FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ماہ نو

ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل

ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل

طشت گردوں میں ٹپکتا ہے شفق کا خون ناب

نشتر قدرت نے کیا کھولی ہے فصد آفتاب

چرخ نے بالی چرا لی ہے عروس شام کی

نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی

قافلہ تیرا رواں بے منت بانگ درا

گوش انساں سن نہیں سکتا تری آواز پا

گھٹنے بڑھنے کا سماں آنکھوں کو دکھلاتا ہے تو

ہے وطن تیرا کدھر ، کس دیس کو جاتا ہے تو

ساتھ اے سیارۂ ثابت نما لے چل مجھے

خار حسرت کی خلش رکھتی ہے اب بے کل مجھے

نور کا طالب ہوں ، گھبراتا ہوں اس بستی میں میں

طفلک سیماب پا ہوں مکتب ہستی میں میں

 

انسان اور بزم قدرت

صبح خورشید درخشاں کو جو دیکھا میں نے

بزم معمورۂ ہستی سے یہ پوچھا میں نے

پر تو مہر کے دم سے ہے اجالا تیرا

سیم سیال ہے پانی ترے دریاؤں کا

مہر نے نور کا زیور تجھے پہنایا ہے

تیری محفل کو اسی شمع نے چمکایا ہے

گل و گلزار ترے خلد کی تصویریں ہیں

یہ سبھی سورۂ ‘والشمس’ کی تفسیریں ہیں

سرخ پوشاک ہے پھولوں کی ، درختوں کی ہری

تیری محفل میں کوئی سبز ، کوئی لال پری

ہے ترے خیمۂ گردوں کی طلائی جھالر

بدلیاں لال سی آتی ہیں افق پر جو نظر

کیا بھلی لگتی ہے آنکھوں کو شفق کی لالی

مے گلرنگ خم شام میں تو نے ڈالی

رتبہ تیرا ہے بڑا ، شان بڑی ہے تیری

پردۂ نور میں مستور ہے ہر شے تیری

صبح اک گیت سراپا ہے تری سطوت کا

زیر خورشید نشاں تک بھی نہیں ظلمت کا

میں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگر

جل گیا پھر مری تقدیر کا اختر کیونکر؟

نور سے دور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میں

کیوں سیہ روز ، سیہ بخت ، سیہ کار ہوں میں؟

میں یہ کہتا تھا کہ آواز کہیں سے آئی

بام گردوں سے وہ یا صحن زمیں سے آئی

ہے ترے نور سے وابستہ مری بود و نبود

باغباں ہے تری ہستی پے گلزار وجود

انجمن حسن کی ہے تو ، تری تصویر ہوں میں

عشق کا تو ہے صحیفہ ، تری تفسیر ہوں میں

میرے بگڑے ہوئے کاموں کو بنایا تو نے

بار جو مجھ سے نہ اٹھا وہ اٹھایا تو نے

نور خورشید کی محتاج ہے ہستی میری

اور بے منت خورشید چمک ہے تری

ہو نہ خورشید تو ویراں ہو گلستاں میرا

منزل عیش کی جا نام ہو زنداں میرا

آہ اے راز عیاں کے نہ سمجھے والے!

حلقۂ  دام تمنا میں الجھنے والے

ہائے غفلت کہ تری آنکھ ہے پابند مجاز

ناز زیبا تھا تجھے ، تو ہے مگر گرم نیاز

تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے

نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے

 

پیا م صبح

( ماخوذ از لانگ فیلو)

اجالا جب ہوا رخصت جبین شب کی افشاں کا

نسیم زندگی پیغام لائی صبح خنداں کا

جگایا بلبل رنگیں نوا کو آشیانے میں

کنارے کھیت کے شانہ ہلایا اس نے دہقاں کا

طلسم ظلمت شب سورۂ والنور سے توڑا

اندھیرے میں اڑایا تاج زر شمع شبستاں کا

پڑھا خوابیدگان دیر پر افسون بیداری

برہمن کو دیا پیغام خورشید درخشاں کا

ہوئی بام حرم پر آ کے یوں گویا مؤذن سے

نہیں کھٹکا ترے دل میں نمود مہر تاباں کا؟

پکاری اس طرح دیوار گلشن پر کھڑے ہو کر

چٹک او غنچۂ گل! تو مؤذن ہے گلستاں کا

دیا یہ حکم صحرا میں چلو اے قافلے والو!

