شیشے کا خواب
ناصر حسین
گلی سے نکل کر وہ چوک تک پہنچی۔
بازار کے اس چوک میں ہمیشہ سے بھی زیادہ رش تھا ۔
اس کی وجہ رمضان بازار تھا جو بازار کے بالکل وسط میں لگا تھا ۔ سیکڑوں کے حساب سے لوگ خریداری کر رہے تھے ۔
اس نے نقاب سے جھانکتی آنکھیں ادھر ادھر گھمائیں۔ کسی رکشے کی تلاش میں۔ گرمی کا زور آہستہ آہستہ کم ہو رہا تھا لیکن پیاس کی شدت بڑھتی جا رہی تھی۔
وہ جھنجلاہٹ کا شکار ہونے لگی۔ اور چپکے سے ادھر ادھر بھی دیکھنے لگی۔ وہ ڈر رہی تھی کوئی اسے یہاں دیکھ نہ لے مگر وہ جانتی تھی ابو اس وقت اپنی دکان پہ ہوں گے اور چھوٹا بھائی محلے میں کرکٹ کھیل رہا ہو گا لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے ڈر کو قابو نہیں کر پا رہی تھی۔
پسینہ گرمی کی وجہ سے آ رہا تھا یا ڈر کی وجہ سے وہ سمجھ نہیں سکی۔ بالآخر اسے ایک رکشہ نظر آیا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور نقاب کی چادر سنبھالتے ہوئے بیٹھ گئی۔
رکشہ اسٹارٹ ہو کر چلنے لگا ۔ اس نے ٹھنڈی سانس خارج کی اور پرس نمبر ملا کر ٹائم دیکھنے لگی۔
شام کے چار بجے وہ جس سے ملنے جا رہی تھی اس کے ساتھ دل کا رشتہ تھا اس کا جو زندگی تھی اس کی۔
رافیل۔ نامی وہ جادوگر جو دو سال سے اس پہ جادو کیے ہوئے تھا ۔ اس کیحواسوں پہ سوار تھا وہ گھر والوں سے چھپ کر اسی سے ہی ملنے جا رہی تھی۔ افطاری میں ابھی وقت تھا اور وہ بس پانچ منٹ کے لئے جا رہی تھی رافیل نے اپنی قسم دے کر اسے ملنے کے لیے بلایا۔ اس وجہ سے وہ انکار نہیں کر سکی۔
وہ بری لڑکی نہیں تھی اور نہ ہی اس کی نیت میں کوئی برائی تھی وہ قرآن پاک کی حافظہ تھی اور روزے نماز پابندی سے ادا کرتی۔ اس دن بھی وہ روزے کی حالت میں تھی۔ لیکن محبت نامی وہ بلا دنیا کی ہر شے بھلانے پہ مجبور کر دیتی ہے یہ دل پہ ایسا جادو کرتی ہے کہ انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی کھو دیتا ہے ۔
وہ ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی وہ ایک عام معمولی سی سادہ لڑکی تھی اسے میک اپ سجنے سنورنے سے غرض نہیں تھا لیکن اس محبت نے اسے سب سکھا دیا۔
آج بھی وہ ہلا میک اپ کیے ہوئے تھی۔ امی سے وہ نادیہ کے گھر جانے کا جھوٹ بول کر آئی تھی۔ اس نے روزے کے ساتھ جھوٹ کیوں بولا ۔ اس کا جواب محبت ہے ۔ صرف محبت جو دل دل میں فرق پیدا کرتا ہے ۔
رافیل سے اس کی جان پہچان دو سال قبل شروع ہوئی وہ بھی فیس بک پر ۔ اسے فیس بک کا زیادہ شوق نہیں تھا ۔ لیکن چونکہ اس میں دینی علم بھی ہوتا ہے اس لئے وہ فیس بک میں دلچسپی لینے لگی۔
اس نے مولانا طارق جمیل اور کچھ اسلامی گروپ اور پیجیز جوائن کیے ہوئے تھے ۔
وہ کافی کچھ سیکھ رہی تھی اور اسے بہت علم بھی حاصل ہو رہا تھا ۔ موبائل اسے کالج کے وقت ابو نے لے کر دیا تھا انہوں نے موبائل دیتے وقت یہ نہیں کہا غلط راستے پہ مت جانا کیونکہ وہ اپنی عروج کو جانتے تھے وہ کبھی غلط راستے پہ جا ہی نہیں سکتی۔
