فہرست مضامین
صبح کا ستارہ
لطف ہمسایگی شمس و قمر کو چھوڑوں
اور اس خدمت پیغام سحر کو چھوڑوں
میرے حق میں تو نہیں تاروں کی بستی اچھی
اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھی
آسماں کیا ، عدم آباد وطن ہے میرا
صبح کا دامن صد چاک کفن ہے میرا
میری قسمت میں ہے ہر روز کا مرنا جینا
ساقی موت کے ہاتھوں سے صبوحی پینا
نہ یہ خدمت، نہ یہ عزت، نہ یہ رفعت اچھی
اس گھڑی بھر کے چمکنے سے تو ظلمت اچھی
میری قدرت میں جو ہوتا، تو نہ اختر بنتا
قعر دریا میں چمکتا ہوا گوہر بنتا
واں بھی موجوں کی کشاکش سے جو دل گھبراتا
چھوڑ کر بحر کہیں زیب گلو ہو جاتا
ہے چمکنے میں مزا حسن کا زیور بن کر
زینت تاج سر بانوئے قیصر بن کر
ایک پتھر کے جو ٹکڑے کا نصیبا جاگا
خاتم دست سلیماں کا نگیں بن کے رہا
ایسی چیزوں کا مگر دہر میں ہے کام شکست
ہے گہر ہائے گراں مایہ کا انجام شکست
زندگی وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل
کیا وہ جینا ہے کہ ہو جس میں تقاضائے اجل
ہے یہ انجام اگر زینت عالم ہو کر
کیوں نہ گر جاؤ ں کسی پھول پہ شبنم ہو کر!
کسی پیشانی کے افشاں کے ستاروں میں رہوں
کس مظلوم کی آہوں کے شراروں میں رہوں
اشک بن کر سرمژگاں سے اٹک جاؤں میں
کیوں نہ اس بیوی کی آنکھوں سے ٹپک جاؤں میں
ق
جس کا شوہر ہو رواں، ہو کے زرہ میں مستور
سوئے میدان وغا ، حبِّ وطن سے مجبور
یاس و امید کا نظارہ جو دکھلاتی ہو
جس کی خاموشی سے تقریر بھی شرماتی ہو
جس کو شوہر کی رضا تاب شکیبائی دے
اور نگاہوں کو حیا طاقت گویائی دے
زرد ، رخصت کی گھڑی ، عارض گلگوں ہو جائے
کشش حسن غم ہجر سے افزوں ہو جائے
لاکھ وہ ضبط کرے پر میں ٹپک ہی جاؤں
ساغر دیدۂ پرنم سے چھلک ہی جاؤں
خاک میں مل کے حیات ابدی پا جاؤں
عشق کا سوز زمانے کو دکھاتا جاؤں
ہندوستانی بچوں کا قومی گیت
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے
یونانیوں کو جس نے حیران کر دیا تھا
سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا
مٹی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا
ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
بندے کلیم جس کے ، پربت جہاں کے سینا
نوح نبی کا آ کر ٹھہرا جہاں سفینا
رفعت ہے جس زمیں کی بام فلک کا زینا
جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
لاہور و کراچی
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
آہ! اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں
حرف ‘لا تدع مع اللہ الھاً آخر’
نیا شوالا
سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
تنگ آ کے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
آ ، غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں
بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقش دوئی مٹا دیں
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ ، اک نیا شوالا اس دیس میں بنا دیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامان آسماں سے اس کا کلس ملا دیں
ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ مٹیھے مٹیھے
سارے پجاریوں کو مے پیت کی پلا دیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
داغ
عظمت غالب ہے اک مدت سے پیوند زمیں
مہدی مجروح ہے شہر خموشاں کا مکیں
توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیر
چشم محفل میں ہے اب تک کیف صہبائے امیر
آج لیکن ہمنوا! سارا چمن ماتم میں ہے
شمع روشن بجھ گئی، بزم سخن ماتم میں ہے
بلبل دلی نے باندھا اس چمن میں آشیاں
ہم نوا ہیں سب عنادل باغ ہستی کے جہاں
چل بسا داغ آہ! میت اس کی زیب دوش ہے
آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے
اب کہاں وہ بانکپن، وہ شوخئ طرز بیاں
آگ تھی کافور پیری میں جوانی کی نہاں
تھی زبان داغ پر جو آرزو ہر دل میں ہے
لیلی معنی وہاں بے پردہ، یاں محمل میں ہے
اب صبا سے کون پوچھے گا سکوت گل کا راز
کون سمجھے گا چمن میں نالۂ بلبل کا راز
تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں
آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
اور دکھلائیں گے مضموں کی ہمیں باریکیاں
اپنے فکر نکتہ آرا کی فلک پیمائیاں
تلخی دوراں کے نقشے کھینچ کر رلوائیں گے
یا تخیل کی نئی دنیا ہمیں دکھلائیں گے
اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی
سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے، صاحب اعجاز بھی
اٹھیں گے آزر ہزاروں شعر کے بت خانے سے
مے پلائیں گے نئے ساقی نئے پیمانے سے
لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت
ہوں گی اے خواب جوانی! تیری تعبیریں بہت
ہوبہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون ؟
اٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پر تیر کون ؟
اشک کے دانے زمین شعر میں بوتا ہوں میں
تو بھی رو اے خاک دلی! داغ کو روتا ہوں میں
اے جہان آباد، اے سرمایۂ بزم سخن
ہوگیا پھر آج پامال خزاں تیرا چمن
وہ گل رنگیں ترا رخصت مثال بو ہوا
آہ! خالی داغ سے کاشانۂ اردو ہوا
تھی نہ شاید کچھ کشش ایسی وطن کی خاک میں
وہ مہ کامل ہوا پنہاں دکن کی خاک میں
اٹھ گئے ساقی جو تھے، میخانہ خالی رہ گیا
یادگار بزم دہلی ایک حالی رہ گیا
آرزو کو خون رلواتی ہے بیداد اجل
مارتا ہے تیر تاریکی میں صیاد اجل
کھل نہیں سکتی شکایت کے لیے لیکن زباں
ہے خزاں کا رنگ بھی وجہ قیام گلستاں
ایک ہی قانون عالم گیر کے ہیں سب اثر
بوۓ گل کا باغ سے، گلچیں کا دنیا سے سفر
ابر
اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا
سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا
نہاں ہوا جو رخ مہر زیر دامن ابر
ہوائے سرد بھی آئی سوار توسن ابر
گرج کا شور نہیں ہے ، خموش ہے یہ گھٹا
عجیب مے کدۂ بے خروش ہے یہ گھٹا
چمن میں حکم نشاط مدام لائی ہے
قبائے گل میں گہر ٹانکنے کو آئی ہے
جو پھول مہر کی گرمی سے سو چلے تھے ، اٹھے
زمیں کی گود میں جو پڑ کے سو رہے تھے ، اٹھے
ہوا کے زور سے ابھرا، بڑھا، اڑا بادل
اٹھی وہ اور گھٹا، لو! برس پڑا بادل
عجیب خیمہ ہے کہسار کے نہالوں کا
یہیں قیام ہو وادی میں پھرنے والوں کا
ایک پرندہ اور جگنو
سر شام ایک مرغ نغمہ پیرا
کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا
چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر
اڑا طائر اسے جگنو سمجھ کر
کہا جگنو نے او مرغ نوا ریز!
نہ کر بے کس پہ منقار ہوس تیز
تجھے جس نے چہک ، گل کو مہک دی
اسی اللہ نے مجھ کو چمک دی
لباس نور میں مستور ہوں میں
پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں میں
چہک تیری بہشت گوش اگر ہے
چمک میری بھی فردوس نظر ہے
پروں کو میرے قدرت نے ضیا دی
تجھے اس نے صدائے دل ربا دی
تری منقار کو گانا سکھایا
مجھے گلزار کی مشعل بنایا
چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو
دیا ہے سوز مجھ کو، ساز تجھ کو
مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز
جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز
قیام بزم ہستی ہے انھی سے
ظہور اوج و پستی ہے انھی سے
ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی
اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی
بچّہ اور شمع
کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلک پروانہ خو!
شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو
یہ مری آغوش میں بیٹھے ہوئے جنبش ہے کیا
روشنی سے کیا بغل گیری ہے تیرا مدعا؟
اس نظارے سے ترا ننھا سا دل حیران ہے
یہ کسی دیکھی ہوئی شے کی مگر پہچان ہے
شمع اک شعلہ ہے لیکن تو سراپا نور ہے
آہ! اس محفل میں یہ عریاں ہے تو مستور ہے
دست قدرت نے اسے کیا جانے کیوں عریاں کیا!
تجھ کو خاک تیرہ کے فانوس میں پنہاں کیا
نور تیرا چھپ گیا زیر نقاب آگہی
ہے غبار دیدۂ بینا حجاب آگہی
زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ
خواب ہے، غفلت ہے، سرمستی ہے، بے ہوشی ہے یہ
محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایان حسن
آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفان حسن
حسن ، کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے
مہر کی ضوگستری، شب کی سیہ پوشی میں ہے
آسمان صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ
شام کی ظلمت، شفق کی گل فرو شی میں ہے یہ
عظمت دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار میں
طفلک ناآشنا کی کوشش گفتار میں
ساکنان صحن گلشن کی ہم آوازی میں ہے
ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے
چشمۂ کہسار میں ، دریا کی آزادی میں حسن
شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں، آبادی میں حسن
روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس
ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثل جرس!
حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے
زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے
کنار راوی
سکوت شام میں محو سرود ہے راوی
نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی
پیام سجدے کا یہ زیر و بم ہوا مجھ کو
جہاں تمام سواد حرم ہوا مجھ کو
سر کنارۂ آب رواں کھڑا ہوں میں
خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں
شراب سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامن شام
لیے ہے پیر فلک دست رعشہ دار میں جام
عدم کو قافلۂ روز تیز گام چلا
شفق نہیں ہے ، یہ سورج کے پھول ہیں گویا
کھڑے ہیں دور وہ عظمت فزائے تنہائی
منار خواب گہ شہسوار چغتائی
فسانۂ ستم انقلاب ہے یہ محل
کوئی زمان سلف کی کتاب ہے یہ محل
مقام کیا ہے سرود خموش ہے گویا
شجر ، یہ انجمن بے خروش ہے گویا
رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂ تیز
ہوا ہے موج سے ملاح جس کا گرم ستیز
سبک روی میں ہے مثل نگاہ یہ کشتی
نکل کے حلقۂ حد نظر سے دور گئی
جہاز زندگی آدمی رواں ہے یونہی
ابد کے بحر میں پیدا یونہی ، نہاں ہے یونہی
شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا
نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا
التجائے مسافر
(بہ درگاہ حضرت محبوب الٰہی، دہلی)
فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا
بڑی جناب تری، فیض عام ہے تیرا
ستارے عشق کے تیری کشش سے ہیں قائم
نظام مہر کی صورت نظام ہے تیرا
تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی
مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا
نہاں ہے تیری محبت میں رنگ محبوبی
بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تیرا
اگر سیاہ دلم، داغ لالہ زار تو ام
و گر کشادہ جبینم، گل بہار تو ام
چمن کو چھوڑ کے نکلا ہوں مثل نکہت گل
ہوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
نظر ہے ابر کرم پر ، درخت صحرا ہوں
کیا خدا نے نہ محتاج باغباں مجھ کو
فلک نشیں صفت مہر ہوں زمانے میں
تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو
مقام ہم سفروں سے ہوا اس قدر آگے
کہ سمجھے منزل مقصود کارواں مجھ کو
مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے
کسی سے شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجھ کو
دلوں کو چاک کرے مثل شانہ جس کا اثر
تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجھ کو
بنایا تھا جسے چن چن کے خار و خس میں نے
چمن میں پھر نظر آئے وہ آشیاں مجھ کو
پھر آ رکھوں قدم مادر و پدر پہ جبیں
کیا جنھوں نے محبت کا راز داں مجھ کو
وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی
رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو
نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
دعا یہ کر کہ خداوند آسمان و زمیں
کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو
وہ میرا یوسف ثانی وہ شمع محفل عشق
ہوئی ہے جس کی اخوت قرار جاں مجھ کو
جلا کے جس کی محبت نے دفتر من و تو
ہوائے عیش میں پالا، کیا جواں مجھ کو
ریاض دہر میں مانند گل رہے خنداں
کہ ہے عزیز تر از جاں وہ جان جاں مجھ کو
شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے!
یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے!
غزلیات
٭ ٭ ٭ ٭
گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
آیا ہے تو جہاں میں مثال شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستی ناپائدار دیکھ
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ
کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہ گزر میں نقش کف پائے یار دیکھ
٭ ٭ ٭ ٭
نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
کھنچے خود بخود جانب طور موسی
کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی!
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی
٭ ٭ ٭ ٭
عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب
عداوت ہے اسے سارے جہاں سے
کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں
کہاں جاتا ہے، آتا ہے کہاں سے
وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
ہم اپنی درد مندی کا فسانہ
سنا کرتے ہیں اپنے راز داں سے
بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں
لرز جاتا ہے آواز اذاں سے
٭ ٭ ٭ ٭
لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے
وائے ناکامی ، فلک نے تاک کر توڑا اسے
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے
آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و دو ملت سے تری
ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے
دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں
لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے
جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو
آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے
پاس تھا ناکامی صیاد کا اے ہم صفیر
ورنہ میں ، اور اڑ کے آتا ایک دانے کے لیے!
اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کا گیت
آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے
٭ ٭ ٭ ٭
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
اور اسیر حلقۂ دام ہوا کیونکر ہوا
جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا
ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا
مرغ دل دام تمنا سے رہا کیونکر ہوا
دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا
حسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میں پنہاں ، خود نما کیونکر ہوا
موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے درد فراق!
چارہ گر دیوانہ ہے ، میں لا دوا کیونکر ہوا
تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت کہ گل
ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا
پرسش اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری
ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ ، کیا ہوا ، کیونکر ہوا
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا
٭ ٭ ٭ ٭
انوکھی وضع ہے ، سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں
علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں
جو تھے چھالوں میں کانٹے ، نوک سوزن سے نکالے ہیں
پھلا پھولا رہے یا رب! چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا ، نرالے میرے نالے ہیں
نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے
ٹھہر جا اے شرر ، ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں
امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے ، بھولے بھالے ہیں
مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں
٭ ٭ ٭ ٭
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
منصور کو ہوا لب گویا پیام موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
میں انتہائے عشق ہوں ، تو انتہائے حسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست
محشر میں عذر تازہ نہ پیدا کرے کوئی
چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں!
پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
کھل جائیں ، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی
٭ ٭ ٭ ٭
جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں
حقیقت اپنی آنکھوں پر نمایاں جب ہوئی اپنی
مکاں نکلا ہمارے خانۂ دل کے مکینوں میں
اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہ سائی سے
تو سنگ آستانِ کعبہ جا ملتا جبینوں میں
کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں
کہ لیلی کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو ، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
چھپایا حسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے
وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں
جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی
الہی! کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
ترستی ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کی ہے انھی خلوت گزینوں میں
کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو
کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
سراپا حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق
بھلا اے دل حسیں ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں
پھڑک اٹھا کوئی تیری ادائے ‘ما عرفنا’ پر
ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرینوں میں
نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا
بہت مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں
خموش اے دل! ، بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
برا سمجھوں انھیں مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں
٭ ٭ ٭ ٭
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں
٭ ٭ ٭ ٭
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ!
خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے
مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی
جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے
مدام گوش بہ دل رہ ، یہ ساز ہے ایسا
جو ہو شکستہ تو پیدا نوائے راز کرے
کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے
سخن میں سوز ، الہی کہاں سے آتا ہے
یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے
تمیز لالہ و گل سے ہے نالۂ بلبل
جہاں میں وا نہ کوئی چشم امتیاز کرے
غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو
کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال
اڑا کے مجھ کو غبار رہ حجاز کرے
٭ ٭ ٭ ٭
سختیاں کرتا ہوں دل پر ، غیر سے غافل ہوں میں
ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں ، جاہل ہوں میں
میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی
جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں
علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست
وائے محرومی! خزف چین لب ساحل ہوں میں
ہے مری ذلت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل
جس کی غفلت کو ملک روتے ہیں وہ غافل ہوں میں
بزم ہستی! اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہو
تو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر ، آپ ہی منزل ہوں میں
٭ ٭ ٭ ٭
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلی بھی چھوڑ دے
واعظ! کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبی بھی چھوڑ دے
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر
بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے
لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
شبنم کی طرح پھولوں پہ رو ، اور چمن سے چل
اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی ، حرم بھی ، کلیسا بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں ، یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے
شوخی سی ہے سوال مکرر میں اے کلیم!
شرط رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
٭٭٭
تشکّر: علاّمہ اقبال ڈاٹ کام
مزید ٹائپنگ: مہوش علی، سیّدہ شگفتہ
پروف ریڈنگ اور ای بک: اعجاز عبید
Excellent
realy it is a great work.