چمکنے کو ہے جگنو بن کے ہر ذرہ بیاباں کا

سوئے گور غریباں جب گئی زندوں کی بستی سے

تو یوں بولی نظارا دیکھ کر شہر خموشاں کا

ابھی آرام سے لیٹے رہو ، میں پھر بھی آؤں گی

سلادوں گی جہاں کو خواب سے تم کو جگاؤں گی

عشق اور موت

( ماخو ذ از ٹینی سن)

 

 

سہانی نمود جہاں کی گھڑی تھی

تبسم فشاں زندگی کی کلی تھی

کہیں مہر کو تاج زر مل رہا تھا

عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی

سیہ پیرہن شام کو دے رہے تھے

ستاروں کو تعلیم تابندگی تھی

کہیں شاخ ہستی کو لگتے تھے پتے

کہیں زندگی کی کلی پھوٹتی تھی

فرشتے سکھاتے تھے شبنم کو رونا

ہنسی گل کو پہلے پہل آ رہی تھی

عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو

خودی تشنۂ کام مے بے خودی تھی

اٹھی اول اول گھٹا کالی کالی

کوئی حور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی

زمیں کو تھا دعوی کہ میں آسماں ہوں

مکاں کہہ رہا تھا کہ میں لا مکاں ہوں

غرض اس قدر یہ نظارہ تھا پیارا

کہ نظارگی ہو سراپا نظارا

ملک آزماتے تھے پرواز اپنی

جبینوں سے نور ازل آشکارا

فرشتہ تھا اک ، عشق تھا نام جس کا

کہ تھی رہبری اس کی سب کا سہارا

فرشتہ کہ پتلا تھا بے تابیوں کا

ملک کا ملک اور پارے کا پارا

پے سیر فردوس کو جا رہا تھا

قضا سے ملا راہ میں وہ قضا را

یہ پوچھا ترا نام کیا ، کام کیا ہے

نہیں آنکھ کو دید تیری گوارا

ہوا سن کے گویا قضا کا فرشتہ

اجل ہوں ، مرا کام ہے آشکارا

اڑاتی ہوں میں رخت ہستی کے پرزے

بجھاتی ہوں میں زندگی کا شرارا

مری آنکھ میں جادوئے نیستی ہے

پیام فنا ہے اسی کا اشارا

مگر ایک ہستی ہے دنیا میں ایسی

وہ آتش ہے میں سامنے اس کے پارا

شرر بن کے رہتی ہے انساں کے دل میں

وہ ہے نور مطلق کی آنکھوں کا تارا

ٹپکتی ہے آنکھوں سے بن بن کے آنسو

وہ آنسو کہ ہو جن کی تلخی گوارا

سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی

ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا

گری اس تبسم کی بجلی اجل پر

اندھیرے کا ہو نور میں کیا گزارا!

بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی وہ

قضا تھی شکار قضا ہو گئی وہ

 

