FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بانگِ درا

 علاّمہ محمّد اقبال

 

 حصہ دوم ـ 1905 سے 1908 تک


محبت

عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے

ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذت رم سے

قمر اپنے لباس نو میں بیگانہ سا لگتا تھا

نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئین مسلم سے

ابھی امکاں کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی دنیا

مذاق زندگی پوشیدہ تھا پہنائے عالم سے

کمال نظم ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا

ہویدا تھی نگینے کی تمنا چشم خاتم سے

سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا

صفا تھی جس کی خاک پا میں بڑھ کر ساغر جم سے

لکھا تھا عرش کے پائے پہ اک اکسیر کا نسخہ

چھپاتے تھے فرشتے جس کو چشم روح آدم سے

نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیا گر کی

وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسم اعظم سے

بڑھا تسبیح خوانی کے بہانے عرش کی جانب

تمنائے دلی آخر بر آئی سعی پیہم سے

پھرایا فکر اجزا نے اسے میدان امکاں میں

چھپے گی کیا کوئی شے بارگاہ حق کے محرم سے

چمک تارے سے مانگی ، چاند سے داغ جگر مانگا

اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلف برہم سے

تڑپ بجلی سے پائی ، حور سے پاکیزگی پائی

حرارت لی نفسہائے مسیح ابن مریم سے

ذرا سی پھر ربوبیت سے شان بے نیازی لی

ملک سے عاجزی ، افتادگی تقدیر شبنم سے

پھر ان اجزا کو گھولا چشمۂ حیواں کے پانی میں

مرکب نے محبت نام پایا عرش اعظم سے

مہوس نے یہ پانی ہستی نوخیز پر چھڑکا

گرہ کھولی ہنر نے اس کے گویا کار عالم سے

ہوئی جنبش عیاں ، ذروں نے لطف خواب کو چھوڑا

گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے

خرام ناز پایا آفتابوں نے ، ستاروں نے

چٹک غنچوں نے پائی ، داغ پائے لالہ زاروں نے

 

حقیقت حسن

خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا

جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا

ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا

شب دراز عدم کا فسانہ ہے دنیا

ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی

وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی

کہیں قریب تھا ، یہ گفتگو قمر نے سنی

فلک پہ عام ہوئی ، اختر سحر نے سنی

سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو

فلک کی بات بتا دی زمیں کے محرم کو

بھر آئے پھول کے آنسو پیام شبنم سے

کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے

چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا

شباب سیر کو آیا تھا ، سوگوار گیا

 

سوامی رام تیر تھ

ہم بغل دریا سے ہے اے قطرۂ بے تاب تو

پہلے گوہر تھا ، بنا اب گوہر نایاب تو

آہ کھولا کس ادا سے تو نے راز رنگ و بو

میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو

مٹ کے غوغا زندگی کا شورش محشر بنا

یہ شرارہ بجھ کے آتش خانۂ آزر بنا

نفئ ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا

‘لا’ کے دریا میں نہاں موتی ہے ‘الااللہ’ کا

چشم نابینا سے مخفی معنی انجام ہے

تھم گئی جس دم تڑپ ، سیماب سیم خام ہے

توڑ دیتا ہے بت ہستی کو ابراہیم عشق

ہوش کا دارو ہے گویا مستی تسنیم عشق

 

طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام

اوروں کا ہے پیام اور ، میرا پیام اور ہے

عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے

طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہو تم

یہ بھی سنو کہ نالۂ طائر بام اور ہے

آتی تھی کوہ سے صدا راز حیات ہے سکوں

کہتا تھا مور ناتواں لطف خرام اور ہے

جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا

اس کا مقام اور ہے ، اس کا نظام اور ہے

موت ہے عیش جاوداں ، ذوق طلب اگر نہ ہو

گردش آدمی ہے اور ، گردش جام اور ہے

شمع سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز

غم کدۂ نمود میں شرط دوام اور ہے

بادہ ہے نیم رس ابھی ، شوق ہے نارسا ابھی

رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسیا ابھی

 

اختر صبح

ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا

ملی نگاہ مگر فرصت نظر نہ ملی

ہوئی ہے زندہ دم آفتاب سے ہر شے

اماں مجھی کو تہ دامن سحر نہ ملی

بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی

نفس حباب کا ، تابندگی شرارے کی

کہا یہ میں نے کہ اے زیور جبین سحر!

غم فنا ہے تجھے! گنبد فلک سے اتر

ٹپک بلندی گردوں سے ہم رہِ شبنم

مرے ریاض سخن کی فضا ہے جاں پرور

میں باغباں ہوں ، محبت بہار ہے اس کی

بنا مثال ابد پائدار ہے اس کی

 

حسن و عشق

جس طرح ڈوبتی ہے کشتی سیمین قمر

نور خورشید کے طوفان میں ہنگام سحر

جسے ہو جاتا ہے گم نور کا لے کر آنچل

چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول

جلوۂ طور میں جیسے ید بیضائے کلیم

موجۂ نکہت گلزار میں غنچے کی شمیم

ہے ترے سیل محبت میں یونہی دل میرا

تو جو محفل ہے تو ہنگامۂ محفل ہوں میں

حسن کی برق ہے تو ، عشق کا حاصل ہوں میں

تو سحر ہے تو مرے اشک ہیں شبنم تیری

شام غربت ہوں اگر میں تو شفق تو میری

مرے دل میں تری زلفوں کی پریشانی ہے

تری تصویر سے پیدا مری حیرانی ہے

حسن کامل ہے ترا ، عشق ہے کامل میرا

ہے مرے باغ سخن کے لیے تو باد بہار

میرے بے تاب تخیل کو دیا تو نے قرار

جب سے آباد ترا عشق ہوا سینے میں

نئے جوہر ہوئے پیدا مرے آئینے میں

حسن سے عشق کی فطرت کو ہے تحریک کمال

تجھ سے سر سبز ہوئے میری امیدوں کے نہال

قافلہ ہو گیا آسودۂ منزل میرا

ــــــــ کی گود میں بلی دیکھ کر

تجھ کو دزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے

رمز آغاز محبت کی بتا دی کس نے

ہر ادا سے تیری پیدا ہے محبت کیسی

نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی

دیکھتی ہے کبھی ان کو، کبھی شرماتی ہے

کبھی اٹھتی ہے ، کبھی لیٹ کے سو جاتی ہے

آنکھ تیری صفت آئنہ حیران ہے کیا

نور آگاہی سے روشن تری پہچان ہے کیا

مارتی ہے انھیں پونہچوں سے، عجب ناز ہے یہ

چھیڑ ہے ، غصہ ہے یا پیار کا انداز ہے یہ؟

شوخ تو ہوگی تو گودی سے اتاریں گے تجھے

گر گیا پھول جو سینے کا تو ماریں گے تجھے

کیا تجسس ہے تجھے ، کس کی تمنائی ہے

آہ! کیا تو بھی اسی چیز کی سودائی ہے

خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں

صورت دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں

شیشۂ دہر میں مانند مۓ ناب ہے عشق

روح خورشید ہے، خون رگ مہتاب ہے عشق

دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی

نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی

کہیں سامان مسرت، کہیں ساز غم ہے

کہیں گوہر ہے ، کہیں اشک ، کہیں شبنم ہے

 

کلی

جب دکھاتی ہے سحر عارض رنگیں اپنا

کھول دیتی ہے کلی سینۂ زریں اپنا

جلوہ آشام ہے یہ صبح کے مے خانے میں

زندگی اس کی ہے خورشید کے پیمانے میں

سامنے مہر کے دل چیر کے رکھ دیتی ہے

کس قدر سینہ شگافی کے مزے لیتی ہے

مرے خورشید! کبھی تو بھی اٹھا اپنی نقاب

بہر نظارہ تڑپتی ہے نگاہ بے تاب

تیرے جلوے کا نشیمن ہو مرے سینے میں

عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں

زندگی ہو ترا نظارہ مرے دل کے لیے

روشنی ہو تری گہوارہ مرے دل کے لیے

ذرہ ذرہ ہو مرا پھر طرب اندوز حیات

ہو عیاں جوہر اندیشہ میں پھر سوز حیات

اپنے خورشید کا نظارہ کروں دور سے میں

صفت غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں

جان مضطر کی حقیقت کو نمایاں کر دوں

دل کے پوشیدہ خیالوں کو بھی عریاں کر دوں

 

چاند اور تارے

ڈرتے ڈرتے دم سحر سے

تارے کہنے لگے قمر سے

نظارے رہے وہی فلک پر

ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر

کام اپنا ہے صبح و شام چلنا

چلنا چلنا ، مدام چلنا

بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے

کہتے ہیں جسے سکوں، نہیں ہے

رہتے ہیں ستم کش سفر سب

تارے، انساں، شجر، حجر سب

ہوگا کبھی ختم یہ سفر کیا

منزل کبھی آئے گی نظر کیا

کہنے لگا چاند ، ہم نشینو

اے مزرع شب کے خوشہ چینو!

جنبش سے ہے زندگی جہاں کی

یہ رسم قدیم ہے یہاں کی

ہے دوڑتا اشہب زمانہ

کھا کھا کے طلب کا تازیانہ

اس رہ میں مقام بے محل ہے

پوشیدہ قرار میں اجل ہے

چلنے والے نکل گئے ہیں

جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہیں

انجام ہے اس خرام کا حسن

آغاز ہے عشق، انتہا حسن

 

وصال

جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے

خوبئ قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے

خود تڑپتا تھا ، چمن والوں کو تڑپاتا تھا میں

تجھ کو جب رنگیں نوا پاتا تھا ، شرماتا تھا میں

میرے پہلو میں دل مضطر نہ تھا ، سیماب تھا

ارتکاب جرم الفت کے لیے بے تاب تھا

نامرادی محفل گل میں مری مشہور تھی

صبح میری آئنہ دار شب دیجور تھی

از نفس در سینۂ خوں گشتہ نشتر داشتم

زیر خاموشی نہاں غوغائے محشر داشتم

اب تاثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں

اہل گلشن پر گراں میری غزل خوانی نہیں

عشق کی گرمی سے شعلے بن گئے چھالے مرے

کھلیتے ہیں بجلیوں کے ساتھ اب نالے مرے

غازۂ الفت سے یہ خاک سیہ آئینہ ہے

اور آئینے میں عکس ہمدم دیرینہ ہے

قید میں آیا تو حاصل مجھ کو آزادی ہوئی

دل کے لٹ جانے سے میرے گھر کی آبادی ہوئی

ضو سے اس خورشید کی اختر مرا تابندہ ہے

چاندنی جس کے غبار راہ سے شرمندہ ہے

یک نظر کر دی و آداب فنا آموختی

اے خنک روزے کہ خاشاک مرا واسوختی

 

سلیمی

جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ بیں نے

خورشید میں ، قمر میں ، تاروں کی انجمن میں

صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدے میں پایا

شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں

جس کی چمک ہے پیدا ، جس کی مہک ہویدا

شبنم کے موتیوں میں ، پھولوں کے پیرہن میں

صحرا کو ہے بسایا جس نے سکوت بن کر

ہنگامہ جس کے دم سے کاشانۂ چمن میں

ہر شے میں ہے نمایاں یوں تو جمال اس کا

آنکھوں میں ہے سلیمی تیری کمال اس کا

 

عاشق ہر جائی

(1)

ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبال تو

رونق ہنگامۂ محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے

تیرے ہنگاموں سے اے دیوانۂ رنگیں نوا!

زینت گلشن بھی ہے ، آرائش صحرا بھی ہے

ہم نشیں تاروں کا ہے تو رفعت پرواز سے

اے زمیں فرسا ، قدم تیرا فلک پیما بھی ہے

عین شغل میں پیشانی ہے تیری سجدہ ریز

کچھ ترے مسلک میں رنگ مشرب مینا بھی ہے

مثل بوئے گل لباس رنگ سے عریاں ہے تو

ہے تو حکمت آفریں ، لیکن تجھے سودا بھی ہے

جانب منزل رواں بے نقش پا مانند موج

اور پھر افتادہ مثل ساحل دریا بھی ہے

حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے

پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے

تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار

تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے ؟

ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب

اے تلون کیش! تو مشہور بھی ، رسوا بھی ہے

لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو

تیری بے تابی کے صدقے، ہے عجب بے تاب تو

(2)

عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے

مشت خاک ایسی نہاں زیر قبا رکھتا ہوں میں

ہیں ہزاروں اس کے پہلو ، رنگ ہر پہلو کا اور

سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں

دل نہیں شاعر کا ، ہے کیفیتوں کی رستخیز

کیا خبر تجھ کو درون سینہ کیا رکھتا ہوں میں

آرزو ہر کیفیت میں اک نئے جلوے کی ہے

مضطرب ہوں ، دل سکوں نا آشنا رکھتا ہوں میں

گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر

حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں

بے نیازی سے ہے پیدا میری فطرت کا نیاز

سوز و ساز جستجو مثل صبا رکھتا ہوں میں

موجب تسکیں تماشائے شرار جستہ اے

ہو نہیں سکتا کہ دل برق آشنا رکھتا ہوں میں

ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش

آہ! وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں

جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے

حسن بے پایاں ہے ، درد لادوا رکھتا ہوں میں

زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری

عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں میں

سچ اگر پوچھے تو افلاس تخیل ہے وفا

دل میں ہر دم اک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں

فیض ساقی شبنم آسا ، ظرف دل دریا طلب

تشنۂ دائم ہوں آتش زیر پا رکھتا ہوں میں

مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا

نقش ہوں ، اپنے مصور سے گلا رکھتا ہوں میں

محفل ہستی میں جب ایسا تنک جلوہ تھا حسن

پھر تخیل کس لیے لا انتہا رکھتا ہوں میں

در بیابان طلب پیوستہ می کوشیم ما

موج بحریم و شکست خویش بر دوشیم ما

 

کوشش نا تمام

فرقت آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صبح

چشم شفق ہے خوں فشاں اختر شام کے لیے

رہتی ہے قیس روز کو لیلی شام کی ہوس

اختر صبح مضطرب تاب دوام کے لیے

کہتا تھا قطب آسماں قافلۂ نجوم سے

ہمرہو ، میں ترس گیا لطف خرام کے لیے

سوتوں کو ندیوں کا شوق ، بحر کا ندیوں کو عشق

موجۂ بحر کو تپش ماہ تمام کے لیے

حسن ازل کہ پردۂ لالہ و گل میں ہے نہاں

کہتے ہیں بے قرار ہے جلوۂ عام کے لیے

راز حیات پو چھ لے خضر خجستہ گام سے

زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے

 

نوائے غم

زندگانی ہے مری مثل رباب خاموش

جس کی ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریز آغوش

بربط کون و مکاں جس کی خموشی پہ نثار

جس کے ہر تار میں ہیں سینکڑوں نغموں کے مزار

محشرستان نوا کا ہے امیں جس کا سکوت

اور منت کش ہنگامہ نہیں جس کا سکوت

آہ! امید محبت کی بر آئی نہ کبھی

چوٹ مضراب کی اس ساز نے کھائی نہ کبھی

مگر آتی ہے نسیم چمن طور کبھی

سمت گردوں سے ہوائے نفس حور کبھی

چھیڑ آہستہ سے دیتی ہے مرا تار حیات

جس سے ہوتی ہے رہا روح گرفتار حیات

نغمہ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے

اشک کے قافلے کو بانگ درا اٹھتی ہے

جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے

میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے

 

عشر ت امروز

نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش و سرور

نہ کھینچ نقشۂ کیفیّتِ شراب طہور

فراق حور میں ہو غم سے ہمکنار نہ تو

پری کو شیشۂ الفاظ میں اتار نہ تو

مجھے فریفتۂ ساقی جمیل نہ کر

بیان حور نہ کر ، ذکر سلسبیل نہ کر

مقام امن ہے جنت ، مجھے کلام نہیں

شباب کے لیے موزوں ترا پیام نہیں

شباب ، آہ! کہاں تک امیدوار رہے

وہ عیش ، عیش نہیں ، جس کا انتظار رہے

وہ حسن کیا جو محتاج چشم بینا ہو

نمود کے لیے منت پذیر فردا ہو

عجیب چیز ہے احساس زندگانی کا

عقیدہ ‘عشرت امروز’ ہے جوانی کا

 

انسان

قدرت کا عجیب یہ ستم ہے!

انسان کو راز جو بنایا

راز اس کی نگاہ سے چھپایا

بے تاب ہے ذوق آگہی کا

کھلتا نہیں بھید زندگی کا

حیرت آغاز و انتہا ہے

آئینے کے گھر میں اور کیا ہے

ہے گرم خرام موج دریا

دریا سوئے سجر جادہ پیما

بادل کو ہوا اڑا رہی ہے

شانوں پہ اٹھائے لا رہی ہے

تارے مست شراب تقدیر

زندان فلک میں پا بہ زنجیر

خورشید ، وہ عابد سحر خیز

لانے والا پیام بر خیز

مغرب کی پہاڑیوں میں چھپ کر

پیتا ہے مے شفق کا ساغر

لذت گیر وجود ہر شے

سر مست مے نمود ہر شے

کوئی نہیں غم گسار انساں

کیا تلخ ہے روزگار انساں!

 

جلوۂ حسن

جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمنا بے تاب

پالتا ہے جسے آغوش تخیل میں شباب

ابدی بنتا ہے یہ عالم فانی جس سے

ایک افسانۂ رنگیں ہے جوانی جس سے

جو سکھاتا ہے ہمیں سر بہ گریباں ہونا

منظر عالم حاضر سے گریزاں ہونا

دور ہو جاتی ہے ادراک کی خامی جس سے

عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے

آہ! موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں

خاتم دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں

 

ایک شام

( دریائے نیکر ‘ہائیڈل برگ ‘ کے کنارے پر )

خاموش ہے چاندنی قمر کی

شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی

وادی کے نوا فروش خاموش

کہسار کے سبز پوش خاموش

فطرت بے ہوش ہو گئی ہے

آغوش میں شب کے سو گئی ہے

کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے

نیکر کا خرام بھی سکوں ہے

تاروں کا خموش کارواں ہے

یہ قافلہ بے درا رواں ہے

خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا

قدرت ہے مراقبے میں گویا

اے دل! تو بھی خموش ہو جا

آغوش میں غم کو لے کے سو جا

 

تنہائی

تنہائی شب میں ہے حزیں کیا

انجم نہیں تیرے ہم نشیں کیا!

یہ رفعت آسمان خاموش

خوابیدہ زمیں ، جہان خاموش

یہ چاند ، یہ دشت و در ، یہ کہسار

فطرت ہے تمام نسترن زار

موتی خوش رنگ ، پیارے پیارے

یعنی ترے آنسوؤں کے تارے

کس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل!

قدرت تری ہم نفس ہے اے دل!

 

پیام عشق

سن اے طلب گار درد پہلو! میں ناز ہوں ، تو نیاز ہو جا

میں غزنوی سومنات دل کا ، تو سراپا ایاز ہو جا

نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سے

تمام ساماں ہے تیرے سینے میں ، تو بھی آئینہ ساز ہو جا

غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا

جہاں کا فرض قدیم ہے تو ، ادا مثال نماز ہو جا

نہ ہو قناعت شعار گلچیں! اسی سے قائم ہے شان تیری

وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا

گئے وہ ایام ، اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا

جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا

وجود افراد کا مجازی ہے ، ہستی قوم ہے حقیقی

فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا

یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا

بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا

 

فراق

تلاش گوشۂ عزلت میں پھر رہا ہوں میں

یہاں پہاڑ کے دامن میں آ چھپا ہوں میں

شکستہ گیت میں چشموں کے دلبری ہے کمال

دعائے طفلک گفتار آزما کی مثال

ہے تخت لعل شفق پر جلوس اختر شام

بہشت دیدۂ بینا ہے حسن منظر شام

سکوت شام جدائی ہوا بہانہ مجھے

کسی کی یاد نے سکھلا دیا ترانہ مجھے

یہ کیفیت ہے مری جان نا شکیبا کی

مری مثال ہے طفل صغیر تنہا کی

اندھیری رات میں کرتا ہے وہ سرود آغاز

صدا کو اپنی سمجھتا ہے غیر کی آواز

یونہی میں دل کو پیام شکیب دیتا ہوں

شب فراق کو گویا فریب دیتا ہوں

 

عبد القادر کے نام

اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر

بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں

ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط

اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں

اہل محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق

سنگ امروز کو آئینۂ فردا کر دیں

جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو

تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں

اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر

قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں

رخت جاں بت کدۂ چیں سے اٹھا لیں اپنا

سب کو محو رخ سعدی و سلیمی کر دیں

دیکھ! یثرب میں ہوا ناقۂ لیلی بیکار

قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں

بادۂ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز

جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں

گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ

چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں

شمع کی طرح جبیں بزم گہ عالم میں

خود جلیں ، دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں

”ہر چہ در دل گذرد وقف زباں دارد شمع

سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارد شمع”

 

صقلیہ

( جزیرہ سسلی)

رو لے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار

وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار

تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی

بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی

زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے

بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے

اک جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور

کھا گئی عصر کہن کو جن کی تیغ ناصبور

مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا

آدمی آزاد زنجیر توہم سے ہوا

غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے

کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟

آہ اے سسلی! سمندرکی ہے تجھ سے آبرو

رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو

زیب تیرے خال سے رخسار دریا کو رہے

تیری شمعوں سے تسلی بحر پیما کو رہے

ہو سبک چشم مسافر پر ترا منظر مدام

موج رقصاں تیرے ساحل کی چٹانوں پر مدام

تو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا

حسن عالم سوز جس کا آتش نظارہ تھا

نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر

داغ رویا خون کے آنسو جہاں آباد پر

آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی

ابن بدروں کے دل ناشاد نے فریاد کی

غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا

چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا

ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں

تیرے ساحل کی خموشی میں ہے انداز بیاں

درد اپنا مجھ سے کہہ ، میں بھی سراپا درد ہوں

جس کی تو منزل تھا ، میں اس کارواں کی گرد ہوں

رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے

قصۂ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے

میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤں گا

خود یہاں روتا ہوں ، اوروں کو وہاں رلواؤں گا

 

               غزلیات

٭ ٭ ٭ ٭

زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں

دم ہوا کی موج ہے ، رم کے سوا کچھ بھی نہیں

گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر

شمع بولی ، گریۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں

راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو

کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں

زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی

کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں!

 

٭ ٭ ٭ ٭

الہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے

اسے ہے سودائے بخیہ کاری ، مجھے سر پیرہن نہیں ہے

ملا محبت کا سوز مجھ کو تو بولے صبح ازل فرشتے

مثال شمع مزار ہے تو ، تری کوئی انجمن نہیں ہے

یہاں کہاں ہم نفس میسر ، یہ دیس نا آشنا ہے اے دل!

وہ چیز تو مانگتا ہے مجھ سے کہ زیر چرخ کہن نہیں ہے

نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا

بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے

کہاں کا آنا ، کہاں کا جانا ، فریب ہے امتیاز عقبی

نمود ہر شے میں ہے ہماری ، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے

مدیر ‘مخزن’ سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے

جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں ، انھیں مذاق سخن نہیں ہے

 

٭ ٭ ٭ ٭

زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا

مری خموشی نہیں ہے ، گویا مزار ہے حرف آرزو کا

جو موج دریا لگی یہ کہنے ، سفر سے قائم ہے شان میری

گہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا

نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل ، وہ تربیت سے نہیں سنورتے

ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سرو کنار جو کا

کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنا

الہی تیرا جہان کیا ہے نگار خانہ ہے آرزو کا

کھلا یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسم ہوس سراپا

جسے سمجھتے تھے جسم خاکی ، غبار تھا کوئے آرزو کا

اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں

نگہ کو نظارے کی تمنا ہے، دل کو سودا ہے جستجو کا

چمن میں گلچیں سے غنچہ کہتا تھا ، اتنا بیدرد کیوں ہے انساں

تری نگاہوں میں ہے تبسم شکستہ ہونا مرے سبو کا

ریاض ہستی کے ذرے ذرے سے ہے محبت کا جلوہ پیدا

حقیقت گل کو تو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بو کا

تمام مضموں مرے پرانے ، کلام میرا خطا سراپا

ہنر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے میرے عیب جو کا

سپاس شرط ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر

ذرا سا اک دل دیا ہے ، وہ بھی فریب خوردہ ہے آرزو کا

کمال وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھیڑے

یقیں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا

گیا ہے تقلید کا زمانہ ، مجاز رخت سفر اٹھائے

ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا

جو گھر سے اقبال دور ہوں میں ، تو ہوں نہ محزوں عزیز میرے

مثال گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا

 

٭ ٭ ٭ ٭

چمک تیری عیاں بجلی میں ، آتش میں ، شرارے میں

جھلک تیری ہویدا چاند میں ،سورج میں ، تارے میں

بلندی آسمانوں میں ، زمینوں میں تری پستی

روانی بحر میں ، افتادگی تیری کنارے میں

شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی

چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں

جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے

شجر میں ، پھول میں ، حیواں میں ، پتھر میں ، ستارے میں

مجھے پھونکا ہے سوز قطرۂ اشک محبت نے

غضب کی آگ تھی پانی کے چھوٹے سے شرارے میں

نہیں جنس ثواب آخرت کی آرزو مجھ کو

وہ سوداگر ہوں ، میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں

سکوں نا آشنا رہنا اسے سامان ہستی ہے

تڑپ کس دل کی یا رب چھپ کے آ بیٹھی ہے پارے میں

صدائے لن ترانی سن کے اے اقبال میں چپ ہوں

تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فرقت کے مارے میں

 

٭ ٭ ٭ ٭

یوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے

اک ذرا افسردگی تیرے تماشاؤں میں تھی

پا گئی آسودگی کوئے محبت میں وہ خاک

مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحراؤں میں تھی

کس قدر اے مے! تجھے رسم حجاب آئی پسند

پردہ انگور سے نکلی تو میناؤں میں تھی

حسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم

اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی

میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈا عبث

بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی

 

٭ ٭ ٭ ٭

مثال پرتو مے ، طوف جام کرتے ہیں

یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں

خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری

شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں

نیا جہاں کوئی اے شمع ڈھونڈیے کہ یہاں

ستم کش تپش ناتمام کرتے ہیں

بھلی ہے ہم نفسو اس چمن میں خاموشی

کہ خوشنواؤں کو پابند دام کرتے ہیں

غرض نشاط ہے شغل شراب سے جن کی

حلال چیز کو گویا حرام کرتے ہیں

بھلا نبھے گی تری ہم سے کیونکر اے واعظ!

کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں

الہی سحر ہے پیران خرقہ پوش میں کیا!

کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں

میں ان کی محفل عشرت سے کانپ جاتا ہوں

جو گھر کو پھونک کے دنیا میں نام کرتے ہیں

ہرے رہو وطن مازنی کے میدانو!

جہاز پر سے تمھیں ہم سلام کرتے ہیں

جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبال

بلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں

 

مارچ 1907ء

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ، عام دیدار یار ہو گا

سکوت تھا پردہ دار جس کا ، وہ راز اب آشکار ہوگا

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے

بنے گا سارا جہان مے خانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے ، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے

برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہو گا

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر

جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا ، پھر استوار ہو گا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

کیا مرا تذکرہ جوساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں

تو پیر میخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے ، خوار ہو گا

دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زر کم عیار ہو گا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائدار ہو گا

سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا

ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا

چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو

یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا

جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا

یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا

کہا جو قمری سے میں نے اک دن ، یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں

تو غنچے کہنے لگے ، ہمارے چمن کا یہ راز دار ہو گا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

یہ رسم بزم فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبش نظر بھی

رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہو گا

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو

شرر فشاں ہوگی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہو گا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا

تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہو گا

نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانا ابھی وہی کیفیت ہے اس کی

کہیں سر رہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہو گا

***

تشکّر: علاّمہ اقبال ڈاٹ کام

مزید ٹائپنگ: مہوش علی، سیّدہ شگفتہ

پروف ریڈنگ اور ای بک: اعجاز عبید