اور انہیں اپنی بیٹی پہ بھروسہ ہمیشہ سے تھا عروج ان کا غرور تھی اتنی محبت وہ اپنی باقی اولاد سے نہیں کرتے تھے جتنی عروج سے کرتے ۔
جو لڑکی زندگی میں کبھی جھوٹ نہ بولتی ہو وہ کچھ غلط کیسے کر سکتی ہے لیکن وہی دل ۔
یہی دل ہی تو مشکل ہے ۔
فیس بک پہ اسے سات دن ہی ہوئے تھے ایک دن اس نے کسی خوبصورت تقریر پر صرف نائس کا کمنٹ دیا۔ ایک معمولی لفظ ایک حقیر سا کمنٹ جس کی کوئی اوقات نہیں وہ آنے والے وقتوں میں عروج احمد کے لیے کیا بن سکتا ہے اس کا اندازہ اسے نہ تو کبھی تھا اور نہ ہی ہو سکتا تھا ۔
آدھے گھنٹے بعد اس کمنٹ پہ رپلائی آیا۔
کہاں سے ہیں آپ ۔ ؟ اس نے رپلائی دیکھا ایک مرد کا کمنٹ اس نے سوچا جواب دوں یا نا دوں ۔ ؟
پھر کچھ سوچ کر اس نے جواب دیا۔
ملتان سے ۔ دوسرا رپلائی فوراً آیا۔
کیا کرتی ہیں آپ ۔ ؟
ایم ایس سی۔ اس نے جواب دیا۔ اور یہ کمنٹ رپلائی سے ان باکس میں داخل ہوا ۔ اور ان باکس میں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا ۔ صبح سے شام اور شام سے صبح ۔
کیا کر رہی ہو ۔
آپ کی باتیں اچھی ہیں۔
آپ بہت پیاری ہو ۔
میں نے آپ جیسی لڑکی نہیں دیکھی۔
یہ وہ جملے تھے جو عروج کو روز پڑھنے کو ملتے ایک مرد سے چیٹنگ قدرتی کشش سی محسوس ہوا اسے ۔ اور وہ میگنیٹ کی طرح کھچی چلی جا رہی تھی۔ ایک وقت آیا جب وہ گہرے دوست بن گئے ۔ اور کچھ دن بعد رافیل خوبصورت شاعری بھیجنے لگا جن میں سر فہرست یہ شعر تھا ۔
جانِ تمنا ۔
جانِ جگر ہو ۔
تو خواب ہے میرا۔
تو میری نظر ہے ۔
جو ہو رہا ہے ۔
یہ دل بے خبر ہے ۔
وہ نادان نہیں تھی جو اس شعر کا مطلب نہ سمجھتی۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب وہ دل کے سامنے ہار گئی اور اپنے آپ سے اعتراف کرنے پہ مجبور ہو گئی کہ وہ رافیل جمال سے محبت کرنے لگی ہے ۔
کتنا دل دہلا دینے والا انکشاف تھا وہ جس نے کبھی غیر مردوں کو دیکھا تک نہیں وہ محبت کرنے لگی تھی اور شدت سے ٹوٹ کر ۔
اس نے آہستہ سے دل کے دروازے پہ دستک دی۔۔
دل = کون ۔ ؟
وہ = عروج احمد ۔
دل = کام ۔ ؟
وہ = محبت ۔۔
دل۔ = ہاہاہاہاہاہا۔
وہ = میں مذاق نہیں کر رہی۔
دل = واپس لوٹ جا ۔
وہ = میری تمنا پوری کرو ۔
دل = یہ ناممکن ہے ۔۔
وہ = کیوں۔۔ ؟ سب آپ کے ہاتھ میں ہے ۔۔
دل = تم نے گناہ کیا ہے ۔ ؟
وہ = میں نے کیا کیا۔ ؟
دل = محبت ۔۔
وہ = اور محبت گناہ کب سے ہو گئی۔ ؟
دل = صدیوں سے ۔۔
وہ = معافی نہیں مل سکتی ۔ ؟
دل = کبھی نہیں۔۔
وہ = مگر کیوں۔۔ ؟
دل = کیونکہ تم لوگ میرے مجرم ہوتے ہو ۔
وہ = سب آپ کرتے ہیں اور بدنام ہم ہوتے ہیں۔۔
دل = سارا قصور آنکھوں کا ہے ۔ اور الزام مجھ پہ لگتا ہے ۔۔
وہ = مجھے یہاں سے باہر جانا ہے ۔۔
دل = یہاں آتے بھی لوگ میری مرضی سے ہیں اور جاتے بھی میری مرضی سے ہیں۔۔
وہ = پلیز مجھے یہاں سے رہائی دے دو ۔
دل = تم اس وقت دل کے دربار میں کھڑی ہو اور یہاں میری مرضی چلتی ہے ۔
وہ = میں آپ کے فیصلے ماننے کی پابند نہیں ہوں ۔
دل = خاموش گستاخ لڑکی ہم تمہیں عمر قید کی سزا سناتے ہیں۔
تمام گواہوں اور ثبوتوں کے کے بنا پر ہم دل عروج احمد کو دل کی دنیا میں عمر قید کی سزا سناتے ہیں۔۔ ہر طرف تالیوں کی گونج سنائی دی۔۔ اور اس نے ۔ اس نے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن سب لا حاصل تھا ۔ وہ شاید دل کی دنیا سے اب کبھی باہر نہیں جا سکتی تھی۔ اس نے اپنے آپ کو بے بس پایا۔ وہ دل کی قیدی بن چکی تھی۔۔
اور اس وقت اس نے نظر اٹھا کر دل کو دیکھا وہ قہقہے لگا لگا کے ہنس رہا تھا اس پہ اس کی بے بسی پہ اس کی مجبوری پہ ۔
٭٭٭
رافیل بھی اسے ٹوٹ کر چاہتا تھا وہ اس سے ساری رات باتیں کرتی، اس کی آواز سنتی۔ اور جب کبھی اسے ایگزامز کی وجہ سے جاگنا پڑتا رافیل بھی نہیں سوتا تھا اس دن ۔
وہ دو سال سے اس سے رابطے میں تھی۔ اب رافیل نے شادی کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس سے پہلے وہ ایک بار اس سے ملنا چاہتا تھا ۔ دو سالوں میں پہلی بار اس نے یہ فرمائش کی وہ بھی اپنی قسم دے کر تو عروج انکار نہیں کر سکی۔
وہ سب سے چھپ کر فقط پانچ منٹ کے لئے اسے دیکھنے جا رہی تھی۔ وہ خوش بھی تھی اور ڈر بھی رہی تھی رافیل جس اپارٹمنٹ میں رہتا ہے وہ ایڈرس اور روم نمبر اسے میسج کر دیا تھا ۔
رکشے والے کو کرایا دے کر وہ اتری۔ اور سامنے اس عمارت کو دیکھا۔ جس پہ اس وقت خاموشی کا راج تھا اس نے نقاب سے خود کو مکمل طور پر ڈھانپ رکھا تھا وہ نقاب ہمیشہ سے کرتی تھی۔ رافیل کے لاکھ کہنے پہ بھی اس نے اپنی تصویر اسے نہیں بھیجی۔
سیڑھیاں چوڑی اور مخروطی تھیں۔ جن کے دائیں طرف ریلر لگا ہوا تھا ۔ وہ پرس اور موبائل ہاتھوں میں قابو کیے اوپر کی طرف جانے لگی رافیل نے جو روم نمبر بتایا تھا ۔ وہ کچھ اوپر تھا اس نے موبائل کو پرس میں ڈالا ۔
وہ تھوڑی جھجک اس لیے بھی رہی تھی کیونکہ وہ آدھا گھنٹہ پہلے آئی تھی۔ کیونکہ بعد میں افطاری کی تیاری کرنی تھی اور امی اس کا انتظار کر رہی ہوں گی صرف پانچ منٹ کے لئے آئی تھی۔
کمرے کے پاس پہنچ کر اس نے دروازے پہ دستک دینے کے لیے ہاتھ بڑھائے لیکن اسے اپنے ہاتھ روکنے پڑے ۔
اندر سے رافیل کی آواز سنائی دی۔
ابھی پہنچنے والی ہی ہو گی وہ لڑکی۔
اس نے ہاتھ کو پیچھے کھینچ لیا۔
ارےیار جو ہم چاہتے ہیں وہی ہو گا ڈونٹ وری۔
آواز پھر سے آئی اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی ایک لہر پیدا ہو گئی۔
ہاں ہاں ۔ یار سارا انتظام ہو چکا ہے ۔ دیوار پہ خفیہ کیمرے بھی لگا دیے ہیں بس اس لڑکی کے آنے کی دیر ہے پھر تم لوگ بھی آ جانا ۔
آواز رافیل کی تھی۔ لیکن لہجہ اجنبی تھا ۔ سب اجنبی ہوتا جا رہا تھا آہستہ آہستہ سب کچھ تحلیل ہونے والا تھا جیسے وہ خود تحلیل ہو رہی تھی پانی میں ابھرنے والے ایک بلبلے کی طرح ۔
کیا صورِ اس رافیل پھونکا جا رہا ہے ۔ قیامت آنے والی ہے کیا لیکن قیامت تو آ چکی تھی اس سے بھی زیادہ خوفناک ہو گا قیامت کا منظر ۔ شیشے کا تاج محل ٹوٹ کر بکھر گیا۔
وہ جانتی تھی منٹوں میں نہیں سیکنڈوں میں سب ختم ہو جائے گا جیسے اس کا وجود ہو رہا تھا ۔ جیسے اس کے وجود کو دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا ۔
اندر کھڑا شخص کون تھا رافیل جمال یا کوئی اور ۔ آواز اسی کی تھی لیکن لہجہ ۔ ؟ اور وہ جملے جو کانوں میں پگھلتا ہوا سیسہ بن کر پڑ رہے تھے ۔
وہ ذبح ہونے والے جانور کی تکلیف کا اندازہ کر سکتی تھی۔ وہ پل صراط پہ کھڑے انسان کا درد سمجھ سکتی تھی۔
( اور پاک عورتوں کے لیے پاک مرد بنائے گئے ہیں)
کب ؟ کہاں ؟ کونسی ؟ غلطی کی تھی اس نے جو اسے زندگی اس موڑ پر لے آئی۔
محبت۔
کیا محبت واقعی ہی گناہ تھا ۔ ؟
وہ کچھ بھی نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ اس کا دل دماغ جو سوچ رہے تھے وہ سچ تھا یا جو وہ کھلی آنکھوں سے سامنے دیکھ رہی تھی وہ سچ تھا ۔ ؟
وہ باتیں سچ تھیںیا دو سال کی محبت ۔
( اور پاک عورتوں کے لیے پاک مرد بنائے گئے ہیں)
خواب سے حقیقت۔
آسمان سے زمین۔
وہ منظر تحلیل ہوتا جا رہا تھا سب کچھ ایک خواب لگ رہا تھا ۔ اس پہ کوئی ہنس رہا تھا اس نے دیکھا تو ہنسنے والا وہ اپارٹمنٹ تھا ۔
جس کے بیچ جس کے اندر وہ کھڑی ہے ۔ لیکن نہیں وہ صرف اپارٹمنٹ نہیں تھا سب تو ہنس رہے تھے
وہ جسے سن رہی تھی وہ کون تھا ۔ ؟ رافیل جمال یا کوئی خواب ۔ ؟ وہ جس سے اس نے شدید محبت کی۔ وہ وہ تھا جو اس کی زندگی تھا مگر وہ وہ نہیں تھا وہ کوئی اور تھا ۔ ؟ کون تھا ۔
سناٹے اترتا جا رہا تھا ۔ اور اسی سناٹے میں وہ لمحے بھر کے لیے لوٹ آئی حقیقت کی طرف ۔ اس نے فوراً آنکھیں میچ لیں۔
اور بھاگتی ہوئی اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں تیزی سے اترتی نیچے جا رہی تھی۔ بنا دیکھے بنا سوچے ۔ دو دو سٹیپس ایک ساتھ پھلانگتے ۔
وہ پیدل گھر کی طرف چلنے لگی۔ آتے وقت ہوش تھا خواب تھے محبت تھی خوشی تھی۔ لیکن اب کوئی احساس نہیں تھا ۔ دو سال کی اس محبت کا سچ یہ تھا وہ اس کے ساتھ کیا کرنے والا تھا روزے کے ساتھ ۔
خفیہ کیمرے۔ ؟ اور وہ اپنے دوستوں کو بھی بلا رہا تھا اور اگر وہ ایسا کرتا تو کیا باقی رہ جاتا ۔
کچھ بھی نہیں کچھ بھی تو نہیں۔ اس کا باپ جو اس پہ فخر کرتا تھا وہ اس سے نفرت کرتے ۔ اس حافظ قرآن لڑکی کی وڈیو منٹوں میں نہیں سیکنڈوں میں ساری دنیا میں پھیل جاتی۔ سوشل میڈیا پہ اس عزت دار گھرانے کی بیٹی یوں ننگی دکھائی جاتی۔
تب کیا باقی رہتا کچھ نہیں۔
اس کا باپ زندگی بھر نگاہیں نہیں ملا پاتا کسی سے اور اس کا بھائی کبھی کرکٹ نہیں کھیل سکتا اور وہ خود بھی کبھی کسی سے نگاہیں نہیں ملا پاتی اور اللہ سے کیسے۔ سب کچھ تباہی کے دہانے پہ جاتے جاتے بچ گیا۔ وہ پہاڑی پر گرنے سے بچ گئی۔
لیکن یہ ۔۔۔یہ سارا قصور محبت کا ہے اصل مجرم دل ہے ۔
اس نے آنسو پونچھتے ہوئے گھر سڑک پہ ٹرن لیا۔
میرا کوئی قصور نہیں ہے قصور تم لوگ خود کرتے ہو اور سارے الزام میرے سر پہ تھوپ دیتے ہو میں نے تمہیں دھوکہ نہیں دیا۔ دھوکہ تمہیں تمہاری جھوٹی محبت نے دیا ہے میں نے صرف فریب دیا ہے۔
دل نے فوراً اپنی حمایت کی۔
اچانک فون کی گھنٹی بجی اس نے سکرین پہ نمبر دیکھا رافیل کا نمبر ۔ اس نے غصے سے اس کی کال اٹینڈ کی۔
کہاں ہو تم جان ۔ کب آ رہی ہو ۔ ؟
میں اب کبھی نہیں آؤں گی۔ وہ روتے ہوئے بولی۔
کیوں جان کیا ہوا ۔ ؟ وہ حیران تھا ۔
تم کیا کرنا چاہتے تھے میری وڈیو بنانا چاہتے تھے مجھے پوری دنیا میں میں ننگا کرنا چاہتے تھے ۔
وہ کچھ لمحے بول نہیں سکا ۔
وہ جان سوری دراصل صرف ٹائم پاس کے لیے۔ ؟
ٹائم پاس ۔ ؟ وہ چلائی۔
ہم لڑکیوں کو تم مرد صرف ٹائم پاس ہی کیوں سمجھتے ہو ۔ کسی باپ کی بیٹی تمہاری نظر میں صرف ٹائم پاس ہے کسی کی عزت کی دھجیاں اڑانا صرف ٹائم پاس ہے ۔
قصور تمہارا نہیں ہے قصور ہم لڑکیوں کا ہوتا ہے ہم لوگ ہی تمہاری میٹھی میٹھی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ اور قصور ہم انسانوں کا ہی ہوتا ہے جو اللہ کی بجائے انسان کی محبت پہ بھروسہ کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ انسان دھوکہ دیتا ہے ۔
دیکھو عروج میری بات ۔
اس نے رافیل کی بات کاٹ دی۔
نہیں رافیل پلیز اور جھوٹ نہیں۔ تم نے تو ویسے بھی مجھے کسی قابل نہیں چھوڑا ۔ تمہاری شر سے اللہ نے مجھے بچا لیا ورنہ تم کیا کرتے ۔ ؟
مجھے ننگا کرتے یا بلیک میل۔ ؟
تم مجھے ذلت دینا چاہتے تھے صرف اس لئے کہ میں نے تم سے محبت کی تم پہ اعتبار کیا۔
عزت ذلت دینے والے تم کون ہوتے ہو ۔ یہ حق اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور تم خدا نہیں ہو ۔ ؟
واقعی تم خدا نہیں ہو ۔ خدا کو ترس آتا ہے تم تو وہ بھی نہیں کر رہے تھے خدا تو روزانہ کروڑوں لوگوں کی کروڑوں غلطیاں معاف کرتا ہے اور تم ایک انسان ہو کر دوسرے انسانوں کو زمین میں دفن کرنے والوں میں سے ہو ۔
اب کبھی بات کرنا مجھ سے ۔ سسکتے ہوئے اس نے موبائل سے سم نکال کر دور پھینک دی۔ اور وہیں سڑک پہ سجدے میں گر گئی۔ اگر وہ وڈیو پھیل جاتی تب کیا ہوتا ۔ ؟ کیا باقی رہ جاتا ۔ اور اگر اس کے وہ دوست سب مل کر زیادتی کرتے تو کیا فرق رہ جاتا اس میں اور طوائف میں۔ کون یاد کرتا وہ حافظ قرآن ہے کتنی نیک ہے لوگ تو بس اس ایک وڈیو کو ہی یاد کرتے ۔ آس پاس گزرتے ۔ لوگ اسے پاگل سمجھ رہے تھے لیکن وہ پاگل نہیں تھی اس وقت تو بالکل بھی نہیں۔
( اور پاک عورتوں کے لیے پاک مرد بنائے گئے ہیں)
وہ رو رہی تھی رافیل کے دھوکے کے لیے اس لیے کہ اس نے ایک انسان کی محبت پہ کیوں بھروسہ کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسے اتنے بڑے گناہ سے بچا لیا۔
ماخذ:
https://m.facebook.com/story.php?story.fbid=673985442791032&id=354968678026045
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید