چوسر کا محور
(افسانے)
ڈاکٹر سلیم خان
إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِّأُولِی الْأَلْبَابِ
﴿آل عمران۱۹۰﴾
زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں
اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔
یہ قرض تو میرا ہے، چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور، اشک بہائے گا کوئی اور
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
(آنس معین)
انتساب
جناب انیس امروہوی صاحب
کے نام
جن کی محبتوں نے میرے ادبی سفر میں مہمیز کا کام کیا ہے
مکمل ڈاؤن لوڈ کریں
اپنی بات
کائنات ہستی کا حقیقی خالق تو رب ذو الجلال ہے کہ جس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے انسان کے جسدِخاکی میں اپنی روح پھونک کر اسے پرواز تخیل سے نواز دیا۔ یہ ایسی عظیم نعمت ہے کہ جس کی مدد سے حضرت انسان نت نئی دنیا کی سیر کرتا ہے۔ تصور خیال میں ان چیزوں کو دیکھتا ہے جو موجود نہیں ہوتیں۔ ان لوگوں سے ملاقات کرتا جو عالم موجودات سے پرے ہوتے ہیں۔ یہ مشاہدات جب افکار سے نکل کر الفاظ کا جامہ پہنتے ہیں تو کہانی جنم لیتی ہے۔
خلیفہ ارض کی خامہ فرسائی ایک مجازی کائنات تخلیق کرتی ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کارساز ہستی اس کے خوابوں شرمندۂ تعبیر کر دیتا ہے۔ انسانی معاشرے کا تمدنی ارتقاء اس حقیقت کا شاہد ہے کہ ماضی کی طلسمی دنیا سے تعلق رکھنے والا ناقابل تسخیر جہاز ٹائٹن کے ۱۴ سال بعد ٹائٹانک بنایا گیا اور وہ بھی اسی طرح ڈوبا جیسا کہ ناول نگار مورگن رابرٹ سن نے بیان کیا تھا۔ فرانسیسی مصنف جولس ورن نے ۱۸۶۵ء میں انسان کے چاند پر قدم رکھنے کی پیشین گوئی کی جو ۱۰۰ سال بعد پوری ہوئی۔ جوناتھن سویفٹ نے مریخ کے دو چاند کا تصور کیا مگر اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ماہرین فلکیات کو ۱۵۱ سال لگے۔ غرض کریڈٹ کارڈ، ایٹم بم، ائیر فون اور انٹر نیٹ وغیرہ پہلے کہانیوں میں اور پھر حقیقی دنیا میں نظر آئے۔ سائنسدانوں کے ذریعہ لیزر شعاعوں اور اڑن طشتری کی دریافت سے قبل ابن صفی نے الیکٹروگس اور فے گراف کو پہلے متعارف کرا دیا۔ اس لیے کوئی بعید نہیں کہ آج کے افسانے کل سچ ہو جائیں۔
کہانی سچ نہیں ہوتی مگر جھوٹ بھی نہیں ہوتی اس لیے کہ کہانی ہوتی ہے۔ یہ اپنے قاری کو دھوکا نہیں دیتی بلکہ فریب کے مایا جال سے نکال زندگی کے تلخ حقائق سے روشناس کراتی ہے۔ زندہ افسانے حقیقت کا وہ سایہ ہوتے ہیں جو بیک وقت موجود بھی ہوتے ہیں اور مفقود بھی ہوتے ہیں۔ جن کو دیکھا تو جا سکتا لیکن پکڑا نہیں جا سکتا۔ وہ کبھی آگے نکل جاتے ہیں تو کبھی تعاقب کرنے لگتے ہیں۔ کبھی طویل ہو جا تے ہیں تو کبھی سمٹ جاتے ہیں۔ پرچھائیں کی ہئیت و کیفیت میں تبدیلی اس کے سورج یعنی افسانہ نگار کی مرہون منت ہوتی ہے۔ صاحب سایہ کا اس پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
بفضل تعالیٰ میرا پہلا افسانوی مجموعہ حصار ۲۰۰۶ میں شائع ہوا۔ وقت کے ساتھ اس کتاب کے سارے نسخے ختم ہو گئے لیکن تقاضہ باقی رہا۔ حصار کی دوسری طباعت کے بجائے میں نے کچھ نئے افسانوں کے ساتھ چند پرانی کہانیاں یکجا کر کے محمود و ایاز ترتیب دی اور باقی ماندہ کہانیوں کے ساتھ اتنے ہی نئے افسانے چوسر کا محور میں سجا دیئے۔ چوسر کی اس بساط پر ہر پرانے مہرے کے آگے پیچھے ایک نیا مہرہ یعنی نیا افسانہ موجود ہے۔ اب اس چوسر کا محور آپ ہیں۔ ان مہروں سے کھیلئے اور مجھے اجازت دیجیے۔
سلیم خان
لیل و نہار
دِن رُخصت ہو رہا تھا اور رات نمودار ہو رہی تھی۔
دن اور رات یعنی امروز اور سندھیا کا صدیوں سے معمول تھا کہ وہ چند لمحوں کے لئے ایک دوسرے نظریں دوچار کرتے اور پھر فراق کے کرب سے گذرنے کے بعد وصال کی لذت سے لطف اندوز ہونے کی خاطر ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے۔ ملنے بچھڑنے کا یہ ناتمام سلسلہ نہ جانے کب سے جاری تھا۔
ایک روز الوداع کہتے ہوئے دن شام سے بولا۔ ’’سندھیا یہ وصال و ہجر کا سلسلہ آخر کب تک یونہی چلتا رہے گا؟ ‘‘
سندھیا شرما کر بولی۔ ’’میں نہیں جانتی امروز؟ میں سچ مچ نہیں جانتی۔ ‘‘
امروز نے بات آگے بڑھائی۔ ’’لیکن کیا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے؟ ‘‘
سندھیا ایک لمحہ کے لئے اس سوال پر ٹھٹک گئی اور پھر اپنے آپ کو سنبھال کر بولی۔ ’’میرا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔ ‘‘
امروز نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کیسا جواب ہے بھلا ! جو بیک وقت ہاں بھی ہے اور نا بھی۔ ان کا باہمی رشتہ تو لیل و نہار کا سا ہے جو کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ ایک آتا ہے تو دوسرا اپنے آپ کھسک جاتا ہے۔ ‘‘
سندھیا بولی۔ ’’آپ بہت دُور نکل گئے اور اپنا سوال بھی بھول گئے۔ ‘‘
’’اچھا؟ ‘‘
امروز نے سوال کیا ’’ اچھا؟ وہ کیسے؟ ؟ ؟
’’آپ نے ملنے بچھڑنے کی بابت پوچھا تھا اور اس سلسلے میں میری عرض یہ ہے کہ مجھے ملنا ضرور اچھا لگتا ہے لیکن بچھڑنا۔۔۔۔۔۔‘‘ سندھیا کی سانس تیز ہو گئی۔ الفاظ اس کی پلکوں سے آنسو بن کر گرے اور زمین میں جذب ہو گئے۔
امروز کے لئے اِن آنسوؤں میں پیغامِ مسرت پوشیدہ تھا۔ اس کا حوصلہ بڑھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’سندھیا کیوں نا کچھ ایسا کیا جائے کہ ’ہاں اور نا‘ بدل کر ’ہاں جی ہاں ‘ ہو جائیں؟ ‘‘
سندھیا نے حیرت سے کہا۔ ’’کیا ایسا بھی ممکن ہے؟ یہ تو نا ممکن ہے؟ ایسا کیونکر ہو سکتا ہے؟ میں نہیں جانتی۔ میں سچ مچ نہیں جانتی۔ ‘‘
’’میں جانتا ہوں۔ ‘‘ امروز بولا۔ ’’کیوں نہ ایسا کریں کہ ہم نکاح کر لیں؟ پھر وصال ہی وصال ہو گا۔ شبِ فراق کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ‘‘
سندھیا نے اپنے دوپٹے میں انگلی کو لپیٹ لیا اور پیر کے انگوٹھے سے زمین کریدنے لگی۔ امروز نے گھبرا کر سوال کیا۔ ’’میری یہ تجویز تمہیں ناگوار تو نہیں گزری؟ اگر ایسا ہے تو۔۔۔‘‘
سندھیا کے چہرے کی سرخی شفق بن کر نیلے آسمان پر پھیل گئی تھی۔ ایک بار پھر شبنم کی پاکیزہ بوندیں سندھیا کے نینوں میں نمودار ہوئیں، جنھیں ہوا نے زمین پر گرنے سے قبل اُچک لیا اور لا کر امروز کی پیشانی پر سجا دیا۔ رات بھیگ رہی تھی۔ دُور گگن میں چاند اس حسین منظر کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
امروز کے اصرار پر بھی جب سندھیا چپی سادھے رہی تو قمر میاں سے رہا نہ گیا۔ وہ بولے۔ ’’ا احمق کیا تجھے نہیں تو نہیں جانتا ان معاملات میں خاموشی منظوری کے مترادف ہے۔ ‘‘
امروز کی بانچھیں کھل گئیں۔ اس کو عالمِ غیب سے ایک پشت پناہ جو مل گیا تھا۔ وہ بولی۔ ’’ تو چاند ماموں آپ ہمارا تعاون کیوں نہیں فرماتے۔ ہم ممنون و مشکور ہوں گے۔ ‘‘
’’اس میں شکریہ کی کیا بات ہے؟ ‘‘ چاند نے کہا۔ ’’یہ تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ مریخ اور مشتری کو گواہ کے طور پر بلوا لیتا ہوں اور عطارد کو وکیل بنا دیتے ہیں۔ آسمان پر پھیلے ہوئے یہ بے شمار سیارے اور ستارے تمہارے باراتی ہیں اور شہنشاہ شمس فی الحال وہ کہیں اور مصروفِ عمل ہیں، اس لئے دور سے ہی ان کے آشیرو اد کا اہتمام کر لیں گے۔ کیوں ۔۔۔ کیا خیال ہے؟ ‘‘
’’نیک بلکہ بہت نیک خیال ہے۔ ‘‘ امروز کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔
زہرہ نے آگے بڑھ کر سندھیا کو اپنے سینے سے لگایا اور اسے سجانے سنوارنے، دلہن بنانے کی خاطر نہ جانے کس کہکشاں میں اپنے ساتھ لے گئی۔ جب وہ واپس ہوئی تو محفلِ نکاح منتظر تھی۔ چاند ماموں نکاح کا خطبہ پڑھنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ رسمِ ایجاب و قبول نے دیکھتے دیکھتے دو جانوں کو ایک قلب بنا دیا۔ امروز سندھیا کے آنچل میں چھپ کر سو گیا۔ صدیوں کا سفر منٹوں میں طہ ہو گیا اور اب سندھیا کی گود میں سحر کھیل رہی تھی۔ صبح انگڑائی لے رہی تھی۔ امروز نے کہا۔ ’’سندھیا مجھے سحر کی خاطر سفر پر نکلنا ہو گا۔ گردشِ ایام ہی ہمارا مقدر ہے۔ میں جلد ہی لوٹ آؤں گا۔ تم شام ڈھلے تک اس ننھی سی جان کا خیال رکھنا اور اپنا بھی۔ ‘‘
سندھیا نے با دلِ ناخواستہ امروز کو الوداع کہا۔ سورج کی تمازت سے دن روشن ہو گیا اور امروز لمحات کی تسبیح تھامے شام کی جانب رواں دواں ہو گیا۔ فراق کی گھڑیاں ٹک ٹک کر کے دم توڑتی رہیں، یہاں تک کہ وہ دوبارہ اپنی سندھیا کے دل پر دستک دے رہا تھا۔ اب امروز کا یہ معمول ہو گیا تھا کہ روزانہ صبح سویرے سحر کے سر پر ہاتھ رکھتا، اسے ایک پیار کا بوسہ دیتا اور اپنے سفر پر نکل جاتا۔ پاس میں کھڑی سندھیا اس دلکش منظر میں کچھ ایسے کھو جاتی کہ اسے احساس ہی نہ ہوتا کہ امروز اس سے دور کہیں دور جا چکا ہے۔ لیکن جب دن ڈھلنے لگتا، رات کا اندھیرا آسمانِ گیتی پر چھانے لگتا، شام جگمگا اُٹھتی تو وہ سحر کو کھلا پلا کر سلا دیتی اور ساری شب اپنے امروز کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی رہتی۔ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے ’’امروز میں یہاں ہوں میرے سرتاج! میں یہاں ہوں ! یہاں ہوں، یہاں ہوں، یہاں ‘‘ کی صدا پر امروز دیوانہ وار لپکتا رہتا۔ یہاں تک کہ ننھی سحر نیند سے سیراب ہو کر بیدار ہو جاتی اور امروز اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر اپنے دائمی سفر پر روانہ ہو جاتا۔ لیل و نہار کی گردش کا لامتناہی سلسلہ حسبِ معمول جاری تھا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
گرمیوں کا زمانہ میں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا سورج نصف النہار پر ٹھہر گیا ہے۔ دن کا وقفہ اپنے طویل ترین مراحل میں تھا۔ خدا خدا کر کے امروز کی مسافت ختم ہوئی اور تھکے ماندے امروز نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے جواب ندارد۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ حیران پریشان امروز کی خاطر یہ ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔ ورنہ اکثر تو یہ ہوتا تھا کہ اس کی آہٹ سے بام و در کھل جایا کرتے تھے، دستک دینے کی نوبت ہی نہ آتی تھی۔ جب دستک کی سگبگاہٹ بیکار ہو گئی تو اس نے دروازے کو پیٹنا شروع کر دیا۔
اپنی دوسری سعی میں بھی ناکامی کے بعد وہ تھک کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔ ’’سحر اب بڑی ہو گئی ہے، سندھیا کو بہت زیادہ تھکانے لگی ہے۔ اسی باعث آنکھ لگ گئی ہو گی۔ جب دماغ ٹھنڈا ہوا تو امروز کو خیال آیا کہ وہ بلاوجہ پریشان ہو رہا ہے۔ گھر کی ایک چابی تو اس کے پاس موجود ہے۔ لیکن چونکہ ابھی تک اسے کبھی استعمال کرنے کا موقع نہ آیا تھا، اس لئے وہ موجود ہونے کے باوجود غائب سی ہو گئی تھی۔
اس نے پشیمان ہو کر جیب سے کنجی نکالی اور گھر کے اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ یہاں چہار جانب خاموشی کا دور دورہ ہے۔ گہری قبرستان کی خاموشی نے اس کے گھر اور اہل خانہ کو نگل لیا ہے۔ سندھیا نیند کی گہرائیوں میں تیر رہی ہے اور سحر اس کی آغوش میں سمٹی ہوئی ہے۔ امروز دبے پاؤں کمرے میں داخل ہو گیا۔ چپ چاپ منھ ہاتھ دھوکر لباس تبدیل کئے اور اندھیرے کی چادر تان کر خود بھی نیند کے حوالے ہو گیا۔
اُس روز سحر کی ہلچل سے جب سندھیا کی آنکھ کھلی تو اس نے امروز کو اپنے پاس محوِ خواب پایا۔ وہ اپنی غفلت پر بے حد نادم تھی۔ وقت کا اندازہ کرنے کی غرض سے اس نے کھڑکی سے باہر ہاتھ نکالا تو شبنم کی بوندیں اس پر چمکنے لگیں۔ سندھیا نے آخری پہر کی تازگی سے امروز کا چہرہ روشن کر دیا۔ امروز ہوشیار ہو گیا۔ دونوں نے پیار سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ سندھیا کی گود میں سحر کھیل رہی تھی۔ امروز نے اسے اپنے ہاتھوں میں اُٹھا لیا، اس کا ما تھا چوما۔ وہ ’’ابو۔۔۔ ابو ‘‘ کہہ کرتا لی بجانے لگی۔
امروز کی ساری خفگی اور ناراضگی ہوا ہو گئی۔ اس نے مسکرا کر پھر ایک بار سندھیا کی جانب دیکھا اور ہاتھ ہلا کر اپنے روزانہ کے سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ سندھیا کا معمول اب یہ تھا کہ ہر روز سحر کو پہلے نہلا دھلا کر تیار کرتی۔ صاف ستھرے کپڑے پہناتی اور کھلا پلا کر اس کے ساتھ کھیلنے لگتی۔ ایک عرصے تک تو سندھیا کے لئے سحر ایک گڑیا کی مانند تھی اور سندھیا خود سحر کا ایک کھلونا تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ دن بھر کھیلتے رہتے، ایک دوجے میں مگن رہتے۔
سحر جب کچھ اور بڑی ہو گئی تو اس نے کھلونوں کا مطالبہ کیا اور امروز اس کے لئے بے شمار کھلونے لے آیا۔ لیکن اس کے باوجود اس کا سب سے بڑا اور سب سے چہیتا کھلونا اس کی ماں سندھیا تھی۔ جب وہ اپنے کھلونوں سے بیزار ہو جاتی تو ماں سے کھیلنے لگتی اور جب اپنی ماں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے تھک جاتی تو کھلونوں سے دل بہلانے لگتی۔
وقت کے ساتھ سحر نے اپنی زندگی کا ایک اور مرحلہ طہ کر لیا۔ اب وہ پڑھنے لکھنے لگی تھی۔ اس کے باوجود اسے کارٹون فلمیں بہت پسند تھیں۔ موگلی کی تو خیر وہ دیوانی تھی۔ اس کے علاوہ شیر، ہرن، خرگوش اور دیگر جنگلی جانور بھی اسے خوب بھاتے تھے۔ وہ اپنے ٹیلی ویژن کی مدد سے ہر روز جنگل کی سیر پر نکل جاتی تھی اور جب واپس ہوتی تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا ہوتا۔ سندھیا اسے کھلا پلا کر سلا دیتی اور خود ٹیلی ویژن پر ڈراموں سے لطف اندوز ہونے لگتی۔
وقت کے ساتھ امروز نے حالات سے مصالحت کر لی تھی۔ جب کبھی سندھیاکو چوکھٹ پر انتظار میں نہ پاتا ہوا از خود دروازہ کھول کر اندر آ جاتا، ماں بیٹی کی نیند میں خلل ڈالنے کے بجائے خود بھی رات کی کالی چادر اوڑھ لپیٹ کر راضی خوشی سو جاتا۔ لیکن ایک دن جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ سارا کمرہ ٹی۔ وی کے اجالے سے روشن ہے۔ سندھیا گہری نیند میں سوئی ہوئی ہے اور سحر موگلی کے کارٹون میں کھوئی ہوئی ہے۔
ویسے تو امروز کو ان دونوں پر غصہ آیا لیکن نیند کی آغوش میں دبکی سندھیا کی لاش پر غصہ اُتارنا بے سود تھا، اس لئے وہ سحر پر برس پڑا۔ ’’بیٹی۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اتنی رات گئے تم کارٹون دیکھنے میں مشغول ہو؟ سونا نہیں ہے کیا؟
‘‘سحر بولی۔ ’’ابو جی۔۔۔ آج تو غضب ہو گیا۔ ‘‘
’’کیا؟ کیسا غضب؟ یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ ‘‘
’’جی ہاں ابو جی! آج تو موگلی کا شیر سے جھگڑا ہو گیا؟ ‘‘
’’ہو گیا تو ہو گیا، کسی نہ کسی کی، کسی نہ کسی سے لڑائی بھڑائی تو ہونی ہی ہے۔ ورنہ تم جیسے لوگ اس کے پیچھے اپنا وقت کیوں ضائع کرو گے؟ ‘‘ امروز نے بیزاری سے کہا۔
’’نہیں ابو، ایسی بات نہیں ہے۔ جنگل کے جانور تو آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے تھے، لیکن موگلی اور شیر کے درمیان لڑائی اس سے پہلے کبھی بھی نہیں ہوئی۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ ‘‘
’’اوہو تو اس میں کیا خاص بات ہے۔ صلح اور جنگ کے معاملات تو چلتے ہی رہتے ہیں۔ آج جنگ ہوئی ہے تو کل صلح ہو جائے گی۔ دیکھو، ویسے بھی کافی دیر ہو چکی ہے۔ تم ایسا کرو کہ اپنی امی کی طرح فوراً سوجاؤ۔ ‘‘
سحر بولی۔ ’’ابو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ بہت ہی خاص بات ہے۔ اس سے پہلے جنگل کے دوسرے جانوروں کی آپس میں لڑائی ہوتی تھی تو وہ شیر یا موگلی کو اپنا ثالث بناتے اور ان سے آپسی تنازعات کا تصفیہ کرواتے تھے۔ اکثر تو یہ ہوتا کہ ایک فریق کا حکم موگلی اور دوسرے کا شیر ہوتا تھا۔ گویا یہ دونوں مل کر لوگوں کے جھگڑے کو چکا دیتے تھے۔
’’ہاں ہاں ۔۔۔ تو گویا دونوں مخالف فریق کے ساتھ ہوتے اور اب بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ اس میں کون سی نئی بات ہے؟ میں ان تماشوں کو خوب جانتا ہوں۔ ‘‘
’’جی نہیں ابو ! آپ نہیں جانتے۔ وہ مخالفین کے ساتھ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے دشمن نہیں، بلکہ دوست ہوا کرتے تھے۔ جب ان میں سے کسی ایک کی جنگل کے کسی دوسرے جانور سے لڑائی ہو جاتی تو یہ دونوں اس کا متحد ہو کر مقابلہ کیا کرتے تھے۔ لیکن آج تو ان دونوں کے درمیان ہی ٹھن گئی۔ میں ۔۔۔ میں اس جنگ کا انجام دیکھے بغیر نہیں سو سکتی۔ مجھے ہرگز نیند نہیں آئے گی۔ ‘‘
امروز کا پارہ چڑھ گیا۔ اس نے لپک کر ریموٹ سحر کے ہاتھوں سے چھین لیا اور ٹیلی ویژن کو بند کر دیا۔ سارے کمرے کو اندھیرے نے نگل لیا۔ لیکن امروز کے کانوں سے معصوم سحر کی ہچکیوں کی آوازیں ٹکرا رہی تھیں۔ امروز اور سحر دونوں جاگ رہے تھے۔ امروز اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔ وہ آج پہلی مرتبہ سحر پر اس قدر برسا تھا۔ اسے اپنی ذات پر غصہ آ رہا تھا۔ احساسِ جرم چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اس نے اچھا نہیں کیا۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ننھی سی جان کو سمجھا منا کر سلا دینا بہتر تھا لیکن تیر کمان سے نکل کر خود اس کے سینے میں پیوست ہو چکا تھا۔ خون کا دریا بند توڑ کر بہہ نکلا تھا اور خود اس کی سیراب کردہ فصلوں کو روند رہا تھا۔
امروز کی آنکھیں بند ہوئیں اور خواب کا پردہ روشن ہو گیا۔ اس بار ریموٹ کنٹرول ننھی سحر کے ہاتھوں میں تھا۔ امروز اپنے بچپن کو دیکھ رہا تھا۔ امی اسے لوری سنا رہی تھیں لیکن وہ کھیل میں غلطاں کبھی ادھر دوڑ پڑتا تو کبھی ادھر لپک جاتا۔ بالآخر اس کی امی کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور اس نے ڈانٹ کر کہا۔ ’’سوئے گا یا روئے گا؟ ‘‘
یہ سن کر ننھا سا امروز دہاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ ماں اس نئی صورتحال سے مزید پریشان ہو گئی اور اسے خاموش کرنے کی غرض سے ایک تھپڑ جڑ دیا۔ پھر کیا تھا۔۔۔ امروز نے چیخ چیخ کر سارے گھر کو سر پر اُٹھا لیا۔
دوسرے کمرے میں بیٹھی دادی امی ہانپتی کانپتی دوڑی ہوئی آئیں اور بولیں۔ ’’بہو بیگم بچے مارنے پیٹنے سے سوتے نہیں روتے ہیں۔ ‘‘
’’سو تو میں دیکھ ہی رہی ہوں امی جان! میں اسے لوری سناتے سناتے تھک گئی، لیکن یہ ہے کہ کھیلنے سے نہیں تھکتا۔ ‘‘
’’اوہو!‘‘ دادی امی بولیں۔ ’’دیکھو، اب یہ بڑا ہو گیا ہے۔ صرف لوری سے کام نہیں چلے گا۔ ‘‘
’’پھر اسے سلانے کے لئے کیا کرنا پڑے گا؟ ‘‘ امی نے سوال کیا۔
’’ہاں ۔۔۔ اب اسے سونے کے لئے کہانی درکار ہے۔ ‘‘
کہانی کا نام سن کر امروز اپنی دادی کی جانب لپکا اور رونا بھول کر کہنے لگا۔ ’’دادی اماں دادی اماں ۔۔۔ مجھے کہانی سنائیے ۔۔۔ جنگل کی کہانی۔۔۔ شیر کی کہانی۔۔۔ جانوروں اور پریوں کی کہانی۔۔۔ بھوت کی اور موگلی کی کہانی۔۔۔ موگلی۔۔۔ ارے یہ موگلی کہاں سے آ گیا۔ موگلی تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ ‘‘ امروز کے خواب میں سحر کی حقیقت سرائیت کر گئی تھی۔
امروز اپنی دادی کے آنچل میں لپٹ کر سو چکا تھا لیکن سحر کی آنکھوں میں نیند کا دُور دُور تک اتہ پتہ نہیں تھا۔ گھپ اندھیرے کے اندر غرقاب سحر سوچ رہی تھی۔۔۔ ’’اب کیا ہو گا؟ کیا موگلی شیر کو مار دے گا؟ لیکن شیر؟ شیر تو جنگل کا بادشاہ ہے۔ کیا وہ مر سکتا ہے؟ اس کے مر جانے سے جنگل کا امن و امان غارت ہو جائے گا اور چہار جانب انارکی پھیل جائے گی۔ قتل و غارت گری کا دور دورہ ہو جائے گا۔ سارے جانور بے خوف ہو کر اپنی من مانی کرنے لگیں گے۔ ایک دوسرے سے لڑیں گے، خونریزیاں کریں گے، کوئی ان میں صلح صفائی کرنے والا نہ ہو گا۔ تو ایسے جنگل میں موگلی کیسے رہ سکے گا جہاں امن و سلامتی نہ ہو اور ہر وقت جان کا کھٹکا لگا رہتا ہو؟ ایسے میں کیا موگلی جنگل سے نکل کر بستی میں آنے کے لئے مجبور ہو جائے گا؟ ‘‘
یہ نہایت عجیب و غریب سوال ننھی سحر کے ذہن میں کوند گیا۔ اس نے موگلی کو حقیقی انسان سمجھ لیا تھا اور اس کے بارے میں بے حد فکرمند ہو گئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی، ’’اپنے جنگل کے دوستوں کے بغیر موگلی کا دل انسانوں کے درمیان کیسے لگے گا؟ اور ویسے بھی بستی کے لوگ جنگل سے لوٹ کر آنے والے انسان کو کیوں کر اپنائیں گے؟ وہ اس پر اعتماد کرنے کے بجائے اسے اپنا دشمن سمجھیں گے۔ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کریں گے۔ جنگل کی آزاد فضاؤں میں رہنے ولا موگلی شہر میں گھٹ گھٹ کر مر جائے گا۔ موگلی کا انجام شیر سے بھی بُرا ہو گا۔ ‘‘ سحر کو موگلی سے بڑی ہمدردی تھی۔ وہ موگلی کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن اس اندھیرے کمرے میں، جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا اور نہ موگلی نظر آتا تھا، وہ اس کی مدد کیسے کر سکتی تھی؟
سحر کو اپنے ابو پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ دوبارہ ٹیلی ویژن چلا دے اور آگے کے مناظر دیکھے۔ لیکن امروز کے ہاتھوں سے ریموٹ لینے کی ہمت وہ نہیں جٹا پا رہی تھی۔ اس کے دل میں ایک اور خیال آیا۔۔۔ ’’کیوں نہ امی کو جگا کر ان سے سفارش کروائی جائے؟ ‘‘ لیکن پھرسوچا، جس طرح جنگل کے جانور شیر سے خوف کھاتے ہیں، اُسی طرح اس گھر کے باشندے ۔۔۔ سحر اور سندھیا۔۔۔ ابو جی سے ڈرتے ہیں اور ہر معاملے میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے موگلی اور شیر کی طرح آج اس میں اور ابو میں ان بن ہو گئی تھی۔
سحر نے محسوس کیا، وہ بھی کسی جنگل میں ہے۔ اس کے ابو شیر کی مانند اس جنگل کے بادشاہ ہیں۔ وہ گھر میں سبھی کو اسی طرح اچھے لگتے ہیں جیسے شیر، جو خوفناک ہونے کے باوجود جنگل میں سب کے من بھاتا ہے۔ اس نے جب سوچا ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تو اسے لومڑی خالہ یاد آ گئی جس نے ایک مرتبہ موگلی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ ’’دیکھو موگلی! تم سب کے چہیتے ہو، لیکن شیر سے سنبھل کر رہنا۔ اس لئے کہ وہ جنگل کا راجہ ہے۔ اگر تم نے کسی اور سے پنگا لے لیا تو بہت سارے جانور تمہاری حمایت میں کھڑے ہو جائیں گے اور شیر بھی تمہاری مدد کو آئے گا، لیکن اگر تمہاری شیر سے لڑائی ہو جائے تو تم بے یار و مددگار ہو جاؤ گے۔ کیا سمجھے؟ ‘‘
موگلی نے سوال کیا۔ ’’لیکن اگر میں حق پر ہوں اور شیر کا موقف ناحق ہو، تب بھی میرے ساتھ کوئی نہیں آئے گا؟ تم بھی نہیں؟ ‘‘
لومڑی بولی۔ ’’جی ہاں موگلی! نہ میں نہ کوئی اور۔۔۔ کوئی بھی نہیں؟ تم تنہا ہو جاؤ گے ‘‘
’’کیوں؟ اس کی وجہ؟ ‘‘ موگلی بھی سحر کی مانند ضدی تھا۔
لومڑی کے لئے اس سوال کا صحیح جواب دینا ایک بڑی آزمائش کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ وہ جانتی تھی موگلی میں بچپنا ہے۔ اگر اس نے کہیں نادانستگی میں بھی اس کا جواب شیر کو بتلا دیا تو وہ بے موت ماری جائے گی۔ لیکن موگلی اگر کسی بات کے پیچھے پڑ جاتا تھا تو مانتا کب تھا؟ لومڑی نے بات بناتے ہوئے کہا۔ ’’وہ ایسا ہے کہ شیر جنگل کے سارے جانوروں کو اچھا جو لگتا ہے۔ ہر بادشاہ اپنی رعایا کو اچھا لگتا ہے، اس لئے وہ اس سے بغاوت تو درکنار، اختلاف کی جرأت بھی نہیں کرتے۔ ‘‘
سحر سوچ رہی تھی کہ لومڑی کی واضح نصیحت کے باوجود موگلی نے شیر سے لڑائی کیوں مول لی؟ اس سوال کا جواب اس کے ننھے سے ذہن نے فوراً دے دیا۔ موگلی! موگلی جنگل میں رہتا ضرور تھا، اس کے باوجود وہ دوسرے جانوروں کی مانند شیر کی رعایا میں شامل نہیں تھا۔ اس کی حیثیت تمام جانوروں سے مختلف تھی۔ اسی لئے وہ چڈی پہن کر آزادی کے ساتھ کبھی پیڑوں پر اُچھلتا کودتا تھا تو کبھی پانی میں چھلانگ لگا کر تیرتا پھرتا تھا۔ موگلی کو اپنی امتیازی حیثیت کا احساس تھا۔ اسی لئے اس نے دوسرے جانوروں کے علی الرغم جو طاقت اور ڈیل ڈول میں اس پر فوقیت رکھتے تھے، بغاوت کی جرأت کر دی تھی اور شیر کے اقتدار کو للکار دیا تھا۔ سحر نے سوچا، ’’کاش کہ وہ بھی موگلی ہوتی؟ ؟ ‘‘
جب سحر نے اپنا تقابل موگلی سے کیا تو اسے لگا کہ شاید وہ غلطی پر ہے؟ موگلی اس حقیقت کو بھول گیا ہے کہ شیر جنگل کا سرپرست ہے۔ جنگل میں جو حفظ و امان اسے حاصل ہے، وہ صرف اور صرف شیر کی بدولت ہے۔ سحر سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچنے لگی کہ شاید موگلی کا شیر کے خلاف اعلانِ جنگ درست نہیں ہے؟ اب سحر اندیشوں کا شکار ہونے لگی تھی۔ وہ اس جنگ کے انجام پر غور کرنے لگی تھی۔ بظاہر یہی لگتا تھا کہ شیر موگلی پر غالب آ جائے گا اور اسے ہلاک کر دے گا۔ اس خیال نے سحر کے جسم میں جھرجھری پیدا کر دی۔ وہ موگلی کے لئے فکر مند ہو گئی۔ موگلی! موگلی جو اس کا ہیرو ہے، وہ کیسے مر سکتا ہے؟ وہ نہیں مر سکتا! وہ کبھی نہیں مر سکتا؟ موگلی مر نہیں سکتا! اس لئے کہ وہ ہیرو ہے ہیرو۔ ہیرو۔۔۔ ہیرو۔۔۔ سحر چیخ رہی تھی اور قریب ہی اس کے والدین موت کی نیند سو رہے تھے۔
اس روز جب دور پہاڑوں کی اوٹ سے سورج کندھے اچکانے کی کوشش کر رہا تھا، سحر نیند کی گہری وادی میں قدم رکھ رہی تھی۔ سندھیا کی نیند بہر حال پوری ہو چکی تھی۔ اس نے آسمان کو روشنی کا سرمہ لگاتے دیکھا تو قریب میں پڑے امروز کو جھنجھوڑنے لگی۔ امروز فوراً اُٹھ بیٹھا۔ سب سے پہلے اس کی نظر ننھی سحر پر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ اپنی کشتی نما کرسی میں آنکھیں کھولے بے حس و حرکت بیٹھی ہے۔ یہ نہایت خوفناک منظر تھا۔ سندھیا اور امروز نے اپنی بیٹی کو ایسی حالت میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
سندھیا نے گھبرا کر کہا۔ ’’ہماری بٹیا کو دیکھو۔۔۔ اسے کیا ہو گیا؟ یہ نہ کچھ بولتی ہے اور نہ ہی سنتی ہے۔ یہ خلاؤں میں نہ جانے کیا دیکھ رہی ہے؟ ‘‘
امروز کو رات کی بات یاد آ گئی، وہ بولا۔ ’’گھبراؤ نہیں۔ یہ سو رہی ہے۔ اسے سونے دو میری جان۔۔۔ اسے نہ جگاؤ!‘‘
’’کیا؟ سورہی ہے؟ یہ تو بیٹھی ہوئی ہے۔ ‘‘
’’تو کیا ہوا! سونے کے لئے لیٹنا ضروری تو نہیں؟ میں ہر روز دیکھتا ہوں، لوگ ممبئی کی لوکل گاڑی میں بھیڑ بھاڑ کے اندر کھڑے کھڑے سو جاتے ہیں۔ ‘‘
’’شاید آپ نے اس کی آنکھوں کو غور سے نہیں دیکھا؟ ان ٹکْر ٹکْر گھورتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بھی کوئی سو سکتا ہے؟ ‘‘
’’کیوں نہیں ! جب انسان اپنے کان اور منھ کو کھلا رکھ کر سو سکتا ہے، تو آنکھوں کو کیوں نہیں؟ اور اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ تم اس حقیقت کی فی الحال چشم دید گواہ ہو۔ اس کے باوجود تمہیں اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں؟ ‘‘
سندھیا بولی۔ ’’آپ کی منطق تودرست ہے لیکن پھر بھی میری سمجھ میں نہیں آتا۔ سوتے میں آنکھیں بند کر کے خواب دیکھنا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن کھلی آنکھوں کے ساتھ سب کچھ دیکھتے ہوئے سونا؟ ۔۔۔ اس کا ادراک ذرا مشکل ہی ہے۔ ‘‘
’’مشکل اس لئے ہے کہ تم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ کھلی آنکھوں کے باوجود کچھ بھی دیکھ نہیں رہی۔ ‘‘
’’کوئی آنکھیں بھی کھلی رکھے اور دیکھے بھی نہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ ‘‘
’’بے شک ممکن ہے ۔۔۔ نیند کی حالت میں ہمارے کان کھلے ہوتے ہیں مگر ہم کچھ نہیں سنتے اسی طرح اگر آنکھیں کھلی ہوں تو ہم دیکھ کیسے سکیں گے؟ ۔ ‘‘
’’لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا اس سوال کا کوئی جواب ہے آپ کے پاس۔۔۔؟ ‘‘
’’کیوں نہیں۔ کیا تم نہیں جانتیں کہ کبھی کبھار انسان مر جاتا ہے اور اس کی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ لیکن چونکہ قوتِ بصارت سے محروم ہو جاتی ہیں، اس لئے دیکھ نہیں پاتیں۔ ‘‘
سندھیا کو امروز کے دلائل مطمئن نہیں کرپا رہے تھے اس لئے وہ سوال پر سوال کئے جا رہی تھی ’’یہ تو آپ نے بڑی عجیب سی مثال دے دی، موت اور نیند کا بھلا کیا موازنہ۔ ایک اگر آتی ہے تو جاتی نہیں، یہاں تک کہ ساتھ لے جائے لیکن نیند آتی جاتی رہتی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر نیند آئے نہیں تو جائے کیسے؟ ‘‘
امروز بولا ’’جی ہاں ! اس بنیادی فرق کے باوجود دونوں میں بلا کی یکسانیت ہے۔ میں تو کہتا ہوں نیند موت کی چھوٹی بہن ہے۔ وہ بھی موت کی طرح حواسِ خمسہ کو سلب کر دیتی ہے۔ اعضا و و جوارح موجود ہونے کے باوجود نیند کا خمار یا حصار میں بے حس ہو جاتے ہیں۔ ‘‘
سندھیا نے سحر کی جانب اشارہ کر کے پوچھا ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب اس کا کیا کیا جائے؟ کیا اسے یوں ہی سوتاچھوڑ دینے سے کہیں اس کا جسم بیٹھے بیٹھے اکڑ نہ جائے؟ ‘‘
امروز بولا ’’تو ایسا کرتے ہیں کہ اسے یوں ہی اٹھا کر آہستہ سے بستر پر لٹا دیتے ہیں، ورنہ اس کی آنکھ کھل جائے گی۔۔۔ میرا مطلب ہے نیند ٹوٹ جائے گی۔ ‘‘ امروز نے فوراً اپنی اصلاح آپ کر دی۔
سندھیا اور امروز نے مل کر آہستہ سے سحر کو اپنی جگہ سے اُٹھایا اور بستر پر لٹا دیا۔ اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ کیا ہوا۔ اس روز نیند کے گہرے بادل دیر گئے تک آسمان پر چھائے رہے اور رات کے بطن سے اچانک دن نکل آیا، گویا صبح بیچ سے کہیں غائب ہو گئی تھی۔ عوام نے اسے ایک خلاف معمول واقعہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
سندھیا کی اپنی کوئی ساس نہیں تھی، پھر بھی اس کو ٹی۔ وی کے پردے پر ’’ساس بہو کی تو تو میں میں ‘‘ بہت اچھی لگتی تھی۔ کبھی کبھار جب اس کا دل اس سے اُوب جاتا تو وہ ریموٹ کنٹرول کی مدد سے دوسرے چینلس کی جانب نکل جاتی اور اپنا ذائقہ بدل کر پھر واپس اپنے پسندیدہ چینل پر لوٹ آتی۔
ایک دن اسی چکر میں وہ ایک انگریزی چینل پر پہنچ گئی جہاں فلم چل رہی تھی۔ عدالت کا منظر تھا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ مدعی اور مُدعا الیہ دونوں خواتین تھیں۔ مقدمہ بڑے زور و شور سے لڑا جا رہا تھا۔ ہر دو جانب کے وکیل جوش و خروش کے ساتھ اپنے گواہ پیش کرتے تھے اور حریفِ مخالف کے گواہ کی دھجیاں اُڑا کر لوٹا دیتے تھے۔ سندھیا نے اس چینل پر لنگر ڈال دیا اور ریموٹ کو ایک جانب رکھ کر فلم دیکھنے لگی۔
قضیہ ایک خاتون کا تھا جسے نیند میں چلنے کی بیماری تھی۔ وہ نیند کی حالت میں نہ صرف خود چل پڑتی تھی بلکہ بے خبری کے عالم میں اپنی گاڑی بھی چلانے لگتی تھی۔ یہ تمام کام نیند کی حالت میں ہوتے۔ اسے ذرّہ برابر احساس نہ ہوتا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ ایسے میں ڈینس نام کا ایک نوجوان گاڑی کی زد میں آ گیا اور اپنی جان گنوا بیٹھا۔
مقتول کی ماں نے عدالت سے رجوع کر کے اپنے بیٹے کے قاتل کیلئے سزائے موت کا مطالبہ کر ڈالا۔ تمام شواہد مقتول کے حق میں تھے، اس کے باوجود ملزمہ کا وکیل اطباء کی مدد سے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ اس کی مؤکل نیند میں چلنے یعنی ’’خواب گردی‘‘ نام کی بیماری میں مبتلا ہے۔
وکیلِ استغاثہ کی دلیل یہ تھی کہ اس کے مؤکل کا حالتِ نیند میں اپنے اعضاء کی حرکات و سکنات پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ اس لئے کہ نیند کی حالت میں انسان کا اس کے اعضاء اور جوارح پر اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے، اس دلیل کے تحت کسی بے اختیار فرد کو موردِ الزام ٹھہرانا انصاف کے منافی ہے۔ اس دلچسپ بحث میں فرد اور اس کے اعضا دو مختلف وجود بن کر سامنے آ رہے تھے۔ اس لئے جج صاحب نے استفسار کیا کہ وہ ان میں سے کس کا وکیل ہے؟ یعنی اس کا حقیقی مؤکل کون ہے؟
وکیل نے بتلایا کہ وہ فرد کی وکالت کر رہا ہے، اعضا کی نہیں۔
’’اور قتل کس نے کیا؟ ‘‘
’’اعضا نے؟ ‘‘
’’لیکن یہ اعضا ء کس کے پاس ہیں۔ مثلاً اگر کوئی قاتل اپنی بندوق سے کسی کو ہلاک کر دے تو بندوق کو نہیں بلکہ اس کو چلانے والے کو سزا دی جائے گی۔ وکیل استغاثہ نے دلیل پیش کی۔
وکیل مدعی بولا۔ ’’جی ہاں، آپ کی دلیل بالکل درست ہے۔ قاتل چونکہ اپنی مرضی سے شعوری طور پر بندوق کا استعمال کرتا ہے، اس لئے وہ مجرم قرار پائے گا۔ لیکن اگر یہ عمل بے اختیاری طور پر وقوع پذیر ہو جائے تو صورتحال بدل جائے گی۔
لیکن انسان کوجیسے اسلحہ کے استعمال پر سزا ہو سکتی ہے اسی طرح اپنے اعضا کی کار کردگی پر سزا ہونی چاہئے۔ نسان کا اپنے اعضا کے اوپر سے اختیارکیسے ختم ہو سکتا ہے؟
’’کیوں نہیں جناب۔۔۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہماری یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ ہمیں اپنے ہر عضو پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ ہمارے اعضاء کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک جن کو ہم اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں، مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ۔ لیکن بہت سارے ایسے اعضاء و جوارح بھی ہیں جو ہمارے کے تابع و فرمان نہیں ہیں، مثلاً انسان نہ ہی اپنے دل کی دھڑکن پر کوئی اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی اپنے جگر کی کار کردگی پر اثر اَنداز ہو سکتا ہے۔
وکیل مدعی نے اعتراض کیا۔ گاڑی چلانے میں جن ہاتھوں اور پیروں کا استعمال کیا جاتا ہے ان کے بارے میں آپ نے خود اعتراف کر لیا کہ وہ اختیاری اعضاء ہیں۔
وکیل استغاثہ بولا لیکن آپ نے میری بات کو درمیان سے اچک لیا۔ میں کہنے جا رہا تھا کہ یہ سب بھی حالتِ بیداری کی باتیں ہیں۔ نیند کی حالت میں سارے ہی اعضاء اپنے مالک کے اختیار و عمل سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ایسے میں ان کی کسی حرکت کے لئے فرد کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ میری مؤکل حادثے کے وقت ہوش کے عالم نہیں بلکہ نیند کی حالت میں تھی۔
اپنی پوزیشن کو کمزور ہوتا ہوا دیکھ کر مقتول کی ماں خود اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی اور بولی۔ ’’جج صاحب! مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ میرے بیٹے کا قاتل کون ہے؟ میں تو یہ جانتی ہوں کہ میرے لختِ جگر کا ناحق قتل ہوا ہے اور جس کسی نے یہ قتل کیا اسے قرار واقعی سزا ہونی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی کسی کے دل میں اس کا خیال تک نہ آئے اور کوئی قانونی منہ شگافی کسی کے کام نہ آئے۔
مطالبہ نہایت معقول اور خاصہ جذباتی تھا، لیکن ملزمہ کے وکیل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ بولا۔ ’’جناب جج صاحب! چونکہ معاملہ زندگی اور موت کا ہے اس لئے اسے جذبات کی بنیاد پر سلجھانے کی کوشش مزید اُلجھا سکتی ہے۔ ‘‘ وہ نہایت اعتماد کے ساتھ اپنے دلائل رکھ رہا تھا۔ ’’انسانی زندگی اختیار و عمل کی آزادی کا دوسرا نام ہے۔ اس خودمختاری کا خاتمہ اُسے زندہ لاش میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ تبدیلی ابدی بھی ہوتی ہے اور عارضی بھی۔ ویسے تو ابدی نیند کے بعد بھی تمام انسانوں کو ایک دن حساب کتاب کے لئے اُٹھایا جائے گا، یہ ایک دیگر بحث ہے۔ لیکن کسی فرد کی موت کے بعد دنیاوی عدالت اسے کوئی سزا نہیں دے سکتی۔ ‘‘
وکیل نے اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے سوال کیا ’’میری مؤکل نیند کی حالت میں وقتی طور پر موت کا شکار ہو گئی تھی، جیساکہ ہم سب ہو جاتے ہیں۔ حالتِ مرگ میں اس کے اعضاء نے جو حرکت غیر شعوری طور پر کی، اس کی سزا زندگی کی حالت میں میرے مؤکل کو دینا سراسر ظلم ہے۔ بلا ارادہ قتل کا جواب بلارادہ قتل نہیں ہو سکتا۔ یہ روحِ انصاف کے منافی ہے؟ ‘‘
’’اگر ایسا ہے تو قاتل کو نیند کی حالت میں سزا دی جائے۔ ‘‘ مقتول کی ماں نے عدالت سے گہار لگائی۔
جج صاحب بولے لیکن عدالت کا مسئلہ یہ ہے کہ سزا کے لئے پھانسی کے پھندے پر لے جانے کا عمل نیند کی حالت کو ہوشمندی میں تبدیل کر دیتا تھا، اور سزا از خود ساقط ہو جاتی ہے۔ جج نے شش و پنج کی کیفیت میں مقتول کی ماں سے پوچھا کہ اگر وہ کوئی ایسی صورت سجھا سکتی ہوں کہ جس کے ذریعہ ملزم کو اسی حالت میں، جس میں کہ اُس سے جرم سرزد ہوا ہے، سزا دی جا سکے تو عدالت کو اسے نافذ کرنے میں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔
چند لمحات کے لئے عدالت میں خاموشی چھا گئی۔ اس کے بعد مقتول کی ماں اپنی جگہ سے اُٹھی اور بولی۔ ’’میری رائے یہ ہے اس قاتلہ کو نیند کی حالت میں گولی مار دی جائے۔ ‘‘
ان الفاظ کے ادا ہوتے ہی ملزمہ کی فلک شگاف چیخ عدالت میں بلند ہوئی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ ’’میں نے قتل نہیں کیا۔۔۔ میں نے کسی کا قتل نہیں کیا۔۔۔ میں مرنا نہیں چاہتی۔۔۔ مجھے نہ مارو۔۔۔ مجھے ناحق نہ مارو۔۔۔ میں مرنا نہیں چاہتی۔۔۔‘‘ دھیرے دھیرے اُس کی آواز کسی غار میں گم ہو گئی اور وہ اپنی جگہ ڈھیر ہو گئی۔ اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ ملزمہ کا جیتی جاگتی حالت میں بھری عدالت کے اندر قتل ہو گیا تھا۔ انصاف نے سسک سسک کر دم توڑ دیا تھا اور عدل کی لاش عدالت کے اندر سولی پر چڑھائی جا چکی تھی۔
ایک لمحہ کے لئے پردے پر اندھیرا چھا گیا اور اگلے منظر میں پھر ایک بار عدالت کا دربار سجا ہوا تھا۔ مقتول کی ماں مجرم کے کٹہرے میں کھڑی تھی اور اس پر عمداً قتل کا مقدمہ قائم ہو رہا تھا۔ فلم کا پردہ گرنے لگا۔ سندھیا کے پپوٹے بھاری ہو چکے تھے اور اس روز وہ دوپہر کے بجائے سرِ شام نیند کی آغوش میں جا رہی تھی۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
سحر نے جب آنکھیں کھولیں تو خلافِ عادت سندھیا کو سویا ہوا پایا۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور ٹی۔ وی پر اپنے پسندیدہ چینل پر کارٹون فلم دیکھنے لگی۔ اپنی امی کی نیند کا خیال کر کے اس نے آواز کو اس قدر دھیمے کر دیا تھا کہ خود اسے بھی صاف سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وقت کے ساتھ سحر سمجھدار ہو چلی تھی، دوسروں کی تکلیف کا پاس و لحاظ کرنے لگی تھی۔ کارٹون فلمیں دیکھتے دیکھتے وہ اس قدر طاق ہو گئی تھی کہ وہ آواز و الفاظ سے بے نیاز لبوں کے حرکات اور تاثرات سے ساری بات سمجھ جایا کرتی تھی۔ اس لئے اب وہ مختلف زبانوں کی کارٹون فلمیں دیکھنے لگی تھی اور وہ انہیں ایسے انہماک سے دیکھتی کہ دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتی۔
گرمیوں کا وہ دن اس قدر طویل تھا کہ شام کا وقفہ درمیان سے غائب ہو گیا اور اچانک رات نمودار ہو گئی۔ تھکا ماندہ امروز اپنی حویلی کے آنگن میں پہنچا تو وہاں قبرستان کا سا سناٹا تھا۔ اس نے چابی نکالنے کی خاطر جیب میں ہاتھ ڈالا تو ہاتھ دوسری جانب سے باہر آ گیا۔ امروز کی جیب کٹ چکی تھی۔ نہ صرف اس کی چابی، بلکہ اس کا بٹوہ، شناختی کارڈ، انشورنس کارڈ، لائسنس اور اے۔ ٹی۔ ایم کارڈ سمیت غائب تھے۔ امروز نے موبائل کو ٹٹولا تو وہ بھی ندارد، اس کو ایسا لگا جیسے اس کا سب کچھ چھن چکا ہے۔ وہ کنگال بلکہ ادھورا ہو کر رہ گیا ہے۔ بے یارو مددگار امروز کو خارجی اشیاء پر شدید انحصا کا احساس اسے ان سب کے چھن جانے کے بعد ہوا۔
امروزو اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنے خزانے اور صحت کی کنجی گنوا بیٹھا تھا۔ اس کا اپنا تشخص اس سے کھو گیا تھا۔ اس نے دروازے پر لگی کال بیل کو دبانے کی کوشش کی تو وہ عرصۂ دراز تک عدم استعمال کا احتجاج کر کے خاموش ہو گئی۔ اب وہ اپنی دھول سے اٹی اُنگلی کو صاف کر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ جیسے جیسے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جاتا دستک کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ لاشعوری طور پر دروازے کو پیٹ رہا تھا لیکن کہاں صدر دروازہ اور کہاں مہمان خانے کے عقب میں خواب گاہ کا مضبوط باب جو قلعے کی مانند بند تھا۔ باہر آندھی چل رہی تھی اور اندر طوفان سے پہلے کی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سحر کارٹون فلم اور سندھیا نیند کے گہرے سمندر میں غرق تھی۔
امروز کے پڑوس میں رات کی کوٹھی تھی، جس کے باہر صحرائی لیلیٰ کندہ تھا۔ پڑوسن کی شب کا دن نہ جانے کب حرص و ہوس کے چکر میں کسی لق و دق صحرا کی جانب نکل گیا تھا اور پھر راستہ بھٹک کر کہیں کھو گیا تھا۔ اپنے محبوب کے غم میں لیلیٰ نے ہوش و حواس کھو دئیے تھے۔ وہ پاگل ہو گئی تھی۔ بعد میں لوگوں نے اس کے مجنوں سے منسوب کر کے لیلیٰ کا نام صحرائی لیلیٰ کر دیا تھا۔ صدیوں سے بند اس خوفناک ویران حویلی کا دروازہ امروز کے شور و شغف سے پہلی بار چرمرایا اور ایک بھیانک آواز کے ساتھ کھل گیا۔ برسوں پرانی نیند سے ایک شرارت بیدار ہو رہی تھی۔ رات نے شر انگیز انگڑائی لی۔ اس کا سایہ باہر آیا اور امروز کے دروازے تک پھیل گیا۔ ہر طرف تاریکی کا دور دورہ تھا۔
لیلیٰ کی یادداشت لوٹ آئی تھی۔ وہ یاد کر رہی تھی ایک صبح اس کا دن، جس کا نام النہار تھا، حسب معمول شام میں لوٹ کر آنے کا وعدہ کر کے روانہ ہوا اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔ اُسے وہ دن بھی یاد آ رہے تھے جب اس کی آنکھیں اپنے دن کے انتظار میں دروازے پر ٹکی رہتی تھیں۔ اسے یقین ہوا کرتا تھا کہ صبح کا بھولا کسی نہ کسی شام ضرور لوٹ آئے گا۔ لیکن رفتہ رفتہ امیدوں کے سارے چراغ گل ہو گئے۔ اپنے مجنوں کی منتظر لیلیٰ تنہائی کی وادیوں میں کھو گئی۔
اور پھر صحرائی لیلیٰ کی یادداشت بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔ وہ بھول گئی کہ النہار کون ہے اور لیلیٰ کس کا نام ہے؟ اس کے بعد کیا کچھ ہوا، وہ نہیں جانتی تھی۔ ایک عالمِ بے خودی میں اس کی سانسوں کا تار چل رہا تھا۔ لیکن آج اچانک ایک نئی جھنکار نے دل کے تار کو چھیڑ دیا تھا۔ وہ پھر سے زندہ ہو گئی تھی۔ وہ اپنے دل کے دروازے پر ایک دستک محسوس کر رہی تھی۔ اس نے جھروکے کی اوٹ سے جھانک کر باہر دیکھا تو ایک عجیب و غریب منظر نے اسے چونکا دیا۔ امروز نے دروازہ سے سر ٹکرا ٹکرا کر اپنی پیشانی کو لہولہان کر لیا ہے، لیکن دروازہ ہنوز بند کا بند ہی ہے۔
لیلیٰ نے اپنا سر باہر نکالا اور آہستہ سے بولی۔ ’’آؤ۔۔۔ یہاں آ جاؤ! رات کافی گہری ہو چکی ہے۔ تم یہاں آ کر سو جاؤ۔ ‘‘ اس کی آواز میں بلا کی حلاوت و شیرینی گھلی ہوئی تھی۔
امروز نے اپنے عقب کی جانب مڑ کر دیکھا تو لیلیٰ مسکرا رہی تھی، وہ بولا۔ ’’شکریہ۔ لیکن میں اپنے بستر کے علاوہ کہیں اور نہیں سو سکتا۔ اس لئے کہ مجھے نیند نہیں آئے گی۔ ‘‘
لیلیٰ بولی۔ ’’کیسی باتیں کرتے ہو؟ نیند کا تعلق بستر سے نہیں، تھکن سے ہے۔ جب کوئی بوجھل ہو تو اسے پتھر پر بھی نیند آ جاتی ہے اور جب وہ تھکا ہوا نہ ہو تو نرم و نازک بستر بھی اس کے لئے بیکار ہوتا ہے۔ ‘‘
امروز بولا۔ ’’نہیں ۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔ لوگ چھٹی کے دن آرام کرتے ہیں، اس کے باوجود اُنہیں نیند تو آتی ہی ہے۔ ‘‘
لیلیٰ کو ہنسی آ گئی، وہ بولی۔ ’’تم بہت بھولے ہو امروز۔۔۔ بالکل بچوں جیسی باتیں کرتے ہو۔ لوگ چھٹی کے دن جاگتے جاگتے تھکتے ہیں تو سو جاتے ہیں اور سوتے سوتے تھک جاتے ہیں تو بیدار ہو جاتے ہیں۔ تھکن تبدیلی کی طالب ہوتی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ دن بھر کے سفر نے تمہیں تھکا کر چور کر دیا ہے۔ ‘‘
’’تمہیں کیونکر پتہ ہے؟ میری حالت کا اندازہ تم نے کیسے کر لیا؟ ‘‘۔
’’مجھے پتہ ہے امروز۔ میرا النہار بھی تمہاری طرح صبح سویرے نکل جایا کرتا تھا اور شام ڈھلے تھکا ماندہ لوٹ کر آتا اور میرے شانے پر سر رکھ کر گہری نیند سو جاتا تھا۔ ‘‘
’’اچھا! کہاں چلا گیا وہ؟ اب وہ کیوں نہیں آتا؟ ‘‘
’’دیکھو امروز۔۔۔ ایسے سولات کر کے اپنا اور میرا وقت ضائع نہ کرو جن کا جواب نہ میں جانتی ہوں اور نہ جاننا چاہتی ہوں۔ آؤ سو جاؤ، اس لئے کہ تمہارا سونا بہت ضروری ہے۔ ‘‘
’’کیوں ۔۔۔ میرا سونا کیوں ضروری ہے؟ اگر میں بیدار رہا تو کیا ہو جائے گا؟ ‘‘ امروز کو لیلیٰ کی باتیں بھلی لگنے لگی تھیں۔
لیلی بولی۔ ’’دیکھو تمہاری نیند اس لئے بھی ضروری ہے کہ تم اگر سوؤ گے نہیں تو جاگو گے کیسے؟ اور اگر جاگو گے نہیں تو سارا جہان سوتا پڑا رہے گا۔ انسانوں کی ہوشیاری و غفلت تمہارے نظام الاوقات کی مرہونِ منت جو ہے۔ ‘‘
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
امروز بالآخر لیلیٰ کی دلیل کا قائل ہو گیا اور با دلِ ناخواستہ اس کی جانب بڑھا۔ لیکن جیسے ہی اس نے چوکھٹ کے اندر قدم رکھا، وہیں گر کر ڈھیر ہو گیا۔ لیلیٰ امروز کی سانسوں کو اُکھڑتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا اس کا النہار کسی غیر کی چوکھٹ پر دم توڑ رہا ہے۔ رات کی تاریکی مزید گہری ہو گئی۔ آسمانِ گیتی سے سارے ستارے و چاند ایک لمحہ کے لئے غائب ہو گئے۔ وہ سب کے سب امروز کے جنازے میں شریک تھے۔ امروز کا تابوت ان کے کندھوں پر تھا۔ لیلیٰ بین کرتی ہوئی ان کے پیچھے چل رہی تھی اور اس کی نظریں النہار کو تلاش کر رہی تھیں۔ لیلیٰ کی پلکوں پر امید کا ایک ننھا سا دِیا روشن کر کے امروز اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گیا تھا۔ لیکن اس سانحہ سے بے خبر باقی مخلوقات بشمول سندھیا اور سحر نیند کیا تھاہ گہرائیوں میں کھوئے ہوئے تھے۔
اگلے دن صبح سے قبل سندھیا نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آس پاس امروز کو ٹٹولنے لگی۔ امروز کا کہیں اتہ پتہ نہیں تھا۔ شام کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کا دن کہاں کھو گیا؟ یہ اچانک اسے کیا ہو گیا؟ گزشتہ شام کی فلم کے مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ وہ سوچنے لگی کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ کسی نے نیند کی حالت میں اس کے امروز کو روند دیا ہو؟ اس کا دل کہہ رہا تھا یقیناً ایسا ہی ہوا ہے۔ لیکن پھر اس کے ذہن میں ایک اور سوال اُبھرا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والی کوئی اور نہیں، اُس کی اپنی ہی ذات ہے؟
سندھیا!! سندھیا ہی وہ آسیب ہے جس نے اپنے امروز کو نگل لیا؟ اس خیال سے وہ کانپ اُٹھی۔ اس نے سوال کو ذہن سے جھٹک دیا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ تو نیند کے خمار میں بھی اپنے امروز کو ایذاء نہیں پہنچا سکتی تھی۔
وکیل استغاثہ کا جملہ اس کے کانوں میں گونج رہا تھا۔ ’’جج صاحب۔۔۔ نیند کی حالت میں انسان کا اختیار ہی سلب ہو جاتا ہے۔ اس کے اعضا و جوارح پر اس کا بس نہیں چلتا اور ایسے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔ کچھ بھی۔ وہ ایسے تمام کام کر سکتا ہے جنھیں وہ کرنا نہیں چاہتا اور ان میں سے کوئی ایک بھی کام نہیں کر سکتا جن کو وہ کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘
سندھیا نیند کی حالت کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ سحر جاگ گئی۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’امی۔۔۔ میرے ابو کہاں ہیں؟ کیا وہ چلے گئے؟ کیا وہ آج مجھ سے ملے بغیر ہی روانہ ہو گئے؟ ‘‘
’’نہیں بیٹی۔۔۔ تمہارے ابو تم سے ملے بغیر نہیں جا سکتے۔ وہ ابھی نہیں گئے۔ ‘‘
’’اچھا! اگر گئے نہیں تو میرے ابو کہاں ہیں؟ کہاں ہیں میرے ابو ۔۔۔ مجھے بتاؤ۔ ‘‘
’’بیٹی میں یہ تو نہیں جانتی کہ تمہارے ابو کہاں ہیں، لیکن یہ ضرور جانتی ہوں کہ وہ آج اپنے گردشِ روزگار پر نہیں گئے۔ ‘‘
’’آپ کو پتہ بھی نہیں اور پتہ بھی ہے؟ یہ کیسی کیفیت ہے امی؟ ‘‘
’’میری بیٹی سحر! ہر آنے والا دن چلا جاتا ہے، گویا جانے کے لیے آنا ضروری ہے۔ اب جو آیا ہی نہ ہو وہ کیسے جا سکتا ہے بھلا؟ وہ نہیں جا سکتا۔۔۔ کہیں نہیں جا سکتا۔ اسی لئے میں کہہ رہی ہوں کہ وہ نہیں گئے ۔۔۔ تمہارے ابو کہیں نہیں گئے۔ ‘‘
سندھیا کے بے ربط جملوں کو سمجھنا سحر کے لیے نا ممکن تھا۔ اس لئے وہ بولی۔ ’’امی یہ آپ کا آنے جانے کا فلسفہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ‘‘
سندھیا نے جواب دیا۔ ’’جی ہاں بیٹی! تمہاری بات درست ہے۔ یہ معاملہ کا مکمل ادراک چونکہ خود مجھے نہیں ہے اس لئے تمھیں کیسے سمجھا سکتی ہوں؟ شاید مجھے صرف یہ کہنا چاہیے کہ میں نہیں جانتی تمہارے ابو کہاں ہیں۔ میں یہی جانتی ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتی۔ ‘‘
لوگ سوتے سوتے تھک گئے تھے اور سورج دن کے انتظار میں کھڑا کھڑا تھک گیا تھا۔ ایسے میں سندھیا نے لب کشائی کی، وہ بولی۔ ’’بیٹی تمہارے ابو تو موجود نہیں ہیں لیکن اُن کا فرضِ منصبی تو قائم و دائم ہے۔ اب اس فرض کی ادائیگی کے لیے تمھیں کمربستہ ہونا پڑے گا۔ ‘‘
ماں کی اس درد انگیز التجا کو سن کر سحر تیار ہو گئی۔ سندھیا بوجھل قدموں کے ساتھ سحر کے ہمراہ دروازے تک آئی۔ اسے سینے سے لگا کر پیشانی پر محبت کا بوسہ دیا اور الوداع کر دیا۔
جیسے ہی سحر نے آنگن سے باہر قدم رکھا، سورج نے اپنی جگہ سے حرکت کی۔ مؤذن صبح کاذب کا اشارہ پا کر محراب کی جانب بڑھا۔ اور پھر جب نمازی مسجد سے لوٹ رہے تھے۔ ایک نئی صبح جلوہ نمائی کے لیے بیتاب تھی۔ دن کی روشنی سحر بن کر کائنات کو منور کر رہی تھی اور شام لمحات کی تسبیح کو ہاتھوں میں تھامے اپنی ننھی سحر کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی۔
مونا گونسا لویس
وہ دونوں ایئر انڈیا کی ممبئی نیویارک فلائیٹ میں محو پرواز تھے۔ آدھی رات میں مونا ارونگ ویلس کا ناول ایئر پورٹ پڑھ رہی تھی اور منیر نیند کی آغوش میں گم تھا۔ درمیان میں جب منیر کی آنکھ کھلتی وہ ہینڈل میں لگا سوئچ آف کر دیتا اور اندھیرا چھا جاتا۔ مونا ناول کا مطالعہ بند کر کے مسکراتے ہوئے منیر کو دیکھتی اور جب اسے یقین ہو جاتا کہ منیر پھر گہری نیند میں ڈوب چکا ہے وہ بتی کا سوئچ آن کر کے کتاب میں غرق ہو جاتی۔
بارہ گھنٹہ کی طویل مسافت کے بعد جب وہ نیویارک پہونچے تو وہاں وہی وقت تھا کہ جب وہ ممبئی سے چلے تھے۔ رات کے دس بج رہے تھے منیر کی نیند پوری ہو چکی تھی اب اس کی صبح ہوئی تھی لیکن باہر سارا جہاں سو رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا رات کہاں گئی؟ اس کیلئے وقت ٹھہر گیا تھا۔ گھڑی کے کانٹے رک گئے تھے۔ لیکن یہ صرف منیر کی کیفیت تھی۔ مونا پوری رات ناول کو دن کی طرح پڑھتی رہی تھی۔ اس کا دن کافی طویل ہو گیا تھا۔ بارہ کے بجائے چوبیس گھنٹے اس نے جاگتے ہوئے گذار دیئے تھے۔ نیند کے شدید غلبہ کا شکار مونا سونا چاہتی تھی۔
منیر کی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہ تھا۔ جس طرح انسانی بھوک کی ایک حد ہوتی ہے اسی طرح نیند کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے۔ انسان نہ بے حدوحساب جاگ سکتا ہے اور نہ سو سکتا ہے۔ انسان کو چونکہ فطرت وسط پر پیدا کیا گیا ہے اس لئے انتہا پسندی اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ ایئر پورٹ سے ہوٹل کے درمیان مونا کی آنکھیں جھپک گئیں لیکن منیر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نیویارک شہر کی روشنیوں کو اور رنگینیوں کو دیکھ رہا تھا۔
اس کی گاڑی جب ’’زیرو لینڈ‘‘ کے قریب سے گذری تو اس نے سوچا امریکیوں نے اس علاقے کو کس قدر منفرد نام منسوب کر رکھا ہے۔ ایک وسیع و عریض میدان جہاں کسی زمانے میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دو حسین و جمیل جڑواں فلک بوس ٹاور بالکل منیر اور مونا کی طرح کھڑے تھے۔ وہ یادگار جنہیں ایک دھماکے نے تہس نہس کر دیا تھا۔ ایک زمانے تک وہ عمارتیں اکے پر اکے کی طرح تھیں۔ وہ ساری دنیا کو شئے تو دیتی تھیں مگر کسی سے مات نہ کھاتی تھیں۔ گردشِ زمانہ نے انہیں ایک بہت بڑے صفر میں تبدیل کر دیا تھا۔ وہ ایک خوفناک ماضی یادگار بن گئی تھیں۔ امریکی استعمار کی اس قبر میں ایک سپر پاور کا کبر و غرور دفن تھا۔ اس تربت پر عقیدت اور تعزیت کے پھول نچھاور کئے جاتے تھے۔
ٹیکسی جب ہوٹل کے احاطے میں رکی تو منیر نے مونا کو جگایا اور وہ دونوں اپنے اپنے کمروں کی جانب روانہ ہو گئے۔ جدا ہوتے وقت مونا نے منیر کو اپنا پڑھا ہوا ناول یہ کہتے ہوئے تھما دیا کہ میں تو اسے پڑھ چکی ہوں اب یہ تمہارے لیے ہے۔ منیر نے شکریہ کے ساتھ ناول لے تو لیا لیکن یہ حرکت محض دل بستگی کے لیے تھی۔ جس ضخیم ناول کو مونا نے رات بھر میں ختم کیا تھا اس کے چند اوراق کا مطالعہ بھی منیر کے لیے محال تھا۔
منیر اور مونا کے درمیان کوئی مشترک قدر نہیں تھی۔ مونا نہایت آزاد خیال مغربی تہذیب کی پروردہ دوشیزہ تھی۔ اس کے مزاج میں بلا کا نظم و ضبط تھا۔ اپنے کام کے تئیں وہ نہایت سنجیدہ تھی اور بے حساب محنت و مشقت اس کا شعار تھا۔ اس کے برعکس منیر ایک روایتی خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ مشرقی ماحول میں پرورش پانے والے منیر کو اپنی تہذیب تمدن پر بڑا ناز تھا۔ ایک طرف تو وہ مذہبی اقدار کا پاسدار تھا لیکن زندگی اسی کے ساتھ دفتری مشغولیات کے حوالے سے بے نیاز طبیعت کا حامل تھا۔ کسی کام کو وہ بہت سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔ نظم و ضبط سے اسے خدا واسطے کا بیر تھا۔ بلا کی صلاحیت اور صالحیت کے باوجود وہ محنت و مشقت سے جان چراتا تھا۔
اس فرق کے باوجود وہ منیر اور مونا ایک دوسرے کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ کوئی ایسی حرکت، ایسا رویہ یا ایسے الفاظ تک استعمال نہ کرتے جو دوسرے پر گراں گزریں۔ یہ گویا مخالف قطب کی باہمی کشش کا نتیجہ تھا۔ وہ خود نہیں جانتے تھے کہ اس ناز برداری کی وجہ کیا ہے؟ بہرحال ان کے درمیان قائم انسیت کے ایک نامعلوم اور بے نام رشتہ کی معروضی توجیہ اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور تھی۔
کمرے میں آنے کے بعد منیر نے خود اپنے ہاتھ سے کافی تیار کی اور بادل ناخواستہ ناول کو کھولا۔ چند ہی سطور کے بعد اس کی طبیعت اوب گئی۔ وہ کافی کاگلاس تھامے کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ دور لان میں اسے اوور کوٹ پہنے ہوئے دو سائے دکھائی دیئے۔ اسے لگا کہ وہ منیر اور مونا ہیں۔ وہ سوچإنے لگا کہ اگر منیر لان میں ہے تو اس کمرے میں کون ہے؟ اور مونا اس کے ساتھ ہے تو بغل والے کمرے میں کون سو رہا ہے؟ وہ کھڑکی سے واپس بستر پر آ گیا اور اس کی آنکھوں میں مونا سے اپنی اولین ملاقات کا منظر گھوم گیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
گریجویشن کی تعلیم سے فارغ ہو کر منیر نے کچھ وقت ملازمت کی تلاش کی لیکن پھر اپنے والد کی کتابوں اور اسٹیشنری کی دوکان پر بیٹھنے لگا جب والد کو اعتماد ہو گیا کہ بیٹے نے کام سنبھال لیا ہے تو وہ معاشی سرگرمیوں سے سبکدوش ہو کر مسجد و مکان کے درمیان محصور ہو گئے۔ منیر کی دوکان یوں تو لب سڑک تھی لیکن یہ غریب اور متوسط درجے کے لوگوں کا علاقہ تھا۔ سڑک سے گزرنے والی کوئی بڑی گاڑی یہاں ٹھہرتی نہ تھی اس لیے جب ایک روز اس نے اپنی دوکان کے سامنے ایک غیر ملکی چمچماتی گاڑی کو رُکتے دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔
گاڑی سے ڈرائیور باہر نکلا۔ ا س نے سمجھا کہ شاید پتہ پوچھ رہا ہو گا لیکن اس علاقے میں؟ ؟ ؟ اس کا گمان غلط نکلا۔ ڈرائیور سگریٹ کی دوکان پر رکا اور پھر وہاں سے دوسری سگریٹ کی دوکان کی جانب بڑھ گیا۔ شاید جو برانڈ وہ تلاش کر رہا تھا اسے نہیں ملا تھا۔ اس بیچ کار سے ایک خاتون نمودار ہوئی اور سیدھے اس کی دوکان پر پہونچی۔ اس نے پہلے تو لکھنے والا پیڈ خریدا اور پھر قلم دیکھنے لگی۔ منیر اس کو بیسیوں طرح کے قلم دکھلا چکا تھا لیکن ہر قلم کو دیکھنے کے بعد یا اس سے لکھنے کے بعد وہ بڑی بے نیازی سے اسے مسترد کر دیتی تھی۔
منیر بے زار ہونے لگا تھا۔ اتنے سارے قلم اس نے کسی ایک گاہک تو کجا اپنے سبھی گاہکوں کو بھی نہیں دکھلائے تھے۔ طویل وقفہ کے بعد اس خاتون نے ایک نہایت بھدّے قلم کا انتخاب کیا اور منیر سے اس کی قیمت دریافت کی۔ منیر تو پہلے ہی نالاں تھا اس نے پوچھا۔
’’آپ یہ قلم خریدیں گی؟ اتنے سارے اچھے اچھے قلم چھوڑ کر آپ نے اس کا انتخاب کیا۔ مجھے تعجب ہے۔ ‘‘
’’کیوں تمہیں کیوں تعجب ہے؟ کیا خرابی ہے اس قلم میں؟ اور اگر خراب ہے تو تم نے اسے اپنی دوکان میں بیچنے کے لیے رکھا ہی کیوں ہے؟ ‘‘
منیر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اس نے کہا۔ ’’نہیں میڈم ایسی بات نہیں در اصل آپ نے اتنے سارے قلم دیکھے تو میں نے سوچا کہ شاید آپ اپنے شایانِ شان قلم تلاش کر رہی ہیں لیکن یہ قلم نہ آپ کے مزاج سے اور نہ ہی آپ کی شخصیت سے مطابقت رکھتا ہے ‘‘
یہ سن کر مونا چونک پڑی۔ ’’اچھا۔ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میرا مزاج کیسا ہے؟ اور میری شخصیت کے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟ ‘‘
’’ویسے تو میں کچھ زیادہ نہیں جانتا لیکن پھر بھی میرا دل گواہی دیتا ہے کہ آپ نہایت خوش ذوق فطرت کی حامل ہیں۔ اسی لیے میں یہ کہہ رہا تھا کہ یہ قلم کسی صاحبِ ذوق کو زیب نہیں دیتا۔ ‘‘
’’اچھا تو اب مجھے قلم اپنی پسند سے نہیں بلکہ آپ کی پسند سے خریدنا پڑے گا۔ ‘‘
’’نہیں، کوئی زبردستی تو نہیں ہے۔ ‘‘منیر بولا۔ ’’لیکن میرے خیال میں اگر آپ اس کے بجائے یہ قلم خریدیں تو شاید یہ زیادہ مناسب ہو گا۔ ‘‘
مونا نے مسکرا کر پوچھا۔ ’’کیوں مہنگا ہے کیا؟ ‘‘
’’نہیں میڈم ایسی بات نہیں۔ آپ چاہیں تو بلا قیمت لے جائیں۔ ‘‘
اس بیچ کار کا ہارن بجا مونا نے قلم کے بکس پر لکھی قیمت ادا کی اور رسید لے کر گاڑی کی جانب چل پڑی۔ گاڑی میں بیٹھے پٹیل صاحب بولے۔
’’کیا مونا اتنا وقت ! یہ اس ڈبیا کی دوسری سگریٹ ہے۔ ‘‘
’’معاف کیجئے سر ان چھوٹی موٹی دوکانوں میں کوئی اچھی چیز مشکل ہی سے ملتی ہے اسی لیے دیر ہو گئی۔ ‘‘
پٹیل صاحب مسکرائے اور بولے ’’واقعی تم نے غلط دوکان کا انتخاب کیا۔ ‘‘
مونا نے کہا۔ ’’دوکان ضرور غلط تھی لیکن قلم صحیح ہے اور اس دوکان کے سامنے گاڑی آپ ہی نے روکی تھی۔ ‘‘ دونوں ہنسنے لگے۔
ہندوستانی نژاد روہت پٹیل عرصہ دراز سے امریکہ میں رہتے رہتے امریکی ہو گئے تھے۔ پچیس تیس سال قبل وہ گجرات سے اپنی آبائی اناج کی دوکان بند کر کے امریکہ روانہ ہوئے اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ اپنے خاندان کو امریکہ میں بلا لینے کے بعد ان کی دلچسپی وطن عزیز سے ختم سی ہو گئی تھی۔ لیکن حال میں ’’بی پی او‘‘ کا کاروبار شروع کرنے کے بعد انہیں مجبوراً دوبارہ ہندوستان کا رُخ کرنا پڑا تھا۔
روہت پٹیل کے امریکی کمپنیوں سے اچھے تعلقات تھے۔ اس کے لیے کام حاصل کرنا مشکل نہ تھا لیکن ہندوستان میں کام کو کروانے کا مسئلہ تھا۔ اسی لئے وہ ہندوستان آیا ہوا تھا۔ اسے اپنے کاروبار کی دیکھ ریکھ کیلئے ایک ایسے بھروسہ مند شخص کی تلاش تھی جس پراعتماد کر کے وہ امریکہ لوٹ جائے۔ اس کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ وہاں پروجکٹ حاصل کر کے روانہ کرے اورسارا کام یہاں بحسن و خوبی انجام پذیر ہو جائے۔ اس طرح امریکہ میں بیٹھے بیٹھے ہندوستان میں اس کا کاروبار چلتا رہے۔ اپنے مقصد کے حصول کی خاطر اس نے بڑی تلاش اور جانچ پڑتال کے بعد موناگونسالویس کو چیف ایکزیکٹیو کے طور پر منتخب کیا تھا۔
مونا کی عمر ویسے تو کم تھی مگر اس نے کم عمری ہی میں ویپرو جیسی کمپنی کے اندر اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا تھا۔ اب روہت اور مونا دفتر اور دیگر لوازمات کی فراہمی میں مصروف تھے۔ اسی سلسلے میں وہ ممبئی سے تربھے کی جانب جا رہے تھے کہ راستہ میں روہت کی سگریٹ ختم ہو گئی۔ ڈرائیور جب سگریٹ لانے کے لیے اترا تو مونا کو خیال آیا رائٹنگ پیڈ اور قلم دفتر میں رہ گئے ہیں۔ سامنے اسٹیشنری کی دوکان دیکھ کروہ قلم خریدنے کی غرض سے اتر گئی اور منیر سے ملاقات ہو گئی۔ مونا کافی پر وقار خاتون تھی کسی دوکاندار نے اس سے ایسی جرأت نہیں کی تھی کہ اپنی پسند کی کوئی شئے اس کے گلے مار دے۔ منیر کی خود اعتمادی اور بے نیازی نے اسے بے حد متاثر کیا تھا۔
اسٹیٹ ایجنٹ کے دفتر میں جب تفصیلات لکھنے کے لیے مونا نے اپنا قلم نکالا تو روہت نے کہا۔ ’’بھئی مونا تم نے قلم خریدنے میں وقت تو بہت صرف کیا لیکن قلم بھی نہایت عمدہ خریدا۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس معمولی سی دوکان میں ایسا اچھا قلم موجود ہے ‘‘
’’سر آپ کو بھی یہ پسند آیا۔ ‘‘
’’ہاں بھئی تمہارا حسن انتخاب ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ سبھی کو پسند آئے۔ ‘‘
’’شکریہ سر لیکن یہ میری پسند نہیں ہے۔ ‘‘
’’اچھا؟ ‘‘ روہت نے تعجب سے پوچھا۔
مونا نے فوراً پینترا بدلا۔ ’’سر یہ آپ کو پسند ہے تو آپ رکھیں۔ ‘‘
روہت نے کہا۔ ’’نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ ‘‘
مونا نے اصرار کیا۔ ’’نہیں سر آپ اسے میری طرف سے تحفہ سمجھ کر قبول فرمائیں۔ ‘‘
روہت نے شکریہ ادا کیا اور قلم کو اپنے کوٹ کی جیب میں سجا لیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
روہت پٹیل امریکہ واپس جا چکا تھا۔ مونا نہایت مستعدی سے نئے کاروبار میں جٹ گئی تھی۔ ہر چیز میں وہ خود دلچسپی لیتی۔ وہ کسی معاملہ میں مصالحت کی قائل نہ تھی۔ چاہے سامان ہو یا افراد وہ بہترین کی قائل تھی۔ اس لیے کہ وہ جانتی تھی کہ یہ خدمت (Service) کی صنعت ہے یہاں بہترین خدمت کے لیے بہترین افراد اور بہترین وسائل کا ہونا ضروری ہے اور جو کوئی ان دونوں میں سے کسی بھی ایک معاملہ میں کمزور ہو گا اس کا وجود مٹ جائے گا۔
روہت پٹیل سے مونا کا روز ہی فون پر رابطہ ہوتا تھا وہ اسے امریکہ میں کاروبار کے توسیع و ترویج کی اطلاعات دیتا اور مونا تیاریوں کی تفصیلات سے آگاہ کرتی۔ روہت پٹیل مطمئن تھا کہ اس نے اپنا کاروبار نہایت قابل اعتماد ہاتھوں میں دے رکھا ہے۔ مونا بھی خوش تھی کہ اس کا باس نہایت کامیاب تاجر ہے وہ یقیناً بہت جلد بڑے بڑے ٹھیکے (کانٹریکٹ) حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور پھر کمپنی کے ساتھ ساتھ وہ بھی ترقی کی بلند منازل طے کرنے لگے گی۔ مونا بہت ہی زیادہ آرزو مند(ambitious)مزاج کی حامل فرد تھی وہ اپنی محنت اور جانفشانی سے نہایت سرعت کے ساتھ کامیابی کی عظیم ترین چوٹی سر کر لینا چاہتی تھی۔
بالآخر وہ دن بھی آ گیا جب روہت نے مونا کو خوشخبری سنائی کہ اس نے اپنی کمپنی کے لیے پہلے کنٹراکٹ پر دستخط کر دیئے ہیں اور اس مبارک موقع پر اس نے مونا کے عطا کردہ خوش بخت قلم کا استعمال کیا ہے۔
مونا نے روہت کو مبارکباد دی۔ روہت نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ مبارک باد کے لیے اور قلم کے لیے بھی۔
قلم کے بار بار ذکر نے مونا کو منیر کی جانب متوجہ کر دیا۔ کام کی ریل پیل میں وہ منیر کو بھول ہی گئی تھی۔ لیکن پھر ایک بار وہ اتفاقی ملاقات اس کی نظروں میں گھوم گئی۔ اسے پہلی بار اس قلم کے گنوانے کا دکھ ہوا۔ مونا کو ایسا لگا جیسے اس نے کوئی قیمتی چیز کھو دی ہے۔ اس نے محسوس کیا جیسے وہ اس قلم کے بغیر ادھوری ہے۔
مونا ایک ادھیڑ بن میں گرفتار تھی کہ منیجر گریش اس کے کمرے میں داخل ہوا اور پوچھا۔ ’’میڈم آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں۔ کیا بات ہے؟ کیا میں کوئی مدد کر سکتا ہوں۔ ‘‘
’’نہیں گریش !کیا بات کرتے ہو۔ ابھی ابھی روہت کا نیویارک سے فون آیا تھا اس نے پہلا کنٹراکٹ حاصل کر لیا ہے جلد ہی اس کی تفصیلات ہمیں موصول ہو جائیں گی۔ آج تو ہمارے لیے عید کا دن ہے۔ اس دن کا ہم نہ جانے کب سے انتظار کر رہے تھے۔ کیک منگواؤ اور اپنے سارے اسٹاف کو یہ خوش خبری مٹھائی کے ساتھ سناؤ۔ آج جشن کا دن ہے۔ گریش ریڈی خوشی سے پاگل ہو گیا۔ اس نے باہر جا کر فوراً پہلے آرڈر کا اعلان کیا اور سب کو یہ بتلا دیا کہ آج دفتر میں پارٹی ہو گی۔
شام کو دھوم دھام سے جشن منایا گیا ہر کوئی خوش تھا۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ سن ٹکنالوجی کا سورج آج طلوع ہوا ہے اور یہ نئی صبح ان سب کو خوش حالی کے نورسے مالا مال کر دے گی لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے لیکن مونا کی حیثیت بالکل مالکن کی سی تھی۔ سینئر اسٹاف نے مونا کی خدمت میں نیک تمناؤں کے ساتھ پھولوں کے گلدستے پیش کیے۔ مونا نے بھی تمام اسٹاف کے لیے بونس کا اعلان کر کے سبھی کو خوش کر دیا۔
ان تمام ہنگاموں کے باوجود مونا اپنے اندر کا ایک نامعلوم خلاء پر نہ کر سکی اور پارٹی سے واپسی میں اس نے ڈرائیور کو حکم دیا کہ وہ گاڑی اکبر علیز نامی ڈیپارٹمنٹل اسٹور لے کر چلے۔ وہاں اتر کر وہ سیدھے اسٹیشنری سیکشن میں جا پہونچی اور وہ قلم تلاش کرنے لگی جسے اس نے روہت کو دیا تھا۔ وہ بالکل ویسا ہی قلم خریدنا چاہتی تھی اور بدقسمتی سے بیسیوں قلم دیکھنے کے باوجود اسے ویسا قلم نہ مل سکا۔ اس کا موڈ خراب ہو گیا۔ اس قلم کی محرومی نے اس دن کی خوشیوں پر گہن لگا دیا تھا۔
انسان بھی کیسی عجیب مخلوق ہے کہ جس آرڈر کا مونا نہ جانے کب سے انتظار کر رہی تھی اس کے ملتے ہی وہ اپنی اہمیت و وقعت گنوا بیٹھا تھا اور اس بیش قیمت کنڑاکٹ سے زیادہ اہمیت ایک ایسے معمولی سے قلم کو حاصل ہو گئی جس کے ملنے یا نہ ملنے سے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ لیکن تو ایک خالص معروضی طرزِ فکر ہے۔ انسان کوئی دو اور دو چار کا حساب کرنے والی مشین تو نہیں ہے۔ اس کا اپنا نظر نہ آنے والا جذباتی وجود بھی ہے جو مادی حس سے قوی تر ہے۔ انسان کی خوشیاں اور غم بھی نظر نہیں آتیں لیکن ان کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ اس کے اپنے خواب ہوتے ہیں، ان کی اپنی خلش ہوتی ہے اور اپنا خمار ہوتا ہے۔
جب مونا قلم کی دوکان سے خالی ہاتھ لوٹ رہی تھی تو وہاں موجود سیلز بوائے نے اپنے ساتھی سے کہا۔ ۰۰۰۰۰۰ ’’پاگل ہے۔ ‘‘
مونا رُکی اور پھر یہ سوچ کر آگے بڑھ گئی کہ شاید اس نے سچ کہا۔ فی الحال ایک جنون ہی تو اس پر سوار تھا۔ قلم سے محرومی کے قلق دو آتشہ ہو چکا تھا۔ وہ ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتی تھی اسے منیر کی دوکان یاد نہیں تھی لیکن پھر بھی وہ اس کی تلاش میں نکل پڑی۔ مونا نے ڈرائیور کو اسی روڈ پر گاڑی لے چلنے کا حکم دیا جس پر قلم خریدا گیا تھا لیکن دن اور رات کے ماحول میں خاصہ فرق ہوتا ہے اور پھر وہ صرف ایک بار وہاں سے گذری تھی۔ راستہ بھر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ دوکانوں کے بند ہونے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا کہ اچانک اسے خیال آیا کہ اس کے پاس دوکان کی رسید ہے اوراس پر فون نمبر ضرور ہو گا۔ مونا نے ڈرائیور سے دفتر چلنے کے لیے کہا۔ ڈرائیور نے تعجب سے پوچھا۔
’’اس وقت؟ ‘‘
’’جی ہاں اسی وقت۔ ‘‘ مونا نے غصہ سے کہا۔
ڈرائیور گھبرا گیا اور گاڑی دفتر کی جانب موڑ دی۔ دفتر پہنچ کر مونا نے چابیوں کا گچھا اسے تھما کر دفتر کھولنے کے لیے کہا۔ اپنے کمرے میں آ کر وہ رسید کی تلاش کرنے لگی اور تھوڑی سی محنت سے کامیاب ہو گئی۔ اس پر حسب امید ٹیلی فون نمبر لکھا ہوا تھا۔ مونا نے فوراً نمبر ملایا۔ فون کی گھنٹی بجنے لگی لیکن بجتی ہی رہی کوئی اٹھانے والا نہیں تھا۔ مونا کو خیال آیا دوکانیں بند ہو رہی تھیں۔ شاید وہ دوکان بھی بند ہو چکی ہو۔ اس نے اگلے دن کے کاموں کی فہرست میں سب سے اوپر اس دوکان کا نمبر لکھا اور واپس آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔
’’گھر چلو۔ ‘‘ ڈرائیور کی جان میں جان آئی ورنہ اسے ڈر تھا کہ جس طرح شام سے یہ میڈم اِدھر اُدھر گھما رہی ہیں کہیں یہ سلسلہ پھر دراز نہ ہو جائے۔
دوسرے دن دفتر میں آنے کے بعد مونا نے وہ نمبر آپریٹر کو دیا اور فوراً نمبر ملانے کے لیے کہا۔ سامنے سے جواب ملا۔ ’’پاپولر اسٹیشنری۔ ‘‘ آپریٹر نے کہا۔ ’’ہولڈ آن۔ ‘‘
منیر کو تعجب ہوا یہ صبح صبح کس کا فون ہے تھوڑی دیر بعد ایک اور نسوانی آواز آئی۔
’’میں مونا بول رہی ہوں۔ ‘‘
’’کون مونا؟ ‘‘ منیر نے پوچھا۔
’’مونا ‘مونا گونسالویس۔ ‘‘
’’مونا گونسالویس۔ کون مونا گونسالویس؟ میں کسی مونا کو نہیں جانتا۔ آپ کو کون چاہئے؟ ‘‘
’’مجھے کون چاہئے؟ ‘‘ اس سوال کو دہرا کر مونا ایک لمحہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ پھر اس نے کہا۔ ’’دیکھئے جناب چند ہفتوں قبل میں نے آپ کی دوکان سے ایک قلم خریدا تھا۔ ‘‘
’’کون سا قلم خریدا تھا آپ نے؟ ‘‘ منیر نے سوال کیا۔
’’وہ در اصل اودے رنگ کا قلم تھا نہیں بلکہ آسمانی رنگ کا تھا۔ ‘‘
منیر نے دماغ پر زور ڈالا تو اسے فوراً بڑی سی گاڑی یاد آ گئی اس نے کہا۔ ’’اوہو تو آپ ایک بڑی سی ہونڈا اکارڈ میں ہماری دوکان میں تشریف لائی تھیں۔ مجھے یاد آیا ہاں فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ ‘‘
’’در اصل مجھے وہ قلم دوبارہ چاہئے۔ ‘‘
’’میڈم وہ قلم تو آپ کو نہیں مل سکتا۔ ‘‘
’’کیوں؟ ‘‘ مونا نے پوچھا۔
’’اس لیے کہ وہ تو آپ ایک بار خرید چکی ہیں اور جب تک وہ قلم کسی صورت میرے پاس واپس نہ آ جائے میں اسے آپ کو بیچ نہیں سکتا۔ ‘‘
’’اوہو۔ ‘‘ مونا نے کہا۔ ’’آپ تو بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں میرا مطلب ہے وہ قلم نہیں بلکہ ویسا ہی دوسرا قلم۔ ‘‘
’’ہو بہو ویسا۔ ‘‘ منیر نے پوچھا۔
’’ہاں بالکل ویسے کا ویسا قلم مجھے چاہئے۔ ‘‘
’’اچھا تو وہ آپ کو اس قدر پسند ہے۔ ‘‘
’’جی ہاں وہ مجھے بے حد پسند ہے۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں۔ اگر ویسا قلم موجود ہو گا تو میں آپ کو ضرور دے دوں گا لیکن اگر نہ ہوا تو؟ ‘‘
اس سوال کے جواب میں مونا رک گئی اور کچھ دیر ٹھہر کر بولی۔ ’’اگر نہیں ہوا تو آپ میری شخصیت اور مزاج سے واقف ہی ہیں جو بھی مطابقت رکھنے والا قلم ہو گا لے آئیے گا۔ ‘‘
’’لے آئیے گا۔ ‘‘ اس فقرہ کو منیر نے دوہرایا۔ ’’میڈم لے کر آنا پڑے گا؟ ‘‘
’’ہاں کیوں؟ آپ لوگ سامان پہونچاتے نہیں ہیں؟ ‘‘مونا کا سوال تھا۔
’’ویسے تو نہیں پہونچاتے اس لیے کہ اس کی نوبت ہی کبھی نہیں آئی لیکن پھر بھی آپ کے لیے پہونچا دیں گے۔ لیکن کہاں پہنچانا پڑے گا؟ ‘‘
مونا نے اسے اپنے دفتر کا پتہ لکھوا دیا اور فون بند ہو گیا۔
منیر نے سوچا یہ تو چار آنے کی مرغی اور بارہ آنے کا مصالحہ والی بات ہو گئی۔ پچیس روپئے کا پین اور آنے جانے کا خرچ پچاس روپئے۔ اس پر سے جو وقت صرف ہو گا وہ علیٰحدہ۔ اب اگر یہ سب کرنے کے بعد میڈم نے پچیس روپئے پکڑا دیئے یا یہ کہہ دیا کہ قلم مجھے پسند نہیں ہے تب تو بڑا نقصان ہو گا۔ خیر اس نے ویسا قلم تلاش کیا۔ حسب توقع موجود نہیں تھا اس کے بعد اس سے ملتا جلتا قلم اس نے منتخب کر لیا۔
دوپہر کے بعد گاہک کم ہوتے تھے اس لیے شام سے پہلے قلم پہونچا کر واپس آنے کے ارادے سے وہ نکل پڑا۔ مگر راستے میں اسے خیال آیا اتنی دور قلم پہونچانے جا رہا ہے اور پھر ایسی خراب پیکنگ میں۔ وہ اپنی دوکان میں واپس آیا، خوبصورت گفٹ پیپر میں اسے پیک کر کے اس پر نیک تمناؤں کا کارڈ لگایا اور پھر نکل پڑا۔
سن ٹکنالوجی کا دفتر آسانی سے مل گیا۔ اوپر پہونچنے کے بعد اس نے پوچھا۔
’’مونا گونسالویس یہاں ہوتی ہیں؟ ‘‘
استقبالیہ پر بیٹھی خاتون سٹپٹائی۔ ’’کیا مطلب؟ میڈم تو ہماری کمپنی کی چیف ایکزیکٹیو آفیسر ہیں۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’میں میڈم کے بارے میں نہیں مونا کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔ ‘‘
وہی تو ۔۔۔ مونا میڈم ۰۰۰۰بولو۔ کیا کام ہے ان سے؟ ۔ ‘‘
’’میں پاپولر اسٹیشنری سے آیا ہوں میرا نام منیر ہے۔ ‘‘
اس خاتون نے فون لگایا جو مصروف تھا اس نے منیر سے کہا۔ ’’انتظار کیجئے۔ ‘‘
منیر نے دفتر پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی۔ سامنے ایک بڑے سے پلے کارڈ پر لکھا تھا ’’ہم سب میڈم کو پہلے آرڈر کی مبارک باد دیتے ہیں۔ ‘‘ منیر نے دلچسپی سے اسے پڑھا۔ لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہاں کام کیا ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب استقبالیہ پر بیٹھی خاتون نے اسے مونا کے کمرے کی جانب بھیجا تو منیر نے اپنا ذہن بنا لیا تھا کہ وہ اس قلم کی قیمت اور آنے جانے کا کرایہ نہیں وصول کرے گا۔
مونا کے کمرے میں داخل ہونے کے بعد منیر نے مونا کو نئے آرڈر کی مبارکباد دی اور نیک خواہشات کے ساتھ قلم تحفہ کے طور پر اس کی خدمت میں پیش کر دیا۔
مونا منیر کے اس رویہ سے بے حد خوش ہوئی۔ اس نے پوچھا۔
’’تمہیں اس نئے آرڈر کے بارے میں کیسے پتہ چل گیا؟ ‘‘ لیکن اب مونا کے سامنے ایک نئی مشکل کھڑی تھی کہ اگر وہ اس تحفہ کی قیمت پوچھتی ہے تو یہ بات منیر پر گراں گزرے گی لیکن پھر وہ کیا کرے بھی تو کیا کرے؟ اس کی قیمت کیسے ادا کرے؟ س مخمصہ میں گرفتار مونا نے سوال کر دیا۔ ’’یہاں پہونچنے میں آپ کو زحمت تو نہیں ہوئی؟ ‘‘
منیر نے جواب دیا۔ ’’کوئی خاص نہیں ٹرین چونکہ تاخیرسے چل رہی تھی اس لیے بھیڑ قدرے زیادہ تھی لیکن بس فوراً مل گئی اور پتہ تو نہایت ہی آسانی سے بغیر پوچھے مل گیا۔ ‘‘
مونا کو احساس ہوا کہ ایک معمولی سے قلم کی خاطر اس نے منیر کو کس قدر پریشانیوں کا شکار کر دیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’میں آپ کو زحمت دینے کے لیے معذرت چاہتی ہوں در اصل مجھے گاڑی بھجوا دینی چاہئے تھی۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’کیا؟ ‘‘
’’نہیں میرا مطلب ہے آپ ٹرین اور بس کی زحمت سے بچ جاتے۔ ‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ ‘‘منیر نے جواب دیا۔
’’اچھا تو آپ کیا پئیں گے؟ چائے یا ٹھنڈا؟ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’چائے ٹھیک ہے۔ ‘‘
مونا نے فون اٹھا کر چائے کا حکم دیا اور قلم کا ریپر کھولتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کے ذوقِ لطیف کی داد دینی پڑے گی آپ نے بڑے اہتمام سے اس تحفہ کو پیک کیا۔ ‘‘
’’ہم دوسروں کے تحفہ کو بھی اہتمام سے پیک کرتے ہیں یہ تو ہمارا اپنی سوغات ہے۔ ‘‘
چائے آنے تک قلم کا ڈبہ کھل چکا تھا اور اس میں سے ایک کے بجائے دو قلم برآمد ہوئے۔
’’یہ کیا۔ یہ دو قلم آپ کیوں لے آئے؟ میں نے تو صرف ایک کے لیے کہا تھا۔ ‘‘
منیر نے جواب دیا۔ ’’میڈم بات در اصل یہ ہے ہو بہو ویسا قلم تو موجود نہیں تھا اس لیے میں نے ایک کا انتخاب کیا پھر سوچا کہ شاید آپ کو پسند نہ آئے تو پھر دوسرا منتخب کر لیا کہ شاید یہ پسند آ جائے۔ ‘‘
مونا نے ناراضگی سے کہا۔ ’’یہ تو آپ نے ٹھیک نہیں سوچا کہ شاید پسند نہ آئے۔ خیر آپ کا پہلا انتخاب کون سا ہے؟ ‘‘ منیر نے ایک کی جانب اشارہ کیا۔
مونا نے کہا۔ ’’یہی میری پسند ہے اور یہ دوسرا قلم میری جانب سے تحفہ ہے۔ ‘‘
منیر کو اس طرح کے رویہ کی توقع نہیں تھی۔ وہ نہایت خوش تھا اور آہستہ آہستہ چائے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ اس کے ذہن میں یہ سوال اُبھرا کہ آخر یہاں ہوتا کیا ہے؟
’’میڈم برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں؟ ‘‘
مونا نے کہا۔ ’’پوچھو ضرور پوچھو۔ ‘‘
منیر بولا۔ ’’آخر اس شاندار دفتر میں کام کیا ہوتا ہے؟ آپ لوگ کیا بیچتے ہیں؟ ‘‘
مونا کو ’کیا بیچتے ہیں ‘ والی اصطلاح کچھ عجیب سی لگی اس نے جواب دیا۔ ’’ہم لوگ اپنی خدمات بیچتے ہیں۔ ‘‘
’’خدمات بھی بکتی ہیں؟ کسے بیچتے ہیں آپ لوگ اپنی خدمات؟ ‘‘ منیر ایک ساتھ دو سوال کر دئیے۔
’’ہم امریکی کمپنیوں کو خدمات بیچتے ہیں۔ ‘‘
’’امریکی کمپنیوں کو؟ ‘‘ منیر نے تعجب سے پوچھا۔ ’’یہاں بیٹھے بیٹھے آپ امریکی کمپنیوں کی خدمت کرتے ہیں یہ طلسماتی دنیا کی بات ہے۔ ‘‘
’’نہیں منیر یہ طلسماتی دنیا کی بات تھی لیکن اب یہ حقیقت بن گئی ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے یہ سب ممکن بنا دیا ہے۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’آپ کہہ رہی ہیں تو یہ بات صحیح ہو گی لیکن مجھے یقین نہیں آتا۔ ‘‘
’’کیوں نہیں آتا؟ ‘‘ مونا نے پوچھا۔ ’’اچھا یہ بتلاؤ کہ تم اپنی دوکان پر مال کیسے منگواتے ہو؟‘‘
منیر نے کہا۔ ’’یہ تو بہت آسان ہے میں ہول سیلر کو فون کر دیتا ہوں یا کارخانے کے دفتر میں اپنا آرڈر لکھوا دیتا ہوں۔ ‘‘
’’وہ دفتر کہاں ہوتا ہے؟ ‘‘
’’ممبئی میں۔ ‘‘
’’اور کارخانہ کہاں ہوتا ہے؟ ‘‘
’’گجرات میں۔ ‘‘
’’ہول سیلر کے دفتر والے کیا کرتے ہیں؟ ‘‘
’’وہ آرڈر کارخانے والے کو بتلا دیتے ہیں اور مال ٹرانسپورٹ کے ذریعہ آ جاتا ہے۔ اس کے بعد بل روانہ کر دیتے ہیں۔ میں رقم ادا کر دیتا ہوں اور کام ختم۔ ‘‘
’’ہاں اب اگر وہ کارخانے کا دفتر ممبئی کے بجائے امریکہ میں ہو تو تمہیں کوئی فرق پڑے گا؟ ‘‘
’’امریکہ میں؟ ‘‘ منیر نے ہنس کر کہا۔ ’’کیا بات کرتی ہیں آپ؟ ‘‘
’’نہیں مجھے سنجیدگی سے جواب دو۔ تمہارا فون ممبئی کے بجائے امریکہ چلا جائے اور امریکہ سے فون کارخانے آ جائے تو تمہیں کوئی فرق پڑے گا؟ ‘‘
’’نہیں، لیکن مجھے امریکہ فون کرنا مہنگا پڑے گا۔ ‘‘
مونا نے پوچھا۔ ’’اگر فون مفت ہو۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’تب تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ‘‘
’’تمہارا کام ہو جائے گایا نہیں؟ ‘‘
’’بالکل ہو جائے گا۔ ‘‘
’’بس یہی ہم کرتے ہیں ای میل آپ اس دفتر سے پڑوس کے دفتر میں کرو یا امریکہ کرو۔ اتنی ہی تیزی سے جاتا ہے اور اتنا ہی سستا ہوتا ہے۔ اب اگر کسی کمپنی کا ہیڈ کوارٹر دہلی میں ہو یا امریکہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح نیویارک میں ہو یا ممبئی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم یہاں بیٹھے بیٹھے اپنے گاہکوں کے دفتری کام کرتے ہیں اور تکمیل کے بعد ای میل سے بھیج دیتے ہیں۔ منٹوں کے اندر پیغام آتا ہے اور جاتا ہے۔ ‘‘
منیر حیرت کی دنیاؤں کی سیر کر رہا تھا۔ اس نے استفسار کیا لیکن میڈم اس دلچسپ تجارت کا نام کیا ہے اس لئے کہ میں نے ایسا کچھ نہیں سنا۔
مونا بولی ’’بی پی او‘‘ اسے ’’بزنس پروسیسنگ اوورسیز‘‘ کہتے ہیں۔ انٹر نیٹ اور ٹیلی فون کی آسانی کے باعث امریکی کمپنیوں نے اپنا بہت سارا کام ہندوستانی ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیا ہے اب ان کاموں کے لیے وہ ہندوستانیوں کو امریکہ بلانے کے بجائے کام ہی ہندوستان بھیج دیتے ہیں اور ہندوستانی جو کام امریکہ میں جا کر کیا کرتے تھے وہ یہیں بیٹھے بیٹھے کر دیتے ہیں۔ اس سے امریکیوں کا خرچ بچتا ہے۔ ہندوستانیوں کی آمدنی بڑھتی ہے اور ساتھ ہی بے روزگاری میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔
’’لیکن اس میں ان کا میرا مطلب ہے امریکیوں کا کیا فائدہ ہے؟ ‘‘
’’بہت بڑا فائدہ ہے انہیں اپنے دفتر میں کسی ملازم کو جو تنخواہ دینی پڑتی ہے اس سے بہت کم قیمت پر یہاں پر بیٹھا آدمی ان کا کام کر دیتا ہے اور دفتر بنانے اور اس کی دیکھ ریکھ کا خرچ بھی بچ جاتا ہے۔ ان کو کسی ملازم کو ہندوستان سے بلا کر، دنیا بھر کی سہولتیں دینے کی زحمت سے چھٹکارہ مل جاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں بی پی او کا کاروبار جو ہم یہاں اس دفتر میں بیٹھ کر کر رہے ہیں جس میں ہمارا اور ان کا دونوں کا فائدہ ہے۔ ‘‘
منیر نے پوچھا ’’عوام کا فائدہ تو سمجھ میں آ گیا لیکن کیا آپ کی کمپنی کو بھی کچھ ملتا ہے؟‘‘
مونا مسکرا کر بولی منیر کیا کوئی کاروبار بغیر منافع کے بھی چلتا ہے؟ فی زمانہ یہ اس قدرایسی منافع بخش تجارت ہے کہ اس کام کو کرنے والی ویپرو کا مالک ہندوستان کا سب سے امیر ترین شخص بن گیا ہے۔ جب ہندوستان میں براجمان عظیم پریم جی اور کرشنا مورتی نے اس کاروبار میں اپنے وارے نیارے کر لیے تو ہماری کمپنی کے مالک روہت پٹیل جیسے نیم امریکی کیسے خاموش رہتے۔ انہوں نے بھی اس میدان میں قدم رکھا۔ ‘‘
’’خیراس میں آپ کا اور وہاں کے سرمایہ داروں کا تو بہت فائدہ ہے لیکن امریکہ کی عوام کا تو نقصان ہی نقصان ہے۔ ‘‘
مونا نے کہا۔ ’’تم سوچتے بہت ہو۔ خیریہ بتلاؤ کہ کیا تمہیں اس کاروبار میں دلچسپی ہے۔ اگر ہے تو مجھے بتلانا میں ضروری ٹریننگ کے بعد تمہیں بھرتی کر لوں گی۔ ‘‘
’’اچھا۔ لیکن تنخواہ؟ ‘‘
’’یہی کچھ دس ہزار بارہ ہزار کے آس پاس۔ ‘‘
دس بارہ ہزار کا نام سن کر منیر کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے کہا۔ ’’میڈم آپ واقعی کہہ رہی ہیں یا میرا مذاق اُڑا رہی ہیں۔ ‘‘
’’میں مذاق نہیں کر رہی تم یہ نہ بھولو کہ تم امریکیوں کیلئے کام کرو گے جن کیلئے ہندوستان کے دس ہزار صرف دوسو ڈالر ہیں۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’جی ہاں یہ تو بہت کم ہے۔ ‘‘
مونا نے جواب دیا۔ ’’کم تو ہے لیکن اُن کے لیے ہمارے لیے تو ٹھیک ہی ہے۔ ان دس ہزار روپیوں میں آٹھ ہزار محنت کش کے ہیں اور دو ہزار ہمارے ہیں۔ ‘‘
’’یہ تو اچھا ہے آپ لوگ ہر آدمی پر دو ہزار ماہانہ کماتے ہیں اس طرح سو آدمی ہوں تو ۲ لاکھ روپیہ ماہانہ، یہ بہت بڑی آمدنی ہے۔ ‘‘
’’سو تو ہے اور پھر خرچ بھی تو ہے۔ یہ دفتر، یہ لوازمات اور پھر ان لوگوں کا خرچ جو باہر کے کام نہیں کرتے۔ ‘‘
’’مطلب جو باہر والوں کی نہیں بلکہ اندر والوں کی خدمت کرتے ہیں۔ ‘‘منیر نے مسکرا کر کہا۔ مونا نے اثبات میں جواب دیا۔
فون کی گھنٹی بجی مونا کسی سے گفتگو میں مصروف ہو گئی منیر نے اشارے سے اجازت طلب کی اور دفتر سے نکل گیا۔ راستے بھر وہ سوچتا رہا۔ کیا کرے یہ ملازمت اختیار کر لے یا دوکان ہی پر لگا رہے۔ وہ خود کلامی کرنے لگا تھا۔
عجیب کاروبار تھا دور دراز کسی اَن دیکھے آقا کی خدمت بجا لینا لیکن ٹھیک ہی تو ہے آقا جتنی دور ہو اس کی جانب سے آنے والی پریشانی اسی قدر کم ہوتی ہے۔
لیکن پھر یہاں اس کے غلام بھی تو ہیں جو پریشان نہیں کرتے نکال باہر کرتے ہیں۔
پھراس پیشہ میں استقلال کہاں؟ آج اس کمپنی کے پاس کنٹراکٹ ہے کل دوسری کے پاس۔ کنٹراکٹر بدل گیا تو اسٹاف بھی بدل جائے گا۔
لیکن پھر بھی جس کسی کے پاس کام ہو گا اسے بھی کام کرنے والے کی ضرورت تو ہو گی ہی۔ آقا اگر غلاموں کو بدلنے کے لیے آزاد ہیں تو غلام بھی آقا کو بدلنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ اپنی دوکان پر پہنچ گیا جہاں اس کا دوست عارف غصے سے پیچ و تاب کھا رہا تھا۔
عارف بولا ’’کمال کے آدمی ہو دو گھنٹہ کے لیے گئے اور چار گھنٹہ بعد لوٹے۔ میں تو یہاں بیٹھا بیٹھا بور ہو گیا۔ ‘‘
’’کیا بس چار گھنٹہ میں بور ہو گئے۔ میں تمہیں مستقل یہیں بٹھانا چاہتا تھا۔ ‘‘
عارف نے پوچھا۔ ’’تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟ ‘‘
’’نہیں۔ میں پوچھتا ہوں تم نے گریجویشن کی تعلیم کب ختم کی تھی؟ ‘‘
’’تمہارے ساتھ ہی تو ختم کی تھی۔ ‘‘
’’یہ میں نے نہیں پوچھا کہ کس کے ساتھ ختم کی تھی۔ میرا سوال ہے کب ختم کی تھی؟ ‘‘
’’یہی آج سے تقریباً تین سال قبل۔ ‘‘
’’اور تب سے اب تک کیا کر رہے ہو؟ ‘‘
’’ملازمت کی تلاش کر رہا ہوں۔ ‘‘
’’اور کب تک تلاش کرتے رہو گے؟ ‘‘
’’میں نہیں جانتا۔ ‘‘
’’تو پھر سنو اس طرح نوکری کی تلاش میں دربدر بھٹکنے کے بجائے اس دُکان پر بیٹھ جاؤ۔ کاروبار کرو اور مجھے کرایہ دیتے رہنا۔ ‘‘
’’اور تم کیا کرو گے؟ ‘‘
’’میں ملازمت کروں گا۔ ‘‘
’’اچھا تو مجھے منع کر کے ت، خود وہی کرو گے؟ ‘‘عارف نے سوال کیا۔
’’نہیں۔ ‘‘منیر بولا۔ ’’میں نے تمہیں ملازمت کی تلاش سے منع نہیں کیا ہے۔ ملازمت تلاش کرنے اور ملازمت کرنے میں جو فرق ہے یہ مجھ سے زیادہ تم خود جانتے ہو۔ ‘‘
’’اچھا تو تمہیں ملازمت مل گئی ہے؟ ‘‘ عارف نے پوچھا۔
’’ہاں مجھے مل گئی ہے اور جب تمہیں مل جائے گی تم بھی اس دوکان کو چھوڑ دینا۔ ‘‘
معاملہ طے ہو گیا۔ اگلے روز سے پاپولر بک ہاؤس کو عارف چلا رہا تھا اور منیر اسے کاروبار کے گُر سکھا رہا تھا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
سن ٹکنالوجی ایک ابھرتا ہوا تجارتی ادارہ تھا اور اس میں بہت زیادہ کام تھا۔ منیر اس میں لگا تو کچھ ایسا لگا کہ پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ صبح سے شام کب ہوتی پتہ نہ چلتا۔ لوگ ایک ایک کر کے نکل جاتے اور پھر دفتر میں صرف منیر اور مونا رہ جاتے۔ شام ڈھلے یہ لوگ اگلے دن کے کام کاج کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے نکلتے۔ مونا اسے قریب کے بس اسٹینڈ پر چھوڑ کر اپنے گھر چلی جاتی اور منیر تھکا ماندہ گھر آ جاتا۔
منیر کی صلاحیتوں سے زیادہ مونا کو اس کی صاف گوئی نے متاثر کیا تھا۔ دفتر میں دو طرح کے لوگ تھے کچھ چاپلوس قسم کے جنہیں ہاں جی ہاں جی کرنے سے فرصت نہیں ہوتی اور دوسرے سازشی قسم کے لوگ جنھیں اپنے کام کے علاوہ ہر چیز میں دلچسپی ہوتی تھی۔ کب کس کی ٹانگ کھینچی جائے اس فکر میں وہ دن رات لگے رہتے تھے لیکن منیر ان دونوں قبیل کے لوگوں مختلف تھا۔ اس کو اپنے کام کے علاوہ کسی بات میں دلچسپی نہیں تھی۔ کون کیا کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے؟ اس کے کیا کرنے سے کیا ہو گا؟ کیا نہ ہو گا؟ یہ سب سوال اس کے لیے بے معنی تھے۔ وہ خود کیا کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے؟ اس کے کیا کرنے سے کیا ہو گا اور نہ کرنے کیا ہو گا یہ اس کی دلچسپی کے موضوعات تھے۔
جی حضوری تواس کے قریب سے بھی نہیں گذری تھی۔ جو چیز اسے بے سود یا غلط معلوم ہوتی وہ برملا اس کا اظہار کر دیتا۔ مونا نہایت سخت گیر خاتون تھی۔ اس سے اختلاف کی جرأت بہت کم لوگ کرتے تھے لیکن منیر کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہ تھا وہ نہایت شائستگی سے اختلاف کرتا اور اپنی بات پر قائم رہتا۔ اسی وجہ سے مونا اس سے بہت خوش تھی۔
جس طرح کام کی کمی وقت کو بوجھل بنا دیتی ہے اسی طرح کام کا بوجھ وقت کو ہلکا کر دیتا ہے۔ منیر کو سن ٹکنالوجی میں ملازمت کرتے ہوئے دوسال کا وقفہ گذر چکا تھا لیکن ایسالگتا تھا گویا یہ ابھی کل کی بات ہو۔ روہت پٹیل امریکہ میں بہت خوش تھا۔ اس دوران اس کے گاہک خود اس کے مشتہر بن گئے تھے اور پہلے چند کنٹراکٹ حاصل کرنے کے بعد انہیں کی مدد سے وہ نئے نئے کام حاصل کیے جا رہا تھا۔ سن ٹکنالوجی کے کاروبار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا لیکن اب اسے کسی بہت بڑے شکار کی تلاش تھی جس کی مدد سے وہ چھوٹے تالاب کی بڑی مچھلی سے بڑے تالاب کی چھوٹی مچھلی بن جانا چاہتا تھا اور یہ مرحلہ بڑے تالاب کی بڑی مچھلی بننے کے لیے لازمی تھی۔ اس لیے کہ روہت کو پتہ تھا آج کی چھوٹی مچھلی ہی کل جا کر بڑی مچھلی بن جاتی ہے۔
روہت پٹیل ایچ پی کے کنٹراکٹ کو لے کر کوئی جوکھم اٹھانا نہیں چاہتا تھا اس لئے اس نے فیصلہ کن مرحلے میں گاہک کے سامنے پروجکٹ کی پیش کش کے لیے مونا کو امریکہ آنے کی دعوت دی۔ ایچ پی امریکہ کی بہت بڑی کمپنی تھی وہ انسانی وسائل کے شعبہ کا انتظام و انصرام ہندوستان کی کسی کمپنی کے حوالے کرنا چاہتی تھی۔ یہ شعبہ اس لیے بھی نہایت نازک تھا کہ وہ ایچ پی کے اپنے ملازمین کی خدمت پر معمور تھا اور اس میں کوتاہی چونکہ خود ایچ پی کے عملے کو متاثر کرتی تھی اس لئے براہ راست گاہک کے سامنے آ جاتی تھی۔
ہندوستان میں روزمرہ کی مصروفیتوں سے وقت نکال کر ایک پیش کش کیلئے امریکہ جانا گو کہ خاصہ نامعقول اقدام تھا لیکن مونا اس کے لیے تیار ہو گئی۔ ایچ پی والے بھی کنٹراکٹ دینے سے قبل ہندوستان میں اس پروجکٹ پر تعینات ذمہ داروں سے ملاقات کر کے اطمینان کر لینا چاہتے تھے۔ مونا جانتی تھی کہ ایچ پی کے سامنے اس کے تمام مسابقین پیش کش کر چکے ہوں گے اور انہیں متاثر کرنے کے لیے کسی کی نقل کام نہ آ سکے گی۔ اسے اپنے تمام اسٹاف میں منیر کی تخلیقی صلاحیتوں پر بلا کا اعتماد تھا اور وہ محسوس کرتی تھی کہ منیر ہی اپنے پریزنٹیشن میں ایسی ندرت پیدا کر سکے گا جو ایچ پی والوں کا دل جیت لے۔ اس لیے مونا نے یہ اہم کام منیر کو سونپ دیا۔
دفتر میں جب یہ خبر پھیلی کہ منیر نئے پروجیکٹ کی پیش کش تیار کر رہا ہے اور شاید وہی مونا کے ساتھ امریکہ جائے تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ گریش ریڈی جو اس انتظار میں تھا کہ ایک بار اسے روہت پٹیل سے ملنے کا موقع ملے تو وہ مونا کی چھٹی کر کے ہندوستان کی حد تک سن ٹکنالوجی کا بے تاج بادشاہ بن جائے اس خبر کو پا کر باؤلا ہو گیا۔ پہلے تو اس نے مونا سے ناراضگی کا اظہار کیا لیکن مونا کے آگے اس کی ایک نہ چلی۔
گریش ریڈی نے آگے بڑھ کر روہت پٹیل سے رابطہ کیا اور مونا گونسالویس پر اقربا پروری کا الزام لگا دیا۔ یہاں تک کہ اس کے کردار کشی کی کوشش بھی کر ڈالی لیکن اس کا اُلٹا اثر ہوا۔ روہت پٹیل نے مونا کو بتلائے بغیر ہی ریڈی کو ملازمت سے چھٹی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور برخاستگی کا خط لکھ دیا۔ مونا نے جب یہ خط دیکھا تو اسے تعجب ہوا۔ اس نے روہت کو سمجھایا کہ اس طرح ریڈی کا کیریئر تباہ ہو جائے گا۔ اس نے تین سال ہماری کمپنی میں خدمات انجام دی ہیں اس لئے بہتر یہ ہے اس سے با عزت طریقے پر استعفیٰ لے لیا جائے۔ روہت کو مونا کے رویہ پر ہنسی آ گئی اور یہ معاملہ اس نے مونا پر چھوڑ دیا۔
مونا نے ریڈی کو کمرے میں بلایا۔ اسے روہت پٹیل کا خط دکھلایا۔ ریڈی کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اس کے بعد اس نے خط کو واپس لے کر اسے چاک کر دیا اور ریڈی سے کہا کہ وہ از خود استعفیٰ دے کر چلا جائے اسی میں بھلائی ہے۔ ریڈی کی عجیب کیفیت تھی وہ شرمندہ بھی تھا اور مشکور بھی تھا وہ غمگین بھی تھا اور خوش بھی تھا۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنا استعفیٰ ٹائپ کیا۔ اس پر اپنے دستخط ثبت کئے اور سر جھکائے مونا کے کمرے سے ہمیشہ کے لیے نکل گیا۔ ریڈی کے نکل جانے کے بعد اب سن ٹکنالوجی میں مونا کے بعد دوسرے نمبر پر منیر شمار ہونے لگا تھا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
گزشتہ دو سالوں میں منیر کو ایک لمحہ کی بھی فرصت نہیں ملی تھی کہ جس میں ٹھہر کروہ اپنے ماضی، حال یا مستقبل کے بارے میں کچھ سوچتا۔ ہر روز صبح سے رات تک کام کرتا اور پھر صبح سویرے اٹھ کر کام میں جٹ جانا یہ اس کا معمول بن گیا تھا۔ آج اسے ایک رات زائد حاصل ہو گئی تھی۔ اتوار کی شام تک وہ دفتر میں بیٹھا تیاری میں لگا رہا۔ گھر میں بہ مشکل ایک گھنٹہ گزارنے کے بعد ایئر پورٹ آ گیا جہاں مونا اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ہوائی جہاز میں بیٹھتے ہی دن بھر کی تھکن نے اسے نیند کی آغوش میں روانہ کر دیا اور اب جب کہ وہ اپنی نیند پوری کر کے جاگا تو یہاں سب لوگ سو رہے تھے۔ گویا اس کے لیے رات کے بعد صبح نہیں بلکہ رات ہو گئی تھی اس لحاظ سے یہ عجیب و غریب رات تھی۔
منیر حقیقت پسند آدمی تھا وہ سوتے ہوئے بھی خواب نہ دیکھتا اور گذشتہ دو سالوں میں اسے خواب دیکھنے کی فرصت بھی میسر نہیں آئی تھی لیکن آج اس کی آنکھوں کے سامنے ماضی کے یہ واقعات ایک خواب کی طرح چل رہے تھے۔ وہ سوچنے لگا حقیقت اور فسانے میں کس قدر کم فرق ہے بلکہ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ کیا فسانہ حقیقت سے زیادہ دلچسپ ہوتا ہے؟ جواب تھا نہیں اس لیے کہ فسانہ حقیقت سے بنتا ہے حقیقت فسانے سے نہیں بنتی۔ اس کے باوجود ان دونوں میں گہرا رشتہ ہے اسی طرح کا رشتہ جیسے مونا اور منیر کے درمیان تھا۔ مونا ایک حقیقت تھی اور منیر ایک فسانہ تھا۔ اسی لیے شاید منیر سے زیادہ مستحکم اور دلچسپ مونا تھی۔
امریکہ میں قیام کا ہفتہ برق رفتاری سے گزرا۔ پیش کش کا جائزہ۔ اس میں تبدیلیاں۔ اس کا اعادہ اور پیش کش کے بعد نتیجہ کا انتظار جسے نئے گاہکوں سے یکے بعد دیگرے ملاقاتوں سے پر کر دیا گیا تھا۔ ہر گاہک سے ملاقات کے بعد گفتگو کی رپورٹ اور پھر ان کی ضرورتوں کے مطابق پروپوزلس۔ مونا، منیر اور روہت پر کام کا جنون سوار تھا۔ علی الصبح دفتر میں ملتے اور شام ڈھلے روہت ان دونوں کو ہوٹل میں چھوڑ کر واپس جاتا۔ حالت یہ ہوتی کہ کسی طرح جلدی جلدی کھانا کھاؤ اور سو جاؤ۔ اکثر کھانا کمرے ہی میں منگوا لیا جاتا تاکہ سونے میں تاخیر نہ ہو۔
اتوار کی واپسی تھی اور جمعہ کی شام ان لوگوں کو خوش خبری مل گئی۔ ایچ پی کا کنٹراکٹ سن ٹکنالوجی کو مل چکا تھا۔ اس خبر نے ان تینوں کو دیوانہ بنا دیا۔ ایک خواب تھا جو دیکھتے دیکھتے شرمندۂ تعبیر ہو گیا تھا۔ اس خوشگوار شام کو جب مونا اور منیر کو ہوٹل میں چھوڑ کر روہت لوٹا تو دونوں کے قدم لابی میں منجمد ہو گئے۔ وہ وہاں بیٹھ گئے اور کافی دیر بیٹھے رہے۔ وہ دونوں نہ جانے کہاں کھوئے ہوئے تھے۔ مونا بولی
’’منیر آج کھانا ہم کمرے میں نہیں ریسٹورنٹ میں کھائیں گے۔ ‘‘
منیر کے خیالات کا تانتا ٹوٹ گیا۔ ا س نے مسکرا کر کہا۔ ’’باس کا حکم سر خم تسلیم ہے۔ ‘‘
’’یہ باس کا حکم نہیں ایک دوست کی خواہش ہے۔ ‘‘
’’ ہم اپنے دوست کی خواہش کا احترام کرتے ہیں۔ ‘‘
’’ہاں تو بتلاؤ کتنی دیر میں لوٹو گے؟ ‘‘
’’دیر کس بات کی؟ اگر آپ چاہیں تو میں یہیں بیٹھا رہوں۔ ‘‘
’’مذاق نہ کرو منیر میں سنجیدہ ہوں۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے آدھا گھنٹہ بعد۔ ‘‘
’’آدھا گھنٹہ بہت ہے مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ ‘‘مونا نے کہا۔
’’اچھا اگر ایسا ہے تو۔ ‘‘ منیر بولا۔ ’’ہم ایسا کرتے ہیں کھانے کا آرڈر ابھی دیئے دیتے ہیں اس لیے کہ یہ لوگ بھی روٹی کا آرڈر ملنے کے بعد گیہوں پیسنا شروع کرتے ہیں۔ ‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔ ‘‘
’’تو آپ فرمائیں کیا کھائیں گی؟ بیرا حاضر ہے۔ ‘‘ منیر نے کہا۔
مونا بولی۔ ’’آج میں تمہاری پسند کا کھانا کھاؤں گی۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ‘‘
’’بائی بائی ‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی جانب چلی گئی اور جاتے جاتے ہاتھوں سے پندرہ منٹ کا اشارہ بھی کرتی گئی۔
سوئمنگ پول کے کنارے ایک نہایت پُرتکّلف میز مونا اور منیر کے لیے مخصوص کر دی گئی تھی۔ ساری دنیا سے الگ تھلگ بالکل تنہا ان دونوں کی طرح۔ ان کی آمد کے بعد موم بتی کو روشن کیا گیا۔ گہرے اندھیرے میں یہ موم بتی بالکل سورج کی طرح چمک رہی تھی۔ روشنی نے میز پر رکھے ’’سن ٹکنالوجی کے مونا اور منیر کا خیر مقدم ہے ‘‘ لکھے بورڈ کو روشن کر دیا۔
مونا نے غصہ سے کہا۔ ’’یہاں بھی سن ٹکنالوجی۔ ‘‘ اور اسے اٹھا کر نیچے پڑے کوڑے دان میں ڈال دیا۔ منیر سمجھ گیا آج میڈم کاروبار یا کمپنی کے بارے میں بات کرنا نہیں چاہتیں۔ لیکن پھر سوچنے لگا ان دونوں کے درمیان اس تمام عرصہ میں یہی واحد مشترک موضوع رہا ہے اب اگر اس پر بات نہ ہو تو کیا بات ہو؟ پہلی مرتبہ منیر قحط الخیال کا شکار ہو گیا تھا اور سوچ رہا تھا بولے تو کیا بولے۔ اس بیچ مونا نے کہا۔
’’منیر میں آج بہت خوش ہوں۔ ‘‘
منیر نے جھٹ جواب دیا۔ ’’میں بھی آپ کیا س خوشی میں شریک ہوں۔ ‘‘
مونا بولی۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ کوئی میری خوشی میں شریک ہے۔ غم میں ہر کوئی شریک ہو جاتا ہے اس لیے کہ حزن کسی نقصان یا ناکامی کے باعث ہوتا ہے جوکسی دشمن کے دل میں بھی ہمدردی کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن خوشی کامیابی کے سبب ہوتی ہے اور کامیابی بیشتر لوگوں کے دل میں حسد و بغض کو جنم دیتی ہے اس لیے خوشی میں بہت سے لوگ شریک نہیں ہو پاتے ہیں۔ مگر حقیقی دوستوں کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ جو سچے رفیق ہوتے ہیں وہ خوشی و مسرت میں بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ‘‘
منیر نے تائید کی۔ ’’مجھے یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ مونا گونسالویس آئی میں میڈم کے اندر ایک فلسفی بھی چھپا ہوا ہے۔ ‘‘
مونا نے کہا۔ ’’یہ فلسفہ نہیں حقیقت ہے جس کا مشاہدہ تو ہم میں سے ہر کوئی کرتا ہے لیکن اس کا ادراک نہیں کر پاتا۔ خیر جب تک یہ ایچ پی کا آرڈر نہیں ملا تھا اس وقت تک یہی میرا مقصدِ حیات تھا لیکن اب جب کہ یہ مل گیا ہے اچانک اس کی اہمیت صفر ہو گئی ہے۔ نہ جانے ایسا کیوں ہوتا؟ کسی وقت سن ٹکنالوجی میں ملازمت کا حصول ہی مقصد زندگی تھا۔ لیکن جب وہ مل گئی غیر اہم ہو گئی اور پہلے آرڈر کے حصول کی دوڑ شروع ہو گئی جب اسے پا لیا اس نے اپنی اہمیت گنوا دی۔ اب اس آرڈر کو بخیر و خوبی بروئے کار لانا اہم ترین ہدف بن گیا۔
اپنی عادت کے خلاف مونا بولے جا رہی تھی۔ اس کے بعد نہ جانے کتنے آرڈر آتے رہے لیکن جب ایچ پی کی انکوائری آئی تو پھر ایک نیا ہدف سامنے آ گیا۔ ویپرو سے مسابقت نے اسے غیر معمولی اہمیت عطا کر دی اور پھر اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہم ہندوستان سے امریکہ پہونچ گئے۔ آج صبح تک کس قدر بے کلی تھی۔ کس قدر تجسّس تھا۔ جوش اور امنگ تھا لیکن اب اچانک سب کچھ غائب ہو گیا۔ سارا ہیجان یکبارگی جھاگ بن کر اُڑ گیا۔ میں سوچتی ہوں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہر خوشی بام عروج پر پہونچ کر غبارہ کی طرح پھوٹ کیوں جاتی ہے؟ اور پھر وہ غبارہ کہاں چلا جاتا ہے؟ ‘‘
منیر بھی سوچ میں پڑ گ یا اس نے کہا۔ ’’ہم شاید غیر پائدار بنیاد پر پائدار خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں اگر مقصد ہی دائمی نہ ہو تو اس کے حصول کی خوشی بھی عارضی ہی ہو گی۔ یہ دنیا بھی تو ایک بہتا دریا اور اس میں ہماری زندگی پانی کا بلبلہ ہے اس روانی میں اگر ہر شئے وقتی اور عارضی ہے تو خوشی کس طرح ابدی و ازلی ہو سکتی ہے۔ ‘‘
مونا نے تائید میں سر ہلایا وہ بولی۔ ’’جی ہاں منیر تمہاری بات درست ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز تقابلی ہے مگر ان چھوٹے موٹے اہداف کے مقابلے جو ہمیں دوران سفر میں پیش آتے ہیں زندگی تو نسبتاً پائدار ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید ان اہداف کے چکر میں زندگی کو میں نے فراموش کر دیا تھا۔ میں ان عارضی اہداف کی مسرتوں کے بجائے زندگی کی ہر خوشی میں تمہیں شریک کرنا چاہتی ہوں۔ میں تمہیں اپنا شریک حیات بنا لینا چاہتی ہوں۔ ‘‘
مونا کا یہ جملہ منیر پر بجلی کی طرح گرا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔
’’کیا بات کرتی ہیں ۔۔۔ میڈ۔۔۔م۔ کہیں آپ مذاق تو نہیں کر رہی ہیں مجھ ۔۔۔ غریب۔۔۔ سے۔ ‘‘
’’نہیں منیر میں بہت ہی سنجیدگی سے یہ پیشکش (propose )کر رہی ہوں۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’میڈم یہ نہایت اہم معاملہ ہے اس لیے اس پر آپ سنجیدگی سے غور فرما لیں تو بہتر ہو گا۔ ‘‘
مونا بولی۔ ’’میں نے تو سوچ لیا ہے ہاں اگر تمہیں یہ رشتہ نامنظور ہو تو انکار کر سکتے ہو، مرضی تمہاری۔ ‘‘
’’م۔۔۔م۔۔۔ میں یہ جرأت کیسے کر سکتا ہوں۔ ‘‘
’’کیوں نہیں کر سکتے اور تمہاری ہچکچاہٹ کو مجھے انکار ہی سمجھ لینا چاہئے ۔۔۔ شاید‘‘
’’نہیں میڈم نہیں۔ آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں آپ کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر۔ یہ تو میرے لیے عظیم سعادت کی بات ہے کہ سن۔۔۔‘‘
مونا نے بات کاٹ دی۔ ’’سن نہیں۔ ‘‘
’’جی ہاں جی ہاں مونا گونسالویس مجھے پیغام دے رہی ہیں۔ میں اس کے لیے تیار ہوں بالکل تیار ہوں۔ کل ہی سے میں تیاریوں میں لگ جاتا ہوں۔‘‘
’’کل سے نہیں۔ اب اور اسی وقت سے ہم اس رشتہ میں اپنے آپ کو باندھے لیتے ہیں اور ایک دوسرے کے زوج بن جاتے ہیں۔ ‘‘
’’نہیں میڈم یہ نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ ‘‘مونا نے کڑک کر پوچھا۔
’’ہمارے یہاں رشتۂ ازدواج یونہی قائم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی کچھ شرائط ہیں اور اس کے بعد ہی یہ ہو سکتا ہے۔ ‘‘
’’شرائط؟ کیسی شرائط؟ تم مجھ سے جہیز کا مطالبہ تو نہیں کرنے جا رہے؟ ‘‘
’’نہیں۔ توبہ کیجئے۔ جہیز کے مطالبے کو تو میں نہ صرف ظلم زیادتی بلکہ حرام سمجھتا ہوں۔ لیکن بہرحال کسی قاضی کی موجودگی میں گواہ اور وکیل کے توسط سے یہ رشتہ قائم ہو گا اور پھر اس کا اعلان کیا جائے گا۔ ‘‘
’’لو پھر تم نے کر دی وہی ہندوستانیوں والی بات۔ یہ ہندوستان جیسے پسماندہ ممالک کی باتیں ہیں۔ تم یہ نہ بھولو کہ فی الحال امریکہ میں ہو۔ یہاں ان سب کی مطلق حاجت نہیں۔ ‘‘
’’نہیں میڈم ان چیزوں کا امریکہ یا ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم جہاں کہیں بھی رہتے ہیں اپنی اقدار کے ساتھ رہتے ہیں۔ ٹوکیو ہو یا ٹمبکٹو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ‘‘
’’کیا دقیانوسی باتیں کرتے ہو منیر۔ پرانے وقتوں کے ان رسوم و رواج کی اس نئے زمانے میں کیا اہمیت ہے بھلا؟ ۔ ‘‘
’’بالکل ہے !کیوں نہیں ہے۔ یہ ضرورت بھی تو بہت پرانی ہے کہ انسان اپنے جوڑے کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ اس قدیم ترین جبلت کی تسکین کا طریقہ کار بھی اگر پرانا ہو تو اس میں قباحت کی کیا بات ہے؟ ‘‘
’’لیکن اس پیچیدہ اہتمام میں طویل وقت درکار ہے اور میں رُک نہیں سکتی۔ ‘‘
’’نہیں میڈم نہیں۔ یہ نہ پیچیدہ ہے اور نہ طویل مدت کا متقاضی ہے۔ یہ تو نہایت ہی آسان کام ہے۔ ہم لوگ کل صبح مسلم کمیونٹی سینٹر پر چلتے ہیں میں وہاں اپنے چند واقف کاروں کو بلوا لوں گا۔ انہیں میں سے کوئی قاضی بن جائے گا، کوئی وکیل اور گواہ۔ وہ تم سے پھر پوچھیں گے اور تمہاری رضامندی پر اپنی دعاؤں کے ساتھ ہمارے نکاح کا اعلان کر دیں گے۔ اس طرح حاضرین محفل کی موجودگی میں ہم ایک دوسرے کے میاں بیوی بن جائیں گے۔ ‘‘
’’اچھا تو یہ اس قدر آسان ہے میں تو سمجھتی تھی کہ ۔۔۔‘‘
منیر نے بات کاٹ دی۔ ’’میڈم آپ غلط سمجھتی تھیں یہ جو طریقہ میں نے بتلایا یہ اللہ کا بتلایا ہوا ہے ہم انسانوں نے اسے مشکل ضرور بنا دیا ہے۔ ‘‘
’’تو تمہارا مطلب ہے کل تک مجھے انتظار کرنا ہی ہو گا۔ ‘‘
’’جی ہاں میڈم۔ ‘‘
’’میڈم نہیں مونا۔ ‘‘
’’جی ہاں مونا۔ ‘‘
جی ہاں نہیں۔ ہاں ہاں مونا۔ لیکن ایک بات بتاؤ منیر تم مجھے شادی سے پہلے یہ تو نہیں کہو گے کہ میں اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لوں۔ ‘‘
’’میں کہوں گا تو ضرور اور شادی سے پہلے کیوں؟ ابھی ابھی کہوں گا لیکن پھر تمہاری مرضی، چاہو تو میری بات مانو چاہو تو مسترد کر دو۔ ‘‘
’’لیکن کیا اس کے باوجود ہمارا نکاح ہو جائے گا۔ ‘‘
’’کیوں نہیں ہمارے مذہب میں اہل کتاب سے نکاح کی اجازت ہے اور پھر تم اہل کتاب تو ہو ہی۔ ‘‘
’’اچھا۔ میں تو سمجھتی تھی کہ اسلام بڑا ہی سخت اور مشکل مذہب ہے لیکن تم نے تو اسے بہت ہی آسان بنا دیا۔ ‘‘ مونا نے کہا۔
’’نہیں میڈم۔ سوری مونا۔ اسلام کو اس کے نازل کرنے والے خدائے بزرگ برتر نے ہی آسان بنایا ہے لیکن جیسا کہ میں آپ کو بت اچکا ہوں وہ انسان ہے کہ جو اسے مشکل بنائے ہوئے ہے۔ اب اس کا کوئی کیا کرے؟ ‘‘
’’اچھا پھر ٹھیک ہے۔ آج ہم آخری بار جُدا ہو رہے ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہو جانے کے لیے۔ ‘‘
’’اوکے پھر ملیں گے صبح ان شاء اللہ۔ ‘‘ منیر نے کہا۔
مونا بولی۔ ’’ان شاء اللہ۔ ‘‘
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
دوسرے روز نہایت سادگی کے ساتھ قریب کے اسلامک سینٹر میں منیر اور مونا کا نکاح ہو گیا۔ جس میں ان دونوں کے کچھ ذاتی دوستوں کے علاوہ روہت پٹیل بھی موجود تھا۔ یہ ہفتہ کا آخری اور چھٹی کا دن تھا۔ روہت ان کے ساتھ ہوٹل آیا اور مبارک باد دے کر چلا گیا۔ اس کے بعد دو دن یہ دونوں یوں تو امریکہ میں تھے لیکن در اصل ہواؤں، فضاؤں اور ایک دوسرے کی جنت میں کھوئے ہوئے تھے اور امریکہ سے واپسی پراسی طرح غمگیں تھے جس طرح حضرت آدم اور حوا جنت سے دنیا کی جانب آتے ہوئے رہے ہوں گے۔ لیکن بہرحال ان کی آزمائش دنیا میں مقدر تھی سو یہ دونوں ہندو ستان لوٹ آئے۔
راستہ میں جو سب سے اہم مسئلہ زیر بحث آیا کہ اب وہ لوگ کہاں رہیں گے؟ منیر کا آبائی گھر مونا کے لیے مناسب نہ تھا اور مونا کے گھر میں منیر جانا نہیں چاہتا تھا۔ بالآخر دونوں نے ایک نئے گھر میں منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ نئی زندگی جو ایک نئے ملک میں شروع ہوئی تھی ایک نئے گھر میں داخل ہو گئی۔ جب وہ دونوں ایئرپورٹ پر پہونچے تو سن ٹکنالوجی کا سینئر اسٹاف وہاں موجود تھا۔ ہر ایک کے ہاتھ میں دو گلدستے تھے۔ ہر کوئی آگے بڑھ کر پہلے مونا کو ایچ پی کے آرڈر کی مبارکباد دیتا اور پھر دوسرا گلدستہ منیر کے حوالے کرتے ہوئے اسے شادی کی مبارکباد دیتا۔ یکے بعد دیگرے جب یہی رویہ دوہرایا گیا تو منیر کوایسا لگا جیسے شادی صرف منیر کی ہوئی ہے اور ایچ پی کا آرڈر صرف مونا کو ملا ہے۔ منیر کا حاصل مونا اور مونا کا حاصل آرڈر ہے حالانکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس تھی ایچ پی کا آرڈر در حقیقت منیر کی جانفشانی کا نتیجہ تھا اور شادی مونا کی پہل اور کوششوں سے ہوئی تھی لیکن لوگ اس کو اُلٹا سمجھ رہے تھے۔
شادی کے باوجود مونا اور منیر کے معمولاتِ حیات میں کوئی خاص فرق واقع نہ ہوا تھا بلکہ وہ دونوں پہلے سے زیادہ مصروف ہو گئے تھے۔ ایچ پی کے بعد روہت کو اور بھی کچھ نئے آرڈر حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی جس کے باعث ان کی مصروفیات میں بے شمار اضافہ ہو گیا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ اس نئے شادی شدہ جوڑے کو نہ تو محبت کی فرصت تھی اور نہ لڑائی جھگڑے کے لیے وقت تھا۔ دفتر میں اور گھر میں ہر جگہ ان پر کام کا بھوت سوار رہتا تھا اور کام تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔
کامیابی و کامرانی کا اپنا نشہ ہوتا ہے اور یہ خمار کام کی تمام تھکن کو نگل جاتا ہے۔ وہ دونوں بدمست مسافر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کامیابی کی بلند تر منزلیں سر کرتے جاتے تھے۔ دیکھتے دیکھتے مزید چار سال کا طویل عرصہ نہ جانے کیسے گذر گیا۔ اب سن ٹکنالوجی کا شمار ہندوستان کی سب سے بڑی بی پی او کمپنیوں میں ہونے لگا۔ بی پی او مختصر سی دنیا میں ہر کوئی مونا اور منیر کو جانتا تھا اور ان کی جانب رشک سے دیکھتا تھا۔
روہت پٹیل کو مونا کی صلاحیتوں کا اعتراف تھا۔ اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ اگر مونا کمپنی چھوڑ دیتی ہے تو اس کا سارا کھیل دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ اس لیے اس نے مونا کو کمپنی کے ملازم سے ترقی بنا کر شراکت دار بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح وہ کمپنی میں مونا کی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتا تھا اور اس کے لیے یہی سب سے آسان اور کارگر نسخہ تھا۔ اس مقصد کے تحت روہت مونا کو امریکہ آنے کی دعوت دی۔ منیر کا مونا کے ساتھ سفر کرنا امر لازمی تھا۔ ان دونوں نے ایک ہفتہ کے لیے امریکہ جانے کا پروگرام بنایا۔ چار سال میں پہلی مرتبہ یہ لوگ ایک ساتھ چھٹی منانے جار رہے تھے۔ اس بار فلائیٹ صبح میں تھی۔ ہوائی جہاز کے اُڑنے کے بعد منیر نے کہا۔
’’مونا کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ ‘‘
مونا نے اثبات میں سرہلا یا۔ ’’آج مجھے پھر ایک بار اپنا پرانا سفر یاد آ رہا ہے۔ ‘‘ مونا بولی۔ ’’ ویسے اس سفر میں یاد کرنے کے لیے تھا ہی کیا تم راستے بھر سوتے رہے اور میں ناول پڑھتی رہی۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’یہ تو تم جاتے وقت کے سفر کی بات کر رہی ہو۔ مجھے تو واپسی کا سفر یاد آ رہا ہے جب ہم لوگ یہ بھول گئے تھے سن ٹکنالوجی کس بلا کا نام ہے اور ہم دونوں اس میں ملازم ہیں۔ ‘‘
’’جی ہاں اس وقت ہم دونوں صرف میاں بیوی تھے اور ہم صرف اپنے مستقبل کے سپنے سجاتے رہے۔ مجھے بھی یاد آ رہا ہے۔ ‘‘
’’لیکن مونا وہ خواب کہاں کھو گئے؟ ممبئی پہونچنے کے بعد ہم نے ان خوابوں کو یکسر بھلا دیا اور پھر کاروبار میں ایسے پھنسے کہ ہمیں یہ یاد ہی نہ رہا کہ ہماری اپنی بھی کوئی نجی زندگی ہے۔ ازدواجی زندگی۔ ‘‘
منیر تم سچ کہتے ہو ہم نے کامیابی کی بہت بڑی قیمت ادا کی۔ لیکن پھر بھی مجھے کوئی افسوس نہیں ہے اس لیے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز مفت میں حاصل نہیں ہوتی اور کامیابی تو ہرگز ہرگز نہیں۔ مونا نے کہا۔
منیر نے تائید کی۔ ’’بے شک ہماری کامیابی بے مثال ہے لیکن آخر کب تک ہم اپنے کاروبار کے قدموں میں اپنا سب کچھ بھینٹ چڑھاتے رہیں گے۔ آخر اس کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔ تمہیں یاد ہے سفر کے دوران ہم ایس یو این (SUN) سن کے بجائے ایس او این (SON) کے بارے میں سوچتے رہے تھے لیکن وہ SON بھی نہ جانے کہاں کھو گیا۔ حالانکہ اسے تو فطری انداز میں ابھی تک ہمارے درمیان آ جانا چاہئے تھا۔ شاید اس نئی زندگی سے ہمیں نئی زندگی مل جاتی ہمارا بچپن جوان ہو جاتا۔ ‘‘
مونا نے تائید کی۔ ’’ہاں منیر تم سچ کہتے ہو لیکن مجھ پر کامیابی کا ایسا جنون تھا کہ میں نے اسے اپنی راہ کی رکاوٹ سمجھا اور اسے آنے سے روک دیا۔ ‘‘
’’مونا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ یہ تمہاری بلکہ ہماری غلطی تھی۔ ‘‘
مونا نے کہا۔ ’’ہاں آج جب ہم ٹھہر کے سوچ رہے ہیں تو لگتا ہے کہ شاید یہ ہماری غلطی تھی۔ ہم بہت زیادہ خود غرض ہو گئے تھے۔ ہم اپنے وسائل کو، اپنے اوقات میں کسی اور سے تو کجا اپنے لخت جگر کے ساتھ بھی شریک کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ہم نے خود اپنی آئندہ نسل سے دشمنی کی۔ ہم اس کے قاتل ہیں اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ ‘‘
’’جی ہاں مونا تم سچ کہتی ہو۔ مال کی حرص وہوس نے ہمارے لیے کتنے سنگین گناہ کو کس قدر آسان بنا دیا تھا۔ ‘‘
مونا نے اثبات میں سرہلایا اور بولی۔ ’’منیر گذرا ہوا کل واپس نہیں آتا اس لیے اس کا ماتم چھوڑو اور آنے والے کل کے بارے میں سوچو۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’تم سچ کہتی ہو۔ آنے والے کل کے بارے میں میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ آنے والا کل ہمارے سن (SON)کا ہو گا۔ ‘‘
فلائیٹ میں کھانا کھانے کے بعد دونوں کی آنکھیں لگ گئیں۔ یہ لوگ دن میں سونے کے نام و نشان سے واقف نہ تھے لیکن پھر بھی دونوں سو گئے اور سپنوں میں کھو گئے۔ دونوں کا خواب یکساں تھا ایک مشترک خواب دونوں دیکھ رہے تھے۔ دونوں نے خواب میں ایک بڑا سا باغ دیکھا جس میں بے شمار پھول تھے لیکن ہر پھول جڑواں تھا۔ دو گلاب، دو موگرا، دو چمیلی، دو کنول یہاں تک کہ سورج مکھی کا پھول بھی جڑواں تھا۔ جب بیدار ہونے کے بعد ان دونوں نے ایک دوسرے کو اپنا خواب سنایا تو حیرت زدہ رہ گئے۔
’’کیا خواب بھی جڑواں ہوتے ہیں؟ ‘‘ مونا نے پوچھا۔
منیر بولا۔ ’’کیوں نہیں۔ اگر حقیقت جڑواں ہو سکتی ہے تو خواب کیوں نہیں ہو سکتے۔ وہ دونوں اس جڑواں خواب میں کھو گئے جس کا تعلق ان کے ماضی سے بھی تھا اور مستقبل سے بھی تھا۔ جہاز سرزمین نیویارک پر اتر رہا تھا۔ باہر صبح ہو رہی تھی منیر نے کہا۔
’’مونا یہ جڑواں دن ہے دن کے بعد دن اور ہاں وہ جڑواں رات تھی رات کے بعد رات‘‘ پھر دونوں بولے۔ ’’اور یہ جڑواں خواب ہے خواب کے بعد خواب۔ ‘‘
روہت پٹیل نے ایئر پورٹ پر ان دونوں کا خیر مقدم کیا اور کہا۔ ’’آپ لوگوں نے آرام کیا یا نہیں اس لیے کہ ہندوستان میں فی الحال رات ہے۔ ‘‘
مونا بولی۔ ’’سارا راستہ آرام ہی رہا۔ کہو کیا بات ہے؟ ‘‘
روہت بولا۔ ’’بات در اصل یہ ہے کہ میں بورڈ آف ڈائرکٹرس کی ایک اہم میٹنگ کل رکھنا چاہتا تھا لیکن جیوتش نے بتلایا کہ کل کا شگون منحوس ہے اس لیے میں نے اچھا شگون نکال کر آج ہی گیارہ بجے صبح میٹنگ رکھ لی ہے۔ یہ میٹنگ صرف آدھے گھنٹہ کی ہے۔ کمپنی کے چند بنیادی فیصلوں کو آخری شکل دینی ہے۔ یہ میری گزارش ہے اگر زحمت نہ ہو تو اس کے بعد تم واپس آ کر آرام کر لینا۔۔۔‘‘
مونا بولی۔ ’’یہ شگون کیا ہوتا ہے؟ روہت صاحب آپ کب سے امریکہ میں رہ رہے ہیں انفارمیشن ٹکنالوجی کی جدید دنیا میں آپ شگون کی بات کرتے ہیں۔ ‘‘
روہت بولا۔ ’’مونا تم اسے نہ سمجھو گی لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ۱۱؍ بجے آدھے گھنٹہ کے لیے تم نیچے ہوٹل کے بورڈ روم میں آ جانا جہاں یہ میٹنگ ہے اور پھر واپس جا کر کمرے میں آرام کرنا۔ مجھے امید ہے تم میری اس خواہش کا احترام کرو گی۔ ‘‘
’’بے شک میں میٹنگ میں آؤں گی لیکن اس لیے نہیں کہ وہ کوئی شبھ مہورت ہے۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ روہت نے ہنس کر کہا جب وہ واپس ہونے لگا تو منیر نے پوچھا۔
’’یہ میٹنگ تو کمپنی کے انتظامی امور سے متعلق ہے بزنس کی ترویج کے لیے تو ہے نہیں۔ اس لیے میرا آنا ضروری تو نہیں۔ ‘‘
روہت نے کہا۔ ’’ہاں منیر تم ٹھیک کہتے ہو۔ تم چاہو تو آرام کر سکتے ہو۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’شکریہ۔ ‘‘لیکن منیر کی لغت میں آرام نہیں تھا۔ وہ مونا سے پہلے تیار ہو کر باہر نکل گیا اور ہوٹل سے لگی دوکانوں میں گھومنے لگا۔ اسے ایک خاص دوکان کی تلاش تھی۔ بچوں کی دُکان جو اسے تھوڑی سی محنت کے بعد مل گئی۔ وہاں پہونچنے کے بعد اس نے دیوانہ وار چیزیں خریدنی شروع کر دیں۔ کھلونے، کپڑے، جھولا اور نہ جانے کیا کیا۔ جب سب کچھ پیک ہو گیا تووہ اُسے دیکھ کر گھبرا گیا۔ منیر نے دوکان والے کو اپنے کمرے کا نمبر دیا۔ چونکہ وہ دُکان اسی ہوٹل کا حصہ تھی جس میں ٹھہرا ہوا تھا دُکاندار خوشی خوشی اسے کمرے تک پہونچانے پر راضی ہو گیا۔
منیر جب کمرے میں میں آیا تو مونا میٹنگ میں جا چکی تھی۔ منیر مونا کو حیرت زدہ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے جلدی جلدی تمام سامان کو کھولا اور اسے بالکل چھوٹے بچوں کی طرح کمرے میں سجانے لگا۔ بچے جس طرح گڑیوں کا سنسار سجاتے ہیں وہ بھی بالکل اسی طرح کھلونوں سے کھیل رہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔
منیر نے دروازہ کھولا۔ سامنے مونا کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں کی چمک بتلا رہی تھی کہ وہ بہت خوش ہے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ منیر سے لپٹ گئی اور دیر تک اس کے سینے میں اپنا سر چھپائے کھڑی رہی۔ اس کے بعد بولی۔
’’منیر تم جانتے ہو میٹنگ میں کیا ہوا؟ تمہیں یقین نہیں آئے گا کہ آج میٹنگ میں کیا ہو گیا۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ ‘‘
منیر بولا۔ ’’آخر بولو گی بھی یا بس یونہی خوشی سے پھولی نہیں سماتی رہو گی۔ ‘‘
مونا بولی۔ ’’بتاتی ہوں بتاتی ہوں۔ در اصل سن ٹکنالوجی کے ۴۵ فیصد شیئر تو مارکٹ میں ہیں بقیہ ۵۵ فی صد میں سے روہت پٹیل نے مجھے ۲۵ فی صد کا مالک بنا دیا۔ اب ہم سن ٹکنالوجی کے ملازم نہیں بلکہ مالک بن گئے ہیں۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’ہم نہیں تم۔ ‘‘
ہاں ہاں ایک ہی بات ہے۔ ہم دونوں میں فرق ہی کیا ہے۔ اسی کے ساتھ بورڈ آف ڈائرکٹر کی میٹنگ میں اتفاق رائے سے روہت پٹیل کو چیئرمن اور مجھے کمپنی کا منیجنگ ڈائرکٹر بنا دیا گیا۔ اس طرح کمپنی کو چلانے کے سارے اختیارات اب ہمارے ہاتھ میں آ گئے ہیں۔ ‘‘
’’ہمارے نہیں تمہارے۔ ‘‘ منیر بولا۔
’’ہاں ہاں ایک ہی بات ہے۔ ہم دونوں تو ایک ہی ہیں اور جانتے ہو میں نے اپنی پہلی تقریر میں کیا اعلان کیا۔ ‘‘
منیر بولا۔ ’’ہاں ہاں بولو سن رہا ہوں۔ ‘‘
مونا بولی۔ ’’میں نے اعلان کیا کہ فی الحال سن ٹکنالوجی ہندوستان کی تیسرے نمبر کی بی پی او کمپنی ہے لیکن ہم اسے دو سال کے اندر پہلے نمبر پر پہونچا دیں گے۔ ‘‘
’’ہم نہیں میں۔ ‘‘ منیر بولا
’’ہاں ہاں ایک ہی بات ہے۔ ہم دونوں تو ایک ہی ہیں۔ بولو منیردرست کہا نا میں نے؟ ایسا ہو گانا؟ بولو نا ضرور ہو گا۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’مونا ڈارلنگ ضرور ہو گا۔ میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ ‘‘
’’نیک خواہشات ساتھ ہیں۔ کیا مطلب؟ تم خود ساتھ میں نہیں ہو؟ ‘‘
منیر بولا۔ ’’ہاں ہاں ایک ہی بات ہے میری خواہش اور میں الگ الگ تھوڑے ہی ہیں۔ ‘‘ منیر کو در اصل پریشانی اس بات کی تھی کہ اتنے ڈھیر سارے کھلونوں کی جانب مونا کی ذرّہ برابر بھی متوجہ نہیں ہوئی تھی۔ کتنے شوق سے اس نے ان تمام چیزوں کو سجایا تھا۔ اگر کوئی عام آدمی کمرے میں آتا تو اس کا پہلا سوال ہوتا ’’بچہ کہاں ہے؟ جس کے لیے یہ تمام لوازمات سجائے گئے ہیں ‘‘ لیکن مونا کے قلب و ذہن پر ایس او این SON نہیں بلکہ SUN سوار تھا اور اس کی چکا چوند نے مونا کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ اسے کچھ بھی دکھائی نہ پڑتا تھا۔
بالآخر منیر نے خود پہل کی۔ ’’مونا یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اس خواب کا کیا جو ابھی پچھلے دن ہم نے دیکھا تھا۔ ‘‘
’’اوہو منیر آئندہ دو سالوں میں ہمیں پہلے نمبر پر آنا ہے اس لیے اب تو ہم کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم دو سال اور رک جاتے ہیں۔ ایک بار سب سے آگے ہو گئے تو پھر وہی سب کریں گے۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’نہیں میں اب رک نہیں سکتا۔ اس لیے کہ میں جانتا ہوں سب سے آگے ہونا جتنا مشکل ہے سب سے آگے بنے رہنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ آج اگر آگے ہونے کے لیے ہم نے ملتوی کر دیا تو کل آگے رہنے کے لیے ہمیں اسے التوا میں ڈالنا پڑے گا اور پھر وہ کل کبھی نہ آئے گا۔ ‘‘
مونا بولی۔ ’’منیر اس خوشی کے موقع پر تم یہ کیا بکھیڑا لے کر بیٹھ گئے۔ اب ہمارے سامنے صرف ایک ہدف ہے۔ ‘‘
’’ہمارے نہیں تمہارے سامنے۔ ‘‘ منیر بولا۔
’’ہاں ہاں ۔۔۔‘‘
منیر نے بات کاٹ دی۔ ’’مونا یہ ایک ہی بات نہیں ہے۔ یہ الگ باتیں ہیں ہم ایک دوسرے کو بہلانے اور پھسلانے کے لیے ایک ہی بات کہتے ضرور ہیں لیکن ہمارے کہنے سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ ‘‘
’’منیر آج پہلی بار تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں نہ جانے کیوں؟ ‘‘
منیر نے جواب دیا۔ ’’میڈم اس لیے کہ شاید آج پہلی مرتبہ میں آپ سے اختلاف کرنے کی جرأت کر رہا ہوں۔ ‘‘
’’نہیں ایسا نہیں تم پہلے بھی مجھ سے اختلاف کرتے رہے ہو اور میں نے تمہارے اختلاف کا احترام کیا ہے۔ ‘‘
’’تم ٹھیک کہتی ہو لیکن اس سے پہلے بنیادی طور پر ہم میں اتفاق ہوتا تھا۔ اختلاف محض جزئیات میں ہوتا تھا اس لیے بات بگڑتی نہیں تھی لیکن آج اختلاف بنیادی ہے اس لیے آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ ‘‘
’’ہاں شاید ایسا ہی کچھ ہے۔ ‘‘ مونا نے کہا اور دونوں خاموش ہو گئے۔
تھوڑی دیر بعد مونا بولی۔ ’’دیکھو منیر آج جو کامیابی مجھے حاصل ہوئی ہے اس میں سب سے بڑا حصہ تمہارا ہے۔ آج بورڈ آف ڈائرکٹرس کی میٹنگ میں بھی سب نے اس کا اعتراف کیا لیکن۔۔۔‘‘ مونا رک گئی۔
منیر نے کہا۔ ’’میڈم آپ خاموش کیوں ہو گئیں؟ اپنی بات پوری کیجئے۔ ‘‘
’’بات در اصل یہ ہے کہ‘‘ مونا بولی۔ ’’میں تو چاہتی ہوں کہ تم آگے بھی کامیابی کے اس سفر میں میرے ساتھ ساتھ رہو لیکن ۔۔۔‘‘ مونا پھر رک گئی۔
منیر نے کہا۔ ’’میڈم آپ رک کیوں گئیں؟ آپ اپنی بات پوری کیجئے۔ ‘‘
مونا نے کہا۔ ’’لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہاری یہ ضد ہماری کامیابی کے راستہ کا روڑا نہ بن جائے۔ ‘‘
’’آپ ٹھیک کہتی ہیں میں جانتا ہوں سن ٹکنالوجی کے منیجنگ ڈائرکٹر کا ماں بننا کن مسائل کو جنم دے گا لیکن اب مجھے اپنے سن میں دلچسپی ہے روہت اور مونا کے سن میں نہیں اور تمہیں بھی ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ ‘‘
منیر بات در اصل یہ ہے کہ میرے سامنے آج سب سے بڑی مشکل یہی ہے اور اس سے پہلے میں نے اپنی ہر مشکل کے وقت تم سے رجوع کیا ہے۔ اس لیے اس بار بھی میں یہی کرتی ہوں میں جانتی ہوں کہ میرا تم سے بہتر دوست اور خیرخواہ کوئی اور نہیں ہے اور مجھے پوری امید ہے کہ تمہارا مشورہ میرے حق میں بہترین ثابت ہو گا۔ ‘‘
منیر بولا۔ ’’میڈم میں آپ کے اعتماد کی قدر کرتا ہوں اور میرا مشورہ ہے کہ جس موڑ سے ہماری راہیں جدا ہو جاتی ہیں۔ اس پر ہم دونوں کو الگ ہو جانا چاہئے۔ ‘‘
مونا کو منیر سے ایسی سرد مہری کی توقع نہیں تھی۔ وہ اس کے اس فیصلہ سے سٹپٹا گئی اور بولی۔ ’’کیا کہہ رہے ہو منیر؟ کیا ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو کر زندہ رہ سکتے ہیں؟ ‘‘
منیر بولا۔ ’’میں جانتا ہوں مونا کہ یہ نہایت مشکل کام ہے لیکن اب ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ بھی تو زندہ رہنا اس سے مشکل تر ہے۔ انسان یا توساتھ رہ سکتا ہے یا علیٰحدہ۔ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا متبادل ہمارے پاس نہیں ہے۔ علیٰحدہ رہنا ہماری چاہت نہیں بلکہ مجبوری ہے اور اس لیے ہے کہ زندگی مختلف نقطہ ہائے نظر کے ساتھ ایک ساتھ زندگی گذارنا عملاً غیر ممکن ہے۔ ‘‘
’’لیکن منیر دنیا میں لوگ اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں تو ہم کیوں نہیں گذار سکتے؟ ‘‘مونا نے پوچھا۔
منیر بولا۔ ’’تمہاری بات صحیح ہے لیکن وہ اختلافات جیسا کہ میں نے پہلے کہا فروعی نوعیت کے ہوتے ہیں بنیادی قسم کے نہیں ہوتے اور اگر بنیادی ہوتے ہیں تووہ آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں جو ہم نہیں ہو سکتے اس لیے ۔۔۔‘‘ منیر رک گیا۔
’’اس لیے کیا منیر! اس لیے کیا؟ ‘‘ مونا نے پوچھا۔
’’اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم لوگ احسن طریقہ پر جدا ہو جائیں۔ ‘‘
مونا بولی۔ ’’احسن طریقہ سے ملنا تو سنا تھا لیکن کیا اس طرح کی جدائی بھی ممکن ہے۔ ‘‘
’’ہاں کیوں نہیں اور اب یہی ہو گی۔ ‘‘
’’وہ کیسے؟ ‘‘
’’وہ ایسے کہ میں نے گواہوں کی موجودگی میں وکیل کے توسط سے اور تمہاری مرضی سے تمہیں اپنے نکاح میں لیا تھا۔ ہمارے درمیان ایک بندھن بندھ گیا ایک معاہدہ طے پا گیا تھا۔ اب میں اس معاہدہ کو ختم کیے دیتا ہوں اور تمہیں اس بندھن سے آزاد کر دیتا ہوں۔ پھر اس کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے تئیں زن و شوہر کے رشتہ سے آزاد ہو جائیں گے۔ ‘‘
’’کیا یہ اتنا آسان ہے؟ ‘‘ مونا نے پوچھا۔
منیر بولا۔ ’’ہاں یہ اسی قدرآسان ہے جس قدر اس رشتے کا قائم ہونا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ سہل۔ ‘‘ پھر سے دونوں خاموش ہو گئے۔
کچھ دیر بعد مونا بولی۔ ’’منیر تم ہر مشکل کو آسان کر دیتے ہو لیکن ایک بات بتاؤ آج شام کو میرے تقرری کا جشن منایا جا رہا ہے۔ اسی ہوٹل میں زبردست پارٹی ہے جس میں امریکہ کے بڑے بڑے تاجر، صنعت کار اور پیشہ ور حضرات شریک ہو رہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اس جدائی کے بعد اس پارٹی میں بھی تم شریک نہیں ہوؤ گے۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’مونا تم تو جانتی ہو میں پارٹیوں میں شرکت نہیں کرتا اور اس غیر حاضری کا تعلق جدائی سے نہیں ہے اگر ہم ساتھ ہوتے تب بھی میں شریک نہیں ہوتا۔ ‘‘
’’کیوں؟ آخر کیوں؟ ‘‘ مونا نے پوچھا۔
’’مونا جیسا کہ تم جانتی ہو ہماری کچھ اقدار ہیں جن پر ہم مصالحت نہیں کرتے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ ‘‘
مونا بولی۔ ’’منیر تم آج بھی ویسے ہی ہو جیسے سات سال پہلے تھے اس وقت بھی تمہاری یہی قدریں تھیں جب تم سن ٹکنالوجی سے منسلک ہوئے تھے۔ آج سے چار سال قبل بھی تم انہیں اقدار کے پاسدار تھے جب ہماری شادی ہوئی تھی اور آج بھی تمہاری وہی قدریں ہیں ۔۔۔‘‘ مونا رک گئی۔
منیر نے جملہ پورا کیا۔ ’’جب کہ ہماری طلاق ہو رہی ہے۔ ‘‘
مونا بولی۔ ’’سب کچھ بدل گیا لیکن تم نہیں بدلے ۔۔۔‘‘
منیر نے کہا۔ ’’اور شاید میں نہیں بدلوں گا اس لیے کہ کچھ چیزیں نہیں بدلتیں۔ ‘‘ وہ دونوں پھر خاموش ہو گئے۔
کچھ دیر بعد مونا نے پوچھا۔ ’’منیر میری زندگی کا مقصد اور لائحۂ عمل تو طے ہے اور تم اس سے واقف ہو آج شام کو پارٹی ہے کل سے چار دنوں تک انتظامی اور کاروباری میٹنگیں ہیں اور پھر جمعہ کو ہندوستان واپسی لیکن کیا میں جان سکتی ہوں کہ تمہارا کیا پروگرام ہے؟ ‘‘
منیر بولا۔ ’’میرا پروگرام اس طرح سے ہے کہ میں اب دوسرے کمرے میں منتقل ہو جاؤں گا اس کے بعد شام کی واپسی کا ٹکٹ بک کرا کے ہندوستان روانہ ہو جاؤں گا اور اس کے بعد ۔۔۔‘‘
مونا نے کہا۔ ’’بولو منیر اور اس کے بعد؟ ‘‘
منیر بولا۔ ’’اور پھر اس کے بعد پھر وہی اپنی پرانا پاپولر بک ڈپو۔ اس کی صاف صفائی کروں گا اور اسے کھول کر بیٹھ جاؤں گا۔ ‘‘
مونا نے کہا۔ ’’منیر تم کٹھن سے کٹھن صورت حال میں بھی مذاق کر لیتے ہو۔ یہ تمہاری سب سے بڑی خوبی ہے۔ ‘‘
’’مونا یہ مذاق نہیں حقیقت ہے اور ہرسچائی کی طرح تلخ۔ ‘‘
چند لمحوں بعد بیرا منیر کا سامان منتقل کرنے کی خاطر کمرے میں آ گیا۔ منیر نے اپنا بیگ دے دیا بیرے کے نکل جانے کے بعد۔ وہ دونوں خالی خالی نگاہوں سے بچوں کے کھلونے، کپڑے، جھولا اور گاڑی کو تکنے لگے۔
مونا نے پوچھا۔ ’’یہ سب؟ ‘‘
منیر بولا۔ ’’یہ وہ خواب ہیں جو تمہارے بغیر ادھورے ہیں اس لیے میں انہیں تمہارے ساتھ چھوڑے جاتا ہوں خدا حافظ۔ ‘‘
مونا نے کہا۔ ’’خدا حافظ۔ ‘‘ دروازہ بند کیا اور بچوں کی طرح رونے لگی۔ نہ جانے کتنے سال بعد وہ روئی تھی اور روئی بھی ایسے کہ بس روتی رہی۔ یہاں تک کہ دوپہر کو اس نے روہت کو فون پر بتلایا کہ اس کی طبیعت ناساز ہو گئی اور پارٹی میں شریک ہونے سے معذرت چاہتی ہے۔ روہت پریشان ہو گیا اس نے ڈاکٹر کے ساتھ آنے کی پیش کش کی لیکن مونا نے منع کر دیا۔ اس نے کہا کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس نے گذارش کی کہ اس کے آرام میں خلل اندازی نہ کی جائے۔ روہت کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا لیکن اس نے پھر ایک بار اپنی خدمات پیش کیں اور نیک خواہشات کا اظہار کر کے فون بند کر دیا۔
روہت اور مونا گذشتہ دس سالوں سے ایک ساتھ کام کر رہے تھے لیکن مونا نے اس طرح کے رویہ کا اظہار پہلی بار کیا تھا۔ وہ اس کی کوئی توجیہہ نہیں کر پا رہا تھا خاص طور سے اس دن جس دن سن ٹکنالوجی میں وہ نہ صرف حصہ دار بن گئی تھی بلکہ تمام انتظامی امور کی باگ ڈور بھی اس کو سونپ دی گئی تھی۔
منیر نئے کمرے میں کیا آیا کہ نئی زندگی میں آ گیا۔ ایک ایسی زندگی جس میں سن ٹکنالوجی کا سورج نہ تھا بلکہ اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اس نے کبھی سوچا نہ تھا کہ یہ سورج اس طرح اچانک غروب ہو جائے گا۔ پچھلی مرتبہ رات کے بعد آنے والی رات اس کی زندگی میں نئی صبح بن گئی تھی اور اس مرتبہ دن کے بعد آنے والا دن اس کو اماوس کی رات لگ رہا تھا۔ امریکہ کی رات بھر اور ہندوستان کے دن بھر جاگنا اپنا اثر دکھلا رہا تھا وہ سو گیا۔ شام میں فون کی گھنٹی بجی یہ جگانے والا خودکار فون تھا وہ اٹھا اور سامان سمیٹ کر نیچے آ گیا۔
کار ایئر پورٹ جانے کے لیے تیار تھی۔ ہوٹل سے ایئر پورٹ کے راستہ میں جب کار ’’زیرو لینڈ‘‘ کے پاس سے گذرنے لگی تو اس نے ڈرائیور سے کہا وہ گاڑی روک دے۔ منیر نیچے اُترا اور جنگلے کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ کسی قبرستان کی دیوار کے پاس کھڑا ہوا جڑواں ٹاور کی یادگار کو دیکھ رہا ہے۔ جیسے یہ دو قبریں ہیں جن کے نیچے مونا اور منیر کی محبت دفن ہے۔ اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے اور زمین میں جذب ہو گئے۔ منیر نے آنکھوں کو پونچھا اور واپس گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی کے ڈرائیور نے سوچا کہ شاید منیر اپنے کسی عزیز کی موت پر آنسو بہا رہا ہے حالانکہ وہ اپنی محبت کا ماتم کر رہا تھا۔
منیر کو براہِ راست فائیٹ میں نشست نہیں مل سکی اس لئے وہ لندن سے ہوتا ہوا لوٹ رہا تھا۔ نیو یارک سے لندن کے درمیان منیر نے اپنے آپ کو دوبارہ پرانے حالات میں ایڈجسٹ میں لگا رہا۔ وہ دوکان، وہاں کے حالات، وہاں کے گاہک اور پھر بات جب مونا تک پہونچی تو وہ پریشان ہو گیا۔ اپنی پریشانی کو دور کرنے کے لیے اس نے آنکھیں بند کر لیں اور جب آنکھ کھلی تو جہاز لندن ایئر پورٹ پر اُتر چکا تھا۔ یہاں اسے دو گھنٹہ گذارنا تھا اور اس کے بعد جب وہ ممبئی کی فلائیٹ میں سوار ہوا تو اپنے بغل میں ویپرو کے عظیم پریم جی کو دیکھ کر چونک گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا تعارف کراتا عظیم بھائی نے خود اپنا تعارفی کارڈ منیر کو تھما دیا اور کہا ’’مجھے عظیم پریم جی کہتے ہیں۔ ‘‘
منیر نے اپنا کارڈ بڑھایا تو اسے دیکھ کر عظیم پریم جی چونک پڑے اور بولے
’’اوہ منیر مونا گونسالویس۔ ‘‘
’’نہیں جناب میرے کارڈ پر منیر عباس بک والا لکھا ہوا ہے۔ ‘‘
’’ہاں ہاں میں دیکھ رہا ہوں لیکن ہماری دنیا میں مونا کو مونا منیر عباس اور منیر کو منیر مونا گونسالویس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ میں جانتا ہوں تم دونوں نے مل کر سن ٹکنالوجی کو کہاں سے کہاں پہونچا دیا ہے۔ کیا تمہیں پتہ ہے تمہارے مسابقین تمہیں کس نام سے یاد کرتے ہیں؟ ‘‘
’’نہیں۔ ‘‘ منیر بولا۔
’’راہو کیتو۔ اس لیے کہ تم دونوں جس پروجکٹ میں ہاتھ ڈال دیتے ہو پھر اس سے متعلق تمام لوگوں کے ستارے گردش میں آ جاتے ہیں۔ لوگ واقعی مونا اور منیر کے ساتھ کو رشک و حسد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’آپ کی باتیں درست ہیں لیکن اب یہ سب تھا ہو چکا ہے۔ ‘‘
’’اچھا۔ کیا مطلب؟ ‘‘ عظیم نے پوچھا۔
’’میں نے سن ٹکنالوجی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ ‘‘
’’یہ خبر عظیم کے لیے بجلی سے کم نہ تھی وہ جانتا تھا کہ اس کے اول نمبر کی پوزیشن کو سب سے زیادہ خطرہ سن ٹکنالوجی سے ہے اور سن سے مراد مونا اور منیر سے۔ ان دونوں کا جدا ہو جانا اس کے لیے سب سے بڑی خوش خبری تھی لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ دونوں دوبارہ ایک دوسرے سے جا ملیں اور ایسا کرنے سے روکنے کی بس ایک صورت تھی۔ عظیم پریم جی کا دماغ سپر کمپیوٹر سے بھی زیادہ تیز کام کر رہا تھا۔ اس نے منیر سے کہا۔
’’منیر ویپرو میں ٹاپ پوزیشن خالی ہے یہ تو تمہیں پتہ ہی ہو گا۔ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’نہیں میں نے آج تک سن کے باہر کیا کچھ ہو رہا ہے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ‘‘
’’ہاں ہاں جانتا ہوں ویسے بھی مسابقین کی خبر رکھنا یا لینا مونا کا شعبہ ہے۔ خیر میں تمہیں ویپرو میں وہ پوزیشن آفر کرتا ہوں۔ ہمارے یہاں تمہیں وہ سب ملے گا جو سن ٹکنالوجی میں حاصل تھا بلکہ اس سے زیادہ اور ایک خاص بات یہ ہے کہ تم ہمارے یہاں منیر کی جگہ نہیں بلکہ مونا کے مقام پر فائز ہو جاؤ گے۔ ‘‘
تقدیر کے اس اُلٹ پھیر نے منیر کو دیوانہ بنا دیا تھا۔ لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ منیر، مونا بن جانے کے باوجود کیا مونا کے بغیر خوش رہ سکے گا؟ اور کیا مونا، منیر کے بغیر خوش رہ سکے گی؟
’’نہیں شاید نہیں۔ ‘‘ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔
عظیم نے پوچھا۔ ’’ کیا نہیں؟ ‘‘
منیر نے کہا۔ ’’نہیں نہیں میرا مطلب ہے ہاں ہاں مجھے آپ کی پیشکش منظور ہے۔ میں آپ کی کرم فرمائی کے لیے آپ کا مشکور ہوں۔ ‘‘
دو گھنٹے بعد منیر اس مقام پر پہونچ گیا تھا جہاں مونا دوسال بعد پہونچنا چاہتی تھی۔
چوسر کا محور
دگڑو ایک چوسر کی بساط پر محوِ خواب تھا۔ اس کی بساط حیات کے ہر کونے پر ایک جانور براجمان تھا۔ دگڑو کے بائیں جانب ایک چاک و چوبند مرغا کھڑا تھا جو عبادت و ریاضت کی علامت تھا اور دائیں طرف شاہی گھوڑا تیار تھا جو سیر تفریح کے کام آتا تھا۔ اس کے پیروں میں ایک حسین و جمیل گائے بندھی ہوئی تھی جس نے دگڑو کی معاشرت کو اپنی سینگ پر سنبھال رکھا تھا اور اوپرسر کی جانب وہ تنومند بیل بیٹھا ہوا تھاجواس کی معیشت کا بوجھ اٹھاتا تھا۔ ان چاروں کا مرکز و محور دگڑو پہلوان چین و سکون کی نیند میں غرق تھا کہ صبح کاذب کو نمودار ہوتا ہوا دیکھ کر مرغا اذان دینے لگا۔ دگڑو کی بیوی چھمیا بیدار ہو گئی اور غسل خانے میں جا کر نماز کی تیاری کرنے لگی۔ مرغے نے ایک نظر دگڑو پر ڈالی تو حیران رہ گیا۔ یہ کیا؟ ککڑوں کوں کی ک‘‘ سے بیدار ہو جانے والا دگڑو ہنوز سو رہا تھا۔
مرغے نے پھر ایک بار اذان دی۔ ایسی طول طویل اور گرجدار اذان کہ مردے بھی اپنی قبروں سے نکل کر باہر آ جائیں لیکن دگڑو پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ چھمیا نے دور سے دگڑو کے بے حس و حرکت جسم کو دیکھا تو اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں دگڑو مر تو نہیں گیا، اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز تو نہیں کر گئی؟ اس لئے کہ اس کی طویل ازدواجی زندگی میں ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ عام طور پریہ چھمیا کا معمول تھا کہ جس میں اس روز دگڑو گرفتار تھا۔ روزانہ دگڑو اول تو چھمیا کو جگا کر حمام میں جاتا اور واپس آ کر پھر اس کے چہرے پر پانی مارتا تب جا کر وہ بیدار ہوتی۔ اس کے بعد دگڑو مسکرا کر سلام کرتا اور اپنی جا نماز کی جانب بڑھ جاتا نیز چھمیا غسل خانے کا رخ کرتی۔
چھمیا نے واپس ہوتے ہوئے سوچا کیوں نہ دگڑو کے منہ پر چھڑ کنے کے لئے چلو ّمیں پانی لے لیا جائے؟ لیکن پھر خیال ہوا لاش پر بھلا چھینٹوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟ جس کو صور اسرافیل بیدار کرنے میں ناکام ہو جائے، پانی کے چند قطرے اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ چھمیا کو دگڑو کی موت سے زیادہ افسوس اس کے اس طرح سوئے پڑے رہنے کا تھا۔ موت تو یقینی ہے۔ اسے ایک نہ ایک دن آنا ہی ہے اور اگر آج آنا تھا تو آ گئی اس میں کیا عجیب ہے؟ لیکن مرغا اذان دے اور دگڑو نہ اٹھے یہ یقیناً حیرت انگیز ہے۔
چھمیا سوچنے لگی کہ اگر دگڑو کو مرنا ہی تھا تو اس نے اس وقتِ خاص کا انتخاب کیوں کیا؟ رات جس طرح اچھا بھلا سویا تھا۔ اسی طرح صبح اٹھتا۔ نماز پڑھتا۔ مویشیوں کو چارہ ڈالتا۔ کھیت میں جاتا۔ واپس آتا۔ کھانا کھاتا۔ اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر سیرو تفریح کیلئے جاتا۔ گھر آ کر بچوں کے ساتھ دل بہلاتا۔ اس کے بعد چھمیا سے دن بھر کی روداد کہہ سن کر سو جاتا اور مر جاتا۔ یہ علی الصبح جاگنے کے وقت موت کے منہ میں چلے جانا کسی طور پر مناسب نہیں تھا۔ لیکن چھمیا نہیں جانتی تھی کہ جیسا وہ چاہتی تھی بعینہٖ ویسا ہی ہوا تھا۔ دگڑو نے کل وہی سب کیا تھا جو چھمیا آج پھر اس کو کرتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے چھمیا ہر روز دگڑو کو وہی سب کرتے دیکھنا چاہتی تھی۔
اپنی شادی کے بعد سے چھمیا یہ سب دیکھنے کی اس قدر عادی ہو گئی تھی کہ وہ چاہتی تھی دگڑو ان کاموں سے کبھی بھی باز نہ آئے۔ جس کے معنیٰ یہی تھے کہ وہ مرے ہوئے دگڑو کو دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ چھمیا یہ بھی جانتی تھی کہ اس دارِ فانی میں سب کچھ ممکن لیکن یہ نا ممکن ہے کہ دگڑو کو موت نہ آئے لیکن اس کے باوجود چھمیا یہ چاہتی تھی کہ دگڑو کو موت نہ آئے وہ تا قیامت زندہ رہے یا کم از کم اس کی موت سے قبل تو ہر گز موت کی آغوش میں نہ جائے۔ وہ دگڑو کی موت کو بھی اپنے قبضہ قدرت میں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو دگڑو کی زندگی اور موت کا مالک جو سمجھنے لگی تھی۔
دگڑو کی سوچ بھی چھمیا سے مختلف نہیں تھی۔ وہ بھی اپنے ہوتے چھمیا کو کسی کی آغوش میں جانے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔ وہ موت کے پنجوں سے بھی چھمیا کو چھڑا کر لانے کا عزم و حوصلہ اپنے اندر رکھتا تھا۔ وہ اس مقصد کے حصول کیلئے اپنی جان کی بازی لگا سکتا تھا اس لئے کہ چھمیا کے بغیر زندہ رہنا اس کیلئے ایک بے معنیٰ شغل تھا۔ ایک ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہ ہو۔ چھمیا اس کی نہ صرف ہمسفر تھی بلکہ منزل مقصود بھی تھی۔
چھمیا نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ دگڑو کی پیشانی پر رکھا تو اسے بجلی کا جھٹکا لگا۔ اس کا اپنا ہاتھ سرد تھا اور دگڑو کی پیشانی گرم تھی۔ دگڑو زندہ تھا، چھمیا کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ مرغے نے ایک نہیں دو بار اذان دی اور پھر بھی دگڑو نہیں اٹھا۔ باوجوداس کے کہ وہ زندہ ہے! تو یہ کیسی زندگی ہے؟ بے یقینی کے عالم میں چھمیا نے اپنی انگلی دگڑو کے نبض پر رکھ دی اوراس کے حیرت کی انتہا نہ رہی۔ نبض بدستورچل رہی تھی دگڑو کی رگوں میں خون زور و شور سے دوڑ رہا تھا لیکن اس کا جسم بے حس و حرکت پڑا تھا۔ چھمیا اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھی۔ مرغے کی آواز کے بعد چھمیا کا لمس بھی دگڑو کو بیدار کرنے میں ناکام ہو چکا تھا۔
چھمیا نے سوچا اسے نماز پڑھ لینی چاہیئے ورنہ سورج اس کا مذاق اڑائے گا کہے گا بے وقوف عورت وہ تو سو رہا تھا اس لئے نماز نہ پڑھ سکا لیکن تو ! تو تو جاگ رہی تھی۔ تجھے اپنے رب کے سامنے حاضری دینے سے کس چیز نے روک رکھا تھا؟ چھمیا بوجھل قدموں کے ساتھ جا نماز پر آ کر کھڑی ہو گئی۔ آج پہلی بار اس کے پاس پڑی دگڑو کی جا نماز ویران تھی۔ مرغے نے بھی یہ منظر اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس صورتحال کیلئے اس نے اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرایا اور دگڑو کے سوئے پڑے رہنے کو اپنی ناکامی پر قیاس کیا۔ اب کیا تھا غم و غصہ کے عالم میں اس نے تیسری اور فیصلہ کن اذان کا آغاز کر دیا۔
چھمیا دنیا اور مافیہا سے بے نیاز اپنی نماز میں کھوئی ہوئی تھی۔ وہ تھی اور اس کا رب تھا۔ سارے جہان میں کچھ اور نہیں تھا۔ نہ دگڑو تھا، نہ مرغا، نہ بچے تھے اور نہ گھوڑا۔ نہ گائے تھی، نہ بیل تھا، نہ کھیت تھا اور نہ گھر۔ سب کچھ موجود تھا اس کے باوجود کچھ بھی نہیں تھا۔ بس وہ تھی اور اس کا رب تھا۔ چھمیا اپنے رب سے سرگوشی کر رہی تھی اور مرغا اذان دے رہا تھا۔ دل کی گہرائی سے اٹھنے والی اس اذان نے سارے عالم کو بیدار کر دیا تھا۔ سورج اپنی گھڑی دیکھتا ہوا طلوع ہو رہا تھا مبادا اس سے تاخیر تو نہیں ہو گئی جو مرغا اس قدر غضبناک ہو رہا ہے۔ مرغے کی اس دیوانہ وار اذان نے شجر، حجر، ہوائیں، فضائیں اور کوہ و دمن سب کی نیند اڑا دی تھی۔ دگڑو کے دو ننھے بچے جو دیر گئے سونے کے عادی تھے وہ بھی جاگ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے پہلو سے اپنی ماں کو غائب پایا تو چیخ چیخ کر رونے لگے۔
دنیا میں آنے کے بعد یہ ان بچوں کا دوسرارونا تھا۔ چھمیا ان کا اس قدر خیال رکھتی تھی کہ کبھی اس کی نوبت ہی آنے نہ دیتی۔ ان کی ہر ضرورت رونے چیخنے سے پہلے ہی پوری کر دیتی اور پھر ان معصوم بچوں کی ضرورتیں بھی کیا تھیں؟ نہایت ہی مختصر سی بھوک انہیں رلا سکتی تھی مگر چھمیا اس کے لگنے سے پہلے ہی انہیں کھلا پلا دیتی تھی۔ چھمیا کی ممتا کے آغوش میں وہ معصوم بچے دن رات کھیلتے کودتے، کھاتے پیتے اور سوتے جاگتے رہتے تھے۔ وہ کھیلتے کھیلتے تھک جاتے تو سو جاتے اور سوتے سوتے تھکتے تو کھیلنے لگتے۔ درمیان میں کھا پی لیتے تھے اس لئے کہ ایندھن کے بغیر یہ گاڑی چل نہیں سکتی تھے۔ غذا کے بغیر نہ کھیلنا ممکن تھا اور نہ سویا جاتا تھا۔
بچوں کی چیخ پکار نے دگڑو کو بیدار کر دیا۔ وہ بیداری کے عالم میں بھی خواب دیکھ رہا تھا۔ وہ اس خواب سے بیدار ہونا نہیں چاہتا تھا۔ خواب کا ایک ایک منظر اس کی آنکھوں کے آگے تیر رہا تھا۔ وہ حسین مناظر کے سرورمیں مست تھا لیکن بچے تھے کہ سارا مزہ کر کرا کئے دے رہے تھے۔ اسے یاد آیا ان بچوں کا پہلی بار رونا اسے کس قدر بھلا معلوم ہوا تھا۔ ایک رونے کے ہزار معنی تھے۔ پیدائش کے بعد رونے کی آواز سن کر دگڑو جھوم اٹھا تھا۔ دائی نے کہا تھا زندہ ہے ! صحتمند ہے ! قوت گویائی کا حامل ہے ! اسے بھوک لگی ہے ! یہ غذا کا طلبگار ہے ! اس کیلئے ہاتھ پیر مار رہا ہے ! اِدھر اُدھر تاک رہا ہے !
دگڑو جاگتے ہی بچوں کو بہلانے پھسلانے میں جٹ گیا۔ وہ اس بات کو پوری طرح بھول گیا کہ صبح کے وقت نماز بھی پڑھی جاتی ہے۔ مرغا، گائے، بیل اور گھوڑا سبھی اس منظر کو حیرت سے دیکھ رہے تھے لیکن سب سے زیادہ حیران چھمیا تھی۔ اس کیلئے ایک لاش اپنی جگہ پر اٹھ بیٹھی تھی۔ چھمیا نے قریب آ کر غصہ سے کہا یہ کیا؟ نماز وماز نہیں پڑھنی ہے کیا؟
نماز؟ کیسی نماز؟ ؟ دگڑو بولا سورج آنسو بہا رہا تھا اور ابلیس قہقہہ لگا رہا تھا۔ مرغا جھلا رہا تھا۔ بچے رو رہے تھے اور چھمیا شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔
چھمیا کی آہٹ نے بچوں کو چپ کر دیا۔ ایک کلکاریاں مارنے لگا دوسرا تالی بجانے لگا دگڑو کیلئے یہ ماجرہ باعث حیرت تھا۔ جو بچے ہزار جتن کرنے پر نہیں مان رہے تھے اچانک چپ کیسے ہو گئے؟ دگڑو اپنے آپ سے یہ سوال کر رہا تھا وہ بے چارہ نہیں جانتا تھا کہ بچوں کو جو کچھ چاہیئے تھا سو مل گیا۔ ان کیلئے ماں ہی سب کچھ تھی۔ د گڑو کی ان کے نزدیک نہ کوئی حیثیت تھی اور نہ ضرورت، اس لئے وہ شور مچا رہے تھے۔ چھمیا کے پاس آتے ہی شور شرابے کی ضرورت ہی ختم ہو گئی تھی۔ چھمیا نے دونوں بچوں کو چھاتی سے لگایا اور وہ کھانے پینے میں لگ گئے۔ ان کا کھانا بھی وہی تھا اور پینا بھی وہی۔
چھمیا نے دگڑو سے پوچھا آج آپ کو یہ کیا ہو گیا؟ ایسا تو پہلے کبھی بھی نہیں ہوا؟ ؟
دگڑو ندامت بھرے انداز میں بولا جی ہاں چھمیا نہ جانے کیوں آنکھ ہی نہیں کھلی
آنکھ نہیں کھلی یا نہیں کھولی؟ چھمیا نے پوچھا
دونوں سمجھ لو اول تو کھلی نہیں اور جب کھلی بھی تو میں نے بند کر لی
چھمیا نے حیرت سے سوال کیا بند کر لی؟ کیا مطلب؟
مطلب یہ کہ بند کر لی اور کیا؟
یعنی جان بوجھ کر؟ اس کی کوئی وجہ بھی ہے یا بس یونہی۔۔ ۔۔ ۔۔
دگڑو بولا رات کی تھکن اور رات کا سرورنے مجھے اپنے پنجوں میں جکڑ لیا تھا چھمیا۔ میں ان سے اپنے آپ کو آزاد نہ کر سکا اور نہ جانے کب تک اس خمار میں گرفتار رہتا لیکن کمبخت اس مرغے نے سارا مزہ کر کرا کر دیا۔
مرغے نے؟ اس بیچارے نے ایسا کیا کیا جو آپ اس سے ناراض ہو رہے ہیں؟
دگڑو بولا آج تو ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔
چھمیا بگڑ کر بولی اس کا یا تمہارا؟ اس نے تو وہی کیا جو وہ ہر روز کرتا ہے ! کون سا نیا کام کر دیا اس غریب نے؟ ہر دن وہ اذان دیتا ہے اور تم اس کے ہر فقرے کا جواب دیتے ہو۔ یہی تو تمہارا چہیتا پرندہ بھی ہے چرندہ بھی۔ علی الصبح تمہیں جگاتا ہے۔ کھیت کے راستہ میں دور تک تمہارے پیچھے جاتا ہے اور شام کے وقت آنگن میں نکل کر تمہاری راہ دیکھتا ہے۔ تمہیں پتہ ہے کل جب تم رات دیر گئے تک نہیں آئے تو تمھارے فراق میں اس نے دانہ دنکا کچھ بھی نہیں چگا۔ میں نے سمجھایا پچکارا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا وہ ایک ٹک راستہ کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ اندھیرے نے راستے کو نگل لیا اور نیند مرغے کو نگل گئی۔
اور تم خود بھی سو گئیں؟ دگڑو نے سوال کیا
جی ہاں میں بھی سو گئی اورسوتی نہیں تو کیا کرتی؟ دن بھر بچے، گھر، مویشی، کھانا، صفائی اور پھر جلدی اٹھنا بھی تو تھا۔ اگر رات گئے جاگتی تو صبح اٹھنے میں دقت ہوتی۔
اور ہاں یہ مرغا بھی تو ہمارے آرام کا دشمن ہے۔ یہ کب ہمیں اپنی نیند پوری کرنے دیتا ہے۔ دگڑو بولا
آپ بلا وجہ اس پر ناراض ہو رہے ہیں ! اس کا کیا قصور اس نے اپنا کام کیا، سوچا ہو گا کہ اگر آپ نہ جاگیں گے تو اس سے ناراض ہو جائیں گے۔
دگڑو بولا تم اس کی زیادہ طرفداری نہ کرو۔ یہ بڑا خودسر ہو گیا ہے اس کا کچھ نہ انتظام کرنا ہی ہو گا۔ ایک بار اذان دی ٹھیک ہے۔ دوسری بار اس کی کیا ضرورت تھی اور تیسری بار تو حد ہو گئی۔
چھمیا نے تعجب سے پوچھا تیسری بار؟
جی ہاں اس کی تیسری اذان سے ہی تو بچے جاگے تھے اور تم کو اپنے پاس نہ پا کر رونے لگے۔ مجبوراً مجھے اٹھنا پڑا اور تم۔
چھمیا منھ بسور کر بولی اور میں کیا؟ بچوں کو میں نے تو نہیں جگایا جو تم مجھ پر برہم ہو رہے ہو؟
نہیں ایسی بات نہیں مگر تم نہ جانے کتنی لمبی نماز پڑھ رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا گویا اپنی زندگی کی آخری نماز پڑھ رہی ہو۔ دگڑو نے جھلا کر کہا
چھمیا بولی نماز تو ایسے ہی پڑھی جاتی ہے۔ کیا کوئی اور طریقہ بھی ہے نماز کا؟
ارے بھئی عمر پڑی ہے ! اور بھی تو غم ہیں زمانے میں، ان کا بھی تو پاس و لحاظ کرنا چاہئے یہ کیا کہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر کھڑے ہو گئے۔ کیا ہر نماز آخری نماز ہو سکتی ہے؟
آپ کی منطق بجا ہے لیکن یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ کون سی والی آخری ہو گی؟
چھمیا ایک بات بولوں آج کل تم بھی اس مرغے کی مانند زبان دراز ہو گئی ہو۔ دونوں کسی چیز کے پیچھے پڑ جاتے ہیں تو مانتے ہی نہیں۔ دگڑو بیزاری و غصے سے بولا۔
چھمیا گھبرا گئی اس لئے کہ اب یہ بلا مرغے سے مڑ کر اس کی جانب آ رہی تھی۔ وہ بولی سچ تو یہ ہے کہ میں نے نہ تو مرغے کی تیسری بانگ سنی اور نہ بچوں کے رونے کا شور، خیر آپ منہ ہاتھ دھو لیں، کیا آج کھیتی باڑی کی چھٹی ہے؟
کیسی باتیں کرتی ہو چھمیا۔ کھیت نہیں جاؤں گا تو ہم کھائیں گے کیا؟ بچے دوبارہ سوچکے تھے۔ دگڑو غسل خانے کی جانب مڑا اور چھمیا باورچی خانے میں جا کر ناشتہ بنانے لگی۔ تھوڑی دیر تک اس نے دگڑو کے رویہ میں آنے والی تبدیلی پر غور کیا لیکن جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو یہ سوچ کر وہ خیال جھٹک دیا کہ دماغ پر زور ڈالنے سے بہتر ہے آٹا گوندھا جائے اور پراٹھے سینکے جائیں۔ آلو کے گرم گرم پراٹھے جو دگڑو کو بے حد پسند ہیں۔
گھر میں بنے اصلی گھی کے پراٹھوں کو مٹی کے برتن میں جمے ہوئے دہی کے ساتھ کھا کر دگڑو کی طبیعت مست ہو گئی۔ اب وہ گرما گرم چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ چھمیا نے سوال کر دیا رات کہاں نکل گئے تھے؟
دگڑو نے ٹھنڈی سانس بھر کے کہا چھمیا تم کیا جانو کہ دنیا کس قدر حسین و رنگین ہے۔
چھمیا نے پہلی بار دگڑو کی زبان سے اپنے علاوہ کسی اور کے حسن کی تعریف سنی تھی۔ وہ چڑ کر بولی مجھے پتہ ہے میں بھی زمین ہی پر رہتی ہوں آسمان پر نہیں رہتی۔
چھمیا تم نہیں جانتیں یہ جنگل، پہاڑ، جھرنے کتنے خوبصورت اور دلفریب ہیں۔ کھلے پربت پر ہواؤں اور فضاؤں میں کیسی تازگی اور سرور پایا جاتا ہے۔ کل میں اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر دور جنگلوں میں نکل گیا تو پتہ چلا کہ قدرت کے مناظر میں عجب نغمگی ہے۔ بس یہ سمجھ لو طبیعت میں تازگی آ گئی اور سارا وجود روئی کے گالے کی مانند ہلکا پھلکا ہو گیا۔
ہلکا ہو گیا؟ چھمیا نے دگڑو کا جملہ دہرایا پہلے تو تم صبح صبح پھول کی مانند ہلکے پھلکے اٹھتے تھے جبکہ آج پتھر کی طرح ساکت و جامد پڑے ہوئے تھے۔ یہ کون سی تازگی ہے بھلا؟
چھمیا تم اس گھر کی چہار دیواری میں بند رہنے والی ایک بے وقوف عورت ہو تمہیں کیا پتہ کہ رات کیا ہوتی ہے؟ وہ اپنے اندر کیا کیا نیرنگیاں رکھتی ہے؟ میں تو صبح تک اس کے خمار میں مست تھا۔
لعنت ہو ایسے خمار پر جو صبح کا سرور چھین لے۔ کیا صبح میں کچھ بھی نہیں ہوتا؟
ہاں ہاں تو میں کب اس کا منکر ہوں۔ زندگی کی ابتداء تو سویرا ہی ہے۔ ابھی گنگا جمنا کے سامنے چارہ ڈال کر میں کھیت میں جانے کی تیاری کرتا ہوں۔ تم جمنا کا دودھ دوہنا میں گنگا کو اپنے ساتھ لے کر کھیت نکل جاتا ہوں۔
چھمیا نے مرغے کی جانب دیکھ کر کہا کیا صبح میں کچھ اور نہیں ہوتا؟
میں سب جانتا ہوں۔ تم مجھے نصیحت نہ لگاؤ۔ چھمیا چپ ہو گئی
ناشتے کے بعد دگڑو نے گنگا اور جمنا کو نہلانے دھلانے کے بعد ان کے آگے چارہ ڈالا اور خود کھیت میں جانے کیلئے کپڑے بدلنے لگا۔ لوٹا تو دروازے پر گنگا اور مرغا حسبِ معمول منتظر تھے۔ اسے آتا ہوا دیکھ کر دیکھ کر وہ دونوں بھی چل پڑے لیکن دگڑو کے اندر کا احساسِ جرم مرغے سے آنکھیں چرا رہا تھا۔ مرغا اس روز دگڑو کے ساتھ بہت دور تک اس امید میں چلتا رہا کہ دگڑو اسے واپس جانے کا اشارہ کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
مرغے کے قدم بالآخر جم گئے وہ راستے ہی میں بیٹھ گیا اور دگڑو کو اپنے سے دور جاتا ہوا دیکھنے لگا۔ دور بہت دور کہیں دور۔ حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ایسا تو ہر روز ہوتا تھا کہ دگڑو راستے میں ساتھ چھوڑ جاتا لیکن چونکہ بچھڑنے سے قبل وہ مرغے کو پیار سے گھر کی جانب روانہ کر دیتا تھا اس لئے یہ منظر دیکھنے کی نوبت پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔
مرغے نے ٹھہر کر سوچا یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟
ان سوالات کے جواب میں اس کا اپنا نفس بولا۔
اے بیوقوف مرغے تو کس کے پیچھے چلا جا رہا ہے؟
اب تیرے آقا کو تیری ضرورت نہیں رہی۔
اب تو اس کا اثاثہ نہیں بلکہ اس پر بوجھ بن چکا ہے۔
خوددار مرغا کسی پر بوجھ بن کر زندگی گزارنا نہیں چاہتا تھا اس نے اپنے مستقبل کے بارے میں ایک حتمی فیصلہ کر کے جنگل کا رخ کیا۔ اس جنگل کا جس کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ چل پڑا اور نہ جانے کب تک یونہی بے شعوری کے عالم میں چلتا چلا گیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
دگڑو کھیت میں پہونچتے ہی کام لگ گیا۔ گنگا کو ہل سے جوت کر چلانے لگا۔ دوپہر تک زمین نرم اور اس کا دماغ گرم ہو گیا۔ بھوک کی آگ اس کے سارے وجود کو جھلسا رہی تھی۔ ایسے میں چھمیا شبنم کی ٹھنڈک بن کر نمودار ہو گئی۔ وہ دونوں ایک گھنے پیڑ کے سائے میں بیٹھ گئے۔ پتے پنکھا جھل رہے تھے ان کی نمی ہوا کو خوشگوار بنا رہی تھی اور پھر گرم گرم گھی لگی روٹیاں، ساگ پنیر کے ساتھ ٹھنڈی لسی سب کچھ دلپذیر تھا۔ چھمیا پہلے دگڑو کو کھلاتی رہی اور جب وہ فارغ ہو گیا تو اس کی طشتری میں خود کھانے لگی۔
دگڑو پیڑ کے تنے سے ٹیک لگا کر سستا رہا تھا وہ شام کی سیر و تفریح کے بارے میں سوچ سوچ کر محظوظ ہو رہا تھا کہ اچانک اسے صبح کا خیال آیا اور پھر وہ مرغے کے بارے میں غور کرنے لگا۔ مرغا جو اس کا دشمن بنا ہوا تھا۔ اس کی نیند کا بیری، اس کی فرحت و شادمانی کا سوتن، جس نے صبح سویرے اس کی نیند غارت کر کے سارا مزہ کر کرا کر دیا تھا۔ چھمیا نے ہینڈ پمپ سے پانی نکال کر برتن دھوئے اور ایک برتن میں وضو کا پانی لے آئی۔
معمول تو یہ تھا کہ دگڑو کچھ دیر سستانے کے بعد ظہر کی نماز پڑھتا اور کام میں لگ جاتا چھمیا اپنے گھر کی جانب چل پڑتی۔ دگڑو وضو کر رہا تھا۔ چھمیا جا نماز بچھا کر اپنی گٹھری باندھ رہی تھی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد دگڑو پھر ایک بار اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ جب شام کے سائے لمبے ہونے لگے تو اس نے گنگا کے آگے چارہ پانی ڈالا۔ خود وضو کر کے نمازِ عصر ادا کی اور اپنے گھر کی جانب نکل پڑا۔ کھیت سے گھر آتے آتے مغرب کا وقت ہو جاتا تھا۔
دگڑو کا معمول تھا گھر آ کر مغرب کی نماز ادا کرنا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر سیر کیلئے نکل جانا۔ عشاء تک واپسی اس کے بعد کھانا اور آرام تاکہ علیٰ الصبح اٹھ کر دوبارہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا جا سکے۔ لیکن گزشتہ کل اس میں ایک معمولی سی تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ وہ عشاء تک لوٹ کر آنے بجائے دور دراز کے پربت پر نکل گیا اور واپس آتے آتے اس قدر تھک گیا کہ نماز پڑھے بغیر ہی بستر پر اس طرح ڈھیر ہوا کہ فجر کی نماز بھی ادا نہ کر سکا تھا لیکن اس کو کوئی افسوس نہیں تھا۔ اپنی تفریح سے شاداں و فرحاں وہ اب کچھ اور آگے جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لیکن دگڑو بھول گیا تھا کہ جتنی لمبی مسافت اتنا زیادہ وقت اور اتنی ہی زیادہ تاخیر۔ دگڑو کسی ایسی ترکیب کے بارے میں سوچنے لگا جس کی مدد سے اپنے دن کو ۲۴ کے بجائے ۳۶ گھنٹے کا بنا سکے لیکن یہ بھلا کس کیلئے ممکن تھا جو اس کے لئے ممکن ہوتا؟
دگڑو کو اس بات کا افسوس تھا کہ اس قدر شاندار گھوڑا رکھنے کے باوجود وہ اپنی سیرو تفریح پر کس قدر کم وقت صرف کرتا تھا۔ لیکن اس کے معمولاتِ زندگی کسی رد و بدل کی اجازت ہی نہ دیتے تھے۔ اس ادھیڑ بن میں اس کے اندر چھپی لومڑی نے ترکیب سجھائی کیوں نا معمولات حیات میں معمولی سی تبدیلی کر کے وقت نکالا جائے؟
اس سوال نے ایک نئے سوال کو جنم دیا کہ آخر وہ کون سی تبدیلی ہے جو سب سے کم بے ضرر ہے؟ دگڑو زندگی میں پہلی بار خود اپنے بارے میں سوچ رہا تھا وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنے روز و شب کی سرگرمیوں کا جائزہ لے رہا تھا تاکہ سیرو تفریح کے اوقات میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس لئے کہ کسی نہ کسی غیر ضروری یا کم اہم کام کو کم کرنا لازمی تھا۔
اپنے دن کی ابتدا میں اسے جمنا نظر آئی لیکن اس پر صرف ہونے والے وقت میں کسی قسم کی کمی خطر ناک ہو سکتی تھی۔ جمنا کے دودھ پر اس کا پورا خاندان انحصار کرتا تھا۔ کس قدر مفید فردِ خانہ تھی یہ گنگا؟ دودھ، دہی، لسی، گھی اور پنیر سب کچھ اسی کی بدولت تھا۔ اس کی حق تلفی خود اپنی ذات سے لے کر بیوی بچوں تک کو ناحق پریشان کرنے کے مترادف تھی۔ دگڑو کی معاشرت کا محور یہی جانور تھا۔ اسی کے ساتھ دگڑو کی نگاہ میں جمنا کا احترام بڑھ گیا۔
جمنا کے بعد دگڑو کی توجہ گنگا کی جانب مبذول ہوئی تو اسے پتہ چلا یہ تو معیشت کی شاہِ کلید ہے اگر وہ گنگا کے ساتھ کھیت میں آ کر کام نہ کرے تو سارا خاندان بھوکوں مر جائے گا۔ موت کے خیال سے خوفزدہ ہو کر دگڑو نے گنگا کے بارے میں سوچنا بند کر دیا۔ اب لے دے کہ اس کی مختصر سی کائنات میں مرغا بچ گیا تھا جس کا بظاہر کوئی خاص فائدہ نہیں تھا۔ مرغا بس ایک کام کرتا تھا۔ صبح صبح اذان دے کر اسے بیدار بلکہ بیزار کرنے کا کام۔ اب وہ مرغے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کس طرح اس کا گلا گھونٹا جائے کیونکر اسے اپنی حرکت سے باز رکھا جائے۔ اسی اُدھیڑبن میں وہ گاؤں کے بازار سے گذر رہا تھا کہ اس کی نظر بڑھئی کی دوکان میں سجے ڈربے پر پڑی۔
دگڑو نے پوچھا یہ کیا ہے؟
مرغیوں کا ڈربہ ہے صاحب۔ لکڑو بڑھئی مسکرا کر بولا
اس کا کیا استعمال ہے؟ دگڑو نے دوسرا سوال کیا
کیسی بات کرتے ہیں آپ؟ جیسے انسانوں کا گھر ویسے مرغیوں کا گھر؟ اب گھر کی ضرورت اور فائدہ کون نہیں جانتا؟
دگڑو بولا لیکن میرا مرغا تو میرے ساتھ میرے اپنے گھر میں رہتا ہے۔ اس کیلئے تو میں نے کوئی علحٰدہ گھر نہیں بنوایا؟
یہ تو آپ کی محبت ہے صاحب کہ آپ اسے اپنے پاس رکھتے ہیں ورنہ عام طور سے لوگ انہیں اپنے سے دور رکھتے ہیں .
لیکن اس سے کیا فائدہ؟ دگڑو پر اس روز فائدہ اور نقصان کا بھوت سوار تھا
لکڑو بولا فائدے تو بہت ہیں مثلاً ان کی گندگی سے گھر محفوظ رہتا ہے۔
لیکن میرا مرغا تو گھر میں کوئی گندگی پھیلاتا ہی نہیں۔
اوہو آپ نے بڑا سمجھدار پرندہ پال رکھا ہے؟ لیکن شور شرابہ بھی تو ہوتا ہے؟
شور شرابہ! جی ہاں شور شرابہ؟ دگڑو کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا، میں اس ڈربے کو اپنی آرام گاہ سے دور رکھوں گا، بہت دور، اور اس مرغے کو اس میں بند کر دوں گا پھر وہ کمبخت جتنا چاہے شور مچائے؟ میری اور بچوں کی نیند نہیں خراب ہو گی۔ دس سیر دودھ اور فصل کی کٹائی پر ایک بورا گیہوں کے عوض دگڑو ڈربہ لے آیا۔
چھمیا نے جب بیل کی پیٹھ پر رکھا ڈربہ دیکھا تو پوچھا یہ کیا اٹھا لائے؟
دگڑو ناراضگی سے بولا دکھلائی نہیں دیتا۔ یہ ڈربہ ہے۔ مرغے کا آشیانہ۔ ہم بے وقوف لوگ ہیں جو اسے اپنے گھر میں رکھتے ہیں۔ میں اس کیلئے بھی ایک گھر لایا ہوں اور اسے گنگا جمنا کے طویلے سے آگے پچھواڑے کی جانب نسب کر دوں گا۔
چھمیا ہنس کر بولی کہ چونکہ مرغے کا گھر لے آؤ تو کم از کم ایک عدد مرغا بھی لے آنا
کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں دگڑو نے سوال کیا
مطلب صاف ہے۔ آج صبح ہمارا مرغا جو آپ کے ساتھ گیا تو واپس لوٹ کر نہیں آیا
اچھا ! لیکن دوپہر کو کھانے کے وقت تم نے اس کا ذکر نہیں کیا؟
جی ہاں وہ میری غلطی تھی۔ میں سوچ رہی تھی صبح کا بھولا شام تک لوٹ کر آ جائے گا لیکن اب تو مغرب کا وقت بھی نکل گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔
اچھا ہے خود ہی چلا گیا، خس کم جہاں پاک۔ ویسے بھی اس کے ہونے نہ ہونے سے ہمارا کون سا کام رکنے والا ہے؟
لیکن اب اس ڈربے کا کیا کریں؟
دگڑو بولا ہمارے بازار کا اصول یہ ہے کہ سودہ ہو گیا تو ہو گیا نہ مال لوٹایا جاتا ہے اور نہ اس کا معاوضہ۔ اس لئے اب لے آیا ہوں تو اسے رکھ لو۔ ہو سکتا ہے مرغا کبھی لوٹ ہی آئے اور ہمیں اس کی ضرورت پڑ جائے؟ چھمیا نے اپنے خاوند کی اطاعت میں ڈربے کو رکھ تو لیا لیکن اسے یقین تھا کہ اب وہ مرغا لوٹ کر نہیں آئے گا۔
مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر دگڑو نے گھوڑے کو تیار کیا اور سیر کیلئے نکل گیا۔ مرغے کی غیر موجودگی نے اس کے سر سے ایک بوجھ ہلکا کر دیا تھا۔ اسے اطمینان تھا کہ وہ آج جس قدر دور جائے، جتنا بھی تاخیر سے آئے اور جتنا چاہے سوئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ دگڑو رات دیر گئے تک سیرو تفریح کرتا رہا اور صبح دن نکلے تک بستر میں پڑا رہا۔ جب جاگا تو گنگا جمنا کی خدمت میں لگ گیا۔ ان کو چارہ ڈالنے کے بعد خود غسل خانے میں گھس گیا۔ واپس آ کر ناشتہ کیا اور گنگا کے ساتھ کھیت کی جانب روانہ ہو گیا۔
چھمیا جمنا کا دودھ دوہتے ہوئے سوچ رہی تھی برسوں پرانی عادتیں کس قدر جلد بدل جاتی ہیں انسان واقعی جلد باز واقع ہوا ہے۔ لیکن دگڑو ان تبدیلیوں کے احساس سے یکسر بے نیاز تھا، اس کی زندگی سے مرغا اس طرح غائب ہو چکا تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ہاں اس کی یادگار کے طور پر ایک ڈربہ رہ گیا تھا جو بد قسمتی سے اس کے نکل جانے بعد وارد ہوا تھا۔ اب چھمیا کو اپنا پیٹ کاٹ کر ہر روز ایک سیر دودھ بڑھئی کو دینا تھا اور فصل تیار ہو جانے ہر ایک بورا اناج اسے بھی مرغے سے زیادہ قلق دودھ اور اناج کے خسارے کا تھا۔
ایک دن کھیت میں دوپہر کو اچانک مرغے کا ذکر نکل آیا تو چھمیا بولی مرغے کے چلے جانے کے بعد گھر میں کچھ خالی خالی سا لگتا ہے
دگڑو بپھر کر بولا خالی، خالی؟ کیا خالی؟ تمہارا دماغ تو درست ہے؟
چھمیا گھبرا گئی کچھ نہیں، بس وہ جو ڈربہ آپ اپنے ساتھ لائے تھے، اس میں چوہوں نے گھر بنا کر کافی ساری غلاظت پھیلا رکھی ہے۔ اگر مرغا ہوتا تو یہ سب نہ ہونے دیتا۔
اگر ایسا ہے تو یہ تمہاری غلطی ہے۔ اپنی لاپرواہی کی پردہ پوشی تم مرغے سے کر رہی ہو۔ ایسا لگتا تم آج کل خانہ داری کی جانب ٹھیک سے توجہ نہیں دیتیں۔
میں توجہ نہیں دیتی؟ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ آپ آج کل گھر پر ہوتے ہی کب ہیں؟ شام میں نکلے تو رات گئے لوٹے۔ صبح اٹھ کر مویشیوں کی خدمت اور دن بھر کھیتی باڑی۔ پرسوں بچے پوچھ رہے تھے۔ بابا کہاں ہیں؟
تو کیا سب چھوڑ کر تمہارے آگے بین بجاتا رہوں؟ اس سے ہمارا پیٹ بھر جائے گا؟
چھمیا گھبرا کر بولی نہیں میرا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا
میں تمہارا مطلب اچھی طرح سمجھتا ہوں، ہماری شادی ابھی کل نہیں ہوئی ہے؟
خیر یہ بتاؤ کہ اس ڈربے کا اور ان چوہوں کا کروں؟
یہ مجھے بتانا پڑے گا؟ تم ایسا کرو ان چوہوں کو بھون کر کھا جاؤ۔
یہ کیسی بہکی بہکی باتیں آپ کر رہے ہیں آج؟
اس میں کون سی بہکی ہوئی بات ہے؟ جس طرح مرغا بھون کر کھاتے ہیں اسی طرح دنیا کے بہت سارے لوگ چوہا بھی کھا جاتے ہیں۔
لیکن ان میں اور ہم میں فرق ہے؟
فرق ہے میں یہ مانتا ہوں لیکن اسے ختم بھی تو کیا جا سکتا ہے۔ دوسروں کی خوبیاں اپنایا بھی تو سکتے ہیں؟
اچھا تو کیا یہ کوئی خوبی ہے؟
کیوں نہیں؟ ہم لوگ بہت زیادہ خود پسند ہو گئے ہیں، ہمیں صرف اپنے آپ میں، اپنے طور طریقوں میں خوبیاں دکھائی دیتی ہیں اور دوسروں میں ہم خامیاں ہی خامیاں دیکھتے ہیں بلکہ حد تو یہ ہے کہ ہمیں اپنی خامی بھی خوبی دکھائی دیتی ہے اوردوسروں کی خوبی، وہ بھی خامی لگتی ہے۔
دگڑو کی یہ الٹی منطق چھمیا کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی وہ زچ ہو کر بولی اچھا بابا کل میں آپ کیلئے دوپہر میں چوہا بھون کر لاؤں گی۔ چھمیا کی زبان سے یہ جملہ کیا ادا ہوا کہ دگڑو نے اس کے گال پر ایک طمانچہ رسید کر دیا۔ چھمیا کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔ ایسا اس کے ساتھ پہلی بار ہوا تھا۔ اف تک نہ کہنے ولال دگڑو اس پر ہاتھ چھوڑ دے گا اس کا تصور بھی چھمیا نے نہیں کیا تھا۔
دگڑو بولا تم بھی مرغے کی طرح زبان دراز ہو گئی ہو۔
چھمیا روتے ہوئے بولی آپ نے جو کہا میں نے پہلے اس کی مخالفت کی اس پر آپ ناراض ہو گئے اور جب تائید کی تو برس پڑے۔ یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے؟
چھمیا کے آنسووں نے دگڑو کو نرم کر دیا وہ اسے منانے لگا۔ چپ ہو جا چھمیا۔ خود میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ مجھے کیا ہو گیا ہے؟ میری پیاری چھمیا تو خدا کیلئے چپ ہو جاؤ۔
چھمیا نے پے در پے کئی سوال کئے۔ کس کیلئے؟ خدا کیلئے؟ یہ خدا کون ہے؟
میں نہیں جانتا! میں کچھ بھی نہیں جانتا، تم ایسا کرو گھر جاؤ کھیت میں بہت کام ہے۔ برساتی بادلوں کی آمد آمد ہے۔
چھمیا اپنا سامان سمیٹ کر گھر کی جانب چل پڑی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ مرغا، ڈربہ، طمانچہ اور خدا سب کچھ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
دسویں دن چھمیا بہت خوش تھی۔ کل سے چھمیا کے دودھ میں کوئی شراکت دار نہ ہو گا۔ سارا دودھ اس کے اور بچوں کیلئے ہو گا، لکڑو بڑھئی کا قرض ادا ہو جائے گا۔ اور قرض بھی بلا وجہ ایک ایسی شئے کیلئے لیا گیا جس کا کوئی مصرف نہیں تھا۔ چھمیا دودھ کی بالٹی لے کر جمنا کے قریب آئی تو چونک پڑی۔ ایک بھیانک وسوسے کو ذہن سے جھٹک وہ زمین پر بیٹھ گئی اور جمنا کا دودھ دوہنے لگی لیکن اب وہ اندیشہ حقیقت بن گیا تھا۔ جمنا کے تھن میں دودھ ندارد تھا۔ کافی کوشش کے بعد چند قطرات سے بات آگے نہ بڑھی۔
چھمیا گھبرا گئی اب کیا ہو گا؟ بچوں کا دودھ؟ دگڑو کی لسی اور روٹی پر لگنے والا گھی یہ سب کہاں سے آئے گا؟ اور ان سب سے بڑھ کر بڑھئی کا قرض اسے کیسے ادا کیا جائے گا؟ چھمیا یہ سوچ ہی رہی تھی کہ بڑھئی کا لڑکا دروازے سے داخل ہو گیا۔ چھمیا نے کہا۔ دیکھو بیٹے آج ہماری گائے بیمار ہے اس نے دودھ نہیں دیا۔ تم اپنے بابا سے کہہ دو کہ دودھ نہیں ہے۔
لڑکا گھبرا کر بولا چاچی میں یہ نہیں کہہ سکتا، آپ میرے بابا کو نہیں جانتیں وہ میری بات کا یقین نہیں کریں گے۔ سمجھیں گے میں نے گڑ بڑ کر دی ہے اور برس پڑیں گے۔
گڑبڑ؟ کیسی گڑبڑ؟ تم کیا گڑ بڑ کر سکتے ہو؟
کچھ بھی مثلاً پی گیا؟ گرا دیا؟ بیچ دیا وغیرہ وغیرہ وہ کچھ بھی سوچ سکتے ہیں۔
چھمیا نے سوچا ہے یہ تو بڑی اچھی ترکیب ہے۔ وہ بڑھئی سے کہہ دے گی اس نے بچے کو دودھ دیا اب نہ جانے اس نے کیا کیا؟ پی لیا یا گرا دیا وغیرہ وغیرہ۔ بس ایک معمولی جھوٹا سے قرض سے نجات دلا دے گا۔ چھمیا کو افسوس تھا کہ یہ ترکیب اسے پہلے کیوں نہیں سوجھی۔ بڑھئی کا لڑکا بدستور کھڑا تھا۔ چھمیا بولی تو کھڑا کھڑا کیا منہ دیکھ رہا ہے۔ میں نے کہا نا کہ تو جا میں کچھ دیر بعد آ کر تیرے بابا کو بتلا دوں گی۔
لڑکا بولا جی نہیں چاچی میں اکیلے نہیں جاؤں گا۔ میرا باپ جلاد صفت انسان ہے وہ آرے سے لکڑی کی طرح مجھے چیر دے گا۔ آپ میرے ساتھ چلئے۔ اب چھمیا کیلئے نیا مسئلہ تھا اس لڑکے کے ساتھ جانا اور جھوٹ بولنا خیر چھمیا چپل پہن کر اس کے ساتھ چل دی۔
لکڑو نے لڑکے کے ساتھ چھمیا کو آتے دیکھا تو سمجھ گیا کوئی گڑ بڑ ہے۔ چھمیا نے جیسے ہی سلام کیا وہ بول پڑا بہن کیا بات ہے سب ٹھیک تو ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آج آپ کی گائے نے دودھ ہی نہیں دیا؟
چھمیا نے چونک کر پوچھا یہ آپ کو کیسے پتہ چل گیا؟
لکڑو بولا اس میں کو نسی نئی بات ہے۔ یہ تو پرانا بہانہ ہے۔ جب قرض کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو مویشی دودھ نہیں دیتے، فصل سوکھ جاتی ہے، پھل گر جاتے ہیں یہ سب تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ آرے سے تیز چلنے والی لکڑو کی زبان لڑکے کی تصدیق کر رہی تھی۔
لکڑو کے ذریعہ لگائے گئے الزامات سے بے بس و مقروض چھمیا کو دکھ ہوا لیکن کیا کر سکتی تھی۔ وہ گھگیا کر بولی نہیں بھائی صاحب ایسی بات نہیں، آج واقعی گائے نے دودھ نہیں دیا آپ کو یقین نہ آتا ہو تو خود ساتھ چل کر دیکھ لیں۔
میں کیا دیکھوں۔ گائے بار بار تو دودھ نہیں دیتی۔
چھمیا پر یہ دوسرا بہتان تھا وہ شرمندہ ہو کر بولی بھائی صاحب میں معافی چاہتی ہوں کل آپ کا قرض ادا ہو جائے گا۔ وہ اپنے گھر کی جانب مڑی عقب سے لکڑو کی آواز آئی کیا آج کوئی خاص مہمان آنے ولا ہے یا کوئی خاص مٹھائی بنانی ہے؟ اگر ایسا ہے تو مٹھائی ہی بھجوا دینا۔ میں سمجھوں گا کہ قرض ادا ہو گیا۔ لکڑو چھمیا کے زخموں پر نمک مل رہا تھا۔ وہ دگڑو کا طمانچہ بھول گئی تھی لیکن عزتِ نفس کو مجروح کرنے والے ان تیروں کا زخم نہیں بھول سکتی تھی۔ چھمیا زندگی میں پہلی بار اس قدر خوار ہوئی تھی
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
بغیر گھی کے سوکھے پراٹھے اور لسی کے بجائے صرف پانی کی چھاگل دیکھ کر دگڑو بولا کیا چھمیا؟ دودھ گر گیا یا بگڑ گیا؟
چھمیا بولی دودھ نہیں بلکہ ہماری قسمت بگڑ گئی ہے۔ ایک تو جمنا نے دودھ نہیں دیا اور دوسرے اس منہ جلے لکڑو نے اس قدر برا بھلا کہا کہ میں خود اپنی نظروں سے گر گئی۔
اچھا اس کی یہ مجال؟ لیکن تم اس کے پاس گئی ہی کیوں؟
اس کے لڑکے نے کہا باپ جلاد ہے۔ آرے سے کاٹ کر پھینک دے گا اس لئے میں اس پر رحم کھا کر چلی گئی۔
آرے سے کاٹ کر۔۔ ۔۔ دگڑو کی رگوں میں خون سرد ہو گیا وہ ہنس کر بولا کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے۔ جمنا کی طبیعت خراب ہو گئی ہو گی کل ٹھیک ہو جائے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا ویسے بھی گھی کے بغیر کوئی مر تو نہیں جاتا؟
لیکن بچوں کیلئے دودھ تو چاہئے؟
ہاں تو ایسا کرو کہ پڑوس سے ادھار لے لو۔
ادھار کا نام سن کر چھمیا کانپ گئی وہ بولی میں مر جاؤنگی لیکن ادھار نہیں لوں گی۔
کیسی باتیں کرتی ہو چھمیا۔ ہر کوئی لکڑو کی طرح بد مزاج نہیں ہوتا اور پھر یہ تو ہمارے برسوں پرانے ہمسائے ہیں۔
ہوا کریں لیکن میں تو قرض نہیں لوں گی، اور پھراس بات کا کیا اعتبار کہ کل جمنا دودھ دینے ہی لگے؟
کیا مطلب؟ دگڑو نے چونک کر پوچھا ابھی جمنا مری نہیں ہے۔ بس بیمار ہوئی ہے کل تک اچھی ہو جائے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن اگر وہ رات میں مر جائے تو؟
یہ بھی کوئی سوال ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ آج رات لکڑو یا ہمارا پڑوسی مر جائے اور ہمیں قرض سے نجات مل جائے۔
چھمیا بولی جی ہاں ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ۰۰۰۰۰۰چھمیا کچھ بولتے بولتے رک گئی۔
دگڑو نے کہا بولو بولو! رک کیوں گئیں؟ بول دو جو کہنا چاہتی ہو۔
چھمیا نے جواب دیا کچھ نہیں !چھوڑو بھی ان باتوں کو۰۰۰۰۰۰۰۰۰
میں سمجھ گیا تم کیا کہنا چاہتی تھیں یہی نا کہ ہم ہی مر جائیں اور سارا قصہ تمام ہو جائے۔ تم بہت سوچنے لگی ہو چھمیا ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ نہ جمنا مرے گی اور نہ لکڑو، نہ پڑوسی مریں گے اور نہ ہم۔ جمنا کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن کیا علاج کے بغیر ہی جمنا اچھی ہو جائے گی؟ چھمیا نے سوال کیا
اچھا سوال کیا تم نے۔ میں شام میں حکیم صاحب کے پاس چلا جاتا ہوں
حکیم صاحب! کیا وہ جانوروں کا علاج بھی کرتے ہیں؟ چھمیا نے حیرت سے پوچھا
وہ انسانوں کو سماجی جانور مانتے ہیں اور دونوں کا یکساں علاج کر تے ہیں۔
اچھا تو حکیم صاحب کا خود اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ چھمیا کے اس سوال پر دونوں ہنس پڑے
اس شام دگڑو سیر کو جانے کے بجائے حکیم صاحب کے مطب پہنچ گیا۔ وہاں میلہ لگا ہوا تھا بڑی دیر کے بعد اسے موقع ملا تو اس نے جمنا کا حال کہہ سنایا۔
حکیم صاحب بولے دیکھو دگڑو آج پہلا دن ہے۔ اتنی جلدی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کوئی معمولی عارضہ بھی ہو سکتا ہے اور کو ئی لمبی بیماری بھی۔ دوچار دن علامات دیکھو اور اس کے بعد مجھے اس کی کیفیت بتلانا پھر دیکھیں گے۔ ویسے حال کے دنوں میں تمہارے گھر کے اندر کو ئی اہم تبدیلی تو واقع نہیں ہوئی۔
تبدیلی؟ کیسی تبدیلی میں سمجھا نہیں؟ دگڑو نے استفسار کیا
تبدیلی سے میری مراد گائے کے باندھنے کی جگہ تو نہیں بدل دی گئی؟
جی نہیں سو تو وہی ہے۔
اچھا اور اس بیچ تمہارے گھر میں کوئی نیا فرد آیا گیا تو نہیں؟
فرد سے آپ کی مراد انسان ہے یا جانور بھی اس میں شامل ہیں؟
حکیم صاحب مسکرا کر بولے تم تو جانتے ہی ہو کہ میں۔۔ ۔۔ ۔۔
دگڑو بولا جی ہاں آپ انسان کو بھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
حکیم صاحب نے بات کاٹ دی اور بولے ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔
ہمارے گھر میں ایک مرغا تھا جو پچھلے دنوں نہ جانے کہاں نکل گیا۔
نکل گیا کیا مطلب؟ کیا تم نے اس کا پتہ لگانے کی کوشش نہیں کی؟
جی۔۔ ۔ جی نہیں۔
کب سے تھا وہ تمہارے گھر میں؟
دگڑو نے دماغ پر زور ڈال کر حساب لگانے کی کوشش لیکن پھر ناکام ہو کر بولا کب سے؟ ہمیشہ سے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھا لا اس کو اپنے گھر میں پایا
اچھا اس قدر طویل ساتھ اور اس کے باوجود تم نے اس کو تلاش نہیں کیا؟
جی۔۔ ۔ جی نہیں بات در اصل یہ ہے کہ وقت ہی نہیں ملا۔ آپ تو جانتے ہیں صبح سے رات تک اس قدر کام ہوتے ہیں کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔
اگر ایسا ہے تو تمہیں آج فرصت کیسے مل گئی؟
کیا بتاؤں صاحب بڑی مشکل سے جمنا کیلئے یہ وقت نکالا ہے۔
اچھا اگر تمہاری بیوی یا بچہ کھو جائے تو کیا انہیں بھی بھول جاؤ گے؟
کیسی باتیں کرتے ہیں حکیم صاحب یہ تو انسان ہیں اور وہ۔۔ ۔۔ ۔۔
جانور؟ لیکن تم تو جانتے ہی ہو۔۔ ۔۔ ۔ حکیم صاحب بولے
جی ہاں جی ہاں مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں نے اس کیلئے نیا ڈربہ بھی خریدا تھا .
اچھا کہیں وہ ڈربے کی قید و بند سے گھبرا کر تو نہیں بھاگ کھڑا ہوا؟
نہیں صاحب جب میں ڈربہ لے کر گھر پہنچا تو مرغا غائب تھا .
لگتا ہے اسے پیشگی اندازہ ہو گیا کہ تم اس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والے ہو۔
یہ کیسے ممکن ہے۔ خود مجھے بھی پتہ نہیں تھا کہ میں اس کیلئے ڈربہ خریدنے والا ہوں
پتہ چلانے کا ایک ذریعہ چھٹی حس بھی تو ہے، جس سے جاندار مخاطب کے اندر جھانک کر دیکھ لیتے ہیں کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے؟
چھٹی حس کیا جانوروں کے اندر بھی ہوتی ہے؟
کیوں نہیں؟ جانوروں کے حواسِ خمسہ ہم سے زیادہ تیز ہوتے ہیں وہ دیکھتے ہم سے بہتر ہیں۔ وہ سنتے ہم سے اچھا ہیں۔ سونگھنے میں تو ہم ان کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔ ان کی جلد ہم سے زیادہ حساس ہوتی ہے اور ان کا اپنا ذائقہ ہوتا ہے جس سے علیٰ الرغم کسی شئے پر منہ نہیں مارتے ایسے میں چھٹی حس ہم سے کم تر ہو یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
دگڑو بولا جی ہاں میں مان گیا کہ ان کی چھٹی حس ہم سے تیز ہوتی ہے۔
لیکن ہم انسانوں کی طرح جانور اس قدرتی انعام کا بیجا استعمال نہیں کرتے۔
میں سمجھا نہیں حکیم صاحب ہم بھلا اپنی کسی حس کا بیجا استعمال کیوں کرنے لگے؟
کیا ہم اپنے مستقبل کے بارے میں غیر ضروری اندیشوں کا شکار نہیں رہتے؟ اس کے برعکس جانوروں کا توکّل ہم سے زیادہ کامل ہوتا ہے وہ کل کی پرواہ نہیں کرتے اور کبھی بھوک سے نہیں مرتے۔ انسان بڑا ذخیرہ جمع کرتا ہے اور پھر اچانک اسے گنوا بیٹھتا ہے۔ بھوک سے نہ سہی صدمے سے مر جاتا ہے بلکہ کبھی کبھار خودکشی بھی کر گزرتا ہے کیا تم نے کسی جانور کو خودکشی کرتے دیکھا ہے؟ وہ ایسی حماقت کبھی بھی نہیں کر سکتا۔
حکیم صاحب آپ نے توانسان کو جانور سے بھی زیادہ کمتر قرار دے دیا .
نہیں دوست ایسا نہیں ہے میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ انسان احسنِ تقویم بھی ہے اور اسفلا لسافلین بھی۔ جانور کو جس قدر دماغ ملتا ہے وہ اس پر قانع ہوتا ہے اور ضرورت بھر اس کا استعمال کرتا لیکن انسان اپنے ذہن کے استعمال میں افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ کبھی ذہانت کی عظیم بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے تو کبھی حماقت کی گہری پستیوں میں جا گرتا ہے۔
وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن میری گائے کے بارے میں بھی تو کچھ بتلائیے۔
جی ہاں تم نے اچھا یاد دلایا میں بھی آخر انسان ہی ہوں کہیں سے کہیں نکل جاتا ہوں۔ تم یہ بتاؤ کہ وہ مرغا گائے کے ساتھ ہی رہتا تھا یا علیٰحدہ؟
جی ہاں مرغا تو بشمول گائے کے سبھی کے ساتھ رہتا تھا۔
دگڑو بولا لیکن صاحب مرغے کو گئے آج دس دن ہو گئے اور گائے اس بیچ دودھ دیتی رہی اس لئے ان دونوں واقعات میں مجھے بظاہر کو ئی تعلق نظر نہیں آتا؟
ہو سکتا ہے ان میں کوئی تعلق نہ ہو لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گائے کو مایوس ہونے میں نو دن لگ گئے ہوں۔ مرغے کی واپسی سے متعلق وہ پر امید رہی ہو اور اب جا کر اسے یقین ہوا ہو کہ مرغا لوٹ کر نہیں آئے گا اچھا یہ بتلاؤ کہ گائے کا دودھ تم خود دوہتے ہو یا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
جی نہیں میری بیوی چھمیا
بہت خوب تم اس سے پوچھ کر مجھے بتانا کہ آیا اس کے دودھ کی مقدار میں اس دوران کو ئی کمی تو واقع نہیں ہوئی؟
دودھ کے بارے میں تو مجھے پوچھنا پڑے گا لیکن چارہ میں خود ڈالتا ہوں اور اس کی خوراک میں بدستور کمی میں نے محسوس کی ہے۔
تمہیں اس پر تشویش نہیں ہوئی؟ دگڑو حکیم صاحب کی بات سن کر خاموش ہو گیا۔
حکیم صاحب بولے لگتا ہے تمہیں اس کے چارے میں نہیں بلکہ صرف دودھ میں دلچسپی ہے۔ جب تک دودھ دے رہی ہے چارہ کھائے نہ کھائے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا لیکن مسئلہ اس وقت کھڑا ہو گیا جبکہ اس نے دودھ دینا کم یا بند کر دیا ہے کیوں؟
دگڑو کا سر ندامت سے جھک گیا۔ جمنا کے سبب شرمندہ ہونے والا دگڑو سوچ رہا تھا سارے فتنہ کی جڑ کم بخت مرغا تھا۔ نہ وہ گھر سے فرار ہوتا اور نہ یہ ہنگامہ کھڑا ہوتا۔
حکیم صاحب سے اجازت لے کر دگڑو گھر آ گیا اور چھمیا سے پوچھا یہ بتاؤ اپنی جمنا نے دودھ دینا اچانک بند کر دیا یا اس کے دودھ کی مقدار میں بتدریج کمی ہو تی رہی .
چھمیا بولی وہ تو پچھلے دس دنوں سے کم کم دودھ دئیے جا رہی تھی پہلے کا بنا گھی تھا جو اب تک چل رہا تھا، سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ دس دنوں سے میں نے مکھن ہی نہیں نکالا۔
اچھا اور مجھ سے چھپاتی رہیں۔۔ ۔ کیوں؟
آپ کو کیا بتاتی۔ آپ تو آج کل ہر بات پر لڑ پڑتے ہیں۔ میں جو سوچ کر کھیت میں جاتی ہوں بھول جاتی ہوں۔ شام میں آپ کے قدم گھر میں ٹکتے ہی نہیں۔ آپ سیر کی تیاری میں لگ جاتے ہیں رات دیر گئے آنے کے بعد صبح دیر تک سوتے رہتے ہیں پھر کھیت جانے کی جلدی۔ آخر انسان بتائے بھی تو کب بتائے؟
دگڑو بولا تم نے اپنے نسیان پر پردہ ڈالنے کی غرض سے ایک لمبی چوڑی تقریر کر کے سارا الزام میرے سر منڈھ دیا۔ اب یہ لعن طعن چھوڑو اور میرے لئے کھانا لگاؤ میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے۔ حکیم صاحب نے میرا دماغ خراب کر دیا ہے۔
اچھا اگر ایسا ہے تو جمنا کے بجائے اپنے لئے ہی کوئی نسخہ لکھوا لاتے۔
اس کی ضرورت نہیں، ایسا کرو ان چوہوں کو مارنے کے لئے جو زہر تم لائی ہو اسی کو پروس دو ایک ہی بار میں کام تمام ہو جائے گا۔
چھمیا روہانسی ہو کر بولی۔ یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ آپ مذاق پر بھی ناراض ہو جاتے ہیں، آئندہ ایسا کہا تومیں زہر چوہوں کو بھی نہ دے کر پھینک دوں گی۔
اری بے وقوف عورت یہ رونا دھونا چھوڑ اور کچھ کھانے کیلئے لا ورنہ میں زہر کے بجائے بھوک سے مر جاؤں گا۔
کھانا پروستے ہوئے چھمیا بولی۔ گھی کے بغیر سبزی اور سوکھی روٹی سب کچھ بے مزہ ہو گیا ہے۔ مکھن نہ لسی یہ بھی کوئی کھانا ہے؟ ایک جمنا نے سارا ماحول خراب کر دیا۔
جمنا نہیں مرغا دگڑو نے جواب دیا اور کھانا کھانے لگا۔ اس روز دگڑو نہ صرف تفریح کیلئے جانا بھول گیا بلکہ اپنے پسندیدہ گھوڑے شیرو کو چارہ ڈالنا بھی اسے یاد نہیں رہا۔ کھانے سے فارغ ہو کر دگڑو وہیں پاس میں ڈھیر ہو گیا۔ بعد میں چھمیا نے سر کے نیچے آہستہ سے تکیہ رکھ دیا اور گھوڑے کو چارہ ڈالنے کیلئے چلی گئی۔
گھوڑے نے اپنے مالک کے بجائے چھمیا کو دیکھا تو منہ پھیر لیا۔ گزشتہ چند دنوں سے گھوڑا بھی سیرو تفریح کا عادی ہو گیا تھا۔ گھر کی چہار دیواری میں اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ سامنے گنگا مست جگالی کر رہا تھا اور جمنا مرغے کے غم میں دبلی ہو رہی تھی۔ وہ زبان حال سے کہہ رہی تھی کہ حکیم صاحب کی بات درست نہیں ہے۔ انسانوں اور جانوروں کے محسوسات یکساں نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
دگڑو رات جلدی سونے کے باوجود صبح دیر تک سویا رہا شاید اس لئے کہ اب کوئی بیدار کرنے والا نہیں تھا، چھمیا بھی سو رہی تھی اور بچے بھی۔ دگڑو نے غسل خانے میں جاتے ہوئے جمنا کو حیرت سے دیکھا اس کی پسلیاں صاف دکھائی پڑ رہی تھیں۔ آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں وہ خاصی دبلی ہو چکی تھی ایسے میں اس کا دودھ نہ دینا کسی تحقیق کا محتاج نہیں تھا۔ نہانے کے بعد دگڑو نے سارے جانوروں کے آگے چارہ ڈالا شیرو کو پچکا رہ اور اس کی پیٹھ تھپتھپائی وہ مست ہو کر چارہ کھانے لگا۔ یہ جانور اپنے آقا کی ناراضگی یا بے توجہی کو کس قدر سنجیدگی سے لیتے ہیں لیکن انسان کس قدراحسان فراموش اور نا شکرا ہے۔
جانور اپنا پیٹ بھر رہے تھے اور دگڑو اپنا ناشتہ کر رہا تھا۔۔ ۔۔ اپنے بیل کے ساتھ کھیت کی جانب رواں دواں تھا۔۔ ۔۔ ۔ ہل چلا رہا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پسینہ بہا رہا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اس محنت و مشقت کے دوران وہ جمنا تو کجا شیرو کو بھی بھول جاتا تھا بلکہ اپنے بیوی بچے بھی اسے یاد نہ آتے تھے ایسے میں مرغے کا کیا شمار وہ تو دگڑو کی یادداشت سے حرفِ غلط کی مانند مٹ چکا تھا۔
اگلے دن تفصیل سے جمنا کی کیفیت سننے کے بعد حکیم صاحب بولے دیکھو دگڑو تمہاری گائے کا علاج ممکن تو ہے لیکن مشکل ہے۔
دگڑو نے کہا کوئی مشکل نہیں ہے حکیم صاحب، آپ بتلائیں میں اس گائے کیلئے سب کچھ کر سکتا ہوں اس لئے کہ میری گھر گرہستی، بیوی بچوں کا سوال۔۔ ۔۔ ۔
حکیم صاحب نے بات کاٹ دی اور بولے میں سمجھتا ہوں، تمہیں دو میں سے ایک کام کرنا ہو گا۔ پہلا تو یہ کہ اس مرغے کو تلاش کر کے واپس گھر لے آؤ۔ سارے مسائل اپنے آپ حل ہو جائیں گے۔
دگڑو بولا یہ نا ممکن ہے حکیم صاحب ساری مصیبت اس مرغے کے باعث ہے اب میں اسے واپس اپنے گھر میں نہیں لا سکتا۔
حکیم صاحب بولے مرغے کے باعث نہیں بلکہ اس کے چلے جانے کے سبب سے ہے میں اسے واپس لانے کی بات کر رہا تھا۔
جی نہیں حکیم صاحب اول تو اس کی تلاشا یک امرِ محال ہے اور پھر وہ خود سرجانور آنے پر راضی ہو جائے اس کا امکان بہت کام ہے۔ اس لئے آپ دوسرا متبادل بتائیں۔
میں تمہاری مشکل پسندی کی داد دیتا ہوں دگڑو ، تو سنودوسرا نسخہ یہ ہے کہ ہمارے گاؤں کے مغربی سمت جنگل ہیں جن میں اودے ببول کے چند درخت ہیں، ان پر پھول صرف رات کے آخری پہر کھلتے ہیں اور طلوع آفتاب سے قبل مرجھا جاتے ہیں۔ وہ پھول اگر پیڑ ہی پر مرجھا جائیں تو اپنی تاثیر سے محروم ہو جاتے ہیں۔ تمہیں کرنا یہ ہے کہ مرجھانے سے قبل انہیں توڑ کر گلاب کے پانی میں رکھ کے گھر لے آؤ اور جمنا کو کھلا دو۔
دگڑو بولا لیکن اگر جمنا اسے نہ کھائے تو؟
حکیم صاحب مسکرا کر بولے بڑا خیال ہے تمہیں اپنی جمنا کا لیکن یہ کام بہت آسان ہے تم چارے کے ساتھ ملا کر ان پھولوں کو اس کے سامنے ڈال دینا نادانستہ کھا جائے گی۔
دگڑو کو اس دوران ایک ترکیب سجھائی دی وہ بولا حکیم صاحب کیوں نہ میں اس پیڑ کو اکھاڑ کر اپنے آنگن میں لے آؤں۔
حکیم صاحب بولے میں تو تمہیں احمق سمجھتا تھا لیکن اب پتہ چلا کہ تم عقل کا استعمال بھی کرتے ہو۔ ویسے دگڑو یہ حماقت نہ کر بیٹھنا۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو میں کب کا اسے منگوا کر اپنے آنگن میں لگو اچکا ہوتا اور مریضوں کو زحمت دینے کے بجائے تیار شدہ نسخہ بانٹتا۔ لیکن یہ نا ممکن ہے۔ جنگل کا یہ درخت بستی میں نہیں پھلتا پھولتا۔ اگر اسے یہاں لگا دیا جائے تو اس کی صرف شاخیں اور پتے ہوں گے۔ ان پر پھول تو وہیں جنگل میں کھلیں گے کیا سمجھے؟
کیسی بات کرتے ہیں حکیم صاحب وہی مٹی، وہی پیڑ اور وہی آب و ہو ا، ایک بار آزما کر دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ آپ کہیں تو میں آپ کے آنگن میں لا کر نسب کر دیتا ہوں؟
نہیں دگڑو آب و ہوا بظاہر یکساں ہے لیکن اس میں خاصہ فرق ہے۔ رات کے آخری پہر جنگل کی تنہائی میں شبنم کے آنسووں سے سینچے گئے یہ پھول انسانوں کی گہما گہمی میں نہیں کھل سکتے۔ ان درختوں کو بستی میں بسانے کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ انسان فطرت سے لڑ تو سکتا ہے لیکن جیت نہیں سکتا۔
ٹھیک ہے حکیم صاحب میں اس کام کو کروں گا لیکن ایک مسئلہ اور ہے .
وہ کیا؟
آج کل چونکہ جمنا نے چارہ کھانا بہت کم کر دیا ہے اس لئے مجھے ڈر ہے کہ پھولوں کو نہیں کھائے گی اورساری محنت اکارت چلی جائے گی۔
اس کا حل یہ ہے کہ تم شام کے وقت جمنا کو ساتھ لے کر مشرق کی جانب پائی جانے والی چراگاہوں میں جانا شروع کر دو۔ وہاں کی کھلی فضا میں وہ چارہ کھانے لگے گی اسی دوران تم پھول بھی اس کے آگے ڈال دینا۔
لیکن کیا یہ پھول شام تک تر و تازہ رہیں گے دگڑو نے سوال کیا۔
جی ہاں اگر تم نے انہیں تازہ گلاب کے پانی میں رکھا تو وہ اگلی صبح تک نہیں مرجھائیں گے۔
اور اس کے بعد؟
مرجھا جائیں گے۔۔ ۔ یہ کیا احمقانہ سوال ہے ہر قسم کے پھولوں کا مقدر بالآخر مرجھانا ہے۔ وہ سرخ و سپید ہوں یا اودے۔ اس دارِ فانی میں حیات بخش پھولوں کو بھی اپنے وقت پر مرجھانا ہی پڑتا ہے۔
دگڑو نے سوچا حکیم صاحب کو گھیرنے کا اچھا موقع ہے اس لئے اس نے سوال کر دیا لیکن صاحب کا نٹوں کا کیا؟ ان کو کسی نے مرجھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔
حکیم صاحب مسکرائے اور بولے دگڑو سچ تو یہ ہے کہ تم نے اس سوال سے میراجی خوش کر دیا۔ یہ بڑا اہم سوال ہے اس لئے اس کا جواب غور سے سنو۔ مرجھاتا وہی ہے جو کھلتا ہے۔ جس کو کھلنا نصیب نہیں ہوتا اس کو مرجھانے کا خوف بھی نہیں ہوتا۔ تم دیکھتے ہو کہ درخت بہار اور خزاں دونوں سے متاثر ہوتے ہیں جبکہ پتھر کے اوپر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جی جناب آپ کی بات سمجھ میں آ گئی اب اجازت دیجئے اور دعا کیجئے۔ خدا حافظ
فی امان اللہ
نسخۂ ثانی کی مشکلات کا اندازہ دگڑو کو اس وقت ہوا جب اس نے اس پر عمل درآمد شروع کیا۔ سردیوں کی صبح آخر شب دشت نوردی بذاتِ خود ایک امرِ محال تھا۔ اس پر ببول کے پیڑوں میں پھول کم اور کانٹے زیادہ اور اودے ببول تو گویا کانٹوں سے لدے ہوئے تھے۔ ایسے میں پھولوں کو چننا ایک خطرناک تھا لاکھ احتیاط کے باوجود ہاتھ پیر لہو لہان ہو جاتے تھے لیکن چونکہ جمنا کی صحت پر سارے خاندان کی صحت وتندرستی کا دارومدار تھا دگڑو ان ساری مشقتیں برداشت کرنے لگا۔ ویسے یہ سلسلہ صبح میں ختم نہ ہوتا تھا۔ شام میں کھیت سے آنے کے بعد پھر سارے مویشیوں کے ساتھ چراگاہ کی طرف جانا اور تھک ہار کر لوٹتے ہی سو جانا۔
نئے معمولاتِ زندگی نے دگڑو کو اور دو نمازوں سے محروم کر دیا تھا۔ عشا اور فجر پہلے ہی سیر و تفریح کی نذر ہو چکی تھیں اب عصر اور مغرب کو جمنا کا علاج نگل گیا تھا۔ سیرو تفریح کے مواقع ختم ہو چکے تھے مگر دگڑو کسی قدر مطمئن تھا۔ جمنا کی صحت پر علاج کے مثبت اثرات نظر آنے لگے تھے۔ گنگا کو چراگاہ کی تازہ غذا اور فضا اچھی لگنے لگی تھی۔ شیرو نے حالات سے مصالحت کر لی تھی وہ بہت زیادہ خوش تو نہیں لیکن بالکل ناراض بھی نہیں تھا۔ دگڑو ہفتہ میں ایک آدھ بار اپنے بچوں کو بھی مویشیوں کے ساتھ چرا گاہ میں لے آتا تاکہ ان کا بھی دل بہل جائے۔ زندگی ایک نئے رخ پر چل پڑی تھی صبح و شام کے سارے معمولات بدل چکے تھے۔ ببول کے پھولوں کی خوشبو مرغے کے زخم پر مرہم کا کام کر رہی تھی۔ جمنا کی صحتیابی سے ہر کوئی مسرور و شادمان تھا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
چھمیا نے کھانے کا تو شہ کھولا تو پراٹھوں پر لگے گھی کی خوشبو سے کھیت کی فضا معطر ہو گئی اور پھر ساگ کے ساتھ لسی کا گلاس دیکھ کر دگڑو کی طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ ایک طویل عرصے کے بعد یہ نعمتیں جب دوبارہ حاصل ہوئیں تو ان کی قدر و قیمت میں خاصہ اضافہ ہو گیا۔ کسی حاصل شدہ شئے کا چھن جانا اس کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے اور پھر مل جانا یک گونہ فرحت و انبساط کا سبب بن جاتا ہے۔ مبادا اسی سبب سے حضرتِ انسان کو دنیا میں بھیجنے سے قبل اللہ تعالیٰ نے عارضی طور پر جنت میں رہنے کا موقع دیا ہو تاکہ اس کی محرومی کا احساس انسان کے اندر دوبارہ بہشت کو پانے کی تڑپ پیدا کرے اور وہ دنیا کے اندر حصولِ جنت کی تگ و دو میں لگا رہے۔ افسوس کہ غافل انسانوں نے منزل کو بھلا کر راستے کو مقصودِ سفر سمجھ لیا۔
دگڑو نے چہک کر پوچھا لگتا ہے جمنا پوری طرح صحتیاب ہو چکی ہے
چھمیا نے تائید کی اور بولی جی ہاں وہ بڑی تیزی سے رو بہ صحت ہے حکیم صاحب کی حکمت اور آپ کی محنت رنگ لا رہی ہے۔ گو کہ پہلے کے بالمقابل دودھ کی مقدار ابھی نصف ہے پھر بھی بہتر ہے ورنہ تو میں تشویش میں مبتلا ہو کر ڈر گئی تھی۔
اس میں ڈرنے کی کیا بات؟ وہ نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی۔ کیا دنیا میں جمنا کے علاوہ دوسرے گائیں نہیں ہیں۔
گائیں تو ہیں لیکن ہمارے پاس تو ایک جمنا ہے۔ ہمیں دوسروں سے کیا سروکار؟
تم ٹھیک کہتی ہو چھمیا۔ دگڑو کھانا کھا رہا تھا اور گنگا سائے میں بیٹھا جگالی کر رہا تھا۔ پہاڑوں کی جانب سے چلنے والی سرد ہوا نے گنگا کو اپنی جگہ پر کھڑا کر دیا اور وہ بے خیالی کے عالم میں خراماں خراماں ٹہلتا ہوا کھیت کی باڑھ کے قریب آ گیا۔ گنگا اب پڑوس کے کھیت کی لہلہاتی فصل کو دیکھ رہا تھا کہ اسے درمیان میں گایوں کا ایک جھنڈ نظر آیا جس میں ایک بالکل جمنا جیسی تھی۔ اس جمنا کی مانند نہیں جیسی کہ فی الحال دگڑو کے گھر میں بندھی ہوئی تھی بلکہ ویسی جیسی کہ کئی سال قبل دگڑو اسے خرید کر لایا تھا۔ خوبصورت سفید چمکتی ہوئی جلد، بھرا بھرا سا جسم، ستواں ناک، بڑی بڑی آنکھیں، لمبا چہرہ جو جھریوں سے یکسر پاک تھا۔
گنگا نے سوچا جمنا بالکل ایسی ہی تھی، نہیں اپنے تمام حسن و جمال کے باوجود وہ اس قدر خوبصورت کبھی بھی نہیں تھی۔ گنگا نے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا لیکن اس کی حیرت اس وقت اپنے حدود سے تجاوز کر گئی جب اس نے دیکھا کہ وہ نئی نویلی گنگوتری بھی اس کی جانب متوجہ ہے۔ اسے محسوس ہوا گویا وہ دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔ گنگا کے قدم بے ساختہ اس کی جانب بڑھ رہے تھے۔ بے خودی کے عالم میں وہ نہ جانے کب اپنی حدوں سے گزر گیا اور پھر کیا تھا سارا آسمان کتوں کی بھونک سے گونج اٹھا۔ یہ بے شمار کتے نہ جانے کہاں سے اچانک نمودار ہو گئے تھے۔ پڑوسی کھیت کے مالک نے انہیں اپنے مویشیوں اور کھیت کی حفاظت کیلئے نہ جانے کس غار میں چھپا رکھا تھا۔
محافظ کتے گنگا پر ٹوٹ پڑے۔ وہ اپنی ذمہ داری ادا کر رہے تھے اور گنگا کے جسم کو نوچ رہے تھے بھنبھوڑ رہے تھے۔ گنگا ان سے بھڑ گیا تھا کبھی ایک کو سینگ پر اچھالتا تو کبھی دوسرے کو دوڑاتا۔ دور کھڑی گنگوتری اس کو دادِ عیش دے رہی تھی اور گنگا کے حوصلے بلند ہو رہے تھے لیکن اتنے سارے تربیت یافتہ کتوں کا بیک وقت مقابلہ کرنا گنگا کے بس کا روگ نہیں تھا۔ بالآخر وہ کتے گنگا پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان لوگوں نے گنگا کو بری طرح زخمی کر دیا اس کے جسم سے خون رسنے لگا۔
اس ہنگامے کے دوران دگڑو اور پڑوس کے کھیت کا مالک بھی جائے واردات پر پہنچ گئے۔ پڑوسی اپنے کتوں کو قابو میں کرنے کے بعد دگڑو سے بولا معاف کرنا کتے نا سمجھ ہیں پاس پڑوس کا پاس و لحاظ نہیں جانتے۔
دگڑو بولا جی نہیں ایسی بات نہیں۔ کتوں نے اپنی ذمہ داری ادا کی۔ سارا قصور گنگا کا ہے جو اپنی حدود کو پھلانگ گیا۔
چھمیا اس منظر کو دیکھ کر فوراً حکیم صاحب کے پاس بھاگی اور انہیں ماجرا کہہ سنایا۔ حکیم صاحب نے حالات کی سنگینی کو محسوس کر لیا اور فوراً اپنے نائب حکو ّکے ساتھ دگڑو کے کھیت میں پہنچ گئے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے گنگا کی مرہم پٹی کی اس کیلئے نسخہ لکھا اور پھر دگڑو سے بولے گنگا ایک نازک حالت میں ہے۔ ایسے میں ذرا سی بھی بے توجہی یا لاپرواہی کافی مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اس لئے تمہیں اس کا بہت خاص خیال رکھنا ہو گا اس کے باوجود کوئی یقینی بات کہنا مشکل ہے۔
کیا مطلب حکیم صاحب، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
میرا مطلب ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے اس لئے کہ کتوں کے اس کے اعضائے خصوصی کو بھی زخمی کر دیا ہے۔ ان کے دانتوں کے نشانات اس کی رگوں تک میں گڑ گئے ہیں
دگڑو بولا حکیم صاحب خدا کے لئے کچھ کیجئے اور میرے گنگا کو بچا لیجئے ورنہ اس کے بغیر میرا کھیت کھلیان سب ویران ہو جائے گا۔ میں ہل کیسے چلاؤں گا کھیت کیسے جوتوں گا، میں مر جاؤں گا، میرے بیوی بچے سب مر جائیں گے، میرا گھر سنسار اجڑ جائے گا اسے بچائیے حکیم صاحب خدا کیلئے اسے بچا لیجئے۔
حکیم صاحب بولے دیکھو دگڑو بیماری کا علاج تو میں کر سکتا ہوں لیکن موت کی دوا میرے پاس نہیں ہے اگر گنگا کی موت اسی طرح لکھی ہے تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔
ایسا مت کہئے حکیم صاحب اگر یہ مر گیا تو میں مر جاؤں گا، ہم سب مر جائیں گے۔ یہ کہہ کر دگڑو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ حکیم صاحب کو حیرت ہو رہی تھی۔ ایک بیل کو اس شخص نے اپنا پالنہار، پروردگارسمجھ لیا تھا .
دگڑو نے اپنے بیل کی خاطر کھیت ہی میں کٹیا بنا لی وہ دن رات وہیں پڑا رہتا۔ اب کھیت ہی اس کا گھر تھا اور بیل کی تیمار داری اس کا واحد مشغلہ، چھمیا صبح و شام کھیت میں روٹی لے کر آتی اور اسے کھلا پلا کر واپس چلی جاتی۔ دگڑو نے جمنا، شیرو بلکہ اپنے معصوم بچوں تک کو بھی بھلا دیا تھا، فی الحال اس کا سب کچھ گنگا تھا وہ ہر وقت گنگا کی تیمار داری میں لگا رہتا جو نیم غنودگی کے عالم میں بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا۔ لیکن دگڑو پھر بھی خوش تھا۔ اس کے زخم دن بدن مندمل ہوتے جا رہے تھے اور حکیم صاحب کے لاکھ ڈرانے کے باوجود وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ دگڑو کو یقین ہو چلا تھا کہ ایک دن جمنا کی طرح گنگا بھی پھر سے بھلا چنگا ہو جائے گا۔
حکیم صاحب کا نائب حکو ہر روز کھیت پر آ کر زخموں کی مرہم پٹی کر جاتا تھا۔ گنگا کے جسم میں حرکت ہونے لگی تھی وہ اپنے پیروں کو پھیلانے اور سمیٹنے لگا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بھی روشنی دکھائی دینے لگی تھی۔ حکو نے دگڑو کو گھر جانے کی اجازت دے دی تھی مگر دگڑو کوئی خطرہ مول لینے کیلئے تیار نہیں تھا۔ چھمیا نے اصرار کیا پھر بھی وہ کھیت ہی میں پڑا رہا۔ اس بیچ جمنا کا علاج بند ہو گیا تھا اور اسی کے ساتھ اس کے دودھ میں اضافہ کا سلسلہ معمول پر آنے قبل ہی رک گیا تھا لیکن دگڑو یا چھمیا کو اس کی فکر نہ تھی۔ بے چاری جمنا فی الحال ترجیحی اعتبار سے ثانوی درجے پر چلی گئی تھی گنگا ساری توجہات کا مرکز بنا ہوا تھا۔
چھمیا نے ایک روز دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے کٹیا کے قریب کتے کے بھونکنے کی آواز سنی۔ وہ بے یقینی کے ساتھ بولی کتا؟ ؟
دگڑو بولا کیا بکتی ہو؟
میں نے ابھی ابھی کتے کے بھونکنے کی آواز سنی ہے۔
کتے کے بھونکنے کی آواز؟ تمہارے کان بجتے ہیں تم خوفزدہ ہو گئی ہو، دگڑو نے ہنس کر کہا تمہیں تو خواب میں بھی۔۔ ۔۔ ۔
چھمیا بولی وہ دیکھو پھر سے آئی آواز۔
دگڑو کو لگا شاید چھمیا صحیح بول رہی ہے۔ ہلکی سی آواز اس نے بھی سنی۔ دگڑو نوالہ چھوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ کہیں پڑوس کے کتے اپنے کھیت میں تو نہیں گھس آئے؟ اس نے چھمیا سے پوچھا اور اپنی لاٹھی اٹھا کر گنگا کی جانب یہ سوچتا ہوا چل پڑا کہ اگر کوئی کتا ہاتھ آ جائے تو ایک وار میں کام تمام کر دے گا۔ لیکن دور دور تک کسی کتے کا نام و نشان نہیں تھا۔ دگڑو چھمیا سے بولا ہمیں شبہ تو نہیں گزرا چھمیا؟
چھمیا نے چونک کر کہا یہ کیا؟ سنا آپ نے یہ بھونکنے کی آواز گنگا نکال رہا ہے، اپنا گنگا بھونک رہا ہے۔
گنگا بھونک رہا ہے؟ کیا بکتی ہو چھمیا۔
کیا آپ نے ابھی وہ آواز نہیں سنی۔
جی ہاں سنی لیکن بیل کیسے بھونک سکتا ہے؟
یہ میں نہیں جانتی؟ یہاں کوئی کتا موجود نہیں ہے اور نہ تم بھونک رہے ہو نہ میں تو آخر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اس بار بھونکنے کی آواز بہت صاف تھی اور یہ گنگا ہی تھا دونوں حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ چھمیا بولی حکیم صاحب؟ اس بار دگڑو حکیم صاحب کے مطب کی جانب دوڑ پڑا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔
حکیم صاحب کا چہرہ لٹک گیا وہ غمگین ہو کر بولے۔ افسوس! دگڑو میں نے تمہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اور مجھے اندیشہ ہے کہ اسی ناگہانی واردات کا وقت آ گیا ہے۔ تمہارے گنگا کے دن ختم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
کیا؟ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں حکیم صاحب۔ گنگا تو دن بدن صحتیاب ہوتا جا رہا تھا اس کے کئی زخم بھر چکے تھے آپ کو یقین نہ آتا ہو تو آپ اپنے نائب حکو سے پوچھ لیجئے۔ یہ نہیں ہو سکتا حکیم صاحب یہ نہیں ہو سکتا آپ کچھ کیجئے۔ کچھ کیجئے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ دگڑو گڑگڑایا۔
حکیم صاحب بولے گنگا کے زخم اوپر سے بھر گئے لیکن زہر اندر ہی اندر رگ رگ میں پھیلتا چلا گیا۔ مجھے افسوس ہے کہ اب اس کا علاج میرے پاس نہیں ہے۔
اچھا تو میں کیا کروں؟ حکیم صاحب کیا میں بھی زہر پی کر اس کے ساتھ مر جاؤں
نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ تم ایسا کرو کہ سب سے پہلے کلو قصائی کو ڈھونڈو اور اس کے ہاتھ گنگا کو فروخت کر دو تاکہ وہ اس کے گوشت اور کھال کا استعمال کر لے اور اس کے بدلے تمہیں کچھ معاوضہ بھی حاصل ہو جائے اس کے بعد آگے کی سوچیں گے۔ دیکھو دگڑو اس کام میں تاخیر نہ ہو ورنہ بات اور بھی بگڑ جائے گی .
بگڑ جائے گی؟ دگڑو نے حیرت سے پو چھا۔
اگر بیل مر گیا تو اس کا گوشت حرام ہو جائے گا اور کھال بھی سڑ جائے گی۔
دگڑو سیدھے کلو کے پاس بھاگا۔ حکو اسے خبر کر دے چکا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے اس لئے وہ تیار بیٹھا تھا۔ جب دگڑو نے اس کائیاں قصائی کے سامنے از خود پیش کش کی تووہ بولا دیکھو یہ معاملہ ذرا سا نازک ہے اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ بیل کو ذبح کرنے کا معاوضہ میں کھال کی صورت میں لے لیتا ہوں اور گوشت کے عوض جو کچھ ملے گا اسے آدھا آدھا بانٹ لیں گے۔
یہ کیا؟ بیل میرا اور مجھ سے زیادہ تمہاری کمائی؟ یہ انصاف نہیں ہے۔
کلو بولا میں نے اپنی بات بتا دی تم اس پر دوچار دن غور کرو تو ممکن ہے تمہاری سمجھ میں یہ تجویز آ جائے گی۔ کلو نے دگڑو کی مجبوری کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور اپنی شرائط پر اسے راضی کر لیا۔ قدرت کی عجب ستم ظریفی کہ کل تک جس کھیت کو گنگا اپنے خون پسینے سے سبزہ زار کرتا تھا آج اس کے خون سے لالہ زار ہونے جا رہا تھا۔ جس دگڑو نے اس کی خاطر گھربار چھوڑ رکھا تھا آج وہ کلو کو اپنے ساتھ لے کر آیا تھا۔ دگڑو کی آنکھوں کے سامنے گنگا کو ذبح کیا گیا اور اس کی تکا بوٹی کی جانے لگی۔
گاؤں میں اس خبر کے ساتھ کہ دگڑو کے کھیت میں بیل ذبح ہوا یہ بات بھی پھیل گئی کہ بیل پاگل ہو گیا تھا۔ حکیم صاحب کے نائب حکو ّکا یہ دوسرا کارنامہ تھا۔ گاؤں کا دستور یہ تھا کہ جب بھی کو ئی مویشی ذبح ہوتا گاؤں والے اپنے پاس مو جود سامان کے ساتھ حاضر جاتے تاکہ اپنی پسند کا گوشت لے کر جا سکیں، جیسے جیسے گوشت کم ہوتا جاتا اناج، کپڑے، جوتے وغیرہ وغیرہ کا ڈھیر لگتا جاتا لیکن گنگا کا گوشت تیار ہو گیا اس کے باوجود کوئی خریدار نہیں آیا۔
دگڑو نے کلو سے مشورہ کیا جو کھال سمیٹ رہا تھا۔ کلو بولا ایک صورت ہے اگر حکیم صاحب تصدیق فرما دیں کہ اس گوشت میں کوئی خطرہ نہیں ہے تو حکو کا فتنہ مٹ جائے گا۔ دگڑو حکیم صاحب کے پاس آ کر منت سماجت کرنے لگا کہ وہ تصدیق کر دیں کہ بیل بیمار ضرور تھا لیکن پاگل نہیں ہوا تھا۔ حکیم صاحب اس کیلئے تیار نہیں ہو رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ بیل تو یقیناً پاگل ہو گیا تھا اب دگڑو بحث پر اتر آیا اور کہنے لگا حکیم صاحب آپ کیسی پاگلوں جیسی بات کرتے ہیں۔ انسان تو پاگل ہو تے ہیں لیکن کیا جانور بھی کہیں پاگل ہو سکتے ہیں؟
حکیم صاحب بولے جی ہاں پاگل تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ جس طرح انسان کا وحشی بن جانا دیوانگی ہے اسی طرح بیل کا بھونکنے لگ جانا بھی پاگل پن ہی ہے۔
لیکن دگڑو کو پاگل کتوں نے نہیں بلکہ سیانے کتوں نے کاٹا ہے حکیم صاحب ایسے میں وہ کیسے پاگل ہو سکتا ہے؟
یہ ہماری غلط فہمی ہے کہ انسان صرف پاگل کتے کے کاٹنے سے ہی پاگل ہوتا ہے۔ انسانوں اور جانوروں کو پاگل کرنے کیلئے کسی بھی کتے کا کاٹنا کافی ہے۔
لیکن گوشت تو گوشت ہے؟ پاگل بیل کا ہو یا سیانے کا؟ کیا فرق پڑتا ہے؟
کاٹنے اور بیچنے والے کو تو نہیں لیکن کھانے والے کو پڑ سکتا ہے؟
دگڑو نے سوال کیا اچھا اگر کوئی کسی پاگل بیل کا گوشت کھا جائے تو کیا ہو گا؟
کچھ بھی ہو سکتا ہے؟ مثلاً یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کھانے والا خود بھی پاگل ہو جائے۔
دگڑو بولاکیسی بات کرتے ہیں حکیم صاحب کیا ایسا بھی ممکن ہے؟
جی ہاں دگڑو میں یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا کہ ایسا ہی ہو گا لیکن اس امکان کو خارج بھی نہیں کیا جا سکتا .
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایسا کچھ نہ بھی ہو؟
جی ہاں بے شک ایسا ممکن ہے؟ تم چونکہ بیچنے والے ہو اس لئے تم یہی کہو گے کہ ایسا ہر گز نہ ہو گا لیکن جسے کھانا ہے اسے تواس وقت تک احتیاط برتنا ہو گا جب تک کے اعتماد بحال نہ ہو جائے۔
اچھا حکیم صاحب اب لو گوں کو اعتماد لینے ہی کی کوئی ترکیب بتلا دیں۔
بھئی یہ کام تو بیک وقت آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔
دگڑو بولا وہ کیسے؟
حکیم صاحب نے جواب دیا اگر کوئی اس گوشت کو کھا کر دکھلائے اور پاگل نہ ہو تو لوگ آسانی سے یقین کر لیں گے کہ خطرہ نہیں ہے لیکن پھر مشکل یہ ہے کہ آخر کھائے گا کون؟ ایسا خطرناک تجربہ کون کریگا بھلا؟
میں کروں گا یہ تجربہ! دگڑو نے اعتماد سے کہا مجھے یقین ہے کہ میرے بیل کا گوشت کھانے والا پاگل نہیں ہو سکتا۔
اچھا اگر ایسا ہے تو میں حکو سے کہہ دیتا ہوں یہ خبر گاؤں بھر میں آگ کی طرح پھیل جائے گی۔ لوگ تمہیں کھانے کے بعد اچھا بھلا دیکھ کر گوشت لے جائیں گے۔
دگڑو نے گھر آ کر چھمیا سے کہا تم اس گوشت کا سالن بناؤ میں سارے گاؤں والوں کے سامنے اسے کھا کر دکھلاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد لوگ گوشت لے جائیں گے اور اس گوشت کے عوض جو کچھ ہمیں حاصل ہو گا اس میں کچھ اور اناج ملا کر ہم گنگا کا متبادل اپنے گھر میں لے آئیں گے۔
چھمیا نے ڈرتے ڈرتے پوچھا لیکن اگر کہیں کچھ ہو گیا تو؟
دگڑو نے چڑ کر جواب دیا بے وقوف عورت میں جو کہتا ہوں سوکر۔ دماغ نہ خراب کر کیا سمجھی؟
چھمیا نے ہانڈی چڑھا دی اور سوچنے لگی اس بیل میں دماغ ہے ہی کہاں جو خراب ہو؟ اگر کسی کے پاس رتی بھر عقل ہو تب بھی وہ ایسا خطرہ مول نہ لے لیکن وہ جانتی تھی یہ دگڑو ہے۔ اس نے ایک بار زبان سے جو کہہ دیا وہ پتھر کی لکیر ہوتا ہے۔
دگڑو کے کھیت میں گاؤں والوں کا مجمع لگنے لگا۔ ہر کوئی گوشت لے جانے کیلئے اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ لے کر آیا تھا۔ اتفاق سے ان میں ایک شکاری بھی تھا جو اپنے ساتھ جنگل سے ایک مرغا پکڑ لایا تھا۔ وہی مرغا جو کسی زمانے میں اس گھر کا ایک فرد ہوا کرتا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب اس گھر کے مالک پر پاگل پن کا دورہ نہیں پڑا تھا۔
دگڑو نے حکیم صاحب سمیت گاؤں والوں کے سامنے گوشت کھانا شروع کیا۔ حکیم صاحب نے اس بارے میں بزرگوں سے بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن آج وہ اپنی آنکھوں سے ان باتوں کی تصدیق کرنا چاہتے تھے۔ دگڑو جیسے جیسے گوشت کھاتا جاتا اس کی طبعی کیفیات میں تبدیلی ہوتی جاتی۔ پہلے تو اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں پھر اچانک اس کا چہرہ لمبوترا ہونے لگا اور اب اس کے جسم پر بڑے بڑے بال اگ آئے تھے اور کان لمبے ہو کر لٹکنے لگے تھے۔ لوگ دم بخود ان حیرت انگیز مناظر کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی قوت گویائی چھن گئی تھی اور ہاتھ پیر شل ہو گئے تھے۔
دیکھتے دیکھتے دگڑو کے دم نکل آئی وہ اپنے دونوں ہاتھوں اور پیروں کے بل زمین پر کھڑا ہو گیا اور زور زور سے بھونکنے لگا۔ دگڑو آسمان کی جانب سر اٹھا کر بے تکان بھونکے جا رہا تھا گویا اس نے کسی آسیب کو دیکھ لیا ہو۔ ایسا لگتا تھا کہ اب وہ بھونک بھونک کر مر جائے گا۔ کلو قصائی نے کھال کا تھیلا سمیٹا اور کھڑا ہو گیا۔ بھیڑ چھٹنے لگی۔ چند افراد جو اس درد ناک کہانی کا انجام دیکھنے کے متمنی تھے رکے رہے جن میں سے ایک شکاری بھی تھا۔
دگڑو کے بچے چیخ چیخ کر رونے لگے تھے حکیم صاحب انہیں دلاسہ دے رہے تھے چھمیا بولی۔ حکیم صاحب کچھ کیجئے اس کو مرنے سے بچا لیجئے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ اس طرح بھونک بھونک کر مر جائے گا۔
بیٹی چھمیا میں بیماری کا علاج تو کر سکتا ہوں لیکن موت کا نہیں۔ اس لئے کہ موت کوئی بیماری نہیں ایک فیصلہ ہے، ایسا اٹل فیصلہ جو اپنے وقت پر نافذ ہو کر رہتا ہے۔ اس پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔
لیکن حکیم صاحب آپ کم از کم کوئی ایسی دوائی تو دے سکتے ہیں جس سے وہ بھونکنا بند کر دے اور سکون کے ساتھ موت کی آغوش میں سوجائے۔
حکیم صاحب کے پاس چھمیا کے اس تقاضے کا بھی کوئی جواب نہیں تھا وہ دم بخود کھڑے تھے شکاری حیرت سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کے مرغے نے اذان دینا شروع کر دی۔ موجود لوگوں نے کہا لگتا ہے مرغا بھی پاگل ہو گیا ہے جو بے وقت کی اذان دے رہا ہے .
حکیم صاحب بولے مرغا پاگل نہیں ہے وہ نمازِ جنازہ کیلئے سب کو بلا رہا ہے یہ اسی نماز کا وقت ہے۔
اذان جیسے جیسے بلند ہوتی گئی بھونکنے کی آواز گھٹتی چلی گئی۔ دگڑو کے جسم پر بڑھے ہوئے بال غائب ہو گئے۔ لمبوترا چہرہ معمول پر آ گیا اور دم غائب ہو گئی۔ اذان ختم ہوئی اور اسی کے ساتھ دگڑو کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
اس صورتحال نے چھمیا کو عجیب بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ وہ غمگین تھی کہ دگڑو کو موت کی خاموشی نے نگل لیا ہے لیکن خوش تھی کہ وہ بھونک نہیں رہا ہے۔
وہ اپنے شوہر کی لاش پر غمگین تھی لیکن پھر مطمئن تھی کہ یہ کسی کتے کا نہیں بلکہ اس کے اپنے خاوند کا جسدِ خاکی ہے جس پر وہ آنسو بہا رہی ہے۔
حکیم صاحب نہ جانے کیا کیاسوچ رہے تھے۔
عبادت۰۰۰۰۰۰۰فرحت۰۰۰۰۰۰۰معاشرت۰۰۰۰۰۰۰۰معیشت ۰۰۰۰۰۰۰۰۰شہوت ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰اور نہ جانے کیا کیا؟
٭٭٭
مکمل ڈاؤن لوڈ کریں