیروی میں  خود کو فنا کر دیا تھا۔ وہی تو ہمارے آئیڈیل اور نیر تاباں ہیں جنھیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کل کائنات کے لیے رحمت سراپا بنا کر مبعوث فرمایا،  سوہمیں خود کو اللہ کے اِس فرمان پر وار دینا چاہیے  :

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَومَ الاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا o (سورۂ  احزاب:۳۳/۲۱)

فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات)ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ(سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی اُمید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔

اگر آپ اِس آیت کریمہ پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اللہ رب العزت نے ہمارا تذکرہ بھی اپنے محبوبِ اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اُسوۂ  حسنہ کے فوراً بعد فرمایا ہے۔ پھر اگر کوئی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نقش قدم کی پیروی ہی نہ کرے، اور آپ کی تعلیمات و ہدایات پر جادہ پیما ہی نہ ہو، تو بھلا اُسے ذکر الٰہی کا کیف کہاں نصیب ہونے والا!۔

لہٰذا اس کے معنی و مفہوم کو دل میں بٹھائیں ۔۔۔ اس کے بحر معرفت میں ڈبکیاں لگائیں ۔۔۔ اور اُس کے نور کا پوشاک زیبِ تن کر کے اُن لوگوں کی صحبتوں میں آ جائیں جو کھلے چھپے ہمہ وقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں ۔۔۔ اور یہ وہی بخت آور لوگ ہیں جن پر اللہ کا خاص الخاص کرم ہوا۔۔۔  اور جن کے دل کے کونوں میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چاندنی اُتری ہوئی ہے  :

إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّونَ أصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ أولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْویٰ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّأَجْرٌعَظِیْمٌ o (سورۂ  حجرات:۴۹/۳)

بے شک جو لوگ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی بارگاہ میں (اَدب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں،  یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوی کے لیے چن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لیے بخشش  اور اجرِ عظیم ہے۔

قوم کرام السجایا أینما جلسوا

یبقی المکان علی آثارہم عطرا

یعنی یہ ایسے کریم خصلت اور شریف الطبع لوگ ہیں کہ جہاں بیٹھ جائیں وہاں اَنوار و برکات کی برسات ہونے لگتی ہے، اور پھر اُن کی جائے نشست اُن کے بعد بھی ہمیشہ کے لیے معطر و معنبر ہو جاتی ہے۔

اِن خوش بختوں نے اپنی ستھری محبت و اُلفت کو دیگر محبتوں کی آلائشوں سے پاک کر کے صرف خواجہ کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے خاص کر دیا، اور وارفتگی عشق میں اس حد تک پہنچ گئے کہ آفتابِ نبوت کی محبت کے آگے اَولاد، والدین، مال و منال اور دنیا جہان کی ساری محبتوں کے دیے اُن کے نزدیک بالکل بے نور ہو کر رہ گئے۔ اور محبت کی اس انتہا پر پہنچنے کا سبب کوئی اور نہیں محض سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمانِ عظمت نشان بنا تھا  :

لاَ یُؤمِنُ أحَدُکُمْ حَتیّٰ أکُوْنَ أحَبَّ إلَیْہِ مِنْ نَّفْسِہٖ وَمَالِہٖ وَوَلَدِہٖ وَوَالِدِہٖ وَالنَّاسِ أجْمَعِیْنَ۔  (۳)

یعنی تم میں کوئی اُس وقت تک مومن ہو ہی نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان و مال، اولادو والدین اور دنیا جہان کے سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں !۔

تو جب اُن خوش بختوں کی محبت درجۂ  کمال کو پہنچ کر دل کے در و بام میں اُتر گئی۔۔۔  آداب و اَخلاق کی خوشبوؤں میں خود کو رچابسا لیا۔۔۔ ان کے نقش قدم پر بک ٹُٹ چل  پڑے۔۔۔ ان کے خطاب کی حلاوت کانوں کے اندر اُتار لیا۔۔۔ اُن کے سایۂ  کرم کے نیچے خود کو چھپا لیا۔۔۔ اور اُن کے درِ جود پر کھڑے ہو کر فریاد کی،  تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی معرفت کے خزانے اُن کے لیے وا فرما دیے۔۔۔ اور پھر صاف و شفاف خدائی پنگھٹ سے سیراب کر کے انھیں اہل یمین میں سے کر دیا۔

پھرسلسلۂ  کرم اور آگے بڑھا، اُن پر قیمتی موتیاں نچھاور ہوئیں ۔۔۔ وہ مقامِ بلند پر فائز ہوئے۔۔۔ انھیں فضل و اِنعام کی خیرات ملی۔۔۔ اور پھر سیدکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔۔۔ اَب اُن کے شب و روز اور ظاہر و باطن اُسی رنگ محبت میں رنگے نظر آتے،اور یہی اُن کی منزلِ مقصود بن گئی،  تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے صلے میں اُن پر وہ بخششیں اور عطائیں کیں کہ جن سے حرف و صوت آشنا نہیں ہو سکتے۔

ڈبکیاں لگانے والے جب اُس بحر محمدی میں غوطہ زن ہوئے تو صدف بن کر باہر نکلے۔۔۔ پھر اُن کی زندگی کا بس یہی معمول بن کر رہ گیا کہ اپنے محبوب کی سنہری باتیں سنتے، اور دوسروں کو سناتے پھرتے تھے۔ مبارک ہو ایسے خوش بختوں کو یہ سعادتِ ارزانی! اِسے اللہ کریم کے فضل کے سوا اور کیا نام دیا جائے!،بے شک وہ فضل کرنے والاجس پر جب چاہے اور جتنا چاہے فضل فرما دے، کہ وہ تنہا فضل عظیم کا مالک ہے۔

پھر جب تاجدارِ عرب و عجم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تعلق و نسبت کی جڑیں اُن کے دلوں میں پیوست ہوتی گئیں،  اور روحِ محمدی اُن کے وجود میں رچ بس گئی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فضل و کرم کے سوغات کے طور پر انھیں پردۂ  خواب پر زیارتِ نبوی اور دیدارِ مصطفوی سے شادکام فرما دیا۔ اور پھر ’یہ شرفِ باکمال ملا جس کو مل گیا!۔ ایک عاشق صادق کی اِس سے بڑھ کر نہ کوئی خواہش ہو سکتی ہے اور نہ تمنا!!۔

ایک سچے دردِ عشق رکھنے والے سے پوچھیں تو وہ یہی کہے گا کہ جان و مال بلکہ جہان کی بادشاہت فدا، اگر وہ آمنہ کا لعل جلوہ دکھا جائے، اور اگر وہ محبوبِ سبحانی اپنا دیدار کرا جائے۔ دنیا کی کسی چیز کو اُن کے بالمقابل نہیں لایا جا سکتا!۔

ایک عاشق  اُن کی محبت کے بدلے کائنات کی ہر چیزکو اِشارۂ  اَبرو پر قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے توسمجھ لیں کہ اُسے معراجِ ایمان کی سند نصیب ہو چکی ہے۔۔۔ اس کا پلڑا بھاری، اس کا دعویٰ دلیل آشنا،اور اس کا مرتبہ و مقام ثریا نشان ہو چکا ہے۔

ظاہر ہے اَب اُس کے معاصرین اُسے للچائی نگاہوں سے نہ دیکھیں تو کیا کریں !، اس کے دوست آشنا اُس کی منزلت پر اَب صرف رشک ہی کرسکتے ہیں !!۔

بخت آور ہے وہ شخص جسے اُس کا یوسف گم شدہ مل گیا، جسے دیکھ کر اس کی آنکھیں حقیقی معنوں میں ٹھنڈی ہو گئیں۔  کاش! کوئی اِس فرمانِ سعادت نشان پر عمل پیرا ہو کر تو دیکھے  :

لاَ یُؤمِنُ أحَدُکُمْ حَتیّٰ أکُوْنَ أحَبَّ إلَیْہِ مِنْ نَّفْسِہٖ وَمَالِہٖ وَوَلَدِہٖ وَوَالِدِہٖ وَالنَّاسِ أجْمَعِیْنَ۔

یعنی تم میں کوئی اُس وقت تک مومن ہو ہی نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان و مال، اولادو والدین اور دنیا جہان کے سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں !۔

***

(۱)       سورۂ  حجر:۱۴/۴۲۔۔۔سورۂ  اِسرائ: ۱۷/۶۵۔

(۲)      سورۂ  فرقان:۲۵/۶۳تا۶۵۔

(۳)     صاحب کتاب نے یہاں حدیث کا جو صیغہ ’من نفسہٖ و مالہٖ کے اِضافے کے ساتھ رقم فرمایا ہے، وہ تو ہمیں اپنے محدود علم کے مطابق ذخائر حدیث میں کہیں نہیں ملا،  تاہم دوتین حدیثوں کو ملانے کے بعد یہ مفہوم بن جاتا ہے۔ اِس تعلق سے مشہور و معروف حدیث اِن کتب صحاح میں دیکھی جا سکتی ہے: صحیح بخاری:۱/۲۴ حدیث:۱۴ ۔۔۔ صحیح مسلم:۱/۱۵۶ حدیث: ۶۳ ۔۔۔سنن نسائی:۱۵/۲۱۱ حدیث: ۴۹۲۷ ۔۔۔ سنن ابن ماجہ:۱/۷۶ حدیث: ۶۶۔                                                                       چریاکوٹی

٭٭٭

 

خواب میں دیدارِ مصطفیٰ  اِک سعادتِ عظمیٰ

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ جب ایسے خوش بختوں کو خواب میں دیدارِ محبوبِ کردگار علیہ السلام سے مشرف فرماتا ہے تو پھر یہ عروج و کمال کے کس مقام پر ہوتے ہیں اَندازہ نہیں کیا جا سکتا!۔ اب وہ پورے اِنہماک و اِتباع اور توجہ و آداب کے ساتھ درودوسلام کی کثرت کرتے ہیں۔  پھر کیا ہوتا ہے کہ مولائے کریم کا فضل عظیم جوبنوں پر ہوتا ہے اوروہ خواب میں دیکھنے والی مبارک ہستی کو کھلی آنکھوں دیکھنے کا شرف بھی پا جاتے ہیں۔  اب آپ خود سوچیں کہ جسے یہ سعادتِ عظمیٰ نصیب ہو جائے اُس کے مقدر کی یاوری اور مرتبے کی بلندی کا کیا کہنا!۔

کتنے خوش بخت ہیں وہ لوگ جنھوں نے محنت کی، تو کامیابی ہاتھ لگ گئی۔ فصل لگائی، تو وہ لہلہا اُٹھی، اور وہی کاٹی جو بوئی تھی۔ یقیناً اِسے اللہ جل مجدہ کے بے اِنتہا کرم ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ جب خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کرنے والوں کے مقام و مرتبہ کا اَندازہ نہیں کیا جا سکتا تو پھر بیداری میں اِس سعادت سے بہرہ ور ہونے والوں کی رفعت  و منزلت کا اندازہ کہاں ہو سکتا ہے!۔ وہ خواب کے پردے پر نظر آئیں پھر بھی تاجدارِ کائنات اور اشرف المرسلین ہیں،  (اُن کا خواب عین حقیقت ہوتا ہے)۔ آپ کا بڑا مشہور فرمان ہے  :

مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي حَقاً، فَإنَّ الشَّیْطَانَ لاَیَتَمَثَّلُ بِي۔ (۱)

یعنی جس نے مجھے خواب میں دیکھا، اس نے دراصل مجھی کو دیکھا،  کیوں کہ شیطان کبھی میرا روپ نہیں دھار سکتا!۔

بالکل سچ فرمایا میرے صادق و مصدوق نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے۔ اس کے بعد پھر آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے ہمیں یہ بشارت سنائی  :

مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَسَیَرَانِي فِي الْیَقْظَۃِ، أوْ فَکَأَنَّمَا رَآنِي فِي الْیَقْظَۃِ وَلاَیَتَمَثَّلَُ الشَّیْطَانُ بِیْ۔  (۲)

یعنی جس نے مجھے خواب میں دیکھا، وہ عنقریب بیداری میں بھی مجھے دیکھنے (کی سعادت حاصل کرے) گا  یا  (خواب میں دیکھنا ایسے ہی ہے) گویا اس نے مجھے بیداری میں دیکھ لیا، اور شیطان کبھی میری شکل نہیں بنا سکتا!۔

اِس حدیث کی شرح وغیرہ آگے ایک خاص باب کے تحت آئے گی اِن شاء اللہ

آمدم برسرمطلب

اَزاں بعد میرے بہت سے دوست اَحباب نے مجھ سے کچھ ایسے فوائد و وظائف مرتب کرنے کا مطالبہ کیا جن کی روشنی میں دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دولت بے بہا اُن کے لیے ممکن الحصُول ہو جائے،  کیوں کہ اُن کے گمان میں میں اِس میدان کا شہسوار ہوں،  یا اُن لوگوں میں سے ہوں جن کی (علمیت و قابلیت کی) طرف اُنگلیوں سے اِشارے کیے جاتے ہیں،   حالاں کہ میں کیا اور میری حیثیت کیا!۔ میں کسی طور خود کو اِس کا اہل نہیں پا تا کہ اِس راہ  کی صحرا نوردی کروں،   لیکن اُن کے پیہم اِصرار،دیرینہ محبت اورحسن ظن کو دیکھتے ہوئے (اَب کچھ نہ کچھ لکھ ہی دینا چاہیے)۔

والمرء ان یعتقد شیئا فلیس کما

یظنہ  لم  یخب  واللّٰہ  یعطیہ

یعنی اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں کوئی گمان رکھے، اور وہ اُس کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو وہ نامراد نہیں ہونے پا تھا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی رحمت سے اُس شخص کو اُس کا اَہل کر دیتا ہے۔

چنانچہ جب میں نے اُن کے صدقِ ارادہ، اور اِخلاصِ نیت پر نگاہ کی تو کچھ کر گزرنے کا عزم لے کر اُٹھ کھڑا ہوا، اِس اُمید پرکہ میرے دینی بھائی، عزیز ہمدم، اور مخلص دوست مجھے اپنی نیک دعاؤں میں یاد رکھیں گے۔

ہمارا اپنا کوئی رشتہ ناطہ نہیں بلکہ جو کچھ ہے سب نسبت محمدی کی برکات ہے، اور  اِن شاء اللہ  مجھے اِس نسبت سے یقین کامل ہے کہ مجھے منزل مقصود نصیب ہو گی، اور میری یہ عاجزانہ کوشش ٹھکانے لگے گی۔ اللہ ہمارے لیے بس ہے،اور کیا ہی اچھا کارساز۔ وہی توفیق دینے والا،اور ہدایت کی راہ پر لگانے والا ہے۔

وصلی اللّٰہ علیٰ سیدنا ومولانا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم۔

اللہ کی توفیق اور اس کی مدد سے اَب یہاں سے اَصل کتاب شروع ہو رہی ہے۔

***

۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)       مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:۳/۲۵۶۔۔۔ کنز العمال:۱۵/۳۸۳حدیث:۴۱۴۸۱۔۔۔ موسوعۃ اطراف الحدیث : ۱/۲۶۶۴۴۶حدیث: ۲۶۶۲۰۶۔

(۲)      صحیح بخاری:۲۱/ ۳۴۹ حدیث: ۶۴۷۸۔۔۔ صحیح مسلم:۱۱/۳۶۱ حدیث: ۴۲۰۷۔۔۔ سنن ابوداؤد: ۱۳/۲۱۱ حدیث: ۴۳۶۹۔۔۔ مسند احمد بن حنبل:۴۶/۹۹ حدیث: ۲۱۵۵۸۔۔۔دارمی:۶/۳۸۲ حدیث: ۲۱۹۴۔

٭٭٭

 

 

 

 

اچھے خواب کے لیے کچھ لوازمات

 

 

اس سلسلے میں جو چیز ہر صاحب ایمان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ آداب و اَطوار، کردار و گفتار،  اَخلاق و صفات اورحسن سیرت و معاملات میں  اِس اِنسانِ کامل محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بھرپور اِتباع و پیروی کی جائے۔ اُن کی حیاتِ طیبہ کے مختلف گوشوں کو زیر مطالعہ رکھا جائے، اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ آپ نے اہل و عیال کے ساتھ کیسے وقت گزارا ہے۔ صحابۂ  کرام کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے تھے، اور دیگر متعلقین و رفقا کے ساتھ آپ کا برتاؤ کیسا ہوا کرتا تھا۔

مختصر یہ کہ کتاب اللہ اور سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دانتوں تلے دبا لیا جائے، اور اپنی پوری زندگی کو اسی سنہرے رنگ میں رنگ دینے کی جی توڑ کوشش جاری رکھی جائے تو اُس خوش نصیب کے دونوں جہان روشن ہو اٹھتے ہیں جو اِن دونوں کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے، اور زندگی کے کسی موڑ پر راہِ راست سے پھسلنے نہیں پا تھا۔ آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسی سچائی کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے  :

تَرَکْتُ فِیْکُمْ اثْنَتَیْنِ مَا إنْ تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا لَنْ تَضِلُّوْا مِنْ بَعْدِيْ أبَدًا: کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّتِيْ۔  (۱)

یعنی میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک ان کے دامن سے وابستہ رہو گے میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو سکتے:قرآن اور میری سنت۔

پھر اس اِتباع کے نتیجے میں اِنسان کو دنیا و آخرت کے بہت سے فوائد و ثمرات نصیب ہوتے ہیں،  اور بہت سے آفاق روشن ہوتے ہیں جن کے روزن سے وہ پھیلتے اَنوار اور چمکتے ستاروں کا مشاہدہ کر لیتا ہے، اور یہی دراصل ہر سعادت و فضلیت کا منبع ہوتا ہے۔

قرآن وسنت کی کامل اِتباع سے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نقش قدم پر گامزن رہنے کی توفیق اَرزانی ہوتی ہے۔ اور پھر آپ کی مکمل تابعداری  قرآن وسنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے، جس کے نتیجے میں اُسے دنیا  و آخرت کی سعادت و فلاح نصیب ہوتی ہے، پھر یہ سعادت دو قدم آگے بڑھ کر دیدارِ مصطفیٰ کی راہ ہموار کر دیتی ہے۔

پھر جب دیدارِ یار کی سعادت میسر آ جائے تو تعلق بالمصطفیٰ کی جڑیں عاشق کے قلب و شعور میں پیوست ہونا شروع ہو جاتی ہیں،  پھر وہ سفرحضر جہاں کہیں ہو اُسی دھن میں رہتا ہے، نقش کفِ پائے محمدی کی تلاش اُس کا مقصود بن جاتا ہے اور اسی سفر میں خود کو فنا کر دینے کو اپنی زندگی کی معراج سمجھتا ہے۔

آفریں ہے ایسا تعلق اور لگاؤ پیدا کر لینے والے پر،  کیوں کہ اِس تعلق کے بعد پھر وہ اُس کی صفات و خصائل کا پیراہن اپنے وجود پر چڑھانے کی کوشش کرتا ہے، اور جب یہ  رنگ بھی چڑھ جائے پھر وہ اپنی حقیقی مراد پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

اے عاشقانِ مصطفیٰ! یہ اس کے مراحل شوق ہیں۔  یاد رکھیں ایک طالب و محب کے لیے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہرسعادت کا نچوڑ،اور کائنات کے اعلیٰ ترین رتبہ و منصب سے کہیں بڑھ کر ہے!۔

صحیح بخاری، کتاب المناقب کے باب علامۃ النبوۃ:۶/۶۰۴ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :

وَلَیَأتِیَنَّ عَلیٰ أحَدِکُمْ زَمَانٌ لأَنْ یَّرَانِي أحَبُّ إلَیْہِ مِنْ أنْ یَّکُوْنَ لَہٗ مِثْلُ أہْلِہٖ وَمَالِہٖ۔  (۲)

یعنی تم پر ایک ایسا زمانہ ضرور آئے گا کہ تم میں سے ایک آدمی کو میرا دیکھنا اسے اپنی اولاد اور مال سے زیادہ عزیز ہو گا۔

بالکل سچ فرمایا آپ نے اے شاہِ دو عالم رحمت عالم نورمجسم صلی اللہ علیک وسلم!۔

***

(۱)       مستدرک حاکم:۱/۳۰۷ حدیث: ۲۹۱۔۔۔ سنن کبریٰ بیہقی: ۱۰/۱۱۴ ۔۔۔سنن دارقطنی:۱۰/۴۰۷ حدیث: ۴۶۶۵۔۔۔ کنز العمال:۱/۱۷۳ حدیث: ۸۷۵۔۔۔ موسوعۃ اطراف الحدیث، رقم حدیث: ۸۱۱۷۹،  مگر ان کتابوں میں سے کسی میں اثنتین کا لفظ نہیں آیا بلکہ کہیں شیئین اور کہیں ثقلین کا لفظ وارد ہوا ہے۔اللہ ورسولہ اعلم بالصواب۔                                            چریاکوٹی

(۲)      صحیح بخاری:۱۱/۴۲۳ حدیث: ۳۳۲۲۔۔۔ مسند احمد بن حنبل:۱۹/۴۶۱ حدیث: ۹۴۱۸۔۔۔ کنز العمال: ۱۴/ ۲۰۵ حدیث: ۳۸۴۰۴۔۔۔ مسند جامع:۴۵/۵ حدیث: ۱۴۷۷۶۔

٭٭٭

 

 

 

 

محبت کے قرینے

 

 

برادرانِ گرامی! محبت کی بہت ساری شرطوں میں سے کچھ یہ ہیں :  حسب اِستطاعت کامل اِستقامت واِتباع، سنت طریقے پر جملہ فرائض اِلٰہیہ کی اَدائیگی کے ساتھ اللہ کی مرضی و خوشنودی کا حصول، سچی نیت، عظیم مقصد، اور منہاجِ نبوت کے مطابق عمل۔  اور صدقِ نیت کے ساتھ تقویٰ واِستقامت دراصل ہر عمل کی جان ہیں۔

وَ اَنْ لَّوِ اسْتَقَامُوْا عَلَی الطَّرِیْقَۃِ لَاَسْقَیْنٰہُمْ مَآئً غَدَقًا o (سورۂ  جن: ۷۲/۱۶)

اور یہ (وحی بھی میرے پاس آئی ہے) کہ اگر وہ طریقت(راہِ حق، طریقِ ذِکرِ اِلٰہی) پر قائم رہتے تو ہم انہیں بہت سے پانی کے ساتھ سیراب کرتے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo نَحْنُ اَوْلِیَائُکُمْ فِی الحَیوٰۃِ الدُّنْیاَ وَفِی الاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَo نُزُلاً مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍo (سورۂ  فصلت:۴۱/۳۰تا۳۲)

بے شک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہو گئے، تو ان پر فرشتے اُترتے ہیں (اور کہتے ہیں ) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں (بھی) تمہارے دوست اور مددگار ہیں اور آخرت میں (بھی)،  اور تمہارے لیے وہاں ہر وہ نعمت ہے جسے تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے وہاں وہ تمام چیزیں (حاضر) ہیں جو تم طلب کرو۔ (یہ) بڑے بخشنے والے، بہت رحم فرمانے والے(رب) کی طرف سے مہمانی ہے۔

اِن آیتوں پر کچھ دیر کے لیے رُک کر غور و فکر فرمائیں ۔۔۔۔ ذرا یہ اِرشادِ باری تو دیکھیں  :  نَحْنُ اَوْلِیَآئُکُمْ۔ (ہم تمہارے دوست اور مددگار ہیں ) تو جب کوئی بندہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے اپنا دوست منتخب کر لے، تو پھر اس کی خوش بختی اور فیروز مندی کا کیا عالم ہو گا! اور پھر وہ کسی سے کیوں ڈرنے لگے!، سو اَب تو وہ کسی پر ظلم اورکسی کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا!۔

اور پھر یہ آیت کریمہ صرف دنیا ہی میں ولایت الٰہی کے بیان پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ آخرت میں بھی  اللہ نے چاہاتو  اس کی ولایت کی دھوم ہو گی!۔ اس سے بڑھ کر حمایت اور مراعات و اِنعامات کسی بندے کے لیے کیا ہو سکتے ہیں !۔

وإذا العنایۃ أدرکتک عیونہا

نم فالمخاوف کلہن أمان

یعنی جب فضل و عنایت تجھ پر مہربان اور سائبان ہو جائے، پھر تجھے ہر قسم کے خوف و خطر سے بے نیاز ہو کر بالکل چین کی نیندسوناچاہیے۔

 

اِتباعِ کامل کے تین فائدے

 

اِتباع کے تین بڑے زبردست فائدے ہیں۔  ایک تو یہ کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اِقتدا نصیب ہوتی ہے۔ دوسرے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی محبت اُس پر سایہ فگن ہو جاتی ہے۔ تیسرے گناہوں کی بخشش کا سامان ہو جاتا ہے۔قرآن مجید کی اِس آیت کریمہ میں یہی فلسفہ بیان ہوا ہے  :

قُلْ اِن کُنتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ o (سورۂ  آل عمران:۳/۳۱)

(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔

۔۔۔قومٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہٗ o (سورۂ  مائدہ:۵/۵۴)

۔۔۔ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہو گا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔۔۔۔

۔۔۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ذالِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ o (سورۂ  بینہ:۹۸/۸)

۔۔۔ اللہ ان سے راضی ہو گیا ہے اور وہ لوگ اس سے راضی ہیں،  یہ (مقام) اس شخص کے لیے ہے جو اپنے رب سے خائف رہا۔

یہ مقام دراصل اُس کا مقدر بنتا ہے جس کے دل میں خوفِ الٰہی نے گھر کر لیاہو، جو ہمہ وقت مراقبہ اِلٰہیہ میں غرق رہتا ہو، اورجس کے تحت الشعور میں یہ راسخ ہو چلا ہو کہ وہ مالک و مولا نہ صرف جملہ معاملات کی باریکیوں سے بھی واقف ہے، بلکہ مخفی اور پوشیدہ ترین اُمور پر بھی آگاہی رکھتا ہے۔

جب کسی بندے کے اندر یہ اِحساس جڑ پکڑ جائے تو وہ مرتبۂ اِحسان پر فائز ہو جاتا ہے۔ پھر اس کی بندگی کا رنگ یوں ہوتا ہے کہ جیسے دورانِ عبادت وہ خالق مطلق کا مشاہدہ کر رہا ہے،  ورنہ یہضرورسوچتا ہے کہ وہ رب سبحانہ و تعالیٰ ہمہ وقت مجھے دیکھ رہا ہے۔

پھر جب حقیقی معنوں میں اُسے مقام اِحسان حاصل ہو جاتا ہے، تو رحمن کا فضل واِحسان اُس پر ساون بن کر برستا ہے،  اس کے دل میں سکون و طمانیت کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، اور شیطان مردود اُسے دیکھ کر کوسوں دور بھاگتا ہے۔ ’بے شک حق ہے کہ رحمن کے کچھ بندوں پر اُس کا ایک ذرا بس نہیں چلتا!۔

 

محبتِ مصطفیٰ ہرسعادت کی کلید ہے

 

جملہ سعادتیں محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہیں۔  (اس سے ہٹ کر کسی سعادت و شرف کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا!)کسی شاعر نے کتنی پیاری بات کہی ہے   ؎

فاتباع النبي أکمل حب

للنبي مغزاہ حاء وباء

یعنی سب سے کامل محبت کا راز نبی کی اِتباع میں پنہاں ہے،جس کا مغز و نچوڑ حرفِ حا،با ہے، (یعنی حب)۔

یہی تو ہمارے حبیب مکرم،  اور مقصودِ اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں   ؎

ھو المقصود في الدنیا

وفي الأخریٰ فلا تعنی

یعنی دنیا  و آخرت ہر جگہ مقصود و مراد انہی کی ذاتِ گرامی ہے،  لہٰذا اِن سے بے نیاز ہو جانے کی کبھی بھول نہ کر بیٹھنا!۔

(وہ جہنم میں گیا جو اُن سے مستغنی ہوا !

ہے خلیل اللہ کو حاجت رسول اللہ کی)

بھری کائنات میں حضور فخر موجودات صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہی ایک ایسی ہستی ہیں جن کی خلقت و اَخلاق دونوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہراِعتبارسے کامل و اکمل بنایا ہے۔ آپ کے اَوصاف و کردار کی کیا تعریف ہو!، یوں کہہ لیں کہ وہ بس لاجواب اور اپنی نظیر آپ ہیں۔  اللہ بھلا کرے حبیب علی بن محمد حبشی کا جو اپنے میلاد نامے میں ابن فارض عمر بن ابوالحسن کے اَشعار نقل کرتے ہوئے بڑی خوبصورت بات کہہ گئے ہیں   ؎

کملت محاسنہ فلو أھدی السنا                        للبدر  عند  تمامہ لم یخسف

و علیٰ  تفنن  واصفیہ بحسنہ                 یفنی الزمان و فیہ ما لم یوصف

یعنی اُن کے محاسن و کمالات سرتا پا مکمل ہی مکمل ہیں۔  اگر انھوں نے بدر کامل کو اپنا نور عطا فرمایا ہوتا تو چاند کو کبھی گہن نہ لگتا۔ یوں ہی ان کے حسن و جمال کی مختلف پیرایوں میں تعریف و توصیف کرنے والا رہتی دنیا تک کبھی بھی کماحقہ اُن کی توصیف کا حق اَدانہ کرسکے گا!،  کیوں کہ کچھ نہ کچھ اوصاف ایسے ضرور رہ جائیں گے جو اس کی حد توصیف سے بالا تر ہوں گے۔

اللہ برکت عطا کرے، دیبعی نے بھی اپنے مولود میں بڑی عمدہ فکر پیش کی ہے، کہتے ہیں :

اُس مقدس ذات کی مزید تعریف و توصیف اور کیا ہو سکتی ہے جس کا مداح خود قرآن کریم ہو!۔ توریت و زبور اور انجیل و فرقان کے اندر بھی اُن کے فضل و کمال کے زمزمے ہیں۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے اِعزازِ دیدار اور شرفِ ہم کلامی دونوں سے انھیں نوازا۔ نیز اُن کے نام پاک کو اپنے اسم مقدس کے ساتھ ملا لیا تھا کہ اُن کے مقام و مرتبہ کا اِظہار ہو، اور انھیں کل کائنات کے لیے رحمت و نور بنا کر مبعوث فرمایا گیا تو پھر بھلا اُن کے میلاد کے وقت دلوں کے اندر کیف و سرور کا سماں کیوں نہ ہو!اور لوگ رنگ و نور میں نہا نہا کیوں نہ جائیں !!۔

یہ ایک بڑا وسیع میدان ہے، اورسرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کانور ہر جگہ چمکتا دمکتا دکھائی پڑتا ہے۔ وہ ہر فضیلت کے جامع ہیں۔  اس رنگ محمدی کے آگے سارے رنگ پھیکے ہیں۔  آپ کی رحمت و نور سے دورو قریب ہر شخص نے حصہ پایا۔ اگر آپ کی مدح و توصیف میں اور کچھ بھی نازل نہ ہوتاتوبس یہ آیت کریمہ آپ کی عزت و وجاہت کے اِظہار کے لیے کافی تھی۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے  :

قَدْ جَآئَ کُمْ مِنَ اللّٰہِ نُورٌ وَّکتِٰبٌ مُّبِیْنٌo یَہْدِيْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلاَمِ۔۔۔o (سورۂ  مائدہ:۵/۱۵تا۱۶)

بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور(یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آ گیا ہے، اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)۔ اللہ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں،  سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے۔

جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ انھیں ’نور کہہ کے یاد فرما رہا ہے، اور اس نے خود ہی اُن کی تخلیق فرمائی، اور انھیں رحمت بنا کر مبعوث کیا ہے،تو اب اس کے بعد (آپ کی توصیف و ثنا میں ) کوئی شعر کہنے کی کیا گنجائش باقی رہتی ہے؟۔ ’فیض الانوار فی سیرۃ النبی المختارا میں اس مفہوم کو یوں نظم کیا گیا ہے   ؎

وماذا یقول المادحون  وقد أتی

مدیح رسول اللّٰہ  في محکم الذِکر

و قد قرن اللّٰہ اسمہ مع اسمہ

وہل بعد ہٰذا الفخر یاصاح من فخر!

یعنی شعرا اُن کی مدح و ثنا میں کیا کچھ کہہ سکتے ہیں ؟ جب کہ قرآنِ مقدس اُن کی مدح و توصیف کرتا نظر آتا ہے۔

اللہ رب العزت نے اُن کے نام کو اپنے اسم پاک کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ تو اے شور بپا کرنے والو!کیا اِس فخر  و اِعزاز کے بعد بھی کسی فخر کی گنجائش ہے!۔

والدِ گرامی  قدس سرہ العزیز  نے بھی بڑی پتے کی بات کہی ہے   ؎

یعنی رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح و توصیف میں ہر قول معتبر ہے، اور اس کے سوا جو کچھ ہے فضول ہے۔

مخلوق کی مدحِ پیغمبر بھلا کس شمار و قطار میں آئے، جب کہ قرآنِ عظیم کی آیتیں اُن کی تائید و توصیف کرتی نظر آ رہی ہیں۔

ہم نے بھی نعت پیغمبر لکھنے کے لیے کچھ پھول چنے ہیں،   لیکن زبان کی گرہیں بندھتی چلی جا رہی ہیں۔

اگر کوئی میدانِ نعت کے شہسواروں کاپتا  لگانا شروع کر دے تونسلاً بعد نسل اس کا شمار کرنا مشکل ہو گا۔

سچی بات یہ ہے کہ اپنی نظموں سے میں محمد عربی اکی توصیف کا کوئی حق اَدا نہیں کرسکا ہوں،  ہاں !اُن کے ذکر کی بدولت میری نظمیں معتبر ہو گئی ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ اُن پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے،  بلا شبہ وہ اس کے نور ہیں۔  حبیب علی بن محمد حبشی نے ایک مصرعے میں اُن کے ’نور ہونے کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے  :

ھو النور یہدي الحائرین ضیاؤہ۔

یعنی وہ ایک ایسا ’نور ہیں جس کی روشنی گم گشتگانِ راہ کو منزلِ ہدایت سے ہمکنار کرتی رہتی ہے۔

یارسول اللہ! آپ ہی تو رؤف ور حیم ہیں، اللہ نے آپ کا مقام کتنا  بلند کر دیا ہے!۔

لَقَدْ جَائکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ o (سورۂ  توبہ:۹/۱۲۸)

بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک با عظمت) رسول (ا) تشریف لائے۔  تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔(اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مؤمنوں کے لیے نہایت(ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔

حق تو یہ ہے کہ اُن کا وصف اور بڑائی بیان کرنے والے کرتے رہیں،  مدح و ثنا کے گل نچھاور کرنے والے کرتے رہیں، اور اہل زبان اُن کے اَوصافِ حمیدہ کا لاکھ بیان کرتے رہیں،   مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انھیں جو مقامات واَسرار، اور اِمداد واَنوارسے سرفراز فرمایا ہے شاید وہ اس کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکیں۔ ذرا اِن اِرشاداتِ باری پر تو غور کریں  :

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ o (سورۂ  قلم:۶۸/۴)

اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متصف ہیں )۔

لَعَمْرُکَ اِنَّہُمْ لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ o (سورۂ  حجر:۱۵/۷۲)

(اے حبیبِ مکرم!) آپ کی عمر مبارک کی قسم! بے شک یہ لوگ(بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ۔۔۔ o (سورۂ  احزاب:۳۳/۶)

یہ نبیِ(مکرم) مؤمنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب (اور حقدار) ہیں۔

۔۔۔لاَ تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوقَ صَوتِ النَّبِیِِّ۔ ۔۔ o (سورۂ  حجرات:۴۹/۲)

اپنی آوازوں کو نبی( کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی آواز سے بلند نہ کرنا۔

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ۔ ۔۔o (سورۂ  احزاب:۳۳/۴۰)

محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں۔

وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ۔۔۔ o (سورۂ  انفال:۸/۳۳)

اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے در آں حالے کہ(اے حبیبِ مکرم!) آپ بھی ان میں (موجود)ہوں۔

ِانَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔۔o (سورۂ  فتح:۴۸/۱۰)

(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔

وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ۔ ۔۔o (سورۂ  حجرات:۴۹/۷)

اور جان لو کہ تم میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) موجود ہیں۔

لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ۔ ۔۔ o (سورۂ  توبہ:۹/۱۲۸)

بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تشریف لائے۔

یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًاo وَدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا o (سورۂ  احزاب:۳۳/۴۵تا۴۶)

اے نبیِ(مکرم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور(عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منور کرنے والا آفتاب(بنا کر بھیجا ہے)۔

اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا o (سورۂ  فتح:۴۸/۱)

(اے حبیبِ مکرم!) بے شک ہم نے آپ کے لیے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرما دیا(اس لیے کہ آپ کی عظیم جد و جہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جائے)۔

وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا o (سورۂ  نساء:۴/۱۱۳)

اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔

إنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (سورۂ  احزاب:۳۳/۵۶)

بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ(مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں،  اے ایمان والو! تم(بھی) ان پر درود اور خوب سلام بھیجا کرو۔

اللّٰہم صل وسلم وبارک علیہ وعلیٰ آلہ وأصحابہ وذریتہ وأتباعہ۔ ۔۔

اِس قسم کی بہت سی آیتیں قرآن مجید کے اندر موجود ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پورا کا پورا قرآن ہی مدح و توصیفِ پیغمبر میں نازل ہوا ہے، اور ہر آیت مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں نعت معلوم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اَخلاقِ محمدی کی بابت اِستفسارہوا تو آپ نے فرمایا تھا: ’اُن کا اَخلاق قرآن تھا۔(عوارف المعارف میں ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان:’آپ کا خلق قرآن تھا میں اخلاقِ ربانیہ کی طرف ایک لطیف اِشارہ ہے۔ اُم المومنین نے بارگاہِ ربوبیت میں یہ کہنے سے حیا محسوس کی کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلماحکم الحاکمین عزوجل کے اَخلاق سے متصف تھے۔ تو آپ نے اپنے فرمان:’کان خلقہ القرآن سے یہ معنی مراد لیا تھا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جلالت سے حیا بھی برقرار رہے اور اس لطیف کلام کے ذریعہ حقیقت سے پردہ بھی اُٹھ جائے۔ اور یہ سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بڑے ہی اَدب شناس و اَدب نواز تھے۔ سخاوت و بردباری اُن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اور رحم و کرم اور نرمی و شفقت میں وہ اپنی نظیر آپ تھے۔ جب صحابۂ  کرام نے آپ کی اِن صفاتِ حمیدہ اور آدابِ وافرہ  کو دیکھا تو بے ساختہ پوچھ پڑے، یارسول اللہ! ہم آپ کے اندرحسن اَدب کا ایک گلشن آباد دیکھتے ہیں،  (یہ کہاں سے آ گئے؟)۔سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا  :

أدبني ربي فأحسن تأدیبي۔  (۱)

یعنی  میرے رب نے مجھے اَدب سکھایا، تو میرے  اَدب کو بہت اچھا کر دیا۔

۔۔۔۔

(۱)       کنز العمال، متقی الہندی: ۱۱/۴۰۶حدیث: ۳۱۸۹۵۔۔۔ الدرر المنتثرہ فی الاحادیث المشتہرہ: ۱/۱۔

۔۔۔۔۔۔

فرمان ام المومنین کی اِنتہائی عقلمندی اور با اَدب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ  جس طرح قرآنِ کریم کے معانی کی کوئی انتہا نہیں اسی طرح خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اَخلاقِ عظیمہ پر دلالت کرنے والے اَوصاف کی بھی کوئی حد نہیں،   کیوں کہ تمام اَحوال میں تاجدارِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عمدہ اَخلاق اور اچھی عادات کی نئی جھلک سامنے آتی ہے۔ (عوارف المعارف:۱۳۸بحوالہ حدیقہ ندیہ:۱۷۹، ۱۸۰)                                                                چریاکوٹی )

صلوٰۃ وسلام ہو اُس میر کاروانِ نبوت اور اُن کی آل و اَصحاب و ذرّیت پر۔ بلاشبہ وہ جانِ ہدایت بھی ہیں،  اور راہِ راست پر لگانے والے بھی۔

یہ ہم پر فرض کے درجے میں ہے کہ ہم اُس مالک و مولا کے حضور سجدۂ  شکر کا خراج پیش کریں جس نے ہمیں اُن کی اُمت میں ہونے کا شرف بخشا۔ دعا ہے کہ پروردگار عالم ہمیں اُن کی ملت ہی پر قائم و دائم رکھے، اُن کی سنتوں کو زندہ کرنے کی ہمت و جرأت دے، اُن کے آدابِ جمیلہ و اَخلاقِ حمیدہ کے رنگ میں رنگنے کی توفیق مرحمت کرے، اور ان کا اُسوہ وسیرت اپنانے، نیزسوتے جاگتے اُن کے چہرۂ  والضحیٰ کا دیدارِ مشک بار کرنے کی سعادت اَرزانی فرمائے۔ اور اللہ کے لیے ایسا کر دینا کچھ مشکل نہیں۔

الحمدللہ! ہمیں اِس میدان میں کامیابی و سرخروئی نصیب ہوئی، اور دیدارِ مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سعادت سے ہماری آنکھیں روشن ہو چکی ہیں۔  رسولوں میں سب سے عظیم و کریم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اُمت میں ہونے کا کیا خوب فیضان ہے کہ ہم ساری اُمتوں میں سب سے عظیم و کریم قرار پائے!۔

 

پاکیزہ زندگی کا تصور

 

ایک دعویدارِ محبتِ رسول کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں اِس نورِ مبین کو تکنے اور اس کا دیدار کرنے کا آرزو مند نہ ہو،  کیوں کہ ہر خوشی اِسی سعادت کے دروازے سے ہو کر گزرتی ہے۔ جسے یہ سعادت نصیب ہو گئی، سمجھ لیں اُس کی دنیا،برزخ اور عقبیٰ سب درخشاں و تابندہ ہو گئی۔ اور پھر اِس سعادت کے حصول کے بعد تاجدارِ اُمم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اس کی محبت اِنتہاؤں کو پہنچ جاتی ہے۔

یا عاشق المختار کیف تنام                  والنوم مع بعد الحبیب حرام

إن کنت مشتاقا  فہم في حبہ                          تبدو لک الخیرات والإنعام

یعنی اے مختارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عشق کا دم بھرنے والے! تجھے نیند کیسے آ جاتی ہے، حالاں کہ محبوب کی جدائی میں تو نیند حرام ہو جایا کرتی ہے!۔

اگر تو صحیح معنوں میں اُن کے جمال و وصال کا مشتاق ہے تو ان کے عشق میں فنا ہو جا، پھر دیکھ تجھ پر کیسے کیسے انعام ہوتے ہیں اور تجھے کیا کیا سرفرازیاں ملتی ہیں۔

کسی کی زندگی اس وقت تک خوشگوار اور پاکیزہ نہیں ہو سکتی جب تک اس کی سانسوں سے ذکررسول کی مہک نہ پھوٹے، اُن کے لیے دل نہ تڑپے،اور شوقِ فراواں بے قرار نہ کرے،  لہٰذا جب اُن کا ذکر چھڑ پڑے تو درودوں کے گجرے اُن کی بارگاہ میں پیش کرنا نہ بھول جانا،  کیوں کہ اس سے سینے ٹھنڈے، دل پرسکون، ضمیر پرکیف،اوراَحوال خوشگوار ہو جاتے ہیں۔

ایک عاشق (عہدرسالت کی) اُس بے جان سی ٹہنی کی کیفیت کو کیوں ذہن میں نہیں لاتا جو فراقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سسکیاں لینے لگی،  تو کیا ایک مومن اس سے بھی گیا گزرا ہے! حالاں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تو اسے بہت سوں پر فضیلت و شرف بخشا ہے  :

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِي آدَم o (سورۂ  اسرا:۱۷/۷۰)

اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ہے۔

یہ بات دل کی تختی پر نوٹ کر لیں کہ رسولِ امین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہماری اِس دنیا سے کسی بھی لمحہ بے خبر نہیں،  انھیں پل پل کی خبر ہے، اور  آفتابِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کرنیں ہمہ وقت ہمیں اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں۔  جب وہ نہ تھے تو کیا تھا؟ اور اگر وہ نہ ہوں گے تو پھر کیا ہو گا؟وہی تو جانِ کائنات، بلکہ اصل کل موجودات ہیں۔  وہی تو بنی نوعِ انسان کے سرور، مالک حوضِ کوثر اور شفیع روزِ محشر ہیں۔

تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی تو وہ سب سے پہلے نور ہیں جس کو اللہ نے سب سے پہلے خلق کیا، اور پھر اس سے زمینی وآسمانی کائنات کی تخلیق عمل میں آئی۔ تو بھلا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ سردارِ کائنات ہو کر کائنات سے کسی لمحہ چھپ جائیں۔

عقیدہ سلامت ہو تو دیکھنے والی آنکھیں اُنھیں ڈھونڈ ہی لیتی ہیں،  اور پہچاننے والے دل حسب اِستعداد دور ہی سے اُنھیں پہچان لیتے ہیں،   بلکہ تعلق ونسبت کی سرفرازیاں رکھنے والے تو اس مقام پربھی جا پہنچے کہ علی الاعلان کہتے پھرتے تھے  :

لو غاب عني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم ما عددت نفسي من المؤمنین۔

یعنی اگر باعث تخلیق کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (ایک لمحے کے لیے بھی) میری نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں تو اس لمحہ میں خود کو اہل ایمان میں سے نہ سمجھوں۔

۔۔۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ذالِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ o (سورۂ  بینہ:۹۸/۸)

۔۔۔ اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ لوگ اُس سے راضی ہیں،  یہ (مقام) اُس شخص کے لیے ہے جو اپنے رب سے خائف رہا۔

٭٭٭

 

 

 

 

دیدارِ مصطفیٰ کے فوائد و برکات

 

صاحب مفاتیح المفاتیح فرماتے ہیں کہ جس نے خواب میں دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سعادت پائی، توسمجھیں کہ یہ اُس کے خاتمہ بالخیر کی کھلی علامت ہے۔ اس کی برکت سے بروزِ محشر اسے شفاعتِ مصطفوی نصیب ہو گی، خلد بریں اُس کی رہائش گاہ بنے گی، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نہ صرف اُس کی بلکہ اُس کے والدین کی بھی  اگر وہ مسلمان ہوئے  مغفرت فرما دے گا۔ نیز دیدارِ مصطفیٰ کرنا بارہ مرتبہ ختم قرآن کرنے کے برابر ہے۔ اللہ کریم موت کی سختیاں اُس پر آسان،عذابِ قبرسے اَمان،اور قیامت کی ہولناکیوں سے نجات عطا فرما دے گا۔ ساتھ ہی دنیا  و آخرت کی اُس کی جملہ حاجتیں بھی اپنے لطف و کرم سے پوری کر دے گا۔

دیرینہ آرزو

یوں توہراِنسان اپنے ساتھ آرزوؤں کا ایک جہان رکھتا ہے،  مگرایک عاشق رسول جس آرزو کو اپنے دل میں بسائے رکھتا ہے وہ صرف اور صرف دولت دیدارِ مصطفیٰ ہے،  تاکہ اُس کی برکت سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اُس پر فیوض و اَنوار کی بارش فرمائے اور سربستہ راز اُس کے لیے منکشف کر دے، پھر وہ صبح وشام رحمتوں کی اُسی رم جھم برسات میں نہا تھا رہے، اور نوازشِ مولا پا تھا رہے۔ خداوندقدوس اپنی رحمت سے جسے چاہتا ہے ایسے فیضان کے لیے خاص کر لیتا ہے، اور وہ مختار ہے جو چاہے کرے!۔

 

ترتیب فوائد کی حکمت

 

اے عاشقانِ خیر الوریٰ! آپ کو یہ جان کر یقیناً خوشی ہو گی کہ میں نے اِس کتاب میں ایسے زبردست قسم کے فوائد اِکٹھا کر دیے ہیں جو دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کرانے میں آپ کے معاون  و مددگار ہوں گے۔ اِن فوائد کی تعداد کوئی سوسے زیادہ ہے، جنھیں میں نے متعدد معتبر کتب سے جمع کیے ہیں،  جب کہ ان میں آپ کو بعض ایسے فوائد بھی ملیں گے جو میں نے اپنے معاصر مشائخ وصالحین اور معتمد اہل فضل و عرفان کی زبان سے سن کراس میں شامل کیے ہیں۔

گرچہ کتاب کا حجم چھوٹا ہے،  لیکن اِس میں کیا کچھ پنہاں ہے وہ تو آپ کو مطالعے کے بعد ہی معلوم ہو گا،  لہٰذا اِس کے مطالعے میں جٹ جائیں،  اور اپنی فکر کو مہمیز لگائیں۔  ایسی بشارتیں آپ کو نصیب سے مل رہی ہیں،   ورنہ اس دور میں بھلا کون کسی کو ایسے اَسرارِ سربستہ کی خبر دینے لگا!۔ اُس سمیع و بصیر کی ذات پر ہمارا پورا بھروسہ ہے جسے ہماری آنکھیں تو دیکھنے سے قاصر ہیں،   مگر جملہ آنکھیں (اور سارے لوگ) اس کی نگاہ میں ہوتے ہیں۔  وہ اپنے بندوں پر بڑا ہی لطف فرمانے والا اور پل پل کی خبر رکھنے والا ہے۔

قبل اس کے کہ ہم اُن گراں بہا فوائد کا بیان شروع کریں،  اس تعلق سے وارد شدہ صریح آیات اور صحیح اَحادیث کو پیش کرنامناسب سمجھتے ہیں،    لہٰذا نصیحتوں کے اِن پھولوں کو دِل کے طاقوں میں سجائیں اور مجھے اپنی نیک دعاؤں میں یاد فرمائیں،   تاکہ کل وہ میری فوز و فلاح کا سامان بن جائیں جب مال و اَولاد کسی کے کچھ کام نہ آئیں گے بجز اس کے کہ جو قلب سلیم لے کر حاضر بارگاہِ اِلٰہ ہوا ہو، اور یقیناً یہی دلِ بینا اِنسان کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھتا ہے۔  (بقولِ عارفِ مشرق   ؎

دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب    ٭     آنکھ کا نور  دل کا  نور نہیں )

 

سچے خوابوں کی حقیقت

 

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے مندرجہ ذیل فرمان کی بابت دریافت کیا  :

لَہُمُ الْبُشْریٰ فِي الْحَیوٰۃِ الدُّنْیَا وَفِي الاٰخِرَۃِ o (سورۂ  یونس:۱۰/۶۴)

ان کے لیے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی یا  دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)۔

توسرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: تو نے مجھ سے ایک ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ تم سے پہلے میرے کسی اُمتی نے اس کے متعلق نہ پوچھا تھا۔ (تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ) اِس سے مرادسچے خواب ہیں جسے ایک شخص خود دیکھتا ہے، یا اُس کے لیے (کسی اورکو)دکھایا جاتا ہے۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسول اللہ! ایک شخص ہے کہ جب کوئی اچھا کام کرتا ہے تو لوگ اُس کی تعریف و توصیف کرنے لگتے ہیں۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: (وہ دراصل ایک مومن کا نقد اِنعام ہوتا ہے)۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آیت کریمہ لَہُمُ الْبُشْریٰ فِي الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِي الاٰخِرَۃِ کے متعلق فرمایا کہ اس سے مراد سچے خواب ہیں جس کے ذریعہ ایک مومن کو بشارت دی جاتی ہے، اور یہ سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں ٹکڑا ہوتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ آیت کے تحت سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان روایت کیا ہے کہ’ دنیا میں اِس سے مراد تو سچے خواب ہیں جسے بندہ خود دیکھتا ہے یا اس کے لیے دوسرے کو دکھایا جاتا ہے۔ اور آخرت میں اس سے مراد جنت ہے۔‘

اور آپ ہی سے ایک روایت یوں بھی آئی ہے کہ آپ نے فرمایا: سچے خواب اللہ کی طرف سے ایک نوید اور بشارت ہوتے ہیں۔

حضرت اُم کرز کعبیہ سے مروی کہ میں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناہے   :

ذَہَبَتِ النُّبُوَّۃُ  وَ بَقِیَتِ الْمُبَشَّرَاتُ۔  (۱)

یعنی سلسلہ نبوت تو بند ہو چکا ہے، البتہ اِلہام و بشارت کا سلسلہ قائم رہے گا۔

تفسیر ابن کثیر کے صفحہ ۴۳۹پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا  :

لَنْ یَّبْقَ بَعْدِي مِنَ النُّبُوَّۃِ إلاَّ الْمُبَشَّرَاتُ،  قَالُوْا وَ مَا الْمُبَشَّرَاتُ ؟ قَالَ الرُّؤیَا الصَّالِحَۃُ۔ ۔۔ (۲)

یعنی میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی، ہاں ! بشارتیں ہوتی رہیں گی۔ لوگوں نے پوچھا : یہ بشارتیں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا: سچے خواب۔

خواب میں زیارتِ نبوی حق ہے

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا  :

مَنْ رَآنِي فَقَدْ رَآنِي، فَإنَّ الشَّیْطَانَ لاَیَتَمَثَّلُ بِي۔  (۳)

یعنی جس نے مجھے دیکھا، اس نے دراصل مجھے ہی دیکھا،  کیوں کہ شیطان کبھی میری مثل نہیں بن سکتا!۔

حضرت انس ہی سے ایک دوسری روایت یوں آئی ہے کہ رحمت عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ رَآنِي فَقَدْ رَأی الْحَقَّ، فَإنَّ الشَّیْطَانَ لاَ یَتَزَیا بِي۔ (۴)

یعنی جس نے مجھے دیکھا، اس نے یقیناً حق کو دیکھا،  کیوں کہ شیطان کبھی میرے نزدیک نہیں آسکتا!۔

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :

مَنْ رَآنِي فَقَدْ رَأی الْحَقَّ، فَإنَّ الشَّیْطَانَ لاَیَتَکَوّنُنِي۔ (۵)

یعنی جس نے مجھے دیکھا، اس نے حقیقت میں حق کو دیکھا،  کیوں کہ شیطان کبھی میری صورت اختیار نہیں کرسکتا!۔

حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں یوں آتا ہے کہ ’شیطان کبھی میرا روپ نہیں دھار سکتا۔

دراصل مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حق کے مظہر کامل ہیں،  تو جو کچھ اُن کے لب ہائے مبارک سے نکلتا ہے،اور سنا جاتا ہے وہ مبنی برحق ہوتا ہے۔

ایک اور مقام پر مزیدوضاحت کے ساتھ آقائے کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا:

مَنْ رَآنِي فَاِنِّي أنَا ہُوَ فَإنَّہ لَیسَ للشَّیْطَانِ أنْ یَتَمَثَّلَ بِي۔ (۶)

یعنی جس نے مجھے دیکھا،تو بلاشبہ وہ میں ہی تھا،  کیوں کہ شیطان کی کیا مجال کہ میرا روپ دھار سکے!۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :

مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي، فَإنَّ الشَّیْطَانَ لاَیَتَخَیَّلُ بِي، وَرُؤیَا الْمُؤمِنِ جُزْئٌ مِنْ سِتَّۃٍ وَّأرْبَعِیْنَ جُزْء اً مِنَ النُّبُوَّۃِ۔ (۷)

یعنی جس نے مجھے خواب میں دیکھا، تواس نے یقیناً مجھی کو دیکھا،  کیوں کہ شیطان کبھی میری شکل میں نہیں آسکتا!۔نیز مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں ٹکڑا ہوا کرتا ہے۔(۸)

مذکورہ بالا متعدد اَحادیث طیبہ میں شیطان کے ساتھ عدم مماثلت کی جو بات کی گئی ہے اُس کی کئی حکمتیں ہیں،   فرمایا کہ ’شیطان میری طرح بن کر نہیں آسکتا!، وہ میری شکل نہیں اِختیار کرسکتا، وہ میرا روپ نہیں دھار سکتا!، یعنی اس سے آپ اَندازہ کرسکتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمثیل کے لیے جتنی لغتیں اور صیغے بیان ہو سکتے تھے سب کے سب بیان فرما دیے۔ گویا شیطان سے عدم مماثلت میں اَب نہ توکسی  شک کی گنجائش رہی، اور نہ ہی کسی شبہے کا اِحتمال، نہ خواب میں اور نہ ہی بیداری میں۔

امام ابن باقلانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اِن حدیثوں کا مفاد یہ ہے کہ آفتابِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دیدار و زیارت بالکل سچ اور حق ہے، یہ کبھی بھی وہم یا شیطان کا کرشمہ نہیں ہو سکتا!۔

دیگر محدثین فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدارکی سعادت پائی،اس نے حقیقت میں آپ کو دیکھ لیا۔ اور ایسا  مراد لینے میں نہ تو کوئی مانع ہے،  اور نہ ہی یہ عقلاً محال ہے کہ اِس کو اس کے ظاہر سے پھیرنے کی زحمت کی جائے۔

جہاں تک رہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بسا اوقات اصل حالت میں نظر نہ آنے کی، یا بیک وقت دویا زیادہ  مقامات پر دیکھے جانے کی، تو یہ دراصل دیکھنے والے کے خیال میں اِختلاط کا نتیجہ ہوتا ہے،  ورنہ ایسا ہونا شاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صفات میں سے نہیں ہے،  کیوں کہ حضور اقدسصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات دکھائی دی جانے والی حضوراقدس ہی کی ذات ہو گی۔ اس میں ادراک شرط نہیں اور نہ قرب مسافت۔ اور نہ ہی یہ شرط ہے کہ وہ مدفون ہو یا زمین کے اوپرہو،   البتہ اُس کا موجود ہونا ضروری ہے۔

اور حضور رحمت عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم اقدس کے فنا ہونے پر کوئی دلیل ہے ہی نہیں،   بلکہ بہت سی صحیح اَحادیث میں واضح طور پر یہ موجود ہے کہ نہ صرف سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بلکہ دیگرانبیاومرسلین علیہم الصلوٰۃ والسلام کے اَجسامِ مبارکہ بھی باقی اور محفوظ ہیں،   بلکہ یہاں تک آیا ہے کہ وہ اپنی قبروں میں نمازیں اَدا کرتے ہیں،  اور اُن کے نیک اَعمال اُن کی ظاہری حیات کی طرح بدستور جاری رہتے ہیں۔ (۹)

***

۔۔۔۔۔

(۱)       سنن ابن ماجہ:۱۱/۳۷۰حدیث: ۳۸۸۶۔۔۔مسنداحمد:۵۵/۱۱۷ حدیث: ۲۵۸۹۰۔۔۔سنن دارمی: ۶/ ۳۸۰حدیث: ۲۱۹۳۔۔۔ صحیح ابن حبان: ۲۵/ ۱۴۳حدیث: ۶۱۵۴۔۔۔ مشکل الآثار طحاوی: ۵/ ۱۶۳حدیث: ۱۸۱۲۔۔۔کنزالعمال: ۱۵/۳۷۶حدیث: ۴۱۴۵۳۔۔۔مسندجامع: ۵۳/ ۱۳ حدیث: ۱۷۷۴۲۔۔۔ تحفۃ الاشراف: ۱۱/ ۴۱۰حدیث: ۱۸۳۴۸۔۔۔  روضۃ المحدثین: ۷/ ۱۷۱حدیث: ۲۹۴۶۔

(۲)      موطا امام مالک: ۶/ ۲۸ حدیث: ۱۵۰۶۔۔۔کنزالعمال: ۱۵/۳۶۸حدیث: ۴۱۴۰۸۔۔۔صحیح بخاری:۲۱ / ۳۴۱حدیث: ۶۴۷۵۔۔۔ مشکوٰۃ المصابیح : ۲/ ۵۴۳حدیث: ۴۶۰۶۔۔۔معجم کبیر طبرانی: ۳/۲۹۷حدیث: ۲۹۷۹۔۔۔ شعب الایمان بیہقی: ۱۰/ ۲۶۷حدیث: ۴۵۶۳۔۔۔ شرف اصحاب الحدیث خطیب بغدادی: ۱/ ۲۷۳ حدیث: ۲۲۱۔۔۔ مجمع الزوائد و منبع الفوائد: ۳/۲۵۱۔۔۔ کشف الخفاء : ۱/ ۴۱۸حدیث: ۱۳۴۱۔۔۔مسندجامع: ۵۱/ ۱۷۵ حدیث: ۱۷۰۷۹۔۔۔تحفۃ الاشراف: ۱۱/ ۴۱۰حدیث: ۱۳۱۶۰۔

(۳)     صحیح بخاری:۲۱/ ۳۴۹ حدیث: ۶۴۷۸۔۔۔ صحیح مسلم:۱۱/۳۶۰ حدیث: ۴۲۰۶۔۔۔ سنن ترمذی: ۸/۲۳۶ حدیث: ۲۲۰۲۔۔۔ سنن ابن ماجہ:۱۱/۳۷۶ حدیث: ۳۸۹۱۔۔۔مسند احمد:۱۴/۴۲۱حدیث: ۶۸۷۱۔۔۔ مصنف ابن ابی شیبہ:۷/۲۳۳ حدیث:۶۔۔۔ مسند ابویعلی موصلی:۷/۳۱۱ حدیث: ۳۱۹۷۔

(۴)     صحیح بخاری:۲۱/۳۵۳ حدیث: ۶۴۸۲۔۔۔ مسند احمد:۱۵/۲۷۹ حدیث: ۷۲۳۸ ۔۔۔صحیح ابن حبان: ۲۵/ ۱۵۳ حدیث: ۶۱۵۹۔۔۔ کنز العمال:۱۵/۳۸۳ حدیث: ۴۱۴۸۵۔۔۔ مسند جامع:۱۴/۲۹۵ حدیث:۴۵۶۹۔

(۵)     صحیح بخاری:۲۱/۳۵۳ حدیث: ۶۴۸۲۔۔۔ مسند احمد:۱۵/۲۷۹ حدیث: ۷۲۳۸ ۔۔۔صحیح ابن حبان: ۲۵/ ۱۵۳ حدیث: ۶۱۵۹۔۔۔ کنز العمال:۱۵/۳۸۳ حدیث: ۴۱۴۸۵۔۔۔ مسند جامع:۱۴/۲۹۵ حدیث:۴۵۶۹۔

(۶)      سنن ترمذی: ۸/۲۴۳ حدیث: ۲۲۰۶۔۔۔ کنز العمال:۱۵/۳۸۱ حدیث: ۴۱۴۷۳۔۔۔ مسندجامع:۴۴/۱۱۰ حدیث:۱۴۴۴۴۔

(۷)     صحیح بخاری:۲۱/۳۵۰ حدیث: ۶۴۷۹۔۔۔ سنن ابن ماجہ:۱۱/ ۳۷۷ حدیث: ۳۸۹۲۔۔۔ مسند احمد بن حنبل: ۷/۴۱۳ حدیث: ۳۳۷۸۔

(۸)  علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ (م۸۵۲ھ) حضرت سیدنا حلیمی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ مذکورہ حدیث پاک میں نبوت کے چھیالیس ٹکڑوں سے نبوت کے چھیالیس خصائص مراد ہیں۔  پھر انھوں نے وہ خصائص درج ذیل ترتیب سے بیان فرمائے ہیں  :

۱  بغیر کسی واسطے کے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے کلام کرنا۔

۲  بغیر کلام کے اِلہام، یوں کہ کسی حِس اور اِستدلال کے بغیر اپنے دل میں کسی چیز کا علم پانا۔

۳  فرشتے کے ذریعہ وحی ہونا کہ اسے دیکھ کر اس سے کلام کریں۔

۴  فرشتے کا دل میں کوئی بات ڈالنا اور یہ ایسی وحی ہے جو دل کے ساتھ خاص ہے، سماعت کو اس میں دخل نہیں۔ حضرت سیدنا حلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کبھی فرشتہ کسی نیک آدمی کے دل میں بھی کوئی بات ڈالتا ہے،  مگر اس طرح کہ دشمن پر غلبہ کی خواہش دلائے، کسی شے کی رغبت دے اور کسی چیزسے ڈرائے وغیرہ۔تو اس کے سبب اس نیک آدمی سے شیطانی وسوسہ زائل ہو جاتا ہے، اور یہ اس طرح نہیں ہوتا کہ اس سے احکام، اور وعدہ و وعید کے علم کی نفی ہو جائے،  کیوں کہ یہ تو نبوت کے خصائص میں سے ہے۔

۵ عقل کا کامل ہونا کہ اس میں انھیں کوئی عارضہ اَصلاً لاحق نہیں ہوتا۔

۶  باکمال قوتِ حافظہ یہاں تک کہ لمبی سورت یکبارگی سن کر یاد کر لینا کہ پھر اس کا ایک حرف بھی نہ بھولے۔

۷  اجتہاد میں خطا سے محفوظ ہونا۔

۸  عقل وفہم کی غیرمعمولی ذہانت ہونا جس کے ذریعہ مسائل کے اِستنباط میں انھیں مہارت ہوتی ہے۔

۹  بصارت کا قوی ہونا حتیٰ کہ زمین کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی چیز دیکھ لینا۔

۱۰  سماعت ایسی مضبوط ہونا کہ زمین کے ایک کنارے کھڑے ہو کر دوسرے کنارے کی آواز کو سن لینا جو دوسرے نہ سن سکیں۔

۱۱  سونگھنے کی غیر معمولی قوت ہونا جیسے حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کا بہت دور سے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص لائے جانے پر ان کی خوشبوسونگھ لینے کا واقعہ ہے۔

۱۲  جسم کی بہت زیادہ قوت، حتی کہ تیس راتوں کی مسافت ایک رات میں طے کر لینا۔

۱۳  آسمانوں کی طرف تشریف لے جانا۔

۱۴ گھنٹی کی آواز کی مثل وحی نازل ہونا۔

۱۵  بکریوں کا ان سے کلام کرنا۔

۱۶ نبا تات۔

۱۷ درخت کے تنے۔

۱۸  اور پتھروں کا ان سے بات کرنا۔

۱۹  بھیڑیے کے چیخنے کو سمجھنا کہ اس کے لیے کوئی حصہ مقرر کیا جائے۔

۲۰  اونٹ کے بلبلانے کو سمجھنا۔

۲۱  متکلم کو بغیر دیکھے اس کی بات سن لینا۔

۲۲ جنات کو دیکھنے پر قادر ہونا۔

۲۳  غائب اَشیا کی مثال یعنی نقشہ ان کے سامنے ظاہر کر دیا جانا جیسا کہ معراج کی صبح بیت المقدس کا نقشہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منے کیا گیا۔

۲۴  کسی بھی حادثہ کی وجہ جان لینا جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اونٹنی کے بیٹھنے کی وجہ جان لی اور فرمایا تھا کہ ابرہہ کے ہاتھی کو روکنے والی ذات نے اسے روک دیا۔

۲۵  نام سے کام پر استدلال کرنا جیسا کہ سہیل بن عمرو حاضر خدمت ہوا تو ارشاد فرمایا کہ ’اللہ تعالیٰ نے تمہارا معاملہ آسان کر دیا۔

۲۶  آسمان کی کوئی چیز دیکھ کر زمین پر واقع ہونے والے کام پر استدلال کرنا جیسے ایک بار بادل کو دیکھ کر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ بادل بنوکعب کی مدد کے لیے برس رہا ہے۔

۲۷ پیٹھ پیچھے کے حالات ملاحظہ کر لینا(جیسا کہ دورانِ نماز ایک شخص کو داڑھی سے کھیلتے ہوئے ملاحظہ فرمایا)۔

۲۸  وصال کر جانے والے کے متعلق کسی بات کی اِطلاع دیناجیسا کہ حالت جنابت میں جامِ شہادت نوش کرنے والے صحابی سیدنا حنظلہ کے متعلق خبر دی کہ ’میں دیکھ رہا ہوں کہ ملائکہ اسے غسل دے رہے ہیں۔

۲۹  کسی شے کے ظہور سے مستقبل کی فتح پر استدلال کرنا جیساکہ غزوۂ  خندق کے دن ہوا۔

۳۰  دنیا میں رہتے ہوئے جنت و دوزخ کا مشاہدہ فرمانا۔

۳۱  فراست’یعنی ظاہر سے باطن کو جان لینا۔

۳۲ درخت کا اِطاعت کرنا حتیٰ کہ ایک درخت جڑوں اور ٹہنیوں سمیت ایک جگہ سے دوسری جگہ آیا اور پھر واپس اپنی جگہ چلا گیا۔

۳۳  ہرن کا قصہ اور اس کا اپنے چھوٹے بچہ کی حاجت کی شکایت رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کرنا۔

۳۴  خواب کی تعبیر ایسی بیان کرنا جس میں خطا کا ذرا سا بھی اِحتمال نہ ہو۔

۳۵  درخت پر موجود پکی کھجوروں کا اندازہ کر کے بتا دینا کہ ’ان سے اتنے اتنے وزن کے چھوہارے بنیں گے۔اور بغیرکمی بیشی کے ویسا ہی وقوع ہونا۔

۳۶  اَحکام کی ہدایت دینا۔

۳۷  دینی و دنیاوی سیاست کی طرف رہنمائی فرمانا۔

۳۸  عالَم کی ہیئت اور اس کی بناوٹ کی طرف ہدایت فرمانا۔

۳۹ اِصلاحِ بدن کے لیے طب کے مختلف طریقوں کی طرف رہنمائی فرمانا۔

۴۰  عبادت کے طریقوں کی طرف رہنمائی کرنا۔

۴۱ نفع بخش صنعتوں کی طرف ہدایت فرمانا۔

۴۲ مستقبل کے حالات پر مطلع ہونا۔

۴۳ گذرے ہوئے حالات کی خبر دینا کہ جن کو نبی غیب داں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے کسی نے بیان نہ کیا تھا۔

۴۴  لوگوں کے رازوں اور پوشیدہ باتوں پر انھیں مطلع کرنا۔

۴۵  اِستدلال کے طریقے سکھانا۔

۴۶  زندگی گزارنے کے سنہرے اُصولوں سے آگاہ فرمانا۔

(فتح الباری شرح بخاری، کتاب التعبیر: ۱۳/۳۱۳)    چریاکوٹی

(۹)      الذخائر المحمدیہ، سیدعلوی مالکی:۱۱۵۔

٭٭٭

 

 

 

 

بیداری میں دیدارِ مصطفیٰ  اور اقوالِ علما

 

شیخ احمد بن حجر ہیثمی مکی کے فتاویٰ حدیثیہ صفحہ ۲۲۵ پر ایک سوال درج ہے کہ کیا بیداری میں زیارتِ نبوی کرنا ممکن ہے؟۔ تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: اہل علم کا اس سلسلے میں اِختلاف ہے، کچھ نے بالکل اِنکار کر دیا ہے،  جب کہ بعض نے اِسے جائز مانا ہے، اور از روئے شرع یہی بات حق و درست معلوم ہوتی ہے۔ ناممکن جاننے والے علما پر کوئی تنقید کیے بغیر اِس کے جواز کی دلیل بخاری کی اس مشہور حدیث سے پکڑی جا سکتی ہے جس میں آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا  :

من رآني في المنام فسیراني في الیقظۃ۔ (۱)

یعنی جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو وہ جلد ہی بیداری میں دیکھنے کا بھی شرف پائے گا۔

یعنی اپنے سرکی آنکھوں سے بھی مجھے دیکھے گا۔ جب کہ بعض نے کہا کہ اس سے سر نہیں بلکہ دل کی آنکھیں مراد ہیں۔  تاہم اس سے قیامت میں آقا علیہ السلام کی زیارت کو مراد لینا کسی طور درست معلوم نہیں ہوتا۔ جب حدیث میں بیداری کا لفظ مطلق آیا ہے تو

پھر اُسے کسی چیز کے ساتھ خاص کرنے کا کیا فائدہ!،  کیوں کہ بروزِ محشر تو آقا کی ساری اُمت سرعام اُن کی شانِ محبوبی ملاحظہ کرے گی، خواہ اس نے خواب میں آقا کی زیارت کی ہو یا نہ کی ہو۔

لہٰذا حدیث کی مراد یہ ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھنے والا حسب وعدہ بیداری میں بھی دیدارِ مصطفیٰ سے مشرف ہو گا، خواہ ایک ہی بار،  تاکہ آقا علیہ السلام کا کیا ہوا وعدۂ  مبارکہ سچ ثابت ہو،  کیوں کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ وہ وعدہ خلافی فرمائیں۔  عامۃ الناس کے لیے اکثر و بیشتر اس کا وقوع قبل از موت اُس وقت ہوتا ہے جب جان لبوں پر ہوتی ہے، تو طائر روح اُس وقت تک اُس کے قفس جسم سے پرواز نہیں کرتا جب تک کہ وہ اُس وعدے کو پورا ہوتا ہوا نہ دیکھ لے۔

لیکن خواص کا معاملہ اس سے جدا ہے کہ انھیں یہ سعادت اُن کی اہلیت، شوق ورغبت، تعلق ونسبت، اوراتباعِ سنت کے مطابق دم رخصتی سے پہلے عطا کر دی جاتی ہے، اور انھیں رکاوٹ اِنہی مذکورہ چیزوں میں کمی کے باعث ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔

( اسی سے کچھ ملتی جلتی بڑی دلچسپ بات علامہ سید محمد بن علوی مالکی نے ’ذخائر محمدیہ میں بھی کی ہے، وہ فرماتے ہیں : ارشادِ رسالت مآب ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو وہ عنقریب مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا۔ اس کے بارے میں علما کا خیال ہے کہ یہ دیدار حالت بیداری میں دنیا کے اندر ہی ہو گا، اگرچہ موت کے قریب ہی کیوں نہ ہو۔

جن لوگوں نے بیداری کے دیدار کو آخرت کے دیدار سے تعبیر کیا ہے،اہل علم نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ قیامت کے دن تو ہر مومن سرکارِاقدس علیہ السلام کے دیدار سے شرف یاب ہو گا، چاہے اس نے عالم دنیا میں دیدار کیا ہو یا نہ کیا ہو،  بلکہ کفار و منافق بھی قیامت کے دن نوبہارِ شفاعت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھیں گے، اور آپ کے مقام و مرتبے کو تسلیم کریں گے۔

دنیا میں بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ بعض اہل ایمان کوفراست و بصیرت جیسے کمال سے نواز دیتا ہے اور ان کے دل کو صاف وشفاف بنا دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد گرامی ہے  :

کَمِشْکٰوۃٍ  فِیْہَا  مِصْبَاحٌ،   الْمِصْبَاحُ  فِیْ  زُجَاجَۃٍ، الزُّجَاجَۃُ کَأَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُوقَدُ مِن شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْْتُونِۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَلَا غَرْبِیَّۃٍ یَکَادُ زَیْْتُہَا یُضِٓیْئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ،  نُّورٌ عَلَی نُورٍ o (سورۂ  نور:۳۳/۳۵)

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اس طاق(نما سینہ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے،  (وہ) چراغ، فانوس (قلبِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں رکھا ہے۔ (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پرتو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے (یہ چراغِ نبوت) جو زیتون کے مبارک درخت سے (یعنی عالم قدس کے بابرکت رابطۂ  وحی سے یا اَنبیا و رسل ہی کے مبارک شجرۂ  نبوت سے) روشن ہوا ہے نہ (فقط) شرقی ہے اور نہ غربی (بلکہ اپنے فیضِ نور کی وسعت میں عالم گیر ہے)۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل(خود ہی) چمک رہا ہے اگرچہ ابھی اسے (وحی ربانی اور معجزاتِ آسمانی کی) آگ نے چھوا بھی نہیں، (وہ) نور کے اوپر نور ہے،(یعنی نورِ وجود پر نورِ نبوت گویا وہ ذات دوہرے نور کا پیکر ہے)۔

دراصل یہ تمثیل ہے اُن لوگوں کی جن کے دلوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نورِ ایمان کے علاوہ علوم و معارف سے بھی منور کر دیا ہے۔اور یہ تمثیل ہے عارف کے دل، اور اس کے معارف کی، جو کوئی اس طرح کے دل کا مالک ہو وہ درحقیقت حالتِ  بیداری میں بھی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدار کا اہل ہے اور اسی طرح دوسرے غیوب کا بھی۔(۲)

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزانہ دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اس کا اہل بنائے، ہمارے دلوں کو بھی وہ فراست مومنانہ نصیب کرے، اور اس راہ کا مسافربننے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ بے شک اسے ہرچیز پر کامل قدرت ہے، اور وہ دعائیں بھی قبول فرماتا ہے۔ وہ کتنا اچھا حامی وناصر ہے!۔

             وصلی اللّٰہ علی البشیر النذیر، والسراج المنیر وعلیٰ آلہ و اصحبہ والتابعین لہم إلی یوم الدین، والحمد للّٰہ رب العٰلمین

***

(۱)       صحیح بخاری:۲۱/۳۴۹ حدیث: ۶۴۷۸۔۔۔ صحیح مسلم:۱۱/۳۶۱ حدیث: ۴۲۰۷۔۔۔ سنن ابوداؤد:۱۳/۲۱۱ حدیث: ۴۳۶۹۔۔۔ مسند احمد:۴۶/۹۹ حدیث: ۲۱۵۵۸۔۔۔ معجم کبیر طبرانی:۱۴/۲۰۷ حدیث:۱۶۰۱۵۔

(۲)      الذخائر المحمدیہ، سیدمحمد بن علوی مالکی۔

٭٭٭

 

 

 

خواب اور علم مکاشَفہ کی باریکیاں

 

امام ابوحامد غزالی رضی اللہ عنہ ’احیاء علوم الدین میں فرماتے ہیں  :

ہم جیسے لوگوں کے لیے تو بس ایک دھندلا سا مشاہدہ ہی ممکن ہے، اگرچہ یہ بھی نبوی مشاہدہ ہے۔ اور اس سے ہماری مراد خواب ہے جو نبوت کے اَنوار میں سے ایک نور ہے۔  جس کے متعلق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’اچھے خواب نبوت کا چھیالیسواں ٹکڑا ہوا کرتے ہیں۔

خواب بھی ایک انکشاف ہے، اور اس وقت ہوتا ہے جب دل سے پردہ ہٹ جاتا ہے۔ اسی لیے صرف اس شخص کے خواب کا اِعتبار ہوتا ہے جو نیک چلن اور راست باز ہو،   لیکن جو شخص بہت زیادہ جھوٹ بولتا ہے اس کا خواب قابل اِعتبار نہیں ہوتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جس شخص کے معاصی زیادہ ہوتے ہیں اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے، اور وہ نیند کے عالم میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ خوابِ پریشاں کہلاتا ہے۔ اسی لیے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سونے سے پہلے وضو کا حکم دیا ہے تاکہ آدمی پاک ہو کر سوئے۔

اس حدیث میں باطن کی طہارت کے لیے تکمیل اورتتمہ ہے۔آپ دیکھیں نا کہ جب باطن صاف ہوتا ہے توقلب مبارک پر مکہ مکرمہ میں داخلہ منکشف ہو گیا تھا،  حتیٰ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے مکاشفے کی تصدیق کے لیے یہ آیت نازل فرمائی  :

لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤیَا بِالْحَقِّ o (سورۂ  فتح:۴۸/۲۷)

بے شک اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو حقیقت کے عین مطابق سچا خواب دِکھایا تھا۔

شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو سچا خواب نہ دیکھ پاتا ہو،  ورنہ عام طور پر لوگ خواب میں ایسی باتیں دیکھ لیتے ہیں جو بعد میں حقیقت بن کر سامنے آتی ہیں۔  خواب کا سچا ہونا، اور نیند میں اُمورِ غیب کی معرفت اللہ تعالیٰ کے عجائب صنعت اور فطرتِ انسانی کے روشن اور عمدہ پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے، اور عالم ملکوت پر واضح ترین دلیل ہے۔

مخلوق جس طرح قلب اور عالم کے دیگر عجائبات سے غافل ہے اسی طرح وہ خواب کے عجائب سے بھی غافل ہے،  لیکن خواب کی حقیقت کا بیان علومِ مکاشفہ کے دقائق سے متعلق ہے اور یہاں علم معاملہ سے ہٹ کر گفتگو نہیں کی جا سکتی۔(۱)

دیدارِ مصطفیٰ کی گوناگوں شکلیں

اے عاشقانِ رسول! یہ بات ذہن نشیں رکھیں کہ توفیق الٰہی جس کے شامل حال ہوتی ہے، وہ شہنشاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوبہت سی شکلوں میں ملاحظہ کرتا ہے۔ اور ایسا کچھ دیکھنے والے کے مرتبہ و حال کے باعث ہوتا ہے،  کیوں کہ اس کے اِستقامت و خدا خوفی اور صحیح طورپراَدائیگی فرائض کی کیفیت یکساں نہیں ہوتی۔ پھر جیسے جیسے دیکھنے والے کے اَحوال واَفعال سنورتے جاتے ہیں جانِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاجمالِ  جہاں آرا بھی اُس کے لیے بدستور بڑھتا چلا جاتا ہے۔

کبھی وہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بالکل اُسی طرح دیکھتا ہے جیسا اُس نے کتب شمائل میں آپ کی بابت پڑھ رکھا تھا،  حالاں کہ تاجدارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حسن و جمال، آپ کے اَوصافِ حمیدہ، کمالاتِ چیدہ، اَنوار و تجلیات، اور فیوض و برکات اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔  ہم صحیح طور پر اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے، اس کا صحیح علم اُس خالق و مالک عزوجل ہی کو ہے۔     (ع:  مقامِ مصطفیٰ کیا ہے محمد کا خدا جانے)

شیخ یوسف نبہانی نے ایک مرتبہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں اِستدعا کی کہ اے پروردگار! مجھے خواب میں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اُسی طرح دیدار کرا جیسے صحابۂ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے سر کی آنکھوں سے اُس حسن بے پناہ فخراِنس و جاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکا کرتے تھے۔

چنانچہ آپ نے اس مقصد کے حصول کے لیے جب تین ہزار بار سورۂ  اِخلاص کا ورد کیا توقسمت کاستارہ چمک اُٹھا اور ایسے عظیم و جلیل اَوصاف کے ساتھ سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا کہ خود اِعترافِ عجز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُس مبارک خواب کی تعبیرو تشریح میرے لیے حرف و صوت سے ممکن ہی نہیں  اللہ ایسا خوابِ گراں مایہ انھیں مبارک فرمائے

’مفاتیح المفاتیح میں آتا ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تعلق سے کچھ اَدھورا اور ناقص خواب دیکھتا ہے، تو یہ دراصل دیکھنے والے کے اَحوال و مرتبے کا قصور و فتور ہوتا ہے کہ (سنت و شریعت پر) اِستقامت و ثبات قدمی کے معاملے میں اس کے اَحوال بدلتے رہتے ہیں۔  شہنشاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مثال آئینے کی سی ہے(کہ جو جیساہوتا ہے وہ آئینے میں ویسا ہی نظر آتا ہے)۔

ابوحامد غزالی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  :

(دیدارِ مصطفیٰ سے) مراد یہ نہیں ہوتا کہ دیکھنے والا سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بدن مبارک اورجسم اقدس دیکھتا ہے بلکہ اسے اس کا عکس و تمثیل نظر آتا ہے۔ تو گویا وہ مثال ایک آلے کی مانند ہوئی کہ جو نفس معنی و مفہوم پیش کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اَب آلہ کبھی حقیقی ہوتا ہے اور کبھی خیالی۔اور نفس خیالی مثال نہیں،   لہٰذا وہ جو شکل دیکھتا ہے وہ اصلاً نہ روحِ مصطفیٰ ہوتی ہے،اور نہ اُن کی اصل شخصیت،   بلکہ سچی بات یہ ہے کہ وہ ایک عکس و مثال ہوتی ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

رفیق گرامی!  موضوع کی مناسبت سے بہتر ہو گا کہ امام مناوی کی کتاب ’فیض القدیر سے بھی کچھ نقل کر دیا جائے،  شاید وہ بھی اِتمام فائدہ اور اِس نکتے کو سمجھنے میں معاون ہو۔ اور توفیق و نصرت اللہ ہی کی جانب سے ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے مجھے ہی دیکھا،  کیوں کہ شیطان کبھی میری شکل میں نہیں آسکتا!۔

من رآني في المنام کی شرح میں آتا ہے کہ اس سے سونے کی حالت مراد ہے،  مگر عصام کہتے ہیں کہ  ’سونے کی حالت محل نظر ہے، اور اس سے مراد یہ ہے کہ دیکھنے والے نے مجھے بالکل اُنھیں صفات کے ساتھ دیکھا جن پرمیں ہوں،   گویا دیکھنے والے کو بشارت دی جا رہی ہے کہ اس نے درحقیقت مجھے میری اصل ہیئت کے ساتھ دیکھ لیا۔

اب اس صورت میں شرط وجزا متحد نہ ہوئیں،  اور یہاں دراصل خبر دینا مقصود ہے کہ جس نے مجھے دیکھ لیا تواسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا دیکھنا بالکل حق وسچ تھا، کوئی خوابِ پریشاں یا  تخیلاتِ شیطانیہ نہیں تھا۔ پھر اس معنی کی مزید تائید و توثیق کے لیے آگے یہ فرما دیا کہ ’شیطان کبھی میرا روپ نہیں دھار سکتا۔

صحیح مسلم کی ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ ’شیطان کو حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ میری شکل وشباہت اِختیار کرے۔

دوسری روایت میں یوں ہے کہ ’اسے میری صورت میں متمثل ہو کر آنے کا کوئی حق نہیں۔  اور صحیح مسلم کے علاوہ دوسری روایتوں میں یوں وارد ہوا ہے کہ ’وہ کبھی میرے جیسا بن کر نہیں آسکتا۔ اور ایسا اس لیے ہے تاکہ وہ اُس روپ میں اپنی زبان سے جھوٹ بولنے کی جرأت نہ کر سکے،  حتیٰ سونے کی حالت میں بھی، بالکل اسی طرح جس طرح عالم بیداری میں شیطان کا آپ کی صورت دھارنا محال ہے۔ اگر ایسا ہو نے لگے پھرتو حق وباطل کڈمڈ ہو کر رہ جائیں۔  اسی سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ جملہ انبیائے کرام کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔

ظاہر حدیث سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ زیارتِ نبوی حق ودرست ہے،  گرچہ مشہورو معروف صفات کے ساتھ نہ ہو۔ نووی نے اسی کی تصریح کی ہے،مگرساتھ ہی امام ترمذی اور قاضی عیاض وغیرہ کی طرح آپ نے اس حکم کو مقید مانا ہے کہ (یہ اس وقت ممکن ہے کہ) اگر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اُن کی معروف صورت میں اُن کی حیاتِ ظاہری میں دیدار کر چکا ہو۔ بعض دیگر محققین نے بھی اس کی موافقت کی ہے۔

پھر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کو آپ کی معروف صورت کے برعکس دیکھا جائے، جب کہ دو مختلف جگہوں پر دو شخص آپ کو ایک ہی حالت میں دیکھ رہے ہیں۔  بدن تو آخر ایک ہی ہے جو بیک وقت ایک ہی جگہ پر رہ سکتا ہے۔

جواب یہ ہے کہ یہاں ذات میں تغییر مراد نہیں بلکہ صفات میں،   تو آپ کی ذاتِ مبارک اللہ کے چاہے سے کہیں بھی ہو سکتی ہے،  مگر آپ کی صفات ذہنوں میں خیال بن کر جلوہ فگن ہوتی ہیں۔  اوراس میں اِدراک شرط نہیں اور نہ قربِ مسافت۔ نہ یہ شرط ہے کہ وہ زمین کے اوپر حیاتِ دنیوی کے ساتھ ظاہر ہو،  البتہ اس کا موجود ہونا ضروری ہے۔(۲)

***

(۱)       احیاء علوم الدین::۴/۵۰۴۔

(۲)      فیض القدیر، مناوی: ۶/۱۳۱۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایک شب میں بہت سوں کا دیدارِ مصطفیٰ کرنا

 

اُمت کے علما و اَکابر کے بقول تمام اہل زمین کے لیے ایک ہی رات میں حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دیدار ممکن ہے،  کیوں کہ تمام عالم آئینہ کی مانند ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیثیت ایک سورج کی سی ہے۔ جب یہ سورج چمکتا ہے تو ہر ایک آئینے کے ظرف کے مطابق اس میں سورج کی صورت نظر آتی ہے۔ اب یہ آئینے پر منحصر ہے کہ وہ بڑا ہے یا چھوٹا۔ صاف ہے یا گندا۔ لطیف ہے یا کثیف۔ تو جس قسم کا شیشہ ہو گا، سورج بھی اسی لحاظ سے اس میں چمکے گا۔ اَب اگر شیشہ گندا یا چھوٹا ہو تو اس میں سورج صاف نظر نہیں آئے گا۔ ایسی صورت میں قصور شیشے کاہو گا نہ کہ سورج کا۔

یوں ہی  جو شخص بھی سرکارابدقرار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دیدار کرتا ہے وہ در اصل اپنے نفس و دل کے آئینے کے مطابق دیکھتا ہے۔ اگر وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو صفت کمال پر دیکھتا ہے تو یہ کمال خود دیکھنے والے کا ہے، یا اگر وہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دیدار کسی نامناسب حالت میں کرتا ہے تو یہ نقص خود دیکھنے والے میں ہے۔

کوئی اِسی ماہ کی بات ہے کہ مدینہ منورہ کی پر بہار فضاؤں میں مکین گنبدخضراسے نسبت و تعلق رکھنے والے ایک عاشق صادق  نے ’السیرۃ العطرۃ کے عنوان سے سیرت نبوی پر ایک کتاب تالیف کی۔ اس کتاب کی تالیف کے دوران اُس کی قسمت مہربان ہو گئی، اور وہ خواب میں شہنشاہِ کون و مکاں  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوا، اوراس نے آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کو نہایت ہشاش بشاش خوشگوار حالت میں دیکھا۔

لیکن اس نے جن اَنوار و تجلیات کا مشاہدہ اِس بار کیا تھا، اس سے پہلے کے خوابوں میں اُسے وہ ذاتِ نبوی میں نظر نہ آئے تھے، جسے سوچ سوچ کر وہ خواب ہی میں حیران وپریشان ہو رہا ہے کہ نہ معلوم یہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی ہیں، یا کوئی اور؟۔ ابھی وہ اسی شش وپنج کی کیفیت میں مبتلا تھا کہ آقائے کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے آواز دے کر بلایا اور فرمایا: اے شخص! میں (تیرا نبی) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی ہوں۔

قابل مبارک باد ہیں اس نورِ مبین سے تعلق خاطر جوڑ لینے والے۔انھیں کو تو اللہ پاک نے کل کائنات کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ جس وقت وہ سورج ان پر اپنی کرنیں بکھیرتا ہے تو وہ بصارت وبصیرت دونوں کے ساتھ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔  اور یہ سورج کوئی اور سورج نہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اَنوار کا سورج ہے۔

جوں جوں اُن کی آنکھیں اس سورج سے روشنی کشید کرتی ہیں ان کے نکہت و نور  اور کیف وسرور میں مزید  اِضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔یہ نوراس وقت ان پر جلوے بکھیرتا ہے جب ان کے دلوں کے برتن شفاف ہوتے ہیں۔ یوں ہی حسن سیرت اور اخلاقِ کریمانہ کا رنگ اس وقت چڑھتا ہے جب وہ فرائض کی اَدائیگی میں چوبند ہوتے ہیں،  اور ہر وہ چیز محبوب رکھتے ہیں جس کو اللہ ورسول نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔

نیز دیدارِ مصطفیٰ کی دولت سے مشرف ہونے والے کا فرض بنتا ہے کہ اللہ کے لیے تواضع واِنکساراِختیار کرے، اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے سراپا اَدب بنا رہے۔ اللہ اُسے انھیں مقامات پر دیکھے جو اُسے محبوب و مرغوب ہیں،  اور اللہ ورسول کی ناراضگی کے جگہوں پروہ بھولے سے بھی نہ جائے۔ اگر اس نے یہ خصلتیں اپنے اندر پیدا کر لیں تو پھر ہمہ وقت وہ اللہ کی معیت میں ہو گا۔ اور جو اللہ کے ساتھ ہوتا ہے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صاحبانِ تقویٰ ہیں اور محسنین بھی۔۔۔ یہی اللہ (والوں ) کی جماعت ہے، اور یاد رکھنا بے شک اللہ(والوں )کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے۔۔۔ یقیناً اِس قسم کی چیزوں کے حصول میں شائقین کو جلد کوشش کر کے سبقت لے جانا چاہیے۔۔۔ اور دراصل ایسی(کامیابی) کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔

وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّوْنَ  اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْْبِ وَالشَّہَادَۃِ  فَیُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (سورۂ  توبہ:۹/۱۰۵)

اور فرما دیجیے: تم عمل کرو، عنقریب تمہارے عمل کو اللہ(بھی) دیکھ لے گا اور اس کا رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی) اور اہلِ ایمان(بھی)، اور تم عنقریب ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے(رب) کی طرف لوٹائے جاؤ گے، سو وہ تمہیں ان اَعمال سے خبردار فرما دے گا جو تم کرتے رہتے تھے۔

وصلی اللّٰہ علیٰ سیدنا محمَّدٍ وعلیٰ اٰلہٖ وصحبہٖ وسلم۔

موقع کی مناسبت سے یہ واقعہ پیش کرنا خالی اَز فائدہ نہ ہو گا کہ میرے بچپن کے زمانے میں کسی نے والد گرامی علیہ الرحمہ سے سوال کیا:  یہ کیسے ممکن ہے کہ (کل بروزِ قیامت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکیلے اپنے حوض سے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے تمام اُمت کو کوثر کے جام بھر بھر کر پلائیں گے؟۔

تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ بالکل اسی طرح جیسے ایک اکیلا سورج پوری دنیا کو اپنی روشنی سے روشن و منور رکھتا ہے۔ یہ تشفی بخش جواب سن کر اُن کی اُلجھنیں ختم ہو گئیں،  اور خوشی خوشی وہاں سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

 

تین قسم کے خواب

 

اے عاشقانِ خیر الانام! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ خواب تین قسم کے ہوتے ہیں : بشارت والا خواب، اور یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ شیطانی خواب، جو اِنسان کے لیے حزن  وپریشانی کا باعث بنتا ہے۔ عام خواب، جو دراصل اِنسان کے اپنے حالات و خواہشات کا عکاس ہوتا ہے۔

پہلا: اللہ عزوجل کی طرف سے ہونے والا خواب جو اپنے اندر  بشارت و نوید رکھتا ہے،  کیوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کو خوش خبریاں سنا تھا رہتا ہے۔ اور وہ اپنے بندوں پر بے اِنتہا لطیف و مہربان ہے۔

دوسرا: شیطان کی طرف سے ہونے والا خوابِ پریشاں،  جو اِنسان کی پریشانی میں اِضافہ کر جاتا ہے،  کیوں کہ شیطان نے تواِنسان سے کھلی دشمنی مول لے لی ہے، حتیٰ کہ وہ خواب میں بھی بدلہ لینے کا کوئی موقع رائیگاں نہیں جانے دیتا۔

تیسرا:  وہ خواب، جس میں اِنسان خود اپنی ہی ذات سے ہم کلام ہوتا ہے۔

حضور رحمت عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک طویل حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں  :

ایک صالح خواب، جو اللہ کی طرف سے بشارت و نوید ہے۔ دوسراغمگین کرنے والا خواب، جو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔تیسرا وہ خواب جو انسان کے خیالات اور خواہشات کا عکس ہوتا ہے،  لہٰذا اگر تم میں سے کوئی شخص ناپسندیدہ خواب دیکھ لے تو فوراً اُٹھ کھڑا ہو اور وضو کر کے نماز اَدا کرے، اور لوگوں کو وہ خواب بیان نہ کرے۔ آپ نے فرمایا: میں خواب میں بیڑیاں دیکھنا پسند کرتا ہوں،  اور طوق دیکھنا ناپسند کرتا ہوں۔  بیڑیوں سے مراد دین میں ثابت قدمی ہے۔(۱)

راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ یہ (آخری) کلام حدیث کا حصہ ہے یا امام ابن سیرین کا قول ہے۔ اسی سے ملتی جلتی ایک روایت جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وارد ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے(خواب میں ) بیڑیاں اچھی لگتی ہیں۔ اور میں طوق کو ناپسند کرتا ہوں۔  اور بیڑیوں سے مراد دین میں ثابت قدمی ہے۔

***

(۱)       جمع الفوائد:۱۲۷۔

حاشیہ:  فیض القدیر میں علامہ مناوی علیہ الرحمہ نے بعض علمائے کرام کے حوالے سے نقل فرمایا ہے کہ اچھا خواب وحی کی اَقسام میں سے ہے،  لہٰذاسویاہوا شخص معرفت الٰہی میں سے جس شے سے ناواقف ہوتا ہے، اللہ عزوجل اس کو اس پر مطلع فرما دیتا ہے، اور پھر اس کا وقوع و ظہور حالت بیداری میں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب صبح کرتے تو حضراتِ صحابۂ  کرام سے اِستفسار فرماتے: کیا آج کی شب تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا؟۔ اور یہ اس لیے تھا کہ اچھا خواب سب کا سب آثارِ نبوت میں سے ہے۔ لہٰذا اُمت کے سامنے اسے ظاہر فرمانا لازم ٹھہرا۔ اور لوگ اس مرتبہ سے بالکل ناواقف ہیں جسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اہمیت دیتے اور اس کے متعلق روزانہ دریافت فرماتے۔ جب کہ اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواب دیکھ کر اس پر اعتماد کرنے والے شخص کا مذاق اُڑاتے ہیں۔   فیض القدیر:۴/۵۹، بحوالہ حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ:۵۶۱۔                                                چریاکوٹی

٭٭٭

 

 

 

آدابِ خواب

 

خواب کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔  خواب دیکھنے والے کو چاہیے کہ اس کے لیے تحری کرے۔خواب دراصل بندہ اور اس کے رب کے درمیان ایک سربستہ راز ہے۔ نیز یہ خواب اللہ کی ایک نعمت ہے،اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے وہ یہ نعمت عطا کر دیتا ہے،  اس لیے خواب دیکھنے والے کو ہمیشہ سچائی اور صدق بیانی سے کام لینا چاہیے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا  :

إذا اقترب الزمان لم تکن رؤیا المسلم تکذب وأصدقکم رؤیا أصدقکم حدیثا۔  ورؤیا المسلم جزء من ستۃ وأربعین جزء ًا من النبوۃ۔  (۱)

یعنی جب زمانہ قریب ہو جائے گا تو مسلمان کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا۔ جو شخص زیادہ سچا ہو گا اس کا خواب بھی زیادہ سچا ہو گا۔ مسلمان کا خواب نبوت کے اَجزا میں سے چھیالیسواں حصہ ہے۔

حضور اکرم رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :

أصدق الرؤیا بالأسحار۔  (۲)

یعنی رات کے آخری پہر میں دیکھے جانے والے خواب زیادہ سچے ہوتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو کوئی ایسا خواب بیان کرے جو اس نے دیکھا ہی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے جَوکے دو دانوں میں گِرہ لگانے کے لیے فرمائے گا،  مگر وہ ایسا کبھی نہ کرسکے گا۔ اور جس نے لوگوں کی بات کان لگا کر سنی،  حالانکہ وہ اسے ناپسندکرتے ہیں یا اس سے کنارہ کش رہتے ہیں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا، اور جس نے کوئی تصویر بنائی تو اس سے اس میں جان ڈالنے کے لیے کہا جائے گا جب کہ وہ اس میں کبھی جان نہیں ڈال سکے گا۔(۳)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ کوئی شخص اُس چیز کو آنکھوں دیکھنے کا دعویٰ کرے جو اس کی آنکھوں نے دیکھا نہ ہو۔(۴)

***

(۱)       امام نووی علیہ الرحمہ نے شرحِ مسلم میں اِس حدیث کے تحت کہ جب زمانہ قریب ہو جائے گا تو مسلمان کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا نقل کیا ہے کہ حضرت امام ابوسلیمان احمد خطابی اور دیگر مشائخ فرماتے ہیں کہ ایک قول کے مطابق قربِ زمانہ سے مراد وہ وقت ہے جس میں دن اور رات قریب قریب برابر ہوتے ہیں (یعنی موسم بہار کے شب و روز جن میں طبیعتیں اِعتدال پر ہوتی ہیں۔ اور ایک قول یہ ہے کہ قربِ زمانہ سے مراد قیامت کے قریب کے ایام ہیں۔    (حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ:۵۶۲)                   چریاکوٹی

(۲)     سنن ترمذی:۸/ ۲۳۳ حدیث: ۲۲۰۰۔۔۔ مسند احمد بن حنبل: ۲۲/۳۵۵ حدیث: ۱۰۸۱۰۔۔۔ مستدرک حاکم: ۱۹/۶۴ حدیث: ۸۲۹۸۔۔۔ شعب الایمان بیہقی:۱۰/۲۸۴ حدیث: ۴۵۸۰۔۔۔ سنن دارمی: ۶/۳۹۶ حدیث: ۲۲۰۱۔۔۔ مسند ایویعلی موصلی:۳/۳۷۰ حدیث: ۱۳۲۶۔۔۔ صحیح ابن حبان:۲۵/۱۳۱ حدیث: ۶۱۴۸۔۔۔ مسند عبد بن حمید:۳/۴۸ حدیث: ۹۳۰۔۔۔ مسند جامع:۱۴/۲۹۸حدیث:۴۵۷۲۔

(۳)     صحیح بخاری: ۲۱/۴۲۶ حدیث: ۶۵۲۰۔۔۔ سنن ترمذی: ۸/۲۴۶ حدیث: ۲۲۰۸۔۔۔ سنن ابن ماجہ: ۱۱/۳۹۷ حدیث: ۳۹۰۶۔۔۔ سنن کبریٰ بیہقی: ۷/۲۶۹۔۔۔ بغیۃ الحارث: ۱/۷۶۔

(۴)     صحیح بخاری: ۲۱/۴۲۷ حدیث: ۶۵۲۱۔۔۔مسند احمد بن حنبل:۱۱/۴۹۰ حدیث: ۵۴۵۳۔معجم کبیر طبرانی: ۱۵/ ۴۴۶حدیث: ۱۷۶۳۶۔۔۔ شعب الایمان بیہقی: ۱۰/۳۴۱ حدیث: ۴۶۳۷۔

٭٭٭

 

 

 

 

آدابِ خواب  حدیث کی روشنی میں

 

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :سچے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی برا اور ناپسندیدہ خواب دیکھ بیٹھے تو فوراً اپنی دائیں طرف تین بار تھوکے، اور اللہ کی اس سے پناہ مانگے۔تواس کا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔(۱)

دوسری روایت میں یہ آتا ہے کہ حضرت ابوسلمہ نے فرمایا:میں عام طور پر ایسے ایسے خواب دیکھا کرتا تھا جو مجھ پر پہاڑ سے زیادہ وزنی معلوم ہوتے تھے،  لیکن جب سے یہ حدیث سنی تو اب ان کی کوئی پرواہ نہیں رہی۔(۲)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی ناپسند خواب دیکھے تواسے اپنے دائیں طرف تین مرتبہ تھوک کر اللہ کی شیطانِ رجیم سے تین بار پناہ مانگنی چاہیے، اور پھر اپنی کروٹ بدل لے۔(۳)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مومن کا خواب نبوت کا چالیسواں حصہ ہوتا ہے۔جب تک اس کا تذکرہ نہیں کرتا وہ اس کے اوپر پرندے کی مانند لٹکا ہے،  لیکن بیان کرتے ہی وہ نیچے گر جاتا ہے۔ راوی کہتے ہیں میرا گمان ہے کہ آقا علیہ السلام نے اس کے بعد یہ فرمایا:اس لیے تم اپنے خواب کسی دانا شخص یادوستوں ہی سے بیان کیا کرو۔(۴)

نیز حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ سچاخواب نبوت کا سترواں حصہ ہوتا ہے۔۔۔۔

اس حدیث کی روشنی میں ہمارا عمل یہ ہونا چاہیے کہ ہم جب کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھیں تو اپنے دائیں طرف تھوک کر شیطان کے شرسے پناہ مانگیں،  اور وہ کچھ کریں جو اس حدیث میں وارد ہوا ہے۔

مزید برآں اچھے خوابوں کو صرف با شعور لوگوں یا دوستوں ہی سے بیان کریں۔  میں نے ایک مرتبہ کسی عظیم شیخ کی زبانی سنا، وہ فرما رہے تھے کہ تم اپنے خوابوں کو تین شخصوں کے سوا کسی سے نہ بتایا کرو: اپنے شیخ سے۔ اپنے والدسے اور اپنے دینی دوست سے۔

یاد رہے کہ ہم میں سے جب بھی کوئی غیرپسندیدہ خواب دیکھے تواسے کسی سے بتانے کی جرأت نہ کرے، بلکہ شیطان سے  پناہ مانگے،  کیوں کہ برا خواب برے شیطان کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی دیکھتے چلیں،  وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی بارگاہِ رسالت میں آیا اور عرض کیا: (یارسول اللہ) میں نے خواب دیکھا ہے کہ میرا سر کٹا ہوا ہے اور میں اس کے پیچھے دوڑا چلا جا رہا ہوں۔

یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ شیطان نے خواب میں تمہارے ساتھ کیا شرارت کی ہے اس کے بارے میں کسی سے کچھ نہ بتایا کرو۔(۵)

امام دارمی بعض صحابہ سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا: (خواب کے نقطہ نگاہ سے) دودھ فطرت کی، کشتی نجات کی،بوجھ غم کی،ہریالی جنت کی، اور عورت خیر کی علامت ہے۔ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکثر و بیشتر صحابہ کرام سے پوچھتے رہتے تھے کہ کیا تم نے کوئی خواب دیکھا ہے؟۔ تو اگر کسی نے دیکھا ہوتا تو اللہ کی توفیق سے اسے بیان کر دیتا۔

***

(۱)       صحیح بخاری: ۲۱/۳۶۳ حدیث: ۶۴۸۸۔۔۔موطا امام مالک:۶/۲۹حدیث: ۱۵۰۷۔۔۔ مسند احمد بن حنبل: ۴۶/۹۳ حدیث:۲۱۵۵۲۔سنن کبریٰ نسائی: ۶/۲۲۴ حدیث: ۱۰۷۳۵۔

(۲)      صحیح بخاری: ۱۸/۳۰ حدیث: ۵۳۰۶۔۔۔موطا امام مالک:۶/۲۹حدیث: ۱۵۰۷۔۔۔ صحیح ابن حبان: ۲۵/ ۱۶۷حدیث: ۶۱۶۶۔۔۔مسند جامع:۳۸ /۳۹۹حدیث:۵۹۵۹۔

(۳)     صحیح مسلم: ۱۱/۳۵۲حدیث: ۴۱۹۹۔۔۔سنن ابن ماجہ: ۱۱/۳۸۵ حدیث: ۳۸۹۸۔۔۔ مسنداحمد بن حنبل: ۲۹/ ۳۰۲ حدیث: ۱۴۲۵۳۔۔۔  مصنف ابن ابی شیبہ: ۷/۲۴۰۔۔۔ مستدرک حاکم:۱۹/۶۳ حدیث: ۸۲۹۷۔

(۴)     سنن ابو داؤد:۱۳/۲۰۸ حدیث: ۴۳۶۶۔۔۔ سنن ترمذی: ۸/۲۴۰ حدیث: ۲۲۰۴۔۔۔ سنن ابن ماجہ: ۱۱/۳۹۳ حدیث: ۳۹۰۴۔۔۔ مسند احمد بن حنبل: ۳۲ /۴۲۱ حدیث: ۱۵۶۰۶۔۔۔ مصنف ابن ابی شیبہ: ۷/ ۲۳۰۔

(۵)     صحیح مسلم:۱۱/۳۶۶ حدیث: ۴۲۱۱۔۔۔ سنن کبریٰ نسائی:۶/۲۲۶ حدیث: ۱۰۷۴۸۔۔۔ مستدرک حاکم: ۱۹/۶۲ حدیث: ۸۲۹۶۔۔۔ صحیح ابن حبان: ۲۵/۱۶۱ حدیث: ۶۱۶۳۔

٭٭٭

 

 

 

صرفِ دیدار نہ پانے والا بد دل نہ ہو

 

ایک عاشق صادق یہ بات ذہن نشین کر لے کہ حسب توفیق وظائف و فوائد پڑھنے کے بعد بھی اگر وہ دیدارِ مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کی دولت سے شرف یاب نہیں ہوتا تواسے اِس کا کوئی قلق و اِضطراب نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی بہتری کا علم صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کو ہوتا ہے، اور اللہ اپنے بندوں کے لیے ہمیشہ بھلائی ہی چاہتا ہے۔

اس عاشق صادق کے لیے یہی شرف وسعادت کیا کم ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسے تلاوتِ قرآن،توبہ واِستغفار، درودوسلام اور یہ اوراد و وظائف وغیرہ پڑھنے کی توفیق مرحمت فرمائی۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ قرآن کے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں،   اور الٰمٓ کے اَندر تین حروف ہیں جس کو پڑھنے کے نتیجے میں اُسے تیس نیکیاں ملیں گی۔

پھر آپ اندازہ فرمائیں کہ جس نے۴۱مرتبہ سورۂ  مزمل  یا ہزار بار سورۂ  کوثر یا  سورۂ  اِخلاص  یا  سورۂ  قدر یا  سورۂ  لایلافِ قریش پڑھا اس کے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہو گا!۔اور یہی وہ وظائف و فوائد ہیں جن کے ورد سے زیارتِ نبوی اور دیدارِ مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دولت نصیب ہوتی ہے۔

اور پھر شہریارِ اِرم تاجدارِ حرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود پڑھنے کا فائدہ یہ ہے کہ جس نے صرف ایک بار پڑھا، اللہ رب العزت اُس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، تو پھر اس سے بڑھ کر خوش بختی اور اَجرو صلہ کی کیا بات ہو سکتی ہے!۔

یوں ہی اگر اُس نے اِستغفار کیا تواُس کے فوائد و برکات بھی کچھ کم نہیں۔  اس کی عظمت ورفعت کا اندازہ کرنے کے لیے یہی ایک فرمانِ الٰہی بس ہے  :

اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّاراًo یُرْسِلِ السَّمَآئَ  عَلَیْْکُمْ مِّدْرَاراً oوَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَل لَّکُمْ اَنْہٰراً o(سورۂ  نوح:۷۱/۱۰تا۱۲)

۔ ۔۔ تم اپنے رب سے بخشش طلب کرو، بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر زوردار بارش بھیجے گا۔ اور تمہاری مدد اموال اور اولاد کے ذریعہ فرمائے گا اور تمہارے لیے باغات اُگائے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔

نیز مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اِرشاد فرماتے ہیں  :

اِسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ فَإنِّي اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ فِي الْیَومِ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔

یعنی لوگو! اللہ سے اِستغفار کرتے رہا کرو،  کیوں کہ میں خود دن میں ستر (۷۰) مرتبہ بارگاہِ الٰہی میں اِستغفار کرتا ہوں۔

اس کے علاوہ بھی اس کے بہت سے فوائد و ثمرات ہیں۔  ایک یہ بھی کہ اس عاشق صادِق کا دل ہر وقت سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یاد میں اَٹکا رہے گا۔ ممکن ہے کہ اِبتدا میں اسے یہ سعادت اَرزانی نہ ہو،   مگر شاید اَنجام کار اسے یہ دولت بیدار نصیب ہی ہو جائے۔ اس فرمانِ الٰہی پر بھی ذرا غور کریں  :

قُلْ یٰعِبَادِيَ الَّذِیْنَ أسْرَفُوْا عَلٰی أنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ، إنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعاً o (سورۂ  زمر:۳۹/۵۳)

آپ فرما دیجیے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔

لہٰذا حسن ظن کا تقاضا یہی ہے کہ خالق و مخلوق دونوں کے بارے میں مثبت سوچ اور اچھا گمان رکھیں۔  جادۂ  سلیم اور صراطِ مستقیم پر پا مردی سے گامزن رہیں،  سستی و کاہلی کو قریب بھی پھٹکنے نہ دیں۔  جب جب آپ کو توفیق توبہ نصیب ہوتی ہے آپ کے دل میں روشنی اُترتی جاتی ہے، آپ کا ضمیر تشفی و اِطمینان پاتا ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کی بصارت و بصیرت دونوں کو نور بداماں کر دیتا ہے۔

اس مقصد عظیم کی تحصیل کے سلسلے میں اللہ رب العزت کی طرف سے جو اَجر و ثواب آپ کو مل سکتا ہے اس کو میں نے شرح وبَسط سے بیان کر دیا ہے، اور اللہ کبھی کسی پُر اُمید کو نا اُمید نہیں کرتا، کسی عامل کی مزدوری ضائع نہیں جانے دیتا۔ عمل صالح پر آپ کا صبر و اِستقامت اور جد و جہد آپ کو یہ محاذسرکرا سکتا ہے، اللہ کے دروازے پر کھڑے رہیں دیکھیں ایک نہ ایک دن کرم ہوہی جائے گا۔

اس تعلق سے صاحب مفاتیح المفاتیح نے بڑی پیاری بات کہی ہے، وہ فرماتے ہیں  :

جملہ وظائف و اَعمال سرانجام دینے کے بعد بھی اگر دیدارِ مصطفیٰ کی سعادت نہ پا سکیں،  توپریشان ہونے  یادل چھوٹا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔  اللہ پاک کا یہی فضل و کرم آپ کے لیے کیا کم ہے کہ اس نے آپ کو اپنے ذکر کی توفیق مرحمت فرمائی، اپنے مقدس کلام کی تلاوت کا ذوق بخشا۔ اپنے محبوب رسول کی ذات پر درودوسلام کا تحفہ گزارنے کا موقع عنایت فرمایا۔ تو دیدارِ مصطفیٰ کا یہ شوق دراصل آپ کو کشاں کشاں کھینچ کر دیدارِ مصطفیٰ کے عمل کی طرف لے آیا۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے دیدارِ مصطفیٰ کا شرف نہ پانے والا مقام و مرتبہ میں اس سے بڑھ کر ہو جس نے یہ شرفِ دیدار پالیا ہو۔

وہ ایسے بندہ پرور حبیب ہیں کہ اپنے چاہنے والے کو اپنا دیدار کرانے میں کبھی کسی بخل سے کام نہیں لیتے۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ بھی ان کے چاہنے والوں میں شامل ہوتا ہے جو اعضا و جوارح کی کم زوری کے باعث دیدارِ مصطفیٰ کے بعد ثابت قدم نہیں رہ سکتا،  مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے لیے ثبات قدمی پسند کرتا ہے تاکہ وہ اپنا پیغام معاشرہ، اہل وعیال اور مسلمانوں کو پہنچا سکے۔

دعاہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ثباتِ جوارح اور جذب قلوب کے ساتھ دنیا وآخرت میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت ورفاقت میں اِکٹھا رکھے۔

حضرت سعید بن مسیب کے بارے میں منقول ہے کہ جب حرّہ کے دنوں میں مسجد نبوی میں نماز (باجماعت) متروک ہو گئی تو یہ حجرۂ  انور سے اَذان کی آواز سے پہچان لیتے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے، اور کچھ بعید نہیں کہ یہ مقام انبیاعلیہم السلام کے ساتھ خاص ہو، اور اسی طرح ان کے لیے بھی جو اللہ کے نیک اور صالح بندے ہیں۔ اہل علم کی یہی رائے ہے۔

 

صالحین وغیرہ کے لیے زیارتِ نبوی اورفتویٔ اِمام نووی

 

فتاویٰ امام نووی، مرتبہ شیخ علاء الدین عطار، محققہ ومعلقہ شیخ محمد حجازکے ۳۱۲ پر ایک سوال ہے کہ کیا خواب میں زیارتِ مصطفوی صرف صالحین کے لیے خاص ہے، یا ان کے علاوہ اور لوگ بھی کرسکتے ہیں ؟۔

جواب میں فرمایا: زیارتِ نبوی صالحین اور غیرصالحین ہر ایک کو ہو سکتی ہے۔ صاحب تعلیق وتحقیق نے اس پر نوٹ لگاتے ہوئے لکھاکہ سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ودیدار ہرخوشی کاسرچشمہ اور ایک زبردست نوید ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایسے اِعزاز کے لیے اپنے محبوب بندوں ہی کا اِنتخاب کرتا ہے۔ اور یہ حصہ ہرمومن ومسلم کو نصیب ہو سکتا ہے، خواہ وہ نیک پارسا ہو یا بد، بے پارسا۔ یہ اَحوال تو دراصل دلوں کے پیمانے، اورکیفیات واِستعداد بدلنے سے بدلتے رہتے ہیں۔

شیخ ابومحمدبن ابی جمرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شیطان کبھی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صورت اِختیار نہیں کرسکتا۔ سو جس نے اچھی صورت میں دیدارِ مصطفیٰ کا شرف پایا، تو وہ دراصل دیکھنے والے کے دین واِیمان کی خوبی تھی۔ اور اگر کسی نے انھیں نامناسب حالت میں دیکھا تو وہ دیکھنے والے کے دین کا خلل اور خامی تھی۔

آگے فرماتے ہیں کہ یہی حق ہے۔نیز تجربے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ اور کبھی دیدارِ مصطفیٰ سے ایک بڑا فائدہ یہ حاصل ہو جاتا ہے کہ دیکھنے والے شخص کو پتا چل جاتا ہے کہ اس میں کچھ خلل وخامی ہے، یا نہیں ؟۔

 

نیند نعمتِ  الٰہی ہے

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نیند بھی ہے،جس کے تصور کو لوگ فراموش کیے بیٹھے ہیں اوراس کی اہمیت کا ذرا بھی اِحساس نہیں رکھتے۔ یقیناً نیند اللہ کے فضل ورحمت کی کھلی نشانیوں میں سے ہے جو اُس نے اپنی مخلوق کو عطا کیا۔ نیند اِنسان کی دن بھر کی محنت، تھکن اور درد وکوفت کوراحت سے بدلنے کا ذریعہ ہے۔ ایک مسافر نیند کے باعث سفر کی تھکاوٹ سے سکون پاتا ہے۔ مریض کو سونے سے چین میسرآتا ہے۔

ماں بھی اُسی وقت آرام کا سانس لیتی ہے جب اُس کا بچہ نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ اسی طرح ساری کائنات کاروبارِ حیات کی سختی وتنگی سے چھٹکارا پانے کے لیے نیند کا سہارا لیتی ہے،  لہٰذا جب اِنسان کام کرکر کے تھک کر چور ہو جاتا ہے،تواپنی خواب گاہ میں جا کر نیند کی چادراُوڑھ لیتا ہے جو اسے اِحساسِ راحت وکیف عطا کرتی ہے۔ دنیا کے اندر   اِنسان و حیوان میں سے شاید ہی کوئی ایسی مخلوق ہو جسے نیند سے کوئی سروکار نہ ہو، تھوڑا بہت سونا ہرایک کے لیے ضروری ہے۔

آپ دیکھیں نا کہ بسا اَوقات اِنسان جب رات گئے تک کام کرتا ہے اور اچھی طرح سونہیں پا تھا تو پورے دن سستی وکاہلی کا خمار اُس پر چڑھا رہتا ہے، اور اس کی وجہ سے ہر کام متأثر ہوتا ہے، خواہ اسے سفر پر جانا ہو،مدرسے میں پڑھاناہو یاکوئی اور کام کرنا ہو۔ اور اگر کوئی شخص مسلسل کئی دن تک جاگتا رہے،  توپھر اس کا کیا حال ہو گا، یہ آپ خود ہی محسوس کرسکتے ہیں !۔

اس منزل پر پہنچ کر انسان کو یہ مانے بغیرکوئی چارہ نہیں ہوتاکہ نیند بلا شبہہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ورحمت ہے۔ اُس پروردگار کا شکر ہے جس نے رات کو ہمارے لیے لباس، نیند کوباعث آرام، اوردن کواُٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔

سورۂ  فرقان میں اِرشادِباری تعالیٰ ہے  :

وَھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْلَ لِبَاسًا، وَّالنَّومَ سُبَاتًا، وَّجَعَلَ النَّہَارَ نُشُوْرًا o (سورۂ  فرقان:۲۵/۴۷)

اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کو پوشاک(کی طرح ڈھانک لینے والا) بنایا اور نیند کو (تمہارے لیے) آرام (کا باعث) بنایا اور دن کو (کام کاج کے لیے) اُٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔

یعنی اُس خالق ومالک نے تمہارے لیے رات کو پوشاک کی طرح ڈھانکنے والی بنادیا۔ ایک دوسری آیت میں اس کا اِشارہ یوں ملتا ہے  :

وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی o (سورۂ  لیل:۹۲/۱)

رات کی قسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے)۔

اورنیند کوباعث آرام بنایا۔ یعنی زندگی کی چہل پہل سے کٹ کر اِنسان کچھ دیر کے لیے سو رہتا ہے تاکہ بدن کو راحت وآرام مل سکے،  کیوں کہ زیادہ کام کاج کر لینے کے بعد جسم کے اَعضاوجوارح شکایت کرتے ہیں،  اور آرام کا مطالبہ کرتے ہیں،  جو صرف اور صرف نیند کی صورت ہی میں پورا کیا جا سکتا ہے،  لہٰذا جب رات آتی ہے اور سکون کا ماحول ملتا ہے توجسم اِنسانی پُرسکون ہو کر سوجاتا ہے جس سے اسے نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر بھی راحت وسکون میسر آتا ہے۔

اور دن کو اُٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔ یعنی لوگ دن میں کسبِ معاش، حصولِ رزق،  اورکام کاج کے لیے زمین پر پھیل جاتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ ہم پر اللہ کی نعمت کا ظہور ہی تو ہے کہ اس کے باعث ہمارے جسم وبدن کو کس قدر راحت وسکون حاصل ہوا!۔ قلب ونفس کو فرحت وتشفی نصیب ہوئی۔ سینوں کے بام ودرکھلے، اورروحیں سراپاراحت بن گئیں۔  اب جب انسان صبح ہشاش بشاش اُٹھتا ہے تو اسے وہ ساری تھکاوٹیں اورتکلیفیں بھول چکی ہوتی ہیں جو اسے کل  حصولِ معاش،  طلب علم اوراپنی محبوب چیزکو پانے کے سلسلے میں اُٹھانی پڑی تھیں۔   فلہٗ الحمْدُ سُبحَانہٗ وتعَالیٰ۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے  :

اور ہم نے رات کو (اس کی تاریکی کے باعث) پردہ پوش، اورذریعہ راحت بنایا ہے۔ اور ہم نے دن کو(کسب)معاش(کا وقت)بنایا ہے۔ یعنی ہم نے اسے روشن وتاباں کیا تاکہ لوگوں کو روزی روٹی کمانے، رزقِ حلال تلاش کرنے، کاروباری مصروفیات اور دیگر ضروری اُمور اَنجام دینے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اور ہم نے تمہاری نیند کو (جسمانی) راحت (کا سبب) بنایا ہے۔ یعنی زندگی کی مصروفیات سے کنارہ کش ہو جانے کی صورت میں تاکہ بہت زیادہ دوڑدھوپ اور تھکاوٹ کے بعد تمہیں راحت میسر آسکے۔

تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآئِ  بُرُوجاً وَّجَعَلَ فِیْہَا سِرَاجاً وَقَمَراً مُّنِیْراًo وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ أَرَادَ أَن یَّذَّکَّرَ أَوْ أَرَادَ شُکُوراً o (سورۂ  فرقان: ۲۵/ ۶۱،۶۲)

وہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں ) سماوی کروں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور(اس نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایا۔ اور وہی ذات ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے گردش کرنے والا بنایا اس کے لیے جو غور و فکر کرنا چاہے یا شکر گزاری کا اِرادہ کرے(ان تخلیقی قدرتوں میں نصیحت و ہدایت ہے)۔

’اور وہی ذات ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے گردش کرنے والا بنایا اس آیت کریمہ کے تحتتفسیر ابن کثیر میں ہے کہ دن اور رات یکے بعد دیگرے بغیر کسی سستی اور کمزوری کا مظاہرہ کیے لگا تھار آتے رہتے ہیں،  اور دونوں باری باری فوراً ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں،  جیسا کہ باری تعالیٰ نے فرمایا  :

وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَیْنِ o (سورۂ  ابراہیم:۱۴/۳۳)

اور اس نے تمہارے فائدہ کے لیے سورج اور چاند کو(باقاعدہ ایک نظام کا) مطیع بنا دیا۔ جو ہمیشہ (اپنے اپنے مدار میں ) گردش کرتے رہتے ہیں۔

یُغْشِي اللَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا o (سورۂ  اعراف:۷/۵۴)

وہی رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے(درآنحالیکہ دن رات میں سے) ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے لگا رہتا ہے۔

لاَ الشَّمْسُ یَنْبَغِي لَہَا أنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ o (سورۂ  یس:۳۶/۴۰)

نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ(اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہو سکتی ہے۔

آگے فرمایا  :

لِمَنْ أَرَادَ أَن یَّذَّکَّرَ أَوْ أَرَادَ شُکُوراً o (سورۂ  فرقان: ۲۵/ ۶۲)

اس کے لیے جو غور و فکر کرنا چاہے یا شکر گزاری کا اِرادہ کرے۔

یعنی اگر رات کا کوئی عمل فوت ہو جائے تو دن کے وقت اس کی تلافی ہو سکتی ہے اور اگر کوئی دن کا عمل فوت ہو جائے تو رات کے وقت اس کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہ گار توبہ کر لے، اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کا گنہ گار توبہ کر لے۔(۱)

اس آیت کے تحت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس کی رات کی کوئی چیزچھوٹ جائے اُسے دن میں کر لے اور جس کی دن کی کوئی چیزچھوٹ جائے وہ رات میں۔  حضرات مجاہد وقتادہ نے ’خلفۃً کا معنی مختلف اور متضادکیا ہے یعنی رات تاریک ہے، اور دن روشن۔(۲)

***

(۱)       صحیح مسلم:۱۳/ ۳۲۲ حدیث: ۴۹۵۴۔۔۔ مسند احمد بن حنبل: ۴۰/ ۲۵ حدیث: ۱۸۷۰۸۔۔۔ مسند طیالسی: ۲/ ۵حدیث: ۴۸۶۔۔۔ الابانۃ الکبریٰ ابن بطہ:۶/۲۵۶ حدیث: ۲۶۱۵۔۔۔ مسند عبدبن حمید: ۲/۱۷۹ حدیث: ۵۶۴۔۔۔ شعب الایمان بیہقی: ۱۵/۱۰۷ حدیث: ۶۸۱۰۔

(۲)      تفسیر ابن کثیر:۶/۱۲۱۔

٭٭٭

 

 

ربانی حکمت، برادرانہ  نصیحت

 

اس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بڑی حکمت پوشیدہ ہے کہ اس نے دن کو روزی کمانے کا ذریعہ،رات کو پوشاک کی طرح ڈھانپنے والی، اور نیند کوباعث آرام وراحت بنایا ہے۔ لیکن المیے کی بات یہ ہے کہ جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو دنیا کمانے کی فکروہوس میں یا تو رات بھرجاگتے رہتے ہیں یا پھر بہت کم سوتے ہیں،   حالاں کہ دنیا کی قیمت اللہ کے نزدیک مچھر کے پنکھ کے برابر بھی نہیں۔ اور بعض تو یوں ہی رت جگے کرتے پھرتے ہیں،  مقصود نہ دنیاہوتی ہے اور نہ آخرت، بلکہ ٹی وی یا ٹیلیفون کے ذریعہ لایعنی اور بیہودہ باتوں میں ان کی شب کی قیمتی گھڑیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔

جب کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس خاص وقت کو سونے کے لیے بنایا ہے،  تاکہ اس کا جسم آرام پا سکے اور روح کو سکون مل سکے۔ پھر جب صبح اُٹھے تو ہشاش بشاش ہو، اور پوری تن دہی کے ساتھ دین ودنیا کے اُمورومعاملات سرانجام دے سکے۔ اور پھر اس شب بیداری کے نتیجے میں دنیا ومافیہا سے بھی زیادہ قیمتی چیزنمازِ فجر فوت ہو جاتی ہے۔ اور بلاشبہہ نمازِ فجر کے اَنوار وبرکات اوراُس کی دو رکعات دنیا اور جو کچھ دنیا کے اندر موجود ہے اس سے بہت بہتر ہیں۔  پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات وہدایات سے تویہی معلوم ہوتا ہے۔ ولاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔

ایسے لوگ جوان بھی ہوتے ہیں، اور بوڑھے بھی، باپ بھی ہوتے ہیں بیٹے بھی، ماں بھی ہوتی ہے اور بیٹی بھی۔ گویا سربراہانِ خانہ اِس حدیث رسول سے بالکل ہی غافل ہوبیٹھے ہیں  :

کلکم راع وکل راع مسؤول عن رعیتہ۔

تم میں ہر کوئی ذمہ دار ہے، اور ہر ذمہ دار سے اس کے ماتحتوں کی بابت پوچھا جائے گا۔

وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا o (سورۂ  طٰہٰ: ۲۰/۱۳۲)

اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم فرمائیں اورخود اس پر ثابت قدم رہیں۔

اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں نیندکی جو نعمت بخشی ہے، اس کے فوائدکا سلسلہ یہیں رُک نہیں جاتا، بلکہ اب آئیں دیکھیں کہ نیند کے اندر کیا ہوتا ہے۔ یوں تو خواب ہر کوئی دیکھتا ہے،  مگر پروردگارِ عالم اس کے لیے اِہتمامات کرنے والوں کو بڑے عظیم الشان خوابوں کے ذریعہ عزت بخشتا ہے۔

اس لیے ہمیں ہمیشہ باوضو ہو کر سونا چاہیے۔ بہتر ہے کہ ظاہر وباطن کی کامل طہارت اور بارگاہِ الٰہی میں توبہ ورجوع کے ساتھ بسترے پر آیا جائے،  کیوں کہ کیا پتا کہ سونے کے بعد کیا ہو گا، اُسے کیا کھونا ہے اور کیا پاناہے۔ نینداسی لیے موت کی بہن اور وفاتِ صغریٰ کہلاتی ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی بابت خبر دیتے ہوئے بتایا کہ بھری کائنات میں صرف اُسی کا حکم چلتا ہے، اور اُسے ہرطرح کے تصرف پر قدرت حاصل ہے۔ وہ اپنے نگہبان ومتعین فرشتوں کو بھیجتا ہے،  تاکہ جسموں سے روحیں قبض کر کے اُن پر وفاتِ کبریٰ (بڑی موت) طاری کر دیں،   اورہر نیند کے وقت اُن پر وفاتِ صغریٰ (چھوٹی موت) طاری ہوتی ہے۔ اور یہ سب کچھ اُسی کے قبضہ واِختیار میں ہے۔ ارشادِ باری ہے  :

وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِاللَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ o (سورۂ  اَنعام:۶/۶۰)

اور وہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روحیں قبض فرما لیتا ہے، اور جو کچھ تم دن کے وقت کماتے ہو وہ جانتا ہے۔

اگلی آیت میں فرماتا ہے  :

حَتّٰی اِذَا جَآئَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُوْنَo (سورۂ  انعام:۶/۶۱)

یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے (تو) ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ خطا(یا کوتاہی)نہیں کرتے۔

ان دونوں آیتوں میں اللہ جل مجدہ نے چھوٹی اور بڑی دونوں موتوں کا ذکر کیا ہے۔ اور مندرجہ ذیل آیت میں پہلے بڑی کا ذکرکیا ہے اور پھر چھوٹی موت کا۔ فرمایا  :

اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الاَنْفُسَ حِیْنَ مَوتِہَا وَالَّتِی لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِی قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلَ الاُخْرٰی  اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمّٰی o (سورۂ  زمر:۳۹/۴۲)

اللہ جانوں کو اُن کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے، اور اُن (جانوں ) کو جنہیں موت نہیں آئی ہے اُن کی نیند کی حالت میں،  پھر اُن کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر ہو چکا ہو اور دوسری(جانوں ) کو مقررہ وقت تک چھوڑے رکھتا ہے۔

اِس سے پتہ چلتا ہے کہ روحیں ملا ٔ اعلیٰ میں جمع ہوتی ہیں۔  بخاری ومسلم کی حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :

جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بستر پر جائے تو اپنے تہبند کے اَندرونی حصے سے اُسے جھاڑلے اور بسم اللہ پڑھے،  کیوں کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد بستر پر کون (جانور) آیا تھا اور جب لیٹنے کا اِرادہ کرے تو دائیں کروٹ لیٹے اور یہ دعا پڑھے  :

            سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ رَبِّي بِکَ وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِکَ اَرْفَعُہٗ اِنْ اَمْسَکْتَ نَفْسِي فَاغْفِرْ لَہَا وَإنْ اَرْسَلْتَہَا فَاحْفَظْہَا بِمَا تَحْفَظُ بِہٖ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنَ۔

اے اللہ، میرے رب! تو پاک ہے، میں تیرے نام کے ساتھ کروٹ رکھتا ہوں،  اور تیرے نام کے ساتھ اُٹھوں گا۔ اگر تو میری جان کو روک لے تو اس کو بخش دینا، اور اگر تو اس کو چھوڑ دے تو اس کی اس طرح حفاظت کرنا جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔(۱)

***

(۱)       صحیح بخاری:۱۹/ ۳۸۷ حدیث: ۵۸۴۵۔۔۔ صحیح مسلم:۱۳/۲۴۰ حدیث: ۴۸۸۹۔۔۔ سنن ابو داؤد: ۱۳/ ۲۴۵ حدیث: ۴۳۹۱۔۔۔ سنن ترمذی: ۱۱/۲۶۸ حدیث: ۳۳۲۳۔۔۔ سنن ابن ماجہ: ۱۱/۳۳۹ حدیث: ۳۸۶۴۔۔۔ سنن کبریٰ نسائی: ۶/۱۹۸حدیث: ۱۰۶۲۷۔۔۔مسند احمد بن حنبل: ۱۵/ ۹۷ حدیث: ۷۰۵۶۔

****

بعض عرفا کا قول ہے کہ مُردوں کی روحیں بوقت موت، اور زِندوں کی روحیں بوقت نیند قبض کر لی جاتی ہیں۔  تو یہ روحیں اللہ کی توفیق سے آپس میں ایک دوسرے سے تعارف وملاقات کرتی ہیں۔  پھر اُن روحوں کو روک لیا جاتا ہے جن پر موت کا حکم صادر ہو چکا ہو، جب کہ دوسری روحوں کو مقررہ وقت تک کے لیے چھوڑدیا جاتا ہے۔بقول سدی: تاکہ وہ زندگی کے بقیہ اَیام گزارلیں۔  اور ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مرنے والوں کی روحیں روک لی جاتی ہیں،  اور زندوں کی واپس بھیج دی جاتی ہیں،  اور اس میں کبھی کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ بے شک اس میں اَربابِ فکر ونظر کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ (۱)

***

(۱)       مختصرتفسیر ابن کثیر:۷/۱۰۱۔

 

پردۂ  نیند میں پوشیدہ ایک اورنعمت

 

اے محبانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! جب یہ بات آپ کے علم میں آگئی کہ اللہ رب العزت نے رات کو پوشاک، دن کوذریعہ معاش، اور نیند کو باعث آرام بنایا ہے۔ تو ساتھ ہی یہ بھی جان لیں کہ جس وقت آپ نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں،  پروردگارِ عالم ایسے عالم میں ایک اور نعمت سے بھی آپ کو نوازتا ہے، اور وہ ہے نعمت خواب۔

گزشتہ اَوارق میں آپ پڑھ آئے کہ روحیں ملا ٔ اعلیٰ میں جمع ہوتی ہیں (اور باہم تعارف وملاقات کرتی ہیں )،پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ پر ایسے خواب اُتارتا ہے جس سے آپ کے دل مچل اُٹھتے ہیں،  سینے خوشی سے چوڑے ہو جاتے ہیں، اور قلب کو دولت اطمینان وتشفی نصیب ہوتی ہے۔

خواہ آپ نے اس کے لیے تیاری کی ہویا نہ کی ہووہ کریم مولا جب اپنے کرم کی برسات کرنا چاہتا ہے تو یوں ہی کر دیتا ہے۔ یقیناً یہ اللہ کی بڑی نعمت وعطا اورعظیم فضل واِحسان ہے۔ آپ اس نعمت کے اِعتراف میں زبانِ حال سے کہیں کہ ’یہ میرے رب کا  فضل ہے۔ اللہ کی نعمتوں پر ہمیشہ شکرگزاری کا شیوہ اپنائیں،  پھر دیکھیں کہ اُس کا فضل وکرم آپ پرکیسے برستا چلا جاتا ہے!۔وہ خود اس کا اِعلانِ عام  فرماتا ہے  :

لَئِنْ شَکَرْتُمْ لأزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إنَّ عَذَابِي لَشَدِیْدٌ o (سورۂ  ابراہیم:۱۴/۷)

اگر تم شکر اَدا کرو گے تو میں تم پر(نعمتوں میں ) ضرور اِضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔

(لیکن اَفسوس تو اِسی کا ہے کہ )بندگانِ خدا میں بہت کم ہی شکرگزار ہوتیہیں۔

خواب کا تعلق دراصل دیکھنے والے کے دل سے ہوتا ہے،  لہٰذا جس کے دل میں دنیا کی حرص،  چاہت، اور اُس کی  زیب وزینت رچ بس گئی ہو، یا کوئی محبوبہ ہو جواس کے دل کی دھڑکن بنی ہوئی ہو، یاکوئی محبوب ہو جس پر وہ جان چھڑکتی ہو، یا کوئی مخصوص علاقہ ہو جس کے لیے دل کھنچاکھنچا رہتاہو،   ظاہر ہے ایسے لوگوں کے خواب میں اِن مذکورہ چیزوں کے علاوہ اور کیا چیز اُترسکتی ہے!۔

 

دلِ بینا کا فسانہ

 

تاہم کچھ ایسے دل بھی ہیں جن پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اَنوار وتجلیات کا بسیرا ہوتا ہے، اور جن کا باطن ظاہرسے پہلے ہی درخشندہ وتاباں ہوتا ہے۔تو ان کے اندر کچھ اور ہی خواہش جڑپکڑے ہوتی ہے،اور وہ کسی بڑے فضل وکمال کے طلب گار ہوتے ہیں۔   ایسے دل شوق ومحبت کے سمندروں میں ڈبکیاں لگاتے ہیں،  اور اللہ جل مجدہ اپنے خاص نور سے انھیں منور فرماتا ہے،پھر ان پرایسے اَسرار واَنوار اور اِمدادوبرکات کے در کھلتے ہیں (جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا) اور بے شک اللہ جوچاہے کرتا ہے، اُسیہرچیز پرقدرت واِختیارہے۔

پھر جب اس پر اَنوارِ ربانیہ پرتوفگن ہوتے ہیں،  تواَن جانی چیزوں کے اَحوال اس پر منکشف ہونا شروع ہو جاتے ہیں،  اور پھر اسی سہارے اُن دلوں کی ڈوری اپنے مولا سے بندھ جاتی ہے، اورنفوس مطمئنَّہ ہواُٹھتے ہیں، پھر انھیں انوار واسرار میں وہ محو رہتے ہیں اور وہ کچھ مشاہدے میں رکھتے ہیں کہ  کوئی اور جن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ شاعر کہتا ہے   ؎

وإذا لم تر الہلال فسلم           ٭                لأناس رأوہ  بالأبصار

یعنی اگر تمہیں چاند دیکھنے کی سعادت نصیب نہیں ہو سکی تواُن لوگوں کو جا کر سلام پیش کر آؤ جنھوں نے اپنے سرکی آنکھوں سے اُسے دیکھا ہے۔

دل کی پاکیزگی بصارت وبصیرت کو تاباں رکھتی ہے

یاد رکھیں کہ اگر آپ نے دل کی دنیا کو پاکیزہ وشفاف کر لیا، اورفرائض ونوافل کے اہتمام کے ساتھ خود کو قربِ مولا کی رسی سے باندھ لیا، توپھر اللہ سبحانہ و تعالیٰکی عطاو فتوحات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے،اور وہ مالک ومولارحمت ومحبت اورفتح ونصرت کی نگاہ سے آپ کو دیکھتارہتا ہے۔جب آپ یہ زینے طے کر لیں تو سمجھ لیں کہ آپ کو دنیا وآخرت دونوں کی سرخروئی نصیب ہو گئی ہے۔بزبانِ شاعر   ؎

اعط المعیۃ حقہا     ٭          و الزم لہ حسن الأدب

واعلم بأنک عبدہ   ٭          في کل حال وہو رب

یعنی اب آپ اُس قرب ومعیت کا پاس ولحاظ رکھیں،  اورحسن اَدب کا دامن کسی حال میں چھوٹنے نہ دیں۔  یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ آپ جو کچھ بھی ہیں اس کے بندے ہیں اور وہ آپ کا مالک ومولاہے۔

 

خوش خبری کس کے لیے؟

 

اَب آپ اِس آیت کریمہ میں ذرا سا غور فرمائیں  :

لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الاٰخِرَۃِ۔

ان کے لیے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی۔۔۔)۔

سوال یہ ہے کہ آخر یہ بشارت و نوید کس کے لیے ہے؟۔ آخر یہ کون لوگ ہیں جنھیں اللہ رب العزت دنیا و آخرت میں خوش خبری سنا رہا ہے؟؟ ایسے سعادت مند، طالع بخت، اورپاکیزہ صفت کون ہو سکتے ہیں ؟؟؟یاد رہے وہ اَولیا ہیں (جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی دوستی کے لیے چن لیا ہے)۔

أَلآ إِنَّ أَوْلِیَآئَ  اللّٰہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَo الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُواْ یَتَّقُونَ o لَہُمُ الْبُشْرَی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا َفِی الاٰخِرَۃِ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o (سورۂ  یونس:۱۰/۶۲تا۶۴)

خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔  (وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور(ہمیشہ)تقوی شعار رہے۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی / یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)،  اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔

 

ولایت کی دوپہچانیں

 

اِ س اَبدی وسرمدی سعادت ونجابت کی بس دو ہی نشانیاں ہیں : ایمان اور تقویٰ۔ وہ صاحبانِ ایمان وتقویٰ ہی ہیں جنھیں دنیوی زندگی اور حیاتِ اُخروی میں بشارت سنائی گئی ہے۔ غور فرمائیں کہ اس کے بعد اللہ پاک نے کتنی عظیم بات کہہ دی ہے، اور ایک اٹل قانون دے دیا ہے کہ’’ اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتےاور یہ نہ بدلنا کیا ہے؟ توفرمایا: یہی عظیم کامیابی ہے    الحمدللہ والشکر للہ

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک روز کسی شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیاکہ یارسول اللہ! اولیاء اللہ کون ہوتے ہیں ؟۔توآپ نے فرمایا:’وہ کہ جب تم انھیں دیکھو تو اللہ یاد آ جائے۔(۱)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا  :

بے شک اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے برگزیدہ بندے ہیں جو انبیا ہیں نہ شہدا،  لیکن قیامت کے دن اَنبیا اور شہدا اُن کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ مقام کو دیکھ کر اُن پر رشک کریں گے۔

صحابۂ  کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ ہمیں اُن کے بارے میں بتائیں کہ وہ کون ہیں ؟ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: وہ ایسے لوگ ہیں جن کی باہمی محبت صرف اللہ کی خاطر ہوتی ہے، نہ کہ رشتہ داری اور مالی لین دین کی وجہ سے۔

 

اللہ کی قسم! ان کے چہرے نور ہوں گے، اور وہ نور پر ہوں گے، انھیں کوئی خوف نہیں ہو گا جب لوگ خوف زدہ ہوں گے، انھیں کوئی غم نہیں ہو گا جب لوگ غم زدہ ہوں گے۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔(۱)

مبارک ہو ایسے خوش بختوں کو یہ اِعزاز اورسعادتیں ! دراصل یہ لوگ تھکے کم،  مگر آرام زیادہ پایا۔اور فنا ہو جانے والے چندروزہ گھر میں کام کیا تو سدا باقی رہنے والے گھر میں انھیں عیش وراحت کے لمحے نصیب ہوئے۔ ’اور اِس بات کے عوض کہ انہوں نے صبر کیا ہے (توانھیں رہنے کو) جنت اور (پہننے کو) ریشمی پوشاک عطا کیا جائے گا۔ (۲)

***

(۱)       مصنف ابن ابی شیبہ:۸/ ۲۶۴ حدیث: ۹۳۔۔۔ معجم کبیر طبرانی: ۱۷/۴۱۰حدیث: ۱۹۹۰۰۔۔۔ مسند عبد بن حمید: ۴/۲۲۸ حدیث: ۱۵۸۵۔۔۔ اتحاف الخیرۃ المہرۃ:۶/۲۲حدیث: ۵۳۵۸۔

(۲)      سنن ابوداؤد:۹/۴۰۴ حدیث: ۳۰۶۰۔۔۔ سنن کبریٰ نسائی: ۶/۳۶۲ حدیث: ۱۱۲۳۶۔۔۔مسند احمدبن حنبل: ۴۶/ ۳۸۲ حدیث: ۲۱۸۳۲ ۔۔۔ مصنف ابن ابی شیبہ:۸/۸۷ حدیث:۱۴۳۔۔۔ بغیۃ الحارث:۱/۳۳۱۔

(۳)     سورۂ  دہر:۷۶/۱۲۔

 

درِ توبہ وا ہے

 

دوستو! جلدی کرو،اورسرپٹ دوڑو، وہ دیکھو سامنے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ نافرمانوں کا منتظر ہے کہ وہ اپنی زبانِ توبہ کھولیں تو انھیں پروانۂ  بخشش سنادیاجائے۔ اور بے شک اللہ سبحانہ و تعالیٰ بہت بخشنے والابڑا مہربان ہے۔

وہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کر کے اُن کی خطائیں معاف کر دیتا ہے۔ (اورپھراُن سے کہا جائے گا:) ’خوب لطف اَندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو اُن (اعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ (زندگی کے)اَیام میں آگے بھیج چکے تھے۔(۱)

گزشتہ زندگی خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، آخر شب وروز کا مجموعہ ہی تو ہے، وہ کوئی لامحدود تو نہیں بلکہ اُس کی ایک حد ہے،اور ہروہ چیز جس کی کوئی اِبتدا ہو اَنجامِ کار وہ ختم ہو جایا کرتی ہے۔

یاأیہا المعدودۃ أنفاسہ        ٭                    لابد یوماً أن یتم العدد

یعنی اے شخص!ذرا غور تو کرکہ تیرے پاس جوسانسیں ہیں وہ گنی ہوئیہیں،   لہٰذا ایک روز ایسا ضرور آئے گاجب یہ گناہواعددمکمل ہو جائے گا۔

’اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول،  اور تو(لوگوں سے ویسا ہی) اِحسان کر جیسا اِحسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے۔ (۲)

بہت دیرہو گئی، اب اُٹھیں اور سرگرمِ عمل ہو جائیں۔  جدوجہد کریں،  صبرسے کام لیں،  ’اور صبر کیے جائیں جس طرح عالی ہمت پیغمبروں نے صبر کیا تھا۔(۳)

میرے شیخ علامہ حبیب احمد معروف بہ’حداد فرمایا کرتے تھے کہ جب یہ آیت کریمہ مجھے یاد آتی ہے توسستی وکاہلی مجھ سے رفوچکر ہو جاتی ہے، اور میں اپنے اندرکافیچستی ونشاط محسوس کرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا:وہ آیت کریمہ کیا ہے؟۔

فرمایا:   وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o  اور آپ اپنے رب کے لیے صبر کیا کریں۔ (۴)

جن کو سچی جستجوو طلب ہوتی ہے وہ اپنی انتھک کوششوں سے منزل پا ہی لیتے ہیں۔  مثل مشہور ہے: ’جوبوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ اور اللہ کے فضل وکرم کی تو کوئی حد ہی نہیں،  اور اس کی کسی کے ساتھ کوئی تخصیص وتعیین بھی نہیں،  بلکہ جملہ مخلوقاتِ الٰہیہ کے لیے عام ہے۔

(۱)       سورۂ  حاقہ:۶۹/۲۴۔

(۲)      سورۂ  قصص:۲۸/۷۷۔

(۳)     سورۂ  اَحقاف:۴۶/۳۵۔

(۴)     سورۂ  مدثر:۷۴/۷۔

لہٰذا صبرسے کام لیں، اور کوشش جاری رکھیں،  اگر واقعتا منزل رسید ہونا چاہتے ہیں تو ایک دن ضرور آئے گاجب خود کواپنے مقصود پرفائز پائیں گے۔ ہم میں کون ہے جو اچھے خواب نہیں دیکھنا چاہتا!۔

ہر کسی کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ جیسے ہمارے اسلاف واَکابر نے دیکھا اسی طرح ہمیں بھی خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کی دولت نصیب ہو،  لیکن افسوس کہ ہم اُن کے سے عمل اور اُن کی سی محنت نہیں کرنا چاہتے۔ نہ تواُن کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہیں، اورنہ ان کی کوششوں کی طرح کوشش ہی کرتے ہیں۔ ہم میں ان کی طرح صبر بھی نہیں،  اور نہ ہی ان کی مانند قیام اللیل اور شب خیزی واشک ریزی ہی کرپاتے ہیں۔

یہ بندگانِ خدا کے ساتھ نیک کاموں میں ریس کی بات ہوئی،  لیکن جہاں تک دنیا، جھوٹی آرزوؤں،  اورفاسد خیالات کامعاملہ ہے،اُن کے پیچھے ہم بک ٹٹ دوڑتے ہیں،  اُن کے لیے رت جگے،اورجی توڑ کوششیں کرتے ہیں۔  اور پورے پورے دن دنیا کمانے کی حرص ودوڑ میں گزار دیتے ہیں،   بلکہ بعض کا تو یہ حال ہے کہ چاہتا ہے کہ رات بھی دن ہو جائے تاکہ اُسے مزیدکام کرنے کی مہلت میسر آسکے، اُسے نہ نیند سے کوئی غرض ہوتی ہے اور نہ اَعضا کو آرام وراحت پہنچانے سے سروکار!۔

اُس کا کرم کہ رات کو دِن کیا!

اے عاشقانِ رسول!ذراغورکریں کہ سورۂ  قصص میں اللہ کیا فرما رہا ہے  :

قُلْ أَرَأَیْْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْْکُمُ اللَّیْْلَ سَرْمَداً إِلَی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ إِلَہٌ غَیْْرُ اللّٰہِ یَأْتِیْکُم بِضِیَآئٍ  أَفَلَا تَسْمَعُونَo قُلْ أَرَأَیْْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَداً إِلَی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ إِلَہٌ غَیْْرُ اللّٰہِ یَأْتِیْکُم بِلَیْْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِ أَفَلَا تُبْصِرُونَo وَمِنْ رَّحْمَتِہِ جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ لِتَسْکُنُوا فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ o (سورۂ  قصص:۲۸/۷۱تا۷۳)

فرما دیجیے: ذرا اِتنا بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے اوپر روزِ قیامت تک ہمیشہ رات طاری فرما دے (تو) اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے۔ کیا تم (یہ باتیں ) سنتے نہیں ہو؟۔ فرما دیجیے: ذرا یہ(بھی) بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے اوپر روزِ قیامت تک ہمیشہ دن طاری فرما دے(تو) اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں رات لا دے کہ تم اس میں آرام کر سکو، کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟۔ اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لیے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور(دن میں ) اس کا فضل(روزی)تلاش کرسکو اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔

گویا یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت وشفقت ہے کہ اُس نے ہمارے لیے رات اور دن بنائے، تاکہ ہم اُن میں آرام پائیں، اور اس کے فضل وکرم کو تلاش کر کے اُس کے لیے سجدۂ  شکر گزاریں۔  دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ  ہمیں اپنے شکرگزار بندوں میں سے بنائے۔ والحمد للہ رب العالمین۔

اے پروردگار! ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی راتوں کو جسموں کے آرام، روحوں کی راحت، اَعضا کے سکون،اورمناجات و رجوع کی لذت وکیف کے لیے خاص کرسکیں،   تاکہ ہم خود کو اُن پاکباز لوگوں میں شامل کرسکیں جن پرتیرا کرمِ خاص ہوا، جن کے بارے میں تونے فرمایا   :

کَانُوا قَلِیْلاً مِنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ،  وَ بِالاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ o (سورۂ  ذاریات: ۵۱/۱۷،۱۸)

’وہ راتوں کو تھوڑی سی دیر سویا کرتے تھے۔ اور رات کے پچھلے پہروں میں (اُٹھ اُٹھ کرتجھ سے) مغفرت طلب کرتے تھے۔

تَتَجَافیٰ جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ خَوفاً وَّ طَمَعاً وَّ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُونَo (سورۂ  سجدہ:۳۲/۱۶)

ان کے پہلو اُن کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور اُمید (کی ملی جلی کیفیت) سے پکارتے ہیں اور ہمارے عطا کردہ رزق میں سے (ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں۔

اَ مَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَائَ اللَّیْلِ سَاجِداً وَّ قَائِماً یَّحْذَرُ الاٰخِرَۃَ وَ یَرْجُوا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ، قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُونَ، اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الاَلْبَابِ o (سورۂ  الزمر:۳۹/۹)

بھلا(یہ مشرک بہترہے یا) وہ (مومن) جو رات کی گھڑیوں میں سجود اور قیام کی حالت میں عبادت کر نے والاہے، آخرت سے ڈرتا رہتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی اُمید رکھتا ہے۔ فرمادیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہو سکتے ہیں۔  بس نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔

  وصلی اللّٰہ علیٰ سیدنا محمَّدٍ وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم۔

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الْأَرْضِ ہَوْناً وَإِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوا سَلَاماًo وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُونَ لِرَبِّہِمْ سُجَّداً وَّقِیَاماًo وَالَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ إِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَاماً o (سورۂ  فرقان:۲۵/۶۳تا۶۵)

اور (خداے) رحمن کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب اُن سے جاہل(اکھڑ) لوگ(ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے)ہیں۔  اور(یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لیے سجدہ ریزی اور قیامِ (نیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں۔  اور(یہ) وہ لوگ ہیں جو (ہمہ وقت حضورِ باری تعالی میں ) عرض گزار رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے دوزخ کا عذاب ہٹا لے، بے شک اس کا عذاب بڑا مہلک(اور دائمی) ہے۔

اے اللہ! ہمیں اپنی شرابِ محبت پلا،اور اپنے محبوبوں سے محبت رکھنے کی توفیق دے،  اورایسے عمل سرانجام دینے کی ہمت عطا کر جوہمیں تیرے قربِ محبت سے شادکام کر دیں۔  واسطہ تیرے حبیب معظم محبوب مکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا۔ اور ہمیں (ظاہروباطن کی جملہ بیماریوں سے) شفائے کامل وعاجل عطا فرما، اے مولا! صرف توہی شفا بخشنے والاہے۔ والحمد للہ رب العالمین۔

رفیقانِ گرامی! میں سمجھتاہوں کہ یہ تمہیدی جملے آپ کے لیے کافی ہو گئے ہوں گے،  لہٰذا اب اپنے مقصداصلی اور اس پاکیزہ عمل کی طرف لوٹتے ہیں،  جس کی نسبت سے اللہ رفعتیں عطا فرماتا ہے۔ جس پرپیارے آقا رحمت سراپا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، صحابہ وتابعین اور اہل اللہ تاحیات گامزن رہے۔ان کی منزل مقصود بس ایک ہی تھی: رضائے الٰہی اور محبتِ رسالت پناہی۔

اب ہم آنے والی سطروں  میں ایسے فوائد وبرکات کا مطالعہ کریں گے،جن سے خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کی دولتِ بیدار ہاتھ آتی ہے۔ اللہ جس کے لیے یہ دروازہ کھول دے،اسے شرحِ صدر نصیب ہو جاتا ہے،دل کے اندر تشفی وطمانیت پیدا ہو جاتی ہے، اور وہ مولا کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ دنیا اس کی نگاہوں میں حقیر معلوم ہونے لگتی ہے، اور وہ پورے طورپر آخرت کے لمبے سفرکے لیے زادِ راہ اکٹھا کرنے میں جٹ جاتا ہے،اور پھر قیام اللیل اور صیام النہار اس کا دائمی معمول بن جاتا ہے۔ اس طرح اسے اس کا مطلوب ومقصود ہاتھ آ جاتا ہے۔اور وہ نہ صرف اپنے محبوب کی زیارت سے شادکام ہوتا ہے بلکہ اس کے ہاتھوں سے محبت کے جام بھی نوش کرتا ہے۔

اب وہ اپنے عیوب وذنوب کا سختی سے محاسبہ کرتا ہے،اگر اس طریقہ کار سے اسے اپنے نفس کی معرفت نصیب ہو جاتی ہے تو پھر وہ اپنے مولا کو بھی پہچان لیتا ہے، اور جسے مولا کی معرفت ہو وہ نفس کی معرفت بھی رکھتا ہے۔

ہر وہ انسان جس کی زبان پر ’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کاورد ہوتا ہے، اس  کی یہ سب سے بڑی  اوردیرینہ آرزو ہوتی ہے۔ اب جیسے جیسے اُس نور کا قرب حاصل ہوتاجائے، معاملات کی گرہیں کھلتی چلی جائیں گی،دلوں کے بند ٹوٹتے چلے جائیں گے، اور انجام کار وہ خود بھی اہل نور میں سے ہو جائے گا۔گویا اس نے دنیا ہی میں آخرت کی بازی مار لی۔

لہٰذا اب مالک ومولا کاشکر اَدا کرنے کا وقت ہے کہ اس نے آپ کوایسے سعادت مندوں اور فیروزبختوں میں سے کر دیا۔ مگرحیف کہ تھوڑے ہی لوگ شکرگزار ہوتے ہیں۔  اللہ ہی سارے اُمور کی تدبیر فرماتا ہے، اُسے آنکھوں کی خیانت، اور دل کے مخفی رازوں کا بھی پتہ ہے۔

یہ ایک عظیم نعمت ہے، جس کو اس کی قدروقیمت کا اِحساس ہو گیا ہو گیا،اور جو اس سے بیگانہ رہا سوبیگانہ رہا۔لہٰذا اِس مقصد عظیم وجلیل کی تحصیل کے لیے جتن کرنے والے پر شکرمولا واجب ہے۔ نیت صاف رکھیں،  اور عمل کو بھی خالص رکھیں،  پھر دیکھیں پروردگارِ عالم کی برکات وعطیات، خیرات وانعامات کی کیسی موسلا دھار بارش ہوتی ہے۔

جب آپ کشادہ قلبی اور شرحِ صدر کے ساتھ اِس میدان میں اُتر ہی آئے ہیں،  تو اَب اپنے حال اَحوال کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھی کوشش کریں۔ جدوجہد سے کام لیں،  سب کچھ کھلی آنکھوں نظر آئے گا۔ نیتوں کے برتن صاف رکھیں، سیرابی نصیب ہو گی، لوگوں کو جامِ محبت پلاتے رہیں وہ بھی آپ پر اپنی نوازشیں جاری رکھیں گے، اس طرح آپ کا شمار اہل محبت میں ہونے لگے گا۔

قلب وباطن کی پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو جائیں۔  خدا نہ کرے کہ آپ اُن میں سے ہو جائیں جو دنیا کمانے کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں،  اور اُسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں،   اور آخرت کو بالکل ہی فراموش کر رکھا ہے،پھر اس کے لیے تیاری کیا کریں گے!۔

یاد رہے کہ دنیا فتنہ وفساد کا گھر اور بہت جلد اُجڑجانے والی ایک سرائے ہے،  اس لیے اس کی خاطر ریس کرنا عاقبت نا اَندیشی ہی کہلائے گی۔ فانی دنیا کی محبت میں محوہو کر باقی عقبیٰ کو نظراندازکر دینا شیوۂ  مومنانہ نہیں۔  نہ بھولیں کہ اللہ نے اپنے یہاں آپ کے لییبہت کچھ تیارکررکھا ہے۔اورجو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور پائیدار ہے۔

تنافسوھا وأعطوھا قوالبہم               مع القلوب فیا للّٰہ من عجب

وتب إلی مولاک یا إنسان             من  قبل أن یفوتک الزمان

یعنی ہائے! کتنی عجیب سی بات ہے کہ لوگ دنیا کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں،  اور اُس کے لیے جان ودل تک کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں۔

اے انسان! کب تک تیرا یہ حال رہے گا،خدارا اب توگناہوں سے توبہ کر کے اپنے مولاسے لو لگالے،  ورنہ زمانہ جلدہی تجھے الوداع کہنے والا ہے۔

ہم میں سے ہر کسی کا تقریباً یہی حال ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ اے اللہ!ہمیں اپنا محبوب بنالے،ہمیں اپنی خاطر اِکٹھا کر دے،جملہ اُمور میں ہمیں اپنی ذات پر توکل رکھنے کی توفیق مرحمت فرما، واسطہ اس پیارے رسول کاجسے تونے چاہابھی ہے اور جسے تونے ہرشرافت وکرامت اور سعادت وعظمت بھی بخشی ہے، ہمیں اپنا محبوب بنا اور محب بھی رکھ۔ والحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلم۔

اے پروردگارِ عالم! ہم تیرے نوروں میں سے عین نور کے طفیل تجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صورت بالکل اسی طرح دکھا جیسے تیری نگاہ میں ہے۔

            والحمد للّٰہ رب العالمین وصلی اللّٰہ علیٰ سیدنا محمَّدٍ في الأول والاٰخر والباطن والظاہر وعلیٰ آلہ وأصحابہ وأزواجہ وذریتہ وأتباعہ إلی یوم الدین والحمد للّٰہ رب العالمین۔

یہ لیں، اَب فوائدو برکات کے مطالعے سے آنکھیں ٹھنڈی کریں۔

تازہ دم ہو کراُٹھیں،  اور سعی وعمل میں کمی نہ کریں،  کچھ  بعید نہیں کہ وہ حسن کائنات اور کائناتِ حسن (ا)آپ کی آنکھوں میں بھی اُتر آئے۔ توفیق خیر دینے والا اللہ ہی ہے۔

٭٭٭

 

 

فوائد

 

فائدہ نمبر1

سُورۂ  قَدر: جس نے طلوع وغروبِ آفتاب کے وقت اِ س سورہ کو (۲۱) اِکیس مرتبہ پڑھا، تواُسے خواب میں دیدارِ مصطفیٰ علیہ السلام نصیب ہو گا اِن شاء اللہ  (۱)

فائدہ نمبر2

سُورۂ  کوثر: جس نے کسی شب  اِ س سورہ کو (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ پڑھا، تواُسے خواب میں زیارتِ نبوی نصیب ہو گی اِن شاء اللہ    یہ طریقہ مجرب اور آزمودہ ہے۔(۲)

فائدہ نمبر3

سُورۂ  مُزمِّل: جو دیدارِ مصطفیٰ کا آرزومند ہے، اُسے چاہیے کہ اس سورہ کو (۴۱) اکتالیس مرتبہ پڑھے، یقیناً اس کا مقدر جاگے گا،  اور اسے زیارتِ نبوی کا شرف حاصل ہو گا  اِن شاء اللہ   یہ طریقہ بھی  الحمد للہ مجرب اور آزمودہ ہے۔(۳)

۔۔۔

(۱)       الوسائل الشافعہ:۴۲۱۔

(۲)      الوسائل الشافعہ:۴۲۴۔

(۳)    الوسائل الشافعہ، امام خرد:۴۱۸۔

فائدہ نمبر4

’خزینۃ الاسرار میں مذکور ہے کہ بعض علما کے بقول جس نے بروزِ جمعہ سورۂ  قدرکی (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ تلاوت کی،وہ اس وقت تک نہیں مرسکتا جب تک کہ اسے دیدارِ مصطفیٰ کی دولت نہ حاصل ہو جائے۔یہ طریقہ بھی  الحمد للہ مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر5

بعض عرفا سورۂ  کوثر کے خواص بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو شخص شب جمعہ  اس کو (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ پڑھے،ساتھ ہی ہزار بار تحفہ درود بھی سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کر کے سوجائے، اُسے خواب میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت نصیب ہو گی۔  یہ طریقہ بہت سے لوگوں نے آزمایا، اور  الحمدللہ  انھیں اس میں کامیابی ملی۔

فائدہ نمبر6

بعض مشائخ نے بیان کیا ہے کہ جو شخص نصف شب جمعہ کو (۱۰۰۰) ہزار بار سورۂ  لاِیلَافِ قُرَیش پڑھ کر باوضو سوجائے،اسے خواب میں دیدارِ مصطفیٰ نصیب ہو گا، نیز اسے اُس کا گوہر مراد بھی مل جائے گا۔  یہ طریقہ بھی  الحمد للہ بہت ہی مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر7

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے آتا ہے کہ جس نے کسی شب (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ سورۂ  اِخلاص کاورد کیا، اسے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت نصیب ہو گی۔  یہ طریقہ بھی  الحمد للہ مجرب اور آزمودہ ہے۔(۱)

فائدہ نمبر8

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے یہ بھی ملتا ہے کہ جو کوئی مسلمان جمعہ کی رات کو دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ کے بعد (۲۵) پچیس مرتبہ قل ہو اللہ اَحد پڑھ کر (۱۰۰۰) ہزار بار یہ درود بھیجے  :

صَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ محَمّدٍ النبيِّ الأمِّي۔

دوسرا جمعہ آنے سے پہلے ہی اس کو خواب میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے حصہ نصیب ہو جائے گا۔ اور جسے دیدارِ مصطفیٰ کا اِعزاز مل گیا اللہ اس کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ اس فائدہ کو امام یوسف بن اسماعیل نبہانی نے بھی اپنی کتاب’سعادۃ الدارین میں درج فرمایا ہے۔(۲)

فائدہ نمبر9

مفاتیح المفاتیح میں قطب الاقطاب کی ’کتاب الاذکارکے حوالے سے مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص شب جمعہ میں دورکعت اس طرح اَدا کرے کہ ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ کے بعد (۵) پانچ مرتبہ آیت الکرسی پڑھے۔ پھر فارغ ہو کر بارگاہِ رسالت میں درودوسلام کا نذرانہ پیش کرے (تواس کی برکت سے اللہ دیدارِ مصطفیٰ کی راہیں اس کے لیے ہموار فرمادے گا)۔

۔۔۔۔

(۱)       الوسائل الشافعہ، امام خرد۔

(۲)      الوسائل الشافعہ، امام خرد:۴۷۱۔

فائدہ نمبر10

’مجمع الحدیث میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:جو شخص مجھے خواب میں دیکھنے کا آرزو مند ہو، اُسے چاہیے کہ شب جمعہ میں دوسلاموں کے ساتھ چاررکعتیں اَدا کرے،اور ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ، والضحیٰ، الم نشرح، انا انزلناہ، اور اِذا زلزلت الارض پڑھے، پھر سلام پھیر کر (۷۰) سترمرتبہ درود، اور (۷۰) ستر مرتبہ اِستغفار پڑھے،اور  درودوسلام کا ورد کرتاہوا سوجائے تواُسے مجھے خواب میں دیکھنے کا شرف نصیب ہو گا۔

فائدہ نمبر11

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضوررحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:جس نے ہفتے کے دن مجھ پر (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ درود بھیجا، مرنے سے پہلے وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لے گا۔  یہ طریقہ بھی  الحمد للہ مجرب اور آزمودہ ہے۔(۱)

فائدہ نمبر12

’مفاخر علیہ میں حضرت ابوالحسن شاذلی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے آتا ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص زیارتِ نبوی کا طلب گار،  اور روزِقیامت و عرصۂ  محشر کی شرمندگی سے بچنے کا خواست گار ہے، اسے چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ سورۂ   اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ، سورۂ  اِذَا السَّمَآئُ انْفَطَرَتْ، اور سورۂ   اِذَا السَّمَآئُ انْشَقَّتْ کی تلاوت کرے۔

 

(۱)       الوسائل الشافعہ، امام خرد:۴۶۷۔

فائدہ نمبر13

سیدنا جمال الدین ابو المواہب شاذلی رضی اللہ عنہ  جن کا شمار اَخیارِاُمت میں سے ہوتا ہے  فرماتے ہیں : میں خواب کے اندر حضوراقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہواتوآپ نے مجھے حکم دیتے ہوئے فرمایا: سوتے وقت پہلے پانچ مرتبہ’بسم اللہ الرحمن الرحیم،اور پانچ مرتبہ ’اَعوذباللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر پھر اس دعا کا وِردکیا کرو  :

اللّٰہُمَّ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ أَرِنِي وَجْہَ مُحَمَّدٍ حَالاً وَمَآلاً۔

جب بھی تم اس دعا کو پڑھوگے،میں تمہارے خواب میں آؤں گا، اور تم سے کبھی بھی پیٹھ نہ پھیروں گا۔ پھر فرمایا: کیا خوب بات ہواگر کوئی اس دعا کو یاد کر لے، اور اس پر یقین کامل رکھے۔

خصوصاًجب آپ بارگاہِ رسالت میں درودوسلام کثرت کے ساتھ پیش کریں گے (تو یہ دولتِ بیدار کثرت سے آپ کے ہاتھ لگے گی)۔  یہ طریقہ بھی  الحمد للہ مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر14

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ کَمَا أمَرْتَنَا أنْ نُّصَلِّيَ عَلَیْہِ،  اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ کَمَا ہُوَ أہْلُہُ،  اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَتَرْضیٰ لَہٗ،  اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی رُوْحِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ فِي الأرْوَاحِ،  اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی جَسَدِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ فِي الأجْسَادِ،  اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی قَبْرِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ فِي الْقُبُورِ،  اَللّٰہُمَّ بَلِّغْ رُوْحَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ مِّنِّي تَحِیَّۃً وَّسَلاَماً۔

امام جبروان فاکہانی اور ابن وداعہ نے یہ حدیث في القبور تک نقل کی ہے۔ اس کے بعد فاکہانی فرماتے ہیں کہ جس نے درود کے اِ س صیغے کے ساتھ (۷۰) سترمرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں درودوسلام پیش کیا، اُسے خواب میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت نصیب ہو گی۔

فائدہ نمبر15

’منبع السعادات اور’ذخائر محمدیہمیں زیارتِ نبوی کا ایک فائدہ یوں درج ہے کہ مندرجہ ذیل دعا (۱۰۰) سومرتبہ پڑھی جائے  :

اَللّٰہُمَّ إنِّي أَسْأَلُکَ بِنُورِ الأنْوَارِ، الَّذِيْ ھُوَ عَیْنُکَ لاَغَیْرُکَ أنْ تُرِیَنِي وَجْہَ نَبِیِّکَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کَمَا ہُوَ عِنْدَکَ۔

یہ طریقہ بھی الحمدللہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔ بہت سوں نے اس سے فائدہ اُٹھانے کی مجھے اِطلاع دی ہے۔

فائدہ نمبر16

ایک طریقہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جوشخص دیدارِ مصطفیٰ کا طالب ہو اُسے چاہیے کہ دو رکعت نمازِ نفل اَدا کرنے کے بعد (۱۰۰)  مرتبہ یوں پڑھے  :

یَا نُوْرَ النُّورِ، یَا مُدَبِّرَ الأمُوْرِ بَلِّغْ عَنِّي رُوْحَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّأرْوَاحَ آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ تَحِیَّۃً وَّسَلاَماً۔

فائدہ نمبر17

علامہ سید احمد زینی بن دحلان اپنے مجموعۂ  درود میں فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی معیت پانے کے لیے ایک مجرب وآزمودہ صیغۂ  درود یہ ہے، جسے روزانہ (۱۰۰۰) بار پڑھنا چاہیے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ الْجَامِعِ لأسْرَارِکَ، وَالدَّالِّ عَلَیْکَ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔

یہی فائدہ حبیب حسن محمد فدعق نے بھی اپنی کتاب’الفوائد الحسان کے صفحہ ۲۶ پر ذکرکیا ہے۔  یہ طریقہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر18

سیدی محمد بکری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ درود صلاۃُ الفاتح کہلاتا ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ الفَاتِحِ لِمَا أُغْلِقَ وَالْخَاتِمِ لِمَا سَبَقَ نَاصِرِ الْحَقِّ بِالْحَقِّ وَالْھَادِي إلَی الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ وَعَلیٰ آلِہٖ حَقَّ قَدْرِہٖ وَمِقْدَارِہِ الْعَظِیْمِ۔

بتایا جاتا ہے کہ جس نے اس کو جمعرات، جمعہ یا سوموار کی رات میں (۱۰۰۰) مرتبہ پڑھا،اُسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اِجتماع نصیب ہو گا۔ یہ درود پڑھنے سے پہلے چار رکعتیں اِس ترتیب سے اَدا کرے کہ پہلی رکعت میں سورۂ  قدر تین مرتبہ، دوسری میں سورۂ  زلزلہ، تیسری میں سورۂ  کافرون، اور چوتھی میں سورۂ  معوّذتین پڑھے۔ نیز یہ درود پڑھتے وقت اگر اگربتی وغیرہ جلالے توکیا کہنے!۔ جو چاہے اس کا تجربہ کر کے دیکھ لے۔  یہ طریقہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر19

’بستان الفقرائ میں آتا ہے  کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے بروزِ جمعہ مندرجہ ذیل صیغے کے ساتھ (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ مجھ پر درود پڑھا تووہ شخص اس رات ضرور اپنے رب یا اپنے نبی کا دیدار کرے گا، یا جنت میں اپنا گھر دیکھ لے گا۔ اور  اگر وہ شخص نہ دیکھے تو یہ کام دو، تین یا پانچ جمعے تک جاری رکھے۔

اَللّٰہُمَّ صَلِّ  عَلیٰ  سَیِّدِنَا  مُحَمَّدٍ  النَّبِيِّ الأُمِّيِّ۔

ایک اور روایت میں آگے ’وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْکے الفاظ بھی آئے ہیں۔

یہ طریقہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر20

’حدائق الاخبار اور سیدی شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی’غنیۃ الطالبین میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے شبِ جمعہ دو رکعت نماز اِس طرح پڑھی کہ ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ کے بعد آیت الکرسی ایک مرتبہ، اور قل ھو اللہ پندرہ  مرتبہ پڑھا، پھراس نے اپنی نمازکے آخر میں (۱۰۰۰) ہزار بار یہ درود پڑھا  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ۔

تووہ بلاشبہہ مجھے خواب میں دیکھے گا، اگلا جمعہ آنے سے قبل۔ اور جس شخص نے مجھے دیکھا جنت اس کا مقدر بن جاتی ہے، اور اس کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

اس صیغہ درود کو حبیب عطاس حبشی نے اپنی کتاب ’تذکرۃ المصطفیٰ اور سید محمد بن علوی مالکی نے ’ذخائرمحمدیہ میں بھی بیان کیا ہے۔  یہ طریقہ بھی  الحمدللہ تعالیٰ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر21

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَنَبِیِّکَ وَرَسُوْلِکَ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ۔

سیدی ابوالعباس المرسی رضی اللہ عنہ بیان فرماتیہیں کہ جس شخص نے بالالتزام رات و دن میں (۵۰۰)  پانچ سو مرتبہ درجِ بالا صلوٰۃ و سلام پڑھا، وہ مرنے سے قبل حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عالم بیداری میں ضرور دیکھے گا۔

علامہ نبہانی رضی اللہ عنہ نے ’سعادۃ الدارین میں اس پراِتنا اِضافہ بھی کیا ہے : ’وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔

سیدی یوسف نبہانی اس پرتبصرہ کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ اگر اس عمل سے بیداری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کا شرف مل سکتا ہے توخواب میں تو بدرجۂ  اولیٰ آپ کے دیدارکی سعادت نصیب ہونی چاہیے۔  یہ طریقہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔(۱)

فائدہ نمبر22

اِبریزشریف میں آتا ہے کہ حضرت سیدنا عبد العزیز دباغ رضی اللہ عنہ نے سب

 

(۱)       سعادۃ الدارین، یوسف نبہانی: ۴۸۸۔

سے پہلا وظیفہ جوحضرت سیدناخضر علیہ السلام کی تلقین پر شروع کیا تھاوہ مندرجہ ذیلتھا، جس کا وہ روزانہ (۷۰۰۰) سات ہزار مرتبہ ورد کیا کرتے تھے  :

اَللّٰہُمَّ یَا رَبُّ بِجَاہِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ﷺ اِجْمَعْ بَیْنِي وَبَیْنَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ فِي الدُّنْیَا قَبْلَ الاٰخِرَۃِ۔

فائدہ نمبر23

اپنے والدگرامی علیہ الرحمہ سے میں نے سنا کہ وہ فرمارہے تھے کہ جوشخص سوتے وقت امام بوصیری کے قصیدۂ  ہمزیہ کا مندرجہ ذیل شعر (۴۱)اکتالیس مرتبہ پڑھے، اسے دیدارِ مصطفیٰ کی سعادت نصیب ہو گی  :

لَیْتَہٗ خَصَّنِي بِرُؤیَۃِ وَجْہٍ          ٭        زَالَ عَنْ کُلِّ مَنْ رَآہٗ الشَّقَآءٗ(۱)

یہ فائدہ ’اجازات ومکاتباتِ حبیب عبد اللہ بن ہادی ہدارکے صفحہ ۹پر بھی مذکور ہے۔  نیز سید محمد بن علوی مالکی نے بھی اپنی کتاب ’ذخائر محمدیہ کے صفحہ ۱۵۴ پر اس کا تذکرہ کیا ہے  اللہ اِنھیں اس کی بہتر سے بہتر جزاعطا فرمائے

فائدہ نمبر24

سیدی یوسف بن اسماعیل نبہانی کی کتاب’سعادۃ الدارینمیں سیدقطب احمد رفاعی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک مبارک صیغہ ذکرکیا گیا ہے۔ جس کی فضیلت میں آتا ہے کہ جس شخص نے اسے (۱۲۰۰۰)بارہ ہزار مرتبہ پڑھا،اسے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کاشرف نصیب ہو گا۔ نیزاس کے اور بھی بہت سے بے شمار

 

(۱)       ترجمہ:  کاش! مجھے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کا شرف مل جائے جس سے ہر دیکھنے والے کی ہر تکلیف دور ہو جایا کرتی ہے۔

فوائد وثمرات ہیں۔

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الْقُرَشِيِّ، بَحْرِ أنْوَارِکَ، وَمَعْدِنِ أسْرَارِکَ، وَعَیْنِ عِنَایَتِکَ، وَلِسَانِ حُجَّتِکَ، وَخَیْرِ خَلْقِکَ، وَأحَبِّ الْخَلْقِ إلَیْکَ عَبْدِکَ وَنَبِیّکَ الَّذِيْ خَتَمْتَ بِہِ الأنْبِیَائَ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔  سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ، وَسَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

فائدہ نمبر25

سیدی یوسف نبہانی ’مجمع الصلوٰات میں شیخ احمد دیربی کے مجربات میں سے ایک صیغۂ  درود نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو شخص بستر پر لیٹتے وقت روزانہ شب میں اس درودکو دس دن تک (۱۰۰)سو مرتبہ پڑھے، اور پھر باوضو،روبہ قبلہ، دائیں کروٹ پرسورہے، تو یقیناً اُسے زیارتِ نبوی نصیب ہو گی  :

            اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ کُلَّمَا ذَکَرَکَ الذَّاکِرُوْنَ، وَغَفَلَ عَنْ ذِکْرِکَ الْغَافِلُوْنَ، عَدَدَ مَا أَحَاطَ بِہِ عِلْمُ اللّٰہِ، وَجَرَی بِہٖ قَلَمُ اللّٰہِ، وَنَفَذَ بِہِ حُکْمُ اللّٰہِ، وَوَسِعَہٗ عِلْمُ اللّٰہِ، وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ، وَرِضَائَ نَفْسِہٖ، وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ، عَدَدَ مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ، وَمَا ہُوَ کَائِنٌ فِي عِلْمِ اللّٰہِ، صَلَاۃً تَسْتَغْرِقُ الْعَدَّ، وَتُحِیْطُ بِہِ الْحَدَّ، صَلَاۃً دَائِمَۃً بِدَوَامِ مُلْکِ اللّٰہِ بَاقِیَۃً بِبَقَاءئِ اللّٰہِ۔

فائدہ نمبر26

سیدی یوسف نبہانی کی ’جامع الصلوٰاتصفحہ ۱۱۹پر مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا: یہ ایک مبارک صیغہ ہے۔ ہر قسم کے جائز مقاصد کی تکمیل کے لیے اسے (۱۰۰) سو سے لے کر(۱۰۰۰)ہزار مرتبہ تک پڑھا جائے۔ اور دیدارِ مصطفیٰ کے لیے (۱۰۰۰)ہزار مرتبہ۔

اور اگر اس نے ہر دن (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ پڑھنے کا معمول بنالیا،تواللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے دائمی غناوتونگری سے بہرہ ور فرمادے گا، وہ ساری مخلوق کا محبوبِ نگاہ ہو جائے گا، اور ہرقسم کی آفات وتکالیف اس سے دور کر دی جائیں گی۔الغرض! اس کے فوائد اتنے زیادہ ہیں کہ انھیں لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِہٖ قَدْرَ لاَإلٰہَ إلاَّ اللّٰہُ وَأغْنِنَا وَاحْفَظْنَا، وَوَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّہٗ وَتَرْضَاہٗ، وَاصْرِفْ عَنَّا السُّوٓئَ، وَارْضَ عَنِ الْحَسَنَیْنِ رَیْحَانَتَيِ خَیْرِ الأنَامِ، وَعَنْ سَائِرِ آلِہٖ وَأصْحَابِہٖ أَئِمَّۃِ الْہُدیٰ وَمَصَابِیْحِ الظَّلاَمِ وَأدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ دَارَ السَّلاَمِ، یَا حَيُّ یَا قَیُّومُ یَا اللّٰہُ۔

فائدہ نمبر27

سیدی یوسف نبہانی کی اِسی ’جامع الصلوٰات صفحہ۲۰  پرشیخ تیجانی کے حوالے سے مذکور ہے کہ جو شخص مندرجہ ذیل درود کوایک ہفتہ پوری پابندی اورکامل طہارت کے ساتھ پاک بستر پرسوتے وقت پڑھے، اسے  اِن شاء اللہ  زیارتِ نبوی نصیب ہو گی  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ  عَیْنِ الرَّحْمَۃِ الرَّبَّانِیَّۃِ، وَالْیَاقُوتَۃِ الْمُتَحَقِّقَۃِ الْحَائِطَۃِ بِمَرْکَزِ الْفُہُومِ وَالْمَعَانِي وَنُورِ الأنْوَارِ الْمُتَکَوّنَۃِ الاٰدَمِي، صَاحِبِ الْحَقِّ الرَّبَّانِي، اَلْبَرْقِ الأسْطُعِ بِمُزْنِ الأرْیَاحِ الْمَائِلَۃِ لِکُلِّ مُتَعَرِّضٍ مِنَ الْبُحُورِ وَالأوَانِي، وَنُورِکَ اللاَّمِعُ الَّذِيْ مَلأت بِہٖ کَونُکَ الْحَائِط بِأمْکِنَۃِ الْمَکَانِ۔ اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ عَیْنِ الْحَقِّ الَّتِي تَتَجَلّٰی مِنْہَا عُرُوشُ الْحَقَائِقِ عَیْن الْمَعَارِفِ الأعْلَمِ، صِرَاطِکَ التَّامِ الأقْوَمِ۔  اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ طَلَعَۃِ الْحَقِّ بِالْحَقِّ الْکَنْزِ الأعْظَمِ، أفَاضَتکَ مِنْکَ إلَیْکَ، إحَاطَۃ النُّورِ الْمُطلسمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلیٰ آلِہٖ صَلَاۃً تُعَرِّفُنَا بِہَا إیَّاہُ۔

فائدہ نمبر28

سیدی یوسف نبہانی کی اسی ’جامع الصلوٰات صفحہ ۲۱پر اُن کے استاذ شیخ محمد فاسی شاذلی کے حوالے سے ایک صیغۂ  درود نقل ہواہے،جس کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ جس نے پابندی کے ساتھ اس درود کو صبح وشام تین تین مرتبہ پڑھا، اللہ نے چاہا  تو وہ کثرت کے ساتھ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو گا، خواب میں بھی بیداری میں بھی،حسی طورپر بھی اور معنوی طورپر بھی۔درود یہ ہے  :

إنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o  اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ مَنْ جَعَلْتَہٗ سَبَباً لِانْشِقَاقِ أسْرَارِکَ الْجَبْرُوْتِیَّۃِ، وَانْفِلَاقِ أنْوَارِکَ الرَّحْمَانِیَّۃِ، وَصَارَ نَائِبًا عَنِ الْحَضْرَۃِ الرَّبَّانِیَّۃِ، وَخَلِیْفَۃَ أسْرَارِکَ الذَّاتِیَّۃِ فَہُوَ یَاقُوْتَۃٌ أحَدِیَّۃٌ، ذَاتک الصَّمَدِیَّۃِ، وَعَیْنُ مَظْہَرِ صِفَاتِکَ الأزَلِیَّۃِ، فَبِکَ وَمِنْکَ صَارَ حِجَابًا عَنْکَ، وَسِرًّا مِنْ أسْرَارِ غَیْبِکَ، حَجَبْتَ بِہٖ کثَیِْرًا مِنْ خَلْقِکَ، فَہُوَ الْکَنْزُ المُطَلْسَمُ، وَالْبَحْرُ الزَّاخِرُ المُطَمْطَمُ، فَنَسْألُکَ اللّٰہُمَّ بِجَاہِہٖ لَدَیْکَ وَبِکَرَامَتِہِ عَلَیْکَ أنْ تُعَمِّرَ قُلُوبَنَا بِأفْعَالِہٖ، وَأسْمَاعَنَا بِأقْوَالِہٖ، وَقُلُوبَنَا بِأنْوَارِہِ، وَأرْوَاحَنَا بِأسْرَارِہِ، وَأشْیَاخَنَا بِأحْوَالِہٖ، وَسَرَائِرَنَا بِمُعَامَلَتِہِ، وَبَوَاطِنَنَا بِمُشَاہَدَتِہِ، وَأبْصَارَنَا بِأنْوَارِ المحیا جَمَالِہٖ، وَخَوَاتِیْمَ أعْمَالنَا فِي مَرْضَاتِہِ، حَتیٰ نَشْہَدَکَ بِہِ، وَہُوَ بِکَ فَأکُونُ نَائِبًا عَنِ الْحَضْرَتَیْنِ بِالْحَضْرَتَیْنِ وَأدَلُّ بِہِمَا عَلَیْہِمَا، وَنَسْألُکَ اللّٰہُمَّ أنْ تُصَلِّيَ وَتُسَلِّمَ عَلَیْہِ صَلَاۃً وَّتَسْلِیْمًا یَلِیْقَانِ بِجَنَابِہِ وَعَظِیْم قَدَرِہِ وَتَجْمَعُنَا بِہِمَا عَلَیْہِ، وَتُقَرِّبُنَا بِخَالِصِ وُدِّہِمَا لَدَیْہِ، وَتَنْفَحُنِي بِسَبَبِہِمَا نَفْحَۃَ الأتْقِیَائِ، وَتَمْنَحُنِي بِہِمَا مِنَّۃَ الأصْفِیَائِ لأنَّہٗ السِّرُّ الْمَصُونُ، وَالْجَوھَرُ الْفَرْدُ الْمَکْنُونُ فَہُوَ الْیَاقُوْتَۃُ الْمُنْطَوِیَۃُ عَلَیْہَا أضْعَافَ مُکَوَّنَاتِکَ، وَالْغَیْھُوبَۃِ الْمُنْتَخَبِ مِنْہَا أصْنَافَ مَعْلُوْمَاتِکَ، فَکَانَ غَیْبًا مِنْ غَیْبِکَ، وَبَدَلًا مِنْ سِرِّ رُبُوبِیَّتِکَ، حَتیٰ صَارَ بِذَالِکَ مَظْہَرًا نَسْتَدِلُّ بِہِ عَلَیْکَ، وَکَیْفَ لاَ یَکُوْنُ ذٰلِکَ وَقَدْ أخْبَرْتَنَا فِي مُحْکَمِ کِتَابِکَ بِقَولِکَ : إنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ إنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔  وَقَدْ زَالَ بِذٰلِکَ الرَّیْبُ وَحَصَلَ الانْتِبَاہُ، وَاجْعَلِ اللّٰہُمَّ دَلَالَتَنَا عَلَیْکَ بِہِ، وَمُعَامَلاَتَنَا مَعَکَ مِنْ أنْوَارِ مُتَابَعَتِہِ، وَارْضَ اللّٰہُمَّ عَلٰی مَنْ جَعَلْتَہُمْ مَحَلاًّ لِلاِقْتِدَائِ، وَصَیَّرْتَ قُلُوبَہُمْ مَصَابِیْحَ الْہُدیٰ الْمُطَہَّرِیْنَ مِنْ رَقِّ الأغْیَارِ وَشَوَائِبَ الأکْدَارِ، مَنْ بَدَتْ مِنْ قُلُوْبِہِمْ دُرَرُ الْمَعَانِي، فَجَعَلْتَ قَلاَئِدَ التَّحْقِیْقِ لأہْلِ الْمَبَانِي، وَاخْتَرْتَہُمْ فِي سَابِقِ الاقْتِدَارِ أنَّہُمْ مِنْ أصْحَابِ نَبِیِّکَ الْمُخْتَارِ، وَرَضَیْتَہُمْ لانْتِصَارِ دِیْنِکَ فَہُمُ السَّادَۃُ الأخْیَارُ، وَضَاعِفِ اللّٰہُمَّ مَزِیْدَ رِضْوَانِکَ عَلَیْہِمْ مَعَ الاٰلِ وَالْعَشِیْرَۃِ وَالْمُقْتَفِیْنَ لِلاٰثَارِ، وَاغْفِرِ اللّٰہُمَّ ذُنُوبَنَا وَلِوَالِدَیْنَا وَمَشَائِخِنَا وَإخْوَانِنَا فِي اللّٰہِ وَجَمِیْعِ الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ الْمُطِیْعِیْنَ مِنْہُمْ وَأھْلِ الأوْزَارِ۔

فائدہ نمبر29

مدینہ منورہ میں شرفِ ولادت پانے والے چند مشائخ کی زبانی مجھے معلوم ہواکہ ہمارے یہاں مدینہ منورہ کے اندر سیدی یوسف نبہانی رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ وظیفہ بڑا مقبول ہے کہ جو شخص خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہونا چاہے، تو اسے چاہیے کہ سوتے وقت (۲۲) بائیس مرتبہ ’محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کا ورد کر لیا کرے۔(۱)

فائدہ نمبر30

مجھے اپنے رفیق وشیخ حبیب زین بن ابراہیم بن سمیط مدظلہ العالی کے ذریعہ خبرپہنچی ہے، وہ فرمایا کرتے ہیں کہ حبیب علی بن محمد حبشی قدس سرہ العزیز  سے منسوب مندرجہ ذیل صیغۂ  درود دیدارِ مصطفیٰ کی سعادت پانے کے لیے مجرب ماناجاتا ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ سَیِِّدِنَا مُحَمَّدٍ مِفْتَاحِ بِابِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ عَدَدَ مَا فِي عِلْمِ اللّٰہِ صَلَاۃً وَّسَلاَماً دَائِمَیْنِ بِدَوَامِ مُلْکِ اللّٰہِ۔

اورمجھے یہ سعادت اَرزانی نصیب ہوئی کہ مدینہ منورہ میں روضۂ  اقدس کے قریب حبیب فاضل سید حسن بن عبداللہ شاطری نے پہلی ملاقات میں مجھے یہ مبارک وظیفہ عنایت کیا تھا۔فالحمدللہ علیٰ ذالک۔

 

(۱)       تفصیل کے لیے دیکھئے: سعادۃ الدارین: ۴۹۲۔

فائدہ نمبر31

سیدی یوسف نبہانی رضی اللہ عنہ ’سعادۃ الدارین صفحہ ۴۸۴ پر رقم طراز ہیں کہ ابوالقاسم سبکی نے اپنی کتاب’الدرالمنظَّم فی المولد المعظم میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک فرمان نقل کیا ہے کہ جوشخص یوں درود بھیجے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی رُوْحِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ فِي الأرْوَاحِ،  وِّ عَلٰی جَسَدِہٖ فِي الأجْسَادِ،  وَعَلٰی قَبْرِہٖ فِي الْقُبُورِ۔

اُسے خواب میں میری زیارت نصیب ہو گی۔ اور جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عرصۂ  قیامت میں بھی میرے دیدار سے مشرف کیا جائے گا۔ اور جو بھی مجھے قیامت دیکھ لے اسے میری شفاعت سے ضرور حصہ ملے گا۔ اور جس کی میں شفاعت کر دوں،  وہ میرے حوض کوثر سے سیراب ہو گا، اور اس کے اوپرآتش جہنم حرام ہو گی۔

فائدہ نمبر32

سیدی یوسف نبہانی رضی اللہ عنہ کی ’سعادۃ الدارین صفحہ ۴۸۴میں شیخ شمس الدین عبدوسی کے حوالے سے مذکور ہے کہ جو شخص بعد نمازِ عشا اپنی آرام گاہ میں جا کر مندرجہ ذیل درود پڑھے،ساتھ ہی تین بار قل ھو اللہ، قل اعوذ بربّ الفلق، اورقل اعوذ بربّ الناس بھی پڑھ لے،اس کے بعد کوئی کلام کیے بغیرسوجائے تواسے خواب میں تاجدارِحرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت نصیب ہو گی۔ وہ درود یہ ہے  :

اللّٰہُمَّ اجْعَلْ أفْضَلَ صَلَوَاتِکَ أبْدًا، وَأنْمٰی بَرَکَاتِکَ سَرْمَدًا، وَأزْکٰی تَحِیَّاتِکَ فَضْلاً وَّعَدَدًا عَلیٰ أشْرَفِ الْخَلاَئِقِ الإنْسَانِیَّۃِ وَالْجَانِیَّۃِ، وَمَجْمَعِ الْحَقَائِقِ الإیْمَانِیَّۃِ، وَمَظْہَرِ التَّجَلِّیَّاتِ الإحْسَانِیَّۃِ، وَمَہْبَطِ الأسْرَارِ الرَّبَّانِیَّۃِ، وَوَاسِطَۃِ عُقْدِ النَّبِیِّیْنَ، وَمُقَدَّمِ جَیْشِ الْمُرْسَلِیْنَ، وَقاَئِدِ رَکْبِ الأنْبِیَائِ الْمُکَرَّمِیِْنَ، وَأفْضَلِ الْخَلْقِ أجْمَعِیْنَ، حَامِلِ لِوَائِ الْعِزِّ الأعْلیٰ، وَمَالِکِ أزِمَّۃِ الْمَجْدِ الأسْنیٰ، شَاہِدِ أسْرَارِ الأزَلِ، وَمَشَاہِدِ أنْوَارِ السَّوَابِقِ الأوَّلِ، وَتَرْجَمَانِ لِسَانِ الْقِدَمِ، وَمَنْبَعِ الْعِلْمِ وَالْحِلْمِ وَالْحِکَمِ، مَظْہَرِ سِرِّ الْجُوْدِ الْجُزْئِي وَالْکُلِّي، وَإنْسَانِ عَیْنِ الْوُجُوْدِ الْعَلْوِيّ وَالْسُّفْلِيّ، رُوْحِ جَسَدِ الْکَوْنَیْنِ، وَعَیْنِ حَیَاۃِ الدَّارَیْنِ، اَلْمُتَحَقَّقِ بِأعْلیٰ رُتَبِ الْعُبُوْدِیَّۃِ، وَالْمُتَخَلَّقِ بِأخْلَاقِ الْمَقَامَاتِ الاِصْطِفَائِیَّۃِ، الْخَلِیْلِ الأعْظَمِ، وَالْحَبِیْبِ الأکْرَمِ، سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ بنِ عَبْدِ اللّٰہِ بنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ عَدَدَ مَعْلُوْمَاتِکَ، وَمِدَادِ کَلِمَاتِکَ، کُلَّمَا ذَکَرَکَ الذَّاکِرُوْنَ، وَغَفَلَ عَنْ ذِکْرِکَ الْغَافِلُوْنَ، وَسَلَّمْ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا، وَرَضِيَ اللّٰہُ عَنْ أصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ أجْمَعِیْنَ۔

اِس صیغۂ  درود کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا ورد رکھنے والا شیطان کے وسوسوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ بعض عرفاکے بقول یہ قطب ربانی سید عبد القادر جیلانی کا درود ہے، اور جو شخص اِسے بعد نمازِ عشا سورہائے اِخلاص ومُعوَّذتین کے ساتھ پڑھے، وہ خواب میں دیدارِ مصطفیٰ سے مشرف ہو گا  اِن شائَ اللہ

پھر میں نے اِسے کچھ اِضافے کے ساتھ ’کنوز الاسرار میں دیکھا، نیز اس میں ’مسالک الحنفا کی عبارت بھی مذکور تھی۔ حضرت سید عبد الوہاب شعرانی اپنے شیخ امام نور الدین شوانی قدس سرہ العزیز  کی سوانح پر مشتمل کتاب’ الطبقات الوسطی میں نقل کرتے ہیں کہ شیخ شوانی نے فرمایا: میں نے اِنتقال کے دوسال بعد انھیں خواب میں دیکھا، وہ مجھ سے فرمارہے تھے کہمجھے شیخ عبداللہ عبدوسی کا درود سکھاؤ،  کیوں کہ میں نے اس کی مانگ عالم برزخ میں دیکھی ہے، اوراس کا ثواب آخرت میں یہ پایا ہے کہ اس کا ایک بار پڑھنا (۱۰۰۰۰)دس ہزار پڑھنے کے برابر ہے۔ والحمد للہ۔

سیدی حسن بن محمد فدعق نے بھی یہ فائدہ ’الفوائد الحسانص۳۲پرذکرفرمایا ہے۔

فائدہ نمبر33

جو شخص خواب کے اندر دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کرنے کا آرزو مندہو اُسے چاہیے کہ اِس درود کا وِرد رکھے   :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا ہُوَ أہْلُہٗ۔  اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَتَرْضیٰ لَہٗ۔

جو شخص بھی یہ درود آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرطاق عدد میں پڑھے گا، اُسے خواب میں زیارتِ نبوی نصیب ہو گی۔نیز اس کے ساتھ میں یہ بھی شامل کر لے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی رُوْحِ مُحَمَّدٍ فِي الأرْوَاحِ،  اللّٰہمَّ صَلِّ عَلٰی جَسَدِ مُحَمَّدٍ فِي الأجْسَادِ،  اللّٰہمَّ صَلِّ عَلٰی قَبْرِ مُحَمَّدٍ  فِي الْقُبُورِ۔ (۱)

سیدی حسن بن محمد فدعق نے بھی یہ فائدہ اپنی کتاب ’الفوائد الحسان صفحہ۲۶ پر ذکر فرمایا ہے،نیز اس میں :وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ، کا اِضافہ کیا ہے۔

فائدہ نمبر34

’سعادۃ الدارین صفحہ ۴۸۵پر امام یافعی کا ایک قول نقل کیا ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی زیارت سے بہرہ یاب ہونا چاہیے، اُسے چاہیے کہ مہینے کے پہلے

 

(۱)       سعادۃ الدارین: ۴۸۵۔

جمعہ کی شب کو غسل کرے، پھر عشا کی نماز اَدا کر کے بارہ رکعتیں پڑھے، ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ اور سورۂ  مزمل پڑھے، اخیر میں سلام پھیرکر بارگاہِ رسالت میں (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ درودوسلام بھیجے، اور پھر سوجائے۔ یقیناً اسے خواب میں دیدارِ مصطفیٰ نصیب ہو جائے گا۔

دوسرے نسخے میں کچھ اِضافہ ہے کہ غسل کے بعد وضو کرے۔۔۔۔ اور پاک صاف سفید کپڑا زیب تن کرے۔۔۔۔ ہر دو رکعت پر سلام پھیرے۔۔۔۔ ہزار بار درود پڑھنے کے بعد ہزار بار اِستغفار بھی کرے۔۔۔۔ پھر طہارت پر سو رہے، تو اسے خواب میں زیارتِ نبوی نصیب ہو گی۔  یہ طریقہ بھی مجرب اور آزمودہ ہے۔۔۔۔

فائدہ نمبر35

اُسی ’سعادۃ الدارین صفحہ ۴۸۵ پرہے کہ امام قسطلانی نے فرمایا:میں نے بعض معتبر کتابوں میں پڑھا ہے کہ جو شخص پابندی کے ساتھ سورۂ  مزمل اور سورۂ  کوثر تلاوت کرتا رہے، اُسے کسی شب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت نصیب ہو جائے گی۔

ویسے یہ طریقہ اِس کتاب کے بالکل شروع میں گزرچکاہے جہاں مختلف سورتوں کے مخصوص وظائف بیان ہوئے ہیں،   مگر یہاں دوسورتوں کو ساتھ پڑھنے کی بات کی گئی ہے۔واللہ اعلم۔

فائدہ نمبر36

’سعادۃ الدارین میں بعض (مشائخ) کے حوالے سے آتا ہے کہ شب جمعہ کو چار رکعتیں پڑھی جائیں۔  پہلی رکعت میں سورۂ  فاتحہ وسورۂ  قدر۔ دوسری میں سورۂ  فاتحہ، اور سورۂ  زلزال تین مرتبہ۔ تیسری میں سورۂ  فاتحہ وسورۂ  کافرون۔ اور چوتھی میں سورۂ  فاتحہ، اور سورۂ  اِخلاص تین مرتبہ پڑھنے کے بعد ایک بار سورہائے معوذین بھی پڑھ لے۔پھر سلام پھیرکر روبہ قبلہ بیٹھ جائے، اور (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ اِس صیغے کے ساتھ بارگاہِ نبوی میں صلوٰۃ وسلام کا نذرانہ پیش کرے  :

اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ الأمِّيِّ۔

تو وہ یقیناً خواب میں دیدارِ مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے شرف یاب ہو گا، اسی جمعہ کو، یا دوسرے جمعہ کو، یا پھرتیسرے جمعہ کو  اِن شاء اللہ امام قسطلانی فرماتے ہیں کہ یہ آخری جملے میں نے امام العینیہ شیخ بہاء الدین حنفی  قدس سرہ العزیز  کی مبارک تحریر سے نقل کیے ہیں۔  اللہ ان پر اور ہم سب پر رحمت وعنایت کی نظر فرمائے۔ وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وسلم۔

فائدہ نمبر37

امام قسطلانی فرماتے ہیں کہ اس کے علاوہ اُن کے خط مبارک سے میں نے سورۂ  فیل کے خواص بھی نقل کیے ہیں کہ جو شخص کسی بھی شبسورۂ  فیل کو (۱۰۰۰)ہزار مرتبہ پڑھے، اور (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیج کر سوجائے، اسے خواب میں دیدارِ احمد مختار کی دولتِ  بیدار نصیب ہو گی۔

نیز جو اِسے لکھ کر (گلے میں )لٹکا لے،دشمنوں کی شرارتوں سے اَمان میں رہے گا، ہر محاذ پر اللہ اس کی مدد فرمائے گا، اور کوئی ناپسندیدہ چیز اس کے قریب بھی نہ بھٹکنے پائے گی۔

فائدہ نمبر38

’سعادۃ الدارین صفحہ ۴۸۶پر ہے: حضرت جعفرصادق رضی اللہ عنہ قرآن کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس شخص نے شب جمعہ کو آدھی رات میں اُٹھ کرنماز اَدا کی، اور (۱۰۰۰) ہزار بار سورۂ  کوثر کا ورد کیا،وہ خواب میں شہنشاہِ مدینہ کی زیارت سے شادکام ہو گا۔

صاحب ’کنوز الاسرار نے اس فائدے کو یوں بیان کیا ہے: جو شخص شب جمعہ نمازِ عشا اَدا کرنے کے بعد(۱۰۰۰) ہزار بار سورۂ  کوثر،اور ساتھ ہی (۱۰۰۰)ہزار مرتبہ درود وسلام پڑھ لے،تو اُسے زیارتِ نبوی نصیب ہو جائے گی۔

امام قسطلانی نے بھی شیخ تمیمی کے حوالے سے ’کنوز الاسرار کی مانند کچھ اِضافے کے ساتھ اِس فائدے کو نقل فرمایا ہے،  لیکن میں یہاں اس سورہ کے خواص کے اِعادے کی کوئی ضرورت نہیں محسوس کر رہا،  کیوں کہ یہ شروع کتاب میں آٹھویں فائدے کے تحت مندرج ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ وہاں محض ہزار مرتبہ سورۂ  کوثر پڑھنا تھی، اور یہاں سورۂ  کوثر کو درود شریف کے ساتھ ملادیا گیا ہے، نیز یہ بھی کہ شبِ جمعہ کی نصف لیل ہو۔واللہ اعلم۔

فائدہ نمبر39

بعض اَکابر  رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے آتا ہے کہ (طالب دیدارِ مصطفیٰ) جب نمازِ مغرب مکمل کر لے، تو دو دو رکعتیں نفل پڑھتا جائے، ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ کے بعد سات سات مرتبہ سورۂ  اِخلاص پڑھے۔ پھر سلام پھیر کر سجدے میں جائے اور سات بار’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ نیزسات بار مندرجہ ذیل درود وسلام پڑھے  :

اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ الأمِّيِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِہٖ وسَلِّمْ۔

پھر سات بار:  یَاحَيُّ یَا قَیُّومُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ پڑھے۔ ہر دو رکعتوں میں یہی عمل کرتا رہے حتی کہ وقت عشا داخل ہو جائے،اَب نمازِ عشا اَدا کرے،اس کے بعد پھر(۱۰۰۰) ہزار بار یہ درود بھیجے  :

صَلَّ اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأمِّيِّ۔

دائیں کروٹ لیٹ کر یہ درود پڑھتاپڑھتا سوجائے، یقیناً اس کی قسمت بیدار ہو گی اور اسے دیدارِ مصطفیٰ کی نعمت نصیب ہو گی۔  یہ بھی  الحمدللہ  مجرب وآزمودہ ہے۔(۱)

فائدہ نمبر40

حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جو شخص خواب میں دو عالم کے تاجدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدار کا خواستگار ہو، وہ یہ عمل کرے۔ پہلے چار رکعت نمازاس ترتیب سے اَدا کرے کہ  ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ ایک مرتبہ، اور سورہائے ضحی، الم نشرح، انا انزلناہ، اِذا زلزلت پڑھے۔ اخیرمیں تشہد میں بیٹھ کر التحیات پڑھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم پر (۷۰) ستر بار درود بھیج کر سلام پھیر دے۔ کسی سے گفتگو نہ کرے اور سو رہے،اللہ نے چاہاتو یہ شخص ضرور دیدارِ مصطفیٰ سے شادکام ہو گا۔(۲)

فائدہ نمبر41

’سعادۃ الدارین صفحہ ۴۸۷پر درج ہے کہ (دیدارِ مصطفیٰ کا آرزومند)پہلے دو رکعت نماز اَدا کرے، ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ کے بعد قل ھو اللہ احد (۱۰۰)سوبار پڑھے۔ پھر نماز سے فراغت کے بعد تین بار یہ ورد کرے   :

یَا رَحْمٰنُ، یَا مُحْسِنُ، یَا مُجْمِلُ، یَا مُنْعِمُ، یَا مُتَفَضِّلُ۔

نیز یہ کلمات کسی کاغذ پر لکھ کر اپنے سرہانے رکھ لے۔پھر دیکھے کہ اسے زیارتِ نبوی کا شرف کیسے حاصل ہوتا ہے!۔

۔۔۔۔۔

(۱)       سعادۃ الدارین، سیدی نبہانی۔

(۲)      سعادۃ الدارین، سیدی نبہانی۔

سنوسی نے اپنے مجربات میں،  ہاروشی نے ’کنوز الاسرار میں اور بکری نے ’شرح حزب نووی میں یہ فائدہ یوں درج کیا ہے کہ قل ھو اللہ احد(۱۰۰) سو مرتبہ پڑھے۔ پھر یَامُتَفَضِّلُ کے بعد اخیر میں اِتنا مزید کہے  :

اَرِنِي وَجْہَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔  

فائدہ نمبر42

’سعادۃ الدارین صفحہ ۴۸۷میں مذکورہے کہ نمازِ مغرب اَدا کرنے کے بعد عشائے آخر تک نفل نمازیں پڑھی جائیں،  اس بیچ کسی سے کوئی کلام نہ ہو، ہر دو رکعت پر سلام پھیرا جائے،نیز ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ ایک بار، اور قل ھو اللہ احد تین بارپڑھی جائے، پھر آخری وقت میں نمازِ عشا اَدا کر کے اپنے گھرلوٹ جائیں اور کسی سے کوئی بات نہ کریں۔

جب سونے کا اِرادہ ہو تو پھر دورکعت پڑھ لیں،  ہررکعت میں سورۂ  فاتحہ کے بعد سات مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھی جائے،پھر سلام پھیر کر سجدے میں جائیں، اور حالتِ سجدہ میں سات بار اِستغفار،سات مرتبہ درود شریف،اور سات بار’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلاَحَولَ وَلاَقُوَّۃَ إلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْمِ۔  پڑھ کر سر کو اُٹھائیں، اور بالکل سیدھے بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کو اُٹھا کریہ دعا پڑھیں  :

یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالإکْرَامِ یَا أرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، یَا رَحْمٰنَ  الدُّنْیَا  وَ الاٰخِرَۃِ وَ رَحِیْمَہُمَا، یَا اللّٰہُ یَا إلٰہَ الأوَّلِیْنَ وَالاٰخِرِیْنَ، یَا رَبُّ، یَا رَبُّ، یَا رَبُّ، یَا اَللّٰہُ، یَا اَللّٰہُ، یَا اَللّٰہُ۔

پھر کھڑے ہو جائیں اور ہاتھوں کو اُٹھا کریہی مذکورہ دعا پڑھیں۔  اَب دوبارہ بیٹھ جائیں، جتنا ہو سکے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے توبہ واِستغفار کریں، اور درود شریف پڑھیں۔  پھر دائیں کروٹ ہو کر بسترے پرسوجائیں۔  اللہ نے چاہا تو ضرور بالضرور دیدارِ مصطفیٰ کی سعادت نصیب ہو گی۔

فائدہ نمبر43

بعض اَکابرِ اُمت نے فرمایا کہ جو شخص جمالِ نبوت دیکھنے کا متمنی ہو،اُسے چاہیے کہ سوتے وقت باوضو ہولے اور پاک وصاف بسترے پر بیٹھ کر سورۂ  والشمس، سورۂ  واللیل، اورسورۂ  والتّین کی تلاوت کرے، ہر سورت کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہو، سات راتیں یہی عمل کرے۔ نیز زیادہ سے زیادہ درودشریف پڑھتا رہے، اور پابندی کے ساتھ یہ دعا پڑھے  :

اَللّٰہُمَّ رَبَّ الْبَلَدِ الْحَرَامِ، وَالْحِلِّ وَالْحَرَامِ، وَالرُّکْنِ وَالْمَقَامِ، اِقْرَأ عَلٰی رُوْحِ مُحَمَّدٍ مِنَّا السَّلاَمَ۔ (۱)

فائدہ نمبر44

بعض اہل علم بیان کرتے ہیں کہ ایک خوش قسمت شخص برابر دیدارِ مصطفیٰ سے مشرف ہوتا رہتا تھا، (لوگوں نے جب معلوم کیا تواس کا راز یہ سمجھ میں آیا کہ ) وہ مندرجہ ذیل صیغۂ  درود کے ساتھ (۱۶۰۰۰) سولہ ہزار مرتبہ درود شریف پڑھا کرتا تھا  :

اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ حَقَّ قَدْرِہِ وَمِقْدَارِہٖ۔

فائدہ نمبر45

(دیدارِ مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آروز رکھنے والے کو چاہیے کہ) نمازِجمعہ سے فارغ ہونے کے بعد (۱۰۰) سو مرتبہ ’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ پڑھے اور اسی دن بعد نماز عصر (۱۰۰۰)  ہزار مرتبہ یہ درود پڑھے  :

 

(۱)       سعادۃ الدارین، سیدی یوسف نبہانی۔

اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی النَّبِيِّ الأمِّيِّ۔

امام العینیہ شیخ شہاب الدین نے اسے سیدی شیخ محمد زیتون مغربی فاسی کے حوالے سے نقل کیا ہے جو شیخ احمد شہاب الدین زرّوق جیسے مشائخ کے شیخ ہیں۔  نیز سید احمد ترجمانی بن مغربی نے مدینہ منورہ کے اندر اس کا تجربہ کیاتوانھیں کامیابی ملی۔

یہ پندرہ فوائد میں نے علامہ شہاب الدین احمد قسطلانی کی کتاب’ مسالک الحنفاء الی مشارع الصلوٰۃ علی النبی المصطفیٰ اسے نقل کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ ہاں ! بعض مقامات پر میں نے کچھ اِضافے بھی کیے ہیں،  جن کی نشان دہی اُن جگہوں پر کر دی گئی ہے۔(۱)

فائدہ نمبر46

ہمارے شیخ حسن عدوی  رحمۃ اللہ علیہ  ’شرح دلائل الخیرات میں بعض عارفین کے حوالے سے عارف مرسی رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ جس شخص نے ذیل کے درود شریف کو شب وروز  (۵۰۰) پانچ سو مرتبہ پڑھنے کی پابندی کی،اُسے اس وقت تک موت نہیں آسکتی جب تک وہ حالت بیداری میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت وملاقات سے مشرف نہ ہولے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَنَبِیِّکَ وَرَسُوْلِکَ النَّبِيِّ الأمِّيِّ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔

جب یہ عمل بیداری میں دیدارِ مصطفیٰ علیہ السلام کے لیے مفید وکارآمدہے توخواب کے اندر تو بدرجہ اولیٰ یہ آپ کی زیارت کے لیے نفع بخش ہو گا۔  یہ وظیفہ بھی  الحمد للہ  مجرب وآزمودہ ہے۔(۲)

 

(۱)       سعادۃ الدارین، امام نبہانی رضی اللہ عنہ: ۴۸۸۔

(۲)      سعادۃ الدارین۔

فائدہ نمبر47

ہمارے شیخ نے مذکورہ بالاشرحِ دلائل الخیرات میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت امام یافعی اپنی کتاب ’بستان الفقرائ میں لکھتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:  جو شخص بروزِ جمعہ (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ مجھ پر یہ درود شریف بھیجے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِنِ النَّبِيِّ الأمِّيِّ۔

تو اُسے یقیناً اپنے رب کا دیدار، یا اپنے نبی کی زیارت، یا جنت میں اپنی منزلت کا علم نصیب ہو گا۔ اگر اُس جمعہ ایسا نہ ہو سکا، تو وہ یہ عمل دو،تین یاپانچ جمعوں تک جاری رکھے۔

ایک روایت میں اس درود شریف کے ساتھ ’وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ کے کلمات بھی آئے ہیں۔

اس کے بعد شیخ عبد اللہ خیاط بن محمد ہاروشی مغربی فاسی نزیل تونس کی کتاب ’کنوز الاسرار میں میں نے دیکھا کہ انھوں نے مذکورہ وظیفہ کی بابت اپنا مشاہدہ بیان فرمایا ہے کہ انھوں نے اسی صیغۂ  درود کو اسی نیت کے ساتھ پڑھا،  مگر انھیں کچھ بھی نظر نہ آیا۔

چنانچہ انھوں نے پورے شوق وشغف کے ساتھ درود پڑھنا شروع کیا، توانھیں یہ خوش خبری دی گئی کہ وہ اہل جنت سے ہیں،  اور پھر انھیں روضۂ  رسول کی زیارت کا بھی شرف نصیب ہوا۔کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں ہمیشہ اپنے بھائیوں کو اس کی تاکید کرتارہتاہوں، حتیٰ کہ بہت سے اس کے عادی ہو گئے۔ فللّٰہ الحمد رب العالمین۔

(پھر آگے اس کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے )فرماتے ہیں کہہمارے برادرانِ دینی میں سے ایک شخص نے یہ وظیفہ کیا تو اُسے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، اور پھر تھوڑے ہی دن میں اس کی زندگی میں صالح اِنقلاب آ گیا۔ یوں ہی ایک دوسرے بھائی نے بھی کیا تو اسے بھی دیدارِ مصطفیٰ کی سعادت نصیب ہوئی، اور ان کے لیے دعائے خیرکی۔  یہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔(۱)

فائدہ نمبر48

شیخ سنوسی اپنے مجربات میں فرماتے ہیں،  نیز ’ذخائر محمدیہ میں بھی ہے کہ جو شخص بعد نمازِ جمعہ سفیدپارچۂ  ریشم پر اِسم باری ’اَلْوَدُوْدُ لکھے، ساتھ ہی ’مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ (۳۵) بار،اور’وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ (۳۵) بارلکھنے کی سعادت حاصل کرے۔ وہ جہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے طاعت وبندگی، اورخیرونیکی  کرنے کی توفیق پائے گا، وہیں  شیطان کے وسوسوں اور اُس کی چالوں سے بھی محفوظ ہو جائے گا۔

نیز جو شخص اسے اپنے ساتھ رکھے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں اس کی ہیبت وعظمت ڈال دے گا۔ اور اگر وہ روزانہ طلوعِ آفتاب کے بعد پابندی کے ساتھ اس تحریر پراپنی نگاہ ڈالے، ساتھ ہی بارگاہِ رسالت میں درودوسلام بھی بھیجے، تووہ کثرت کے ساتھ زیارتِ نبوی سے بہرہ یاب ہو گا، اور اللہ اس کے لیے رزق وخیر کے دروازے کھول دے گا۔(۲)

فائدہ نمبر49

ابوموسیٰ مدنی کی سند سے آتا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:جو شخص جمعہ کی رات کو دو رکعت یوں اَدا کرے کہ ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ کے بعد (۲۵) مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھے۔ پھر اس کے بعد (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ یہ درودشریف بھیجے  :

۔۔۔۔۔۔

(۱)       سعادۃ الدارین: ۴۸۹۔

(۲)      سعادۃ الدارین۔

صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدِنِ النَّبِيِّ الأمِّيِّ۔

اگلا جمعہ آنے سے پہلے پہلے وہ میری زیارت سے شادکام ہو گا۔ اور جسے میرے دیدار کا شرف نصیب ہو جائے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ ا س کے سارے گناہ بخش دیتا ہے۔  یہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر50

شیخ محمد حقی آفندی نازلی اپنی کتاب ’خزینۃ الاسرار میں فرماتے ہیں کہ مجھے میرے شیخ مصطفیٰ ہندی نے اجازت مرحمت فرمائی، ایک ایسی سند کے ساتھ کہجب  وہ  ۱۲۶۱ھ میں  مدینہ منورہ کے اندر مدرسہ محمودیہ میں مقیم تھے۔ میں نے ترقی علم وعمل، معرفت خداوندی اورقربِ مصطفوی پانے کے لیے کچھ مزید وظائف وخصائص کا مطالبہ کیا توآپ نے آیت الکرسی کے ساتھ یہ درود شریف مجھے تعلیم فرمایا  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ فِي کُلِّ لَمْحَۃٍ وَنَفَسٍ بِعَدَدِ کُلِّ مَعْلُوْمٍ لَکَ۔

اور فرمایاکہ اگر آپ نے اس کی پابندی کی توتمہیں براہِ راست بارگاہِ رسالت مآب سے علوم و اَسرارعطا ہوں گے۔ گویا تم خود کو روحانی طورپر محمدی تربیت گاہ میں پاؤ گے۔

مزید فرمایا کہ یہ مجرب وآزمودہ ہے۔  فلاں بن فلاں نے اس کا تجربہ کیا تواسے کامیابی نصیب ہوئی،اس طرح آپ نے کئی برادرانِ دینی کے نام گنوائے۔

(اَب شیخ آفندی کہتے ہیں کہ) میں نے بھی اِس درودوسلام کا پہلی شب (۱۰۰) مرتبہ پڑھنے سے آغاز کیا ہی تھا کہ قسمت بیدارہوئی، اور اُسی شب دیدارِ نبوی کی سعادت نصیب ہوئی۔توآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں،  تمہارے والدین اور تمہارے برادرانِ دینی کے حق میں میری شفاعت کی مبارک ہو۔ یہ سن کر میں وجد میں آ گیا، اورمیری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔

آگے فرماتے ہیں کہ پھر میں نے شیخ قدس سرہ العزیز  کی تعلیم کے مطابق بہت سارے دینی بھائیوں کو اس کی بابت بتایا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جن لوگوں نے واقعی اس کی پابندی کی، انھوں نے ایسے ایسے علوم ومعارف اور اَسرارو مقامات کے زینے طے کیے جن کی مجھے گرد بھی نہ ملی۔

اس درود شریف کے اندر اس کے علاوہ اور بہت سے فوائد ہیں،  جن کو لفظوں میں بیان کرنامشکل ہے، اس لیے یہاں محض اُس کی عظمت واہمیت کی طرف ہلکا سا اِشارہ کر دیا گیا ہے کہ جو اہل ہمت ہیں وہ خود اس پر عمل پیرا ہو کر اس کے فوائد پالیں گے۔

(مصنف فرماتے ہیں کہ)میرے اپنے علم کے مطابق یہ صیغۂ  درود واقعتا بیان کردہ فضائل کے عین مطابق، اور بڑے اَنوارواَسرار کا حامل ہے۔خود مجھ سے کئی عاشقانِ مصطفیٰ نے اس کی بابت مجھ سے اِجازت طلب کی  تو میں نے انھیں اس کی تعلیم دی۔ جب انھوں نے اسے پڑھاتواللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انھیں دیدارِ مصطفیٰ کی نعمت سے نواز دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے اُنھیں بھی اس کی توفیق دی، اور ہمیں بھی اس کی سعادت بخشی۔

فائدہ نمبر51

مفتی مکہ معظمہ سید احمد زینی دحلان  علیہ ا لرحمہ اپنے مجموعہ صلوات میں فرماتے ہیں کہ درودشریف کا مندرجہ ذیل جلیل القدر صیغہ جس کی بابت بہت سے عارفین نے بیان کیا ہے کہ جوبھی شب جمعہ میں اس کی پابندی کرے، خواہ ایک ہی مرتبہ،  تو بوقت موت ودخولِ قبر اُس کی روح پر روحِ محمدی کاعکس پڑے گا، اور وہ یوں محسوس کرے گا جیسے خود آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُسے زیرلحد اُتار رہے ہیں۔

بعض عرفا نے فرمایاہیکہ اس کی پابندی کرنے والے کو چاہیے کہ ہر رات (۱۰) مرتبہ، اور شب جمعہ کو (۱۰۰) مرتبہ پڑھنے کا معمول بنالے۔ پھر دیکھے کہ اس پرفضل مولا کی بارش کیسے ہوتی ہے،اورکس طرح اس کے لیے خیروبرکت کے درواہوتے ہیں۔  وہ صیغہ درود شریف یہ ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأمِّيِّ الْحَبِیْبِ الْعَالِي الْقَدْرِ الْعَظِیْمِ الْجَاہِ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔

اِسی کے مثل شیخ صادی اور شیخ اَمیر نے بھی امام سیوطی علیہ الرحمہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔  یہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔ (۱)

نیزاِس فائدے کو حبیب حسن محمد فدعق نے بھی اپنی کتاب’الفوائد الحسان صفحہ ۲۶ پر درج فرمایا ہے، صیغۂ  درودکے اِختتام پر اِتنے اِضافے کے ساتھ  :

عَدَدَ مَا عَلِمْتَ وَزِنَۃَ مَا عَلِمْتَ وَمِلْئَ مَا عَلِمْتَ۔

فائدہ نمبر52

شیخ صاوی ’شرح ورد الدردیری میں فرماتے ہیں : بعض عرفا کا قول ہے کہ (۱۰۰۰) ہزار بار درودِ ابراہیمی کا پڑھنا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ودیدار کا باعث ہوتا ہے۔

ہمارے شیخ عدوی ’شرح دلائل الخیرات میں بعض عرفا کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو شخص پیر یا جمعہ کی رات (۱۰۰۰) ہزار بار امام بخاری کا روایت کردہ صیغۂ

 

(۱)       سعادۃ الدارین۔

تشہد٭ پڑھے، یقیناً وہ دیدارِ مصطفیٰ کی دولت سے مالامال ہو گا۔  یہ بھی  الحمد للہ   مجرب وآزمودۂ  فقیر ہے۔

فائدہ نمبر53

شیخ سنوسی فرماتے ہیں کہ جو شخص تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کا مشتاق ہو، اسے چاہیے کہ سونے سے قبل غسل کر کے دو رکعتیں پڑھے، پھر سلام پھیر کر یوں دعا کرے  :

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اَللّٰہُمُّ لَکَ الْحَمْدُ عَلیٰ عَظَمَتِکَ وَعَلیٰ مَلْکِکَ، وَمُنْتَہیٰ الرَّحْمَۃِ مِنْ رِضْوَانِکَ، اَللّٰہُمُّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِي لِکَرَمِ وَجْہِکَ وَعِزِّ جَلَالِکَ، اَللّٰہُمُّ لَکَ الْحَمْدُ عَلیٰ مُدَاوَمَۃِ إحْسَانِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ، اَللّٰہُمُّ إنِّي أسْألُکَ بِالْقُرْاٰنِ الْعَظِیْمِ وَبِنُوْرِ وَجْہِکَ الْکَرِیْمِ الَّذِيْ أشْرَقَتْ بِہِ السَّمَاوَاتُ وَالأرْضُ، وَأسْألُکَ بِاسْمِکَ الَّذِيْ تُنَزِّلُ بِہِ الْمَطَرُ وَالرَّحْمَۃُ عَلیٰ مَنْ تَشَائُ مِنْ عِبَادِکَ، اَللّٰہُمُّ أنْتَ إلٰہُنَا وَأنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیْرٌ، أسْألُکَ اَللّٰہُمُّ بِحَقِّ مَا دَعَوْتُکَ بِہِ أنْ تُرِیَنِي فِي مَنَامِي ہٰذَا سَیِّدُنَا وَمَولَانَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلہِ وَسَلَّمْ عَدَدَ خَلْقِہٖ، وَرِضَا نَفْسِہٖ، وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ، وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ۔ (۱)

 

٭        یعنی تشہد ابن مسعود جو اَحناف کے یہاں مروّج ومعمول ہے  :  اَلتَّحِیَّاتُُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ اَلسََّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔                                                                                                                          چریاکوٹی

(۱)       سعادۃ الدارین: ۴۹۰۔

فائدہ نمبر54

امام شعرانی نے خود اپنی سوانح میں یہ لکھا ہے کہ جو شخص دیدارِ مصطفیٰ کا طلب گار ہو، اسے چاہیے کہ وہ ہر وقت محبت وعقیدت میں ڈوب کر بکثرت ذکر مصطفیٰ کرے، ساتھ ہی ساداتِ کرام، اولیائے عظام،اور محبوبانِ بارگاہ کی محبت سے بھی اپنے دل کو آباد رکھے،  ورنہ پھر دیدارِ مصطفیٰ کے سارے دروازے اس پر بند ہیں،   کیوں کہ یہی ہستیاں اُس دربارِ گہر بار تک پہنچانے کا ذریعہ ووسیلہ ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ اُن کو ناراض کرنے سے رب ذوالجلال بھی ناراض ہو جاتا ہے، اور آمنہ کا لال بھی، صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔(۱)

فائدہ نمبر55

علامہ کمال الدین دمیری نے ’حیاۃ الحیوان میں اِنسان پر کلام کرتے ہوئے شیخ شہاب الدین بولی کا ایک قول نقل کیا ہے، جسے انھوں نے اپنی کتاب ’سر الاسرار میں درج کیا ہے کہ جو شخص نمازِ جمعہ کے بعدباطہارت ہو کر کسی رقعہپر ’ مُحْمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ،  اَحْمَد رَسُوْلُ اللّٰہِ(۳۵) پینتیس بار لکھ کر اپنے پاس رکھ لے،  اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے خیرات وبرکات کی توفیق سے مالامال کر دے گا، اور اسے شیطان کی شرارتوں سے محفوظ فرمادے گا۔اور اگر ہر روز طلوعِ آفتاب کے وقت درود شریف پڑھتے ہوئے وہ اس رقعہ پردیکھے،توزیادہ سے زیادہ اُسے دیدارِ مصطفیٰ علیہ السلام کا شرف نصیب ہو گا۔ یہ ایک بڑی راز دارانہ بات ہے، (جسے پلے باندھ لینا چاہیے)۔  یہ طریقہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔(۲)

۔۔۔۔

(۱)       سعادۃ الدارین: ۴۹۰۔

(۲)      سعادۃ الدارین: ۴۹۲۔

فائدہ نمبر56

ایک مجموعے میں دیدارِمصطفیٰ کے حوالے سے یہ طریقہ دیکھنے میں آیاکہ جو شخص مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت وملاقات کا آرزو مند ہو، اُسے چاہیے کہ دو رکعت نماز اَدا کرے، ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ کے بعد سورۂ  والضحیٰ(۲۵) پچیس مرتبہ، یوں ہیسورۂ  الم نشرح بھی (۲۵) پچیس مرتبہ پڑھے،پھر درود شریف کا وِرد کرتاہوا سوجائے۔  یہ بھی  الحمد للہ   مجرب اور آزمودہ ہے۔(۱)

فائدہ نمبر57

شیخ یوسف نبہانی رضی اللہ عنہ’سعادۃ الدارین صفحہ ۴۹۳ پر فرماتے ہیں کہ نعلین پاک کا نقشہ ساتھ رکھنا بھی خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کی سعادت حاصل کرانے میں معاوِن ثابت ہوتا ہے۔

شہاب احمد مقری نے بھی اِسے اپنی کتاب’فتح المتعال فی مدح النعال میں درج کیا ہے،  وہ فرماتے ہیں : بعض علماوعرفاکے بقول، نیز اِس پرتجربات بھی شاہد ہیں کہ نقشہ نعلین پاک کوساتھ رکھنے والا مقبولِ خلائق ہو جاتا ہے، اور اُسے یقینی طورپر زیارتِ نبوی نصیب ہوتی ہے۔ یاپھر وہ خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کا شرف پاتا ہے۔

اِس نعلین پاک کی صورت ونقشہ اِمام نبہانی کی کتاب ’جواہرالبحاراور محمد بن علوی مالکی کی تصنیف ’ذخائر محمدیہ میں موجود ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)       سعادۃ الدارین۔

فائدہ نمبر58

شیخ یوسف نبہانی رضی اللہ عنہ نے’سعادۃ الدارین صفحہ ۴۹۲ پر ذکر کیا ہے کہ جو شخص خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہے، بلکہ  اگر اس میں کچھ اِضافہ کر دے تو بیداری میں بھی اس کی سعادت پا سکتا ہے  جیسا کہ بعض عارفین کے کلام سے سمجھ میں آتا ہے  تو اُسے چاہیے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات پر چلے، آپ نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے اُن سے رُک جائے، شوق ومحبت کی فراوانی اورپابندی کے ساتھ آپ کی سنتوں عمل پیراہو۔

آپ کے ذِکرجمیل کی خوشبوؤں میں ہروقت بسا رہے، درودوسلام کے تحفے گزارتا رہے،لبوں کو نعت مصطفیٰ سے تر رکھے،اور ہر وقت اُن کا سراپا آنکھوں میں بسائے رکھے، اگر اُسے پہلے خواب میں زیارتِ نبوی حاصل ہو چکی ہو،  ورنہ شمائل کی کتابیں پڑھ کر اُن کے تصور میں کھویا رہے۔ اور اگر پہلے دیدارِ مصطفیٰ کرچکا ہو تواَب حجرۂ  مبارکہ کا خیال ذہن میں جمائے، اوریوں سمجھے جیسے وہ آپ کے روبرو کھڑا ہے۔ اِس کی تفصیل سیدی عبدالکریم جیلی کی کتاب’الناموس الاعظم فی معرفۃ قدر النبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے حوالے سے آگے آرہی ہے۔

آپ سے یہی دینی گزارش ہے کہ سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مبارک صورت کا تصور ہروقت ذہن وفکر میں بٹھائے رکھیں۔  اَب اگر آپ اس کے اہل ہوئے اور آپ کا اِستحضارکامل ہوا توپھر وہ دن دور نہیں جب روحِ محمدی کی جلوہ گری ہو گی، جسے آپ نہ صرف کھلی آنکھوں دیکھ سکیں گے،اور اس سے خطاب وکلام کا شرف پائیں گے، بلکہ وہ آپ کو جواب بھی دے گی، اور آپ سے مخاطب بھی ہو گی۔ اس طرح آپ کو معنوی طور پر ایک صحابی کا درجہ نصیب ہو جائے گا، اور اللہ نے چاہا تو انھیں کے ساتھ آپ کا حشر بھی ہو گا۔

یعنی اس سے حقیقی درجۂ  صحابیت نہیں بلکہ محادثہ ومواجہہ کا شرف مراد ہے۔ اور یہ بات میرے ایک شیخ نے مجھے بتائی ہے۔واللہ اعلم۔(۱)

فائدہ نمبر59

’سعادۃ الدارین میں ہے کہ خواب میں زیارتِ نبوی کی سعادت پانے کی آرزو رکھنے والے کو چاہیے کہ وظیفہ صمدیہ (۱۷) سترہ مرتبہ ورد کر کے پھر یہ دعا پڑھے  :

اَللّٰہُمَّ إنِّي أسْأَلُکَ بِنُورِ الأنْوَارِ الَّذِيْ ہُوَ عَیْنُکَ لاَ غَیْرُکَ أنْ تُرِیَنِي وَجْہَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلَّم کَمَا ہُوَ عِنْدَکَ،  آمین۔

جو شخص بھی یہ پڑھ کر سوئے خواب میں اُسے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہو گا۔ جیسا کہ ابھی گزشتہ سال ۱۳۱۷ھ میں جب شیخ عبد الکریم قاری قادری دمشقی سفرحج  کے  دوران بیروت تشریف لائے تو مجھے اس کے متعلق بتایا۔ وہ خودبھی ایک نیک صالح جوان ہیں،  اور اُن کے آباؤاجداد بھی زُمرۂ  صالحین میں سے ہوئے ہیں۔  اللہ اُن سب کے فوائد وبرکات سے ہمیں متمتع فرمائے۔ یہ بھی  الحمدللہ  مجرب وآزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر60

شیخ یوسف نبہانی نے فرمایاکہ ذیل کا درود شریف دارین کی سعادت کا باعث ہے  :

(۱)      اس تعلق سے صاحب حدیقہ ندیہ نے بڑی واضح بات نقل فرمائی ہے کہ اولیائے کرام میں سے کوئی ولی اگر بطورِ کشف وکرامت سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو یا خواب میں زیارت کرے، اگرچہ وہ حق ہی کو دیکھتا ہے،  مگر وہ بھی صحابی نہیں ہو سکتا، اور اس کا تعلق اُمورِ معنویہ سے ہے، دنیوی اَحکام سے نہیں۔   (مواھب لدنیہ: ۲/ ۵۴۱،  بحوالہ حدیقہ ندیہ:۱۱۶)                       چریاکوٹی

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکََ النَّبِيِّ الأمِّيِّ۔

شیخ دیربی نے اپنے ’مجربات میں فرمایا: بعض عرفا کا قول ہے کہ جو شخص اس درود شریف کو مسلسل دس راتیں بسترپر جاتے وقت پابندی کے ساتھ (۱۰۰) سو مرتبہ پڑھے، پھر باوضو، قبلہ روہو کر، دائیں کروٹ پر سو جائے، اس کی قسمت بیدار ہو گی اور اسے شاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت نصیب ہو گی۔

فائدہ نمبر61

سیدنا فخر الوجود شیخ ابوبکر بن سالم قدس سرہ العزیز  کا مندرجہ ذیل مشہور و معروف صیغۂ  درود خواب میں زیارتِ نبوی کرنے کے حوالے سے مجرب وآزمودہ ہے۔

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَاحِبِ التَّاجِ وَالْمِعْرَاجِ وَالْبُرَاقِ وَالْعَلَمْ، دَافِعِ الْبَلآئِ وَالْوَبَاِء والْمَرَضِ وَالألَمْ، جِسْمُہٗ مُعَطََّرٌ مُنَوَّرٌ، اِسْمُہٗ مَکْتُوْبٌ مَرْفُوْعٌ مَوْضُوْعٌ عَلَی اللَّوْحِ وَالْقَلَمْ، شَمْسِ الضُّحیٰ بَدْرِ الدُّجیٰ نُوْرِ الْھُدیٰ مِصْبَاحِ الظُّلَمْ، سَیِّدِ الْکَوْنَیْنِ وَشَفِیْعِ الثَّقلَیْنِ أبِي الْقَاسِمِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ بِنِ عَبْدِ اللّٰہِ، سَیِّدِ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ، نَبِيِّ الْحَرَمَیْنِ مَحْبُوبٍ عِنْدَ رَبِّ الْمَشْرِقَیْنِ وَالْمَغْرِبَیْنِ، یَا أیُّہَا الْمُشْتَاقُوْنَ لِنُوْرِ جَمَالِہٖ، صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔

کتاب ’بدرالسعادۃمیں ہے کہ کام بنانے اور مرادیں بر لانے کے لیے یہ درودِ تاج ہر روز (۷) سات مرتبہ پڑھنا مفید ہے۔

فائدہ نمبر62

غوث العباد سیدی عبداللہ بن علوی حداد کی اورادووظائف کی کتاب’وسیلۃ العباد اِلیٰ زاد المعادصفحہ ۹۶ پر ہے: یہ دعا مشہور دعائے سیفی کے بعد پڑھی جائے، جسے انھوں نے ۲۴/ شعبان ۱۱۲۷ھ چہارشنبہ، بعد اَذانِ ظہر،  اور قبل اِقامت اِملا کروائیتھی۔

ہر شخص کواِس دعاکی اِجازت نہ دی جائے،  ورنہ جو بھی پڑھے گا آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو گا۔  وہ دعا یہ ہے  :

اَللّٰہُمَّ إنِّي أسْأَلُکَ بِمَا أوْجَبْتَ ہٰذَا الدُّعَائَ الْمُبَارَکَ مِنْ مَخْزُوْنِ أنْوَارِکَ، وَمَکْنُوْنِ أسْرَارِکَ، أنْ تُغْمِسَنِي فِي بَحْرِ الْجُوْدِ وَالْکَرَمِ، وَأنْ تَمْلِکَنِي زِمَامَ الْفَضْلِ وَالنِّعَمِ، حَتیٰ تُنْقَادَ لِي صِعَابُ الأمُوْرِ، وَیَنْکَشِفَ لِي مِنْ عَجَائِبِ الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ کُلُّ نُوْرٍ، وَأسْألُکَ أنْ تُصَلِّيَ وَتُسَلِّمَ عَلیٰ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ وَأنْ تَسْخِرَ لِي خُدَّامَ ہٰذَا الدُّعَائِ وَالأسْمَائِ، وَأنْ تَجْمَعَ شَمْلِي بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ وَأنْ تَرْفَعنِي بِہٖ مِنَ الْمُلْکِ إلَی الْمَلَکُوْتِ، وَمِنَ الْعِزَّۃِ إلَی الْجَبَرُوْتِ، فَأحْیَا بِرُؤیَۃِ کَمَالِ جَلَالِکَ وَاحْشُرْنِي مَعَ الَّذِیْنَ أنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنِ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أولٰئِکَ رَفِیْقًا، ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا۔

فائدہ نمبر63

جوشخص بھی (۱۲۰۰۰)بارہ ہزار مرتبہ ’لاَإلٰہَ إلاَّ اللّٰہُ مَحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ پڑھے، اُسے آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی سعادت نصیب ہو گی۔

فائدہ نمبر64

جس کسی نے مندر جہ ذیل صیغۂ  مبارکہ کا ورد رکھا، اللہ نے چاہا تو وہ خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدارسے مشرف ہو گا  :

اللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ حَبِیْبِ الرَّحْمٰنِ عَدَدَ مَا یَکُوْنُ وَمَا قَدْ کَانَ۔

فائدہ نمبر65

سید عبدالرحمن الرفاعی نے مجھ سے بتایاکہ انھیں کسی مردِ صالح کے ذریعہ معلوم ہوا ہے کہ جو شخص خواب میں دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دولت پانا چاہے،تو اُسے چاہیے کہ وہ سورۂ  طٰہٰ کی اِبتدائی (۱۴) چودہ آیتیں پڑھے، ازاں بعد بارگاہِ رسالت مآب میں ہدیۂ  درود بھیجے۔

فائدہ نمبر66

ایک معتبر دوست کے ذریعہ مجھے پتہ چلا ہے کہ حضرت شیخ یوسف نبہانی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خواب میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بالکل اُسی طرح زیارت کرنے کا قصد کیا جس طرح سرکارعلیہ السلام صحابۂ  کرام کے درمیان ہوتے تھے۔

چنانچہ اس مقصد کے لیے انھوں نے (۳۰۰۰) تین ہزار مرتبہ سورۂ  اِخلاص پڑھا، اور خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کی نعمت سے مشرف ہوئے۔ خود فرماتے ہیں کہ اَنوار وتجلیات کا جو سیل رواں میں نے اپنی اِن آنکھوں سے دیکھا اُس کی تعریف و توصیف حیطہ بیان میں نہیں آسکتی۔

صدق واِخلاص کے ساتھ سورۂ  اِخلاص پڑھنے کی اہمیت کا اندازہ ا س واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کے لیے یہ کتنامجرب اور مفید ہے!۔ وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہٖ وسلم۔

فائدہ نمبر67

خواب میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کا شرف پانے کے لیے مندرجہ ذیل صیغۂ  مبارکہ بھی اپنی نظیر آپ ہے۔  یہ درود حبیب فاضل بقیۃ السلف، قدوۃ الخلف سیدی عبد القادر بن احمد السقاف مد ظلہ العالی  کی طرف منسوب ہے۔ بعض صلحا نے مدینہ منورہ کے اندر اُن سے اِس کو طلب کیا تھا  :

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحِیْمِ، اللّٰہُمَّ یَا رَبَّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ اِجْمَعْ بَیْنِي وَبَیْنَ مُحَمَّدٍ فِي الْقَرِیْبِ یَا مُجِیْبُ، اللّٰہُمَّ إنَّہٗ بَابُکَ الأعْظَمْ وَصِرَاطُکَ الأقْوَمُ، وَلاَ طَرِیْقَ إلاَّ مِنَ الْبَابِ، وَلاَ دُخُوْلَ إلاَّ بِوَاسِطَتِہِ یَا وَہَّابُ، اَدْخِلْنِي عَلَیْکَ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ، وَشَرِّفْنِي بِکَشْفِ الْحِجَابِ، اللّٰہُمَّ لاَ تَحْرِمْنِي مِنْ رُؤیَتِہِ وَلاَ مِنَ النَّظْرِ إلٰی وَجْہِہِ وَلاَ مِنَ الدُّخُوْلِ فِي بَرَکَتِہِ، وَلاَ مِنَ الْتِمَاسِ رِعَایَتِہِ، وَلاَ مِنْ رِعَایَتِہِ، اجْعَلْنِي اللّٰہُمَّ دَائِمًا تَحْتَ نَظَرِہِ، وَاجْعَلْنِي مِنْہُ قَرِیْبٌ یَا مُجِیْبُ، یَا مُجِیْبُ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ، وَصَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ سیدنَا محمَّد وَعَلیٰ آلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ۔

یہ صیغۂ  درود بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

سیدی شیخ شہاب الدین بن علی المشہورکے ذریعہ ہمیں یہ صیغۂ  مبارکہ حاصل کرنے کی سعادت اَرزانی ہوئی ہے، جو خود سید حبیب عبد القادر بن احمد السقاف کے قلم حق رقم سے تحریر ہے۔آج بھی یہ ہمارے پاس موجود ہے۔

فائدہ نمبر68

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ حَسَنَاتِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِہٖ وَسَلَّمَ۔

شیخ محمد باخبیرہ کی طرف منسوب یہ صیغۂ  درودبھی مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے لیے مفید ومجرب ہے، جسے انھوں نے خود بارگاہِ رسالت سے اَخذ کیا تھا، اور ہمیں سید شہاب الدین بن علی المشہور سے اس کا اَخذو اِذن حاصل ہے۔اور ہمیں اس کی ویسی ہی اِجازت مرحمت فرمائی جس طرح انھیں شیخ سے ملی تھی۔ وللہ الحمد والمنَّۃ۔  یہ بھی  الحمدللہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر69

ہمارے شیخ واِمام سیدالبرکہ الحبیب العالم العلامہ احمد مشہوربہ حداد نفعنا اللہ بہ  کی تصدیق کے مطابق مندرجہ ذیل صیغۂ  درود کا (۱۰) دس سے لے کر (۱۰۰) سو مرتبہ تک پڑھنا بھی خواب میں دیدارِ مصطفیٰ اور زیارتِ نبوی علیہ الصلوٰۃو السلام حاصل کرنے کے لیے مجرب اور آزمودہ ہے۔

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ حَبِیْبِ الرَّحْمٰںِ  وَسَیِّدِ الأکْوَانِ وَالْحَاضِرِ مَعَ مَنْ صَلّٰی عَلَیْہِ فِي کُلِّ زَمَانٍ وَّمَکَانٍ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔

فائدہ نمبر70

حضورِ رحمت عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے لیے پابندی کے ساتھ ’دلائل الخیرات شریف کا پڑھنا بھی بڑا مفیداورثمرآورثابت ہواہے۔ ایک مردِ صالح نے اس کی اہمیت کی طرف میری توجہ مبذول کرائی۔ وہ کہنے لگا کہ ’دلائل الخیرات کی قراء ت کا اِلتزام کرنے کے باعث میں اکثروبیشتر خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوتا رہتاہوں۔

اس واقعے کے چند سال قبل میرے والد گرامی  رحمہ اللہ  نے بھی مجھے ’دلائل الخیرات پڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا تھا: کوئی طالب اُس وقت تک منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ’دلائل الخیرات کے نفحات وبرکات،انوارواَسرار،اور اخلاصِ نیت وصدقِ اِرادہ اپنے ساتھ نہ رکھے۔ راہِ راست کی توفیق وہدایت اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اوردرودوسلام ہو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم پر جونیکیوں کی راہ پر لگانے والے ہیں۔

مزید برآں جب ہم صومالیہ کے مقامِ شمامہ میں تھے، اور جامعہ اَزہر کی ایک بزرگ شخصیت شیخ عبد المنصف محمود عبد الفتاح بھی ہمارے ساتھ تھی۔ چنانچہ جب شیخ کا قافلہ اپنے وطن عزیز مصر پہنچا توانھوں نے مجھے وصیت کرتے ہوئے فرمایاکہ ’دلائل الخیرات کا اِلتزام کرنا،پہنچنے والے اِسی کے سہارے منزل پر پہنچتے ہیں۔ والحمد للہ رب العالمین، وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہٖ وسلم۔  یہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر71

سیدی الحبیب العالم العلامۃ سالم بن عبد اللہ الشاطری مدظلہ العالی  نے مجھ سے یہ روایت بیان کی کہ جو شخص سیدی احمد بدوی قدس سرہ العزیز  کے مندرجہ ذیل صیغۂ  مبارکہ کو فجر سے پہلے (۱۰۰) سو مرتبہ پابندی کے ساتھ پڑھے، اس کی نہ صرف (دنیوی اُخروی) ضرورتیں پوری ہوں گی،بلکہ وہ دیدارِ مصطفیٰ کی دولت سے بھی بہرہ یاب ہو گا  :

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحِیْمِ، اللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلیٰ سَیِّدِنَا وَمَولَانَا مُحَمَّدٍ شَجَرَۃِ الأصْلِ النُّورَانِیَّۃِ، وَلَمْعَۃِ الْقُبْضَۃِ الرَّحْمَانِیَّۃِ، وَأفْضَلِ الْخَلِیْقَۃِ الإنْسَانِیَّۃِ، وَأشْرَفِ الصُّوْرَۃِ الْجِسْمَانِیَّۃِ، وَمَعْدِنِ الأسْرَارِ الرَّبَّانِیَّۃِ، وَخَزَائِنِ الْعُلُوْمِ الاصْطِفَائِیَّۃِ، صَاحِبِ الْقُبْضَۃِ الأصْلِیَّۃِ، وَالْبَہْجَۃِ السَّنِیَّۃِ، وَالرُّتْبَۃِ الْعَلِیَّۃِ، مَنِ انْدَرَجَتِِ النَّبِیُّوْنَ تَحْتَ لِوَائِہِ، فَہُمْ مِنْہُ وَإلَیْہِ وَصَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ عَدَدَ مَا خَلَقْتَ وَرَزَقْتَ وَأمَتَّ وَأحْیَیْتَ إلٰی یَومٍ تَبْعَثُ مَنْ أفْنَیْتَ وَسَلِّمْ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا۔   والحمد للّٰہ رب العالمین

فائدہ نمبر72

سیدی قطب احمد بن ادریس مغربی کی طرف منسوب مندرجہ ذیل صیغۂ  عظیمہ بھی خواب میں دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے تریاق کی حیثیت رکھتا ہے  :

اَللّٰہُمَّ إنِّي أسْألُکَ بِنُوْرِ وَجْہِ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ الَّذِيْ مَلَأَ أرْکَانَ عَرْشِ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ، وَقَامَتْ بِہِ عَوَالِمُ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ، أنْ تُصَلِّي عَلیٰ مَوْلاَنَا مُحَمَّدٍ ذِي الْقَدْرِ الْعَظِیْمِ، وَعَلیٰ آلِ نَبِيِّ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ، بِقَدْرِ عَظَمَۃِ ذَاتِ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ، فِي کُلِّ لَمْحَۃٍ وَّنَفَسٍ عَدَدَ مَافِي عِلْمِ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ، صَلَاۃً دَائِمَۃً بِدَوَامِ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ تَعْظِیْمًا لِحَقِّکَ یَا مَولاَنَا یَا مُحَمَّدُ یَا ذَا الْخُلُقِ الْعَظِیْمِ، وَسَلِّمْ عَلَیْہِ وَعَلیٰ آلِہٖ مِثْلَ ذٰلِکَ وَاجْمَعْ بَیْنِي وَبَیْنَہٗ کَمَا جَمَعْتَ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالنَّفَسِ ظاَہِرًا وَّبَاطِنًا یَقْظَۃً وَّمَنَامًا، وَاجْعَلْہٗ یَارَبِّ رُوْحًا لِذَاتِي مِنْ جَمِیْعِ الْوُجُوْہِ فِي الدُّنْیَا قَبْلَ الاٰخِرَۃِ یَا عَظِیْمُ۔ (۱)

فائدہ نمبر73

حضرت علامہ حبیب زین بن اِبراہیم نے مجھے بتایا کہ پابندی کے ساتھ’قصیدۂ  مضریہکا پڑھنا خواب میں یدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا باعث ہوتا ہے۔ اُن کے علاوہ کسی اور نے بھی خود اپنا تجربہ بیان کیا کہ جب اس نے ’قصیدۂ  مضریہ کی قراء ت کا اِلتزام کیا تواُسے خواب میں دیدارِمحبوبِ کردگار نصیب ہوا تھا۔

میرے اور والد گرامی کے شیخ  حضرت حبیب عمر بن احمد بن سمیط مدظلہ العالی  فرمایا کرتے ہیں کہ جو شخص بھی ’قصیدۂ  بردہ اور’قصیدۂ  مضریہ کو پابندی کے ساتھ پڑھے گا، وہ خواب میں زیارتِ نبوی سے مشرف ہو گا۔ والحمد للہ رب العالمین، وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہٖ وسلم۔

مکین گنبدخضرا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت ونسبت سے آباد اورزِندہ دِل رکھنے والا ایک عاشق صادق شیخ نورین احمد صابر کی زیارت کی دھن میں ’برواہ کے ساحل سمندر پر چلا جا رہا تھا، سر راہ اُس کی زبان پر ’قصیدۂ  مضریہ کے اَشعار رقص کر رہے تھے۔ جب وہ اِس شعرپر پہنچا    ؎

۔۔۔۔

(۱)       مخ العبادۃ لاہل السلوک والارادہ: ۳۴۴۔

ثُمَّ الصَّلاَۃُ عَلَی الْمُخْتَارِ مَا طَلََعَتْ

شَمْسُ النَّہَارِ وَمَا قَدْ شَعْشَعَ الْقَمَرٗ(۱)

اُس کی نگاہوں کے سامنے اَنواروتجلیات کا ایک ایسا سیل رواں آیا کہ جس سے مشرق ومغرب کے کونے کونے چمک اُٹھے۔ ظاہر ہے ایسی چکاچوندھ روشنی میں کون  راستہ چل سکتا ہے،  چنانچہ وہ وہیں تھوڑی دیر کے لیے رُک کر پھر چلنا شروع کیا۔ اُس نورِ مبین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے شیدائیوں کے لیے ہی ایسی نوازشیں زیبا ہیں۔  وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہٖ وسلم۔والحمد للہ رب العالمین۔

فائدہ نمبر74

ربیع الاوّل ۱۴۰۶ھ کی مبارک شب جمعہ میں میں حضرت علامہ حبیب ابوبکر بن علی المشہور کی معیت وصحبت میں تھا۔ میں نے عرض کی: میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اپنا کوئی پسندیدہ صیغۂ  درود عنایت فرمائیں،  شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مجھے عزت و کرامت بخشے، میرا مطلوب ومقصود حاصل ہو، اوروہ مجھے دیدارِ مصطفیٰ کا شرف عطا کرجائے۔

میرے عریضے کو سن کر فرمایا: ایک بار میرے والدماجد نے مجھ سے مندرجہ ذیل صیغۂ  مبارکہ کی بابت خبر دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے یہ درودِ پاک نہایت مفیدومجرب ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔

یہ وظیفہ بھی  الحمد للہ  مجرب وآزمودہ ہے۔

 

(۱)       ترجمہ:  سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں اس وقت تک صلوٰۃ وسلام کے تحفے پہنچتے رہیں جب تک سورج دن کوروشن کرتارہے اورچاند اپنی چاندنی بکھیرتارہے۔

فائدہ نمبر75

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا بڑا فضل واِحسان ہوا کہ اس نے اِس بندۂ  مسکین کو درودوسلام کے فضائل وبرکات پر’نفحات الفوزو القبول فی الصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا الرسول نامی ایک کتاب تالیف کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس کتاب کے اندر میں نے درودِ پاک کے کوئی ہزار صیغے حروفِ تہجی کی ترتیب کے اِعتبار سے جمع کیے ہیں۔  جسے پڑھنے کا شرف صرف میرے مخصوص اَحباب ہی کوحاصل ہے،  کیوں کہ وہ تاہنوز تشنۂ  طبع ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا بے پایاں شکر کہ جس کسی نے بھی اس کو مکمل پڑھنے کی سعادت پائی، اسے خواب میں دیدارِ سید الابرار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دولت بے دار نصیب ہوئی۔ یہ کتاب اور بھی بہت سے فوائد وبرکات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کی تالیف کا قصہ بہت ہی عجیب وغریب ہے، جسے میں نے تفصیل سے اس کے دیباچے میں بیان کر دیا ہے۔ یہ جملے ہم نے صرف اہل محبت کے بارگاہِ نبوی میں شوق ورغبت کودیکھتے ہوئے یہاں قلم بند کر دیے۔  یہ بھی  الحمد للہ  مجرب وآزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر76

اِجازات ومکاتباتِ حبیب عبد اللہ بن ہادی الہدار، صفحہ ۸  پر ہے : حبیب علی بن سالم بن شیخ احمد سے صلوٰۃ الجیلانی کی ملنے والی اِجازت کا آغاز یوں ہوتا ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ، اَلدُّرُّ الأزْہَرُ، وَالْیَاقُوْتَۃُ الأحْمَرُ، وَنُورُ اللّٰہِ الأظْہَرُ، وَسِرُّ اللّٰہِ الأکْبَرُ۔

زیارتِ نبوی کے لیے یہ صیغہ مجرب ومفید ہے۔طریقہ یہ ہے کہ پہلے اِسے (۱۵) پندرہ مرتبہ پڑھا جائے، پھر پانچ پانچ بار تعوذ وتسمیہ پڑھ کر اَخیر میں یہ دعاکی جائے  :

اَللّٰہُمَّ بِحَقِّ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّآلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ أَرِنَا وَجْہَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ حَالاً وَمَآلاً یَقْظَۃً وَمَنَامًا۔

فائدہ نمبر77

نیزصاحب قصیدۂ  بردہ اِما م بوصیری  رضی اللہ عنہ واَرضاہ کے ایک شعر کے ذریعہ بھی انھیں دیدارِ مصطفیٰ کی اِجازت حاصل ہے۔

نَعَمْ سَرَیٰ طَیْفُ مَنْ أَھْوَیٰ فَأرَقَّنِي

وَالْحُبُّ یَعْتَرِضُ اللَّذَّاتِ بِالألَمٖ

(طریقہ یہ ہے کہ ) اس کی تکرار جاری رکھی جائے، یہاں تک نیند کا غلبہ ہو جائے۔ اِس طریقے کی خبرمجھے میرے برادرِ دینی حاج عمر محمد عبد اللہ شداد رحمہ اللہ  نے بھی دی تھی، اور انھیں ٹھیک یہی معلومات اُن کے والد گرامی امام شیخ محمد عبد اللہ شداد  رضی اللہ عنہ وارضاہ سے حاصل ہوئی تھیں۔

فائدہ نمبر78

نیز اِجازات ومکاتباتِ حبیب عبد اللہ بن ہادی الہدار، صفحہ ۱۱ پر دیدارِ مصطفیٰ کا ایک اور طریقہ مذکورہے،  اور وہ یوں کہ باوضو ہو کر پاک بسترے پر آیاجائے، جہاں دیدارِ مصطفیٰ کی نیت سے دو رکعتیں اَدا کرے، اورپھر بارگاہِ رسالت میں (۸۰) اَسی مرتبہ اِس  صیغۂ  درود کا ورد کرے   :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأمِّيِّ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔

ساتھ ہی (۸۰) اَسی بار سورۂ  کوثر بھی پڑھے۔

فائدہ نمبر79

اسی مذکور بالا کتاب میں یہ فائدہ بھی درج ہے، جس کی اِجازت انھیں سید حبیب عارف باللہ احمد بن محمد الکاف رضی اللہ عنہ وارضاہ سے ہے۔ کہ شب جمعہ (۱۰۰۰) ہزار بار سورۂ  کوثر پڑھی جائے، اور ہر بار ختم سورت پر ’صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہے۔

اِ س کتاب کے شروع میں فائدہ نمبر دو کے تحت ہم نے سورۂ  کوثر کا فائدہ بیان کر دیا ہے،  لیکن یہاں اِختتام سورت پر ہربار  ’صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پڑھنے کا اِضافہ ہے۔  واللہ اعلم بالصواب۔

فائدہ نمبر80

سیدی یوسف نبہانی  رضی اللہ عنہ  نے اپنی کتاب ’سعادۃ الدارین میں نقل فرمایا ہے کہ مندرجہ ذیل صیغۂ  درود (۱۰۰۰) ہزار بار پڑھنا خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کرنے کے لیے بہت ہی فائدہ مند اور مجرب ہے۔ علاوہ بریں اوربھی بہت سے فوائدوثمرات اس کی جگہ میں بیان ہوئے ہیں  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِہٖ قَدْرَ لاَ إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ،   إلی آخرہا ۔

فائدہ نمبر81

’قبسات النور فی ترجمۃ الحبیب علی المشہور مصنفہ حفید مترجم حبیب ابوبکر بن علی المشہور مدظلہ العالی کے صفحہ ۳۶۳ پر ہے کہ شریف طیفور نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھنے کا اِعزاز حاصل کیا۔ آگے بیان کرتے ہیں کہ  حضور رحمت عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے شرفِ ہم کلامی بخشتے ہوئے فرمایاکہ اُن سے (یعنی میرے والد) سے جا کر کہہ دو کہ وہ جب بھی میرے دیدار کا آرزو مند ہو، سوتے وقت یہ اِرشاد باری تعالیٰ پڑھ لیا کرے  :

وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إلاَّ لِیُطَاعَ بِإذْنِ اللّٰہِ وَلَوْ أَنَّہُمْ إذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَہُمْ جَآؤوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا o (سورۂ  نساء:۴/۶۴)

خواب کی بات یہاں آکر ختم ہوئی۔ کتاب ’قبسات النور سے مذکورہ شریف طیفور والا واقعہ ۲۱/ جمادی الاوّل ۱۴۰۲ھ بوقت فجر، بروز منگل لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

فائدہ نمبر82

ہم شیخ حبیب زین بن ابراہیم کے پاس تھے کہ اتنے میں صاحب یمن سید عبد الرحمن بھی تشریف لے آئے، اور فرمایا: سید حسین بن حامد المحضار نے مجھے یہ صیغۂ  درود بتایا ہے جو دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے بہت ہی مفید ومجرب ہے۔ اور یہ بات دورانِ حج مقام عرفات کی ہے۔  وہ درود یہ ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلاَۃً تُغْفَرُ بِہَا الذُّنُوْبُ، وَتُسَہَّلُ بِہَا الْمَطْلُوْبُ، وَتُصْلَحُ بِہَا الْقُلُوْبَ، وَتُنْطَلَقُ بِہَا الْعَصُوْبُ، وَتَلِیْنُ بِہَا الصَّعُوْبُ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَمَنْ إلَیْہِ مَنْسُوْبٌ۔

حصولِ مقصدِ دیدارِ مصطفیٰ کے لیے یہ درود (۴۰) چالیس سے لے کر (۴۰۰) چار سو مرتبہ تک پڑھا جائے۔

اِس صیغے کا ذکر حبیب ابوبکر المشہورنے بھی اپنی کتاب ’قبسات النور فی ترجمۃ الحبیب علي المشہورصفحہ ۳۳۹پر کیا ہے۔ جس کی اِجازت انھیں حبیب صالح بن محسن الحامد بن الحبیب حامد بن محمد السری سے تھی،اور ان سے حبیب علی المشہور کوملی تھی۔ اللہ ہمیں ان سبھوں کے فیوض وبرکات سے متمتع فرمائے۔

فائدہ نمبر83

ہمارے یہاں یہ بڑی مشہور ومعروف بات ہے کہ ’ تنبیہ الأنام في الصلوٰۃ والسلام علی خیر الأنام کو التزام وپابندی کے ساتھ پڑھنے والا خواب میں زیارتِ نبوی سے مشرف ہوتا ہے۔بہت سے مشائخ وصالحین نے دیدارِ مصطفیٰ کے لیے اس کو مجرب و مفید بتلایا ہے۔ اسی لیے اس کی قراء ت کے وقت کمالِ اَدب، اوروفورِ اخلاص ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ یہ حبیب مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روحانیت کے ورود ونزول کاخصوصی موقع ہوتا ہے۔ والحمد للہ رب العالمین۔

فائدہ نمبر84

’مفاتیح المفاتیح میں آتا ہے کہ دیدارِ مصطفیٰ علیہ السلام کے حصول کے لیے درود شریف کے وہ صیغے بھی بڑے مبارک اورتیربہدف ہیں جو سیدنا عبد اللہ بن محمد الہاروشی الفاسی رضی اللہ عنہ  نے اپنی کتاب ’کنوز الأسرار في الصلوٰۃ والسلام علی النبي المختار و آلہ وأصحابہ الأبرار میں جمع فرمائے ہیں،  اُس کی پابندی بھی اس مقصد عظیم کے لیے مفیدومجرب ہے۔

فائدہ نمبر85

یہ بات فخروریا اور اپنی بڑائی کے لیے نہیں بلکہ تحدیث نعمت کے طورپر عرض کر رہا ہوں،  اس فرمانِ خداوندی پر عمل کرتے ہوئے کہ’اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کیا کرو  اَمر واقعہ یہ ہے کہ ہم لوگ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے اندر السیدالبرکہ الحبیب الفاضل الولی الکامل سید احمد مشہور الحداد  مدظلہ العالی  کی صحبت میں بیٹھے ہوئے تھے۔

اچانک ایک خوب رو نوجوان شخص اُن کے سامنے نمودار ہوا، اور عرض کرنے لگا:شیخ محترم! دِل میں دیدارِ مصطفیٰ کی خواہش انگڑائیاں لے رہی ہے، بتائیں کہ اس مقصد کے لیے مجھے کیا پڑھنا چاہیے؟۔

سیدی حبیب اَحمد نے فرمایا: جاؤ جا کر ہمارے نورِ نظرحسن محمد کی کتاب’ فیض الانوار فی سیرۃ النبی المختارﷺ کا مطالعہ کر لو،  چنانچہ اس نے کتاب حاصل کر کے رات بھر اس کی قراء ت کی،  صبح کے وقت وہ حرم شریف میں ہشاش بشاش داخل ہوا، اور ہمارے پاس آکر کہنے لگا:الحمد للہ! گزشتہ رات میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا، تو قسمت بیدار ہوئی، اور دیدارِ مصطفیٰ کی نعمت سے شادکام ہوا۔یہ سن کر میں نے خوب خوب اللہ کا شکراَدا کیا۔

سچی بات یہ ہے کہ جب اِنسان کا عزم پختہ،مقصد اچھا، نیت نیک ہو،اور عمل ستھرا ہو، تو اسے ایسی سعادتیں اور برکتیں نصیب ہو جایا کرتی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں جملہ اعمال محض اپنی رضاکے لیے اورمحبت وعشق رسالت میں ڈوب کر سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

یہ کتاب ایسے بہت سے اَسراروبرکات رکھتی ہے،جب وقت آئے گا تو  ان شاء اللہ  ہم اسے بیان کریں گے۔ بس اتنا یاد رکھیں کہ ہر چیز کے لیے پرخلوص نیت اور عزم بالجزم درکارہے،  کیوں کہ جملہ اعمال نیتوں پر موقوف ہوا کرتے ہیں،  اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق ہی اَجروثواب ملا کرتا ہے۔والحمد للہ رب العالمین۔

فائدہ نمبر86

یہ درودوسلام شیخ سید احمد غالب بن عبدہ بن حسین حسینی دائرۂ  محمدیہ کی طرف منسوب ہیں،  جومرادیں برلانے، اورمشکلیں آسان کرنے میں تیر بہدف ہیں،  نیز ان کے پڑھنے سے دیدارِ مصطفیٰ کی دولت بھی نصیب ہوتی ہے۔

۲۱/ربیع الآخر ۱۴۰۸ھ میں حبیب ابوبکر بن علی المشہور کی موجود گی میں ہمیں اس کی اِجازت عطا ہوئی۔ یہ ایسا درود ہے جو خود بارگاہِ نبوت سے اَخذکیا گیا ہے  :

إِنَّ اللّٰہَ وَمَلاَئِکَتَہٗ وَأنْبِیَائَ ٗہ وَرُسُلَہٗ وَأوْلِیَائَ ٗہ وَجَمِیْعَ خَلْقِہٖ یُصَلُّوْنَ عَلٰی نُوْرِ الأنْوَارِ وَسِرِّ الأسْرَارِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَیْہِ وَعَلَیْہِمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔

فائدہ نمبر87

شیخ مذکور ہی کے حوالے سے یہ بھی ہے کہ کسی نے ان سے اسم اعظم طلب کیا،  اور وہ امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب کے مشاہدے میں غرق تھے۔ (یہ دیکھ کر) حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایاکہ اسے یہ دے دو  :

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یَا نُوْرَ النُّوْرِ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَاحِبِ النُّوْرِ۔

فائدہ نمبر88

انھیں سے یہ بھی آیا ہے کہ یہ وہ درود ہے جس سے فرشتے شروع کر کے ’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ختم کرتے ہیں،  اور یہ عمل ہر لمحہ، ہر آن وسعت علم الٰہی کے بمقدار جاری وساری رہتا ہے۔نیز اسے درودِ ابراہیمی پر ختم کرتے ہیں۔  (مشکلات ومہمات کے وقت پڑھا جانے والادرودِ رسول)

اللہ رحمن ورحیم کے نام سے شروع۔  یہ بڑالطیف اوربوقت مشکل آن کی آن میں غموں کو چھانٹ کر رکھ دینے والاہے۔ آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غزوات کے مواقع پر،طائف اورغارِثور میں اسے پڑھا تھا،اور میں نے یہ صلوات رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے براہِ راست حاصل کیے ہیں۔  (الاہدل)

فائدہ نمبر89

مدینہ منورہ میں حضرت علامہ سید محمد بن علوی مالکی دام ظلہ العالی  کے ساتھ اِکٹھا ہونے کا ایک موقع میسر آیا تو انھوں نے خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کے لیے مندرجہ ذیل مجرب و مفید وظیفے کے بارے میں مجھے بتایا، جوعبد السلام ابن مشیش علیہ الرحمہ  کی طرف منسوب ہے۔ طالبِ زیارتِ نبوی سونے سے پہلے کم از کم تین مرتبہ اِس کا ورد کر لیا کرے۔  یہ بھی الحمد للہ   مجرب اور آزمودہ ہے۔

اللّٰہمَّ صَلِّ عَلٰی مَنْ مِنْہُ انْشَقَّتِ الأسْرَارُ، وَانْفَلَقَتِ الأنْوَارُ، وَفِیْہِ ارْتَقَتِ الْحَقَائِقُ، وَتَنَزَّلَتْ عُلُوْمُ آدَمَ فَاَعْجَزَ الْخَلاَئِقَ، وَلَہٗ تَضَائَ لَتِ الْفُہُوْمُ، فَلَمْ یُدْرِکْہُ مِنَّا سَابِقٌ وَلاَ لاَحِقٌ، فَرِیَاضُ الْمَلَکُوْتِ بِزَہْرِ جَمَالِہٖ مُوْنِقَۃٌ، وَحِیَاضُ الْجَبَرُوْتِ بِفَیْضِ أنْوَارِہٖ مُتَدَفِّقَۃٌ، وَلاَ شَیْئَ إلاَّ وَھُوَ بِہٖ مَنُوطٌ، إنَّ لَولاَ الْوَاسِطَۃُ لَذَہَبَ کَمَا قِیْلَ الْمَوسُوطُ، صَلاَۃً تَلِیْقُ مِنْکَ إلَیْہِ کَمَا ھُوَ أھْلُہٗ۔  اللّٰہُمَّ إنَّہٗ سِرُّکَ الْجَامِعُ الدَّالُّ عَلَیْکَ وَحِجَابُکَ الأعْظَمُ الْقَائِمُ لَکَ بَیْنَ یَدَیْکَ۔  اَللّٰہُمَّ اَلْحِقْنِي بِنَسَبِہِ، وَحَقِّقْنِي بِحَسَبِہِ، وَعَرِّفْنِي إیَّاہُ مَعْرِفَۃً أسْلَمُ بِہَا مِنْ مَوَارِدِ الْجَہْلِ وَأکْرَعُ بِہَا مِنْ مَوَارِدِ الْفَضْلِ وَاحْمِلْنِي عَلیٰ سَبِیْلِہٖ إلٰی حَضْرَتِکَ حَمْلاً مَحْفُوْظًا بِنُصْرَتِکَ، وَاقْذِفْ بِي عَلَی الْبَاطِلِ فَاَدْمَغُہٗ وَزُجَّ بِي فِي بِحَارِ الأحَدِیَّۃِ، وَانْشِلْنِي مِنْ أوْحَالِ التَّوحِیْدِ، وَأغْرِقْنِي فِي عَیْنِ بَحْرِ الْوَحْدَۃِ حَتیّٰ لاَ أرَی وَلاَ أسْمَعَ وَلاَ أجِدَ وَلاَ أحُسَّ إلاَّ بِہَا، وَاجْعَلِ الْحِجَابَ الأعْظَمَ حَیَاۃَ  رُوْحِي  وَرُوْحَہٗ  وَ سِرَّ حَقِیْقَتِي وَحَقِیْقَتَہٗ جَامِعَ عَوَالِمِي بِتَحْقِیْقِ الْحَقِّ الأوَّلِ یَا أوَّلُ یَا آخِرُ یَا ظَاہِرُ یَا بَاطِنُ اِسْمَعْ نِدَائِي بِمَا سَمِعْتَ بِہٖ نِدَائَ عَبْدِکَ سَیِّدِنَا زَکَرِیَّا وَانْصُرْنِي بِکَ لَکَ وَأیِّدْنِي بِکَ لَکَ وَاجْمَعْ بَیْنِي وَبَیْنَکَ وَحُلْ بَیْنِي وَبَیْنَ غَیْرِکَ، (ثلاثا) اللّٰہُ اللّٰہُ اللّٰہُ۔

إنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَادُّکَ اِلٰی مَعَادٍ، رَبَّنَا اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَّہَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا (ثلاثا) إنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔  صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَسَلاَمُہٗ وَتَحِیَّاتُہٗ وَرَحْمَتُہٗ وَبَرَکَاتُہٗ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَنَبِیِّکَ وَرَسُوْلِکَ النَّبِيَِّ الأمِّيَّ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ عَدَدَ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَعَدَدَ کَلِمَاتِ رَبِّنَا التَّامَّاتِ الُمُبَارَکَاتِ، سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ، وَسَلامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

یہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر90

مجھے حضرت حبیب عمر بن علامہ سید محمد سالم بن حفیظ نزیل بیضاء نے بتایا کہ انھیں محمد بن حبیب علوی بن شہاب الدین سے خبر پہنچی ہے کہ بعض عرفا کے بقول جو شخص ذیل کے مبارک صیغے کو پابندی کے ساتھ پڑھے، اس کے شیخ کوئی اور نہیں،  خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہوں گے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأمِّيِّ وَعَلیٰ آلِہٖ بِعَدَدِ عِلْمِکَ۔  (۱)

فائدہ نمبر91

یہ فائدہ بھی حبیب محمد بن علوی بن شہاب الدین  قدس سرہ العزیز  کی طرف سے ہے کہ انھوں نے فرمایا: جو شخص دعوت اِلی اللہ کی نیت سے نکلے اسے خواب میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہو گا۔ اور پھر بعض اَحباب کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ دعوت الی اللہ کی غرض سے جب نکلا تو واقعتا اسے دیدارِ خیر الانام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سعادت نصیب ہوئی۔

۔۔۔۔

(۱)       گزشتہ سال کیپ ٹاؤن میں بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر شیخ حبیب عمر بن علامہ سید محمد سالم بن حفیظ تشریف لائے، تو ان سے کئی بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس دورِ قحط الرجال میں ایسی شخصیتوں کی زیارت نصیب ہی کی بات ہے۔ اللہ نے اپنے فضل واحسان سے انھیں حصہ وافر عطا کیا ہے۔ وہ بلا شبہہ عشق مصطفی کے اَمین وسفیر، شریعت وطریقت کے سنگم، اَخلاق وکردار کے غازی،  علم وعمل کے پیکر، تقویٰ وطہارت کے دھنی اور فضل وکمال کی رفعتوں پر فائز ہیں۔  حضرموت میں موصوف کا معروف اِدارہ  دار المصطفیٰ شریعت وطریقت کی تعلیم وتربیت کا اکلوتا مرکز ماناجاتا ہے۔                                                          چریاکوٹی

اسی لیے بہت سے صالحین اپنے عقیدت مندوں کو اس کام پر لگا دیتے ہیں توصلے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ بھی انھیں اِس دولت بیدار سے مشرف فرما دیتا ہے۔ یہ بھی بہت ہی مجرب ومفید ہے۔ چاہیں تو آپ بھی اس کا تجربہ خود کر کے دیکھ لیں، اللہ کے فضل سے مالامال ہواُٹھیں گے۔  یہ بھی  الحمد للہ   مجرب وآزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر92

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ مِفْتَاحِ بَابِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ عَدَدَ مَا فِي عِلْمِ اللّٰہِ صَلاَۃً وَّسَلاَماً دَائِمَیْنِ بِدَوَامِ مُلْکِ اللّٰہِ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَمَنْ وَّالَاہُ۔

حبیب عمر بن محمد بن سالم بن حفیظ نے مجھ سے بتایا کہ ان کے جد امجد حبیب سالم بن حفیظ نے اسے حبیب قطب سیدی علی بن محمد حبشی  رضی اللہ عنہ  سے حاصل کیا تھا اسی صیغے کے ساتھ، جس کے اخیر’وعلیٰ آلہ وصحبہ ومن والاہ کا اِضافہ ہے، اس کتاب میں ہم نے اسی کی رعایت کرتے ہوئے یہاں پورا درج کر دیا ہے۔ لیکن گزشتہ اَوراق میں اصل کے مطابق کچھ یوں تھا  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ مِفْتَاحِ بَابِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ عَدَدَ مَا فِي عِلْمِ اللّٰہِ صَلاَۃً وَّسَلاَماً دَائِمَیْنِ بِدَوَامِ مُلْکِ اللّٰہِ۔

فائدہ نمبر93

حبیب عمر محمد سالم بن حفیظ بیان کرتے ہیں کہ جوشخص ’قصیدۂ  بردہ اِس ترتیب سے پڑھے کہ ہرشعر کے بعد ’مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا أبَدًا  ۰  عَلیٰ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّہِمٖ کی تکرار کرے، وہ کثرت کے ساتھ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے شرف یاب ہو گا۔

فائدہ نمبر94

سیدی حبیب ابوبکر بن علی المشہور اپنے دادا حبیب علوی بن عبدالرحمن المشہور کی سوانح میں ذکر کرتے ہیں کہ انھوں نے مکہ مکرمہ کے اندر ۱۲۹۴ھ میں سید احمد بن زینی دحلان سے اَخذِ فیض کیا تھا، اور مسجد حرام کے اندر مندرجہ ذیل صیغۂ  درودشریف کی اُن سے اِجازت حاصل کی تھی  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأمِّيِّ الْحَبِیْبِ الْعَالِي الْقَدْرِ الْعَظِیْمِ الْجَاہِ بِقَدْرِ عَظَمَۃِ ذَاتِکَ وَأغِثْنِي بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔  اللّٰہُمَّ أعِنِّي عَلیٰ ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ وَالْطُفْ بِي فِیْمَا جَرَی بِہِ الْمَقَادِیْرُ وَاغْفِرْلِي وَلِجَمِیْعِ الْمُؤمِنِیْنَ وَارْحَمْنِي بِرَحْمَتِکَ الْوَاسِعَۃِ فِي الدَّارَیْنِ الدُّنْیَا وَالاٰخِرَۃِ یَا کَرِیْمُ۔

اِس کے بعدپھر (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ ’ یَا وَہَّابُ  کا ورد کرے۔

یہ صیغۂ  مبارکہ دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے بڑامجرب اور بہت ہی مفید ہے۔ اس کتاب کے اِکیاونویں فائدے میں بھی اس کا ذکر تفصیل سے مرصع دعاؤں کے ساتھ گزر چکا ہے۔ اللہ ہم سب کو اِس سے متمتع فرمائے۔

فائدہ نمبر95

اِس عظیم فائدے کے بارے میں سیدفاضل معمر الحبیب الہدار محمد الہدار نزیل مدینہ منورہ نے مجھے بتایا تھا۔ مدینہ منورہ میں ان کے درِ دولت پر میں خصوصی طورپر اس

۔۔۔۔

(۱)       لوامع النور:۴۱۸۔

فائدے کو نقل کرنے کے لیے حاضرہوا، اور انھوں نے ہم پر خاص کرم واِحسان فرماتے ہوئے ہمیں اس کی اِجازت مرحمت فرمائی۔

وہ فرماتے ہیں کہ جوشخص سید احمد بن ادریس کی طرف منسوب اِس درودشریف کو تین بارپڑھے، اسے خواب میں آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت نصیب ہو گی۔

نیز مجھے سید محمدعلوی مالکی نے بھی اس کے بارے میں بتایا تھا کہ جو شخص فجر سے پہلے اسے (۷۰) ستر بار پڑھے دیدارِ مصطفیٰ کے لیے یہ تریاق ثابت ہو گا۔ یہ صیغۂ  مبارکہ اِس کتاب کے بہترویں فائدہ کے تحت گزر چکا ہے۔

مقام براوہ کے میری ایک قریبی دوست نے بھی مجھے اس کے بارے میں بتایا کہ محض سچے عاشق ہی اس صیغۂ  مبارکہ کو (۱۰۰) سو بار تک پڑھنے کی طاقت رکھتے ہیں،   کیوں کہ اس کے اَسرار واَنوار بے شمار ہیں۔  اور یہ بالکل سچ ہے،  کیوں کہ لوگوں کے اَحوال جداگانہ واقع ہوئے ہیں۔

فائدہ نمبر96

نیز سید ی الہدار محمد الہدار نے مدینہ منورہ میں مجھے بتایاکہ جو شخص شب جمعہ کو (۱۰۰) سو مرتبہ درودِ فاتح پڑھے، وہ خواب میں دیدارِ مصطفیٰ سے شادکام ہو گا۔ یہ صیغہ درود اِس کتاب کے اَٹھارہویں فائدے کے تحت درج ہو چکاہے،  لیکن وہاں درود کے ساتھ مزید کچھ سورتیں پڑھنے کی بھی قید تھی،  مگر یہاں بلاشرط وقید ہے۔  وہ درود مبارک یہ ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدِنِ الفَاتِحِ لِمَا أُغْلِقَ وَالْخَاتِمِ لِمَا سَبَقَ نَاصِرِ الْحَقِّ بِالْحَقِّ وَالْھَادِي إلَی الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ وَعَلیٰ آلِہٖ حَقَّ قَدْرِہٖ وَمِقْدَارِہِ الْعَظِیْمِ۔

یہ بھی  الحمد للہ  مجرب وآزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر97

سید ی الہدار محمد الہدار نے مدینہ منورہ کے اندر مجھے مندرجہ ذیل صیغہ مبارکہ کے بارے میں بھی بتایاکہ جو شخص اِسے (۳) تین مرتبہ پڑھے،  زیارتِ نبوی سے سرفراز ہو گا  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ نُوْرِ الأنْوَارِ وَسِرِّ الأسْرَارِ وَتَرْیَاقِ الأغْیَارِ وَمِفْتَاحِ بَابِ الْیَسَارِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِنِ النَّبِيِّ الْمُخْتَارِ وَعَلیٰ آلِہٖ الأطْہَارِ وَأصْحَابِہٖ الأخْیَارِ عَدَدَ نِعَمِ اللّٰہِ وَأفْضَالِہٖ صَلاَۃً دَائِمَۃً بِدَوَامِکَ یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّارُ۔

فائدہ نمبر98

سید ی الہدار محمد الہدار نے مجھے یہ بھی بتایاکہ جو شخص درود شریف کا یہ صیغۂ  مبارکہ تین بار پڑھے، خواب میں سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو گا  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِنِ الَّذِيْ مَلَأْتَ قَلْبَہٗ مِنْ جَلاَلِکَ وَعَیْنَہٗ مِنْ جَمَالِکَ وَأُذُنَہٗ مِنْ لَذِیْذِ خِطَابِکَ فَأصْبَحَ فَرِحًا مَسْرُوْرًا مُؤیَّدًا مَنْصُوْرًا وَعَلیٰ آلِہٖ وَصحْبِہِ وَسَلِّمْ۔

فائدہ نمبر99

سید ی الہدار محمد الہدار نے مجھے یہ بھی بتایاکہ جو شخص درود شریف کا یہ صیغۂ  مبارکہ تین بار پڑھے، خواب میں سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو گا۔ مجرب وآزمودہ ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا وَمَولاَنَا مُحَمَّدٍ بَحْرِ أنْوَارِکَ وَمَعْدِنِ أسْرَارِکَ وَلِسَانِ حُجَّتِکَ وَعَرُوْسِ مَمْلُکَتِکَ وَإمَامِ حَضْرَتِکَ وَطَرِیْقِ شَرِیْعَتِکَ الْمُتَلَذَّذِ بِتَوْحِیْدِکَ إنْسَانِ عَیْنِ الْوُجُوْدِ وَالسَّبَبِ فِي کُلِّ مَوْجُوْدٍ صَلَاۃً دَائِمَۃً بِدَوَامِکَ بَاقِیَّۃً بِبَقَائِکَ لاَ مُنْتَہیً لَہَا دُوْنَ عِلْمِکَ صَلاَۃً تُرْضِیْکَ وَ تُرْضِیْہِ وَتَرْضیٰ بِہِ عَنَّا یَا أرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔

فائدہ نمبر100

یہ فائدہ بھی سید ی الہدار محمد الہدار نے مجھے بتایاکہ یہ جملہ مرادوں کی برآری اور دیدارِ مصطفیٰ کی سعادت سے بہرہ وری کے لیے مجرب ومفید ہے۔  مندرجہ ذیل درود شریف (۱۰۰) سو مرتبہ پڑھا جائے  :

اَلصَّلوٰۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَلَّتْ حِیْلَتِيْ أدْرِکْنِيْ۔

فائدہ نمبر101

سید ی الہدار محمد الہدار نے مجھے یہ بھی بتایاکہ مندرجہ ذیل صیغۂ  درود شریف کا تین بار پڑھنا مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ودیدار کے لیے مجرب ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ مَا اتَّصَلَتِ الْعُیُوْنُ بِالنَّظْرِ وَتَزَخْرَفَتِ الأرْضُ بِالْمَطَرِ وَحَجَّ حَاجٍّ وَاعْتَمَرَ وَلَبیّٰ وَحَلَّقَ وَنَحَرَ وَطاَفَ بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ وَقَبَّلَ الْحَجَرَ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ۔

فائدہ نمبر102

شیخ مذکور رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں کہ جو شخص ذیل کا صیغۂ  مبارک تین بار پڑھے، خواب میں زیارتِ شفیع محشرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادکام ہو گا۔   واللہ اعلم

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِہٖ عَدَدَ کَمَالِ اللّٰہِ وَکمَا یَلِیْقُ بِکَمَالِہٖ۔

فائدہ نمبر103

یہ فائدہ بھی انھیں کے توسط سے ہاتھ آیا ہے، فرماتے ہیں کہ اِس درود شریف کو تین بار پڑھنے سے بھی مذکورہ نتیجہ حاصل ہو گا  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِہٖ عَدَدَ إنْعَامِ اللّٰہِ وَأفْضَالِہٖ۔

فائدہ نمبر104

یہ فائدہ بھی انھیں کا عنایت کردہ، اور دیدارِ نبوی کے لیے آزمودہ ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِہ کَمَا لاَ نِہَایَۃَ لِکَمَالِکَ وَعَدَدَ کَمَالِہٖ۔

فائدہ نمبر105

یہ فائدہ بھی انھیں کی مہربانی سے ملا ہے، اللہ انھیں اس کا اَجر کثیر عطا فرمائے۔ یہ صیغۂ  درود بھی خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کرنے کے لیے مفیدومجرب ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِہٖ وَأصْحَابِہِ وَأزْوَاجِہٖ وَذُرِّیّٰتِہٖ وَ عَلیٰ أھْلِ بَیْتِہٖ عَدَدَ مَا فِي عِلْمِکَ صَلاَۃً دَائِمَۃً بِدَوَامِ مُلْکِ اللّٰہِ۔

یہ  درود شریف تین بار پڑھاجانا چاہیے۔ اللہ ورسولہ اعلم۔

فائدہ نمبر106

شیخ مذکور ہی سے یہ فائدہ بھی معلوم ہواہے۔ یہ ’دعائے خضر علیہ السلام کے نام سے بھی معروف ہے، اورخواب میں دیدارِ مصطفیٰ کے لیے نہایت ہی مجرب ومفید ہے  :

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، الحمد للہ رب العالمین،  اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَدَدَ مَا عَلِمْتَ وَزِنَۃَ مَا عَلِمْتَ وَمِلْأَ مَا عَلِمْتَ، إلٰہِي بِجَاہِ نَبِیِّکَ سَیِِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ اسْتَجِبْ لَنَا۔  اَللّٰہُمَّ کَمَا لَطَفْتَ فِي عَظَمَتِکَ دَوْنَ اللُّطَفَائِ وَعَلَوْتَ بِعَظَمَتِکَ عَلَی الْعُظَمَائِ، وَعَلِمْتَ مَا تَحْتَ أرْضِکَ کَعِلْمِکَ بِمَا فَوْقَ عَرْشِکَ، وَکَانَتْ وَسَاوِسُ الصُّدُوْرِ کَالْعَلاَنِیَّۃِ عِنْدَکَ، وَعَلاَنِیَّۃُ الْقَوْلِ کَالسِّرِّ فِي عِلْمِکَ، وَانْقَادِ کُلِّ شَیْئٍ لِعَظَمَتِکَ، وَخَضَعَ کُلُّ ذِيْ سُلْطَانٍ لِسُلْطَانِکَ، وَصَارَ أمْرُ الدُّنْیَا وَالاٰخِرَۃِ کُلُّہُ بِیَدِکَ، اِجْعَلْ لِي مِنْ کُلِّ ہَمٍّ أصْبَحْتُ أوْ أمْسَیْتُ فِیْہِ فَرَجًا وَمَخْرَجًا، اَللّٰہُمَّ إنَّ عَفْوَکَ عَنْ ذُنُوْبِي، وَتَجَاوُزَکَ عَنْ خَطِیْئَتِي وَسِتْرَکَ عَلٰی قَبِیْحِ عَمَلِی، أطْمَعَنِي أنْ أسْألَکَ مَا لاَ أسْتَوْجِبُہٗ مِنْکَ مِمَّا قصرتُ فِیْہِ، أدْعُوْکَ آمِنًا وَأسْألُکَ مُسْتَأنِسًا، وَأنَّکَ الْمُحْسِنُ إلَيَّ، وَأنَا الْمُسِيْئُ إلٰی نَفْسِي فِیْمَا بَیْنِي وَبَیْنَکَ، تَتَرَدَّدُ إلَيَّ بِنِعْمَتِکَ وَأتَبَغَّضُ إلَیْکَ بِالْمَعَاصِي وَلٰکِنَّ الثِّقَۃَ بِکَ حَمَلَتْنِي عَلَی الْجُرْاٗۃِ عَلَیْکَ فَعُدْ بِفَضْلِکَ وَإحْسَانِکَ عَليَّ، إنَّکَ أنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ، وَصَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّآلہِ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔

فائدہ نمبر107

سیدی حبیبی سید احمد مشہور طہ الحداد مدظلہ العالی  نے مجھے بتایا کہ اُن کے عقیدت مندوں میں سے کوئی آکرعرض کرنے لگاکہ مجھے کوئی ایسا وظیفہ تعلیم فرمائیں جس سے خواب میں زیارتِ سید کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سعادت پا سکوں۔  چنانچہ انھوں نے اُسے ’قصیدۂ  بردہ کا مندرجہ ذیل شعر اِس شرط کے ساتھ پڑھنے کا حکم فرمایاکہ جب بھی یہ شعر پڑھے ساتھ ہی بارگاہِ رسالت میں (۱۰)دس بار درود شریف بھی بھیجے۔

حکم کی تعمیل میں اس نے جب یہ وظیفہ کیا اورتحفۂ  درود وسلام پیش کیا، اُس کی قسمت بیدار ہو گئی، اور اسے آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کا شرف مل گیا۔ ’قصیدۂ  بردہ کا وہ شعر یہ ہے   ؎

نَعَمْ سَرَیٰ طَیْفُ مَنْ أَھْوَیٰ فَأرَقَّنِي

وَالْحُبُّ یَعْتَرِضُ اللَّذَّاتِ بِالألَمٖ

یہ فائدہ اِس کتاب کے ستہترویں فائدے کے تحت گزر چکا ہے۔ فرق بس اِتنا ہے کہ وہاں بات محض یہ شعرپڑھنے کی تھی اور یہاں ساتھ ہی ہربار (۱۰) دس مرتبہ درود شریف کا اہتمام بھی مشروط ہے۔

نیز بعض عرفا نے اس کا خاص عدد متعین کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ (اِس مقصد عظیم کے حصول کے لیے) قصیدۂ  بردہ کے اِس شعر کو (۴۰) چالیس مرتبہ پڑھا جائے۔ واللہ اعلم۔ وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم، والحمد للہ رب العالمین۔

فائدہ نمبر108

یہ عظیم فائدہ ہم نے صاحب قاموس علامہ فیروز آبادی کی کتاب’الصِّلاۃُ والبشر فی الصلوٰۃ علیٰ خیر البشرا صفحہ ۸۵ سے نقل کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔

اُسی سند مذکور کے ساتھ حضراتِ خضر و اِلیاس علیہما السلام کے حوالے سے آتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: ایک شخص شام کی سرزمین سے چل کر بارگاہِ رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام میں حاضرہوا، اورعرض کرنے لگا: یارسول اللہ! میرے والد شام کے بہت بڑے شیخ مگر بوڑھے اِنسان ہیں،  آپ کی محبت میں سرشار رہتے ہیں،  اور دل میں آپ کی زیارت کی حسرت و تمنا رکھتے ہیں۔

آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: انھیں لے کر یہاں آ جاؤ۔ عرض کی: آنکھوں سے معذور ہیں، یہاں تک آنا ان کے لیے دشوار اَمر ہے۔

فرمایا: واپس جا کر اُن سے کہہ دو کہ مسلسل سات راتیں ’صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ کا ورد کریں،  خواب میں نہ صرف وہ میری زیارت سے شرف یاب ہوں گے،  بلکہ مجھ سے روایتِ حدیث بھی کرسکیں گے۔

چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا، اور پھر خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کی سعادت سے بہرہ یاب ہوئے۔اورپھر آگے حدیثیں بھی روایت کیا کرتے تھے۔  یہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر109

اِس مقصد عظیم کی برآری کے لیے مندرجہ ذیل صیغۂ  مبارکہ (۴۰۰) چار سو مرتبہ پڑھنا بھی بہت ہی مفید ہے۔  یہ بھی الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ فِي کُلِّ وَقْتٍ وَّحِیْنٍ صَلاَۃً نَسْعَدُ بِہَا فِي الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ أجْمَعِیْنَ۔

مشہد عظیم کے اندر مجھے یہ صیغہ اِلہامی طورپر عطا ہوا تھا۔ جلب مراد کے لیے  الحمد للہ تعالیٰ مجرب وآزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر110

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، وَبِہِ نَسْتَعِیْنُ لاَ إلٰہَ إلاَّ اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ الصَّادِقُ الْوَعْدُ الأمِیْنُﷺ۔

نیز دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے یہ صیغہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے  :

 اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلاَۃً تَفْتَحُ لَنَا بَابَہٗ، وَتُسْمِعُنَا لَذِْیذَ خِطَابِہٖ، وَعَلیٰ آلِہٖ وَسَلِّمْ۔

یہ صیغہ قطب ربانی عارفِ صمدانی استاذ شیخ احمد طیب بن بشیر کی طرف منسوب ہے۔

اس کا طریقہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہونے کے لیے پہلے اِسے (۳)تین مرتبہ،  پھر (۱۰) دس بار، اورپھر(۳۰۰) تین سو مرتبہ پڑھا جائے،جس کا مجموعہ (۳۱۳)تین سوتیرہ بنتا ہے۔

یہ صیغہ مبارکہ عبد فانی عوض عثمان احمد سودانی کا عطافرمودہ ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد  ہمارے سعادت مند بیٹے دیدارِ مصطفیٰ کی دولت پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔  ہمیں بھی رازدارانہ طور پر اس کی اِجازت حاصل ہے،  مگر اس کے لیے ہمیں بار بار مطالبہ ودرخواست کرنی پڑی،  بالآخر فقیر کے بارے میں اُن کے حسن ظن نے ہمیں اِس دولت سے سرفرازی بخشی۔وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم۔

فائدہ نمبر111

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلاَۃً تَشَعْشَعُ فِي الْوُجُوْدِ مَضْرُوْبًا بَعْضُہَا فِي بَعْضٍ حَتیّٰ تَغِیْبَ الأعْدَادُ، وَیُفَاضُ عَلَیْنَا مِنْ ذٰلِکَ الْفَیْضِ وَالإمْدَادِ فَیْضًا عَمِیْمًا یَکْفِیْنَا مُئُوْنَۃَ الْحَیَاتَیْنِ وَعَلیٰ آلِہٖ وَسَلِّمْ۔

یہ صیغہ بھی زیارتِ نبوی کے لیے مجرب اور دارین کی سعادتوں کے لیے مفیدہے۔ یہ عارف باللہ شیخ ابراہیم حلمی قادری رضی اللہ عنہ  کا معروف ومقبول صیغۂ  درودہے۔

فائدہ نمبر112

یہ صیغۂ  مبارکہ بھی شیخ مذکور ہی کی جانب منسوب ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کے علوم وفیوض سے ہمیں مالامال فرمائے  :

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلاَۃً تَشَعْشَعُ وَتَجَدَّدُ بِانْفِعَالِ الْمُنْفَعِلَاتِ الْکَوْنِیَّۃِ، وَتَتَکَرَّرُ بِحَرَکَاتِ الذَّرَّاتِ الْوُجُوْدِیَّۃِ مَضْرُوْبًا بَعْضُہَا فِي بَعْضٍ حَتیّٰ تَغِیْبَ الأعْدَادَ، وَیُفَاضَ عَلَیْنَا مِنْ ذٰلِکَ الْفَیْضِ وَالإمْدَادِ فَیْضًا عَمِیْمًا یَأخُذُ بِأیْدِیْنَا مِنْ مُہَامَۃِ الْغَفَلاَتِ إلٰی رَوْضَاتِ الأنْسِ وَالہَبَّاتِ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔

فائدہ نمبر113

یہ صیغۂ  مبارکہ بھی شیخ مذکور ہی کی جانب منسوب ہے  :

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلاَۃً مُشَعْشَعَۃً فِي الْوُجُوْدِ، کَشَعْشَعِ الشَّمْسِ فِي الطُّلُوْعِ وَالصُّعُوْدِ، بِأنْوَاعِ الضِّیَائِ الْمَمْدُوْدِ، مَضْرُوْبًا بَعْضُہَا فِي بَعْضٍ حَتیّٰ تَغِیْبَ الأعْدَادُ، وَیُفَاضَ عَلَیْنَا مِنْ ذٰلِکَ الْفَیْضِ وَالإمْدَادِ فَیْضًا عَمِیْمًا تَعُمُّنَا أنْوَارَہٗ فِي جَمِیْعِ جِہَاتِنَا السِّتِّ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا۔

اِن مذکورہ تینوں صیغے کا اَخذِ فیض ہم نے شیخ سید محمد یوسف مصری سے کیا ہے، اور انھیں یہ سعادت براہِ راست صاحب صیغہ عارف باللہ شیخ ابراہیم حلمی قادری سے نصیب ہوئی۔ نیز شیخ یوسف نے ہمیں اس کی اجازت بالکل اسی طرح عطا فرمائی جس طرح انھیں اس کے مولف سے عطا ہوئی تھی۔ یہ اَخذِ فیض مدینہ منورہ کی سہانی فضاؤں میں ۲۷/رجب ۱۴۰۸ھ کو ہوا۔  یہ بھی  الحمدللہ  بہت ہی مفیداور مجرب ہے۔

فائدہ نمبر114

سیدی یوسف نبہانی  رضی اللہ عنہ  ’سعادۃ الدارین میں رقم طراز ہیں کہ سیدی محمد ابی شعر الشامی کا مندرجہ ذیل صیغۂ  درود خواب میں دیدارِ مصطفیٰ پانے یا حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کرنے کے لیے بڑامفید ہے  :

اَللّٰہُمَّ إنِّي أَسْأَلُکَ بِاسْمِکَ الأعْظَمِ الْمَکْتُوْبِ مِنْ نُوْرِ وَجْہِکَ الأعْلیٰ الْمُؤبَّدِ الدَّائِمِ الْبَاقِي الْمُخَلَّدِ فِي قَلْبِ نَبِیِّکَ وَرَسُوْلِکَ مُحَمَّدٍ َصلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ، وَأسْألُکَ بِاسْمِکَ الأعْظَمِ الْوَاحِدِ بِوَحْدَۃِ الأحَدِ الْمُتَعَالِي عَنْ وَحْدَۃِ  الْکَمِّ  وَالْعَدَدِ الْمُقَدَّسِ عَنْ کُلِّ أَحَدٍ وَبِحَقِّ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ: قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أحَدٌ، اَللّٰہُ الصَّمَدُ، لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ، أنْ تُصَلِّيَ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ سِرِّحَیَاۃِ الْوُجُوْدِ وَالسَّبَبِ الأعْظَمِ لِکُلِّ مَوْجُوْدٍ صَلَاۃً تُثْبِتُ فِي قَلْبِي الإیْمَانَ وَتَحْفَظُنِي القُرْاٰنَ وَتُفَہِّمُنِي مِنْہُ الاٰیَاتِ وَتَفْتَحُ لِي بِہَا نُوْرَ الْجَنَّاتِ وَنُوْرَ النَّعِیْمِ وَنُوْرَ النَّظَرِ إلٰی وَجْہِکَ الْکَرِیْمِ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔

فائدہ نمبر115

رَبِّ اشَْرَحْ لِي صَدْرِيْ وَیَسِّرْلِي أمْرِيْ بِحَقِّ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ ﷺ۔

اِسے (۱۰۰)سومرتبہ پڑھا جائے،خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کرانے کے لیے یہ بھی مفید ومجرب ہے۔ یہ صیغہ قطب زمانہ حبیب علی بن محمد حبشی کی طرف منسوب ہے۔  یہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر116

سرزمین سیوون سے ہمارے بعض احباب نے ایک پیغام بھیجا، جس کے اندر یہ فائدہ مرقوم تھا: ہمیں سید علی باشیخ بلفقیہ کی اپنی تحریرمیں لکھا ہوا ملا کہ مجھے سید علامہ محدث سالم بن احمد بن جندان سے اِجازت حاصل ہوئی، کہ اِخلاص کے ساتھ سورۂ  فاتحہ کا (۳۰۰)تین سومرتبہ پڑھنا، اور باوضوہو کر سونا عاشقانِ اولیاء وصالحین کے لیے اُن کی زیارت کاسامان کر دیتا ہے۔ توظاہر ہے مشتاقانِ دیدِ  نبوی کے لیے دیدارِ مصطفیٰ علیہ السلام کی راہ بدرجہ اولیٰ ہموار کر دے گا!۔

فائدہ نمبر117

ابوالقاسم سبکی نے اپنی کتاب’الدر المنظّم فی المولد المعظم میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مجھ پر یوں درود بھیجے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی رُوْحِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ فِي الأرْوَاحِ،  وِّ عَلٰی جَسَدِہٖ فِي الأجْسَادِ،  وَعَلٰی قَبْرِہٖ فِي الْقُبُورِ۔

اُسے خواب میں میری زیارت نصیب ہو گی۔ اور جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عرصۂ  قیامت میں بھی میرے دیدار سے مشرف کیا جائے گا۔ اور جو بھی مجھے قیامت میں دیکھ لے اسے میری شفاعت سے ضرور حصہ ملے گا۔ اور جس کی میں شفاعت کر دوں،  وہ میرے حوض کوثر سے سیراب ہو گا، اور اس کے اوپرآتش جہنم حرام ہو گی۔(۱)

فائدہ نمبر118

شیخ احمد عبدالجواد مدنی اپنی کتاب’صلاۃ الانوار وسرالاسرار لرویۃ النبی المختارا  کے تحت فرماتے ہیں کہ یہ صیغہ ہائے دروددیدارِ مصطفیٰ کے ساتھ اور بھی بہت سے فوائد کے جامع ہیں۔

فائدہ نمبر119

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ نَبِیِّکَ الْمُصْطَفیٰ وَرَسُوْلِکَ الْمُقْتَفیٰ صَلَاۃً وَّسَلاَمًا تَجْمَعُنَا بِہِمَا مَعَ الْمُصْطَفیٰ جَہْرًا وَخَفائً مَعَ الصِّدْقِ وَالْحُبِّ وَالصَّفَا وَالأوْلِیَائِ وَالْخُلَفَائِ وَسَلاَمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ وَسَلاَمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِیْنَ۔

یہ فائدہ بھی اُن عظیم فوائد میں سے ایک ہے جو خواب میں دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دولت سے مالا مال کر دے۔

فائدہ نمبر120

سیدی یوسف نبہانی رضی اللہ عنہ  کی کتاب ’الاسمی فی الاسمائمیں ہے، وہ فرماتے

 

(۱)       سعادۃ الدارین، سیدی یوسف نبہانی: ۴۸۴ ۔۔۔ اِکتیسویں فائدے کے تحت یہ صیغہ گزرچکاہے۔چریاکوٹی۔

ہیں کہ جو شخص خواب میں زیارتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خواہش وتمنا رکھے، اسے چاہیے کہ دو رکعتیں پڑھے،دورکعت میں جن سورتوں کی چاہے تلاوت کرے، اس کے بعد پھر ایک سو مرتبہ (۱۰۰)اس کا ورد کرے  :

یَا نُوْرَ النُّوْرِ یَا مُدَبِّرَ الأمُوْرِ بَلِّغْ عَنِّي رُوْحَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ تَحِیَّۃً وَّسَلاَماً۔

اِس عبارت سے ملتا جلتا ایک صیغہ ہم نے اِسی کتاب کے سولہویں فائدے میں درج کیا ہے،  لیکن سعادتوں کے حصول کے مختلف اَوقات ہوا کرتے ہیں،  ( نہ معلوم کب اور کیا پڑھنے سے مولا کی رحمت برس پڑے!)۔

فائدہ نمبر121

مندرجہ ذیل صیغہ بھی آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ودیدار کے لیے بہت ہی مجرب اور مفید بتایا گیا ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَاحِبِ الْقَلْبِ الْمُنَوَّرِ وَالْجَاہِ الأکْبَرِ وَالْحَوْضِ وَالْکَوْثَرِ صَلاَۃً بِہَا کُلُّ عَسِیرٍ یَتَیَسَّرُ، وَکُلُّ قَلِیْلٍ یُکَثَّرُ، وَکُلُّ مَکْسُوْرٍ یَجْبُرُ، وَکُلُّ ذَنْبٍ یُغْفَرُ، وَکُلُّ عَیْبٍ  یُسْتَرُ، صَلاَۃً فِي صَلاَۃٍ فِي صَلَاۃٍ عَدَدَ الْمَلَایِیْنَ فِي کُلِّ وَقْتٍ وَّحِیْنٍ یَتَکَرَّرُ وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔

اِس  درودشریف کا (۳۱۳) تین سو تیرہ مرتبہ ورد کیا جائے۔ اہل محبت کو پتاہو گا کہ اس عدد میں کیا اِشارہ مخفی ہے!۔  یہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔  اور یہ ان درودوں میں سے ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے میرے دل پر اِلقا فرما دیا ہے۔فالحمدللہ۔

فائدہ نمبر122

خواب وبیداری میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت وملاقات کے لیے وہ عمل بھی بڑا مجرب ومفید ہے جسے ’بدایۃ الہدایۃ میں ذکرکیا گیا ہے۔جیسا کہ ہمارے ساداتِ کرام نے کیا ہے۔ اللہ ان کے فیوض وبرکات سے ہمیں مالامال فرمائے۔

فائدہ نمبر123

یہ فائدہ دراصل اُن فائدوں میں سے ایک ہے جو عاشق کو کھینچ کر محبوب علیہ السلام کی دہلیز کے قریب لے آتا ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْمُخْتَارِ وَدَلِیْلِ الْمُحْتَارِ وَالْہَادِيْ إلَی رِضَا الْغَفَّارِ صَلاَۃً تَخْلَعُ بِہَا عَلَیْنَا خِلَعَ الَقُبُوْلِ وَالإقْبَالِ وَالأنْوَارِ، وَالْوُصُوْلِ وَالاتَّصَالِ وَالأنْوَارِ، وَتَکْتُبْنَا بِہَا فِي دِیْوَانِ الأخْیَارِ، وَتُطِیْلُ بِہَا الأعْمَارَ، وَتجَمْعُنَا بِہَا مَعَ النَّبِيِّ الْمُخْتَارِ، وَالأوْلِیَائِ الأبْرَارِ، وَالأصْفِیَائِ الأطْہَارِ، بِرَحْمَتِکَ یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّارُ، وَعَلیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ فِي آنَائِ اللَّیْلِ وَأطْرَافِ النَّہَارِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔

الحمدللہ یہ بھی اُن صیغوں میں سے ہے جو بفضل الٰہی مجھ پر اِلقا ہوا۔

فائدہ نمبر124

۲۱/ربیع الاوّل ۱۴۰۹ھ، پیر کی شب میرا حاج شیخ محمد حبیب سید کے ساتھ ایک جگہ جمع ہونے کا اِتفاق ہوا، تو انھوں نے مجھے مندرجہ ذیل ’دعواتِ ادریسیہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔ قضائے حوائج کے لیے اِن کا (۹۹) ننانوے مرتبہ،  نیز دیدارِ مصطفیٰ کے لیے (۴۱) اکتالیس بار پڑھنامجرب ومفید ہے۔مزید وہ فرمارہے تھے کہ خود میرے ایک بھتیجے نے جب اسے پڑھا تو اسے خواب میں زیارتِ نبوی کی دولت نصیب ہوئی۔  وہ مبارک دعایہ ہے  :

یَا غَیَاثِي عِنْدَ کُلِّ کُرْبَۃٍ، وَمُجِیْبِي عِنْدَ کُلِّ دَعْوَۃٍ، وَّمَعَاذِيْ عِنْدَ کُلِّ شِدَّۃٍ، وَیَا رَجَائِي حِیْنَ تَنْقَطِعُ حِیْلَتِيْ۔

فائدہ نمبر125

وہ فائدہ جس کا ذکرذرا سا پہلے گزرا، وہ یوں ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِہٖ وَسَلِّمْ۔

کم از کم صبح وشام (۵۰۰) پانچ سو مرتبہ، اور زیادہ سے زیادہ (۲۲۰۰۰) بائیس ہزار مرتبہ۔ اس کے پڑھنے والوں پر اللہ کا کرم ہوا، اورانھوں نے بحمدہٖ تعالیٰ دیدارِ مصطفیٰ کی دولت پائی۔ ہمارے یہاں مشہور ہے کہ ایک شخص یہ درود ہر روز (۲۲۰۰۰) بائیس ہزار مرتبہ پڑھتا ہے، اور روزانہ محسن کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدار سے شرف یاب ہوتا ہے۔

الحمد للہ! مجھے اس کی اِجازت وقراء ت کا شرف حاصل ہے۔اور اس سے میرے مقاصد بھی پورے ہوئے ہیں،  اورمرادیں بھی برآئی ہیں۔ والحمد للہ رب العالمین۔

فائدہ نمبر126

ربیع الاوّل ۱۴۰۹ھ، پیر کی شب جدہ کے اندر میں نے سیدی الحبیب عبد الرحمن الکاف کی زیارت وملاقات کا شرف پایا۔ ساتھ میں یہ اَربابِ محبت وسلوک بھی تھے: سید احمد بن صالح الحامد،پسر عزیز محب عباس بن شیخ محمد باشیخ، اورفرزندارجمند محب خالد باعباد۔

جب رنگ محفل بدلا اور وہ جوبن پر آگئی، تو میں نے حبیب عبد الرحمن سے خواب میں دیدارِ مصطفیٰ کے حوالے سے اہل محبت کے درمیان مشہور ومعروف اِجازت طلب کی،  چنانچہ انھوں نے فرمایا: میں مدینہ منورہ کی پر کیف فضاؤں میں تھا۔ ایک رات کی باتہے کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص مجھ سے بات کر رہا ہے، مگر نظر نہیں آرہا۔

باتوں کے درمیان اس نے مجھ سے پوچھا: کیا آپ نے کچھ اَچھے خواب دیکھے ہیں ؟۔میں نے کہا: نہیں۔  وہ کہنے لگا: (۲۰۰) دو سو مرتبہ ’أشْہَدُ أنْ لاَّ إلٰہَ إلاَّ اللّٰہُ وَ أشْہَدُ أنَّ سَیِّدَنَا مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھ لیں۔ مزید کہاکہ میں آپ کو اس کی اِجازت دیتاہوں۔

یہ سن کر نورِ نظر عباس نے پوچھا:کیا اس میں ’صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمبھی ملالیا جائے؟ فرمایا:اگر یہ شامل کر لو، پھر تو بہت ہی بہترہے!۔

چنانچہ میں نے حکم کی تعمیل میں ایسا ہی کیا، اوراُسے پڑھنے کے نتیجے میں دیدارِ مصطفیٰ کی سعادت نصیب ہوئی۔ والحمد للہ رب العالمین، وصلی اللہ علی سیدنا محمد و آلہ وصحبہ وسلم۔

فائدہ نمبر127

مدینہ منورہ کے اندر ہمارے برادرِ دینی محب عباس کا شیخ حاج ماء العیون محمدبویاکے ساتھ ملنے کا اِتفاق ہوا، اور انھیں اپنے جد امجد کی کتاب ’الستر الداہم للمذنب الھائم سے اِس صیغے کی اِجازت مرحمت فرمائی  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ مَظْہَرِ أسْرَارِکَ وَمَنْبَعِ أنْوَارِکَ الدَّالِّ عَلَی حَضْرَۃِ ذَاتِکَ صَلاَۃً تَرْضَاہَا مَنَالُہٗ مَا دَامَ مُوسیٰ نَجِیًّا وَإبْرَاہِیْمَ خَلِیْلاً وَمُحَمَّدٌ ﷺ حَبِیْبًا۔

جوشخص اس صیغۂ  درود کو (۴۰) چالیس مرتبہ (۴۰) چالیس راتیں پڑھے، اُسے ضرور زیارتِ نبوی اور دیدارِ مصطفیٰ کی دولت نصیب ہو گی۔

شیخ عباس نے اس صیغے کی مجھے بالکل اسی طرح اِجازت دی جس طرح انھیں شیخ سے عنایت ہوئی تھی۔ چنانچہ جو مقصد تھا وہ حاصل ہوا، اور ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں وہ جس چیز میں جو اور جیسے چاہے اِرادہ فرمائے۔ وصلی اللہ علی سیدنا محمد و آلہ وصحبہ وسلم،  والحمدللہ السمیع البصیر،  وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد السراج المنیروالبشیر النذیر، وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم۔

فائدہ نمبر128

سرکارِ گرامی وقار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے شادکام ہونے کے لیے ہماری کتاب ’الفتح التام للخاص والعام في الصلوٰۃ والسلام علٰی خیر الأنام سیدنا محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مطالعہ بھی مجرب ومفید ہے۔ اس کی قراء ت سے بہت سے لوگوں نے فتح کبیر اور خیرکثیرحاصل کر لی ہے۔ آپ بھی آگے بڑھیں،  اُسے پڑھیں اور فضل خداوندی کا کرشمہ دیکھیں۔  وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم۔

فائدہ نمبر129

ماہِ ربیع الاوّل ۱۴۰۹ھ شب دوشنبہ کی بات ہے، کہ میں خواب اوربیداری کی ملی جلی کیفیات سے دوچار تھاکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اِس صیغۂ  مبارکہ کا مجھ پر اِلقا ہوا :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ نُوْرِ الْجَمَالِ وَالْکَمَالِ وَأرِنِي وَجْہَہٗ الصَّبِیْحَ فِي الْحَالِ۔

اور پھر مجھے اپنا مطلوب ومقصود پانے میں کامیابی نصیب ہوئی۔ اِسے (۱۰۰) سو مرتبہ، زیادہ سے زیادہ (۹۹۹) نوسو ننانوے مرتبہ پڑھا جائے۔یہی عدد مجھے بتایا گیا ہے۔ والحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم۔

فائدہ نمبر130

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ مِفْتَاحِ الْمَعَارِفِ وَعَلیٰ آلِہٖ وَأصْحَابِہِ عَدَدَ حَسَنَاتِ کُلِّ عَارِفٍ وَّغَارِفٍ۔

شیخ احمدطیب بن بشیراپنی کتاب’سرالاسرار والصلوٰات الطیبۃصفحہ ۵۶ پر فرماتے ہیں کہ جو شخص مذکورہ درود شریف کی پابندی کرے،اس کی زندگی میں آسانیاں ہوں گی، قلب وباطن روشن ہواُٹھیں گے، اور وہ کثرت کے ساتھ ذاتِ برکات سیدکائنات علیہ التسلیمَات کے دیدار وملاقات سے مشرف ہو گا۔  یہ بھی  الحمد للہ  مجرب وآزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر131

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَاجْمَعْ بَیْنِي وَبَیْنَہٗ فِي الدُّنْیَا قَبْلَ الاٰخِرَۃِ فِي خَیْرٍ وَّلُطْفٍ وَّعَافِیَّۃٍ۔

یہ تحفۂ  جمیلہ ہمیں سیدی شہاب الدین بن علی المشہور کے ذریعہ موصول ہوا۔ اِس مقصد عظیم کے حصول کے لیے یہ بہت ہی مجرب ہے۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو، اور توفیق خیر سے نوازے۔والحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد و آلہ وصحبہ وسلم۔

فائدہ نمبر132

نیز دیدارِ مصطفیٰ کی دولت پانے کے لیے حبیب عبد الرحمن بن احمد بن عبداللہ الکاف کا عطا فرمودہ یہ صیغۂ  مبارکہ بھی بڑا اہم اور مفید ہے  :

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم وَ بَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِہٖ بِعَدَدِ نِعَمِ اللّٰہِ عَلیٰ خَلْقِہِ وَأفْضَالِہٖ۔

یہ بھی  الحمد للہ  مجرب اور آزمودہ ہے۔

فائدہ نمبر133

سیدی احمد بدوی ابوفراج کا صیغہ ’شجرۃ الاصل النورانیۃمکمل پڑھا جائے۔ یہ درود قضائے حاجات،اور فتح مہمات کے لیے بہت ہی مجرب مانا گیا ہے۔ جب بھی کوئی اہم ضرورت درپیش ہو، یہ درود مسلسل تین روز تک نمازِ فجر کے بعد پوری توجہ کے ساتھ (۱۰۰) سو مرتبہ پڑھا جائے۔یقیناً اس کی برکت سے مرادیں برآئیں گی، بلکہ اگر چاہ لے تو باذن اللہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے کھسک جائے گا۔

اور اگر دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مشتاق ہے تو ستھرا کپڑا پہنے، پاکبستر لگائے، اور سوتے وقت تازہ وضو کر کے،  اورغسل کر لے تو اور بہتر ہے،پہلے دو رکعت نماز اَدا کرے،اور پھرقبلہ رو، اپنے دائیں کروٹ، بسترے پر لیٹے لیٹے (۱۰۰) سو مرتبہ اِس کا ورد کرے۔ اَخیر میں یہ پڑھے  :

یَا مُحْسِنُ یَا مُجَمِّلُ،  اَرِنِي وَجْہَ نَبِیِّکَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ۔

فائدہ نمبر134

حالت بیداری میں دیدارِ مصطفیٰ کا شرف حاصل کرنے کا نسخہ کیمیا۔ شب جمعہ مندرجہ ذیل درود (۱۰۰۰) ہزار مرتبہ پڑھا جائے  :

اَللّٰہُمَّ اجْمَعْ جَمِیْعَ أذْکَارِ الذَّاکِرِیْنَ وَجَمِیْعَ صَلَوَاتِ الْمُصَلِّیْنَ وَاجْعَلْ لِيْ جَمِیْعَ الأذْکَارِ لِذِکْرِيْ وَجَمِیْعَ الصَّلَوَاتِ لِصَلاَتِي عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ شَفِیْعِ الُمُذْنِبِیْنَ وَعَلیٰ آلِہٖ الْمُطَہَّرِیْنَ الْکَامِلِیْنَ۔

اس کی اِجازت حبیب زین بن سمیط سے حاصل ہوئی۔ اور انھوں نے شیخ تیجانی عبد الحمید تیجانی مصری سے پائی۔    ۲۷/رمضان المبارک ۱۴۰۷ھ۔

مرتب فوائدہذا،اور اُمیدوارِ رحمت کردگارعرض گزار ہے کہ بتوفیق مولا جتنا ممکن ہو سکا اس کتاب کے اندر ہم نے فوائد جمع کر دیے۔ اور میں سمجھتاہوں خاص اِس مبارک موضوع پریہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔ لہٰذا خیروسعادت کے اِس موجیں مارتے سمندر سے اپنی قلبی پیاس کی سیرابی کا سامان کرنا نہ بھولیں۔  بلاشبہہ اعمال نیتوں پر موقوف ہوتے ہیں،  اور ہر شخص اپنی نیت ہی کی بمقدار پاتا ہے۔

جس مقصد کوپانے کے لیے یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے وہ مقصد بڑا عظیم وجلیل ہے۔ اس کی طلب وتجسس بس وہی کرسکتا ہے جس کی بصارت وبصیرت کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حقیقی روشنی عطا کر دی ہو۔جو دلِ بینا کا حامل ہوتا ہے، وہ بہت سی چیزوں کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کر لیتا ہے۔

یوں ہی فائدہ نمبر انٹھانوے، ننانوے، ایک سوایک،اور ایک سو دو وغیرہ کے تحت ہم نے کچھ چھوٹے فوائد بھی ذکرکیے ہیں جن کو رنگ عمل دینا،  اور جن کو کر گزرنا کوئی مشکل اَمر نہیں، ایک تو ان کا حجم چھوٹا ہے، اور پھر تین ہی مرتبہ پڑھنا ہے۔

ہاں ! کچھ ایسے بھی سعادت مند حضرات ہیں، جو بڑی عجیب شانوں کے حامل ہیں،   کیوں کہ وہ بظاہریہ سب فوائد ووظائف پڑھے بغیرہی دیدارِ مصطفیٰ کا شرف پا لیتے ہیں۔  وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ سر تاپا سنت محمدی کے رنگ میں رنگے ہوتے ہیں۔

لیکن ہر کوئی تو ایسے اِمتیازات کا مالک نہیں ہوتا!، ہمیں تو محنت اور جدوجہد ہی کرنی ہے، اور زیادہ سے زیادہ اُس اِرشادنبوی کی روشنی میں عمل کرناہے،  جو آپ نے کسی سائل کے جواب میں فرمایا تھاکہ ’اگر مزیدکچھ بڑھالوتوتمہارے حق میں اور بہتر ہو گا۔ کسی کہنے والے نے کتنے پتے کی بات کہی ہے   ؎

زد إن ترد خیرا فإن صلاتہ

نعم من اللّٰہ العظیم عظیم

یعنی جتنا ہو سکے، اس بارگاہِ عالی وقار میں صلوٰۃ وسلام کا تحفہ گزارتے رہو،  کیوں کہ یہ درود اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، اور اللہ کی ہر نعمت عظیم ہوتی ہے۔

اِس لیے میں نے اپنا فرضِ منصبی سمجھا کہ عاشقانِ مصطفیٰ کے شوق وولولہ کو مہمیزلگا تھا چلوں،   تاکہ وہ درودوسلام کی تعداد بڑھاتے جائیں،  (اور وہ کچھ دیکھ لیں جس کودیکھنے کے لیے خالق نے یہ آنکھیں بنائی ہیں،   ورنہ اُن کے جمالِ جہاں آرا کو دیکھے بغیر اِن آنکھوں کا مقصد ہی کیا ہے!)۔ اللہ کے فضل وکرم کی نہ کوئی حد ہے اور نہ ٹھکانا۔ نہ ہی وہ کسی کے ساتھ خاص ہے، بلکہ پروردگار جس کو چاہتا ہے اس سے حصہ عطا فرما دیتا ہے۔ اور وہی بے پایاں فضل کا تنہا مالک ہے۔

یہاں آکر میری یہ جمع وترتیب  بحمد اللہ اپنے اختتام کو پہنچی۔ اللہ نے محض اپنے فضل سے اس کی طباعت واِشاعت کے مرحلے بھی آسان فرمادیے۔ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم اس کا نفع عام وتام فرمائے۔ اور اگر کسی کو اِس کتاب کے اندر کچھ سقم وخلل نظر آئے، تو وہ اس کی تصحیح وخانہ پُری کرنے کی کوشش کرے،  کیوں کہ غلطی کرناشیوۂ  آدمیت  ہے۔ جسے اس کتاب میں کچھ خیروخوبی نظر آئے،قلب ونظر کے بند تالے کھل پڑیں،  اور اَحوال بدل جائیں تویہ محض اُس مالک ومولا کا کرم ہے،(میرا اپنا اس میں کچھ کمال نہیں )۔

خدا کرے میری یہ عاجزانہ کوشش بارگاہِ خداوندی میں محض اس کی رضا کے لیے شرفِ قبولیت سے ہمکنار ہو، سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرب وتعلق کا باعث ہو، اور قیامت کے اُس لرزہ خیز دن کے لیے ذخیرہ بن جائے جس دن قلب سلیم کے سوا نہ کچھ مال کام آئے گا نہ کوئی اَولاد۔

والحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد و آلہ وصحبہ وسلم۔

 

حسن محمد عبد اللہ شداد بن عمر با عمر

مترجم: محمد افروز قادری چریاکوٹی

 

نوٹ :  اِس کتاب کے اِختتام پر نظم و نثر میں بہت سے مقتدر مشائخ کرام اور اکابرو اَساطین اُمت کی تقریظات ثبت تھیں،   مگر بخوفِ طوالت ہم نے قصداً انھیں حذف کر دیا۔ یہاں صرف اُن مقرظین کے اَسمائے گرامی کے ذکر پر اِکتفا کیا جاتا ہے، جسے دیکھنے کا شوق ہو وہ اَصل کتاب کی طرف رجوع فرمائیں  :

شیخ عبدالقادر بن احمد السقاف۔                   شیخ حبیب احمد مشہور الحداد۔

شیخ ابوبکر علی المشہور۔                                          شیخ محمد بن علوی المالکی الحسنِی۔ مکۃ المکرمۃ

شیخ محمد بن احمد بن عمر شاطری۔جدہ۔          شیخ عبد الرحمن بن سالم البیض۔جدہ۔

شیخ کمال عمراَمین۔ مدینہ منورہ۔                  شیخ ہاشم العید روس۔

شیخ عبد اللہ سراج الدین۔                         شیخ موسیٰ عبدہ یوسف۔

شیخ عبد القادر جیلانی سالم خرد۔                    شیخ صالح الشیخ العباسی۔ حلب،شام۔

شیخ احمد البدوی شیخ بن شیخ عثمان البراوی۔ براوہ۔

شیخ عبد الرحمن بن احمد بن عبد اللہ بن علی الکاف الہجرانی۔

شیخ علی بن عبد اللہ حسین السقاف۔

شیخ محمد بن سعید بن عبد اللہ بن سالم باعلوی۔ مقدیشو۔

شیخ صالح حسین المسیلی۔                            شیخ علی موسیٰ تلمیذشیخ عبد الرحیم۔

: تمت و بالخیر عمت :

٭٭٭

اس کتاب کی صرف ایک تہائی پروف ریڈنگ ممکن ہو سکی ہے۔ قارئیں نوٹ فرما لیں کہ اس کا متن قابل اعتبار نہیں۔

 

٭٭٭

فائل کے لئے تشکر: محمد مشاہد رضوی

جزوی تدوین ور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید