فہرست مضامین
بے زبانی زباں نہ ہو جائے
(حفیظ ہوشیار پوری ۔۔ بیسویں صدی کی اردو غزل کے تناظر میں )
حصہ سوم (باب ۴، ۵)
ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ
مقالہ: پی ایچ ڈی ۱۹۹۹ ء
نگران: ڈاکٹر سہیل احمد خان
گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، لاہور
یہ حصہ مکمل ڈاؤن لوڈ کریں
باب چہارم: حفیظؔ کی غزل
بیسویں صدی کی اردو غزل کے تناظر میں
اردو غزل کے آغازوار تقا میں امیر خسرو، ولی دکنی، حاتم و آبرو کی کاوش اور کاہشِ جاں کا بڑادخل رہا ہے، پھر میرؔ و دردؔ، سودؔا و غالبؔ، ذوقؔ و ظفرؔ کا دور غزل کا عہدِزریں کہلایا۔ دبستانِ دہلی کی شناخت انھی کے دم سے قائم ہوئی۔ دوسری جانب لکھنؤ میں مصحفیؔ اور ناسخؔ و آتشؔ کے رنگِ شاعری نے ایک الگ دبستان کی بنیاد ڈالی۔ دلّی کی تباہی کے باعث، اکثر با کمال شاعر لکھنؤ کی طرف ہجرت کر گئے۔ یوں شاعری کا مرکز دلّی کے بجائے لکھنؤ قرار پایا۔ شاعری اور مشاعرے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے گئے۔ دہلوی شعراء نے لکھنؤ میں بھی اپنا انداز سخن برقرار رکھا۔ دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ کے شعری ذوق میں فرق کی وجہ یہ تھی کہ دونوں مقامات کے سیاسی، سماجی و معاشی حالات میں نمایاں تفاوت تھا۔ دلّی سیاسی وسماجی انتشار کا شکار تھی۔ مغلیہ سلطنت کی شکست، ابدالی، مرہٹے، روہیلے اور سکھ دلّی کے امن و سکون تباہ کرنے میں پیش پیش رہے۔ اردو شاعری اسی انتشار اور سماجی پراگندگی میں پروان چڑھتی رہی۔ دوسری طرف لکھنؤ میں نوابان عہد اور امرائے وقت نے شعر اور شاعر دونوں پر نظر کرم کی۔ عوام میں بھی شعری ذوق پیدا ہوا۔ دولت کی فراوانی بسا اوقات مذاق کی پستی کا باعث ہوتی ہے، لکھنؤ میں بھی یہی ہوا۔
دبستا نِ دہلی میں شاعری کی بنیاد زندگی کے ساتھ ہمیشہ برقرار رہنے والی اقدار اور معنویت پر رکھی گئی تھی۔ محبت اور روحانیت کی اقدار کبھی پرانی ہوتی ہیں اور نہ ہی اختتام پذیر۔ تصوّف کی میراث نے روحانیت اور بلند اخلاقی اقدار کو نصب العین بنایا اور شاعری کو فکر کی بلندی سے ہمکنار کیا۔ ان اشعار میں ولولہ بھی ہے اور آنچ بھی، کسک بھی ہے اور تحرک بھی، سوزو گداز بھی ہے اور رنج و الم کا بیان بھی۔ ان سب نے مل کر وہ آفاقی لہجہ تشکیل دیا جو صرف دلّی سے مخصوص ہے۔ دل میں درد، جذبات میں گہرائی، خیالات میں بلندی، نظر میں وسعت، زبان پر عبور، دل کا گداز، ’’آہ‘‘ کی گرمی، پاکیزگی ء نفس، اخلاقی اقدار کی پاسداری اور جذبات کی تطہیر ان شعراء کے ہاں بلا امتیاز نظر آتی ہیں۔ عشق ان کی زندگی کی بنیادی قدر ہے۔ عشقِا لٰہی اور عشقِ مجازی دونوں ہی عروج پر نظر آتے ہیں۔ عشقِ مجازی میں بھی تہذیب و شائستگی، متانت و وقار کا دخل بہت گہرا ہے۔ ہجر نصیبی وفراق، تنہائی اور محرومی کے دکھوں کا پُرتاثیر بیان ہے۔ محبوب کا حصول آسان نہیں بلکہ اس تک رسائی ممکن نہیں۔ شاعر، غمِ عشق و غمِ روزگار کا ستایا ہوا، دل و جاں پر گزرنے والی واردات کو شعروں میں ڈھالتا چلا جاتا ہے۔
دوسری جانب لکھنوی شعراء داخلیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے خارجیت پر ہی تمام زور صرف کرتے رہے۔ نتیجتاً لکھنؤ کی شاعری میں وہ کسک آنچ اور سوزو گداز پیدا نہ ہو سکا جو دبستان دہلی سے مخصوص تھا۔ دبستان دہلی میں محبوب سات پردوں میں مستور تھا، جبکہ دبستان لکھنؤ میں عورت زندگی کا جزو تھی اور اس کا حصول مشکل نہ تھا، چنانچہ جذبات کی پاکیزگی، بیان کی متانت، جو دہلویت کا طرہ امتیاز تھا، اس کی جگہ معاملہ بندی نے لی اور یوں رکاکت و ابتذال بھی شعر کا حصّہ بنتے گئے۔ ریختی کے آغاز نے شعراء کے خیالات، زبان و محاورہ سبھی میں نسائیت کا رنگ بھردیا۔ دبستان لکھنؤ سے وابستہ شعراء معاملہ بندی، قافیہ پیمائی، رعایت لفظی، لغت تراشی، صفائی زبان اور اصولِ زبان کی طرف متوجہ رہے۔ دو غزلے سہ غزلے کہہ کر اپنی مہارت کا ثبوت دیتے رہے۔ اس صنعت گری نے شاعری میں خارجیت کی لہر کو اور تیز کر دیا۔ شعراء نے حسن و عشق اور اس کی کیفیات و احساسات سے قطع نظر محض خارجی متعلقات حسن پر اپنی تمام توجہ صرف کی، جس کے نتیجے میں ہزل گوئی کا رواج ہوا اور متانت و وقار کا رہا سہا ساتھ بھی چھوٹ گیا۔ ماورائیت سے قطع نظر کرتے ہوئے ارضیت پر توجہ نے شعر کو سطحیت عطا کی۔
اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ دبستان دہلی، اردو شاعری اور شعری مذاق کے سدھار میں مصروف رہا اور دبستان لکھنؤ نے اس کے برعکس کردار ادا کیا، درست نہیں۔ ہر دو دبستانوں کا اردو شاعری خصوصاً ً غزل پر احسان ہے۔ اگر اردو غزل مضامین کی بلندی، دل کے گداز، شدّت احساس، سادگیء اظہار، غرض تغزّل کی تمام تر خصوصیات کے لیے دبستان دہلی کی مرہون احسان ہے تو زبان کی صفائی و شستگی پر کمال قدرت کے لیے دبستان لکھنؤ سے فیض حاصل کرتی ہے۔ یوں بھی کسی ایک دبستان کو مکمل طور پر خلوص و احساس سے بیگانہ قرار دینا اور دوسرے کو ابتذال ور کاکت سے یکسر پاک سمجھنا مناسب نہیں کہ دونوں دبستانوں میں ہر دو کیفیات مل جا تی ہیں۔ یہ الگ بات کہ کم یا زیادہ ہونے کی بناپر ان کی شناخت الگ الگ قائم کر دی جائے۔ ادھر لکھنؤ میں عیش و عشرت کا دور زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا۔ اس کا انجام بھی دہلی سے زیادہ مختلف نہ ہوا۔ شعراء نے رامپور کا قصد کیا۔ چنانچہ دہلی و لکھنؤ کے اہم شعراء رامپور میں اکھٹے ہوئے۔ یوں رامپور، دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ کی روایات کا سنگم قرار پایا۔ اس عہد کے شعراء کی غزلوں میں داخلی و خارجی خصوصیات پہلو بہ پہلو نمایاں ہوئیں۔ شوخی و رنگین بیانی کے ساتھ ساتھ واردات قلبی اور متصوفانہ مضامین غزل میں رائج ہوئے۔ امیر و داغ اور ان کے شاگردوں کی غزلیات میں شوخی وبانکپن بھی ہے اور تغزّل اور شائستگی بھی۔ ۱۸۵۷ء کے انقلاب کا اثر زندگی کے ہر شعبے پر ہوا، اردو شاعری خصوصاً ً غزل میں بھی انقلابی تبدیلیاں پیدا ہوئیں، وہی غزل جو صرف وقت گزاری کا مشغلہ یا صنائع بدائع میں مہارت کا اظہار یا جذبات و احساسات کا بیان تھی، اب اس میں حقیقت و واقعیت کا رنگ گہرا ہونے لگا۔ سماجی و سیاسی احوال اور وطن دوستی کے جذبات رقم ہونے لگے۔ دہلی و لکھنؤ سکول کی حد بندیاں ختم ہوئیں۔ روایتی عشقیہ شاعری کے بجائے حقیقت پسند شاعری کی طرف رحجان بڑھا۔ مبالغہ و صناعی سے گریز اور سادگیء اظہار کی طرف توجہ نے غزل کو ایک نیا پیکر عطا کیا۔
انیسویں صدی کی آخری دہائی غزل کی ہیت و اسلوب اور موضوعات میں تغیر و تبدّل کانقطۂ آغاز ہے۔ حالی ؔکی شاعری مرزا غالب ؔکے فیضِ محبت کے نتیجے میں سامنے آئی۔ ابتدائی دور کی غزلیات قدیم روایات سے رابطہ استوار کیے ہوئے ہیں۔ ان میں عشق کا گداز بھی ہے اور حسن کی رنگینی و رعنائی کا تذکرہ بھی۔ یہ غزلیات روایتی ہونے کے باوجود متاثر کن ہیں۔ بعد ازاں شیفتہؔ، آزادؔ اور پھر سرسیّد کی مقاربت، حالیؔ کے خیالات و نظریات میں تبدیلی کا باعث ہوئی۔ حالات کا شعور انھیں بھی تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ وقت کا تقاضا کچھ اور ہے۔ ۱۸۹۳ء میں دیوان حالیؔ کی اشاعت ہوئی۔ اس دیوان میں قدیم روایتی انداز کی غزلیات ہی نہیں بلکہ وہ غزلیں بھی شامل ہیں کہ جنھوں نے اردو غزل میں نمایاں تبدیلی پیدا کی۔ غزل میں عشقیہ مضامین کی اجارہ داری ختم کی اور ذاتی جذبات و تجربات، نئی اقدار کی تشکیل، اخلاقی و اصلاحی خیالات، قومی احساس اور سیاسی و سماجی شعور جیسے خشک مضامین کو تغزّل آشنا کیا، نہ صرف خود غزل کو جدید رجحانات سے روشناس کرایا بلکہ غزل کی اصلاح کے لیے تجاویز بھی پیش کیں، جن پر عمل پیراہو کر شعراء نے غزل کو اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ اپنے دیوان کے مقدمے میں حالی ؔنے یہ تجاویز تفصیل کے ساتھ رقم کی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ غزل کے مضامین محبت و دوستی کی اعلیٰ اقدار پر مبنی ہوں اور ان الفاظ سے اجتناب برتا جائے، جس سے مخاطب کا مرد یا عورت ہوناظاہر ہو پھرمخصوص لکھنوی انداز یعنی لباس و کنگھی چوٹی کے مخصوص مضامین سے گریز کیا جائے۔ عشق وعاشقی میں وقت ضائع کرنے کا زمانہ بیت گیا۔ اب قوم کو بیدار کرنے کا وقت ہے چنانچہ قوم و وطن سے متعلق موضوعات نظم کیے جائیں، تاکہ عوام میں وطن سے محبت اور اس کے لیے جد و جہد کرنے کاجذبہ پیدا ہو۔ غزل میں صنائع و بدائع کے استعمال کے بجائے سادگی ء اظہار پر توجہ دی جائے۔ اسلوبی لحاظ سے وزن، ردیف و قافیہ جو نفسِ شعر کے بیان میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں، اس پر توجہ کم کر کے حقیقی جذبات و احساسات کے بیان کو مدِ نظر رکھا جائے۔ غزل کو دوراز کارباتوں اور ابتذال ورکاکت سے پاک کیا جائے۔
حالی ؔکے ان خیالات سے بیشتر شعراء نے اتفاق کیا۔ غزل کے موضوعات میں تبدیلی اور وسعت پیدا ہوئی۔ اکثر شعراء نے غزل کو رد کر کے نظم کو اظہار کے لیے منتخب کیا اور نظم گو شعراء کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی۔ اردو غزل پر اعتراضات کا سلسلہ جو حالی سے شروع ہوا۔ اس میں شدّت پیدا ہوتی گئی۔ جوشؔ، کلیم الدین احمد اور عندلیبؔ شادانی نے بطور خاص غزل کی مخالفت میں مضامین لکھے۔ غزل کی حمایت میں جوابی مضامین بھی سامنے آئے۔ غزل پر اعتراضات کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ شعراء نے نظم، نظم آزاد اور نظم معریٰ کو اپنے اظہار کے لیے چنا، سانیٹ کی ہیت میں بھی نظمیں لکھی گئیں، چنانچہ تصدق حسین خالدؔ، نم راشدؔ، میراجیؔ، محمد دین تاثیرؔ، مختارؔ، جذبیؔ، مخدومؔ، سردارؔ جعفری اور کیفیؔ اعظمیٰ وغیرہ نے نظم میں ہیت کے تجربے کیے، بیانیہ اور خطابیہ انداز اپنایا گیا۔
نظم کے فروغ اور غزل کو نظر انداز کر دینے کا یہ عمل زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا، غزل میں موضوعات کی وسعت اور توانائی و تازگی نمایاں ہوئی اور وہ عوام کے احساسات سے قریب تر ہوئی۔ سماجی و معاشی موضوعات اور دیگر خارجی تجربات کا بیان غزل میں در آیا۔ غزل میں تسلسل اور مزاج کی یکسانیت نے نظم کے زیر اثر فروغ پایا اور ترقّی پسند تحریک کے وہ شعراء جو نظم کی ہیت اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ضروری جانتے تھے، انھوں نے بھی غزل کی طرف توجہ کی۔ امین راحت چغتائی کہتے ہیں:
’’ادب کی ترقّی پسند تحریک سے تعلق یا ہمدردی رکھنے والے شعرا ء میں فراقؔ، فیضؔ، ندیمؔ، سردارؔ جعفری، جذبیؔ، مجازؔ، ساحرؔ، جاں نثارؔ اختر، مخدومؔ، نیازؔحیدر، کیفیؔ اعظمی، اخترؔ انصاری، مجروحؔ اور حبیب تنویرؔ نے غزل کو بھی وہی مقام دلانے کی سعی کی جو اس دور میں نظم کو مل چکا تھا اور خوشگوار حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ شعراء اس دور میں بغاوت کر رہے تھے جب جگرؔ اور سیمابؔ کا طوطی بول رہا تھا۔ بہر طور غزل میں کامیاب بغاوت کا سہرا انھی شعراء کے سر بند ھا اور نئے دور میں انھی کا رنگ، رنگِ تغزل ٹھہرا۔ اس سلسلے میں جگرؔ کے دوسرے دور کے بعد کی غزلیں خاص طور پر شاہد ہیں – جگرؔ کی عظمت کا راز اس بات میں بھی ہے کہ اس نے نہ تو نئے تقاضوں کو قبول کرنے میں ہیٹی محسوس کی اور نہ ہی اپنی عمر سے چھوٹے شعراء کے اجتہاد کو ناپسندیدہ سمجھا۔‘‘(۱)
جگر ؔکے ہمراہ اصغر، فانی ؔ، حسرتؔ، سیمابؔ و یگانہؔ نے غزل کے موضوعات میں وسعت و تبدیلی پیدا کی۔ غزل کی روایتی حد بندیوں کو عبور کر کے شاعری کو آزاد فضا میں جینا سکھایا۔ غزل کو نیا روپ و نیا مزاج بخشا۔ غزل کے مخصوص غنائی و رومانی اسلوب کے ساتھ ساتھ براہ راست اظہارکا طریقہ اپنایا۔ یوں حسر تؔ، اصغرؔ، فانیؔ، جگرؔ، یگانہؔ و سیمابؔ کی غزل نے عصر موجود کے تقاضوں کو نظر انداز نہ کرتے ہوئے کلاسیکی غزل کی بازیافت کی۔ بیسویں صدی میں غزل کے احیا میں خارجی احساسات کی موجودگی شعراء کی وسعت نظر کا پتہ دیتی ہے۔ اکبرؔ، اقبالؔ و چکبستؔ نے غزل کا رخ مقصدیت کی طرف کیا۔ دوسری طرف حالیؔ، آزادؔ و اسمعیلؔ میر ٹھی نے جس نظم کی ترویج و ترقّی میں نمایاں حصّہ لیا، اس کے فروغ میں سرورؔ جہاں آبادی، نوبت رائے نظرؔ، جگت موہن لال رواں ؔ، غلام بھیک نیرنگؔ، حفیظؔ جالندھری، جوشؔ، تلوک چند محرومؔ، روشؔ صدیقی، ساغرؔ نظامی پیش پیش رہے۔ ان شعراء نے اپنی نظموں میں ملکی و قومی موضوعات کے ساتھ ساتھ فطری مناظر کی تصویر کشی بھی کی۔ ان شعرا ء کی غزلیں بھی صداقت، واقعیت اور قومی و ملکی جذبات کی آئینہ دار ہیں۔ ترقّی پسند تحریک کے زیر اثر غزل کو عصر موجود کے تقاضوں سے عدم مطابقت کی خبر سنانے والے شعرا ء جوشؔ، فراقؔ، فیضؔ، مخدومؔ محی الدین، سردارؔ جعفری، مجازؔ، جذبیؔ، مجروحؔ، ندیمؔ، کیفیؔ اعظمی، جاں نثارؔ اختر، اخترالایمانؔ، عدمؔ اور صوفی تبسّمؔ، کہ ان میں سے تقریباً ہر ایک نے خوبصورت غزلیں بھی کہی ہیں، کے مقابل وہ شعراء سامنے آئے کہ غزل ہی جن کی پہچان ہوئی اور غزل کی آبرو جن کے دم سے بحال رہی۔ انھی شعراء میں ایک معتبر نام حفیظؔ ہوشیارپوری کا ہے کہ جنھوں نے غزل کی کلاسیکی روایت سے منسلک رہ کر عصری تجربے کو موضوع بنایا۔
غزل کی روایت اور حفیظؔ
اصناف شعری میں قصیدہ ذی اقتدار یا کسی عظیم ہستی کی تعریف میں، مرثیہ کسی کی مفارقت پر، مثنوی کسی مکمل قصہ، رباعی اخلاقی پندونصائح اور نظم عموماً کسی قومی، اخلاقی یار ومانی پہلو کی حامل ہوتی ہے اور جہاں تک غزل کا تعلق ہے، عشق اس کالازمی جزوقرار پاتا ہے۔ ہر چند کہ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ غزل کے ہزار رنگ ہیں اور ہر رنگ منتخب لیکن عشق ایک بنیادی تصوّر کی حیثیت و اہمیت رکھتا ہے۔ عشق کی کائنات یک رنگ و آہنگ کبھی نہیں رہی۔ اس کے ہزار ہا روپ ہیں۔ عشق کبھی خارجی صداقتوں کی گواہی دیتا ہے تو کبھی باطنی و روحانی واردات کا بیان ہے۔ عشق کبھی اپنی ذات سے ہے تو کبھی کائنات سے۔ کبھی اپنے خالق سے اور کبھی خالق کی تخلیق سے۔ ذاتی تجربوں کے حوالے سے عشق کے کئی مدارج سامنے آتے ہیں جو ریت میں پھول کھلاتا ہے۔ عشق آگ کے دریا کو پار کرنے کی اذیت سہنے کا نام بھی ہے اور فرد کے دکھی اور زخم زخم کر دینے والے جذبوں سے لبریز بھی۔ غمِ عشق ایک، لیکن ہر شخص کے لیے اس کا تجربہ جدا۔
معاملاتِ حسن و عشق
حفیظؔ بھی غزل کی اس روایت سے وابستہ ہیں کہ جہاں عشق ہی کے دم سے کاروبارِ زیست رواں دواں ہے۔ شعلۂ عشق سے کائنات روشن ہے اور عشق ہی کے سوز سے حیات نغمہ ریز ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے کہ جو نا ممکن کو ممکن کر دکھاتا ہے۔ فرہاد سے کوہ بے ستون سے نہر نکلواتا اور ابراہیم سے آتشِ نمر ود پر قدم رکھواتا ہے۔
عشق کے مدارج اور سطحیں مختلف ہیں اور بات عشق مجازی کی ہو تو ہزار رنگ اور ہر رنگ مختلف
عشق سازِ ہزار پردہ حفیظؔ
جنتِ گوش نو بہ نوآہنگ
پسند، شوق، پیار، محبت، عشق اور جنون سبھی ایک ہی جذبے کی مختلف صورتیں اور درجے ہیں۔ شاعر غزل میں انھی جذبوں کے بیان میں صداقت و داقعیت، اشاریت و آفاقیت، لطافت و جمالیات سے کام لیتا ہے اور یہ اس کے مزاج پر منحصر ہے کہ وہ عیش و نشاط، طرب و مسرّت، جوش و سر خوشی یا قنوطیت و فراریت اور ناکامی و محرومی کو خود پر طاری کر لیتا ہے۔ شاعری میں غم اور عشق ہم معنی الفاظ سمجھے جاتے ہیں کہ عشق میں غم، دکھ، درد، رنج و محن سے گریز ممکن ہی نہیں۔ حفیظؔ کی شاعری میں بھی عشق اور غم کی کارفرمائی نمایاں ہے۔ شاید کائنات کی تخلیق میں غمِ عشق ہی کا خمیر شامل ہے کہ ساری دنیا میں اسی کاراج ہے۔
کچھ غم عشق کے سوابھی ہے
غمِ ہستی ترے خزینے میں
عشق، شوق ولولے اور جوش و جذبے کے بغیر کسی بھی مقصد کے حصول میں کامیابی ممکن نہیں۔ مکتب عشق ہی میں انسان زندگی اور موت کے تمام درس اور آداب سیکھتا ہے۔ غمِ عشق کے مدرسے سے ہی انسان کندن بن کر نکلتا ہے۔
سکھائے عشق نے آدابِ مرگ و زیست مجھے
اس ایک غم میں غمِ دو جہاں بھی ہوتا ہے
انسان کا قدم قدم پر غموں سے سابقہ پڑتا ہے اور ہر غم سے وہ اپنی ہمّت اور حوصلے سے نبرد آزما ہوتا ہے۔
ہجومِ اندوہِ غم سراسر ترے غمِ عشق تک رسائی
ہزار غم بہر آزمائش ترے غمِ کارگر سے پہلے
غمِ عشق تو وہ دولت ہے کہ جس کی تمنّا ہر دل میں جاگتی ہے۔ غم عشق سے محرومی، مقدر کی خرابی سمجھی جاتی ہے۔
دیکھا جاتا نہیں محرومیء دل کا عالم
جب غمِ عشق نصیب دگراں ہوتا ہے
توفیقِ دردِ عشق مقدر کی بات ہے
ملتی ہے زندگی سے اماں اتفاق سے
عشق حفیظؔ کے نزدیک غم زمانہ سے پناہ کا نام بھی ہے۔ عشق کا علاج غم دوراں سے یوں ممکن نہیں کہ اگر زندگی مشکل ہے تو عشق کون سا آسان ہے۔ پھر کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ زندگی کی الجھنیں دم بدم بڑھتی جاتی ہیں اور ایسے میں عشق ہی ہستی کی ان مشکلات کو سہل کرتا ہے، پھر عشق میں حاصل کیے گئے دکھی کر دینے والے تجربات کو غمِ روزگار کی تلخیاں دل سے کبھی مٹانہیں سکتیں، جب غم دہر دل پر گراں ہوتا ہے اس وقت غمِ عشق میں پناہ تلاش کرنے کی خواہش جاگتی ہے اور پھر عشق کی منزل دشوار کی دعوت رد نہیں کی جا سکتی۔
مرحلے طے ہوئے جاتے ہیں غمِ دوراں کے
عشق کی منزلِ دشوار بلاتی ہے مجھے
تصوّر محبوب
شاعر، عشق پیشہ بھی ہے اور حسن پرست بھی اور حسن و عشق کی آویزش غزل کا بنیادی تصوّر۔ حسن و عشق کی کائنات میں شاعر کے دل پر جو گزرتی ہے، انھی وارداتوں، کیفیتوں اور جذبوں کا بیان ہی غزل کو خو بصورتی عطا کرتا ہے۔ حسن کی کائنات، عشوہ وادا، نازو انداز، ظلم و ستم اور جفا وخفا سے سجی ہے۔ عاشق کی دنیا میں آہ وفریاد، شکوہ و شکایت، نالہ و شیون، دکھ و درد، وفا و رضا کا عمل دخل ہے۔ ہجر وفراق اس کی قسمت، سایۂ دیوار تلے موجود رہنا اس کا مقدر، نگاہِ کرم کا منتظر رہنا اس کی عادت اور ہر ظلم و ستم کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اس کے کردار کی عظمت ظاہر کرتا ہے۔ اردو شاعری میں حسن و عشق کا یہی معیار اور انداز قائم ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی آتی گئی۔ وہی حسن کی کائنات کہ جہاں قدم رکھنا عشق کے لیے ممنوع ہی نہیں نا ممکن بھی تھا۔ آج اس کی دسترس میں ہے۔ حسن و عشق جو ہمیشہ متضاد صفت رہے کہ حسن جفا جو، وعدہ خلاف، اپنے حسن اور زیبائش پرمغرور و نازاں، بننے سنورنے کا شائق، عشق کو ہر صورت میں نظر انداز کر دینے والا اور دوسری طرف عشق ہر بے التفاتی وبے وفائی کے جواب میں اور زیادہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والا اور ہر ستم کو اپنی خوشی قسمتی تصوّر کرنے والا، لیکن اب یہ صورت احوال نہیں رہی۔
حفیظؔ کا رویہ، حسن و عشق کے معاملات وکیفیات میں مروجہ شعری روایت کے برعکس رہا ہے۔ جذبۂ عشق اور حسن بے پروا کے درمیان فرق بھی معدوم ہوتاجا رہا ہے۔ وہ زمانے گزر گئے کہ جب شمع حسن کے پروانے اپنی زندگی قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت طواف میں رہتے تھے۔ آج تو حسن بھی کسی صاحب نظر کا منتظر ہے۔ عشق اپنی ہی رعنائیوں اور دلکشیوں میں محو ہے، اسے حسن دوست سے دوری و مفارقت کا ماتم کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے، پھر حفیظؔ کا تجربہ کچھ یوں بھی ہے کہ عشق کی دنیا ناز سے اور حسن کی عجزِ مجسم سے تشکیل پاتی ہے۔ حسن، عشق کی طلب میں بے چین و مضطرب ہے۔ عشق، حسن کی طرف سے غافل اور اپنے آپ میں گم ہے۔
گر جذبِ عشق سلامت ہے یہ فرق بھی مٹنے والا ہے
وہ حسن کی اک دنیا ہی سہی میں حیرت کا عالم ہی سہی
کچھ بھی ہو پر ان آنکھوں نے اکثر یہ عالم بھی دیکھا
عشق کی دنیا ناز سراپا، حسن کی دنیا عجز مجسم
گم ہیں اپنے عشق کی رعنائیوں میں رات دن
اب کہاں فرصت کہ حسنِ دوست کا ماتم کریں
یہ عالم حسن و عشق ہے چھاگئی دلوں پہ فسردگی سی
اُدھر تغافل میں بھی تکلف، ادھر محبت میں بھی کمی سی
اس ہجوم زندگی میں عشق ہی تنہا نہیں
حسن کو بھی تو کوئی صاحبِ نظر ملتا نہیں
فرق حسن و عشق مٹ کر ہی رہا آخر حفیظ
ان سے غافل ہو گئے ہم سے محبت کوش بھی
حفیظؔ کا مقصود حسن کو کم تر اور عشق کو اعلیٰ درجے پر فائز کرنا نہیں بلکہ وہ عشق کی بے چارگی، مایو سی و محرومی کا ماتم کرنا اور سبزۂ بیگانہ کی مانند ہر دم پاؤں تلے روندا ہوا دیکھنا نہیں چاہتے۔ اگر حسن کے اپنے اعلیٰ معیار ہیں تو پھر عشق کو کیوں اس قدر مجبور و بے بس سمجھا جاتا ہے اور ایسی صورت میں جبکہ محبوب بھی کوئی ماورائی مخلوق نہیں بلکہ اسی دنیا کا گوشت پوست کا جسم رکھنے والا فرد ہے اور اس جسم میں دل بھی رکھتا ہے جو کبھی پتھر کا ٹکڑا ہوا کرتا تھالیکن اب محبت و حرارت سے عبارت ہے۔ غزل میں تصوّر محبوب تغیر و تبدل سے آشنا ہوتا رہا۔ اس کے عادات و کردار، آرائش اور جذبہ و احساس میں اپنے دور کے مشرقی و اخلاقی تقاضوں کے حوالے سے فرق آتا گیا۔ قدیم کلاسیکی غزل میں امرد پرستی نے ایک زمانے تک اپنا تسلط قائم رکھا پھر عشق حقیقی اور عشق مجازی بھی مدغم ہوتے نظر آتے ہیں:
’’ولی ؔاور سراجؔ کی شاعری میں بھی یہ پہچاننا مشکل ہے کہ محبوب کہاں خدا ہے۔ کہاں عورت ہے۔‘‘(۲)
میرؔ کا محبوب پری تمثال، مہ جبیں مشرقی روایات کا پروردہ، جس کے حسن کے دلاویز مرقعے کلام میرؔ کو رعنائی و رنگینی بخشتے ہیں۔ دوری اور محرومی اس دور کی تہذیبی روایات کی آئینہ دار ہیں اور اسی ہجر وفراق نے میرؔ کے اشعار میں دردوسوز جگایا ہے۔ میردردؔ صوفی منش، لیکن عشق مجازی کے جلووں کے سامنے شمع عقل بے نور نظر آتی ہے۔ حسن و عشق کی چھیڑ چھاڑ، شکوہ و شکایت عام انسان کا تصوّر پیش کرتی ہے اور محبوب کے حسن کاچرچا چہار سو ہے، عاشق محبوب کی خاطر جان پر کھیل جانے کی جرات رکھتا ہے مصحفی ؔکا محبوب تیغ و تلوار کا بے دریغ استعمال عاشق کی کمزور و ناتواں جان پر بڑی بے دردی سے کرنے کا عادی ہے اور عاشق کی سادگی و معصومیت کہ تیغ کے وار سے بچنے کے لیے … ہاتھوں کی پناہ ہم نے کر لی۔ آتشؔ کے ہاں عاشق اور محبوب ہر دو کی عزّت نفس کا پاس ضروری ہے ان کا محبوب ظالم و تندخو اور جو رو ستم کا عادی نہیں اور عاشق بھی روایتی عاجزی اور بے چارگی سے دور ہے۔ غالب ؔکا محبوب شوخ و شنگ ہے۔ لطافت و نزاکت کا مرقع ہے۔ سروقامت، پری وش، مہ رخ، حوران خلد سے بڑھ کر خورشید جمال ہے، پھر غالبؔ نے تفصیل و وضاحت کے بجائے اشاریت سے کام لے کر قاری کے تخیل کو دعوت دی ہے، داغؔ کا محبوب بازاری ہے، جو شمعِ محفل کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ اس کے برعکس حسرت ؔکا محبوب چراغ خانہ۔ ان کا عشق گھریلو نوعیت کا ہے۔ ان کی شاعری کا تمام ماحول ایک متوسط طبقے کے ایک عام گھر میں تشکیل پاتا ہے۔ جہاں محبت کی رم جھم اور عشق کی دھوپ دونوں نمایاں ہیں۔ جذبۂ عشق نے طرفین کے اضطراب میں اضافہ کیا، لیکن معاشرتی حد بندیاں پاؤں کی زنجیر نہ بن سکیں۔ ننگے پاؤں کوٹھے پر آنا، دوپٹے میں منہ چھپانا، دانتوں میں انگلی دبانا، گردن جھکائے شرمائے بیٹھے رہنا، بزمِ غیر میں جانِ حیا ہو جانا اور غرفہ سے تاک جھانک سبھی لطف حسرت ؔکی عشقیہ زندگی میں موجود ہیں پھر حسرتؔ کی حسن پرستی اور جذبۂ عشق حدود سے تجاوز کرنا جانتے ہی نہیں۔ یوں عشق کی پاکیزگی کا تصوّرابھر کر سامنے آیا۔ عشق میں اضطراب و بے چینی، بے قراری و آہ وفریاد سبھی مرحلے آئے، حسرت ؔکے ہاں عشق کا تصوّر بلند اور پاکیزہ تر ہوتا گیا۔ یوں حسرت ؔکا تصوّرِ محبوب اردو کے قدیم روایتی تصوّرِ محبوب سے مختلف ہے۔ وہ خود میں عظمت کردار لیے ہوئے ہے۔ وفا کے بدلے میں وفا کرنا جانتا ہے۔
فراق ؔکا شعری سلسلہ جگر، ؔحسرتؔ، آتش ؔ، غالبؔ و مومن ؔسے ہوتا ہوامیرؔ سے جا ملتا ہے۔ عشقیہ جذبات و احساسات کی فراوانی نے ان کے کلام کو رنگینی و رعنائی عطا کی ہے۔ عشق کی پختہ کاری، انھیں سطحیت اور پستی سے دور رکھتی ہے۔ عشق کی تمام داخلی کیفیات و واردات کا اظہار سلیقہ سے کیا گیا ہے۔ وہ محبت کو گناہ نہیں توفیق کا نام دیتے ہیں۔ ان کا محبوب تمام نسوانی صفات و عادات رکھتا ہے۔ عشق کو آزماتا بھی ہے اور عشق ہی کے باعث اس کے جمال کی دوشیزگی نکھر کر سامنے آتی ہے۔ اصغر ؔ، جگرؔ، فانیؔ، اخترؔ شیرانی کا محبوب کرداری صورت میں سامنے آتا ہے لیکن وہ خیالی معلوم ہوتا ہے۔ عورت ان کی تخلیقات کا محبوب موضوع ہے اور اس کی اولین صفت معصومیت ہے۔ یہ معصومیت اسے تازگی اور جان عطا کرنے کے بجائے ایک کتابی کردار کی صورت میں پیش کرتی ہے۔ مجازؔ کی شاعری میں عورت حسن و جمال اور ناز و انداز کا پیکر نہیں بلکہ وقت کا تقاضا سمجھتی ہے اور عشق کے اس مطالبے کے آگے سر تسلیم خم کرتی ہے کہ اس وقت وطن کے لیے پرچم کی اہمیت اس کے رنگین آنچل سے کہیں زیادہ ہے۔ اقبالؔ کی ؔشاعری میں عورت اپنے عمل کی بلندی سے اپنا مقام متعین کرتی ہے۔ تصویرِ کائنات میں اسی کے دم سے رنگ ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی کے نزدیک عورت حساس، با شعور، علم و آگہی سے معمور ہے۔ وہ اسے مظلومی کی دلدل سے نکالنے میں مدد گار ہیں۔ عورت سے مساوی سلوک اس کا حق ہے۔ حسن اور عشق کے درمیان فاصلے نہیں۔ ان کی شاعری میں عورت اپنے اصل رنگ میں نظر آتی ہے۔ فیضؔ کی سیاسی و انقلابی عورت، جذبے سے زیادہ حقائق پر توجہ مذکور کیے ہوئے ہے اور اس کا باعث عاشق کا وہ رویہ ہے کہ جو لمحہ بہ لمحہ اسے محبوب کے حسن و دلکشی کی دنیا سے کھینچ کر زندگی کے تلخ حقائق کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
حفیظ کے تصوّرِ محبوب کا جائزہ لینے سے پہلے کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ شیخ صلاح الدین کے نام لکھے گئے اس خط کے ایک اقتباس کا مطالعہ نہ کر لیا جائے کہ جس میں حفیظ نے ’’عورت کے مقام و مرتبے کے متعلق اپنے افکار و نظریات واضح انداز میں پیش کیے ہیں۔ حفیظ کہتے ہیں:
’’صنفِ نازک‘‘، ’’صنفِ ضعیف‘‘، ’’نصف بہتر‘‘ اور ’’عورت ذات‘‘ عورت کی اصلی حقیقت ان ’’خطابات‘‘ میں کھو کر رہ گئی ہے، جو مردوں نے اپنی کمزوریوں کو چھپانے یا اجاگر کرنے کے لیے عورت کو عطا کیے ہیں۔ ان ’’خطابات‘‘ میں کہیں تو عورت کا ’’تفوق‘‘ ظاہر کیا گیا ہے (اور وہ بھی محض جذبات کی بنا پر ) اور کہیں اس کی مظلومیت کی تصویر کھینچی گئی ہے اور حقیقت ان ’’خطابات‘‘ سے بالا تر ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ عورت پر اس دنیا میں وہی گزری جو ’’تصوف‘‘ پر اور ہماری مشہور صنفِ شعر ’’غزل‘‘پر۔ جس طرح تصوف پر ’’کرامات‘‘ اور ’’اصلاحات‘‘ کے پردے ڈالے گئے اور جس طرح ’’غزل‘‘کوچند مضامین میں محصور کر دیا گیا، یہاں تک کہ ’’عاشق‘‘ اور ’’معشوق‘‘ کی تفریق کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی صفات بھی ہمیشہ کے لیے مقرر کر دی گئیں۔ اسی طرح عورت کے اصلی وقار پر ان ’’نظریوں‘‘ کے پردے ڈال دیے گئے جن کا تانا بانا مردوں کے ’’دماغ‘‘ میں تیار ہوا۔ اس سادہ اور آسان بات کو کوئی نہ سمجھا کہ ’’مرد و زن‘‘زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کے دوش بدوش گامزن ہیں۔
جب صورتِ حال یہ ہو تو کسی ’’ صنفِ بشر‘‘ عورت یا مرد سے حجاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ حجاب کسی ’’انسان‘‘ سے ہو سکتا ہے خواہ وہ ’’عورت ہو یا مرد‘‘۔ ایک ایسے انسان سے جو دوسرے کی افتادِ طبع، ذہنی نشو و نما اور قلبی کیفیات کے مطابق نہ ہو۔
میں اس سے متفق نہیں کہ ’’شعری‘‘ یا ’’فنی‘‘ تخلیق کے لیے کسی انسان (خواہ وہ مرد ہو یا عورت) کی ہم نشینی ضروری ہے نہ یہ تجربے سے ثابت ہے نہ تاریخ ادب کا مطالعہ قطعی طور پر اس نظریے کے حق میں ہے اور نہ ’’تنقیدِ ادب‘‘ کا کوئی نظریہ اسے لازم قرار دیتا ہے، کسی کے متعلق یہ کہنا کہ اس کے کلام میں ’’گرمی‘‘ اور ’’گداز‘‘ کی کمی ہے، ایک مبہم اندازِ بیان سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ مختلف اوقات پر ایک فنکار مختلف کیفیات سے متاثر ہوتا ہے، ان میں خارجی محرکات بھی ہوتے ہیں۔ کبھی شعر میں ایک جذباتی کیفیت ہوتی ہے، کبھی اس میں گہرا تفکّر ہوتا ہے اور کبھی ایک سادہ سی حقیقت کا اظہار۔ ایک ہی شاعر کے ہاں کبھی ’’گرمی‘‘ (اگر اس لفظ کے کچھ معنی ہیں تو) ہو سکتی ہے اور کبھی نہیں اور پھر ’’گرمی‘‘ اور ’’گداز‘‘ کا معیار کیا ہے ؟ ہر شخص کے نزدیک اپنا اپنا!
اس بات کی مثال کہ عورت کی ہم نشینی ’’گرمی‘‘ اور ’’ گداز‘‘ کا باعث ہوتی ہے، صرف ایک جگہ سے ملتی ہے، جہاں سے اس کی بہت ہی کم توقع تھی۔ یعنی ’’تصوف‘‘ کے مطالعے سے، بقول فرید الدین عطارؒ، حضرت حسن بصری، کہا کرتے تھے کہ جب تک رابعہ بصری میری مجلس میں شامل نہیں ہوتی اس میں گرمی پیدا نہیں ہوتی!میرے نزدیک اس کی حقیقت ایک ’’رومانی عنصر‘‘ سے زیادہ نہیں، جو حضرت حسن بصری کی زندگی میں شامل تھا اور جسے اکثر تذکرہ نگاروں نے نجانے کیوں نظر انداز کر دیا…
عورت اور مرد میں جو نسبت ہے اس کے متعلق ایک تاریخی واقعہ یاد آ گیا جسے مورخین نے محض ایک لطیفے کے طور پر بیان کیا ہے لیکن میرے نزدیک اس میں ’’مرد و زن‘‘ کے تعلقات کے متعلق زندگی کی ایک بڑی حقیقت پوشیدہ ہے۔
مولانا سعد الدین نفنازانی، نفنازان کے ایک قصبے ’’نسا‘‘ کے رہنے والے تھے۔ ایک روز کسی نے مولانا سے مزاح کے طورکہا۔ ’’ہم تو آپ کو مردوں میں سے سمجھتے تھے، لیکن آپ تو عورتوں میں سے (از نسا) نکلے۔‘‘ مولانا نے جواب دیا ’’اوبے خبر، تم نے سنا نہیں کہ الرجال من النسائ!‘‘
گوئٹے کا قول ہے کہ ہراچھے انسان میں نسائیت کا عنصر ہوتا ہے وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اچھی عورتوں کی صحبت میں صحیح انسانی اطوار نشو و نما پاتے ہیں اگرچہ اس کا ثبوت مشرقی تہذیب سے بھی ملتا ہے لیکن میں پھر وہی بات دہراؤں گا کہ ان اقوال کی حیثیت میرے نزدیک اس سے زیادہ نہیں کہ عورت کو چند نظریوں کے درمیان ’’محصور‘‘ کر کے رکھ دیا جائے۔
اس بات کے پیش نظر کہ ’’مردوزن‘‘ زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کے دوش بدوش رواں ہیں۔ میں یہ کہا کرتا ہوں کہ علمی نظریوں نے جن میں سے بعض کا ذکر تم نے بھی کیا ہے، عورت اور مرد کے درمیان ایک مصنوعی خلیج پیدا کر دی ہے۔ اسے پاٹنے کا ہمارے یہاں صرف ایک علاج ہے اور وہ یہ کہ تعلیم کے وہ تمام مذہبی ادارے بندکر دیے جائیں جو غلط نظریوں پر قائم ہیں۔
بچپن ہی سے (بلکہ ’’بسم اللہ‘‘ کے دن سے ) عورتوں اور مردوں کی مخلوط تعلیم لازمی قرار دی جائے اور کم از کم پرائمری درجوں کی تعلیم خالصتاً صحیح طور پر تعلیم یافتہ عورتوں کے سپرد کی جائے۔ اگر یہ نہیں ہو گا تو مجلسی بدمزگیاں جاری رہیں گی۔ مثلاً عورتوں کی صحبت میں چھچھورے پن کا اظہار کرنا، خاص طور پر جب اس صحبت میں اور مرد بھی شامل ہوں یا ان کی موجودگی کی وجہ سے دوسروں پر اپنا تفوق جتانا۔ ابتدائی تعلیم وتربیت میں جو خامیاں رہ جاتی ہیں اگر وہ ایک خاص عمر تک پہنچنے کے باوجود باقی رہیں تو پھر زندگی بھر دور نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ابتدا ہی سے نظام تعلیم کو بدلا جائے اور یہ ایک فرد کا کام نہیں، پورے سماج کا کام ہے۔ حکومت یہ کام کر سکتی ہے بشرطیکہ ہماری قوم رضاشاہ پہلوی یا مصطفی کمال پاشا جیسا انسان پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ عورت سے متعلق یہ سب باتیں خطبۂ نکاح میں شامل ہونی چاہئیں، بلکہ کبھی کبھی شادی شدہ لوگوں کو بھی سنانی چاہئیں بشرطیکہ خطبہ کے ساتھ ایک عدد بیوی کا اضافہ نہ ہو۔‘‘(۳)
یہ تو تھے حفیظ کے نظریات، زندگی اور معاشرے میں عورت کے مقام کے تعیّن کے بارے میں۔ اب دیکھتے ہیں ان کی شاعری میں عورت کس اندازمیں جلوہ گر ہے۔
بنیادی طور پر حفیظؔ کی شاعری فکری و اسلوبی سطح پر دبستان دہلی سے سلسلہ جوڑتی نظر آتی ہے لیکن دبستانِ لکھنؤ کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کرتی۔ معاملات عشق میں تہذیب و شائستگی، ضبط و احتیاط، واردات قلبی و ہجروحرماں نصیبی کا بیان متانت و سنجیدگی اور دردوکسک لیے احساسات و جذبات میں زیادہ گہرائی اور پاکیزگی پیدا کرتا ہے، جودبستان دہلی سے مخصوص ہے۔ دوسری طرف لکھنوی شعراء نے زندگی کے حزنیہ پہلوکے برعکس طربیہ رخ کو نمایاں کیا ہے۔ عیش و نشاط وہاں کی تہذیبی زندگی میں رچابسا ہے۔ لکھنوی تمدن، طرززندگی، رسم و رواج اور رجحانات شاعری میں نمایاں ہیں۔ غزل کا معروف مفہوم کہ عورتوں سے یا عورتوں کے متعلق گفتگو کرنا ہی ان کی غزل کا بنیادی موضوع نظر آتا ہے، چنانچہ نسائی حسن، لباس، زیوارت، عادات و کردار اور نازو انداز، عشوہ واداکی عکاسی نے شعر کو رنگینی بخشی۔ محبوب کا یہ تصوّر روایتی اور ماورائی یا خیالی نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا، اپنا آپ منواتا کردار ہے جو شاعری میں اپنے حسن و دلکشی سے رعنائی پیدا کرتا ہے۔ شعراء جس کے لب و رخسار، زلف و ابر و، چشم و مژگاں، قدو قامت، دست حنائی اور پائے نازک کی دلکشی کی تعر یف و توصیف، حقیقت پسندانہ اور بے باکانہ انداز میں کرتے ہیں۔
حفیظؔ کا محبوب بھی کسی پرچھائیں یا ہیولے کے روپ میں سات پردوں میں مستور نہیں۔ ان کے اشعار کی مدد سے حسن محبوب کی تصویر کھینچی جا سکتی ہے۔ آنکھ، نگاہ، نظر، حسن محبوب میں نمایاں ہیں۔ حفیظؔ بھی چشم خوباں کے قتیل رہے ہیں۔ نگاہ کرشمہ ساز، خاموش نگاہیں، نگاہِ لطف، نگاہِ مضطرب، ذوقِ نگاہ، نگاہِ برقِ بے اماں، نگہ مست، نگہ شوق، نگاہِ شوق، افسردہ نگاہی، شرمگیں نظر، حیراں نظر، چشمِ حیراں، چشمِ کرم وغیرہ، پھر ہونٹ، شہد شکن ہونٹ، لرزاں ہونٹ، تھرکتے ہوئے ہونٹ، متبسّم ہونٹ، تبسّم کے اشارے، آلودہ شبنم جبیں، جبیں کی صبح، گیسوؤں کی رات، گیسوؤں کی چھاؤں، سایہِ زلف، نرم لچکتی بانہوں کے خم، غرض محبوب کی ذات، میکدہ رنگ و جمال کی صورت سامنے آتی ہے۔ شمع سا آتشیں لباس اور تنک پیراہن اس کے ذوقِ جمال کے گواہ ہیں۔
آہ فریبِ خال وخد، ہائے طلسمِ چشم و لب
شعبدۂ حواس میں کب سے اسیر ہے ہوس
کہیں ایسی بھی تنک پیرہنی ہوتی ہے
رنگ در رنگ تری گل بدنی ہوتی ہے
رشتۂ جاں ہی بن گیا جہاں سوز
شمع سا آتشیں لباس نہیں
اک سہم گیں نظر میری دریوزہ گری کا ظرف
اک شرمگیں نظر ترا پیمانۂ کرم
سر پہ جب چادر مہتاب تنی ہوتی ہے
چھاؤں ان گیسوؤں کی اور گھنی ہوتی ہے
پریشاں سر بسر شیرازۂ حسن
مزاجِ دوست، زلفِ دوست برہم
تری نگاہِ مست سے مجھ پہ یہ راز کھل گیا
اور بھی گردشیں ہیں کچھ گردشِ جام کے سوا
شہد شکن ہونٹوں کی لرزش عشرتِ باقی کا گہوارہ
دائرہ امکانِ تمنّا نرم لچکتی باہوں کے خم
ہونٹ لرزاں ہیں تو آلودہ شبنم ہے جبیں
یہ جفا پر کہیں اظہارِ ندامت تو نہیں
حفیظؔ اس چشم حیراں کا تجھے بھی اب خیال آیا
نہ دیکھی جائے گی وہ چشمِ حیراں ہم نہ کہتے تھے
اک تمام شیرینی اک تمام رنگینی
طرزِ گفتگو ان کی شیوۂ بیاں اپنا
بہارِ حسن پیہم گلفشاں ہے
علاجِ تنگ دامانی کے دن ہیں
سر سے پاتک ہیں وہ اک میکدۂ رنگ و جمال
ان کو جب دیکھ لیا سیر خراجات ہوئی
یوں حفیظؔ کی غزل میں حسن محبوب کی مختلف کیفیات نظر آتی ہیں۔ اس مشاہدہ جمال میں محبوب کی زلف و لب و رخسار و قامت کے ساتھ ساتھ اس کے ناز و ادا اور طرز گفتگو سبھی کا تذکرہ ہے۔
حفیظؔ کی شاعری میں محبوب اپنے کردار و سیرت کے حوالے سے روایتی محبوب سے کس قدر مختلف یا کتنی مطابقت رکھتا ہے۔ اس کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خود حفیظؔ کے خیالات اردو کی شعری روایت میں حسن و عشق کے تصوّر کے متعلق کیا ہیں:
’’ہمارے زمانے میں فانیؔ اور فراقؔ ؔنے حسن و عشق کا صحیح تصوّر پیش کیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ فانی ؔکے ہاں قنوطیت غالب ہے اور فراقؔ ؔکے ہاں صرف ’’ بقدر ذائقہ‘‘ موجود ہے۔ فانیؔ کا غم میرؔ کے غم کی طرح مبتذل اور رسوا نہیں نہ یہ محض رقت پیدا کرنے والے لفظوں کا کرشمہ ہے۔ اس کے غم کی حیثیت کائناتی ہے۔ یہ میرؔ کے غم کی طرح ذاتی اور ہنگامی نہیں بلکہ زندگی کا غم ہے۔ وہ زندگی جو ازل سے ابد تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس طرح فانیؔ کی محبت بھی، بیماری دل نہیں بلکہ مجموعۂ آداب دو عالم ہے۔
مجموعہ آداب دو عالم ہے محبت
جینے کے سلیقے ہیں تو مرنے کے قرینے
وہ زندگی کو فرار نہیں سمجھتا بلکہ ہر غم کو غم جاناں، سمجھ کر اس کی مشکلات کو آسان کر لیتا ہے۔ فراقؔؔ اپنی ناکامیوں کے ساتھ ساتھ محبوب کی مایوسیوں اور مجبوریوں کو بھی محسوس کرتا ہے۔ محبوب کے غم کا احساس، اس کی وفاداری کا اعتراف اور اپنی خامیوں پر اظہار ندامت، یہ سب باتیں اس خلوص اور سچے عشق کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جس سے ہمارے پرانے غزل گو نا آشنا تھے۔ خلوص وفا کے ساتھ ساتھ صدق اظہار۔ یہ ہیں فراقؔؔ کے عشق کی خصوصیات۔
خوش بھی ہو لیتے ہیں ترے بے قرار
غم ہی غم ہو عشق میں، ایسا نہیں
اس کے نزدیک
محبت کی نظر چشم و چراغ بزم ہستی ہے
جب اتنی صورتیں ہیں کوئی صورت آشنا بھی ہو
اور اب حسن کا تصوّر ملاحظہ کیجیے
حسن کو اک حسن ہی سمجھے نہیں اور اے فراقؔ
مہرباں نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اب اس کی محبت کارجائی پہلو دیکھیے
کیا کیجیے جو کار محبت محال ہو
اب تک کوششیں نہ ہوئیں رائگاں کبھی
کیوں ہے اڑا اڑا سا ترارنگ ورخ فراقؔؔ
دنیا سدا بہار محبت سداسہاگ
اپنی مجبوریوں اور خامیوں کا احساس
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
تو نے تو خیر بے وفائی کی
جاں نثاروں کو ترے کب یہ خبر تھی کہ تجھے
دل سے چاہیں گے، نبھائیں گے، پشیماں ہوں گے‘‘
(۴)
حفیظؔ، فراقؔ کے پیش کردہ تصوّر حسن و عشق کو قدیم تا جدید شعری تاریخ میں اہم جانتے ہیں عشق کی سب سے اہم قدر غم، اور غم بھی وہ نہیں جو سستی جذباتیت کے نتیجے میں جنم لے بلکہ وہ غم جو ازل سے ابد تک پھیلی ہوئی زندگی پر محیط ہو، محض ذاتی و ہنگامی نہ ہو اور اگر فانیؔ کے نزدیک محبت مجموعۂ آداب دوعالم ہے تو حفیظؔ کے خیال میں محبت ہی اس کائنات کے نظام کو صحیح انداز میں چلاسکتی ہے۔
کون ہے اب جوسنبھالے گانظامِ عالم
اک محبت ہی محبت نظر آتی ہے مجھے
فراق ؔاردو کی شعری روایت سے انحراف کرتے ہوئے محبوب کی شادمانیوں اور اپنے ہی تغافل کو سراہنے کے بجائے اسے بھی ایک عام فردتصوّر کرتے ہیں جو درد عشق میں مبتلا ہے۔ مایوسی، محرومی اور مجبوری کے احساس نے اسے بھی اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ فراق ؔ محبوب کے ظلم و ستم کے برعکس اس کے غم کا احساس کرتے ہیں اور اپنی خامیوں، خصو صاً وفا پر ثابت قدم نہ رہنے پر خود کو ملامت کرتے ہیں۔
انسان جس چیز یا خیال کو پسند کرتا ہے یا اس سے متفق ہوتا ہے، شعوری یا غیر شعوری طور پر اسے اپناتا چلا جاتا ہے۔ حفیظؔ کی شاعری میں تصوّر محبوب فراقؔؔ کے تصوّر سے بہت حد تک مماثلت رکھتا ہے۔ حفیظؔ کا محبوب کوئی ماورائی ہستی نہیں بلکہ عام زندگی سے تعلق رکھنے والا ایک عام انسان ہے جو اسی دنیا، اسی ماحول اور معاشرے سے تعلق رکھتا ہے۔ معاشرتی زندگی مسائل سے پر ہے اور وہ بھی ان سے نبرد آزما ہے۔ وہ ان مسائل کا حل چاہتا ہے اور اس میں کبھی کامیاب ہوتا ہے اور کبھی ناکام رہتا ہے۔ اس کی امنگیں، آرزوئیں اور دلچسپیاں اس کے گرد و پیش کی دنیا سے متعلق ہیں۔ اس کے روابط اپنے ہی جیسے انسانوں سے ہیں۔ اس کا دل اور اس کا ذہن وہی کچھ محسوس کرتا اور سوچتا ہے جو معاشرے کے بیشتر افراد محسوس کرتے اور سوچتے ہیں۔ اس کے دل میں بھی جذبات کی موج سبک خرام جاری وساری ہے۔ چاہنے اور چاہے جانے کی تمنّا اس کے دل میں بھی بسی ہے۔ معاشرتی حد بندیاں، رسم و رواج کی پابندیاں انسان کو مجبور و بے بس کر دیتی ہیں۔ حفیظؔ کی شاعری میں محبت یک طرفہ نہیں۔ اس میں کئی اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے ہیں۔ وفا اور بے وفائی سے بھی واسطہ پڑتا ہے، لیکن روایتی شاعری کی مانند نہیں کہ عاشق جاں نثار کرے اور محبوب رقیب کے ہمراہ تماشا دیکھے، پھر رقیب کا کردار واضح نہیں ہے، نہ ہی زمانہ اور سماج رقیب کا کردار ادا کرتے ہیں، اگر کہیں محبت میں رکاوٹ یا ترک تعلق تک بات پہنچتی بھی ہے تو اس میں خطا اپنی ہی ہے۔
حفیظؔ درد محبت سے آشنا ہیں اور اس بات سے آگاہ بھی کہ محبت کی تپش نے محبوب کو مضطرب و بے چین کر رکھا ہے۔
تری افسردہ نگاہی کا یہ عالم تونہ تھا
تو میرے حال پہ اے دوست پریشاں تو نہیں
خود ان کی آنکھوں سے آنسو ہوئے رواں کیا کیا
ملے ہیں رازِ محبت کو پاسباں کیا کیا
حفیظؔ کی شاعری میں محبوب کے جذبات کی ترجمانی نمایاں ہے۔ محبت کے تجربات انسان کو حر ماں نصیبی و الم ناکی عطا کرتے ہیں۔ یہ دکھ، درد، رنج وغم جو محبت کی عطا ہے۔ شاعر چاہتا ہے کہ اس کا دکھ، محسوس کر کے محبوب خود دکھی نہ ہو جائے، اس لیے وہ اپنا غم اس سے پوشیدہ رکھتا ہے، لیکن جہاں تومن شدی ومن توشدم والا معاملہ ہو، وہاں راز کا راز رہنا ممکن ہی نہیں۔ یوں شاعر کا غم، کہ وہ اس غم میں تنہا نہیں ہے، محبوب کے چہرے سے بھی عیاں ہے۔
تیری صورت سے عیاں ہو کر رہا
ہم چھپاتے ہی رہے دل کا ملال
مرے غم کا یہ مداوا تو نہیں
تیرے چہرے سے نمایاں ہی سہی
محبوب کی تغافل شعاریاں اور جفائیں اس کے لطف و کرم اور مہربانیوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ اس کے لطف و عنایت کی نظر شاعر کو اپنے آپ سے خوفزدہ کر رہی ہے کہ کہیں اس کے ہاتھ سے متانت کا دامن نہ چھوٹ جائے۔ اس کی نگہ التفات نے دل میں خواہشوں کے ہزاروں پھول کھلادیے ہیں۔ تمنّاؤں اور آرزؤں کی ایک نئی دنیا جنم لینے لگی ہے۔ حفیظؔ اس کے لطف فراواں کے شکر گزار ہیں کہ جس کی بدولت انھیں اک نئے جذبہ و احساس سے آگاہی ہوئی ہے۔
اس قدر پیار سے نہ دیکھ مجھے
پھر تمنّا جواں نہ ہو جائے
وہ نگاہ لطف جان دلبری ہونے لگی
دل میں پیداروزاک کاہش نئی ہونے لگی
تری چشمِ کرم یہ کہہ رہی ہے
تمنّاؤں کی مہمانی کے دن ہیں
ترے لطف فراواں کی بدولت
مسلسل تازہ ارمانی کے دن ہیں
غمِ عشق، غمِ جاناں
محبت انسان کو اپنا آپ بھلانے پر مجبور کر دیتی ہے، خود فراموشی اور بے خودی کی یہ حالت اسے اپنے گرد و پیش سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ خود سے بیگانہ بنا دینے والا جذبہ انسان کو انسان بننا سکھا دیتا ہے دنیا کے تمام مسائل کا حل اس کے پاس ہے جو کام کسی طرح نہیں ہو سکتا وہ محبت سے ہو جاتا ہے پھر شاعر کیوں نہ اس کے اسیر ہوں۔ انور سدید کہتے ہیں:
’’حفیظؔ ہوشیارپوری کی غزل کا اہم ترین موضوع تو محبت ہی ہے کہ اس کے بغیر غزل کا بنیادی تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ بے شک حفیظؔ نے جذبات محبت کے اظہار کے لیے محبوب کا پیکر معلوم تخلیق بھی کیا ہے اور اسے تمثیلی انداز میں استعمال بھی کیا ہے، تاہم اس نے غزل کے روایتی محبوب کے برعکس محبوب کی نئی معنویت دریافت کی ہے۔ میر تقی میرؔسے حفیظؔ ہوشیارپوری تک اردو غزل کے محبوب نے کئی روپ بدلے ہیں۔ میرؔ کا محبوب تغافل پسند اور خود نگر قسم کا ہے۔ مومنؔ کا محبوب اس کا انیسِ تنہائی ہے۔ غالبؔ کا محبوب ظلم و جور روارکھنے والا کج ادا اور شوخ ہے۔ حسرت ؔاور فراقؔ ؔخود محبوب کے مرکز توجہ ہیں۔ ان کا محبوب تمام نسوانی صفات سے معمور ہے یعنی زفرق تابقدم دبی سی آگ بھی ہے اور ننگے پاؤں کوٹھے پر آنے پر مجبور بھی۔ محبت کا یہ سدا بہار موضوع فیضؔ تک پہنچا تو خمارِ گندم میں تبدیل ہو گیا اور روز گار کاغم محبوب سے بھی زیادہ دلفریب نظر آنے لگا۔ حفیظؔ ہوشیارپوری کا روّیہ فیض کے بالکل برعکس ہے اور وہ غم عشق کو ہی غم زندگانی کا حاصل سمجھتا ہے۔
غم زندگانی کے سب سلسلے
بالآخر غم عشق سے جا ملے
تونے اسے تعبیر کیا عشق سے ورنہ
کس کے لیے اے دوست پریشاں نہ ہوئے ہم
تلخیء زیست کا اگر یہ بھی نہ ساتھ دے سکی
مونس و غمگسار ہے ایک تمہاری یاد بس
غمِ آفاق ہے رسواغمِ دلبر بن کے
تہمّتِ عشق لگی ہم پر سخنور بن کے
ہر ایک درد کو درماں بنا دیا کس نے
غمِ حیات کو آساں بنا دیا کس نے‘‘
(۵)
غم روز گار پر غم عشق کی فوقیت اور برتری حفیظؔ کے کلام میں نمایاں ہے، لیکن حفیظؔ کے نزدیک عشق کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے کہ وہی لوگ جو مذہب کا طرّہ سر پر سجا کر عشق کو راندۂ درگاہ کیے رہتے ہیں وہ وقت دور نہیں کہ جب مذہب کے علمبردار عشق کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے عشق کی راہ کے مسافر ہوں گے۔
جادۂ عشق میں اک روز قدم
رہرو دیر و حرم رکھیں گے
ایک ایسے شخص کے لیے جو دنیا جہاں کے مسائل اور مذہب کے تفرقوں سبھی کو غیر اہم تصوّر کر کے عشق کا نعرہ بلند کرتا ہے، لیکن یہ کیسا نعرہ ہے کہ جس کی آواز کی گونج اس کے دل کی چاردیواری سے باہر نہیں جاتی۔ وہ عشق کرتا ہے، نبھاتا بھی ہے۔ عشق کی لذّت اور اذیت سہتا ہے۔ محبوب کا لطف و کرم اور بے التفاقی کا سامنا کرتا ہے لیکن وہ خوف جو عشق کے روز اوّل سے ہی اس کے ساتھ تھا، آخر دم تک اس سے رہائی حاصل نہیں کرپاتا۔ خوف اس بات کا کہ کہیں رازِ الفت عیاں نہ ہو جائے، محبت کے سربستہ راز، زباں تک نہ آ جائیں اور اگر بات پھیلی تو خوشبو کی طرح قید نہ کی جا سکے گی۔ یہ صورت حال شاعر کے لیے قابل قبول نہیں۔
بے زبانی زباں نہ ہو جائے
اقدار کی تبدیلی وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضا سہی لیکن گزشتہ اقدار کو قصّۂ پارینہ تصوّر کر کے رد کر دینا نقصان دہ ہے۔ وضع داری، لحاظ، مروّت، پاس، عزّت، احترام، رکھ رکھاؤاور تہذیب و شائستگی ؛ ان اخلاقی اقدار پر معاشرتی زندگی کی عمارت کھڑی تھی، جس کی مضبوطی اور پائداری میں کسی کو شک نہ تھا کہ محبت و خلوص اس کی بنیادوں میں شامل تھا۔ آج یہ عہدِ گذشتہ کی داستان ہوئی اور وہ لوگ خال خال ہی رہ گئے جو ان اقدار کو زندگی کا حاصل سمجھتے تھے۔ محبت میں تہذیب و شائستگی، حفیظؔ کی طبیعت کا خاص وصف تھا۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ کے مطابق:
’’…اس روایت کے پابند شعراء میں ایک اہم مشترک خصوصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں محبت کا ایک امتزاجی تصوّر ملتا ہے۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ محبت میں دھیمی سی واقعیت کے ساتھ ساتھ، ایک خاص قسم کے ضبط و تمکین کے پاسدار ہیں۔ یعنی، اگر کچھ کھلتے ہیں تو اس سے زیادہ رکتے بھی ہیں … یہ شعراء تہذیب کے اس دور سے متعلق ہیں جس میں محبت کی کھلی بات کہنے کی رسم تو چل پڑی تھی، مگر پردہ داری رکھ رکھاؤ اور لحاظ کے اسلوب بدستور قائم تھے …لیکن یہ امر مسلم ہے کہ ارتقائے انسانی نے محبت کو ایک تہذیب بنا کر اسے ایک اسلوب بھی بخشا ہے اور ہر اسلوب کی طرح یہ اسلوب بھی چند قاعدوں اور ضابطوں کا پابند ہے۔ یہ پابندی ہر شخص کے مشرب اور مسلک کے مطابق ہوتی ہے اور اسی سے وہ انفرادی انداز پیدا ہوتا ہے، جس کے ذریعے ہر شاعرکی جداہستی اور منفرد شخصیت کو پہچانا جا سکتا ہے۔ حفیظؔ کی محبت جیسا کہ پہلے بیان ہوا ایک ان کہی حکایت ہے یعنی حکایت ہے ضرور مگر ایسی کہ لب تک نہ آ سکی۔
شا مِ فراق جو مرے لب تک نہ آ سکی
اب تک وہ ان کہی سی حکایت نظر میں ہے
تمکین و حجاب حفیظؔ کے معاشرے کی ایک عظیم قدر تھی۔ انھوں نے اسے اپنی غزل میں مرکزی حیثیت دے رکھی ہے۔ رکھ رکھاؤ، رکاوٹ پابندی وصنع و آداب اس کے خاص پہلو ہیں۔ چنانچہ ان سے متعلق مضامین ان کی غزل میں بکثرت موجود ہیں۔‘‘(۶)
حفیظؔ اس بات کا احساس رکھتے تھے کہ صنف غزل کی نزاکت و لطافت کو برقرار رکھنے کے لیے لہجہ اور الفاظ کا انتخاب ایسا ہونا چاہیے کہ جو اس کے تغزل میں اضافہ کرے اور اسے اس کے مقام سے نیچے نہ آنے دے۔ کر ختگی، درشتی اور وضاحت غزل کے حسن کو تباہ کر سکتی ہے۔ زیر لبی کی کیفیت غزل کے مزاج سے قریب تر ہے۔
ظرفِ غزل کی حد سے باہر ہے ان کا اظہار حفیظ
جن خوابیدہ ارمانوں نے دل میں آگ لگائی ہے
حفیظؔ کہتے ہیں:
’’غزل میں سب کچھ کہا جا سکتا ہے۔ رمز اور اشارے میں بات کرنے کے لیے یہ بہترین صنف سخن ہے۔ اگر کبھی میرا مجموعۂ کلام شائع ہوا تو اس کا نام ’’زیرِلب‘‘ ہو گا۔‘‘(۷)
رسن و دار کا خوف اپنی جگہ لیکن حفیظؔ کے نزدیک یہ زیر لبی اور دھیما لہجہ اس تہذیب کا ورثہ ہے کہ جسے حفیظؔ نے بہت محبت سے اپنائے رکھا۔ انسان کی زندگی مختلف حصّوں میں منقسم ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے ہر شخص کے معیار و اصول مختلف ہیں جو وہ اپنے مزاج اور افتاد طبع کے مطابق اختیار کرتا ہے، محبت کسی کے نزدیک آگ کا دریا اور کسی کے خیال میں اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی۔ کوئی اس جذبے کا اظہار محبوب کے روبرو کرنا چاہتا ہے بلکہ اس آگ کی تپش کو کم کرنے کے لیے وہ سوچتا ہے کہ ساری دنیا کو بتادے کہ اس پر کیا گزر رہی ہے اور کوئی راز محبت کو خود سے بھی چھپانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
بے زبانی زباں نہ ہو جائے
رازِالفت عیاں نہ ہو جائے
حفیظؔ محبت کی اس روایت سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں راز محبت کا آشکار کرنا تہذیب کے دائرے سے باہر ہے۔
صاف توہین ہے یہ دردِ محبت کی حفیظؔ
حسن کا راز ہو اور میری زباں تک پہنچے
کوئی پوچھتا ہے جو حال دل تو میں سوچتا ہوں کہ کیا کہوں
ترا احترام ہے اس قدر کہ زباں تک نہ ہلاسکوں
فراقِ دوست کا آیابھی ذکر لب پہ اگر
غمِ فراقِ تری آبرو کی بات چلی
شاعری میں تہذیب اور تہذیب میں شاعری کے امتزاج کی بناپر حفیظؔ کے اشعار میں نرم روی اور مدھم و دھیمے سروں میں بات کرنے کا سلیقہ نظر آتا ہے۔ یہ جھجک، حیا اور شائستگی ان کے رومانی جذبہ و احساس میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ شعری روایت میں عاشق کچھ کہنا بھی چاہتا ہے اور کہہ بھی نہیں پاتا۔ ارادہ باندھتا ہے اور منتظر رہتا ہے کہ آج ہم ان سے اپنی پریشانی خاطر کہنے تو جاتے ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ تمام وقت سوچتا رہتا ہے کہ اسے کیا کیا کہنا ہے لیکن وقت پر کچھ بھی نہیں کہا جاتا۔ حفیظؔ کا مسئلہ بھی یہی ہے کہنے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن کہا کیسے جائے۔ جہاں ہونٹ ناکام ہو جائیں وہاں پھر آنکھوں کی زبان سے مدد لی جاتی ہے۔
جو دل میں ہے مدّت سے وہ بات نہ رہ جائے
پھر ہوں گی حفیظؔ ان سے کب جانیے اب باتیں
پھر کام پڑا ہم کو خاموش نگاہوں سے
پھر رکنے لگیں آ کرتا حد ادب باتیں
آہِ وہ حرفِ تمنّا کہ نہ لب تک آئے
ہائے وہ بات کہ رک رک کے زباں تک پہنچے
حفیظؔ کا محبوب اردو غزل کے روایتی محبوب کے اس رخ سے کہ جہاں بے نیازی و بے وفائی عروج پر ہیں، محفوظ ہے اور یوں ان کی زیرِ لب باتیں یا نگاہوں کی زبان سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے ان کے کلام میں بلند آہنگی کے بجائے خاموشی کی ایک پر سکوت فضا تشکیل پاتی ہے۔
ہے اس میں آپ کی پردہ داری
سمجھو میرے رازِخاموشی کو
کبھی یہ خاموشی نقصان دہ بھی ہو جاتی ہے
خامو شیوں سے ہو گئے وہ اور بد گماں
اب عرض حال کی کوئی صورت بھی نہیں
بہر حال اس بات کو بھی نظر اندازنہیں کیا جا سکتا کہ ان کا محبوب، روایتی محبوب کے کردار سے مختلف ہے کہ جہاں عاشق کو نظر انداز کرنا، اس کا فرض اوّلین سمجھا جا تا رہا ہے۔ حفیظؔ کے محبوب کو ان کے غم کا احساس بھی ہے اور دکھ بھی لیکن چونکہ تہذیب اقدار کا احترام ہے۔ اس لیے بات لبوں سے نہیں آنکھوں سے کی جاتی ہے۔
پرسش غم کا قرینہ مت پوچھ
ان کی آنکھوں میں زباں ہو جیسے
ایسے میں حفیظؔ کو ان کی عزّت کا پاس کیوں نہ ہو۔ رازِ الفت عیاں کرنا تو الگ بات، ان کا نام تک ہونٹوں پرلانا، منظور نہیں۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ سکوت ہو یا سخن راز عشق چھپانا مشکل ہے۔ اس کشمکش میں شاعر مختلف کیفیات سے گزرتا ہے کبھی اسے وضع داری نبھانی بے حد مشکل اور کبھی بہت آسان نظر آتی ہے۔
اشک آنکھوں میں ہیں رسوا وضع داری ہو گئی
کتنی مشکل ترے غم کی پاسداری ہو گئی
وضع احتیاط سے دم گھٹنے لگتا ہے۔ احتیاطِ عشق میں عمر گزاردینا آسان نہیں۔ ضبطِ غم کی تربیت اور وصف انھوں نے اپنے بزرگوں سے حاصل کیا۔ فضل حق قریشی کہتے ہیں:
’’… حفیظؔ نے ان شعرا ء سے تہذیبِ جذبات کا سبق سیکھا ہے اور جس طرح حسرت ؔ، فانیؔ، اصغرؔ اور جگرؔ بہت کچھ کہنے کی آرزو رکھنے کے باوجود احتیاط اور ایک خاص تہذیبی دائرہ میں بات کہنے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح حفیظؔ بھی اپنے جذبات و خیالات کو ایک خاص حد تک بڑی خوبصورتی سے ایک محتاط پیر ایے میں بیان کرتے ہیں بلکہ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ حفیظؔ کے یہاں احتیاط اور پردہ داری بہت نمایاں ہے۔ وہ کسی مقام پر بھی ضبط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔‘‘(۸)
خود حفیظؔ کو بھی اس احتیاط اور وضع داری پر فخر ہے لیکن آنے والے وقت سے کہ جب ضبط کا دامن ہاتھ سے چھٹ جانے کا اندیشہ بھی ہو، خوفزدہ رہتے ہیں۔
کرو نہ ضبط پہ ناز اس قدر خداجانے
ابھی ہیں عشق میں درپیش امتحاں کیا کیا
اور پھر وقتِ امتحان آہی گیا کہ ضبطِ غم سے اضطراب میں نا قابل برداشت حد تک اضافہ ہوا۔ لہجے میں بے چارگی و بے بسی جھلکنے لگی۔ یہ بے بسی اپنی ذات کے باعث نہیں بلکہ محبوب کی بے کلی کے خیال سے بھی ہے۔
ضبطِ غم اب تو زباں کو رخصت فریاد دے
میری بے چینی کسی کی بے کلی ہونے لگی
دشوار کسی قدر ہے وفا کا مقام بھی
دنیا کا بھی خیال ترا احترام بھی
تمام عمرضبط وبرداشت کے باوجود یہ اندیشہ دامن گیر رہاکہ کہیں کسی کو راز الفت میں شریک نہ کرنا پڑ جائے۔
یارب جہاں میں کوئی میرا رازدار نہ ہو
چاہوں بھی تورازِ محبت عیاں نہ ہو
وفا
’’وفا‘‘ کا جذبہ بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ وفا عاشق کا وصف خاص رہا ہے۔ وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے اور عاشق تمام زندگی اسی اصول پر عمل پیرا رہا ہے۔ دوسری طرف محبوب، عجمی شعری روایت کے تحت ہرجائی، بے وفا اور جفا کار ہے۔ قدیم اردو شاعری میں شاعر گھر یلو عورت کی نفسیات سے آگاہ نہ تھے۔ ان کے سامنے یا تو فارسی شاعری تھی جس سے انھوں نے محبوب کا تصوّر اپنایا یا پھر عورت کا تصوّر، گھر سے باہر کی زندگی سے لیا۔ طوائف، تہذیبی زندگی کا اہم کردار بن گئی، یوں طوائف کی خصوصیات کو پوری نسائی دنیا پر منطبق کر دیا گیا۔ بے وفائی و جفا کاری اس کے پیشہ اور کردار کا حصّہ ہیں۔ یہی بے وفائی، بے التفاتی، تغافل، شاعر کی آہ و زاری پر عدم توجہی، محبت کے جواب میں ناروا اور بے درد سلوک، عشق و محبت کے معاملات میں اس کا رویہ کاروباری اور سطحیت سے لبریز رہا۔ غرض ایک طرف تو اس کی قیام گاہ کو تہذیب و آداب کی درسگاہ سمجھا جاتا رہا۔ دوسری طرف اخلاقی اقدار کی نفی اور اس کے خلوص و محبت کے جذبات سے تہی دل نے اردو شاعری پر اپنا اثر قائم کیا۔ اپنے خاندان سے یا اپنے ہی جیسے ماحول سے تعلق رکھنے والی محبوبہ یا بیوی بطور محبوب کا تصوّر بہت بعد میں سامنے آتا ہے۔ یہاں پہنچ کر وفا کا تصوّر بھی بدل جا تا ہے اور وہ وفا جو صرف عاشق کا فریضہ تھی۔ اب محبوب بھی رسمِ وفا کا پابند ہے، چنانچہ کبھی کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ وفا کی بندشوں سے گھبرا گیا۔
حفیظؔ کی شاعری میں ’’وفا‘‘ کی اہمیت محبت میں اوّلین ہے۔ محبت ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں وفا کی موجودگی انسان کو اقدار کی بلندی سے آشنا کرتی ہے۔ زندگی کو فنا اور وفا کو دوام حاصل ہے۔
نہ کوئی رسم وفا کے سوا محبت میں
نہ کوئی شرط، سوا شرطِ آدمیت کے
اک نقشِ وفا حفیظ باقی
ہر نقشِ حیات نقشِ باطل
وفا کی قوسِ قزح کے مختلف رنگ حفیظؔ کی شاعری میں منعکس ہو کر اپنے جلوے دکھا رہے ہیں، چنانچہ متاع وفا، وفائے عہد، اہلِ وفا، وفا کا مقام، عرضِ وفا، پیمانِ وفا، عہدِ وفا، امیدِ وفا، وفا کے صلے، وفا کے رسم، جنس وفا، پیکرِ وفا، نسیمِ مہر وفا، ذوق۱ وفا، چراغِ مہرِ وفا، وفا کا چلن، جرِم وفا، راہ وفا، سرگرمِ وفا، وفا کی داستاں، انجامِ وفا، آغازِ وفا، پیہم وفا، ننگِ وفا، وفا کا کمال، شہیدان وفا، ارباب وفا، ترک وفا، شمع وفا سے ان کی شعری کائنات روشن ہے۔
ایک چراغ سے دنیا کی تیرگی میں برائے نام کمی تو ہو سکتی ہے، مکمل روشنی نہیں لیکن اگر یہی عمل سب مل کر کریں تو کائنات جگمگا اٹھے۔ راہِ پُر خار دیکھ کر راستہ بدل دینے والوں کو یہ علم نہیں کہ عزم و ہمّت سے کام لے کر ایسی راہ کو اپنائے رکھنے کی جزا ان کے تصوّر سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن انسان کی سہل پسندی کی عادت نے اسے مشکلات اور امتحانات سے کنارہ کرنا سکھا دیا ہے۔
دوستو راہِ وفا کچھ اس قدر مشکل نہ تھی
دو قدم تو کاش تم چلتے مرے ہمدوش بھی
وفائے عہد ہے یہ پا شکستگی تو نہیں
ٹھہر گیا کہ مرے ہم سفر نہیں آئے
حفیظؔ وفا کی دائمی قدر سے آگاہ ہیں اور اس بات پر فخر بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے زندگی کے اس افراتفری اور نفانفسی کے دور میں بھی اسے اپنائے رکھا ہے۔
کرتا ہے کون ہم سے وفا دیکھنا ہے یہ
سیکھیں گے یوں تو ہم سے وفا کا چلن کئی
یہ کہہ کے یاد کریں گے حفیظؔ دوست مجھے
وفا کی رسم کو پائندہ کر گیا کوئی
وہ اس بات پر رنجیدہ خاطر ہیں کہ زندگی اور محبت میں جن جذبوں کی ضرورت تھی آج انھیں غیر اہم سمجھ کر ان سے گریز اختیار کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ان کا لہجہ تلخ بھی ہو جاتا ہے اور طنزیہ بھی۔ بے چارگی اور بے بسی بھی نمایاں ہونے لگتی ہے۔
حفیظؔ احباب سے کیا ہم کو وفا کی امید ہوتی
کہ خود اپنی وفا کو متاعِ رائگاں سمجھے
میری قسمت کہ میں اس دور میں بدنام ہوں ورنہ
وفاداری تھی شرطِ آدمیت اس سے پہلے بھی
بیٹھا ہوں مدّتوں سے متاعِ وفا لیے
میں جس کا منتظر ہوں وہ انساں کب آئے گا
ابھی امید ہے ان سے وفا کی
کوئی کہہ دے یہ مرگِ ناگہاں سے
محبت، ہمدردی، ایثار و قربانی کے جذبوں کو یکجا کر دیا جائے تو وفا کی تکمیل ہوتی ہے۔ وفا محبوب سے، اپنے آدرش و مقاصد سے، وطن سے، انسانیت سے اور اپنے خالق سے۔ اگر کوئی شخص ان تمام وفاؤں کو نبھانے میں کامیاب ہو جائے تو کائنات اس کے قدموں تلے ہو گی، لیکن وفا کے اس معیار یا امتحان سے سرخرو گزرنا آسان نہیں۔ انسان وفا کی قدر و قیمت اور اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ خود وفا کرتا اور جواب میں وفا چاہتا بھی ہے لیکن کیا اس کی خواہش کی مکمل تکمیل ہوئی ہے اور اگر اسے جواب میں وفا مل بھی جائے تو آغاز میں وہ بہت مطمئن اور خوش ہوتا ہے، لیکن انسانی فطرت ہے کہ ایک سا موسم، ایک سا ماحول اور ایک سے جذبے خواہ وہ کتنے ہی حسین و دلفریب کیوں نہ ہوں اپنی مسلسل یکسانیت کی بنا پر اسے اکتاہٹ عطا کرتے ہیں۔ اپنی تنوع پسند طبیعت اور متحرک مزاج کی بدولت اسے وہی کچھ بہت اکتا دینے والا معلوم ہوتا ہے کہ جس کی خواہش میں کبھی وہ جنون کی سرحد تک پہنچ گیا تھا۔
چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش رکھنے کے باوجود کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ اسے محبوب کی چاہت اور وفا کی طلب نہیں رہتی، بلکہ محبوب کے جذبے وروّیے میں تغیر سے عدم واقفیت کی بنا پر وفا و محبت کی اسی روش پر قائم رہتا ہے۔ گزرتا وقت شاعر کے جذبوں کی شدّت پر اثر انداز ہوا، یوں محبوب کی وفا سے پریشان ہی نہیں بلکہ اس سے اکتاہٹ بھی محسوس کر رہا ہے۔
وہ باوفا سہی مگر اس دل کو کیا کروں
جس پر نگاہِ لطف و کرم بار ہو گئی
چھاگئی پیہم وفاسے روح پر افسردگی
جی میں آتی ہے مزاج دوست کو برہم کریں
جفا تو خیر جفا ہے جفا کا ذکر ہی کیا
تری وفا بھی مجھے ناگوار گزری ہے
حفیظؔ کی شاعری میں جدّت ہے، جدیدیت نہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں نئے خیالات گہری حسیست اور احساس لطافت کے ساتھ ملتے ہیں، جس کامروّجہ جدیدیت سے کوئی تعلق نہیں، جو شاعری کو نازک خیالات کے بجائے بوجھل اثرات عطا کرتی ہے۔ روایتی اسلوب میں عصر جدید کے تقاضے اپنے جذبہ و احساس کے مطابق نظم کرتے ہیں۔ بسا اوقات یہ خیالات اردو کی مروجہ شعری روایات سے یکسر انحراف کیے ہوئے ہیں۔ اپنے اس رجحان کے متعلق حفیظؔ کہتے ہیں:
’’…غزل کو محض عشق کے اظہار کا ذریعہ سمجھ لیا گیا۔ عاشق اور محبوب کی خصوصیات ہمیشہ کے لیے مقرر کر دی گئیں۔ مختلف چیزوں کے لیے تشبیہیں اور استعارے ابدا لآباد تک کے لیے طے ہو گئے۔ اظہار بیان کے لیے بعض ترکیبیں اور الفاظ غزل کے ساتھ مخصوص کر دیے گئے۔ غزل کی ان روایات سے مجھے چڑ ہے۔ ایک مرتبہ میں نے ایک لکھنوی دوست کو اپنا یہ شعر سنایا۔
ہم بھی کہاں کے اہل وفا تھے مگر حفیظؔ
اک باوفا پہ مفت میں الزام آ گیا
اس شعر کی داد مجھے یوں دی گئی ’’صاحب۔ یہ شعر تو غزل سے باہر ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا۔ ’’وہ کیوں ؟‘‘
فرمایا۔ ’’ آپ نے محبوب کو باوفا کہہ دیا،،
میں نے جواب دیا ’’ میں اس معاملے میں ذرا خوش قسمت واقع ہوا ہوں۔‘‘
زمانۂ مشق کے کلام کو چھوڑ کر آپ میری غزلوں میں اکثر دیکھیں گے کہ مجھے محبوب سے زیادہ اپنی بے وفائی کا احساس ہے۔ اپنے غم سے زیادہ مجھے دوسروں کی محرومی اور دوسروں کا غم بے تاب کرتا ہے۔
ہمیں معلوم ہے مجبوریوں کی انتہا کیا ہے
کہ دیکھی ہے نگاہ حسن کی بیچارگی ہم نے
کسی صورت تو حق دردِ محبت کا ادا کرتے
وفا اس نے نہ کی تو کیا ہوا ہم ہی وفا کرتے
ترے لطف و کرم ہیں، تو بھی ہے تری وفا بھی
مگر کوئی مداوا اس دلِ بے تاب کا بھی ہے
وہ کیا کریں گے گر نہ ملا مجھ سا با وفا
دل کانپتا ہے ترکِ محبت کے نام سے
تیری افسردہ نگاہی کا یہ عالم تو نہ تھا
تو مرے حال پہ اے دوست پریشاں تو نہیں
عشق ہے عشق فقط، جفا ہے نہ وفا
مجھ پہ تہمت بھی ہے یہ ان پہ یہ الزام بھی ہے
زندگی کے متعلق اپنا نظر یہ مدت ہوئی ایک شعر میں موزوں ہو گیا تھا۔ اگر آپ نے اس سے پہلے نہیں سنا تو آج سن لیجیے
مجھے اوروں کے لیے جینا ہے
کاش میں اپنے لیے جی سکتا‘‘
(۹)
اگر حفیظؔ یہ کہتے ہیں کہ کاش میں اپنے لیے جی سکتا تو ہم اسے ان کی خود غرضی پر محمول نہیں کر سکتے۔ انسان ساری زندگی تگ ودو میں گزاردیتا ہے۔ فرائض کا بوجھ اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے دوڑ دھوپ۔ کبھی وطن کے لیے، کبھی گھر کے لیے۔ کبھی دوستوں کے لیے، ماں باپ اور بچّوں کے لیے، ہر وقت وہ مصروف رہتا ہے۔ اپنے متعلقین کی خواہشات و ضروریات کی تکمیل میں وہ اپنے آپ کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔ اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ اس کی اپنی ذات کے بھی کچھ تقاضے، کچھ خواہشات ہیں۔ اس کا جسم اور اس کی روح بھی سکون و آرام کی طالب ہو سکتی ہے۔ ایسے میں اچانک اسے اپنی کسی دیرینہ خواہش کا خیال آتا ہے جو کہیں دور دفن ہو چکی تھی تو اسے شدّت سے احساس ہوتا ہے کہ تمام زندگی وہ کام کرتا رہا جو کرنا نہیں چاہتا تھا یا وہ کام جو اس پر فرض کر دیے گئے تھے، لیکن دل کی سرزمین پر اگنے والی معصوم خواہشات کی طرف توجہ کرنے مہلت ہی نہ ملی، یہ سوچ اسے دکھی کر دیتی ہے۔ ایسے میں اس کی یہ خواہش یا حسرت بے جا نہیں کہ کاش میں اپنے لیے جی سکتا کہ اپنی ذات کی تکمیل کے لیے ان خوابوں اور تمنّاؤں کی تکمیل ضروری ہے اور ایک مکمل انسان ہی زندگی کی طرف سے تفویض کردہ فرائض کو زیادہ سلیقے اور احسن طریقے سے سر انجام دے سکتا ہے۔ ان فرائض کا تعلق مادی زندگی سے ہو یا زندگی کے روحانی و حسیاتی پہلو سے، دیانت داری و وفا داری شرط اولین ہے اور یہ حفیظؔ کی خوش قسمتی ہے کہ ان کا محبوب بھی ’’وفا‘‘ کے معاملے میں ثابت قدم ہے۔ اس کی وفا اس قدر محکم ہے کہ بعض اوقات حفیظؔ کو اپنی کم مائے گی کا احساس ہونے لگتا ہے۔
مانا وہ حفیظؔ با وفا ہیں
کچھ اس میں ترا کمال ہوتا
وفا کی داستاں چھیڑی کبھی تم نے کبھی ہم نے
بطرز دلبری تم نے برنگ عاشقی ہم نے
وہ سرگرم وفا، دل کا یہ عالم
فغان دمبدم فریاد پیہم
تصوّرِ عشق
کلاسیکی شعری روایت میں عاشق کیا ہے، اک خاک کا غبار ہے جسے ہوا جہاں چاہے، اڑا لے جائے۔ خود داری وانا کو بالائے طاق رکھ کر کوئے یار کے طواف میں محو رہتا۔ سایۂ دیوار تلے زندگی بتادیتا۔ عالم جنوں میں دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں فرق نہ کرپاتا، گھر کی وحشت سے گھبرا کر صحرا میں جا نکلتا، رخ یار کی ایک جھلک کی خاطر تپتی دوپہروں اور بھری برساتوں میں صورت دیوار کھڑا رہتا، دل پر خوں کی گلابی یا مئے ناب کا ایک پیالہ، وہ تمام عمر اس کے کیف سے شرابی سا رہتا۔ ناکامیوں سے کام لے کر محبت نبھاتا جاتا۔ پاسِ ناموسِ عشق کے خیال سے آنسوؤں کو پلکوں ہی پہ روک لیتا۔ موسمِ گل میں زنجیر پہن کر اپنی وحشت کو پابند کرنے کی کوشش ناکام پر خوش ہوتا۔ محبوب کی گلی سے لہو میں نہا کر نکلتا اور اسے اعزاز سمجھتا، گالیاں کھاکے بے مزانہ ہوتا۔ بزم ناز سے اٹھا دیا جاتا، نگہِ یار سے قتل ہو جاتا اور کفن دفن تک کے تمام مراحل میں محبوب کی آمد اور اس کی گریہ وزاری کا منتظر رہتا۔
آج جہاں تہذیبی، معاشرتی، اقدار میں تبدیلی، وقت کی ضرورت اور حالات کے تقاضے یا تیز رفتار زندگی کا ساتھ دینے کے باعث ہوئی، وہیں عشق کے کھیل کا منظر بھی بدلا۔ کرداروں میں بھی تبدیلی آئی۔ محبوب کے چھوئی موئی کردار کے بجائے ایک با عمل اور زندگی کی تگ ودو میں ہر طرح سے شریک عورت کا تصوّر ابھر ا، جو مرد کے شانہ بشانہ گھر اور ملک کے وسائل و مسائل کے حل میں برابر کی شریک ہے۔ وہیں آشفتہ دماغ اور سر پھرے عاشق نے بھی جو عشق کا رستہ اختیار کرنے کے بعد کسی اور کام کے قابل نہیں رہتا۔ ایک ایسے شخص کا روپ دھارا جو اپنے جذبے اور شعور دونوں سے کام لے کر محبت کے ساتھ ساتھ دیگر فرائض بہ حسن و خوبی ادا کر رہا ہے۔
عاشق عشق کی اہمیت تسلیم کرنے کے باوجود، اس کا اقرار کرنے کے باوجود کہ عشق ہی سب کچھ ہے، یہ بھی جانتا ہے کہ یہ سب کچھ نہیں ہے۔ زندگی اس قدر محدود نہیں اس کے مسائل اور ضروریات کی انتہا عشق فراموش کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
حفیظؔ کی شاعری میں عاشق کا تصوّر بھی، محبوب کے تصوّر کی طرح روایتی نہیں۔ عاشق عشق پیشہ ہے۔ عشق ہی اس کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی اور قدر ہے۔ آج زندگی اور دنیا کی وسعت نے عاشق کے قلب و نظر، عقل و شعور اور جذبۂ عشق میں بھی کشادگی پیدا کر دی ہے۔ عشق کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت نہیں رہی۔ غم دوراں کی ہلکی سی ضرب بھی غمِ عشق کی دیوار میں دراڑیں ڈال دیتی ہے۔ غم دوراں میں سب سے بڑا غم، یعنی شاعر کی معاشی مجبوری اس کے نزدیک زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور دردِمحبت پر حاوی ہو جاتی ہے۔
پھر غمِ دوراں کے علاوہ اور بھی مسائل ہیں جو شاعر کی توجہ اپنی جا نب مبذول کروا لیتے ہیں اور وہ محبوب کے تصوّر کو پسِ پشت ڈالنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ تنہا انسان کی ذات بھی اک کائنات ہے تو پھر تمام کائنات کتنا پھیلاؤ اور وسعت و ہمہ گیری رکھتی ہے اس کا اندازہ کرنا آسان نہیں۔ کائنات کی رنگینی و رعنائی ہو یا تاریکی و تیرگی، زندگی میں ہونے والے تجربے اور مشاہدے، حسن کی قوسِ قزح کا مشاہدہ کرنے کی فرصت نہیں دیتے۔ وہ زندگی اور کائنات کے مسائل سے آگاہ ہے۔ ان کا حل تلاش کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں امید ورجائیت بھی اس کے ہمراہ ہیں اور ناکامی و مایوسی کا خوف بھی۔ ایک مسئلہ حل ہوتا ہے تو دوسرا آ موجود ہوتا ہے۔ مسائل کی نوعیت بدل جاتی ہے، لیکن موجودہ وہ ہمہ وقت رہتے ہیں۔
تصوّرات غم دل بدلتے جاتے ہیں
کہ زندگی کے مسائل بدلتے جاتے ہیں
زندگی دردِ اذیت کے بغیر
جیسے انساں آدمیت کے بغیر
بڑھتی جاتی ہے وسعتِ آفاق
ہوتا جاتا ہے دامنِ دل تنگ
عاشق کے لیے جہاں زندگی کے دیگر مسائل اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں وہیں حسن کی ماورائیت یا اس کا دسترس میں نہ ہونا، امرِ محال نہیں رہا۔ اب اسے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے صبح سے شام اور شام سے صبح کرنے کی ضرورت نہیں۔ محبوب انتہائی حسین و نازک اندام نہیں بلکہ ایک عام شکل و صورت رکھنے والا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ معمولی عورت اس کے ساتھ طلبِ علم میں شریک ہو سکتی ہے۔ اس کے دفتر میں کام کر سکتی ہے۔ اس کی عم زاد یا بیوی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ کوئی ماورائی مخلوق نہیں کہ جس کا حصول یا جس کی جانب نگاہ کرنا ممکن نہ ہو۔ بسا اوقات تو یوں بھی ہوا کہ حسن کی کم مائے گی اور بے وقعتی پر شاعرکا دل بھی کڑھنے لگتا ہے۔
بند کر آنکھوں کو اے عشق غیور
حسن وقفِ راہ گزر ہونے لگا
جس کے جلووں کو ترستی تھی نظر
خود وہ محتاجِ نظر ہونے لگا
حفیظؔ بلا شبہ ایک مہذب، تہذیب و شائستگی اور رکھ رکھاؤ والے عاشق کا کردار ادا کرتے ہیں۔ تبھی انھیں حسن کے وقف راہگزر ہونے پر ندامت محسوس ہوتی ہے۔ یہ عشق ایک مہذب انسان کا عشق ہے، جس میں کوئی غرض کوئی مطلب شامل نہیں۔
غرض ہو کوئی اس میں شامل حفیظؔؔ
تو مجھ پر ہے دردِ محبت حرام
پھر وہ دور رخصت ہوا کہ جب عاشق کی تہذیب میں گھبرائے ہوئے رہنا اور خاک بسر پھر نا اہم قدر تھی۔ عاشق ہو اور جنوں میں بھی نیک و بد کی تمیز رکھے، یہ کیسے ممکن ہے۔ عاشق تو موسم گل کے آغاز میں ہی گریباں کے چاک کو دامن کے چاک سے ملا کر منتظر رہتا ہے کہ کب اسے زنجیر بپا کیا جاتا ہے۔ شور سلاسل اس کے خون کے لیے تسکین کا سامان مہیا کرتا ہے، لیکن حفیظؔ کیسے عاشق ہیں کہ جن کے نزدیک جنون کا مفہوم کہیں زیادہ وسعت اختیار کر گیا ہے اور جیب و داماں کا احترام بھی ضروری ہے۔
قیامت ہے اگر کوئی اسے ترکِ جنوں سمجھے
جنوں میں احترام حبیب و داماں کر رہا ہوں میں
جنوں پہ تنگ ہوئی کائنات کی وسعت
فضائے دشت کو زنداں بنا دیا کس نے
محبت، عشق، جذب و جنوں میں تفکر، تعقل، شعور اور دلیل کے کیا معنی۔ عاشق کی زندگی جنوں سے تشکیل پاتی ہے۔ اسے بار بار عقل و شعور سے کام لینے کی نصیحت کی جاتی ہے لیکن یہ زاہد و واعظ و ناصح سے اس قدر گریز اں کہ انھیں صفحہ زیست پر دیکھنا ہی نہیں چاہتا۔ شاعرنے سبھی کام اور کارنامے عشق اور جنوں کے زور پر سر انجام دیے ہیں لیکن حفیظؔ توازن اعتدال اور میانہ روی کو کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ عقل و عشق متضاد رویے سمجھے جاتے تھے۔ ان میں بعد نمایاں تھا لیکن آج کا عاشق عقل سے بھی کام لیتا ہے اور عشق سے بھی، یوں منزل کا حصول سہل ہوتا جاتا ہے۔
میرے دورِ محبت میں
عشق و عقل ہوئے یکجا
چونکہ عاشق عقل و شعور کی دولت رکھتا ہے۔ اپنی شناخت کا ادر اک اسے ہے۔ وہ خاک بن کر کوچۂ محبوب میں اڑنے کو ہی حاصل زیست نہیں سمجھتا، بلکہ اپنے وجود کی پہچان چاہتا ہے۔ خود اعتمادی اس کے لہجے کو توانائی اور قطعیت عطا کرتی ہے
بھول کے دیکھ لو ذرا ہم کو
کوئی آساں نہیں بھلا دینا
اعتماد اپنی محبت پہ ابھی تک ہے مجھے
ختم ہر چند تری رسم عنایات ہوئی
حفیظؔ اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ بعض مرتبہ تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ انھیں محبوب کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ تو بغیر ان کی منشا اور مرضی کے، ان کی زندگی میں در آیا ہے اور یہ مداخلت انھیں گوارابھی نہیں ہے
جفا تو خیر جفا ہے جفا کا ذکر ہی کیا
تری وفا بھی مجھے ناگوار گزری ہے
شاعر اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ اب حسن تک رسائی نا ممکن نہیں رہی بلکہ آج خود مطلوب عشق کا طالب ہے تو پھر اس کی جانب سے بے پروا وبے نیاز بلکہ منتظر بھی ہو سکتا ہے کہ انسانی نفسیات ہے کہ جو چیز دسترس میں نہ ہو اس کی طلب چین لینے نہیں دیتی اور جو سامنے ہو اس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔
جہانِ حسن مرے عشق کو تڑپتا ہے
یہ دل تڑپتا ہے لیکن کسی کسی کے لیے
دل کو آیا بھی تو کب ترک محبت کا خیال
ان کو بھی محسوس جب میری کمی ہونے لگی
کار محبت کے علاوہ اور بے شمار کام اس کے منتظر ہیں، جنھیں سرانجام دیے بغیر زندگی گزاری ہی نہیں جا سکتی۔ بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے، والی فرصتوں کا دور تو کب کا بیت گیا۔
پہلے عاشق کا کام صرف اور صرف محبت کرنا تھا اور محبت جزو قتی مشغلہ نہ تھا، زندگی اور موت کا معاملہ تھا، جب کہ آج
محبت کر کے دنیا بھر پہ احساں کر رہا ہوں میں
وفا نایاب تھی پھر اس کو ارزاں کر رہا ہوں میں
قدیم شعری روایت میں محبوب کا قیامت تک انتظار کیا جاتا تھا۔ انتظار میں اذیت اور لذّت دونوں سے لطف لیا جاتا تھا…اور اب عاشق کا وہ رویہ جس سے اردو کی شعری روایت نا آشنا تھی۔
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
حفیظؔ کا یہ شعر نہ صرف خود حفیظؔ کی شاعری کا رخ متعین کرنے میں معاون ثابت ہوا بلکہ جدید اردو غزل کے ارتقا اور امکانات کو نئی وسعت و جہات سے روشناس کروا گیا۔ جدید اردو غزل کے روّیوں کا تذکرہ ہو اور نقاد اس شعر سے صرف نظر کرجائیں یہ ممکن ہی نہیں۔ جمیل الین عالی کہتے ہیں:
’’ان شعراء کے ہاتھوں جدید غزل، حسن و عشق کے بدلے ہوئے روّیے میں عہد حاضر کی روح سے ہم آہنگ ہونے میں، معاصر انہ انداز فکر میں اور حالات و حقائق کی حقیقت پسندانہ ترجمانی میں کیا سے کیا ہوئی جا رہی ہے، ذرا اس کا اندازہ ان اشعار سے کیجیے۔
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا۔‘‘
(۱۰)
نظیر صدیقی جدید غزل پاکستان اور ہندوستان میں لکھتے ہیں:
’’ان کی غزلیں سادگی اور پرکاری کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔ ان کی غزلیں مختصر بھی ہوتی ہیں اور ہموار بھی ان کے یہاں اچھی غزلیں اور اچھے شعر بہت ہیں، لیکن ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے ان کا ایک شعر کافی ہے اور وہ یہ ہے۔
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
یہ شعر جس تجربے پر مبنی ہے اسے کوئی جدید شاعر ہی ہاتھ لگا سکتا تھا۔ حفیظؔ نے ایک بالکل اچھوتے موضوع کو اتنا مکمل کلاسیکل انداز بیان عطا کیا ہے کہ اس سے بہتر انداز بیان کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنا نازک تجربہ شعور و احساس کی گرفت میں کیوں کر آ سکا۔‘‘(۱۱)
اس شعر کے سحر سے نظیر صدیقی کبھی آزاد نہ ہو پائے، جدید اردوغزل، ایک مطالعہ میں اس شعر کا مکمل تجزیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ فسانۂ غم دوراں اور فسانۂ غم دل، ان دونوں موضوعات پر ان کے بعض شعر اتنے اچھے ہیں کہ ان اشعار پر ان کے اہم ترین معاصرین کو بھی رشک آ سکتا ہے۔ مثلاً پہلے فسانۂ غمدل ہی کو لے لیجیے۔ اس موضوع پر یوں تو انھوں نے کئی بہت اچھے شعر کہے ہیں لیکن انھیں اردو شاعری میں زندہ رکھنے کے لیے ان کا صرف ایک شعرکافی ہے اور وہ یہ ہے
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
اردو میں اتنے اچھوتے موضوع پر اتنے اچھوتے اندازمیں بہت کم شعر کہے گئے ہیں۔ یہ شعر ان کے فکر کی بلند ترین پرواز بھی ہے اور ان کے فن کا بہترین اعجازبھی۔ اس شعر میں انھوں نے جس قدر ایجاز و اختصار کے ساتھ ابہام و اشکال کے بغیر سادہ اور سہل اندازمیں انسانی نفسیات کے ایک پیچیدہ اور ناقا بل گرفت پہلوکا اظہار کیا ہے، وہ انھی کا حصّہ ہے۔ یہ شعر نفسیاتی شاعری کی ایک ایسی مثال ہے جس میں نفسیات شاعری کی رہین منت معلوم ہوتی ہے نہ کہ شاعری نفسیات کی۔ غالباً شعر و ادب کے ایسے ہی شہ کاروں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ادب نام ہے اپنے آپ سے انسان کے تعارف کا، ممکن ہے سطحی نظر رکھنے والوں کو اس شعرمیں عیاشی و اوباشی کا جوازنظر آئے لیکن اس میں خودشناسی اور خود آگاہی کی دشواریوں کو جس طرح بیان کیا گیا ہے اس کی داد فطرت انسان نے نبض شناس اور رمزآشنا ہی دے سکتے ہیں۔ حفیظؔ کا یہ شعر ان کے فکر و نظر کی بلندی کا وہ نقطہ ہے جہاں تک دوسروں کا تو ذکر ہی کیا خود حفیظؔ کی رسائی بھی صرف ایک مرتبہ ہی ہو سکی‘‘(۱۲)
’’ اس شعر میں ایک کی خاطر کئی ایک سے محبت کرنے کا جو تجربہ پیش کیا گیا ہے، وہ حفیظؔ ہوشیار پوری کا ایک معرکہ آرا contribution ہے‘‘(۱۳)
سلیم احمد، جدید غزل پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’… اس عاشق کو اپنے عشق کو بھی شک کی نظرسے دیکھنا آتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا روّیہ تعلقات عشق کی طرف تجزیاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے دکھوں اور غموں اور غموں کا احساس رکھنے کے باوجود انھیں اتنی زیادہ اہمیت نہیں دیتا کہ پوری زندگی کا پیمانہ بنا ڈالے
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا‘‘
(۱۴)
پروفیسر مجتبیٰ حسین، حفیظ کی غزل میں کیفیتِ انتظار کا تجزیہ یوں کرتے ہیں:
’’حفیظؔ صاحب کے یہاں وقت گزرنے کا گہرا تاثر ملتا ہے، ان کی غزلوں میں ایک ’’انتظار‘‘ ہے۔ اپنا اور اپنے محبوب دونوں کا۔ انھی دو نقطوں کے درمیان ان کی غزل دبی زبان سے اعترافِ محبت بھی کرتی ہے اور اعترافِ شکست بھی۔
تمام عمرترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیارہم نے کیا
یہ فاصلہ جو محبوب اور عاشق کے درمیان ہے۔ ان کی غزلوں کو مختلف تجربات کی منزلوں سے گزارتا ہے۔ یہاں تک کہ آخر میں یہ تجربہ جدائی کا گیت بن جاتا ہے۔ حفیظؔ کی شاعری جدائی کا نغمہ ہے۔‘‘(۱۵)
’’انھوں نے ایسے ایسے گریز پا جذبات کی اپنی شاعری میں ترجمانی کی ہے کہ کم ہی شاعروں کو نصیب ہوئی ہے۔ نفسیات انسانی کے ان پہلوؤں کو گرفت میں لائے ہیں کہ جن پر عموماً نظر ہی نہیں پڑتی۔
تمام عمرترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیارہم نے کیا
(۱۶)
جاذب قریشی نے حفیظؔ کے اس شعر کو موضوع بنا کر اردو کی شعری روایت میں اس کا مقام و مرتبہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ جاذب شعر کو اسلوبی سطح سے پرکھتے ہوئے اس کی رمزیت اور اشاریت، نا مانوس اور ثقیل و بھاری بھرکم الفاظ کے عدم استعمال، چونکا دینے والی تراکیب کے نہ ہونے کے باوجود دوسرے مصرعہ، اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا، کو اردو شعر کا ایک نیا اسلوب قرار دیتے ہیں، پھر موضوع کے اعتبار سے بھی جاذب اس شعر کی معنویت اور تہ داری سبھی کو اپنی نگاہ میں رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق اس شعر کے روایتی انداز کے معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ شاعر کو محبوب کے انتظار میں دوسرے لوگوں کی طرح دشمنوں سے پیار کرنا پڑا یا محبوب کی خاطر وہ ناگوار چیزوں اور لوگوں کو بھی برداشت کرتے رہے، جو ان کی زندگی و محبت سبھی کو مٹانے کے در پے تھے۔ جاذب نے اس شعر کو عصر جدید کے تناظر میں ایک الگ زاویے سے پرکھنے کی کوشش کی۔ ان کے نزدیک:
’’یہ شعر انسانوں کے ایک فطری ہمہ گیر جذبہ اور ایک ازلی بیکراں محرومی کی تصویر ہے، جس کی اساس زندگی کی وہ بنیادی امید ہے جس میں وقت کی گردشیں انسان کی مجبوریاں اور دلوں کی وہ زندہ آرزو نظر آتی ہے جو کبھی پوری نہیں ہوپاتی۔ اس شعر میں سب سے اہم ’’وہی کچھ‘‘ ہے۔ حفیظؔ صاحب کو تمام عمر جس کا انتظار رہا اور جس کے انتظار میں انھیں نہ جانے کس کس سے پیار کرنا پڑا۔ میں سمجھتا ہوں، وہ نہ تو کوئی خوبصورت مہکے ہوئے بدن کا گداز ہے اور نہ ہی ماورائی تصوف کا کوئی انجاناتصوّر ہے، بلکہ انھوں نے تو ایک ایسے انتظار کی تخلیق کی ہے، جسے ہر دل کی دھڑکن’ ’سکون‘‘کا نام دیتی ہے۔ حفیظؔ صاحب اس شعر میں اس سکون کے انتظار میں ہے، جس کی تلاش میں انسان ان گنت صدیوں سے آوارہ ہے۔ یہ وہی سکون ہے جیسے انسانی تقدیر کی عبارتوں میں کبھی شریک نہیں کیا گیا ہے مگر جس کی امید ہر زندگی کا محور ہے۔‘‘(۱۷)
اور آخر میں ہم ذرا جرأت سے کام لے کر اس شعر کو حفیظؔ صاحب کے ہرجائی پن یا بے وفائی سے تعبیر کر سکتے ہیں کہ حفیظؔ خود بھی تو یہ کہتے رہے کہ وفا اس نے نہ کی تو کیا، ہم ہی وفا کرتے، تو ایسا غلط بھی نہیں کہ ہر شخص کے باطن میں وہ فرد بھی زندہ ہے جو اپنی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں سچ بولنا اور سچ سننا چاہتا ہے۔ ایک شخص ہمہ وقت وفادار اور مخلص نہیں رہ سکتا۔ اس کے مزاج اور روّیوں میں تبدیلی کسی بھی وقت، کسی بھی وجہ سے آ سکتی ہے۔ در اصل اب وفا کا مفہوم تبدیل ہو چکا ہے۔ عاشق جو وفا کے نام پر جان وار دیا کرتا تھا، جو محبوب کے ہرجائی پن تغافل اور رقیب پر مہربانیوں کے باوجود، تمام عمر اسی سیم تن کا طلبگار رہتا اور اس کی طرف سے پہنچنے والے کسی بھی صدمے کو خندہ پیشانی سے جھیل جاتا اور محبت میں ہر حال میں ثابت قدم رہتا۔ آج وہ ’’وفا‘‘ کے سحر سے آزاد ہو چکا ہے۔ وجہ محبوب کی بے وفائی ہو یا اپنی تنوع پسند طبیعت کی بنا پر محبوب بھی اس طرح اس کی زندگی میں آتے جاتے رہے جیسے کہ موسم بدلتے ہیں اور اس کے اظہار میں جھجک بھی محسوس نہیں کرتا۔ وہ محبت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ جدائی میں ہر وقت اس کا منتظر رہتا ہے۔ اگر اس کے بزرگ، تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی کا اصول، وفا پر ثابت قدم رہنے کے اعلان کے باوجود اپنا سکتے ہیں تو پھر وہ خود کیوں نہیں اس تجربے کو دُہراسکتا، جب کہ اسے اس بات کا بھی احساس ہے کہ ہر محبوب کی عادات، کردارو رنگ جدا جدا ہیں، تو وہ کیوں نہ ان متنوع احساسات سے گزرے۔
محبوب ہزاروں ہیں تو کیا یہ بھی تو دیکھو
ہراک کا الگ ذکر ہے ہر اک کی جدا یاد
جہانِ رنگ و بو میں کوئی تجھ سا پھر بھی دیکھوں گا
جو عالم میں نے دیکھا ہے وہی کیا پھر بھی دیکھوں گا
جب کبھی ہم نے کیا عشق پشیمان ہوئے
زندگی ہے تو ابھی اور پشیماں ہوں گے
کیوں ترے التفات مسلسل کے باوجود
یہ آرزو ہے کوئی تیرے سوا بھی ہو
بے وفا اک ترے نہ ہونے سے
جانے کس کس کی یاد آئی ہے
حفیظؔ کی شعری کائنات کے اہم کردار عاشق اور محبوب کے تجزیے کے بعد محبت کا ایک سوالیہ رخ سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حفیظؔ کا کردار عاشق کا ہے یا محبوب کا۔ وہ محبت کرتا ہے اس لیے عاشق ہے۔ اس سے محبت کی جاتی ہے اس لیے وہ محبوب ٹھہرا لیکن معاملہ کچھ اس سے بڑھ کر ہے کہ وہ محبت کرتا تو ہے لیکن اپنی ذات سے، طالب و مطلوب تو خود اس کی اپنی ذات ہی ٹھہری۔ وہ محبوب کا متلاشی ہے، لیکن اس کی تلاش میں نکلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ہی در پر دستک دے رہا ہے۔ بسا اوقات وہ خود بھی حیران رہ جاتا ہے کہ اس کا مطلوب اس کا موضوع، اس کا مخاطب کوئی اور نہیں اس کی اپنی ذات ہے۔
کھلا یہ راز کہ مقصود تھا سراغ اپنا
جہاں کہیں بھی تری جستجو کی بات چلی
ہم نے دیکھا اپنا موضوع سخن ہیں آپ ہم
اپنے ہی دل سے رہی اکثر ہماری گفتگو
شاعرحیران ہے کہ وہ تو محبوب کے متعلق سوچ رہا تھا خود اس کی ذات کب درمیان آئی، تو یہ سب کچھ لاشعور کا کرشمہ تھا کہ جس کی بناپروہ جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے غیر ارادی طور پر اپنے جسم و جان کا حصّہ بنا لیتا ہے۔
ان کی آرزو تھی یا جستجو حفیظؔ اپنی
ان کو پا لیا ہم نے مل گیا نشاں اپنا
تم پہ جب ڈالی نظر ہم خود نظر آنے لگے
آئینہ دیکھا تو جیسے تم ہی تم تھے ہو بہو
پھر اس کا نتیجہ یوں نکلتا ہے۔
نظر میں جچتا نہیں اب کوئی بھی اپنے سوا
کسی کے جلوے مرے کام آئے ہیں کیا کیا
اور جب اپنی ذات ہی مرکز نگاہ ہو تو پھر فرد کو کئی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے لیکن آخر کاروہ اپنی شناخت، اپنی کھوج اور اپنی پہچان پا لیتا ہے اور احساس ہوتا ہے کہ اب وہ اس قابل ہو گیا ہے کہ اسے کسی ظاہری سہارے کی ضرورت نہیں۔
اپنے دل سے بھی بہت باتیں رہیں
منت گوش سماعت کے بغیر
ذات کی کھوج کی اس یاترا میں اسے مختلف تجربات اور سانحات سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ جو ساری دنیا کو سمجھنے اور انسانیت کا شعور رکھنے کا دعوی دار تھا۔ جب وہ اپنی ذات کے متعلق غور و فکر کرتا ہے۔ اپنے باطن میں ہونے والی شکست و ریخت کا جائزہ لیتا ہے۔ انسان کے اندر جو پستی و بلندی پوشیدہ ہے اس کا تجزیہ کرتا ہے تو گھبرا جاتا ہے کہ وہ تو اپنے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا۔
عجب زنداں تھا اپنی ذات کا خول
نہاں اپنی نظر سے ہم رہے ہیں
اور جب وہ ذات کے اس زنداں کی دیواروں سے سر ٹکراتا ہے۔ اپنا پتاپوچھنا چاہتا ہے، لیکن جواب نہیں پاتا تو غم و غصے کا شکار ہو جا تا ہے۔
حفیظؔ اکثر خود اپنی جستجو میں
ہم اپنے آپ سے برہم رہے ہیں
وہ تلاش کے اس عمل کو جاری رکھتا ہے۔ کبھی اپنا سراغ پا لیتا ہے اور کبھی نہیں، لیکن سفر جاری رہتا ہے۔
آپ اپنے آشنا ہیں آپ ہیں اپنا سراغ
آپ اپنی گمراہی ہیں آپ اپنی جستجو
انسان اپنا متلاشی کیوں ہے۔ کیا کائنات میں کچھ اور موجود نہیں، جس کی جستجو کی جائے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ انسان جب تک اپنی پہچان، اپنا مقام و مرتبہ خود پر واضح نہیں کر لیتا، دوسری انواع و اقسام کی اشیا کی کھوج کی کیا اہمیت و ضرورت۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ یہی کائنات جو حسن و دلکشی کا مرقع تھی، لیکن آج انسانیت کے ہاتھوں ہی اس کی تذلیل نے اسے وہ بد صورتی عطا کی ہے کہ انسان خود اپنے ہی ان کارناموں پر شرمندہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اب اسے حسن و دلکشی کی قدر معلوم ہوئی اور وہ اس کی تلاش میں سرگرداں ہے، لیکن ناکام۔ اس کے تخیل کی پرواز اس کی توجہ اپنی ذات کی جانب مبذول کرواتی ہے کہ جس دلکشی کی تلاش میں تم مارے مارے پھر رہے ہو، وہ تمھارے اندر ہی موجود ہے، یوں وہ اپنی ہی جانب متوجہ ہوتا ہے۔
مجھ میں کوئی دلکشی ہو جیسے
اور مجھ سے چھپی ہوئی ہو جیسے
پھر یوں بھی ہوا ہے کہ زندگی کی تیز رفتاری اور سب سے آگے بڑھ جانے کی لگن نے جذبوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ جذبہ و احساس کی عدم موجودگی کے باعث فرد مادیت پرست انسانوں کے ہجوم میں گھٹن کا شکار ہو جا تا ہے۔ یہ گھٹن حقیقت میں اتنی شدید بے شک نہ ہولیکن اس کے ذہن اور دل میں اس شدّت کے ساتھ موجودہے کہ اسے سارے ماحول پر وہی طاری نظر آتی ہے۔ یوں وہ اندر کے اس حبس کو ساری دنیا پر چھایا محسوس کرتا ہے۔ ہر واقعے، سانحے یا کارنامے کا باعث اس کی اپنی ذات ہوتی ہے، دیانت داری سے اپنا ہی تجزیہ کرنا اتنا آسان نہیں۔
جب بھی کوئی معرکہ تھا در پیش
اپنا ہی مقابلہ تھا درپیش
بات معرکوں کی ہو یا سانحوں کی۔ محفل کی ہو یا تنہائی کی۔ اپنی ذات ہی مرکز ہوتی ہے۔ نرگسیت، خود ترحمی اور انانیت سبھی جذبے مدغم ہو کر رہ جاتے ہیں۔
آپ اپنی ذات میں محفل
آپ ہی اپنی ذات میں تنہا
نرگسیت، خود پرستی اور انانیت کے ساتھ ساتھ زندگی کے بڑھتے ہوئے مسائل، نفسیاتی پیچیدگیاں اور ذاتی الجھنیں اس کے گرد گھیرا تنگ کرتی رہتی ہیں۔ ایسے میں وہ فرار چاہتا ہے یا پناہ مانگتا ہے۔ یہ فرار یا پناہ اسے کسی اور راہ پر لے جاتی ہے۔ خود پسندی کی بنا پر وہ اپنا موازنہ اپنے خالق سے بھی کر لیتا ہے
خودی کا یہ فسوں تنہا ہوں میں تنہا ہے تو
ذوقِ تنہائی فزوں اک دوسرے کے روبرو
من وتو کا حجاب اٹھنے نہ دے اے جان یکتائی
کہیں ایسا نہ ہو بن جاؤں خود اپنا تمنّائی
ماہرین نفسیات اس امر پر متفق ہیں کہ کسی بھی شخصیت کے نہاں خانے اتنے مستحکم اور وسیع ہیں کہ ایک فرد باطنی طور پر بھی مختلف حصّوں اور خانوں میں منقسم ہے۔ ہر حصّے کا پھیلاؤ اور وسعت ناپی نہیں جا سکتی۔ اس کی قوت متخیلہ سفر کرتے کرتے کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے اور یہ سفر کبھی اختتام پذیر نہیں ہوتا۔
پہلے سے بھی کہیں فزوں تر
توفیق خود آگہی ہو جیسے
اور جب توفیق خود آگہی نصیب ہو جائے تو پھر انسان کسی اور طرف کیسے متوجہ ہو۔ وہ اگر کسی اور طرف نگاہ کرتا بھی ہے۔ کسی سے محبت کرتا بھی ہے تو اپنی ذات کی تکمیل کے لیے، لیکن وہ کسی کا مرہون احسان ہونا ہی نہیں چاہتا اور اگروہ محبت کرتا بھی ہے تو اپنے آپ سے۔ انور سدیداس کا تجزیہ کچھ یوں کرتے ہیں:
’’…وہ طلسم چشم ولب کو شعبدہ حواس قرار دیتا ہے اور حسن کا اس لیے پرستار ہے کہ یہ انسان کے داخل کو فطرت کے خارج سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ اس زاویے سے دیکھیے تو حفیظؔ کا محبوب در اصل اس کی اپنی ہی ذات کا پر تو ہے اور جب وہ اپنے محبوب کو یاد کرتا ہے تو در اصل وہ اپنے ہی خارج کا کھوج لگا رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر چند اشعار ملا حظہ کیجیے جن میں عاشق اور محبوب کی ذات میں کوئی بعد نظر نہیں آتا بلکہ یہ دونوں ایک ہی پیکر کے عکس لطیف دکھائی دیتے ہیں۔
جہاں میں کوئی ہمارے سوابھی ہو شاید
ہم اپنے آپ سے باہر نکل کے دیکھیں گے
جب بھی پکارا ہم نے تمھیں
لوٹ کے آئی اپنی صدا
خود فرو شانہ ادا تھی میری صورت دیکھنا
اپنے ہی جلوے بہ انداز دگر دیکھا کیے
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حفیظؔ ہوشیارپوری کا محبوب کوئی الگ حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کی اپنی ہی ذات کا استعارہ ہے اور اس استعارے کی دریافت میں وہ برسوں سرگرداں رہا ہے۔ تلاش کے اس سفر میں وہ کبھی ہر روز نیا راستہ اختیار کرتا ہے۔ امید کا دامن ہاتھ آ جاتا ہے تو کبھی سر مثر گاں ستارے چمک اٹھتے ہے۔ کبھی اپنی ہی ذات کے دوسرے رخ کو تلاش کرتے کرتے وہ اپنے آپ کو بھی گم کر بیٹھتا ہے۔
تری تلاش میں ہم جب کبھی نکلتے ہیں
اک اجنبی کی طرح راستے بدلتے ہیں
خود اپنی گمشدگی سے جنھیں شکایت ہے
تو ہی بتا انھیں تیرا نشاں کہاں سے ملے
تری تلاش ہے یا تجھ سے اجتناب ہے یہ
کہ روز ایک نئے راستے پہ چلتے ہیں
ذات کی اس یاترا میں حفیظ ہوشیارپوری نے کٹھن مسافتیں طے کی ہیں۔ دلوں کو اجڑتے اور بستے دیکھا ہے۔ راہروں کی بے اعتنائی اور راہبروں کی چیرہ دستی کا سامنا کیا ہے اور جب ہر منزل پر سناٹا نظر آتا ہے تو وہ قدرے مایوسی سے بھی ہم کنار ہوئے ہیں۔
جبیں پہ گردِ سفر ہے نظر میں عزم جواں
یہ کس دیار میں پہنچے ہیں کس دیارسے ہم
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا‘‘
(۱۸)
خدا خود جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، خدا محبت ہے اور محبت کو مقدم رکھتا ہے اس کا ہر دین محبت کا پیغامبر ہے۔ ہر راہنما اور ناصح محبت کی تلقین کرتا ہے۔ دنیا کی تخلیق محبت سے ہوئی لیکن جس طرح، جب تک بدصورتی کا وجود نہ ہو تو خوبصورتی کا معیار یا خوبصورتی کا احساس قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح بغض و نفرت اور دشمنی و کدورت کا وجود، محبت کی اہمیت اور قدر و قیمت سے آگاہ کرتا ہے۔ زندگی میں منفی رویوں کی بہتات اور مصنوعی اندازِ زیست نے انسان کی زندگی کو دشوار اور قابل نفرت بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں محبت کا جذبہ ہی انسان کو جینے کے آداب سکھاتا ہے۔
محبت کی حقیقت اے حفیظؔ اس کے سوا کیا ہے
بہت مشکل تھا جینا اس کو آساں کر رہا ہوں میں
محبت بہت سی مشکلات کے حل میں معاون ثابت ہو سکتی ہے، لیکن خودراہ محبت کی دشواری ناقابل بیان کہ محبت کے اصول و ضوابط کو اپنائے رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
قافلۂ اہلِ محبت چلا
راہ میں ایک ایک جدا ہو گیا
اور جو اس راہ پر خطر سے کامیاب و کامران گزرگیا جس نے تمام درد اور اذیتیں خوشی اور لذّت کے ساتھ برداشت کیں اس نے تجربہ محبت سے یہی اخذ کیا۔
ہر عیش اذیت دیتا ہے، ہر درد میں لذّت ہوتی ہے
اور اس کے سوا ہم کیا جانیں کیا چیز محبت ہوتی ہے
محبت دنیا کے لیے جنون ہے لیکن شاعرکے لیے اصلِ زیست۔ اہل دل کے لیے اس سے دستبردار ہونا ممکن نہیں۔
اب اس کے سوا اہل دل کیا کریں
محبت سہی اک سودائے خام
حفیظؔ غزل کے شاعر ہیں اور غزل کا بنیادی موضوع محبت ہے۔ حفیظؔ کی غزل محبت کے دکھوں اور سکھوں سے عبارت اور ان کی منفرد جذباتی حسیست کی آئینہ دار ہے لیکن اس غزل کا سلسلہ میرؔ ومصحفی ؔو غالب ؔسے جا ملتا ہے۔ حمید نسیم کہتے ہیں:
’’وہ اردو غزل کی دوسری بڑی روایت کے جو جرأتؔ، مصحفیؔ، مومنؔ کی روایت ہے، کے وارث تھے اور حسن و عشق کی نازک کیفیتوں کو موضوع کلام بناتے تھے۔‘‘(۱۹)
انصار ناصری کی رائے ہے:
’’میر تقی میرؔ، مومنؔ، بہادر شاہ ظفرؔ اور غالبؔ سے متاثر تھے۔ لکھنوی سکول کے مقابلے میں دلّی سکول کے شعراء کے کلام سے زیادہ متاثر تھے۔‘‘(۲۰)
خود حفیظؔ ؔغالبؔ کی پسندیدگی کا اعتراف کرتے ہیں۔ حفیظؔ نے اردو فارسی کی قدیم کلاسیکی شاعری کا تفصیلی مطالعہ بھی کر رکھا تھا۔ ان کی شاعری میں روایتی اثرات کا ہونا، خصوصاً ً ابتدائی دور کی شاعری میں فطری ہے، پھر شعرائے متاخرین کو بھی دلچسپی سے پڑھا۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ مقام غزل کے دیباچے میں رقم طراز ہیں:
’’حفیظؔ غزل گوئی کی اس روایت کے شاعر ہیں جس کی بہار حسرتؔ، جگرؔ مراد آبادی، فانیؔ بدایونی، اور اصغر ؔگونڈوی کے دیوان شعر میں ملتی ہے۔ ان میں سے حسرت ؔاور اصغرؔ کا رنگ حفیظؔ کے کلام میں ذرا زیادہ نمایاں ہے باقیوں کا برائے نام…‘‘(۲۱)
حفیظؔ کی غزل کے وہ اشعار جنھیں ہم روایتی کہتے ہیں وہ روایت سے منسلک ہوتے ہوئے بھی روایت سے ہٹ کر ہیں۔ روایتی غزل میں عاشق محبوب کے علاوہ رقیب و ناصح کے کردار نمایاں ہیں لیکن حفیظؔ کی غزل میں رقیب، واعظ، ناصح و زاہد کا تذکرہ واضح نہیں پھر گردشِ آسمان، زمانے کے ظلم و ستم، قسمت کی خرابی، ناساز گار حالات کے شکووں سے اردو شاعری کا دامن بھراپڑا ہے۔ حفیظؔ کے کلام میں ان کا تذکرہ اتنی شدّت کے ساتھ موجود نہیں۔
حفیظؔ کی شعری کائنات حسن و عشق سے تکمیل پاتی ہے، معاملات حسن و عشق کا بیان، جدائی و تنہائی، ہجر وفراق، رسوائی کا خوف، محبوب سے گلے شکوے، انتظار، محبت اور ترک محبت کے مسائل، وفا کے تقاضے، جفا کی خواہش، غم دینے والے کے لیے شادرہنے کی دعا، وضع داری کا خیال بھی اور وضع داری کی پابندی کی گھٹن بھی، محبوب کے لطف و قہر دونوں کا تذکرہ، عہد جفا اور عہد وفا، وصل کی شیرینی ہجر کی تلخی، جفا کے باوجود مہرو وفاہی کی اہمیت، ہجوم شوق میں دل کی تنہائی، نگاہ لطف کا جان دلبری ہونا، محبوب کے ذکر سے دل کا سکون حاصل کرنا۔ غرض محبت کے سبھی پہلو حفیظؔ کی شاعری کا موضوع رہے ہیں کیونکہ یہ زندگی کا وہ رخ ہے کہ جسے بھلانا یا نظر انداز کر دینا ایک حساس شخص کے لیے ممکن نہیں۔
آغازِ محبت سے انجامِ محبت تک
محفوظ ہیں سب یادیں اور یاد ہیں سب باتیں
اور اس محبت کے آغاز کا تجربہ کیسا تھا۔
آغاز محبت کی باتیں ہیں عجیب باتیں
تمہیدِ الم باتیں عنوانِ طرب باتیں
محبت میں المیہ اور طربیہ دونوں رخ لازمی ہیں۔ حفیظؔ کے اس تجربے میں روایتی شعراء کی طرح صرف دردو الم رنج وغم، کسک و تڑپ، بے کسی و بے چارگی، مایوسی و حرماں نصیبی، یاسیت و شکست و نا امیدی۔ غرض حزن و قنوطیت پسندی کی گہری چھاپ نہیں۔ درد و غم، ہجر وفراق اور جدائی و تنہائی کے سبھی مراحل سے وہ بھی گزرے ہیں لیکن دل و جاں کی شکستگی جو انسان کے تمام حوصلے پست کر کے اسے دنیا سے فرار یا موت کی خواہش یا دل و دماغ کے بے حس ہو جانے کی آرزو پیدا کرے، وہ نہیں ہے۔
محبت اختیاری مضمون یا شعوری کوشش نہیں۔ کب اور کہاں انسان اس کا اسیر ہو جائے۔ محبت اتنی خاموشی کے ساتھ انسان کے رگ و پے میں سرایت کر تی ہے کہ خود انسان کو بھی بہت دیر میں جا کر معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت تک محبت اپنے قدم مضبوطی سے جما لیتی ہے۔ محبت کی یہ کیفیت، یہ دبی دبی سی آگ، ہلکی ہلکی سی تپش اور چبھن انسان کو لذّت بھری اذیت سے ہمکنار کرتی ہے۔ وہ اس لذّت کا عادی اور تمنّائی ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ اس کے اپنے ظرف پر منحصر ہے کہ وہ محبت کا اسیر ہو کر ہوش و خرد سے بیگانہ ہو جائے اور وہ راہ اپنالے جو بعد میں اسے پشیمانی عطا کرے یا وہ محبت تو کرے لیکن سلیقے اور قرینے کے ساتھ۔ محبت میں بھی اصول و ضوابط کا پاس رکھے۔ اعلیٰ اقدار اور شائستگی کا دامن نہ چھوڑے۔ اپنی اور محبوب دونوں کی عزّت نفس اسے عزیز ہو۔ چنانچہ وہ ضبط و احتیاط سے کام لیتا اور پھونک پھونک کے قدم رکھتا ہے۔ ہونٹوں کا کام آنکھوں سے لیتا ہے اور پھر بھی خوفزدہ رہتا ہے۔
کہاں کی جنبش لب، اتنی احتیاط ہے اب
کہ ترجمانِ محبت نگاہ بھی تو نہیں
اگر ہے جرم محبت میں سانس لینا بھی
تو دیکھ کہ مرے لب پہ آہ بھی تو نہیں
گنگ ہے اہلِ محبت کی زباں
حرفِ ناگفتہ کی حسرت مت پوچھ
پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ محبت کی دھیمی، دبی دبی سی تپش بھڑکتے شعلوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ دل خواہشوں اور حسرتوں کی آماج گاہ بن جاتا ہے کہ خواہش کر بیٹھنا آسان اور اس کا پورا ہونا یا کرنا انتہائی مشکل اور عاشق انھی مشکلات میں زیست کرتا ہے۔ یہ مشکلات اسے زندگی سے بیزاری عطا نہیں کرتیں بلکہ جینے کا حوصلہ اور ولولہ بخشتی ہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ
زمانے بھر کے غم یا اک تراغم
یہ غم ہو گا تو کتنے غم نہ ہوں گے
وہ ہر آزمائش اور امتحان کے لیے تیار ہے۔
ہجومِ اندوہ و غم سراسر ترے غمِ عشق تک رسائی
ہزار غم بہر آزمائش ترے غمِ کار گرسے پہلے
محبت ہی وہ قدر ہے کہ جو انسان کو زمان و مکان کی ظاہری قیود سے آزاد و ماورا کر دیتی ہے
عشق اک کیف ہے جس میں نہ مکاں ہے نہ زماں
کوئی آغاز نہیں تھا کوئی انجام نہیں
محبت، ہجر، محرومی و تنہائی کا احساس تو پیدا کرتی ہے لیکن زندگی سے بیزاری عطا نہیں کرتی، بلکہ یہی ہجر اور محرومی انسان کی ذات کو حوصلہ بخشتی اور جینے کا قرینہ سکھاتی ہے۔
دراز ہو غمِ ہجراں کہ حاصلِ ہجراں
وہ حوصلے ہیں جو آغوشِ غم میں پلتے ہیں
محبت کی اعلیٰ اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے محب اپنے محبوب کے سامنے بے بسی، بے چارگی مجبوری و معذوری کا اظہار نہیں کرتا۔ محبت اس کے لہجے کو اگر غمناکی عطا کرتی ہے تو اس غم میں بھی استقامت اور لہجے میں فخر ہے۔ وہ خود پر ناز کرتا ہے تو یہ بھی چاہتا ہے کہ محبوب بھی اس بات پر فخر کرے کہ محب کا دل اس کے درد محبت کا امانت دار ہے۔
ناز کر اپنے مقدر پہ تواے جان حفیظؔ
کہ مرا دل ہے ترے دردِ محبت کا امیں
بھول کے دیکھ لو ذرا ہم کو
کوئی آساں نہیں بھلا دینا
انسان جب جذبۂ محبت سے ہمکنار ہوتا ہے تو اسے دنیا کی ہر چیز سے محبت جھلکتی نظر آتی ہے، محبت حسن ہے خوبصورتی ہے۔ اسے تمام کائنات خوبصورت نظر آنے لگتی ہے۔ اسے محبوب کے حسن کے علاوہ ساری دنیا اور آپ اپنی ذات پر بھی نکھار آنے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ حسنِ محبوب تمام کائنات پر حاوی ہوتا معلوم ہوتا ہے۔
یہ دلکشی کہاں مرے شام و سحر میں تھی
دنیا تری نظر کی بدولت نظر میں ہے
اسے چہار جانب محبوب کا جلوہ نظر آتا ہے۔
یہ حسن جذب محبت یہ حاصل محویت
تمھی کو سامنے پایا کبھی جو آنکھ اٹھائی
محبت ہی وہ جذبہ ہے کہ جب انسان کو اپنی گرفت میں لے تو اسے محبوب سے زیادہ حسین اور مکمل کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ محب اپنے حسن انتخاب پر ہمیشہ نازاں رہتا ہے۔ اگر محبوب میں کوئی خامی ہو بھی تو وہ دوسروں کو تو دکھائی دے جاتی ہے۔ محب اس کی طرف سے بے نیاز ہوتا ہے اور اگر اسے اس خامی کا احساس دلایا بھی جائے تو اس کی بنا پر اس کی محبت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ ظاہری حسن سے قطع نظراگر عادتاً بھی وہ ستم پیشہ ہے، جفا جو ہے، وعدہ خلاف ہے، دوسروں پر مہربان ہے اور عاشق کو نظر انداز کرنا اس کا شیوہ ہے۔ وہ جتنا نظرانداز کرنا ہے یہ اتنا ہی آنکھیں بچھائے جاتے ہیں۔ وہ جتنا تغافل برتتے ہیں یہ اتنا ہی ان پر جان نثارکیے جاتے ہیں، ہر ستم کو اس کی معصومیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ غالب کو بھی تو ان سے وفا کی امید تھی جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔
تغافل کا کروں ان سے گلہ کیا
وہ کیا جانیں جفا کیا ہے وفا کیا
محبت ہمیشہ کسی غرض، لالچ، صلے یا طلب کے بغیر ہوتی ہے۔ محب وفا کیے جاتا ہے۔ وفا کی طلب اگر دل میں جنم لیتی بھی ہے تو اسے اہمیت دیے بغیر محبوب کی جفائیں سہتا ہے۔ محبت کرنا اس کا فرض ٹھہرا۔ وہ محبت کیے جاتا ہے۔ بغیر کسی امید یا صلے کی تو قع کے۔
غرض ہو کوئی شامل حفیظؔ
تو مجھ پر ہے دردِ محبت حرام
ہر فرد کے لیے محبت کی تاثیر الگ ہے۔ اسی طرح ایک ہی فرد مختلف اوقات میں محبت کے مختلف مدارج سے دوچار ہوتا ہے۔ کبھی وہ اسے میٹھا درد بخشتی ہے تو کبھی اذیت جاں ثابت ہوتی ہے۔ کبھی وہ محبت کے بغیر جی نہیں سکتا، کبھی محبت سے پناہ مانگنے لگتا ہے۔ محبت کبھی شہر کو ویرانہ اور کبھی ویرانے کو شہر بنا دیتی ہے۔ کبھی منزل کا حصول سہل اور کبھی قیامت کر دیتی ہے۔ ساز محبت کبھی نالہ، کبھی نغمہ فضاؤں میں بکھیرتا ہے۔
ہمیں جہاں میں ہیں راز آشنا قیامت کے
کہ فاصلے ہیں قیامت رہِ محبت کے
سازِ محبت کے تاروں میں نالہ کبھی اور نغمہ کبھی
بے پروائے رنج و طرب آہنگ بدلتے رہتے ہیں
محبت انسان کو دنیا سے بے نیاز کر دیتی ہے اور محبت ہی انسان کو دنیا میں تنہا کر دیتی ہے۔ محبوب کی خاطر وہ سارے زمانے سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ بے قراری و بے چینی کی کیفیت تنہائی کے لمحات میں دم بدم بڑھتی ہی جاتی ہے۔ ایسے میں محب کا شکوہ کناں ہونا فطری ہے۔
پھریں مجھ سے زمانے کی نگاہیں
پھری مجھ سے نگاہِ آشنا کیا
زمانے بھر سے میں کھویا گیا ہوں
تمھیں پا کر مجھے آخر ملا کیا
جب عاشق یہ کہتا ہے کہ تمھیں پا کر آخر مجھے ملا کیا۔ تو اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ محبت کی طلب کے علاوہ بھی اس کی زندگی میں کچھ اقدار اہم ہیں۔ کچھ اور مسائل اس کے نزدیک حل طلب ہیں، لیکن محبت کی وجہ سے وہ ان کی طرف سے غافل ہو گیا ہے اور اس خامی کا اسے احساس ہے۔
عشق ہے فرصت ہی فرصت
ہم کو رونا فرصت کا
یہ مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے کہ انسان جو کام اپنی خوشی کے لیے کرنا چاہتا ہے وہی عدیم الفرصتی کی بنا پر نہیں کر پاتا اور جو نہیں کرنا چاہتا وہی کرنے پر مجبور ہوتا ہے، خود اذیتی کی یہ کیفیت اسے ان فیصلوں پر مجبور کرتی ہے جس میں اس کے دل کی رضا شامل نہیں ہوتی۔
یہ اور بات کہ دل سے بھلا سکوں نہ تمھیں
مگر یہ عزم کہ دل سے تمھیں بھلادوں گا
لیکن یہ عزم و ارادہ محبت کی مضبوط دیوار میں نقب نہ لگا سکا تو طمانیت کا احساس جا گتا ہے۔
خوشی ہو، غم ہو اے دین محبت
ترے پیرو بہر عالم رہے ہیں
اور محبت کی انتہا یوں ہوتی ہے کہ
خیال میں کوئی صورت ضرور تھی لیکن
کسے خبر تھی کہ تم کو خدا بنادوں گا
انسان بے غرض ہو کر محبت کرتا ہے محبوب کی مرضی اور اس کے ایمائے نظر کو نظر میں رکھ کر تمام زندگی گزاردینے کو ہی حاصل زیست سمجھتا ہے لیکن اس احساس کو بھی فراموش نہیں کرپاتا کہ محبت ہی نے اسے درد ہجر سے روشناس کیا ہے۔ محبت ہی قائم و دائم تشنگی اور تنہائی و جدائی کا نام ہے۔ اس تلخی ء فراق کا علاج کسی کے پاس نہیں۔ جدائی ہی مقدر ٹھہرا تو اس ذکر سے کیا حاصل کہ اس کا باعث محبوب کی ذات ہے یا محب کی۔ محب روداد شبِ فراق کبھی سنا ہی نہ سکا کیونکہ شب فراق کی کبھی سحر نہیں ہوئی۔ وہ شب کی تنہائیوں اور بھری دوپہروں میں ہجر وفراق کے تپش بھرے لمحات سے بزم تصوّر سجا کر سکون حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یوں خلوت میں جلوت سے ہمکنار ہوتا ہے۔
حیرت کدہ نشاطِ جاں میں
اک بزم سجی ہوئی ہو جیسے
خلوت گہ انبساطِ دل میں
جلوت کی ہما ہمی ہو جیسے
بزم تصوّر، ماضی کے بیتے دنوں کی یاد سے آراستہ ہے۔ یاد کے روپ مختلف، انداز جدا۔ کبھی یاد غم کی کیفیت عطا کرتی ہے تو کبھی دل کو سر خوشی و سکون سے ہمکنار کرتی ہے۔ ہر دو کیفیات میں شاعرکو احساس ہے کہ اس دورِ جدائی میں یاد کے علاوہ کوئی اور نہیں جو شریکِ غم ہو۔ یہ یاد ہی ہے جو ہجومِ غم میں بھی انسان کو مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
یاد آئی تری ہر ایک ادا
اور بعنوانِ طرب یاد آئی
کسی کی یاد نے بھی گل کھلائے ہیں کیا کیا
ہجومِِ غم میں بھی ہم مسکرائے ہیں کیا کیا
یاد، محبت کی شدّت میں کمی نہیں کرتی، بلکہ درد محبت کو اور فزوں کرتی ہے اور یہ محبت کی شدّت ہی ہے کہ
گزری ہے اس طرح سے محبت میں زندگی
خود کو بھلادیا کبھی ان کو بھلادیا
یہ فراموشی خود اختیاری نہیں۔ انسان جب شعوری طور پر کسی کو بھلانا چاہتا ہے تو اس کی یاد اور زیادہ آتی چلی جاتی ہے۔ وہ کسی کی یاد کو لا حاصل سمجھ کر فراموش کرنا چاہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ شاید اس کوشش میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے یہ خدشہ بھی رہتا ہے۔
بڑی مشکل سے بھلایا ہے اسے
کیا کروں گا جو وہ جو اب یاد آیا
اس بھول جانے کے لیے بھی وہ یاد ہی کا احسان مند ہوتا ہے
میں نہ بھولوں گا تری یاد کا احسان کبھی
بھول جانے کے جو انداز سکھاتی ہے مجھے
فراموش کر دینا، بھول جانا خدا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک کہ اگر یہ نعمت نہ ہوئی تو دنیاروتی بسورتی صورتوں کے ابنوہ کا نام ہو جائے۔ وقت سب سے بڑا مرہم ہے، جو شدید صدمے اور دل کے زخموں کو رفتہ رفتہ مند مل کر دیتا ہے اور وہی شخص کہ جس کی عدم موجودگی میں سانس لینا بھی دشوار ہو گیا تھا۔ اب اس کی صورت یاد کرنے پر بھی یاد نہیں آتی۔
آج جی کھول کے روئے اے دوست
تیری صورت بھی نہ جب یاد آئی
یہ اور بات ہے کہ اب یاد تک نہیں آتا
کسی کے نام سے آرائشِ بیاں تھی کبھی
کیا دل پہ حادثات نجانے گزر گئے
وہ بھی نہ یاد آئے، زمانے گزر گئے
محبت کا ارضی تصوّر
حفیظؔ کی شاعری میں محبت کا تصوّر ماورائی نہیں بلکہ خالص زمینی ہے۔ محبوب بھی اسی دنیا کا باسی اور عاشق کا تعلق بھی اسی زندگی سے ہے۔ دونوں کی نفسیات ایک، سماجی و معاشی حالت ایک، اس بنا پر ذہنی ہم آہنگی کا ہو نا خلاف واقعہ نہیں۔ چاہنا اور چاہے جانے کی خواہش کرناہر دور میں موجود رہی ہے۔ محبت کے دائرے کی تکمیل میں کئی کٹھن مقامات اور رکاوٹیں بھی سامنے آتی ہیں۔ کبھی محبوب اور کبھی عاشق محبت سے شعوری طور پر گریز کرتا ہے۔ ذراسی بات پر ترک تعلق کا ارادہ کرتا ہے۔ مقصود، محبت کی آزمائش یا محبت کو بڑھانا ہے، پھر محبوب اس کی دسترس میں ہے۔ وہ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ترستا نہیں، وفا کا مفہوم بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ سلیم احمد کے نزدیک:
’’عاشق کے لیے وفا کی روایتی قدر بھی روایتی معنی نہیں رکھتی۔ اس میں یہ جرأت ہے کہ تسلیم کر سکے کہ عشق اپنے آپ کو بھلائے بغیر ایک سے زیادہ مرتبہ کیا جا سکتا ہے۔ یہر وّیہ اس لیے اہم ہے کہ اس سے پہلے یہ ہوس سے منسوب تھا۔‘‘(۲۲)
ایسے میں اگر حفیظؔ بھی محبوب کے انتظار میں نہ جانے کتنوں سے پیار کر بیٹھتے ہیں یا محبوب ہزاروں ہیں تو کیا، ہر ایک کا رنگ اور یاد جدا ہے، کا تذکرہ کرتے ہیں پھر محبوب کی جدائی میں نہ جانے کس کس کی یاد انھیں آ کر ستاتی ہے یا یہ کہ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جب بھی عشق کیا، پشیماں ہوئے ہیں، تو اسے محبت کے بجائے ہوس پرستی سے تعبیر کرنا درست نہیں کہ ایک تو حفیظؔ جیسے سنجیدہ و شائستہ انسان کے لیے، جو محبت کا اعلیٰ تصوّر اور معیار قائم کیے ہوئے ہے، یاد رہے کہ یہ معیار ماورائی اور آفاقی نہیں بلکہ ارضی ہے، مناسب نہیں۔ پھر جذباتی زندگی میں خلا انسان کی ذات کی تکمیل میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ نامکمل شخصیت زندگی کے مسائل کے حل میں کیا معاونت کر سکتی ہے۔ اردو شاعری کے لیے یہ روّیے کوئی نئے نہیں اور حسرتؔ نے تو اردو شاعری کے ان مختلف روّیوں کی درجہ بندی بڑی خوبی سے کی ہے۔ سلیم اختر کہتے ہیں:
’’جس کلام میں عشق مجازی سے برتر درجہ پر عشق ہے۔ عشق اور حسن سے حسن مطلق مراد ہو، عارفانہ ہو گا اور اس کے برخلاف جن غزلوں میں مجازی عشق سے کم تر درجہ کے جذبات ہوس کی مصوری اور صحیح مصوری موجودہے ہو وہ فاسقانہ کہلائے گا… فاسقانہ شاعری کو بدمذاقی پر محمول کرنا، سوقیانہ ابتذال قرار دینا، انصاف کا خون کرنا ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ جب شاعری کا مقصد صحیح جذبات کی مصوری مسلم ہو تو پھر اس کے دائرے کو صرف پاک جذبۂ عشق و محبت تک محدود کر دینے اور عام اخلاق کے ۹۹ فیصدی جذباتِ ہوس کو اس سے خارج کر دینے کی کوشش اور وہ بھی محض اس بنیاد پر کہ ان کا اظہار و اعلان بعض فقیہانہ و ملآیانہ طبائع کی خصوصی پاکیزگی خیال کے لیے ناگوار ثابت ہوتا، خود مخالفین ہوس نگاری کی انتہائی بدمذاقی و بے شعوری کے سوا اور کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا، البتہ اس ضمن میں حدِ اعتدال سے گزرجانا، بے شک قابلِ اعتراض ہے۔‘‘(۲۳)
روایتی غزل میں بھی عشق و ہوس کے مضامین ہر شاعر کے کلام میں موجود ہیں اور جدید غزل بھی اس موضوع سے تہی نہیں، یوں میرؔ و غالبؔ ہوں، حسرتؔ ہوں یافراقؔؔ۔ سبھی کے ہاں فراق و وصال کے مضامین نمایاں ہیں۔ حسرت ؔکے عشق میں آسودگی و طمانیت ہے، جو حسن کی خود سپردگی و ذہنی ہم آہنگی کی عطا ہے، جبکہ فراقؔؔ کی شاعری میں قائم و دائم تشنگی نمایاں ہے۔ جمال کی دوشیزگی کے نکھرنے پر بھی وہ پثرمردہ ہیں کہ ہم سے کیا ہو سکا محبت میں۔ حفیظؔ کی شاعری میں حسن و عشق کے درمیان روابط میں نہ تو مکمل سپردگی ہے اور نہ ہی تشنگی۔ وہ اسے زندگی کی ایک ایسی حقیقت سمجھتے ہیں جس میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ محبت کبھی بیزاری عطا کرتی ہے تو کبھی جینے کا سبب ہوا کرتی ہے۔ کبھی محبت ترک تعلق کے بہانے ڈھونڈتی ہے اور کبھی روحانی کیفیت سے قطع نظر، جسم کی صداقتوں کی گواہی بن جاتی ہے۔
ترے لعل گل افشاں سے ترے چاک گریباں سے
مری خاطر کھلے در ہائے جنت اس سے پہلے بھی
شاعر کے لیے درہائے جنت کا وا ہونا سکون و طمانیت اور سر خوشی کا باعث ہو سکتا ہے لیکن ہماری تہذیب و معاشرت اور مذہب کی پابندیوں کو عبور کرنا سہل نہیں۔ خصوصاً ً اس صورت میں جب کہ ہماری تہذیب اور مذہب اس پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہوں۔ نظیر صدیقی کی رائے میں:
’’مذہب میں بھی محبت کی شادی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ گنجائش ہے تو صرف ازدواجی محبت کی۔ میں نہیں جانتا کہ اب معاشرہ جو اتنے تضادات اور اتنی پابندیوں کا شکار ہے، جنس اور محبت کے بارے میں، ڈن، جیسے شاعر کے نظریات کو کبھی سمجھ بھی سکے گا یا نہیں۔ مجھے اس کا بھی اندازہ نہیں ہے کہ ایسا معاشرہ حفیظؔ ہوشیارپوری کے اس شعر کو سمجھ سکا ہے یا نہیں۔
یہ تمیز عشق و ہوس نہیں یہ حقیقتوں سے گریز ہے
جنھیں عشق سے سروکار ہے وہ ضرور اہلِ ہوس بھی ہیں‘‘
(۲۴)
مذہبی اصول و قوانین ہی کے پیش نظر اردو شاعری میں عشق کو لازمۂ حیات اور ہوس کو یکسر نظر انداز کر دینے بلکہ گناہ کا درجہ دینے کا روّیہ راہ پا گیا۔ جب کہ ایک فرد کی زندگی میں ہر دو اہم ہیں۔ ڈاکٹر سیّد عبد اللہ کہتے ہیں:
’’شاعری میں عشق و ہوس کا مضمون نیا نہیں۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ عشق کو سراپا حقیقت اور ہوس کو سراپا باطل قرار دیا جاتا ہے۔ مثلاً غالبؔ کو یہ شکایت رہی کہ ہر بوالہوس نے عشق پرستی کا دعوی کر دیا ہے اور اس طرح آبروئے شیوہ اہل نظر برباد ہوئی… حفیظؔ کے نزدیک صورت یوں نہیں، نہ عشق سراپا حقیقت ہے اور نہ ہوس اتنی معتوب شے ہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ عشق میں ہوس کچھ نہ کچھ دخیل ہوتی ہے اور ہوس بھی بے شائبہ عشق چل نہیں سکتی۔ وہ کہتے ہیں۔
میان عشق وہوس ہے مقامِ قلب و نظر
نہ عشق عین حقیقت نہ ہے ہوس باطل‘‘
(۲۵)
اس سلسلے میں حفیظؔ اپنے نظریہ و خیال کی وضاحت ’’فلسفۂ ضدین‘‘ کے تحت علامہ اقبالؔ کے حوالے سے شیخ صلاح الدین کے نام خط میں یوں کرتے ہیں:
’’فلسفہ ضدین‘‘ کی خرابیوں کی طرف میں نے اس وقت توجہ کی تھی جب علّامہ اقبالؔ نے اس بات کا اعلان کیا کہ ’’مادہ‘‘ "Matter” اور ’’روح‘‘ "Spirit” میں سے ایک کو حقیقت قرار دے کر دوسرے کو رد کر دینا مغربی ومشرقی تمدنوں کی مشترکہ غلطی "Common mistake” ہے۔ اس نظریے کی ذمہ داری کچھ سائنس پر عائد ہوتی ہے اور کچھ غلط مذہبی تصوّرات پر، ہم نے ’’شیطان ویزداں‘‘ اور خیرو شر کے نظریوں کا دامن تو پکڑ لیا لیکن توحید کے نظریے کو بھول گئے۔ جب تک توحید کا نظریہ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں جاری وساری نہیں ہوتا۔ ’’فلسفہ ضدین‘‘ سے نجات نہیں مل سکے گی۔ اس نظریے کا بدترین اثر اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب یہ ہماری جذباتی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ علّامہ اقبال کی اس بات سے متاثر ہو کرمیں نے اردو غزل کی روایات پر غور کیا اور شروع شروع میں شعوری طور پر ان نظریوں سے دامن بچانے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ اردو شاعری کی اس ’’روایت‘‘ سے بغاوت میری زندگی اور شاعری کا ’’بے ساختہ پن‘‘ بن گئی مثلاً
عشق ہے عشق فقط اس میں ’’جفا‘‘ہے نہ ’’وفا‘‘
ان پر تہمّت بھی ہے یہ مجھ پہ یہ الزام بھی ہے
میان عشق و ہوس ہے مقام دیدہ ودل
نہ ’’عشق‘‘ عین حقیقت نہ ہے ’’ہوس‘‘ باطل!
یہ تمیز ’’عشق‘‘ و ’’ہوس‘‘ نہیں یہ حقیقتوں سے گریز ہے
جنھیں عشق سے سروکار ہے وہ ضرور اہل ہوس بھی ہیں
اور وہ پوری مسلسل غزل اسی انداز میں ہے جس میں ’’ عاشق‘‘اور ’’محبوب‘‘ کی تفریق غائب ہے۔ جس میں دوانسانوں کا ذکر ہے اور جس کا مطلع یہ ہے
وہ مجھ سے، میں ان سے گریزاں
تنہا تنہا اداس حیراں
یہی عیشِ ملاقات اور یہی فکرِ جدائی تھا
ہوئے دست وگریباں رنج وراحت اس سے پہلے بھی
ہجر و وصل کے مارو تم یہ راز کیا جانو
قرب ہوکہ دوری ہو یار دلستاں اپنا‘‘
(۲۶)
تصوّرِغم
غزل اور غم کے الفاظ ایک دوسرے کے مترادف کیوں معلوم ہوتے ہیں۔ اس کا جواب واضح ہے۔ غزل کی ایک تعریف کے مطابق غزال جب شکاری کے خوف سے بھاگتا ہے۔ شکاری پیچھا کرتے ہیں اور اسے آ لیتے ہیں۔ تیر اس کے جسم میں پیوست ہو جاتا ہے ایسے میں وہ کراہ جو شدید تکلیف اور بے بسی کی حالت میں اس کے حلق سے نکلتی ہے اور وہ بے چارگی اور مایوسی جو اس کی آنکھوں سے جھلکتی ہے۔ اس کا نام غزل ہے۔ وہ بے بسی، محرومی اور بے چارگی، جو غزل کا نصیب ہے، یہی بے بسی و مایوسی اشرف المخلوقات کا مقدر بھی ہے کہ انسانی زندگی میں خوشی کے لمحے چند اور غم کی مدّت بے حساب ہوا کرتی ہے۔ زندگی اور متعلقات زندگی نے انسان کو اس قدر یاسیت پسند بنا دیا ہے کہ وہ رجائی لمحوں میں بھی خوفزدہ رہتا ہے کہ اگلا لمحہ نہ جانے کیسا ہو۔ غم کی کارفرمائی کارخانۂ زیست میں اس حد تک دخیل ہے کہ بسا اوقات انسان خود غم کاطالب ہوتا ہے۔ حافظؔ ہوں یا بیدلؔ، میرؔ و غالبؔ ہوں، منیرؔہوں یا ناصرؔ سبھی شکوہ کناں نظر آتے ہیں کہ غم کی فراوانی اس قدر ہے تو یارب دل بھی کئی دیے ہوتے۔ زندگی اور غم لازم و ملزوم ٹھہرے تو موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں، اس حقیقت کو جان لینے کے بعد بھی انسان پریشان رہتا ہے کہ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ فرد ساری زندگی غموں سے لڑتے یا غموں کو گلے لگاتے گزاردیتا ہے۔ در اصل یہ انسان کے ظرف، استعداد اور صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ نامساعد حالات سے کس طرح گزرتا ہے۔ یہ غم ہی ہے جو انسان کو بے چارگی و مایوسی کی انتہائی گہرائیوں میں غرق کر دیتا ہے اور یہ غم ہی ہے جو زیست کرنے کے سبھی قرینے سکھا دیتا ہے۔ زندگی کے عناصر میں چمک پیدا کر دیتا ہے۔ غم ہی زندگی کی اساس ہے دولتِ غم ہی انسان کا وہ سرمایہ ہے جو اس کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ غم کی موجودگی تہذیب و اقدار کا احترام سکھاتی ہے اور جذبات کی تطہیر اس سے ممکن ہے۔ یہی غم انسان کو عظمت، استقامت اور حمیّت سے آگاہ کرتا ہے۔ ضبط، خود داری اور عزّتِ نفس کو صیقل کرتا ہے۔ جذبات و احساسات کو حسن و دلکشی عطا کرتا ہے اور وہ غم کی آنچ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔ یہی انسان کو اعتدال احساس اور اعتدال بیان بخشتا ہے۔ سنجیدگی، سادگی، تاب و توانائی اور اثباتی میلانات سے روشناس کراتا ہے، لیکن ان سب کے لیے جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ انسان کے اپنے ظرف اور صلاحیت کی بات ہے کہ ایک ہی شخص پھول کھلنے کو کلی کے مسکر انے اور دوسرا کلی کے جگر کا شق ہو کر موت کو قبول کرنے سے تشبیہ دیتا ہے۔
اردو شاعری کی تاریخ دیکھیں خصوصاً ً غزل گو ؤں کے دواوین کا مطالعہ کریں تو احساس ہوتا ہے کہ دنیا غم کی کھیتی ہے۔ غم کا ابر باراں اسے سیراب کر رہا ہے۔ انسان غم کھاتا ہے اور خون دل پیتا ہے اور جیے جاتا ہے۔ غم سے فرار چاہتا ہے اور اسی میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ غم کی شدّت سے چلا اٹھتا ہے اور لذّتِ غم اور عیش نشاطِ غم کا خواہاں بھی ہوتا ہے۔ چنا نچہ غزل کے پیشتر اشعار میں غم کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ یوسف حسین خان لکھتے ہیں:
’’غزل میں جذبۂ غم وہی حیثیت رکھتا ہے جو مغربی ادب میں ٹریجڈی (المیہ) کو حاصل ہے۔ ہر زبان کے ادب میں المیہ ہی کا مرتبہ آپ بلند پائیں گے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غم زندگی میں اسا سی شے ہے، زندگی کی یہ کوشش کہ اپنی تکمیل اور تحقیق کی راہ پر گامزن ہو، اپنے جلو میں غم کی پرچھائیاں چھوڑ جاتی ہیں۔ انسان کا یہ احساس کہ زندگی کی ابھی تکمیل باقی ہے۔ بجائے خود غم آگیں ہے۔ پھر ہر قسم کی سعی و جد و جہد جو اس راہ میں کی جاتی ہے، الم انگیز ہوتی ہے۔‘‘(۲۷)
غزل کے بے تاج بادشاہ اور خدائے سخن میر تقی میرؔ کی زندگی اور شاعری غموں سے عبارت ہے۔ وہ تمام عمرمایوسی، بے چارگی و محرومی کے حصار میں مقید رہے اور یہاں تک کہہ گئے کہ یہ شاعری کیا ہے صرف میرے غموں کا بیان ہے۔
اس پردے میں غم دل کہتا ہے میرؔاپنا
کیا شعر و شاعری ہے شعاراپنا
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
اسی غم کی کارفرمائی غالب کی غزل میں بھی موجود ہے لیکن ایک نئے انداز سے غالب ؔکے غم واندوہ کی اساس حسرت پرستی پر ہے۔ وہ غم سے آگاہ ہیں لیکن غم پرست نہیں۔ نہ کبھی غم کے آگے سپر ڈالی۔ غم اور ناکامی کے خلاف تمام عمر جہاد کیا۔ میرؔ تو کہتے رہے کہ میرے سلیقے سے نبھی میری محبت میں، تمام عمر ناکامیوں سے کام لیا۔ غالب ؔنے کہا کہ عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا، درد کی دوا پائی، دردلادواپایا۔ فلسفۂ عیشِ نشاطِ غم اپنانے کے باعث انھوں نے تاریکیوں اور مایوسیوں میں بھی شوخی اور زندہ دلی کا رویّہ برقرار رکھا۔ میرؔ کے نزدیک غم زندگی ہے، جب کہ غا لبؔ کے ہاں محض زندگی کا ایک حصّہ۔ غالبؔ کے نزدیک غم بقول اکرام:
’’ایک ایسے صحت مند آدمی کاحزن و افسوس ہے جسے اچھی چیزوں سے محبت ہے۔ کبھی وہ انھیں حاصل نہیں کر سکتا تو ان کے ہاں افسردگی عام قنوطیوں کی طرح دنیا کی مذّمت نہیں بلکہ جسمانی نشاط اور دنیا کے حسین ہونے کا اعتراف ہے …‘‘(۲۸)
انسان اور غم کی نبرد آزمائی ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ کبھی فرد مفتوح اور غم فاتح کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔ ایسے میں غالبؔ جیسا انسان بھی جو غم کی ناکامی کا مضحکہ اڑاتا رہا ہے، وہ بھی ٹوٹ کر رہ جاتا ہے۔
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ بچپں کہاں کہ دل ہے
غمِ عشق گرنہ ہوتا، غمِ روز گار ہو تا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
غرض کلاسیکی غزل کا مطالعہ کیا جائے یا عصر جدید کی، غم اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ کہیں غم اس شدّت سے کارفرما ہے کہ شاعر کی پہچان ہی غم کے حوالے سے ہوتی ہے اور کہیں غم اتنے دھیمے سروں میں، مدھم انداز میں غزل میں در آیا ہے کہ احساس ہی نہیں ہوپاتا کہ شاعراتنے غموں کا شکار ہے یا غم کی شدّت نے اس کے دل کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔ ایسے ہی شاعر وں میں ایک حفیظؔ ہوشیارپوری ہیں۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کیجیے، جذبۂ محبت، تہذیب و شائستگی اور متانت کے ساتھ، بلکہ بسا اوقات ایک نئے احساس کے ساتھ نمایاں ہے۔ حفیظؔ محرومِ محبت کے ساتھ کامیابِ محبت بھی نظر آتے ہیں۔ محبت کے سبھی دکھوں، سکھوں کا تذکرہ کرتے ہیں، لیکن پہلی نظر میں غم کی کارفرمائی اس شدّت کے ساتھ نظر نہیں آتی کہ قاری شاعرسے ہمدردی کرنے لگے یا اس کا دل شاعر کے غموں پر کٹ کے رہ جائے، لیکن جب ذرا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے، شماریاتی جائزہ مد نظر رکھا جائے تو احساس ہوتا ہے غم کی گرفت سے حفیظؔ کبھی بھی آزاد نہیں رہے اور نہ ہی انھوں نے آزاد ہونے کی کوشش کی، کیونکہ غم محبت کی عطا ہے اور محبت ہی سے زندگی عبارت ہے۔
محبت کو دعائیں دے رہا ہوں
کہاں میں اور کہاں یہ دولتِ غم
یہ محبت ہی ہے جو فرد کو تفاخرو انانیت بخشتی ہے تو کبھی بے بسی، بے چارگی، محرومی، مایوسی، قنوطیت، داخلی کشمکش، انسانی تعلقات اور رشتوں کی شکست و ریخت سے آشنا کرتی ہے۔
کیا دل گرفتہ ہم تیری محفل سے آئے ہیں
آنکھوں میں اشک بھیبڑی مشکل سے آئے ہیں
آغوش موج بھی ہمیں کرتی نہیں قبول
ہم بار بار لوٹ کے ساحل سے آئے ہیں
حفیظؔ کی غزل کے شماریاتی تجزیہ کے مطابق ’’مقام غزل‘‘ میں ۲۰۰ غزلیات شامل ہیں۔ اشعار کی تعداد ۱۴۷۲ ہے۔ جس میں غم کا موضوع ۲۳۴اشعارمیں رقم ہے۔ متعلقات غم مثلاً درد، آہ، ملال، اندوہ، رنج، محن، ماتم اور حسرت اس کے علاوہ ہیں۔
غم کا لفظ تنہا بھی اور مختلف تراکیب کے ساتھ مستعمل ہے۔
ہجومِ غم، پیکرِ غم، غمِ ہستی، رنج و غم، بیانِ غم، ضبطِ غم، غم حاصل، غمِ روزگار، غم کی چنگاری، غمِ ہجراں، غمِ دہر، بے کسیء غم، تلخیء غمِ ہجراں، غم دوجہاں، غمِ ہجر (۲ اشعارمیں )
قصۂ غم، دولتِ غم، احساسِ غم، عشق کا غم، حریفِ غمِ ایّام، عظیم شبِ غم، صبحِ غم، غمِ جدائی، داستانِ غم، غمِ انتہا، غمِ فراق، چارہ سازِ غم، متاعِ غم، غمِ دوراں، دولتِ غم (۳ اشعار میں )
شریکِ غم، غمِ جہاں، پیکرِ غم، غمِ ہستی (۴اشعار میں )
چارہ سازِ غم، متاعِ غم، غمِ دوراں، دولتِ غم، احساسِ غم، عشق کا غم، حریفِ غمِ ایّام، تعظیمِ شبِ غم، صبحِ غم، غمِ جدائی، داستانِ غم، غمِا نتہا، غمِ فراق، غمِ دنیا، غمِ دل (۵)
غمِ دوست، غم کی دولت، شب غم، سکونِ غم، زندانِ غم، غمِ جاناں (۶)
غمِ حیات۔ ادائے پرسشِ غم۔ تصوّراتِ غمِ دل۔ غمِ عشق (۸)
غم کا مقّدر، رازِ غمِ زندگی، غم زمانہ، محفلِ غم،، خمیازۂ اظہارِ غم، عصمتِ غم، پردہ دار غم، غمِ بے پنا ہِ محبت، لمحۂ غم، غمِ تنہائی عشق، حریفِ غمِ انساں، غمِ زندگانی، غمِ روزگار، درد و غم، غم کی حقیقت، بے مونسِ غم، شام غم کی تاریکی، غم کارگر، غم کے سزاوار، غم ویرانیِ محفل، معیارِ غم، فرصتِ غم، غم کا خیال، غم شناس، غمِ ایّام، غم ہجومِ یاس، ضبطِ اندوہ غم، احترام غمِ روزگار، غمِ آفاق، غمِ دلبر، شبِ غم کا مقدر، عقدۂ غم، غم کی نگہبانی، ناشناسِ غم، متاعِ غم، غم کے افسانے، غم ہجراں، آغوش غم، غم کا تقاضا، آسودۂ غم۔ یورش غمِ نہاں، غمِ جاں، ضبطِ غم، غم کی پاسداری، غم کی پردہ داری، اہلِ غم، غم کھانا۔ معاملات غمِ دل، غم کا مارا، بے غم دوراں، غمِ دوستی، غم انساں، غم کی کارفرمائی، غم فروش، حریفِ غم دوراں، غم کامداوا، غمگسار، اشتراکِ غمِ روزگار، ہجوم غم خواراں، غم کی فراوانی، آتشِ غم، غم زیست، حجرۂ غم، غم کا سماں، اعزازِ غم، آب غم، شرحِ غمِ زندگی، غم کی شدّت اور غم کی حراست، تراکیب حفیظؔ کے اشعار میں مستعمل ہیں۔
حفیظؔ کی غزل میں عام رواں زندگی کے تجربات تاثیر کے ساتھ نظم کیے گئے ہیں۔ زندگی کے یہ عمومی تجربات فرد کی داخلی زندگی سے بھی متعلق ہیں اور خارجی زندگی سے بھی، جہاں وہ اپنے دلی جذبہ واحساس کا بیان کرتے ہیں، وہیں سیاسی و سماجی موضوعات پر بھی نظر رکھتے ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ حفیظؔ زندگی کے خارجی پہلو یعنی سیاسی و سماجی موضوعات کو بر تتے ہیں تو ان میں بھی داخلی رنگ نمایاں ہے۔ حفیظؔ نے کائنات کی بات کی ہے لیکن ذات کے حوالے سے، دنیا کے دکھ محسوس کیے ہیں لیکن اپنی ذات پر سہ کر، حفیظؔ کا دور ترقّی پسند تحریک کے عروج کازمانہ ہے۔ ترقّی پسند ادیب ادب کو زندگی کا آئینہ قرار دیتے ہوئے، جو کچھ زندگی میں ہے ویسا ہی پیش کرنے کو ادب کا اصل مقصد جانتے ہیں۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں میں سے ایک اہم حقیقت انسانی زندگی کا مختلف طبقوں میں تقسیم ہونا ہے۔ چنانچہ اس تحریک کی بنیاد لاطبقاتی نظام کی تشکیل و تعمیر کی خواہش پر رکھی گئی۔ سیاسی، معاشرتی و اقتصادی مسائل، خصوصاً ً تحریک آزادی کے دوران میں اور آزادی کے حصول کے بعد ترقّی پسند مصنفین کے پسندیدہ موضوع رہے۔
’’ترقّی پسند نظریہ ادب میں اصلاً اس فکر کی تخلیقی و جمالیاتی توسیع ہے، جو سماجی اور اقتصادی سطح پر ٹھوس سائنسی مظہر کی حامل ہے۔ بالخصوص جس کی ہمدردیاں تاجر کے مقابلے میں اجیر کی سمت ہیں، جس کی ترجیح فرد کی نسبت جماعت پر، ماورائیت کے بالمقابل حقیقت پر اور قنوط کی نسبت رجا پر ہے۔‘‘ (۲۹)
یہ تمام موضوعات نظم کے مزاج سے قریب تر تھے۔ ترقّی پسند شعراء کا رجحان نظم کی طرف رہا اور غزل کو اپنے مطالب کی چیز نہ جانتے ہوئے قابل اعتنانہ سمجھا بلکہ شعوری طور پر اسے رد کرنے کی کوشش کی، لیکن کب تک۔ ترقّی پسند شعر اء نے غزلیں بھی کہیں اور اس میں وطن پرستی، انقلاب، مادی وسائل، مسائل حیات، اقتصادی زبوں حالی، طبقاتی تقسیم کی ناہمواری، مزدور و کسان کی زندگی کے دکھ اور جاگیردارانہ نظام کی خامیوں کو غزل کا موضوع بنایا، لیکن مختلف علامات کے پردے میں۔ یہ سبھی علامات کلاسیکی غزل ہی سے مستعارلی گئیں۔ زنجیر، قفس، صیاد، عاشق، معشوق، رقیب، حسن، عشق، وصل، فراق، رند، شراب خانہ، حاکم، صبا، خار، زنداں، دارورسن، بلبل، عندلیب، محتسب، ناصح وغیرہ۔
ترقّی پسند شعراء اردو شاعری کی تاریخ سے بھی آگاہ ہیں کہ ہمارے کلاسیکی شعراء نے صرف فسانۂ غم دل ہی نہیں کہا بلکہ دنیا کے غم اور زندگی کے مسائل سبھی پر نگاہ کی ہے۔ ان کی غزل آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ شعر میں شاعرکا ذاتی تجربہ موجود ہے۔ اس کی ذات معاشرے سے منسلک اور اس کے روابط زندگی کے ساتھ بہت گہرے ہیں، اس لیے اس کے ذاتی تجربوں میں اجتماعیت کی باز گشت موجود ہے۔ جب شاعراپنے غم کا تذکرہ کرتا ہے تو در حقیقت وہ معاشرتی دکھوں کا بیان ہے کہ یہی دکھ اور غم معاشرے کے دیگر افراد کو بھی اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ غموں کی نوعیت اور شدّت مختلف ہو سکتی ہے۔ یہ غم اس کی ذات کا حصّہ ہیں، جبکہ جدید ترقّی پسند غزل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مزدوروں، کسانوں اور دیگر محنت کش عوام کے مسائل اور ان کے دکھوں کو موضوع ء سخن بناتے تو ہیں، لیکن عموماً خود ان کا تعلق اس طبقے سے نہیں ہوتا، جبکہ کلاسیکی شعرا ء غمِ جاں کے ساتھ ساتھ غمِ جہاں یا آلامِ روز گار کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہ خود ان نامساعد حالات کا شکار ہوئے ہیں۔ ترقّی پسندی کا اصول یہ رہا ہے۔
’’کامیاب شعر کہنے کے لیے آج کل کے زمانے میں شمشیر کی صلابت اور سازو جام کا گداز دونوں ضروری ہیں۔ دلبری با قاہری جادوگری است۔‘‘(۳۰)
جبکہ کلاسیکی شعراء نے شعر کہنے کے کوئی اصول و ضوابط نہ بتائے تھے جو کچھ جسم وجاں پر بیت گیا، اسے شعر کی زبان عطا کر دی۔
حفیظؔ ہوشیارپوری ترقّی پسند تحریک کے عروج کے دور میں جیے لیکن رابطہ کلاسیکی غزل سے رہا اور اردو غزل کی وہ روایت جو حالیؔ کی جدید نظم نگاری کے دور عروج میں ماند پڑتی جا رہی تھی اور جس کو حیات تازہ، حسرتؔ، اصغرؔ، فانیؔ، یا سؔ وفراقؔ نے دی، حفیظؔ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ثابت ہوئے۔ ان کی شاعری میں غم عشق کے ساتھ ساتھ غم آفاق کا تذکرہ جا بجا ہے، لیکن مزدور کسان جاگیردار، پرچم، انقلاب، بھوک و افلاس جیسے الفاظ کہیں نظر نہیں آتے۔ وہ اپنی ذات کی نفی کر کے غزل کو دنیا سے بھوک اور افلاس کے خاتمے کی کوشش کا اعلان نامہ نہیں بناتے۔ ترقّی پسند غم محبوب سے کنارہ کر کے دنیا کے دکھوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ ان کا لہجہ اکثر معذرت خواہانہ ہو جاتا ہے۔ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیاکیجیے، حفیظؔ کے نزدیک غمِ جاناں اور غمِ دوراں ہر دوسے متاثر ہونا فرد کی فطرت میں شامل ہے۔ یہ الگ بات کہ کبھی غمِ جاناں، غمِ دوراں پر حاوی ہو جاتا ہے اور کبھی غمِ جہاں، غمِ جاں کو شکست دے دیتا ہے۔ حفیظؔ اکثر سوچتے ہیں کہ دنیا کے غم جب حد سے بڑھ جائیں تو محبت کے سوا اور کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ غمِ دوراں کی تلخیاں حد سے بڑھ جائیں تو غمِ جاناں کی دولت ہی انسان کو سہارا دے سکتی ہے۔ وہ لمحے جو غمِ روزگار نے دشوار بنا دیے ہیں اسے غمِ عشق میں گزارکے ہی آسان کیے جا سکتے ہیں۔ غمِ حیات کا علاج محبوب کے غم کو اپنالینے ہی سے ہو سکتا ہے۔ غم دہر جب دل پر بار ہو جائے اس وقت غمِ عشق کی ضرورت شدّت سے محسوس ہوتی ہے کہ وہ انسان کو سہارا دے۔ غم ہی جینے کا آسرا اور یہی موت کا بہانہ ہے۔
حد سے فزوں ہوئیں غمِ دوراں کی تلخیاں
لازم ہے دولتِ غمِ جاناں میرے لیے
ہر ایک درد کو درماں بنا دیا کس نے
غمِ حیات کو آساں بنا دیا کس نے
غمِ عشق اگر نہ ہوتا تو نہ ہم کہیں کے رہتے
یہی موت کا بہانہ یہی زیست کا سہارا
عذابِ جاں ہی سہی عشق لیکن اس کے بغیر
غمِ زمانہ سے کوئی پناہ بھی تو نہیں
حفیظؔ کی غزل، محبت کے تمام نشیب و فراز اور دکھوں سکھوں سے آشنا ہے۔ نرم وگداز جذبوں اور لطافتِ احساس نے ان کی غزل کو غمِ جاں کا بیاں ہو یا غمِ جہاں کا، سختی دکرختگی سے دور رکھا ہے۔ حفیظؔ کی غزل میں رواں زندگی کے تجربات عمومیت اور تاثیر کے ساتھ نظم کیے گئے ہیں۔ ان کی غزل میں خارجی، سیاسی و سماجی موضوعات بھی ہیں لیکن جذبے اور تخیل سے ہم آہنگ ہو کر ان میں داخلی رنگ نمایاں ہے۔ حفیظؔ نے کائنات کی بات کی ہے لیکن ذات کے حوالے سے
غمِ آفاق کا بیاں تھا حفیظ
گرچہ روئے سخن اُدھر ہی رہا
غمِ آفاق ہے رسوا غمِ دلبر بن کے
تہمّتِ عشق لگی ہم پہ سخنور بن کے
حفیظؔ کی شعری روایت، کلاسیکیت سے اپنا رشتہ استوار کرتی نظر آتی ہے۔ روایتی و کلاسیکی شاعر جذبۂ غمِ دل کے بیان کو اوّلیت دیتے رہے۔ غم ان کے شعر کا بنیادی محرک رہا۔ غم عشق، غم جہاں و غم روزگار غرض غم ان کے رگ وپے میں لہو بن کر دوڑتا رہا۔ آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپکتا رہا اور قلم، غم و الم کے دفتر لکھتا رہا۔
دفتر لکھے ہیں میرؔ نے دل کے الم کے
یاں اپنے طور وطرز میں وہ فرد ہو گیا
(میرؔ)
خدائے سخن میر تقی میرؔ تمام زندگی غموں سے نبرد آزما رہے۔ ان کی ذاتی زندگی روز اوّل تا یومِ آخر تلخ سے تلخ تر رہی۔ گرد و پیش کا ماحول ناساز گار رہا۔ سکون و اطمینان، طمانیت و سر خوشی ان کے لیے صرف الفاظ تھے، جن میں کوئی حقیقت نہیں۔ دل اور دلّی کی بربادی ان کے نزدیک مترادفات تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دل کا یا دلّی کا اجڑنا ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔ دل کے نگر کاسو مرتبہ لُٹنا اور دلّی کا بار بار تباہی کا منہ دیکھنا ایک ہی سانحہ ٹھہرا۔ ہم میرؔ کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں دکھ، درد، قنوطیت، یاسیت، غم و اندوہ، شکست خوردگی ومحرومی، اداسی و تنہائی، بے چارگی و مایوسی کے نتائج اخذ کرتے ہیں اور انھیں قنوطی قرار دے دیتے ہیں، لیکن یہ وہی میرؔ ہیں جو تمام عمر ناکامیوں سے کام لینے کے باوجود جھنجھلاتے نہیں بلکہ سلیقے سے محبت نبھائے جاتے ہیں۔ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں ان کے آگے سپر نہیں ڈالتے۔ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا، تمام زندگی ان کے تیور یہی رہے۔ جذباتی و معاشی ہر لحاظ سے تہی دامن رہے لیکن کبھی ایسا نہ ہوا کہ کسی کے آگے دستِ طمع دراز کیا ہو۔ پاس ناموسِ عشق کی بنا پر کتنے ہی آنسو پلکوں تک آ کر رک رک گئے۔ ناکامیوں میں سر بلند رہنا۔ ناتوانیوں کے باوجود خودی و خود داری کو ہاتھ سے جانے نہ دینا۔ میرؔ ہی کا حصّہ ہے۔ میر ؔکا غم زندگی کا سلیقہ اور قرینہ سکھاتا ہے، زندگی سے بیزاری عطا نہیں کرتا، میرؔ غم کے شکار بھی رہے اور اسیر بھی، شاعرہو اور غم سے دامن بچائے، یہ ممکن نہیں حفیظؔ بھی گرفتار غم رہے لیکن حفیظؔ کا غم میرؔ کے غم سے ان معنوں میں مختلف ہے کہ غم حفیظؔ کی شاعری اور زندگی کا ایک پہلو ہے۔ میرؔ کی پوری زندگی غم سے عبارت ہے۔ ہجر اور ہجرت کا عذاب حفیظؔ پر بھی آیا لیکن میرؔ پر اس طرح کہ
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
شہر دل ایک مدت اُجڑا بسا غموں میں
آخر اُجاڑ دینا اس کا قرار پایا
میرؔ ہجر وہجرت کے تجربے سے ناکام گزرے۔ حفیظ کے لیے یہ تجربہ انعام ٹھہرا۔ میرؔتمام زندگی کسی دستِ شفقت کو ترستے رہے۔ حفیظؔ کی زندگی میں بھی نامساعد حالات آئے لیکن ان کی رہنمائی و سرپرستی، قابلِ تعظیم ہستیاں کرتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غم کی شہنشاہی میرؔ کے اشعار میں نمایاں رہی۔ غم، غزل کا بنیادی موضوع ہے تو پھر کوئی شعوری یا غیر شعوری طور پر غم سے یا پیرویِ میر ؔسے کس طرح دامن بچاسکتا ہے۔ بے شک وہ خودکو یہ تسلی دیتا رہے کہ اس نے کسی کی پیروی نہیں کی۔
بے پیرویِ میرؔ حفیظؔ اپنی روش ہے
ہم پر کوئی الزام نہیں کم ہنری کا
لیکن کب تک وہ اس روش پر قائم رہ سکتے ہے۔ میرؔ کہتے ہیں
دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
حفیظؔ کہتے ہیں۔
نقش ہے دل پہ قول میرؔ حفیظؔ
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
عشق میرؔ کے نزدیک زندگی کی بنیادی حقیقت ہے
عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ
عشق بن تم کہو کہیں ہے کچھ
عشق حاضر ہے عشق غائب ہے
عشق ہی مظہر عجائب ہے
حفیظؔ بھی عشق کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔
کچھ غمِ عشق کے سوا بھی ہے
غمِ ہستی ترے خزینے میں
غمِ زندگانی کے سب سلسلے
بالآخر غمِ عشق سے جا ملے
میرؔ دل کی وحشت کے ہاتھوں صحراؤں کی خاک چھانتے رہے تہمّتیں اٹھاتے رہتے لیکن سکونِ قلب انھیں کبھی نصیب نہ ہوا۔
عالم عالم عشق و جنوں ہے، دنیا دنیا تہمّت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں، صحرا صحرا وحشت ہے
حفیظؔ کا لہجہ، دل کی بے تابی اور وحشت پر، پریشانی کا نہیں بلکہ وہ اسے اپنی قسمت کی خوبی سمجھتے ہیں۔
یہ دل کی خوبیء قسمت یہ تیرے غم کا مقدر
زماں زماں بے تابی، جہاں جہاں رسوائی
عشق کی جزا اور انعام ہر ایک کے مقدر کی بات نہیں۔ آگ کے اس دریا کو پار کرنا آسان نہیں۔ جذبۂ عشق جسم سے خون کا ایک ایک قطرہ خود میں جذب کر کے عاشق کے چہرے کو زردیاں عطا کرتا ہے۔ پھر میرؔ کا عشق
کچھ زرد زرد چہرہ کچھ لاغری بدن میں
کیا عاشقی میں ہوا ہے اے میرؔ حال تیرا
حفیظؔ کہتے ہیں۔
دیکھا جو پریشاں حال مجھے اس جان تمنّا نے کہا
ہم نے بھی کیا ہے عشق مگر ایسا تو ہمارا حال نہ تھا
محبوب کی یاد دل کے بہلانے کا سبب بھی ہے اور دوسری طرف غم و اذّیت میں اضافے کا باعث بھی لیکن یاد پر کب اختیار ہے بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں۔ یہ کیفیت انسان کو سر خوشی نہیں، تڑپ عطا کرتی ہے۔ میرؔ کہتے ہیں
یاد اس کی خوب نہیں میرؔ باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
یہی یاد حفیظؔ کے ہاں برنگ دگر دکھائی دیتی ہے۔
دنیا میں ہیں کام بہت
اتنا مجھ کو یاد نہ آ
یہ یاد تڑپ بھی عطا کرتی ہے لیکن لذّت کے ساتھ اذّیت بھی دیتی ہے، آنسوؤں سے ہمکنار بھی کرتی ہے اور ہونٹوں کو مسکراہٹ بھی بخشتی ہے۔
یاد آئی تری ہر ایک ادا
اور بعنوان طرب یاد آئی
کسی کی یاد نے بھی گل کھلائے ہیں کیا کیا
ہجومِ غم میں بھی ہم مسکرائے ہیں کیا کیا
جب غم میں نشاطیہ پہلو اور طربیہ انداز کا ذکر ہو تو بات غالبؔ تک پہنچتی ہے۔ غالب کی شاعری میں غمِ ہستی کا تذکرہ بھی ہے کہ جز مرگ جس کا کوئی علاج نہیں۔ قیدحیات و بند غم سے انسان موت کے ذریعے ہی رہائی پا سکتا ہے۔ رنج کو مٹانے کے لیے رنج کا خوگر ہونا پڑتا ہے۔ جب غم خانے کی قسمت رقم ہونے لگی تو منجملہ اسباب ویرانی ان کے نام لکھ دیے گئے۔ عشق کی غارت گری سے تمام عمر شرمندہ رہے کہ سوائے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیں۔ پھر گھر میں سوائے حسرت تعمیر کے کچھ تھا ہی نہیں کہ غم اسے غارت کرتا۔ دل کی حساسیت کا کیا کہنا کہ ادھر غنچہ کھلا ادھر دل خون کیا ہوا دیکھا۔ عمر برقِ خرام دل کے خوں کرنے کی فرصت بھی نہیں دیتی۔ انگلیاں فگار اپنی خامہ خوں چکاں اپنا لیے وہ کس صحرا میں وحشت مٹانے جائیں کہ گھر کی ویرانی دشت و صحرا کی جانب لے جاتی ہے اور دشت کو دیکھ کر گھر یاد آتا ہے۔ غرض غالب ؔکی شاعری میں غم سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ غالب ؔکا غم دیگر شعراء کے غم سے اس طرح مختلف ہے کہ دوسرے شعراء غم کے حصارمیں مقید رہے لیکن غالبؔ پر غم حاوی ہوتا نظر نہیں آتا۔ غم بھی زندگی کی دوسری حقیقتوں کی طرح ایک عام حقیقت ہے۔ غم کی چادر اوڑھ کر دنیا سے کنارہ کر کے خود ترسی کے جذبات جگا کر بیٹھا رہنا، یوں زندگی نہیں گزاری جاتی۔ جب غم آہی پڑا تو اس کا مقابلہ مردانہ وار کیوں نہ کیا جائے۔ غالب ؔنے غم کے خلاف نئے اور پرانے حربوں سے کام لیا ہے۔ پرانے حربوں میں ایک حربہ یہ بھی ہے کہ تصّوف کا وہ تصوّر اپنا لیا جائے کہ جس کے تحت کائنات کو مایا سمجھا جاتا ہے اور صوفی اپنی تہی دامنی پر فخر کرتا ہے۔ جدّت اپنائی ہے تو یوں کہ غم کو بھی زندہ دلی اور شگفتہ مزاجی سے شادابی عطا کر دی ہے۔ غمِ عشق جو سانس لینا بھی دشوار کر کے رکھ دیتا ہے، غالب ؔاس سے زیست کا مزا اٹھاتے ہیں۔ لوگ وادیِ پرخار سے پناہ مانگتے ہیں، غالب ؔراہ پرخار کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ آبلوں کی زباں پیاس سے سوکھ گئی تھی۔ گھر کی رونق تو برقرار رہنی چاہیے نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی۔ غرض غالبؔ کے ہاں غم سے چھیڑ خانی، اذیت سے لذّت، حزن سے طرب حاصل کرنے کا جذبہ نمایاں ہے۔ غالبؔ کا عشق غم سے شناسائی رکھتا ہے لیکن کیف و سرور سے تہی نہیں۔ عشق کا دکھ بھی زندگی کو حوصلہ بخشتا ہے۔
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا
اب ہر نشاط کا ترے غم پر مدار ہے
ہم کو بھی عطا ہو یہ کہاں اخیتار ہے
حفیظؔ کا غم، نشاطیہ پہلوکی موجودگی کے باعث میرؔ کے غم سے زیادہ غالبؔ کے جذبۂ غم سے قریب ہے۔
ہر غم کو ہنس کے ٹال دیا میں نے اے حفیظؔ
میری طرف قضا و قدر دیکھتے رہے
بجز نشاط تصوّر نہیں غمِ ہجراں
کہ شادماں بھی ہے دل اور شادماں بھی نہیں
طرب سے ملتا مجھ کو بھی رنج و غم کا صلہ
میری بہار بہ اندازۂ خزاں تھی کبھی
غمِ دوراں یا غمِ جاناں، شاعر فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کون سا غم اس پر حاوی ہے۔ مختلف اوقات میں وہ مختلف جذبات اور حالات سے گزرتا ہے۔ کبھی روزگار کا مسئلہ بنیادی ٹھہرتا ہے تو کبھی یاد یار، خود کو تسلی دینے کے لیے، بات بنانا بھی پڑتی ہے۔
گومیں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
(غالبؔ)
دشوار تھے جو لمحے غمِ روزگار کے
آساں بنالیے ترے غم میں گزار کے
(حفیظؔ)
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ بچیں کہاں کہ دل ہے
غمِ عشق اگر نہ ہوتا غمِ روز گار ہونا
(غالبؔ)
ہم نے مانا بڑھ گیا حد سے غم دنیا حفیظؔ
کیا محبت کے سوا اس درد کا چارہ نہیں
(حفیظؔ)
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
(غالبؔ)
روا نہیں ہے غم عشق اس قدر بھی غرور
ترے بغیر بھی دنیا کے کام چلتے ہیں
(حفیظؔ)
غم کی شدّت کبھی انسان کو بے حس کر دیتی ہے اور کبھی غم سے مقابلہ کی ہمّت عطا کرتی ہے۔ دونوں صورتوں میں غم، مفقود ہو جاتا ہے۔
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
(غالبؔ)
مجھے احساس غم بھی نہیں ہے
یہ کس منزل پہ آپہنچا تیرا غم
(حفیظؔ)
انسان کا دنیا کے دکھوں اور تکلیفوں سے گھبرا کر موت کا طلب گار ہو جانا، قدرتی امر ہے موت بھی اپنے معین وقت پر ہی آئے، لیکن دکھوں سے نجات شاید اس کے بغیر ممکن نہیں۔
غمِ ہستی کا اسد کسی سے ہو جز مرگِ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
قیدِحیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
(غالبؔ)
زندگی غم، چارہ ساز غم نہ تھا کوئی حفیظؔ
موت آخر پردہ دار زندگی ہونے لگی
(حفیظؔ)
موت کوئی اتنی دل خوش کن چیز بھی نہیں کہ جس کا انتظار کیا جائے پھر یہ بھی دھڑکا ہو کہ مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ زندگی میں کیے گئے افعال و اعمال پر نظر کی جائے تو سزاو جزا کا فیصلہ موت کی راہ سے گزرنے کے بعد ہو گا، ایسے میں موت اور زیادہ خوفناک شے معلوم ہوتی ہے اور زندگی اپنے تمام تر دکھوں، غموں اور بدصورتیوں کے باوجود غنیمت لگتی ہے۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن
(غالبؔ)
کیوں خیالِ مرگ سے بزمِ طرب برہم کریں
اپنے بس میں جو نہیں اس بات کا کیوں غم کریں
(حفیظؔ)
امید ایسا جادو ہے کہ جو نا ممکن کو بھی ممکن کر کے دکھاسکتا ہے۔ کامیابی کی امید نامساعد حالات میں بھی انسان کو کوشش پر ابھارتی ہے اور یہی کوشش اسے کامیابی کی نوید دیتی ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ امید باندھی جاتی ہے، آس لگائی جاتی ہے لیکن انسان کی یہ خواہش اور کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی۔ وہی انسان جو بہت رجائی نقطۂ نظر رکھتا تھا۔ امید و حوصلہ کا پیکر تھا۔ پیہم ناکامیوں کی بدولت اس کا قنوطی ہو جانا بعیداز قیاس نہیں۔
غالب کا کلام آرزو مندی اور حسرت پرستی کا بے مثل نمونہ ہے۔ انسان کی زندگی میں آرزو وخواہش اور امید ورجاکے جذبے ہی اسے آگے بڑھنے کی لگن اور مصائب و معائب کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور حوصلہ بخشتے ہیں۔ مثبت جذبے، صحت مند ذہن اور زندگی سے پیار کی علامت ہیں۔ انھی سے زندگی کے حسن اور نشاط میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کے برقرار رہنے سے انسان کا زندگی سے ربط اور لگاؤ مضبوط اور گہرا ہوتا ہے۔ آرزو کی تکمیل کی طلب انسان کو زندہ رکھتی ہے لیکن آرزؤں کا لامتناہی سلسلہ اور آرزوئیں بھی ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے، انسان کو بسا اوقات بوکھلا کر رکھ دیتا ہے۔ خواہشات اور تمنّاؤں کو مقید کرنا، ممکن ہی نہیں۔
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
(غالبؔ)
اور ان تمنّاؤں اور آرزؤں کا انجام
کا ہش آرزو سہی حاصل زندگی مگر
حاصل آرزو ہے کیا سوزِ مدام کے سوا
( حفیظؔ)
اور حاصل آرزو، سوزِ مدام ہی ٹھہرا تو پھر فرد خواہشات پالتاہی کیوں ہے، صرف اس لیے کہ اس کے بغیر زیست کا بہانہ کوئی نہیں۔ زندگی میں وہ وقت بھی جلد آ جاتا ہے کہ آرزو، خواہش، تمنّا اور امید جیسے الفاظ کی بے معنویت اس پر آشکار ہونے لگتی ہے۔ اس کے جذبوں اور رویّوں میں بھی واضح فرق نظر آنے لگتا ہے کہ خواہش جب پوری نہ ہو تو پھر خواہش نہیں کہلاتی، حسرت بن جاتی ہے۔ خواہشات کی ناکامی حسرت کا نقطۂ آغاز ہے۔ آرزو کی مانندحسرت بھی زندگی کی ایک حقیقت ہے جسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ حوصلہ مند انسان، شکستِ آرزو، افسردگی اور حسرتوں کے باوجود، اپنی آرزؤں کو زندہ رکھتا ہے اور حوصلے سے کام لیتا ہے اور غم سے دور رہتا ہے۔ واصف علی واصف کہتے ہیں:
’’کچھ لوگ افسوس اور حسرت کو غم سمجھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ افسوس کو تاہی عمل کا نام ہے۔ غلط روی کے احساس کا نام ہے۔ افسوس سے نکلنے کا راستہ توبہ اور معافی کا راستہ ہے۔ حسرت ناتمام آرزو کا نام ہے۔ یہ ایک الگ مقام ہے۔ آرزو اور استعداد کے فرق سے حسرت پیدا ہوتی ہے۔ آرزو جب استعداد سے بڑھ جائے تو حسرت شروع ہو جاتی ہے۔ با عزم انسان حسرت سے محفوظ رہتے ہیں۔‘‘(۳۱)
غم اپنے لامحدود دائرہ کار کے ساتھ، حفیظؔ کی غزل میں نمایاں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ میرے مقدر میں غم لکھ دیا گیا ہے۔ مقدر بدلنا ممکن نہیں پھر شکایت کیسی۔ غم، تنہائی سے جنم لیتا ہے اور تنہائی خودکلامی کا سبب بنتی ہے …میں تو دعا کرتا ہوں کہ مجھے غم سے آشنا کرنے والے کا کبھی غم سے واسطہ نہ پڑے۔ محبوب کا غم اس کی یاد ہرجگہ ہر مقام پر میرے ہمراہ ہے خواہ قفس ہو یا آشیاں۔ میں اپنے آشیاں کے چھن جانے پر غمزدہ کیوں ہوں۔ میرے لیے تو قفس و آشیاں سبھی برابر ہیں اور پھر غم میں تو ویسے بھی کوئی کسی کاسا تھ نہیں دیتا۔ یہ صرف تیری یاد ہی ہے جو میرے ساتھ رہتی ہے۔ مجھے تیرے غم سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اب یہ اختیار کہاں کہ مجھے غم کی سوغات ملتی ہی جائے۔ میری آشفتہ حالی پر لوگ ہنستے ہیں۔ تیرے غم کی دولت اور سستی کیوں نہیں ہوتی، میں اس دولت کو اپنانا چاہتا ہوں۔ غم میں روتے روتے ہنس دینا پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے لیکن میں تو اس بات پر ہنس رہا ہوں کہ میں کس بات کا غم منا رہا ہوں۔ دولت غم ہر ایک کا مقدر نہیں، اسی لیے تو میں محبت کو دعائیں دے رہا ہوں کہ جس نے مجھے غم سے آشنا کیا۔ میری روح تیرے ہی غم کی خواہش مند ہے۔ وہ غم دنیا سے بے نیاز ہو گئی ہے۔ تیری محبت نے جو مجھے کبھی حاصل نہ ہوئی، غم کے اس درجے پر پہنچادیا ہے کہ اب سب ہی مجھے پیکر غم کہنے لگے۔ کسی طور پر ہی سہی، تیرا ذکر تو میری ذات کے ساتھ آیا۔ میں نے ہمیشہ غموں اور صدموں کو برداشت کیا ہے اور خاموشی سے تمام غم سہے ہیں لیکن اب میری بے چینی کسی دوسرے کو بھی بے کل کر رہی ہے۔ اب مجھے لب کھولنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ وہ میری پریشاں حالی سے فکر مند ہے اور مجھے یہ فکر اور صدمہ ہے کہ میرے دکھ کی وجہ سے اسے پریشانی ہوئی۔
کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ وہی غم جو حاصل زندگی تھا۔ شدّت اختیار کرنے کی صورت میں انسان میں بے دلی پیدا کرنے کا باعث ہوا۔
دم بدم بڑھتا رہا سوز و گداز
اہل دل کو بے دلی بخشی گئی
انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے چند اضافی ذمہ داریاں اور بوجھ بھی اٹھانے پڑے ہیں۔ اللہ نے ہر ایک کو جس طرح بہ قدر ظرف و توفیق اپنی رحمت بخشی ہے اور اسی طرح ہر ایک کو زحمت اس کی قوت برداشت کے مطابق دی ہے۔ توفیق بداندازۂ ہمّت ہے ازل سے، تو ان اضافی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم قدر غم کی ہے، جو نسل انسانی کو اس لیے بخشی گئی کہ وہی اس کو برداشت کرنے کی قوت رکھتا ہے۔
حفیظؔ نے انسان اور اس کے خالق کے درمیان تعلق کو غم کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ غم ہی ایک دائمی قدر ہے کہ سب کچھ فنا ہو جاتا ہے۔ یہ کسی نہ کسی صورت قائم و دائم رہتا ہے۔
نوع انساں کو ملا اعزازِ غم
ایک قدرِ دائمی بخشی گئی
جب یہ دیکھا بڑھ چلا غم کا غرور
اہلِ غم کو بھی خوشی بخشی گئی
جب کبھی مرجھا گئی دل کی کلی
آبِ غم سے تازگی بخشی گئی
میرے غم کی پردہ داری کے لیے
میرے ہونٹوں کو ہنسی بخشی گئی
’’لنڈا پاسٹن نے غم کی پانچ منزلیں بیان کی ہیں۔ پہلے انکار، پھر اس پر غصہ، پھر سودے بازی اور مصالحت کی کوشش، پھر قنوطیت کا دورہ اور آخر کو غم کو تسلیم کرنے کی خو۔‘‘(۳۲)
دیکھا جائے تو لنڈاپاسٹن نے دو فقروں میں انسانی زندگی کا سارا فلسفہ بیان کر دیا ہے۔ مجموعی طور پر کسی فرد کی زندگی کے تجزیہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ زندگی کا بیشتر حصّہ غموں سے نبرد آزما ہوتے گزرتا ہے۔ انکار، فرد کی زندگی پر اس لفظ کا گہرا سایہ ہے وہ زندگی کی بے معنویت سے انکار کرتا ہے، قسمت کا لکھا سہتا ہے اور انکار کرنا چاہتا ہے۔ منفی اقدار، تخریبی عناصر اور منفی جذبوں کو مسخ کر دینے والے روّیوں سے انکار کرنا چاہتا ہے اور کرتا بھی ہے۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے زعم اور انا کے جوش میں، فخر اور خود داری کو مسئلہ بنا کر زندگی کی خوبصورت حقیقتوں سے انکار کر بیٹھتا ہے۔ اپنے چاہنے والوں کے دلوں کو بڑی سنگدلی سے توڑ دیتا ہے۔ محبت کو اذیت سمجھنے لگتا ہے اور محبت سے انکار کر کے سوچتا ہے کہ شاید اب وہ مطمئن ہو جائے۔
ان کی وفا وبال دل و جاں ہوئی مجھے
پہلی سی قلب و روح میں بے تابیاں نہیں
کبھی اپنی ذات پر ستم ڈھانے کے لیے، اذیت کی لذّت سہنے کے لیے اپنے پیاروں کی بات کا انکار کرتا ہے۔
نہ مانی ہے نہ مانیں گے تری بات
حفیظؔ ان سے تقاضائے وفا کیا
اور پھر جب وہ انکار کر دیتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ انکار میں تاسف ہے اور اقرار میں اطمینان ہی اطمینان اور جب وقت گزرجاتا ہے۔ پچھتاؤں کا موسم شروع ہو جاتا ہے تو غصہ اس پر حاوی ہونے لگتا ہے۔ وہ دنیا والوں سے، اپنے آپ سے ناراض ناراض رہنے لگتا ہے، اسے اپنی کوتاہیوں کا شدّت سے احساس ہوتا ہے۔
کسی صورت تو حق دردِ محبت کا ادا کرتے
وفا اس نے نہ کی تو کیا ہوا ہم ہی وفا کرتے
قصور وار وہ بدلی ہوئی نگاہ سہی
خود اپنے دل میں وہ پہلی سی چاہ بھی تو نہیں
اور پھر جب غصّے، پچھتاؤے اور اپنی کوتاہیوں کے احساس کے آسیب اتر جاتے ہیں تو پھر وہ ٹھنڈے دل سے مسئلہ کا حل سوچتا ہے۔ مصالحت کی، سودے بازی کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے۔ شاید اس طرح گیا وقت واپس آ سکے۔ شاید اس غم کا مداوا ہو سکے۔ وہ گلے شکوے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
وفا تم بھی کرو ہم بھی کریں انجام جو بھی ہو
کسی کے سامنے رکھ دی یہ شرط آخری ہم نے
اور جب تمام مقاصد میں ناکامی ہو جاتی ہے تو پھر قنوطیت کا دورہ انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ شاید دنیا میں وہی تنہا ہے کہ جس پر غم کی بارش نے یلغار کر دی ہے یا شاید کوئی اور بھی غم نصیب ہو۔
کہیں اور بھی غم کا مارا ملے
کوئی دوست شاید ہمارا ملے
لرزا ہے میرا دل بھی تری لوکی طرح
میرے رفیقِ شبِ غم چراغِ صبح گہی
اور آخر کار غم کو تسلیم کرنے کی عادات غیر شعوری طور پر اس کے رگ و پے میں سرایت کرجاتی ہے۔
اب روح ترے غم کی طلب گار ہو گئی
بارِ غمِ جہاں سے سبکسار ہو گئی
اور جب غم، قلب و روح میں سرایت کرجائے تو
دیکھنے والے مجھے پیکرِ غم کہتے ہیں
یوں بھی منسوب تری ذات ہوئی ہے مجھ سے
٭٭٭ نا مکمل باب ۔۔۔۔۔
یہ حصہ مکمل ڈاؤن لوڈ کریں