زہد اور رندی

اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی

تیزی نہیں منظور طبیعت کی دکھانی

شہرہ تھا بہت آپ کی صوفی منشی کا

کرتے تھے ادب ان کا اعالی و ادانی

کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوف میں شریعت

جس طرح کہ الفاظ میں مضمر ہوں معانی

لبریز مۓ زہد سے تھی دل کی صراحی

تھی تہ میں کہیں درد خیال ہمہ دانی

کرتے تھے بیاں آپ کرامات کا اپنی

منظور تھی تعداد مریدوں کی بڑھانی

مدت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے

تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی

حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پوچھا

اقبال ، کہ ہے قمری شمشاد معانی

پابندی احکام شریعت میں ہے کیسا؟

گو شعر میں ہے رشک کلیم ہمدانی

سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا

ہے ایسا عقیدہ اثر فلسفہ دانی

ہے اس کی طبیعت میں تشیع بھی ذرا سا

تفضیل علی ہم نے سنی اس کی زبانی

سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل

مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی

کچھ عار اسے حسن فروشوں سے نہیں ہے

عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی

گانا جو ہے شب کو تو سحر کو ہے تلاوت

اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی

لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے

بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی

مجموعۂ اضداد ہے ، اقبال نہیں ہے

دل دفتر حکمت ہے ، طبیعت خفقانی

رندی سے بھی آگاہ شریعت سے بھی واقف

پوچھو جو تصوف کی تو منصور کا ثانی

اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی

ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی

القصہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے

تا دیر رہی آپ کی یہ نغز بیانی

اس شہر میں جو بات ہو اڑ جاتی ہے سب میں

میں نے بھی سنی اپنے احبا کی زبانی

اک دن جو سر راہ ملے حضرت زاہد

پھر چھڑ گئی باتوں میں وہی بات پرانی

فرمایا ، شکایت وہ محبت کے سبب تھی

تھا فرض مرا راہ شریعت کی دکھانی

میں نے یہ کہا کوئی گلہ مجھ کو نہیں ہے

یہ آپ کا حق تھا ز رہ قرب مکانی

خم ہے سر تسلیم مرا آپ کے آگے

پیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی

گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت

پیدا نہیں کچھ اس سے قصور ہمہ دانی

میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا

گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی

مجھ کو بھی تمنا ہے کہ ‘اقبال’ کو دیکھوں

کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی

اقبال بھی ‘اقبال’ سے آگاہ نہیں ہے

کچھ اس میں تمسخر نہیں ، واللہ نہیں ہے

شاعر

قوم گویا جسم ہے ، افراد ہیں اعضائے قوم

منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم

محفل نظم حکومت ، چہرۂ زیبائے قوم

شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ

کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

دل

قصۂ دار و رسن بازئ طفلانۂ دل

التجائے ‘ارنی’ سرخی افسانۂ دل

یا رب اس ساغر لبریز کی مے کیا ہو گی

جاوۂ ملک بقا ہے خط پیمانۂ دل

ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب!

جل گئی مزرع ہستی تو اگا دانۂ دل

حسن کا گنج گراں مایہ تجھے مل جاتا

تو نے فرہاد! نہ کھودا کبھی ویرانۂ دل!

عرش کا ہے کبھی کعبے کا ہے دھوکا اس پر

کس کی منزل ہے الہی! مرا کاشانۂ دل

اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھے سودا اپنا

دل کسی اور کا دیوانہ ، میں دیوانۂ دل

تو سمجھتا نہیں اے زاہد ناداں اس کو

رشک صد سجدہ ہے اک لغزش مستانۂ دل

خاک کے ڈھیر کو اکسیر بنا دیتی ہے

وہ اثر رکھتی ہے خاکستر پروانۂ دل

عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے

برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے

مو ج دریا

مضطرب رکھتا ہے میرا دل بے تاب مجھے

عین ہستی ہے تڑپ صورت سیماب مجھے

موج ہے نام مرا ، بحر ہے پایاب مجھے

ہو نہ زنجیر کبھی حلقۂ گرداب مجھے

آب میں مثل ہوا جاتا ہے توسن میرا

خار ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن میرا

میں اچھلتی ہوں کبھی جذب مہ کامل سے

جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے

ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے

کیوں تڑپتی ہوں ، یہ پوچھے کوئی میرے دل سے

زحمت تنگی دریا سے گریزاں ہوں میں

وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں

رخصت اے بزم جہاں

(ماخوذ از ایمرسن)

رخصت اے بزم جہاں! سوئے وطن جاتا ہوں میں

آہ! اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں میں

بسکہ میں افسردہ دل ہوں ، درخور محفل نہیں

تو مرے قابل نہیں ہے ، میں ترے قابل نہیں

قید ہے ، دربار سلطان و شبستان وزیر

توڑ کر نکلے گا زنجیر طلائی کا اسیر

گو بڑی لذت تری ہنگامہ آرائی میں ہے

اجنبیت سی مگر تیری شناسائی میں ہے

مدتوں تیرے خود آراؤں سے ہم صحبت رہا

مدتوں بے تاب موج بحر کی صورت رہا

مدتوں بیٹھا ترے ہنگامۂ عشرت میں میں

روشنی کی جستجو کرتا رہا ظلمت میں میں

مدتوں ڈھونڈا کیا نظارۂ گل خار میں

آہ ، وہ یوسف نہ ہاتھ آیا ترے بازار میں

چشم حیراں ڈھونڈتی اب اور نظارے کو ہے

آرزو ساحل کی مجھ طوفان کے مارے کو ہے

چھوڑ کر مانند بو تیرا چمن جاتا ہوں میں

رخصت اے بزم جہاں! سوئے وطن جاتا ہوں میں

گھر بنایا ہے سکوت دامن کہسار میں

آہ! یہ لذت کہاں موسیقی گفتار میں

ہم نشین نرگس شہلا ، رفیق گل ہوں میں

ہے چمن میرا وطن ، ہمسایۂ بلبل ہوں میں

شام کو آواز چشموں کی سلاتی ہے مجھے

صبح فرش سبز سے کوئل جگاتی ہے مجھے

بزم ہستی میں ہے سب کو محفل آرائی پسند

ہے دل شاعر کو لیکن کنج تنہائی پسند

ہے جنوں مجھ کو کہ گھبراتا ہوں آبادی میں میں

ڈھونڈتا پھرتا ہوں کس کو کوہ کی وادی میں میں ؟

شوق کس کا سبزہ زاروں میں پھراتا ہے مجھے

اور چشموں کے کنارے پر سلاتا ہے مجھے؟

طعنہ زن ہے تو کہ شیدا کنج عزلت کا ہوں میں

دیکھ اے غافل! پیامی بزم قدرت کا ہوں میں

ہم وطن شمشاد کا ، قمری کا میں ہم راز ہوں

اس چمن کی خامشی میں گوش بر آواز ہوں

کچھ جو سنتا ہوں تو اوروں کو سنانے کے لیے

دیکھتا ہوں کچھ تو اوروں کو دکھانے کے لیے

عاشق عزلت ہے دل ، نازاں ہوں اپنے گھر پہ میں

خندہ زن ہوں مسند دارا و اسکندر پہ میں

 

طفل شیر خوار

میں نے چاقو تجھ سے چھینا ہے تو چلاتا ہے تو

مہرباں ہوں میں ، مجھے نا مہرباں سمجھا ہے تو

پھر پڑا روئے گا اے نووارد اقلیم غم

چبھ نہ جائے دیکھنا! ، باریک ہے نوک قلم

آہ! کیوں دکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے

کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے ، یہ بے آزار ہے

گیند ہے تیری کہاں ، چینی کی بلی ہے کد ھر؟

وہ ذرا سا جانور ٹوٹا ہوا ہے جس کا سر

تیرا آئینہ تھا آزاد غبار آرزو

آنکھ کھلتے ہی چمک اٹھا شرار آرزو

ہاتھ کی جنبش میں ، طرز دید میں پوشیدہ ہے

تیری صورت آرزو بھی تیری نوزائیدہ ہے

زندگانی ہے تری آزاد قید امتیاز

تیری آنکھوں پر ہویدا ہے مگر قدرت کا راز

جب کسی شے پر بگڑ کر مجھ سے ، چلاتا ہے تو

کیا تماشا ہے ردی کاغذ سے من جاتا ہے تو

آہ! اس عادت میں ہم آہنگ ہوں میں بھی ترا

تو تلون آشنا ، میں بھی تلون آشنا

عارضی لذت کا شیدائی ہوں ، چلاتا ہوں میں

جلد آ جاتا ہے غصہ ، جلد من جاتا ہوں میں

میری آنکھوں کو لبھا لیتا ہے حسن ظاہری

کم نہیں کچھ تیری نادانی سے نادانی مری

تیری صورت گاہ گریاں گاہ خنداں میں بھی ہوں

دیکھنے کو نوجواں ہوں ، طفل ناداں میں بھی ہوں

 

تصویر درد

نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری

خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

اٹھائے کچھ ورق لالے نے ، کچھ نرگس نے ، کچھ گل نے

چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

اڑالی قمریوں نے ، طوطیوں نے ، عندلبوں نے

چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری

ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے

سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری

الہی! پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا

حیات جاوداں میری ، نہ مرگ ناگہاں میری!

مرا رونا نہیں ، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا

وہ گل ہوں میں ، خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری

"دریں حسرت سرا عمریست افسون جرس دارم

ز فیض دل تپیدنہا خروش بے نفس دارم”

ریاض دہر میں نا آشنائے بزم عشرت ہوں

خوشی روتی ہے جس کو ، میں وہ محروم مسرت ہوں

مری بگڑی ہوئی تقدیر کو روتی ہے گویائی

میں حرف زیر لب ، شرمندۂ گوش سماعت ہوں

پریشاں ہوں میں مشت خاک ، لیکن کچھ نہیں کھلتا

سکندر ہوں کہ آئینہ ہوں یا گرد کدورت ہوں

یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا

سراپا نور ہو جس کی حقیقت ، میں وہ ظلمت ہوں

خزینہ ہوں ، چھپایا مجھ کو مشت خاک صحرا نے

کسی کیا خبر ہے میں کہاں ہوں کس کی دولت ہوں!

نظر میری نہیں ممنون سیر عرصۂ ہستی

میں وہ چھوٹی سی دنیا ہوں کہ آپ اپنی ولایت ہوں

نہ صہبا ہوں نہ ساقی ہوں نہ مستی ہوں نہ پیمانہ

میں اس میخانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں

مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے

وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے

عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگیں بیانوں میں

کہ بام عرش کے طائر ہیں میرے ہم زبانوں میں

اثر یہ بھی ہے اک میرے جنون فتنہ ساماں کا

مرا آئینۂ دل ہے قضا کے راز دانوں میں

رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو

کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں

دیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے دیا گویا

لکھا کلک ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں

نشان برگ گل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گلچیں!

تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں

چھپاکر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے

عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

سن اے غافل صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو

وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے

تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے

دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں

یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر

زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!

تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے

جو ہے راہ عمل میں گام زن، محبوب فطرت ہے

ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا

لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا

جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے

تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا

مگر غنچوں کی صورت ہوں دل درد آشنا پیدا

چمن میں مشت خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑوں گا

پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو

جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا

مجھے اے ہم نشیں رہنے دے شغل سینہ کاوی میں

کہ میں داغ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا

دکھا دوں گا جہاں کو جو مر ی آنکھوں نے دیکھا ہے

تجھے بھی صورت آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا

جو ہے پردوں میں پنہاں، چشم بینا دیکھ لیتی ہے

زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے

کیا رفعت کی لذت سے نہ دل کو آشنا تو نے

گزاری عمر پستی میں مثال نقش پا تو نے

رہا دل بستۂ محفل، مگر اپنی نگاہوں کو

کیا بیرون محفل سے نہ حیرت آشنا تو نے

فدا کرتا رہا دل کو حسنیوں کی اداؤں پر

مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی ادا تو نے

تعصب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں

یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے

سراپا نالۂ بیداد سوز زندگی ہو جا

سپند آسا گرہ میں باندھ رکھی ہے صدا تو نے

صفائے دل کو کیا آرائش رنگ تعلق سے

کف آئینہ پر باندھی ہے او ناداں حنا تو نے

زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے

غضب ہے سطر قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے

زباں سے گر کیا توحید کا دعوی تو کیا حاصل!

بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے

کنویں میں تو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا

ارے غافل! جو مطلق تھا مقید کر دیا تو نے

ہوس بالائے منبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی

نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی

دکھا وہ حسن عالم سوز اپنی چشم پرنم کو

جو تڑپاتا ہے پروانے کو، رلواتا ہے شبنم کو

نرا نظارہ ہی اے بوالہوس مقصد نہیں اس کا

بنایا ہے کسی نے کچھ سمجھ کر چشم آدم کو

اگر دیکھا بھی اس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا

نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو

شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا

یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو

نہ اٹھا جذبۂ خورشید سے اک بر گ گل تک بھی

یہ رفعت کی تمنا ہے کہ لے اڑتی ہے شبنم کو

پھرا کرتے نہیں مجروح الفت فکر درماں میں

یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو

محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے

ذرا سے بیج سے پیدا ریاض طور ہوتا ہے

دوا ہر دکھ کی ہے مجروح تیغ آرزو رہنا

علاج زخم ہے آزاد احسان رفو رہنا

شراب بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری

شکت رنگ سے سیکھا ہے میں نے بن کے بو رہنا

تھمے کیا دیدۂ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں

عبادت چشم شاعر کی ہے ہر دم با وضو رہنا

بنائیں کیا سمجھ کر شاخ گل پر آشیاں اپنا

چمن میں آہ! کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا

جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں

غلامی ہے اسیر امتیاز ماو تو رہنا

یہ استغنا ہے ، پانی میں نگوں رکھتا ہے ساغر کو

تجھے بھی چاہیے مثل حباب آبجو رہنا

نہ رہ اپنوں سے بے پروا ، اسی میں خیر ہے تیری

اگر منظور ہے دنیا میں او بیگانہ خو رہنا

شراب روح پرور ہے محبت نوع انساں کی

سکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام و سبو رہنا

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے

کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے

بیابان محبت دشت غربت بھی ، وطن بھی ہے

یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی ، چمن بھی ہے

محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے ، صحرا بھی

جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے

مرض کہتے ہیں سب اس کو، یہ ہے لیکن مرض ایسا

چھپا جس میں علاج گردش چرخ کہن بھی ہے

جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا

یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے

وہی اک حسن ہے، لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں

یہ شیریں بھی ہے گویا بیستوں بھی ، کوہکن بھی ہے

اجاڑا ہے تمیز ملت و آئیں نے قوموں کو

مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے؟

سکوت آموز طول داستان درد ہے ورنہ

زباں بھی ہے ہمارے منہ میں اور تاب سخن بھی ہے

نمیگردید کوتہ رشتۂ معنی رہا کر دم

حکایت بود بے پایاں، بخاموشی ادا کر دم

نالۂ فراق

(آرنلڈ کی یاد میں)

جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں

آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سر زمیں

آ گیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں

ظلمت شب سے ضیائے روز فرقت کم نہیں

”تا ز آغوش وداعش داغ حیرت چیدہ است

ہمچو شمع کشتہ در چشم نگہ خوابیدہ است”

کشتۂ عزلت ہوں، آبادی میں گھبراتا ہوں میں

شہر سے سودا کی شدت میں نکل جاتا ہوں میں

یاد ایام سلف سے دل کو تڑپاتا ہوں میں

بہر تسکیں تیری جانب دوڑتا آتا ہوں میں

آنکھ گو مانوس ہے تیرے در و دیوار سے

اجنبیت ہے مگر پیدا مری رفتار سے

ذرہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا

آئنہ ٹوٹا ہوا عالم نما ہونے کو تھا

نخل میری آرزوؤں کا ہرا ہونے کو تھا

آہ! کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا

ابر رحمت دامن از گلزار من برچید و رفت

اند کے بر غنچہ ہائے آرزو بارید و رفت

تو کہاں ہے اے کلیم ذروۂ سینائے علم

تھی تری موج نفس باد نشاط افزائے علم

اب کہاں وہ شوق رہ پیمائی صحرائے علم

تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم

”شور لیلی کو کہ باز آرایش سودا کند

خاک مجنوں را غبار خاطر صحرا کند

کھول دے گا دشت وحشت عقدۂ تقدیر کو

توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو

دیکھتا ہے دیدۂ حیراں تری تصویر کو

کیا تسلی ہو مگر گرویدۂ تقریر کو

”تاب گویائی نہیں رکھتا دہن تصویر کا

خامشی کہتے ہیں جس کو، ہے سخن تصویر کا”

چاند

میرے ویرانے سے کوسوں دور ہے تیرا وطن

ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موجزن

قصد کس محفل کا ہے؟ آتا ہے کس محفل سے تو؟

زرد رو شاید ہوا رنج رہ منزل سے تو

آفرنیش میں سراپا نور ، ظلمت ہوں میں

اس سیہ روزی پہ لیکن تیرا ہم قسمت ہوں میں

آہ ، میں جلتا ہوں سوز اشتیاق دید سے

تو سراپا سوز داغ منت خورشید سے

ایک حلقے پر اگر قائم تری رفتار ہے

میری گردش بھی مثال گردش پرکار ہے

زندگی کی رہ میں سرگرداں ہے تو، حیراں ہوں میں

تو فروزاں محفل ہستی میں ہے ، سوزاں ہوں میں

میں رہ منزل میں ہوں، تو بھی رہ منزل میں ہے

تیری محفل میں جو خاموشی ہے ، میرے دل میں ہے

تو طلب خو ہے تو میرا بھی یہی دستور ہے

چاندنی ہے نور تیرا، عشق میرا نور ہے

انجمن ہے ایک میری بھی جہاں رہتا ہوں میں

بزم میں اپنی اگر یکتا ہے تو، تنہا ہوں میں

مہر کا پرتو ترے حق میں ہے پیغام اجل

محو کر دیتا ہے مجھ کو جلوۂ حسن ازل

پھر بھی اے ماہ مبیں! میں اور ہوں تو اور ہے

درد جس پہلو میں اٹھتا ہو وہ پہلو اور ہے

گرچہ میں ظلمت سراپا ہوں، سراپا نور تو

سینکڑوں منزل ہے ذوق آگہی سے دور تو

جو مری ہستی کا مقصد ہے ، مجھے معلوم ہے

یہ چمک وہ ہے، جبیں جس سے تری محروم ہے

 

بلال

چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا

حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا

ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی

تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے

کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے

جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں

ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں

نظر تھی صورت سلماں ادا شناس تری

شراب دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری

تجھے نظارے کا مثل کلیم سودا تھا

اویس طاقت دیدار کو ترستا تھا

مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا

ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا

تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرت دید

خنک دلے کہ تپید و دمے نیا سائید

گری وہ برق تری جان ناشکیبا پر

کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دست موسی پر

تپش ز شعلہ گر فتند و بر دل تو زدند

چہ برق جلوہ بخاشاک حاصل تو زدند

ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری

کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی

نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی

خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا

خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا

 

سر گزشت آدم

سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے

بھلایا قصۂ پیمان اولیں میں نے

لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں

پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے

رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو

دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے

ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا

کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے

نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی

کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے

کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا

چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے

کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا

کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے

کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں

دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے

سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی

پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے

دیار ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی

بسایا خطۂ جاپان و ملک چیں میں نے

بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم

خلاف معنی تعلیم اہل دیں میں نے

لہو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو

جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے

سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی

اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے

ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں

سکھایا مسئلۂ گردش زمیں میں نے

کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر

لگا کے آئنۂ عقل دور بیں میں نے

کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو

بنادی غیرت جنت یہ سر زمیں میں نے

مگر خبر نہ ملی آہ! راز ہستی کی

کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے

ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر

تو پایا خانۂ دل میں اسے مکیں میں نے

ترانۂ ہندی

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا

غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں

سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا

پربت وہ سب سے اونچا، ہمسایہ آسماں کا

وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا

گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں

گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا

اے آب رود گنگا، وہ دن ہیں یاد تجھ کو؟

اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے

اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا

اقبال! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں

معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا

 

جگنو

جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں

یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں

آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ

یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں

یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا

غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں

تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا

ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں

حسن قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی

لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں

چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی

نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں

پروانہ اک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگا

وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا

ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی

پروانے کو تپش دی، جگنو کو روشنی دی

رنگیں نوا بنایا مرغان بے زباں کو

گل کو زبان دے کر تعلیم خامشی دی

نظارۂ شفق کی خوبی زوال میں تھی

چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی

رنگیں کیا سحر کو، بانکی دلھن کی صورت

پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی

سایہ دیا شجر کو، پرواز دی ہوا کو

پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی

یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری

جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری

حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے

انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے

یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا

واں چاندنی ہے جو کچھ، یاں درد کی کسک ہے

انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ

نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی چہک ہے

کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی

جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے

یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو

ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشیِ ازل ہو

Pages: 1 2 3